Language: UR
نام کتاب بیان فرموده اشا خطبات طاہر جلد نمبر ۱۲ حضرت مرزا طاہراحمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ رحمه
i نمبر شمار خطبه فرموده 1 له 2 3 4 LO 5 6 7 فہرست خطبات عنوان یکم جنوری 1993 ء | بچوں کو اپنے ہاتھ سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں ، اس سال کو انسانی بہبود کا سال بنادیں.1 08 جنوری 1993ء | خلیفہ وقت کے خطبات سننے کی برکات، پاکستان اور ہندوستان کی سیاست کو مشورے 19 15 جنوری 1993 ء | MTA کی برکات اور دور اس نتائج مسلمانوں کے حالات اور دنیا کیلئے امن کا پیغام 39 22 /جنوری 1993ء سید القوم خادمھم کو سمجھو گے تو دنیا کی سیادت تمہیں مل جائے گی.29 جنوری 1993ء امت واحدہ بننے کے ساتھ ایک نظام واحد بنے گا تمام دنیا میں ایک ہی طرح مالی نظام قائم ہو گا 59 59 79 05 فروری 1993ء مسلمان دنیا صبر اور سچائی پر قائم ہو جائے تو ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گی.امت مسلمہ کونصیحت 99 12 فروری 1993 ء اہل بنگال کی بہادری اور قربانی کا ذکر بوسنیا کیلئے چندہ کی تحریک اور جماعت کی والہانہ لبیک 117 198 فروری 1993ء امام مہدی کے نام پر منادی کرنے والا جب منادی کرے گا تو انکے درمیان کوئی قاصد نہ ہو گا.137 26 فروری 1993 ء | MTA کی برکات کا تذکرہ رمضان میں خدا قریب سے قریب تر آجاتا ہے 10 13 157 5 مارچ 1993 ء بوسنیا کیلئے مالی قربانی کی تحریک پر جماعت کا لبیک ، رمضان آنحضور کے ارشادات کی روشنی میں گزاریں 177 235 11 12 / مارچ 1993 ء رسول کریم اللہ احمد کی وجہ سے محمد کہلائے مقام محمود کی لطیف تشریح لیلتہ القدر اور تہجد کی اہمیت 195 12 19 مارچ 1993 ء جمعۃ الوداع کوجمعہ الاستقبال بنا دیں جمعہ سے پانچ وقت نمازوں کی حفاظت ہوتی ہے 215 26 / مارچ 1993ء تم خیر امت ہو کیونکہ خیر الرسل کے متبع ہو ، اپنے گھروں کو جنت نشان بنا ئیں 14 2 اپریل 1993 ء تقویٰ سے خالی منصب عزت سے بھی خالی ہو جاتا ہے.نمائندگان شوری کو نصائح 253 15 9 اپریل 1993 ء اپالوں کو خاکی روی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ا ر ا لم اتیا نہ کریں جس سےلوگ نظام جماعت سے منظر ہو جائیں.271 16 16 اپریل 1993 ء احمدی گھر جنت نشان گھر بن جائیں تو احمدی معاشرہ ایک نورانی معاشرہ کو جنم دے گا 291 17 | 23 اپریل 1993ء الصلوۃ الوسطی کی حفاظت کریں تو یہ آپ کی حفاظت کرے گی 18 30 اپریل 1993ء اپنے آباؤ اجداد کے ذکر کوزندہ رکھیں ،صوبہ سرحد کے بزرگوں کا ذکر.303 323
نمبر شمار خطبہ جمعہ ii عناوین صفحہ نمبر 19 20 20 7 مئی 1993 ء اللہ تک پینے کیلئے نماز ے بہتر کوئی مسلہ نہیں ہے جتنی رؤیت بڑھے گی اتنازیادہ تم حفاظت میں آتے چلے جاؤ گے 343 14 مئی 1993ء احمدی نہی عن المنکر کا جہاد کر کے قوم کو برائی سے بچائیں.21 مئی 1993ء اپنے تشخص کو پہچا نہیں تو سورہ فتح کی خوشخبری آپ کے حق میں پوری ہوگی.+199321 21 22 22 23 363 383 28 مئی 1993ء اے جماعت احمد یہ تمام دنیا کے انسانوں کو تم نے محمد اللہ کے قدموں میں ڈالنا ہے 401 4 جون 1993 ء جو معافی مانگنا بھی جانتا ہو اور دینا بھی ،خدا اس سے مغفرت کا سلوک فرماتا ہے.425 24 24 25 25 26 26 11 جون 1993 ء جماعت کی ترقی تدریجی ہوگی مسی محمدی مسیح موسوی سے بڑھ کر ہے الہام بعد گیارہ انشاءاللہ کی وضاحت 445 18 جون 1993 ء اسلام اپنی شان میں آخری اور کامل مذہب ہے اسلام ایسا کامل مذہب ہے جو حسن سے لبالب بھرا ہوا ہے 465 25 جون 1993 ء دن سال کے برابر ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ کی عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا.471 491 27 02 جولائی 1993ء عربی، اردو اور مقامی زبانوں کے ذریعہ اسلام کا پیغام دنیا کودیں سکیں گے.28 9 جولائی 1993ء توحید ہی آزادی ہے توحید کے سوا ہر چیز غلامی ہے اور ساری دنیا غلامی میں جکڑی گئی ہے.513 531 549 29 16 جولائی 1993ء امت واحدہ بنانے کا کام خلافت احمدیہ کے سپر د ہے اور کسی کو نصیب نہیں.30 23 جولائی 1993ء انتظامیہ کی جان بیجہتی ہے، جماعت کا خلیفہ وقت سے قلبی رشتہ ہے 31 30 جولائی 1993ء سورہ جمعہ میں دی گئی خوشخبری کی جماعت احمد یہ مظہر ہے قومی تعلیم، کتاب اورحکمت کو اپنائیں 569 32 | 06 اگست 1993ء تو حید کی حفاظت کرو خواہ جان و مال دے کر کرنی پڑے.33 | 13 اگست 1993ء حضرت رسول کریمﷺ کی خاموش سیرت گہرے پانی کی طرح ہے 34 4 20 /اگست 1993ء آج احمدی قیام تو حید کیلئے بڑی شان سے قربانیاں کر رہے ہیں 35 27 / اگست 1993ء تو حید نے غلاموں کو بھی ایسی عزت دی کہ وہ سیدنا بن گئے 589 607 627 645 36 03 ستمبر 1993 ء حضرت حم مصطفی ﷺ کا موجد تھے آپ کے ذریعہ مغرب میں وحید کو قت نصیب ہوگی، یہ مقدر ہو چکا ہے 665 10 ستمبر 1993 ء | بنی نوع انسان کی خدمت یہ ہے کہ خدا کی طرف بلائیں.حضرت مسیح موعود کا محمد اللہ کی توحید کا عرفان | 685 37 38 17 ستمبر 1993ء امر بالمعروف کی طاقت کوئی معمولی طاقت نہیں.ہر مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے.709
عناوین صفحہ نمبر نمبر شمار تاریخ 39 24 ستمبر 1993 ء تمہارا اصل اور حقیقی جوڑا خدا تعالیٰ کی ذات ہے بس اس کی طرف دوڑو اور اس میں پناہ ڈھونڈو 729 40 40 کم اکتوبر 1993ء آپ اپنے نفس کے بچے مربی بن جائیں اللہ کا رن اختیار کرنا اورحقیقی تقتل کے معنی 747 0841 اکتوبر 1993ء اللہ و رسول کہاں میں جواب دو تو موت سے زندگی پاؤ گے.مسلسل نگہداشت اور اپنے داغوں کومٹانا تل ہے.767 42 15 اکتوبر 1993ء تبتل کا اصل مطلب بدیوں سے نجات حاصل کرنا ہے، کشتی نوح میں بیان تعلیم کی تشریح | 787 43 22 اکتوبر 1993ء تبتل ہوگا تو دنیا کی کوئی قیمت آپ کے سامنے نہیں رہے گی.رسول کریم کی تبتل کی مثالیں 805 44 29 اکتوبر 1993ء تبتل خدا کی طرف ہجرت کرنے کا نام ہے.تبتل یہ ہے کہ انسان دل سے مخفی بتوں سے رہائی پائے.823 05 نومبر 1993ء | رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کریں اور رضائے باری ہی سب سے بڑی جزا ہے.843 46 12 نومبر 1993ء خلیفہ وقت کا ہر فیصلہ درست ہوتا ہے.خلیفہ جب فیصلہ کرتا ہے تو تو کل پر بنا کر کے کرتا ہے.863 19 نومبر 1993ء کے ذکر سے بچے اعمال صالحہ ظاہر ہوتے ہیں.تطمئن القلوب اعمال صالحہ میں ڈھلتا ہے.883 48 26 نومبر 1993 ء سب سے بڑا ذ کر الہی نماز ہے.مختلف مسلمان فرقوں کے ذکر الہی کے طریق اور تصورات 903 45 47 49 60 50 51 59 52 53 03 دسمبر 1993ء ذکر اللہ کی اعلی منازل تک پہنچانے والا رسول محمد مصفی می ہیں ہیں.10 دسمبر 1993ء حمد کے سوا کوئی دعا قبول نہیں ہو سکتی.سب سے بڑ اوظیفہ نماز ہے.ذکر الہی کے اسلوب محمد مصطفی اس سے سیکھیں رسول کریم ﷺ سے زیادہ کوئی اللہ کی محبت میں گرفتار نہیں ہو 17 دسمبر 1993ء 24 /دسمبر 1993ء 31 دسمبر 1993ء وقف جدید کے چندوں کے بڑھنے پر اظہار خوشنودی اور سال نو کا آغاز 921 941 961 979 999 !!!
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1 خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۹۳ء بچوں کو اپنے ہاتھ سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں.اس سال کو انسانی بہبود کا سال بنادیں.خطبه جمعه فرموده یکم جنوری ۱۹۹۳ء بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:.کل شام کا سورج غروب ہونے کے ساتھ اللہ کے فضل سے ایک نیا سال طلوع ہونے کے سامان پیدا ہوئے اور آج صبح کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ تمام عالم پر ایک نیا دن طلوع ہوا ہے.پس میں تمام دنیا کے احباب جماعت کو چھوٹوں بڑوں کو اور مردوں اور خواتین کو نہایت محبت بھر اسلام اور مبارک باد پیش کرتا ہوں.سال نو کی مبارک باد دینے کا رواج محض ایک رواج نہیں بلکہ ”مبارک“ لفظ میں ایک دعا 66 پائی جاتی ہے.Greetings میں تو کوئی دعا نہیں لیکن جب ہم مبارک کہتے ہیں اور ”مبارک ہو کے الفاظ سے کسی کو خوشی کے جذبات پہنچاتے ہیں تو اس میں درحقیقت ایک دعا ہے پس میں بھی ان معنوں میں آپ سب کو یہ دعا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہ سال آپ سب کے لئے ہر پہلو سے بابرکت فرمائے اور جماعت احمدیہ کے لئے بالعموم بہت بابرکت فرمائے اور خصوصاً دعوت الی اللہ کے میدان میں جماعت کی کوششوں کو غیر معمولی پھل لگائے اور دائمی پھل لگائے اور آگے پھر پھولنے پھلنے والے بیج عطا کرتا رہے.بہر حال ایک تو جماعت کو مبارک باد دینا مقصود تھی اور ایک کل عالم کے مسلمانوں کو خواہ ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہو یا نہ ہو میں دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتا ہوں.اسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 2 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء طرح تمام انسانیت کے لئے میرے دل میں فلاح و بہبود کے جو جذبات ہیں اور جو نیک خواہشات ان سے وابستہ رکھتا ہوں اس پہلو سے تمام دنیا کے انسانوں کو خواہ ان کا کوئی بھی مذہب ہو کوئی بھی رنگ ہو، کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں کسی مذہب کے ماننے والے ہوں، میں دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے صرف میری طرف سے ہی نہیں.میں نے مبارک باد کے اس مضمون پر جہاں تک غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس بھری دنیا میں جہاں اربوں لوگ آباد ہیں سب سے زیادہ احمدی دل ہیں جو حقیقت میں بنی نوع انسان کے بہی خواہ ہیں اور واقعۂ دل کی گہرائی سے ان کی خیر چاہتے ہیں ورنہ اکثر لوگ تو اپنے محدود دائروں سے وابستہ ہوکر رہ گئے ہیں.ایک مسلمان زیادہ سے زیادہ سوچے گا تو اسلام کی بہبود کی سوچتا ہے یا ایک پاکستانی پاکستان کی بہبود کی سوچتا ہے.انگلستان میں بسنے والا ایک انگریز انگلستان کی بہبود کی سوچتا ہے اور شاید ہی کوئی دل ایسا ہو جس کی گہرائی سے کل عالم اسلام کی خیر خواہی کی دعائیں اٹھتی ہوں اور جہاں تک میر اعلم ہے تمام احمدی جو تمام دنیا میں ، مشرق و مغرب میں تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے ہیں انہوں نے اپنا دستور بنا رکھا ہے کہ وہ نظام جماعت کے لئے یا خلیفہ وقت کے لئے ، اپنے عزیزوں اور پیاروں کے لئے جہاں دعا کرتے ہیں وہاں انسانیت کو بحیثیت انسانیت پیش نظر رکھتے ہوئے کل عالم کے انسانوں کے لئے ضرور دعا کرتے ہیں.یہ میرا ایک جائزہ ہے جو مختلف احمدیوں کے خطوط سے مترتب ہوتا ہے اور ویسے بھی اپنے دل کی کیفیت سے میں یہی اندازہ کرتا ہوں کیونکہ میرے اور جماعت کے دل کے دھڑ کنے کے انداز ایک ہیں ایک ہی نہج پر ہم سوچتے ہیں.ایک ہی طرز پر محسوس کرتے ہیں.اس لئے جو میری کیفیات ہیں وہ سب جماعت کی ہوں گی اور ایسا ہے بھی کیونکہ خط لکھنے والے تو کم ہیں جو لکھتے ہیں مگر جو لکھتے ہیں وہ نمونے بھیج دیتے ہیں، وہ بتا دیتے ہیں کہ نجی میں بھی ایسے ہی احمدی بستے ہیں جیسے نائیجیریا، یا سیرالیون میں یا غا نا میں یا امریکہ میں یا انگلستان میں یا جرمنی میں ،غرضیکہ احمدی خط جہاں سے بھی ملتے ہیں ان کی ادائیں ایک ہوتی ہیں.پس احمدی مزاج ایک بین الاقوامی مزاج بن چکا ہے اور انسانیت کی بھلائی چاہنا، انسانیت کی بہبود چاہنا اس بین الاقوامی مزاج کی سرشت میں داخل ہے، اس میں کوئی بناوٹ نہیں، کوئی تصنع ، کوئی تکلف نہیں ، جس جماعت کو یہ بین الاقوامی مزاج نصیب ہوگا اس مزاج سے از خود تمام عالم کے لئے دعائیں پھوٹیں گی.پس اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 3 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء یہ نیا سال تمام دنیا کو بحیثیت انسان مبارک کرے اور اس پہلو سے آگے چل کر میں جو تحریک کروں گا اس کا تعلق اس سال کو انسانی بہبود کا سال بنانے سے ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہر سال ہم ایک مطمح نظر اپنے سامنے رکھتے ہیں.اس سال مطمح نظریہ رکھیں کہ انسان کو انسانیت کے آداب سکھائے جائیں اس سلسلہ میں میں انشاء اللہ چند ایک تجاویز بھی بعد میں آپ کے سامنے رکھوں گا.ابھی گزشتہ سال کے آخر پر ایک عجیب نوع کا جو عالمگیر جلسہ ہوا تھا اس کے متعلق مختلف ممالک سے جماعت احمدیہ سے وابستہ دوستوں کے جذبات مجھ تک پہنچ رہے ہیں.شروع شروع میں تو باقاعدہ ٹیلی فون یا فیکسز کے ذریعہ پیغام مل رہے تھے اب بھی پہنچنے شروع ہو گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس جلسے کا جو اثر احمد ی قلوب اور اذہان پر پڑا ہے.وہ ہماری توقع سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے.اکثر لکھنے والوں نے یہ محاورہ استعمال کیا ہے کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے جو کیفیت ہے اور میں لکھ نہیں سکتا جو کیفیت ہے، میرے پاس الفاظ نہیں جن سے بیان کرسکوں، میں اپنی کیفیت ہی نہیں بلکہ اپنے سارے ماحول کی کیفیت بتارہا ہوں اور بعضوں نے لکھا کہ یہ صرف احمدیوں کا حال نہیں ہے جو غیر بھی ہمارے ساتھ شریک ہیں ان کے دلوں کی بھی یہی کیفیتیں ہیں.چنانچہ انہوں نے جو بعض تاثرات بھیجے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں.اسی طرح قادیان سے آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ جو سکھ، ہند و دوست جلسہ میں شریک تھے اور زیادہ تر سکھ تھے جب وہ مختلف مواقع پر قادیان کے مناظر دیکھتے تھے جن میں بعض دفعہ خودان کی تصویر میں بھی دکھائی دیتی تھیں تو بے اختیار ہو کر ان کی زبانوں سے نعرے بلند ہوتے تھے اور جب جماعت نعرے لگارہی ہوتی تھی تو وہ بھی شامل ہو جایا کرتے تھے اور یہ کیفیت ساری دنیا میں ایک ہی طرح سے ایک ہی وقت میں رونما ہورہی تھی اگر چہ ساری دنیا میں اس وقت الگ الگ وقت تھے یعنی ایک لمحہ میں جو آواز اٹھ رہی تھی وہ چوبیس گھنٹے پر پھیلے ہوئے لمحوں کی آواز بن گئی.کہیں یہ آدھی رات کی آواز تھی، کہیں صبح سویرے کی آواز تھی، کہیں تہجد کے وقت کی آواز تھی ، کہیں شفق صبح کی آواز بن گئی تھی ، کہیں شفق شام کی آواز بن گئی تھی، کہیں جھٹپٹے کی آواز تھی گویا کہ چوبیس گھنٹے میں زمین کے گول ہونے اور اس کے چکر لگانے کی بنا پر جتنے لمحے ہیں اس ایک لمحے کی آواز بیک وقت چوبیس گھنٹوں کے ہر لمحے کی آواز بن رہی تھی اور اس کیفیت کا ایک غیر معمولی اثر
خطبات طاہر جلد ۱۲ خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء احمدیوں نے محسوس کیا.اس میں لطیفے کی ایک بات یہ بھی ہوئی کہ امریکہ کے ایک دوست نے خط لکھتے ہوئے بڑے جوش میں جلسے کے اثرات بیان کرنے شروع کئے کہ مجھے یوں لطف آیا اور پھر مجھے یوں لطف آیا اور اچانک انہوں نے کہا کہ ایک بات سوچ کر میر ارنگ فق ہو گیا اور وہ بات یہ تھی کہ میں نے سوچا کہ یہ نہ ہو کہ آپ امریکہ کا اگلا جلسہ بھی لنڈن ہی سے کروادیں.یہ لطیفہ میں نے گھر پر بچوں کوسنایا تو میری ایک بیٹی نے کہا کہ یہ نہ ہو گا کیا مطلب؟ اب تو یہ ہونا ہی ہونا ہے کیونکہ جماعت خدا کے فضل سے اس تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہر ملک کی خواہش ہوگی کہ آپ ضرور جائیں اب تو جلسے پھیلنے شروع ہو جائیں گے اور لازماً خلیفہ وقت جو بھی ہوگا جہاں بھی ہوگا.وہاں سے وہ ہر جلسے میں شرکت کیا کرے گا.تو میری دوسری بیٹی نے پھر ایک سالانہ کیلنڈر تجویز کیا کہ صبح اٹھ کر لوگ جس طرح تاریخیں پوچھتے ہیں یہ پوچھا کریں گے کہ آج کونسا جلسہ ہے تا کہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ اس جلسہ کو دیکھیں تو بہر حال یہ لطیفے بھی ہیں اور حقیقتیں بھی ہیں اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ نے احمدیت کی کائنات بدل دی ہے موسم تبدیل کر دیئے ہیں.وہ احمدی جن کی آواز گھروں تک پہنچنے سے روکی جا رہی تھی وہ گھروں میں داخل ہو گئے ہیں.ساری دنیا کے گھروں میں داخل ہو کر ان کے دلوں میں اُتر رہے ہیں.کون ہے جو خدا کی اس تقدیر کی راہ میں حائل ہو سکے؟ اب تو یہ سلسلہ پھیلے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو اس کی راہ میں حائل ہو سکے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ شاداب درخت ہے جس کی شاخوں نے تمام دنیا پر پھیل کر سب دنیا کے لئے سائے اور عاطفت کے سامان پیدا کرنے تھے.سب سے دلچسپ بات یا دلچسپ باتوں میں سے ایک بات کہہ لیجئے جس کی طرف میری خاص توجہ گئی تھی اور جس کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ ساری دنیا کی جماعتیں بھی محسوس کر رہی ہیں وہ ہے عالمی بیعت.تاریخ عالم میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ اللہ اور رسول کے نام پر کوئی بیعت لی جارہی ہو اور بیک وقت سارے جہان میں اس بیعت کے ساتھ زبانیں بھی متحرک ہوں اور دل بھی دھڑک رہے ہوں اور ایک آواز کے ساتھ لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا اقرار کرنا دل میں ایک عجیب کیفیت پیدا کرتا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کا ایک اظہار تھایہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہوا.یہ بیان کیا گیا تھا کہ ایک نئے انگریز مسلمان کے دل میں یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 5 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء خیال آیا کہ میں بھی اس موقع پر بیعت کر لوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ فرشتوں کی تحریک تھی کوئی اتفاقی خیال نہیں تھا.ہمارا گزشتہ سال اس بیعت سے سج گیا ہے اس کے سر پر ایک تاج رکھا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ساری دنیا کی جماعت تجدید بیعت کے ذریعہ اب وفاؤں اور خدمتوں کے ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہے کیونکہ ہر جگہ جماعت بیعت میں شامل تھی.یہ اس بیعت کی تعبیر ہے اور میں سمجھ رہا ہوں کہ آئندہ پھر بیعتیں انشاء اللہ اسی طرح ہوا کریں گی کہ ایک جگہ جب کسی جلسہ میں بیعت ہو رہی ہو گی تو لاکھوں بیعتیں دنیا میں ساتھ ہو رہی ہوں گی اور وہ جو کروڑ کا تصور میں نے پیش کیا تھا اب وہ دور کی خواب و خیال اور خواہش کی بات نہیں رہی میں سمجھتا ہوں کہ اس کا وقت قریب آ رہا ہے کیونکہ جلسوں میں جو شریک ہوتے ہیں خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم یا خطبوں میں جو شریک ہوتے ہیں خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، ان کے متعلق پہلے دوسرے لکھتے ہیں پھر وہ خود خط لکھنے لگ جاتے ہیں اور آج کل تو تقریباً روز مرہ ڈاک میں ایسے خط نکلتے ہیں کہ ہمیں ایک احمدی دوست لے آئے تھے ہم مسلمان تھے لیکن احمدی نہیں تھے بلکہ بعض سخت نفرتوں کا شکار تھے اور ایک جمعہ میں ہی آکر کا یا پلیٹ گئی.اب ہم نے وہ کچھ دیکھا ہے جو سنی سنائی باتوں کے بالکل برعکس ہے.کان اور سنتے تھے، آنکھیں اور دیکھتی ہیں اور اب کان بھی اور سننے لگ گئے ہیں.اس قسم کے تاثرات مسلمانوں کی طرف سے ہی نہیں ہندوؤں کی طرف سے بھی سکھوں کی طرف سے بھی اور انگریزوں یا یورپینز کی طرف سے بھی آنے شروع ہوئے ہیں اور بعض بیعتوں کے قریب پہنچ گئے ، بعض نے اس شمولیت کی وجہ سے بیعتیں کر لیں.تو جوں جوں یہ سلسلہ پھیلے گا جماعت سے باہر سننے والوں کی تعداد میں بھی خدا گا کے فضل سے نمایاں اضافہ ہوگا کیونکہ بعض جگہ سے تو یہ بھی اطلاع ملی کہ ایک غریب احمدی کو ڈش انٹینا لگانے کی توفیق نہیں تھی اس کے امیر ہمسائے کو جو غیر احمدی تھا جب پتا چلا تو اس نے انٹینا لگایا اور کہا کہ اپنے محلے کے سارے احمدیوں کو کہو کہ میرے گھر آکر سنا کریں اور وہ سارے مل کر اب سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں تو اس لئے یہ جو گزشتہ سال ہے یہ خدا کے فضل سے واقعہ جماعت احمدیہ کے لئے ایسی خوشخبریاں نہیں لایا جو یا د میں بن کر ماضی میں رہ جاتی ہیں بلکہ ایسی خوشخبریوں کے پیغام لایا ہے جو مستقبل میں ہمارے آگے آگے نور کی طرح بھاگیں گی اور ہمیں تیز قدم چلنے کے اشارے کرتے ہوئے اور آگے بڑھیں گی اور اس طرح احمدیت کا یہ قافلہ شاہراہ ترقی اسلام پر خدائے واحد و یگانہ کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 6 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء تکبیر بلند کرتے ہوئے اور محمد مصطفی کے حسن و جمال کے گیت گاتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے گا.گزشتہ خطبہ میں وقف جدید کا جو اعلان ہوا تھا اس میں دو باتیں تو غلطی سے ایسی بیان ہوئیں جن کی تصحیح ضروری ہے اور ایک پہلو وقف جدید اطفال نو‘‘ کا ذکر رہ گیا تھا وہ میں اب کروں گا سب سے پہلے تو ایک عددی غلطی ہے یعنی جب میں نے پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی جماعتوں کے علاوہ باقی دنیا میں وقف جدید کے وعدوں اور وصولی کے لحاظ سے 1991ء اور 1992ء کا موازنہ کیا تو غلطی سے یہ کہہ دیا %66 اضافہ ہوا ہے حالانکہ جوفقرہ نیچے لکھا ہوا تھا وہ 66 ہزار کا تھا اور باقی جگہ فیصد چل رہی تھی اس لئے میرے منہ سے بھی 66 ہزار کی بجائے %66 نکل گیا یہ درستی ہونی چاہئے 34.64 فیصد اضافہ ہوا تھا.دوسرے میں نے حضرت شیخ محمد احمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ان کو صحابی بیان کر دیا تھا آپ کی پیدائش در اصل 14 نومبر 1896ء کی ہے جبکہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب جوان کے بزرگ صحابی والد تھے وہ اس سے پہلے احمدی ہو چکے تھے اور یہ پیدائشی احمدی تھے تو مجھے چونکہ یا تھا کہ یہ پچھلی صدی میں پیدا ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک بڑا حصہ انہوں نے پایا اس لئے میں نے صحابی کہہ دیا اس سلسلہ میں ایک خط کا اقتباس میرے سامنے ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شیخ محمد احمد صاحب کی پیدائش پر ان کے والد کے نام مبارک باد کا خط لکھا جو یہ ہے: د محبی اخویم منشی ظفر احمد صاحب سلمہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ لڑکا نو وارد مبارک ہو.اس کا نام محمد احمد رکھ دیں خدا تعالی با عمر کرے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے.اس زمانے میں کوئی سیکرٹری تو ہوا نہیں کرتے تھے اور کتابیں بھی لکھنا.بڑے بڑے مضامین لکھنا پھر بے شمار اور دوسرے کام تھے کہ یقین نہیں آتا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اتنے کام ممکن ہیں پھر اپنے صحابہ کی دلداری کے لئے اپنے ہاتھ سے آپ انہیں خط بھی لکھا کرتے تھے مگر تحریر مختصر اور بہت سے مضامین کو چند الفاظ میں سمیٹے ہوئے اس خط میں یہ با عمر کرے والی جو بات ہے یہ ہر خط میں آپ نہیں لکھا کرتے تھے کسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 7 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء خط میں کوئی دعا ہوتی تھی کسی خط میں کوئی دعا ہوتی تھی اور یہ پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ جماعت کو بھی اپنے ان جذبات میں شریک کروں کہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب کی عمر غیر معمولی حالات میں ، بہت سخت بیماریوں کا شکار رہنے کے باوجود خدا کے فضل سے لمبی سے لمبی ہوتی چلی گئی ہے اور دعا کا ایک چھوٹا سا فقرہ یہ تھا کہ خدا تعالی با عمر کرئے تو با عمر تو ہو گئے اور اب سو سال پورے ہونے میں چارسال رہتے ہیں اللہ کرے یہ اگلی صدی بھی دیکھیں عمر کی اگلی صدی بھی اور دوسری بھی.یہ تو ہماری ایک خواہش اور تمنا ہے لیکن یہ دعا ضرور ساتھ کرنی چاہئے کہ صحت و عافیت کی شرط کے ساتھ ، باہوش اور با عمر رہتے ہوئے ایسی حالت میں لمبی زندگی کی دعا کرنا مناسب نہیں کہ انسان صاحب فراش ہو چکا ہو دوسروں پر بوجھ بن چکا ہو اور حضرت شیخ صاحب کے متعلق تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بڑے خود دار انسان ہیں اور ادنی سا بوجھ بھی کسی پر ڈالنا پسند نہیں کرتے اس لئے ہماری تمنا اور خواہش ہے، البتہ اللہ کے ہاں جو بھی منظور ہو اسی پر ہم راضی ہیں.پس ان کو جو صحابی کہا گیا تو اس لئے کہ خیال تھا کہ اس زمانے میں ضرور کسی وقت گئے ہوں گے لیکن یہ معلوم کر کے تعجب ہوا ہے کہ کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں خود حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا اور اس زمانے میں جو بعض عشاق صحابہ تھے.ان کی عشق کی عجلت نے بھی ایسا کیا ہے.بعض دفعہ انسان ایک خیال میں ایسا مگن ہو جاتا ہے کہ اپنے گردو پیش، اپنے ماحول، اپنے بچوں تک کی فکر نہیں رہتی تو وہ اس شدت کے جذبے سے قادیان کی طرف کھینچے جایا کرتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی ہوش نہیں تھی کہ میں اپنے بچے کو بھی لے جاؤں اور اس کو بھی صحابی بنالوں مگر میں نے جو صحابی کہا تو صرف عمر کی وجہ سے نہیں ان کی ادائیں بھی صحابہ والی ہیں.پس میری غلطی تو اپنی جگہ لیکن ان سے بھی تو پوچھئے کہ وہ کیوں اتنے پیارے ہوئے جنہوں نے اپنی ساری زندگی صحابہ کی طرح صرف کی ہو ان کو اگر غلطی سے صحابہ نہیں شمار کر لیا جائے تو انسانی نقطہ نگاہ سے تو غلطی ہے مگر خدا تو بغیر غلطی کے شامل کر سکتا ہے.پس آخری دعا جو میں کرتا ہوں اور آپ سے بھی اس کی گزارش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب کے لئے یہ دعا کریں کہ میرے منہ سے جو غلطی سے نکلا تھا خدا کی تقدیر میں واقعہ لکھا جائے اور اللہ کے رجسٹر میں ان کا شمار صحابہ میں ہو.(آمین) اب مختصر أوقف جدید کے اطفال کے دفتر کا ذکر کرتا ہوں 1966ء میں دفتر اطفال قائم ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 8 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء تھا پہلے سال-/3065 روپے وصولی تھی اور 1992ء میں خدا کے فضل سے یہ وصولی بڑھ کر - 6,22,596 ہو چکی ہے لیکن یہ وصولی در اصل صحیح حقیقت پیش نہیں کر رہی کیونکہ بیرونی دنیا میں اکثر ممالک میں دفتر اطفال کا الگ طور پر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا.اس لئے آئندہ سے اگر تمام دنیا کی جماعتیں دفتر اطفال‘ کا حساب الگ رکھنا شروع کر دیں تو اس سے صحیح شکل سامنے آئے گی اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہت سی مائیں اپنے بچوں کی طرف سے چندے دیتی ہیں اور بچوں کو پتا ہی نہیں لگتا اور دفتر اطفال کے قیام کے لئے بہت حد تک یہ غرض پیش نظر تھی کہ بچوں کو علم ہو کہ وہ بھی چندے دے رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں سے چندے نکلیں اور انہیں چندوں کا شوق پیدا ہو اور بچپن کی چندوں کی یادیں آئندہ ان کے چندے دینے کے لئے ضمانت بن جائیں یا مددگار ثابت ہوں.میں نے اس سلسلہ میں اپنی ان دو بچیوں سے سوال کیا جو شادی شدہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ سب بچوں کی طرف سے چندے دے رہی ہیں لیکن جب پوچھا کہ ان کو علم ہے تو پتا لگا کہ نہیں.یہ غلطی ہے.ہماری والدہ تو ہمیں بتا کر بلکہ پیسے دے کر پھر واپس لیا کرتی تھیں یہ سمجھا کر کہ تم چندہ دے رہے ہو میں نہیں دے رہی.اس کا دل پر بڑا گہرا نقش ثبت رہا اور ہمیشہ رہے گا اس لئے اطفال کی تحریک کے سلسلہ میں تمام دنیا کی جماعتوں کو میں متوجہ کرتا ہوں کہ بچوں کے دفاتر اپنے ہاں قائم کریں اور آئندہ سے جو ماں باپ بچوں کی طرف سے چندہ دیں.ان کو بتا کر دکھا کر دیں بلکہ ان کو دے کر پھر واپس لیں اور کہیں کہ یہ تمہاری طرف سے چندہ ہے اگر ایسا کریں گے تو بچوں کے چندوں میں بھی ایک فرق آنا شروع ہو جائے گا بچوں کے وہ چندے جو ماں باپ کی طرف سے لکھائے جاتے ہیں مثلاً پاکستان میں اگر چھ روپے مقرر ہے تو اکثر صورتوں میں چھ روپے ہی رہتے ہیں لیکن جہاں بچے شامل ہو جائیں اور اپنے مزاج اور اپنے شوق کے مطابق لکھوائیں تو وہاں اونچ نیچ پیدا ہو جاتی ہے.کوئی بچہ چھ دے رہا ہے کوئی دس دے رہا ہے کوئی پندرہ دے رہا ہے بعض بچے اپنے جیب خرچ اکٹھے کرتے ہیں اور پھر وہ ساری کی ساری جمع شدہ رقم دے دیتے ہیں تو دراصل یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر ” دفتر اطفال کو الگ کیا گیا تھا.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ باقی دنیا میں بھی دفتر اطفال‘الگ ہوگا.تو آئندہ نسلوں کی تربیت کی بہت توفیق ملے گی.پاکستان میں ” دفتر اطفال میں جو اول دوم سوم آئے ہیں اب ان کا اعلان کرتا ہوں.سب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 9 خطبہ جمعہ ار جنوری ۱۹۹۳ء سے پہلے تو اہل ربوہ خوشخبری سننے کے لئے تیار ہو جائیں.سارے پاکستان میں ”دفتر اطفال‘ میں سب سے زیادہ ربوہ کے بچوں نے حصہ لیا ہے اور کمیت کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی خدا کے فضل سے ربوہ کے بچوں نے - 88,538 روپے اس مد میں ادا کئے.دوسرے نمبر پر لاہور کی باری ہے اور تیسرے نمبر پر کراچی کی لیکن مجھے یہ خیال ہے کہ کراچی زیادہ دیر تک تیسرے نمبر پر نہیں رہے گا وہ یہ سن کر کافی شرمندہ ہوں گے کہ لاہور سے تقریباً تیسرا حصہ پیچھے رہ گئے ہیں یعنی لاہوران سے تین حصے آگے بڑھ گیا ہے اب میں زیادہ اعداد و شمار نہیں بتاتا کیونکہ شرمندہ کرنا مقصود نہیں بلکہ محض مہمیز دینا میرے پیش نظر ہے کہ ذرا ولولے پیدا ہوں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.راولپنڈی چوتھے نمبر پر آیا ہے، گوجرانوالہ پانچویں نمبر پر ،سیالکوٹ چھٹے پر ،سرگودہا ساتویں پر، فیصل آباد آٹھویں پر ، شیخو پورہ نویں پر اور تھر پارکر دسویں نمبر پر.اب میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جس کا میں نے ابتداء میں تعارف کرایا تھا اس وقت دنیا کوسب سے زیادہ انسانی قدروں کو بحال کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، انسانی قدریں ہر پہلو سے پامال ہو رہی ہیں، ہر قسم کے جرائم بڑھ رہے ہیں اور ان کے نتیجہ میں انسانی ضمیر کچلا جا رہا ہے اور اکثر جگہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ضمیر دم توڑ چکا ہے کوئی حیا، کسی قسم کی کوئی غیرت، انسانیت کی کوئی رمق بھی بعض جگہ دکھائی نہیں دیتی.مثلاً جہاں چھوٹے بچوں پر ظلم ہو رہا ہے جہاں بریگار کیمپ اس طرح چلائے جارہے ہیں کہ کسی کے معصوم بچے کو اغوا کر کے اس کو نہایت خطرناک تکلیف دہ مزدوری میں مبتلا کر کے چند پیسے کمانے کی خاطر اتنے بڑے ظلم توڑے جارہے ہیں ،ساری زندگی کے لئے اس بچے کے لئے بھی ایک عذاب کی زندگی ہے اور ماں باپ کے لئے بھی ایک عذاب کی زندگی ہے کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے کہاں چلے گئے بچے اور وہ بچے خوف و ہراس میں اتنا مبتلا کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ آواز بھی بلند نہیں کر سکتے.مجھے یاد ہے کہ ایک احمدی بچہ اغوا ہونے کے بعد اسی قسم کے ایک کیمپ سے نکل کر بھاگ کر پہنچا تھا اور اس نے جوڑ و دادسنائی وہ تو ایسی ہے کہ سن کر دل یٹھتے تھے.اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور احسان تھا کہ اس کی دعاؤں کے نتیجہ میں اسے توفیق مل گئی ورنہ جو کام وہاں ہوتے ہیں اور کئے جاتے ہیں اور جس قسم کی گراوٹ کی باتیں وہاں ہوتی ہیں اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ کیمپ اسلامی مملکت پاکستان میں بھی جاری ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 10 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء صلى الله ہندوستان میں بھی اور وہ جو اسلام کے نام پر جہاد کرنے والے پٹھان ہیں وہ بد قسمتی سے سب سے زیادہ اس میں ملوث ہیں.عجیب و غریب تضادات کی دنیا بن چکی ہے.کیسے ہوسکتا ہے کہ انسانی قدریں تو پاؤں تلے روندی جائیں بلکہ ایسی گندی کر دی جائیں کہ ان پر پاؤں رکھتے ہوئے حیا آتی ہو اور باتیں آسمان کی اور الوھیت کی اور خدا کی عزت اور جلال کی ہوں اور محمد رسول اللہ یہ کی حمد وثناء کے گیت گائے جارہے ہوں اور نیچے یہ ہو رہا ہوتو یہ اتنا بڑا تضاد ہے کہ اس تضاد سے طبیعت میں متلی پیدا ہونے لگتی ہے.پس انسانی قدروں کے لئے ایک عالمی جہاد کی ضرورت ہے اور جماعت کو ہر جگہ اس کو موضوع بنانا چاہئے انگلستان اور یورپ وغیرہ میں یہی بدی اور طرح سے پائی جاتی ہے وہاں بھی پائی جاتی ہوگی لیکن یہاں تو ماں باپ اپنے ہی معصوم بچوں پر ظلم کرتے ہیں یا ان کے رشتہ دار ظلم کرتے ہیں یا ویسے بچوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں زیادتی کی اور پھر بہیمانہ طور پر قتل کر کے پھینک دیا.یہ ساری ایسی بیماریاں ہیں جو گہری دبی ہوئی ہیں اور جو چند باتیں میں بتا رہا ہوں یہ وہ پھوڑے ہیں جوان گہری بیماریوں میں سے کہیں کہیں سطح پر پھوٹ رہے ہیں.جب تک سارے خون میں فساد واقع نہ ہو جائے اس وقت تک ایسے مکروہ پھوڑے جسم پر نہیں ہوا کرتے ان بیماریوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، انسان کی بڑی بدنصیبی ہے کہ بنیادی انسانی قدروں سے نا آشنا ہو چکا ہے اور جو رہی سہی قدریں ہیں ان کا مذہبی رہنما خون کر رہے ہیں اور ان قدروں کو ملیا میٹ کرنے کے لئے انہوں نے گویا ایک برعکس جہاد کا اعلان کر رکھا ہے.میری مراد یہ ہے کہ یہ تو انسان کے ایسے مظالم ہیں جن میں کوئی ملاں، کوئی پنڈت کوئی پادری براہ راست ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ اپنی مسجدوں ، مندروں اور معابد سے یہ اعلان تو نہیں کرتا کہ تم ایک دوسرے پر ایسے ایسے مظالم کرو لیکن بالواسطہ ذمہ دار ضرور بن جاتا ہے کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے سوسائٹی میں یہ سارے واقعات ہورہے ہوتے ہیں لیکن اس کی انسانیت کی رگ نہیں پھڑکتی ، خدا تعالیٰ سے محبت کے تقاضوں میں انسانی ہمدردی کا تقاضا داخل ہی نہیں ہے.گویا معبود کی دنیا الگ ہے اور عبادت کرنے والوں کی دنیا الگ ہے، محبت کا جو رخ ہے آسمان کی طرف ہی ہے اور زمین محبت سے خالی ہوگئی ہے.ایسی محبت جو محض خدا سے کی جائے اور بنی نوع انسان سے اس محبت میں ہاتھ کھینچ لئے جائیں تو اس محبت کو رفع ہو ہی نہیں سکتا.لعنتوں اور پھٹکاروں کے ساتھ وہ محبت ان لوگوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 11 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء کے منہ پر ماری جاتی ہے.اس لئے بلا واسطہ تو نہیں مگر بالواسطہ یہ لوگ یقینا ذمہ دار ہیں، جن کے مقاصد زندگی میں یہ بات داخل ہے کہ اللہ کی محبت کے ساتھ بنی نوع انسان کے حقوق کا تصور پیدا کریں، ان کا پیار دلوں میں پیدا کریں اور ظلم و سفا کی کو دنیا سے مٹانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں.لیکن ایک اور ظلم ہے جس میں یہ بلا واسطہ خود شریک ہوتے ہیں اور وہ ہے کہ مذہب کے نام پر نفرتوں کی تعلیم دیتے ہیں اور دنیا کے ہر مذہب میں یہ اس کثرت سے اور اس بے حیائی سے ہو رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی عقلیں کہاں گئی ہیں.مذہب کے اعلیٰ مقاصد میں خدا کی عبادت ہے اور خدا کی عبادت بندوں کے ساتھ حسن سلوک از خود سکھاتی ہے.جس عبادت کے نتیجہ میں انسان خدا کی مخلوق سے دور ہو جائے وہ شیطان کی عبادت تو قرار دی جاسکتی ہے اللہ کی عبادت قرار نہیں دی جاسکتی، اس عبادت کا کیا فائدہ، جس کے نتیجہ میں خالق اور مخلوق کے درمیان فرق کر دیئے جائیں اور خالق کے نام پر مخلوق پر ظلم توڑے جارہے ہوں.پس اس وقت مذہبی بحثوں کا وقت نہیں ہے وہ بھی جہاں مناسب ماحول ہو چلیں گی لیکن انسانیت کو اس وقت انسان بنے کا پیغام دینے کی ضرورت ہے.انسانی قدروں کے لئے ایک عالمی سطح کا جہاد جاری کرنے کی ضرورت ہے.اس پہلو سے میں جماعت احمدیہ کو دعوت دیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ انفرادی طور پر یامن حیث الجماعة جماعت کی طرف سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک دوسروں کو بھی اس معاملہ میں عقل دے کر اور دعوت دے کر ساتھ شریک نہ کریں ہمیں اس پیغام کو عام کرنا ہوگا اور اگر جماعت احمدیہ کی طرف سے مثلاً حکومتوں کے سر براہوں کو بڑے بڑے دانشوروں کو، اخباروں میں لکھنے والوں کو، جو اہل قلم لوگ ہیں ان کو خطوط لکھے جائیں ان کو سارا سال اس طرف متوجہ کیا جائے اور مختلف تجاویز ان کے سامنے رکھی جائیں تو پھر یہ ایک ایسی کوشش ہے جو ہو سکتا ہے کہ بعض ایسے دلوں میں بھی تبدیلی پیدا کر دے جو دل با اختیار ہیں جن کے پیچھے ایک قوم ہے ان ہاتھوں میں بھی یہ جنبش پیدا کر دیں جن کو عنان حکومت تھمائی جاتی ہے، جو ان دماغوں میں یہ تبدیلی پیدا کر دیں جن کی فکر قوم کی فکر بن جایا کرتی ہے.پس ہر پہلو سے اہل دانش، اہل قلم ، اہل دل لوگوں کو جماعت احمدیہ کی طرف سے سمجھا بجھا کر محبت سے، پیار سے یہ باتیں پہنچانی ضروری ہیں اور آئندہ سارا سال دنیا کی ہر جماعت جو میرے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 12 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء اس پیغام کو سن رہی ہے اس میں چھوٹے بڑے سب شریک ہو جائیں اگر بچے اپنی زبان میں ایک بات لکھ سکتے ہیں تو کیوں نہ لکھیں.بعض دفعہ بچوں کی زبان دل پر زیادہ اثر کرتی ہے اور واقعہ بڑا گہرا اثر کرتی ہے.میں نے تو دیکھا ہے کہ جن بچوں کو کہنا نہیں آتا وہ بھی کچھ لکھ دیتے ہیں تو دل پر اثر پڑ جاتا ہے.مجھے بعض دفعہ بچوں کے ایسے خط آتے ہیں کہ اپنی طرف سے انہوں نے ایک بہت خوبصورت عبارت لکھ کر بھیجی ہوتی ہے اور وہ صرف گول مٹول حروف ہیں اور چکر لگائے ہوتے ہیں جیسے کسی مکھی کو سیاہی میں بھگو کر کاغذ پر پھر ادیں یا مکڑی کو سیاہی میں بھگو کر کاغذ پر پھر دیں اور وہ اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ میں نے اپنی طرف سے ایک بہت اچھا خط لکھا ہے اس پر پتا لکھ کر آپ بھیج دیں اور مجھے اس کا جواب چاہئے.چنانچہ اس خط کو پڑھنے کا بڑا مزا آتا ہے بڑا لطف آتا ہے کیونکہ اس خط میں محبت ہی محبت ہوتی ہے اور جس محنت سے وہ بچہ لکھ رہا ہوتا ہے وہ ساری محنت از خود زبان بن جاتی ہے.تحریر بولنے لگتی ہے.پتا چلتا ہے کہ کتنا پیارا بچہ، کتنی اس نے محنت کی ہے، کتنا اہتمام کیا ہے، قلم مانگا، سیاہی لی کاغذ کہیں سے پکڑا اور کہیں چھپ کر بیٹھ گیا اور اس نے کہا کہ میں خط لکھ کر لاتا ہوں اور پھر توقع یہ کہ میں بھی اسے جواب دوں، یہ پیغام مجھے زبانی پہنچا ہوتا ہے تو بعض دفعہ میں بھی ویسی ہی تحریر بنا کر نیچے دستخط کر کے بھیج دیتا ہوں اور ماں باپ کو کہتا ہوں کہ گونگے کی بولی ماں باپ ہی سمجھتے ہیں تو آپ بھی یہ زبان سمجھتے ہوں گے.آپ ان کو بتا دیں کہ کیا لکھا ہے.پتا نہیں وہ میری زبان ٹھیک پڑھتے ہیں کہ نہیں مگر میں بچوں کی زبان تو ٹھیک پڑھ لیتا ہوں تو بچے بھی لکھیں.جس حد تک توفیق ہے ملکوں کے سربراہوں کو لکھیں، دانشوروں کو لکھیں، مولویوں کو لکھیں.پنڈتوں کو لکھیں، پادریوں کو لکھیں اور کہیں کہ خدا کا خوف کرو.اگر اخلاق دنیا سے اٹھ گئے تو مذہب کا رہے گا کیا؟ اگر انسانیت ہی قائم نہ ہوئی تو کیا حیوانوں سے خدا رشتے کرے گا.ان حیوانوں میں کیوں خدا نے نبی نہ بھیج دیئے جن سے بد تر تم ہوتے چلے جارہے ہو اس لئے انسان کو انسانیت کے آداب سکھاؤ.جماعت احمدیہ نے ایک عالمگیر تحریک پیش کی تھی جس کا ذکر میں نے گزشتہ خطاب میں بھی کیا تھا یعنی پیشوایان مذاہب کے جلسوں کا انعقاد.یہ بہت مفید ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اب انسانیت کے نام پر ہمیں جلسے کرنے چاہئیں تحریک بہبود انسانیت کے نام پر تمام دنیا میں جلسے منعقد کرنے چاہئیں.اس میں صرف مذاہب کے نمائندے نہیں آئیں گے، دہرئیے بھی آئیں گے.ہر قسم کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 13 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء لوگ آئیں گے.ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انسانیت ہے کیا؟ دنیا میں انسانیت کا شرف دوبارہ قائم کئے بغیر، انسانی قدروں کو بحال کئے بغیر ہم جو عالمی انصاف کی یا عالمی امن کی باتیں کرتے ہیں وہ صرف منہ کی باتیں ہیں، ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی.اس سلسلہ میں بڑے دلچسپ پروگرام بنائے جاسکتے ہیں.بڑے اچھے اچھے جلسے کئے جاسکتے ہیں اور ان جلسوں میں پسماندہ قوموں کے حقوق کے اوپر بھی بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ دراصل بعد کی باتیں ہیں، پہلے میں سمجھتا ہوں کہ صرف انسانی قدروں کی بات ہونی چاہئے.انسانی قدروں کے حوالوں سے بعض دفعہ یہ بات بھی آئے گی کہ ہم ایک ملک میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک اور ملک ہے جہاں فاقے کئے جار ہے ہیں.اگر انسانی قدریں زندہ ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا.انسانی قدروں کی راہ میں قومی دیواریں حائل ہوگئی ہیں، کہیں مذہبی دیواریں حائل ہو جاتی ہیں، کہیں نظریاتی دیواریں حائل ہو جاتی ہیں.پس ان سب مصنوعی جھوٹی دیواروں کا ٹوٹنا ضروری ہے اور وہ اندرونی دباؤ سے ٹوٹنی چاہئیں.بیرونی حملے سے نہیں.اندرونی دباؤ جو انسانیت کے زندہ ہونے سے دلوں سے پیدا ہوگا اور قوم کے اندر جب وہ مجموعی طور پر زیر و بم دکھائے گا اس کے اندر اونچ نیچ ہوگی.جذبات میں بعض دفعہ کمی آتی ہے بعض دفعہ زیادتی ہوتی ہے تو میری مراد یہ ہے کہ جب انسانیت کے سانس چلنے لگیں گے، جب انسانیت کا دل دھڑ کنے لگے گا، جب انسانی جذبات میں تموج پیدا ہونے لگے گا تو وہ اندرونی دباؤ ہے جو تعصب کی یہ دیواریں توڑے گا.ورنہ تعصب کی دیواریں باہر سے نہیں توڑی جاسکتیں.یہ گہرا نفسیاتی نکتہ ہے.تعصب کی دیواروں کو جب باہر سے توڑنے کی کوشش کرو گے تو تعصب بڑھے گا.پس اندر سے سوچوں کو بدلنا پڑے گا.نظریات میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.پس جماعت احمدیہ کے جتنے فکر رکھنے والے، جتنے دل رکھنے والے صاحب نظر لوگ ہیں، ان سب سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں اور دراصل ہر احمدی عام گفت وشنید کے ذریعہ بھی اپنے اردگرد چھوٹے چھوٹے حسین جزیرے قائم کر سکتا ہے.ہر انسان کے اندر ایک بنیادی مادہ ہونا چاہئے جو پھیلنے کی صلاحیت ہے اور بعض پیغامات جو اپنی ذات میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.یہ پیغام بھی ان پیغاموں میں سے ایک ہے.یہ ایک ایسا پیغام ہے جو فی الحقیقت انسانی دل کی آواز ہے.انسانی فطرت سے پھوٹا ہوا پیغام ہے.پس احمدی خواہ دانشور ہو یا غیر دانشور ہو، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہوا گروہ اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 14 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء ماحول میں ایک زندہ پیغام کی بات کرتا ہے تو اس کا پیغام اسی طرح سنا جائے گا جیسے کہا گیا ہے کہ: دیکھنا تقریر کی لذت کہ، جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے (دیوان غالب :۲۴۲) پس زندہ پیغام کی یہ نشانی ہوتی ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج دنیا غیر انسانی ہوتے ہوئے بھی انسانیت کے لئے ترس رہی ہے.اس کی گہری فطرت کی یہ آواز ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.پس جب احمدی یہ آواز بلند کرے گا تو کسی دلیل کی ضرورت نہیں.یہ آواز تو دل سے اٹھے گی اور ضرور دل میں جا بیٹھے گی اور پھر وہاں نشو ونما پائے گی اور پھوٹے گی.پھر اپنے دائیں بائیں دوسرے غیر انسانی لوگوں کو انسان بنانے کے لئے کوشاں ہو جائے گی.پس ایک تو جلسوں کے متعلق تھا یعنی انسانیت کے موضوع پر جلسے کرنے چاہئیں دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کو اس نقطہ نگاہ سے آپس میں معاہدے کرنے چاہئیں.خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں نفرتیں پائی جاتی ہیں یا بعض نفرتیں تاریخی طور پر لمبی گہری جڑیں ہمارے ماضی میں پھینکے ہوئے ہیں اور جمائے ہوئے ہیں اور حقیقت میں نفرتیں اسی وقت زیادہ خطر ناک بنتی ہے جب اس کی جڑیں زیادہ دور تک ماضی میں دراز ہو چکی ہوں.مذہبی نفرتوں کا بھی یہی حال ہے ، قومی اور سیاسی نفرتوں کا بھی یہی حال ہے.نفرت کی وہ تاریخ پیچھا نہیں چھوڑتی.بعض بد بخت کھود کر وہ نکالتے ہیں اور پھر ماضی کی نفرتوں کو حال میں اور مستقبل میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ان کا کام ہی یہی ہے.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کے درمیان سمجھوتے ہونے چاہئیں اور ایک ضابطہ حیات طے ہونا چاہئے.مثلاً پاکستان اور ہندوستان کے درمیان یہ جو ہندو مسلمان کی ایک تاریخی نفرت ہے اور بعض دفعہ یہ سکھ مسلمان نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے ،بعض دفعہ ہندو سکھ نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے ، بعض دفعہ اچھوت اور غیر ا چھوت نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ ساری وہ نفرتیں ہیں جن کی جڑیں ہندوستان کی تاریخ میں سینکڑوں سال تک گہری ہیں اور ان کے متعلق جب تک پاکستان اور ہندوستان اور بنگلہ دیش کی حکومتیں مل کر یہ فیصلہ نہ کریں کہ ہم اپنے اپنے ملک میں اس قسم کی نفرتوں کو نہیں پنپنے دیں گے اور اس ضمن میں بعض اصولی فیصلے کر کے اپنے اپنے ملک کے قوانین میں ان فیصلوں کو داخل نہ کریں نفرتوں کو مٹایا نہیں جاسکتا.اگر ایسا کریں گے تو یہ سنجیدگی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 15 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء کے ساتھ ایک ایسا قدم ہو گا جس کے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے ورنہ محض منہ کی باتیں ہیں.دوسرے انسان اور انسان کے درمیان نفرتوں کو کم کرنے کے لئے مذہبی لحاظ سے بھی ایسے ضابطہ حیات کی ضرورت ہے جو دنیا کے سب ملکوں کو قابل قبول ہو خواہ وہ قبول کریں یا نہ کریں لیکن قابل قبول ضرور ہو یعنی کوئی عقلی دلیل اس کے خلاف نہ ہو مثلاً اگر یہ ضابطہ اخلاق اسلامی جیسا کہ پاکستان میں آج کل رائج ہے اگر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان ہونے کے باقی سب سے زائد حق حاصل ہیں.ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ تمہارے مذہب کو تبدیل کریں تمہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہمارے مذہب کو تبدیل کرو.اب یہ وہ ایسا پیغام ہے جس کے عالمی ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور غیر عالمی مقامی پیغام اسلام کی طرف منسوب کرنا ظلم ہے.اس کا جھوٹا ہونا اسی سے ثابت ہے کہ یہ جغرافیائی پیغام ہے جو محدود علاقوں کے لئے ہے.کتنے ملک ایسے ہیں اور کتنے طاقتور ہیں وہ ملک جن میں اسلام مذہب کے طور پر غالب ہے دنیا کے ممالک کی بھاری اکثریت ایسی ہے جن میں یا تو اسلام کا ذکر ہی کوئی نہیں یا ہے تو بالکل معمولی حیثیت میں ہے اور ایسے پھر بہت سے ملک ہیں جہاں اسلام موجود ہے حیثیت بھی ہے لیکن اکثریت کی طاقت حاصل نہیں ہے.تو ایسا ضابطہ حیات بعض اسلامی ملکوں میں اسلام کے نام پر اختیار کر لینا جس میں فی ذاتہ زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں.جس کو کل عالم کا پیغام نہیں بنایا جاسکتا.قو میں اور قوموں کی فطرتیں اس کو قبول نہیں کریں گی.ایسے پیغام کو اسلام کے نام پر دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرنا ایک قومی مذہبی خود کشی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی.پس ایسا ضابطہ حیات طے کریں اور یہ بات طے کرنے کا شعور اور سلیقہ اسلامی ملکوں کو تب آئے گا جب غیر اسلامی ملکوں سے گفت و شنید کریں گے اور آپس میں صلح کی خاطر امن کی خاطر ایسے سمجھوتے کرنے کی کوشش کریں گے جو دونوں ملکوں میں یکساں قابل عمل ہوں.جب آپ یہ بات کرتے ہیں تو انسانی قدر مشترک کی بات از خود آجاتی ہے.پس اس پہلو سے یہ انسانیت کو فروغ دینے کی کوششوں میں سے ایک اہم کوشش ہو گی.پس ضابطہ حیات طے کریں.مثلاً جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ عدل کی حکومت ہونی چاہئے اور جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے نہ صرف فرمایا بلکہ کر کے دکھایا.اگر عالم اسلام مدینہ کا چارٹر جو Charter of Madeena کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 16 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء نام سے مشہور ہے جو آنحضرت کی ہے اور یہودیوں اور وہاں کے بسنے والے مشرکین کے درمیان اور عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ کی شکل میں لکھا گیا.اس چارٹر کو اگر ساری دنیا کے Peace چارٹر کے طور پر پیش کیا جائے.صرف ایک فرق کے ساتھ کہ محمد رسول اللہ کی کی لیڈرشپ کے الفاظ دنیا وہاں قبول نہیں کرے گی اور ویسے بھی وہ چارٹر اس حوالے سے آنحضرت ﷺ کی زندگی تک عمل رکھتا تھا لیکن اس پہلو کو چھوڑ کر وہ مدینہ کا چارٹر ساری دنیا کے لئے امن کا چارٹر بن سکتا ہے.بہت ہی گہرے عدل پر مبنی ہے اور اس چارٹر کے بعد کسی قوم کو کسی دوسری قوم سے خطرہ درپیش نہیں ہوگا.پس پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش، بر ما ان سب ملکوں میں یہ مسائل بڑے بھاری اور گہرے مسائل ہیں یعنی آپس میں مذہبی منافرتوں کے مسائل.ان کو یہ اختیار کرنا چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ان سب ملکوں کا بھلا ہوگا لیکن پتا نہیں کیوں یہ مذہبی جنون کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سیاستدان ذمہ دار ہے.سیاستدان کی خود غرضی ہے جو ساری قوم پر بلکہ ساری انسانیت پر یہ ظلم کر رہی ہے لیکن جب ملک آپس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کو تقویت دے رہے ہوں گے.پھر یہ اپنے اپنے ملک کے مذہبی جنونیوں سے کم ڈریں گے اور ایک بڑی سطح پر ایسے فیصلے کرنے کی زیادہ اہلیت رکھیں گے کہ مذہب میں اس بات کی اجازت ہوگی اس بات کی نہیں ہوگی.مثلاً چند باتیں ہیں جومختصر وقت میں بھی میں آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں.اول یہ کہ مذہبی آزادی کو ان سب ملکوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور مذہبی آزادی میں تبلیغ کرنے کے حق کو بھی تسلیم کرنا ہوگا.اگر یہ حق تسلیم کیا جاتا ہے تو ہر پاکستانی مسلمان کو یہ حق ہوگا کہ ہر ہند و کو تبلیغ کرے اور ہر ہند وکو ہندوستان میں اور پاکستان میں بھی یہ حق ہوگا کہ ایک مسلمان کو تبلیغ کرے.اس حق کے ساتھ جو بین الاقوامی حیثیت کا حق ہے کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں دی جا سکتی بلکہ برابر کا حق ہے اور دراصل تبلیغ میں یہ برابری کا حق ہو نا شامل ہے لیکن مولویوں کو اس بات کی عقل نہیں آتی کہ جب یہ تبلیغ کا حق صرف اپنے لئے محفوظ کراتے ہیں تو تبلیغ کہتے کس کو ہیں کسی کو پیغام پہنچائیں گے کہ نہیں پہنچائیں گے جب پہنچائیں گے تو کیا اس کو جواب کا حق نہیں دیں گے.اس کو کہیں گے کہ تمہارے دل میں خواہ کتنے خدشات ہوں، کتنے بھاری اعتراض ہوں، منہ سے نہیں بولنا اور اگر کہیں گے کہ بولو تو پھر وہ بھی آپ کو تبلیغ کر رہا ہے تو تبلیغ تو یک طرفہ ہو ہی نہیں سکتی.یہ فارمولا انتہائی جاہل دماغوں کی پیداوار ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 17 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء مسلمان دوسرے کو تبلیغ کر سکتا ہے غیر مسلم مسلمان کو تبلیغ نہیں کر سکتا.اختلاف رائے کو کھنگالنے کا نام ہی تو تبلیغ ہے اور عقل کو قائل کرنے اور دلوں کو قائل کرنے کے بعد کسی دوسرے مذہب میں داخل کرنے کا نام ہی کامیاب تبلیغ ہے.پس ہندو کو بھی حق ہے ، سکھ کو بھی حق ہے، ہر اقلیت کو حق ہے اور اس حق کے سوا کوئی عقل کا فیصلہ ہے ہی نہیں.اس کے متبادل کوئی اور تجویز نہیں ہے.جب یہ تسلیم کریں گے تو اس کے ساتھ ہی پھر وہ دوسرا سوال اٹھ کھڑا ہو گا کہ جب تبلیغ کریں گے تو منافرتیں پھیلیں گی.یہاں پہنچ کر جماعت احمد یہ قدم قدم پر ان کی بڑی عمدہ راہنمائی کر سکتی ہے.اختلاف رائے کا اظہار کرنا ہرگز انسانی حقوق کے منافی نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق میں داخل ہے.کسی مذہب کے عقائد کو تسلیم نہ کرنا ہر گز دل آزاری نہیں کہلا سکتا کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ میں وہی مانوں گا جو میں سمجھتا ہوں اور جو میں سمجھتا ہوں اگر میں وہ بیان کروں تو یہ کسی کی دل آزاری نہیں ہے، یہ حقیقت ہے.اب یہ سارے مولوی جو پاکستان میں یا باہر اسی مزاج کے بستے ہیں ان کو اچھی طرح علم ہے کہ کوئی عیسائی ایسا نہیں جو حضرت رسول اکرم ﷺ کوسیا سمجھتا ہو.تو جب یہ بات کرتے ہیں کہ فلاں کے دل میں چونکہ یہ بات ہے اس لئے اس نے ہتک رسول کی ہے تو اس پیمانے پر اگر جانچا جائے تو پاکستان میں سارے عیسائی واجب القتل ہو جاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہر ہندو بھی آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ من ذلک جھوٹا سمجھتا ہے اور عیسی علیہ السلام کو بھی جھوٹا سمجھتا ہے ورنہ وہ ہندور ہے ہی نا تو اگر مولوی کے پیش کردہ نسخہ کو قبول کیا جائے تو ہر ہندو پاکستان میں بھی واجب القتل ہو جائے گا اور عیسائی ملکوں میں بھی واجب القتل ہو جائے گا.یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، عقائد کے اختلاف کو جب آپ قانونی طور پر تسلیم کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مذہبی راہنما کو انسان عقیدۂ سانہ سمجھے تو یہ اس کی ہتک نہیں ہے اور کسی کے لئے دل آزاری کا اس میں کوئی سوال نہیں.اس کے لئے تبلیغ کی اجازت ہے.سمجھاؤ کہ وہ سچا ہے یہی اس کا علاج ہے اگر کسی سربراہ کے متعلق وہ ایسی بات کرتا ہے جو اپنے اظہار میں ناپسند یدہ اور مکر وہ ہے جس میں گالی سے کام لیا گیا ہے، گستاخی سے کام لیا گیا ہے، مخالفت کی گئی ہے اور مخالفت عقیدے کی نہیں بلکہ گندا چھال کر اپنے بغض کو ظاہر کیا گیا ہے تو ایسا شخص لائق تعزیر ہے.قانون اگر بنایا جا سکتا ہے تو اس حد تک بنایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر ضرورت کے اپنے کسی مخالف کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 18 خطبہ جمعہ ارجنوری ۱۹۹۳ء ایسے بزرگ کو جو اس کے نزدیک عزت رکھتا ہے، خواہ کہنے والے کے نزدیک نہ رکھتا ہوا ایسے لفظوں سے یاد کرے گا جو تہذیب سے گرے ہوئے اور بدتمیزی کے لفظ ہیں تو قطع نظر اس کے کہ اس کے دل میں کیا ہے ایسا شخص واجب التعزیر ٹھہرے گا اور یہ تعزیر مقرر کرتے وقت تمام دنیا کے مذہبوں کے سر براہوں کے لئے برابر حقوق تسلیم کرنے ہوں گے یہ پیغام دراصل قرآن کریم میں موجود ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِیہ (البقرہ: ۶ ۲۸) کہ مومن یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے تو اس سے یہی مراد ہے کہ عزتوں کے فرق ضرور ہوں گے.مراتب کے فرق ضرور ہوں گے.مگر انصاف کے ایک ہی قانون سے ان ساروں سے سلوک کیا جائے گا یا دوسرے سے لفظوں میں ان کی قوموں سے سلوک کیا جائے گا تو اسی قسم کے اور بہت سے ضوابط ہیں جو میرے ذہن میں ہیں.میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں خواہ اس خطبہ کا موضوع کچھ اور ہو شروع میں اسی مضمون کو جاری رکھوں گا تا کہ اس بات کو پوری طرح سمجھا کر ختم کیا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ انسانی اقدار کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لئے یہ ساری کوششیں انتہائی ضروری ہیں اور احمدیوں کو جب تفصیل سے علم ہو گا کہ میرے ذہن میں امن عالم کے قیام کے لئے کیا کیا تجاویز ہیں.انسانی قدروں کو بحال کرنے کے لئے کیا معین باتیں میرے ذہن میں ہیں تو انشاء اللہ پھر وہ پہلے سے بہتر طور پر مسلح ہو کر اس جہاد میں حصہ لے سکیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.(آمین) اب میں ساری دنیا کی جماعتوں کو جو اس وقت مجھے دیکھ رہی ہیں یا سن رہی ہیں اور احباب جماعت مردوں ، بچوں ، عورتوں کو سب کو میں ایک دفعہ پھر محبت بھرا سلام کہتا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں اب یہ ملاقاتیں انشاء اللہ تعالیٰ بار بار ہوتی رہیں گی اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ انشاء اللہ جلد وہ وقت بھی آجائے گا جب ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ایک ٹیلی ویژن دوسرے ملک میں نصب ہو گا ایک یہاں اور اس ملک کے باشندے ہمیں دیکھ رہے ہوں گے اور ہم ان کو دیکھ رہے ہوں گے تو یہ آمنے سامنے کی تمنائیں بھی اللہ ایک دن پوری کرے گا.خدا کرے کہ وہ دن جلد طلوع ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۲ 19 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء خلیفہ وقت کے خطبات براہ راست سننے کی برکات پاکستان اور ہندوستان کی سیاست کو مشورے " خطبه جمعه فرموده ۸ جنوری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.عَسَى اللهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ عَادَيْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً وَاللهُ قَدِيرٌ وَاللهُ غَفُورٌ رَّ حِيمُ لَا يَنْصُكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِى الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ.پھر فرمایا.(الممتحنه: ۸ تا ۹ ) تقریباً دس سال کا عرصہ گزر گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کیسٹ کے ذریعہ سے خلیفہ وقت کا پیغام تمام دنیا کے احمدیوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے.پہلے صرف آڈیو کیسٹس کے ذریعہ یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی، پھر ویڈیو کیسٹس بیچ میں شامل ہو گئیں ، لیکن بے حد محنت کے باوجود بہت ہی جانکا ہی کے ساتھ کام کرنے کے باوجود بہت ہی معمولی اور کم حصہ جماعت کا تھا جس تک یہ آواز پہنچ سکی، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ کئی ممالک میں خدمت کرنے والوں کی بعض رضا کار ٹیمیں ہیں جو بہت وقت خرچ کرتی ہیں اور ایک کیسٹ سے آگے کیسٹس بنانا، اس بات کا خیال رکھنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 20 20 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء کہ کوالٹی اچھی ہے پھر مختلف پتوں پر ان کو بھجوانا ان کے حسابات رکھنا بڑا، لمبا، محنت کا کام ہے لیکن جماعت کرتی رہی پھر بھی احباب جماعت کی بہت ہی تھوڑی تعداد ہے جن تک یہ پیغام براہِ راست خلیفہ وقت کی زبان میں پہنچتے تھے.اس کوشش کی وجہ یہ تھی کہ میرا تجربہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے جو بات کوئی دوسرا پہنچاتا ہے اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا براہ راست خلیفہ وقت سے کوئی بات سنی جائے.میرا اپنا زندگی کا لمبا عرصہ دوسرے خلفاء کے تابع ان کی ہدایات کے مطابق چلنے کی کوشش میں صرف ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کوئی پیغام پہنچائے فلاں خطبہ میں خلیفہ نے یہ بات کی تھی اور خطبہ میں خود حاضر ہو کر وہ بات سننا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پیغام خواہ کسی کے ذریعے پہنچے اطاعت تو پھر بھی کی جاتی ہے لیکن پیغام کی نوعیت بدل جاتی ہے.مشکل یہ ہے کہ پیغام پہنچانے والے میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ جس جذبے کے ساتھ جن باتوں کو ابھار کر نمایاں کر کے پیغام دینے والا پیغام پیش کر رہا ہے بعینہ اسی طرح پیغام کو آگے پہنچائے کہ اس کے جذبات، اس کے زیر و بم تمام کے تمام پیغام کے ساتھ دوسرے شخص تک منتقل ہو چکے ہوں، کوالٹی کا بیچ میں ضائع ہونا یعنی اس کے مزاج کا بیچ میں ضائع ہو جانا ایک ایسی طبعی بات ہے کہ انسان کی یادداشت تو زیادہ بھولتی ہے لیکن الیکٹرانکس کی یادداشت کے ذریعہ جو پیغام کیسٹ سے کیسٹ میں منتقل کئے جاتے ہیں تیسری چوتھی پانچویں Generation میں جا کر اس کیسٹ کا مزاج بھی بدل جاتا ہے اور وہ بات ہی نہیں رہتی جو بھی کیسٹ میں تھی اس لئے Mother کیسٹ کو ہمیشہ سنبھال کر رکھا جاتا ہے تا کہ آگے اسی سے بار بار دوسری ٹیسٹس تیار ہوں تو یہ مشکل تھی جس کی وجہ سے جماعت نے کوشش کی کہ ٹیسٹس کے ذریعہ پیغام پہنچے تو کیسٹ کے واسطے سے احباب جماعت پورا پیغام خود سنیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت محنت کے باوجود وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا.بعض جماعتوں کے متعلق میں جانتا ہوں کہ وہاں اگر دس ہزار آبادی ہے تو بمشکل دو یا چار سو ایسے احمدی ہیں جو استفادہ کر سکتے تھے یا کرتے رہے اور باقیوں کے متعلق محض رپورٹ ہی ملتی رہی کہ کیسٹس بھجوائی جا رہی ہیں اب اللہ تعالیٰ نے وہ انتظام فرما دیا ہے کہ جہاں تک خطوط سے میں نے اندازہ کیا ہے،اتنے دور دراز علاقوں میں بیٹھے لوگ نہ صرف براہ راست سن رہے ہیں بلکہ دیکھ رہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 21 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے حیرت سے انسان آج کی دنیا کی سائنس کا منہ تکتارہ جاتا ہے کہ اس نے انسان کے لئے کیسی کیسی سہولتیں مہیا کر دی ہیں.زمبابوے سے خط ملتا ہے، نائیجیریا سے خط ملتا ہے، مشرق بعید سے خط ملتے ہیں دور دراز کے علاقوں سے خطوط ملتے ہیں اور وہ سب یہ بیان کر رہے ہیں کہ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ہمارے سامنے کھڑے ہوں اور ہم اسی مجلس میں بیٹھے ہوں یہ پورے کا پورا احساس منتقل ہو جانا یہ نہ کیسٹ کے ذریعہ ممکن ہے، نہ وڈیو کے ذریعہ ممکن ہے ویڈیو میں بھی اگر چہ تصویر دکھائی دیتی ہے مگر کوئی زندہ تاثرات نہیں پہنچتے ، ویڈیو ایک قسم کی تصویر ہے لیکن براہِ راست ٹیلی ویژن کے ذریعہ پیغام اور تصویر جب پہنچتے ہیں تو اس کے ساتھ زندگی بھی پہنچ رہی ہوتی ہے.انسان اپنے آپ کو اس مجلس کا حصہ محسوس کرتا ہے اسی طرح اس کا دل دھڑکتا ہے یہ کیفیات سب دنیا سے مل رہی ہیں اور ایک اور خوشکن بات یہ کہ بہت سے غیر مسلم بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب ہمارے خطبات میں شامل ہونے لگ گئے ہیں اور دوسری تقاریب میں بھی براہ راست ٹیلی ویژن سے استفادہ کر رہے ہیں.ابھی دو دن پہلے نائیجیریا کے ایک بہت تعلیم یافتہ صاحب حیثیت عیسائی دوست تشریف لائے تھے اور مجھے انہوں نے بتایا کہ میں نے آپ کا فلاں خطبہ بھی سنا تھا جو قادیان کے جلسہ سے پہلے کا تھا اور جلسے کے پہلے دن کی تقریب میں بھی شامل ہوا، آخری تقریب میں بھی شامل ہوا اور میرے دل پر اتنا اثر پڑا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کیا کیفیت ہے ، وہ دعا کی غرض سے اور یہ بتانے کے لئے حاضر ہوئے تھے کہ میں مستقل تعلق رکھنا چاہتا ہوں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح بات اور بھی پھیلتی چلی جارہی ہے، ایک سے سن کر دوسرا دیکھنے کا خواہش مند ہو جاتا ہے اور پھر اس سے تیسرا، اللہ کے فضل سے اب یہ غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا ایک بہت ہی عمدہ ذریعہ ثابت ہوگا.پھر ربوہ میں اور ربوہ سے باہر پاکستان کی دوسری جماعتوں میں تربیت کے لحاظ سے مجھے بڑی سخت فکر رہتی تھی کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کسی کی معرفت پیغام پہنچنا اور بات ہے اور پھر درمیان میں ایک مشکل یہ آپڑتی ہے کہ جو لوگ رفتہ رفتہ کمزور ہور ہے ہوں ، ڈھیلے پڑ رہے ہوں ان تک پیغام ویسے ہی نہیں پہنچتا یعنی وہ مسجد میں حاضر ہوں تو ان تک بات پہنچے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر عہد یدار ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ہر کمزور جو گھر میں بیٹھ رہنے والا ہے اس تک آواز پہنچائے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 22 22 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء اب یہ معلوم ہو رہا ہے اور یہ صرف پاکستان کا ہی حال نہیں بلکہ باقی جماعتوں سے بھی یہی اطلاع مل رہی ہے کہ وہ احمدی جو بہت ست تھے جو کبھی جمعوں میں ہی نہیں آتے تھے جو کبھی دوسری مجالس میں شریک نہیں ہوتے تھے ان کے لئے بھی یہ بالواسطہ سنے کا مگر اس طرح سننے کا جو یہ ایک نیا طریق ہے کہ گویا براہ راست ہی سن رہے ہیں اتنا جاذب نظر ہے، اتنا دلکشی والا ہے کہ محض شوق کی خاطر لوگ آجاتے ہیں اور جو معین اندازہ ملا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ بعض جگہ جمعہ میں اگر دس ہزار شامل تھے یعنی زیادہ سے زیادہ اتنے شامل ہونے والے تھے تو اتنے سست پیچھے پڑے ہوئے بھی تھے کہ جب انہوں نے ایک پروگرام کی گنتی کروائی ہے تو اس پروگرام میں ۲۳ ہزار تھے.پس خوشی کی بات یہ ہے کہ جو اس میں شامل ہوتے ہیں وہ پھر جمعہ میں بھی آنے لگ جاتے ہیں اور ان کی توجہ نمازوں کی طرف بڑھ جاتی ہے.چنانچہ کثرت سے ایسے خطوط مل رہے ہیں کہ ہم ویسے ٹھیک ٹھاک تھے مگر نمازوں میں سستی تھی ، بعضوں نے لکھا ہے کہ ہم نماز پڑھتے تو تھے لیکن جمع کر کے اور اب آپ سے جب ان موضوعات پر براہ راست باتیں سنی ہیں تو خدا کے فضل سے ہم نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کر لیا ہے (یعنی سارے گھر کی طرف سے یہ پیغام تھا کہ میں، میری بیوی، میرے بچے ہم سب مل کر یہ فیصلہ کر چکے ہیں ) کہ اب آئندہ با قاعدہ اہتمام سے نماز کو پڑھا جائے گا وقت پر پڑھا جائے گا بلکہ گھر میں بھی باجماعت نماز پڑھی جائے گی.تو یہ سارے فوائد ہیں جن کی طرف پہلے جب پروگرام شروع ہوا ہے تو اتنی نظر نہیں تھی میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ یہ اللہ کی غیر معمولی تقدیر ہے جو جماعت کو ترقیات کے ایک نئے عظیم الشان دور میں داخل کر رہی ہے.ایک صاحب نے یہ لکھا کہ جب ہم یہ سن رہے تھے تو مجھے آپ کا وہ شعر یاد آیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے کہ یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا، پھیلتی جائے گی شش جہت میں صدا تیری آواز اے دشمن بد نوا ! دو قدم دور دوتین پل جائے گی (کلام طاہر ۱۴) اس نے لکھا کہ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ ساری دنیا میں یہ آواز پھیل رہی ہے اس پر مجھے یہ خیال آیا کہ جو بظاہر اتفاقی باتیں ہوتی ہیں ان میں جب خدا تعالیٰ اپنی تقدیر ڈالتا ہے تو الفاظ درست ہو جایا کرتے ہیں عام طور پر چہار دانگ عالم میں یا ساری دنیا میں چاروں طرف کے محاورےاستعمال
خطبات طاہر جلد ۱۲ 23 23 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء کئے جاتے ہیں آواز کے شش جہت میں پھیلنے کا محاورہ میرے علم میں نہیں آیا کہ پہلے بھی استعمال ہوا ہو لیکن اس وقت بغیر سوچے یعنی بغیر کوشش کے کہ میں کیا کہ رہا ہوں یا کہنا چاہتا ہوں،شش جہت کا لفظ مجھے اچھا لگا اور وہی محاورہ منہ سے نکلا اور اب ٹیلی ویژن کے ذریعے شش جہات ہیں جو استعمال ہو رہی ہے کیونکہ چاروں طرف کا سوال نہیں ہے آواز اور تصویر پہلے اوپر آسمان کی طرف جاتی ہے پھر آسمان سے زمین کی طرف مڑتی ہے پھر چاروں طرف پھیلتی ہے تو خدا تعالیٰ نے شش جہات کے لفظ بھی پورے فرما دئیے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بعض دفعہ تصرفات کے تابع بعض کلمات انسان کے منہ سے نکلتے ہیں اور خود کہنے والے کو ان کی کنہ کا علم ہی نہیں ہوتا کہ میں کیوں کہ رہا ہوں اور بعد میں یہ بات کیا بن کر نکلے گی ، تو یہ اللہ کے احسانات ہیں.میں تمام دنیا کی جماعتوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جن کمزوروں کے دل میں ایک اچنبھے کی خاطر ہی سہی، تعجب کی وجہ سے ہی سہی ، ایک شوق تو پیدا ہوا ہے کہ مجھے ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے دیکھیں اور سنیں اگر وہ ایک دو دفعہ سن کر واپس چلے جائیں تو ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو آئے وہ مستقل آجائے جو ہمارا ہو ہمارا ہو کر رہ جائے ، آکر چلے جانے والوں سے ہمیں کوئی مقصد، کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.دل میں بڑی تمنا یہ ہے کہ ساری جماعت ایک مرکز کے گرد اس طرح اکٹھی ہو جائے جس طرح شہد کی مکھیاں شہد کی ملکہ کے گرد اکٹھی ہوتی ہیں اور اپنی الگ زندگی کا تصور ہی نہیں کر سکتیں اور الگ زندگی میں وہ Survive نہیں کرسکتیں یعنی ان کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں.اکیلی اکیلی مکھی لازماً مر جایا کرتی ہے.تو یہی روحانی جماعتوں کا حال ہوتا ہے تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے مرکزیت پر اتنا زور دیا ہے کہ دنیا کے کسی مذہب میں اتنا زور نہیں دیا گیا.پس جو بکھرے بکھرے احمدی ہیں، جو کناروں پر چلے گئے ، جن کا مرکز سے تعلق کمزور ہو گیا ، اب بہت اچھا موقع ہے کہ جب وہ ایک دفعہ آجائیں تو ان کو اپنا لیا جائے ، ان سے محبت اور پیار کا سلوک کیا جائے، آئندہ اگر وہ نہ آئیں تو ان کو بلانے کے لئے آدمی بھیجے جائیں اور اسی طرح اور کمزوروں کی تلاش کی جائے کہ جہاں جہاں کوئی کمزور ہے وہاں اس تک پہنچ کر اسے یہ تحریک کی جائے کہ ایک دفعہ آجاؤ دیکھ تو لو اور پھر میں امید رکھتا ہوں کہ جو رفتہ رفتہ آجائے وہ پھر خدا کے فضل سے آہی جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 24 لله خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء جہاں تک غیر احمدی مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے متعلق بھی ہر جگہ سے یہی خبریں مل رہی ہیں کہ جو ایک دفعہ آجائے پھر وہ نہیں چھوڑتا اور بار بار آتا ہے اور بعض لوگ تو جماعت احمدیہ کی آنحضرت ﷺ کی محبت سے اتنا غیر معمولی طور پر متاثر ہوتے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی خطبہ میں کسی نہ کسی تعلق میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کا ذکر چل پڑتا ہے تو سچی آنکھیں سچائی کو پہچان لیتی ہیں سوائے اس کے کہ کوئی جھوٹ سے اپنی آنکھوں کو مسخ کر دے، یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ایک سچی آنکھ سچائی کو نہ پہچان سکے.اللہ تعالیٰ نے اکثر انسانوں کو دراصل بچی آنکھیں ہی دی ہیں وہ خود اپنی آنکھوں کو مسخ کرتے ہیں اور جان بوجھ کر جھوٹ دیکھتے ہیں مگر ساتھ ساتھ سچائی کی آواز بھی پہنچتی ہی چلی جاتی ہے.پس جن جن آنکھوں نے احمدیوں کو دیکھا ہے اور قریب سے دیکھا ہے اگر وہ اللہ کے فضل کے ساتھ مسخ شدہ آنکھیں نہ ہوں تو وہ یہ پیغام اپنے دماغ کو پہنچاتی ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں کی جماعت ہے اور یہی پیغام ہر طرف سے آرہے ہیں بعض غیر احمدیوں کی اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں بھی مل رہی ہیں.تو اس سلسلہ کو اللہ کے فضل کے ساتھ آپ اور زیادہ عام کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور ہو گا تو سہی کیونکہ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کی تقدیر ہے جس نے جماعت کو اس نئے دور میں داخل کیا ہے اور یہ سلسلہ اب پھیلنا ہی پھیلنا ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی، ہوا کے رخ پر چل کر اس کی مدد کریں تو مفت کا ثواب حاصل ہوگا.اب میں اس مضمون کی طرف واپس آتا ہوں جسے مکمل کئے بغیر میں نے مجبور ا چھوڑ دیا تھا کہ وقت ختم ہو گیا تھا جب جماعت احمد یہ سب دنیا کے غم کی باتیں کرتی ہے.سب دنیا کے فکر، دل سے لگا کر ان کی اصلاح کی کوشش کرتی ہے تو بہت سے لوگ تعجب کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت کیا ہے، طاقت کیا ہے، یہ کیسے دنیا کے حالات بدل سکتے ہیں اور بہت سے احمدی دانشور بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہاں سمندر میں ایک قطرہ زائد ڈالنے والی بات ہے ورنہ تو کوئی حیثیت نہیں ہے اور بعض یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہمیں وہ کام سہیڑنے کی ضرورت کیا ہے جس کام کی ہم میں طاقت نہیں ہے تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہماری فطرت میں اگر یہ بات ہو کہ کسی کا غم محسوس کریں اور کسی کا دکھ دور کرنے کی کوشش کریں تو ہم تو مجبور ہیں اس میں عقل کا قصہ نہیں دل کی مجبوریوں کی بات ہے.ایک شخص جو ہمدرد ہو وہ کسی جگہ کسی کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو طبعا اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور بے اختیار
خطبات طاہر جلد ۱۲ 25 25 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء الله قدم اس طرف اٹھتے ہیں تاکہ اس کی تکلیف کو دور کیا جائے ہمیں تو اس سے بہت زیادہ بڑھ کر بنی نوع انسان سے محبت ہے اس لئے کہ ہم حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں ہم ان لوگوں کے غلام نہیں جن کو دنیا کی جو فکر ہے وہ لطیفے کے طور پر دکھائی دیتی ہے.اردو میں ایک محاورہ ہے چھیڑنے کی خاطر کہتے ہیں کہ قاضی جی تم دبلے کیوں ہو گئے ہو جواب دینے والا جواب دیتا ہے شہر کے اندیشے میں اور سارے ہنستے ہیں کیونکہ لطیفے کا پیغام یہ ہے کہ تمہیں اس سے کیا دنیا مرتی ہے تو مرتی پھرے تم کیوں پاگل ہوئے ہوئے ہو یعنی ایسا قاضی جو شہر کے اندیشے میں دبلا ہو جائے اس کے ساتھ رونے کی بجائے اس پر ہنسا جاتا ہے لیکن ہم کسی ایسے قاضی کے غلام نہیں ہیں ہم تو اس آقا محمد مصطفی ملنے کے غلام ہیں جس نے کل عالم کے اندیشے دل کو لگا رکھے تھے جن کے متعلق خدا آسمان سے بار بار گواہی دیتا تھا کہ اس دنیا کے غم میں تو اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا.پس اگر حضرت اقدس محمد رسول اللہ سے کسی کو سچا پیار ہے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ دنیا کے اندیشے دل کو نہ لگا بیٹھے یہ اس کے لئے فطرت کا ایک طبعی تقاضا ہے، اس کے سوا کوئی طریق کار ہی میسر نہیں ہے.پس اگر احمدی حضرت صلى الله اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں سچا ہے تو اسے لازما یہ اندیشے دل کو لگانے ہوں گے بلکہ اس کے بغیر اس کا محمد رسول اللہ اللہ سے تعلق ہی سچا ثابت نہیں ہو سکتا.پس یہ مجبوریاں ہیں ہم نے تو یہ کام کرنا ہی کرنا ہے ہمیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کام سے روک نہیں سکتی لیکن سوال یہ ہے کہ جو کام اپنی طاقت سے بڑھ کر ہو اس میں طریق کار کیا ہونا چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ کوئی کام بھی کسی انسان کی طاقت سے بڑھ کر نہیں ہے اگر عقل اور فہم کے ساتھ اس کام کی اونچ نیچ کو سمجھا جائے اس کے سارے مسائل پر نظر رکھ کر صحیح تجزیہ کیا جائے تو خدا تعالیٰ نے ہر انسان میں یہ طاقت عطا فرمائی ہے کہ وہ پھیلا کر اپنی خوبیوں کو تمام دنیا تک عام کر دے یہ نکتہ مجھے نبوت سے سمجھ آیا، ایک نبی کو خدا کھڑا کرتا ہے، ساری قوم کے حالات اس نے بدلنے ہوتے ہیں، ایسی قوم کے حالات اس نے بدلنے ہوتے ہیں جو نیکی کو قبول کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں ہو رہی ہوتی ، جو ہر پھول کے بدلے پتھر مارنے پر تیار ہو.اب اگر دنیا کی اس منطق کو اس پر لگا کر دیکھیں جس کی میں بات کر رہا ہوں کہ تم تھوڑے سے کمزور سے لوگ ہو، تمہیں دنیا کے غم سہیڑ نے کی مصیبت کیا پڑی ہے اور سہیرہ بھی لوتو کر کیا سکتے ہو -
خطبات طاہر جلد ۱۲ 26 26 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء اس کا جواب میں دے رہا ہوں کہ ہم نے جب نبوت کے مضمون پر غور کیا تو ہمیں سمجھ آئی کہ خدا تعالیٰ نے انسانوں میں تقدیریں بدلنے کی صلاحیتیں رکھی ہیں.صرف منہاج نبوت پر چلنا ضروری ہے ایک نبی کو خدا کھڑا کرتا ہے اور ساری قوم کے حالات بدل دیتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو تمام دنیا کے حالات بدلنے کے لئے کھڑا کر دیا تو حقیقت یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی معقولیت نہ ہو، کوئی گہر اسچا فلسفہ نہ ہو تو خدا تعالیٰ ایسی بات کر ہی نہیں سکتا.پس جماعت احمدیہ کیونکہ حقیقی طور پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی غلام ہے اور عاشق ہے اور آپ ہی کی خاطر قائم کی گئی ہے آپ ہی کے پیغام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے اس جماعت کو دنیا میں کھڑا کیا گیا ہے اس لئے اس کی بنیادی صفت یہ ہونی چاہئے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بنیادی صفت تھی یعنی رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: ۱۰۸) تمام جہانوں کے لئے رحمت بننا ہوگا.تبھی میں نے پچھلے خطبہ میں اپنے آپ کو انسانیت کے لئے وقف کرنے کی تعلیم دی تھی ، یہ کہا تھا کہ اس سال کو انسانیت کا سال بنا ئیں.جتنی طاقت ہے اس طاقت کے مطابق آپ دنیا کو صحیح پیغام پہنچائیں لیکن طاقت کے صحیح استعمال کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر صحیح استعمال ہو تو انسان کمزور ہونے کے باوجود بھی بڑے بڑے کام کر سکتا ہے.ایک دریا کا رخ بدلنا ہوتو اگر وہاں سے رخ بدلے جائیں جہاں سے دریا نکلتے ہیں تو بہت آسانی کے ساتھ وہ کام ہو جاتا ہے لیکن چونکہ اور بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے دریا بعد میں شامل ہوتے رہتے ہیں اس لئے یہ کام پھیلا ہوا اور مشکل بھی دکھائی دے سکتا ہے لیکن جب سمتیں مقرر کی جائیں تو آغاز میں جوز او یہ ہے اس کا بدلنا تو مشکل نہیں ہوا کرتا اور زاویے کے بدلنے سے دور دور کے کنارے پر زمین آسمان کا فرق پڑتا دکھائی دیتا ہے پس عقل سے کام لیا جائے اور آغاز میں کوشش کی جائے ، ان جگہوں پر ہاتھ ڈالا جائے جو منبع کی حیثیت رکھتی ہوں، جو بنیادی زاویوں کی حیثیت رکھتی ہوں تو وہ کام جو بظاہر آپ کی طاقت سے باہر ہو وہ آپ کی طاقت کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے.ابھی میں نے تحریک کی تھی کہ مختلف جہت سے انسانوں کے لیڈروں اور رہنماؤں تک پہنچیں.جب سر تک پہنچیں گے، جب دماغ تک پہنچیں گے تو جسم کے ہر عضو تک پہنچنا ضروری نہیں رہتا پھر وہ دماغ جو آپ کی باتیں سن کر آپ کا قائل ہوتا ہے وہ ازخود اپنے جسم کو آپ کے تابع کر دے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 27 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء گا.پس یہ وہ وقت ہے کہ لیڈروں تک پہنچنا ضروری ہے افریقہ میں جو عظیم الشان انقلابی تبدیلی واقعہ ہوئی ہے کہ جہاں دو دو، تین تین ہزار احمدی ہوتے تھے وہاں اب پچاس پچاس ہزار سالانہ احمدی ہونے لگے ہیں وہاں یہی ترکیب استعمال کی گئی اور یہی میں نے وہاں کے امراء کو سمجھایا کہ تم یہ کر کے دیکھو انفرادی طور پر تم کب تک افریقہ کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہو گے.ایک ایک کے پاس پہنچو گے تو جتنے تم تبدیل کرو گے اس سے زیادہ تمہارے مخالف بچے پیدا ہورہے ہوں گے.ایسے لوگوں تک پہنچو جن تک پہنچنے کے ساتھ تم ہزاروں تک پہنچتے ہو اور دنیا میں بعض ایسے بھی ہیں جن تک پہنچنے سے انسان لاکھوں تک پہنچ سکتا ہے تو ان تک پہنچو اور قوم کے سر براہوں کو پکڑو، ان کو قائل کرو جو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں وہ خود بخود چلے آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جن جن ممالک میں اس نصیحت پر عمل کیا گیا وہاں حیرت انگیز تبدیلیاں ہوئیں.بعض جگہ نہیں کیا گیا اور اپنا وقت ضائع کیا گیا پھر پیچھے پڑ کر باہر سے مرکز سے آدمی بھجوا کر زبردستی ان سے یہ طریق جاری کروایا گیا اور دیکھتے دیکھتے اب ان کی رپورٹوں کی کیفیت ہی بدل گئی ہے کا یا پلٹ گئی ہے ابھی کل ہی ایک ملک سے رپورٹ آئی ہے جو پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم آپ کی ساری باتیں مان رہے ہیں ،سب ہدایتوں پر عمل کر رہے ہیں لیکن نتیجہ نہیں نکل رہا، اب رپورٹ آئی ہے تو خوشیوں سے یہ لگتا ہے کہ قلم سے سیاہی اچھل اچھل کر نکلی ہوگی ،کود کود کر باہر آرہی ہوگی.کہتے ہیں عجیب واقعہ ہوا ہے فلاں جگہ جب ہم نے مہم چلائی تو اتنے ہزار احمدی ہو گئے جہاں پہلے سال میں ایک ایک، دودو، چار چار بھی نہیں ہوا کرتے تھے ان علاقوں میں اب دس دس ہزار احمدی ہونے لگ گئے ہیں.تو یہ ایک آزمودہ نسخہ ہے ساری جماعت کو اس کو استعمال کرنا چاہئے.جو شریر لوگ ہیں ان کے بھی بعض سر براہ ہوتے ہیں اگر ان کی اصلاح کرنی ہے تو اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ سربراہوں کو پکڑو اور دنیا کے سیاستدان ہمارے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اس وقت ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور اگر وہ سمجھ جائیں تو ساری دنیا سے فساد اٹھ سکتے ہیں یا کم سے کم سمٹ ضرور سکتے ہیں اس سلسلہ میں چند باتیں میں خصوصیت کے ساتھ تیسری دنیا کے سیاستدانوں کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں میری بات براہ راست تو ان تک نہیں پہنچے گی لیکن جماعت احمدیہ میں جہاں جہاں بات پہنچانے کی استطاعت ہے وہاں ان لوگوں کو سمجھائیں اور عقل دیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 28 28 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے.سیاست میں گرتی ہوئی اخلاقی حالت دنیا کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے اور تیسری دنیا کا سیاستدان تو اخلاقی لحاظ سے تقریباً دیوالیہ ہو چکا ہے.ان کے ہاں تین ہی مقاصد ہیں اس کے سوا معلوم ہوتا ہے سیاست میں حصہ لینے کا اور کوئی مقصد ان کو دکھائی ہی نہیں دیتا ، اول طاقت حاصل کرنا، دوسرا طاقت سے چمٹے رہنا، طاقت ایک دفعہ حاصل ہو جائے تو جو کچھ ہو جائے اس کو چھوڑنا نہیں، تیسرا یہ کہ طاقت حاصل کر کے تمام قومی اور ملی مفادات کو ذاتی خاندانی اور جتھے کے مفادات میں تبدیل کرنا.یہ تین باتیں ہیں جو اس وقت تیسری دنیا کی سیاست کا خلاصہ بن گئی ہیں اور اس کے نتیجہ میں ساری قوم اتنا مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہے اور اس طرح ظلم کی چکی میں پیسی جاتی ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ہو کیا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہی تین باتیں ہیں جو ہر برائی کی ذمہ دار بن چکی ہیں.سیاستدانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تم عقل اور شعور سے کام لو قوم کے دور کے مفادات کی بات سوچو ورنہ تم لوگ سارے پیسے جاؤ گے تمہاری داستانیں مٹ جائیں گی.یہ وہ دور ہے جبکہ تیسری دنیا کے سیاستدان کو باشعور ہو کر عالمی مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کے حوالے سے اپنی سیاست کو درست خطوط پر چلانا ہوگا.اب میں ہندوستان اور پاکستان کے سیاستدانوں کی مثال دیتا ہوں یہ دونوں سیاستدان ایک لمبے عرصہ سے عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور جو باتیں نفرتیں پیدا کرتی اور ہیجان پیدا کرتی ہیں ان کو استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ دن بدن عوامی مزاج مشتعل ہوتا چلا جارہا ہے اور ہیجان پکڑتا چلا جارہا ہے اور سیاستدان سوچتا ہی نہیں کہ اس کے نتیجے میں کیا نقصانات ہوں گے ایک وقت آتا ہے کہ پھر یہ دونوں ملک جنگوں میں مبتلا ہوتے ہیں جیسا کہ کئی دفعہ ہوئے اور ہر جنگ کا نقصان غریب کو پہنچتا ہے اور ایک مستقل نقصان ہے جو غریب کے سر پر سوار ہے، اس کی چھاتی پر مونگ دل رہا ہے لیکن اس کے منہ میں مونگ کا دانہ نہیں پڑتا اور وہ یہ ہے کہ انتہائی غریب ہونے کے با وجود یعنی امیر ملکوں کے مقابل پر دیکھیں تو پاکستان اور ہندوستان انتہائی غریب ہیں اس کے باوجود ان کے ڈیفنس پر یعنی دفاع پر اخراجات امیر ملکوں سے دسیوں گنا زیادہ ہیں ساری قومی دولت کا ساٹھ ساٹھ فیصد دفاع پر خرچ ہو رہا ہے اور جتنا ہندوستان میں ہو رہا ہے ویسا ہی پاکستان میں ہو رہا ہے ایک دوسرے سے اس بات پر مقابلے ہوتے ہیں کہ دفاعی ضروریات سب سے اہم ہیں اور اس نعرے کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 29 29 خطبه جمعه ۸/جنوری ۱۹۹۳ء اوٹ میں غریبوں کا پیٹ کاٹ کر ساری قوم کی دولت کو ایک ہی سمت میں بہایا جاتا ہے اور مزید تقاضے ہوتے چلے جاتے ہیں اور جب بھی یہ سوال اسمبلیوں میں اٹھایا جاتا ہے تو آگے سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ کیا تم قوم کے وفادار نہیں ہو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ خطرات ہیں اور قوم کی بقا ہر دوسری چیز پر فائق ہے یہ بات تو درست ہے لیکن یہ نعرہ کھو کھلا ہے.قوم کی بقا انسانوں کی بہبود کے لئے کی جاتی ہے اگر قوم کی بقا انسانی بہبود کے خون چوس جائے تو اس بقا کا کیا مقصد ہے اور خطرات کے متعلق یہ دیکھا نہیں جاتا کہ آ کہاں سے رہے ہیں.خطرات دونوں ملکوں میں اندرونی ہیں.یہ نیتوں کے فسادات ہیں خود غرضیوں کے فسادات ہیں یا کم عقلیوں کے فسادات ہیں.دونوں ملکوں کے غریب عوام کو بعض جذباتی نعروں میں مبتلا کر کے ان کو اتنا زیادہ مشتعل کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کی سوچوں کو ایسا ماؤف کر دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ اپنے وہی رہنما چنتے ہیں جو ان باتوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جارہے ہیں عقل دینے والے رہنما قوم کو پسند ہی نہیں رہتے گویا کہ سیاستدان صرف اپنی معقول سیاست کی قبر ہی نہیں کھودتا بلکہ ہمیشہ کے لئے قوم کے مفادات کو دفنا دینے کے لئے ایک قبر کھود رہا ہوتا ہے.جب میں ہندوستان گیا تھا تو وہاں بعض دانشوروں سے میری گفتگو ہوئی تو مثلاً کشمیر کے مسئلے پر میں نے ان سے کہا کہ آپ عقل سے کام لیں اور اس مسئلہ کو اس طریق پر سلجھا ئیں تفصیلی باتیں ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ تو یوں ہے کہ پاکستان یوں کر رہا ہے اور فلاں یوں کر رہا ہے میں نے کہا کہ دیکھیں آپ یہ فرضی اور مصنوعی باتیں چھوڑ دیں واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ملک کا غریب کشمیر کی چکی میں پیسا جارہا ہے اگر کشمیر کا مسئلہ اتنی دیر تک نہ چلایا جاتا تو ہندوستان کے دفاع پر آپ کو دسواں حصہ بھی خرچ نہ کرنا پڑتا.یہی حال پاکستان کا ہے کیا یہ حقیقت ہے کہ نہیں اگر ہے تو عقل سے کام لیں غور کریں کہ اتنی خوفناک خون چوسنے والی جو جونک آپ کے ساتھ لگ گئی ہے اس کو اتارنا کس طرح ہے.اب تو یوں لگتا ہے کہ جونک پالنے کے لئے سارا خون بنایا جارہا ہے جب تفصیل سے باتیں آگے بڑھیں تو پھر وہ بات سمجھ گئے اور میں اس بات سے بڑا خوش ہوں کہ ہندوستانی سیاست دانوں نے جب بات سمجھی ہے تو اس کے مطابق پھر اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش بھی کی ہے.چنانچہ وہ بات سمجھ کر انہوں نے کہا کہ میں اب بات سمجھ تو گیا ہوں کہ ضرورت اسی بات کی ہے اور جو اصول آپ نے بیان کئے ہیں ان سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 30 خطبه جمعه ۸/جنوری ۱۹۹۳ء بھی مجھے اتفاق ہے کہ انہی اصولوں پر معاملے طے ہونے چاہئیں مگر کریں کیا ہمارے عوام اس کوسن ہی نہیں سکتے ،عوام میں ان باتوں کی برداشت کی طاقت نہیں ہے.میں نے کہا ہے یہ کیوں ہوا ہے اس لئے کہ ہیں ، میں، چالیس سال سے آپ لوگ یعنی قوم کے رہنما عوام کا مزاج بگاڑ رہے ہیں اس کی بیماریوں کی پرورش کر رہے ہیں اس کے مزاج کی اچھی صحت مند حالتوں کو اجاگر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی.نبضوں پر ہاتھ رکھنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک حکیم ہے جو نبض پر ہاتھ رکھتا ہے وہ اس لئے کہ نبض کا مزاج سمجھے اور بیمار مزاج کی اصلاح کی کوشش کرے اور ایک سیاستدان ہے جو قوم کی نبض پر انگلیاں رکھ دیتا ہے اس نیت سے کہ مزاج کو سمجھے اور بگڑے ہوئے مزاج کو اور ابھارے بالکل برعکس مقاصد کے لئے نبض دیکھی جاتی ہے اس وقت ہمارے غریب ملکوں میں یہی حال ہے کہ ہر سیاستدان سب سے بڑا قابل اور عیار اور شاطر سیاستدان وہ ہو گا جو قوم کی نبض بیمار سمجھ کر اس بیماری کو ابھارے اس کے ساتھ کھیلے اور اس کے نتیجہ میں اس بیماری کا پھل بن جائے ، اس بیماری سے طاقت حاصل کر کے وہ قوم کا رہنما بنے.سیاست کے اس مزاج کی جب تک اصلاح نہیں کی جاتی ان کو سمجھایا نہیں جاتا کہ دیکھو ! ہم لوگ مارے جا رہے ہیں ، مظالم میں پیسے جا رہے ہیں.ہمارے ہاں غربتیں بڑھ رہی ہیں ،سفا کی بڑھ رہی ہے ظلم بڑھ رہے ہیں.ملک اقتصادی لحاظ سے جتنا جتنا نیچے گرے گا جرائم اتنا ہی زیادہ اوپر کی طرف بڑھیں گے کیونکہ یہ ایک طبعی قانون ہے جس کو آپ بدل نہیں سکتے اقتصادی گراوٹ کے نتیجہ میں لازما جرائم بڑھتے ہیں اقتصادی ترقی سے بھی بڑھتے ہیں مگر اور قسم کے لیکن جب قوم اقتصادی ترقی کا کچھ مزا دیکھ لے اور کچھ مزاج گندے ہو چکے ہوں تو پھر اقتصادی گراوٹ بہت تیزی کے ساتھ جرائم کی پرورش کرتی ہے.پس آپ کا تو آوے کا آوا بگڑ چکا ہے یا اگر آج نہیں بگڑا تو بگڑ جائے گا، آثار بہت خطرناک ہیں ، یہ ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے.پھر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سیاست میں کچھ اصول بنائیے معاملات حل کرنے سے پہلے آپس میں یہ تو فیصلہ کریں کہ ہم دنیا میں عدل کو قائم کریں گے اور جو بھی معاملات طے ہوں گے عدل کے اصول پر ہوں گے کیونکہ عدل کا اصول کسی بارڈر کے پاس جا کر رک نہیں جایا کرتا ، عدل ایک بین الاقوامی تصور ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 31 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء ہندوستان پر بھی اسی طرح اس کی راج دھانی ہوگی جیسے پاکستان پر ہوگی لیکن عدل کی اطاعت تو قبول کریں اگر نہیں کریں گے تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا.تلوار کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، تلوار کے ذریعہ اور زیادہ مسائل پیدا ہوں گے، خون بہیں گے غریبوں کے خون چوسے جائیں گے، دن بدن آپ کی اخلاقی حالتیں گرتی چلی جائیں گی ، اس لئے ایک ہی طریق ہے جس کو آپ کو لا ز ما اپنا نا پڑے گا یعنی عدل کا وہ تصور قبول کریں جو قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے، وہ نہ مذہب کو جانتا ہے، نہ رنگ نسل کو جانتا ہے، نہ کسی جغرافیائی حدود کا آشنا ہے.وہ انسانیت کا آشنا ہے، انسانیت کا دوست ہے پس یہ قطعی فیصلہ کرنے کے بعد جو بہت مشکل اور کڑوا فیصلہ ہے پھر بعض نتائج نکالنے ہوں گے پھر قوم کی تربیت کرنی ہوگی دونوں طرف ایک بڑی وسیع مہم چلانی ہوگی کہ قوم کے مزاج میں عدل داخل کیا جائے ان کی نفسیاتی کمزوریوں کو پکڑ کر ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے.اس ضمن میں ایک بہت ہی اہم بات مذہب سے تعلق رکھنے والی ہے ان دونوں ملکوں میں مذہب کا استعمال اتنا بھیانک ہے اور اتنا نفی ہے کہ اگر سیاسی اصلاح ہو بھی جائے تو مذہب اس قوم کا پیچھا نہیں چھوڑے گا.مذہب میں آج تک شاید کسی قوم میں ایسی Tragedy، اتنا بڑا المیہ نہ ہوا ہو گا جتنا اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں کھیلا جا رہا ہے یعنی دونوں طرف ایسے مذہبی دیوانے ہیں جو مذہبی تعلیم کے دشمن ہیں اور مذہبی نظریات کے عاشق ہیں.اتنا بڑا تضاد ہے کہ اس تضاد کے ساتھ سچائی کہیں پنپ ہی نہیں سکتی.ہندو بھی ہندو نظریے کے عاشق ہیں لیکن ہندو اخلاقی تعلیم سے کلیاً نا آشنا ہیں اور ادھر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اخلاقی گراوٹ روز مرہ زیادہ سنگین ہوتی چلی جارہی ہے، لیکن نظریات کی حفاظت کی خاطر سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور نظریات جو اخلاق پیدا کرنا چاہتے ہیں اس طرف کوئی توجہ نہیں ، اس لئے صرف سیاست کی اصلاح کی بات نہیں ہے.سیاست کو مذہبی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی اور پہلی توجہ تو یہ کریں کہ مذہب میں دخل اندازی چھوڑ دیں.سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیاست خود مذہب کو گندا کرنے میں مدد گار ثابت ہو جاتی ہے.وہی نبض والا حال ہے، مذہبی لوگوں کی نبض پر سیاستدان ہاتھ رکھتا ہے اور ان میں جو شریف النفس لوگ ہیں ان کو نا کارہ کر کے ایک طرف پھینکتا چلا جاتا ہے، وہ جو حق گو ہیں جو ہر حال میں کلمہ حق بیان کرنے کی.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 32 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء طاقت رکھتے ہیں وہ سیاستدان کے کسی کام کے نہیں رہتے ، وہ سارے گندے انڈوں کی طرح ایک طرف پھینک دئے جاتے ہیں اور پھر سیاست کی نظر میں وہ صالح انڈے باہر نکالے جاتے ہیں جن میں سے ہر انڈا گندا اور بد بودار ہے جو زہر سے بھرا ہوا ہے اور ان مذہبی رہنماؤں سے آشنائی کی جاتی ہے جو مغلظات بکتے ، ہر طرف گند پھینکتے ظلم کی تعلیم دیتے اور محبتوں کو مٹاتے اور نفرتوں کو اجاگر کرنے والے مذہبی لوگ یہ پھر سیاستدان کے قریبی اور دوست بن جاتے ہیں، دونوں طرف ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی مذہبی دنیا میں بعض اصول جاری کرنے کی ضرورت ہے ، جس طرح سیاست میں عدل کے تصور کو اپنانے کے بعد اور اس اصول کو پکڑنے کے بعد پھر مسائل حل ہو سکتے ہیں اسی طرح مذہبی امور میں بھی بعض بنیادی اصولی فیصلے کرنے ہوں گے، ایک فیصلہ تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مذہب کو اپنی سیاست پر حکمران نہیں بنائیں گے.یہ جو مضمون ہے یہ میں تفصیل سے سمجھا تا ہوں مذہبی اقدار کو، مذہبی اخلاق کو سیاست پر حاکم کرنا ضروری ہے لیکن مذہبی نظریات کو اگر سیاست پر حاوی کریں گے تو دونوں جگہ مختلف قسم کی متقابل حکومتیں وجود میں آئیں گی اگر پاکستان میں مثلاً ایسی حکومت جسے وہ اسلامی کہتے ہیں لیکن جس کا تصور ابھی تک واضح ہو کر کسی مولوی کے دماغ میں بھی آج تک نہیں ابھرا لیکن نعرہ موجود ہے.پس میں اس نعرے کے حوالے سے کہتا ہوں کہ جسے وہ اسلامی حکومت کہتے ہیں اگر وہ ، وہ حکومت نافذ کریں تو جہاں تک میں نے ان کے اسلامی تصور کا مطالعہ کیا ہے وہ عدل سے عاری ہے وہ یکطرفہ ہے اس کا نعرہ ہی یہی ہے کہ اس ملک میں اول شہری مسلمان ہوگا اور ہر دوسرے شہری کے کوئی حقوق نہیں ہوں گے.مسلمان کے تابع ہوں گے.یہاں تک کہ مسلمان کے مقابل پر اس کی گواہی بھی نہیں سنی جائے گی.اس قسم کا خوفناک مذہبی نظام جاری کرنے کا تصور مولویوں کے دل میں ہے اگر اس تصور کو قبول کر لیں اور سیاست کو مذہب کے تابع کر لیں تو اس کے برعکس ہندوستان میں بھی یہ حق ہوگا اور ایک طبعی انسانی حق ہوگا کہ وہ ہند و تصور کو وہاں نافذ کریں پس اگر ہندوستان میں ہندو مذہبی تصور قانون کا حصہ بن جائے یا قانون پر حکومت کرنے لگے اور پاکستان میں مسلمانوں کا موجودہ اسلامی تصور پاکستان کا حکمران ہو جائے تو ناممکن ہے کہ قیامت تک ان دونوں قوموں میں صلح ہو سکے پھر تو دونوں طرف خون کی ہولیاں کھیلی جائیں گی اور ایک دوسرے سے نفرت ہمیشہ بڑھتی ہی چلی جائے گی اور سیاسی اصلاح ایک کوڑی کے کام کی بھی نہیں رہے گی اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 33 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء یہ دونوں اصلاحیں بیک وقت ضروری ہیں.یہ اصول بنانا ضروری ہے کہ ہندوستان میں بھی حکومت آزاد ہو اور انصاف پر مبنی ہو،کسی ایک مذہب کے تصور پر مبنی نہ ہو ، تمام بنی نوع انسان جو اس ملک کے باشندے ہوں ، ان کے تمام کے حقوق برابر ہوں اور چونکہ ان کے مذہب مختلف ہو سکتے ہیں اس لئے مذہب کی طرف سے حقوق نہیں بانٹے جائیں گے بلکہ ایک یکساں انسانی اصول کے تابع حقوق بانٹے جائیں گے اور وہ وہی تصور ہے جس کو قرآن کریم عدل وحق کے تصور کے طور پر پیش کرتا ہے.یہ فیصلہ جب ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی بعض مزید کڑیاں ہیں، ان کو بھی دیکھنا ہو گا، ان پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا ورنہ صحیح معنوں میں انصاف کے ساتھ ان باتوں پر عمل ہو نہیں سکتا یعنی سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ ان باتوں پر عمل ہو نہیں سکتا وہ ہے مذہبی نفرتیں پیدا کرنے کا رجحان مذہب میں ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبانیں استعمال کرنے کا رجحان مذہبی دل آزاری کا تصور اور یہ کوشش کہ مذہبی دل آزاری کے نام پر ہر مقابل کے حقوق تلف کر لئے جائیں یہ بیماریاں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر اعلیٰ درجے کا مذہبی ماحول قائم نہیں ہوسکتا.اس سلسلہ میں اصول کے طور پر تین ، چار باتیں میں مختصر ا آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلا مذہبی اصول جو دونوں طرف تسلیم کرنا اور پھر اس کو سمجھوتوں کے ساتھ رائج کرنا ضروری ہے وہ مذہبی آزادی ہے ہر قوم کو ، ہر قوم کے ہر طبقے کو، ہر مکتبہ فکر کو مذہبی آزادی کا حق ہوگا اس پر دونوں حکومتوں کے سمجھوتے ہونے ضروری ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے مذہبی آزادی کا حق جب آپ دیتے ہیں تو اگلا قدم تبلیغ کا بیچ میں داخل ہو جاتا ہے کیا الف کوب کو تبلیغ کرنے کی اجازت ہے یا ب کو بھی الف کو تبلیغ کرنے کی اجازت ہے مذہبی آزادی کے تصور میں ہر طرف سے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کو برابر تبلیغ کا حق ہوگا.جب تبلیغ کا حق دیتے ہیں تو پھر فتنہ فساد کا گویا دروازہ کھولا جاتا ہے کیا تبلیغ کا حق دینا اور فتنہ و فساد کا دروازہ کھولنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یہ مسئلہ حل کرنا ضروری ہوگا.تبلیغ کے ذریعے فتنہ کیوں پھیلتا ہے پہلے تو اس پر غور کرنا ضروری ہے اگر اس لئے پھیلتا ہے کہ تبلیغ کرنے والا غلیظ زبان استعمال کرتا ہے، گند بولتا ہے ،مخالف آدمی کو اور اس کے رہنماؤں کو گالیاں دیتا ہے اور جہاں زور چلے وہاں تلوار استعمال کرتا ہے تو پھر اس چیز کا نام تبلیغ کی آزادی یا تبلیغ کا حق دینا نہیں ہے.یہ تو حد سے زیادہ حماقت اور جہالت ہے اسے تبلیغ قرار دے ہی نہیں سکتے ، اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 34 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء لئے اس کو تبلیغ کا حق قرار دے کر اس کو کسی ملک میں جائز قرار دینا خودکشی کے مترادف ہوگا.دوسری دیکھنے والی بات یہ ہے کہ تبلیغ کے نتیجہ میں فساد کیوں ہوتا ہے اس کا کوئی اور جواب کیا ہے اس کا دوسرا جواب اور حقیقی اور اصل جواب وہ ہے جو انبیاء کے آغاز پر ان کی خون سے لکھی ہوئی تاریخ سے ہمیں ملتا ہے.دنیا میں جتنے انبیاء آئے ہیں جتنے بڑے بڑے مذہبی رہنما اور مقدس بزرگ پیدا ہوئے ہیں انہوں نے جب بھی تبلیغ کی ہے تو فتنہ اور فساد ہوا ہے اور خون بہایا گیا ہے اور یہ بات آغاز آفرینش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مکالمے کی صورت میں لوح محفوظ پر لکھ رکھی تھی اور قرآن کریم نے اس لوح محفوظ سے لے کر ہمارے سامنے بیان کی خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں دنیا میں ایک خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا اس لئے کہ وہ زمین میں خون بہائے اور فساد برپا کرے، تو فرشتوں نے بھی اپنی لاعلمیت کے نتیجہ میں یا معصومیت کے نتیجہ میں ابن آدم کو خدا کے خلیفہ کو ہی اس فساد اور اس فتنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جو اس کی پیدائش کے بعد ظہور میں آنا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کو رد فرما دیا ، غلط قرار دیا.اس کا مطلب ہے کہ غلط تجزیہ کر بیٹھے ہیں.پس سیاستدان کے لئے بھی ضروری ہے کہ خدا کے تجزیے کو قبول کرے اور ان کو جو فرشتے دکھائی دیتے ہیں ان کے تجزیہ کو رد کر دیں ان کو تو آج کل اپنے مولوی ہی فرشتے دکھائی دیتے ہیں اگر ان مولویوں کا تجزیہ شیطان کے تجزیے سے ملتا جلتا ہوتو وہ تجزیہ جہنم میں پھینکنے کے لائق ہے.خدا ہی کا تجزیہ درست ہے اور اللہ کا تجزیہ ہے جو بعد میں نبوت کی تاریخ کی صورت میں ہمارے سامنے کھلا ہے اور کھلتا چلا گیا ہے.وہ یہ ہے کہ نبیوں نے تبلیغ میں ہمیشہ محبت سے پیغام دیا ہے، عقل سے پیغام دیا ہے، انصاف کے ساتھ پیغام دیا ہے صلح کا پیغام دیا ہے اور ہدایت اور حق کی طرف جس کو وہ ہدایت اور حق سمجھتے تھے پورے خلوص کے ساتھ بلایا ہے، قوم کو مار مار کر یہ باتیں نہیں سمجھائیں بلکہ یہ صلى الله باتیں سمجھاتے رہے یہاں تک کہ قوم نے مار مار کر ان کو لہو لہان کر دیا.حضرت اقدس محمد مصطفی می جب طائف گئے تھے تو اس وقت بھی تو ایک فتنہ پیدا ہوا تھا.آج کے سیاسی رہنما اس ایک واقعہ کو ہی دیکھ لیں تو ان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں تب ان کو سمجھ آئے کہ فتنہ ہوتا کیا ہے اور تبلیغ کی آزادی کا حق کس کو کہتے ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ہے ایک غلام کو ساتھ لے کر طائف کی سنگلاخ پہاڑیوں پر گئے اور تبلیغ شروع کی تو چاروں طرف سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 35 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء گالیوں کی بوچھاڑ ہوئی قوم کے سردار نے آپ کے پیچھے غنڈے اور لفنگے لگا دیئے، جھولیوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے ،منہ سے گالیاں بک رہے تھے اور آنحضرت مے پر پتھر برسا رہے تھے یہاں تک کہ خون بہتا بہتا جو تیوں میں چلا گیا اور اپنے اس خون کی دلدل سے پاؤں اٹھانا مشکل ہور ہا تھا بڑے صبر کے ساتھ ، بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ اسی طرح حق کا پیغام دیتے ہوئے آپ اس بستی سے باہر نکلے.(الحلبیہ جلد اصفحه ۳۵۴۰) وہ وقت تھا جبکہ آدم اور خدا کا مکالمہ ایک حقیقت کے طور پر دنیا کے سامنے ابھرا ہے اور اس مکالمے کی صداقت کو پہچاننے کا اس سے بہتر کوئی وقت بھی دنیا پر نہیں آیا.تو کونسا ساتھ اور کون ساخون تھا جو بہایا گیا وہ اس سب سے سچے انسان کا، دنیا کے سب سے معصوم انسان کا خون تھا جو بہایا گیا تھا.اس نے کسی کا خون نہیں بہایا تھا فساد اس کے خلاف استعمال ہوا تھا.اس نے خود فساد بر پانہیں کیا تھا.پس ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ اس بات کا پیغام دوسرے کو پہنچائے جس کو وہ سچائی سمجھتا ہے اس کے نتیجہ میں اگر فساد برپا ہوتا ہے تو فساد برپا کرنے والے اس کے ذمہ دار ہیں خدا اور خدا کے نبی اس کے ذمہ دار نہیں ، پس اگر اس اصول کو سمجھ کر دنیا میں انصاف قائم کرنا ہے اور مذہبی آزادی کا حق دینا ہے تو تمام مذہبی فساد دنیا سے مٹ سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں اگر ایک کروڑ آدمی بھی ایک معصوم آدمی کے درپے ہوں گے تو ارباب حکومت جب تک اس حکومت پر فائز ہیں وہ ایک کروڑ کی مخالفت کریں گے اور اس ایک کے حق میں بولیں گے کیونکہ جب محمد رسول اللہ ﷺ کا خون طائف میں بہایا جارہا تھا تو تمام دنیا کے اربوں انسان بھی اگر اس وقت آپ کے مخالف ہوتے تو خدا اور اس کے فرشتے ایک محمد کی تائید میں کھڑے ہو جاتے اور ان کروڑوں کو جھوٹا قرار دیتے اور ہلاک ہونے کے لائق قرار دیتے.یہ انصاف کا قانون ہے جو مذہب کی دنیا میں لازما لاگو کرنا ہو گا اس کے بغیر مذہبی دنیا میں امن قائم ہو ہی نہیں سکتا.یہی وہ انصاف تھا جس نے نوح کی قوم کے ساتھ ایک سلوک کیا ہے.عجیب انصاف ہے چند آدمیوں کی خاطر لاکھوں کو صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے کلیہ مٹادیا گیا لیکن اس لئے کہ وہ فساد کے ذمہ دار تھے ، نہ کہ وہ چند معصوم.آج کل کی حکومتوں کا یہ قانون ہے کہ یہ دیکھو کہ دو متبادل گروہوں میں سے کمزور کون سا ہے اور طاقت ور کون سا ہے اور یہ تسلیم شدہ سیاسی اصول ہے کہ ہرگز کمزور کی خاطر خواہ وہ حق پر ہو طا قتو را کثریت سے مقابلہ نہیں کرنا ، اگر یہ اصول آپ کی سیاست کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 36 خطبه جمعه ۸/جنوری ۱۹۹۳ء راہنما رہا تو نہ ہندوستان میں شرافت زندہ رہ سکتی ہے نہ پاکستان میں شرافت زندہ رہ سکتی ہے اور بھی اس قسم کی باتیں ہیں جو مختلف زاویوں سے بیان کی جاسکتی ہیں لیکن وقت چونکہ تھوڑا باقی رہ گیا ہے اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک دو اقتباس پیش کر کے اب اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.حضور فرماتے ہیں.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ سخت دشمنی کی جڑھ ان نبیوں اور رسولوں کی تحقیر ہے جن کو ہر ایک قوم کے کروڑہا انسانوں نے قبول کر لیا ہے“.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه ۳۸۳) د, دنیا کی مشکلات بھی ایک ریگستان کا سفر ہے کہ جوئین گرمی اور تمازت آفتاب کے وقت کیا جاتا ہے.پس اس دشوار گزار راہ کے لئے باہمی اتفاق کے اس سرد پانی کی ضرورت ہے جو اس جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈی کر دے اور نیز پیاس کے وقت مرنے سے بچاوے.ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کیلئے بلاتا ہے جبکہ دونوں کو صلح کی بہت ضرورت ہے...“ آپ ہندو اور مسلمان کو مخاطب ہیں.آج میں بھی خصوصیت کے ساتھ ہندو اور مسلمان کو، پاکستان کے مسلمان اور ہندوستان کے ہند و کومخاطب ہوتے ہوئے یہ کہتا ہوں...جبکہ دونوں کو صلح کی بہت ضرورت ہے.دنیا پر طرح طرح کے ابتلاء نازل ہو رہے ہیں، زلزلے آرہے ہیں ، قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا اور جو کچھ خدا نے مجھے خبر دی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بد عملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے تو بہ نہیں کرے گی.تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی.(پیغام صلح.روحانی خزائن جلد ۲۳۰ صفحہ ۴۴۴۰) میں جو ہندوستان اور پاکستان کو بار بار عقل اور انصاف سے سمجھوتوں کی تعلیم دے رہا ہوں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھے اس دنیا میں آئندہ بہت بہت خوفناک ابتلاء اور جنگیں دکھائی دے رہی ہیں جو میں سمجھا ہوں کچھ قرآنی تعلیم پر مبنی ایسے ابتلاء ہیں جو عالمگیر ہوں گے اور بہت بڑی تباہیاں لائیں گے اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پر مبنی کچھ سیاسی حالات.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 37 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۹۳ء نے اپنے مستقبل کی اپنی کہانی جو آج کے افق پرلکھنی شروع کر دی ہے اس کو پڑھتے ہوئے مجھے معلوم ہے کہ بہت سخت دن آگے آنے والے ہیں اور غریب قوموں کا فرض ہے کہ آج سنبھلیں اور اپنے حالات درست کریں، ورنہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کی کوئی صلاحیت ان میں باقی نہیں رہے گی.امیر قومیں ہمیشہ غریبوں کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر ان کو آپس میں لڑاتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں دونوں طرف کے وہ لوگ امیر قوموں کو اپنا ہمدرد سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے لڑتے ایک دوسرے کا خون چوس کر ہتھیار خریدتے اور وہ ہتھیار ایک دوسرے کا خون بہانے کیلئے استعمال کرتے ہیں.یہ ایک مختصر سی کہانی ہے جو اس سارے دور کی تاریخ کا خلاصہ بن چکی ہے.ہر سیاستدان یہ جانتا ہے کہ Divide and rule کی پالیسی کوئی ایسی پالیسی تو نہیں جس کو سمجھنے کیلئے غیر معمولی عقل و دانش کی یا تعلیم کی ضرورت ہو.سکول کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ مغربی قوموں نے دنیا پر Divide and rule کے ذریعہ حکومت کی ہے اور ہمارے سیاستدان انہیں سکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں.جہاں ابتدائی قاعدوں میں یہ بات لکھی گئی تھی لیکن مرتے دم تک ہوش نہیں کرتے اس لئے کہ خود غرضی اندھا کر دیتی ہے جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے، جانتے ہیں کہ ہم خود اپنے آپ کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنائے ہوئے ہیں اور ہمارے عوام کی عزت ، ہماری قوم کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے اس کے باوجود نفسانی خود غرضیوں کے نتیجہ میں وہ تین محرکات جو اس سیاست کے میں نے آپ کے سامنے رکھے تھے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے پردے بن جاتے ہیں گویا کہ وہ تین پردے ہیں.جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.ایک کانوں پر پڑ جاتا ہے، ایک آنکھوں پر پڑ جاتا ہے اور ایک وہ ہے جو دل میں مہر لگا دیتا ہے.تمام وہ صلاحیتیں مسخ ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کی قوم کے راہنماؤں کو ضرورت پڑتی ہے.پس جماعت کو چاہئے کہ ساری دنیا میں یہ باتیں سمجھا سمجھا کر جہاد کریں.اگر ہم آج نہیں سمجھیں گے تو کل ہم سمجھنے کے لائق نہیں رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.کم سے کم احمدیت کو یہ تو تسلی ہو گی کہ ہم اگر مرے ہیں تو راہ حق میں مرے ہیں، نیکی کی تبلیغ کرتے ہوئے مرے ہیں.ایسا شخص جو نیک کام پر جان دیتا ہے وہ جس قدم پر گرتا ہے شہادت کی زندگی اسے نصیب ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۲ 39 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء MTA کی برکات اور اس کے دور رس نتائج مسلمانوں کے حالات پر تبصرہ اور دنیا کے لئے امن کا پیغام ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ جنوری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جب سے ٹیلی ویژن کے ذریعہ جماعت احمد یہ عالمگیر سے رابطہ قائم ہوا ہے جمعہ جو پہلے ہی پیارا لگا کرتا تھا اور بھی زیادہ پیارا لگنے لگ گیا ہے اور یہ صرف میرا حال نہیں سب دنیا میں تمام جماعت احمدیہ کے افراد ، مردوں، عورتوں ، بڑوں، چھوٹوں کا ایک ہی حال ہے، کثرت سے ایسے خط مل رہے ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں تو اب جمعہ کا ایسا انتظار رہنے لگا ہے جیسے پہلے کبھی نہیں تھا، یہ تعلق دوطرفہ ہے.یکطرفہ نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اس پہلو سے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ یہ جماعت بے مثل ہے.دنیا کی کوئی جماعت ایسے گہرے دوطرفہ تعلق کی کوئی مثال دنیا میں پیش نہیں کر سکتی اور پھر اتنے وسیع پیمانہ پر کہ پانچ براعظموں میں 120 سے زائد ملکوں میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جمعہ کے دن جس محبت سے بیک وقت احمدی دل دھڑک رہے ہوتے ہیں یہ ایک عجیب نشان ہے جو اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے حق میں ظاہر ہوا ہے کیونکہ کوئی جھوٹا عالمی پیمانے پر انسانوں کی للی محبت کرنے والی جماعت پیدا نہیں کر سکتا.یہ ناممکن ہے للہی محبت کی کچھ اور تشریح بھی ضروری ہے.میں جب جمعہ پر آتا ہوں اور میں اپنی چشم تصور سے دیکھ رہا ہوتا ہوں کہ فلاں جگہ احمدی دیکھ رہے ہوں گے،فلاں جگہ.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 40 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء دیکھ رہے ہوں گے ، ربوہ میں فلاں فلاں جگہ اس طرح لوگ اکٹھے ہوں گے.احمد نگر میں وہ غیر احمدی زمیندار بھی جنہوں نے آنکھیں پھیر لی تھیں اور تعلق تو ڑ لئے تھے.وہ بھی وہاں اکٹھے ہو گئے ہوں گے اور لالی قوم سے اگر چہ بہت تعلقات تھے لیکن آنکھیں پھیر نے میں بھی یہ بڑی ماہر ہے اور ان کی لالی سرخی کی لالی کی طرح ہونٹوں پر اور گالوں پر رہتی ہے دل پر اثر نہیں کرتی لیکن اب سنا ہے وہ بھی آنے لگ گئے ہیں اور وہاں ایک بہت غریب سے آدمی لالہ تھے.ایک اچھے بااثر انسان کے باپ لیکن خود غریب وہ تو شاید فوت ہو چکے ہیں لیکن یہ سارے لوگ چشم تصور میں سامنے آتے ہیں.ہمارا رحماں جو احمد نگر میں میرے فارم پر کام کیا کرتا تھا اس کو بھی کوئی پکڑ کر لائے اور کسی دن دکھائے کیونکہ اس کا ایک دفعہ خط ملا تھا کہ میں تو ترس گیا ہوں آپ ضرور واپس آئیں ، وہ کافی بوڑھا ہو چکا ہے.پھر ایک شاید بابا معراج موچی ہوا کرتے تھے جو لائبریری کے باہر پرے بیٹھا کرتے تھے ان سے محبت کا بہت دیرینہ تعلق تھا.وہاں سے سائیکل پر جاتا تھا تو ہر دفعہ تو نہیں مگر اکثر روک لیا کرتے تھے اور جب تک مل کر سلام کر کے نہ گزروں وہ ٹیکس ادا کئے بغیر مجھے جانے نہیں دیتے تھے وہ تو اب فوت ہو گئے ہیں لیکن ایسے کئی تھے جواب اکٹھے ہو رہے ہوں گے اور اس وقت دیکھ رہے ہوں گے.تو یہ جو انہی تعلق ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور المی تعلق کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ تعلق جس سے ہو وہاں ٹھہر نہیں جاتا بلکہ خدا کی خاطر ہے آخر خدا تک پہنچتا ہے.اس لئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ الا اللہ ن الحُبُّ فی اللہ کی تعلیم دی ہے ( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر (۲۰۳۴) جو پیر ہیں ان سے تو تعلق ہوتا ہے کہ پیر کے پاس پہنچا اور اسی کا ہورہا لیکن جو محبت اللہ کے لئے ہوتی ہے.وہ قبلہ نما رنگ اختیار کر جاتی ہے.جس سے پیار ہو تو چونکہ وہ اللہ کی خاطر ہوتا ہے اس لئے وہاں کھڑا نہیں ہو جایا کرتا بلکہ اس سے آگے اس سے اوپر کے درجہ کے اللہ والوں کی طرف وہ پیار بڑھتا اور پھر ان سے ہوتا ہوا آخر خدا پر جا کر فتح ہوتا ہے.پس وہ محبت جو مجھ سے ہے وہ میری ذات سے نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے اس زمانہ میں یہ محبت پیدا ہوئی.پس مجھ سے آگے سفر کرتی ہے میرے دل پر ایک نقش پا چھوڑ جاتی ہے جو مجھے بہت ہی پیارا ہے لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچتی ہے.اور آپ کے دل پر نقش چھوڑتی ہوئی پھر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی ہے اور آپ وسیلہ ہیں اور قرآن کریم نے جو وسیلہ فرمایا تو مطلب یہ ہے کہ کسی محبت کو بھی اپنی ذات تک نہیں رہنے دیتے تھے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 41 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء خدا کی امانت تھی اور وہ محبت وہاں سے رخصت ہو کر اپنے پیار کا اظہار پیچھے چھوڑتے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو جاتی تھی.تو انَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقره: ۱۵۷) بھی دراصل الحب في اللہ کی ایک تفسیر ہے.پس جماعت احمدیہ کو جو یہ محبت ہے ایسی محبت دنیا میں کسی کو کسی سے نہیں ایک عجیب عالمگیر منظر ہے جس کی کوئی مثال کہیں دکھائی نہیں دیتی اور اسی محبت کو ہم نے انسانوں کو اکٹھا کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے.اسی کی محبت کے رشتہ میں سب دنیا کے انسانوں کو پالنا ہے یہ ہمارا مقصد اعلیٰ ہے جس کی خاطر ہم پیدا کئے گئے اور اس مقصد کو پورا کئے بغیر جماعت احمدیہ کی تعمیر کی غرض پوری نہیں ہوتی اور یہ انشاء اللہ ہوکر رہے گا.پس محبتوں کو پھیلاتے رہیں اور انہی محبتوں کو پھیلاتے رہیں.اس ضمن میں میں خصوصیت سے اہلِ ربوہ اور پاکستان کے ان دیہات کو جن کے متعلق رپورٹیں مل رہی ہیں کہ دن بدن شوق بڑھ رہے ہیں اور ذاتی Antenas بھی لگ رہے ہیں اور جماعتی بھی لگ رہے ہیں.ایسے لوگ جنہوں نے مقامی خطبہ جمعہ بھی چھوڑ دئے تھے.وہ دوڑ دوڑ کر آتے ہیں اور وہ جو احمدیت کے کنارے تک پہنچ گئے تھے وہ تیزی سے مرکز کی طرف بڑھ رہے ہیں جب یہ رپورٹیں ملتی ہیں تو میرا دل چاہتا ہے کہ یہ تعلق اور بھی بڑھیں اس لئے میں جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ کثرت سے کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ احمدی خواہ عجوبہ کی خاطر ہی آجائیں ایک دو دفعہ آجائیں تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ وہ یہیں کے ہور ہیں گے پھر واپس نہیں جائیں گے.اب بھی ربوہ سے جو رپورٹ مل رہی ہے اس کے مطابق جتنی تعداد میں جمعہ پر پہنچا کرتے تھے اس سے زیادہ تعداد میں اب یہاں آنے لگے ہیں لیکن لاہمی محبت کی خاطر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر یہ لوگ جمعہ پر نہ جانا شروع کریں تو میرا دل خوش نہیں ہوگا یہ بھی خطبہ ہے یہ بھی دین کا کام ہے.دین سے محبت کی خاطر اگر آئیں اور دین کے فرض سے غافل ہو جائیں تو یہ میرے لئے خوشی کی نہیں بلکہ سخت فکر کی بات ہوگی اور اس میں مخفی شرک کا ایک پہلو مجھے دکھائی دے گا اور واقعہ اگر ہم اپنے نفوس کا تجزیہ کریں تو اس طرح ہم اپنی نیتوں کو پہچان سکتے ہیں.پاک نام پر نیتیں چلتی ہیں لیکن بعض دفعہ بدیاں ساتھ لئے ہوئے ہوتی ہیں.پس دنیا میں جہاں بھی کوئی احمدی میری محبت کی خاطر جو آغاز ہے انجام نہیں خدا کی طرف حرکت کی ایک منزل ہے آخری منزل نہیں اس وجہ سے خطبوں پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 42 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء آنے شروع ہوئے ہیں.اب ان کو اپنی للہی محبت ثابت کرنے کی خاطر ہر نیکی کے کام پر لاز ما پہنچنا ہوگا.جمعہ سے شروع کریں اور پھر پانچ نمازوں پر مسجدوں میں حاضری دیں تب میرا سینہ ٹھنڈا ہوگا.تب یہ ساری عالمگیر جماعت واقعہ للہی محبت کرنے والی جماعت شمار ہوگی.یعنی خدا کے حضور ایک للہی محبت کرنے والی جماعت لکھی جائے گی.میں جانتا ہوں انسانوں میں کمزوریاں ہیں مختلف قسم کے درجے ہیں اور نیکی ایک دم دل میں جڑ نہیں پکڑ جایا کرتی.بیج اگر اخلاص کے ساتھ بویا جائے اور اس کی آبیاری کی جائے اور نیکی کے بیج کی آبیاری دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ ہوا کرتی ہے تو پھر نیکی بڑھتی ہے، پھلتی ہے، پھولتی ہے اور پھیلتی ہے اور درخت بنتی ہے جس کی شاخیں بعض دفعہ ایک ایک درخت کی شاخیں عالمگیر ہو جاتی ہیں تو یہ وہ بیج ہے جواب دلوں میں بوئے جار ہے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت ان کی آبیاری اپنی دعاؤں سے اور آنسوؤں بھری دعاؤں سے کرے گی.اس کے بعد میں عالم اسلام کے لئے ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں.عالم اسلام پر بہت سخت دن ہیں اور ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے.ہندوستان پر نظر ڈالیں تو اس طرح ظالمانہ طور پر مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور گھروں سے بے گھر کئے جارہے ہیں.ٹوٹے جارہے ہیں اور ہر طرح کے مصائب اور مظالم ان پر روا ر کھے جارہے ہیں.ایسی دردناک کہانیاں ہیں جو اخباروں سے بہت زیادہ ان آنکھوں دیکھے حالات کی صورت میں مجھ تک پہنچ رہی ہیں.جو احمدی خطوں میں بھیج رہے ہیں.وہ روئیداد جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی کس طرح واقعات ہوئے کس طرح غریبوں کے بچے آگوں میں پھینکے گئے، کس طرح تلاش کر کر کے مسلمانوں کو مارا گیا، کس طرح ہندوستانی فوج اور پولیس نے کرفیو گا کرمسلمانوں کو نہتا کیا اور غیروں کو موقع دیا کہ وہ حملہ کریں اور گھروں کی نشاندھی کی گئی.بہت ہی دردناک اور خطر ناک واقعات ہیں جن کو پڑھتے ہوئے روح پگھلتی اور آستانہ الوہیت پر پانی بن بن کر گرتی ہے اور کچھ پیش نہیں جاتی.بے اختیاری کا عالم ہے، سوائے دعا کے اور کوئی صورت نہیں ہے کہ ہم ان بھائیوں کی کوئی مددکر سکیں پھر جب بوسنیا پر نظر پڑتی ہے تو اتنا دردناک منظر ہے کہ یہاں ہندوستان میں تو 11 کروڑ سے بھی زائد مسلمان ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا تھا کہ اگر سارے ہندوستان کے ہند ول کر بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 43 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء فیصلہ کر لیں کہ ان کو ہندوستان سے ملیا میٹ کر دینا ہے تو نہیں کرسکیں گے یہ ناممکن ہے اتنی بڑی بڑی عظیم قو میں اس طرح مٹا نہیں کرتیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ صلح کے ساتھ، محبت کے ساتھ ، انسانی قدروں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھو تمہارا اپنا فائدہ ہے، ملک کا فائدہ ہو گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نصیحت آج سے قریبا ۸۰ برس پہلے یا اس کے لگ بھگ ہوئی کیونکہ یہ آخری پیغام صلح تھا.جس میں آپ نے یہ نصیحت فرمائی اور جو آپ کی وفات کے بعد رسالہ کی صورت میں شائع ہوا.تو سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں تو نہیں مٹائے جاسکتے نہ انشاء اللہ مٹائے جاسکیں گے لیکن بوسنیا میں تو یہ خطرہ بھی لاحق ہو گیا ہے کہ پوری مسلمان قوم کو بوسنیا کے ملک سے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور یورپ میں لڑکی کے ایک کنارے کے علاوہ جو تنہا ایک اسلامی حکومت رہ گئی ہے اس کو یورپ کے نقشے سے مٹا دیا جائے.لیکن یہاں بھی آپ اعداد و شمار کی صورت میں جو واقعات اخباروں میں پڑھتے ہیں وہ اور بات ہے اور جو قصے بھی بوسنین سناتے ہیں اپنی آنکھوں دیکھے حال بتاتے ہیں ان کو سننا بالکل ایک اور بات ہے.سارے یورپ میں جماعت احمدیہ کا بوسنیا کے مہاجروں سے رابطہ ہے اور بڑھ رہا ہے اور اس قدر وہ پیار کے بھوکے ہیں کہ محض محبت کے ساتھ ان سے ملنے جانا ہی ان کے لئے ایک عجیب واقعہ ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ساری انسانیت کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور جو واقعات وہ سناتے ہیں اور جس طرح پورے خاندان کے خاندان ختم کئے گئے ہیں اور بعض انتہائی بہیمانہ حرکتیں ماؤں اور باپوں کے سامنے ان کی اولادوں سے کی گئیں وہ ایسی کہانیاں ہیں کہ ان کا کم سے کم میرے لئے کچھ دیرسننا بھی ناممکن ہے، پڑھنا بھی ناممکن ہے.کچھ دیر میں پڑھتا ہوں اور اس کے بعد اعصاب پھتا جاتے ہیں.ناممکن ہو جاتا ہے کہ مزید اس بات کو پڑھ سکوں یا جولوگ واقعات سناتے ہیں ان سے مزید سن سکوں ان کو میں روک دیتا ہوں لیکن ایک ایسی ویڈیو ملی ہے جس کی میں ان لوگوں سے اجازت لے رہا ہوں جن لوگوں نے وہ ویڈیو بنائی ہے اگر وہ ہمیں اجازت دیں تو ہم جماعت کے ذریعہ ساری دنیا میں تمام دنیا کے انسانوں کو وہ ویڈیو دکھائیں اور بتائیں کہ کس قدر خوفناک ظالمانہ کارروائیاں مسلمانوں کے خلاف روا رکھی جارہی ہیں اور یورپ صرف باتیں کر رہا ہے، امریکہ صرف زبانی ہمدردی کے قصے کر رہا ہے.ایک طرف یہ عالم ہے دوسری طرف عراق پر جو گزر رہی ہے.عراق کے خلاف نہایت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 44 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء ذلت آمیز سلوک یو نائیٹڈ نیشنز کے نام پر بار بار ہورہا ہے.اگر اس کا سب سے بڑا جرم قرار دیا جائے تو اس کا ایٹم بم بنانے کی کوشش کرنا ہے اور اسرائیل نے ایٹم بم کے اتنے ہتھیار جمع کر رکھے ہیں اور اتنے خوفناک ہیں کہ ایک وقت میں وہ روس کی عظیم طاقت کو چیلنج کر رہا تھا اور روس کو کہ رہا تھا کہ اگر تم نے ہمیں ترچھی آنکھ سے دیکھا تو تمہارے سارے بڑے شہر ہمارے نشانے پر ہیں، لیکن اس طرف سے آنکھیں بند ہیں.اگر کہو کہ عراق نے اپنے علاقے کے باشندے مسلمانوں پر ظلم کئے ہیں ،شیعوں پر ظلم کئے ہیں یا کر دوں پر ظلم کئے ہیں تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان مسلمانوں کی تمہیں ایسی ہمددری ہوگئی جن کو مٹا کر ملیا میٹ کرنے کا کوئی وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا.اگر کوئی ظلم کئے ہیں تو اس سے بہت زیادہ ظلم دوسری جگہوں پر ہر قوم اپنے ہم قوموں سے کر رہی ہے اور کرتی چلی جارہی ہے.سارے عالمی نقشے پر نظر ڈال کر دیکھیں اس وقت، وقت نہیں ہے ،مگر میں ایک کے بعد دوسری مثال دے سکتا ہوں کہ ایک قوم اپنے ہم قوموں ، ایک ملک اپنے ہم وطنوں سے کیا سلوک کرتا ہے اگر خدا تعالیٰ نے امریکہ کو ساری دنیا کا تھانیدار بنایا ہے تو پھر ہر جگہ پہنچے لیکن بوسنیا ان کو دکھائی نہیں دے رہا، بوسنیا میں بھی تو مسلمان بستے ہیں یا ایک حصہ میں بستے تھے جہاں سے کلیہ نکالے جاچکے ہیں لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے.بار بار جو عشق کو دتا ہے تو عراق کے شیعوں کا عشق کو دتا ہے جو عراق کے علاقے میں ہیں.لیکن جو ترکی کے علاقے میں ہیں ان کا کوئی فکر نہیں حالانکہ میں نے خود یہاں برٹش ٹیلی ویژن پر ترکی کے تابع کردوں سے متعلق فلم دیکھی اس فلم کو دیکھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.کیسے کیسے مظالم ان پر کئے گئے ہیں کہ ان کی تہذیب مٹانے کے لئے اور ان کی ایک الگ زندہ حقیقت کو ہمیشہ کے لئے ان کے ذہنوں سے محو کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اپنی زبان تک بولنے کی اجازت نہیں میں نہیں جانتا کہ وہ باتیں کس حد تک سچی ہیں لیکن مغربی ذرائع ابلاغ نے خود دنیا کو دکھائی ہیں.وہاں بھی تو کرد بستے ہیں ایک کرد سے ایسی محبت اور دوسرے کرد سے ایسی دشمنی.پھر یونائیٹڈ نیشنز کی خلاف ورزی کا الزام ہے اور بار بار مغرب میں ہر جگہ ٹیلی ویژن پر آج کل دکھایا جا رہا ہے کہ ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں یونائیٹڈ نیشنز کے وقار کوٹھوکر لگی ہے اتنا عظیم ادارہ جو اس شان کے ساتھ اب دوبارہ ابھرا ہے.اگر اس کے ریزولیوشنز کی اس طرح بار بار تحقیر کی جائے تو اس کے وقار کو ٹھوکر لگے گی لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 45 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء صدام باز نہیں آرہا.ایک کے بعد دوسری گستاخی ، دوسری کے بعد تیسری گستاخی اور اسرائیل نے 47 ایسی گستاخیاں کیں اور ایسے ایسے ریزولیوشنز کو اس نے پاؤں کی ٹھوکر کے ساتھ دھتکارا ہے جیسے کوئی انسان ذلیل کتے کو جوتی کے ساتھ مارتا ہے اور اس نے کہا کہ مجھے تمہاری کوئی بھی پرواہ نہیں ہے کرتے جاؤ ریزولیوشنز میں قبول نہیں کروں گا لیکن یونائیٹڈ نیشنز کی غیرت وہاں نہیں کو دی ، نہ جاگی، نہ اس میں کوئی حرکت کوئی تموج پیدا ہوا اور امریکہ ان باتوں کی طرف جانتے ہوئے بھی دھیان نہیں کرتا ، اس طرف نگاہ ہی نہیں جا رہی.یہ سارے مظالم دن بدن عالم اسلام کو چنگل میں جکڑتے چلے جارہے ہیں اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ مسلمان لیڈر ان ظالموں کے ساتھ ہیں جو مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں اور کوئی غیرت نہیں ہے جو ان کے دلوں کو جھنجھوڑے، ان کے ضمیر کو بیدار کرے لیکن سوال صرف یہ نہیں ہے سوال عقل کا ہے، جہاں غیرت ہے وہاں عقل کا فقدان ہے اس قدر بیہودہ اور بیوقوفوں والا رد عمل دکھایا جاتا ہے کہ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور جس کے نتیجہ میں لازماً مزید نقصان پہنچتا ہے.میں نے اپنے ایک خطبہ میں نصیحت کی تھی کہ اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی حکومت، اسلامی حکومت کا نام چھوڑو اور اسلام نے انصاف کی حکومت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کو پکڑو، ورنہ پھر دوسرے ممالک میں ہندو مذہب کی حکومتیں اور عیسائی مذہب کی حکومتیں جب قائم ہونا شروع ہو جائیں گی تو مسلمانوں کو کہیں کوئی جگہ نہیں ملے گی لیکن کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور واقعہ یہ ہے کہ اس احمقانہ رجحان کو لازماً کچلنا ہوگا.مذہب خدا کی طرف سے ہے اور اسلام سب سے زیادہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ تمام مذاہب خدا کی طرف سے ہیں.ناممکن ہے کہ مذہب سچا ہو اور مذہب کے نام پر دوسرے انسانوں سے تفریق کی اجازت دے اس لئے جتنے مذاہب ہیں سب نے آغاز پر انسانیت کی تعلیم دی ہے، انصاف کی تعلیم دی ہے لیکن مذہب کے نام پر غیر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کوقتل کرنا، ان کی عزتیں لوٹنا، ان کی جان مال کو نقصان پہنچانا یہ تو شیطانی تعلیم ہے، مذہبی تعلیم ہے ہی نہیں.پس مذہب کے نام پر ایسی حکومت جو دوسرے انسان کے حقوق غصب کرنے کی تعلیم دیتی ہودہ غیر مذہبی ، غیر اسلامی، غیر اصلاحی حکومت ہے.اس کا نام شیطانی حکومت ہوتا ہے پس جہاں بھی آپ مذہب کو غلط سمجھے ہیں وہ آپ کی سمجھ کا قصور ہے.لیکن ایک راہ نما اصول ہے جو کبھی دھوکہ نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 46 46 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء دے سکتا کبھی لغزش نہیں کھا سکتا.اللہ تمام کائنات میں قدر واحد ہے جس کے رشتے سے تمام رشتے درست ہو سکتے ہیں.اس رشتہ کو اگر نظر انداز کر دیں تو سب رشتوں میں زہر گھولے جائیں اور اس وحدت کا تقاضا یہ ہے کہ عالمی انصاف کی تعلیم دی جائے جو نہ ملکوں کو جانتا ہو.نہ مذاہب کو جانتا ہو، نہ رنگوں کو جانتا ہو، نہ نسلوں کو جانتا ہو.تمام دنیا میں قدر واحد ہو اور خدائے واحد و یگانہ کے نام پر انصاف کی تعلیم دی جائے اور انصاف کو سمجھا جائے اور اسے خدا کے نام پر حکومتوں میں نافذ کیا جائے تو یہ ایک ایسی تعلیم ہے جو تمام دنیا کے ہر مذہب کو قابل قبول ہونی چاہئے.کوئی منطقی دلیل ، کوئی جذباتی دلیل اس کے خلاف چل ہی نہیں سکتی.پس پاکستان میں عدل کی حکومت قائم کریں سعودی عرب میں عدل کی حکومت قائم کریں، ایران میں عدل کی حکومت قائم کریں اور پھر دنیا کو اس نام پر اپنی حکومتوں کی اپنے طرز حکومت کی اصلاح کی دعوت دیں یہ وہ طریق ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں اصلاح ممکن ہے اس کے بغیر تو جو فساد چل پڑے ہیں یہ آگے بڑھیں گے اور چلتے چلے جائیں گے.اس ضمن میں میں ایک یہ بات سمجھانی چاہتا ہوں کہ میں نے یہ جتنی باتیں کہی ہیں ان کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دلوں میں اشتعال پیدا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اشتعال جہالت ہے.اشتعال کے نتیجہ میں عقلیں ماری جاتی ہیں.وہی ردعمل دکھانا چاہئے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے اور اسلامی تعلیم کا حسن یہ ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے جیسا کہ خدا کی کائنات میں کوئی تضاد نہیں ویسا ہی خدا کے کلام میں کوئی تضاد نہیں ہے اور تضاد کا نہ ہونا ی تعلیم کے بچے ہونے کی قطعی نشانی ہے ایک طرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ حب الوطن من الایمان : (اسوہ انسان کامل صفحہ ۳۶۳۰) وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے دوسری طرف ایسے مسائل سامنے آتے ہیں کہ ایک وطن میں دوسرے اہل وطن کے خلاف ظلم ہو رہا ہے.ایک مذہب دوسرے مذہب پر ظلم کر رہا ہے وہاں آپس کے ان جھگڑوں کا فیصلہ کس اصول پر ہوگا کیا وطن کی محبت کا یہ تقاضا ہو گا کہ ظالموں کا ساتھ دیا جائے یا اگر ظالموں کا ساتھ نہ دیا جائے اور مظلوموں کا دیا جائے تو کیا یہ بات وطن سے غداری کے مترادف ہوگی.یہ بڑے گھمبیر مسائل ہیں جو دنیا کے حالات پر نظر ڈالنے سے خود بخو داٹھ کر نظر کے سامنے آتے ہیں اسلام جو یہ کہتا ہے کہ وطن کی محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 47 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء مسائل سے کیسے نپٹتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا یہ ارشاد میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں ان سب مسائل کی کنجی موجود ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی سے محبت کرو اور اس کی مددکرو.انــصــر اخاک ظالما او مظلوما.( بخاری کتاب الاکراہ حدیث نمبر : ۶۴۳۸) اپنے بھائی کی مددکر وخواہ وہ ظالم ہو خواہ وہ مظلوم ہو اب یہ حصہ سن کر ایک دم انسان کا ضمیر جھنجھوڑا جاتا ہے اور فوراً یہ ردعمل پیدا ہوتا ہے کہ ہیں ! ظالم کی مدد؟ بھائی کی مدد تو ضروری ہے یہ بات تو سمجھ آجاتی ہے لیکن بھائی ظالم بھی تو ہو سکتا ہے پھر کیا کریں گے ہاں ظالم کی مد کرو مگر ظالم کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ روک کر کرو کتنی عظیم الشان تعلیم ہے جو عصبیت کی تعلیم کی بجائے اچانک ایک دم عالمگیر ہوتی ہوئی نظر آجاتی ہے.پہلا فقرہ سن کر لگتا تھا کہ عصبیت کی تعلیم دی جا رہی ہے جب اس کی تشریح سنی تو یوں لگا کہ یہ تو ایک حیرت انگیز عالمگیر تعلیم ہے اس کے سوا انسانی مسائل کا حل ممکن ہی نہیں ہے.میں نے خدا کے فضل سے دنیا کے بہت سے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے مگر ایسا خوبصورت موتی میں نے کسی اور سمندر میں نہیں پایا، ایسا عظیم الشان جو ہر ہے جو اپنی چمک میں ایسی تا بانی رکھتا ہے کہ کل عالم کو روشن کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اس تعلیم کو اگر دنیا میں جاری کیا جائے تو وطن کی محبت سے ٹکرائے بغیر انسان کی خدمت کی جا سکتی ہے اور ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاسکتا ہے.مثلاً امریکہ کا احمدی جو اس وقت میری بات کو سن رہا ہے اس سے میں یہ کہوں گا کہ اپنی وطن کی محبت کو قربان نہ کرو لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں اپنے بھائیوں کے ہاتھ ظلم سے روکنے کے لئے جہاد کرو امریکہ جو غیر قوموں پر ظلم کر رہا ہے اور دن بدن زیادہ رعونت کا مظاہرہ کر رہا ہے اگر تم اپنے وطن سے محبت کرتے ہو تو سب سے پہلے تمہارا فرض ہے کہ تم امریکہ کے ہاتھ روکنے کی کوشش کرو اگر انگلستان کسی اور ملک پر ظلم کرتا ہے تو انگلستان کے احمدیوں کا فرض ہے اور اولین فرض ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے بھائیوں کو بتائیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے ملک پر ظلم کا داغ لگے اور اس طرح ان کے ہاتھ روکنے کی کوشش کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر باہر سے ہزار آواز میں بلند کی جائیں تو امریکہ پر ایسا اثر نہیں پڑسکتا جیسے امریکہ سے ایک آواز بلند ہونے پر پڑ سکتا ہے کیونکہ وہاں ابھی جمہوری قدریں زندہ ہیں وہاں آواز کی قیمت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 48 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء ہے.مگر بیرونی آواز کی نہیں اندرونی آواز کی قیمت ہے، بیرونی آواز کی قیمت تو اس وقت ہوا کرتی ہے جب ایک ملک کمزور ہو جب ملک طاقتور ہو اور اتنا طاقتور ہو جائے کہ طاقت کے نشے میں ہوش گنوا بیٹھے تو باہر کی آواز کی کوئی بھی قدر و قیمت باقی نہیں رہا کرتی ہے پھر اندر کی آواز ہی ہے جو کچھ اثر دکھا سکتی ہے.پس یہ امر واقعہ ہے کہ باہر کی ہزار آوازوں میں وہ طاقت نہیں جو امریکہ کی ایک آواز میں ہے وہاں کے احمدیوں کو چاہئے کہ سارے ملک میں مہم شروع کر دیں.اور اپنے اہل وطن کو یہ تضاد کھول کر دکھائیں ان کو کہیں کہ تم نے ہمیں بد نام کر دیا ہے عالم میں ہماری ناک کاٹ دی ہے ہمیں غیر قوموں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی توفیق باقی نہیں رہی اس لئے ہم سب ان پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ورنہ اگر آئندہ ایسی حکومتیں ووٹ لینے کے لئے آئیں گی تو ان کو ووٹ نہیں دیئے جائیں گے.طاقت ملی تھی، دنیا کے سامنے نیک کام کرنے کی توفیق ملی تھی اور امریکہ کے نام کی عزت بڑھانے کی توفیق ملی تھی ، ایک نیا عالمی نظام واقعةً پیدا کرنے کی توفیق ملی تھی.یہ ساری توفیقیں ظلم کی بھینٹ چڑھادی گئیں ذاتی تکبر کے نام پر قربان کر دی گئیں کتنا بڑا ظلم ہے.پس اس ظلم کے خلاف امریکہ کے احمدی کو احتجاج کرنا چاہئے اور اسی طرح ہندوستان کے احمدی مسلمان کو ہندوستان کے ہاتھ ظلم سے روکنے چائیں.ان کو با قاعدہ ہندوستان کی سطح پر ایک جد و جہد کرنی چاہئے اور میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ انسانی قدریں واقعہ مری نہیں ہوئیں یہ دب جایا کرتی ہیں شرافت کی آواز کا گلا ہمیشہ کے لئے نہیں گھونٹا گیا شرافت کی آواز اندر اندر ضرور بولتی رہتی ہے اندر کے کان سنتے ہیں لیکن باہر آواز نہیں جایا کرتی ایسا ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ شرافت کو تقویت ملے اس کی حوصلہ افزائی ہو وہ آواز جو انسان اندر سے سنتا ہے وہ باہر کے کان بھی سننے لگیں اور اس کے لئے بعض دفعہ قومی حالات کے بدلنے کے نتیجہ میں شرافت کی جرائتیں جاگ جایا کرتی ہیں بعض دفعہ بلکہ اکثر اوقات اگر بار بار نیکی کی تعلیم دی جائے اور اخبارات میں خطبوں کے ذریعہ یا دوسرے مضامین کے ذریعہ یا ریڈیو ٹیلی ویژن پر تو فیق ملے تو اس پر اپنے خیالات کے اظہار کے ذریعہ قوم کی آراء پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے.اہل قوم کے خیالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے تو یہ ذریعہ کامیاب ہوتا ہے قرآن کریم نے چھوٹے چھوٹے نکتے بیان فرمائے ہیں جو حیرت انگیز طور پر وزن رکھنے والے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 49 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء اور بہت ہی عظیم نکتے ہیں.آنحضرت میر کو مخاطب کر کے فرمایا فَذَكِّرُانْ نَّفَعَتِ الذِّكْرُى الا علی : ۱۰) کہ اے محمد تو نصیحت کرتا چلا جا نصیحت کرتا چلا جا، کبھی مایوس نہ ہو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكری کہ یہ نصیحت ضرور اثر کر کے دکھاتی ہے.پس رائے عامہ کو بدلنے کے لئے قو میں جوارب ہا ارب ڈالر اور سٹرلنگ بہاتی ہیں اور ان کاموں پر اتنی دولتیں صرف کرتی ہیں یہ در حقیقت حضرت محمد مصطفے ﷺ کے اس نکتہ کا پھیلاؤ ہے ایک قطرے سے بنا ہوا سمندر ہے مگر وہ قطرہ ہے کہ جن دلوں کو وہ سمندر بنانے کے لئے آسمان سے اترا تھا.ان دلوں نے اسے قبول نہیں کیا غیروں کے دلوں نے ایک ایک دل نے اس کو قبول کیا اور دنیا میں اربوں انسان ایسے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن انہوں نے اپنی قومی عظمتیں حضرت محمدمصطفی ﷺ کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے حاصل کی ہیں اور بحال رکھی ہیں یہ پراپیگنڈا کی دنیا ہے مگر پرو پیگنڈا کی دنیا بدنصیبی سے جھوٹے پروپیگنڈا کی دنیا ہے نصیحت تو مانی لیکن غلط کر کے مانی گھونٹ تو پیالیکن کروا کر کے زہر ملا کر پیا ایسا گھونٹ ہے جو بالآخر ان قوموں کو بھی ہلاک کر دے گا.غیروں کو اس نے کہاں شفاء بخشنی ہے مگر حضرت محمد مصطفی اللہ کی نصیحت اگر مسلمان پکڑ کر بیٹھ جاتے اور آج بھی وقت ہے کہ اس کو سمجھیں اور اس کے مطابق ایک عام نصیحت کی مہم جاری کریں اور ہر ملک کے باشندے اپنے ملک سے وفا کا اظہار کرتے رہیں اور اس ملک کی راؤں اور اس ملک کے خیالات کی اصلاح کی خاطر ایک مہم جاری کریں تو جماعت احمدیہ اس دور میں ایک عظیم الشان خدمت کرنے والی ہوگی جو وطن کی بھی الله خدمت ہوگی انسانیت کی بھی خدمت ہو گی سچائی اور حق کی خدمت ہوگی محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کی خدمت ہوگی اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر دنیا درست نہیں ہو سکتی ہم مذگرین کی جماعت ہیں ہم خدائی فوج داروں کی جماعت نہیں ہیں.پس تلواریں لے کر دنیا کی اصلاح کا عزم لے کر نکلنے والوں کو ان کا عزم مبارک ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ ان کے خیال میں جو مبارک عزم ہے وہ خدا کی تقدیر کے نزدیک نامسعود اور نامبارک عزم ہے کیونکہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کا اسوہ نہیں ہے یہ آپ کے دشمنوں کا نسخہ تھا حضرت محمد ﷺ کو عالمی اصلاح کا جو نسخہ دیا گیا وہ تو یہی ہے کہ فَذَكَرُ انُ نَفَعَتِ الذكرى نصیحت کر اور نصیحت کرتا چلا جا کیونکہ نصیحت ضرور فائدہ پہنچاتی ہے.پس تمام عالم کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نصیحت کریں اور کثرت سے کریں اس سے پہلے ہم نے انگلستان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 50 50 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء میں تجربہ کر کے دیکھا تھا اور بہت کامیاب ہوا تھا.احمدی بچے ، عورتیں ، احمدی مرد مگر زیادہ تر احمدی خواتین اور بچیوں نے اس میں حصہ لیا اور انگلستان کی رائے عامہ پر اثر انداز ہوکر دکھایا تو احمدی ہر جگہ یہ کام کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ میں جو اور اہم تعلیم آپ کو دیتا ہوں وہ دعا کی تعلیم ہے.دعا ہی ہے جو کمزوروں کی آواز میں طاقت پیدا کرسکتی ہے دعا ایک ایسی طاقت ہے جو ایک تنکے کوشہتیر کی طاقت عطا کر سکتی ہے اور دعا ہی سے قطرے سمندر بنا کرتے ہیں.آپ کی نصیحت کے قطرے بے کار جائیں گے اور اردگرد کی پیاسی زمین ان کو جذب کر کے ان کا نشان بھی باقی نہیں چھوڑے گی ہاں اگر دعا کی برکت ان کو حاصل ہوئی تو پھر ضر ورسمندر بنیں گے ضرور کل عالم کی پیاس بجھانے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے.پس دعاؤں کے ذریعہ اپنے ہم وطنوں کی بھی مدد کریں گے ظالموں کے ہاتھ روک کر مظلوموں کی بھی مدد کریں اور نصیحت کرتے چلے جائیں تا کہ دنیا میں سچ کا بول بالا ہو اور بالآخر انسان کو عقل آجائے.دنیا جتنی ترقی کر چکی ہے اتنا ہی انسان جاہل اور بے عقلا ہو چکا ہے، بڑا ہی بیوقوف ہے یہ نفرت سے کیسے مزے حاصل کر سکتے ہیں نفرت تو شیطانی کھیل ہے اس کے نتیجہ میں کوئی حقیقی دائمی لذت مل ہی نہیں سکتی ان کو پتا ہی نہیں.بش صاحب کا اعلان آیا ہے کہ میں چند دن ہوں دیکھنا میں انتقام لے کر چھوڑوں گا کس بات کا انتقام؟ اگر ظلم کا انتقام لینا ہے تو ساری دنیا ظلم سے بھری بیٹھی ہے پھر امریکہ بیٹھے کیا کر رہے ہونکلو اور ایک ایک ملک سے انتقام لواب اتنے بڑے ملک کا اتنا عظیم صد ر اور کیسی جلا ہلا نہ باتیں کر رہا ہے بیچارے امریکن احمد یوں کو چاہئے کہ اس کا ہاتھ بھی ظلم سے روکیں ، اس کی زبان بھی ظلم سے روکیں ، اس کو سمجھا ئیں تو سہی کہ ہمارے بھائی ہم پر یہ ظلم نہ کرو.دنیا کے سامنے ہمیں ذلیل ورسوا نہ کرو.انتقام کیسا کس بنا پر کس برتے پر؟ یہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا انتقام ہے یا کسی اور چیز کا ؟ اگر عیسائیت کا انتقام ہے تو پھر عیسی علیہ السلام سے تو انتقام نہ لو آپ نے تو اور تعلیم دی تھی آپ نے تو عالمگیر بخشش کی تعلیم دی تھی ، آپ نے تو یہ تعلیم دی تھی کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی پیش کر دیا کرو تمہیں تو چاہئے کہ امریکہ کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر صدام کے سامنے پیش کرو کہ یہ ہے ہمارا انتقام جو ہمارے آقا و مولا نے ہمیں سکھایا ہے بجائے اس کے کہ اس کے حصے بخرے کرنے شروع کر دو اور عملاً یہی ہو رہا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 51 خطبه جمعه ۱۵ جنوری ۱۹۹۳ء نقشے بن چکے ہیں حقیقت میں یونائیٹڈ نیشنز کے نام پر جو غیر معمولی غیر تیں دکھائی جارہی ہیں یہ اسلئے ہیں کہ یہ عراق کے نئے نقشے بنا رہے ہیں اور مغربی قو میں بحیثیت سیاسی وحدت کے تمام دنیا کا اپنے آپ کو مالک سمجھتی ہیں اور ملکیت کے اس تصور میں انہوں نے اپنا یہ پیدائشی حق سمجھا ہوا ہے کہ دنیا میں جتنے چاہیں نئے ملک بنائیں اور جتنے چاہیں پرانے ملک مٹائیں ، نئے نقشے بنا ئیں نئی عمارتیں تعمیر کریں یہ ہمارا حق ہے اور کسی اور کو مجال نہیں ہے کہ وہ اس کے مقابل پر احتجاج بھی کرے تو وہ نقشے بنے ہوئے ہیں وہ آہستہ آہستہ ابھرتے جائیں گے اور ظاہر ہوں گے.اس کے بعد دنیا کی حکومتیں ان کو تسلیم کریں گی بے قوف اسلامی حکومتیں (نعوذ باللہ ) لیکن جو اسلامی کہہ رہی ہیں اور بیوقوف ہیں وہ آگے بڑھ بڑھ کر صاد کریں گی کہ ہاں ہم تسلیم کرتی ہیں ہم یہ نقشہ تسلیم کرتے ہیں اس طرح نئے ملک ابھارے جائیں گے.یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ ان قوموں کو سوچنا چاہئے کہ الہی تقدیر اپنے طور پر ایک کام کر رہی ہے اور ان چیزوں کے خلاف رد عمل پیدا ہور رہے ہیں اور یہ رد عمل بڑھتے چلے جائیں گے اور نفرتوں کے جو بیج بوئے جار ہے ہیں ان سے نفرتوں کی کھیتی ضرور پکے گی اور کل عالم کا انسان جو پہلے ہی بے چارا مصیبتوں میں مبتلا ہے مزید مصیبتوں میں مبتلا کیا جائے گا یہاں تک کہ یہ طرز عمل جو آج دنیا میں اختیار کی جارہی ہیں اگر ثابت شدہ ہو کہ یہ نا انصافی پر مبنی ہے ، حق اور انصاف پر مبنی نہیں تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کا امن برباد ہو گا.کس طرح ہوگا آج ہوگا کل ہوگا یہ باتیں تو ابھی ظاہر ہوں گی لیکن میں یہ ایک ایسا قانون بتارہا ہوں جو سنت اللہ ہے کیونکہ عدل کے بغیر دنیا میں انصاف قائم نہیں ہو سکتا یہ خدا کی سنت ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کوئی نہیں ہے جو اس سنت کو تبدیل کر سکے زہر کے بیج بوئے جار ہے ہیں، نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں.جاپان میں بھی رد عمل پیدا ہو رہے ہیں جرمنی میں بھی رد عمل پیدا ہور ہے ہیں دوسرے ممالک میں بھی رد عمل پیدا ہور ہے ہیں.نئی نسلوں کے دلوں سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے درست نہیں ہے ان کا پروپیگنڈہ میڈیا چاہے اپنی طاقت کی وجہ سے غالب آچکا ہو اور کمزور آوازوں کو اُٹھ کر باہر نکلنے کی اور سنائی دینے کی اجات نہ ہو لیکن دلوں میں تو یہ آواز میں پیدا ہو رہی ہیں اور پھر حالات بدل جاتے ہیں یہ حالات ایسے ہی نہیں رہا کرتے قانون قدرت کے خلاف ایک اور بات یہ ہے کہ دنیا میں ایک طاقت کا نقطہ اکیلا نہیں رہ سکتا یہ انسانی فطرت کے خلاف
خطبات طاہر جلد ۱۲ 52 خطبه جمعه ۱۵؍ جنوری ۱۹۹۳ء ہے یہ سائنسی قوانین کے خلاف بات ہے ان لوگوں کو یہ کیسے سمجھایا جائے جو دنیا کی عقل و دانش کی بلندیوں پر کھڑے باقی دنیا کو بیوقوف اور ذلیل سمجھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہم تو عقل و دانش اور علم کی بلندیوں سے بات کر رہے ہیں دنیا کو کیا پتا عقل کیا ہوتی ہے اور ان کو اتنا بھی نہیں پتا کہ Polarization کا جو اصول ہے وہ ایک دائمی اصول ہے اس کو کوئی تو ڑ نہیں سکتا کوئی کاٹ نہیں سکتا اگر امریکہ نیکی کا پول قائم کرتا.انصاف کا پول قائم کرتا محبتیں پھیلانے کا پول قائم کرتا، بھوکوں کے پیٹ بھرنے کا اور حقیقت میں غریب انسانیت کی مدد کا Pole قائم کرتا تو اس پول کے مقابل پر لازماً ایسا ہی ایک پول قائم ہو جاتا ہے اور پھر ایک دوسرے سے مسابقت یعنی نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی مسابقت کا ایک دور چل پڑتا ہے.ایک طرف امریکہ دنیا کو جیتنے کے لئے نیکیاں کر رہا ہوتا ایک طرف ایک پول جاپان میں پیدا ہو جاتا اور وہ کوشش کرتا پول سے بجلی کا مرکزی نقطہ مراد ہے جو اپنے ارگرد کھینچتا بھی ہے اور اپنے سے بعض طاقتوں کو دفع بھی کرتا ہے تو نیکی کے پول کھینچتا، مراد یہ ہے کہ اگر ایسا پول ایک طرف قائم ہو تو مد مقابل ایک پول ضرور بنے گا خواہ اس کا مرکز یورپ بنتا خواہ اس کا مرکز جاپان بنتایا چین بنتا ایسا پول بنا لا زم تھا اب ہم کیا دیکھ رہے ہیں نفرتوں کے نتیجہ میں ایک نفرت کا پول دنیا میں دوسری طرف ضرور ظاہر ہوگا اور وہ پول امریکہ کی نفرت کا پول ہوگا.اس کی بنیادیں جاپان میں ڈالی جا چکی ہیں، اس کی بنیادیں چین میں قائم کر دی گئی ہیں درمیانی دنیا کے ملکوں میں بھی یہ نفرت دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے.یورپ میں بھی اس کی بنیادیں ڈالی جا چکی ہیں یورپ میں بالغ نظر سیاستدانوں کی ایک کھیپ ہے جو سمجھ رہی ہے کہ امریکہ کی اس قسم کی بالا دستی دنیا تسلیم نہیں کر سکتی کہ عدل کا خون کر کے امریکہ کے نام کا غلبہ دنیا پر ہو اس وقت صرف مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے کل دوسروں پر بھی ہو سکتا ہے اور ہوگا.اس لئے پول بنانے والا جو یہ قصہ ہے اس میں انسان کو خدا نے یہ اختیار دیا ہے کہ چاہے تو نیکی کے پول بنالوجیسا کہ مسلمانوں کو تعلیم دی کہ وَلِكُلّ وَجَهَةٌ هُوَمُوَ لَيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقره: ۱۴۹) اے محمد رسول الله ﷺ جو کوثر کے مالک ہیں سب خیرات کے جاری کرنے والے ہیں ان کے غلامو! ہم تمہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کا پول قائم کرو، اگر ایسا کرو گے تو دنیا میں جگہ جگہ تمہارے مقابلے، تمہاری رقابت کی خاطر ہی لوگ نیکیوں میں آگے بڑھنا شروع کر دیں گے لیکن آج جو پول قائم ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 53 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء ہے یہ نفرتوں کا پول ہے، یہ ظلموں کا پول ہے، انصاف کا خون کرنے کا پول ہے.ایسا پول اب جگہ جگہ بننے کی کوشش کرے گا نفرتیں کمزور ملکوں میں سینوں میں کس گھولیں گی اور بے چینی پیدا کر دیں گی اور جب کبھی عالمی جنگ آئی اُس وقت یہ نفرتیں ضرور سر باہر نکالیں گی اور اس وقت امریکہ کو محسوس ہوگا کہ ہم نے آئندہ مستقبل کے لئے کیا آگے بھیجا تھا جاپان میں تو ابھی سے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک روچل پڑی ہے اسی طرح خطرہ ہے خطرہ کیا؟ مجھے تو دکھائی دے رہا ہے کہ روس میں بھی ضرور ایسا ہو گا روس کے لئے میں خصوصیت سے دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.جب ہم روس کہتے ہیں تو ہماری مراد USSR کی تمام مشتر کہ ریاستیں ہیں یعنی وہ علاقہ جس میں یہ ریاستیں شامل تھیں ان میں سے کچھ کٹ چکی ہیں لیکن کبھی روس سے وابستہ تھیں اس سارے علاقہ کو اردو میں روس ہی کہا جاتا ہے اور بہت سی دوسری قوموں میں بھی USSR کو روس کے نام سے جانا جاتا ہے بائیبل میں بھی روس کا ہی محاورہ ہے جو دراصل ان ساری قوموں کی اجتماعی طاقت کے لئے استعمال ہوا تھا.روس کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خیال دل سے مٹا دیں کہ کمزور ہو گیا اور ٹوٹ گیا ، یہ دوبارہ ضرور ابھرے گا، روس کے اندر طاقت کی وہ اکائیاں موجود ہیں جن میں دھائیاں بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں اس وقت وہ آپ کو اکائیاں دکھائی دے رہی ہیں لیکن Potentials میں یہی بات ہوا کرتی ہے کہ Potential اگر صحیح استعمال ہو تو ایک وقت کے بعد بڑھتا ہے پھولتا پھلتا ہے اور زیادہ ہو جایا کرتا ہے.روس میں طاقت کی بڑی بھاری اکائیاں موجود ہیں اور گزشتہ ۷۰ سالہ اقتصادی غلطیوں کے نتیجہ میں روس کو جو نقصان پہنچا تھا یہ دائمی نقصان نہیں ہے روس نے لازماً ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنا ہے خواہ تمام ریاستیں اکٹھی رہ کر ابھریں یا الگ الگ رہ کر ، بعد ازاں دوبارہ ایک دوسرے کی طرف Gravitate کریں اور ایک دوسرے کی طرف جھکیں اور ایک بڑی وسیع پیمانے کی کنفیڈریشن بنالیں لیکن جو بھی ہوگا اس علاقے کی تقدیر میں دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ زمانوں میں اس نے دنیا میں ضرور اہم کردار ادا کرنے ہیں، اس لئے میں جماعت کو روس کی طرف توجہ دلاتا ہوں اس کے لئے بھی دعائیں کریں کیونکہ اس سے پہلے جب ساری دنیا میں روس کا ہوا پھیلایا جار ہا تھا اور مغربی پراپیگنڈہ کے ذریعہ اس کو دنیا کی سب سے بڑی انسان دشمن طاقت کے طور پر دکھایا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 54 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء جاتا تھا تو اس وقت بھی یہ روس کا ہی فیض تھا کہ غریب ملکوں کو سانس لینے کی آزادی ملی ہوئی تھی چھوٹے ہو کر بڑوں کو للکارنے کی طاقت تھی.یہ توفیق تھی کہ اگر ان پر ظلم ہوں تو دنیا میں علی الاعلان کہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے اور روس کی حمایت کا ہوا تھا جو بڑی بڑی طاقتوں کو امریکہ کو اور یورپ کی طاقتوں کو اپنے مقام پر رکھا تھا، ان کی مجال نہیں تھی کہ اپنے مقام سے ہٹ کر آگے بڑھ کر کسی پر مزید ظلم کر سکیں ظلم کے ہاتھ جو چل پڑتے تھے اور وہ تیر جو کمانوں سے نکل چکتے تھے ان کو بھی واپس لے لیا جا تا تھا.مصر میں کیا ہوا اس کی تاریخ آپ کے سامنے ہے.سویز کنال کے جھگڑے کے وقت کیا قصہ ہوا اور بعد میں کیا کارروائیاں ہوئیں ان کی تفصیل بتانے کا وقت نہیں لیکن دنیا کے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو یاد ہوگا اور جن کو یاد نہیں وہ ایک دوسرے سے پوچھ لیں.اب مثلاً پاکستان، میں ہر ایک کو میں ساری تفصیل تو نہیں بتا سکتا لیکن جمعہ کے بعد باتیں ہوں گی تو ایک دوسرے سے پوچھیں کہ کیا ہوا تھا تو وہ آپ کو بتادیں گے کہ کیا کارروائی ہوئی تھی.امریکہ جھک گیا، ہمغرب جھک گیا، مجبور ہو گئے اور امریکہ روس سے جھکا اور امریکہ نے خود جھک کر یورپ کو جھکایا اور اسرائیل کو جھ کا یا اور وہ ظالمانہ کارروائی جو مصر کے خلاف کی گئی تھی اُسے واپس لینے پر مجبور کر دیا تو یہ واقعات کیوں ہوتے تھے روس کا احسان تھا.پس یہ احسان بالا رادہ تھا یا حالات کے تقاضوں کے نتیجہ میں خود بخود ظاہر ہور ہا تھا لیکن احسان احسان ہی ہے، دنیا کو ایک قسم کا امن نصیب تھا وہ امن دنیا سے اٹھ گیا ہے.اس لئے اپنے اس محسن کو دعاؤں میں یا درکھیں ، دعائیں کریں کہ پھر خداروں کو ایک عظیم طاقت بنادے لیکن ایسی طاقت بنائے جو اپنے ملک کے باشندوں کے لئے بہتر ثابت ہو اور دنیا کے دوسرے ملکوں کے باشندوں کے لئے بھی بہتر ثابت ہو ، یہ ایسی طاقت بن کر ابھرے جو اسلام کے اس اصول کو سینے سے لگا کر اٹھے کہ ہم نے عالمی عدل قائم کرنا ہے اور مظلوموں کی حمایت کرنی ہے اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.اس ضمن میں میں نے جوتحریکات پہلے کی کیں ہیں ان میں سے ایک تحریک میں آخر پر آپ کو یاد کرواتا ہوں اور خطبہ کا بقیہ حصہ جو میرے نوٹس میں ہے وہ انشاء اللہ آئندہ بیان ہوگا میں آپ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ روس کے نظام کی ناکامی میں صرف اشترا کی فلسفے کو دخل نہیں تھا روس کی طاقت اس لئے ٹوٹی ہے کہ اس نظام کی حفاظت کرنے والے دیانتدار نہیں رہے تھے اور نظام کے لحاظ سے اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 55 55 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء کے کئی پہلو ہیں.میں اقتصادی پہلو سے بات کر رہا ہوں یعنی نظام کے اقتصادی پہلو کے لحاظ سے اس نظام نے لازماً نا کام ہونا ہی تھا اور جب ایک اقتصادی نظام ناکام ہو اور اس کی بنیادی وجہ نظام چلانے والوں کی بڑھتی ہوئی بد دیانتی ہو تو جتنی غربت ملک میں بڑھتی ہے اتنا ہی بدیانتی کا معیار ملک میں اونچا ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کی سطح بلند ہوتی چلی جاتی ہے یہ بھی ایک قاعدہ کلیہ ہے جس کو کوئی بدل نہیں سکتا پس روس کے المیہ کا خلاصہ یہ ہے.ہم روس کی دو طرح سے خدمت کر سکتے ہیں.ایک اقتصادی بحالی کے ذریعہ جتنی بھی جماعت کو توفیق ہے.جماعت روس کے معاملات میں دلچسپی لے کر اور ان کے اقتصادی حالات کو سنبھالنے کے لئے حتی المقدور کوشش کر کے روس کی مدد کر سکتی ہے دوسرا اخلاقی تعلیم کے ذریعہ یہ سمجھا کر کہ آپ کی طاقت کا راز آپ کی اخلاقی قوت میں ہے.اگر آپ اخلاقی طور پر اپنی اصلاح کرلیں اور عالمی نوعیت کے اسلامی اخلاقی اصولوں پر قائم ہو جائیں.اسلام منظور ہو یا نہ ہولیکن اسلام کے اخلاقی اصول عالمی نوعیت کے ہیں وہ مقامی حیثیت کے ہیں ہی نہیں ، ان کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں جو تعلیم ہے عالمی نوعیت کی ہے، پس اسلام کا نام تو لیں مگر یہ بتا کر ہم اسلام کی اس تعلیم کی بات کر رہے ہیں جو عالمی نوعیت سے تعلق رکھتی ہے وہ سب ملکوں پر یکساں اثر کرے گی اور ہر ملک کو یکساں قابل قبول ہونی چاہئے.یہ سمجھا کر ان کی اخلاقی بہتری کیلئے کوشش کریں ان کی راہنمائی کریں ، ان کو اخلاقی اصول بتائیں، میرا تجربہ یہ ہے کہ روس میں اس وقت غیر معمولی طور پر اچھی بات سن کر قبول کرنے کی صلاحیت ہے وہ سچی بات کو سچ ہی مانتے ہیں اور جتنا مرضی مخالفانہ دباؤ ہو وہ سچ کے مقابل پر کسی دباؤ کو قبول نہیں کرتے.احمدیت کا پیغام ہم نے جن علاقوں میں پھیلایا ہے خدا کے فضل کے ساتھ وہاں کا رد عمل اتنا صحت مند اور اتنا حیرت انگیز ہے کہ دل حمد سے بھر جاتا ہے اور خدا کے شکر سے آنکھیں بہنے لگتی ہیں ابھی روس سے ایک وفد واپس آیا ہے ان کی رپورٹ یہ تھی کہ ہم جہاں جہاں گئے ہیں وہاں احمدیت کے پیغام کو انہوں نے برحق قرار دیا اپنے لئے اچھا مفید جانا اور کھل کر اظہار کیا یہاں تک کہ ایک ملک کے نائب پریذیڈنٹ نے باقاعدہ ٹیلی ویژن پر یہ اعلان کروایا کہ یہ احمدیت کا پیغام ہے ہم اس کو قبول کرتے ہیں.یہ سچا ہے اور ہم احمدیوں کو کھلے بازؤوں سے دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور اس ملک میں انسانیت کی خدمت کریں اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 56 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء انہوں نے ہر جگہ اس بات کا ذکر کیا کہ ہم وہ قوم نہیں ہیں جو سعودی یا کسی اور پیسے سے خریدی جائیں ان سعودی کوششوں کے خلاف شدید رد عمل ہے کہ جہاں مولویوں کو پیسے دے کر ان کو خریدنے یا مدرسوں کو خریدنے یا مسجدوں کے لئے تعمیری رقم دے کر مسجدوں کے متولی بننے کی کوششیں کی گئی ہیں اور روس کی نفسیات اس وقت صاف بتارہی ہے کہ وہ بعض اندھیروں سے روشنی میں آرہے ہیں اور بعض روشنیاں جو انہوں نے ان اندھیروں میں خود حاصل کی ہیں اور انسانی تجارب سے کمائی ہیں ان کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ہے ان کو نہیں چھوڑا.پس یہ وہ نفسیاتی کیفیت ہے جس میں ہر اچھی بات قبول کرنے کی صلاحیت ہے میں نے روس کو مخاطب کرتے ہوئے اوپر تلے تین مضامین لکھے ہیں اور اس کا رد عمل یہ تھا کہ بعض مضامین سب سے زیادہ وسیع الاشاعت اخباروں نے خود شوق سے شائع کئے ، اجازت لے کر شائع کئے بعض لوگوں نے وہ مضمون اپنے طور پر کتابی صورت میں شائع کر کے آگے تقسیم کئے بعض ٹیلی ویژنز پر وہ مضامین سنائے گئے اور ابھی آخری پیغام جو میں نے بھیجا ہے اس کے متعلق بھی مجھے بتایا گیا ہے کہ ٹیلی ویژنز کے ذریعہ یہ پیغام سارے ملک میں نشر کیا جائے گا جو خصوصا مخاطب تھا.ویسے تو ساراروس ہی مخاطب ہے یعنی سارا USSR تو انشاء اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں نیکی اور سچائی کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے خدمت کے بہت مواقع ہیں دوسرے اقتصادی لحاظ سے وہ سخت بے چینی کی حالت میں ہیں ان کے پاس بہت قدرتی دولتیں ہیں جن کو حقیقت میں صحیح رنگ میں استعمال نہیں کیا گیا اور وہ اسی طرح کھلی پڑی ہوئی ہیں کوئی انسان آئے اور ان سے فائدہ اُٹھائے لیکن وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں Exploiter یعنی کسی کی کمزوری اور غربت سے فائدہ اٹھانے والی امیر قو میں آکر یہ نہ کریں ہمیں اور ہی لوٹ مار کر ہماری دولتیں ٹوٹ کر باہر ملکوں میں بھیجنا شروع کر دیں.اس مشکل کا بہترین حل جماعت احمدیہ ہے جو ہر قسم کے ظلم وتشد داورٹوٹ مار کے بنیادی طور پر مخالف ہے.پس میں پھر جماعت کے تاجروں کو دعوت دیتا ہوں کہ ازبکستان، قازکستان، ادھر تا تارستان اور اس قسم کے جتنے بھی علاقے ہیں مسلمانوں کے، ان میں جائیں اور کثرت کے ساتھ خود ذاتی دورے کریں تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کتنے مواقع ہیں.ان مواقع سے فائدہ اٹھا ئیں وہاں کارخانے بنا ئیں، لیکن ایک نیست خدا کے لئے لے کر جائیں ان قوموں کو لوٹنے کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 57 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۹۳ء خاطر نہیں جانا.زندہ رہنے کیلئے جو کم سے کم منافع کی ضرورت ہے اس پر اکتفا کرتے ہوئے اقتصادیات کی کایا پلٹنی ہے اور اس کے وہاں بہترین مواقع موجود ہیں.دیانتداری کے ساتھ قوم کی خدمت کرنی ہے اور اس خدمت کے ساتھ اس کی روحانی خدمت خود بخود ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.(مین) دنیا کے مسائل تو بہت ہیں اور سب کا بوجھ ہم اپنے دلوں پر لیتے ہیں لیکن حضرت محمد مصطف اللہ کے دل کے صدقے جس میں تمام دنیا کی انسانیت کے دل دھڑک رہے تھے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی غلامی کے صدقے ہمارے دلوں کو بھی ویسی ہی وسعتیں عطا ہوں گی اور رفتہ رفتہ ہمارے دلوں میں بھی ساری انسانیت کے دل دھڑک کر ساری دنیا کی اصلاح کا موجب بنیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 59 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء مشرق سے مغرب تک حضرت محمد ﷺ کا جھنڈا بلند ہوگا.آپ کے اخلاق نا قابل شکست ہیں.سیدالقوم خادمهم گے تو دنیا کی سیادت تمہیں مل جائے گی.پھر فرمایا:.( خطبه جمعه فرموده ۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.الْهُكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَةُ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (التکاثر : ۲ تا ۵) کسی کہنے والے نے یہ خوب کہا تھا کہ وقت گھٹڑی کی تک تک سے نہیں بلکہ دل کی دھڑکن سے ناپا جاتا ہے.جب سے مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے لئے عالمی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور ہر جمعہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایک عالمی حیثیت کے ساتھ اکٹھے خلیفہ وقت کا خطبہ سننے کی توفیق عطا ہو رہی ہے.اب تو یوں لگتا ہے کہ ہمارا سال دنوں سے نہیں بلکہ جمعوں سے ناپا جارہا ہے اور احمدی ہر جگہ سے یہی لکھ رہے ہیں کہ اب تو ایک جمعہ گزرتا ہے تو دوسرے جمعہ کا انتظار شروع ہو جاتا ہے اور یہی عالم یہاں بھی ہے.میرے دل کی بھی یہی کیفیت ہے.جمعہ ہمیشہ ہی پیارا لگتا تھا لیکن اب تو جمعہ پر اور بھی زیادہ پیار آنے لگا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 60 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء کیونکہ اس جمعہ کے ذریعہ اپنے پیاروں کے ساتھ وصال کی ایک صورت بن جاتی ہے.مختلف ملکوں سے جو خطوط آ رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ میں حیرت انگیز رفتار کے ساتھ بڑی تیزی سے پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں اور احمدی یہ لکھ رہے ہیں کہ ہماری نئی نسلوں کو اب محسوس ہوا ہے کہ نظام جماعت کیا ہے اور ایک ہاتھ پر ایک خلیفہ کے تابع رہ کر خدمت دین کرنا کس کو کہتے ہیں اور نئے ولولے پیدا ہور ہے ہیں.عبادت کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ ہے قربانی کی روح بیدار ہورہی ہے اور نئے ولولوں کے ساتھ ، دلوں کے نئے تموج کے ساتھ جماعت شاہراہ اسلام پر آگے بڑھنے کے لئے پہلے سے زیادہ مستعدی سے قدم مار رہی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں اور یہ جو سلسلہ شروع ہوا ہے یہ تو ابھی انشاء اللہ بہت آگے بڑھنے والا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کچھ ایسے پروگرام ہیں جو بہت دلچسپ ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کے ساتھ ساتھ اگر پہلے یا بعد میں مناسب سمجھا گیا تو وقت بڑھا کر پیش کئے جائیں گے.بہر حال ایک بات تو قطعی ہے کہ اللہ ہی کی توفیق کے ساتھ بفضلہ تعالیٰ انشاء اللہ وقت بھی بڑھے گا اور دن بھی بڑھیں گے اور دل تو بڑھنے ہی بڑھنے ہیں.احمدیوں کے دل تو بڑھانے کے لئے اور بڑھنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور ابھی اس تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ احمدی دل آسمان سے باتوں ہی کے لئے تو بنائے گئے ہیں اور یہ محض محاورہ نہیں میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا میں کثرت سے احمدی دل اللہ تعالیٰ کی آماجگاہ بن جائیں گے اور جگہ جگہ خدا کی عظمت کے لئے احمدی دلوں میں عرش تیار ہوں گے اور دل بڑھنے کا انسانی محاورے کی رو سے یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ واقعۂ دل اچھل کر آسمان تک جا پہنچے ، ہمارا خدا اتنا مہر بان ہے کہ وہ نیچے اتر کر ہم تک پہنچ کر دل بڑھاتا ہے اور ہمیشہ ہر عاجز کے ساتھ اس کا یہی سلوک رہا تبھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے معرفت کا یہ نکتہ ہمارے سامنے رکھا کہ جو شخص خدا کے حضور عاجزی کرتا ہے، انکسار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رفع ساتویں آسمان تک کر دیتا ہے پس ہماری رفعتوں کا تعلق ہماری عاجزی اور انکسار کے ساتھ ہے.اللہ ہمیشہ شکر اور حمد کے ساتھ ہمارا سرا اپنی چوکھٹ پر جھکائے رکھے اور اسی اللہ کے حضور عاجزی اور انکساری میں تمام رفعتیں ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 61 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء جو خطوط مل رہے ہیں ان کی ساری باتیں تو آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتا لیکن اتنے پیارے خطوط ہیں ایسے عمدہ رنگ میں جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہر جمعہ پر دل چاہتا ہے کہ آپ سب سننے والوں کو کچھ نہ کچھ ان میں شریک کروں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک احمدی رسالے میں ایک نوجوان احمدی شاعر کا ایک شعر پڑھا تھا ان کا نام عبد الکریم قدسی صاحب ہے ان کا جو مقطع تھا وہ مجھے بہت ہی پسند آیا.وہ شعر یہ تھا: آ ! تیرے بعد گلے ملنا ہی بھول گیا آ! قدسی کو سینے سے لگا پہلے کی طرح تو اب یہ ایک قدسی کے دل کی آواز تو نہیں رہی اب تو لاکھوں دلوں سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ: آ! تیرے بعد گلے ملنا ہی بھول گئے آ! ہم سب کو سینے سے لگا پہلے کی طرح پس دعا کریں کہ واقعہ سینے سے لگنے اور سینے سے لگانے کے سامان ہوں اور روحانی لحاظ سے تو جو آثار ظاہر ہورہے ہیں یونہی لگتا ہے کہ انشاء اللہ تمام احمدیوں کے دل ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور تمام احمدیوں کے سینے ایک دوسرے سے مل جائیں گے مگر آج کل سینے سے لگانے کی باتوں کے ساتھ بعض بہت ہی دردانگیز باتیں بھی ذہن میں آجاتی ہیں وہ رات جبکہ امریکہ میں پھلجھڑیوں کی رات تھی جبکہ ہر طرف خوشیوں کی پھلجھڑیاں چلائی جارہی تھیں.عراق پر آگ برسائی جارہی تھی اور وہ آگ عراق پر نہیں بلکہ ایک ارب مسلمانوں کے دل پر برس رہی تھی.مسلمانوں کی دردانگیز کیفیت کی طرف دھیان جاتا ہے تو دل چاہتا ہے کہ ایک ارب مسلمانوں میں سے ہر ایک کو سینے سے لگا کر ڈھارس دوں اور تسلیاں دوں اور ان کو بتاؤں کہ آپ کمزور ہو چکے ہیں.مگر محد مصطفی ﷺ کا دین کمزور نہیں ہوا.آپ بکھر گئے ، آپ نے اپنے نفاق کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو کر اپنی خود غرضیوں میں پڑ کر جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا تھا اپنی ہوا نکال دی ہے.رعب جاتا رہا ہے.لیکن دین محمد مصطفی امیہ کا رعب نہ مٹا ہے نہ مٹ سکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی جو خاص اعزاز بخشتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ نصرت بــا الـــعـــب ( نسائی کتاب الجہاد حدیث نمبر : ۳۰۳۸) رعب کے ذریعہ میری نصرت کی جائیگی یہ وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 62 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء اصلى الله الصلوۃ والسلام پر بھی الہام ہوا.نصرت با الرعب کا الہام ہمیں تذکرہ میں چار پانچ مرتبہ ملتا ہے.(تذکرہ:۵۳) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی امیہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رعب عطا فرمایا گیا تھا وہ رعب ختم نہیں ہو گیا بلکہ اس دور میں آپ کے غلاموں کے ذریعہ وہ رعب پھیلتا چلا جائے گا اور ہر براعظم پر وہ رعب ظاہر ہوگا.پس یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں محمد مصطفی امت ہے کے خدا کے منہ کی باتیں ہیں جو کبھی غلط نہیں ہو سکتیں، دنیا کی کوئی طاقت ان باتوں کو تبدیل نہیں کر سکتی.پس مسلمانوں کو میں یہ خوشخبری دیتا ہوں اور ان کے دل بڑھانے کے لئے ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے ان کو مطلع کرتا ہوں کہ قرآن کریم میں ان سب بگڑے ہوئے ، دکھے ہوئے ایام کی پیشگوئیاں پہلے سے موجود ہیں اور ان قوموں کا بھی ذکر ہے جو اپنے تکبر میں دنیا میں خدا بن کر ظاہر ہونے پر خدا کے بندوں کو اپنے بندے سمجھنے والی تھیں یا یوں کہنا چاہئے کہ ان قوموں کا ذکر ہے جن کو تکبر نے مصنوعی خدا بنا دینا تھا اور خدا کے بندوں کو انہوں نے اپنا بندہ سمجھ لینا تھا اور پھر ان کے انجام کا بھی ذکر ہے.پس یہ خیال نہ کریں کہ آج دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں مسلمانوں کو رگیدنے اور ان کو اپنے پاؤں تلے مسلنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں اور ہمارا کوئی سہارا نہیں.اسلام کا سہارا خدا ہے اور وہ خدا ہے جس نے حضرت محمد مصطفی امی کو نہ کبھی بے سہارا چھوڑا نہ آئندہ کبھی بے سہارا چھوڑے گا اس لئے ہر گز کسی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.وہ آیات جن کی میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کی تھی وہ یہی مضمون پیش فرمارہی ہیں.اَلْهُكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَة كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ کہ اے دنیا کی بڑی طاقتو تمہیں التَّكَاثُرُ نے اپنی حقیقت سے غافل کر دیا ہے، اپنی حیثیت کو بھلا بیٹھے ہو، اپنے انجام کو دیکھنے کی استطاعت تم میں نہیں رہی.الهی کا مطلب یہ سب کچھ ہے جو میں نے بیان کیا اور اس کے علاوہ بھی کہ ایسی غفلت جس میں انسان اپنے مفاد سے بے خبر ہو جاتا ہے، اپنی حیثیت سے بے خبر ہو جا تا ہے،اپنے آغاز سے بے خبر ہو جاتا ہے، اپنے انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے.فرمایا تم ایسی غفلتوں کے ذریعہ ہلاک کئے جاؤ گے.الهُكُمُ التَّكَاثُرُ تمہیں مال بڑھانے اور طاقتیں بڑھانے اور دنیا کی لذات بڑھانے کے جنون نے اور ان ساری دنیاوی نعمتوں اور طاقتوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 63 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء کے شوق نے حقیقت سے غافل کر دیا ہے اور نتیجہ کیا ہے؟ فرمایا: حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ یہاں تک کہ تم مقبروں تک پہنچ گئے ہو.یہ آیت بڑی فصاحت و بلاغت کا مرقع ہے.ویسے تو سارا کلام الہی فصاحت و بلاغت کا مرقع ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا.بعض دفعہ جیسا کہ خدا نے دنیا میں خوبصورت پہاڑ بنائے ہیں ایک چوٹی سے بڑھ کر دوسری چوٹی آجاتی ہے اور اس سے بڑھ کر ایک اور چوٹی دکھائی دیتی ہے پس کلام الہی کی سیر کے وقت ایسے ہی مناظر دکھائی دیتے ہیں ایک سے ایک بڑھ کر ارفع آیت اپنا حسن دکھاتی ہے.یا یوں کہنا چاہئے کہ ہمیں بعض بلندیوں کا شعور عطا ہوتا ہے تو اچانک ایک آیت عام سطح سے اٹھ کر بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.سب آیات الہی میں رفعتیں ہیں لیکن ان رفعتوں کو سمجھنے کی استطاعت سب آنکھوں کو نہیں اور جن کو ہے ان کو ہر حال میں وہ رفعتیں سمجھنے کی استطاعت نہیں تھی اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے.کہ اس آیت میں غیر معمولی رفعت پائی جاتی ہے تو نعوذ باللہ یہ مطلب نہیں کہ کلام الہی میں دوسری آیات ادنی درجہ کی ہیں بلکہ بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں بعض کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن میں ان آیات کا جب مطالعہ کیا جائے تو نئی شان اور نئی رفعت کے ساتھ وہ ہمارے سامنے نمودار ہوتی ہے پس اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب اس آیت پر میری نظر پڑی تو میں سمجھا بلکہ یقین ہوا کہ یہ آیت آج کل کے حالات پر ہی خوب چسپاں ہو رہی ہے یہ نہیں فرمایا کہ اے انسان تو قبر تک جا پہنچے گا.فرمایا اے طاقتو ! تم مقابر تک جا پہنچو گی یعنی ایک ملک میں ایک قبر یا ایک قبرستان کی بات نہیں یہ تو ہر براعظم میں بعض مقابر بننے والے ہیں اور ان بڑی بڑی طاقتوں کو جب خدا کی سزازمین کے ساتھ ہموار کر دے گی اور ان کے تکبر تو ڑ کر پارہ پارہ کرے گی تو ان کے مقابر بھی تمام عالم میں بکھرے ہوئے دکھائی دیں گے کیونکہ یہ خدا کے بندوں کو جہاں جہاں غلام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ غلام بنا کر اس وقت تعلی کی خاص کیفیت میں مبتلا ہیں.ہر ایسے ملک میں ان کا بد انجام دیکھا جائے گا اور تمام ایسے ممالک میں تکبرات کے مقابر بننے والے ہیں.یہ ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کا تعلق کسی مسلمان کے انتقامی جذبہ سے نہیں کسی نفرت سے نہیں بلکہ مسلمان کو ان تمام مظالم کے باوجودا گر وہ حضرت محمد رسول اللہ یہ کا سا غلام ہے تو تمام عالم کے لئے رحمت ہی بننا ہے اور رحمت کے جذبات لے کر ہی دنیا میں نکلنا ہے لیکن جب رحمتوں کو دھتکار دیا جائے ، جب محبت کا جواب نفرت سے دیا جائے تو یہ آسمان کے خدا کے فیصلے ہیں کہ ان نفرتوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 64 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء سر تو ڑتا ہے ورنہ یہ دنیا رہنے کے لائق نہ رہے، یہ سارے سمندر ایسے کڑوے ہو جائیں کہ ان میں زندگی کی کوئی صورت بھی پنپناممکن نہ رہے.پس یہ تقدیر الہی کی باتیں ہیں وہ ضرور تکبر کے سرتو ڑا کرتا ہے تا کہ اس کے بندے اسی کے بندے بن کر رہیں پیس میں کسی جذبہ انتقام کی رو سے یہ بات نہیں کر رہا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو دائمی سچائی ہے اور جس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.بڑی بڑی قو میں پہلے بھی آئی ہیں پہلے بھی ان کے دماغ حقیقت میں تو نہیں مگر اپنے وہم میں اور اپنے خیال میں آسمان سے باتیں کیا کرتے تھے پہلے بھی تو فرعون پیدا ہوئے انہوں نے بھی تو خدائی کے دعوے کئے تھے.لیکن ذاتی استطاعت یہ تھی کہ ان کے ذہن کی بلندی ایک مینار کی حد تک جاسکی اور یہ حکم دیا کہ ایک اونچا سا مینار بنا دو تا کہ اس پر چڑھ کر میں دیکھوں کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے.پس ایسے ہی فراعین پہلے بھی پیدا ہوئے اب بھی پیدا ہورہے ہیں، آئندہ بھی شاید ہوں لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں متفرق جگہوں پر بڑے کھلے الفاظ میں ان حالات کا نقشہ کھینچا ہے اور ان فراعین کے تکبر کے پارہ پارہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے.پس یہ تعلیاں یہ خوش فہمیاں یہ دنیا کے سامنے اپنی انا کے قصے اپنی بڑائی کے تذکرے یہ سب آنی فانی چند دنوں کی باتیں ہیں.یہ ضرور لازما آسمان کی پکڑ کے نیچے آئیں گے اور خدا کا کلام ضرور پورا ہوگا لیکن میں مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہم انتقام کی خاطر نہیں بنائے گئے اگر ہماری خاطر قوموں کے تکبر توڑے جائیں گے تو محض اس لئے کہ وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی غلامی میں آنے کے لئے پہنی قلبی اور نفسیاتی لحاظ سے تیار ہو جائیں یہ مقصد اعلیٰ ہے جس کا قرآن کریم بڑے کھلے لفظوں میں ذکر فرماتا ہے.يَوْمَبِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ (ط : ۱۰۹) کہ جب تکبر توڑے جائیں گے زمینیں ہموار کر دی جائیں گی، جب تمام بڑی بڑی طاقتیں ایک چٹیل میدان کی طرح تمہیں دکھائی دیں گی.اس وقت نفسیاتی لحاظ سے انسان اس لائق ہو گا اس قابل ہو گا کہ محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کر سکے جن میں کوئی کبھی نہیں ہے.پس اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالم اسلام کو اپنی کجیاں تو دور کرنی چاہئیں.جب تک ان کے دلوں میں کجیاں ہیں ان کی سوچیں ٹیڑھی ہیں.ان کے تفکرات میں ایسے خم ہیں کہ جن کے نتیجہ میں وہ اسلام کی تصویر پیش کرنے کی بجائے اپنی انانیت کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 65 ہیں اس وقت تک خدا کی تقدیر یہ سامان ظاہر نہیں فرمائے گی.خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء الله.مسلمان کا تبدیل ہونا ضروری ہے اور مسلمان کو اپنے آپ کو سیدھے ہو کر ،سب خم نکال کر اپنے آقا و مولیٰ محمد مصطفی ﷺ کے قدموں میں پیش کرنالازم ہے.یہ کر کے دیکھو پھر دیکھو کہ آسمان کس طرح تمہاری مدد کے لئے یوں جیسے پھٹ پڑتا ہو.اس طرح ظاہر ہوگا کہ جیسے بلاؤں کے وقت آسمان پھٹتے ہیں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں مگر خدا کی قسم یہ بلائیں مسلمان پر نازل نہیں ہوں گی بلکہ اسلام کے دشمنوں پر نازل ہوں گی.تم محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر اپنے دل تو پھاڑو تم محمدمصطف اسی لیے کے دین کی خاطر اپنے سینے تو چاک کرو پھر دیکھو کہ خدا کا آسمان کس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر پھٹتا ہے اور کیسے تکبر کے سر توڑے جاتے ہیں مگر کس خاطر ؟ ہلاکت کی خاطر نہیں.یہ کہنے کی باتیں ہیں.یہ محض ایک زبان کے چسکے ہیں.اگر ہم یہاں تک آکر رک جائیں اور کہہ دیں کہ بہت مزا آیا صلى الله آسمان پھٹ پڑے دشمن ہلاک ہو گئے محمد رسول اللہ کی ہلاکت پیدا کرنے کے لئے تشریف نہیں لائے تھے.محمد رسول اللہ یہ زندگی عطا کرنے کے لئے آئے تھے اس پیغام کو مسلمان کو نہیں بھولنا چاہئے.جب بھی غضب کے جذبات دل میں پیدا ہوں جب بھی انتقام جوش ماررہا ہو.اس وقت اپنے خیالات کو سیدھا کرنا ضروری ہے.اور جن کجیوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی کبھی ہے کہ غیض وغضب کی کجی ، انتقام کی کبھی ہے جسے لازماً ہمیں ہموار کرنا ہو گا اور اسے ہموار کرنے کے لئے حضرت اقدس صلى الله محمد مصطفی امیر کے قدموں کی برکت کی ضرورت ہے اپنے دلوں پر ان پاک قدموں کو اتار ومحمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اپنی سیرت میں جاری کرو.اس طرح تمہاری سب کجیاں دور ہوں گی اور اسی میں سب علاج ہے ورنہ حالت یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی سیادت اور ان کی قیادت بدنصیبی سے دو ایسے حصوں میں بٹ چکی ہے کہ نہ اس طرف عقل ہے نہ اُس طرف عقل ہے ، نہ اس طرف نور باقی ہے نہ اُس طرف نور باقی ہے.ایک قیادت ہے جو Rightist کہلاتی ہے اور بجائے اس کے کہ صلى الله حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے زمانے تک پہنچ کر آپ ﷺ کے قدموں سے فیض حاصل کرے وہ ازمنہ وسطی میں ٹھہر جاتی ہے اور Medievalist بن کر اسلام کا ایک بگڑا ہوا تصور ہی دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کرتی بلکہ تلوار کے زور سے نافذ کرنے کا ادعا کرتی ہے.یہ دائیں بازو کی وہ بگڑی صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 66 خطبه جمعه ۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء ہوئی قیادت ہے جس میں کچھ بھی فیض نہیں ہے.ہمیشہ جب ابتلاؤں کے وقت آئے جب مسلمانوں پر مصیبتیں پڑیں مظالم ٹوٹے تو ان ظالموں نے اپنی نا کبھی کے نتیجہ میں غلط نعروں کے ساتھ مسلمان عوام کو اور زیادہ ظلموں کی آگ میں جھونکا ہے اس وقت کشمیر میں کیا ہورہا ہے؟، اس وقت ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟، اس وقت بوسنیا میں کیا ہو رہا ہے؟، اس وقت برما میں کیا ہو رہا ہے؟، بغداد پر جو قیامت ٹوٹی ہے وہ آپ کے سامنے ہے.ایک دکھ ہو تو کہوں، ایک ستم ہو تو سہوں ،کس کس دکھ کی باتیں کروں.سارا عالم اسلام اس وقت دکھوں میں مبتلا ہے مگر اس بد نصیب دائیں بازو کی قیادت کو کوئی ہوش نہیں ہے کوئی عقل نہیں ہے.ان کو پتا ہی نہیں کہ عالم اسلام کا امن محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ہے،آپ کی سیرت میں ہے.خیالی فرضی عشق کی باتوں میں کوئی امن نہیں ہے یہ سب جھوٹے قصے ہیں جس نام کی عزت کا ذکر کرتے ہوئے تم دلوں کو کھولاتے ہو اور آگئیں لگا دیتے ہو.ان آگوں میں جلتا کون ہے؟ پھر آخر بیچارے مسلمان ہی ان آگوں میں جلتے ہیں، بار ہا تم یہ ظلم کر بیٹھے ہو.آج تک تمہاری آنکھیں نہیں کھلیں.کس طرح تمہیں سمجھاؤں کس طرح وہ علاج کروں جس سے تمہاری آنکھوں میں دیکھنے کی استطاعت ہو.ایک نسخہ کو بار بار استعمال کرتے ہو اور ہر بار اس کے زہریلے اثرات میں مسلمانوں کو مٹتے ہوئے اور مرتے ہوئے دیکھتے ہو اور پھر وہی حرکتیں.انتقام کی آگ کی آواز اٹھانے سے اور انتقام کے شعلے بھڑ کانے سے عالم اسلام کا ہرگز کچھ نہیں بنے گا کیونکہ آج مسلمان کمزور ہے.اگر کمزور نہ ہوتے تو غیروں کو اس طرح بڑھ چڑھ کر کھلے بندوں بلا خوف وخطر عالم اسلام کو مظالم کا نشانہ بنانے کی توفیق نہیں مل سکتی تھی ، جرات نہیں ہو سکتی تھی.وہ جانتے ہیں کہ یہ کمزور ہیں ان کے پاس کچھ بھی نہیں صرف باتیں ہیں، آپس میں دل پھٹے ہوئے ہیں ، اپنے مفادات کے مارے ہوئے ہیں اور فرضی باتوں میں اپنی جنت بنائے بیٹھے ہیں ایسی قوم پر غیر کیوں حملے نہیں کرے گا.دوسری طرف وہ سیادت ہے جسے سیاسی قیادت کہا جاتا ہے وہ بھی انتہائی بدنصیب ہے.وہی بات ان پر صادق آتی ہے جو پیر پگاڑا صاحب نے فرمائی تھی کہ باتیں مشرق کی کرتے ہیں اور سجدے مغرب کو کرتے ہیں.واقعہ مغرب کو سجدہ کر رہے ہیں اور شاید ہی کوئی ہو جو مستثنی ہو.ورنہ صلى الله تمام عالم اسلام اس وقت مغرب کے سامنے سجدہ ریز ہو چکا ہے اور باتیں محمد رسول اللہ ﷺ کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 67 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء سربلندی کی کرتا ہے ان کو حق کیا ہے.جب اسلام کے سارے مفادات اپنے مفادات کی خاطر غیروں کے قدموں پر لٹا بیٹھے ہو تو پھر تمہیں ہمارے آقا و مولی محمد مصطفی ﷺ کا نام لینے کا کیا حق ہے؟ لیکن عوام سے جب ووٹ لیتے ہو پھر اسی نام پر لیتے ہو ظلم کی حد ہوتی ہے، سارا عالم اسلام احمق سیادت کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے، اپنوں کے ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے.پس ضرورت ہے کہ ان کو یاد دلایا جائے.ان کو ہوش دلائی جائے عالم اسلام کے اکٹھے ہونے کی شدید ضرورت ہے اور یہ اجتماع ایک ہاتھ پر تو ہو نہیں ہو سکتا کیونکہ مذہبی اختلاف اتنے ہیں اور اتنے فرقوں میں اسلام بٹ چکا ہے اور ہر فرقہ پھر آگے مولویوں کی مساجد میں بٹا ہوا ہے کہ یہ کوشش ہی بالکل بے سود اور لا حاصل ہے کہ مذہبی لحاظ سے آپ عالم اسلام کو ایک جگہ اکٹھا کر سکیں.ایک ہی صورت ہے اور وہی صورت ہے جس صورت کو اختیار کرتے ہوئے قائد اعظم نے برصغیر ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا تھا انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ تمہارے عقیدے کیا ہیں ، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ تم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہو یا پہلوؤں کو چھوڑ کر نماز پڑھتے ہو یا نہیں پڑھتے اگر تم مسلمان ہو یعنی اسلام سے تعلق رکھتے ہو اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم مسلمان ہو تو آؤ ! ہم اس ایک نام پر اکٹھے ہو جاتے ہیں.یہ سیاسی وحدت ہے اور سیاسیات میں سیاسی وحدت کی ضرورت ہے.مذہبی وحدتیں قائم کرنا اللہ کا کام ہے یہ وحدتیں آسمان سے اترا کرتی ہیں زمین سے نہیں اُگا کرتیں اور یہ وحدت قائم کرنے کے تو خدا نے خود سامان فرما دئے ہیں وہ حبل اللہ جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر قرآن کی صورت میں نازل ہوئی وہ حبل اللہ جو حضرت محمد رسول اللہ یہ کی صورت میں ایک زندہ نشان کے طور پر ہم نے دیکھی اور جو بعد میں آپ کی غلامی میں خلافت کی صورت میں جاری وساری ہوئی وہ پھر دوبارہ آسمان سے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لئے اتاری گئی ہے اور مذہبی اجتماع ہمیشہ آسمانی تقدیر کے تابع ہوا کرتے ہیں.یہ مرکزیت جب ایک دفعہ اٹھ جائے تو پھر آسمان کی رفعتوں سے خدا کی مرضی اور اس کے ارادے کے مطابق اُتر ا کرتی ہے انسان کا کام نہیں ہے کہ وہ اس بکھری ہوئی منتشر مرکزیت کو اکٹھا کر کے پھر ایک مرکزی خلیہ بنادے.پس ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہارے بس میں نہیں ہیں اور تمہارے اختیار میں نہیں ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 68 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء صلى الله سعادت تو اسی میں تھی کہ خدا تعالیٰ نے جب امام مہدی کو دنیا میں بھیجا تو اس کو قبول کرتے اور حضرت محمد رسول اللہ ہی کی خاطر اور آپ کی محبت میں اس کے ایک ہاتھ پر اکٹھا ہو جاتے صلى الله جو محمد رسول اللہ ﷺ کی نمائندگی میں اٹھنے والا آپ ﷺ کی نمائندگی میں بیٹھنے والا ، آپ ﷺ کی ہر حرکت پر حرکت کرنے والا اور ہر سکوت پر سکوت کرنے والا ہاتھ تھا.وہ ہاتھ تھا جو خدائی تقدیر کے ہے مطابق اس دنیا میں بھیجا گیا تھا.اس ہاتھ پر بیعت کرنا حقیقت میں تمام عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کے مترادف ہے لیکن اس بات کو تو تم کھو چکے ہو اور کھو رہے ہو.ہزار طریق سے ہم نے سمجھانے کی کوشش کی مگر تم ماننے کے نہیں اور دنیا میں تمہارے سامنے خدا تعالیٰ کی تقدیران مظالم اور مصائب کی صورت میں آنکھیں پھاڑے تمہیں دیکھ رہی ہے اور جب چاہے جس پر چاہے یہ برستی ہے خدا کی تقدیر خواہ غیر کی طرف سے ظاہر ہو رہی ہو کیونکہ محمد رسول اللہ اللہ کے سچے غلاموں کا یہ مقدر ہو ہی نہیں سکتا.ایک سزا ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ دائمی سزا نہیں.ایسی سزا نہیں جو تمہیں مٹا دینے کے لئے آئی ہو.یہ ابتلاء کے زلزلے ہیں.تمہیں جگانے کے لئے یہ وہ قارعہ ہے جو آسمان سے اتر رہی ہے تمہارے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے ہوش کرو اور آسمان کی اس آواز کو سنو جس نے اعلان کیا کہ مسیح آگیا ہے اور مسیح آگیا ہے اور زمین کی اس آواز کو سنو جس نے یہ کہا کہ محمد مصطفی ﷺ کا بھیجا ہوا مہدی بھی آج تشریف لے آیا ہے لیکن اگر یہ باتیں سننے کے کان نہیں اور یہ باتیں دیکھنے اور سمجھنے کی آنکھیں نہیں تو خدا کے لئے کم سے کم اس قیادت کی سچائی کی آواز کوسنو جو تمہاری بھلائی کے لئے اٹھتی ہے.احمدی ہو یا نہ ہو یہ تمہارا کام ہے مگر خدا کی قسم احمدیت سے تمہارا دین ہی نہیں تمہاری دنیا بھی وابستہ کر دی گئی ہے.احمدیت کی قیادت کو چھوڑ کر تمہارے لئے کہیں پناہ نہیں ہے.میں بار بارخدا کو گواہ بنا کر یہ کہتا ہوں کہ جب بھی تمہیں خیر پہنچے گی احمدیت سے پہنچے گی.جب بھی تم شر دیکھو گے احمدیت سے دور ہو کر اور احمدیت پر مظالم کے نتیجہ میں شرد یکھو گے.پس ان باتوں کو سوچو اور سمجھو.عالم اسلام کو اس وقت ایک آواز پر اکٹھا کرنے کا وقت ہے اور وہ آواز صرف یہ ہو کہ آؤ ہم نیکیوں پر اکٹھے ہو جائیں امت مسلمہ کے مشترکہ مفاد پر ا کٹھے ہو جائیں ہمیں سیادتوں اور قیادتوں سے کوئی غرض نہیں ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے سے غرض ہے آؤ اس قدر واحد پر اکٹھے ہو جائیں جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 69 69 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء ہے آسمان پر ایک خدا اور دنیا میں ایک رسول کی حکومت ہو یعنی ہمارے آقا اور مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اور آپ کی امت کے مفادات کو ہم دنیا کے ہر دوسرے مفاد پر فوقیت دیں اور ہر دوسرے مفاد کو اس مفاد پر قربان کرنے کے لئے دل سے تیار ہوں.اس آواز کے ساتھ عالم اسلام کو ایک اجلاس بلانا چاہئے اس میں مذہبی تفریق کی کوئی بات نہ ہو اس میں ایک دوسرے کے عقائد پر نہ طعن و تشنیع ہو نہ ان کا ذکر کرنے کی اجازت ہو.محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کی بات ہو.ملت واحدہ کی بات ہو اور مل کر یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے اس نازک وقت میں اپنے لئے کیا لائحہ عمل تیار کرنا ہے اور جو لائحہ عمل بھی تیار کریں وہ تقویٰ اور انصاف کے نام پر تیار کریں.ایسالائحہ عمل نہ ہو جو امت مسلمہ کو دوسروں سے الگ کر کے بیچ میں فاصلے پیدا کر دے کیونکہ فاصلے ہمیں موافق نہیں آسکتے فاصلوں کے لئے ہم بنائے نہیں گئے ، ہم نے ساری دنیا میں ملنا ہے.دنیا کو پیغام حق پہنچانا ہے ان کے دل جیتے ہیں.پس کوئی ایسا لائحہ عمل جو اسلام کو باقی دنیا سے الگ کر کے ایک طرف پھینک دے وہ لائحہ عمل اسلامی نہیں ہو سکتا.عالمی تصور انصاف پر مبنی ، حق کی باتوں پر مبنی ، وہ حق جس کا ذکر قرآن کریم میں بار بار ملتا ہے اور جس میں کوئی تفریق نہیں ہے، کوئی رنگ ونسل کا امتیاز نہیں وہ حق جو خدا کا نام ہے وہ حق جس کے نام پر تمام بنی نوع انسان کو دوبارہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے اس حق کی باتیں کریں اور دنیا کی سیادت کو سچائی سے اپنے زیرنگیں کریں دنیا کی سیادتوں کو سچائی کے نام پر زیرنگیں کریں اور اس سیادت کے اعلیٰ اور ارفع مقام کو حاصل کریں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے بنائی گئی ہے.یہ سیادت زور بازو سے تو حاصل نہیں ہو سکتی ،نفرتوں کی تعلیم سے تو حاصل نہیں ہوسکتی.اپنے امتیازی حقوق کے تصور سے تو حاصل نہیں ہو سکتی.یہ سیادت تو اسی طرح حاصل ہو گی جیسے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ نے اس سیادت کو حاصل کرنے کا راز بتایا تھا.فرمایا: سيد القوم خادمهم (الجہادلا بن المبارک کتاب الجہا د حدیث نمبر : ۲۰۷) کہ بنی نوع انسان کی خدمت کی آواز بلند کرو اور سیادت کا معاملہ آسمان کے خدا پر رہنے دو تم اگر خدمت کرو گے اور بنی نوع انسان کی خدمت کے نام پر ایک وحدت کی اپیل کرو گے اور سچ کی طرف ان کی راہنمائی کرو گے تو لا ز ما تم ساری دنیا کے سردار بن کر ابھرو گے کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے منہ کی کوئی بات کوئی ایک کلمہ، ایک کلمہ کی زیر زبر بھی کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی.آپ نے معرفت کا اتنا عظیم نکتہ ہمارے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 70 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء سامنے رکھا اور تمام دنیا کی سیادتوں کی کنجی ہمیں پکڑا دی جب فرما یاسیـدالـقوم خادمهم تم اگر دنیا کے سردار بنا چاہتے ہو تو تمہیں ان کی خدمت کرنا ہوگی.پس بنی نوع انسان کی خدمت کے نام پر اکٹھے ہو، ان سے فاصلے پیدا کرنے کے لئے اکٹھے نہ ہو.ایسی باتیں کرو جس سے قوموں کے دل جیتے جائیں.تمام دنیا کی قومیں تمہیں اپنا راہنما سمجھیں تمہیں اپنا بہی خواہ سمجھیں ان کی خیر تم سے وابستہ ہو جائے.ایسے مضامین سوچو، ایسے مضامین کے تذکرے کرو ایسا لائحہ عمل بناؤ جس کے نتیجہ میں ایک نئی یونائیٹڈ نیشنز ، ایک نیا عالمی نظام رونما ہو جو محد رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے وابستہ ہو، جو اس سچائی سے وابستہ ہو جس سچائی کا ذکر قرآن کریم میں بار بار ملتا ہے.جو خدا سے پھوٹتی ہے اور تمام بنی نوع انسان کو یکساں منور کرتی ہے آج ضرورت ہے کہ ان باتوں کومل کر سوچا جائے اور پھر ایک نئے عالمی نظام کو قائم کرنے کی داغ بیل ڈالی جائے.میں نے گلف (Gulf) کے خطبات کے دوران پہلے بھی متنبہ کیا تھا کہ عالم اسلام کے مسائل ختم نہیں ہوئے.یہ بڑھنے والے ہیں ہوش کے ناخن لو، تفریق کی باتیں چھوڑو.وسیع تعلقات اپنی باقی دنیا سے بناؤ اور عالم اسلام کو الگ کرنے کی بجائے باقیوں کو اپنی طرف کھینچو اور مل کر عالمی مفاد کی باتیں سوچو.اس وقت الگ الگ ہونے کا وقت نہیں رہا.بہت بڑے بڑے مصائب اور بہت بڑے بڑے خطرات درپیش ہیں اور ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کی باری آنے والی ہے.اللہ تعالیٰ نے جس صفائی کے ساتھ مجھے اس وقت وہ نظارے دکھائے میرا دل کا نپتا تھا اور میں خدا کے حضور گریہ وزاری کرتا تھا کہ اے اللہ ! ہمیں طاقت بخش ہمیں عقل کی روشنی عطا فرما، ہمیں الہام کا نور عطا کر جس کی روشنی میں ہم آگے چلیں اور ان مشکل وقتوں میں بیچ کی راہ پر قدم مارنے والے ہوں جو خطرات سے پاک راہ ہے.صرف سچ کی راہ ہے جو خطرات سے پاک ہے.پس سچائی کے نام پر اکٹھے ہو کر نئے منصوبے بناؤ اور عالم اسلام کو جھوٹ اور دغا بازی اور دوغلے پن اور منافقتوں کے چنگلوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرو، ورنہ بڑی تیزی کے ساتھ حالات ہاتھوں سے نکل جائیں گے.آج یو نائیٹڈ نیشنز امریکہ کی رعونت کا نام ہے.اس کے سوا اس کا کوئی اور نام نہیں.تمام قوموں نے سر جھکا دیئے ہیں.کسی میں کوئی غیرت اور حیا دکھائی نہیں دے رہی.کوئی اٹھ کر یہ آواز بلند نہیں کر رہا کہ انسانیت کی بات تو کرو، حقوق اور انصاف کی بات تو کر وہ تمہیں کیسے سیادت کا حق ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 71 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء پس حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی وہی نصیحت جس نے ہمیں یہ نکتہ سمجھایا کہ سیادت خدمت میں ہے اگر تم خادم بنو گے تو سیادت حاصل کرو گے اور تمہاری سیادت باقی رکھی جائے گی ، اسی پاک نصیحت نے ہمیں ان بدقوموں کے انجام دکھا دیئے ہیں جن کی سیادت کا تعلق خدمت سے نہیں بلکہ رعونت سے ہے.کمزور قوموں کو پاؤں تلے رگیدنے سے ہے.ان قوموں سے مقابلہ دعاؤں کے ذریعہ ہوگا اور وحدت کے ذریعہ ہوگا اور محض اسلام کے نام پر نہیں بلکہ سچائی کے نام پر وحدت کے ذریعہ ہو گا کیونکہ آج فضا تیار ہے آج ساری دنیا کے دل گواہی دے رہے ہیں کہ جو آگ بغداد پر برسائی گئی تھی وہ انصاف کے نام پر برسائی گئی ہے.وہ رعونت کی آگ تھی جس کی گرمی سب دنیا کے انسانوں کے دلوں تک پہنچی ہے.انگلستان کی حکومت ان کے ساتھ ہے لیکن اس کے باوجود انگلستان میں بے شمار ایسا انگریز ہے جو برٹش باشندہ ہے اور جو سخت بے چینی میں مبتلا ہو چکا ہے.بعض لوگوں کو آواز اٹھانے کی توفیق ملی ہے بعضوں کو نہیں مل رہی اس لئے کسی قوم سے نظریات میں اختلاف اور ظلم میں اس کی تائید نہ کرنا اس سے وفاداری نہیں، اس سے بے وفائی ہے.پس تمام امریکہ کے احمدی باشندے اور تمام انگلستان کے احمدی باشندے اپنی قوم سے وفا کریں.حق بات کے لئے اپنی آواز بلند کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ اگر وقت کی ایک حکومت نے ایک غلط پالیسی بنائی ہے تو اس سے اختلاف کرنا گویا کہ بے وفائی ہو جائے گی اگر ٹونی بین کو اجازت ہے، اگر انگلستان کے دوسرے بڑے بڑے اہل فکر کو اجازت ہے کہ وہ ان پالیسوں کے خلاف احتجاج کریں اور اس سے ان کی انگلستان سے وفاداری پر کوئی ضرب نہیں پڑتی تو احمدی کی وفاداری سے کیسے ضرب پڑسکتی ہے.ہماری وفاداری پر تو دنیا میں کہیں کسی حالات میں بھی ضرب نہیں پڑسکتی کیونکہ ہماری وفاداریاں اللہ سے ہیں اور حق سے ہیں اور تمام عالمی نظام کا بنیادی تصور خواہ کوئی مانے یا نہ مانے حق پر ان معنوں میں مینی ہے کہ جب آپ کسی قوم کو مخاطب ہو کر بات کریں گے تو خواہ وہ کیسی ہی جھوٹی ہو چکی ہو وہ اپنے آپ کو حق سے وابستہ قرار دے گی اور یہ دل کی اور فطرت کی آواز ہے، حق کے بغیر کوئی وابستگی ہو ہی نہیں سکتی.کوئی وفاداری حق کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.پس جھوٹے بھی حق کے نام پر ہی جھوٹ کی آواز بلند کیا کرتے ہیں.آپ تو سچے ہیں، آپ سچ کے نام پر حق کی آواز کیوں بلند نہیں کرتے.دل کے اخلاص کے ساتھ دنیا میں جہاں جہاں احمدی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 72 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء بس رہا ہے اپنی تمام تر کوششیں ان باتوں پر صرف کریں اور یہ بات عام پھیلائیں اور بتائیں کہ وقت کی ضرورت ہے کہ نیا عالمی نظام ابھرے، جو انصاف پر مبنی ہو، جو حق پر مبنی ہو اور جہاں جہاں احمدی اثر انداز ہو سکتے ہیں وہاں کے ملک کے سربراہوں کو سمجھائیں کہ یہ وقت ہے کہ یونائیٹڈ نیشنز میں ان باتوں کو اٹھایا جائے اور بڑی شدت کے ساتھ آواز بلند کی جائے کہ یا تو دنیا کی تمام بڑی قومیں اصولوں پر متحد ہونے کا فیصلہ کریں اور اس بات کی ضمانت دیں کہ انصاف اور تقویٰ اور سچائی کے اصولوں کو تو ڑ کر کبھی کوئی فیصلے نہیں ہوں گے یا پھر ہم تم سے الگ ہوتے ہیں.اگر رعونت اور تکبر کی بات ہے تو اپنی بادشاہی آپ چلاؤ.ہم ان جرموں میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں گے.اس آواز کو جرات کے ساتھ بلند کرنے کی ضرورت ہے اور اگر یہ آواز بلند ہوئی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اور طاقت پکڑے گی کیونکہ میں نے جہاں تک انسانی فطرت کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے مجھے دنیا کی ہر قوم سے اسی دھڑکن کی آواز آرہی ہے کہ ظلم ہو رہا ہے اور زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا.انسان کو ضرور انسانیت کے حقوق واپس لینے ہوں گے تبھی دنیا میں امن کی ضمانت ہو سکتی ہے اس کے بغیر ممکن نہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو کی جاسکتی ہیں لیکن اس وقت اس خطبہ کی حدود میں ان کا بیان کرنا ممکن نہیں.جہاں تک میں نے حالات کا تجزیہ کیا ہے.امریکہ کی موجودہ پالیسی امریکہ کے لئے تباہ کن ہے.وسیع پیمانے پر ایک انتہائی ظالمانہ خود کشی کی جارہی ہے.چند ناچ گانوں کے مناظر سے تو خوشیاں نہیں مل جایا کرتیں.چند دن یہ لوگ جو تمہارے ملک کے باشندے ہیں تمہارے ظلم کی تال پر ناچیں گے لیکن کل کو یہی تمہاری گردن کے پیچھے ہوں گے تمہارے خون کے پیاسے بنیں گے.ان پالیسیوں پر شرمائیں گے اور حیا محسوس کریں گے.ان کے اندر یہ احساس لازماً بڑھے گا کیونکہ امریکہ کی اکثریت انصاف پسند ہے اور حقیقت میں جمہوریت پسند ہے.میں نے اس ملک کا ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سفر کیا ہے، جنگلوں تک میں ٹھہرنے کا موقع ملا اور ہر سطح پر وہاں کے لوگوں سے گفت و شنید کا موقع ملا.اونچی سطح پر بھی اور Grass root level یعنی گھاس کی جڑوں کی سطح پر بھی ان سے گفت و شنید ہوئی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ امریکہ ایسا بد نہیں ہے جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے.امریکہ کی قوم میں بہت سی ایسی صلاحیتیں ہیں کہ اگر ان کو صحیح راہنمائی میسر آجائے.صحیح قیادت میسر آجائے تو تمام بنی نوع انسان کے لئے بہت عظیم الشان کام کر سکتی ہے.ان کو ہر قسم کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ الله 73 خطبه جمعه ۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں.تمام دنیا کی قوموں کی نمائندگی وہاں پر موجود ہے.پس یہ نہ سمجھیں کہ آج کل امریکہ کی حکومت کی جو پالیسی ہے یہ امریکہ کے عوام کے دل کی آواز ہے.ہر گز نہیں.امریکہ اس وقت یہودیت کا غلام ہو چکا ہے.یہ عالم کے یہودی نقشے ہیں جو امریکن لیڈرشپ، امریکن سیادت کی زبان سے دنیا سن رہی ہے اور ان کے کردار سے دنیا دیکھ رہی ہے.اس لئے میں جو باتیں کہہ رہا ہوں یہ ہرگز امریکہ کے باشندوں سے نفرت کی تعلیم نہیں ہے.میں خود امریکہ کے باشندوں کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ تم پر ظلم ہورہا ہے.تم اس ظلم کے خلاف اٹھو.تم اپنے راہنماؤں کو بتاؤ کہ ہم نے تمہیں اس لئے منتخب نہیں کیا تھا کہ ان ساری قدروں کو ملیا میٹ کر دو جن پر امریکہ کی بنا ڈالی گئی.وہ آزادی کا چارٹر کہاں گیا جس پر امریکہ ہمیشہ فخر کیا کرتا تھا.اس کو پاؤں تلے روندا گیا ہے اور انصاف کی قدریں اور جمہوریت کی ساری قدریں ملیا میٹ کی جارہی ہیں.یہ امریکہ کے دل کی آواز نہیں ہو سکتی.یہ غیر دل کی آواز ہے جو امریکہ پر قابض ہوا ہوا ہے.یہ اس جن کی آواز ہے جو امریکہ کے دل پر بھوت بن کر ناچ رہا ہے.اس لئے میں اہلِ امریکہ کو بھی متنبہ کرتا ہوں اور امریکہ کے احمدیوں کو خصوصاً متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے ملک کی محبت کی خاطر اور انصاف اور تقویٰ کی محبت کی خاطر اہل امریکہ کو نصیحت کریں اور سمجھائیں اور بتائیں کہ یہ باتیں ہمیں زیب نہیں دیتیں، ان پر ہمیں کوئی فخر نہیں، یہ جھوٹی تعلیاں ہیں جو اقتصادی مسائل سے ہماری توجہ ہٹانے کی خاطر کی جا رہی ہیں.تمام دنیا میں غریب اور امیر میں کہیں اتنا فرق نہیں جتنا امریکہ میں ہے.آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ امریکہ کے پانچ فیصدی آدمیوں کے ہاتھ میں اس سے زیادہ دولت ہے جتنی امریکہ کے ۹۵ فیصدی آدمیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ دولت کے چکر ہیں.یہ مافیا ہے جس نے امریکہ پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اسی مافیا کے مفادات ہیں جو آج دنیا پر اس بھیا نک شکل میں ظاہر ہورہے ہیں.اس لئے میں جو باتیں کہتا ہوں یہ سچی ہیں اور مجھے کسی کا کوئی خوف نہیں ہے جب چاہے خدا تعالیٰ مجھے واپس بلا لے، جتنا چاہے مجھے یہاں رکھے مگر میں خدا کا غلام ہوں.میں دنیا میں کسی کا غلام نہیں ہوں.میں خدا کی آواز ضرور بلند کروں گا.اس لئے میں سچ کہتا ہوں کہ امریکہ اس وقت مظلوم ہے اور ایک مافیا کے چنگل میں جکڑا گیا ہے.اس کو آزاد کرنے کے لئے بھی جماعت احمدیہ کو آواز بلند کرنی چاہئے اور وہاں رائے عامہ کو بیدار کرنا چاہئے اور ہر ملک میں بیدار کرنا چاہئے اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 74 خطبه جمعه ۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء بار بار اخبارات میں لکھ کر اور لیڈروں سے مل کر ان کو سمجھانا چاہیے کہ ہم بڑے نازک دور سے گزر رہے ہیں.آج اگر ہم نہ سنبھلے تو کل جو حالات پیدا ہونے والے ہیں اور مجھے دکھائی دے رہے ہیں ان میں اس سے زیادہ خوفناک عالمی جنگوں میں انسان کو جھونکا جائے گا جس کے تصور سے بھی آج ہمارے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں رہے گی اس جنگ کے مقابل پر جس کی تیاری آج امریکہ تمام دنیا کے لئے کر رہا ہے.یہ چند دن کے قصے، چند دن کی پھلجھڑیاں ہمیشہ کی روشنیاں پیدا نہیں کیا کرتیں.ان پھلجھڑیوں سے آگیں بھی لگ جایا کرتی ہیں.ہمیشہ کی روشنی تقوی اور سچائی سے پیدا ہوتی ہے.آج انسان ظلمات میں بھٹک رہا ہے، اس کا مستقبل روشن کرنے کے لئے سچائی کے دیپ جلانے ہوں گے اس نور سے تعلق باندھنا ہوگا صلى الله جس کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ لَاشَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّة ( النور :۳۶) ایک محمد رسول اللہ ﷺ کا نور ہے جس میں یہ طاقت ہے جو اس لئے بنایا گیا ہے کہ وہ مشرق کا بھی ہو اور مغرب کا بھی ہو.نہ اس میں مشرق کے لئے کوئی بعد ہے نہ مغرب کے لئے بعد ہے.نہ وہ مشرق کا ہو رہا ہے نہ مغرب کا ہو رہا ہے.وہ سب میں سانجھا خدا کا واحد نور ہے.اسی نور سے آج دنیا کی ہمیشہ کی بھلائی وابستہ ہو چکی ہے.دنیا کو اس نور کے بغیر کبھی ہاتھ کو ہاتھ تک سمجھائی نہیں دے گا.اور بڑی بڑی تو میں جو اپنی عقل کی بلندیوں سے فیصلے کرنے والی ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ ہم اپنی عقل کی روشنی سے فیصلے کر رہی ہیں، ایسے فیصلے کر رہی ہیں جو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اندھے نے اندھیرے میں راہ ٹولتے ہوئے فیصلے کئے ہیں اور غلط کئے ہیں.ایسے گڑھوں میں پاؤں ڈال رہا ہے جن گڑھوں میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے.پس حقیقت کی بات کر رہا ہوں کہ سچائی کا نور تقویٰ کا نور ہے.سچائی کے نور کے بغیر دنیا کی کوئی چالا کی کام نہیں آیا کرتی.مجھے وہ غلطیاں دکھائی دے رہی ہیں.ان کے نتائج نظر آرہے ہیں جو آج بڑی بڑی تو میں کر رہی ہیں اور ان کو پتا نہیں کہ کل ان کا کیا انجام ہوگا.یہ ویسی ہی غلطیاں ہیں جو پہلے کر چکے تھے.یہ ویسی ہی غلطیاں ہیں جن کے نتیجہ میں بہت خوفناک جنگوں میں یہ جھونکے جاچکے ہیں.ان کی پٹاری سے کوئی نئی غلطیاں نہیں نکل رہیں.وہی نا انصافی کی غلطیاں ہیں.وہی تکبر کی غلطیاں ہیں وہی بیوقوفی کی تعلی کی غلطیاں ہیں.پھر دہراتے چلے جارہے ہیں اور پھر دہراتے چلے جارہے ہیں.اگر ان کے مقدر میں کوئی ہلاکتیں لکھی گئی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 75 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء ہیں تو وہ تو ہم نہیں مٹا سکتے.ان کو تو ہم تبدیل نہیں کر سکتے.مگر اے عالم اسلام ! اپنا نصیب تو جگاؤ ، اپنا مقدر تو روشن کرو اور تمہارا مقدر محمد مصطفی ﷺ کے قدموں میں روشن ہوگا.ان قدموں سے لپٹ کر روؤ.خدا کو محمد مصطفی ﷺ کی محبت کے واسطے دے دے کر روڈ اور خدا سے آسمان سے وہ نور اپنے لئے طلب کرو جس کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ تمہارے مقدر جاگ اٹھیں گے بلکہ تمام دنیا کا نصیب جاگ اٹھے گا.آج دنیا کی بقا اور دنیا کی بہبود تم سے وابستہ ہو چکی ہے.اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! اٹھو اور اس نصیب کے لئے اپنے آپ کو صاف تو کرو، پاک تو بناؤ.یہ نور گندے ناپاک دلوں میں نہیں اتر سکتا، اپنے کردار کی کیوں فکر نہیں کرتے ، اپنے دلوں کی کجیاں کیوں دور نہیں کرتے ، اگر تمہارے دلوں میں گناہوں کے اندھیرے اسی طرح موجزن رہیں گے تو خدا کی قسم محمد رسول اللہ ﷺ کا نور آپ کے صلى الله دلوں میں جھانکے گا بھی نہیں.باتیں کرتے ہو محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق اور محبت کی لیکن اپنے دلوں کو اندھیروں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے.اس لئے عالم اسلام کی سیاست کو بھی میں پیغام دیتا ہوں کہ اپنی سوچوں کو صاف اور ستھرا کر کے اپنی خود غرضیوں کے خیالات کو دل سے بالکل کلیۂ دھو کر پاک کر ڈالے یا اپنے دلوں کو ان گندے خیالات سے دھو کر پاک کر ڈالے اور بہبود کی باتیں کرے.انسانیت کی باتیں کرے.محمد رسول اللہ ﷺ کے دین اور اس کی غیرت کی باتیں کرے اور علمائے اسلام کو میں دعوت دیتا ہوں کہ خدا کے واسطے دیکھیں اسلام اعلیٰ اخلاق میں ہے نہ کہ بدزبانیوں میں تم کب تک بدگوئیاں کرتے رہو گے کب تک تمہارے منہ سے غلاظت کی جھاگ ابل ابل کر اور اچھل اچھل کر فضا کو مکدر کرتی رہے گی.محمد مصطفی ﷺ کی پاکیزہ زبان استعمال کرنی سیکھو.وہ اعلیٰ اقدار اور اخلاق مسلمانوں میں قائم کرو جن کو لازماً جیتنا ہی جیتنا ہے.کون ہے جو محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق کو شکست دے دے.کس ماں نے وہ بیٹا پیدا کیا ہے.دنیا کی اربوں مائیں ایک بھی ایسا بیٹا نہیں پیدا کر سکتیں اور سارے مل کر بیٹا پیدا کریں تو وہ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کو شکست نہیں دے سکتا.یہ جیتنے والی سنت ہے.یہ غالب آنے والی سنت ہے.اسی لئے کائنات کو پیدا کیا گیا تھا.اسی سنت پر انسان کا نیک انجام ہوگا ور نہ بد انجام ہوگا.پس میں کھلے الفاظ میں بغیر کسی بات کو چھپائے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 76 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء نصیحت کرتا ہوں اور ان کمزور مظلوموں کو بھی نصیحت کرتا ہوں جو آج ظلموں کی چکی میں پیسے جارہے ہیں کہ اپنے اپنے نفوس کو صاف اور پاک کریں.اپنے دلوں کی حالت بدلیں.حق وانصاف پر قائم ہوں.اسی میں انسان کی بہبود ہے اسی میں انسانیت کی بقا ہے اگر یہ نہیں تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی سنت کو اپنے اخلاق ، اپنے کردار میں جاری کریں اور اسی سنت سے دنیا کی نئی تقدیر بنائیں.نیا نقشہ دنیا میں ابھرے.ایک خدا ہو، ایک رسول یعنی ہمارے آقا و مولا حضرت محمد اللہ ہوں جن کے جلو میں دنیا کے تمام رسول حکومت کریں، جب میں کہتا ہوں کہ ایک رسول تو یاد رکھو کہ دنیا کے کسی دوسرے مذہب سے تفریق کی بات نہیں کرتا میں اسلام کا عرفان رکھتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے.میں جانتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام رسولوں کو مٹا کر یہ حکومت قائم ہوگی.تمام رسولوں کے آقا اور سردار ہیں.آپ کے جھنڈے تلے ہر رسول کا جھنڈا دنیا میں گاڑا جائے گا.اگر آپ کا جھنڈا بلند ہوگا تو خدا کی قسم آدم کا جھنڈا بھی بلند ہوگا اور نوح کا جھنڈا بھی بلند ہوگا ، ابراہیم کا جھنڈا بھی بلند ہوگا، موسیٰ" کا بھی بلند ہو گا، اسحاق کا بھی بلند ہوگا، اسماعیل کا بھی بلند ہوگا.محمد مصطفی امیہ کے جھنڈے تلے عیسی کے جھنڈے نے بلند رہنا ہے ورنہ ان جھنڈوں میں سے کسی جھنڈے کو کوئی رفعت نصیب نہیں ہوگی.یہ وہ مقدرہے جو آسمان سے بنایا گیا ہے جسے میں نے نہیں بنایا.نہ دنیا کی کوئی طاقت اس مقدر کا تصور کر سکتی ہے.پس ایسی باتیں نہ کیا کرو کہ محمد رسول اللہ اللہ کا جھنڈا تو ہو لیکن باقی سارے رسول مٹ گئے.خدا کی قسم محمد ﷺ کی زندگی میں سب رسولوں کی زندگی ہے.محمد مصطفی ﷺ زندہ ہوں گے تو ساری دنیا کے رسول اگلے اور پچھلے زندہ ہو جائیں گے.یہ وہ وقت ہوگا کہ جب رسول اکٹھے کھڑے کئے جائیں گے.یہ وہ وقت ہوگا جس کی قرآن کریم میں پیشگوئی کی گئی ہے.اے احمد یو! تم سے یہ وقت باندھا جا چکا ہے تمہاری قسمت کے ساتھ اس وقت کی ڈور باندھی گئی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس عالمی نظام کو دنیا میں ایک دفعہ پھر، ایک دفعہ کیا، پہلی دفعہ دنیا میں اس کو جاری اور ساری کر کے دکھائیں کہ مشرق سے مغرب تک اس نور کی حکومت ہو جو لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرُ بِيَّةِ ہے.مشرق سے مغرب تک اس ایک محمد کا جھنڈا بلند ہو جس کے جھنڈے تلے تمام رسولوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 77 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۹۳ء جھنڈے بلند ہوں گے.جس کے جھنڈے تلے ہر قوم کی گردن بلند ہوگی.مگر دل خدا کے حضور جھکے رہیں گے اور خدا تعالیٰ کے حضور عجز ہی سے ساری رفعتیں ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(امین) خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: ایشیا میں جو اس وقت یہ خطبہ سن رہے ہیں ان کی اطلاع کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ گزشتہ خطبہ ان تک اس لئے نہیں پہنچ سکا تھا کہ موسم بے حد خراب ہونے کی وجہ سے ٹیلی ویژن والوں کی کچھ پیش نہیں گئی اور انہوں نے دلی معذرت کی.آج اس خطبہ کے معا بعد وہ دوسرا خطبہ دکھائیں گے.اس لئے جن احباب کے پاس وقت ہو وہ اس خطبہ کے لئے بھی بیٹھے رہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.
لله 78 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 10 79 خطبه جمعه ۲۹ جنوری ۱۹۹۳ء امت واحدہ بننے کے ساتھ ہی نظام واحد بنے گا.تمام دنیا میں ایک ہی طرح کا مالی نظام قائم ہوگا.( خطبه جمعه فرموده ۲۹ جنوری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْخَسِرُونَ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَّا رَزَقْنَكُمْ مِنْ قبْلِ أَنْ يَأْتِي اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَا أَخَرُتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيْبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّلِحِينَ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المنافقون: ۱۰ تا ۱۳) پھر فرمایا:.یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے ایمان لانے والو! تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو بھی ایسا کرے گا یہی وہ لوگ ہیں جو گھاٹا پانے والے ہوں گے اور خدا کی راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے اور پھر وہ یہ کہے کہ اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی سی مدت اور مہلت کیوں نہ دے دی تا کہ میں بھی تصدیق کرتا اور نیک اعمال کرنے والوں میں سے ہوتا.وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا جب خدا کی تقدیر کا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر خدا اس کو تبدیل نہیں کیا کرتا وہ اجل جو کسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 80 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء کی موت کے لئے مقرر فرما دی گئی ہے جب وہ آتی ہے تو پھر اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوا کرتی.واللہ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے خوب اچھی طرح واقف ہے جو تم کرتے ہو.گزشتہ خطبہ میں جو آیت کریمہ میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی اس کا مضمون ان لوگوں سے تعلق رکھتا تھا جو خدا کی یاد پر دنیا کے اموال اور دنیا کی نعمتوں کو آگے بڑھانے میں زیادہ مصروف عمل رہتے ہیں اور خدا کی یاد پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں اور خدا سے غافل ہو جاتے ہیں.ان کا کیا انجام ہے اس کا پہلے ذکر گزر چکا ہے.ان کو دنیا کی دوڑ خدا کی طرف جانے سے غافل کر دیتی ہے فرمایا کہ اے ایمان لانے والو تم ایسے نہ بنا کیونکہ اگر تم بھی خدا کی راہ میں آگے بڑھنے سے اس لئے غافل رہ گئے کہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال کے تقاضے تمہیں دوسری طرف بلاتے ہیں تو لازماً تم بھی گھاٹا پانے والوں میں سے ہو گے.یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے یہاں اس کے معاً بعد اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ دیکھو ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تم میں سے ہر ایک پر موت آئے گی اور وہ وقت ایسا ہے جو ٹالا نہیں جا سکتا اس وقت کے بعد اس دنیا کا حساب اس دنیا میں منتقل ہونے کا وقت آجاتا ہے جو خرچ تم پہلے نہیں کر سکے پھر اس کے خرچ کرنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا اس لئے یہ نہ ہو کہ تم پر ایسی حالت میں موت آئے کہ تم اللہ تعالیٰ سے تقاضا کرو کہ اے خدا کیوں نہ تم نے ہمیں کچھ مدت کے لئے اور مہلت دے دی اگر تو مہلت دیتا تو ہم بھی اچھے کام کرتے ہم بھی نیکیوں میں آگے بڑھتے.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دو طرح دیا اول یہ کہ جب خدا کی طرف سے آخری وقت مقررہ آجائے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ، کوئی اس وقت کو ٹال نہیں سکتا نہ خدا تعالیٰ اس کو آگے بڑھائے گا دوسرا جواب یہ ہے وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ مہلت مل جاتی تو ہم اچھے کام کرتے تو یہ جھوٹ ہے اگر ایسی بات ہوتی تو خدا ضرور مہلت دیتا.دوم وَالله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ الله تمہارے اعمال سے کتنا گہرا با خبر ہے کہ ان اعمال پر نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ فرمایا گیا ہے اس لئے یہ وہم کہ ہمیں اور مہلت ملتی تو اور نیکیاں ہم اختیار
خطبات طاہر جلد ۱۲ 81 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء کرتے یہ جھوٹ ہے اس لئے آگے مہلت نہیں دی جا رہی کہ اللہ کا احسان ہے کیونکہ ایسے لوگ جو بدیوں پر مستقل ہو چکے ہوں وہ مہلت ملنے پر بدیوں میں بڑھا کرتے ہیں.پس یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی سختی نہیں بلکہ ایک نرمی اور احسان کا سلوک ہے کہ جتنی بدیاں کر لی گئیں انہی پر آخر پر اکتفا کرنے کا موقع عطا فرما دیا اور نہ انسان کو مزید زندگی ملتی تو ان بدیوں پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اور آگے بڑھتا چلا جاتا.یہ وہ مضمون ہے جسے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیش نظر رکھے ہوئے ہے اور دنیا میں ایسی کوئی جماعت نہیں جو خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی اس دنیا کی زندگی میں آخرت کی زندگی کے لئے اموال آگے بھیج رہی ہے یعنی وہ مال جو یہاں خرچ کرتی ہے وہ دراصل آخرت میں منتقل ہو رہے ہیں.یہ ایک روحانی Banking سسٹم ہے اور اسی ذریعہ سے اموال دوسری طرف منتقل ہو سکتے ہیں اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.اموال منتقل کرنے سے متعلق اس سے پہلے بھی قوموں نے غور کئے ہیں اور کچھ حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے.فراعین مصر کے علاوہ اور بھی ایسے رواج دنیا میں پائے جاتے تھے کہ مرنے والوں کے ساتھ ان کے مال و دولت بلکہ بعض دفعہ زندہ غلاموں کو مار کر ساتھ دفن کر دیا جاتا تھا کہ یہ اگلے جہان میں منتقل ہو جائیں اور جانے والا خالی ہاتھ نہ جائے.کیسی جاہلانہ اور نا کام کوششیں تھیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے نظام میں بھی ایک Tariff لگا ہوا ہے، ایک Tariff Post ہے جس طرح امیگریشن کی پوسٹ ہوتی ہے اور کشم کی پوسٹ ہوتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے موت کو ایک ایسی پوسٹ بنا دیا ہے جس سے آگے نہ کوئی بغیر اجازت جا سکتا ہے نہ بغیر منظوری کے کوئی مال وہاں سے گزرسکتا ہے لیکن مال کے انتقال کے لئے ایک بینکنگ سسٹم ہے وہ اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دینے کا نظام ہے اور قرضہ حسنہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا اس کے دو معانی ہیں.اول یہ کہ دنیا میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے اور خدا کے نام پر کچھ دینے والا اس دنیا میں بھی خالی ہاتھ بغیر ادا ئیگی کے نہیں رہا کرتا بلکہ عام محاورہ میں جو کہا جاتا ہے کہ دس دنیا اور ستر آخرت تو کچھ ویسی ہی بلکہ اس سے بڑھ کر کیفیت ہوتی ہے بہت سے مالی قربانی کرنے والے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیا تو خدا نے اس سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 88 82 خطبہ جمعہ ۲۹ جنوری ۱۹۹۳ء بہت بڑھا کر اسی دنیا میں واپس کر دیا لیکن جو حساب ہے اُسے بھی قائم رکھا اور آخرت پر اس حساب کو ٹال رکھا ہے فرمایا کہ یہاں جو ہم تمہیں دیتے ہیں یہ تو صرف نیکی کا ایک مزہ چکھانے کی خاطر ہے جو قرض واپس ہو گا وہ آخرت میں ہوگا اس لئے قرآن کریم میں جگہ جگہ یہ مضمون ملتا ہے کہ وہ لوگ جو اس دنیا میں کوئی نیکی نہ کما سکے بلکہ بدیوں کے انبار سر پر لا دے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے ان کو خدا تعالیٰ یہ فرمائے گا کہ اب خرچ کا کوئی وقت نہیں اب اگر تم سونے کے پہاڑ بھی لے آؤ ، دولت کی زمین جیسی بھری ہوئی وادیاں اور اس سے بھی بڑھ کر جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے سب کچھ خرچ کرنے کا ادعا بھی کرو تو تب بھی وہ قبول نہیں ہوگا.ظاہر ہے کہ ان کے پاس تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا ان کے پاس ایک کوڑی بھی نہیں ہوگی کیونکہ جو آگے بھیجنے والے ہیں وہ بھی اور جو نہ بھیجنے والے ہیں وہ بھی مُلكِ يَوْمِ الدِّینِ (الفاتحہ (۴) کے سامنے بالکل خالی ہاتھ ہوں گے کیونکہ ابھی حساب کرنے کا وقت ہے حساب چکانے کا وقت نہیں حساب کے دوران ان کو یہ خبر دی جائے گی کہ تمہارا حساب تو کچھ بن سکتا ہی نہیں کیونکہ جس نے دنیا میں جمع نہیں کرایا وہ آخرت میں جمع نہیں کروا سکتا اور دنیا میں واپس جانے کا وقت کوئی نہیں اس لئے یہ محاورہ فرمایا گیا ہے کہ سونے کے پہاڑ ہوں یا زمین و آسمان کے برابر دولتیں ہوں جو کچھ تم خرچ کر دو گے تب بھی اس وقت تمہیں کچھ نہیں ملے گا.جس کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی اولادیں اگر ان کے بعد کچھ خرچ کریں تب بھی ان کی جزا ان کو نہیں پہنچے گی چنانچہ میں نے اس مضمون پر غور کر کے دیکھا ہے بہت سے مولوی بعض سادہ لوح مسلمانوں کو اس دھو کہ میں مبتلا رکھتے ہیں کہ جو نیکیاں ان کے والدین نہیں کر سکے ان کے مرنے کے بعد وہ نیکیاں کریں تو ان کا ثواب ان کو پہنچے گا قرآن کریم اس مضمون کو کلیۂ رد کرتا ہے اور جھٹلاتا ہے وہ نیکیاں جو انسان زندگی میں کرتا رہا ہو.وہ وعدے جو نیکیوں کے وعدے تھے اور خلوص نیت سے کئے گئے مگر وہ پورے نہ کر سکا ہو ان کے متعلق تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سند ملتی ہے کہ ایسے شخص کی وہ نیکیاں جو زندگی میں کیا کرتا تھا یا کرنا چاہتا تھا اگر وہ اولا دکرے تو اس کی جزا اس کومل جائے گی لیکن بد کے لئے ایک بے نماز کے لئے چاہے کروڑ نمازیں پڑھی جائیں وہ نماز میں اس کو نہیں پہنچ سکتیں جو تلاوت کا خود مزہ نہیں لیتا تھا جس کو ذکر اللہ میں مزہ نہیں آتا تھا بلکہ طبیعت گھبراتی تھی اس کے لئے قرآن خوانیاں خواہ ساری دنیا میں کرائی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 83 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء چالیس دن چھوڑ ، چالیس سال ، چالیس لاکھ سال تک بھی کوئی اس کی خاطر قرآن پڑھتا رہے جس نے خود قرآن نہیں پڑھا جس کو خود قرآن سے پیار نہیں ہوا اس کے لئے پڑھے جانے والے قرآن کی کوئی بھی حیثیت نہیں.یہ وہ نظام ہے جس کو خدا تعالیٰ نے عالمی روحانی بینک کا یا بین العالم روحانی بنگ کا رکھا ہوا ہے اور اس مضمون کو خدا تعالیٰ مختلف رنگ میں ہمارے سامنے پھیر پھیر کر بیان فرماتا ہے اس آیت میں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے اس میں فرمایا کہ موت سے پہلے جو کچھ خرچ کرنا ہے اور یا درکھو کہ موت کا وقت آئے گا تو ٹل نہیں سکے گا اور اس کے بعد تمہارا یہ کہنا بیکار ثابت ہو گا کہ کاش اے خدا تو ہمیں مہلت دیتا تو ہم کچھ کر لیتے اور اس حساب کو آج اس دنیا میں منتقل ہوا دیکھ لیتے.یہ مضمون ہے جو معنی کے لحاظ سے اس میں شامل ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے ان خوش نصیب بندوں میں ہے جن کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں خرچ کی توفیق بخشتا ہے اور محض اللہ کی خاطر خرچ کرنے کی توفیق بخشتا ہے اور جو خرچ کرنے والے ہیں وہ خود اس حال میں اس دنیا سے گزرتے ہیں کہ ان کے خرچ کی تمنائیں باقی رہ جاتیں ہیں اور موت اس سے پہلے ان کو آن لیتی ہے ایسے لوگوں کے لئے جب یہ تحریک کی جاتی ہے کہ ان کی اولادیں ان کے نام پر خرچ کریں تو یہ کوئی نئی جاری کرنے والی رسم نہیں بلکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مصدقہ ایک نیک رسم ہے اور اس کے متعلق ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نیکی کرنے والوں کی نیکیوں کو بعد میں جاری رکھنا اولاد کے حق میں بھی اچھا ہے اور ان کے حق میں بھی جو گزر چکے ہیں.اب میں مالی تحریکات سے متعلق کچھ تفصیلات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو مستقل مالی تحریکات ہیں ان کا ذکر تو سال بہ سال وقت مقررہ پر ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ متفرق تحریکات ہیں جو کچھ عرصہ چلتی ہیں اور پھر مکمل ہو کر ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں اور پھر ان کی جگہ نئی تحریکات لے لیتی ہیں جماعت احمدیہ کا یہ مالی نظام مضبوط ڈوریوں سے بٹے جانے والے ایک رستے کی سی شکل اختیار کر چکا ہے ایک تحریک ختم ہونے سے پہلے دوسری شروع ہو چکی ہوتی ہے اس کے ختم ہونے سے پہلے ایک اور شروع ہو چکی ہوتی ہے جس طرح مختلف ڈوریوں سے رسہ بٹا جاتا ہے تو ہر ڈوری کا سرا کسی نہ کسی جگہ پیچھے رہ جاتا ہے لیکن رسہ اسی طرح مضبوطی سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 84 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء معنوں میں جماعت احمدیہ کا رشتہ خدا کی طرف لے جانے والا رستہ ہے خدا کی خاطر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے.مختصر وقت کی وہ تحریکات جو چند سالوں پر محیط ہوتی ہیں ان کا ذکر کچھ عرصہ سے نہیں کیا گیا اور اسی کے نتیجہ میں جماعت کسی حد تک ان سے غافل بھی ہوئی کلیہ تو نہیں جیسا کہ میں حساب آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن جن تحریکات کا بار بار ذکر نہ کیا جائے، یاد نہ دلائی جائیں ان سے عموماً غفلت ہونی شروع ہو جاتی ہے اور یہ غفلت زیادہ تر عہدیداروں سے ہوتی ہے.میرا یہ بڑا وسیع تجربہ ہے کہ جماعت کے پاس جب بھی تحریک پہنچے جماعت ضرور بڑی مومنانہ شان کے ساتھ اس پر لبیک کہتی ہے اور کبھی بھی جماعت نے بحیثیت جماعت مایوس نہیں کیا پیغام پہنچانے والے سو جایا کرتے ہیں ان کو تھک کر نیند آجاتی ہے اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے جو یہ نیا نظام ہمیں عطا فرمایا ہے یہ انشاء اللہ بہت ہی برکتوں والے نتیجے پیدا کرے گا کیونکہ آواز در آواز بات پہنچنا اور بات ہے.وسیلوں کے ذریعہ پیغام ملنا اور بات ہے اور جس نے تحریک کی ہو براہ راست اس کی زبان میں اس کے جذبات کے ساتھ اس کا منہ دیکھتے ہوئے بات سنتے ہوئے جو دل کی کیفیت ہے وہ اور ہی کیفیت ہوا کرتی ہے ناممکن ہے کہ سلسلہ در سلسلہ پیغام اسی قوت کے ساتھ لوگوں تک پہنچ سکے اور اسی گہرائی کے ساتھ دلوں پر اتر سکے جس طرح وہ شخص جو پیغام دینے والا ہے وہ خود پیغام دے اور اپنی زبان سے بات سنائے اور اس کے چہرے کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہوں اور ایک ذاتی زندہ رابطہ اس سے قائم ہوا ہو.اللہ کا فضل ہے کہ اب یہ رابطہ جو ہے یہ بڑھتا ہے اور بڑھ رہا ہے اور اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی مالی تحریکات میں بھی ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا کیونکہ ہمارے دیہات کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے خواہ وہ ہند و پاکستان میں ہوں یا غانا میں ہوں یا نا یجیر یا میں یا کسی اور دوسرے ملک میں جہاں بات پہنچتے پہنچتے بہت مدہم پڑ جاتی ہے آواز کمزور ہو جاتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جہاں تک آواز پہنچتی ہی نہیں چنانچہ جب میں نے افریقہ میں پاکستان اور ہندوستان کی طرز پر مالی نظام جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو شروع میں افریقہ کے یا جن ممالک میں یہ فیصلے ہو رہے تھے ان کے امراء نے اور عہدیداروں نے بڑی پریشانی کا اظہار کیا.انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تو یہ چیز نہیں چل سکے گی ، ہم تو سال میں ایک دفعہ تحریک کرتے ہیں یا دو دفعہ اور وہ بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 85 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء جب بڑے اجتماعات ہوں تو وہاں جھولیاں پھیلا دی جاتی ہیں اور چادریں بچھا دی جاتی ہیں لوگ بڑھ بڑھ کر جوش و خروش سے ان چادروں پر دولتیں نچھاور کرتے ہیں.یہی طریقہ ہے جو جاری رہ سکتا ہے اور ہمارے مزاج کے مطابق ہے.میں نے ان سے کہا کہ آپ کا ایک افریقن مزاج ہے اور دینی مزاج ہے.افریقن مزاج پاکستانی مزاج سے مختلف ہوگا لیکن دینی مزاج مختلف نہیں ہو سکتے اور ہم جو چندے دیتے ہیں وہ دینی مزاج کے مطابق دیتے ہیں اور جو عالمی نظام جاری کرنا چاہتے ہیں وہ دینی مزاج کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اگر قومی اور ملکی مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے نیکی کی تحریکات چلائی جائیں تو ساری دنیا کی جماعتیں پھر دوبارہ بٹ کر اسی طرح الگ الگ ہو جائیں جس طرح مذاہب میں پہلے تفرقے پڑتے چلے گئے ہیں اور فرقے وجود میں آتے رہے ایک جگہ کے احمدی کی روحانی شکل اور بن جائے گی اور دوسری جگہ کے احمدی کی روحانی شکل اور بن جائے گی اس لئے ان کے سب خوف و ہراس کے باوجود میں متاثر نہیں ہوا بلکہ ایک ملک میں تو میں نے مجبور کر کے حکماً یہ نظام اس عہد کے ساتھ جاری کروایا کہ تمہاری جتنی کمی ہوگی وہ میں پوری کروں گا لیکن ساری دنیا کے احمدی کی ایک ہی شکل بننی چاہئے ایک ہی صورت ظاہر ہونی چاہئے خدا کے بندے خدا کے حضور ایک قوم کی صورت میں ابھریں جو محد رسول اللہ ﷺ کی قوم ہو ، ایک ملت کی شکل میں آئیں جو اسلام کی ملت ہو اور روحانی مزاج کے لحاظ سے اور روحانی آداب کے لحاظ سے روحانی اداؤں کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق دکھائی نہ دے یہی مقصد میرے پیش نظر تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جہاں جہاں یہ تجربے ہوئے پہلے سال میں ہی خدا کے فضل سے ان کی توقعات سے بہت بڑھ کر آمد میں شروع ہوئیں اور اب دوسرے دور میں میں نے یہ توجہ دلانی شروع کی کہ فرد فرداہر گاؤں کی الگ الگ فہرستیں تیار ہوں اور ہر قسم کے چندوں کے نام لکھ کر ان کے آگے چندہ دہندہ کا چندہ لکھا جائے اور یہ نظام ہندوستان، پاکستان میں جس طرح رفتہ رفتہ عروج پذیر ہوا ہے ، رفتہ رفتہ ترقی پذیر ہوا ہے اس کے مطابق ساری دنیا کے احمدی اسی ایک رنگ میں رنگین ہو کر مالی قربانی کریں تو اس کے بھی خدا کے فضل سے اچھے نتائج نکلنے شروع ہوئے ہیں.افریقہ سے ابھی پچھلے چند دنوں کی رپورٹوں میں اطلاع ملی ہے کہ جب ہم نے گاؤں گاؤں میں فہرستیں بنا کر رجسٹر تیار کروا کر چندے لینے کی مہم چلائی تو دیکھتے دیکھتے چندہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 86 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء فضل کے ساتھ امت واحدہ کے بننے کے ساتھ ایک نظام واحد بنے گا اور کل عالم کے غلامان محمد مصطفی ﷺ اپنی صورت اور سیرت کے لحاظ سے وَالَّذِينَ مَعَةَ کی شکل اختیار کرتے چلے جائیں گے اس میں نہ عربی کا فرق ہے نہ بجھی کا فرق ہے نہ کالے کا نہ گورے کا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ صلى الله اللهِ * وَالَّذِينَ مَعَةَ ( افتح ۳۰) ایک ہی قوم اور قوم کے ایک ہی مالک محمد رسول اللہ کے بیان کئے گئے ہیں اور ان کے ساتھ چلنے والے یعنی وَالَّذِينَ مَعَةَ تو یہ میری تمنا ہے کہ ساری دنیا کے احمدی معہ میں شمار ہونے شروع ہو جائیں.اس لئے یہ سارے نظام سب جگہ یکساں جاری کرنے ہوں گے خدام الاحمدیہ میں بھی یہی شکل اختیار کی گئی.انصار اللہ میں بھی اور اسی طرح لجنہ میں بھی پھر خدا کے فضل سے تینوں ذیلی تنظیموں کے علاوہ سب سے اہم مرکزی شوریٰ کا نظام بھی تمام ملکوں میں نافذ کیا گیا اور جب بھی امارتوں کو اس پرانی رٹ سے آزاد کیا گیا جس پر پہلے کام چل رہے تھے تو بعض دفعہ خطرات کا یہ اظہار ہوا کہ اس طرح خودسری کی عادت پیدا ہوگی.بعض دفعہ خدام جماعت کے کاموں میں دخل دیں گے اور الگ ایک نئی ڈگر اختیار کر لیں گے کہیں انصار دوسرا رستہ اختیار کریں گے بہت انتظامی الجھنیں پیدا ہوں گی ان سے میں نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ جب نئے تجربے ہوتے ہیں تو امارت کا نظام نافذ کرنے کے لئے بھی وقتیں ہوں گی.شروع میں حضرت مصلح موعودؓ نے جب یہ نظام جاری کئے تھے تو اس وقت بھی تو دقتیں تھیں اور ان وقتوں سے گزر کر ہماری اصلاح ہوئی ہے بعض اصلاحات محض نصیحت سے نہیں ہوا کرتیں تجارب سے گزر کر اور رگڑیں لگ لگ کر یہ پنجابی کا لفظ رگڑا میں نہیں استعمال کر رہا وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے مگر جب رگڑ لگتی ہے تو ایک چیز صاف ستھری ہوتی چلی جاتی ہے وہ پتھر جو پہاڑ کی چوٹیوں سے دریاؤں کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے نیچے آتے ہیں ان میں سے بعض شروع میں بڑے کرخت ہوتے ہیں ان کے کنارے بڑے سخت چھنے والے بے ڈھنگے اور بے ڈھب ہوتے ہیں لیکن سو میل ہزار میل دو ہزار میل جب وہ ایک دوسرے سے رگڑتے ہیں ٹکراتے ہیں اور مختلف قسم کی چکیوں میں پیسے جاتے ہیں تو آخر پر آپ جا کر دیکھیں کہ اتنے خوبصورت اور ملائم پتھر بن جاتے ہیں کہ بڑے بھی ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی.ایک دفعہ اسی طرح میں نے دریا کے کنارے پر ایک بچے کو دیکھا اس نے ایک چھوٹا سا پتھر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 87 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء اُٹھایا ہوا تھا اور اُس کے حسن میں مست تھا اپنے کلے کو ملتا چلا جارہا تھا اور کہ رہا تھا مائم پتھر ، مائم پتھر یعنی اتنا چھوٹا تھا کہ ملائم پتھر کو ملائم پتھر نہیں کہہ سکتا تھا لیکن یہ کہہ رہاتھا کہ مائم پتھر ، مائم پتھر اور اس کو پتا نہیں کہ ٹائم پتھر خدا تعالیٰ نے کس طرح بنایا ہے کتنا لمبا عرصہ اس بیچارے نے آزمائشوں میں سے گزرتے ہوئے تکلیفیں سہی ہیں اور کتنی ٹھوکریں کھا کر وہ پتھر ایک’ائم پتھر بنا تو جماعت احمد یہ بھی اسی طرح مائم پتھر بن رہی ہے.لمبے تجارب میں سے گزرتی ہے ٹھوکریں کھاتی ہے، جگہ جگہ انا کے جذبات اٹھتے ہیں جگہ جگہ اباء پیدا ہوتا ہے بغاوت اور سرکشی کے رجحان شیطان پھر اُٹھا تا ہے اور پھر ان پر نظر رکھنی پڑتی ہے ان کو سمجھا بجھا کر کبھی ڈانٹ ڈپٹ کر کہیں نرمی سے کہیں سختی سے حالات کو درست کرنا پڑتا ہے لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ ہر جگہ جماعت کارد عمل بالآخر بہت ہی پیارا ہے ہرختی کو برداشت کر جاتی ہے لیکن نظام جماعت سے منہ نہیں موڑتی خلافت سے جو گہرا تعلق ہے وہ ایک ایسا تعلق ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں اور اس تعلق کے برتے پر انسان بعض دفعہ اس یقین پرسختی کرتا ہے کہ یہ خی دور پھینکنے کا موجب نہیں بنے گی بلکہ بالآخر قریب لانے کا موجب بنے گی.تو وہ لوگ جو مجھے ڈراتے رہے ان سے میں نے کہا کہ میری تو یہ خواہش ہے کہ میری زندگی میں جو کچھ ہونا ہے وہ ہو جائے اور اس صدی میں جماعت سارے عالم میں اس طرح رواں ہو جائے کہ جو بھی کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں باہر نکل آئیں.جہاں جہاں باغیانہ رجحان پیدا ہوتے ہیں یا ڈیموکریسی کے تصور پر نئی نئی تحریکات چلتی ہیں سب چل جائیں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے گا کہ میں یہ سارے معاملے انشاء اللہ دعائیں کرتے ہوئے اور سمجھاتے ہوئے ہموار کر دوں گا اور میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ اس طرح توفیق دیتا چلا گیا تو اس معاملہ میں اگلے خلیفہ کے ورثہ میں کوئی مسائل باقی رہ جائیں.ایک مستقل جد و جہد تو اپنی جگہ ہے ہی وہ لوگ جن کی فطرتیں خدا کے حضور ہموار ہو جاتی ہیں ان کے اندر بھی دبے ہوئے شیطان رہتے ہی ہیں.لیکن میں نظام عالم کی بات کر رہا ہوں جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے اور میرا تجربہ ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں جہاں عالمی نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے شروع میں اجنبیت کی وجہ سے کچھ تر ڈر بھی پیدا ہوئے، کچھ باغیانہ رجحان بھی ابھرے لیکن بالآخر خدا کے فضل سے سب بگڑے تگڑے درست اور صاف ہو گئے اور ایک نئے ولولے اور نئی شان اور نئی جان کے ساتھ اطاعت کی پوری روح کے ساتھ نظام جماعت کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 88 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء سہارا دیتے ہوئے آگے بڑھنے لگے اور نظام جماعت سے سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگے پس یہ وہ تصور ہے جو جماعت احمدیہ کے نقوش کو زیادہ حسین بنائے گا ان کی دبی ہوئی پاکیزہ صلاحیتوں کو ابھارے گا ان کے اندر غلط تصورات یا امنگوں کو دبائے گا.کچھ چیزیں ایسی ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ اس قابل ہیں کہ دشتها (الشمس: (1) والا سلوک کیا جائے اور کچھ ایسے ہیں جن کے ساتھ زشها (الشمس:۱۰) والا سلوک کیا جائے.دَشها (الشمس : ۱) والا سلوک بد عادتوں اور بد خصلتوں کے ساتھ ہونا چاہئے اور زکیھا (الشمس : ۱۰) کا مطلب ہے کہ جتنی پاکیزہ صفات خدا تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہیں.ذہنی ہوں یا قلبی ہوں جیسی جیسی بھی حسین صلاحیتیں انسان کو عطا فرمائی گئی ہیں مومن ان کو ابھارتا چلا جاتا ہے ان کے نقش زیادہ نمایاں کھل کر ہنتھر کر سامنے آتے ہیں.پس عالمی مالی نظام میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ دنیا سے جو یہ رابطے ہو رہے ہیں اس کے نتیجہ میں یہ نظام ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے کیونکہ پہلے کبھی جماعت کو اس وسیع پیمانے پر براہ راست وقت کے خلیفہ کی آواز میں اس کی صورت دیکھتے ہوئے نصیحتیں سنے کا موقع نہیں ملا کرتا تھا.ربوہ سے تقریبا سو دوسو میل کے فاصلہ پر ایسے لوگ بھی تھے جو بوڑھے ہو گئے لیکن کبھی کسی خلیفہ کو دیکھا ہی نہیں تھا اور ہزار ہا کی تعداد میں اور بڑی کثرت کے ساتھ ایسی ایسی جماعتیں ہیں کہ جہاں عملاً ناممکن تھا کہ کبھی کوئی خلیفہ جاسکے کیونکہ اگر وہ تیز رفتاری کے ساتھ جیٹ رفتار کے حساب سے بھی گھومے تو جماعتیں اس تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں کہ ناممکن ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں تمام جماعتوں میں پہنچ کر کچھ ٹھہر کر ہر شخص سے متعارف ہو سکے لیکن اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گھر گھر میں زیارتوں کے انتظام ہورہے ہیں اور جماعتوں میں بڑھتی ہوئی تعداد میں خدا کے فضل سے براہ راست باتیں سنے اور صورت دیکھنے کے مواقع میسر آ رہے ہیں.اس پر بڑے بڑے دلچسپ تبصرے بھی ملتے ہیں آج کل تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں لوگوں کی طرف سے بڑے دلچسپ تبصرے نہ ملتے ہوں اور شعر و شاعری بھی شروع ہوئی ہے اور شعر و شاعری میں ایک مشکل یہ ہے کہ مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ میں ان کے شعروں پر داد بھی دوں اور میری مشکل ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا.اب کروں کیا محبت کا تقاضا ہے کہ داد دوں سچائی کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 89 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء تقاضا ہے کہ خاموشی اختیار کروں اور جہاں خاموشی اختیار کی گئی وہاں سے یاد دہانی کے تقاضے آنے شروع ہو گئے.بار بار یاد دہانیاں آئیں کہ آپ نے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا جو ہم نے نظم بھیجی تھی اس کی تو بات ہی نہیں کی خط میں خالی دعائیں بھیج دیں مگر میں نے جو کلام بھیجا تھا اس کا ذکر ہوتا پھر لکھنا پڑتا ہے کہ آپ کی باتوں میں جذبات بہت پیارے ہیں خیالات بھی شاعرانہ ہیں لیکن جس مصیبت میں آپ مبتلا ہو گئے ہیں اس سے نکلیں آپ کے بس کی بات نہیں ہے.تو میں کوشش کرتا ہوں کہ جس حد تک ہو حوصلہ شکنی کے بغیر دل توڑے بغیر نرم سے نرم الفاظ میں سچائی کا اظہار کروں.لیکن ساتھ بہت اچھے اچھے کلام بھی ملتے ہیں بعض دوسرے شعراء کے بعض شعروں کا سہارا لے کر لوگ باتیں یاد کرواتے ہیں مثلا ابھی غالبار بوہ سے ہی ایک خط آیا تھا اور اس میں ڈاکٹر فہمیدہ کا ایک پرانا شعر لکھا ہوا تھا کہ اب ٹیلی ویژن پر آپ سے ملاقاتیں کر کے جہاں بہت سی سیرابی بھی ہوئی وہاں یہ تمنا پہلے سے بڑھ گئی کہ آپ جلد واپس آئیں اور وہ شعر یہ تھا.گھر پر تالا پڑا ہے مدت سے اُسے کہہ دو کہ اپنے گھر آئے اس شعر میں جو فصاحت و بلاغت ہے وہ اس کی سادگی میں ہے اور آخری مصرعہ میں جو حکم کا انداز پایا جاتا ہے جیسے کوئی بڑی بوڑھی ماں بچے کو کہتی ہے کہ چلو گھر واپس آؤ دیر ہوگئی ہے اب اس کو کہو کہ واپس آئے یہ جوانداز ہے یہ بڑوں، بوڑھوں والا ہے اور جذبات نو جوانوں والے ہیں اور اس کی آمیزش نے اس میں ایک خاص کیفیت پیدا کر دی جیسے مونالیزا کے چہرے پر ا یک کیفیت ہے جس کو کوئی بیان نہیں کر سکتا مگر جب یہ نظم چھپی تھی تو بڑی کثرت سے احمدیوں نے اس شعر کو اپناتے ہوئے اس شعر کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا تو بعض دفعہ سادگی بھی اعجاز بن جایا کرتی ہے ان کو تو میں نے لکھا یا اگر نہیں لکھا تو اب جواب بتا دیتا ہوں کہ اب تو دنیا میں کتنے گھر ہیں جنہوں نے تالے بھی نہیں تو ڑے بلکہ چوپٹ دروازے کر کے ہر جمعہ میرا انتظار کرتے ہیں اور ہر گھر میں آتا ہوں اب وہ زمانے تو گئے جب آپ کہا کرتے تھے کہ ، گھر میں تالا پڑا ہے مدت سے اب تالہ ٹوٹنے کے وقت آئے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں انگلی دنیا کی تصویریں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 90 90 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء ہمیں دکھائی جارہی ہیں آئندہ کیا ہوگا اس کی جھلکیاں ہمارے سامنے ابھر ابھر کر تصویری نقش بن بن کر آج کے زمانہ میں سامنے آرہی ہیں اور اس لحاظ سے ہماری نسل خوش نصیب ہے کہ یہ دو نسلوں کے سنگم پر ہے، دو ادوار کے سنگم پر ہے، دو نسلوں کے سنگم پر تو ہر نسل ہوتی ہے لیکن یہ نسل دو عظیم ادوار کے سنگم پر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ زمانہ میں خلافت کا جماعت سے تعلق اسی ٹیلی ویژن کے رابطے سے ہی زیادہ تر ہو سکے گا اور یہ رابطہ شروع میں دو طرفہ ہو جائے گا یعنی جہاں سے کوئی خلیفہ خطاب کر رہا ہو گا ساری دنیا کی جماعتوں کی مختلف جگہوں سے جھلکیاں بھی اس کے سامنے مختلف ٹیلی ویژنز پر دکھائی جا رہی ہوں گی اور وہ دیکھ رہا ہو گا کہ کہاں کیا ہو رہا ہے.باقی یہ مکس کرنے والے ماہرین جو ہیں بہت حد تک ان کے اختیار میں ہے کہ کس منظر کو زیادہ نمایاں کر کے دکھائیں لیکن یہ ممکن تو ہو ہی چکا ہے جب اس کی مالی توفیق ملے گی تو اس طرح شروع ہو جائے گا تو آئندہ کا ایک نقشہ تو یہ ہے کہ اس طرح ملاقاتیں ہوا کریں گی دوسرا یہ کہ ہر احمدی کے کانوں میں براہ راست خلیفہ وقت کی آواز پہنچے اور اس کی آنکھیں اس کو دیکھ رہی ہوں پھر دل میں یہ بھی طمانیت ہو کہ وہ بھی مجھے دیکھ سکتا ہے یہ ایک عجیب کیفیت ہے جو آئندہ دور سے تعلق رکھنے والی ہے ہم جو ان دو ادوار کے سنگم پر ہیں.ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم نے وہ وقت بھی دیکھے ہیں جبکہ ہر شخص نہ صرف خلیفہ وقت سے ملاقات کرتا ہے بلکہ حق رکھتا ہے کہ جس کو توفیق ملتی ہے جب چاہے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آ کر بے تکلف ملاتا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں توفیق نہیں ہم کیا کر سکتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نیا نظام جاری کر دیا ہے اور جماعت اس وقت گویا عملاً دو ادوار میں بٹی ہوئی ہے.ایک حصہ وہ ہے جو ابھی تک پچھلے دور سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ایک حصہ ہے جو مستقبل میں آنے والا حصہ ہے اور اس کے مستقبل کا ابھی سے آغاز ہو چکا ہے.اس پہلو سے بڑے پر لطف دن ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی بعض لوگ جو اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں بڑے درد ناک طریق پر کرتے ہیں.خصوصا بچوں کے جذبات عجیب عجیب قسم کے بے ساختہ جذبات ہیں جن سے دل پر گہرا اثر پڑتا ہے بعض دفعہ جذبات پر ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی پر لطف باتیں ہیں ، بعض درد ہیں جن میں لطف ہوتا ہے ایک ماں نے لکھا، میرا بچہ جب بڑے شوق اور پیار سے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ اب یہ ٹیلی ویژن سے باہر کیوں نہیں آتے ان کو کہیں کہ اب باہر آجائیں تو وہ دن بھی انشاء اللہ آئیں گے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 91 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء مختلف ملکوں میں ٹیلی ویژن سے باہر بھی جایا کریں گے لیکن سردست خدا نے پیاس بجھانے کا یہ جو انتظام فرمایا ہے اللہ اس میں بہت برکت ڈالے.اب میں تحریکات سے متعلق بتاتا ہوں ایک تحریک افریقہ انڈیا فنڈ کی گئی تھی اس میں بعد میں روس کو بھی شامل کر لیا گیا ان تین علاقوں میں افریقہ کے علاقوں میں اور روس سے مراد USSR یعنی سابقہ USSR کی ریاستوں میں اور ہندوستان میں بہت سے اخراجات کی ضرورت تھی کیونکہ ہندوستان سے پارٹیشن کے بعد خلافت کا جو براہ راست تعلق منقطع ہوا اس کے نتیجہ میں بہت نقصان پہنچا ہے.جہاں پہلے ہی غائبانہ تعلق ہیں وہاں اور بات ہے جہاں ایک دفعہ تعلق پیدا ہو جائے اور پھر دوری پیدا ہو جائے وہاں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں پاکستان میں بھی یہی حال ہوا کہ بہت خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں جن کو خدا تعالیٰ نے اب اپنے فضل کے ساتھ دور کرنے کے سامان مہیا فرما دیے ہیں اور جہاں جہاں ٹیلی ویژن کے ذریعہ خطبوں سے رابطے ہوئے ہیں وہاں کی جماعتیں لکھ رہی ہیں کہ حقیقت میں ہمارے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کو بتلا سکیں کہ ہم نے کیسی نئی زندگی پائی ہے دلوں میں نئے ولولے جنم لینے لگے ہیں اور جماعت اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر بڑی قوت کے ساتھ آگے بڑھنے لگی ہے تو یہ اللہ کے احسانات ہیں جو اس نے ہم پر فرمائے.لیکن ہندوستان میں لمبے عرصہ سے جو کمزوریاں پیدا ہوگئیں وہاں بہت زیادہ خرچ کی ضرورت تھی جو کیا جارہا ہے.قادیان کو سنوارنے میں اس کے وقار کو از سر نو بحال کرنے میں بہت بڑے اخراجات کی ضرورت تھی جو کچھ ہو چکا ہے اور کچھ آئندہ انشاء اللہ ہو گا.اسی طرح باقی جگہ بھی جماعتوں کو تقویت دینے کے لئے ضرورت تھی افریقہ میں بہت بڑے بڑے منصوبے جاری ہیں اور خدا کے فضل سے بہت سے ایسے ممالک ہیں جو اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جس کے بعد ایک یا دوقدموں میں پھر آگے کلیہ وہ ملک احمدیت کی جھولی میں گرنے والے ہیں تو ایسے عظیم الشان مواقع سے استفادہ کے لئے جتنی دولت کی ضرورت ہے وہ تو ہمارے پاس نہیں لیکن اخلاص سے دیا ہوا چندہ اتنی برکت رکھتا ہے کہ جماعت ان راہوں میں جو کچھ بھی خرچ کرتی ہے وہ سینکڑوں گنا ، ہزاروں گنا اثر دکھاتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام ہے، یہ بھی ان جزاؤں میں سے ایک جزا ہے جو قرضہ حسنہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے.اس کا نام سود نہیں ہے بلکہ قرضہ حسنہ رکھا ہوا ہے.سود تو معین رقم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 92 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء دینے کا نام ہے اس سے میں ضمناً آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ آنحضرت ﷺ نے انسانی تعلقات میں بھی قرضہ حسنہ میں اللہ کے رنگ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی کہ جب تم اپنے بھائی سے کچھ لیتے ہو تو کوشش کرو کہ جب واپس کرو تو کچھ بڑھا کر دو اور اس مصیبت میں نہ ڈالو کہ وہ تقاضے کر رہا ہے، پیچھے پڑا ہوا ہے بار بار کے پھیرے لگا رہا ہے اور تم وقت کو بھی آگے آگے ٹالتے جاتے ہو اور خود بھی اس سے دور بھاگتے جاتے ہو وقت پر دیا کرو، وعدوں کو پورا کرو ساتھ ہی جتنا لیا ہے اس سے زیادہ دینے کی کوشش کرو.میں سمجھتا ہوں کہ اموال میں برکت کے لئے یہ بہترین نسخہ ہے خدا کی خاطر انسان مالی قربانی کرے اور اس کے بندوں سے یہ سلوک کرے کہ جب ان سے لے، ان کو بڑھا کر واپس کرنے کی کوشش کرے اگر کوئی یہ نسخہ استعمال کرے تو وہ دنیا میں غریب رہ ہی نہیں سکتا اس کے اموال میں غیر معمولی برکت ہوگی.بہر حال اب میں چندوں کے متعلق مختصر یہ بتاتا ہوں کہ جو تحریک کی گئی تھی وہ پانچ کروڑ کی تھی شروع میں تین سال کی مدت مقر تھی اس کے بعد بعض جماعتوں کے اصرار پر اسے بڑھا کر پانچ سال پر مند کر دیا گیا پانچ کروڑ کی تحریک کے جواب میں جو کل وعدے موصول ہوئے اگر پاکستانی روپوؤں میں تمام دنیا کی کرنسی کو منتقل کیا جائے تو 6 کروڑ 35لاکھ 95 ہزار 8 سو یعنی تقریباً 16 کروڑ 36لاکھ کے وعدے تھے پاؤنڈوں میں یہ 15 لاکھ 89 ہزار 8سو 95 کے وعدے بنتے ہیں تین سال اس میں سے گزر چکے ہیں چوتھا سال شروع ہو چکا ہے.ابھی تک وصولی میں کمزوری ہے چنانچہ کل وصولی 6 کروڑ 35لاکھ یا 36لاکھ کے مقابل پر 3 کروڑ کے لگ بھگ ہوئی ہے (یعنی 3 کروڑ ایک لاکھ اور پاؤنڈوں میں 15 لاکھ 89 ہزار کے مقابل پر 7لاکھ 54 ہزار کی وصولی ہوئی ہے گویا نصف سے کچھ زائدا بھی ادا ئیگی باقی ہے.اس ضمن میں یہ عرض کر دوں کہ بعض احمدی مخلصین کا یہ طریق تھا اور ابھی بھی ہے کہ جماعت کو دینے کے علاوہ وہ اپنے وعدے براہ راست مجھے بھیجا کرتے تھے اس سے ایک قسم کا ذاتی روحانی تعلق بھی ان کے ساتھ قائم رہتا ہے اور نظر بھی رہتی ہے کہ کون کس توفیق کا آدمی ہے اور اپنی توفیق کی نسبت سے کتنا خرچ کر رہا ہے.اس سلسلہ میں مجھے یاد ہے کہ چوہدری شاہ نواز صاحب مرحوم مغفور تحریک سنتے ہی بلا استثناء ہمیشہ فوراً رقعہ بھیج کر اپنا وعدہ لکھوایا کرتے تھے اور جو وعدہ میں اپنا لکھواتا تھا ہمیشہ اس سے کافی بڑھا کر وعدہ لکھواتے تھے ، اس لئے ان کی زندگی میں خصوصیت سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 93 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء میں اپنے وعدے بیان کرتا تھا تا کہ وہ اور ان کے ہم مزاج لوگ یہ نظر رکھ کر کہ اس کا اتنا وعدہ ہے اس سے دگنا تنگنا کرنے کی کوشش کریں.اس کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد اپنا وعدہ الگ بھجوایا کرتے تھے اور یہ بات ان کے چندہ دینے میں ہرگز مانع نہیں ہوا کرتی تھی کہ ہمارے ابا نے یا نا نا دادا نے اتنی بڑی رقم ادا کر دی ہے تو ہم سب شامل ہیں.ان کے وصال کے بعد پھر ان کے خاندان کی طرف سے ذاتی اطلاعیں آنی بند ہو گئیں جس کی وجہ سے پیچھے مجھے کچھ پریشانی ہوئی.میں نے کہا پتا تو کروں کہ کیا ہورہا ہے اور جب پتا کیا تو یہ تسلی ہوئی کہ الحمد للہ.چوہدری صاحب مرحوم کے خاندان نے مثلا افریقہ انڈیا فنڈ میں 26 ہزار 12 پاؤنڈ کا وعدہ پیش کیا جبکہ میرا 15 ہزار کا تھا.تو اس حد تک تو یہ بات تسلی بخش ہے کہ مجھ سے کافی بڑھ کر یہ رقم پیش کی گئی لیکن وہ بات نہیں رہی کہ چوہدری صاحب اپنا الگ دیں اور باقی پھر بعد میں اسی طرح اپنی اپنی جگہ کوشش کریں اسی لئے میں نے شروع میں تمہید میں ذکر کیا تھا کہ جو نیکیاں کوئی شخص اپنی زندگی میں کرتا ہے ان نیکیوں کو اس کے نام پر جاری رکھنا ایک بڑی سعادت ہے اور حضرت مصلح موعودؓ کی اولا د بھی اللہ کے فضل سے اس سعادت کو نہیں بھولی اور ایک بھی حضرت مصلح موعود کا ایسا چندہ نہیں جو آپ نے اپنی زندگی میں دیا ہو اور بعد میں اولاد نے مل جل کر اور الگ الگ اسے بڑھا کر پیش نہ کیا ہو جو چندے بعد میں آئے ہیں وہ بعد کی باتیں ہیں لیکن زندگی میں جو چندے جاری ہو گئے تھے ان کے متعلق میں یہ کہہ رہا ہوں کہ انسان کو ضرور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بزرگ آباؤ اجداد اپنے محسنوں کے نام اپنی محبت کا تحفہ بھیجنے کا جوطریق خدا نے ان کو مہیا فرمایا ہے اس سے وہ فائدہ اُٹھا ئیں جب یہ روحانی بینکنگ سسٹم جاری ہے.تو ایک جگہ آپ جو رقم جمع کرائیں گے وہ دوسری جگہ لازما پہنچے گی اگر وہ طریق منظور شدہ اور مسلّم ہو اور جب اس طریق کو حضرت محمد ﷺ کی تصدیق حاصل ہوگئی ہے تو پھر آپ کو کیا جھجک ہے اس دنیا میں جمع کروا ئیں تو اس دنیا میں لازماً ان کو خوشخبریاں ملیں گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ بعض دفعہ ان کے رد عمل کو تصویری زبان میں خوابوں میں دکھا بھی دیتا ہے.ماریشس کے ہمارے ایک احمدی دوست ہیں کل ہی ان کا ایک خط ملا کہ میں نے ایک رقم اپنے بزرگ والدین کی طرف سے ایک خاص مقصد کے لئے جماعت کے لئے پیش کی ، کافی بڑی رقم تھی.کہتے ہیں کہ اسی رات میرے والد
خطبات طاہر جلد ۱۲ 94 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء جو میرے بچپن میں فوت ہو گئے تھے اور کبھی آج تک مجھے خواب میں نظر نہیں آئے.خواب میں آکر ملے اور اس محبت سے ملے کہ میرا دل باغ باغ ہو گیا اور صبح اُٹھ کر مجھے سمجھ آئی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پہلی جزا یہ دی ہے کہ بتایا ہے کہ جن کے نام پر تم نے نیکی کی ہے ان کو اطلاع مل گئی ہے اور اس نیکی کے نتیجہ میں ان کی روح تسکین پا رہی ہے تو اپنے بزرگوں کے ساتھ یہ سلوک کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے اموال اور جان اور مال میں بہت برکت دے گا.فہرستوں میں اول دوئم سوئم کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان سرفہرست ہے پاؤنڈؤں میں اگر پاکستانی قربانی کو شمار کیا جائے تو 3لاکھ 4 ہزار 822 پاؤنڈ بنتی ہے اور وصولی کے لحاظ سے بھی اللہ کے فضل سے پاکستان صف اول میں ہے پہلا نمبر ہے وعدوں کے لحاظ سے کینیڈا کا دوسرا نمبر ہے اور وصولی لحاظ سے کینیڈا پانچویں نمبر پر چلا گیا ہے اور امریکہ وعدوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے اور لیکن وصولی کے لحاظ سے دوسرے نمبر آ گیا ہے اب میں آپ کو جلدی سے چند جماعتوں کے نام پڑھ کر سنا دیتا ہوں تا کہ باقی جماعتوں میں بھی پھر مسابقت کی روح پیدا ہو.نیک نمونے دیکھ کر دلوں میں شوق پیدا ہو کہ ہم بھی آگے بڑھیں.3 وعدوں میں پاکستان نمبر ایک ہے کینیڈا دو امریکہ میں جرمنی چاٹی برطانیہ پانچ ماریش جاپان سات، ناروے آٹھ ،سوئٹزرلینڈ نو، انڈونیشیادی اور باقی ممالک بعد میں.وصولی کے اعتبار سے پاکستان سب سے پہلے ، پھر امریکہ ہے، پھر برطانیہ ہے، پھر جرمنی کی باری ہے، پھر کینیڈا، پھر ماریشس، پھر ناروے، پھر جاپان، پھر سوئٹزرلینڈ ، پھر انڈونیشیا.اس ضمن میں صرف یہ کہوں گا کہ جو وعدے ہیں وہ تو وصول کرنے ہیں انشاء اللہ لیکن بہت بڑی ایسی تعداد ہوگی جو اس وقت میرا خطبہ دنیا میں براہ راست سن رہی ہے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد ہے جس نے اس وعدہ میں حصہ ہی نہیں لیا تو ان سے میں گزارش کرتا ہوں کہ اس نیکی سے محروم نہ رہیں.چندے میں اصول یہ ہے کہ حسب توفیق جو ہے دیں اگر ایک آنے کی بھی توفیق ہے تو خدا کے ہاں وہی مقبول ہوگا.امراء کو بڑی بڑی رقمیں پیش کرنے کا موقعہ ملتا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ امراء درجوں میں آگے بڑھ گئے.پاکستان سے کسی نے ایک خط میں لکھا کہ ہم غریب چندے نہیں دے سکتے.آپ تحریکیں کرتے ہیں تو جو بڑے بڑے چندے دیتے ہیں وہ سر اونچا کر کے چلتے ہیں.میں نے ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 95 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء سے کہا کہ جو سر اونچا کر کے چلتے ہیں خدا کے حضور اُن کے سر کی کوئی قیمت نہیں رہی.چندہ دینے والے تو انکسار میں بڑھتے ہیں، خشوع میں بڑھتے ہیں، خضوع میں بڑھتے ہیں اور جتنا زیادہ دیتے ہیں سر اتنا جھکتا چلا جاتا ہے بجائے اس کے کہ بلند ہو اور وہ سر صرف خدا کے حضور ہی نہیں جھکتا بلکہ اپنے غریب بھائیوں کے حضور بھی جھکتا ہے.اپنی نیکی کی توفیق کے نتیجہ میں وہ اپنے ان بھائیوں پر نظر کرتے ہیں جن کو تو فیق نہیں اور ان سے پہلے سے بڑھ کر حسن سلوک کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں صرف اعلیٰ دینی مقاصد کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے کمزوروں اور مجبوروں کے لئے بھی خرچ کرتے ہیں.تو خدا کی راہ میں خرچ کرنا تو انکساری بڑھاتا ہے.تکبر تو نہیں بڑھاتا.ایک صاحب نے لکھا ہے کہ آپ یوں کریں کہ صومالیہ فنڈ ، بوسنیا فنڈ ،فلاں فنڈ ، فلاں فنڈ ، کی جو اتنی تحریکیں کرتے ہیں.کیوں نہ میں آپ کو ایک نظام بنا دوں کہ ایک چندہ ہو.بس ساری دنیا میں جھگڑا ہی ختم ہو.ان کو پتا نہیں کہ کوئی Taxation کا نظام ہے ہی نہیں.جہاں ٹیکسیشن کی روح آئی وہاں سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا.یہ تو اور نظام ہے ، زندہ ہے.خدا کی محبت کے نتیجہ میں زندہ ہے اگر محبت زندہ رہے تو اس میں ہر پہلو سے برکت ہی برکت پڑنی ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ خلوص کی فکر کرو چندے بڑھانے ہیں تو وہ خلوص سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں جہاں چندوں کی ادائیگی میں چہروں پر یوسیت آنی شروع ہو جائے وہ چندے لینے کے لائق نہیں اور میرا انسپکٹروں سے ہمیشہ اس بات پر جھگڑا رہا ہے جو پیچھے پڑ کر وعدے بڑھا کر لے کر آتے ہیں چنانچہ میں نے وقف جدید میں تو ایک موقع پر انسپکٹر بھیجنے ہی بند کر دیے تھے.موازنہ کر کے ان کو دکھایا کہ تم پیچھے پڑ کر جو وعدے لے کر آتے ہو اُن کا بھاری حصہ، ایک بھاری فیصد ادا ہی نہیں ہوتا اور جو خود بخود دل کی محبت سے وعدے پھوٹتے ہیں وہ نہ صرف پورے ادا ہوتے ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ جاتے ہیں اور ایک دفعہ ادا کرنے کے بعد بعض دفعہ دوست لکھتے ہیں کہ ہم نے ادا تو اسی وقت کر دیا تھا مگر چین نہیں آیا اب خدا نے ایک اور رقم دی ہے اس میں سے بھی ہم ادا کر رہے ہیں.” بوسنیا کی تحریک میں اس وقت تک جو Response یعنی اپیل کے جواب میں لبیک کہا گیا ہے وہ 78 ہزار 672 پاؤنڈ ہے مگر یہ بہت ہی کم ہے.اتنے دردناک حالات ہیں اور اتنی بڑی ضرورت ہے کہ جو جہاد کرنے والے ہیں ان کے لئے اُن کے پاس نہ بوٹ ہیں، نہ گرم کپڑے ہیں بہت ہی درد ناک حالت میں وہ دین
خطبات طاہر جلد ۱۲ 96 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۹۳ء کی خاطر یہ بڑا دردناک جہاد کر رہے ہیں تو جماعت احمدیہ کو انفرادی طور پر یا جماعتی طور پر جسمانی لحاظ سے جہاد میں شرکت کی توفیق نہیں ہے تو مالی لحاظ سے تو کر سکتی ہے.چنانچہ ہم بڑے وسیع پیمانے پر رابطے بڑھا رہے ہیں.بعض ملکوں میں پچاس پچاس ہزار بوسنین مہاجرین ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اپنی ضرورت بتاؤ تو وہ بوسنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں پر خرچ کرو جو بڑی عظیم قربانیاں دے رہے ہیں.وہاں جب میں نے وفد بھجوانے شروع کئے یعنی جماعت کو تو فیق ملی تو ایک رپورٹ آئی کہ اس میں کچھ جرمن نیک دل لوگ بھی شامل ہو گئے اور جماعت کے نمائندوں نے ٹرک لیا اور مال لے کر وہاں پہنچے تو کہتے ہیں کہ اتنے دردناک حالات تھے کہ وہ جرمن جو غیر مسلم تھے ان کی چھینیں نکل گئیں.سخت سردی میں معصوم بچوں نے جن کے پاس چھوٹے بوٹ تھے انہوں نے آگے سے بوٹ کاٹ کرتا کہ پاؤں کو آگے سے چھے نا اور پنجہ دبے نا، آدھا پاؤں باہر نکلا ہوا تھا اور کپڑے پورے نہیں تھے فاقوں کا شکار.کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ یہ اثر ہمارے دل پر اس وقت ہوا جب ہم نے کہا کہ ہمیں اور بتاؤ کہ تمہیں کیا ضرورت ہے ہم پھر آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہماری طرف نہ آؤ ان مجاہدوں کی طرف جاؤ جو بڑے دردناک حالات میں نہتے لڑ رہے ہیں اور ان کی مدد کرو تو جماعت کو اس سلسلہ میں دل کھول کر آگے قدم بڑھانا چاہئے.خدا تعالیٰ جماعت کے اموال میں برکت پر برکت دیتا چلا جائے گا.یہ روپیہ کم نہیں ہو گا جتنا نکالیں گے اتنا بڑھے گا.مختصر ا آپ کے سامنے ایک خط کا اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں اور پھر یہ خطبہ ختم ہوگا.رانا فیض بخش صاحب نون لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال میرا کل بجٹ اکیس سوروپے تھا.میں نے فیصلہ کر لیا کہ تمام ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر کپاس کی پہلی چنائی پر سالم چندہ ادا کر دوں گا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، رو پیادا کر دیا.ہفتہ عشرہ کے بعد AG، آفس ملتان سے اطلاع ملی کہ آپ کی پنشن -/268 روپیہ ماہوار کے حساب سے بڑھادی گئی اور 840 روپے کی بجائے اب آپ کو 1108 روپیہ ماہوار ملا کرے گی.اس کے علاوہ 3300 روپے سابقہ بقایا خزانے سے وصول کر لیں.کہتے ہیں یہ ایک مثال نہیں فرماتے ہیں.ساری زندگی میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ خدا کی خاطر جب کچھ دیا ہے اور اسی وقت نقد اس کی ادائیگی ہوئی ہے.یہ بتانے کے لئے کہ آئندہ مرنے کے بعد
خطبات طاہر جلد ۱۲ 97 خطبہ جمعہ ۲۹/ جنوری ۱۹۹۳ء بھی اعتبار رکھنا.یہ نہ سمجھنا کہ وعدے ہیں.وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کی جز اوعدہ فردا ہے ان کے لئے اس میں ایک پیغام ہے کہ وہ خدا جو اس دنیا میں تمہیں بڑھا چڑھا کر دے رہا ہے.وہی اس دنیا میں بھی ہے اُس دنیا میں بھی تمہیں اتنا دے گا کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.پس جماعت اپنے چندوں میں ہرگز خفت محسوس نہ کرے.کیونکہ وقت ختم ہو گیا ہے.اس لئے اب میں بات کو آگے نہیں بڑھا سکتا.اس کا کچھ باقی حصہ جو ضروری بیان کرنے سے رہ گیا ہے وہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکان
98 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 9 99 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء مسلمان دنیا صبر اور سچائی پر قائم ہو جائے تو ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گی.امت مسلمہ کو نصیحت.(خطبه جمعه فرموده ۵ فروری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لنڈن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: ۱۳۳۱۱) پھر فرمایا:.قرآن کریم میں بسا اوقات ایک ہی نیکی کو مختلف رنگ میں مختلف الفاظ میں، مختلف آیات کریمہ میں بیان فرمایا جاتا ہے اور نتیجہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات بیان فرمائی جاتی ہیں بعض دفعہ بعض اور صفات بعض دفعہ ثواب کا ایک نتیجہ دکھایا جاتا ہے اور بعض دفعہ ایک اور ثواب کا نتیجہ دکھایا جاتا ہے درحقیقت گہرے غور سے پتا چلتا ہے کہ مختلف صورتِ حال میں کی جانے والی نیکی در اصل مختلف تقاضے رکھتی ہے اور انسانی حالات بدلنے سے نیکی کے اجر بھی بدلتے رہتے ہیں.یہ آیات جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں ایک ایسی تجارت کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو عذاب الیم سے نجات ملے گی حالانکہ باقی جگہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے نتیجہ کے طور پر مثبت رنگ میں ثواب کا ذکر ملتا ہے نہروں والی جنات ہوں گی یا بیہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 100 خطبه جمعه ۵/فروری ۱۹۹۳ء ثواب ہو گا یا وہ ثواب ہوگا، جزاء کے بہت ہی خوبصورت نقشے کھینچے گئے ہیں لیکن اس آیت میں ایک مختلف انداز ہے کسی مثبت اجر کا وعدہ نہیں بلکہ ایک منفی عذاب سے بچنے کی خوشخبری يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ اے وہ لوگو ہے جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر دوں تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تمہیں بہت ہی درد ناک عذاب سے بچائے گی تُؤْمِنُونَ بِاللہ وہ تجارت کیا ہے؟ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر اور اس کی یعنی اللہ کی راہ میں بِاَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ اپنے اموال کے ذریعہ اور اپنی جانوں کے ذریعہ مجاہدہ کرو ذلِكُم خير لكُم إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ تمہارے لئے بہت بہتر ہے کاش کہ تم جانتے! گزشتہ خطبہ میں بوسنیا کے مسلمانوں پر ہونے والے جن مظالم کا ذکر کیا گیا تھا ان کے تعلق سے مجھے اس آیت کا یہ مفہوم سمجھ میں آیا کہ انسان جب دنیا میں درد ناک حالات سے متاثر ہوتا ہے جب کسی اور پر ظلم تو ڑا جارہا ہوتا ہے اور اس سے ہمدردی رکھنے والا دل کسی اور جگہ بیٹھا کٹ رہا ہوتا ہے تو بسا اوقات ایسے وقت میں عذاب الیم سے بچنے کے لئے انسان کی توجہ خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کی طرف پھرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صرف دعاؤں سے کام نہیں چلے گا، دعائیں وہی مقبول ہوتی ہیں جنہیں نیک اعمال رفعتیں بخش رہے ہوں.پس جب بھی تم دنیا میں عـــذاب الـيـم کے نمونے دیکھو.تو تمہیں ایک ایسے درد ناک عذاب سے بچنے کے لئے بھی مجاہدہ کرنا چاہئے جو انسانوں کے عائد کردہ دردناک عذاب سے بہت زیادہ درد ناک ہو گا وہ عذاب الیم ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو بنی نوع انسان پر درد ناک عذاب وارد کرتے ہیں.دنیا میں جتنی بدیاں ہیں ان کے نتائج ان بدیوں سے براہ راست ایک نوعیت کا تعلق رکھتے ہیں عذاب بھی اسی نوعیت کا ملتا ہے جیسی بدی ہو اور ثواب بھی اسی نوعیت کا ملتا ہے.جیسے نیکی ہو.پس قیامت کے دن درد ناک عذاب انہی لوگوں کو ملے گا جو اس دنیا میں خدا کے بندوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کرتے ہیں اور بعض دفعہ یہ وعدہ دنیا میں بھی پورا ہوتا ہے مگر لمبے عرصہ کے بعد کیونکہ قرآن کریم صلى الله میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے یہ فرمایا گیا کہ ہم تیرے دشمنوں کے لئے جو بعض چیزیں وعدہ کر رہے ہیں کہ انہیں ضرور ملیں گی کچھ ہو سکتا ہے تو اپنی زندگی میں دیکھ لے اور کچھ تیری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 101 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء زندگی کے بعد دکھائی جائیں گی کچھ اس دنیا کے عذاب ہیں، کچھ اس دنیا کے عذاب ہیں کیونکہ خدا کا تناظر اور ہے اور بندے کا تناظر اور ہے.اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ ساری کائنات ایک سطح کی طرح ہے اس میں نہ کوئی ماضی ہے، نہ حال نہ کوئی مستقبل.وہ ایک ایسی نظر سے سب واقعات کو اور سب کائنات کو دیکھ رہا ہے جیسے اس کی تصویر سامنے بچھ گئی ہو.پس یہ دنیا ہو یا وہ دنیا ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وقت کی کوئی جلدی نہیں اور خدا کے صبور ہونے کا ایک یہ بھی مطلب ہے انسان وقت کی نسبت سے بے صبرا ہوتا ہے وقت جتنا آہستہ گزرے اور نتیجہ سے زیادہ پیار ہو ( ان دونوں کے درمیان ایک ایسی نسبت ہے کہ وقت آہستہ گزرے) تو نتیجہ دور دکھائی دینے لگتا ہے جس سے پیار ہو اس کے انتظار میں وقت ویسے ہی آہستہ گزرتا ہے اس کے نتیجہ میں بے صبری پیدا ہوتی ہے مگر وہ خدا جو Space , Time کا خدا ہے ایسی کائنات کا خدا ہے جہاں مکان اور وقت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ہیں اور ایک ہی چیز کے دو جز بن جاتے ہیں جیسے دودھاگوں سے ایک چیز بنی جارہی ہو.ایسے ہی عالم وجود وقت اور Space دونوں کی بنتی کا نام ہے وہ خدا جو وقت اور مکان سے بالا ہے اس کو یہ ساری چیزیں اپنے سامنے کھلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں.اس لئے اُسے انتظار میں بے صبری پیدا نہیں ہوسکتی.جسے چیز سامنے دکھائی دے،اس طرف بھی اور اس طرف بھی، اس کے لئے بے صبری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس حقیقت میں اللہ ہی کی ذات صبور ہے ورنہ انسان خواہ کتنا ہی صبر والا ہو کچھ نہ کچھ صبر کے عدم کی کیفیات بھی اس کے ساتھ لگی رہتی ہیں کچھ نہ کچھ بے چینی ضرور رہتی ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھیں کہ خدا کی طرف سے غیر معمولی قوت یافتہ تھے لیکن اسلام کی فتح کے انتظار کی باتیں کرتے ہیں تو بے قرار ہو جاتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے کوئی بہل خاک اور خون میں لتھڑا ہوا تڑپ رہا ہو اور عرض کرتے ہیں کہ شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا (در مشین : ۱۰) پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے کی بھی اگر کوئی بے چینی تھی یا کوئی بے صبری تھی تو وہ خدا ہی کے سامنے بیان ہوتی تھی مگر تھی وہ غلبہ اسلام اور نیکیوں کے غلبہ سے متعلق.جس چیز سے محبت ہو وہ اگر سامنے دکھائی نہ دینے لگے تو ظاہر ہے کہ اس کے انتظار میں ایک تکلیف کی حالت پیدا ہوتی ہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 102 خطبه جمعه ۵/فروری ۱۹۹۳ء اسی کو بے صبری کہتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دنیا ہو یا وہ دنیا عملاً یا حقیقہ کوئی بھی فرق نہیں اس لئے وہ عذاب میں بھی کوئی جلدی نہیں کرتا اور بعض دفعہ عطا میں بھی کوئی جلدی نہیں کرتا عطا میں ہماری بے صبری کی خاطر جلدی کرتا ہے اور کچھ دے دیتا ہے جیسا کہ ہماری جماعت میں کثرت سے یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ ادھر سے نیکی کی ، ادھر سے جز امل گئی ، ہاتھوں ہاتھ نقد و نفر سودے چل رہے ہیں لیکن وہ حقیقت میں جزا نہیں ہے.وہ مٹھاس کا ایک لقمہ ہے جو چکھایا جارہا ہے.جیسے کوئی ماں کھانا پکارہی ہو اور اس کی بڑی اچھی خوشبوا ٹھ رہی ہو، بچہ پاس سے گزرتا ہے تو ماں اسے بلا کر تھوڑا سا چکھا دیتی ہے یہ مطلب تو نہیں کہ سارا کھانا ہی اس کو مل گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ بھی نہ سزا میں جلدی کرتا ہے نہ جزا میں جلدی کرتا ہے ہاں چکھاتا ہے چنانچہ بعض دفعہ عذاب کے لقمے بھی چکھائے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن وہ تو اک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار ( در شین : ۱۵۳) جس طرح صبح صبح ایک لقمہ کھلایا جاتا ہے نہاری کے طور پر یہ وہ کھلایا گیا ہے ابھی بہت عذاب آنے والے ہیں.پس اس نسبت سے اس آیت کا تعلق مجھے ان دردناک حالات سے معلوم ہوا ہے جو عالم اسلام پر اس وقت وارد ہیں اور دن بدن اُن کا دکھ بڑھتا چلا جارہا ہے اور دردناک عذاب دینے والوں کی بے با کی بڑھتی چلی جارہی ہے.بوسنیا کے متعلق خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت جماعت احمد یہ ہر ملک میں جہاں جہاں بھی بوسنیا کے مہاجرین ہیں غیر معمولی محبت کا سلوک کر رہی ہے اور بہت محنت کر رہی ہے چنانچہ تفصیل سے جو رپورٹیں ملتی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ بعض لوگ تو اس بات کے لئے وقف ہو گئے ہیں.دن رات بوسنیا کے مظلوموں کی خدمت کرنا ، ان سے تعلقات استوار کرنا، ان کو مسجدوں میں لے کر آنا یا ان تک پہنچ کران کو نیکی کی باتیں پہنچانا اور پھر ہمدردی کے تمام عملی ذرائع کو کام میں لاتے ہوئے ان کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کرنا، یہ یورپ کی جماعتوں میں ایک عام دستور ہے اور انگلستان میں خصوصیت کے ساتھ اس سلسلہ میں بہت کام ہو رہا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے بہت ہی احسان کے ساتھ اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ یہاں کی لجنہ کو خصوصیت سے بہت عمدہ خدمت کی توفیق
خطبات طاہر جلد ۱۲ 103 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء مل رہی ہے.چنانچہ چند دن پہلے اسلام آباد میں بوسنین خواتین اور بچوں پر مشتمل ایک بڑا قافلہ آیا جس کا انتظام دو تین جگہ کی لجنات کی شاخوں نے کیا اور بڑی محنت سے احمدی خواتین ان کے گھروں تک پہنچیں ان کو ساتھ لے کر آئیں اور ایک کافی دلچسپ محفل لگی ، دلچسپ ان معنوں میں تھی کہ جو آنسو اس مجلس میں بہتے تھے وہ خوشی کے بھی تھے اور غم کے بھی تھے.ان چہروں کو جس نے نہیں دیکھا اس کو تصور نہیں ہو سکتا کہ کیسی عجیب کیفیات کے حامل وہ چہرے تھے.ایک طرف اسلام کے نام پر بے لوث محبت کے نتیجہ میں پچھلے جارہے تھے اور دوسری طرف ان کو اپنے دردناک ماضی کی یادیں آتی تھیں جو قریب کا ماضی ہے اور اس کے نتیجہ میں چہرے پر عجیب قسم کی وحشت دوڑنے لگتی تھی بعض آنکھوں میں مسکراتے ہوئے بھی اتنا گہرا غم تھا کہ ان میں ڈوب کر انسان کے دل میں ایک ہول اُٹھتا ہے کہ کس گہرائی کا غم ہے جس کی کوئی اتھاہ دکھائی نہیں دیتی ، اس ضمن میں خدام الاحمدیہ یو.کے، کے سابق صدر کے سپر د میں نے جو کام کئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بوسنیا وغیرہ سے متعلق نظر رکھیں کہ کیا ہورہا ہے.دانشور کیا کہہ رہے ہیں اور مختلف سمت سے بوسنیا کے حق میں یا ان کے حالات کے مختلف پہلوؤں پر جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں ان کو ریکارڈ کریں چنانچہ انہوں نے اب تک جو مضامین اکٹھے کر کے مجھے دیئے ہیں ان میں بعض ایسے مضامین ہیں جو فی الواقعہ پڑھے نہیں جاسکتے.۵۰ ہزار سے زائد مسلمان خواتین کی جس دردناک ظالمانہ طریق پر بے حرمتی کی گئی ہے اس کی تفصیل بیان کرنے کا نہ یہ موقع ہے، نہ مجھ سے ہو سکے گی لیکن ان میں سے اکثریت کو پھر بہیمانہ سلوک کے بعد بڑے ہی نا قابلِ بیان طریق پر یا ذبح کیا گیا ہے یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے گولیاں مار کر مارا گیا ہے اتنے مظالم ہیں کہ آپ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کس طریق پر کیسے کیسے مظالم توڑے گئے اور بہت سے ایسے مظالم ہیں جہاں ظلم کرنے والوں نے بعض دوسرے یورپین انٹرویو لینے والوں کو انٹرویو کے دوران بڑے فخر سے بتایا کہ ہم یہ کرتے ہیں اور ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے تو بہت ہی درد ناک حالات ہیں اور یہ دردناک حالات ایک غیر منصفانہ دور میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی منتقل ہو سکتے ہیں.یہ دور نا انصافیوں کا دور ہے.یہ جو New World Order کا تصور ہے یہ کوئی خدا کا تقویٰ رکھنے والوں کا تو نیو ورلڈ آرڈر نہیں ہے.یہ اللہ سے اور بندوں سے محبت رکھنے والوں کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 104 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء نیوورلڈ آرڈر تو نہیں ہے یہ انصاف اور رحم سے خالی دلوں کا نیوورلڈ آرڈر ہے.یہ ایک تعلی کی آواز ہے جو آپ کو سنائی دے رہی ہے جب ایک ظالم دیکھتا ہے کہ اب اس کے ہاتھ روکنے والا دوسرا ظالم میدان میں نہیں رہا تو پھر وہ چنگھاڑتا ہوا وہ اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کوئی میرے ہاتھ روک نہیں سکتا.یہ جو جانوروں کی دنیا کے نقشے تصویروں میں دکھائے جاتے ہیں ایسے حالات بعض دفعہ ان میں دکھائی دیتے ہیں ایک جانور کو گرا کر زخمی کر کے ایک درندہ اس کو کھانے پر تیار بیٹھا ہے کہ ایک اور درندہ دوسری طرف سے آجاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر کچھ دیر غراتے ہیں اور اس کے بعد ایک جو کمزور ہے وہ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے پھر وہ اس کو جس طرح بے فکر ہو کر بھنبھوڑتا ہے اور جس طرح بھنبھوڑنے والے یعنی فاتح درندے کے چہرے پر جیسے بے تکلف ظلم کے آثار ہوتے ہیں کہ کوئی نہیں ہے مجھے پوچھنے والا یہی حال آج کی دنیا میں طاقتور قوموں کا ہے.یہ نیو ورلڈ آرڈر ہے جس کو دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے.آپ عالم اسلام پر نظر دوڑا کر دیکھیں تو آپ کو ایک طرف بوسنیا دکھائی دے گا.ایک طرف فلسطین دکھائی دے گا، ایک طرف کشمیر اور بمبئی اور اسی طرح ہندوستان کے بعض دوسرے علاقے دکھائی دیں گے، پھر آپ کو عراق میں مختلف مناظر نظر آئیں گے، کہیں وہ شیعہ یا گر داقلیتیں ہیں جن پر کہا جاتا ہے کہ صدام حسین نے ظلم کئے تھے کہیں سارے عراق کے باشندے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ڈکٹیٹر کے جبر کے نیچے مجبور ہیں اور اس کے مقابل پر ان سب پر عرصہ حیات تنگ کر دینے کی ظالمانہ کارروائیاں اور یہ کہتے ہوئے ان کو مجبور کرنا کہ جب تک تم صدام حسین کو اپنے اوپر سے ہٹاؤ گے نہیں ہم تم پر ظلم کرتے رہیں گے.عجیب وغریب انصاف کے نئے تصور کھینچے جارہے ہیں، جن کی کسی معمولی عقل رکھنے والے کو بھی سمجھ نہیں آسکتی کہ کیسا انصاف ہے ایک طرف فلسطین کا حال ہے وہاں ایک چھوٹے سے دائرے میں رہنے والی چھوٹی سی حکومت رعونت میں بہت بڑھی ہوئی حکومت ہے اور وہ جب چاہے جس طرح چاہے بیچارے نہتے فلسطینیوں پر جس رنگ میں چاہے ظلم کرتی چلی جائے اور اس کے متعلق جب کوئی آواز اٹھتی ہے تو اس پر بڑی قوموں کا ایک ردعمل ہوتا ہے دوسری طرف بوسنیا کے مسلمانوں پر مظالم کا ایک رد عمل ہے.تیسری طرف کشمیر کے اور ہندوستان کے دیگر مسلمانوں پر مظالم کا ایک رد عمل ہے پھر عراق کی بات ہے ان سب کا موازنہ کر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 105 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء کے آپ دیکھیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ ہر جگہ پیمانے بدلے ہیں.کہیں آنکھیں بند کر لی گئیں ہیں تو ذکر ہی کوئی نہیں چل رہا حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں پر ایسے زبردست مظالم توڑے جارہے ہیں کہ خود ہندو منصف مزاج لوگوں نے اور صاحب حق لوگوں نے اس کے خلاف بڑی شدت سے آواز اُٹھائی ہے.حکومت کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹیوں نے ثابت کیا ہے کہ ہماری فوج کی طرف سے بہت ہی بہیمانہ مظالم مظلوم مسلمانوں پر توڑے گئے ہیں لیکن آپ کو کوئی ذکر نہیں ملے گا کہ یہاں کوئی واقعہ بھی ہو رہا ہے لیکن عراق کو دیکھیں کہا جاتا ہے کہ اس نے کسی وقت شیعوں پر ظلم کئے تھے یا کر دوں پر کئے تھے چنانچہ ان موہوم ظلموں کی یاد میں عراق کی ساری آبادی کو مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے.ایک طرف یہ انصاف ہے، دوسری طرف اسرائیل کا حال ہے کہ تمام دنیا کی اپیلوں کو رد کرتے ہوئے تمام دنیا کی طرف سے بار ہا توجہ دلانے کے باوجود اور یونائیڈ نیشنز میں اس موضوع پر بحثوں کے باوجود اسرائیل اپنی جگہ پر اڑا رہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں ان چار سونا سوفلسطینی مسلمانوں کو واپس اپنے ملک میں لے لوں، جن کو اسرائیل کی حکومت نے جبراً اپنے ملک سے باہر نکال پھینکا ہے جن کا کوئی بھی ملک نہیں جن کو مدد دینے کے لئے جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کی راہ میں بھی خود اسرائیل روک ہے بہت ہی درد ناک حالات میں کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اُن کے متعلق ساری دنیا کی اپیلیں رد کی جارہی ہیں کہ ہمیں کوئی پرواہ نہیں جب یہ معاملہ سکیورٹی کونسل میں پہنچا تو ابتدائی ریزولیوشن کے الفاظ ( یوں معلوم ہوتا تھا کہ ) اگر منظور ہو گئے تو اسرائیل کے لئے اب کوئی فرار کی راہ باقی نہیں رہے گی بڑے شدت کے الفاظ کے ساتھ جس طرح عراق کے خلاف استعمال کئے گئے تھے اس سے کچھ ملتے جلتے تھے ویسے سخت نہ سہی لیکن ان میں سیکیورٹی کونسل سے یہ مطالبہ تھا کہ ایک ریزولیوشن پاس کرو کہ اگر اسرائیل نے ان چار سو مسلمانوں کو واپس قبول نہ کیا تو اس کے خلاف Sanctions عائد کی جائیں گی یعنی پابندیاں عائد کی جائیں گی کہ اس کے ساتھ تمام دنیا کے تجارتی اور دیگر روابط کٹ جائیں.اس کا اسرائیل نے جو جواب دیا وہ آپ لوگوں نے ٹیلی ویژن میں بھی دیکھا ہوگا، اخبارات میں بھی پڑھا ہوگا، ریڈیو پرسنا ہوگا، ایسی بے باکی سے سر اُٹھا کر یونائیٹڈ نیشنز کی آواز کو یوں ٹھوکر ماری جیسے کوئی بھونکنے والے کتے کا منہ توڑتا ہے اور امریکہ کے صدر کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ تم کر کے تو دیکھو اور پھر اس کا جو نتیجہ نکلا اس پر مجھے پرانے زمانے کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 106 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء احمد یہ ہوٹل کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ جب ہم گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتے تھے یہ تقسیم ہند سے پہلے کی بات ہے وہاں ایک دفعہ راجہ محمد اسلم صاحب جو بڑے ذہین مشہور تھے اور بہت مخلص تھے اور من مقابلے کے امتحانوں میں گولڈ میڈل لینے والے تھے ان کا ایک صدمہ کی وجہ سے دماغ پھر گیا تھا تو وہ بیچارے اس حالت میں احمد یہ ہوٹل میں آکر قیام پذیر ہوئے جبکہ سر پر یہ جنون سوار تھا کہ میں لوگوں کی شادیاں کرواؤں اور آج بھی کئی احمدیوں کے دماغ میں یہ ہے میں کسی دن اس کا ذکر کروں گا.ان کو شادیوں کروانے کا شوق تھا کہ جس وجہ سے وہ پاگل ہوئے تھے.وہ شادی کے سلسلہ میں ہی ایک صدمہ تھا.بہت ہی قابل انسان ، بہت ہی مخلص اور فدائی اور غیر معمولی ذہین لیکن اس ٹھوکر میں آکر ان کا دماغ چل گیا.احمد یہ ہوٹل بیٹھے بیٹھے قریباً ہفتہ گزر گیا وہ آئے دن لوگوں کے رشتے جوڑتے تھے کسی لڑکے کو پکڑ لیا کہ آؤ میں نے تمہارے لئے فلاں رشتہ ڈھونڈا ہے اور کسی دوسرے کو پکڑا کہ تمہارے لئے فلاں رشتہ ڈھونڈا ہے، کسی کو دوسری شادی کسی کو تیسری شادی کی تلقین ،سپر نٹنڈنٹ صاحب بہت شریف انسان تھے.بڑے نرم دل اور تحمل سے بات کرنے والے لیکن آخر وہ تنگ آگئے.انہوں نے ایک دفعہ صبح کی نماز کے بعد راجہ صاحب کو مخاطب کر کے بڑے ادب سے فرمایا کہ دیکھیں راجہ صاحب میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں بڑی عزت ہے لیکن قانون قانون ہی ہے.اب دیکھیں جماعت کا قانون ہے کہ کوئی غیر طالب علم جو اس ہوٹل کا باشندہ نہیں ہے وہ یہاں نہیں رہ سکتا اور آپ کو سات دن ہو گئے ہیں تو میں بڑے ادب سے آپ سے بات کر رہا ہوں کہ مہربانی فرما کر یہ جگہ چھوڑ دیں انہوں نے فوراً پلٹ کر اُن سے کہا کہ سپر نٹنڈنٹ صاحب یہ آپ حکم دے رہے ہیں یا درخواست کر رہے ہیں کیونکہ ان کی دیوانگی کا ایک رعب تھا اور سپر نٹنڈنٹ صاحب ویسے ہی ذرا شریف النفس اور نرم دل کے آدمی تھے انہوں نے گھبرا کر کہا کہ راجہ صاحب میں درخواست کر رہا ہوں ، عرض کر رہا ہوں فوراً راجہ صاحب نے کہا: چل اوے ٹیکیا نا منظور ٹھیکیا“ پنجابی محاورہ ہے مجھے تو ابھی تک اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا لیکن کوئی تحقیر کا ایک لفظ ہے کہ چل اوے ٹیکیا نامنظور که اگر درخواست ہے تو یہ نامنظور ہے.تو اسرائیل کے سلسلہ میں وہ تکلمات تھے اب وہ درخواست بن گئے ہیں.جب اسرائیل نے اسی دیوانگی کے عالم میں جو تکبر اور رعونت سے پیدا ہوتی ہے مڑ کر کہا کہ بتاؤ یہ کیا ریزولیوشن منظور ہونے والا ہے حکم دینے لگے ہو یا درخواست کرنے لگے ہو تو انگلستان جس نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 107 خطبه جمعه ۵/فروری ۱۹۹۳ء ید ریزولیوشن Move کیا تھا انہوں نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ حضور! ہم درخواست کر رہے ہیں اس کا جواب وہی ہو گا جو میں بتا چکا ہوں کہ چل اوے ٹیکیا نا منظور.یہ انصاف کا اور دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک پیمانہ ہے جو مغربی قو میں آپس کے تعلقات میں برتتی ہیں.جب یوگوسلاویہ کے عیسائی یاد ہر یہ ظالم ہوں اور مسلمان مظلوم ہوں ، جب فلسطین کے مظلوم اور دنیا کے ستائے ہوئے بے چارے مسلمان مظالم کا نشانہ بنائے جارہے ہوں اور اپنے ساتھی سفید فام ظلم کرنے والے ہوں تو انصاف کے تقاضے، امن قائم کرنے کے پیمانے ،سب کچھ بدل جاتے ہیں.دوسری طرف اگر مسلمان کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے خواہ وہ مسلمانوں پر ہی کر رہا ہو.تو ان سے برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم کرے.کہتے ہیں یہ صدام حسین کیسا مسلمان بنا پھرتا ہے اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم کر رہا ہے.ہم دنیا کی آزاد قو میں برداشت کیسے کر سکتی ہیں کہ کوئی مسلمان اپنی رعونت میں اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم کرے.جب بابری مسجد کے نتیجہ میں مظالم کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ان کی اندرونی باتیں ہیں ملک کے اندر کیسے کوئی دخل دے سکتا ہے.بابری مسجد کے قصے، ہندوستان کے قصے، بیرونی طاقتوں کو کیا حق ہے کہ کسی اور ملک میں جا کر دخل اندازی کرے، تو یہ ہے انصاف کا عالم اور یہ نیو ورلڈ آرڈر ہے.سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس وقت کیا کرنا چاہئے ؟ کیا کر سکتے ہیں؟ جو بات میں کہوں گا وہ بظاہر عملاً آپ کو چھوٹی دکھائی دے گی لیکن بہت بڑی بات ہے کیونکہ قرآن کریم نے ان مسائل کا یہی حل بیان فرمایا ہے چنانچہ سورۃ العصر میں جس کا میں پہلے بھی بار ہاز کر کر چکا ہوں اس زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا گیا.وَالْعَصْرِف إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ (اعصر :۳٫۲) زمانہ گواہ ہوگا کہ جب ناانصافی کی حکومت ہوگی جب عدل دنیا سے اُٹھ جائے گا تو انسان لازماً گھاٹے میں ہو گا اس میں نا انصافی اور عدل کے فقدان کا ذکر دراصل ان کی نصیحت کے دوسرے پہلو میں شامل ہے.اگر علاج حق بیان کیا جارہا ہو تو صاف ظاہر ہے کہ جھوٹ کی حکومت ہے اور جھوٹ بیماری ہے جس کے نتیجہ میں انسان گھاٹے میں ہے جب صبر کی نصیحت کی جارہی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ظلم ہورہا ہے اور عدل کا خون ہو رہا ہے.پس یہ مضمون میں اپنی طرف سے اس چھوٹی سی سورۃ کی طرف منسوب نہیں کر رہا اس سورۃ کے اندر گہرے مطالب پنہاں ہیں جو باقاعدہ تلاش سے دکھائی دینے لگتے ہیں ،نظر آتے ہیں،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 108 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء کھلم کھلا وہاں موجود ہیں.پس فرمایا کہ کل عالم اس وقت گھاٹے میں ہوگا اور زمانہ اپنے اطوار سے اس گھاٹے کی گواہی دے گا نصیحت یہ فرمائی کہ اس کا علاج حق سے اور حق کی نصیحت کرتے ہوئے کرنا سچائی پر قائم رہتے ہوئے سچائی کی نصیحت کرنا اور صبر پر قائم رہتے ہوئے صبر کا دامن پکڑتے ہوئے صبر کی نصیحت کرنا.اس نصیحت میں در حقیقت زمانے کی دو بیماریاں ہمیں بتا دی گئی ہیں اور مفسرین بالعموم مثبت پہلو کو تو سامنے رکھتے ہیں اور رکھنا بھی چاہئے لیکن یہ معلوم نہیں کرتے کہ یہ مثبت پہلو کیوں بیان کیے گئے ہیں.اس لئے کہ زمانہ ان دونوں باتوں سے عاری ہوگا اس لئے ان کی تلقین فرمائی گئی کہ اے مسلمانو! اگر تم زمانے کی تقدیر بدلنا چاہتے ہوتو بیماری کو دیکھو، بیماری کاحل تلاش کرو.جیسی بیماری ہے ویسی دوا ہونی چاہئے اور فرمایا کہ ہم تمہیں دوا بتا دیتے ہیں اور وہ بعینہ مرض کے مطابق ہے دوا یہ ہے کہ بیچ پر قائم ہو جانا اور سچ کی تعلیم میں سچائی سے کام لینا دوا یہ ہے کہ صبر کی نصیحت کرنا، لیکن صبر پر قائم رہتے ہوئے خود صبر کے نمونے دکھاتے ہوئے.ان آیات سے اس وقت کی دنیا کا جو منفی نقشہ ابھرتا ہے وہ مجھے بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے ایسا زمانہ ہے جہاں سارے بد بخت جھوٹے ہوگئے ہیں، چھوٹے بھی جھوٹے ، بڑے بھی جھوٹے ،سیاست دان بھی جھوٹے اور مذہبی راہنما بھی جھوٹے ، حکومتیں بھی جھوٹی اور رعایا بھی ، جھوٹی امیر بھی جھوٹا اور غریب بھی جھوٹا، اگر جھوٹ کا یہ نقشہ اتناعام نہ ہوتا تو خدا سارے زمانہ کو یہ نہ کہتا کہ گھاٹے میں چلا گیا ہے.سارا انسان گھاٹے میں نہ جاتا الانسان کے گھاٹے میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان ان بدصفات میں ملوث ہو چکے ہیں ان برائیوں ان جرائم میں ڈوب گئے ہیں، ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے.پس آج کی سیاست کا جو نقشہ آپ کو دکھائی دے رہا ہے، آج تجارت کے جو نقشے آپ کو دکھائی دیتے ہیں ملک میں حکومت اور رعایا کے تعلقات کے جو نقشے آپ کو نظر آتے ہیں جس طرف آپ نظر ڈال کر دیکھ لیں سب میں بنیادی جرم جھوٹ کا جرم ہے جو قد رمشترک ہے اور یہ اتنا عام ہے کہ ہر سطح پر رچ بس گیا ہے اور ایک کا دوسرے سے فرق نہیں کیا جا سکتا پہلے کہا جاتا تھا کہ یار عایا جھوٹی ہے یا بادشاہ جھوٹا ہے.قرآن فرماتا ہے کہ جس زمانہ کی ہم بات کر رہے ہیں رعایا بھی جھوٹی ہوگی اور بادشاہ بھی جھوٹا ہوگا چھوٹے ملک بھی جھوٹے ہوں گے اور بڑے ملک بھی جھوٹے ہوں گے اور اگر تم زمانہ کو اس مرض سے شفا بخشا چاہتے ہو تو تمہیں سچا ہونا پڑے گا ،سچائی کا دامن پکڑو گے اور پھر سچائی کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 109 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء نصیحت کرو گے تو تمہاری نصیحت میں طاقت ہوگی اور زمانے کے اطوار بدل سکو گے ورنہ نہیں.پھر صبر کا مضمون چھیڑ کر بتایا کہ لوگ بہت مظلوم ہوں گے، انسان بحیثیت انسان مظلوم ہوگا اور یہ جو نقشہ ہے یہ حقیقت میں مالک پر بھی اطلاق پاتا ہے اور مزدور پر بھی ، حکومت پر بھی اور رعایا پر بھی، کیونکہ جن ملکوں پر آپ ظالم حکومتوں کو دیکھتے ہیں ان کے گزشتہ چند سال کے انقلابات پر اگر وہاں انقلاب آئے ہوں، غور کر کے دیکھ لیں اور اسی سے باقی دنیا کے حالات کا اندازہ کریں تو پتا چلے گا کہ انقلاب لانے والے بھی جب حکومتوں پر فائز ہوتے ہیں تو ظالم بن کر ہی ابھرتے ہیں.جب اشتراکیت کا انقلاب آیا تھا تو وہ ظلم کے خلاف انقلاب تھا لیکن انقلاب خود اپنی ذات میں ظالمانہ تھا.جب ظلم کے نام پر ظالم کے خلاف جہاد کرنے والے حکومت پر فائز ہوئے تو وہ خود ظالم بن گئے.اسی طرح ظلم کے خلاف ایک انقلاب ایران میں ہوا تھا اور بعد میں جس طرح بعض لوگوں کا قتل عام ہوا ہے دنیا کا کوئی انصاف پسند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ظلم کا جواب اس طرح دیا جانا چاہئے.تو جہاں جہاں بھی دنیا میں انقلاب آرہے ہیں ایک ظالم کے خلاف ایک مظلوم انقلاب لاتا ہے لیکن جب اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں پہلے ظالم فائز تھا تو خود ظالم بن کر ظاہر ہوتا ہے.تو اس کا مطلب ہے کہ مخفی ظلم کی رگ ہر انسان کے اندر پھڑک رہی ہے، ہر انسان سے مراد یہ نہیں کہ استثناء کوئی نہیں.قرآن کریم خود استثناء فرما رہا ہے مراد یہ ہے کہ اتنی عام بات ہے کہ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سارا زمانہ ظلم کا شکار ہو چکا ہے اور بے صبرا ہو گیا ، بے صبرا اپن ان لوگوں کا ، بہت ہی خوبصورت نقشہ کھینچ رہا ہے جن کو حکومت میں بھی چین نہیں اور جو محکوم ہے ان کو تو ویسے ہی چین نہیں، امیروں کو بھی چین نہیں اور غریبوں کو بھی چین نہیں ہے.اگر آپ اس وقت دولت مندوں کا حال دیکھیں تو آپ حقیقت میں حیران ہوں گے کہ دولت مند بھی بڑے سخت بے چین اور بے قرار ہیں ان میں بھی ایسی تکلیفیں ہیں جنہوں نے ان کو بے صبرا کر دیا ہے اور کئی دفعہ اچانک ایسے حالات سامنے آتے ہیں جن سے ہمیں نمونیہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ بظاہر خوش باش اور عیش و عشرت میں ملوث دولت مندوں کے دلوں کی کیا کیفیت ہے.ابھی چند دن ہوئے انگلستان کے ایک امیر ترین آدمی کی ایک بیٹی نے خودکشی کی ہے جس کی کہانیاں اخبارات اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ عام مشتہر کی گئیں اور دنیا کی ہر نعمت ہر چیز تھی بے حد محبت کرنے والا باپ تھا لیکن دل تھا کہ اس میں ایک جہنم بھڑک رہی تھی اور بعض دفعہ ایسے ایسے واقعات نظر آنے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 110 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء لگ جاتے ہیں یعنی سطح پر ابھر آتے ہیں لیکن سطح کے نیچے ایک تلاطم برپا ہے.وہ خدا جو عالم الغائب و الشهادة ہے اس کے لئے تو نہ سطح کی کوئی حقیقت ، نہ تہہ کی کوئی حقیقت، بیک وقت اس کی سطح پر بھی نظر ہوتی ہے اور تہ پر بھی نظر ہوتی ہے پس جھوٹ کا قرآن کریم میں جو نقشہ کھینچا گیا کہ کل عالم کو جھوٹ غرق کر دے گا.انسان بحیثیت انسان جھوٹا ہو جائے گا اس کا تو ہمیں علم ہے ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن صبر کا جو مضمون ہے اس کے بعض حصوں پر ہماری نظر ہے بعض حصوں پر نہیں ہے.اس لئے پہلی گواہی کے سچا ہونے کے نتیجہ میں ہم پورا یقین کر سکتے ہیں کہ اگلی بات بھی ہر طرح کچی ہے یہ جو بڑی بڑی حکومتیں ہیں ان کے سر براہ اور حکومت پر فائز افسران یا سیاست دان یہ خود بھی بے چین ہیں اور یہ بے چینی بڑھ رہی ہے چنانچہ اس وقت یورپ میں جو کیفیت ہے اگر آپ گہری نظر سے یورپ کی سیاست کا تجزیہ کریں تو ہر حکومت پہلے سے بڑھ کر بے چین ہو رہی ہے اور امریکہ کا بھی یہی حال ہے ایک بے چینی کم کرتے ہیں تو دوسری بے چینی آلیتی ہے اور ایک طرف سے توجہ ہٹانے کی خاطر کوئی دوسرا ظلم کرتے ہیں تو جس طرف سے توجہ ہٹائی جاتی ہے وہاں مواد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور ابلنا شروع ہو جاتا ہے.تو اس وقت سارا عالم بے چین ہے.نہ کوئی بڑا چین میں بیٹھا ہوا ہے، نہ کوئی چھوٹا صبر کے ساتھ ہے.مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ تم صبر سے کام لینا اور مسلمانوں نے چونکہ اس زمانہ میں خصوصیت سے مظلوم بنا تھا اس لئے خصوصیت سے صبر کی تلقین فرمائی.پس مسلمان قوم کے لئے نجات کی دوہی راہیں ہیں.بی پر قائم ہوں اور اس وقت بدنصیبی کے ساتھ مسلمان ملکوں میں اتنا جھوٹ ہے کہ جس طرح سڑے ہوئے گوشت میں سنڈیاں دکھائی دیتی ہیں اسی طرح کثرت سے جھوٹ بولنے والے سوسائٹی میں کلبلا رہے ہیں.بہت ہی مکروہ نظارے ہیں اور چھوٹے بڑے اکثر جھوٹے ہو چکے ہیں سیاست دان تو بطور خاص جھوٹا ہے.حکومت سے باہر رہتے ہوئے سیاست دان جھوٹ کو نفرت سے دیکھتا ہے ، جھوٹ پر تنقید کرتا ہے ، جھوٹ کو پاؤں تلے روندنے کے دعوے کرتا ہے مگر وہی سیاست دان جب حکومت میں آتا ہے تو جھوٹ اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے.میں کسی ایک ملک کی بات نہیں کر رہا یہ ایک عمومی صورت حال ہے جو ساری دنیا میں دکھائی دیتی ہے اور مسلمان ممالک بد قسمتی سے اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں.پس مسلمانوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 111 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء لئے بطور خاص نصیحت ہے کہ تم حق پر قائم ہو حق کی طرف لوٹو ورنہ تم بھی گھاٹے پانے والے انسانوں کی طرح اس گھاٹے والے زمانے کا شکار ہو جاؤ گے اور فرمایا صبر سے کام لینا ان مظالم کے وقت حقیقت میں سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں، اگر مسلمان صبر سے کام لیں تو اسے اپنے حالات کا جائزہ لینے کا اور دشمن کے شر سے بچنے کا بھی زیادہ وقت ملے گا.جب صبر کی تلقین کی جاتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم پر ظلم کر رہا ہے، ظالموں کے حق میں بول رہا ہے لیکن خدا کی نصیحت صبر کی ہے تو اگر صبر کی نصیحت میں نہیں کروں گا تو جھوٹ بولوں گا ، اگر بے چین اور بیتاب ردعمل کی تلقین کروں گا.تو یہ جھوٹ ہو گا، امر واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں مسلمان کو سب سے زیادہ صبر کی تلقین کی ضرورت ہے اور صبر کے نتیجہ میں بہت سے بڑے مظالم جو آگے ان کی راہ تک رہے ہیں، اس راستے پر بہت سی کمین گاہیں ہیں جس راستے پر آج ہم چل رہے ہیں اور بہت سے حملے ہو رہے ہیں، ہو چکے ہیں اور بہت ہونے والے باقی ہیں ان سے نجات کی یہی راہ ہے کہ ہم اس وقت فوراً صبر کی پناہ میں آجائیں، مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے یوگوسلاویہ کے البانیہ کے باشندے ان کے کچھ لیڈر میرے پاس مشورہ کے لئے آئے یہ ان دنوں کی بات ہے جب کروشیا کی طرف سے نئی نئی بغاوت ہوئی تھی اور وہ قومیں جن میں البانیہ کے مسلمان بھی ہیں اور بوسنیا کے مسلمان بھی ہیں ان میں یہ خیالات پیدا ہورہے تھے کہ ہم بھی بغاوت کر کے ہم بھی کھلی جنگ کے ذریعہ اپنے سابقہ مظالم کا بدلہ لیں اور اپنی آزادحکومتیں قائم کریں.تو ایک گروہ جو یورپ سے آنے والے مختلف البانین راہنماؤں پر مشتمل تھا وہ مشورہ کے لئے میرے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ دیکھو تم اس وقت تلوار کے ذریعہ یوگوسلاویہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کا تصور بھی نہ کرنا.میں نے کہا کہ کروشیا میں جو کچھ ہورہا ہے یہ تو کچھ بھی نہیں ہے اس کے مقابل پر جو تمہارے ساتھ ہو گا، کروشیا پر باوجود اس کے کہ مذہبی اختلاف نہیں تھا پھر بھی بڑے مظالم توڑے گئے اور کروشیا کی اہل مغرب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ مدد بھی کی ہے میں نے کہا کہ تمہاری مدد کو کوئی نہیں آئے گا جو مسلمان تمہیں ہتھیار دیں گے (اگر کوئی دیں گے ) تو وہ ہاتھ کھینچ لیں گے اور جب مغرب نے ہتھیاروں کے داخلے پر قدغن لگائی تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ تمہیں ہتھیار پہنچا سکے اور بالکل برباد کر دئے جاؤ گے.جس حال میں ہو اس سے ہزاروں گنا بدتر حال ہو جائے گا.اس لئے سنجیدگی کے ساتھ اگر اپنی فلاح کی باتیں پوچھنا چاہتے ہوتو وہ میں تمہیں سمجھا تا ہوں چنانچہ میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 112 خطبه جمعه ۵/فروری ۱۹۹۳ء جو نے ان کو چند باتیں سمجھائیں کہ اس طریق پر پہلے اپنے آپ کو منظم کرو اپنے ہاتھ درست کرو.اپنی اقتصادیات کی فکر کرو اپنی تعلیم کا معیار اونچا کرو اور رفتہ رفتہ آزادی لے کر تھوڑا کچھ دم خم اپنے اندر پیدا کرد، غرض یہ کہ اور بہت سی باتیں تھیں جن کا تفصیلی ذکر یہاں مناسب نہیں ان میں سے کچھ ایسے تھے بہت مطمئن ہو کر گئے ، کچھ ایسے تھے جنہوں نے اپنی بے چینی کا کھلم کھلا اظہار کیا کہ دیکھا تمہارے متعلق کہتے تھے نہ کہ تم مغرب کا لگایا ہوا پودا ہو ویسے ہی مشورے دیتے ہو.میں نے ان کو کہا کہ وقت آئے گا جو آپ کو بتادے گا کہ میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں.مغرب کا پودا نہیں ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہیں وہ جب آپ کو عقل کے مشورے دیتے ہیں تو آپ کہہ دیتے ہیں کہ یہ دشمن کے حق میں باتیں کی جارہی ہیں اور جو آپ کو بظاہر حق میں مشورہ دیتے ہیں وہ آپ کو دشمن کے چنگل میں پھنسا دیتے ہیں.ایسی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں جن سے نجات ممکن نہیں رہتی ، آپ دیکھیں گے وقت بتائے گا کہ ہم امت مسلمہ کے بچے خیر خواہ ہیں اور ہم سے زیادہ ہمدردانہ مشورہ امت مسلمہ کو کوئی نہیں دے سکتا اس کے بعد مجھے بعض یوگوسلاوین ملے ان میں سے بعضوں کے علم میں یہ بات تھی.بعضوں کے نہیں تھی جب ان سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمارے اوپر بڑا احسان کیا ان دنوں میں واقعی جذبات میں بڑا اشتعال تھا اور بڑی کھچڑیاں پک رہی تھیں اگر ہم کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتے تو آج ہم نے بوسنیا کے مسلمانوں کا جو حال دیکھا ہے یہی حال آج ہمارا ہونا تھا بلکہ شاید اس سے بھی بدتر ہوتا، تو اس وقت صبر کی ضرورت ہے اور یہ دونوں صفات مسلمان ممالک کو پہلے اپنے اندر نافذ کرنی چاہئیں جب تک مسلمان ممالک سچائی اور صبر کی طرف نہیں لوٹیں گے اس وقت تک مسلمان ممالک میں کوئی طاقت پیدا نہیں ہو سکتی.صبر جیسی دنیا میں کوئی طاقت نہیں ہے صبر کرنے والے کی جو طاقت ہے.وہ دنیا کے اعتبار سے بھی ایک غیر معمولی طاقت کے جمع کرنے کا فارمولا ہے.مثلاً ڈیم ہے، جہاں دریاؤں کے پانی بند کر کے بڑی بڑی جھیلیں اور تالاب بنائے جاتے ہیں وہ دراصل اس صبر کا نمونہ ہے پانی بہتا رہتا ہے اگر بہنا روک دیا جائے کہ اس طرح اپنی طاقت کو ضائع نہ کرو، رک جاؤ تو وہ طاقت ضائع نہیں ہوا کرتی وہ جمع ہو رہی ہوتی ہے، وہ بلند تر ہو رہی ہوتی ہے، چڑھ رہی ہوتی ہے.اس کا معیار بلند ہورہا ہوتا ہے، اس کی طاقت بڑھ رہی ہوتی ہے اور پھر وہ ایک بہت بڑی عظیم الشان طاقت بن کر ابھرتی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 113 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء ہے اس وقت اگر وہ ٹوٹے تو بڑے بڑے علاقوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے بلکہ وہ دریا جس کو روکا گیا تھا خواہ کروڑوں سال بھی بہتا ر ہے تب بھی ویسی تباہی نہیں مچا سکتا تبھی ہمارے محاورہ میں کہتے ہیں تجھ پر میر اصبر ٹوٹے صبر پہلے اکٹھا ہو گا تو ٹوٹے گانا ، اگر صبر اکٹھا ہو ہی نہ، بلکہ گالیاں دے کر اور اشتعال انگیزی کی باتیں کر کے دل کے سارے غبار نکال لئے جائیں اور بات بات پر جھڑ ہیں کر کے کسی مظلوم پر ناحق ظلم کر کے ظالم کا بظا ہر بدلہ لیا جا رہا ہو جس طرح پاکستان میں بدنصیبی سے ہوا تھا کہ وہاں ہندوستان میں جو مظالم ہوئے اس کے نتیجہ میں کوئٹہ اور بعض اور علاقوں میں بعض ہندو بچوں کو زندہ آگ میں پھینکا گیا.کوئی مسلمان ضمیر اس کو برداشت نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی بڑی بھاری آبادی کا عملاً یہی ردعمل ہوگا کیونکہ مسلمان اپنے ظلم میں بھی ایک حد رکھتا ہے اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا آخر محمد ﷺ کی تربیت میں اور بتوں کی تربیت میں خدائے واحد کی تربیت میں اور بتوں کی تربیت میں ایک فرق ہے تبھی مسلمان اپنے مظالم میں بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھا کرتا تو ان کا یہی رد عمل ہوگا مگر افسوس ہے کہ چند نے جو بے صبری دکھائی اس کے نتیجہ میں اب مسلمان ہندوؤں کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم ظالم ہو تم اس قدر بہیمانہ مظالم کی استطاعت رکھتے ہو وہ کہتے ہیں کہ تم نے کم کئے ہوں گے لیکن تم بھی تو آخر ویسے ہی ہو.پس ضرورت ہے کہ مسلمان ممالک سچائی کی طرف اور صبر کی طرف لوٹیں اور اپنی ہر چیز میں انصاف قائم کریں.جو حق کا یہ مضمون ہے یہ بہت وسیع ہے جب قرآن کریم نے فرمایا کہ حق پر قائم ہو جاؤ تو حق کی بہت ہی وسیع تعریف ہے، انصاف کا قیام بھی حق میں ہے اور مظلوم ہوتے ہوئے پھر سچائی کی بات سر بلندی کے ساتھ کرنا اور ظلم کو گو یا عملا ظلم کی دعوت دینا یہ حق کی اعلیٰ تعریف ہے چنانچہ حضرت اقدس ﷺ نے جہاداور حق کو باہم ملا کرایک ہی مضمون میں پیش فرمایا ہے گویا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں فرمایا افضل الجهاد كلمه حق عند سلطان جائر (أحجم الكبير للطبرانی جلد ۸ ص:۲۸۲) که سب سے اعلیٰ اور سب سے عظیم جہاد یہ ہے کہ کوئی انسان ایک ظالم بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر سچی بات کہہ دے.پس ظالم بادشاہ کے سامنے سچی بات کہنے کا جو مضمون ہے وہ آج اسلامی حکومتوں کے او پر بعینہ صادق آ رہا ہے.جن بڑی طاقتوں کو انہوں نے اپنا سلطان بنارکھا ہے، جن کو وہ خدا کی طرح اگر ظاہری طور پر نہیں پوجتے تو دل سے پوج رہے ہیں، ان کے سامنے کلمہ حق کیوں نہیں کہتے مسلمان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 114 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء مظلوموں کے حق میں کیوں آواز بلند نہیں کرتے ، کیوں نہیں کہتے کہ تم غلط کر رہے ہو اور جرات اور طاقت کے ساتھ یہ کیوں نہیں کہتے اگر یہ ایسا کریں تو جہاد کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کی طرف صلى الله سے لازماً نصرت اور غلبہ کی بشارت ہے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نصیحت ہے اس پر عمل کر کے تو دیکھیں.قرآن نے فرمایا ہے حق پر قائم ہو گے تو تمہارا علاج ہوگا.پس حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ حق پر قائم ہوں اور تمام مسلمان عوام کا بھی برابر فرض ہے کہ خواہ وہ کسی دائرہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں کہ آج وہ حق کی طرف لوٹیں.سچا ہونے کے نتیجہ میں اتنی عظیم طاقت نصیب ہوگی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس سچائی کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی.پھر صبر کی طرف لوٹیں صبر کے نتیجہ میں بھی جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ڈیمز کا بنا بڑی بڑی غیر معمولی طاقتوں کو اکٹھا کرنے کا دوسرا نام ہے اور یہ صبر سے ہوتا ہے لیکن انسانی صبر دو طرح سے پھل لاتا ہے ایک تو صبر میں بذات خود قانون قدرت کے طور پر ایک طاقت ہے اور وہ طاقت غیر معمولی طور پر بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مومن کے صبر کے ساتھ دوسرا مضمون دعا کا شامل ہے.جب مومن صبر کرتا ہے تو اس کی دعاؤں میں غیر معمولی طاقت پیدا ہونے لگ جاتی ہے جب کوئی شخص خدا کے نام پر رک رہا ہے اور دل کے سارے تقاضے یہی ہیں کہ اب ٹوٹ پڑو اس وقت جان فدا کر دینے کا وقت ہے، عواقب سے بے خبر ہو جاؤ ، اپنے دل کی جلتی ہوئی آگ کا انتقام لو، اس وقت اگر خدا کی خاطر خدا کے نام پر کوئی شخص رک جاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ صبر کی عمومی طاقت اسے نصیب ہوتی ہے بلکہ اس وقت کی دعا ضرور مقبول ہوتی ہے، یہ ویسی ہی مثال ہے جیسے ماں بچے کی زیادیتوں پر صبر کرتی ہے.مسلمان بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کرتا ہے لیکن وہ اس پر ظلم کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ صبر پر صبر کرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ آخر یہ الله صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے.اس وقت کی دعا ضرور مقبول ہوتی ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو ماں کے حوالے سے ہی بیان فرمایا ہے فرمایا ! خبر دار !وہ دعائیں جو نا مقبول نہیں ہوتیں ان میں ماں کی اپنے بچے کے خلاف بد دعا ہے.( ترندی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۳۷۰) بڑا ہی بدنصیب بچہ ہے جس کے خلاف اس کی ماں دعا کر دے کیونکہ ماں کی فطرت میں صبر ہے وہ ظلم کسی خاص حد سے بڑھا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں آخر ماں کا صبر ٹوٹا ہے اور ان معنوں میں صبر ٹو ٹا کرتا ہے کہ زمین سے بھی ٹوٹتا ہے اور آسمان سے بھی ٹوٹتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 115 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء پس مسلمانوں کے لئے نجات کے یہی دورستے ہیں جو سورۃ العصر نے ان کے لئے کھولے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ مسلمان ممالک میں اس بات کا احساس بیدار ہورہا ہے.اب حال ہی میں پاکستان میں عدالت عالیہ نے افراد جماعت احمدیہ کی طرف سے متفرق مقدمات جو بہت دیر سے سالہا سال پہلے سے دائر کئے گئے تھے لیکن اس سے پہلے ہماری عدالت عالیہ خود بہتر جانتی ہے کہ کس حکمت کے پیش نظر ، مگر ان مقدمات کو سننے کی گویا طاقت ہی نہیں رکھتی تھی اب فضا بدلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ عدالت عالیہ نے نہ صرف یہ کہ ان مقدمات کی شنوائی کی ہے بلکہ جس قسم کے تبصرے ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے اگر یہ فیصلہ ہے تو میں پاکستان کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم ہلاکت سے بچائے گئے ہو ، اگر عدالت عالیہ سے انصاف کی ضمانت جاری کر دی جائے اور حکومت اس انصاف کو قبول کرلے تو ضرور اس ملک کے دن پھر جائیں گے اور ضرور یہ ملک حق کی طرف واپس لوٹتا نہیں تو لوٹا دیا جائے گا.یہ خدا کی تقدیر کی طرف سے بہت ہی پیارا اشارہ مجھے دکھائی دیا ہے جیسے اندھیروں کی لمبی رات کے بعد کوئی روشنی کی رمق دکھائی دے.عدالت عالیہ کے جو سب سے سینئر جج ہیں ان کے تبصروں سے بعض دفعہ بجھا ہوا دل ایک دم کھل اُٹھتا ہے اور بشاش ہو جاتا ہے کہ الحمدللہ پاکستان کی عدالتوں میں انصاف کے کیسے کیسے پیارے گل کھل رہے ہیں ایک موقعہ پر جب کہ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے یہ سوال اُٹھایا کہ آپ بنیادی حقوق کی باتیں کر رہے ہیں، آزادی ضمیر کی باتیں کر رہے ہیں کیا پاکستان کے دستور اساسی کی اس شق پر آپ کی نگاہ نہیں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کی Glory یعنی عظمت شان کی خاطر اگر کسی کو آزادی تقریر سے محروم کر دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے اسلام کی عظمت شان اور Glory کے نام پر ہم مطالبہ کر رہے ہیں، تو عدالت نے کیسا خوب جواب دیا انہوں نے کہا بہت خوبصورت الفاظ ہیں بہت پیارے لیکن مجھے یہ بتائیں کہ کیا اسلام کی Glory اس بات میں ہے کہ اقلیتوں کو آزادی ضمیر سے محروم کر دیا جائے یا اسلام کی Glory اس بات میں ہے کہ اقلیتوں کو ان کے ضمیر کی تمام آزادیاں دی جائیں، کیسا پیار اجواب ہے خدا کرے! یہ رجحان زندہ رہے اور زیادہ طاقتور ہوتا چلا جائے ، خدا کرے کہ سازشوں کی دنیا میں ایسی سازشیں نہ پل سکیں جن کو پالنے کی ضرور کوشش کی جائے گی.حسد کی دنیا میں ایسے حسد وہ شرنہ بن سکیں جو ایک معصوم کی زندگی کو جلا سکتے ہیں.پس حسد کے شر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 116 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۹۳ء سے پناہ مانگو جوحسد کرنے والا کرتا ہے جس وقت وہ کرتا ہے خدا ہی ہے جو جانتا ہے کہ کیسے کرتا ہے اور کب کرتا ہے اور کہاں کرتا ہے اسی کی پناہ میں آؤ.پس میں تمام عالم اسلام کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان دو باتوں پر عمل کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ یہ زمانے بدل دے گا اگر اتنی لمبی رات کے بعد پاکستان میں بھی نور کی ایک شعاع پھوٹی ہے تو کیوں نہ ساری دنیا کے لئے دعا کریں کہ تمام دنیا میں بھی نور کی یعنی خدا کے عدل کے نور کی شعاعیں پھوٹیں ، بہت سی ایسی باتیں اور بھی میں نے آج کرنی تھیں لیکن وقت چونکہ ہو چکا ہے اس لئے انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں پھر ملیں گے خطبوں کا انتظار تو اب ویسے ہی بڑا صبر آزما ہو چکا ہے صبر کی تلقین ہے تو میں اسی تلقین پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اگلے خطبہ تک صبر سے انتظار کریں باقی باتیں انشاء اللہ آئندہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 117 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء اہل بنگال کی بہادری اور قربانی کا ذکر بوسنیا کیلئے چندہ کی تحریک پر جماعت کا والہانہ لبیک ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ اليم تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ لا يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمُ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (الصف: ۱ تا۱۴) پھر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ بنگلہ دیش کا سالانہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور بنگلہ دیش کے امیر صاحب نے تمام جماعت کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے جلسہ کو بھی آج کے خطبہ کا حصہ بنا لیا جائے اور بیک وقت جمعہ بھی ہو گا اور ان کے جلسہ میں تمام عالمی جماعتوں کی شمولیت بھی.اس موضوع پر انشاء اللہ ابھی میں آپ سے مخاطب ہوں گا لیکن اس سے پہلے میں ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے جماعت احمد یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 118 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء کے عالمی جلسوں کی صورت بنادی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعتوں پر اتنا گہرا اور اتنا انقلابی اثر پیدا ہورہا ہے کہ اس کے متعلق خواہ کتنا بھی اندازہ کیا جاتا لیکن اتنا اندازہ نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ اس نئی صورت میں کتنی برکت رکھ دے گا اور جماعتوں کو کتنا غیر معمولی فائدہ پہنچے گا جو بہت سے خطوط ملتے ہیں ان کا کبھی کبھی میں مختصر ذکر کرتا ہوں لیکن یہ ذکر اب میری استطاعت سے بہت آگے نکل گیا ہے.پہلے عموماً جو خطوط ملا کرتے تھے وہ ہزاروں کی تعداد میں بھی سہی لیکن اکثر و بیشتر انہی لوگوں کے تھے جو خط لکھنے کے عادی ہیں اور اب جو نیا دور شروع ہوا ہے اس میں بکثرت ایسے نئے احباب کی طرف سے اور خواتین اور بچوں کی طرف سے خطوط ملنے لگے ہیں جو ٹیلی ویژن پر خطبہ دیکھنے سے پہلے خطوں کا رابطہ نہیں رکھتے تھے اور بہت ہی زیادہ گہرے اثر کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے خیالات اور جذبات اور ان پاک تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ کے اس فضل کے نتیجہ میں ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں.مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی کہ ٹیلیویژن پر تو یہاں بھی خواتین دیکھتی ہیں اور ٹیلیویژن کے ذریعہ دیکھنے کا الگ انتظام تو یورپ میں عام ہے پھر آخر ٹیلی ویژن پر یہ اثر اتنا زیادہ کیوں پڑتا ہے.میری بیٹی فائزہ نے جو آج کل پاکستان گئی ہوئی ہے اس نے مجھے فون پر بتایا کہ میں پہلے حیران ہوا کرتی تھی کہ آپ کن باتوں کا ذکر کرتے ہیں.وہ کیا اثر ہے لیکن پاکستان آکر جب میں نے پہلی دفعہ خطبہ دیکھا ہے تو بیان نہیں کر سکتی کہ کیسا اثر تھا یوں لگتا تھا کہ واقعہ آپ آسمان سے اتر آئے ہیں اور سامنے ظاہر ہو گئے ہیں.کہتی ہے سب بچے بڑے اور خواتین جو ساتھ تھیں یوں ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہی تھیں جیسے ایک حیرت انگیز واقعہ ، ایک معجزہ رونما ہوتا ہے، تو دراصل یہ صرف ٹیلی ویژن کا قصہ نہیں ہے، ٹیلی ویژن پر دور دراز کے لوگوں کو دیکھنے کی تو سب دنیا کو عادت پڑ چکی ہے کوئی بڑی بات نہیں رہی ، یہ اللہ کا احسان ہے ، یہ خدا کا خاص اعجاز ہے جو اس نے جماعت کے حق میں دکھایا ہے، اس روز مرہ عام چیز نے ایسی غیر معمولی طاقت پیدا کر دی ہے کہ جو دلوں میں انقلاب بر پا کر رہی ہے تو اس احسان کو ہمیشہ ذہن میں رکھ کر ہمیں اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گانے چاہئیں.اس ضمن میں بعض اور باتیں بلکہ کئی اور باتیں ہیں، جو انشاء اللہ آئندہ کسی خطبہ میں بیان کروں گا کیونکہ جماعت احمدیہ آج کل جس نئے دور میں داخل ہوئی ہے اس کی پرانے صحیفوں میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 119 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء خوشخبریاں دی گئی تھیں اور امت محمدیہ میں بھی بہت سے بزرگوں نے بڑی واضح پیشگوئیاں فرمائی تھیں کہ یہ واقعہ ہو گا اور امام مہدی کے زمانہ میں ہوگا اس سلسلہ میں مختلف احباب جماعت جو خطوط لکھ رہے ہیں ان میں بہت سے ذوقی نکتے بھی ہیں جو ان کے دل کو پسند آگئے لیکن دنیا کے سامنے ایک واضح ثبوت کے طور پر پیش نہیں کئے جا سکتے لیکن بعض ایسے قطعی شواہد بھی ہیں جن کے متعلق کوئی انسان جو تعصب سے پاک ہو شک نہیں کر سکتا کہ یہ کھلم کھلا الہی نوشتے تھے جو پورا ہور ہے ہیں، تو اس سلسلہ میں انشاء اللہ بعد میں ذکر چلے گا.پاکستان میں دیہات کی جماعتوں پر جواثر ہے اس سے میرا دل بہت راضی ہوا ہے بعض ایسے ضلعے تھے جو رفتہ رفتہ سر کتے سرکتے بہت پیچھے جاچکے تھے اور ان کے پیچھے ہٹنے کا تعلق صرف میری ہجرت سے نہیں بلکہ ایک لمبے عرصہ سے کچھ ایسے عوامل تھے جن کے نتیجہ میں وہ آبا ؤ اجداد کی ان پاکیزہ اور عظیم روایات کو زندہ نہیں رکھ سکے جو اس ضلع کے بزرگوں سے وابستہ تھیں، لیکن اس سلسلہ میں باوجود اس کے کہ پہلے بہت کوششیں کی گئیں اور پاکستان سے یہاں آنے سے پہلے خاص طور بعض ضلعوں کے متعلق میں نے یہ بھی پروگرام بنایا کہ تمام جماعتی ادارے بیک وقت ان کی طرف متوجہ ہوں، خدام، انصار، لجنات اور اصلاح وارشاد کی جو تمام مختلف صورتیں ہیں ،کوئی تعلیم القرآن سے تعلق رکھنے والی، کوئی مقامی سے اور کوئی دوسری ، یہ سارے مل کر یکدفعہ زور لگائیں ، زور بھی لگایا گیا لیکن کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا.اب ان ضلعوں سے ان کے دیہات سے جو خط مل رہے ہیں حیرت ہو رہی ہے کہ دیکھتے دیکھتے اس قدر حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں کہ انسان ان کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تھا اس سلسلہ میں بھی بعض باتیں انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا.اب ایک عام دلچسپی کی مختصر سی بات کہہ کر مضمون کو پھر بنگلہ دیش کے جلسہ کی طرف منتقل کر دوں گا وہ یہ ہے کہ لوگ جو خط لکھ رہے ہیں ان میں آج کل میری داڑھی پر بڑے تبصرے آرہے ہیں اور کئی لوگوں نے تو اس کے با قاعدہ ڈرامے بنا دیئے ہیں.ایک نوجوان نے خط لکھا کہ ہم نے آپ کو کالی داڑھی والا بھجوایا تھا.ہائے اس ملک کا جس نے آپ کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ آپ کے بال سفید کر دیئے اور آدمی کس کس بات کا رونا روئے ، ان کو میں بتا تا ہوں کہ آپ کے ملک سے سفید داڑھی لے کر ہی آیا تھا اور کچھ وسمہ اور خضاب بھی ساتھ لایا تھا پھر اس ملک کا خضاب استعمال کرنا شروع کیا لیکن خضاب سے جوانی کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 120 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء وو کوئی تعلق نہیں ہے.بعض لوگ اس طرح کھلے کھلے لفظوں میں یہ تو نہیں کہتے لیکن یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ بہت بزرگ لگنے لگ گئے ہیں اور ماشاء اللہ ایک اور سارنگ آ گیا ہے بعض کہہ دیتے ہیں کہ بہت کمزور لگنے لگ گئے ہیں بعض تعلقات ایسے ہوتے ہیں جس میں انسان کھل کر صاف بات کہہ نہیں سکتا تو کہنا یہ چاہتے ہیں کہ تم بوڑھے ہو گئے ہو لیکن مختلف بہانے بناتے ہیں.اس پر مجھے اپنے ملک کا مزاج یاد آ گیا کہ عام طور پر تو سادہ لفظ بہت اچھا ہے.نیک صاف فطرت والے لوگ جن میں کوئی تصنع نہ ہوان کو سادہ کہا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کا رواج یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کو بیوقوف کہنا ہو تو اس کو بھی سادہ کہتے ہیں.کہتے ہیں ہمارے فلاں صاحب بڑے سادہ ہیں، مطلب یہ کہ کافی بیوقوف آدمی ہیں تو سیدھا سادہ بوڑھا کہو یہ کیا مطلب ہوا کہ بزرگ لگنے لگ گئے ہو.یہ ہے وہ ہے، جہاں تک کمزوری کا معاملہ ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی کمزوری نہیں ہے خضاب سے انسانی جسم کی طاقت کا کوئی تعلق نہیں.آپ کو مجھے دیکھ کر کوئی تقویت ملتی ہوگی لیکن میری ذات کو خضاب سے کبھی کوئی تقویت نہیں ملی تھی اور اللہ کے فضل سے میں اسی طرح صحت مند ہوں جس طرح پہلے تھا اور اگر کوئی کمزوریاں پہلے تھیں تو اب بھی ہیں.اللہ ان کو بھی دور فرما دے، گھبرائیں نہیں یہ جو رنگ بدلنا ہے یہ اتفاقی قدرتی چیزیں ہیں.اللہ فضل فرمائے صحت کے لئے دعا کیا کریں.اللہ تعالیٰ سب ذمہ داریوں کو ہمت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق بخشے.بنگلہ دیش کو پیغام کے سلسلہ میں میں نے آج انہی آیات کو موضوع بنایا ہے جن کی پچھلے خطبہ میں بھی تلاوت کی تھی اور مضمون پوری طرح بیان نہیں ہو سکا تھا.بنگلہ دیش بہت ہی بڑے ابتلاء میں سے بلکہ بار بار بتلاؤں میں سے گزرا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ باوجود اس کے کہ جماعت چھوٹی اور دیکھنے میں کمزور ہے مگر ایمان اور ہمت اور استقلال اور بہادری میں اور ثابت قدمی میں دنیا کی کسی جماعت سے پیچھے نہیں بلکہ اکثر جماعتوں سے آگے قرار دیا جا سکتا ہے.اتنے بڑے بڑے بوجھ، اس حیرت انگیز طریق پر جماعت نے اٹھائے اور ہمت سے مسکراتے ہوئے بغیر خوف کے اظہار کے بڑے بڑے خوفوں سے گزر گئے اور بڑے بڑے نقصانات کے رونے نہیں روئے اور اللہ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے اس بات پر شکر کرتے ہوئے کہ خدا نے ہمیں توفیق بخشی اور استقامت عطا فرمائی.وہ جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.اور ہر ابتلاء کا فوری نتیجہ خدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 121 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء کے غیر معمولی فضلوں کی صورت میں ان پر نازل ہو رہا ہے اور ہر وہ کوشش جو ان کو کمزور بنانے کی کی جا رہی ہے وہ ان کو پہلے سے بہت زیادہ طاقتور بنا کر نکالتی ہے.یہ تو خدا کا ایک عمومی سلوک ہے جوسب الہی جماعتوں سے ہوا کرتا ہے لیکن جیسے کہتے ہیں جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا.تو وہ ماشاءاللہ اپنی قربانیوں میں گڑ بہت ڈالتے ہیں اور ویسے بھی ان کو میٹھے کی بہت عادت ہے اس لئے یہ گڑ والا محاورہ ان پر خاص صادق آتا ہے کیونکہ (میٹھا ) تو ان کی خاص کمزوری ہے اور میں جب بھی بنگلہ دیش میں سفر پر جایا کرتا تھا تو مصیبت پڑی ہوتی تھی اتنا میٹھا کھلاتے تھے کہ نا قابل برداشت ہو جا تا تھا اور ان کے لئے یہ عام خاطر تھی اور ہمارے لئے وہ مشکل بن گئی تھی.مگر قربانیوں کا جہاں تک تعلق ہے ان میں جتنا میٹھا ڈالیں اچھا ہے کیونکہ وہ میٹھا تو منظور ہی منظور ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ آپ کی قربانیوں کو بہت جلد جلد پھل عطا فرماتا ہے.میں یہ دعا کرتا ہوں کہ ان آیات میں دیئے گئے سارے وعدوں کا بنگلہ دیش کے اوپر اطلاق ہو جن کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ عام طور پر قرآن کریم میں جہاں قربانیوں کا ذکر ملتا ہے وہاں اس سے ملتی جلتی جزا کا بھی بالعموم ذکر ہے اور بالعموم مضمون مثبت جزا سے تعلق رکھتا ہے.لیکن اس آیت میں منفی رنگ میں جزاء کا ذکر ہے مثلاً فرمایا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ اليمن ہم تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر نہ دیں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے گی.قرآن کریم کی بعض آیات میں صرف مثبت وعدوں کا ذکر ہے مثلاً فرمایا اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ کہ خدا نے مومنوں سے ان کی جانوں کا اور ان کے اموال کا سودا کر لیا ہے بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّة کہ اس کے بدلے ان کو جنت عطا ہوگی ، اب ان دونوں آیات کے مضامین اس طرح ملتے جلتے ہیں کہ تجارت کی جو تفصیل بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ تم خدا کی راہ میں مجاہدہ کرو.اپنے اموال کے ذریعے اور اپنے انفس کے ذریعے.تبدیلی صرف اتنی ہے کہ وہاں انفس کو پہلے لایا گیا اور اموال کو بعد میں رکھا گیا اور یہاں اموال کو پہلے لایا گیا اور انفس کو بعد میں رکھا گیا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 122 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء اس مضمون میں بہت گہرائی ہے.قرآن کریم میں جب ترتیب بدلی جاتی ہے تو بہت گہرے مطالب کو پیش نظر رکھ کر بدلی جاتی ہے.اس سلسلہ میں، میں پھر دوبارہ بات کروں گا.قرآن کریم کا ایک تیسرا طریق یہ ہے کہ دونوں کا اکٹھا کر فرماتا ہے.موقع اور محل کے مطابق ایک قربانی کا ذکر فرما کر اس کی جزاء بعض شر سے بچانے کی صورت میں بھی دیتا ہے اور وعدہ فرماتا ہے اور بعض عطاؤں کی صورت میں اس کا ذکر کرتا ہے جیسا کہ فرمایا: إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدہ: ۳۱) کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف خدا ہے اور ہر دوسرے رب کا انکار کر دیتے ہیں.یہ ایسا مضمون ہے جو اس آیت میں شامل ہے یعنی بظاہر کھلے کھلے لفظوں میں نہیں فرمایا گیا لیکن بالکل واضح طور پر اس میں شامل ہے.صرف ربنا اللہ نہیں کہتے بلکہ ہر غیر اللہ کی ربوبیت کا انکار کرتے ہیں ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر وہ استقامت اختیار کر جاتے ہیں.استقامت کا مضمون دراصل بتا رہا ہے کہ غیر اللہ کا انکار انہوں نے کیا ہے.ورنہ خالی آپ ، ہمارا رب، ہمارا رب کہتے رہیں تو دنیا کو کیا مصیبت پڑی ہے.کیا سودا اٹھا ہے کہ آپ کے پیچھے پڑ جائے، دنیا اپنی ربوبیت کے انکار کے نتیجہ میں غصہ دکھاتی ہے جب آپ اُن سے مستغنی ہوتے ہیں اور صرف خدا کے ہو جاتے ہیں ، غیروں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں ، تب آپ کے خلاف مخالفتوں کی ہمیں چلائی جاتی ہیں.اس لئے اس مضمون میں یہ بات شامل ہے اس کا نتیجہ کیا ہے.فرمایا.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا - خالى رَبُّنَا اللہ کہنے سے تو کوئی خوف وارد نہیں ہوا کرتے ، جب غیر اللہ کا انکار کرتے ہیں تو پھر ہرطرف سے خوف گھیر لیتے ہیں اور وہ خوف کچھ طبعی ہیں اور کچھ مصنوعی.طبعی یہ کہ جب آپ صرف خدا کو رب بنالیں اور غیر سے مدد مانگنا چھوڑ دیں.یہ ایک ایسا مضمون ہے جو بڑے لمبے سفر کا حال بیان کرتا ہے.غیر اللہ سے ربوبیت کا تعلق تو ڑ نا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اچا نک واقع ہو جائے وہ لوگ جو غیر اللہ سے ربوبیت کا تعلق توڑ کر اللہ کی ربوبیت میں آتے ہیں.وہ ایک لمبا سفر اختیار کرتے ہیں.آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ، لمبے عرصہ تک تھوڑاتھوڑا تعلق پہلے تو ڑا جاتا ہے اور پھر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 123 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں انسان سمجھتا ہے کہ خدا ہی رب ہے اور کوئی رب نہیں تو اس وقت پھر خوف سامنے دامن گیر ہو جاتے ہیں وہاں پہنچ کر انسان سمجھتا ہے کہ اگر میں نے فلاں بات کے لئے جھوٹ نہ بولا تو میرا رزق کا یہ ذریعہ ختم ہو جائے گا.فلاں بات کے لئے فلاں چالا کی نہ کی تو میرا یہ رزق کا ذریعہ ٹوٹ جائے گا دھوکہ نہ دیا تو یہ نقصان پہنچے گا.فلاں بدی نہ کی تو یہ نقصان پہنچے گا.یہ وہ طبعی مقامات خوف ہیں جن کا اس آیت میں ذکر موجود ہے اس وقت جو لوگ ان خوفوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رڈ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ باوجود اس کے ہمیں کوئی پرواہ نہیں.ہم نے جس کو رب بنانا تھا اس کو رب بنالیا ہے اس لئے اے جھوٹے ربوب، اے مصنوعی خداؤ ! تم ہماری نظر سے دفع ہو جاؤ ہمیں آئندہ کبھی تمہاری کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی.یہ وہ مقام ہے جس پر فرشتے نازل ہوا کرتے ہیں.دوسرا ہے جب غیر آپ کے اموال کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ آپ کی دکانیں جلاتے آپ کے گھروں کو آگ لگاتے اور آپ کی ساری عمر کی محنت کی کمائیاں چھین کر لے جاتے ہیں.اس وقت غیر اللہ کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ تم کیا کہتے تھے کہ خدا ہمارا رب ہے خدا ہمارا رب ہے.جو کچھ تمہارے پاس تھا اب ہم تم سے لے گئے ہیں اب بتاؤ د یکھتے ہیں تمہارا رب تمہارا کیا کرتا ہے.اس وقت پھر یہ مضمون صادق آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ فرشتے نازل ہوتے ہیں کیا پیغام لے کر ؟ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا دیکھو جو ہو چکا وہ ہو چکا اب تم ہماری حفاظت میں آگئے ہو.اَلا تَخَافُوا غیر اللہ کا کوئی خوف نہیں کرنا.ان پر اس کے دو معنی ہیں.ایک تو یہ کہ بعض لوگوں کو حفاظت کا وعدہ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد حالات تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور ایک یہ معنی ہے کہ جو کچھ یہ کر گزریں دلیری کے ساتھ ان چیزوں کو برداشت کرو.جب خدا کو اپنایا ہے تو پھر اس کی خاطر غیر کے خوف کی قطعا کوئی ضرورت ہی نہیں ہے چنانچہ شہداء کا یہی حال ہوتا ہے.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید ان پر بھی تو فرشتے نازل ہورہے تھے.ان سے بھی تو خدا ہم کلام تھا لیکن بظاہر ان کا خطرہ ٹالا نہیں گیا لیکن ان کو ایک ایسی بے خوفی عطا کی گئی جس کا دور ونزدیک ایک رعب طاری ہو گیا تھا.ایک عیسائی جو وہاں کا سب سے بڑا انجینئر تھا.انگلستان سے گیا ہوا تھا اس نے اپنی کتاب میں اس کا نقشہ کھینچا ہے اور اس حیرت سے کھینچا ہے کہ معلوم ہوتا ہے مرتے دم تک اس کے دل پر اس بات کا اثر تھا کہ ایسا بے خوف انسان تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 124 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء ایسا نڈر تھا.وہ مرتے وقت ان کی فکر میں مبتلا تھا.ان کو کہ رہا تھا کہ خدا کا عذاب نہ تمہیں پکڑے پس لا تَخَافُوا کا ایک یہ بھی معنی ہے اور لَا تَحْزَنُوا کے مقام سے تو وہ اوپر جاچکے ہوتے ہیں وہ سب کچھ گنوا کر بھی خوش رہتے ہیں اور ذرہ بھی پروا نہیں کرتے.یہ تو مخفی رنگ میں وعدے تھے یا ان کی کیفیت کا بیان لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ اب تمہیں ہم خوشخبری دیتے ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ تم خوف سے بلند کر دیئے گئے ہو اور یہ مقام خوف سے بلند ہونا بہت عظیم مقام ہے اور حزن سے بلند کر دیئے گئے ہو.جو کچھ گزر جائے نہ خوف تمہارے قدموں کو چھو سکتا ہے نہ حزن تمہیں دکھ پہنچا سکتا ہے.یہ دنیا کے لئے ابتلا ہیں تم ان ابتلاؤں سے بالا کر دیئے گئے ہولیکن یہی نہیں فرمایا تمہارے لئے خوشخبریاں ہیں ایسی جنتیں ہیں جو دائی اور ہمیشہ کے لئے ہیں اور ان جنتوں میں اللہ کی رضا کے ساتھ تم داخل کئے جاؤ گے.تو اس آیت میں یہ دونوں مضامین بیک وقت بیان ہوئے ہیں لیکن جن آیات میں بظاہر ایک ہی مضمون ہے.ان آیات کے سیاق و سباق کو دیکھیں تو لازماً دونوں قسم کے مضامین ہمیشہ وہاں اکٹھے دکھائی دیں گے.منفی انداز میں بھی اجر کا ذکر ہے اور مثبت انداز میں بھی لیکن اکیلی آیت جس میں سودا ہی منفی رنگ میں بیان ہو وہ مجھے صرف یہی آیت دکھائی دی.یہ ایک ہی آیت ہے جس میں وعدہ یہی کیا گیا ہے کہ تمہیں عذاب الیم سے بچایا جائے گا اور اس آیت کا بھی سودا سے تعلق ہے اور وہ آیت جس میں مثبت انداز میں وعدہ کیا گیا ہے اس کا بھی سودے سے تعلق ہے اور دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک جگہ قربانی میں جان کی قربانی کو پہلے رکھا گیا ہے اور دوسری میں اموال کی قربانی کو پہلے رکھا گیا ہے.بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں بیان کیا تھا قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں، بہت ہی گہرائیاں اس کے مضامین میں ہیں جان کی قربانی میں سب سے بڑی قربانی شہادت ہے اس میں صرف عمر کی جان کی قربانی بھی داخل ہے لیکن جو شہید ہو جائے گا اس کے لئے حزن کا یا فکر کا یا عذاب الیم کا تو کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا اس کے لئے تو سیدھا جزا کا معاملہ ہے اور جنت ہی جنت ہے تو فرمایا وہ إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ له لوگ جو خدا سے اپنی جانوں کا سودا کر لیتے ہیں، اموال کا سودا کر لیتے ہیں اور اس بات پر بیعت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 125 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء کرتے ہیں ان کے لئے جنت ہے.یہاں جنت کا ذکر انفس کے پہلے ذکر کے نتیجہ میں لازمی تھا.معاً بعد اگر انفس کی قربانی اپنی انتہائی شکل میں قبول ہو جائے تو اس کا نتیجہ کیا نکلنا چاہئے جنت ہی جنت لیکن اگر اموال پہلے ہیں تو یہ قربانیوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اموال جاتے ہیں اور کئی قسم کے مصائب انسان پر توڑے جاتے ہیں.کئی قسم کے مظالم کئے جاتے ہیں اور جانیں بھی تلف ہوتی ہیں لیکن زندگی کی ایک لمبی کشمکش ہے اس لئے اس کشمکش میں عَذَابِ الیہ کے نظارے دنیا میں دیکھے جاتے ہیں اور دکھائے جاتے ہیں تو پہلے عَذَابِ اَلِیمِ سے بچنے کی خوشخبری دی گئی ہے.بعد میں اگلی آیت میں مثبت مضامین بھی بیان ہوئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں تفصیل کے ساتھ جو اجر بیان ہوا ہے وہ کسی پہلو کو باقی نہیں چھوڑتا اور اس آیت کا جماعت احمدیہ سے بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ یہ سورۃ الصف کے آخر پر ہے اور سورۃ الصف میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی ظلی آمد ثانی کا احمد نام کے ساتھ ذکر موجود ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی خوشخبری حضرت عیسی علیہ السلام نے احمد نام سے دی تھی جو آج تک بائییل میں موجود ہے.اگر چہ تحریف کر کے اس لفظ کے حلیے بگاڑنے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام محققین اپنے دل سے جانتے ہیں کہ یہاں ذکر احمد ہی کا ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کا.دھو کے سے اور تلیس کے ذریعہ اس کو چھپانے کی کوشش بھی کریں تو یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی.احمد محمد مصطفی " کا ہی دوسرا نام ہے لیکن خدا کے کلام کی عجیب شان ہے کہ مسیح سے وہ نام دلوایا جو آخری زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک اور شان کی صورت میں دنیا میں جلوہ گر ہونا تھا.شان محمدی نے پہلے زمانہ میں جلوہ دکھانا تھا اور شان احمدی نے بھی پہلے زمانہ میں ایک جلوہ دکھانا تھا لیکن دوسرے وقت میں جبکہ آخری کا زمانہ آنا تھا اس میں صرف شان احمدی نے ظہور کرنا تھا اور مسیح کے منہ سے وہ نام نکلوایا جس نے مسیح کی آمد ثانی کی صورت میں بھی پورا ہونا تھا.بڑا ہی فصیح و بلیغ کلام ہے.تو جماعت احمدیہ کا سورہ صف کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور جماعت احمد یہ بنگلہ دیش جس شان کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہے اور جس اخلاص کے ساتھ ثابت قدمی سے ابتلاؤں کو برداشت کر رہی ہے اور نیکیوں میں آگے بڑھ رہی ہے اس وجہ سے میں نے انہی آیات کو آج اُن کے جلسہ کے لئے موضوع بنایا تا کہ ان کو پتا لگے کہ قرآن کریم میں ان کا ذکر موجود ہے بظاہر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 126 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء کہنے کو تو یہاں یہ ذکر نہیں کہ 4- بخشی بازار ڈھا کہ میں یہ ہوگا یا برہمن بڑیہ میں فلاں بات ہوگی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچے ہیں کہ خدا کی خاطر کیا کیا تکلیفیں اٹھائی جاتی ہیں وہ یہاں موجود ہیں اور اس کی جزا جو دی جاتی ہے وہ بھی ذکر ہے فرمایا تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ جو کچھ بھی مصیبتیں تم پر ٹوٹیں جو مظالم تم پر توڑے جائیں تم ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اموال کی قربانی بھی پیش کرتے چلے جاتے ہو اور جانوں کی قربانی بھی پیش کرتے چلے جاتے ہو چنانچہ وہاں جس قسم کے ہولناک حالات پیدا کئے گئے ہیں، برہمن بڑیہ میں مثلاً اور 4.بخشی بازارڈھا کہ میں ان حالات کے نتیجہ میں بڑے بڑے بہادروں کا بھی پتہ پانی ہوسکتا تھا اور بڑے بڑے دلیر کہلانے والے بھی خوفزدہ ہو سکتے تھے لیکن چھوٹے بچے کیا اور مرد کیا اور بڑے کیا سب نے صبر کا اور استقامت کا ایسا عظیم نمونہ دکھایا ہے.اس دلیری کے ساتھ ان خوفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھجکے بغیر اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور ظالموں نے ان کو اس طرح پیٹا ہے جس طرح کسی مٹی کے ڈھیر پر سوٹے برسائے جار ہے ہوں اور اف نہیں کی چیچنیں نہیں ماریں ،شور نہیں مچایا، منتیں نہیں کیں اور کسی قسم کی بھی کمزوری کا اظہار نہیں کیا.ان میں جو بوڑھے تھے وہ بھی تقریباً جاں بلب ہو گئے اور جوان اور بچے جو تھے وہ بھی بہت بُری طرح پیٹے گئے.بہت دردناک طریق پر ان کو مارا گیا یہاں تک کہ بعض دیکھنے والے غیر احمدیوں نے جب دیکھا تو بعد میں تعجب کا اظہار کیا کہ بیچ کس طرح گئے کیونکہ جس حال میں وہ چھوڑ کر گئے تھے بظاہر بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی لیکن بنگلہ دیش کی جماعت کی جو خوبی میں بیان کر رہا ہوں وہ ان کی بہادری ہے.ذرہ بھر بھی انہوں نے وحشت نہیں دکھائی خوف کا اظہار نہیں کیا اور اللہ کے فضل سے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ خدا کی خاطر ان دکھوں کو برداشت کیا.ان کے سامنے لمبے عرصہ کی قربانیوں کا پھل جو بخشی بازار کی عمارت کی صورت میں تھا اور اس میں مختلف قسم کا قیمتی فرنیچر بھی سجا ہوا تھا مختلف کمرے تھے، رہائش کی مختلف جگہیں بھی تھیں مسجد بہت خوبصورت سجائی گئی تھی.بہت خرچ کیا گیا تھا لائبریری تھی جس میں قرآن کریم تمام دنیا کی نہیں تو بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ شدہ وہاں سجایا گیا تھا ان سب چیزوں کو اپنے سامنے آگ لگتے ، جلتے برباد ہوتے ہوئے بظاہر دیکھا لیکن قطعا واویلا نہیں کیا اور بعد میں بھی جو خط مجھے وہاں سے ملے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے اس جماعت کو غیر معمولی طور پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 127 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء اخلاص اور استقامت عطا فرمائی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر معمولی طور پر بنگال کی جماعت نے خدا کی راہ میں ثابت قدمی دکھائی ہے.ایک احمدی خاتون کے متعلق مثلاً مجھے خط ملا کہ جب اُن کو خبر ملی.اُن کا کوئی عزیز رشتہ دار کوئی تعلق والا وہاں نہیں تھا اور جب اُن کو پتا چلا کہ کتنے خوفناک حالات ہیں اور کس بُری طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اور تقریباً ذبح کر کے لوگ چھوڑ گئے ہیں تو اُن کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ بغیر کسی سے بات کئے فورا رکشا پکڑا اور کہا کہ میں کیوں محروم رہوں، میں وہاں پہنچوں گی اور میں بھی دفاع میں حصہ لوں گی.چنانچہ جب وہ پہنچی ہیں تو وہاں سب ہنگامہ ختم ہو چکا تھا اور پہنچ کر انہوں نے وہاں لوگوں کو دیکھا.کچھ زخمی تھے اور کچھ دوسرے انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو مار رہے تھے.میں بھی تو اسی لئے آئی تھی ، تو اُن کو بتایا گیا کہ یہ سب معاملہ تو ختم ہو چکا ہے اب تو زخمی ہسپتال جا رہے ہیں جو آگئیں تھیں وہ کچھ ٹھنڈی ہوگئی ہیں اور کچھ ٹھنڈی کی جارہی ہیں.تو بنگالی احمدیوں کا ذکر خیر اور اُن کی استقامت کا اور اخلاص کا ذکر خیر تاریخ احمدیت میں ہمیشہ کے لئے سنہری لفظوں سے محفوظ ہونا چاہئے اور جماعت کو جو اس کی جزا ملے گی ، وہ میں آپ کو اس آیت کے حوالے سے بتاتا ہوں کہ کیا کیا چیز وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور کما چکے ہیں اور آئندہ اس تجارت کے اور بھی بہت سے پھل انشاء اللہ تعالیٰ ان کو ملنے والے ہیں.فرمایا.تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ کاش تمہیں پتا ہوتا کہ اس میں تمہارے لئے کیا کیا بھلائیاں مضمر ہیں.يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ پہلی جزاء یہ بتائی کہ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے تو کتنی خوش نصیب وہ جماعت ہے جو استقامت کے ساتھ اُس ابتلاء سے گزر جائے جس کی جزا کے طور پر سب سے پہلا انعام یہ ہورہا ہے کہ کسی گناہ کے متعلق فکر نہ کرو تمہارے سارے گناہ ہم نے بخش دیئے ہیں وَيُدْخِلْكُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ اور خدا تعالیٰ تمہیں ایسی جنات میں داخل کرے گا جس میں نہریں بہتی ہوں اور سرسبزی اور شادابی دائمی ہو وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً اور بہت ہی تسکین بخش ، سکینت عطا کرنے والے گھر عطا کئے جائیں گے.مساکن کا مطلب ہے، گھر لیکن مسکن کے اندر سکینت کا مضمون شامل ہے اور مساکن اس کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 128 خطبه جمعه ۱۲ار فروری ۱۹۹۳ء جمع ہے.مسکن میں دراصل گھر کی تعریف کی گئی ہے گھر ہوتا ہی وہ ہے جہاں سکینت ہو.اس لئے وہ لوگ جو اپنے گھروں کو جہنم بنا لیتے ہیں اور لڑائی جھگڑے، بدتمیزی، بداخلاقی اور اپنی بیویوں پر زیادتی کے نتیجہ میں یا بیویوں کی زیادتی کے نتیجہ میں ایک عذاب میں مبتلا ہیں اور گھر جانے کو دل نہیں چاہتا ان کے گھروں پر لفظ گھر تو بولا جا سکتا ہے لیکن مساکن کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا کیونکہ مسکن تو ہے ہی وہی جہاں انسان کو سکینت نصیب ہو پھر فرمایا.طیبہ.وہ صرف سکیت والے گھر نہیں ہیں.وہاں بہت پاکیزہ کیتیں ہیں.وہ گھر فِي جَنَّتِ عَدْنٍ “ ایسی جنتوں میں ہیں جو ہمیشہ ہمیش کی ہیں وہ کبھی اختتام کو نہیں پہنچیں گی.پس جو احمدی گھر جلائے گئے یا لوٹے گئے یا جن جگہوں سے احمدیوں کو بے گھر کیا گیا ان کے لئے یہ ساری خوشخبریاں ہیں.ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے.پھر فرمایا وَأَخْرى تُحِبُّوْنَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اور کچھ اور بھی باتیں ہیں.تُحِبُّونَهَا جن سے تم محبت رکھتے ہو.فرمایا ہم تمہیں بخش دیں گے، تمہیں جنات میں داخل کریں گے تمہاری سب کمزوریاں دور ہو جائیں گی.یہ ساری باتیں بیان فرما کر بعض لوگوں کے لئے یہ پیغام بھی دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی تو تم کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہو صرف آخرت کے وعدے تمہیں پوری طرح خوش نہیں کر سکتے اور یہ ایک طبعی بات ہے ایک انسان جن مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے ، بعض دفعہ بے اختیار دل چاہتا ہے کہ جس نے مصیبت ڈالی ہے وہ بھی تو دیکھے کہ ہمارے ساتھ کون ہے اس قسم کی ایک دردناک کیفیت سے گزرتے ہوئے ضیاء کی زندگی میں کہی ہوئی میری ایک نظم میں ایک یہ شعر بھی تھا کہ ے ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا ؟ کوئی کل کیا دیکھے آج دکھلا جو دکھانا ہے دکھانے والے (کلام طاہر صفحہ ۱۷) ہم ایسی درد ناک حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ اگر یہ ظالم جو کچھ کر رہا ہے اسی طرح کرتا ہوا نکل گیا اور ہنستے ہوئے نکل گیا تو کل خدا ضرور اپنی نصرت کے نمونے جماعت کو دکھائے گا اور جماعت کے دشمنوں کی ذلت کے نظارے بھی دنیا کو دکھائے گا لیکن اگر ہماری ساری عمر اس طرح گزرگئی تو ہمیں کیا کل کوئی کیا دیکھے.یقین تو ہے کہ تیرے وعدے پورے ہوں گے مگر آج دکھلا جو دکھانا ہے دکھانے والے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 129 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء تو یہ جو کیفیت ہے اسی کیفیت کا دراصل قرآن کریم میں ذکر ہے، فرماتا ہے.وَأُخرى تُحِبُّونَهَا ہم جانتے ہیں ہماری تمہارے دلوں پر نظر ہے یہ نہ سمجھو کہ ہمیں علم نہیں.صرف جنت کی خوشخبریوں کے یہ وعدے تمہیں پوری طرح تسکین نہیں بخش سکتے.تم اور بھی باتیں چاہتے ہو.نصر مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِیب اللہ کی نصر بڑی شان کے ساتھ تمہارے لئے آنے والی ہے.وَفَتْحُ قریب اور تمہیں قریب ہی میں بڑی فتح عطا کی جائے گی وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اے محمد! مومنوں کو خوشخبری دے دے کہ اُن کی ساری آرزوئیں پوری ہوں گی ، آخرت کی بھی اور دنیا کی بھی.آخرت کی آرزوؤں کو اس لئے پہلے ذکر کیا کہ دراصل وہی باقی رہنے والی ہیں.انسان اپنی بے وقوفی اور غلطی کی وجہ سے یا عجبلت کی وجہ سے پہلے دنیا کی خواہشوں کی تمنا کرتا ہے اور پھر آخرت کی طرف اس کی نگاہ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر چونکہ وقت کے ساتھ وابستہ نہیں وہ ایک ایسی نظر ہے جو زمان و مکان سے بالا نظر ہے، نہ وقت کی قید اس کو محدود کرتی ہے نہ مکان کی قید سے محدود کرتی ہے اس لئے وہ حقیقت کو دیکھتا ہے اور جس حقیقت میں زیادہ شان پائی جاتی ہوا سے پہلے بیان فرماتا ہے.بعض دفعہ مضمون اور طرف میں بدل بھی جاتا ہے مگر یہاں اس صورت کا اطلاق ہو رہا ہے.خدا نے پہلے آخرت کی خوشخبریاں دیں کہ وہی باقی رہنے والی ہیں.جَنَّتِ عَدْنٍ وہی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان کمزور ہے اور دنیا کے اوپر اس کی نظر ہے.دل چاہتا ہے کہ یہاں بھی کچھ ہو جائے تو فرمایا کہ فکر نہ کرو، یہاں بھی کچھ ہوگا.تمہیں ضرور نصر عطا کی جائے گی ،ضرور فتوحات تمہارے قدم چومیں گی.پس اہل بنگال اور بنگال کی جماعتوں کو یہ خوشخبری ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اُس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل مختلف صورتوں میں ظاہر ہوں گے، آخرت سے تعلق رکھنے والے فضل بھی نازل ہوں گے اور دنیا سے تعلق رکھنے والے فضل بھی نازل ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس خوشخبری میں صرف بنگال کے احمدی ہی نہیں بلکہ بنگال کے عوام الناس بھی عموماً داخل ہیں اس لئے کہ بنگالی مزاج میں ایک ایسی شرافت پائی جاتی ہے جو مذہبی جنون رکھنے والی قوموں میں عموما نہیں پائی جاتی.مذہبی جنونی تو وہاں موجود ہیں لیکن بنگال کا مزاج عدل والا مزاج ہے اور عقل کے لحاظ سے میں نے بنگالی کا دماغ دیکھا ہے کہ ہمارے پنجابیوں کی نسبت روز مرہ کے معاملات میں سیاست میں مسائل کو سمجھنے میں بہت زیادہ روشن ہے.وجہ یہ نہیں ہے کہ اُن کے دماغ کی قسم اچھی ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اُن میں انصاف
خطبات طاہر جلد ۱۲ 130 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء پایا جاتا ہے اور سب سے زیادہ پاگل کرنے والی چیز بے انصافی ہے.اس لئے پنجاب میں ویسے دماغ بہت اچھے ہیں وہ جب دنیا کے علوم میں تتبع کرتے ہیں ، جستجو کرتے ہیں تو بڑی بڑی ترقیاں پا جاتے ہیں.سیاست کے ایچ بیچ میں بھی خوب جو ہر دکھاتے ہیں لیکن گہری عقل اور تقویٰ کی روشنی عدل کے بغیر نصیب نہیں ہوا کرتی.وہاں عدل کم ہے اور اسی نے ساری مصیبت ڈالی ہوئی ہے.اگر پاکستان کو عدل نصیب ہو جائے تو پاکستانی قوم دنیا کی کسی قوم سے کوئی پیچھے نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ صف اوّل کی قوموں میں غیر معمولی چمکنے والی قوم بن سکتی ہے مگر بہر حال بنگلہ دیش کی جو خاص خوبی مجھے دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں عدل پایا جاتا ہے.پنجابی کے مقابل پر بہت زیادہ عدل مزاج لوگ ہیں.پس ساری قوم نے بڑا ہی عمدہ رد عمل دکھایا ہے.اتنی کھلم کھلا اور اتنی زور کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تائید ہوئی ہے اور اکثریت کے راہنما ہونے کے دعویدار علماء کو مجرم گردانا گیا ہے اور کھلم کھلا کہا گیا ہے کہ تم دھو کے باز ہو، تم نے ظلم کیا ہے.تم نے قرآن کی بے عزتی کی تم نے اسلام کی بے عزتی کی تمہیں کوئی حق نہیں تھا.جب بابری مسجد والا واقعہ ہوا ہے تو بعض اخباروں نے بڑے سخت اداریے لکھے ہیں کہ اے ملاں ! تو بابری مسجد کو روتا ہے.4.بخشی بازار میں جماعت احمدیہ کی مسجد سے کل تو نے کیا کیا تھا؟ تجھے حق کیا ہے کہ کسی اور مسجد کی بربادی پر کسی قسم کا احتجاج کرے؟ تو ساری قوم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قیام عدل کا جونمونہ دکھایا ہے اُس سے میرا دل بنگلہ دیش کے لئے بہت راضی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم پر فضل فرمائے گا اور جہاں جماعت پر فضل فرمائے گا بنگالیوں پر بالعموم بھی فضل فرمائے گا.خدا کرے کہ ان کی سیاست اُن کو عدل پر قائم رہنے دے.سیاست میں جا کر عقل عموماً پھر جاتی ہے.اب ساری بنگالی قوم نے ہمدردی کی ہے جرات کے ساتھ جماعت کی تائید کی ہے لیکن حکومت کو اتنی بھی توفیق نہیں ملی کہ پھوٹے لفظوں سے افسوس کا ہی اظہار کر دے.کوئی معذرت ، کسی قسم کی شرمندگی کا کوئی احساس اگر دلوں میں ہوگا تو کہنے کی جرات پیدا نہیں ہوئی لیکن بنگالی قوم سے کوئی شکوہ نہیں.بنگلہ دیشیوں نے غیر معمولی شرافت کا نمونہ دکھایا ہے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دے.میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ آپ سب بھی اُن کے لئے دعائیں کریں.اب میں مالی امور سے متعلق مختصر ایک دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں اللہ تعالی کے فضل سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 131 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء جماعت کو غیر معمولی قربانی کی جو تو فیق مل رہی ہے.وہ ہر میدان میں اپنے رنگ دکھا رہی ہے.بوسنیا کے متعلق میں نے ذکر کیا تھا اور گزشتہ خطبہ میں جس وقت میں نے بوسنیا کی سابقہ تحریک اور اس کے نتیجہ میں جماعت کی طرف سے لبیک کا ذکر کیا تو ابھی نسبتاً بہت تھوڑی مقدار میں یہ قربانی پیش کی گئی تھی لیکن جماعت کا جو رد عمل ہے اس کا دراصل میری ذات کے ساتھ گہرا تعلق ہے.وہ میری آواز سے میری طرز سے سمجھ جاتے ہیں کہ اس جگہ بہت زیادہ آگے بڑھنے کی تحریک ہے اور بعض دفعہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اچھی نیکی کی تحریک ہے مگر اتنے بوجھ اور بھی ہیں کہ اس بات کو دھیما دھیما لو تو پہلے جب میں نے بوسنیا کا ذکر کیا تھا تو عمومی تحریکات میں ذکر کیا تھا.غیر معمولی زور نہیں دیا تھا گزشتہ خطبہ میں اور اس سے پہلے ایک خطبہ میں میں نے بوسنیا کا جو ذکر کیا ہے تو اس کا رد عمل یہ ہوا ہے کہ اللہ کے فضل سے تاروں کے ذریعہ اور دوسرے برقی پیغامات کے ذریعہ فیکسز وغیرہ کے ذریعہ دنیا سے غیر معمولی قربانی کے مظاہرے ہونے شروع ہوئے ہیں اور خود انگلستان میں دوسرے روز ہی ایک خاتون مجھ سے ملنے آئیں اپنے سارے خاندان کی طرف سے چھ ہزار پاؤنڈ کا چیک پیش کیا اور راولپنڈی سے ایک مخلص احمدی ڈاکٹر نے دس ہزار ڈالر کا چیک بھجوا دیا اور ہزار ہزار، پانچ پانچ سو اس قسم کے بہت سے قربانی کے وعدے بلکہ نقد ادائیگیاں اور پھر عورتوں کی طرف سے زیوروں کی صورت میں غیر معمولی اخلاص کے اظہار ہونے شروع ہوئے ہیں جن کے نتیجہ میں ان سب کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے.میں نے ایک ذکر یہ بھی کیا تھا کہ جب تک میں اپنے ذاتی چندہ کا ذکر کیا کرتا تھا اس کی نسبت سے جماعت کے متمول لوگ اپنے چندہ کو بڑھاتے تھے.جب ذکر چھوڑ دیا ہے تو اس طبقہ میں کچھ کمزوری آئی ہے جہاں تک عام غرباء کا تعلق ہے یا درمیانے درجہ کے احمدی مسلمانوں کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلسل اسی طرح قربانی کر رہے ہیں لیکن امیر طبقہ کا حال یہ ہے کہ اگر اس کو خاص طور پر جھنجھوڑ نہ جائے تو بہت جلدی سوتا ہے کیونکہ مال کی کثرت مال کی محبت کو بھی بڑھاتی ہے.یہ قرآنی اصول ہے یہ کوئی میرے منہ کی بات نہیں.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ مال ایسی چیز ہے کہ اگر مال زیادہ عطاء ہو تو محبت بھی ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے بھی اس مضمون کو بڑا کھول کر قرآن کریم کی تفسیر کے رنگ میں پیش فرمایا ہے.ابن آدم کا پیٹ کوئی چیز
خطبات طاہر جلد ۱۲ 132 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء نہیں بھر سکتی.هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ (ق: ۳۱) کا سا عالم ہے جہنم کو اس پہلو سے مال کی محبت سے ایک مشابہت ہے جہنم کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جتنا ڈالا جائے وہ پھر کہتی ہے.هَلَّ مِنْ اے خدا اور بھی کچھ ہے تو اور بھی لا کیونکہ آگ کی طلب چونکہ جس چیز کو طلب کرتی ہے اس کو کھا جاتی ہے اس لئے اس کو مزید کی طلب پوری نہیں ہوا کرتی اور یہ مضمون ویسے ہی بڑا لطیف ہے آگ اپنی بقاء کے لئے ضروری ہے تو مال کی محبت بھی ایسی ہے کہ جتنا مال مل جائے وہ گویا کھایا گیا وہ اس کی آگ میں جل جاتا ہے اور لطف دینا چھوڑ دیتا ہے اس لئے زیادہ کا جو چسکا پڑا ہوا ہے وہ پھر طلب کرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کا پیٹ تو کوئی چیز نہیں بھر سکتی اس کو ایک وادی دو گے تو کہے گا اب دوسری وادی بھی دو.غالب نے اس مضمون کو اس رنگ میں بیان کیا ہے کہ دونو جہان دے کے، وہ سمجھے ، یہ خوش رہا یاں آ پڑی شرم کہ، تکرار کیا کریں (دیوان غالب صفحہ: ۱۶۹) خدا نے ہمیں دونوں جہان دے دیئے اور سمجھا کہ ہم خوش ہو گئے دونوں تو دے دیئے ہیں.اب کیا تکرار کی جائے تو ایک وادی کے بعد دوسری وادی کی طلب اور دو وادیاں مل جائیں تو پھر چار وادیوں کی طلب.دو جہان مل جائیں تو پھر اگلے دو جہان کے متعلق خواہش ، نظر نہ آئے تو انسان چپ کر جائے تو کر جائے ورنہ دل تو یہی چاہے گا کہ دو جہان بھی کافی نہیں ہیں.تو یہ امیر دنیا کا حال ہے اس لئے مجبوراً ان کی خاطر میں بعض دفعہ یہ بیان کیا کرتا تھا کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ میں نے یہ دیا ہے تو پھر ان کو شوق پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس سے بڑھ کر دکھا ئیں تو میں نے اللہ کے فضل سے بوسنیا کی مد میں ایک ہزار پہلے پیش کیا تھا.اب میں نے پانچ ہزار کا اضافہ کر کے چھ ہزار پاؤنڈ کر دیا ہے تا کہ ہمارے جو متمول احمدی دنیا بھر میں ہیں ان کو یہ پیغا م مل جائے.میں نے ایک فارمولہ یہ پیش کیا تھا کہ میں ایک کروں تو آپ سارے مل کر سو تو کریں.پس میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف ۱۰۰ متمول احمدی چھ چھ ہزار پاؤنڈ پیش کر دیں یعنی پہلے جو دیا ہے اس کو بیچ میں سے بے شک منہا کرلیں تو یہ ایک کافی رقم مہیا ہو جائے گی اور بوسنین کو ضرورت بہت زیادہ ہے.بعض ملک ایسے ہیں کہ ایک ایک ملک میں ستر ستر ہزار مہاجر بیٹھا ہوا ہے اور سب کچھ لٹا کر آیا ہوا ہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 133 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء جب بھی جماعت نے ان سے رابطہ قائم کیا ہے.ہر دفعہ ان کا ہمیشہ یہی جواب ملا ہے کسی جگہ بھی استثناء نہیں کہ ہاں ہمیں آپ کچھ دے رہے ہیں شکریہ، بہت ممنون ہیں لیکن ہمارے جو مجاہد پیچھے رہ گئے ہیں ان کا خیال کریں، ان کے لئے ضرور کچھ رقم پیش کریں چنانچہ اب میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی طرف سے جو بھی رقم ملا کرے گی اس کو صرف مقامی طور پر مہاجرین کے لئے خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی مرکزی تنظیم کے حوالے ایک حصہ کو اور بڑے حصہ کو کیا جائے گا تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق مختلف مصارف میں اس کو استعمال کریں.میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جماعت کے دلوں کو بھی کھولے گا اور اس کے نتیجہ میں لازماً اپنے فضلوں کو بڑھائے گا.یہ جو بات ہے یہ ہے تو بڑی پختہ اور یقینی، لیکن اس کے ساتھ منسلک کر کے قربانی نہیں کرنی چاہئے لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قربانی آپ کریں گے تو آپ کی قربانی خدا کے ہاں اس دنیا میں ہی بڑھا کر واپس کی جائے گی قرضہ حسنہ کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا اور اس دنیا میں بھی بڑھا کر دیتا ہے اور اُس دنیا میں بھی بڑھا کر دیتا ہے.میں نے گزشتہ سے پیوستہ خطبہ میں ایک احمدی بزرگ کا ذکر کیا تھا انہوں نے اپنے ایک خط کے ذریعہ اپنے ایک نواسے کو نصیحتیں کی ہوئی تھیں اس میں اپنے کچھ تجربے بیان کئے تھے کہ میں مالی قربانی کرتا ہوں تو یہ مجھ سے ہوتا ہے، تم بھی ہمیشہ مالی قربانیوں کے میدان میں آگے بڑھنا.اس کو وہ خط اتنے پیارے لگے کہ اس نے ان کی نقول مجھے بھجوائیں ان میں سے دو خطوط میں آپ کو سنانے کے لئے لے کر آیا تھا ایک تو پڑھ کر سنا دیا تھا ایک رہتا تھا جواب سنا دیتا ہوں وہ لکھتے ہیں :- ۱۹۹۲-۹۳ء کا حال سنئے ( یعنی پہلے اور با تیں بیان کر رہے ہیں ) سیلاب سے فصل کپاس اکثر علاقوں میں تباہ ہوگئی جو سیلاب سے بچ گئی ہے اس کو بارشوں کی وجہ سے بہت کم پھل آیا ہے.نقصان کا اندازہ میں فیصدی سے لے کر اسی فیصد تک لگایا گیا ہے.ایک دوست کی ۳۷ بھیگہ کپاس کی پہلی چنائی.امن ہوئی، وہ چندہ میں نادھند ہیں.میری ۹ بھیگہ کپاس کی پہلی چنائی ۲۵من ہوئی اس سال میرا بجٹ چندہ مبلغ ۲۵۰۰ روپیہ تھا.پہلی چنائی سے مجھے۴۵۵۰ روپے کی آمد ہوئی جس میں سے ۲۵۰۰ روپے چندہ مورخہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۲ء کو ادا کر دیا ہے، سارے موضع میں اوسط کے لحاظ سے کپاس کے معاملہ میں میں اول نمبر پر ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 134 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء یہ جو صورت ہے یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے چندہ دینے والوں کا ساری زندگی کا یہی تجربہ ہے کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فضل کو بڑھتا ہوا ہی دیکھتے ہیں چندے سے ان کے اموال میں کمی نہیں آیا کرتی.اللہ تعالیٰ کے دینے کے سوطریق ہیں، ہز ار طریق ہیں ، اتنے زیادہ ہیں کہ گن بھی نہیں سکتے اور آخرت کا حساب جوں کا توں وہیں پڑا ہوا اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور وہ حساب اس حساب کے بدلہ میں تبدیل نہیں ہوتا.یہ الگ کھاتہ ہے، وہ الگ کھاتہ ہے.یعنی آپ یہاں روپے داخل کرواتے ہیں ، یہاں بڑھتا ہے اور ساتھ وعدہ یہ ہے کہ آئندہ بڑھے گا.یہ تو بس ضمنا ہے صرف چکھانے کے لئے یقین دلانے کے لئے کہ ہاں میں بڑھا سکتا ہوں، تو اس خدا سے جب سودے کرنے ہیں تو پھر ڈرنے کا کیا سوال ہے.خدا کی راہ میں دل کھول کر قربانیاں کیا کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں اپنے اوپر برستی دیکھیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ضمن میں قرآن کریم کی ایک آیت کے مضمون کو جو میرے نزدیک سورۃ الزمر آیت ۴۸ ہے یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور آیت ہوگی پیش نظر رکھ کر بہت ہی پیارے الفاظ میں دنیا کے اموال کی حقیقت بیان فرمائی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون سے خصوصیت سے تعلق رکھنے والی جو آیت ہے وہ ہے.وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَ مِثْلَهُ مَعَهُ لَا فَتَدَوا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَبَدَالَهُمْ مِّنَ اللهِ مَالَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (الزمر: ۴۸) کہ وہ لوگ جنہوں نے ظلم کئے، زمین میں جو کچھ بھی ہے اور اس کے علاوہ اتنا ہی اور بھی وہ قیامت کے دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اگر پیش کر سکتے ہوں اور پیش کر دیں تو کچھ قبول نہیں کیا جائے گا.وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللَّهِ مَالَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ وہ باتیں جن کا اُن کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ یہ کچھ ہو جائے گا وہ اب ان کے سامنے ظاہر ہو گئیں یعنی اعمال کا بد نتیجہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اموال کی محبت محض بے وقوفی اور دھوکہ ہے.اموال کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں ، سوائے اس کے کہ یہ آپ کے لئے کچھ فیض پیدا کر دے.پس جو انسان مال کے فیض سے محروم رہے اس کے مال کی کوئی حقیقت ہی نہیں تو فیض والے کاموں پر خرچ
خطبات طاہر جلد ۱۲ کیا کرو.فرماتے ہیں:.135 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء ”جب ایک چیز کی کثرت ہو جاوے تو پھر اس کی قدر نہیں رہتی.پانی اور اناج جیسی کوئی چیز نہیں اور یہ سب چیزیں آگ، ہوا ہٹی ، پانی ہمارے لئے نہایت ہی ضروری ہیں مگر کثرت کی وجہ سے انسان ان کی قدر نہیں کرتا لیکن اگر ایک جنگل میں ہو اور کروڑ ہا روپیہ بھی پاس ہو، مگر پانی نہ ہو تو اس وقت کروڑ ہا روپیہ بھی ایک گھونٹ کے بدلے دینے کو تیار ہوتا ہے اور آخر بڑی حسرت سے مرتا ہے.دنیا کی دولت چیز ہی کیا ہے جس کے لئے انسان مارا مارا پھرتا ہے، ذراسی بیماری آ جاوے پانی کی طرح روپیہ بہایا جاتا ہے مگر سکھ ایک منٹ کے لئے بھی نہیں آتا.جب یہ حال ہے تو انسان کی یہ کس قدر غفلت ہے کہ اس حقیقی کارساز کی طرف توجہ نہ کرے جس کا بنایا ہوا یہ سب کا رخانہ ہے اور اس کا ذرہ ذرہ جس کے تصرف اور اختیار میں ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۳۴۶ مطبوعہ ربوہ ) اس مضمون کو پڑھ کر یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے اور بڑی پُر لطف بات ہے کہ مال کثرت سے ہو تو بھی آدمی اُس کی سے بے قدری نہیں کرتا.مال کو تو بہت ہی زیادہ پیار سے رکھتا ہے.اور بڑھاتا چلا جاتا ہے اور جو حقیقی نعمتیں ہیں، جب ان کی کثرت ہو جائے تو ان کی بے قدری شروع ہو جاتی ہے یعنی خدا کی دی ہوئی نعمتیں جن کو حاصل کرنے کے لئے دراصل مال عطا ہوتا ہے ان نعمتوں سے تو ایسی بے قدری ہے کہ آنکھیں ہی بند ہیں کچھ نظر ہی نہیں آرہاور نہ آنکھ کے ذریعہ جو دکھائی دیتا ہے وہ سب نعمتیں ہیں.سانس کے ذریعے جو ہوا جاتی ہے وہ کتنی عظیم الشان نعمت ہے حواس خمسہ خود نعمتوں کے رستے ہیں اور ان رستوں سے انسان جتنی نعمتیں حاصل کرتا ہے سب سے غافل ہو جاتا ہے.سب سے نظریں پھیر لیتا ہے اور سویا رہتا ہے اور جو نعمت ہے نہیں بلکہ نعمت حاصل کرنے کا ذریعہ تھی اس کو چمٹ جاتا ہے اور اس سے نعمتیں حاصل نہیں کرتا یعنی خدا کی رحمتیں اور خدا کے فضل اور اس دنیا اور آخرت میں خدا کی رضا سے غافل رہتا ہے.یہ مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس سے سمجھ آیا اور پھر ساتھ یہ بھی کہ قیامت کے دن ہی یہ نہیں ہوگا بلکہ اس کا نمونہ دنیا میں بھی دکھایا جائے گا.قیامت کے دن جب فرمایا کہ تم جو کچھ ہے.پیش کر دو پھر بھی تمہیں کوئی فائدہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 136 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء نہیں پہنچے گا.اس دنیا میں بھی بعض حالتیں ایسی آتی ہیں کہ انسان ساری دولتیں بھی لٹا بیٹھے تو ایک گھونٹ پانی کا نصیب نہیں ہوتا.سب کچھ اپنے علاج پر خرچ کر دے تو چین کا ایک سانس میسر نہیں آسکتا.ساری زندگی ہوا کی ناقدری میں گزرگئی اور آخر پر یہ معلوم ہوا کہ جب وقت آیا ہے تو اس وقت اپنی کوشش سے ہوا کے ایک سانس سے بھی مجھے سکون میسر نہیں آ سکتا تو رضاء باری تعالیٰ ہی ہے جس پر زندگی کا انحصار ہے.اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اسی میں دنیا کی نعمتیں بھی ہیں اور اسی میں آخرت کی بھی.اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمائے.ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حق عطا فرمائے اور اے اہلِ بنگالہ ! میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں.تم نے جس طرح میرے دل کو راضی کیا میری دعا ہے کہ اس سے ان گنت زیادہ خدا کا دل تم سے راضی ہو اور خدا تعالیٰ جب کسی کو نصیب ہو جائے تو اُسے دنیا بھی عطا ہوگئی اور آخرت بھی ہوگئی.(امین)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 137 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء امام مہدی کے نام پر منادی کرنے والا جب منادی کر.گا تو ان کے درمیان کوئی قاصد نہ ہوگا.MTA پاکستان کے احمدیوں کے صبر کا پھل ہے.( خطبه جمعه فرموده ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء بمقام مسجد فضل لنڈن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.گزشتہ دو خطبات سے اس تجارت کا ذکر چل رہا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے اموال بھی پیش کرو اور جانیں بھی تو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب الیم سے نجات کی خوشخبری دیتا ہے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوشخبریاں ہیں.اس ضمن میں مالی قربانی کا ذکر تو میں پہلے کر چکا ہوں اب میں نہایت اختصار کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کو انفس کی قربانی کا بھی بہت موقع میسر آیا ہے.انفس کی قربانی میں سے ایک تو وہ قربانی ہے جو پاکستان میں ایک لمبے عرصے سے مسلسل خدا کے حضور پیش کی جارہی ہے.اس میں شہادتیں بھی شامل ہیں اور صالحیت کے اعلیٰ نمونے بھی داخل ہیں اور بہت ہی لمبی کہانی ہے اس لئے اس کو میں یہاں چھیڑ نا نہیں چاہتا.میں صرف یہ مختصر ابتانا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کی ہمدردی میں جماعت مالی قربانی کر رہی ہے ان کے لئے انفس کی قربانی اور محنت اور جہاد میں بھی مصروف ہے.چنانچہ ہندوستان میں جو حال ہی میں مسلمانوں کے خلاف
خطبات طاہر جلد ۱۲ 138 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء فسادات برپا ہوئے ہیں ان کے متعلق جہاں تک پاکستانی اخبارات کا تعلق ہے صرف یہ خبریں دی جاتی ہیں کہ گویا کلیپ مسلمان مارے گئے ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے جب فسادات شروع ہو جائیں تو پھر دونوں طرف سے خواہ دفاع میں ہو یا جارحانہ کارروائی ہو، کارروائی کی جاتی ہے.تو مسلمانوں نے بھی بعض علاقوں میں اپنے جوابی حملے کئے اور اس کے نتیجہ میں کچھ ہندوؤں کو بھی نقصان پہنچا.لیکن مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک بڑی نمایاں تمیز ہے.ایسا فرق خدا نے ظاہر فرمایا ہے جو ان علاقوں میں ایک فرقان کی حیثیت رکھتا ہے.مسلمانوں نے کسی عورت کی بے حرمتی نہیں کی کسی مظلوم عورت سے زیادتی نہیں کی لیکن ہندوؤں نے کثرت کے ساتھ مسلمانوں کی عزتیں لوٹی ہیں اور بوسنیا میں جو سلوک بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں سے کیا گیا ہے ایک حد تک بمبئی میں اور دوسرے ہندوستان کے علاقوں میں مسلمانوں سے کیا گیا ہے.پس جماعت نے مظلوموں کی خدمت میں فوراً کارروائی کی اور مسلسل کارروائی کر رہی ہے.بمبئی میں باوجود اس کے کہ جماعت کی تعداد بہت چھوٹی ہے چونکہ وہ علاقہ ایسا ہے جہاں مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم ہوئے ہیں اس لئے خصوصیت سے ہم نے چھوٹی تعداد کے باوجوداس علاقہ کو خدمت کے لئے نمونہ بنایا اور بڑے لمبے عرصہ سے وہاں کے خدام انصار اور لجنات خدمت کے کاموں میں مصروف ہیں اور ہندو اور مسلمان میں فرق نہیں کرتے ، مظلوم کی خدمت کر رہے ہیں ایسے ہند و علاقوں میں بھی پہنچے جہاں خود ان کی جانوں کو خطرہ تھا لیکن وہ جو گھر لئے ہوئے تھے ان کو برتن لے کر دیئے جن کے پاس کپڑا نہیں تھا ان کو کپڑے دیئے، کمبل کے ضرورتمندوں کو کمبل دیئے گئے اور اب ایک نیا پروگرام ہے جس کے تابع ہندوؤں کے علاقے میں بھی لیکن زیادہ تر مسلمانوں کے علاقہ میں جہاں بہت زیادہ مکان جلے ہیں.وہاں مکانوں کی تعمیر نو میں جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے بھر پور حصہ لے رہی ہے اور اس پر بہت زیادہ خرچ بھی آرہا ہے لیکن میں نے بمبئی کی جماعت کو یہ ہدایت کی ہے کہ خرچ کی پرواہ نہ کریں.نیک کاموں پر جو خرچ جماعت کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور بظاہر ہماری جیبوں سے نکلتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خدمت کو مختصر الفاظ میں یوں بیان فرما دیا ہے.سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے (در نمین: ۳۶)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 139 خطبه جمعه ۱۹ فروری ۱۹۹۳ء کیونکہ جیب میں جو پڑتا ہے وہ بھی خدا ہی کی عطا ہوتی ہے اس لئے محض جاہل ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ میری جیب سے پیسہ نکلا ہے.اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے تو تو فیق ملتی ہے اور توفیق دیتا ہے تو تو فیق ملتی ہے ورنہ ایسے ہیں جن کے پاس دولتوں کے پہاڑ ہیں لیکن ان کو کوئی توفیق نہیں مل رہی کہ وہ غریب مسلمانوں کی خدمت کریں یا دکھتی ہوئی انسانیت کی خدمت کریں.خواہ وہ مسلمان ہو یا ہندو ہو یا سکھ ہو.تو اللہ کے فضل سے جو رپورٹیں مل رہی ہیں اس سے دل بہت راضی ہے کہ جماعت بمبئی نے واقعہ خدمت کا حق ادا کیا ہے.لکھتے ہیں لوگوں کو اوڑھنے کیلئے کمبل، پینے کیلئے کپڑے، کھانا پکانے کے لئے برتن کھانے پینے کی اشیاء اور جنس کی سپلائی، نہانے دھونے کے لئے صابن اور دیگر ضروریات بہم پہنچائی جارہی ہیں پھر نقل مکانی کر کے دوسری جگہوں پر جانے والوں کو ٹکٹیں خرید کر دی جا رہی ہیں.۶۰ ا خاندانوں کو اب تک کھانا پکانے اور کھانے کے برتن دیئے گئے ہیں (یہ ایک رپورٹ میں تھا بعد میں پھر اور بھی اس میں شامل ہوتے گئے ).ایک ہندو تنظیم سے تعارف حاصل کر کے ایک علاقہ کے ہندو گھرانوں کو برتن کپڑے وغیرہ پیش کئے گئے چند روز قبل جماعت کو ایک ایسی جگہ کا علم ہوا جہاں ریلیف نہیں پہنچا تھا جماعت نے فوری طور پر پہنچ کر وہاں انتظام کیا.دو ہندو تنظیمیں ایسی تھیں جن کیساتھ تعاون کے ساتھ جماعت نے بکثرت ہندوؤں میں کھانا پکانے کے برتن وغیرہ دیگر ضروری سامان مہیا کئے.اب جماعت یہ پروگرام بنا رہی ہے ، یہ آخری پروگرام انہوں نے لکھا ہے کہ تعمیر نو شروع کر کے جلے ہوئے مکانوں کو رہائش کے قابل بنایا جائے تو یہ خبر پہلے کی ہے.اسی وقت فیکس کے ذریعے ان کو میں نے اطلاع کر دی تھی کہ جو بھی بجٹ ہے منظور ہے اور آئندہ بھی جو خرچ ہو گا انشاء اللہ جماعت مہیا کرے گی آپ لوگ خدمت کرتے رہیں.اس کے علاوہ ایک کام خدمت کا جماعت نے یہ کیا ہے کہ جہاں نفرتوں کے نتیجہ میں آگ بھڑک اُٹھنے کے خطرات تھے وہاں بر وقت پر حکمت کا رروائی کے ذریعہ فسادوں سے علاقہ کو محفوظ رکھا اور یہ ایسا عمدہ کام تھا کہ ہندوستان کے بعض صوبائی ٹیلی ویژنز کے ذریعہ بھی بعض علاقوں میں یہ منظر دکھائے گئے کہ کس طرح ہندو مسلمان آپس میں عقل کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان علاقوں میں بر وقت پر حکمت کارروائی کے ذریعہ فسادات کا ازالہ کیا گیا.یوپی میں خاص طور پر جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 140 خطبہ جمعہ ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء راجستھان کا علاقہ ہے وہاں بھی اور یوپی کے مختلف علاقوں میں جماعت نے بر وقت مسلمان اور ہندو لیڈروں سے مل کر ان کو عقل دی سمجھایا اور خدا کے فضل سے وہاں ہر قسم کے خطرات ٹل گئے.اب میں آپ کو بوسنیا سے متعلق کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں بوسنیا کے مسلمانوں پر جوگزررہی ہے اس کے متعلق جتنا بھی بتایا جائے وہ کم ہوگا اتنا دردناک، اتنا دلوں کو ہلا دینے والا ظلم وہاں تو ڑا گیا ہے کہ اس کے ذکر سے بھی انسان یعنی میرے جیسا انسان تو کم سے کم لرز اٹھتا ہے اور توفیق نہیں پاسکتا کہ ذکر کرے.انسانی طاقت سے اس کا ذکر بڑھ کر ہے.پس جس دردناک عذاب کے ذکر کی نوعیت یہ ہو کہ ذکر کی طاقت سے بڑھ جائے وہاں کیا ہوا ہوگا کیا گزری ہوگی اس کا آپ حقیقت میں تصور بھی نہیں کر سکتے.اس ضمن میں جو کارروائیاں کی جارہی ہیں اس سلسلہ میں ایک فوری کارروائی یہ ہے کہ بوسنیا سے ایک ٹیلی ویژن کا نمائندہ وفد کل سے یہاں آیا ہوا ہے اور سویڈن کے کچھ نمائندے جو اس خدمت میں پیش پیش ہیں وہ بھی یہاں پہنچے ہوئے ہیں ان کے ذریعہ ہمیں بہت سی ویڈ یولیسٹس ملی ہیں اور وہ بتارہے تھے وہ بیچارے بالکل اس معاملے میں بے بس ہیں بہت تھوڑا ہے جو دنیا کے ٹیلیویژن پر دکھایا جاتا ہے اور بوسنیا کی حکومت اس وقت جس قسم کے مختلف مسائل میں گھری ہوئی ہے ان میں ایک بہت بڑا مسئلہ اقتصادی مسئلہ ہے فوجیوں کو وردیاں تک لے کر دینے کے پیسے نہیں ہیں.ہتھیار خریدنے کے پیسے نہیں ہیں.ٹیلی ویژن کے ذریعہ پروپیگنڈا تو بعد کی باتیں ہیں تو انھوں نے درخواست کی کہ ہماری طرف سے جماعت احمدیہ یہ خدمت قبول کرے.میں نے ان کو بتایا کہ ہم تو پہلے ہی اللہ کے فضل سے یہ کر رہے ہیں اور جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے ٹیلی ویژن کے پروگرام دکھائے جارہے ہیں مثلاً خطبات میں بھی میں ذکر کرتا ہوں اور ہر جگہ جماعت پھر آگے اپنے اخبارات وغیرہ کے ذریعہ کوشش کرتی ہے کہ آپ کی درد ناک کہانیوں سے دنیا کسی حد تک واقف ہو سکے.انہوں نے کچھ ویڈیوز جودی ہیں ان کے متعلق میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے ملکوں میں اگر کچھ خرچ کر کے بھی وہ پروگرام ٹیلی ویژن پر دکھائے جاسکتے ہوں تو دکھائے جائیں.امریکہ میں ایسے کیبل ٹیلیویٹر نز ہیں جن کے ذریعہ کثرت کے ساتھ یہی ویڈیوز وہاں دکھائی جاسکتی ہیں ایسے بعض غیر حکومتی ادارے ہیں وہ بکثرت ایسے ہیں جو چند ڈالرز کے عوض بہت معمولی قیمت پر علاقائی پروگرام دکھاتے ہیں اور وہاں بھی یہ ویڈیوز پیش کی جاسکتی ہیں جاپان میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 141 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء جاپانی ٹیلی ویژن سے رابطے کر کے ان کے ذریعہ دکھائی جاسکتی ہیں غرضیکہ یورپ کے ممالک میں بکثرت ایسے مواقع ہوں گے.افریقہ تو بہر حال اللہ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اتنے اثر میں ہے کہ وہاں یہ کام بالکل مشکل نہیں ہے.تو دنیا کے کونے کونے میں یہاں تک کہ نجی آئی لینڈ میں بھی اگر ٹیلی ویژن موجود ہو تو وہاں بھی ٹیلی ویژن کے ذریعہ یہ جو حقائق پیش کئے گئے ہیں یہ سب دنیا کے سامنے لانا چاہئیں.بوسنیا کی خدمت کے سلسلے میں یورپین جماعتیں اللہ کے فضل سے بہت ہی مستعد ہیں اور بڑے گہرے اور وسیع رابطے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی خدمت پر بعض چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی انتھک مامور ہیں اور جتنا خدمت کرتی ہیں اتنا ہی ان کا خدمت کا جذ بہ بڑھتا جاتا ہے، تھکتے نہیں ہیں.شروع شروع میں بعض دوسری مسلمان تنظیموں نے بھی کام شروع کیا اور مجھے بعض دوستوں نے بتایا کہ وہ کر رہی ہیں میں نے کہا بہت اچھی بات ہے، آپ ان کی مدد کریں مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ وہ میدان میں آئیں گے تو ہماری ساکھ خراب ہوگی.مجھے ڈر یہ ہے کہ کچھ دیر کے بعد تو وہ تھک کر چھوڑ دیں گے اور صرف آپ کو کیلے کام کرنا پڑے گا.تو اب جو حالات سامنے آرہے ہیں یہی کیفیت ہے.اکثر جگہ یا وہ تھک کر چھوڑ گئے ہیں یا اس رنگ میں خدمت کی کوشش کی جس کا بہت ہی برا اثر پڑا ہے.مثلاً بعض جگہ (اب نام لینا مناسب نہیں ) احمدی وفد جب ایک کیمپ میں پہنچا تو وہاں کے مسلمان بوسنین مہاجرین نے ملنے سے انکار کر دیا اور وجہ یہ بتائی کہ اس سے پہلے ایک مولویوں کا وفد آچکا ہے اور اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کرنی بڑی منت سماجت سے سمجھا کر ان سے کہا کہ ہمیں کچھ موقع تو دو بتاؤ تو سہی کیا ہوا تھا.تو بتایا یہ کہ ایک مولویوں کا وفد آیا ہمیں دین سکھانے کے لئے اور جب ہم نے ان کو بتایا اور ان سے گزارش کی کہ ہمارے حالات تو سنو کہ ہم پر کیا بیت رہی ہے.تو حالات میں دلچسپی لینے کی بجائے انہوں نے کہا ہمیں صرف یہ بتاؤ پہلے کہ تم نے ختنے کروائے ہوئے ہیں کہ نہیں کہتے ہیں ہم حیران رہ گئے ہمارے سرکٹ رہے ہیں، ہماری عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں ہمارے سینے چھلنی ہیں اور ان ظالموں کو یہ فکر پڑی ہے کہ ہم نے ختنے کروائے ہوئے ہیں کہ نہیں یہ لطیفہ نہیں ہے کہ ہنسنے کی بات نہیں ہے، بہت درد ناک واقعہ ہے.کہتے ہیں ایسی نفرت ہوئی ہمیں اسلام سے یا اس قسم کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 142 خطبہ جمعہ ۱۹/فروری ۱۹۹۳ء اسلام سے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سے کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کرنی.وہ ایک چرچ میں ٹھہرے ہوئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان مولویوں نے ان کو لازماً عیسائی بنا کر چھوڑنا تھا.خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کوتو فیق ملی ان کی خدمت کی اور ان کو سینے سے لگایا اور پیار دیا.اس کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی اور پھر انہوں نے واقعات سنائے خود ہی مختلف جگہوں سے جو واقعات مل رہے ہیں اس جگہ صرف بات نہیں کر رہا.ایسے واقعات سنائے ہیں کہ ہمیں چرچ کی طرف سے مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ ہم سور کا گوشت کھائیں اور سور کے گوشت کے سوا اور کوئی گوشت دیتے ہی نہیں تھے تو ہم نے صاف انکار دیا.اتنا اسلام تو بہر حال ان میں ہے.انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا ہم زیادہ پکے مسلمان نہ سہی مگر سو کبھی نہیں کھائیں گے اس لئے وہ سبزیاں جو بھی تھیں اس سے گزارہ کیا بالآخر وہ ނ لوگ مجبور ہو گئے اور پھر انہوں نے سو راس Menu سے ہٹا لیا.اس ضمن میں جو نمونے ہیں چند خدمت کے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بعض مہاجر بچیوں کی یہاں شادیاں ہوئیں ان کی شادیوں میں جماعت نے خاص طور پر خواتین نے بہت خدمت کی ہے حصہ لیا ہے.بچوں کی ولادتیں ہوئیں ہیں اس موقع پر خاص طور پر جماعت کے بہت سے خاندانوں نے مل کر ان کو تحائف بھی پیش کئے اور زچہ و بچہ کا خیال رکھا.گرم کپڑے بستر کھانے پینے کی اشیاء اور مالی امداد جہاں جہاں ضرورت پیش آتی ہے سب یورپین جماعتیں خدا کے فضل.اس میں آگے بڑھ رہی ہیں کچھ رپورٹیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.میں جب اوپر گھڑی کی طرف دیکھتا ہوں تو مختلف ممالک سے لوگ لکھتے ہیں کہ آپ گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمارا دل گھٹتا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں جب وقت گھٹ رہا ہے تو ساتھ ساتھ دل بھی گھٹے گا، جب دوطرفہ محبت کے تعلقات ہوں گے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے.ایک نوجوان نے لکھا ہے لا ہور سے کہ مجھے آج پہلی دفعہ پتا لگا ہے کہ ہمارا اور آپ کا محبت کا تعلق ہے اور یہ اب اور بڑھ رہی ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹیلی ویژن کی برکتیں ہیں خدا کرے یہ پروگرام پھیلیں پھولیں پھلیں.اب میں کچھ واقعات سناتا ہوں ۶۰ بوسنین مہاجرین کا ایک وفد نماز جمعہ کے لئے لانے کا انتظام کیا گیا.یہ ۶۰ لفظ کا جو ہندسہ ہے یہ صرف ایک دفعہ جمعہ کی بات ہے ہر جمعہ پر کوشش کی جاتی ہے کہ نئے وفود آئیں اور ہر جمعہ پر کبھی ۶۰ یا ۸۰ کبھی ۱۰۰ افراد پر مشتمل وفود بھی آتے ہیں تو یہ نہ سمجھیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 143 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء کہ صرف ۶۰ سے ہی رابطہ ہے.کہتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے ٹیلیویژن پر خطبہ بھی سنا اس کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پیش کیا گیا ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں ان میں سے وہ مسلسل روتی رہیں جب ان کو تشفی دی گئی تو انہوں نے کہا وطن سے دور آج آپ کو اس طرح اکٹھے دیکھا ہے تو اپنے گھر کی یاد آرہی ہے.غنیمت ہے کہ آپ لوگ اس قدر پیار اور محبت سے سلوک کرنے والے ہمیں مل گئے.ایک خاتوں لکھتی ہیں کہ ایک خاتون ملیں ان سے جب میں نے پیار کا سلوک کیا تو روتی رہیں، اتنا روئیں کہ جس طرح بھی میں نے کوشش کی سمجھانے کی ان کے آنسو نہیں تھمتے تھے.کہتی کہ پھر میری چیخیں نکل گئیں اور میں نے روتے روتے ان کو سینہ سے لگا لیا پھر ان کے آنسو تھے پھر ان کو میری فکر پڑی تو بعض دفعہ نم کامداوانم سے ہی ہوتا ہے اور جتنا درد آپ ان کے لئے پیدا کریں گے اتنی ہی راحت ان کو پہنچے گی.یہ لفظوں سے تسلی دینے کا وقت نہیں ہے بلکہ پیار اور محبت ان پر لنڈھانے کا وقت ہے اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق بخشے.اس ضمن میں میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ خصوصاً یورپ کی جماعتیں مواخات کا نظام قائم کریں اور بعض خاندانوں کو بعض خاندان اپنا لیں اور پھر صرف یہ نہ ہو کہ جب جماعتی نظام میں ان کیلئے اکٹھے ہونے کا کوئی بندوبست کیا جائے تو اسی موقع پر رابطے ہوں بلکہ خاندان یہ ذمہ داری اُٹھا ئیں کہ فلاں فلاں خاندان ہمارا ہو گیا ہے.ان لوگوں کو محبت کی بہت کمی ہے رہائش اور کھانے پینے کا انتظام تو ہو ہی رہا ہے، جیسا بھی ہے.لیکن جس بات کو تر سے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا سارے کا سارا خاندان کٹ گیا ہے اکیلی عورت یا اکیلا مرد پہنچا ہوا ہے بعض بچے ہیں جن کا کوئی بھی نہیں رہا تو ضرورت ہے کہ انسانی ہمدردی سے ان کو سینے سے لگایا جائے.ایک معمر خاتون نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ آپ ہماری خدمت تو کرتے ہیں مگر دعائیں کریں کہ ہمیں ہمارا بوسنیا واپس مل جائے ، ہم سے اب بوسنیا کی جدائی برداشت نہیں ہوتی.دولیڈی ڈاکٹرز تھیں انہوں نے کہا کہ ہم تو صرف نام کے مسلمان تھے ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ اسلام کیا ہے.یہ ہمارے لئے تسکین کا موجب ہے کہ ایک جماعت ایسی ہے جس کا مرکز جس کا خلیفہ ہمارے لئے بھی اسی طرح دردمند ہے جس طرح آپ لوگوں کی تکلیف سے ہوتا ہے اور ساری جماعت جو خدمت کر رہی ہے اس کے نتیجہ میں اب ہمیں اسلام پر فخر پیدا ہو گیا ہے ہم ان ملکوں میں شرماتے تھے پہلے اسلام سے.اب ہم بڑے فخر سے ان لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ہاں ہم مسلمان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 144 خطبہ جمعہ ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء ہیں.تو آپ کی محبت اور آپ کے پیارے نے دیکھیں کیسے معجزے دکھائے ہیں کیسا انقلاب برپا کیا ہے کہ وہ لوگ جن کے متعلق خطرہ تھا کہ غیر مسلموں کی مارکھا کر غیر مسلموں کی گود میں جہاں دنیا گنوا بیٹھے ہیں وہ دین بھی گنوا بیٹھیں یعنی بعض غیر مسلموں نے ان کی دنیا چھینی ان سے بھاگے تو جو گود میسر آئی وہ بھی غیر مسلموں کی اور انہوں نے دین چھینے کی کوشش کی تو جماعت احمدیہ کو اس خدمت کی توفیق مل رہی ہے کہ حضرت اقدس محمد ی ﷺ کے نام لیواؤں کے لئے اپنی جانیں بھی پیش کر رہی ہے اپنے اموال بھی پیش کر رہی ہے اور ان کو ہر قسم کے بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے کوشاں ہے.اس ضمن میں ایک اور تحریک بھی کرنی چاہتا ہوں کہ چونکہ ان لوگوں کو ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے اور وردیوں وغیرہ کی اور بوٹوں کی اس قسم کی چیزوں کی بھی جو کچھ ہمیں یورپ سے میسر آتا ہے آرمی ڈپوز وغیرہ سے، ہم انشاء اللہ پہلے بھی بھیج رہے ہیں اور بھی لے کر بھجواتے رہیں گے لیکن ہتھیاروں کی سپلائی ہمارے بس میں نہیں ہے اور بعض ممالک میں وہ خلاف قانون بھی ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسلمان ملک جہاں بعض احمدی فوج سے ریٹائر ڈ ہوئے ہوں اور جہاں حکومت کی ہمدردی اور حکومت کی Blessing بھی ان کو شامل ہو.حکومت کے سائے تلے وہ آزادی کے ساتھ خدمت کر سکیں وہ ایسی پرائیویٹ ایسوسی ایشنز بنا ئیں جن میں بوسنیا کو ہتھیار مہیا کرنے کا پروگرام شامل ہو اور صرف اس میں احمدیوں کو مبر نہ بنائیں بلکہ غیر احمدی با اثر لوگوں کو بھی ممبر بنائیں یہ وقت ایسا نہیں کہ اس میں فرقوں کی تفریق کسی طرح بھی کام کی راہ میں حائل ہو.آپ پہل کر جائیں یہی آپ کا ثواب کافی ہے لیکن کثرت سے اپنے غیر احمدی ہمدرد بھائیوں کو ساتھ ملائیں ایسی ایسوسی ایشن قائم کریں جو حکومتوں سے بھی رابطے کرے اور دوسرے ایسے ذرائع سے جو غیر حکومتی ذرائع ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے ہتھیار مل جایا کرتے ہیں.ہتھیار لے کر پھر کوشش کریں کہ ان کو کسی طرح بوسنیا پہنچایا جائے یہ کام حکومت کی مدد سے ممکن ہے اور وسیع پیمانے پر ایسوسی ایشنز کے قیام کے ذریعہ یا مجالس کے قیام کے ذریعہ ایسا کیا جا سکتا ہے اور ضرور کرنا چاہئے.ہمارے جو وفود جا رہے ہیں باہر بوسنیا سامان لے کر اُن کے متعلق میں پہلے ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ جو حالات دیکھ کر آئے ہیں وہ لکھتے ہوئے بھی لکھتے ہیں کہ ہمیں پوری طرح لکھنے کی بھی طاقت نہیں ہے.کیسی بے سروسامانی کی حالت ہے اور کس قدر بھیا نک مظالم کا نشانہ ان کو بنایا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 145 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء گیا ہے.کہتے ہیں ایک جگہ ہم جب خدمت کر رہے تھے تو ایک معمر خاتون ہمارے پاس آ کے بیٹھ گئیں اور اپنے عزیزوں کی تصویریں دکھائیں جو سر بیا کے ظلم کی بھینٹ چڑھ چکے تھے ان کی آنکھوں سے تصویر میں دکھاتے ہوئے آنسو رواں تھے ہمارا دل بھی آنسو بہا رہا تھا کبھی بے بسی کا ایسا عالم نہیں ہوا جوان مظلوموں کو دیکھ کر ہوتا ہے.ان کی دلجوئی کی کوشش تو کی لیکن جب اپنا دل ہی تسلی نہ پاتا ہو تو ان کے زخم کیسے مندمل ہوں.انہوں نے بتایا کہ ان کے ٹاؤن کی آبادی چھ سات ہزار تھی اس خاتون کے سوا جو یہاں پہنچی ہیں ایک بھی زندہ نہیں بچا تمام کے تمام بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے یا گولیوں کا نشانہ بنائے گئے اور پھر بقیہ گاؤں کو تمام تر جلا کر خاکستر کر دیا گیا.انگلستان کی جماعت میں واٹفورڈ کی جماعت کا پہلا نمبر ہے کیونکہ یہیں سے اللہ کے فضل سے نہایت ہی مؤثر رابطوں کا آغاز ہوا تھا.جب پہلا وفد یہاں واٹفورڈ کی جماعت مسجد لنڈن میں لے کے آئی اور ہماری ملاقات ہوئی اور آپس میں بہت سی محبت اور پیار کی باتیں ہوئیں تو ایک معمر دوست نے کہا کہ بہت دکھوں میں سے میں گزر کر آیا ہوں ساری زندگی میری پڑی ہوئی ہے پیچھے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج یہ میری زندگی کا بہترین دن ہے اور ایک دوست بار بار کہہ رہا تھا خون کے متعلق تو میں نے کہا شاید ان کو خون چاہئے ، میں نے کہا خون بھی حاضر ہے ہمارا ، تو اس نے کہا نہیں تو مترجم نے سمجھایا کہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ خون ملائیں اور جس طرح دودھ بھائی ہوتے ہیں ہم دونوں خون بھائی بن جائیں.تو ان لوگوں میں محبت کے جواب میں بڑی محبت پائی جاتی ہے.تھوڑی سی آپ ان کے لئے قربانی کریں تو یہ آگے سے فدا ہوتے ہیں اور بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں اور خدا کے فضل کے ساتھ ان سے تعلقات کے نتیجہ میں آپ کے اخلاق بھی سدھریں گے کیونکہ ان میں بعض ایسی اخلاقی قدریں میں نے دیکھی ہیں جو جماعت میں بھی اس شان سے نہیں ہیں، اس کثرت سے نہیں ہیں.تو اللہ تعالیٰ توفیق دے اور یہ اس طرح ملیں کہ ہم ان کی بہترین چیزیں لے لیں اور یہ ہم سے بہترین چیز میں اور اسلام اور دین اور اس پر کیسے عمل کیا جاتا ہے.یہ باتیں بھی سیکھیں.لیکن میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدمت کو تبلیغ کا ذریعہ بنانے کی خاطر اختیار کرنا ظلم ہے.خدمت کے نتیجہ میں اگر دل مائل ہوں تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن تبلیغ کی خاطر خدمت نہیں کرنی کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں میں نے خدمت کا مضمون دیکھا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 146 خطبہ جمعہ ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء ہے کہیں بھی ایک جگہ بھی مجھے یہ بات دکھائی نہیں دی کہ تبلیغ کی خاطر اپنادین پھیلانے کی خاطر خدمت کرو، بلکہ خدمت کے ذکر میں دین کا ذکر ہی کوئی نہیں.تمام بنی نوع انسان کی بلا تمیز مذ ہب و فرقہ اور ملت رنگ ونسل ایک عام خدمت کا مضمون چلتا ہے اور بنی نوع انسان سے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی رحمت کا تعلق ہے یہ دراصل وہی مضمون ہے جو بیان کیا جاتا ہے آپ کو رحمة للمسلمين نہیں فرما يارحمة للمومنین نہیں فرمایا، رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: ۱۰۸) فرمایا ہے.پس یہ جو ابتدائی انسانی خدمتیں ہیں بلا تمیز مذہب وملت یہ محمد مصطفی ﷺ کی رحمت ہی ہے جس کے آپ آگے ساقی بنیں گے اس رحمت کے جام بھر بھر کے دنیا کو پلائیں گے.تو یہی وہ روح ہے جس کو آپ کو ضرور قائم رکھنا ہوگا.یہاں انگلستان ہی کی بات ہے کہ ایک موقع پر ایک کیمپ سے جماعت کا گہرا رابطہ تھا تو ان کو ایک پیغام ملا ایک اور مسلمان تنظیم کا کہ آپ ہم سے کیوں نہیں ملتے آپ ہمارے پاس تشریف لائیں.ان سے پوچھا کیونکہ وہ ان کے زیر احسان تھے ان کی شرافت تھی ، انہوں نے کہا آپ کی اجازت ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں، انہوں نے کہا شوق سے جائیں اگر کوئی اور وہ خدمت آپ کی کر سکتے ہیں تو بہت اچھا ہے اور ہم تو اس بات کو خدمت میں داخل ہی نہیں سمجھتے کہ مذہبی یا فرقے کی تفریق کی جائے.وہ گئے اور کچھ دیر کے بعد سخت نالاں ہو کے واپس آئے.انہوں نے کہا کیوں کیا ہوا ہے.جواب یہ دیا کہ جب ہم ان سے ملے ہیں تو جاتے ہی پہلے احمدیت کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور ہمیں سمجھانے لگے کہ یہ تو کافر ہیں تو ہم نے ان سے کہا کہ یہ اگر کافر ہیں.تو یہ کافر پھر اچھے ہیں کیونکہ آپ سے ملنے کے لئے انہوں نے ہمیں نہیں روکا اور آپ عجیب مومن ہیں کہ ان سے ملنے کے لئے روک رہے ہیں جو ہمیں آپ کے پاس بھیج رہے ہیں.یہ جو بائیکاٹ کا مضمون ہے اس قسم کا یہ ہماری سمجھ سے بالا ہے، اسلام کی طرف سے نہیں ہو سکتا اور واقعہ انہوں نے بہت گہری بات کی ہے.مسلمان ملاں کو کون سمجھائے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیوں سے بائیکاٹ کی تعلیم دی جاتی تھی آپ نے کبھی بائیکاٹ کی تعلیم کسی اور کے خلاف نہیں دی ،مومنوں کی آپس میں جب ناراضگی ہوئی یا غلطی ہوئی تو ایک دو موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے عارضی طور پر بائیکاٹ مومنوں کا کیا گیا کافروں کا یا غیر مذہب والوں کے بائیکاٹ کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا.پس ہم تو حضرت اقدس محمد ﷺ کے غلام ہیں ، بینگنوں کے غلام تو نہیں ہیں.اس لئے ہم تو آپ ہی کی سنت پر عمل کریں گے اور یہی سنت
خطبات طاہر جلد ۱۲ ہے جو زندہ رہنے کے لائق ہے.147 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء پس مسلمانوں کی دوسری تنظیمیں کئی ابھی تک کام کر رہی ہیں خاص طور پر بعض فلسطینی نظیمیں ہیں جو اللہ کے فضل سے بڑے اخلاص سے بہت ہی مستقل مزاجی سے خدمت کر رہی ہیں ان سب کے ساتھ ہمارا تعاون رہے گا اور جماعت کی طرف سے کم از کم کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی چاہئے جس کے نتیجے میں کسی قسم کی فرقہ وارانہ تفریق پیدا ہو یا اس کا وہم ہی دلوں میں پیدا ہو.ہاں جو خود پوچھے یا مذہب کی ضرورت کے لئے بعض چیزوں کی طلب کرے جیسا کہ لوگ پوچھتے ہیں قرآن کریم کا ترجمہ یا نماز کا ترجمہ وغیرہ وہ تو ہم بہر حال انشاء اللہ تعالیٰ پیش کریں گے.ایک اور خدمت جو جماعت بڑی عمدگی سے کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ مختلف کیمپوں میں مہاجرین کی لسٹیں بنا کر ان کا تبادلہ کیا جارہا ہے.میں نے یہ ہدایت کی تھی ابھی تک مجھے اس کی طرف سے پوری طرح تسلی نہیں ہوئی لیکن میں اسی غرض سے دوبارہ دہرا رہا ہوں کہ ہمیں جہاں جہاں بھی بوسنین ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی فہرستیں نام وار نہیں بلکہ گاؤں کے لحاظ سے اور علاقے کے لحاظ سے مرتب کرنی چاہئے اور پھر ان کو آگے اسم وار ترتیب دینا چاہئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہاں رابطوں میں دیکھا ہے کہ دس پندرہ بیس میل کے فاصلے پر ہی دو مختلف کیمپ ہیں ان میں بعض بچھڑے ہوئے موجود ہیں اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہم اتنے قریب ہیں.جب اسلام آباد میں پروگرام ہوا جس میں میں نے بھی شرکت کی تھی تو دو خواتین نے جو مختلف کیمپوں سے آئیں تھیں ایک دوسرے کو دیکھا تو خوشی سے ان کی چیچنیں ہی نکل گئیں ، دوڑ کر بغلگیر ہوئیں اور پھر ایک خاتون نے بتایا کہ ہم ایک ہی گاؤں کی ہیں قریبی رشتہ دار ہیں ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہم اتنے قریب آچکے ہیں تو اس پر میں نے جماعتوں کو ہدایت کی تھی کہ تمام کیمپوں سے جن سے بھی رابطہ ہے.وہاں کی فہرستیں تیار کریں دیہات کے لحاظ اور پھر اسم واران کو ترتیب دیں اور ان کا تبادلہ ہونا چاہئے تمام کیمپوں کے ساتھ.گویا آپ کے پاس ایک ڈکشنری سی بن جائے جب بھی کوئی مسلمان بوسنین مہاجر چاہے کہ اس کے کسی رشتہ دار کا پتا لگے کہاں ہے؟ تو وہ اپنا گاؤں تو جانتا ہے فوراً گاؤں کی فہرست دیکھ لے گا اور اس گاؤں کے جتنے بھی مہاجر کہیں موجود ہیں ان کی فہرستیں ہمارے پاس تیار ہوں گی.اس سلسلہ میں بعض جماعتوں کی طرف سے اطلاع مل رہی ہے انگلستان کی ایک جماعت نے بھی ابھی اطلاع دی ہے کہ خدا کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 148 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء فضل سے ہمیں موقع ملا ہے بہت سے بچھڑے ہوؤں کو اس رنگ میں ملانے کا.ایک جگہ ایک اور خبر بھی اس قسم کی آئی تھی وہاں بعض غیر احمدی و فودان بوسنین سے ملے جن کا ہمارے ساتھ تعلق تھا اور بہت لمبی تقریریں کی گئیں کہ یہ احمدی بالکل کافر، ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور فلاں حکومت نے یہ کیا ، فلاں نے یہ کیا.سب باتیں سن کر ان کو زیادہ تو نہ بات سمجھ آئی ہوگی اور انگریزی دان بھی بہت کم ہیں ان میں مگر جو جانتا تھا انگریزی اس نے ساری باتیں سنی اور آخری جواب صرف اتنا دیا Ahmadies very good Muslims جنہوں نے دیکھا آنکھوں سے کہ اچھے مسلمان ہیں وہ کانوں کی باتوں پر کیسے اعتبار کر جائیں گے جو آنکھ دیکھتی ہے اس کا اعتبار بہت زیادہ ہے اس کی نسبت جو کان سنتا ہے.ایک لیڈی ڈاکٹر کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا پہلے وہ مسلمان ہیں جنہوں نے ہمارے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن ساتھ ہی بڑے جذباتی رنگ میں کہا کہ آپ کا قصور ہے کہ پہلے کیوں نہ ہم تک پہنچے، ہم گرجوں سے وابستہ رہے اور سال کا پہلا دن معلوم ہوتا ہے اس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے.ایک گرجا میں گزارا، کاش آپ پہلے آئے ہوتے تو ہم مسجد میں جا کر وہ سال کا پہلا دن بسر کرتے.بہر حال ساری جماعت کو ان لوگوں کے حالات دنیا کے سامنے لاکر اور جو جو باتیں میں نے آپ کے سامنے نئی رکھیں ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر بڑی مستعدی کے ساتھ نئے منصوبے بناتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی خدمت کرنی چاہئے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ چونکہ اب خطبے براہ راست سنائے جاتے ہیں اس لئے اب وہ فکر نہیں رہی کہ منتظمین بات سنیں اور آگے نہیں پہنچا ئیں اور پانی کھیتوں تک پہنچنے کی بجائے کھالے ٹوٹ ٹوٹ کر ہی بہہ جائیں.اب تو اللہ کے فضل سے ایک ایک پودا نظر کے سامنے ہے اور میں ان کو اپنے ایمان اور محبت کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے براہ راست جسمانی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں تو اس کی بڑی برکت ہے.اتنی جلدی دنیا سے جواب آتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے ایک تحریک ہوئی اور فور آدنیا کے کونے کونے سے فیکسز آنی شروع ہو گئیں کہ ہماری طرف سے یہ حاضر ہے، یہ حاضر اور ہم یہ پروگرام بنا رہے ہیں اس سے پہلے مہینوں لگ جایا کرتے تھے اور اس کے باوجود بھی تسلی نہیں ہوتی تھی بھاری اکثریت ایسی تھی جس سے واقعۂ خلافت کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 149 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء رابطہ کٹا ہوا تھا اور اب جب یہ رابطہ قائم ہو رہا ہے تو حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں میں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ انشاء اللہ بعض پرانے صحیفوں میں یہ جو مضمون بیان ہوا ہے کہ آئندہ زمانے میں یہ ہونے والا ہے اس کا ذکر کروں گا.کسی دوست نے کہا کہ صحیفوں سے مراد تو الہی صحیفے ہوتے ہیں یہ بات درست نہیں.صحیفوں میں کتب اور رسائل بھی شامل ہیں اور الہی صحیفوں کو آسمانی صحیفے کہا جاتا ہے.چنانچہ میں نے بعض مستند لغت کی کتابیں دیکھی ہیں ان سے میری وہ بات درست نکلی ہے تو صحیفوں سے مراد یہ نہیں تھی کہ پرانی ایسی کتب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور کتاب نازل ہوئی ہوں ان کے حوالے دوں گا.میرے نزدیک مسلمان بزرگوں نے جو باتیں لکھیں جن کی پیشگوئیوں دراصل بعض الہی بشارتوں پر مبنی ہیں تو چونکہ ان میں آسمانی صحیفوں کا ایسا بھی رنگ پایا جاتا ہے اور بعض احادیث پر مبنی ہیں جو یقیناً آسمانی صحیفوں کا درجہ رکھتی ہیں.اس لئے میں نے وہ ذکر کیا تھا.چند پیشگوئیاں میں آپ کے سامنے رکھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباس پیش کروں گا.ایک مولانا شاہ رفیع الدین صاحب ابن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ایک کتاب ہے ” قیامت نامہ اس کے صفحہ چار پر جو مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوئی ہے.صفحہ چار پر یہ درج ہے کہ:.ود روق مت بید جت آوازی ازلا شور به مایس عبه مارت ه ناخلفية المله السهدی فاسعوالہ واطیعو وایس آواز خاص و عام آں مکان همه بشنوند ترجمہ اس کا یہ ہے کہ بیعت کے وقت آسمان سے ان الفاظ میں آواز آئے گی کہ یہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی بات غور سے سنو اور اس کی اطاعت کرو اور یہ آواز اس جگہ تمام خاص و عام سنیں گے.پھر مہدی موعود جلد سینز دہم بحارالانوار کے صفحہ ۱۱۸ پرجو علامہ مجلسی کی تصنیف ہے جس کا ترجمہ علی دوانی نے کیا ہے اور دارالکتب الاسلامیہ تہران ایران سے شائع ہوئی ہے اس میں لکھا.حضرت صادق امام جعفر صادق کے الفاظ ہیں یہ : ان قائمنا اذا قام مدالله فى اسماعهم وابصارهم حتى يكون بينهم و من القائمه بريريكلمهم فيسمعون وينظرون اليه وهو في مكانه ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 150 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء کہ ہمارے امام قائم جب معبوث ہوں گے.تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کے کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کو بڑھا دے گا یہاں تک کہ یوں محسوس ہو گا کہ گویا امام القائم اور ان کے درمیان کا فاصلہ ایک برید یعنی ایک سٹیشن کے برابر رہ گیا ہے.ڈاک کی جو منازل ہیں اس سے مراد برید ہیں.چنانچہ جب وہ ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور ساتھ دیکھیں گے بھی جبکہ وہ امام اپنی جگہ پر ٹھہرا ہی رہے گا تو یہ بھی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی اور بالکل واضح جو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پوری فرمائی ہے.اس میں خاص بات قابل ذکر یہ ہے کہ اس سے عام دنیا کی دید اور دنیا کی شنوائی مراد نہیں ہے.جو عام آنکھوں سے دیکھی جاتی ہے ورنہ حضرت امام جعفر صادق یہ نہ فرماتے کہ ہمارے گروہ کے کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کو بڑھا دے گا اللہ تعالیٰ.مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو تعلق رکھیں گے اور بات سننا چاہیں گے اور دیکھنا چاہیں گے.ان کو اللہ تعالیٰ توفیق دے دے گا کہ وہ دور بیٹھے ہی وہ دیکھ بھی لیں اور سن بھی لیں.تو ساری دنیا تو ان پروگراموں میں شامل نہیں ہو رہی لیکن وہ جو محبت کا تعلق رکھتے ہیں وہی آتے ہیں اور وہی سنتے ہیں.جو ہمارے گروہ کی بینائی کو بڑھانا بھی ایک لطیف اشارہ ہے.حضرت امام باقر نے فرمایا اور یہ المهدى الموعود المنتظر “ کتاب سے حوالہ لیا گیا ہے.الفاظ ان کے یہ ہیں: ينادى مناد من السماء باسمه المهدى فيسمع من بالمشرق و من بـالـمـغـرب حتى لا يبقى راقد الاستقظ (المهدى الموعود المنتظر عند علماء اہل السنۃ والا مامية الجزء الثانی صفحہ: ۳۴.مؤلفہ شیخ نجم الدین جعفر بن محمد العسکری دار الزھراء.بیروت ایڈیشن ۱۹۷۷ء) امام باقر نے فرمایا حضرت امام مہدی کے نام پر ایک منادی والا آسمان سے منادی کرے گا.اس کی آواز مشرق میں بسنے والوں کو بھی پہنچے گی اور مغرب میں رہنے والوں کو بھی ، یہاں تک کہ ہر سونے والا جاگ اُٹھے گا.اس میں ایک بڑی وضاحت ہے جس کو احمدی تو پہلے ہی جانتے ہیں، سمجھتے ہیں لیکن بعض جو دوسرے بعض مہمان آتے ہیں ان کی خاطر میں وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نعوذ باللہ مجھے نہ امام مہدی سمجھ لیں.حضرت امام باقر نے اس مضمون کو کھول دیا ہے کہ امام مہدی اور ہوگا اور وہ جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 151 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء منادی کرنے والا ہے وہ اور ہو گا اور وہ اس کے نام پر منادی کرے گا.چنانچہ میں نے بھی جب اس عالمی پروگرام میں شرکت کی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام دنیا تک پہنچایا نہ کہ نعوذ باللہ خود مہدی بن کر ظاہر ہوا.دراصل یہ پھل ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصاً پاکستان کے احمدیوں کے صبر کا ہے اور ان کی مسلسل قربانی اور جدوجہد کا اور راضی برضا ر ہتے ہوئے خدا تعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرنے کا پھل ہے.قید کی صعوبتیں جھیلنے کا پھل ہے.جان و مال، عزت کی قربانی پیش کرنے کا پھل ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونا مقدر تھا اور ضرور تھا کہ جماعت صبر کے امتحانوں میں ڈالی جاتی اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ یہ برکتیں بخشا.مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی حضور میرے واسطے دعا فرمائی جاوے کہ پیشتر تو میری زندگی اور رنگ میں تھی مگر اب جب سے میں نے علی الاعلان حضور کے عقائد کی اشاعت اپنا فرض مقرر کر لیا ہے تو میری برادری بھی مخالف ہوگئی اور درپئے آزار ہے اور عام طور پر لوگ بھی مجمعوں میں کم آتے ہیں.“ اس قسم کا ایک واقعہ حضرت اقدس محمد مصطفی میہ کے زمانے میں بھی ہوا.ایک صحابی نے عرض کی ! یا رسول اللہ آپ پر ایمان لانے سے پہلے میری اور شان تھی میں قبیلے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.کسی کی مجال نہیں تھی کہ میرے طرف انگلی اُٹھا سکے.اب تو گلیوں کے کمینے بھی مجھ پر باتیں کرتے ہیں.تو اسی قسم کے درد میں ڈوبے الفاظ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور اپنا حال پیش کیا تو آپ نے فرمایا." آپ صبر سے کام لیں اور استقلال رکھیں آپ دیکھ لیں گے کہ پہلے سے بھی زیادہ لوگ آپ کے مجمعوں میں جمع ہوں گے اور ساری مشکلات دور ہو جاویں گی.ایسی مشکلات کا آنا از بس ضروری ہے دیکھو امتحان کے بغیر کسی کی کچھ قدر نہیں ہوتی دنیا ہی میں دیکھ لو کہ پاسوں کی کیسی پوچھ ہوتی ہے کہ کیا پاس کیا ہے؟ پس جو لوگ خدائی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں پھر ان کے واسطے ہر طرح کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 152 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء لیا گیا ہے.آرام و آسائش رحمت اور فضل کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد نمبر ۵ صفحه: ۴۶۰) پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.خطبہ الہامیہ میں سے یہ اقتباس نزول کے لفظ میں جو حدیثوں میں آیا ہے یہ اشارہ ہے کہ مسیح کے زمانہ میں امر اور نصرت انسان کے ہاتھ کے وسیلہ کے بغیر اور مجاہدین کے جہاد کے بغیر آسمان سے نازل ہوگی اور مد بروں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اترے گا.انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازوؤں پر اس کا ہاتھ نہ ہوگا اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی.“ پس یا درکھیں جو کچھ اب رونما ہورہا ہے اور بہت بڑھ کر آئندہ بھی رونما ہونے والا ہے.یہ انسانی حیلوں اور چالا کیوں کے نتیجہ میں ہر گز نہیں ہے.یہ خدا کی تقدیر تھی جو آسمان سے بارش کی طرح نازل ہو رہی ہے اور ربوہ سے ہجرت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اسی قسم کے مضمون میں مجھے بھی یہ جماعت کو تسلی دینے کی توفیق بخشی کہ مولویوں کو مخاطب کر کے میں نے کہا تھا کہ تم خدا کے فضلوں کو ہم پر نازل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہو لیکن کبھی بارشیں بھی چھتریوں اور سائبانوں سے رُکی ہیں.یہ فضل تو اب پھیلیں گے اور ساری دنیا میں رحمتوں کی بارشیں ہوں گی اور تم نہیں روک سکو گے.تو مجھے بہت خوشی ہوئی یہ تحریر پڑھ کر کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے یہی نقشہ اسی طرح کھینچا تھا.فرمایا: ”...اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دم میں سب طرف چمک جاتی ہے...“ ٹیلی ویژن کے نظام کے ذریعہ آوازوں اور تصویروں کے پھیلنے کا کیسا خوبصورت نقشہ ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 153 خطبه جمعه ۱۹ر فروری ۱۹۹۳ء جو خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے جاری ہوا ہے.یہی حال اس زمانہ میں واقعہ ہوگا.پس سن لیں جس کو دوکان دیئے گئے ہیں اور نور کی اشاعت کے لئے صور پھونکا جائے گا.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو موجود تھے لیکن الہامی کلام تھا آپ کی شان جو دنیا میں پہنچنی تھی وہ بعد کے زمانہ میں جانی تھی.اس لئے اس زمانہ کی بات کر رہے ہیں.حالانکہ وہ زمانہ آپ ہی کا ہے تو فرمایا کہ.سن لے جس کے کان سننے کے ہیں جس کو دوکان دیئے گئے ہوں اور نور کی اشاعت کے لئے صور پھونکا جائے گا اور سلیم طبیعتیں ہدایت پانے کے لئے پکاریں گی اس وقت مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب کے فرقے خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے.“ خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳ ۲۸ تا ۲۸۵) پس یہ جو خدا کے فضل سے سعید روحیں مشرق اور مغرب شمال اور جنوب کی اس ذریعہ سے جو بجلی کی سرعت کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلتا ہے جمع ہورہے ہیں یہ الہبی نوشتوں کی باتیں ہیں.قرآن کریم کی پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہو رہی ہیں.یہ عجیب جمع ہے کہ زمانہ بھی جمع ہورہا ہے اور یہ زمانہ گزشتہ زمانوں سے بھی جمع ہورہا ہے اور جمعوں کے ذریعہ اس عالمی جمع کا عالمی انتظام فرمایا گیا ہے.اب دوستوں کے چند اقتباسات، جتنا وقت ہے میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں باقی پھر انشاء اللہ.ہندوستان سے ایک دوست لکھتے ہیں کہ ” آپ سے ملاقات کا ایک عجیب سا موسم شروع ہوا ہے “ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ان معنوں میں بہت پیارے انداز میں فرمایا ہے کہ موسم ہوتے ہیں.لوگوں کے آنے کے بھی اور جانے کے بھی.یہ جو فر مایا ہے تو خدا تعالیٰ محبت کے نتیجہ میں فصاحت و بلاغت عطا کرتا ہے.اب زیادہ پڑھے ہوئے دوست نہیں ہیں جن کا خط ہے.مگر دیکھیں کیسا پیارا فقرہ لکھا ہے.آپ سے ملاقات کا ایک عجیب سا موسم شروع ہوا ہے جس میں جوسرور ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ ایک لاہور کے نو جوان لکھتے ہیں کہ: 154 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء ”عالمی بیعت کے وقت آنکھوں سے آنسوؤں سے تر تھیں اور جسم پر کپکپاہٹ طاری تھی یوں لگتا تھا کہ جیسے اللہ تعالی تمام حجاب تو ڑ کر ہمارے جلسہ میں شریک ہے اس دن پوری دنیا گنگ تھی اور صرف خدائی بول رہی تھی.اس روز پروردگار نے ہماری پیاسی روحوں کی پیاس کو بجھا دیا اور بعض لکھتے ہیں کہ بجھا دیا اور پھر بھڑ کا بھی دیا ساتھ ہی.خطبہ ختم ہوتے ہی بجھی ہوئی پیاس دوبارہ بھڑک اُٹھتی ہے اور اگلے جمعہ کا انتظار شروع ہو جاتا ہے ایک دوست لکھتے ہیں.ڈش انٹینا کے ذریعہ خطبات سن کر اپنے اندر بہت تبدیلی محسوس کر رہا ہوں پہلے میں نماز اور تلاوت میں سست تھا اب باقاعدگی سے توفیق مل رہی ہے دینی کاموں میں بھی حصہ لینے لگا ہوں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مجھے گم شدہ چراغ مل گیا ہے.ماشاء اللہ اللہ کی شان ہے.ایک چھوٹے سے، سندھ کے قصبے سے خط آیا ہے اور زبان دیکھیں یہ ایمان او محبت کے اثر سے زبان زندہ ہوگئی ہے.ایک صاحبہ بھتی ہیں کہ : ہر جمعہ بچوں کو لے کر خطبہ سننے جاتی ہوں اب یہ جمعہ کا دن سب پروگراموں پر بھاری ہے میں جو جمعہ کے دن TV کا ڈرامہ دیکھنے کیلئے بے تاب ہوا کرتی تھی اب تو دل صرف خطبہ سننے کے لئے بے تاب رہتا ہے.ایک اور خاتون لکھتی ہیں کہ: ہم ٹی وی پر آپ کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آمنے سامنے ہی بیٹھے ہیں میرے خیال میں اس ڈش انٹینا نے ہم عورتوں پر سب سے بڑھ کر احسان کیا ہے اور معصوم بچوں پر خصوصی طور پر جن کو ہم آقا سے ملاقات کروانے کے لئے ترستے رہتے تھے اب یہ حضور اقدس کو دیکھ کر خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں اور ذرا شور نہیں کرتے اور مصروف عورتیں جو دن میں کئی مجبوریوں کی وجہ سے مسجد نہیں آسکتی تھیں وہ بھی رات کو مسجد میں باقاعدگی سے آتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جو ابھی تک اتنے سمجھ دار نہیں ہیں وہ حضور اقدس کو دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں اور خطبات لوری کا کام دیتے ہیں جو میٹھی نیند سلا دیتے ہیں اور مائیں پر سکون ہو کر خلیفہ وقت کے خطبہ سے مستفید ہوتی ہیں.مسجد میں پر رونق
خطبات طاہر جلد ۱۲ 155 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۹۳ء ہو گئیں ہیں اور کیا مرد کیا بچے، کیا عورتیں کیا بزرگ ایک نئے ولولہ سے زندہ ہو کر آنکھوں میں ایک نئی چمک لے کر واپس جاتے ہیں.سارا ہفتہ منتظر رہتے ہیں.واللہ کیسا پھل ملا ہے ہماری صبر آزما گھڑیوں کا.قریبی گاؤں کی عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں قافلے کی صورت میں احمدی آتے ہیں.کیا بتائیں ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے میرے چھوٹے بیٹے پر بھی خطبات دیکھنے کی وجہ سے آپ کی محبت کا عجب رنگ چڑھ گیا ہے.ہر وقت آپ سے ملنے کی تمنا ہوتی ہے روز پوچھے گا کہ آج جمعرات ہے.مطلب یہ ہوتا ہے کہ کل جمعہ ہوگا.بہت سے ایسے خطوط ہیں انشاء اللہ آئندہ پھر کبھی ان کے بعض اقتباسات پیش کروں گا اس میں ایک بات تھی جس کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا.کہتی ہیں کہ مسجد میں خدا کے فضل سے بھر جاتی ہیں.مسجدیں وہی ہیں جو خدا کے ذکر کی خاطر بھریں اور خطبہ سننے کیلئے جو آتے ہیں وہ خدا کے ذکر ہی کی خاطر آتے ہیں لیکن اگر صرف ذکر ہو اور اس ذکر میں شامل نہ ہوں اور آپ نہ آئیں تو یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہے یہ شرک ہو جائے گا.یہ خدا سے بے وفائی ہوگی اور مجھے ہرگز اس قسم کی کوئی محبت درکار نہیں ہے.ایسی محبت کرنے والے بھی اور ایسی محبتیں بھی میری طرف سے جہنم کا ایندھن بنیں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، دکھ ہو گا لیکن اس قدر نہیں ہے.تو خدا کے گھر بھرنے ہیں تو خدا کی خاطر گھر بھریں.ابھی رمضان شریف آنے والا ہے اور یہ عہد کریں سب سننے والے کہ مسجدوں سے محبت قائم کریں گے، مسجدوں سے تعلق قائم کریں گے.مجھے خوشی ہوگی کہ میں ایک ذریعہ بن گیا اس تعلق کو قائم کرنے کا، میں ایک وسیلہ بن گیا لیکن وسیلوں پر لوگ ٹھہر تو نہیں جایا کرتے ، ذریعوں کو منزل نہیں سمجھ لیا کرتے جہاں کسی نے ذریعہ کو منزل سمجھا تو وہیں ڈوب گیا.پس اپنے آپ کو غرقابی سے بچائیں.آپ کو زندہ کرنے کی خاطر یہ انتظام چلایا گیا ہے.آپ کو غرق کرنے کی خاطر نہیں چلایا گیا.پس خصوصیت سے رمضان میں دعائیں کرتے ہوئے عاجزی کے ساتھ ساتھ سر جھکاتے ہوئے داخل ہوں اور اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ تجھ سے جو تعلق بھی جس رنگ میں بھی قائم ہو جائے وہ پھر ہمیشگی کا تعلق ہو، ایک دائمی تعلق ہو.ایک عروۃ الوثقی پر ہمارا ہاتھ پڑ جائے.کسی کی مجال نہ ہو کہ ہمارے ہاتھ سے اس عروۃ الوثقی کو توڑ کر الگ کر سکے.اے خدا اپنا بنایا ہے تو ہمیشہ کے لئے بنا.بنا کر چھوڑ نہ دینا.خدا کرے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی سلوک ہو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
156 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 157 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء MTA کی برکت سے آج اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے.رمضان کی برکات کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُ بكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۴ ۱۸۷)
خطبات طاہر جلد ۱۲ فرمایا:.158 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء سورۃ البقرہ کی آیات ۱۸۴ تا ۱۸۷ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان کا تعلق رمضان سے اور رمضان کی عبادات اور اُن کے فوائد سے ہے لیکن ان کا ترجمہ پیش کرنے سے پہلے میں چند عمومی باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ہے.آج جمعے کی شکل میں وہ مبارک دن طلوع ہوا ہے جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو دین کی اشاعت کی راہ میں ایک اور سنگ میل رکھنے کی توفیق عطا ہوئی ہے اور ایک تیسر اسیٹلائٹ سٹیشن ہمیں ملا ہے جس کے نتیجے میں اب وہ حصے دنیا کے جن میں پہلے خلا تھا وہاں بھی اب خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی طرف سے اسلام کا پیغام صوتی اور نظری صورت میں پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جا سکتا ہے، سے مراد یہ ہے کہ پہنچ رہا ہے یعنی جس کے سننے کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی دیکھنے کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے، حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول میں بھی تمثیل بیان فرمائی گئی تھی وہ یہی تھی کہ جو مولوی سیڑھیاں لگائیں گے اُنہی کے پاس وہ آئے گا یعنی آسمان سے تو اترے گا لیکن کوئی سیٹرھیاں ہی نہیں لگائے گا، اپنا دل ہی پیش نہیں کرے گا تو کیسے اُس کے دل میں جاگزیں ہوگا.تو یہ مضمون بڑا دلچسپ مضمون ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ تو فیق کا تعلق ہے آج احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام یا احمدیت تو ایک ذریعہ اور شاخ ہے یوں کہنا چاہئے کہ اُس اسلام کا پیغام ہے جو قرآن کا پیغام ہے، اس اسلام کا پیغام ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پیغام ہے.وہ آج دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے.توفیق کی الگ بات ہے کسی کو توفیق ہے تو وہ سنے اور دیکھے جسے توفیق نہیں ہے تو اس کی تو فیق کو بدلنا بندے کا کام نہیں وہ تو اللہ کے اختیار میں ہے.مجھے یاد ہے جب میں وقف جدید اور خدام الاحمدیہ وغیرہ کے سلسلے میں پاکستان کے دیہات کے دورے کیا کرتا تھا اور بنگلہ دیش میں بھی جو اس وقت پاکستان کا حصہ تھا ، جاتا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ دوروں کے نتیجے میں جماعتوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوتا ہے اور تمام مرکزی نمائندگان کو خدا تعالیٰ نے یہ استطاعت بخشی ہے کہ جب وہ سفر کرتے ہیں دورہ کرتے ہیں تو جماعت میں ایک نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن میں نے بطور خاص اپنی ذات میں یہ محسوس کیا کہ چونکہ میرا خونی تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا اس لئے جماعتیں نسبتاً زیادہ اثر قبول کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 159 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء کے لئے تیار بیٹھی ہوتی تھیں.تو اثر کا تعلق محض اس آواز سے نہیں ہے جو پہنچ رہی ہے.اُن دلوں سے بھی ہے جو قبولیت کا مادہ رکھتے ہیں یا قبولیت کے لئے تیار ہوتے ہیں.پس دنیا میں پیغام پہنچانے میں دو پہلو ہیں.ایک وہ آواز جو پیغام پہنچاتی ہے اور ایک وہ دل جو اس آواز کی طرف مائل ہوتے ہیں یا اس کے خلاف منفی رد عمل دکھاتے ہیں.پس دوسرا پہلو جو ہے وہ دعاؤں سے حل ہوسکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی آواز تو وہی ایک ہی مقدس آواز تھی جو حضرت ابوبکر کے کان پر بھی پڑتی تھی ، حضرت علی کے کان پر بھی پڑتی تھی اور وہی آواز ابو جہل بھی سنتا تھا.عکرمہ اور شیبہ بھی مگر زمینیں مختلف تھیں.کچھ کانوں نے اُن آوازوں کو سنا اور دلوں نے قبول کیا اور دلوں میں جا گزین ہوگئیں، کچھ کانوں نے جھٹک دیا، کچھ آنکھوں نے دیکھنے سے انکار کر دیا ایسے وہ دل ہیں جن پر قفل پڑ جاتے ہیں ان قفلوں کا تو ڑنا بندے کے بس کی بات نہیں وہ تو اللہ کی تو فیق ہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جائے تو پھر یہ قفل ٹوٹتے ہیں تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ کو یہ خبر دے دی گئی خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ (القره ۸) اے محمد ان لوگوں کے دلوں پر مہریں ہیں ، آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے ، کانوں سے سن نہیں سکتے.تو پیغام پہنچانا تو آپ نے بند نہیں کیا، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ رہے بلکہ اتنی ہی زیادہ شدت کے ساتھ دعاؤں کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ حضرت محمد مصطفی حملے کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے آنکھوں کو دوبارہ نور بخشا ہے، جنہوں نے کانوں کو شنوائی کی طاقت عطا کی ہے وہ نہیں اس دنیا سے گزرے جب تک خدا تعالیٰ نے جو جو بیماریاں اس قوم کی بتائی تھیں اُن بیماریوں کو شفا نہیں بخش دی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ دلوں کے تالے ٹوٹ گئے ، جمود ختم ہو گئے ، ابو جہل کی اولاد سے آپ کے دین پر ، آپ کے نام پر جان نثار کرنے والے پیدا ہوئے.پس جب یہ مضمون بیان کیا جاتا ہے کہ بعض زمینیں سخت ہیں، بعض دل پتھر ہو گئے ، بعض آنکھیں اندھی ہیں ، بعض کان سننے کے قابل نہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ بندے کے بس کی بات نہیں ہے، تمہارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں مگر خدا کے پاس ہے.اللہ کی طاقت کے متعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ ایک نقشہ یوں بیان فرمایا کہ جس طرح دو انگلیوں میں ایک چیز پکڑی ہوئی ہو.ذرا سا بدلنے سے اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 160 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء کا رخ بدل جاتا ہے، دوبارہ کریں تو پھر اسی طرف پلٹ جاتا ہے.اس طرح خدا کے ہاتھ کی دوانگلیوں میں یہ انسان کا دل ہے.جب چاہے ان کا رخ جس طرف چاہے پھیر دے.(مسلم کتاب القدر ) پس یہ مضمون بتاتا ہے کہ اگر چہ اب خدا کے فضل کے ساتھ اسلام اور قرآن اور محمد رسول اللہ کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہی ہے مگر خدا ان دلوں کو سننے والے، قبول کرنے والے دل بنادے.ان کانوں کو سننے والے اور دلوں تک پیغام بھیجنے والے کان بنادے ان آنکھوں کو دیکھنے والی آنکھیں اور پھر اپنے ذہنی اور قلبی تصورات میں ان نقوش کو جما دینے والی آنکھیں بنا دے جو محمد رسول اللہ اللہ کے نقوش ہیں.ایسی صورت میں انشاء اللہ تعالیٰ پھر بڑی تیزی کے ساتھ دنیا میں اسلام پھیلے گا.پس اللہ تعالیٰ نے وہ تمنا کہ میں گاؤں گاؤں پہنچوں اس طرح پوری کر دی اور وقف جدید سے جو میراتعلق قائم ہوا اور پہلے نمبر پر مجھے رکھا گیا.اب میں سمجھتا ہوں کہ خدا کی نقد ی تھی ، میرے ذریعے ہی خدا نے یہ توفیق دینی تھی کہ میری تمنا ئیں پوری ہوں اور میں خود گاؤں گاؤں پہنچ جاؤں اور اس کا میں انتظار کر رہا تھا کہ ذرا اور زیادہ یہ باتیں پھیل جائیں تو پھر انشاء اللہ تربیتی مضامین کا سلسلہ شروع کیا جائے.پہلے بھی ایک لمبا سلسلہ تربیتی مضامین کا گزر چکا ہے مگر اکثر احمدیوں تک یا اُن جماعت سے باہر دوستوں تک جو ہمارے خطبات سنتے ہیں وہ نہیں پہنچ سکا اور ہر کوشش کے باوجود جماعت کی بھاری اکثریت ان سے محروم رہی.اس لئے بعینہ وہی تو نہیں لیکن مضامین کم و بیش وہی رہیں گے اور انشاء اللہ اس سلسلے کو دوبارہ مختلف رنگ میں جاری کیا جائے گا.ایک اور بات جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اب جتنے زیادہ سیٹلائٹس ہم استعمال کر رہے ہیں اتنا ہی زیادہ خرچ بڑھ رہا ہے اور جماعتیں اللہ کے فضل کے ساتھ اس فیضِ عام میں شامل ہیں خواہ وہ ایک آنہ بھی ادا کریں یا نہ ادا کریں.یہ تو اللہ کی طرف سے رحمت کی بارش کا سا حال ہوا کرتا ہے.بعض زمینیں اس رحمت کی حقدار ہوتی ہیں، بعض نہیں ہوتیں سب پر پڑتی ہے.تو یہ جو فیض ہے.آسمان کے ذریعے خدا کی طرف سے دین کی آواز پہنچانے کا فیض ، یہ تو عام ہے لیکن کچھ جماعتوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اس کا حق ادا کریں جو تربیت کے لحاظ سے اللہ کے فضل سے صف اول میں ہیں سر دست زیادہ بوجھ ان پر ہی پڑے گا.ان کو یہ بوجھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 161 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء خوشی سے اٹھانا چاہئے پھر جوں جوں تربیت ہوگی پھر اور مددگار ساتھ شامل ہونا شروع ہو جائیں گے.یہ پروگرام ایسے ہیں جنہوں نے ابھی بہت پھیلنا ہے.ابھی تو ایک جمعے کے اوپر ہماری توجہ ہے.زبانیں بڑھائی جا رہی ہیں پہلے صرف اردو اور انگریزی میں پیغام پہنچتا تھا اب عربی بھی شامل کر دی گئی ہے.Spanish بھی عنقریب شامل ہو جائے گی.جرمن اور روسی زبان میں انشاء اللہ ساتھ ساتھ تراجم شروع ہو جائیں گے.تو یہ نظام جب پوری طرح مستحکم ہو جائے گا اور اس حصے پر کاٹھی پڑ جائے گی تو پھر انشاء اللہ اور سواریاں بھی بنیں گی اور اور بھی انتظام چلیں گے.بعض دوست بڑے گھبرا گھبرا کر لکھتے ہیں کہ شاید آپ کی توجہ ادھر نہیں گئی.یہ بھی ہونا چاہئے وہ بھی ہونا چاہئے ، اس قسم کے پروگرام جاری ہونے چاہئیں ان کو میں مطمئن کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سارے پروگرام نہ صرف ذہن میں موجود ہیں بلکہ مختلف ذمہ دار آدمیوں کے سپرد ہیں ان کے اوپر وہ کام شروع کر چکے ہیں لیکن ایک گھنٹہ کا ایسا پروگرام جو تمام عالم میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ دکھایا جاتا ہو اس کی تیاری میں ایک گھنٹہ صرف نہیں ہوا کرتا اس کی تیاری میں بعض دفعہ سینکڑوں گھنٹے صرف ہوتے ہیں تو ان باتوں کو دوست پیش نظر رکھیں ،صبر سے کام لیں.خدا کی دی ہوئی توفیق سے اب یہ جو کام چلا ہے اس نے تو چلنا ہی چلنا ہے رکنے والا کام نہیں ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ پھیلے گا.اسی تعلق میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب بھی انسان نیکی کا کوئی قدم اٹھا تا ہے تو اس کے مقابل پر حسد پیدا ہوتا ہے اور حسد سے شرکا شرارہ نکلتا ہے جو ارد گرد ماحول میں آگ لگانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ تقدیر ہے مومنوں کی جسے ہم تبدیل نہیں کر سکتے.بعض لوگ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ کیوں اتنا زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی، کیوں تعلقات بڑھانے کی کوشش کی ، کیا عقل نہیں تھی کہ اس کا نتیجہ نکے گا اور حسد پیدا ہو گا اور شرارتیں پیدا ہوں گی.میں ایسے دوستوں کو، ایسے دانشور عموماً حالات گزرنے سے پہلے نہیں، حالات گزرنے کے بعد پیشگوئیاں کیا کرتے ہیں.ان کو بتا تا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ مجھے علم ہے بلکہ جب سے خدا تعالیٰ نے دنیا میں خلافتہ اللہ کا نظام جاری فرمایا ہے ہر خدا کے خلیفہ کو علم ہے اور وہ جو خدا کے خلفاء کے خلفاء ہیں جیسا کہ میں ادنیٰ انسان ہوں خدا کے خلیفہ کے خلیفہ کا خلیفہ ہوں.اس کو بھی علم ہے اور یہ وہ علم ہے جو زمانے کی پیدائش سے پہلے ہی لکھا جا چکا تھا.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ ذکر فرمایا کہ میں خلیفتہ اللہ بنانے لگا ہوں تو فرشتوں نے ادب سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 162 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء عرض کیا کہ اے خداوہ خلیفہ جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ غلط کہہ رہے ہو.خون نہیں بہایا جائے گا اور فساد نہیں ہو گا لیکن ان کی اس بات کو رد کر دیا ان معنوں میں کہ اُس کی ذمہ داری خلیفہ اللہ پر نہیں ہوگی ان لوگوں پر ہوگی جو اس کے مقابل پر آ کر فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو جب بھی نظام بدلے جاتے ہیں، جب بھی دلوں میں ایک وسیع تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جب بھی شیطان کی حکومت مٹا کر الہی حکومت کے قیام کا زمانہ آتا ہے تو لازماً دوسری طاقتیں ردعمل دکھاتی ہیں.اس کا یہ نتیجہ نکالنا کہ کوشش کرنی ہی نہیں چاہئے تھی جس کے نتیجے میں یہ ہو، اگر یہ نتیجہ نکالنا درست ہے تو پھر بھی خلافت کا آغاز ہی نہیں ہوسکتا تھا.خدا تعالیٰ کا پہلا خلیفہ جو خلیفہ اللہ کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی یعنی حضرت آدم علیہ السلام بحیثیت نبی اللہ، وہ ہی پیدانہ ہوتے اور پھر یہ خلافت حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات میں اپنی انتہا کو نہ پہنچتی ، اپنے منتہا کو نہ پہنچتی اور وہ کامل وجود پیدا نہ ہوتا جس کے مقابل پر تمام دنیا بیچ ہے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا لولاک لما خلقت الافلاک.(روح المعانی صفحہ جلد اول صفحہ :۷۰) اے محمد ! تیری قیمت میری نظر میں اتنی ہے کہ اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو ساری کائنات، ان زمانوں کو، میں پیدا نہ کرتا یعنی تو ماحصل ہے میرے تخلیقی نظام کا اور تمام تخلیقی نظام اس غرض سے بنایا گیا کہ بالآخر اسے وہ پھل لگے جس کا نام محمد ہے ہے تو یہ سارا دور جو گزرا ہے محمد یت تک کا دور یہ فساد اور خون کے رستوں سے گزرا ہے.جب حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا خون احد کی سرزمین میں گرا تو ہر قطرہ اس بات کا گواہ تھا کہ خلیفة اللہ اس خون کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ ظالم ذمہ دار ہیں جنہوں نے دنیا کے سب سے معصوم انسان کا خون بہایا ہے.پس فساد کو مٹانے کے لئے جب کوشش کی جاتی ہے تو فساد پیدا ہوتا ہے.جب خون بہانے کے رجحان کو توڑا جاتا ہے اور اس کا رخ بدلا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں پھر خون بہایا جاتا ہے اور ان دونوں صورتوں میں ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو محبت کا جواب نفرت سے دیتے ہیں، جو عقل کا جواب جہالت اور ظلم سے دیتے ہیں.وہ لوگ ذمہ دار نہیں جو پیار پھیلاتے ہیں، جو امن پھیلاتے ہیں، جو دنیا سے محبت کی باتیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسان انسان کے قریب آئے.پس نفرت کی تعلیم دینے والے اپنارد عمل ہمیشہ نفرت ہی میں دکھائیں گے.ہاں ایک حصہ ان میں سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 163 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء ایسا ہے جو محبت سے مغلوب ہوتا ہے اور ان کی زمین تھوڑی سی کٹ کر محبت کی زمین میں شامل ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے، کچھ قدم اور چل کر پھر ماحول بدلتے ہیں ، پھر ایک تنگی کا سامان پیدا ہوتا ہے، پھر اس تنگی سے ایک ٹیسر یعنی آسانی کی حالت پھوٹتی ہے.تو ہم نے جو سفر کرنا ہے یہ بہت لمبا سفر ہے.ساری دنیا کو تبدیل کرنا ہے، سب نفرتوں کو مٹا کر ان کی جگہ محبتیں پیدا کرنی ہیں اور ہر بے امنی کو ہٹا کر اس کی بجائے امن قائم کرنا ہے.یہ کوئی آسان سفر نہیں ہے ہمیں اس راہ میں قربانیاں دینا پڑیں گی.جب امن پھیلانے کی کوشش کریں گے تو لوگ ہمارے لئے بدامنی پیدا کریں گے.جب ہم یہ کوشش کریں گے کہ انسان دوسرے انسان کا خون بہانا بند کر دے تو لوگ کہیں گے اچھا! ہم تمہارا خون بہاتے ہیں پھر! کیونکہ خون بہانے کی عادت تو بڑی گندی ہے یہ تو پیچھا نہیں چھوڑتی.تو کسی نہ کسی کو تو قربانی کا بکرا بنایا ہی جاتا ہے.اس لحاظ سے وہ لوگ جو خوشی سے اپنی جانیں قربانی کے لئے پیش کرتے ہیں نہ کہ جان لینے کی خاطر بلکہ جانیں بچانے کی خاطر اپنی جانیں دیتے ہیں وہ لوگ ہیں جو خلیفتہ اللہ کے متبعین ہیں اور ان کا مقدر یہی ہے ، یہ تو جاری وساری ہے کوئی دانشور جتنی چاہے تنقید کرلے اس تقدیر الہی کو بدل نہیں سکتا جو خدا کے بندے ہیں وہ خدا کے بتائے ہوئے رستوں پر ضرور چلیں گے خواہ اس راہ میں کتنی ہی قربانیاں پیش کرنی پڑیں.لیکن دعا ضروری ہے.قرآن کریم نے جہاں حسد کا مضمون بیان فرمایا وہاں دعا سکھائی.فرمایا ایسے موقعوں پر تم دعاؤں کے ذریعے اس شر سے بچ سکتے ہو اور دعاؤں ہی کے ذریعے ان مخفی پلنے والے شروں کے شر سے بچ سکتے ہو جو تمہیں دکھائی نہیں دے رہے.کسی دل میں حسد پیدا ہوا اس کے نتیجے میں شر پیدا ہوئے ، ان شروں کے نتیجے میں آگ بھڑکائی جا رہی ہے.تم بیچاروں کو کیا پتا جو امن کے بندے ہو.جو محبت کے پیغمبر ہو تمہیں کیا پتا کہ نفرت کے پیغمبر تمہارے لئے کیا کیا سوچ رہے ہیں.اس لئے اللہ عَلِیمِ الْغَيْبِ (المومنون : ۹۳) ہے اس کی پناہ میں آؤ جس وقت تم اس کی پناہ میں آؤ گے اور یہ دعا کرو گے مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ (الفلق :۶) اے خدا جب بھی جہاں بھی کوئی حاسد حسد کے نتیجے میں شر پھیلانے کی کوشش کرے اُس حسد سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پھر ان دعاؤں کو قبول فرماتا ہے اور اپنے کمزور اور بے طاقت بندوں کی حفاظت کا انتظام فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 164 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء اب میں ان آیات کریمہ کا ترجمہ کرتا ہوں جو میں نے تلاوت کی تھیں اور ان میں رمضان المبارک کے بہت ہی گہرے اور بہت پر لطف مضامین بیان ہوئے ہیں.پہلے تو یہ فرمایا یا تھا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ کہ اے ایمان لانے والو یعنی وہ جو محمد مصطف اللہ پر ایمان لائے ہو تم پر اسی طرح روزے فرض کر دیئے گئے ہیں كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے.یعنی روزے کا مضمون ایک عالمی دینی مضمون ہے.ان مضامین سے تعلق رکھتا ہے جنہیں ہم ” كُتُبُ قَيْمَةٌ ( البينة: ۴) کہہ سکتے ہیں یعنی ایک ایسا مضمون ہے جس کا ہر مذہب سے تعلق ہے اور امر واقعہ یہ ہے جہاں تک میں نے نظر ڈال کر دیکھا ہے دنیا کے تمام مذاہب میں روزوں کا تصور ہے خواہ روزوں کی تعریف بدل جائے.کوئی چھوٹا روزہ، کوئی بڑا روزہ، کوئی آدھا روزہ کوئی مکمل روزہ لیکن روزہ ضرور پایا جاتا ہے کسی نہ کسی شکل میں.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ یہ اس لئے ضروری ہے تا کہ تم دنیا کے فسادوں اور نفس کے فسادوں سے بچ سکو.یہاں تَتَّقُونَ سے مراد تقویٰ کا آخری مضمون بھی لیا جا سکتا ہے لیکن ابتدائی زیادہ قرین قیاس ہے.روزہ اس لئے تمہیں دیا جاتا ہے تا کہ تم ہر شر سے بچو.کسی شر میں ڈالنے کے لئے روزہ نہیں رکھوایا جا رہا بلکہ مصیبتوں تکلیفوں اپنے اور غیر کے عائد کردہ ابتلاؤں اور عذابوں سے بچنے کے لئے یہ ایک ذریعہ ہے.فرمایا آیا ما مَّعْدُولت کہ لمبا عرصہ نہیں تھوڑے سے دن ہیں.ایک مہینہ ہے دیکھتے دیکھتے کٹ جائے گا.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ ہاں تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو فَعِدَّةٌ مِنْ آيَامٍ أُخَرَ ایسے شخص کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ روزے جو چھوٹ گئے ہیں بعد میں کسی دنوں میں رکھ لے.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکنین اور وہ لوگ جن کے متعلق فرمایا يُطيقُونَہ اس کے دو ترجمے ہیں، b ط يطيقُونَہ کا جو باب ہے وہ اجازت دیتا ہے کہ اس کا مثبت ترجمہ بھی کیا جائے اور منفی ترجمہ بھی کیا جائے.يُطيقُونَٹ کا ایک مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ جو اس کی طاقت رکھتے ہیں اور ایک مطلب یہ ہو گا کہ وہ لوگ جو اس کی طاقت نہیں رکھتے ، تو بیک وقت ایک ہی لفظ دو مختلف اور متضاد معنوں میں استعمال ہو رہا ہو تو وہ مضمون کے اوپر کیا اثر کرے گا.یہ دیکھنے والی بات ہے اور کس طرح دونوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 165 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء مضامین کا حق ادا کر دے گا.یہ قرآنی فصاحت و بلاغت کی ایک مثال ہے.آپ دیکھیں کہ کس عمدگی کے ساتھ ایک لفظ مثبت معنے بھی پورے کر دیتا ہے اور منفی معنے بھی پورے کر دیتا ہے.پہلے مضمون کے تعلق میں اگر ہم یہ ترجمہ کریں فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ تو ترجمہ یہ بنے گا کہ وہ لوگ جو سفر یا مرض کی بنا پر روزہ نہیں رکھ سکتے ، روزہ تو وہ بعد میں ضرور رکھیں گے مگر جو خلا محسوس ہوگا نیکی کا ایک نیکی کی توفیق کے دن آئے اور توفیق پا نہیں سکے.اس کا کیا علاج ہے فرمایا ہاں اگر ان میں طاقت ہو، مالی حیثیت ہو تو اپنی دل کی اور روحانی تسکین کی خاطر وہ غریبوں کو اتنا دے دیں یا اتنا کھلا دیں جتنا ایک دن کی ایک انسان کی غذا ہوتی ہے اور اپنی طاقت اور اپنی استطاعت کے مطابق ایسا کریں.اس میں يُطيقون کے مثبت معنوں میں پھر دوہرے معنے رکھتا ہے.مطلب یہ ہے کہ غریب کو طاقت کم ہے اگر غریبا نہ کھانا پیش کر دے اور اگر امیر کو طاقت زیادہ ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق کھانا دے.اس لحاظ سے وہ فدیہ جو مقرر کر دیا جاتا ہے ایک غیر حقیقی سی بات بن جاتی ہے.ایک اندازہ پیش کرنا تو جماعت کا حق ہے.یہ اندازہ پیش کر دے کہ ہمارے نزدیک اس ملک میں اوسطاً اتنے پاؤ نڈیا اتنے روپے پر ایک انسان کا گزارہ ہے اس لئے وہ ایک دن میں اپنے کھانے پر اتنا خرچ کرتا ہو گا لیکن قرآن کریم کا جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرے اور اپنی طاقت کے مطابق اپنے غریب بھائی کو کھانا کھلائے اور یہ طاقت اس کے درجات پر بھی حاوی ہے.کم درجے کی طاقت والا کم معیار کا کھانا پیش کرے، زیادہ درجے کی طاقت والا زیادہ معیار کا کھانا پیش کرے جو اچھا کھاتا ہے وہ ویسا ہی پیش کرے جو غریبانہ کھاتا ہے وہ ویسا ہی پیش کرے.تو فدیہ کی رقم کا جو اندازہ جماعت کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس سے دھوکا نہ کھائیں کہ بہت امیر آدمی جو عملاً اس مجوزہ رقم سے بہت زیادہ روزانہ اپنے او پر خرچ کرتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اتنی رقم اوپر پیش کر دی جائے تو کافی ہو گا.اپنا حقیقی اندازہ کریں جو اخراجات ان کے کھانے پر اٹھتے ہیں اس کی اوسط نکالیں اور پھر وہ پیش کریں اور احتیاطاً کچھ زیادہ کر دیں تو بہتر ہے.دوسرا فرمایا وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ کہ وہ لوگ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 166 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء جو اس کی طاقت نہیں رکھتے.فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْن.یہاں طاقت نہیں رکھتے کا مفہوم اَيَّامٍ أُخَرَ سے متعلق ہو جائے گا.مراد یہ ہوگی کہ ہم جو کہتے ہیں کہ جو مریض ہو یا سفر پر ہو وہ بعد میں روزے رکھ لے لیکن اگر کسی شخص میں بعد میں روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو.یعنی مرض لمبی ہوگئی اور دائگی بن گئی یا کوئی اور ایسی باتیں رستے میں حائل ہو گئیں.جن کے نتیجے میں بعد میں روزہ رکھنے کی توفیق نہ مل سکے تو فرمایا پھر ان کے لئے پھر یہ طریقہ ہے کہ وہ فدیہ دے دیا کریں.تو دیکھیں ایک ہی لفظ نے منفی اور مثبت معنے بیک وقت ادا کئے اور مضمون کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو گئے.پھر فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ له اس نے ، یہ مضمون جو میں بیان کر رہا ہوں ، اس کو مزید طاقت دی ہے.فرمایا فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ جوشخص طاقت رکھتا ہو اور خرچ کرے اور جو شخص بعد میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، اس لئے خرچ کرے ان دونوں مضامین کے بیک وقت بیان ہونے سے انسان کا مزاج اس طرف جا سکتا ہے کہ میں چونکہ بعد میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں اس لئے میرے لئے ضروری نہیں ہے کہ میں کسی غریب کو کھانا کھلاؤں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ضروری نہ بھی ہو.تو یہ بات سوچ لو فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ له کہ جب نیکیوں کی بات کی جاتی ہے تو عقل والے ضروری کی بحث میں نہیں پڑا کرتے.وہ جانتے ہیں کہ نیکی نیکی ہی ہے اس کا فائدہ ہی پہنچے گا اس لئے وہ ہمیشہ اپنے لئے احتیاطی پہلو اختیار کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ نیکی سے فائدہ ہی ہے.نقصان تو کوئی نہیں.اس لئے جو بھی خدا کی مراد ہے دونوں صورتوں میں اسے پورا کرنا چائے وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور پھر فرمایا کہ اگر تم روزہ رکھو تو یہ بہتر ہے یعنی فدیہ دینے کے باوجود پھر بھی روزہ رکھو اور فدیے کو روزہ کا بدل نہ سمجھو کیونکہ روزہ اپنی ذات میں جو فوائد رکھتا ہے فدیہ وہ فوائد نہیں رکھتا.اس لئے فدیے کو کسی طرح بھی روزے کا بدل نہ سمجھنا.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الهدی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا.اس پر مفسرین نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ سارا قرآن کریم تو رمضان کے مہینے میں نازل نہیں ہوا، آغاز ہوا ہے.اس کا جواب پہلے بھی میں خطبات میں دے چکا ہوں.یعنی مختلف مفسرین پہلے ہی یہ بات پیش کر چکے ہیں خود ہی کہ اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 167 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء دو طرح سے جواب ہیں.اول یہ کہ رمضان کے مہینے میں آغاز ہوا ہے نزول قرآن کا.دوسرا یہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہوا اور ہوتا رہا تو ہر رمضان پر حضرت جبرائیل حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا کرتے تھے اور جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا تھا اس کی دوہرائی کراتے تھے رمضان میں.یہاں تک کہ جب قرآن کا نزول مکمل ہو گیا، تو پھر جو رمضان آیا ہے اس میں پورا مکمل قرآن دو دفعہ دوہرایا گیا ہے ( بخاری کتاب فضائل القران حدیث نمبر ۴۶۱۴) تو أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ لفظا لفظاً بھی پورا ہوا ہے اور معنا بھی کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کا آغاز ہوا اور پھر ہر رمضان میں اس وقت تک جتنا قرآن نازل ہوا تھا سب دوہرایا جاتا رہا ہے.دوسرا ایک معنی یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ رمضان کے مہینے کا ایسا تقدس ہے اور اتنا عظیم الشان مہینہ ہے کہ گویا قرآن رمضان ہی کے بارے میں اتارا گیا ہے اور جو کچھ قرآن کے مضامین ہیں وہ رمضان پر صادق آجاتے ہیں.پس رمضان میں جو نیکیاں انسان اختیار کرتا ہے ان پر غور کر کے آپ دیکھیں کہ تمام انسانی صلاحیتوں سے تعلق رکھنے والی تمام نیکیاں رمضان کے مہینے میں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور ایسا کوئی اور مہینہ انسان پر نہیں آتا جس میں رمضان کی طرح نیکیوں کا اجتماع ہو اور بدیوں سے رکنے پر اتنا زیادہ زور دیا گیا ہو.پس یہ مضمون بھی بعینہ صادق آتا ہے کہ قرآن رمضان کے متعلق اتارا گیا ہے.اگر تم غور کرو گے تو رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کے تمام مضامین صادق آتے دیکھو گے.پس اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کا یہ دوسرا معنی اگر پیش نظر رکھا جائے تو اس مہینے کی عظمت بھی بڑی کھل کر انسانی ذہن پر واضح ہوتی ہے اور دوسرے اپنی ذمہ داریاں بھی انسان پر خوب کھل کر واضح ہو جاتی ہیں.یعنی سارے قرآن کے اوپر عمل کرنے کی کوشش ایک مہینے کے اندر اندر ایک غیر معمولی ایکسر سائز، Intense Exercise کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے ایک ایسی جدو جہد اور کوشش ہے جو ساری زندگی کا خلاصہ ہے اور اس ورزش سے گزرنے کے بعد انسان کی صحت ہر پہلو سے، خدا کے فضل کے ساتھ پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر جاتی ہے.چنانچہ قرآن رمضان میں اتارا گیا اور رمضان کے بارے میں اتارا گیا.یہ بات کن معنوں میں ہے.قرآن کریم خود اس کی تشریح فرماتا ہے.قرآن کیا ہے هُدًى لِلنَّاسِ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 168 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے وَبَنْتِ مِنَ الھدی اور ہدایت میں سے ایسی خصوصیت کے ساتھ ، ایسی ہدایت کی باتیں جو غیر معمولی شان کے ساتھ کھل کر دنیا کے سامنے ابھرتی ہیں یعنی ایسی ہدایت جو تمام دنیا میں روشنی پیدا کر دیتی ہے، ان کے سارے شک دور کر دیتی ہے، ان کے سارے تو ہمات کے اندھیرے زائل کر دیتی ہے.بَنتِ مِنَ الھدی سے مراد وہ ہدایت ہے جو انسان کا دماغ اور اس کا دل روشن کر دے.پھر فرمایا وَ الْفُرْقَان اور ایسی ہدایت جو فرق کر کے دکھلا دیتی ہے جو خدا کا ہے وہ خدا کا ہوا ہوا دکھائی دیتا ہے.خدا کا بندہ بن کر غیر اللہ سے الگ ہو جاتا ہے اور جو غیر اللہ کا ہے وہ الگ ہو جاتا ہے اور پہچانا جاتا ہے کہ یہ کون ہے.پس رمضان کے مہینے میں قرآن کریم اپنی یہ تینوں شانیں دکھاتا ہے.عام انسانوں کے لئے درجہ بدرجہ ہدایت بخشتا ہے، ہدایت کے سامان فرماتا ہے اور زیادہ ترقی کرنے والوں کے لئے ہدایت میں سے بینات ان کو عطا کرتا ہے اور بینات کے نتیجے میں فرقان پیدا ہوتی ہے.جب روشنی ہو تو فرق ہوا کرتے ہیں.کالے گورے کی تمیز اندھیرے میں تو نہیں ہوا کرتی.روشنی ہو تو ہوا کرتی ہے.تو فرمایا کہ ایسے لوگوں کو فرقان نصیب ہوتی ہے وہ گویا کہ خود فرقان بن جاتے ہیں قرآن کی برکت سے تو قرآن کی یہ تین صفات ہیں جو رمضان کے مہینے میں خدا کے بندوں میں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں یا قرآن کریم کی یہ تین صفات ہیں جن سے خدا کے بندے رمضان میں بطور خاص استفادہ کرتے ہیں.فرمایا فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْۂ اس سے پہلے بھی حکم گزر چکا ہے لیکن وہ حکم عمومی تھا.ہم نے پہلوں پر بھی فرض کیا تھا ان کے فائدے کے لئے تھا.تم جانتے ہو کہ کوئی تعلیم عالمی تعلیم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے اندر غیر معمولی اہمیت نہ پائی جائے.پس خدا نے جب تمام دنیا میں ہر شریعت میں رمضان رکھا روزے رکھے تو اس میں ضرور حکمت کی بات ہے کوئی فائدے کی بات ہے.پس بغیر کسی تردد، بغیر کسی مزید سوال کے تم بھی اس مہینے سے فائدے اٹھاؤ یہ مضمون تھا.اب ان فوائد کوکھول دیا گیا اور خوب روشن کر دیا گیا کہ وہ کتنے عظیم الشان، کیا کیا فوائد ہیں.اب جو تکرار ہے یہ پہلے حکم کے مقابل پر زیادہ قوت رکھتی ہے اور انسان پر حجت تمام کرتی ہے.اس مضمون کو پڑھنے کے بعد پھر جب حکم آتا ہے کہ اچھا! روزے رکھو تو کسی انسان کے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑتا.یہ حکم کسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 169 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء انسان کے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑتا کیونکہ روزے کی حکمتیں ، اس کے فوائد خوب کھول کر بیان فرما دیئے گئے ہیں.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ بس جس کو بھی توفیق ملے کہ وہ رمضان کا - پس مہینہ دیکھے اسے چاہئے کہ اس میں روزے رکھے.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ پس جو بھی کوئی مریض ہو اور سفر کی حالت میں ہوا سے بعد میں یہ روزے پورے کرنے ہوں گے.یہ تکرار کیوں ہے؟ کیا بعینہ وہی مضمون دوبارہ بیان ہو گیا ہے یا فرق ہے.اس میں دو باتیں ایسی ہیں جو پہلے سے فرق رکھتی ہیں.ایک میں ابھی بعد میں بیان کروں گا ایک یہ ہے کہ اتنے فائدے سننے کے بعد اب نفس یہ بہانے نہیں بنائے گا کہ میں تو مریض ہوں اس لئے یہ چھوڑ دوں، میں مسافر ہوں اس لئے چھوڑ دوں بلکہ یہ بہانے بنائے گا کہ مریض ہوتے ہوئے بھی پھر میں روزہ رکھوں.سفر میں ہونے کے باوجود بھی میں روزہ رکھوں اور خدا تعالیٰ نے اس بات کو توڑنے کے لئے اس مضمون کی تکرار فرمائی ہے کہ دیکھو تمہیں اب رمضان کے فوائد تو خوب سمجھ میں آگئے ہیں اب رمضان کی حرص کے نتیجے میں یہ نہ سمجھنا کہ مریض ہوتے ہوئے بھی روزہ رکھو گے تو یہ ثواب کا موجب ہے یا سفر کی حالت میں بھی روزہ رکھو گے تو ثواب کا موجب ہے.اللہ نے رخصت عطا فرمائی اس لئے رخصت سے فائدہ اٹھانا بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ایک حصہ ہے، ایک اظہار ہے تو اصل ثواب اطاعت میں ہے نہ کہ ظاہری مشقت میں.ظاہری مشقت ہرگز مراد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا مراد ہے تو ہم نے جب تمہیں رمضان کے فائدے بتا دیئے تو تم میں سے بعض خوب جوش دکھا ئیں گے اور کہیں گے اچھا جی ! اب ہم نے نہ سفر میں چھوڑنا ہے نہ مرض میں چھوڑنا ہے.جان جائے تو جائے روزہ نہیں چھوڑنا اور ایسے لوگ ہوتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض سفر سے آنے والوں کا روزہ ایسی حالت میں تڑوایا جبکہ ابھی نصف گھنٹہ صرف سورج ڈوبنے میں باقی تھا.ان کو یہ تعلیم دینے کی خاطر کہ اپنے اوپر سختی اختیار کرنے میں کوئی رضا نہیں ہے.جہاں خدا چاہے کہ اپنے او پرختی اختیار کرو وہاں اپنے او پرسختی اختیار کرنا نیکی بن جاتا ہے جہاں فرمائے کہ سختی نہ اختیار کرو وہاں سختی نہ اختیار کرنا نیکی بن جاتا ہے.نیکی صرف اپنے محبوب کی رضا کا نام ہے.اس مضمون کی خاطر اس کو دوہرایا گیا ہے اور ایک اور پہلو سے اس مضمون پر روشنی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 170 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء ڈالی گئی ہے.چنانچہ معاً بعد یہ بات کھول کر رکھ دی فرمایا يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسر تمہیں وہم ہے کہ خدا تعالیٰ کسی پر سختی ڈالے تو اس کو ثواب دیتا ہے.اللہ تو اپنے سب بندوں کے لئے آسانی چاہتا ہے اور سختی میں کوئی نیکی نہیں ہے.جس کا مطلب یہ ہے اگر وہ بختی برداشت کرنے کا ارشاد فرماتا ہے تو اس کے ساتھ کوئی آسانی وابستہ ہوئی ہوئی ہے اس سختی کو اختیار کئے بغیر وہ آسانی حاصل نہیں ہو سکتی سختی بذات مقصود ہوا نہیں کرتی.اس مضمون کو بہت اچھی طرح ذہن نشین کرنا ضروری ہے ورنہ نیکیوں کی صحیح تعریف انسان کو معلوم نہیں ہوسکتی.دیکھو اسی جگہ جہاں فرمایا کہ سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنا بعد میں رکھ لیا کرنا اور مرض کی حالت میں روزہ نہ رکھنا بعد میں رکھ لیا کرنا اس کے ساتھ یہ فرما دیا يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تم پرسختی نہیں چاہتا نرمی چاہتا ہے.اس میں ایک اور بھی ضمناً بات بیان فرما دی اس کو بیان کرنے کے بعد میں دوبارہ پھر اس مضمون کی طرف آتا ہوں.وہ یہ فرمایا ہے کہ یہ وہم ہوسکتا ہے کہ کن دنوں میں رکھیں.سخت گرمی کے روزے انسان کے چھوٹ گئے ہیں اور اب وہ کیا سخت گرمیوں کا انتظار کرے کہ اتنی گرمیاں آئیں ویسی شدت کے روزے آئیں تو پھر میں رکھوں.یہ آیت بتاتی ہے کہ ان وہموں میں مبتلا نہ ہونا سختی فی ذاتہ مقصود نہیں ہے.اللہ کہتا ہے عدت پوری کرو جب بھی توفیق ملے عدت پوری کر دو، اگر سردیوں میں ملتی ہے تو سردی میں پوری کردو کیونکہ نیکی تو رضائے باری تعالیٰ کے کمانے کا نام ہے.سختیوں میں سے گزرنے کا نام نیکی نہیں ہے.اب جو دوسرا پہلو ہے وہ یہ ہے کہ جب خداعسر نہیں چاہتا ئیسر چاہتا ہے تو پھر ہمیں عسر میں ڈالا کیوں ہے؟ اس بات کو یا درکھیں جہاد کا مضمون بھی اس میں داخل ہے.ہر قسم کی محنت اور مشقت کا مضمون اس کے اندر آ جاتا ہے جس کی تعلیم خدا تعالیٰ دیتا ہے اور جس کے نتیجے میں انسان کو اپنے اوپر کئی چیزیں حرام کرنی پڑتی ہیں کئی جائز چیزیں چھوڑنی پڑتی ہیں اور کئی قسم کی ایسی تکلیفیں طوعی طور پر نیار کرنی پڑتی ہیں جن کی مجبوری نہیں ہے.خود اپنی عقل کے فیصلے کے مطابق جہاں اسے اختیار ہے کہ چاہے تو سختی اختیار کرے چاہے تو نہ کرے.وہ بختی کو اختیار کرتا ہے اللہ کی رضا کی خاطر.تو خدا نے پھر کیوں سختی فرض فرما دی؟ جب یسر چاہتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام کا ئنات میں بعض آسانیاں بعض مشکلات کا پھل ہیں.ایک زمیندار جب محنت کر کے فصل کاشت کرتا ہے پھر سارا سال اس کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 171 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء حفاظت کرتا ہے تو یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر بغیر محنت کے بھی اُسے وہ چیز نصیب ہو سکے تو ضرور محنت کرے.بعض دفعہ بعض حالات میں ایک زمیندار کو زیادہ کڑی محنت کرنی پڑتی ہے.سخت سردی میں اس کو صبح صبح اٹھنا پڑتا ہے جب کو راجم رہا ہو اس وقت کھیتوں میں پانی دینا پڑتا ہے بعض دفعہ اسی کام کے لئے اس کو بہت کم محنت کرنی پڑتی ہے.اچھے موسم میں صبح نکلنے کو ویسے ہی انسان کا دل چاہتا ہے لطف اٹھاتا ہے انسان تو سختی فی ذاتہ مراد تو نہیں ہوتی.کوئی زمیندار کہے کہ نہیں ، چونکہ میں نے زیادہ سختی نہیں کی اس لئے مجھے پھل کم ملے گا.جتنی سختی آسانی کے لئے ضروری ہے عقل کا تقاضا ہے.اتنی ہی سختی کی جائے اور خدا تعالیٰ اس سے زیادہ بختی انسان پر نہیں ڈالتا.ہر سختی کے نتیجے میں ایک آسانی ہے اور وہ ضروری ہے کہ اس سختی سے گزرا جائے اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الم نشرح: ۷) بظاہر اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے.ہر عسر کے بعد ایک آسانی ہے، ہر عسر کے بعد ایک آسانی ہے.لیکن اگر بنظر غور دیکھیں تو ہر عسر مراد نہیں ہے.بعض تو میں سختی کی چکی میں پیسی جاتی ہیں.وہ شدائد اور مصائب کا شکار ہو کر پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی آسانی بعد میں نہیں آتی.تو الْعُسْرِ سے مراد یہاں وہ عسر ہے جس کی قرآن نے تعلیم دی ہے وہ عسر جو خدا کی رضا کی خاطر اختیار کیا جاتا ہے.وہ بختی جو انسان خدا کی خاطر جھیلتا ہے ہر وہ بنتی جس کا شریعت سے تعلق ہے اس کے متعلق لازماً یہی قانون ہے اور کوئی اس کو بدل نہیں سکتا فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الم نشرح : - ) یاد رکھو جتنی پابندیاں تم پر لگائی گئی ہیں، جتنی سختیاں تم پر عائد کی گئی ہیں ان میں سے ایک بھی بے فائدہ نہیں ہے.ہر ایک کا فائدہ ہے، ہر ایک کے نتیجے میں تمہیں آسانیاں نصیب ہوں گی.پس یہی وہ مضمون ہے جس کو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ عر کبھی بھی اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کا مقصود نہیں رہا کہ سختی کی خاطر سختی ڈالو بلکہ آسانی پیدا کرنا ہے جہاں آسانی سختی کے راستوں سے گزرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے وہاں تمہیں سختی سے گزارا جائے گا.اگر ایک بچے کو سکول بھیجے بغیر وہ تمام تعلیم ودیعت ہو جائے جو سکول جانے کے نتیجے میں آتی ہے تو کسی ماں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ صبح صبح اٹھائے ،خود مصیبت میں مبتلا ہو، اسے مصیبت میں مبتلا کرے اور روزانہ سکول بھی بھیجے اور اُس کے خرچ بھی برداشت کرے.اگر گھر بیٹھے ایک صبح اُسے سب کچھ مل جائے اور علم اور ذہن روشن ہو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 172 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء جائیں تو کوئی ماں اس مصیبت میں نہیں پڑے گی.مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ تکلیف کے بعد جو خوش منظر اُس کے سامنے رہتا ہے جو اعلیٰ فوائد اس کو دکھائی دے رہے ہوتے ہیں ان فوائد کی خاطر ماں بچے کو تکلیف میں ڈالتی ہے اور اگر ایسی تکلیف میں ڈالے جس کا فائدہ کچھ نہ ہو تو وہ جہالت ہے.پس اس مضمون کا اس سے بھی تعلق ہے جو میں نے پہلے بیان کیا.ہمیں جب خدا تعالیٰ ایک کامیابی کے بعد کچھ تکلیفوں میں پڑنے دیتا ہے اس کے نتیجے میں حسد بھی پیدا ہوتے ہیں اور کئی قسم کی مشکلات اور روکیں کھڑی ہو جاتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ روکیں پیدا کرنا مقصود نہیں تھا.ان روکوں کے نتیجے میں خدا کی خاطر تمہیں جو دکھ ملتے ہیں پھر اور تمہارے دل ایک قسم کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ یہ اچھی پاگل دنیا ہے کہ ہم نے ان کے لئے نیکی کی یہ آگے سے نفرتوں سے جواب دے رہے ہیں.ہم ان کی بھلائی چاہتے ہیں یہ پاگل ڈنڈے لے کر ہمارے پیچھے پڑ گئے.ہم پیار اور محبت کا پیغام دیتے ہیں.یہ گالیاں دیتے ہیں تو فرمایا کہ یہ جو نسر پیدا ہوا ہے.اگر تم دعائیں کرو گے تو یہ عسر پھر یسر میں بدلے گا کیونکہ یہ ٹھسر خدا کی خاطر ہے.پس وہ سر جو تم خود قبول کرتے ہو اللہ کی رضا کی خاطر وہ بھی ایک عسر ہے جس کے بعد ییر پیدا ہوگا اور وہ محسر یعنی تنگی اور مصیبتوں کا زمانہ جو تم پر غیر کی طرف سے ٹھونسا جاتا ہے اور تمہاری اس کوشش کے نتیجے میں تمہیں مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ تم مصیبتیں دور کرنا چاہتے ہو.تم لوگوں کے آرام کے سامان کرتے ہو وہ تمہیں دکھ دینے کے درپے ہو جاتے ہیں.اس کے نتیجے میں بھی خدا کا وعدہ ہے کہ اگر تم دعا کے ذریعے مجھ سے مددلو گے تو میں اس عسر کو بھی آسانی میں تبدیل کر دوں گا.فرمایا وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى مَا هَدُ بِكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ یہ اس لئے ہے.لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ہم نے سختی کی خاطر تمہیں روزے دوہرانے کا حکم نہیں دیا.یہ عام مضمون دوبارہ شروع ہو رہا ہے بلکہ عدت جو ہم نے مقررفرمائی ہے وہ ضرور پوری کرنی ہے.اگر ۲۹ روزے فرض ہوئے ہیں تو ۲۹ پورے کر کے دکھانے ہیں تم نے بچنا نہیں.اگر ۳۰ پورے ہیں تو پھر ۳۰ پورے کرنے ہوں گے.وَلِتُكَثِرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُكُمْ تا کہ تم اس ہدایت کے نتیجے میں جو تمہیں اس کے نتیجے میں نصیب ہوگی اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرو وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور پھر تم خدا کے شکر گزار بندے بنو.شکر گزار انسان تب بنتا ہے جب اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 173 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء فائدے کا مزا اٹھاتا ہے.اس میں ایک یہ وعدہ ہے کہ جب تم روزوں میں سے گزارو گے تم میں سے بعض مشکل محسوس کریں گے ، بڑی تنگی محسوس کریں گے کہ کس مصیبت میں پڑ گئے اور بہت سے لوگ ہیں جو جتنا رمضان قریب آتا ہے اتنا ڈر رہے ہوتے ہیں.آگئے نا پھر وہی دن.وہ بختی کے دن، روز صبح اٹھنا، روز صبح کھٹے ڈکار، گرمی ہو تو پیاس، سردی ہو تو بھوک، کن کن مشکلوں میں سے ہم نے گزرنا ہے.آدھی راتوں کو ہم نے اٹھنا ہے.وہ دن آرام کے ختم ، عیش کی راتیں ختم.یہ سوچیں لے کر رمضان میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں.لیکن جو خدا کی خاطر برداشت کرتے ہیں وہ شکر ساتھ ساتھ کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہر رمضان گزرنے کے بعد ان کا نفس گواہی دیتا ہے وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس رمضان کا ان کو بہت فائدہ پہنچا ہے.بے وجہ کی چر بیاں جو چڑھا بیٹھے تھے سستیوں میں.وہ جھڑ جاتی ہیں اور گناہوں کی میل جو چڑھ گئی تھی اور چھٹی بیٹھی تھی.وہ اترنے لگتی ہے اور بعض انسان چتکبرے بن کر نکلتے ہیں.یعنی ایک انسان بہت دیر سے نہایا نہ ہو، تو اس کے اوپر میل اور گند اس طرح چمٹ جاتے ہیں کہ جب وہ نہانے کے بعد تولیہ پھیرتا ہے تو کہیں سے میل اترتی ہے کہیں سے چھٹی رہتی ہے لیکن جتنا بھی بدن صاف نظر آنا شروع ہو جائے شکر ہی پیدا ہوتا ہے.تو وہ لوگ جو چتکبرے بن کر نکلتے ہیں وہ بھی شکر کر رہے ہوتے ہیں کہ شکر ہے کوئی گند تو ہٹا.ہم نے اپنی جلد کی اصل صاف صورت تو دیکھ لی.کس طرح ہم پیدا ہوئے تھے.یہ حسین فطرت ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا تھا.ہر مولود جو فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کا کچھ نظارہ تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور پھر مزید کی تمنا پیدا ہو جاتی ہے.کچھ ایسے ہیں کہ جن پر تھوڑے سے داغ لگے ہوتے ہیں اور وہ دھل کر صاف ہو کر نو زائیدہ بچے کی طرح جیسے وہ ابھی ماں کے پیٹ سے معصوم پیدا ہوا ہو اس طرح رمضان میں سے گزرتے ہیں اور ان کا رد عمل شروع سے شکر کا ہی ہوتا ہے.رمضان پاس آ رہا ہوتا ہے تب بھی وہ شکر گزار ہو رہے ہوتے ہیں.یہ جانتے ہیں کہ رمضان اگر فرض نہ ہوتا تو اس کے فائدے دیکھنے کے باوجود ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے ان فائدوں سے محروم رہتے.جیسا کہ سارا سال گزر گیا.اور اللہ کی شان ہے ہم جانتے ہیں کہ فائدہ مند ہے.ہمیں شوق بھی ہے ان فائدوں کا لیکن انسانی کمزوری راہ میں حائل تھی.اللہ نے فرض کر کے زبردستی ان سے گزار دیا.تو وہ بھی شکر کر رہے ہوتے ہیں.پس شکر کا مضمون بتاتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 174 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء کہ ہر ایک کو اپنے فوائد دکھائی دینے لگتے ہیں.پھر فرمایا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبُ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم.یہ نام بیچ میں مضمر ہے سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِي قَرِيب جب میرے بندے تجھ سے یہ سوال کریں کہ میں کہاں ہوں؟ تو ان کو بتا دو کہ میں قریب ہوں أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ جب بھی مجھے کوئی پکارنے والا پکارتا ہے میں اس کی آواز کا جواب دیتا ہوں.فَلْيَسْتَجِيبُوانی پس ان کو بھی چاہئے.ایسے لوگوں کو میری بات کا بھی تو جواب دیا کریں.یہ تو نہیں کہ یکطرفہ سلسلے محبت کے چلیں.ان کو مصیبت پڑے، مشکل میں مبتلا ہوں.وہ آواز دیں کہ اے خدا ! کر دے یہ کام اور میں فوراً دوڑا دوڑا جاؤں اور یہ کام کر دوں.جب میں ان کو بچانے کے لئے آوازیں دوں کہ آگ کے گڑھے میں نہ پڑو، فلاں خطرے سے بچو.فلاں نقصان سے بچنے کی کوشش کرو.تو وہ پیٹھ پھیر کر اپنے نقصانات کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں اور میری آواز کا جواب نہ دیں.یہ نہیں ہوسکتا.فرماتا ہے میں قریب تو ہوں لیکن اُس شخص کے قریب ہوں جو میرے قریب رہتا ہے.جو میری باتوں کا جواب دیتا ہے میری باتوں پر عمل کرتا ہے.جو مجھ سے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اس کے میں قریب نہیں ہوں وہ تو فاصلے خود بڑھا رہا ہے.میرے اور اپنے درمیان.پس فَانّي قَرِيبُ کا مضمون یہ بیان فرما کے پھر فرمایا وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پس چاہیے کہ وہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.یہاں اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ایک تو اس کا تعلق براہ راست رمضان سے بھی ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِي قَرِيبٌ یہ سارا مضمون رمضان کا بیان ہو گیا.اس کی اصل جزا کیا ہے.یہ شکر تک بیان ہوا ہے کہ شکر تو کرتے ہیں لیکن جزا کی تفصیل نہیں بیان ہوئی تھی.اب دیکھ لیں اتنی بڑی نیکیاں ہیں اور جزا کی کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی حالانکہ اس سے پہلے جو معمولی سی نیکیوں کا بھی ذکر اور جہاں قرآن کریم میں ملتا ہے وہاں جزا کی بہت تفصیل بیان ہوتی ہے.ہدایت اور بینات اور ھدی اور الفرقان کا قرآن کے حوالے سے ذکر ہے.ہم نے تفصیلاً یہ معنے کئے اس مہینے سے جب وہ گزرتے ہیں تو انہیں یہ چیزیں نصیب ہوں گی مگر یہ تو خود نیکیاں ہیں جزا تو نہیں.ایک معنے میں جزا بھی ہیں لیکن فی ذاتہ نیکیاں ہیں جن کی جزاملنی چاہئے.تو جزا کا کوئی ذکر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 175 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء نہیں نظر آیا.یہ آیت بتاتی ہے کہ خدا جزا ہے رمضان کی اور یہ وہ نیکی ہے جس کے نتیجے میں خود اللہ تعالیٰ جزا بن جایا کرتا ہے فرمایا فَانِي قَرِيب “ وہ مجھے اپنے قریب دیکھیں گے.پس وہ لوگ جو رمضان میں سے گزر جاتے ہیں اور نیکیاں اختیار کرتے ہیں مگر خدا کو قریب نہیں پاتے ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے.ان کو اپنے متعلق غم لگا لینا چاہئے ، فکر لگا کے بیٹھ رہنا چاہئے کہ ہم نے کیا کیا.سارا مہینہ سختیاں جھیلیں اور ٹیسر پھر بھی نہ آیا.ہم خدا کے قریب ہونے کی کوشش کرتے رہے مگر خدا آج بھی ہم سے دور ہے اور وہ فاصلے پائے نہیں گئے.پس رمضان کی صداقت کا اعلان ہے اور اس کی پہچان ہے.اگر رمضان سچا گزرا ہے تو اس طرح پھر رمضان اپنی جزا دیا کرتا ہے اور اگر رمضان سچا گزرا ہے تو اس کی جزا ضرور خدا ہوگا اور تم خدا کو اپنے پاس دیکھو گے.فَلْيَسْتَجِيبُوا پھر وہ زیادہ اس بات کے اہل ہوں گے کہ خدا کی آواز پر لبیک کہہ سکیں کیونکہ جب ایک دفعہ پھل چکھا دیا جائے تو دوبارہ محنت کرنے کی صلاحیت پہلے سے بڑھ جایا کرتی ہے.جو مقصد تھاوہ حاصل ہوا، نظر آیا کہ اب خدا قریب آ گیا ہے فَلْيَسْتَجِيبُوا کا ایک یہ بھی مطلب ہے.جب وہ مجھے قریب دیکھیں گے تو پھر میری باتیں زیادہ غور سے سنیں گے.پس یہ ایسا مضمون ہے جو دونوں طرح عمل دکھلا رہا ہے.بہت ہی خوبصورت مضمون ہے فَلْيَسْتَجِيبُوا ایک شرط ہے کہ میں قریب ہوں گا.میں دعا کا جواب دوں گا شرط یہ ہے کہ تم بھی تو میری باتوں کا جواب دیا کرو اور ایک مضمون یہ ہے کہ جب میں قریب آ جاؤں گا.رمضان کی محنتوں کے نتیجے میں فَلْيَسْتَجِيبُوالی اب تو ان پر فرض ہو جائے گا کہ ضرور میری باتوں کو دھیان سے سنیں اور ان کا مثبت جواب دیا کریں.پہلے اگر غفلتیں ہوتی تھیں تو اب اس غفلت کا کوئی جواز باقی نہیں رہا.وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور مجھ پر ایمان لائیں.اب بظاہر ایمان پہلے ہوتا ہے یہ پھر کس ایمان کا ذکر ہے.قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی ایمان کے بعد پھر ایمان کا ذکر ہے.جیسا کہ فرمایا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت (المائده:۹۴) جب وہ تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ثُمَّ اتَّقَوْا وَامَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا قَ اَحْسَنُوا.پھر وہ تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور پھر ایمان لاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان اور ایمان میں بھی فرق ہے.ایک ایمان ہے دور کے خدا پر.اس خدا پر ایمان نہ ہو تو کوئی پاگل تو نہیں جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 176 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء روزے رکھے.روزے رکھتا ہی تب ہے جب دور سے ایک مجمل سے خدا پر ایمان ہے.جب روزے رکھتا ہے تو وہ خدا قریب آجاتا ہے اور قریب سے دیکھنے پر جوایمان پیدا ہوتا ہے،اس کا مزا ہی اور ہے، اس کی لذت ہی اور ہے.اس کے نتیجے میں استجابت بھی پیدا ہوتی ہے اور استجابت کے نتیجے میں پھر ایمان بڑھتا ہے.پس یہ وہ رمضان کا مضمون ہے جو قرآن کریم میں ان چند آیات میں بیان فرما دیا اور سارا مہینہ ہمیں ان مضامین میں سے گزارتا ہے.اس کے باقی حصے انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں بیان کروں گا.(السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانہ )
خطبات طاہر جلد ۱۲ 177 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء بوسنیا کیلئے مالی قربانی کی تحریک اور احباب جماعت کا والہانہ لبیک، رمضان اسوہ رسول کی روشنی میں گزاریں ( خطبه جمعه فرموده ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.سنت سے ثابت ہے کہ آنحضرت یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے اور ضرورت مندوں پر شفقت کرنے میں تمام دوسرے متقیوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے اور آپ کی انفاق فی سبیل اللہ کی مثالیں اتنی تھیں کہ جیسے سُبک رفتار سے بادِ صبا چلتی ہو رحمتوں کا پیغام لے کر آتی ہو اور جہاں سے گزرے وہاں سے پھول کھلا دے.رمضان المبارک میں راوی بیان کرتے ہیں کہ اس ہوا میں مزید تیزی پیدا ہو جاتی تھی.(بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۶۹) جیسے ہم جانتے ہیں کہ برساتی ہوائیں خاص جوش اور مہندی کے ساتھ چلتی ہیں.اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رحمت اور شفقت على الناس غیر معمولی تیزی اختیار کر لیا کرتی تھی.وہی سنت آپ کے وقت سے آج تک مسلمانوں میں جاری وساری ہے اور وہ لوگ جو بالعموم غربا پر خرچ کرنے کی عادی نہیں بھی ہوتے.رمضان مبارک میں کچھ فرض نیکیوں کے بنا پر ، کچھ رمضان کے مبارک کے ماحول سے اور سنت کی یاد سے متاثر ہو کر وہ بھی اپنے دل، اپنے ہاتھ غریب بھائیوں کے لئے کھول دیتے ہیں.جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے اس سنت کی بہت ہی اخلاص کے ساتھ پابند ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں شاذ ہی کوئی ایسی جماعت ہوگی جو من حیث الجماعت اس قدر اہتمام کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر انفاق فی سبیل اللہ کے نمونے دکھاتی ہو اور رمضان المبارک میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 178 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء جس میں غیر معمولی تیزی نہ آجاتی ہو.چنانچہ بوسنیا کے لئے جو میں نے تحریک کی تھی اس میں رمضان سے ذرا پہلے کی بات ہے.رمضان کے مہینے میں اُس نے میری مدد کی اور اللہ کے فضل سے جماعت نے جس رنگ میں اُس پر لبیک کہا ہے وہ قابل رشک ہے اور باقی سب دنیا کی ان جماعتوں کے لئے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، انسانی ہمدردی میں خرچ کرنا چاہتی ہیں ایک نمونہ ہے.اُس کے علاوہ اس مہینہ میں میں جانتا ہوں کہ انفرادی طور پر بھی اور خاندانی طور پر بھی اور جماعتوں کے اجتماعی طور پر بھی غریب بھائیوں کی بہبود پر بہت کچھ خرچ کیا جاتا ہے.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ یہ خرچ محض اللہ ہو اور اللہ کی رضا کے سودے کئے جائیں، نہ کہ نفس کی انا کے اور جو کچھ بھی ہو خدا کی خاطر ہو بندوں کو دکھانے کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا جیتنے کی خاطر ہو.مختصر میں بوسنیا کی تحریک سے متعلق چند اعداد و شمار رکھتا ہوں تا کہ وہ جماعتیں جو ابھی تک اس قربانی میں پوری طرح شریک نہیں ہو سکیں.اُن کو بھی ایک تحریک پیدا ہو اور باقی اپنے دوسرے بھائیوں سے آگے بڑھنے کی روح ان کے اندر بھی جولانی دکھائے جب سے میں نے یہ اعلان کیا کہ باقی دوسرے متمول صاحب حیثیت دوستوں کے لئے تحریک کی خاطر میں اپنا وعدہ ایک ہزار پاؤنڈ سے بڑھا کر چھ ہزار پاؤنڈ کرتا ہوں.اللہ کے فضل سے ہر طرف سے اس اعلان پر بہت ہی مثبت نتائج کی اطلاع مل رہی ہے.سب سے پہلے انگلستان کی احمدی مخلص خاتون نے خطبہ جمعہ سنتے ہی اُسی وقت چھ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ اپنی طرف سے اور بچوں کی طرف سے کیا اور ادا کر دیا اور پھر ماریشس سے ایک مخلص احمدی دوست کی فیکس فورا ملی کہ وہ اپنے اور بزرگوار کی طرف سے بارہ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کرتے ہیں.پھر پاکستان میں سب سے پہلے راولپنڈی پاکستان سے لبیک ہوئی اور ایک مخلص احمدی ڈاکٹر نے چھ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ بھی پیش کیا اور ادائیگی بھی کر دی.پھر ایک اور احمدی ڈاکٹر کی طرف سے بھی اسی طرح وعدہ ہوا.پھر کراچی جماعت سے متعدد احباب کے وعدے اور وصولیوں کی اطلاع ملی.بعض نے چھ چھ ہزار کے وعدے کر کے ادائیگی کی بعض نے 12 ہزار کی بھی کی اور ایک خاندان کے تین افراد نے چھ چھ ہزار یعنی -/18000 کے وعدے کئے.یہاں تک مجھے یاد ہے کہ ادائیگی اُس خاندان نے بھی کر دی.اب تک یہ رقم بڑھ کر 2,10,000 پاؤنڈ تک پہنچ چکی ہے اور یہ وعدے نہیں ہیں بلکہ وصولیاں ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کیونکہ اس تحریک میں الا ماشاء اللہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 179 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء جس نے وعدہ کیا اُس نے فوراً ادا ئیگی بھی کر دی.یہ جو فہرست ہے، انفرادی جنہوں نے چھ ہزار یا بعض نے بارہ ہزار یا کسی نے دس ہزار ، وعدے کئے ہیں.اس کی تعداد 14 بن جاتی ہے اور وہ جماعتیں جنہوں نے چھ ہزار کے مجموعی وعدے یا ادائیگیاں کی ہیں اُن کی تعدا د سر دست 5 ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پاکستان میں تو انفرادی طور پر وعدہ کرنے والوں کی بھاری تعداد ہے.4 بیرون پاکستان سے ہیں اور 10 پاکستان سے لیکن جماعتی لحاظ سے بھی خدا کے فضل سے پاکستان کا وعدہ بہت آگے نکل چکا ہے.جن جماعتوں نے چھ ہزار یا اس کے لگ بھگ ادا کرنے کی توفیق پائی ہے اُن میں کینیڈا کی طرف سے جن کا 10 ہزار کا وعدہ تھا 6,022 کی ادائیگی ہو چکی ہے.امریکہ کی طرف سے 6737 کی ، بنگلہ دیش کی طرف سے 6,195 کی، سوئٹزر لینڈ کی طرف سے 6,000 اور جاپان کی طرف سے 6000.دنیا کی جماعتوں میں فہرست اولیت کے اعتبار سے یعنی آگے بڑھنے کے اعتبار سے ساری تو میں پیش نہیں کر سکتا لیکن چند ایک نام دعا کی تحریک کی خاطر پیش کرتا ہوں.پاکستان کی طرف سے اب تک 62692 پاؤنڈ کی ادائیگی ہو چکی ہے اور برطانیہ کی طرف سے 45297 پاؤنڈ.اس میں سے بہت بڑی رقم وہ ہے جو احباب اور خواتین نے خود مجھے دی اور میری وساطت سے آگے مرکز میں پہنچی ہیں لیکن اس میں وہ زیور شامل نہیں ہیں جو خواتین پیش کر رہی ہیں اور مجھے یاد ہے کہ جس طرح پہلی تحریک میں یہاں خواتین نے زیور پیش کرنے کا حیرت انگیز نمونہ دکھایا تھا اب وہی نظارے اُس سے ملتے جلتے پھر دکھائی دینے لگے ہیں.امریکہ، جرمنی کی باری اُس کے بعد ہے اُن کی طرف سے 44758 پاؤنڈ کی ادائیگی ہو چکی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کینیڈا ، امریکہ، سوئٹزر لینڈ وغیرہ ان سب کی باری بعد میں آتی ہے.تعجب کی بات ہے کہ بنگلہ دیش جس پر بہت زیادہ مالی بوجھ ہے اور چونکہ وہاں مسجد میں جلائی گئیں اور بھاری نقصان جماعت کو پہنچا اور بڑی قربانی کی روح دکھاتے ہوئے خدا کے فضل سے اپنی ضائع شدہ نقصان والی جائیداد کو بحال کیا، بہت خرچ کیا اور بہت محنت کی لیکن اس تحریک میں فوری طور پر اُن کی طرف سے 6000 پاؤنڈ سے زائد کی وصولی کی اطلاع ملی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دے اور اُن کے اموال میں اور بھی برکت دے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 180 خطبه جمعه ۵ / مارچ ۱۹۹۳ء زیوروں کا پیش کرنا خدا کے فضل سے ایک اپنا اثر رکھتا ہے اور جب کوئی خاتون عموماً خواتین کو زیوروں سے پیار ہوتا ہے، بڑی محنت سے، بڑے شوق سے بناتی ہیں.جب کوئی خاتون اپنا زیور پیش کرتی ہیں تو دل پر جو اُس کا اثر ہے، وہ ایک خاص اثر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ اثر پیش کرنے والے کے دل پر ہوتا ہے.لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (النساء:۹۲) قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم نیکی کو پا نہیں سکتے جب تک وہ چیز خرچ نہ کرو جس سے تمہیں محبت ہو کیونکہ خدا کی محبت کی خاطر خرچ کرتے ہو اور اگر محبوب چیز پیش نہیں کرو گے تو کیا پتا کہ تمہیں خدا سے کیسی محبت ہے؟ تو نیکی کی ایسی پیاری تعریف فرما دی جو میرے علم کے مطابق کسی اور مذہب میں نہیں ملتی.نیکی ہے ہی وہی کہ خدا کی راہ میں وہ پیش کرو جس سے تمہیں محبت ہو.تو عورتوں کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ انسانی تعلقات کے بعد زیور سے محبت رکھتی ہیں اور اس کا کسی قوم سے تعلق نہیں سب دنیا میں ایک ہی حال ہے.ان کا زیور پیش کرنا لازماً زیور سے بہت بڑھی محبت کے نتیجے میں ہوسکتا ہے.پس جب وہ زیور پیش کرتی ہیں خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو خالصہ اللہ کی محبت میں ایسا کرتی ہیں.اُس کے نتیجے میں اُن کے دلوں میں جو پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اُس کی کوئی قیمت نہیں ، کوئی مول نہیں ڈالا جاسکتا.ایسا زیور پیش کرنے والیاں ایسی لذت محسوس کرتی ہیں کہ پھر بعد میں پچھتاتی نہیں ہیں کہ ہم نے کیوں پیش کر دیا اور بعد میں یہ تمنا رکھتی ہیں کہ کاش دوبارہ ہو تو پھر پیش کریں.چنانچہ اس کی ایک مثال میں لندن کی ایک خاتون کے خط سے پیش کرتا ہوں.وہ لکھتی ہیں کہ دوماہ قبل مجھے تحفہ میں زیورات دس چوڑیاں، اُس کے علاوہ ایک سیٹ ملے تھے جو بھجوا رہی ہوں.اس سے قبل بھی عاجزہ اپنا سارا زیور کسی تحریک میں دے چکی ہے.خدا کا احسان ہے کہ اُس نے پھر مجھے یہ زیور دیا اور پھر مجھے اس قربانی کی توفیق عطا فرمائی کہ زیور کو ضرور قبول فرمائیں.عاجزہ کا شکریہ.تو اس جذبے سے جماعت احمدیہ کی خواتین اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کر رہی ہیں اور چونکہ رمضان کے مہینے میں خصوصیت سے یہ قربانیاں پیش کی جارہی ہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ رمضان کی برکتوں میں سے بھی یہ قربانی پیش کرنے والے بہت زیادہ حصہ پائیں گے.اب رمضان المبارک سے متعلق بعض دوسری نصائح آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 181 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء سلسلہ چل رہا تھا کہ رمضان کی برکات کیا ہیں، رمضان سے کیا فوائد وابستہ ہیں، کس طرح انسان کو اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے ، اس ضمن میں چند احادیث نبویہ آپ کے سامنے تشریحات کے ساتھ رکھتا ہوں.حضرت امام بخاری کتاب الصوم باب هل يقال رمضان او شهر رمضان - اس باب میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں.یہاں ترجمہ کرنے والے نے غالباً غلط ترجمہ کیا ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے یہی تو بحث امام بخاری نے اٹھائی تھی.رمضان کو رمضان کہا جائے یا رمضان کا مہینہ کہا جائے.اُس بحث کے حل کے طور پر یہ حدیث لے کے آئے ہیں.اور جس کے الفاظ یہ ہیں کہ اذا جاء رمضان فتحت ابواب الجنة كہ جب رمضان آجائے تو پھر جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.یعنی حضرت رسول اکرم ﷺ اسے لازماً رمضان کا مہینہ نہیں کہا کرتے تھے بلکہ رمضان نام ہی اس مہینے کا ہے.بہر حال مراد یہ ہے کہ اُن کو تو اس بات سے غرض تھی اس وقت امام بخاری کو کہ یہ ثابت کریں کہ اکیلا رمضان کہنا درست ہے یا غلط یا رمضان کا مہینہ کہنا ضروری ہے.لیکن جو بات اس حدیث میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ قیمتی ہے.رمضان کو رمضان کہیں یا رمضان کا مہینہ کہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے.اب جہاں تک بوسنیا پر ظلم کرنے والے شیطانوں کا تعلق ہے وہ تو جکڑے نہیں گئے.یہاں تک دنیا کے مشرقی اور مغربی ممالک میں خدا تعالیٰ سے بغاوت ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ کے فرمودات سے اور انسانی قدروں سے بغاوت ہو رہی ہے اور ہر جگہ انسانیت کے نام پر بہیمیت کے کھیل کھیل رہی ہے اُس میں تو کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی.خود مسلمان ممالک میں بھی ہر شخص نہ روزے رکھتا ہے، نہ روزے کے دوران روزے کے حقوق ادا کرتا ہے، نہ روزے کے بعد روزے کے حقوق ادا کرتا ہے.بعض ممالک میں رواج یہ ہے کہ ساری رات گانے کی مجالس لگتی ہیں ، ناچ گانا ہوتا ہے اور خوب عیش و عشرت کے نظارے دکھائی دیتے ہیں اور پھر سحری کے وقت کچھ کھا کر روزہ شروع کر دیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 182 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء جاتا ہے تو یہ شیطان کی قید کے کوئی نمونے نہیں ہیں.پھر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی کیا مراد ہے کہ شیطان قید کر دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں اور ظاہر بات ہے کہ یہی معنی ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو رمضان سے فائدہ اٹھائے اور اٹھانا چاہے اُس کے لئے خدا تعالیٰ یہ سامان فرماتا ہے، اُس کی غیر معمولی مددفرماتا ہے.عام حالات میں بدی سے بچنے کی اتنی توفیق نہیں مل سکتی جتنی رمضان کے مہینے میں مل سکتی ہے.کم سے کم چوبیس گھنٹے میں سے آدھا دن تو باندھا جاتا ہے اور جب وہ بدیوں سے باندھا جاتا ہے تو حقیقت میں اُس کا شیطان باندھا جاتا ہے.ہر انسان کے اندر ایک نفس امارہ اور ایک شیطان ہے جب اُس کے ہاتھ باندھے جائیں تو شیطان باندھا گیا ہے.اُس کوز نجیریں پہنا دی گئیں تو انہی زنجیروں کی یاد اُس کو روزے کے بعد بھی بدیوں سے باز رکھتی ہے.ان معنوں میں جو شخص رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کی خاطر بدیوں سے رکنا چاہے اور نیکیوں میں آگے بڑھنا چاہے اُس کے لئے یہ مہینہ یہ پیغام لاتا ہے کہ شیطان کے ہاتھ باندھ دیئے گئے اور نیکیوں میں ترقی کے نتیجے میں جنت کے دروازے کھول دیئے گئے.بدیوں سے رکنے کے نتیجے میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے گئے.یہ تو اُس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو فائدہ اٹھانا چاہے اور جو مسلمان اس مہینے سے گزرتا ہے اور نہ اُس کا شیطان باندھا جاتا ہے ، نہ اُس کے جہنم کے دروازے بند ہوتے ہیں، نہ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھلتے ہیں.اُس کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے کہ خدا کی طرف سے بخششوں کا موسم بھی آیا، اصلاح نفس کے حالات سازگار کئے گئے اور اس کے باوجود کچھ بدنصیب ایسے ہیں جن کے جہنم کے دروازے اُسی طرح کھلے رہ جاتے ہیں اور جن کے شیطان کو ہتھکڑیاں نہیں پہنائی جاتیں.پس اس میں مسلمانوں کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے کہ عام حالات میں بدیاں بُری بات ضرور ہیں لیکن رمضان کے مہینے میں بدی اختیار کرنا ایک غیر معمولی بُرائی بن جاتی ہے اور نیکیوں سے محرومی اس مہینے میں عام محرومیوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے.ایک اور جگہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بھی بخاری کتاب الصوم سے حدیث لی گئی ہے.عن ابی هریره رضی الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال عزوجل : كل عمل ابن ادم له الا الصيام فانه لى و انا اجزی به (بعض روایتوں میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 183 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء اجزی به کا ذکر ملتا ہے.) والصيام جنة فاذا كان يــوم صــوم احدكم فلايرفث و لا يصخب فان سابه احد او قاتله فليقل: اني صائم والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك.للصائم فرحتان يفرحهما، اذا افطر فرح و اذا لقى ربه فرح بصومه بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۷۱) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اللہ عز وجل فرماتا ہے کل عمل ابن آدم له انسان کا ہر عمل اُس کی خاطر ہوا کرتا ہے الا الصیام سوائے روزے کے.روزے اُس کے لئے نہیں ہوتے فانہ لی وہ میری خاطر ہوتے ہیں.و انا اجزی به اس کا ترجمہ ایک یہ بنتا ہے کہ میں اُس کی جزاء دیتا ہوں اور دوسری روایت کے مطابق میں خود اُس کی جزاء ہوں.والصيام جنة روزے تو ڈھال کی طرح ہوتے ہیں.فاذا كان يوم صوم احدکم فلايرفث و لا يصخب جب بھی انسان کو روزے کا دن نصیب ہو ، اُس دن وہ بیہودہ گوئی سے کام نہ لے اور شور وشر سے پر ہیز کرے.اگر اُسے کوئی شخص گالی دے یا اُس سے لڑائی کرے تو اُسے بیہ کہے کہ میں تو روزے دار ہوں.وہ ذات جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے.یہ رسول اللہ اللہ فرماتے ہیں.اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدمی اللہ کی جان ہے.روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے حضور مشک کی خوشبو سے بہت بہتر ہے.للصائم فرحتان روزے دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں.ایک وہ جب وہ روزہ کھولتا ہے تو فرحت سے لبریز ہو جاتا ہے اور دوسری خوشی جب وہ اپنے رب کو پالیتا ہے.اس حدیث کے تعلق میں بعض وضاحتیں ضروری ہیں.سب سے پہلے تو یہ فرمایا گیا کہ ہر نیکی انسان اپنے لئے کرتا ہے اور یہ نیکی جو ہے یہ اللہ کی خاطر ہے اور اللہ اس کی جزاء ہے یا اللہ اس کی جزاء دیتا ہے.اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا نماز میں اپنے نفس کے لئے پڑھی جاتی ہیں؟ کیا خدا کی راہ میں خرچ اپنے نفس کے لئے کیا جاتا ہے؟ کیا بنی نوع انسان کی دوسرے رنگ میں خدمت کرنا انسان اپنے نفس کی خاطر کرتا ہے؟ اور صرف روزہ خدا کی خاطر رکھتا ہے.یہ تو قابل فہم بات ہی نہیں ہے.اس لئے عام طور پر جو لوگ اس حدیث کو پڑھ کر گزر جاتے ہیں، غور نہیں کرتے وہ ایک اہم بنیادی نکتے سے محروم رہ جاتے ہیں.جس حقیقت کی طرف اس میں اشارہ فرمایا گیا ہے اُس حقیقت کو سمجھے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 184 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء بغیر عام طور پر لوگ اس حدیث سے گزر جاتے ہیں اور یہ ایک مشکل مسئلہ ہے جسے ٹھہر کر اور غور کر کے سمجھنا چاہئے.میں نے اس پر غور کیا اور جب سمجھ نہ آئی تو پھر دعا کی کہ اے اللہ تو ہی سمجھا.آخر یہ کیا فرق ہے؟ کیوں خدا تعالیٰ نے ایسی عجیب بات فرمائی کیونکہ یہ حدیث قدسی ہے.رسول اللہ اللہ نے خدا کی طرف منسوب فرمائی ہے.اس لئے اللہ ہی نے فرمایا ہے جو آپ نے آگے ہم تک پہنچایا.تو مجھے اس کا ایک مضمون سمجھ آیا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح میرے دل کے لئے اطمینان کا موجب بنا آپ کے لئے بھی مطمئن کرنے کا موجب بنے گا.سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ لقا اس کی جزا بتائی گئی ہے اس نیکی کی ، خدا سے ملاقات اور دوسری جگہوں سے ثابت ہوتا ہے ویسے بھی انسان اپنی عقل سلیم سے جانتا ہے کہ مرنے کے ساتھ لقاء کا تعلق ہے.جو انسان مرجاتا ہے اسے لقاء باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے.مرنا دونوں طرح سے ہوتا ہے روحانی لحاظ سے بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی اور جب انسان مرتا ہے تو قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہے وہاں سے لقاء شروع ہو جاتی ہے یعنی روحانی لقاء تو زندگی میں ہی شروع ہو جاتی ہے لیکن مرنے کے بعد تو ہر شخص خدا کے حضور حاضر ہو جاتا ہے.میں نے غور کیا کہ جتنی دوسری نیکیاں ہیں وہ نیکیاں اگر جاری رکھی جائیں یا اُن میں انتہاء کر دی جائے تو اُس کے نتیجے میں آگے مر نہیں سکتا.نمازیں پڑھتا ہے سارا دن نمازیں پڑھے.کھانا اگر نہیں چھوڑتا اور پانی نہیں چھوڑتا تو مرے گا نہیں.اگر ایک انسان خدمت خلق کرتا ہے تو بے شک جتنی مرضی چاہے کرے اس کے نتیجے میں مر نہیں سکتا ہے.روزہ ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے واجبات انسان اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے اور اگر روزہ لمبا کر دیا جائے دو تین چار پانچ دن کے عرصے کے اندر انسان کا انجام لازماًموت ہے.پس اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اگر روزے کی نیکی کو بڑھائے ،لمبا کرے تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے روانہ ہو جاتا ہے.اُس سے کم درجے پر یہ سفر پھر ختم نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ ہر نیکی کو اپنے منتہا تک پہنچنے سے پہلے اپنے فضل سے روک دیتا ہے.فرماتا ہے باقی جزاء میں اپنے فضل سے دوں گا.نمازیں جتنی پڑھتے ہیں اگر اتنی ہی جزاء ہمیں ملے تو ایک انسان کی ساری عمر کی نمازیں اگر ملالی جائیں تو زیادہ سے زیادہ بیس سال کی عبادت کہہ سکیں گے آپ اس کو جو بہت ہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 185 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء عبادت کرنے والے ہیں.ان کی بیس سال کی بن جائے گی.بیس سال کے بعد اُس کی نیکی ختم اُس کی جزا ختم.پر اللہ تعالیٰ اُسی نیکی کو اس طرح آگے بڑھا دیتا ہے کہ گویا وہ ہمیشہ کے لئے جاری ہوگئی اور جو جزاء اس ہمیشگی کے نتیجے میں ملنی چاہئے وہ عطا ہوتی ہے.پس نمازوں کی جزاء بھی اس طرح ملتی ہے اور دوسری نیکی کی جزاء بھی اس طرح ملتی ہے لیکن کسی نیکی کے نتیجے میں چونکہ موت مقدر نہیں ہوتی اگر اُسے بڑھالیا جائے اس لئے وہ جزاء نہیں ملتی اُسے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ خود اس کی جزاء ہے.یہ نی کی اگر تم زیادہ کرو گے تو میں آگے کھڑا ہوں گا تو فرمایا تم نے میری خاطر گویا موت قبول کر لی ہے.اگر روزہ بڑھ جائے اور لمبا ہو جائے تو لا ز ما تم مر جاؤ گے، ایک مرن برت بن جائے گا اور مجھ سے ملنے کی خاطر جان دے رہے ہو گے گویا کہ میں تمہارا قربانی کا وقت چھوٹا کر دیتا ہوں لیکن تمہاری قربانی کی روح قبول کر لیتا ہوں کیونکہ روزے کے فاقوں کے نتیجے میں کیونکہ تم نے لازماً مجھ تک ہی پہنچنا تھا اس لئے میں نیکی کی مشقت کو کاٹ دیتا ہوں اور جزاء بن کر خود آ جاتا ہوں کہ اچھا ملاقات کرتے ہیں اور یہ ملاقات جو ہے آخرت کے لئے مقدر نہیں ہے ، اس دنیا میں ہونی چاہئے.یہ مضمون ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کیونکہ آخرت کی ملاقات تو ہر مرنے والے کی ہونی ہی ہونی ہے.روزے کی جزا خدا خود تب بنتا ہے کہ وہ خود آ کر کھڑا ہو اور خود ملاقات کے لئے جلوےانسان پر ظاہر فرمائے.یہی وہ مضمون ہے جس کا اُس آیت کریمہ میں ذکر ملتا ہے جو میں نے آپ کے سامنے پہلے تلاوت کی تھی.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالى (البقره: ۱۸۷) رمضان کے روزے رکھو گے تو میرا وعدہ ہے کہ میں لقاء کے لئے آ جاؤں گا.تم اپنی کوشش سے جو بات حاصل نہیں کر سکتے میں اپنے فضل.تمہیں عطا کر دوں گا اور رمضان کا آخری مقصد لقاء باری تعالیٰ ہے یعنی خدا کی راہ میں اُس سے ملنے کی خاطر جان گنوا بیٹھنا.بعینہ اسی آیت کے مضمون کے مطابق آنحضرت ﷺ ہمیں خبر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی جزاء میں خود بنوں گا کیونکہ اگر یہ نیکی لمبی ہو تو انسان نے مرنا ہی مرنا ہے پھر.جو میری خاطر جان دینے پر تیار ہو جائے.میں کیوں اُس سے ملاقات نہ کروں.پس ہمارے روزوں کی قبولیت کا نشان یہ ہے کہ رمضان مبارک کے اختتام سے پہلے پہلے ہم اللہ کے جلووں کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 186 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء صلى الله نظارے دیکھیں ، قرب الہی کی لذت محسوس کریں اور کسی نہ کسی رنگ میں لقا سے لذت یاب ہوں.یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا ایک ہی طرح ہر ایک کو دکھائی دے.نبیوں سے بھی خدا کا مختلف معاملہ ہے.جس شان کا جلوہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دل کے عرش پر اترا ہے ویسا جلوہ تو کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا مگر ہر نبی نے دیکھا تھا، کچھ نہ کچھ تو دیکھا تھا.بغیر لقا کے نبوت ہو ہی نہیں سکتی.پس یہ ضروری نہیں کہ لقا ایک ہی طرح کی ہو مگر کچھ نہ کچھ لقا ضروری ہے اور یہ نشان ہو گا اس بات کا عملی ثبوت ہو گا کہ ہمارا رمضان مقبول ہوا اور اگر ہمیں لقائے باری نصیب نہ ہو تو پھر وہی بات اطلاق پائے گی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے دوسری بات اس حدیث نبوی میں جو فرمائی گئی ہے خاص طور پر قابل غور.آپ فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بوخدا تعالیٰ کے نزدیک ایسی ہی ہے جیسے کستوری کی خوشبو ہو.اس بات نے میری ایک اور ذہنی الجھن کا حل کر دیا.میں سوچا کرتا تھا کہ انسان روزے کے وقت اپنے حواس خمسہ میں سے ہر چیز کی قربانی پیش کرتا ہے سوائے ناک کے.ناک سے سانس لیتا ہے،خوشبوئیں سونگھتا ہے اُس سے کوئی پر ہیز نہیں.باقی سب حواس خمسہ کی قربانیاں ہیں یہ کیا وجہ ہے؟ روزہ تو یہ مفہوم پیش کرتا ہے کہ سب کچھ جسم کا جو کچھ خدا نے عطا کیا ہے سب خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ خرچ ہورہا ہو.اس حدیث نے یہ مسئلہ حل کر دیا، بد بو سونگھتا ہے اپنی.ایک نفیس طبیعت کے لئے ایک بہت بڑا عذاب ہے.اپنی بھی سونگھتا ہے اور اپنے بھائیوں کی بو بھی سونگھتا ہے.رمضان مبارک میں جو قریب سے بعض دفعہ بے احتیاط لوگ آ کے ایک دم بات کرتے ہیں تو منہ سے ایک دم بھبکہ اٹھتا ہے جو روزے کے نتیجے میں بو پیدا ہو جاتی ہے.ایک معدے کی کچھ خرابی ہوتی ہے جن لوگوں کو فاقوں کی عادت نہ ہو.اُن کے معدے میں گیسیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ خون میں ملتی ہیں.پھر خون کے ذریعے جب Lungs میں سے خون گزرتا ہے یعنی پھیپھڑوں میں سے تو سانسوں میں بو آ جاتی ہے اور کچھ منہ کے اندرو یسے بند رہنے سے بو آ جاتی ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ مسئلہ حل فرما دیا کہ تمہاری قوت شامہ بھی اس قربانی میں شامل ہے اور جب تم روزے کے نتیجے میں اپنی بو کی تنگی محسوس کرتے ہو یا دوسروں کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 187 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء بوئیں سونگھتے ہوتو یاد رکھو چونکہ یہ خدا کی خاطر ہے اس لئے اللہ کے نزدیک یہ بومشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے.روزے میں یاد رکھیں انسان کو جتنی بھی خدا تعالیٰ نے طاقتیں ودیعت فرمائی ہیں، صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اُن سب کی قربانی شامل ہوتی ہے قوت شامہ سمیت.پھر اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب روزہ رکھو تو بیہودہ گوئی سے پر ہیز کرو اور شور وشر سے پر ہیز کرو.بعض لوگوں کو بیہودہ گوئی کی عادت ہوتی ہے، یاوہ گوئی جس کو کہتے ہیں اور عام بات کرتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ بیہودہ کلام کر دیتے ہیں، بعضوں کو گالیاں دینے کی عادت ہے.ہمارے ملک میں تو اتنی عادت ہے کہ زمیندار ہل چلاتے وقت اپنے جانور کو بچارے کو خواہ مخواہ ہی گالیاں دیتا رہتا ہے.وہ بیل بیچارہ محنت کر رہا ہے، اُس کی سوٹیاں کھاتا ہے ، گندی گالیاں بھی، ایسا لغوطریقہ ہے.یہ شاید ہی دنیا کی کسی قوم میں رواج ہو.ہماری قوم میں تو خوب پایا جاتا ہے یعنی پاکستان میں اور ہندوستان میں اور شاید بنگلہ دیش میں بھی پایا جاتا ہو.آنحضرت ﷺ نے جب فرمایا کہ روزے کے وقت خصوصیت سے توجہ کرو تمہاری زبان پاک وصاف رہنی چاہئے.تو مراد یہ نہیں ہے کہ روزہ ختم ہوا اور گالیاں شروع ہو جائیں.مراد یہ ہے کہ یہ بھی ایک ورزش کا زمانہ ہے.اس پہلو سے بھی ورزشیں کرو کہ خدا تمہیں پاک وصاف زبان عطا کرے.روزے میں جب تم محنت کرو گے اپنے آپ کو روک کے رکھو گے تو انشاء اللہ بعد کی زبان بھی پاک وصاف رہے گی.شور وشر نہ کیا کرو بے وجہ اور اگر کوئی تمہیں کوئی گالی دے تو اُس کے جواب میں کہا کرو کہ میں روزہ دار ہوں.یہ جو خصوصیت سے نصیحت ہے اس لئے بھی ہے کہ بھوک کے نتیجے میں انسان کے لئے غصہ برداشت کرنا زیادہ مشکل ہو جایا کرتا ہے اور عام لوگ جو بغیر بھوک کے زبان صحیح رکھتے ہیں.وہ بھوک کے وقت بعض دفعہ جلد ہی وہ بے قابو ہو جاتے ہیں اور کسی ناپسندیدہ بات کو برداشت نہیں کر سکتے تو یہ میرا بھی ذاتی تجربہ ہے کہ روکنا پڑتا ہے اپنے آپ کو.پس آنحضرت ﷺ کی ہر نصیحت گہری انسانی نفسیات کے مطالعہ پر بنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو الہام کا نور نازل ہوا.اُس نے آپ کی اس فطری روشنی کو اور بھی زیادہ روشن تر کر دیا.نُور عَلَى نُورٍ ( النور :۳۶) کا نظارہ ملتا ہے آپ کی نصیحتوں میں.پس انسانی فطرت کے گہرے راز آپ پر روشن تھے.اُن کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ نے نصیحتیں فرمائی ہیں.اس لئے صرف وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 188 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء شخص پیش نظر نہیں جو بد کلام ہو.عموماً پاک کلام کرنے والوں کے لئے بھی ایک امتحان کا وقت ہے خطرے کا وقت ہے،خطرے کے مقامات ہیں.رمضان مبارک میں خصوصیت سے روزے کے دوران اپنی زبان کی نگرانی کیا کریں.صحیح بخاری کتاب الصوم سے ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں.حضرت سہل سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں.قیامت کے دن روزے دار اُس سے داخل ہوں گے اور اُن کے سوا کوئی اُس میں سے داخل نہیں ہوگا.پوچھا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور جب وہ داخل ہو جائیں گے.وہ بند کر دیا جائے گا اور پھر اس سے کوئی داخل نہیں ہو گا.ریان لفظ جو ہے اس میں اس بات کی کنجی ہے کہ کیا ثواب خصوصیت سے ان کو دیا جائے گا، کیوں اُن کے لئے ایک علیحدہ دروازہ مقدر ہے؟ ریان ری سے صفت مشبہ ہے فعل سے فعل ہونا ضد العطشان یعنی پیاس کا الٹ اور سیراب چہرے پہ بھی یہی لفظ اطلاق پاتا ہے.چونکہ انسان خدا کی خاطر بھوک کے نتیجے میں کمزوری محسوس کرتا ہے، پانی نہ پینے کے نتیجے میں ایک عطشان کی کیفیت یعنی پیاس کی کیفیت بھڑک اٹھتی ہے بعض دفعہ اور اتنی سخت ہو جاتی ہے کہ انسان جس نے گرمیوں میں روزہ رکھے اُس کو بھی پتا ہے کہ کس قدر وہ طلب میں مبتلا ہوتا ہے تو جنت میں ایسا دروازہ مقرر فرمانا جس کا نام ریان ہے، جس کے اوپر جاتی حرفوں سے گویا لکھا ہوگا کہ یہ سیرابی کا دروازہ ہے اس میں سے لوگ داخل ہوں گے.جنت تو ایک ہی ہے دروازے الگ ہوں گے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا صرف یہ اعزاز ہی ہے کہ ہم اس دروازے سے آئے تھے اور پھر ایک وقت میں اور بھی تو نیکیوں کے دروازے ہیں جن میں ایک روزہ دار آگے بڑھا ہوا ہوگا.کیا وہ اُن سے محروم کر دیا جائے گا؟ یہ باتیں سمجھنے کے لائق ہیں.میں نے جہاں تک غور کیا ہے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے مختلف دروازوں کا ذکر کر کے یہ اطلاع دی ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی خاص نیکی میں امتیاز پائے گا اُسی جنت میں اُس پہلو سے اُس کو زیادہ مزا آئے گا.اُس کی لذت اٹھانے کی صلاحیتیں اجاگر کی جائیں گی اور جس کا مطلب یہ ہے کہ دودھ اور شہد جو بھی شکل ہے اُس کی ظاہری تو نہیں ہے لیکن جس طرح دودھ انسان کے لئے بعض غیر معمولی غذائی صلاحیتیں رکھتا ہے یا شہد رکھتا ہے، لذتیں بھی رکھتا ہے.اس طرح کی کوئی چیز ہے ہر شخص اُس سے ایک جیسا مزہ نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 189 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء اٹھا سکے گا.اب ایک آدمی ٹھنڈا میٹھا دودھ پیئے وہ اگر بھوکا ہے تو اُس کو اور لطف آرہا ہوگا اور اگر اُس کا پیٹ بھرا ہوا ہے تو بعض دفعہ اُس کا دل ہی نہیں چاہے گا بلکہ دودھ پینے سے اُس کو متلی پیدا ہوگی تو بظاہر جنت کی نعمتیں ایک جیسی ہوں گی مگر جس دروازے سے انسان گزرے گا اُس دروازے کی صلاحیتیں ساتھ اندر لے کر جائے گا اور وہ شخص جس نے خدا کی خاطر بھوک اور پیاس کی تکلیفیں برداشت کی ہیں.اُس کو اُسی جنت میں ان دو پہلوؤں سے باقی سب سے زیادہ مزہ آرہا ہو گا.وہ زیادہ عمدگی کے ساتھ اور زیادہ لطافت کے ساتھ سیراب کیا جا رہا ہوگا.صلى الله پس حضور اکرم ﷺ نے جو اس قسم کے مضامین بیان فرمائے ہیں.بعض ظاہر پرست اُن کا مطلب سمجھ نہیں سکتے.وہ سمجھتے ہیں کہ بڑا فلاں گیٹ سے نکل جائیں گے، اندر داخل ہو جائیں گے جس طرح دنیا میں گیٹوں سے داخل ہوتے ہیں.وہ یہ بات نہیں ہے وہ بعض تاثیریں ہیں بعض غیر معمولی امتیازات ہیں جو اُن کو بخشے جائیں گے جو اُن کے ساتھ داخل ہوں گے گیٹ کے ساتھ ، پیچھے نہیں رہ جائیں گے.پس وہ غیر معمولی لطف جو روزہ دار روزہ کھولتے وقت محسوس کرتا ہے غذا سے.اُس سے بہت زیادہ ، غیر معمولی طور پر زیادہ جنت کی نعماء سے وہ محسوس کرے گا.پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ سنن ترمذی سے حدیث لی گئی ہے.آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایک روزہ بھی بغیر شرعی اجازت کے اور بیماری کے چھوڑتا ہے پھر خواہ وہ زندگی بھر روزے رکھے اُس روزے کی قضا نہیں ہے.قضا کا مضمون قرآن کریم میں کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے.یہ دراصل اُسی سے استنباط ہے.فرمایا کہ یہ یہ شرطیں ہیں یہ شرطیں اگر پوری ہوں تو تم روزہ نہ رکھو اور اُس روزے کے بدلے کچھ فدیہ دے دو اور کچھ بعد میں روزہ رکھ لو.پس جو روزے چھوٹ گئے اُس کے بدلے بعد میں روزے رکھنے کی قضا کی اجازت ہے.اگر وہ شرطیں پوری نہ ہوں تو خدا کی طرف سے قضا کی اجازت ہی کوئی نہیں اس لئے جہاں اجازتیں مذکور ہو جائیں.اُن اجازتوں سے باہر انسان سے کوئی کوتا ہی ہو جاتی ہے ، کوئی فرض چھٹ جاتا ہے، اُس کی قضا ہے ہی کوئی نہیں.پس روزہ چھٹنے کی کوئی قضا نہیں ہے یہ یادرکھیں.یعنی اگر عمد الطور گناہ کے روزہ چھوڑا جاتا ہے.رکھنے کی طاقت کے باوجود چھوڑا جاتا ہے.تو پھر ساری عمر بھی روزے رکھیں وہ چھٹے ہوئے روزے بحال نہیں ہو سکتے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 190 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء صل الله سنن ابی ماجہ سے یہ حدیث لی گئی ہے.اس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر چیز کی زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے.روزے تو آدھا صبر ہیں.( ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی زکوۃ الجسد ) اس حدیث کا یہاں تک پہلے نصف سے تعلق ہے.یہ بات تو ہر انسان عام طور پر سمجھ لیتا ہے، سمجھنا آسان ہے کہ جسم کی زکوۃ روزے میں نکلتی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا انسانی جسم کو جتنی صلاحیتیں خدا نے عطا فرمائی ہیں.اُن سب میں سے وہ کچھ خدا کی خاطر مشقت برداشت کرتا ہے اور اُن سب پر اُس مشقت کا اثر پڑتا ہے.کوئی بھی حواس خمسہ میں سے ایسے نہیں ہیں جن کو خدا کی راہ میں قربانی نہ پیش کرنی ہو.پس یہ گو یا جسم کی زکوۃ نکل رہی ہے اور زکوۃ نکلنے کا جو مفہوم ہے اُس کو سمجھنا چاہئے زکوۃ کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.زکوۃ کم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ بڑھانے کے لئے ہے اور اُن لوگوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے جو یہ کہتے ہیں زکوۃ سے مال کم ہوتے ہیں.سود سے بڑھتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سود سے کم ہوتے ہیں اور زکوۃ سے بڑھتے ہیں.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف اشارہ ہے.پس وہ انسان جو یہ چاہتا ہے کہ اُس کا جسم پہلے سے زیادہ صحت مند ہو جائے جب وہ خدا کی خاطر اپنے جسم کی ہر طاقت کی قربانی پیش کرتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا وعدہ ہے کہ وہ زکوۃ شمار ہوگی اور زکوۃ کے نتیجے میں اُسی قسم کی چیزوں میں برکت پڑنے کا وعدہ قرآن کریم میں موجود ہے.پس وہ جاہل جو یہ کہتے ہیں روزے کے نتیجے میں مسلمانوں کی صحتیں کمزور ہو جاتی ہیں.یہ بیوقوفی ہے اُن کی لاعلمی ہے.وہ سودخوری نظام کے عادی یہی سمجھتے ہیں کہ زکوۃ کے پیسے سے بھی کمزوری آتی ہے مال میں اور زکوۃ کے جسمانی خرچ سے بھی جسم میں کمزوری آتی ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس کے برعکس صورتحال ہے جہاں تک انسانی تجربہ ہے.میں اپنے تجربہ سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہر مہینے رمضان کے روزے فرض نہ ہوتے تو پتا نہیں اب تک ہم زندہ بھی ہوتے کہ نہ صحت کا کیا حال ہونا تھا؟ کن کن مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ؟ رمضان تو تمام کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کر جاتا ہے.جسم کو ایک نئی جان بخش دیتا ہے.وہ کمزوریاں جو انسان نے اپنی غفلت سے خود اپنے اوپر عائد کر رکھی ہیں.وہ بیماریاں جن میں انسان اپنی غلطیوں کی وجہ سے ملوث ہو جاتا ہے اور اُن کا شکار ہو جاتا ہے.رمضان میں دھلنی شروع ہو جاتی ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ.پس جو عورتیں سمجھتی ہیں کہ ہمارے بچوں کی صحت کمزور ہو جائے گی روزے نہ رکھوائے جائیں جو لوگ کہتے -
خطبات طاہر جلد ۱۲ 191 خطبه جمعه ۵ / مارچ ۱۹۹۳ء ہیں غیر اسلامی ملکوں میں کہ نو جوانی کی عمر میں روزہ رکھنا مضر ہے، بالکل جھوٹ ہے.نو جوانی کی عمر میں فرض نہیں ہے، یہ درست ہے لیکن جور رکھتے ہیں ان کو نقصان کوئی نہیں ہوتا.ہم نے اپنے قادیان کے ماحول میں یہی دیکھا کہ چھوٹے بچے بھی جو ۸، ۹ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں جو شوق سے روزہ رکھنا چاہتے ہیں اُن کو کبھی روکا نہیں گیا تھا.کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ تمہاری صحت کمزور ہو جائے گی تم رک جاؤ.ہاں اگر کوئی زیادہ ہی جوش دکھائے اور کہے کہ میں نے سارے مہینے کے رکھنے ہیں تو اُسے پیار سے سمجھایا جاتا تھا کہ نہ کرو.اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بعض دفعہ کچی عمر میں زیادہ نیکی کرنے سے نیکی سے ہی متنفر ہو جاتا ہے.وہاں بھی صحت کی خرابی کا خطرہ نہیں تھا.غالباً وجہ یہ ہوتی تھی کہ بچہ کہیں زیادہ جوش میں نیکی کر کے، نیکیوں سے نہ جائے کہیں اور نیکیوں کے خلاف ایک قسم کی بے رغبتی نہ پیدا ہو جائے.بہر حال ہم نے بچپن میں رکھے ہوئے ہیں.۷، ۸ سال کی عمر سے شروع میں دو تین پھر ۷، ۸ بلوغت سے پہلے پندرہ میں تک پہنچ جایا کرتے تھے اور بلوغت کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک مجھے یاد ہے روزے رکھنے کی توفیق ملی سختیوں میں بھی ، نرمیوں میں بھی ، چھوٹے دنوں میں بھی ، زیادہ دنوں میں بھی لیکن کوئی ایسا نقصان مجھے یاد نہیں جس نے ہمیشہ کے لئے صحت پر برا اثر چھوڑا ہو.شاید ربوہ کے ابتدائی سالوں میں جب ربوہ بنا تھا جو گرمیاں وہاں پڑی تھیں اُن کے نتیجے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ نقصان ہوتا تھا.مگر وہ اس طرح کہ شدید گرمی تھی اور 124 درجے تک ٹمپر پر صبح شام ٹھہر ہی جایا کرتا تھا اور بجلی نہیں تھی کوئی پنکھا نہیں تھا تو نقصان جو پہنچتا تھا وہ اس طرح پہنچتا تھا کہ بعض لوگ چادر میں بھگو کر اُن میں لپٹ کر وقت گزارتے تھے اور اُس سے اعصاب پر بُرا اثر پڑتا تھا.پس وہ براہ راست گرمی کی سختی کے نتیجے میں نہیں بلکہ گرمی کے غلط علاج کے نتیجے میں ہوتا تھا.میں اس لئے وضاحت کر رہا ہوں کہ بعض لوگ جنہوں نے وہ تجربے کئے ہوئے ہیں کہ شاید کہہ دیں کر نہیں فلاں وقت تو ہمیں نقصان پہنچاتھا.پہنچا تھا مگر اپنی غلطی کی وجہ سے.عام طریق پر جو روزہ رکھا جائے اُس سے سختی برداشت کی جائے.دائی نقصان نہیں ہوا کرتا.سوائے اس کے کہ بیمار رکھ لے.ایک چیز اور بڑی دلچسپ اس حدیث میں بیان ہوئی ہے.وہ ہے روزے تو آدھا صبر ہیں.میں نے اس پر بڑا غور کیا کہ اللہ میاں یہ آدھا صبر کیا مطلب؟ پورا صبر کیوں نہیں؟
خطبات طاہر جلد ۱۲ 192 خطبه جمعه ۵ / مارچ ۱۹۹۳ء آنحضرت کہ جب ایک بات بیان فرماتے ہیں تو لازماً گہری حکمت پر مبنی ہوتی ہے.اُس نعمت کی کچھ حکمت ہمیں عطا فرما دے، سمجھا دے کہ کیا قصہ ہے.تو دوباتیں مجھے سمجھ میں آئیں.ایک یہ کہ رمضان گرمیوں کے ہوں یا سردیوں کے ہوں، کہیں روزے چھوٹے ہوتے ہیں، کہیں بڑے ہوتے ہیں لیکن پورا دور جو سردیوں اور گرمیوں کا گزرتا ہے اس کی اوسط نصف گرمی بنتی ہے.شمالی قطب کے قریب جائیں بعض دفعہ تو روزے چھوٹے ہونے شروع ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہیں سال گزارا جائے تو آگے بڑے روزے بھی وہیں آجائیں گے اور دنیا میں کوئی بھی خطہ ایسا نہیں جہاں کہ روزے رکھنے والوں کی آخری اوسط نصف نصف نہ بن جائے.پس روزے کبھی چھوٹے کبھی بڑے لیکن اوسطاً نصف روزہ ہی بنتا ہے یعنی چوبیس گھنٹے کا نصف روزے میں کتنا ہے تو اس لحاظ سے اسے نصف صبر کہنا بہت ہی عمدہ مینی بر حکمت بات ہے.لیکن ایک اور معنی بھی مجھے اس کے سمجھ آئے کہ صبر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک اُن بلاؤں پر صبر جن پر انسان کا اختیار نہیں جیسا کہ آفات سماوی ہیں، جیسا کہ کسی ظالم کے ظلم ہیں ، کوئی مالی نقصان پہنچا دیتا ہے، کوئی لٹیرا لوٹ کر لے جاتا ہے، کوئی جسمانی اذیتیں پہنچاتا ہے، جیسا کہ آج کل بوسنیا میں ہو رہا ہے اور بہت سے دیگر مسلمان ممالک میں یہ دکھائی دیتا ہے.کئی قسم کے ظلم ہیں جو ایک انسان دوسرے پر تو ڑتا ہے یا جنہیں آفات سماوی کہتے ہیں ، حوادث زمانہ اُن کے نتیجہ میں انسان برداشت کرتا ہے اور اُن پر اگر کوئی صبر کرے تو وہ بیرونی مصائب پر صبر کرنا کہلائے گا.جن پر انسان کا اختیار ہی کوئی نہیں.صبر کی ایک قسم ہے جو اندرونی مصائب سے تعلق رکھتی ہے جس پہ بندے کا اختیار ہے.مثلاً پانی ملتا ہو اور نہ پئے.بھوک لگی ہو اور روٹی نہ کھائے جول رہی ہو، دل چاہتا ہو کسی سے پیار کرنے کو اور خدا کا حکم رستے میں حائل ہو.ہر گز نہیں.نظر آوارہ ہونے کی تمنا پیدا ہو اور خدا کا حکم روک دے کہ خبردار، زبان چاہے کہ بے لگام ہو.اللہ کا حکم کہے کہ ہرگز نہیں تو ہر جگہ پہرے بٹھا دیئے جائیں یہ صبر ہے اور یہ صبر طوعی صبر ہے جو انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے.اس صبر کی جتنی تکلیفیں انسان خود اپنے اوپر عائد کرتا ہے.عقل کے ساتھ فیصلہ کرتے ہوئے یا دل کے ساتھ فیصلہ کرتے ہوئے یا جو بھی بات ہو.تو یہ نصف صبر ہے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رمضان نصف مبر ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 193 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء اب دیکھیں ہمارے آقا و مولا محمد رسول اللہ اللہ کی باتیں کتنی گہری ہوتی تھیں.میں تو جب حدیثیں پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں.اگر تو آپ اوپر سے گزر جائیں آرام سے تو اُن حدیثوں کا حسن ویسے بھی دکھائی دیتا ہے.ہر بات پیاری ہے لیکن وہاں اگر ٹھہر جائیں اور اُن کے مضمون میں اتریں نیچے تو ایک اور معنی کا جہان دکھائی دیتا ہے.جیسا کہ اللہ کی کائنات میں بڑی وسعتیں ہیں.ایک سطحی نظارہ ہے جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے.ایک سائنٹفک نظارہ ہے جب ایک سائنسدان ایک جگہ پہنچ کر اُس کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اگر تیل کے آثار عام عقل انسان کو دکھائی نہیں دیتے ایک سائنسدان کو دکھائی دیتے ہیں.وہ کھدائی کرتا ہے نیچے پہنچتا ہے، اسے تیل کے چشمے مل جاتے ہیں.پس آنحضرت مہ بھی خدا کی تخلیق کا ایک شاہکار تھے اور ایسا عظیم شاہکار ہے کہ جہاں تفصح آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا.میں نے تو جب بھی حدیث نبوی پر غور کیا ہے.مجھے بہت ہی پیارے حکمت اور عقل کے موتی اُس میں چھپے ہوئے دکھائی دیئے ہیں اور یہ بات حضرت محمد رسول اللہ کے مزاج کے عین مطابق تھی.آپ اپنی نیکیوں کو خود ظاہر کر کے دکھاتے نہیں تھے اور جو حکمت آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی.اُس کا ذکر تو فرمایا ہے لیکن نمایاں کر کے اٹھا کر دکھایا نہیں کہ دیکھو میں کیسی عقل کی باتیں کر رہا ہوں بلکہ وہ مضامین ہیں جو از خود بہتے چلے جا رہے ہیں اور بنی نوع انسان پر چھوڑ دیا ہے جو چاہے فائدہ اٹھائے ، جو چاہے نہ اٹھائے.اس میں ایک الہی استغناء ملتا ہے.ایک غناء کی شان ہے.خدا تعالیٰ نے بھی تو کائنات میں بے شمار فوائد مخفی رکھے ہوئے ہیں اور بے شمار حکمتوں کے موتی ہیں جو جگہ جگہ خدائی قانون میں چھپے پڑے ہیں لیکن اگر ایک مسافر سرسری نظر سے اوپر سے گزر جائے اُس کو پتا ہی نہیں کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں.اُن کی کنبہ کیا ہے؟ اور اگر غور کریں گے تو آپ کو ہر مضمون کے پیچھے ایک اور دلکش مضمون دکھائی دے گا، اُس کے نیچے ایک اور دلکش مضمون دکھائی دے گا.پس جیسا کہ قرآن خدا تعالیٰ کی تخلیق کا ایک عظیم شاہکار ہے.اسی صلى الله.طرح ہمارے آقا و مولا حضرت محمد رسول اللہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا ایک عظیم شاہکار ہیں، ایک پوری کائنات ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ خصوصیت سے آنحضرت مہ کے فیض سے اس مہینے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 194 خطبه جمعه ۵/ مارچ ۱۹۹۳ء صد میں فیضیاب ہوں.وہ ہوا جو چلا کرتی تھی بنی نوع انسان میں خیرات کی خاطر وہ چلنا بند نہیں ہوئی وہ آج بھی جاری ہے، وہ ہوا رمضان میں تیز تر آج بھی ہوتی ہے.وہ خزا نے جو محمد رسول اللہ اللہ کے ارشادات میں مدفون ہیں.اب بھی وہ حاصل ہو سکتے ہیں اگر کوئی انسان اپنا ہاتھ پھیلائے اور اُن تک پہنچنے کی کوشش کرے اور اس کا سب سے اہم طریق یہ ہے کہ رمضان مبارک میں خصوصیت سے درود اور سلام بھیجے اور مسلمانوں کے لئے دعا کا بھی بہترین طریقہ یہی ہے کہ ال محمد کے حوالے سے مسلمانوں کے لئے دعا کیا کریں.میں تو جب بھی خصوصیت سے کہیں عالم اسلام پر دکھ پڑتا ہے تو صلى الله درود کے حوالے سے دعا کیا کرتا ہوں.اے اللہ جیسے بھی ہیں تیرے محمد ﷺ کے غلام ہیں.تیرے عاشق محمد رسول اللہ اللہ سے پیار کرنے والے ہیں جو کچھ اور بھی ہوں پیار کا دعویٰ رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اللہ کے حضور عرض کرتا ہوں.٤ کا خر کنند، دعوای حب پیمبرم (درشین فارسی صفحه ۱۰۷) امت بگڑ گئی بہت سی برائیوں میں مبتلا ہوگئی، تیرے فضلوں کی مستحق نہ رہی ، نہ سہی.لیکن تیرے بندے اور ہمارے محبوب آقا محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق کا دعویٰ تو رکھتے ہیں.اللھم صلی على محمد و علی ال محمد کماصیلت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید.اس طرح درود پڑھیں تو آپ کی ساری دعائیں امت کے حق میں جانے والی بھی ہو جائیں گی اور زیادہ قبولیت کا درجہ پائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 195 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء رسول کریم علی احمد کی وجہ سے محمد کہلائے مقام محمود کی لطیف تشریح ، لیلۃ القدر اور تہجد کی اہمیت ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ مارچ ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.أقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِكَانَ مَشْهُودًا وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَلَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل: ۷۹) فرمایا:.قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا اطلاق خصوصیت کے ساتھ رمضان کے اُس حصے سے ہے اور ہوتا ہے جس میں ہم داخل ہونے والے ہیں یعنی آخری عشرہ.ویسے تو ان آیات کا اطلاق سارے رمضان المبارک سے ہے اور ہوتا ہے بلکہ مومن کے ہر دن اور ہر رات پر ان آیات کا اطلاق ہوتا ہے اور مومن کی زندگی میں یہ آیات ایک غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں مگر جب میں کہتا ہوں خصوصیت سے آخری عشرے پر، تو جیسا کہ میں بات کو کھولوں گا آپ کا دل مطمئن ہو گا کہ واقعہ آخری عشرے کے ساتھ تو ان آیات کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی اور عرصے کا اس قدر گہرا تعلق ان آیات سے نہیں ہو سکتا.ان آیات میں جو مرکزی نوعیت کی آیت ہے یا مرکزی مضمون بیان ہوا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی یہ ہے کے مقام محمود پر فائز کئے جانے کا وعدہ ہے.یہ مقام
خطبات طاہر جلد ۱۲ 196 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء محمود کیا ہے اور کیا یہ وعدہ پورا ہو یا ہونا باقی ہے؟ اور اس کی کیا نوعیت ہے، کس طرح وعدہ پورا ہوگا ؟ یہ بہت ہی تفصیلی اور گہر امضمون ہے.اس کے متعلق پہلے میں بار ہاذ کر کر چکا ہوں لیکن یہ مضمون ابھی بھی تشنہ ہے.مختصراً میں اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان آیات کریمہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ تو راتوں کو اٹھ کر تہجد ادا کیا کر.یہ تیری طرف سے نوافل ہوں گے اور قریب ہے کہ خدا تعالیٰ تجھے اُس مقام محمود پر فائز فرما دے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا ہے.مقام محمود سے مراد ہے حمد کا مقام اور حمد کا گہرا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے.پس مقام محمود ایک ایسے مقام کا نام ہے جو محمد مصطفی ﷺ کی حد کو اللہ تعالیٰ کی حمد کی صف میں اس طرح مدغم کر دے کہ ایک پہلو سے دیکھیں تو محمد مصطفی سے دکھائی دیں اور دوسرے پہلو سے دیکھیں تو خدا دکھائی دے یعنی حمد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس طرح یک جان ہو جائیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہ کیا جا سکے.”من تو شدم تو من شدی والا مضمون ہے کہ میں تو ہو جاؤں اور تو میں ہو جائے اور جب حمد اس درجہ ترقی کر جاتی ہے کہ حمد کرنے والا اپنے وجود کو کلیۂ کھو دیتا ہے اور اس کا وجود اپنی حمد سے خالی ہو جاتا ہے.سبھی یہ مقام نصیب ہو سکتا ہے اُس کے بغیر ممکن نہیں ہے.پس اس پہلو سے اگر دیکھیں تو یہ مقام تو حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کو پہلے سے نصیب ہو چکا ہے اور آپ کا نام احمد رکھا ہی اس غرض سے گیا اور سورہ فاتحہ میں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) (الفاتحہ :۲) میں بھی یہ مضمون بیان ہوا جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اَلحَمدُ دو طرح سے پڑھا جاتا ہے ایک فاعلی حالت میں اور مفعولی حالت میں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کا ایک مطلب یہ ہے کہ کامل حمد اللہ ہی کے لئے ہے اور کسی پر بھی نہیں.جتنا مرضی تم زور لگا ڈ الوحمد کا مضمون خدا کے سوا کسی اور ذات پر صادق ہی نہیں آسکتا.ایک یہ معنی بھی ہے اور دوسرا یہ کہ خدا کے سوا کوئی حمد کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا.حمد وہ جو خدا کرے ورنہ بندے کی حمد کی کیا قیمت ہے اور کیا حیثیت اور کیا حقیقت ہے؟ نہ وہ حقیقت میں عالم الغیب ہے اور نہ عالم الشہادہ ہے.دھوکے کی دنیا میں رہتا ہے، خود کو دھو کے دے رہا ہے.لوگوں کے دھوکوں اور فریبوں کا شکار رہتا ہے اس لئے کسی کی حمد کسی انسان کے لئے کچھ بھی معنی نہیں رکھتی.اَلْحَمْدُ لِلهِ ہاں حمد ہو تو خدا کی حمد ہو جس کی خداحمد کرے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 197 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی کی حمد وہ حمد ہے جس کا اَلْحَمدُ لِلَّهِ میں ذکر ہے یعنی وہ کامل حمد ، وہ کامل شعور کے ساتھ ، کامل عرفان کے ساتھ کی جاتی ہے جس میں حمد کرنے والا حمد کے ان تجارب سے گزرتا ہے جن تجارب کے نتیجے میں اُس کا لمحہ لمحہ اللہ کی حمد بن جاتا ہے.وہ گواہی دیتا ہے اُس حمد کی اور عظیم حمد کے مقام پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی کو فائز فرمایا گیا اور اس اعلیٰ مقام میں آپ نے سام ہر دوسرے کو حد سے خالی کر دیا یہاں تک کہ اپنے وجود کو بھی ، پس یہ مقام انکساری کا بھی انتہائی مقام ہے.ایک محمد مصطفی سے ہی ہیں جنہوں نے حمد باری تعالیٰ کے وقت اپنے وجود کو حمد سے خالی کیا ہے.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے آپ روز مرہ کے اپنے تجربے میں اگر اپنی حمد کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کی حمد کے ساتھ ساتھ ، جو خدا کی حمد کے گیت گاتے ہیں، آپ کی اپنی حمد کی بھی ایک ئے ساتھ شامل رہتی ہے اور جب بھی یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ یہ کام یوں ہو گیا، ساتھ اپنی کسی چالا کی کا بھی تذکرہ چل رہا ہوتا ہے کہ مجھے توفیق ملی ، میں نے یہ کام کر دیا.مراد یہ ہے کہ میں اتنا ہوشیار ہوں اور احتیاطاً خوف کے مارے، اللہ کی حمد کے گیت گاتا ہے کہ خدا ناراض نہ ہو جائے کہ تم نے سارا سہرا اپنے سر ہی باندھ لیا اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری وجہ سے ہوا ہے لیکن دل میں جانتا ہے اور اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے یعنی غلط سمجھتا ہے مگر سمجھتا ہے کہ میں نے یہ ہوشیاری کی، میں نے یہ کام کیا، میں نے بروقت فلاں کا رروائی کی.اس کے نتیجے میں یہ کام ہوا ہے مگراللہ تعالیٰ بہر حال آخری قدرت رکھنے والا ہے اس کی حمد کے گیت گانا ضروری ہے.یہ مضمون اس طرح کھلا کھلا بہت سے لوگوں پر صادق آتا ہے لیکن جو حمد میں ترقی کرتے ہیں اُن کے ہاں اس مضمون کو پہچانا مشکل ہو جاتا ہے.یہ نفس کی حمد کی آواز نسبتا کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اوسطاً نیچے اترتے ہوئے ڈوبتی چلی جاتی ہے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور حمد اس کی باقی رہتی ہے.میں نے بسا اوقات اپنی دعاؤں میں یہ تجزیہ کر کے دیکھا ہے اور اس خوف سے لرز اٹھا کہ اپنی طرف سے جب میں نے اپنے آپ کو حد سے خالی کر کے دعا کی.تب بھی کوئی نہ کوئی رخنہ مجھے کہیں نہ کہیں دکھائی دیا کہ جسے صاف اور پاک کرنا ضروری تھا.پس جو کوشش ایک عام انسان بڑی محنت اور توجہ سے کرتا ہے اور خبر داری کے ساتھ کرتا ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات میں یہ ایک طبعی ایک سیل رواں کی طرح جاری چیز تھی آپ کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 198 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء دل کبھی بھی اپنے حمد کے خیال سے نہیں بھرا ہمیشہ سے اپنے آپ کو خالی سمجھا.وہ جو سب سے زیادہ حمد کے لائق انسان تھا اس نے سب سے زیادہ اپنے آپ کو ذاتی طور پر حمد سے خالی سمجھا اور یہ عرفان کے نتیجے میں ہوا، یہ کسی مصنوعی انکسار کے نتیجے میں نہیں ہوا.عرفان کے نتیجے میں واقعتہ انسان حمد سے خالی ہو جاتا ہے، عرفان کے نتیجے میں اپنی ہر چیز بے معنی اور بے حقیقت دکھائی دینے لگتی ہے.صرف ایک اللہ کی ذات باقی رہ جاتی ہے باقی سب کچھ مٹ جاتا ہے.اس مقام کا نام وہ حمد ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ فاتحہ کے تذکرے میں ذکر فرمایا.اَلحَمدُ فاعلی حالت ہے اُس نے ساری حمد سمیٹ کر، ہر قسم کی حمد کلیۂ ہر دوسرے وجود سے خالی کر کے خود اپنے وجود سے خالی کر کے اللہ کے حضور پیش کر دی جب یہ ہوتا ہے تو حمد کا دوسرا مضمون لازماً جاری ہوتا ہے.پھر حمد آسمان سے اترتی ہے اُس ذات کے لئے اترتی ہے جس کا نام محمد رکھا گیا ہے.جسے مقام محمود کا وعدہ دیا گیا ہے صلی اللہ علیہ وسلم.یہ جو مقام محمود ہے یہ محمد کے باوجود آئندہ کے بارے میں مذکور ہے یہ عجیب بات ہے اور یہ مسئلہ سمجھنے والا ہے اور محمد تو آپ اُسی وقت ہو گئے جب آپ احمد بنے ، جب خدا کے لئے کامل حمد پیش کی تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وقفے کے توقف کے بغیر خدا کی طرف سے آپ پر حمد نہ اترتی اور وہ حمد اتری تو آپ محمد بنے اس کے بغیر تو آپ محمد بن ہی نہیں سکتے.پھر یہ مقام محمود کیا چیز ہے؟ در حقیقت یعنی اور بہت سے مضامین ہیں ایک پہلو کی طرف میں آج آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.مقام محمود کسی ایک ٹھہرے ہوئے مقام کا نام نہیں ہے بلکہ ایک جاری، ہمیشہ ترقی پذیر مقام کا نام ہے اور ایسا وعدہ نہیں کہ کسی ایک وقت جا کر پورا ہو جائے اور وہیں ختم ہو جائے.ایک وعدہ حضرت محمد مصطفی امیہ کی زندگی میں لازماً پورا ہوا ہے.آپ نے اُس مقام محمود کو پایا ہے تو جان دی ہے.اُس کے بغیر آپ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا میں ایک قریب کے مقام کا وعدہ ہے اور اسے دور تک کے لئے ٹالا نہیں جاسکتا.اس کے باوجود اذان دینے کے بعد حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے جو دعا ہمیں سکھائی کہ تم یہ دعا کیا کرو.اُس کے آخر پر یہ بھی ہے وابعثه مقاماً محمودا.کہ اے اللہ ہمارے پیارے وسیلے محمد مصطفی میکو کو مقام محمود عطافرما.اگر وہ عطا ہو چکا ہے تو پھر عطا فرمانے کا کیا مطلب؟ پس ایک اور آیت کریمہ اس مضمون کو کھولتی ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولى
خطبات طاہر جلد ۱۲ 199 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء الله (الضحی : ۵) آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے لمحے سے بہتر ہے تو کبھی ایک مقام پر ٹھہر نے والا وجود نہیں ہے.تیرے وصال کے بعد بھی تیری ترقیات اسی طرح جاری وساری رہیں گی.تجھ میں حمد کا مضمون بڑھتا رہے گا اور ہمیشہ تیری حمد کے گیت پہلے سے بڑھ کر گائے جائیں گے.پس ایک معنی تو فی ذاتہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے بڑھتے ہوئے مقام کا معنی ہے جو مقام محمود ہے جو ایک دفعہ وعدہ پورا ہوتے ہی اگلے لمحے پھر نیا وعدہ پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ایک لمحے میں ایک مقام محمود نصیب ہوتا ہے تو اگلا مقام محمود آگے کھڑا اور توجہ اس کی طرف بڑھتی ہے پھر اُس سے آگے اور پھر اُس سے آگے تبھی ہمیں یہ دعا سکھائی کہ جب تم اذان کی آواز سنا کر وجس صلى الله سے تمہیں فلاح و بہبود کی طرف بلایا جاتا ہے تو یا درکھو اس فلاح و بہبود کا وسیلہ محمد رسول اللہ مجھے بنے صلى الله.ہیں اور چونکہ حضرت محمد رسول اللہ لہ کا یہ جاری احسان ہے تم پر.تم یہ جاری دعا کیا کرو کہ اے خدا ان کو وہ مقام محمود عطا فرما جس کی لامتناہی منازل آگے مستقبل میں سامنے کھڑی ہیں پس مقام محمود ایک جاری وساری حمد کا مضمون ہے جو بھی ختم نہیں ہوسکتا اور اس مد میں اللہ کی حمد کے ساتھ آنحضرت ہ کی حمد کا مضمون مدغم کر دیا گیا ہے.حضور اکرم ﷺ نے جو خدا کی حمد کے گیت گائے وہی گیت آسمان سے بازگشت کے طور پر محمد کی حمد کی صورت میں نازل ہوئے اور جوں جوں خدا کی حمد دنیا میں ترقی کرتی چلی جائے گی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی حمد کا مضمون بھی کامل سے کامل تر ہوتا چلا جائے گا.ایک چھوٹا سا نظارہ ہم نے آج اس دور میں داخل ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے جس کا تعلق ڈش انٹینا کے ذریعے تمام دنیا میں خطبات اور اُس سے پہلے اذان کے پہنچنے کے سامان پیدا ہوئے ہیں اب آپ دیکھیں جو اذ ان ابھی دی گئی تھی وہ برقیاتی لہروں کی صورت میں تمام جو پر پھیل چکی ہے اور ابھی تک ارتعاش فضا میں باقی ہوگا کوئی دنیا کا گوشہ ایسا نہیں جس کی فضا میں اس اذان کی برقی لہریں مرتعش نہ ہوئی ہوں الله اور ہر جگہ تو اُس اذان کے بعد وہ دعا کرنے والے موجود نہیں تھے لیکن حضرت اقدس محمد رسول الهلال الاول نے ہمیں خبر دی ہے کہ اذان کے جواب میں فرشتے لبیک کہا کرتے ہیں چنانچہ ایک موقع پر فرمایا کہ اگر تمہارے پاس با جماعت نماز کے لئے کوئی ساتھی نہ ہو اور تم جنگل میں ہو تو اذان دو اگر کوئی شخص سنے الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 200 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء صلى الله گا تو آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے ساتھ شامل ہو جائے گا اگر نہ سنے گا یعنی کوئی آدمی ہو گا نہیں تو خدا آسمان سے فرشتے اتارے گا وہ اس اذان کے جواب میں تمہاری نماز کے ساتھ شامل ہو کر تمہاری نماز کو با جماعت کر دیں گے تو اذان پر فرشتوں کے لبیک کہنے کا مضمون کوئی فرضی جذباتی مضمون نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی واضح خبر ہے جو جھوٹی ہو نہیں سکتی.پس میں سمجھتا ہوں کہ اس اذان کے جواب میں ساری کائنات میں فضا فرشتوں کی حمد سے مرتعش ہوتی ہے جو خدا کے حضور گیت گاتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کے لئے دعا کرتے ہیں وابعثه مقاما محمودا ـ وابعثه مقاما محمودا.ہیں ہم ایسے دور میں داخل ہوئے ہیں جہاں مقام محمود کی دعا ایک عالمی دعا بن کر سارے عالم کی فضا کوم نقش کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر یاد آ جاتا ہے.آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام - مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے (در متین : صفحہ ۱۷) پس اے جماعت احمدیہ ! تمہیں مبارک ہو جب تم مقام محمود کی دعائیں کرتے ہو اپنے آقا و مولا اور محسن اعظم حضرت محمد مصطفی ملنے کے لئے تو یا درکھو آسمان کے فرشتے بھی تمہارے ساتھ مل کر حضرت اقدس محمد مصطفی مے کے لئے وابعثه مقاما محمودا.وابعثه مقاماً محمودا کی آوازیں بلند کرتے ہیں اور سارا جگ ساری زمین و آسمان کی فضا اس دعا سے مرتعش ہو جاتی ہے.پس مقام محمود کا ایک اور مضمون ہمیں اس دور میں داخل ہو کر سمجھ آیا کہ بڑھتا، جاری رہنے والا ایک مقام ہے جو کبھی کسی جگہ ٹھہرے گا نہیں اور یہ سلسلے جب عام ہوں گے جب زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان آنحضور ﷺ پر درود بھیجیں گے اور دنیا کے کونے کونے میں اذانیں دی جائیں گی اور ہر وقت صلى الله سننے والے ایسے تربیت یافتہ ہوں گے کہ دل کی گہرائی سے آنحضور ﷺ پر سلام اور درود بھیجیں گے اور وابعثه مقاماً محمودا کی دعائیں کریں گے تو یہ مضمون اور زیادہ وسعت پذیر ہوتا چلا جائے گا.اس مضمون کا ایک گہرا تعلق عبادت سے ہے اور ماہ رمضان اور اس کی آخری راتوں کی عبادت سے ہے یہ وہ عشرہ ہے جس میں اس کثرت کے ساتھ اتنے گہرے خلوص اور انہماک کے ساتھ راتوں کی عبادت کی جاتی ہے کہ ایسی عبادت کا نظارہ دنیا میں کسی اور مہینے میں کہیں دکھائی نہیں دے سکتا.تمام عالم میں مسلمان جب اس آخری عشرے میں داخل ہوتے ہیں تو وہ جن کو پہلے عبادت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 201 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء سے کوئی شغف نہیں بھی ہوتا وہ بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اُن کی راتیں بھی جاگ جاتی ہیں.ایک محاورہ جو اردو میں عام ہے رات بھیگ گئی.میں ہمیشہ رمضان کے آخری عشرے میں داخل ہوتے وقت جماعت کو یاد کروایا کرتا ہوں.اس عام محاورے کا معنی تو یہ ہے کہ رات کا وہ حصہ آ گیا جس میں شبنم پڑنے لگتی ہے یعنی رات گہری ہوگئی اپنے دوسرے دور میں داخل ہوگئی اور شبنم کے ذریعے راتیں بھیگتی ہیں لیکن جماعت احمدیہ کو یا درکھنا چاہئے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تمام عالم میں مسلمانوں کے آنسوؤں سے یہ راتیں بھیگتی ہیں.یہ باہر کی شبنم نہیں ہے یہ دل کے اندر سے پیدا ہونے والی شبنم ہے، یہ وہ بخارات ہیں جو آنکھوں سے آنسو بن کر برستے ہیں جو مومن کی راتوں کو بھگو دیتے ہیں.پس اس عشرے کا حق ادا کریں اور اپنی راتوں کو بھگوئیں اور چونکہ تہجد کی دعا کا، آنحضرت ہ کی نماز کا ، حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود سے گہراتعلق ہے.اس لئے خصوصیت سے ان راتوں میں وابعثه مقاما محمودا کی دعا کیا کریں اور اس کے لئے بھی حمد کے ساتھ درود شریف کثرت سے سوچ کر اور غور وفکر کے ساتھ ادا کریں.صلى الله صلى الله آنحضرت ﷺ جب اس عشرے میں داخل ہوا کرتے تھے تو آپ کی جو کیفیت ہوتی تھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں.کہتی ہیں جب آخری عشرہ آتا تو حضور یہ اپنا تہبند مضبوط باندھ لیتے یعنی کمر کس لیتے ، جس کو ہم کہتے ہیں.راتوں کو خود بھی جاگتے گھر والوں کو بھی جگاتے.(مسلم کتاب الاعتکاف حدیث نمبر : ۲۰۰۸) پس وہ لوگ جو عبادتیں کرنے کے عادی ہیں انہیں خصوصیت سے اس آخری عشرے میں اپنے اہل و عیال کو جگانا چاہئے.یہ سنت نبوی ہے.یہ حضرت اسماعیل کی بھی ، خصوصیت کے ساتھ سنت تھی کہ آخر وقت تک تھکے نہیں ہمیشہ اپنے بچوں کو نماز کی تلقین کیا کرتے اور نمازوں کے لئے جگایا کرتے.پس آپ کو بھی آج کل خصوصیت سے اپنے سارے گھر کو بیدار کرنا چاہئے تہجد کے وقت کوئی بھی خاندان میں ایسا نہ ہو جو دعا میں شامل نہ ہو.مجھے ے یاد ہے قادیان کے زمانے میں چھوٹے بچوں کو بھی جگا لیا جاتا تھا اور اُن سے بھی کہا جاتا تھا کہ تم کچھ نہ کچھ دعا کرو اور اس مبارک وقت کی سعادتوں میں شامل ہو جاؤ.بعض دفعہ اُن کو تحریص کی خاطر اُن کی مرضی کی کوئی اچھی سی چیز بنا کے رکھ لی جاتی تھی.اُس کھانے کی خاطر اٹھتے تھے اور ساتھ ہی اللہ کے فضل سے تہجد کا بھی کچھ مزا اُن کو آ جاتا تھا.میں امید رکھتا ہوں کہ اس قادیان کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 202 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء مبارک سنت کو جو دراصل سنت انبیاء ہے، جو دراصل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندہ سنت ہے ، اُسے جماعت اپنے گھروں میں جاری کرے گی اور اس سے استفادہ کرے گی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایمان اور یقین کے ساتھ روزے رکھے اُس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور جو شب قدر میں ایمان اور یقین کے ساتھ قیام کرے تو اُس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں.( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر: ۳۴) الله یہ وہ عشرہ ہے جس میں لیلتہ القدر بھی آنے والی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان صلى الله فرماتی ہیں میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا.اے رسول اللہ ﷺ ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا دعا مانگوں.اس پر حضور ﷺ نے فرمایا تو یوں دعا کرنا اے میرے خدا تو بخشنے والا ہے بخشش کو پسند کرتا ہے.مجھے بخش دے اور میرے گناہ معاف کر دے.یہ بہت ہی اہم اور بنیادی دعا ہے اور خصوصیت سے میں نے آج کے خطبے کے لئے اس لئے چنی ہے لوگ اس دعا کو بھول کر فضلوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں.اے خدا میرے قرضے اتار،اے خدا مجھے دولت عطا کر، مجھے فلاں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر، خوشحالی بخش ، صحت عطا کر ، میرے عزیزوں اور پیاروں کی طرف سے خوشیاں دکھا وغیرہ وغیرہ اور بھول جاتے ہیں کہ کوئی عمارت بنیاد کے بغیر تعمیر ہو نہیں سکتی اور تمام فضلوں کی جڑ بخشش میں ہے.تمام ترقی کی بلند منازل بخشش کی بنیاد پر کھڑی کی جاتی ہیں.اگر ایک انسان اپنے گناہوں سے غافل ہو اور یہ خیال کرے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا، ہو گیا جو ہو گیا اور فضلوں کی باتیں کرتا ہو وہ جاہل ہے اُس کو پتا نہیں کہ اُس کی دعا بخشش کے بغیر قبول ہو ہی نہیں سکتی.صاف سطح ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے.پہلے کپڑے کو دھویا جاتا ہے پھر رنگ چڑھائے جاتے ہیں گندے کپڑے پر تو کوئی رنگ نہیں چڑھتا.پس بخشش کی دعا سب سے اہم دعا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر میں جو ساری زندگی سے بہتر ایک رات ہے.جس کے متعلق قرآن کریم سے پتا چلتا ہے ایک ایسی رات ہے وہ نصیب ہو جائے تو ساری زندگی اُس کی بن سنور جاتی ہے، زندگی کی ساری محنتیں کام آ جاتی ہیں.اُس رات کے خاص رحموں کے لئے آنحضور نے یہ دعا تجویز فرمائی کہ عائشہ یہ دعا کیا کرو.اے میرے خدا تو بخشنے والا ہے بخشش کو پسند کرتا ہے مجھے بخش دے اور میرے گناہ معاف کر دے.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۴۳۵) اس دعا الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 203 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء کے وقت اگر ایک انسان لفظی طور پر اس دعا سے گزر نہ جائے بلکہ اپنے ذہن میں اپنے گناہوں کو حاضر کرے تو ایک بڑی لمبی مشقت کی رات در پیش ہوگی کیونکہ انسان جتنا کھودتا ہے بچپن سے لے کر اپنی اُس عمر تک جس میں وہ پہنچا ہوا ہو.اُس کو کثرت سے گناہ اندر سے نکلتے ہوئے دکھائی دیں گے بعض دفعہ تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سیاہ لباس میں ملبوس گناہوں نے ایک جلوس نکال دیا ہے اور ہر گناہ ایسا ہے جو انسان کی ہلاکت کے لئے کافی ہے اور نافرمانی پر بنی ہے.تو بہت سے انسان تو ایسے ہیں جن کی زندگی کے اکثر اعمال یعنی غیر معمولی طور پر کثرت سے اُن کے اعمال گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں.شاذ کے طور پر کوئی نیکی نصیب ہوتی ہے اور جو نیک کہلانے والے ہیں وہ بھی جب ٹٹولتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ محض اللہ کی طرف سے ایک ستاری کی چادر ہے جس کے اندروہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اگر اُن کا اپنا حال دنیا کے سامنے ظاہر ہو جائے تو دنیا میں مکروہ ترین انسان شمار کئے جائیں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ اخباروں میں جب پڑھتے ہیں، فلاں شخص سے فلاں بدی سرزد ہوئی اور سارا محلہ اکٹھا ہو گیا اور بڑی اُس کی تشہیر ہوئی ، بڑی تذلیل ہوئی منہ کالے کئے گئے تو ایک آدمی، جاہل آدمی بڑا مزے سے پڑھتا ہے، خوب پکڑا گیا ، اوپر سے یہ تھا، اندر سے یہ نکلا.اگر اپنے اندر جھانک کے دیکھیں تو اندر جھانکا نہ جائے.ایسے ایسے، اتنے وجود، اُس کو دکھائی دیں، اپنے وجود کے اندر چھپے ہوئے کہ ہر وجود جب ننگا کیا جائے تو ساری دنیا کی لعنتیں اُس پر پڑیں کتنا غافل انسان ہے دوسروں کے عیوب دیکھنے میں کیسی دلیری دکھاتا ہے، کیسے فخر کے ساتھ اُس کا ذکر کرتا ہے اور پھر لذتوں کے ساتھ اُس کو پڑھتا ہے.اب انگلستان میں Royal فیملی کی بعض کمزوریاں کھوج کر کے باہر نکالی گئیں جو اسلام کی رُو سے سراسر نا جائز ہے اور ایک ظالمانہ فعل ہے.کسی کو حق نہیں کہ کسی کی ذاتی کمزوریوں کو کھوج کر کے نکالے اور پھر دنیا کے سامنے اُن کو پیش کر کے جگ ہنسائی کرے لیکن ان قوموں کے کردار بگڑ چکے ہیں ان قدروں کا اب ان کو خیال نہیں رہا.کھوج کر کے نکالی گئیں اور سارے اُن پر ہنستے اور مذاق اڑاتے ، ٹیلی ویژن پر پروگرام ہوتے حالانکہ وہی ٹیلی ویژن روزانہ روز مرہ کی زندگی کو اُس سے بہت زیادہ بھیانک شکل میں دکھا رہی ہے.وہ جرائم جو گھر گھر میں ہر وجود کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں.وہ اگر فلاں سے سرزد ہو جائے تو ساری دنیا ہنستی ہے اور مذاق اڑاتی ہے یہ دوغلا پن ، یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 204 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء منافقت انسانی زندگی کا حصہ بنی ہوئی ہے اور منافق خدا کے ہاں مقبول نہیں ہوسکتا.اس لئے مغفرت کی دعا کے وقت یہ بات مد نظر رکھیں کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ستاری نے آپ کو ڈھانپ رکھا ہے، یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ستاری آپ کو یہ بھی اجازت نہیں دیتی کہ اپنے جرائم دنیا کے سامنے پیش کریں.اس کو بھی خدا تعالیٰ کراہت سے دیکھتا ہے اور ناشکری سمجھتا ہے لیکن اپنے حضور تو اپنے گناہ پیش کریں.اگر آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے گناہ نہیں آئیں گے خدا کے حضور کس طرح پیش کر کے مغفرت اور بخشش کی دعائیں مانگیں گے.پس فضلوں سے بہت پہلے، بڑی بڑی ترقیات سے بہت پہلے، پیشتر اس کے کہ مقام محمود کی باتیں ہوں، مقام محمود والے کے قدم چھونے کی باتیں ہوں ، پہلے اپنے نفس کو تو پاک وصاف کرنے کے لئے مغفرت کی دعائیں مانگیں.یہ وہ نکتہ ہے جسے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کو سمجھایا اور یہ سمجھانا بتاتا ہے کہ کتنا گہرا عرفان تھا آنحضور میں.کوئی دنیا کا آدمی جب اُس سے کہا جائے کہ اگر تمہیں کوئی لمحہ نصیب ہو کہ جب کہا جائے مانگ جو مانگتا ہے تیری دعائیں قبول ہوں گی.تو ضرور ایسی ایسی باتیں سوچے گا دو جہان کی دوستیں مانگوں، فلاں جنت مانگوں، فلاں چیز مانگوں اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ جو واقعی حقیقی طور پر عارف باللہ تھے.آپ فرماتے ہیں بخشش کی دعا مانگنا، بخشش کے بغیر تمہیں کچھ بھی نہیں مل سکتا اور اگر حقیقت یہ ہے کہ انسان بخشش کے بغیر ایک زندگی کا سانس لینے کا بھی اہل نہیں.اُس کی ساری زندگی حرام کی زندگی ہے کیونکہ جب خدا کی نافرمانی میں اُس کی عطا کردہ نعمتوں سے انسان لذت حاصل کرتا ہے تو وہ حرام کی لذت ہے.اُس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.ساری زندگی میں وہ زہر گھول دیتی ہے.تو ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو حقیقت میں پاک ہو تبھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم :۳۳) کہ تم اپنے آپ کو پاک صاف نہ بتایا کرو.کیا با تیں کرتے ہو تم کیسے ذکی اور کیسے پاک انسان ہو.اللہ کو پتا ہے کہ کون پاک ہے؟ تم اپنی ماں کے پیٹ میں جنین کی صورت میں کروٹیں بدل رہے تھے.اُس وقت سے خدا تمہیں جانتا ہے.تمہاری حیثیت کیا ہے، تمہارے اندر خلقی کمزوریاں کیا کیا ہیں؟ جنہوں نے بڑے ہو کر کیا کیا رنگ دکھانے تھے؟ ان سب باتوں سے اللہ باخبر ہے وہی پاک ہے جسے اللہ پاک قرار دے.صلى الله پس مقام محمود پر غور کرتے ہوئے یہ سارا مضمون سمجھ آتا ہے.آنحضرت مہ نے جو علوم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 205 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء مقام محمود پر فائز تھے.ہمیں بتایا کہ حمد سے پہلے بخشش ضروری ہے اور بغیر بخشش کے نہ انسان حمد کی اہلیت رکھتا ہے ، نہ محمود بن سکتا ہے.پس تہجد کی دعاؤں میں سب سے زیادہ اپنی بخشش پر زور دیں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اپنے سامنے اپنے گناہوں کے جلوس نکالیں.ایک ایک جگہ ٹھہر کر دیکھیں کہ آپ کیا کرتے رہے ہیں.کس کس جگہ اپنے نفس کی غلامی کی ہے اور خدا کی غلامی سے اپنی گردنوں کو آزاد کیا ہے وہی مقام ہے جہاں آپ نے شیطان کی غلامی کی ہے اور خدا سے آزادی کا نام شیطان کی غلامی ہے درمیان میں کوئی چیز نہیں ہے.No man,s land کوئی نہیں.جہاں آپ دو چار سانس آزادی کے ساتھ بسر کر سکیں اگر خدا سے آزاد ہوئے ہیں لازماً شیطان کے غلام بنے ہیں.تو اُن زنجیروں کو توڑ کے پھینکیں گے تو پھر آزادی کے سانس نصیب ہوں گے اُس کے بغیر کیسے ہو سکتے ہیں.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی اس نصیحت کو حرز جان بنائیں اور بقیہ رمضان جو باقی ہے اس میں خصوصیت سے اپنے نفسوں کو گناہوں سے پاک کرنے کے لئے بخشش طلب کرنے صلى الله کی طرف غیر معمولی توجہ کریں.وہ کون سی رات ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے.ایک رات تو وہ ہے جب انسان بخشا جائے الله اور آنحضرت ﷺ نے جو مختلف جگہ لیلۃ القدر کا مضمون بیان فرمایا.میں تو اس سے یہی سمجھا ہوں کہ حقیقت میں لیلۃ القدروہ رات ہے جس میں انسان بخش دیا جائے اور ایک نئی پاک زندگی بسر کرے اور ایک نئی پیدائش اُسے نصیب ہو.پاک صاف ہو کر خدا کے حضور حاضر ہو پھر بھی اپنے آپ کو مسلسل دھوتا ر ہے.جیسے مقام محمود ہمیشہ بڑھنے والا مقام ہے اسی طرح بخشش کا مضمون بھی ایک جاری مضمون ہے.کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں آپ پہنچ کر کامل طور پر بخش دیئے جائیں اور پھر آگے ہر قسم کی گندگی سے پاک وصاف ہو جائیں.زیادہ سے زیادہ مثال آپ یہ دے سکتے ہیں کہ ایک بچے کی طرح دوبارہ پیدا ہوں لیکن پیدا ہوں گے تو اسی دنیا میں پیدا ہوں گے.جنت میں تو نہیں پیدا ہوں گے اسی دنیا کی کثیف ہوا میں سانس لیں گے، اسی دنیا کی آلودگیوں کے ساتھ زندہ رہیں گے تو ہر روز کی میل کچیل ، ہر روز کے گند ، آپ کو روزمرہ ان سے واسطہ ہے جس سے چھٹکارا نصیب نہیں ہوسکتا اور چھٹکارا کیسے نصیب ہو گا.اُس کا اسی آیت کریمہ میں ذکر ہے کہ عبادت کے ذریعے، نمازیں پڑھو.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایسا شخص جس کے پاس شفاف پانی کی نہر بہہ رہی ہے اور وہ پانچ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 206 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء وقت اُس میں غوطے مارے اور نہائے ، اپنے جسم کو مل مل کر صاف کرے.اُس کے جسم سے سب آلودگیاں مٹتی چلی جاتی ہیں اور وہ پانچ وقت کی نمازیں ہیں جو ایک جاری نہر ہے جو تمہارے ساتھ بہہ رہی ہے.( بخاری کتاب المواقيت الصلوۃ حدیث نمبر : ۴۹۷) اس میں غوطہ مارا کرو، صاف ہوا کرو تا کہ روزمرہ پیدا ہونے والی آلودگیاں ساتھ ساتھ ڈھلتی رہیں اور اس طرح بخشش کا مضمون جاری رہتا ہے جب بخشش ہو پھر مقام محمود نصیب ہوتا ہے اور اس طرح ہر انسان کا مقام محمود اپنا اپنا ہے.ایک بچے کو آپ پیار کرتے ہیں مگر اُس وقت نہیں جب اُس کا پوتڑا گندہ ہو چکا ہو، جب بد بوئیں چھوٹ رہی ہوں، جب ناک بہہ رہے ہوں، گندگی منہ پر گئی ہو.آپ اٹھا کے اُس کی ماں کی گود میں پھینکتے ہیں.جب وہ صاف ستھرا ہو کر بخشش پانے کے بعد یعنی دنیا کی آلودگیاں، ان کو میں گناہوں کی مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں.آلودگیوں سے پاک ہو کر جب آپ کو دکھائی دیتا ہے تو اُسی بچے کو ماں سے چھین چھین کے اپنی گود میں لیتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ بخشش ماں کی گود میں ہے.یہ وہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اللہ کی گود کے سوا کہیں بخشش نہیں ہے، بار بار خدا کی گود میں لوٹنے کا نام نماز ہے اور گود میں جا کر حاضر ہونے کا کہاے خدا ہم پھر گندے ہو کر تیرے حضور حاضر ہوئے ہیں، اب ہم کیا کریں کہ اللہ صاف کرے گا ، اللہ پاک کرے گا.پھر اس دنیا کی زندگی میں نکلیں گے، پھر آلودگیاں ہوں گی ، پھر دوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہوں گے.وہ ماں جب تمہیں پاک کرے گی.پھر تمہیں مقام محمود عطا ہوگا.اس دنیا کو بھی پیارے لگو گے، اُن دیکھنے والی آنکھوں کو پیارے لگو گے جو حمد کا مضمون جانتی ہیں ، جن کو پتا ہے کہ حقیقی قابل تعریف کیا چیز ہے؟ پس قرآن کریم نے ان آیات میں ان دونوں مضامین کو کس طرح عمدگی کے ساتھ بیان فرمایا اور کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ کے لئے باندھ دیا.اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ پانچوں وقت کی نمازیں، جمع وہ نفل کی نمازیں اس ایک آیت کے اندر سمیٹ دی گئیں نماز قائم کرو أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ جب سورج کی روشنی کم ہو رہی ہو یعنی ظہر وعصر کی نمازیں اس میں آ گئیں.اُس وقت تم نماز ادا کرو.اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ یہاں تک کہ شام رات
خطبات طاہر جلد ۱۲ 207 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء پڑے پھر جب وہ بھیگ جائے ، گہری ہو جائے یعنی مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی اس میں داخل ہوگئیں اقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اور پھر فجر کے وقت بھی تم نے قرآن کی تلاوت کرنی ہے وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِہ اور راتوں کو بھی اٹھ کر تہجد کے ذریعے اپنی راتوں کو زندہ کرنا ہے، پُر نور کرنا ہے نَافِلَةً تک یہ تیرے لئے نفلی طور پر عبادتیں ہوں گی.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا یہ سب پاپڑ بیلے جائیں اگر انسان کی طرف سے، یہ سارے جہاد خدا کی راہ میں ہو جائیں، یہ ساری کوششیں صرف ہوں تو پھر وعدہ ہے کہ خدا تجھے مقام محمود عطا فرمائے گا.یہ تفصیل اور وعدہ مستقبل کا ایک اور بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کوتو مقام محمود کا مستقبل وعدہ یہ معنی رکھتا ہے کہ مقام محمود میں ترقی ہوتی چلی جائے گی اور ہر آن نئی شان کے ساتھ مقام محمود ابھرے گا اور دیکھنے والوں کو آنحضور ﷺ ایک نئے اور اعلیٰ اور ارفع جلوے پر فائز دکھائی دیں گے اور چونکہ حمد رسول اللہ ﷺ کی امت کا بھی آپ کے ساتھ ذکر ملتا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ * وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الح: ٣٠) جو احکام حضور اکرم یہ کے لئے خاص ہیں وہ خالی طور پر مومنوں کے اوپر بھی اطلاق پاتے ہیں.پس یہاں وعدہ مستقبل کا وعدہ لیا جائے تو اُس وعدے میں ہر مسلمان شریک ہو جاتا ہے.انہیں گویا یہ بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ اللہ نے جو مقام محمود حاصل کیا ہے ، وہ اس طرح حاصل کیا ہے، آرام سے بیٹھے ہوتے ، کھاتے پیتے تو حاصل نہیں کر لیا.خدا کی راہ میں عبادتوں کی ایک لمبی جد و جہد کی ہے اُس کے نتیجے میں آپ کو مقام محمود عطا b ہوا ہے.لف پس اگر تم بھی مقام محمود حاصل کرنا چاہتے ہو اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا صبح کا قرآن تو مشہور ہوتا ہے خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن بندوں کو دیکھتے ہیں جو عبادت میں بھی قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں،عبادت کے بعد بھی صبح کے وقت قرآن پڑھتے ہیں وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِہ راتوں کو پھر تہجد بھی پڑھا کرو.آخری عشرے میں داخل ہوتے وقت تو ایک بہت بڑی تعداد ہے مسلمانوں کی جو تہجد ادا کرتی ہے یا کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن رمضان مبارک کے بعد وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 208 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء مقام محمود کے قریب پہنچ کر اس سے دور ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں.دو چار ہاتھ لب بام رہ گئے والی بات ہے.قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا پس جب تک ایک رمضان کو دوسرے رمضان کے ساتھ تہجد کے ذریعے ملا نہیں دیتے اُس وقت تک حقیقی معنوں میں اُس وقت تک آپ مقام محمود کے قریب نہیں پہنچ سکتے اور یہ وعدہ آپ کے لئے ہمیشہ مستقبل کا وعدہ ہی بنا رہے گا.پس مقام محمود کو حاصل کرنے کے لئے عبادت کے رستے سے داخل ہوں اور رات کی تہجد کی عبادت پر زور دیں اور ایک دفعہ جب یہ عبادت شروع کریں تو اس کو چھوڑیں نہیں اور ہمیشہ اس عبادت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت پر کیسے قائم ہوں؟ بڑا مشکل کام ہے.وہ سورۃ یعنی سورۃ فاتحہ جس میں مقام محمود کا ذکر ہے ، مقام محمدیت کا ذکر ہے، مقام حمد کا ذکر ہے جس میں اس مضمون کی کنجی رکھی گئی ہے، اس میں اس مضمون کی بھی کنجی رکھ دی گئی ہے جواب میں بیان کرنا چاہتا ہوں، عبادت کرنی ہے تو کیسے کریں پھر ؟ تو فیق ہی نہیں ملتی انسان کھڑا ہوتا ہے دوسرے مسائل انسان کو گھیر لیتے ہیں، ہستیاں غالب آ جاتی ہیں، توجہ کبھی اس طرف کبھی اُس طرف کبھی دنیا کے کاموں کی طرف کبھی خوف گھیر لیتے ہیں، کبھی تمنا ئیں چھٹ جاتی ہیں، ہر طرف سے بتوں کا گھیرا ہوتا ہے تو جو نماز پڑھتا بھی ہے اس کی توجہ بھی بٹتی رہتی ہے اور ایک بڑی تعداد ہے جو کبھی پڑھ لیتی ہے نماز اور نہیں بھی پڑھتی اور ایسے بچے گھروں میں پل رہے ہیں اور کوئی توجہ نہیں کر رہا، کوئی دیکھ نہیں رہا.خصوصیت سے ہماری دیہاتی جماعتیں پیش نظر ہیں.جہاں ذیلی تنظیموں کے بازو بھی مضبوط نہیں ہوئے اور ماں باپ میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو نمازوں پر قائم کریں.وہاں کئی قسم کے خطرات ہیں جو پنپ رہے ہیں اور اُن خطرات کا شکار کئی نسلیں ہو چکی ہوں گی اُن کی مجھے فکر رہتی ہے.الحمد للہ کہ اب ان براہ راست خطبات کے ذریعے میں اُن تک پہنچ رہا ہوں.اُن میں سے بہت سے رمضان کی برکت کے نتیجے میں بیٹھے ہوں گے سامنے ، آئے ہوں گے، کہیں گھٹیالیاں کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے، کہیں کوئی اور سکھیکی کی جماعت ہے، سرگودھا کی جماعتیں ہیں، چک منگلا کی جماعت پہنچی ہوئی ہو گی، بے شمار جماعتیں ہیں جو مجھے یاد آتی رہتی ہیں جمعہ کے بعد اور میں سوچتا ہوں کہ جب میں خطبہ دوں گا تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 209 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء وہ بھی سامنے بیٹھی ہوں گی لیکن اس وقت تو سب کے نام نہیں لے سکتا.مجھے پتا ہے کہ کون کہاں کہاں بیٹھا ہوا ہے.افریقہ میں بھی خطبہ پہنچنا شروع ہو گیا اللہ کے فضل سے لوگ سن رہے ہیں.یہ بات میری یا درکھیں کہ نماز کے قیام کے بغیر احمدیت کی کوئی حقیقت نہیں ، اسلام کی کوئی بھی حقیقت نہیں، روزے کی کوئی حقیقت نہیں.روزہ دراصل آپ کو عبادتوں پر قائم کرنے کے لئے آتا ہے اور روزے کے اپنے فوائد ہیں جو الگ ہی ہیں لیکن مرکزی فائدہ رمضان کا یہ ہے کہ آپ کو عبادتوں کا مزہ چکھاتا ہے، عبادتوں پر قائم ہونے کے راز بتاتا ہے اور کچھ دیر ہاتھ پکڑ کر زبردستی چلاتا ہے تا کہ پھر آپ چلتے رہیں یہ تو مطلب نہیں کہ رمضان ختم ہوا تو آپ بھی وہیں رک کر کھڑے ہو جائیں اس کا حل کیا ہے؟ سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے اس کا حل بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر نمازوں میں توجہ پیدا نہ ہو ، کمزوری ہو ، بار بار اٹھائیں، بار بار گر جائیں تو پھر سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ کی حمد کے بعد یہ دعا توجہ سے کیا کرو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاته : ۵) جس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ہم تیری عبادت کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، دونوں معنی ہیں یا کریں گے.تو ہر شخص اس کے اندر داخل ہو جاتا ہے، کوئی ایک بھی مسلمان نہیں ہے جو اس دعا کے وقت کسی نہ کسی گروہ سے متعلق نہ ہو، اگر نمازوں کا عادی نہیں ہے تو اُس کی دعا کا معنی یہ بنے گا کہ اے خدا ہم تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں اور کریں گے مگر طاقت نہیں.اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تجھ سے مدد چاہتے ہیں.نماز پڑھنے کی تمنالے کر حاضر ہو گئے.اب تجھ سے مدد چاہتے ہیں ہمیں نمازوں پر قائم فرما دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اگر اس طرح توجہ اور الحاح کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے حضور پھینک دے گا اور نہتا اور بے بس سمجھے گا اور یہ عرض کرے گا کہ اے خدا جس کی حمد کے ہم نے گیت گائے ہیں، تجھ سے تعلق کی تمنا پیدا ہو چکی ہے.اب تو فضل فرما اور ہمیں نمازیں پڑھنے کی توفیق بخش اور نمازوں سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق بخش.تو پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کوضرور سنتا ہے.ضرور مددفرماتا ہے.جس طرح استغفار کے بغیر فضل ہمیں نصیب نہیں ہو سکتے.اُسی طرح اس دعا کے بغیر دعائیں مقبول نہیں ہوسکتیں کیونکہ اسی آیت کا ایک اور معنی ہے جو اس پہلے معنی کی کوکھ سے پھوٹتا ہے.جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے.اسی معنی سے اسی آیت کا ایک اور معنی پھوٹتا ہے اور وہ ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہ اے خدا جب تیری عبادت کرتے ہیں کسی اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 210 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء کی نہیں کرتے تو مد بھی تجھ سے ہی مانگیں گے، مدد مانگنے کے لئے کسی غیر کے گھر تو نہیں جائیں گے.اس لئے جب تیرے ہو گئے تو ہماری دعاؤں کوسن اور ہماری مدد کو آ.یہ دعا اگر نماز پر قائم ہونے کے بعد انسان کو نصیب ہو تو ضرور سنی جاتی ہے اور کبھی مردود نہیں ہوئی اس لئے قبولیت دعا کی کنجی اس آیت کریمہ میں ہے اور مقام محمود کی چابی بھی یہی ہے دراصل.پہلے مقام محمود کا ذکر ہوا اور مقام محمود پانے والے کا وجود ہمارے سامنے ایک عجیب نمونے کے طور پر ابھر الیکن اُس تک پہنچنے کی راہیں اتنی مشکل ہیں اور راستے کے مصائب اتنے زیادہ ہیں کہ انسان کی کمر صلى الله ہمت ٹوٹ جاتی ہے.کہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ان کے تصور کے قدم چھوتے بھی انسان ڈرتا ہے.میں نا پاک کیسے وہاں تک پہنچ سکتا ہوں اور پھر آپ کے وسیلے سے خدا تک پہنچنا ایک اور دور کا ، بعید کا بار یک مضمون ، اُس مضمون کو سورۂ فاتح حل کر دیتی ہے.ہمیں بتاتی ہے کہ حمد و ثنا پر غور کرنے کے بعد یہ دعا کیا کرو کہ ہمیں عبادت عطا فرمادے کیونکہ عبادت کے بغیر مقام محمود دل نہیں سکتا.عبادت کے بغیر مقام محمود والا بھی نہیں مل سکتا.یہ بات یادرکھیں کہ جن کو حضور ﷺ سے محبت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ قیامت میں مرنے کے بعد محمد اللہ کے قریب اٹھائے جائیں اُن کو میں بتا دیتا ہوں کہ عبادت کے بغیر وہ مقام نہیں مل سکتا کیونکہ مقام محمود پانے والے نے عبادت کے رستے سے مقام محمود پایا ہے اور عبادت کا راستہ چھوڑ کر آپ اُس تک بھی نہیں پہنچ سکتے، بھول جائیں اس بات کو ، باقی ساری محبتیں فرضی اور بے معنی اور بے حقیقت ہیں.اسلام ایک سائنٹیفک مذہب ہے، ایک حقیقت کا مذہب ہے.ایسے قوانین کا مذہب ہے جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہے.پس جس رستے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے مقام محمود کو پایا ہے اور برتر مقام محمود آپ ﷺ کو ہمیشہ نصیب ہوتا چلا جائے گا اگر اُن تک پہنچنا ہے تو اُسی رستے پر چلنا ہو گا، اُنہی دروازوں سے چلنا ہو گا خواہ وہ تنگ محسوس ہوں اور جب آپ کوشش کر کے اُن دروازوں سے گزرنا شروع کریں گے تو دروازے کھلنا شروع ہو جائیں گے.دروازوں کے کھلنے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ تنگ دروازے پھر بڑے کئے جاتے ہیں.کشادگی نصیب ہوتی ہے انسان کو اور جو کام کرتے ہوئے پہلے وقت نصیب ہوتی تھی تنگی سے کیا کرتا تھا.پھر وہ بشاشت سے اور کھلے دل کے ساتھ اُس کو کرتا ہے، اُس میں لذت محسوس کرنے لگتا ہے.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 211 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء پس دعا کی قبولیت کی چابی بھی اسی میں ہے.اب رمضان کے جتنے روزے رہ گئے ہیں.میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تہجد کی نماز پہ پہنچنے سے پہلے پہلے دن کی نمازیں ادا کیا کریں.جب تک دن کی نمازیں ادا نہیں ہوں گی نَافِلَةٌ لكَ والی نماز نصیب ہی نہیں ہوسکتی.پانچ وقت نمازوں کو قائم کریں اور روزے رکھیں.بہت سے احمدی ایسے ہیں جن کے متعلق میں جانتا ہوں کئی بہانوں سے وہ روزے چھوڑ دیتے ہیں اور روزوں کے معاملے میں جماعت میں ابھی تک سستی پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ اور آپ کے تابعین جو مجھے یاد ہیں قادیان میں جن کے ماحول میں ہم نے آنکھیں کھولیں اور بڑے ہوئے وہ روزوں کے بہت پابند تھے اور رمضان کے مہینے میں قادیان کی فضا ہی عجیب لہریں لیتی تھیں، اس کی تو کیفیت ہی بدل جایا کرتی تھی.دن بھی روشن تر ہو جاتے تھے اور راتیں بھی جاگ اٹھتی تھیں اور راتوں کو بھی لوگوں کے گھر منور ہو جایا کرتے تھے.وہ مقام حاصل کرنے ہیں تو نمازوں سے بھی چمٹیں اور روزوں کے ذریعے نمازیں نصیب ہوتی ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر رمضان مبارک فرض نہ ہوا ہوتا تو مسلمانوں میں سے کب سے نمازیں اکثریت سے مٹ چکی ہوتیں.یہ پیارا مقدس مہینہ ہے جو دوبارہ زبردستی نمازوں کی عادت ڈال کے جاتا ہے.کسی کو تھوڑی پڑتی ہے، کسی کو زیادہ پڑتی ہے مگر رمضان کی برکت سے نمازیں پہلے سے بہتر ہو جاتی ہیں.اُن میں زیادہ با قاعدگی آجاتی ہے، وقت پر پڑھی جاتی ہیں غرضیکہ نمازوں کے قیام کے لئے رمضان مبارک ایک بہت ہی مقدس مہینہ ہے مگر اگر روزے نہیں رکھیں گے تو نمازیں بھی نصیب نہیں ہوں گی.روزے رکھیں پوری محنت اور کوشش کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام روزے کے متعلق جو فرماتے ہیں کچھ حصہ میں آئندہ بیان کروں گا.تھوڑے وقت میں جو کچھ میں پیش کر سکتا تھا.میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں:.”میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اُس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالی طاقت بخش دے گا.اگر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 212 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس 66 نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں...“ یہ بہت ہی عظیم مضمون ہے دیکھیں شریعت لعنت نہیں ہے بلکہ شریعت نعمت ہے اور وہ لوگ جنہوں نے شریعت کو لعنت قرار دیا، اُن کے دل کی لعنتیں تھیں جنہوں نے اُن کے ذہنوں کو ماؤف کر دیا ہے.وہ سمجھ نہیں سکتے کہ قوانین بہتری کے لئے بنائے جاتے ہیں.دنیا میں جتنی سولائز یشن ترقی کر رہی ہے اتنا زیادہ انسان قانون بنا رہا ہے.انسانی قانون تجربے کے نتیجے میں صیقل ہوتے چلے جاتے ہیں اور صاف ہوتے چلے جاتے ہیں.بعض دفعہ پہلے حال سے بھی گر جاتے ہیں.یہ قرآن کریم کا کمال ہے اُس نے قیامت تک کی ضرورتوں کے لئے قوانین بنائے ہیں اور صلى الله حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ نے اُن قوانین پر عمل کرنا سکھایا ہے.یہ عجیب معجزہ ہے اور ان قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں پھر.روز مرہ پتا لگے، یہ نقص رہ گیا تھا، اس لئے یہ تبدیلی کر دی جائے.ہر امکانی مجبوری کے لئے ایک امکانی رستہ کھول دیا گیا ہے.حیرت انگیز مذہب ہے.پس ہر قانون جو پابندی عائد کرتا ہے، وہ سوسائٹی کی بھلائی کے لئے اور فرد کی بھلائی، دونوں کی بھلائی کے لئے قانون پابندی عائد کرتا ہے.کوئی یہ نہ سمجھے کہ قید بُری چیز ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:....قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں.میرے نزدیک اصل یہی وو ہے انسان صدق و کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا تعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے...“ خدا کی راہ میں مشقتیں برداشت کرنے کے لئے بہادری دکھائے ، اپنے آپ کو جرات سے پیش کرے.وو...جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیست درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا.اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 213 خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۹۳ء بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه : ۵۶۳) یہ وہی فرشتوں والا مضمون آ گیا.حقیقت میں یہ مراد نہیں ہے کہ فرشتے واقعہ پیچھے آ کر صفیں باندھ کر نماز میں پڑھنے لگ جاتے ہیں یا روزے رکھنے لگ جاتے ہیں.فرشتوں کے لئے تو روزے کا تصور ہی نہیں ہے، نہ انسانوں کی طرح نمازیں پڑھنے کا تصور ہے، تمثیلی باتیں ہیں.مراد یہ ہے کہ آسمان پر یہ نیکیاں اُن کے حق میں لکھ دی جاتی ہیں.فرشتوں کی تائید اُن کو نصیب ہو جاتی ہے.پس ان معنوں میں اپنے رمضان کو آپ فرشتوں کی تائید والا رمضان بنانا چاہیں تو نیک نیتی سے روزے کی تمنا کریں اور چھوٹے چھوٹے بہانے بنا کر روزے چھوڑنے کی طرف رجحان کا میلان نہ رکھیں کیونکہ یہ انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباس میں اگر توفیق ملی تو آئندہ جمعہ میں پیش کروں گا.ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کر دوں.ایک ماں نے لکھا ہے اپنے بچے کے متعلق کہ آپ نے جب روزہ پر زور دیا کہ روزہ ضرور رکھنا چاہئے.تو میرے چھوٹے بچے نے مجھے تاکید کی رات سونے سے پہلے کہ امی مجھے ضرور جگانا ہے.میں نے ضرور روزہ رکھنا ہے.کہتے ہیں میں نے نہیں جگایا.بالکل چھوٹا بچہ ہے.دوسرے دن صبح شکوہ کیا کہ آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں.شکوہ کرتے کرتے کھانسی آ گئی.کہنے لگا اچھا کیا آپ نے نہیں جگایا.حضور نے فرمایا تھا کہ بیمار روزہ نہ رکھے.چھوٹی سی پیاری سی بات ہے.لیکن درخشندہ مستقبل کی آئینہ دار ہے.ہماری نئی نسلیں ایسی پل رہی ہیں.وہ جو چھوٹے چھوٹے بچے کچھ سنتے ہیں تو سوچتے ہیں.ان کے دلوں میں یہ باتیں گہری جاگزیں ہو رہی ہیں جو باتیں بچپن میں دل میں بیٹھ جائیں ، وہ انسان کے ساتھ ساتھ نشو ونما پاتی ہیں.پس مبارک ہو کہ ہماری آئندہ نسلیں اللہ کی راہ میں پہلے سے زیادہ جد و جہد کرنے والی پیدا ہوں گی.آج جن چھوٹے معصوم بچوں میں نیکیاں پل رہی ہیں کل وہ جب باہر نکل کر جولانیاں دکھائیں گی.تو کل عالم کو انشاء اللہ نیکیوں سے بھر دیں گی.اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
214 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 215 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء جمعۃ الوداع کو جمعہ الاستقبال بنا دیں.جمعہ سے پانچ وقت نمازوں کی حفاظت ہوتی ہے.( خطبه جمعه فرموده ۱۹ار مارچ ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إلى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) ( الجمع : ۱۰ سال) فرمایا:.آج تمام دنیا میں جمعۃ الوداع منایا جا رہا ہے یا منایا جا چکا ہے.کچھ ہیں جو اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہوں گے، کچھ کر چکے ہوں گے، کچھ تیاری میں مصروف ہیں.لیکن جہاں بھی جمعۃ الوداع کا فرض ادا کیا جا رہا ہے وہاں مسجدوں میں ایسی رونق ہے کہ اس سے پہلے سارا سال کبھی مسجدوں میں ایسی رونق نہیں دیکھی تھی.اس تعلق میں ایک بات میں سال ہا سال سے جماعت کے سامنے پیش کر رہا ہوں.آج بھی اُسی سے خطبے کا آغاز کروں گا کہ جمعتہ الوداع کی حیثیت کیا ہے؟ کیوں اس ذوق و شوق سے لوگ اس جمعہ میں شامل ہوتے ہیں.وداع کی دو قسم ہیں.ایک تو وداع اُس محبوب کا کیا جاتا ہے جس سے مدت کے بعد
خطبات طاہر جلد ۱۲ 216 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء ملاقات ہوئی ہو اور وہ آخر جدائی کے وقت الوداع کہتے ہوئے رخصت ہورہا ہو.ایسے موقع پر جدائی کے ساتھ غم بھی ہوتا ہے.محبت کے جذبات چہرے سے امڈ پڑتے ہیں اور دونوں طرف سے برابر احساس جدائی دل کو گھیر لیتا ہے.یہ وہ وداع ہے جو ایک محبوب کا وداع ہوتا ہے.اس وداع کا تعلق جمعتہ الوداع سے یوں بنتا ہے کہ کچھ لوگوں نے رمضان کا ایک لمبے عرصے انتظار کیا.اپنی کمزوریوں کی وجہ سے دن بہ دن بہت سی غفلتوں میں ملوث ہوتے چلے گئے اور رمضان کی راہ دیکھتے رہے کہ وہ آئے تو ہمارے سارے گناہ دھلیں ، ہم از سرنو پاک صاف ہوکر ایک نئے سال کا آغاز کریں.ایسے لوگوں کے لئے یہ جمعہ ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ رمضان کے وداع کے ساتھ یہ جمعہ بھی آخری جمعہ ہے اور اس پہلو سے توقع ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جنہوں نے سارا سال انتظار کیا اور پھر رمضان کی برکتوں سے حصہ لینے کی بھر پور کوشش کی ، اُن لوگوں کو پیار کی نظر سے دیکھے گا اور اس جدائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات کو قبول فرمائے گا اور اگلے رمضان تک اُن کو مزید نیکیوں کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے گا.ان نیک توقعات کے ساتھ جو لوگ رمضان کا انتظار کرتے رہے ہیں ، اُن کے لئے یہ جمعتہ الوداع واقعہ جمعۃ الوداع کہلانے کا مستحق ہے.لیکن ایک وداع ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ایسا مہمان آ کر ٹھہر جائے جو جانے کا نام ہی نہ لے.انتظار کرتے چلے جائیں، مجبوریاں حائل ہوں کہ انسان مہمان کو باہر نکال بھی نہیں سکتا لیکن سارا گھر بڑی تکلیف میں مبتلا ہو بالآخر ایسا مہمان ایک دن رخصت ہوتا ہے، اُسے بھی چھوڑنے کے لئے لوگ گاڑی پہ جاتے ہیں یا بس کے اسٹیشنوں پر جاتے ہیں یا کار تک رخصت کرنے کے لئے آتے ہیں اور جب تک وہ چلا نہیں جاتا.وہم یہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی بہانے ٹھہر ہی نہ جائے اور جب وہ کار یا بس یا گاڑی روانہ ہو جاتی ہے تو چہروں پر ایسی بشاشت آتی ہے کہ الحمد للہ شکر ہے.آواب ہم اپنے گھر کی خوشیوں کی طرف واپس لوٹیں.بڑی بھاری تعداد مسلمانوں کی ایسی ہے جو جمعۃ الوداع کو ان معنوں میں وداع کرنے آتے ہیں.رمضان اُن پہ بہت بھاری گزرتا ہے اور خدا کی عبادتوں سے تنگی محسوس کرتے ہیں.ایک تو طبعی تکلیف ہے جو ہر انسان کے ساتھ لازم ہے.اس تکلیف کے علاوہ یہ ایک تکلیف ہے جو دل کی تنگی کہلاتی ہے، میں اُس تنگی کا ذکر کر رہا ہوں اور وہ انتظار کرتے ہیں کہ کب رمضان رخصت ہو تو ہم اپنی پرانی بدیوں کی طرف لوٹ آئیں، اُن آزادیوں کی طرف لوٹ آئیں ،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 217 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء جو خدا کی عائد کردہ پابندیوں کی زنجیریں توڑنے سے حاصل ہوتی ہیں.دو قسم کی آزادیاں ہیں جو رمضان کے بعد نصیب ہونے والی ہیں ، ایک اُن نیک لوگوں کی آزادیاں جنہوں نے رمضان کا راستہ دیکھا، جانتے ہوئے کہ پابندیاں عائد ہوں گی خوشی سے اُن کو خدا کی خاطر قبول کیا اور اب جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا سے اُس کی عطا کردہ آزادیوں کی طرف لوٹیں گے.اُن کو لازماً ایک خوشی ہو رہی ہے ، یہ کہنا تکلف ہے کہ تمام لوگ رمضان کی رخصت کو رو رہے ہیں اگر واقعہ یہی رونا آتا ہو تو پھر روزے رکھتے کیوں نہیں چلے جاتے.بات یہ ہے کہ رمضان میں جہاں بہت سی محبت اور پیار کی چیز میں ہیں وہاں محبت اور پیار کے نتیجے میں عائد ہونے والی سختیاں بھی تو ہیں اور جب محبوب خود اپنے پیار سے ان سختیوں کو اٹھا لیتا ہے تو محبت میں کمی نہیں کرتا.ہاں اپنے پیارے بندوں کو اجازت دیتا ہے کہ میری پہلی نرمیوں کی طرف لوٹ جاؤ.اُس کے نتیجے میں لازماً ایک بشاشت بھی پیدا ہوتی ہے اگر یہ بشاشت نہ ہو تو رمضان کے معا بعد عید کیوں رکھی جائے.پس کچھ ان معنوں میں ضرور خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رضا سے ہم پر نظر رحمت فرمائی اور از خود اُن آزادیوں کی طرف لوٹا دیا جو پہلے بھی اُس کی مرضی کے تابع تھیں.لیکن کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی بے راہ روی کی طرف لوٹنے پر خوش ہیں جانتے ہیں کہ ادھر رمضان ختم ہوا، ادھر انہبی آزادیوں کی طرف لوٹیں گے جن کو خدا کی رضا حاصل نہیں ہے، جو اُس کی رضا کے بندھن توڑنے کے بعد حاصل ہوتی ہے.پس یہ اُن کا بھی آج وداع کا دن ہے.مگر دیکھیں ان دونوں الوداع میں کتنا فرق ہے؟ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے سارے سال جمع نہیں پڑھے ، نمازوں میں بھی سست ہیں اور جمعے بھی ادا نہیں کرتے رہے یا کرتے ہیں تو بے ذوقی کے ساتھ ، بڑی مشکل سے کبھی جمعہ ادا کر لیا اور کبھی نہ کیا.آج وہ بھی حاضر ہیں اور اُن کو شائد رمضان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بھی نہ ملی ہولیکن وہ بھی جمعہ کو وداع کرنے آئے ہیں.کہتے ہیں کہ اب ایک سال تک ہم تیرا منہ نہیں دیکھیں گے.چھٹی السلام علیکم اور یہ بھی خوش ہو رہے ہیں کہ اس ایک جمعہ کو ادا کر کے سارے سال کی نیکیاں اُن کو میسر آ گئیں.وہ جمعۃ الوداع ہی نہیں جمعتہ البدل بن گیا.ہر دوسرے جمعہ کا بدل، ہر دوسری نیکی کا ، ہر دوسری نماز کا بدل بن گیا.یہ بالکل غیر حقیقی بات ہے اس میں کوئی سچائی نہیں.پس وہ لوگ جو جمعہ کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 218 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء ان معنوں میں رخصت کرنے آئے ہیں.اُن سے بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کے پیغام کا کوئی تعلق نہیں.میں جماعت احمدیہ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ لوگ جو وداع کرنے آئے ہیں اُن معنوں میں وداع کریں جن معنوں میں میں نے ابتداء میں ذکر کیا.محبت کے ساتھ خدا کے حضور حمد وثنا کے گیت گاتے ہوئے اُس سے یہ دعائیں کرتے ہوئے کہ اے خدا بہت ہی بابرکت جمعہ آیا ہے.ہم نے مشقت کی راہ اختیار کرتے ہوئے تیری خاطر پابندیاں اختیار کیں اور ان پابندیوں کی حالت میں جو برکتیں نازل ہوتی ہیں جمعہ کے دن وہ برکتیں غیر معمولی طور پر آسمان سے بھر پور صورت میں اترتی ہیں.تین جمعے ہم نے تیرے فضل اور رحمتوں کے دیکھ لئے یہ وہ جمعہ ہے جو سارا سال میں برکتوں کے لحاظ سے سب سے بڑا جمعہ ہے.پس ان برکتوں سے ہمارے دامن بھر دے، جو غفلتیں ہم سے ہوئیں اُن سے درگز رفرما،صرف نظر کر اور بخش دے اور اگر ہم نے ان برکتوں کو کمایا نہ بھی ہو تو ہماری جھولی میں ایک فقیر کی طرح کچھ ڈال دے.ان دعاؤں کے ساتھ اس جمعہ کو الوداع کہنے والے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبولیت کی جگہ پائیں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُن کی جھولیاں بھری جائیں گی.بعض دنوں میں کنجوس بادشاہ بھی بڑی بڑی خیرات کرتے ہیں اور وہ جو سنی ہوں وہ تو خزانوں کے منہ کھول دیا کرتے ہیں.پس آج کا دن اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے خزانوں کا منہ کھولنے کا دن ہے مگر وہی اُس سے فائدہ اٹھائیں گے جن کا میں نے پہلے گروہ میں ذکر کیا ہے.وہ لوگ جو جمعہ نہیں پڑھنے آئے اور جمعہ کو الوداع کہنے کے لئے آئے ہیں.اُن کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس جمعے کی برکت سے اپنے گھر اس طرح بھریں کہ آئندہ کبھی جمعہ میں کوتا ہی نہ کریں.اسے جمعۃ الوداع بنانے کے بجائے جمعہ الاستقبال بنا دیں.استقبال کرتے ہوئے خدا سے عرض کریں کہ ہم سے بہت غفلت ہوئی، ہم نے ہر جمعہ کو ہمیشہ سے وداع کر رکھا تھا، آج ہم تیرے حضور حاضر ہوئے ہیں چند جمعے جو تیری خاطر ہم نے پڑھے یا اگر نہیں بھی پڑھے.آج کے جمعے میں تو ہم حاضر ہو گئے ہیں.اس کو ہمارے لئے دائگی برکت کا موجب بنا، اسے ہمارے گھر ٹھہرا دے اب ہم کبھی جمعے سے جدا نہ ہوں.پس ان معنوں میں اُسے جمعتہ الاستقبال بنادے.اگر ایسا کریں گے تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 219 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء اُن کی زندگیوں میں عظیم الشان پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.اس ضمن میں میں اگلی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ایک جمعۃ الوداع کے موقع پر جو نصیحت فرمائی.میں نے اُسی کو آج کے موضوع کے لئے چنا ہے.ترمذی صلى الله کتاب الصلوۃ میں یہ حدیث ہے.حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو جمعتہ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے سنا.حضور یہ فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نماز پڑھو، ایک مہینے کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوۃ دو اور جب میں کوئی حکم دوں تو اُس کی اطاعت کرو، اگر تم ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے.( ترمذی کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۶۱۶ ) پس یہ جمعہ محض دوسرے جمعوں کو ادا کرنے کی دعوت ہی نہیں دے رہا بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کی سنت کی غلامی میں آج کے جمعہ کے دن میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو نماز کی پابندی کی طرف بلاتا ہوں اور پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنے کی دعوت دیتا ہوں.یہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت ہے.پس دیکھیں کہ آپ نے کیسے اس جمعہ کو الوداع فرمایا.جمعہ کو ایسے ادا کیا کہ اس کی برکتوں کو روزانہ پانچ وقت مسلمانوں پر لازم کر دیا.حقیقت میں دو طرح کے انسان ہیں جن کا اس جمعہ سے تعلق قائم ہوتا ہے.کچھ وہ جو نمازیں با قاعدہ پڑھتے ہیں اور پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں.اُن کو اللہ تعالیٰ جمعے پڑھنے کی بھی توفیق عطا فرماتا ہے.اُن معاشروں میں جیسا کہ مغرب کے معاشرے ہیں جب میں نے تاکید کی کہ جمعہ کی اہمیت کو سمجھو اور اپنے اساتذہ سے اگر سکول میں یا کالج میں ہو یا کمپنیوں کے مالک سے اگر ملازم ہو یا حکومت کے افسروں سے یہ مود بانه مگر پر زور درخواست کرو کہ ہم تین جمعے بیک وقت مسلسل نہیں چھوڑ سکتے.ہمارے آقا ومولا کا ہمیں حکم ہے.اگر تین جمعے چھوڑو گے تو کافر ہو جاؤ گے اس لئے خواہ تم اجازت دو یا نہ دو ایک جمعہ تو ان تین جمعوں میں سے ہم نے ضرور ادا کرنا ہے لیکن ہم تینوں پڑھنا چاہتے ہیں اس لئے زائد وقت دے دیں گے تم نے ہم سے جو کام لینا ہے بعد میں لے لینا مگر ہم نے جمعہ ضرور پڑھنا ہے.جب میں نے یہ نصیحت کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے سنجیدگی سے اس پر عمل کیا.اُن کے مالکوں یا افسروں کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نرم کر دیئے گئے اور بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 220 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء جب پذیرائی نہ دیکھی ، جب ان کی درخواست قبول نہیں ہوئی تو اپنی ملازمتوں سے استعفے دے دیئے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو بہتر ملازمتیں عطا کر دیں.زیادہ رزق والی اور زیادہ عزت والی اور پھر اُن کے افسروں نے شروع میں ہی یہ شرط رکھ دی کہ جمعہ کے دن تمہیں آزادی ہے ، آزادی سے جا کر جمعہ پڑھو اور پھر واپس آؤ.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈش انٹینا کے ذریعے جمعوں کے مراکز کی تعداد بہت زیادہ بڑھائی جاسکتی ہے.نظامِ جماعت کی طرف سے بکثرت ایسے مراکز مقرر ہو سکتے ہیں جہاں بڑے شہروں میں مسجد تک پہنچنا اگر وہاں مسجد قائم ہے، بہت ہی دو بھر ہے یا تکلیف مالا يطاق ہے، طاقت سے بڑھ کر تکلیف ہے وہاں جماعتی نظام کے تحت بہت سے مراکز قائم ہو سکتے ہیں جہاں اگر وقت جمعہ کا ہے تو ڈش انٹینا کے ذریعے خطبہ سنیں اور اپنا جمعہ الگ ادا کریں.اگر وقت نہیں ہے تو مقامی امام مقرر کر دیئے جائیں جہاں اردگرد کے لوگ ملازمتیں کرنے والے یا کاروبار کرنے والے اکٹھے ہو جایا کریں تو اس سال اور آئندہ آنے والے سال جمعہ کا اس طرح استقبال کریں کہ سارے سال جمعے سے چمٹ جائیں.وہ لوگ جو نمازیں پڑھتے ہیں اُن کا جمعے سے ایک ایسا تعلق قائم ہو جاتا ہے کہ جمعے کے بغیر چین نہیں آتا.ایک دوسرے قسم کے لوگ ہیں جن کا جمعے سے تعلق براہ راست ہوتا ہے یعنی نمازیں پڑھنے کی توفیق تو نہیں پاتے مگر جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر جمعہ میں حاضر ہو جاتے ہیں.جیسے آج جمعۃ الوداع میں بہت سے لوگ شامل ہوئے ہیں جو پہلے مسجدوں کے منہ نہیں دیکھتے.اُن کو اس جمعۃ الوداع کی برکت سے نمازیں نصیب ہو جایا کرتی ہیں، جمعۃ الوداع کی برکت سے دوسرے جمعے نصیب ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں اور ہر جمعے کی برکت سے نمازیں نصیب ہو سکتی ہیں.پس نمازیں جمعے کی طرف لے جانے والی ہیں اور جمعہ نمازوں کی طرف لوٹانے والا ہے.یہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہم پر اس نصیحت میں روشن فرمایا جو کہ جمعۃ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمائی.سب سے زیادہ کثرت سے لوگ حاضر تھے سب سے اچھی نصیحت جو آپ میں نے پسند فرمائی وہ یہی تھی.اس جمعے کی برکت سے ، آج کے دن کی برکت سے تم پانچ نمازوں کی طرف لوٹ آؤ اور روزانہ پانچ نمازیں با قاعدگی کے ساتھ ادا کرو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 221 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء پس نمازوں کی اہمیت کے سلسلے میں میں پہلے تو چند آیات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اُس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ قرآن کریم نے نمازوں کو کتنی اہمیت دی ہے.مرنے کے بعد جن مجرموں کو سزا دی جائے گی ، اُس سزا کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَلَّا إِنَّهَا نَظیہ ایک عذاب کا شعلہ ہے.نَزَّاعَةً لِلشَّوی وہ سر تک جلد کے چمڑے کو کھینچ کر ادھیڑ دیتا ہے.تَدْعُوا مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّى اُس شخص کو بھی واپس کھینچ لاتا ہے، بلا لیتا ہے جو اس سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے.وَجَمَعَ فَاَوْغی اور اُن سب کو اُس جہنم میں ذخیرہ کرتا ہے، جمع کرتا ہے اور جمع کرتا ہے عارضی طور پر نہیں ذخیرہ کرنے کے لئے گویا لمبے عرصے تک وہ اس مصیبت میں مبتلا کئے جائیں گے.اِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا انسان کی طبیعت میں تلون پایا جاتا ہے، تلون رکھ دیا گیا ہے.إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعَاتٌ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا (المعارج:۱۲ ۲۲) جب تکلیف پہنچتی ہے تو گھبراتا ہے، جب خیر پہنچتی ہے تو بخل کرنے لگ جاتا ہے یعنی نیکیوں سے بھی بخل کرتا ہے.اس مضمون پر پہلے میں مختصر یہ عرض کر دوں کہ جہنم کے ذکر کے بعد جب یہ فرمایا گیا کہ إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا انسان متلون مزاج ہے تو اس لئے ذکر فرمایا گیا کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے یا اللہ تعالیٰ کے ہیبت کے ذکر سے لوگ وقتی طور پر متاثر ہو جاتے ہیں.پھر کچھ عرصے کے بعد بھول جاتے ہیں اور جب دنیا کی نعمتوں میں پڑتے ہیں تو پھر خدا کے ذکر کے تمام اثرات ان کے دلوں سے مٹ جاتے ہیں.یہ مضمون ہے جو بیان فرمایا ہے کہ دیکھو تم نے خدا کی قوت کی باتیں سنی ہیں.تم ڈر گئے ہو گے تمہارے دل میں یہ خوف پیدا ہوا ہو گا کہ کہیں ہم بھی اُن لوگوں میں شامل نہ ہوں لیکن یہ خوف بے کار ہے اگر اس کے نتیجے میں کوئی دائمی تبدیلی پیدا نہ ہو کیونکہ ان باتوں کے سننے کے بعد تم سارے بکھر جاؤ گے اور اپنی اپنی نعمتوں کی طرف واپس لوٹو گے اور وہ نعمتیں تمہیں تن آسانی عطا کریں گی اور تمہارا روز مرہ کا دستورالعمل پھر واپس لوٹ آئے گا.ایسی نیک باتوں سے تأثیر پکڑنے کا کیا فائدہ.چنانچہ اس کے بعد فائدہ اٹھانے والوں کا ذکر فرماتا ہے.کہتا ہے بعض لوگوں پر یہ ذکر جو ہیں دائمی اثر کرتے ہیں اور ان کو دائمی فائدے پہنچا جاتے ہیں.وہ کون لوگ ہیں؟ إِلَّا الْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِمُونَ (المعارج : ۲۳ - ۲۴) ہاں وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 222 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء نماز پڑھنے والے مستثنیٰ ہیں، وہ تنگی ہو یا ترشی ہو، مشکل ہو یا آسانی ہو، ہر حال میں اپنی نیکیوں پر قائم رہنے والے لوگ ہیں اور اُن کی نیکیوں کا مرکزی نقطہ نماز ہے.فرمایا جو اپنی نمازوں پر دائم ہو چکے ہوں وہ مستقلی ہیں ، ان کو کوئی بدلتی ہوئی حالت خدا سے دور نہیں کرسکتی ، وہ بدلتی ہوئی حالت تم کو نقصان نہیں پہنچاسکتی کیونکہ نمازیں ہمیشہ کے لئے قائم ہیں ، تو ان کی نیکیاں ہمیشہ کے لئے قائم ہیں ، اُن کی اللہ کے حضور حضوری ہمیشہ کے لئے قائم ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمُ يُحَافِظُونَ (المومنون: ۱۰) وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں.أُولَيكَ هُمُ الورِثُونَ (المومنون (۱۱) یہی ہیں جو نیکیوں اور جنتوں کے وارث بنائے جائیں گے.پس نمازوں پر دائم ہونا کافی نہیں جب تک حفاظت کا مضمون ساتھ شامل نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے جسے نظر انداز کر دیا جائے تو تب بھی باقی رہے گی ، حفاظت چاہتی ہے، پرورش چاہتی ہے اور یہ مضمون بہت وسیع اور تفصیلی ہے.اس کے کچھ حصوں پر میں روشنی ڈال چکا ہوں.پھر انشاء اللہ بعد میں کسی وقت روشنی ڈالوں گا.زمیندار اس مضمون کو خوب سمجھتے ہیں کہ جب پودا لگایا جاتا ہے تو شروع میں اُس کی زیادہ حفاظت کی جاتی ہے اور وہ حفاظت ہے جو اُس کو دوام بخشتی ہے.جب وہ دائم اور قائم ہو جائے پھر بھی وہ حفاظت چاہتا ہے.آپ نے ایسے باغ دیکھے ہوں گے جو اجڑ جایا کرتے ہیں کیونکہ اُن کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہیں.لیکن چھوٹی عمر کے جو پودے ہیں وہ تو ذرا غفلت ہوئی تو مر جایا کرتے ہیں.تو نمازوں کے ساتھ دوام کا بھی مضمون ہے ، حفاظت کا بھی مضمون ہے.ان دونوں چیزوں کا گہرا تعلق ہے.اگر آپ اپنی نمازوں کو دوام بخشا چاہتے ہیں تو حفاظت کریں.ابتداء میں زیادہ حفاظت کریں جس طرح بچوں کی حفاظت کی جاتی ہے، جس طرح چھوٹی چھوٹی کونپلوں کی حفاظت کی جاتی ہے اور پھر یہ نہ سمجھیں کہ اُس کے بعد حفاظت سے غافل ہو جائیں تو نماز پھر بھی دائم رہے گی.نماز کو دائم رکھنے کے لئے حفاظت کو بھی دائم رہنا ہوگا کیونکہ نماز پر کئی قسم کے حملے ہوتے ہیں.محض نماز چھوڑ دینا دوام کے خلاف نہیں ہے، نماز کے اندر ایک حالت ہے جس کی حفاظت ضروری ہے.بظاہر نماز ادا ہوتے ہوئے بھی نماز ضائع ہو سکتی ہے.پس اپنی نمازوں کی اس طرح فکر کریں جیسے قرآن کریم فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 223 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء پھر اس کے مقابل پر بعض ایسے نمازی بیان فرمائے گئے ہیں جو آتے ہیں پڑھ جاتے ہیں کبھی نہیں پڑھتے ، سمجھتے ہیں کہ ہم بھی نماز کا حق ادا کر رہے ہیں اور اُن کی ایک پہچان بھی بتا دی گئی ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ ( الماعون : ۵) ایک طرف تو رحمتوں اور وراثت کے وعدے ہیں اُن لوگوں سے جو نمازوں پر قائم ہیں اُن کی حفاظت کرتے ہیں دوسری طرف لعنت ڈالی جا رہی ہے کن لوگوں پر ؟ نماز پڑھنے والوں پر فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ لعنت ہو ان نمازیوں پر، ہلاکت ہوان کے لئے، الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) (الماعون:۲) نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن نمازوں سے غافل ہیں، ادا اس طرح کرتے ہیں کہ ایک چیز کو ٹال رہے ہیں اور تیزی سے اُس سے گزر جاتے ہیں اور کچھ پتا نہیں کہ نماز ہے کیا ؟ کیا اُس میں پڑھتے ہیں؟ کیا اُس کے حقوق ہیں؟ کس طرح نمازوں کو زندہ کیا جاتا ہے؟ الَّذِيْنَ هُم يُرَآءُونَ ) ( الماعون : ۷ ) یہ وہ لوگ ہیں جن میں ریا کاری پائی جاتی ہے.یہ مضمون بھی بہت گہرا مضمون ہے.سَاهُونَ کا يُرَآءُونَ سے کیا تعلق ہے؟ اس سلسلے میں میں پہلے ایک دفعہ مضمون بیان کر چکا ہوں.آئندہ پھر اگر موقع ملا تو انشاء اللہ بیان کروں گا.وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ) ( الماعون: ۸) ایسے نمازیوں کو نمازیں فائدہ نہیں پہنچاتیں اور اُن کے بنی نوع انسان سے تعلقات سدھرتے نہیں ہیں.یہ بہت ہی عظیم الشان بات بیان فرمائی گئی ہے اور ایک ایسی پختہ نشانی ان لوگوں کی بیان کر دی گئی ہے جس سے یہ پہچانے جاتے ہیں ہر انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے کہ میری نمازوں کی حیثیت کیا ہے؟ فرماتا ہے وہ چھوٹے چھوٹے فائدوں سے اپنے ہمسائیوں اور گردو پیش کو محروم رکھتے ہیں.يَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ دوسروں پر خرچ کرنے سے خود بھی رکھتے ہیں اور لوگوں کو بھی روکتے ہیں یعنی اُن کی خود غرضی بڑھتی چلی جاتی ہے اور بنی نوع انسان سے اُن کے تعلقات محبت اور رافت کے ساتھ استوار نہیں ہوتے ہیں بلکہ بے پرواہی اور لا ابالی کا رنگ اختیار کر جاتے ہیں.پر واہ ہی کوئی نہیں، غریب ہمسایہ بھوکا مر رہا ہے، کسی تکلیف میں ہے، کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جس کی فلاکت اُس کے چہرے، اُس کے کپڑوں سے ہویدا ہو، نمایاں ہو.ان کے دلوں میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہوتی.بڑی چیزیں خرچ کرنا تو در کنار ، چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی اُن پر خرچ نہیں کر سکتے.ایک ہمسائی غریب آتی ہے کہ تھوڑا سا آٹا دے دو.مالک آ گیا مالک کہتے ہیں کہ جاؤ جاؤ، ہمارے پاس کوئی آٹا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 224 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء نہیں ہے، آئے دن ہمارے سے آئے مانگتے رہتے ہیں ، کوئی نمک مرچ کا مطالبہ لے کر آجاتی ہے.اُس کو دھتکار دیتے ہیں.اگر دیتے ہیں تو بے عزتی کے ساتھ.ایسے لوگ وہ ہیں اگر وہ نمازیں پڑھتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے کہ اُن کی نمازیں نہیں ہوئیں کیونکہ وہ نمازوں سے غافل ہیں جو شخص نمازوں سے غافل نہ ہو.اُس میں یہ بد عادت پائی نہیں جاسکتی.جس کو نمازیں خدا کے قریب کرتی ہیں.اُسے نمازیں لازماً اُس کے بندوں کے بھی قریب کرتی ہیں.یہ اصول ہے جو ان آیات میں ہمارے سامنے کھول کر بیان ہوا ہے.پس نمازوں کی قبولیت کی پہچان خدا کے بندوں سے حسن سلوک ہے جو اللہ کے قریب ہوتے ہوئے اُس کی مخلوق کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے.اُس کے لئے خوشخبری ہے کہ اُس کی عبادتیں مقبول ہوئیں جو خدا کے قریب ہوتے ہوئے بندوں سے دور ہو رہا ہے.اُس کی نمازیں مردود ہیں، اُن کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.وہ نمازیں اُس پر لعنت ڈالتی ہیں.اُن نمازوں سے آواز آتی ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ ہلاکت ہو ایسے نمازیوں کے لئے.پس جن نمازوں کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.قرآن کریم کے الفاظ میں اُن نمازوں کی طرف بلا رہا ہوں جن کا پہلے تذکرہ کیا.قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے ان نمازوں پر روشنی ڈالی ہے مگر میں نے صرف چند آیتیں وقت کی رعایت سے چینی ہیں.اب میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کی بعض مقدس نصائح آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جن سے نماز کے مضمون پر مختلف پہلوؤں سے روشنی پڑتی ہے اور نماز کے لئے واقعہ دل میں غیر معمولی تحریک پیدا ہوتی ہے.کوئی نصیحت کرنے والا ایسی مؤثر نصیحت نہ کر سکا، نہ کر سکے گا جیسے ہمارے آقا ومولا حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے کیں.سادہ تھوڑے الفاظ میں ایسی پاکیزگی ہے، ایسی سچائی ہے کہ اُس کے اثر کو قبول نہ کرنا بندے کے بس میں ہی نہیں رہتا.سوائے اس کے کہ کوئی شقی القلب بدنصیب پیدا ہوا ہو.حضرت محمد رسول اللہ اللہ کی نصیحت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نصیحت نہیں ہے.قرآن کے بعد اگر کوئی چیز دل پر اثر کرتی ہے تو وہ ہمارے آقا و موالہ کی نصیحت ہے اور اسی لئے میں نے آپ کے ہی الفاظ میں آج نماز کے مضمون کو بیان کرنے کے لئے بعض حدیثوں کو اختیار کیا ہے.سنن ابو داؤد میں آتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 225 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جہاں حدیث میں یہ الفاظ ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ایسی حدیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے یعنی وہ مضمون اگر قرآن کریم میں واضح طور پر بیان نہ ہوا ہو تو خدا تعالیٰ نے دوسری وحی کے ذریعے ے پر وہ مضمون روشن فرمایا ہوتا ہے.پس وحی کا ہی مرتبہ اس حدیث کو حاصل ہوتا ہے.آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.میں نے تیری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں.“ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۴۳۰ ) اب قرآن کریم میں تو یہ الفاظ نہیں ہیں کہ میں نے تیری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں.ظاہر ہے کہ جبرائیل نے الگ پیغام ان الفاظ میں خدا تعالیٰ کا پہنچایا ہے اور میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جو میرے پاس ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس نے نماز میں اپنے وقت پر پڑھنے کا التزام کیا ہو گا.میں اُسے جنت میں داخل کروں گا اور جس نے اُن کی حفاظت نہ کی ہوگی.وہی يُحَافِظُونَ والا مضمون ہے.اس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں ہے.بے نماز خدا کے عہد سے باہر ہو جاتے ہیں اور وہ نمازی بھی جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر حفاظت نہیں کرتے.حفاظت کا مضمون بیدار مغزی کی طرف اشارہ کرتا ہے.ہر نماز سے پہلے باشعور طور پر یہ خیال پیدا ہوتا ہے.میری نماز ہے قیمتی چیز ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ کی نماز کے وقت بھی.کئی قسم کے وجود آپ کی نماز پر ڈاکے ڈالنے کی کوشش کرتے تھے.آپ کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے تھے.سورہ جن میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے.پس عام آدمی کی نمازیں ہوں یا صلى الله محمد رسول اللہ یہ کی نمازیں ہوں.نمازوں پر غیر کا حملہ ہوتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ہ اپنی نمازوں کے محافظ تھے اور خدا بھی آپ کی نمازوں کا محافظ تھا.آپ کی نمازوں پر کوئی غیر چیز اثر انداز نہیں ہوسکتی.مگر درجہ بہ درجہ جوں جوں نیچے اترتے ہیں، نمازوں کو مزید خطرات در پیش ہوتے ہیں اور ایک عام آدمی کی نمازیں تو اگر وہ غور کرے تو اُسے محسوس ہوگا کہ اکثر خالی جارہی ہیں.قسمت کوئی نماز جاگتی ہوگی ، قسمت سے ہی کسی نماز کا برتن بھرتا ہوگا ورنہ اکثر خالی برتن بجتے رہتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میں نماز کی حفاظت کر رہا ہوں.پس جس نے حفاظت کی ، پانچ وقت کی نمازیں ہی پڑھیں اور حفاظت کی.اللہ فرماتا ہے کہ وہ میرے عہد میں داخل ہے.مجھ پر فرض ہے کہ میں اُسے
خطبات طاہر جلد ۱۲ جنت عطا کروں.226 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء د محضرت ﷺ نے فرمایا.حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے.کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالی گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے.کیسا پیارا انداز ہے گفتہ گفتگو کا.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا.سردی وغیرہ کی وجہ سے ( یعنی محذوف ہے یہ بات.) دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کر نا مسجد میں دور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ بھی ایک قسم کا رباط یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنے کے مترادف ہے.آپ نے یہ بات دو دفعہ دہرائی.آنحضرت ﷺ کا یہ طریق تھا کہ بسا اوقات اپنی نیکیوں کا ذکر اپنا ذکر کئے بغیر کرتے تھے اور اپنی بعض عادتیں بغیر نام لئے بتایا کرتے تھے.مثلاً زخم پہنچے ہیں غیروں کی طرف سے تو فرمایا ایک نبی کو اس طرح زخم پہنچے تو اس نے یہ دعا کی.یہ آپ کا خاص انداز تھا.اپنی نیکیوں پر پردے ڈالنے کا.تو آنحضور کے اوپر سب سے زیادہ یہ حدیث صادق آتی ہے.سب سے زیادہ آپ کا دل نماز میں اٹکا رہتا تھا.ایک نماز ختم ہوتے ہی دوسری نماز کا انتظار رہا کرتا تھا اور آپ نے جیسے اپنی سرحد پر جیسے حفاظت کے گھوڑے باندھے ہیں.دنیا میں کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے اس طرح اپنی نیکیوں کی حفاظت کی ہو.ایک موقع پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.یہ صحیح ابن خزیمہ سے حدیث لی گئی ہے.حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.آپ نے فرمایا بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرے.اسوأ الناس سرقة الذي يسرق من صلوته ( صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۶۶۳) عجیب بات ہے کہ سب سے بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری خود کرتا ہے صحابہ نے تعجب سے پوچھا اے اللہ کے رسول ! نماز کو چرانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نماز کی چوری کا مطلب یہ ہے رکوع اور سجدہ ٹھیک سے نہ کرے.یہ مثال ہے اور واقعہ یہ ہے کہ بہت سے نمازی نماز پڑھتے ہیں تو خصوصاً رکوع اور سجدے میں اتنا تحمل سے کام نہیں لیتے، اتنا انتظار نہیں کرتے کہ تسلی کے ساتھ وہاں جو نبی اور تحمید ضروری ہے وہ ادا کر سکیں یا ذکر الہی کر سکیں.اُن کا ایک سرعت کی حالت میں سر اٹھانا، صاف بتارہا ہوتا ہے کہ نماز میں اُن کا رجحان کیا ہے؟ پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے چوروں کی مثال دی ہے مگر وہ جگہ بتائی جہاں چور پکڑے جاتے ہیں ورنہ بہت سے نمازوں کے چور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 227 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء ہیں جو قیام میں نہیں پکڑے جاتے ، قعدہ میں نہیں پکڑے جاتے ، قعدے میں بعض بیٹھ جاتے ہیں تو بھول ہی جاتے ہیں اور بیٹھے رہ جاتے ہیں اُن کی چوری پکڑی نہیں جاتی مگر بالعموم یہ لوگ رکوع اور سجدے کی حالت میں ضرور جلدی کرتے ہیں اور وہاں سے وہ پکڑے جاتے ہیں.پس حضور اکرم نے نہ صرف چوری کی نشاندہی فرمائی بلکہ اُن کو پکڑنے کا طریق بھی بتایا.یعنی اپنے آپ کو پکڑنے کا طریق بھی بتایا.اگر تم رکوع کرتے وقت تسلی سے ٹھہر کر خدا کی تسبیح نہیں کرتے ، اگر تم سجدہ کرتے وقت تسلی سے سر ٹکا کر خدا کی تسبیح نہیں کرتے.اُس کا لطف نہیں اٹھاتے تو تم خود اپنی نماز کی چوری کر رہے ہو اور فرمایا یہ چور بدترین ہیں.بخاری کتاب الصلوۃ سے ایک لمبی حدیث مگر بہت ہی پیاری اور بہت ہی دردانگیز ہے جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کو نمازوں سے کیسا عشق تھا.عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ روایت کرتے ہیں.حضرت سیدہ عائشہ کے پاس گیا میں نے کہا.آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض کا حال کیوں نہیں بیان کرتیں ؟“ یعنی عجیب انداز ہے پوچھنے کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کا حال کیوں نہیں بیان کرتیں ؟ کیسی تکلیف میں تھے، کیا کیا کرتے تھے.اب مرض کا حال پوچھا گیا ہے اور رسول اکرم کے لیے کا ذکر حضرت عائشہ کس طرح کرتی ہیں.یہ بھی بہت ہی لطیف مضمون ہے.پوچھنے والا کہتا ہے مرض کا حال بیان کریں اور جواب سنیئے.آپ نے فرمایا: اچھا سنو.رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے.آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں.ہم نے عرض کیا نہیں.یارسول اللہ ﷺ وہ آپ کے منتظر ہیں.آپ نے فرمایا میرے لئے طشت میں پانی رکھ دو.کہتی ہیں ہم نے اسی طرح کیا.پس آپ نے غسل فرمایا یعنی بخار کی شدت کو کم کرنے کے لئے ، بخار کی حالت میں غسل فرمایا.پھر کھڑا ہونا چاہا مگر غشی طاری ہوگئی.جب ہوش آیا تو پھر فرمایا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں.ہم بولے نہیں یا رسول اللہ یہ آپ کے منتظر ہیں.آپ نے فرمایا میرے لئے طشت میں پانی رکھ دو.ہم نے ایسا ہی کیا.آپ نے غسل فرمایا پھر کھڑا ہونا چاہا لیکن بے ہوش ہو گئے.پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا.کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے عرض صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 228 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء صلى الله صلى الله صلى الله کیا نہیں یا رسول اللہ ﷺ وہ آپ کے انتظار میں ہیں.فرمایا میرے لئے طشت میں پانی رکھ دو.پس اٹھ بیٹھے غسل کیا اور جانے لگے تو غشی کا دورہ پڑ گیا.افاقہ آیا تو پھر فرمایا لوگوں نے نماز پڑھ لی.ہم نے کہا نہیں یارسول اللہ وہ آپ کے انتظار میں ہیں.لوگ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کا عشاء کی نماز میں انتظار کر رہے تھے.بالآخر آپ نے ابو بکر کو کہلا بھیجا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں.چنانچہ قاصد اُن کے پاس گیا اور کہا رسول اللہ ﷺ آپ کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے ہیں؟ ابوبکر نے کہا ، اور وہ بہت رقیق القلب تھے یعنی دل کے بہت نرم تھے.عمر تم لوگوں کو نماز پڑھا دو.عمر نے اُن سے کہا تم اس کے زیادہ مستحق ہو.تب ابوبکر نے ان ایام میں نماز پڑھائی.اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض میں افاقہ محسوس کیا.آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نماز ظہر کے لئے نکلے.یعنی کچھ دن تک پھر اتنا زیادہ بخار نے غلبہ کیا کہ نماز کے لئے جانے کا ارادہ بھی نہ کر سکے لیکن جب بیماری نے ذرا مہلت دی تو حضور اکرم ہے اس حالت میں نماز کے لئے گئے کہ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نماز ظہر کے لئے نکلے اور اُن میں سے ایک عباس تھے.اُس وقت ابو بکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے.جب آپ کو ابو بکر نے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے کہ آپ نے دیکھ لیا.آپ نے اشارہ کیا.پیچھے نہ ہیں.پھر آپ نے فرمایا مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو.چنانچہ ان دونوں نے آپ کو ابو بکر کے پہلو میں بٹھا دیا.عبید اللہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اس وقت اس طرح نماز پڑھنے لگے کہ وہ خود تو رسول اللہ یہ کی نماز صلى الله کی اقتداء کرتے تھے.لوگ ابوبکر کی نماز کی اقتداء کرتے تھے.رسول اللہ یہ بیٹھے ہوئے تھے.بخاری کتاب الاذان ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں.جب حضور اکرم ﷺ نے طبیعت میں کچھ افاقہ محسوس کیا.فخرج بين رجـلـيـن تـخـط رجلاه الارض ( بخاری کتاب الاذان حدیث نمبر : ۶۶۵) آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے اور میں اب بھی گویا آپ کو دیکھ رہی ہوں.حضرت عائشہ فرما رہی ہیں کہ آپ کے پاؤں کو دیکھ رہی ہوں کہ مرض کے باعث درد کی شدت کی وجہ سے زمین پہ سکتے نہیں تھے اور گھسٹتے ہوئے آ رہے تھے.اس حالت صلى الله میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی آخری بیماری میں نمازوں کا حق ادا فر مایا.ایک اور حدیث صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب اہل العلم والفضل.اس میں حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے پیروکار، خادم اور صحابی تھے.وہ روایت کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 229 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء ہیں کہ رسول اللہ لے کے مرض الموت میں ابو بکر لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے.جب پیر کا دن ہوا اور لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے تھے.رسول اللہ ﷺ نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور ہمیں کھڑے ہو کر دیکھنے لگے.اُس وقت آپ کا چہرہ مصحف کا ایک ورق تھا.کیسی خوبصورت تشبیہ ہے.قرآن کریم کا ایک ورق دکھائی دیتا ہے.ایسا روشن جیسا کہ خدا کے کلام کے منہ کا نور ہوتا ہے.اس طرح حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے منہ پر اس وقت نور تھا.پھر آپ بشاشت سے مسکرا دیئے.ہم نے چاہا کہ از راہ مسرت رسول اللہ ﷺ کے دیدار میں مشغول ہو جائیں اور ابو بکر نے جب یہ دیکھا تو پیچھے ہٹے تا کہ صف میں مل جائیں اُنہوں نے سمجھا کہ رسول اللہ علیہ نماز پڑھانے آئے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور آپ نے پردہ گرا دیا.یہ آپ کی وفات کا دن تھا.آخری مسرت جو اس دنیا میں محمد رسول اللہ ﷺ کو پہنچی وہ عبادت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھنے سے پہنچی ہے جن کو آپ نے خدا کی راہ میں عبادت کے لئے تیار کیا.کیا آج امت محمدیہ اس نظارے کو بھول جائے گی ؟ کیا آج محمد رسول اللہ ﷺ کی نگاہیں آپ سے یہ توقع نہیں رکھتیں؟ اسی طرح عبادت کا حق ادا کریں جس طرح آپ نے تمام عمر آپ کو عبادت کرنے کے گر سکھائے ہیں اور عبادت کرنے کے صلى الله آداب عطا فرمائے ہیں.لوگ یہ جھگڑے کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ یہ عالم الغیب ہیں یا نہیں ہیں مگر ہمارا خدا تو عالم الغیب ہے اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ امت کے حالات سے محمد رسول اللہ کی روح کو مطلع فرماتا ہے اور خصوصاً وہ باتیں جو خوشیوں کی باتیں ہیں.وہ ضرور حضوراکرم کی روح کے سامنے پیش کی جاتی ہوں گی.آج احمدیوں کو اس بات کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں تھام لینا چاہئے اور ہمیشہ کے لئے اس جھنڈے کو بلند رکھنا چاہئے ،نماز کی حفاظت کرنے والے بہنیں.نماز سے ایسی محبت کریں جیسے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے نماز سے محبت کی.اس طرح مسجدوں سے اپنے دل اٹکا لیں، پانچ وقت نمازوں کی پابندی صرف گھروں پر نہیں بلکہ مسجدوں میں جانے کی کوشش کرتے ہوئے کریں.اپنی مسجدوں کو بھر دیں، یہ ایک جمعۃ الوداع ہمیشہ ہمیش کے لئے ، ہر جمعہ کے دن اُسی طرح نمازیوں سے بھر جایا کرے جس طرح آج بھر گیا ہے یا آج بھرنے والا ہے.ہر جمعہ کو مسجدوں کی رونق ایسی ہو جیسی جمعۃ الوداع کے دن رونق ہوا کرتی ہے اور جس طرح آج خدا کے گھر بھر گئے ہیں اور لوگوں کے صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 230 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء اپنے گھر خالی ہو گئے.میں جماعت احمدیہ سے توقع رکھتا ہوں کہ ہمیشہ ہر جمعہ پر یہ نظارہ دکھایا کریں گے، اپنے گھروں کو خیر باد کہہ دیا کریں گے اور اللہ کے گھر حاضر ہو جایا کریں گے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اس آخری پاک سنت پر نظر رکھتے ہوئے اگر وہ خدا کے گھروں کو آباد کریں گے اور اپنے گھروں کو خالی کریں گے میں اُن کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ اُن کے گھروں کی آبادی کا ضامن ہو جائے گا.ایسے گھروں سے کوئی برکتیں نہیں چھین سکتا.وہی گھر ہیں جو آباد کہلائیں گے جو خدا کی خاطر چھوڑے جاتے ہیں.پس ہمیشہ ہمیش کے لئے اس بات کو اپنے پلے سے باندھ لیں، اپنے دلوں میں جاگزیں کرلیں، اپنی عادت مستمرہ بنالیں ، اپنی فطرت ثانیہ بنا رکھیں کہ اللہ کی راہ میں اپنے گھروں سے بڑھ کر خدا کے گھروں سے محبت کرنی ہے اور خدا کے گھروں کو بھرنا ہے اور جمعہ ک تو ایسا لازم پکڑیں کہ سوائے اس کے کہ کوئی بالکل مجبور اور معذور ہو ہر احمدی دنیا کے ہر کونے میں جب بھی جمعے کی اذان کا وقت آتا ہے خواہ وہ آواز کوسن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو.اُس کا گوش ہوش اُس آواز کوسن رہا ہو اور وہ خدا کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمعے کے لئے حاضر ہو جایا کریں.پس جماعت کا فرض ہے کہ ان لوگوں کے لئے نماز جمعہ کے مراکز مقرر کریں جہاں مسجدیں نہیں ہیں وہاں مسجدیں بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے مگر جہاں مسجدیں ہیں وہاں مسجدوں کو آباد کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور سب سے بڑی مسجد کی آبادی جمعہ سے ہوتی ہے اور جہاں جمعے ادا ہو جاتے ہیں.مجھے یقین ہے کہ پانچوں وقت کی نمازیں بھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ سدھر جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ہر نماز کے وقت نمازی کا دل مسجد میں اٹک جاتا ہے اور وہ مسجد میں آنے کی کوشش کرتا ہے.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُن توقعات کو آپ کے سامنے رکھ کر آج اس خطبے کو ختم کروں گا.آپ کے ہی الفاظ میں میں جماعت سے اُن توقعات کا ذکر کرتا ہوں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی جماعت سے وابستہ تھیں اور ہیں اور ہمیشہ رہیں گی.فرماتے ہیں.سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو...“ میری جماعت داخل ہو نہیں فرمایا کیونکہ جماعت میں داخل ہونے کے ساتھ کچھ کیفیتیں بدل جاتی ہیں اور کچھ اور قسم کے آثار باقیہ ظاہر ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے اعلیٰ قدروں کی صورت میں اُن کے وجود کا حصہ بن جاتے ہیں.فرمایا اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 231 خطبہ جمعہ ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء وو ہو.اتنا تو ہے کہ مجھے مان بیٹھے ہو، اتنا تو ہے کہ میرے ساتھ وابستگی میں فخر محسوس کرتے ہو.سنو...آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سیچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقوئی ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا.ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سوخبر دار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ...“ خصوصیت سے اہل پاکستان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کے مخاطب دکھائی دے رہے ہیں.”...اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو...“ کیسا پیارا کلام ہے.پیوند مت توڑو.اس میں سب پیوند آ جاتے ہیں.اللہ کی ذات سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 232 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء پیوند مت توڑو.سب سے پہلے یہ مضمون پیش نظر ہے.پھر محمد رسول اللہ اللہ سے پیوند مت توڑو، مجھے سے پیوندمت تو ڑو، میری جماعت سے پیوند مت تو ڑ وہ نیکیوں سے پیوندمت تو ڑو یعنی ہر وہ چیز جو پیار کے لائق ہے اُس سے چمٹ جاؤ اور لوگوں کے دباؤ اور مخالفتوں کے نتیجہ میں ان اعلیٰ پاکیزہ تعلقات پر زد پڑنے نہ دو.وو..تم خدا کی آخری جماعت ہوسو وہ عمل نیک دکھلا ؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.ہر ایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا در حقیقت موجود ہے اگر چہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چتا ہے وہ اُس کے پاس آجاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے جو اُس کو عزت دیتا ہے وہ اس کو بھی عزت دیتا ہے.تم اپنے دلوں کوسیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤ کہ وہ تمہیں قبول کرے گا عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی پیخ سے جدا ہے.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵-۱۶) پس وہ جو پیوند قائم رکھتے ہیں انہی کے لئے سب خوشخبریاں ہیں اور جو پیوند توڑتے ہیں.اُن کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت کے بعد میں آخر پر چھوٹی سی نصیحت یہ کرتا ہوں کہ عید اب چند دن تک آنے والی ہے.اس عید کو زکوۃ سے سجانے کی کوشش کریں.عبادت کا مضمون تو بیان ہو گیا.زکوۃ کا مضمون باقی ہے اور میں نے پہلے بھی جماعت کو بارہا نصیحت کی تھی کہ عیدوں کے موقع پر اپنے غریب ہمسایوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کریں.اُن کے کچھ غم اُن کے گھروں میں جا کر دیکھیں اور اُن کے غم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 233 خطبه جمعه ۱۹/ مارچ ۱۹۹۳ء بانٹیں، اپنی خوشیاں اُن کے پاس لے کے جائیں اور اپنی خوشیاں اُن کے ساتھ بانٹیں یا اپنے گھروں میں اُن کو بلائیں غرضیکہ غریبوں کے ساتھ عید کرنے سے بہتر اور کوئی عید نہیں ہے.خدا آپ کو غریبوں کی خدمت میں زیادہ ملے گا اور یہ ایک ایسا آزمودہ نسخہ ہے جس نے کبھی خطا نہیں.جو خدا کے بے کس اور مجبور بندوں سے پیار کرتا ہے.لازماً خدا اُس سے پیار کرتا ہے.کبھی اس میں کوئی تبدیلی تم نہیں دیکھو گے.تو اپنی عیدوں کو غریبوں کی خدمت سے سجائیں اور بوسنیا کے مظلوم جہاں جہاں بھی ہیں.تمام یورپ اور مغربی قوموں میں بسنے والے احمدیوں سے میں کہتا ہوں کہ اُن کو خصوصیت سے سینے سے لگائیں ، بڑے دکھی لوگ ہیں اپنی خوشیاں اُن کے ساتھ بانٹیں ، ان کو سینوں سے لگائیں، اُن کو پیار دیں.پھر آپ کی عید ایسی ہوگی جو زمینی عید نہیں رہے گی بلکہ آسمان پر بھی یہ عید کے طور پرلکھی جائے گی اور اس کی خوشیاں دائمی ہوں گی اور اس کی برکتیں دائی ہوں گی.اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) اب انشاء اللہ آئندہ درس کے دو دن ہیں پھر اُس کے بعد پھر الوداعی دعا ہے.اُس وقت تک یعنی کل درس میں دو دفعہ شامل ہوں گا آپ کے ساتھ.پھر الوداعی دعا کے وقت ہم اکٹھے ہوں گے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ
234 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 235 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء خیر امت ہو کیونکہ خیر الرسل کے متبع ہو، اپنے گھروں کو جنت نشان ئیں اور گھروں میں داخل ہونے والی برائیوں پر نظر رکھیں.( خطبه جمعه فرموده ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ (ال عمران : 1) رمضانِ مبارک کی سرگرمیاں ختم ہوئیں اور عید کی گہما گبھی بھی ، اور آج شاید لوگ دنیا بھر میں عید منانے کے بعد کسل کا شکار ہو چکے ہوں.کیونکہ عید منانے کے بعد سستی اور غفلت کا بھی کچھ تھوڑا سا دور آیا کرتا ہے.کچھ لوگ شاید کھانے پینے میں بے احتیاطیاں کر جاتے ہیں، کچھ عید کی مصروفیتوں کی ذمہ داریوں سے تھک جاتے ہیں.اس لئے مجھے ڈر ہے کہ آج شاید خطبہ میں بھی ویسی حاضری نہیں ہوگی جیسی کہ بالعموم رمضان مبارک میں ہو رہی تھی اور جو منتظم رپورٹیں بھیجتے ہیں میں ان کی کیفیات کو جانتا ہوں.وہ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم رپورٹ میں کیا بہانہ بنائیں گے کہ کیوں آج حاضری کم ہے حالانکہ کسی بہانے کی ضرورت نہیں.میں ان باتوں کو اچھا بھلا سمجھتا ہوں.حالات میں اورنچ بیچ ہوتا رہتا ہے.مزاج میں کبھی جوش آجاتا ہے.کبھی مزاج مدھم پڑ جاتے ہیں لیکن مستقلاً اس مزاج کو قائم رکھنا ضروری ہے کیونکہ اب میں ایک ایسے خطبات کے دور میں داخل ہونا چاہتا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 236 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء ہوں جن کا تربیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ساری جماعت کی تربیت اس رنگ میں ہو جس رنگ میں حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کی ذات کے ساتھ آپ کے قدموں کے ساتھ منسوب ہونے اور چمٹ رہنے کے تقاضے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پہلو سے جو بلند تو قعات جماعت سے رکھی ہیں ان کے متعلق جیسا کہ میں بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا، خود فرمایا کہ ابھی تو بیج بونے کے وقت ہیں، ابھی ان امور تک پہنچنے میں وقت لگیں گے.محنت درکار ہوگی اور جماعت کو جو میں دیکھنا چاہتا ہوں اس سلسلہ میں لمبی محنتیں درکار ہیں تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے مگر ان لمبی محنتوں کا پہلے سے زیادہ ولولے اور جوش کے ساتھ ، عزم نو کے ساتھ صلى الله.ان کا آغاز کرنا چاہئے.آغا ز تو اس وقت بھی ہو چکا تھا جب حضرت اقدس محمد رسول الله له تشریف لائے تھے بلکہ اس آغاز کا آغاز حضرت آدم کے زمانے میں ہو چکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے از سر نو شروع کیا اسی لئے آپ کے متعلق آتا ہے مسلماں را مسلماں باز کردند کہ آپ کا آنا ایسا ہی ہو گا جیسے مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان بنانا ہو.تو احمد یوں پر بھی بیچ میں غفلت کی کچھ حالتیں طاری ہوئیں اور کچھ پاکستان سے ہجرت کے نتیجہ میں ایک قسم کی سستی اور جمود کا احساس ہے جو خطوں سے محسوس ہوتا ہے.اس لحاظ سے میں نے نئے ولولے، نئے عزم کے ساتھ اس محنت کے از سر نو آغاز کا ذکر کیا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ خطبات میں شامل ہونے والوں کی حاضری کو برقرار رکھا جائے اور بڑھایا جائے.اس ضمن میں میں لجنہ اماءاللہ ربوہ کا خاص طور پر ممنون ہوں کہ انہوں نے بہت محنت کی ہے.نتیجہ باقی جگہوں سے جو رپورٹیں آتی ہیں وہاں مردوں کی تعداد خواتین کی نسبت زیادہ ہے لیکن ربوہ میں گزشتہ رپورٹوں سے مسلسل پتا چل رہا ہے کہ خواتین زیادہ تعداد میں شامل ہو رہی ہیں اور اپنے مردوں کو پیچھے چھوڑ گئی ہیں.اس وقت پیچھے چھوڑ گئی ہیں لیکن آگے جا کر ساتھ لے کر چلنا ہے.یہ ایسا فخر نہیں ہے کہ جس فخر کو برقرار رکھا جائے.پیچھے چھوڑیں، پھر ہاتھ پکڑیں اور ساتھ لے کر آگے بڑھائیں اور ان کی غیرت کو کچو کے دیں اور کہیں کہ ہم عورتیں ہو کر جن پر جمعہ فرض بھی نہیں ہے جمعہ کا خطبہ سننے جارہی ہیں جو جمعہ کے مقابل پر کوئی فرضیت نہیں رکھتا اور تم مرد ہو کر گھروں میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ گئے ہو.اگر یہ بات ہے تو پھر بچے تم سنبھالو ہم باہر کے کام کرتی ہیں تو اس طرح کی باتیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 237 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء کر کے ان کو ساتھ لیں اور ان کو آگے بڑھائیں کیونکہ بہر حال جو بوجھ مردوں نے اٹھانے ہیں وہ عورتوں کی طاقت سے بالا ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں کے لئے فرائض کی ادا ئیگی میں نرمی رکھی ہوئی ہے.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُنتُم خَيْرَ أُمَّةِ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اے امتِ محمدیہ تم بہترین امت ہو ان تمام امتوں میں سے سب سے اچھی، جو کبھی بھی پیدا نہیں کی گئی تھی لیکن اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم لوگوں کی خاطر پیدا کئے گئے ہولوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو اس مضمون پر میں پہلے بھی روشنی ڈال چکا ہوں.بہت ہی حیرت انگیز بیان ہے جو کسی دوسری جگہ آپ کو اس کی مثال نظر نہیں آئے گی.اتنا پاکیزہ اور اتنا عمدہ، اتنا وسیع مضامین کو سمیٹے ہوئے کلام چل رہا ہے.حقیقہ کوزے میں دریا بند دکھائی دیتا ہے.صلى الله كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ تم بہترین امت ہو.محمد رسول اللہ ہے جو سب سے بلند پایہ، سب سے بلند تر ، سب نبیوں میں افضل ہیں تو اُن کی طرف منسوب ہوتے ہو تم بہترین امت ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا کہ ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (درین صفحہ :۱۷) یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اُس کی بنیاد بھی اسی آیت کریمہ میں ہے.وہ خَيْرَ اُمَّةِ اپنی ذات میں مکمل جملہ ہے اور اتنا مکمل ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی تمام سیرت کا مضمون ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے.اُدھر دیکھو تم کس کی طرف منسوب ہو رہے ہو؟ اُس کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے تم نے خیر امت کا نام پایا ہے کیونکہ وہ خیر رسل ہے تو تم وہ ہو.اس لئے اپنے خیالات، اپنے اعتقادات، اپنے طرز گفتگو، اپنی بول چال، اپنے اٹھنے بیٹھنے، رہن سہن اور اخلاق پر نظر رکھنا کہ تم کون ہو اور کس کی طرف منسوب ہوتے ہو؟ یہ تو ویسے ہی ہے کہ کسی اچھے خاندان کے بچے سے غلطی ہو جائے تو کہتے ہیں کہ تم کس کے بیٹے ہو اس جملے میں غیرت کا بڑا کچو کہ ہے.جس شخص سے غلطی ہوئی ہے وہ یہ بات سن کر شرم سے کٹ مرتا ہے.امت محمدیہ کو خیر امت کہہ کر اگر بات یہیں پر بھی ختم کر دی جاتی تو مضمون مکمل تھا بلکہ ایسا مضمون تھا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 238 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء یہاں ٹھہر کر اُس مضمون میں ڈوب کر ، ہر طرف اس کی فضا میں اڑتے ہوئے نئے افق اُس میں دیکھتے، نئے افق میں اپنے چہرے دیکھتے اور بہت وسیع عظیم مضمون ہے جو كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ مجھے علم نہیں کہ کبھی بھی کسی دوسرے نبی کے کلام میں یہ جملہ آیا ہو کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ.پھر آگے فرمایا اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اس میں خیر کا فلسفہ بیان فرما دیا اور باتوں کے علاوہ جو پہلے مضمون میں داخل ہیں.فرمایا اس لئے تم خیر امت ہو کہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو.اُن کی خدمت کے لئے، اُن کی خاطر ، اُن کے فوائد تم سے وابستہ ہیں.اُن کی بقا تم سے وابستہ ہے.یہ دراصل وہی مضمون ہے جو حضرت رسول اکرم ﷺ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور اسی حوالے سے آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ (الانبیاء: ۱۰۸) کا مضمون ہے.جس کی یاد دہانی امت کو کروائی جا رہی ہے.ایک تو اپنی ذات اور اعلیٰ صفات میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺہ وہ کامل وجود ہیں اُن کی طرف منسوب ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس منسوب ہونے کے تقاضے ہیں.اس لئے تم میں خیر ہی خیر ہوگی ، تو تم محمد رسول اللہ ہی اللہ کے کہلاؤ گے، جہاں خیر کی جگہ شر نے لے لی تمہارا امت سے تعلق کاٹا گیا.پھر فرمایا صرف اندرونی خیر کا سوال نہیں ہے.آپس میں محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقی تقاضے پورا کرنے کا سوال نہیں ہے.أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یہاں مومن اور غیر مومن ،مسلم اور غیر مسلم کا فرق اٹھا دیا.صلى الله صلى الله لِلنَّاس والا مضمون وہی ہے جو حضرت رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے قرآن میں ملتا ہے.قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ جَمِيْعًا (الاعراف: ۱۵۹) اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.مانو یا نہ مانو.تمہاری بقا، تمہاری خیر ، تمہاری بھلائیاں سب مجھ سے وابستہ کر دی گئی ہیں.رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ میں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنایا گیا.فرمایا تم اس لئے بہترین امت ہو کہ لوگوں کی بھلائی کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے.حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت طیبہ کا یہ پہلو فراموش نہ کرنا ورنہ آپس میں اگر خیر بانٹتے رہوگے اور غیروں کو تمہارا خیر نہیں پہنچے گا کہ تم بہترین امت کہلانے کے لائق نہیں ٹھہرو گے.پھر اس مضمون کی حفاظت کا سامان مہیا فرمایا گیا.اتنا بڑا تقاضا ہے، اتنی بڑی تمنا ہے، اتنی بڑی امید ہے جو ہم سے رکھی گئی ہے.اس امید کا اتنا بڑا تقاضا ہے جو ہم نے پورا کرنا ہے.اُس کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 239 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء لئے ضرور کچھ معلوم ہونا چاہئے.کیسے ہم اتنی اہم ذمہ داری کا حق ادا کر سکیں گے اور کیسے ہم ان اعلیٰ اقدار کی حفاظت کر سکیں گے، اس مضمون کو یہ آیت کریمہ یوں حل فرماتی ہے.تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ تمہاری خوبیوں کی بقا کا تقاضا یہ ہے کہ تم مسلسل ایک دوسرے کو بھلائی کی طرف بلاتے رہو اور بھلائی کی دعوت دیتے چلے جاؤ.وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بُرائیوں سے روکتے چلے جاؤ.یہ اس طرح بیان نہیں فرمایا یہ تم کرتے ہو.تم بھلائیوں کی طرف بلاتے ہو اور بدیوں سے روکنے والے ہو کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی امت میں شامل ہونے کاطبعی تقاضا ہے.اس لئے اسے ایک جاری فعل کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے.تم اگر رسول اللہ کے غلام ہو تو تم یہ کرتے ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تم نہ کرتے ہو، نہیں کرتے تو غلام رہنا ہی نہیں باقی.یہ مضمون اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ہم جانتے ہیں محمد رسول اللہ کے غلام ہو تم ضرور خیر کی طرف بلاتے ہو گے.وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بُرائیوں سے روکتے ہو گے.ساری زندگی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی مامور ہونے کے بعد اسی بات میں کئی ہے، مامور ہونے سے پہلے بھی آپ اسی طرح زندگی گزارتے ہوں گے مگر اس پر ہماری تفصیلی نظر نہیں ہے.مگر جہاں تک بھی کہیں کہیں اشارے ملتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نیکیوں کی طرف بلایا کرتے تھے ، بدیوں سے روکا کرتے تھے.پس سیرت محمد مصطفی یہ ہے جو مسلسل جاری ہے اور دراصل اسی کے حوالے سے یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ تم ان کے ہو گئے ہو تو ٹھیک ہے بہترین امت بن گئے.بہترین رسول یہ کی طرف منسوب ہوئے.پھر ویسے بن کے دکھاؤ.لوگوں کے لئے وقف ہو جاؤ، لوگوں کی بھلائی کے لئے نکلو.دو باتیں پھر آگے خصوصیت کے ساتھ اس آیت کے بقیہ حصہ میں بیان ہوئی ہیں جو میں آپ کے سامنے پڑھ رہا ہوں.اوّل یہ کہ اگر تم اپنی نیکیوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہو تو لازم ہے کہ تم دوسروں کو نیکیوں کی نصیحت کرو.اگر تم بدیوں سے بچے رہنا چاہتے ہو تو لا زم ہے کہ تم اپنے آپ کو بدیوں سے نہ صرف بچاؤ بلکہ لوگوں کو بچانے کی کوشش کرو.تب تم اس بات کا تقاضا پورا کر سکو گے.دوسرے یہ کہ ماحول کو درست کئے بغیر انسانی خوبیوں کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں.اگر آپ اجنبی ماحول میں رہتے ہیں اور اس ماحول کو اپنے جیسا نہیں بناتے تو ایک وقت آتا ہے کہ ماحول آپ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 240 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء کو اپنے جیسا بنا لیتا ہے.بہت ہی گہرا مضمون ہے جس میں ایک گہرا نفسیاتی نکتہ بیان ہوا ہے.قوموں کے عروج اور تنزل کی کہانیاں آپ پڑھ کر دیکھ لیں، معاشروں کے بننے اور بگڑنے کے حالات کا مطالعہ آپ کر لیں.وہ تو میں اور وہ معاشرے جو تا ثیر رکھتے ہیں اور اردگرد پھیلتے چلے جاتے ہیں.وہ اس وقت تک زندہ رہتے ہیں جب تک یہ تاثیر زندہ ہے جب ان کا پھیلنا بند ہو جائے.اُن کی آواز ماحول کو اپنے جیسا بنانا بند کر دے، ان کا عمل لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا بند کر دے تو پھر وہ غیروں کے ہونے شروع ہو جاتے ہیں، ان جیسے ہی ہو رہتے ہیں.پس یہ بحث کسی قوم سے تعلق نہیں رکھتی.یہ انسانی فطرت سے تعلق رکھتی ہے.دنیا میں جہاں کہیں بھی احمدی موجود ہیں امریکہ میں ہوں یا انگلستان میں.یورپ کے کسی ملک میں ہوں یا ایشیا کے براعظم میں یا افریقہ میں بستے ہوں یہ مضمون برابر سب پر اطلاق پاتا ہے اور اس میں ہماری بقا کا راز ہمیں سمجھا دیا گیا ہے.اگر ہم نے زندہ رہنا ہے، اگر ہم نے ان اعلیٰ قدروں کی حفاظت کرنی ہے جو ہمارا عنوان بنا دی گئی ہیں جن کا آغاز اس طرح ہوا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تو پھر لازم ہے کہ ہم دو کام کریں یعنی دو پہلوؤں سے یہ کام کریں تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اس لئے حضرت محمد رسول اللہ ہے ایسا ہی کیا کرتے تھے اور بہترین ہونے میں یہ بات داخل ہے یعنی بہترین کی صفت کا یہ حصہ ہے کہ تم لوگوں کو بھی بہترین بنانے کی کوشش کرو اور دوسرے اس لئے کہ اگر نہیں کرو گے تو تم بہترین نہیں رہو گے.تم مٹ جاؤ گے تمہاری ساری خوبیاں اس طرح کھائی جائیں گی جس طرح کھاری پانی لو ہے یا دوسرے غیر ٹکڑوں کو رفتہ رفتہ کھا جاتا ہے اور ان کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتا ، جس طرح تیزاب دوسری چیزوں کو کھا جایا کرتے ہیں.اس طرح معاشرہ تمہیں کھا جائے گا.وَلَوْ أَمَنَ اَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ أَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُونَ اہل کتاب بہت اچھے لوگ ہیں لیکن کاش وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ الا اللہ پر ایمان لانا کیسی عجیب بات ہے، کوئی نسبت ہی نہیں.کاش وہ سمجھتے کہ دنیا کا بہترین رسول آچکا ہے.وہ رسول آچکا ہے جس سے ساری دنیا کی تربیت وابستہ کر دی گئی ہے اگر یہ سمجھتے تو لگان خَيْرًا لَّهُمْ اس رسول پر ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہت بہتر ہوتا.اس میں ایک انذار ہے اور وہ انذار یہ ہے کہ اہل کتاب ان قدروں سے محروم ہو جائیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 241.خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء گے.اہل کتاب رفتہ رفتہ اس وجہ سے کہ انہوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ نہیں جوڑا ان تمام خوبیوں سے محروم ہو جائیں گے جو آج آپ کی ذات بابرکات سے وابستہ کر دی گئی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وابستہ کر دی گئی ہیں.اس سردار کو قبول کرو گے تو ان خوبیوں کے حامل بنو گے اس سردار سے تعلق توڑو گے.تو ساری خوبیوں سے تعلق توڑ لو گے اچانک کتنی حسرت کا اظہار ہے.وَلَوْ مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الفُسِقُونَ یہ بات مزید اور کھول دی کہ ٹھیک ہے ان میں مومن بھی ہیں.اچھے لوگ ہیں لیکن أَكْثَرُهُمُ الفُسِقُونَ اکثر ان میں فاسق ہیں یعنی فاسق ہوتے چلے جائیں گے.یہ ان کا انجام ہے کیونکہ تعلق نہیں باندھا، محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق نہیں باندھا اس لئے ان کا فاسق بنا تو وقت کا ایک تقاضا ہے جو بہر حال پورا ہو کر رہے گا.یہ سورہ آل عمران کی وہ آیت نمبرااا ہے جس پر بنار کھتے ہوئے میں چند تربیتی خطبے انشاء اللہ دوں گا اور آج میں بعض متفرق باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے ایک غلطی کا ازالہ کرنا ہے.جمعۃ الوداع پر میں نے حضرت ابوامامہ باہلی صلى الله رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی تھی اس میں اگر چہ لکھا تو یہی ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر یہ نصیحت فرمائی لیکن اس وقت جلدی میں جو نظر پڑی ہے تو وہ جمعتہ الوداع پڑھا گیا ہے اور اسی لحاظ سے میں نے یہ بات کی تھی کہ اس حوالے سے میں جمعۃ الوداع پر آج آپ کے سامنے یہ مضمون رکھتا ہوں.لیکن یہ غلطی اس موقع پر نہیں ہوئی.پہلے بھی جب اس حدیث پر نظر پڑی تھی تو جمعۃ الوداع پڑھا گیا تھا تو شاید اللہ کے ہاں یہ غلطی مقدر تھی کہ یہ غلطی ہو تو میں اس مضمون کو جمعۃ الوداع کے لئے چن لوں تو فائدہ تو پہنچ گیا مگر غلطی ملنی چاہئے.پس لوگ درستی کر لیں میں نے جو یہ نصیحت بیان کی تھی کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے نماز اور عبادتوں کے متعلق یہ فرمایا تھا.یہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا.وہ بھی وداع کا ایک رنگ تھا اور عام جمعتہ الوداع سے بہت زیادہ شدت کے ساتھ تا ثیر رکھنے والا کلام تھا کیونکہ حضور اکرم یہ اپنے غلاموں سے جدا ہونے والے تھے اس لئے وہ معنوں کے لحاظ سے اور بھی زیادہ پُر تاثیر کلام تھا.پس معنوی لحاظ سے تو کوئی غلطی نہیں ہوئی لیکن روایت کی درستی بہر حال ضروری ہے.دوسرے مجھے فیصل آباد سے توجہ دلائی گئی ہے کہ اسی نصیحت کے آخر پر حضور اکرم ﷺ نے صد الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 242 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء زکوۃ کا جو ذکر فرمایا اور آخر پر میں نے جلدی سے اس کا حوالہ دے کر کہا کہ زکوۃ میں صدقہ خیرات سارے مضامین داخل ہیں.اس لئے لوگ صدقہ خیرات کی طرف بھی توجہ کریں اور اس ضمن میں بوسنین کا بھی میں نے ذکر کیا اور دوسرے غرباء کا بھی تو فیصل آباد میں چونکہ تاجر مزاج لوگ زیادہ ہیں اور تاجروں میں بعض کمزوریاں بھی ہیں بعض خوبیاں بھی ہیں.خاص طور پر اس علاقہ کے تاجر چندہ مار جائیں گے مگر ز کوۃ کم مارتے ہیں، خوف کھاتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ محض اللہ چندہ دیتے ہیں لیکن بعض خوف سے بھی دیتے ہیں کہ ہمارے مال میں بے برکتی نہ پڑ جائے اور چندہ سے زیادہ زکواۃ کے معاملہ میں بعض علاقوں کے تاجر ڈرتے ہیں کہ زکوۃ اگر ہم نے رکھی تو پھر خدا ہمارے مال واپس لے لے گا اور زکوۃ دیتے وقت دل چاہتا ہے کہ کسی بہانے ہمارا تصرف قائم رہے.پس اپنے عزیز رشتہ داروں وغیرہ پر خرچ کرنے کے جو تقاضے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ زکوۃ تو ہم نے نکالنی ہی نکالنی ہے اس میں سے ہی کیوں نہ دے دیں، باقی مال میں سے جو خواہ مخواہ نکالیں تو بہانہ ڈھونڈتے ہیں.پس اچانک ان کو بہانہ مل گیا اور انہوں نے بغیر میرے کہے خطبہ میں سے خود بخود یہ اندازہ نکال لیا کہ اب ہمیں اجازت مل گئی ہے کہ ہم زکوۃ خود خرچ کریں اور اپنے عزیزوں اور اقرباء کو دے دیں.نائب امیر صاحب کا گھر یا ہوا ٹیکس ملا کہ ہم کیا کریں اور وہ فورا جواب چاہتے تھے لیکن میں نے فوراً جواب نہیں دیا.میں نے کہا، ان کو خرچ کرنے دو.زکوۃ اسی طرح کھڑی رہے گی.غریبوں کا فائدہ تو ہو جائے ، رمضان آرام سے گزر جائے.جتنا انہوں نے بانٹنا ہے بانٹ لیں.پھر میں ان کو بتاؤں گا کہ تمہاری زکوۃ کا ایک ایک پیسہ واجب الادا ہے.اسی طرح کھڑا ہے تو آج میں خطبہ کے ذریعہ ان کو یہ بات سمجھا رہا ہوں اور نائب امیر صاحب بھی گھبرائیں نہیں انشاء اللہ تعالیٰ اس تاخیر کا فائدہ ہی ہوگا.ایک چھوٹی سی بات یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک خطبہ میں یہ کہا تھا کہ جماعت کو چاہئے کہ لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دو، بدیوں سے روکو اور اس سلسلہ میں دنیا کے سیاستدانوں کو اور بڑے بڑے راہنماؤں کو براہ راست خط لکھو اور توجہ دلاؤ کہ تم غلط رستوں پر چل پڑے ہو.سمجھو سنبھلو ورنہ تم اپنی قوموں کے ساتھ مٹا دیئے جاؤ گے.اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان پر اتنی سختی کی جائے کہ گویا ان کو گالیاں دی جا رہی ہیں.ہمارے سمجھنے والے بعض عجیب طرح بات سمجھتے ہیں.مجھے بعض دوستوں نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 243 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء خطوں کی کاپیاں بھیجی ہیں جو انہوں نے بعض سربراہوں کو لکھی ہیں اور وہ ایسی سخت زبان ہے کہ گویا وہی مقرر ہو گئے ہیں، مامور ہو گئے ہیں اللہ کی طرف سے کہ ہم تمہیں مٹانے کے لئے آگئے ہیں.خبر دار جو تم نے اب آگے سے یہ حرکت کی.نامناسب حرکت ہے.فرعون سے زیادہ متکبر بادشاہ کون ہوسکتا ہے، فرعون سے زیادہ کون اس لائق تھا کہ اس کو تنبیہ کی جائے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوة والسلام کو نصیحت فرمائی تھی کہ قولِ لین سے کام لینا ، نرمی سے بات کرنا، اس کی یہ وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ فرعون سے ڈرتا تھا یا موسیٰ کو ڈراتا تھا.اس لئے کہ انسانی فطرت ہے کہ جتنا بڑا مقام ہو اتنا زیادہ محتاج ہے کہ اس سے نرم بات کی جائے ورنہ وہ بات کو شروع میں ہی رد کر دیتا ہے.فرعون کی بھلائی کی خاطر یہ حکم تھا کہ اگر تم یہ کہو گے کہ میں خدا کا نمائندہ آ گیا ہوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں رہی.مانتے ہو تو ما نو نہیں تو جاؤ جہنم میں تو وہ پھر جہنم میں ہی جائے گا.جہنم میں تو بیچارے نے ویسے ہی جانا تھا مگر اس کو موقع نہیں ملنا چاہئے.بات کی غلطی کے نتیجہ میں کوئی جہنم میں نہ جائے.جائے تو اپنے قصور سے جائے ، تمہارے قصور سے نہ جائے.یہ مضمون ہے جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھایا گیا تھا کہ نرمی سے بات کرنا.کہیں بات کی وجہ سے ٹھو کر نہ کھا جائے تم پر نہ الزام آ جائے کہ تم بھی اس کی ٹھوکر میں شامل ہو گئے ہو.پس احمدیوں کو چاہئے کہ حکمت سے کام لیں.قرآنی تعلیم کے تابع میری باتوں کو سمجھا کریں اس سے باہر نکل کر اُن کے ترجمے نہ کیا کریں کیونکہ پھر وہ ان کی اپنی مرضی کی بات ہوگی میری نصیحت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.اب متفرق امور جو اس عرصہ میں مجھے بعض دوستوں نے لکھے ہیں پہلے میں اُن سے نصیحت کے ان خطبوں کا آغاز کرتا ہوں.ایک خاتون نے لکھا ہے کہ ہمارے مردوں کے خلاف بھی چند باتیں کریں اور بعض باتیں ایسی لکھی ہیں جو یہاں پڑھ کر سنانی مناسب نہیں ہیں لیکن ہیں وہ واقعی قابلِ فکر باتیں.معاشرے کو اچھا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ گھر سکینت کا مرکز ہوں.جہاں اپنا گھر سکینت کا مرکز نہ رہے، کسی اور کا گھر بن جائے اور باہر کی دنیا بن جائے.گلیاں بن جائیں ،کلب بن جائیں، دوستوں کی مجلسیں بن جائیں وہاں معاشرے کا سارا نظام بگڑ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ گھر ٹوٹنے لگتے ہیں، آگے اولاد پر بہت برا اثر پڑتا ہے، بچے بداخلاق ہونے لگتے ہیں، اگلی نسلوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں رہتا.اس لئے سکینت کا مرکز گھر ہی رہنا چاہئے.عبید اللہ علیم صاحب کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 244 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء نظم کی طرح کہ اصل خزا نہ تو گھر میں ہے.باقی سب تو تعلقات کے دائرے ہیں لیکن جو انسان گھر میں لوٹتا ہے اور گھر میں سکون پاتا ہے اس کی کوئی مثال باہر دکھائی نہیں دیتی.یہ نظم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو بہت پسند تھی.جب کبھی کراچی تشریف لے جاتے تھے تو جن شعراء کو بلا کر ان کا کلام سنا کرتے تھے ان میں عبید اللہ علیم صاحب کو خاص مقام حاصل تھا اور برحق مقام دیا گیا تھا اور اس میں یہ نظم آپ کو بہت پسند تھی.جہاں تک مجھے یاد ہے ہوسکتا ہے کہ میں غلطی کر رہا ہوں مگر مجھ پر یہی تاثر ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو یہ نظم بہت پسند تھی.کم سے کم جب میں نے سنی تو مجھے تو بہت ہی پسند آئی اور اگر ہمارے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب مختلف احمدی رسالوں میں کا پیاں بھجوا دیں تو سب میں چھپ جائے گی کیونکہ اس خطبہ سے اس کا گہرا تعلق ہے.سایہ وہی ہے جو خدا نے گھر میں بنا رکھا ہے اور اسی کو سکینت کی وجہ بتایا ہے.پس اپنے گھر میں سکینت ڈھونڈیں اور بیوی میں سکینت ڈھونڈیں.آپ کی بیوی آپ کے لئے سکینت کا سامان بنائی گئی ہے.اگر اس کو چھوڑ کر غیروں کی طرف نظر ڈالیں گے، غیر گھروں میں جائیں گے اور وہیں آرام پائیں گے اور دیر میں گھر لوٹیں گے اور گھر آ کر جس طرح اپنے کپڑے اتار کر پھینکتے ہیں اسی طرح اپنے بیوی بچوں کو اتار پھینکا ہوگا تو پھر ایسا گھر کوئی سکینت والا گھر نہیں ہے اور ایسے معاشرے کی حفاظت اور اس کے امن کا کوئی انتظام ممکن نہیں ہے.اس کی کوئی حفاظت نہیں ہوسکتی.پس غیروں کو جو ہم نے نصیحت کرنی ہے اس سے پہلے اپنے آپ کو تو ضرور نصیحت کرنی چاہئے.اگر ہم نے غیروں کے سامنے اچھے گھروں کا ماحول پیش نہ کیا تو اس دنیا کا سب سے بڑا عذاب یہی تو ہے کہ گھر ٹوٹ رہے ہیں ، بچوں اور ماں باپ کے رشتہ منقطع ہورہے ہیں بڑوں کے ادب اٹھ رہے ہیں اور رفتہ رفتہ ہر شخص فرد بنتا چلا جا رہا ہے.جمعیت کا نظام منتشر ہورہا ہے.پس اگر گھر منتشر ہو جائیں اور ہر شخص میں اس حد تک انفرادیت آ جائے کہ ایک دوسرے سے تعلقات محض خود غرضانہ تعلقات رہیں.ایک دوسرے کوسکون پہنچانے کی تمنا نہ ہو بلکہ جو کچھ لینا ہے لو اور فارغ ہو جاؤ تو ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہا کرتا اور آج کے انسانوں کو سب سے بڑی Threat ،سب سے بڑا خطرہ ٹوٹتے ہوئے گھروں سے ہے.یورپ اور امریکہ نے تو اس کے ایسے خوفناک نظارے دیکھ لئے ہیں کہ وہاں اب یہ احساس مذہبی قدروں کے علاوہ بھی بڑے زور سے پیدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 245 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء ہورہا ہے کہ ہم نے گھر بچائے تو بچیں گے.انگلستان کی جو سابق پرائم منسٹرتھیں ،مسز تھیچر، انہوں نے تو آخری دور میں یہی نعرہ بنالیا تھا کہ ہمیں گھروں کو بچانا ہے اور واقعی یہ درست بات تھی.پس دنیا کے گھروں کو بچانے سے پہلے اپنے گھر تو بچاؤ ورنہ وہی گنجے والی بات ہوگی کہ بال اگانے کی دوائی بیچتا ہو اور اپنے سر پر ایک بال نہ ہو.پس اپنے ان بالوں کی نہیں، اپنے بال بچوں کی حفاظت کا انتظام کرو ور نہ غیروں کے بال بچوں کا کیا خیال کرو گے یہ بہت ہی اہم بات ہے.اس کو سمجھ لو اور پہلے باندھو.اور بیویوں کو بھی تو چاہئے کہ وہ سکینت بنیں.بعض بیویوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنے میاں کے لئے تیار نہیں ہوتیں.غیروں کے لئے ہوتی ہیں.بد نہیں ہوتیں نیتیں خراب نہیں ہوتیں لیکن ہمارے معاشرے کا یہ قصور ہے اور کچھ عورت کی فطرت کے اندر یہ بات داخل ہے کہ بن سج کر اپنی طرف کھینچے.اس رجحان کو نظم و ضبط کے اندر رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے پردے کی تعلیم دی ہے اور یہ رجحان عورت میں مرد کی نسبت بہت زیادہ ہے.اس لئے دیکھا گیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو تیار ہونے میں بہت وقت لیتی ہیں.خاوند بیٹھا انتظار کر رہا ہے کہ چلو دیر ہو رہی ہے.دکانیں بند ہو جائیں گی یا سورج سر پر چڑھ آیا ہے چلو باہرنکلیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ میں ذرا تیار ہو جاؤں اور گھر آتے ہی ساری تیاری ختم.جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہاں زینت دکھاؤ، وہاں کوئی زینت دکھانے کی طرف توجہ نہیں، نہ بنانے کی توجہ ہے.جن کے متعلق فرماتا ہے کہ یہاں زینت چھپاؤ وہاں زینت دکھانے کے لئے چل پڑتی ہیں، تو عورتوں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رکھی ہے.اپنی زمینوں کو اپنے خاوندوں کے لئے ، اپنے عزیزوں کے لئے بنائیں.زینت سے مراد صرف ایسی زینت نہیں ہے جو خیالات کو کسی خاص سمت میں موڑے.زینت سے مراد ہر وہ زینت ہے جو حسن خلق کی زینت یا ایسی اداؤں کی زینت ہے مثلاً باتوں کی طرز ، چلنے کی طرز ، کپڑے پہنے، بنا بجنا، پاک صاف رہنا، یہ وہ زیخیں ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے صرف خاوندوں کو شامل نہیں مایا بلکہ گھر کے بچوں کو اور تمام محرموں کو شامل فرما دیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کا یکطرفہ ترجمہ نہ کرنا.عورت کو اپنے گھر میں، رہن سہن میں ایسا پیارا بن کر رہنا چاہئے اور ایسا صاف ستھرا پاکیزہ ماحول پیدا کرنا چاہئے کہ صرف خاوند کے لئے سکینت کا سامان نہ ہو بلکہ سب عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے وہ گھر جنت نشان بن جائے.وہ آئیں اور وہاں تسکین پائیں اور جنت کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 246 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء نمونے دیکھیں اور گھر معاشرے کا مرکز ہو نہ کہ بیرونی معاشرہ گھروں کا مرکز بن جائے.پس اس پہلو سے خواتین کو بھی توجہ کرنی چاہئے اور صاف ستھرا رہنا چاہئے ، پاکیزہ رہنا چاہئے ، گھر سے بد بو کو دور کرنا چاہئے.بعض بیچاری غریب عورتیں مجبور ہیں، کپڑے بھی زیادہ نہیں ہوتے ، پھر پیاز کاٹے ، کھانا پکایا، اس کی بو بدن میں رچ گئی، کپڑوں میں رچ گئی لیکن جو نظیف طبیعت کی عورتیں ہیں.وہ پھر بھی صاف رہتی ہیں.پس یہ ہوسکتا ہے.غربت حائل نہیں ہوسکتی.بعض خواتین کو میں نے دیکھا ہے وہ پیاز کو پانی کے اندر رکھ کر کاٹتی ہیں، باہر نہیں کاٹتیں کیونکہ اس سے ایک تو پیاز کے جو بخارات ہیں وہ آنکھوں کو تنگ نہیں کرتے اور آنسو نہیں گرتے ، آنکھوں میں سوزش نہیں پیدا ہوتی.دوسرے اس کی بد بو جسم پر نہیں پھیلتی.پانی کے اندر ہی رہ جاتی ہے تو اگر ایک انسان سلیقے کے ساتھ رہنا چاہے تو غربت میں بھی رہ سکتا ہے.ایک غریب خاندان کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے، بہت پرانی بات ہے.جب مجھے علم ہوا اور میں نے پوچھ کر دیکھا تو واقعہ یہ بات درست نکلی ہے کہ ان بچوں کے ماں باپ نے یہ دستور بنایا تھا کہ روزانہ اپنے کپڑے دھو کر ڈالتے تھے اور بچوں کو بھی یہ سکھایا تھا کہ جب واپس آؤ تو دھلا ہوا کپڑا جو ماں نے تیار رکھا ہوتا تھا.وہ پہنو اور سکول کا کپڑا دھوؤ.اب یہ ہو سکتا ہے کہ بعضوں کے لئے تکلیف مالا يطاق ہو لیکن نمونہ ضرور ہے کہ غربت میں بھی انسان صاف رہ سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ساری باتیں چل رہی ہیں.آپ کی طرز بود و باش نہایت غریبانہ تھی اور کپڑے خود سیتے تھے، پیوند لگا لیا کرتے تھے مگر پاکیزہ بدن، پاکیزہ لباس صاف ستھرا خوشبو سے معطر ، یہ زینت ہے.زینت کا یہ مطلب نہیں کہ فیشن کرو اور مہنگے مہنگے کپڑے خرید و اور گوٹہ کناری لگاؤ جو زینت محمد رسول اللہ کی زینت ہے وہی زینت ہے اور جو عورتیں صاف بدن پاک بدن ہوں اور اچھے کپڑے ان معنوں میں پہنیں کہ صاف ستھرے نظیف ہوں اور خوشبو لگائی ہو تو وہ لازماً سکینت کا سامان بنیں گے.پس یہاں امیر اور غریب کی بحث نہیں ہے.ہر شخص جو حضرت رسول اکرم کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ آپ ﷺ کی زینت اخذ کر سکتا ہے.یہ اصول ہے اسے اچھی صلى الله صلى الله.صلى الله طرح یا درکھیں.یہ ناممکن ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ امیروں کے تو رسول ﷺ ہوں اور غریبوں کے صلى الله نہ ہوں.یہ وہ رسول مہ ہے جو ہر تفریق مٹا دیتا ہے ، مشرق کا بھی ہے،مغرب کا بھی ہے، مختلف
خطبات طاہر جلد ۱۲ 247 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء ملکوں کے بدلتے ہوئے فیشن آپ ﷺ کے طرز زندگی سے مختلف نہیں ہو سکتے.یعنی ہر قوم اگر چاہے تو آپ ﷺ کا فیشن اختیار کر سکتی ہے اور وہ فیشن بنیادی طور پر پاکیزگی ہے، نظافت ہے اور یہ ہر کسی کے بس میں ہے.اس لئے عورتوں کو چاہئے کہ گھر سلیقے سے رکھیں اور گھر کا ماحول صاف ستھرا رکھیں.بعض گھروں میں جاتے ہیں تو دھکا لگتا ہے.صوفہ سیٹ پر ڈھلے ہوئے پوتڑے پڑے ہوئے ہیں.کہیں تو لیتے، کہیں شلوار میں لٹکی ہوئی ہیں.اس گھر کو دیکھ کر گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے جبکہ بعض غریبانہ گھروں میں جائیں تو ایسا صاف پاکیزہ ماحول، ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی.اس لئے عورت کا کام ہے کہ وہ خود بھی کشش کا مرکز بنے اور ایسی کشش کا مرکز بنے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ تمام محرم لوگ اس سے لطف حاصل کریں.پاکیزگی حاصل کریں اور اس ماحول میں بار بار آنے کی تمنا دل میں پیدا ہو، یہ زینت ہے تو اللہ کرے کہ ہماری عورتوں کوصرف مردوں کے خلاف باتیں کہلوانے کا شوق نہ ہو.کچھ اپنے متعلق بھی سن لیا کریں اور اس نصیحت پر بھی عمل کیا کریں.ایک دوست نے لکھا ہے کہ ٹیلی ویژن اور وی سی آر کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بہت گندا ہورہا ہے اور دس روپے دے دو تو چار گھنٹوں کے لئے گندی سے گندی فلم حاصل ہو جاتی ہے.میں نہیں جانتا کہ انہوں نے کب لکھا تھا مگر یہ نوٹ کچھ دیر سے میرے پاس پڑا ہوا ہے.اس سلسلہ میں میں نے خطبہ دیا تھا اور خطبہ میں نصیحت کی تھی.جہاں تک اہل ربوہ کا تعلق ہے مجھے پتا ہے کہ فوری طور پر سب نے لبیک کہا اور عجیب اتفاق ہے کہ ادھر میں نے خطبہ دیا ہے اُدھر خطبہ سے چند دن تک ، پہلے ہی کئے ہوئے ان لوگوں کے فیصلے کی اطلاع مجھ تک پہنچی کہ ہم اب ان چیزوں سے پر ہیز کریں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور ایسی ٹیسٹس اور ویڈیوز وغیرہ کو رواج دیں گے جو اسلامی معاشرے کی تقویت کا موجب بنیں، نہ کہ اس کو نقصان پہنچانے کا موجب ہوں.مختلف قسم کی دلچسپ فلمیں موجود ہوتی ہیں.حاصل کی جاسکتی ہیں اور ان گندی فلموں کے مقابل پر بہت ہی زیادہ لذت پیدا کرنے والی اور تسکین بخش فلمیں ہیں.خصوصیت کے ساتھ نیچر پر جو فلمیں ہیں، مختلف جانور کس طرح رہتے ہیں، کس طرح ان کا بودوباش ہے.ان کی ادائیں کیا ہیں.ان کا کھانا کیا ہے.کس ملک اور کس موسم کے کیسے کیسے جانور آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات رکھتے ہیں، ان کی کیا کیا نشانیاں ہیں، کیا چیزیں ہیں جو ان کے رستے معین کرتی ہیں؟ کہیں کوئی جانور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 248 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء ہے جو اپنی بو چھوڑتا چلا جارہا ہے اس لئے کہ اس بو سے اس کے ساتھی دوسرے جانور پہچان لیں کہ یہاں سے وہ گزرا ہے یا واپس اپنے مسکن کی طرف لوٹ سکے اور دوسرے بھی متنبہ ہوں کہ یہ رستہ اس نے بنا رکھا ہے.جانوروں کے تعلقات کے باریک در بار یک قوانین ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بنا رکھے ہیں اور جنگل یوں ہی نہیں بسا ہوا.اس میں ایک نظام کارفرما ہے.ایک خاموش ہاتھ ہے جو جنگل کے نظام کو مرتب کر رہا ہے اور منظم کر رہا ہے.اس کے تقاضے پورے کر رہا ہے اور اس خاموش زبان کو سمجھنے کے لئے سائنس دانوں نے کوشش کی ہے جس زبان میں جنگل کے ان جانوروں کو رہنے کے سلیقے سکھائے جا رہے ہیں اور اس پر بہت ہی اچھی فلمیں بنائی ہوئی ہیں.پھر سمندر کے جانوروں کی فلمیں ہیں یعنی ہوا، خشکی سمندر.سمندر کی تہہ تک اتر کر سائنس دانوں نے دیکھا ہے تو جن قوموں نے ایسی اچھی چیزیں ایجاد کی ہیں اس کے دونوں قسم کے مصرف بھی کئے ہیں اور ان کے نتیجہ میں اچھا بُرا ہر قسم کا تفریح کا سامان مہیا ہے.تو ہمارے ربوہ والے ہوں یا دوسرے ویڈیو کا کاروبار کرنے والے ہوں یا ویڈیو کی خواہش رکھنے والے احمدی خاندان ہوں جن کو توفیق ہے اور انہوں نے گھروں میں ویڈیو رکھی ہو انہیں چاہئے کہ وہ ایسی چیزیں طلب کریں.میں نے ایک دفعہ کچھ نمونے ربوہ بھجوائے تھے اور پھر یہ سلسلہ منقطع ہوا لیکن میں نے اور بھی کیسٹیں تیار کر کے رکھی ہوئی ہیں وہ بھی انشاء اللہ موقع ملا تو بھیجیں گے لیکن اس میں مشکل صرف یہ ہوتی ہے کہ ایک کیسٹ سے دوسری کیسٹ میں منتقل کرنے کے لئے باقاعدہ اجازت چاہئے ورنہ ان کے کاپی رائٹس محفوظ ہوتے ہیں.اس لئے سنٹر ز تو مختلف جگہ کھولے جا سکتے ہیں وہاں سے ان کی لینڈنگ (Lending) لائبریریز بنائی جاسکتی ہیں لیکن عموماً کاپی کر کے بار بار وہاں بھجوانا خطرے سے خالی نہیں ہے.خطرہ سے خالی ہمارے لحاظ سے خصوصیت ہے کیونکہ باہر تو لوگ عام طور پر کرتے رہتے ہیں اور پر واہ ہی نہیں کرتے لیکن ہمارے لئے بعض تقاضے ایسے ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں، مجبوریاں ہیں.پس میں سمجھتا ہوں اگر مختلف بڑی بڑی جماعتیں جہاں عموماً ایسے مسائل ہیں وہ یہاں لکھ کر یا کہیں اپنے طور پر اپنے دوستوں سے کہہ کر جو یورپ امریکہ وغیرہ میں بستے ہیں ایسی ویڈیوز حاصل کریں اور ممکن ہو تو ان کا ترجمہ ساتھ ڈب کر دیں جو ممکن ہے اور کوئی مشکل نہیں ہے اور اردو میں یا پنجابی میں یہ کر کے پھر اضلاع Lending لائبریریاں بنالیں.بعض ویڈیو گھوم رہی ہوں.ایک گاؤں میں پہنچیں.دوسرے گاؤں میں، تیسرے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 249 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء گاؤں میں چند دن ٹھہریں اور یہ اتنی زیادہ ہیں کہ تسلسل اس عرصہ میں ٹوٹے گا نہیں اور بھوک قائم رہے گی.اس لئے اگر وہ اس قسم کی ۵۰ ۱۰۰ فلمیں منگوا لیں تو انشاء اللہ جب تک وہ گھوم کر واپس آئیں گی دوسرا نمبر جانا شروع ہو جائے گا اور اس طرح شوق کا جو تسلسل ہے وہ نہیں ٹوٹے گا.ہمارے دیہات وغیرہ میں ان کا دیکھنا خاص طور پر بڑا ضروری ہے کیونکہ دیہاتی لوگوں کو خصوصیت سے یہ شوق ہوتا ہے کہ ایک چیز شروع کر دیں تو بس چل سو چل اور جہاں وہ ٹوٹ گئی وہاں بات ختم ، شوق بھی اتر گئے.یہ مزاج کا فرق ہے صرف پاکستان کا نہیں باقی دنیا کے دیہات میں بھی غالباً یہی ہوگا.مجھے یاد ہے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب غالباً میر حامد شاہ صاحب کا ذکر کرتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے لیکن ایک بزرگ صحابی کا ذکر کرتے تھے جو سیالکوٹ کے تھے اور ان کی عادت تھی کہ وہ دن میں ایک دفعہ خوب سیر ہو کر کھاتے تھے اور پانی اس طرح پیتے تھے کہ بیچ میں ذرا بھی انقطاع برداشت نہیں کرتے تھے.چنانچہ چوہدری صاحب بتایا کرتے تھے کہ ماشکی کو حکم تھا کہ میں کٹورے سے منہ لگا کر پیتا ہوں تم پانی ڈالتے چلے جاؤ اور کہا کرتے تھے کہ ڈیک نہ ٹوٹے یعنی یہ جو مسلسل پانی اندر جا رہا ہے یہ ٹوٹے نہ ورنہ میری پیاس کا مزاختم ہو جائے گا.پھر پینے کو دل ہی نہیں چاہے گا یہ جو بات ہے یہ ویسے سنت کے مطابق نہیں ہے.یہ میں آپ کو بتا دوں.آپ یہ نہ سمجھنا کہ اسی طرح ہی ہونی چاہئے.آنحضرت ﷺ کی سنت یہ تھی کہ پانی ٹھہر ٹھہر کر پیتے تھے.ڈیک تو ڑ تو ڑ کر پیتے تھے مگر میں بتا رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں یہ بعض عادتیں ہیں اور وہ ابھی تک جاری ہیں تو ان کی ویڈیولیسٹس کی ڈیک نہ ٹوٹنے دیں کیونکہ جہاں ٹوٹ گئی وہاں سلسلہ ہی ٹوٹ جائے گا.کبھی مجھے ڈر ہوا تھا کہ میں باہر چلا گیا اور ایک دفعہ خطبہ کا تسلسل منقطع ہو گیا تو لوگوں نے آنا ہی پھر بند کر دینا ہے.اس لئے قومی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض اقدامات اختیار کرنے ضروری ہوتے ہیں.یہ اگر آپ جاری رکھیں گے اور ڈیک نہیں ٹوٹنے دیں گے تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دوسری فلموں کے لئے جگہ ہی نہیں رہے گی.باتوں کا ماحول بدل جائے گا.جو انسانی ذوق ہیں ان کی اصلاح ہوگی اور ذوق ترقی کریں گے اور دوسری جو گھٹیا اور گندی فلمیں ہیں ان کی کوئی حقیقت سامنے نہیں رہے گی، بے معنی سی ہو جائیں گی تو ترتیب میں ایسے حکیمانہ انتظام ہونے چاہئیں کہ جہاں محض زور کی نصیحت اور سزا کے ڈنڈے کام نہ کر رہے ہوں بلکہ دل کی تمنائیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 250 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء آپ کی نصیحت کے مطابق اسی ہوا پر چل پڑیں.پس اچھی چیزیں دیں.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المومنون:۹۷) کا مضمون ہے جو ہمیشہ ہمارے لئے راہنما رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ برائی کو روکنا ہے تو اچھائی کے ذریعہ روکو.اچھی چیز دو اور پھر بُرائی روکو.خالی حکم چلاتے رہو کہ فلاں چیز چھوڑ دو.فلاں چیز چھوڑ دو تو کوئی نہیں مانے گا.ہر بُری چیز کے بدلے ایک اچھی چیز بناؤ.ہر بُری عادت کے بدلے ایک اچھی عادت کا منصوبہ تیار کرو اور وہ اچھی عادت دے کر کہو کہ اب اس کو چھوڑ دو.کوئی برا کھانا کھا رہا ہو اور آپ کہیں کہ چھوڑ و پرے یہ برا کھانا ہے تو کون چھوڑے گا.ہاں اچھا کھانا ساتھ رکھ دیں گے اور کہیں گے کہ اب یہ برا کھانا چھوڑ وتو وہ شوق سے چھوڑے گا.دوسری بات جو مجھے انہوں نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ عام طور پر ادب اٹھ رہا ہے.نئی نسلوں میں اپنی قدروں سے بھی ایک قسم کی بے اعتنائی سی پیدا ہورہی ہے اور یہ ایک عمومی بیماری ہے جو پھیلتی ہوئی اور بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.مثال انہوں نے اس کی یہ دی ہے کہ مسجد میں بنگے سر جانا ایک عام رواج بن رہا ہے.اس سلسلہ میں یہاں تو میں نے بار بار توجہ دلائی ہے اور اللہ کے فضل سے انگلستان کی جونئی نسلیں ہیں ان میں بہت نمایاں فرق پڑا ہے.پہلے نگے سر مساجد میں جانے کی جو عادت تھی اب وہ خدا کے فضل سے بہت کم رہ گئی ہے.بہت معمولی رہ گئی ہے اور بالعموم آپ کو سب ٹوپیاں پہنے ہوئے نظر آئیں گے لیکن مجھے پتا لگا ہے کہ ربوہ کی مساجد میں بھی ، مسجد مبارک میں بھی کئی لوگ جو اسی طرح جاتے ہیں اور ان کو نصیحت کرو تو کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے کوئی بات نہیں اور بعض لوگ تو صرف اس لئے کہ بالوں کی مانگ نہ خراب ہو جائے.انہوں نے جہاں جہاں جس طریقے سے چیر نکالے ہوئے ہیں وہ وہیں قائم رہیں.ایسی بیہودہ عادت ہے.یہاں صرف ٹوپی کا مسئلہ نہیں ہے کہ ٹوپی کس حد تک ضروری ہے.یہ ایک اندرونی مرض ہے جس کا اظہار ہوا ہے.اس بات کو نو جوان لوگ سمجھتے نہیں اور ان بحثوں میں پڑ جاتے ہیں کہ سو فیصدی ثابت کرو کہ ٹوپی نہیں پہنیں گے تو کتنا گناہ ہوگا اور کہاں لکھا ہوا ہے کہ اتنا گناہ ہو گا وغیرہ وغیرہ.یہ بے وقوفی کی باتیں ہیں.قرآن کریم نے جہاں معروف کا حکم دیا ہے اس معروف کے تابع یہ ساری باتیں آجاتی ہیں.آنحضرت ﷺ سے عورتیں جب بیعت کرتی تھیں تو اُن سے معروف کا لفظ کہلوایا جا تا تھا کہ ہم معروف
خطبات طاہر جلد ۱۲ 251 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء میں آپ کی اطاعت کریں گی تو قرآن کریم نے اصول پیش فرما دیئے ہیں اور وقت کے امام کا کام ہے کہ وہ نظر رکھے اور جہاں جہاں کچھ برائیاں ایسی پیدا ہو رہی ہوں جو بظاہر دیکھنے میں اتنی اہم نہ ہوں لیکن ان کی جڑیں گہری ہوں اور بعض گہرے رجحانات پر اثر انداز ہونے لگ جائیں.رجحانات کو گندا کر رہی ہوں.ان پر نظر رکھے اور اُن کو روکے.وہاں کوئی یہ کہے کہ بتاؤ.قرآن کریم میں کہاں واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے.کہاں حدیث میں لکھا ہوا ہے.لکھا تو ہوا ہے مگر تمہیں دکھائی نہیں دے رہا.وہ معروف کا لفظ ہے جو آج بھی ہماری بیعت میں داخل ہے کہ معروف میں میں اطاعت کروں گا یا معروف میں میں اطاعت کروں گی تو یہ جوٹوپی سر سے اترتی ہے اگر اتفاقا اتر جائے تو اور بات ہے.پہلے اندر کے انسان کے تقویٰ کی ٹوپی اترتی ہے.پہلے اس کا رجحان معاشرے کی طرف بدلتا ہے.اپنی قدروں کی ناقدری کا احساس پہلے اٹھتا ہے پھر وہ ٹوپی اندر کی گندی ہواؤں سے اڑ جاتی ہے اور سر پر رکھتے ہوئے شرم آتی ہے.وہ شرم پہلے صرف گلیوں میں آتی ہے.پھر مسجد میں بھی آجاتی ہے اور وہ عادت بن جاتی ہے.باہر اس لئے ٹوپی پہن کر نہیں جاتے کہ ان کو خیال ہے کہ اگر ٹوپی پہنی ہو تو لوگ کہیں گے کہ یہ مولوی مزاج کا کوئی آدمی ہے اور جو جو حرکتیں ہم نے کرنی ہیں، یا جو اپنا مزاج بنا کر ہم پھرنا چاہتے ہیں اس مزاج کے خلاف ہے.ہم لوگوں سے پتھر کر الگ ہو جائیں گے کہ یہ ٹوپی والا ہے اور واقعہ ٹوپی بڑی حفاظت کرتی ہے.ٹوپی سے انسان بہت سی بدیوں سے اس وجہ سے بچتا ہے کہ لوگ آپ سے ان بدیوں کی توقع نہیں کرتے.ٹوپی آپ کے مزاج کی تشخیص کر دیتی ہے اور تعیین کر دیتی ہے لیکن جہاں تک مسجد میں ٹوپی کا تعلق ہے اس کا تو ادب سے گہرا تعلق ہے.میں ایسے نوجوان جانتا ہوں کہ جب ان کو کہا جاتا تھا کہ ٹوپی پہنو تو کہتے تھے، ثابت کرو کہاں حکم ہے.کوئی ضروری نہیں ہے اور اپنے والد کے سامنے بغیر ٹوپی کے جاتے ہوئے ان کی جان نکلتی تھی.وہاں جرات نہیں ہوتی تھی کہ دندناتے ننگے سر چلے جائیں اور جب مسجد میں روکتے تھے تو کہتے تھے کہ کوئی ضرورت نہیں.یعنی خدا سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں باپ سے ڈرناضروری ہے اور باپ بھی وہ جو جلال والا باپ ہو.یہ نہایت بیہودہ حرکتیں ہیں.یہ بیہودہ بخشیں ہیں.اگر تم ٹوپی اتار کر اس طرح دندناتے پھرو گے تو زبر دستی تو تم پر کوئی نہیں ہو سکے گی ، نہ امور عامہ کو اختیار، نہ خدام کو، نہ انصار کو ، جماعت کا کوئی نظام تمہیں سزا نہیں دے گا مگر تم اپنے آپ کو جو سزا دے رہے ہو.تم نے جو بے ادبی کی راہ اختیار کر لی، وہ تمہیں سب برکتوں سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 252 خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۹۳ء محروم کر دے گی.خدا کے حضور جھکنے کے لئے جس قسم کی عاجزانہ روح کی ضرورت ہے وہ روح باہر چھوڑ کر جا رہے ہو اور مسجد میں زینت لے کر نہیں جا رہے حالانکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :۳۲) اے لوگو مسجد میں زینت لے کر جایا کرو مسجد کی سب سے بڑی زینت تقویٰ ہے.ادب ہے، حیاء ہے اور ٹوپی کا سر سے اترنا اس زینت کے بالکل برخلاف اور مخالفانہ بات ہے.پس ان تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے اور ہماری فطرت میں جو بات داخل ہے اس کو مدنظر رکھنا چاہئے.مغرب میں بعض دفعہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ٹوپی پہننا کیوں ضروری ہے.ہم تو بڑوں کا ادب کرنے کی خاطر ٹوپی اتار دیتے ہیں.چنانچہ یہ واقعہ درست ہے.یہاں رواج ہے.حج کے سامنے جائیں تو حج ٹوپی پہنتا ہے اور جو حاضر ہونے والے ہیں ان کو ٹوپی اتارنی پڑتی ہے.انگریزی محاورہ ہے Hats off to you تمہارے ادب میں ہم ہیٹ اتارتے ہیں.لیکن ٹوپی وقار کا نشان ضرور سمجھتے ہیں.حج کو اجازت ہے ٹوپی پہنے کی بلکہ لازم ہے کہ پہن کر آئے جس کا مطلب ہے کہ اس کو ادب اور وقار کا مقام ملا ہے تو کم سے کم یو نہی سہی.تم یوں سمجھا کرو کہ خدا کے دربار میں ہمیں عزت دی گئی ہے.اللہ نے ہمیں وقار بخشا ہے.خدا نے وقار بخشا ہو اور تم اتار کر پھینک دو یہ بھی تو بے ادبی ہے.حج اگر ٹوپی اتار کر بیٹھے گا تو وہ قوم کی بے ادبی کر رہا ہے.اس روایت کی بے ادبی کر رہا ہے جس نے اس کو وہ خاص وقار اور عزت کا اور افتخار کا مقام عطا کیا ہے.پس مسجدوں میں ٹوپی پہن کر جانا سنت کے مطابق ہے.اس کا ایک اندرونی روحانی رجحان سے تعلق ہے اس لئے اس کو رواج دیں.بچوں کو چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں بنا کر دیں.ضروری تو نہیں کہ مہنگی ٹوپیاں ہی ہوں.کپڑے کی ٹوپیاں ہی سہی مگر ادب کا ایک نشان ضرور ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کو ان چیزوں کی طرف بھی واپس لے کر آئے اور ان چیزوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.اب چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے اور نصیحت کی چھوٹی چھوٹی بہت سی باتیں باقی ہیں.انشاء اللہ آئندہ جمعہ یا اس کے بعد اس سلسلہ کو پھر شروع کریں گے.السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکانہ.خدا حافظ.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 253 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء تقویٰ سے خالی منصب عزت سے بھی خالی ہو جاتا ہے.متقی بغیر منصب کے بھی عزت پاتے ہیں.نمائندگان شوری کو نصائح.(خطبه جمعه فرموده ۲ اپریل ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَانْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ الْقُكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيْمٌ خَبِيرٌ فرمایا:.(الحجرات :۱۴) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اےلوگو!،اے انسانو! ہم نے تمہیں مرداور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہیں بڑے بڑے گروہوں اور قبائل میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنفُسِكُمْ لیکن تمہاری یہ گروہی اور قبائلی تقسیمیں تمہاری عزت کا نشان نہیں ہیں کیونکہ تم میں سب سے معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہے.اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ اللہ تعالیٰ بہت جانتا ہے اور بہت خبر رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج ربوہ میں مجلس شوریٰ پاکستان کا آغاز ہو چکا ہے اس موقع پر جو پیغام میں نے لکھ کر بھجوایا تھا وہ سنا دیا گیا ہوگا اور افتتاح کی با قاعدہ کارروائی بھی ہو چکی ہے اور غالبا اس وقت تو وہ تمام نمائندگان مختلف محلوں میں، مساجد میں بیٹھے اس خطبہ میں شریک ہوں گے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 254 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء کیونکہ وہاں مجلس شوری کا وقت ختم ہو چکا ہے اور مختلف سب کمیٹیاں بن چکی ہیں اور اب وہ اپنے اپنے مقامات پر جا کر انشاء اللہ کل کی کارروائی کے لئے غور و خوض شروع کریں گے.میں نے چونکہ تحریری طور پر اپنا افتتاحی پیغام بھجوا دیا تھا اس لئے خیال نہیں تھا کہ مجلس شوریٰ سے براہ راست مخاطب ہوں لیکن ناظر صاحب اعلیٰ نے بہت زور کے ساتھ یہ تحریک کی ہے کہ مجلس شوری کے ممبران کی یہ خواہش ہے کہ آپ آج خطبہ میں ہمیں براہ راست بھی مخاطب ہوں.پس اس غرض سے میں نے ان کو نصیحت کرنے کے لئے اس آیت کا انتخاب کیا ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مجلس شوری جماعت کا ایک بہت ہی اہم نظام ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خلافت کے بعد سب سے اہم نظام شوریٰ کا نظام ہے اور شوریٰ کے نظام کے ساتھ جماعت کی زندگی وابستہ ہے.پس ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خلافت میں اور شوریٰ میں مشترکہ طور پر جماعت احمدیہ کی جان ہے اور جماعت احمدیہ کی جان اگر خلافت اور شوریٰ میں ہے تو خلافت اور شوریٰ کی جان تقویٰ میں ہے کیونکہ خلافت تقویٰ کے بغیر بے معنی اور بے حقیقت ہے اور مجلس شوریٰ بھی تقوی کے بغیر محض ایک قالب ہے، ایک جسم ہے جس میں کوئی روح نہیں ہے ان دو باتوں کو اگر مجلس شوری کے ممبران پیش نظر رکھیں اور جماعت احمدیہ کے افراد کل دنیا میں ان کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ پر کبھی موت واقع نہیں ہوسکتی.خلیفہ وقت میں احمدیت کی جان میں نے نہیں کہا.خلافت احمدیہ میں احمدیت کی جان ہے اور مجلس شوری میں جان ہے نہ کہ ان ممبران میں جو آج وہاں اکٹھے ہوئے ہیں.ان دو باتوں کو آپ مناسب طور پر لیں اور یہ جو منصب ہیں ان میں اگر چہ بہت نقدس پایا جاتا ہے لیکن اس تقدس کا جماعت کے تقویٰ کے ساتھ ایک براہ راست رشتہ ہے.خلیفہ وقت کا تقومی ذاتی بھی ہوتا ہے لیکن وہ جماعت جو اسے منتخب کرتی ہے اس کے تقویٰ کا خلیفہ وقت کی ذات سے بہت گہرا تعلق ہے.چنانچہ قرآن کریم نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی کہ یہ دعا کیا کرو کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( الفرقان: ۷۵) اے ہمارے رب! ہمیں متقیوں کا امام بنانا کیونکہ غیر متقیوں کی امامت اگر متقی بھی ہو تو تب بھی بے جان رہتی ہے کیونکہ جس جسم سے دماغ نے یا دل نے کام لینا ہو اس جسم میں بھی تو صلاحیت ہونی چاہئے اور جسم کی صلاحیت ، دماغ اور دل دونوں پر اثر انداز ہورہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 255 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء ہوتی ہے.اگر جماعت تقویٰ سے عاری ہو تو خلافت اپنی ذات میں اکیلی لمبا عرصہ تقویٰ کی باریک راہوں پر نہیں چل سکتی کیونکہ جب غیر متقیوں سے واسطے پڑتے ہیں تو لیڈرشپ برباد ہو جایا کرتی ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جماعت غیر متقی ہو اور خلافت کے تقویٰ کی لمبے عرصے تک حفاظت کی جاسکتی ہو.ایک عرصہ تک تو انفرادی طور پر ہو سکتی ہے لیکن تقویٰ کی حفاظت خلافت کے نظام میں نہیں ہوسکتی کیونکہ خلافت ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ خلافت ایک نظام ہے.پس جب میں کہتا ہوں کہ خلافت میں تقویٰ کی حفاظت نہیں ہو سکتی تو مراد یہ ہے کہ خلیفہ خواہ متقی ہی رہے مگر وہ نظام جو جماعت کے تقویٰ کا آئینہ دار ہے، وہ نظام خلافت ہے، وہ گندا ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں جماعت کی صحت پر بہت برا اثر پڑے گا.یہی حال مجلس شوری کا ہے.پس اس مضمون کو آپ کے سامنے مزید کھول کر رکھنے کے لئے میں نے اس آیت کریمہ کا سہارا لیا ہے.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ القُكُمُ مناصب کا ایک تعلق عزت سے بھی ہوا کرتا ہے لیکن قرآن کریم نے عزت کا جو نظریہ پیش فرمایا ہے اس میں عزت کو مناصب میں نہیں رکھا بلکہ تقویٰ میں رکھ دیا ہے یعنی منصب تب تک عزت کے لائق ہے جب تک وہ تقویٰ کے نور سے بھرا ہوا ہو منصب جب تقویٰ سے خالی ہو جائے تو عزت سے خالی ہو جاتا ہے.فرمایا تمہاری عزت کے معیار جو کچھ بھی ہوں لیکن خدا کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے اور اس مضمون میں ایک یہ بات بھی بیان فرما دی کہ وہ لوگ جو مناصب پر فائز نہیں ہوتے وہ بھی کسی گھاٹے میں نہیں.مناصب کے نتیجہ میں انسان کو خدمت کا زیادہ موقع ملتا ہے لیکن خدا کے ہاں عزت کا مقام پانے کے لئے منصب ضروری نہیں تقویٰ ضروری ہے.پس اگر منصب تقویٰ سے خالی ہوگا تو اللہ کے ہاں وہ منصب عزت سے خالی ہو جائے گا اگر منصب تقویٰ سے بھرا ہوا ہو گا تو وہ منصب بھی عزت کے لائق اور وہ تمام افراد جماعت جو اپنی اپنی جگہ بغیر مناصب کے صاحب تقویٰ ہیں وہ بھی خدا کے حضور عزت کا مقام پائیں گے.یہ نکتہ اس لئے بہت غور سے سننا اور سمجھنا چاہئے کہ اس کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہمارے انتخابی نظام میں فتور واقع ہو جاتا ہے.جب مجلس شوری کے ممبروں کا انتخاب ہوتا ہے، جب عہد یداروں کا انتخاب ہوتا ہے اس وقت اگر اس دائی زندگی کے اس مرکزی نقطہ پر نظر نہ ہو تو اس کے بداثرات
خطبات طاہر جلد ۱۲ 256 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء انتخاب پر ضرور وارد ہوتے ہیں اور ضرور انتخابات کی کیفیت گندی ہو جاتی ہے اور ضروری نہیں کہ اس کے نتیجہ میں جو شخص چنا جائے وہ بھی غیر متقی ہو یہ لازم و ملزوم نہیں ہیں.بعض اوقات اتفاق سے ایک متقی شخص جماعت میں نمایاں طور پر ابھر رہا ہوتا ہے اور وہ دیگر لحاظ سے صاحب منصب بھی ہوتا ہے وہ انتخاب کے نتیجہ میں آگے آجاتا ہے لیکن یہ رجحان اپنی ذات میں بہت ہی خطرناک ہے کہ انتخاب کے وقت دیگر دنیوی مناصب پر نظر ہو اور تقویٰ سے بے نیاز ہو کر کوئی جماعت انتخاب کرے.اس سلسلہ میں جوسب سے اہم بات میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر آپ کی پسند اللہ کی پسند کے مطابق رہی تو آپ کی پسند اچھی ہے اور اس پسند کے نتائج ہمیشہ اچھے نکلیں گے.اللہ کی پسند آپ کی پسند سے مختلف ہو گئی اور بیچ میں فاصلے پڑ گئے تو آپ کی پسند کی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہے گی.پس اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا مضمون اس طرح سمجھایا کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتقسم اللہ کی پسند تو تقویٰ ہے.اللہ کو تو وہی معزز دکھائی دیتا ہے جو صاحب تقویٰ ہو.اگر تمہارے ہاں عزتوں کے معیار بدل گئے ہیں تو وہ معیار بگڑ چکے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں.پس اگر جماعت کو انتخاب کے وقت صاحب تقویٰ ہی معزز دکھائی دیتا ہے تو یہ وہ جماعت ہے جو کبھی مر نہیں سکتی.اگر انتخاب کے وقت صاحب تقویٰ معزز دکھائی نہ دیتا ہو بلکہ اپنا رشتہ دار معزز دکھائی دیتا ہو، اپنے گروہ کا لیڈر معزز دکھائی دیتا ہو، کسی قوم سے تعلق رکھنے والا معزز دکھائی دیتا ہو، کوئی بڑا زمیندار صاحب اثر دکھائی دیتا ہو، کوئی صاحب دولت امیر انسان معزز دکھائی دیتا ہوتو ایسے انتخاب خدا کی نگاہ کے انتخاب نہیں ہیں.اس لئے خلافت سے پہلے لازم ہے کہ نبوت ہو.نبوت کے بغیر خلافت کا وجود ممکن ہی نہیں ، نہ خلافت دنیا میں قائم کی جاسکتی ہے کیونکہ نبوت ہی ایک منصب ہے جو براہ راست خدا تعالی کی طرف سے قیام میں لایا جاتا ہے اور اس پر ایک ایسا شخص فائز فرمایا جا تا ہے جو خدا کی نظر میں سب سے معزز ہو اور وہ صاحب تقویٰ ہو.پس جب تک بگڑے ہوئے نظام پر خدا کا نمائندہ پہلے مقررنہ کیا جائے انتخابی اداروں میں یا انتخابی نظام میں تقوی داخل ہی نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا میں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.سارا عالم اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے وہ نہیں بنا سکتا کیونکہ خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے اور خدا کی پسند اس شخص پر خود انگلی رکھتی ہے جسے وہ صاحب تقویٰ سمجھتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 257 خطبه جمعه ۲ را بریل ۱۹۹۳ء اور اس کے بعد پھر وہ متقیوں کا ایک گروہ اپنے گرد پیدا کرتا ہے، وہ دہی کے قطرے کی طرح دودھ میں جاگ بن جاتا ہے اور جو بھی لوگ اس کے ارد گر دا کٹھے ہوتے ہیں وہ نبی کے تقویٰ سے تقوی پا کر متقی ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پھر ان کا انتخاب خدا کا انتخاب کہلاتا ہے اگر وہ متقی نہ ہوں تو ان کا انتخاب خدا کا انتخاب کہلا ہی نہیں سکتا.پس جماعت احمد یہ جب کہتی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے تو ان معنوں میں خدا بناتا ہے.پس خلافت کے ساتھ جماعت کے تقویٰ کا بہت گہرا تعلق ہے.اگر جماعت متقی ہوگی تو اس کا انتخاب خدا کا انتخاب ہو گا.اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر پڑے گی اور اس کی عزتوں کا معیار تقویٰ رہے گا.یہ بات خلافت سے اتر کر درجہ بدرجہ جماعت کے ہر عہدے پر چسپاں ہوتی ہے جس کا انتخاب کیا جاتا ہے.اب میں مجلس شوری کی طرف واپس آتا ہوں مجلس شوری کے نمائندوں کا انتخاب اگر تقویٰ کی بناء پر ہو اور تقویٰ کی بناء پر ہوتا ہے.تو وہ لوگ جو مجلس شوری میں جو جماعت احمدیہ کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی نظر کسی گروہی مفاد پر نہیں ہوگی کسی ذاتی تعلق یا ذاتی عناد پر نہیں ہوگی ان کے فیصلے خالصہ اللہ ہوں گے، ان کی نظر ہمیشہ اللہ کی رضا پر رہے گی.وہ یہ سوچیں گے کہ ہمارا خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے اسی کا نام تقویٰ ہے.وہ شخص جو اپنے محبوب کی محبت کے کھو دینے کے خوف میں زندگی بسر کرتا ہو وہی متقی ہے.پس جو ہر لحظہ یہ سوچتا ہو کہ کہیں اس بات سے تو میرا خدا ناراض نہیں ہو جائے گا، اس بات سے تو میرا خدا ناراض نہیں ہو جائے گا.محبت کھو دینے کا یہ خوف ہے جو حقیقت میں تقویٰ کی جان ہے.پس اس پہلو سے جب وہ مشوروں کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں ان میں طعن و تشنیع ، ہوشیاریوں میں، چالاکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا تصور، ایک دوسرے سے بہتر تقریر کرنے کا تصور، ایک دوسرے کے دلائل کو ردکرتے ہوئے ذاتی فخر کا خیال کہ ہم نے یوں مارا.ایسی دلیل دی کہ کمال کر دیا اور ووٹ زیادہ حاصل کرنے کا تصور یہ ساری باتیں اس مجلس سے Banish ہو جاتی ہیں جو تقویٰ پر مبنی ہوں ان کو دیس نکالامل جاتا ہے.ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.جو جیتیں تب ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا.ہاریں تب ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا.ایک شخص اکیلا رہ جائے اور اپنی بات پر قائم ہو تو اس وجہ سے اپنی بات پر قائم ہوگا کہ اس کے نزدیک خدا کو یہ بات پسند ہے.اس کو ذرہ بھی فرق نہیں پڑتا کہ باقی لوگوں نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں وہ پوری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 258 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء طرح اطمینان سے بیٹھے گا کسی نفسیاتی مرض کا شکار نہیں ہوگا.پس تقومی انسان کے دینی ، نفسیاتی اور قلبی حفاظت کے لئے انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی صحت بھی باقی نہیں رہتی.پس مجلس شوری کو منتخب کرتے وقت جن لوگوں نے منتخب کیا ان کے تقویٰ کی جھلک مجلس شوری میں ظاہر ہوگی اور اگر غلطی سے کچھ غیر متقی لوگ آگئے ہیں تو بعض دفعہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ منتخب کرنے والوں نے ہی غلطی کی ہو.بعض دفعہ لاعلمی کے پردے بیچ میں حائل ہو جاتے ہیں.ایک شخص اپنے ساتھیوں کو متقی دیکھائی دیتا ہے مگر خدا کے نزدیک وہ متقی نہیں ہوتا.پس یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے متعلق سو فیصدی یقین کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہوں کہ اگر متقیوں نے انتخاب کیا ہے تو وہ لاز ما متقی ہو گا.یہ ایک احتمال رہتا ہے لیکن متقیوں کی جتنی بڑی تعداد ہوا اتنا یہ احتمال کم ہوتا چلا جاتا ہے مگر ایک دور کا احتمال ضرور موجود ہے.ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ساتھ دعا کی جائے تقویٰ محض اکیلا کام نہیں کر سکتا.جب تک دعا اس کے ساتھ شامل حال نہ ہو.پس مجلس شوری کے انتخاب کے وقت بھی بلکہ میں سمجھتا ہوں نہ صرف اس موقع پر بلکہ دیگر انتخابات کے موقع پر بھی اگر پہلے دعا کا رواج قائم کیا جائے اور جہاں تک مجھے یاد ہے یہ رواج موجود ہے.لیکن ہو سکتا ہے کہ بہت سی جماعتوں کو اس سے واقفیت نہ ہو.ہمیشہ انتخاب سے پہلے ضرور دعا کرنی چاہئے اور تقویٰ کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے ہوئے اس سے یہ التجا کرتے ہوئے دعا کرنی چاہئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پسند تیری پسند ہو.ہم چاہتے ہیں کہ تیری پسند ہماری پسند ہو جائے.ہماری پسندوں کے فاصلے مٹ جائیں لیکن ہم لاعلم ہیں جیسا کہ تو نے خود فرمایا کہ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی (النجم :۳۳) اللہ بہتر جانتا ہے تمہیں کیا پتا کہ کون متقی ہے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے تو عاجزانہ عرض کی ہے کہ اے خدا! ہم اکٹھے تو تیری رضا کے مطابق انتخاب کرنے کے لئے ہوئے ہیں مگر پوری طرح یقین سے کہہ نہیں سکتے کہ تیری رضا کیا ہے کیونکہ جسے ہم متقی سمجھتے ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ متقی نہ ہو.پس ہم تیرے حضور عاجزانہ جھکتے ہیں تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ ہمارے انتخاب کو سچا انتخاب بنا دے اپنا انتخاب بنادے.پس وہ انتخاب ہے جو خدا کا انتخاب ہوتا ہے اور یہ انتخاب جتنا نچلی سطحوں پر اتر تا ہوا Grass Root level پر پہنچتا ہے اتنا ہی زیادہ عمدہ خلافت کا انتخاب ہوگا کیونکہ ایک دفعہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 259 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء تو تقویٰ کی حرکت اوپر سے نیچے کی طرف ہے نبوت سے تقویٰ اترتا ہے اور نیچے تک تقویٰ کا رس گھلتا چلا جاتا ہے.تقویٰ کا پانی جڑوں تک پہنچ کر ان میں سرایت کر جاتا ہے.پھر ان سے جونشو ونما اٹھتی ہے وہ مبنی بر تقویٰ ہوا کرتی ہے اور اس جماعت کے جو نمائندگان پھر آخر پر آکر آئندہ کبھی خلافت کا انتخاب کرتے ہیں تو ان کا انتخاب بلا شبہ اللہ کا انتخاب ہوتا ہے.یہ معنی ہیں ورنہ محض دعوؤں میں تو کوئی حقیقت نہیں ہم دنیا کو کہتے رہیں کہ خلافت کا انتخاب خدا کا انتخاب ہے ان کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی جب تک اس طریق سے ان پر ثابت نہ کیا جائے اور یہ ایک ایسی واضح کھلی ہوئی حقیقت ہے جو قابل فہم ہے اگر نبوت سے تقویٰ نبوت کے ساتھیوں میں سرایت کر گیا ہے اور انہوں نے انتخاب کیا ہے اور اگر اس تقویٰ کی حفاظت کی گئی ہے اور نسلاً بعد نسل یہ تقویٰ قائم رکھا گیا ہے تو لازماًہر انتخاب خدا کا انتخاب ہوگا.صرف خلافت ہی کا نہیں امارت کا انتخاب بھی خدا کا انتخاب ہوگا.صدارت کا انتخاب بھی خدا کا انتخاب ہوگا.زعامت کا انتخاب بھی خدا کا انتخاب ہوگا.اس ساری مجموعی صورت حال کا نام خلافت ہے اور اس کی زندگی تقویٰ میں ہے.پس مجلس شوری کو آپ نے زندہ رکھنا ہے اور قائم اور دائم رکھنا ہے تو اس کے تقویٰ کی حفاظت کریں اور اس کے تقویٰ کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان جڑوں کی سطح پر نظر رکھیں جہاں سے تقوی کے پودے نے نشو و نما پانی ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تقویٰ پر جو یہ شعر ہے: ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے (درثمین:۴۹) یہی مضمون ہے جو میں خوب کھول کر آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں.جہاں تک مجھے یاد ہے پہلا مصرعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا مصرعہ تھا.جس طرح بعض دفعہ ہوتا ہے کہ ایک شاعر ایک مصرعہ کہہ کر کچھ اٹک سا جاتا ہے اس کی شان کا.بعینہ اس کا ہم پلہ مصرعہ بعد میں اس کے ذہن میں نہیں آرہا ہوتا اور اس وقت پھر بعض دفعہ دوسرے شعرا ایک اور مصرعہ مہیا کر کے اس کے شعر میں نصف کے حصہ دار بن جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اتنا اچھا مصرعہ دے دیتے ہیں گویا سارا شعر ہی ان کا ہوگیا اللہ تعالیٰ بھی بعض دفعہ ایسے ہی پیار کا مظاہرہ کرتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ مصرعہ کہا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 260 ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے خطبه جمعه ۲ راپریل ۱۹۹۳ء تو سوچ ہی رہے تھے کہ اب اس کے بعد کیا کہوں سب سے بڑی بات تو کہہ دی کہ ”ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے.پھر کیا باقی رہا تب الہام ہوا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اور کس شان کے ساتھ مضمون مکمل ہو گیا.جڑ تو ہے مگر اس جڑ کو باقی رکھنا تمہارا کام ہے.اگر اس جڑ کو باقی رکھو گے تو سب کچھ باقی رہے گا.پس اگر نظام شوری کو باقی رکھنا ہے، اگر نظام خلافت کو باقی رکھنا ہے تو تقویٰ کی جڑ کو باقی رکھیں اور یہ پیغام اپنے سب بھائیوں کو دیں.پہلے تو میں کہا کرتا تھا کہ جب واپس جائیں تو میری طرف سے یہ پیغام پہنچائیں لیکن اب تو میں سب کو مخاطب ہو کر خود کہہ رہا ہوں کہ جو میں شوریٰ کو کہہ رہا ہوں ،تمہیں بھی کہ رہا ہوں تم میں سے ہر ایک سے مخاطب ہوں.اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ لو اور اپنے ہر انتخاب سے غیر اللہ کو خارج کردو، اپنی چودراہٹوں کو خارج کر دو، اپنی دوستیوں کو خارج کر دو، اپنی دشمنیوں کو خارج کر دو، اپنے تعلقات کو خارج کردو.ایک ہی تعلق قائم رکھو اور وہ اللہ سے تمہارا تعلق ہے.تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتخاب کرو تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ قیامت تک یہ جماعت مر نہیں سکے گی، بڑھتی چلی جائے گی اور بڑھتی چلی جائے گی.پس مجلس شوری کی جان تقویٰ میں ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ مجلس شوری کا انتخاب کرنے والوں نے تقویٰ ہی سے کام لیا ہوگا اور اگر کوئی کمی رہ گئی ہوگی تو دعاؤں نے کمی پوری کر دی ہوگی.پس آئندہ بھی دنیا بھر میں جہاں بھی جماعت اس پیغام کوسن رہی ہے وہ یا درکھیں کہ اپنے ہر انتخاب کا آغاز دعا سے کیا کریں اور دعا میں یہ بات خصوصیت سے پیش نظر رکھیں کہ ہم خدا کی پسند کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں.اس واضح پیغام کے ساتھ جو انسان اپنے نفس کو دیتا ہے انسان کی سوچ میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.جانے سے پہلے انسان سوچ رہا ہوتا ہے کہ فلاں بھی میرا دوست ہے، فلاں بھی ہے ،فلاں نے غالباً فلاں کو صدر بنانے کی کوشش کرنی ہے اور وہ اچھا آدمی نہیں ہے.ہم سمجھتے ہیں فلاں اچھا ہوگا، تقویٰ کے لباس پہنائے ہوتے ہیں اپنی نیتوں کو مگر بعض دفعہ بودے اور گندے لباس ہوتے ہیں.نام تقویٰ کا لباس ہوتا ہے تو اس قسم کی سوچیں سوچ کر لوگ انتخاب میں پہنچا کرتے ہیں.وہاں جب دعا شروع ہو تو ایک دم انسان اپنے آپ کو یاد کرائے کہ میری پسند کی کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 261 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے.نہ میری پسند کی نہ اس کی پسند کی جس کی رضا کی خاطر ہم اکٹھے ہوئے ہیں.اس کی پسند کی اصل حقیقت ہے.پس اے خدا مجھے تو اپنی پسند عطا فرما دے، میری آنکھوں کا ٹیڑھا پن دور کر دے، میری آنکھوں پر اگر تعصب کے یا کسی تعلق کے کوئی پردے حائل ہوں تو ان پردوں کو کاٹ کر الگ پھینک دے، مجھے اپنی رضا دکھا ، اپنی رضا کی راہیں دکھا اسی کو ووٹ دینے کی توفیق عطا فرما جو تیرے نزدیک متقی اور تیرے نزدیک سب سے معزز ہے.یہ دعا کرتے ہوئے جو جماعت اپنا انتخاب کرتی ہے.مجھے یقین ہے اور ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس انتخاب کی حفاظت فرمائے گا اور ہر ایسا انتخاب جو ان دعاؤں کے ساتھ اور تقویٰ کی کوشش کے ساتھ کیا جائے گا.بفضلہ تعالیٰ وہ اللہ ہی کا انتخاب ہو گا.اس ضمن میں ایک اور اہم بات جو میں آپ کے سامنے یعنی مجلس شوری ہی کے نہیں بلکہ تمام دنیا کے احمدیوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تقویٰ کی اپنی جان بھی تو کسی قالب میں ہے نا اور وہ ہے کیا؟ تقویٰ کی جان عبادتوں میں ہے، وہ قوم جو عبادت سے خالی ہو جائے وہ تقویٰ سے خالی ہو جایا کرتی ہے.قرآن کریم نے نماز کے متعلق فرمایا ہے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وہ تمام چیزیں جن میں ملوث ہونے کے نتیجہ میں اللہ کی رضا ہاتھ سے جاتی ہے وہ بیان فرما دی اور فرمایا نماز ان کی حفاظت کرتی ہے.پس تقویٰ کی اپنی جان عبادت میں ہے.اس لئے عبادت کے اوپر میں غیر معمولی زور دینے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن لفظ غیر معمولی محض محاورہ ہے.عبادت پر غیر معمولی زور دیا ہی نہیں جاسکتا.ہر زور جو ہے وہ دے دیں تب بھی وہ معمولی دکھائی دے گا کیونکہ عبادت میں تو سب کچھ ہے اس کے سوا کچھ بھی باقی نہیں.آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے اپنی بہت سی مجبوریاں پیش کیں اور ان مجبوریوں کے نتیجہ میں اس نے کہا میں گڈریا ہوں، میرے کپڑے کئی دفعہ جانوروں کے پیشاب میں لت پت ہو جاتے ہیں، کئی دفعہ اور کئی پہلوؤں سے گندے ہو جاتے ہیں، مصروفیتیں ہیں.وغیرہ وغیرہ تو اتنی لمبی تقریر کے بعد پوچھا یہ کہ کیا ان حالتوں میں مجھے نماز سے رخصت مل سکتی ہے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نماز نہیں تو پھر رہا کیا کچھ بھی نہیں تو پھر دین کیا.پس عبادت تو کسی صورت میں ٹل نہیں سکتی.عبادت کو اچھا کرنے کے لئے آپ کو اچھا بنا پڑتا ہے لیکن اگر اچھا نہ بھی بن سکیں تب بھی عبادت لازم ہے وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 262 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء تو کسی حالت میں نہیں ملے گی.پس عبادتوں کو قائم کریں.اس پہلو سے میں ایک خوشی کی خبر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے مجھے بہت خوشی پہنچی ساری جماعت کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے.میں نے اپنے خطبہ جمعۃ الوداع میں یہ کہا تھا کہ مجھے ابھی سے فکر لگ رہی ہے کہ عید کے دن مسجدوں کا کیا حال ہوگا.وہ مسجدیں جو جمعتہ الوداع میں بھر گئی ہیں.وہ عید والے دن کہیں نمازیوں کو تلاش نہ کریں اور ان پر بے رونقی نہ آجائے کہ سارے لوگ اپنی عبادتیں جمعتہ الوداع کے ساتھ ہی وداع کر بیٹھے ہوں.اللہ کے فضل سے اس سلسلہ میں مجھے جو پہلی رپورٹ ملی وہ ربوہ کی طرف سے تھی وہاں تقریباً ساری رات خدام انصار اور بچے منصوبے بناتے رہے اور پھر نماز سے کافی وقت پہلے علی اصبح انہوں نے گھر گھر کی کنڈی کھٹکھٹائی اور اس کے نتیجہ میں عید والے دن اتنے نمازی اکٹھے ہوئے کہ بعض لکھنے والوں نے جو انتظام سے الگ لکھنے والے ہیں یعنی انتظام میں شامل نہیں تھے بلکہ زائر تھے انہوں نے لکھا کہ ہم نے ربوہ کی مساجد میں اور تمام مساجد میں آج تک کبھی صبح کے نمازی اتنی تعداد میں نہیں دیکھے جتنے عید والے دن تھے.تو آپ نے تو یہ کہہ کر میری عید بنادی اور باقی جماعتوں کی طرف سے بھی اسی قسم کی خوشیوں کی خبریں ملی ہیں لیکن اس عید کو دائی کریں تو مزہ ہے.عارضی عیدوں کا کیا فائدہ جو اپنے پیچھے غم چھوڑ جائیں اس لئے نماز کو چمٹ جائیں اور اس کو ایک دائمی حقیقت بنالیں.یہ آپ کی زندگی کا ایسا جز و ہو جیسے سانس ہوا کرتے ہیں.سانسوں کے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا.اسی طرح حقیقت میں عبادت کے بغیر بھی کسی انسان کی یا قوم کی روحانی زندگی قائم نہیں رہ سکتی.پس ایک تو باہر سے کنڈی کھٹکھٹانے والے ہیں جو اس دن آپ نے مہیا کئے ہیں.یہ کنڈی کھٹکھٹانے والے مستقل مزاجی سے کنڈیاں نہیں کھٹکھٹا سکتے.مجھے انتظاموں کا لمبا تجربہ ہے خدام الاحمدیہ کی مختلف سطح پر میں نے کام کئے ہوئے ہیں اور مختلف تنظیموں میں کام کئے ہوئے ہیں کچھ عرصہ تک لوگ جوش دکھاتے ہیں ، کنڈیاں کھٹکھٹا دیتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد آہستہ آہستہ تھک کر وہ رہ جاتے ہیں اور وہ لوگ جن کو بار بار سہارا دے کر آگے لے جانے کی عادت پڑ گئی ہو جب سہارا نہیں رہتا تو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اس لئے یہ کوئی دائی علاج نہیں ہے.ایک دن کی خوشی تو ہے لیکن کوئی ایسی خوشی نہیں جو ہمیشگی کی خوشی بن چکی ہو اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ہر نفس کے اندر سے ایک کنڈی کھٹکھٹانے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 263 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء والا پیدا ہو جائے اس سے بہتر کوئی کنڈی کھٹکھٹانے والا نہیں جو ضمیر میں سے جاگ اٹھے اور انسان کو بے چین کر دے جب تک وہ زندہ رہے ، جب تک وہ سانس لیتا ر ہے وہ ضمیر کا کنڈی کھٹکھٹانے والاضرور کنڈی کھٹکھٹاتا ہے اور نیکی کے لئے بھی کھٹکھٹا تارہے گا، وہ کبھی نہیں تھکا کرتا بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ زیادہ طاقتور ہو کر ابھرتا ہے اور یہ وہ نفسیاتی حقیقت ہے کہ جسے تو میں اگر پیش نظر رکھیں تو جینے کا راز بھی مل جائے گا اور مرنے کا راز بھی مل جائے گا کیونکہ یہ کنڈی کھٹکھٹانے والا بدی کے لئے بھی کھٹکھٹاتا ہے اور نیکی کے لئے بھی کھٹکھٹاتا ہے.آپ اس کو جتنا بدی کا چسکا ڈالیں اتناہی قوت اور زور کے ساتھ وہ بدی کی کنڈیاں کھٹکھٹاتا ہے.جن کو راتوں کو اٹھ کر گناہ کرنے کی عادت ہے ان کا یہ کنڈی بردار، کنڈی کھٹکھٹانے والا راتوں کو ان کو جگاتا ہے، چین نہیں لینے دیتا، جب تک وہ اپنے گناہوں کی تمناؤں کو پورا نہ کر لے.ایک نیکیوں کا کنڈی کھٹکھٹانے والا بھی ہوا کرتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرف کنڈی کھٹکھٹا کرنئی طاقت پاتا ہے ، نیا عزم اور نیا ولولہ اس میں پیدا ہو جاتا ہے اس کے کھٹکھٹانے میں زیادہ شوکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ تھکتا کبھی نہیں پس اپنے ضمیر کے کنڈی کھٹکھٹانے والوں کو جگائیں اور ہر وہ شخص جو میری بات کو سن رہا ہے وہ اپنے ضمیر میں اس جگانے والے کو تلاش کرے وہ سویا ہوا ہے وہ جاگ جائے تو ہو نہیں سکتا کہ نمازی سو جائیں.اس کو جگانے کی ضرورت ہے اور جب وہ جاگ جائے تو شیطان کے اثر سے باہر چلا جاتا ہے.شیطان دخل بھی دے تو پچھتاتا ہے.ایک بزرگ کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ بہت نمازی تھے نمازوں سے بہت شغف تھا.ایک دفعہ نماز کے لئے اٹھے تو شیطان نے بہلا کر دوبارہ سلا دیا کہ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے تھک گئے ہو تھوڑا سا آرام کرو پھر اٹھ جانا اور اس طرح ان کی نماز ضائع ہوگئی.پہلی نماز تھی جو ضائع ہوئی ان کو اتنا صدمہ پہنچا، اتنا صدمہ پہنچا کہ سارا دن اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگتے ہوئے ، روتے اور چیختے ہوئے گزر گیا.دوسرے دن جب سوئے ہیں تو نماز سے پہلے کسی جگانے والے نے ان کو جگایا کہ اٹھو! نماز پڑھو.انہوں نے کہا ہاں میں اٹھتا ہوں لیکن تم ہو کون؟ اس نے کہا میں شیطان ہوں.انہوں نے کہا شیطان نماز کے لئے جگانے کیلئے آیا ہے ! اس نے کہا ہاں کل مجھ سے بڑی غلطی ہوئی تھی کل جو میں نے تمہیں سلا دیا اور تم اتنا پچھتائے ہو، اتنا روئے ہو کہ خدا تم سے اتنا راضی ہوا کہ کبھی کسی نماز
خطبات طاہر جلد ۱۲ 264 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء پڑھنے والے سے اتنا راضی نہیں ہوا ہو گا.تو میں تو خدا کی ناراضگی دینے کے لئے آتا ہوں.میں کیا غلطی کر بیٹھا.اب میں تمہیں جگانے کے لئے آیا ہوں تا کہ خدا دوبارہ تم سے اتنا راضی نہ ہو جائے.اب اسے ایک حکایت کہہ لیں یا کسی شخص کی سوچی ہوئی ایسی تدبیر ہے جس سے نمازوں کی طرف توجہ دلانے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے اندر حقیقت ہے.وہ شخص جس کا ضمیر نماز میں اٹک چکا ہو، نمازی بن چکا ہو اس سے جب بھی نماز میں غفلت ہوتی ہے اس کو شدید کچوکے ملتے ہیں اور اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ اس تکلیف کے نتیجہ میں گناہ کی بجائے اس کو ثواب ملتے ہیں اور اگلی نمازوں کے لئے مزید طاقت نصیب ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ نے کتنی ہی بار جہاد میں ، غزوات میں حصہ لیا اور بڑے بڑے دکھ اٹھائے ، بڑی تکلیفیں اٹھائیں لیکن کسی تکلیف کا، کسی دکھ کا کوئی شکوہ آپ کے ہاں نہیں ملتا.سوائے ایک دفعہ جنگ احزاب کے موقع پر جبکہ دشمن نے ایک دن اتنا مصروف رکھا کہ اپنے وقت پر نمازیں نہ پڑھی جاسکیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے عشاء کے وقت پانچوں نمازیں اکٹھی پڑھائیں تو اس وقت بڑی حسرت سے کہا کہ ان لوگوں پر لعنت ہو جنہوں نے ہمیں نمازوں سے محروم کر دیا.لعنت کے لفظ بولے یا تف کے کہے یا ویسے ہی اظہار افسوس کیا مجھے قطعی طور پر یاد نہیں لیکن یہ پتہ ہے کہ روایت کرنے والے بتاتے ہیں کہ بے حد دکھ کے ساتھ آپ نے ان کلمات کو ادا فرمایا کہ آج اکٹھی نمازیں قضا کرنی پڑی ہیں.یعنی وقت سے الگ پڑھنی پڑی ہیں تو ایسی نمازیں جو اس دکھ کے ساتھ قضا کی جاتی ہیں اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ ان کا ثواب ان نمازوں سے بہت زیادہ ہے جن کو انسان رسمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ یہ کہ خندق کھود نے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرہ بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ تفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہو گئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کی رو سے جمع ہوسکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر.اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئی تھیں.لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کر دیتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی (نور القرآن ۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه :۳۹۰)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 265 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء طور پر ادا کرتا ہے اور جن کے ہونے نہ ہونے سے اس کے اوپر کوئی فرق نہیں پڑتا.کوئی نماز کھوئی گئی تب بھی کوئی تکلیف نہیں.پڑھی گئی تو خاص لذت کے ساتھ نہیں پڑھی گئی.پس ہر نمازی کو جب تک خود نماز کے ساتھ تعلق قائم نہ ہو جائے اس وقت تک ہم حقیقت میں نمازوں کو قائم نہیں کر سکتے اور جو شخص اپنے ضمیر کے تعلق کے نتیجہ میں یعنی جس کے ضمیر کو نماز سے ہمیشہ کی وابستگی ہو جائے جو اس کے نتیجہ میں نمازیں پڑھتا ہے اس کے تقویٰ کی اللہ حفاظت فرماتا ہے وہ ہے جو حقیقت میں خدا کی نظر میں منتقی بنتا چلا جاتا ہے کیونکہ ہر عبادت کے بعد اسے خدا کی طرف سے ایک تقویت نصیب ہوتی ہے اور اس کا تقویٰ آسمان سے اترتا ہے.پس میں دنیا کی تمام جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں اور تقویٰ کی حفاظت کرنی ہے تو عبادتوں کی حفاظت کریں اور پھر جب آپ دنیا میں کوئی بھی انتخاب کریں گے ، تو خواہ وہ مجلس شوریٰ کا ہو یا عہدیداران کا ہو وہ انتخاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا یا فتہ ہو گا.اس ضمن میں اب مختصر آ میں آپ کو یہاں کی عید کا بھی ایک قصہ سناتا ہوں.یہاں جو عید منائی گئی وہ اس لحاظ سے ایک غیر معمولی عید تھی کہ دنیا میں کہیں عید کی نماز پر اتنے بوسنین اکٹھے نہیں ہوئے تھے جتنے اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے اور ایک غیر معمولی روحانی لذت کا نظارہ تھا جب مختلف علاقوں سے آئے ہوئے بوسنین بسوں سے اترتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف بڑھتے تھے،ایک دوسرے سے ملتے تھے.جماعت احمدیہ کے پیار سے متاثر ہو کر ان کے چہروں کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور وہاں بعض ایسے ایسے نظارے دیکھے گئے ہیں کہ جنہوں نے دیکھا ہے ان کی روحیں ہمیشہ کے لئے ان سے متائثر ہوگئی ہیں.ایک بس سے ایک ماں اتری جس کا بچہ بوسنیا میں کھو گیا تھا اور وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ مر چکا ہے اور ایک دوسری بس سے وہی بچہ جو اس کے نزدیک کھویا گیا تھا وہ اتر رہا تھا.وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف اس طرح لیکے ہیں کہ بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ ہم بیان نہیں کر سکتے کہ وہ کیا نظارہ تھا.ماں بے اختیار بچے کے گلے سے لپٹی اور بچہ ماں کے گلے سے لپٹا اور روتے ہوئے اس طرح خوشی کے آنسو بہائے ہیں کہ دیکھنے والے بھی رونے لگ گئے لیکن ایک اور نظارہ ایسا تھا کہ دو بہنیں آپس میں ملیں اور بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ ان کا جو ملنے کا نظارہ تھاوہ تو ماں بیٹے کے نظارے سے بھی بڑھ گیا.بڑی عمر کی ایک بہن تھی ایک چھوٹی عمر کی بہن اور بڑی عمر کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 266 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء بہن سمجھتی تھی کہ میری چھوٹی عمر کی بہن وہاں ضائع ہوگئی اور سفاکوں کے ہاتھ چڑھ گئی.اس کے نتیجہ میں اس کی جان کو ایک روگ لگا ہوا تھا.اس نے جب ایک بس سے اپنی چھوٹی بہن کو اترتے دیکھا تو اچانک جو اس کی کیفیت ہوئی وہ نا قابل بیان ہے.کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دوڑیں اور لپٹ کر اس طرح چیخیں مار مار کر روئی ہیں کہ جہاں جہاں وہ آواز پہنچتی تھی سارے سننے والے رو پڑے اور ان کی خوشی کے آنسوؤں میں دور دور تک سب دیکھنے والے احمدیوں کے خوشیوں کے آنسو شامل ہو گئے.عجیب طرح کی وہ عید منائی گئی ہے اور اس قسم کی عید میں یورپ میں دوسری جگہ بھی منائی گئی ہیں.پاکستان میں بھی جو عید میں منائی گئیں ان میں غریبوں کو اپنے ساتھ شامل کیا گیا اور جیسا کہ میں نے نصیحت کی تھی عیدوں کی صبحیں تو نمازوں سے معطر ہو گئیں، نمازوں سے منور ہوگئیں اور عیدوں کے دن غریبوں کی ہمدردی سے روشن ہوئے اور غریبوں کی ہمدردی سے.انسان کو رضائے باری تعالیٰ کا جونور ملتا ہے اس نور سے روحیں نہا گئیں ، بہت ہی پُر لطف کیفیات پر مشتمل خطوط ملتے ہیں اور لوگ بتاتے ہیں کہ اس طرح ہماری عید میں سنور گئیں اور بہت ہی مزا آیا جو عام حالات میں عیدیں منانے کا مزا نہیں آیا کرتا.تو خدا کے فضل سے دنیا میں ہر جگہ جماعت احمدیہ نے ایک ایسی عید منائی ہے کہ جس عید میں باقی لوگ شریک نہیں ہو سکتے ، ان بیچاروں کی پہنچ نہیں ، ان کی دسترس نہیں.جماعت احمدیہ کا جو یہ پہلو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک صلى الله عظیم نشان ہے کیونکہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ( البقرہ: ۲۸۶) کی روح حضرت محمد رسول اللہ الیہ کے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی ، ناممکن ہے.دنیا کی بڑی سے بڑی قوموں کا جائزہ لے کر آپ دیکھیں یہ روح جو نیکی کی بات سنتے ہی انسان کو خود بخو دطوعی طور پر تعاون پر مجبور کر دیتی ہے اس روح کا تعلق محمدیت سے ہے اور خاتمیت کا یہ معنی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا اب یہ صلى الله روح آپ کو کہیں اور سے میسر نہیں آسکتی.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے سچے اور کامل غلام نہ ہوتے تو ناممکن تھا کہ آپ کی جماعت کو یہ ایسی روح ملتی کہ دنیا کے پردے پر دنیا کی کوئی جماعت یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتی کہ ہم اطاعت میں اور خدا کی رضا کی خاطر اطاعت میں جماعت احمدیہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 267 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء کے ساتھ کوئی مماثلت بھی رکھتے ہیں.دنیا میں کروڑوں اربوں مسلمان موجود ہیں، عیسائی موجود ہیں، ہندو سکھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں مگر آپ نگاہ ڈال کر دیکھ لیں آپ کو یہ روح اطاعت، جیسی جماعت احمدیہ میں ہے اور نیکی کی خاطر جھک جانے کی یہ صلاحیت، جو جماعت احمدیہ میں ہے اور کہیں دکھائی نہیں دے گی.ایک آواز پر ساری دنیا میں دلوں میں بہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور انسان پورے جذبہ اور روح کے ساتھ دوڑتا ہوا اس آواز پر لبیک کہتا ہوا چلا آتا ہے.پس ایک حج تو وہ ہوتی ہے جو سال میں ایک دفعہ حج سکھانے کے لئے آتی ہے اور ایک حج وہ ہے جب کل عالم میں مسلمان سمعنا واطعنا کہتے ہوئے نیکی کی طرف دوڑتے ہیں.یہ وہ حج ہے جو دائمی حج ہے جس کی حالت میں مومن زندگی بسر کرتا ہے.آج اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یہ حج نصیب ہے اور آپ نے دنیا میں کسی اور کو نیکیوں پر ایسا لبیک کہتا ہوا کسی اور کو نہیں دیکھا ہو گا.چندوں کی تحریک کرو تو عورتیں زیورا تاراتار کر پھینکنے لگتی ہیں.لوگ قرضے لے کر اس امید پر چندے دیتے ہیں کہ خدا رزق بڑھائے گا، حیثیت سے بڑھ کر چندے دیتے اور پھر اللہ کی حیرت انگیز تائید کے نشان دیکھتے ہیں.ادھر ایک وعدہ کیا اور جانتے ہیں کہ نہیں، سابقہ تجربہ یہ بتا تا ہے کہ وعدہ اتنے خلوص سے کیا جاتا تھا کہ خدا خود سامان کر دیتا تھا اور ادھر واقعہ پھر دوبارہ وعدہ پورے کرنے کے سامان غیب سے ہو جاتے ہیں.پس یہ جماعت متقیوں کی جماعت ہے.میں اس کو پہلے مضمون کے ساتھ باندھ کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب میں تاکید کرتا ہوں کہ دیکھو! تقوی اختیار کرو، تقوی اختیار کرو تو مراد یہ نہیں ہے کہ میں آپ کو تقویٰ سے خالی دیکھتا ہوں.اگر تقویٰ سے خالی دیکھتا تو یہ باتیں مجھے دکھائی نہ دیتیں جو میں بیان کر رہا ہوں لیکن میں خطرات کے بعض مقام ضرور دیکھتا ہوں.پہلے کا کمایا ہوا تقویٰ ہے جو سہارا دے رہا ہوتا ہے.متقیوں کی اعلیٰ روایات ہیں جو آپ کے جماعتی وجود کا حصہ بنی بیٹھی ہیں.اگر خود تقویٰ نہ کمایا، تو اس کمائی پر زیادہ عرصہ گزارا نہیں ہوگا.آپ ہیں تو متقیوں کی جماعت لیکن اپنے باپوں کا تقویٰ نہ کھائیں.اپنے لئے تقویٰ پیدا کریں اور اپنی اولاد کے لئے تقویٰ چھوڑ کر جائیں.تب آپ اس دعا کو اپنے حق میں قبول ہوتا دیکھیں گے کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا اے ہمارے رب ہمیں متقیوں کا امام بنانا.اب آخر پر بظاہر ایک بے تعلق سی بات ہے لیکن اس میں بھی نیکی کا ایک پیغام دینا مقصود
خطبات طاہر جلد ۱۲ 268 خطبہ جمعہ ۲ را پریل ۱۹۹۳ء ہے اور وہ یہ بات ہے کہ آج سے ایک سال پہلے میری اہلیہ کا انتقال ہوا.اس ضمن میں کچھ نصیحتیں میں نے اس دن بھی جماعت کو کی تھیں اور ایک نصیحت آج بھی کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے مجھ سے بیماری کے آخری ایام میں یہ ذکر کیا کہ اگر خدا اسے توفیق دے تو میری خواہش ہے کہ میں اپنی بچیوں کی شادی دیکھ سکوں.تو میں خدا کی خاطر بعض غریب بچیوں کی شادی کراؤں گی.میں نے ان کی زندگی ہی میں ان کی اس نیت کو پورا کر دیا اور ان کو بتا دیا کہ تم ایک بچی کی کہہ رہی ہو میں چار کی کروا بیٹھا ہوں اور آئندہ بھی تمہاری خاطر تمہاری تمنا کو پورا کرتے ہوئے شادیاں کرواتا رہوں گا.اس میں دو فصیحتیں ہیں جو میں جماعت کو کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی منت مانگیں کسی شرط کے ساتھ کوئی دعا کریں کہ اے خدا! تو یوں کر دے گا تو ہم یوں کریں گے تو کبھی یہ نہ کریں کہ خدا بظاہران کی دعا کو قبول نہ کرے تو وہ اپنی منت سے پیچھے ہٹ جائیں.یہ ایک بے ادبی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک قسم کی ناشکری ہے.اللہ تعالیٰ نے بچپن سے مجھے یہ گر سمجھائے رکھا ہے کہ جب بھی منت مانگو تو اگر خدا تمہیں بظاہر اس دعا کو قبول کرتا ہوا نہ بھی دکھائی دے تب بھی اس منت کو ضرور پورا کر دو.یہ خدا سے حسن خلق میں آگے بڑھنے والی بات نہیں حقیقت میں خدا کے پیچھے چلنے والی بات ہے کیونکہ جو لوگ دعا کی حقیقت سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جو دعائیں بظاہر نامقبول ہوتی ہیں خدا بُھولتا نہیں ہے.کسی حکمت کے پیش نظر بندے کی دعا قبول نہیں بھی فرما تا تو بعد میں اس دعا کے بدلے سو طرح سے اور چیزیں قبول فرماتا چلا جاتا ہے اور احسانات کا سلسلہ ترک نہیں فرماتا اور بعض دفعہ کچھ عرصہ کے بعد انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ دعا کا اس طرح مقبول نہ ہونا بھی ایک رحمت تھی اور اگر انسان بار یک نظر سے اللہ تعالیٰ کے نشانات کا تتبع کرے ان کے تجسس میں رہے تو اسے بار ہا اس دعا کے تعلق میں خدا کا غیب کا ہاتھ احسانات کرتا ہوا دکھائی دے گا.پس اس مضمون کو سمجھنے کے نتیجہ میں مجھے کبھی بھی اس بات میں تر ڈ نہیں ہوا کہ بظاہر منت کی وہ شرط پوری نہیں ہوئی اسی لئے منت پوری نہ کی جائے بلکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ خدا نے تو وہ پورا کرنا ہی کرنا ہے ہم نہ پیچھے رہ جائیں.اس لئے اللہ سے نیکی کا جو وعدہ کر لیا جائے وہ مشروط نہیں رہنا چاہئے وہ ضرور پورا ہونا چاہئے اور اس کے نتیجہ میں اللہ پھر مزید احسان فرماتا ہے.پس ایک تو یہ نکتہ سمجھانا مقصود تھا کہ آپ بھی اپنی مصیبتوں میں یا مشکلات میں یا ویسے اپنی تمناؤں کی طلب میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 269 خطبه جمعه ۲ را پریل ۱۹۹۳ء اللہ تعالیٰ سے بعض دفعہ یہ عرض کر بیٹھتے ہیں کہ اے خدا یوں کر دے تو میں یوں کر دوں گا تو اللہ تعالیٰ اس طرح کرتا ہوا نہ بھی دکھائی دے تب بھی آپ اس طرح ضرور کریں جو آپ نے خدا کے حضور عاجزانہ منت مانگی تھی نیت کی تھی یا نیکی کا ایک مشروط وعدہ کیا تھا.دوسری بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو میں بالعموم یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہاں غریب بچیوں کی شادی کروانے کو رواج دیں.یہ کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس کے لئے چندے کی کوئی تحریک کر رہا ہوں.میں صرف متوجہ کر رہا ہوں کہ ہمارے معاشرہ میں بہت سے ایسے غریب ہیں جن کی بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں اور ان کے لئے شادی کے کوئی سامان نہیں ہوتے اور ماں باپ اس غم میں گھلتے ہیں اور کٹتے چلے جاتے ہیں اور دینی غیرت کا تقاضا ہے یا اپنی عزت نفس کا تقاضا ہے.وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے.خلیفہ وقت سے چونکہ بے تکلفی ہوتی ہے اس لئے ان میں سے بعض لکھ دیتے ہیں.بہت سے نہیں بھی لکھتے ہوں گے مگر بہت سے ایسے ہیں جو بیچارے بغیر سامان کے بیٹھے ہیں اور ان کو دو سادہ جوڑے دے کر بھی بچی رخصت کرنے کی استطاعت نہیں ہے.اس لئے میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ جماعت کے صرف معقول دوست ہی نہیں بلکہ درمیانی حیثیت کے دوست بھی اگر یہ نیت باندھ لیں کہ ہم اپنی بچیوں کی شادی پر جو خرچ کرتے ہیں یا اس کا دسواں حصہ یا پانچواں حصہ کسی غریب کی بچی پر خرچ کریں گے تو وہ روپیہ جماعت کو نہ دیں بلکہ اگر وہ تلاش کرنا چاہیں تو جماعت کے نظام کو مطلع کر دیں کہ ہماری نیت ہے کہ اس سال ایک شادی کروائیں گے ، دو کروائیں گے ، تین کروائیں گے اور ہماری توفیق کے مطابق اندازاً اتنا خرچ ہوگا تو آپ کے علم میں اگر ایسے غرباء ہوں تو بصیغہ راز ہمیں مطلع کر دیں اس میں راز رکھنا ضروری ہے اس لئے بہتر ہو کہ اس نظام کو امراء اور صدران اپنے ہاتھ میں رکھیں اور پھیلائیں نہیں.پھر ان کے علم میں جو بھی خاندان ہوں ان کا ذکر مخفی طور پر ان خواہش مند دوستوں کے سامنے کر دیا جائے یا لکھ کر بھجوادیا جائے اور باقی پھر ان کو آپس میں ایک دوسرے سے تعلق استوار کرنے کا موقع دیا جائے.جو لوگ بالکل مخفی ہاتھ سے یہ کام کرنا چاہیں وہ ان کو رقم بھجوا سکتے ہیں اور ان کے سامنے نہ آنا چاہیں تو نہ آئیں اور وہ لوگ جو دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ اس نیکی کا لطف اٹھانے کے لئے اور اس سے مزید نیکیوں کی روح حاصل کرنے کی خاطر ان سے ذاتی تعلق قائم کر کے پھر مخفی ہاتھ سے ان کی مدد کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 270 خطبه جمعه ۲ / اپریل ۱۹۹۳ء ہیں تو یہ بھی جائز ہے.پس ساری دنیا میں ہمیں غریبوں کی شادیوں پر ان کی مدد کا یہ نظام جاری کر دینا چاہئے اور آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کے ذریعہ اس کی کثرت سے تشہیر کرنی چاہئے اور ایسا ہو کہ کوئی بھی ایسا غریب احمدی گھرانہ نہ رہے جس کی شادی کی ضرورتوں میں اس کے بھائی شریک نہ ہوئے ہوں.ایک تو تحفہ دینے کا طریق ہے وہ تو ہوتا ہی ہے لیکن غریبوں تک بہت تھوڑے تھنے پہنچتے ہیں.اکثر تھے تو اوپر کی سطح پر ہی آپس میں گھومتے رہتے ہیں.اس لئے میں جو نظام بیان کر رہا ہوں یہ بہت ضروری ہے.جہاں تک یورپ اور امریکہ کے احمدیوں کا تعلق ہے ان کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ شادی کے قابل بوسنین بچیوں کی تلاش کریں اور بڑی آسانی کے ساتھ یہ ان کیمپوں سے پتا چل سکتا ہے جہاں وہ رہتی ہیں اور ہر شخص جو کسی بوسنین بچی کی شادی کی توفیق رکھتا ہو وہ اُن سے تعلق قائم کر کے اپنی پیشکش کر دے تو اس طرح ساری دنیا میں غرباء کی شادی میں سب احمدی شریک ہو جایا کریں گے اور جو اللہ کی رضا کی خاطر غرباء کی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی شادیوں میں اللہ اور اس کے فرشتے شامل ہوا کریں گے.ان کی اپنی شادیوں کو برکت ملے گی، وہ شادیاں خدا کے حضور معز لکھی جائیں گی.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور نیکی کی جو نئی نئی راہیں اللہ ہمیں دکھاتا ہے ان پر تیزی سے اور مضبوطی کے ساتھ اور مستقل مزاجی کے ساتھ ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کی توفیق عطا ہوتی رہے.آمین السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 271 خطبہ جمعہ ۹/اپریل ۱۹۹۳ء اپنی طاقتوں کو خدا کی نمائندگی میں سجدہ ریز کردو.نظام جماعت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کی نمائندگی کرتا ہے.ایسا طرز تکلم اختیار نہ کرو جس کی وجہ سے لوگ متنفر ہو جائیں.(خطبه جمعه فرموده ۹/اپریل ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.قَالَ يَابْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينِ قَالَ فَاخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَحِيْمٌ وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلى يَوْمِ الدِّينِ (ص:۷۹۷۶) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نظام جماعت اب دنیا میں دور دور کی جماعتوں میں نہ صرف یہ کہ نافذ ہورہا ہے بلکہ دن بدن مستحکم ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب وہ کیفیت نہیں رہی جیسے پہلی تھی کہ تحریک جدید کے دفتر میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ دنیا بھر کی جماعتوں کے نظام کو چلایا جاتا تھا.بلکہ براہ راست خلافت کے ساتھ نظام جماعت کا رابطہ دن بدن واضح اور مضبوط ہورہا ہے اور اب مواصلاتی سیارے کے ذریعہ جو رابطے بڑھے اور پھیلے ہیں اُن کے نتیجہ میں انشاء اللہ تعالیٰ میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 272 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء اُمید رکھتا ہوں کہ صرف نظام ہی کی معرفت نہیں بلکہ ہر احمدی فرد بشر سے خلافت کا ایک گہرا ذاتی رابطہ قائم اور مستحکم ہو جائے گا.جہاں تک نظام جماعت کے پھیلاؤ کا تعلق ہے یہ تدریجا ہوا ہے اور اسے مستحکم کرنے میں بہت وقت اور محنت درکار ہے کیونکہ نظام جماعت کے ساتھ بہت سے ایسے خطر ناک عوامل لگے ہوئے ہیں جو نظام کو مستحکم ہوتا دیکھ نہیں سکتے اور دن رات اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ یہ نظام کسی طرح اکھڑ جائے اور یہ پودا جنت سے نکالا جائے.اس ضمن میں قرآن کریم کی جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان پر ابھی کچھ ٹھہر کر میں روشنی ڈالوں گا مگر میں یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ نظام جماعت جو پھیل رہا ہے اور مستحکم ہورہا ہے اب اس کی ذیلی تنظیمیں بھی خدا کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک میں جڑ پکڑ رہی ہیں اور اپنے عمومی جماعتی نظام کے تابع رہ کر اس کا ایک جزو بن کر اس کو تقویت دیتے ہوئے نشو و نما پا رہی ہیں یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے جس سے انسان کو گہرا اطمینان نصیب ہوتا ہے کہ ذیلی تنظیمیں پنپیں اور مضبوط بھی ہوں لیکن نظام جماعت کے عمومی ڈھانچے سے ٹکرا کر نہیں اس میں Friction یعنی رگڑ پیدا کر کے خطرات پیدا کرتے ہوئے نہیں بلکہ ان کا ایک مضبوط اٹوٹ انگ بنتے ہوئے اور ان کو مزید طاقت عطا کرتے ہوئے ذیلی تنظیمیں اگر پہنچیں تو یہ الہی نظام کی روح ہے اور اسی کے مطابق دنیا بھر میں کام ہونا چاہئے.پس ذیلی تنظیموں کو مستحکم کرنے میں اور جماعت کا ایک فعال حصہ بنانے میں بہت محنت کی ضرورت تھی ، ہے اور ابھی رہے گی اور اس پہلو سے میں جماعت کو جو نصیحت کرنی چاہتا ہوں وہ ان آیات سے متعلق ہے جن کی ابھی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.عرب ممالک میں بھی اللہ کے فضل سے جماعت کی ذیلی تنظیمیں مستحکم ہورہی ہیں.جماعت کے لئے یہ ایک نئی خوشخبری ہے کیونکہ عرب ممالک میں تو پہلے جماعت کی کسی بھی قسم کی تنظیم عملاً عنقاء تھی اور اکثر جگہ اصحاب کہف کا سا دور تھا لیکن اب خدا کے فضل کے ساتھ بہت سے عرب ممالک میں جماعتی تنظیم جڑ پکڑ رہی ہے اور آج ایک عرب ملک میں لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع ہے اور ان کی طرف سے مجھے خصوصیت سے یہ تاکید موصول ہوئی ہے کہ ہمیں بھی مخاطب کر کے چند لفظ کہیں اور اسی طرح آج گیمبیا میں بھی ایک سالانہ اجتماع ہو رہا ہے اور کل ان کے امیر صاحب کی طرف سے فون پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 273 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء پیغام ملا تھا انہوں نے فرمایا کہ کل کے جمعہ میں ہمیں بھی مخاطب کریں اس سے جماعت میں نیا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور جب ہم اپنا نام سنتے ہیں تو بہت لطف آتا ہے.یہ دو ممالک خصوصیت کے ساتھ میرے پیش نظر ہیں مگر یہ جو نصیحت ہے یہ عمومی ہے اس کا ساری دنیا کی جماعتوں سے تعلق ہے ہر جگہ نظامِ جماعت سے گہرا تعلق ہے.نظام جماعت دراصل اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی نمائندگی کرتا ہے وہ ایدی جن سے خدا نے تخلیق کی ہے جن معنوں میں بھی وہ ہاتھ کہلاتے ہیں ان معنوں میں جو نظامِ جماعت ہے وہ ان ہاتھوں کی طاقت اور اس کی صناعی کی نمائندگی کرتا ہے اور انہی ہاتھوں سے خلیفہ بنایا جاتا ہے اور اسی خلیفہ کو ہم نبی اللہ یا رسول اللہ کہتے ہیں جو براہ راست اللہ کے ہاتھوں سے بنتا ہے اور آگے پھر جو نظام جاری ہوتا ہے وہ خدا کے ہاتھوں کی نمائندگی میں جاری ہوتا ہے.یہ مضمون ہے جسے آپ اچھی طرح سمجھ لیں کیونکہ اس مضمون میں جہاں کوئی ابہام پیدا ہو گا وہاں ٹھو کر کے رستے نکل آئیں گے.پس نظام جماعت کوئی الگ چیز نہیں ہے کوئی ایسی مصنوعی میکینکل چیز نہیں ہے جس کے متعلق لوگ کہیں کہ نظام کیا چیز ہے یہ تو یونہی ایک ڈھانچہ سا بنا ہوا ہے ہمارا خدا سے تعلق ہے ہم خدا کے ادنی غلام ہیں.جب اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو یہ نظام وظام کیا چیز ؟ چھوڑیں ان باتوں کو اس قسم کی بھی لوگ باتیں کرتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن کریم نے ان آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے آغاز ہی سے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے بلکہ سب بنی نوع انسان کو اس قسم کی بودی باتوں کے خلاف متنبہ فرما دیا تھا اور ان آیات میں دراصل یہ اعلان ہے کہ تمہارے لئے ہمیشہ تمہارے اسلام کو سب سے بڑا خطرہ تمہاری انانیت سے ہوگا اور نظام کے مقابل پر سر اٹھانے سے ہوگا اگر تم اس خطرے کو سمجھ جاؤ اور اس ٹھوکر سے باز آؤ تو پھر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اس کے بغیر تم عباداللہ میں داخل ہی نہیں ہو سکتے.پس دوستم کے عباد ہیں ایک عباد اللہ ہیں اور ایک شیطان کے بندے بن جاتے ہیں اور یہی دو گروہ ہیں جو مذہب کے تعلق میں ہمیشہ برسر پیکار دکھائی دیتے ہیں.عباداللہ بننے کے لئے یہ شرط بتائی گئی کہ تکبر سے باز آجاؤ ، اپنی انانیت سے تو بہ کر لو اس کے بغیر تم کہو گے تو یہی کہ اے خدا! تو نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ہم تیرے ہاتھوں کے نمائندہ ہیں مگر یہ ایک جھوٹی اور دھتکاری ہوئی بات ہوگی.متکبر انسان کا اور اپنے آپ کو بلند سمجھنے والوں کا خدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 274 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.قَالَ يَابْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَى اے ابلیس! تجھے اس بات پر کس نے آمادہ کیا یا یوں کہیں کہ مَنَعَكَ کس بات نے تجھے منع کر دیا کہ تو اس سے بغاوت کرے یا اس کی اطاعت سے منہ پھیر لے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا تھا.یہاں خلیفہ اللہ کا ذکر چل رہا ہے اور دونوں ہاتھوں سے بنانے کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے نظام کے دونوں پہلو یعنی روحانی اور دنیاوی یہ تمام تر اس کی پشت پناہی کریں گے کیونکہ خدا نے اپنی ہر قسم کی طاقتوں کے مجموعہ سے خلیفہ اللہ کی تخلیق کی ہے.دو ہاتھ سے مراد پہلے انسان کی وہ حالت ہے جب وہ ارتقائی مدارج سے رفتہ رفتہ گزرتا ہوا اس بلند مقام تک پہنچا ہے جہاں وہ اس شرف کے قابل ٹھہرا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہم کلام ہو، جہاں وہ اس شرف کے لائق قرار دیا گیا کہ خدا کی نمائندگی کرے.اس مقام تک جتنے بھی محرکات ہیں جس نے آدم کی اس بلند درجہ تک رہنمائی کی ہے اور ان بلند مدارج کو حاصل کرنے میں عوامل کا کام کیا ہے وہ تمام خدا کے اس نظام سے تعلق رکھتے ہیں جس کو ہم کائنات کا نظام کہتے ہیں.پھر آدم ایک ایسے دور میں داخل ہوتا ہے جہاں خدا کے روحانی نظام کا ہاتھ اس کے سر پر آتا ہے اس کی پشت پناہی کرتا ہے اور اس کی تخلیق نو میں ایک نیا نظام کار فرما ہو جاتا ہے اسے خلقاً آخر کے طور پر قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.پس دو قسم کی مخلوقات میں سے آدم یعنی اللہ کا خلیفہ گزرتا ہے ایک وہ تخلیق جس میں سب دوسرے بھی شامل ہیں لیکن یہ اس تخلیق کا انتہائی مقام ہے.اس کا سب سے زیادہ عزت کا مرتبہ ہے وہ مرتبہ جس تخلیق کا نمائندہ اس لائق ٹھہرے کہ وہ خدا سے ہم کلام ہو یا خدا اس سے ہم کلام ہو اور خدا کی نمائندگی کر سکے.دوسرا پہلو ہے اس کی تربیت اور دینی امور میں اس کی راہنمائی اور اُسے اس لائق ٹھہرانا کہ وہ خدا سے ہدایت پا کر لوگوں کا ہادی بن جائے.پس امر واقعہ یہ ہے کہ مہدویت کا تعلق آغا ز خلافتۃ اللہ سے ہے.دنیا میں کوئی خلیفہ نہیں بن سکتا جب تک وہ پہلے مہدی نہ ہو اور مہدی وہ جسے خدا خود ہدایت دے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا ہاتھ ہے جو پھر خلافت کی تخلیق میں حصہ لیتا ہے اور جب تک یہ ہاتھ اس تخلیق میں شامل نہ ہو جائے اس وقت تک کسی کو سجدہ کا حکم نہیں.جب خدا کا نمائندہ ان دونوں ہاتھوں کی نمائندگی کرتا ہے، خدا کی ان دونوں طاقتوں کی نمائندگی کرتا ہے تب حکم ہے کہ ہر دوسری مخلوق کے لئے فرض ہے چونکہ یہ اب خدا کی نمائندگی کر رہا ہے اس لئے اس کے سامنے ضرور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 275 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء جھکو کیونکہ اب اس کے سامنے جھکنا اس کے وجود کے سامنے جھکنا نہیں رہا بلکہ اللہ کے سامنے اور خالق کے سامنے جھکنا بن گیا ہے.یہ وہ دہ مضمون ہے جسے چند لفظوں میں سمجھایا گیا اور ا بھی اس مضمون کے بہت سے پہلو ہیں جن پر میں تفصیل سے روشنی نہیں ڈال رہا کیونکہ میں پہلے بھی بارہا اس پر گفتگو کر چکا ہوں لیکن اس سے آپ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک لفظ میں کتنے مضامین سمیٹ کر رکھ دیئے ہیں.چنانچہ فرمایا کہ اے ابلیس! تجھے کس بات نے منع کیا تھا کہ اس وجود کی اطاعت سے روگردانی کرو.خَلَقْتُ بِید ی جسے میں نے خود اپنی قدرت کے ہاتھوں سے بنایا ہے.عام نظام قدرت سے بھی، غیر معمولی اور خاص روحانی نظام قدرت کے ساتھ بھی اَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِینَ کیا تو تکبر کا شکار ہو گیا ، تو نے تکبر سے کام لیا یا ویسے ہی بڑا بن بیٹھا ہے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگ گیا ہے حقیقتا سمجھ رہا ہے کہ تو بہت بڑا ہے.ان دونوں باتوں میں ملتے جلتے مضامین ہیں لیکن بار یک فرق ہے ابلیس نے اس کے جواب میں یہ کہا قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ واضح بات ہے میں اس سے بہتر ہوں خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِین کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے.یعنی جس چیز سے ہماری سرشت اٹھائی گئی میر اسرشت کا مادہ اس کے سرشت کے مادہ سے افضل اور زیادہ طاقتور ہے آگ مٹی پر غالب آجاتی ہے اُس کو جلا دیتی ہے اور مٹی میں نمو کی جو طاقتیں ہیں آگ میں پڑ کر وہ تمام طاقتیں کھوئی جاتی ہیں.تو یہ اس نے کہا کہ اے خدا تو اپنے پیدا کرنے کی بات کر رہا ہے تو میرا جواب سن لے تو نے ہی مجھے بہتر مادے سے پیدا کیا ہے اور غالب آنے والے مادے سے پیدا کیا ہے اس لئے مجھے حق ہے کہ میں انکار کر دوں قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِیم تو اُس حالت سے نکل جا، دور ہو جا فَإِنَّكَ رَحِيم تو دھتکارا ہوا اور راندہ درگاہ ہے.اس مضمون میں ایک اشکال یہ ہے کہ کہاں سے نکل جا کیونکہ جہاں تک جنت کا تعلق ہے شیطان کے جنت میں ہونے کا تو سوال ہی کوئی نہیں ہے اور نہ اس جنت کی باتیں ہو رہی ہیں جو جنت ہمیں مرنے کے بعد خدا کے فضل کے ساتھ نصیب ہوگی.پس وہ کونسی چیز ہے جس میں سے نکل جانے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 276 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء کا حکم ہے وہ اس حالت کا ذکر ہے جس حالت کے نتیجہ میں وہ تکبر کر رہا تھا.آگ میں دوطرح کی صفات ہیں.ایک وہ صفات ہیں جو بنی نوع انسان بلکہ حقیقت میں تمام مخلوق کے لئے غیر معمولی فائدے رکھتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں سارا نظام حرکت میں ہے اور ایک وہ صفات ہیں جو منفی پہلو رکھتی ہیں اور وہ جلاتی ہیں اور ان میں تباہ و برباد کرنے کی طاقتیں پائی جاتی ہیں.یہ آگ کا استعمال ہے جیسے بھی کوئی کر لے.پس آگ کو اگر آپ صحیح معنوں میں خدا تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کریں، ان قوانین کے تابع استعمال کریں جن قوانین کو خود خدا نے پیدا فرمایا ہے تو وہ آگ دنیا میں عظیم الشان کام کرنے کی صلاحیت انسان کو عطا کرتی ہے.حقیقت میں ہماری ساری انرجی ساری فعالیت کا دارو مدار آگ پر ہے لیکن آگ ہی ہے جو ان سب چیزوں کو برباد بھی کر سکتی ہے.اب اٹامک انرجی ہے وہ آگ ہی سے تو سب کچھ حاصل ہو رہا ہے لیکن اس کے اندر خطرات بھی بہت مضمر ہیں.جہاں بھی اٹامک انرجی کا وہ پلانٹ نظام سے باغی ہوگا وہاں وہ ہلاکت کا موجب بن جائے گا جہاں وہ آگ اطاعت کرے گی وہاں خیر اور خوبی اور فوائد کا موجب بن جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے بہت گہری حکمت کی بات یہاں بیان فرمائی اور تحکم کے ساتھ کسی آمرانہ انداز میں اس کی بات کور د نہیں فرمایا.فرمایا! آگ کی جو بات تو کہتا ہے وہ درست ہے لیکن آگ کی اعلیٰ حالت سے ہم تجھ کو نکال دیتے ہیں کیونکہ وہ حالت اطاعت کے نتیجہ میں ملتی ہے.تو جب اطاعت کی حد سے باہر گیا تو آگ کی تمام مثبت صفات سے تجھے عاری کر دیا گیا ہے.اب تو صرف ہلاک کرنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے، اب تو صرف نقصان پہنچانے کی صلاحیتیں رکھتا ہے پس ہم تیرے اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور تجھے ان فوائد سے محروم کرتے ہیں جو آگ میں اطاعت سے وابستہ فرمائے گئے ہیں اور تو خود اپنے منہ سے اقرار کرتا ہے کہ میں تیری اطاعت سے باہر جاتا ہوں کیونکہ جس کو تو نے بنایا ہے.میں اس کو ادنی سمجھتا ہوں، اس لئے ہم تجھے باہر نکالتے ہیں تب شیطان نے کہا کہ پھر مجھے رخصت دی جائے میں اپنا زور ماروں اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قیامت تک کے لئے رخصت دے دی کہ زور مارتے رہو.ایک اور موقع پر فرمایا کہ بے شک زور مارو.اپنے لشکر چڑھالو اپنے گھوڑے اور اپنے اونٹ اور اپنے تمام سوار اور پیادہ جو طاقتیں تمہیں حاصل ہیں استعمال کرو اور میرے بندوں کے خلاف ان کو چڑھا لاؤ لیکن میں تمہیں بتا تا ہوں کہ میرے بندوں پر تجھے غلبہ نصیب نہیں ہوگا وہ میرے ہی رہیں گے.ہاں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 277 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء وہ جو ان صفات سے مرعوب ہوتے ہیں جو منفی اور شیطانی صفات ہیں جن کے اندر پہلے ہی اندرونی بیماریاں موجود ہیں وہ تیری طرف جائیں گے اور تیری باتوں سے متاثر ہوں گے مجھے ان سے کوئی غرض نہیں ، وہ تیرے بندے بن جائیں گے.یہ وہ آیات کریمہ ہیں جن میں ہمیشہ کی جدوجہد کا فلسفہ بیان فرما دیا گیا ہے جو حق اور باطل کے درمیان جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی.وہ لوگ جو نظام جماعت کو اس آیت اور اسی قسم کی دوسری آیات کا مفہوم سمجھتے ہوئے خدا کے دو ہاتھوں کی تخلیق سمجھتے ہیں وہ نظام جماعت کے سامنے کبھی تکبر سے کام نہیں لیتے اور ہمیشہ اطاعت یعنی سجدہ کرتے ہوئے ان راہوں پر چلتے ہیں جو راہیں خود اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے لئے مقرر فر مارکھی ہیں اور وہ لوگ جو اپنی انانیت کا شکار ہوتے ہیں ان کے اندر ایک شیطان ہے جو سر اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ نظام جماعت کا یہ نمائندہ اس کی کیا حیثیت ہے.اس جاہل کو تو تلاوت بھی صحیح نہیں آتی اس کو تو فلاں کام ٹھیک نہیں آتا اس میں فلاں کمزوری ہے اور ہم صاحب علم ہیں ہمیں فلاں فلاں فضیلتیں حاصل ہیں اس کی قوم یہ ہے ہماری قوم یہ ہے ہمارے ساتھ جتھہ ہے اس کے ساتھ جتھہ کوئی نہیں ہمیں اکثر لوگوں نے ووٹ دیا ہے اور آپ ان ووٹوں کو نظر انداز کر کے اس کو چن رہے ہیں جس کو چند آدمیوں نے ووٹ دیا تھا.ہم افضل ہوئے کہ یہ افضل ہوا اس لئے ہم اپنے سے ادنی کی اطاعت نہیں کریں گے.جب وہ یہ کہتے ہیں تو وہ اطاعت سے باہر نکل جاتے ہیں اور ان کی تمام وہ صفات جن پر بنا کرتے ہوئے وہ تکبر کا اظہار کرتے ہیں ان کی مثبت صلاحیتیں ان سے چھین لی جاتی ہیں اب ان کا وجود محض نقصان رساں وجود ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.ایسے لوگ نظام میں اپنا جتنا وقت خرچ کرتے ہیں ہمیشہ منفی سوچیں رکھتے ہوئے ، نظام کو نقصان پہنچانے کے لئے پچھلی انانیت کا بدلہ لینے کے لئے خرچ کرتے ہیں.پس وہ سانپ جس نے آدم اور حوا کو گمراہ کرنے کے لئے ڈسا تھا یعنی روحانی طور پر ڈسا تھا اور بائبل کے بیان کے مطابق ان کو چاپلوسی کی باتیں کر کے ان کو گمراہ کیا.وہ سانپ دراصل انانیت کا ہی سانپ ہے.ہر انسان میں موجود ہے جب اس کو موقع ملے گا یہ سر اٹھائے گا اور ڈسے گا اور اس کو موقع دینا یا نہ دینا ہر بندے کے اختیار میں ہے.پہلے وہ انسان مسلمان ہو جس کے اندر یہ سانپ موجود ہے پھر اس کے سانپ کو یہ توفیق ہی نہیں مل سکتی کہ وہ اسے ڈسے پہلے وہ آدم کو سجدہ کرے تو اس کے اندر کا سانپ مجبور ہوگا کہ اس کے تابع رہے ورنہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 278 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء سانپ ضر ور سر اٹھائے گا اور بغاوت کرے گا اور خود اپنے مالک کو ہلاک کر دے گا.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اسی مضمون کو واضح فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ شیطان؟ شیطان تو ہر انسان کی رگ و پہ میں دوڑ رہا ہے.تم باہر کے شیطان کی باتیں کرتے ہواندر کے شیطان کی فکر کرو جو ہر شخص میں موجود ہے.یہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق اس دعانے ہمیں متنبہ فرمایا کہ اے خدا ہم پناہ مانگتے ہیں من شرور انفسنا اپنے نفس کے اندرونی شر سے پس ہر شخص میں ایک شر ودیعت کیا گیا ہے یہ فطرت کا حصہ ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ فرمایا تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے اندر بھی؟ آپ کے اندر بھی یہ شیطان موجود ہے تو فرمایا کہ ہاں لیکن وہ مسلمان ہو گیا ہے.( ترمذی کتاب الرضاعة حدیث نمبر: ۱۰۹۲) کلیۂ سرتا پا اسلام قبول کر چکا ہے.پس یہ فلسفہ ہے جسے سمجھنے کے نتیجہ میں آپ کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا سلیقہ آجائے گا.یہ شیطان ہی ہے جو فعالیت کی قوت عطا کرتا ہے یعنی جس کو آپ شیطان کہہ رہے ہیں یہ دراصل توانائی ہے ایک ولولہ ہے ایک جوش ہے ایک طاقت ہے جن لوگوں میں زیادہ ہو وہ زیادہ کام کر سکتے ہیں.شرط یہ ہے کہ وہ سجدہ کر دیں اور خدا کی اطاعت کے تابع ہو جائیں تب ایسے لوگ بڑے عظیم الشان کام کرتے ہیں اور خدمت دین میں ہمیشہ صف اول میں ہوتے ہیں اور ان کو عام انسانوں سے غیر معمولی طور پر بڑھ کر خدمت کی توفیق ملتی ہے جو خود اس انانیت کا شکار ہو جائیں وہ اپنی انا سے ڈسے جاتے ہیں اور پھر وہ چونکہ اطاعت سے باہر نکل جاتے ہیں پھر ان کی یہ تمام تر صلاحیتیں ہمیشہ منفی اثرات پیدا کرنے میں خرچ ہوتی ہیں.ان سے بنی نوع انسانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا پس صلاحیتیں وہی ہیں جو خدا کی رضا کے تابع ہو جائیں صلاحیتیں وہی ہیں جو اسلام قبول کر لیں ان کے سوا جتنی صلاحیتیں ہیں وہ سب منفی صورتیں ہیں.پس قرآن کریم نے آگ کی مثال دے کر یعنی شیطان کے منہ سے یہ بات بیان کر کے بہت ہی گہرا اور ہمیشہ رہنے والا ایک فلسفہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے.طاقت کے بغیر دنیا میں کوئی کام نہیں چل سکتا لیکن ہر طاقت میں دو پہلو ہیں ایک شر کا پہلو ہے اور ایک خیر کا پہلو ہے.تم اپنی طاقتوں کو اگر خدا کی نمائندگی میں سجدہ ریز کر دو اور تمہاری طاقتیں اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کے پیدا کردہ نظام کے تابع ہو جائیں تو ان سے عظیم الشان کام سرانجام ہوں گے لیکن اگر تم اطاعت کی حد
خطبات طاہر جلد ۱۲ 279 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء سے باہر نکل جاؤ گے تو فَاخْرُجُ مِنْهَا میں یہ پیغام ہے کہ جا پھر تمام اعلیٰ صلاحیتوں سے تجھے عاری کر کے محض خالی آگ سے کھیلنے والا ایک وجود بنا دیا گیا ہے.اب اس کو جس طرح چاہے استعمال کر اس سے کبھی خیر پیدا نہیں ہوگی.پس نظام جماعت کے اس پہلو کو سمجھیں اور اپنی اطاعت کی حفاظت کریں.یہ نہ دیکھیں کہ کون ہے جس کو نظام جماعت کی نمائندگی کا حق عطا کیا گیا ہے یہ غور کریں کہ کس نے عطا کیا ہے کس کی نمائندگی کر رہا ہے.کسے عطا کیا ہے.مٹی میں ہمیں یہ پیغام دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نمائندگی میں ہمیشہ عاجز بندوں کو چنا کرتا ہے اور شیطان کی اباء کے مقابل پر آگ کی سرکشی کے مقابل پر دیکھیں کتنا خوبصورت مضمون سجا کر پیش فرمایا گیا ہے جس بات پر شیطان نے اعتراض کیا اسی بات میں اس کا جواب تھا کہ اے جاہل میں تو مٹی کو پسند کرتا ہوں جو راہوں پر بچھ جاتی ہے.میں تو ان انسانوں کو پسند کرتا ہوں جن میں مٹنے کی اور عاجزی کی صلاحیتیں موجود ہیں.جب وہ میری راہ میں بجھتی ہیں تو ان سے پھر نشو و نما ہوتی ہے، اُن سے اعلیٰ صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں.اب اس پہلو سے آپ دیکھیں کہ تمام کائنات میں جہاں بھی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں وہاں مٹی کی خصلت سے زندگی پیدا ہوتی ہے.آگ سے زندگی پیدا نہیں ہوتی.آگ سے جناتی زندگی تو پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے یعنی وہ زندگی جو باغیانہ حرکتیں کرتی ہو جس میں تکبر پایا جا تا ہو.چنانچہ مادی دنیا میں بھی بعض وجود جو خطرناک اور مہلک بیکٹیریا پر مشتمل ہیں وہ آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اور باقی صلاحیت رکھنے والی تمام زندگی گیلی مٹی سے پیدا ہوئی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس مضمون پر بھی روشنی ڈال دی کہ دیکھو ساری نشو و نما تو مٹی سے ہو رہی ہے اور انسان اس سے پیدا ہوکر کتنی بلندیوں تک جا پہنچتا ہے لیکن بجز کے آخری زینے سے جس سے نیچے بجز کا مقام نہیں وہاں سے زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے، وہاں سے بلندیوں کا سفر ہوتا ہے.پہلا زینہ بجز اور انکساری میں رکھا گیا ہے جس کا قدم پہلے زینہ پر نہیں پڑتا وہ کسی بلندی تک نہیں پہنچے گا تو اب ملا‘ والا مضمون بھی سمجھ آگیا اللہ تعالیٰ فرما تا کہ تو نے پہلے زینہ پر تو قدم نہیں رکھا جو اطاعت اور انکساری کا زینہ ہے تو اونچا کیسے اڑ گیا ؟ کیسے تجھے وہ بلندیاں نصیب ہو گئیں جن کے نتیجہ میں تو میرے آدم پراکٹر اکٹر کر تکبر سے باتیں کرتا ہے اسے ہم نے بجز کے مقام سے اٹھایا ہے اور وہاں سے رفعتیں بخشی ہیں اور وہ جو خدا کی راہ میں سب سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 280 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء صلى الله زیادہ مٹی ہوا اُسے سب سے زیادہ سر بلندی عطا کی گئی.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا مقام سمجھنا ہو تو اس آیت کے اس پہلو پر غور کریں کہ شیطان نے یہ تسلیم کیا کہ تو نے آدم کو یعنی خلیفہ کومٹی سے پیدا صلى الله کیا ہے اور خلافت کا معراج حضرت محمد رسول اللہ یہ تھے پس مٹی کی تمام صلاحیتیں اپنی پوری شان کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ ہے کے وجود میں جلوہ گر ہوئی ہیں.سب سے زیادہ بجز آپ میں تھا اس لئے سب سے زیادہ رفعتیں آپ کو عطا ہوئیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ.اذا تواضع العبدر فعه الله الى السماء السابع بالسلسلة كہ جب خدا کا ایک بندہ تواضع کرتا ہے اُس کے سامنے جھک جاتا ہے گر جاتا ہے تو اُس جھکے ہوئے انسان کی رفعت وہاں سے شروع ہوتی ہے رفعہ اللہ.اللہ اسے اُٹھاتا ہے الی السماء السابع ساتویں آسمان تک اُٹھا کر لے جاتا ہے بالسلسلة ظاہر بین اس کا ترجمہ زنجیروں سے کرتے ہیں یعنی زنجیر میں جکڑا اور اُٹھا کر آسمان پر چڑھا دیا وہ جو رفع کا اس قسم کا بدنی تصور آسمان پر چڑھنے کا کرتے ہیں ان کا ذہن اس طرف جاتا ہے اور قرآن کریم کے نہایت ہی لطیف اور اعلیٰ مطالب کو وہ کھو دیتے ہیں بالسلسلة سے مراد یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی کڑیاں ہوتی ہیں اسی طرح عاجزی اور تواضع اور آسمان کی رفعتوں کے درمیان بے شمار کڑیاں ہیں.ایک زنجیر جو بے شمار کڑیوں سے بنی ہوئی ہے پس جتنا جتنا کوئی تواضع کرے گا اتنا اتنا اس کو رفعتیں نصیب ہوں گی ہر تواضع کرنے والے کو ساتویں آسمان تک نہیں پہنچایا جائے گا بلکہ کسی کو زنجیر کی پہلی کڑی تک اٹھایا جائے گا کسی کو دوسری کڑی تک غرضیکہ رفتہ رفتہ وہ انسان جو خدا کے نزدیک تواضع میں انتہا کر لیتا ہے اس کی رفعت ساتویں آسمان تک ہوگی.یہاں عبد سے مراد بنی نوع انسان میں عجز کرنے والے تمام بندے ہیں.حضرت محمد رسول اللہ اللہ کا مقام ان تمام عباد سے الگ اور ممتاز تھا اس لئے یہاں آپ کا آخری مقام بیان نہیں فرمایا.مٹی کی انتہائی صلاحیتیں جہاں تک پہنچاسکتی تھیں اس کے بالکل آخری کنارے پر آپ فائز تھے چنانچہ آپ کا معراج ساتویں آسمان سے بلند تر ہوا جس سے پیچھے ساری مخلوق رہ گئی ہے انسانی مخلوق بھی اور غیر انسانی مخلوق بھی ، فرشتے ، جن ، ہر قسم کی جتنی مخلوقات ہیں ان سب کو اس مرتبہ تک پہنچنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی جس بلندی تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رفعتیں ہوتی ہیں.پس بتایا کہ مٹی کی صفات جو بجز کی صفات ہیں اور نشو و نما کی صفات ہیں دو قسم کی صفات ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 281 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء ان دونوں صفات میں محمد مصطفی یہ تمام بنی نوع انسان پر سبقت لے گئے ہیں اور جہاں بنی نوع انسان کی رفعتیں ساتویں آسمان پر ٹھہر جاتی ہیں حضرت محمد ﷺ کی رفعتیں اس سے بھی بلند تر ہو جاتی ہیں اگلے مقامات تک جا پہنچتی ہیں.پس ساری ترقیات کا راز تو بجز اور مٹی بننے میں ہے.پس وہ لوگ جو نظام جماعت کے سامنے سر اٹھاتے ہیں اور اپنے علو کی باتیں کرتے ہیں ان کو تو خدا کا یہی جواب ہے کہ فَاخْرُجُ مِنْهَا ان بلندیوں سے نکل جاؤ ان رفعتوں سے تمہیں عاری کر دیا گیا ہے جو میری طاقتوں کے مثبت پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں.ہاں جہاں تک ان طاقتوں کے منفی پہلو کا تعلق ہے وہ تم استعمال کرو.قیامت تک کرتے چلے جاؤ لیکن میرے بندوں پر تمہیں غلبہ نصیب نہیں ہوگا.پس خدا کی نمائندگی میں جو بجز کے ساتھ خدا کی نمائندگی کا اس کے نظام جماعت کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہیں وہ خدا کے فضل سے مقام محفوظ پر فائز ہیں یہ شریر لوگ ان کو تنگ کرنے کی کوشش کریں گے ان کے خلاف بغاوت کریں گے ان کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا ئیں گے ان کی کمزوریاں لوگوں کے سامنے پیش کریں گے، جتھے بنائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ قیامت تک ان پر ان شیطانوں کو غلبہ نصیب نہیں ہو سکتا.وہ لوگ جو ان کی باتوں میں آکر ان کی تائید میں باتیں کرنے لگیں گے اور ان کو حمایت دیں گے.ان کا نقصان ہے اس قسم کے لوگ اپنی علامتوں ނ سے پہچانے جاتے ہیں پس نظام جماعت کی بات ہو رہی ہے میں تمام دنیا کی جماعتوں کو تفصیل.سمجھا رہا ہوں کہ نظام جماعت کی روح اور اس کے فلسفے کو سمجھیں جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور پھر خوب متنبہ رہیں کہ آپ کی حرکتیں آپ کو کس گروہ میں لے جاتی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ عام حالات میں نہایت ہی تابع فرمان اپنے خطوں میں بھی اور ویسے اظہارات میں بھی اور جماعت سے تعاون میں بھی بہت عمدہ خصلتوں کا اظہار کرتے ہیں بڑا عمدہ رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن ابھی وہ آزمائے نہیں جاتے شیطان کا اس وقت تک دنیا کو اور فرشتوں کو پتا ہی نہیں چلا جب تک وہ آزمائش میں نہیں ڈالا گیا.جب تک وہ آزمائش میں مبتلا نہیں ہواوہ ایسا ہی ایک وجود تھا جیسے عام طاقتوں والا ایک وجود ہوا کرتا ہے اور ان مخلوقات میں شامل پھرتا تھا جو خدا تعالیٰ نے اس آزمائش کے واقعہ سے پہلے آزاد چھوڑی ہوئی تھیں.جب آزمائش میں ڈالا گیا تو اس کی انانیت پچلی گئی ہے جس طرح سانپ کی دم کو رگڑا جائے تو پھر وہ بھڑکتا ہے بعض
خطبات طاہر جلد ۱۲ 282 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء سانپ ایسے ہیں جو ویسے نہیں کاٹتے اور جب تک ان کو کچلا نہ جائے اس وقت تک وہ غصے سے اپنا پھن نہیں اُٹھاتے.پس ہر انسان کے اندروہ شیطان موجود ہے جس کا ذکر اصدق الصادقین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اس کو بس کچلنے کی دیر ہے پس ایسے لوگ جب کوئی عہدہ پاتے ہیں اور کسی وجہ سے ان کو عہدہ سے معزول کیا جاتا ہے یا ان کا انتخاب ہوتا ہے اور نامنظور کر دیا جاتا ہے پھر دیکھیں کہ کس طرح ان کے پھن کھلتے ہیں، کس طرح ان کے سر بلند ہوتے ہیں اور اس طرح ظاہری طور پر سجدہ ریز وجود کے اندر سے ایک شیطان اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بعض لوگ پھر ساری زندگی کا مشغلہ یہ بنا لیتے ہیں کہ ہم نے اس بات کا انتقام لینا ہے اور ان کے سارے طور طریق قرآن کریم نے شیطان کی اس کہانی میں بیان فرما دئیے جو مختلف جگہ مختلف پہلوؤں سے بیان فرمائی گئی ہے اس کا ایک غول ہوتا ہے اس کا ایک لشکر ہوتا ہے اس کے کچھ ساتھی بنے شروع ہوتے ہیں اور وہ ان کی سرداری کرتا ہے.پس ایسے لوگوں کا رد عمل اس وقت پہنچانا جاتا ہے جب یہ اپنی حرکتوں سے اپنے آپ کو شیطان کے مشابہ کرتے چلے جاتے ہیں.جب ان میں سے کسی کو عہدوں سے معزول کیا جائے تو وہ وقت ہے ان کی پہچان کا کہ وہ آدم کی سرشت سے ہے مٹی کی سرشت سے ہے یا ابلیس کی سرشت سے پیدا کیا گیا ہے، پیدا تو دونوں کو ایک ہی سرشت سے کیا گیا تھا دونوں صفات موجود ہیں مراد یہ ہے کہ کیا اس نے جب اس کو اختیار دیا گیا تو اپنے لئے آدم بننا پسند کر لی یا شیطان کی سرشت اختیار کرنے کو اپنالیا.ایسے موقعوں پر بعض لوگوں کے چہروں سے پردے اٹھتے ہیں اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنا بڑا علم، اتنی بڑی ان کی تربیت اور اتنے لمبے دور تک خدمتوں کی توفیق پانے والے ایک ٹھوکر میں آکر ہمیشہ کے لئے ذلیل اور رسوا ہو جاتے ہیں یعنی خدا کی نظروں سے گر جاتے ہیں اسی کا نام رجیم ہونا ہے اور پھر ان کی زندگی شرارت پر وقف ہو جاتی ہے.ان کے طور طریق یہ ہیں کہ سب سے پہلے تو وہ آدم میں نقائص ڈھونڈتے ہیں (یہاں آدم سے مراد یا خلیفہ اللہ سے مراد خدا کی جماعت کا نمائندہ ہے ) اور لوگوں میں بیٹھ کر اس پر تبصرے کرتے ہیں کہ یہ امیر جس کی تو یہ عادت ہے یہ حرکت ہے اپنوں یا رشتے داروں کے لئے یہ کرتا ہے اور دوسروں کے لئے یہ کرتا ہے فلاں معاملہ میں اس کا یہ طور طریق ہے اور اسی معاملہ میں ایک دوسرے سے اس کا یہ طور طریق ہے وغیرہ وغیرہ.یہ پہچان کرنی کہ یہ لوگ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 283 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء بچے ہیں یا جھوٹے ہیں مشکل نہیں ہے کیونکہ جس وقت تک یہ اپنے آپ کو مٹی کی سرشت سے ظاہر کرتے چلے آئے تھے اس وقت تک یہ سب نقائص دیکھتے تھے اور انہوں نے قبول کئے ہوئے تھے اگر یہ بچے ہیں تو اس وقت تک ان سب نقائص پر ان کی نظر تھی مگر یہ نقائص ان کی اطاعت کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوئے.جب سزا ملی، جب انا چلی گئی تب اچانک وہ آدم کس طرح سب سے زیادہ گندا ہو گیا.پہلے جس کے وہ ساتھی ہوا کرتے تھے پہلے بعض دفعہ وہ جس کی مجلس عاملہ میں ممبر ہوا کرتے تھے، بعض دفعہ اس کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے کیا وجہ ہوئی کہ اچانک وہ شخص جس کی ساری برائیاں ہمیشہ سے ان کی نظر میں اچھی تھیں اس وقت وہ برائیاں ان کو تکلیف نہیں دیتی تھیں اس وقت انہوں نے ان برائیوں کی طرف نہ ان کو متوجہ کیا نہ نظام جماعت کو متوجہ کیا لیکن جب اُسے آدم مقرر کر دیا گیا اور ان کو ہٹا دیا گیا تو اچانک اس کی برائیاں سامنے آگئیں.یہی شیطانیت کا فلسفہ ہے جو صرف عام عہدوں سے تعلق نہیں رکھتا نبوت سے اور خلافتہ اللہ سے اس کا اولین تعلق ہے اور گہراتعلق ہے ہے.قرآن کریم رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دے.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرً ا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس : ۱۷) محمد رسول اللہ تو کہہ کہ جب خدا نے تجھے مقرر فرما دیا جب تو نے دعوی کیا تو تجھ میں ہزار قسم کے نقائص بیان کرنے لگے ہر خوبی سے تجھے عاری قرار دیا ، ہر برائی تجھ میں داخل کر کے لوگوں کو دکھانے لگے ان سے کہہ کہ میں نے ایک عمر تمہارے اندر گزاری ہے کیونکر عقل نہیں کرتے کہ اس چالیس سالہ عمر میں تمہیں کبھی میرے اندر کوئی برائی دکھائی نہیں دیتی تھی آج اچانک اس وجہ سے کہ خدا نے مجھے ایک منصب عطا فرمایا ہے میں سب سے گندا کیسے ہو گیا.بہت ہی عمدہ اور ٹھوس دلیل ہے اور احمدیوں کے لئے اس میں ایک اور نصیحت بھی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے متعلق دشمن جتنے بھی حملے کرتا ہے وہ ہمیشہ اس راہ سے حملے کرتا ہے اور احمدی اپنی معصومیت میں اس میدان میں ان سے جھگڑے کرتے ہیں احمدیوں کو چاہئے کہ ان سے کہیں کہ قرآن کریم ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اس مضمون کو چھیڑیں جب تک تم پہلے یہ ثابت نہ کرو کہ اس دعویدار کی پہلی زندگی میں تم کیڑے ڈالا کرتے تھے اور یہ نقائص تمہیں دکھائی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 284 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء دیا کرتے تھے وہ زندگی جس میں بناوٹ کو ئی نہیں تھی جس میں ابھی پتا نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے اس زندگی میں جبکہ اس دعویدار نے خدا کی نمائندگی کا لبادہ نہیں اوڑھا ہوا اس لئے دنیا کی نظر سے بچنے کی اسے ضرورت کو ئی نہیں ہے.وہ کھلا کھلا تمہارے سامنے تھا.اس کھلی ہوئی کتاب میں تمہیں کوئی نقص دکھائی نہیں دیا اب جب کہ وہ دعوے کر چکا ہے وہ دنیا کا سب سے گندہ انسان بن گیا یہ ہو ہی نہیں سکتا یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے، ابدی سچائیوں کے خلاف ہے.پس پہلے تم یا تو اس مضمون پر معاملہ طے کر لو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوئی سے پہلے کی زندگی میں تمہارے علماء نے اور ان لوگوں نے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے ان کے اندر خوبی کے سوا کبھی کوئی برائی دیکھی، دیکھی ہو تو بتاؤ کہ کب بیان کی کس کے سامنے بیان کی ان برائیوں کے باوجود اتنا عظیم الشان خراج عقیدت ان کو کیوں پیش کرتے رہے کہ آنحضرت ﷺ کے وصال سے لے کر اب تک یعنی اس زمانہ کے لحاظ سے گزشتہ تیرہ سو سال میں مرزا غلام احمد سے بڑھ کر کسی نے اسلام کی خدمت کی ہو تو لا کر دکھائے اور کوئی ایشیائی سے مبالغہ نہ سمجھے.ہم ساری تاریخ اسلام پر نظر ڈال کر یہ بیان کر رہے ہیں کہ اسلام کی خدمت کرنے والا اور اسلام کا دفاع کرنے والا اس جیسا تیرہ سوسالہ اسلامی تاریخ میں کوئی اور پیدا نہیں ہوالیکن جب خدا اس وجود کو اس مٹی کو ایک منصب پر فائز کر دیتا ہے اور اس مٹی میں روح پھونک کر اس کو خلیفہ اللہ بنا دیتا ہے تو یہ اقرار یہ اعتراف کرنے والے یہ عظیم خراج تحسین پیش کرنے والے اچانک اس میں ساری خرابیاں دیکھنے لگتے ہیں.پس حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے دفاع میں جو دلیل اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے یہ ایک دائمی ہمیشہ زندہ رہنے والی دلیل ہے جب بھی کسی احمدی کے سامنے کوئی دوسرا غلطی خوردہ مولویوں کے بہکانے سے ایسی باتیں کریں تو وہ اسے اس آیت کی طرف متوجہ کرے اور کہے کہ یہ مضمون تب زیر بحث آئے گا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی زندگی میں تم نقص دکھاؤ گے اس وقت تک یہ مضمون خدا تعالیٰ کے زیر بحث آہی نہیں سکتا.ہاں جو دعاوی ہیں جو اعتقادی اختلافات ہیں اُن پر بحث کرو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا ، قرآن اسلام رسول اللہ ﷺ کا جو تصور پیش فرمایا ہے.وہ قرآن اور سنت سے ہٹ کر ہے تو ہم جھوٹے اور تم سچے پہلے ان بنیادی باتوں پر فیصلہ کر لو پھر یہ بحث آئے گی.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 285 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء پس وہی خلیفتہ اللہ کی باتیں ہی ہیں جو نظام میں بھی جاری وساری ہوتی ہیں اور ہر ابتلاء کے وقت وہ ابتلاء پھر در پیش ہوتے ہیں.اگر چہ ان کی سطح نیچے کی سطح ہوتی ہے.پس جب کسی شخص کا نفس کچلا جائے اور وہ نظام جماعت کے نمائندوں پر اعتراض کرتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس کو منہ توڑ جواب دیں اور اس کو کہیں کہ تم اس سے پہلے کہاں تھے.تم باتیں وہ بیان کر رہے ہو جو سال دو سال چار سال پانچ سال دس سال پہلے کی باتیں ہیں تم ساتھ شامل رہے ہو تم نے پہلے کیوں ہمیں نہ بتایا تم نے پہلے کیوں نظام جماعت کو متوجہ نہیں کیا تم اس شخص کے ساتھ پہلے کیوں تعاون کیا کرتے تھے.پس یہ تمہاری انانیت ہے اور ہم خدا کے بندے ہیں اس لئے تم ہم پر غالب نہیں آسکتے یہ باتیں ہم سے نہ کرو.یہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے جو لوگ ان کا ساتھ اختیار کرتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے کہ پھر وہ ان جیسے ہی ہو جاتے ہیں اگر تم اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرو گے اور ان کے ساتھ خلا ملا رکھو گے تو رفتہ رفتہ تم حزب شیطان بنتے چلے جاؤ گے اور پھر یہ گروہ بنتے ہیں اور انانیت کا ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے.پہلے اپنے نفس کی مخفی طاقتوں پر ناز کرنے کے نتیجہ میں یا اپنے نفس کی ان فضیلتوں پر نگاہ رکھنے کے نتیجہ میں جو اللہ ہی کی طرف سے ان کو عطا ہوئی تھیں وہ خدا کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں گروہ بندی کرتے ہیں اور ان کا گروہ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ ان کے سردار بننے لگ جاتے ہیں اور یہ سارے مل کر اپنی اس گروہی طاقت کے برتے پر زیادہ خدا کے نمائندوں پر دوبارہ اور زیادہ طاقت سے حملے کرتے ہیں.اس طرح نظام جماعت میں تفریق کا کام شروع ہو جاتا ہے ایسی کئی جماعتیں ہیں جن پر میری نظر ہے بہت سی جگہ میں نے بہت کوشش کی محنت کی اور سمجھایا اور اللہ کے فضل کے ساتھ وہ لوگ سمجھ گئے اور جماعت کی بھاری تعداد چونکہ ان لوگوں سے منہ پھیر گئی اور نظام جماعت کے ساتھ وابستہ رہی اس کی مؤید رہی اس لئے ان کی شیطانی طاقتیں اگر مرنہیں گئیں تو مٹ گئیں، ذلیل ورسوا ہو چکی ہیں اور رجیم بن کر دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی ہیں.جب تک یہ رجیم طاقتیں کسی جماعت میں رہیں گی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے غلبہ نصیب رہے گا جب یہ رجیم طاقتیں بہت سے بندوں پر اثر انداز ہو جائیں اور جماعت کے ایک حصہ کو لپیٹ لیں تو وہاں خدا کے بندے تھوڑے رہ جاتے ہیں اور شیطان کے بندے بڑھ جاتے ہیں.پس ان عادتوں کو اور ان لوگوں کو خوب اچھی طرح پہچانیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 286 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء تقویٰ کا تقاضا ہے کہ آزمائش کے مقام پر ثابت قدم رہیں اور جب آزمائش کے مقام آئیں اور آپ کی عزت اور انا کچلی ہوئی دکھائی دے، جب کسی جماعتی فیصلہ کے نتیجہ میں آپ زخمی ہو جائیں اور آپ منہ چھپاتے پھریں کہ دنیا ہمیں کیا سمجھے گی کہ ہم تو اتنے بڑے بن کر جماعت میں ابھر رہے تھے اور آج ہمیں رسوا کر دیا گیا ہے آج ہم سے چندے لینے بند کر دیئے گئے ہیں آج ہمارے خلاف یہ اقدام کر دیا گیا ہے تو ہم کیا منہ دکھائیں گے.پس وہ منہ دکھانے کے بدلے پھر اپنا گروہ تیار کرتے ہیں جماعت کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اپنے حق میں باتیں کرتے ہیں اور آغاز میں خلیفہ وقت پر حملہ نہیں کرتے کہتے ہیں کہ اس بیچارے کو کیا پتا وہ دور بیٹھا ہوا ہے یہ شیطان ہیں جنہوں نے جھوٹی باتیں پہنچائیں اور ان کی باتوں میں آکر یہ فیصلے ہو گئے اور اس طرح رفتہ رفتہ مقامی سطح پر دو گروہ بننے شروع ہو جاتے ہیں جو گر وہ نظام جماعت کی تائید میں ہیں ضروری نہیں کہ ان میں جماعت کے سارے شامل افراد پوری طرح محفوظ مقام پر ہوں ان میں سے بھی بعض تائید کرتے ہیں مگر جتھہ بندی کی خاطر اور اسلام کے نتیجہ میں نہیں چنانچہ ایسے لوگ بھی بعض دفعہ دوسری صورت میں آزمائے جاتے ہیں.جہاد کرنا اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے جب تک جہاد خدا کی خاطر نہ ہو.پس خدا کے بندے وہی ہیں جو نظام جماعت کی تائید کرتے ہیں.اپنے ذاتی تعلقات، دوستیوں، اپنے رشتوں سب چیزوں کو بھلا کر اور محض خدا کے بندے ہو کر وہ ہمیشہ خدا کی جماعت کے نظام کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایسے موقع پر خوشی محسوس کرتے ہیں کہ فلاں کو نیچا دکھا دیا گیا، فلاں گر گیا اور پھر ایسی باتیں کرتے ہیں کہ دیکھو وہ گندہ تھا نا اس لئے نکال دیا گیا ہم پہلے ہی سمجھا کرتے تھے کہ ہمارا مخالف تھا اور ان کو ذلیل ورسوا کرنے کے لئے پھر خدا تعالیٰ بعض دفعہ عجیب سامان کرتا ہے.ایک جماعت کے ایک شخص کے متعلق مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ اس کو امارت کے عہدہ سے ہٹا دیا جائے.اس لئے نہیں کہ وہ نعوذ باللہ میرے نزدیک گندا تھا بلکہ ایک ایسی غلطی کی تھی جو امیر کوزیب نہیں دیتی اور یہ اس نصیحت کی خاطر تھا کہ جماعت کو سمجھ آجائے کہ یہ غلطی قابل قبول نہیں ہے اور جتنے بڑے مرتبہ پر کوئی ہو اتنی ہی وہ غلطی نمایاں ہو جایا کرتی ہے جس کا اثر جماعت پر پڑتا ہو.وہ مجبوراً نظر انداز نہیں کی جاسکتی.انفرادی غلطیاں لوگوں میں ہزار ہوتی ہیں جن کی خدا پردہ پوشی فرماتا ہے لیکن وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 287 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء فحشاء سے تعلق نہیں رکھتیں ان کا نظام جماعت سے تعلق نہیں ہوتا مگر ایسی غلطی جس سے نظام کی بے حرمتی ہو اور کوئی امیر ہوتے ہوئے نظام سے باہر قدم رکھے اور خلافت کے جو احکامات ہیں ان سے کھلم کھلا رو گردانی کرے تو خواہ وہ کسی بنا پر ہو غفلت یا لاعلمی کی بنا پر ہو جب یہ چیز ابھر کر جماعت کے سامنے آجائے تو اس کا احترام قائم کرنے کے لئے بعض دفعہ ان لوگوں کو ہٹانا پڑتا ہے.ویسے اُن سے کوئی ناراضگی نہیں تھی میں جانتا ہوں کہ وہ نیک مخلص عاجز بندے ہیں لیکن ایک جگہ ٹھو کر کھا گئے اور میرے ذہن میں یہی تھا کہ کچھ عرصہ تک ان کو الگ رکھنا ہی ان کے اپنے مفاد میں ہے اور جماعت کے مفاد میں ہے.وہاں سے بعض خط آنے شروع ہو گئے کہ واقعہ ثابت ہو گیا ہے کہ آپ اللہ کے خلیفہ ہیں اس شخص میں یہ یہ باتیں تھیں، یہ باتیں تھیں مرے کو مارے شاہ مدار اس بیچارے کو گرا ہوا دیکھ کر اس پر ایسے ایسے حملے شروع کر دیئے کہ ان خطوں کو پڑھ کر ایسا میر ارد عمل ہوتا تھا جیسے طبیعت میں الٹی آتی ہے.اپنی طرف سے مجھے داد دے رہے ہیں مجھے ایسی دادوں کی کیا ضرورت ہے مجھے پتا ہے کہ مجھے خدا نے مقرر فرمایا ہے.مجھے کسی انسان کی داد کی ضرورت نہیں.ایسی دادوں سے کراہت محسوس ہوتی ہے طبیعت متلانے لگتی ہے.ایک فیصلہ میں نے بڑے دکھ سے کیا ہے بڑی مجبوری کی حالت میں کیا ہے اور تم اس پر مجھے داد دے رہے ہو اور کہہ رہے ہو کہ دیکھا ہم جیت گئے اور ایک صاحبہ نے لکھا کہ دیکھا میری فلاں فلاں خواب پوری ہوگئی.میں نے اس شخص کی رعونت کے متعلق یہ خواب دیکھی تھی اور اس طرح خدا نے الٹایا اور آج میں یقین کرتی ہوں کہ آپ اللہ کے خلیفہ ہیں اور انہی میں سے ایک سے ایک ایسی غلطی ہوئی کہ میں نے اس کو بھی چند دن کے اندراندراپنے عہدہ سے ہٹا دیا.اب خلافت کا وہ سارا بھرم کہاں گیا ؟ کیا وہ یہ سوچتا ہے کہ میں خلیفہ اللہ نہیں رہا.پس یہ جاہلا نہ اور چھوٹی اور کمینی باتیں ہیں.نظام جماعت کے متعلق جب خلیفہ اللہ کوئی فیصلہ کرتا ہے خواہ وہ براہ راست خلیفتہ اللہ کا ادنی غلام ہو اور اس حیثیت سے خلیفہ ہو تو وہ نفس کے کسی جذبہ سے مرعوب ہو کر نہیں کرتا اس کے اندر کبھی کوئی تعلی پیدا نہیں ہوتی کہ یوں مارا یا یوں الٹایا بلکہ اور زیادہ استغفار کرتا ہے اور زیادہ خدا کی راہ میں جھکتا ہے اور خدا کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ اے خدا ! میں بھی تو قابل نہیں ہوں.میں یہ قدم اُٹھانے پر مجبور ہوں تو مالک ہے اس لئے تو اس سے زیادہ رحم کر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 288 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء لیکن مجھے اختیار نہیں ہے اگر مجھے بخشش کا اختیار ہوتا تو میں ضرور بخشش کرتا.تیری خاطر مجبور ہوں اس حالت میں وہ قدم اُٹھاتا ہے اور وہاں جماعت میں تعلی کے دو گروہ بن جاتے ہیں ایک کہتا ہے اب ہم نے الٹا دیا، ہم نے رپورٹ کی تھی ہمارے کہنے پر وہ مارا گیا اور دوسرا کہتا ہے کہ دیکھو! اب وہ بھی مارا گیا اور ہم نے یہ کوشش کی تھی.یہ انسانیت کی باتیں نہیں ہیں مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں.یہ گری ہوئی گھٹیا باتیں ہیں جس کا اس مٹی سے تعلق نہیں ہے جس مٹی سے آدم کو پیدا کیا گیا تھا اس مٹی سے کوئی تعلق نہیں جس کا معراج محمد رسول اللہ علیہ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے.الله پس آنحضرت ﷺ کے غلام بن کر زندگی گزارنی ہے تو پھر سارے نظام اچھے ہیں خواہ وہ ذیلی نظام ہوں یا بنیادی نظام ہوں جماعت کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں اُن کو برکت دی جائے گی.جہاں آپ کے انانیت کے جھگڑے شروع ہو جائیں گے جہاں کسی عہدہ سے ہٹنا یا کسی منصب سے معزولی آپ کو ابتلاء میں پھینک دے گی اور آپ اس امتحان میں نامراد و نا کام ٹھہریں گے وہیں سے آپ کا اللہ کے نظام سے اور اس نظام سے تعلق کاٹا جائے گا جو خدا نے اپنے دو ہاتھوں سے پیدا فرمایا ہے.پہچان کے طور پر ایک آخری بات میں آپ کو بتادیتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کو کوئی صدمہ پہنچتا ہے اس کے سامنے دو تین قسم کے لائحہ عمل ہوتے ہیں اگر وہ ایسا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے کہ بظاہر وہ دنیا کی نظر میں ذلیل رہتا ہے مگر ایسی بات کوئی نہیں کرتا جس سے نظام کی تخفیف ہو اور نظام کو ٹھوکر لگے یا کچھ لوگ جو پہلے زیادہ مطبع تھے اب کم مطیع ہو جائیں تو ایسا شخص خدا کا بندہ ہے.اللہ ضرور اس کی دلجوئی فرمائے گا اور اگر اصلاح کی خاطر نہیں بلکہ غلطی سے بھی اگر اس کے خلاف قدم اُٹھایا گیا ہے تو اللہ خود اس کی اصلاح فرما دے گا اور اس کو بہت درجات عطا فرمائے گا اور مگر ایسا شخص جب ایسا فیصلہ کرتا ہے کہ لوگوں کے دل جیتنے کے لئے اور ان کے سامنے اپنی عزت کو بحال کرنے کے لئے وہ ان سے اپنے شکوے شروع کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں وہ پہلے سے کم مطیع ہو جائیں گے، وہ جانتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ان کے اسلام کو خطرہ ہے اور یہ ٹھوکر کھا ئیں گے تو وہ شخص خدا کا بندہ نہیں صلى الله کہلا سکتا وہ اس مقام پر ہار گیا اور نامراد ٹھہر احضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس مضمون کو ایک آیت کی تشریح میں بیان فرمایا ہے جس کا تعلق حضرت داؤڈ اور حضرت سلیمان سے ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں (ایک لمبی حدیث ہے اس کا میں وہ حصہ پڑھتا ہوں جس کا اس سے گہرا تعلق ہے ) کہ دو صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 289 خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۹۳ء عورتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی گود میں اس کا بیٹا تھا بھیٹر یا آیا اور ان میں سے ایک لڑکے کو اچک کر بھاگ گیا ساتھی عورت نے اس کو بتایا کہ تمہارے لڑکے کو بھیڑیا لے گیا ہے.اس عورت نے کہا کہ نہیں میرے لڑکے کو نہیں تمہارے لڑکے کو لے گیا ہے اور یہ بچہ ہی میرا ہے یہ بحث کرتی ہوئیں وہ حضرت داؤد کے دربار میں پہنچیں اور حضرت داؤڈ ان میں سے جو بڑی تھی اس کو وہ بیٹا دلوادیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہارا تھا اس چھوٹی کا نہیں تھا.وہ فریاد لے کر حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچی آپ نے جب ان دونوں عورتوں کو حاضر کیا اُن کے بیان سنے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ انہیں واقعہ بتایا اور انہوں نے کہا چھری لاؤ میں برابر کھڑے کر کے اس بچے کو دونوں میں تقسیم کر دیتا ہوں آدھا وہ لے لے.آدھا وہ لے لے.چھوٹی عورت جس کا وہ بچہ تھا اس نے اذیت سے بے چین ہو کر بے اختیار پکار کر یہ کہا کہ نہیں نہیں یہ اس کا بچہ ہے میں جھوٹی تھی اس کو دے دیں اس بچے پر چھری نہ چلائیں اُسے بچہ عزیز تھا اس کا بیٹا تھا حضرت سلیمان نے اسی وقت وہ بچہ پکڑا اور اس کو پکڑا دیا کہ میں یہی تو پہچاننا چاہتا تھا کہ اصلی ماں کونسی ہے اور جھوٹی ماں کون سی ہے.پس نظام جماعت سے اگر آپ کو زیادہ محبت ہے اور اپنی ذات اور اپنی انا سے زیادہ محبت نہیں تو ہر ایسے ابتلا کے موقع پر آپ ہمیشہ نظام جماعت کی حفاظت میں اپنی جان اپنی عزت اپنی آن ہر چیز کوقربان کر دیں گے لیکن کبھی ایسا کلام نہیں کریں گے کبھی ایسا طرز تکلم اختیار نہیں کریں گے خواہ ظاہری طور پر کہیں یا نہ کہیں یا اپنی حرکات و سکنات سے ایسا اثر نہیں ڈالیں گے کہ آپ نظام کے مارے ہوئے مظلوم ہیں تو سچے مگر جھوٹوں کا شکار ہو گئے ہیں.جس کے نتیجہ میں لوگ نظام سے متنفر ہو جائیں اور نظام کا ٹا جائے اور جماعتیں دو نیم ہو جائیں.پس پیشتر اس سے کہ جماعتیں دو نیم ہوں ان کے فعلوں کے وجہ سے وہ یہ زیادہ پسند کریں کہ ان کے جسموں کے ٹکڑے کر دے جائیں مگر نظام جماعت پر آنچ نہ آئے.یہ سچے مومن بندے ہیں یہ ہیں جو مسلم ہیں جن کے اسلام کی خدا گواہی دیتا ہے اللہ تعالیٰ نظام جماعت کی حفاظت فرمائے اور ہمیشہ جماعت کو خدا کے بندے بنا کر زندہ رکھے شیطان کے بندے بننے میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے.
290 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 291 خطبه جمعه ۱۶ار اپریل ۱۹۹۳ء احمدی گھر جنت نشان بن جائیں.احمدی معاشرہ ہی ایک نورانی معاشرہ کو جنم دے گا.( خطبه جمعه فرموده ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں:.وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ وَمِنْ ايته أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَ رَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُوْنَ وَمِنْ أَيْتِهِ خَلْقُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لایتِ لِلْعَلِمِينَ (الروم :۲۱ - ۲۳) پھر فرمایا:.گزشتہ جمعہ سے، پہلے جمعہ میں جو چند باتیں میں جماعت کے سامنے رکھنی چاہتا تھا.ان میں حسن معاشرت اور عائلی زندگی کو بہتر بنانے سے متعلق بھی چند امور میرے پیش نظر تھے لیکن وقت ختم ہو گیا اور میں مضمون کو مکمل نہ کر سکا.پھر بیچ میں جو خطبہ آیا وہ عمومی جماعتی تربیت کے سلسلہ میں بعض جگہ بعض فتنے سر اٹھاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اس لئے فوراً اس مضمون سے متعلق خطاب کرنا پڑا.آج کے جمعہ میں پہلا حصہ یعنی جمعہ کے خطبہ والا حصہ مختصر کرنا پڑے گا کیونکہ آج میری بیٹی عزیزہ مونا کے نکاح کا بھی دن ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 292 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء گزشتہ کچھ عرصہ سے مجھے پر مختلف اطراف سے یہ محبت بھرا دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ میں جمعہ پر اس نکاح کو اس طرح شامل کرلوں کہ یہ بیک وقت تمام دنیا میں دیکھا اور سنا جانے والا نکاح بن جائے اور اس طرح اس تاریخ ساز سال کے کرشموں میں ایک اور اضافہ ہو لیکن طبیعت پر اس خیال سے یہ بات گراں گزرتی تھی کہ میری بیٹی ہے اور خود اسی کے ذریعہ اس سلسلہ کا آغاز کرنا شاید کسی دل پر گراں نہ گزرے لیکن باہر سے بھی ایسے خط آنے شروع ہوئے جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ محبت کرنے والے احباب جماعت جو خواہش رکھتے ہیں کہ یہاں آئیں لیکن آ نہیں سکتے اُن کی خواہش ہے کہ اگر اس نکاح کو ایک عالمی نکاح بنادیا جائے تو ہم جہاں جہاں بیٹھے ہوئے ہیں.وہاں وہاں اس نکاح کی خوشی میں شامل ہو جائیں گے چونکہ یہ پُر خلوص قلبی تعلق کا اظہار بھی ہے اور جماعت کا مجھ پر ایک حق بھی ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے خطبہ اور نمازوں کے بعد انشاء اللہ بین الاقوامی سلسلوں کے ذریعہ یہ عالمی نکاح بھی پڑھا جائے گا.لیکن اس سلسلہ میں ایک دو باتیں بیان کرنی ضروری ہیں.خطبہ جمعہ کے بعد نماز بہر حال لازم ہے.اس کے درمیان میں کوئی اور تقریب داخل نہیں کی جاسکتی اور نماز کے بعد آج کے حالات کے پیش نظر عصر کی نماز بھی ساتھ جمع کرنی ہوگی کیونکہ باہر سے بکثرت مہمان تشریف لائے ہوئے ہیں اور ان کو اب یہاں سے رخصت ہونا ہے، بقیہ کارروائی اسلام آباد جا کر ہو گی اور انتظامی دقتیں ایسی ہیں کہ ان کے پیش نظر مجھ سے یہی توقع رکھی گئی ہے کہ میں نماز جمعہ کے بعد عصر بھی جمع کرادوں.پس خصوصیت سے یہ نصیحت ہے کہ اس نماز کے دوران دنیا میں کہیں بھی کوئی احمدی اس نماز کے ساتھ شامل ہو کر نماز ادا کرنے کی کوشش نہ کرے.یہ ایک نہایت ہی بیہودہ رسم جاری ہوگی جس سے اسلام کی اعلیٰ پاکیزہ روایات میں رخنہ پڑنے کا خطرہ ہے.امام وہی ہے جو جسمانی طور پر بھی موجود ہو اور سامنے ہو، سوائے اس کے کہ اتنا بڑا مجمع ہو کہ وہ امام دکھائی نہ دے سکتا ہو یا بیچ میں کہیں جس طرح بعض دفعہ دیوار میں حائل ہو جایا کرتی ہیں یہ الگ بات ہے مگر اجتماع ایک جگہ ہونا ضروری ہے اور اس اجتماع کے سامنے ایک زندہ موجود امام کا ہونا ضروری ہے.اس کے بغیر باقی سب نمازیں اگر دور سے ٹیلی کاسٹ کے ذریعہ پڑھی جائیں گی تو وہ فاسد ہوں گی.اُن کا حضرت محمد مصطفی امیہ کی سنت سے کوئی تعلق نہ ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 293 خطبه جمعه ۱۶ اراپریل ۱۹۹۳ء پس یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہ نکاح آج ہی ہو جائے میرے سامنے یہ وقت پیش کی گئی تھی کہ چونکہ بیچ میں نمازیں ہوں گی اس لئے یہ خطرہ ہے کہ لوگ نماز میں ساتھ نہ شروع کر دیں تو آپ پہلے خطبہ پڑھ دیں میں نے کہا یہ تو بہت اچھا موقع ہے کہ اس خطرہ کا ازالہ ہمیشہ کے لئے کر دیا جائے اور اس فیصلے کی برکت سے جماعت کی ایک عالمی تربیت کا موقع میسر آ گیا.پس یاد رکھیں کہ ٹیلی کاسٹ خطبوں وغیرہ کرنے کے بعد جو نمازیں ہوتی ہیں ان میں باہر کے لوگ شمولیت نہیں کر سکتے.اگر وہ اس نماز کا وقت ہو تو اپنا امام اپنے سامنے رکھیں تو پھر نماز ہوگی ورنہ ٹیلی کاسٹ تصویروں کے ذریعہ دور کے امام کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی.اسی لئے میں نے یہ تاکید کر دی تھی کہ وہ حصہ دکھایا ہی نہ جائے.پس ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ جب آپ نماز دکھائیں گے تو پہلی ہدایت کی خلاف ورزی ہوگی.اس کا جواب یہ ہے کہ بارہا مجھے خیال آیا کہ ٹیلی کاسٹ خطبوں کو دیکھنے کے شوق میں بکثرت غیر احمدی آنا شروع ہو گئے ہیں اور دن بدن ان کی تعداد بڑھ رہی ہے.میں صرف پاکستان کی بات نہیں کر رہا بلکہ دور دور، جہاں جہاں بھی یہ خطبات ٹیلی کاسٹ کے ذریعہ دکھائے جاتے ہیں خدا کے فضل سے رپورٹوں کے مطابق غیر احمدیوں کا ان خطبوں میں شامل ہونے کا رجحان دن بدن بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو ایک دفعہ آتے ہیں وہ آئندہ بھی آتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے کر آتے ہیں.پس اس پہلو سے ان کو ہماری عبادتوں کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں وہ بھی آج دور ہو جائیں گی.آج یہ بھی دکھائی دے گا کہ خطبہ کے بعد ہم نماز کیسے ادا کرتے ہیں اور ہماری نماز کے متعلق جو بعض غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں وہ بھی دور ہو جائیں گی.اس کے بعد میں مختصراً اسی مضمون یعنی عائلی زندگی کے تعلق میں جو مضمون بیان کرنا چاہتا تھا اس کی طرف واپس آتا ہوں.قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے.ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمِنْ أَيْته أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ کہ اس کے نشانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا ہے.ایک لفظ طين ( الانعام: ۳) ہے جس کو ہم مٹی کہتے ہیں اس میں نمی کا مفہوم داخل ہے یعنی گیلی مٹی.خراب خاک کو کہتے ہیں تو یہ ایک طرز بیان ہے جس سے انسان کو اس کے عاجزانہ آغاز کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ تمہاری حیثیت کیا ہے خاک کے پتلے ہی تو ہو.ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 294 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء کہ دیکھو کیسی عظیم تبدیلی واقع ہوئی ہے کہ تم بحیثیت بشر ہو.جو تخلیق کائنات کی سب سے اوپر کی منزل پر کھڑا ہے، ایسے بشر کی صورت میں تم دنیا میں ہر طرف پھیل گئے پھر فرمایا وَمِنْ الله آنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا اس کے نشانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا تا کہ تم ایک دوسرے سے سکینت حاصل کرو.الیھا کا معنی ہے اس کی طرف سکینت کی خاطر ، سکینت کی تلاش میں جھکو وَجَعَلَ بَيْنَكُمُ مَّوَدَّةً وَ رَحْمَةً اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ نے محبت اور رحمت رکھ دی ہے.پس میاں بیوی کے تعلقات کا اس سے بہتر نقشہ نہیں کھینچا جا سکتا.پہلے تو یہ بتا دیا کہ تم سب خاک کے پتلے ہو.ایک دوسرے پر تمہیں کوئی فضیلت نہیں ہے اور ایک ہی وجود سے پیدا کئے گئے ہو اور رشتوں کی ایک وجہ تو وہ ہے جو پہلی آیت میں بیان ہوگئی کہ تنتَشِرُونَ یعنی تم نشو ونما پاتے ہو اور دنیا میں پھیل جاتے ہو اور پھیل چکے ہو.دوسری وجہ جس کی طرف عموماً توجہ نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً " تاکہ تم اپنے جوڑے سے تسکین حاصل کرو یعنی اپنے دوسرے زوج سے تسکین حاصل کرو.الیھا میں تانیث کی ضمیر ہے یعنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو خصوصیت سے مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ تا تم اپنی بیوی سے تسکین حاصل کرو.یہ کہنے سے ایک غلط نہی بھی پیدا ہو سکتی ہے.جیسا کہ اکثر دنیا کے معاشروں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مرد کا کام ہے عورت سے تسکین حاصل کرے.عورت کا کام ہے تسکین دے اور اس کے بعد چھٹی اور مرد پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے.اس باطل خیال کو زائل کرنے کی خاطر معاً بعد فرمایا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَ رَحْمَةً اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان گہری محبت اور رحمت کا رشتہ قائم فرما دیا ہے اور یہ رشتہ دونوں طرف سے ہے.بَيْنَكُمْ ہے اور بیگم نے مضمون کو اور زیادہ وسیع فرما دیا.بینکما نہیں کہا بلکہ بَيْنَكُم یعنی وہ بچے جو میاں بیوی کے تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ بھی آپس میں محبت اور رحمت کے تعلقات سے زندگی بسر کریں اور سارے معاشرہ کے لئے یہ پیغام ہے کہ عائلی زندگی میں مودت اور رحمت کو اختیار کرو.یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا تھا لیکن افسوس کے ساتھ یہ ذکر کرتا ہوں کہ بار ہا یہ فصیحت کرنے کے باوجود اکثر دنیا سے ایسے ہی خط ملتے ہیں جن سے پتا
خطبات طاہر جلد ۱۲.295 خطبه جمعه ۱۶ اراپریل ۱۹۹۳ء چلتا ہے کہ ہماری جماعت میں عائلی زندگی ابھی تک مثالی نہیں بن سکی.مختلف معاشروں کے مختلف نقائص ہیں.مغربی نقائص اور ہیں اور مشرقی نقائص اور ہیں.مغربی عائلی زندگی بھی مثالی نہیں ہے اور مشرقی بھی نہیں لیکن اسلام تو نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا ہے.اسلام تو وہ دین ہے جو ایسے نور سے تعلق رکھتا ہے.جس سے متعلق فرمایا گیا لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ (النور: ۳۶) نہ وہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا ہے.دونوں کے درمیان یکساں سانجھا نور ہے یعنی صلى الله محمد رسول اللہ ہے.پس مشرقی معاشرے کے نقائص خواہ کچھ بھی ہوں.مغربی معاشرے کے نقائص کچھ اور ہوں یہ بحث لاتعلق ہے.عائلی زندگی وہی ہے جو اس نور کی عائلی زندگی تھی جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں خدا کا نور چپکا ہے اور اس عائلی زندگی کے حوالے سے ہمیں اپنے تعلقات کو درست کرنا ہوگا اگر کسی معاشرے سے وفا اٹھتی چلی جارہی ہے اور حیاء اٹھتی چلی جارہی ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عائلی زندگی اس معاشرے کو پیغام دیتی ہے کہ تم مجھ سے دور ہو، مجھ سے کٹے ہوئے ہو اور جب تک میری ذات کے ساتھ پیوستہ نہ ہو جاؤ تمہیں امن نصیب نہیں ہوسکتا.مشرقی معاشروں میں عائلی زندگی بعض اور رسم و رواج اور بدیوں کا شکار ہے اور میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر اُن کے خاندان کے دوسرے تعلقات اتنے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں.اتنا دخل انداز ہوتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں بسا اوقات میاں بیوی کے تعلقات محض اس وجہ سے بگڑتے ہیں کہ دونوں طرف سے ماں باپ کو شوق ہے کہ وہ اپنی بالا دستی اس جوڑے پر قائم کریں اور یہ ایسی بیہودہ رسمیں ہمارے بعض مشرقی معاشروں میں جاری ہیں کہ خاوند کے رشتہ دار سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم بیوی کو پینچ کر اپنے ماں باپ سے تو ڑ کر اپنا نہ بنا لیں اس وقت تک ہماری فتح نہیں ہو سکتی.ہمارا بچہ تسکین نہیں پاسکتا اور بعض صورتوں میں بالکل اسی قسم کا رویہ بچی کے والدین اختیار کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک خاوند کے رشتہ داروں سے کلیہ تو ڑ کر الگ نہ کر دیا جائے اس وقت تک اس جوڑے کو سچا چین نصیب نہیں ہو سکتا، کچی سکینت عطا نہیں ہو سکتی اور اس کے نتیجہ میں وہ دونوں خاندان کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان میاں بیوی کا گھر اُجڑ جائے اور اکثر اُجڑتے ہوئے گھروں میں اگر اکثر نہیں تو اجڑے ہوئے گھروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن میں ماں باپ کا قصور ہے جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 296 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء دونوں طرف کے ماں باپ ہیں لیکن یہ قصور میں نے زیادہ تر دولہا کے ماں باپ میں دیکھا ہے اور نسبتاً کم بچی کے والدین میں کیونکہ بچی تو پرائی ہوتی ہے.وہ جب رخصت کر دی جائے تو اس کے اوپر اتنا اثر اور اختیار نہیں رہا کرتا لیکن بیٹا تو ہمیشہ اپنا رہتا ہے اور عموماً وہ ممالک جن میں اقتصادی لحاظ سے ابھی پوری ترقی نہیں ہوئی اور میاں بیوی فوراً اپنا الگ گھر بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے.وہ بیوی بہر حال اپنے خاوند کے ماحول میں، اس کے ماں باپ کے رحم و کرم پر، اس کی بہنوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتی ہے اور اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے کہ معاشرہ میں جو بھی ظلم ہے اس میں سب سے زیادہ قصور وار عورت ہے.پہلے ایک خطبہ میں جس کا تعلق میری اہلیہ کے وصال سے تھا.میں نے کچھ نصیحتیں کی تھیں اور ان میں خاوندوں کو خصوصیت سے پیش نظر رکھا تھا یا مردوں کو پیش نظر رکھا تھا.مجھ سے شکوے بھی ہوئے کہ آپ نے سارا بوجھ مردوں پر ہی ڈال دیا ہے عورتوں کا بھی تو قصور ہوا کرتا ہے.میں نے اُن سے کہا مجھے علم ہے کہ قصور ہوا کرتا ہے میں کسی وقت یہ باتیں بھی کروں گا لیکن بیوی فوت ہورہی ہو اور میں عورتوں کو کوسوں تو اس سے زیادہ جہالت اور ہو نہیں سکتی تھی.موقع ایسا تھا جس کا تقاضا تھا کہ میں مردوں کو نصیحت کروں کہ وہ عورتوں کے حقوق ادا کریں اور ہر قسم کے ظلم سے باز آئیں مگر میں نے جہاں تک تجزیہ کیا ہے مجھے اس میں کوئی بھی شک نظر نہیں آتا کہ بگڑے ہوئے مردوں کی بنیاد بھی ان کی مائیں ڈالتی ہیں اور اُنہی بنیادوں پر ان کی عمارت استوار کرتی ہیں اور اکثر ایسی مائیں معاشرے کو بگاڑنے کی ذمہ دار ہیں جو عملاً اپنی اولاد کی اور اولاد میں سے اپنے بیٹوں کی عبادت کرتی ہیں اور اتنا زیادہ بلند مقام دیتی ہیں کہ بچپن ہی سے انہیں کھلی چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ چاہے ہمسایوں کا امن بر باد کریں، چاہے اپنی بہنوں کو ماریں کوٹیں اور فتنہ وفساد کریں لیکن ماں شیرنی کی طرح جھپٹ کران کی تائید میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے، دوڑتی ہے اور دوسروں سے بدکلامی کرتی ہے اور اس کے فتنے سے اس کی زبان کے شر سے بچنے کے لئے لوگ اپنے بچے سنبھالتے پھرتے ہیں.ایسی مائیں خواہ اس مقام تک نہ بھی پہنچی ہوں اس سے ورے ورے بھی بہت سے مقام ہیں جن میں یہ بنیادی نقص یعنی اپنے بچے کی عبادت کرنا یہ صاف دکھائی دینے لگتا ہے اور ایسی مائیں اپنے بچوں کو نہ صرف ابتداء میں بگاڑ دیتی ہیں بلکہ بعد میں جب ان کی بیویاں آتی ہیں تو ان بیویوں پر فرعون کی طرح حکومت کرنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 297 خطبه جمعه ۱۶ راپریل ۱۹۹۳ء چاہتی ہیں.ان بیویوں سے توقع رکھتی ہیں کہ خاوند کی ، اس کی بہنوں کی اس کی ساس کی یعنی خاوند کی ماں کی تمام تر خدمتیں ہوں اور وہ گویا کہ گھر کے لئے ایک نوکرانی پال لی گئی ہے یا خرید لی گئی ہے اور اسی ضمن میں اپنے بیٹے کی زندگی سنوارنے کی خاطر بعض دفعہ پروفیشنلز سے شادیاں کی جاتی ہیں بعض دفعہ لوگ مجھے بھی لکھتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی ڈاکٹر عورت ڈھونڈ کر دیں.کوئی استانی ڈھونڈ دیں، کوئی ایسی ہو جو کمانے والی ہو.اسی وقت مجھے سمجھ آ جاتی ہے کہ نیت کیا ہے اور میں ان کو صاف لکھ دیتا ہوں کہ اپنے فساد کو اپنے طور پر رکھو.میرا ہاتھ تمہارے فساد میں شامل نہیں ہوگا.جو رشتہ کرنا ہے کر ولیکن اگر نیت وہ نہیں ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے تو وہ نیت فساد کی نیت ہے.قرآن کریم نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ تا کہ تمہارے اقتصادی حالات بہتر ہو جائیں.قرآن کریم نے یہ نہیں لکھا کہ بیویاں اس لئے لاؤ کہ ان کو گھر کی نوکرانیاں بنا دو یا اُن پر اپنے رعب جماؤ یا ان کو طعنے دو اور جہاں تک اس طعن و تشنیع کا تعلق ہے بہت سے گھر اسی وجہ سے اُجڑتے ہیں.لڑکی گھر میں آئی ہے اور اس کی نندیں بیٹھ کر کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتی ہیں کہ اس کا تو قد اس طرح ہے، اس کا جسم اس طرح ہے.اس کو بات کرنے کا پورا سلیقہ نہیں آتا، اس میں تو پوری حیا نہیں ہے، اس کا لباس ایسا ہے اور وہ مجھتی ہیں کہ ہم جو یہ باتیں بہت چسکے لے لے کر بیان کر رہی ہیں.ہمارا بھائی بھی سن رہا ہے وہ بھی مزے لے رہا ہوگا ، ہمارے ماں باپ بھی خوش ہورہے ہوں گے کہ اس کو ایسی ایسی باتیں سنائی ہیں اور یہ نہیں سوچ رہیں کہ اس کے لئے ایک جہنم پیدا کر دی گئی ہے اور وہ جہنم پھر پھٹے گی، بڑھے گی اور سارے معاشرے کو آگ میں جلا دے گی.چنانچہ ایسے گھر پھر جہنم کا نمونہ بن جایا کرتے ہیں.پھر اس کا بھی منہ پھلتا ہے.وہ پھر آگے سے باتیں کرتی ہے.اپنے ماں باپ کے خلاف ایک بات سنتی ہے.دو دفعہ سنے، چار دفعہ سنے.آخر وہ بھی بول پڑتی ہے اور پھر وہ اپنے خاوند کے ماں باپ کو سنانے لگتی ہے.پھر یہ معاملات بگڑتے بگڑتے ہاتھا پائی پر پہنچتے ہیں توں تکار ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایسے واقعات بھی میرے علم میں آئے ہیں کہ لڑکی کو مارنے کے لئے یا لڑکے کو مارنے کے لئے سارا خاندان اس لڑائی میں شامل ہو گیا.یہ ساری جہالت کی باتیں ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفے اللہ نے حسن معاشرت کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے اور جو کچھ عمل کر کے دکھایا ہے وہ تو ایک لامتناہی سمندر ہے جس میں فیوض موجزن ہیں، جس میں حکمتیں موجزن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 298 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء ہیں لیکن ان میں سے ایک بات میں اس سلسلہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضرت ہو نے ایک دفعہ فرمایا کہ دیکھو اپنے ماں باپ کو گالیاں نہ دیا کرو.بہت ہی گندی ، بہت ہی مکر وہ بات ہے کہ تم اپنے ماں باپ کو گالیاں دو.صحابہ میں سے کسی نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اپنے ماں باپ کو کون گالیاں دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم اپنے رشتوں کے بعد ایک دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہو تو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے رہے ہو.( بخاری کتاب الادب حدیث نمبر :۵۵۱۶) الله اس میں دو باتیں خصوصیت سے آنحضور ﷺ کے پیش نظر معلوم ہوتی ہیں.اول یہ کہ جب گالیاں دیتے ہو تو پھر دوسرا بھی غصہ میں گالیاں دے گا اور جو گالیاں دے گا اس کا گناہ اس کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اس نے بدلے میں قرآن کے دیئے ہوئے حق کے مطابق ایسا کیا ہے.آخری نتیجہ صرف یہی رہ جاتا ہے کہ اس کی گالیاں تو تمہیں پہنچ جائیں گی اور تمہاری گالیاں اس کو نہیں پہنچیں گی بلکہ اپنے ماں باپ کو ہی پہنچ رہی ہوں گی.پس حکمت کا کیسا ایک عظیم الشان سر چشمہ جاری فرما دیا اور اس کی بنیاد اس آیت کریمہ میں ہے جس میں فرمایا گیا وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: ۱۰۹) دیکھو! دوسروں کے جھوٹے معبودوں کو بھی گالیاں نہ دیا کرو فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ وہ دشمنی اور جہالت میں پھر خدا کو گالیاں دینے لگیں گے.تمہاری گالیاں جھوٹے معبودوں کو تو پہنچ ہی نہیں سکتیں.ان کا تو وجود ہی کوئی نہیں.ایک خالی ہوا کو گالیاں دے رہے ہو اور اس کے نتیجہ میں اس خدا کو گالیاں دلوا رہے ہو جو ساری کائنات میں نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ( النور :۳۶) بن کر ہر جگہ موجود ہے.کیسا جاہلانہ سودا ہے، کتنی بے وقوفی کی بات ہے.پس اسی مضمون کو عائلی تعلقات کی مناسبت سے بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے یہ پاک نصیحت فرمائی کہ ایک دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں نہ دیا کرو.جو دے گا وہ اُن سب گالیوں کا ذمہ دار ہو گا جو اس کے ماں باپ کو پڑیں گی اور آخری نتیجہ یہ نکلے گا کہ گالیاں دینے والے کے ماں باپ کو صرف گالیاں پڑ رہی ہوں گی دوسرے کو پہنچیں گی ہی نہیں کیونکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا کے نزدیک اس کو گالیاں نہیں مل سکتیں.خدا کے نزدیک ناجائز بات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.پس اللہ کی تقدیر کے سامنے در حقیقت صرف اسی کے ماں باپ کو گالیاں مل رہی ہیں جو پہل کر رہا ہے، جو بد تمیزی میں آگے بڑھ چکا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 299 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء مضمون آسمان سے کسی کی گالیوں کا جواب ملنے کا جو مضمون ہے.یہ بھی اس کے اندر بیان ہو گیا.اپنے ماں باپ کو گالیاں نہ دو، میں ایک تو یہ معنی ہے کہ تمہارے ماں باپ کو دوسرے غصے سے گالیاں دیں گے.دوسرا یہ کہ اگر دوسرا خاموش رہا تو آسمان بھی تمہارے ماں باپ کو گالیاں دے گا.یہ بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے بیان فرمایا.ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی مجلس میں موجود تھے.ایک شخص آیا جس نے حضرت ابوبکر کے خلاف زیادتی شروع کر دی اور بہت ہی بدتمیزی سے کلام کیا یہاں تک کہ آخر حضرت ابو بکر" کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو آپ نے اس کو جواباً کچھ سخت باتیں کہیں.اسی وقت رسول اللہ یہ اس جگہ سے ناراضگی کے اظہار کے طور پر اٹھ کھڑے ہوئے.حضرت ابو بکر پیچھے دوڑے کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا ہے کہ جب تک وہ مجھے گالیاں دیتا رہا.آپ خاموش بیٹھے رہے اور جب میں نے جوابی کارروائی کی ہے تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کر چلے گئے ہیں.آپ نے فرمایا.ابوبکر جب تک تم خاموش بیٹھے ہوئے تھے آسمان سے فرشتے تمہاری گالیوں کا جواب دے رہے تھے.جب تم نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تو وہ فرشتے وہاں سے رخصت ہو گئے اور میں بھی اٹھ کھڑا ہوا.(ابو داؤد کتاب الادب باب فی الانتصار ) حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے چھوٹی چھوٹی باتوں میں فیوض کے اور عرفان کے دریا بہارکھے ہیں.ان چشموں سے کوئی فائدہ اٹھائے.کوئی اپنے بدن اور روح کو پاک کرنے کی کوشش کرے تو وہ ہو گا.میں تو بہت نصیحت کر چکا ہوں لیکن افسوس کہ بیہودہ جہالت میں پیدا ہونے والی مائیں آئندہ اپنی جہالت کو اپنی اولاد در اولاد میں منتقل کرتی چلی جارہی ہیں.ذرا ہوش نہیں کر رہیں کہ ان کی اپنی زندگی، ان کے بچوں کی زندگی ، آئندہ آنے والی نسلوں کی زندگی کو وہ اپنے وجود کی تلخیوں سے ہمیشہ کے لئے زہریلا کردیتی ہیں اور معاشرہ بگڑتا ہے تو اردگر دسارا ماحول بگڑتا ہے.قوموں کے مزاج بگڑ جاتے ہیں اور یہی خاندانی بد تمیزیاں ہیں جو قو می بدتمیزیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.پس اس بات کو اہمیت دیں اور اپنے معاشرے کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی عائلی زندگی کے مطابق بنائیں تو گھر مودت اور رحمت سے بھر جائے گا.قرآن کریم نے جو بات بیان فرمائی اسی پر ہر بات کی تان ٹوٹتی ہے کہ رشتے صرف اس غرض سے پیدا نہیں کئے گئے تھے کہ تَنتَشِرُونَ تا کہ تم پھیل جاؤ، وہ تو تم پھیل رہے ہو.وہ مقصد تو پورا ہو گیا لیکن یاد رکھو اور بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 300 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء مقاصد ہیں اور وہ مقاصد یہ ہیں کہ مرد اور عورت اور خاندانوں میں حسن معاشرت قائم کی جائے.محبت اور رحمت کی فضائیں پیدا کی جائیں اور اس دنیا میں ایک جنت پیدا کر دی جائے ، جن لوگوں کو دنیا کی جنت نصیب ہو جاتی ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں جس جنت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جن لوگوں کو وہ جنت اس دنیا میں نصیب ہو جاتی ہے ان کی اخروی جنت بھی یقینی ہے.کوئی اس جنت کو اُن سے چھین نہیں سکتا.جن کو اس دنیا کی جنت نصیب نہ ہو ان کو وہم ہے کہ ہم اگلی دنیا کی جنت میں جائیں گے.آخر پر قرآن کریم کی پیش کردہ ایک اور مثال کو جو موازنہ کے طور پر پیش فرمائی گئی ہے آپ کے سامنے رکھ کر میں اس مضمون کو ختم کروں گا.قرآن کریم نے دو ماؤں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں.ایک وہ ماں جس کی کوکھ سے فرعون پیدا ہوا تھا اور ایک وہ ماں جس کی کوکھ سے موسیٰ پیدا ہوا تھا.جس ماں نے فرعون کو جنم دیا اس نے آنے والی ایک ایسی معصوم عورت کو بھی دنیاوی لحاظ سے عذاب میں مبتلا کر دیا جو پاکباز تھی.جو خدا کے فرمودات پر اور اس کے بھیجے ہوؤں پر ایمان لانے والی تھی.معصوم تھی ، نیک تھی.مگر ساری زندگی فرعون کے ظلموں کے نیچے چکی میں پیسی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سے ہمدردی فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے وہ دعا سکھائی جس کے نتیجہ میں وہ فرعون کے ظلم اور عذاب سے نجات پانے کے لئے اور جنت میں اپنے لئے الگ گھر طلب کرنے کے لئے تمنا کرتی تھی اور دوسری طرف موسیٰ کی وہ ماں تھی جس نے اسی زمانہ میں اس موسیٰ کو جنم دیا جس کے حسن خلق سے متاثر ہو کر مدین کے ایک گھاٹ پر لڑکی نے خود ایک تمنا کی کہ کاش اس سے میری شادی ہو جاتی لیکن شرمیلی طبیعت اور حیاء کے نتیجہ میں وہ یہ کہہ نہ سکی.اپنے باپ کو اس نے صرف اتنا بتایا کہ اس طرح ایک واقعہ گزرا ہے کیوں نہ ایسے شخص کو ملازم رکھ لیا جائے.ان کے والد بہت ذہین تھے وہ فوراً سمجھ گئے اور انہوں نے کہا ہاں ملازم تو رکھیں گے لیکن اس شرط پر کہ تم میں سے کسی ایک سے شادی ہو جائے اور وہ شادی ہوئی اور وہ حسن خلق اسی طرح جاری رہا.چنانچہ قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے کہ اتنا آرام کا خیال تھا کہ چلتے چلتے دور پہاڑی کی چوٹی پر ایک آگ دکھائی دی تو اپنی اہلیہ سے یہ کہا کہ کیوں نہ میں اس آگ کی تلاش میں جاؤں تا کہ تمہیں آرام نصیب ہو اور ہم مل کر بیٹھ کر وہ آگ سینکیں.قرآن کریم چونکہ بہت ہی عظیم اور بہت ہی وسیع مضامین کو بیان فرماتا ہے اس لئے جگہ کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 301 خطبه جمعه ۶ اراپریل ۱۹۹۳ء دقت کے پیش نظر چھوٹے چھوٹے اشارے رکھے جاتے ہیں ورنہ تو یہ کتاب ارب ہا ارب صفحوں پر پھیل جاتی.پس قرآن کریم نے جو حسن معاشرہ پیش فرمایا ہے اس کو اختیار کرو.سب گھر جنت بن جائیں گے.اگر احمدی گھر جنت بن جائیں تو پھر ہم دنیا کو احمدی معاشرہ، ایک نورانی معاشرہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں.محمد رسول اللہ اللہ کے حسن خلق کے طور پر، آپ کے نور کے طور پر ہم یہ معاشرہ الله مشرق کو بھی پیش کر سکتے ہیں اور مغرب کو بھی پیش کر سکتے ہیں کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نور دونوں طرف سانجھا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(امین) اب خطبہ ثانیہ کے بعد میں نماز جمعہ پڑھاؤں گا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وقت کی کمی کی وجہ سے چونکہ دقت ہے اس لئے عصر کی نماز بھی ساتھ پڑھی جائے گی.احباب کرام جود نیا میں دیکھ رہے ہیں وہ خاموشی سے بیٹھ کر انتظار فرمائیں، دعائیں کریں، ذکر الہی کریں، درود بھیجیں، نمازوں کے بعد پھر انشاء اللہ نکاح کی مختصر کارروائی ہوگی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
302 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 303 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء صلوۃ الوسطی کی حفاظت کریں تو یہ آپ کی حفاظت کرے گی وہ نصیحت جس کے ساتھ عمل اور غم کی طاقت ہو وہ ضرور فائدہ دیتی ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲۳ را پریل ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.حفِظُوا عَلَى الصَّلَوتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَنِتِينَ (البقره: ۲۳۹) آج جمعہ پہ آنے سے کچھ عرصہ پہلے مجھے مکرم عزیزم حافظ مظفر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے فیکس ملی ہے کہ آج اُن کی سالانہ تربیتی کلاس کا افتتاح ہورہا ہے اور چونکہ قبل ازیں خلیفہ وقت ہمیشہ اس کلاس کا افتتاح خود کیا کرتے تھے اس لئے اب مواصلاتی سیارے کے ذریعے جو خدا کے فضل سے رابطہ قائم ہوا ہے آپ اس اہم موقع پر ہماری کلاس کا افتتاح کر دیں.غالباً اُن کی مراد یہ ہے کہ افتتاح تو ہو چکا ہوگا لیکن افتتاحی تقریب میں جو چند دعائیہ کلمات کہے جاتے ہیں یا نصیحتیں کی جاتی ہیں، ان کے ساتھ شامل ہو کر اپنا فرض ادا کر سکوں.اسی سلسلے میں میں نے آج اس آیت کا انتخاب کیا ہے.حُفِظُوْا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلهِ قنِتِينَ اس کا مطلب ہے اپنی نمازوں کی حفاظت كرو وَ الصَّلوةِ الْوُسطی اور خبردار جو مرکزی اہمیت کی نماز ہے اُسے نہ بھولنا وَ قُومُوا لِلَّهِ قتين اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے عبادت کے لئے کھڑے ہو جایا کرو، فرمانبرداری کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 304 خطبه جمعه ۱/۲۳اپریل ۱۹۹۳ء عبادت کے لئے کھڑے ہو جاؤ.یہاں حفظوا کا لفظ محض عام حفاظت نہیں بلکہ جس باب میں اس کو استعمال کیا گیا ہے اُس سے اس میں اور بھی بہت سے معنی پیدا ہو گئے ہیں.حفظ یحفظ عام عربی میں استعمال ہونے والا لفظ ہے.واحفظوا کہا جائے تو مطلب ہے کہ حفاظت کرو لیکن حفظوا جب کہا جائے تو کچھ اور معنی پیدا ہو جاتے ہیں.ویسے بھی لفظ حفاظت میں حفاظت ہی کے معنی نہیں بلکہ عربی استعمال کے رو سے ثابت ہے کہ حفاظت سے مراد دوام بھی ہے،مستقل مزاجی سے کسی چیز پر قائم ہو جانا بھی ہے یعنی اس Institution کی حفاظت کرو اور اس کو ہر قسم کے خطرات سے بچاتے رہو.مستقل نگرانی کا کام بھی حفاظت کے لفظ میں داخل ہے.حفظوا کا مطلب ہے ایک پارٹی ہی نہیں بلکہ اس کے مقابل پر ایک اور پارٹی بھی ہے.ایک طرف سے ایک شخص یا ایک گروہ ایک کام کرتا ہے.مد مقابل بھی اُسی طرح کا کام اس کے سامنے کرتا ہے.پس جب کسی کو قتل کرنا بتا نا ہو تو قتل کے لفظ سے بتایا جاتا ہے.اس نے قتل کر دیا.مگر جب لڑائی کا مضمون بتانا ہو تو قاتل کہتے ہیں.اُس نے فلاں شخص سے قتال کیا ہے یعنی اس میں ایک مد مقابل کا پایا جانا ضروری ہے.پس حفظوا سے کیا مراد ہے؟ حضرت مسیح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون پر بہت پاکیزہ روشنی ڈالی.جب آپ نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ اگر تم نماز کی حفاظت کرو گے تو نماز اُس کے مقابل پر تمہاری حفاظت کرے گی.پس یہاں مد مقابل خود نماز ہے اور اس مضمون پر روشنی پڑتی ہے ایک اور آیت سے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: ۴۲) پس اگر تم نماز سے کوئی مدد چاہتے ہو تو نماز کی حفاظت کرو.یہ بہت ہی پیارا اور گہرا اور وسیع مضمون ہے.نماز کی صفات قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں وہ تمام صفات تمہاری تائید میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور تمہاری حفاظت کریں گی اور تمہیں گھیر لیں گی اور دائماً تمہارے ساتھ رہیں گی کیونکہ وہ بے وفائی نہیں کریں گی اور تمہاری نگرانی رکھیں گی.یہ سارے مضامین اس وقت حفظوا میں شامل ہو گئے ہیں.پس تربیتی کلاس کی بات ہورہی ہے.میرے نزدیک ہر تربیتی موقع پر سب سے اہم نصیحت نماز کی حفاظت کی نصیحت ہے اور جیسا کہ فرمایا گیا حفظوا اس سے حفاظت میں مقابلہ کرو.تم اس کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 305 خطبه جمعه ۲۳ /اپریل ۱۹۹۳ء حفاظت کرو یہ تمہاری حفاظت کرتی رہے اور اس طرح ایک دوسرے سے طاقت پکڑو.پس حفاظت کا سارا مضمون محض نماز کی حفاظت تک محدود نہیں بلکہ انسان کی ضرورت کی جتنی حفاظت کی چیزیں ہیں وہ ساری اس میں داخل ہو جاتی ہیں.آپ نماز کی حفاظت کریں گے تو نماز آپ کی حفاظت کرے گی اور یہ حفاظت کا لفظ نماز کے تعلق میں عام ہے.نہ صرف ہر بدی سے حفاظت کرے گی بلکہ ہر خطرے کے موقع سے حفاظت کرے گی.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے فرمایا کہ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ (البقرہ: ۴۶ ) اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہو تو صبر کے ساتھ اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو.خالی صبر کافی نہیں ہے.صلوۃ صبر کو طاقت بخشتی ہے اور صلوٰۃ حفاظت کے وہ سارے تقاضے پورے کرتی ہے جو اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں.پس بہت ہی گہرا اور وسیع مضمون ہو جاتا ہے ب حفظوا کے باب پر غور کرتے ہوئے آپ حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ کے مضمون پر غور کرتے ہیں.پس دنیا میں ہر انسان کو ہر قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں، مشکلات پڑتی ہیں، مصیبتیں نازل ہوتی ہیں، آپس میں خاندانوں میں جھگڑے پڑ جاتے ہیں، بھائی بھائی کے، بہن بھائی کے، عزیزوں کے ساتھ ہر ایسے معاملے میں جہاں انسان کو کسی قسم کی حفاظت کی ضرورت ہے اگر وہ نماز پر قائم ہو جاتا ہے اور حفظوا کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے نماز کی حفاظت پر مستعد رہتا ہے، ہمیشہ کوشاں رہتا ہے کہ اس کی حفاظت کرے تو اس کے لئے بڑی خوشخبری ہے ہر مشکل کے وقت نماز اُس کی حفاظت کے لئے کھڑی ہو جائے گی.وہ خدا تعالیٰ سے خود منتجی ہوگی کہ اس تیرے عاجز بندے نے تیری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے میری حفاظت کی تھی.اب یہ حفاظت کا محتاج ہوا جاتا ہے.تو اس پر رحم فرما اور اپنا وعدہ پورا کر اور مجھ سے وفا کے نتیجے میں تو اس کے ساتھ رحم اور شفقت کا سلوک فرما.پس نماز کے ساتھ جو تعلق ہے خود اپنی ساری زندگی کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے.اس کا اگلا حصہ ہے وَالصَّلوةِ الْوُسطی اور خبر دار مرکزی حیثیت کی نماز سے غافل نہ ہونا.مرکزی حیثیت کی نماز سے مختلف مفسرین نے مختلف معنی سمجھے ہیں.بعض کہتے ہیں صبح کی نماز کو پہلی نماز شمار کیا جائے اور عشاء کو آخری ، تو عصر کی نماز مرکزی نماز بنتی ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہاں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 306 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء مرکزی نماز اہمیت کے اعتبار سے ہے اور اہمیت کے اعتبار سے بعض کے نزدیک تہجد کی نماز سب سے زیادہ اہم ہے یا بعض کہتے ہیں کہ صبح کی نماز سب سے زیادہ اہم ہے.بعض دوسرے مفسرین نے جو میں سمجھتا ہوں کہ اُن کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ بہتر اور وسیع معنی سمجھائے ہیں.یہ معنی لیا ہے کہ مرکزی نماز کا فیصلہ ہر شخص کے حالات اور موقع محل کے مطابق ہوگا.وہ نماز جو کسی کی زندگی میں سب سے زیادہ دوبھر ہو اس کی حفاظت کرنا مرکزی نماز کی حفاظت کرنا ہے.وہ نماز جو کاموں اور مشاغل کی حالت میں آئے اور انسان کو خطرہ ہو کہ اُن مشاغل کے بہانے نماز سے غافل ہو جائے گا.وہ الصلوۃ الْوُسْطی بن جایا کرتی ہے.ہر شخص کے اپنے حالات ہیں اُن کے پیش نظر الصَّلوةِ الوسطى اپنی شکل بدلتی رہتی ہے لیکن ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی الصلوةِ الْوُسْطی موجود ہے.اب مغربی معاشرے میں عموماً وقت کی کمی کا بہانہ کر کے ظہر کے ساتھ عصر کو جمع کر لیا جاتا ہے،مغرب کے ساتھ عشاء کو جمع کر لیا جاتا ہے.یہاں یہ دونوں نمازیں الگ الگ پڑھنا الصَّلوةِ الْوُسْطی کے مضمون میں داخل ہو جاتا ہے اور جس نماز کو ٹالا گیا ہے ، اپنے وقت سے ہٹایا گیا ہے وہ الصلوۃ الْوُسْطی ہے.اس کی حفاظت نہیں کی گئی ، اُسے اپنے وقت پر ادا کرنے کی بجائے اُسے بھینچ کر دوسرے وقت میں داخل کیا گیا ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اجازت فرمائی ہے اور شریعت نے بہت سہولت کے ساتھ کھلی اجازتیں دی ہیں.اُن اجازتوں سے استفادہ کرنا تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر خدا سے اجازت لے کر اُس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ، انسان اپنے نفس سے اجازتیں لینا شروع کر دے اور خدا کے مقرر کردہ اوقات میں تبدیلی پیدا کرے اور اُس کے فرائض سے غافل ہو اور ہمیشہ نفس کسی نہ کسی بہانہ سے اجازت دے دے.اُسے اجازت دینا نہیں کہا جاتا.یہ تو ایسی بات ہے جیسے ایک شخص مولوی صاحب تھے اُن کو یہ تو پتا تھا کہ چوری نہیں کیا کرتے لیکن ایک گنوں کے کھیت کے پاس سے گزرتے تھے تو سخت دل للچاتا تھا اور صبح صبح وہ اکیلے اٹھے ہوتے تھے نماز کے لئے تیاری کرنے میں، کوئی دیکھ بھی نہیں رہا ہوتا تھا.اُن کو خیال آیا کہ اجازت کے ساتھ تو جائز ہے نا تو میں اس کھیت سے اجازت لے کر گنے توڑوں گا.چنانچہ انہوں نے کھیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے بی بی کمادی تینوں پیچھے ملاں قاضی.گنے دو لواں کہ چار.تو کھیت کی طرف سے خود اجازت دیتا تھا.بھن لے پنج سات کہ پانچ سات تو ڑلے کوئی فرق نہیں پڑتا.کئی دن تو اُس کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 307 خطبه جمعه ۲۳ ر ا پریل ۱۹۹۳ء اجازت چلتی رہی اسی طرح.جب زمیندار نے دیکھا کہ ایک کونے سے گنے ختم ہورہے ہیں تو گھات میں بیٹھ گیا.سردیوں کا زمانہ تھا.گنے عموماً تیار ہوتے ہیں دسمبر یا جنوری فروری میں اُس نے مولوی صاحب کو اُسی حال میں پکڑ لیا.ٹھنڈے پانی کی نہر ساتھ بہہ رہی تھی.مولوی صاحب کو پکڑ کے وہاں لے گیا.اُس نے نہر سے پوچھا، نہر کو مخاطب کر کے، مجھے شعر تو اُس کا یاد نہیں کیا بنایا تھا ؟ لیکن مضمون یہی تھا کہ اوہ ٹھنڈے پانی کی نہر میں عاجز غلام تجھ سے اجازت چاہتا ہوں.مولوی صاحب کو دو غوطے دوں کہ چار تو نہر کہتی تھی کہ پانچ سات دے دو کوئی فرق نہیں پڑتا.تو اللہ تعالیٰ سے تو وہ کام نہ کریں جو ہمیشہ جاگتا ہے.ملاں نے تو اتفاق سے پکڑا تھا.غلط اجازت کی اطلاع ملاں کو محض اتفاق ہوئی ہے مگر آپ جو ہمیشہ اپنے نفس سے غلط اجازتیں لیتے ہیں.جب نفس مجاز ہی نہیں ہے تو خدا تو ہر آن دیکھ رہا ہے اور خصوصاً نماز کے معاملے میں بے پرواہی کرنا جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.كِتبًا مَّوْقُوتًا ( النساء:۱۰۴) ایک مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے.ایک بہت بڑی غفلت ہے اور اس کا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ نے الصَّلوةِ الْوُسطی کی حفاظت نہ کی تو جب آپ کو مشکل پیش آئے گی، آپ کو مصیبتیں گھیریں گی اور آپ کے لئے مددطلب کرنے کے لئے ایک وسطی وقت پیدا ہو جائے گا.ایک اہم وقت آئے گا کہ جب آپ کو مدد کی ضرورت ہوگی اُس وقت آپ مرکزی نماز کی حفاظت سے عاری ہوں گے یعنی مرکزی نماز کی حفاظت نہ کرنے کے نتیجہ میں اللہ کی تقدیر آپ سے ہاتھ اٹھا لے گی کہ اس کو تو ہم نے سمجھا دیا تھا کہ تم مصیبت کے وقت میں بچنے کے لئے یہ کام کرنا اور اگر فائدہ نہیں اٹھایا.تو انسان خود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اپنے آپ کو محروم کر دیتا ہے.اگر واضح نصائح کو سن کر سمجھ کر پھر ان سے غفلت برتتا ہے.تو نماز کے متعلق جتنا بھی زور دیا جائے وہ کم ہے.میں تو سمجھتا ہوں کہ اتنی مرکزی نصیحت ہے کہ اگر ہر خطبے میں بھی نماز پر کچھ کہا جائے تو ہرگز یہ بے وجہ تکرار نہ ہو گی.اس میں ہماری زندگی ، ہماری جان ہے.عبادت ہی میں تمام انسانی صلاحیتوں کا نچوڑ ہے.تمام انسانی صلاحیتیں عبادت میں اکٹھی ہو کر ایک نقطے پر مرکوز ہوتی ہیں اور اُس سے نئی جلا پاتی ہیں اور یہ جو میں بات کر رہا ہوں بڑی لمبی تفصیل چاہتی ہے مگر میں مختصر آپ کو سمجھا رہا ہوں.میں نے ساری زندگی کے تجربے سے دیکھا ہے کہ جب تک نماز میں توجہ کے وقت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 308 خطبه جمعه ۱/۲۳اپریل ۱۹۹۳ء انسانی صلاحیتیں بار بار اُس توجہ میں پیش ہو کر اپنے نقائص سے آگاہ نہ ہوتی رہیں اور اُن نقائص کو دور کرنے میں نماز سے مددنہ ملتی رہے تو ساری زندگی انسان کی غفلت میں کٹ جائے گی اور اُس کی کبھی اصلاح نہیں ہوسکتی.نماز اس طرح اصلاح کرتی ہے کہ جب آپ توجہ سے نماز پڑھتے ہیں تو آپ کا وجود مختلف صورتوں میں آپ کے سامنے پیش ہوتا ہے اور نماز کی دعاؤں میں کبھی کوئی نفس آپ کے سامنے آ رہا ہے اور کبھی دوسر انفس آپ کے سامنے آ رہا ہے.کبھی کوئی ایک غفلت جاگ اُٹھتی ہے اور آپ کو متوجہ کرتی ہے، کبھی دوسری غفلت کی آنکھ کھل جاتی ہے.تو نماز آپ کو بیدار کرتی اور جگاتی ہے اس طرح حفاظت کرتی ہے.ایک حفاظت کا تعلق بیدار کرنے سے ہے اور حفاظت کا جو لفظ ہے یہ اتنے وسیع معنی میں یہاں چسپاں ہوتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اب آپ نے بار ہا سنا ہوگا پہرے کے پھیرے ڈالنے والوں کو جاگتے رہو، جاگتے رہو حالانکہ اُس نے خود جا گنا ہے لیکن وہ آواز دیتا ہے سب کو کہ جاگتے رہو.مراد یہ ہے کہ غافل نہ ہونا.یہ مراد تو نہیں ہے کہ میری جگہ تم اٹھو اور پہرے کے پھیرے لگاؤ.مراد یہ ہے کہ پہرہ اپنی جگہ لیکن جب تک ایک انسان خود بیدار مغز نہ ہو، ہوشیاری کے ساتھ اپنے اموال کی حفاظت کرنا نہ جانتا ہو بیرونی پہرے اُس کی حفاظت نہیں کر سکتے.تو نماز ہے جو اندر سے آپ کو جگاتی ہے اور بیدار کرتی ہے اور واقعہ ایسا کرتی ہے.وہ شخص جو کوشش کر کے نماز کو زندہ کرتا ہے یا زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے وہ جانتا ہے کہ بڑا مشکل کام ہے لیکن یہ کوشش رائیگاں کبھی نہیں جاتی.ضرور فائدہ بخش دیتی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب لکھا نماز کی لذتوں کا ذکر فرمایا یا حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے حالات پڑھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ایسی لذت تھی کہ دنیا جہان سے کلیۂ کھو جاتے تھے.ہمیں تو ایسا مزا نہیں آتا، ہمیں کیا فائدہ ایسی نماز پڑھنے کا.وہ نمازیں جو مزا دیتی تھیں کمائی جاتی ہیں، پہلے دن نہیں بن جایا کرتیں.وہ زمیندار جو کھیت میں محنت کرتا ہے اور فصل کی حفاظت کرتے ہوئے ، پروان چڑھاتا ہے.اُس میں جب پھل لگ بھی جاتا ہے تب بھی مزے کے قابل نہیں ہوا ہوتا.اپنی نمازوں کو پھل دار بنانا ہی مقصود نہیں ایسے وقت تک پھل دار بناتے جانا ہے جب پھل میں مٹھاس پیدا ہو جائے ، جب اُس میں لذت پیدا ہو جائے ، جب اُس میں رزق کی توانائی آجائے ، وہ توانائی دے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 309 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء سکتا ہو، ایسا رزق جو توانائی دے سکتا ہواُسے اُس مقام تک پہنچانے میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور کچھ نہ کچھ بیچ میں اس کا مزا اللہ تعالیٰ جسکے کے طور پر دلاتا بھی رہتا ہے.پس نماز کی حفاظت ان معنی میں کریں جن معنوں میں قرآن کریم کی آیت ہم سے تقاضا کرتی ہے.مختلف حالات میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.الصَّلوةِ الْوُسطی کے معنی بدل جاتے ہیں.چنانچہ میں نے دیکھا کہ احمدی معاشرے میں وہ معاشرے کا حصہ جو امیر ہے ، دولت مند ہے، سہولت رکھتا ہے اُن میں بہت سے مخلص بھی ہیں ، نمازیں پوری پڑھتے ہیں اور چندوں میں نماز کی قربانیوں میں بھی آگے ، اطاعت کا رنگ بھی رکھتے ہیں.لیکن اُن کو یہ وہم ہے کہ صبح کی نماز سے وہ متقی ہیں یعنی وقت پر نماز پڑھنے سے مستفی ہیں اور بعض خاندانوں میں مسلسل یہ رواج چلے آرہے ہیں.ساری رات بیٹھ کے گئیں ماریں گے، مجلسیں لگائیں گے، شادی ہوگی تو بیاہ شادی کے گانے گائے جائیں گے، ڈھولکیاں بجیں گی اور پھر سوتے ہیں اب تو نہیں یہ ہمارا فرض کہ ہم اٹھیں اور اب جس وقت آنکھ کھلے گی اُس وقت ہی نماز پڑھیں گے.یہ بالکل نفس سے جھوٹا بہانہ کر کے اجازت حاصل کرنے والی بات ہے اور نفس کو تو اختیار ہی کوئی نہیں کہ اجازت دے.اگر جاگنا ہے تو اتنا جاگو کہ پھر اُسی جاگنے کی حالت میں تہجد کی نماز پڑھو اور صبح کی نماز وقت پر پڑھو اور پھر سوؤ اور اگر نماز پڑھنی ہے اور ساری رات جاگ نہیں سکتے تو پھر وقت پر سوؤ.آنحضرت ﷺ تبھی عشاء کی نماز کے بعد عام طور پر مجالس لگانے کی عادت کو پسند نہیں فرماتے تھے.یہی پسند کرتے تھے کہ عشاء کی نماز کے بعد جب انسان نوافل وغیرہ کے بعد فارغ ہو جاتا ہے تو پھر علیحدگی اختیار کرے اور عبادت کرے یا سو جائے لیکن مجالس میں نہ بیٹھے لیکن یہ جو مجالس کا چسکا ہے.جماعت احمدیہ میں خصوصیت سے ایک خاص رنگ پکڑ چکا ہے اور اس کے اندر صرف برائی نہیں خوبی بھی ہے.بات یہ ہے کہ آج کل معاشرہ اتنا گندہ ہو رہا ہے تیزی کے ساتھ کہ رات کو کھانے کے بعد بد ارادوں سے عیش و عشرت کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں.کہیں وہ سینما جار ہے ہیں ، کہیں شراب خانوں میں جا رہے ہیں، کہیں اور لذت کی تلاش میں مختلف ناپسندیدہ محافل میں شریک ہو جاتے ہیں.احمدیوں کے لئے جو ذہنی لذت اور عیاشی کا سامان ہے وہ بس یہی ہے کہ کھانے کے بعد کسی کے گھر مجلس لگ جائے ، آپس میں بیٹھے باتیں کریں جو زیادہ نیک مجالس ہیں،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 310 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء اُن میں بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا بھی ذکر چلتا ہے لیکن انہی مجالس میں کچھ چغلیاں بھی ہوتی ہیں، احتیاط سے نظر ڈالی جاتی ہے کون ہے اور کون نہیں ، جو ہے وہ کسی ایسے رشتے دار کا تو نہیں کہ جس کے خلاف باتیں کرنی ہیں.پھر پوری تسلی کے بعد پھر وہ دل کھول کر چغلیوں کے مزے لوٹے جاتے ہیں تو اُن کا یہ سویٹ ڈش بن جاتا ہے کہ رات کو بیٹھے مجلس لگائی.اب مجلس مجلس میں بھی فرق ہے.وہ مجلس جس میں ذکر الہی ہو یا اور ایمان افروز باتیں ہوں یا محبت بڑھانے کے تذکرے ہوں یا معاشرے کی خرابیوں کو ایسے رنگ میں دور کرنے کی باتیں ہوں جن میں تکبر نخوت، بیہودہ تنقید نہ ہو بلکہ سچے دل کا جذبہ شامل ہو تو یہ مجلس نا پسندیدہ مجلس نہیں ہے.یہ تو وہ مجمع ہے جس کا استثنیٰ قرآن کریم میں فرمایا ہے.ہاں رات کی ایسی مجالس جن میں تم نیکی کی مشورے کرتے ہو اور ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہو وہ اچھی چیزیں ہیں وہ خدا کی ناپسندیدگی سے مستثنیٰ ہیں.تو ہر چیز کی اپنی ایک حالت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ چیز اچھی ہے یا بُری محض ایک چیز کو اچھابُرا کہنا ایک قسم کی زیادتی اور جبر ہوگا.ٹیلی ویژن ہے دیکھ لیں اُس سے استفادے بھی ہوتے ہیں اور اُس سے بُرائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں.اب جب یہ ٹیلی ویژن کے ذریعے ساری دنیا میں خدا کے فضل سے خطبات پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے.پاکستان سے بعض لوگوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم بہت پریشان ہو گئے ہیں.جگہ جگہ انٹینا لگ رہا ہے.اب اس انٹینا کے ذریعہ باہر کی گندی فلمیں بھی دیکھی جائیں گی اور فلاں بھی ہو گا اور فلاں بھی ہو گا.استعمال تو اپنے اختیار میں ہے.اُسے تو روکا نہیں جا سکتا.مگر وہ صاحب کبھی یہ بات بھی کر سکتے ہیں کہ آنکھیں نکال دیں کہ کہیں میری بُری چیزوں پر میری نظر نہ پڑ جائے یا کانوں پر مہر لگالیں کہ بد باتیں نہ سن سکوں یا زبان کٹوا بیٹھیں کہ میں گندی باتیں نہ کروں کہیں، کسی کو گالیاں نہ دے بیٹھوں.وہ جو چین کا فرضی فلسفہ ہے اُس میں ایک تصویر بندے کی دکھائی جاتی ہے جس کی زبان بھی نہیں ہے ، آنکھوں پہ دونوں ہاتھ پڑے ہوئے ہیں اور کانوں میں انگلیاں ہیں.یہ بات بتانے کے لئے کہ تین ذرائع ہیں اگر ان سے تم بچ جاؤ تو بدی انہی رستوں سے داخل ہوتی ہے، انہی ذریعوں سے تم تک پہنچتی ہے.یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ان چیزوں کو بند کر کے بیٹھ جائیں اس لئے خدا تعالیٰ نے جب شعور عطا فرمایا ہے اور حواس خمسہ بخشے ہیں کہ ان کا صحیح استعمال ہو تو ان حواس خمسہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 311 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء کی مدد کے لئے جو دنیا میں چیزیں ایجاد ہوئی ہیں اُن سے میں کیسے روک سکتا ہوں.بڑی جہالت کی بات ہے کہ کہیں کوئی انٹینا سے کوئی بُری گندی باتیں نہ دیکھ لے اس لئے ڈش انٹینا بند کر دیا جائے تا کہ اچھی باتیں بھی کوئی نہ سن سکے اور وہیں آخرتان ٹوٹے گی کہ پھر آنکھیں بھی بند کر والو، کان بھی سلوالو، زبان بھی کاٹ لو کیونکہ ان تینوں ذرائع سے بدی تم تک پہنچ سکتی ہے.اپنی حفاظت کرو.حفِظُوا عَلَى الصَّلوات میں جو پیغام ہے.اگر نماز کی حفاظت کرو گے تو ان سب امور میں تمہاری حفاظت کرے گی.اب صبح کی نماز کا میں ذکر کر رہا تھا اگر ایسا معاشرہ جہاں عادت ہے صبح کی نماز کھا جانے کی وہ اگر حفاظت کا مضمون سمجھ کر نماز کی تیاری ذہنی طور پر کریں گے اور پھر منصوبہ بنائیں گے تاکہ پھر کسی طرح صبح کی نماز ضائع نہ ہو.اُن کو مجلس میں بیٹھ کر ایک فکر لاحق رہے گی.گھبراہٹ ہوگی کہ زیادہ دیر ہو گئی ہے کہیں میری آنکھ ہی نہ کھلے.پھر وہ کئی دوسرے ذرائع اختیار کریں گے کہ جس سے اُن کو اٹھنے میں مددل جائے.بعض لوگ کسی دوست کو کہہ دیتے ہیں کہ فون کر دینا.الا رم مضبوط لگا دیتے ہیں اور نماز کا اگر خیال رہے تو مجلس میں لگی وہ بے چینی ان کے لئے ثواب کا موجب بنے گی.ایک نیکی کا خیال اُن کو پشیمان رکھے گا، اُن کی لذت میں ایک چھوٹی سی پھانس پھنسی رہے گی کہ خدا کی خاطر مجھے ایک کام کرنا ہے اور میری یہ مجلس اُس راہ میں اب حائل ہورہی ہے.تو نماز کی حفاظت سب سے بڑی اور اہم نصیحت ہے جو میں آپ کو کر سکتا ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ہو یا تمام دنیا کی مجالس خدام الاحمدیہ ہوں، مجالس انصار اللہ ہوں، لجنہ اماء اللہ ہوں یا جماعت کا نظام ، وہ سارے اس وقت میرے مخاطب ہیں اور اس تربیتی کلاس کو سامنے رکھ کر اس سے استفادہ کرتے ہوئے میں سب کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ زور نمازوں کی حفاظت پر دیں ، سب تنظیمیں اپنے اپنے ہاں نگران ہوں اور بیدار ہوں.حفظوا میں ایک اور پیغام بھی ہے یہ اجتماعی حکم ہے اور حفظوا کا مطلب ہے ایک دوسرے کی بھی حفاظت کر و صرف اپنی نماز کی حفاظت نہ کرو اور اپنی نماز سے حفاظت طلب نہ کرو بلکہ بحیثیت جماعت تم ایک دوسرے کی نماز کے معاملے میں حفاظت کرو.یہ وہ مضمون ہے جس کا ست تعلق تنظیموں کے ساتھ بھی ہے اور انفرادی طور پر بھی ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 312 خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۹۳ء ہمسائے کی ، اپنے اردگرد، اپنے ماحول کی حفاظت کرے.سب سے زیادہ اہم ذمہ داری گھر سے شروع ہوتی ہے.ماں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے.اگر وہ بچوں کو بچپن ہی سے نمازوں کی اہمیت کا احساس نہ دلائیں، اگر بچپن ہی سے اُن کو وہ پیار اور محبت اور سلیقے اور بعض موقع پر ذرا سخت نصیحت کے ذریعے نماز کی اہمیت نہ سمجھا ئیں اور اس کی محبت کو دل میں جاگزیں نہ کریں.تو بڑے ہو کر پھر یہ نسلیں ہاتھ سے نکل جایا کرتی ہیں.بہت ہی اہم بات ہے کہ بچپن میں نماز کی محبت پیدا کی جائے.بعض بچیاں مجھے خط لکھتی ہیں اپنے خاوندوں کے متعلق کہتی ہیں کہ ہر لحاظ سے اچھا ہے لیکن نماز کی عادت نہیں.اگر نماز کی عادت نہیں تو وہ اچھا تو ہے لیکن اچھا لکڑی کا ڈھیر ہے.زندہ درخت نہیں ہے کیونکہ وہ وجود جو ہر لحاظ سے خوبصورت اور اچھا دکھائی دے اگر وہ عبادت نہیں کرتا تو اُس کا زندگی سے تعلق ہی قائم نہیں.عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ تعلق قائم ہو جاتا ہے جو اُس وجود تک پہنچانے میں مددگار ہوتا ہے.جس طرح بچے کا اپنی ماں سے تعلق پیٹ کے اندر جنین کا تعلق ہوتا ہے حمل کے ذریعے اور وہ ایک رسی سی ہوتی ہے آنول جس کے ذریعے ماں کی ہر طاقت پہنچ رہی ہوتی ہے.اُس کو اگر آپ کاٹ دیں تو وہ بچہ مردہ پیدا ہوگا اور سارے وجود کو زہریلا کر دے گا.پس خدا تعالیٰ کے ساتھ اگر عبادت کے ذریعے زندگی حاصل کرنے کا تعلق قائم نہ ہو تو ایسے وجود رفتہ رفتہ مرجاتے ہیں.زیادہ دیر زندہ رہ نہیں سکتے.ان کی ظاہری زندگی کی علامتیں محض ایک میکینکل حرکت ہے اور اُس میں کوئی جان نہیں ہے.اُن کی خوبیاں ، اُن کے اخلاق بھی بے جان سے ہیں اور اردگرد اپنے معاشرے میں بھی ضرور کچھ نہ کچھ بداثرات پیدا کرتے ہیں.پس نماز کی طرف توجہ کرنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے، بے انتہاء اہم ہے.جتنی نصیحتیں میں آئندہ کرنا چاہتا ہوں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میرے ذہن میں ایک پروگرام ہے کہ اب جبکہ پاکستان ہی نہیں، بنگلہ دیش، افریقہ کی مختلف جماعتیں ، امریکہ اور انگلستان پھر آسٹریلیا، نجی و غیره دور دور کے ممالک سے براہ راست رابطہ قائم ہو چکا ہے تو یہ رابطہ جب زیادہ مضبوط ہوگا یعنی اب ہو رہا ہے.کچھ اور ابھی انتظار کرنا ہوگا تو ایک بہت ہی وقت کی اہم ضرورت پوری کرنے کی مجھے سہولت حاصل ہو جائے گی اور وہ یہ ہے کہ براہ راست کسی کو نصیحت کی جائے.خلیفہ وقت کی آواز اگر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 313 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء براہ راست کوئی سنتا ہے تو ضرور اُس کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے.واسطوں اور ذریعوں سے جو آواز اُس کی طرف پہنچتی ہے انسان اُس کو اتنی اہمیت نہیں دیتا.اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اور قرآن کریم میں ان حکمتوں کا مختلف جگہوں پر ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی نصیحت میں جو غیر معمولی طاقت تھی ، اُن اسباب پر غور کریں جن کا قرآن کریم میں بعض دفعہ واضح طور پر ، بعض دفعہ اشارۃ ذکر ملتا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہی چیز درجہ بہ درجہ حضور اکرم ﷺ کی نمائندگی کرنے والے غلاموں پر بھی صادق آتی ہے.پس به خلیفہ وقت ہو یا امیر ہو یا مرکزی عہدیدار اس پر بھی یہی مضمون صادق آتا ہے.جب کوئی مرکزی عہد یدار نصیحت کرتا ہے، اگر وہ نصیحت سننے والا اس کے سامنے بیٹھا ہواس پر اور اثر پڑے گا.اور اگر اُس نصیحت کو سن کر اُس کے کارندے نمائندے بات پہنچا رہے ہیں تو اُس کا اور اثر ہوگا.ان دو باتوں میں غیر معمولی فرق ہے.اقبال نے غالباً یہی مضمون بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ے جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرف مہرمانہ قریب تر نمو جس کی اُسی کا مشتاق ہے زمانہ ( کلیات اقبال صفحہ : ۴۵۸) یہاں قریب تر ہونا دور والوں کے اثر کو کم کر کے دکھاتا ہے مگر گستاخی یا بے ادبی کے رنگ میں نہیں بلکہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے.سورج دور ہے اور ایک دیا نز دیک ہے.وقتی طور پر بعض دفعہ ایک تیز لیمپ سورج سے بھی زیادہ شعاع پیدا کر سکتا ہے لیکن اُس میں سورج والی بات تو نہیں پیدا ہو سکتی کہ انسان کے ساتھ تعلق رکھنے والی ساری کائنات کو زندگی بخشتا ہے.لیکن جو قریب روشنی آتی ہے اُس کا ایک اپنا اثر ہے اور جو فا صلے پر دکھائی دیتی ہے اُس کا اپنا ایک اثر ہے.تو براہ راست نصیحت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص نصیحت کرتا ہے اُس کا مرتبہ کوئی بہت اونچا ہے.یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے جس سے تعلق ہوگا وہ اگر خود بات کرے گا تو اُس کا زیادہ اثر پڑے گا اگر اُس کا پیغام جائے گا تو اُس کا کم اثر پڑے گا.پس اس پہلو سے ایک نماز کے تعلق میں میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں کہ نماز کی نصیحت بھی کریں اور جن کو آپ نصیحت کرتے ہیں اُن پر زیادہ اثر پیدا کرنے کے لئے کوشش کریں کہ خلیفہ وقت کی براہ راست آواز میں ہی یہ فصیحتیں اُن کو پہنچیں.اس سلسلے میں جو نمازوں پر خطبات
خطبات طاہر جلد ۱۲ 314 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء دیئے گئے ہیں مختلف وقتوں میں اگر اُن کی آڈیو یا وڈیو کیسٹس حاصل کر کے تنظیموں کے ذریعے انتظام ہو کہ محض مسجد میں ہی اُن کو بلا کر نہ سنائی جائیں بلکہ کوشش کی جائے کہ مختلف ایسا گھروں میں انتظام ہو اور اُن کے سپرد یہ کام ہو کہ اپنے ماحول میں رہنے والے احمدیوں کو وہاں بلائیں اور اُن کو وہ دکھا دیں.اگر سلیقے اور ترتیب کے ساتھ یہ کام ہو اور یہ تسلی ہو جائے کہ جماعت کی بھاری اکثریت ایک دفعہ خود خلیفہ وقت کی آواز میں نماز کی اہمیت کے متعلق خطبات کو سنتی ہے ، ان نصیحتوں سے واقف ہوتی ہے تو وہ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اُس کا ایک بہت نمایاں اثر ہوگا اور اُن کے کام آسان ہو جائیں گے.دوسری بات اسی تعلق میں یہ ہے کہ خود اپنی ذات میں وہ باتیں پیدا کریں جن سے آپ کی نصیحت میں زیادہ طاقت پیدا ہو.تمام تفصیلی محرکات تو میں بیان نہیں کرسکتا، وجوہات جن سے یہ طاقت پیدا ہوتی ہے.لیکن ایک چیز جو میں بارہا بیان کر چکا ہوں اور وہ مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتی صلى الله.ہے.وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا رحمة للعلمین ہونا.نصیحت کے لئے رحمت ضروری ہے کوئی نصیحت جو رحمت سے عاری ہو گی.وہ اثر نہیں دکھا سکتی ہے.بعض دفعہ قرآن کریم کی آیت پڑھتے ہوئے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا کا کلام ہے مان تو لیتے ہیں مگر یہ بات ٹھیک دکھائی نہیں دیتی.وہ بات یہ ہے کہ فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْری ( الاعلیٰ:۱۰) نصیحت کرضرور نصیحت فائدہ دے گی.پس بعض لوگ سوچتے بھی ہوں گے مگر مجھ سے بھی کئی دفعہ پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم نے لکھا ہے سر ادب سے جھکتا ہے ضر ور صحیح ہوگا مگر ہم تو نصیحتیں کرتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا.ایک دفعہ میں نے پہلے بھی ایسے لوگوں کو سمجھایا تھا یعنی خطبے کے ذریعے ، اب میں پھر سمجھتا ہوں کہ فَذَكِّرْ اِنْ نَفَعَتِ الذِّكْری میں خصوصیت سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا.عام نصیحت نہیں ، مطلب یہ کہ ہر شخص کی نصیحت اثر نہیں دکھاتی.بعض نصیحتوں سے لوگ بدکتے ہیں اور بھاگتے ہیں اور الٹی منافرت پیدا ہوتی ہے.حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو مخاطب کر کے فرمایا اے محمد، اے میرے بندے ! جس نے مجھ سے تربیت کے انداز سیکھے ہیں، تو نصیحت کر میں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ تیری نصیحت کبھی بریکار نہیں جائے گی.اس لئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نصیحت کا منبع رحمت تھی.وہ نصیحت جو رحمت کے منبع سے پھوٹتی ہو وہ کبھی بیکار نہیں جاسکتی.وقتی طور پر اگر بے اثر دکھائی بھی دے تو کچھ عرصے کے بعد اُس کا اثر ضرور ظاہر ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 315 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء مائیں جب بچوں کو نصیحت کرتی ہیں اُس کا اور اثر ہوا کرتا ہے.مقابلہ ایسے باپ جواکثر باہر رہتے ہیں اور بچوں سے براہ راست تعلق نہیں اُن کی نصیحت کا اور اثر ہوتا ہے، دوسرے رشتہ داروں کی نصیحت کا اور ہے ، گلی میں چلتے پھرتے کسی شخص کی نصیحت کا اور اثر ہے اور اثر میں کمی یا زیادتی کا مرکزی نقطہ رحمت میں کمی یا زیادتی ہے.اگر ایک شخص میں محبت پائی جاتی ہو، پیار پایا جاتا ہو ، جو کسی شخص کو نصیحت کرے در د دل کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس شخص کو نقصان پہنچ رہا ہے.اس کی تکلیف میں شامل ہو تو ایسا شخص اگر برائی میں اس طرح گھیرا گیا ہے کہ اُس کی نصیحت کو نہیں مان سکتا.تب بھی اُس کے دل میں ایک زخم سا لگ جائے گا.اُس کو ایک پریشانی سی لاحق ہو جائے گی کہ اُس نے مجھ سے نیک بات کہی تھی اور میں عمل نہیں کر سکتا.یہ دکھ خود اُس کے لئے نصیحت بن جایا کرتا ہے.آج نہیں تو کل اُس کے دل میں ضمیر کے کچو کے اتنا زخم پہنچا دیتے ہیں کہ وہ مزید برداشت نہیں کر سکتا اور اُس کو لازما ان سے بچنے کے لئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی پڑتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کے عہدیدار ہوں یا دوسرے جماعتی عہد یدار یا دوسری ذیلی تنظیموں کے نمائندے یا درکھیں خشک نصیحت بریکار چیز ہے اور خشک نصیحت بعض دفعہ فائدے کی بجائے نقصان پہنچا دیتی ہے، نفرتیں پیدا کر دیتی ہے.اپنی نصیحت کو پہلے پہچانیں.اُس کا تجزیہ کریں اور غور کریں کہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے بھی خدام الاحمدیہ کے مختلف عہدوں پر خدمت کرنے کا موقع ملا ہے مجھے یاد ہے کئی دفعہ مجھ سے بھی غلطی ہوا کرتی تھی.کسی ایسے کو نصیحت کی خدام الاحمدیہ کی نمائندگی میں جو مر تبہے اور مقام میں اور عمر میں، میرے رشتہ داروں میں یا دوسرے، مجھ سے بڑا ہوتا تھا اور وہ اگر تحقیر سے دیکھ کر اُس کو رد کر دیتا تھا تو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس کا میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ خیال آتا تھا کہ اُس کو نیچا دکھایا جائے.پکڑ کے کسی بڑے سے شکایت کر کے مجبور کیا جائے.یہ خیال ایک باطل خیال ہوا کرتا تھا.جوں جوں تجربہ بڑھا اور عمر بڑھی تو یہ احساس نمایاں طور پر پیدا ہونے لگا کہ وہ حالت ایک غفلت اور گناہ کی حالت تھی جس میں انسان نے اپنی نصیحت نہ سننے والے کے خلاف ایک قسم کی رعونت اختیار کی بظاہر اس کو رعونت کا طعنہ دیا مگر جب دل میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں اس کا سر نیچا کر کے دکھاؤں گا.یہ کون ہوتا ہے؟ نظام جماعت کی بات نہ مانے.میں نمائندہ ہوں نظام کا ، اسے میری عزت کرنی چاہئے تھی.وہیں نصیحت اثر سے بیکار ہو جائے گی اور آئندہ بھی اس میں کوئی پھل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 316 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء نہیں لگے گا کیونکہ وہاں اپنے نفس کی رعونت نے سراٹھالیا اور اس نصیحت پر قبضہ کر لیا ہے.پس نصیحت رحمت سے باندھی جانی چاہئے ، اس کی جڑیں رحمت میں پیوستہ ہونی چاہئیں.رحمت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی نصیحت سے تو غم پیدا ہو، غصہ پیدا نہ ہو اور قرآن کریم کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں، سیرت نبوی کا مطالعہ ہر پہلو سے کر کے دیکھیں ، اشارۃ بھی کہیں آپ کو ایک جگہ بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کا رد عمل یہ نظر نہیں آئے گا کہ آپ نے غصے اور تحقیر کے ساتھ نصیحت نہ سننے والوں کا بدلہ اتارنے کی تمنا کی ہو، اُن کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہو.گہرے غم کا ذکر ملتا ہے اور اتنے الله گہرے غم کا قرآن کریم میں اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۴۰) اے محمد ! تو اپنے وجود کو ہلاک کرلے گا کہ اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لا رہے یہ ظالم.پس نصیحت غیروں پر جن کی آنکھیں بند ہوں ، جن کے دلوں پر ، کانوں وغیرہ پر مہریں لگ چکی ہوں.وہ بعض دفعہ نصیحت نہیں سنتے مگر اس لئے کہ نصیحت کے دروازے بند ہیں.آنحضرت کی نصیحت کی کمزوری کی طرف اشارہ نہیں ہے.بلکہ خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ (البقره: ۸) کے مضمون نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ بعض کان نصیحت سننے کے لئے بند ہیں، بعض دل انہیں قبول کرنے کے لئے اندر سے اس طرح بند ہو گئے ہیں کہ آم عَلى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا (محمد (۲۵) گویا اُن کے دلوں کے اندر کچھ تالے تھے ، جو انہوں نے اوپر ڈال رکھے ہیں.تو ایسی کیفیت والے لوگ مستفی ہوں گے لیکن مراد یہ نہیں ہے کہ نصیحت کا اثر نہیں.نصیحت اُن رستوں سے داخل نہیں ہونے دی جاتی جو رستے نصیحت کے لئے مقرر فرمائے گئے ہیں.پس نصیحت کا کوئی قصور نہیں مگر بنیادی بات جو میں سمجھانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر بھی نظر ڈالتے ہوئے بھی حضرت رسول اللہ لہ عیش میں نہیں آتے تھے.نصیحت کی ہے، مقابل پر صرف یہ نہیں کہ اُس کو رد کیا گیا ہے بلکہ سخت سزادی گئی ہے، سخت اذیتیں پہنچائی گئی ہیں.زبان سے بھی ، ہاتھ سے بھی اور دیگر ذرائع سے بھی شدید اذیت میں مبتلا کیا گیا ہے.اس جرم میں کہ ہمیں کیوں نصیحت کی اور ہر ایسے موقع پر آنحضرت ﷺ کا ردعمل رحمت کا رد عمل تھا اور طائف کا واقعہ دیکھ لیجئے کہ طائف کے ایک سنگلاخ پہاڑی علاقے میں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں جو چٹانوں کا پہاڑی علاقہ تھا.آنحضرت یہ نصیحت کے لئے گئے اور جواب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 317 خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۹۳ء میں اُس علاقے کے سردار نے آنحضور ﷺ کے پیچھے گلیوں کے چھوکرے لونڈے لگا دیئے.اُن کی جھولیوں میں پتھر تھے، زبانوں میں گندی گالیاں تھیں، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں الله اپنے شہر سے ایسے نکالا ہے کہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہو چکے تھے اور دل زخموں سے بھرا ہوا تھا.بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ چلنا اس لئے مشکل تھا کہ جوتی میں اپنے ہی خون کا کیچڑ سابن گیا تھا.چلتے ہوئے پاؤں پھسلتا تھا.ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس فرشتے بھیجے اور فرمایا کہ اگر تو چاہتا ہے تو خدا غضبناک ہے ان کی حالت پر اور اگر تو چاہے تو وہ فرشتے جو اس پہاڑ کے فرشتے ہیں ان دو پہاڑوں کے درمیان وادی سی ایک جگہ میں واقعہ تھا شہر.ان پہاڑوں کو اکٹھا کر دیں گے اور ہمیشہ کے لئے یہ بستی نابود ہو جائے گی یعنی مراد ہے کہ ایسا خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے خدا کے ایسے فرشتے جو زلزلے کی طاقتوں پر مامور ہیں اُن کو اللہ اجازت دے تو ہمیشہ کے لئے یہ بستی نابود ہو الله جائے گی.اگر آنحضور والے کے دل میں ذرا بھی غصے کا رد عمل ہوتا تو اُس موقع پر آپ ﷺ فرماتے کہ اے اللہ ! ان کو ہلاک کر دے، زندہ رہنے کے لائق نہیں.بعض روایات میں ایک لمبی دعا ملتی ہے.ایک یہ بھی دعا ملتی ہے کہ اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون بعض روایات میں اس دعا کا تعلق بدر یا احد کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے.مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں لیکن ایک اور جنگ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے اس تعلق میں بھی اسی دعا کا ذکر کیا تھا.چنانچہ میں نے تحقیق کروائی تو پتا چلا کہ یہی دعا اس طائف کے موقع پر بھی آنحضرت امی ہو نے کی تھی یعنی اے خدا یہ جانتے نہیں ہیں اس لئے ان کو معاف فرما، اس لئے در گزر فرما لیکن میری التجا یہ ہے کہ اھــد قـومـی میری قوم کو ہدایت دے دے، ہلاک نہ کر.پس ایسے غم کی حالت میں جبکہ انسان کے دل کی کیفیت پر نظر ڈال کر اُس کی خاطر خدا غضبناک ہو رہا ہو.اُس وقت بندے کا رحم ، بندے کے عفو کا سلوک اللہ تعالیٰ کے غضب کو رحمت میں تبدیل فرما دیتا ہے.اُس وقت جو دعا اٹھتی ہے وہ اُس قوم کے لئے رحمت بن جایا کرتی ہے.پس نصیحت اس جذبے سے کریں کہ جس کے لئے آپ نصیحت کرتے ہیں اگر وہ نہیں سنتا تو آپ کو دکھ محسوس ہو، آپ کا دل غم سے بھر جائے.پس اس موقع کے لئے قرآن کریم کی وہ آیت سامنے آکھڑی ہوتی ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة که مدد مانگومبر کے ساتھ اور صلوٰۃ کے ساتھ.پس آپ نے اگر نصیحتیں کرنی ہیں اور نصیحتوں کے ذریعے دنیا میں ایک
خطبات طاہر جلد ۱۲ عظیم انقلاب بر پا کرنا ہے.318 خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۹۳ء تو پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رحمت کے ساتھ نصیحت کریں جب بھی نصیحت میں غصہ شامل ہو جایا کرے اپنی نصیحت تھوک دیا کریں کیونکہ وہ نصیحت زہریلی نصیحت ہے.کوئی اثر نہیں دکھائے گی.اُس سے سوسائٹی اور بھی گندی ہو جائے گی یہ ایسی نصیحت ہوگی جیسے کسی کو کہا جائے اوچل چھوکری اب حیا کر بے حیاؤں کی طرح پھر رہی ہے.دوپٹہ تو سر پر رکھ، ایک یہ کہنے کا انداز ہے اور ایک کہنے کا یہ انداز ہے کہ کسی ایسی بچی کی حالت پر انسان کا دل کڑھے اور اُس میں رحم کا جذبہ پیدا ہو، اُسے سلیقے اور پیار کے ساتھ سمجھایا جائے کہ بی بی یہ اچھی چیز ہے کہ انسان اپنے سر کو ڈھانپ کر رہے یہ ہمارے معاشرے کی اچھی خوبی ہے.ان کی حفاظت کرو.دو کہنوں کے انداز میں بڑا فرق ہے.پہلی بات نفرت کے منبع سے پھوٹتی ہے یعنی کسی کو غلط کمزور حالت میں دیکھ کر غصے کا اظہار تحقیر کے کلمات کہنا.اُس کے دل کو دکھانے کی کوشش کرنا.اپنے بدلے اتارنا، نہ کہ اُس کی اصلاح کا خیال رکھنا.اپنے بدلے سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ کسی نہ کسی معاملے میں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں اور معاشرے میں جولوگ اچھے رہتے ہیں اُن کے خلاف غصہ رہتا ہے اور وہ دیکھ نہیں سکتے.بعض دفعہ شریکے کی بھی دشمنیاں ہوتی ہیں.پس وہی برائی میں نے دیکھا ہے کہ گھر میں اپنی بچیوں میں دکھائی دے تو وہ رد عمل نہیں ہوتا ہے میں نے جس کی مثال دی ہے.اگر دوسرے کی بچی میں دکھائی دے یا اس معاشرے کے اُس طبقے میں دکھائی دے جو اُن سے بہتر حال میں ہے.تو بڑا زہریلا تبصرہ ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں ہم نے نصیحت کر دی.یہ نصیحت کا طریق نہیں ہے.رحمت کے ساتھ نصیحت کریں گے تو اُس میں غصے کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا.رحمت کے ساتھ نصیحت کریں گے تو اگلا نہیں مانے گا تو کیا پیدا ہو گا وہ غم ، جس کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ اُس کے غم میں تو ہلاک ہور ہا ہے اور یہ غم جو ہے یہ صبر ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے.اس غم کے نتیجے میں انسان کچھ کر نہیں سکتا.کچھ پیش نہیں جاتی ، زبردستی کر نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصيطر ( الغاشية: (۲۳) فَذَكَّرُ اِنْ نَّفَعَتِ الذِكراى نصیحت تیرا کام ہے اور تجھے ہم نے داروغہ مقرر نہیں فرمایا ہوا.جب انسان بے بس ہو وہ صبر کا مقام ہے.بے اختیاری سے ایک صبر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 319 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء پیدا ہوتا ہے.اُس وقت جو صبر ہے وہ دعاؤں میں ڈھلتا ہے.ایسا صبر جس میں انسان خدا کی خاطر ایک تبدیلی چاہتا ہے لیکن نہیں کر سکتا اور مجبور ہو کر اور نہتا ہو کر بیٹھ رہتا ہے.ایسا صبر دل میں ایک قسم کی غم کی جھیل سی پیدا کر دیتا ہے.اُس جھیل سے جو بخارات اٹھتے ہیں وہ دعائیں ہیں جن کی طرف اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اللہ سے مدد مانگتے ہو کس چیز سے مدد مانگو گے کچھ تمہارے پلے ہونا چاہئے، فرمایا صبر تمہارے دامن میں ہونا چاہئے.صبر سے جو دل خون ہوتا ہے اور ایک عموں کی جھیل سی بن جاتی ہے.اُس سے جو دعائیں اٹھیں گی وہ تمہارے لئے خدا تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کی ضمانت بن جائیں گی.اللہ تعالی کی طرف سے رحمت اور فضلوں کی بارشیں نازل ہوں گی.ساتھ فرمایا وَ الصَّلوۃ اور صلوۃ کے ساتھ.پس اس مضمون کو صلوۃ کے ساتھ دوبارہ باندھتے ہوئے میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں.وہ صبر یاوہ نیکی کا خیال یا وہ نیک نصیحتیں جن کے ساتھ ایک مستقل عبادت کا پاک تعلق نہ ہو وہ برکار جایا کرتے ہیں.اُن کے اندر مقبولیت کی طاقت پیدا نہیں ہوتی ، وہ خدا کے عبادت گزار بندے ہیں جن کا صبر مقبول دعاؤں میں ڈھلا کرتا ہے.ایک انسان جو عبادتوں پر قائم نہیں ہے، نہ اپنی عبادت کی حفاظت کرتا ہے ، نہ غیروں کی عبادت کی حفاظت کرتا ہے، اُن کے گھر تو ایسے گھونسلے بن جاتے ہیں جہاں سے پرندے اڑ چکے ہوں، بے نور سے گھر ہوتے ہیں، اُن میں سے ذکر الہی رخصت ہو جاتا ہے.گھر کا ماحول ہی عجیب سا د نیا داری کا ، ایک مادہ پرستی کا ساماحول ہے جس میں وہ حقیقی سکون اور تسکین قلب باقی نہیں رہتا.جو ذکر اللہ سے انسان کو عطا ہوتا ہے.اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ الْقُلُوبُ (الرعد :۲۹) خبر دار ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں اگر دل کی طمانیت چاہتے ہو ایک دائی سکینت چاہتے ہو تو اللہ کے ذکر سے تمہیں ملے گی.پس جن کے گھر پھر عبادت سے خالی ہو جائیں وہ بھی بعض دفعہ نیک نصیحتیں کیا کرتے ہیں.بعض باتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُن میں بعض خوبیاں پائی جاتی ہیں.یہ تو نہیں کہ ہر خوبی سے وہ عاری ہو جائیں جو خوبیاں اپنے اندر ہیں اُن کے متعلق وہ دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں.جن خوبیوں سے وہ خود عاری ہیں اُن کی طرف اُن کی نگاہ نہیں جاتی.یہ جو لوگ ہیں ان کی نصیحت بھی بریکار ہے اور اُس کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة مبر کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو.اس مضمون نے ایک اور بات ہمیں یہ سمجھا دی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 320 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء کہ عام لوگ جو اپنے حسن خلق کے نتیجے میں یا دوسرے دنیاوی محرکات کے نتیجے میں نصیحت کیا کرتے ہیں اُن کی نصیحت اگر اثر نہ دکھائے تو وہ اُس بات کو چھوڑ دیتے ہیں یا غصہ دکھا دیں گے.اگر دل میں نرمی ہوگی تو تھوڑا سا محسوس کر کے پھر کہتے ہیں اچھا پھر اُس کی مرضی جو چاہے کرے.جس قسم کی نصیحت کی میں جماعت احمدیہ سے توقع رکھتا ہوں وہ وہ نصیحت ہے جو قرآن نے ہمیں سکھائی ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عمل سے ثابت ہے.اُس میں ہتھیار ڈالنے کا کہیں کوئی مضمون دکھائی نہیں دیتا.یہ تو فرمایا ہے کہ اگر کوئی نہیں مانتا تو تیرا قصور نہیں ہے تو داروغہ نہیں بنایا گیا.لیکن یہ نہیں فرمایا گیا کہ نصیحت بند کر دے.فَذَكَّر میں جو تشدید ہے یہ اس مضمون میں ایک قسم کی شدت بھی پیدا کر دیتی ہے اور دوام بھی کہ تو نصیحت کر اور کرتا چلا جا اور یہ یقین رکھ کہ بالآخر یہ نصیحت فائدہ دے دے گی.ایسی صورت میں کیا مزید کارروائی کرنی چاہئے.یہ دوسری آیت جس کا میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں.اس کا اس مضمون سے تعلق ہے.مزید کارروائی یہ ہے کہ وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة نصیحت کر کے یہ نہ سمجھا کرو کہ فرض ادا ہو گیا.تم فارغ ہو بیٹھے ہو.اس کے بعد صبر کے ساتھ اس بات پر قائم رہو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور ساتھ عبادت کرتے رہو تب تمہاری نصیحتوں کا ضرور فائدہ ہوگا.یہ آج کل کے حالات میں سمجھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ خدا کے فضل کے ساتھ تبلیغ میں بہت ہی غیر معمولی تیزی پیدا ہو رہی ہے.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں پہلے سینکڑوں نئے احمدی ہوتے تھے اب ہزار ہا ہونے لگے ہیں.جہاں صرف ایک دو ممالک کی بات نہیں رہی کئی ممالک ہیں جواب ان ملکوں کی فہرست میں داخل ہو گئے ہیں جہاں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا (النصر :۳) کے مناظر دکھائی دیتے ہیں.وہ لوگ جو فوج در فوج احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اُن کی بھاری ذمہ داری ہم پر ہے.ہمیں ایک مضبوط نصیحت کرنے والا نظام قائم کرنا پڑے گا.اگر ہم ایسا نظام قائم نہ کریں گے تو ان لوگوں سے ہماری غفلت کے نتیجے میں یہ لوگ خود اپنے حال سے غافل ہو جائیں گے.ایسی جماعتیں بنتی ہیں اور فائدہ اٹھائے بغیر پھر خود بخو دیگڑ بھی جاتی ہیں.صرف تعداد کی ضرورت نہیں ہے تعداد کو لینا اور اُس کو سمیٹنا ، اُس کو نظام انہضام میں سے اس طرح گزارنا کہ مری ہوئی چیز میں زندگی پیدا ہو جائے.جس طرح کھانا کھایا جاتا ہے ، وہ زندہ چیز بھی کھائیں گے تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 321 خطبه جمعه ۲۳ / اپریل ۱۹۹۳ء معدے میں جا کے مر ہی جائے گی بہر حال.موت کے بعد ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے نظام انہضام سے یعنی ہضم کرنے کا جو نظام ہے.وہ ایک مردہ حالت کو ایک زندہ حالت میں تبدیل کرتا ہے اور جب وہ زندگی کا جز بننے کے لائق ہو جاتی ہے تب آپ کے وجود کا حصہ بنتی ہے.پس بہت سے کام ہیں جو تبلیغ کی کامیابی کے بعد باقی رہتے ہیں.تبلیغ میں تو زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ آپ کے لئے ہزار ہا افراد مہیا کر دیئے جو اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے اوپر جو کارروائی کرنی ہے وہ کر لو.ہم حاضر ہیں.سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (البقرہ: ۲۸۶) کی روح دکھا رہے ہیں.اُس کے بعد اُن کو اُس حالت میں چھوڑ دینا بہت ہی بڑی جہالت ہوگی.وہاں اُن کو اٹھانا ہے، اُن کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.نظام جماعت کے اندر ان کو سمودینا ہے،اُس کا حصہ بنا دینا ہے.رفتہ رفتہ ایک مردہ وجود کو زندگی عطا کرنی ہے.بے شمار کام وہاں سے شروع ہوتے ہیں وہاں کام ختم تو نہیں ہو جایا کرتے.پس خصوصیت سے افریقہ کے وہ ممالک میرے پیش نظر ہیں جہاں کثرت کے ساتھ بیعتیں ہو رہی ہیں.آئندہ بڑھنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ اسی طرح کی تربیتی کلاس جس طرح خدام الاحمدیہ پاکستان میں لگائی گئی ہے ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد لگانی شروع کرے مختلف تنظیموں کے ذریعے لگا ئیں ، جہاں بیعتیں ہوتی ہیں وہاں بار بار کیمپ کھولے جائیں اور مختلف تربیتی مضامین لے کر اُن پر کام کریں اُن کی تربیت پر محنت کریں.آغاز میں جب ایک انسان نیا کسی دین کو یا مسلک کو قبول کرتا ہے تو وہ زیادہ اس بات کے لئے تیار ہوتا ہے کہ اس کے اندر تبدیلیاں پیدا ہوں.اگر اُسی حالت پر ٹھنڈا ہو گیا تو پھر بعض دفعہ سینکڑوں گنا محنت بھی بریکار جاتی ہے.پس نئے آنے والوں کے لئے ساری دنیا میں اس قسم کی تربیتی کلاسیں لگائیں اور مرکزی نقطہ اُن کلاسوں کا یہی ہو جو میں نے بیان کیا ہے.نماز پر قائم کریں.نماز کی حفاظت کا مضمون سکھائیں اور رحمت اور محبت اور صبر کے ساتھ دوسروں کو نصیحت کرنے کا سلیقہ عطا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.اگر ان دو بنیادی کاموں کا ہم حق ادا کریں تو انشاء اللہ تعالی آئندہ جماعت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا بلکہ دن بہ دن جماعت کا مستقبل اور زیادہ سنور تا اور نکھرتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
322 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 323 خطبه جمعه ۳۰/اپریل ۱۹۹۳ء خلافت کے بعد مجلس شوری جماعت میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے.اپنے آباؤ اجداد کے ذکر کوزندہ رکھیں، صوبہ سرحد کے بزرگوں کا ذکر.(خطبه جمعه فرموده ۳۰ را پریل ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيَّا إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولبِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا جَنَّتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيَّان (مریم: ۲۰ تا۶۲) پھر فرمایا: - آج خدا کے فضل کے ساتھ دنیا کی بعض جماعتوں میں یا اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں یا مجالس شوریٰ اور ایک مجلس شوری کل بھی ہو گی.اس سلسلہ میں مجھے متعلقہ جماعتوں کی طرف سے خصوصیت سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر آج کے جمعہ میں ہمارا ذکر کرتے ہوئے کچھ نصائح ہو جائیں تو ہم ممنون ہوں گے.ان میں سے ایک تو صوبہ سرحد ہے جس کا سب سے پہلے پیغام ملا تھا پھر یوگنڈا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 324 خطبه جمعه ۳۰ راپریل ۱۹۹۳ء ہے.ان دونوں جگہوں میں جلسہ سالانہ منعقد ہورہا ہے، صوبہ سرحد کی جماعتوں کا تو چوتھا جلسہ سالانہ ہے اور یوگنڈا میں بھی جلسہ سالانہ ہے.جماعت جرمنی میں مجلس شوریٰ ہو رہی ہے اور مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع اٹک کا سالانہ تربیتی اجتماع ہو رہا ہے.کل سے جماعت سپین کی مجلس شوری پیدرو آباد میں شروع ہوگی.تو دو حصے ہیں ایک اجتماعات کا اور ایک شوری کا.سب سے پہلے میں اجتماعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض نصیحتیں اُن احباب اور خواتین اور بچوں کوکرنی چاہتا ہوں جوان اجتماعات پر جمع ہوئے ہیں اور اسی حوالے سے دنیا بھر کی جماعتوں کو بھی وہی نصیحتیں ہیں اور اس کے بعد انشاء اللہ مجلس شوری سے متعلق چند اہم بنیادی امور پیش کروں گا.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا تعلق تربیت سے ہے اور تربیت کے ایک ایسے حصہ سے ہے جس کا قوموں کی زندگی اور بقا سے تعلق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ وہ نیک لوگ تھے جنہوں نے اپنے پیچھے بعض ایسی اولادیں چھوڑیں.جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا.وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ اور شہوات کی اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگے.فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا پس وہ عنقریب ضرور اس کا بد نتیجہ کیا کی صورت میں دیکھیں گے.ہاں وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو نیک لوگوں کی اولاد ہوئے اور پھر خود بھی تو بہ کی یعنی از سر نو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو تازہ کیا.وَعَمِلَ صَالِحًا اور نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزاری.فَأُولَبِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ شَيْئًا یہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور ان کے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی یعنی اعمال کی جزا میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی.جَنَّتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ.یہ پیشگی کی جنتیں ہیں ان جنتوں کا وعدہ رحمن خدا نے غیب سے اپنے بندوں سے فرمایا ہے.اِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيَّا.اور یقینا اللہ کا وعدہ ضرور لایا جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ جب خدا ایک وعدہ کر لیتا ہے تو جس سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس معاملہ میں بے اختیار اور بے بس ہو جاتا ہے اور خدا نے ضرور وعدہ پورا کر کے اس کے سامنے حاضر کر دینا ہے.پس یہ جنتیں ایسی ہیں گویا ز بر دستی ان میں داخل کیا جائے گا.یعنی خواہش تو ہر انسان کی ہوگی لیکن خواہش کرنے والے سے زیادہ اللہ کو ان کو جنتوں میں داخل کرنے کا شوق ہوگا.یہ مضمون ہے جو ماتیا کے ذریعہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 325 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء بیان فرما دیا گیا یعنی میزبان کو مہمان سے بڑھ کر مہمان کی عزت افزائی کا شوق ہے اور تمنا ہے اور وہ ضرور اس تمنا کو پورا کر کے رہے گا.اس سلسلہ میں لفظ سمیا خاص توجہ کا محتاج ہے اس لئے میں نے وہاں اس کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ یہ ذکر کیا کہ ایسے لوگ جو نیک لوگوں کی اولاد ہوں مگر نمازوں کو ضائع کر دیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کر دیں وہ ضرور بالآخر غیا تک پہنچتے ہیں.غیا کا ایک ترجمہ ”الضلال“ ہے یعنی گمراہی گویا ان کا گمراہی کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے پھر ہے ” الخیب“ وہ ضرور نا کامی کا منہ دیکھتے ہیں.پھر اس کا ترجمہ ہے الانھماک فی الجهل بے وقوفی اور جہالت میں وہ اپنا وجود کھو دیتے ہیں یعنی کامل طور پر بے وقوفی اور جہالت کے ہو رہتے ہیں ، جہالتوں میں غرق ہو جاتے ہیں.پھر ہے الہلاک اور ہلاک ہو جاتے ہیں.پس وہ قومیں جن کا آغاز مذہبی ہو اور جن کا آغاز اللہ کے حضور تقویٰ کے ساتھ شروع ہوا ہو.ان لوگوں کی اولادیں اگر نماز سے ہٹ جائیں اور نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کر دیں تو یہ وہ انجام ہیں ، جن تک وہ ضرور پہنچیں گے.اس دور میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہم نے جماعتوں کے حالات کا جہاں تک مطالعہ کیا ہے اور غور کیا ہے.یہ آیت ہر پہلو سے بلا شبہ صادق آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ نیک لوگ جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ خود ایمان لاتے ہیں اور سچائی کو قبول کرتے ہیں وہ شاذ و نادر کے طور پر ضائع ہوتے ہیں ورنہ ان کی بھاری اکثریت کامل وفا کے ساتھ آخر تک اس پیغام کے ساتھ چمٹی رہتی ہیں اور وہ ہر لمحہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں ان کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، کبھی آپ نے نہیں دیکھا ہوگا کہ انبیاء کی جماعتیں خود ضائع ہوگئی ہوں.ہاں جب انبیاء کی جماعتیں گزر جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی نسلیں آجاتی ہیں تو وہاں سے خطرات شروع ہوتے ہیں.پس قرآن کریم نے یہاں قومی بقا کا فلسفہ بیان فرمایا ہے اور ان خطروں سے متنبہ کیا ہے جن کے نتیجہ میں قومیں بالآخر تنزل، جہالت، گمراہی اور جہل اور ہلاکت کا شکار ہو جایا کرتی ہیں.پس وہ تمام جماعتیں جو آج ان اجتماعات میں تربیت کی غرض سے حاضر ہورہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ تمام جماعتیں بھی جو اس خطبہ کوسن رہی ہیں ، ان کو میں خصوصیت کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 326 خطبه جمعه ۳۰ ر اپریل ۱۹۹۳ء اس آیت کے مضمون کی طرف متوجہ کرتا ہوں، ہمیں یعنی اس صدی کے سر پر کھڑے ہوئے لوگوں کو ایک نئے زمانے کے چیلنج کا سامنا ہے.ہم ایسے جوڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک نسل ہی نہیں بلکہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل بھی تقریباً گزر چکی ہے.صحابہ کا زمانہ ختم ہوا اور شاذ کے طور پر برکت کے لئے دیکھنے کو ملتے ہیں اور وہ کبار تابعین جو صحابہ کے تربیت یافتہ تھے وہ بھی اکثر گزر چکے ہیں اور تابعین کا وہ گروہ باقی ہے جو چھوٹی عمر کا تھا اور ابھی اللہ کے فضل سے تابعین کا ایک طبقہ دنیا کی تمام جماعتوں میں نہیں تو بہت سی جماعتوں میں پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ان سے بڑی توقع اور امید ہے کہ انشاء اللہ وہ نیکی کی اعلیٰ روایات کو اگلی نسلوں میں جاری کریں گے.یہ وہ خطرناک جوڑ ہے جو دو صدیوں کا بھی جوڑ ہے اور نسلاً بعد نسل تیسرا جوڑ بنتا ہے اور اس جوڑ کی اگر ہم نے حفاظت کی اور ان آیات کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنی آئندہ نسلوں کے نگران ہوئے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں.صلواۃ کی حفاظت کے متعلق بھی میں ذکر کر چکا ہوں.آئندہ بھی انشاء اللہ اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا.شہوات کے مضمون کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ آئندہ انشاء اللہ تربیتی خطبات دوں گا.آج محض یہ ذکر ہی کافی ہے کہ یہ دو خطرات کے نشان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہمارے سامنے کھول کر بیان فرما دیا ہے اور تنبیہ کردی، اب آگے ہم پر ہے کہ ہم چاہیں تو تنبیہ کو نظر انداز کر کے اپنے لئے ہلاکت کی راہ اختیار کر لیں خواہ اس تنبیہ سے فائدہ اٹھائیں اور راہ راست پر قائم رہیں.اس ضمن میں بہت سی ایسی نصیحتیں کی جاسکتی ہیں جن کے پیش نظر جماعتیں اپنی نسلوں کی حفاظت کرتی ہیں اور سارا قرآن کریم اس مضمون سے بھرا پڑا ہے لیکن میں نے آج خصوصیت کے ساتھ ایک آیت کو چنا ہے تا کہ اس مضمون کو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے اس آیت کی روشنی میں آپ کو نصیحت کروں کہ کیسے نئی نسلوں کی حفاظت کی جاتی ہے.قرآن کریم نے جو بہت سے ذرائع بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک ذریعہ ذکر کا ہے.وہ لوگ جو اپنے آبا و اجداد کا ذکر زندہ رکھتے ہیں ان کے آبا و اجداد کی عظیم خوبیاں نسلاً بعد نسل قوموں میں زندہ رہتی ہیں اور لوگ جو اللہ کا ذکر زندہ رکھتے ہیں صفات الہیہ قوموں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور تربیت کی جان صفات الہیہ ہے.پس اس پہلو سے اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کی ویسی ہی تربیت کرنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 327 خطبہ جمعہ ۳۰/اپریل ۱۹۹۳ء چاہتے ہیں جیسی پہلی نسلوں کی ہم نے دیکھی اور پہلی نسلوں نے ہماری کرنے کی کوشش کی ، تو ایک مرکزی نصیحت کا نکتہ جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اس کو پلے باندھ لیں اور اس پر دل و جان سے عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِذَا قَضَيْتُمُ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقره: ۲۰۱) کہ جب تم مناسک حج سے فارغ ہو جایا کرو تو فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَ كُمْ پھر تم اللہ کا ویسے ہی ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے اباء کا کرتے ہو او أَشَدَّ ذِكْرًا بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر ذکر.حج کے وقت یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انسان خدا کی گود میں ہے اور ہر طرف سے نیکیوں نے اس کو گھیرا ہوتا ہے.حج سے فارغ ہونے کے بعد پھر دنیا میں واپس لوٹتا ہے اور اس وقت خطرات در پیش ہوتے ہیں، ان خطرات سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ذکر الہی پر زور دو اسی طرح ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو.جب ایک نسل جو صحابہ کی نسل ہے وہ گزر جاتی ہے تو اگلی نسل میں ایک قسم کا ویسا ہی ماحول پیدا ہوتا ہے جیسے حج سے باہر آگئے ہوں ، جیسے دوبارہ زمانے کے خطرات کے سامنے ان نسلوں کو پیش کر دیا گیا ہو.اس وقت بھی یہی مضمون کارفرما ہوگا اور حفاظت کا یہی ایک طریق ہے جو کارآمد ثابت ہوسکتا ہے کہ ذکر میں پناہ لو.ذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ کا مضمون سمجھنے کے لائق ہے.دنیا میں جتنی قو میں ہیں وہ اپنی اعلیٰ روایات کی حفاظت اپنے قومی ہیروز اور بزرگوں کا ذکر کر کے کیا کرتی ہیں.اگر قوموں کی تاریخ سے ان کے آباء کا ذکر مٹا دیا جائے اور فراموش کر دیا جائے تو وہ قومیں اپنی تمام روایات کو بھول کر اُن رستوں کو کھو دیں گی جن روایات پر چلتے ہوئے ان کے آباء نے بعض رستوں پر قدم مارے تھے اور ترقیات ان کو نصیب ہوئی تھیں.پس ذکر کا مضمون آئندہ نسل کی تربیت کے ساتھ ایک بہت گہرا تعلق رکھتا ہے یہاں جو ذِكُرِكُمْ آبَاءَكُمْ فرمایا گیا ہے.اس میں مثال تو دنیا کے ذکر کی دی ہے لیکن مذہبی تعلق میں نصیحت ہے اس لئے ہمیں ذکرِكُمْ آبَاءَكُمْ کی وہ تشریح کرنی ہوگی جو قرآنی آیات کے مطابق ہے اگر دنیا کی قوموں سے کہا جائے کہ تم اس طرح ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو تو اُن کے ذہن میں مختلف قومی ہیروا بھریں گے مگر جب مذہبی دنیا میں گفتگو ہو تو حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو مخاطب فرمایا گیا ہو اور آپ کے غلاموں کو مخاطب فرمایا گیا ہوتو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 328 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء ذِكرِكُمْ ابَاءَكُم کا مضمون ایک اور رنگ اختیار کر جاتا ہے یہ ذکر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے آباء کا ذکر ملتا ہے، ابراہیم کا ذکر ملتا ہے ، نوح کا ذکر ملتا ہے.آدم کا ذکر ملتا ہے اور ابراہیم کے بعد نسلاً بعد نسل اُن اولا دوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنے آباء کے ذکر کی حفاظت کی تھی پس یہ ذکر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ اس طرح مل جاتا ہے جیسے دو چیزیں ایک دوسرے میں پیوست ہو کر یک جان ہو جائیں اور ایک کا دوسرے سے فرق نہ رہے تو اپنے بزرگ آباء کے حوالے سے اپنی اعلیٰ روایات کو زندہ رکھو اور ذکر الہی میں اور بھی زیادہ شدت اختیار کر جاؤ.چنانچہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نصیحت کا یہی طریق تھا.بزرگوں کے حوالے سے ، نیک لوگوں کے حوالے سے نصیحت فرمایا کرتے تھے اور بزرگ آباء کے ذکر کو تفاخر میں شمار نہیں فرماتے تھے بلکہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے.چنانچہ ایک موقع پر جب آپ کی دو ازواج مطہرات میں کچھ اختلاف ہوا اور ایک نے دوسری کو طعنہ دیا کہ تم تو یہودن ہو، یہودی نسل سے ہو.حضرت محمد مصطفی اللہ کے حضور جب شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا تم کیوں غم کرتی ہو تمہیں یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ میرا خاوند بھی خدا کا رسول ہے اور میرے باپ دادے بھی خدا کے رسول تھے، تر مندی کتاب المناقب حدیث نمبر : ۳۸۲۹) تم مجھے کیا طعنہ دیتی ہو.یہ ذِكُرِكُمْ آبَاءَكُم کی ایک مثال ہے یعنی بزرگوں کا ذکر جن کا تعلق خدا سے باندھا گیا ہو.تفاخر میں داخل نہیں ہے اور مومنوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ ایسا ہی ذکر کیا کریں اور وہ ذکر خود بخودخدا کی طرف لے جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے ذکر کے انداز میں آپ کو بڑے بڑے نامور عرب لوگوں کا کہیں کوئی ذکر دکھائی نہیں دے گا، کہیں کوئی ذکر نہیں ملے گا.وہ بڑے بڑے عرب راہنما اور ہیر واور بڑے بڑے سردار جن کے ذکر سے عربی شاعری اٹی پڑی ہے ان کا کوئی ذکر آپ کو حضرت صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے آپ کو نہیں ملتا.ان آباء کا ذکر ملتا ہے جن کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے جن کا خدا سے تعلق تھا اور وہ ذکر لازماً اللہ کے ذکر کی طرف لے جاتا ہے أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا بن جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ جب خدا تعالیٰ کے ذکر پر خطاب فرمایا کرتے تھے تو بعض دفعہ اتنا جوش پیدا ہو جاتا تھا کہ ایک موقع پر جبکہ خدا تعالیٰ کی صفات جلال و جمال کا ذکر فرمارہے تھے تو منبر کانپنے لگا جس پر آپ کھڑے تھے اور روایت کرنے والے روایت کرتے ہیں کہ ہمیں ڈر تھا کہ یہ منبر الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 329 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء اس جوش کے ساتھ ٹوٹ جائے گا لرزتے لرزتے یہ منبر ٹوٹ کر زمین پر جا پڑے گا اور ہمیں ڈر تھا کہ آنحضور کو گر کر چوٹ نہ آجائے.(مسند احمد حدیث نمبر : ۵۳۵۱) تو یہ أَشَدَّ ذِكْرًا کا مضمون ہے جو حدیث سے ہمیں سمجھ آتا ہے یعنی آنحضرت ﷺ کی سیرت سے سمجھ آتا ہے کہ جب خدا کا ذکر آئے تو وہ ساری روح پر قبضہ کرلے اور انسان کے وجود میں ایک غیر معمولی شان اور جلال پیدا ہو جائے.اس کا وجود خدا کے ذکر سے لرزنے لگے اور ماحول کو لرزہ براندام کرے.ایسی ریڈیائی لہریں پھیلا دے کہ جن تک وہ لہریں پہنچیں وہ بھی ان سے غیر معمولی طور پر متاثر ہو کر اسی ذکر کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں.یہ ہے جو أَشَدَّ ذِكْرًا کا مضمون ہے.اس کا جماعت احمدیہ کی موجودہ نسلوں کی تربیت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ایسے بزرگ آباؤ اجداد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یا آپ کے بعد خلافت اولی یا خلافت ثانیہ میں بیعتیں کی تھیں اور غیر معمولی دینی ترقیات حاصل کیں ، غیر معمولی قربانیاں دیں اور ان کا ذکر اگلی نسلیں بھول رہی ہیں اور ان کے ماں باپ بھی اس ذکر کو زندہ نہیں رکھتے نیچے وہ کتابوں کے پھول بنتے جارہے ہیں اور کتابیں بھی ایسی جن کو کم لوگ پڑھتے ہیں.پس یہ انداز جو ہے زندہ رہنے کا انداز نہیں ہے قرآن کریم نے ہمیں زندگی کا جو راز سمجھایا ہے اس کی رو سے آپ کو اپنے آباؤ اجداد کے ذکر کو لازما زندہ رکھنا ہوگا.چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں میں نے جماعتوں کو بار بار نصیحت کی کہ وہ سارے خاندان جن کے آباؤ اجداد میں صحابہ یا بزرگ تابعین تھے، اُن کو چاہئے کہ وہ اپنے خاندان کا ذکر خیر اپنی آئندہ نسلوں میں جاری کریں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک کما حقہ توجہ نہیں دی گئی.مجھ سے جو خاندان ملنے آتے ہیں.ان بچوں سے جب میں پیار کی باتیں کرتا ہوں تو بسا اوقات یہ بھی پوچھا کرتا ہوں کہ تمہارے دادا کا نام کیا ہے؟ تمہارے نانا کا نام کیا ہے؟ پس وہ ابوامی یا می ڈیڈی تک ہی رہتے ہیں اور آگے نہیں چلتے.یہ بہت ہی خطرناک بات ہے.ماں باپ بھی سنتے ہیں تو اُن کے چہرے پر ہوائیاں نہیں اُڑتیں بلکہ ہنس پڑتے ہیں کہ دیکھو جی اس کو تو اپنے نانا کا نام نہیں پتا، اپنے دادا کا نام نہیں پتا.یہ کوئی لطیفہ تو نہیں.یہ تو المیہ ہے یہ تو بہت ہی درد ناک بات ہے ان کو تو یہ بات دیکھ کر لرز جانا چاہئے تھا کہ جن کے ذکر کو زندہ رکھنا حقیقت میں ضروری ہے جو آئندہ اُن کے اخلاق کی حفاظت کرے گا ان کے ذکر سے تو یہ لوگ غافل ہیں ان کو پتا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 330 خطبه جمعه ۳۰ ر ا پریل ۱۹۹۳ء ہی نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کون تھے، کیا ہوئے.انہوں نے دین کی خاطر کیا کیا قربانیاں کیں؟ پس پہلے كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ کے مضمون سے بات شروع کریں اور ان نیک لوگوں کے ذکر کو اپنی اپنی مجالس میں زندہ کریں.اپنی اپنی قوموں میں اُن کے ذکر کو زندہ کریں اور پھر ہر خاندان میں اس ذکر کو زندہ کریں.پھر جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے یہ ذکر لا ز ما ذکر الہی میں تبدیل ہوگا کیونکہ ان کے ذکر کی تو جان ہی اللہ کے تعلق میں ہے.یہ وہ پاک نسلیں ہیں جو خدا کی ہو چکی تھیں ان کا خدا کے ساتھ کوئی تشخص دکھائی نہیں دیتا.اب حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب شہید کی بات کریں تو ان کے آباؤ اجداد ، خاندان ، قومیت کا کسی قسم کا کوئی تصور ذہن میں نہیں آتا.ایک ایسا پاک آسمانی شہر راہ دکھائی دیتا ہے جو کلیۂ خدا کا ہو چکا تھا اور اُس نے اپنے خون کے ایک ایک قطرہ سے اپنی وفا ثابت کی ہے.اس کو ذِكْرِكُمْ أَبَاء کو کہتے ہیں یعنی مذہبی اصطلاح میں آباء کا ذکر کرنا اور یہ ذکر تو خدا پر ختم ہوتا ہے اور خدا کے علاوہ اس ذکر کی حقیقت کوئی نہیں رہتی، ذکر بنتا ہی نہیں.ان بزرگوں کا ذکر کر کے ناممکن ہے کہ خدایا دنہ آئے.پس ان معنوں میں آپ اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کریں مجھے پتا ہے کہ تربیت کے لئے بہت سی تقریریں ہوں گی ،مضامین لکھے جائیں گے نصیحتیں ہوں گی مگر ایسی تقریریں اور ایسی نصیحتیں جو علمی لحاظ سے کوشش کر کے تیار کی گئی ہوں اگر ان میں دل نہ ہو تو بے اثر ہوتی ہیں، کوئی اثر پیدا نہیں کرتیں.کے تیار کی نہ ہوتو پیدا تقریر میں اثر پیدا کرنے کے لئے ایک لگن چاہئے جس میں ایک انسان کا سارا وجود اس مضمون میں شامل ہو جائے جو وہ پیش کر رہا ہے اس کے بغیر زبان میں اثر پیدا نہیں ہوسکتا اور یہ وہ ذکر ہے جو میں بتا رہا ہوں کہ اس ذکر کے ساتھ کوئی زبان بھی اثر کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی.کسی لمبی چوڑی تیاری اور محنت کی ضرورت نہیں ہے.صرف تاریخ کے اپنے ان اوراق کو کھولیں اور دیکھیں تو سہی کہ پہلے لوگ کیسے تھے اور کیا تھے؟ کن کن خاندانوں کے بزرگ کن کن قربانیوں کے بعد احمدیت میں داخل ہوئے اور احمدیت میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے کیا کیا قربانیاں دیں، کس طرح وفا کے اعلیٰ نمونے دکھائے ، کس طرح آخری سانس تک وہ خدا کے ہور ہے اور خدا ہی کی خاطر وہ جیئے اور خدا ہی کی خاطر - مرے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے ذکر کو زندہ کرنا ضروری ہے.یہ وہ لوگ ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 331 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء ہے جو بے وفائی نہیں کیا کرتے.شاذ کے طور پر بہت ہی کم ارتداد کے کچھ نمونے ان نسلوں میں ملتے ہیں اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ان کے اندر دین داخل ہی نہیں ہوا تھا.دنیا کی خاطر یا کسی اور دھو کے میں آکر وہ دین میں داخل ہوئے ، خالی آئے اور خالی واپس چلے گئے لیکن بہت کم مثالیں ہیں.بھاری مثالیں وہ ہیں جو آخر وقت تک باوفا ر ہے اور ثابت قدم رہے لیکن آگے نسلوں میں آپ کو وہ بات یا دکھائی نہیں دیتی یا بعض نسلیں دین سے سرک کر دور ہٹ چکی ہیں اور کوئی رابطہ نہیں رہا.پس آج ضرورت ہے کہ ان کو کھینچ کر واپس لایا جائے اور ان کو خدا کی طرف واپس لانے کے لئے بہترین طریق اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھا دیا ہے ان سے خالی خدا کی بات کر کے دیکھیں ان میں کوئی دلچسپی نہ ہوگی.کئی ایسے لوگ ہیں جن سے میرا رابطہ ہو چکا ہے یعنی صوبہ سرحد کے دورے کرتا رہا ہوں، بنگلہ دیش کے دورے کرتا رہا ہوں اور سیالکوٹ وغیرہ کی ایسی کئی دیہاتی جماعتیں ہیں وہاں دوروں پر میں نے رابطہ کر کے دیکھا ہے کہ جو خشک سے ہو چکے ہوں ، جن کے دل بجھ چکے ہوں، جن میں ولولہ باقی نہ رہا ہو.ان سے براہ راست خدا کے متعلق باتیں کریں، نصیحت کریں کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن اگر ان کو یہ بتائیں کہ تمہارا باپ فلاں تھا اور یہ یہ کیا کیا کرتا تھا.تمہارے باپ نے احمدیت کے لئے یہ قربانیاں دیں تو ان کی آنکھوں میں ایک شمع سی جلنے لگتی ہے، اچانک ایک جان پیدا ہو جاتی ہے، انہماک پیدا ہو جاتا ہے اور اس ذکر کے ساتھ پھر اللہ کے ذکر کی طرف ان کو منتقل کریں تو وہ بڑے شوق اور ذوق کے ساتھ آپ کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ان مردہ دلوں کو زندہ کرنے کا ایک راز ہمیں سکھا دیا ہے.صوبہ سرحد میں خصوصیت کے ساتھ ایسی بہت سی نسلیں پھیلی پڑی ہیں اور پنجاب میں اور بنگال میں اور اس طرح بعض دوسرے ممالک میں بھی موجود ہیں مثلاً یوگنڈا ہے جس میں آج اجتماع ہو رہا ہے وہاں بڑے بڑے، دین کے لئے عظیم الشان قربانی کرنے والے، خدمت دین میں منہمک رہ کر زندگی گزارنے والے وجود تھے اور ان کی تاریخ سے یوگنڈا کی تاریخ روشن ہے لیکن آگے اولادمیں یا ٹھنڈی پڑ گئیں یا کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئیں اور بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے جماعت سے تعلق کلیۂ تو ڑ لیا بعض ایسے ہیں جو ایسا تعلق رکھ رہے ہیں جو گویا نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جب بھی ان سے رابطہ ہوا ہے اُن کے آبا ؤ اجداد کے ذکر سے ان کو واپس آنے کی نصیحت کی ہے تو خدا کے فضل سے نیک اثر پیدا ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 332 خطبه جمعه ۳۰ ر اپریل ۱۹۹۳ء ہے یوگنڈا کے دورہ کے وقت بھی، کینیڈا کے دورہ کے وقت بھی ایسے خاندان مجھے ملے کہ جب ان کے آباء کا ذکر کیا گیا تو ایک دم آنکھیں چمک اُٹھیں اور ایک ذاتی تعلق پیدا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور پھر احمدیت کے ساتھ تعلق ساتھ ساتھ قائم ہوتا چلا گیا تو یہ ایک گر ہے جو قرآن نے ہمیں سکھایا ہے اسے استعمال کریں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی آئندہ نسلوں کی اعلیٰ اقدار کی حفاظت ہوگی اور وہ اقدار جومٹ چکی ہیں انہیں از سر نو زندہ کیا جا سکے گا.مثال کے طور پر میں نے صوبہ سرحد کے بعض بزرگوں کے نام پیش نظر رکھے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ صوبہ سرحد کے بزرگوں کا خصوصیت سے ذکر فر مایا اور یہ بیان کیا کہ ان کے علم کے مطابق کوئی اور ایسا صوبہ، کوئی اور ایسا ملک نہیں جس میں صوبہ سرحد کی طرح بڑے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ کی ہو اور جس کثرت کے ساتھ صوبہ سرحد میں بڑے بڑے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ کی ہے اور خدمت دین میں اعلیٰ نمونے قائم کیے ہیں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اور مثال دکھائی نہیں دیتی.اس مضمون کو پکڑتے ہوئے میں آج بعض مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ خصوصیت سے صوبہ سرحد جہاں یہ اجتماع ہورہا ہے ان کو اپنے آباء کا ذکر سن کو خوشی ہو اور طبیعت میں ولولہ پیدا ہو اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کو بتائیں کہ ہم کون تھے اور ہماری زندگی کا پانی کن پاک چشموں سے پھوٹا تھا جو رفتہ رفتہ اب دریا بنتا چلا جارہا ہے.بعض چھوٹے چھوٹے خاندان پھیلتے پھیلتے اب اس طرح پھیل چکے ہیں کہ سب دنیا میں پھیل چکے ہیں اور مستحکم ہو چکے ہیں.تو اس رنگ میں اس ذکرِ خیر سے میں امید رکھتا ہو کہ ان کے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہوگی اور آج میں نے یہ جو گاؤن پہنا ہوا ہے یہ بھی خصوصیت سے اس وجہ سے پہنا ہے کہ یہ صوبہ سرحد کا گاؤن ہے.میں نے سوچا کہ ان کو سرحد کی تاریخ یاد کراتے ہوئے گاؤن بھی وہ پہنوں جو ان کو دکھائی دے کہ یہ ہمارے ملک کا ہے اور زیادہ اپنائیت محسوس ہو.اب میں حضرت مصلح موعوددؓ کا یہ اقتباس آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں آپ فرماتے ہیں.اس صوبہ میں ( یعنی صوبہ سرحد میں ) بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ احمدی ہوئے ہیں.پنجاب کے احمدیوں میں اس قسم کا اثر ورسوخ رکھنے والے ہزار میں سے ایک بھی نہیں ( یہ دیکھیں، کتنا فرق نمایاں آپ نے دکھایا )
خطبات طاہر جلد ۱۲ 333 خطبہ جمعہ ۳۰/اپریل ۱۹۹۳ء لیکن صوبہ سرحد میں ہر سو احمدیوں میں سے ایک دو ایسے ہیں جو چوٹی کے 66 خاندانوں میں سے ہیں.“ پنجاب میں تو کوئی ایک دو ہو گئے جیسے نواب محمد علی خان صاحب رئیس یا ملک عمر علی صاحب ہیں مگر صوبہ سرحد میں خاندانی وجاہت اور اثر و رسوخ رکھنے والے کئی ہیں.مثلاً صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب کے بھائی بہت بڑے خاندان میں سے ہیں ( مراد حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے ہے جو صاحبزادہ عبدالحمید صاحب، صاحبزادہ عبدالسلام صاحب، صاحبزادہ عبدالرشید صاحب کے اور ان کے بہنوں بھائیوں کے والد تھے اور صوبہ سرحد کا بہت ہی معزز خاندان تھا اور ان کے نیک اثرات بڑی مدت تک سارے علاقے پر قائم رہے اور اس خاندان کی عزتیں رہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ پھر کیوں اور کیا ادبار آیا کہ بظاہر بچے مخلص بھی ہیں لیکن پھر بھی وہ اثر ورسوخ باقی نہیں رہا کوئی اندرونی کمزوری ایسی ہو گئی جس کے نتیجہ میں یہ رسوخ مٹ گئے ورنہ اللہ تعالیٰ نیک اثرات کو مٹنے نہیں دیا کرتا جب تک انسان کے اندر کوئی خامیاں نہ پیدا ہو جائیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوالیکن ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بزرگ نیک آباء کی اعلیٰ رسموں کو مضبوطی سے دوبارہ اختیار کریں اور زندہ کریں اور پھر دیکھیں کہ دنیوی اثر خود بخود غلاموں کی طرح پیچھے چلا آئے گا.دنیاوی اثر کی خاطر نہیں کرنا بلکہ قرآنی بیان کے مطابق اُن آباء کے ذکر کو زندہ کرنا ہے جن کا ذکر قرآن زندہ فرماتا ہے وہ ذکر زندہ کرنا ہے جو ذکر الہی کی طرف لے جاتا ہے اور پھر آشَدَّ ذِكْرًا بن کر خدا کی یاد میں منتقل ہو جاتا ہے.دنیا کے اثرات اور دنیا کے رسوخ تو پھر غلاموں اور لونڈیوں کی طرح پیچھے پیچھے چلتے ہیں انہوں نے تو آنا ہی ہے.“ پھر فرماتے ہیں کہ وو...اسی طرح دلاور خان صاحب ہیں، محمد اکرم صاحب ہیں، محمد اکبر صاحب ہیں، احیاء الدین صاحب ہیں ( یہاں جنرل احیاء الدین مراد ہیں ) ، محمد علی خان صاحب ہیں، ملک عادل شاہ صاحب ہیں، امیر اللہ خان صاحب ہیں، عبد الحمید صاحب والے ہیں.گویا چند سواحمدیوں میں سے ایک درجن کے قریب ایسے احمدی ہیں جو بھاری اثر و رسوخ رکھنے والے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 334 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء 66 خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اس نسبت کے لحاظ سے باقی ہندوستان میں بااثر خاندانوں میں سے کم احمدی ہوئے ہیں.(الفضل قادیان ۹؍ دسمبر ۱۹۴۴ء) احمدیت کی صوبہ سرحد میں تاریخ، جماعت احمدیہ کے آغاز کے ساتھ اکٹھی شروع ہوتی ہے پہلے صحابی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر ۱۸۸۹ء میں بیعت کی اور لدھیانہ کی بیعت میں شامل ہوئے ان کا نام حضرت مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب تنگے براہ تھا.یہ تنگے براہ جگہ کا نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی نہ صرف بیعت لی بلکہ ان کو آگے بیعت لینے کی اجازت دی اور اپنا نمائندہ مقرر فرمایا کہ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ میری نمائندگی میں میری بیعت لوگوں سے لیا کرو.ان کے آگے کوئی اولاد نہیں تھی اور اس میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص احسان تھا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے روحانی اولا د کثرت سے عطا فرما دی اور جسمانی اولاد کی کمی اس طرح پوری ہوگئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی روحانی اولاد کے درمیان ایک واسطہ بن گئے.دیگر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں خان بہادر قاضی عبد القادر خان صاحب پشاور شہر کا ذکر بھی اہمیت رکھتا ہے.آپ نے ۲۵ /اگست ۱۸۸۹ء میں بیعت کی.بیعت لدھیانہ میں تو شامل نہیں ہوئے لیکن اسی سال بیعت کر لی.قاضی محمد حسن صاحب ” خان العلماء جو پشاور شہر کے رئیس تھے اور وزیر افغانستان رہے ہیں ان کے یہ پوتے تھے.خان بہادر قاضی عبد القادر خان ان کی اولاد کے متعلق ہمیں علم نہیں کہ کہاں گئی ، کیا ہوا؟ یہ سرحد کی جماعتوں کا کام ہے کہ ان کو تلاش کریں.پھر حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب پشاوری ہیں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خسر تھے.حضرت قاضی عبد الرحمن صاحب محله باقر شاہ پشاور، حضرت مولانا غلام حسین خان صاحب کی بیعت ۷ ارمئی ۱۸۹۰ء کی ہے اور حضرت قاضی عبد الرحمن کی بیعت ۲۸ دسمبر ۱۸۹۰ء کی ہے.پھر حضرت سید احمد شاہ صاحب میر بادشاہ صاحب پشاور ہیں.انہوں نے ۲۰ فروری ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.پھر سید الشہداء حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.آپ نے دسمبر ۱۹۰۰ء میں بیعت کی.پھر حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب بانڈی ڈھونڈاں ایبٹ آباد بیعت اکتوبر ۱۹۰۱ء پھر حضرت مولوی محمد یحیی صاحب دیپ گراں ہزارہ بیعت ۱۹۰۶ء، یہ ڈاکٹر سعید احمد صاحب جو لاہوری جماعت کے موجودہ امیر ہیں ان کے والد تھے.پھر قاضی محمد یوسف صاحب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 335 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء فاروقی، ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب جو آج کل شکاگو میں ہیں ان کے والد ہیں اور ان کی نسل بھی اللہ کے فضل سے احمدیت پر مضبوطی سے قائم ہے اور اکثر نیکیوں میں آگے آگے ہے.پھر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نہیں جن کو شیر خدا کا لقب عطا ہوا.انہوں نے مئی ۱۹۰۲ء میں بیعت کی تھی.پھر مکرم امیر اللہ خان صاحب صحابی آف اسماعیلہ.ان کی اولاد میں ایک کے سوا باقی سب خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں.ہمارے بشیر احمد خان رفیق صاحب جو امام صاحب کہلاتے ہیں ان کی بیگم کے دادا تھے.دیگر بزرگان جن کی اولا د مخلص احمدی ہے یا اکثریت اللہ کے فضل سے اچھی مخلص احمدی ہے ان میں قاضی محمد شفیق صاحب ہیں، حضرت مولوی محمد الیاس صاحب ہیں جو ڈاکٹر حامد اللہ خاں صاحب کے دادا اور بشیر احمد خان رفیق صاحب کے نانا تھے، خان بہادر دلاور خان صاحب کا ذکر ہو چکا ہے،صاحبزادہ ہاشم جان صاحب مجددی ان کی ایک ہی بیٹی ہے وہ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور بڑی مخلص احمدی ہیں.مرزا غلام حید ر صاحب ہمارے مرزا مقصود احمد صاحب وغیرہ کے والد تھے ، یہ مشہور خاندان ہے.کرنل صاحبزادہ احمد خانصاحب ساکن مٹھا ضلع مردان، صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب بازید خیل، منشی محمد دانش مند خانصاحب جو بشیر رفیق خان صاحب کے والد تھے (فوت ہو چکے ہیں ، مکرم محمد اکرم خان صاحب درانی، ان کے بیٹے محمد ہاشم خان صاحب کے بیٹے کی شادی چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیٹی سے ہوئی تھی.فقیر محمد خان صاحب ایگزیکٹیوانجینئر خان بہادرمحمد علی خان صاحب بنگش آف کو ہاٹ ، مکرم محمد خواص خانصاحب آف رشکی جو ڈاکٹر سعید خانصاحب کے والد تھے، عبد القیوم خان صاحب آف شیخ محمدی، قاضی محمد جان صاحب آف ہوتی ، آدم خان صاحب جو سابق امیر ضلع مردان تھے ، اب بھی خدا کے فضل سے زندہ اور بہت ہی مخلص فدائی دین کا علم رکھنے والے بزرگ ہیں.صوفی غلام محمد صاحب آف ڈیرہ اسماعیل خان صاحب، ان کی اولاد یہاں انگلستان میں موجود ہے.صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب آف ٹوپی جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں جن کی اولاد کا تعلق یا خلافت احمدیہ سے کٹ کر لاہوری جماعت سے ہو گیا یا سرکتے سرکتے وہ جماعت احمدیہ کے دائرہ سے باہر نکل گئے.ان بزرگوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور اس وقت وقت نہیں کہ میں وہ ساری فہرست پیش کر سکوں.بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا ہماری تاریخ میں ذکر نہیں ملتا لیکن صوبہ سرحد کے سفر کے دوران
خطبات طاہر جلد ۱۲ 336 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء جب میری بڑے بڑے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے خود یہ تسلیم کیا اور بتایا کہ ان کے والد مخلص احمدی تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے تعلق ، سیاسی وجوہ کی بناپر مخفی رکھتے تھے اور جہاں تک ان کے عقائد کا تعلق ہے وہ نہ صرف احمدی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے.بعض ایسے بزرگ ہیں جو زندہ ہیں اور بڑے بڑے سیاسی مناصب پر پہنچے ہوئے ہیں ان کا نام لینا مناسب نہیں کیونکہ ان کے والد اپنی نیکی کے باوجود شرماتے تھے تو وہ تو پھر اور بھی زیادہ خفت محسوس کریں گے اور گھبرائیں گے کہ ہمیں کیوں احمدیت کی طرف منسوب کر دیا گیا مگر پرائیویٹ مجالس میں ذکر کرنا چاہئے وہی رستہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.آباء کے ذکر سے خدا کے ذکر کی طرف ان کو منتقل کر دیں.آباء کا ذکر کرتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھیں اور ذکر اللہ میں جا کر اپنی آخری منزل تک پہنچیں اور وہاں اپنے سفر کا اختتام کریں.یہ وہ طریق ہے جس سے ہم بہت سی کھوئی ہوئی اعلیٰ اقدار کو واپس لے سکتے ہیں ، دوبارہ اختیار کر سکتے ہیں اور قوموں کی زندگی کا راز اس میں ہے اور قرآن کریم کی اس آیت نے بہت گہرا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا ہے.جس کا قوموں کے عروج اور زوال سے بڑا گہرا تعلق ہے.پس یوگنڈا ہو یا صوبہ سرحد کی جماعتیں ہوں یا پنجاب کی یا بنگلہ دیش کی جماعتیں ہوں یا ہندوستان وغیرہ دنیا میں اور جہاں جہاں بھی احمد یہ جماعتیں ہیں جن میں پہلی نسل کا تعلق صحابہ یا تابعین سے تھا وہ خصوصیت سے میرے پیش نظر ہیں ان کے علاوہ بھی جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے مثلاً افریقہ کے بعض ممالک میں ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے نہ صحابی دیکھا نہ تابعی سے تربیت حاصل کی مگر اخلاص میں غیر معمولی ترقی کر گئے اور اپنے علاقے میں اخلاص اور قربانی کی عظیم الشان مثالیں قائم کر گئے ہیں جو زندہ جاوید ہوں گی اور ایسے علاقوں میں ان سے بات چلانی چاہئے.پس تمام دنیا کی جماعتوں کو احمدی بزرگوں کی یادوں کو تازہ کرنے کی مہم چلانی چاہئے اور تمام تربیتی اجلاسوں میں ان کے ذکر خیر کو ایک لازمی حصہ بنادینا چاہئے.سب سے زیادہ زوراس بات پر ہونا چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اپنے بزرگ آبا ؤ اجداد کے اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق کا علم ہو.ان کی قربانیوں کا علم ہو اور ان کا ذکر کریں تو ان کا دل پچھلے اور ان کی محبت اللہ کی محبت میں تبدیل ہونے لگے.جن بزرگوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 337 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء کہ ان کا ذکر جب آپ پڑھتے ہیں تو خواہ آپ کا ان سے کوئی خونی رشتہ نہ بھی ہو آپ کا دل ان کی محبت میں اچھلنے لگتا ہے.پس جن کا خونی رشتہ ہے ان کے اوپر تو ان کی مثالیں بہت گہرا اثر کریں گی.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ قرآن کریم کے بیان فرمودہ اس اہم تربیتی نکتہ کو اچھی طرح سمجھ کر ذہن نشین کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اور ساری دنیا میں ذکرِكُم ابَاءَكُمْ کا ایک سلسلہ جاری و ساری ہو جائے جو لازماً أو أَشَدَّ ذِكْرًا پر ختم ہو یعنی اللہ کے زیادہ شدید ، زیادہ پُر جوش، زیادہ محبت والے ذکر پر اس کا انجام ہو.اس کے بعد اب اگر چہ وقت تھوڑ اسا رہ گیا ہے لیکن مجلس شوری سے متعلق کچھ باتیں ضرور کرنی چاہتا ہوں.میں نے بار بار بیان کیا ہے کہ مجالس شوری خلافت کے بعد جماعت احمد یہ میں سے سب زیادہ اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ خلافت اور شوری یہ دو مضمون ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دینی نظام کی جان ان دو چیزوں میں ہے.اس پہلو سے میں نے تمام دنیا میں مجالس شوری کے انعقاد پر زور دیا اور کوشش کر رہا ہوں کہ ان کے اوپر نظر بھی رکھوں اور اگر کہیں غلطیاں ہو رہی ہیں تو اپنے سامنے ان کی اصلاح کردوں تا کہ آئندہ صدی میں ہماری طرف سے کوئی غلط روایات آگے نہ پہنچ جائیں اور جہاں تک مجلس شوری کی روایات کا تعلق ہے یہ حضرت مصلح موعود کی خلافت کے ایک بڑے لمبے دور تک پھیلی پڑی ہیں اور بہت ہی قیمتی روایات ہیں.ان سے شناسائی کے بعد مجلس شوری کا جو تصور دل میں جو جاگزیں ہو جاتا ہے اور ذہن پر نقش ہوتا ہے اس تصور کو میں نے ان مجالس شوریٰ میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے اور کر رہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہا ہوں گا.مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ مجلس شوری پر جب نظر رکھی جائے یا مجلس شوریٰ میں شامل لوگ یہ سمجھیں کہ اس وقت ہم آزادی سے بیٹھے ہوئے ہیں ہم پر کوئی نظر نہیں تو وہ بدکنے کی کوشش کرتے ہیں، رستے سے ہٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا کی مجالس شوری کی بعض باتوں سے متاثر ہو کر ایسے انداز اختیار کر لیتے ہیں جن کا تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں پس ان کو بار بار سمجھانے کی ضرورت ہے.اس ضمن میں میں نے جہاں تک یورپ کی مجالس سے خطاب کیا ہے ان کا ریکارڈ موجود ہے.میری یہ نصیحت ہے کہ مجلس شوری کا جہاں بھی انعقاد ہو اس سے پہلے منتظمین کوشش کریں کہ وہ کیٹیں جن میں مجلس شوری سے متعلق میں نے ہدایتیں دی ہوئی ہیں ان کو خوب غور سے سنیں اور اگر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 338 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء ہو سکے تو ان میں سے بعض مجلس شوری کے اراکین کو سنائیں بھی.اس سے انشاء اللہ تعالی ان کو بہت فائدہ پہنچے گا.ابھی پچھلے سال ایک مجلس شوری تحکیم میں منعقد ہوئی.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض پرانے مربی بھی موجود تھے، ہمارے کیپٹن شمیم احمد صاحب بھی بڑے مخلص فدائی اور تجربہ کار احمدی ہیں لیکن مجلس شوری کے وقت میں نے محسوس کیا کہ روایات سے ناواقفیت ہے اور تصور پوری طرح صحیح نہیں ہے کہ مجلس شوری کیا ہوتی ہے، کیسے منعقد کی جاتی ہے؟ پس شروع میں میں نے ان کو بھی تفصیل سے سمجھایا اور جہاں تک مجھے یاد ہے ان کی ریکارڈنگ ہوچکی ہے.اگر وہ ریکارڈ نگ تمام ممالک کو نہ گئی ہو تو وہ حاصل کریں.اس میں آپ کو بہت سے ایسے امور مل جائیں گے جن کو سمجھے بغیر آپ کو مجلس شوری کا صحیح تشخص نہیں ہو سکتا.پتا نہیں لگ سکتا کہ شوری ہے کیا چیز ؟ کس نے مشورہ لینا ہے؟ کس سے لینا ہے؟ مشورے کی حقیقت کیا ہے؟ کس طرح دیا جاتا ہے؟ کیا مشورے کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے دنیا میں پارلیمنٹس میں فیصلوں کی حیثیت ہوتی ہے یا اس سے مختلف ہے؟ ان تمام امور پر میں نے اس میں روشنی ڈالی اور وضاحت کی ہے.پھر احمدیوں کے لئے نام پیش کرنے کے آداب، مجلس شوری کس طرح منعقد کی جاتی ہے؟ یہ سارے امور بیان کئے ہیں.لیکن اس سے پہلے غالباً سویڈن میں بھی اور انگلستان میں بھی اور ناروے میں بھی ان مضامین پر روشنی ڈال چکا ہوں اور وہ ساری ٹیسٹس مہیا ہوسکتی ہیں.اس تھوڑے وقت میں تفصیل سے میں دوبارہ روشنی تو نہیں ڈال سکتا لیکن یہ بتا رہا ہوں کہ ان کیسٹس سے آپ استفادہ کریں ان سے آپ کو مجلس شوری سے متعلق بہت کچھ معلوم ہوگا اور مجلس شوری کی اعلیٰ اقدار کی حفاظت بہت ضروری ہے.میرا تجربہ ہے کہ باوجود نصیحتوں کے جب میں وہاں موجود نہ ہوں جہاں مجلس شوریٰ منعقد ہورہی ہے تو کچھ لوگ رستے سے ہٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میرے سامنے ان کا انداز اور ہوگا اور جب میں ان کو نہیں دیکھ رہا اُن کا انداز اور ہو گا.یہ ایک بہت ہی خطرناک رجحان کی نشاندہی کرنے والی بات ہے.حقیقت یہ ہے کہ مومن تو خدا کے سامنے زندگی بسر کرتا ہے اور خدا ہر جگہ ہے اور ہر وقت دیکھ رہا ہے جب تک یہ رجحان پیدا کر کے ہم اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتے اس وقت تک تقویٰ کے لباس سے ہم عاری رہیں گے.تقویٰ کے بغیر ہماری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور تقویٰ کے مضمون کی جان یہ ہے کہ خدا مجھے دیکھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 339 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۳ء رہا ہے.سبحان من یرانی - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نظم ہر بیاہ شادی کے اوپر آپ بار بار سنتے ہیں، جلسوں پر بھی سنائی جاتی ہے اور یہ مصرعہ تو بار باردہرایا جارہا ہے.سبحان من يراني.سبحان من یرانی.پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے.آپ یہ سوچا کریں کہ خدا دیکھ رہا ہے اگر مجلس شوری میں شامل ہوتے وقت آپ یہ خیال کریں کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے.ہمارے اطوار، ہمارے انداز پر اس کی نظر ہے اگر ہم نے کوئی بداخلاقی کی ، اگر کسی طرح اپنے بھائی کا تحقیر سے ذکر کیا، کسی کا دل دکھا یا مشورہ دیتے وقت اپنی انانیت پیش نظر رکھی ، اپنی چالا کی ، اپنا زیادہ علم لوگوں کے سامنے دکھانے اور نمائش کرنے کی کوشش کی تو یہ ساری وہ باتیں ہیں جن کو خداد یکھ تو رہا ہے مگر کراہت کی نظر سے دیکھ رہا ہے اور اگر اپنے محبوب کی کراہت کی نظر انسان پر پڑے تو اس سے انسان کا وجود دہل جاتا ہے، لرزہ طاری ہو جاتا ہے.اسی لئے انسان اپنے پیارے اور اپنے محبوب کے سامنے جس کے جذبات کی اس کے دل میں کچھ قدر ہوا کرتی ہے صاف ستھرا ہو کر بن ٹھن کر جاتا ہے اور اپنے عیوب پر پردے ڈال کر جاتا ہے.پہلی رات کی سہاگن جب اپنے خاوند کے سامنے جاتی ہے تو اس کو اتنا بنایا سجایا جاتا ہے، اس کے ہر قسم کے عیوب پر پردے ڈالے جاتے ہیں.ایسے غازے ملے جاتے ہیں جس سے چہرے کے داغ مٹ جائیں وغیرہ وغیرہ.خدا کے سامنے جو مومن کی روح نے جانا ہے تو اس سے زیادہ حسین سہاگن بن کر جانا چاہئے اور خدا کے سامنے جانے کا مضمون تو یہ ہے سبحان من یرانی.ہر حال میں اس کے سامنے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر حال میں ہر وقت خدا دکھائی دے نہیں سکتا اور یہ اللہ کا احسان ہے.اگر ہر وقت دکھائی دے تو مومن کی تو لرزتے لرزتے زندگی ختم ہو جائے.یہ خدا کی شان ہے کہ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے، اس کا باطن ہونا اس کے بندوں پر بہت بڑا حسان بھی ہے.اس لئے کہ وہ جب ہٹ جاتا ہے تو اس وقت کچھ تھوڑی سی زیادہ آزادی سی ملتی ہے.انسان تھوڑا سا Relax ہو جاتا ہے اور جہاں بھی Relax کہتا ہوں تو میرا مطلب ہے وہ لوگ جن کو نیکی کی زندگی بسر کرنے کی پوری عادت نہیں پڑتی وہ بار بار کچھ آرام چاہتے ہیں اور خدا کا باطن یا غائب ہونا ان کو وہ آرام مہیا کر دیتا ہے لیکن ایسے مواقع جو خاص اہمیت کے مواقع ہیں مثلاً نماز کے لئے مسجد میں جانا یا گھر میں نماز پڑھنا یا اہم دینی مجالس میں شامل ہونا ، ان مجالس پر خدا کے حاضر ہونے کا احساس بہت نمایاں ہو جاتا ہے.پس جب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 340 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء میں کہتا ہوں کہ سبحان من یرانی کے مضمون کو پیش نظر رکھیں تو مراد یہ ہے کہ جب سجدہ گاہوں میں جائیں ، جب خدا کی عبادت کے لئے کھڑے ہوں ، جب خدا کے ذکر کی مجالس میں شامل ہوں تو اس وقت کم سے کم Relax نہ ہوا کریں.اس وقت خدا کے تصور کو پوری طرح حاضر کر کے اپنے انداز کو اور اپنے اطوار کو سجائیں، ان کو زینت دیں، اپنے وجود کو ہر قسم کی شیطانی اداؤں سے محفوظ کر دیں.یہ مضمون بیان کرنا تھوڑا سا مشکل ہے.میرے ذہن میں ہے لیکن بعض دفعہ مناسب الفاظ حاضر نہیں ہوتے.مراد یہ ہے کہ جب خدا کی حضوری کا تصور آپ کے اوپر چھا جائے تو اس وقت انسان دو قسم کی حرکتیں خود بخود کرے گا.ایک استغفار ہے جس کا مطلب ہے اپنی کمزوریوں کو چھپانا ان پر مٹی ڈالنا اور شرمندگی کا احساس.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں ہمیں حضوری کا یہ مضمون بتایا گیا ہے.انہوں نے جب اللہ تعالیٰ کو سامنے حاضر دیکھ لیا حالانکہ پہلے بھی حاضر تھا.جب غفلت کا ارتکاب ہو رہا تھا اس وقت بھی خدا حاضر تھا مگر اس وقت غفلت کی آنکھ نے خدا کو ذرا اوجھل رکھا ہوا تھا، جب غفلت کی وہ آنکھ کھلی اور خدا کو قریب دیکھا تو پہلا رد عمل تھا کہ پتوں سے اپنے وجود کو ڈھانپنے لگے یعنی اپنی کمزوریوں پر استغفار کے پردے ڈالے تو ایک تو یہ رد عمل ہے کہ اپنے عیوب کو چھپانے کی کوشش کریں اور اپنی کمزوریوں پر پر دے ڈالیں مگر استغفار کے پردے، ریاء کے پردے نہیں اور دوسرا اپنے آپ کو حسین بنائیں.دو ہی چیزیں ہیں ، نقائص کو چھپائیں اور اپنی خوبیوں کو چمکائیں اور اجالیں.پس خدا کے سامنے جب باتیں کریں تو ایسی باتیں کریں کہ خدا کو ان پر پیار آئے.ایسی باتیں کریں کہ جب آپ دنیا میں اپنے دوستوں کے سامنے باتیں کرتے ہیں تو دوسروں کو بھی آپ پر پیار آتا ہے.پس دعا کا فن بہت ہی بڑا اور عظیم فن ہے.اس میں ایک یہ بات بھی داخل ہے کہ باتیں کرتے وقت خدا کا دل پچکارنے کی کوشش کریں.ایسی ادا بنا ئیں کہ جو خدا کو پسند آ جائے.چنانچہ بہت سے ایسے لوگ جو دعا کے متعلق مجھے لکھتے رہتے ہیں.یہ بتاتے ہیں کہ جب بعض دفعہ دل اٹک گیا اور دل پر ایک قسم کا جمود سا طاری ہو گیا.دعا کرنے کے لئے کوئی اندرونی قوت غیر معمولی جوش نہیں دکھاتی تھی تو اس وقت پھر ہم نے سوچ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے یہ یہ چالاکیاں کیں اور بعض
خطبات طاہر جلد ۱۲ 341 خطبه جمعه ۳۰ / اپریل ۱۹۹۳ء چالاکیاں، اتنی پیاری چالاکیاں تھیں کہ جب میں نے ان کو پڑھا تو مجھے یقین آ گیا کہ یہ دعا تو قبول ہونی ہی ہوئی تھی اور باقی صفحہ میں پھر اسی کا ذکر ملتا تھا کہ جب ہم نے خدا کو یہ کہا تو اچانک دل کے تالے کھل گئے اور روانی پیدا ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان دعاؤں کو قبول کر لیا.ابھی کل پرسوں کی بات ہے امریکہ سے ہماری ایک بہن کا فون آیا تھا انہوں نے بتایا کہ ایک موقع پر مجھے یہ فکر پیدا ہوئی اور ایسی تشویش تھی کہ اس کے نتیجہ میں بے چین ہوکر میں نے جو دعا کی وہ اتنی جلدی مقبول ہوئی کہ میں حیران رہ گئی.پس دوسرا پہلو جو خدا کی حضوری کا ہے وہ یہ ہے.پہلا استغفار جب مجلس شوریٰ میں جایا کریں تو اپنی کمزوریوں پر نظر رکھیں اور سب سے بڑی کمزوری انانیت کی کمزوری ہے، آپ کو بار بارنفس دھوکہ دے گا، آپ کو شوخی سکھائے گا، آپ کو اپنے کمزور، کم عقل بھائی پر ہنسنے پر آمادہ کرے گا تحقیر پر آمادہ کرے گا ، غلط دلیل دینے والے کا مذاق اڑانے پر آمادہ کرے گا، کئی قسم کے شیطانی وسوسے ہیں جو ایسی مجالس جن میں اہم امور پر غور ہوتا ہے.ان مجالس میں وساوس انسان کے دلوں پر اور دماغ پر قبضہ کر لیا کرتے ہیں اور یہ وساوس ہیں جو دراصل قوموں کو گمراہ کرنے کا موجب بنتے ہیں.پس مجلس شوری میں ان وساوس سے اپنی حفاظت استغفار کے ذریعے کریں.ہر قسم کے نفسانی خیال اپنے دل سے نکال پھینکیں اور پھر جب مشورہ دیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اور ایسی دعا کرتے ہوئے جس سے آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ راضی ہو جائے ، اللہ کو آپ پر پیار آ جائے ، خدا سے راہنمائی حاصل کریں ، اپنی چالاکیوں پر بنا نہ کریں.پس ایسی دعاؤں کے ساتھ جن دعاؤں میں ایک قسم کی کشش پیدا ہو جاتی ہے، جن دعاؤں کو خدا پیار سے دیکھے، خدا سے راہنمائی حاصل کریں.عرض کریں کہ یہ مشورہ تیری خاطر دینے کے لئے حاضر ہوئے ہیں تو ہماری عقلوں کو چمکا اور ہماری زبان میں طاقت پیدا فرما.ہم اپنی بات کو صحیح طریق پر سمجھانے کے اہل ہوں اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد پھر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ ر ہیں ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا ہے.اب ہماری بات چاہے قبول ہو یا نا مقبول ہو.ہم اسی طرح سلسلہ کے فدائی ہیں اور اسی طرح ہم سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ( البقرہ ۳۸۲) کی روح کے ساتھ سلسلہ کے ہر فیصلے کو قبول کریں گے جس طرح یہ بات کرنے سے پہلے ہم کرتے تھے یا کرتے رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 342 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۳ء یہ تین باتیں ہیں جو میرے نزدیک مجلس شوریٰ میں برکت پیدا کرنے کے لئے اور روحانی طور پر مجالس شوریٰ کو زندہ کرنے کے لئے ضروری ہیں.ہر مشورہ دینے والا استغفار کے ساتھ حاضر ہو یعنی وضو کر لے، ہر مشورہ دینے والا اپنی نیکیوں کو چمکائے اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہو اور زینت لے کر خدا کے حضور حاضر ہو اور ہر مشورہ دینے والا جب کچھ مشورے دے بیٹھے تو پھر یہ عرض کرے کہ ہم نے مشورہ دے دیا ماننے والے مانیں یا نہ مانیں ہم راضی ہیں.ہم نے جو کچھ حاضر کرنا تھا کر دیا.اس روح کے ساتھ اگر آپ مجالس شوریٰ میں شامل ہوا کریں اور اُن کی اعلیٰ اقدار کو زندہ رکھیں گے.تو میں یقین رکھتا ہوں کہ مجالس شوری جماعت کی اقدار کی حفاظت کریں گی ، جماعت کی ہمیشہ کی زندگی کی ضامن بن جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.(امین)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 343 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء اللہ تک پہنچنے کے لئے نماز سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں ہے.نماز کی حفاظت کرو نماز تمہاری حفاظت کرے گی.جتنی رؤیت بڑھے گی اتنا تم حفاظت میں آتے چلے جاؤ گے.( خطبه جمعه فرمودہ سرمئی ۱۹۹۳ء بمقام ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَللًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ اِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنُ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ أَبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ) (البقره: ۱۶۹ تا ۱۷۱) پھر فرمایا:- اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں ہر جمعہ کسی نہ کسی جماعت میں کوئی نہ کوئی ایسی تقریب منعقد ہو رہی ہوتی ہے کہ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس جمعہ پر ہماری تقریب کا بھی یا افتتاح کیا جائے یا اس کا ذکر ضرور ہو جائے.شروع شروع میں دل رکھنے کی خاطر مجبوراً ایسا کرنا پڑے گا مگر بالآخر یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے ادا کرنا میری طاقت سے باہر ہو جائے گا.واقعہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 344 خطبہ جمعہ ۷رمئی ۱۹۹۳ء ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں روز بروز ترقی کر رہی ہیں چند سال پہلے تک دنیا بھر میں جماعتوں کی جو تعداد تھی اب اس سے تقریباً ڈیڑھ گنی ہو چکی ہے اور جماعتوں کے بڑھنے کے ساتھ اس قسم کی تقریبات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے پھر جماعتی تقریبات ہیں.مجالس کی تقریبات ہیں جو انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ، اطفال الاحمدیہ وغیرہ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے شروع میں تو دلداری کی خاطر اور شوق بڑھانے کے لئے ان خواہشات کو ضرور پورا کرنا ہوگا.آج مجلس انصار اللہ یوایس اے کی طرف سے یہ درخواست ملی ہے کہ کل یعنی ہفتہ کے روز سے ہمارا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور ساتھ ہی مجلس شوری بھی ہوگی اس موقع پر ہمارے لئے خصوصی پیغام دیں.پہلا خصوصی پیغام تو یہی ہے کہ اللہ مبارک فرمائے اور کثرت کے ساتھ انصار کو اس میں شمولیت کی اور اس اجتماع سے استفادہ کی توفیق بخشے.اجتماع میں شمولیت سے ایک رونق سی پیدا ہو جاتی ہے، دلوں میں ولولے سے اٹھتے ہیں اور انسان دو تین دن کے عرصہ میں ہی وقتا فوقتا بلکہ ساتھ بہ ساتھ ایمان میں ترقی کرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اجتماع کے دوران دلوں کی جو کیفیت ہوتی ہے اگر وہ سارا سال رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت بہت تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی.پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان کیفیات کی حفاظت کیا کریں، یہ مقدس امانتیں ہیں جو آپ کو جماعتی اجتماعات کے موقع پر عطا ہوتی ہیں خواہ وہ جلسہ سالانہ ہو یا دیگر ذیلی تنظیموں کی تقریبات ہوں سب احمدیوں کا یہ تجربہ ہے کہ دلوں میں غیر معمولی طور پر ایک تموج پیدا ہو جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو پہلے سے بہت زیادہ جماعت کے قریب پاتا ہے اور نیکیوں کے قریب پاتا ہے تو ان کی حفاظت کے لئے اس تموج کی حفاظت ضروری ہے.بعض نیکیاں ایسی ہیں جو انسان کو سنبھال لیتی ہیں اور حفاظت کرتی ہیں، بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کی حفاظت کرنی پڑتی ہے تب وہ حفاظت کرتی ہیں ایسی نیکیوں میں سے قرآن کریم نے نماز کی مثال دی ہے جیسا کہ میں نے گذشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا که حفِظُوْا عَلَى الصَّلَواتِ (البقره: ۲۳۹) تم نماز کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ تم نماز کی حفاظت کرو اور نماز تمہاری حفاظت کر رہی ہو.پس بہت سی ایسی نیکیاں ہیں جو حفاظت چاہتی ہیں اور مسلسل حفاظت چاہتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں آپ کو ان کی طرف سے بھی مسلسل حفاظت ملے گی اور اس کا آخری تعلق دل کے جذبہ سے ہے اور ولولہ سے ہے اگر ولولہ جھاگ کی طرح اٹھے اور جھاگ کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 345 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء طرح بیٹھ جائے.دو تین دن کے اندر سمٹ کرو ہیں جولانی دکھائے اور وہیں ختم ہو جائے تو ایسے ولولہ سے مستقل فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا.پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر ایسے اجتماع کے وقت ہر فرد کو جو حصہ لے رہا ہو اس کو کچھ نہ کچھ فیصلے کرنے چاہئیں اور ان فیصلوں کی حفاظت کرنی چاہئے.ہر اجتماع کے موقع پر ہر شخص اگر یہ سوچے کہ میں نے جولزت پائی تھی اسے ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کیا طریق ہے تو ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان نمازوں میں با قاعدہ ہو جائے.اجتماع کا نماز کے ساتھ جو ی تعلق ہے اس پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے.واقعہ یہ ہے کہ اگر اجتماع اللہ کی خاطر نہیں اور جو سرور آپ حاصل کر رہے ہیں وہ خدا کی خاطر نہیں تو اس اجتماع کا ولولہ ایک جھوٹا ولولہ ہے اس کو زندہ رکھنے کی ضرورت بھی کوئی نہیں ایسے اجتماع کا ولولہ تو ہر میلے پر پیدا ہوتا ہے بلکہ بعض میلوں پر جانے والے جانتے ہیں کہ ان کو دینی اجتماعات کے مقابل پر میلوں میں شامل ہونے کا بہت زیادہ مزا آ رہا ہے.پس سب سے پہلے میری نصیحت یہ ہے کہ اپنے اس ولولے کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کو خدا کے قرب کی وجہ سے لذت آئی تھی ، نیکیوں کے قریب ہونے کے نتیجہ میں لذت ملی تھی یا محض اس لئے کہ ایک ہنگامہ تھا ایک رونق تھی ، اچھی نظمیں پڑھی گئیں.اچھی تقریریں ہوئیں اور ایک ذہنی لطف اٹھا کر آپ اپنے گھروں کو واپس لوٹے اگر قرب الہی کا احساس ہے اگر یہ احساس ہے کہ نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر دن رات نیکی کی باتیں کر کے بہت مزا آیا ہے تو پھر لازماً اس جذبہ کی حفاظت ہونی چاہئے اور یہ حفاظت نماز کر سکتی ہے اور کوئی چیز نہیں کر سکتی کیونکہ نماز میں روزانہ پانچ دفعہ آپ کو بار بار ان ولولوں کا اعادہ کرنا ہوتا ہے، پانچ مرتبہ خدا کے حضور حاضر ہونا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنا ہوتا ہے، ان تعلقات کو دن بدن بہتر بناتے چلے جانا ہے اگر ایسا ہو تو نمازیں زندہ رہتی ہیں.ایک معنی حفاظت کا یہ بھی ہے کیونکہ حفاظت کا شعور اور توجہ سے گہرا تعلق ہے ،غفلت اگر ہوتو حفاظت نہیں رہتی.میر ازندگی بھر کا یہ تجربہ ہے کہ نمازوں میں اگر ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو نمازوں سے انسان پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ پانچ وقت کی نماز جہاں ایک نعمت ہے وہاں ایک پہلو سے اس میں ایک خطرہ بھی مضمر ہے جو چیز بار بار اسی طرح ویسے ہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 346 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء جذبات کے ساتھ کی جائے اس سے طبیعت میں اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے، اس سے غفلت پیدا ہو جاتی ہے، اس سے نیندسی آنے لگتی ہے اور انسان کوشش کرتا ہے کہ رسمی طور پر اس چیز سے گزر جاؤں اور پھر اپنے دلچسپ مشاغل کی طرف لوٹوں.یہ جو انسانی کیفیت ہے یہ اس بات کی مظہر ہے اور قطعی شہادت دے رہی ہے کہ آپ نے نماز کی حفاظت نہیں کی کیونکہ آپ نماز سے غافل ہورہے ہیں اور جب آپ نماز سے غافل ہورہے ہوں تو حفاظت ہو ہی نہیں سکتی.حفاظت کا مضمون ہمہ وقت بیداری کا مضمون ہے حفاظت کا مضمون بتاتا ہے کہ اپنی نماز میں ہمیشہ ایسا نوع پیدا کرتے چلے جائیں کہ اس میں ایک تازگی پیدا ہو، ایک لذت پیدا ہو، نماز سے ایک نیا تعارف حاصل ہو اور وہ جاگا ہوا شعور نماز کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پھر نماز آپ کی حفاظت کرتی ہے.اجتماع کے موقع پر خواہ وہ کیسا ہی اجتماع ہو جماعت کا کہہ لیں یا ذیلی تنظیموں کا ، انسان کو ان باتوں پر غور کرنے اور ان تجارب کے نتیجہ میں کچھ مستقل فیصلے کرنے کا ایک موقع ضرور مل جاتا ہے.میرا یہ مشورہ ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس میں جو اجتماع ہو رہا ہے وہاں خصوصیت کے ساتھ اس ریزولیوشن کی ضرورت ہے، یہ عہد باندھنے کی ضرورت ہے کہ ہم روز مرہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کریں گے کیونکہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش تو ہر جگہ ضروری ہے لیکن بعض جگہ یہ زندگی اور موت کا بہت زیادہ مسئلہ بن جاتی ہے.ایسے غریب معاشرے جہاں خدا سے بد کانے اور دور ہٹانے کے سامان کم ہیں وہاں غفلت کے نتیجہ میں فوری ہلاکت واقع نہیں ہوا کرتی.غفلت کی حالت میں آپ رہ بھی سکتے ہیں کیونکہ اتنے لٹیرے نہیں ہیں، اتنے ڈاکو نہیں ہیں اس لئے خطرات کم ہیں لیکن یونائٹیڈ سٹیٹس مغربی تہذیب کی سب سے بلند و بالا چوٹی ہے اور مغربی تہذیب میں مذہب کو نکال کر جو بدیاں پائی جاتی ہیں وہ تمام خدا سے دوری کی بدیاں ہیں.ان بدیوں کی پہچان یہ ہے کہ انسان خدا سے جتنا دور ہو اتنا ہی مادیت میں لذت پاتا ہے اور خدا کے قرب سے گھبراتا ہے.جتنا وہ اپنی لذت گاہوں کے قریب جاتا ہے خدا کے تصور سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور ان لذتوں کا ایسا عادی ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں پھر خدا کا قرب تکلیف دینے لگتا ہے.بعض باتیں رفتہ رفتہ ہو رہی ہوتی ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں لگتا کہ ہم سرکتے سرکتے کہاں جا پہنچے ہیں اور آگے ہمارا رخ کس طرف ہے.میں نے پہلے ایک دفعہ مثال دی تھی کہ اپنے بچوں پر نظر رکھ کر دیکھیں کہ ٹیلی ویژن پر وہ پروگرام دیکھ رہے ہوں اور ان کے کان میں آواز
خطبات طاہر جلد ۱۲ 347 خطبہ جمعہ ۷رمئی ۱۹۹۳ء پڑے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز پڑھو تو ان کے چہرے پر جو رد عمل ہے اس کا مطالعہ کر کے دیکھیں بعض ایسے رد عمل ہوں گے کہ جو پڑھ کر والدین کے ہوش اڑ جانے چاہئیں کیونکہ وہ ان کی قطعی ہلاکت کی خبر دے رہے ہوں گے وہ وہاں سے ایسی بیزاری سے اٹھیں گے کہ کیا عذاب ، کیا مصیبت ڈالی ہوئی ہے.ہم جب کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آواز پڑ جاتی ہے کہ اٹھو جی نماز پڑھو یہ کروتو وہ کرو.یہ رد عمل بعض دفعہ دبا ہوا صرف اداؤں سے معلوم ہوتا ہے بعض دفعہ لفظوں سے ظاہر ہو جاتا ہے اور ایسے بچے انتظار کرتے ہیں کہ جب بھی ماں باپ کے دائرہ اثر سے باہر جائیں تو پھر اپنی مرضی کے رستے تلاش کریں اپنی مرضی کی دلچسپیوں میں حصہ لیں اور یہ جو ہلاکت ہے یہ سب سے زیادہ مغرب میں ہماری نسلوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی ہے اور یہ وہ ہلاکت ہے جو سب سے زیادہ امریکہ میں پل رہی ہے اور وہاں سے پھر باقی ممالک کو ایکسپورٹ ہوتی ہے.نئی دنیا نے نعیش کے جتنے ذرائع ایجاد کئے ہیں ان کی پیداوار کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے اس منڈی سے یہ مال ہول سیل خرید کر پھر غیر ممالک کو بھیجا جاتا ہے.میں نے یہ بات جو چند لفظوں میں بیان کی ہے اس پر آپ غور کر کے دیکھیں تو تمام تفاصیل میں یہ بات درست نکلے گی.پس امریکہ جیسے ملک میں رہتے ہوئے جب آپ اجتماعات منعقد کرتے ہیں، انصار کے ہوں یا لجنہ کے یا کسی اور کے تو دیکھنا یہ ہے کہ ان اجتماعات سے آپ کو باقی رہنے والا کیا فائدہ حاصل ہوا.تمام دوسری تقریریں جو مختلف موضوعات پر ہیں وہ اچھی ہوں گی لیکن سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے اخلاقی قدروں کو جو خطرات درپیش ہیں، ہماری آئندہ نسلوں کو جو خطرات درپیش ہیں ان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے سب سے زیادہ زیر بحث لایا جائے اور اس کے متعلق ذرائع اختیار کئے جائیں تدبیریں سوچی جائیں ان پر دائما عمل کرنے کے منصوبے بنائے جائیں اور پھر وقتاً فوقتاً جائزہ لینے کا انتظام بنایا اور نافذ کیا جائے.یہ سارے انتظامات جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کا خلاصہ وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ قرب الہی کی کوشش کی جائے اور نمازوں کو قائم کیا جائے اور نمازوں کو قائم کرنے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نماز میں ایسی لذت پیدا کرنا ضروری ہے یا نماز سے ایسا تعلق باندھنا ضروری ہے کہ دیگر تعلقات اس کے مقابل پر بیچ ہو جائیں.یہ اعلیٰ مقصد جب تک حاصل نہیں ہوتا نمازی محفوظ نہیں ہے کیونکہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 348 خطبہ جمعہ ۷رمئی ۱۹۹۳ء اس کی نمازیں محفوظ نہیں ہیں اور یہ اعلیٰ مقصد حاصل کرنے میں بڑی جدو جہد کی ضرورت پڑتی ہے.اس ضمن میں جو خطرات مغرب کی دنیا میں ہیں وہ مشرقی دنیا سے بہت ہی زیادہ بھیا نک ہیں کیونکہ دو طرح کے فتنے یہاں بے دھڑک گھر گھر میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر گھر میں وہ کھیل کھیل رہے ہیں اور کوئی ان کو روکنے والا نہیں ہے.ان فتنوں میں سے ایک مغربی آزادی کا تصور ہے.ایسا غیر متوازن تصور ہے کہ اگر آپ اس کا تجزیہ کر کے دیکھیں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ کیسا جاہلانہ خیال ہے لیکن ہماری نسلوں کو اسی جاہلانہ خیال سے مذہب سے دور پھینکا جاتا ہے.ان ممالک میں اور خصوصاً امریکہ میں جب بچہ جوان ہو رہا ہو یا بیٹی بڑی ہورہی ہو اور بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہو تو اس کے سکول کی طرف سے اس کے گردو پیش کی طرف سے اس کے دوستوں کی طرف سے اس کو پیغام ملتا ہے کہ مبارک ہو اب تم آزاد ہو رہے ہو.اے بچو اب تم آزادی کے قریب پہنچ رہے ہو اور اس عمر میں داخل ہو رہے ہو کہ تمہیں اپنے ماں باپ کی اقدار کی پیروی کرنے کی ، مذہبی اقدار کی پیروی کرنے کی اخلاقی قدروں کی پیروی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.یہ ساری فرسودہ باتیں ہیں.اس وقت تک یہ تم پر لازم ہیں جب تک تم ماں باپ کے گھر میں رہنے کے پابند ہو جب تک ان کو کچھ اختیار ہے کہ تمہاری اخلاقی تعمیر میں کچھ کوشش کریں.اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ گئے اب تم آزاد ہو جس کے ساتھ چاہو راتیں بسر کرو جو چاہو گند کرو جس قسم کے ٹیکے لگوانے میں لگواؤ یہ دنیا چند روزہ ہے جیسے عیش کرنے ہیں عیش کر لو تمہیں اب کوئی پوچھ نہیں سکتا کوئی روک نہیں سکتا تم مادر پدر آزاد ہو.اب مادر پدر آزاد ہونے کا جو یہ محاورہ ہے یہ اردو کا محاورہ ہے اور اس زمانہ میں بنا تھا جب مادر پدر آزاد ہوتا ہی کوئی نہ تھا کوئی قسمت کا مارا کہیں آزاد ہو جاتا ہوگا لیکن یوں لگتا ہے جیسے پیشگوئی کی گئی تھی اور یہ پیشگوئی سب سے زیادہ امریکہ پر صادق آ رہی ہے.وہاں پر بچہ بلوغت سے پہلے بھی مادر پدر آزاد ہونے کی کوشش کرتا ہے، نہ ماں کا اثر رہے نہ باپ کا اثر رہے اور معاشرہ اس کو یہ دھو کہ دیتا ہے اور شیطان اس کے کانوں میں یہ بات پھونکتا ہے کہ تم آزاد ہواب تمہیں ان پابندیوں کی کیا ضرورت ہے.اس آواز کا جھوٹ اور فریب ایک اور آواز سے ظاہر ہوتا ہے جو ساتھ ہی کانوں میں پڑتی ہے اور وہ قانون کی آواز ہے.وہ آواز یہ کہتی ہے کہ دیکھو جو بلوغت سے پہلے انسانوں کے بنائے ہوئے قانون توڑا کرتے تھے ان کی سزا کم ہوا کرتی تھی ان میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 349 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء تم پوری طرح ذمہ دار نہیں تھے.لیکن اب تم ایسی عمر کو پہنچ رہے ہو کہ خبردار جو تم نے کبھی قانون سے باہر قدم رکھا.ہمارے بنائے ہوئے قوانین یعنی انسانی قوانین کو اتنی طاقت ہے اتنی عظمت ہے کہ اب بلوغت کی عمر کے بعد ان کو توڑنے کا بھی کبھی تصور نہ کرنا ورنہ پہلے اگر تمہیں قتل کے الزام میں وقتی معمولی سزائیں دی جاتی تھیں (اگر قتل ثابت ہو جائے تو ) کیونکہ بالغ عمر کو نہیں پہنچے تھے.لیکن اب اگر قتل کرو گے تو عمر قید بھی ہو سکتی ہے اور بعض ریاستوں میں پھانسی بھی لگ سکتی ہے تو یہ ایک اور آواز اٹھ رہی ہے عمر وہی ہے وہی عمر کی ایک لکیر ہے جس سے قدم دوسری طرف جانے والا ہے خدا کے قانون کے مطابق ان قوموں کا یہ پیغام ہے کہ اے وہ بچے جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہو مبارک ہو تم خدا کی خدائی سے آزاد کئے جاتے ہو.اخلاقی قیود کے متعلق ان کو پیغام ہے کہ اے بچو ! جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہو.تمہیں مبارک ہو کہ ہر قسم کی اخلاقی قدروں سے ہم تمہیں آزاد کرتے ہیں.معاشرتی اور تمدنی طور پر ان کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اے بچو جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہو تم ماں باپ رشتے داروں، پرانی خاندانی اور روایتی قدروں سے آزاد کئے جاتے ہو.تو اب ان باتوں کی پیروی کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو چاہو کرتے پھرو اور قانون کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ ہاں انسان کے بنائے ہوئے ہمارے ملک کے جو قوانین ہیں خبر دار جو ان کو ٹیڑھی نظر سے دیکھا.عمر ایک ہی ہے پیغام دو ہیں اسی کا نام دجل ہے اسی کا نام دھو کہ بازی ہے اگر بلوغت کی عمر کا تقاضا ذمہ داری تک کی عمر کو پہنچنا ہے.تو دونوں طرف برابر یہی پیغام ملنا چاہئے تھا دونوں آوازیں یکساں اور ہم آہنگ ہونی چاہئے تھیں اور ملک کے بڑے بڑے جو با اثر لوگ ہیں یا سکولوں کالجوں میں جو اساتذہ وغیرہ ہیں اور جو بچوں پر اثر رکھتے ہیں ان سب کو یہی کہنا چاہئے کہ دیکھو تم انسانی قانون کی زد میں آرہے ہو اخلاقی قانون کی زد میں بھی پہلے سے بڑھ کر ہو.مذہبی قانون کی زد میں بھی پہلے سے بھی بڑھ کر ہوا گر تم سچے ہو تو جس چیز کو تم سچائی سمجھتے ہو اس پر تمہیں پہلے سے بہت زیادہ ذمہ داری سے عمل کرنا ہو گا اس سے غرض نہیں ہے کہ تم عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا ہندو یا سکھ ہولیکن تم اس سچائی کو جس کو تم نے قبول کر رکھا ہے سچائی سمجھ کر قبول کر رہے ہو.پس اعلیٰ انسانی قدروں کا تقاضا ہے، بالغ نظری کا تقاضا ہے کہ تم پہلے سے بڑھ کر ان چیزوں کی قدر کرو لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے بالکل بر عکس دو الگ الگ پیغام دنیا کو دیئے جارہے ہیں.اجتماع کے موقع پر آپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ آپ کس ملک میں ہیں اور اس ملک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 350 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء کے خطرات کیا کیا ہیں اور ان کی نشاندہی کرنی چاہئے اور یہ جو پیغام امریکہ کے لئے ہے یہی پیغام ساری مغربی دنیا کے لئے ہے بسا اوقات میں مشرقی ممالک کی خرابیوں کا ذکر کر کے ان کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں اب مغربی دنیا میں ہونے والے اجتماع کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے خطبہ کو زیادہ تر اسی دائرہ میں محدود رکھنا چاہئے کہ مغربی دنیا میں اس احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو جو مختلف قسم کے چیلنج مل رہے ہیں، مختلف قسم کے خطرات درپیش ہیں ان کے متعلق ہمیں کس طرح جوابی کارروائی کرنی چاہئے.طریقۂ کار جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہی ہے کہ خدا کی طرف واپس جانا ہو گا ، یہی خلاصہ ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی حفاظت نہیں اور اللہ تک پہنچنے کے لئے نماز سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں ہے ان دو باتوں کے علاوہ اب میں تفصیل سے یہ بتارہاہوں کہ خطرات کی نشاندہی کریں کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں پہلے سے متنبہ کر رکھا ہے کہ شیطان ایسی اطراف سے ، ایسی سمتوں سے ایسے لباس میں حملے کرتا ہے کہ تم اس کو دیکھ نہیں رہے ہوتے.پس دو ہی وجود ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے اس قسم کے لفظ استعمال کئے ہیں کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اُسے نہیں دیکھ رہے.ایک خدا ہے جس کے متعلق بار بار ہمیں بتایا گیا کہ دیکھوتم نہ بھی دیکھ رہے ہوتو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے تم اس سے غافل نہ رہنا اور دوسری طرف انتہا پر یہ بتا دیا گیا کہ شیطان بھی تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اسے نہیں دیکھ رہے یعنی اکثر آنکھیں بند کر لیتے ہو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس لئے تم جو مرضی کرتے پھرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ شعور پیدا کرو، خدا کو دیکھنے کا اپنے اندر احساس پیدا کرو، اپنی فکر کی نظر سے، اپنے جذبات کی نظر سے تم بھی خدا کو دیکھنے کی کوشش کرو اور اس پہلو سے جتنی رؤیت بڑھے گی اتنازیادہ تم حفاظت میں آتے چلے جاؤ گے.دوسری طرف شیطان کو دیکھنے کی کوشش کرو سمجھو کہ وہ کس طرف سے حملہ آور ہوتا ہے عام دنیاوی زبان میں یہ ایسا ہی مضمون ہے کہ تمہیں پتا ہونا چاہئے کہ تمہارے حفاظت کے سامان کہاں واقع ہیں، کہاں تمہاری بندوقیں، کہاں تمہارے ہتھیار، کہاں تمہارے ساتھ کے مددگار، کون سے مضبوط قلعے ہیں جن میں تم محفوظ ہو سکتے ہو وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف یہ پتا ہونا چاہئے کہ تمہاری کمزوریاں کون کون سی ہیں ، کہاں سے دشمن حملہ کر سکتا ہے.نقب کہاں سے لگ سکتی ہے کیسے ڈاکہ پڑسکتا ہے کون سے غفلت کے ایسے لمحات ہیں جن میں عام طور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 351 خطبہ جمعہ سرمئی ۱۹۹۳ء پر انسان سو جاتا ہے اور دشمن بیدار ہو جاتا ہے تو مضمون یہی ہے جو بیان ہوا ہے لیکن مذہبی اصطلاحوں میں وہ باتیں کی گئی ہیں.پس آپ کو شیطان کے متعلق نگاہ رکھنی چاہئے کہ کہاں سے حملہ آور ہو گا ان باتوں کی نشان دہی کرتے ہوئے میں نے ایک مثال دی ہے ایک آپ پر اور آپ کی نسلوں پر حملہ کرے گا کہ تم بالغ ہو چکے ہو آزاد ہو خدا کا قانون اب تمہیں پابند نہیں کر سکتا تمہاری خاندانی روایات کی اب کوئی قیمت نہیں رہی جو چاہو کرتے پھرو.یہ جھوٹ ہے جس کے متعلق بچوں کو سمجھانا ضروری ہے یہ ایسا جھوٹ ہے جس کے متعلق بہت چھوٹی عمر سے بچوں متنبہ کرناضروری ہے اور سمجھا کر ان کو ہم خیال بنانا ضروری ہے ورنہ اگر پہلے سے ہی ان کی ذہنی تیاری آپ نے نہ کی تو وہ ہاتھ سے نکل چکے ہوں گے پھر وہ ان کی بات مانیں گے اور آپ کی رڈ کر دیں گے کیونکہ غیر کی بات میں ان کے نفس کی تمنائیں ساتھ شامل ہیں.غیر وہ باتیں کرتا ہے جس کی طرف نفس کا رجحان اور بہاؤ ہے انسان اس طرف جانا چاہتا ہے جس طرف بلایا جا رہا ہے اور دوسری طرف وہ ہے جہاں جانا نہیں چاہتا یعنی مشکل کام ہے.بے لذت کام ہے ایک بوجھ ہے طبیعت پر اور جذبات کی کئی قسم کی قربانی کرنی پڑتی ہے.پس خلاصہ ہماری تربیت کے مسائل یہی ہیں ان پر مزید تفصیل کے ساتھ نظر رکھنا اور ہر سوسائٹی کی طرف سے جو خطرات درپیش ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر پیش بندی کرنا اور سوراخوں کو بند کرنا یہ رابطوا (ال عمران:۲۰۱) کے تحت قرآنی تعلیم ہے جس کے بڑے وسیع معنی ہیں یہ بھی پیغام ہے کہ جن جن ملکوں میں تم رہتے ہو اور جن جن سوسائٹیوں میں تم بستے ہو وہاں کے خصوصی خطرات کی نشاندہی کرو اور ان سوراخوں کو بند کر لو.جہاں سے وہ خطرات داخل ہوا کرتے ہیں جیسے چوہوں کے بلوں کو بند کیا جاتا ہے جیسے ان سوراخوں کو بند کیا جاتا ہے جہاں سے سانپ بچھو داخل ہو جایا کرتے ہیں اسی طرح انسانی اخلاقی دنیا کا حال ہے یہ واقعہ جانور ہیں جو آیا کرتے ہیں.فرضی باتیں نہیں ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ شیطانی نظام کن معنوں میں کس طرح وسعت پذیر ہے.کہ ہر حال میں کسی نہ کسی طرح انسان تک پہنچ جاتا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کوئی ایسا شیطان ظاہری طور پر الگ وجود ہے بھی یا نہیں یا ہر شیطان انسان کے نفس میں ہی ہے ان بحثوں سے الگ یہ بات قطعی ہے کہ شیطان ہے ضرور خواہ وہ خون میں دوڑ رہا ہو یا باہر سے حملے کر رہا ہو اس کے حملے دکھائی دیتے ہیں اور نظر آتے ہیں اس کے وسوسے انسان ہر روزسنتا ہے اور ہر روز اکثر ان کے حق میں جواب بھی دے دیتا ہے، ہر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 352 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء قسم کے وسوسے جو نیکی سے بدی کی طرف کھینچتے ہیں وہ آنکھ کھلنے سے شروع ہو کر رات آنکھ لگنے تک جاری رہتے ہیں اور پھر آنکھ لگنے کے بعد بھی وہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے کہ جو لوگ بد وساوس کا شکار رہتے ہیں بری تمنائیں پالتے ہوئے دن بسر کرتے ہیں آنکھ لگنے کے بعد نیند کے بعد بھی ان کی خواہیں اسی مضمون کی چلتی ہیں.وہ جو دن کے وقت کچھ کمی رہ گئی تھی وہ خوابوں کی دنیا میں پوری ہو جاتی ہے خواہ وہ خوابیں یادر ہیں یا نہ رہیں لیکن یہ ایک طے شدہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جیسی سوچیں لے کر انسان سوتا ہے ویسی ہی اس کو خوابیں بھی آتی رہتی ہیں اور پہلے جو شعوری پیغام ملا کرتے تھے اب وہ پیغام تحت الشعور میں ملنے شروع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ وہ زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں کیونکہ تحت الشعور کے پیغام اور زیادہ پوشیدہ ہو جاتے ہیں.جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ شیطان وہاں سے حملے کرتا ہے جہاں سے تم دیکھ نہیں رہے.پس دن کے جو خیالات ہیں ان میں انسان کسی حد تک واقف ہوتا ہے کہ ہاں مجھے بدی کا پیغام ملا ہے بدی کی طرف میرا رجحان ہوا ہے لیکن ان باتوں کو سوچتے سوچتے جب آپ سو جاتے ہیں تو سوتے ہوئے تحت الشعور میں جو ہلچل مچتی ہے اور تمنائیں آپ کو خاص سمتوں میں روانہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں آپ کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے.آپ نیند سے بظاہر بڑے مزے سے آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں اور ایک نیا دن شروع کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بعض دفعہ رات کے بھوت اس نئے دن میں بھی آپ کا تعاقب کر رہے ہوتے ہیں ، ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور وہ دکھائی نہیں دیتے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نفس میں بعض بدیاں کرنے کے فیصلے ہو چکے ہوتے ہیں.لاشعوری طور پر ہو چکے ہوتے ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ میرے نفس نے رات کیا فیصلے کئے ہیں.لیکن آئندہ جب آپ کو آزمایا جا تا ہے تو وہ رات کے فیصلے دن کے فیصلے بن جاتے ہیں.پھر آپ شعوری طور پر وہی حکم مانتے ہیں جو آپ کا لاشعور آپ کو دے رہا ہے.پس یہ بہت ہی گہرا مسئلہ ہے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے کہ شیطان وہاں سے حملے کرتا ہے جہاں سے دکھائی نہیں دیتا.مومن کا کام ہے کہ ان جگہوں کی نشان دہی کرے، ان کو پہچانے اور ان کے مقابل پر مستعد رہے اور تمام دفاعی منصوبے بنائے اور حکمت کے ساتھ ان تمام سوراخوں کو بند کرے جہاں سے سانپ بچھو اور دیگر موذی جانور داخل ہوا کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 353 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو مغرب میں عام ہوتی جارہی ہیں لیکن امریکہ میں وہ بنتی ہیں اور وہیں سے اکثر باقی دنیا کو وہ برآمد کی جاتی ہیں ان میں ایک Pregnancy and Birth out of Wedlock ہے اس کو میں نے انگریزی میں بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ ایسے بچے پیدا ہونا جن کو مذہبی قانون کی طرف سے پیدا ہونے کا کوئی حق نہیں ہے میں نے مذہبی قانون اس لئے کہا ہے کہ دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں خواہ ان کا تعلق خدا سے ٹوٹ بھی چکا ہو وہ بھی جب با قاعدہ اپنی شادی بیاہ کی رسوم کے مطابق میاں بیوی کو ملاتے ہیں تو ہر مذہب کی رو سے وہ بچے جائز ہیں اور ان کا حق ہے.پس خواہ وہ خدا سے بے تعلق بھی ہو چکے ہوں یہ اللہ کی رحمت عامہ ہے کہ اس نے یہ حق ساری دنیا کے مذاہب کو یا رواجات کو یا قوانین کو دے رکھا ہے مذاہب کے علاوہ بھی وہ تمام رواج ، تمام قوانین ، تمام رسمیں، جن کی رو سے مرد اور عورت کو میاں بیوی قرار دیا جاتا ہے اس کے بعد جو بھی اولاد پیدا ہوتی ہے مذہب کی نظر میں یعنی خدا کی نظر میں وہ جائز اور درست ہے.اس کے لئے ضروری نہیں کہ اسلامی طریق پر شادی ہو یا کسی ہندوانہ طریق پر مذہبی بنیادی قانون جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے یہی ہے کہ ہر قوم میں اپنے رسم ورواج کے مطابق جو شادیاں ہوتی ہیں ان کی اولاد درست ہے، اولا د درست سے مراد یہ ہے کہ اولاد کا پیدا ہونا ایک تسلیم شدہ قانون حق ہے.امریکہ ایک وہ ملک ہے جہاں بدنصیبی سے اس حق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہو رہی ہے ایک موقع پر میں نے اعداد وشمار پڑھے تو میں حیران رہ گیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ واقعۂ طبیعت لرز اٹھی کہ ان اعداد و شمار کی رو سے امریکہ میں ہر سال پیدا ہونے والے بچوں میں ۳۳ فیصد ناجائز بچے ہیں یعنی کسی قانون کی رو سے بھی ان کو پیدا ہونے کا حق نہیں ملتا خواہ وہ ریڈ انڈین کا قانون ہو یا عیسائیت کا ہو کوئی بھی ہو.دنیا کا قانون ہو تو ان کو گویا کسی مذہب نے کسی رواج نے کسی قانون نے دنیا میں آنے کا کوئی حق نہیں دیا اور یہ بد رسم اب امریکہ میں ایک وبا کی صورت میں چل پڑی ہے اور اس کو کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا.سوال یہ ہے کہ اگر جرم نہ سمجھا جائے تو کیا یہ بچے جائز ہوں گے.جہاں تک رسم و رواج کا تعلق ہے خدا نے آزادی دی ہے.ان کی رو سے خواہ وہ کیسے ہی رسم ورواج ہوں جب بھی شادی ہو گی وہ جائز اولاد ہوگی لیکن اگر کسی رسم ورواج کی پیروی نہیں کی جارہی ،کھلی آزادی ہے یعنی لڑکا اور لڑکی آپس میں ایک ایسا تعلق قائم کرتے ہیں جس کو معاشرے نے تسلیم نہیں کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 354 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء تو اس کے نتیجہ میں جو اولاد ہے اس کو ہم ناجائز اولاد کہتے ہیں.اگر ہر سال کسی ملک کا تیسرا حصہ بچے ناجائز اولا د بن رہے ہوں تو تین سال چار پانچ سال دس سال کے اندراندازہ یہ لگایا جا سکتا ہے کہ ساری قوم کا خون ایک دفعہ گندا ہو چکا ہے اور یہ کئی بار ہو چکا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے ایک پہلو تو یہ ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.عفت اور عصمت کی طرف آپ کو امریکہ میں خصوصیت کے ساتھ واپس آنا ہوگا اور اس کے لئے بہت وسیع جد و جہد کرنی ہوگی.ایسی جدو جہد جو جماعتی حدود کے اندر محدود نہ رہے بلکہ اچھل کر باہر سوسائٹی میں نکلے انصار اللہ کے لئے ایک بہت اچھا موقع ہے کیونکہ خدام اس قسم کی جدو جہد اگر شروع کریں تو ان کے اپنے لئے خطرات لاحق ہیں.کئی ایسے مواقع ہوتے ہیں.جہاں عورتوں کو بھی سمجھانا پڑتا ہے ماں باپ کے پاس جانا پڑتا ہے ایک مہم چلانی ہے جس میں تعلقات اس نوعیت کے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ زیادہ بہتر رنگ میں اس مہم کو چلا سکتے ہیں اس لئے انصار اللہ کو میرا دوسرا پیغام یہ ہے کہ یہ بات جس کی نشان دہی میں نے کی ہے اس سوراخ سے ساری اعلیٰ قدروں کو خطرہ ہے کیونکہ یہ دراصل اس بات کا پیغام ہے کہ آپ کی اگلی نسل کو کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں رہی اور ان کی زندگی خالصہ لذت طلبی کے لئے وقف ہوگئی ہے اور اتنازیادہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کو کسی بات کا خوف نہیں رہا، کوئی ذمہ داری نہیں رہی ، کوئی جواب دہی نہیں ہے جو چاہیں کریں اور معاشرہ اس کو قبول کرلے گا.ایسی صورت میں آئندہ کی ساری نسلوں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ Single parents ایک والد یا والدہ بچوں کی دیکھ بھال کرے اور ناجائز اولاد کی صورت میں محض والدہ کے سپر د ہو جاتا ہے اور اس نے ہی اس کی دیکھ بھال کرنی ہے اور جیسی حالت میں وہ پیدا ہوا ہے وہ ماں اس کو اخلاقی تعلیم دے بھی نہیں سکتی.وہ اس عصمت کی طرف بلا ہی نہیں سکتی اور ایسے بچے شروع ہی سے ہاتھ سے نکلے ہوئے ہیں.یہاں ضمناً میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ جہاں تک میں نے قرآن کریم کا یا سنت کا مطالعہ کیا ہے حق کے لحاظ سے خدا کی نظر میں اور اسلام کی نظر میں ہر بچہ برابر ہے اور معاشرہ اس کو اس کے بنیادی انسانی حق سے اس لئے محروم نہیں کر سکتا کہ وہ ناجائز اولاد ہے.ناجائز کا تعلق ماں باپ سے ہے، ناجائز کا تعلق اس معاشرے اور سوسائٹی سے ہے جس نے وہ ناجائز کام سامنے ہونے دیا ہے لیکن جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ بے قصور ہے کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 355 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء ط ہوتا ہے اور فطرت سے مراد اللہ کی فطرت ہے.قرآن کریم میں کہیں آپ کو یہ فرق دکھائی نہیں دے گا کہ فلاں قسم کا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور فلاں قسم کا بچہ فطرت پر نہیں پیدا ہوتا.اس لئے اس بنیادی بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے.میں اس لئے سمجھا رہا ہوں کہ بعض دفعہ بعض احمدی میاں بیوی جس کے ہاں اولا د نہیں ہوتی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے فلاں جگہ سے بچہ مانگا ہے.اگر وہ بچہ وہ نکلا جس کی ولدیت ہی جا ئز نہیں تو پھر ہم کیا کریں گے.ہمارے لئے یہ درست ہے کہ نہیں، تو میں ایسے میاں بیوی ہوں یا دوسرے لوگ ہوں ، ان سب کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ قرآن نے ہر بچے کو ایک برابر آزادی دی ہے اور انسانی قدروں میں برابر حقدار قرار دیا ہے اور ہر بچے کی عزت نفس قائم فرمائی ہے جو اس کے عزت نفس پر حملہ کرتا ہے وہ جہالت سے کرتا ہے اور وہ خدا کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے اس لئے ہر بچہ معصوم ہے اس بات کو پلے باندھ لیں ہرگز ایسی سوچیں نہ سوچیں یا ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہونے والے بچے ، خواہ وہ اس کے قانون کے مطابق ہوں یا قانون کے خلاف ہوں مختلف طرح کے سلوک کے محتاج سمجھے جائیں.انسان قدروں میں سب برابر کے شریک ہیں پھر وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (فاطر (۱۹) کا قانون ہے کہ ایک بوجھ اٹھانے والے کا بوجھ دوسری جان پر نہیں ڈالا جائے گا.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: ۲۸۷) خدا کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، تو وہ بچہ جو معصوم پیدا ہوا ہے اس بے چارے پر ماں باپ کا بوجھ کیوں ڈالا جائے.جس نے گناہ کیا ہے وہی کمائے گا اور جو بے توفیق ہے جس کو یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ میں دنیا میں آؤں یا نہ آؤں.اس معاملہ میں اس کا کوئی دخل ہی نہیں ہے اس کو خدا کیسے پکڑ سکتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَ اعلان کے بعد اس کی پکڑ اور اس کا مواخذہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن معاشرے پر یہ ذمہ داری ہے کہ آئندہ ان کو واقعہ با خدا بنانے کی کوشش کریں.اگر ان کے ساتھ اچھا سلوک ہو ان سے رحمت کا سلوک ہو ان کی تربیت کی طرف توجہ ہو تو یہ لوگ باخدا بن سکتے ہیں.ہمیں دوطرح کی جد و جہد کرنی ہوگی.اول : اس برائی کی بیخ کنی کے لئے خصوصاً مغربی ممالک میں مجالس انصار اللہ کو منصوبے بنانے چاہئیں اور حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے کہ احمدی نسلوں میں عفت کا احساس پیدا ہو اور اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 356 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء برائی کی جڑیں اکھیڑی جائیں کیونکہ اگر اس برائی کی جڑیں نہ اکھیڑی گئیں تو یہ برائی اپنے انتقام پر آمادہ ہوئی بیٹھی ہے.اس برائی سے ایسی بیماریاں جنم لے چکی ہیں جوان بچوں کو ناحق دنیا میں داخل کرنے والوں کو اس دنیا سے نکالنے کا انتظام کریں گی.یہ خدائی انتقام ہے اور AIDS کے ذریعہ اس انتقام کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے اور دن بدن اس کے خطرات بڑھ رہے ہیں لیکن جہاں تک میرا اندازہ ہے یہ بیماری غالباً اس صدی کے آخر پر آخری دو تین سالوں میں تیزی کے ساتھ پھوٹے گی اور بہت بڑے پیمانے پر ان مجرموں کو ہلاک کرے گی.پس اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں تو جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے.پھر اس کوشش کا ایک فائدہ یہ ہے کہ چونکہ یہ کوشش معاشرہ میں چاروں طرف کی جا رہی ہو گی اس لئے احمدیوں کے محفوظ ہونے کے زیادہ امکانات پیدا ہو جاتے ہیں.وہ لوگ جو باشعور طور پر اپنے گردو پیش کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ خود محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کے خود ہلاک ہونے کا کم خطرہ ہے تو ایک یہ خطرہ ہے جس کی میں نشاندہی کر رہا ہوں کہ یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے اور وبائی شکل اختیار کر رہی ہے اور اس کی روک تھام کے لئے وہ تمام اقدام کرنے ہوں گے جو اسلامی معاشرے نے پہلے سے کر رکھے ہیں.قرآنی تعلیم نے پہلے سے ہی ایک منصوبہ بنا رکھا ہے.اس منصوبہ پر عمل درآمد کا منصوبہ آپ نے بنانا ہے.منصوبہ پہلے سے ہی موجود ہے.عورت اور مرد کے متعلق جو فا صلے ڈال رکھے گئے ہیں جو اخلاقی تعلیم دی گئی ہے ، اپنی سجاوٹ کس کے سامنے ظاہر کرنی ہے اور کس کے سامنے نہیں کرنی اور دوسرے ایسے ہی قوانین مثلاً شراب کی مناہی ہے، بے پر دعورت اور مرد کی مجالس کا اکٹھے لگانا اور بے حیائی کے ساتھ گفتگو کرنا ، بے حیائی کے لباس میں رہنا وغیرہ وغیرہ.یہ ایک لمبا منصوبہ ہے جو قرآن کی پیش کردہ تہذیب اور قرآن کے پیش کردہ تمدن میں پہلے سے موجود ہے.آپ نے اس منصوبے پر نظر رکھ کر یہ منصوبہ بنانا ہے کہ اس کو دوبارہ رائج کیسے کرنا ہے.یہ بڑا مشکل کام ہے.ایک پردہ کے متعلق ہی آپ گفتگو کر کے دیکھ لیں.آپ کو کیسے کیسے جواب ملیں گے ایک دفعہ اسلام آباد پاکستان کے متعلق مجھے اطلاع ملی کہ وہاں خواتین پر دے میں زیادہ بے احتیاط ہوتی چلی جارہی ہیں تو میں نے ربوہ پیغام بھجوایا کہ تمام اطراف سے کوشش کریں صرف لجنہ کا کام نہیں.نظارت اصلاح
خطبات طاہر جلد ۱۲ 357 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء وارشاد، خدام الاحمدیہ، انصار اللہ وغیرہ سب مل کر مجموعی طور پر ایک مہم چلائیں اور اپنی بہنوں کو سمجھائیں.اپنی بچیوں کو بتائیں کہ اس میں کیا کیا خطرات ہیں.پردہ کے متعلق میں نے یہ معتین نہیں کیا کہ ضرور برقعہ پہنا جائے مگر یہ بتانا کہ بہت سے خطبات میں عمومی روشنی میں ڈال چکا ہوں.پر دہ اور بے پردہ ان دونوں کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ برقعہ یا برقعہ کا نہ ہونا نہیں ہے.وہ فرق ایک رجحان کا فرق ہے اور صاف پہچانا جاتا ہے.ایک لڑکی بعض دفعہ برقعہ میں بھی بے پرد ہوتی ہے اور دوسری لڑکی عام لباس میں بھی پردہ دار ہوتی ہے تو میں نے ان کو سمجھایا کہ جو رجحان ہے وہ دراصل حقیقت میں پردے سے آزادی کا رجحان ہے باقی بہانے ہیں کہ ہم برقعہ نہیں پہن سکتے جو نظر آرہا ہے وہ تو خطرات ہیں کہ ایک معاشرہ سے متاثر ہو کر سوسائٹی اس کے سامنے سجدہ ریز ہو چکی ہے یا اس سوسائٹی کے بعض لوگ سجدہ ریز ہو چکے ہیں اور پھر وہ بہانے ہیں کہ جی برقعہ میں بھی تو لوگ بے حیاء ہوتے ہیں ان کو پہلے آپ کیوں نہیں روکتے.ہماری طرف آتے ہیں اور ہم یہن بھی نہیں سکتے اور اس قسم کی دوسری باتیں.تو میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ بات وہ پیش کریں جس کا کوئی حقیقی جواب نہ ہو.پردے کی روح کو قائم کرنے کا جہاد ہے اور ماں باپ کو سمجھائیں کہ اپنی بچیوں کو جب آپ کا لجوں میں بے پرد بھیجتے ہیں اور اسی طرح وہ ہیں جس طرح باقی معاشرہ ہے تو ان کو خطرات ہیں.اس کے نقصان ہوں گے.اس مہم کے جواب میں جو تلخ باتیں پیغام پہنچانے والوں کو منی پڑی ہیں اس کی تلخیاں با قاعدہ مجھے تک بھی پہنچتی تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے انتقام لیا جا رہا ہے کہ اصلاح کی کوشش کیوں کی جارہی ہے تو ایک ہی پہلو جو پردے کا پہلو ہے اسی کے لئے اگر آپ جد و جہد کریں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ کتنے صبر کی ضرورت ہے.ہر اچھی بات کے جواب میں ایک بری بات آپ کو منی پڑے گی کیونکہ جو شخص یہ فیصلہ کر چکا ہو کہ میں نے دنیا کی لذت یابی میں کسی دوسری قدر کی پرواہ نہیں کرنی.میں نے اپنے مزے کی زندگی ضرور بسر کرنی ہے.کون ہوتا ہے میری آزادی کو روکنے والا؟ جب آپ اس کی بھلائی کی باتیں اس سے کہتے ہیں تو وہ غصہ کرتا ہے.وہ ناراض ہوتا ہے وہ آگے سے بھڑکتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میری آزادی پر بھی حملہ کیا گیا اور میری عزت پر بھی ہاتھ ڈالا گیا.مجھے سمجھانے والا یہ ہوتا کون ہے؟ پس نصیحت کا کام بہت ہی مشکل کام ہے اور جتنا مشکل کام ہے اتنی ہی زیادہ حکمت اور سلیقے کی ضرورت ہے.بات کہنے کے انداز میں فرق ہو جاتا ہے.پس یہ نہیں ہے کہ محض ایک پیغام ہے جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 358 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء آپ نے آگے پہنچا دینا ہے.یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیسے پہنچایا جائے کن لفظوں میں بات کی جائے کیا براہ راست پیغام پہنچایا جائے یا کسی اور ذریعہ سے پہنچایا جائے.مثلاً ایک بچی کو آپ کسی ایسی حالت میں دیکھتے ہیں اور خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ یا لجنہ کی طرف سے اس کو یا ماں باپ کو پیغام مل جاتا ہے کہ آپ کی بچی فلاں حالت میں دیکھی گئی تو کیا آپ کا خیال ہے کہ اس سے فائدہ ہوگا ، ہرگز نہیں.بچی بھی بھڑ کے گی ، ماں باپ بھی بھڑکیں گے، غصہ پیدا ہوگا اور نظام کے خلاف منافرت کی ایک مہم چلائی جائے گی وہ کہیں گے کہ تم پہلے اپنی بچیاں سنبھالو.ہم نے تمہاری بیٹیاں بھی دیکھی ہوئی ہیں.فلاں یہ کرتا پھرتا ہے اور فلاں یہ کرتا پھرتا ہے اور جو اندر ہو رہا ہے وہ سب کچھ ہمیں پتا ہے.یہ جوابی حملے کے ٹکسالی جملے ہیں.یہ ضرور سننے پڑتے ہیں تو اصلاح کی مہم چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس میں غیر معمولی حکمت کی ضرورت ہے اور غیر معمولی صبر کی بھی ضرورت ہے.حکمت سے اگر منصوبہ بنایا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ پہنچتا ہے.چنانچہ میں کوشش کرتا ہوں کہ جب بھی مجھے کسی گھر کے متعلق معین اطلاع ملے کہ فلاں گھر ہے اس میں یہ خرابیاں پیدا ہورہی ہیں تو مختلف ذرائع سے ان کو سمجھا کر کہ یوں آپ نے کوشش کرنی ہے ان کو تاکید کرتا ہوں کہ اس ذریعہ سے فلاں ذریعہ سے اس احتیاط کے ساتھ اس گھر کو سنبھالنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ الا ماشاء اللہ اتنا حیرت انگیز طور پر ثبت نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے.عش عش کر اٹھتا ہے کلام الہی کی سچائی پر ، جس میں فرمایا گیا کہ فَذَكَّرُ اِنْ نَفَعَتِ الذِّكْري (الاعلیٰ: ۱۰) نصیحت کر اور یا درکھ که اگر نصیحت حقیقی ہو اور کچی ہو، محمد رسول اللہ اللہ کی نصیحت جیسی ہو تو وہ ضرور فائدہ دے گی.پس بہت بڑی مہم ہے جو ہمارے سامنے ہے اور مغربی معاشرے کی صرف ایک ہی برائی میں نے ابھی بتائی ہے.بہت سے ایسے رجحانات ہیں جو سخت مہلک ہیں.بعض ان میں سے بڑے ہیں، بعض چھوٹے ہیں لیکن بڑے اور چھوٹے ایک قسم کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں.ان کی ایک قبیل ہے، ایک خاص طرز کی وہ بد اخلاقیاں ہیں جو ایک دوسرے کو طاقت دیتی ہیں اور دیکھنے میں بعض دفعہ بظاہر ایک چھوٹی سی علامت ظاہر ہوتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے یا جس شخص میں ظاہر ہورہی ہیں وہ سمجھتا ہے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے جب نوجوان بچیاں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے بد کنا ہے اور قوانین یا اخلاقی قدروں سے باہر نکلنا ہے تو ان کے بالوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 359 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء انداز میں اور ان کے کپڑوں کے انداز میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ہر نظر اس کو پہچان سکتی ہے.اگر آپ ان کے ماں باپ کو یہ کہیں کہ اس کے بال ایسے تھے تو ماں باپ بھڑک کر کہیں گے تم اس کے بالوں کے متعلق کچھ کہنے والے کون ہوتے ہو؟ اس کا حق ہے جس طرح مرضی رکھے.آپ کہیں اس کے کپڑے ایسے تھے تو کہتے ہیں تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے.اپنی بیٹیوں کے کپڑے سنبھالو.خبردار جو ہماری بیٹیوں کے کپڑوں پر بات کی.یہ سمجھانے کا طریقہ نہیں ہے.علامتیں سچی ہیں.انہوں نے جو پیغام دیا وہ ضرور سچا ہے لیکن ماں باپ کو سمجھاتے وقت محبت اور ہمدردی اور گہرے درد کے ساتھ علیحدگی میں ان کو کہنا ہوگا کہ آپ اپنی بچیوں کی حفاظت کریں ہمیں تکلیف ہوتی ہے.آپ کا فکر ہے، آپ کو صدمہ پہنچے گا اور صرف ایک نہیں اور کئی انداز ہیں.پھر ساتھ اس کے لئے دعائیں کرنے کی بڑی ضرورت ہے.یہاں اجتماعات پر بھی مجھے بعض نوجوان خدام ایسے ملتے ہیں جو جماعتی کاموں میں نئے نئے شامل ہورہے ہوتے ہیں لیکن کسی کے کان میں بند الڑکا ہوتا ہے اور کسی کا آگے سے بٹن کھلا ہوتا ہے اور خاص طور پر بال دکھائے جار ہے ہیں اور امریکہ میں تو یہ بھی رواج ہے کہ اگر چھاتی پر بال نہ ہوں تو وگ لگ گئے ہیں.نئی قسم کے وگ بن گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مردانگی کی ایک خاص علامت ہے.مردانگی کی علامت کیا ہے اور کس کے لئے ہے؟ معصوم بچیوں کے لئے ہے.ایک پیغام ہے کہ ہم حاضر ہیں.ایک پیغام ہے کہ ہم تمہیں اُکسانے کے لئے بھی حاضر ہیں.اب دیکھنے میں ایک چھوٹا سائندا ہے.دیکھنے میں ایک بٹن کھلا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن یہ سارے شیطان کے وہ بھیس ہیں جہاں شیطان عام آدمی کو دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر پہچاننے والی نظر ہو تو اس کو صاف دکھائی دیتا ہے.اب ایسے شخص کو آپ کہہ دیں گے کہ جی !تم نے بند پہنا ہوا ہے.وہ کہے گا.تم پاگل ہو تمہاری مرضی ہے جو مرضی کرتے پھر و میں تو پہنوں گا.بٹن کھلا ہے تو تمہیں کیا تکلیف ہے تم بھی کھول لو.ایسے جواب دیں گے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جن احمدی بچوں کو میں نے پیار سے درد کے ساتھ سمجھایا ہے وہ ضرور سمجھتے ہیں.احمد یوں میں ایک خوبی ہے وہ خوبی یہ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا ہے.وقت کے امام کو مانا ہے اس لئے نیکی کی قبولیت کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے.اس جذبہ سے جیسا فائدہ آپ اٹھا سکتے ہیں دنیا میں اور کوئی اصلاح کرنے والا ایسا فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ یہ جماعت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 360 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء اگر متقیوں کی نہیں تو متقیوں کا مزاج رکھنے والی جماعت ضرور ہے.ایسی جماعت ہے جس کی فطرت کے اندر تقویٰ کا مادہ گوندھا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت پر میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.فرماتے ہیں نصیحت کرنا اور بات پہنچانا ہمارا کام ہے.یوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.بعض اوقات جماعت کا اخلاص ، محبت اور جوش ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے اور یہاں تک کہ دشمن بھی تعجب میں ہیں.ہزار ہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص میں تو بڑی ترقی کی ہے مگر بعض اوقات پرانی عادات یا بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافر حصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے...“ یہ ہے تذکرہ اس کو کہتے ہیں الہی سمجھانے کا رنگ، پیار اور محبت کے ساتھ ان کے دلوں کو پسما ئیں، ان کو مائل کریں، ان کی خوبیوں پر نظر رکھیں، ان کا اعتراف کریں اور پھر ان خوبیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیکیوں کی طرف ان کو بلائیں.ان خوبیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو بدیوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں.اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہو جاویں کہ دین کے سامنے امورِ دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں...“ یہ ہے وہ آخری فیصلے کی طاقت جو ہماری تقدیر کا فیصلہ کرے گی.اگر ہم انفرادی طور پر اور قومی طور پر یہ مزاج پیدا کر لیں کہ جب بھی دنیا کا مقابلہ دین سے ہو گا دنیا ہارے گی اور دین ضرور جیتے گا تو پھر اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت مار نہیں سکتی.یہ زندگی کا وہ راز ہے جس کے ساتھ آپ چمٹ جائیں تو ہمیشہ کی زندگی پانے والے بن جائیں گے.فرماتے ہیں: اور قسم قسم کی غفلتیں جو خدا سے دوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں وہ دور ہو جاویں.جب تک یہ بات پیدا نہ ہواس وقت تک حالت خطرناک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 361 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء ہے اور قابل اطمینان نہیں کیونکہ جب تک ان باتوں کا ذرہ بھی وجود موجود ہے تو اندیشہ ہے اور ایک وبدہ لگی رہتی ہے کہ کسی وقت یہ باتیں زور پکڑ جاویں اور باعث حبط اعمال ہو جاویں.جب تک ایک قسم کی مناسبت پیدا نہیں ہوتی تب تک حالت قابل اطمینان نہیں ہوتی.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶۰۵) میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہے جماعت میں تقویٰ، نیکی ، حسن کا مادہ موجود ہے.اس وقت اگر نصیحت کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انداز اختیار کرتے ہوئے نصیحت کریں تو اُن کو بہت کچھ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے.بہت سے بد کے اور دور جاتے ہوئے احمدی نوجوان یا اُن کے والدین واپس آ سکتے ہیں اور آج کل جب کہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ تمام دنیا میں خطبات نشر ہور ہے ہی.اطلاعیں پیل رہی ہیں کہ جماعت میں پہلے سے بڑھ کر ولولہ پیدا ہو گیا ہے.بڑے جوش اور شوق کے ساتھ بڑے بھی اور چھوٹے بھی کثرت سے آتے ہیں اور اسی ذکر پر اب میں اس بات کو ختم کرتا ہوں کیونکہ اب کثرت سے شکوے آ رہے ہیں کہ پہلے آپ ہمارے متعلق باتیں کیا کرتے تھے.ہم کیا کرتے ہیں؟ کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا ہوتا ہے؟ بڑا مزا آیا کرتا تھا.اب ایک دو خطبوں سے آپ نے ذکر نہیں کیا تو شکوہ دور کرنے کے لئے دو باتیں بتا دیتا ہوں ایک تو ایک شخص نے بتایا کہ شوق کا یہ حال ہے کہ بچے بھی بڑی سنجیدگی سے جمعہ کا انتظار کرتے اور اپنے پروگراموں کو اس کے مطابق ڈھالتے ہیں.اس نے کہا کہ میں نے ایک گھر میں فون کیا تو بچے سے کہا کہ کیا حال ہے؟ اس نے کہا ماں باپ تو ابھی آئے نہیں مگر کل کیونکہ جمعہ ہے اور صبح جلدی خطبہ سننا ہے.( یہ امریکہ کی بات ہے ) اس لئے میرا چھوٹا بھائی ابھی سوچکا ہے اور میں فورا سونے جارہا ہوں.میرے پاس زیادہ باتوں کا وقت نہیں ہے تو اب اس بچے کو پتا تھا کہ صبح جلدی اٹھنا ہے اور خطبہ سننا ہے.یہ علامت ہے کہ خدا نے نصیحت کے لئے ان لوگوں کو ہمارے قریب کر دیا ہے.اس وقت فائدہ اٹھا ئیں اس وقت نصیحت سے ان کو ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیں.دوسرے جرمنی سے ایک خاتون کا خط آیا کہ میں اپنے بچے کی ایک پیاری سی ادابتاتی ہوں کہ ایک خطبہ کے موقع پر غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 362 خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۹۳ء تو میرا بچہ ٹیلی ویژن کی طرف دوڑا اور جیب سے رومال نکال رہا تھا.میں نے کہا یہ کیا کر رہے؟ تو اس نے کہا کہ میں آنسو پونچھنے جا رہا ہوں.پس یہ جونئی نسل ہے یہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ خطبات کی برکت سے ایک عجیب انقلابی دور میں داخل ہو چکی ہے.یہاں سے نصیحتیں شروع کریں ، ان کو اپنا ئیں ، ان کو اسلامی قدروں کے قریب کریں اور جو بڑے نسبتا نرم ہو رہے ہیں لیکن پہلے سخت دل تھے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو نصیحت کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت جرمنی کم سے کم پہلے اپنے تمدن اور معاشرے کو اسلامی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوگا تو باقی جرمنی کے لئے بھی امید ہو سکتی ہے ورنہ امید کا کوئی پہلو باقی نظر نہیں آتا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 363 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء حلال اور طیب رزق کمائیں اور بچوں کو کھلا کیا احمدی نہی عن المنکر کا جہاد کر کے قوم کو برائی سے بچائیں.خطبه جمعه فرموده ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَايُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَلًا طَيْبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَا اَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ أَبَاءَ نَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (البقره: ۱۶۹ تا ۱۷۱) پھر فرمایا:.گزشتہ جمعہ پر جو تربیتی مضمون بیان ہو رہا تھا اس سلسلہ میں ابتداء میں نے ان آیات کی تلاوت کی تھی جو آج پھر تلاوت کی ہیں.مضمون کے تسلسل میں وقت گزر گیا اور ان آیات کا ترجمہ کرنا بھول گیا حالانکہ آغاز ہی میں ان کا ترجمہ کرنے کے بعد پھر مضمون شروع ہونا چاہئے تھا لیکن اپنی ذات میں اس ترجمہ کے ساتھ کچھ ایسے گہرے تربیتی مضامین وابستہ ہیں کہ آج میں انشاء اللہ انہی سے بات شروع کروں گا اور پھر اس کے دوسرے بعض امور جو پیش نظر ہیں وہ بھی انہی آیات کی روشنی میں پیش کئے جائیں گے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 364 خطبه جمعه ۱۴ مئی ۱۹۹۳ء یہاں تمام بنی نوع انسان مخاطب ہیں اور قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ بسا اوقات يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کے ذریعہ خطاب فرماتا ہے اور اس میں خصوصیت سے امت محمدیہ پیش نظر ہوتی ہے اور بعض خطابات تمام بنی نوع انسان کو مشترک طور پر کئے جاتے ہیں اجتماعی حیثیت سے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ امور وہ ہیں جن کا فی الحقیقت ایمان سے تعلق نہیں ہے.یہ تمام امور وہ ہیں جن کا بنیادی انسانی قدروں سے تعلق ہے اور ساری دنیا میں وہ قدریں مشترک ہیں.اسی پہلو سے قرآن کریم کی آیات کا مطالعہ ایک حیرت انگیز فصاحت و بلاغت کا ایک جہان انسان کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے مگر یہ فصیل تو بہت لمبی ہے.میں مختصر ا اس آیت سے متعلق کہنا چاہتا ہوں کہ رزق حلال کا انسانی معاشرے سے ایک گہرا تعلق ہے اور کوئی معاشرہ مذہب کا قائل ہو یا نہ ہو جب بھی کوئی معاشرہ رزق حلال سے ہٹ جاتا ہے اور حرام مال کی طلب پیدا ہو جاتی ہے اور حرام مال کھانے میں کوئی قباحت باقی نہیں رہتی تو وہ معاشرہ ضرور ذلیل ورسوا ہو جایا کرتا ہے اور وہ اقتصادی نظام کامیابی کے ساتھ اور صحت کے ساتھ چل نہیں سکتا.اس کی مثال اشترا کی دنیا کے اقتصادی نظام کے طور پر سامنے رکھی جاسکتی ہے.اشترا کی دنیا کی بنیاد ہی خدا کی نفی پر ہے اگر خدا کو تسلیم کر لیا جائے تو مارکس کا جدلی مادیت کا نظریہ بے معنی اور بے حقیقت ہو جاتا ہے اس لئے آغاز ہی میں اس نے خدا کا انکار کیا ہے اور عمد اسمجھ کر کیا ہے اگر انسان خدا کا قائل ہو تو پھر کسی انسان کو اقتصادی نظام دینے کا حق نہیں کہ جس نے پیدا کیا ہے پھر وہی حق رکھتا ہے کہ وہ اقتصادی نظام دنیا کے سامنے پیش کرے.بہر حال یہ وہ معاشرہ ہے یہ وہ اقتصادی دنیا ہے جس کی بنیاد خدا کی نفی پر قائم کی گئی اور چونکہ رزق حلال کا تصور مٹ گیا اور رزق حلال کا گہرا رشتہ خدا کے تصور سے وابستہ ہے.جہاں خدا کے تصور کو اقتصادی دنیا سے نکال دیں گے وہاں لازماً حرام رزق کی طرف رجحانات بڑھنے شروع ہوں گے اور ایسی سوسائٹی آخر کار حرام کھانے پر فتح ہو جایا کرتی ہے اور جہاں مذہبی دنیا میں آپ کو حرام مال کھانے کا ذوق شوق اور ولولہ دکھائی دیتا ہے بعض دفعہ غیر مذہبی دنیا سے بھی زیادہ آپ کو دکھائی دیتا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں.جس خدا پر یقین رکھنے کا دعوی ہے اس خدا پر کوئی یقین نہیں.چنانچہ قرآن کریم نے رزق حلال کے مضمون کو ساری قوم کی اخلاقی حالت کے ساتھ وابستہ کر کے بیان فرمایا ہے اور یہ ضروری ہے کہ انسان رزق حلال کمانے پر اور رزق حلال کھانے پر مضبوطی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 365 خطبه جمعه ۱۴رمئی ۱۹۹۳ء سے قائم ہو جائے کیونکہ اس کا دوسری بہت سی اخلاقی معاشرتی خرابیوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے.فرمایا ياَيُّهَا النَّاسُ اے وہ لو گو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہو کسی خطہ زمین سے تمہارا واسطہ ہو رزق حلال کماؤ اور رزق حلال کھاؤ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَلًا طَيِّبًا زمین میں سے اپنے لئے وہی چیزیں چنو جو حلال بھی ہیں اور طیب بھی ہیں.طیب کا مضمون حلال سے آگے ہے.ضروری نہیں کہ ہر حلال چیز طیب ہو کیونکہ بعض دفعہ ایک حلال چیز گندی حالت میں بسی ہوئی بدبودار حالت میں بھی پائی جاتی ہے.ایک چیز حلال ہے لیکن وہ اپنے اندر بعض دوسری قباحتیں بھی رکھتی ہے مثلاً بعض چیزوں میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں کہ معدہ قبول نہیں کرتا حلال ہے مگر کھائیں گے تو نقصان اٹھائیں گے.ہر انسان کے لئے طیب بدل جاتا ہے بعضوں کو آم سے الرجی ہے ، بعضوں کو اور بہت سی اچھی چیزوں سے الرجی ہے جو حلال ہیں اور اکثر کے لئے طیب بھی ہیں لیکن انسان ، انسان کے ساتھ طیب کی تعریف کچھ نہ کچھ بدلتی رہتی ہے اور ہر شخص کا طیب اپنا ہے.اس میں اس کے مزاج کا دخل ہے، اس کے معاشرے کا دخل ہے.بعض چیزیں جو یہاں انگلستان میں کھائی جاتی ہیں ہماری عادات مختلف ہیں اس لئے ان کو دیکھتے ہوئے بھی متلی شروع ہو جاتی ہے.یہ جو کچے گھونگھوں میں سے جانور نکال نکال کر یہ اپنے گلوں میں اُلٹتے ہیں باہر ریڑھیاں لگی ہوئی ہوتی ہیں اور یہ بڑے شوق سے کھا رہے ہوتے ہیں.ایک دفعہ کالج کے زمانہ میں تجربہ کے طور پر میں وہ غلطی سے لے بیٹھا.وہ منہ میں ابھی داخل ہی ہوا تھا کہ اس قدر زور سے قے آئی کہ شرم کے مارے کہ لوگوں کے سامنے نہ آئے ، میں منہ پر ہاتھ رکھ کر ٹائیلٹ کی تلاش میں پھر دوڑا اور ایک طرف جا کر جبکہ بے اختیار ہو چکا تھا مجبور اقے کی ، تو حلال تھا اور ان لوگوں کے لئے طیب بھی تھا لیکن میرے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کے مزاج مختلف ہیں طیب نہیں تھا.پس حلال کے ساتھ طیب کی شرط لگا کر ایک اور مضمون بھی پیدا فرما دیا گیا ہے کیونکہ طیب خاطر اسے کہتے ہیں جو مزاج کے مطابق ہو.اگر مزاج کی تعریف میں جسم کے ردعمل کو بھی شامل کر لیا جائے تو بہت سی Allergies کا تعلق ، بہت سی بیماریوں کا تعلق ایسے کھانوں سے ہوتا ہے جو ویسے پسند ہیں لیکن انسان کے لئے طیب نہیں ہیں.بہت سے لوگ مالٹے کا جوس پسند کرتے ہیں اور اب جو تحقیق ہے اس سے پتا چلا ہے کہ اکثر بچوں کو دمہ کی بیماری مالٹے کے جوس پلانے کے نتیجہ میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 366 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء ہوئی ہے.مائیں چھوٹی عمر سے ہی اس شوق میں کہ ہمارے بچے کی صحت اچھی ہو اس کو مالٹے کا جوس پلایا کرتی تھیں اور اب وسیع پیمانہ پر تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اکثر دمہ کی وجہ بچپن کی عمر میں پلایا ہوا یہی مالٹا ہے تو اس لئے کہ طیب نہیں تھا.یعنی ایک اور بات یہ نکلی کہ عمر کے مطابق بھی پھر طیب کی احتیاط رکھنی ہو گی.بعض چیزیں ایک عمر میں جا کر طبیب ہو سکتی ہیں ایک عمر میں طیب نہیں ہوتیں.تو بہت ہی پیاری اور مکمل تعلیم ہے کہ یا يُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَللًا طَيِّبًا تمہارے لئے ہم نے بہت سے کھانے نکالے ہیں ان میں سے حلال کھاؤ یعنی وہ کھاؤ جس کی خدا نے اجازت دی ہے اور طیب کھاؤ یعنی وہ کھاؤ جس کی تمہارا نفس اجازت دیتا ہے.جسے تمہارا نفس قبول کرتا ہے تو خدائی تعلیم کا اس طرح آپ تجزیہ کر کے دیکھیں تو و لنفسک علیک حق (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر ۱۸۳۲) کا مضمون ہے جو یہاں بیان ہو گیا ہے ایک خدا کا حق ہے اس کو پیش نظر رکھنا.ہرگز اس حق میں دخل اندازی نہ کرنا.پھر تمہارے نفس کا حق ہے اس کو بھی پیش نظر رکھنا اگر ان دو باتوں کا خیال رکھو گے تو تمہاری صحتیں اچھی رہیں گی.تمہارا معاشرہ اچھا رہے گا تم کئی قسم کی خرابیوں اور تکلیفوں سے بچ جاؤ گے.حلال کا جو مضمون آج یہاں خصوصیت کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ لین دین کے معاملہ میں حلال کا مضمون ہے جو اس وقت میرے پیش نظر ہے.وہ رزق جو رشوت کے ذریعہ حاصل کیا جائے، وہ رزق جو چور بازاری کے ذریعہ حاصل کیا جائے، وہ رزق جو کسی کے اوپر ظلم کر کے اس کا مال کھا کر حاصل کیا جائے ، وہ رزق جو چیزیں بیچتے ہوئے دھوکہ دے کر حاصل کیا جائے ، لین دین کے معاملات میں بد دیانتی کے ذریعہ حاصل کیا جائے ، غرضیکہ رزق حاصل کرنے کے بہت سے ایسے ذریعے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی رضا شامل نہیں ہوتی ان طریقوں سے رزق حاصل کریں تو خدا کی رضا سے عاری رزق ہو جائے گا بلکہ ناراضگی والا رزق ہوگا اور حلال کی تعریف میں یہ سب باتیں داخل ہیں کہ ایسا رزق کھاؤ جس کے حصول میں تم نے خدا کو ناراض نہ کر لیا ہو.خدا کی تعلیم کے خلاف رزق نہ ہو.یہ وہ پہلو ہے جس کے پیش نظر آپ جب آج کی دنیا کے مختلف ممالک کی اقتصادی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ رزق حرام کی طرف دنیا کی توجہ بڑھتی چلی جا رہی ہے ایسے ممالک جن میں اقتصادیات بظاہر صحت مند ہیں وہاں بھی جب چھان بین کی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ قومی مال کھانے کا رجحان پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے.بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جو دھوکہ دے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 367 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء کر بعض لوگوں کے ساتھ مل کر بعض لوگوں کو کھلا کر قومی دولت اپنی ذاتی کمائی میں تبدیل کر لیتی ہیں حالانکہ وہ قومی دولت ہے تو بعض دفعہ رزق حرام کھلا کھلا ، صاف دکھائی دیتا ہے.بعض دفعہ چھان بین کے بعد دکھائی دینے لگتا ہے لیکن میں نے جہاں تک جائزہ لیا ہے صرف مشرق کا معاملہ نہیں ،ہمشرق میں تو رزق حرام آج کل ماں کے دودھ کی طرح پیا جارہا ہے لیکن مغرب میں بھی حرام رزق کھانے کی طرف توجہ بڑھتی جارہی ہے اور یہ رجحان ان کی اقتصادی حالت خراب ہونے کا ایک طبعی نتیجہ ہے.قو میں دو قسم کی ہیں ایک وہ جو اپنی اخلاقیات کو خدا کے تصور سے باندھتی ہیں اور خدا کے تصور کے نتیجہ میں اپنا ضابطہ حیات بناتی ہیں.ان قوموں پر بھی غربت اثر انداز ہوتی ہے.چنانچہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: كَادَ الْفَقْرَآنُ يَكُونَ كُفْراً (شعوب الایمان سلیم بھی جلد ۵ صفحه: ۲۶۷) کہ دیکھو خبر دار یہ خطرہ ہے کہ تمہاری غربت کفر میں تبدیل نہ ہو جائے.غربت کے ساتھ بعض خرابیاں لگی ہوئی ہیں اور اخلاق آزمائے جاتے ہیں اور زیادہ سختی سے آزمائے جاتے ہیں اور خطرہ ہے کہ غربت کی حالت میں وہ اخلاق جو خدا کے تصور سے وابستہ ہیں ان کو بھی گزند پہنچ جائے.پس ایسی قومیں ہیں جہاں خدا کا تصور تو موجود ہے اور خدا کے تصور سے اخلاق کے مضمون باندھے ہوئے ہیں لیکن ایک غربت کی وجہ، دوسرے خدا کا تصور فرضی زیادہ ہے حقیقی کم ہے، کیونکہ غربت میں بھی اگر خدا دل میں موجود ہو تو انسان کی اخلاقی حالت کی غیر معمولی حفاظت ہوتی ہے اور امیر آدمی کے پاس بھی اگر خدا نہ ہو تو اس کی اخلاقی حالت کی کوئی ضمانت نہیں.پس ایک تو وہ لوگ ہیں جن کا اخلاقیات کا نظام خدا سے وابستہ ہے اور ایسی قوموں میں چونکہ خدا کا تعلق کم ہو رہا ہے.اعتقاد عملاً اٹھ رہا ہے اور دوسرے بہت سے ایسے علاقے ہیں جو غریب علاقے کہلاتے ہیں اس لئے وہاں بددیانتی بڑھ رہی ہے اور امیر ممالک میں اقتصادی آزمائش کا دور شروع ہو چکا ہے.امیر ممالک کی مشکل یہ ہے کہ یہاں ایک فرضی اور خیالی معیار زندگی بنا کر اسے اونچا کرنا شروع کر دیتے ہیں.ہر وہ سیاسی پارٹی جو معیار زندگی اونچا کرنے کا دعوئی لے کر آئے اس کو ووٹ زیادہ ملتے ہیں.اس لئے یہاں یہ کوشش ہی نہیں کی جاسکتی کہ معیار زندگی کوگرا کر اقتصادی حالت کے مطابق کیا جائے.پس یہ ایک ایسی دوڑ ہے جس کے نتیجہ میں جب ایک کھوکھلا معیار زندگی قائم ہو جائے جسے حقیقتا ملک کی اقتصادیات پورا سہارا نہ دے سکیں کیونکہ ہر معیار زندگی کے نیچے ایک اقتصادی بنیاد ہونی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 368 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء ضروری ہے اگر وہ اقتصادی بنیاد موجود نہ رہے تو وہ معیار زندگی کھوکھلا ہو کر یا تو گرے گا یا اس کو سہارا دینے کے لئے جھوٹ اختیار کرنا پڑے گا، بددیانتی اختیار کرنی پڑے گی، کئی قسم کے دھو کے اختیار کرنے پڑیں گے کہ کس طرح یہ معیار زندگی جو جھوٹا ہے اور جسے قائم رہنے کا حقیقتا اقتصادی اصولوں کے مطابق کوئی حق نہیں اسے بہر حال قائم رکھا جائے.یہ وہ حصہ ہے جس کے نتیجہ میں پھر اخلاق بڑی تیزی کے ساتھ کھائے جاتے ہیں اور کھو کھلے ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر منہدم ہو کر گرتے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں.قوموں کا صرف اقتصادی نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ بھی پٹ جاتا ہے.پس جو دوسرا حصہ میں نے مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والا بیان کیا تھا اس میں مشکل یہ ہے کہ ہم یعنی انسان اس وقت ایسے دور میں داخل ہو گیا ہے کہ جہاں ان کی اقتصادی ترقی اب کچھ عرصہ کے لئے رکے گی اور پھر تنزل اختیار کرے گی اور ان کے سامنے کئی ایسے چیلنج ہیں جو رفتہ رفتہ اس اشترا کی دنیا سے اٹھیں گے جو اشترا کی نظام سے تو بہ کر کے ان کی پیروی میں اب نئے نظام بنا رہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ تیسری دنیا کی جو مارکیٹیں ہیں ان میں خریدنے کی طاقت ہی بہت کم ہو چکی ہے.ان کا اقتصادی معیار بہت گر چکا ہے اور جس کو پہلی دنیا کہتے ہیں اس کے پیچھے پیچھے دوسری دنیا یعنی اشترا کی دنیا ہے جواب آزاد ہورہی ہے اس دنیا کا باہر کی مارکیٹوں سے کوئی بہت گہرا تعلق نہیں تھا بہت معمولی تعلق تھا.اب نئے اقتصادی نظام کے تابع ان کے اندر Production کی طاقتیں بڑھیں گی اور لازماً ان کو باہر کی دنیا میں منڈیاں ڈھونڈنی پڑیں گی اور باہر کی مارکیٹوں پر قبضہ کرنا ہو گا جس کے نتیجہ میں دنیا کی جو کل دولت ہے اس میں اضافہ نہیں ہو گا لیکن چیزیں بیچنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور یہ وہ خطرہ ہے جس کے نتیجہ میں پھر اخلاقیات پر ایک بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور رزق حلال ایک دور کی چیز دکھائی دیتی ہے.پھر عملی دنیا میں ہر قوم میں یہ رجحان پیدا ہو جاتا ہے کہ چاہے دھوکے سے لو، بد عہدی کر کے اور ظلم کر کے لو، قوم کا اقتصادی معیار قائم رکھنے کے لئے ہر حالت میں تم باہر سے پیسہ کھینچو اور اپنے ملک کی طرف منتقل کرو.یہ قومی رجحان بنتا ہے اور انفرادی سطح پر آپ نے دیکھا ہوگا کہ خیالی معیار کو قائم رکھنے کے لئے یا فرضی طور پر لذتوں کے جو تصورات پیش کئے جاتے ہیں ان کی پیروی میں وہ عوام الناس جن کے پاس دولت نہیں ہے کہ اس قسم کے مزے کر سکیں وہ پھر چوریاں کرتے ہیں ، ڈاکے ڈالتے ہیں، کاروں کے شیشے توڑتے ہیں اور رفتہ رفتہ پھر قتل وغارت پر بھی مجبور ہو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 369 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء جاتے ہیں.امریکہ جیسے امیر ملک میں تھوڑے تھوڑے پیسوں کے لئے قتل و غارت کا سلسلہ اس قدر شدت کے ساتھ جاری ہے کہ انسان دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے بعض آدمیوں کو دس ڈالر کے لئے قتل کیا گیا یعنی پہلے مارا گیا اور پھر دیکھا گیا کہ اس کی جیب میں تھا کیا تو دس ڈالر نکلے.جب میں 78ء میں امریکہ گیا ہوں تو مجھے ایک احمدی دوست نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے پاس پیسے ضرور رکھا کریں اور صرف کارڈ پر یا چیک پر انحصار نہ کریں.میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا کم از کم سود وسوڈالر ہونے چاہئیں.اس لئے کہ انسان اتناMug ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی آپ پر حملہ ہوا تو آپ کے پاس پیسے ہوں گے فوراً نکال کر دے دیں کہ یہ لے لو ورنہ وہ مارنے کے بعد تلاشی لیتے ہیں.بہر حال اس وقت اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک دعا کی ، اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا میں بیوی اور دو بچیوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا.خطرناک سے خطر ناک جگہ بھی گیا اور اللہ کے فضل سے ہم کسی آزمائش میں نہیں پڑے لیکن خدا کا یہ سلوک ہر ایک کے ساتھ تو روز مرہ نہیں ہوا کرتا.اس لئے کہ ہر شخص روز مرہ دعا کے ذریعہ اس طرح خدا کی پناہ مانگتا ہی نہیں ہے.عام دستور یہی ہے کہ جب اقتصادی گراوٹ کے نتیجہ میں یہ ظلم کے رجحان ہوں اور یہ صورتحال پیدا ہو کہ انفرادی طور پر کسی طرح بھی اپنے معیار زندگی کو قائم رکھنے یا بلند کرنے کے لئے انسان ہر ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے تو سوسائٹی جرائم سے بھر جاتی ہے اور مضمون رزق حلال کے صرف ایک پہلو کا بیان ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو متنبہ فرمایا کہ دیکھور زق حلال کو معمولی نہ سمجھنا.اگر تم یہ دستور بنا لو اور اپنے لئے ایک قانون مقرر کر لو کہ جو کھاؤ گے وہ حلال ہو گا اور یہاں حلال کی تعریف میں دنیا کے قوانین بھی آجاتے ہیں کیونکہ ایمان والوں کو مخاطب نہیں فرمایا گیا بلکہ الناس کو مخاطب فرمایا گیا ہے یہاں صرف الہی قانون نہیں ہے بلکہ دنیا کے قوانین بھی آجاتے ہیں.فرمایا کہ رزق کمانے کے لئے قوانین نہ تو ڑنا.ملکیت کے حقوق زبردستی اپنے ہاتھ میں نہ لے لینا.جس ملک میں رہتے ہو جس معاشرے میں رہتے ہو، اس کے قواعد کی ،اس کے قوانین کی، اس کی روایات کی پیروی کرتے ہوئے جو کچھ بھی تمہیں نصیب ہوگا اگر وہ کھاؤ گے اور پھر اس میں سے طیب کو چن کر کھاؤ گے تو یہ رزق حلال بھی ہے اور رزق طیب بھی ہے، اس سے تمہاری روحانی اور اخلاقی قدروں کی بھی حفاظت ہوگی اور جسمانی قدروں کی بھی حفاظت ہوگی تو ایک آیت کے ایک حصہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 370 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کتنے گہرے اور کتنے وسیع مضامین بیان فرما دیئے ہیں.اگر آج کا انسان صرف اسی نصیحت کو پکڑ کر بیٹھ جائے تو دنیا کی قوموں میں ایک حیرت انگیز انقلاب بر پا ہو جائے اور انسان حقیقت میں امن کی طرف قدم اٹھانے لگ جائے.امن کا رستہ تو بہت لمبا ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر اس ایک نصیحت پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں امن کے قیام کے آثار ظاہر ہو سکتے ہیں.مگر میں جانتا ہوں کہ اکثر ممالک میں یہ سننے اور سمجھنے کے باوجود ان باتوں کو قبول کرنے کا رجحان ہی نہیں پایا جاتا اور بڑی وجہ دہریت ہے.جب اللہ کی ہستی پر یقین نہ رہے تو خود غرضی لائحہ عمل کو Dictate کراتی ہے اپنے آپ کو لکھواتی ہے جس طرح حکم لکھوائے جاتے ہیں اس طرح خود غرضی انسان کے لئے طرز زندگی مقرر کرتی چلی جاتی ہے اور ہر فیصلے کے موقع پر انسان جب خود غرضی کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ فیصلہ خدا کے قانون کے بھی مخالف ہوتا ہے اور ملک کے قوانین کے بھی مخالف ہوتا ہے اور اسی کا نام (Anarchy) انار کی ہے یعنی لاقانونیت کا ایک ایسا دور چل جاتا ہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آسکے وہ اس کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح بدامنی، اخلاقی بدامنی، قومی بدامنی ، گھر یلو بدامنی، بازار کی بدامنی ہر قسم کی بدامنیوں میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے.فرمایا: وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ شیطان کے خطوات کی پیروی نہ کرنا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے فیصلے کے وقت جب آپ نے اپنے رزق کے متعلق سوچنا ہے کہ اس طرح لوں یا نہ لوں.اس کو اپناؤں یا نہ اپناؤں شیطان کچھ وسوسے دل میں پیدا کرتا ہے اور ہر موقع پر سوچ کا ایک امتحان ہوتا ہے.یہ باتیں از خود نہیں ہوا کرتیں یہ وہ مضمون ہے جس پر آپ غور کریں تو اپنی زندگی کے تمام فیصلوں کے وقت آپ کو دکھائی دے گا کہ آپ کے سامنے دوراہیں تھیں.ایک وہ راہ تھی جو شیطان نے دکھائی تھی اور شیطان نے بتایا تھا کہ یوں کرو تو یہ ہوگا اور وہ لوگ جو شیطان کی بات سننے لگ جاتے ہیں شیطان ان سے زیادہ باتیں کرتا ہے وہ لوگ جو اللہ کی اور اس کے فرشتوں کی باتیں سنتے ہیں وہ ان سے زیادہ باتیں کرتے ہیں تو بعض لوگ صرف خُطُوتِ الشَّيْطن ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں.جو بھی وسوسے، خیالات ،سوچ کی غلط راہیں ، جھوٹی چالاکیاں، دوسروں کی دولت لوٹنے کے گھٹیا، کمینے طریق، دوسروں کے مال پر ہاتھ ڈالنے کے قومی دولت کو اپنانے کے یہ ان کو ہر وقت دماغ میں آتے رہتے ہیں.صبح اٹھتے ہیں تو ایسے خیالات کے ساتھ اٹھتے ہیں.سارا دن سوچتے رہتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 371 خطبه جمعه ۱۴ مئی ۱۹۹۳ء ہیں کہ اب کیا ترکیب کی جائے ، کون سا ٹھیکہ کس طرح لیا جائے ، کس طرح بنک سے پیسے لوٹے جائیں.کس خاندان کے نام پر کس قانون کا سہارا لے کر قومی دولت کو اپنایا جائے اور چھوٹی سطح پر روزمرہ کی زندگی میں غریب آدمی بیچارہ بھی اپنے لئے ترکیبیں سوچتا رہتا ہے کہ میں دو وقت کی روٹی کھانے کے لئے کون سے دھو کے کروں.کونسی چالاکیاں کروں.آٹے میں کیا چیز ملاؤں کہ پتا نہ لگے اور میرا منافع بڑھ جائے وغیرہ وغیرہ.تو اوپر سے نیچے تک ساری قوم خُطواتِ الشَّيْطَنِ کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ فیصلے ہر سطح پر اس کثرت سے ہو رہے ہوتے ہیں کہ اگر آپ ان کو شمار کرنا چاہیں تو شمار ہو نہیں سکتے کیونکہ ہر انسان صبح سے رات تک بعض دفعہ بیسیوں فیصلے کرتا ہے اور وہ فیصلے خُطُوتِ الشَّيْطن کے نتیجہ میں ہورہے ہوتے ہیں اور غلط فیصلے کرتا ہے اور اپنے لئے بھی جہنم بنا رہا ہوتا ہے اور اپنے بھائیوں کے لئے اپنے معاشرے کے لئے بھی جہنم بنا رہا ہوتا ہے.مگر جب قوم کے لیڈر اس قسم کے رزق حرام میں مبتلا ہو جائیں تو ساری قوم کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ہیں.انفرادی سطح پر اگر دیانت پیدا کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو وہ کوشش ناکام ہوگی.اب تیسری دنیا کے بعض ممالک ہیں جہاں سیاست صرف روپیہ کمانے کی غرض سے ہے اور سیاست کے ذریعہ طاقت حاصل کرنا یا دولت کے سرچشموں پر قبضہ کرنا.یہ ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں ایک کے بعد دوسری جو بھی حکومت آتی ہے بددیانت آتی ہے.وہی مصرعہ صادق آتا ہے کہ یعے ہمارے واسطے سارے ولی این ولی آئے نام جو مرضی رکھ لیں، خاندان جتنے مرضی تبدیل ہوں.سیاسی پارٹیوں کے کوئی بھی نام ہوں جو بھی قابض ہوتا ہے اس کی تاریخ دیکھ لیں وہ ملک کی دولت پر قبضہ کرنے کی نیت سے قابض ہوتا ہے اور جب ایک قابض ہوتا ہے تو وہ پھر پچھلوں کے اوپر نکتہ چینی کرتا ہے کہ دیکھو کتنے بے ایمان بد دیانت لوگ تھے.اتنا روپیہ کھا گئے اور اب ہم اس طرح ان کا حساب لیں گے اور محاسبہ ہو گا اور ایک ایک پائی ان سے واپس وصول کی جائے گی اور پھر ہوتا یہ ہے کہ وصول نہیں کی جاتی.اب سوال یہ ہے کہ اتنے دشمن تھے جن کو شکست دی گئی.ایسے ظالم لوگ تھے جنہوں نے قوم کو لوٹا اور ان کے ساتھ دوستی کی کوئی وجہ نہیں پھر کیوں محاسبہ نہیں ہوا، کیوں ان سے پائی پائی کا حساب نہیں لیا گیا ، وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنی آخرت نظر آ رہی ہوتی ہے ان کو پتا ہوتا ہے کہ کل ہم اسی مقام پر ہوں گے، ہمارا بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 372 خطبه جمعه ۱۴مئی ۱۹۹۳ء محاسبہ ہوگا تو عوام الناس کو دکھانے کے لئے ایک شور برپا ہو جاتا ہے کہ دیکھو پکڑے گئے، پکڑے گئے اب بیچ کر نہیں نکل سکتے.ہمیں پتا ہے کہ کن کن بینکوں سے کتنے کتنے روپے نکلوائے ہوئے تھے یا کس کس سے کتنی رشوت لی ہوئی تھی اور پھر وہ سارا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے.مڑ کر دیکھ لیں کسی کا کوئی محاسبہ نہیں ہوا.ہوا ہے تو بے نتیجہ ہوا ہے اور اس لئے کہ آگے کل بھی انہوں نے حساب دینا ہے اور اسی قسم کے لوگ اوپر آئے ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ پھر یہی کریں گے.پس رزق حرام کے نتیجہ میں قو میں تباہ ہورہی ہیں، سیاستیں بگڑ گئی ہیں ،ساری سوسائٹی زہر آلود ہو چکی ہے، ہر چیز جھوٹی ہوگئی ہے اور قرآن کریم کی ایک نصیحت کا ایک پہلو ہے جس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے.بعد میں خُطُوتِ الشَّيْطن کا ذکر یہ بتانے کے لئے فرمایا ہے کہ تمہارا رخ کیا ہو گا.تم آخر شیطان ہو جاؤ گے کیونکہ جس کی پیروی کرتے ہو وہی بن جایا کرتے ہو.شروع میں تم سمجھتے ہو کہ تھوڑے سے پیسوں کی بات ہے، اپنے بیوی بچوں کا معیار زندگی بڑھالیں تو کیا فرق پڑتا ہے.چھوٹے چھوٹے عام لوگ جنہوں نے دولت کمالی ہے یہ عیش و عشرت کرتے پھر رہے ہیں اور ہمارے پاس جو اتنے بڑے افسر ہیں کار کوئی نہیں جبکہ باقیوں کے پاس کاریں ہیں.ہم حکومت کے اچھے نوکر ہیں چنانچہ وہ ان کو پکڑتے ہیں کہ ہم سے تم کام لیتے ہو اور آئے دن درخواستیں کرتے ہو اپنا معیار اونچا کیا ہوا ہے اور ہماری پر واہ کوئی نہیں تو وہ اپنا معیار کچھ بلند کرنے کے لئے اپنے ذہن کو آمادہ کرتے ہیں کہ تمہارا حق ہے اور اس آمادگی کے ساتھ ہی حقیقت میں اپنے آپ کو شیطان کی پیروی پر تیار کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو بہانے مہیا کر دیتے ہیں کہ شیطان کی آئندہ سے اطاعت کیا کرو.کوئی فرق نہیں پڑتا فائدہ ہی ہوگا.یہ خُطوتِ الشَّيْطن کہاں لے جاتے ہیں.اس کا خلاصہ اس آیت نے یہ پیش فرمایا اِنہ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو جس کی پیروی کرتے ہو وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.خدا کی باتوں کو چھوڑ کر جب غیر اللہ کی باتیں مانو گے تو یا درکھو کہ صرف خدا تمہارا دوست ہے.اللہ جو بھی نصیحت فرماتا ہے حق کی نصیحت کرتا ہے، تمہارے فائدے کی نصیحت کرتا ہے اور غیر اللہ کی ہر نصیحت ظلم کی نصیحت ہوا کرتی ہے.تو جو شخص اپنے کھلے دشمن کی باتوں میں آجائے اس کا کیا نیک انجام ہوسکتا ہے، وہ تو ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا، مارا گیا کیونکہ اپنے آپ کو اپنے دشمن کے ہاتھوں میں دے دیا، اپنی اولادکو اپنے دشمن کے ہاتھوں میں دے دیا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 373 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء تو آپ نے ایک ملک کی نہیں کئی ملکوں کی مثال دیکھی ہے جو میں نے بغیر نام کے بیان کی ہے یہ رجحانات عالمی طور پر بہت وسیع ہو چکے ہیں اور یہ سوسائٹیاں اوپر سے نیچے تک بددیانت ہیں.محاسبہ کروانے والے خود بد دیانت ہوتے ہیں اور جولوگ ان کو چنتے ہیں وہ بددیانت ہوتے ہیں اور جس طرح یہ راہنما اپنے جاتے ہیں وہ طریق بددیانتی کا ہوتا ہے اور سب جگہ آپ کو رزق حرام کام کرتا ہوا دکھائی دے گا یعنی ووٹوں کی قیمت پڑ رہی ہے.جس نے پیسے لے کر ووٹ دینے ہیں وہ یہ کہاں دیکھتا ہے کہ کوئی شریف النفس انسان ہے یا بے ایمان اور بددیانت ہے وہ تو اپنا سودا خود اپنے آپ کو بیچ رہا ہوتا ہے ساری قوم اپنی عزت، اپنی ناموس، اپنے وقار، اپنی بھلائی کے سودے کر رہی ہوتی ہے اور اس پر چسکے لے رہی ہوتی ہے کہ خوب سودا ہوا کسی کی اتنی قیمت پڑ گئی کسی کی اتنی قیمت پڑ گئی.پھر اس طرح جو سیاستدان ابھرتے ہیں ان کے سودے ہو رہے ہوتے ہیں اور اس کو آج کل وہاں Horse Trading کہتے ہیں اور یہ تو ایسا محاورہ ہے کہ جو شخص Horse Trading کا انگریزی لفظ جانتا ہو وہ سمجھتا ہے کہ میں بہت بڑا عالم انسان ہوں.مجھے یہ محاورہ آتا ہے Horse Trading اور بڑے فخر کے ساتھ ایک دوسرے پر Horse Trading کے الزام لگائے جاتے ہیں.Horse Trading کا مطلب ہے گھوڑوں کا سودا کرنا یا گھوڑوں کی سودا گری.کچھ سیاستدان وہاں سے خرید کر ادھر ڈال لئے اور کچھ یہاں سے خرید کر ادھر ڈال لیے.Horse Trading کے ذریعہ حکومتیں توڑی جاتی ہیں اور جو خرید رہے ہوتے ہیں ، جو تو ڑ رہے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو طعنے دے رہے ہوتے ہیں کہ تم نے سیاست کو گندا کر دیا تھا.انسانوں کے ایسے ایسے سودے کئے ہیں کہ اب قوم یہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتی اور اس کا توڑ یہ ہے کہ ہم آدمی خرید کر تم سے تو ڈلیں گے تو جس چیز کا الزام لگایا جاتا ہے وہی چیز کر کے پھر اسی کے ذریعہ انقلاب برپا ہورہے ہوتے ہیں.جب یہ حالت پہنچ جائے تو کیسے کوئی قوم ہلاکت سے بچ سکتی ہے.سارا معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور نچلی سطح پر بھی جو لوگ ووٹ دیتے ہیں اور بعد میں بددیانتوں کے محاسبہ کے مطالبے کرتے ہیں عملاً وہ سارے بددیانت ہیں کیونکہ ایک سوسائٹی کی یہ جو صورتحال ہے یہ بددیانت افراد کے مجموعہ کا نتیجہ ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نیک لوگوں کی اجتماعی زندگی کا یہ نتیجہ نکل رہا ہو.گھاس اپنی جڑوں تک گندا ہو چکا ہے اور وہاں سے زہر لے کر اگ رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو بھی فصل ہو گی جو بھی جانور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 374 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء بنیں گے وہ وہی زہر کھاتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے رگ وریشے میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے.رزق حلال کہنے میں ایسی بات ہے کہ رزق حلال کی کیا ضرورت ہے.صوفی لوگ رزق حلال کھائیں، عام روز مرہ کی زندگی میں چل نہیں سکتا مگر قرآن کریم نے جو تجزیہ آپ کے سامنے رکھا ہے اس کی روشنی میں اتنا بڑا گناہ ہے کہ انفرادی ہو تو می ہو مذہبی دنیا ہو یا غیر مذہبی دنیا ہو ہر سطح پر اور ہر قوم اور ہر علاقہ سے اس کا گہرا تعلق ہے اور اگر رزق حلال کارجحان انسانوں میں پیدا نہ کیا جائے تو قو میں تباہ ہو جاتی ہیں اور پھر ان کا کوئی اور علاج نہیں.اس آیت کے باقی حصے سے متعلق انشاء اللہ آئندہ بات کروں گا لیکن گزشتہ خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھنے سے رہ گیا تھا اس کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.میں نے یہ بیان کیا تھا کہ جن قوموں میں اخلاق مٹ رہے ہوں اور خدا کا تصور مٹ رہا ہو وہاں قومی رجحانات ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ خود نئی اٹھنے والی نسلوں کو گمراہی کی طرف لے کر جاتے ہیں اور گمراہی کی طرف لے جانا فیشن بن جاتا ہے.گمراہی کی طرف لے جانا ترقی پسندی کی نشانی سمجھی جاتی ہے.گمراہی کی طرف لے جانا بالغ نظری سمجھا جاتا ہے چنانچہ میں نے بیان کیا تھا کہ یہاں صرف انگلستان ہی کی بات نہیں مغربی دنیا میں جہاں جہاں بھی میں گیا ہوں وہاں سکولوں کے بچوں نے سوال کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا ہے کہ ہمیں ہمارے اساتذہ کہتے ہیں کہ اب تم بڑے ہو رہے ہو اس لئے اب تمہیں اپنے ماں باپ کی اخلاقی قدروں کی پیروی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تم آزاد ہو رہے ہو تم بالغ ہورہے ہو جو چاہو کرو، یہ دنیا چند روزہ ہے اس میں تمہیں آزادی ہے اور وہ ماں باپ یا وہ مذہبی راہنما جو اخلاقی تصور کے تابع تمہاری زندگیوں کو بعض ضابطوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تمہارے دشمن ہیں ان کا کوئی حق نہیں تم پر پابندی لگانے کا تمہیں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں.اگر کچھ کرنے کو دل چاہ رہا ہے تو کرو بے شک ، روک کر کیوں رکھتے ہو اگر روک کر رکھو گے تو تم نفسیاتی بیمار بن جاؤ گے اور قانون تمہیں حق دیتا ہے.اپنے ماں باپ کے خلاف اپنے مذہب کے خلاف بے شک بغاوت کرو کوئی پابندی نہیں ہے اور دوسری طرف قانون یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ خبر داراب تم بالغ ہو رہے ہو.پہلے ہم تم سے نرمی کرتے تھے اب اگر تم نے اس قانون کو توڑا تو تم سے سختی کی جائے گی اور کوئی رعایت نہیں کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 375 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء جائے گی.کیسا دوغلہ پن ہے؟ کیسی Hyppocracy ہے کہ ایک طرف بالا قانون جو خدا کا قانون ہے اس کو بلوغت کے وقت ٹھکرا کر پارہ پارہ کر کے قدموں میں پھینک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے یہ پرانا طوق تھا اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قدموں میں پھینکنا ہی اس کے ساتھ بہترین سلوک ہے اور جہاں انسانی قانون کا تعلق ہے وہ طوق پہنا دیئے جاتے ہیں.علاوہ ازیں اس سلسلہ میں ایک چیز ہے جس کو وہ بھلا دیتے ہیں اور وہ یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ دنیا کے قانون میں بھی عملدرآمد کے لئے دراصل خوف خدا ہی کی ضرورت ہے.اگر دنیا کے قانون کو خدا سے خالی کر کے دیکھا جائے تو ہر انسان اس قانون کو اپنے طور پر توڑنے کی کوشش کرے گا خواہ کتنی بھی سزائیں مقرر ہوں.مجرم جب جرم کر رہا ہوتا ہے تو اس غالب گمان کے تابع وہ جرم کرتا ہے کہ میں دکھائی نہیں دے رہا.دن کی بجائے راتوں کے جرم بڑھ جاتے ہیں اور ہر انسان جرم سے پہلے گردو پیش دیکھتا ہے اور اپنی طرف سے تسلی کر لیتا ہے کہ میں دکھائی نہیں دوں گا یا پکڑا نہیں جاؤں گا.تو جہاں خدا کا تصور مٹ جائے وہاں حقیقت میں دنیا کے قانون کا احترام بھی لاز مانتا ہے اور یہ ان لوگوں کی بے وقوفی ہے کہ یہ رجحان پیدا کر کے خدا کا تو انکار کر دو اور ہمارے قانون کا احترام کرد ، واقعہ ملکی قانون کا احترام کروالیں گے؟ یہ ہو نہیں سکتا.بے خدا سوسائٹیاں قانون سے ہی دور ہو جاتی ہیں اور قانون شکنی ان کی فطرت کا حصہ بن جایا کرتی ہے اور قانون سے بچ کر بھاگنے کا جو تصور ہے یہ حقیقت میں جرم کروانے پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور یہ خُطوتِ الشَّيْطَنِ کی ایک قسم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تجزیہ پیش فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم بلوغت کو پہنچتے ہو ، جب حساب کتاب کی عمر کو پہنچتے ہو تو یا د رکھو کہ دنیا کے قانون سے تم بھاگ سکتے ہومگر خدا کے قانون سے بھاگ نہیں سکتے.اس لئے اگر زیادہ احترام کی بات ہے تو خدا کے قانون کا زیادہ احترام کرو کیونکہ دنیا کا قانون توڑو گے تو بچنے کی کئی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں مگر خدا کا قانون تو ڑ کر بچنے کی کوئی صورت نہیں.اس کی ایک مثال میں نے آپ کے سامنے ابھی رکھی ہے.ساری دنیا میں جو جرم بڑھ رہے ہیں اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے یہ اسی خدا کے قانون کو توڑنے کا نتیجہ ہے جس کو میں نے بیان کیا ہے.آپ کو سمجھنا چاہئے کہ سزائیں دو قسم کی ہیں.کچھ سزائیں ہیں جو Built in ہیں نظام کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 376 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء اندر بنی ہوئی ہیں.اس نظام کو جب آپ تو ڑتے ہیں تو وہ سزائیں ٹوٹے ہوئے نظام سے اُچھل کر آپ پر حملہ کرتی ہیں.جس طرح شیشے کا گلاس ٹوٹ جائے تو اس کے بعض ٹکڑے انسان کو زخمی کر دیتے ہیں غلطی سے پاؤں پڑ جاتا ہے تو انسان زخمی ہو جاتا ہے مگر خدا کے قانون کو توڑنے کے نتیجہ میں غلطی کا سوال نہیں ہے، وہ قانون خود اپنے بدلے لیتا ہے.پس جہاں رزق حلال کو آپ فرضی اور پرانے زمانے کی بات سمجھ لیں وہاں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایسی سوسائٹی کو سزا نہ ملے جوحرام رزق کی عادی ہو چکی ہو اور وہ سزائیں آپ دیکھ رہے ہیں.نہ امریکہ اس سے بچا ہے ، نہ انگلستان بیچا ہے ، نہ جرمنی بچا ہے اور مشرقی قو میں تو سر سے پاؤں تک سزائیں بھگت رہی ہیں اور ان کو ہوش نہیں آرہی.دوسری سزاوہ ہے جو خدا بعد میں دیتا ہے.مرنے کے بعد کی دنیا میں اس کی روح جو مسخ دیتا شدہ حالت میں بیمار روح کے طور پر اٹھتی ہے وہ خود اپنی ذات میں ایک سزا بن جاتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دو دنیاوی حکام کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ایک قانون مشتہر کر دیتے ہیں اور پھر اگر کوئی ان کے احکام کو توڑتا اور خلاف ورزی کرتا ہے تو پکڑا جاتا اور سزا پاتا ہے...فرمایا اسی طرح خدا نے بھی نظام بنایا ہوا ہے یہ مضمون پیچھے سے چلا آ رہا ہے.یہ خیال نہ کرو کہ خدا چھوڑ دے گا.دنیا کے حکام جس طرح اپنے قانون توڑنے والوں کو سزا دیتے ہیں کائنات کا حاکم اپنے قانون توڑنے والوں کی سرزنش کرتا ہے، پرسش کرتا ہے، ان کا مؤاخذہ کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مشتہر ہونا چاہئے.سب کو پتا لگ جانا چاہئے ، چنانچہ مذاہب آتے ہیں اور خدا کے قانون کی خوب منادی کرتے ہیں، خوب کھول کھول کر بیان کرتے ہیں کہ یہ جائز ہے اور یہ نا جائز ہے.پھر فرماتے ہیں لیکن دنیاوی حکام کے عذاب سے اور ان کے قوانین ، احکام کی و حکام کی خلاف ورزی کی سزا سے آدمی کسی دوسری عملداری میں بھاگ جانے سے بچ بھی سکتا ہے.ابھی حال ہی میں انگلستان سے ایک مبینہ مجرم نے بھاگ کر ایک اور ملک میں پناہ لی ہے اور Bail اپنی Jump کر گئے ہیں.Bail ضائع کر دی ہے اور کہا ہے کہ میں اس ملک میں دوبارہ نہیں آؤں گا.انگلستان بڑی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح اس دوسرے ملک سے پکڑ کر ان کو واپس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 377 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء بلوایا جائے لیکن آپس میں مجرموں کے تبادلہ کا معاہدہ کوئی نہیں.تو یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ ایک مجرم بھاگ کر ایک اور عملداری میں چلا جاتا ہے جس طرح پاکستان میں مجرم بھاگ کر آزاد علاقے میں چلے جایا کرتے ہیں پھر کوئی ان کو پکڑ کر بلو انہیں سکتا.فرمایا : اور اس طرح پیچھا چھڑا سکتا ہے.مثلاً اگر انگریزی عملداری میں کوئی خلاف ورزی کی ہے تو وہ فرانس یا کابل کی عملداری میں بھاگ جانے سے بچ سکتا ہے...دیکھیں ! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں بھی کیسے پتے کی بات کی ہے.آپ کو پتا تھا کہ انگر یز اور فرانس کی آپس میں رقابت ہے اور امکان موجود ہے کہ انگریز کا مجرم اگر فرانس میں جائے گا تو فرانس اس کو واپس نہیں کرے گا اور کابل کی مثال بالکل واضح ہے.جو بھی مجرم بھاگ کر کابل کی عملداری یا افغانستان میں چلے جایا کرتے تھے کبھی بھی انگریز ان کو واپس نہیں لے سکا.لیکن خدا تعالیٰ کے احکام و ہدایات کی خلاف ورزی کر کے وو انسان کہاں بھاگ سکتا ہے؟ کیونکہ یہ زمین و آسمان جو نظر آتا ہے یہ تو اسی کا ہے اور کوئی اور زمین و آسمان کسی اور کا کہیں نہیں ہے...وو 66 ( تلاش کر لو.ڈھونڈو.کسی اور کا بنایا ہوا زمین و آسمان کہیں تمہیں دکھائی نہیں دے گا ) جہاں تم کو پناہ مل جاوے.اس واسطے یہ بہت ضروری امر ہے کہ انسان ہمیشہ خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی ہدایتوں کے توڑنے یا گناہ کرنے پر دلیر نہ ہو کیونکہ گناہ بہت بُری شئے ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور گناہ پر دلیری کرتا ہے تو پھر عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ اس جرات و دلیری پر خدا تعالیٰ کا غضب آتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۶۰۷) پس میں جو مضمون بیان کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ دنیا کا غضب تو سب نے دیکھا ہوا ہے جب خدا کے قوانین کو قومی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے یا بے حرمتی کا سلوک ان سے کیا جاتا ہے تو انسان ضرور قومی سزاؤں میں مبتلا ہوتا ہے.یہ اتنی قطعی بات ہے کوئی اندھا بھی ہو تو اس کا انکار نہیں کرسکتا.اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 378 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء کے ساتھ ہی آخرت کے عذاب کو بھی جوڑ دیا گیا ہے.فرمایا اس دنیا میں جہاں سزا دیتا ہے پھر آخرت میں بھی بعض سزائیں مقدر ہیں جب تم دنیا کی سزاؤں سے بچ نہیں سکتے تو کیسے گمان کر سکتے ہو کہ آخرت کی سزاؤں سے بچ جاؤ گے.پس قانون کے احترام کے لئے خدا کے تصور کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے اور دنیا کا قانون ہو یا آخرت کا قانون ہو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لائے بغیر کسی قانون کو کوئی تحفظ نہیں ہوسکتا ورنہ انسان اگر خدا کی نظر سے اوجھل ہو جائے تو پھر ہر دوسری چیز سے اوجھل ہو سکتا ہے.ایک ہی نظر ہے جو ہر حال میں انسان کو پکڑتی اور دیکھتی ہے اور وہ خدا کی نظر ہے.پس جرائم سے بچنے کے لئے خدا کا وجود ضروری ہے اور خدا کا انکار کرنے والے جتنا مرضی زور مار لیں ناممکن ہے کہ وہ جرائم سے بچ سکیں.ایک ہی طریق ہے کہ خدا کی طرف واپس آؤ.اس سے بچی اور دائی قوت ملتی ہے.اسی سے انسان گناہوں سے بچنے کی طاقت پاتا ہے اور ایک بہتر خو بصورت دلکش معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے.اب میں پاکستان کے احمدیوں سے مخاطب ہو کر مختصراً کہتا ہوں کہ مجھے پتا ہے کہ وہ اس شدید گرمی میں بھی بڑے جوش و خروش سے ، دور دور سے ان جگہوں میں اکٹھے ہوئے ہیں جہاں ڈش انٹینا کے ذریعہ یہ خطبہ سنا جا رہا ہے.پہلے مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ چار دن کا دلولہ نہ ہو اور اس کے بعد پھر اسی طرح اپنے گھروں میں سو جائیں جس طرح پہلے غفلتیں کیا کرتے تھے مگر ربوہ اور لاہور اور دوسرے گاؤں دیکھ کر آنے والے بعض جو مجھے ملتے ہیں.ابھی کل ہی کچھ دوست ملے تھے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں جو ہم بیان کر سکیں کہ کس طرح اللہ کے فضل کے ساتھ یہ جوش اور یہ تعلق کا سلسلہ کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور زیادہ مضبوط اور گہرا ہو رہا ہے.بعض جگہ یوں لگتا ہے کہ عید کی کیفیت ہے.تو میں ان سب کو جو آج اس خطبہ کو سننے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں رزق حلال کے حق میں اگر آپ نے جہاد نہ کیا تو کوئی نہیں ہے جو یہ جہاد کرے گا.سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کسی شخص کو یا کسی پارٹی کو نام لے کر کچھ کہنا مناسب نہیں ہے مگر بعض صورتیں ایسی ہیں جن پر قرآن کریم کی یہ آیت صادق آتی ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۴۲) فساد خشکی پر بھی غالب آچکا ہے اور ترکی پر بھی غالب آچکا ہے.سمندر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 379 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء بھی زہر یلے ہو گئے ہیں اور زمین کی فضا بھی زہر آلود ہوگئی ہے.ایسی حالت میں جن قدروں کی حفاظت کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی غلام جماعت کے سپر د کیا گیا ہے وہ غلام جماعت ان معنوں میں کہ جس طرح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں صلى الله اسی طرح یہ جماعت بھی محمد رسول اللہ ﷺ اور اسلام ہی کی غلام ہے.پس غلام کا کام خدمت کرنا ہے اور اس خدمت کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.اگر آپ نے معاشرے کو بددیانتی سے بچانے کی کوشش نہ کی تو معاشرہ تو تباہ ہو ہی چکا ہے آپ بھی مارے جائیں گے کیونکہ نہی عن المنکر کا ایسا وقت آپہنچا ہے کہ اگر قومی طور پر آپ نے بددیانتی کے ذریعہ کمائے ہوئے رزق کے خلاف آپ نے جہاد نہ کیا تو آپ خود بھی ان بد عادتوں سے بچ نہیں سکیں گے.بہت سے احمدی ہیں جو زخمی ہو چکے ہیں وہ وقت نہیں رہا جب یہ کہا جاتا تھا کہ احمد یہ جماعت میں بددیانت آدمی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا.وہ وقت ختم ہو گئے جب یہ کہا جایا کرتا تھا اور مخالف بھی اعتراف کرتے تھے کہ حکومت کے نوکروں میں اگر کسی نے دیانت دار ڈھونڈنا ہے تو احمدی کو تلاش کرے.اب تو نہ حکومت کے نوکروں میں نہ باہر دیانت دار کی صورت دیکھنے کو دنیا ترس جاتی ہے اور دیانت داری بے وقوفی سمجھی جاتی ہے.پس ایسی حالت میں اگر جماعت احمدیہ نے دیانتداری کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو حقیقت یہ ہے کہ پھر جماعت میں بھی بددیانتی پیدا ہو جائے گی اور مجھے تکلیف کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ابھی بھی داخل ہونی شروع ہو گئی ہے.پھر جب یہ بڑھ جائے گی تو آپ کے بس میں نہیں رہے گی کیونکہ بیماریاں جب جسم پر قبضہ کر لیا کرتی ہیں تو پھر ان بیماریوں کا انسان کے پاس کوئی حقیقی علاج نہیں رہتا.علاج ہوتے ہیں مگر بیماری اتنے زور سے شدت اختیار کر جاتی ہے کہ وہ علاج کے قابو میں نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں.”اب میر امدعا اور منشاء اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صد ہانشان اس نے ظاہر کئے ہیں اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آجاوے.جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اُتار دیں اور اپنی ساری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 380 خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۹۳ء توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۶.۶۷) یہ وہ توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ سے رکھتے ہیں اور اس توقع میں حوالہ وہ دیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ خدا آپ سے یہ توقع رکھتا ہے.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ کا حوالہ دے کر کہ بات کو خدا تک پہنچا دیا ہے.اللہ نے چودہ سو سال پہلے آپ کا جو ذکر فرمایا.وَ اخَرِيْنَ مِنْهُم آپ ہیں، آپ سے دنیا کی نجات وابستہ فرما دی گئی ہے.اگر آپ نے وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہ کیا جس مقام اور مرتبہ تک یہ آیت وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ آپ کو پہنچارہی ہے تو پھر دنیا کی اصلاح کی آپ کو استطاعت نہیں ہوگی.دنیا کی اصلاح کے آپ مجاز نہیں کہلا سکتے.وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ بہت دور ہوں گے لیکن اپنے اخلاق، اپنے کردار، اپنی اطاعت کی روح کے لحاظ سے، اپنے ایمان کے لحاظ سے ایسے ہوں گے گویا محمد رسول اللہ کے زمانہ کے وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے خود آپ سے تربیت حاصل کی ہے.کتنا بڑا مقام ہے اور ایک چھوٹے سے اشارے میں کتنی وسیع دنیا ہمارے سامنے کھڑی کر دی گئی ہے.وَ اخَرِيْنَ منْهُمْ کا جو کچھ مقام قرآن کریم نے ظاہر فرمایا ہے وہ صحابہ کا مقام ہے حضرت اقدس محمد مصطفی موے کے غلاموں سے ملانے والا مقام ہے اور یہ ملنا اخلاقی قدروں اور ایمانی قدروں اور نیک اعمال کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.یہاں سے بات شروع کریں گے تو پھر آپ دنیا کی اصلاح کے اہل قرار دئیے جائیں گے.پھر واقعہ آپ کی طرف غیروں کی نظریں بھی اٹھیں گی جس طرح پہلے اٹھا کرتی تھیں اور سب یہ کہیں گے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی اس ملک کو بچا سکتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ جماعت ہے جو بچا سکتی ہے.مجھے یاد ہے کہ آج سے پندرہ میں سال پہلے تک بھی غیروں کو جماعت سے یہی توقع ہوا کرتی تھی.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ شیخو پورہ میں چوہدری انور حسین صاحب کے ہاں بڑی دلچسپ مجلس لگی ہوئی تھی.چوٹی کے سیاستدان اور وکلاء جو شیخو پورہ کے تھے وہ آئے ہوئے تھے تو معاشرے کی حالت اور ملک کی حالت پر بحث ہوتے ہوتے ایک صاحب نے اٹھ کر بڑے زور سے یہ کہا کہ سب باتیں ہو چکیں.تجزیئے ہو گئے سوال یہ ہے کہ نجات کیسے ہو؟ ہم بچیں کس طرح ؟ وہ غیر احمدی معزز انسان تھے.انہوں نے کہا کہ میری بات تمہیں کڑوی لگے گی مگر میں نے آج سچی بات ضرور کرنی ہے.اب یہ ملک اس طرح بچتا ہے کہ دس سال کے لئے جماعت احمدیہ کوٹھیکہ پر دے دیا جائے.اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 381 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۳ء کے سوا اس ملک کے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور میں سمجھا تھا کہ اس کے خلاف بڑا سخت رد عمل اٹھے گا.لیکن تمام سامعین نے تائید میں سر ہلایا کہ ہاں تم بات سچی کر گئے ہو.اب تو معاملہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اب تو اگر ٹھیکے پر دیں بھی تو جماعت انتیس تمہیں سال سے کم کے ٹھیکے پر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی لیکن اس ٹھیکے میں ہم کچھ نہیں مانگیں گے.ہم صرف تمہیں دیں گے، یہ توقع رکھیں گے کہ جو نیک کام تمہیں کہتے ہیں تم تسلیم کرتے چلے جانا، جو نیک کوشش تمہارے لئے کریں گے اس کی تائید کرنا، تمہارے لئے دعائیں کریں گے لیکن میں جانتا ہوں کہ ملک کا مزاج اس بات کے لئے تیار نہیں ہے.پس ایک ہی انقلاب ہے جو اس ملک کو بچا سکتا ہے اور وہ احمدیت کا حقیقی انقلاب ہے ٹھیکے کی باتیں چھوڑیں.ہمیشہ کیلئے ان کو اپنالیں کیونکہ جو آپ کی جھولی میں آئے گا وہ خدا کی جھولی میں آجائے گا اور اس کی حفاظت کا اس سے بہتر اور کوئی انتظام نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
382 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 383 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء اپنے تشخص کو پہچانیں تو سورۃ فتح میں دی گئی خوشخبری آپ کے حق میں پوری ہوگی.رزق حلال کمائیں اور کھائیں.خطبه جمعه فرموده ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء بمقام ہالینڈ ) ط تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرِيةِ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيْلِ كَزَرُ أَخْرَجَ شَطْئَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ ط الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا پھر فرمایا:.لفت (اصح :۳۰) گزشتہ خطبے میں جو میں نے انگلستان میں دیا تھا اس میں اس آیت کریمہ پر گفتگو ہورہی تھی.يَايُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَللًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطن اِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِين (البقره: ۱۶۹) اے بنی نوع انسان ! حلال رزق کھایا کرو، جائز رزق کھایا کرو جو جائز بھی ہو اور طیب بھی ہو.خُطوتِ الشَّيْطَن کی پیروی نہ کرو.اس ضمن میں ، میں b
خطبات طاہر جلد ۱۲ 384 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات بھی یا غالبا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا تھا.جس میں جماعت احمدیہ سے اس توقع کا اظہار فرمایا گیا تھا کہ تم وہ جماعت ہو جس کا قرآن کریم میں اُخَرِيْنَ کے لفظ کے تابع ذکر ملتا ہے، تم وہ جماعت ہو جس سے حضرت محمد مصطفیٰ کے صحابہ کی صفات کی توقع کی جاتی ہے.ان کے اخلاق، ان کی صفات، ان کی طرزِ زندگی کو.اپنی زندگی میں دہراؤ گے اور اپنی زندگیوں میں اُن اخلاق حسنہ کو زندہ کرو گے یا یوں کہنا چاہئے کہ اُن اخلاق حسنہ سے اپنی زندگیوں کو زندہ کرو گے اور نئی زندگی پا کر دنیا کے لئے ایک نمونہ بنو گے.یہ بلند توقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، کہ مجھے تم سے وابستہ ہیں اور میں یہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق کہہ رہا ہوں.اللہ کو یہ توقعات ہیں تم سے جب تک ان توقعات پر پورا نہیں اتر و گے دنیا میں حقیقی روحانی انقلاب برپا نہیں کر سکتے.یہ وہ مضمون تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختصر بیان فرمایا.الفاظ مختلف تھے لیکن میں آپ کو یاد دہانی کے طور پر بتا رہا ہوں کہ یہی مضمون ہے جس کے تسلسل میں آج میں نے اس آیت کا انتخاب کیا ہے جو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے پاک نام سے شروع ہوتی ہے.فرمایا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ محمد اللہ کے رسول ہیں.وَالَّذِينَ مَعَةٌ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں.اَشدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ وہ کفار پر بہت سخت ہیں.رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ آپس میں بہت ہی رحم کرنے والے اور محبت کرنے والے ہیں تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا تم اُن کو ایسی حالت میں دیکھو گے کہ وہ رکوع بھی کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں.يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا اللہ ہی سے فضل طلب کرتے ہیں اور اللہ ہی کی رضا چاہتے ہیں سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ اُن کے چہروں پر اُن کے سجدوں کے اثر سے علامات ظاہر ہو چکی ہیں.اُن کے چہرے بتاتے ہیں کہ یہ مختلف چہرے ہیں.اُن کے چہرے بتاتے ہیں کہ یہ سجدہ کرنے والوں کے چہرے ہیں.ذلك مَثَلُهُمْ فِي الشوريةِ یہ اُن کی مثال تو رات میں دی گئی ہے.وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ اُن کی ایک مثال انجیل میں بھی ہے وہ یہ ہے گزَرُ أَخْرَجَ شَطْهُ اور اُن کی مثال ایسی کھیتی کی طرح ہے، ایسے بیج کی طرح ہے یعنی کھیتی کی طرح ہے جس میں بیج روئیدگی اختیار کرے اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 385 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء کونپلیں نکالے.فَازَرَہ پھر وہ کونپل مضبوط ہو جائے.شَطْعَهُ فَازَرَہ وہ مضبوط ہو یا وہ ڈالی بن جائے، ڈنٹھل بن جائے.فَاسْتَغْلَظ پھر وہ و شکل مضبوط ہونے لگے فَاسْتَوى عَلَى سوقہ اور اپنی شاخ پر جس پر وہ شاخ پھوٹی ہے وہ اپنی ذات میں کامیاب ہو جائے دوسروں کے سہارے کا محتاج نہ رہے.ایسی مضبوطی پیدا ہو جائے کہ جیسے تنا ایک مضبوط درخت کا طاقتور ہو کر ہر قسم کے بوجھ اٹھا لیتا ہے اور خود بھی کسی سہارے کا محتاج نہیں رہتا.اس طرح وہ پھوٹے اور اپنی ذات پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے.يُعْجِبُ الزُّرَّاع وہ زمیندار جو یہ کھیتی بوتے ہیں ان کے لئے وہ لطف اور تعجب کا موجب بنے ، وہ لطف اٹھا ئیں اس کو دیکھ کر.لِيَغِيْظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ اور جوانکار کرنے والے ہیں وہ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جائیں.وہ اس نشو ونما کو دیکھیں روز بروز مضبوط ہوتی ہیں، تو انا ہوتی ہیں، بڑھتی پھیلتی پھولتی پھلتی کھیتی کو دیکھتے ہیں تو اُن کو غصہ آتا ہے مگر کچھ کرنہیں سکتے کیونکہ اس کھیتی کا مقدر یہ ہے کہ اس نے بہر حال، ہر طور بڑھنا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے کن لوگوں سے وعدہ ہے الَّذِینَ آمَنُوا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وَعَمِلُوا الصَّلِحت اور نیک اعمال اختیار کرتے ہیں وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُمْ وه ایمان لانے والے جو نیک اعمال بھی کرتے ہیں اُن سے وعدہ ہے.خالی ایمان لانے والوں سے وعدہ نہیں ہے.اُن ایمان لانے والوں سے وعدہ ہے جو نیک عمل کے ذریعے اپنے ایمان کی صداقت کا اقرار کرتے ہیں اور جب تک نیک اعمال ، ایمان کے بعد انسان میں پیدا نہ ہوں ایمان کی صداقت کا حقیقی اقرار نہیں ہوسکتا.فرمایا مَّغْفِرَةً وَ اَجْرًا عَظِيمًا اُن سے وعدہ ہے ایک وہ وعدہ جو پہلے گزر گیا کہ وہ بہر حال بڑھیں گے.ایک وعدہ جواب آ رہا ہے مِّغْفِرَةً وَ أَجْرًا عَظِيمًا اللہ ہی کی طرف سے اُن سے مغفرت کا سلوک ہوگا اور بہت بڑا اجر اُن کو عطا فرمایا جائے گا.یہ وہ مثال ہے جس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشارہ فرمایا کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کی وہ جماعت ہو جو آخرین میں پیدا ہو کر اؤلین سے ملائی جائے گی.جو دو تمثیلات جن کا ذکر تورات میں اور انجیل میں ملتا ہے قرآن کریم نے اکٹھی بیان فرمائی ہیں.یہ خیال صلى الله پیدا ہوسکتا ہے کہ پہلی تمثیل جومحمد رسول اللہ ﷺ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے وہ صفات حسنہ جو اول دور سے تعلق رکھتی ہیں شاید ان کا تعلق دور اول سے ہے اور مسیح نے جو تمثیل دی ہے اُس میں نئی صفات
خطبات طاہر جلد ۱۲ 386 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء بیان ہوئی ہیں اُن کا تعلق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دور ثانی سے ہے.یہ معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح عموماً سمجھا جاتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں تمثیلات اوّل حضرت اقدس محمد رسول اللہ اور اُن کے ساتھیوں پر ہی چسپاں ہوتی ہیں اور آپ کے حوالے سے، آپ کے واسطے سے ، آپ کے وسیلے سے پھر آئندہ زمانہ میں آخرین میں منتقل ہوں گی.پس اول دور میں اور دوسرے صلى الله دور میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ نشو ونما کی طرز میں اور اُس وقت میں فرق پڑ جائے گا جس وقت کے اندر وہ نشو و نما مقدر ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کے پہلے دور میں بہت تیزی سے اسلام نے پھیلنا تھا اور اس پہلو سے ایک جلالی شان تھی جس نے جلوہ گر ہونا تھا.حضرت موسی کے دور کی طرح اس دور میں تلوار کا جواب تلوار سے دیا جانا تھا اور ایک جلال کی شان کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ اس پیغام نے پھیلنا تھا اور مضبوطی کے ساتھ جڑ پکڑ جانی تھی.دوسرے دور میں جو مسیح نے بیان فرمایا جس کا ذکر انجیل میں ملتا ہے وہ دور تو حضرت رسول اکرمﷺ ہی کا دور ہے اور آپ کی ہی شانِ احمد سے تعلق رکھتا ہے اُس دور میں وہ بنیادی صفات تبدیل نہیں ہوں گی جن کا آیت کے پہلے حصے میں ذکر ہے اگر کسی کو یہ خیال ہے تو غلط خیال ہے.وہی بنیادی صفات ہیں جو مومن کا اور امت محمدیہ کے مومن کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زاد راہ مقرر کر دی گئی ہے.اُس کے بغیر مومن کا سفر ممکن ہی نہیں ہے اس لئے اُن کو چھوڑ کر الگ تمثیل بیان نہیں ہوئی اُن صلى الله کے ساتھ ایک الگ تمثیل بیان ہوئی ہے.بیان یہ فرمایا گیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وہ ساتھی جو اؤل دور میں ہیں اُن کی یہ صفات حسنہ ہیں، ان صفات کے ساتھ وہ تیزی سے نشو و نما پائیں گے لیکن یہی صفات جب دور آخر میں جلوہ گر ہوں گی تو اُن کے نمو کی طرز میں فرق پڑ چکا ہو گا اُن میں ملائمت آچکی ہو گی ان میں آہستگی ہو گی لیکن مضبوط قدموں کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ آگے قدم بڑھانے والے لوگ ہیں.چنانچہ مسیح کی جو تمثیل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے آخری دور پر صادق آئے گی وہ یہ ہے کہ وہ اس کھیتی کی طرح ہو گی جو ان بیجوں سے اگتی ہے جو زمیندارز مین پر پھینکتا ہے، وہ کونپلیں نکالتی ہے، وہ کونپلیں مضبوط ہوتی ہیں پھر وہ ایک شاخ نہیں بلکہ ایک تنے کی طرح ڈنٹھل بناتی ہے.وہ پھل اور موٹا ہو جاتا ہے اور اُس میں پھر جونشو و نما ہے وہ ایسی ہے کہ جودیکھنے والے دشمن کو سخت تکلیف دے گی لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنے ہاتھ سے بیج بوئے ہیں ان کو اس سے بہت خوشی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 387 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء پہنچے گی اور بہت دل کو راحت ہوگی ، دشمن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا.لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ کے ساتھ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ غصہ ضرور دکھائے گا جواب میں وہ بہت ہی جاہلانہ حملے بھی کرے گا اور کوشش ضرور کرے گا غیظ کے نتیجے میں کہ اس کھیتی کو مٹادے، پاؤں تلے روند ڈالے مگر ایسا نہیں ہو سکے گا.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ (نور:۵۶) کیونکہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اللہ کے وعدہ کے نتیجے میں ہے وہ وعدہ جو اُس نے مومنوں سے کیا، جو نیک اعمال بجالانے والے ہیں.پس اگر وہ مومن اس شرط پر قائم رہیں کہ اُن کے اعمال نیک ہوں تو پھر وہ ضرور نشو ونما پائیں گے.یہاں جو یہ شرط رکھی گئی وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُمُ مَّغْفِرَةً وَ اَجْرًا عَظِيمًا یہ وہ عمل صالح کی شرط ہے جو آخرین کو پہلوں سے ملاتی ہے.یہ وہ آپس میں جوڑنے کا رشتہ ہے جو وہ مضبوط رسی ہے جس کے ذریعے آخرین اولین سے ملیں گے پس امَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُم عملی جو رشتہ قائم کیا ہے اولین سے.یہ دوبارہ ہمیں پہلی آیت کی طرف لے جاتا ہے.وہ اعمالِ صالحہ کیا تھے ؟ جن کے نتیجے میں اولین پر فضل نازل ہوئے.وہی اعمالِ صالحہ دوبارہ فضل کا موجب بنیں گے، وہی اعمالِ صالحہ دوبارہ نشو و نما کا موجب بنیں گے، وہ ہیں کیا ؟ اُن کو سمجھنے کے لئے پھر ہمیں آیت کے پہلے حصے کی طرف لوٹنا ہو گا اور یہی وہ توقعات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اُس تحریر میں ذکر فرمایا ہے جو میں نے پہلے پڑھ کر سنائی تھی.فرمایا کہ تم سے یہ توقعات ہیں تم یہ بنو گے تو دنیا میں ترقی کرو گے تم یہ بنو گے تو دنیا کے نجات دہندہ بنو گے اگر نہیں تو پھر یہ وعدے تمہارے حق میں پورے نہیں ہو سکتے.وہ یہ ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله محمد اللہ کے رسول ہیں.اس چھوٹے سے جملے میں بہت سی صفات بیان فرما دی گئی ہیں.جن کا رسالت سے تعلق ہے اور رسالت ایک عظیم مضمون کو بیان کرتی ہے جو زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے کیونکہ ہر رسول ایک ایسا پیغام لے کر آتا ہے جو اپنے وقت کے زندگی کے ہر شعبے پر ضرور حاوی ہوتا ہے.وہ رسول خواہ نسبتاً نا مکمل پیغام لایا ہولیکن جب ہم اُسے نامکمل کہتے ہیں تو آئندہ آنے والے پیغامات کے مقابل پر نامکمل کہتے ہیں.یہ ناممکن ہے کہ ایک رسول اپنے وقت اور اپنی قوم کی ضروریات کے لحاظ سے نامکمل پیغام لایا ہو نسبتی چیز ہے.ہر وقت کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 388 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء نسبت کے ساتھ وہ رسول ضر در مکمل پیغام لاتا ہے.پس رسالت میں تبلیغ رسالت بھی آ جاتی ہے اور پیغام کی تکمیل بھی شامل ہے.حضرت محمد رسول اللہ ملا ہے اور پہلے رسولوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے رسول اپنے اپنے زمانوں کے رسول تھے اور قوموں کے رسول تھے.قیامت تک کے ہر زمانے پر اُن کا پیغام چھایا ہوا صلى الله.نہیں تھا اور سارے عالم کی ضروریات پر اُن کا پیغام چھایا ہوا نہیں تھا.پس حضرت محمد رسول اللہ یہ کا دین اگر کامل ہوا تو اُن مخاطبین کے رشتے سے اس میں ایک وسعت پیدا ہوئی کیونکہ تخاطب ساری دنیا سے تھا ، کیونکہ خطاب ہر زمانے سے تھا اس لئے کمال اس نسبت سے کمال بنا یعنی ایسا کمال جس کے بعد اس سے اوپر کمال کا تصور ہی نہیں ہوسکتا.وہ پیغام جو حضرت موسی نے دیاوہ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے دیا تھا اور ایک زمانے تک اُس پیغام نے اپنا اثر دکھانا تھا اور اس کے بعد اُس پیغام کی حیثیت ایک گزرے ہوئے پیغام کی سی بن گئی.جب تک عیسی علیہ السلام تشریف نہیں لائے اُس پیغام کا ایک حصہ جاری رہایا ہر حصہ جاری رہا کہنا چاہئے مگر حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے کے بعد اُس کا ایک حصہ ماضی میں دفن ہو گیا اور ایک دوسرا حصہ جاری ہوا.پیغام وہی تھا، اس کی خصوصیت کے ساتھ جو بات میں سمجھا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں اُس پیغام نے جو تکمیل کی شکل اختیار کی ، وہ بنی اسرائیل کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل ہوا.اُن ضروریات میں بدلہ لینا ایک ضرورت تھی اور وقت کی اہم ترین ضرورت تھی، بنی اسرائیل بے حد بزدل ہو چکے تھے.فراعین مصر کے مظالم کے نیچے اُن کے اخلاق حسنہ اس طرح بُری طرح کچلے گئے تھے کہ بزدلی کا نام اُنہوں نے بخشش رکھ لیا تھا.اُن میں طاقت نہیں تھی کہ ظالم کے مقابل پر اٹھ کھڑے ہوں اور ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ دیں.چنانچہ بزدلی میں چھپ کر وہ اُس کا نام مغفرت رکھتے تھے کہ ہم معاف کر دیتے ہیں.حضرت موسیٰ" کے زمانے میں اگر اُن کو مغفرت کی اجازت دی جاتی تو وہ پیغام نامکمل ہوتا کیونکہ انہوں نے مغفرت کی پناہ گاہ میں جا کر پھر بزدلی کے نمونے دکھانے تھے.پس وقتی طور پر اُن پر بدلہ لینا تقریبا فرض کر دیا گیا.بدلہ لینے پر اتنا زور دیا گیا کہ گویا اُن کو بخشش کی اجازت ہی نہیں حالانکہ اجازت موجود تھی لیکن زور بدلے پر تھا.پس وقت کی ضرورت کے مطابق وہ مکمل پیغام تھا.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں جا کر پھر اُس کے دوسرے پہلو پر زور دیا گیا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 389 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء بخشش کرو، بخشش کروں بخشش کرو تو بظاہر وہ ایک پہلو ہے صرف.انسانی اخلاق کی مکمل تصویر نہیں کھینچتا ، انسانی اخلاق کا صرف ایک پہلو ہے لیکن سنگ دل بنی اسرائیلیوں کے لئے وہ یہود جن کے دل پتھر ہو چکے تھے اُن کے لئے اُس وقت بدلے کی اجازت دینا یا بدلے کی اجازت پر زور دینا نامکمل تعلیم تھی ان کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی تھی.پس وقت کی نسبت سے مکمل تعلیم کا تقاضا یہ تھا کہ مغفرت پر زور ہو اور بخشش اور بخشش اور پھر بخشش تذکرے چلیں یہاں تک سخت دلوں میں نرمی پیدا ہو جائے.یہ وہ مضمون ہے جو رسالت کے ساتھ وابستہ ہے.رسالت مختلف زمانوں میں، مختلف قوموں میں مختلف جلوے دکھاتی ہے لیکن ہر جلوہ اپنے وقت اور اپنی قوم کی ضرورت کی مناسبت سے مکمل ہوا کرتا ہے ور نہ خدا پر یہ الزام آئے گا کہ اُس نے نامکمل تعلیمات دیں جو وقت کی ضرورت اور قوم کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی تھیں مگر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ تو مضمون بہت وسعت اختیار کر جاتا ہے.یہ کل عالم پر بھی چھا جاتا ہے، تمام زمانوں پر بھی چھا جاتا ہے.یہاں تکمیل کے معنی بدل جاتے ہیں، یہاں تکمیل تمام زمانوں کی ضرورتوں کے لحاظ سے تکمیل ہے، یہاں پیغام کی وسعت ہر قوم کی ضرورت کے لحاظ سے سارے عالم پر پھیل جاتی ہے.پس یہ توقعات ہیں آپ سے، آپ محمد رسول اللہ کے غلام بن چکے ہیں، آپ کی غلامی کا دعوی کرتے ہیں تو سارے بنی نوع انسان کی ضروریات کا آپ کو خیال رکھنا پڑے گا، تمام زمانوں کی ضروریات کا آپ کو کفیل ہونا پڑے گا.پس کتنا بڑا پیغام ہے جو ان دو لفظوں میں بیان فرما دیا گیا.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله محمد اللہ کے رسول ہیں اور محمد کی رسالت کے پیش نظر تم سے توقعات کی گئیں.تم موسی کے غلام نہیں ہو، تم عیسی کے غلام نہیں ہو.وہ اُن کی تصدیق کرتے تھے، وہ اُن کو اللہ کا سچارسول سمجھتے تھے لیکن تم کرشن کو بھی سچا رسول سمجھتے ہو لیکن کرشن کے تم غلام نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ کی غلامی میں تمام انبیاء کی غلامی آگئی.تمام انبیاء نے اپنے اپنے زمانے میں جو ضرورتیں پوری کیں اُن کے حد امکان تک اُن سب ضرورتوں کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے.محمد رسول اللہ کی غلامی میں وہ ساری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.پس دوسرے لفظوں میں یہ کہنا پڑے گا کہ جب تم کہتے ہو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله محمد رسول اللہ کی غلامی کا دعوی کرتے ہو.تم یہ کہتے ہو کہ ہم کرشن کی قوم کی ضرورتوں کو بھی پوری کریں گے کیونکہ وہ بھی ہمارے آقا و مولا محمد ﷺ نے پوری فرما دیں، ہم بدھ قوم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 390 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء کی ضرورتیں بھی پوری کریں گے کیونکہ وہ بھی ہمارے آقا و مولا نے پوری فرما دی ہیں کیونکہ اُن کا پیغام عالمی بھی ہے اور ہمیشہ کے لئے بھی ہے.ساتھ یہ بھی دعوی کرتے ہو کہ ہم زرتشتیوں کی ضرورتیں بھی پوری کریں گے، اُن کی پیاس بھی بجھائیں گے، اُن کی توانائی کی تمام ضروریات بھی ہمارے ہاتھوں سے پوری ہوں گی.ہم کنفیوشس کے ماننے والوں کی بھی ضرورتیں پوری کریں گے، ہم موسی کے ماننے والوں کی ضرورتیں بھی پوری کریں گے اور عیسی کے ماننے والوں کی ضرورتیں بھی پوری کریں گے اور اُن Oborigine جو قدیم زمانوں سے تعلق رکھنے والی قومیں ہیں جن کے ہاں وقتی تقاضوں کے لحاظ سے چھوٹے چھوٹے رسول آئے تھے اُن سب کی ضرورتیں بھی پوری کریں گے.خواہ وہ آسٹریلیا کے Oborigine ہوں یا جنوبی امریکہ میں بسنے والے ہوں، شمالی امریکہ کے ریڈ انڈینز ہوں تو یہ پیغام ہے جو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ دو لفظوں کے اندر جماعت احمدیہ کو دیا گیا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم سے بہت بلند توقعات ہیں اتنی کہ جلد پوری ہو نہیں سکتیں.صبر کے ساتھ لمبے عرصے تک تمہیں محنتیں کرنی ہوں گی.تب جا کر تم ان توقعات پر پورا اترو گے ایک دن میں یہ رفعتیں حاصل نہیں ہو سکتیں.جلد جلد رفعتیں حاصل کرنے کا زمانہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کا ذاتی اپنا، وہ زمانہ تھا جس میں آپ زندہ تھے.وہ ایک عجیب شان تھی ایک ایسا جلوہ تھا جو بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا ، بڑی تیزی کے ساتھ حیرت انگیز انقلابی تبدیلیاں برپا کر دیں.مسیح موعود علیہ السلام یہ فرمارہے ہیں کہ تم اس دوسری مثال سے تعلق رکھتے ہو جو مسیح نے دی تھی.صفات تو محمد مصطفی یہ ہی کی ہیں، صفات تو اُن لوگوں کی ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں لیکن یہ رفتہ رفتہ لمبی محنتوں کے ساتھ اور صبر کے ساتھ حاصل ہونے والی صفات ہیں.اس لئے میں توقع رکھتا ہوں کہ تم اس سفر پر بڑی وفا کے ساتھ قدم مارتے رہو گے جب تک ان رفعتوں کو حاصل نہیں کرو گے جو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ نے حاصل کیں.اُس وقت تک تھکو گے نہیں، ماندہ نہیں ہو گے ، ہمت نہیں ہارو گے.مسلسل صبر اور دعاؤں کے ساتھ اسی رستے پر گامزن رہو گے.یہ وہ پیغام تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس تحریر میں آپ کو دیا جس کا گزشتہ جمعہ میں میں نے ذکر کیا تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 391 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء پھر وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اُن میں محمد مصطفی ﷺ کی رسالت کیا رنگ بھرتی ہے؟ آپ کی معیت سے اُن میں کیا پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں؟ کیا کردار اُن کا ابھرتا ہے اس معیت کے نتیجے میں، اس کی تفصیل بیان فرمائی گئی.وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم وہ کفار پر بہت شدید ہیں.اس مضمون پر میں پہلے بھی ایک خطبے میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.کفار پر شدید کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ دلوں کے سخت ہیں، یا پتھر دل لوگ ہیں یا اُن میں غصہ پایا جاتا ہے یا اُن میں بداخلاقی کی حد تک تیز کلامی پائی جاتی ہے اور معاف کرنا نہیں جانتے یا وہ ہر طرح کے دشمن کو کچلتے اور زیر کرتے اور ذلیل ورسوا کرتے ہیں.ایک اشد آ کے یہ بھی معنی ہیں مگر اشد آپ کے یہ معنی دلوں کی سختی سے تعلق رکھتے ہیں.بعض قوموں میں یہ ظلم کا مادہ پایا جاتا ہے، خواہ بظاہر وہ رحمان اور رحیم نظر آتے ہیں.اب بوسنیا کے مسلمانوں پر جو مظالم ہورہے ہیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لوگ دل کے سخت ہیں بظاہر رحم کرنے والے ہیں.دل کے ایسے سخت ہیں کہ ایسے ایسے ہولناک مظالم اس تہذیب کے زمانے میں جس میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تہذیب دنیا کی چوٹی پر پہنچ چکی ہے، ترقیات کی چوٹی پر پہنچ چکی ہے ایسے ایسے مظالم کر رہے ہیں جو پرانے زمانے کے بہیمانہ مظالم کو شر مار ہے ہیں ، اُن کی کوئی حیثیت نہیں.آج کے متمدن زمانے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر انسان گراوٹ اختیار کرتے ہوئے بہیمانہ حرکتیں کرے گا، جانوروں کی سطح پر اتر جائے گا اور دیکھے گا اور ایسی حرکتیں کرنے دے گا.پس أَشِدَّاءُ کا یہ معنی نہیں ہے.أَشِدَّاءُ کا تعلق جو محمد رسول اللہ کے غلاموں کی صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، دلوں کی سختی اور کرختگی سے نہیں ہے.اس کے دو معنی ہیں.اوّل یہ کہ وہ دشمنوں پر اثر انداز ہوتے ہیں.اپنی صفات حسنہ کو اُن میں جاری کرتے ہیں.دوسرے ہیں اُن کی صفات کو قبول نہیں کرتے.اُن کی گندی عادتیں اور بری عادتیں ، اُن کے معاشرے کی خرابیاں اُن کے معاشرے میں اثر انداز نہیں ہوسکتیں، اُن کی طرز زندگی پاکیزہ ہے تو پاکیزہ ہی رہتی ہے.پس وہ تبدیل کرنے والے لوگ ہیں تبدیل ہونے والے لوگ نہیں ہیں.اس پہلو سے جب آپ مسلمانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ بڑے بڑے معاشروں کو تبدیل کیا ہے ، بڑی بڑی تہذیبوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 392 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء کے رنگ بدلے ہیں اور اُن کو الہی رنگ دے دیئے ہیں اور اُن کو الہی تہذیبیں بنادیا ہے لیکن خود اپنی پاک تہذیب کو انہوں نے بدلنے نہیں دیا.دنیا کے جس خطے میں بھی گئے ہیں وہ الہی تہذیب کو دنیا میں نافذ کرنے والے اور رائج کرنے والے بنے ہیں.پس دلوں کی سختی کا آشڈ آج سے کوئی تعلق نہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ وہ آپس میں ایک دوسرے پر بہت رحم کرنے والے ہیں.آپس میں جو لوگ رحم کیا کرتے ہیں اُن کا گہرے انسانی خلق سے تعلق ہوتا ہے.وہ وقتی طور پر مصلحتوں کے پیش نظر رحم نہیں کیا کرتے ، اُن کے دل میں رحم کا جذبہ ہوتا ہے.چنانچہ وہ قو میں جو سخت مزاج ہیں، پتھر دل ہوا کرتی ہیں.اُن کے آپس کے رحم بھی ایک سطحی حیثیت رکھتے ہیں اور سرسری سی اُن کے رحم کی کیفیات بظاہر دکھائی دینے والی کیفیات ہیں، گہرائی میں اُن کی فطرت میں اُن کی جڑیں نہیں ہوا کرتیں.پس یہ قو میں جن کی شدت کے نمونے آج بوسنیا میں دکھائی دے رہے ہیں.یہ وہ لا مذہب تو میں ہیں جو جاپان میں ہوں یا ہندوستان میں ہوں یا انگلستان میں ہوں یا امریکہ میں ہوں دراصل ان کا رنگ بھی ایک ہے ، ان کا مذہب بھی ایک ہے، ان کا دستور بھی ایک ہے یعنی خدا سے دور ہٹی ہوئی قو میں ہیں.ان کا کوئی تعلق رنگ کی سفیدی یا رنگ کی سیاہی سے نہیں ہے.یہ صفات وہ ہیں جو خدا کے انکار کے نتیجے میں دلوں میں پیدا ہوتی ہیں.انسان کی شخصیت لامذہب کے طور پر ابھارتی ہیں.پس یہ کہنا غلط ہے کہ یہ صرف سفید قوموں کے اطوار ہیں جو بیان ہو رہے ہیں.کوئی رنگ اس میں بیان نہیں ہوا.تمام وہ قو میں جو خدا سے دور ہوتی ہیں جن کی تہذیب سطحی ہوتی ہے جن کی تہذیب کی جڑیں خدا اور اس کے تعلق میں قائم نہیں ہوتیں.وہ اُن کی صفات ہیں جو بیان فرمائی جارہی ہیں.جاپان کو دیکھیں کتنی مہذب قوم ہے.میں نے جب جاپان کا سفر کیا تو میں حیران رہ گیا کہ جتنی حیرت انگیز نرمی ان کی تہذیب میں پائی جاتی ہے جیسی خوش اخلاقی ، ان کی گلی بازاروں میں دکھائی جاتی ہے جس طرح یہ لوگ مہذب اور نرم گفتار اور دوسرے کا خیال رکھنے والے اور بااخلاق ہیں.دنیا کے پردے میں کسی قوم میں ایسے اخلاق دکھائی نہیں دیتے مگر جڑیں خدا کے تعلق میں نہیں ہیں.جڑیں صرف کھوکھلی اور سطحی ہیں.ایسی جڑیں جو ایسی مٹی پر ہوں جو چٹان پر واقع ہو جب تک ابتلا نہ آئے وہ قائم رہتی ہیں، جب آندھی چلے ، طوفان آئیں تو وہ مٹی دھل کر چٹان کو اُسی طرح چٹیل اور صاف
خطبات طاہر جلد ۱۲ 393 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء چھوڑ جاتی ہیں تو اُن کی شدت جو ہے وہ دلوں کی سختی سے تعلق رکھتی ہے اور اُن کی نرمی سطح سے تعلق رکھتی ہے.جو اُن مسلمانوں کی صفات ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمائی گئیں اور آپ کے ساتھیوں کی ، وہ بالکل بر عکس منظر پیش کرتی ہیں.اُن کی سختی ظاہری ہے لیکن دلوں میں گہری نرمی پائی جاتی ہے اور رحم پایا جاتا ہے اور یہ رحم وہی ہے جس کا ذکر آنحضرت مہ کی صفات میں بیان فرمایا گیا.رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ (الانبیاء: ۱۰۸) تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں.پس جو اشڈ آپ کے معنی بھی آپ کرنا چاہیں کریں لیکن رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کی بنیادی صفت کے مقابل پر اس کے الله مخالف معنی کرنے کی آپ کو اجازت نہیں.کوئی اشد آء کا معنی آنحضرت ﷺ کے رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ سے ٹکرائے گا وہ معنی ٹوٹ جائیں گے ، وہ پارہ پارہ ہو جائیں گے مگر حضور اکرمی رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ کا جو تصور ہے وہ قائم رہے گا.وہ عالمی تصور ہے، وہ غالب تصور ہے.اُس تصور کی روشنی میں آپ کو آشد آ کے معنی کرنے پڑیں گے.پس رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سے مراد یہ ہے کہ حقیقت میں وہ رحم کرنے والے لوگ ہیں ، حقیقت میں وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمت ہیں.اُن کی شدت کفر سے تعلق رکھتی ہے، دراصل کفر کو قبول نہیں کر سکتے اور کفر کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ، یہ وہ معنی ہیں جو دائی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جس صفت کا تعلق ہو وہ دائی ہو جایا کرتی ہے.وہ صفات حسنہ جو بظاہر کتنی اچھی دکھائی دیں جن کا تعلق اللہ کی ذات سے عارضی ہوا کرتی ہیں، وہ ہمیشہ قائم نہیں رہا کرتیں.پس جاپانیوں کو دیکھیں کتنی مہذب قوم ہے لیکن دوسری جنگ عظیم میں جب ان کی فکر لگی ہے باقی دنیا سے تو جیسے جیسے مظالم انہوں نے کئے ہیں ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسی مہذب قوم کس طرح تہذیب کے ہر تقاضے سے عاری ہو جائے گی اور زنگی ہو جائے گی.اندر سے صاف ستھری دھلی ہوئی سخت بے رحم چٹان نکل آئے گی.اُن کی تہذیب اُس روئیدگی کی طرح تھی جو چٹان کے اوپر پتلی سی مٹی کے اوپر ابھری ہوئی ہو اور جب جنگ نے ان کو آزمایا، جب دشمنیاں ابھری ہیں تو اندر سے جو بہیا نہ تہذیب ابھری ہے جو قدرتی طور پر اُن کی قوم کی ذات کا حصہ تھی.وہ ایسی سخت تھی، ایسی ظالمانہ تھی کہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ کبھی مغربی قوموں نے ایسے مظالم نہیں کئے.جتنا اس مشرقی قوم نے مظالم کئے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 394 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس تعلق میں جاپان نے جو کور یا پر ظلم کئے تھے، اُن سے متعلق الہام ہوا جو آپ کے وصال کے بہت بعد میں پورا ہوا.لیکن بڑی شان کے ساتھ کھل کر پورا ہوا.وہ تھا کہ ایک مشرقی طاقت، الفاظ میں شاید کوئی فرق پڑ جائے مگر مضمون یہی ہے ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ہے.“ ( تذکرہ صفحہ ۴۲۹) یعنی کو ریا پر ایک مشرقی طاقت ایسے مظالم کرے گی کہ وہ آخری دموں تک پہنچ جائے گا اور کوریا پر جو جاپان کے مظالم ہیں اُن کی جو تاریخ میں ان کا ذکر موجود ہے اُس کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ اتنے شدید مظالم تھے، ایسے بہیمانہ مظالم تھے کہ واقعہ یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں الہام الہی میں اُن کا ذکر فر مایا گیا.وہ عام دنیا میں ہونے والے مظالم سے مختلف اور زیادہ شدید تھے.پس آشڈ آر کے مضمون کو آپ اچھی طرح سمجھ لیں.آپ نے شدید ان معنوں میں نہیں ہونا کہ آپ پتھر دل رکھتے ہیں اور اُس کے اوپر نرمی کی ہلکی سی ایک تہہ ہے جو تہذیب کی ایسی تہہ ہے جیسے پتھر کے اوپر مٹی پڑی ہو اور اُس پر روئیدگی ہو جائے.آپ کی بنیا درحمت پر ہے اور اُس رحمت کو غیروں کے اثر سے بچانے کے لئے آپ کو شدت کا ایک خول عطا ہوا ہے.وہ خول آپ کی حفاظت کے لئے ہے.وہ اس مقصد کے لئے ہے کہ جب آپ غیروں سے تعلق جوڑیں گے تو کہیں اُن کے بداثرات کو قبول نہ کر لیں.پس آپ کی رحمت کی حفاظت کی خاطر وہ شدت ہے جس کا اشداء عَلَى الكُفَّارِ میں ذکر فرمایا گیا ہے.پھر فرمایا رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا اُن کے اندر کوئی تکبر نہیں پایا جاتا.اگر اشد آ فی ذاتہ ہو تو متکبر لوگ ہونے چاہئیں جیسے بعض قو میں ہیں جیسے پٹھانوں میں شدت پائی جاتی ہے.اُن کے رکوع وسجود میں بھی ایک قسم کی سختی پائی جاتی ہے، دل نرمی سے عاری ہیں.فرمایا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ سے تربیت پانے والے ہیں.صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ سے تربیت پانے والے تو بے حد رُحَمَاءُ ہیں اور تَريهُمْ رُكَعَا سُجَّدًا تو اُن کو ہمیشہ خدا کے حضور جھکے ہوئے دیکھے گا اور سجدے کی حالت میں پائے گا.يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وہ اللہ ہی سے فضل طلب کرتے ہیں اور اُسی کی رضا چاہتے ہیں.اس مضمون کا تعلق اس آیت کریمہ سے ایک اور رنگ میں بھی قائم ہو جاتا ہے.جس کی تفصیل میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ اقتباس پڑھا تھا.اس آیت میں ذکر یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 395 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء ہے کہ دیکھو حلال رزق کھاؤ اور حرام رزق پر منہ نہ مارو اور حلال رزق میں سے وہ کھاؤ جوطیب ہواس کا انسانی معاشرے، انسانی سیاست، انسانی اقتصادیات کی اصطلاح سے بہت گہرا تعلق ہے.اگر ہر انسان اور ہر قوم حلال رزق پر قائم ہو جائے اور یہ فیصلہ کر لے کہ ہم نے حرام رزق پر منہ نہیں مارنا.حرام رزق سے مراد صرف وہ رزق مراد نہیں جس کو خدا نے گوشت وغیرہ یا بعض ایسے کھانے جن کو حرام قرار دیا.حرام رزق میں حرام طریقے سے کمایا ہوا ہر قسم کا رزق شامل ہو جاتا ہے.دوسری قوموں پر ظلم کر کے چھینا ہوا رزق بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے.غرضیکہ حرام رزق کا تعلق ہر اس رزق سے ہے جو انسان ناجائز ذرائع سے کماتا ہے اور کھاتا ہے.پس اس پہلو سے اس آیت کا اس آیت سے ایک اور جوڑ قائم ہوتا ہے کیونکہ فرمایا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وہ اللہ کا فضل چاہتے ہیں.فضل کے مختلف معنی ہیں مگر بنیادی معنی فضل کا یہ ہے کہ جو زائد چیز کسی کو حاصل ہو جائے اگر وہ زائد چیز بیہودہ ہو تو اُس کو فضول کہتے ہیں.اگر وہ اچھی ہو تو اُس کو فضیلت کہتے ہیں.یہاں جس فضل کا ذکر ہے وہ فضیلت والے فضل کا ذکر ہے.اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا.بہت وسیع مضمون ہے جس کا فضل کے معنوں سے تعلق ہے.میں اُس حصے کو صرف بیان کروں گا جو اس وقت میرے مضمون میں پیش نظر ہے اور وہ ہے رزق کا حصول تجارت کے ذریعے جو منافع آتا ہے اصل سے بڑھتا ہے اُس کو بھی فضل کہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں نماز جمعہ میں آنے کے لئے تجارت سے روکا، اُس کے بعد جب دوبارہ جانے کی اجازت دی تو فضل کے حصول کے ساتھ اُس کا ذکر فرمایا ہے.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الجمعه (1) تو یہاں نماز جمعہ کے بعد زمین میں منتشر ہو کے جس فضل کے حصول کا ذکر فرمایا گیا ہے.یہ وہی تجارت والا فضل ہے جس کے متعلق پہلے فرمایا کہ نماز جمعہ کی خاطر اس سے رُک جاؤ.پس اور بھی بہت سے قرآن کریم میں لفظ فضل کے استعمالات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دنیاوی رزق پر بھی جو برکت کے طور پر انسان کو عطا ہوتا ہے فضل کا لفظ صادق آتا ہے اور اطلاق پاتا ہے.پس وہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تم رزق حلال کماؤ اور کھاؤ.رزق حرام نہ کھانا.اگر رزق حرام کھاؤ گے تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 396 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء تمہارے اندر سے ہر قسم کی خوبیاں رفتہ رفتہ مٹتی چلی جائیں گی اور تم شیطان کے بندے بن جاؤ گے اور خُطوتِ الشَّيْطن کی پیروی شروع کر دو گے اور ایسے وجود کی پیروی کرو گے جو ہر معاملے میں تمہارا دشمن ہے یعنی کوئی بھی بھلائی تمہیں حاصل نہیں رہے گی.دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والی قو میں بن جاؤ گے یادشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے افراد بن جاؤ گے.پس رزق حلال کے ساتھ مومن کی پاکیزہ زندگی کا بہت گہرا تعلق ہے اُس کے بغیر مومن کا تشخص ہو ہی نہیں سکتا.یہ مضمون بھی ہے جو یہاں بیان فرمایا گیا ہے.يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وہ اللہ سے فضل چاہتے ہیں، وہ اپنے زور بازو سے خدا کے قوانین تو ڑ کر فضل حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.جو بھی برکت مانگتے ہیں وہ اللہ سے مانگتے ہیں اور ایسی برکت مانگتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کی رضا شامل ہو.پس ہر وہ رزق جو خدا کے قانون کو تو ڑ کر اُس کی وصیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حاصل کیا جائے وہ رضوان سے عاری ہوتا ہے.فرمایا وہ رضوان والا رزق چاہتے ہیں.وہ ہر برکت وہ مانگتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کی رضا شامل ہو.اس کے نتیجے میں کیا ہوتا بے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ کہ سجدے کی ایک یہ بھی تعریف ہے کہ ہر بات جو انسان اپنے لئے چاہتا ہے زائد کے طور پر ، نعمت کے طور پر فضل الہی کے طور پر اُس کے ساتھ اللہ کی رضا کی شرط شامل ہے.یہ وہ روح کا سجدہ ہے جس کے اثرات انسان کے چہرے پر ظاہر ہو جاتے ہیں، اُس کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں.پس یا درکھیں کہ وہ لوگ جو خدا کی رضا کے تابع زندگی بسر کرتے ہیں اُس سے فضل چاہتے ہیں ، اُس کی رضا چاہتے ہیں، یہ ایسی صفات نہیں ہیں جو اُن کے وجود کے اندر چھپی رہیں اُن صفات حسنہ کی روئیدگی اُس طرح اُن کے چہروں پر پھوٹتی ہے جیسے وہ بیج جو زرخیز زمین پر بویا جاتا ہے اور پھوٹتا ہے لیکن سطحی طور پر روئیدگی نہیں ہوا کرتی.اُس کا گہرا تعلق اُس زرخیز زمین سے قائم ہوتا ہے.اُس روئیدگی کو وہ مٹانہیں سکتا.وہ بڑھتی ہے اور نشو ونما پاتی ہے.اُن کی صفات حسنہ جن کا تعلق سجدے سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے اندر اپنی جڑیں رکھتی ہیں.اُن کے اثرات جب اُن کے چہروں پر ظاہر ہوتے ہیں تو اُن کو کوئی مٹا نہیں سکتا.بڑے سے بڑا ابتلاء آئے ، بڑے بڑے اختلافات پیدا ہوں، اُن کے قومی جھگڑے ہوں ، وہ جنگوں پر دھکیلے جائیں اور دشمنوں سے نبرد آزما ہوں ، تب بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 397 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء ان اخلاق حسنہ کو کوئی چیز تباہ نہیں کر سکتی کیونکہ ان کا تعلق سجدوں سے ہے، اُن کا تعلق اللہ کی اطاعت سے ہے.اُن کی جڑیں گہری ہیں، یہ وہ صفات حسنہ ہیں جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہیں.انہی کا ذکر ہے جو انجیل میں فرمایا گیا ہے.انجیل نے کوئی نئی صفات نہیں بیان کی ہیں حقیقت میں یہی وہ صفات ہیں جو محمد رسول اللہ ہے اور آپ کے ساتھیوں کی صفات ہیں جن کا انجیل میں ذکر ہے.صرف اُن کی نشو و نما کی رفتار کا فرق دکھایا گیا ہے.مثال ایسی دی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آہستہ آہستہ نشو ونما ہو گی لیکن ہوگی یقینی اور رفتہ رفتہ پھیلتی چلی جائے گی.صلى الله اب ہم انجیل میں دیکھتے ہیں کہ اُس نشو ونما کا ذکر کیسے کیا گیا ہے؟ مگر اگر اب میں نے یہ بات شروع کی تو پھر خطبے کا وقت گھنٹے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گا.آج تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ آج کا خطبہ براہ راست Televise نہیں ہورہا لیکن کل فرق پڑ جائے گا.جب یہ خطبہ دوبارہ Televise کیا جائے گا اور آج اگر میں نے لمبا خطبہ دے دیا تو آئندہ خطبہ میں یہ Televise ہو نہیں سکے گا.اس لئے مجبوری کی خاطر اب مجھے یہیں بات ختم کر دینی چاہئے.میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو اقتباس پڑھ کر آپ کو سنایا تھا.اُس کا تعلق قرآن کریم میں کن کن آیات سے ہے.ایک تعلق تو أُخَرِيْنَ مِنْهُمُ (الجمعه: ۴) والی آیت سے ہے.جس کے متعلق پہلے بھی بات ہو چکی ہے.دوسرا تعلق اس آیت کریمہ سے ہے جو سورہ فتح سے لی گئی ہے اور میں یہ آپ کو سمجھاؤں کہ یہ آیات جن سورتوں میں ہیں اُن کے عنوانات سے بھی ان کا گہرا تعلق ہے.سورۃ فتح صرف اُس فتح کی خوشخبری نہیں دے رہی جو اؤلین کی فتح تھی.صرف اُس فتح کی خبر نہیں دے رہی جس کا تعلق حضرت رسول اکرم ﷺ کے اول زمانے سے تھا بلکہ آخرین کے زمانے میں بھی ایک عظیم فتح کی خوشخبری دے رہی ہے اور اسی لئے یہ دونوں ذکر جو موسی اور عیسی" کی کتب میں ملتے ہیں اُن کو اکٹھا بیان فرما دیا گیا ہے.بتایا گیا کہ ایک فتح تو وہ ہے جو حضرت رسول اکرم ﷺ کے اس زمانے میں ہوگی جب محمد ﷺ اپنی جلالی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوں گے اور تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیلیں گے اور مضبوطی کے ساتھ زرخیز زمینوں میں جڑیں پکڑ جائیں گے.ایک وہ زمانہ ہے جب موسیٰ" کی بجائے عیسی کی تمثیل اُن پر صادق آئے گی اور یہ آخرین کا زمانہ ہو گا.وہاں جلالی شان کی طرح تیزی اور فوری طور پر جلوہ نمائی سامنے نہیں آئے گی بلکہ روئیدگی کی طرح صل الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 398 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء جلوہ نمائی سامنے آئے گی ،نرمی کے ساتھ رفتہ رفتہ پیج اپنی کونپلیں نکالے گا اور وہ کونپلیں سرسبز تر ہوں گی اور زیادہ سبز ہوتی چلی جائیں گی، اُن کے اندر سے شاخیں پھوٹیں گی ، اُن کے بندھن مضبوط ہوں گے اور اپنی ذات میں، اپنے وجود میں قائم ہوتے چلے جائیں گے.تمام دنیا میں جو جماعت احمد یہ پھیل رہی ہے یہ تمثیل اُن پر صادق آ رہی ہے.لیکن کس قوت سے وہ نشو ونما پائیں گے؟ وہ قوت وہی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی قوت ہے.کون سی صفات ہیں جو دوبارہ ان میں جلوہ گر ہوں گی اور ان کی نشو ونما کا موجب بنیں گی ؟ یہ وہی صفات ہیں جن کا ذکر پہلی آیت میں ہے.أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - اشدا کا ایک تو معنی یہ ہے کہ زور کے ساتھ اپنا اثر دوسروں پر دکھاؤ، دوسروں میں رائج کر کے دکھا دینا، دوسرے کو اپنے اثر سے مغلوب کر دینا اور ایک اثر ہے کہ دشمن جتنا چاہے اُس سے مغلوب نہ ہونا.ہر طرح کی کوشش جو دشمن آپ کے اخلاق کو بدلنے کے لئے کرے گا اُس کو نامراد کر دے گا.اشد ار وہ پتھر ہے مثلاً جو کروڑوں سال بھی پانی میں پڑار ہے تو پانی کا اثر اندر نہیں جاتا.اتنا وہ آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اُس کے ذرات، جو کسی غیر اثر کو قبول ہی نہیں کرتا.عیسی علیہ السلام نے جو تشبیہ دی ہے اُس پر اشد آءُ کا معنی صادق آتا ہے مگر ذرا فرق کے ساتھ یہاں زیادہ تر وہ معنی صادق آتا ہے کہ وہ پھیلیں گے، پھولیں گے ، پھلیں گے ، غیر اُن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا.اُن کے اخلاق کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا مگر نا کام رہے گا کیونکہ وہ وہی بندے ہیں جو محمد رسول اللہ اللہ کے ساتھ تھے.اگر وہ صفات دوبارہ ان میں پیدا نہ ہوں تو آخرین ہو کر پہلوں سے مل کیسے سکتے ہیں؟ پس ملنے کا مضمون صفاتی مضمون ہے، زمانے کے لحاظ سے تو آپ مل نہیں سکتے، قومی لحاظ سے آپ مل نہیں سکتے.اگر مل سکتے ہیں تو صفات حسنہ کے ذریعے مل سکتے ہیں اور انہی صفات کے ذریعے مل سکتے ہیں جن کا آیت کے پہلے حصے میں ذکر ہے.صلى الله پس میں جماعت احمدیہ کو اس بات پر تیار کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور آن لوگوں کی صفات جو معہ تھے، آپ کے ساتھ تھے.اُن کو اختیار کئے بغیر آپ کی روئیدگی نشو ونما نہیں پاسکتی ہے.اُن کے بغیر آپ حقیقت میں اُس تمثیل کے آئینہ دار نہیں ہو سکتے ، اس تمثیل کا مظہر نہیں بن سکتے جو تمثیل حضرت عیسی علیہ السلام نے حضرت محمد رسول اللہ یہ کے غلاموں کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۲ 399 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء بیان فرمائی تھی.صرف فرق یہ ہے کہ ایک موسیٰ کا ذکر تھا جو اولین دور پر زیادہ شان کے ساتھ پورا ہوا.ایک عیسی نے ذکر کیا جومحمد رسول اللہ ﷺ کی احمدی شان کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اور اس دور میں صلى الله اُس نے اطلاق پانا تھا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺہے کے ساتھیوں میں سے بن جائیں، آپ کے اُن غلاموں میں سے بن جائیں جن میں محمدی شان جلوہ گر ہو.یہ شان خواہ شدت کے ساتھ جلوہ گر ہو یا نرمی کے ساتھ یہ وہ شان ہے جو غالب آنے والی شان ہے جس شان کو کوئی مٹا نہیں سکتا.یہ وہ روئیدگی ہے جو چٹان کی سطح پر نہیں بلکہ گہری زرخیز زمین میں اس کی جڑیں ہیں اور وہ روئیدگی جو آپ کے چہرے پر اخلاق محمدی کے طور پر ظاہر ہوئی یہ وقتی تقاضوں سے مٹ نہیں سکے گی.ہر ابتلا میں ، ہر مصیبت کے وقت یہ اُسی طرح قائم رہے گی کیونکہ اس کی جڑیں گہری، سرسبز زرخیز زمین میں واقع ہیں.یہ جو تمثیل ہے اس کی تفصیل آئندہ انشاء اللہ خطبے میں میں پھر مزید بیان کروں گا تا کہ جماعت کو اپنے تشخص کا علم ہو جائے، یہ تو پتا چلے کہ جماعت احمد یہ ہے کیا؟ اس تشخص کے علم کے بغیر آپ کی صفات بن نہیں سکتیں.آپ کے اندر جو صفات حسنہ ہونی چاہئیں اُن کا آپ کو علم نہیں ہوگا.آپ میں کون؟ آپ کی ذات ہے کیا؟ یہ علم ضروری ہے اور یہ علم آپ کو ان آیات میں دیا گیا ہے.اس تشخص کے بعد جب پھر آپ اپنے وجود کو دیکھیں گے، پھر آپ مواز نہ کرسکیں گے، پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی حد تک وَالَّذِينَ مَعَةَ کہلانے کے مستحق ہیں اور کس حد تک اس تصور سے دور جا پڑے ہیں.پس جتنا آپ اس تصور سے دور ہیں اتنا ہی روحانی انقلاب سے دور ہیں، اتنا ہی اُس فتح سے دور ہیں جس کا سورہ فتح میں وعدہ دیا گیا ہے، اتنا ہی اس الہی وعدہ سے دور ہیں جس کا ذکر آیت کے آخری حصے میں ملتا ہے کہ خدا نے اُن لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے.اُن کو ضرور یہ ترقیات نصیب ہوں گی.پس پہلے اپنے تشخص کو پہچانیں اور واضح طور پر دیکھیں کہ تشخص ہے کیا؟ پھر اُن فاصلوں کو کم کریں جو آپ کی عملی زندگی کے اس تشخص کی زندگی کے ساتھ ہیں جب آپ کی عملی زندگی اس تشخص کی زندگی سے انطباق پا جائے گی.اگر جماعتی طور پر ایسا ہوا اور کثرت کے ساتھ احمدیوں کا تشخص اُن کی عملی زندگی کے ساتھ انطباق پا گیا تو وہ وقت ہو گا کہ ناممکن ہے کہ دنیا آپ کی ترقی کو روک سکے.پھر تو لازماً
خطبات طاہر جلد ۱۲ 400 خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۹۳ء آپ نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے، لازماً آپ نے دنیا پر غالب آنا ہے کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے آپ کے ساتھ جو سورہ فتح میں دیا گیا ہے.پس آخرین کا یہ دور ہے جس میں ہم گزر رہے ہیں.خدا کرے کہ اس دور کی تمام برکتیں ہمیں حاصل ہو جائیں اور خدا کرے کہ محمد رسول اللہ کی صفات سے مزین اور لیس ہو کر ہم دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور جلد تر ایسا ہو.(آمین ).نماز جمعہ اور نماز عصر کے معاً بعد امیر صاحب ناروے کی نماز جنازہ ہو گی.امیر صاحب ناروے چوہدری عبدالعزیز صاحب چند دن پہلے اچانک حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے ہیں.بہت مخلص اور فدائی ، بڑے باہمت انسان تھے.علم کے لحاظ سے اتنے زیادہ نہیں لیکن تقویٰ کے لحاظ سے بڑے مضبوط تھے.اسی پہلو سے میں نے اُن کو امیر مقرر کیا تھا.اگر چہ ناروے کی امارت کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ وہاں کئی ایسے مزاج کے لوگ ملتے ہیں جو امیر کی امارت کی راہ میں مسلسل حائل ہونے کی کوشش کرتے ہیں.اُس کے باوجود بڑے مضبوط قدموں سے انہوں نے صحیح فیصلے کئے ، جرات کے ساتھ فیصلے کئے.اُن پر عمل کر کے دکھایا اور قطعاً پروانہیں کی ، نہ دوست کی نہ دشمن کی.تقویٰ کی راہ پر قائم رہے.پس ان کی وفات ایک نیک انجام کی خبر دیتی ہے اور اس نیک انسان کی نماز جنازہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کی اور عصر کی نماز کے بعد پڑھیں گے.یہ خطبہ جو ہے آج میں دے رہا ہوں.جب ناروے میں جاؤں گا اور وہاں پہلا جمعہ ہو گا اُس وقت یہ خطبہ دکھایا جائے گا اور نماز جنازہ جو آج ہم پڑھ رہے ہیں.اس کے نتیجے میں جو دعاؤں میں سب لوگ شامل ہوں گے یہ در حقیقت آج نہیں بلکہ ناروے کی سرزمین پر جب یہ خطبہ دکھایا جائے گا اُس وقت شامل ہوں گے.اُس وقت عالمی طور پر سنا جائے گا.عالمی طور پر اُن کے لئے دعا کی تحریک ہوگی.وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب تو ارد ہے کہ اگر چہ آج کا خطبہ ہالینڈ میں دیا جا رہا ہے مگر ناروے کے امیر کے لئے عالمی دعا ئیں اُس وقت ہوں گی جب میں ناروے کی سرزمین پر ایک اور خطبہ دے رہا ہوں گا.اللہ تعالیٰ اُن کو غریق رحمت فرمائے اور ناروے کی جماعت کو بھی اچھی مضبوط قیادت عطا فرمائے اور اُن لوگوں کو عقل و ہوش دے جو ہمیشہ امیر کی راہ میں کسی نہ کسی رنگ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ساری جماعت کو سچے معنوں میں اطاعت امیر کی توفیق بخشے.(آمین.)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 401 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء سیکر ٹریان تربیت اور دعوت الی اللہ کو نصائح اے جماعت احمد یہ تمام دنیا کے انسانوں کو تم نے کے قدموں میں ڈالنا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ مئی ۱۹۹۳ء بمقام جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور یہ چودھواں سالانہ اجتماع ہے.اس کے ساتھ ہی آج مجلس انصار اللہ عزیز آباد کراچی کا بھی ایک اجتماع ہو رہا ہے اور انہوں نے فیکس کے ذریعے یہ درخواست کی ہے کہ اس اجتماع میں ہمیں بھی مخاطب کریں اور ہمیں بھی پیش نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ نے جمعہ کا خاص تعلق جماعت احمدیہ سے رکھ دیا ہے اور جمعہ کے لفظ میں جتنے بھی جمع ہونے کے مفاہیم شامل ہیں ، جتنے معنی بھی جمع کے پائے جاتے ہیں آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ پر وہ پوری طرح اطلاق پارہے ہیں.یہ وہ جماعت ہے جسے پیشگوئیوں کے مطابق پہلوں سے ملایا گیا، یہ وہ جماعت ہے جس میں تمام عالم کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے وہ صلاحیتیں عطا فرمائی گئیں اور آسمان سے وہ قوت بخشی گئی.جس کے نتیجے میں یہ عظیم الشان کام حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے یہ عاجز غلام اور دیوانے سرانجام دیں گے.یہ وہ جماعت ہے جسے ہر جمعہ تمام
خطبات طاہر جلد ۱۲ 402 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء عالم کے احمدیوں کو ایک خطبے کے نیچے جمع کرنے کے سامان کئے گئے اور اسی طرح اور بھی بہت سی جمیعتیں اس جمعہ میں شامل کر دی گئی ہیں.ایک وقت میں مختلف ممالک میں جو اجتماع ہورہے ہیں یہ تو ناممکن تھا کہ میں اُن سب میں شرکت کر سکتا لیکن اب اس انتظام کے ذریعے جو خدا تعالیٰ نے مواصلاتی سیاروں کے ذریعے ہمیں عطا فرمایا ہے بیک وقت سب دنیا اس پروگرام میں شامل ہے اور بیک وقت ہم دوسروں کے پروگراموں میں بھی شامل ہو رہے ہیں.یہ جو اللہ تعالیٰ نے نعمت عطا کی ہے.اس کے متعلق مجھے پہلے تصور نہیں تھا کہ اس کے اتنے عظیم الشان فوائد ظاہر ہوں گے.پہلا تو خیال صرف پاکستان کے مظلوموں ہمحروموں اور مجبوروں کی طرف جاتا تھا اور یہی خیال تھا کہ اُن سے رابطوں کے انتظامات ہو جائیں گے اور اُن کی پیاس بجھنے کے خدا تعالیٰ ایسے سامان فرمائے گا وہ جو دیر سے محرومی میں زندگی بسر کر رہے تھے.کچھ تشنگی مٹے گی ، کچھ پیاس بجھے گی لیکن بعد میں جب عالمی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے اور مختلف خطوط کے ذریعے یا عملاً باہر سے آنے والے دوستوں کی زبانی سن کر جو حالات معلوم ہوئے ہیں.اُس سے پتا چلتا ہے کہ محض پاکستان کا سوال نہیں تمام دنیا کے لئے آج یہ ایک اشد ضرورت تھی کہ خلافت سے براہ راست تمام دنیا کی جماعتوں کا رابطہ قائم ہو اور یہ رابطہ جمعہ اور خطبوں کے بغیر اور کسی طریق پر ممکن نہیں تھا.اب جرمنی میں جب سے آیا ہوں مختلف احباب سے اور خاندانوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ جرمنی کے احباب جماعت اور خواتین اور بچوں نے سیٹلائٹ کے ذریعے رابطے کے متعلق ایسے تاثرات بیان کئے ہیں جن کے متعلق میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جرمنی کو بھی اتنی ضرورت درپیش ہو سکتی تھی.یہاں میں بار بار آتا رہا اور میرا یہی خیال تھا کہ میرا آپ سب سے مسلسل اور بار بار ہونے والا رابطہ قائم ہے لیکن جو خاندان ملنے کے لئے آئے انہوں نے بتایا کہ سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ رابطے سے وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی تھی اور پھر تمام جماعت کو توفیق بھی نہیں ملا کرتی تھی وہ ہر ایسے موقع پر حاضر ہو.یہ بھی توفیق نہیں ملتی تھی کہ انہماک سے آپ کی باتوں کو سنیں اور اُس کے اثر کو پورا سال قائم رکھیں.بہت سے ایسے افراد نے مجھے بتایا جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی کہ ہم نے تو اب نمازیں شروع کی ہیں اس سے پہلے جو نماز سے تعلق تھا وہ ایک سرسری سا تعلق تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعلق مضبوط ہوتا چلا جارہا ہے.بعض نے یہ کہا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 403 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء ہم اب احمدی ہوئے ہیں.اس سے پہلے کا زمانہ جہالت میں گزرا ہے تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کسی بندے کا کمال نہیں ہے بلکہ غیر معمولی خدا کا فضل اور اُس کا غیر معمولی احسان ہے اُس کی ایک ایسی تقدیر ہے جو جاری ہوئی ہے جس کا ہمیں کوئی گمان میں نہیں تھا.اللہ تعالیٰ ان رابطوں کو بڑھاتا رہے اور مضبوط تر کرتا چلا جائے.ایک سے زیادہ رابطے قائم کرنے کے سامان فرمائے اور اس طرح جماعت کی عالمگیر تربیت کی توفیق عطا ہو.اس ضمن میں بعض پاکستان سے آنے والے خطوط کے اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جس سے آپ کو اُن لوگوں کے جذبات کا اندازہ ہو گا جن سے کئی سال ہوئے ملاقات نہیں ہو سکی.ایک دن میں روزانہ بیسیوں خط ملتے ہیں یہ تو ناممکن ہے کہ سارے کے سارے خطوط کے مضامین سے جماعت کو آگاہ کر سکوں.لیکن دو تین نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست خطبات سننے کی غرض سے ، ڈش انٹینا وغیرہ لگوانے کی غرض سے احباب غیر معمولی قربانی محبت اور شوق سے حصہ لے رہے ہیں.ایک ضلع کے ایک گاؤں کی بچیوں کی شادی ایسے گاؤں میں ہوئی جہاں ڈش انٹینا کا انتظام نہیں تھا جبکہ اُن کے اپنے میکے میں یہ انتظام تھا تو وہاں جاتے ہی ان بچیوں نے سب سے پہلا یہ کام کیا کہ شادی کے تمام تحائف خرچ کر کے ڈش انٹینا کا انتظام کرایا اور اُن کا اپنا اس قربانی کے بعد تاثر یہ تھا جو خوشی شادی کی اس بات سے ہوئی ہے اس کے بغیر خوشی کا کوئی تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا.پس احمدی بچیوں کے اندر بھی ایک ذاتی لگن پیدا ہوگئی ہے اور دلہنیں اپنے تحفے بیچ بیچ کر یا روپے پیش کر کے اس رابطے کا انتظام کر رہی ہیں اور ہمیشہ جو اطلاعیں ملتی ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ دن بدن زیادہ دیہات میں اور دیہات میں ایک سے زیادہ رابطوں کے سامان پیدا کئے جارہے ہیں.ایک دلچسپ اقتباس ایک جماعت کی طرف سے ایک خاتون نے خط لکھا ہے ،اُس کا اقتباس ہے.اب اللہ کے فضل سے ہمارے گاؤں میں جو ڈش انٹینا لگا ہے وہ ایک آدمی نے اپنے گھر لگوایا ہے اور وہ انٹینا بہت بڑا ہے پہلے تو سنا تھا کہ ہم سب اُن کے گھر میں جا کر خطبہ سنا کریں گے پھر انہوں نے یہ اعلان کروایا میں نے ایک ایسا پرزہ لگایا ہے کہ جس سے گاؤں کے ہر گھر میں بغیر انٹینا کے ٹیلی ویژن رابطہ قائم ہو گیا ہے.وہ لکھتی ہیں کہ اُس کے نتیجے میں نہ صرف احمدی بلکہ خدا کے فضل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 404 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء سے کثرت سے غیر احمدی بھی اپنے گھروں میں بیٹھے خطبہ سنتے ہیں اور وہ غلط فہمیاں جو ہم ہزار کوشش سے دور نہیں کر سکتے تھے وہ ہر خطبے کے موقع پر از خود دور ہوتی چلی جا رہی ہیں.فاصلے مٹ رہے ہیں اور لوگ قریب تر آ رہے ہیں لیکن لکھتی ہیں کہ سب سے زیادہ قابل رحم حالت گاؤں کے مولویوں کی ہے وہ جس گلی سے گزرتے ہیں آپ کی آواز آ رہی ہوتی ہے اور اُن کے لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کریں جہاں آپ کے خطبے کی آواز نہ آ رہی ہو.اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ اُن کے ظلموں کا انتقام اُن سے کیا لیتا.پس حقیقت میں یہ ظلموں کا انتقام تو ہے لیکن اصل صلى الله انتقام تو تب ہو گا جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ والا انتقام پاکستان کے علماء سے لیا جائے گا.وہ جو آپ کی جان کے دشمن تھے وہ آپ کے جانثار دوست بن گئے ، وہ جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے اپنا سارا خون آپ پر نچھاور کرنے کے لئے ترساں رہتے تھے.وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے اور اُس کے بدلے اُن کی جان بچ جائے بلکہ ایک موقع پر ایک شہید ہونے والے نے جب اُن سے پوچھا گیا کہ بتاؤ اس وقت تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے؟ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے تمہاری جگہ محمد رسول اللہ آج یہاں ہوتے اور تمہاری جان بچ جاتی.اُس نے بڑی حقارت سے اُن کو دیکھ کر کہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو خدا کی قسم ! میں اپنی جان بچانے کے لئے تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ ایک چھوٹا سا کانٹا بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو چبھ جائے.(سیرت الحلیہ جلد ۳ صفحه۱۷۰ مطبع بیروت) یہ حقیقی انتقام ہے محض تذلیل کوئی انتقام نہیں.تذلیل کے جذبات سے جماعت احمدیہ کو کلیۂ مبرا ہو جانا چاہئے اصل انتقام محبت اور رحمت کا انتقام ہے ، گالیاں سن کر دعا دینے کا انتقام ہے اور یہی وہ محمد مکی انتقام ہے جس نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے.پس اس انقلاب کے لئے اپنے دلوں کو تیار کریں اپنے دل میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں.نفرت کا جواب محبت سے دینا سیکھیں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کے قدموں میں اکٹھی ہو جائے گی.ایک اور اقتباس ہے جیکب آباد سے خاتون لکھتی ہیں.ڈش انٹینا ایجاد کرنے والے کے لئے جتنی دعائیں ہم پاکستانی احمدی کرتے ہوں گے دنیا کا کوئی فرد نہیں کرتا ہو گا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہے کہ ہمارے دلوں کی بے چینی اور کرب کافی حد تک دور ہو گیا ہے.خصوصاً جو ہم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 405 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء ربوہ سے بھی کافی دور الفضل کے ذریعے خطبات بھی کبھی وقت پر نہیں ملتے تھے ڈاک والوں کا دل ہے چار پانچ اخبار ا کٹھے کر کے دیئے.آگے پیچھے کی تاریخوں کا اخبار ملنے سے بڑی کوفت ہوتی تھی.آپ کو دیکھنے اور ملنے کی آرزو دل میں گھٹی رہتی تھی.محترمہ امتہ الباری صاحبہ کا یہ شعر ہر وقت میرے دل میں رہتا تھا کہ بے بسی دیکھو کیسٹ سے انہیں سنتے ہیں سامنے میز پر تصویر پڑی رہتی ہے اب تو جمعہ والا دن عید کا دن لگتا ہے ی تفصیل ان کیفیات کی تمام تر بیان کرنی ممکن تو نہیں ہے مگر میں چند نمونے احباب جرمنی کے سامنے اس لئے رکھ رہا ہوں کہ اس قربانی میں سب سے بڑا حصہ جماعت احمد یہ جرمنی کو دینے کی توفیق ملی ہے.پس وہ لوگ جو ڈش انٹینا والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں وہ لوگ جو جسوال برادران کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اُن کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت احمد یہ جرمنی کو بھی اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یا درکھیں کیونکہ بہت بڑی قربانی اس جماعت نے پیش کی اور میرے فکر دور کر دیئے جب مجھے یہ پیغام بھیجا کہ آپ اس پروگرام کو جاری رکھیں جتنا خرچ ہوتا ہے جماعت احمد یہ جرمنی اُسے پیش کرے گی اور ہر گز ہم اس معاملے میں قدم پیچھے نہیں ہٹا ئیں گے.جو خرچ ہوتا ہے کرتے چلے جائیں اس پر وگرام کو ہمیشہ جاری رکھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل جماعت جرمنی پر ہمیشہ جاری رکھے، ان کی نیک قدریں بڑھائے ، ان کی برائیوں کو دور کرتا چلا جائے، پہلے سے بہتر حال میں ان کو اپنے قریب تر کرتا چلا جائے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے فضلوں کا وارث بنائے.مجھے تو یہ و ہم پیدا ہورہے تھے کہ وقتی جوش نہ ہو، وقتی شوق نہ ہو، پاکستان کے وہ احمدی دوست جور بوہ میں ہوں یا باہر ہوں اُن کو دیر سے ملنے کی خواہش تھی اس شوق سے کہیں چند دن آئیں اور پھر یہ رابطے کٹ جائیں.جب اس بات کا میں نے خطبے میں اظہار کیا تو بہت احتجاجی خطوط ملے اور بعض نے کہا کہ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہاں کیا کیفیت ہے؟ یہاں تو ہر خطبے کے بعد پیاس بڑھ جاتی ہے کم نہیں ہوتی اور اگلے خطبے کے انتظار میں دن گزارتے ہیں یہ جو جذ بہ ہے، کیفیت ہے یہ بنانی کسی بندے کے بس کی بات نہیں ہے.یہ محض آسمان کی تقدیر ہے جو رحمت بن کر آسمان سے اتر رہی ہے.دلوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 406 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء اندرایسی پاک تبدیلیاں کرنا محض اللہ کا کام تھا.پس جب وہ خط پڑھتے ہوئے جن کا میں نے ذکر کیا ہے.مجھے حسرت کا وہ شعر یاد آ گیا کہ حقیقت کھل گئی حسرت تیرے ترک محبت کی تجھے تو وہ پہلے سے بڑھ کر یاد آتے ہیں پس بجائے اس کے کہ یہ رشتے کم ہوں یہ مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کے دلوں کو اسی طرح محبت کے رشتوں میں مضبوطی سے باندھے رکھے کیونکہ جماعت نام ہے محبت کے رشتوں میں بندھے ہونے کا اور جمعہ کی یہ برکت ہمیں دلوں کو باندھنے کی صورت میں ملی ہے خدا اس برکت کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے.اب میں تنظیمی امور سے متعلق مجلس خدام الاحمدیہ مجلس انصار اللہ اور مجلس لجنہ اماءاللہ سے مخاطب ہوتا ہوں جو باتیں میں اب آپ سے کہوں گا اُن کا تعلق طریق کار سے ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کی بہت ضرورت ہے کہ بار بار اس موضوع پر خطبات دیئے جائیں اور جماعت کو سمجھایا جائے کہ کام کرنا کیسے ہے؟ جوش اور ولولہ اور شوق اور محبت تو محض ایندھن ہیں اس ایندھن کی طاقت کو استعمال کیسے کرنا ہے؟ یہ کلیں ایجاد کرنے سے ہوتا ہے ورنہ جاہل قوموں کے پاس بھی بڑی بڑی طاقتیں ہیں، ترقی یافتہ قو میں اُن سے طاقت لے کر اپنے کل پرزے چلاتی ہیں اُن کو توفیق نہیں ملتی.پس نظام جماعت کا تعلق بھی ایک ترقی یافتہ مشین یا ترقی یافتہ کل سے ہے جو روحانی نظام کو جاری وساری کرتی ہے، روحانی نظام کو چلاتی ہے، اس کل پرزے کو چلانے کا سلیقہ آنا چاہئے.یہ کارخانه حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لفظ استعمال فرمایا کہ یہ کارخانہ ہے جو خدا تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے پس خدا نے بہترین، جدید ترین کارخانه تو عطا فرما دیا اسے چلانے کے لئے سلیقہ بھی تو چاہئے.اگر طاقت ہو اور کارخانہ موجود ہو اور سلیقہ موجود نہ ہو.تب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.میں نے جب مجالس عاملہ سے انٹرویو لئے تو میں نے محسوس کیا کہ بہت سی باتوں میں ابھی علم کی کمی نقصان پہنچا رہی ہے اور جماعت میں جتنی کام کی طاقت ہے اُس سے پوری طرح فائدہ نہیں ہورہا.اس ضمن میں نظام جماعت سے متعلق بھی میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا بعض شعبوں کو نمایاں پیش نظر رکھتے ہوئے نصیحتیں کی تھیں کہ ان شعبوں میں اس طرح کام ہونا چاہئے.بعض دنیا کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 407 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء جماعتوں نے اُن باتوں کو سمجھا اور اللہ کے فضل کے ساتھ اچھا جواب دیا، عملی جواب دیا اور ایسی رپورٹیں ملیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اُن میں اب کام کا سلیقہ پیدا ہو چکا ہے لیکن بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ پوری طرح خبر نہیں پہنچی.پس اگر وہ بات نہیں سنتے تو التفات دگنا ہونا چاہئے ، بار بار مجھے کہنا ہوگا.مجلس خدام الاحمدیہ کے حوالے سے جو باتیں میں کروں گا اُن کا تعلق محض دیگر تنظیموں سے ہی نہیں جماعت احمدیہ کی انتظامیہ سے بالعموم بھی ہے تمام اس لحاظ سے میرے مخاطب ہیں.جب کسی احمدی کے سپر د کوئی عہدہ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلا اُس کا فرض ہے کہ اُس عہدے کو پہچانیں.معلوم تو کرے کہ وہ عہدہ ہے کیا؟ کل اور پرسوں جو ملاقاتیں ہوئیں تنظیموں سے باتیں ہوئیں.اُن سے مجھے اندازہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ جرمنی کی جماعت خدا کے فضل سے بہت ترقی یافتہ جماعت ہے یعنی خدمت کے کاموں میں پیش پیش ہے لیکن مجالس عاملہ کو خود اپنا شعور نہیں ہے اور مجلس عاملہ کے ہر ممبر کو خود اپنی ذات میں دائرہ کار کا پتا نہیں اور یہ پتا نہیں کہ کام کا آغاز کیسے کرنا ہے؟ تعلیم و تربیت کے سیکرٹری سے پوچھیں کہ آپ نے کیا کیا.میں تو رپورٹوں میں ذکر کرتا ہوں یا کرتی ہوں.میں نے اتنے دورے کئے فلاں جگہ ہم گئے اور یہ کام کیا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ تربیتی مسائل اور تعلیمی مسائل بہت گہرے، بہت وسیع ہیں اور جس شخص کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے جب تک وہ مسائل کی کنہ سے واقف نہ ہو جائے ، اُن کی تہہ تک نہ اتر جائے ، وہ تفصیل سے یہ نہ دیکھے کہ مسائل ہیں کیا اور کہاں کہاں کیا کیا مسائل ہیں؟ اُس وقت تک وہ حقیقت میں خدمت کا حق ادا نہیں کر سکتا.خواہش بھی ہوگی ، شوق بھی ہوگا، وقت بھی قربان کر رہا ہو گا لیکن نتیجہ نہیں نکلے گا.نتیجہ نکلنے کے لئے ایک سلیقہ چاہئے، نتیجہ نکلنے کے لئے حکمت چاہئے ، قرآن کریم نے ہر جگہ جہاں بھی دعوت الی اللہ کا ذکر فرمایا ہے وہاں حکمت کے مضمون کو بیان فرمایا ہے.حکمت کا ایک معنی ہے منصوبہ بندی.حکمت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے خوب جانچا جائے، دیکھا جائے ماحول کو خوب پہچانا جائے.یہ معلوم کیا جائے کہ کوئی چیز کہاں پڑی ہوئی ہے؟ کون سے رستے معین ہو سکتے ہیں ؟ ، کہاں کہاں ٹھوکریں ہیں؟ ، پوری طرح جائزے کے بغیر، پوری طرح اعداد و شمار اکٹھے کئے بغیر، کوئی منصوبہ کارفرما نہیں ہوسکتا، کوئی منصوبہ بن ہی نہیں سکتا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 408 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء اب تربیت کے متعلق مثلاً میں نے جب پوچھا تو پتا چلا کہ اتنے سرکلر دیے گئے ہیں جماعت کو کہ فلاں فلاں خرابیاں ہیں ان کو دور کرو.سوال یہ ہے کہ یہ خط جن کو ملتے تھے ، انہوں نے آگے حرکت کی بھی کہ نہیں، کتنوں پر اس کا اثر پڑا.کون کون سی مجالس کس کس کمزوری میں مبتلا ہیں اور کون کون سی مجالس کس کس نصیحت کی محتاج ہیں؟ یہ وہ باتیں ہیں جو تفصیلی جائزے کے بغیر معلوم ہو ہی نہیں سکتیں.اس لئے سب خدمت کرنے والوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ سب سے پہلا قدم یہ اٹھا ئیں بلکہ قدم اٹھانے سے پہلے کہنا چاہئے.قدم اٹھانے سے پہلے یہ کام کریں کہ اپنا زیرو پوائنٹ مقرر کریں.جس منزل سے سفر شروع کیا ہے اُس منزل کی تشخیص کریں.اُس کی تفصیل سے آگاہ ہوں جب میں یہ کہتا ہوں تو آپ کو غالباً کئی مہینے اس تشخیص کے لئے درکار ہوں گے لیکن یہ وقت کا ضیاع نہیں ہے.اس کے بغیر کام حقیقت میں ہو ہی نہیں سکتا.مثلا تربیت والا سیکرٹری یا تربیت والی سیکرٹری خواہ مجلس سے تعلق رکھتے ہوں یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں.جب تک جماعت کے حساب سے ہر جماعت کے متعلق اُن کو یہ علم نہ ہو کہ کتنے مرد، کتنی عورتیں ، کتنے بچے نماز با قاعدہ پڑھتے ہیں؟ کتنے ہیں جن کو نماز کے الفاظ صحیح یاد ہیں؟ کتنے ہیں جن کو نماز کا ترجمہ یاد ہے؟ اور نماز کے معاملے میں کیا کیا غفلتیں پائی جاتی ہیں.کون سے ایسے مسائل ہیں جن سے وہ آگاہ نہیں ہیں اور کس حد تک ان معاملات میں ان کی تربیت کی ضرورت ہے.کتنے خدام یا انصار یا بچے ایسے ہیں جن کو مساجد تک رسائی ہے اور وہ کسی نہ کسی نماز میں مسجد میں پہنچ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جن کے پاس کوئی باجماعت نماز پڑھنے کا انتظام نہیں ہے؟ وغیرہ وغیرہ.یہ سارے امور ایسے ہیں جن کی تفصیلی چھان بین کئے بغیر کوئی سیکرٹری تربیت اپنے فرائض کو سر انجام نہیں دے سکتا.بجائے اس کے کہ یہ سرکلر بھیجا جائے کہ آپ نماز میں ٹھیک کریں.وہ سرکلر جس کے پاس جائے گا اُس کو سلیقہ نہیں ہو گا کہ کام کیسے کرنا ہے؟ وہ سرکر دیکھے گا اور اپنی میز پر کسی جگہ رکھ دے گا یا کہیں اعلان کر دے گا کہ نمازیں پڑھا کرو.یہ اعلان تو چودہ سو سال پہلے سے ہو چکا ہے کہ نمازیں پڑھا کرو.اس کی کیا اطلاع مسلمانوں کو اب تک نہیں پہنچی.اعلان سے کیا فائدہ؟ اس اعلان کو نظر انداز کرنے والوں کی کمزوریوں کو پہچانا جائے.ان بیماریوں کی تشخیص کی جائے جن کے نتیجے میں اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 409 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء الہی اعلان کے سامنے لوگ سر تسلیم خم نہیں کر رہے، استجابت نہیں ہو رہی.اپنی طرف سے تو یہ چاہتے ہیں کہ جب دعا مانگے خدا قبول کرلے لیکن جب خدا کی آواز کانوں میں پڑتی ہے نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ تو وہ آواز بہرے کانوں پر پڑتی ہے، ایسے مرجھائے ہوئے دلوں پر پڑتی ہے جن میں قبول کرنے کی صلاحیت نہیں.یہ بیماریاں دور ہوں گی تو پھر نماز قائم ہوگی.اس کے بغیر کیسے قائم ہوسکتی ہے اور جب تک جماعت وار تشخیص نہ ہو، مجلس وار تشخیص نہ ہو کہ کس کس جماعت میں، کس کس مجلس میں کیا کیا کمزوریاں ہیں؟ کیوں ایسی کیفیت ہے اُس وقت تک صحیح علاج تجویز ہی نہیں ہوسکتا.اب میں یہاں جانتا ہوں کہ جرمنی کے حالات میں بعض خاص علاقے ایسے ہیں جہاں پاکستان کے بعض علاقوں کے لوگ آئے ہوئے ہیں اور وہ اپنے علاقوں میں بھی بعض روحانی بیماریوں میں مبتلا تھے.تربیت کے ضمن میں بعض علاقوں میں نماز کی کمزوری پائی جاتی تھی ، بعضوں میں زبان کی کمزوری ہے ، زبان کے تلخ ہیں، بدتمیزی سے بات کرتے ہیں، جلدی غصے میں آتے ہیں ، گالی دینے کی طرف میلان ہے اور ہر وہ حرکت کرتے ہیں زبان سے جو تعلقات کو کاٹنے والی ہے اور یہ عادتیں اُن میں راسخ ہوتی ہیں.ایسے علاقوں کے لوگ بھی یہاں آئے ہوئے ہیں جو ہل چلاتے وقت روزانہ اپنے بیلوں کو بھی اتنی گندی گالیاں دیتے ہیں کہ اگر بیلوں کو پتا لگ جائے کہ کیا ہو رہا ہے تو وہ بغاوت کر دیں، اپنے پاؤں تلے اُن کو روند ڈالیں لیکن وہ معصوم ہیں اُن کو پتا نہیں کہ ہم سے کیا ہو رہا ہے؟ انسان سے جب سلوک کرتے ہیں تو وہ جماعت جس نے عالمگیر جماعت بننا ہے جس نے ساری جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا ہے وہاں اگر ایسی زبان استعمال ہو رہی ہو جو دلوں کو کاٹ رہی ہو جو دھکے دے رہی ہو، جو بد تمیزی کی اور بداخلاقی کی زبان ہو.تو وہ جماعت کو بھی منتشر کر دے گی کجا یہ کہ غیروں کو اپنی طرف سمیٹں تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن بہت گہرے اثرات والی باتیں ہیں.ایسی تربیت کیسے ممکن ہے جس تربیت سے پہلے بیماری کا علم ہی نہ ہو.پس سیکرٹری تربیت کا صرف ایک کام آپ پیش نظر رکھیں تو دیکھیں کتنا پھیلتا چلا جا رہا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان کے بس کی بات ہی نہیں لیکن سیکرٹری تربیت کی اپنی روزمرہ زندگی کی مصروفیات کو دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکلر دے کر فارغ ہو کر بیٹھ گیا اس کو پتا ہی نہیں کہ اُس نے اور کیا کرنا ہے؟ کام پہچانیں گے تو کام بڑھے گا اور جو کاموں کو پہچاننے کی عادت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 410 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء رکھتے ہیں اُن کے کام بڑھتے ہی رہتے ہیں اور محض دعا اور فضل الہی سے سمیٹتے ہیں.جب کام بڑھتے ہیں تو پھر کچھ اور اس کے نتیجے میں برکتیں خود بخود پیدا ہوتی ہیں.میں نے یہاں مجلس عاملہ سے جب گفتگو ہوئی اُن کو انگلستان کی مثال دی.جب میں وہاں آیا تھا تو گنتی کے چند آدمی تھے جن کو کام کرنے والے سمجھا جاتا تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا.ایسے نوجوان، بوڑھے اور بچے پیدا ہو چکے ہیں جو کسی نہ کسی نیک کام میں جماعت کے ساتھ باندھے گئے ہیں اور دن رات خدمتوں میں مصروف ہیں.یہ جسوال برادران ہمارے ہاتھ آئے ہیں.یہ ا نہی لوگوں میں سے نکل کے آئے ہیں.جہاں کام بڑھیں وہاں خدمت گار بھی خدا تعالیٰ بڑھا دیتا ہے.جہاں کام نہ ہو وہاں پہلے خدمت گاروں کو بھی نیند آنے لگتی ہے.وہ بھی بیزار ہو کر اور تھک کر کاموں میں دلچسپی چھوڑ دیا کرتے ہیں.تو برکت کے لئے کام کا بڑھانا ضروری ہے، مددگار ہاتھ خدا تعالیٰ عنایت کیا کرتا ہے.پس جب آپ کام بڑھائیں اور ساتھ یہ دعا کریں کہ اے خدا! ہمیں اپنی جناب سے سلطان نصیر عطا فرما تو پھر دیکھیں آپ کے کاموں میں کیسے برکت پڑتی ہے.ہر طرف سے آپ کو مددگار میسر آنے شروع ہوں گے اور وہ مددگار میسر آئیں گے جو خدا کی خاطر آپ کے ساتھ کام کریں گے اور یہ نقطہ یادر کھنے کے لائق ہے.دعا یہ ہے کہ اے خدا! تو اپنی جناب سے سلطان نصیر عطا فرما.رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا (بنی اسرائیل:۸۱) دینی کاموں میں خدا کی طرف سے سُلْطنًا نَّصِيرًا کا ملنا نہایت ضروری ہے.اگر آپ اپنے تعلقات کے نتیجہ میں مدد گار لیں گے تو ہر گز بعید نہیں کہ جب آپ ٹھو کر کھا ئیں تو آپ کے ساتھی بھی سب ٹھو کر کھا جائیں ، ہر گز بعید نہیں کہ ایک جتھا بن جائے، بظاہر نیکی کے کام ہورہے ہوں لیکن وہاں در حقیقت ذاتی تعلقات کے نتیجے میں بنے ہوئے جتھے ہوں.ایک کو کام سے ہٹایا باقی نے کہا ہم بھی پھر کام نہیں کرتے.تو یہ تو نفس کی بیماریاں ہیں، یہ کام کرنے والے نہیں ہیں، کام کرنے والے وہی ہیں جو اللہ سے عطا ہوتے ہیں اور دعا کے نتیجے میں ملتے ہیں ، اللہ کی خاطر کام کرتے ہیں.وہ لوگ ٹھوکروں سے آزاد ہیں، کوئی ابتلاء ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتا.اُن کی جو نتیوں تک بھی ابتلاؤں کے ہاتھ کی پہنچ نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ خدا والے ہیں خدا کی خاطر آتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 411 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء اس سے قطع نظر کہ نظام جماعت نے ان کے ساتھ کیا کیا اور کیوں کیا؟ وہ اللہ سے اپنا تعلق نہیں توڑتے ، خدمت میں ہمیشہ اپنے آپ کو بیلوں کی طرح جوتے رکھتے ہیں.پس یہ کام کرنے والے چاہئیں لیکن یہ پیدا اس طرح ہوں گے جس طرح میں نے بیان کیا.حکمت کے ساتھ، سلیقے کے ساتھ ، پہلے اپنے کام کو سمجھیں ،صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیں اور پھر معین ہر جماعت پر یا ہر مجلس پر نظر رکھیں کہ وہاں کیا کیا ضرورتیں ہیں؟ بجائے اس کے کہ اندھے سرکلر بھیج دیں کہ فلاں بات یوں ہو جائے اور اس کے بعد انتظار کریں کہ یوں ہو گئی ہوگی اور پھر رپورٹوں میں میرا وقت بھی ضائع کریں.ایسی باتیں کریں جو نشانے پر بیٹھنے والی ہوں.میں نے دیکھا، مجھے شکار کا شوق رہا ہے کہ ڈار میں اگر بغیر نشانہ لئے آپ فائز کرتے ہیں تو بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی پرندہ ہاتھ آئے لیکن ایک پرندہ بھی بیٹھا ہوا گر نشانہ لے کر ماریں گے تو وہ ہاتھ آئے گا.پس کام ایسا کریں کہ نشانہ ہو اور نشانے کے سامنے کوئی پرندہ بھی ہو.پتا ہو کہ کون سامنے بیٹھا ہوا ہے اور اُس کے لئے تفصیلی جائزے کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے آپ کو دکھائی تو دے.Kassal میں کیا ہو رہا ہے، Kalfroa میں کیا ہو رہا ہے، ہیمبرگ میں کیا ہو رہا ہے، وہاں خدام کیا کرتے ہیں، کون کون سی بیماریوں میں مبتلا ہیں، کون گندے کا روباروں میں مبتلا ہے، کون جنھے بنا کر غنڈا گردی کروا رہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ.یہ سب تربیت کی باتیں ہیں.جن پر نظر نہ رکھنے کے نتیجے میں بعض دفعہ فساد بڑھ جاتا ہے، جب قتل ہو جاتے ہیں تو پھر اطلاع دی جاتی ہے کہ جماعت احمد یہ میں بھی ایسا واقعہ ہو گیا ہے.دل کٹ جاتا ہے، اُس پس منظر کو سوچ کر جس میں ایک لمبے عرصے سے ایک ظالم اور قاتل تیار ہورہا تھا اور جماعت نے کوئی نظر نہیں رکھی.وہ نگران جو تربیت سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ خدام الاحمدیہ کے ہوں ، لجنہ کے ہوں ، انصار کے ہوں، جماعت کے ہوں.وہ اگر ہوش مندی سے کام کر رہے ہوں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بیماری بڑھ کر پھٹنے کے مقام تک جا پہنچی ہو اور اُن کو پتانہ لگے.جب پھوڑا پھٹ پڑے جب بدبودار پیپ بہہ نکلے تب وہ اطلاعیں دیں کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے.پس باشعور ہو کر کام کریں خدا تعالیٰ مومنوں سے جس حکمت کے تقاضے کرتا ہے اُس حکمت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کریں تو پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کے کاموں میں کتنی برکت پڑتی ہے.یہ جتنے خدام میرے سامنے اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں اللہ کے فضل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 412 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء سے بہت بھاری اجتماع ہے.جماعت جرمنی میں جب میں آغاز میں آیا تھا تو ہمارا جماعتی اجلاس مسجد فرینکفورٹ کے کونے میں ہوا تھا.باقی مسجد خالی پڑی تھی.اب آپ کے ایک کونے میں مسجد فرینکفورٹ آجاتی ہے لیکن جتنی برکت ہے اتنی کام کی ذمہ داریاں بھی تو بڑھ گئی ہیں.اتنی زیادہ تفصیلی جائزے کی ضرورت ہے اور گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جماعت میں کون کون سی کمزوریاں ہیں ان کو کیسے دور کرنے کی کوشش کی جائے.اب مثلاً اگلا قدم لیتے ہیں.جب ایک سیکرٹری تربیت جائزہ لیتا ہے تو سب سے پہلے تو یہ محسوس کرے گا کہ میں اس کام کے لئے کافی نہیں ہوں.میرے دو ہاتھ اتنے بڑے کام نہیں کر سکتے.میں نے دنیا میں اپنے اور بھی کام کرنے ہیں.جتنا وقت میں جماعت کے لئے نکال سکتا ہوں ، دیتا ہوں.اُس کے باوجود یہ ناممکن ہے کہ میں ہر مجلس یا ہر جماعت کی تفصیلی نگرانی کر سکوں.اس وقت وہ دعا اُس کے کام آئے گی جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اے خدا ! اپنی جناب سے سلطان نصیر عطا فرما اور پھر جب نظر ڈالے گا تو سلطان نصیر دکھائی دینے لگیں گے.ایسے کارکن اُس کے سامنے آئیں گے جو پہلے اُس سے دین کی خدمت میں کوئی مقام نہ بنا سکے.بطور خادمِ دین کے اُن کا شمار نہیں ہوتا لیکن جب پیار اور محبت سے، دعا کے بعد اُن کے سر پر ہاتھ رکھا جائے ، اُن کو کہا جائے ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اللہ کی تحریک کے نتیجہ میں وہ مدد کے لئے تیار ہوتے ہیں اور اس طرح ہر شعبے کی ٹیم بنی شروع ہو جاتی ہے.ایک ہاتھ ایک نہیں رہتا بلکہ اُس کے ساتھ دس پندرہ ، ہیں ایسے مخلصین اکٹھے ہو جاتے ہیں جو اُس کام میں اُس سیکرٹری کے مددگار بن جاتے ہیں.پھر وہ سنبھالتے ہیں مختلف ریجنز بنا کر سنبھالتے ہیں، مختلف علاقوں کو آپس میں تقسیم کر کے یا جو بھی طریقے کار ہو، آپس میں ایک دوسرے کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور مل کر پھر وہ ایک تفصیلی جائزہ تیار کرتے ہیں.جو چارٹوں کی صورت میں اُن کے دفتر کے سامنے آویزاں رہتا ہے.اُن سے جب پوچھو آپ کی جماعت میں تربیتی لحاظ سے نماز کس جگہ ہے؟ تو وہ فوری طور پر بتا سکتے ہیں کہ فلاں علاقے میں نماز کی یہ کیفیت ، فلاں علاقے میں یہ کیفیت ہے، فلاں میں یہ ہے.جب ہم نے چارج لیا تھا تو سو میں سے پچاس یا ستر تھے جو نماز پڑھا کرتے تھے اب اتنے مہینے کی کوششوں سے ہر مہینے میں ہم نظر رکھ رہے ہیں.خدا کے فضل سے پانچ اور دس اور میں اس طرح شامل ہوتے ہوتے اب تقریباً ساری جماعت نماز با جماعت شروع کر چکی ہے.،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 413 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء آپ بے شک پانی گرنے دیں گھبرائیں نہیں اور نہ اُس طرف دیکھیں اب.وہ جو وہاں تماشہ ہورہا ہے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے جو یہاں باتیں آپ سن رہے ہیں ان میں قیمت ہے.اس لئے اصل یہ تربیت ہونی چاہئے آپ کی کہ کچھ بھی ہو جائے جو وہاں کے منتظمین کا کام ہے کہ وہ سنبھالیں.جب چھوٹی سی بات کے اوپر سب گردنیں موڑ موڑ کر ایک واقعہ کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں.ایک آواز پر کان دھرتے ہیں تو کان تو دو ہی ہیں.اچھی آواز کو چھوڑ کر ایک بے معنی آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.یہ جو طریق کا رہے حکمت کا طریق نہیں ہے، مومنانہ طریق نہیں ہے، نظم وضبط پیدا کریں.مجھے یاد ہے ایک واقعہ تاریخ میں پڑھا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ نے ہاتھی کا کھیل دیکھا.ساتھ اس کے اردگرد اس کے سپاہی بھی کھڑے تھے اور ایک راجپوتوں کا دستہ بھی آیا ہوا تھا.مغل بادشاہ کا ہاتھی مست ہو گیا اور وہ مختلف سمتوں میں دوڑنے لگا جب وہ اُس کے اپنے سپاہیوں کی طرف دوڑا تو تتر بتر ہوئے اور گھبرا کے پیچھے ہٹ گئے.جب راجپوتوں کی طرف بڑھا تو اُن میں ایک نے بھی پیچھے قدم نہیں اٹھایا اور تیار تھے کہ جس کے اوپر سے ہاتھی گزر جائے بے شک گزر جائے.اس کیفیت کو دیکھ کر بادشاہ کو یہ سبق ملا فوجی تربیت کے لحاظ سے ہم اس ملک سے ابھی بہت پیچھے ہیں جس کو ہم فتح کر چکے ہیں.پس احمدیوں کو نظم و ضبط اور اعلی کردار کا ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ کوئی بھی افراتفری ہو کوئی واقعہ ہو.جن کا تعلق ہے وہ نظر ڈالیں.باقیوں کو کوئی پروانہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے؟ پس ایک وقتی انحراف کے بعد دوسرے مضمون کی طرف جانا پڑا.اب اصل مضمون کی طرف پھر واپس آتا ہوں.جب تربیت کے متعلق یہ معلوم کر لیا کہ کس مجلس یا کس جماعت میں تربیت کی کیا کیا خرابی ہے؟ تو اکٹھا سارے سال کا پروگرام دینا بے فائدہ ہوتا ہے.اگر آپ سارے سال کا پروگرام ساری جماعتوں کو اکٹھا بھیج دیں گے تو وہاں کے کام کرنے والوں کی اکثر صورتوں میں صلاحیت ہی نہیں ہوگی کہ وہ کام کو جتماعی طور پر سمجھ سکیں اور خود اس کوٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ کر اتنا کام کریں جتنا اُن کی طاقت میں ہے.وہ گھبرا جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے کام ہم نے کرنے ہیں اتنے آدمیوں کو نمازی بنانا ہے، اتنوں کی زبان درست کرنی ہے، اتنوں کے تعلقات ٹھیک کرنے ہیں، اتنے آزاد منش لوگوں کی آوارہ گردیاں ٹھیک کرنی ہے، اتنوں پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 414 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء یہ نظر رکھنی ہے، اتنوں پر وہ نظر رکھنی ہے، اتنے بڑے کام ، ہم نے اور بھی تو کام کرنے ہیں.یہ ردعمل ہوتا ہے جو طبعی نفسیاتی رد عمل ہے جو ہر انسان میں پیدا ہوتا ہے.ان کو پتا نہیں کہ کام کیسے کرنا ہے؟ اس لئے وہ سیکرٹری جس نے ایک ٹیم بنائی ہے، جس نے سلیقے کے ساتھ کام کا تجزیہ کیا ہے؟ اس کا کام یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام معین طور پر مختلف مجالس کے سپر د کرے.ہر مجلس کے سپر دایسا کام کرے کہ جو مجلس والے جانتے ہوں کہ ہمیں دیکھ کر یہ بتا رہا ہے.ان کو محسوس ہو کہ ہم نظر آ رہے ہیں اس وقت.اُن کو پتا ہو کہ فلاں فلاں کمزوری ہمارے اندر پائی جاتی ہے اور ہمیں جو کہا جا رہا ہے کہ اتنے آدمیوں میں سے اتنوں میں یہ کمزوریاں ہیں اس کو دور کرو تو یہ ایک معین پیغام ہے.پھر یہ نہیں کہنا کہ بے نمازیوں کو نمازی بناؤ بلکہ اُس کا سلیقہ بھی سکھانا ہے.یہ بھی بتانا ہے کہ کس طرح یہ کام کرنا ہے اور پھر معین وقت دینا ہے کہ ایک مہینے میں تم محنت کر کے ہمیں اپنے نتیجے سے مطلع کرو.جیسے مثال دے رہا تھا کہ ایک مجلس میں سو میں سے ۷۰ نمازی ہیں اگر.تو اُن سے یہ درخواست کی جائے کہ ایک مہینہ محنت کرو اور ہے کو ۷۵ بناؤ ، ۸۰ بناؤ ۹۰۷ بناؤ جتنی توفیق ہے لیکن معین طور پر پانچ یا چھ یا سات یا آٹھ یا دس ہیں آدمیوں کو پیش نظر رکھ لو.اور اُن کو مختلف انصار یا مختلف خدام یا مختلف ممبرات لجنہ کے سپر د کرو اور اس سپردگی کی ہمیں اطلاع کرو.ہمیں بتاؤ کہ کس بیمار کوکس صحت مند کے سپرد کیا گیا ہے؟، کیا ہدایتیں دی گئی ہیں، کس طرح کام کر رہے ہیں، کس طرح ان کے اندر نیکی کے بیج ڈال رہے ہیں؟ یا اُن کے اندر ولولہ پیدا کر رہے ہیں.جب یہ بات ہوگی تو فورا یہ بھی خیال آئے گا.جب ہم میدان کارزار میں کسی سپاہی کو بھیجتے ہیں تو ہتھیار بھی تو دینے چاہئیں.پھر سیکرٹری کو یہ بھی خیال آئے گا تربیت کے متعلق خصوصاً نماز کی اہمیت سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے ایسے اعلیٰ اقتباسات ہیں.اُن میں سے ایک دو چن کر میں کیوں نہ بھیج دوں.ایسی احادیث نبویہ ہیں جن سے نماز کی غیر معمولی اہمیت انسان پر روشن ہوتی ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے الفاظ سے زیادہ دلوں میں کوئی بات تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی یعنی قرآن کے بعد وہ قرآن کی ہی باتیں ہوا کرتی ہیں تو ان معنوں میں کہہ رہا ہوں کہ قرآن کا پیغام جب صلى الله محمد رسول الله ﷺ پہنچاتے ہیں تو اُس سے زیادہ اثر کسی اور چیز کا نہیں ہوتا.پھر وہ ایسی حدیثوں کو بھی تلاش کریں گے جن میں دلوں میں انقلاب برپا کرنے کی طاقتیں موجود ہیں.وہ سوچیں گے کہ یہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 415 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء حدیثیں لکھ کے دیں لیکن اکٹھی کتا ہیں نہ بھیجیں لمبی مضمون نگار یاں کام نہیں دیا کرتیں.وہ لوگ جو تربیت کے محتاج ہیں لمبی تقریریں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوا کرتا.اس لئے وہ ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں بھجوائیں ، چھپوا کر یا کمپیوٹر میں ڈال کر کاپیاں بنوالیں اور اپنے مقابل کے سیکرٹری تربیت کو یہ سمجھائیں کہ معین طور پر ایسی ٹیم تیار کرو جس کے سپر د ایک ایک آدمی ہو یا کسی میں زیادہ طاقت ہے تو دو دو آدمی ہوں.آئندہ مہینہ وہ جو محنت کریں اُن میں یہ یہ صیحتیں کریں انہیں اس طرح سمجھانے کی جو یہ یہ کوشش کریں اور پھر معین نتیجے سے مطلع کریں.فلاں فلاں شخص نے اللہ کے فضل سے نماز شروع کر دی ہے، فلاں فلاں شخص بدگمانی کرتا تھا اس نے وعدہ کیا ہے کوشش شروع کر دی ہے، فلاں شخص میں یہ کمزوریاں تھیں وہ ان سے باز آ گیا ہے.فلاں میں رجحان تھا کہ گندی مجالس میں جائے ،شراب کی مجلسوں میں بیٹھے ، ان سے بداثر کو قبول کرے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن مجالس سے اس نے اجتناب شروع کر دیا ہے.یہ رپورٹیں ہیں جو حقیقی ہیں جو کوئی معنی رکھتی ہیں.اور ہر مہینے کا کام سپرد کرتے وقت اس آیت کریمہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا اور یہی دعا ہمیں سکھاتا ہے کہ اے خدا! ہم سے ایسا ہی سلوک فرما.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ:۲۸۷) کا اعلان ہے کہ ہرگز خدا کسی جان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اور پھر دعا یہ سکھا دی رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ (البقره: ۲۸۷) اے خدا تو ایسے ہی کیا کرتا ہے مگر پھر بھی ہماری دوبارہ یہ التجا ہے کہ ہم پر ایسے بوجھ نہ ڈالنا جو ہم اٹھا نہ سکیں ، جو ہماری کمر توڑ دیں.تو یہ بنیادی نکات ہیں تربیت کے ان دو آیات میں عظیم الشان قوموں کی اصلاح کے راز بیان فرما دیئے گئے ہیں اور بڑے کاموں کو آسان کرنے کے طریق سکھا دیئے گئے ہیں.پس اُتنا اتنا کام ایک وقت میں کسی مجلس کے کسی عہدیدار کے سپرد کریں جتنا وہ سمیٹ سکتا ہو، سنبھال سکتا ہو، جس کا وہ بوجھ اٹھا سکتا ہو، جس بوجھ کو اٹھا کر وہ منزل تک پہنچا سکتا ہو اور پھر نگرانی رکھیں اس وقت تک اگلے کام نہ دیں جب تک یہ کام نہ ہو جائیں.کہتے چلے جائیں، کہتے چلے جائیں، کہتے چلے جائیں، نہ تھکیں پوچھتے رہیں اور معین پوچھیں کہ فلاں بات میں بتاؤ کیا نتیجہ نکلا ، کوئی بہتری ہوئی کہ نہیں.جب دیکھیں کہ ایک طرف سے بالکل جواب نہیں آرہا تو اُن مشکل لوگوں کو اُن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 416 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء کے کھاتے سے نکال دیں ، اُن کے لئے اور تدبیر سوچیں اور جو دوسرے ہیں جن کی طرف توجہ ابھی نہیں ہوئی اُن میں سے کچھ ان کے سپر د کریں.جب میں کہتا ہوں اصرار کے ساتھ کام کے پیچھے پڑے رہیں.چھوڑنا نہیں تو ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مثبت جواب دے ہی نہیں رہا اُسی کے ساتھ سر ٹکراتے رہیں اور اپنا وقت جو کسی اور جگہ بہتر مصرف میں کام آ سکتا تھا اس کے اوپر ضائع کرتے چلے جائیں بلکہ مراد میری یہ ہے کہ معقول حد تک ایک آدمی کو سمجھائیں اور جب وہ آپ کی طاقت سے باہر دکھائی دے تو اسی اصول کے تابع کہ اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت سے بڑھ کر اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا.آپ اپنے بوجھ کو مقامی سیکرٹری مرکزی سیکرٹری کی طرف منتقل کریں اور کہیں کہ ہم اب ان سے ہاتھ رہے ہیں ہمارے بس کے لوگ نہیں ہیں.آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہے آپ کر لیں اور ہمیں موقع دیں اب ہم اپنی توجہ دوسری طرف پھیریں.اس طرح آپس میں افہام و تفہیم کے ذریعے ایک حصے کو پکڑا اُس کو ٹھیک کیا.دوسرے کی طرف منتقل ہوئے اُس کو سنبھالا ، اس پر وقت صرف کیا.اس بات سے بالکل نہ گھبرائیں کہ نتائج جلدی ظاہر نہیں ہور ہے.نتائج خواہ تھوڑے ظاہر ہوں، معین اور ٹھوس نتائج ظاہر ہونے چاہئیں.وہ لوگ جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے نصیحت کی بڑا اثر ہوا.مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ کتنا اثر ہوا ہے؟ اگر اثر ہوا ہوتا تو اعداد و شمار بتاتے.یہ بتاتے کہ اتنے آدمی یہ تھے اب یہ بن گئے ہیں.یہ کہہ دینا کہ بہت اچھی تقریر ہوگئی ، بہت اثر ہوا.اس سے کیا فائدہ ہوا.ادھر اثر ہوا ادھر مٹ گیا اور جب مجلس سے الگ ہوئے تو بھول بھال گئے کہ کیا سن کے آئے تھے؟ اثر وہ ہوتا ہے جو قائم رہے جسے انسان محفوظ کر لے.اپنے دلوں میں ، اپنے دماغ میں، اپنے اعمال میں، ہمیشہ کے لئے اُن کو سجا کے رکھے، اُن تبدیلیوں کی قدر کرے، خدا سے استقامت مانگے ، اس کو اثر کہتے ہیں.پس یہ اثر تو تفصیلی توجہ سے ہوگا اور مستقل توجہ سے پیدا ہوگا.پس میں امید کرتا ہوں کہ اس طریق پر باقی سیکرٹریاں بھی اپنے اپنے کام کریں لیکن اس کے ساتھ پیدا ہونے والی ضرورتوں کو بھی پیش نظر رکھیں.وہ ضرورتیں کئی قسم کی ہوسکتی ہیں.مثلاً تربیت کے معاملے میں یہ ضرورت پیش ہو سکتی ہے کہ آپ امارت کی طرف یا صدارت کی طرف وہ چند مشکل آدمی منتقل کر دیتے ہیں اُن کا کام یہ نہیں ہے کہ رپورٹ پڑھ کر پھر کہہ دیں کہ اچھا یہ لوگ ہاتھ سے گئے.اُن کا کام یہ ہے کہ جائزہ لیں ان لوگوں پر اور کون کون سے اثر رکھنے والے لوگ ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 417 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء جماعت جرمنی میں اور کون ہیں جن سے ان کا تعلق ہے.پیچھے سے یہ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.کیا ایسے ہیں کہ ان کے ماں باپ کا کوئی اثر ہو جو پیچھے رہ گئے ہوں یا اور رشتہ داروں کا کوئی اثر ہو.کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو براہ راست ان کو اگر خلیفہ وقت کی طرف سے یا اُس کے کسی نمائندے کی طرف سے چٹھی جائے تو طبیعت میں شرمندگی پیدا ہو اور زیادہ توجہ کرے.تو اس تمام جائزے کے بعد ایک نیا لائحہ عمل اُن کے لئے تیار ہو گا.اس لائحہ عمل کی روشنی میں بھاری امید ہے کہ کچھ اور لوگ جو پہلے اثر کو قبول نہیں کرتے تھے.نیک اثر کو قبول کریں گے ، پاک تبدیلیاں دکھائیں گے، یہ اتنا وسیع کام ہے اور اتنی مسلسل محنت چاہتا ہے کہ کوئی سیکرٹری تصور کر لے کہ میرا کام ہے کیا؟ مجھ پر کیا ذمہ داری ہے؟ تو اگر وہ دعا پر ایمان نہ رکھتا ہو، اللہ کی مد پر تو کل نہ کرتا ہوتو وہ سمجھے گا کہ میں اس لائق ہی نہیں کہ میں اس کام کو سرانجام دے سکوں.وہ سمجھے گا کہ میرا دیانت دارانہ فرض یہ ہے کہ استعفیٰ دے دوں ، یہ کام میرے بس سے باہر ہے.لیکن یا درکھیں کہ کام آپ کے بس سے باہر نہیں ہے.وہی اصول جو میں نے بیان کیا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اے جماعت احمدیہ ! تمام دنیا کے انسانوں کو تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا ڈالنا ہے اور یہ کام تمہارے بس میں ہے اگر تمہارے بس میں نہ ہوتا تو میں تمہارے سپرد نہ کرتا.تم آخرین کی وہ جماعت ہو جن سے تمام دنیا کی امیدیں وابستہ کر دی گئی ہیں.میں جانتا ہوں کہ تم میں کیا صلاحیتیں ہیں؟ اور اگر تم اُن صلاحیتوں کو بروئے کارلاؤ ، دعاؤں سے کام لو، حکمت اور تدبیر سے کام لو تو یہ کام تمہارے بس میں ہے.اس یقین کے ساتھ تم نے آگے قدم بڑھانا ہے اور اس یقین کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں.حکمت کے ساتھ ، آنکھیں کھول کر ، ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے اُن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنا ہے اور جیسا کہ میں نے بار بار بیان کیا ہے.دعا کے بغیر حقیقت میں کسی قدم میں بھی برکت نہیں پڑ سکتی.پس لاز مأساتھ ساتھ ہر عہد یدار کو اپنے لئے بھی دعا کرنا ہوگی اور جن نائین سے اُس نے کام لینا ہے اُن کے لئے بھی دعائیں کرنی ہوں گی.اب دیکھئے کہ ایک شعبہ ہے اصلاح وارشاد کا یا دعوت الی اللہ کا.اُس شعبے میں بہت کام کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 418 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء ضرورت ہے اور اب تک بھاری تعداد احباب جماعت جرمنی کی اور خواتین جرمنی کی ایسی ہے جن کو دعوت الی اللہ کا سلیقہ ہی معلوم نہیں.ان کو پتا ہی نہیں کہ دعوت الی اللہ کس طرح کرتے ہیں؟ اور اُس لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟ دعوت الی اللہ کے لئے جو شخصیت میں جذب چاہئے، قوت جاذ بہ چاہئے ، دعوت الی اللہ کے لئے شخصیت میں جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی علامتیں ہونی چاہئیں.دعوت الی اللہ کے لئے بات بیان کرنے کا جو سلیقہ چاہئے ، دعوت الی اللہ کے لئے اس شخص کی زبان سے واقفیت جس کو آپ دعوت کر رہے ہیں، اُس کی جو ضرورت ہے.دعوت الی اللہ کے لئے جس صبر کی ضرورت ہے، جس حکمت کی ضرورت ہے، یہ ایک بہت وسیع کارخانہ ہے اور ہر انسان میں مختلف صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہو گا اور اُن کے اوپر کاٹھی ڈالنی ہو گی اُن صلاحیتوں کو آنحضرت مے کے پیغام کے لئے مسخر کرنا ہوگا.اتنا بڑا کام سیکرٹری دعوت الی اللہ کا ہے لیکن جب اُس سے پوچھا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اُس کو یہ بھی نہیں پتا کہ اب تک جماعت احمد یہ اس ضمن میں کیا لٹریچر شائع کر چکی ہے اور کیا کیا چیزیں اُس کے کام کی موجود ہیں جن سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہا.کام کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سے بھی اُس کو پوری واقفیت نہیں ہوتی اور یہ جائزہ ہی نہیں لیتا کہ ہر مجلس، ہر جماعت میں معین طور پر کون کون ہے جو دعوت الی اللہ کر رہا ہے اور کن کن کو پیغام پہنچا رہا ہے.اُس میں اپنی صلاحیتیں کیا ہیں؟ اُس کے پاس مناسب لٹریچر بھی ہے کہ نہیں ؟ اور اگر نہیں ہے تو کس نے اُس کو مہیا کرنا ہے یہ سارے سوالات ایسے ہیں جن کا کوئی جواب لوگوں کو پتا نہیں ہوتا اور عہدے سنبھالے ہوئے ہیں اپنی شان کی خاطر نہیں ، خدمت کی خاطر.اُن کی نیتوں پر حملہ نہیں کرتا.اکثر وہ ہیں جو اخلاص کے ساتھ ذمہ داری سے یہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن یہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت اُن میں اس لئے موجود نہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو بیدار نہیں کر سکے ، صلاحیتیں تو ہیں لیکن صلاحیتوں کو پہچان نہیں سکے.ان صلاحیتوں کو خود اپنی ذات میں مسخر نہیں کر سکے.پس وہ ساری صلاحیتیں جو خوابیدہ صورت میں آپ کے اندر پائی جاتی ہیں اُن کو بیدار کرنا ہو تو دعا اور حکمت کے ساتھ ، محنت کے ساتھ ایک ایک صلاحیت کو بیدار کرنا ہوگا اور وہ ٹیم مؤثر طور پر بنانی ہوگی جو دن بدن پھیلتی چلی جائے.اس وقت جو آثار مجھے دکھائی رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت جلد جلداب عظیم انقلابات جماعت کے حق میں رونما ہونے والے ہیں، بہت جلد جلد بہت بڑی بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 419 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء تبدیلیاں پیدا ہونے والی ہیں، تو میں فوج در فوج انشاء اللہ نظام جماعت احمدیہ میں اور اس نظام کے رستے سے اسلام میں داخل ہوں گی اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں سر رکھنے کے صلى الله لئے والہانہ طور پر آگے بڑھیں گی کیونکہ ساری برکتیں محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے ہیں.یہ وہ قدم ہیں جس سر پر پڑیں اُس سر کے لئے سب سے بڑی سعادت ہو سکتے ہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو اس میں ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں ہے.پس میں ایسے حالات دیکھ رہا ہوں ، ایسی تبدیلیاں دنیا میں دیکھ رہا ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ اب قومیں جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والی ہیں اور جب میں دیکھتا ہوں تو اُس کے مقابل پر جو ہم نے تیاریاں کی ہیں اُن پر نظر پڑتی ہے تو میں لرز اٹھتا ہوں مجھے اپنی کمزوری کا احساس ہوتا ہے ، اُس ذمہ داری کے تصور سے میں کانپ اٹھتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے میرے عاجز کندھوں پر ڈالی ہے، میں اُس سے دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے توفیق بخش مجھے ہرگز یہ طاقت نہیں لیکن تو کل رکھتا ہوں، یقین کرتا ہوں اگر تو نے مجھ پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے تو درست ڈالی ہوگی لیکن میں اپنے نفس پر خود غالب نہیں آسکا، میں خود کمزور ہوں، مجھے خود اپنی صلاحیتوں کو تیرے حضور مسخر کرنے کا طریقہ معلوم نہیں.تو میری نصرت فرما اپنی جناب سے تو سلطان نصیر عطا فرما.پس ساری جماعت کو اس طرح بیدار کر دے، اس طرح ولولے اُن کے دلوں میں پیدا کر دے کہ ارتعاش پیدا ہو جائے.یہ عظیم پانی جو سب دنیا میں جگہ جگہ جھیلوں کی صورت میں موجود ہے، بحرمواج کی صورت میں موجیں مارنے لگے اور عظیم انقلاب دنیا میں برپا کرنے کا موجب بنے.اس وقت انقلابات کے آثار بڑی تیزی سے ظاہر ہورہے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ عنقریب انشاء اللہ لاکھوں کی تعداد میں ہر سال جماعت میں لوگ داخل ہوں گے ، اُن کو سنبھالنا کیسے ہے؟ اُن کی تربیتی ضرورتوں کو کیسے پورا کرنا ہے؟ اُن کو باخدا کیسے بنانا ہے؟ یہ وہ کام ہیں جو سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کے لئے پینج بنے ہوئے ہیں اور جب تک ہر فرد کی ہم تربیت نہ کریں اُس وقت تک اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکتے.ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ ایک ایک آدمی کے سپر د آنے والوں میں سے اگر سوسو بھی کئے جائیں تب بھی یہ نسبت شائد کم ہو اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے.پس آنے والوں کی تربیت کے لئے اپنے نفوس کو تیار کریں ، اپنے گھر صاف کریں، اپنے گھروں کو صفات الہی اور ذکر الہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 420 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء سے سجائیں اور ہر شخص اپنا جائزہ لے کہ مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں جن آنے والوں کو میں نے سنبھالنا ہے، جن کی میں نے تربیت کرنی ہے.جن کو آگے نشو و نما کے طریق سکھانے ہیں، جن کو بڑھنا، پھولنا اور پھلنا بتانا ہے کہ کیسے ہوا کرتا ہے؟ مجھے اگر یہ باتیں معلوم نہیں ہوں گی تو یہ میں کیسے کروں گا ؟ اپنے گھر پر نظر رکھے، ان نسلوں پر نظر رکھے ، جو وہ آگے بھیجنے والا ہے تا کہ آئندہ نسلوں کی ضرورتیں بھی اسی گھر سے پوری ہوں یہ وہ کام ہیں جن کا تصور کر کے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ وہ کام ہے جس میں مجالس نے ہی سلطان نصیر بن کر میری مدد کرنی ہے اور ساری مجالس دراصل جماعت ہی ہے.اگر جماعت من حیث الجماعت اُن ذمہ داریوں کو پورا کرے جن کی طرف میں نے نشاندہی کی ہے.اس سلیقے سے کام کریں جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے تو وہ کام جو آپ کو مشکل دکھائی دیتے ہیں.آسان ہونے شروع ہو جائیں گے، دن بدن آسان سے آسان تر ہوتے چلے جائیں گے میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ ایک کام جو اچانک لگتا ہے کہ سر پر پہاڑ آ پڑا ہے اور ایک نہیں دوتین مختلف سمتوں سے بعض پہاڑ لگتے ہیں ، سر پر آپڑنے کے لئے تیار.جب دعا کرتا ہوں اور عاجزی سے خدا کے حضور اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہوں تو وہ سارے پہاڑ روئی کے دھنکے ہوئے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جن کا کوئی وزن نہیں.خود بخود ہلکے ہو جاتے ہیں اللہ کے فرشتے ان کو اٹھاتے ہیں اور سارے کام سلیقے سے خود بخود ہونے لگتے ہیں.ساری دنیا میں جو نظام جماعت از خود پانی کی طرح بہہ رہا ہے خاموشی سے جاری وساری ہے.وہ نظام کی خوبیاں جو آپ جماعت جرمنی میں ملاحظہ کر رہے ہیں، جماعت یو کے میں ملاحظہ کر رہے ہیں، یونائیٹڈ سٹیٹس میں ملاحظہ کر رہے ہیں جو کینیڈا میں ملاحظہ کر رہے ہیں، جو پاکستان اور بنگلہ دیش اور برما اور دیگر ممالک میں اور جاپان وغیرہ میں ملاحظہ کر رہے ہیں.یہ محض اللہ کا احسان ہے، خدا کا فضل ہے ، دعاؤں کے نتیجے میں کاموں کو آسان کر کے جاری فرما دیتا ہے اور جاری کام یوں لگتا ہے کہ از خود چل رہے ہیں حالانکہ خدا کے فرشتے اُن کے پیچھے لگے ہوتے ہیں ، خدا کے فرشتے اُن کو جاری و ساری رکھنے کے ذمہ دار بن جاتے ہیں.پس اس طرح اگر آپ دعائیں کر کے سلیقے سے اپنے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے درخت وجود کو بے انتہا برکتوں والے پھل لگیں گے.ہر سال کثرت کے ساتھ آپ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 421 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء میں اللہ کا تقویٰ رکھنے والے ایسے بزرگ اولیاء پیدا ہونے لگیں گے جن کی دعائیں جماعت کے لئے مزید مددگار بنیں گی ، جن کے وجود خدا نما ہو جائیں گے.جن کو دیکھنا صداقت کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا.اُن کی نیکی کی برکت سے آپ کو بہت سے پھل لگیں گے جن سے آج آپ محروم ہیں.پس سارا زور اس بات پر دیں کہ متقی اللہ سے تعلق رکھنے والے انسان پیدا کریں اور یہ پیدا کرنا بہت محنت چاہتا ہے، بہت صبر چاہتا ہے، سلیقہ چاہتا ہے، دعاؤں کا تقاضا کرتا ہے، محنت کے ساتھ ایک ایک کر کے کام کرنا شروع کریں اگر آپ مہینے میں ایک آدمی کو بہتر انسان بنا دیتے ہیں، اگر اُس کی کمزوریاں دور کرتے ہیں، اُس کے لئے خیرات اور نیکیوں کی دعائیں کرتے ہیں اور ہر کمزوری کے بجائے ایک خوبی اُس کے دل میں سجا دیتے ہیں.تو سمجھیں کہ آپ نے نجات پالی.آپ خدا کے حضور نجات یافتہ شمار کئے جائیں گے لیکن ایک نہیں ، دو نہیں آپ نے تو لاکھوں کو تبدیل کرنا ہے، اُن لاکھوں نے پھر کروڑوں، اربوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.یہ وہ بڑا کام ہے جو اس صدی کے آغاز میں ہم نے اس سلیقے سے کرنا ہے کہ آنے والی صدی ہمیں نمونے کے طور پر دیکھے اور ہمارے بتائے ہوئے رستوں پر ہماری چال کے ساتھ ، ہماری اداؤں کے ساتھ چلے اور ہر چلنے والا عملاً آپ کو دعائیں دے رہا ہو.جنہوں نے پہلے آکر ان کو چلنے کے سلیقے سکھائے.یہی وہ مضمون ہے جو درود شریف میں دراصل کار فرما ہے.حضرت اقدس محمد رسول الله الا اللہ کے لئے جب بھی ہم دل کی گہرائیوں سے درود پڑھتے ہیں تو اس درود کا تعلق کسی ایسی نیکی سے ہوتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے نتیجے میں آپ کو عطا ہوتی ہے.اگر اس درود کا تعلق کسی نیکی سے نہ ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ درود محض منہ کی باتیں ہیں کوئی حقیقت نہیں.سارا دن کوئی درو در شمار ہے اگر جذ بہ احسان کے ساتھ یہ درود زبان سے نہ اٹھے اگر اس کا تعلق آنحضرت ﷺ کے کسی ایسے احسان کے ساتھ نہ ہو جو حسن بن کر اُس کی ذات میں جاری ہو گیا ہو.تو یہ درود ایک فرضی بات ہے اور یہی وہ درود ہے جو آپ کے لئے آگے آنے والی نسلیں پڑھا کریں گی اگر آپ حضرت اقدس محمد رسول اللہ الا اللہ کے احسانات پر نظر رکھتے ہوئے اپنی ذات پر اُن کو جاری کرتے ہوئے ، محسوس کرتے ہوئے یہ دیکھ کر کہ اُس ازلی و ابدی آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہمیں بطور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 422 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء احسان ہمیں نیکی ملی ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم میں یہ بات نہ ہوتی.پھر درود پڑھیں گے تو وہ درود ایسا درود ہوگا جو آپ کی ذات میں آئندہ جاری ہو جائے گا.آپ کی نیکیاں اسی طرح اگلی آنے والی نسلیں دیکھیں گی اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے طفیل جو پاک تبدیلیاں کرنے کی صلاحیتیں آپ کو عطا ہوئی ہیں.تبدیلیاں جب جہاں بھی کہیں بھی دنیا میں واقع ہوں گی.وہ تبدیلیاں اُن تبدیلیوں کا فیض پانے والا خواہ زبان سے کہے یا نہ کہے.عملاً اس کے اعمال آپ پر درود بھیج رہے ہوں گے.پس یہ وہ کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں بوجھل سہی ، بھاری سہی مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر دعائیں کرتے ہوئے عجز و انکساری کے ساتھ ،حوصلہ اور توکل رکھتے ہوئے بڑے سے بڑے کام پر بھی آپ ہاتھ ڈالیں گے تو آسان کر دیا جائے گا.حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو بتایا تھا تم میرے کاموں پر تعجب کرتے ہو مگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر رائی کے برابر بھی تم میں ایمان ہو تم پہاڑوں کو اپنی طرف بلاؤ گے تو دیکھو گے پہاڑ تمہاری طرف چلے آتے ہیں.مسیح کی قوم اُن پہاڑوں کو اپنی طرف بلانے میں ناکام رہی.اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! اے عاشق محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! تم آپ کے بھیجے ہوئے آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے ہوئے مسیح کی غلامی کا دعوی کرتے ہو خدا کی قسم اگر تم تو کل رکھتے ہوئے اور ایمان کے جذبے کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے پہاڑوں کو اپنی طرف بلاؤ گے تو ضرور پہاڑ تمہاری طرف آئیں گے.تم دنیا میں عظیم انقلاب بر پا کر سکتے ہو.تم بڑی سی بڑی روکوں کو خاک کی طرح رستوں سے اڑا سکتے ہو لیکن اپنی صلاحیتوں کو پہچانو.جانو کہ تم کون ہو؟ کن سے وابستگی سے تم کو طاقت نصیب ہوگی.کس سلیقے اور حکمت کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے ہوں گے ایسا کرو گے تو تمہارے کام آسان ہو جائیں گے، تمہارے کام بوجھل محسوس نہیں ہوں گے.ایسے کام جو دعا کے ساتھ ، تو کل کے ساتھ اللہ اور رسول کی محبت میں کئے جاتے ہیں، وہ بوجھ نہیں بنا کرتے ، بوجھ محسوس ہوتے ہیں اُن لوگوں کو جو باہر سے دیکھتے ہیں، جو وہ کام کرتے ہیں اُن کے لئے کام آسان ہوتے چلے جاتے ہیں.وہ سارا دن کام کرتے ہیں اور نہیں تھکتے ، دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کیوں نہیں تھکتے.اس لئے کہ وہ کام اپنی ذات میں لمحہ بہ لمحہ اُن کو جزا دے رہے ہوتے ہیں، اُن کو طاقت بخش رہے ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 423 خطبه جمعه ۲۸ رمئی ۱۹۹۳ء پس میں جب کاموں کی تفصیل بیان کرتا ہوں تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں.میں تجربے سے آپ کو بتا تا ہوں کہ دعا اور حکمت اور سلیقے کے ساتھ آپ ہر جگہ اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کریں گے تو مشکل سے مشکل کام بھی آپ کے لئے آسان کر دیئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے اور آپ کی وساطت سے یہ پیغام تمام دنیا کی جماعتوں اور مجالس کو پہنچ رہا ہے جن جن کانوں تک یہ آواز جائے دوسروں سے سننے والوں سے سنیں اُن کو میں خدا اور محمد مصطفی ﷺ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ ان باتوں کو ضائع نہ کریں اپنے پلے باندھیں.ان پر عمل شروع کریں اور دعا کرتے ہوئے آگے قدم بڑھا ئیں.بہت سے پھل ہیں جو آپ کا انتظار کر رہے ہیں.خدا کی رحمت نے اُن کو پکا دیا ہے.آپ نے جھولیاں آگے کرنی ہیں وہ پھل ٹوٹ ٹوٹ کر آپ کی جھولیوں میں گریں گے.جھولیاں تو آگے کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو تو فیق عطا فرمائے.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ دعا ہے.ہاں میں بھول گیا تھا.یہ افتتاح کے مضمون کی وجہ سے مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ خطبہ ہو رہا ہے آج ، اور خطبہ ثانیہ بھی ہوگا.اس لئے کسی اور دعا کی ضرورت نہیں.خطبہ کے بعد نماز جمعہ ہو گی اُس میں انشاء اللہ تعالیٰ سب دعائیں ہو جائیں گی.
424 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 425 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء جو معافی مانگنا بھی جانتا ہو اور دینا بھی ، خدا اس سے مغفرت کا سلوک فرماتا ہے.بخشش کے مضمون کی وضاحت پھر فرمایا:.( خطبه جمعه فرموده ۴ جون ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَانِيْبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوالَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ (سورة الزمر : ۵۵،۵۴) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مخاطب یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ تو کہہ دے اے وہ میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہیں اور زیادتیاں کی ہیں.لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا.اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے.اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ یقینا وہ بہت ہی مغفرت فرمانے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہر گناہ کو لازماً بخشا ہے.مراد یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمام گناہ بخش سکتا ہے اور جس کے حق میں چاہے یہ فیصلہ فرمائے.وَانِيبُوا إِلى رَبِّكُم اور اپنے رب کی طرف جھکو اور اپنے رب کی طرف لوٹو.وَأَسْلِمُوالَهُ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 426 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء اور اپنے آپ کو اس کے سپر د کر دو ، اپنے آپ کو کلیہ اللہ کے سپرد کر دو.مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ اس سے پہلے کہ وہ عذاب تمہارے پاس آ جائے جو گناہوں کی شامت اعمال کے طور پر آیا کرتا ہے.ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ پھر تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد نہ دی جائے یا پھر تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد نہ دی جائے گی.کل ہی میں ہالینڈ اور جرمنی کے دورہ سے واپس آیا ہوں.اس سفر کی غرض خصوصیت کے ساتھ جرمنی کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شرکت تھی اور اس کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ نے اور بھی دلچسپ پروگرام بنا رکھے تھے.جن میں سے خصوصیت سے Bosnians کواکٹھا کر کےان کے ساتھ جماعت کا تعارف اور ان کے مسائل کے حل سے متعلق ان کی مدد کرنا شامل تھا.اس پروگرام پر خدام نے اتنی محنت کی کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جو تو قع تھی اس سے تقریبا دگنی تعداد میں بوسنین وہاں اکٹھے ہوئے یعنی دو ہزار کا اندازہ مجھے بتایا گیا تھا لیکن تقریباً ۴ ہزار بوسنین کو فرینکفرٹ کے اردگرد کے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے علاقے سے لے کر آئے.ان میں سے بعض کے ساتھ انفرادی طور پر بھی ملنے کا موقع ملا اجتماعی طور پر بھی ان کے ساتھ گفتگو ہوئی ،سوال و جواب کی مجلس ہوئی ، ان کے مسائل کو زیادہ بہتر سمجھنے کی توفیق ملی اور ان کو مطلع کیا کہ ہم تمام دنیا میں آپ کے لئے کیا کر رہے ہیں.تو یہ ایک بہت ہی دلچسپ پروگرام تھا.اس کے علاوہ دو بلکہ تین مجالس سوال و جواب تھیں.دو تو اردو میں تھیں اور وہ زیادہ تر خدام سے تعلق رکھتی تھیں.یعنی خدام یا ان کے دوستوں کو موقع تھا کہ وہ جو چاہیں سوال کریں اور ایک بڑی وسیع مجلس تھی جس میں غیر مسلم اور غیر احمدی مسلمان بلائے گئے تھے.یہ مجلس بھی اپنی نوعیت کی مجلس تھی اور جرمنی میں ہونے والی مجالس میں سب سے بڑی تھی اور پہلے تین ، چار سو تک مہمان آیا کرتے تھے.لیکن اس میں خدا کے فضل سے ہزار سے زیادہ مہمان شامل ہوئے اور اس کے معا بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 73 مدعوئین کو بیعت کی توفیق ملی اور اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا.چنانچہ دوسرے دن پھر عربوں کے ساتھ ایک مختصر مجلس منعقد کی گئی اس میں جرمن اور دوسرے ترکی دوست بھی تھے لیکن زیادہ تر عرب مخاطب رہے کیونکہ وہی سوال کرتے رہے اور اس کے نتیجہ میں پھر 7 عربوں نے اور غالباً ایک دو بیچ میں ترک بھی شامل تھے جنہوں نے اسی رات بیعت کی اور پھر بعد میں اور بیعتیں وصول ہونی شروع ہوئیں یہاں تک کہ اس اجتماع کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 427 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء آخری دن جو اطلاع مجھے ملی وہ یہ تھی کہ بیعتیں خدا کے فضل سے 99 تک پہنچ چکی ہیں اور بعد میں پھر یہ اطلاع بھی ملی کہ اس سے بھی بڑھ گئی ہیں.تو اللہ کا بہت فضل رہا اس پہلو سے یہ اجتماع بہت ہی کامیاب تھا.صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ اور ان کے ساتھیوں نے بے حد محنت کی ہے اور لمبے عرصہ تک مسلسل انتھک محنت کے بعد خدا تعالیٰ نے اس اجتماع کو وہ رنگ لگائے کیونکہ محنت انسان کرتا ہے لیکن رنگ خدا ہی لگاتا ہے کہ ایک بہار کا سا منظر تھا، بہت ہی کامیاب اجتماع ہوا ہے.اس کے ساتھ کبڈی کا ایک میچ بھی رکھا گیا تھا.ایک نہیں کئی میچ تھے لیکن ایک میچ کو سیٹلائٹ کے ذریعہ عالمی طور پر دکھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا.اس سلسلہ میں بھی ایک دو باتیں میں بعد میں آپ کے سامنے رکھوں گا.ہر اجتماع کے وقت یا ہر جلسے کے وقت ایک مستقل ذمہ داری یہ ہے کہ احباب جماعت سے ملاقاتیں کی جائیں، خاندانوں سے بھی ملاقاتیں ہوں اور بعض انفرادی ملاقاتیں بھی ہوں.جہاں تک میرا تجربہ ہے یہ کام سب کاموں میں سب سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ جن لوگوں کی ملاقاتوں کی خواہش ہے اور ان کو مجبوراً وقت نہیں دیا جا سکتا ( یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ فیصلہ ہوتا ہے ) تو پھر بسا اوقات ان کی طرف سے شکوؤں کے خطوط بھی ملتے ہیں جو بجا ہوتے ہیں کہ اتنی دیر سے ہم ملاقات نہیں کر سکے تھے اور اب یہ تمنا لے کر آئے تھے.بعد میں پھر وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ باتیں کرتے تھے، اس طرح خوش تھے اور آپ نے تو ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا.پس ملاقات کی ایک مشکل تو یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ سب کی خواہش کو پورا کیا جا سکے.خصوصاً جہاں جرمنی جیسی جماعت ہو، خدا کے فضل سے یوں لگتا تھا جیسے ربوہ کا چھوٹا اجتماع ہورہا ہو اور پھر سب میں غیر معمولی جوش ، سب میں بہت تمنا کہ ذاتی ملاقات ہو سکے، ساتھ تصویر میں کھجوائی جائیں.ایسے مواقع پر بہت کم لوگوں کی خواہش پوری کی جاتی ہے اور بہت زیادہ تعداد میں امیدوں پر پانی پھیرنا پڑتا ہے لیکن بے اختیاری ہے مگر اس بے اختیاری کے باوجود تکلیف رہتی ہے کیونکہ ایک انسان جس کی خواہش پوری نہ ہو سکے وہ اس وجہ سے تو خوش نہیں ہو جاتا کہ بے اختیاری تھی.بے اختیاری اپنی جگہ اور تکلیف اپنی جگہ، یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں.اس میں مشکل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اکثر ملاقاتوں کے دوران بعض لوگوں کے تکلیف دہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 428 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء حالات کا علم ہوتا ہے، بعض صدمات کا علم ہوتا ہے بعض خاندانوں میں چپقلشیں ہیں.بعض بچیاں اپنے سرال کے ظلم وستم کا ذکر کرتی ہیں بعض بڑے اپنے دامادوں یا بہوؤں کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اگر چہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یکطرفہ باتوں کو قبول کر کے دوسرے فریق سے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کی جائے لیکن یہ بھی ناممکن ہے کہ طبیعت کو ملال نہ پہنچے.یہ ایک طبعی بات ہے اور بہت گہرا طبیعت پر اثر پڑتا ہے، پھر بعض لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں اور ان کے جذبات کے مقابل پر انسان کی ایک قسم کی بے بسی ہوتی ہے، پھر بعض بچے اپنے پیار اور محبت کا خاص طریق پر اظہار کرتے ہیں.غرضیکہ جتنے بھی جماعتی پروگرام ہیں ان میں لمبی سے لمبی تقریر کے مقابل پر تھوڑی ملاقاتوں کا بھی زیادہ نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے لیکن یہ نظام جماعت کا ایک ایسا حصہ بن گیا ہے جس کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اس کے جذباتی دباؤ یا نفسیاتی تکلیف ایک طرف لیکن فوائد بہت زیادہ ہیں اور ایسی ملاقاتوں کے درمیان بہت سی دلچسپ باتیں بھی پتا چلتی ہیں.بعض لطائف بھی علم میں آتے ہیں بچوں کی معصوم بھولی بھالی باتیں بتائی جاتی ہیں اور بعض لوگ ایک ایسی خاص خواہش کے پیش نظر ملاقات کرتے ہیں جس کی طرف خواب و خیال میں بھی ذہن نہیں جاسکتا اور جب بتاتے ہیں تو ہنسی بھی آتی ہے اور حیرت بھی اور پھر بعض دفعہ اسی میں سے عرفان کا ایک نکتہ بھی ہاتھ آجاتا ہے.مثلاً اسی دفعہ جرمنی کی ملاقات میں ایک صاحب نے جو بہت مدت سے ملاقات نہیں کر سکے تھے.غالبار بوہ سے آنے کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی ، مجھے کہا کہ ایک بات کرنے کی خواہش تھی لیکن دس بارہ سال ہو گئے ہیں، وہ خواہش دل میں لے کر بیٹھا ہوا ہوں اور ملاقات ہی نہیں ہورہی تھی.اب خدا نے موقع دیا ہے تو میں اب اپنے دل کا بوجھ اتارتا ہوں.میں نے کہا وہ کیا بات ہے.کوئی بہت ہی بڑی اہم بات ہو گی تو انہوں نے کہا آپ کو یاد ہے جب آپ شام کے وقت سائیکل پر آیا کرتے تھے اور اپنے باغ میں جایا کرتے تھے.ایک دفعہ جب آپ آئے تو میں آپ کے باغ میں سے گنڈ وئے نکال رہا تھا تو آپ نے کہا کہ تم کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا کہ میں تو گنڈوئے نکالنے آیا ہوں لیکن جب آپ چلے گئے تو میں نے کہا جب گنڈ وئے نکالے ہیں تو ساتھ ہی آپ کے تالاب کی مچھلیاں بھی نکال لوں اور پھر دو مچھلیاں بھی نکال کر لے گیا.اس کے بعد پھر آپ خلیفہ بن گئے تو پھر میں اتنا شرمندہ ہوا.گویا کہ خلیفہ نہ ہوتا تو چوری جائز تھی.اس وقت تک تکلیف نہیں ہوئی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 429 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء لیکن جب بن گئے تو پھر میں بہت بے چین ہوا.میں نے کہا یہ میں کیا حرکت کر بیٹھا ؟ اب ملاقات ہو گی تو معافی مانگوں گا.میں نے ان سے کہا کہ یہ تو کوئی ایسی بات ہی نہیں.ہماری مچھلیاں تو اکثر لوگ ہی کھاتے تھے.مجھے تو کبھی کبھی ملتی تھی تو کوئی ایسی بات نہیں لیکن آپ کی بات مجھے بڑی اچھی لگی ہے کہ آپ نے یہ بوجھ دل میں رکھا اور جب تک معافی نہ مانگی آپ کو سکون نہیں ملا.ضمناً میں یہ بھی بتادوں کہ اس وقت ربوہ اور احمد نگر کے لوگ بھی غالباً خطبہ سن رہے ہوں گے کہیں وہ باغ میں گنڈوئے نکالنے نہ چلے جائیں کیونکہ میاں مسرور صاحب نے بڑی محنت سے دوبارہ مچھلیاں ٹھیک کی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ لوگ ان کو بڑا ہونے دیں گے.خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہے لیکن اس دوران مجھے خیال آیا کہ بعض دفعہ ایک انسان کا بالکل چھوٹا سا معمولی سا گناہ کرتا ہے اور جہاں تعلق بڑھ جاتا ہے وہاں گناہ کا وہ بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے.اب یہی وہ نوجوان تھے کہ جب تک میں خلیفہ نہیں ہوا وہ دو مچھلیاں بوجھ نہیں بنیں لیکن خلیفہ بننے کے بعد وہ بوجھ بن گئیں اور بوجھ بڑھتا چلا گیا.تو انسان کیسا نادان ہے کہ انسانی تعلقات میں تو معمولی معمولی غفلتوں پر بھی جب تک معافی نہ مانگ لے، دل پر بوجھ رہتا ہے مگر خدا کے مقابل پر اتنی غلطیاں کرتا ہے اور بار ہا کرتا چلا جاتا ہے کہ اس کا اس کے دل پر کوئی بوجھ نہیں رہتا.وہ سمجھتا ہے کہ غلطیاں کیں تو چلو چھٹی ہوئی.پھر سہی خدا بخش دے گا.یہ بخش دے گا کا جو فقرہ ہے یہ ایک گستاخی بھی ہے.یہ محض حسن ظن نہیں ہے اور قرآن کریم نے ان معنوں میں ان گناہ گاروں کا ذکر کیا ہے جو خدا تعالیٰ کے متعلق تخفیف کی وجہ سے یہ فقرہ کہتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں.چنانچہ یہود کے متعلق یہ ذکر ملتا ہے کہ وہ ایسے بدنصیب لوگ تھے کہ گناہ کرتے تھے اور کہتے تھے سَيُغْفَرُ لَنَا (الاعراف:۱۷۰) ہمیں بخش دیا جائے گا تو خدا سے بخشش کی امید رکھنا ایک معجز کو چاہتا ہے، ایک انکساری کو چاہتا ہے جیسا کہ میں نے آیت کریمہ آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے.خدا تعالیٰ ہر گناہ بخش سکتا ہے جب چاہے اور جس کے لئے چاہے لیکن ان کو نہیں بخشا جن کے ہاں ایک تکبر یا بے نیازی پائی جاتی ہو.جب لوگ خدا تعالیٰ کے مقابل پر تکبر اختیار کریں یا بے نیازی سے گناہ کریں اور ان کے دل پر بوجھ نہ پڑے تو پھر ان کا یہ کہنا کہ بخش دیئے جائیں گے یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ ایسے فقرے سے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 430 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء کھلم کھلا ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اس لئے یہ درست ہے کہ انسانوں سے معافی مانگنے میں ہمیں ضرور جلدی کرنی چاہئے اور پہل کرنی چاہئے لیکن خدا تعالیٰ سے معافی کی طرف بھی نظر رہنی چاہئے اور زیادہ نظر رہنی چاہئے.سب سے بڑا محسن وہ ہے لیکن پھر ہم کیوں اس سے غافل ہوتے ہیں؟ یہ نکتہ بھی مجھے اس ملاقات سے سمجھ میں آیا.جب تک میں خلیفہ نہیں بنا اس وقت تک یہ گناہ دل پر بوجھ نہیں تھا کیونکہ میرا کوئی احترام دل میں نہیں تھا لیکن جب خلیفہ بنا اور تعلق احترام میں تبدیل ہو گیا تو وہ چھوٹی سی غلطی بہت بڑا بوجھ بن گئی.تو اللہ تعالیٰ کا اگر احترام ہو ، اس کی قدر دل میں ہو تو گناہ بھی بہت بوجھ بن جایا کرتے ہیں.معرفت کا یہ نکتہ حقیقت میں ہمیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت سے پتا چلتا ہے کیونکہ یہ سوچتے ہوئے اچانک میرا ذہن حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منتقل ہوا کہ آپ کیوں استغفار کیا کرتے تھے ؟ ایک معنی تو وہ ہے جو معروف ہے ہر نبی بجز اور انکساری میں استغفار کرتا ہے اور بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں بھی استغفار کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس واقعہ سے مجھے ایک اور بات سمجھ آئی کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا احترام اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو عام انسان کے ذہن میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اور ان کو گناہ قرار دیا ہی نہیں جاسکتا لیکن جب نبی کے نقطۂ نظر سے انہیں دیکھا جائے تو خدا کی محبت اور اس کے احترام کے نتیجہ میں وہ معمولی سی لغزش جو ہمارے اعمال کے اوپر اگر اس کو پرکھ کر دیکھا جائے تو لغزش ہے ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ وہ صفت حسنہ بن جاتی ہے مگر انبیاء کو خدا سے ایسی محبت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا اتنا گہرا احترام ان کے دل میں ہوتا ہے کہ اس کے سامنے وہ چھوٹی سی لغزش بہت بڑی دکھائی دیتی ہے اور ان کا معاملہ اس محاورے کے بالکل برعکس ہو جاتا ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا اور دوسری آنکھ کا تنکا بھی شہتیر دکھائی دیتا ہے.ان کو اپنی آنکھ کے معمولی سے تنکے کا ایک چھوٹا سا ذرہ بھی شہتیر دکھائی دیتا ہے اور دوسروں سے مغفرت کا سلوک کرتے ہیں دوسروں کے عیوب کو نہ نمایاں کر کے دیکھتے ہیں.نہ بیان کرتے ہیں اور جب سرزنش کرنی ہو یا کسی کو سمجھانا ہو تو ضرور سرزنش بھی کرتے ہیں اور سمجھاتے بھی ہیں لیکن حتی المقدور یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو کسی کو اس سے تکلیف نہ پہنچے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 431 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء وہ ذکر جو قرآن کریم میں عَبَسَ وَ تَوَلّی (عبس:۲) میں ملتا ہے اس کا اس مضمون سے تعلق ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی خدمت میں پہلے ایک قوم کا بڑا سردار آیا اور آپ اس سے مصروف گفتگو تھے اور اسے اس لئے اہمیت دے رہے تھے کہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو بعید نہیں تھا کہ اس کے ساتھ اس کی قوم بھی مسلمان ہو جاتی.پس کسی ذاتی عظمت کے طور پر اس کو اہمیت نہیں دے رہے تھے بلکہ ایک دینی فائدے کے پیش نظر اس کو جو مقام حاصل تھا اس کو ایک خاص مرتبہ دے کر اس کے ساتھ غیر معمولی شفقت کا سلوک فرماتے ہوئے توجہ دے رہے تھے کہ اتنے میں مخلص فدائی صحابی جو آنکھوں سے اندھے تھے وہ حاضر ہوئے.ان کو پتا نہیں تھا کہ کون بیٹھا ہے اور کس سے گفتگو ہو رہی ہے اور جس طرح اندھوں کو جب نظر نہیں آتا تو پتا نہیں ہوتا کہ کون بیٹھا ہے اور کیا کہنا ہے ، لحاظ نہیں کر سکتے اسی طرح انہوں نے فوراً اپنی مرضی کی گفتگو شروع کر دی اور وہ دراصل اس گفت و شنید میں دخل اندازی تھی.آنحضور ع اللہ نے منہ سے کچھ نہیں فرمایا.لفظی سختی کے ساتھ کوئی تنبیہ نہیں فرمائی لیکن اگر ناراضگی کا کوئی اظہار نہ کرتے تو وہ معزز انسان سمجھتا کہ میری بے عزتی ہوئی ہے اور انہوں نے اس کو قبول کر لیا ہے اس لئے ماتھے پر بل ڈالے.آنحضرت ﷺ کا مقام ومرتبہ اللہ کے نزدیک اتنا بلند تھا کہ اللہ تعالیٰ کو وہ بل بھی پسند نہ آئے حالانکہ اگر دنیا کے عام معاملات میں دیکھیں اور کسی اور سے یہ واقعہ ہوا ہوتا تو اس کی عظمت کردار کے نشان کے طور پر بیان کیا جاتا کہ دیکھو اس نے آنے والے کی بھی عزت رکھ لی اور غلطی کرنے والے کی غلطی سے اپنی ناپسندگی کا اظہار ایسے کیا کہ غلطی کرنے والے کی دل شکنی نہ ہوئی اور آنے والے کی عزت افزائی ہوگئی.حسن خلق اور عظمت کردار کا ایک عظیم امتزاج ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا انبیا ء خدا کے حضور عجز کا ایک ایسا مقام رکھتے ہیں اور ایسی محبت کا تعلق رکھتے ہیں کہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو بھی بہت بڑا دیکھ رہے ہوتے ہیں.جب خدا کی نظر سے دیکھا جائے تو اس وقت اس کی حکمت اور نمایاں ہو کر سمجھ میں آجاتی ہے.اللہ تعالیٰ بھی ان سے بہت بلند توقع رکھتا ہے اور اس واقعہ نے بتایا کہ وہ چھوٹی سی لغزش جسے دنیا کی اصطلاح میں ایک عظیم حسن خلق کا مظاہرہ کہنا چاہئے اس پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو پیار اور محبت سے سمجھایا کہ ایک اندھا آ گیا تھا اس لئے تو نے ماتھے پر بل ڈالے لیکن تجھے کیا پتہ کہ وہ تیری باتوں کو زیادہ توجہ سے سنتا اور فائدہ اٹھاتا اور تجھے کیا پتا کہ وہ شخص جس کے لئے تو اتنی جد و جہد کر رہا تھا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 432 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء کہ اسے ہدایت نصیب ہو وہ مستغنی ہو جائے اور پیٹھ پھیر کر چلا جائے تو یہ وہ مضمون تھا جو اسی تسلسل وہ میں میرے ذہن میں ابھرا اور میں نے سوچا کہ جماعت کو اس مضمون کی باریکیوں سے بھی آگاہ کروں اور اس ضمن میں عائد ہونے والے فرائض سے بھی مطلع کروں.معاف کرنا بھی اچھی چیز ہے لیکن معافی مانگنا بہت ہی اچھی چیز ہے اور وقت پر اپنے ایسے بھائی سے معافی مانگ لینا جس کی دل آزاری ہوئی ہو خواہ وہ ارادہ ہوئی یا غیر ارادی طور پر ہوئی ہو یہ ایک ایسا خلق ہے جس کے نتیجہ میں اللہ کی بخشش کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے.اس لئے انسان اگر صرف در گزر کا ہی سلوک نہ کرے بلکہ دوسرے بھائی سے اس کی دل آزاری کی معافی مانگنے میں جلدی کرتا ہو تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ مغفرت کا سلوک فرمائے گا اور تو اللہ تعالیٰ کی لا متناہی مغفرت سے حصہ لینے کا ایک یہ بھی طریق ہے.دنیا میں میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ لمبا عرصہ محبت اور حسن و احسان کا تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر کسی دوست سے ادنی سی لغزش ہو جائے یا کسی وقت ناراضگی کا کوئی کلمہ منہ سے نکل جائے تو تعلق توڑ بیٹھتے ہیں اور ناراض ہو جاتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے بعض جانوروں میں حُسن خلق کی جو مثالیں رکھی ہیں اگر وہ کتے کی طرف دیکھتے تو اس سے بھی وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے کیونکہ کتے کے متعلق ایک فارسی شاعر کہتا ہے کہ یہ عجیب جانور ہے کہ اس کو ایک دفعہ روٹی دے دو اور سو بار سوٹی اٹھاؤ تو یہ آگے سے اف نہیں کرتا اور اسی طرح دم ہلاتا رہتا ہے لیکن انسان ایک عجیب جانور ہے کہ اس سے سو بار احسان کا سلوک کرو اور ایک بار استثناء کرو تو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا ہے اور بعض اوقات حملہ کر بیٹھتا ہے تو انسان اور جانور میں یہ فرق ہے جو ہم پر یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق میں بعض ایسے اعلیٰ اخلاق رکھ دیئے ہیں کہ جو انسان کو متکبر نہیں ہونے دیتے.اگر وہ غور اور فکر کا عادی ہو تو اس کے لئے آفاق میں ایسے نشانات ہیں جو اسے عاجز ہونے پر مجبور کر دیں گے.اس کا سر ہمیشہ زمین پر جھکائے رکھیں گے کیونکہ کہیں اس کو کتا اپنے سے اعلیٰ اخلاق کا دکھائی دے رہا ہوگا، کہیں کوے اعلیٰ اخلاق کے دکھائی دیں گے.اسے بعض دفعہ ہزار روٹیاں مل جاتی ہیں تو وہ کسی غریب کو نہیں پوچھتا اور کوے کو روٹی کا ایک ٹکڑا مل جائے تو سارے بھائیوں کو آوازیں دے دے کر بلاتا ہے اور جب تک سب کو شریک ہونے کا موقع نہ دے اس وقت تک چھینا جھپٹی نہیں ہوتی.جب سب پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہر ایک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 433 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء کوشش کرتا ہے کہ میں لے جاؤں لیکن یہ بھی تو محبت کا ہی ایک اظہار ہے ورنہ جنت میں کیوں لوگ چھین چھین کر کھاتے جہاں ہر چیز کی بہتات ہوگی.پس یہ جو کائنات ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو ہر جانور میں خدا نے ایک ایسی خوبی رکھ دی ہے کہ اکثر انسان ان خوبیوں میں ان جانوروں سے سبق لے سکتے ہیں اور اگر ان کی ان خوبیوں پر نظر رکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے اشرف المخلوقات کی خوبیاں سارے عالم میں پھیلی پڑی ہیں اور ہر چیز اس کے لئے آئینہ بن گئی ہے.اسے کتے میں بھی ایک تصویر دکھائی دیتی ہے جو اپنے سے اچھی ہے، اسے کوے میں بھی ایک تصویر دکھائی دیتی ہے جو اپنے سے اچھی ہے، اسے شیروں میں بھی اور گائے بھینس میں بھی اور دوسرے جانوروں میں بھی اور کیڑوں میں بھی اور مکھیوں میں بھی بعض ایسی صفات دکھائی دیتی ہیں جو اس کی اپنی ذات کی ملتی جلتی صفات سے بہتر ہیں.گویا اس کو ہر طرف ایک آئینہ دکھایا جا رہا ہے کہ تمہیں تو ہم نے یہ بنانا تھا اور تم سے ادنی مخلوقات میں تو یہ خوبیاں اسی طرح محفوظ چلی آرہی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا ہے اور ان مخلوقات کا اختیار نہیں ہے کہ اس حفاظت سے باہر نکل جائیں مگر تمہاری خاطر یہ پیدا کی گئی تھیں کیونکہ تمہیں ادنیٰ سے اعلیٰ حالت میں جب ترقی دی گئی تو ان تمام صفات حسنہ کے اجزا تمہارے اندر شامل ہیں.تمہاری خمیر میں داخل ہیں ورنہ ارتقاء کے کوئی معنے نہیں ہیں.ارتقاء کا مطلب یہ ہے کہ لمبے دور میں مختلف نوعیت کی خوبیوں سے انسان کا خمیر اٹھایا گیا ہے اور جو خوبی کسی جانور کے دور میں زندگی میں شامل کی گئی وہ خوبی بچ گئی اور آئندہ بہت قسم کی مخلوقات کی طرف منتقل ہوتی رہی.ان خوبیوں کے اجتماع کا نام انسان ہے لیکن انسان بننے کے بعد جب اسے اختیار دیا گیا تو ان خوبیوں سے روگردانی کی اور پیٹھ پھیر کر ایک طرف ہو گیا اور ان سب نعمتوں کو بھلا بیٹھا.جب اس مضمون پر آپ غور کریں تو ہر طرف حسن کا ایک کرشمہ دکھائی دے گا جو آپ کو آئینہ دکھا رہا ہے اور دوسری طرف وہی آئینہ آپ کو عجز کی تعلیم بھی دے گا کہ تم کیسے عاجز انسان ہو؟ اس بات میں ایک کتے سے بھی کمتر ہو، ایک گدھ سے بھی کمتر ہو، ایک کوے سے بھی کمتر ہو، ایک بھیڑئے اور شیر سے بھی کمتر ہو.یعنی ہر طرف سے ایک یہ آواز بھی تو اٹھے گی کہ تم اس سے بھی کمتر ہو اس سے بھی کمتر ہو اور اس سے بھی کمتر ہو اور یہ جو آواز ہے یہ اتنی حقیقی ہے اتنا گہرا پیغام رکھتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں انسان مجبور ہے کہ وہ اپنے ہر قسم کے تکبر سے باز آجائے اور اپنے آپ کو ایک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 434 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء حقیر کیڑا سمجھے یہی مضمون ہے جس کو انبیاء جب پا جاتے ہیں تو اپنے رب کے حضور اس قسم کی دردناک صدائیں بلند کرتے ہیں کہ کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ( در نشین صفحہ: ۱۲۵) اور جو متکبر اور مغرور ملاں ہے وہ ہنستا ہے اور قہقہے لگاتا ہے کہ یہ نبی اللہ ہے جو انسانوں کی عار ہے.وہ نہیں سمجھتا کہ یہ انسانوں کی عار ہونا ایک صاحب عرفان کا کمال ہے اور غیر معمولی درجہ کمال پر پہنچے بغیر یہ عرفان حاصل نہیں ہو سکتا اور اسی میں ساری عزتیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی مضمون کو اس طرح بھی بیان فرماتے ہیں کہ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں (درثمین صفحہ ۱۱۳۰) تو جو خدا کا عاشق ہے جو وصل کا خواہاں ہے اس کو اگر بدتر بننے سے خدا ملتا ہے تو اسے بدتر بننے میں کیا نقصان ہے.پھر تو ساری خیر بدتر بننے سے ہی وابستہ ہوگئی جس رستے سے اپنا محبوب مل جائے وہ رستہ اینٹوں کا بنا ہو ، پتھروں کا ہو یا کانٹے سجائے گئے ہوں ، ہر محبت کرنے والا تو رستے کی نوعیت سے بے خبر اس پر دوڑتا ہے.زخمی ہو، چھلنی ہو مصیبتوں میں مبتلا ہو، گڑھوں میں جا پڑے تب بھی اس نے ان راستوں پر چلنا ہی چلنا ہے.ہمیں تو راہ رووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا مگر جو بے خبر ہے اور جاہل ہے وہ ان باتوں کو نہیں سمجھتا.پس ساری کائنات میں ہمارے لئے حسن کے بھی پیغامات ہیں اور بجز کے بھی پیغامات ہیں اور جہاں تک مغفرت کا تعلق ہے اس مضمون سے یہ بات چھڑتے چھڑتے یہاں تک پہنچی ہے.ایک معاملہ میں مجھے بھی خدام سے معافی مانگتا ہے اور چونکہ یہ ذکر چل پڑا ہے اس لئے بہترین موقع ہے کہ اسی موقع پر میں اپنے دل سے یہ بوجھ اُتاروں.جب کبڈی کا میچ ہورہا تھا تو مجھے یہ بتایا نہیں گیا کہ میں جو بات کر رہا ہوں وہ ساری دنیاسن رہی ہے.میں یہی سمجھ رہا تھا کہ جسوال صاحب اپنا کیمرہ بہت دور لگائے ہوئے ہیں اور اگر میں زور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 435 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء سے بھی بولوں تو اتنی دور آواز نہیں جائے گی.انسان نزدیک بیٹھے ہوئے دوستوں سے بعض ایسے تبصرے کر لیتا ہے جن کے متعلق پتا ہوتا ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی سخت بات ہوئی ہے اس کی دل آزاری ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اسے وہ بات نہیں پہنچی اور اس وقت دل میں جو ایک جذ بہ اٹھتا ہے اس کا اظہار ہوکر ایک بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے تو چند ایسی باتیں جو بے تکلف ماحول میں میں آفتاب خان صاحب سے کر رہا تھا ( جو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ) اور ان کو بتارہاتھا کہ یہ کیا ہو گیا یہ کیا ہو گیا؟ اور بعض باتوں سے طبیعت واقعی بڑی منقبض ہوئی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے مگر ہرگز یہ مراد نہیں تھی کہ شخص مذکور کی دل آزاری ہو لیکن بعد میں جب مجھے پتا چلا کہ وہ تو ساری دنیا سن رہی تھی تو میں نے کہا کہ اس بیچارے کا تو جیسے پنجابی میں کہتے ہیں حشر ہو گیا ہوگا.اس کے رشتہ دار شرمندہ ہور ہے ہوں گے اور ساری دنیا میں لوگ اس کو کیا کہیں گے.اتنی مجھے تکلیف ہوئی کہ ساری رات میں سونہیں سکا.استغفار کرتا رہا اور دل چاہا کہ ابھی ان سے معافی مانگوں تا کہ میرے دل کو تسلی ہولیکن مجھے خیال آیا کہ ان بیچاروں کی شرمندگی تو عالمگیر ہے.معافی میں الگ لکھ کر مانگ لوں تو فائدہ کیا ؟ اس لئے عالمی خطاب میں ہی معافی بھی ہونی چاہئے.ان میں سے مثلاً ایک ریفری صاحب کے متعلق میں نے کہا تھا کہ میں ان کو جانتا ہوں ان کو ریفری بنانا ہی نہیں چاہئے تھا.بعد میں جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ان کو ہٹا ئیں تو میں نے کہا نہیں بالکل نہیں ہٹانا.بددیانت نہیں ہیں.عام فیصلے بالکل ٹھیک کرتے چلے جاتے ہیں مگر جب کوئی مشکل وقت آتا ہے تو ان کا دل چونکہ نرم ہے سخت فیصلہ کر ہی نہیں سکتے.میں ان کو بڑی دیر سے جانتا ہوں.پہلے بارہا مجھے ان کے بعض فیصلوں کے وقت طبیعت میں ایک کوفت ہوا کرتی تھی کہ یہ واضح فیصلہ کرنا چاہئے تھا لیکن اس کی بجائے بیچ میں دب گئے.دوطرفہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی ایک ٹیم کے خلاف کھلم کھلا فیصلہ کرنے کی بجائے بیچ میں رکھ کر دونوں کے دل خوش کرنے کی کوشش کر لی.یہ مقصد تھا یہ اصل وجہ تھی اور میں ان کو علیحدگی میں سمجھا دیتا لیکن آفتاب خان صاحب کے پاس بات کر کے میرے دل میں جو ہلکا سا غبار تھا وہ نکل گیا لیکن یہ کیا پتا تھا کہ ان کے سارے رشتہ دار، سارے دوست واقف جاپان تک سن رہے ہوں گے اور وہ کہیں گے کہ لو جی ! اچھا ریفری نکلا ہے یہ تو خدمت کی بجائے اپنا اور نقصان کر بیٹھا.اسی طرح ایک نو جوان بابر نام کا تھا اس کے دادا کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 436 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء کے والد کو بھی ، اس کے خاندان سے بے تکلفی کے تعلقات ، جس طرح وہ گھر کا بچہ ہو تو بعض دفعہ انسان کہ دیتا ہے پاگل ہے.کیا بے وقوفی کر بیٹھا.وہ بہترین سائیکلسٹ ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو سائیکل چلانے کی بہت اچھی صلاحیت دی ہے.پتا نہیں اس کے دماغ میں کیا گو دی کہ سائیکل چھوڑ کر کبڈی کے میدان میں آگیا اور پھر بار بار کھلا جھپا ڈالنے کی کوشش کرتا تھا.ایک ہوتا ہے داؤ لگا کر اچانک بلہ بول کر کوئی انسان کسی کی ٹانگ پکڑلے یا قیچی مار دے یا کلائی پر ہاتھ ڈال دے، ایسا کرنے سے بالعموم شکار ہاتھ آجاتا ہے مگر ایک ہوتا ہے.سامنے چیلنج کر کے آمنے سامنے کسی کو کہا جائے آؤ اب نکل کے دکھاؤ جسے پنجابی میں کھلا اچھا کہتے ہیں اب اس بیچارے کو آتا نہیں تھا اور چھے ایسے ڈالتا تھا تو میں نے کہا کہ اس پاگل کو کیوں اٹھا کر لائے ہو اور اس کو سو بھی کیا ؟ میں نے بعد میں بھی اس سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم اچھے بھلے سائیکل پر تھے، زمین پر کیوں اتر آئے؟ سائیکل چلاؤ اور نام پیدا کرو.ساری دنیا میں اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے جو یہ شرمندگی دکھا رہے ہو تو کس لئے ؟ اور یہ نہیں پتا تھا کہ جب میں نے اس کو پاگل کہا تو وہ اپنے پیار کے رنگ میں تھا جس طرح کسی عزیز کو آدمی کہ دیتا ہے کہ اس پاگل کو کیوں پکڑ لائے لیکن ساری دنیا میں اب وہ کہیں پاگل ہی نہ مشہور ہو جائے حالانکہ وہ پاگل واگل بالکل نہیں ہے.اللہ کے فضل سے اچھا بھلا ہونہار بچہ ہے.جسم بھی خوبصورت اور قد آور اور بہادر ہے تب ہی وہ کھلے ہاتھ ڈالتا تھا مگر آگے سے بڑے بڑے طاقتو را اچھے آنے والے تھے جس طرح افضل تھے.اس کا ان کے ساتھ کوئی جوڑ ہی نہیں تھا.بار باران پر حملہ کر کے خواہ خواہ پوائنٹ بھی گنواتا تھا مگر چونکہ میرے علم میں یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں لوگ یہ سنیں گے اور اس بیچارے کی بدنامی ہوگی.اس لئے خیال یہ تھا کہ جب الگ ملوں گا تو اس کو سمجھا دوں گا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا لیکن جب پتا لگا کہ یہ بات تو ساری دنیا میں پھیل گئی ہے تو میں بہت ہی شرمندہ ہوا.میں نے کہا کہ اس بیچارے نے کیا شرمندہ ہونا ہے جتنا میں شرمندہ ہو گیا ہوں اور فرض سمجھا کہ اس سے میں معافی مانگوں.ایک بات اور مجھے بتائی گئی ہے لیکن وہ ایسی بات نہیں ہے جسے میں مخفی رکھنا چاہتا تھا.وہ ایک اصولی چیز ہے جس کو جماعت کے علم میں آنا چاہئے.صدر صاحب مجلس خدام الاحمد یہ جرمنی بہت ہی مخلص فدائی اور بہت اچھے منتظم ہیں اور ان کے دور میں خدا کے فضل سے مجلس خدام الاحمدیہ بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 437 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء تیزی سے ترقی کر رہی ہے، ہمنکسر المزاج ہیں، دعا گو ہیں لیکن ایک واضح ہدایت پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں وہیں میں نے امیر صاحب جرمنی سے ان کے متعلق ناراضگی کا اظہار کیا اور وہ بھی مشتہر ہو گیا وہ مضمون چونکہ ایسا ہے جس کا جماعت کو علم ہونا چاہئے اس لئے میں وہ ذکر چھیڑتا ہوں.کبڈی کے میچ میں عموماً رواج ہے کہ لنگوٹ کستے ہیں اور وہ بھی ایسے جو عملاً ننگا ہونے کے مترادف ہے لیکن ایسے پروگرام کو جب عالمی طور پر ٹیلی وائز کیا جائے تو جماعت کا وقار داؤ پر لگ جاتا ہے.جماعت کی روایات داؤ پر لگ جاتی ہیں.کہیں ایک گاؤں میں کسی کھیت میں کسی جگہ ایسا واقعہ ہو جائے تو وہ بھی ٹھیک نہیں لیکن عالمی سطح پر ایسے پروگرام دکھائے جا رہے ہوں اور لباس بیہودہ ہو تو یہ جماعت کے وقار کے خلاف ہے اور جماعت کسی قیمت پر اجازت نہیں دے سکتی.چنانچہ جانے سے دس پندرہ دن پہلے تفصیل سے ان کو یہ لکھا گیا اور فون پر بھی غالباً پیغام دیا گیا کہ اس میسج کو تمام عالم میں دکھانے کے لئے شرط یہ ہے کہ لباس گھٹنے کے نیچے تک ڈھکا ہوا ہو گا اور پیٹ پر پوری طرح کسا ہوگا تا کہ اس سے انسان ننگا یا بیہودہ دکھائی نہ دے.مجھے اطمینان دلوا دیا گیا کہ ہاں ایسا ہی ہوگا.جب میں وہاں پہنچا ہوں تو اس وقت تک کوئی ایسی کارروائی نہیں ہوئی تھی.پھر امیر صاحب جرمنی کو اور ان کو اکٹھا بٹھا کر میں نے تفصیل سے سمجھایا کہ آپ کو دنیا سے شرمانے کی کیا ضرورت ہے کہ دنیا کہے گی یہ کیسا لباس پہن آئے ہیں؟ جس سے شرمانا ہے اس سے شرمائیں یعنی خدا سے شرمائیں اور اپنی پاک روایات کا آئینہ بنائیں اور اس سے شرمائیں.اگر اس میں غلط داغ پڑتا ہے تو وہ شرمانے کی بات ہے اس لئے آپ بالکل پروانہ کریں اور دنیا جو مرضی کہے میں ذمہ دار ہوں ، آپ ایسا لباس بنا ئیں اور ان کو یہ بھی بتایا کہ زین کا مضبوط ہو اور کمر پر پیٹی ہو اور گھٹنے کے نیچے مضبوط دوہری شہری پٹی ہو اور رنگ اس کا بدل جائے.خوبصورت بھی بہت دکھائی دے گا جس طرح برجس ہوتی ہے اور کسی کا ہاتھ پڑ جائے تو مضبوط سے مضبوط آدمی بھی اس کو تو ڑ نہیں سکتا اور ایک آدمی کھیل کے دوران اس وہم میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ کہیں اس کا لباس نہ اتر جائے.اس طرح واضح بات ہونے کے بعد جس کے سپرد کیا گیا غالباً اس سے غلطی ہوئی ہوگی لیکن بہر حال جو بھی ہوا جب میں نے دیکھا تو وہ کپڑے کی چکنی چکنی چیزیں تھیں اور پتلے نالے یا دھاگے سے وہ باندھے گئے تھے اور خطرہ تھا کہ اگر کسی کا ہاتھ پڑے تو فائدہ کی بجائے اور زیادہ بے حیائی ہوگی.چنانچہ جو میچ سب سے زیادہ پاپولر ہوا ہے جس میں میجر محمود صاحب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 438 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء بھی کھیلے تھے اس میں غلطی سے امیر صاحب کا ہاتھ ان کے ازار بند پر پڑ گیا یعنی اس حصے پر جہاں وہ باندھا گیا تھا تو انہوں نے فوراً وہ پوائنٹ چھوڑ دیا کہ یہی عقل کی بات تھی کیونکہ اگر اس وقت زور لگاتے تو جگ ہنسائی ہوئی تھی.بہر حال ایک اور موقع پر بھی میں نے دیکھا کہ بیچارے کھلاڑی کا لباس تقریباً اُتر گیا تھا اور اس نے ہاتھ سے پکڑ کر اس کو سنبھالا.تو یہ بات تھی جس پر میں وہاں ان سے ناراض ہوا کہ جب آپ کو سمجھا دیا گیا تھا تو پھر کیوں نہیں ایسا کیا؟ مجھے بتا دیتے کہ نہیں ہوسکتا.ہم میچ کینسل کر دیتے.کوئی ضروری تو نہیں کہ دنیا کو کبڈی بھی دکھائی جائے لیکن جب دکھائی جائے تو اسلامی روایات اور سلیقے کے مطابق دکھانی چاہئے.یہ تکرار میں ناراضگی کے اظہار کے طور پر نہیں بلکہ جماعت کی تربیت کے لئے اس لئے کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنی کھیلوں میں اپنی اعلیٰ روایات کو کبھی قربان نہیں کرنا چاہئے.ثقافت کے نام پر بعض لوگ نہایت بیہودہ حرکتیں کر جاتے ہیں کہ جی یہ ثقافت ہے ثقافت نہیں جہالت ہے.ثقافت وہاں تک ہے جہاں تک اسلام کی مخالف نہیں ہے اس کے بعد وہ ثقافت نہیں بلکہ جہالت بن جاتی ہے تو کھیلوں میں بھی وہاں تک کھیلیں ہیں جہاں تک اسلام کی واضح اخلاقی تعلیم کے مخالف نہ ہوں.جہاں اس حد سے باہر قدم رکھا وہاں وہ کھیل نہیں رہتی بلکہ وہ ایک جہالت یا بغاوت ہو جاتی ہے.تو میں ایک دفعہ پھر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہاں بات ختم ہوگئی.ان کو میں نے معاف کر دیا انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور بات ختم ہوگئی کیونکہ وہ مخلص فدائی آدمی ہیں.ایسے نہیں کہ ان سے کوئی لمبی ناراضگی رکھی جائے لیکن چونکہ یہ بات بھی مشتہر ہو گئی تھی اس لئے لوگ ان کے متعلق کہیں غلط تاثر نہ لے لیں.ان کا مزاج ہرگز ایسا نہیں ہے کہ بات سنیں اور ان سنی کر دیں.بس کوئی ہنگامہ زیادہ تھا.بے شمار کام تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کسی کے سپر د کام کر بیٹھے ہیں اور نگرانی نہیں ہو سکی تو یہ تو تھے معافی کے قصے.اب دعا یہ ہے کہ اللہ ہمیں معاف فرمائے اور ہماری روزمرہ کی کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے اور ہمیں خود بخشے کی عادت ڈالے اور اپنے رنجیدہ بھائی سے معافی مانگنے کی عادت ڈالے.ہماری جماعت میں اگر یہ دو باتیں قائم ہو جائیں تو اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ (الحجرات: 11) کا مضمون صادق آجائے گا.یقیناً ہم بہت عظیم اخوت کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں اگر یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 439 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء د وصفات ہم میں رائج ہو جائیں.اگر انسان معافی مانگنے سے حیاء محسوس کرے تو حقیقت میں ایک تکبر ہے اور جو متکبر ہو اس کا معافی مانگنا بھی بے معنی ہو جایا کرتا ہے.جب وہ خدا سے معافی مانگتا ہے اور بندے سے نہیں مانگتا تو خدا سے معافی مانگنا بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ متکبر کی دعا خدا قبول نہیں کیا کرتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے بندوں پر رحم نہیں فرما تا میں اس پر رحم نہیں کرتا.اس لئے معافی دینا بھی سیکھیں اور معافی دینا اگر سیکھنا ہے تو معافی مانگنا اس کا ایک لازمی جزو ہے کیونکہ معافی مانگے بغیر تکبر نہیں ٹوٹتے.جب معافی مانگنے کا سلیقہ سیکھیں گے تو پھر معافی دینا ایک بہت ہی اہم خلق بن جائے گا اور خدا کا جو بندہ معافی مانگنا بھی جانتا ہو اور معافی دینا بھی جانتا ہو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے مغفرت کا وہ سلوک فرمائے گا جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ کہ اللہ ہر قسم کے گناہ بخش دیتا ہے.ہر گناہ کو بخش دیتا ہے اور وہ بہت ہی بخشش کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس ضمن میں میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بعض نصیحتیں چنی ہیں.حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے.یہ حدیث مسلم، کتاب التوبہ باب فی سعتہ رحمتہ اللہ سے لی گئی ہے.روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی سزا اور گرفت کا اندازہ ہو کہ کتنی سخت اور شدید ہے تو وہ جنت کی امید ہی نہ رکھے اور یہی سمجھے کہ اس گرفت اور سزا سے بچنا محال ہے اور اگر کافر کو یہاں مومن کو بدل کر کا فر فرمایا گیا ) اللہ تعالیٰ کے خزائن رحمت کا اندازہ ہو تو وہ اس کی جنت سے ناامید ہی نہ ہو اور یقین کرے کہ اتنی بڑی رحمت سے بھلا کون بدقسمت محروم رہ سکتا ہے.یہاں مومن کی بجائے کافر کو بدل کر بہت ہی حکیمانہ بات فرمائی گئی ہے.مومن بخشش کی امید رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ بے راہ رو ہو جاتا ہے اس کو بتایا گیا ہے کہ تم پکڑ پر نظر رکھو.اگر تم صرف بخشش پر ہی نظر رکھو گے تو ہو سکتا ہے کہ تم سے ایسی گستاخیاں اور بداعمالیاں سرزد ہوں کہ تم بخشش کی حد سے ہی باہر نکل جاؤ.کتنا حکیمانہ کلام ہے.انسان کی روح حضور اکرم ﷺ کی نصیحتوں کو پڑھ کر عش عش کر اٹھتی ہے.ایک ایک لفظ میں اور چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں حکمت کے خزانے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں تو مومن کو فرمایا کہ تم خدا تعالیٰ کی پکڑ کی طرف بھی خیال رکھنا اور یاد رکھنا کہ اگر تمہیں پکڑ کی معرفت ہو جائے تو گناہ کی تمنا تمہارے دل سے نکل جائے گی اور کافر دنیا میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 440 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء عیش و عشرت کرتا پھرتا ہے اور وہ بسا اوقات یہ سمجھتا ہے کہ میں اتنے گناہ کر بیٹھا ہوں کہ اب میری بخشش کہاں سے ہونی ہے اور پھر گناہوں کی کثرت اسے اور دلیر کر دیتی ہے.کافر ہونے اور مومن ہونے کے درمیان میں بہت سے درجے ہیں کئی مومنوں کو ہم نے کفر کی حالت کی طرف اس طرح منتقل ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ ایک گناہ کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا پھر یہ خیال آجاتا ہے کہ گناہ گار تو ہم ہو ہی چکے ہیں.اب ایسی حرکتیں روز مرہ کیوں نہ کریں اور پھر حیا اٹھ جاتی ہے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کافر کو مایوس نہیں ہونا چاہئے.اللہ کی رحمت پر نظر رکھنی چاہئے.یہاں اس کے لئے پھر یہی آیت پیغام دیتی ہے کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا کہ وہ ہر قسم کے گناہوں کو بخش سکتا ہے.تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے اگر وہ چاہے اس لئے تو بہ سے مایوس نہ ہو.یہ مراد ہے کیونکہ اس کی بخشش کا تعلق تو بہ سے ہے.یہ مضمون اس کے اندر داخل ہے کہ تو بہ سے اس لئے باز نہ رہے کہ اتنے گناہ بڑھ گئے ہیں کہ شاید خدا تعالیٰ معاف کرے ہی نا ایک اور حدیث میں جو ریاض الصالحین باب الرجاء سے لی گئی ہے.عموماً صحاح ستہ کی احادیث ہی ہیں.جو ریاض الصالحین میں داخل کی گئی ہیں.حدیث کا اصل حوالہ یہاں نہیں دیا گیا.بہر حال حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت عالیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن مومن اپنے رب کے بہت قریب لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس کے سایہ رحمت میں آجائے گا.پھر اللہ تعالیٰ اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا اور کہے گا کہ کیا تو فلاں فلاں گناہ جانتا ہے جو تو نے کئے اس پر بندہ کہے گا ہاں میرے رب ! میں جانتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا دنیا میں میں نے اس گناہ کے متعلق تیری پردہ پوشی کی اور اب قیامت کے دن تمہارا وہ گناہ بخشتا ہوں.الغرض اس کو صرف اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دیا جائے گا.(ریاض الصالحین باب الرجاء حدیث نمبر ۴۳۲) یہاں حدیث کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کان میں سرگوشی کرے گا ورنہ بظاہر تو یہ تصور ایسا ہے جو صرف انسان پر ہی صادق آتا ہے لیکن اللہ تعالی کا کان میں سر گوشی کرنا ایک بہت ہی پیار کی تمثیل ہے اور ایک حدیث کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ دوسروں سے اوجھل کر کے جیسے ماں کسی بچے کو پردے میں لے لے.اپنی چادر کی لپیٹ میں لے کر پیار سے بات کرے.اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ اس دنیا میں میں نے تیری پردہ پوشی کی تھی نا مگر تجھے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 441 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء پتا ہے کہ کیا کیا گناہ تھے.وہ کہے گا ہاں میرے رب ! مجھے سب پتا ہے تو خدا کہے گا کہ دنیا میں کی تھی تو پھر اب بھی کرتا ہوں.اس مضمون کا بھی بخشش کے فلسفے کو سمجھنے سے بہت گہرا تعلق ہے بالعموم وہ لوگ جو اپنے بھائی کو بے پردہ کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور ستاری کا پردہ اپنے عزیزوں یا دوستوں یا دشمنوں سے اٹھا دیتے ہیں ان لوگوں کے لئے اس میں ایک تنبیہ ہے کیونکہ میرا اس معاملہ میں بہت وسیع تجربہ ہے کہ وہ لوگ جن کو ستاری کی عادت ہو اور کوشش کرتے ہوں (غلطیاں تو انسان سے ہوتی ہی ہیں ) بد نیتی سے کسی کا پردہ چاک نہ کیا جائے تو اللہ بھی ان کی ستاری فرماتا ہے.بے تکلفی اور پیار کی باتوں میں بعض دفعہ انسان کسی غلطی کا ذکر بھی کر دیتا ہے مگر وہ اور بات ہے.واقعہ کسی کی بدی سے پردہ اٹھانا اور اسے دنیا میں ذلیل ورسوا کرنے کی نیت سے ایسا کرنا، یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے اپنی ستاری کا پردہ اٹھا لیتا ہے اور جس سے دنیا میں پردہ اٹھ جائے تو پھر آخرت میں بھی وہ پردہ اٹھ جاتا ہے.پس اگر آخرت میں اپنے گناہوں پرستاری کا پردہ ڈالنے کی تمنار کھتے ہو تو اس دنیا میں اپنے بھائیوں اور عزیزوں کی کمزوریوں پر اپنی ستاری کا پردہ ڈالا کرواس سے اللہ تعالیٰ کے حضورستاری کی زیادہ توقع رکھی جاسکتی ہے.یہ حدیث بخاری کتاب التوحید سے لی گئی ہے اور مسلم کتاب التوبہ میں بھی یہ حدیث شامل ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے رب کی طرف سے ہمیں یہ بات بتائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ایسی احادیث جن میں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ واضح طور پر فرما ئیں کہ میرے خدا نے مجھے یہ فرمایا ہے یا خدا ایسا فرماتا ہے اسے حدیث قدسی کہتے ہیں یعنی قرآن کریم کی آیات کے علاوہ بھی خدا تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے بکثرت ہم کلام ہوا ہے.رؤیا کی صورت میں بھی اور ظاہری صورت میں کشفی صورت میں بھی اور بہت سی جگہ آپ کی طرز بیان سے پتا لگ جاتا ہے کہ خدا کے سمجھانے کے بعد آپ نے ایسی بات کہی ہے لیکن ہر جگہ ذکر نہیں ملتا.اس لئے بعض احادیث قدسی میرے نزدیک احادیث قدسی تقریری ہیں یعنی ان کا مضمون ثابت کرتا ہے کہ یہ حدیث قدسی ہے لیکن بعض احادیث قدسی ایسی ہوتی ہیں جن میں راوی بیان کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے واضح طور پر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کہا ہے پس یہ ان احادیث
خطبات طاہر جلد ۱۲ 442 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء میں سے ہے.فرمایا ، اپنے رب کی طرف سے ہمیں یہ بات بتائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ گناہ کرتا ہے اور پھر دعامانگتا ہے کہ اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے ناسمجھی سے گناہ تو کیا لیکن اسے علم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور چاہے تو پکڑ بھی لے.پھر میرا بندہ تو بہ توڑ دیتا ہے اور گناہ کرنے لگ جاتا ہے اور پھر نادم ہو کر کہتا ہے : اے میرے رب : میرے گناہ بخش دے یا میرا گناہ بخش دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے گناہ کیا لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے وہ گناہوں کو معاف بھی فرماتا ہے اور گرفت بھی کرتا ہے.پھر بندہ تو بہ تو و دیتا ہے اور گناہ کرتا ہے لیکن نادم ہو کر دعا مانگتا ہے کہ اے میرے رب ! میرے گناہ بخش.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جو جانتا ہے کہ میرا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور کبھی گرفت بھی کرتا ہے ( یعنی میرا بندہ کمزور ہے اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتا غلطی کر بیٹھتا ہے لیکن ) اگر وہ نادم ہو کر تو بہ کرے تو میں اسے بخش دوں یہ اس کے معنی ہیں ) اور آئندہ گناہوں سے اسے بچاؤں گا.وہ اپنی منشاء کے مطابق ہی کام کرے گا.( بخاری کتاب التوحید حدیث نمبر : ۴۹۵۳) یہ آخری بات ہے یہ دراصل وہ نقطہ مرکزی ہے جس کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.بعض لوگ گناہ کرتے ہیں.تو بہ کرتے ہیں بخشش مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحمت کا سلوک فرماتا ہے لیکن پھر ایسی حالت ہو جاتی ہے اور پھر ایسی حالت ہو جاتی ہے اور بعضوں کے لئے یہ عادت مستمرہ بن جاتی ہے مگر مغفرت کی سچی پہچان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پھر مناسب تو بہ کی توفیق بخش دیتا ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کے پیار کے کلمات جس گنہگار کے متعلق بیان فرمائے ہیں اس کا انجام بتایا ہے کہ اس کے دل میں نیکی کا غلبہ تھا اور کمزوری سے مجبور ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بعض ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ بعض گناہوں کے لئے انسان اس طرح بے اختیار ہو جاتا ہے جس طرح اس کی سرشت میں یہ بات داخل ہوئی ہو اور یہ بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے چنانچہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس مضمون پر کسی خطبہ میں یا کسی اور تقریر میں گفتگوفرمائی اور یہ کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس مضمون کا گہر اعلم بخشا ہے اور میں بتا سکتا ہوں کہ کیا کیا حالات ہیں جن میں ایک گناہ گار عمد ا گناہ نہیں کر رہا ہوتا بلکہ بعض بے اختیاریوں سے مجبور ہوتا ہے لیکن آئندہ جب خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا تو میں اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا لیکن وہ پھر خدا تعالیٰ کی طرف مقدر نہیں تھا کہ آپ کو یہ موقع ملے مگر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 443 خطبه جمعه ۴/ جون ۱۹۹۳ء آنحضرت ﷺ نے نتیجہ نکال دیا ہے اور ہمارے ہاتھوں میں کنجی تھمادی ہے کہ کیسے پہچانیں کہ ہم بیمار ہیں یا گناہ گار ہیں.اللہ تعالیٰ بیماریوں سے شفاء بخش سکتا ہے اور اگر ایک گناہ گار بے حیائی کی وجہ سے تکرار کرتا ہے تو اس کے متعلق یہ خوشخبری نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ پھر اسے اس بیماری سے شفاء بخش دے گا لیکن وہ گنہگار جو حقیقتا تائب ہوتا ہے اور نادم ہوتا ہے اور بار بار خدا کے حضور چلاتا ہے اور شرمندگی کا اظہار کرتا ہے اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو خبر دی کہ میں اسے بخش دوں گا اور آئندہ گنا ہوں سے اسے بچاؤں گا.وہ میری منشاء کے مطابق ہی کام کرے گا.پس ہمیں دعا یہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی گناہوں سے تائب ہونے کی توفیق بخشے اور ہماری تو بہ کو اس طرح قبول فرمائے کہ ہمیں آئندہ گناہوں سے بچالے اور خدا کی رضا کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا ہو.
444 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 445 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء جماعت کی ترقی تدریجی ہوگی مسیح محمدی مسیح موسوی سے بڑھ کر ہے، الہام بعد گیارہ انشاء اللہ کی وضاحت ( خطبه جمعه فرموده ارجون ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرِيةِ ، وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظُ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا پھر فرمایا:.(افتح: ۳۰) اس مضمون کے ایک حصہ پر میں پہلے بھی روشنی ڈال چکا ہوں لیکن اس جمعہ میں یہ مضمون تشنہ رہا تھا اور اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض حوالہ جات بھی پیش کرنے تھے اور بائیل یعنی New testament عہد نامہ جدید سے حضرت مسیح علیہ السلام کے وہ حوالے بھی پیش کرنے تھے جن کا اس آیت میں بیان کردہ مضمون کے ساتھ تعلق.ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 446 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ضمن میں فرمایا کہ خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء ”ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور گزرع (کھیتی کی طرح) ہوگی اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے.وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس (کھیتی) کو پہنچانا چاہتا ہے...66 وو کھیتی کا لفظ میں نے وضاحت کے لئے داخل کیا ہے.حضرت اقدس کے الفاظ ہیں :-...وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے.ابھی بہت دور ہیں وہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے.توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو تبتل الی اللہ ایک خاص رنگ کا ہو ، ذکر الہی میں خاص رنگ ہو، حقوق اخوان میں خاص رنگ ہو.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ : ۶۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ چار عنوانات قائم فرمائے ہیں جن کا تعلق مسیحی صفات سے بھی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ہی ہے کہ ان صفات حسنہ سے بھی ہے جن کا آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے اور یہ صفات جو سیح سے تعلق رکھتی ہیں جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں اور ان لوگوں میں جلوہ گر ہوتی ہیں جو محلے کے تابع ہیں یعنی آپ کے ساتھ تھے تو ایک نئی شان کے ساتھ اس جلوے میں حیرت انگیز چمک اور دائمی روشنی پیدا ہو جاتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے ایک بالکل نیا جلوہ ظاہر ہوا ہے.اگر چہ صفات وہی ہیں جو پہلے بھی ظاہر ہو چکی ہیں.اس تعلق میں قرآن کریم نے بھی ان باتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا مسیح نے ذکر فرمایا اور جہاں ذکر فر مایا وہاں ایک حیرت انگیز طور پر بڑھتے ہوئے جلوے کا بھی ذکر فر مایا اس لئے یہ کوئی فرضی بات نہیں، محض اس ذات کی تعریف میں ایک انسان کے کلمات نہیں جس سے محبت ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے واقعہ اسی رنگ میں اس مضمون کو قرآن کریم میں چھیڑا ہے جہاں جہاں مسیح نے ان صفات کا ذکر فرمایا ہے ان کے مقابل پر قرآن کریم نے بھی ان کا ذکر فرمایا اور موازنہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک بالکل نئی شان کے ساتھ ان صفات کو چھیڑا گیا ہے اور نئے مضمون کو داخل کر کے ان کو بیان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 447 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء فرمایا گیا ہے یہ مضمون چونکہ ایسا ہے جس کا جماعت احمدیہ سے گہرا تعلق ہے اور ان مقاصد سے ہے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ان تک پہنچنا ابھی دور ہے حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جو صحابہ کی جماعت پیدا ہوئی اس میں سب سے زیادہ شان کے ساتھ یہ مقاصد ظاہر ہوئے تھے پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ ان مقاصد تک پہنچنا دور ہے اس سے مراد دراصل جد و جہد کا وہ لمبا زمانہ ہے جس میں سے گزر کر احمدیت نے ان مقاصد کو عالمی بنا دینا تھا اور ایک عالمگیر جماعت کے طور پر دنیا میں پھیل کر ان مقاصد کو پورا کرتے ہوئے تمام دنیا میں یہ صفات حسنہ پھیلا دینی تھیں اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ مقاصد یا ان تک پہنچنا دور کی بات ہے تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تو تربیت میں کمزوری تھی اور ابھی ان اعلیٰ مقاصد کو جماعت پا نہ سکی تھی مگر بعد کے دور کے زمانہ میں ایسا ہوگا جو بھی یہ معنی سوچے اس کی جہالت ہوگی کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہی قرآن کریم کی یہ پیشگوئی تھی کہ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ (۴) اور یہ فیض ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ سے ہی پایا ہے.اخرین کی صفات کو نسلاً بعد نسل آگے منتقل کرتے چلے جارہے ہیں.پس اپنے اس مقام بجز کو خوب اچھی طرح پیش نظر رکھتے ہوئے اب اس مضمون پر غور کریں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو چار صفات بیان فرمائی ہیں یہ ایسی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک صفت اپنی ذات میں ایک الگ خطبہ کا تقاضا کرتی ہے اور ایک ایک لفظ میں بڑے وسیع مضامین پر مشتمل عنوان بیان فرما دیئے گئے ہیں اور پھر ان کا آپس میں ایک ترتیبی تعلق بھی ہے جو بات پہلے بیان ہوئی ہے وہ پہلے ہی بیان ہونی چاہئے تھی جو بات دوسرے درجہ پر ہے وہ دوسرے درجہ پر بیان ہونی چاہئے تھی اور اسی طرح تسلسل کا ایک اندرونی تعلق جاری ہے.یہ مضمون انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کسی وقت خدا نے توفیق دی تو بیان کروں گا مسلسل خطبوں میں اگر نہ بیان ہو سکے کیونکہ بعض دفعہ دوسری ضرورت کی چیزیں مجبور کر دیتی ہیں کہ تسلسل کو توڑ کر ایک اور مضمون کو شروع کر دیا جائے لیکن یہ سارا مضمون میرے ذہن میں ہے آئندہ جب بھی توفیق ملے گی تو انشاء اللہ اس کو سلسلہ وار آگے بڑھاؤں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 448 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس مضمون تک پہنچنے سے پہلے ہمیں ان حوالوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.جن میں ہمارا تشخص تاریخی لحاظ سے الہی کتب میں بیان کیا گیا ہے ہم کیا ہیں ہم سے کیا توقع رکھی جاتی ہے کس مقصد کے لئے یہ گزَرع کا سلسلہ شروع ہوا جس کا مسیح نے ذکر کیا اور قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرُع أَخْرَجَ شَطْئَے ان لوگوں کی مثال انجیل میں یوں بیان ہوئی ہے کہ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَهُ ایسی کھیتی کی طرح جس کی پتیاں باہر نکل آئیں اور زمیندار جانتے ہیں کہ شروع میں روئیدگی پیتوں کی شکل میں نکلتی ہے اَخْرَجَ شَطْعَهُ پھر وہ اس کو مضبوط کر دے فَاسْتَغْلَظ پھر مضبوط ہو کر ایک قوت پیدا ہو جائے فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِه پھر وہ اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہو جائیں یعنی یہ اس کھیتی کی مثالیں ہیں جن کو بیج بونے والے بوتے ہیں اور پھر اس طرح کھیتی کی روئیدگی کو دیکھتے اور اپنی آنکھوں کے سامنے بڑھتا پھولتا پھلتا ہوا دیکھتے ہیں اور مضبوط ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ بونے والوں کو بہت لطف آتا ہے لیکن جو انکار کرنے والے ہیں وہ ان کی یہ برکتیں دیکھ دیکھ کر جلتے ہیں اور انہیں بہت طیش آتا ہے.عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں بونے والوں سے مراد خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے جس نے بویا ہے یہ کھیتی خدا ہی کے ہاتھ سے بوئی جاتی ہے مگر یہاں جوطرز بیان ہے اس میں خدا کے ہاتھ کا براہ راست ذکر نہیں بلکہ الزراع ہیں بہت سے بونے والے ہیں جو بوتے ہیں.یہاں دراصل داعین الی اللہ کی ایک جماعت کا ذکر ہے جو کثرت کے ساتھ مختلف زمینوں میں بیج پھینکتے چلے جاتے ہیں اور وہ بیج جب اچھی زمینوں پر پڑتا ہے تو پھر جس کیفیت کے ساتھ ،جس شان کے ساتھ وہ روئیدگی دکھاتا اور نشو و نما پاتا ہے اس کا یہ ذکر فرمایا گیا ہے.جب الزراع کے مضمون کو آپ پیش نظر رکھیں تو پھر حضرت مسیح نے جو تمثیلات بیان کی ہیں ان کا سمجھنا نسبتاً آسان ہو جائے گا.ایک ہاتھ کا بیج کسی خاص کھیتی میں پڑتا ہے اور آگ جاتا ہے اگر وہ ہاتھ کسی ماہر کا ہاتھ ہو، ایسے شخص کا ہاتھ ہو جو اس مضمون کو سمجھتا ہو تو اس کے لئے یہ مکن ہی نہیں ہے کہ اُس پیج کو گندی زمینوں میں پھینک دے، اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ اس بیج کو وہ جھاڑیوں میں پھینک دے، چٹانوں پر پھینک دے اس لئے یہاں خدا کا ہاتھ بیان نہیں فرمایا گیا، یہی حکمت اس کے پیش نظر ہے.مومنوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 449 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء میں کچھ سادہ ہیں، کچھ زیادہ ذہین ہیں، کچھ تجربہ کار ہیں اور کچھ نا تجربہ کار ہیں تبلیغ میں ان کے ساتھ مختلف لوگوں کا واسطہ روز مرہ پڑتا رہتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو چٹیل زمینوں کے ساتھ ہی نبرد آزمائی کرتے ساری عمر گنوا دیتے ہیں.بیج پھینکتے ہیں تو چٹیل زمینوں پر کچھ تھوڑ اسا اگتا بھی ہے لیکن مرجاتا ہے اسی طرح بعض ہیں جو ایسی جگہ بیج پھینکتے ہیں جہاں اردگرد خونخوار درندے ہیں دشمن ملاں موجود ہیں وہ تاک میں رہتے ہیں کہ ادھر بیچ پھینکنے والا پیٹھ موڑے تو وہ واپس آکر اس کھیتی کو برباد کر دیں.ایسے لوگ بھی ہیں اور واقعہ ایسا ہوتا بھی ہے.کچھ ایسے سمجھ دار بیج پھینکنے والے ہیں جو اچھی زمینوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ان کی حفاظت کرتے ہیں، ان کی نگرانی کرتے ہیں ان کی کھیتیاں ہیں جو نشو ونما پاتی ہیں اور قرآن کریم نے دور آخر کی جو مثال دی ہے، وہ ایسے ہی لوگوں کی دی ہے حضرت مسیح نے تفصیل سے ان سب لوگوں کی مثال دی ہے کسی نے یہاں بیج پھینک دیا، کسی نے وہاں پھینک دیا، کسی کا بیچ چٹانوں پر ضائع ہو گیا یا کسی کے بیج کو جانور چگ گئے لیکن قرآن کریم نے اس تفصیل کے ساتھ اس مثال کو بیان فرما کر ان لوگوں کی مثال دی ہے جو حکمت کے ساتھ اچھی زمین پر بیج پھینکتے ہیں اور یہ شان محمد مصطفی ﷺ ہے جس کا ذکر چل رہا ہے فرمایا وَ الَّذِينَ مَعَةً صاحب علیسا حکمت لوگ ہیں.صاحب عرفان لوگ ہیں وہ اپنے بیج کو ضائع نہیں کرتے.ان کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ اچھی زمینوں کا انتخاب کریں اور پھر اس پیج کی حفاظت کریں.اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے اگتا دیکھیں، نشو ونما پاتا دیکھیں.اس کی ہریالی ان کی آنکھوں کو شاداب کرے اور دشمن غیظ و غضب میں مبتلا ہو مگر کچھ نہ کر سکے اس لئے جب میں مسیح کی تمثیلوں کے ساتھ قرآن کریم کی تمثیلات کا موازنہ کرتا ہوں تو بالکل کھلم کھلی بدیہی بات ہے کہ قرآن کریم نے اس مضمون کو بہت زیادہ آگے بڑھا دیا ہے اور اس مضمون میں ایک غیر معمولی شان پیدا کر دی ہے.اب میں مسیح کے اس ذکر کو لیتا ہوں جس کے مقابل پر بعض اور آیات بھی آپ کے سامنے رکھوں گا جن میں یہ مضمون ایک اور شان کے ساتھ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.چونکہ مسیح کا تعلق دور اُخروی سے ہے.قرآن کریم سے بھی ثابت ہوتا ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے دور آخر پر آپ کے جس غلام نے ظاہر ہونا ہے اس کوشان مسیحی عطا ہوگی ، اس کو مسیح کا نام دیا گیا ہے اس لئے ان تمثیلات کے ساتھ ہمارا تعلق ضرور ہے اور وہ تمثیلات ہمیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 450 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء متنبہ کرنے والی ہیں کہ دیکھو تم پہلے مسیح کے دور پر ٹھہر نہ جانا تمہاری مثال اس سے ملتی ہے مگر تمہاری شان اس سے بڑھ کر ہونی چاہئے کیونکہ تم مسیح موسوی کے غلام نہیں، مسیح محمدی کے غلام ہو.پس نظر رکھو کہ مسیح نے کیا کیا تمثیلات بیان کیں ان میں سے جو بہتر ہیں وہ اپنے لئے چن لو.قرآن کریم مومن کی شان یہ بیان فرماتا ہے کہ جب ان کے سامنے چیزیں بیان کی جائیں تو احسن کو اختیار کر لیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مختلف قسم کی تمثیلات ہو سکتی ہیں.کچھ نسبتا ادنی ، کچھ اس سے بہتر ، کچھ اس سے بہت بہتر اور بعض احسن ہیں سب سے اچھی تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں سے یہ توقع رکھی گئی ہے کہ تم ہر قسم کی تمثیلات سنو گے مگر احسن کو چنا کیونکہ تمہارا آقا احسن ہے جس کی غلامی کا دم بھرتے ہو وہ تمام انبیاء سے بڑھ کر ہے.تمام تخلیق میں کوئی وجوداس شان کا پیدا نہیں ہوا.پس اس کی نسبت سے تم اپنے اندر بھی ویسے ہی کمالات پیدا کرنے کی کوشش کرو.اب حضرت مسیح کی تمثیلات سنیں جن کا ان آیات سے تعلق ہے.آپ فرماتے ہیں.اُسی روز یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جا بیٹھا اور اس کے پاس ایسی بڑی بھیٹر جمع ہوگئی کہ وہ کشتی پر چڑھ بیٹھا اور ساری بھیٹر کنارے پر کھڑی رہی اور اُس نے ان سے بہت سی باتیں تمثیلوں میں کہیں کہ دیکھو ایک بونے والا بیج بونے نکلا اور ہوتے وقت کچھ دانے راہ کے کنارے گرے اور پرندوں نے آکر ان کو چک لیا ( یعنی ایک تبلیغ کرنے والا ایسا بھی ہے جس کی یہ مثال ہے ) اور کچھ پتھریلی زمین پر گرے جہاں ان کو بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب سے جلد اُگ آئے اور جب سورج نکلا تو جل گئے اور جڑ نہ ہونے کے سبب سے سوکھ گئے اور کچھ جھاڑیوں میں گرے اور جھاڑیوں نے بڑھ کر اُن کو دبا لیا اور کچھ اچھی زمین میں گرے اور پھل لائے.کچھ سو گنا کچھ ساٹھ گنا کچھ میں گنا جن کے کان ہوں وہ سن لے شاگردوں نے پاس آکر اُس سے کہا تو اُن سے تمثیلوں میں کیوں باتیں کرتا ہے؟ اُس نے جواب میں اُن سے کہا اس لئے کہ تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر ان کو نہیں دی گئی کیونکہ جس کے پاس ہے اُسے دیا جائے گا اور اُس کے پاس زیادہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 451 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء ہو جائے گا اور جس کے پاس نہیں ہے.اُس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اس کے پاس ہے.میں اُن سے تمثیلوں میں اس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے اور اُن کے حق میں یسعیاہ کی یہ پیش گوئی پوری ہوتی ہے کہ تم کانوں سے سنو گے پر ہرگز نہ سمجھو گے.....(انجیل متی : باب ۱۳.۱ تا ۱۵) اس تمثیل کا جو دوسرا حصہ ہے وہ بعد میں بیان ہوگا.پہلے حصہ کے متعلق قرآن کریم کی دو آیات ہیں جو ذہن میں ابھرتی ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرمایا فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صلدًا (البقره: ۲۶۵) کہ اس پیج کی مثال یعنی اس کام کی مثال جو ریا کی خاطر کیا جائے ، جو خالصہ اللہ کی رضا کی خاطر نہ کیا جائے.اس میں ریاء الناس کا پہلو شامل ہو اس کی مثال ایسی ہے کہ وہ چٹان پر گرے ہوئے بیج کی طرح ہے جس پر کچھ تھوڑی سی مٹی ہو.فَأَصَابَهُ وَابِل پھر جب تیز بارش اس کو پہنچتی ہے فَتَرَكَهُ صَلَدًا تو وہ مٹی کو بہالے جاتی ہے اور چٹان کو اسی طرح چٹیل چھوڑ دیتی ہے.اس کلام الہی میں ایک بڑھی ہوئی حکمت یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے بیج ضائع ہوتے ہیں ان کی اندرونی کمزوریوں کی بھی نشاندہی فرما دی گئی ہے.ورنہ خالص مومن اور خالص متقی کا پیج ضائع نہیں ہوا کرتا.فرمایا ہے کچھ بیچ چٹانوں پر پڑتے ضرور ہیں لیکن مومن چٹانوں پر بیج نہیں پھینکا کرتے کیونکہ مومن صرف دکھاوے کی خاطر، اپنے نمبر بنانے کے لئے کام نہیں کیا کرتے کہ جی! ہم نے اتنی تبلیغ کردی ، اتنے آدمیوں تک پیغام پہنچا دیا، رپورٹیں ایسی باتوں سے بھری ہوتی ہیں نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد یہ ہو گیا اور لوگ بھاگ گئے اور اس کے بعد یہ ہو گیا اور کوئی فائدہ نہ پہنچا.اس کے بعد یہ حادثہ پیش آ گیا.قرآن کریم نے مثال تو مسیح والی بیان کی لیکن دیکھیں اس میں کیسی عظمت پیدا کر دی جو طبیعت کا بہت ہی گہر اشنا سا معالج ہو اس کی طرح مرض کی تشخیص بھی فرما دی.فرمایا ! اگرتم بیج پھینکو اور ہر دفعہ تمہارا پیج ضائع ہو جایا کرے اور جب بارش برسے تو وہ دور ہو جائے بجائے قریب آنے کے.مطلب یہ ہے کہ بجائے آگ کر نشو و نما پا کر تمہاری کھیتی بننے کے تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 452 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء اس وقت سمجھو کہ تمہارے اندر کوئی قصور تھا اور واقعہ یہ ہے کہ مسیح نے جو مثال دی ہے وہ تو روز مرہ کے واقعہ کی ایک عام مثال ہے.دھوپ نکلی اور پیج ضائع ہو گیا.بارش کے ساتھ پیج کے ضائع ہونے کا تعلق یہ ایک بہت ہی غیر معمولی مضمون ہے اور نئی شان کا مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب الہی تجلیات زور دکھاتی ہیں جب خدا تعالیٰ کے جلوے کثرت سے نازل ہوتے ہیں اور جماعت کو ترقیات ملتی ہیں تو ایسے لوگ پھر ساتھ نہیں دے سکتے جن کے اندر کمزور ساتعلق پیدا ہوا ہوتا ہے.وہ ان مطالبوں کو پورے نہیں کر سکتے.ایسی صورت میں ان سے جو توقعات پیدا ہوتی ہیں ان میں وہ ساتھ چل نہیں سکتے.چنانچہ ان کی موت بڑھے ہوئے جلوے بن جاتے ہیں لیکن چٹان پر بیج پھینکا اور پھر دھوپ نے اس کو جلا دیا، یہ روز مرہ کا ایک ایسا معاملہ ہے جس کا انسانی صفات کے ساتھ کوئی گہرا تعلق نہیں ہے لیکن قرآن کریم نے جو مضمون بیان فرمایا ہے اس کا ایمانیات کے ساتھ اور عملاً جس طرح روز بروز واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے ساتھ ایک بہت گہرا اور حقیقی تعلق ہے.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم نے تبلیغ کی اور بیج پھیلا دیئے اور بد قسمتی ایسی ہے کہ یہ زمین سنگلاخ ہے ان کو قرآن کریم کی مثال کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ سنگلاخ زمین پر تم نے بیج پھینکا کیوں تھا اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ساری زمین سنگلاخ ہے بلکہ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ سنگلاخ ہونے کے باوجود یہ امکان موجود ہے کہ پتھر دل پھٹ پڑیں اور ان سے چشمے بہہ جائیں.پس اگر تم ساتھ دعائیں کرو اور رضائے باری تعالیٰ کی خاطر کام کرو تو پھر تم سے جو غلطیاں ہوں گی اس کے بھی نیک ہی نتیجے نکلیں گے.پس تبلیغ کا بہت گہرا نکتہ سمجھایا گیا اور اپنے نفس کا تجزیہ کرنے کا ایک طریق ہمیں سکھلا دیا.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اس سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.پھر مسیح نے اس پیج کی مثال دی جو نشو و نما پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو برکت دینے کے جو وعدے مسیح سے کئے تھے ان کا ذکر فرمایا ہے.اس کے مقابل پر کچھ وعدے حضرت اقدس صلى الله محمد رسول اللہ ہے سے بھی کئے گئے اور ان کی نشو ونما کا بھی ذکر کیا گیا.اب دیکھیں ان دونوں میں ﷺ کتنا فرق ہے.مسیح کہتے ہیں.کچھ اچھی زمین میں گرے اور پھل لائے.کچھ سو گنا کچھ ساٹھ گنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 453 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء کچھ میں گنا جس کے کان ہوں وہ سن لیں.( انجیل متی :۱۳-۲۳) جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةِ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ۖ وَاسِعُ عَلِيمٌ (البقره: ۲۶۲) اے محمد مصطفی ﷺ کے غلاموا تمہیں خوشخبری ہو تمہاری مثال مسیح کے بیج پھینکنے والے جیسی مثال نہیں ہے جس کو زیادہ سے زیادہ سو گنا پھل لگنا تھا.اس سے نیچے اتر کر ساٹھ گنا یا پھر اس سے بھی کم.فرمایا کہ تم حمد مصطفی ﷺ کے غلام ہواور محمد مصطفی ﷺ کی برکت سے تم سے یہ وعدہ ہے کہ حَبَّةٍ انبَتَتْ سَبْعَ سَنَا بِل والی مثال ایسے بیج کی طرح ہوگی جس میں سات بالیاں نکلیں.سنبل بالی کو کہتے ہیں.فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ اور ہر بالی میں سوسودانے لگے ہوئے ہوں.کہاں یہ کہ زیادہ سے زیادہ سومگر آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں سے ہمارا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم ایسی جگہ بیچ پھینکو گے جو زرخیز ہو اور تقویٰ کے ساتھ پھینکو گے تو خود تمہاری مثال بیج کی سی ہو جائے گی.جو نشو ونما پاتے ہوئے ایسی نشو و نما پاتا ہے کہ اس میں ایک ایک دانے سے سات سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سودانے لگتے ہیں یعنی سات سو گنا زیادہ لیکن یہ بھی تو ایک محدود وعدہ ہے اور آنحضرت ﷺ نے ترقی کی تمام حدیں پھلانگ دی تھیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ یہ نہ سمجھنا کہ سات سو پر بات ختم ہو جائے گی.اگر تم اس کی کامل پیروی کرو گے تو یہ وہ رسول ہے کہ تم سے لامتناہی ترقیات کا وعدہ ہے، باقیوں سے جو آگے بڑھ جائیں گے اُن کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہے.وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وہ جتنا چاہے گا بڑھاتا جائے گا جس کے لئے چاہے گا اور زیادہ بڑھاتا چلا جائے گا وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ بہت وسعت دینے والا ہے اور بہت علیم ہے.علیم کا تعلق انسان کے اندرونی حالات سے ہے اور خدا تعالیٰ کافضل جو غیر معمولی طور پر نازل ہوتا ہے وہ انسان کی اندرونی تمناؤں کے ساتھ ایک گہراتعلق رکھتا ہے.اگر خدا کی راہ میں غیر معمولی قربانیوں کی تمنائیں پنپ رہی ہوں اور انسان ہمیشہ اس خیال میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 454 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء کھویا ر ہے کہ میں کچھ اور بھی کروں، کچھ اور بھی کروں لیکن انسانی توفیق محدود ہو اور وہ ان تمناؤں کو پورا نہ کر سکے تو پھر اس سے آگے فضل الہی کے ساتھ اس مضمون کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے پھر وہ جتنا کماتا ہے اُس سے زیادہ خدادے دیتا ہے جیسا کہ گناہوں کے متعلق بھی گنہگار کہتے ہیں: نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد (دیوان غالب صفحه ۳۴۶) کہ خدا جو گناہ ہم نہیں کر سکے اُن کی حسرت کی ہی داد دے دے.خدا تعالیٰ ان نیکیوں کی داددیتا ہے جو انسان نہیں کر سکتا اور اس کا بھی دل سے تعلق ہے.تو فرمایا ہے کہ واسمح تو وہ ہے لیکن علیم بھی ہے.اگر تمہارے دل میں لامتناہی خدمت کی تمنائیں ہیں اور توفیق نہیں ہے تو خدا تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جس کے تم غلام ہو اس کی برکت سے، اس کی محبت کے نتیجہ میں اللہ تعالی تمہیں لا محمد ود عطا کرے گا تمہارے ساتھ سویا دوسو یا چار سو یا سات سو دانوں کا وعدہ نہیں ہوگا بلکہ لامتناہی ترقیات ہوں گی.پھر آگے یسعیاہ کی پیشگوئی شروع ہوتی ہے حضرت مسیح نے اس کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ آج ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں یہ وہی دور ہے جس پر یسعیاہ کی پیشگوئی صادق آتی ہے.وہ پیشگوئی کیا تھی؟ تم کانوں سے سنو گے پر ہرگز نہ سمجھو گے اور آنکھوں سے دیکھو گے پر ہرگز معلوم نہ کرو گے کیونکہ اس امت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لا ئیں اور میں ان کو شفا بخشوں (انجیل متی : ۳۶:۱۳) یعنی ڈرتے ہیں کہ ہم سے یہ نہ ہو جائے.اس مضمون کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ * (البقره: ۸) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں وَعَلَى سَمْعِهِمْ.اور ان کے کانوں پر مہریں لگادی ہیں وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ “ اور ان کی آنکھوں پر جھلیاں آگئی ہیں ، جیسے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 455 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء موتیا بند کے ساتھ آنکھوں کے اوپر جھلی آجاتی ہے اور وہ دیکھ نہیں سکتیں.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دور میں موسوی امت کی جو حالت تھی اس کا ایک گہرا تعلق مسیح کی آمد ثانی کے دور سے ہے اور لازم تھا کہ وہ علامتیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ان لوگوں میں پائی جاتیں جو اپنی بیماریوں کی وجہ سے ایک مسیحی نفس کا تقاضا کر رہے تھے.جن پہلی بیماریوں نے مسیح اول کا تقاضا کیا تھا اور مسیح نے ان لوگوں کو شفاء بخشی تھی جنہوں نے اسے قبول کیا.لا زم تھا کہ یہ بیماریاں جب دوبارہ سر اٹھا ئیں تو وہی آزمودہ نسخہ دوبارہ آسمان سے اتارا جائے.میچ کی آمد ثانی کا یہ راز ہے مگر جن لوگوں کی آنکھیں اندھی ہو چکی ہوں وہ بھی نہیں دیکھتے اور جو گھبراتے ہیں کہ اگر ہم نے دیکھا تو صداقت قبول کرنی پڑے گی اور دنیا کے پھندے ان کو تو فیق نہیں دیتے کہ وہ آزاد ہو کر صداقت کی طرف بڑھ سکیں ان کا حال بھی اندھوں کی طرح ہو جاتا ہے.کچھ وہ ہیں جوسن نہیں سکتے کیونکہ ان کے کانوں پر مہریں ثبت ہیں اور سنائی دیتا ہی نہیں.ان معنوں میں کہ لمبے عرصہ کی غفلتوں کے نتیجہ میں لمبے عرصہ کی ٹیڑھی سوچوں کے نتیجہ میں واقعہ ان کو سچا پیغام سمجھ ہی نہیں آسکتا لیکن ایسے بھی ہیں جو ڈرتے ہیں کہ ہم سمجھ جائیں گے اور اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں.قرآن کریم نے دوسری جگہ ایسے لوگوں کی مثال دی ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو وہ موت کے ڈر سے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ کچھ بہرے نہیں بھی ہوتے لیکن آوازوں کے خوف سے وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیا کرتے ہیں تو ایسے بھی بعض سننے والے ہیں جن کے اندر شنوائی کی رمق موجود ہوتی ہے لیکن ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ ہم سمجھ ہی جائیں اور مجبور ہو جائیں اور پھر ان کی پیروی کرنی پڑے اور پھر دنیا سے تعلقات کاٹنے پڑیں.اس ضمن میں آخری فقرے یہ بیان کیے گئے ہیں کہ تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم ،، پہلے وہ لوگ جن کا ذکر ختم الله کے تابع ہے کہ وہ تو لمبی بد کرداریوں کی وجہ سے سننے سے ہی محروم رہ گئے ، دیکھنے سے ہی محروم اور ان کے دل غافل ہو چکے ہیں ان کو کچھ مجھ نہیں آ سکتی.آمْ عَلَى قُلُوبِ اَقْفَالُهَا.قرآن کریم نے دوسری جگہ اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ گویا ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں، تالے پڑ گئے ہوں تو کوئی چیز اندر جاتی ہی نہیں مگر کچھ اور بھی ہیں جہاں چیزیں آتی جاتی ہیں اور تالے نہیں پڑے ہوئے مگر اچھی چیزوں کے لئے وہ تالے لگا لیتے ہیں اور بری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 456 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء چیزوں کے لئے کھول دیتے ہیں اُن کا ذکر حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لائیں اور میں ان کو شفا بخشوں لیکن مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اس لئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اس لئے کہ وہ سنتے ہیں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راست بازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا“ ی مسیح کے وہ کلمات ہیں جو بڑی شان کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے دور آخر پر صادق آتے ہیں اور اس میں جماعت احمد یہ خصوصیت سے مخاطب ہے.لیکن مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اس لئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اس لئے کہ وہ سنتے ہیں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راستبازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے مقام او مبین از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند ( تذکره: ۵۱۶) کہ اس مسیح یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھو بدورانش رسولاں ناز کردند اس کے دور پر تو رسول ناز کرتے تھے.کئی غیر احمدی مولوی اپنی جہالت میں اعتراض کرتے ہیں کہ دکھاؤ کہاں رسولوں نے مسیح موعود کے دور پر ناز کیا ہوا ہے.ان جاہلوں سے پوچھو کہ اگر مسیح موسوٹی کے دور پر ناز کرتے تھے تو مسیح محمدی ﷺ کے دور پر کیوں ناز نہیں کریں گے.اس مسیح محمدی کے متعلق جس کے دور کی خود محمد رسول اللہ ﷺ نے خبریں دی ہیں جس کا قرآن میں ذکر ملتا ہے کیسی جہالت ہے کہ مسیح موسوی جب یہ بات کہتے ہیں تو بغیر چینج کے قبول کرتے اور کہتے ہیں.آمنا و صدقنا ہاں اے مسیح! تیرا دور ایسا ہی تھا کہ جس پر رسول ناز کریں جب مسیح محمدی یہی اعلان کرتا ہے تو کانوں میں انگلیاں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توبہ توبہ کیسی بات کر گیا ہے محمد کا مسیح ہوا اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 457 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء الله اس کے دور پر رسول ناز کریں.کتنی بڑی گستاخی ہے جتنی بڑی تم گستاخی سمجھتے ہو اتنی بڑی تم محمد ﷺ کے دربار میں گستاخی کرتے ہو.ان کی شان میں گستاخی کرتے ہو کیونکہ آپ کا مقام اور آپ کے غلاموں کا مقام، یہ دونوں مقام وہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةً کے ساتھ فرمایا گیا ہے اور کوئی ان مقامات کو الگ نہیں کر سکتا اور ساری کائنات میں ہر زمانہ میں تلاش کر کے دیکھو محم مصطفی ﷺ کی شان کا نہ کوئی رسول پیدا ہوا نہ اس شان کے متبعین پیدا ہوئے جیسے محمد رسول اللہ اللہ کو نصیب ہوئے اور یہ بات دونوں ادوار پر یکساں صادق آتی ہے.دور اول پر بھی اور دور آخر پر بھی.پس مسیح کے اس فقرے کو سنیں ، دیکھیں کتنا معنی خیز ہے اور مسیح اوال مسیح ثانی کی کیسی تائید کر رہا ہے.فرماتے ہیں : ” کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راستبازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا اور جو باتیں تم سنتے ہوسیں مگر نہ سنیں“ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس پر اس ذکر کو ختم کرتا ہوں ایک چھوٹی سی الگ بات اور بھی کرنے والی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.دیکھو! آج میں نے بتلا دیا.زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی کہ ہر " ایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہوگا اور ہر ایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے نا پاک کرے گا وہ پکڑا جائے گا.خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی ہے.پس اٹھو اور ہوشیار 66 ہو جاؤ کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه: ۶۳۵-۶۳۶) اس میں پہلے نبیوں کی دوستم کی خبروں کا ذکر ملتا ہے.ایک وہ خبر جس کا ذکر اس شعر میں ہے کہ بدورانش رسولاں ناز کردند جس کا ذکر حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تمثیلات کے ساتھ بیان فرمایا اور وہ میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے لیکن نبیوں کے ہاں ایک اور بھی ذکر ملتا ہے جو انذاری حکم ہے اور اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دیکھو! آج میں نے بتلا دیا.زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی کہ ہر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 458 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء ایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہوگا اور ہر ایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے نا پاک کرے گا پکڑا جائے گا.خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی ہے.پس اٹھو اور ہوشیار ہو جاؤ کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی.“ مگر اس خبر کے مصداق احمدی نہیں ہیں اس خبر کے مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسیح موعود کا انکار کیا اور اپنی غفلت اور لاعلمی یا جہالت یا بچی کے نتیجہ میں وہ نیکی کی طرف پیٹھ پھیر کر بدیوں کی طرف بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں.ان کی ہلاکت کا زمانہ قریب ہے.عالمی ہلاکت کی وہ پیشگوئیاں جو اس سے پہلے گزر چکیں اب جو آنے والی ہے، اب جو پوری ہونے والی ہے وہ ان سے بہت زیادہ شدید ہوگی اس لئے ساری دنیا کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ان خوش نصیبوں کو کام کرنا ہے جن کی اچھے لفظوں میں بلکہ رشک کے ساتھ پرانے نبیوں نے پیشگوئیاں کی تھیں.آپ کون ہیں؟ آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں." یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا...“ یہ انذار اپنی جگہ مگر یہ انذار تمہارے لئے نہیں ہے...تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.بہت ہی خوبصورت کلام ہے قرآن کریم نے جو الزراع فرمایا وہاں انسان ہونے والے تھے اب یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ پیج اصل میں خدا کا ہے.بونے والے ہاتھ خواہ انسان کے ہوں لیکن جو بیج ہے وہ خدا کا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وو...تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئی بیعت میں صادق اور کون
خطبات طاہر جلد ۱۲ کاذب ہے..." 66 459 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء یہ جو ابتلاء آتے ہیں تو ان کے ساتھ کچھ خشک پتے جھڑ جاتے ہیں کچھ خشک ٹہنیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور جلائی جاتی ہیں لیکن جو کچھ بچتا ہے وہ مزید نشو ونما پاتا ہے اور حیرت انگیز طریق پر پھولتا اور پھلتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے.پس بد نصیب ہیں وہ جو دور ابتلاء میں گر جائیں اور بہار کا زمانہ نہ دیکھیں.فرماتے ہیں: وو...وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے...“ اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر کی جماعتیں شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ دور ابتلاء میں لمبے صبر کے نمونے دکھائے.کچھ براہ راست تکلیفوں میں مبتلا کئے گئے.کچھ اپنے پیاروں کی تکلیفوں میں مبتلا ہوئے ان سب کے لئے خوشخبری ہے.فرماتے ہیں.وو...مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی.وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.“ 66 الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه: ۳۰۹) یہ وہ دوسرا دور ہے جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ داخل ہو چکی ہے اگر چہ اس عرصہ میں کبھی بھی جماعت احمد یہ پر برکتوں کے دروازے بند نہیں ہوئے بلکہ جس تیزی کے ساتھ برکتوں کے نئے نئے ابواب کھل رہے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر برکتوں کے نزول کے لئے ہر روز نئے دروازے کھولے جارہے ہیں اور ڈھیروں برکتیں پھینکی جارہی ہیں.یہ وہ دور ہے جس میں بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ برکتیں سنبھالی نہیں جائیں گی.وہ لوگ جو باغوں کا تجربہ رکھتے ہیں.ان کو پتا ہے.ایک زمانہ ہوتا ہے کہ انتظار ہی ہوتا ہے اور کبھی کھٹا پھل بھی ہاتھ آجائے تو انسان اس کو دیکھ دا کھ کر چکھ کر کچھ لطف اٹھاتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ ٹھیکہ لگے اور کبھی کوئی پکا ہوا پھل بھی میسر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 460 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء آجائے.پھر وہ دور آتا ہے کہ پھل پکنے شروع ہو جاتے ہیں.پھر اس طرح پکتے ہیں کہ زمینداروں سے سنبھالے نہیں جاتے ، باغبانوں سے بھی سنبھالے نہیں جاتے اور وہ جو پہلے ایک ایک پھل کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے وہ زمیندار بعض دفعہ دعوت عام دے دیتا ہے کہ آؤ اور جوتو ڑسکتا ہے تو ڑے اور کھائے تو خدا کی برکتیں اس طرح نازل ہوا کرتی ہیں اور میں یہ سمجھ رہا ہوں بلکہ دیکھ رہا ہوں کہ احمدیت کے لئے وہ زمانہ سامنے آکھڑا ہوا ہے.اب آسمان سے اس تیزی کے ساتھ پھل گریں گے کہ ان کے سنبھالنے کی فکر کریں اب فصلیں کاشت کرنے سے زیادہ فصلیں سنبھالنے کا وقت آیا کھڑا ہے کیونکہ پھل پک چکے ہیں اور انشاء اللہ ساری دنیا ان برکتوں کی گواہ ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جس کے ضمن میں پہلے ایک تمہید میں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.آپ میں سے اکثر کو یاد نہیں ہوگا جیسا کہ مجھے بھی یاد نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جمعرات کو منصب خلافت پر فائز فرمایا اور وہ جون کی ۱۰ تاریخ تھی اور اگلے دن 11 تاریخ کو جمعہ تھا.کل امام صاحب نے نماز پر آتے ہوئے مجھے کہا.مبارک ہو.میں نے کہا کس بات کی؟ مجھے تو کوئی خاص خیال بھی نہیں تھا.میں نے کہا کہ شاید باہر سے کوئی اچھی خبر آئی ہے.انہوں نے کہا کہ آپ کی خلافت کے گیارہ سال پورے ہو گئے اور بارہواں شروع ہو رہا ہے.اس پر سوچتے ہوئے میرا ذ ہن ایک اور الہام کی طرف بھی منتقل ہو گیا اور وہ ہے.بعد گیارہ.انشاء اللہ تعالی ( تذکرہ : ۳۲۷) ابھی پرسوں اس الہام کی بات ہمارے گھر چل رہی تھی تو میں نے کہا شاید خدا کے ہاں یہ مقدر ہو کہ ہماری ہجرت کے گیارہ سال ہوں اور گیارہ سال کے بعد ہم واپس وطن چلے جائیں.جب امام صاحب نے کہا کہ آپ کی خلافت کے گیارہ سال پورے ہو گئے اور بارہویں میں داخل ہو گئے ہیں تو میں نے کہا کہ مجھے تو پھر خدا پر حسن ظنی کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ اس الہام کے اس رنگ میں بھی پورے ہونے کے دن آگئے ہیں کہ خلافت رابعہ کے گیارہ سال کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ کچھ ہو گا ضر و ر وہ کیا ہوگا ؟ اس کا تعلق دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے ساتھ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اگر چہ اس الہام کو بابو الہی بخش کی موت پر بھی لگایا ہے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 461 خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء جہاں عموماً ذکر ملتا ہے وہاں بنیادی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ بات اس الہام سے قطعی ہے کہ یہ الہام میری صداقت کے اظہار کے لئے ظاہر ہوگا اور بڑی شان کے ساتھ ہوگا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پارٹیشن کے وقت اپنی ہجرت کے وقت کے ساتھ بھی اس الہام کے مضمون کو باندھا تو بعض چیزیں ذوالوجوہ ہوتی ہیں.ایک شان سے بھی پوری ہوتی ہیں دوسری سے بھی ، تیسری سے بھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الہام کو جتنی اہمیت دی ہے اور جس غیر معمولی نشان کے طور پر اس کو سمجھا ہے بعید نہیں کہ اس کا زمانہ اب قریب میں آنے والا ہو کیونکہ پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب میں تمام حدیں پھلانگی گئی ہیں، بے حیائی کی کوئی بات چھوڑی نہیں گئی اس لئے اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عالمی نشان ظاہر ہونے چاہئیں.ایک وہ نشان ہے جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کی جماعت کو ایک جمعہ پر ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی توفیق بخشی ہے اور دنیا کے کونے کونے پر ایک بھی جگہ نہیں ، نہ شمال میں ، نہ جنوب میں، نہ مشرق میں، نہ مغرب میں جہاں جماعت احمدیہ کے امام کا خطبہ جمعہ دیکھا اور سنا نہ جاسکتا ہو تو یہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن بعد گیارہ نہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بعد گیارہ اس سے بھی بہت بڑا نشان ہوگا یا اسی نشان کی کوئی ایسی شان ظاہر ہوگی جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کے لئے قوموں کے دل تیار ہوں گے اور یہ جو بیوست کا دور ہے ،نحوست سی چھائی ہوئی ہے اور یہ دور انشاء اللہ دور بہار میں بدل جائے گا.اس توقع کے ساتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.وو...میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ میں اس وقت سے پہلے مروں جب تک میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری ثابت نہ کرے...“ یہ ایک دور وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور وصال سے پہلے بہت سے نشانات کی صورت میں ظاہر ہو گیا اور انہی نشانات میں سے ایک الہی بخش کذاب کی موت کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 462 خطبہ جمعہ ۱۱/جون ۱۹۹۳ء نشان تھا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیل سے فرمایا ہے.پھر فرماتے ہیں:.اس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو اردسمبر ۱۹۰۰ء روز پنجشنبہ وو کو یہ الہام ہوا.مقام فلک شده یا رب بر مقام گرامیدے دہم مدار عجب بعد گیارہ.انشاء اللہ تعالیٰ میں نہیں جانتا کہ گیارہ دن ہیں یا گیارہ ہفتہ یا گیارہ مہینے یا گیارہ سال مگر بہر حال ایک نشان میری بریت کے لئے اس مدت میں ظاہر ہوگا...“ ( تذکرہ صفحہ : ۳۲۷) جیسا کہ میں نے بیان کیا بعض الہام ذوالوجوہ ہوتے ہیں.گیارہ سال تک آپ نے فرمایا ایک شان کے ساتھ پورا ہو گیا.اگر یہ اس کی آخری حد ہوتی تو حضرت مصلح موعود جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ساری جماعت سے بڑھ کر عرفان تھا وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ میری ہجرت پر بھی یہ الہام لگ گیا ہے اس لئے کہ تذکرہ میں نیچے یہ نوٹ ہے کہ بعض الہام ذوالوجوہ ہوتے ہیں تو اگر ایک معنی میں پورا ہوا ہے تو ایک اور معنی میں بھی پورا ہو سکتا ہے جس کا بنیادی تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت سے ضرور ہو گا.یہ مضمون ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو اس کے لئے دعا کی طرف توجہ ہو اور خصوصیت سے دعا کریں کہ بعد گیارہ کا جو دور شروع ہو رہا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کناروں سے کناروں تک برکتوں سے بھر دے.فرماتے ہیں.بر مقام فلک شده یا رب گرامیدے دہم مدار عجب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے...اس مضمون کا جماعت احمدیہ کی آج کی دہائی سے بڑا گہراتعلق ہے تکلیفوں کا اتنا لمبا عرصہ گزرا ہے.پاکستان میں احمدیوں نے اتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں کہ واقعہ احمدیوں کی بعض راتیں دُہائیاں دیتے گزر گئیں اور مسلسل دہائیاں دیتے رہے ہیں.لفظ دُہائی جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال کیا ہے اس سے بہتر یہ مضمون بیان نہیں ہو سکتا تھا اور جماعت احمدیہ کے حالات پر یہ بہترین
خطبات طاہر جلد ۱۲ 463 طور پر صادق آتا ہے.تو لفظ دُہائی کا یہ بہت پیارا استعمال ہے.فرمایا.وو خطبہ جمعہ اارجون ۱۹۹۳ء...تیری دہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے.اب میں اگر تجھے کوئی ( تذکره صفحه : ۳۲۷۳۲۶) امید اور بشارت دوں تو تعجب مت کر.میری سنت اور موہبت کے خلاف نہیں.بعد گیارہ انشاء اللہ...“ فرمایا اس کی تفہیم نہیں ہوئی تو ایک دفعہ امید ظاہر فرمائی ہے کہ اس کے یہ معنی ہوں گے لیکن ساتھ ایک اور دروازہ یہ فرما کر کھول دیا کہ اس کی تفہیم نہیں ہوئی یعنی جو معنی میں بیان کرتا ہوں میں اپنی امید اور توقع کے مطابق بیان کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین تفہیم نہیں ہوئی.پس جب خدا نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے تو کیوں نہ ہم توقع رکھیں کہ اس دور میں بھی خدا اس الہام کو اس شان کے ساتھ پورا کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے کل عالم میں، چہار دانگ عالم میں ڈنکے بجنے لگیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.ہم اپنے کانوں سے ان تصدیق کی آوازوں کو سنیں، اپنی آنکھوں سے اس دور ظفر موج کو دیکھیں اور ہماری آنکھیں بھی ٹھنڈک پائیں اور دل بھی شاداں ہوں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہوا اور جلد تر ہو.(آمین)
464 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 465 خطبه جمعه ۱۸ جون ۱۹۹۳ء اسلام اپنی شان میں آخری اور کامل مذہب ہے.اسلام ایسا کامل مذہب ہے جو حسن سے لبالب ہے.( خطبه جمعه فرموده ۱۸/جون ۱۹۹۳ء بمقام نارتھ کیپ اوسلو ناروے) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام کا یہ دعوی ہے کہ نہ صرف آخری مذہب ہے بلکہ کامل ہے اور کامل ہونے کی وجہ سے آخری ہے ورنہ اپنی ذات میں محض آخری ہونا تو کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ایک انسان جو سب سے آخر پر مرے گا وہ انسانوں میں سے آخری ہوگا لیکن فی الحقیقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے قیامت اشرار الناس پر آئے گی ( مشکوۃ کتاب العلم والفضل صفحہ: ۵۸).ان لوگوں پر جو سب سے زیادہ شریر ہوں گے تو لازماً آخری مرنے والا شریرترین انسان ہو گا اور اُس کے باوجود وہ آخری کہلائے گا.پس قرآن کریم کا یہ حسن ہے کہ محض آخری ہونے کا دعویدار نہیں ہے بلکہ اس بنا پر آخری ہونے کا دعویدار ہے کہ سب سے زیادہ کامل ہے.اگر حسن میں کوئی آخری ہو ، درجہ کمال میں کوئی چیز آخری ہو تو وہ آخر ہونا کوئی معنی رکھتا ہے.اُس سے بہتر اُس نوع میں ، اس قسم میں اور کوئی چیز پیدا نہ ہو سکے.پس اسلام اگر کامل ہے تو لازماً اس نے آخری ہونا ہے کیونکہ کامل کے بعد اور کسی چیز کا تصور نہیں ہوسکتا.جو چیز درجہ کمال کو پہنچ جائے اُس سے نہ کچھ کم ہو سکتا ہے، نہ اس میں کچھ زیادہ ہوسکتا ہے.جیسا کوئی پیالہ لبالب بھر جائے اُس میں ایک قطرہ بھی نہ اضافہ کیا جا سکے، نہ اُس میں سے نکالا جاسکے کیونکہ جس نکالتے ہیں تو پھر اُس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ لبالب بھرا ہوا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 466 خطبه جمعه ۱۸ جون ۱۹۹۳ء پس اسلام ایک ایسا کامل مذہب ہے جو حسن سے لبالب بھر چکا ہے اور چونکہ اس کے حسن میں اضافہ نہیں ہو سکتا اس لئے آخری ہے.اس دعویٰ کو جب ہم دنیا کے دیگر مذاہب کے ساتھ پر کھتے ہیں تو ہر اس شعبے میں جس میں مذہب تعلیم دیتا ہے، اسلام کی تعلیم زیادہ خوبصورت ، کامل بلکہ اکمل دکھائی دیتی ہے.کوئی ایک بھی شعبہ زندگی کا نہیں جس میں انسان کو دلچسپی ہو یا انسان کے لئے دلچسپی ہونی چاہئے اور اُس شعبے میں قرآن کی تعلیم باقی تمام مذاہب کی تعلیم سے زیادہ حسین تر اور مناسب تر نہ ہو.اب لفظ عبادت کا استعمال ہو رہا ہے.ہر مذہب کے ساتھ عبادت کا تعلق ہے.دنیا میں کوئی مذہب عبادت کے تصور کے بغیر رہ نہیں سکتا لیکن میں نے اس پہلو سے دنیا کے مذاہب کا مقابلہ کر کے دیکھا اور یہ جائزہ لیا کہ عبادت کے مضمون میں کس کس مذہب نے کیا کچھ بیان کیا ہے.تو آپ جب اسلام کے ساتھ یہ موازنہ کر کے دیکھتے ہیں تو سارے مذاہب یوں لگتا ہے کہ از منہ گزشتہ کی چیزیں ہیں جن کا زمانہ حال سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں رہتا.جیسے Evolution میں پیچھے رہ جانے والے جانور ہوں اور اُن کا انسان سے مقابلہ کیا جا رہا ہو.اتنی وسعت ہے اسلام کی عبادت کی تعلیم میں کہ اُس کا کسی دوسرے مذہب کے ہاں تصویر ہی نہیں ملتا.مثلاً ہندو مذہب کا مطالعہ کر لیجئے ، بدھ ازم کا مطالعہ کر لیجئے ، یہودیت کا کرلیجئے ، عیسائیت کا کر لیجئے.ہر جگہ آپ کو عبادت کا مضمون تو ملے گا.مگر یہ دکھائی نہیں دے گا کہ مختلف حالات میں عبادت کو کیا رنگ اختیار کرنا چاہئے؟ مجبوری کی عبادت کا کوئی ذکر نہیں ملے گا، بیمار کی عبادت کا کوئی ذکر نہیں ملے گا، مسافر کی عبادت کا کوئی ذکر نہیں ملے گا، ایسے بیمار کی عبادت کا ذکر نہیں ملے گا جو لیٹا ہوا ہو اور اٹھ بھی نہ سکتا ہو.ایسے بیمار کی عبادت کا کوئی ذکر نہیں ملے گا جو منہ سے بول نہ سکتا ہو ، انگلی تک نہ ہلا سکتا ہو.اُس کو کیا کرنا چاہئے ؟ عبادت کے ضمن میں آپ کو پاکیزگی کا تصور تو ملے گا لیکن یہ نہیں پتا چلے گا کہ اگر پانی میسر نہ ہوتو کیا کرنا ہے؟ پاکیزگی کا ذکر ملے گا تو پاکیزگی کی قسمیں موجود نہیں ہوں گی.یہ نہیں پتا چلے گا کہ پاکیزگی کتنی قسموں کی ہے؟ کس حد تک انسان ادنیٰ حالت میں پاکیزگی اختیار کر کے عبادت کے لائق ہوسکتا ہے؟ درجہ بدرجہ پاکیزگی کتنا ترقی کرتی ہے؟ تیم سے لے کر یا خشک ڈھیلوں کے استعمال سے لے کر غسل تک تمام مختلف مراحل جو پاکیزگی کے ہیں اُن سب کا قرآن کریم میں یا احادیث میں یا سنت میں بیان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 467 خطبه جمعه ۱۸ جون ۱۹۹۳ء موجود ہے.پھر مرد کی پاکیزگی اور عورت کی پاکیزگی مختلف حالتوں کی پاکیزگی، کنواروں کی پاکیزگی اور شادی شدہ لوگوں کی پاکیزگی.ایک عبادت کے تعلق میں مختلف لوازمات پر نظر ڈال کر دیکھ لیں ، تمام مذاہب پر نگاہ ڈالیں کہیں آپ کو اسلام کا عشر عشیر بھی ان کی تعلیم میں دکھائی نہیں دے گا.وہ مضمون ہی موجود نہیں ہے.ایک آدمی بیمار ہو جائے تو کیا کرے.ایک آدمی کو گر جایا مندر یا کلیسا میسر نہ ہو تو اُسے کیا کرنا چاہئے.اسلام کی تعلیم اتنی وسیع ہے، اتنی عظیم الشان ہے کہ حضر وسفر کے تمام معاملات کے ہر پہلو پر نظر رکھتی ہے اور یہ بھی بیان کرتی ہے کہ اگر مسجد میسر نہ آئے تو تم کیا کرو.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کواللہ تعالی نے جو غیر معمولی شرف عطا فرمائے.اُن کا آپ نے مختلف وقتوں میں ذکر فرمایا.اُن میں سے ایک شرف آپ نے یہ بتایا خدا تعالیٰ نے میرے لئے اور میری امت کے لئے ساری زمین کو مسجد بنا دیا ہے؟ (مسلم کتاب المساجد حدیث نمبر : ۸۱۰ ) کوئی ایک بھی انسان نہیں ہے جو مسجد سے محروم رہ جائے اور ہم یہاں بیٹھے ناروے کی سرزمین پر ایک خوبصورت نالے کے قریب یا کیمپ میں جمعہ پڑھ رہے ہیں اس کی سند کیا ہے؟ یہ وہی سند ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے ورنہ دوسرے مذاہب میں تو اس کا کوئی ذکر ، کوئی اشارہ تک آپ کو دکھائی نہیں دے گا.سفر میں عبادت کرنے کا ہی کوئی تصور نہیں کجا یہ کہ ساری زمین تمہارے لئے خدا کے حکم سے مسجد بنادی گئی ہے.اب یہ مسجد ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے چپے چپے پر بنا رکھی ہے اور جہاں کہیں بھی اجتماعی عبادت کا وقت آئے گا وہیں مسجد کا تصور پیدا ہوگا.وہیں ہم سب مل کر اجتماعی عبادت کر سکتے ہیں.پھر اجتماعی عبادت اور انفرادی عبادت کے فرق جس تفصیل سے اسلام نے بیان فرمائے ہیں.اُن کا کوئی ذکر اذکار کسی اور مذہب میں دکھائی نہیں دیتا اور حیرت انگیز تفصیل سے مختلف امکانات پر بحث فرمائی گئی ہے.جہاں نماز با جماعت پر زور ہے.مسجد تو بن گئی کیونکہ زمین کا چپہ چپہ مسجد بنا دیا گیا ہے.نمازی کہاں سے اکٹھے کرو گے.اگر با جماعت نماز پڑھنی ہے تو نمازی کہاں سے صلى الله لاؤ گے.یہ سوال ہے جو پیدا ہوتا ہے یہ بھی اٹھایا گیا ہے.آنحضور ﷺ نے جب نماز با جماعت پر زورد یا تو ایک بدوی نے جو گڈریا تھا جو بھیڑیں چراتا تھا اور اکثر اس صورت میں بعض دفعہ دنوں اُس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 468 خطبه جمعه ۱۸ جون ۱۹۹۳ء کو جنگل میں وقت کا نا پڑتا تھا دور ونزدیک کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا تھا.اس کے دل میں بھی خیال پیدا ہوا کہ میں بھی باجماعت نماز پڑھوں.اُس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں کیا کرسکتا ہوں میرے لئے کیا حکم ہے.بارہا جنگل میں دور بیابان میں مجھے نماز کا وقت آ جاتا ہے اور کوئی دور ونزدیک مجھے انسان دکھائی نہیں دیتا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں تمہاری نماز بھی با جماعت ہو سکتی ہے تم اذان دو.اذان کی آواز سن کر کوئی دور سے جاتا ہوا مسافر تمہارے پاس آ جائے تو سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں باجماعت نماز کرنے کے لئے تمہارا ساتھی بھیج دیا ہے اور اگر تمہاری اذان کے باوجود کوئی نہ آئے تب بھی تم تکبیر کہہ کر امامت کرواؤ اور خدا آسمان سے فرشتے اتارے گا اور وہ تمہارے ساتھ شامل ہوں گے اور تمہاری نماز با جماعت ہو جائے گی.اس سے زیادہ کامل تعلیم دنیا میں متصور ہو ہی نہیں سکتی.تصور کو دنیا کے سب امکانی گوشوں میں دوڑا کے دیکھ لیں اپنے تخیل کی پرواز کو ہر امکان کا پہلو دکھا دیجئے اور اڑتے ہوئے آپ کا تصور ہر طرف امکان کی دنیا میں پر مارے اور تلاش کرے کہ کوئی ایسی جگہ ہو جس جگہ اسلام کی نظر نہ پہنچی ہو.وہ نظر تھکی ہوئی واپس لوٹ آئے گی مگر دیکھے گی کہ اسلام کی نظر ہر مقام پر پہنچی ہوگی.اس لئے یہی مذہب کامل ہے اور کامل ہونے کی وجہ سے ہر زمانے کے لئے اور تمام انسانوں کے لئے ہے یہی وہ مضمون ہے جس کو خدا تعالیٰ کی کامل تخلیق کے رنگ میں دنیا میں جو نظام پیدا فرمایا ہے.اُس کی مثال کے طور پر قرآن کریم بیان فرماتا ہے، فرماتا ہے کہ تو اپنی نظر کو دوڑا کے دیکھ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ (الملک : ۵) فتور دیکھنے کے لئے اپنی نظر کو دوڑاؤ ، زمین و آسمان پر نگاہ ڈالو.کوشش کرو کہ کوئی ایک چھوٹا سا نقطہ بھی ایسا دکھائی نہ دے جہاں کوئی خلا رہ گیا ہو.جہاں تخلیق میں کوئی ادنی سی بھی کمزوری پائی جاتی ہو.فرمایا تم ایسا نہیں کر سکو گے.پھر فرمایا دوبارہ نظر دوڑاؤ، ایک دفعہ پھر کوشش کر لو از جعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ دوباره دوڑ او يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرو تیری طرف تھکی ماندی ہتھکی ہاری نظر واپس لوٹ آئے گی اور اُسے کوئی کمزوری، کوئی خلا دکھائی نہ دے گا.اس مضمون کا تعلق صرف ظاہری کائنات سے نہیں ہے بلکہ اُس روحانی کامل کا ئنات سے بھی ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بطور اسلام نازل فرمائی گئی جو قرآن کے ذریعے ہمارے سامنے پیش فرمائی گئی ہے.اس روحانی کائنات پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 469 خطبه جمعه ۱۸ جون ۱۹۹۳ء بھی بعینہ یہ مضمون صادق آتا ہے.یہ پس آج ہم اس سفر میں گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر امکانی ضرورت کا چودہ سو سال پہلے سے خیال رکھا تھا اور ہم ایک ادنی سا بھی تر د داس بات میں محسوس نہیں کر رہے کہ جمعہ کا وقت آ گیا ہے، کیسے جمعہ ادا کریں، کہاں مسجد کی تلاش کریں ، پانی پوری طرح میسر نہ آئے تو کیا کیا جائے.ہر امکان کو اسلام نے پوری طرح پہلے سے پیش نظر رکھ کر اُس کی ضروریات کو پورا فرما رکھا ہے.اس کو کہتے ہیں کامل مذہب ، اسی کا نام آخری مذہب ہے.کوئی آخری قابل تعریف نہیں جب تک کہ وہ کامل نہ ہو اور انہی معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی سے آخریت کے درجہ کمال تک پہنچے کیونکہ حسن و جمال میں درجہ کمال تک پہنچ گئے تھے.اس لئے کہ حسن میں آپ ﷺ سے اوپر درجہ متصور نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے حسن خلق میں اور حسن سیرت میں اور حسن کردار میں اس سے اوپر کا کوئی مضمون انسانی ذہن میں آہی نہیں سکتا تھا.آخری حدوں کو آپ میں نے چھوا ہے اس لئے آپ میر صلى الله آخری ٹھہرائے گئے اور ان معنوں میں یہ آخری ہونا قابل تعریف ہے.خدا کرے کہ ہم ان معنوں میں حضرت محمدمصطفی ﷺ کی امت کا وہ آخری حصہ بن جائیں جن کو اخرین کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے آخرین کی ایک یہ تعریف فرمائی ہے کہ یا درکھو کہ تم خدا تعالیٰ کی وہ آخری جماعت ہو جس نے یہ یہ ظیم الشان کام کرنے ہیں یہاں زمانے کے لحاظ سے آخری ہونا نہ پیش نظر تھا، نہ کوئی معنی رکھتا ہے.مراد یہ ہے کہ تم وہ آخری جماعت ہو جس نے بنی نوع انسان کو اپنے مراتب اور اپنے کمالات کے لحاظ سے آخری مقام تک پہنچانا ہے اگر تم ایسا کرو گے تو حضرت محمد مصطفی مہینے کی آخریت کی غلامی کا حق ادا کرو گے.اگر اس میں ناکام رہے تو حضرت محمد مصطفی ملے تو پہلے بھی آخر تھے اور آخر تک آخر ہی رہیں گے.ہمیں پوری طرح آپ کی غلامی کی طرف منسوب ہونے کا جو حق وہ میسر نہیں آئے گا.خدا کرے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی وہ آخری جماعت ثابت ہوں جو آخری نبی کے شایان شان بنے.آپ کے قدموں کے ساتھ وابستہ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
470 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 471 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء ,, دن سال کے برابر ہوتے ہیں ، رسول کریم یا اللہ کی عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا اور جماعت کا ایک سنگ میل عبور کرنا ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ جون ۱۹۹۳ء بمقام نارتھ کیپ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا جمعہ ہم ناروے کے انتہائی شمالی مقام جسے یہاں نارتھ کیپ کہا جاتا ہے اور انگریزی میں North Cape کے نام سے مشہور ہے وہاں ادا کر رہے ہیں.یہ مقام اوسلو سے بچھپیں سو (2500) کلومیٹر دور یعنی 1550 میل دور شمال کی طرف واقع ہے اور نارتھ پول سے 2110 کلومیٹر یعنی 1308 میل جنوب میں واقع ہے اور یہ تمام علاقہ جو North Cape سے اردگرد کا علاقہ ہے اس میں اس وقت تین مہینے کا دن چڑھا ہوا ہے اور اس علاقے میں تین مہینے تک سورج غروب نہیں ہوتا اسی طرح سردیوں میں اس علاقے میں تین مہینے کی رات آجاتی ہے.یہ وہ جگہ ہے جو یورپ کا انتہائی شمالی خشکی کا مقام ہے اور گرین لینڈ جزیرے میں بھی جو آباد حصہ ہے اس سے بھی زیادہ شمال کی طرف واقع ہے.یہ جمعہ ہمارے لئے ایک غیر معمولی تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ یہاں جمعہ ادا کرتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی ایک پیشگوئی یاد آتی ہے جس کا ظہور تو ایک لمبے عرصہ سے ہو چکا ہے لیکن بعض پہلوؤں سے وہ ابھی تشنہ تکمیل تھی اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے اس قافلے کو یہ عظیم تاریخی سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ اس پہلو سے بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 472 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء کی عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنے والے بنیں.ایک موقع پر دجال کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے ایسے دنوں کا بھی ذکر فرمایا جو سال کے برابر لمبے ہو سکتے ہیں اور وہ دجال کے زمانے میں آنے تھے.اسی طرح ان دنوں کے ذکر میں فرمایا کہ بعض دن نسبتاً چھوٹے مہینوں تک ہوں گے بعض ہفتوں تک ہوں گے اور بعض سال کے برابر بھی ہوں گے اور ان انتہائی دنوں کے درمیان عام روز مرہ کے دن بھی ہوں گے یعنی دجال کے زمانے میں یہ باتیں بیک وقت نمودار ہوں گی.جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کہیں سال کا دن بھی ہوگا.کہیں چھ چھ مہینے کا دن بھی ہوگا کہیں تین مہینے کا کہیں ہفتے کا اور باقی دن برابر ہوں گے یعنی عام روز مرہ کے دن ہوں گے.(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) یہ پیشگوئی بہت ہی عظیم الشان پیشگوئی ہے کیونکہ تمام مذہبی کتب کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہیں اشارہ یا کنایہ بھی ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ دن چوبیس گھنٹے سے لمبے بھی ہو سکتے ہیں اور چودہ سوسال پہلے تو یہ تصور بالکل عنقا تھا.اس کا وہم و گمان بھی کسی انسان کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا اور پھر یہ عجیب بات کہ بیک وقت کچھ دن لمبے اور کچھ دن چھوٹے ہوں گے یہ ایک حیرت انگیز معمہ تھا جو اس زمانے کے انسان سمجھ نہیں سکتے تھے ، نہ کسی کا تصور اس بات تک پہنچ سکتا تھا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کو خر دیتا اور ایسا ہی ہوا.ایک لمبے عرصہ تک یہ پیشگوئی مسلمان مفکرین اور علماء کے لئے مبہم بنی رہی وہ سوچتے تو ہوں گے کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن سمجھ نہیں سکتے تھے کیونکہ یہ باتیں ابھی نہیں آئی تھیں.پھر اس آخری زمانہ میں جب دجال کا یعنی مغربی عیسائی قوموں کا عروج ہوا ہے اور عیسائیت نے دنیا پر غلبہ پایا ہے تو اس دور میں یہ باتیں دریافت ہوئیں اور یہ شمالی پول اور جنوبی پول کے قصے ہمارے سامنے صلى الله آئے.یہاں ایک سوال کا حل کرنا ضروری ہے کہ آنحضور ﷺ نے جہاں ایک سال کا دن فرمایا ہے اگر دن کی روشنی کے دن کو شمار کیا جائے تو ایسی کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ اگر دن کو چوبیس گھنٹے کا دن تصور کیا جائے تو پھر یقیناً شمالی قطب میں بھی اور جنوبی قطب میں بھی ایک سال کا دن ضرور آتا ہے اور جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے کہ ایک دن میں پانچ نمازوں کا ذکر ملتا ہے.اس سے قطعی طور پر پتا چل جاتا ہے کہ حضورا کرم کہ جب دن کی بات فرما ر ہے تھے تو جیسا کہ روز مرہ کا محاورہ ہے دن میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 473 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء رات کو بھی شامل فرمالیا اور ایک دن سے مراد چوبیس گھنٹے کا دن ہے نہ کہ 12 گھنٹے کا دن.جب یہ بات سمجھ آئے تو پھر یہ پیشگوئی بعینہ من و عن پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ قطب شمالی میں مسلسل 6 مہینے کی رات اور مسلسل چھ مہینے کا دن ہوتا ہے.یعنی 6 مہینے روشنی کے اور 6 مہینے اندھیرے کے اور یہ دونوں مل کر ایک سال بن جاتا ہے.پس قطب شمالی اور قطب جنوبی کو دیکھیں تو یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ من وعن پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ ایک سال کا دن قطب شمال پر چڑھتا ہے اور ایک سال ہی کا دن قطب جنوبی پر چڑھتا ہے اور درمیان کے علاقے تقسیم ہوئے ہیں.پس یہ جو تین مہینے کا دن کا علاقہ ہے اس کا اصل معنی یہ ہے کہ یہ 6 مہینے کا دن ہے کیونکہ تین مہینے کا روشنی کا عرصہ ہے اور تین مہینے کا اندھیرے کا عرصہ ہے اور دن میں چونکہ روشنی اور اندھیرے کے عرصے اکٹھے شمار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم ایسے علاقہ میں آگئے ہیں جہاں 6 مہینے کا دن ہے اور 6 مہینے کی رات.اس موقع پر جب حضرت اقدس محمد مصطفی امی یہ حیرت انگیز پیشگوئی فرمارہے تھے تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا اگر ایک سال کا دن ہوگا تو ہم ایک سال میں پانچ نمازیں پڑھیں گے.اس سے ہی پتا چلتا ہے کہ دن سے آنحضور ﷺ کی مراد صرف روشنی کا دن نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے کا دن تھا.آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تم اندازہ لگایا کرو اور جس طرح عام علاقوں میں پانچ نمازیں پڑھتے ہو اسی طرح اس وقت کی نسبت کے ساتھ جو عام علاقوں میں مجرب وقت ہے تمہارے تجربہ میں آتا ہے اس کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر پانچ پانچ نمازیں پڑھا کرو، یہ لفظ چوبیس گھنٹے تو استعمال نہیں ہوئے لیکن حدیث کے الفاظ سے بات بالکل واضح ہے کہ نمازوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی.وہ چوبیس گھنٹے کے دن کے مطابق پڑھی جائیں گی اور ہر چوبیں گھنٹے کے بعد پانچ پانچ نمازیں اندازے سے مقرر کرنی ہوں گی.اب وہ پیشگوئی جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اس کا ایک پہلو ایسا ہے جسے آج ہم خدا کے فضل کے ساتھ پورا کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان علاقوں میں مسلمانوں نے پہلے نمازیں پڑھی ہوں گی.میں نہیں سمجھتا کہ اس بارہ میں کوئی بھی شک ہوگا کیونکہ Alaska کے شمال میں میں جانتا ہوں کہ بعض احمد ی گئے ہیں اور پانچ وقت کی نمازیں ایک دن کے اندازے سے انہوں نے وہاں پڑھی ہیں.ہمارے ایک دوست حمید اللہ شاہ صاحب کینیڈا کے شمال
خطبات طاہر جلد ۱۲ 474 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء میں ایک خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ بھی پانچ وقت کے لحاظ سے نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں اس لئے یہ کہنا کہ یہ پیشگوئی آج پہلی دفعہ پوری ہو رہی ہے یہ درست نہیں ہوگا.جو پہلو میرے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں نے نظر دوڑا کر دیکھا ہے مجھے اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ آج سے پہلے ایسے علاقوں میں جہاں چھ مہینے کا دن چڑھا ہو یا چوہیں گھنٹے سے زائد کا کہیں دن ہو وہاں با قاعدہ کبھی پانچ وقت کی نماز میں ایک جگہ باجماعت ادا کی گئی ہوں اور پھر جمعہ اس طرح باجماعت ادا کیا گیا ہو کہ امت مسلمہ کے ہر طبقے کی نمائندگی اس میں ہو گئی ہو.مثلاً انصار کی عمر کے لوگ بھی ہوں، خدام کی عمر کے لوگ بھی ہوں، بچے بھی ہوں ، مرد بھی ہوں اور عورتیں بھی ہوں یہ واقعہ میرے اندازے کے مطابق پہلی دفعہ رونما ہو رہا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی میہ کی امت کو ان غیر معمولی وقت کے علاقوں میں با قاعدہ باجماعت پانچ نمازیں پڑھنے کی توفیق ملی اور یہ سلسلہ کل سے شروع ہوا.کل ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں یہاں ادا کیں اور اس کے بعد یہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ہمارے اندازے کے مطابق صبح کا وقت ہوا اور پھر صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد یہاں سے اس کیمپ کی طرف روانہ ہوئے جہاں ہمارا قیام ہے اور پھر اب جمعہ کے لئے آگئے ہیں جہاں جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھی جائے گی.پس اس پہلو سے اس طرح با جماعت پانچ نمازیں یہاں ادا کی گئی ہیں کہ اس میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی اور بچے بھی سب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں شامل ہیں اور یہ جمعہ اس پہلو سے وہ تاریخی جمعہ ہے کہ جس میں پہلی باران غیر معمولی اوقات کے علاقوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے ہم جمعہ کا فریضہ ادا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو چونکہ یہ غیر معمولی سعادت بخشی ہے اور جیسا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے میں جمعہ کے متعلق بتا رہا ہوں کہ اس کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت گہراتعلق ہے.پس جماعت احمدیہ کے ساتھ جمعہ کا یہ ایک اور تعلق بھی قائم ہوا ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے ان غیر معمولی اوقات کے علاقوں میں یہ پہلا جمعہ پڑھا جا رہا ہے جس میں مرد، عورتیں اور بچے سب شامل ہیں اور سب کا تعلق جماعت احمد یہ مسلمہ سے ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی آخری زمانے کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے چن لی گئی ہے اور یہ سعادت ہمیں نصیب ہوئی ہے.پس اس کا جتنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 475 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس پہلو سے کہ یہ ایک تاریخی حیثیت کا جمعہ ہے میں اس میں شمولیت کرنے والوں کے نام پڑھ کر سناتا ہوں تا کہ تاریخ میں وہ نام ریکارڈ ہو جائیں.جہاں تک میرے ذاتی خاندان کا اور تعلق والوں کا ذکر ہے ، میرے علاوہ اس جمعہ میں میری بیٹی فائزہ بھی شامل ہے جن کے میاں عزیزم لقمان احمد جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے صاحبزادے ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں.اسی طرح میری تیسرے نمبر کی بیٹی عزیزہ یاسمین رحمان مونا بھی اس جمعہ میں شامل ہیں اور ان کے میاں کریم اسد احمد خان بھی اس جمعہ میں شریک ہیں.اسی طرح میری چوتھی بیٹی عطیۃ الحبیب طوبی بھی ہمارے ساتھ جمعہ ادا کر رہی ہیں.عزیزم لقمان اور فائزہ کے تین بچے عثمان احمد اور نداء النصر اور عدنان احمد ( جو وہاں سامنے لیٹا ہوا ہے.امید ہے جمعہ کی نماز کے وقت وہ اٹھ کر شامل ہو جائے گا) بھی اس میں شامل ہیں.اس کے علاوہ میری پانچویں بیٹی سعدیہ نعیم جو چوہدری شاہنواز صاحب کی نواسی ہے.جن کا ذکر میں نے جلسہ سالانہ قادیان میں ان کے نکاح کے موقع پر بھی کیا تھا، یہ بھی ساتھ شامل ہیں.یہ تو ہمارے گھر کے افراد ہوئے اور باقی بھی سب گھر ہی کے افراد ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں در حقیقت ایک ہی خاندان کی لڑیوں میں پرو دیا ہے اور ایسے اخوہ بنا دیا ہے کہ اس کی کوئی دنیاوی مثال دکھائی نہیں دیتی اور حقیقت میں ساری جماعت احمد یہ عالمگیر اس وقت اخوت کی ایسی لڑیوں میں پروئی گئی ہے کہ خاندانی تعلقات میں بھی ایسی محبت، ایسے خلوص کی کوئی مثال دکھائی دیتی ہے تو کم دکھائی دیتی ہے.ان میں میرا وہ قافلہ ہے جو میرے ساتھ سفر کیا کرتا ہے.اس میں کچھ دفتر کا عملہ ہے.کچھ تبشیر کا ، کچھ سیکورٹی کا سٹاف ہے، ان میں پہلے تو عزیزم نبیل خالد ارشد ہیں جو ہمیشہ سفروں میں میرے ساتھ میری گاڑی کی ڈرائیونگ کے فرائض سرانجام دینے کے لئے اپنا وقت وقف کرتے ہیں اور بہت ہی خلوص اور محبت کے ساتھ ایک لمبے عرصہ سے یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں.کبھی کبھی کسی اور کو بھی موقع ملتا ہے لیکن اکثر ان کی خواہش یہی ہے کہ ہمیشہ یہی میری کار کی ڈرائیونگ کے فرائض سرانجام دیں.یہ عبدالباقی ارشد صاحب کے صاحبزادہ ہیں جن کو انگلینڈ کی جماعت میں ارشد باقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.دوسرے ہمارے ساتھ محمد اختر امینی صاحب ہیں جو رضا کارانہ طور پر اپنی کار لے کر اس قافلہ میں شامل ہوئے.ان کے والد صاحب کا نام رحمت علی امینی ہے جو پہلے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 476 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے تھے اور اب بریڈ فورڈ میں آباد ہیں.پھر کلیم خاور صاحب ہیں جو ہمارے رشین ڈیسک کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.انہوں نے روسی زبان میں مہارت حاصل کی لیکن اس سفر میں روسی زبان سے تو ہم استفادہ نہیں کر سکے لیکن ان کی کھانا پکانے کی صلاحیتوں سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے اور قافلہ کے بعض ممبروں کا خیال ہے کہ روسی زبان سے بہتر یہ کھانا پکانا جانتے ہیں.خدا کرے ان کی روسی بھی بہتر ہو جائے اور کھانے سے بھی آگے نکل جائے.پھر مبارک احمد صاحب ظفر ہیں جو وکالت مال لندن سے تعلق رکھتے ہیں ، پھر ہمارے ہادی علی صاحب چوہدری ہیں جو ایڈیشنل وکیل التبشیر ہیں.پھر میجر محمود احمد صاحب ہیں جو چیف سیکورٹی آفیسر ہیں اور ملک اشفاق احمد صاحب ہیں جوان کے ساتھ ان کے نائب کے طور پر سیکیورٹی آفیسر ہیں.اس قافلے کا ایک حصہ وہ ہے جو اوسلو سے اس قافلہ میں شامل ہونے کے لئے آیا اور ان کے سر براہ رشید احمد صاحب چوہدری ہیں جو چوہدری غلام حسین اوور سیئر مرحوم کے صاحبزادے ہیں.دوسرے مظفر احمد چوہدری ہیں جو ان کے صاحبزادے ہیں اور تیسرے مرزا محمد اشرف علی صاحب ہیں جو مکرم محمد فاضل صاحب آف کوئٹہ کے صاحبزادے ہیں.یہ تین حضرات دوکارمیں لے کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور اس سارے سفر کو کامیاب بنانے کا سب سے بڑا سہرا اگر انسانوں میں سے کسی کے سر پر رکھا جا سکتا ہے تو رشید احمد صاحب چوہدری کے سر پر ہے.انہوں نے لمبے عرصہ کی تیاری کے بعد یہ انتظام کیا ہے.دو تین سال محنت کی ہے.سارے رستوں کا معائنہ کیا جگہوں کا جائزہ لیا.پھر یہ کہ کونسی جگہ بہترین ہوگی کتنے فاصلہ پر ہمیں کیمپ کرنا چاہئے اور پھر یہ کہ کتنا کھانا ساتھ لے کر پھر نا ہو گا اور کن کن چیزوں کی ، کن برتنوں کی ضرورت ہوگی یہاں تک کہ مچھلی پکڑنے کا سامان بھی ساتھ لے کر چلے ہیں.دوکاروں میں تین آدمی اس لئے آئے ہیں کہ دراصل تین کی گنجائش بھی مشکل سے تھی.وہ دونوں کا رمیں سامان سے لبالب بھری ہوئی تھیں اور ایک کار میں تو یہ اتنا سٹور پیک کر کے ساتھ لائے ہیں کہ ہمارے قافلے والے اس کو مزاح کے ساتھ Depak کہتے ہیں.دیپک انگلستان میں ایک Grocery سٹور ہے جو بہت بڑا ہے.تو وہ کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا - Depak سٹور ہمارے ساتھ پھر رہا ہے.امید ہے اب تک اس کا کچھ وزن کم ہو گیا ہو گا لیکن جاتے جاتے انشاء اللہ جس طرح اب ہمارے قافلے کے بعض لوگ کھانے کا حق ادا کر رہے ہیں امید ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 477 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء باقی وزن بھی جلد ہی ہلکا ہو جائے گا.رشید چوہدری صاحب کے صاحبزادہ مظفر نے بڑی محنت سے کام کیا ہے.بہت ہی مستعدی، غیر معمولی ہمت والے نوجوان ہیں.مچھلیاں پکڑنے کے بھی ماہر ہیں کل گئے تھے تو تھوڑے ہی عرصہ میں آٹھ دس مچھلیاں پکڑ لائے مگر یہ مچھلیاں پکڑنا تو ضمنی بات ہے در اصل سارا دن رات قافلے کے ساتھ محنت کرنا، ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنا، ہر قسم کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرنا کسی چیز کی اچانک ضرورت پیش آئے تو رات کو بھی دکان کھلوا کر وہ چیز مہیا کر لینا یہ ان کا فن ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزادے اور ایک جزا تو دے بھی چکا ہے کہ اس عظیم تاریخی جمعہ میں شمولیت کی سعادت مل رہی ہے جو انسان کی کوشش سے نہیں ہو سکتی.ایک شاعر نے کہا ہے کہ: ایں سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده کہ یہ سعادت ایسی ہے جو زور بازو سے حاصل نہیں ہوا کرتی تا وقتیکہ خدا نہ بخشے جو بخشنے والا ہے یعنی عطا کرنے والا ہے.پس الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے ہم سب کو بغیر ہماری کسی نیکی کے یہ عظیم سعادت عطا فرمائی کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی چودہ سو سال پہلے کی گئی پیشگوئی کے ایک اور پہلو کو جو دراصل اس پیشگوئی کا مرکزی نقطہ ہے اسے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اس دجال کے مقابل پر جس مسیح موعود کو کھڑا کیا گیا تھا اس کے غلاموں کو یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ غیر معمولی اوقات کے ان علاقوں میں پانچ با جماعت نمازیں بھی پڑھیں اور جمعہ کا دن بھی اس میں شامل ہو جائے اور تاریخ عالم کا پہلا باقاعدہ جمعہ ان غیر معمولی علاقوں میں ادا کیا جائے.الحمد للہ ثم الحمد للہ.اس علاقے کی تاریخ سے متعلق مختصراً میں بتا دیتا ہوں کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پہلے lopsam قوم جو رینڈئیر پالنے والی ہے یہ آباد تھی اور سب سے پہلے 1030ء میں یعنی آج سے ساڑھے نوسوسال سے بھی زائد عرصہ پہلے ہولی اولاف یعنی اولاف Holy olav, Den) (Helling جو ناروے کا بادشاہ تھا اور جس نے ناروے کو اکٹھا کیا ہے.اسے Holy olav اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے عیسائیت کی خدمت تلوار سے کی ہے اور زبردستی مارکوٹ کر لوگوں کو عیسائی بنایا ہے.یہ عجیب قومیں ہیں ان کا دجل اس بات سے ہی خوب ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے اگر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 478 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء دفاع میں بھی جنگ کی ہو تو ساری دنیا میں شور مچارکھا ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے، اسلام تلوار سے پھیلا ہے ، یہ ظالموں کا ٹولہ ہے، یہ زبردستی دین بدلنے والا ٹولہ ہے اور عیسائیت کی تاریخ کو جانتے بوجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ حقیقت میں اگر تلوار کے زور سے کوئی مذہب دنیا میں پھیلا ہے تو وہ عیسائیت ہے.ان کے جو بڑے بڑے ہولی Holy بادشاہ ہیں ، جن کا مقدس اولاف وغیرہ نام لیتے ہیں یہ وہ ہیں جنہوں نے اس غریب قوم کو تلوار کے زور سے عیسائی بنایا اور پھر ان کی اپنی زبان ان پر حرام کر دی.آج سے چند سال پہلے تک یعنی ایک دو ر ہا ئے“ تک یہ اس علاقے میں، اپنے ملک میں خود اپنی زبان بھی لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے.یہ قانون کے خلاف تھا اور 1030ء سے لے کر پچھلے دھاکے تک یا دودھا کے تک یہی قانون چل رہا تھا کہ لاپ قوم سے تعلق رکھنے والا کوئی انسان اپنی زبان نہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے اور اس طرح زبر دستی ان کے مذہب کو تبدیل کیا گیا.ان قوموں پر اور بھی طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے لیکن مظالم ڈھانے والے Holy بن کر ابھرے یعنی مقدس وجود بن کر ابھرے کیونکہ انہوں نے عیسائیت کے نام پر یہ سارے مظالم کئے تھے.ان سب باتوں سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے اور اسلامی تاریخ میں کہیں ظلم کا کوئی معمولی سا قصہ ان کو دکھائی دے تو اس کو اچھال کر سارے اسلام کا منہ کالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پس یہ بھی ایک دجل ہے جس کے مقابلہ کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے آج ہم یہاں تھوڑے ہیں.آج آپ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بادشاہوں کے نام یہاں عمارتوں پر کندہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے کبھی یہ جگہ دریافت کی یا جو بعد میں آئے اور جنہوں نے کچھ کام کئے یا وہ بادشاہ جو اس ملک سے تعلق رکھنے والے تھے یا باہر سے آنے والے تھے وہ کس کس سن میں آئے ان کے نام بھی یہاں کندہ ہیں ان کی تصویریں بھی ہیں.مختصراً میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سب سے پہلے اس جگہ یعنی North Cape کو دریافت کرنے والا ایک انگریز تھا جس کا نام (Richard Tansler) تھا اس نے 1553ء میں یہ جگہ دریافت کی اس کے ساتھ 48 آدمیوں کا ایک قافلہ تھا.ان کے بت ایک جگہ بنے ہوئے ہیں اور تاریخ لکھی ہوئی ہے کہ کب وہ لوگ آئے کس طرح آئے اور یہیں جہاں ہم اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں اسی عمارت میں یہ تذکرے محفوظ کر لئے گئے ہیں.پہلا سیاح جو اپنے طور پر یہاں آیا ہے وہ اٹالین تھا.اس کا نام فرانسسکو نیگری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 479 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء (Fransisko Negari) تھا.یہ 1664ء میں آیا ہے.پھر ایک فرانسیسی شہزادہ یہ پرنس لوئی (Prince Lui Philip) جو اور لنیز کا شہزادہ تھا.یہ 1795ء میں یہاں آیا.پھر 12 جولائی 1873ء کو ناروے کا بادشاہ پہلی بار یہاں آیا اس کا نام آسکر ثانی تھا.پھر 1890ء میں پہلی بار یہ علاقہ سیاحوں کے لئے کھولا گیا ہے اور 1907ء میں سیام کا ایک بادشاہ کنگ چولونگ کلون Kingchu Long Klungo) یہاں آیا اور اس طرح یہ وہ لوگ ہیں جن کی تاریخ یہاں محفوظ کی گئی ہے.آج ہم بھی ایک تاریخ بنا رہے ہیں اس تاریخ کی زمین والوں کی نظر میں آج کوئی بھی اہمیت نہیں کوئی قدر نہیں لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ کچھ تاریخیں ایسی ہیں جوز مین پر نہیں مگر آسمان پر محفوظ کی جاتی ہیں.ان تاریخوں میں سے اگر آپ دیکھیں تو بڑے بڑے انبیاء کی تاریخیں ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک تاریخ بنائی اور اس زمانہ میں زمین پر جو چیزیں بھی تاریخ کی صورت میں کندہ ہوئیں ان میں موسیٰ علیہ السلام کا نام آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا.پھر حضرت عیسیٰ ملیہ السلام نے بھی ایک تاریخ بنائی اور اس زمانہ میں زمین کے بادشاہوں نے جو تاریخ اپنی کتابوں یا لوحوں پر رقم کی اس تاریخ میں حضرت عیسی علیہ السلام کا کوئی نام ونشان ، کوئی ذکر آپ کو نہیں ملے گا.پھر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تمام زمانے کی تاریخ بنائی تمام انسانیت کی تاریخ کا آغاز کیا اور اس زمانہ کے بادشاہوں کے لوح و قلم نے اس تاریخ کو بھی بالکل نظر انداز کر دیا لیکن یہ وہ تاریخیں ہیں جو آسمان پر لکھی گئیں اور یاد رکھیں کہ جو تاریخیں آسمان پرلکھی جاتی ہیں وہ ضرور زمین پر اُتاری جاتی ہیں یہاں تک کہ زمین کی تاریخوں پر غلبہ پا جاتی ہیں اور زمین کی تاریخوں کی سیاہیاں مدہم پڑنے لگتی ہیں یہاں تک کہ وہ تاریک اور مبہم ہو کر نظروں سے غائب ہونے لگتی ہیں اور دنیا کی تاریخ پر وہی تاریخ غالب آتی ہے جو آسمان پرلکھی جائے.پس دیکھو کہ آج حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی تاریخ ان تمام فراعنہ مصر کی تاریخ پر غالب آ گئی ہے.جو اپنے زمانہ کے بڑے بڑے جابر بادشاہ تھے جنہوں نے اتنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ اپنے تذکروں میں کہیں موسیٰ علیہ السلام کا نام ہی لکھ چھوڑیں.پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ دیکھیں.آپ کے بعد ۳۴ سال تک عیسائیت کا ذکر تک بھی کسی مؤرخ کے ہاں نہیں ملتا لیکن جب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 480 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ عیسائیت کی تاریخ جو عیسی علیہ السلام نے بنائی تھی وہ آسمان سے زمین پر اترے تو وہ اس شان سے اتری کہ تمام دنیا کے تمام بر اعظموں پر غالب آگئی اور آج عیسائیت کی تاریخ ہی وہ اہم ترین تاریخ ہے جو اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.ایک وہ تاریخ ہے جس کا آغاز حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا اور اس کے متعلق قرآن کریم کا یہ وعدہ ہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (التوبه ۳۴) کہ یہ وہ تاریخ ہے، یہ وہ مذہب ہے جو تمام دنیا پر لازم غالب آ کر رہیں گے یہی وہ تاریخ ہے جو باقی رہے گی جسے عزت اور فخر سے یاد کیا جائے گا اور یہی وہ مذہب ہے جس نے تمام دنیا کے مذاہب پر غلبہ پانا ہے کوئی ایک مذہب بھی ایسا نہیں رہے گا.جو اسلام کے سامنے کوئی حیثیت رکھتا بیہ وہ تاریخ ہے جسے ہم از سر نو قلم کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ تاریخ اس دنیا کے تاریخ دانوں کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن آسمان پر لکھی جارہی ہے.پس یہ چھوٹا سا قافلہ جو آج یہاں آیا ہے اس دنیا کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی.لیکن میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر کہتا ہوں کہ ایک زمانہ آئے گا جب یہ تاریخ آسمان سے زمین پر اترے گی اور ناروے کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کی دوسری قو میں بھی فخر سے ان دنوں کو یاد کریں گی کہ جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے عاجزوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ کل یہاں پہنچا اور آج یہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کا نام بلند کر رہا ہے.خدائے واحد کا نام بلند کر رہا ہے اور یہ جمعہ یہاں ادا کر رہا ہے پس اصل تاریخ تو وہی ہے جس کا تعلق خدا سے ہو، جو خدا کی باتیں کرنے والی تاریخ ہو.دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں اور اکثر کے نام تاریخ میں نفرت سے یاد کئے جاتے ہیں مگر جو تاریخ آسمان سے اترا کرتی ہے اس تاریخ کو ہمیشہ محبت سے یاد کیا جاتا ہے.پس قرآن کو دیکھیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتا ہے یا دوسرے انبیاء کا ذکر کرتا ہے جن کو ان کی قوموں نے تحقیر کی نظر سے دیکھا اور ادنیٰ اور معمولی سمجھ کر ان کو مٹانے اور صفحہ ہستی سے نابود کرنے کی کوشش کی انہی کے نام ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سلامتی کے ساتھ یاد کئے جائیں گے ، ان پر سلام ہوگا، پہلوں پر بھی آخرین پر بھی.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی کوشش کرنے والے آج کہاں ہیں جن کا دنیا میں کہیں عزت سے نام لیا جاتا ہو، اگر لیا جاتا ہے تو لعنتوں کے ساتھ لیا جاتا ہے.ان لعنتوں کے ساتھ جو نسلاً بعد نسل ان کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 481 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء اتباع کرتی چلی جائیں گی اور ایک ابراہیم علیہ السلام ہیں جن کا نام ہمیشہ سلامتی کے ساتھ لیا جاتا ہے، ایک موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا نام ہمیشہ سلامتی کے ساتھ لیا جاتا ہے.ایک عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا نام ہمیشہ سلامتی کے ساتھ لیا جاتا ہے اور سب سے آخر مگر سب سے بالا حضرت محمد مصطفی ہے ہیں جن پر ارب ہا ارب انسان نسلاً بعد نسل سلام بھیجتے چلے جا رہے ہیں.کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب آپ پر کروڑوں، اربوں، ان گنت سلام نہ بھیجے جارہے ہوں آج ہم یہ عہد کر کے اٹھے ہیں کہ یہ سلام کا سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ روئے ارض پر محیط ہو جائے اور دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہو اور دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہ ہو جہاں ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی ﷺ کا نام سلام کے ساتھ یاد نہ کیا جائے.پس ہم ناروے کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہے ہیں.میں ناروے کی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ کوشش کریں کہ ان علاقوں میں مقامی لوگوں سے رابطے پیدا کریں.وہ چھوٹے چھوٹے گاؤں جو یہاں اردگرد آباد ہیں جو نہ گرمیوں میں یہاں سے جاتے ہیں نہ سردیوں میں.وہ روشنی کے وقت بھی یہیں رہتے ہیں اور اندھیروں کے وقت بھی یہیں رہتے ہیں.وہی ہیں جو اس زمین کے باشندے اور اس زمین کی اولاد ہیں.ان لوگوں میں نفوذ پیدا کریں اور ان سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں.اگر آپ ان میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو داخل کر دیں تو میں تمام جماعت عالمگیر کی طرف سے ناروے کی جماعت سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ کو تو فیق نہ ہوئی تو ہم North Cape کے علاقوں میں انشاء اللہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد بنائیں گے جو آج کے اس جمعہ کی یاد میں بنائی جائے گی اور نارتھ کے علاقے میں یورپ کے سب سے آخری شمالی علاقے میں بنائی جانے والی پہلی مسجد ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ.لیکن پہلی ہوگی آخری نہیں ہوگی اور اس کے بعد مسجدوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ ناروے کی جماعت اس کوشش کو جلد تر پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہمیں اطلاع بھجوائے گی کہ ہم حاضر ہیں.آئیے اور یہاں خدائے واحد کی عبادت کے گھر بنائیں اور امید رکھتا ہوں بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ تمام جماعت عالمگیر یورپ کے آخری شمالی علاقے میں خدا کا پہلا گھر بنانے میں انشاء اللہ تعالی ناروے کی جماعت کے ساتھ پورا تعاون کرے گی.اس ضمن میں اب میں آپ کے سامنے جماعت امریکہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کی طرف سے مجھے یہ پیغام ملا ہے کہ آج یعنی جمعہ کے روز ان کے ہاں امریکہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہورہا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 482 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء ہے جس کی تاریخیں 27-26-25 جون مقرر کی گئی ہیں اگر چہ یہاں اس وقت اڑھائی بجے ہیں لیکن امریکہ میں ابھی صبح کا وقت ہو گا.یہ جمعہ براہ راست تو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جا سکتا لیکن بعد میں انشاء اللہ کسی وقت جب سفر کے دوران جمعہ ٹیلی کاسٹ نہ ہوا تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ جمعہ دنیا میں ہر جگہ ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا.اس لئے میں براہ راست ٹیلی کاسٹ پیغام کے ذریعہ تو ان تک نہیں پہنچ سکتا لیکن ہم نے یہ انتظام کیا ہے کہ امریکہ سے تعلق رکھنے والا پیغام ٹیلی فون کے ذریعہ ان تک پہنچا دیا جائے گا کیونکہ جب تک وہاں جمعہ شروع ہو گا اس وقت تک ہم انشاء اللہ تعالیٰ وہاں یہ پیغام ریکارڈ کروادیں گے.امریکہ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلسل ترقی کر رہی ہے اگر چہ ترقی کی رفتار ابھی سست ہے اور جیسا کہ مجھے امریکہ کی جماعت سے توقع تھی ویسی ترقی کے آثار ابھی پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے خدا کے فضل سے گزشتہ چند سالوں میں نمایاں اضافہ ہے.اس پہلو سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ روحانی ترقی بھی ضرور ہورہی ہوگی کیونکہ جماعت میں مالی قربانی کا ایک گہرا تعلق جذبہ ایمانی سے ہے.کوئی اور وجہ نہیں کہ کوئی انسان اپنی محنت کی کمائی ہوئی دولت کو اس طرح دین کے لئے قربان کرے جب تک کہ اللہ کی محبت دل میں نہ ہو ، جب تک دین کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم نہ ہو اور خدمت دین کا جذبہ پیدا نہ ہو انسان کی جیب سے اپنی محنت کے کمائے ہوئے پیسے آسانی سے نہیں نکلا کرتے.پس یہ ایک پیمانہ ہے لیکن اس پیمانہ کے پیچھے پیچھے اس روح کی تازگی کے آثار بھی تو ظاہر ہونے چاہئیں یعنی ایمانی لحاظ سے،عبادتوں کے لحاظ سے ،خدمت دین اور خدمت خلق کے لحاظ سے امریکہ کی جماعت میں ایک نمایاں ترقی کے آثار دکھائی دینے چاہئیں.ان کی ایک دوسری علامت ہے اور وہ یہ ہے کہ جو وجود صحت مند ہو وہ نشو و نما ضرور پاتا ہے.مالی لحاظ سے قربانی ایک پہلا قدم ہے جس سے خوش آئند مستقبل کی امید پیدا ہوتی ہے.لیکن اپنی ذات میں یہ کوئی بڑا مقصد نہیں ہے.ایک ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک ذریعہ مہیا کرنے والی بات ہے.اصل چیز تو تقویٰ ہے.اللہ کی محبت، عبادتوں میں ترقی کرنا ہے ، خدمت دین میں آگے بڑھنا، اپنے وقت کو قربان کرنا اور اللہ کے فضل اور رحم کے ساتھ نشو و نما پانا یہ وہ پہلو ہیں جن میں میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 483 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء کہ بظاہر سمجھتا ہوں کہ امریکہ ابھی بہت پیچھے ہے.امریکہ کی جماعت کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے وقت کی قربانی نہیں دیتی اور جس طرح جماعت کو بڑھنا چاہئے اور نشو ونما پانی چاہئے اس کا عشر عشیر بھی ابھی وہاں شروع نہیں ہوا حالانکہ وہاں ایسی قومیں موجود ہیں جن قوموں کی طرف اگر جماعت رخ کرے تو وہ اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں یعنی ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے اسلام کو قبول کرنے کی راہ میں ان کے لئے کوئی دشواری نہیں ہے، کوئی دقت نہیں ہے.وہ سفید فام امیر امریکن قوم جو آج دنیا پر غالب ہے اور تمام دنیا کو اپنے تابع جھتی ہے، زیر یمین بنائے ہوئے ہے ان کا نفسیاتی ماحول ایسا ہے ہر مشکل دکھائی دیتا ہے کہ جب تک تکبر کے یہ حالات بدلیں نہیں، جب تک تکبر کا سرنگوں نہ ہو اس وقت تک وہ اسلام کے پیغام کو قبول کرنے کی اہلیت حاصل کر سکیں لیکن وہاں کثرت کے ساتھ مظلوم بھی تو ہیں ، کثرت کے ساتھ سیاہ فام تو میں بھی تو ہیں ، کثرت کے ساتھ باہر سے آئے ہوئے دوسرے ملکوں کے باشندے بھی تو ہیں جو وہاں آباد ہو چکے ہیں اور امریکن بن چکے ہیں اور بدقسمتی کے ساتھ بڑی تیزی اور سرعت کے ساتھ وہ امریکن کلچر سے مرعوب ہوتے چلے جارہے ہیں اور کلچر کے نام پر جب ان کو امریکہ میں غالب سوسائٹی کے ساتھ مدغم کر لیا جاتا ہے تو اس سے ان کے دین کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور اکثر قو میں ایسی ہیں جن کو اب دین کی پر واہ بھی کوئی نہیں رہی.وہ امریکہ جا کر اس لئے آباد نہیں ہوئیں کہ انہوں نے کوئی اعلیٰ مقاصد کو سرانجام دینا تھا.بڑی تعداد میں ایسے سیاہ فام افریقن ہیں جو آج نہیں بلکہ کئی نسلوں سے بعض سینکڑوں سال سے امریکن بن چکے ہیں لیکن ان کے او پر تو یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ے میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں ان بیچاروں کو تو اختیار کوئی نہیں تھا.ان کو قیدی بنا کر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں امریکہ جبراً بیچا جاتا تھا اور نہایت دردناک حالات میں ان سے غلامی کے کام لئے جاتے تھے.میں نے افریقہ کے سفر میں غانا میں وہ غاریں دیکھی ہیں جو قید خانوں کے طور پر استعمال ہوتی تھیں.افریقن آزاد باشندوں کو پکڑ کر زبردستی غلام بنا کر ان کے اندر ٹھونسا جاتا تھا.Black Hole کا نام آپ نے سنا ہوا ہے کہ ہندوستان میں اتنے آدمیوں کو زبردستی بلیک ہول میں بند کر کے ظالمانہ حالت میں رکھا گیا لیکن وہ بلیک ہول جو میں دیکھ کر آیا ہوں.وہ ایسا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 484 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء خوفناک ہے کہ وہاں کے جو تاریخ کے ماہر لوگ تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ بڑی بھاری تعداد میں لوگ سانس کی گھٹن سے اس قید خانہ میں مرجایا کرتے تھے.فارغ ہونے کی کوئی جگہ نہیں.کھانے کی کوئی فکر نہیں تھی.وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح مرغیوں کو ڈربے میں دو چار دن بند کر دیا جاتا ہے تو وہ زندہ نکل آتی ہیں اس طرح وہ لوگ جتنے بچیں گے اتنے ہی سہی اور اتنے دردناک حالات ہیں کہ ان جگہوں کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر جن جہازوں پر لاد کر ان کو امریکہ لے جایا جاتا تھا ان جہازوں میں ایک بڑی تعداد فاقوں سے یا بیماریوں سے سکتی سسکتی مر جایا کرتی تھی اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں تھا چونکہ مفت کی کمائی تھی اس لئے کوئی پرواہ نہیں تھی.اگر ہزار نہیں پہنچیں گے تو دوسوتو پہنچیں گے.وہی بڑی نعمت ہوگی.وہی ان کے لئے دولت کمانے کا ایک ذریعہ بن جایا کرتا تھا اور یہ کاروبار ایک بہت لمبے عرصہ تک اس زمانے میں ہوا ہے جسے یہ Civilized زمانہ کہتے ہیں.اس زمانے میں ہوا ہے جسے یہ انسانی تہذیب کے اور انسانی تمدن کی ترقی کا زمانہ کہتے ہیں.لاکھوں بلکہ اگر کروڑوں کہا جائے تو بعید نہیں کیونکہ پھر ان غلاموں کے بچے بھی غلام رہے پھر ان کے بچے بھی غلام رہے.پس عملاً آخر کار اس تعداد کو اگر کروڑوں شمار کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا.کروڑوں کی تعداد میں زبر دستی غلام بنا کر ظالمانہ کام لئے گئے اور یہ قو میں اسلام پر ہنستی ہیں.اسلام کی غلامی کی تعلیم کا تذکرہ کرتی ہیں اور اس کا مذاق اڑاتی ہیں دجل کی عجیب کیفیت ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تمام عالم پر ایک احسان فرمایا ہے.جب یہ بتایا کہ دجال کون ہو گا.کیسے ظہور کرے گا ؟ کہاں کہاں اس کا اثر پہنچے گا.کس طرح اس کو پہچاننا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جو دجال کے فتنے سے اپنی قوم کو ڈرا کر نہ گیا ہو.پس یہ وہ فتنے کا زمانہ ہے جس میں ہمیں پیدا کیا گیا ہے.امریکہ کی جماعت کو چاہئے کہ اس تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان مظلوموں تک پہنچیں جو ان ظالموں کے ظلموں کا نشانہ بنے جنہوں نے عیسائیت کے نام پر دنیا میں حکومتیں قائم کی ہیں.آج ہم نے جو بدلہ لینا ہے وہ وہ بدلہ نہیں جو عرف عام میں اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے یعنی ظلم کا بدلہ ظلم سے لینا.ہم نے ظلم کا بدلہ عفو اور اصلاح سے لینا ہے ان قوموں کی طرف رحمت کی توجہ کرنی ہے.انہیں انتقام پر نہیں ابھارنا.ان قوموں کا انتقام یہی ہے کہ یہ خدا والی قومیں بن جائیں اور آسمان پر ان کے نام لکھے جائیں اور اس تاریخ کا حصہ بن جائیں جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 485 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء جاودانی تاریخ ہو جایا کرتی ہے.ان قوموں کی بقا کا اور کوئی علاج ہمارے پاس نہیں اور نہ سوچا جا سکتا ہے.پس ایک ہی علاج ہے.ایک ہی احسان ہے جو آپ ان پر کر سکتے ہیں کہ ان کو اسلام میں اور حقیقی اسلام میں داخل کریں.اگر آج امریکہ کی سیاہ فام قو میں حقیقی اسلام میں داخل ہوں جو انتقام اور Inferioraty Complex احساس کمتری سے عاری ہوتا ہے.حقیقی اسلام میں احساس کمتری کے لئے کوئی جگہ کوئی گنجائش باقی نہیں.حقیقی اسلام تو سروں کو بلند کرتا ہے ، حقیقی اسلام میں قومی انتقاموں کی کوئی گنجائش نہیں، حقیقی اسلام تو وہ ہے جو قوموں کے ظلم وستم کی تاریخوں کو یکسر مٹا ڈالتا ہے.انسانیت کا ایک نیا آغاز کرتا ہے جس کا آغاز محبت اور بھائی چارے پر ہوتا ہے.دیکھو ر بوں میں بھی تو کتنی لمبی ظلم و ستم کی داستانیں رائج تھیں.ایسی جنگیں تھیں جو دو دو سال تک لڑی گئیں.ایسے قبائل تھے جو دوسرے قبیلے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے.اگر ایک قبیلے کا آدمی غلطی سے دوسرے قبیلے میں چلا جاتا تھا تو وہ لازماً قتل کر دیا جاتا تھا.آنحضرت ﷺ کے قدم نے وہ ساری آگ ٹھنڈی کر دی.رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ (الانباء: ۱۰۸) کے ایک قدم نے انتقام کے جذ بہ کو بڑھا کر نہیں بلکہ انتقام کے جذبے کو مٹا کر، اس آگ کو رحمت کے پانی سے بجھا کر عرب کی کایا پلٹ کے رکھ دی.پس یہ وہ تبدیلی ہے جس کی امریکہ کی سیاہ فام قو میں آج محتاج ہیں.اس تبدیلی کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتیں.اس تبدیلی کے بغیر وہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل نہیں کرسکتیں.پس اہل امریکہ کو آپ نے اگر دنیا میں باقی رکھنا ہے تو ان کے ایک حصہ کو اسلام میں داخل کریں اور اسلام کی اعلیٰ اقداران میں جاری کریں.امریکہ کی وہ تمام مظلوم قو میں یا باہر سے آنے والی قومیں جو آئی ہوں یا لائی گئی ہوں، دنیا کمانے کے لئے آئی ہوں یا دنیا کمانے کی خاطر ز بر دستی لائی گئی ہوں ان سب قوموں کا حل اسلام میں ہے اور حقیقی اسلام میں ہے.پس امریکہ کی جماعت کے لئے اتنے بڑے وسیع میدان موجود ہیں اور اس کے باوجود وہ خاموش بیٹھے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جو خوشخبری ملتی ہے کہ اس سال ہمارے ایک سو احمدی ہو گئے ، ڈیڑھ سو احمدی ہو گئے اور ساری جماعت اس پر فخر کرتی ہے.اس پہلو سے تو فخر بجا ہے کہ ایک سو کو ہلاکت سے بچا کر ہمیں اسلام کے رحمت کے سائے میں داخل کرنے کی توفیق ملی لیکن جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 486 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء کام ہے وہ تو بہت بڑا ہے اس کے مقابل یہ گنتی قابل فخر تو نہیں قابل شرم ہونی چاہئے اس لئے حیرت انگیز نئی تبدیلیاں پیدا کریں، حیرت انگیز نئے منصوبے بنائیں، حیرت انگیز طریق پر کامل اخلاص کے ساتھ اور حکومت کے ساتھ ، مسلسل محنت کے ساتھ مسلسل نظر رکھتے ہوئے ان منصوبوں پر عملدرآمد کریں تب ہم کہہ سکیں گے کہ امریکہ کے مستقبل کے لئے کوئی نیک آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے ہیں.اگر آپ نے یہ کام نہ کئے تو ان کے بغیر آپ کی مالی قربانیاں آپ کو بچا نہیں سکیں گی ، آپ کی اولا دیں آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گی ، یہ معاشرہ بڑا ز ہر یلا اور بڑا طاقتور معاشرہ ہے جس نے بڑی بڑی قوموں کو اپنے اندر جذب کر کے فنا کر کے رکھ دیا ہے.ان کی نہ دنیا ر ہنے دی ہے، نہ ان کا دین رہنے دیا ہے.ان کی تاریخیں مٹا ڈالی ہیں.پس کلچر اور معاشرے کے نام پر اسلام پر جو حملے ہو رہے ہیں اس کے مقابلے کے لئے پوری بیدار مغزی کے ساتھ آنکھیں کھول کر خود تیار ہوں.اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں اور تیزی کے ساتھ اپنی تعداد بڑھائیں کیونکہ کلچر کے حملوں کے مقابل پر معمولی تعداد کے لوگوں کے لئے بچنے کے امکانات بہت کم ہوا کرتے ہیں.پھیلنے والے بچا کرتے ہیں، بڑھنے اور نشو و نما پانے والے بچا کرتے ہیں.وہ درخت جو کو نہیں نکالتا ہے اس پر خزاں حملہ نہیں کر سکتی.جس کی کونپلیں نکلنی بند ہو جائیں وہ خزاں کا شکار ہو جاتا ہے.پس حقیقت میں بیماری اندر سے ہے جو باہر سے دکھائی دیتی ہے.بہار بھی درختوں کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور خزاں بھی ان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے.پس اپنے اندر بہار پیدا کریں.وہ بن جائیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ حق پر شار ہوویں مولا کے یار ہوویں با برگ و بار ہو دیں اک سے ہزار ہوویں (در نشین: صفحہ ۳۸) ایسے بنیں گے تو آپ بھی زندہ رہیں گے اور امریکہ کی بقاء کے لئے بھی آپ ہی سامان پیدا کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.پیشتر اس سے کہ میں اس پیغام کوختم کروں میں مختصراً آپ کو ایک اور قوم کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جس کا ایک معمولی حصہ امریکہ میں پناہ گزیں ہوا ہے اور وہ ہمارے مظلوم مسلمان بوسنین بھائی ہیں.آج کی عصر حاضر کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہیں جس پر ایسا ظلم کیا گیا ہو جیسا بوسنین پر ظلم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 487 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء کیا گیا ہے اور جس ظلم میں تمام یونائیٹڈ نیشنز شامل ہو گئی ہیں کیونکہ امریکہ کی غلامی میں آج یونائیٹڈ نیشنز صرف امریکہ کا ایک بیان دینے والانمائندہ بن چکی ہے اور یو نائیٹڈ نیشن کے فیصلوں کے تابع یہ مسلسل ظلم ہورہے ہیں جو بوسنینز پر کئے جارہے ہیں.ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے اور ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ورنہ یورپ کی کوئی اور قوم اگر بوسنین کی جگہ ہوتی جو عیسائی ہوتی یا دہر یہ ہوتی تو ناممکن تھا کہ اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا.پس جس ظالمانہ طور پر ان کو مٹایا جا رہا ہے جس طرح ان کے مردوں، عورتوں اور بچوں پر مظالم توڑے جارہے ہیں.اس کی مثال ہٹلر کے زمانہ میں کچھ دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ انسانی تاریخ میں کم دکھائی دے گی.قتل عام تو بہت ہوئے ہیں.ہلاکو خان نے بھی قتل عام کئے ، چنگیز خان نے بھی قتل عام کئے اور بھی بہت بڑے بادشاہ تھے جنہوں نے مشرق و مغرب میں قتل عام کئے لیکن جن مظالم کا میں ذکر رہا ہوں وہ قتل عام سے بہت بڑھ کر ہیں.مظلوم معصوم عورتوں پر جس قسم کی زیادتیاں کی گئی ہیں ہمعصوم بچوں کو جس طرح آگ میں جلایا گیا ہے یاد یواروں سے سر مار مار کر ان کے پر نچے اُڑائے گئے ہیں.ایسے ایسے خوفناک ، اذیت ناک مظالم ہیں کہ ان کا تصور عصر حاضر میں تو در کنار از منہ گزشتہ میں بھی ممکن نہیں وہاں بھی کبھی آپ کو ایسے خوفناک مظالم کی تاریخ دکھائی نہیں دے گی.شاید کہیں شاذ کے طور پر ایسے واقعات ہوئے ہوں مگر اس متمدن دنیا میں اس مہذب دنیا میں جسے مہذب کہا جاتا ہے، اس دنیا میں جہاں کہا جاتا ہے کہ تہذیب و تمدن اپنے عروج پر ہیں ان سب قوموں کی آنکھوں کے سامنے ایسے دردناک مظالم توڑے جارہے ہیں جو جانوروں کی دنیا میں بھی دکھائی نہیں دیتے.یہ وہ مظلوم قوم ہے جس کے چند افراد آج امریکہ میں بھی آباد ہیں.میں تمام جماعت احمد یہ امر یکہ کو کہتا ہوں کہ اپنی ترجیہات میں اولیت اس بات کو دیں کہ اپنے مظلوم بوسنین بھائیوں سے محبت کا سلوک کریں ، انہیں اپنا ئیں، انہیں اپنے خاندانوں کا حصہ بنائیں ، ان کی ہر طرح خدمت کریں ، ان کے دین کو بھی بچائیں ، ان کے کلچر کو بچائیں.ان کو بتائیں کہ اگر آج تم نے مغربی دنیا کی ظاہری حرص و ہوا سے متاثر ہوکر ویسے ہی رنگ اختیار کر لئے تو پھر دنیا میں بوسنیا کا نام ونشان باقی نہیں رہے گا.بسا اوقات ایسا ہوا کرتا ہے کہ ایک ملک کے باشندے زبردستی اپنے وطن سے بے وطن کر دیئے جاتے ہیں اور اس وطن میں ان کا کوئی ایک شخص بھی باقی نہیں رکھا جاتا لیکن اگر ان کے دلوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 488 خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۹۳ء میں اپنا وطن زندہ رہے، اگر اس وطن کو دوبارہ حاصل کرنے کی تمنا ان کے دلوں میں زندہ رہے، وہ ارادے مضبوطی کے ساتھ ان کے دلوں میں جاگزیں ہو چکے ہوں تو بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل گزرتی ہے اور دوسری کے بعد تیسری گزر جاتی ہے اور تیسری کے بعد چوتھی نسل گزرتی ہے ، صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی ہیں لیکن وہ تو میں جو یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ہم نے وطنوں کو اپنے سینوں میں زندہ رکھنا ہے اور ضرور حاصل کر کے چھوڑنا ہے تو ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض دفعه ۲ ۲ ہزار سال کی مدت گزرنے کے بعد انہوں نے ان وطنوں کو پھر حاصل کیا ہے.یہود سے نفرت کی تعلیم تو عام مسلمان دوسرے مسلمانوں کو دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ان کا تعلق رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ سے ہے، بھول جاتے ہیں کہ یہود کو اسلام میں داخل کرنا ان کا اولین فریضہ ہے، نہ کہ محض نفرت کی تعلیم دینا لیکن ان کی خوبیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.ان کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ فلسطین سے ان کو نکالے ہوئے تقریباً دو ہزار سال برس گزر گئے یا یوں کہنا چاہئے کہ انیس سو برس گزر چکے تھے لیکن نسلاً بعد نسل انہوں نے ایک دوسرے کو یہی تعلیم دی اور اس یا د کوزندہ رکھا اور یہ پیغام دیا کہ ہمارا وطن ہمارے سینوں میں زندہ رہے گا، ہمارا وطن ہمارے دماغوں میں زندہ رہے گا جب تک ہم فلسطین کو اپنی قوم کے لئے دوبارہ حاصل نہیں کر لیں گے ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اس کے لئے مسلسل منصوبے بنائیں گے.میں یہ مانتا ہوں کہ ان کے منصوبے عیارانہ تھے، ان کے منصوبوں میں مکاری تھی، مجھے تسلیم ہے کہ ان کے منصوبوں میں ظلم کا پہلو شامل تھا لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے فلسطین کو اپنے سینوں میں زندہ رکھا تو دیکھیں کہ کس طرح 1900 سال کے بعد ان کو یہ توفیق ملی کہ وہ پھر اپنے وطن میں دوبارہ چلے گئے.پس Bosnians کو یہ بتائیں کہ ہم 1900 سال کے لیے لیکھوں کی بات نہیں کر رہے.ہم خدا سے یہ دعا کریں گے اور توقع رکھیں گے کہ ہماری دعاؤں کے طفیل آپ کے ہجرت کے دن کٹ جائیں اور چھوٹے ہو جائیں لیکن آپ کو لازماًیہ عہد کرنا ہو گا کہ وہ بوسنیا جس کی سرزمین آپ کے پاؤں تلے سے نکال دی گئی ہے، جس سے آپ کو بے وطن کر دیا گیا ہے، اب آپ کے دلوں میں زندہ رہے گا ، آپ کے دماغوں میں زندہ رہے گا، آپ کے کردار میں زندہ رہے گا، اگر ایک بھی ایسا بوسنین باقی ہے.جس کے دل اور ذہن اور جس کے کردار میں بوسنیا زندہ ہے تو خدا کی قسم اس ایک کو بھی ہماری دعاؤں سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 489 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۹۳ء برکت ملے گی اور بوسنین کے لئے دوبارہ اپنے وطن واپس جانے کے سامان پیدا ہوسکیں گے.پس یہ وہ جذبہ ہے جو آپ کو اپنے بوسنین بھائیوں کے دماغ میں پیدا کرنا چاہئے.اگر یہ دنیا کے معاشرے کا شکار ہو جائیں، اگر یہ دنیا کی لذتوں کی پیروی میں مبتلا ہو جائیں تو یہ جذ بہ پہنچ نہیں سکتا.یہ وہ عزم ہے جس کے ساتھ ایک مسلسل تکلیف دہ مشقت کی زندگی برداشت کرنے کے لئے ان کو تیار ہونا ہوگا اور مسلسل ایسے پروگرام ذہن میں رکھنے پڑیں گے کہ جس کے نتیجہ میں بالآخر اس قوم میں اتنی طاقت پیدا ہو کہ وہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اور اس کی تائید کے ساتھ اپنے پرانے وطن کو واپس حاصل کر سکیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ امریکہ کی جماعت ان تمام نصیحتوں کو ملحوظ رکھے گی جو میں اس خطبہ میں ان سے کر رہا ہوں اور اس خطبہ کے ذریعہ ان کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں ورنہ خالی پیغاموں اور رسمی پیغاموں میں تو کوئی بھی حقیقت نہیں ہوا کرتی.ایسے پیغام مانگنا بھی ظلم ہے اور جس سے مانگے جاتے ہیں اس سے بھی زیادتی اور مذاق کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ جماعت احمد یہ خلیفہ وقت سے غیر سنجیدہ باتیں تصور بھی نہیں کر سکتی.جب وہ پیغام مانگتی ہے تو اس ارادے اور یقین کے ساتھ اور عزم کے ساتھ مانگتی ہے کہ آپ جو کچھ کہیں گے ہم آمنا وصدقنا کہیں گے ہم لبیک لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہر ہر حرف کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے پس اگر اس جذبہ کے ساتھ یہ پیغام مانگا گیا تھا تو جس جذبے کے ساتھ میں نے آپ کو یہ پیغام دیا ہے اس جذبے کو لحوظ رکھتے ہوئے اس پر عمل کریں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.اب میں اس خطبہ کو یہاں ختم کرتا ہوں اور تمام عالمگیر جماعت کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج جماعت احمدیہ کی عظیم سعادتوں میں ایک اور سنگ میل کا اضافہ ہوا ہے.خدا کرے کہ اس طرح ہر روز ہر شب جماعت احمد یہ ہر پہلو سے ترقی کرتی چلی جائے اور اسلام کے غلبہ کے وہ دن جو آج ہمیں دور دکھائی دیتے ہیں ہمیں قریب دکھائی دینے لگیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 491 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء عربی، اردو اور مقامی زبانوں میں مہارت حاصل کریں ان تین سواریوں کے ذریعہ اسلام کا پیغام دنیا کو دیں سکیں گے.خطبہ جمعہ فرموده ۲ جولائی ۱۹۹۳ء بمقام مسجد نور اوسلوناروے) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آج کا یہ جمعہ جو مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ تقریباً تمام دنیا میں دکھایا جا رہا ہے اس کا خرچ جماعت احمد یہ ناروے نے پیش کیا ہے کیونکہ یہ جمعہ ان معنوں میں دستور سے ہٹ کر تھا کہ انگلستان میں تو مستقلاً ایسے انتظامات موجود ہیں جن کے ذریعہ جو ہمارا سالانہ خرچ ہے اس میں کوئی مزید اضافہ نہیں ہوا کرتا ایک مقررہ خرچ ہے جس کے مطابق ہمیں پتا ہے کہ وہ اس بجٹ سے ادا ہو سکتا ہے لیکن اگر کہیں دور جا کر مواصلاتی سیارے سے رابطہ کرنا ہو تو اس کے لئے دوسرے غیر معمولی اخراجات اٹھتے ہیں جن کی وجہ سے ایسے خطبوں کو مواصلاتی سیاروں کے ذریعے تمام دنیا میں پیش کرنا ممکن نہیں رہتا.مگر اس موقع پر جماعت احمد یہ ناروے نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جس طرح جرمنی کی جماعت والے ہمارے بھائی ایک بہت اعلیٰ مثال قائم کر چکے ہیں ہم بھی اس کی پیروی میں اپنی تقریب کو مواصلاتی ذریعہ سے ساری دنیا میں دکھانا چاہتے ہیں.الحمدللہ خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ اب میں آپ سب کے سامنے حاضر ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 492 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء پیچھے دو خطبوں کا جو انقطاع رہا ہے ان میں سے ایک خطبے کے موقع پر پرانا خطبہ جو ہالینڈ میں دیا گیا تھا دکھایا گیا اور اسی موقع پر سابق امیر صاحب ناروے کی نماز جنازہ بھی ہوئی تھی تو جس وقت وہ عالمی مواصلاتی نظام کے ذریعہ دکھایا جارہا تھا.اس وقت میں ناروے ہی میں موجود تھا اور وہیں ایک خطبہ دے رہا تھا تو اس طرح امیر صاحب ناروے کی نماز جنازہ عملاً ایسے وقت میں ہوئی جب میں ناروے ہی میں موجود تھا.آج صرف جماعت احمدیہ ناروے کی ہی مختلف تقریبات کا آغاز نہیں ہورہا بلکہ دنیا بھر میں بعض دوسرے ممالک میں بھی بہت سی تقریبات کا آغاز ہورہا ہے.ناروے میں تو تینوں ذیلی مجالس کے اجتماعات ہیں جو آج اور کل سے شروع ہوں گے اور ساتھ ہی گوئٹے مالا کی مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی درخواست ملی ہے کہ ان کا اجتماع جو ہفتے کو شروع ہو رہا ہے اسے بھی آج کے خطبے کے موضوع میں شامل کیا جائے اور ان کے نام بھی پیغام ہو.اسی طرح لجنہ اماءاللہ جرمنی کا پندرھواں سالانہ اجتماع کل بروز ہفتہ جرمنی میں شروع ہو رہا ہے اور ان کی صدر صاحبہ نے بھی اسی خواہش کا اظہار فرمایا ہے.اسی طرح جماعت احمدیہ کینیڈا کا ستر ہواں جلسہ سالانہ آج ۲ جولائی کو جمعہ کے روز شروع ہو رہا ہے اور ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس خطبے کی ریکارڈنگ کر کے اسے اپنے افتتاحی اجلاس کی افتتاحی تقریر کے طور پر پیش کریں اس لئے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جماعت احمد یہ کینیڈا کو خصوصیت سے پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے خطبے میں کچھ نصیحتیں کروں کیونکہ اس طرح ان کے افتتاحی اجلاس میں میری شمولیت ہو جائے گی.مختلف ممالک کی مختلف تنظیمات کا ذکر ہے مگر یہ سارے ممالک عملاً مغربی دنیا کے دائرے میں ہیں اور ان کے دینی اور تربیتی مسائل کم و بیش ایک سے ہی ہیں.اگر چہ مختلف ممالک کے اپنے بھی خصوصی مسائل ہوا کرتے ہیں لیکن بالعموم جسے مغربی دنیا کہتے ہیں ان کا جہاں تک اسلام کے ساتھ تقابل کا سوال ہے اس تقابل میں جو مسائل ہمارے سامنے ہیں وہ کم و بیش ایک سے ہی ہیں.اس لئے ان سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں چند نصیحتیں آپ کی خدمت میں کرتا ہوں تا کہ ان کوملحوظ رکھتے ہوئے آپ ان ممالک میں رہتے ہوئے اسلام کی بہترین خدمت کر سکیں اور اسلام پر اثر انداز ہونے والی مخالفانہ طاقتوں کا بہترین دفاع کر سکیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 493 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء یہ جملہ جو میں نے کہا ہے مجھے ڈر ہے کہ ان ممالک میں رہنے والے احمدی بچے جنہوں نے یہاں پرورش پائی ہے ان کی اردو اتنی کمزور ہے کہ شاید وہ اس جملے کو سمجھ نہ سکیں اور آج یہی پہلی بات ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.بسا اوقات مجھے احمدی بچوں اور نو جوانوں کے خطوط ملتے ہیں کہ عالمی مواصلاتی سیارے کے ذریعے جو ہمارے رابطے ہوئے ہیں ، خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے ہم میں نئی زندگی پیدا ہورہی ہے نیا ولولہ پیدا ہورہا ہے اور نیکی کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن آپ کی اردو بہت مشکل ہے اور بہت زور لگا کر توجہ سے سنا پڑتا ہے پھر بھی بہت سی باتیں ہیں جو سمجھ نہیں آتیں جو بعد میں ہمیں اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیزوں سے بجھنی پڑتی ہیں.تو جہاں تک اردو کا تعلق ہے ، بول چال کی جوار دو ہوا کرتی ہے وہی میری اردو ہے.اس میں بعض دفعہ مشکل مطالب کو بیان کرنے میں مجھے جب دقت پیش آتی ہے تو جو لفظ سامنے آئیں انہی کو استعمال کرنا پڑتا ہے.تحریر کے وقت تو الفاظ موقع دے دیا کرتے ہیں کہ آدمی اپنی مرضی سے انتخاب کرے، ایک مضمون کو بیان کرنے کے لئے بہت سے امکانات ہوتے ہیں ان امکانات کے ساتھ مختلف الفاظ وابستہ ہوتے ہیں ان باتوں کو بیان کرنے کے لئے مختلف الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں اور تحریر کے وقت انسان ٹھہر ٹھہر کر سوچ سوچ کر ایک بات تحریر میں لاتا ہے اور اس کے لئے موقع ہے کہ جس لفظ کو چاہے منتخب کرے اور جس کو چاہے چھوڑ دے ،مگر خطبے اور تقریر کے دوران ایسا ممکن نہیں ہے.خصوصاً ایسے مقرر کے لئے جس نے بار بار لوگوں کو مخاطب کرنا ہو اور جس کے لئے اتنا وقت بھی نہ ہو کہ وہ نوٹس بھی لکھ سکے، زیادہ سے زیادہ حوالے اکٹھے کر کے میں ان کو ترتیب دے دیتا ہوں ورنہ جو مضامین بیان کئے جاتے ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ذہن میں کھلتے ہیں تو ایسے موقع پر پہلے سے سوچی سمجھی تدبیر کے ذریعے لفظوں کا انتخاب کرنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے.دوسرے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ عام بول چال کی اردو ہے اور اگر اس میں کچھ مشکل الفاظ بھی آجاتے ہیں تو احمدی بچوں کو سمجھنے چاہئیں.خصوصیت.ان احمدی بچوں کو وہ الفاظ سمجھنے چاہئیں جن کا تعلق اردو بولنے والے ممالک سے ہے.اس ضمن میں میں خصوصیت سے آپ کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ مذہبی زبانوں میں، یعنی وہ زبانیں جو مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہوئی ہیں اور کم و بیش سبھی زبانیں مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہوئی ہیں لیکن وہ جو غیر معمولی طور پر نمایاں حیثیت اختیار کر گئیں ان میں سب سے اونچا مقام
خطبات طاہر جلد ۱۲ 494 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء عربی کا ہے.عربی کو ایسا بلند و بالا مقام حاصل ہے کہ اس کے مقابل پر کسی دوسری زبان کی وہ حیثیت نہیں لیکن خوش نصیبی سے عربی کا ہر زبان سے ایک تعلق بھی ہے اور وہ تعلق ماں اور بچوں کا تعلق ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف یعنی غیر معمولی اہمیت کی حامل تصنیف ” من الرحمن میں الہامات کی روشنی میں جو مضمون بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے اور یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ عربی زبان الہامی زبان ہے کیونکہ جانور کو ترقی کرتے ہوئے از خود زبان نہیں آئی نہ آسکتی تھی، زبان کا مضمون ایسا ہے جو الہامی ہے.پہلی زبان لازماً انسان کو الہام ہوئی ہے اور الہام کے ذریعے اس نے بولنا چالنا سیکھا ہے.چنانچہ حضرت آدم کا جو تذکرہ قرآن کریم میں ملتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو یہ بیان ہوا ہے کہ ہم نے اسے تمام اسماء سکھائے ، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد زبان ہے یعنی مختلف چیزوں کے نام کیا ہیں اور ناموں کے ذریعے ان کی تشخیص کی جائے اور ان کے وجود کو ایک تشخص دیا جائے ایک علیحدہ حیثیت عطا کی جائے.یہ مضمون بہت وسیع ہے.اس کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا.لیکن مختصر آ یہ بتا تا ہوں کہ قرآن کریم نے تو بالکل واضح طور پر یہ اعلان فرمایا ہے کہ انسان کو زبان ہم نے سکھائی ہے.ورنہ جانوروں کو وہ زبان نہیں سکھائی گئی جس میں ایسی وسعت ہے جیسی انسانی زبان میں ہے وہ از خود کچھ بھی نہیں سیکھ سکے بلکہ سائنسدانوں نے جو تحقیق کی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ تمام جانوروں کی زبانیں دراصل کمپیوٹر کے طور پر ان کے ذہنوں میں منقوش ہیں، رقم ہو چکی ہیں لکھی جاچکی ہیں اور وہ زبانیں ایسی ہیں جن میں وہ مزید ترقی نہیں کر سکے کیونکہ از خود نہیں سیکھی گئیں، نہ سیکھ سکتے تھے.کوے کی جو زبان کروڑوں سال سے چلی آرہی ہے.وہی زبان آج ہے.ناروے میں بھی کوا وہی زبان بولتا ہے جو پاکستان میں بولتا ہے یا افریقہ کے کسی ملک میں بولتا ہے یا امریکہ کے کسی ملک میں بولتا ہے اور وہی زبان مکھی کی ہے جو عالمی زبان ہے یعنی مکھی کی اپنی ایک زبان ہے جو عالمی زبان ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.نہ وقت سے تبدیلی واقع ہوتی ہے نہ جگہ سے تبدیلی واقع ہوتی ہے اور جتنے پرندے چہچہاتے ہیں ان کی زبانیں خواہ آپ یونائٹیڈ سٹیٹس میں ریکارڈ کریں یا ناروے میں ریکارڈ کریں یا دوبئی میں جا کر ریکارڈ کریں یاکسی اور ملک میں ، ایک ہی زبان ہوگی ، ان کی ایک ہی طرز ہے اور زبان ہے ضرور، کیونکہ ان کے خاص وقت کی چیچنیں اس وقت کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 495 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء مناسبت رکھتی ہیں مثلاً کسی جانور کے منہ سے خوشی کے وقت جو بے اختیار آواز نکلتی ہے وہ غم کے وقت کی آواز سے مختلف ہے، فکر اور درد کی آواز سے مختلف ہے اور خوف کی آواز سے مختلف ہے.چنانچہ سائنسدانوں نے اس مضمون پر تحقیق کے بعد بعض فائدہ مند چیزیں بھی دریافت کی ہیں.مثلاً بعض ہوائی اڈوں پر یہ مشکل در پیش تھی کہ وہاں سیگلر بڑی کثرت سے آسکے بیٹھتی تھیں اور ہوائی جہاز کے شور سے جب وہ اڑتی تھیں تو بعض دفعہ بہت بڑے بڑے حادثے ہو گئے کیونکہ بڑی تعداد میں جب انجن سے ٹکراتی تھیں تو خود پارہ پارہ ہوتی تھیں اور انجن کو بھی نقصان پہنچاتی تھیں تو پھر انہوں نے سیگلز کی وہ آواز معلوم کی جو وہ خوف کی حالت میں نکالتی ہے اور اس آواز کو ریکارڈ کیا اور پھر لاوڈ سپیکر، پبلک ایڈریس سسٹم کے ذریعے بہت وسیع پیمانے پر ان ائیر پورٹس پر اس آواز کے ریکارڈ کو بار بار چلایا گیا اور جب وہ ریکارڈ چلایا جاتا تھا تو بے اختیار خوف سے چیچنیں مارتی ہوئی سیگلز وہاں سے اڑ کے چلی جایا کرتی تھیں.یہاں تک کہ ان کے لئے اس جگہ پر بیٹھنا ممکن نہ رہا.حقیقت تو یہ ہے کہ سب زبانیں خدا نے ہی سکھائی ہیں بعض زبانیں کمپیوٹر کی طرح دماغ میں داخل کر کے نقش کر دی گئی ہیں.ان میں ترقی کی بھی کوئی گنجائش نہیں اور تبدیلی کی بھی کوئی گنجائش نہیں.جب سے کسی جانور کی تخلیق ہوئی ہے اس وقت سے وہ وہی زبان استعمال کر رہا ہے اور ہر خطہ ارض میں وہی زبان بولتا ہے لیکن کچھ زبانیں ہیں جو انسان کو عطا ہوئی ہیں ان زبانوں کا ہم جمع کی صورت میں ذکر کرتے ہیں زبانیں لیکن قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ایک زبان ہی خدا نے سکھائی تھی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن اور الہامات کی روشنی میں جو مضمون من الرحمن میں بیان فرمایا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ پہلی زبان جو انسان کو سکھائی گئی وہ عربی تھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن ۲ تا ۵) خداہی وہ رحمن خدا ہے جس نے قرآن سکھایا.خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ اس نے انسان کو پیدا فرمایا اور پھر اسے بیان سکھایا.بیان کے اور معانی بھی ہیں لیکن پہلا معنی قوت بیانیہ ہے.اسے اپنے عندیہ کو ، اپنے مضمون کو دوسرے تک پہنچانے کی قدرت عطا فرمائی اور اس قدرت کو ایسا عام فرما دیا کہ ہر انسان میں یہ قدرت ہے کہ اپنے مافی الضمیر کو بیان کر سکے اور دوسرے کے بیان کو سنے اور سمجھ سکے.اس کا تعلق قرآن کریم سے ہے اور اتنا گہرا تعلق ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 496 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء قرآن کریم نے پہلے قرآن کا ذکر فرمایا ہے پھر انسان کی تخلیق کا ، پھر انسان کے بیان کا، جس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت خدا تعالیٰ کا سب سے عظیم الشان جلوہ جو ظاہر ہوا ہے وہ قرآن کریم ہے.اس جلوے کے تابع دوسرے جلوے ہیں اور اس میں انسان کی تخلیق کا ایک جلوہ ہے اور انسان کی تخلیق کے جلوے کو پہلے جلوے سے ملانے کے لئے جو پل بنایا گیا ہے اس کا نام الْبَيَانَ ہے اس نے انسان کو البیان سکھا دیا تا کہ وہ قرآن کو سمجھ سکے اور وہ بیان عربی بیان تھا کیونکہ قرآن کریم عربی میں نازل ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے وہ بارہ اصول بیان فرمائے جن کی روشنی میں تمام زبانوں کا عربی سے تعلق ثابت کیا جاسکتا ہے اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مرحوم و مغفور نے اس پر بڑی محنت کی انہوں نے چالیس سے زائد زبانوں کو عربی سے ملا کر دکھا دیا کہ اس طرح ان زبانوں کا تعلق عربی سے ثابت ہوتا ہے ان کا بہت سا عالمانہ کام ہے جو جماعت کے پاس اس وقت امانت پڑا ہوا ہے.انشاء اللہ انتظام کیا جا رہا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ تمام عالمانہ جواہر پارے دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں لیکن میں جو مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں واپس اس کی طرف لوٹتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عربی الہامی زبان ہے خدا نے الہام فرمائی ہے اور تمام دوسری زبانیں اس زبان سے نکلی ہیں اور رفتہ رفتہ ان کا انتشار ہوا ہے.آدم سے یعنی وہ آدم جس کو خدا تعالیٰ نے پہلے زبان سکھائی ، اس آدم کے بعد سے مختلف جگہوں پہ جہاں جہاں آدم کی اولا د پھیلی ہے وہاں یہ زبانیں پہنچیں اور مختلف اثرات کے تابع ان میں کچھ کمی ہوئی کچھ زیادتی ہوئی کچھ تبدیلیاں واقع ہوئیں یہاں تک کہ وہ پہچانی بھی نہیں جاتیں.اب یہ بات کہ اتنا فرق پڑ جائے کہ ایک ہی زبان سے نکلی ہوئی زبانیں ہوں اور آپس میں اتنی مختلف ہو جائیں کہ یقین نہ آئے کہ یہ اسی آدم کی اولاد ہیں، اس کا انسانوں کی ظاہری شباہت سے بھی ایک تعلق ہے.افریقہ کا انسان بھی بالآخر اسی آدم کی اولاد ہے، جس آدم کی اولا د ناروے کے باشندے ہیں ناروے کے باشندے بھی بالآخر اسی آدم کی اولاد ہیں ، جس آدم کی اولا د ہندوستان کے بسنے والے ہیں یا چین میں رہنے والی قومیں ہیں یا تبتی قو میں ہیں.غرضیکہ مختلف قوموں پر نظر ڈال کے دیکھیں ان کے رہن سہن، ان کی بود و باش تو مختلف ہیں ہی ان کی شکل و شباہت اور فیچر ز یعنی بنیادی نقوش بھی اتنے مختلف ہیں کہ بظاہر یقین نہیں آتا کہ ان کا سلسلہ بالآخر ایک ہی آدم تک پہنچ سکتا ہے لیکن سر دست تو دنیا کی معلومات یہاں تک ہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 497 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء ہیں کہ جب بھی زندگی نے ترقی کرتے ہوئے ابتدائی انسانیت کا روپ دھارا ہے.اس وقت ایک ہی ماں باپ تھے جن سے یہ سب کچھ پیدا ہوا ہے اور پھر بعد میں تبدیلیاں شروع ہوئی ہیں اور وقت نے مختلف موسموں، مختلف حالات ، اقتصادی اور دوسرے سب حالات نے مل کر تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کی ہیں جس کے نتیجے میں انسان کی شکل بھی دوسرے انسانوں سے بدلنی شروع ہوگئی اور مختلف ہونے لگ گئی.پس زبانوں کا آپس میں اتنا فرق ہو جانا کوئی غیر طبعی یا غیر معقول بات نہیں لیکن علمی لحاظ سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک بہت بڑے احمدی عالم اور فلسفی مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کردہ خطوط پر بہت سی زبانوں کو عربی سے نکلا ہوا ثابت کر دکھایا ہے تو عربی زبان کو اولیت حاصل ہے اور یہ اولیت کوئی دنیا کی طاقت اس زبان سے چھین نہیں سکتی.عربوں کے حالات خواہ کیسے بھی بگڑ جائیں مگر چونکہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لئے دنیا کا کوئی انسان عربی زبان کی اولیت کو عربی سے چھین نہیں سکتا.اس کی یہ فوقیت، اس کی یہ برتری بہر حال اس زبان میں باقی رہے گی اور جوں جوں اسلام پھیلے گا عربی دانی کی مزید ضرورت پیش آتی چلی جائے گی ، جہاں جہاں احمدیت اسلام کا پیغام لے کر پہنچے گی وہاں قرآن سکھانے کا انتظام بھی ہو گا اور ابتداء تھوڑی عربی سے گزارہ چلے گا لیکن بالآخر یہ ہوکر رہے گا کہ عربی دنیا کی سب سے بڑی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان بن کر رہے گی.پس مذہبی زبانوں میں اولیت عربی کو ہے اور اس کی طرف ہمیں مزید توجہ کرنی چاہئے.اس کی طرف توجہ کے لئے سکولنگ (Schooling) بڑی ضرورت ہے.اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن مجید کی زبان سمجھتا ہوں یعنی جس حد تک ایک انسان کو خدا کی طرف سے توفیق ملتی ہے وہ سمجھ سکتا ہے، احادیث کی زبان سمجھتاہوں، اگر صحیح عربی بولی جائے تو سمجھ لیتا ہوں لیکن بولنے کا محاورہ اس لئے نہیں کہ میری Schooling بہت ناقص تھی جس زمانے میں ہم قادیان میں پڑھا کرتے تھے وہ بد قسمتی سے تعلیمی لحاظ سے ایک ایسا دور تھا جبکہ سکول اپنے گراف میں سب سے نچلے حصے کو چھورہا تھا اور عربی تعلیم بالکل واجبی سی تھی ، گرائمر سکھا دی جاتی تھی اور لکھی ہوئی عربی سمجھانے پر ہی اکتفا کی جاتی تھی یعنی اسی کو کافی سمجھا جاتا تھا لیکن بول چال سکھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا.یہاں تک کہ جب ہم جامعہ میں گئے تو وہاں بھی کوئی ایسا انتظام نہیں تھا جس سے عربی بول چال کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 498 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء محاورہ پیدا ہو.پس اگر ایک لمبے عرصے تک یعنی پختگی کی عمر تک کسی زبان میں بول چال کا محاورہ پیدا نہ ہو تو ایک ایسی جھجک بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے بعد سیکھنا پھر مشکل ہو جاتا ہے.اگر چہ میرے لئے مشکل تو نہیں لیکن اب وقت کی مشکل ہے اور جتنا وقت اور بیجہتی زبان سیکھنے کے لئے درکار ہے اب وہ حاصل نہیں ہے.اس لئے میں افسوس کرتا ہوں کہ کیوں بچپن کے زمانے میں مجھے کسی نے ایسی پاکیزہ اور اعلیٰ زبان جو الہامی زبان ہے اس حد تک نہ سکھائی کہ میں بے تکلفی سے اپنے مافی الضمیر کو اس میں ادا کر سکوں لیکن جو آپ کے بچے ہیں آپ کی چھوٹی نسلیں ہیں ان کی صلاحیتوں کو اب ضائع نہ ہونے دیں ان سے بھر پور استفادہ کی کوشش کریں کیونکہ چھوٹے بچے خدا تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی کوشش کے، بغیر ذہن پر بوجھ ڈالے بیک وقت پانچ چھ زبانیں سیکھ سکتے ہیں اور بعض ماں باپ کو یہ وہم ہے کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ زبانیں سکھانا بچوں پر ظلم اور زیادتی ہے وہ نہیں سیکھ سکیں گے.سائنسدانوں نے اس موضوع پر جو تحقیقات کی ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی ذہن بچپن میں اتنی بڑی صلاحیت رکھتا ہے کہ اسے بیک وقت چھ یا اس سے بھی زائد زبا نہیں سکھائی جائیں تو بغیر بوجھ ڈالے فرفروہ اپنی مادری زبان کی طرح ان زبانوں کو بول سکتا ہے.پس پہلی نصیحت تو مغربی دنیا میں بسنے والے احمدیوں کو خصوصاً اور باقی احمد یوں کو بھی یہی ہے کہ عربی زبان کی طرف توجہ کریں اور مغربی دنیا میں یہ سہولتیں موجود ہیں کہ ان کا نظام تعلیم چونکہ بہت ترقی یافتہ ہے اس لئے کم و بیش ہر ملک میں عربی زبان سکھانے کا انتظام ضرور موجود ہوگا.اگر نہیں تو پھر کیسٹس کے ذریعے استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن کیسٹس کی بھی ضرورت نہیں ہر ایسا ملک جو مغربی دائرے میں ہے وہاں کثرت کے ساتھ عرب آباد ہو چکے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے اور کوئی عرب احمدی وہاں نہ ہوں یا عربوں میں سے احمدیوں کے اتنے دوست نہ ہوں کہ جو دن بدن جماعت میں زیادہ دلچسپی نہ لے رہے ہوں اور اس بات کے لئے تیار نہ ہوں کہ وہ زبان سکھانے میں جماعت کی تنظیموں کی مدد کریں.پس ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہئے جس میں لجنہ بھی شامل ہو، انصار اللہ بھی شامل ہو، خدام الاحمدیہ بھی شامل ہو اور وہ اپنی چھوٹی نسلوں کی زبانوں کی تربیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اور اس میں اولیت عربی کو ہو کیونکہ عربی زبان کے سمجھے بغیر قرآن کریم کا ابتدائی فہم بھی ممکن نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 499 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء ہے.بول چال بھی سکھانی ضروری ہے کیونکہ اگر آپ اپنے مافی الضمیر کو عربی زبان میں بیان نہیں کر سکیں گے تو عرب لوگوں کی احمدیت کی طرف توجہ نہیں ہوگی.اگر ہم عربی زبان، بول چال سیکھیں تو یہ الگ فائدہ ہے جو اس سے ہمیں حاصل ہو گا لیکن میرا اول زور اس بات پر ہے کہ ہر احمدی بچے میں عربی زبان کو اس طرح سمجھنے کی توفیق ہونی چاہئے کہ جب وہ قرآن مجید پڑھے تو ترجمہ کر کے نہ سوچے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں بلکہ قرآن مجید پڑھتے پڑھتے مضمون خود بخود اس کے ذہن میں داخل ہوں اور دل پر کارفرما ہوں ، دل پر اثر انداز ہور ہے ہوں.اس پہلو سے ہمیں تدریجی پروگرام بنانے ہوں گے.مثلاً میں نے ایک دفعہ یہ مشورہ دیا تھا کہ قرآن کریم کی وہ آیات جن کی عموماً جماعت احمدیہ میں تلاوت کی جاتی ہے مثلاً بہت سی ایسی چھوٹی سورتیں ہیں یا منتخب آیات ہیں جن کی میں اپنی نمازوں میں تلاوت کرتا ہوں.ان کو اگر پہلی منزل بنالیا جائے اور سب تنظیمیں کوشش کریں کہ ان کے حوالے سے عربی زبان سکھائی جائے اور ان کا ترجمہ سکھایا جائے اور ترجمہ سکھاتے سکھاتے کچھ گرائمر بھی بتادی جائے اور عربی کا تعارف بھی اس طرح کروایا جائے کہ بار بار ان آیات کے حوالے سے عربی کی طرف منتقل ہوں اور عربی کے حوالے سے ان آیات کی طرف منتقل ہوں.تو اس سے ایک فائدہ یہ بھی پہنچے گا کہ جب بھی وہ ان آیات کی تین نمازوں میں تلاوت سنیں گے یا جتنی توفیق ہے اتنی قرآت والی نمازوں میں شامل ہو کر قرآت سنیں گے تو ان کے دل پر براہ راست اثر پڑے گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات میں ایک عظیم خوبی یہ ہے کہ اگر آپ روزانہ بھی وہی آیات تلاوت کرتے چلے جائیں تو جب بھی دل ڈال کے انہیں سنیں گے آپ کے دلوں پر نیا اثر پڑے گا.اگر سرسری طور پر ان کو سن کر آگے گزرجائیں گے تو خواہ آپ کو تر جمعہ آتا بھی ہو آپ کے دل پر کچھ بھی اثر نہیں پڑے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ ترجمہ آتا ہو اور توجہ سے سنیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت چاہے لاکھ دفعہ پڑھی جائے لاکھ دفعہ اپنا اثر پیدا نہ کرے.یہ کلام کی زندگی کی نشانی ہے، جو کلام زندہ ہو اس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس کو بار بار سننے کے باوجود اس میں دلچسپی زندہ رہتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض عبارتیں ایسی ہیں جن کو سینکڑوں مرتبہ احمدی مقررین نے اپنی تقریروں میں استعمال کیا ہے اور سینکڑوں مرتبہ سننے والوں نے ان کو سنا اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 500 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء ہر دفعہ ان کو ئی لذت محسوس ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ اصلوۃ والسلام کے کلام میں بالعموم زندگی کی یہ ایک خاصیت ہے جسے جو لوگ جانتے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ وہ کلام اپنی زندگی کے اعتبار سے دوسرے کلام سے الگ پہچانا جاتا ہے.وہ کبھی مر نہیں سکتا، اتنا نمایاں فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو خلفاء کے کلام پر بھی ایک نمایاں شان اور نمایاں برتری حاصل ہے اور ممکن ہی نہیں ہے کہ ویسا کلام کوئی اور انسان اپنی طرف سے بنا سکے.باوجود اس کے کہ وہ الہامی کلام نہیں لیکن وہ شخص جس کی زندگی الہام کی روشنی میں پل رہی ہو جس کا تمام تر سفر الہام کی روشنی میں ہو اس کی زبان پر لازماً الہام کا اثر پڑتا ہے اور اس کی روشنی سے اس کی زبان کو ایک زندگی ملتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان اور آپ کے کلام کی جو زندگی ہے اس کا براہ راست الہام سے تعلق ہے اور عربی زبان تو سکھائی ہی الہام کے ذریعہ گئی ہے اور قرآن کریم تو سراسر سرتا پا الہامی زبان ہے اس لئے قرآن کریم کے متعلق اگر ہمیں کہیں یہ احساس ہو کہ سننے سے مزہ نہیں آیا یا طبیعت میں وہ ولولہ پیدا نہیں ہوا جو ہونا چاہئے تو قصور آپ کا ہو گا.اپنی بیماری تلاش کریں، اپنے اندر کمزوری ڈھونڈیں جس کی وجہ سے آپ پر اثر نہیں پڑا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا کلام مسلسل اول سے آخر تک ایک زندہ کلام ہے جو کبھی بھی مر نہیں سکتا اور ہمیشہ زندگی بخشتا ہے.پس جو بھی پروگرام بنائیں یا جیسا کہ میں نے مشورہ دیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روز مرہ جو جو آیات جماعت میں تلاوت کی جاتی ہیں جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے وقت سے بالخصوص مشہور عام چلی آرہی ہیں اور جماعت نے آپ ہی کی تلاوت سے رنگ پکڑ کر ان آیات یا ان سورتوں کو اپنی نمازوں میں استعمال کرنا شروع کیا ہے ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی عربی تعلیم شروع کریں اور اس کے علاوہ بھی اگر با قاعدہ استاد رکھ کر مکن ہویعنی جماعتی انتظام میں استادر کھے جائیں.تو بچوں کو عربی با قاعدگی سے پڑھائی جائے لکھنی پڑھنی بھی سکھائی جائے اور بولنی اور عام روز مرہ کے محاورہ میں ان کو شناسائی کروائی جائے ، ان کی واقفیت کروائی جائے.پھر جس میں صلاحیت ہوگی وہ ترقی کر جائے گا.لیکن اول مقصد یہ ہونا چاہئے کہ بالآخر قرآن کریم با ترجمہ سب کو آجائے.یہ جو پروگرام ہے یہ ایک سال، یا دو سال یا چند سال کا نہیں ہوسکتا.اگر کسی کے دماغ میں یہ و ہم ہو کہ ایک قائد اپنے زمانہ قیادت میں جو ۲ یا ۳ سال کا ہو اس میں اس کام کو پورا کر سکتا ہے تو یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 501 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء بالکل ممکن نہیں ہے.یہ ایسا کام ہے جسے ایک قیادت کے بعد دوسری قیادت کو سنبھالنا ہوگا اس کے بعد تیسری قیادت کو سنبھالنا ہو گا.ایک نسل کی ساری زندگی اس کام پر لگ جائے تب بھی اتنے بڑے خلاباقی رہ جائیں گے کہ اگلی نسل کو پھر اس کام کو جاری رکھنا پڑے گا.میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ کام تقریباً ایک سو سال تک پھیلا ہوا ہے.جس کا آغاز ہمیں کرنا ہو گا اور منصوبہ بندی کے تحت با قاعدگی سے اس کا آغاز کرنا ہوگا تا کہ اس کے انجام کی برکتوں میں ہم بھی حصہ دار ہو جائیں اگر ہم سلیقے سے اس کام کو شروع کر دیں گے تو مجھے یقین ہے کہ اس کے انجام میں جو عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ثواب میں ہمیں بھی شامل فرمالے گا.پس عربی زبان سے متعلق تفصیلی منصوبے تمام ذیلی مجالس اپنے اپنے ہاں بنا ئیں اور ان منصوبوں کو بنانے کے بعد مجھے اطلاع دیں کہ ہم نے یہ منصوبے بنا بھی لئے ہیں اور اس حد تک جاری بھی کر دئے ہیں پھر حسب توفیق اس کام کو بڑھاتے چلے جائیں، کسی منزل پر چھوڑ نا نہیں.یہاں تک کہ جماعت میں عربی سے محبت ایک عام رواج پا جائے اور عربی سے تعلق اتنا گہرا ہو جائے کہ ہمارے گھروں میں روزمرہ عربی بول چال والے بچے پیدا ہونے شروع ہو جائیں.پھر اگلی نسل میں اس مضمون کو اور آگے بڑھایا جائے.اس سے ایک بہت بڑا خلا جو میں اس وقت جماعت میں محسوس کر رہا ہوں وہ پر ہو جائے گا.میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ آپ اردو کی طرف بھی توجہ کریں.اردو کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ یہ پاکستان کی زبان ہے یا ہندوستان کی زبان ہے یہ درست نہیں ہے.اسلام کی دوہی نشا تیں ہیں ایک اول نشاۃ اور ایک دوسری نشاۃ جسے آخرین کا زمانہ کہا جاتا ہے.آخرین کے زمانے کے لئے عربی زبان کے مضامین کو ترویج دینے اور قرآن کریم اور سنت کے مفاہیم کو سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اردو زبان کا بکثرت استعمال فرمایا ہے.جہاں تک میں نے نظر ڈال کر دیکھا ہے ایسی مذہبی کتابیں جو الہامی کہلاتی ہیں ان میں واقعہ الہامی الفاظ بہت تھوڑے ہیں اور بڑا حصہ تاریخ دانی کا ہے.مضمون نگاروں نے یہ بیان کیا ہوا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام یہاں سے وہاں گئے.وہاں سے وہاں گئے.یہ کام کیا.وہ کام کیا لیکن الہاما لفظ لفظ وہ عبارتیں بیان کرنے والوں پر نازل نہیں ہوئی تھیں.انجیل میں میں جو حصہ واقعہ الہامی ہے وہ بہت تھوڑا سا ہے اسی طرح Old Testament کا آپ مطالعہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 502 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء کر کے دیکھ لیں وہاں آپ کو الہامی حصے بہت تھوڑے دکھائی دیں گے.اسی طرح آپ وژند اوستا کا مطالعہ کر لیں اور گیتا کا مطالعہ کر لیں اور وید کا مطالعہ کرلیں.امر واقعہ یہی ہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں اکثر الفاظ اور اکثر محاورے انسانوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں.البتہ مضمون اپنی ذات میں مقدس ہے.بزرگ لوگوں کی روایات اور حکایتیں اکٹھی کی گئی ہیں اور اس میں الہامات بھی جڑے گئے ہیں.واضح طور پر قطعی طور پر ان الہامات کی زبان پہچانی جاتی ہے کہ یہاں خدا بولا ہے اور خدا کا کلام ہے جسے محفوظ کرلیا گیا ہے.پس اگر زبان کے لحاظ سے الہامی زبان کے حصے کو الگ کیا جائے.یعنی الہاموں کو صرف اکٹھا کر لیا جائے اور باقی کتابوں کو چھوڑ دیا جائے تو مذاہب کی جو باقی کتابیں ہیں وہ سکڑ کر کچھ بھی نہیں رہیں گی.میں نے اس پہلو سے جائزہ لے کے دیکھا ہے کہ عربی کے بعد خدا سب سے زیادہ اردو زبان میں ہم کلام ہوا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی پہلے نمبر پر عربی میں اور پھر اردو میں الہامات ہوئے ہیں اور اردو الہامات کی بھاری تعداد ہے.پس حضرت مصلح موعودؓ نے اسی وجہ سے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ زبان بھی اب کبھی نہیں مرے گی اور احمدیت کی اشاعت کے ساتھ لازم ہے کہ یہ زبان پھیلتی چلی جائے کیونکہ الہامات کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کی اکثریت اردو میں ہے اور اگر چہ کلیۂ قرآن اور سنت اور حدیث پر مبنی مضامین بیان ہوئے ہیں اور آپ نے ایک شوشہ بھی اپنی طرف سے زائد نہ کیا لیکن جس زبان میں ان مضامین کو استعمال فرمایا ہے وہ اردو زبان ہے.پس عربی کے بعد ہمیں سب سے زیادہ اہمیت اردو کو دینی چاہئے اور پھر تیسرے نمبر پر ہر ملک کی مقامی زبان ہے.اس پہلو سے میں پہلے بھی جماعت کو نصیحت کرتا رہتا ہوں کہ آپ اپنے بچوں کو اردو بھی سکھائیں اور مقامی زبانیں بھی ضرور سکھائیں اور جہاں تک ان دونوں کے مقابلے اور موازنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں میں پہلے مضمون کو کھول کر واضح کر چکا ہوں لیکن چونکہ اب دوبارہ اس مضمون پر بات شروع ہے.اس لئے اس خیال سے کہ کسی ذہن میں کوئی غلط فہمی نہ رہ جائے میں ایک دفعہ پھر اس مضمون کو مزید وضاحت سے بیان کروں گا.مقامی زبان کا اپنا ایک حق ہے اور اس کی ایک اولیت ہے اور جس ملک میں بھی احمدیت پھیلتی ہے اسے مقامی زبان ہی میں پھیلنا ہو گا اس پہلو سے تمام احمدی بچوں کا فرض ہے کہ وہ مقامی زبان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 503 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء سیکھیں ، اپنی زبان کی طرح سے اسے اپنا ئیں اپنی مادری زبان کی طرح بولنا سیکھیں سمجھنا سیکھیں ، لکھنا سیکھیں کیونکہ جس ملک میں جو زبان بولی جاتی ہے جب تک اسے ذریعہ نہ بنایا جائے وہ ملک کوئی پیغام قبول نہیں کیا کرتا.عربی ام الألسنۃ ہے اس لحاظ سے یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ عربی زبان ام الألسنۃ ہونے کے باوجود باقی ممالک میں نہیں سمجھی جاتی تو عربی کو اختیار کرنے کا کیا فائدہ؟ امر واقعہ یہ ہے کہ عربی سے الفاظ نکل کر باقی زبانوں میں رائج ہو گئے ہیں.اس لئے اس کا مطلب صرف اتنا بنتا ہے کہ اگر کسی ایک زبان کو دنیا کی زبان بننے کا حق ہے تو وہ عربی ہے لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ہر جگہ جا کر یہ کہہ کر عربی بولنا شروع کر دیں کہ یہ الہامی زبان ہے ہم نے ضرور تمہیں عربی میں ہی تعلیم دینی ہے اور جن لوگوں کو عربی سمجھ نہیں آرہی ان پر اسلام ٹھونسنے کی کوشش کریں گے تو آپ کی ساری کوششیں بریکار جائیں گی کچھ سمجھ نہیں آئے گی.وہی حال ہو جائے گا کہ ” آب آب کر مو یا بچہ فارسیاں کر گلے، پنجابی میں مشہور ہے کہ کسی کا ایک بچہ بے چارہ ایران چلا گیا تھا وہاں سے فارسی سیکھ کے آگیا اور ماں غریب پنجابن تھی اس کو فارسی کا ایک لفظ نہیں آتا تھا.بچے کو بخار چڑھا اور شدید پیاس محسوس ہوئی وہ بار بار آب آب کرتا تھا.آپ کا مطلب ہے پانی اور ماں بے چاری دیوانوں کی طرح کبھی ادھر دوڑتی تھی کبھی ادھر دوڑتی تھی کبھی کوئی چیز لاتی تھی کبھی کوئی چیز لاتی تھی مگر پانی نہ لاسکی اور اس حالت میں بچے نے دم تو ڑ دیا بعد میں جب اس نے اس بچے کا حال بیان کیا تو کسی نے کہا کہ وہ تو آب مانگ رہا تھا، پانی مانگ رہا تھا تو کہتے ہیں اس پر ماں نے بے ساختہ کہا کہ ” آب آب کر مو یا بچہ، فارسیاں کر گلے“ کہ میرا بچہ تو آب آب کرتا مر گیا فارسیوں نے تو میرا گھر اجاڑ دیا.تو آپ پر وہ الزام نہ آئے کسی ملک کی طرف سے یہ الزام نہ آئے کہ پتا نہیں آپ کیا عربی بولتے رہے یا اردو بولتے رہے ہمارے تو گھر اجاڑ دئے.ہمیں تو خدا کے پیغام سے محروم کر دیا اس آب سے محروم کر دیا جس میں ہماری زندگی تھی ہم نے ہمیں مرنے دیا اس وجہ سے کہ تم غلط زبان استعمال کرتے رہے.یہ الزام آپ پر نہ آئے.اس لئے مقامی زبان کی جو اہمیت ہے اس کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ زبانیں سیکھیں گے تو آپ اس قابل ہوں گے کہ ان کی پیاس بجھاسکیں.جہاں ان کو آب کی طلب ہو وہاں آب ان کو پیش کر سکیں اور اس طرح پیش کر سکیں کہ وہ ان کو قبول کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں.پس زبانوں کے تسلسل میں جو آپس میں مراتب ہیں ان کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے جب کسی ملک میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 504 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء جاتے ہیں تو مقامی زبان کو ایک مرتبہ اور اولیت حاصل ہو جاتی ہے.عالمی سطح پر دوسری زبانوں کو ہوگی اس سے غرض نہیں.جہاں تک اس ملک کے دائرے کا تعلق ہے ان کی اپنی زبان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.پس ان کی وہ زبان سیکھنی ہوگی ، آپ کو بھی سیکھنی ہوگی ، آپ کے بچوں کو سیکھنی ہوگی اور اس زبان میں اتنی مہارت حاصل کرنی ہوگی کہ آپ ان کو وہ زبان پڑھا سکیں اور ایسا ممکن ہے.چنانچہ بعض جگہ مجھ سے کسی ملک سے تعلق رکھنے والے بعض مقامی لوگوں نے بیان کیا کہ احمدیوں کی نئی نسل میں جو بچے پیدا ہورہے ہیں ان میں بعض ایسی اچھی زبان بولتے اور ایسی اچھی زبان لکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے بچے نہیں لکھ سکتے.چنانچہ انگریزی میں اول آنے والے پاکستانی بچے ہیں.سکول میں سارے انگریز بچے پڑھ رہے ہیں اور انگریزی میں اول آنے والے پاکستانی بچے ہیں جرمن زبان میں اول آنے والے پاکستانی بچے ہیں.ہو سکتا ہے نارویجین میں بھی ایسا ہومگر مجھے علم نہیں ہے ، ہوسکتا ہے کہ ہو لیکن اگر نہیں تو ہونا چاہئے.ناروے میں بسنے والی جماعت کے لئے خصوصیت کے ساتھ یہ قابل توجہ بات ہے کہ بدقسمتی سے یورپین ممالک میں ناروے کے اندر تعلیم کی طرف کم رجحان ہے اور نار و بین قوم میں سے ایک بڑی بھاری تعداد ہے جو سکول کی تھوڑی سی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے اور اعلی تعلیم حاصل نہیں کرتی اس لئے اعلی تعلیم کا میدان یہاں باقی قوموں کے مقابل پر زیادہ کھلا پڑا ہے.اس میدان میں کوشش کرنے کے لئے بہت زیادہ مواقع ہیں.اس لئے خصوصیت سے ناروے کی جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو نارویجین زبان بہت زیادہ عمدگی سے سکھائیں اور باقی تعلیم میں بھی ترقی دیں تا کہ اس قوم کی زبان میں اس قوم کی خدمت کر سکیں صرف مذہبی لحاظ سے نہیں بلکہ علمی لحاظ سے ہر لحاظ سے وہ خدمت کے لائق بن سکیں مگر باقی سب جماعتوں کے لئے بھی یہی نصیحت ہے کہ جس ملک میں رہو اس ملک کی زبان کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس نیت کے ساتھ سنجیدگی سے سیکھو اور کوشش کرو کہ اہل زبان سے بھی فوقیت لے جاؤ اور وہ تمہیں سر نیچا کر کے نیچے کی طرف نہ دیکھیں بلکہ سر اونچا کر کے بلندی پر پائیں اور دیکھیں کہ تم ان کی زبان میں ان کو سکھانے کی اہلیت رکھتے ہو.جب یہ ملکہ حاصل کر سکو گے پھر تم عربی سے جو فیض پاؤ گے یا اردو سے جو فیض پاؤ گے اس فیض کو ان کی زبانوں میں ان تک پہنچانے کی اہلیت حاصل کرلو گے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 505 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء اب رہا اردو کا معاملہ تو اردو کے سلسلے میں میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ صرف پاکستانی نژاد یعنی پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں یا ہندوستان میں پیدا ہونے والے بچوں ہی کا کام نہیں کہ وہ اردو سیکھیں بلکہ تمام نو مسلم احمدیوں کا اگر فرض نہیں تو ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ اردو زبان براہ راست سیکھیں ، اردو زبان میں بہت سے ایسے مطالب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں ملتے ہیں جو ترجمے میں ضائع ہو جاتے ہیں اور انسان جب ترجمہ کی کوشش کرتا ہے تو بڑی حسرت سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نظم ہے: کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا ( در مشین : ۱۰) اس نظم سے متعلق میں آج کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اب وقت نہیں ہے لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلسلے کے انگریزی کے مختلف ماہروں کو یہ نظم دی گئی کہ وہ اس کا ترجمہ کریں اور وہ جن کو بجا فخر تھا کہ ان کو انگریزی زبان پر خوب دسترس حاصل ہے اور شاعرانہ مزاج بھی تھا اور اردوزبان بھی سمجھتے تھے انہوں نے بھی جو ترجمے کر کے بھیجے اس سے اندازہ ہوا کہ ترجمہ کرنے کا کام کتنا مشکل ہے اور بعض اعلیٰ عارفانہ مضامین کو ایک زبان سے دوسری زبان میں حقیقت میں منتقل کیا ہی نہیں جاسکتا اس کا لطف اٹھانے کے لئے وہ زبان سیکھنی ضروری ہے چنانچہ پروفیسر آر.بری جو کیمبرج میں عربی کے بڑے مشہور پروفیسر تھے نے جب قرآن کریم کا ترجمہ کیا تو وہ اس ترجمے کے آغاز میں تمہید میں یہ لکھتے ہیں کہ مجھے اس ترجمے کا خیال اس لئے آیا کہ گزشتہ جتنے ترجمے دیکھے ہیں ان میں ایک بات محسوس کی کہ ترجمہ کرنے والے نے بڑی محنت سے اور کوشش سے قرآن کریم کے مضمون کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہر کوشش بالآخر اتنی بھدی ثابت ہوئی کہ اس کو دیکھ کر ایک قاری قرآن کی عظمت کا تصور کر ہی نہیں سکتا.جتنا قرآن کریم کی اصل عبارت دل پر اثر ڈالتی ہے.کوئی ترجمہ اس کا سوواں حصہ بھی دل پر اثر نہیں ڈالتا اور وجہ یہ ہے کہ جب لفظی طور پر وفا کی جائے اور زیادہ کوشش کر کے اس مضمون کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی جائے تو زبانوں کے انداز مختلف ہونے کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ ترجمہ بھی منتقل ہو جائے اور زبان کا حسن بھی منتقل ہو جائے.پس وہ کہتے ہیں اس پہلو سے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے حسن کا ترجمہ کروں.یعنی ایسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 506 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کروں کہ قاری کو کچھ نہ کچھ تو اس کے حسن کا بھی اندازہ ہو کہ یہ ہے کیا کلام.اس لئے اگر اصل مضمون سے میں ذرا سا ہٹ جاؤں تو غلط مضمون تو بیان نہیں کروں گا لیکن لفظاً لفظ ساتھ نہیں چل سکوں گا.یہ معذرت کرتے ہوئے میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ انگریزی دان طبقہ یہ دیکھ سکے کہ قرآن کریم کی اصل زبان میں کتنی عظمت ہے.کتنا عظیم الشان کلام ہے جو کیسا دل پر اثر کرتا ہے.اس پہلو سے انہوں نے جو ترجمہ کیا ہے اس پر سب سے پہلے مجھے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مطلع کیا تھا.جب میں ۱۹۷۸ء میں انگلستان آیا تو مجھے یاد نہیں کہ پہلا انہوں نے مجھے تحفہ دیا تھا کہ ان کے ذکر پر میں نے خود خریدا تھا مگر واقعہ ترجمہ کے بعض حصے ایسے ہیں جس سے قرآن کریم کی زبان کی اس حد تک خدمت ضرور ہوئی ہے کہ زبان کے اثر کو منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اردو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام اتنا پر اثر ہے اور اتنی گہری تأثیر رکھتا ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک شعر دل کی کایا پلٹ دیتا ہے، بعض دفعہ عبارت کا ایک ٹکڑا انسان کے اوپر ایسا وجد طاری کر دیتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب بر پا ہو سکتا ہے مگر اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ پڑھ کے دیکھ لیں اس کا عشر عشیر بھی اثر نہیں ہے.تو ہمارے نومسلم احمدی بھائیوں کو کیوں اس سے محروم رکھا جائے، ہرگز نہیں رکھنا چاہئے اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ عالمی وحدت اور عالمی بھائی چارہ پیدا کرنے میں زبانیں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا کرتی ہیں.اگر ناروے میں احمدی بچے نارویجین سیکھیں اور ان کے ساتھ نارویجین کے لحاظ سے پجہتی پیدا کر لیں.ہم آہنگی پیدا کر لیں تو ایک جگہ جماعت احمدیہ اور ناروے کے درمیان اتحاد ہو جائے گا اگر نائیجیریا میں ، یورو با زبان میں یہ اتحاد قائم ہو جائے تو وہاں اتحاد ہو جائے گا.مگر عالمی وحدت تو پیدا نہیں ہوگی.چین میں جو اتحاد ہوگا تو وہ چین تک محدود رہے گا، اگر جاپان میں ہوگا تو جاپان تک محدود رہے گا.عالمی وحدت کے لئے کسی ایسی زبان کا رشتہ ہونا ضروری ہے جو ایک وسیع تر برادری کے رشتے میں قوموں کو منسلک کر سکے اور اس پہلو سے یہ دوزبانیں ہیں جنہوں نے لازماً اپنا کردار ادا کرنا ہے اول عربی اور اس کی اہمیت پر جتنا زور دیں اتنا ہی کم ہے اور دوسرے اردو زبان کیونکہ اردو زبان میں عربی ہی کے مضامین کو ایک عظیم الشان اور ایک نئی شان کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس نظر سے محمد رسول ﷺ کودیکھا ہے اس کو اردو میں بیان فرمایا ہے اور اس نظر سے دیکھے بغیر وہ حسن کامل طور پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 507 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء آپ پر طلوع ہو ہی نہیں سکتا.چودہ سو سال کے فاصلے کس طرح پائے جائیں گے، کس طرح یہ فاصلے طے ہوں گے ، کیسے آخرین اولین سے ملیں گے.وہ ملانے والا تو آج کا امام ہی ہے، وہی تو ہے جسے مہدی معہود قرار دیا گیا.وہی تو ہے جس کے زمانے میں اولین کو آخرین سے ملانے کی پیشگوئی تھی.اس کی زبان کو سمجھے بغیر اور ان کیفیات کو اپنائے بغیر جن سے وہ وجود گزرا ہے اولین اور آخرین کے فاصلے مٹ ہی نہیں سکتے.پس ضروری ہے کہ اردو زبان کو سیکھ کر اردو زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نثر کے کلام اور نظم کے کلام کو براہ راست سمجھنے کی اہلیت پیدا کی جائے اگر کوئی ایسا کرلے گا تو دیکھے گا کہ اس کی کیفیت میں کتنا بڑا فرق پڑ چکا ہے پھر یہ لوگ ترجمے کا بھی حق ادا کر سکیں گے.ورنہ ترجمہ در ترجمہ کا جو مضمون آج کل چل رہا ہے اس سے اصل بات تو رہتی نہیں کسی نے انگریزی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تو کسی نے قرآن کریم کے انگریزی ترجمے سے نارویجئین میں کوشش کی پھر نارویجین سے کسی اور زبان میں ہو گیا اور اس طرح رفتہ رفتہ ہر نقش ثانی نقش اول کے مقابل پر دھندلا ہوتا چلا جاتا ہے.وہ بات نہیں رہتی اس لئے اردو زبان سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کا جو انگریزی یا دوسری زبانوں میں ترجمے کا کام رکا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے ماہرین نہیں ہیں جو بیک وقت دونوں زبانوں پر مہارت رکھتے ہوں.جو مادری زبان کی طرح اردو جانتے ہوں جو مادری زبان کی طرح انگریزی جانتے ہوں یا مادری زبان کی طرح اردو جانتے ہوں اور مادری زبان کی طرح نارویجئین جانتے ہوں وغیرہ وغیرہ جب تک ایسے ماہرین ہمارے اندر پیدا نہ ہوں جو دونوں زبانیں یکساں مہارت کے ساتھ استعمال کر سکتے ہوں اس وقت تک ترجموں کے حق ادا نہیں ہو سکتے.جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے ہماری طرف سے اب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے جو ترجمے پیش ہو چکے ہیں.ان میں بہت سے خلا باقی ہیں.بعض دفعہ تو اعصاب شکن حد تک ترجمہ اصل مضمون سے بے وفائی کر رہا ہے.یعنی مضمون کے معنی تو ادا ہو گئے ہوں گے لیکن ایسے بھونڈے انداز میں ترجمے ہوئے ہیں کہ اس کا بڑا غلط اثر پڑھنے والے پر پڑ سکتا ہے کہ کس نے یہ عبارت لکھی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت میں تو کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں انسان کو نیند آئے.وہاں تو دل میں ایک خاص قسم کے جذبات موجزن ہونے لگتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 508 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء افکار جاگ اٹھتے ہیں اور نئے نئے مضامین سوجھنے لگتے ہیں اور اگر ترجمہ پڑھ کر اس کے برعکس کیفیت ہو تو قصور تو مترجم کا ہے لیکن پڑھنے والے کو کیا پتا ؟ وہ تو ترجمے سے ہی اور ترجمے کے آئینے میں اصل مصنف کی تصویر دیکھ رہا ہوتا ہے.اس لئے ترجمے کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن لازم ہے کہ دونوں زبانیں بیک وقت اچھی آتی ہوں.پس نار و بین بچوں کے لئے میری نصیحت ہے کہ آپ نارویجین سیکھ رہے ہیں اور ماشاء اللہ بہت اچھی بولنے لگ گئے ہیں لیکن اردو لکھنا پڑھنا بھول گئے ہو جس طرح جرمن بچوں کو میں نے کہا تھا تم اگر صرف جرمن سیکھ جاؤ اور اردو بھول جاؤ تو ہمارے لئے جیسے پیا گھر رہے ویسے پیا بدلیں، ہمیں کیا فرق پڑا تم نے کچھ سیکھا اور غیروں کے ہو کر رہ گئے.ہمارے تو نہ بنے یعنی آپ دین کے لحاظ سے خدمت کی اہلیت نہیں رکھتے.پس جو باہر سے آتے ہیں ان کا فرض ہے کہ اردو سیکھیں تا کہ اس خلاء کو خود پورا کرنے کی کوشش کریں اور جو احمدی بچے اردو بولنے والے ماں باپ کی نسل میں سے ہیں ان کو چاہئے کہ اس زبان میں اپنے ماں باپ سے بہت زیادہ علم حاصل کریں کیونکہ اکثر اردو بولنے والے ماں باپ کی اپنی اردو بڑی ناقص ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو بظاہر اردو بولنے والے علاقوں سے آتے ہیں مگر دراصل وہ پنجاب کا علاقہ ہے جو اردو کا ہے ہی نہیں.انہی خاندانوں میں اردو اچھی ہے جہاں با قاعدہ نسلاً بعد نسلاً اردو بولی گئی ہے.باقی جگہ تو روز مرہ پنجابی بولی جاتی ہے اس لئے اردو بے چاری کو تو بہت سے نقصانات ہیں جن کو پورا کرنا ہوگا اور پھر اس زبان میں ترقی کر کے یہ اہلیت حاصل کرنی ہوگی کہ ہم اس کا ترجمہ صیح طور پر دوسری زبانوں میں پیش کر سکیں.اس کا تعلق صرف مذہبی زبان سے نہیں ہے بلکہ پوری زبان سے ہے.جس نے اردو سیکھنی ہے اس کو اردو ادب پڑھنا ہوگا ، جس نے عربی سیکھنی ہے اس کو عربی ادب پڑھنا ہوگا.محض قرآن پڑھ کر عربی نہیں آئے گی کیونکہ قرآن تو سارے عربی ادب کا خلاصہ ہے.زبان کا جو حسن ساری عربی دنیا میں عربی زبانوں میں پھیلا پڑا ہے اس کا خلاصہ قرآن کریم ہے.اسی لئے قرآن کو سمجھنے کے لئے بعض دفعہ صحابہ کسی بدوی سے پوچھا کرتے تھے کہ بتاؤ یہ محاورہ تمھارے ہاں کیسے بولا جاتا ہے اور عجیب بات ہے کوئی محاورہ کسی بدو قوم سے تعلق رکھتا تھا کوئی کسی بدو قبیلے سے تعلق رکھتا تھا لیکن بعد میں جب مسلمان ہوئے تو سب نے مل جل کر پھر قرآن کی اس طرح خدمت کی کہ وہ محاورے جو سارے عرب میں پھیلے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 509 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء پڑے تھے ان کو قرآن سے وابستہ کر کر کے کے بتایا اس کا یہ معنی ہے اور اس کا یہ معنی ہے.تو زبان کا تعلق ایک بہت وسیع کلچر سے بھی ہوا کرتا ہے ایک ملک کی عادات سے بھی ہوا کرتا ہے.پس اردو زبان سیکھنی ہے تو اردو ادب بھی پڑھنا ہو گا اردو شاعری بھی پڑھنی ہو گی اور اس ملک کا کلچر ، اس کا پس منظر کس طرح یہ زبان پہنی ہے ، تاریخ کیا تھی.ان سب چیزوں سے واقفیت حاصل کرنی ہوگی.ان کے بغیر کوئی زبان آہی نہیں سکتی.انگریزی زبان سیکھیں، باہر بیٹھے چاہے آپ ساری عمر گلا دیں اگر آپ کو یہ نہیں پتا کہ انگریزی بولنے والے علاقوں میں کون کون سے پھول پائے جاتے ہیں؟ وہ رنگ ہیں کیا کیا جن کا ذکر ملتا ہے؟ وہ خوشبوئیں کیا ہیں جن سے محظوظ ہو کر کسی شاعر نے کوئی کلام کہا ہے اور اس خوشبو کو اپنے کلام میں مقید کرنے کی کوشش کی ہے.غرضیکہ ادب میں جہاں جہاں آپ جائیں گے آپ کو یہ مضمون پھیلا ہوا نظر آئے گا کہ ہر اظہار کا کسی پس منظر سے تعلق ہے.اس پس منظر سے بھی واقفیت حاصل کرنی ہوگی پھر جو تاریخی حوالے ملتے ہیں ان تاریخی حوالوں کو سمجھنے کے لئے بھی اس ملک اور قوم کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنا پڑتی ہے.پس زبان محض لفظوں کا نام نہیں ہے زبان کے پیچھے بہت سے علوم ہیں جو مل کر زبان پیدا کرتے ہیں اور مل کر لفظوں میں جان ڈالتے ہیں، وہ سارے علوم مل کر لفظوں میں خاص معانی داخل کرتے ہیں ہر لفظ ایک جیسے معانی نہیں رکھتا.ہر لفظ کے پیچھے ایک کلچر ہے اس کلچر نے اس لفظ میں کچھ رنگ بھرے ہیں جب تک اس کلچر سے واقفیت نہ ہوگی ان رنگوں کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا.پنجابی شاعری میں بھی آپ دیکھ لیں جب تک پنجاب کے کلچر سے واقفیت نہ ہو پنجابی شاعری کو دنیا میں کسی کے سامنے پیش کر کے دیکھیں اس کو کچھ پتا نہیں لگے گا کہ کیا کہہ رہا ہے بنیرے تے کاں بیٹھا ائے اب اس کا مہمان سے کیا تعلق ہے آپ ”بنیرے تے کاں بیٹھا لائے“ کا ترجمہ کر لیں کہ کوئی آنے والا ہے تو لوگ کہیں گے پاگل ہو گیا ہے.یہ کوئی شاعر ہے.کوے کا بنیرے سے کیا تعلق؟ اور ہمارے بنیرے پر تو کو ابیٹھا ہی نہیں کرتا.تو اس کو کچھ پتا تو کرنا ہوگا کہ کلچر کیا تھا؟ ان ملکوں میں کو وں کی عادتیں کیا ہیں؟ کیا کیا کرتے ہیں ،کس طرح وہ آ کے ہاتھوں سے روٹیاں چھین لیتے ہیں اور بنیرے پر کیوں بیٹھتے ہیں.ان باتوں سے کچھ واقفیت حاصل کریں گے تو زبان میں زندگی پیدا ہوگی.واقعہ یہ ہے کہ وہ غریب ملک ہیں اور جہاں کنالی میں زیادہ آٹا گوندھا جا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 510 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء رہا ہے اور روٹیاں زیادہ پک رہی ہیں وہاں کو لے آئیں گے اور روٹیاں زیادہ تبھی پکتی ہیں جب مہمان آرہے ہوں اور باورچی خانوں سے باہر نکل کر بھی کچھ باورچی خانے کے انتظامات چل رہے ہوں تو کوّے کا مہمان سے تعلق ہے لیکن بتانا پڑتا ہے کہ کیا ہے.امیر ملکوں میں جہاں ایسے کوئی مسائل ہی نہیں ان کو پتا ہی نہیں لگ سکتا کہ کوے کا مہمان سے کیا تعلق ہے؟ بہر حال جانوروں کی عادتیں بھی کلچر کے ساتھ بدل جاتی ہیں اور زبان پر اس کے گہرے اثرات مترتب ہوتے ہیں.پس آپ ان معنوں میں جو میں بیان کر رہا ہوں وسعت کے ساتھ زبانیں سیکھیں اور جو سکول میں پڑھنے والے بچے ہیں وہ اس کی تاریخ پڑھیں ان کی روزمرہ کی عادات سے واقف ہوں.ان کے کلچر سے واقف ہوں.گو غیر اسلامی کلچر کو اپنانا نہیں ہے مگر واقفیت ضروری ہے پتا ہو کہ کلچر ان کا ہے اس میں سے کون سا حصہ غیر اسلامی ہے اور کون سا عام انسانی کلچر سے تعلق رکھتا ہے.پس اس وسعت کے ساتھ اگر زبانوں پر زور دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ مغربی دنیا میں احمدی مسلمانوں کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا اور غیروں میں اسلام پھیلانے میں یہ بات بہت مدد گار ثابت ہوگی اور یہ آپ کے اخلاق کی قدروں کی حفاظت کے لئے بھی بڑا ضروری ہے.پس اس موضوع پر میں آپ کو یہ نصیحت کرتے ہوئے آج کا خطاب ختم کرتا ہوں کہ زبانوں کی طرف توجہ دیں ، عربی کو جو خدا تعالیٰ نے اولیت دے دی ہے وہی مقام عربی کو دیں ، اسی احترام کے ساتھ عربی کو سمجھنے کی کوشش کریں، پڑھنے کی کوشش کریں اور رائج کرنے کی کوشش کریں اور فی زمانہ احمدیوں میں عربی بول چال میں جو کمزوری پائی جاتی ہے اسے دور کریں اور کوشش کریں کہ ہماری اگلی نسلیں کثرت کے ساتھ عربی بولنے والی نسلیں ہوں اور عربی زبان میں اعلیٰ محاورہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں.اسی طرح اردو زبان کو رائج کریں اور جن ملکوں میں رہتے ہیں ان ملکوں کی زبان میں ایسی مہارت حاصل کریں کہ ان ملکوں کے استاد بن جائیں ان کی زبانیں ان کو پڑھانے لگیں.یہ تین باتیں اگر آپ اختیار کر لیں تو اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے یہ تین سواریوں کا کام دیں گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ان سواریوں کے سہارے آپ کی ترقی کی رفتار پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو جائے گی اور بہت تیزی سے آپ آگے قدم بڑھانے لگیں گے.آج کل اس کی خصوصیت سے اس لئے ضرورت ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت تیزی سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 511 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء احمدیت کے پھیلنے کے دن آرہے ہیں.ہزاروں کی تعداد میں جو بیعتیں ہوا کرتی تھیں اب لاکھوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور بعید نہیں.خدا کرے کہ ایسا ہو کہ ہماری نسلیں لاکھوں سالانہ کی بجائے کروڑوں سالانہ کی تعداد میں بیعتیں دیکھنا شروع کر دیں.اس کے لئے ہمیں تیاری کرنی ہوگی اور اس تیاری کا مرکب ، وہ سواری جس پر بیٹھ کر ہم نے یہ سفر کرنے ہیں زبانیں ہیں.پس ان تین زبانوں کو اہمیت دیں اور پوری کوشش سے ان کو رائج کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے بہترین استعمال کی توفیق عطا فرمائے اور اس قابل بنائے کہ خدا کے کلام کو تمام دنیا میں ، جیسا کہ کلام کا حق ہے، اس طرح دنیا میں پہنچاسکیں اور سمجھا سکیں اور ان پر عمل پیرا کر اسکیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین آج ایک اور اعلان بھی کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب جلد جلد احمدیت کی تاریخ میں نئے سنگ ہائے میل کا اضافہ ہو رہا ہے.آج کا اعلان یہ ہے کہ اب باقاعدہ طور پر شارٹ ویو Short Wave پر 16 میٹر بینڈ پر خطبات کو تمام دنیا میں پہنچانے کا انتظام ہو گیا ہے اور آج کا خطبہ 16 میٹر بلینڈ پر تمام افریقہ اور تمام ایشیا اور یورپ کے بہت سے حصوں میں سنا جا رہا ہے.انگلستان اگر چہ اس کے دائرے سے ، جس دائرے سے یہ خطبہ ریڈیو تک پہنچ رہا ہے ، باہر تھا لیکن گزشتہ چند جمعوں میں جو تجرباتی دور تھا اس میں انگلستان میں بھی سنا گیا اور پوری طرح سمجھ آتا تھا اگر چه سو فی صدی اعلیٰ معیار نہیں تھا بلکہ ۸۰ فی صد کہنا چاہئے یعنی اس کی کوالٹی اس کا عمومی سماعت کا جو معیار ہے اس میں کچھ کمی آجاتی تھی لیکن اس کے باوجود سا جاتا تھا سمجھا جاتا تھا.تو اللہ تعالی کے فضل سے اب غریبوں کے بھی سامان ہو گئے ہیں ورنہ بہت سے غریب مختلف دیہات سے مجھے لکھتے تھے کہ جن امیروں کو توفیق ہے انہوں نے انٹینے لگا لئے ہیں اور ہم حسرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں ہم تو سننے سے بھی محروم رہ گئے پہلے آپ کی ٹیسٹس ہی پہنچ جایا کرتی تھیں.اب کچھ تو کریں کہ ہماری پیاس بھی مجھنے کا کچھ سامان ہو.اللہ کی شان ہے کہ اس نے اپنی طرف سے ہی یہ انتظام کر دیا ہے کہ اب آدھی دنیا سے زیادہ میں خصوصیت سے اس دنیا میں جہاں زیادہ غریب احمدی بستے ہیں خدا کے فضل سے براہ راست ریڈیو کے ذریعے خطبات سنانے کا انتظام ہو گیا ہے انشاء اللہ وقت اور بھی زیادہ کیا جائے گا اور دیگر تربیتی مضامین کا بھی اضافہ ہوگا، زبانوں کا بھی اضافہ ہو گا.اس کے لئے ہم تیاری کر رہے ہیں.عربی زبان سکھانے کا ، اردو زبان سکھانے کا ان لوگوں کے لئے جن کو اردو نہیں آتی اور اسی طرح
خطبات طاہر جلد ۱۲ 512 خطبہ جمعہ ۲ / جولائی ۱۹۹۳ء دوسری زبانوں کا بھی انتظام کیا جائے گا، انشاء اللہ تعالیٰ.رفتہ رفتہ اب جماعت کے کاموں کے دائرے بہت پھیلتے جا رہے ہیں.اسی نسبت سے زیادہ خدمت گاروں کی ضرورت ہے اور یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ خدمت کا جذبہ بہت بڑھ رہا ہے.کثرت کے ساتھ نو جوان خدمت کے میدانوں میں آگے آرہے ہیں.نام پیش کر رہے ہیں.کہتے ہیں ہم سے بھی کچھ کام لو، ہم سے بھی کچھ کام لو.سب اللہ کے کام ہیں ، ہماری کوششوں کا کچھ دخل نہیں اسی کا احسان ہے.خدا کرے کہ یہ احسان کا دور ہمیشہ بڑھتا پھیلتا اور پھر پھولتا اور پھلتا چلا جائے.آمین ( یہ ریڈیو 16MB ہے اور Digital frequancy 17765 ہوگی جس پر خطبہ نشر ہوا کرے گا.)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 513 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۳ء تو حید ہی آزادی ہے تو حید کے سوا ہر چیز غلامی ہے.ساری دنیا غلامی میں جکڑی گئی ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹ جولائی ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.قُلْ إِنَّنِي هَدْيِنِى رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَ مَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ قُلْ أَغَيْرَ اللهِ أَبْغِى رَبَّا وَ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُونَ (الانعام:۱۶۲ تا ۱۶۵) پھر فرمایا:.اس سفر سے واپسی کے بعد جو خدا تعالیٰ کے احسان اور رحمت سے ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا آج یہ پہلا خطبہ ہے جو میں اللہ کے فضل سے مسجد فضل لندن میں دے رہا ہوں یہاں سے جانے سے پہلے جو خطبہ دیا تھا اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر پیش کی تھی جس کے آخری حصہ سے متعلق میں نے ذکر کیا تھا کہ میں انشاء اللہ تعالیٰ ان چارا مور کو جو اس آخری فقرہ میں درج ہیں ایک ایک کر کے وضاحت سے جماعت کے سامنے بیان کروں گا.حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد ۱۲ 514 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء عليه الصلوة والسلام کی جو تحریر پیش کی گئی تھی وہ یہ ہے.” ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور گزرع (افت: ۳۰) (کھیتی کی طرح) ہوگی اور وہ مقاصد اور مطالب اس پیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے اور مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دور ہیں.وہ حاصل نہیں ہو سکتے جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشا ہے تو حید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو ( یہ وہ آخری جملہ ہے جس کے چار اجزاء کو ایک ایک کر کے میں انشاء اللہ تعالیٰ خطبات میں بیان کروں گا پہلا جزیہ ہے توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو دوسرا ) تبتل الی اللہ ایک خاص رنگ کا ہو ( تیسرے) ذکر الہی میں خاص رنگ ہو (اور چوتھے ) حقوق اخوان میں خاص رنگ ہو.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ صفحه ۵ پر چه ۷ را گست ۱۹۰۲ء) اس کا پہلا جز کہ توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو آج کے خطبہ کا موضوع ہے.آج خدا تعالیٰ کے فضل سے مجلس خدام الاحمدیہ یو کے کا سالانہ اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے اور ان کی طرف سے بھی یہ پر زور اصرار ہے کہ اس خطبہ میں ان کے نام بھی افتتاحیہ کے رنگ میں ایک پیغام ہو اسی طرح جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ کا جلسہ سالانہ آج سے زیورک میں شروع ہو رہا ہے.امیر صاحب سوئٹزر لینڈ نے خطبہ جمعہ میں جماعت سوئٹزر لینڈ کو یا درکھنے کی درخواست کی ہے.یہ دونوں مقامات جن میں ایک جگہ اجتماع اور ایک جگہ جلسہ سالانہ ہورہا ہے اس وقت شرک کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اگر چہ شرک بھی بظاہر نا پید ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور دہریت میں بدل گیا ہے اور ان علاقوں میں بھاری تعداد نو جوانوں کی اور نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی عملاً دہر یہ ہو چکی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دہریت شرک ہی کی پیداوار ہے.شرک جب اپنے بدنتائج کو کھل کر ظاہر کرتا ہے تو جو کڑوے پھل شرک کو لگتے ہیں ان میں ایک سب سے بڑا کڑوا پھل دہریت ہے کیونکہ شرک اپنی ذات میں اس لائق نہیں کہ اس پر ایمان رکھا جائے جو ایمان بھی شرک کی ملونی رکھتا ہے وہ لازماً بودا ایمان ہے اور جوں جوں قومیں اس شرک کے پہلو پر غور کرتی ہیں طبعا وہ اس سے متنفر ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 515 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء مقابل پر پھر دہریت کے سوا اور کوئی سہارا ان کے لئے باقی نہیں رہتا اور دہریت کو اگر بنظر غور دیکھا جائے تو دہریت کا سہار ا در اصل خدا کے بعد ایک ہی سہارا ہے جو باقی ہے.یا تو خدا ہے یا کچھ نہیں اگر کچھ نہیں تو مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور انسان کو اپنی زندگی کے مطالب حاصل کرنے کے لئے لازم مادیت کی طرف جھکنا پڑتا ہے.پس یہ شرک کا وہ شاخسانہ ہے جو انسان کو خالصۂ دنیا کا بنا کر رکھ دیتا ہے اور خدا سے اس کا تعلق کلیہ کٹ جاتا ہے.اس پہلو سے آج کے خطبہ کا تعلق ان دونوں تقریبات سے بہت گہرا ہے یعنی توحید کا موضوع ہے اور ایسے ملک کے اجتماعات یا جلسے جو شرک کی آماجگاہ بنے رہے اور دہریت پر جا کر ان کی تان ٹوٹی ان ممالک کے لئے سب سے اہم ، سب سے ضروری ،سب سے زیادہ زندگی بخش پیغام تو حید ہی کا پیغام ہے اور اس کے بغیر ہماری دوسری تبلیغی کوششیں بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہیں.ایسے لوگ جن کا خدا سے ایمان اٹھ چکا ہو جن کا سب کچھ دنیا بن چکی ہو، ان سے آپ بائبل کی رو سے خواہ عہد نامہ قدیم ہو یا عہد نامہ جدید ہو یا دیگر الہی کتب کی رو سے بحث کریں تو یہ ایسی بات ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانے کا محاورہ ہے.بھینس بیچاری کو کیا پتا کہ بین کیا ہوتی ہے.اس لئے بہت سے احمدی ان سرسری باتوں میں جو ان قوموں کے لئے سرسری ہیں اور ہمارے لئے اہمیت رکھتی ہیں ان کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ان سرسری باتوں میں اپنا سارا وقت ضائع کر دیتے ہیں اور نتیجہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اس لئے بیماری کی صحیح تشخیص ہونی چاہئے اور بیماری کی صحیح تشخیص یہ ہے کہ تو حید دنیا سے اٹھ چکی ہے اور یہی تشخیص ہے جو اس مرض کے ہر پہلو پر صادق آ رہی ہے.یہ مذہب کے فرق کو نہیں دیکھ رہی یہ وہ تشخیص ہے آج کل عالم پر صادق آ رہی ہے.ہندوؤں کو دیکھیں تو وہاں سے اگر توحید کا کوئی نشان تھا تو وہ اٹھ چکا ہے یہودی بھی عملاً تو حید کو چھوڑ کر مادہ پرست ہو چکے ہیں.مسلمانوں میں بھی کئی قسم کے شرک راہ پاگئے ہیں اور مسلمان ممالک نے اپنی بقا کو خدا کی توحید سے نہیں بلکہ دنیا کے وسائل سے اور دنیا کی مصلحتوں سے وابستہ کر دیا ہے.یہ شرک عدلیہ میں بھی راہ پا گیا ہے اور ہر جگہ عدلیہ کی جڑیں اس شرک کی وجہ سے کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں.بسا اوقات عدلیہ ایک فیصلہ دیتی ہے اور فیصلہ دیتے وقت بظاہر ایسی زبان استعمال کرتی ہے جو اس فیصلے کو قانو نا کچھ معقولیت عطا کر دے لیکن پس منظر میں کچھ اور معبود ہیں جن کی پرستش کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 516 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء جارہی ہوتی ہے.کہیں یہ کہ عوام الناس کے اوپر کیا اثر پڑے گا یہ ایک بت ہے جو ان کے فیصلے کے او پراثر انداز ہورہا ہوتا ہے، کہیں یہ کہ حکومت کے سربراہوں پر کیا اثر پڑے گا جنہوں نے عدلیہ پر فائز جوں کی ترقیاں دینی ہیں کسی کو مستقل حج بنانا ہے، کسی کو چیف جسٹس مقرر کرنا ہے تو شرک ہی ہے جو ہر جگہ انسانی معاملات میں زہر گھول رہا ہے اور حقیقت میں قرآن کریم نے جو اس زمانے کی قسم کھائی ہے کہ جس میں گھانا ہی گھاٹا ہے وہ یہی زمانہ ہے اور شرک ہی ہے جس نے سارے عالم کو گھاٹے میں مبتلا کر دیا ہے.توحید کے متعلق اس سے پہلے بھی میں نے خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا لیکن یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ بار بار جماعت کے سامنے پیش ہونا چاہئے اور بڑی وضاحت کے ساتھ اس کے ہر پہلو کو جماعت کے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ اسی میں سارا دین ہے.سارے دین کا خلاصہ توحید ہی اصلى الله ہے.تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی امے کی دو مواقع کی دو حدیثیں میرے پیش نظر ہیں.ایک موقع پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ایک موقع پر ایک اور صحابی کو نصیحت فرمائی کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله میں بھی سب کچھ ہے اگر تم لا اله الا اللہ کا مطلب سمجھ جاؤ اور اس پر قائم ہو جاؤ تو اس سے نجات وابستہ ہے.حضرت ابو ہریرہ والی نصیحت کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عمر نے جب حضرت ابو ہریرہ کو یہ اعلان کرتے سنا کہ من قال لا اله الا الله فدخل الجنة كہ جس کسی نے بھی یہ اعلان کیا یا یہ اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا تو حضرت عمران کو گریبان سے پکڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں واپس لائے اور یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ جو بات کہہ رہے ہیں آپ نے فرمائی ہے.آپ نے فرمایا ہاں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس سے کچھ نا واقف لوگ یا انجان لوگ دھو کے میں پڑ جائیں گے اور دین کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.وہ ا صلى الله لوگ جو اس کے مطلب کو نہیں پاسکیں گے وہ کچھ اور نہ سمجھ بیٹھیں چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہی ہے نے اس عرضداشت پر حضرت ابو ہریرہ کو اس اعلان سے منع فرما دیا.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر: ۴۶) دوسری حدیث میں آنحضرت ﷺ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ ایک نوجوان صحابی سواری میں آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کو آپ نے جو نصیحتیں کیں ان میں یہ بھی ذکر تھا یعنی لا إله إِلَّا اللہ کا.اس نے پوچھا کہ کیا میں اس کا اعلان کروں تو رسول اللہ نے فرمایا نہیں جو لوگ نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 517 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء سمجھیں گے وہ عمل چھوڑ بیٹھیں گے.مطلب یہ ہے کہ اس اقرار کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عمل سے الگ ہوکر اقرار کیا جائے بلکہ اس اقرار کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ اقرار عمل میں جاری ہو جائے اور یہ اقرار اگر سچا ہو تو لازم ہے کہ عمل میں جاری ہو ،رک ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے کہ کوئی حقیقت میں لَا إِلَهَ إِلَّا الله کی صداقت کا اس کی کنہہ سے واقف ہوتے ہوئے اقرار کر رہا ہو.اس کے مضمون کو سمجھتے ہوئے اقرار کر رہا ہو اور پھر بے عمل ہو کیونکہ تو حید کا اعمال سے اور اعمال کی تمام تفاصیل سے گہرا تعلق ہے اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے لئے تو حید کے مضمون کو بار بار سمجھنا اور اسے آگے بیان کرنا بہت ضروری ہے.میں نے جو آیات آپ کے سامنے تلاوت کیں اب میں ان کا ترجمہ پیش کرتا ہوں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ إِنَّنِي هَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ اے محمد! یہ اعلان کر دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے دی ہے یا صراط مستقیم پر چلا دیا ہے.وہ صراط مستقیم جو ہم پانچ وقت کی نمازوں میں بار بار خدا سے طلب کرتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتح: ۴) اے محمد تو اعلان کر کہ میں اس صراط مستقیم کو پاچکا ہوں اور وہ ہے کیا ؟ دِینًا قِيَما دین قیم ہے مِلَّةَ ابْرُ هِیمَ حَنِيفًا ابراہیم جو حنیف تھا اور اس کی ملت جس دین پر قائم تھی یہ وہ دین ہے وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اس کا تعارف اگر کرایا جائے تو اس کا خلاصہ اس سے بہتر نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی پہلو سے بھی مشرک نہیں تھا.اگر چہ اسلام نے جتنا تو حید پر زور دیا ہے اس کا عشر عشیر بھی دیگر مذاہب میں دکھائی نہیں دیتا مگر کسی مسلمان کا یہ دعوی کرنا کہ اسلام ہی نے پہلی بار تو حید کو پیش کیا ہے ہرگز درست نہیں کیونکہ دین قیم جس کا اس آیت میں ذکر ملتا ہے اس کی تعریف دوسری جگہ سورہ کینہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ و يَقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكُوةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ) (اليه (۲) ت بود کہ دین قیمہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ تمام وہ مذاہب جن کی بنیاد کتاب پر رکھی گئی یعنی کلام الہی پر رکھی گئی ان تمام مذاہب کا خلاصہ یہ تھا کہ ان کو خدا تعالیٰ نے توحید اور خالص توحید پر جو حَنِيفًا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 518 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء کا پہلو رکھتی ہو جس میں دین کو خدا کے لئے خالص کر دیا گیا ہو، قائم ہونے کی ہدایت فرمائی.پس آدم سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تک ادیان کا خلاصہ یہی ہے جو دِينُ الْقَيِّمَةِ میں بیان فرما دیا گیا ہے اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ صرف اسلام نے تو حید کو پیش کیا.توحید کے بغیر تو مذہب کا آغاز ہی نہیں ہو سکتا.یہ وہ مذہب ہے جو اول بھی ہے اور آخر بھی ہے.اول اور آخر جو خدا کی صفات بھی ہیں ان کا کامل خلاصہ تو حید ہے.چنانچہ اس کے بعد آنحضرت کو یہ حکم ملتا ہے کہ یہ اعلان کر اور پھر کہہ کہ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الانعام:۱۶۲) وہ توحید خالص جسے دینِ قیم قرار دیا گیا ہے جسے حنیف ابراہیم کا مذہب قرار دیا گیا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے وجود میں کس طرح جلوہ گر ہوئی.اللہ فرماتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں.اے محمد تو اعلان کر کہ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکی میری عبادتیں اور میری تمام قربانیاں وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اور میری تو ساری زندگی، میرا جینا مرنا کلیۂ خدا کے لئے ہو گیا ہے یہ توحید خالص کا طبعی نتیجہ ہے اور یہ وہ توحید خالص ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کے اقرار میں نہیں ٹھہری بلکہ وہ اقرار آپ کے سارے وجود میں سرایت کر گیا جب تو حید خالص وجود میں سرایت کر جاتی ہے، خون میں دوڑنے لگتی ہے تو کیسا وجود ظاہر ہوتا ہے یہ وہ بیان ہے جو اس آیت میں ملتا ہے کہ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي تو کہہ دے کہ میری عبادت اور ہر قسم کی عبادت، میری قربانی اور ہر قسم کی قربانی ، میرا جینا میر امرنا سب کچھ خدا کے لئے ہو چکا ہے.غیر اللہ کی ایسی نفی اس کامل شان کے ساتھ آپ کو دوسرے انبیاء میں بھی دکھائی نہیں دے گی مگر یہ مراد نہیں ہے کہ وہ موحد نہیں تھے توحید نے درجہ بدرجہ ترقی کی ہے، رفتہ رفتہ نئی شان توحید میں پیدا ہوئی ہے.اس کا مفہوم زیادہ گہرائی کے ساتھ انسان کو سمجھایا گیا ہے اور وہ مقام جس پر حضرت محمد مصطفی میں یہ فائز ہوئے وہ توحید کا آخری مقام ہے.پس اگر چہ تمام انبیاء توحید کے علمبر دار تھے اور تو حید ہی کی طرف بلانے والے تھے مگر نبی نبی میں اس پہلو سے فرق ہے پس جہاں بھی توحید کا مضمون ملتا ہے وہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے علاوہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا نام آپ کو سنائی دے گا اور یہ دو انبیاء ہیں جو تو حید کے مضمون میں اس درجہ کمال کو پہنچے ہیں کہ جیسے آسمان پر سورج اور چاند ہوں اور باقی سب ستارے ہیں جو نور سے جھلملاتے تو ضرور ہیں مگر ایسی صاف اور پاک روشنی نہیں رکھتے جیسے چاند
خطبات طاہر جلد ۱۲ 519 خطبہ جمعہ ۹ جولائی ۱۹۹۳ء کو عطا ہوئی یا جیسی روشنی سورج چاند کو عطا کرتا ہے پس توحید کے آسمان پر جو دوسب سے بڑے تیر ہیں اور جنہیں ہم تیرین کہتے ہیں وہ حضرت محمد مصطفی حیا اور حضرت ابراہیم ہی ہیں.پھر یہ بیان قتل کے تابع جاری رہتا ہے کہ اے محمد یہ اعلان کر.وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ خلاصہ وہی ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں جس طرح پہلی آیت اس بات پر فتح ہوئی تھی کہ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وہی مضمون ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے کہ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ میرا سب کچھ خدا کے لئے ہو گیا، پھر خلاصہ یہ نکال کر لا شريك له اس کا کوئی شریک نہیں وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں.پس جب میں نے یہ بیان کیا کہ توحید ہی میں خدا کی اولیت جلوہ گر ہے اور توحید ہی میں خدا کے آخر ہونے کا مضمون بیان ہوا ہے تو آنحضرت میا اللہ کی ذات کے حوالے سے یہ دونوں باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں.آپ اول بھی ہیں اور آخر بھی ہیں ، شارع بھی ہیں اور خاتم بھی ہیں.اس پہلو سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں توحید نے جو جلوہ گری دکھائی ہے کسی اور ذات میں آپ کو ایسی جلوہ گری نظر نہیں آئے گی.قُلْ آغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِى رَبَّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْ کہہ دے کہ خدا کے سوا میں کسی اور کو رب بنالوں جبکہ وہ ہر چیز کا رب خود ہے وہ وجود کہاں سے ڈھونڈوں جس کا خدا رب نہ ہو یہ مضمون ہے جو حقیقت میں بیان کیا جا رہا ہے.جدھر نظر پڑتی ہے سب کا رب خدا ہے ساری کائنات میں ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جس کا رب خدا نہ ہو تو رب کو چھوڑ کر ان کو میں کیوں رب بنالوں جن پر ربوبیت ظاہر ہوئی.جب ہر جگہ وہی وہی ہے تو پھر وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی رب ہو ہی نہیں سکتا.وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا اور جہاں تک رب کے سوا دوسری مخلوق یا کائنات کا تعلق ہے ان کے اوپر تو یہ قانون جاری ہے کہ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا کوئی جان، کوئی باشعور ہستی ایسا کام نہیں کرے گی جس کے متعلق اس کو ذمہ دار قرار نہ دیا جائے لَا تَكْسِبُ یعنی کمائے گی نہیں إِلَّا عَلَيْهَا مگر اس کی ذمہ داری اس پر ڈالی جائے گی.پس اس شرک کے خلاف دو دلیلیں بیان فرمائی گئیں کہ خدا کے سوا کسی اور کو رب سمجھ لو.ہر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 520 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء وجود کا رب خدا ہے یہ پہلی دلیل ہے اور جو خود ایک رب کا محتاج ہو اور اس کو رب بننے کا حق ہی کوئی نہیں.دوسری بات یہ ہے کہ ہر شخص کسی کو جوابدہ ہے اور اللہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے ہر شخص جو عمل کرتا ہے اس عمل کے بارہ میں اس سے پوچھا جائے گا اور اس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا.وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى اور کوئی دوسری جان کسی اور جان کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی.بعض لوگ مثلاً ہندو یہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں تو تو حید کے قائل اور آخری صورت میں ایک ہی خدا ہے مگر یہ جو بت ہیں یہ جن ناموں سے منسوب ہورہے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے ایسے خدا ہیں جو ہمارے بوجھ اٹھا لیں گے.ہماری طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور شفاعت کر کے ہمارے گناہ معاف کروادیں گے اور ان سے تعلق کے نتیجہ میں ہمیں جو فائدہ پہنچتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی سواری پر بوجھ ڈال دیتے ہیں تو یہ ہمارے لئے سواریاں ہی ہیں جو ہمیں خدا تک لے کر جاتی ہیں اور ہمارے بوجھ اٹھا لیتی ہیں.اس قسم کے فلسفیانہ جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے.مجھے خود تجربہ ہے بہت بچپن کے زمانہ میں جبکہ میں سکول میں تھا، ایک دفعہ ڈلہوزی میں میں ایک خوبصورت جگہ سیر کے لئے گیا ہوا تھا اور وہاں ایک ہندو سے تبلیغی گفتگو ہورہی تھی تو اس نے یہی بات مجھ سے کی اور وہی بات ہے جو میرے ذہن پر نقش ہوئی کہ یہ اس طرح شرک کے لئے عذر تراشتے ہیں.اس نے کہا تمہارے بھی تو خدا تک پہنچانے والے ولی ہوتے ہیں.یہ جو بت ہیں یہ تو صرف بعض ایسے وجودوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو اپنے تعلق کی رعایت کرتے ہوئے اس کو خدا تک لے جاتے ہیں جو ان سے تعلق رکھتا ہے اور یہ شرک نہیں ہے مگر قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح کھول کر بیان فرمایا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا اور ہر جان اپنے اعمال کی خود ذمہ دار ہے.یہ جو پہلا اعلان ہے اس کا مشاہدہ قدرت سے تعلق ہے.صرف مذہبی اعمال کی بات نہیں ہور ہی بلکہ ایک دلیل ہے.آپ جب کائنات پر غور کرتے ہیں تو ہر چیز جو متحرک ہے اور ہر چیز جو جان رکھتی ہے وہ جو کام کرتی ہے اس کی ذمہ دار بن جاتی ہے.اگر کوئی جانور غفلت کی حالت میں جنگل میں زندگی بسر کرتا ہے تو شیر کا یا دوسرے جانوروں کا شکار ہو جاتا ہے، کوئی اندھا دھند دوڑتا ہے تو بسا اوقات گڑھوں میں گر پڑتا ہے.یہ تو بہت معمولی کھلی کھلی مثالیں ہیں لیکن تفصیل کے ساتھ آپ ساری کائنات ، سارے نظام عالم پر غور کریں تو یہی مضمون آپ کو دکھائی دے گا کہ وَلَا تَكْسِبُ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 521 خطبہ جمعہ ۹ جولائی ۱۹۹۳ء كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا کوئی جان بھی ایسی دکھائی نہیں دے گی جو اپنے روز مرہ کے اعمال کی ذمہ دار نہ بنتی ہو اور جب وہ غلطی کرتی ہے تو اس کی سزا بھگتی ہے.دوسرا ا پہلو خصوصیت سے گناہوں سے تعلق رکھنے والا ہے.وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخرى روحانی دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلی دلیل روحانی قانون کو تقویت دینے کے لئے اور یہ سمجھانے کے لئے قائم کی گئی ہے کہ جب تم کا ئنات میں یہ دیکھ رہے ہو کہ ہر شخص اپنی غلطیوں کا ، اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے جو کچھ وہ کماتا ہے ویسا ہی اس کو ملتا ہے تو یا درکھو کہ یہی وہ قانون ہے جو مذہبی دنیا میں جاری وساری ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى یہ تمہارا وہم ہے کہ تمہارے بوجھ کوئی اور اٹھا کر چلے گا.قیامت کے دن ہر شخص اپنے گناہوں کا، اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا اور کوئی دوسرا اس کے بوجھ اٹھانے والا نہیں ہو گا.یہاں تک کہ مائیں اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گی ، بہنیں اپنے بھائیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گی ، خاوند اپنی بیویوں کے بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے، ہر شخص اکیلا اکیلا رہ جائے گا اور اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا کہ جیسے تم دنیا میں اکیلے صلى الله آئے تھے اسی طرح اکیلے اکیلے خدا کے حضور حاضر ہو گے اور تمہارا اور کوئی مددگار نہیں ہوگا.ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ پھر ایسی حالت میں تم نے اپنے رب کی طرف لوٹنا ب فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ اور تم کو ان امور کے متعلق بتائے گا جن میں تم اس دنیا میں اختلاف کیا کرتے تھے.توحید کی یہ تعلیم قرآن کریم نے ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو سکھلائی اور اس کے معاً بعد عملی طور پر توحید کا علمبر دار صلى الله حضرت محمد مصطفی ﷺ کو پیش کر کے ابراہیم کا حوالہ چھوڑ دیا اور تمام تر ذکر حضرت محمد مصطفی سے کا شروع ہو گیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا توحید کا مقام غیر معمولی تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ذکر کے ساتھ تاریخی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام زندہ رکھا جاتا ہے اور یہ بائیبل کی پیشگوئی بھی تھی کہ آئندہ آنے والا ایک ایسا نبی ہوگا جس کی وجہ سے آخرین میں تیرے نام پر سلام بھیجا جائے گا.پس اسی پیشگوئی کا مصداق حضرت ابراہیم علیہ السلام بنے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ اس طرح پورا فرمایا کہ توحید کے مضمون کو جہاں جہاں بھی ملتا ہے الا ماشاء اللہ ابراہیم کے نام کے ساتھ باندھا گیا ہے یا آپ کی صفات کے نام کے ساتھ باندھا گیا ہے.حَنِيفًا جب فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 522 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء جاتا ہے تو سب سے زیادہ واضح طور پر حضرت ابراہیم کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے کیونکہ آپ کے نام کے ساتھ حنیف کا مضمون قرآن کریم نے بڑی مضبوطی سے باندھ دیا ہے یہاں تک کہ ایک ہی وجود کے دو نام بن گئے ہیں، ابراہیم کہہ دیں یا حنیف کہہ دیں دونوں صورتوں میں ذہن حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منتقل ہوتا ہے.پس تاریخی لحاظ سے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا نام ایک موحد کے طور پر پیش فرمایا گیا لیکن عملی تعلیم کی رو سے اور توحید کے اپنی تمام باریکیوں کے ساتھ ، تمام لطافتوں کے ساتھ انسان کے وجود میں جاری وساری ہونے کے مضمون کو حضرت محمد مصطفی مے کے حوالے سے پیش فرمایا گیا ہے.اس پہلو سے اگر ہم اس مضمون پر مزید غور کرنا چاہتے ہیں تو لازماً ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور وہ دو طرح سے ہو سکتا ہے ایک یہ کہ توحید سے متعلق آپ کے ارشادات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے دوسرے تو حید کے نتیجہ میں آپ کا جو وجود ابھرا ہے، جو شخص قائم ہوا ہے اس پر غور کیا جائے اور تیسرے تو حید کے لئے جیسی محبت اور والہیت اور جیسا عشق آنحضرت میلے کے دل میں موجزن تھاوہ جہاں جہاں جلوہ گر ہے، جس وقت وہ جوش کے ساتھ ابلا ہے اور باہر دکھائی دیا ہے اور چھلکا ہے ان نظاروں کو دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ آنحضرت یہ کس مرتبے اور کس مقام کے مجاہد تھے اور تو حید آپ کے سینہ میں کیسے ایک سمندر کی طرح موجزن تھی.یہ وہ پہلو ہیں جن کو احادیث کے حوالہ سے میں آپ کے سامنے رکھوں گا.یہ وہ مضمون ہے جو ایک خطبہ میں تو ختم نہیں ہو سکتا.کچھ حوالے چھوڑتا جاؤں گا کچھ چن لوں گا اس طرح کوشش کروں گا کہ تھوڑے وقت میں اس کے تمام اہم پہلو آپ کے سامنے رکھ دوں کیونکہ اسی حوالے میں ہماری زندگی ہے.حضرت محمد مصطفے ﷺ کے موحد ہونے کے حوالے میں ہمارے تمام تر مطالب اور تمام تر مقاصد داخل ہیں اور اسی سے ہم زندگی کا راز پاسکتے ہیں یہی وہ راہ ہے جو ہمیں موت سے بچا سکتی ہے، یہی وہ سر چشمہ ہے جس سے پانی پی کر ہم ابدی زندگی حاصل کر سکتے ہیں اور یہی وہ ایک سرچشمہ ہے جس کی طرف دنیا کے پیاسوں کو بلا کر ہم دنیا کی پیاس بجھا سکتے ہیں.پس آنحضرت میہ نے توحید کا جو مضمون بیان فرمایا ہے اس میں سے چند پہلو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ یہ وہ مضمون ہے جو بہت وسیع ہے اور بڑی کثرت سے احادیث میں اس مضمون کا ذکر ملتا ہے.میں نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 523 خطبہ جمعہ ۹ جولائی ۱۹۹۳ء ان میں سے چند احادیث آج کے خطبہ کے لئے چنتی ہیں بخاری، کتاب الایمان.باب امور الایمان اور اسی طرح مسلم میں یہ حدیث ہے.حضرت ابوزر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر یا کچھ اوپر ساٹھ شاخیں ہیں یہ جو کچھ اوپرستر اور کچھ اوپر ساٹھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ستر یا ساٹھ سے اوپر.مراد یہ ہے کہ راوی جو بیان کرتا ہے وہ احتیاط کے تقاضے پورے کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہے کہ مجھے پوری طرح قطعی طور پر یاد نہیں کہ ستر ہی فرمایا تھایا ساٹھ فرمایا تھا لیکن میرا ذہن زیادہ ستر کی طرف مائل ہے.اس لئے ستر کے عدد کو میں پہلے بیان کرتا ہوں اور ہوسکتا ہے کہ ساٹھ فرمایا گیا ہو.اس کو میں قطعاً خارج از امکان نہیں کرسکتا.یہ نہیں کہہ سکتا کہ ساٹھ نہیں فرمایا تو یہ احتیاط کی طرز بیان ہے.فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی کچھ و پرستر یا کچھ اوپر ساٹھ شاخیں ہیں.ان میں سب سے افضل لا اله الا اللہ کہنا ہے اور ان میں سے کمتر راستے میں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان ہی کی ایک شاخ ہے.آنحضرت ﷺ نے جہاں ایمان کا ذکر فرمایا ہے وہاں بظاہر تو حید کی بات نہیں ہو رہی لیکن ایمان کا خلاصہ لا الہ الا اللہ میں بیان فرما دیا اور ایمان کی تمام شاخوں میں سب سے افضل شاخ لا اله الا اللہ کو قرار دیا اور جیسا کہ بعض دوسری احادیث پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ لا اله الا اللہ ہی کی وہ شاخ ہے جس کے سائے میں باقی سب شاخیں پل رہی ہیں وہ شاخیں دراصل اس ایک شاخ کے وجود کا حصہ ہیں.پس ایمان کی ستر سے اوپر شاخیں ہونا اور ان میں سب سے افضل اور سب سے اہم لا الہ الا اللہ کا اقرار ہونا ثابت کرتا ہے کہ تو حید کو ایمان میں سب سے زیادہ مرکزیت اور سب سے زیادہ افضلیت حاصل ہے اس سے اوپر ایمان کی تعریف ممکن نہیں.پھر فرمایا کہ اس کی کمتر شاخ تکلیف دہ چیزوں کا رستے سے ہٹانا ہے.در حقیقت یہ بھی تو حید ہی کا پر تو ہے تو حید ہی کے نتیجہ میں ایمان رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کی بھلائی میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے.توحید ہی کے نتیجہ میں انسان کے انسان سے معاملات کی تعلیم ابھر کر سامنے آتی ہے اور پھر تو حید کی پرورش سے یہ پھولتی اور پھلتی ہے یہ مضمون بہت تفصیلی اور گہرا مضمون ہے.بہت سے ایسے حوالے قرآن کریم میں اور احادیث میں موجود ہیں جن سے قطعی طور پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 524 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء ثابت کیا جا سکتا ہے کہ توحید کی نشو ونما میں بنی نوع انسان کے تعلقات کی نشو ونما ہی نہیں بلکہ کل موجودات سے تعلقات کی نشو ونما کا مضمون ملتا ہے یعنی یہ سب چیزیں توحید سے وابستہ ہیں اور توحید چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات سے براہ راست تعلق کا نام ہے اس لئے سب سے بالا مضمون وہی ہے اور جوں جوں نیچے اترتے ہیں خدمت خلق کے کاموں میں آپ داخل ہوتے ہیں.کچھ کام ایسے ہیں جو مثبت معنی رکھتے ہیں ، کچھ ایسے ہیں جو منفی معنی رکھتے ہیں.مثبت معنوں میں ایسی خدمتیں کرنا جس کے نتیجہ میں قوموں کے اخلاق درست ہوں.ان کے زندگی کے تمام پہلوؤں پر نیک اثرات مترتب ہوں اور پھر خوراک وغیرہ کے ذریعہ اور دوسری امداد کے ذریعہ انسانوں کی مدد کرنا، یہ سارے مثبت پہلو ہیں اور منفی پہلوؤں میں یہ ہے کہ قوم کو کسی کے شر سے بچایا جائے سب سے پہلے اپنے شر سے بچایا جائے.پھر یہی قوم جو ہے یہ وسعت اختیار کر جاتی ہے.تمام بنی نوع انسان اس تعلق میں داخل ہو جاتے ہیں اور تمام بنی نوع انسان کو انسان اپنے شر سے محفوظ رکھے تو یہ بھی تو حید ہی کی ایک شاخ ہے.پھر اس سے آگے چل کر تمام جانور اس میں داخل ہو جاتے ہیں تمام ذی روح داخل ہو جاتے ہیں پھر منفی پہلو جو ہیں ان میں ہر چیز سے ان کا دکھ دور کرنے کی کوشش کرنا یا ایسی چیز دور کرنا جس سے کسی کو دکھ ممکن ہے.یہ وہ پہلو ہے جس کو آنحضرت ﷺ ایمان کا سب سے ادنی پہلو بیان فرماتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں توحید کا سب سے ادنی پہلو بھی یہ بنتا ہے کہ ایسی چیز جس سے کسی کو تکلیف پہنچنے کا دور کا خطرہ ہو وہ بھی رستے سے ہٹا دو تا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے پس اگر اس حدیث کے مضمون پر غور کریں تو ساری دنیا کی امن کی تعلیم کا خلاصہ اس حدیث میں بیان فرما دیا ہے.صلى الله وہ غلام محمد مصطفی میں ہے جو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ اتفاقاً رستے کا پڑا ہوا کانٹا کسی وجود کو چھ جائے خواہ وہ انسان ہو یا جانور ہو وہ یہ کیسے پسند کر سکتا ہے کہ اس سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچے اور وہ کسی کی دل آزاری کا گمان کیسے کر سکتا ہے.جو کانٹے کو بھی پسند نہیں کرتا جو کہیں اتفاقاً پڑا ہوارہ گیا ہے یا رستے میں اگ گیا ہے کہ اس سے کسی چلنے پھرنے والے ذی روح کو تکلیف پہنچ جائے وہ یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ میں کسی کی راہ میں کانٹے بودوں یا میرے وجود سے کسی اور وجود کو تکلیف پہنچ سکے.پس یہ امن کے قیام کے لئے ایک عظیم تعلیم ہے جس کا عشر عشیر بھی دنیا کو معلوم نہیں ہے.ان کے لئے یہ تصور ایسی بات ہے جیسے آسمان کی بلندیوں پر کوئی چیز اڑ رہی ہے جس تک آپ کی کوئی نظر نہیں، کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 525 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء اس سے تعلق نہیں، کوئی واسطہ نہیں، پتا بھی لگے کہ کوئی چیز ہے تو آپ کہہ دیں کہ ہمیں اس سے کیا، دور آسمان پر کوئی چیز بیٹھی ہوئی ہو گی آنحضرت یہ کی تعلیمات کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو آج کل کی دنیا کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے آسمان کی بلندیوں پر نظر سے دور غائب کوئی چیز اڑ رہی ہے اور کوئی انسان سمجھتا ہے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہمیں کیا اس سے.ہوتی پھرے مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات میں جو انسانی اخلاق کی کائنات ہے اس میں جو آسمان آنحضرت ﷺ کو عطا کیا گیا ہے اور جو زمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے.یہ وہ زمین و آسمان ہیں جن کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو آسمان پر ہو اور زمین پر اثر انداز نہ ہو یہ ویسا ہی ہے جیسے سائنس کی دنیا سے یہ ثابت ہے کہ وہ دور کی باتیں جو ہمیں ارب سال پہلے دنیا میں رونما ہوئی تھیں جبکہ دنیا نے اپنے آغاز کا پہلا قدم اٹھایا تھا اور پہلا سانس لیا تھا ان کا اثر آج تک دنیا پر پڑ رہا ہے اور وہ کائنات جو اپنے آخری کناروں پر مزید دور ہٹتی چلی جارہی ہے اس کی تاثیرات بھی دنیا پر پہنچتی ہیں اور اثر انداز ہوتی ہیں تو صلى الله آنحضرت ﷺ کی اخلاقی تعلیم جس بلند آسمان سے تعلق رکھتی ہے اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ بہت دور کی تعلیم ہے.اس کا ہم سے کیا تعلق؟ یہ محض جاہلانہ باتیں ہیں.کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جس کا کسی نہ کسی رنگ میں دوسری چیز سے تعلق نہ ہو.پس آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کو اس تفصیل اور گہرائی کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ کے منہ سے نکلی ہوئی ادنی سی بات بھی گہرا اثر رکھتی ہے.پس جس چیز کو آپ ادنی سمجھ رہے ہیں یعنی کانٹے کا رستے سے ہٹانا ایک ادنی سی بات ہے لیکن اس میں یہ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ مضمون ایک اور رنگ میں سوچنا چاہئے.وہ رنگ یہ ہے کہ جو شخص کانٹے کی تکلیف سے بھی بنی نوع انسان کو بچانے کے لئے ایسا خواہش مند ہو کہ رستہ چلتے اپنا وقت ضائع کرے، جھک جائے اور اس کا نٹے کو اٹھا کر دور کر دے وہ کیسے بے دین ہوسکتا ہے.اس سے دنیا کو کیسے بدامنی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے.پس یہ وہ انتہائی تعلیم ہے جو آپ کے تمام اعمال پر سایہ کئے ہوئے ہے.یہ محض ایک الگ تعلیم نہیں ہے کہ صرف کانٹوں سے ہی ان لوگوں کو دشمنیاں ہیں کہ کانٹا ہٹا دیں.مراد یہ ہے کہ یہاں تک وہ پاکدامن لوگ ہیں اور ایسے نیک نیت لوگ ہیں کہ باقی سب باتوں میں تو ان سے امن ہی امن ہے.رستہ میں پڑے ہوئے کانٹے کی تکلیف کو بھی وہ دنیا کے لئے پسند نہیں کرتے.پس جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 526 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء بظاہر ادنی تعلیم ہے یہ انسان کے اعمال کی انتہائی حفاظت کرنے والی تعلیم ہے.اس کے تمام دوسرے ادنی پہلوؤں کے اوپر ی تعلیم نگران بن جاتی ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.حضرت طارق بن اشیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو اس کے جان و مال قابل احترام ہو جاتے ہیں اور اس کو قانونی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے.اس کا باقی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہی اس کی نیت کے مطابق اس کو بدلہ دے گا.(مسلم کتاب الایمان باب الامر يقتال الناس حتى يقولو ا لا اله الا الله) بہر حال کلمہ توحید پڑھنے کے بعد بندوں کی گرفت سے وہ آزاد ہے.یہ بہت ہی عظیم الشان تعلیم ہے اور اس کا پہلی اس تعلیم سے گہرا تعلق ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ دراصل ایمان کے ضمن میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں.وہ تو حید ہی کی مختلف شاخیں ہیں جن پر گفتگو فرمائی جارہی ہے.یہاں ایمان کی بحث نہیں بلکہ خالصہ توحید کی بحث ہے اور توحید کی تعریف یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو انسان توحید پر قائم ہو اس کا جان، مال، اس کی عزت دوسروں پر حرام ہو جاتی ہے.سوال یہ ہے کہ کیوں حرام ہو جاتی ہے.میں اگر موحد ہوں تو میری عزت، میری جان، میرا مال، میری زندگی کی دلچپسی کی چیزیں ان غیروں پر کیسے حرام ہو گئیں جو موحد نہیں ہیں.یہ سوچنے والی بات ہے ورنہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ فضول دعوی ہے.بے معنی دعویٰ ہے.تم توحید پر ایمان لاتے پھرو.ہم پر تمہاری جان مال کیوں حرام ہو گئے.اس کا جواب یہ ہے کہ موحد کے اوپر دوسروں کے جان و مال حرام ہوتے ہیں.اس کے بغیر یہ نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.حقیقی تو حید پرست وہ ہے جس پر ہر دوسرے انسان کی عزت لوٹنا حرام، ہر دوسرے انسان کی جان لینا حرام، ہر دوسرے انسان کا مال کھانا حرام ، اس کی ہر چیز کا وہ امین بن جاتا ہے اور یہی امانت کی روح ہے جو متقابل یہ تقاضا کرتی ہے کہ میں جب تمہاری جان، مال ،عزت، آبرو، ہر چیز کا امین بن گیا ہوں اور میری طرف سے تمہاری کسی چیز کو بھی خطرہ نہیں تو پھر تمہارا کیا حق ہے کہ تم مجھے غیر نظر سے دیکھو اور مجھے ٹیڑھی نظر سے دیکھو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نتائج اخذ فرمائے ہیں ان پر اگر آپ غور کریں تو ان نتائج کی دلیل آپ کے کلام کے اندر موجود ہے.محض دعوی نہیں ہے بلکہ وہ کلام اپنے ساتھ اپنی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 527 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء دلیل رکھتا ہے.فرمایا اس کا باقی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.ایک شخص جو یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا ایک ہے اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلے گا کہ بنی نوع انسان کے نزدیک اسے محترم ہو جانا چاہئے اور اس کا ایک ایسا تشخص ابھرنا چاہئے کہ جس کے نتیجہ میں سب دنیا سمجھے کہ اس پر ہمارا کوئی حق نہیں.یہ ہماری دسترس سے باہر رہنا چاہئے.باقی اس کی نیت میں اگر کوئی فتور ہے تو وہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر ہے.اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہی اس کی نیت کے مطابق اس کو بدلہ دے گا.کلمہ توحید پڑھنے کے بعد بندوں کی گرفت سے وہ بہر حال آزاد ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی ایک کارروائی میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ احمد یوں کو کلمہ پڑھنے کا حق ایسا ہے کہ آرڈینینس ان کو اس حق سے محروم نہیں کرتا.اس لئے لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھنے کے نتیجہ میں احمد یوں کو سزا نہیں دی جائے گی یعنی یہ ایک ایسا جرم ہے جو وہ کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس جرم کے بعد وہ ہر پکڑ سے آزاد ہو جاتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ غیر مبہم اعلان ہے اور ہمیشہ کے لئے یہ اعلان ہے کہ جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا اور وہ بھی صرف کلمہ کا پہلا جزو لا اله الا الله تو اس پر پھر تمہارا کوئی حق نہیں رہتا.اگر تم یہ شک کرتے ہو کہ اس نے بدنیتی سے پڑھا ہے اس لئے اس کی جان، مال اور عزت کو تحفظ نہیں ملنا چاہئے تو اس کا جواب خود حضرت صلى الله اقدس محمد رسول اللہ یہ دے رہے ہیں.فرماتے ہیں اس کا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے.اس کو جو حفاظت ملی ہے خدا کے نام پر ملی ہے.اس بنا پر ملی ہے کہ اس نے اقرار کیا ہے کہ اللہ ایک ہے.اس کے سوا کوئی نہیں اس کے بعد بندوں کی دسترس سے وہ باہر ہو گیا.رہا یہ کہ اس نے جھوٹ نہ بولا ہوا اور جھوٹ بول کر امن حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو تو فرمایا کہ اس کا بندوں سے کوئی تعلق نہیں جس کے نام پر اسے محترم قرار دیا گیا ہے.اس خدا کا پھر کام ہے، اس اللہ کا کام ہے کہ اس کے جھوٹ کی اسے سزا دے.جہاں تک کلمہ توحید کا تعلق ہے تو آخری نکتہ یہ بیان فرمایا کہ من قال لا اله الا الله وكفر بما يعبد من دون الله حرم ما له و دمه و حسابه على الله تعالى (مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر : ۳۴)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 528 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء یعنی اس کا حساب کتاب پھر بندوں کا کام نہیں ہے.وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دل سے جھوٹ بولا تھا اور نام کسی اور کالیا تھا.ایک دوسری حدیث میں جو تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم فرماتے ہیں : یہ وہ لمبی حدیث ہے جس میں اہل نجران کے نام آنحضرت ﷺ کے خط کا مضمون بیان ہوا ہے.نجران کے عیسائیوں کو جب آنحضرت ﷺ نے پناہ دی تو ان کو ایک پناہ نامہ لکھ کر دیا گیا اس میں جو باتیں مذکور تھیں ان میں دو باتیں یہ بھی تھیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران کو جو مذہباً عیسائی تھے ایک خط لکھا جس کا ایک حصہ یہ ہے.ما بعد ! میں تم کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی غلامی اور پرستش سے نکل کر خدا کی بندگی اور پرستش اختیار کرو.یہ توحید کا دوسرا فیض ہے جو میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.پہلا تو یہ ہے کہ آپ دنیا سے امن میں آجاتے ہیں اگر خدائے واحد کا اقرار کرتے ہیں تو آپ کا حساب خدا پر ہے بندوں کا پھر کوئی حق نہیں کہ آپ پر زیادتی کریں اس میں یہ بات لازم ہے کہ آپ کسی اور پر زیادتی نہ کریں یعنی توحید کے اقرار کے نتیجہ میں پھر لا ز ما آپ کو ایسا ہونا پڑے گا کہ آپ کی طرف سے کسی کو کوئی شر نہ پہنچے.پھر فرمایا کہ تو حید کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی غلامی اور پرستش سے نکل کر خدا کی غلامی اور پرستش میں داخل ہو جاؤ.امر واقعہ یہ ہے کہ جو شخص صرف اللہ کو خدا بناتا ہے وہ تمام غیر اللہ کی عبادتوں سے آزاد کیا جاتا ہے، ہر قسم کی غلامیوں سے آزاد کیا جاتا ہے.اب یہ جو مضمون ہے یہ مزید توجہ چاہتا ہے کیونکہ ایک انسان دنیا کے قانون سے ویسے تو آزاد نہیں ہے.ایک انسان جو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار کر لیتا ہے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ وہ تمام بندوں کی غلامی اور پرستش سے آزاد ہو جاتا ہے.یہ کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم لوگ اب انگلستان میں ہیں اور انگلستان کے قانون کے پابند ہیں تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت میں اور قرآن کریم کی اس تعلیم میں کہ جہاں رہو وہاں اولوالامر کی اطاعت کرو کیا کوئی تضاد ہے؟ انسان کیسے آزاد ہوتا ہے؟ اس مضمون کو سمجھ کر انسان کے اندر روشنی کا ایک نیا سورج ابھر آتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ حکومتوں کی اطاعت یا قانون کی پابندیاں دراصل غلامی نہیں ہیں.غلامی وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 529 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۳ء ذہنیت ہے جس کے نتیجہ میں انسان فیصلہ کرتے وقت خدا کو چھوڑ کر کسی اور طاقت کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے.ایسی صورت میں انسان ہر کس و ناکس کا غلام بن جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو میں انشاء اللہ مزید تفصیل سے آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا اور اس کو سمجھنے کے نتیجہ میں صحیح آزادی کی روح احمدیوں کو نصیب ہوگی اور احمدیوں کی وساطت سے تمام دنیا کوحقیقی آزادی کا پیغام ملے گا.تو حید ہی میں آزادی ہے.توحید کے سوا ہر چیز غلامی ہے اور ساری دنیا غلامی میں جکڑی گئی ہے اس غلامی کی زنجیروں کو کیسے توڑا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور اب چونکہ وقت ہو چکا ہے اس لئے آئندہ خطبہ سے میں اس مضمون سے متعلق مزید باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا.جو آیت میں نے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی.ایک لفظ دین قیم بھی ہے اور یہی مضمون قیما کے لفظ سے بھی ادا کیا جاتا ہے.کیونکہ قیم کی عادت تھی.مجھے بتایا گیا ہے کہ میں غلطی سے دِينًا قِيَما پڑھ گیا ہوں.حالانکہ قرآن کریم کی اس آیت میں قیما کا لفظ ہے.قیم کا نہیں.تو اس تلفظ کی غلطی کو دور فرمالیا جائے.معناقیم یاقیم میں اگر فرق ہے تو بہت معمولی تقریبا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اور قرآن کریم کی جس چھوٹی سورۃ کا حوالہ دیا گیا تھا.وہاں قیما یہی آیا ہے.دِینًا قِيمًا اور مضمون وہی ہے جو قیما میں بیان ہوا ہے.اس نے اگر چہ معنا کوئی فرق نہیں پڑا لیکن قرآن کریم کی تقدس کا یہ تقاضا ہے کہ اگر ادنیٰ بھی غلطی نہ ہو سوائے اس کے کہ لاعلمی میں انسان سے غلطی ہو جائے.جس کو خدا تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے تو یا درکھیں کہ اس آیت کریمہ کو درست کر لیا جائے.قیما لفظ ہے یہاں دِینًا قِيَما نہ کہ دینا قیما.میں ممنون ہوں منیر احمد جاوید کا جنہوں نے یہ توجہ دلا دی ورنہ اگلے خطبہ میں لوگوں کو غلط فہمی ہوسکتی تھی.امام نے یہ تجویز کی ہے کہ چونکہ آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع بھی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے.بہر حال اجتماع کی وجہ سے یہاں سے لوگوں نے اسلام آباد جانا ہے اس لئے نماز میں جمع کروائی جائیں.اس لئے جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز بھی ساتھ جمع ہوگی.
530 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 531 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء شرک کی باریک در باریک راہوں سے بچیں.امت واحدہ بنانا خلافت احمدیہ کے سپر د ہے اور کسی کو نصیب نہیں.( خطبه جمعه فرموده ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) پھر فرمایا.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت تلاوت کی.قُلْ إِنَّنِي هَدَنِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيْنَا قِيَما مِّلَّةَ إِبْرهِيْمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (الانعام : ١٦٢) یہ آیت اور اس کے بعد کی آیات سے متعلق خطبوں کا ایک سلسلہ شروع ہے جس کا تعلق توحید سے ہے.گزشتہ خطبہ میں اس آیت کی تلاوت کے وقت میں نے قیما کو قیماً پڑھا تھا اور خطبہ کے آخر پر وضاحت کر دی تھی کہ احباب اس کو غلطی سمجھیں اور درست کریں.قیمے اور میں نے اس مضمون کو قیما ایک ہی مضمون کے دو ہم معنی لفظ ہیں لیکن بعض جگہ قرآن کریم نے اس مضمون کو قیما کے لفظ سے بیان فرمایا ہے اور ایک جگہ قیماً سے اس کے بعد ہمارے استاد مکرم مولوی محمد احمد جلیل صاحب کی طرف سے مجھے ایک بڑا ہی دلچسپ اور علمی خط ملا جس میں انہوں نے علمائے امت کے بہت ہی مؤقر اور مستند حوالے پیش کئے ہیں.جو یہاں قیما کو قیماً پڑھنا جائز سمجھتے تھے.چنانچہ علامہ رازی کی تفسیر کبیر سے بھی ایک حوالہ بیان کیا گیا ہے اور علامہ آلوسی بھی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ کثیر قرا ء نے اسے قیماً پڑھا ہے اور اس کی تفصیلی بحثیں موجود ہیں کہ کیوں ایسا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 532 خطبہ جمعہ ۱۶ جولائی ۱۹۹۳ء کیا گیا.اس کو پڑھ کر جہاں ایک طرف مجھے اطمینان ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو غلطی تھی وہ ایسی خطرناک غلطی نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے مجھے مدت تک تکلیف رہتی.اس کا کچھ جواز موجود ہے لیکن دوسری طرف ایک فکر بھی لاحق ہوئی قرآن کریم کی جو مختلف قرآتیں تھیں ان پر ہمیں ان معنوں میں کوئی اعتراض نہیں کہ وہ ثابت شدہ ہیں اور بعض معانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان سے استفادہ کی حد تک تو یہ بالکل جائز اور درست ہے مگر علماء کے حوالوں سے اگر ایسی قرآتیں درست ہے بھی ثابت ہوں تو ایک ایسی قرآت جو کل عالم میں ایک خاص قرآت کے طور پر رواج پاچکی ہے اور امت واحدہ کی ایک نشانی بن گئی ہے اور قرآن کریم کو ایک وحدت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے.اس کے برعکس ان متفرق قراتوں کو رواج دینے کا رجحان خطر ناک ہے اور مجھے پسند نہیں.میں اپنے لئے اور جماعت کے کسی بزرگ کے لئے یا عام انسان کے لئے ہرگز پسند نہیں کرتا کہ وہ تفاسیر کے حوالے سے کچھ دوسری قرآتیں معلوم کرے اور پھر اصرار کرے کہ یہ قرآت بھی درست ہے اس لئے میں اسی طرح پڑھوں گا.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک قرآت پر جو اکٹھا فرمایا ہے یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے.یا د رکھیں جھوٹے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی جمع و تدوین میں کوئی بھی اتفاق نہیں.قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر ایک عالمی وحدت اس طرح عطا فرمائی کہ ان تمام قراتوں کو بھی نظروں سے غائب کر دیا جو مختلف قرآتیں ہیں سوائے اس کے کہ علما کھوج لگا کر معلوم کریں اور ایک قرآت کل عالم میں رواج پاگئی ہے.اس لئے اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ غلطی ہی تھی اور اس کی درستی کرنا ضروری تھی جو میں نے کر دی ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ قرآن کریم کی ایسی خدمت کی توفیق عطا فرمائے کہ اس میں کسی پہلو سے بھی ادنی سارخنہ پڑنے کا شائبہ بھی جماعت پر نہ کیا جا سکے، اس کا وہم تو در کنار دشمن کی آنکھ بھی کسی ایسے رخنے کا کوئی تاثر نہ پکڑ سکے.اب میں دوسرے پہلو کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اس کا بھی دراصل توحید ہی سے تعلق ہے.ڈش انٹینا کے ذریعہ کل عالم میں جو خطبات نشر ہو رہے ہیں اور مشرق و مغرب کے احمدی بیک وقت جمعہ کے خطبہ سے استفادہ کر رہے ہیں یہ دراصل اسی مضمون کا حصہ ہے جس کو حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے بار بار اس طرح بیان فرمایا کہ ساری دنیا کوملت واحدہ یا امت واحدہ بنانے کا جو کام خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد فرمایا ہے اس کا وقت قریب آرہا ہے اور مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 533 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء ہوئے آپ نے ۲۵ ۳۰ سال حد مقررفرمائی تھی.اس مدت میں ابھی کچھ عرصہ باقی ہے اور ہم بڑے نمایاں طور پر ان آثار کو روشن ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ڈش انٹینا کے ذریعہ جو عالمی ملت واحدہ کی تعمیر کا پروگرام چل رہا ہے یہ تو حید ہی کا حصہ ہے.اس کا توحید سے گہرا تعلق ہے.پس جب بھی کوئی ایسی اچھی خبریں ملتی ہیں کہ دنیا کے مختلف کونوں کونوں میں احمدی ان خطبات کو دیکھ کر اور سن کر ایک وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور اس عالمی مواصلاتی نظام کے ذریعہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کو ایک کرنے کا بڑا ہی عمدہ موقع اپنے فضل سے میسر فرمایا ہے تو اس سے دل حمد سے بھر جاتا ہے.اس ضمن میں بعض خدمت کرنے والوں کے نام تو خدا کے فضل سے پہلے ہی جماعت میں معروف ہیں.مثلاً جسوال برادران اور یہ ایک عالمی شہرت پانے والا خاندان بن گیا ہے کیونکہ ان کے ایک فردوسیم نے خصوصیت سے اس معاملہ میں میری بہت مدد کی اور جو بھی سمجھایا بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ من وعن اس کو پورا کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نیک پھل عطا فرمائے جو اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تمثیل کے نشان کے طور پر بڑھتے چلے جارہے ہیں.یہ ایک درخت ہے جس کی شاخیں دنیا میں پھیلیں گی اور کل عالم پر محیط ہو جائیں گی اور پرندے اس کی شاخوں پر آکر بیٹھیں گے اور اپنے نغمات الاپیں گے وغیرہ وغیرہ.یہ ایک عالمی درخت ہے ایک بین الاقوامی شجر کے طور پر یہ سلسلہ پھیلتا چلا جارہا ہے اور اللہ کے فضل سے بہت ہی نیک پھل لگ رہے ہیں.اس کثرت سے مجھے دور دور سے خط آتے ہیں کہ ان خطبات کے نتیجہ میں ہمارے اندر اسلام زندہ ہو گیا ہے، جذ بے بیدار ہورہے ہیں، نمازیں پھر شروع کر دیں ہیں.بعض لکھتے ہیں کہ ہم بیویوں پر سختیاں کیا کرتے تھے ظلم کرتے تھے ، گالی گلوچ کرتے تھے سب سے توبہ کر لی ہے.بیویوں سے معافیاں مانگ لی ہیں انواع و اقسام کے مختلف رنگوں اور خوشبوؤں کے اتنے پھل لگ رہے ہیں کہ دل حمد سے بھر جاتا ہے.اس ضمن میں دو اور خدمت کرنے والوں کا ذکر ضروری ہے.ایک ان میں لاہور کے مکرم رشید خالد صاحب ہیں جو Universal Appliances کے مالک ہیں.انہوں نے قادیان میں بہت خدمت کی ہے.ہندوستان کے نوجوانوں کو الیکٹرونکس کی تربیت دینے کے لئے گئے اور پھر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 534 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء ڈش انٹینا کے سلسلہ میں بھی ان کی راہنمائی فرمائی کہ تم بازار سے جو 60، 70 ہزار یا اس سے بھی زیادہ کالو گے میں تمہیں اصول سمجھا تا ہوں اس کے تابع تم خود بہت ہی ستا ڈش انٹینا بنا سکتے ہو ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی نے بھی بہت خدمت کی اور پھر پاکستان آکر ان کے بھائی نے دورہ کر کے جہاں جماعتوں کو غربت کی وجہ سے ڈش انٹینا لگانے کی توفیق نہیں تھی ان کو انہوں نے بجائے اس کے کہ 60، 70 ہزار میں لگاتے 13 14 ہزار میں لگا کر دکھا دیا.انہی کے ذریعہ سے میرا تعارف بشارت صاحب سے ہوا جور بوہ میں ڈش ماسٹر کے طور پر معروف ہیں.ان کی دکان کا نام بھی ڈش ماسٹر ہے.انہوں نے سب سے پہلے قادیان اور پھر ہندوستان میں خدمت سرانجام دی اور تربیت کے دوران پانچ ڈش انٹینا بنا کر دکھائے اور اس طرح نو جوانوں کو تربیت دے کر ملک میں پھیلا دیا اور اس کے نتیجہ میں اب ہندوستان کے دور و نزدیک میں خدا کے فضل سے یہ خطوط مل رہے ہیں کہ جماعت بہت ہی راضی اور مطمئن ہے اور دشمن کے اوپر مایوسی چھا گئی ہے.ایسے علاقوں کی خبریں آرہی ہیں جہاں دشمن دندناتا پھرتا تھا لیکن اب ڈش انٹینا کے ذریعہ وہاں سے معززین اور شرفاء نے جب خود خلافت سے براہ راست ایک تعلق قائم کیا ہے تو وہاں کا یا پلٹ رہی ہے اور دشمن کے حوصلے بالکل پھیکے پڑ گئے ہیں بلکہ ان میں سے ہی نکل نکل کر لوگ احمدی ہونے شروع ہو گئے ہیں اور اب جو حالیہ خوشخبری ہے وہ افریقہ سے متعلق ہے.بشارت صاحب نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور ان کو غانا میں مرکز بنا کر دیا گیا جہاں افریقہ کے دوسرے ممالک سے نوجوانوں نے آکر تربیت حاصل کرنی تھی.اس مرکز کے قیام کے سلسلہ میں غانا کے بعض مخلصین نے بھی بہت ہی خدمت کی تفصیل سے ان کے نام پیش کرنے کا وقت نہیں لیکن بشارت صاحب نے دس ملکوں سے آئے ہوئے بائیس افریقن احمدیوں کو ڈش انٹینا بنانے کی تربیت دی، بنا کر دکھایا اور پوری طرح اطمینان کر لیا کہ وہ اب جا کر خدا کے فضل کے ساتھ اپنے ملک میں اس کام کو جاری کر سکتے ہیں اور قیمت کا اتنا فرق ہے کہ وہاں مثلا غا نا میں جو ڈش انٹینا 8 ہزار ڈالر کا لگتا تھا انہوں نے وہ ڈش انٹینا اس کے تمام خرچ ملا کر 600 ڈالر میں بنا کر دکھایا اور اسے وہاں رائج کر دیا.چنانچہ جب سب سے پہلے خود بنائے ہوئے ڈش انٹینا کے ذریعہ غانا میں ۲ جولائی کا خطبہ سنا گیا تو امیر صاحب لکھتے ہیں کہ عجیب کیفیت تھی جو بیان سے باہر ہے اور پھر اس سے اگلا خطبہ سنتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 535 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء وقت وہاں کے وزیر دفاع بھی شامل ہوئے اور ان علاقوں میں جہاں کثرت سے احمدیت پھیل رہی ہے وہاں کے بہت سے آئمہ مساجد بھی شامل ہوئے اور حیرت انگیز نظارے تھے یوں لگتا تھا کہ جس طرح باغوں میں شمشاد بڑھتے ہیں اس طرح ایمان پھولتا پھلتا دکھائی دیتا تھا.پس یہ سب کوششیں امت واحدہ بنانے کے لئے ہی ہیں اور اگر ہم نے توحید سے اپنے قدم ہٹا لئے یا اپنی توحید میں رخنے پیدا ہونے دئے تو یہ ساری کوششیں بریار ہیں کچھ بھی ان کا حاصل نہیں اس لئے جہاں خدا کی حمد کرتے ہیں وہاں ان ارادوں اور عزائم کو مضبوط تر کریں اور دہراتے رہیں اور اپنے آپ کو بھی یاد کروائیں اور اپنی نسلوں کو بھی یاد کروائیں کہ یہ سب کچھ تو حید کی خاطر ہے اور امت واحدہ بنانا توحید ہی کی ایک شاخ ہے اور ہمیں خدائے واحد کی قسم ہے کہ ہم تو حید کے ساتھ اس طرح چمٹتے رہیں گے کہ ہماری گردنیں بھی کاٹ دی جائیں اور تن سے ہاتھ جدا کر دئیے جائیں جو تو حید کو پکڑتے ہیں تو پھر بھی ہماری روح کا تعلق توحید سے کاٹا نہیں جا سکے گا.اس جذبے کے ساتھ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی مخالف طاقت جماعت کے اوپر ان فیوض کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی جو فیوض آسمان سے برستے ہیں ان کو زمین والے روک نہیں سکتے اور یہی کیفیت ان فیوض کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احسان سے آسمان سے برسنے والے فیوض ہیں.توحید کے اس مضمون کو میں آگے بڑھاتے ہوئے شرک کے متعلق وضاحت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ پچھلے خطبے اور اس خطبہ کے دوران ایک خط میں مجھے خصوصیت کے ساتھ اس کے متعلق توجہ دلائی گئی کہ شرک کے متعلق پتا چلے کہ یہ کیا ہے اور کیوں خدا یہ معاف نہیں کرتا.سوال تو مختصر تھا لیکن اس سے پیدا ہونے والے سوالات میرے ذہن میں ابھرے اور میں نے مناسب سمجھا کہ میں جماعت کو شرک کے متعلق تجزیہ کر کے بتاؤں کہ شرک کیا ہے اور دوسرے تعلقات شرک سے الگ اور ممتاز کیسے ہوتے ہیں.ورنہ تو ہر انسان کو اپنی بیوی سے بھی محبت ہے، بچوں سے بھی محبت ہے ، دوستوں سے بھی محبت اور پیار ہے خدا سے بھی محبت کا دعوی ہے.کیا یہ سب محبتیں شرک کی علامت ہیں ، کیا تو حید اس کا نام ہے کہ انسان ہر دوسری محبت سے خالی ہو جائے؟ اگر یہ ہو تو پھر ساری دنیا مشرکوں سے بھری پڑی ہو ایک بھی موحد آپ کو دکھائی نہیں دے گا.انبیاء بھی اپنے گردو پیش سے محبتیں رکھتے تھے، اپنے عزیزوں اور اقرباء سے ہی نہیں بلکہ غیروں سے بھی محبت کرتے تھے.پس وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 536 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء کون سی محبت ہے جو شرک کہلائے گی ؟ اور وہ کون سی محبت ہے جو شرک نہیں بلکہ تو حید کے دامن میں اس کی رحمت کا ایک نشان ہے یہ مضمون کھل کر آپ کے سامنے آنا چاہئے اس کا جماعت کی بقاء کے ساتھ اور جماعت کی وحدت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.جہاں تک سوال کا تعلق ہے وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک کو بخشا نہیں اور ساری دنیا میں بے شمار مذاہب ہیں جن کا شرک کے ساتھ تعلق ہے.عیسائیت بھی مشرک ہو چکی ہے اور دیگر سب مذاہب بھی کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں یہ سارے جہنمی ہیں؟ اس کا میں نے جو جواب دیا وہ خلاصۂ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ سوال مختلف ملکوں میں اٹھ سکتا ہے اور جماعت کے سامنے پیش ہوتا رہتا ہے کسی کے جہنمی ہونے کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے جہاں تک شرک کا تعلق ہے یاد رکھیں کہ بہت سے توحید پرست مذاہب ہیں جن میں شرک داخل ہو چکا ہے اور بہت سے مشرک مذاہب ہیں جن میں موحد ملتے ہیں اس لئے عمومی فتویٰ لگا کر کسی مذہب کے پیروکاروں کو کلیپ جہنمی یا کلیپ جنتی قرار دینا انسان کا کام نہیں.دوسرے شرک اور تو حید دونوں کے اندر تہہ در تہہ مقامات اور منازل ہیں اور وہ دلوں کے اندر طبقہ بہ طبقہ بٹے ہوئے ہوتے ہیں بعض دفعہ ایک موحد کے دل کو کریدیں تو نچلی سطح پر جا کر شرک کا بیج بھی دکھائی دے گا.گویا شرک کی ایک سطح پر بظاہر تو حید کی عمارت تعمیر ہورہی ہے.بعض دفعہ توحید غالب رہتی ہے.یہ ایک ہی بار یک مضمون ہے جس کا تعلق علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (الرعد: ۱۰) سے ہے اور صرف اللہ جانتا ہے کہ حقیقت میں کون موحد ہے اور کون مشرک ہے.جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے آنحضرت ﷺ کی سنت کے حوالے سے ہمیں شرک کو سمجھنا چاہئے اور تو حید کو سمجھنا چاہئے اور ان دونوں کے درمیان فرق بین ہمیں معلوم ہونا چاہئے اور پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارے اندر شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہی ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، وہی قادر ہے، وہ جس کو چاہے بخشے جس کو چاہے معاف کرے، جس کو چاہے سزا دے اور اس کے بعد یہ دعا کہ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقره: ٢٨٦) پس اے ہمارے رب ہم بخشش کے لئے تیری طرف دوڑتے ہیں وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ جانا تیری ہی طرف ہے اور کسی طرف جانا ہی نہیں جب بالآخر تیری طرف ہی لوٹنا ہے تو بخشش اور کس سے مانگیں جبکہ اور ہے بھی کوئی نہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 537 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء پس اس خلوص کے ساتھ اس مضمون کو سمجھتے ہوئے اگر آپ دعائیں کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ توحید پر قائم رکھے گا.آنحضرت ﷺ کے ساتھ محبت نہ صرف توحید کے منافی نہیں بلکہ توحید کی مؤید ہے اور حضرت اقدس محمدﷺ کے ساتھ جتنی محبت ہو وہ اتنا ہی تو حید کی نشاندہی کرتی ہے.یہ جو دعویٰ ہے اسے عقلاً سمجھایا جاسکتا ہے، یہ کوئی فرضی دعویٰ نہیں ہے.تو حید اور اللہ کے بچے بندوں سے محبت کے درمیان ایک رشتہ ہے اگر کسی انسان سے محبت بڑھے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کا پیار اور اس کی عظمت دل میں ترقی کرے تو یہ شرک نہیں ہے، یہ تو حید خالص ہے اگر کسی کا پیار دل میں بڑھے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا تصور مدھم ہوتا ہوا ہلکا ہلکا پیچھے کی طرف سرکنا شروع ہو اور اس انسانی وجود کا تصور نمایاں ابھرتے ہوئے انسان کے دل و دماغ پر قابض ہونے لگے تو یہ خالص شرک ہے اس کا توحید سے کوئی تعلق نہیں.حضرت اقدس محمدﷺ کی سچی محبت کی نشانی ہے کہ جتنا آپ سے محبت بڑھتی ہے خدا کی عظمت دل میں زیادہ قائم ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ عظمت بعض دفعہ اتنا جوش دکھاتی ہے ایک عارف باللہ کے منہ سے ایک ایسا کلام نکل جاتا ہے جو بظاہر گستاخانہ ہے اور عام نظر سے دیکھیں تو اس سے دل میں صدمہ پہنچتا ہے کہ یہ کیا بات کر رہا ہے لیکن وہ خاص لمحات ہیں جس میں حضرت اقدس محمد اللہ کی محبت نے اس طرح تو حید کا روپ اختیار کر لیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا وجود بھی بیچ میں سے غائب ہوتا نظر آتا ہے یہاں جس شعر کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے.پیچ در پنجه خدا دارم من چه پروائے مصطفی دارم کہ میرا پنجہ خدا کے پنجہ میں آ گیا ہے اب مجھے مصطفی کی کیا پرواہ ہے جس بزرگ کا یہ شعر ہے ان کے متعلق یہ ظن کرنے کی گنجائش ہی کوئی نہیں کہ وہ نعوذ باللہ من ذلک رسول اللہ یہ کی گستاخی کرنے صلى الله والے تھے.ہاں اس کا مفہوم یہ دکھائی دیتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی شان کو اپنے رنگ میں یوں بیان کیا کہ محمد ﷺ کی تو عجیب شان ہے کہ میرا پنجہ خدا کے پنجے میں پکڑا گیا ہے،اب مجھے کسی کی بھی ان معنوں میں پرواہ نہیں رہی کہ خدا تو مجھے مل گیا لیکن محمد رسول اللہ کا احسان تو دل سے نہیں نکل سکتا کیونکہ پنجہ پکڑانے والا وجود وہ تھا اگر پنجہ پکڑانے والا وہ وجود بیچ میں نہ ہو تو کوئی پنجہ خدا کے پنجہ میں نہ پکڑا جائے.پس توحید کا رسالت کی محبت سے بڑا گہرا تعلق ہے اور جہاں رسالت ایسا وجود
خطبات طاہر جلد ۱۲ 538 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء اختیار کر لے کہ وہ نمایاں ہونی شروع ہو جائے اور اللہ تعالیٰ پیچھے ہٹنا شروع ہو جائے.یوں محسوس ہو کہ خدا تعالیٰ تو صرف اس رسول کی خاطر ہے اور رسول خود اتنا حسین ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاس اس سے عشق کئے بغیر چارہ نہیں تھا اور یہی مضمون جب اولیاء کی طرف منتقل ہوتا ہے تو پھر ساری امت جو صلى الله ان باتوں کی قائل ہو شرک سے بھر جاتی ہے.اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی سچی محبت شرک پر منتج ہو اس کا مطلب ہے وہ محبت سچی نہیں تھی نظریں ٹیڑھی تھیں.دراصل تعصبات نے بظاہر محبت کا رنگ اختیار کیا ہے اور یہ ممکن ہے محبت کا رنگ اختیار کیا ہے اور یہ ممکن ہے بعض دفعہ ایک انسان اپنوں کا اتنا تعصب رکھتا ہے کہ جسے اپنا سمجھتے اس کی بڑائی شروع کر دیتا ہے اور اس کو بڑھاتے بڑھاتے توازن بگڑ جاتا ہے.پس آنحضرت مہ کو دوسروں کے مقابل پر بعض دفعہ اتنا بڑھا کر پیش کرنے کا موجب محبت نہیں ہوتی بلکہ اپنی عصبیت ہوتی ہے.جہاں محبت کے نتیجہ میں حضرت اقدس مصطفی میں اللہ کا مقام تمام دنیا میں ہر غیر سے اونچا دکھایا جائے وہاں نشانی یہ ہے کہ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا بالا اور ارفع مقام ہمیشہ اسی طرح قائم رہتا ہے بلکہ بڑھتا چلا جاتا ہے جہاں یہ رخنہ پیدا ہو جائے وہاں یوں لگتا ہے که عصبیت صرف رسول کریم ﷺ کو اٹھا ر ہی ہے.اس کے سوا خدا کا بھی کوئی وجود نہیں گویا خدا اسی لئے تھا کہ صرف آنحضرت ﷺ کو پیدا کرتا اور اس کے بعد خدائی ختم ہوگئی یہ بار یک مضمون ہے لیکن اپنی توحید کی باریک راہوں پر حفاظت کرنی ہوگی حضرت اقدس مسیح موعود کو دیکھیں جتنا عشق حضرت محمد رسول اللہ یہ کہ آپ کے دل میں موجزن تھا ساری امت پر نگاہ ڈال کر دیکھیں اتنا آپ کو اس طرح کہیں جلوہ گر دکھائی نہیں دے گا.کسی کے دل میں جو ہے وہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر کسی کی عبارتوں میں، کسی کی تحریر میں، اس کی نظم میں اس کی نثر میں اس کے دن رات کے کلام میں کسی کا ایسا عشق موجزن ہو کہ اچھلتا ہوا کناروں سے باہر جاتا ہوا ، چھلکتا ہوا دکھائی دے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر آپ کی امت میں اور کہیں نظر نہیں آئے گا تلاش کر کے دیکھ لیں تحریریں پڑھ لیں نظم و نثر کا مطالعہ کر لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بلکہ نمایاں ہیں لیکن آپ کا عشق محمدیہ کا مسلسل تو حید کا خادم رہا ہے.ایک جگہ بھی اشارہ یا کنایةً عشق محمد ﷺ نے شرک کا رنگ اختیار نہیں کیا بلکہ دوسرے عشق کرنے والوں میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے.اس کی اور بہت سی علامتیں ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 539 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء جن سے یہ باتیں پہچانی جاتیں ہیں مگر بعض اور ضروری باتیں بیان کرتا ہوں اس لئے سر دست اس حصہ کو چھوڑتا ہوں.پس حضرت محمد ﷺ کے ساتھ اگر سچی گہری عارفانہ محبت کی بجائے عصبیت کی وجہ سے آپ کی بڑائی بیان کی جارہی ہو تو یہ شرک در اصل نیچے اتر کر دوسرے بت بنانے شروع کر دیتا ہے اور وہ سارے لوگ جو اولیاء سے مانگتے ہیں ان کی قبروں کی پوجا کرتے ہیں، ان کے نام پر جانیں فدا کرتے ہیں، ان کی زندگی میں گویا خدا کا سارا کاروبار اس بزرگ کا پیدا کرنا تھا اور اس کو پیدا کر کے گویا خدائی صفات اس کے سپرد ہو گئیں.اب جو کچھ ہے وہی ہے.اللہ سے براہ راست محبت کا کوئی مضمون ان کے ہاں دکھائی نہیں دیتا ہے.ایک ولی کی پوجا کی جارہی ہے اس کی قبر کی پوجا کی جارہی ہے اس کے اوپر چادریں چڑھائی جارہی ہیں اور چادر چڑھا کر جب واپس آؤ تو اس ولی کا نام تو شاید دل میں رہے یا نہ رہے مگر خدا کا کوئی نام دل میں نہیں رہتا، ساری زندگی خدا سے خالی رہتی ہے اور یہی ان کا سارا دین ہے.پس وہ محبت جو کسی بزرگ سے ہو اور وہ محبت خدا کی محبت میں غیر معمولی طاقت اور شان پیدا کرنے والی نہ ہو تو وہ محبت شرک ہے اور اس شرک نے امتوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے.امت عیسوی کا حال دیکھیں.ان میں بنیادی طور پر یہی شرک ہے جس نے بالآخر عیسی کے ماننے والوں کو ہمیشہ کے لئے ہلاکت کی آگ میں جھونک دیا.اس کی علامتیں قرآن کریم نے بڑی کھول کر بیان فرمائی ہیں.اگر وہ تو حید باری تعالیٰ کے دعویٰ میں بچے ہیں تو جب صرف اللہ کا نام لیا جائے تو ان کے دل میں اسی طرح محبت موجزن ہونی چاہئے جیسی ایک عاشق کی اپنے محبوب کا نام سن کے ہوتی ہے لیکن یہ مشرکین وہ ہیں کہ اگر اللہ کے ساتھ عیسی کا نام نہ لیا جائے تو دل کو سکون نہیں ملتا لیکن عیسی کے نام کے ساتھ خدا کا نام بے شک نہ لیا جائے کوئی پرواہ نہیں.یہاں تک کہ میسی علیہ السلام عملاً پورے خدا بن بیٹھے ہیں.ہر ضرورت کے وقت، ہر فکر کے وقت ، ہر حاجت روائی کے وقت پہلا نام عیسی کا ذہن میں آتا ہے.God The Father تو لگتا ہے اس کے ساتھ یونہی نوکر کے طور پر چمٹا ہے ورنہ اصل خدائی عیسی کی ہی خدائی ہے یہ دلوں کے اندر راسخ گہرے شرک کی علامتیں ہیں جو بالآخر امتوں کو ہلاک کر دیا کرتی ہیں.پس وہ ہزارمنہ سے کہیں کہ خدائے واحد و یگانہ ہے اس کا بیٹا ہے اس کی ایک رونمائی ہے جو بیٹے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے لیکن حقیقت میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 540 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء ہر ایک کا دل گواہ ہے کہ میں مشرک ہوں اور خدا سے نہیں بلکہ عیسی سے میرا زیادہ پیار ہے اس شرک کو پھیلانے میں سینٹ پال نے سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے اور ایسے فلسفیانہ رنگ میں اس نے ان مضامین کو پیش کیا جو فلسفے سے زیادہ جہالت کے تانے بانے تھے لیکن عوام الناس ان کو سمجھ نہیں سکتے تھے اور عیسی سے محبت کرنے والوں کو گویا ایک فلسفیانہ دلیل ہاتھ آگئی.اس طرح انہوں نے اپنے شرک کو مزید آگے بڑھانا شروع کر دیا.یہ جو مضمون ہے اسکو سینٹ پال نے ایک خط میں اس طرح بیان کیا کہ عیسی خدا کے بیٹے کی صورت میں سامنے ظاہر ہوئے ہیں لیکن خدا ہی ہے جو اصل ہے مگر اس دنیا میں جب تک قیامت نہیں آتی خدا کے تمام اختیارات عیسی کو سونپ دئے گئے ہیں اور ان تمام اختیارات سے کام لے کر اپنے ساتھ جب ہمیں ملاتا ہے تو دراصل خدا کے ساتھ ملا رہا ہوتا ہے.تو کیا یہ ہمیشہ کے لئے یہیں رہے گا ؟ جب یہ سوال ان کے ذہن میں اٹھا تو پھر آخر پر یہ لکھا لیکن جب قیامت آجائے گی اور سب لوگ خدا کے حضور پیش ہوں گے تو عیسی کہیں گے کہ اے خدا لے تیری خدائی تیرے حوالے.میں نے جو خدائی کرنی تھی کر لی اور پھر صرف ایک ہی خدا رہ جائے گا ایسی جاہلانہ باتوں کو فلسفہ سمجھ کر امتوں کو ہلاک کر دینا بہت ہی بڑی بدنصیبی ہے لیکن ایسا ہوا اور یہ جو بنیادی جہالت ہے یہ ہر جگہ کارفرما ہے ہر سطح پر کارفرما ہے.حضرت علیؓ سے محبت کرنے والوں نے بعض دفعہ اتنا غلو کیا کہ آنحضرت ﷺ کے مقابل پر ان کا مرتبہ بڑھانا شروع کر دیا کیونکہ جب بنیادی طور پر یہ عقیدہ بنایا کہ حضرت علی وہی ہیں تو اس کا تعلق دار اصل شرک فی الخلافۃ سے ہے.یا د رکھیں کہ ایک شرک دوسرے کو پیدا کرتا ہے جس طرح ایک نفرت نفرت کے بچے دیتی ہے اس طرح شرک ضرور شرک کے بچے دیتا ہے.پہلے حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان سے رقابت کے نتیجہ میں ان سے مقام بڑھانا شروع کیا پھر آنحضرت مو تک بات پہنچی اور وہی کہا یعنی آپ کی تمام خوبیوں کے وارث یہ ہیں اور ان کے حق میں وصیت کی گئی جو پھر اس مضمون کو یہ رنگ دے دیا کہ گویا وصیت اس لئے تھی کہ حق حق دار رسید یعنی رسول کریم اللہ گویا امین ہی تھے اور جس طرح قیامت کے دن عیسی خدائی خدا کے سپر د کر دے گا ان کے بعض فرقوں صلى الله میں وصیت کو یہ رنگ دیا کہ گویا رسول اللہ ﷺ نے جس کا حق تھا اس کے سپر د کر دیا اور غلو جو بڑھنا شروع ہوا تو اس نے جو صورتیں اختیار کیں ان کی چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اول تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 541 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء مشکل کے وقت اور تکلیف کے وقت یا علی“ کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس وقت سب سے بہتر وہ جانتا ہے جو یہ نعرہ لگا رہا ہے کہ محض محبت کا اظہار ہے یا شرک ہے اسی طرح یا عبد القادر جیلانی“ یا پیر دستگیر یا سخی سرور وغیرہ کے نعرے مصیبتوں کے وقت لگتے ہیں.اگر باہر کی آنکھ سے دیکھیں تو چونکہ ہم خدا نہیں ہیں ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ شرک کے نتیجہ میں ہوا ہے لیکن میں نے جہاں تک رجحانات کا مطالعہ کیا ہے یہ شرک ہی کی مختلف صورتیں ہیں اگر تکلیف کے وقت پہلے خدا یاد نہ آئے اور کوئی اور یاد آئے تو یہ شرک کے علاوہ لاعلمی یا بیوقوفی ہے اور خدا سے دوری کی بھی نشانی ہے شرک ضروری نہیں لیکن بعض صورتوں میں واضح شرک بن جاتا ہے اور میرے نزدیک یہ جو شکلیں ہیں جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق ہے.خدا نے ان کو غیر معمولی صفات اور قدرتیں عطا فرمارکھیں ہیں.ہم ان سے استفادہ کرتے ہیں کیونکہ خدا نے ان کو مقرب کر کے بعض طاقتیں ہمیشہ کے لئے بخش دیں اس لئے جس طرح سورج چاند سے استفادہ کیا جاتا ہے اور شرک نہیں ہے.یہ بھی کوئی شرک نہیں ہے یہ بالکل جھوٹ ہے کیونکہ سورج چاند کا جو نظام ہے اس سے استفادہ کا ایک ایسا قانون جاری ہے جس سے ہمیں لازماً ان سے براہ راست استفادہ کرنا پڑتا ہے لیکن اگر یہ استفادہ وہیں تک محدود رہ جائے تو پھر یہ دہریت بن جاتی ہے اگر چاند اور سورج کا استفادہ اس سے پر لی طرف خدا کا چہرہ نہ دکھائے اور خدا کے مقابل پر ان چیزوں کو انسان بالکل بے حقیقت اور بے جان اور بے معنی نہ دیکھے تو یہ بھی دہریت اور شرک کی قسمیں بن جاتی ہیں.پس اگر کسی بزرگ سے استفادہ کرتے وقت یہ خیال دل پر غالب ہو اور قبضہ کرلے کہ میرے اللہ نے جوان کو عطا کیا ہے میرے لئے وسیلہ بنایا ہے اور میں ان سے استفادہ کرتا ہوں تو یہ استفادہ تب جائز ہے اگر قوانین کے مطابق ہو.قرآن کریم نے اس کے کھلے کھلے قوانین بنائے ہیں اور اسلوب بیان فرمایا ہے،ایک استفادہ یہ ہے کہ جس طرح ساری امت حضرت محمد ﷺ سے وسیلہ ہونے اور شفیع ہونے کا استفادہ کر صلى الله رہی ہے مگر مصیبت کے وقت یہ نہیں کہتی کہ اے محمد تو ہمیں دے.کبھی کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کبھی کسی خلیفہ راشد نے یہ نہیں کہا اسلام میں نسل در نسل تک کبھی یہ محاورہ آپ نہیں سنیں گے کہ اے محمد میرا بچہ مر رہا ہے تو اسے بچالے اے محمد میری جان نکل رہی ہے تو مجھے نئی زندگی بخش.ہمیشہ براہ راست خدا کو مخاطب کیا گیا ہے اور قرآن کریم نے کھلم کھلا اسی کی تعلیم دی فرمایا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي
خطبات طاہر جلد ۱۲ 542 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقره ۱۸۷) کہ اے محمد یہ اعلان کر دے کہ جب میرا بندہ مجھے پکارتا ہے میرے متعلق پوچھتا ہے تو کہہ دے کہ فَانِي قَرِيبٌ میں قریب ہوں أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ یہاں لفظ کہہ دے تو نہیں مگر اس کا مفہوم شامل ہے.پکار نے والا جب مجھے پکار رہا ہوتا ہے تو میں سن رہا ہوتا ہوں اور میں اس کا جواب دیتا ہوں یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اس وقت محمد رسول ﷺ کو مخاطب کر کے ان سے مانگا کرو.پس قرآن کریم کی تعلیم تو اتنی واضح ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے.پس ی استفادہ کا بہانہ محض جھوٹ ہے اور اپنے نفس کو اندھیروں میں مستقل طور پر جاگزیں کرنے کا ایک عذر ہے اور خود کشی کرنے کے مترادف ہے.حضرت علیؓ سے محبت پھر خلافت سے بڑھ کر رسول اللہ کی برابری پر منتج ہوئی اور برابری سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی برابری تک جا پہنچی اس لئے شرک سے خواہ ادنی حالت میں ہو خواہ نچلے مراتب میں شرک کیوں نہ ہو آپ محفوظ نہیں ہوں گے.شرک لازماً بچے پیدا کرتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ خفی شرک کھلے کھلے شرک میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے ایک تفسیر صافی ہے جو شیعوں کی تفسیر ہے.اس میں صفحہ ۴۳۲ پر تفسیر برہان زیر سورۃ حجم میں لکھا ہے کہ.صلى الله امالی شیخ صدوق ( جو شیعوں کی کوئی حدیث کی کتاب ہے ) حضور نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا.جب مجھے آسمانوں کی طرف معراج کروائی گئی اور میں اپنے رب کے قریب ہوا میرے اور اس کے درمیان قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی کی منزل آگئی تو آواز آئی کہ اے محمد ! مخلوق میں سے تو کس کو محبوب سمجھتا ہے میں نے کہا ! اے میرے رب ! علی کو کہا پس دیکھ اے محمد ! میں نے اپنی دائیں جانب توجہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ علی بن ابی طالب موجود ہیں یعنی معراج میں آپ سے پہلے ہی حضرت علی بن ابو طالب خدا تعالیٰ کے بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے تھے اور پہلے ہی وہاں موجود تھے.پھر تذکرۃ الائمہ از حیات القلوب میں لکھا ہے کہ: معراج کی رات حضرت علی کی تصویر حضرت محمد نے سدرۃ المنتہی پر دیکھی اور ملائکہ اس کو سجدہ کر رہے تھے.یعنی وہ سدرۃ المنتہی جس سے آگے تخلیق کی رسائی نہیں ہے اور خدا کی تو حید اس غیر معمولی شدت کے ساتھ جلوہ دکھاتی ہے کہ وہاں غیر اللہ کا کوئی قدم نہیں پہنچ سکتا خواہ کوئی عاشق صادق ہی کیوں نہ ہو وہ مقام ہے جہاں مخلوق کی آخری حد ہے وہاں انہوں نے دیکھا کہ اس انتہائی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 543 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء مقام توحید پر ( وہ مقام تو حید ہی تھا اس کی انتہا تھی ) ایک تصویر ہے جو حضرت علی کی ہے اور تمام ملائکہ اس کو سجدہ کر رہے ہیں.میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ سب شیعہ مشرک ہیں نہ سارے سنی موحد ہیں مگر مراد یہ ہے کہ ایک شرک کی غلطی دوسرے شرک پر منتج ہوتی ہے.آگے بڑھتی ہے، رخنے پیدا کرتی ہے امتوں کو تقسیم کر دیتی ہے اور بالآخر توحید میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرتی ہے.پس شرک کو معمولی نہ سمجھیں خواہ وہ کسی سطح پر ہی ہو.خلافت کا تعلق توحید سے ہے اور اتنا گہرا تعلق ہے کہ قرآن کریم نے آیت استخلاف میں خلافت کا اعلیٰ مقصد گویا یہ بیان فرمایا ہے کہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ ( النور (۵۲) استخلاف کا یہ مضمون تو حید سے تعلق رکھتا ہے اسی لئے تم میں خلفاء آئیں گے اور تمہیں خدا نے اپنا خلیفہ بنالیا ہے تا کہ خلافت سے وابستہ لوگ یا میری خلیفه امت یعنی محمد رسول ﷺ کی امت يَعْبُدُونَنِی ، میری ہی عبادت کریں لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا اور میرے ساتھ ہر گز کسی کو شریک نہ بنالیں.اس دور میں بھی ہم شرک فی الخلافتہ کی کئی صورتیں دیکھی ہیں اور ان کی پہچان بھی مشکل کام نہیں اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ قریب کی تاریخ کے حوالے سے ایک دو مثالیں آپ کے سامنے رکھوں اور اگر وقت ختم ہو گیا تو آئندہ خطبہ میں یہیں سے مضمون شروع کروں گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں خصوصیت سے میں نے محسوس کیا کہ بہت سے صحابہ بہت سے بزرگ ، بہت سے دعا گو ایسے تھے جن کو خود حضرت مصلح موعود بھی دعاؤں کے لئے لکھا کرتے تھے اور خلق کا رجحان ان کی طرف تھا اور لوگ بہت ہی کثرت سے ان کے پاس پہنچتے، دعا کرواتے ، تحائف پیش کرتے مگر کبھی بھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ادنی سی بھی رقابت محسوس نہ کی بلکہ ان باتوں سے خوش ہوتے تھے اور خود بھی ان کو دعاؤں کے لئے لکھتے تھے، استخارہ کروانے کے لئے بزرگوں کی ایک فہرست بنوائی ہوئی تھی اور پرائیویٹ سیکرٹری کو گویا کہ حکم تھا کہ جب مشکل وقت آئے تو ان کو لکھو تا کہ ان کی دعا بھی ہماری دعاؤں میں شامل حال ہو جائے.یہ بزرگ ہیں اور خدا سے تعلق رکھنے والے ہیں وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ ان سب کے متعلق خلیفہ اسیح کو پورا اعتماد تھا کہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 544 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء کامل طور پر خلافت کے مطیع اور فرمانبردار ہیں کہ اگر ان کے اندر ذرا بھی خلافت کے معاملہ میں رخنہ پایا تو ان کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں گے.یہ وہ کامل اعتماد تھا جس کے نتیجہ میں کسی رقابت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور جیسا کہ میں نے پہلے مضمون میں بیان کیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی محبت خدا کی محبت کو بڑھانے والی بنتی ہے نہ کہ کم کرنے والی اسی طرح ایسے بزرگ جن کو خلافت سے کچی عقیدت اور محبت ہو ان کی محبت لازماً خلیفہ وقت کی محبت کو دلوں میں بڑھاتی ہے اور تقویت بخشتی ہے، اس کی نفی کی کوئی علامت ہونی چاہئے اگر یہ نہ ہو تو کس طرح بات ظاہر ہوتی ہے ایسے بزرگ یا اور ایسے لوگ جن سے کبھی کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور خلیفہ وقت ان سے منہ پھر لیتا ہے، ناراضگی کا اظہار کر دیتا ہے تو یہ سارے لوگ اس سے تعلق تو ڑ کر الگ ہو جاتے ہیں.محبتیں نہیں مٹتی ہوں گی ، ان کے لئے دل میں درد بھی ہوتا ہوگا ، دعائیں بھی کرتے ہوں گے کیونکہ مجھے خود زندگی میں ایسا تجربہ ہے کہ خلیفہ وقت کی ناراضگی کی وجہ سے غیرت نے اجازت نہیں دی کہ ان سے تعلق رکھا جائے اور اگر تعلق ہے تو اسے مخفی دعاؤں کے تعلق میں تبدیل کر دیا جائے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ وہ غلط فہمی دور کر دے یا ان کی مغفرت کے سامان فرمائے.ایسے لوگوں کی توحید کی علامت یہ تھی کہ اگر اس حالت میں کوئی دوسرا ان کو ابھارنے کی کوشش کرتا تھا یا ان کی ہمدردی کے لئے ان سے ملنے کی کوشش کرتا تھا تو وہ اس طرح دھتکار دیتے تھے جس طرح شیطان کو اپنے در سے دھتکارا جاتا ہے اور استغفار کرتے تھے کہ یہ کمبخت کون آگئے ہیں مجھے کیا سمجھتے ہیں خلیفہء وقت کی ناراضگی ہزار ہو میں ان کا غلام، میں نے بیعت کی ہوئی ہے میں جانوں اور وہ جانے یہ کون ہوتے ہیں بیچ میں دخل دینے والے یا میری حمایت کرنے والے، تو دونوں طرف سے یہ صداقت کھل کر سامنے آجاتی تھی.اس کے برعکس مجھے علم ہے کہ ایک دفعہ سندھ کی ایک چھوٹی سی جماعت میں ایک شخص نے اپنی بزرگی کے قصے شروع کئے خدا سے الہام پانے اور کشوف پانے کے واقعات سنانے شروع کئے راتوں کو عبادتوں کے لئے کھڑا ہو گیا.ہاہو سے سارے گاؤں کو جگا دیتا تھا اور اس کی بزرگی کے قصے پھیلنے شروع ہوئے لیکن محدود پیمانے پر ایک گاؤں کے سارے لوگ بھی نہیں اس کے بھی چند لوگ تھے جو اس کے مرید بنے ، حضرت مصلح موعودؓ نے اس پر اتنی غیرت محسوس کی کہ ایک بڑا جلالی خطبہ دیا اور کہا کہ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ یہ خدا سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کہ اس کے پاس جارہے ہیں میں بتا رہا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 545 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء ہوں یہ ایک فتنہ ہے، ایک بت کھڑا کیا گیا ہے اور اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا اگر لوگوں کو ڈر ہے کہ اس سے علیحدگی خدا کے عذاب پر منتج ہو گی تو میں اس عذاب کے لئے حاضر ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ایسا کوئی عذاب نہیں.پس کہاں یہ کہ صحابہ کرام میں سے حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ہحضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی وغیرہ وغیرہ کے دروازوں پر لوگ جوق در جوق حاضر ہورہے ہیں ، دونوں ہاتھوں سے سلام کرتے اور پیار کرتے اور ان سے خیر کے لئے دعا طلب کرتے ہیں اور حضرت مصلح موعود کا دل خوش ہوتا اور بڑھتا اور پھولتا اور پھلتا ہے اور ان کو اور بھی زیادہ اپنی حمایت اور محبت عطا کرتے ہیں اور کجا یہ کہ سندھ کے ایک گاؤں میں بیٹھا ہوا ایک شخص اپنی بزرگی کا دعوی کر رہا ہے، جبہ اور دستار پہن لی ہے اور لوگ اس کی طرف مائل ہوتے ہوں تو اتنا شدید رد عمل کے گویا کہ ساری جماعت میں ایک فتنہ وفساد بر پا ہو جائے گا.وہ غیرت دراصل توحید کی غیرت تھی.حضرت مصلح موعود جانتے تھے کہ وہ محبت مطیع محبت ہے، وہ جماعت میں رخنہ پیدا نہیں کرے گی بلکہ ایسی محبتیں جماعت کو ایک دوسرے سے اور زیادہ قریب کرتی ہیں.ان بزرگوں کے رستے وحدت کی بڑھ رہی ہے نہ کہ افتراق پیدا ہورہا ہے لیکن جہاں آپ نے افتراق کی بو بھی پائی آپ نے شیروں کی طرح بڑی شدت سے اس پر حملہ کیا ہے اور پھر ایسے لوگوں کی محبت جو یہ دعوئی کرتے ہیں کہ ٹھیک ہے خلیفہ کی بیعت ہے لیکن یہ بھی بزرگ ہے اس سے بھی محبت ہے وہ ٹنگی ہو جاتی ہے.جب خلیفہ وقت اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے تو پھر بھی یہ تعلق رکھتے ہیں اور صرف مخفی تعلق نہیں بلکہ ڈیفنس کرتے ہیں مساجد میں کھلم کھلا اجتماعات پر لائنز لگالگا کر بزرگی کے اعتراف کرتے ہیں اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ آؤ اور اس بزرگ سے ملو.یہ چیز ان کا قطعی جھوٹ ثابت کر دیتی ہے اور بتا دیتی ہے کہ ان کے دل میں دراصل ایک بت پیدا ہوا ہے اور خلافت کی بیعت تو ایک دکھاوا ہے، نفاق کی ایک شکل ہے.جماعت سے الگ نہیں ہونا چاہتے اس لئے بیعت ہے ورنہ دل میں ایک اور خلیفہ کا بت بن گیا ہے.یہ جو شرک ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.یہ شرک فی الخلافہ ہے یہ بھی انتہائی مہلک نتیجہ پیدا کر سکتا ہے اور کرتا ہے اور اس کے خلاف جماعت کو لازماً نگران ہونا پڑے گا.وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا یہ بھی تو بزرگ ہیں ان کو یہ نہیں پتا کہ اور بے شمار بزرگ ہیں ان کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 546 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء دفعہ خلافت کو کیوں غیرت نہیں آتی، کوئی بات ہے اور خدا تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو ایسی فراست عطا کی ہوتی ہے کہ وہ نور اللہ سے دیکھتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اور اس کو پتا لگ جاتا ہے کہ کہاں رخنہ ہے اور کہاں نہیں اور بعد کے وقت پھر ہمیشہ خلیفہ کو سچا ثابت کرتے ہیں قطعی طور پر پتا چل جاتا ہے کہ ان لوگوں نے یہ بت بنایا ہوا ہے اور خلافت کی کوئی قدر نہیں اگر خلافت ان کو روکنے کی بھی کوشش کرے گی تو نہیں رکیں گے اور اس بت سے مانگیں گے.جو انہوں نے گڑھ لیا ہے.اس چیز کو کبھی جماعت میں پنپنے نہیں دیا جائے گا.میں اس کا اعلان کرتا ہوں کیونکہ خدا نے ایک رنگ میں مجھے خصوصیت سے تو حید کا محافظ بنایا ہے آیت استخلاف کے نتیجہ میں آپ سب خدا کے خلیفہ ہیں مگر آپ سب نے اپنی خلافت کا خلاصہ خلافت احمدیہ کی شکل میں نکالا ہوا ہے اور یہ خلاصہ آپ سب پر نگران ہے اور آپ کا دل بن گیا ہے، آپ کا دماغ بن گیا ہے.پس جہاں بھی مجھے شرک کا رخنہ دکھائی دے گا لازما میں اس کا قلع قمع کرنے کی پوری کوشش کروں گا مجھے کوئی بھی پرواہ نہیں کہ دنیا مجھے کیا کہے گی.کیا مجھ پر بدظنیاں کرتی ہے اور مجھے پتا ہے کہ ایسے موقع پر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے خلفاء کی حمائت کی ہے اور اللہ کے فضل سے جماعت زیادہ سے زیادہ موحد ہوتی چلی جارہی ہے اور زیادہ سے زیادہ ان باتوں کا عرفان حاصل کرتی چلی جارہی ہے اس لئے ماضی میں جو ہوا اسے دہرانے نہیں دیا جائے گا.یہ میں قطعی اعلان کرتا ہوں.پس ساری جماعت یو.کے میں بھی متنبہ رہے اب جلسہ کے دن بھی آرہے ہیں وہاں بھی مختلف ممالک سے لوگ آتے ہیں اور بعض دفعہ انسان ظاہر سے اتنا متاثر ہو جاتا ہے کہ اس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں کیا کر رہا ہوں لیکن جہاں خلفائے وقت کی طرف سے تاریخ میں کھلم کھلا ایسے اظہارات ہو چکے ہوں اور بعض جگہوں سے خطرات کی نشاندہی کر دی گئی ہو وہاں اگر منہ مارو گے تو شرک پر منہ مارو گے، وہاں اگر منہ مارو گے تو منافقت کا اعلان کرو گے.خلیفہ وقت سے بیعت کا تعلق قائم رکھتے ہوئے ایسا نہیں کر سکتے بیعتیں تو ڑو جہاں مرضی چلے جاؤ کوئی پرواہ نہیں.ایک مرتد ہوگا تو خدا ہزاروں صالح نیک بزرگ عطا کرے گا، موحد عطا کرے گا.دنیا کو بہر حال ہم نے تو حید سے بھرنا ہے اور تو حید کی حفاظت ہر سطح پر کرنی ہے.اس لئے اس عہد بیعت خلافت پر اس عرفان کے ساتھ قائم ہوں جو میں آپ کے سامنے کھول کر بیان کر رہا ہوں.یہ عرفان ہم نے قرآن اور سنت اور تاریخ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 547 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۳ء اسلام کے مطالعہ سے حاصل کیا ہے اور آج کے دور میں حضرت مصلح موعودؓ کے دور نے خصوصاً ان باتوں کو خوب کھول کھول کر اور نتھار کر ہمارے سامنے واضح کر دیا ہے.پس یاد رکھیں کہ آپ کی وحدت خلافت سے وابستہ ہے اور امت واحدہ بنانے کا کام خلافت احمدیہ کے سپرد ہے اور کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا میں خدا کی قسم کھا کر اس مسجد میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلام امت واحدہ بنانے کا کام خدا تعالیٰ نے اس دور میں خلافت احمدیہ کے سپر د کر دیا ہے جو اس سے تعلق کاٹے گا وہ امت واحدہ سے اپنا تعلق توڑے گا اس کی کوئی کوشش خواہ نیکی کے نام پر ہی کیوں نہ ہو بھی کامیاب نہیں ہوگی.پس خدا کے واضح اعجازی نشانوں کے ذریعہ جو بات ثابت ہو چکی ہے اس کو دیکھ کر آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کہاں جائیں گے اس سے مضبوطی سے چمٹ جائیں اور اس میں کوئی خطرہ نہیں.اس وفا کے اندر آپ کی خدا سے وفا ہے، حضرت محمد مصطفی ﷺ سے وفا ہے، حضرت مسیح موعود سے وفا ہے کیونکہ خلیفہ اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.آپ سے بہت بڑھ کر اپنے گناہوں کو جانتا ہے، اپنی عاجزی کو جانتا ہے مگر جانتا ہے کہ جس منصب پر وہ فائز کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس منصب میں غیرت رکھتا ہے اس مضمون کو سمجھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کا مزید عرفان حاصل ہوتا ہے کہ اے آنکہ سوئے بدویدی بصد تبر از باغبان بنترس که من شاخ متمرم (درشین فارسی:۱۰۶) کہ اے بیوقوف تو جو میری طرف تبر لے کر حملہ آور ہو رہا ہے، جان لے کہ یہ شاخ جو میری شاخ ہے یہ مثمر ثمر دار ہے اور باغبان اس کو برداشت نہیں کرے گا پس خلافت احمد یہ وہ شاخ مشمرم ہے وہ مشمر شاخ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے توحید کے پھل لگانے کے لئے سبز وشاداب کر کے دنیا میں دوبارہ قائم کرنا ہے اس پر اگر آپ بری نیت سے حملہ کریں گے، اس پر اگر آپ بدظنی سے کام لیں گے تو اپنے آپ کو ہلاک کر لیں گے کیونکہ خدا ہے جو اس کی پشت پناہی پر کھڑا ہے اور وہ کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ خلافت کو دوبارہ دنیا سے مٹنے دے یہاں تک کہ وہ اپنے ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کر لے کہ دنیا میں اصلى الله ایک ہی دین ہو اور وہ دین اسلام ہو اور تو حید ساری دنیا پر چھا جائے اور حضرت محمد مصطفی یہ آخری اور توحید دائمی نبی کے طور پر دنیا کو قبول ہو جائیں اللہ کرے.ایسا ہی ہو.آمین
548 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 549 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء انتظامیہ کی جان پیجہتی ہے، جماعت کا خلیفہ وقت سے قلبی رشتہ ہے، جلسہ کے مہمانوں اور میز بانوں کو نصائح (خطبہ جمعہ فرموده ۲۳ / جولائی ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعت احمد یہ UK کے جلسہ سالانہ میں اب صرف ایک ہفتہ باقی ہے.اگر چہ ہم اس جلسہ سالانہ کو ہمیشہ جلسہ سالانہ یوکے کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں مگر میری عارضی ہجرت کے بعد سے چونکہ یہی وہ جلسہ ہے جس میں باقاعدہ جماعت کی نمائندگی میں تمام دنیا سے لوگ آ کر شامل ہوتے ہیں اور جس میں خلیفہ وقت کی حاضری ویسی ہی ہوتی ہے جیسے پرانے مرکزی جلسوں میں ہوا کرتی تھی اس لئے عملاً اللہ تعالیٰ نے جماعت.U.K کو یہ سعادت بخشی ہے کہ جلسہ سالانہ مرکزیہ کی نمائندگی میں یہاں ایک جلسہ منعقد ہوتا ہے جو اپنے آداب، اپنے اسلوب ،اپنے طریق اور مزاج کے لحاظ سے سب سے زیادہ مرکزی جلسہ سالانہ کے مشابہ ہوتا ہے اور یہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے جو انتظامی ڈھانچے دن بدن مستحکم ہوتے چلے جارہے ہیں انہی کے نمونے پکڑ کر تمام دنیا کی جماعتوں میں قادیان کی طرز پر جلسہ سالانہ کے انتظام ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ نظام پھیلتا چلا جا رہا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہی ہدایت اور الہام کے مطابق جلسہ سالانہ کی جو بنیاد ڈالی تھی اس میں انتشار کا ایک پہلو یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ ایک جلسہ ایک جلسہ نہیں رہا بلکہ ہیں، پچھیں ہمیں جلسوں میں تقسیم ہو گیا اور وہ وقت دور نہیں کہ ایک سو تیں چونتیس ممالک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 550 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء میں جو جماعتیں اب تک قائم ہو چکی ہیں ان سب میں انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح مرکزی جلسے کی متابعت میں جلسے ہوا کریں گے لیکن اس کے باوجود ایک فرق ہے اور وہ مرکزی جلسے کی اپنی ایک سعادت اور امتیاز ہے جو اسی کو رہے گا.اس کے نمونے ہیں، اس کے ہم شکل جلسے ہیں جو پھیلتے چلے جائیں گے.یہ تو ایک انتشار فیض ہے جس کے نمونے ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں اور جو انتشار فیض ، اللہ کے فضل کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا اور وسعت اختیار کرتا چلا جائے گا.ایک فیض کے انتشار کے بعد پھر ارتکاز ہے یعنی چیزوں کا مرکز کی طرف لوٹ آنا اور اجتماعیت کی ایک عالمی شکل دکھائی دینا.وہ ارتکاز فیض اب خدا کے فضل سے مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ تمام دنیا کی جماعتوں کو نصیب ہو گیا ہے اور اس جلسہ سالانہ پر یہ ارتکاز بڑی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوگا اور ساری دنیا کی احمدی جماعتیں خدا کے فضل سے اس سے استفادہ کریں گی.اس ضمن میں ایک نیا اضافہ یہ ہوا ہے کہ ریڈیو کے ذریعہ تمام دنیا میں شارٹ ویو 16.میٹر بینڈ پر یہ خطبہ ہر جگہ سنائی دے سکتا ہے.آسٹریلیا میں اس سے پہلے شکایت تھی کہ تصویر جو ہے یہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ پوری طرح صاف نہیں پہنچتی اور بعض حصوں میں پہنچتی ہوگی بعض میں نہیں پہنچتی تھی لیکن دو تین دن ہوئے مجھے آسٹریلیا سے ایک خط ملا ہے جس میں اس بات پر بہت ہی خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ریڈیو کے ذریعہ ہم نے اسی طرح بالکل صاف خطبہ سنا ہے جیسے سامنے بیٹھے سن رہے ہوں.تو اب ریڈیو کے ذریعہ جو تعلق پھیل رہا ہے اس نے خلا پر کر دیے ہیں.تصویر ہر جگہ اس لئے نہیں پہنچ سکتی کہ اس کے لئے ڈش انٹینا کی ضرورت ہے، بڑے اہتماموں کی ضرورت ہے، ہر شخص کو ڈش انٹینا کے مرکز تک پہنچنے کی بھی توفیق نہیں مل سکتی، کچھ بیمار ہیں جو گھروں سے نکل نہیں سکتے ، کچھ عورتیں اور بچے ہیں جن کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ باہر جا کر کہیں خطبہ سن سکیں یا دیکھ سکیں.یہ جو نیچ کے خلا تھے یہ تمام کے تمام خدا کے فضل کے ساتھ خطبات کے ریڈیائی انتشار کے ذریعہ پورے ہو چکے ہیں.اس ضمن میں مجھے پاکستان کی ایک جیل سے ایک اسیر راہ مولا کا خط موصول ہوا جس کا دل پر بہت گہرا اثر پڑا.انہوں نے لکھا کہ ہم پر اللہ کا بڑا احسان ہوا ہے، اب ہم ریڈیو کے ذریعہ آپ کا خطبه براه راست سن رہے ہیں اور سن سکتے ہیں اور اپنے اپنے سیلوں میں ، قیدوں میں ایک دوسرے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 551 خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۹۳ء سے الگ ہوتے ہوئے بھی ہمیں جماعت کے ساتھ ایک عالمی رابطے کا اتنا گہرا اور پیارا احساس ہوا ہے کہ جس نے قید کی سب تکلیفیں بھلا دی ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیوار میں اب ہماری راہ میں حائل نہیں ہوسکتیں.ہم اسی طرح ہی جماعت کا ایک جزو ہیں جس طرح وہ آزاد احمدی جو دنیا میں پھر رہے ہیں اور اس وساطت سے طبیعت میں جو ایک لذت پیدا ہوئی ہے، جو سرور حاصل ہوا ہے اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا تو یہ سارے خدا تعالیٰ کے احسانات ہیں اور وہی تو حید کا ہی مضمون ہے جو آج عملی صورت میں جاری وساری ہے.ہم عاجز گنہگاروں اور کمزوروں کے سپر اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا تھا کہ تمام دنیا کی قوموں کو امت واحدہ میں تبدیل کر دو.ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ دنیا سے تمام سعید روحوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرو اور وہ ہاتھ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہے.اس ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے ہماری مجبوریاں، ہماری بے کسیاں ، ہماری بے بساطی حائل تھیں اور ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم میں یہ طاقت ہوگی کہ تمام دنیا کو ایک امت واحدہ میں تبدیل کر دیں مگر دیکھتے دیکھتے آسمان سے وہ تقدیریں نازل ہوئی ہیں جنہوں نے اس دور کے خواب کو آج کی ایک حقیقت میں تبدیل کر دیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور ان احسانات کا جتنا بھی آپ شعور حاصل کریں گے اتنا زیادہ طبیعت حمد کی طرف مائل ہوگی اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگی.یہ احسان ایسا نہیں کہ ایک دو باتوں اور ایک دو تذکروں میں اس کی تفاصیل بیان ہوسکیں.اتنے گہرے اور مستقل اور اتنے وسیع اثرات اس نئے دور میں اس ذریعہ سے جاری ہو چکے ہیں اور ساری دنیا کے احمدی اس شدت سے اس کیفیت کو محسوس کر رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ایک عظیم فضل نازل ہوا ہے جس نے گرتی اور بعض جگہ لڑکھڑاتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیا ہے، مضبوط ہاتھوں میں تھا می گئی ہے،مضبوط رشتوں میں باندھی گئی ہے اور ساری دنیا کی ایک جماعت ہونے کا احساس جس شدت کے ساتھ اس دور میں ابھرا ہے اس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جو آج پاکستان کی جیلوں میں بھی سنا جا رہا ہے خصوصیت کے ساتھ اپنے ان اسیران راہ مولا کو السلام علیکم کہتا ہوں اور مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ ہی کی دعائیں ہیں ، آپ ہی کی قربانیاں ہیں اور آپ جیسوں کی دعائیں اور آپ جیسوں کی قربانیاں ہیں.ان شہداء کا خون ہے جو رنگ لا رہا ہے، آپ کی آہیں اور سسکیاں ہیں جو ایک عالمی آواز میں تبدیل ہوگئی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 552 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء ہیں، ان شہداء کا خون ہے جو ایک منظر بن کر سب دنیا میں ابھر رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا بہت ہی احسان ہے، ہم سب آپ قربانی کرنے والوں کے ممنون احسان ہیں کہ جس نے خدا کے فضل اس شان سے کھینچے ہیں اور اس قوت سے آسمان سے یہ فضل نازل ہونے شروع ہوئے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اب ان کو نہیں روک سکتی ، ان کے بس کی بات نہیں رہی.یہ دوست جن کا میں خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں، رانا نعیم الدین صاحب ہیں، محمد الیاس منیر مربی سلسلہ، محمد حاذق رفیق طاہر، چودھری عبدالقدیر صاحب، چودھری نثار احمد صاحب، ان میں سے پہلے تین تو شادی شدہ ہیں اور بچوں والے ہیں اور آخری دو غیر شادی شدہ ہیں.یہ نو سال سے جیل میں ہیں.ان کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کی ظاہری مشکل کے دن بھی کاٹ دے جس طرح روحانی لذتوں کے سامان فرمائے ہیں ، آزادی کی وہ ظاہری نعمتیں بھی ان کو عطا کرے جس میں ہم تو شریک ہیں مگر یہ شریک نہیں ہیں.اس کے بعد جیسا کہ دستور ہے آنے والے جلسے کی ذمہ داریوں سے متعلق م متعلق منتظمین کو خصوصیت سے اور آنے والے مہمانوں کو بھی اور یہاں خدمت کرنے والے میز بانوں کو بھی مخاطب ہوتا ہوں، ان کی خدمت میں کچھ باتیں عرض کرنی چاہتا ہوں.یہ جلسہ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں ، ایک عالمی جلسہ ہے، ایک خاص اعلیٰ مقصد کی خاطر منعقد ہوتا ہے اور بہت سے لوگ بڑی تکلیفیں اٹھا کر بہت اموال کا خرچ کر کے اپنے اوقات صرف کرتے ہوئے اس جلسے کا انتظار کرتے ہیں اور بڑی امنگوں اور شوق سے اس میں شامل ہوتے ہیں.ہر آنے والے کے ذہن میں ایک تصویر ہے اور وہ تصویر یہ نہیں ہے کہ ہم دنیا کی لذتیں یا نمائشیں دیکھنے جارہے ہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ تصویر ہے کہ ہم ایسے روحانی اجتماع میں شرکت کے لئے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمیں باقی رہنے والی عظیم روحانی لذتیں عطا ہوں گی.پاک تبدیلیاں ہمارے اندر بھی رونما ہوں گی اور لوگوں میں بھی یہ تبدیلیاں رونما ہوتے ہوئے ہم دیکھیں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ جلسہ میں ہمیشہ یہ دونوں باتیں بالکل صداقت کے ساتھ بعینہ اسی طرح پوری ہوتی ہیں.آنے والے پاک تبدیلیاں ہوتی ہوئی محسوس کرتے ہیں اور محسوس ہونے والی یہ تبدیلیاں ان کے چہروں پر ان کے تبدیل ہونے والے آثار میں ظاہر ہوتی ہیں اور دیکھنے والے محسوس کرتے ہیں کہ کچھ ہو رہا ہے.جو آئے تھے.یہ وہ نہیں رہے بلکہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 553 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء بدل کر جارہے ہیں اور یہ احساس کسی تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مسلسل مشاہدے کا نتیجہ ہے.بچپن سے میں جلسہ سالانہ میں مختلف حیثیتوں سے شریک ہوتا آرہا ہوں لیکن کبھی ایک دفعہ بھی مجھے یاد نہیں کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت سے پہلے اور شمولیت کے بعد کی کیفیت ایک جیسی ہو یا آنے والے مہمانوں میں اور قادیان کے بسنے والوں یار بوہ کے بسنے والے مقامی لوگوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہوئی دکھائی نہ دیں.یہ وہ منظر نہیں ہے جو آنکھوں سے چھپا رہے.لوگوں کی کیفیات ہیں مگر اجتماعی نظاروں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.پس اس شان کا جلسہ دنیا کے پردہ پر کہیں اور نہیں منایا جاتا جس شان کا جلسہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوا اور آپ اس کے آداب ہمیں سکھلا گئے.اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ تحریرات ہیں جو اس جلسہ سے توقعات کے سلسلہ میں ہیں وہ میں انشاء اللہ جلسہ کے آئندہ خطبہ میں پیش کروں گا.اس وقت جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کچھ عمومی نصیحتیں کرنی چاہتا ہوں جن کا تعلق مہمانوں سے بھی ہے اور میز بانوں سے بھی.جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے، خدا کے فضل سے رفتہ رفتہ ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی اب جلسہ کی انتظامیہ بہت پختہ اور مضبوط اور با سلیقہ ہو چکی ہے.اس پہلو سے ان کو کسی توجہ دلانے یا نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے.میں جانتا ہوں روز مرہ ان سے رابطہ ہے، جو بات سمجھ میں نہ آئے مجھ سے ہو چھ لیتے ہیں، ہر اہم فیصلے سے پہلے مجھے بات بتا کر ا جازت لے لیتے ہیں.اس لئے یہ جو مسلسل رابطہ ہے یہی میرے اور ان کے درمیان افہام و تفہیم کا ایک ذریعہ ہے اور ان کو پبلک میں اس طرح خطبات کے ذریعہ کسی نصیحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ ایسے جلسے سب دنیا میں منعقد ہوتے ہیں اس لئے جلسہ کے ذکر میں اگر انتظامیہ سے متعلق بھی کچھ نہ کچھ باتیں ہو جائیں تو یہ بے فائدہ نہیں ہوں گی کیونکہ اور جلسے منانے والے منتظم ان سے فائدہ اٹھا سکیں گے.انتظامیہ کی جان یک جہتی میں ہے اور انتظامیہ کا سر براہ ایک مرکزی نقطہ ہوتا ہے.دنیا کی انتظامیہ میں یہ مرکزی نقطہ گویا دماغ ہے مگر جماعت کی ہر انتظامیہ میں جیسا کہ جماعت کا اپنا حال ہے یہ مرکزی نقطہ دماغ بھی ہوتا ہے اور دل بھی ہوتا ہے.انتظامیہ کا اگر اعصابی رشتہ دماغ سے ہو تو ایسی انتظامیہ بسا اوقات کئی قسم کی چپقلشوں کا شکار ہو جاتی ہے، کئی قسم کی دل آزاریوں اور ٹھوکروں کے نتیجہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 554 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء میں اس میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور محض دماغی اعصابی رشتے کسی انتظامیہ کو ایک صالح نظام میں تبدیل نہیں کر سکتے.اس کے ساتھ قلبی رشتوں کا ہونا بھی ضروری ہے جیسا کہ خلافت کا مضمون آپ خوب سمجھتے ہیں.ساری جماعت کا خلیفہ وقت سے صرف دینی رشتہ نہیں ایک قلبی رشتہ بھی ہے اور دونوں رشتے بیک وقت مضبوط اور متوازی ہیں اور ہم آہنگ ہو کر ایک رشتے میں تبدیل ہو جاتے ہیں.بعینہ یہی نقشہ جماعت احمدیہ کی ہر انتظامیہ میں جاری ہونا ضروری ہے.امیر سے روزمرہ کے کاموں میں یہ تعلق ہونا چاہئے اور جلسے کی انتظامیہ میں تمام منتظمین کا خواہ وہ بڑے عہدہ پر ہوں یا چھوٹے عہدہ پر ہوں اپنے مرکزی افسر سے ویسا ہی رابطہ ہونا چاہئے.بعض دفعہ مرکزی افسر کو مجبوراً ڈانٹنا بھی پڑتا ہے.معمولی تعزیری کارروائیاں بھی کرنی پڑتی ہیں مگر دل کا رشتہ ایسے تعلقات کو سنبھالے رکھتا ہے.ماں باپ بھی تو ڈانٹتے ہیں، اس کے نتیجہ میں بچے باغی ہو کر منہ پھیر کر دوسری طرف تو نہیں چلے جایا کرتے ، گستاخ تو نہیں ہو جاتے لیکن غیر ڈانٹ کر دیکھے تو پھر وہی بے ادب بچے دیکھیں اس کو کیا مزہ چکھاتے ہیں.استاد کی بات بھی بعض دفعہ اسی لئے نہیں مانتے کہ انتظامی رشتہ ہے قلبی رشتہ نہیں.تو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک زندہ خاندانی رشتوں میں باندھا ہوا ہے جو ذہن سے بھی تعلق رکھتے ہیں ، قلب سے بھی تعلق رکھتے ہیں.پس اپنے افسروں سے محض اطاعت کا سلوک نہ کریں بلکہ محبت کا سلوک کریں، ادب کا سلوک کریں اور اگر ہر افسر کے دل میں یہ یقین ہو جائے کہ میرے تمام ماتحتوں کا مجھ سے ذہنی اور قلبی تعلق بہت مضبوط ہے تو ناممکن ہے کہ ایسا افسر ہر وقت ان کی دلداری میں مصروف نہ رہے.وہ ان کے ناز بھی اٹھاتا ہے اور اگر کبھی سختی کرتا ہے تو سخت مجبوری کی حالت میں اور ایسی صورت میں جس پر سختی کی جاتی ہے اس کا حق ہے فرض ہے بلکہ اس کا مزاج یہ ہونا چاہئے ، اس کی فطرت ثانیہ یہ بنی چاہئے کہ وہ خوشی سے برداشت کرے اور اس بحث میں نہ پڑے کہ میری غلطی اتنی تھی کہ نہیں جتنی بیان کی جاتی ہے اور یاد رکھے کہ غلطی تو ویسے بھی ایک ایسا نازک معاملہ ہے کہ غلطی کرنے والا انسان بسا اوقات اپنی غلطی کا شعور ہی نہیں رکھتا اور اپنے دفاع کا ایسا مادہ انسان میں پایا جاتا ہے کہ غلطی کر کے وہ غلطی دکھائی ہی نہیں دیتی بلکہ اس کے خلاف اگر کوئی نشاندہی کرے تو دل میں بڑا سخت غصہ پیدا ہوتا ہے، طبیعت اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے، انسان ضد کرتا ہے کہ اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 555 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء میں ہرگز میری غلطی نہیں تھی.اب غلطی ہو یا نہ ہوا اگر مزاج وہی ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو انسان بغیر غلطی کے بھی سختی کو پیار اور محبت اور ادب کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور ایسی صورت میں اس کو غلطی دکھائی بھی دینے لگتی ہے.یہ میرا تجربہ ہے وہ لوگ جو یہ تعلق رکھتے ہیں کہ آپ نے کہا ہے تو ٹھیک کہا ہے ہم سے غلطی ہوگئی ان کا یہ تعلق بڑی جلدی ایسے تعلق میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھنے لگ جاتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے ٹھیک توجہ دلائی ہے.یہ مخفی بت ہمارے دل میں موجود تھا.اب آپ نے بتایا تو دکھائی دینے لگا.تو یہ ایک ارتقائی اصلاحی رشتہ ہے جو ترقی پذیر رہتا ہے.ہمیشہ اس کے نتیجہ میں دونوں طرف اصلاح رہتی ہے.تو منتظمین جو اس موجودہ جلسہ کی کارروائی کوسنبھال رہے ہیں یا آئندہ دوسری جگہوں پر سنبھالیں گے ان سب کو میری یہی نصیحت ہے کہ اچھے انتظام کا یہ مرکزی نقطہ ہے اس کو خوب سمجھیں اور اس پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں جو منتظم ہے اس کا فرض ہے کہ اپنے ماتحتوں سے اس طرح محبت اور پیار کا سلوک کرے جس طرح ماں باپ کرتے ہیں مگر جاہل ماں باپ کی طرح نہیں کہ جو غلطیوں سے بھی صرف نظر کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک بچہ بدکنے لگتا ہے، بے راہ رو ہو جاتا ہے، بھٹکنے لگ جاتا ہے.ایسے ماں باپ کی طرح جن کی محبت کا جوش ان کے اصلاح کے ہاتھ میں روک نہیں بنتا بلکہ اس کو تو ازن عطا کرتا ہے.محبت کے جوش اور اصلاح کے ہاتھ میں اگر توازن پیدا ہو جائے تو غلطی کے نتیجہ میں اس کو بے وجہ نظر انداز نہیں کیا جاتا مگر اصلاح کی خاطر چونکہ کارروائی کی جاتی ہے اس لئے اس میں دل کا جوش اور غیظ وغضب شامل نہیں ہوتا.ایسا ہاتھ اگر تھپڑ بھی مارتا ہے تو وہ تھپڑ پہلے اپنے دل پر لگتا ہے اور اس کی تکلیف بعض دفعہ اس سے بہت زیادہ لمبے عرصہ تک تھپڑ مارنے والے کو رہتی ہے بہ نسبت اس کے جس کو یہ تھپڑ پڑا تھا.ایسی مائیں بھی ہیں، ایسے باپ بھی ہیں جن کو مجبور آیہ کا رروائی کرنی پڑتی ہے اور بعد میں اس دکھ سے تڑپتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو یہ تکلیف پہنچانے پر مجبور ہو گئے.زندگی کے نظام کی یہ وہ روح ہے جس سے نظام زندہ ہوتا ہے اور ہمارا تعلق ایک زندہ نظام سے ہے، ایک ایسے زندہ نظام سے ہے جس نے ہزاروں سال تک جاری رہنا ہے بلکہ یہ وہ آخری نظام ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کے بعد پھر اور کوئی نظام دنیا میں جاری نہیں ہو گا.یہ اسی نظام کے آخرین کا جلوہ ہے جس کے ہم نگران اور خادم بنائے گئے ہیں.پس لمبی باتوں کی بجائے میں انتظامیہ کو صرف اتنا کہوں گا کہ اس مرکزی روح کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 556 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء اور اپنی سوچوں اور اپنے اعمال میں اس کو جاری وساری رکھیں تو باقی سارے تفصیلی جھگڑے آسانی سے طے ہو جاتے ہیں اور انتظام نہایت عمدگی سے جاری ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے انتظام میں ہمیشہ برکت پڑتی ہے.دوسری بات میں جلسے پر آنے والوں سے یہ کہوں گا کہ وہ بھی انتظامی کمزوریوں پر محبت کی نظر ڈالا کریں بخشش کی نظر ڈالیں اگر چہ اصلاح کی نظر بھی ساتھ رہے.اگر اصلاح کی نظر بخشش کی نظر کے سائے میں آگے بڑھتی ہے تو اس میں تلخی نہیں آتی.اس میں کاٹنے کا مادہ پیدا نہیں ہوتا ، وہ نظر کسی کو چھتی نہیں ہے لیکن اگر کسی کی نظر میں محبت کا مادہ نہ ہو اور اصلاح کا نہیں بلکہ تنقید کا مادہ ہو اور محبت کے فقدان سے لا ز ماہر نظرمنفی تنقید میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے.اس کے نتیجہ میں اصلاح تو نہیں ہوتی لیکن دل آزاریاں بہت ہوتی ہیں.قرآن کریم نے ایسی نظروں کا بھی ذکر فرمایا ہے ایسی زبانوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو محبت پر نہیں بلکہ نفرت پر مبنی ہوتی ہیں اوراس کا نتیجہ سوائے ہلاکت کے اور کچھ بھی نہیں نکلتا.تو ہم نے تو جو بھی سوچنا ہے، جو بھی محسوس کرنا ہے، اس کے نتیجہ میں ہمارا جو رد عمل ہونا ہے وہ تمام بنی نوع انسان کی اصلاح کی خاطر ہوتا ہے.اس لئے اپنے انتظام کو اپنا انتظام سمجھ کر بجائے دوسروں کو شرمندہ کرنے کے اس کی کمزوریوں کی شرمندگی خود محسوس کریں.غیر کی نظر سے تنقید کرنے کی بجائے یوں محسوس کریں جیسے آپ اپنے وجود پر تنقید کر رہے ہیں اور پھر اس کی اصلاح میں حصہ ڈالیں اور ادب کے ساتھ محبت کے ساتھ ان لوگوں کو توجہ دلائیں.اس روح کے ساتھ توجہ دلائیں جس کا ذکر حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے یوں فرمایا ہے.الـمـومـن مـراة الـمـومـن ـ (ابو داؤد کتاب الادب حدیث نمبر: ۴۲۷۲) مومن دوسرے مومن کا شیشہ ہوتا ہے.جب بھی کوئی اسے دیکھے خاموش زبان سے سچائی کے ساتھ اس کی کیفیت بیان کر دیتا ہے مگر طعن و تشنیع نہیں ہوتی.پس وہ شیشہ جو صاف گو ہولوگ اس کو تو ڑ تو نہیں دیا کرتے نہ وہ کسی کا دل تو ڑتا ہے بلکہ لوگوں کو اور زیادہ پیارا ہوتا ہے لیکن وہی شیشہ اگر دوسروں کو عیوب دکھانے لگ جائے تو ایسے شیشے کو تو لوگ جہنم میں پھینک دیں.ایک کوڑی کی بھی اس کی قدر نہیں کریں.پس مومن ایک دوسرے کا بھائی ہے.اس نظر سے تنقید کریں جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے شیشے کی تمثیل سے ہمیں سمجھائی ہے اور اس میں تا خیر نہ کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 557 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء کریں جتنی جلدی کوئی نقص متعلقہ افسر تک پہنچے اتنا ہی بہتر ہے، اتنی جلدی اس کی اصلاح ہوسکتی ہے.پہلے ایک دفعہ یہ رجحان پیدا ہو گیا تھا کہ یہاں سے واپس جا کر لوگ نہ صرف انتظامیہ کے بلکہ احباب جماعت U.K کے بھی شکوے شروع کر دیا کرتے تھے اور لمبے لمبے تنقیدی خط آجایا کرتے تھے.وہ باتیں میں ان تک اصلاح کی نیت سے پہنچاتا تھا مگر مجھے اس سے ہمیشہ دوطرح سے تکلیف پہنچتی تھی.ایک تو یہ کہ یہ کوئی اچھا کردار نہیں ہے کہ انسان ایک نقص کو دیکھے اور اس کو دل میں پال لے، دور کر سکتا ہو مگر نہ کرے اور باہر جا کر نہ صرف مجھے اطلاع دے کہ وہاں یہ یہ باتیں ہوئیں.یہ کوئی جلسہ تھا؟ اس میں یہ خرابیاں تھیں بلکہ مجالس میں ان باتوں کو بیان کرتا پھرے.ایسے شخص کی تنقید اسی طرح کی تنقید ہے جیسے بعض زبانوں کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.مقصد صرف یہ ہے کہ دلوں کو کاٹے، چر کے لگائیں اور کوئی بھی اس کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا.جب کسی خرابی کو دیکھو تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ ایمان کا اتنا اظہار تو کرو کہ اس کو نا پسند کر ولیکن یہ اول ایمان کی نشانی نہیں ہے.اول ایمان کی نشانی یہ ہے کہ اگر اس کو ہاتھ سے دور کر سکتے ہو تو دور کرو، اگر زبان سے اس کی اصلاح کر سکتے ہو تو کرو (مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر: ۸۰) سیہ دو باتیں نہ ہوسکیں تو پھر دل میں رکھو پھر پروپیگنڈا کا کوئی حق نہیں ، پھر دل کی تکلیف کو دعاؤں میں بے شک بدل دو اس سے بھی فائدہ پہنچتا ہے لیکن یہ کہ اس دل کو ایک کینہ بنا لو، اس کے نتیجہ میں منتظمین کو تحقیر کا نشانہ بناؤ اور سمجھو کہ خدمت کرنے والے تو بڑے ہی جاہل اور بے وقوف تھے.ہمیں دکھائی دے رہا تھا کہ یوں ہونا چاہئے اور یوں نہیں ہونا چاہئے.یہ خفی تکبر ہیں جو ایسے موقعوں پر ظاہر ہو جایا کرتے ہیں مگر بنیادی طور پر متکبر کا رد عمل یہی ہوا کرتا ہے.جماعت احمد یہ تو متکبرین کی جماعت نہیں ہے.اس میں تکبر کو کوئی جانہیں ہے.انکسار کے ساتھ ، محبت اور خلوص کے ساتھ تنقید اس طرح کریں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے.ہاتھ سے دور کرسکیں تو دور کریں.بعض جہلا اس کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ مثلاً ایک عورت ہے جو پردہ نہیں کر رہی اس کی چادر زبردستی کھینچ کر اس کے منہ پر ڈال دو یا زبان سے اس کوختی سے کہا کہ تم کیا کر رہی ہو.خبردار! چہرہ چھپاؤ.یہ بدتمیزیاں ہیں یہ اس روح کے بالکل منافی اور مخالفانہ بات ہے جو روح حضور اکرم ﷺ کے ارشاد میں ملتی ہے.آپ مکہ کی گلیوں میں اس طرح تو نہیں چلا کرتے تھے.بڑی مکروہات دیکھا کرتے تھے ، بہت بری باتوں کو سننا پڑتا تھا.یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 558 خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۹۳ء کیسے ممکن ہے کہ آپ دوسروں کو وہ نصیحت کریں جس پر خود عمل پیرا نہ ہوں.کب پکڑ پکڑ کر عورتوں کے چہرے ڈھانپا کرتے تھے ، کب پکڑ پکڑ کر لوگوں کی شلوار میں اونچی کیا کرتے تھے.یہ محض جہالت کی باتیں ہیں جو بڑی گستاخی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے فرمان کی طرف منسوب کی جارہی ہیں.ہاتھ سے درست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک گندی نالی ہے.چند لوگ کام کر رہے ہیں تو آپ اس کو صاف کریں اور اگر نہیں بھی کر رہے تو صرف برانہ منائیں.اس گند کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر دور کرنے کی کوشش کریں.جلسہ کے انتظام ہو رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وہاں ایک جگہ خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہے، خرابی پیدا ہو رہی ہے.اگر آپ دوڑ کر اس موقع پر آگے بڑھ کر اس خدمت میں حصہ نہیں لیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق ایمان کی اعلیٰ حالت پر قائم نہیں ہیں.پس وہ خرابیاں مراد ہیں جو معاشرے کی ایسی خرابیاں ہیں جس میں معاشرہ مددطلب کرتا ہے، جس میں انسانی فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ آؤ اور شوق سے حصہ لو.یہ وہ مواقع ہیں جن کا اس حدیث سے تعلق ہے اور ہر ایسے موقع پر خدمت میں آگے بڑھنا اور برائیوں اور خرابیوں کو ان معنوں میں اپنے ہاتھ سے دور کرنا کہ جہاں عرف عام میں یہ بات بداخلاقی اور بدتمیزی نہ ہو غیروں کے معاملہ میں دخل اندازی نہ ہو بلکہ معاشرے کا گویا تقاضا ہے کہ میری مدد کرو.ایک بیمار اگر سہارے کا محتاج ہے اور دوڑ کر آپ سہارا نہیں دیتے تو آپ اس حدیث کی روح کو نہیں سمجھتے.جب دوڑ کر سہارا دیتے ہیں تو پھر یہ وہ مداخلت ہے جو بے جا مداخلت نہیں ہے، انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے.پس اس روح کے ساتھ جلسہ سالانہ میں شرکت کرنی چاہئے.میں ابھی تک تنقید کرنے والوں کو مخاطب ہوں ، اسی گروہ کو جن کا پہلے ذکر کیا تھا کہ وہ باہر بیٹھ کر تنقید میں کرنے کا تو کوئی حق نہیں رکھتے.زیادہ سے زیادہ دل میں برا منانے کا حق ہے.اول روح پر کیوں قائم نہیں ہوتے جو کمزوریاں دیکھتے ہیں ان کو دور کرنے میں مدد کیا کریں منتظمین کی خدمت میں حاضر ہوں.ان سے کہیں کہ ہم نے یہ بات دیکھی ہے، ہو سکتا ہے آپ کی استطاعت میں نہ ہو.انتظامی کمزوری کا رکنوں کی کمی کی وجہ سے ہو تو ہم حاضر ہیں ہم سے کام لیں اور خدا کے فضل سے قادیان کے زمانے سے بھی مجھے یہی یاد ہے اور ربوہ میں بھی یہی کہ ہمیشہ جماعت کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 559 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء اکثریت اسی روح کے ساتھ خرابیوں کو دور کیا کرتی تھی.پھر زبان سے دور کرنا اس روح کے منافی نہیں ہونا چاہئے جو روح آئینے کی روح ہے.ایک طرف آئینے کی تمثیل ہے وہ بھی تو حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے مبارک کلمات ہیں اور ایک طرف زبان سے بدی کو روکنا ہے.ان دونوں کے درمیان دو صورتیں دکھائی دیتی ہیں.ایک تو یہ کہ مومن غلطی کر رہا ہے کیونکہ وہاں مومن کو مومن کا بھائی قرار دیا گیا ہے.ایسی صورت میں اس غلطی کو اسی طرح ادب سے چھپا کر دوسرے کی عزت نفس قائم کرتے ہوئے اسے سمجھانا چاہئے.دوسری صورت یہ ہے کہ ایک غیر مومن ایک بدی کا شکار ہے تو اسے ایسے انداز سے نصیحت کرنا جس سے نصیحت فائدے کی بجائے نقصان دے دے تو یہ بہت ہی بڑی حماقت ہوگی.اگر شیشہ ایسے عیوب دکھانے لگے کہ جس کے اوپر دیکھنے والا غصہ کھائے اور نفرت کی نگاہ سے شیشے کو دیکھے تو کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.وہ روح اگر چہ حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے خالصہ مومن اور مومن کے درمیان رشتے کی شکل میں بیان فرمائی ہے مگر مومن کا ایک فیض عام بھی تو ہے.اس فیض عام کے تابع یہ ہدایت ہے کہ دوسروں کو بھی نصیحت کرو، غیروں کو بھی نصیحت کرو اور وہ اسی طرح کرو جس طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم خود کیا کرتے تھے.ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور تیز زبان سے نصیحت کی ہو.ساری سیرت کا مطالعہ کر لیں کہیں ادنی سا واقعہ بھی آپ کو دکھائی نہیں دے گا.ملانوں نے پھر کس طرح تعبیریں کرلیں جس تعبیر کے ایک ایک جزو کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی سیرت کا ایک فعل دھتکار رہا ہے اور رد کر رہا ہے.سارا کردار اس کے مخالف ہے.پس جب غیروں کو بھی نصیحت کرو تو اس طرح کرو جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم عزت اور وقار کے ساتھ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے حیرت انگیز پاکیزگی کے ساتھ نصیحت فرمایا کرتے تھے.جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ( الحجر : ۹۵) تو اس وقت آپ ایک پہاڑی پر چڑھ کر جب قوم سے مخاطب ہوئے تو دیکھیں کہ کتنے پیار کے ساتھ، کتنی نرمی کے ساتھ ان کو رفتہ رفتہ نصیحت کے مضمون کی طرف لائے ہیں.پھر جب قوم نے برا رد عمل دکھایا تو یہ قوم کا قصور تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کا نہیں تھا.پس ایسی نصیحتوں کو اختیار کرنا جن سے لوگ متنفر ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 560 خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۹۳ء اور دور بھا گئیں یہ سنت نہیں ہے یہ مخالفین محمد مصطفی منہ کا کردار ہے جسے ہم کسی صورت اپنا نہیں سکتے.پس جلسے میں بھی اسی نصیحت کو یا درکھیں، نصیحت کریں تو سلیقے کے ساتھ اور طریقے کے ساتھ کریں.بے پردہ عورتیں بھی دکھائی دیں گی اور ان کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن آپ کو یہ اس رنگ میں ان تک پہنچانے کا کوئی حق نہیں کہ کیا تم نے چہرہ نگا کیا ہوا ہے، اپنا نقاب سامنے کرو، پھر نے کا یہ کونسا سلیقہ ہے.ایسی بدتمیزی سے آپ باتیں کریں گے تو وہ عورتیں اصلاح پذیر ہونے کی بجائے آپ سے ہی نہیں بلکہ بعض صورتوں میں اسلام سے بھی نفرت کرنے لگیں گی.یہ کیسی نصیحت ہے جو جنت کی بجائے جہنم میں دھکیل رہی ہے اور پھر اگر اتفاق سے ان کے قریبی سن رہے ہوں اور وہ آپ سے طاقتور ہوں تو یہ نصیحت آپ پر جوتیاں بن کر بھی پڑسکتی ہے اور وہ جو تیاں جائز ہوں گی کیونکہ آپ کو کسی کی بے عزتی کرنے کا کوئی حق نہیں.پس نصیحت کریں تو سلیقے اور عقل اور ادب کے ساتھ کریں اور مناسب طریق پر کریں.جہاں تک حق ہے وہاں تک پہنچیں ، اس سے آگے قدم نہ بڑھائیں، اس طرح اگر آپ جلسے کے انتظام کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں گے اور آنے والوں کو ان کے حقوق اور ان کے فرائض یاد کرائیں گے، ادب اور پیار سے نصیحتیں کریں گے تو یہ جلسہ ان مقاصد عالیہ کو حاصل کرنے کا ایک بہت عمدہ ذریعہ بن جائے گا جن مقاصد عالیہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مختلف تحریرات میں پیش فرمایا ہے.ان تحریرات کو میں انشاء اللہ اگلے جمعہ میں جو جلسہ کے آغاز پر ہو گا اس وقت آپ کے سامنے یاد دہانی کے طور پر پڑھ کر سناؤں گا.ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے آپ کی نصیحتیں وقف ہونی چاہئیں ، ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے آپ کی عملی خدمات وقف ہونی چاہئیں اور یادرکھنا چاہئے کہ دور دور سے صرف اپنے ہی نہیں بلکہ وہ غیر بھی آئیں گے اور کثرت سے آئیں گے جنہوں نے اس نیت سے سفر کیا ہے کہ اگر اپنا بننے کے لائق لوگ ہوئے تو ہم ان کا بن جائیں گے.مجھے ابھی سے اطلاعیں آ رہی ہیں کہ امریکہ سے بھی لاس اینجلس سے بھی بعض ایسے دوست تشریف لا رہے ہیں اور دور کی اور جماعتوں سے بھی، کینیڈا سے بھی اور افریقہ سے بھی ، یورپ سے بھی ، دور دور سے یہاں تک کہ نجی آئی لینڈ اور طوالو وغیرہ کی طرف سے بھی جو بحر الکاہل کے جنوب مشرقی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جزائر ہیں ان سے بھی بعض غیر احمدی دوست لمبے سفر کر کے محض اس لئے تشریف لا رہے ہیں کہ اب تک ان کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 561 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء احمدیت کے متعلق جو بتایا گیا ہے وہ جاذب نظر ہے، جو کچھ سنا ہے یا پڑھا ہے اس سے دل اس طرف مائل ہوا ہے کہ یہ اچھے لوگ دکھائی دیتے ہیں.چلیں ہم بھی جا کر دیکھیں کہ کیسے لوگ ہیں اور عملاً ان کی زندگی کیسے صرف ہوتی ہے.ان سب کے آنے پر اگر آپ کی طرف سے ان کے لئے ٹھوکر کا کوئی سامان ہو گیا، آپ کے اخلاق میں کوئی کمزوری ہوئی ، آپ کے چلنے پھرنے کی اداؤں میں بجائے جاذبیت کے منافرت کی علامتیں ظاہر ہوئیں تو ان سب کا گناہ آپ کے سر بھی ہوگا اگر چہ ٹھوکر کھانے والا خود ذمہ دار ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی غیر کے کردار سے ٹھوکر کھانا بھی ایک گناہ ہے.ہر شخص اپنے خدا کو جوابدہ ہے اور اسوہ صرف حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کو بنایا گیا ہے اور اس کے بعد وہ اسوہ ہیں جو آنحضور ﷺ کے خلق میں آپ ﷺ کے تابع ، آپ ﷺ کے سائے میں چلنے والے لوگ ہیں.اس اسوہ سے تو کسی کو ٹھو کر نہیں لگ سکتی.جو اس اسوہ سے باہر ہے اس سے ٹھوکر کھانا جہالت ہے کیونکہ اس کو اسوہ پیش کرنے کا حق ہی نہیں.پس آنحضور کے اسوہ کے سائے میں رہنے سے دنیا میں کسی کوٹھو کر نہیں لگ سکتی.آپ خصوصیت سے ان تین دنوں میں باہر کی بجائے اس سائے کے اندر آنے کی کوشش کریں تا کہ آپ کی غفلت کی وجہ سے، آپ کی بے احتیاطی کی وجہ سے کوئی سعید روح بے وجہ ہدایت اور روشنی پانے سے محروم نہ رہ جائے.اس کے علاوہ ایک ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ فرائض سے بڑھ کر احسان کے میدان میں داخل ہوں.یہ تو فرائض کی بات ہے کہ آپ سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جس سے کسی کو تکلیف پہنچے جس سے کوئی ٹھو کر کھائے.احسان کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے حقوق قربان کرتے ہوئے ، اپنے آرام قربان کرتے ہوئے حسن واحسان کا ایک ایسا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں، ایک ایسی تصویر بن جائیں جس سے احسان الٹ الٹ کر گرتا ہو.جس طرح ماؤں کی نظر سے محبت الٹ الٹ کر اپنے بچوں پر نچھاور ہوتی ہے اس طرح مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مہمانوں پر آپ کا پیار نچھاور ہونے لگے.آپ کی آنکھوں سے بہتا ہوا چھلکتا ہوا دکھائی دے، آپ کے اعمال اور کردار سے ظاہر ہو کہ آپ ان لوگوں پر فدا ہیں ، ان پر قربان ہیں، ان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں.اس رنگ میں تمام شرکائے جلسہ خواہ وہ انگلستان کے میزبان ہیں یا آنے والے مہمان ہیں، یہ سارے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلسے کے میزبان بن جائیں گے اور اس میزبانی میں جو لطف ہے وہ اور کسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 562 خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۹۳ء میزبانی میں نہیں آسکتا.اس نیت سے، اس خلوص کے ساتھ ، اس خاص Consciousness کے ساتھ یعنی زندہ احساس کے ساتھ کہ ہم نے یہ کام کرنا ہے.ہم نے پیار اور محبت کے ایسے نمونے دکھائے ہیں کہ لوگ جن کی یادیں لے کر اپنے اپنے وطنوں کو روانہ ہوں اور مدتوں تک وہ یادیں ان کے دلوں میں مہکتی رہیں اور ان کی یادوں کے لئے حسن کے سامان مہیا کرتی رہیں.جو شخص اخلاق حسنہ سے حق کوقبول کرتا ہے وہ ہمیشہ خود بھی اخلاق حسنہ کا ہی مظہر رہتا ہے.لوگ مختلف تلواروں کے کشتے ہوا کرتے ہیں.ہر تلوار اپنا نشان چھوڑ جایا کرتی ہے اس بات کو آپ خوب یا درکھیں.اگر کوئی ایک مولوی کے ذریعہ مسلمان ہوگا تو اس کے اندر بھی مولویت ضرور پائی جائے گی.ہر ہتھیار اپنا ایک نقش چھوڑتا ہے اور بعد میں اگر تحقیق کی ضرورت پڑے تو سائنس دان پہچان جاتے ہیں کہ یہ آرے سے کاٹا گیا ہے یا تیز دھار آلے کا شکار ہوا ہے یا چھنے والی چیز سے مارا گیا ہے یا اور کسی ذریعہ سے مثلاً Conussion یعنی ایسے زخم کا نشانہ بنایا جس میں خون نہیں رستا لیکن ایک جگہ مجتمع ہو جاتا ہے تو آپ بھی ان شکار کرنے والوں میں ہوں جو حسن واحسان کا شکار کھیلنے والے ہیں اور جو محمد مصطفیٰ کی طرح اخلاق کی تلوار سے لوگوں کو ماریں.ایسے لوگ جو اخلاق کی تلوار سے مارے جاتے ہیں وہ ہمیشہ اخلاق کی ہی تلوار سے لوگوں پر فتح حاصل کیا کرتے ہیں.جو منطق کی تلوار سے مارے جاتے ہیں وہ پھر دنیا میں منطق لے کر ہی پھرتے ہیں اور ان کو کچھ نصیب نہیں ہوتا.ہم نے دنیا کے دل فتح کرنے ہیں اور پھر دماغوں کو قابو کرنا ہے.فتوحات کے دو ہی راستے ہیں، ایک یہ کہ دماغوں کو قابو کریں اور پھر دلوں کو فتح کرنے کی کوشش کریں.ایک رستہ ہے دلوں کو قابو کرنا اور پھر دماغوں کو فتح کرنا ، جو عظیم قو می تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو عظیم روحانی انقلاب بر پا ہوتے ہیں وہ منطق کے ذریعہ نہیں ہوا کرتے.وہ دلائل کے ذریعہ نہیں ہوا کرتے.پہلے دل خدا کے فضل اور احسان کے ساتھ مائل ہوتے ہیں اور قائل ہوتے ہیں اور پھر وہ دل خود اپنے دماغوں پر حاوی ہو جاتے ہیں، اپنے دماغوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ جس فرقے یا مذہب سے تعلق رکھنے پر دلوں نے مجبور کیا ہے اس کو محبت کی آنکھ سے دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں ورنہ صرف منطق سے تو یہ فتح ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ منطق کے مقابل پر ایسا دماغ جس میں کوئی میلان نہیں ہے وہ ہمیشہ مدافعت کے ساتھ بات کو سنتا ہے.اس نیت کے ساتھ بات کوسنتا ہے کہ میں نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 563 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء ہر آنے والے خیال کے رستے میں روکیں کھڑی کرنی ہیں ، تالے لگا لینے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے بھی ایسے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کا یہ حال بیان کیا ہے کہ آمْ عَلَى قُلُوْبِ أَقْفَالُهَا ( محم:۲۵) کیا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں.وہ تالے نفرتوں اور تعصبات کے تالے ہوتے ہیں اور اگر دماغ کو مخاطب کیا جارہا ہے تو پیغام جب تک دماغ سے دل تک نہ اتر جائے قبول نہیں ہو گا.پس سفر دلوں سے کیوں نہ شروع کریں جو خود اپنے تالے توڑیں گے.جن کی برقی رو دماغ کو متاثر کرے گی اور اپنے دل کی بات سننے کے لئے ہر دماغ تیار رہتا ہے بلکہ دل کو دماغ پر ایک فوقیت حاصل ہے.جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ نقصان بھی ہوتے ہیں مگر اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ اس سے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.جتنے بھی دوست احمدی ہوتے ہیں اور مجھ سے ملتے ہیں.میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیسے احمدی ہوئے ؟ تو بسا اوقات میں نے یہی جواب سنا ہے.بڑی بھاری اکثریت کا یہ بیان ہوتا ہے کہ ہم فلاں کے حسن اخلاق سے متاثر ہوئے تھے.ہمارے دفتر میں بیسیوں آدمی کام کرتے ہیں.ایک وہ بھی ہے جس کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہے.اس کا اٹھنا بیٹھنا ، اس کا رہنا سہنا، اس کی گفتگو کے انداز،اس کے میل جول ،اس کا ایک دوسرے کے ساتھ سلوک بالکل مختلف تھا اور ہم سوچتے تھے کہ یہ کیسا شخص ہے؟ یہ کیا چیز ہے؟ اس کی ذات میں ہم دلچسپی لینے لگے تو دین میں دلچسپی لینا گویا ایک طبعی قدم تھا جو اس کے بعد آنا ہی آنا تھا اور یہ بات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بھاری اکثریت پر صادق آتی ہے.جن علاقوں میں کثرت سے جماعت پھیل رہی ہے وہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ پہلے نیک شہرت نے جماعت کی عمومی تصویر کو دلکش بنا دیا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ مبلغ گئے ہیں، دلیلیں دی ہیں اور ہزاروں لوگ احمدی ہو گئے ہیں.ان مبلغین کو یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ جماعت کی ایک عمومی بہت ہی حسین تصویر پچاس یا سوسال کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس ملک میں ابھری ہے اور مسلسل لوگ اس تصویر کو دیکھتے تھے اور اچھا محسوس کرتے تھے مگر دیگر عوامل ایسے حائل تھے جن کے نتیجہ میں جرات نہیں ہوتی تھی لیکن دل کے اندر یہ بات موجود تھی کہ یہ اچھے لوگ ہیں.جتنا مرضی ہم ان کو برا کہیں یا سمجھیں، ہیں یہ اچھے لوگ.اس کے نتیجہ میں پھر وہ فطرت آمادہ تھی ، مزاج اس کے لئے تیار بیٹھے تھے.تب جب جانے والے گئے اور ان کو نصیحت کی تو ایسے کانوں نے نصیحت سنی جو پہلے ہی یہ قبول کرنے کا میلان رکھتے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 564 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء کچھ یہ بھی ہے اور کچھ یہ بھی ہے کہ بعض قوموں کو خدا تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی ہے کہ جب وہ کوئی سچی بات کہہ رہا ہو جس کو دل سے ایک تائید حاصل ہو چکی ہو اور کہنے والے کا دل اس کی بات کی پشت پناہی کر رہا ہو تو یہ ایک ایسا مضمون ہے جو تفصیل سے بیان تو نہیں کیا جا سکتا لیکن محسوس کیا جاسکتا ہے.ایک نصیحت کرنے والا ہے جس کی بات عقل سے تعلق رکھتی ہوگی لیکن اس میں دل شامل نہیں ہوتا ، وہ جذ بہ داخل نہیں ہوتا جو اس بات کو ایک قوت بخشتا ہے.پس یہ بھی ایک ذریعہ ہے میلان کالیکن بنیادی بات وہی ہے.دل کی بات کو دل پسند کرتا ہے اور جب محسوس کرتا ہے کہ بات دل سے نکلی ہوئی ہے تو اچا نک رجحان تبدیل ہو جاتا ہے.پس ان رپورٹوں میں جو کثرت سے بہت کامیاب تبلیغوں سے متعلق ملتی ہیں ایک یہ مضمون بھی بار بار دکھائی دیتا ہے کہ فلاں نے ہم سے یہ سلوک کیا اور فلاں سرداروں نے ہمیں دھتکار دیا، رد کیا مخالفانہ حرکتیں کیں مگر ہمارا دل مانتا ہی نہیں تھا کہ ان کو چھوڑ ہیں.خطرات بھی پیش آئے مگر ہم نے بالکل پرواہ نہیں کی.ہم نے کہا کہ ہم تو تمہیں ایک سچی بات پہنچانے کے لئے آئے ہیں اور پہنچا کر چھوڑیں گے.آخر اچانک ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ وہ لوگ جو مخالفت پر آمادہ تھے ، بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے اچانک انہوں نے دل و دماغ کے دروازے کھول دیئے.صد مرحبا کہا، قبول کیا ، خدمتیں کیں اور اپنی گستاخی پر معذرتیں کیں تو معاملات دراصل دل ہی کے ہیں.پس دل جیتنے کے لئے جس حسن و احسان کی ضرورت ہے اس کے جلوے اس جلسہ کے میدان میں کثرت سے دکھائیں اور حسن و احسان دکھانے کی بات جب میں کرتا ہوں تو اس میں ایک چھوٹی سی غلطی بھی شامل ہو گئی ہے.دراصل حسن و احسان دکھانے کے لئے کیا نہیں جاتا ،حسن واحسان انسانی فطرت سے چھلکا کرتا ہے.قرآن کریم نے ان مضامین کو لطیف اشاروں کی صورت میں ہمیں سمجھایا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: سِيْمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ( ٣٠) اب یا درکھو وہ سجدے جن کا ذکر چل رہا ہے یہ دنیا سے چھپ کر خدا کے حضور راتوں کو کئے جانے والے سجدے ہیں.کوئی دنیا میں ان کو دیکھ نہیں رہا ہوتا.کسی کے وجود، اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ کہاں کون خدا کا بندہ اس طرح خدا کے حضور سجدہ ریز ہے لیکن دل کی وہ نیکی جو خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 565 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء کی کامل اطاعت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ پھر اندر رک نہیں سکتی.وہ چہروں سے علامتیں بن کر جھلکنے لگتی ہے، نمایاں روشنی کی صورت میں جگمگانے لگتی ہے.اسی کی طرف خدا نے اشارہ فرمایا ہے کہ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ تو آخری بات یہی ہے کہ سجود کے ذریعہ اپنے اندر حسن و احسان پیدا کریں اور جب سجود کی بات کرتا ہوں تو لازماً آخری نصیحت یہی ہے کہ عبادتوں کی طرف خاص توجہ اور خاص انہماک کے ساتھ نظر رکھیں اور اس رنگ میں عبادتیں کریں کہ وہ آپ کے وجود کا ایک فطری حصہ بن چکی ہوں.کئی قسم کے لوگ وہاں آئیں گے، کئی ایسے ہوں گے جو عبادتوں میں کمزور ہوں گے.ان کو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ لوگوں کو دکھانے کے لئے عبادت کریں کیونکہ عبادت تو صرف خدا کو دکھانے کے لئے کی جاتی ہے مگر وہ لوگ جو سچ مچ عبادت سے واقف ہو چکے ہیں ،عبادت کے اسرار سے ان کو آشنائی ہے ان کو میں کہتا ہوں کہ ان کے اندر خدا نے حسن واحسان کا مادہ پیدا کر دیا ہے وہ خود بخود ان کے دلوں سے پھوٹ رہا ہوگا.دعائیں کرتے رہیں اور اپنے ان کمزور ساتھیوں اور بھائیوں بہنوں کو توجہ دلاتے رہیں کہ وہ بھی عبادت کریں ، وہ بھی سجدے کریں کیونکہ عبادت اور سجدوں سے نتیجہ میں حقیقت میں مومن کے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جو ساری دنیا میں حسن و احسان بن کر پھیلتی ہیں اور دنیا کے قلوب کو فتح کرتی ہیں.پس عبادت کی طرف توجہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہت سے آنے والے ایسے ہیں جنہوں نے نئی نئی احمدیت قبول کی ہوگی.عبادت پر لوگوں کو توجہ دلانا کوئی منافقت نہیں ہے، کوئی دکھاوا نہیں ہے، یہ دین کا بنیادی فریضہ ہے.پس آپ ان کو اس لئے عبادت کی طرف توجہ نہیں دلائیں گے کہ لوگوں کو دکھانے کی خاطر ہی دو دن نمازیں پڑھ لو، میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ان کو کہو کہ عبادت پر قائم ہوں اگر پہلے نہیں تھے تو آج قائم ہو جاؤ اور ہمیشہ کے لئے قائم رہو.کم سے کم اتنا تو ہوگا کہ اگر اب تم نے عبادت کا حق ادا کرنا شروع کیا تو کچھ لوگ تمہیں دیکھ کر ٹھوکر نہیں کھائیں گے.اس رنگ میں اس حکمت کے ساتھ لوگوں کو سمجھائیں اور صبح نمازوں پر جگانے کا بھی انتظام کریں جس طرح قادیان اور ربوہ میں ہوا کرتا تھا اور بھی کئی جماعتوں میں ہوتا ہو گا.یہاں اسلام آباد میں بھی جس طرح گزشتہ سال یہ کام شروع کر وایا گیا تھا، بچے اور کچھ ساتھ بڑے ان کو لے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 566 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء کر تہجد کے وقت جلوس کی صورت میں کلمات لا اله الا الله محمدرسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے اور ترنم کے ساتھ درود پڑھتے ہوئے جلسہ گاہ کے اردگرد جو قیام گاہیں ہیں ان کے دورے کریں ، ان کا طواف کرتے رہیں یہاں تک کہ اس مترنم اور دل پر گہرا اثر کرنے والی آواز سے لوگ خود بخو داٹھنے لگیں.آپ نے اگر کمروں میں گھس کر ان کے کپڑے کھینچ کر اتارے تو یہ عبادت پر قائم کرنے کا کوئی صحیح طریق نہیں.آپ متنفر کر دیں گے ، بعض لوگ شاید ٹانگیں بھی ماریں لیکن یہ عبادت کا طریق نہیں ہے.حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے وہ ہمیشہ اپنی اولا دکو عبادت کی نصیحت فرمایا کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے وہ ہمیشہ عبادت کی طرف متوجہ فرمایا کرتے تھے لیکن کبھی ایک دفعہ بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے اپنے عزیزوں کی چادر میں کھینچ کھینچ کر اتاری ہوں، ان کو دھکے دے دے کر بستروں سے گرایا ہو، چار پائیاں الٹائی ہوں کہ اٹھو.ہاں یہ ذکر ملتا ہے کہ آپ نے جگانے کی کوشش کی کوئی نہیں جاگ سکا تو دوسرے دن آپ نے شدید غم کا اظہار کیا.بہت تکلیف محسوس کی.پس اگر آپ عبادت کے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور آپ کے کہنے کے باوجود کوئی نہیں سنتا تو آپ کو لازماً تکلیف ہو گی.اس تکلیف کو ساتھ ساتھ دعاؤں میں بدلیں گے تو انشاء اللہ آپ کی ساری نصیحتیں کارگر ثابت ہوں گی.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس عظیم الشان مقدس روحانی اجتماع کے حقوق ادا کرنے کے قابل بن سکیں اور خدا ہی کی توفیق سے یہ نصیب ہو سکتا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دومرحومین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: آج نماز جمعہ کے بعد دو پاکباز خواتین کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی جو خدمت دین میں پیش پیش تھیں یا دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور عبادات میں اور لوگوں کی نیک تربیت کرنے میں انہوں نے اپنی زندگی صرف کی.ان میں سے ایک ہماری عزیزہ بشری داؤ دھوری ہیں جو مکرم و محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی کی صاحبزادی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اکثر پہلوؤں سے انہوں نے اپنے باپ کے سب گن پوری طرح اپنے وجود میں زندہ رکھنے کی کوشش کی اور بے لوث خدمت جس کے ساتھ دکھاوے کا کوئی عنصر نہیں اور انتھک خدمت جو مسلسل سالہا سال تک رواں دواں رہتی ہے.یہ وہ دو خصوصیات ہیں جن میں مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ایک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 567 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء نمایاں حیثیت رکھتے ہیں.یہ دو خصوصیات پوری شان کے ساتھ عزیزہ حوری میں موجود تھیں اور حسنِ بیان کے ملکہ سے خدا نے ایسا نوازا تھا کہ اپنے ہوں یا غیر ہوں جو بھی ان کی تقریریں سنتا تھا وہ ہمیشہ ان سے گہرا اثر لیتا تھا اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا.میں نے کبھی کراچی کی یا باہر سے آنے والی کسی خاتون سے کبھی ایک لفظ بھی ان کے کردار کے خلاف نہیں سنا.محبت کے ساتھ لجنہ کے فرائض سر انجام دینے والی لیکن خدا نے حسن بیان کا جو ملکہ بخشا تھا وہ خصوصیت سے سیرت کے مضمون پر ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ ان کی شہرت دور و نزدیک پھیلی ہوئی تھی اور جب بھی سیرت کے مضمون پر زبان کھولتی تھیں تو بعض ایسی متعصب خواتین بھی جو احمدیت سے دشمنی رکھتی تھیں اگر وہ اس جلسہ پر لوگوں کے کہنے کہلانے پر حاضر ہو گئیں تو ایک ہی تقریرین کران کی کایا پلٹ جایا کرتی تھی.وہ کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگائیں کہ ان کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم سے محبت نہیں.تحریر کا ملکہ بھی خدا نے عطا فرمایا تھا.کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں سیرت کے مضمون پر بھی انہوں نے لکھیں.ان کا آپریشن ہوا تھا جس کے بعد گھر واپس آرہی تھیں کہ دل کے دورہ سے وفات ہو گئی.اللہ غریق رحمت فرمائے.ساری جماعت کراچی سے میں تعزیت کرتا ہوں.مکرم مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب اور خاندان اور ان کے میاں داؤد اور بچوں سے تو ہے ہی ضرور لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ساری جماعت کراچی تعزیت کی محتاج ہے اور لجنہ اماءاللہ کراچی خصوصیت سے تعزیت کا حق رکھتی ہے.سب دنیا کی عالمگیر جماعتوں کی طرف سے میں تعزیت کا یہ پیغام ان تک پہنچاتا ہوں.اللہ غریق رحمت فرمائے اور جس سیرت کے بیان پر انہوں نے اپنی زندگی صرف کی ، خدا تعالیٰ اس سیرت کے فیض سے ان کے بچوں کو صبر محمدی عطا کرے.ان کے خاوند کو صبر محمدی عطا کرے.ان کے والد کو اور دوسرے عزیزوں کو ( مجھے علم نہیں کہ والدہ زندہ ہیں کہ نہیں ، خدا کرے زندہ ہی ہوں) سب کو خدا صبر محمد ی عطا فرمائے اور سیرت کا یہ فیض ان کے خاندان کو خصوصیت سے پہنچے.دوسری خاتون جن کا میں مختصراً ذکر کرنا چاہتا ہوں.یہ انگلستان کے ہمارے مبلغ نسیم احمد باجوہ صاحب کی والدہ اور چک پنیار کے چودھری حاکم علی صاحب کی صاحبزادی تھیں.ان کا نام سلیمہ اہلیہ چودھری محمد شریف صاحب باجوہ مرحوم جو حفاظت خاص کے عملے میں بھی شامل رہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 568 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء غیر معمولی طور پر حضرت مصلح موعودؓ سے اور بعد میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث سے گہری محبت کرنے والے تھے.19 جون کو ان کا بھی دل کے حملے سے انتقال ہوا.ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹی ہمارے مخلص انگریز احمدی دوست مظفر کلارک سے بیاہی ہوئی ہیں.تو ان سب کے لئے بھی میں دعا کی تحریک کرتا ہوں اور ان سب سے بھی میں اس خطبہ میں تعزیت کرتا ہوں.نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی اور ان کے ساتھ ہی بعض اور احمدی مرحومین کی بھی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی جن کا اعلان پہلے کر دیا گیا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 569 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء سورۃ جمعہ میں دی گئی خوشخبری کی مظہر جماعت احمد یہ ہے.تقویٰ تعلیم ، کتاب اور حکمت کو اپنا ئیں.( خطبه جمعه فرموده ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) (الجمعه: ۳تا۵) سورہ جمعہ کی ۳ تا ۵ تک کی آیات ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے بار ہا پہلے بھی جماعت کے سامنے ان کی تلاوت ہو چکی اور ان کی تشریح ہو چکی لیکن اول تو یہ کہ قرآن کریم کی کسی آیت کی بھی تشریح اس حد تک ممکن نہیں کہ اس کے تمام مضامین پر حاوی ہو سکے بلکہ اگر ہر بار زندگی بھر انسان ایک ہی آیت پر غور کرتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ اس کو نور بخشتا ر ہے اور نئے معنی پر اطلاع دیتا رہے تو اس آیت کا مضمون کبھی ختم نہیں ہو سکتا.اس پہلو سے اگر کسی اہم آیت کریمہ کے پیغام کو بار بار دہرایا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بسا اوقات کچھ نئے مطالب بھی ظاہر ہوتے ہیں جن سے جماعت کو استفادے کا موقع ملتا ہے.دوسرے یہ کہ آج کے اس خطبے میں کثرت کے ساتھ دنیا کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 570 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء ایسے ممالک سے دوست تشریف لائے ہیں.جن کو اس سے پہلے احمدیت کا پیغام نہیں مل سکا تھا اور اب وہ عالمی بیعت میں شمولیت کی نیت سے اپنے نمائندوں کے ذریعے اس اجتماع میں شامل ہورہے ہیں اور آج کے خطبے میں شامل ہیں.اسی طرح خطبات کا جو سلسلہ عالمی مواصلاتی سیاروں کے ذریعے تمام دنیا میں منتشر ہوا ہے.اس سے پہلے اس کثرت سے Antinas کا انتظام نہیں تھا کہ افریقہ کے اہم ممالک میں دور ونزدیک انٹینا کے ذریعے خطبات کو براہ راست سنا اور دیکھا جا سکے لیکن اب اس سلسلے میں اتنے ٹھوس ، معین قدم آگے بڑھائے جاچکے ہیں کہ آج کے اس خطبے میں لاکھوں کی تعداد میں افریقن بھی خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اس پیغام کو سن رہے ہوں گے اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو نئے ہیں ان باتوں کی تکرار ضروری ہے جو ان آیات کریمہ میں مذکور ہیں.مختصر ااس کا پس منظر یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی صفات حسنہ بیان فرمائیں اور آپ کے کاموں سے متعلق معین طور پر ہمیں خبر دی کہ یہ چار بنیادی کام ہیں جو آپ نے کرنے ہیں اور کر رہے ہیں.وہاں آخرین میں ظاہر ہونے والے صلى الله ایک سلسلے کا بھی ذکر فرمایا جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ سے زمانے کی دوری کی وجہ سے براہ راست فیض یافتہ نہیں ہو سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کچھ ایسا انتظام فرمائے گا کہ اسی رسول کا فیض اس دور کے زمانے میں اس شان اور اس وضاحت کے ساتھ پہنچے گا کہ گویا وہ لوگ دور کے زمانے میں پیدا ہونے کے با وجود اولین سے آملے ہیں.یہ دو باتیں ہیں بنیادی طور پر جو ان آیات میں بیان ہوئی ہیں وہ چار کام کیا ہیں.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْته یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آیات ان کو عطا ہوتی ہیں.وہ ان لوگوں کو پڑھ کر سناتے ہیں جو اس سے پہلے جاہل اور بے خبر تھے.وَيُزَكِّيهِمْ اور آپ میں عظیم قوت قدسیہ پائی جاتی ہے.آیات کی تلاوت کے ساتھ ہی آپ ان کو پاک کرنے لگتے ہیں.وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب اور پھر کتاب کی تعلیم دیتے ہیں.آیات اور کتاب کی تعلیم میں فرق یہ ہے کہ آیات ، کتاب کے مضامین یعنی شریعت کے مضامین کے علاوہ بھی بہت سے روحانی پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب خصوصیت سے الکتب کہا جائے تو یہاں وہ فرائض اور نواہی مضامین پر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 571 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء مراد ہوتے ہیں جو ہر شریعت میں بیان ہوتے ہیں.پس کسی ایک ہی بات کی تکرار نہیں بلکہ ایک نیا مضمون الكتب کہہ کر شروع فرمایا.خدا تعالیٰ کی آیات پڑھنے میں ایک مضمون یہ بھی ہے کہ عظیم الشان نشانات پیش کرتا ہے.ایسے اعجازی نشان پیش کرتا ہے جس سے ایمانوں کو تقویت ملتی ہے اور ان کا ضروری نہیں کہ کتاب سے ان معنوں میں تعلق ہو کہ ان میں حکم اور مناہی بیان ہوں.پس آیات کا لفظ زیادہ وسعت رکھتا ہے اور اس میں نا صرف قرآن کریم کی آیات مراد ہیں بلکہ ایمان افروز نشان بھی اس کے اندر شامل ہیں جن کو سن کر ایمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا ہو جاتی ہے.یزکیھم جو معاً بعد فرمایا اس سے اس وسعت مضمون کو مزید تقویت ملتی ہے کیونکہ وہ آیات جو الہی نشان اور اعجازی شان و شوکت رکھتی ہوں.ان سے لا ز ما تزکیہ قلوب ہوتا ہے.ایمان ترقی کرتا ہے اور ایمان ترقی کرنے کی ایک طبعی قطعی علامت یہ ہے کہ اعمال ترقی کرتے ہیں.پس یا درکھیں کہ وہ ایمان کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا جس کے ساتھ تزکیہ شامل نہ ہو.اگر ایک انسان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے جیسا کہ بہت سے لوگ بعض نیک مجالس میں شامل ہو کر کہا کرتے ہیں کہ بہت لطف آیا اور بہت ایمان میں ترقی ہوئی اور واپس جا کر انہی کاموں میں پھر مبتلا ہو جاتے ہیں جو پہلے کرتے آئے تھے اور ان میں تزکیہ کے ظاہر ہونے کے آثار نہیں پائے جاتے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ شان بیان فرمائی گئی کہ آپ جو ایمان افروز باتیں کرتے ہیں.وہ محض زبانی باتیں نہیں ہیں ان میں ایک گہرا اثر ہوتا ہے.وہ ایسی ایمان افروز باتیں کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ ساتھ اعمال بھی ترقی کرتے ہیں اور تزکیہ نفس ساتھ ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے.یہ جو مضمون ہے کسی تفصیلی تعلیم کا محتاج نہیں.ایک پاک وجود جب پاک با تیں، الہی باتیں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے تو اس کی گہری ، ذاتی صداقت کا یہ نشان ہے کہ وہ اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور بچے ایمان کی یہی نشانی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے کیونکہ پاک تبدیلیاں دو قسم کی ہیں ایک وہ تبدیلی کہ جب انسان کسی ایمان افروز بات سے متاثر ہو اس کے دل کے اندر ایک نیکی پیدا ہوتی ہے اور اسی کو تزکیہ کہا جاتا ہے.ایک وہ تبدیلی جو اس علم کے بعد آتی ہے کہ نیکی ہے کیا ؟ میں خدا کو راضی کرنے کے لئے آمادہ تو ہو چکا ہوں مگر راضی کیسے کروں؟ یہ جو دوسرا حصہ صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 572 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء ہے اس کا تعلیم کتاب سے تعلق ہے.کتاب کی تعلیم اسے بتاتی ہے کہ دیکھو یہ کرو گے تو خدا کو راضی کرو گے، یہ نہ کرو گے تو خدا کو راضی کرو گے، یہ نہ کرو گے تو خدا کو ناراض کرو گے، یہ کرو گے تو خدا کو ناراض کرو گے.اس کا نام تعلیم کتاب ہے.پس فرمایا محض عمومی تزکیہ نہیں فرماتا ، دلوں میں پاک تبدیلیاں ہی پیدا کر کے اس بات کو نہیں چھوڑ دیتا بلکہ تبع کرتا ہے اور پاک تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جو اعمال میں تبدیلیاں ہونی چاہئیں انہیں معین طور پر بیان فرماتا ہے.یہ جو بات ہے ، یہ بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جماعت احمد یہ آج جس دور میں داخل ہے ہم اس دور میں بکثرت قوموں کو حضرت صلى الله اقدس محمد مصطفی ﷺ کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور بکثرت قوموں کے دل اس پیغام کو قبول کرنے کی طرف مائل ہورہے ہیں.ایسے مواقع پر کثرت سے جو اطلا ئیں ملتی ہیں معلوم ہوتا ہے بہت ہی ایمان افروز ماحول تھا، بہت ہی طبیعتوں میں ہیجان پایا جاتا تھا، روحیں سجدہ ریز تھیں.یہ وہ مضمون ہے جس كا يزكيهم سے تعلق ہے.تزکیہ کے لئے نفوس تیار ہو رہے ہیں لیکن اگر اس کے بعد تعلیم کتاب نہ کی گئی تو یہ جذبات کا ہیجان اسی طرح رفتہ رفتہ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور کوئی نیک پاک مستقل تبدیلی پیدانہ کر سکے گا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی علی ہے کیونکہ تمام جہانوں کی کل عالم کی تربیت کے لئے مبعوث فرمائے گئے اس لئے وہ چار بنیادی باتیں جو تبلیغ اور تربیت سے گہرا تعلق رکھتی ہیں بلکہ یہ چار ستون ہیں جن پر تبلیغ اور تربیت کا جہان کھڑا ہے.یہ اس شان کے ساتھ علی الترتیب بیان فرمائیں کہ ان کے مضامین پر غور کرنے سے وہ لوگ جو بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی رکھتے ہوئے ان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں.ان کے لئے بہت بڑے پیغام ہیں بلکہ ان کی ساری ضرورتوں کو یہ آیات کریمہ بلکہ اس ایک آیت میں بیان فرمودہ چار باتیں کفیل ہو جاتی ہیں.آخر پر فرمایا يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ و تعلیم ہی نہیں دیتا بلکہ حکمت بھی بیان فرماتا ہے.تعلیم سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی کو بتائیں کہ نماز اس طرح پڑھنی چاہئے ، نماز میں یہ پڑھنا چاہئے ، روزے کیسے رکھے جاتے ہیں، کن کن بدیوں سے پر ہیز ضروری ہے، کیا کیا کام ہیں جو خدا کی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں، کیا کیا کام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے؟ یہ ہے کتاب کی تعلیم لیکن بہت سے لوگ اس تعلیم کی حکمت نہیں سمجھتے ، بہت سے لوگ ہیں جن کے ذہنوں میں کئی قسم کے اعتراض پیدا ہوتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 573 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء ہیں، کئی قسم کے خیالات ابھرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم مان تو لیتے ہیں کیونکہ ایمان لے آئے مگر دل مطمئن نہیں.یہ جو دلوں کے اطمینان کا معاملہ ہے یہ ہر مرتبے اور ہر درجے سے تعلق رکھتا ہے.دلوں کے اطمینان کی کوئی کافرانہ خواہش نہیں، کوئی فاسقانہ بات نہیں بلکہ ایک طبعی امر ہے اور سچائی کی نشانی ہے ہر وہ شخص جس کی فطرت سچی ہے.اگر وہ ایک بات کو تسلیم کرتا ہے اور وہ بات ذہن کو کسی حد تک قائل تو کر لیتی ہے لیکن پوری طرح مطمئن نہیں کر سکتی.دل اس کی حکمتوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتا اور پوری طرح راضی ہو کر دماغ اور دل دونوں سجدہ اطاعت بجا نہیں لاتے.یہ جو کیفیت ہے یہ خطرناک ہے.اگر یہ مستقل جاری رہے لیکن مومن کے ایمان کے سفر میں ایسی منازل ہر روز آتی چلی جاتی ہیں اور ہر روزان منازل کو خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کامیابی سے طے کرتا چلا جاتا ہے.اس کے دو طریق ہیں.اوّل یہ کہ انسان دعا کے ذریعے خود خدا تعالیٰ سے احکام کی حکمتیں طلب کرے.وہ لوگ جب بھی دل میں کوئی شبہ یا شبہ نہیں تو کم سے کم لاعلمی کا سایہ پڑتا ہوا د یکھتے ہیں.ہلکا سا اندھیرے کا مقام آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ میں پوری طرح اس بات سے مطمئن نہیں ہو سکا.ان کے لئے تعلیم یہ ہے کہ وہ حکمت کو ضرور سمجھیں کیونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے تعلیم کتاب پر ن بات ٹھہرا نہیں دی بلکہ ضرور حکمت بیان فرمائی ہے.اگر حکمت ضروری نہ ہوتی تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے بنیادی پیغامات اور اہم کاموں میں اس کو شامل نہ کیا جاتا.پس تعلیم کتاب کے بعد حکمت کا بیان فرماتا ہے.مراد یہ ہے کہ دماغوں کو بھی راضی کرتا ہے، دلوں کو بھی راضی کرتا ہے.محض یہ کہہ کر خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے.مانو یا نہ مانو بات کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ تب کرتا ہے، ان پر محنت کرتا ہے.ان کے ہر قسم کے سوالات کے جوابات دیتا ہے.انہیں پوچھنے پر بھی اور بغیر پوچھے بھی باتیں سمجھاتا چلا جاتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی ساری زندگی کا خلاصہ ان چار صفات میں بیان ہو گیا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ ایسا معلم جس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.تاریخ عالم جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.اس کی ذاتی زندگی تو بہر حال انسانوں کی طرح محدودر ہے گی اور ہمیشگی کے لئے یہ ہمارے اندر قیام نہیں فرما سکے گا تعلیم کتاب کی ضرورت تو پوری ہوگئی لیکن وہ ایسی قو میں بھی تو ہیں جو ابھی اس پیغام سے آشنا ہی نہیں ہیں.ان کو بھی تو تعلیم دینی ہے اور اس پاک وجود کے گزر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 574 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء جانے کے بعد جو معلموں میں خرابیاں پیدا ہو جائیں گی.ان کا کیا حال ہوگا ؟ آیات میں تو کوئی تبدیلی نہیں.تزکیہ نفس بنیادی طور پر وہی ایک ہی چیز ہے ، خواہ وہ ہزار سال پہلے ہو یا ہزار سال بعد ہو.تزکیہ کا مضمون ایسا ہے جس کے اندر کوئی تفریق نہیں پائی جاتی کوئی تقسیم نہیں پائی جاتی.تزکیہ تزکیہ ہی ہے.تزکیہ اس دل کی پاک کیفیت کا نام ہے جس کے بعد انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں حاضر ہو گیا، سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ( البقرہ:۲۸۶) میں ماننے کے لئے تیار بیٹھا ہوں.اسی بنیادی فیصلہ کا نام تزکیہ ہے.اس تزکیہ کی تفصیل تعلیم کتاب سے طے ہوتی ہے.تعلیم کتاب اس تزکیہ کے نقوش ابھارتی ہے اور ان کو وسیع تر کرتی چلی جاتی ہے.پس معلم کا ہونا ضروری ہے اور وہ تعلیم جو کامل ہو چکی ہو اور ہمیشہ کے لئے ہو، اس کو ہمیشہ کے لئے ایسے معلمین کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ سے ہدایت یافتہ ہوں.پھر ہر زمانے کی طرف سے نئے نئے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ، نئے نئے اعتراض تعلیم پر ہو سکتے ہیں، زمانے کی ضرورتیں بدل جاتی ہیں اور نئی ضرورتوں کے تابع نئے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ان باتوں کی بھی تو حکمت سکھائی جائے.پرانے زمانے میں آنحضرت ﷺ نے سب حکمتیں بیان فرما دیں ، ساری ضرورتوں پر آپ کے بیان اور آپ کی سنت حاوی ہو گئی.لیکن بعد میں بھی تو بدلتے ہوئے زمانوں کے تقاضے ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے؟ کیسے آنے والوں کو الہبی کلام کی حکمتیں سمجھائی جائیں.اس سوال کا جواب قرآن کریم میں مختلف جگہ ملتا ہے.آیت استخلاف میں بھی اس کا جواب دیا گیا ہے اور اسی کی تشریح میں مجدد کی پیشگوئیوں میں بھی درحقیقت اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے لیکن جیسا کہ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ نہ خلافت راشدہ ہمیشہ کے لئے باقی رہی اور نہ مجددین کا سلسلہ اس حد تک کارگر ثابت ہوا کہ اسلام کے گزرتے ہوئے ادوار میں نیچے کی طرف جو سفر تھا، اسے روک کر پھر بلندیوں کی طرف موڑ دیتا ہے.وقتی طور پر سنبھالے دیئے گئے ہیں، وقتی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گرتی ہوئی قوموں کو اٹھایا گیا ہے، بعض شکوک کے ازالے کئے گئے ہیں، بعض فتنوں کو مٹایا گیا ہے، بہت بڑی بڑی تجدید کی کوششیں ہیں جن کا تاریخ اسلام میں ذکر محفوظ ہے لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک تفنگی سی باقی رہ جاتی ہے.ایک یہ کہ مجددیت نے جو آخری تنزل کا رخ تھا.اس کو موڑ انہیں سنبھالے تو دیئے لیکن کسی ایک منزل پر بھی یہ نہیں ہوا کہ سارا عالم اسلام کامل طور پر حضرت اقدس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 575 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء محمد مصطفی میں ہی کی طرف لوٹ جاتا اور واپس اس زمانے میں پہنچ جاتا جو آپ کا زمانہ تھا.دوسرا یہ کہ مجد دیت محمد ود قوموں اور محدود علاقوں میں کارفرما رہی ہے کل عالم پر محیط کبھی نہ ہوسکی.آج تک تاریخ اسلام میں ایک بھی ایسا مجدد ظاہر نہیں ہوا جس نے خود یہ دعویٰ کیا ہو یا جس کے متعلق اس کے ماننے والوں نے یہ دعویٰ کیا ہو دیکھو یہ مجدد کل عالم کی تجدید کے لئے آیا.پس ایک ایک مجدد کی یا ان لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے جن کو بعض فرقوں نے مجدد کہا اور بعض نے ان کا انکار کیا، بعض ایسے ہیں جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ، بعض عرب کے علاقوں میں پیدا ہوئے ، بعض ایران میں پیدا ہوئے بعض افریقہ میں پیدا ہوئے ، بعض چین میں بھی پیدا ہوئے.غرض کہ مختلف ادوار میں مختلف مجدد کہلانے والے پیدا ہوتے رہے لیکن کل عالم اسلام نے ان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ بھاری اکثریت کو تو ان کی خبر تک نہیں پہنچی پھر وہ عالمی تجدید کیسے ہوگی ؟ جس کا گہرا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کے عالمی پیغام سے ہے.جب پیغام عالمی ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے تو تجدید بھی تو عالمی حیثیت سے ہونی چاہئے اور اگر سابقہ تجدید کی کوششیں مسلمانوں کے رخ کو اس طرح پلٹا نہ سکیں کہ وہ تیزی کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے زمانے میں داخل محمد مہ ہوتے جو حقیقت میں کامل امن کا زمانہ ہے جو اسلام کی تمام خوبیوں پر محیط ہے اور کفر کی سب بدیوں سے محفوظ ہے.اس زمانے تک عالم اسلام کو پہنچانے کا کیا انتظام ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا ان آیات کریمہ میں جواب دیا گیا ہے.وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ دیکھو م مال کا خدا ایسا خدا ہے جس نے دور کے زمانوں پر بھی نظر رکھی.وَأَخَرِيْنَ میں ایک ایسی قوم کو واپس اس زمانے میں کھینچ لائے گا جو محمد مصطفی امیہ کا زمانہ ہے اور ان دور کے زمانے میں پیدا ہونے والوں کو ان پہلوں سے ملا دے گا.جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے جو چار بنیادی کام بیان فرمائے گئے ہیں اور بنیادی صفات بیان فرمائی گئی ہیں.ان تمام کاموں اور صفات کا دور دورہ اس زمانے میں ہوگا اور وہ تحریک عالمی ہوگی ورنہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے ساتھ اس کو کوئی نسبت نہیں ہو سکتی.آپ کا پیغام عالمی تھا اور آپ نے جو کام کئے.ان سب خدمتوں پر مامور ایک ایسی جماعت ہی پرانے زمانے کے آنحضرت ﷺ کے صحابہ اور آپ کے تربیت یافتہ لوگوں سے ملنے کی مستحق ہو سکتی ہے جو ایک عالمی پیغام دنیا میں پھیلائے اور ان چاروں امور کو یعنی صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 576 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء وہ قرآن کریم کی اشاعت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے نشانات کے بیان تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے رنگ اختیار کرے.اگر یہ نہ ہو تو آخرین اولین سے مل نہیں سکتے.اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وه ایسے علم والا ہے جو طاقت رکھتا ہے.عزیز اس غالب اور معزز وجود کو کہتے ہیں جو صاحب علم ہو اور اس کے علم کا اس کی عزت سے اس کے غلبے سے تعلق ہو.پس خدا علیم بھی ہے اور خدا غالب بھی.خدا عزتوں والا بھی اور عزتوں والا جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور وہ حکیم ہے.وہ جانتا ہے کہ کس وقت کسی زمانے کی ضرورت کیسے پوری کی جائے گی.اس کے بعد فرمایا ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ تَشَام یہ اللہ کا فضل ہے کہ آخرین میں ایک ایسی جماعت پیدا کی جائے گی جو اولین سے جاملے گی اور یہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے.کسی منطق کا نتیجہ نہیں، کسی دلیل کے نتیجے میں کسی قوم کے استحقاق کے بات نہیں ہو رہی، دلیل کے نتیجے میں کسی قوم کے استحقاق کا بیان کہ ہاں دیکھو یہ قوم اس قابل ہوگئی ہے کہ اسے یہ انعام ملے اس کو فضل نہیں کہا جاسکتا.فضل کہتے ہیں مالک کی طرف سے عطا کو.ایسا مالک جو اپنے اموال پر ہر اس چیز پر جس پر اسے تصرف ہے اتنا کامل تصرف رکھتا ہے کہ کوئی قانون اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا.جس کو چاہے جب چاہے جو دے دے.کوئی سوال نہیں اٹھ سکتا کہ کیوں ایسے کیا ہے؟ فرمایا ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ تَشَاءُ یہ ایسے فضل کی بات ہم کر رہے ہیں جسے اللہ جب چاہے گا جسے چاہے گا دے گا.کوئی اس کے فضل کے ہاتھ کو روک نہیں سکتا.وَاللهُ ذُو الفَضلِ الْعَظیم اور اللہ تعالی بہت ہی بڑے فضلوں والا ہے.جس کا مطلب ہے کہ جس فضل کی بات ہوئی ہے آخرین میں ہو کر اولین سے جاملو گے.یہ بہت ہی عظیم الشان فضل ہے اتنا عظیم الشان فضل ہے کہ خدا کے ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ہونے کا مضمون اس سے ابھرتا ہے.پس سورہ جمعہ میں جو کچھ بیان فرمایا جوخوشخبریاں دیں جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان خوشخبریوں کی مظہر ہے.آج جماعت احمدیہ کی صورت میں وہ آخرین پیدا ہو رہے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے والے اس مہدی مسعود نے اولین سے ملایا اور یہ بات کہ ایک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 577 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء آنے والے نے اولین سے ان لوگوں کو ملایا.یہ میرے منہ کی بات نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ے کی اپنی پیشگوئی ہے یہ اسی آیت کریمہ کی تشریح سے تعلق رکھتی ہے.بخاری شریف میں یہ مضمون صلى الله.صلى الله بیان ہوا ہے کہ جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی تو کچھ صحابہ کے جھرمٹ میں آپ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ میں سے کسی نے تعجب سے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ وہ ہوں گے کون ؟ جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے.اخَرِيْنَ مِنْهُمْ.بہت ہی بڑی عظیم الشان قوم ہے جس کا ذکر ملتا ہے کہ آخرین میں ہو کر اولین سے جاملیں گے.اس مضمون کی عظمت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے سے لے کر آخرین کے زمانے تک جو بہت بعد کا زمانہ ہے آخرین کہتے ہی ہیں ان لوگوں کو جوسب سے آخر پر پیدا ہوں.بہت لمبا عرصہ جس میں بڑی کثرت کے ساتھ آپ کو بزرگ صحابہ کے بعد بھی اولیاء اللہ ، بڑے بڑے خدمت کرنے والے، بڑے بڑے مجددین ملتے ہیں، بڑی بڑی مہمات چلائی گئی ہیں.دین کی خدمت کے لئے از سر نو اسلام کومحمد رسول اللہ اللہ کی صفات حسنہ سے مزین کرنے کے لئے لیکن ان میں سے کسی کے اوپر خدا کے انتخاب کی نظر نہ پڑی اور ان میں سے کسی سے متعلق یہ نہ فرمایا کہ وہ اولین سے آملیں گے.اس لئے بہت دور میں پیدا ہونے والوں کا ذکر کرنا اور بیچ کی تمام صدیوں کو چھوڑ جانا.یہ اس بات کی علامت ہے کہ جن لوگوں کا ذکر ہورہا ہے.وہ خالص خدا کے فضل سے پیدا ہوں گے.کوئی انسانی کوشش یہ کام کر کے نہیں دکھا سکتی.خدا کے فضل سے پیدا ہوں گے اور وہ اتنا بڑا فضل ہے کہ اس کے ذکر کے ساتھ ہی بے ساختہ روحیں یہ اقرار کریں گی وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ـ سبحان اللہ کیسی شان کا خدا ہے، کتنے بڑے فضلوں کا مالک.یہ وہ مضمون ہے جس کا جماعت احمدیہ سے گہرا تعلق ہے اور یہ مضمون کس طرح ہم پر صادق آتا ہے.اس کا بیان اس حدیث میں ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا.حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ سے جب پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ اس سوال میں ایک تعجب شامل ہے.اس کی نشاندہی ضروری ہے، تعجب یہ ہے کہ صرف حضور اکرم ﷺ کی بعثت کا ذکر ہے.کسی اور وجود کے بعد میں پیدا ہونے کا کوئی ذکر ہی موجود نہیں ایک ہی فعل ہے بحث کا جو اس آیت کے شروع میں بیان ہوا اور اس کے بعد کوئی نیا فعل کسی اور آنے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 578 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء والے کے متعلق نہیں ملتا.پس بعثت محمد مصطفی میں اللہ سے اس مضمون کا تعلق ہے یہ بعثت اس رنگ میں جلوہ افروز ہوئی کہ اولین کو خدا سے ملا دیا اور پھر دوبارہ یہی بعثت محمد مصطفی یہ ایک نیا جلوہ ، ایک نئی شان کا جلوہ دکھائے گی کہ آخرین کو بھی اولین سے ملا دے گی یعنی اولین کی طرح آخرین کو بھی خدا سے ملا دیا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو تعجب پیدا کرتا ہے.اتنی دور کے لوگوں کو کس طرح اولین سے ملایا جائے گا آخر اس کا طریق کار کیا ہوگا ؟ پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جب اس سوال کو سنا تو پہلے اعراض فرمایا ، جواب نہ دیا.پھر سوال کرنے والے نے دہرایا.پھر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کون لوگ ہوں گے؟ جن کا ذکر مل رہا ہے.آنحضور ﷺ نے پھر اعراض فرمایا اور اس کا جواب نہ دیا.آنحضرت ﷺ کا اعراض فرمانا دو حکمتیں اپنے اندر رکھتا تھا جو مسلسل آپ کی سنت سے ثابت ہے.اوّل یہ کہ سوال جاہلا نہ ہوا ور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق جاہلوں سے اعراض کا حکم ہے.دوسرے یہ کہ سوال ایسا ہو جس کے لئے وحی الہی کی روشنی کی ضرورت ہو.ایسے مضامین سے تعلق رکھتا ہو کہ جب تک آسمان سے نئی روشنی نازل نہ ہو اس کا صحیح جواب نہیں دیا جا سکتا.پس ان سوالوں سے اعراض اس دوسرے حصے سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا جب تیسری مرتبہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کے حضور یہ عرض کیا گیا عليم یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا لو كان الايمان عندالثريا لناله رجال او رجل من هولاء.(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعة باب قولہ تعالیٰ و اخرين منهم لما يلحقوا بهم ) کہ دیکھو اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا ان لوگوں میں سے کچھ ہوں گے یا ان لوگوں میں سے ایک مرد کامل اٹھے گا جو ثریا سے ایمان کو کھینچ کر دوبارہ زمین پر لے آئے گا.اس سے فیض یافتہ لوگوں کا ذکر ہے جولوگ اس سے فیض پائیں گے وہی ہیں جو اولین میں ملیں گے یہ مضمون اس میں شامل ہے.جب فرمایا ھو لاء تو کیا مطلب ہے کن لوگوں میں سے.آنحضور ﷺ کی خدمت میں اس وقت تمام عرب صحابہ موجود تھے لیکن ایک غیر عرب بھی تھا جس کا نام سلمان فارسی ہے.حضرت اقدس صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے کسی عرب صحابی کے کندھے پر ہاتھ نہ رکھا بلکہ اس ایک کے کندھے پر ہاتھ رکھا جو تنہا نجمی اس مجلس میں موجود تھا.اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایالَو كَانَ الْإِيمَان عِندَ الثّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ اَو رَجلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ.ان میں سے ہوں گے یا ان میں سے ہو گا جو آسمان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 579 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء کے ستاروں سے ایمان کو دوبارہ زمین پر کھینچ لائے گا.پس یہ پیشگوئی ایک بہت ہی عظیم الشان پیشگوئی ہے.اس زمانے کے احیائے نو سے اس کا تعلق ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ صلى الله الصلوۃ والسلام کے اوپر وارد کئے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب اس میں موجود ہے.کئی دفعہ لوگ پوچھتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ پر دین کامل ہو گیا.آپ نے آیات پڑھ دیں، آپ نے تزکیہ نفس فرما دیئے.آپ نے تعلیم کتاب کر دی جس سے بہتر کوئی تعلیم کتاب نہیں کر سکتا تھا، حکمتیں بیان فرما دیں کہ جن سے بہتر کوئی حکمتیں بیان نہیں کر سکتا تھا.پھر ضرورت کیا تھی کسی اور کے آنے کی.آپ نے کیا سلسلہ نیا شروع کر رکھا ہے.اتنی گستاخی ، اتنے عظیم الشان نبی کے بعد جس کا دین کامل، جس کی کتاب ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دی گئی ، جس کی سنت کا ذکر محفوظ ہو گیا، جس کی تعلیم کتاب و حکمت کی باتیں آج تک مسلمانوں میں روایہ بھی جاری ہیں اور تحریراً بھی.اس کے بعد ضرورت کیا تھی کہ کسی اور کو بھیجا جائے مگر سوال یہ تھا کہ آخرین کو اولین سے کیسے ملایا جائے ؟ آخرین کو اولین سے ملانے کے لئے کچھ برگزیدہ لوگوں کی ضرورت ہے، کچھ خدا سے تائید یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی فرمایا گیا کہ دراصل حضور اکرم ﷺ کی حدیث کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ آپ نے ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ وجہ میں بتاتا ہوں کہ کیوں کوئی آئے گا ؟ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانِ عِندَ الثَّرَيَّا آخرین میں ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ گویا ایمان ثریا پر جا پہنچے گا.زمین پر دکھائی نہیں دے گا.آسمان پر جابسے گا.جہاں سے اترا تھا یعنی واپس اپنے اصل کی طرف لوٹ جائے گا.سوال یہ ہے کہ کتاب اور سنت اور تعلیم اور حکمت کی باتوں کے باوجود ایمان کیسے اٹھ گیا ؟ اگر ایمان ہی اٹھ گیا تو باقی کیا رہا؟ اگر ایمان ہی نہیں ہے تو تزکیۂ قلب اور تعلیم اور حکمت کی باتوں کا ذکر ہی کیا ملتا ہے؟ ان کا کوئی دور کا بھی تعلق باقی نہیں رہتا.ایمان اٹھ جانا ایک ایسی بنیادی کمزوری ہے جس کے نتیجے میں یہ تمام کتاب اور آیات اور تزکیہ کے مضامین سارے اپنی کارفرما قوتوں سے عاری ہو جاتے ہیں یعنی کتاب کامل ہے لیکن اس کے اندر اس کو جاری کرنے کے لئے کارفرما قوت کی ضرورت ہے.تزکیہ نفس ضرور ہوتا ہے لیکن ایک کارفرما قوت کی ضرورت ہے اور یہی مضمون آگے صلى الله چلتا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ مسئلہ حل فرمایا کہ وہ کارفرما قوت ایمان ہے.ایمان ہو تو یہ ساری باتیں فائدہ دیں گی اور نہ کوئی فائدہ نہیں دیں گے.اتنا پر حکمت جواب ہے اس وقت بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 580 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء اس کتاب نے انہی کو فائدہ دیا جو ایمان لائے تھے یا جن کا ایمان سچا تھا.اسی زمانے میں ایسے لوگ بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہم ایمان لے آئے.لیکن قرآن فرماتا ہے وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ في قُلُوبِكُمْ (الحجرات : ۱۵) اے محمد مصطفی اللہ ان سے کہہ دو کہ تم کہتے تو ہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن تمہارے دلوں میں ایمان نے جھانک کے بھی نہیں دیکھا.پس کتاب کے ہوتے ہوئے رسول ﷺ کی موجودگی میں ایمان کا دعوی کرنے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرمارہا ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا.پس ایمان کے داخل ہونے کے لئے خدا کے خاص فضل کی ضرورت ہے اور ایک آسمانی معلم کی ضرورت ہے جو اپنی قوت قدسیہ سے ایمان پیدا کرے اور ایمان کونئی جلا بخشے.اسی مضمون کو آنحضرت ﷺ نے وضاحت سے بیان کرتے ہوئے فرمایا لَو كَانَ الْإِيمَانِ عِندَ القَرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجِلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ایمان ثریا پر بھی اٹھ گیا تو سلمان فارسی یعنی عجمی لوگوں میں سے ایک یا ایسے چند وجود ہوں گے جو خدا سے تائید یافتہ اور نور یافتہ ہوں گے اور ان کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ ایمان کو دوبارہ آسمان سے زمین پر اتار لائیں گے.پس اگر ہم وہ جماعت ہیں جیسا کہ ہمارا دعویٰ ہے تو ہم ہی ہیں جنہوں نے دوبارہ نور ایمان سے ساری دنیا کو جگمگا دینا ہے اور اگر ہم اس کوشش میں ناکام رہیں تو بنی نوع انسان کو ہم کوئی بھی فائدہ نہ پہنچاسکیں گے، مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گے کیونکہ ظاہری طور پر کتاب ان میں موجود، حدیثیں موجود، سنت کے ذکر موجود، حکمت کی باتوں کا بیان موجود، وہ کیا چیز ہے جو نہیں ہے وہ وہی ہے جس کی نشاندہی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی یعنی ایمان خالص.ایسا ایمان جو قلوب میں عظیم پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے.پس اب جب آپ امت کے حالات پر نظر کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ لازماً ایمان ہی کی کمی ہے جو امت محمدیہ کہلانے کے باوجود سب لوگوں کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں.تمام مسلمان قو میں ایک دوسرے پر یلغار کر رہی ہیں ، تمام مسلمان فرقے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں.عالم اسلام پر جو کچھ گزر جائے ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے.اپنے اپنے مقاصد کی خاطر زندہ ہیں یا اپنے اپنے مقاصد کی خاطر مر رہے ہیں.بوسنیا کے مسلمانوں پر کیا مظالم ٹوٹے فلسطین کے مسلمانوں پر کیا بنی؟ ان کی بلا سے جو کچھ ہوتا ہے ہوتار ہے.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 581 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء اپنی حکومتوں سے غرض ہے، اپنے کھانے پینے اور عیش وعشرت کے سامان سے دلچسپی ہے لیکن اسلام کی کیا حالت ہے؟ یہ ان کی بلا جانے ، ان سے ان کو کوئی غرض نہیں.یہ کیوں ہے جبکہ کتاب وہی ہے؟ پس وہ سوال جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں اٹھایا تھا.اس سوال کا یہ کیسا عمدہ جواب حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ہمیں عطا فرمایا.دیکھو یہ ساری باتیں ہوں گی لیکن ایمان اٹھ جائے گا اور جب تک ایمان واپس نہ آئے اسلام دنیا میں واپس نہیں آسکتا.اسی مضمون کو ایک اور جگہ نسبتاً زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ان یاتـي عـلـى الـنـاس زمان لا يبقى من الاسلام الا اسمه و لايبقى من القرآن الا رسمه مساجدهم عامرة وهى خراب من الهدى علماء هم شر من تحت ادیم السماء (مشكوة كتاب العلم الفضل الثالث صفحہ نمبر (۳۸) ایک ایسا بد نصیب زمانہ آنے والا ہے کہ جب اسلام ہو گا لیکن نام کا اسلام.اعمال میں جاری ہو گا دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا نہیں ہوگا اور قرآن ہو گا لیکن قرآن تحریر کے لئے ہو گا قرآن کی تحریریں تو کثرت سے ملیں گی لیکن قرآن دلوں اور اعمال اور خون میں جاری و ساری دکھائی نہیں دے گا.نشانی اس کی کیا ہے؟ فرمایا مسجدیں تو آباد دکھائی دیں گی بڑے بڑے اجتماع آپ کو مساجد میں نظر آئیں گے.و هــی خــراب من الهدى لیکن ہدایت سے خالی.انسانی جم غفیر مسجدوں کو تقویٰ سے نہیں بھر سکتے.تقویٰ سے تو متقی دل بھرا کرتے ہیں.یہی نقشہ ہے جو حضور اکرم ﷺ نے بیان فرمایا اور پھر ایک منطقی نتیجے کے طور پر اٹھنے والے سوال کا بھی جواب دے دیا.ایک انسان یہ سوچ سکتا تھا یہ سب باتیں درست لیکن اس قوم کے علماء تو ہوں گے اور علماء کو خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے گا کہ وہ از خود اپنی کوششوں سے اس گرتی ہوئی امت کو صلى الله سنبھال لیں.لیکن حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ فرماتے ہیں.علماء ہم شرمن تحت ادیم السماء دیکھو اس وہم میں مبتلا نہ ہو جانا کہ ان پراگندہ حال مسلمانوں کو ان کے علماء بچالیں گے کیونکہ وہ تو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.آنحضور لے کے متعلق جیسا کہ میں نے ابھی قرآن کریم کی آیت پڑھ کر بیان کیا ہے.حکمت کا ذکر ملتا ہے یہ صرف تعلیم نہیں کیا کرتے تھے.حکمت بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور اس بات میں ایک عظیم الشان حکمت کا گہرا راز ہے.جس میں قوموں کے عروج و زوال کا مسئلہ حل ہوا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 582 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء.مذہبی قو میں محض کتاب سے زندہ نہیں رہا کرتی تھیں، مذہبی قوموں کو سنبھالنے کے لئے متقی علماء کی ضرورت ہے، پاک نمونہ دکھانے والوں کی ضرورت ہے، ربانی اولیاء کی ضرورت ہے جو قوم کے ایمان کو زندہ رکھتے ہیں.اگر علماء کا دل ایمان سے عاری ہو جائے ، اگر وہ مطلب پرست ہو جائیں، اگر وہ خود غرض ہو جائیں، اگر ان کو اپنی غرضیوں میں دلچسپی ہو، دین کی حالت میں دلچسپی نہ ہو تو ایسے صلى الله علماء کی بدنصیبی ہی سے قومیں تنزل اختیار کیا کرتی ہیں.پس تنزل کا جو نقشہ حضور اکرم ﷺ نے کھینچا ہے وہ اچانک کسی ایک سال میں پیدا ہونے والا تنزل تو نہیں ہے.یعنی اسلام نام کو رہ جائے گا، قرآن صرف لکھنے کے لئے مسجدیں آباد مگر ہدایت سے خالی، کیا یہ آفت ایک ہی دن میں آپڑی.ہرگز نہیں یہ تو صدیوں کے جرائم کے ارتکاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مضمون ہے.صدیوں کا ظلم ہے جو اس اندھیری رات پر منتج ہوا ہے اور رفتہ رفتہ بدیوں اور فسق میں جو اجتماعی بھیانک شکل اختیار کی ہے اس کا نقشہ ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کھینچ رہے ہیں تو علماء کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ ہو گیا جن کے سپر د دین کی باگ ڈور کی گئی تھی، وہ دیکھتے رہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہو گیا اور ایک سال میں نہیں ہوا، دس سال میں نہیں ہوا، ایک سو سال میں بھی نہیں سینکڑوں سال تک مسلسل یہ علماء ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں پیدا ہوتے رہے اور اس تنزل کے راہ میں روک نہیں بن سکے بلکہ ان کی بد اعمالیاں اور ان کی خود غرضیاں اس تنزل کو تیزی سے آگے بڑھانے کا موجب بنیں.یہ ساری درد ناک کہانی حضور اکرم ﷺ نے اس ایک جملے میں بیان فرما دی.علماء هم شر من تحت اديم السماء بڑی بدنصیب قوم ہوا کرتی ہے جس کی لیڈرشپ خراب ہو جائے اور جس کی لیڈرشپ ایسی خراب ہو کہ اسلام جیسے دین کو گرتے گرتے یہاں تک پہنچا دے کہ خدا کا رسول یہ گواہی دے کہ زمین سے ایمان اٹھ کر ریا پر جا پہنچا.اتنی بڑی آفت ، ایسی بڑی قیامت جو ایک عالمگیر قوم پر ٹوٹی ہو جو اس کے ذمہ دار ہیں، اس کو شر من تحت ادیم السماء کے سواکسی اور لقب سے یاد نہیں کیا جاسکتا.پس ایسی صورت میں جبکہ علماء اس لائق نہ رہیں کہ وہ دین کو دوبارہ اپنے پہلے حال کی طرف لوٹا سکیں ، پہلے زمانے سے آئندہ آنے والے زمانوں کو ملا سکیں.کیسے پھر یہ ہوگا؟ فرمایا ذلك فَضْلُ الله اللہ کا فضل ہی ہے جو نازل ہوگا.اللہ کا فضل ہی ہے جو ایسے بندے کو پیدا کرے گا جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 583 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء گریہ وزاری کے ساتھ اپنی راتیں جگادے گا.جو اس قد را سلام کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرے گا اور اس قدر محنت کرے گا کہ خدا کے فضل کی نظر اس پر پڑے گی اور اسے چنا جائے گا کیونکہ وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کامل غلام ہوگا، سب سے زیادہ آپ ﷺ کا عاشق ، سب سے زیادہ آپ کے دین کی فکر کرنے والا ہو گا تب وہ خدا کے فضل سے پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی کہ کل عالم کو دوبارہ اسلام کی طرف لے جایا جائے گا اور الہی کلام یہ گواہی دے گا.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ دیکھو دیکھو.محمد کے غلام اس زمانے میں بھی پیدا ہو گئے ہیں.چودہ سو سال کے بعد آج تم ایک اجتماع کو دیکھ رہے ہو جو محم مصطفی ہے کے وہ کامل غلام ہیں جن کو آسمان فخر سے دیکھ رہا ہے، جن کے متعلق زمین و آسمان کا خدا گواہی دے رہا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو بعد میں آنے کے باوجود اولین سے صلى الله جاملے ، ان اولین سے جاملے جن کو محمد رسول اللہ ﷺ نے خدا سے ملا دیا.پس جہاں آپ کا مرتبہ اور یہ مقام بیان ہوا ہے.اس کے نتیجے میں اسی قدر بجز کی ضرورت ہے، اسی قدر انکساری کی ضرورت ہے کیونکہ جب ہم اپنے حال پر غور کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ہرگز اس لائق نہیں پاتے.دنیا میں انسان بعض دوسرے لوگوں کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور عزت کی مختلف وجوہات ہیں.نیک جماعتوں میں نیکی کو عزت کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أنفسكُمْ (الحجرات: ۱۴) تم میں سب سے ط زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقى (النجم :۳۳) تمہیں کیا پتا کہ کون متقی ہے؟ تم خواہ مخواہ ایک دوسرے کی عزتیں اس طرح نہ بتایا کرو کہ وہ بڑا متقی آدمی ہے.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى وہی ایک ذات، ایک اللہ ہی ہے جو جانتا ہے کون متقی ہے؟ اور کون نہیں؟ پس جہاں تک ہماری اپنی ذات کا تعلق ہے.ہم نہ کسی اور کے تقویٰ کی گواہی دے سکتے ہیں، نہ اپنے تقویٰ کی گواہی دے سکتے ہیں لیکن ایک بات کا احساس ہمیں ضرور تقویٰ عطا کرے گا کہ خدا نے ہمارے تقویٰ کی گواہی دی ہے.جو اس نے کہا ہے کہ آخرین میں آکر تم اولین سے جاملو گے تو ناممکن تھا کہ ہمارے تقویٰ پر نظر کئے بغیر خدا یہ گواہی دے دے.پس وہ جو سب سے زیادہ دلوں کا حال جاننے والا ہے وہ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى جس کے متعلق بیان ہوا ہے.وہ کہتا ہے کہ وہ متقیوں کی جماعت ہوگی.پس اپنے تقویٰ کی حفاظت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 584 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۹۳ء کرو.جب تک خدا کی نظر میں تم وہ متقین کی جماعت بنے رہو گے جو آخرین میں آنے کے باوجود اولین سے ملائے جانے کے مستحق قرار دیئے گئے ہو.اس وقت تک کوئی دنیا کی طاقت تمہارا ادنی بھی نقصان نہیں کر سکتی.تم ضرور پھیلو گے اور پھولو گے.تم ضرور کل عالم پر محیط کئے جاؤ گے کیونکہ تم اس پیغام کے علمبر دار اور امین بنائے گئے ہو جو کل عالم پر محیط کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، جو کل عالم پر محیط ہونے کے لئے بنایا گیا ہے اس لئے اس میں تمہاری کوئی خوبی نہیں.یہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کا دین ہے جس کا مقدر یہ ہے کہ لازماً تمام دنیا پر غالب آئے گا.اتنے بڑے نصیب ہیں ان ادفی لوگوں کے جو ہم اور تم ہیں.وہ لوگ جو اپنے نفس پر نگاہ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو کسی خوبی کا لائق قرار نہیں دیتے، کسی خوبی کا سزاوار نہیں ٹھہراتے مگر خدا نے وہ کیا بات ہے جو ہم میں دیکھی جس کی وجہ سے اتنا عظیم فضل فرمایا ہے.اس مضمون پر غور کریں تو اس کا حل ذلِكَ فَضُلُ اللہ میں ہی ملتا ہے.یہ تقویٰ بھی اللہ ہی کا فضل ہے.اگر ہماری آخری نیتیں محض اللہ ہیں، اگر ہم اپنی روحانی بیماریوں کے باوجود بالآخر اپنے نفس کے آخری نقطے کے لحاظ سے اولیت خدا کو اور خدا کے دین کو دینے والے ہیں.اگر ہم خدا کی خاطر یہ تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ جو کچھ ہم پر گزرے گزر جائے تمام دنیا ہمیں چھوڑ دے لیکن ہم نے اس دین کی خدمت سے ہاتھ نہیں کھینچنا بلکہ اپنا سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے چھوڑیں گے.یہ وہ تقوی کی علامت ہے جو فضل کے ساتھ ہمارے اندر پیدا ہوئی ہے اور میں جانتا ہوں کہ آج تمام عالم میں جماعت احمد یہ خدا کے اس فضل کی امین بنادی گئی ہے اور ہر جگہ تقویٰ کے عظیم نشان الہی پھلوں کی صورت میں ظاہر ہوئے ، رضائے باری تعالیٰ کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں، هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى کا ایک یہ بھی مطلب ہے.یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی ذات میں علم رکھتا ہے اور چھپائے رکھے گا سب سے، بلکہ تقویٰ کی نشانیاں خدا کے فضل سے مومنوں کے چہروں پر ان کے اعمال میں ظاہر ہونے لگتی ہیں.سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ ( افتح ۳۰) وہ اپنی نیکیوں کو دکھاتے تو نہیں ہیں.اس کا اشتہار تو نہیں دیتے لیکن اللہ کی یہ تقدیر کارفرما ہوتی ہے کہ ان پاک بندوں کی نیکیوں کو جن پاک بندوں پر اس کی رحمت کی نظر ہو ان کے چہروں میں اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ وہ نور دکھائی دینے لگتا ہے.دنیا دیکھتی ہے اور جانتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ کہ یہ بچے لوگ ہیں.585 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء پس یہی وہ تقویٰ ہے جو فضل کی صورت میں ہم پر نازل ہوا، یہی اس تقومی کی علامت ہے جو ہمارے چہروں کو ہمیشہ منور رکھے گی اگر ہم اس تقویٰ پر قائم رہے اور یہی خدا کے فضل کا نور ہے جو ہمارے چہروں پر ظاہر ہو گا یعنی صداقت کا نور جس کی طاقت سے ہم دنیا کو فتح کریں گے ، یہی ہے وہ ایمان جو ثریا پر جا چکا تھا اب دوبارہ زمین پر لوٹایا گیا ہے.اسے کس طرح واپس کرنا ہے ، کیا کام کرنے ہیں، پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم پیش فرما چکا ہے.ایک ذرہ بھی اضافہ نہیں ہوسکتا، ایک ذرہ بھی اس میں کمی نہیں کی جاسکتی.ہمارے پروگرام کی چار بنیادی باتیں ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ ہم قرآن کریم سے چمٹ جائیں وہ آیات جن کی تلاوت ہمارے سامنے کی گئی ہے.ان کو اپنی زندگی کا شعار بنالیں.اپنا پیغام، اپنا اوڑھنا بچھونا ، اپنی زندگی کا ہر محرک کلام الہی کو بنا لیں.اپنی زندگی کی ہر تحریک کو روکنے والا بھی کلام الہی کو بنا لیں، ہمارے اٹھنے والے قدم بھی قرآن کے تابع اٹھیں، ہمارے رکنے والے قدم بھی قرآن کے تابع رکیں.یہ پہلا پیغام ہے جو آخرین کی جماعت کو خدا کی طرف سے از سر نو دیا گیا ہے اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ تزکیہ کریں اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کا دعویٰ ہے اور اسی سنت کو دوبارہ جاری کرنا چاہتے ہیں تو ایسے نہیں کہ آپ کے ارد گرد پاک لوگ پیدا ہوں ، بدیاں نہ پھیلیں.ہر شخص اپنے ماحول سے پہچانا جاتا ہے.دہی کا ایک قطرہ دودھ کے ارد گرد ایسی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے کہ وہ دودھ جو سیال حالت میں ہے وہ جم کر دہی کی شکل اختیار کر جاتا ہے.پس ماحول سے انسان پہچانا جاتا ہے.اس ماحول سے بھی جس ماحول کو وہ اپنے لئے چلتا ہے اور اس ماحول سے بھی جو اپنے اردگرد خود بخود پیدا کرتا ہے.پس مومن کی صفات فعال صفات ہیں.یزیھم میں انہی فعال صفات کا ذکر ہے.یہ مراد نہیں کہ وہ صحبت صالحین اختیار کرتا ہے.مراد یہ ہے کہ ارد گرد کو وہ تقویٰ سے بھر دیتا ہے.ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے.پس یہ دوسرا پیغام ہے جو جماعت احمدیہ کے لئے ہے اور یہی اس کے تقویٰ کی نشانی ہے اور ہمیشہ رہے گی.قرآن سے چمٹے رہیں اور تزکیۂ نفس کی اہلیت پیدا کریں.آپ کا تزکیہ ہمیں کیا معلوم ہوا کہ نہیں.اگر آپ کے ماحول کا تزکیہ ہوا تو ہم دیکھ سکیں گے اور جان لیں گے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 586 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء صلى الله اور دنیا پہچان لے گی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں کیونکہ یہ شان شانِ محمدی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد تزکیه فرماتی ہے.پھر تعلیم کتاب ہے کثرت کے ساتھ دنیا کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ کریں.جس طرح کہ ہم دنیا میں مختلف زبانوں میں قرآن کریم شائع کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں.صرف یہی نہیں بلکہ قرآن کریم کو پڑھیں، ان کی تعلیمات سے واقف ہوں اور پھر زبانی آنحضور ﷺ کے غلام ہوتے ہوئے اس نمائندگی میں دنیا کو قرآن کی تعلیم دیں اور پھر حکمتوں کو خود بھی سمجھیں اور دنیا کو بھی سمجھا ئیں.یہ حکمت کا مضمون ایسا ہے جس کے متعلق ایک بات سمجھا کر پھر میں آج اس خطبے کو ختم کرتا ہوں کیونکہ وقت ختم ہو رہا ہے.حکمت کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اتفاقاً انسان کو پیدائشی مل جاتی ہے.کوئی بیوقوف پیدا ہو گیا، کوئی صاحب حکمت پیدا ہو گیا.پھر بعض دفعہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اعلی تعلیم سے حکمت عطا ہوتی ہے لیکن میں نے بہت گہرائی سے تفصیل سے اس مضمون کا جائزہ لیا ہے.حکمت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے.باقی سب حکمتیں جھوٹی ہیں.انتہائی سادہ اور بظاہر بیوقوف اور غیر تعلیم یافتہ آدمی دکھائی دیتا ہو گا.اگر وہ متقی ہے تو ہمیشہ حکمت کی بات کرے گا.اگر غیر متقی ہے تو خواہ کتنا ہی چالاک ہو، کتنا ہی زبر دست عالم کیوں نہ ہو، اس کے منہ سے سچی بات نہیں نکلے گی.گہری حکمت کی بات اس کے منہ سے نہیں نکلے گی.ادنی سرسری چالاکیاں ہوں گی جو اس کو بھی فائدہ نہیں دے سکتیں اور بنی نوع انسان کو بھی فائدہ نہیں دے سکتیں.پس ہم سب حکمت کے حصول کی اہلیت رکھتے ہیں.پہلی تین نشانیاں آیت کی اگر ہماری ذات میں پوری ہو جائیں تو حکمت اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا طبعی ایک نور کا شعلہ ہے جو اٹھے گا اور آپ کے دل ودماغ کو روشن کر دے گا.یہ وہ مضمون ہے جو میں سمجھا کر آپ سے اجازت چاہتا ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ.جلسہ سالانہ پر اور بھی بہت سی آپ کی تعلیم وتربیت کی باتیں ہوں گی.اس خطے کو ختم کرنے سے پہلے یہ عرض کروں گا کہ یہ ایک الہبی اجتماع ہے دین کی محبت میں اللہ اور اسلام کی باتیں کرنے کے لئے اللہ اور رسول کے تذکروں کی خاطر یہ اجتماع ہوا ہے.نہ صرف یہ کہ اس موقع سے پورا فائدہ اٹھائیں بلکہ جلسہ سے نکلنے کے بعد بھی اپنے ماحول میں یہی باتیں کرتے رہیں.دن رات ایسے ہی تذکرے کریں اور یا درکھیں کہ اگر آپ اپنے وقت کو گپوں میں ضائع کریں گے اور محض میلے کے طور پر اس جلسے کو لے لیں گے تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 587 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء آپ اس جلسے کی اغراض کو ہاتھ سے کھو دیں گے اور کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے.پس یاد رکھیں کہ صرف میری تقریروں میں ہی حاضر نہیں ہوا بلکہ تمام علماء نے بڑی محنت سے آپ کی خاطر آپ کے تزکیہ نفس کی خاطر آپ کو تعلیم کتاب اور حکمت دینے کی خاطر جو مضامین تیار کئے ہیں.حاضر رہیں اور غور سے ان کو سنیں.جو بقیہ وقت بچتا ہے اس کی لذت کمائیں اور پھر وہ لذت حاصل کریں تو کوئی حرج نہیں.لیکن اصل وقت کو لذت یابی میں خرچ کر دینا اور لذت کمانا نہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے.لذت کا مزا بھی نہیں آتا.وہ مزدور جو محنت کرتا ہے سارا دن پھر روٹی کھاتا ہے اس کو بہت مزا آتا ہے چاہے وہ پیاز سے ہی کھا رہا ہو اور جو سارا دن گیئیں مارتا ہے اس کی گئیں ہی بوریت ہو جاتی ہیں.مصیبت پڑی ہوتی ہے اور کوئی بات دل کو بہلانے والی کروں.دماغ میں ہی نہیں آتی اور بعض دفعہ ایسی مجلس میں تو تو میں میں اور بکواس میں ختم ہو کہ ایک دوسرے سے دوستوں کو اور بھی دور کر جاتی ہے.مگر جو سارا دن کا تھکا ہوا ہو ، سارا دن اس نے محنت کی ہو، کچھ مشغلہ تھوڑا سا دوستوں میں بیٹھنے کا میسر آ جائے تو بے اختیار کہتا ہے.بھلا گر دش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء غنیمت ہے کہ ہم صورت دو چار بیٹھے ہیں تو پہلے اتنی محنت کریں، اتنا روحانی کمائی کریں کہ آپ سمجھیں کہ اب میراحق ہو گیا کہ تھوڑی سی چھٹی کر لوں.جلسے سے باہر جائیں اور کچھ دوستوں سے ملاقاتیں بھی کریں.وہ بھی جلسے کے مقاصد میں شامل ہے، کچھ تعلقات بڑھائیں، کچھ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار کے اظہار کریں.واقفیتیں حاصل کریں.یہ سارا جلسے کے مقاصد میں شامل ہیں مگر ثانوی مقاصد ہیں اولین میں نہیں.اولین کو قربان کر کے ثانوی مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکتے.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو تو فیق عطا فرمائے.ان بابرکت ایام سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں اور حاضرین جلسہ جو بہت دور دور سے اور بڑی محنت سے یہاں تشریف لائے ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس جلسہ گاہ کی رونق بنے رہیں.اس کے بعد پھر جتنے خالی وقت ہیں ان کو ذکر الہی میں بھی صرف کریں اور ذکر الہی کے تابع مومنانہ محبت بڑھانے میں بھی صرف کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
588 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 589 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء امت واحدہ کا منظر صرف جماعت احمدیہ میں نظر آئے گا.تو حید کی حفاظت کرو خواہ جان و مال دے کر کرنی پڑے.خطبه جمعه فرموده ۶ را گست ۱۹۹۳ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِير الى الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا پھر فرمایا:.(الفرقان: ۳۲) جو توحید سے متعلق خطبات کا سلسلہ شروع تھا آج غالبا یہ اس کی تیسری اور آخری کڑی ہو گی.اس کے بعد پھر انشاء اللہ اس سے تعلق والا اگلا مضمون شروع ہوگا.مگر اس سے پہلے میں ایک دو جماعتوں سے متعلق اعلان کرنا چاہتا ہوں جن کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ آج ہمارا جلسہ یا کوئی پروگرام شروع ہو رہا ہے ہمیں بھی اس خطاب میں شامل کر لیں اور اس ذریعہ سے ہمارے افتتاح میں شامل ہو جائیں.جماعت احمد یہ ملائشیا کا جلسہ سالانه ۸،۷،۶/اگست ۱۹۹۳ء کومنعقد ہورہا ہے.امیر صاحب کی خواہش ہے کہ ان کو بھی پیش نظر رکھا جائے.جماعت احمد یہ روڈ ریکس Rodrigues یہ ماریشس کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 590 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء محنتوں کا پھل ہے جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں عطا کیا ہے.یہ ایک بڑا جزیرہ ہے جس کی آزاد ریاست ہے.اس میں ماریشس کی جماعت کی کوششوں سے خدا کے فضل سے چند سال پہلے جماعت احمدیہ کا پودا لگا اور اب خدا کے فضل سے بہت مستحکم ہو چکا ہے.حال میں جو عالمی بیعتوں کا پروگرام تھا.اس میں بھی روڈ ریکس کی طرف سے خدا کے فضل سے بھر پور شمولیت ہوئی.ان کا پہلا جلسه سالانه ۱۸ اگست کو ہو رہا ہے.لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ ۶ راگست کے جمعہ میں ان کا ذکر کر دیا جائے اور وہی ان کا افتتاح سمجھا جائے.جماعت احمدیہ کینیڈا کی دوسری مرکزی تعلیم القرآن کلاس کی تاریخ ۶ راگست تا ۱۵ اگست مقرر ہوئی ہے اور ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ آج کے خطبے کے ساتھ ان کی کلاس کا آغاز ہو.دنیا میں ہونے والے یہ مختلف جلسے اور اجتماعات اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت احمد یہ کی عالمی دلچسپیوں کا ایک ایسا مرکزی نقطہ بنتے چلے جا رہے ہیں جو خلیفہ وقت کی ذات میں منعکس ہو کر مرکز بن جاتا ہے اور پھر اس کا انتشار ہوتا ہے.اس لئے اگر چہ یہ پھیلے ہوئے اجتماعات ہیں لیکن ان کو میں نے مرکزی نقطہ قرار دیا کیونکہ اس سے پہلے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں دنیا میں ہونے والے اجتماعات میں ہر جگہ براہ راست شمولیت کر سکوں اور وہ براہ راست ساری دنیا کی عالمگیر جماعت کے دل میں اتر رہے ہوں لیکن اب خدا کے فضل سے یہ ممکن ہو گیا ہے اور دن بدن یہ سلسلے پھیلتے چلے جائیں گے اور یہ بھی تو حید ہی کا ایک کرشمہ ہے.در حقیقت یہ توحید کا وہی مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.وہ جماعت جو خالصہ اللہ ہو ، جو خدائے واحد و یگانہ پر کامل ایمان رکھتی ہو، ہر دوسری چیز اس کی نظر میں خدا کی وحدت کے مقابلہ میں پیچ ہو اور بے حقیقت ہو اس پر خدا کا فضل اس طرح نازل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس جماعت کو بھی ایک وحدت میں تبدیل فرما دیتی ہے اور اللہ ہی کا تعلق ہے جو ایک عالمگیر وحدت کی شکل میں رونما ہوتا ہے ورنہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اس طرح اپنے قریب پائیں حالانکہ ہمارے درمیان ظاہری فاصلے بھی بے شمار ہیں اور بعض دوسرے فاصلے بھی بیشمار ہیں.ظاہری فاصلوں سے یہ مراد ہے کہ آج انگلستان میں جو خطبہ دیا جا رہا ہے.روڈ ر گس آئی لینڈ جو انتہائی جنوبی علاقہ میں واقع ہے اس کا اور ملائشیا کا آپس میں کتنا فاصلہ ہے اور ہمارے ساتھ پھر کتنا فاصلہ ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 591 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء اسی طرح کینیڈا شمال اور مغرب کی انتہا میں واقع ہے.تو یہ سارے ممالک اور ان کی دلچسپیاں جو جماعت کے گرد گھوم رہی ہیں وہ ایک مرکز کی شکل میں خلیفہ وقت کی ذات میں اکٹھی ہوتی ہیں اور پھر ساری دنیا کے دلوں میں دھڑکتی ہیں.اسی لئے میں نے دل کا لفظ استعمال کیا تھا کہ یہ ساری تقریبات جماعت کے دلوں میں داخل ہوتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا بے شمار احسان ہے اتنے فضل ہیں کہ اگر ان کا تصور کریں تو انسان خدا تعالیٰ کے شکر سے اپنے آپ کو کلیۂ عاجز محسوس کرتا ہے لیکن شکر جتنا بڑھے گا اتنے ہی فضل زیادہ نازل ہوں گے.اسی ضمن میں اس سال کے جلسہ سالانہ سے متعلق بھی چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ جلسہ خدا کے فضل سے غیر معمولی تھا.یہ تو سب کو خیال تھا کہ غیر معمولی ہوگا.لیکن اتنا غیر معمولی یہ تو میرے تصور میں بھی نہیں تھا.عالمی بیعت کے سلسلہ میں سب دنیا سے فون آ رہے ہیں اور Faxes مل رہی ہیں.ایک بچی نے جو میری بیٹی عزیزہ مونا کی شادی میں شامل ہونے کے لئے یہاں آئی تھی فون کر کے کہا کہ میں ساری رات روتی رہی آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ اتنا اہم جلسہ ہے.میں نے کہا، میں نے تو شادی سے پہلے اعلان کیا تھا، تنبیہ کی تھی کہ عزیزہ مونا کی شادی میں شمولیت ہر گز ضروری نہیں.جلسے میں شمولیت ضروری ہے اگر آپ نے شامل ہونا ہے تو اس شرط پر شامل ہوں کہ جلسے کو قربان کر کے شامل نہیں ہونا اس کے باوجود اگر غلطی کر گئے ہیں تو میں اور کس طرح سمجھاؤں.میں نے اس بچی سے کہا کہ میں اشٹام پیپر پر لکھ لکھ کے تو نہیں دے سکتا کہ فلاں چیز اتنی اہم ہے.اب مجبوری ہے، بہر حال خدا تعالیٰ نے فضل کیا کہ ایک عالمی نظارے کی صورت میں جماعت نے ہر جگہ دیکھ لیا لیکن جو کیفیت شامل ہونے والوں کی تھی اس کا بیان ممکن نہیں.یوں لگتا تھا کہ اللہ اترا ہوا ہے اور فرشتوں کی فوجیں نازل ہو رہی ہیں.ایک ایسی روحانی کیفیت تھی کہ اس کا تصور بھی باہر والا انسان نہیں کر سکتا حالانکہ ٹیلی ویژن پر سب کچھ دکھایا گیا اور احمدی بہت محظوظ ہوئے ہیں لیکن بیچ میں ہونا اور بات ہے اور باہر سے دیکھنا اور بات ہے.یہ جلسہ تمام وحدت کا ایک عظیم نشان تھا.اس جلسہ میں شامل ہونے والے مشرق و مغرب، شمال و جنوب سے آنے والے ایک دوسرے کو قومیت کے اختلاف کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے.مختلف ممالک کے باشندوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے.بلکہ براہ راست روحوں کاروحوں سے ملاپ ہور ہا تھا.بیچ میں سے جسم غائب ہورہے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 592 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء امر واقعہ یہی ہے کہ اس چیز کو غیروں نے محسوس کیا ، ان غیروں نے جو پھر جلد اپنے بن گئے انہوں نے بشدت محسوس کیا.افریقہ کے ایک بہت معزز دوست جو پہلے عیسائی تھے اور کٹر عیسائی تھے یعنی کیتھولک عیسائی اور بڑے جوش کے ساتھ عیسائیت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے انہوں نے کہا کہ ایک چیز میری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کیا ہو رہا ہے.آپ جو بات کہتے تھے یوں لگتا تھا وہ دل سے نکلی ہے اور سیدھی دل میں اتر گئی ہے اور جو عالمی منظر تھا اس میں کوئی جغرافیائی قید نہیں تھی ، ہر شخص ایک دوسرے کی روح کے ساتھ ملا ہوا تھا.کہتے ہیں یہ دو باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں کہیں اور دکھائی نہیں دے سکتیں اور واقعہ ان کا یہ تجزیہ بالکل درست تھا میں نے ان سے کہا آپ نے بالکل سچی بات کہی ، بڑے ذہین ہیں.بعینہ یہی دو کیفیات تھیں جن کو میں نے نمایاں طور پر محسوس کیا اور جہاں تک دوسروں سے تعلق کا سوال ہے ان کو میں نے سمجھایا کہ جماعت احمدیہ کا مزاج یہ ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا پھل اور احسان ہے اور اس کا کرشمہ ہے اور اس کا فضل ہے کوئی قوم جو بچے معنوں میں موحد ہو جائے ناممکن ہے کہ جغرافیائی اور قومی تقسیمیں ان کو اور اس قوم کی وحدت میں پروئے جانے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کر سکے بلکہ جب میں مثلاً افریقہ یا دوسرے ممالک میں دورہ پر جایا کرتا تھا تو واقعہ کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی احساس نہیں ہوا کہ یہ نائیجرین ہے اور میں پاکستانی ہوں.یہ سیرالیونی ہے اور میں پاکستانی ہوں.یہ کینیڈین ہے اور میں پاکستانی ہوں یہ فنجنین ہے اور میں پاکستانی ہوں نہ کبھی اپنی پاکستانیت کا واہمہ بھی دل میں آیا، نہ ان کے مختلف قوموں سے منسوب ہونے کے تصور نے کبھی دل میں جھانک کے دیکھا بالکل یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایک خدا کی پیدا کردہ روحیں ہیں جو ملاپ کر رہی ہیں، نہ بیچ میں جسم حائل، نہ رنگ حائل، نہ قومیت حائل.تو ان کو میں نے سمجھایا کہ یہ احمدیت کی سچائی کا نشان ہے اور اس کا بات نشان ہے کہ احمدی موحد ہیں کیونکہ اگر خدائے واحد پر سچا یقین ہے تو اس کے سوا اور کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا اور سوائے ایسی جماعت کے جو توحید پرست ہو اور خالصہ توحید پرست ہو کوئی دنیا کو امت واحدہ میں تبدیل نہیں کر سکتا.پس خدا تعالیٰ نے جو احسانات ہم پر فرمائے.”لفظ فرمائے جو ماضی کا ذکر ہے یہ غالبا مناسب نہیں جو فرما رہا ہے، فرماتا چلا جا رہا ہے اور دن بدن ان کو پڑھاتا چلا جا رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب تو حید ہی کا کرشمہ ہے.اگر ہمارے دل موحدر ہیں ان معنوں میں جن معنوں میں حضرت اقدس محمد صنفی میں لینے کا مصطفا صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 593 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء دل موحد تھا.تو یہ طبعی فضل ہیں جو خود بخو د نازل ہوتے رہیں گے.تو حید کے مضمون سے متعلق ایک بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ وہ موحد فرقے جن کے دلوں میں توحید سے سختی پیدا ہوتی ہے، جن میں رعونت پیدا ہو جاتی ہے جو دوسروں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں وہ لازما موحد نہیں ہیں کیونکہ توحید کی وہ علامتیں جونور مصطفوی کی صورت میں جھلکیں اور چمکیں اور کل عالم کو منور کیا.وہ صفات یہ صفات نہیں.توحید کی وہ صفات جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ہ کے دل پر جلوہ گر ہو کر آپ کی فطرت کا جزو بن گئی تھی ، کوئی فرق باقی ہی نہیں رہا تھا، وہ تو حید کا منظر تھا اگر کسی نے دیکھنا ہو تو اس کو دیکھے اگر آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت ہو تو اس نظارے سے لطف اندوز ہو.کامل انکسار بن گئے تھے تو حید کے بعد ، تمام دنیا کے لئے مجسم رحمت بن گئے تھے، چھوٹے بڑے کی سب تفریق مٹ گئی تھی ، قومیت کی ہر تفریق اس طرح زائل ہوگئی تھی جیسے نور کے آنے سے اندھیرے زائل ہو جاتے ہیں.یہ وہ حقیقی توحید کا منظر ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ کی صلى الله ذات بابرکات میں چپکا ہے یہ وہی نور ہے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ نُورٌ عَلَى نُورٍ ( النور : ۲۴) وہ نور توحید کا نور تھا جو پہلے ہی آپ کے دل میں جلوہ گر تھا اسی نور نے آسمان کے نور کو کھینچا صلى الله ہے اور ان دونوں نوروں کے ملنے سے محمد مصطفی ملی دنیا میں جلوہ گر ہوئے.پس یہ وہ تو حید ہے جس کی میں جماعت کو تعلیم دیتا ہوں.ایسی تو حید جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان سے محبت بڑھتی چلی جائے.ایسی تو حید جس کے نتیجے میں تمام فاصلے قطع ہو جا ئیں اور باوجود فاصلوں کے ہم ایک دوسرے سے ملے ہوئے محسوس ہوں.کوئی جغرافیائی حدود ہماری راہ میں حائل نہ رہیں، کوئی رنگ ونسل کی تمیز ہماری راہ میں حائل نہ رہے.ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے سے محبت کریں، بحیثیت انسان ایک دوسرے کو دیکھیں اور بحیثیت انسان ایک دوسرے کے دلوں کے ساتھ ہماری دھڑکنیں ہم آہنگ ہو جائیں یہ موحد کی نشانی ہے.اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں موحد بنایا ہے اس تو حید کی حفاظت کرو خواہ جان دے کر حفاظت کرنی پڑے، مال قربان کر کے حفاظت کرنی پڑے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا یہ وہ سب سے پیارا پھل ہے جو ہمیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور آپ کے اسوہ کے ذریعہ عطا ہوا ہے.اس کے سوا دنیا میں کوئی قوم توحید کا حقیقی نظارہ پیش نہیں کر سکتی.دیکھیں عیسائیت بھی تو دنیا میں پھیل رہی ہے بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے مگر کہاں قوموں کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 594 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء عیسائیت نے ایک جان بنایا ہے اور دوسرے مذاہب اور فرقے ہیں وہ بھی اپنے اپنے زور مار رہے ہیں کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا پر غلبہ ہو لیکن امت واحدہ بنانے کا منظر جماعت احمدیہ کے سوا کل عالم میں آپ کو کہیں دکھائی نہ دے گا.اس کا تعلق دلوں کی سچائی سے ہے، اس کا تعلق روحوں کے تقویٰ سے ہے.وہ رومیں جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتیں اور خدا کا خوف رکھتیں ہیں وہی تقویٰ ہے جو نور بناتا ہے.وہی تقویٰ ہے جو کل عالم کو روشن کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اور اسی کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے.جب فرمایا کہ ”ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور گزرے ہوگی اور وہ مقاصد اور مطالب اس پیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دور ہیں وہ حاصل نہیں ہو سکتے.جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے تو حید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو.“ ( ملفوظات جلد ۲: ۶۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا جماعت کے اعلیٰ مقاصد سے متعلق یہ پہلا تصور ہے.کہ یہ ہوتو پھر یوں ہو جائے آگے پھر تین باتیں اور بیان ہوئی ہیں جن کے متعلق انشاء اللہ میں بعد میں بیان کروں گا.اس ضمن میں مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ افریقہ کے مجاہدین جنہوں نے غیر معمولی اخلاص اور جان کا ہی کے ساتھ خدمت کی ہے وہ خصوصیت سے جماعت احمد یہ عالمگیر کی دعاؤں کے مستحق ہیں.خدمت کرنے والوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک کو حصہ ملا ہے، کوئی ملک ایسا نہیں رہا، جہاں والہانہ جذبوں کے ساتھ عالمگیر بیعت میں شمولیت کے لئے احمدیوں نے تیاری نہ کی ہو ، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے نوکریوں سے چھٹیاں لے لیں، کچھ ایسے تھے جنہوں نے اپنی تجارتوں کو اپنے بچوں کے سپرد کیا اور کہا یہ تین چار مہینے ہم سے کوئی اور بات نہ کرو.ان کے جو خطوط مل رہے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اس کے بعد وہ تھکے نہیں بلکہ جذبے پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ بیدار ہوئے ہیں اور ہیجان کی کیفیت کم ہونے کی بجائے اور زور پکڑ گئی ہے.چنانچہ انہی میں سے ایک آدمی کا مجھے خط ملا کہ تین مہینے کا کام سمجھے کے میں نے بڑے جوش سے حصہ لیا اب تو یوں لگتا ہے کہ اس کام کو میں کبھی چھوڑ ہی نہیں سکتا اور ہر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 595 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء دوسری چیز کو قربان کر سکتا ہوں.مگر جو لطف مجھے ان تین مہینے میں خدمت کا آ گیا ہے ساری زندگی میں کبھی ایسا لطف محسوس نہیں ہوا.تو میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ باقی سب بھی اسی جذبے سے معمور ہوں گے لیکن افریقہ میں جن خدمت کرنے والوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا پھر بھی اپنا الگ مقام ہے.ان کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی قربانیوں کی توفیق عطا فرمائی.ایک بہت ہی با اثر اور بارسوخ پیرا ماؤنٹ چیف نے مجھ سے بیان کیا کہ میری احمدیت کی وجہ تو دراصل آپ کے مبلغین کی قربانیاں ہیں.کہتے ہیں ایسے علاقے ہیں جہاں ہم بھی رہنے سے ڈرتے ہیں.خوفناک مچھر خوفناک کیڑے مکوڑے، سانپ ، بچھو، ہر قسم کے گند ہر قسم کے ایسے زہریلی قسم کے کیڑے ہیں جو جسم میں داخل ہوتے ہیں تو پھر نکالے نہیں جا سکتے ایک زندگی کا عذاب بن جاتے ہیں، کسی چیز کی پرواہ نہیں کی ، دریاؤں سے گزرے جنگلوں میں گئے اور بار بار آ کر منتیں کرتے تھے کہ خدا کے لئے مان جاؤ ، خدا کے لئے مان جاؤ کہتے ہیں اتنا درد تھا، اتنی بے قراری تھی ان کی اپیلوں میں کہ آخر میری ہمت جواب دی گئی میں نے کہا ٹھیک ہے تم ٹھیک کہتے ہو.کہتے ہیں جب میں نے یہ فیصلہ کیا تو اچانک دنیا ہی اور دکھائی دی یوں لگتا تھا یہاں سب نور ہی نور ہے اور دوسری طرف کچھ بھی نہیں.یہ غیر معمولی قربانی کرنے والے ہیں ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.جو حصہ لینے والے ہیں ان کی فہرست تو بہت ہی لمبی ہے.لیکن جو یہاں تشریف لا سکے ہیں.یہ وہ ہیں جنہوں نے ایک دوسرے سے سبقت کے میدان میں غیر معمولی کا رہائے نمایاں ادا کئے یا مثلاً ان ملکوں کے امیر ہیں.ان کی فہرست تو بہت ہی لمبی ہے لیکن جو یہاں تشریف لا سکے ہیں.ان سب کو جن کو یہاں آنے کی توفیق ملی ہے چونکہ میں مل چکا ہوں ان کے متعلق میں جانتا ہوں، ان کے ناموں کی فہرست میرے سامنے ہے وہ میں پڑھ کے سنانا چاہتا ہوں تا کہ ان کو بھی اور ان کے پیچھے رہنے والوں کو بھی آپ اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یادرکھیں.انشاء اللہ انہوں نے واپس جا کر پھر از سر نو کام شروع کرنے ہیں یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ خیر وعافیت سے واپس لے کے جائے ان کے عزم اور حو صلے میں کوئی کمی نہ آئے بلکہ نیا جوش پیدا ہواللہ ان کے عزموں کی حفاظت فرمائے.ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فر مائے اور اگلا سال اس صلى الله سے بھی کئی گنا زیادہ شان و شوکت کے ساتھ تمام دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنے والا سال بنے اور امت واحدہ بننے کے جو نظارے ہم دیکھ رہے ہیں ان کی چمک ہمیشہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 596 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء چکا چوند بن کر ہمارے سامنے ظاہر ہو.لیکن ایسی چکا چوند نہ ہو جو نظروں کو اندھا کر دیتی ہے.ایسی چکا چوند ہو جو دلوں کو بصیرت سے بھر دیتی ہے اور نیا نور عطا کرتی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.نائیجیریا کے عبدالرشید اغبولہ (Abdul Rashed Agbola) جوامیر ہیں.ان کی قیادت میں الحاج ایم ایم حبیبو (M.M Habibou Elhadj) حسین سنمونو Hussain) Sunmonu احمد الحسن Alm.Ahmad Alhassan) الحاج بشیر احمدا وجوے (Alh.Bashir Ojoye الحاج ایم اے نوح Alh.M.A Nuh الحاج ابراہیم نوک Alh.Ibrahim Nok) یہ تشریف لائے ہوئے ہیں.ببینن میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام ہوا ہے.وہاں سے ہمارے نائب امیر الحاج بسیر و راجی صاحب Alh.Bassirous Raji) تشریف لائے ہیں.ماریشس سے امین جواہر منیر جواہر اور مذکر جواہر (Mozakir Jonahir) یہ تشریف لائے ہیں.میں نہیں جانتا کہ ان میں سے ہر ایک نے تبلیغ میں بھر پور حصہ لیا ہے یا نہیں لیکن ماریشس کی نمائندگی کی بہر حال ان کو توفیق مل رہی ہے.سیرالیون کے خلیل احمد مبشر جو ساری عالمی تبلیغ کی دوڑ میں اول آئے ہیں اور سالہا سال سے سیرالیون نے یہ جھنڈا سب سے بلند رکھا ہوا ہے.یہ اور ان کے ساتھی ، خدمت کرنے والے احمدیت کی خدمت میں جاں شماری دکھانے والے عزیز الرحمن صاحب ہیں.حنیف احمد ، افتخار احمد گوندل، پاپی بی آئی سا کامارا (Pa.P.C.B...Samaka Mara) عبد السلام كمارا (Abdul Salam Kamara) پادورے احمد کما را Pa Doure Ahmad) (Kamara شیخ یونس کا نو (Sh.Uniskhanu) باباقی(Pa Baki) پھر گیمبیا جو اپنے تین ملکوں Unis-Kano کے گروپ کے ساتھ دوسرے درجے پر آیا ہے.اس کے داؤ د احمد حنیف امیر صاحب، عنایت اللہ زائد ، منور احمد خورشید، یہ دونوں عنایت اللہ زائد اور منور احمد خورشید وہ ہیں.جنہوں نے سینیگال میں خصوصی طور پر تبلیغی مہم چلائی اور غیر معمولی خدا کے فضل سے کامیابیاں نصیب ہوئیں.اسی طرح منصور احمد مبشر ہیں ، عبد القادر بھٹی صاحب ہیں.وہ معلمین جو مقامی معلمین ہیں اور تبلیغی کامیابی میں بہت بڑا سہرا ان کے سر ہے اگر یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 597 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء ممد و معاون نہ ہوتے تو شاید کوائف کی شکل بالکل اور ہوتی.میں نے خود دورے میں دیکھا ہے افریقین معلمین خدا کے فضل سے بہت ہی روشن دماغ ہیں اور ایسی اچھی تقریر میں کرتے ہیں کہ آدمی وجد میں آ جاتا ہے اور ترجمہ کرنے کا ایسا فن رکھتے ہیں کہ دنیا میں شاید کسی قوم کو نصیب نہ ہوا ہو.ہمارے ہاں بھی ترجمہ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان سے شکایت ملی کہ انگریزی سے آپ کی مجالس سوال وجواب کا جو اردو ترجمہ ہو رہا تھا اس سے بالکل تسلی نہیں ہوتی تھی.ایک صاحب آئے پھر دوسرے صاحب آئے لیکن بات بنی نہیں.کیوں کہ لوگ انگریزی بھی سمجھ رہے تھے اردو بھی سمجھ رہے تھے وہ ساتھ ساتھ موازنہ کر رہے تھے لیکن دوسرے ترجمے جو ہیں وہ اچھے ہو جاتے ہیں.لیکن یہ جو افریقین ہیں یہ تو ایسا اچھا ترجمہ کرتے ہیں، بعض دفعہ میں بھول جاتا تھا کہ ترجمہ ہونا ہے آدھا آدھا گھنٹہ مسلسل خطاب کرتا تھا بیٹھتا تھا تو ایک افریقین معلم ترجمے کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا اور چونکہ جو بات کہی جائے اس کے مضمون سے ایک انسان کا رابطہ رہتا ہے زبان نہ آنے کے باوجود علم ہو جاتا ہے کہ اس وقت کیا کہہ رہا ہے.تو میں حیرت سے دیکھتا رہ گیا کہ تمام مضمون من و عن بیان کیا اور جس موقع پر جوش اٹھنا چاہئے اس موقع پر لوگ جوش سے کھڑے ہوتے تھے اور نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے تھے.یہ جو مقامی معلمین ہیں ان سے اور بھی زیادہ استفادہ کرنا چاہئے ان کا خیال رکھنا چاہئے ان کی دلداری کرنی چاہئے ، ان کی ضرورتیں پوری کرنی چاہئیں.تمام افریقہ کے امراء کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ کیڈر کا حساب چھوڑیں.جو خدمت دین میں پیش پیش ہیں ان کی ہر قسم کی ذاتی ، خاندانی ضروریات پر ویسے نظر ہونی چاہئے.دورے کے وقت ایک موقع پر میں نے ایک امیر سے بڑا ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ یہ قانون کو لے کے بیٹھ گئے کہ جی اس کو اتنی تنخواہ ملنی چاہئے اس کو اتنی ملتی چاہئے.میں نے کہا جماعت کا ایک اور بھی قانون ہے کہ تنخواہوں کے علاوہ جو آپ کے ملازم نہیں بھی ہیں اس کی بھی جو جائز ضرورتیں ہیں جہاں تک توفیق ہو جماعت کو پوری کرنی چاہئیں.پس اپنے کارکنان کا خیال رکھنے کا سب سے زیادہ ذمہ وار وہ شخص ہے جس کے ماتحت کچھ خدمت کرنے والے ہیں.اگر عام قانون اجازت نہیں دیتا تو دوسرا قانون تو وہ ایسا ہے جس کی کوئی حد نہیں.مجھے مطلع کیا کریں، بتائیں کہ ہماری فلاں جگہ اتنے خدمت کرنے والے ہیں.ان کی غیر معمولی ضرورتیں ہیں.ان کو انشاء اللہ تعالیٰ پورا کیا جائے گا تاکہ خوشی کے ساتھ بغیر کسی فکر کے یہ اس میدان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 598 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء میں دندناتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں اور ان کے اندر غیر معمولی تبدیلی پیدا کرنے کی طاقتیں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہیں.یہی وہ لوگ ہی جو کویت سے آئے ہوئے علماء سے اس طرح ٹکراتے ہیں کہ شیروں کی طرح ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور کوئی ان کی پیش نہیں جاتی.لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ شاید لاعلمی میں پھیل رہی ہے لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ جماعت پر کیا اعتراض ہورہے ہیں حالانکہ بعض جگہ خصوصیت سے رابطہ عالم اسلامی کے بھیجے ہوئے مبلغین ،ان کا بھیجا ہوا پیسہ اور ان کے لائے ہوئے وعدے، یہ سارے جماعت کی مخالفت میں پورے زور سے کام کر رہے ہیں اور خدا کے فضل سے ہمارے جو مقامی مبلغ اور معلمین مل کر ان کا جواب دیتے ہیں اور لوگ ان کی لالچوں کو بھی رد کر دیتے ہیں اور ان کے جھوٹے دلائل کو بھی رد کر دیتے ہیں.پس جو احمدی ہو رہا ہے دشمن سے علی الرغم ہو رہا ہے،سب باتیں جان کر پہچان کر ہو رہا ہے.مجھ سے اس موقع پر بھی ایک چیف صاحب نے کہا کہ ہمیں لالچیں دی گئیں اور کہا کہ اتنی بڑی مسجد بنا کر دیں گے، اتنا بڑا مدرسہ بنا کر دیں گے.ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے، میں نے کہا میں آپ کی لالچوں کو پاؤں کی ٹھوکر پر بھی نہیں رکھتا ، مجھے خدا نے روشنی دی ہے، نور عطا کیا ہے میں اور میری قوم ثابت قدم رہیں گے، چنانچہ ان کو دھتکار کر وہاں سے نکال دیا.تو یہ معلمین بھی خدا کے فضل سے اس معاملے میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور ہمارے پاکستان سے آئے ہوئے ، قربانی کرنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں.موسیٰ چان (Mr.Moussa Chan) ہیں.جنہوں نے غالبا گنی لساد ہیں میں بہت اچھا کام کیا ہے.اسماعیل ترارے (Ismail Traore) ہیں اسی طرح سعید و مان Saidus) (Manneh ہیں اور صالح جابی (Sally Jabbie) ہیں اور ثناء چام (Sana Cham) ہیں.پھر آئیوری کوسٹ سے مکرم (Couli Bali Boulass) ہیں.یہ وہاں کے امیر ہیں اور عبد الرشید انور نائب امیر ہیں.آدم معاذ کو بالی Adam Moaz Coli Bali) یہ وہی ہیں جنہوں نے ابھی اذان دی تھی.آدم معاذ یہ مالی کے رہنے والے ہیں وہاں سے یہ وقف کر کے آئے تھے آئیوری کوسٹ سے تعلیم حاصل کی اور اب آئیوری کوسٹ میں جو تبلیغ کا نیا دور چلا ہے.اس میں سب سے زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے والے ہیں ماشاء اللہ چشم بد دور.پھر تو مے طاہر احمد Tome)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 599 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء (Tahir Ahmad ہیں اور نمائندہ وزیر دفاع Konan Emile Oje ہیں اور Toranm Fanny جو نمائندہ وزیر داخلہ ہیں (ان کے نام ویسے معززین کے طور پر لکھ دیئے گئے ہیں میں صرف ان مبلغین کا ذکر کرنا چاہتا تھا جنہوں نے دعوت میں کوشش کی ہے ) بور کینا فاسو سے محمد ادریس شاہد صاحب ہمارے امیر ہیں.ابراہیم سانفو Ibrahim) (Santo ان کے ساتھ بہت بڑی خدمت کرنے والے، اسحاق تر اور ے (Issaq Traore) ہیں ، محمد سابا یا نبا (Mohammad Sabanba) ہیں.یہ چند نام ہیں جو جلدی میں تیار کر کے مجھے دیئے گئے ہیں.مگر خدمت کرنے والوں کی فہرست بہت وسیع ہے.کیونکہ سارے افریقہ پر پھیلے ہوئے خدام دین ہیں.جنہوں نے حقیقت میں اپنی کوششوں کو درجہ کمال تک پہنچایا ہے اور دعاؤں نے ان کوششوں کو بار آور فرمایا ہے.ان کی ساری عاجزی اور دعاؤں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر رحمتوں کی بارشیں برسائیں اور بہت اچھے اچھے پھل ملے.پس یہ جو عالمی توحید کا عجیب منظر آپ نے دیکھا اس میں یہ سب خدام ہیں اور وہ بھی جن کے نام نہیں لئے جاسکتے ان سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو.فرمایا ہے.اس خاص رنگ کا نمونہ سب سے اعلیٰ اور افضل اور درجہ کمال کو پہنچا ہوا.حضرت اقدس محمد مصطفی امت ہے کے اسوہ حسنہ میں ملتا ہے.اس سلسلہ میں کچھ احادیث میں آپ کے سامنے پہلے پیش کر چکا ہوں.صلى الله ایک حدیث اور رکھتا ہوں.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺہ جب اللہ کا ذکر فرماتے تھے.تو اس سے ایسی عظیم قوت پیدا ہوتی تھی کہ سننے والا لا ز ما یقین کرتا تھا کہ یہ ایسا ذکر کرنے والا ہے جس کا خدا کی ذات سے ایک تعلق ہے، اس کی بات میں غیر معمولی طاقت ہے.اس کا ایک نمونہ مسلم کتاب الجمعہ کی ایک حدیث میں ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ از وشنوء کا ایک آدمی جس کا نام منماد تھا سکے آیا.وہ دم درود جھاڑ پھونک سے کام لیتا تھا.اس کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے متعلق یہ بتایا گیا کہ آپ کو دیوانگی کا دورہ پڑ گیا ہے.یعنی نعوذ باللہ آپ دیوانہ ہو گئے ہیں اور چونکہ یہ دم درود کرتا تھا، جھاڑ پھونک سے کام لیتا تھا اور اس کے دل میں ویسے سچی ہمدردی ، انسانیت کا جذبہ پایا جاتا تھا.اس لئے کوشش کر کے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 600 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ اے محمد ﷺ میں دیوانگی کی اس بیماری کا دم کرتا ہوں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے دم کی وجہ سے آپ کو شفا دے گا.آنحضرت ﷺ نے جب یہ بات سنی تو اس پر آنحضرت ﷺ نے ضماد کے سامنے یہ کلمات بیان فرمائے.إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنَهُ مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهِ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلا هَادِيَ لَهُ وَاَشْهَد اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ.وَاَشْهَدَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولَهُ.أَمَّا بَعْدِ قَالَ فَقَالَ، اعِدَ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هؤلَاءِ فَأَعَاوَهِنَّ عَلَيْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ قَالَ فَقَالَ لَقَدْ سَمِعْت قَوْمَ الْكَهَنَةِ وَقَوْلَ السَّحَرَةِ وَقَوْلَ الشَّعَرَاءِ فَمَا سَمِعُت مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هُوَلَاءِ.وَلَقَدْ بَلَغْنَ نَاعْوُسَ الْبَحْرِ قَالَ فَقَالَ هَاتِ يَدَكَ ابَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَقَالَ فَبَايَعَة (صحیح مسلم کتاب الجمعہ حدیث نمبر ۱۴۳۳۰) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے سو ہم اسی کی حمد کرتے ہیں ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں.جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ ٹھہرائے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے.اس کے بعد آپ کچھ فرمانے لگے تو ضماد نے کہا ذرا یہی کلمات دہرائیے، صلى الله دوبارہ فرمائیے.آنحضور میں نے یہی کلمات تین دفعہ دہرائے.اس پر ضماد نے کہا میں نے بڑے بڑے کاہنوں اور جادوگروں کا کلام سنا ہے شعراء کو بھی سنا ہے لیکن ایسا پر تاثیر کلام میں نے کبھی کسی سے نہیں سنا جیسا آپ نے سنا ہے.یہ تو سمندر کی گہرائی تک اتر جانے والا کلام ہے ہاتھ بڑھایا اور کہا میری بیعت لیجئے چنانچہ وہ اسی وقت آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے مسلمان ہوا.یہ کلمات تو روز مرہ آپ سنتے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ کہنے والا کون ہے اور پڑھنے والا کون ہے کلمات اپنی ذات میں زندہ بھی ہو سکتے ہیں اور مردہ بھی ہو سکتے ہیں یہ تو برتن ہیں، ان برتنوں کو کس چیز سے بھرا گیا ہے.پس ویسے ہی کلمات وہی کلمات ایک ایسا شخص جو دل سے ان کے مضامین میں ڈوبا ہوا ہو پڑھے تو اس کا کچھ اور اثر ہوتا ہے اگر کوئی سرسری طور پر ظاہری زبان سے پڑھتا ہے تو اس کا کوئی اور اثر ہوتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 601 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء کلام پڑھنے والے، خواہ نثر پڑھتے ہوں یا نظم پڑھتے ہوں، ان کی طاقت کا راز دان ان کے دل کی سچائی میں ہے.اگر وہ جان ڈال کر ایک کلام کو پڑھتے ہیں اور اپنے وجود پر اس کا مضمون طاری کر کے پڑھتے ہیں تو اس سے غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی ہے.پس توحید کا اعلان اس شان کے ساتھ کریں جس شان سے اقدس محمد رسول اللہ صلی للہ نے آپ کو توحید کے اعلانات کر کے دکھائے اور یہی بظاہر سادہ سے کلمات ہیں جن میں عظیم طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور ہو جائے گی.ایک موقع پر آنحضرت ﷺ کی دعا کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ یہ دعا مانگا کرتے تھے گویا آپ کا یہ دستور تھا.یہ دعا آپ کو پسند تھی.”اے اللہ میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں تجھ پر ایمان لاتا ہوں تجھ پر تو کل کرتا ہوں.تیری طرف جھکتا ہوں تیری مدد سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں.اے میرے اللہ میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں تو مجھے گمراہی سے بچا.تو زندہ ہے تیرے سوا کسی کو بقا نہیں.جن وانس سب کے لئے فنا مقدر ہے.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر : ۴۸۹۴) جس توحید کا میں نے ذکر کیا تھا وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی تخلیق پر منتج ہوتی ہے.وہ ایسا عظیم الشان جز پیدا کرتی ہے کہ جتنا زیادہ توحید کا مقام بلند ہوتا چلا جاتا ہے اتناہی زیادہ وہ موحد بجز کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے یا بجز کی سرزمین پہ خاک بن کے بچھ جاتا ہے.یہ دیکھیں آنحضور یہ کی دعا میں بار بار اس کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ کس طرح تو حید نے آپ کو خدا کا سب سے عاجز بندہ بنا دیا.جب ہم کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺہ انسانوں میں سب سے ارفع ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ سب سے زیادہ عاجز تھے کیونکہ آنحضور یہ ہی نے ایک موقع پر فرمایا ﷺ اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابعة بسلسلة.(کنز العمال،جلد۳صفحہ:۱۷۷) یہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا آپ کو فرمایا ہے کہ جب میرا کوئی بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے تو میں اس کا ساتویں آسمان تک رفع کرتا ہوں.اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ عاجزی کی حد اس کے رفع کی حد مقرر کرتی ہے.جتنا جھکتا ہے اتنا ہی بلند تر آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے.بسلسلة کے الفاظ نے اس مضمون کو کھول دیا.زنجیر کڑیوں سے بنی ہوتی ہے.پس جس کڑی تک کوئی انسان خدا کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 602 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء حضور جھکتا ہے اور بندوں میں بھی عاجزی اختیار کرتا ہے اسی حد تک اس کی رفعتوں کی بلند کڑیوں تک اس کا مقام پہنچایا جاتا ہے.اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں آنحضور ﷺ نے تمام بنی نوع انسان کو یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر آسمانی رفعتوں کی تمنا رکھتے ہو اور ساتویں آسمان تک جانے کی بھی امیدیں ہیں تو اللہ فرماتا ہے بجز اختیار کرو.عاجزی کے نتیجے میں تمہیں رفعتیں ملیں گی.یہ نصیحت تمام بنی نوع انسان کو ہے لیکن آنحضرت یہ عجز کے مقام میں چونکہ سب سے بڑھ گئے تھے اس لئے معراج میں آپ کا مقام سات آسمانوں سے اوپر دکھایا گیا.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ سب سے زیادہ عاجز بندے تھے اس میں ایک ادنیٰ بھی شک نہیں کیونکہ قرآن اور سنت سے سو فیصد یہ بات ثابت ہے کہ آپ کا عجز کا مقام تمام بنی نوع انسان میں سب سے بڑھ کر تھا ورنہ آپ کی رفعتوں کا مقام انسانی تصور کی حدوں سے باہر نہ ہوتا اور یہ باتیں کسی بڑے بڑے اعلانات میں آپ کو دکھائی نہ دیں گی.آنحضور ﷺ کی روز مرہ دعاؤں سے یہ بجز اس طرح ٹپکتا ہے جیسے بچے کے لئے ماں کی چھاتی سے دودھ برستا ہے اس طرح بنی نوع انسان کے لئے آپ کی محبت اور بجز کا دودھ ٹپکنے لگتا ہے.عرض کرتے ہیں اے اللہ میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں، تجھ پر ایمان لاتا ہوں اب فرمانبرداری پہلے رکھا ہے اور ایمان کو بعد میں حالانکہ بظاہر انسان یہ توقع رکھتا ہے کہ پہلے ایمان آئے گا پھر فرمانبرداری ہو گی لیکن ایک مومن جب فرمانبرداری کرتا ہے تو اس کا ایمان بڑھتا ہے اور پھر فرمانبرداری کی کوکھ سے ایمان پیدا ہوتا ہے.آنحضرت یہ تو اول ایمان لانے والے ہیں.اس لئے جب آپ ترتیب بدلتے ہیں تو اس میں گہری حکمت ہوتی ہے.میں اس سے یہ مضمون سمجھتا ہوں کہ اے اللہ میں جب تیری فرمانبرداری کرتا ہوں تو میرا ایمان تجھ پر بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ ہر فرمانبرداری کے نتیجے میں غیر معمولی برکتوں کے پھل ملتے ہیں ، تیری رضا حاصل ہوتی ہے اور یہاں ایمان سے مراد وہ ہے جو تجربے کا ایمان ہے جس طرح ماں باپ بار بار احسان کرتے ہیں تو بچے کا ماں باپ پر ایمان اور رنگ میں بڑھتا جاتا ہے.تو عرض کیا کہ میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں تجھ پر ایمان لاتا ہوں اور تجھ پر تو کل کرتا ہوں.یہ بھی اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا مضمون ہے کہ جب بار بار فرمانبرداری کے نتیجے میں خدا تعالیٰ رحمتیں لے کر نازل ہوتا ہے تو تو کل بڑھتا ہے، یقین ہو جاتا ہے کہ یہ بے سہارا چھوڑنے والی ذات نہیں ہے.تیری طرف جھکتا ہوں تو کل کے بعد جھکنا ضروری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 603 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء ہے.یا د رکھیں تو کل سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیا ہے اس لئے خدا آر پی کرے گا.تو کل کے ساتھ ایک عاجزی پیدا ہوتی ہے.تو کل کر کے انسان کا عجز اختیار کرنا ایک لازمی حصہ ہے.جس کے نتیجے میں تو کل کو تقویت ملتی ہے پھر عرض کیا! تیری مدد سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں.مقابلہ تو کرتا ہوں لیکن میں اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں.پس میں تیری مدد سے ضرور غالب آؤں گا.اے میرے اللہ میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں.سب پناہوں سے بڑی اللہ کی عزت کی پناہ ہے کیونکہ خدا کو اپنی عزت کی سب سے زیادہ غیرت ہے.جو شخص خدا کی عزت کی پناہ میں آ جائے کوئی دنیا کی طاقت اس کا بال برکا نہیں کر سکتی کیونکہ اگر اس پر کوئی طاقت حملہ کرے گی تو اللہ کی عزت پر حملہ کرے گی اور سب سے زیادہ خدا اپنی عزت کے لئے غیور ہے.کوئی عام انسان یہ دعا سوچ ہی نہیں سکتا.جتنا مرضی اپنے دماغ کولڑا کے دیکھ لیں جس کو گہر اعرفان الہی نصیب نہ ہو اس کے ذہن میں یہ دعا آ ہی نہیں سکتی.ورنہ کہیں گے میں تیرے جبروت کی پناہ میں آتا ہوں ایسی دعائیں بھی ملتی ہیں، تیری قدرت کی پناہ میں آتا ہوں.تیری جبروت کی پناہ میں آتا ہوں لیکن عرض کیا میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں، تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں.عزت کی پناہ چاہنے میں حضور اکرمی اللہ کو اللہ کے لئے عزت کی جو غیرت تھی وہ بھی جھلک رہی ہے.یہ ذہن میں خیال ہی تب پیدا ہو سکتا ہے کہ انسان کے نزدیک خدا کی عزت کو بہت ہی بڑا مرتبہ اور مقام حاصل ہو.جو ان سوچوں میں سے گزرا ہو جوان جذباتی کیفیات میں سے گزرا ہو، اس کے وجود پر خدا کی عزت حاوی ہو چکی ہو ، وہ جانتا ہو کہ یہ انسان کو اپنی ذات میں ہر طرف سے لپیٹ لیتی ہے یہ کلام جو آنحضرت ﷺ کے دل پر جو خدا کی عزت کا مقام تھا اس کو بھی ظاہر کرتا ہے.پھر آخر پر عرض کیا تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھے گمراہی سے بچا.کیا عظیم بجز کا مقام ہے، عرفان اپنی آخری حدوں تک پہنچ گیا تمام مراتب نصیب ہو گئے فرمانبرداری نے نئے ایمان کو جنم دیا، ایمان سے تو کل پیدا ہوا عزت کی پناہ میں آگئے اور عرض کر رہے ہیں تو مجھے گمراہی سے بچا.جب تک سانس میں سانس ہے اس وقت تک ہدایت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے.یہ انتہائی بجز کا مقام ہے جس کے بعد کسی کے ذہن میں اپنی نیکی کا جھوٹا تصور باقی رہ ہی نہیں سکتا.بڑے بڑے متقی کہلانے والے دنیا میں آئے لیکن اگر انہوں نے خدا کی شان میں ذراسی بھی کوئی ایسی حرکت کی جس سے خدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 604 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء کی عزت پر حرف آتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیتا ہے.ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ خدا بعضوں کو فرمائے گا جا تو اور تیری نیکیاں جاؤ جہنم میں مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں.پس صلى الله.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حضرت خاتم النبین ﷺ کا یہ عرض کرنا کہ مجھے گمراہی سے بچا، یہ ہمیں مقام عجز سکھا رہا ہے بجز ہوتا کیا ہے؟ یہ ہمیں ہر قسم کی نیکی کے تکبر سے کلیہ آزاد کرتا ہے.تو زندہ ہے تیرے سوا کسی کو بقا نہیں.یعنی اپنی زندگی کو بھی دراصل کلیہ کا لعدم قرار دے دیا ہے.تو زندہ ہے سے مراد ہے تو زندہ ہے ہم کہاں زندہ ہیں، کوئی اور کہاں زندہ ہے، تیری زندگی سے سب کی زندگی ہے تیرے سوا کسی کو بقا نہیں جن وانس سب کے لئے فنا مقدر ہے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں آپ کے پاک وصاف سادہ کلام میں غوطے مارکر دیکھیں تو تب آپ کو معلوم ہوگا کہ عرفان ہوتا کیا ہے؟ ور نہ بعض تیراک ہوتے ہیں سطح پر تیرتے ہوئے گزر جاتے ہیں وہ بھی لطف اٹھاتے ہیں لیکن جو گہرے سمندر ہوں ان میں غوطہ زنی سے جو موتی ہاتھ آتے ہیں ان کی مثال، تیرنے والے کو جو لطف آتا تھا ان کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں، زمین و آسمان کا فرق ہے.آنحضرت ﷺ کوخدا کی وحدت کی ایسی غیرت تھی کہ کسی شخص سے ویسے ہی آپ کی عزت کا ویسا کلمہ نکل گیا جس سے آپ کو خطرہ پیدا ہوا کہ اس میں شرک کی بو آتی ہے تو آپ نے فور ابڑی سختی سے اس کو منع کر دیا.ایک صحابی نے آنحضور ﷺ کے سامنے عرض کیا ما شاء الله و ما شئت.جو اللہ چاہے گا اور جو آپ چاہیں گے وہی ہو گا اس پر آپ نے فرمایا اجعلنی اللہ ندا کیا تو نے مجھے خدا کا شریک بنالیا ہے.یوں کہو ما شاء اللہ وحدہ وہی ہو گا جو صرف اللہ چاہے گا اور کسی کے چاہنے سے ہوگا کچھ نہیں ہوگا.(مسند احمد حدیث نمبر: ۲۵۸۴۵).بعض دفعہ لوگ مجھے ایسے کلمات لکھ دیتے ہیں میر ادل دہل جاتا ہے میں جانتا ہوں کہ لاعلمی میں لکھتے ہیں لیکن اس شخص نے بھی تو لاعلمی سے کہا تھا.اسی طرح دعا کے متعلق جب کہیں دعا فرماؤ.یوں لگتا ہے میری جان نکل گئی ہے.میں کہتا ہوں خدا کا خوف کرو خدا کوکوئی فرما سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جیسا عشق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے تھا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن میں نے بڑے غور سے جہاں تک آپ کی تحریرات کا مطالعہ کیا ہے کہیں آپ نے یہ نہیں لکھا کہ صلى محمد رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی.یہ ذکر ملتا ہے اس کی عاجزانہ دعائیں ہی تو تھیں جس نے یہ کام کیا صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 605 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء ہے بس دعا خدا سے کی جاتی ہے اور خدا کے مقابل پر کوئی نہیں ہے جو فرما سکے.دعا کے ساتھ بجز کا مضمون ہے.پس چاہے آپ اپنے دماغ میں کس کو کتنا بڑا سمجھیں اس کو یہ بھی نہ کہا کریں دعا فرمائیں.خدا کے حضور عرض کریں یہی اس شخص کی عزت ہے جس کو آپ مخاطب کرتے ہیں اگر کچی عزت چاہتے ہیں تو اس کی عاجزی کے حوالے سے دعا کی درخواست کیا کریں اور اسی طرح جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ ہی چاہتا ہے اور کوئی کچھ نہیں ہوتا.یہ بھی نہیں کہنا چاہئے کہ آپ کی دعاؤں کی برکت سے یہ ہوا.کیا پتا اللہ تعالیٰ نے کسی طرح فرما دیا.آدی یہ کہ سکتا ہے شکریہ جزاک اللہ آپ نے دعائیں کیں اور اللہ نے اپنا فضل فرمایا.یہی توحید خالص ہے جس کی ہمیں ہمیشہ حفاظت کرنی چاہئے.بعض دفعہ ایک شخص کے سامنے آ کر لوگ مرعوب ہو کر ڈر جاتے ہیں کانپنے لگتے ہیں اور کئی مخلصین سادہ لوح ایسے آتے ہیں.میرے پاس بھی آتے ہیں جو مرعوب ہو جاتے ہیں ان کو میں بڑے پیار سے گلے لگا تا ہوں دل بڑھاتا ہوں تھوڑی دیر میں وہ باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں پھر جا کر لکھتے ہیں ہم تو سمجھتے تھے پتا نہیں کوئی بات ہوگی بھی کہ نہیں.آپ تو عام آدمی ہی ہیں، انسانوں کی طرح ہی ہیں ان کو کیا پتا کہ شاید میں عام انسانوں سے بھی گرا ہوا ہوں گا لیکن اللہ کا احسان ہی ہے جس نے اپنے ایک منصب پر کھڑا کیا اس منصب کی غیرت رکھتا ہے اس لئے پردے ڈھانچے ہوئے ہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ آپ کے رعب سے تھر تھر کانپ رہا تھا.اس کے کندھے اس خوف سے کہ میں کس کے حضور حاضر ہو گیا ہوں بڑے جوش کے ساتھ ہل رہے تھے.آپ نے اس کو فرمایا مجھ سے مت ڈرو میں قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی.کیسا پیارا کلام ہے مجھ سے نہ ڈرو میں تو ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی (ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب القديد ) جو بھی آپ کے حضور پہنچتا تھا دیکھتے دیکھتے آنحضور اُس کے دل تک اتر آئے تھے.کیونکہ آنحضور تک پہنچنا ناممکن تھا، ناممکن ہے ناممکن رہے گا.اللہ بھی تو آپ پر اترا تھا.ایک حد تک انسان ایک بلند انسان تک جا سکتا ہے.اس کے بعد دوسرے کواتر نا پڑتا ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھیں کیسی عارفانہ بات فرمائی جب فرمایا معراج تو قلب محمد پر ہوا تھا یہ وہ عرش الہی تھا جس پر خدا اترا تھا.واقعہ یہی ہے ورنہ انسان کو کیا طاقت کہ وہ اڑانے کر سکے، یہ ہو ہی نہیں سکتا جب خدا ہر جگہ ہے تو جس دل پر وہ اتر آئے ، جس دل کو وہ اپنی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 606 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۹۳ء نجابی کی آماجگاہ بنالے وہی عرش ہے اور جہاں سب سے زیادہ شان سے وہ اترے وہ سب سے بلند تر عرش ہے.معراج کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے قلب مطہر پر خدا اس شان سے جلوہ گر ہوا ہے تہ که تمام بنی نوع انسان میں سے نہ بھی پہلے کسی کو توفیق ملی نہ آئندہ کسی کومل سکتی ہے.پس عرش پر خدا کا اتر نا یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے رنگ میں ایک بجز کا اظہار فرماتا ہے یہ اور طرح کا عجز ہے لیکن اگر بندوں پر نہ جھکے تو بندوں کی کیا مجال کہ خدا سے تعلق رکھ سکیں.پس تو حید خالص کے مضمون کو سمجھیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں اس مضمون کا مطالعہ کریں باقی کچھ حصہ میں صلى الله انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا اور اس کے بعد پھر مضمون کا دوسرا حصہ شروع ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذات کا عرفان عطا کرے.کیونکہ عرفان کے نتیجہ میں بجز پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں.جتنا عجز بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے دل کو اپنے جلووں کی آماجگاہ بنا لیتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۲ 607 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء رسول کریم ﷺ کی خاموش سیرت گہرے پانی کی طرح ہے.عالمی بیعت بڑے عالمی جلسہ کی تیاری ہے.خطبه جمعه فرموده ۱۳ اگست ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.قُلْ إِنَّنِي هَدْيِنِى رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِلَّةَ إبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام:۱۶۲_۱۶۳) پھر فرمایا:.تو ان سے کہہ دے یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ میرے رب نے یقیناً مجھے صراط مستقیم کی ہدایت دی ہے.دِینًا قِيَما مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِیفًا یہ وہ سیدھا سیدھی راہ پر چلنے والا ، خود قائم اور دوسروں کو قائم کرنے والا مذہب ہے.مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيفًا جو ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے.یعنی ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی تعریف یہ ہے کہ وہ دِینا قیما ہے.خود بھی سیدھا ہے دوسروں کو بھی سیدھی راہ پر رکھنے والا ہے.وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اور ابراہیم علیہ السلام مشرکوں میں سے ہرگز نہیں تھا.جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا تو عربی محاورے کے مطابق یہ بہت بڑی تعریف ہے.اردو میں ہم کسی کو کہیں کہ وہ چور نہیں ہے تو اس کو بہت غصہ آئے گا.کہے گا کہ ہیں ! تم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 608 خطبه جمعه ۱۳/اگست ۱۹۹۳ء نے وہم کیسے کیا کہ میں چوروں میں شمار ہو سکتا ہوں لیکن عربی میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مشرکین میں سے نہیں ہے جس طرح خدا اپنے متعلق فرماتا ہے میں ظلم کرنے والا نہیں.اس کا مطلب ہے کہ شرک کا کوئی ذرہ بھی، کوئی شائبہ بھی اس میں نہیں پایا جاتا تھا.کلیہ نفی ہے اس لئے وہاں وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بہت بڑی تعریف کا کلمہ بن جاتا ہے کہ ابراہیم کی ذات میں شرک کا ادنی سا شائبہ بھی نہیں تھا.اس کا وجود شرک سے کلیۂ پاک تھا.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق منفی رنگ میں جو تعریف فرمائی گئی یعنی ابراہیم میں شرک کی کوئی آمیزش نہیں تھی ، اس کا مثبت پہلو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ثابت کر کے دکھایا گیا.یہ آنحضرت ﷺ کی بہت ہی عظیم تعریف کا ایک رنگ تھا جو اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمایا.ابراہیم علیہ السلام کو شرک سے پاک قرار دینے کے بعد صلى الله حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو ان مقامات پر فائز دکھایا گیا جو شرک سے پاک ہونے کے بعد عطا ہوتے ہیں.چنانچہ فرمایا.اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکی.دیکھو میری تو تمام تر عبادتیں اور ہر قسم کی قربانیاں.وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي.میرا جینا، میرا مرنا ، میری زندگی ، میری موت سب کچھ اللہ کے لئے ہو چکا ہے.پس شرک کی نفی انسان کو جس چیز کے لئے تیار کرتی ہے.وہ تمام صفات حسنہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ لہ میں پائی جاتی تھیں یعنی پہلے غیر اللہ سے سختی صاف کی، پھر اس تختی پر ہر جگہ خدا کے رنگ بھر دیئے.یہ توحید کا وہ مضمون ہے جس سے متعلق آج میں کچھ اور امور آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں لیکن اس سے پہلے کچھ دوسری باتیں جو ہفتے کے دوران ہوتی رہتی ہیں وہ اپنی طرف توجہ کھینچتی ہیں اور حق رکھتی ہیں ان کا ذکر ضرور کیا جائے.اس سلسلہ میں جماعت احمد یہ ناروے کی طرف سے مجھے یہ تاکیدی پیغام ملا ہے کہ ہماری سالا نه فضل عمر تعلیم القرآن کلاس آج ۱۳ اگست سے شروع ہو کر ۱۵؍ اگست تک جاری رہے گی.اس موقع پر ہمیں بھی پیغام بھیجیں تا کہ ہمارے دل خوش ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کا ساتواں سالانہ اجتماع ۱۴؍ اگست یعنی کل سے شروع ہورہا ہے.یہ اجتماع دو روزہ ہے اور صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے خواہش کی ہے کہ آپ خود تشریف لائیں ورنہ پھر کم سے کم خطبہ میں تو ضرور ذکر کریں.یہ دوسرا پہلو ہے جو میں انشاء اللہ قبول کر سکتا ہوں.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 609 خطبه جمعه ۱۳ اگست ۱۹۹۳ء مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کا سالانہ مرکزی اجتماع ۱۳.۱۴.۱۵ راگست کو منعقد ہورہا ہے.صدر صاحب خدام الاحمدیہ امریکہ نے اجتماع کی کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کی ہے.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کوئٹہ کا سالانہ اجتماع ۱۴/ اگست کو شروع ہورہا ہے.قائد صاحب ضلع کوئٹہ نے اجتماع کے حوالے سے مجھ سے کچھ کہنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے.ان تمام اجتماعات سے متعلق میں ایک مرکزی بات جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں یہ سب تربیتی اجتماعات ہیں اور آج کل جبکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت دنیا میں بکثرت پھیل رہی ہے اور رفتار تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے تربیت کی طرف پہلے سے زیادہ گہری نظر کے ساتھ اور مستقل مزاجی کے ساتھ توجہ دینی ہوگی.مجھے بچپن سے مختلف قسم کے تربیتی اجتماعات میں شامل ہونے کی بھی توفیق ملتی رہی اور وہ اجتماعات منعقد کروانے کی بھی توفیق ملتی رہی.مختلف جماعتی ذمہ داریوں میں یہ تجربے اطفال الاحمدیہ سے لے کر انصار اللہ تک کی عمر تک دراز ہیں.میں نے ایک بات جو ہمیشہ محسوس کی اور اس کی وجہ سے طبیعت میں اطمینان نہیں ہو سکا کہ اجتماعات پوری طرح فائدہ مند ہیں بھی کہ نہیں، وہ یہ تھی کہ اجتماعات میں ضرورت سے زیادہ پروگرام بھر دیئے جاتے تھے اور کوشش کی جاتی تھی کہ تین دن میں سب کچھ پڑھا دیں.قرآن کریم کا کورس ، حدیث کا کورس ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کا کورس، نمازیں یاد کروانا، تبلیغ کے گر بتانا تبلیغ کی مرکزی آیات بتانا، اعتراضات کے جواب سکھانا ، یہ ناممکن ہے.ہو ہی نہیں سکتا کہ تین دن یا پندرہ دن کے اجتماع میں بھی یہ ساری باتیں اچھی طرح بچوں کے ذہن نشین کرا دی جائیں.پھر وہ سرسری سے امتحان ہوتے تھے اور پھر انعامات تقسیم ہو گئے اور سب نے جبّذا کہا اور چھٹی ہو گئی.کچھ دن کے بعد جب آپ ان بچوں سے جا کر پوچھیں کہ کچھ یاد بھی ہے تو شاید ہی کوئی ہو گا جسے یاد ہوگا اور وہی ہوگا جسے پہلے ہی یاد تھا.اجتماع کے بعد اس تین دن کے تیزی کے ساتھ گھوٹنے والے پروگراموں میں بچوں کو کچھ بھی یاد نہیں رہتا.ہاں ایک روحانی لذت ضرور ہوتی ہے.اجتماع میں شمولیت کی برکت ضرور عطا ہوتی ہیں.اس لئے اجتماع کو بے فائدہ کہنا تو یقینا غلط ہے مگر پروگرام اس ذہانت سے ترتیب نہیں دیئے جاتے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ ہو سکے.تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 610 خطبه جمعه ۱۳ اگست ۱۹۹۳ء استفادہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پروگرام نہیں بلکہ کم سے کم پروگرام رکھنے چاہئیں.یہ دو چیزیں ایک دوسرے سے ضد رکھتی ہیں تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ پروگرام کم سے کم افادہ کریں گے یعنی فائدہ پہنچائیں گے اور کم سے کم پروگرام جن کو بڑی محنت کے ساتھ اور عقل کے ساتھ تیار کیا گیا ہو اور بار بار رواں کروایا جائے تو یہ پروگرام بہت گہرا فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کو سال بھر کا Home Task دیا جائے.ہمارے ہاں سکولوں میں بھی استاد سمجھتے تھے کہ ایک گھنٹے کی پڑھائی یا چالیس منٹ کی پڑھائی کافی نہیں ہے.اس لئے وہ گھر کا کام دیا کرتے تھے.یورپ میں یہ رواج بہت زیادہ ہے.جتنا کام وہاں دیا جاتا تھا اس سے بہت زیادہ کام یورپ میں گھر پر دیا جاتا ہے.تمام یو نیورسٹیاں یہی کرتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک بچہ گھر جا کر خود ذمہ داری اور توجہ سے ان باتوں کو سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کرے گا.اس وقت تک محض کلاس کا پڑھا ہوا کافی نہیں ہے.تین دن کے جو اجتماعات ہیں ان میں تو بچے کو زائد وقت ملتا ہی نہیں.ناممکن ہے کہ وہ رات گیارہ بجے تک مصروف رہے اور پھر صبح چار بجے اس کو تہجد پر بھی اٹھانا ہواور بیچ میں وہ گھر کے کام کی تیاری بھی کرے اس لئے حقیقت پسندی بہت ہی ضروری چیز ہے.ساری دنیا کے اجتماعات کو حکمت سے بھر دیں عقل کے مطابق کام کریں، یہ بات یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ( البقره: ۲۸۷).اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اس لئے آپ اگر اجتماع میں شامل ہونے والے یا تربیتی کلاسز پر آنے والے بچوں پر یا بڑوں پر ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالیں گے تو ایک قسم کی خدائی کا دعوی کرنے والی بات ہے.جو جھوٹی خدائی ہے کیونکہ سچا خدا تو بوجھ نہیں ڈالتا.یہ جھوٹے خدا ہی ہیں جو اپنی بے وقوفی سے بوجھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.میں نے لفظ تو بہت سخت بولالیکن جو آخری تجزیہ ہے وہ یہی بنتا ہے.انسان جب بھی خدا کی صفات سے ہٹ کر قدم اٹھاتا ہے تو عملاً ایک قسم کا جھوٹا خدا ہونے کا دعوی کرتا ہے اگر چہ وہ بالا رادہ نہ بھی ہو اگر بالا رادہ ہو تو وہ شرک ہے اور بہت بڑا گناہ ہے لیکن اگر غفلت کی حالت میں ناسمجھی میں کیا جائے تو شرک تو نہیں مگر شرک کے نقصانات ضرور رکھتا ہے کیونکہ انسان کو غیر اللہ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.صفات باری تعالیٰ سے ہٹ کر آپ جو بھی کام کریں گے
خطبات طاہر جلد ۱۲ اس میں فائدے سے محروم رہ جائیں گے.611 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء اس لئے تربیتی اجتماعات کو اس رنگ میں ترتیب دیں کہ جو کچھ وہاں پڑھائیں اس میں صرف نمونہ دیں اور وہ نمونے اتنے پکا دیں اور اس محبت سے پڑھائیں کہ وہ نمونے ذہن نشین بھی ہوں اور دلنشین بھی ہوں.ان سے پیار ہو جائے.مثلاً اگر آپ ساری نماز نہیں پڑھا سکتے تو سورہ فاتحہ پڑھائیں اور اتنا پڑھائیں اور اس طرح بار بار پڑھائیں کہ اس کے معانی سے محبت ہو جائے اور اس اور کا مضمون ذہن میں نقش ہو جائے وہ یاد ہو اور اس طرح یاد ہو کہ پڑھنے کے ساتھ ذہن کو تر جمہ نہ کرنا پڑے بلکہ عربی الفاظ کے ساتھ ساتھ ہی وہ ترجمہ ذہن میں نقش ہو.ایک انسان کو جب سورۃ فاتحہ سے محبت پیدا ہو جاتی ہے تو باقی نماز کے لئے سورۃ فاتحہ رستہ صاف کرتی ہے اور صراط مستقیم کا ایک یہ مطلب ہے.سورہ فاتحہ میں وہ صراط مستقیم ہے جس پر ایک دفعہ ڈالا جائے تو انسان کے قدم وہاں رکتے نہیں ہیں کہ جہاں تک ہاتھ پکڑ کر لے گئے وہاں جا کر کھڑے ہو گئے بلکہ صراط مستقیم وہ صراط ہے جس کا سلسلہ انبیاء تک چلتا ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحه :) حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ تک دراز ہیں.وہ سارے سفر جو آپ نے صراط مستقیم میں روحانیت کے طے کئے ہیں اور جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں بھی آیا ہے جو میں نے ابھی پڑھ کرسنائی ہے.وہ صراط مستقیم وہی ہے جس کا سورہ فاتحہ میں ذکر ملتا ہے.پس سورۃ فاتحہ پر زور دیں اور بہت محنت کے ساتھ، عقل کے ساتھ ، محبت کے ساتھ ذہن نشیں کرائیں، دل نشین کرائیں تو پھر عبادت کے جو باقی حصے ہیں وہ سورہ فاتحہ ہاتھ پکڑ کر آپ ہی آگے چلا دے گی.پھر Home Task کے طور پر ان کو دیں.ان کو کہیں کہ یہ ہم نے تمہیں یہاں سکھایا ہے.باقی نماز تمہیں نہیں آتی اب تم گھروں کو جاؤ، تو جہاں جہاں بھی خدام الاحمدیہ کی تنظیم ہے یا انصار اللہ کی تنظیم ہے یا جماعتی تنظیم ہے (اس کے تابع اگر انتظام ہورہا ہے تو ان کو وہ ہدایت کریں کہ ان کو Take Over کرلو.ہم نے اتنا پڑھا کر بھیج دیا ہے آگے تم سنبھالو اور اس سے آگے نگرانی میں پڑھانا یہ مقامی طور پر تمہارا کام ہوگا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تین دن کا جو پروگرام ہے وہ ایک سال تک بھی ممند ہوسکتا ہے وہ تخم ریزی ہے جو آپ ان تربیتی اجتماعات میں کر سکتے ہیں جس سے آگے نشو و نما ہو سکتی ہے مگر آپ نے اگر چند دنوں میں درخت کھڑے کرنے کی کوشش کی تو سارے درخت مر جائیں گے.وہ جڑ نہیں پکڑ سکتے ، بیج
خطبات طاہر جلد ۱۲ 612 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء لگانے کی کوشش کریں اور تربیتی نقطہ نگاہ سے بھی بیج کی حد تک رہیں.عبادتوں کے قیام سے متعلق ایسی تلقین اور عبادت کے آداب سے متعلق ایسی تلقین کہ اس سے محبت پیدا ہو اور زبردستی نماز پر بلانے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ اجتماع میں شوق پیدا ہو جائے اور خود بخو دلوگ نمازوں پر قائم ہو جائیں.تھوڑا حصہ اپنے پیش نظر رکھیں اور اس تھوڑے کو دائی بنانے کی کوشش کریں.اگر آپ دعا کے ساتھ یہ کام کریں گے اور دعا کی اہمیت بھی دلوں میں جاگزیں کریں گے تو یہ جو چند دنوں کے پروگرام ہیں یہ اللہ سے فضل کے ساتھ ان کی ساری نسل کے پروگرام بن سکتے ہیں، اس پوری صدی کا پروگرام بن سکتا ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ان سارے اجتماعات کے لئے اگر پہلے لمبے چوڑے پروگرام مقرر کئے بھی جاچکے ہوں تو میری اس مختصر ہدایت کی روشنی میں حقیقت پسندانہ پروگرام بنا ئیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے وہی کوشش کریں کہ یہ پروگرام جاری ہو جائیں ، سارے سال کے لئے شامل ہونے والوں کو فائدے پہنچائیں اور جب یہ آئندہ کلاس میں آئیں تو ان کی کیفیت بدل چکی ہو.اس سے بھی اگلے درجے کے طالب علم آپ تک پہنچیں.اللہ تعالیٰ ہمیں معنی خیز پروگراموں کو خدا کی عطا کردہ توفیق کے مطابق بہت ہی زیادہ فائدہ مند بنانے کی ہمت عطا فرمائے.(امین) جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کی خدمت میں چند مثالیں رکھی تھیں اب دنیا سے کثرت سے خط بھی آنے شروع ہوئے ہیں اور جماعت کی طرف سے رپورٹیں بھی آرہی ہیں کہ اللہ کے فضل سے سب دنیا پر اتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی اور مثال ہمیں اپنی زندگی میں دکھائی نہیں دیتی اور جنہوں نے دیکھا ان میں ہر جگہ یہی تڑپ پیدا ہوئی ہے کہ کاش ہم وہاں ہوتے.یعنی یہ نہیں کہا کہ شکر ہے ہم نے بھی دیکھ لیا ، شکر تو ضرور کیا ہو گا لیکن ساتھ ہی یہ تڑپ پیدا ہوئی ہے کہ او ہو.ہو.ہو، یہ تو صرف ٹیلی ویژن والا پروگرام نہیں تھا.وہاں تو شامل ہونا چاہئے تھا.خوش قسمت ہیں وہ جو وہاں پہنچے.چنانچہ مجھے آپ سب کے لئے مبارک باد کے پیغام بھی مل رہے ہیں کہ ہماری طرف سے ان کو مبارک باد دیں.الحمد للہ.اللہ نے ان خوش نصیبوں کو توفیق بخشی اور خدا ہمیں بھی توفیق بخشے کہ آئندہ ایسے پروگراموں میں شرکت کرسکیں.( مین ) ایک شخص نے تو بہت حکمت کی بات کہی ہے.اس نے کہا یہ عالمی بیعت دراصل بہت بڑے عالمی جلسے کی تیاری ہے اور مجھے تو اس سے یہ پیغام ملا ہے کہ اب ہمیں بہت وسیع عالمی جلسے کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 613 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء تیاری کرنی چاہئے.جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ہوگی.بات سچی ہے.میں بھی یہی سمجھتا ہوں تو دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کی تیاری اس رنگ میں کرنے کی توفیق بخشے.انتظامی تربیت تو اللہ کے فضل سے ہو رہی ہے.خدا سے ہم یہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں.یہی دعا ہوتی ہے کہ جماعت کے انتظام بہتر سے بہتر ہوتے چلے جائیں مگر آنے والوں کی روحانی مہمان نوازی، ان کی دینی تربیت کی صلاحیت پیدا کرنا اور ان اجتماعات کو ایک عظیم روحانی اجتماع میں تبدیل کرنا یہ ہما را اول مقصد ہے اور اسی مقصد پر نگاہ مرکوز رہنی چاہئے.اس مقصد کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھتے ہوئے دعائیں کریں کہ خدا ہمیں اس طرح کے عالمی جلسوں کی توفیق بخشے جو دنیا کے لحاظ سے بھی نظیر نہ رکھتے ہوں اور دین کے لحاظ سے بھی نظیر نہ رکھتے ہوں.امین.اس سلسلہ میں مکرم امیر صاحب کینیڈا کے خط کے بعض دلچسپ اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں تفصیلی خط ہے.وہ لکھتے ہیں کہ اتنی جلدی اس پروگرام میں دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی کہ ٹورانٹو ہی میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسجد میں حاضری دو ہزار سے تجاوز کرگئی یعنی بڑی دور دور سے ٹورانٹو کے علاقے سے دور دور سے دو ہزار احمدی مرد و زن بچے شامل ہوتے رہے اور بیچ کے جو نانے تھے ان کو ہم نے قرآن ، درس حدیث ، درس ملفوظات سے سجایا.بہت ہی اچھا پروگرام بنایا، ایک بہت ہی دلکش مقامی جلسہ بن گیا جو ایک پہلو سے عالمی جلسے کا بھی حصہ تھا اور ایک پہلو سے مقامی جلسہ بنا ہوا تھا.ان کے لئے پھر خاطر مدارات کے بھی انتظام ہنگر خانہ مسیح موعود علیہ السلام جاری ہوا، Marquees لگ گئیں.گویا کہ بہت ہی رونقیں لگیں اور کہتے ہیں کہ اتنا روحانی لطف آیا کہ الفاظ نہیں ہیں جو بیان کیا جا سکے.کہتے ہیں کہ افتتاحی تقریر کے بعد جس میں غالبا یہ اشارہ تھا کہ آئندہ کیا آنے والا ہے.کہتے ہیں کہ لوگ سخت بیتاب ہوئے اور اس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ کاش ہم بھی اسلام آباد پہنچ جائیں.ایک دوست کی حالت تو ایسی غیر ہوئی کہ گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے.بار بار کہتے تھے کہ کاش میرے پر ہوں، میں بھی اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں، ایک دوست نے اگلے روز بتایا کہ وہ ائیر پورٹ جا کر ساری رات کوشش کرتے رہے کہ کوئی جہاز مل جائے تو میں پہنچ جاؤں.لیکن آج کل جہازوں پر مسافروں کا بہت دباؤ ہے کیونکہ چھٹیاں ہیں اور یہ سفروں کے موسم ہیں.اس لئے آج کل مغرب میں سفر بہت مشکل ہو گیا ہے اور اگر پہلے بلنگ نہ کروائی جائے تو سیٹیں آسانی سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 614 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء نہیں ملتیں.بہر حال ان کو مجبور اواپس آنا پڑا.اس کے بعد انہوں نے بعض اور باتیں لکھی ہیں.ایک بات انہوں نے دیکھی ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اس دوران توحید کے ضمن میں یہ کہا کہ بعض لوگ جو مجھے کہتے ہیں کہ آپ کی دعا سے یہ ہوا، آپ کی دعا سے وہ ہوا ، اس سے مجھے بہت تکلیف پہنچتی ہے.اللہ کے فضل کی باتیں کیا کرو.کہتے ہیں یہ بات درست ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ مثلاً ہم نے کوششیں کیں، دعائیں کیں لیکن کام نہیں بنے.آپ کو لکھا اور دعا کا جو جواب آیا اس سے بھی صاف پتا لگتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے اور ناممکن ہوتا ہوا کام ممکن ہو گیا اور خدا کی طرف سے ہماری اس رنگ میں بڑی حوصلہ افزائی ہوئی کہ خلافت سے تعلق اور دعاؤں کے نتیجہ میں ہمارے رکے ہوئے کام بھی چل پڑتے ہیں تو یہ حقیقت بھی سامنے ہے اور ادھر آپ کی نصیحت بھی ہے اب بتائیں ہم کیا کریں.اصل واقعہ یہ ہے کہ قبولیت دعا سے وہ انکار نہیں تھا.مجھے یاد ہے کئی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے زمانہ میں مختلف وقتوں میں بعض مشکلات آپڑتی تھیں.بعض مسائل لا نخل دکھائی دیتے تھے.خود دعائیں کیں اور کوئی فرق نہ پڑا.ایک موقع خاص طور پر مجھے یاد ہے.میں دفتر وقف جدید میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اچانک مجھے یہ خیال آیا کہ اب تک حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں دعا کے لئے نہیں لکھا.چنانچہ دعا کے لئے لکھا اور دوسرے دن جواب آیا اور جواب کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سارار کا ہوا کام بن گیا.ساری مشکل حل ہو گئی تو یہ واقعات درست ہیں اور اس میں کسی بندے کی ذات کا سوال نہیں ہے ، بعض مناصب پر اللہ تعالیٰ کی نظر ہے اور ان کا احترام دنیا میں قائم کرنے کے لئے ، ان سے تعلق قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر رحمت فرماتا ہے.پس جب تک میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث" کا ایک ادنی غلام اور چا کر تھا میں آپ کی دعاؤں سے مدد حاصل کرتا رہا اور میں نے بہت برکتیں دیکھیں.پس اس حقیقت سے میں ہرگز انکار نہیں کر رہا.اس کے علاوہ سلسلہ کے بہت سے بزرگ ہیں جن کو میں جانتا ہوں.خود میں نے بھی ان کو دعاؤں کے لئے لکھا ہے اور ان کی برکتوں سے فیضیاب ہواہوں ،اب بھی مجھے لکھنے میں نہ صرف عار نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ضروری ہے کہ بزرگوں کو جن کا خدا سے تعلق محسوس ہو.ان کو دعا کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 615 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء لکھا جائے اور ہر طرف دعا کا یہ انتشار کیا جائے.یہ جماعت احمدیہ کا تشخص ہے.آج دنیا میں جماعت احمدیہ کے سوا کوئی جماعت نہیں ہے جہاں اس کثرت سے، اس تکرار سے اور اس یقین کے ساتھ دعاؤں کے چرچے ہوں اور دعاؤں کے لئے ایک دوسرے سے درخواستیں کی جارہی ہوں.پس یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ دعا میں کچھ بھی نہیں ہے.دعا خدا تعالیٰ کے فضل جذب کرنے کا ایک ذریعہ ضرور ہے اور قطعی ذریعہ ہے اور اتنا اہم ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دعا نہ ہوتی تو مجھے تمہاری کچھ بھی پرواہ نہیں تھی.پس دعا سے انکار نہیں تھا لیکن کہنے کے ڈھب ہوتے ہیں اور اگر ایک شخص خصوصیت سے اس طرح بات کرتا ہو کہ ذہن میں یہ تکلیف دہ خیال جگہ پا جائے کہ یہ مجھے خاص طور پر اٹھا رہا ہے اور گویا میر امر تبہ بڑھا کر پیش کر رہا ہے، مجھے بتا رہا ہے کہ سب کچھ آپ کی دعا سے ہوا اور بار بار اس بات کی تکرار کرتا ہے، کہنے کا انداز ہوتا ہے.اس صورت میں شدید تکلیف پہنچتی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ جناب آپ کی دعا سے میں سن لیتا ہوں لیکن کہنے کی طرز مجھے پسند نہیں آتی.میرا دل چاہتا ہے کہ یہ کہیں کہ اللہ نے فضل فرمایا.آپ کی دعا قبول کرلی.یہ بے شک کہیں کہ مشکل میں تھے ، اللہ نے بہت فضل فرمایا ، آپ کی عاجزانہ دعا کو پایہ قبولیت میں جگہ بخشی اور اس کے نتیجہ میں رحم فرمایا.یہاں تک تو کوئی شرک والی بات نہیں ،لیکن خدا کا ذکر ہی نہ آئے اور بار بار کہا جائے آپ کی دعا.آپ کی دعا.اس سے تو اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض دفعہ میں اس سے جان بوجھ کر عدم توجہ کرتا ہوں کیونکہ یہ کہنا بھی جائز نہیں ہے ، مناسب نہیں ہے کہ اس کو کہا جائے کہ نعوذ باللہ تم نے ایک مشرکانہ رنگ اختیار کیا ہے کیونکہ وہ بے چارا کہ تو یہی رہا ہے نا کہ اللہ نے دعا قبول کی، اس کی دل آزاری نہ ہو جائے ، اس لئے میں اعراض کرتا ہوں اور اعراض کرتا ہوں تو سمجھتے ہیں کہ میں نے سنا ہی نہیں.چنانچہ ہر آدمی تو نہیں لیکن بعض ایسا کرتے ہیں کہ پھر بار بار وہی بات کرتے چلے جاتے ہیں، تو یہ سارے تلخ تجربے میرے پیش نظر تھے جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے نصیحت کی تھی کہ صرف مجھے ہی نہیں اور وں کو بھی جن کی دعا قبول ہوتی ہے شکریہ کے طور پر بے شک کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان فرمایا کہ ہم نے آپ کو بھی دعا کے لئے لکھا تھا.خدا نے آپ کی دعا بھی قبول فرمائی ہوگی اور اس سلسلہ میں جہاں تک آپ کی دعا کا تعلق ہے، ہم آپ کے ممنون ہیں لیکن اصل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 616 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء احسان خدا ہی کا ہے.پس اللہ کے احسان کو ہمیشہ غالب رکھیں اور اتنا نمایاں طور پر غالب رکھیں کہ آپ کے ذہن کے بھی کسی گوشے میں یہ خیال نہ پیدا ہو کہ کوئی بزرگ آپ کا اس رنگ میں وسیلہ بنا ہے.جیسے دنیا کے دوسرے مذاہب میں بزرگ پرستی شروع ہو گئی ہے، آج نہیں تو کل یہ چیز بزرگ پرستی میں تبدیل ہو سکتی ہے اور بزرگ پرستی سے تو مجھے ایسی نفرت ہے کہ خدا نے میری طبیعت میں اس کے خلاف اشتعال رکھ دیا ہے.میں برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ دنیا میں بزرگ پرستی کی جائے میں تو آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ سب اولیاء اللہ بنیں بہت مزہ آتا ہے جب دعا گومر بی لکھتے ہیں کہ افریقہ کے جنگلوں میں یہ ہو رہا تھا اور ہم بالکل عاجز آگئے تھے.تو ہم نے عاجزانہ دعا کی اور خدا نے اس طرح نشان دکھایا.یہ تو بہت مزے کی بات ہے اور دل خوش ہو جاتا ہے لیکن بزرگ پرستی کا رنگ اختیار نہ کریں خواہ میری ذات سے متعلق ہی ہو کیونکہ یہ آئندہ نسلوں کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے.مرتبہ وہی ہے جو خدا کا مرتبہ ہے.اس کے بعد سارے مرتبے اس کے تعلق سے بنتے ہیں اور اس اولیت کو اور اس ثانویت کو اتنا واضح طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ شرک کو نہ تصور میں، نہ عمل میں داخل ہونے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے.اپنے آپ کو شرک سے کلیۂ پاک کریں.پس یہی وہ تو حید کا مضمون ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی اس کے متعلق قرآن کریم نے یہ گواہی دی ہے کہ اے محمد ! تو یہ اعلان کر.اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ میری عبادتیں اور میری تمام تر قربانیاں، میری زندگی اور موت، میر امرنا، جینا ،سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہو چکا ہے.اس مضمون کا اطلاق آپ کی زندگی کے ہر شعبے پر مکمل تھا.اس آیت کی راجدھانی آپ کی مکمل ذات پر تھی ، آپ کی ذات کا ایک ذرہ بھی اس آیت کے عمل سے باہر نہیں تھا، آپ کا وجود کامل طور پر اس آیت کے تابع زندگی بسر کر رہا تھا.اس ضمن میں جو گواہیاں کثرت سے ملتی ہیں ان میں سے ایک حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث ہے.چھوٹی چھوٹی باتیں بیان ہوئی ہیں مگر غور طلب بات یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ایسی ہیں جن میں انسان عموماً سمجھتا ہے کہ چھوٹی سی باتوں میں اگر خدا کی مرضی سے ہٹ بھی جایا جائے تو کوئی حرج نہیں.حالانکہ بعض دفعہ چھوٹی باتوں میں اطاعت زیادہ عظمت کا نشان ہے اور تو حید پرستی کی زیادہ علامت بن جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آپ نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 617 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء کبھی کسی کو نہیں مارا نہ کسی عورت کو، نہ خادم کو البتہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب جہاد کیا ہے.(مسلم کتاب الفضائل حدیث نمبر : ۴۲۹) یعنی مزاج ایسا تھا کہ کسی کے اوپر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہتے تھے لیکن خدا کے رستے میں جہاد بہت کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ دراصل آپ کی نرمی بھی خدا کی خاطر تھی اور آپ کی سختی بھی خدا کی خاطر تھی.ایک پہلو جو اس میں بیان ہونے سے رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ کبھی کسی کو نہیں مارا تو کیوں نہیں مارا؟ اللہ کی وجہ سے.اللہ کی محبت سے اور اللہ کے خوف سے کیونکہ یہ بات کہ نہ مارنے کا تعلق خدا کے خوف سے تھا یہ حضرت ابی مسعود کی ایک روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی غلام کو مار رہے تھے، اس سے کوئی بہت نازیبا حرکت ہوئی تھی، تو حضرت رسول اللہ یہ اس طرف بڑھے اور خدا کا خوف دلایا کہ یہ کیا کر رہے ہو.آپ کی آواز میں ایسا جلال تھا کہ حضرت ابی مسعودؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ میں اس غلام کو آزاد کرتا ہوں.آپ نے فرمایا.اگر نہ کرتے تو جہنم کا خطرہ تھا یعنی میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈراتا ہوں.(مسلم کتاب الایمان ) اس کا مطلب ہے کہ آپ کا مار سے رکنا اللہ کے جلال کی وجہ سے تھا اور دوسروں کو جب آپ نے اس طرح کمزوروں پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو اس وقت آپ کے دل کی نیت کھل کر باہر آگئی.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار آپ کو نصیحت کی ہے کہ حضور اکرم یہ کی خاموش سیرت گہرے پانی کی طرح ہے.اس میں ڈوب کر آپ کے حسن و جمال کا اندازہ کریں تو حیران ہو جائیں گے کہ ان خاموش اداؤں میں خدا کی کتنی گہری محبت پائی جاتی تھی اور توحید کتنی زیادہ اس میں جلوہ گر تھی.اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کی سیرت کا عرفان عطا فرمائے کیونکہ اگر سیرت کا عرفان ہو جائے تو ہماری زندگیوں کے نقشے بدل سکتے ہیں.اللہ کی خاطر جہاد کیا ہے مراد یہ ہے کہ جہاں خدا کی خاطر سختی کرنی پڑی ہے وہاں ضرور کی ہے اور وہ مثال نظر آتی ہے جو میں نے پہلے بیان کی تھی یعنی حدود کے اطلاق میں کوئی نرمی نہیں کی.اتنا نرم دل تھا کہ کسی کو ادنی سی تکلیف بھی نہیں پہنچا سکتے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ کی حدود کا سوال ہوا ہے تو دل کو پتھر کرلیا اور خدا کی رضا کی خاطر وہ سزا دی کہ آپ کی ذات کے ساتھ اس سزا کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا.یعنی ایسی سزائیں کہ جن کو سنتے ہیں تو آج بھی دل دہلتا ہے کہ اتنی سخت سزا ہے اور جاری کرنے والا وہ ہے وہ جو دنیا میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.اس ذات کو اس سزا کے نتیجہ میں جو تکلیف پہنچتی ہوگی.یہ بھی وہ خاموش سیرت ہے، جس کا بیان ہمیں نہیں ملتا مگر آنحضرت مو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 618 خطبه جمعه ۱۳ اگست ۱۹۹۳ء صلى الله جب بھی کوئی سزا نافذ کرتے تھے تو چونکہ یہ آپ کی فطرت کے مخالف چیز تھی اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ کو سزا پانے والے سے بڑھ کر تکلیف ہوتی تھی مگر رضائے باری کی خاطر ، خدا کے نام پر، اس کی محبت میں جو جہاد فرمایا ہے وہ اس قسم کا جہاد ہے جس کا ذکر حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا ورنہ جو قتال ہے اس میں تو آنحضرت میہ نے صرف ایک بدنصیب شخص کو نیزہ مارا تھا اور جس کی نوک سے آخر وہ مارا گیا.نوک لگنے سے ہی وہ زخم اتنا گہرا ہو گیا کہ وہ مر گیا، ورنہ حضور اکرم ﷺ کے دشمن کو عملاً مارنے کی کوئی اور گواہی میرے علم میں نہیں ممکن ہے کہ لڑائی کے دوران کہیں تھوڑی بہت ضرب پہنچی ہو لیکن تاریخ نے محفوظ نہ کی ہو.پھر فرماتی تھیں : خدا کی خاطر انتقام چھوڑ دیتے تھے ، انتقام نہیں لیتے تھے لیکن جب خدا کی حرمت کا سوال اٹھتا اور شعائر کی بے حرمتی کی جاتی تو پھر اس کا انتقام ضرور لیتے تھے.مراد وہی بات ہے جو میں نے کی ہے کہ شعائر کی بے حرمتی میں اسی حد تک انتقام لیتے تھے جس حد تک اللہ تعالیٰ انتقام کی ہدایت فرماتا تھا اس سے بڑھ کر نہیں.پس اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعلمین میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے وہ تمام پہلو ہیں جن میں آپ کا کسی غصہ کے اظہار سے رک جانا بھی شامل ہے، محبت اور پیار کا اظہار بھی شامل ہے، عفو بھی شامل ہے اور سزا بھی شامل ہے.یہ تمام امور حضور اکرمﷺ کی تو حید کے ساتھ کامل وابستگی کے نشان ہیں تو حید کے ساتھ کامل وابستگی ان معنوں میں کہ خدا کے بعد کوئی ذات باقی نہ رہی.اپنی ذات بھی آپ نے کھو دی.جہاں تک آپ کی کائنات کا تعلق تھا اس کائنات میں خدا کے سوا کوئی وجود نہیں تھا اور خدا کے وجود کے حوالے سے دوسرے وجو د ابھرتے تھے.خدا ان وجودوں سے جو سلوک چاہتا تھا، وہی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ا للہ وہی سلوک ان سے کرتے تھے.اپنی ذات بھی مٹ گئی تھی ، ساری کائنات مٹ چکی تھی.صرف ایک اللہ باقی تھا اور اللہ کے حوالے سے ایک نئی کائنات ابھری تھی.موحد کے لئے ایک نئی دنیا پیدا ہوا کرتی ہے.تبھی قرآن کریم نے خَلْقًا أَخَرَ (المومنون: ۱۵) کا مضمون بیان فرمایا ہے.وہ مومن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے تعلق باندھ لیتا ہے اور خدا کا اس سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اس الہی تعلق کے نتیجہ میں وہ خَلْقًا أَخَرَ پاتا ہے اگر اس کو اسی دنیا میں نئی خلق عطا ہوئی ہے تو باقی دنیا بھی دراصل اس کے لئے ایک نئی خلق کی صورت میں ابھرتی ہے وہ دنیا کو نئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ زاویہ سے دیکھنے لگتا ہے.619 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء جہاں تک جہاد کے دوران حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی اللہ کے لئے غیرت کا تعلق ہے.اس سلسلہ میں ایک لمبی حدیث میں سے ایک حصہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جنگِ احد میں جب وہ دردناک واقعہ پیش آیا کہ وہ صحابہ جو ایک دڑے پر مامور فرمائے گئے تھے اور حکم تھا کہ تم نے وہاں سے کسی قیمت پر نہیں ٹلنا لیکن ان میں سے بعض نے جب یہ دیکھا کہ دشمن کے پاؤں اکھر گئے ہیں اور بے تحاشہ بھاگ رہا ہے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ اب ہمارا جو دائرہ امر تھا وہ ختم ہو گیا ہے یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ہمارے لئے جو حکم دیا تھا اس کا دائرہ امرختم ہو گیا.اب اس کی حد ختم اور اب ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں، فتح ہو گئی.ساری عمر کے لئے تو یہاں نہیں بیٹھنا تھا.گویا یہ ان کے ذہن نے سوچا اور یہ سوچ غلط تھی کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان بالکل واضح تھا کہ جب تک میں اجازت نہ دوں خواہ فتح بھی ہو جائے تم نے نہیں ٹلنا.بہر حال غلطی ہوئی اور اس کی بہت بڑی سزا سب مسلمانوں کو بھگتنی پڑی کیونکہ بعض دفعہ ایک غلطی سے قوم کو سزا ملتی ہے.ایک ڈرائیورا ایکسیڈنٹ کرتا ہے لیکن ساری بس کے لوگ مارے جاتے ہیں.یہ ایک قانون قدرت ہے کہ بعض غلطیاں قوم کے لئے تکلیف دہ بن جایا کرتی ہیں.الله بہر حال جب وہ ابتلاء کا وقت آیا تو آنحضرت ﷺ اپنے بعض عشاق کے جھرمٹ میں ایک غار میں پناہ گزیں تھے اس وقت ابوسفیان نے بڑی تعلی سے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ ہم جیت گئے ، بدر کا بدلہ لے لیا گیا اور اس اعلان کے بعد اس نے بلند آواز سے یہ کہا کہ کیا مسلمانوں میں محمد ہے؟ یعنی آنحضرت ﷺ زندہ موجود ہیں؟ صحابہ نے جواب دینے کی کوشش کی لیکن حضور اکرمی نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا کہ بالکل جواب نہیں دینا.پھر اس نے اعلان کیا کہ کیا ابن ابی قحافہ ہے؟ یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور بلند آواز سے تین دفعہ اس نے یہی کہا لیکن چونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اجازت نہ دی تھی اس لئے سب خاموش رہے.پھر حضرت عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ جب اس نے کہا ابنِ خطاب ہے؟ تو حضرت عمرؓ کچھ بے قابو ہوئے اور جواب پر تلے کیونکہ آپ کے مزاج میں اس لحاظ سے ذرا زیادہ تیزی پائی جاتی تھی کہ کون ہوتا ہے عمر کی بے عزتی کرنے والا.تو حضور اکرم ﷺ نے پھر ہاتھ کے خاص اشارے سے کہا کہ نہیں بالکل جواب نہیں دینا.چنانچہ وہ خاموش الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 620 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۹۳ء رہے.ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے یہ جواب دے دیا تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت کرنے والے نے شاید غلطی کی ہو.مجھے اس بات پر تسلی نہیں ہے کیونکہ آخر وقت جو بات رونما ہوتی صلى الله ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت تک صحابہ آنحضور ﷺ کے اشارے پر خاموش ہی رہے تھے اور دشمن کو پتا نہیں لگ سکا تھا کہ وہ کہاں پناہ گزیں ہیں.یہ ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ نے آہستہ آواز میں اپنے دل کا غصہ نکال لیا ہو اور حضور اکرم ﷺ کے اشارے کے احترام میں اونچی آواز استعمال نہ کی ہومگر یہ پہلوغور طلب ہے کہ آپ نے جواب دیا تھا یا نہیں بہر حال جب یہ بات ختم ہوئی پھر ابوسفیان نے بڑے زور سے یہ نعرہ لگایا.اغل هبل اغل مبل کہ ہبل کی سر بلندی ہو.ہبل کی سر بلندی ہو.اس پر حضور اکرم ہے بے قرار ہو گئے اور فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ جواب کیوں نہیں دیتے یعنی جب تک ذاتی انسانی عزتوں کا سوال تھا تو آپ کو کوئی پرواہ نہیں تھی اور حکمت کا تقاضا بھی یہی تھا.بہت زخمی تھے، چند تھے ، کمزور تھے ، دشمن بڑا غالب تھا اور عارضی فتح اس کے سر کو چڑھی ہوئی تھی.ایسے موقعہ پر جواب دے کر اپنی جان خطرے میں ڈالنے والی بات تھی.پس جب تک انسانی عزتوں کا سوال تھا حضور اکرم ﷺ نے بار بار سختی کے اشارے سے صحابہ کومنع کیا.نہ اپنی عزت کی پرواہ کی نہ دوسرے صحابہ کی عزت کی مگر جب اس نے ھبل جھوٹے خدا کی بلندی کا نعرہ لگایا تو حضور اکرم یہ بے قرار ہوئے اور فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے ، جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا.اس سے کہو اور یہ اعلان کروں کہ اللہ اعلی وَاَجَل ، الله اعلی واجل خداہی ہے جو سب سے زیادہ معزز ہے اور سب سے زیادہ جلیل القدر اور جلیل الشان ہے.اس سے زیادہ شاندار کوئی وجود نہیں ہے.( بخاری کتاب المغازی: ۲۷۲۷) پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ الیہ کی زندگی کا ہر پہلو اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے تابع تھا اور کوئی فیصلہ خدا کی عظمت کے تصور کے بغیر نہیں تھا.انسانی عظمت کے تصور کو آپ کے فیصلوں میں کوئی دخل نہیں تھا کلیہ اللہ کی عظمت کے پیش نظر آپ بولتے تھے ،اللہ کی عظمت کے پیش نظر خاموش رہتے تھے اور کسی انسانی مفاد کا آپ کے بولنے اور آپ کی خاموشی میں کوئی دخل نہیں تھا.جب خدا تعالیٰ کی توحید بیان کرتے تو ایک خاص جوش پیدا ہو جاتا تھا، ایک خاص جلال پیدا ہوتا تھا اور صحابہ کی زندگی پر اتنا گہرا اثر پڑتا تھا کہ بعض ایسے خطابات ہیں جن کو صحابہ نے سنا اور از بر کیا اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 621 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء آگے اپنی نسلوں تک ان خطابات کو پہنچاتے رہے.ایک موقع پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس طرح اللہ تعالیٰ کے جمال اور جلال کا ذکرفرمایا.ان الفاظ میں آپ کے سامنے میں یہ حدیث رکھتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے.اے میرے بندو! میں نے اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے.پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.اے میرے بندو! تم سب گم گشتہ راہ ہو سوائے ان لوگوں کے جن کو میں صحیح رستے کی ہدایت دوں پس مجھ سے ہدایت طلب کرو.(مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر : ۴۶۷۴) یہاں اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا ہے کے بعد فرمایا اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ان دو باتوں کا گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق میں آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی ذات میں انسان کے تمام مصالح اور تمام مفادات مجتمع ہو جاتے ہیں کیونکہ اگر خدا ہی ہے اور کچھ نہیں تو انسان کے سارے مفادات اس ایک ذات سے وابستہ ہو جاتے ہیں لیکن وہ مفادات حاصل کیسے ہوں گے؟ آنحضرت ﷺ نے ان اسرار سے پردہ اٹھایا ہے اور یہ فرما ر ہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی ذات پر ظلم حرام قرار دیا ہے.پس جب تک تم اپنی ذات پر ظلم حرام قرار دیئے رکھو گے تمہارا تعلق خدا سے رہے گا.جو تمہیں ظلموں سے بچانے کا ذمہ دار ہو جائے گا.اگر تم نے اپنی ذات پر ظلم حلال کر لئے تو خدا کے اس پہلو سے تمہارا تعلق ٹوٹ جائے گا.یعنی خدا کی ذات سے تعلقات کی دراصل ایک حبل نہیں بلکہ بہت سی رسیاں ہیں اور ہر رسی کا کسی خاص حصے سے تعلق بنتا ہے بعض لوگ کسی ایک صفت میں اللہ تعالیٰ کی کامل غلامی اختیار کرتے ہیں اور اسی کے ہو جاتے ہیں.اس لئے کہ وہ بعض دوسرے صفات میں ویسے نہیں ہو سکتے خدا اس پہلی نیکی کے پھل سے ان کو محروم نہیں رکھتا جس جگہ بھی اور جتنا بھی تعلق انسان خدا سے باند ھے اسی حد تک خدا اپنے رحم و کرم کے جلوے اور اپنے فضل کے جلوے اس انسان کو دکھاتا ہے.پس ٹکڑوں ٹکڑوں میں سے آنحضرت مہ نے جو نصائح فرمائی ہیں ان میں یہ حکمت ہے کہ تم کمزور انسان ہو کس طرح دنیا کے ظلموں سے بچ سکتے ہو.تم میں طاقت ہی نہیں ہے لیکن تم میں ایک طاقت ضرور ہے کہ اگر چاہو تو دنیا کو اپنے ظلموں سے بچالو.اللہ تعالیٰ تم سے یہ توقع تو نہیں رکھتا کہ تم طاقت سے بڑھ کر دنیا کے ہر ظالم کے ظلم سے بچتے رہو جیسے فرمایا لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لیکن اس کیساتھ ہی یہ نصیحت ضرور کرتا ہے کہ خدا کے نام
خطبات طاہر جلد ۱۲ 622 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء پر بنی نوع انسان کو اپنے ظلموں سے بچاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خدائے واحد کی غیرت تمہاری حفاظت فرمائے گی اور تمہیں بنی نوع انسان کے ظلموں سے بچائے گی.پھر فرمایا: اے میرے بندو! تم سب گم گشتہ راہ ہو ،سوائے ان لوگوں کے جن کو میں صحیح رستے کی ہدایت دوں.پس مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا.ایک ہدایت تو وہ جو قرآن کی صورت میں ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم تک آ پہنچی اور وہ جاری وساری ہدایت ہے پھر یہاں کس ہدایت کا ذکر ہے؟ اصل واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنی پڑتی ہے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قرآن کریم پڑھتے ہیں، جگہ جگہ ان کے لئے اشکال آتے ہیں.وہ علماء کی طرف دوڑتے ہیں، کتابیں بھی پڑھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ مشکلات دور ہو جائیں یہ اچھی بات ہے ، محنت کرنی چاہئے مگر سب سے پہلے دعا کرنی چاہئے اور یہی مضمون یہاں بیان ہوا ہے.وہ لوگ جو دعا کی طرف متوجہ نہ ہوں اور انسانوں سے قرآن کریم کے مسائل سمجھنے کی کوشش کریں.پہلا انحصار انسانوں پر ہوان کو کبھی بھی سچا عرفان نصیب نہیں ہوتا.بعض لوگ ایسے ہیں کہ پھر ان کو ایک اشکال کے بعد دوسرا اشکال دکھائی دینے لگتا ہے.ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو ایک اور کھڑا ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر بڑی واضح نصیحت فرمائی کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو، اچھی بات ہے پوچھا کر ولیکن دعا تو کیا کرو.دعا کر کے خدا سے براہ راست ہدایت طلب کیا کرو.پھر بہت سے ایسے مسائل ہیں جو خدا خود تمہیں سمجھا دے گا اور اس طرح ہر بات میں احتیاج نہیں رہے گا.یہ لازم ہے کہ ہر انسان کا ایک مرتبہ، ایک مقام ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے بعض کو زیادہ عرفان عطا کیا ہوتا ہے بعضوں کو کم ، اس لئے دعا کے بعد بھی ایک احتیاج رہ جاتا ہے لیکن اس احتیاج میں اور دعا کے بغیر احتیاج میں زمین آسمان کا فرق ہے.دعا کے بعد جو احتیاج باقی رہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خود پورا فرما تا ہے.تسلمی عطا کرتا ہے جو ہر سائل کا اصل مقصد ہے کہ اس کے دل کو تسلی نصیب ہو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت بھی تو یہی تھی دل میں ایک اشکال پیدا ہوا کہ مردے کیسے زندہ ہوں.وہ تو میں جو صدیوں سے مری ہوئی ہیں یہ کیسے زندہ ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ سے بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 623 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء عاجزی کے ساتھ عرض کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ایمان نہیں لاتا ؟ عرض کیا کہ اے آقا! ایمان تو لاتا ہوں لیکن دل کو بھی تو اطمینان نصیب ہو.بہت ہی پیاری بات ہے.اس کو پیش نظر رکھیں.ایمان کے ذریعہ قرآن کریم کی ہر بات کو تسلیم کرنا یہ اور بات ہے.یہ ایمان اور اسلام کے ساتھ تعلق والی بات ہے.طمانیت قلب کا مضمون اور ہے.آپ ہاں کہہ جاتے ہیں.سرتسلیم خم کر دیتے ہیں لیکن بعض دفعہ دل مطمئن نہیں ہوتا ، اطاعت کے جذبے سے ایسا کرتے ہیں مگر انبیاء اور اصدقاء کی سنت یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے تسکین دل بھی طلب کرتے ہیں اور اس کے بغیر ایمان کو در حقیقت دائمی زندگی نصیب نہیں ہوا کرتی.جہاں طمانیت قلب میں کمی ہو وہاں جگہ جگہ خلا پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ خلا جو ہیں وہ عمومی کمزوری کا موجب بن جایا کرتے ہیں.بعض دفعہ جب ہوائی جہازوں کے پر ٹوٹ جاتے ہیں اور تحقیق کی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ جب ان کو بنایا گیا تھا تو ہوا کے بعض بلبلے ان کی تخلیق میں داخل ہو گئے اور جہاں جہاں بلبلہ ہے وہاں وہاں کمزوری ہے.پس کثرت استعمال سے ان بلبلوں کے ارد گرد کمزوری بڑھنا شروع ہوئی اور بالآخر وہ پر ٹوٹ گئے جب کہ سائنس کے نقطہ نگاہ سے جس طرح تیاری کی جاتی ہے بظاہر ان کو نہیں ٹوٹنا چاہئے.پس ایمان میں بھی بعض دفعہ خلا کے بلبلے آجاتے ہیں اور وہی جگہ ہے جس کا طمانیت سے تعلق ہے.پس وہ لوگ جن کے دل مطمئن نہیں ہوئے ان کو لازماً اللہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور خدا سے ہدایت طلب کرنی چاہئے اور خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ تم مجھ سے ہدایت مانگو گے تو میں تمہیں ضرور ہدایت دوں گا.پس اللہ تعالیٰ کے ہدایت عطا کرنے کے کئی رستے ہیں.بعض دفعہ دل میں ایک سوال اٹھتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس کا جواب خدا کی طرف سے رویا میں ملے یا ویسے القاء ہو، اچانک ایک کتاب پر ہاتھ پڑ جاتا ہے اور اسی کتاب میں وہی مضمون بیان ہوا ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی تحریر سامنے آجاتی ہے جس سے سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے.پس ہدایت طلب کرنے کی عادت کو اختیار کریں اور اس کو پکڑ لیں.ہر مشکل کے وقت پہلے اللہ ہی کا خیال آنا چاہئے.خداہی سے مدد مانگیں.ہر مسئلہ کے وقت پہلے اللہ سے پوچھیں اور پھر دنیا کی کوشش ضرور کریں.پھر اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے گا.پھر فرماتا ہے.میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلاؤں، پس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 624 خطبه جمعه ۱۳ اگست ۱۹۹۳ء مجھ سے رزق طلب کرو.میں تم کو رزق دوں گا.یہاں صرف بھو کے پیش نظر نہیں ہیں جن کو واقعی کھانا نہیں ملتا.امیر بھی اور غریب بھی تمام بنی نوع انسان اس میں شامل ہیں.پس ہر کھانا جو ہمیں نصیب ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق ہے.اگر خدا اس رزق سے ہاتھ بھینچ لیتا تو ہمیں نصیب نہ ہوتا.بعض دفعہ خدا تعالیٰ اس طرح بھی ہاتھ کھینچتا ہے کہ رزق سامنے ہے لیکن کھانے کی توفیق ہی نہیں.بچے ہیں جن کو بیماری ہو جاتی ہے اور بھوک ہی نہیں لگتی ماں باپ روتے پھرتے ہیں کہ ان کو ہم اچھے سے اچھا کھانا دیتے ہیں لیکن ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے.پس یہ بہت بڑا اور وسیع مضمون ہے جس کا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق ہے جس میں انسان رزق کا محتاج ہو، خواہ وہ رزق مال و دولت کی شکل میں ہو، خواہ وہ کھانے پینے کی شکل میں رزق ہو.بعض دفعہ مال و دولت نصیب ہوتا بھی ہے لیکن اس کا فیض انسان کو حاصل نہیں ہوتا.مال، بڑے بڑے امیر لوگ ایسے ہیں جن کے سینوں میں آگ لگی رہتی ہے کچھ بھی فائدہ نصیب نہیں ہوتا.پس فرمایا ہے کہ میں رازق ہوں.میں رزق دیتا ہوں مجھ سے مانگو.اس کا مطلب ہے کہ ہمیں رزق نصیب بھی ہو تو خدا سے ضرور رزق مانگنا چاہئے.وہ رزق خدا کی طرف سے عطا کردہ رزق بنا ہوا ہو اور ہماری کمزوریوں کے نتیجہ میں حاصل کردہ رزق نہ ہو.جب آپ اس مضمون میں داخل ہوں تو مالی معاملات میں صفائی کا مضمون اس کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے.ایک طرف انسان خدا کو یہ عرض کرتا ہے کہ اے خدا! میرا تو ہر کھانا تیری عطا ہے.تجھ سے نہ مانگوں تو مجھے کچھ بھی نہ ملے اور دوسری طرف بھائیوں سے، دوستوں سے بد دیانتیاں بے ایمانیاں اور جھوٹے وعدے کر کے پیسے بٹورنا ، بلکہ بعض لوگ اپنے ماں باپ کی وفات پر اپنے بھائیوں اور بہنوں کے حق مار جاتے ہیں.کئی ایسے مقدمے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بہنیں عمر بھر روتی رہیں لیکن ظالم بھائی قابض تھے انہوں نے جائیداد میں سے بہنوں کو کچھ نہ دیا.یہ ساری مثالیں عملاً شرک کی مثالیں ہیں اور ان کا تعلق اس حدیث کے اس حصے سے ہے کہ میں رزق دیتا ہوں مجھ سے طلب کرو، دھو کے بازیاں کیوں کرتے ہو ، بد دیانتیاں کیوں کرتے ہو، ایک دوسرے کا حق کیوں مارتے ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو وہ کھانا جو تم کھارہے ہو وہ خدا کا عطا کردہ نہیں رہے گا یعنی خدا تعالیٰ کی رضا اس میں شامل نہیں رہے گی اور ایسا رزق تو زہر بن جائے گا.تمہارے دین و دنیا کے لئے تباہی کا موجب بن سکتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 625 خطبه جمعه ۱۳/اگست ۱۹۹۳ء پھر فرمایا میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں لباس پہناؤں.اب دیکھیں ہم سب نے لباس پہنے ہوئے ہیں اور کبھی خیال ہی نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے لباس پہنایا ہے، مگر آنحضرت ﷺ کا دستور یہ تھا کہ جب کوئی لباس پہنتے تھے تو پیار کے ساتھ بسم اللہ پڑھا کرتے تھے اور اس کو اس طرح ہاتھ لگاتے تھے جس طرح ایک محبوب نے تحفہ دیا ہے.محبت اور ملائمت کے ساتھ پھیرتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اس نے عطا کیا ہے.تو وہ لباس تھا جو واقعی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا.وہ دنیا کا لباس بھی لباس النقومی بن گیا صلى الله تھا.حضرت رسول اللہ ﷺ کا ہر لباس لباس التقویٰ تھا کیونکہ ہرلباس کو اللہ کی عطا سمجھتے تھے.وہ بیوقوف جن کے پاس بے شمار لباس پڑے ہوئے ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے ہماری محنتوں سے ہمیں نصیب ہو گئے ہیں اور خدا کا شکر دل میں پیدا نہیں ہوتا وہ ننگے ہی رہتے ہیں پس یہاں ہم ننگے تھے میں تمہیں پہناتا ہوں، کا ایک اور مضمون بھی ہے اور وہ یہ کہ تم ہر لباس میں ننگے ہو جب تک اللہ تمہیں لباس فاخرہ عطا نہ کرے.پس خدا سے لباس مانگو غالب بھی کہتا ہے.ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی میں ، ورنہ ہر لباس میں جنگ وجود تھا (دیوان غالب صفحہ : ۲۷) میری تو ساری زندگی ایک ننگے وجود میں کئی.ننگے وجود کے دو معنی ہیں.اصل معنی تو ہے.وجود کے لئے شرم یعنی میر اوجود، وجود کے لئے ایک شرم اور عا ر تھا.ایک ناقص انسان تھا کہ وجود گویا مجھ سے شرمندہ ہوتا تھا کہ یہ بھی کوئی وجود ہے لیکن اس میں ایک فن ہے کھیل کھیلا گیا ہے ننگے کا مطلب ویسے نگا ہونا بھی ہے ان دونوں مضمونوں کو اکٹھا کر کے غالب کہتا ہے.ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی میں ، ورنہ ہر لباس میں ننگ وجو د تھا میرے ننگے پن کے سارے داغ کفن نے ڈھانپ لئے ورنہ میں تو ہر لباس میں نگا ہی تھا یعنی دوسرے معنوں میں یہ بات بنتی ہے اور حضور اکرم یہ فرمارہے ہیں کہ تم خدا کے فضل کے بغیر ایسے ننگے ہو کہ کفن بھی تمہار انگ نہیں ڈھانپ سکتا.صرف اللہ کا فضل اور فیض ہے جو تمہارے تن ڈھانپ سکتا ہے.پس لباس التقویٰ چاہتے ہو تو ہر لباس پر اس طرح نظر کرو کہ گویا خدا نے عطا کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 626 خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۹۳ء ہے اور اپنے آپ کو اس کے بغیر ننگا مجھ تو ہمارا ہر لباس جو بھی ہے وہ تقویٰ کا لباس بن جائے گا اور خدا کے فضلوں کا لباس بن جائے گا.وہ ہمارے ظاہری عیوب ہی نہیں ڈھانپے گا خدا کے فضل کا ہاتھ اس میں ایسی برکت ڈالے گا کہ ہمارے باطنی عیوب بھی ہر لباس میں چھپے رہیں گے.پھر حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے.اے میرے بندو ! تم صلى الله الله دن رات غلطیاں کرو تو بھی میں تمہارے گناہ بخش سکتا ہوں پس مجھ سے ہی بخشش مانگو.اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے اس لئے باقی آئندہ ، جو میں انشاء اللہ بیان کروں گا تاہم اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ خدا سے بخشش طلب کرنے کا تعلق بھی انسان کے بخشش کرنے سے ہے اور وہ شخص جو خدا کی راہ میں خدا کی مرضی کے تابع بخشش کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ہمیشہ بخشش کی نظر رکھتا ہے.ہمیشہ اس سے بخشش کا سلوک فرماتا ہے.یہ مضمون بعض دفعہ لوگوں کے ذہنوں میں الجھ جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ بخشش کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات میں بخشش کر دو حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا تھا کہ خدا کے معاملہ میں آنحضرت ﷺ اپنے دل کی نرمی کو دخل نہیں دینے دیتے تھے مجھے بھی بعض لوگ لکھ دیتے ہیں.اچھا ہوا آپ نے بخشش کا مضمون بیان فرما دیا.آپ ہم سے ناراض ہیں اور فلاں بات پر ہمیں سزا ملی ہوئی ہے.اب اس بخشش کے حوالے سے بخش دیں ورنہ خدا آپ کو نہیں بخشے گا.یعنی یہ کہتے تو نہیں ہیں لیکن مراد یہی ہوتی ہے حالانکہ وہ ایسے مقامات ہیں کہ اگر میں بخش دوں تو خدا مجھے نہیں بخشے گا کیونکہ وہاں مجھے اجازت نہیں ہے.انصاف کے ایک ہاتھ سے ہر قصور وار سے جو سلوک ہے خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو وہ مجبوری ہے.وہاں وہ حدیث سامنے آتی ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمہ نے بھی یہ کام کیا ہوتا تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا.( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر : ۳۹۶۴) پس بخشش کے بھی مقامات ہیں اور مراد یہ نہیں ہے کہ آنکھیں بند کر کے بخشتے چلے جاؤ.ایسی بخشش کی اجازت ہے جس سے خدا راضی ہو.اللہ ہو.ایسی بخشش کی اجازت نہیں ہے جس سے خدا ناراض ہو.ا س دائرے میں رہتے ہوئے آپ جتنا بھی بخشش سے کام لیں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوگا اور خدا آر پ سے بخشش کا سلوک فرمائے گا.اب چونکہ وہ پہلا وقت جو غلطی سے استعمال نہیں ہو سکا تھا اور اس کے بدلے ہمیں پندرہ منٹ زائد دیئے گئے تھے وہ بھی ختم ہو گئے ہیں اس لئے آج اس خطبہ کو میں ختم کرتا ہوں باقی انشاء اللہ تعالیٰ اسی مضمون کو اگلے خطبہ میں آگے بڑھایا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 627 خطبه جمعه ۲۰ را گست ۱۹۹۳ء خذوا التوحيد خذوا التوحيد يا ابناء الفارس کے آج آپ مصداق ہیں.آج احمدی قیام تو حید کے لئے بڑی شان سے قربانیاں کر رہے ہیں.( خطبه جمعه فرموده ۲۰ را گست ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَابِما بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (ال عمران : ١٩) ۱۹) پھر فرمایا:.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ یہ گواہی انصاف پر قائم ہوتے ہوئے دے رہا ہے.وَالْمَلَيْكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ فرشتے بھی یہی گواہی دیتے ہیں اور اہل علم بھی یہی گواہی دیتے ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے ، وہی اللہ ہے اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ قابِما بِالْقِسْطِ کو آخر پر رکھا ہے یعنی یہ عبارت اس طرح بنتی ہے کہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں.وَالْمَلَيْكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ بھی قابِما بِالْقِسطِ پر قائم ہوتے ہوئے لیکن لفظ قا ہما کو واحد میں رکھا ہے.قـائـمین نہیں فرمایا.اگر قائمین کہا جاتا تو مراد یہ تھی کہ سارے انصاف پر قائم ہوتے ہوئے گواہی دیتے ہیں لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 628 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء انصاف پر قائم ہونے کی تعریف صرف حضرت جل شانہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور باقی ذیل میں آتے ہیں.یہ بھی توحید کا ایک بہت ہی اعلیٰ مضمون ہے.تو حید کی گواہی دینے والا صاحب توحید سے بڑھ کر کوئی ہو نہیں سکتا.وہی ہے جس کی ہر حال پر اور ہر دنیا پر ، ہر زمانے پر ، کائنات کی ہر چیز پر نظر ہے اور جس کی نظر نہ ہو اتنی وسیع ، نہ زمانوں پر حاوی ، نہ مکان پر ، وہ ذاتی گواہی نہیں دے سکتا.فرمایا قَابِما بِالْقِسط تو اللہ ہی ہے.اس کی گواہی کو سن کر اس پر یقین اور ایمان لاتے ہوئے پھر فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور یہ آواز میں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور اُولُوا الْعِلْمِ بھی یہ گواہی دیتے ہیں اور جب اُولُوا الْعِلْمِ کہا جاتا ہے تو سب سے اول اور اعلیٰ ، صاحب علم ذات حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات ہے.پس یہ بھی ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں اور وہ یہ گواہی قسط پر قائم ہوتے ہوئے ، انصاف پر قائم ہوتے ہوئے دیتا ہے.اس کے ساتھ فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور تمام اہل علم جن کے سردار حضرت محمد مصطفی میں یہ ہیں ان کی بھی یہی گواہی ہے.پس یہ جو مضمون چل رہا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی کے تعلق میں ہے لیکن اس گواہی کی بناء اللہ کی گواہی ہے اور ہر گواہی کی شاخ اسی ایک تنے سے پھوٹتی ہے.قابل اعتماد انصاف کی گواہی صرف خدائے واحد و یگانہ کی گواہی ہے جس کے تابع جو گواہی آتی چلی جائے گی وہ بھی اتنی ہی قابل اعتماد ہوتی چلی جائے گی.اس مضمون پر کچھ اور کہنے سے پہلے میں چند پیغامات کی درخواستوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.خدام الاحمدیہ خوشاب کا سالانہ اجتماع ۱۹ار اگست سے شروع ہو چکا ہے.آج جمعہ کو وہ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ ایک دو کلمے ان کو مخاطب کر کے کہوں.کینیڈا کی مجلس خدام الاحمدیہ کا چھٹا سالانہ اجتماع آج بیت الاسلام ٹورانٹو میں شروع ہو رہا ہے.یہ ۲۰ / سے ۲۲ اگست تک جاری رہے گا.صدر مجلس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کو بھی اس خطبے میں یا درکھا جائے.چونکہ تو حید کا مضمون چل رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کے الفاظ میں ان تمام مجالس کو اور دنیا کی تمام جماعتوں کو پیغام دیتا ہوں.خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس و بشر الذين امنوا ان لهم قدم صدق عند ربهم (تذکرہ صفحہ: ۱۹۷) اے ابنائے فارس ! تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو، خبر دار تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں یہ خوشخبری دو آن لهم قدم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 629 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء صدق عند ربھم کہ خدا کی نگاہ میں ان کا قدم سچائی پر پڑ رہا ہے، ان کے رب کی نظر میں ان کا قدم سچائی پر پڑ رہا ہے.ان دونوں جملوں کا تعلق دراصل تو حید اور اس کے لازمی نتیجے سے ہے.یہاں ابنائے فارس کو یہ ارشاد فرمایا گیا لیکن ابنائے فارس میں روحانی ابنائے فارس لازماً داخل ہیں کیونکہ ابنائے فارس کا مضمون ہی روحانی تعلق سے شروع ہوتا ہے.حضرت سلمان فارسی کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے اہل بیت قرار دیا گو کہ ان کی ذات کا ایک روحانی تعلق ہے جسے اہل بیت کے تعلق میں تبدیل کر کے ظاہر فرمایا گیا.ایک ہی بات ہے جو روحانی طور پر بیٹا بنے ، وہ جسمانی طور پر بھی بیٹا کہلانے کا مستحق بن جاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعلق بھی روحانی ہی ہے.اہل فارس میں سے آپ تھے مگر آپ کی اولاد میں سے نہیں کیونکہ حضرت سلمان فارسی کی تو کوئی اولا د نہیں تھی.تو دو ہر مضمون ہے کہ جہاں ابنائے فارس کا ذکر آئے گا وہاں روحانی اہل بیت لازماً داخل ہوگا.پس خذوا التوحيد التوحید میں ساری جماعت احمد یہ مخاطب ہے اور تو حید کو اگر آپ مضبوطی سے پکڑلیں تو پھر یہ خوشخبری ہے بشر الذین امنوا ان لهم قدم صدق عند ربهم ایسے صاحب تو حید ایمان والوں کو یہ خوشخبری دے دو کہ ان کا قدم خدا کی نگاہ میں سچائی پر پڑا اور جس کا قدم خدا کی نگاہ میں سچائی پر قائم ہوا سے دنیا میں کون بہکا سکتا ہے، کون گمراہ کر سکتا ہے؟ پس قیامت تک آپ کی ہدایت پر قائم رہنے کا راز توحید میں ہے.اس پیغام کے بعد میں پھر اس مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے لیکن مجھے یہ بتایا گیا کہ ایک روایت جو جنگ احد سے تعلق رکھتی ہے جب آپ غار میں پناہ گزیں تھے.وہ میں نے پوری نہیں پڑھی تھی اور کچھ آخری حصہ باقی رہ گیا تھا.اس کے بعد دوسری روایت شروع کر دی.پہلے تو اس کو میں مکمل کرتا ہوں.آخری بات جو اس میں چھوٹی سی رہ گئی تھی چھوٹی تو نہیں لیکن بہت اہم بات ہے لیکن تھوڑی سی عبارت رہ گئی تھی.اس ضمن میں ایک تفصیلی مضمون یہ ہے جب میں پڑھ رہا تھا تو لکھا ہوا تھا.ابن ابوقحافہ یعنی حضرت ابو بکر کے متعلق اور مجھے تعجب ہوا کہ آپ تو ابن ابی قحافہ کے طور پر مشہور ہیں.ابوقحافہ تو آپ کے والد تھے.روایت میں ابو قحافہ کیوں لکھا گیا ہے مگر وہ وقت ایسا نہیں تھا کہ میں اس بحث میں الجھتا جو پڑھا اس پر گزر گیا لیکن بعد میں جب اصل الفاظ نکالے تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 630 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء واقعہ روایت غلط لکھی گئی تھی.حضرت ابوبکر کا معروف نام ہے.سب جانتے ہیں کہ ابن ابی قحافہ کے نام سے یا ابن ابو قحافہ کے نام سے آپ کی کنیت تھی اور اسی نام سے آپ معروف تھے.اس کے بعد جو روایت کا حصہ ہے میں کچھ پہلا حصہ ساتھ ملا کر پڑھتا ہوں.ثم اخذ يرتجز أعل هبل اعل هبل قال النبي صلى الله عليه وسلم الا تجيبونه قالوا يارسول الله ما نقول قال قولوا الله اعلى واجَلّ قال ان لنا العزّى ولا عزى لكم فقال النبي صلى الله عليه وسلم الا تجيبونه قالوا يارسول الله مانقول قال قولوا الله مولانا ولا مولى لكم (مسند احمد حدیث نمبر : ۱۷۸۵) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب ابوسفیان نے زجر شروع کی تو زجر میں اس نے یہ کہا أعل هبل اعل هبل بلند ہو ھبل کا نام.بلند ہوھبل کا نام، حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ اس وقت تک احتیاط کے تقاضوں کے پیش نظر خاموش رہنے کی تلقین فرمارہے تھے آپ نے بے اختیار صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم جواب کیوں نہیں دیتے ، کیا تم اس کا جواب نہیں دو گے.صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں ! کیوں نہیں یا رسول اللہ ہے مگر کیا جواب دیں.آپ نے فرمایا کہ یہ جواب دو الله اعلی واجل، اللہ سب سے بلند ہے اور اللہ سب سے زیادہ روشن ہے، سب سے زیادہ نمایاں ذات ہے اس کی جو چھپائی نہیں جاسکتی.اس پر ابوسفیان نے یہ اعلان کیا کہ ان لنا العزى ولا عزیٰ لکم کہ ہمارے خداؤں میں تو عزی نام بھی آتا ہے اس عزمی کی تائید بھی ہمارے شامل حال ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں ہے، کسی عزئی سے تم مدد نہیں مانگ سکتے ہو.پھر حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ بے چین ہوئے اور فرمایا کیا تم ان کو جواب نہیں دو گے.صحابہؓ نے عرض کیا کہ کیا جواب دیں؟ فرمایا کہو الله مولانا ولا مولی لکم اللہ ہمارا مولا ہے اور تمہارا کوئی مولا نہیں ہے.اس ضمن میں ایک اور تصیح بھی کروں ، میں نے روایت میں جوز بانی یا تھی اس وقت ، یہ کہا تھا کہ غالباً ابن مسعود کی یہ روایت ہے جس میں غلام کو مارنے کا ذکر ہے.غالبا احتیاطاً کہا تھا کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں تھا.مسعود نام یاد نہیں تھا، یاد تھا لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ ابو مسعود ہیں کہ ابن مسعود.تو میں نے تحقیق کروائی تو پتا چلا کہ وہ روایت ابو مسعود کی ہے.ابن مسعود ضمنا میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان ابتدائی صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے بہت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 631 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء چھوٹی عمر میں بیعت کا شرف حاصل کیا اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں چھٹے نمبر کا مبائع ہوں.میں نے چھٹے نمبر پر آنحضور علی کی بیعت کی اور بیعت کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے.یہ کسی کی بکریاں چرا رہے تھے.حضرت رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر کا وہاں سے گزر ہوا اور آپ کو بھوک بھی ہو گی اور پیاس بھی.آپ ﷺ نے اس بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہمیں بکری کا دودھ دوہ دو.تو یہ بڑے نیک فطرت تھے.انہوں نے کہا میری بکریاں نہیں ہیں، کسی کی ہیں اور میں امین ہوں، میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتا.آنحضرت ﷺ کوخدا پر ایسا کامل اعتماد اور یقین تھا کہ اسی وقت فرمایا کہ تم بکری کا دودھ دوہ دو اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس دودھ میں کوئی کمی نہیں آئے گی.اللہ تعالیٰ خود کمی پوری فرمائے گا اور تمہاری امانت قائم رہے گی.ابو مسعود کہتے ہیں کہ جب میں نے دودھ دوہا اور ان کو پلایا تو دیکھتے دیکھتے تھن دوبارہ بھر گیا اور اسی طرح بھر گیا.کہتے ہیں کہ یہ نشان دیکھ کر ہی میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا اور بہت جلد اس کے بعد آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.یہ ابن مسعود ہیں.ابو مسعود وہ ہیں جو ابو مسعود انصاری.یہ بدری بھی کہلاتے ہیں، یہ اور ہیں ،ابن مسعود اور ہے جو روایت تھی وہ ابو مسعود کی تھی.اب میں وہ بقیہ روایت آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں میں یہاں تک پہنچا تھا.حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے منبر پر چڑھ کر بڑے جوش اور بڑی شان وشوکت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گائے ، خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر فرمایا اور خدا کی طرف سے یہ پیغام بنی نوع انسان کو دیا.اس پیغام کا ایک حصہ یہ تھا کہ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو ،سوائے اس کے جس کو میں لباس پہناؤں.( یہاں تک میں بات کر چکا تھا.اب اس کا اگلا حصہ ہے.) پس مجھ سے لباس مانگو.میں تمہیں لباس پہناؤں گا.اے میرے بندو! تم دن رات غلطیاں کرو تو بھی تمہارے گناہ بخش سکتا ہوں.پس مجھ سے ہی بخشش مانگو.یہ مضمون آپس میں بہت گہراتعلق رکھتا ہے.لباس کے متعلق میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اصل لباس تو نباسُ التَّقوى (الاعراف: ۲۷) ہے.وہ لباس صلى الله اگر نصیب نہ ہو تو انسان ہر لباس میں نگار ہتا ہے اور اس کے معاً بعد حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ خدا کا جو پیغام دیتے ہیں.وہ اسی بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر چہ عام لباس کا بھی ذکر ہو تب بھی اصل لباس وہ لباس ہے جو خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے جس سے گناہ ڈھانپے جاتے ہیں، جس سے گناہ ایسی حالت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 632 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء میں ڈھانچے جاتے ہیں کہ اس ستاری کے پر دے تلے انسان ان گناہوں کی بیماریوں کو دور کرتا چلا جاتا ہے اور ان سے صحت یاب ہوتا چلا جاتا ہے.(مسلم کتاب البر واصله حدیث نمبر: ۴۶۷۴) استغفار حقیقت میں اسی کا نام ہے.استغفار کا ایک پہلو ہے کریدتے ہوئے مٹی میں چھپ جانا یا کسی اور چیز کے پیچھے جیسے حضرت آدم پتھر کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے تھے.اپنے گناہوں کو حیا کے نتیجے میں چھپانا، یہ استغفار ہے.یہی عمل حیا کے نتیجے میں نہیں بلکہ دکھاوے کے نتیجے میں بھی ہوتا ہے اور منافقت کے نتیجے میں بھی ہوتا ہے.ایک آدمی اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے حیا کے نتیجے میں نہیں بلکہ ریا کاری کے نتیجے میں.وہ عمل استغفار نہیں ہے.استغفار کا تعلق حیا سے ہے اور جب حیا کے نتیجے میں خدا سے بخشش مانگی جائے اور اس پر پردہ ستاری کو طلب کیا جائے تو لازماً حیا کا تقاضا ہے کہ اس بات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے.ایک انسان کے چہرے پر داغ ہو وہ باہر نکلتا ہے، شرماتا ہے تو اس داغ کو دور کرنے کی بھی تو کوشش کرتا ہے.اس کو اسی طرح تو نہیں لئے پھرتا ہے.پس حیا کا تعلق ایک احساس سے ہے کہ میرے اندر ایک نقص ہے اور وہ حیا اس نقص کو دور کرنے میں ممد ثابت ہوتی ہے اور اس کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہے.پس خدا سے بخشش مانگنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اے خدا ہمارے پر دے ڈھانپ دے اور ہم جو چاہیں کرتے رہیں اور اسی طرح رہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہمیں موقع دے، استطاعت عطا فرما کہ ہم چھپ کر جہاں تک زور لگتا ہے ان گناہوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں.پس اس کا تعلق بھی لباس ہی سے ہے.دیکھیں کیسا فصیح و بلیغ کلام ہے.لباس کے معابعد جبکہ عام انسان کا ذہن اس طرف جاہی نہیں سکتا کہ آگے کیا مضمون ہونا چاہئے.فرمایا میرے بندو! تم دن رات غلطیاں کرو تو بھی میں تمہارے گناہ بخش سکتا ہوں.یہاں گناہ بخشے کا جو اردو محاورہ ہے اس کی طرف نظر نہ رھیں بلکہ جوعربی میں استغفار اور غفران کا مضمون ہے اس کو پیش نظر رکھیں تو یہ بات بنے گی جو میں آپ سے پہلے عرض کر چکا ہوں.پس مجھ سے ہی بخشش مانگو، مجھ سے استغفار کرو، میں تمہیں بخش دوں گا.اے میرے بندو! تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کہ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرو اور نہ تم مجھے نفع پہنچا سکتے ہو.اس کا تعلق بدی اور نیکی سے ہے.خدا کو ویسے تو کوئی نقصان پہنچا ہی نہیں سکتا لیکن خدا کے احکام کی بے حرمتی کر کے، گناہوں میں ملوث ہو کر ، خدا سے ایک قسم کی بے اعتنائی اور تکبر کا اظہار کر سکتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 633 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء اور یہی مراد ہے نقصان پہنچانے کی تو فرمایا کہ تم گناہ تو کرتے ہو اور اگر مجھ سے بخشش مانگو گے تو میں بخش دوں گا اور بخش سکتا ہوں لیکن اگر تم بے پرواہ ہو جاؤ اور مجھ سے بے نیاز ہو جاؤ تو تمام عمر گنا ہوں میں ملوث رہو، سیاہ ترین اعمال کے مرتکب ہو لیکن تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور یا درکھو کہ تمہاری نیکیاں بھی مجھ پر کوئی احسان نہیں اور میری سلطنت میں ایک ذرے کا بھی اضافہ نہیں کر سکتیں جو کچھ ہے تمہارے لئے ہے.گناہ کرو گے تو تم اپنا نقصان اٹھاؤ گے، اپنی ذات کو نقصان پہنچاؤ گے، اگر نیکیاں کرو گے تو اپنے لئے.ہاں یہ فیض میری طرف سے پہنچے گا، تمہیں بدیوں سے بچاؤں اور تمہارے گناہوں کو بخشوں اور نیکیوں کی جزا دوں کیونکہ بدیوں کی سزا سے بچنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے.نیکیوں کی جزا پانا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے.انسان تو خدا کا کچھ بھی نہیں کر سکتا.نہ بدیوں سے نقصان نہ نیکیوں سے فائدہ لیکن خدا اس کو بدیوں سے بچا کر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نیکیوں کی جزا دے کر جو مالک ہے چاہے تو نہ دے اس کو عطا فرما سکتا ہے تو کلیۂ احسان کا رخ خدا کی طرف سے بندوں کی طرف ہے.پھر فرمایا اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے اور پچھلے جن و انس سب کے سب اول درجے کے متقی اور پر ہیز گار بن جائیں اور اس شخص کی طرح بن جائیں جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے.سمجھے ہیں کہ کون مراد ہے ؟ حضرت اقدس محمد مصطفی امت ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یہ رستہ کھلا رکھا ہے کہ ایک انسان محمد ماہ تک پہنچے لیکن پہنچ کوئی نہیں سکے گا کیونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ عالم الغیب ہے اس کھلی دوڑ کی آزادی دے کر جانتا ہے کہ کون آگے نکل چکا اور کوئی اس کے بعد اسے پیچھے نہیں چھوڑ سکے گا.اس مضمون کو توڑ مروڑ کر وہ گندا چھالا کہ دیکھو جی، یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کتنے محمد بن سکتے ہیں؟ کروڑوں بن سکتے ہیں.نعوذ باللہ من ذلک.اور ہرگز یہ مراد نہیں، یہ گستاخی نہیں ہے، یہ ایک شان کا اظہار ہے خدا تعالیٰ یہی بیان فرمارہا ہے.کہتا ہے کہ تم میں سارے محمد بن جائیں.تب بھی میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے.اگر اتقاکم سے محمد رسول اللہ مراد نہیں ہیں تو اور کون مراد ہو سکتا ہے.یہ تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ متقی حضرت محمد رسول اللہ یہ تھے.تم سارے بن جاؤ تب بھی میری سلطنت میں اضافہ نہیں کر سکتے.پس وہ لوگ جو بعض دفعہ عشق محمد میں مبالغہ اس حد تک کرتے ہیں کہ گویا خدا محمد کے لئے پیدا ہوا، یا تھا.ان کو تقوی اختیار کرنا چاہئے.حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 634 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء محمد رسول الله له جو خدا کا پیغام دے رہے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ تو حید کامل یہ ہے کہ ہر دوسرا وجود مٹ جائے اور فنا ہو تب بھی خدا کی تو حید اسی شان کے ساتھ کامل درجے پر قائم رہتی ہے.پس اس کے بعد فرمایا متقی پرہیز گار بن جائیں.اس وجود کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے تو تمہارا ایسا ہو جانا، میری بادشاہت میں ایک ذرہ بھر اضافہ نہیں کر سکتا.اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے اور پچھلے جن و انس تم میں جو سب سے زیادہ بدکار ہے اور اس کے قلب بدنہاد کی طرح، اس کے گناہگار دل کی طرح سیاہ ہو جائیں، تو بھی میری بادشاہت میں کسی چیز کی کمی نہیں کر سکتے.سب سے زیادہ گناہگار دل کا ہو جانا بتاتا ہے کہ دل تو گناہوں کا مرکز ہے وہیں سے گناہ پھوٹتے ہیں اور بالآخر اسی کو سیاہ کر جاتے ہیں.تو مجسم گناہ بن جائے ، یہ مراد ہے.تب بھی میری بادشاہت میں کمی نہیں کر سکتے.اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے اور پچھلے جن وانس ایک میدان میں اکٹھے ہو جائیں اور مجھ سے حاجات مانگیں اور میں ہر ایک کی حاجت پوری کر دوں تو میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی جتنی سمندر میں ایک سوئی ڈبو کر اسے باہر نکال دیا جائے اس کے کنارے پر جتنا پانی رہ جاتا ہے اتنی کمی بھی میرے خزانوں میں نہیں آئے گی.تم نے جو کچھ مانگنا ہے سب کچھ مانگ لو اور میں سب کچھ عطا کر دوں.(مسلم کتاب البر واصله حدیث نمبر: ۴۶۷۴) اسی وجہ سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ دعا کے وقت تنگ نظری سے منع فرماتے تھے.دعا کرنی ہے تو کھل کے مانگو، بہت اچھا مانگو.جتنا مانگ سکتے ہو مانگو وہ مالک ہے اتنا ہی دے گا جتناتم ہضم کر سکتے ہو.اس میں ایک پیغام ہے سوئی کے ناکے کی مثال میں جسے ہمیں سمجھنا چاہئے.فرمایا یہ ہے کہ تم سب مانگو میں سب کچھ دے دوں.تب بھی نقصان نہیں کر سکتے تو پھر خدا کیوں نہیں دے دیتا؟ ہر روز لوگ مانگتے ہیں اللہ دونوں جہانوں کی بادشاہتیں دے دے اور سارے مل کر یہ مانگیں کہ اے خدا ہمیں ساری زمین کی بادشاہت دے دے تو کیا خدا ہر انسان کو یہ دے دے گا اور کیوں نہیں دیتا.سوئی کی مثال نے واضح کر دیا ہے.خدا کا تم کو عطا کرنا تمہارے ظرف کے مطابق ہوتا ہے.دے تو سکتا ہے مگر تم سنبھال بھی سکتے ہو کہ نہیں تمہیں اس کی توفیق بھی ہے کہ نہیں ، کتنا ہی وسیع سمندر ہو اس میں سوئی ڈبوؤ گے اور نکالو گے تو ایک معمولی سی فلم اس پر اس سے زیادہ کچھ نہیں بیٹھ سکتا.تو ساری عمر سوئی ڈوبی رہے ، ساری عمر سے مراد یہ ہے کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ڈوبی رہے.نکلے گی تو اتنا ہی پانی لے الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 635 گی.جتنی اس کی توفیق ہے.یہ سمندر کا قصور نہیں ہے.یہ سوئی کا قصور ہے.خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۹۳ء دیتے ہیں بادہ، ظرف قدح خوار دیکھ کر (دیوان غالب : ۱۱۳) اللہ دے تو سکتا ہے مگر دیتا اتنا ہے جتنا تو فیق ہو.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.وان من شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ) ( الحجر (۲۲) کہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں مگر ہم ان خزانوں کو قدر کے مطابق اتارتے ہیں.قدر سے مراد وقت کا اندازہ بھی ہے اور وہ لوگ بھی ہیں جن کے لئے خزانے اتارے جاتے ہیں، ان کی توفیق کے مطابق خزانوں کے منہ کھولے جاتے ہیں.اب آپ دیکھیں کہ جب تک انسان کو Internal combustion engine بنانے کی توفیق نہیں ملی.تیل کے خزائن کا اس کو کچھ علم نہیں تھا، نہ اس سے خبر تھی ، بے شمار خزائن بکھرے پڑے تھے.لوگ سمجھتے تھے کہ مصیبت ہے تیل کی وجہ سے ہماری زمینیں بنجر ہو گئیں.جہاں جہاں تیل کے اثر ظاہر ہوتے تھے وہ زمینوں کو گندہ کر دیتے تھے اور لوگ اسے نقصان سمجھا کرتے تھے.جب وہ انجن ایجاد ہوئے جن کے اندر ایندھن جلتا ہے یعنی کوئلہ تو باہر جلتا ہے اور اندر گرمی پہنچاتا ہے ، پٹرول انجن کے اندر جلتا ہے جب انسانی دماغ اس حد تک پہنچا کہ ایسی مشینیں ایجاد کرے.بعینہ وہی زمانہ ہے کہ تیل دریافت ہو گیا.تو صرف عطا کرنے والے کی بحث نہیں ہے جن لوگوں کی توفیق ہے اس کے مطابق عطا کرنے والا عطا کرتا ہے ور نہ وہ صاحب حکمت نہیں ہوسکتا.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ جو فرماتے ہیں یہ اس کا مفہوم ہے.دعاؤں کا لا انتہاء ہونا دراصل اپنی لاعلمی کا اظہار ہے.ہمیں پتا نہیں کہ ہماری توفیق کیا ہے اس لئے ہم کم کیوں مانگ لیں؟ جب علم ہے کہ خدا اتنا ہی دے گا جتنی توفیق ہے، جتنا سنبھالا جائے تو مانگو بےحد اور پھر وہ اپنے فضل تم پر جاری فرمائے گا.اس کا تعلق دو باتوں سے ہے اس دنیا میں بعد کی عمر سے بھی اور مرنے کے بعد کے زمانے سے بھی کیونکہ تو فیق بعض دفعہ بڑھ جاتی ہے.ایک بچہ علم کے لحاظ سے کم تو فیق رکھتا ہے ، اس کو آپ وہی باتیں بتاتے ہیں جو وہ سمجھ سکتا ہے لیکن ہمیشہ تو ایک حالت پر نہیں رہا کرتا.وہ علم میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.اس کے علم کے برتن وسیع ہوتے چلے جاتے ہیں.وہ ایسی ایسی باتیں سنبھال سکتا ہے اور جذب کر سکتا ہے اور ان سے فائدے اٹھا سکتا ہے کہ جہاں اوّل زمانے میں اس کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 636 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء ذہن بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ، اس کا تصور بھی نہیں جاتا تھا.تو پھر تو فیق بڑھ جاتی ہے اس لئے اگر آپ زیادہ مانگیں گے تو ہو سکتا ہے آپ کی بڑھی ہوئی تو فیق کے زمانے میں عطا ہو جائے.پھر مرنے کے بعد کی دنیا میں انسان ہمیشہ ترقی کرے گا.مسلسل ایک حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف چلے گا اور آج کی دعائیں ، کل کی دنیا میں کام آئیں گی.پس خدا تعالیٰ سے جب مانگا جائے تو لامتناہی مانگنا چاہئے ، اپنی موجودہ حیثیت کو دیکھ کر نہیں، بلکہ خدا کی لامتناہی شان اور لامتناہی صفات کو دیکھتے ہوئے اور علم کامل کو دیکھتے ہوئے یہ توقع رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ اتنا ہی دے گا جو آج ہم اپنی ذات میں سمو سکتے ہیں اور جوں جوں ہماری ذات کی صلاحیتیں بڑھتی جائیں گی اللہ تعالیٰ ان باتوں کو یا در کھے گا، عطا بڑھاتا چلا جائے گا.یہ باتیں ہم نے حال ہی میں دیکھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خدا سے مانگا تھا اس کے بہت سے حصے ہم نے آج اترتے دیکھے ہیں کیونکہ اس زمانے میں جماعت میں وہ صلاحیت نہیں تھی.اب وہ صلاحیتیں پیدا ہوئی ہیں ، اس زمانے میں صلاحیتیں نہیں تھیں جواب پیدا ہوئی ہیں اور ان صلاحیتوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ان دعاؤں کو یادرکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ ہاں میں دوں گا اور ایسی شان سے وہ وعدے پورے کئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.پس مانگتے ہوئے یا درکھیں کہ وہی ایک ذات ہے جس سے مانگنا ہے، کسی اور سے نہیں مانگنا اور اسی کے آگے دامن پھیلانا ہے اور اسی سے یہ توفیق مانگنی ہے کہ خدا غیر اللہ کا محتاج نہ کرے.اس ضمن میں میں جماعت کے غریب طبقے کو نصیحت کرتا ہوں کہ بعض دفعہ وہ مانگتے تو نہیں مگر طر زایسی اختیار کرتے ہیں کہ جو مانگنے کے مترادف ہو جاتی ہے.مجالس میں بیٹھ کر اپنی غربت کے حال بیان کرتے ہیں ، خطوں میں تفصیل لکھتے ہیں اور عادت ہے بعض لوگوں کو بیچا روں کو کہ وہ بیان کرتے ہیں بار بار حالانکہ غربت سے انسان طبعا شر ما تا ہے، اپنی کم مائیگی اور بے بسی پر.انسان کو اپنی ذات پر تو رونا آتا ہے لیکن بیان کرنے سے شرماتا ہے یعنی یہ سعید فطرت ہے.جب بیان کرتا ہے تو مراد یہ ہے کہ لوگوں کو علم ہو کہ میں ہوں کیا؟ اور اس کے نتیجے میں لوگ مجھے کچھ دیں.اگر بے اختیاری کی حالت میں ایسا ہو تو گناہ نہیں ہے مگر قولِ سدید سے کام لینا چاہئے.کسی کو کہنا چاہئے کہ میں اس طرح ضرورت مند ہوں ، تمہارا بھائی ہوں میرا تم پر حق ہے مجھے کچھ دے دو اور خدا کی خاطر دو.تو یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 637 خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۹۳ء ما صلى الله عملاً خدا سے مانگنے ہی کی ایک قسم ہے اگر خدا کے حوالے سے مانگا جائے لیکن بعض لوگ بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہم دعا کے لئے کہہ رہے ہیں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ جس کو دعا کے لئے کہہ رہے ہیں ، اس کی دعا سے زیادہ اس کی عطا پر اعتماد ہے.وہ دعا کرے نہ کرے کچھ دے تو دے.یہ نفس کے باریک دھو کے ہیں اور ہر قسم کے دھوکے کی نفی کرنا تو حید کا کام ہے، توحید خالص کے نتیجے میں انسان نفس کے بار یک سے باریک دھوکوں سے بھی آزاد ہوتا چلا جاتا ہے جب کامل طور پر توحید عطا ہو جائے تو پھر ایسے بہانوں اور ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے انسان بہت بلند ہو جاتا ہے.یہ سفر ہے جو عام حالت سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی اعلیٰ وارفع ذات کی طرف کا سفر ہے.سفر تو سب خدا ہی کی طرف ہونا چاہئے.پھر میں نے کیوں کہا کہ یہ سفر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کی طرف کا سفر ہے اس لئے کہ یہ وہی رستہ ہے جو خدا کی طرف لے جاتا ہے اور اس رستے پر سب سے آگے حضور صلى الله اکرم ، تو آپ پیچھے پیچھے خدا کی طرف سفر تو کر سکتے ہیں آگے بڑھ کر وہ سفر نہیں کر سکتے.اس لئے وَمَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ (النساء: (۷۰) کا پیغام سمجھ آجاتا ہے.فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ تم اطاعت کرو اللہ کی یعنی اس کے رسول کی بھی ، وَالرَّسُول میں خدا کی ذات کے سوا مقابل پر ذات کھڑی نہیں کی گئی.یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کی اطاعت لیکن کس طرح اطاعت کرو گے محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرو گے تو خدا کی اطاعت سمجھ آئے گی ، ورنہ تمہیں سمجھ نہیں آ سکتی.اس رسول کی اطاعت ضروری ہو گئی ہے تمہارے لئے کیونکہ اس نے اطاعت کے سارے مراحل طے کر لئے اور کامل طور پر کر لئے اور توحید خالص بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی سے نصیب ہو سکتی ہے ورنہ بڑے بڑے موحد کہلانے والے ہیں جن کے نفس نے ان کو دھوکہ دے رکھا ہے.توحید کے نام پر میں نے شرک کی تعلیم دینے والے بھی دیکھے ہیں.پس ایک ہی پاک تو حید ہے کسی غیر اللہ کا کوئی شائبہ نہیں ، کوئی سایہ بھی نہیں پڑتا.وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تو حید ہے.اس تو حید پر کامل بنا کرتے ہوئے ایک ذرہ بھی شک نہ رکھتے ہوئے دل میں ، آپ کی متابعت کریں تو معراج کی طرف حرکت ہے یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے آخری مقام کی طرف حرکت ہے.الله الله صلى الله اس ضمن میں میں آج کل کے بہت سے موحد کہلانے والے فرقوں کا ذکر کر نا ضروری سمجھتا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 638 خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۹۳ء ہوں جو فرقے توحید پر زور دیتے ہیں بہت اچھا کرتے ہیں.مثلاً سعودی عرب میں وہابیت کا بڑا زور ہے جتنا وہ تو حید پر زور دیتے ہیں اچھی بات ہے اور ایک موحد کا فرض ہے کہ اس معاملے میں ان کی تائید کرے مگر بدنصیبی سے وہ تو حید پر سفر ختم کر دیتے ہیں حالانکہ توحید سے سفر شروع ہوا کرتا ہے.توحید سے جو سفر شروع ہوتا ہے وہ زمین پر انسان کو نہیں رہنے دیتا، وہ مادوں کے ساتھ لپٹائے نہیں رکھتا، وہ رفعتیں عطا کرتا ہے اس کے اندر روحانیت لازم ہے.توحید ایک زندہ حقیقت کا نام ہے، ایک مردہ جسم کا نام نہیں ہے.پس وہ لوگ جو تو حید پر زور دیتے ہیں اور جسم مردہ رکھتے ہیں یعنی روحانی جسم ان کے مردہ ہیں.ان میں روح نہیں رہتی اور دعا کی طرف توجہ نہیں ہے، ان میں اولیاء نہیں پیدا ہوتے ، ان میں بلندیوں کی طرف، رفعتوں کی طرف پرواز کرنے والے پیدا نہیں ہوتے.ان کی تو حید وہ تو حید نہیں ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی توحید ہے.اس توحید سے تو ایسی پر پرواز عطا ہوتی ہے کہ اس مقام سے آگے لے جاتی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ جبرائیل کے پر جل جاتے ہیں.یہ ایک محاورہ ہے کہ حضرت جبرائیل بھی اگر اس کے آگے بڑھے تو پر جل جاتے ہیں.پس تو حید رفعتوں ہی کا دوسرا نام ہے جو زمین سے اٹھاتی ہے اور لامتناہی بلندیوں تک پہنچاتی ہے.اگر آپ تو حید پر قائم ہیں یا قائم ہو سکتے ہیں تو آپ کی روحانی ترقی ضروری ہے.اگر موحد کہلاتے ہیں اور نہ سچی خوا ہیں آتی ہیں، نہ دعاؤں کی توفیق پاتے ہیں، نہ دعاؤں کا پھل ملتا ہے.بڑی جہالت کی بات ہے، بے وقوفی ہے کہ ہم تو حید پر ہیں حالانکہ تو حید پر نہیں ہیں.اب ہمارے جلسہ سالانہ کے بعد جو تبصرے علماء کی طرف سے چھپے ہیں اس میں میری طرف یہ بیان منسوب کرتے تو ٹھیک تھا کہ جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے وہ زندہ جماعت ہے.جس کا سارے عالم میں اللہ سے تعلق ہے.ہمیں دعاؤں کے پھل ملتے ہیں ، ہم مجزے دیکھتے ہیں، خدا ہم سے ہم کلام بھی ہوتا ہے، ہمیں کچی خوابیں بھی دکھاتا ہے اور ہمارے حق میں عظیم الشان کام دکھاتا ہے.یہ اپنے الفاظ میں مختصر لکھا ہوا ہے.مرزا طاہر کا کیسا مضحکہ خیز بیان ہے، اتنا مضحکہ خیز کہ خدا ہم پر مہربان ہوتا ہے، خدا ہم سے ہماری دعائیں قبول کرتا ہے، خدا ہمیں نشان دکھاتا ہے.یہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والے مولوی صاحب ہیں جن کا بیان ہے جو موحد کہلاتے ہیں.جن کی توحید نور تقویٰ سے عاری ہے، جن کا اللہ سے گہرا محبت کا تعلق قائم نہ ہو.وہ تو حید ایک خالی جسم بن جاتی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 639 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء ہے اس میں جان نہیں پڑتی.پس جہاں تو حید دکھائی دے گی وہ لوگ اچھے لگیں گے، پیارے لگیں گے.مگر تو حید کے جسم میں روح بھی تو ہونی چاہئے ، مردہ توحید سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.وہ توحید کے پھرتے ہوئے لاشے دکھائی دیں گے جن میں کوئی جان نہیں، جو خدا سے ملانے کی اہلیت نہیں رکھتی.پس اپنی تو حید کو معنی خیز بنا ئیں ایسا معنی خیز کہ جس کے نتیجے میں آپ کو قرب الہی کے پھل عطا ہوں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کا سفر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے توحید سے شروع ہوا، تو حید پرختم نہیں ہوا.تو حید پر چلتے ہوئے آپ ﷺ نے جان دی ہے یہ سفر مجھے کامل یقین ہے کہ توحید کا سفر وصالِ الہی کے بعد مستقلاً جاری رہنے والا سفر ہے.اگر خد الا متناہی ہے تو کوئی وجود خواہ کتنا ہی بلند مقام رکھتا ہو، اپنی موت تک خدا کو کامل طور پر پاہی نہیں سکتا.مرنے کے بعد کی زندگی میں اس کا سفر ہمیشہ خدا کی طرف جاری رہنے والا سفر ہے اور اس سفر میں سب سے آگے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا قدم پڑتا ہے اور اسی کا نام قدم صدق ہے.پس ہم سے یہ وعدہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم تو حید پر قائم رہو گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما یہ بتایا گیا ہے کہ خوشخبری دے دوان لوگوں کو کہ تمہیں قدم صدق عطا ہو گا.اس راہ پر قدم رکھنے کی توفیق ملے گی جس راہ پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں کے نشان ملتے ہیں، ان کے پیچھے پیچھے لامتناہی ترقیات کی طرف گامزن ہو جاویں گے.آپ کی نبوت کے آغاز پر آپ نظر ڈال کر دیکھیں یعنی حضرت رسول اکرم ﷺ کی نبوت کے آغاز پر نظر ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.سب سے زیادہ زور آغاز ہی سے توحید پر دیا گیا اور سب سے زیادہ قربانی توحید کے نام پر دی گئی.توحید کے ساتھ غیر اللہ کی نفی بھی شامل تھی.آنحضرت ﷺ نے لا اله الا الله جب فرمایا تو لا اله الا الله کے مضمون کو بھی خوب کھول کر قوم کے سامنے بیان فرمایا.ان کے تمام جھوٹے بتوں کی نفی کر دی ، ان کے تمام فرضی خداؤں کو مار کے دکھایا اور بتایا کہ کچھ بھی نہیں ہے.صرف ایک خدا ہے جو خدائے واحد دیگا نہ ہے اس پر قوم بہت غصے میں آئی اور بار بار حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ کوڈرا دھمکا کر ان باتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی اور جب کسی طرح ان کی پیش نہیں گئی تو حضرت ابوطالب کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 640 خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۹۳ء پاس پہنچے جو آپ ﷺ کے چچا تھے اور عرب کے دستور کے مطابق عرب سرداروں میں سے ایسے سردار تھے کہ جن کی پناہ میں اگر کوئی ہو تو اس پر ہاتھ ڈالنا خطرے کا موجب تھا یعنی خواہ کتنا ہی طاقتور قبیلہ ہو اگر کسی بڑے سردار کی پناہ میں کوئی شخص ہو تو پناہ میں آئے ہوئے شخص پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہے اور یہی ایک ترڈ دتھا جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ پر ظالمانہ حملے کی راہ میں ایک روک بنا ہوا تھا لیکن کفار مکہ کا صبر آخر ٹوٹ گیا.وہ ابو طالب کے پاس پہنچے اور یہ بتایا کہ دیکھو یہ ہمیں ایسے ایسے سخت لفظوں سے یاد کرتا ہے، ہمارے بتوں کو جھوٹا کہتا ہے ، ہمیں بیوقوف کہتا ہے اور ایسی دل آزار باتیں کرتا ہے کہ اب ہماری برداشت سے باہر ہے.اگر تم نے اپنے اس بھتیجے کو نہ روکا تو ہم نہ صرف یہ کہ اس کے امن کی ضمانت نہیں دیتے بلکہ تم سے بھی اپنے امن کا ہاتھ اٹھاتے ہیں اور تمہیں اگر اس کے بعد کوئی گزند پہنچا تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں.وہ اس پر بہت گھبرائے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو بلایا اور یوں مخاطب ہوئے.اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی.تو نے ان کے عظمندوں کو سَفَها (الانعام: ۱۴۱) قرار دیا ہے.ان کے بزرگوں کو شر البریہ کہا، ان کے بزرگوں کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا.یہ وہی شر البریہ کا لفظ ہے جو بعد کے زمانے میں آنے والے صلى الله مولویوں کے متعلق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خود استعمال فرمایا ہے.اس لئے جس طرح اس وقت ظالم لوگ مشتعل ہوئے تھے.اب بھی اگر ظالموں نے مشتعل ہونا ہے تو ہوں، اس میں ہم بے اختیار ہیں.یہ وہ لفظ ہیں جو حضور اکرم ﷺ نے اولین کے ظالموں کے متعلق بھی استعمال فرمائے اور آخرین میں پیدا ہونے والے ظالموں کے متعلق بھی استعمال فرمائے.بہر حال اس سے بہت لوگوں نے طیش کھایا اور غصے میں آکر یہ آخری الٹی میٹم دیا.حضور اکرم یہ ابوطالب کی بات آخر تک بڑے تحمل سے سنتے رہے اور پھر فرمایا کہ چا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے یعنی اس میں ایسی کوئی اشتعال انگیزی نہیں، کوئی گالی دینا مراد نہیں.میں اپنے نفس کو جانتا ہوں، ان چیزوں سے پاک ہے.یہ ایسی حقیقت کا بیان ہے کہ جو بالکل برمحل صادق آ رہی ہے.پس جو شر البر یہ ہے اس کو شر البریہ کہنا اس حال میں گالی نہیں کہلا تا جبکہ کہنے والا عارف باللہ ہو.وہ جانتا ہو کہ یہی ان کی کیفیت ہے اور انہیں سمجھانے کی خاطر اور انہیں دکھانے کی خاطر کہ تم کہاں جا پہنچے ہو.ان کو بتانا پڑتا ہے کہ یہ تمہارا حال ہے.اس میں کوئی اشتعال انگیزی کا جذ بہ شامل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 641 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء نہیں ہوتا، کوئی انتقام کا جذبہ کارفرما نہیں ہوتا، کوئی غصے سے بے قابو ہونے کی حالت اس کی ذمہ دار نہیں ہوتی بلکہ بڑے اطمینان سے انسان سمجھتا ہے کہ مجھے یہ کہنا پڑے گا اور جانتا ہے کہ اس کے بدلے میں مجھے اپنی جان کا خطرہ در پیش ہوگا.فرمایا یہ فس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو وہ کام ہے جس کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں.اس کام سے کیسے رک سکتا ہوں، بھیجا گیا ہوں لوگوں کی خرابیاں ان پر ظاہر کر کے انہیں سیدھے رستے کی طرف بلاؤں اور اگر اس راہ میں مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بہت خوشی سے اپنے لئے موت قبول کرتا ہوں.میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا.اے چا! اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا خیال ہے تو آپ بے شک اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جاویں مگر میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا اور خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا اور میں اپنے کام میں لگا رہوں گا حتی کہ خدا اسے پورا کرے یا میں اس کوشش میں ہلاک ہو جاؤں.(ابن ہشام) اس وقت بیان توحید کے ساتھ آپ میں اس قدرشان پیدا ہو گئی تھی، اس قدر آپ کے کلام میں جلال تھا اور ایسا رعب تھا کہ آپ ﷺ نے دیکھا کہ ابو طالب کھڑے رور ہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.اس نے کہا اے میرے بھتیجے ! جو چاہتا ہے کر، میں تیرا ساتھ دوں گا، میں کبھی تیرا ساتھ نہیں چھوڑوں گا.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منشا ہے جب تو حید کا بیان کرتے ہوئے خدا کی عظمت و جلال کا ذکر کرتے ہیں ، اس میں گہری سچائی کے ساتھ ایک خاص شان و شوکت پیدا ہو جانی چاہئے اور وہ گہری سچائی تمہیں طاقت بخشنے والی ہو ، ہر قسم کے خطرات سے تمہیں بے پرواہ کر دے کوئی غیر اللہ کا خوف تمہاری راہ میں حائل نہ ہو اور جب تم تو حید کا بیان کرتے ہو تو ہرگز پرواہ نہ ہو کہ سننے والے اسے کیا سمجھتے ہیں ، کیا ردعمل دکھاتے ہیں اور تمہیں کیا کیا خطرات درپیش ہوتے ہیں؟ یہ توحید کا اقرار انسان کے نیک اعمال میں تبدیل ہو جاتا ہے.یہ وہ اقرار ہے جس کے نتیجے انسان خدا کی راہ میں دقتیں برداشت کرنے کی اہلیت اختیار کرتا ہے.ہر قسم کی تکلیفیں اٹھانے کی طاقت پاتا ہے اور اس راہ میں وہ سب کچھ کر دکھاتا ہے جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے.آنحضرت ﷺ نے توحید کی راہ میں جو کچھ دکھ اٹھائے ان کی تفصیل آپ ﷺ کی سیرت میں ہر جگہ پھیلی پڑی ہے.اس وقت اس کے بیان کے تفصیلی ذکر کا وقت نہیں ہے.میں سمجھتا ہوں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 642 خطبه جمعه ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء یہ خطبات کا سلسلہ بہت ہی لمبا ہو جائے گا.وہ انشاء اللہ بعد میں کسی موقع پر سیرت کے بیان میں باتیں پیش کی جائیں گی الله میں آپ ﷺ کے حوالے سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب آپ نے توحید کا پیغام دنیا میں پہنچانا ہے.یادرکھیں کہ اس راہ میں تکلیفیں دی جائیں گی اور اگر آپ خالص توحید پر قائم ہیں اور سچے دل سے تو حید کا اقرار کرنے والے ہیں تو جس طرح حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے موحد پیدا فرمائے اور عملاً انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ توحید کے لئے وہ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.ویسے نمونے آپ کو پکڑنے ہوں گے ورنہ آپ اولین میں کیسے شامل ہوں گے، اولین کے نمونے ہمارے سامنے کھول کر پیش کر دیئے گئے ہیں اور اس نسبت سے ہمیں آخرین میں ویسے ہی نمونے دکھانے ہوں گے، ویسے نمونے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم دکھا رہے ہیں جب میں دکھانے ہوں کہہ رہا ہوں تو آئندہ آنے والی نسلوں کو مستقبل کی یہ تعلیم دے رہا ہوں.لیکن میں جانتا ہوں کہ اس زمانے میں جتنا تو حید کے لئے جماعت احمدیہ نے قربانیاں دکھائی ہیں.دنیا کے پردے پر ساری دنیا کی توحید کے لئے قربانیاں ایک طرف کر دیں تو اس کے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس زمانے میں توحید کے نام پر سوائے جماعت احمدیہ کے کسی کو سزا نہیں دی جارہی.زبانی تو طرح طرح کے ظلم وستم کے چرچے ایسے ایسے گندے بیانات کی صورت میں جماعت احمدیہ کے خلاف جاری ہوتے رہتے ہیں بلکہ مسلسل ایک سلسلہ چلتا چلا جارہا ہے اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اس معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں.جہاں بھی جماعت احمدیہ کے اوپر حملے کا ذکر آئے ، حملے کا مضمون چلے وہاں الا ما شاء اللہ چند شریف النفس لوگوں کے سوا ہر شخص دوسرے کی تائید میں شامل ہو جاتا ہے.عدلیہ کی طرف جائیں وہاں بھی یہ ظلم بڑی بھیانک صورت میں اپنی انتہاء کو جا پہنچا ہے اور توحید کا ایسا جرم قرار دیا جا رہا ہے کہ جیسے سلمان رشدی نے حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے تقدس اور اسلام کے تقدس پر بہت ظالمانہ اور بہیمانہ حملے کئے تھے.اس کی مثالیں دے کر یہ کہا جا رہا ہے کہ احمدی کا توحید کا بیان ہمیں ایسا ہی ظلم کی ترغیب دیتا ہے.جیسا سلمان رشدی کا یہ بیان کہ قرآن کریم شیطان کی نازل کردہ آیتیں تھیں خدا کی نازل کردہ آیتیں نہیں تھیں.اس سے بڑی بد بختی کسی قوم کی تصور میں ہی نہیں آتی.ایک طرف سلمان رشدی ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے.جو محمد رسول اللہ علیہ کے قلب مطہر پر نازل ہوا تھا بلکہ سراسر شیطان کا کلام ہے اور آج کے شر البریہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 643 خطبه جمعه ۲۰ را گست ۱۹۹۳ء کہتے ہیں کہ جب احمدی کہتا ہے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں محمد مصطفی ﷺ اس کا بندہ اور رسول ہے تو یہ کلام ہمیں ایسا دکھ پہنچاتا ہے کہ جیسے سلمان رشدی کو آزاد چھوڑ دیا تھا اور پاکستان کی گلیوں میں ایسے سلمان رشدی آزاد چھوڑ دیئے گئے ہیں جو جگہ جگہ لا الہ الا اللہ کا اعلان کرتے پھریں گے ان لوگوں کی امن کے کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی جس کا دل چاہے ان کو قتل کرتا پھرے، جس کا دل چاہے ان کا مال لوٹے.پس توحید کے لئے جس طرح اولین نے قربانیاں دی تھیں خدا کی قسم ! آج آپ ہیں جو توحید کے لئے ایسی قربانیاں پیش کر رہے ہیں.میں وہ چند مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا تو پھر آپ دیکھنا کہ کس طرح پاکستان کی گلیوں میں، مکے کی گلیوں کے واقعات دہرائے جارہے ہیں.وہ تاریخ از سر نو ہمارے خون سے لکھی جارہی ہے.ہماری عزت کی قربانیوں سے وہ تاریخ دہرائی جارہی ہے.پس ہم محض دعویٰ دار ہی نہیں ہیں تو حید کے، ہم تو حید کو اپنے اعمال میں جاری کر چکے ہیں.آج ایک ہم ہی تو ہیں جو تو حید کے نام پر ہر قسم کے ابتلاؤں میں مبتلا کئے گئے اور ہر ابتلاء سے ثابت قدم باہر نکلے ہیں.اسی کا نام قَدَمَ صِدْقٍ (یونس : ۳) ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت احمدیہ کو قَدَمَ صِدْقٍ عطا فرماتا رہے.یہی وہ قدم ہے جو محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں معراج تک پہنچتا ہے.ہمیں اس معراج کے قدموں تک پہنچنے کا تصور نہیں آ سکتا، مگر یہ وہ راہ ہے جس میں جس قدم پر یعنی محمد مصطفی ﷺ کے نقش قدم پر ہماری جان جائے گی خدا کی قسم ! وہی ہمارا معراج ہوگا.
644 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 645 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء قدرت ثانیہ کے ہوتے ہوئے کسی اور مجدد کی کوئی ضرورت نہیں.تو حید نے غلاموں کو بھی ایسی عزت دی کہ وہ سیدنا بن گئے ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ راگست ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.شَهِدَ الله أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَبِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَابِمَا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (ال عمران : ١٩) وَالهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ) (البقره: ۱۶۴) پھر فرمایا:.پہلی آیت ال عمران سے آیت ۹ تھی دوسری آیت سورۃ البقر ۱۶۴۰ ہے.توحید کا جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں اس کی طرف آنے سے پہلے چند اجتماعات سے متعلق اس خواہش کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ان اجتماعات کا بھی آج کے خطبے میں ذکر کیا جائے اور ان کے نام کوئی پیغام ہو.یہ سلسلہ تو اب دراز ہوتا چلا جائے گا اور پھیلتا چلا جائے گا.اب تو شاید ہی کوئی خطبہ ایسا ہو جس میں کسی نہ کسی جگہ جماعت احمدیہ کا اجتماع نہ ہو رہا ہو یا مجالس کا اجتماع نہ ہو رہا ہو.دراصل ہر خطبہ ساری جماعت ہی کے لئے پیغام ہوتا ہے اور وہی پیغام تمام اجتماعات کا پیغام بننا چاہئے مگر کچھ دوستوں میں یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمارا نام خطبے میں آ جائے ، ہماری مجلس کا ذکر آئے تو دراصل پیغام سے زیادہ اس خواہش کا اظہار ہے کہ ہمارا نام بھی خطبے میں چپکے اور ساری دنیا میں پھیلے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 646 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء چونکہ نیک مقصد کے لئے اجتماعات ہیں اس لئے اس خواہش کی رعایت کر دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں.اس لئے میں آج بھی ان مجالس کا نام آپ کے سامنے رکھتا ہوں ایک مجلس خدام الاحمدیہ ضلع شیخو پورہ کا اجتماع آج ۲۷/ اگست کو منعقد ہو رہا ہے، دوسرا مجلس خدام الاحمدیہ کیرالہ کا جو جنوبی ہندوستان کا ایک بہت اہم صوبہ ہے اس کا سالانہ اجتماع ۲۹ تا ۳۱ /اگست منعقد ہورہا ہے.اس میں خدا کے فضل سے ۴۴ مجالس کے خدام شامل ہو رہے ہیں.صوبہ کیرالہ کو عام طور پر شمال میں بہت کم لوگ جانتے ہیں مگر ہندوستان کی تمام صوبائی جماعتوں میں سب سے زیادہ تعداد کیرالہ میں احمدی ہیں اور کشمیر کو بھی یہ پیچھے چھوڑ گیا ہے.اس پہلو سے کیرالہ کی جماعتیں خاص دعاؤں کی محتاج ہیں اگر چہ مخالفت بھی بہت شدید ہوتی ہے لیکن اس کے بعد جب تائید کی ہوائیں چلتی ہیں تو خدا کے فضل سے کثرت سے لوگ احمدیت قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں.چنانچہ مباہلہ کے جتنے پھل کیرالہ میں لگے ہیں ہندوستان کے کسی اور صوبے میں نہیں لگے تو اس پہلو سے یہ صوبہ اور اس کی تمام جماعتیں خصوصیت سے دعا کی مستحق ہیں.ضلع سانگھڑ کے خدام اور انصار کا سالانہ اجتماع ۲ ستمبر کو ہو رہا ہے کیونکہ ۲ ستمبر کو ان کے لئے کوئی اعلان نہیں ہو سکتا اس لئے انہوں نے ۲۷ اگست کے خطبے میں ہی پیغام مانگا ہے.ان کے لئے جو پیغام میں نے چنا ہے اس کا در حقیقت تعلق تو حید ہی سے ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس سے تعلق رکھتا ہے.پس یہ مضمون سے ہٹ کر پیغام نہیں بلکہ جیسا جیسا آپ اس پیغام کو سنیں گے.آپ پر یہ بات کھلتی چلی جائے گی کہ توحید کا نچوڑ تو حید کی روح ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے آواز باہر نہیں جارہی تھی کوتا ہی ہوگئی ہے.اس لئے میں مختصراً دوبارہ بتا رہا ہوں کہ دنیا کے تین اجتماعات ہیں جن سے متعلق درخواست کی گئی ہے کہ ذکر کیا جائے.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع شیخوپورہ ، مجلس خدام الاحمدیہ کیرالہ جنوبی ہندوستان اور ضلع سانگھڑ کے خدام و انصار کے اجتماعات ہیں.ان کو جو پیغام دینے لگا ہوں یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر ہے جو الوصیت میں سے اخذ کی گئی ہے اور اس کا گہرا تعلق تو حید باری تعالیٰ سے ہے.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 647 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے.( یعنی وہ جو سیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے ) جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر وہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے....خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا 66 سوتم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.“ (الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵-۳۰۷) اس پیغام میں بہت سے فتنوں کا سدِ باب فرما دیا گیا ہے جو جماعت احمدیہ میں پہلے بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 648 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء اٹھے اور آئندہ بھی اٹھنے کا احتمال رہتا ہے اور اس مضمون کا گہرا تعلق خلافت یعنی آیت استخلاف سے ہے اور حقیقت میں اسی کی یہ تصویر ہے.اہلِ پیغام جنہوں نے خلافت سے اپنا تعلق تو ڑا انہوں نے یہ عذر رکھا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجمن کے حق میں وصیت کر دی ہے.انجمن کو خود قائم فرما دیا اور انتظامی امور اور دوسرے تمام امور میں جماعت کی سر براہ اب ہمیشہ کے لئے صدر انجمن احمد یہ ہوگی یہ وہ فتنہ اٹھنا تھا جس کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ کے لئے قلع قمع فرما دیا.جب اس عبارت کو غور سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے بعد خلافت کے سوا اور کسی انجمن کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.اگر انجمن مراد ہوتی تو انجمن تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی میں قائم فرما دی تھی.یہ کیوں فرما رہے ہیں کہ اس قدرت ثانیہ کا آنا تقاضا کرتا ہے کہ پہلے میں جاؤں، میرے ہوتے ہوئے وہ قدرت ظاہر نہیں ہوگی.پس صاف پتا چلا کہ وہ قدرت ثانیہ انجمن نہیں بلکہ کچھ اور اللہ تعالیٰ کے تائید یافتہ وجود ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائمقامی اور غلامی میں کھڑے ہوں گے.پس پہلی تفسیر حضرت خلیفہ مسیح الا قول رضی اللہ عنہ کی ذات میں مجسم ہوئی.وہ خلافت اولی تھی جس کے اوپر ساری جماعت کو باندھ کر اکٹھا کر دیا گیا.چنانچہ حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر انجمن کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہاری اب کیا حیثیت ہے.تم میرے سامنے کوئی باتیں نہ کرو.خدا نے تمہیں باندھ کر میرے غلامی میں لا ڈالا ہے اور ہمیشہ کے لئے میرا مطیع کر دیا ہے.پس یہ وہ قدرت ثانی تھی جس کا وعدہ دیا جار ہا تھا جو سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد آنی تھی اس سے پہلے نہیں.ایک یہ بعض دفعہ حیلہ تلاش کیا جاتا رہا ہے کہ قدرت سے مراد تائید الہی ہے جو قیامت تک جماعت کے ساتھ رہے گی تو اس کا بھی وہی جواب ہے کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک تائید الہی نے قادیان میں جھانک کے بھی نہیں دیکھا تھا؟ کیا یہ لازم کر دیا تھا اللہ تعالی نے کہ جب تک مسیح موعود دنیا سے رخصت نہ ہو تب تک تائید الہی نہیں آئے گی؟ پس یہ ایسا جاہلا نہ خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر جاہلانہ خیال اور کافرانہ خیال ممکن نہیں کہ جس کو خدا امام مقر ر فرما دے انتظار کرے کہ وہ مر جائے تو پھر تائید الہی ظاہر ہو جو قیامت تک رہے.پس یہاں ایک نظام مراد ہے جس نظام کے مظہر مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری طرح بعض وجود ہوں گے اور یہی وہ نظام خلافت ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 649 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری ہوا اور قیامت تک اس کے جاری رہنے کا وعدہ دیا گیا.پھر ایک اور فتنہ یہ بھی اٹھایا جاتا رہا ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی میں خصوصیت سے بڑے منظم طریق پر ایک پراپیگنڈہ کے ذریعے جماعت میں یہ خیالات پھیلائے گئے کہ خلافت ٹھیک ہے لیکن وہ جو مجد دیت کا وعدہ ہے وہ دائی ہے اور اب وقت قریب آ رہا ہے صدی ختم ہونے کو آ رہی ہے.اس لئے اب مجد دکا انتظار کرو اور مجددکو تلاش کرو، جماعت میں کہیں کوئی مجدد پیدا ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ قدرت قیامت تک ہے اور خدا نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ قیامت تک یہ قدرت منقطع نہیں ہوگی.پس خلافت اگر قیامت تک قائم ہے تو اس کے ہوتے ہوئے مجددیت کا سوال کیا باقی رہ جاتا ہے اور یہ فتنہ پرداز اس بات کو بھول گئے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جہاں مجددیت کی پیش گوئی فرمائی وہاں قیامت تک کا کوئی ذکر نہیں فرمایا لیکن جہاں مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی وہاں یہ وعدہ فرمایاثــم تـكـون خـلافـة عـلـى منهاج النبوة (مسند احمد حدیث : ۱۷۶۸۰) جو وعدے ہیں دراصل مسیح موعود کے آنے تک کے لئے ہیں جب مسیح موعود آجائیں گے تو پھر فرمایاثم تكون خلافة على منهاج النبوة پھر خلافت قائم ہوگی اور منھاج النبوۃ پر قائم ہوگی.یہ وہ خلافت ہے جس کا آیت استخلاف میں ذکر ہے، یہ وہ خلافت ہے جو مومنین سے وعدہ کیا گیا ہے اور یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں واضح فرمار ہے ہیں.جیسا کہ آیت استخلاف میں تھا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ ( النور : ۵۶) کیسی بار یک عارفانہ نظر سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن کی آیات پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی تفسیر کرتے ہیں خواہ حوالہ دیں یا نہ دیں وہ مضمون آپ کی سرشت میں ایسا سرایت فرما چکا ہے کہ جب بھی بات کرتے ہیں قرآن کی بات کرتے ہیں تو دیکھیں فرمایا یہ وعدہ میری نسبت نہیں بلکہ تمہاری نسبت ہے.یہ جماعت احمدیہ سے وعدہ کیا گیا ہے.چنانچہ آیت استخلاف میں بھی وہ مخاطب آنحضور علیہ تھے لیکن وعدہ آپ کے غلاموں سے کیا گیا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ -
خطبات طاہر جلد ۱۲ 650 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء پس اس فتنے کا بھی ہمیشہ کے لئے رڈ فرما دیا گیا اگر کوئی تجدید کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمیشہ انقطاع کے بعد پڑا کرتی ہے اور دراصل تجدید کے وعدے میں خلافت راشدہ کے انقطاع کی درد ناک خبر بھی دے دی گئی تھی.اگر خلافت راشدہ جاری رہتی تو کسی اور مجدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ورنہ ہر صدی کے سر پر خلافت کے ساتھ ایک اور رقیب اٹھ کھڑا ہوتا اور صدی درصدی امت الہی منشاء کے مطابق منقطع ہو جاتی اور کائی جاتی رہی اور متفرق ہو کر بکھر جاتی.پس کیسی جاہلا نہ سکیم ہے، کیسا جاہلانہ تصور ہے جو یہ لوگ اللہ کی طرف منسوب کرتے رہے اور طرح طرح کی دل آزاریوں سے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے دل کو چر کے لگاتے رہے.آپ نے بارہا جماعت کو کھلے بندوں سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ فتنہ اسی طرح مقابل پر سر اونچا کئے رہا.یہاں تک کہ خدا نے اس فتنے کا سرتوڑ دیا اور خدا نے ثابت کر دیا کہ خلیفہ اسیح الثالث کی تعبیر درست تھی جو تفسیر آپ نے فرمائی تھی وہی تفسیر سچی تھی اور پھر خدا کی تائیدی گواہی اور عملی گواہی نے ہمیشہ کے لئے اس فتنے کا سر کچل دیا ہے.ان لوگوں کے لئے جن میں ایمان اور شرافت اور تقویٰ ہو.جن کے دل ٹیڑھے ہیں ان کے لئے تو کوئی وعدہ نہیں ہے.ان کو تو قرآن بھی ہدایت دے نہیں سکتا کیونکہ جو دل تقویٰ سے عاری ہو اس کے لئے کوئی ہدایت نہیں ہے مگر میں جماعت احمدیہ کو مخاطب ہوں جن کے بھاری اکثریت کے متعلق میں جانتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ وہ تقویٰ پر قائم ہیں.اس لئے کہ خدا کا سلوک ان سے وہ ہے جو متقیوں سے کیا جاتا ہے، اس لئے کہ خدا کی وہ تائیدات ان کو نصیب ہیں جو متقیوں کو نصیب ہوا کرتی ہیں.پس دلوں پر تو میری کوئی نظر نہیں ہے مگر خدا تعالی کی فعلی شہادتیں بتارہی ہیں کہ وہ متقیوں کی جماعت ہے جس کے ساتھ وہ مسلسل اس قدر کثرت کے ساتھ احسان اور رحمت اور فضلوں کا سلوک فرما تا چلا جا رہا ہے.پس وہ متقی جو میرے مخاطب ہیں وہ اس بات کو خوب سمجھ لیں گے کہ در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جس قدرت ثانیہ کوخدا تعالیٰ نے قائم فرمایا وہ قیامت تک کے لئے ہے اور قیامت تک کے لئے غیر منقطع ہے.پس وہ قدرت غیر منقطع ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کیا ضرورت ہے کہ کسی اور شخص کو بطور مجد دکھڑا کیا جائے اور اگر کوئی یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی زمانے کی حد نہیں لگائی اس لئے قیامت تک کے لئے اس حدیث کا اثر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 651 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء جاری ہے.تو ایسے سوچنے والوں کو غور کرنا چاہئے کہ قیامت تک کے لئے اس وقت کے خلیفہ کو کیوں خدا مجدد نہیں بنا سکتا جو صدی کے سر پر کھڑا ہو اور اس صدی کے غیر معمولی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کسی تجدید کی ضرورت سمجھے.پس اس حدیث نبوی کا آیت استخلاف سے کوئی ٹکراؤ نہیں بلکہ دراصل آیت استخلاف کے مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے جس طرح پانی کے بعد تیم کا ذکر کیا جاتا ہے.اگر خلافت قائم نہ رہے تو خدا اس امت کو چھوڑے گا نہیں اور مسلسل نہیں تو کم سے کم ہر صدی کے سر پر ضرور کوئی ایسا ہدایت یافتہ وجود بھیج دے گا جو اس وقت تک جمع ہوئی ہوئی گمراہیوں کا ازالہ فرمائے گا یا ایک سے زائد ایسے وجود بھیج دے گا جو مختلف جگہوں پر تجدید دین کا کام کریں گے.جب خلیفہ موجود ہوتو پھر خلافت سے الگ کسی تجدید کی ضرورت نہیں ہے اور وہ خلافت جس کا مسیح موعود کے ساتھ وعدہ کیا ہے اتنی نمایاں طور پر الہی تائید یافتہ خلافت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اگر آپ تجدید کا تصور کریں تو یہ ماننا لازم ہو گا کہ یہ خلافت ہلاک ہو چکی ہے اس میں کوئی تقویٰ کی روح باقی نہیں رہی.ایسی صورت میں پھر الگ مجد دا گر کھڑا کیا جاتا ہے تو پھر یہ اللہ کا کام ہے اور اللہ کے کام جب ظاہر ہوتے ہیں تو خود اپنا ثبوت اپنی ذات میں رکھتے ہیں کسی بحث کے محتاج نہیں ہیں مگر خدا کے کام خدا کے وعدوں کے خلاف نہیں ہوا کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے پھر فرمایا: 66 تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت
خطبات طاہر جلد ۱۲ پھر فرمایا:.652 کو جو تیرے پیر وہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.“ خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء ”..اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا...“ پس اگر خدا سچا ہے اور لازماً خدا سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ہے اگر مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں لازماً اس زمانے کے امام کے طور پر، اس زمانے میں آپ سے بڑھ کر اور کوئی سچا انسان نہیں ہے تو وہ لا زم وہ جھوٹے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں خلافت احمدیہ کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور خلافت سے باہر کسی تجدید کی محتاج ہو گی.پھر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت آپ کے سامنے ہے.دیکھیں صدی گزرگئی جس صدی کے سر پر یہ پروپیگنڈے کئے جارہے تھے لیکن کوئی مجددظاہر نہیں ہوا.دوسری صدی شروع ہوگئی اس کے تیرہ سال گزر چکے ہیں اور چودھویں میں داخل ہو رہے ہیں لیکن خلافت احمدیہ سے باہر کوئی مسجد دظاہر نہیں ہوا.پس خدا کی اس گواہی نے ہمیشہ کے لئے ان لوگوں کے پرو پیگنڈے کو جھٹلا دیا ہے جو کہا کرتے تھے کہ اب خلافت کے آخری سانس ہیں تجدید کے دن آ رہے ہیں.کسی مجدد کی تلاش کرو.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسے لوگ سو سو سال کی عمر بھی پائیں اور مر جائیں تو نامرادی کی حالت میں مریں گے کسی اور مسجد کا منہ نہیں دیکھیں گے.ان کی اولادیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلی جائیں اور ان کی اولادمیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلی جائیں.خدا کی قسم ! خلافت احمدیہ کے سوا کہیں اور مجدد کا منہ نہ دیکھیں گے یہی وہ تجدید دین کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے جو ہر صدی کے سر پر ہمیشہ جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے گا لیکن یاد رکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارے ساتھ رہنے کے لئے یہ دوسری قدرت دکھلائی جائے گی.میں الفاظ پڑھ کر سناتا ہوں.دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.“ ساتھ ان کے ساتھ رہے گی جو اس کے ساتھ رہیں گے.ان کے ساتھ نہیں رہے گی جو ان کے ساتھ نہیں رہیں گے.پس قیامت تک کے لئے خلافت سے اپنا دامن اس مضبوطی سے باندھ لیں کہ جیسے عروہ مٹھی پر ہاتھ پڑ گیا ہو جس کا ٹوٹنا مقدر نہیں ہے ہو نہیں سکتا.پس آپ اگر خلافت کے "
خطبات طاہر جلد ۱۲ 653 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء ساتھ رہیں گے تو لازم خلافت آپ کے ساتھ رہے گی اور یہی دونوں کا ساتھ ہے جوتو حید پر منتج ہو گا.اسی کے نتیجے میں تمام دنیا کی قوموں کو امت واحدہ بنایا جائے گا اور ایک خدا، ایک رسول اور ایک دین اور اسی کے تابع تمام وہ خدمت کرنے والے ہوں گے جو اسی سلسلے میں منسلک ہوں گے.جس کا آغا ز حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے ذریعے ہوا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیسا کہ آیت استخلاف میں بالآخر تو حید کے مضمون پر بات ختم کی تھی.اس قدرت ثانیہ کے مضمون کو بھی تو حید پرختم فرمایا.فرمایا.” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جوز مین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں.توحید کی طرف کھینچے.“ (الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۶.۳۰۷) وہ جو پہلے قدرت ثانیہ کا بیان ہے اس کو اس طرح تو حید کے مضمون سے جوڑ دیا اور توحید پر اس مضمون کو ختم فرما دیا.توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے کے ساتھ.پس یہی میرا پیغام ہے ان تمام مجالس کو بھی جو آج اجتماع میں اس وقت دینی مقاصد کے لئے جمع ہو رہی ہیں اور ان ساری دنیا کی جماعتوں کو بھی جو قیامت تک ہمیشہ دینی مقاصد کے لئے جمع ہوتی رہیں گی.وہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی تھی.ان میں سے ایک آیت وہ ہے جو گزشتہ خطبے میں بھی میں نے تلاوت کر دی تھی اور اس کا ایک حصہ کچھ بیان کرنا باقی تھا.وہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خدا تعالیٰ یعنی اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ گواہی کامل طور پر انصاف پر قائم ہوتے ہوئے دیتا ہے اور اس کی ذیل میں ملائکہ بھی اور اہل علم بھی اسی طرح یہ گواہی دیتے ہیں.آخر پر نتیجہ یہ نکالا گیا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ کوئی معبود نہیں ہے خدا کے سوا، وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ہے.دراصل یہ تین چشمے ہیں جو تو حید سے پھوٹ رہے ہیں جن کا یہاں بیان ہے.پہلا چشمہ عدل ہے.چشمہ عدل توحید سے پھوٹتا ہے اگر خدا کے سوا کائنات میں کوئی اور معبود ہوتا تو پھر تو حید کے نہ ہونے کی وجہ سے عدل کا قیام بھی ممکن نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 654 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء کیونکہ جب رقیب پیدا ہو جائیں تو پھر عدل نہیں رہا کرتا.پھر کھینچا تانی ہوتی ہے، پھر اپنوں کو دوسروں پر غالب کرنے کے لئے انصاف ہو یا نہ ہو ہر کوشش کی جاتی ہے اور خاص طور پر اگر دونوں رقیب طاقتور ہوں کہ ایسی صورت میں عدل کے بر عکس فساد ضرور بر پا ہوتا ہے تو قرآن کریم نے اسی مضمون کو دوسری جگہ فرمایا.لَفَسَدَنَا (الانبیاء:۲۳) اور اگر خدا کے سوا کوئی اور الہ ہوتا تو زمین و آسمان میں فساد پھیل جاتے.تو عدل کا فقدان لازماً فساد برپا کرتا.توحید خالص کے نتیجے میں لازم ہے کہ عدل پیدا ہو کیونکہ جس خدا کے سب ہیں وہ لازماً ان کو ایک نظر سے دیکھے گا.جس کی تمام کی تمام کائنات اسی کی ہے اس کو ضرورت کوئی نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے سے فرق کر کے دکھاوے ورنہ اپنی ذات میں تفریق پیدا کرنے والا ہوگا.پس پاگل ہی ہے جو اپنی ذات کو پھاڑ دیا کرتا ہے.پاگل ہی ہوتا ہے جس کے اندر سے دو وجود ہوتے ہیں.ایک پہلو سے ایک پاگل ایک وجود اختیار کر لیتا ہے دوسرے پہلو سے دوسرا وجود اختیار کر لیتا ہے.مگر وہ جو حکیم ذات ہو وہ اپنے اندر تفریق پیدا نہیں کیا کرتی لیکن اس سے پہلے عزیز کا ذکر فر مایا.دراصل صفت عزیز بھی توحید سے اور عدل سے بہت گہراتعلق رکھتی ہے.عزیز کا جو تر جمہ آپ کو قرآن کریم میں ملے گا یعنی عام طور پر ہر جگہ لکھا ہوا.یہی دکھائی دے گا کہ غالب لیکن عزیز محض غالب نہیں ہے اس سے پہلے ایک موقع پر میں نے درس قرآن کے وقت یہ ثابت کر کے دکھایا تھا کہ لفظ عزیز میں عزت اور احترام کا مضمون داخل ہے محض غلبے کا مضمون نہیں.پس غالب دو قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایسے غالب جن کا زور تو چلتا ہے مگر لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں ، ان کو بددعائیں دیتے ہیں، ان کا بد انجام دیکھنے کی تمنا کرتے ہیں.جب تک وہ غالب رہیں ان کے سامنے گردنیں جھکی رہتی ہیں مگر دل نہیں جھکتے اور دماغ ان سے مطمئن نہیں ہوا کرتے لیکن بعض ایسے غالب ہوتے ہیں جن کو قو میں دعائیں دیا کرتی ہیں.ان کی رعایا ان کے لئے دن رات دعائیں کرتی ہے ، ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے، ان کو سچی گہری عزت کی نظر سے دیکھتی ہے ایسی عزت جوان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے.پس وہ غلبہ جس کے ساتھ انصاف ہو وہی عزیز کا غلبہ ہوا کرتا ہے وہ غلبہ جو انصاف سے عاری ہو وہ کبھی عزیز کا غلبہ نہیں بن سکتا.پس فرمایا کہ وہ عزیز ہے یعنی ایسا صاحب عزت ہے جس کو ایسا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 655 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء غلبہ نصیب ہے جس کے نتیجے میں لازماً وہ معزز وجود ہے اور پھر حکیم ہے اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر میری ہی سب چیزیں ہیں تو میں ایک کا دوسرے سے فرق کر کے نہ دکھاؤں.یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم انبیاء کی صورت میں بھی جاری کر کے دکھاتا ہے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقره: ۲۸۶) یہ آواز تو مومنوں کی ہے مگر مومنوں کے منہ سے یہ دعا نکالی گئی ہے اس میں یہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ ہے مگر خدا تعالیٰ ہے.چونکہ خدا تفریق نہیں کرتا اس لئے ہم بھی تفریق نہیں کریں گے اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر کے بھی یہی مضمون بیان فرمایا کہ خدا تعالیٰ انبیاء کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا.یہ تفریق ان معنوں میں نہیں ہے کہ بعض کو زیادہ پیار نہیں کرتا بلکہ تفریق ان معنوں میں ہے کہ جہاں تک عدل کا تقاضا ہے تمام انبیاء برابر کا مرتبہ رکھتے ہیں اور عدل کے تقاضوں کے لحاظ سے ان سے بعینہ وہی سلوک کیا جائے گا جو اس سے پہلے یا کسی اور جگہ دوسرے انبیاء سے کیا جاتا ہے.پس جب قیام عدل توحید سے قائم ہو جائے تو اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عدل پر ہی بنا ہوگی یا عدل کے قیام کے بعد کوئی اگلی منزل بھی ہے.تو وہ آیت جو میں نے سورۃ البقرہ سے پڑھ کر سنائی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ اس مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے.وَالهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ دیکھو تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور کوئی معبود نہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ پہلے فرمایا قالَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اب فرمایا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ رحمان اور رحیم ہے یعنی یہاں عدل سے بالا مضمون شروع ہو گیا ہے.محض تم سے عدل نہیں کرے گا بلکہ تمہارے ساتھ غیر معمولی رحمت کا سلوک فرمائے گا اور یہ مضمون بھی دراصل تو حید کے ساتھ ایک گہرا تعلق رکھنے والا مضمون ہے.ایک وجود جس نے کسی ایک وجود کو اپنا بنا لیا ہو جس کا سہارا کسی ایک وجود کے سوا کوئی نہ رہا ہو ایسے وجود پر جس وجود کوسہارا بنایا جاتا ہے وہ ضرور رحم کرتا ہے.وہ شخص جو سب دنیا سے تعلق کاٹ کر آپ کی چوکھٹ پہ آپڑتا ہے.ایک طبعی بات ہے کہ اس کے لئے دل میں رحم جوش مارے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے سوا اور تمہارا ہے کوئی نہیں، تو اگر ہم تم سے پیار اور رحمت کا سلوک نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا کیونکہ ہمارے سوا تمہاری اور کوئی چوکھٹ باقی نہیں رہی.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 656 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء اس لئے عدل بھی ہم سے ہی ملے گا اور رحم بھی ہم سے ملے گا اور تمہیں خوشخبری ہو کہ مجھ سے بڑھ کر اور کوئی رحم کرنے والا نہیں.پس غیروں کی چوکھٹ سے دامن چھڑا کر ایک بدخبر نہیں دی گئی کہ سارے سہارے کاٹ دیئے گئے بلکہ خوشخبری دی گئی کہ ان سب کے سہارے کاٹ دیئے گئے ہیں جو غیر عادل ہیں.تمہیں عادل کے دامن سے وابستہ فرما دیا گیا ہے اور وہ مبارک ہو وہ عادل صرف عادل نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.پس دیکھیں تو حید کا مضمون کس شان کے ساتھ ترقی کرتا ہوا ہمارے فہم کے لحاظ سے ، ہمارے ادراک کے اعتبار سے، یہ مضمون یوں لگتا ہے کہ جیسے ترقی کرتا ہوا اپنی آخری انتہا کو جا پہنچا ہے، پھر فرمایا الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمُ ایسا رحمان نہیں ہے تمہارا خدا جو ایک دفعہ رحم کر کے سب کچھ دے کر تمہیں بھلا دے.الرَّحِیم ہے.لازماً دائما تم سے تعلق رکھے گا.پھر تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.تو اس کے بعد کسی اور خدا کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے.جب ہر دوسرا معبود جس کو تم معبود بناؤ حالانکہ معبودیت کا حق نہیں رکھتا.درحقیقت عادل نہیں ہوسکتا اور یہ حقیقت ہے تمام جھوٹے معبود جو بنائے جاتے ہیں.اگر وہ واقعی وجود ہوں جن کو فرضی خدا بنا دیا گیا ہو تو غیر عادل ہوا کرتے ہیں.اگر اپنے خاص مریدوں سے انصاف کرتے ہیں تو دوسروں کے انصاف کو قربان کر کے کرتے ہیں.اس لئے نہ ان کا عدل ، عدل ہے ، نہ ان کا رحم ، رحم ہے.اب رحمان وہ ہے جو سب کا برابر ہے اور یہ مضمون بھی تو حید ہی کی وجہ سے عطا ہوا ہے کیونکہ رحمان فرما کر یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ خدا رحمان ہے جس کے نزدیک سب برابر ہیں.اس لئے ایک کا حصہ چھین کر دوسروں کو عطا نہیں کرے گا اور یہ عدل کے تقاضے کے ویسے ہی خلاف ہے.پس کامل عدل والا خدا رحمانیت کے آخری مقام پر فائز ہے جس سے بڑھ کر رحمانیت کا مقام متصور نہیں ہوسکتا اور زمانی لحاظ سے وہ دائمی رحمت کرنے والا وجود ہے تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا.پس یہ توحید کے فوائد ہیں جن کا ان آیات کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے جس طرح اس توحید کو سمجھا اور نافذ فرمایا اس سے پتا چلتا ہے کہ تمام صحابہ صاحب عرفان ہو چکے تھے ورنہ اتنے گہرے توحید کے عرفان کے بغیر وہ قربانیاں پیش نہیں کر سکتے تھے جو تو حید کا رستہ ان سے تقاضے کرتا تھا.تو حید کا مطلب ہے ہم نے سب دنیا کو چھوڑ کر خدایا تیرا دامن پکڑ لیا ہے اور کامل یقین کے ساتھ تجھے پکڑا ہوا ہے.جانتے ہوئے کہ تیرے سوا کوئی عدل نہیں ہے، تیرے
خطبات طاہر جلد ۱۲ سوا کوئی رحم نہیں ہے.657 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء ایسی صورت میں بعض دفعہ خدا آزمائش میں ڈالتا ہے اور پہچانتا ہے یعنی ویسے تو خدا علم رکھتا ہے مگر انہیں دنیا کے لئے گواہ بنا دیتا ہے کہ یہ لوگ بچے تھے.اللہ تعالیٰ کو علم تھا اور ہے کہ بلال ٹیچا تھا، اللہ تعالیٰ کو علم تھا اور ہے کہ عثمان بچے تھے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام عشاق کے متعلق علم تھا، ہے اور رہے گا لیکن اگر وہ قربانیوں کی چکی میں پیسے نہ جاتے ، اگر وہ شدید ابتلاؤں میں آزمائے نہ جاتے تو دنیا کوتو علم نہیں ہوسکتا تھا، وہ تو عالم الغیب نہیں ہے.صلى الله پس محمد رسول اللہ کی صداقت کی گواہی دینے کے لئے اور آپ کا سب سے مل کر خدا کی تو حید کی گواہی دینے کے لئے وہ ابتدائی دور قربانیوں کا انتہائی دردناک دور تھا.تو حید کے لئے کبھی کسی قوم نے ایسی دردناک قربانیاں نہیں دیں جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ہے اور آپ کے غلاموں نے دیں اور شہد کا یہ معنی ہے جس کو آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.شَهِدَ اللهُ اللہ گواہی دیتا ہے اور ساتھ وہ لوگ بھی گواہی دیتے ہیں.اللہ تو تکلیفوں اور ابتلاؤں سے منزہ ہے مگر یہ لوگ کیسی گواہی دیتے ہیں.وہ گواہی جو حرص کے لئے دی جائے اس کی تو کوئی قدر و قیمت نہیں ہوا کرتی، اس کی تو کوئی حقیقت نہیں.وہ گواہی جو اپنے نفس کی خاطر دی جائے اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں، وہ گواہی جو اپنے نفس کے خلاف دی جائے ، اپنے ظاہری مفادات کے خلاف دی جائے ، وہ گواہی جس کے نتیجے میں شدید ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑے اور انتہائی دردناک مظالم کی چکی میں پیسا جائے ، وہ گواہی ہے جو سچی گواہی ہے اور یہ وہ گواہی تھی جو حضرت اقدس رسول اکرم ہے کے ساتھ آپ کے تمام صحابہ نے دی ہے اور یاد رکھیں کہ اسلام کا آغاز حقیقت میں توحید ہی کا آغاز تھا.یہ قربانیوں کا دور وہ ہے جہاں توحید اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام تھے اور تمام تر تکلیفیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ اور آپ کے غلاموں کو دی گئیں وہ خالصہ توحید کی وجہ سے دی گئی ہیں.کسی اور چیز کا جھگڑا ہی نہیں تھا جھگڑا ہی تو حید کا تھا.اگر محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے غلام یہ اعلان کر دیتے خدا واحد نہیں ہے.تو جو چاہے مذہب بناتے ، جس مذہب کی چاہے پیروی کرتے ، جس طرح چاہے زندگی کو ڈھالتے.کفار کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کھلی چھٹی ہے جو چاہو کرو مگر خدائے واحد کا نام نہ لو.ہمارے بتوں کا بھی ذکر کرو پھر تمہیں اجازت ہے جو چاہو کرتے پھرو.پس سارا جھگڑا ہی تو حید کا تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 658 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء اس موقع پر جن صحابہ کے نام میں نے مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھے ہیں ان میں ایک نام حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جو بنو امیہ میں سے تھے.آنحضرت مہ کے دعوئی کے وقت پختہ عمر کے تھے اور خوش حال تھے اور بہت معزز تھے.ایسے تھے جن کا بہت احسان لوگوں پر تھا.لیکن آپ پر بھی ظلم توڑے گئے اور عرب دستور کے مطابق یہ ظلم ایک ایسے شخص نے آپ پر روار کھے جس کو باقی قوم پوچھ نہیں سکتی تھی.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے باقی جو عرب اہل مکہ تھے ان میں سے چونکہ اکثر پر آپ کے احسانات بہت تھے اور پھر یہ بھی ایک رواج تھا عربوں میں کہ کوئی طاقتور قبیلے کا فرد ہو تو اس قبیلے سے باہر کے آدمی اس کو گزند نہیں پہنچا سکتے کیونکہ عربوں میں عصبیت بہت تھی.خواہ مذہبی اختلاف پر بھی ان کو زدو کوب کیا جاتا ان کی عصبیت بعض دفعہ کھڑی ہوتی تھی.کہتے تھے کہ تم نے ہمارے آدمی کو مارا ہم تمہارے آدمی کو ماریں گے.پس حضرت عثمان پر جو مظالم توڑے ہیں آپ کے چا حکم ابن العاص نے توڑے ہیں، آپ کو رسیوں سے باندھ کر پیٹا جاتا تھا اور مسلسل لمبے عرصے تک یہ ظلم آپ پر بر پاکئے جاتے رہے لیکن آپ نے کبھی اف نہیں کی.اسی طرح رسیوں میں بندھے ہوئے مار کھاتے رہے.(طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۵۵) پھر زبیر بن العوام تھے جوقبیلہ اسد سے تعلق رکھتے تھے.جواں مرد اور خو برونو جوان تھے.ان کو بھی ان کا ظالم چچا ہی سزائیں دیا کرتا تھا.ان کو چٹائی میں لپیٹ کر آگ کا دھواں چٹائی میں دیتا تھا.اس سے دم گھٹتا اور نہایت ہی خوفناک اذیت ہوتی تھی لیکن خاموشی سے صبر کے ساتھ اس کو برداشت کرتے رہے اور ایک دفعہ بھی آپ نے کوئی کلمہ کفر منہ سے نہ نکالا.ان دو چوں کی مثال میں نے پہلے اس لئے دی ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے کے بھی ایک چاتھے ان پر بھی قوم نے دباؤ ڈالا تھا لیکن آخر وقت تک انہوں نے آنحضرت ﷺ کی حمایت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچا.جب کھینچنے کے لئے آمادہ ہوئے تھے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے کے جواب کی شوکت سے ایسا متاثر ہوئے کہ انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے ! جو چاہے کرتا پھر، میں ہمیشہ تیرے ساتھ رہوں گا.پس اس وجہ سے میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابو طالب سے رحم کا سلوک فرمائے گا اور ان کو بھی اپنی رحمتوں سے خالی نہیں رکھے گا.دوسرے بھی تو چاتھے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.دیکھیں! کیسے ظالم لوگ تھے اور کس طرح توحید سے دامن چھڑانے کے لئے کیسی کیسی تکلیفیں ایجاد کرتے اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 659 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء ان میں لطف محسوس کیا کرتے تھے.حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ چا دھوئیں دے دے کر سمجھتا تھا کہ اب اس کا دم گھٹنے والا ہے باز آچکا ہوگا تو جھانک کر دیکھتا تھا.پوچھتا تھا کہ کیا حال ہے؟ وہ کہا کرتے تھے صداقت کو پہچان کر پھر اس سے انکار نہیں ہوسکتا.اس کے سوا اور کوئی جواب نہیں تھا.( مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ ۱۵۱) سعید بن زید جو حضرت عمرؓ کے بہنوئی تھے بنو عدی سے تھے اور اپنے حلقے میں معزز تھے.وہاں بھی عرب دستور کے مطابق غیر کو جرات نہیں تھی کہ ان کو تکلیف پہنچا تا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود اپنے بہنوئی کو بعض دفعہ اس طرح مارا کرتے تھے کہ لٹا کر چھاتی پر سوار ہو جاتے تھے اور کبھی بہن نے چھڑانے کی کوشش کی تو وہ زخمی بھی ہو گئیں لیکن مسلسل اس اذیت کے باوجود انہوں نے ایک دفعہ بھی کلمہ کفر نہ منہ سے نکالا اور توحید ہی کا ہمیشہ اقرار کرتے رہے.( بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعید بن زید ) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، ان کے نام سے کون واقف نہیں ہوگا.آپ قبیلہ ہذیل میں سے تھے.انہیں قریش نے ایک دفعہ محن کعبہ میں اتنا مارا کہ وہ ہلکان ہو کر اس طرح گر پڑے گویا مردہ ہو چکے ہوں (اسد الغابہ تذکرۃ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ آپ سے بہت کام لینے تھے اس لئے انہیں لمبی زندگی عطا فرمائی اور ساری امت پر ہمیشہ کے لئے روایات اور تفسیر کے سلسلے میں ان کے ذریعے بہت بڑا احسان فرمایا.ابوذرغفاری کو قریش اتنا مارا کرتے تھے کہ مارتے مارتے زمین پر بچھا دیتے تھے یعنی اس طرح نڈھال کر کے پھینک جاتے تھے کہ گویا وہ مر چکا ہے اور پھر اٹھ نہیں سکے گا.ایک ایسے موقع پر حضرت عباس بن ابوالمطلب نے ان کو کہا یعنی اذیت دینے والوں کو، دیکھو تم ایسا نہ کرو کیونکہ یہ شخص بڑے طاقتور بنو غفار سے تعلق رکھتا ہے اور بنو غفار تمہارے شامی تجارت کے رستے میں واقع ہیں.عرب عصبیت اگر بھڑک اٹھی اور ان کو پتا چلا کہ تم ان کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو، تمہارے تجارت کے رستے بند ہو جائیں گے.چنانچہ اس وجہ سے پھر انہوں نے حضرت ابو ذرغفاری سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے.( صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبه باب اسلام ابی ذر ) یہ تو آزادوں کا حال تھا.آپ اندازہ کریں کہ غلاموں سے کیا سلوک ہوتا ہو گا ؟ آزاد
خطبات طاہر جلد ۱۲ 660 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء قوموں کو اپنے قبیلوں کی حمایت حاصل تھی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قبیلے والے ہی اور ان میں سے اگر بڑے ظلم کریں تو الگ بات تھی ورنہ غیر کو جرات نہیں ہوتی تھی.وہ غلام تو ہر کس و ناکس کی ملکیت بن جایا کرتا تھا.جس طرح گلیوں کے کتے ہوتے ہیں بعض دفعہ عرب ان سے بدتر غلاموں سے سلوک کیا کرتے تھے.ان میں سر فہرست حضرت بلال بن رباح ہیں جو امیہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے.امید ان کو دوپہر کے وقت جبکہ آسمان سے آگ برس رہی ہوتی تھی.مکے کے پتھر یلے علاقوں میں جب میدان بھٹی کی طرح تپنے لگتے تھے، اس وقت باہر لے جاتا.پیٹھ سے قمیض اتار دیتا تھا.لٹا کر گرم پتھر آپ کی چھاتی پر رکھ دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ لات اور عزمی کی پرستش کر دو اور محمد سے علیحدہ ہو جاؤ ورنہ اسی طرح عذاب دے دے کر مار دوں گا.بلال اس اذیت کی انتہا کے وقت اور تو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے مگر مسلسل احد احد احد کی آواز اٹھتی رہتی تھی.بسا اوقات آپ بے ہوش ہو جاتے تھے مگر بے ہوشی کے وقت بھی آپ کی آخری آواز آپ کے منہ سے احد احد احد کی آواز اٹھ رہی ہوتی تھی.ایک موقع پر حضرت ابو بکر نے جب اس ظلم وستم کو دیکھا تو بہت بڑی قیمت دے کر بلال کو آزاد کروالیا.(مسند احمد جلد اصفحہ ۴۰۴۰) جہاں تک امیہ کا تعلق ہے جب وہ احد کی آواز سنتا تھا تو اس کی آتشِ غضب اور بھڑک اٹھتی تھی اور بعض دفعہ ان کے گلے میں رسہ ڈال کر گلی کے آوارہ لڑکوں کو کہتا تھا کہ انہیں پتھریلی گلیوں میں گھسیٹتے پھر و، جیسا کتے کو گھسیٹا جاتا ہے اور اس طرح حضرت بلال گلیوں میں گھسیٹے جاتے تھے اور مسلسل ایک ہی آواز تھی جو آپ کی زبان سے اٹھتی تھی.احـد أحــد احد.روایت والے بیان کرتے ہیں یہی آواز دیتے دیتے آپ بے ہوش ہو جایا کرتے تھے.ابوفکیہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے.صفوان بن امیہ نے بھی یہی طریق سیکھ لیا تھا.گرم زمین پر ان کو لیٹا دیتا تھا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا کرتا تھا.یہاں تک کہ ان کی زبان باہر نکل جاتی تھی بوجھ سے اور تکلیف سے لیکن ایک دفعہ بھی کلمہ کفر آپ کے منہ سے نہیں نکلا.(اسد الغابہ جلد ۵ صفحہ ۲۷۳) عامر بن فہیرہ بھی ایک غلام تھے.انہیں بھی اسلام کی وجہ سے سخت تکلیف دی جاتی تھی.حضرت ابو بکر نے خرید کر اپنے پاس بکریاں چرانے پر نوکر رکھ لیا.(اسد الغابہ جلد ۳ صفحہ ۳۱) لبیہ بنو عدی کی لونڈی تھیں.اسلام لانے سے پہلے حضرت عمران کو اتنا مارا کرتے تھے کہ مارتے مارتے خود تھک جایا کرتے تھے پھر کچھ دیر آرام کے لئے بیٹھ جاتے تھے پھر اٹھ کر ان کو مارا کرتے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 661 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء ( کامل ابن اثیر جلد ۲صفحہ ۶۹) وہ کہا کرتی تھیں عمر! اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو خدا اس ظلم کو کبھی بے انتقام نہیں چھوڑے گا.اس بات میں ایک بہت بڑا راز ہے.جس سے جماعت کو فائدہ اٹھانا چاہئے.انتقام کی جذبے کی انتہا کے وقت جبکہ سب سے زیادہ انتقام کا جذ بہ کڑوا ہو چکا ہوتا ہے.اس وقت بھی وہ لونڈی یہ جانتی تھی اسلام بہر حال بہتر ہے.اگر میں خدا سے یہ بددعا کروں کہ اس کو ضرور ذلیل و رسوا کرے تو خدا ایسا ہی کرے گا.مگر میری تمنا یہ ہے کہ اسلام قبول کرلے اور اس کے سارے گناہ بخشے جائیں.تو یہ کہا کرتی تھیں اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو ایسا ہو گا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مظلوم لونڈی کی دعا تھی جو اس دردناک حالت میں حضرت عمرؓ کے حق میں نکلی ہے جس وجہ سے خدا تعالیٰ نے آپ کا انتخاب فرمایا اور ابو جہل کا انتخاب نہیں فرمایا.آنحضرت ﷺ نے جب دو بڑوں میں سے ایک مانگا تو یہ دیا گیا.اس میں میرا یہ ذوقی نکتہ ہے کہ اس لونڈی کی دعا کا اعجاز بھی شامل ہے.یہ آپ کی شفیع بن گئی.پس خدا تعالیٰ نے اس کو چن لیا اور اس کو چھوڑ دیا جس کے لئے کسی نے دعا نہیں کی تھی.حضرت زنیرہ بنومخزوم کی لونڈی تھیں.ابو جہل نے اسے اس بے دردی سے پیٹا کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیں.ہمیشہ کے لئے اندھی ہو گئیں اور ابو جہل طنز کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے کہا الله کرتا تھا کہ دیکھو جی اسلام سچا ہوتا تو کیا اسے مل جاتا اور میں محروم رہ جاتا ؟ حضرت صہیب بن سنان رومی ہر چند کہ غلام نہ تھے.یعنی اب وہ غلام ہیں جو پہلے غلام ہوا کرتے تھے پھر آزاد ہو گئے.ان میں سے چند کا تذکرہ ہے جو تھے بھی نسبتاً خوشحال لیکن قریش ان کو اتنا پیٹا کرتے تھے کہ حواس مختل ہو جایا کرتے تھے اور گھبرا کر وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتے تھے.وہی صہیب ہیں جن کو حضرت عمرؓ نے زخمی ہونے کی حالت میں امام الصلوۃ مقرر فر مایا تھا.کہاں وہ مقام اور کہاں یہ مقام اللہ تعالیٰ کی یہ شان دیکھیں اور کہاں وہ بلال جوگلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا جس کو ہر کس و ناکس، ہر گندہ لونڈ اگلی کا ، رسیوں کے ساتھ پتھریلی زمینوں پر گھسیٹتے ہوئے مذاق بھی اڑاتا ہوگا، قہقہے لگا تا ہوگا اور اس دردناک عذاب پر گلیوں میں تماشہ بنا لیا گیا ہوگا.ایک ایسا وقت آیا حضرت عمر حضرت بلال کو دیکھتے تو سیدنا بلال، سیدنا بلال کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے.دیکھو! دیکھو !! ہمارا آقا بلال آ گیا ہے.پس دیکھو غلاموں کو تو حید نے کیسی عزت بخشی تھی.کیسی عظمت عطا کی تھی اور سکے میں داخل ہوتے ہوئے ایک اس غلام کا جھنڈا بھی تھا.جس کے متعلق حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 662 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء محمد رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ اے اہل مکہ ! اگر تم بلال کی پناہ میں آ جاؤ ، اس کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ تو تمہیں معاف کر دیا جائے گا.پس خدائے واحد ان لوگوں کو کبھی بے اجر نہیں چھوڑتا.جو اس کی خاطر دکھ اٹھاتے ہیں، تکلیفیں سہتے ہیں اور عذابوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں، لوگ ان کو بھول جاتے ہیں مگر خدا ان کو ہمیشہ یا درکھتا ہے اور عزت پر عزت دیتا چلا جاتا ہے.خباب بن الازت بھی ایک غلام نہیں رہے تھے مگر اپنا کام کرنے سے پہلے یہ لوہار ہوا کرتے تھے.آپ ایک غلام ہی تھے کیونکہ یہ لوہار تھے ، بھٹی دہکایا کرتے تھے جس میں پھر لوہا پگھلا کر اسے کوٹ کر دوسری چیزیں بناتے تھے.تو کفار مکہ کو یہ بہت اچھا اپنی طرف سے موقع ہاتھ آ گیا.بعض دفعہ ان کی بھٹی سے کو سلے نکال کر ان کو ان کوئلوں پر لٹا دیا جا تا تھا اور ایک شخص ان کی چھاتی پر بیٹھ جاتا تھا تا کہ بل بھی نہ سکیں.اس حالت میں ان سے کہا جاتا تھا کہ اب بولو خد ا واحد ہے کہ نہیں ہے اور ان کی طرف سے کبھی ایک دفعہ بھی کلمہ شرک منہ سے نہ نکلا.اسی حالت میں اپنے ہی چھالوں اور اپنے ہی خون سے وہ کوئلے ٹھنڈے ہو جایا کرتے تھے (اسد الغابہ جلد۲ صفحہ ۹۸) جو اتنے گرم تھے کہ لوہے کو پگھلا دیا کرتے تھے.بعد کے زمانے میں بعض دفعہ وہ اپنا نمیض اٹھا کر دکھایا کرتے تھے.یہ دیکھو جیسے برص کے داغ ہوں اس طرح کوئلوں کو بجھا بجھا کر وہ ساری پیٹھ یوں لگتا تھا کہ جیسے برص کا شکار ہوگئی ہو.اس پر وہ سفید داغ پڑ چکے تھے اور ان سے تمسخر بھی ایسے جاہلا نہ تھے ایک دفعہ عاص بن وائل نے ان سے تلواریں بنوائیں کیونکہ وہ اپنے کام کے بڑے ماہر تھے.جب اس نے اچھی تلواریں بنا کر پیش کیں تو کہا کہ ان کا کوئی دام تمہیں آج میں نہیں دیتا کیونکہ تم تو اس بات کے قائل ہو کہ قیامت کے دن سب سودے ہو جائیں گے جو اس دنیا میں کمی رہ جائے گی اس دنیا میں پوری کر دی جائے گی.تو میں تو بہر حال جنت میں جاؤں گا تم جنت میں آ کر قیامت کے بعد جب اس دن میں جنت میں آؤں گا تو مجھ سے پیسے وصول کر لینا.اس کو کیا پتا تھا کہ وہ جہنم ہو گا اور حضرت خباب تو جہنم میں جھانک کے بھی نہیں دیکھیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے یہ سارے سودے جہنم بھیجنے سے پہلے ہی طے فرما دیئے ہیں.یہ فرما کر کہ حساب کتاب پہلے ہو گا.وہاں تمام قرضے چکائے جائیں گے.یہ سب کچھ ہو جائے گا پھر جنت والے جنت کی طرف لے جائے جائیں گے اور جہنم والے جہنم میں دھکیلے جائیں گے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 663 خطبه جمعه ۲۷ /اگست ۱۹۹۳ء پھر حضرت عمار کے والد یا سر اور ان کی والدہ سمیہؓ کو یاد کریں جو بنومخزوم سے تعلق رکھتے تھے.بنومخزوم کی غلامی میں کبھی سمیہ رہ چکی تھیں مگر اب آزاد تھیں.ان کو ایسے عذاب دیئے گئے کہ ان کے ذکر سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.حضرت یاسر تو کچھ عرصہ ان دکھوں کو برداشت نہ کر کے آخر اس دنیا سے رخصت ہوئے ، اپنی جان جان آفرین کے سپر د کر دی.ان کی والدہ سمیہ پیچھے کچھ دیر زندہ رہیں یہاں تک کہ ابو جہل نے ان کی ران پہ نیزہ مارا جوران کو چیرتا ہوا پیٹ تک اتر گیا اور اس حالت میں انہوں نے تڑپ تڑپ کے جان دے دی.(مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار جلد ۳ صفحه ۳۸۳) ایک عمار بے چارا بیچارہ گیا تھا.اس سے بالآخر یہ دباؤ برداشت نہیں ہوا اور ایک موقع پر اس نے اپنی جان بچانے کے لئے عذاب سے چھٹکارے کے لئے کلمہ کفر کہہ دیا لیکن بعد میں زار زار رو تا اور تڑپتا ہوا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا یا رسول اللہ ! میں آپ سے اپنے متعلق کچھ بات کرنا چاہتا ہوں.میں عذاب میں مبتلا ہوں مجھے کوئی چین نہیں ہے.یا رسول اللہ کے میں ہلاک ہو گیا ہوں ، مجھے ظالموں نے اتنا دکھ دیا کہ میں کچھ نا گفتنی با تیں کہ بیٹھا ہوں.آپ نے فرمایا تم اپنے دل کا حال کیسا پاتے ہو ؟ عرض صلى الله کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرا دل تو اسی طرح مومن ہے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اسی طرح سرشار ہے.آپ نے فرمایا تو پھر خیر ہے؟ خدا تمہاری اس لغزش کو معاف فرما دے گا.( طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۲۴۶) یہ تو آپ ﷺ کے غلاموں کا حال تھا.جن کو آپ نے تربیت دی تھی مگر ساری قوم جوان غلاموں کی طرح ہی ذلت اور رسوائی کی نکبت کا شکار ہو چکی تھی.بڑے بڑے سردار تھے جن کی سرداریاں جاتی رہیں.بڑے بڑے صاحب شوکت اور ہبیت انسان تھے جن سے ادفی ذلیل انسانوں کی طرح سلوک کئے گئے یہاں تک کہ ان کی ہمتیں جواب دے گئیں.سوال یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کا ان باتوں میں کیا حال ہوتا ہو گا؟ میں تو اپنی کیفیت کو دیکھ کر کچھ اندازے کرتا ہوں.دنیا بھر میں کسی جگہ بھی احمدی پر ظلم ہوتو مجھے نا قابل برداشت اذیت پہنچتی ہے اور اس وقت میں سوچتا ہوں میری اس اذیت کی جو انتہا ہے محمد رسول اللہ کی اذیت کا.صلى الله آغاز ہوتا ہے.آپ کے قدم میری اذیت کے سر پر ہیں اور آپ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: ۱۰۸) تھے.ان کے مقابل پر کوئی دنیا میں اور شخص ایسا نہیں ہو سکتا تھا جیسا آپ تھے.پس ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 664 خطبه جمعه ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء میں سے ہر ایک جو اذیت دیا جاتا تھا خدا کی قسم ان سے بڑھ کر محمد رسول اللہ اذیت میں مبتلا کئے جاتے تھے.میں اپنے ذاتی تجربے سے گواہی دیتا ہوں کہ انسان کا تصور بھی ان باتوں کو نہیں پہنچ سکتا جس حد تک محمد رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچی ہے.لیکن صبر کی تلقین فرمایا کرتے تھے اور خود بھی صاحب صبر تھے اور ایسے صاحب صبر تھے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ذُو حَظِّ عَظِیهِ ( حم السجدہ: ۳۶) تم صبر کی باتیں کرتے ہو.اس کو تو صبر عظیم عطا ہوا ہے ایسا صبر کہ کوئی مثال دنیا میں اور پیش نہیں کی جاسکتی.اللهم صل على محمد و آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید(امین).
خطبات طاہر جلد ۱۲ 665 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء حضرت محمد مصطفی حمله کامل موحد تھے.وہ دن نزدیک ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب سے چڑھے گا.( خطبه جمعه فرموده ۳۰ ستمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی :.وَالهُكُمْ اللهُ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ (البقره: ۱۶۴) پھر فرمایا:.توحید کے بیان سے متعلق جو خطبات کا سلسلہ جاری ہے.اس سلسلے میں آگے مضمون کو بڑھانے سے پہلے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مختلف ممالک میں مختلف اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں یا عنقریب ہونے والے ہیں.ان سب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان میں یہ کا نام بھی اس خطبے میں آجائے.جو پیغام انہوں نے مانگا ہے پیغام تو وہی پیغام ہے.پیغام واحد ہے یعنی توحید کے مضمون سے تعلق رکھنے والا پیغام.اس ضمن میں کسی اور پیغام کی کوئی ضرورت نہیں ، سب سے اعلیٰ ، سب سے یکتا پیغام ، توحید ہی کا پیغام ہے جو گزشتہ خطبات میں بھی میں جماعت کو دے رہا ہوں.آئندہ خطبات میں بھی دیتا رہوں گا.لجنہ اماء اللہ فرانس کا آٹھواں نیشنل اجتماع ۳ / ستمبر سے منعقد ہو رہا ہے.مجلس انصار اللہ شیخوپورہ کا سالانہ اجتماع ۳ ستمبر کو شروع ہو رہا ہے یعنی آج.مجلس انصار اللہ ضلع کراچی کا سالانہ اجتماع تین دن بعد یعنی 4 ستمبر کو شروع ہو گا لیکن انہوں نے بھی آج ہی پیغام کی خواہش کا اظہار کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 666 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء ہے.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع ملتان کا سالانہ اجتماع ۳۰ ، ۳۱ /اگست کو منعقد ہو رہا ہے.اللہ ان سب اجتماعات کو مبارک فرمائے.اس میں شامل ہونے والوں کو ہر لحاظ سے شمولیت کی برکات عطا فرمائے اور جو کچھ فیض وہ ان اجتماعات سے حاصل کریں اپنے دلوں میں اس فیض کی حفاظت کریں جس طرح بارش کے پانی کو بعض دفعہ سنبھال کر رکھا جاتا ہے اس طرح اجتماعات کے فیض کو بھی سنبھال کر رکھنا چاہئے اور سارا سال ان کے فیوض سے سیراب ہونا چاہئے.گزشتہ خطبے میں میں ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کی جو برکات بیان فرمائی ہیں.ان میں اس کا الرَّحْمٰنُ اور الرَّحِیمُ ہونا خصوصیت کے ساتھ مذکور ہے.وَالهُكُمْ الهُ واحِدٌ تمہارا ایک ہی خدا ہے لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمُ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی ہے جو الرَّحْمٰنُ ہے اور وہی ہے جو الرَّحِیمُ ہے.رحمانیت کا جوسب سے بڑھ کر اعجاز ہم نے اس دنیا میں دیکھا تھا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) کی صورت میں ظاہر ہوا ہے.اس سے پہلے ساری کائنات رحمانیت ہی کا جلوہ دکھاتی رہی مگر وہ جلوہ خاموش جلوہ تھا جس کی کوئی زبان کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی.نہ سننے کے کان تھے، نہ دیکھنے کی آنکھیں.پس وہ خاموش جلوہ ارب ہا ارب سال تک دنیا سے بے پرواہ اور دیکھنے والوں سے مستغنی ہو کر کائنات میں ظاہر ہوتا رہا.یہ جلوہ دیکھنے والے انسان کے وجود میں آنے کے بعد پیدا ہوا اور اس جلوے کو سمجھنے والے انسان کے وجود میں آنے کے بعد تخلیق کیا گیا.لیکن اس سے پہلے فرشتے بھی تو تھے اور بھی بہت سی قسم کی مخلوقات تھی جو ان جلووں کا نظارہ کیا کرتے تھے مگر یہ جلوے کچھ اور مقصد رکھتے تھے جن سے وہ نا آشنا تھے.پس اس لئے میں نے ملائکہ کا ذکر پہلے نہیں کیا جن جلوؤں کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ وہ جلوے ہیں جو انسان کے لئے مخصوص تھے.جن کا ملائکہ کو علم نہیں دیا گیا تھا.اسی لئے انہوں نے آخر خدا کے حضور اپنی لاعلمی کا اقرار کیا.ان جلوؤں کا معراج حضرت محمد رسول اللہ رَحْمَةً لِلْعَلَمینَ کی صورت میں ظاہر ہوا.اسی لئے آپ کو تمام انبیاء میں سے تنہا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا خطاب دیا گیا اور آپ ہی کو قرآن کا علم بخشا گیا.پس قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ ) (الرحمن : ۲- ۵) الْإِنْسَانَ سے مراد
خطبات طاہر جلد ۱۲ 667 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ یعنی انسان کامل جو ہیں وہی اول صورت میں اس آیت کے مصداق ہیں آپ ہی کو قرآن کا علم عطا فرمایا گیا، آپ ہی کو وہ بیان عطا کیا گیا جس کے نتیجے میں قرآن کا عرفان ساری دنیا میں ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری وساری ہوا.تعال وسام پس رحیمیت کے جلوے کے نتیجے میں قرآن کو ہمیشہ باقی رکھنے کا انتظام فرمایا گیا ہے کیونکہ رحیمیت کا جلوہ ایک جاری جلوہ ہے جو بار بار ظاہر ہوتا ہے اور ایسا جلوہ ہے جس کے نتیجے میں ہر محنت کرنے والے کو اس کی محنت کا پھل اس کی محنت سے بڑھ کر عطا کیا جاتا ہے.پس کائنات میں یہ صلى الله جلوہ جاری تھا لیکن روحانی دنیا میں آنحضرت ﷺ کی صورت میں جیسے یہ جلوہ ظاہر ہوا ہے اس سے پہلے کبھی اس طرح ظاہر نہیں ہوا تھا.تمام انبیا رحمانیت کے مظہر ہیں، تمام انبیاء رحیمیت کے مظہر ہیں لیکن ان کے ادوار مختصر تھے اور ان کا دائرہ کار مختصر تھا.عالمی طور پر رحمت بن کے پہلے کوئی نہ آیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے باقی رہنے والی رحمت بن کر اس سے پہلے کوئی نہ آیا تھا.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے پر دائما درود بھیجنے چاہئیں کیونکہ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی توحید کا وہ جلوہ ہم نے دیکھا اور ہمیشہ دیکھتے رہیں گے جسے میں رحمانیت کے نام سے آپ کو متعارف کروا رہا ہوں یعنی قرآن نے متعارف کروایا اور رحیمیت کے طور پر میں آپ کو یہ جلوہ دکھا رہا ہوں جو قرآن نے ہمیں دکھایا.اس ضمن میں میں چند روایات آپ کے سامنے گزشتہ خطبے میں پیش کر رہا تھا جن کا تعلق عظیم الشان قربانیوں سے تھا ایسی قربانیاں جو خالصہ توحید کی خاطر پیش کی گئیں اور وہ قربانیاں حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کے غلاموں نے پیش فرمائیں اور میں آپ کو بتا رہا تھا کہ یہ قربانیاں دنیا میں تو حید کی گواہ بن گئیں کیونکہ محض منہ سے توحید کا اقرار کچھ حقیقت نہیں رکھتا اور قربانیاں پیش کرنا محض زبانی توحید کے اقرار سے میتر نہیں آسکتا.قربانیوں کا گہرا تعلق گہرے عرفان اور گہری وفا سے ہے.پس جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے تو حید کو گویا ان کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر کر کے نہ دکھا دیا.اپنے وجود میں بھی اور خدا کے وجود میں بھی ، جو مسلسل تو حید کے جلوے آپ کی ذات پر ظاہر ہوتے رہے.ان کا نمونہ جب تک ایک زندہ نمونے کے طور پر اپنے صحابہ کے سامنے نہیں رکھا اس وقت تک وہ صحابہ گواہ بنے کی اہلیت حاصل نہیں کر سکتے تھے اور گواہی وہ جو خون سے لکھی گئی ، گواہی وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 668 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء جو مسلسل صبر و رضا کے ساتھ دم بہ دم بہتے ہوئے خون سے جو قر بانیوں کی صورت میں مسلسل زندگی بھر ان کی ذات سے بہتا رہا اس خون سے لکھی گئی.یہ وہ گواہی ہے جو حقیقت میں سچی گواہی کہلانے کی مستحق ہے.انہی معنوں میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سب شہیدوں سے بڑھ کر شہید بنایا گیا اور تمام انبیاء کی شہادت پر آپ ﷺ کی شہادت کو فوقیت دی گئی اور انہی معنوں میں وہ زندہ شہید بھی تھے جو حضور اکرم ہے کے وجود سے برکتیں پا رہے تھے اور وہ شہداء بھی تھے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ان نیتوں کو پورا کر دکھایا جو تو حید کی خاطر وہ دلوں میں باندھے بیٹھے تھے.پس وہ قربانیوں کا دور ایک عظیم دور ہے جو تو حید پر ایسا گواہ ٹھہرا ہے کہ قیامت تک اس کی گواہی کا اثر مٹ نہیں سکتا اور اسی گواہی کے اثر سے ہم لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں.اب میں آپ کو تو حید سے متعلق کچھ اور باتیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں بتانی چاہتا ہوں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو جو عرفان خدا کا نصیب ہوا اس کی کوئی اور مثال دنیا میں موجود نہیں لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کا جو عرفان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نصیب ہوا اس کی بھی کوئی اور مثال دنیا میں دکھائی نہیں دے سکتی.حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے لے کر اب تک تمام اہلِ عرفان کی تحریروں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آقا و مولا حضرت محمدمصطفی احہ کا جو عرفان نصیب ہوا ہے جو آپ کی تحریروں سے ظاہر وباہر ہے اور چھلک رہا ہے جس میں آپ کی تمام تحریریں سموئی ہوئی ہیں.ویسا عرفان آپ کو تمام ان تحریروں میں اجتماعی طور پر بھی دکھائی نہیں دے گا جو اس سے پہلے آپ کو اسلامی لٹریچر کی صورت میں ملتی ہے.یہ کوئی فرضی دعوی نہیں، کوئی برا نہیں ہے جس کا جی چاہے آ کے دیکھ لے، جس کا جی چاہے موازنہ کر کے دیکھ لے.اس قدر عشق اور محبت سے اور گہرے عرفان کے ساتھ جو ذ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان پر جاری ہوا وہ اجتماعی طور پر ان سب تحریروں پر بھاری دکھائی دے گا جو اس سے پہلے آپ کو اسلامی لٹریچر میں پڑھنے کو ملتی ہیں.پس آپ کی ہی زبان سے آنحضرت ﷺ کی تو حید کا ذکر بہت ہی پیارا ذ کر معلوم ہوتا ہے اور حضور اکرم یہ کس شان کے موحد تھے جو اس کی گہرائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں ملتی ہے.وہ آپ کی مدد کے بغیر کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی، وہاں تک ہماری پہنچ نہیں ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ یہ شعر بیان کیا تھا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 669 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء آئینہ تیری قدر کیا جانے میری آنکھوں سے دیکھ تو کیا ہے صلى الله تمام دوسرے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعریف کرنے والے مسیح موعود کی تعریف کے مقابل پر آئینہ دکھائی دیتے ہیں.ان میں وہ زندگی نہیں ، وہ جان نہیں ، وہ گہرائی نہیں ، وہ عرفان نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آقا و مولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا نصیب ہوا مگر اس ذکر سے پہلے میں غار ثور کا واقعہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دشمنانِ اسلام آنحضرت ﷺ کی ہجرت کو بزدلی کی ہجرت قرار دیتے رہے اور آپ کے ملکے کو چھوڑ کر مدینے کی طرف ہجرت کرنے کو ایک فرار قرار دیتے رہے.مگر غار ثور نے ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ گواہی لکھ دی.یہ فرار کا سفر نہیں تھا.اگر تھا تو پھر بھی فرار الی اللہ کا سفر تھا، نہ خدا سے فرار کا سفر تھا، نہ شیطان بندوں کے شر سے فرار کا سفر تھا بلکہ خالصہ اللہ کی تقدیر کے تابع یہ سفر اختیار فرمایا گیا.غار ثور میں جو واقعہ رونما ہوا ہے.وہ بتاتا ہے کہ آنحضرت یہ بندوں کے خوف سے فرار نہیں کر رہے تھے جس نے تیرہ سال انتہائی دکھوں میں زندگی بسر کی اور شدید سے شدید خطرات کا کامل بے پروائی اور بے نیازی سے مقابلہ کیا ہے.اول تو اس پر فرار کا الزام لگ ہی نہیں سکتا.وہ بے حیائی ہے ایسا الزام لگانا لیکن وہ دشمن جن کی زبانیں شیطان کے قبضے میں ہیں وہ ایسے الزامات لگانے صلى الله سے باز نہیں آتے.غار ثور میں جو واقعہ ہوا ہے وہ بتاتا ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا سفر فرار کا سفر نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ جو آپ کا پیچھا کر رہے تھے.آپ کی جان کے دشمن یہ عزم لے کر مکے سے نکلے تھے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اس سفر میں مدینہ پہنچنے سے پہلے پہلے جائیں اور ریگستان میں دو مسافر یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر ان کی نشاندہی کرنا کچھ بھی مشکل نہیں تھا.ریت پر چلتے ہوئے نشان بتا رہے تھے کہ کدھر کو یہ سواریاں گئی ہیں اور پھر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں چھپ کر یہ دو آدمی اپنا پیچھا کرنے والوں کی نظر سے غائب ہوسکیں اس لئے کامل یقین اور عزم کے ساتھ آپ کے دشمن آپ کے پیچھے لگے اور غار ثور تک جاپہنچے.جہاں تک قدموں کے نشان ان کو لے گئے اور غار ثور میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ اور حضرت ابو بکر بیٹھے ہوئے تھے.اس وقت یہ عجیب واقعہ ہوا ہے کہ ان کے پاؤں نیچے بیٹھے ہوئے حضرت رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 670 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کو دکھائی دے رہے تھے.وہ غار کے دہانے پر کھڑے تھے ان کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے اور حضرت ابوبکر بہت سخت گھبرائے مگر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات الله کے لئے پریشان ہوئے کہ خدانخواستہ آپ کو گزند نہ پہنچے کیونکہ ظاہر صورت میں کوئی فرار کی راہ باقی نہ رہی تھی ، نجات کا کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا.وہ دشمن اندھا نہیں تھا جس نے اس طرح نشانات کو پہچانتے ہوئے وہاں تک آپ کی پیروی کی.وہ دشمن پاگل نہیں تھا کہ جو جانتا ہو کہ غار ثور سے باہر نشان کسی اور طرف نہیں جا ر ہے اور یہاں آ کر ختم ہو جاتے ہیں اور پھر یہ سمجھیں کہ یہاں نہیں ہوں گے.اس وقت حضرت ابو بکر کی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت نے آپ کو تسلی دی.( بخاری کتاب تفسیر القرآن حدیث نمبر :۵۳۶۰) قرآن کریم اس واقعہ کو یوں بیان فرماتا ہے: إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (التوبه (۴۱) إِلَّا تَنْصُرُ وہ اگر تم اس کی مدد نہ بھی کرو تو اس کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ جس کا خدا مددگار ہو فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ خدا نے وہ مدد دکھا دی، کس طرح خدا مدد کیا کرتا ہے؟ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا جبکہ اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنہوں نے انکار کیا تھا.اس آیت میں نکلنے کی ذمہ داری کلیہ کفار مکہ پر رکھی گئی ہے.آنحضرت ﷺ کی کوئی خواہش نہیں تھی ملکے کو چھوڑ کر جانے کی ، آپ نکالے گئے تھے یعنی وہاں زندگی صرف اجیرن ہی نہیں کی گئی بلکہ جس مقصد کے لئے آپ ﷺ زندہ تھے اس مقصد کی راہ میں ایسی روکیں کھڑی کر دی گئیں کہ وہاں رہنا نہ رہنا برابر ہو گیا.اس رنگ میں آپ کو مکے سے اہل مکہ نے نکال دیا یعنی جس مقصد کی خاطر آپ کبھیجے گئے تھے اگر وہ مقصد پورانہ ہو تو آپ کی زندگی کے کوئی معنی باقی نہیں رہتے تھے.پس عملاً آپ کو مجبور کر دیا گیا کہ اس جگہ کو چھوڑ کر ایسی جگہ جائیں جہاں آپ کھلے بندوں پیغام دے سکیں، جہاں پیغام سننے والوں کے دل اس پیغام کی طرف مائل ہوں.پس خدا کی تقدیر نے آپ کو بتایا کہ یہ وقت آ پہنچا ہے، ملکے سے تمہیں کسی خیر کی توقع نہیں رہی.اب اس جگہ کو چھوڑ جاؤ.ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثَانِيَ اثْنَيْنِ اذْهُمَا فِي الْغَارِ وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ غار میں تھے.اِذْ يَقُولُ لِصَاحِب؟ اس وقت وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا لَا تَحْزَنُ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 671 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء اِنَّ اللهَ مَعَنَا ہر گز غم نہ کرو إِنَّ اللهَ مَعَنا خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ واقعہ کیا ہوا تھا.حضرت ابوبکر کا کوئی قول قرآن مجید میں ذکر نہیں فرمایا بلکہ صرف حضرت محمد رسول اللہ اللہ کا تسلی دلانا، مذکور ہے.وہ واقعہ بخاری میں یوں ملتا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے مجھے بتایا کہ غار میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ میں تھا.میں نے مشرکوں کے قدم دیکھے تو عرض گزار ہوا یا رسول اللہ لہ اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدم اٹھائے تو ہمیں دیکھ لے گا یعنی معمولی سا ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا.ان کے اور ہماری راہ میں اب کوئی اوٹ حائل نہیں رہی.قدم کی ذراسی حرکت کے نتیجے میں وہ اتنا الله قریب آجائیں گے کہ ہمیں وہ دیکھ سکیں گے.حضور ﷺ نے فرمایا ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے.وہ دو، جن کے ساتھ تیسرا خدا ہو اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ روایت اس قرآنی آیت کی تصدیق کرتی ہے.تصدیق کا لفظ تو درست نہیں.قرآن کریم اس روایت کی تصدیق کرتا ہے کہنا چاہئے.مگر طر ز بیان میں معمولی سا فرق ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضور اکرم کے متعلق فرماتا ہے کہ آپ نے فرمایا اِنَّ اللهَ مَعَنا خدا ہمارے ساتھ ہے.جو الفاظ راوی کو یادر ہے ہیں حضرت ابوبکر نے بیان کئے تھے.وہ یہ تھے ان دو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن دو کے ساتھ تیسرا خدا ہو.تو مَعَنَا کا مضمون ہی ہے اور قرآن کی گواہی ہی دراصل قابل اعتماد گواہی ہے.مضمون ایک بھی ہو روایت کا جو فرق ہے.معلوم ہوتا ہے قرآن کریم کے الفاظ ہی میں آنحضور یہ نے یہ فرمایا ہوگا اور ان الفاظ کا ترجمہ راوی نے یوں کر دیا ہے.ان دو کا کیا حال ہو گا جن کے ساتھ تیسرا خدا ہو.پس تو حید کے نتیجے میں محض خطرات سے مقابلے کی جرأت ہی پیدا نہیں ہوتی اور ہر چیز قربان کرنے کا جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ جب خدا کی حفاظت میں انسان ایک سفر اختیار کرتا ہے یا کوئی کام بھی اس یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا سایہ نصیب ہو.تو پھر بڑے سے بڑا خطرہ بھی انسان کے دل کو دہلا نہیں سکتا.کامل تو کل پیدا ہوتا ہے اور بھاگنے والوں کے دل میں تو گل نہیں ہوا کرتا.اس لئے میں نے کہا کہ غار ثور میں جو واقعہ ہوا ہے ایک عظیم الشان گواہی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور آپ کے خدا تعالیٰ سے تعلق اور آپ کے تو کل پر ہے.جو شخص بھاگ رہا ہو.اس کو تو ذرا سا بھی خطرہ دکھائی دے تو اس کی جان نکلنے لگتی ہے وہ سمجھتا ہے مارے گئے اور پکڑے گئے.لیکن دشمن سامنے کھڑا ہو اس کے پاؤں دکھائی دے رہے ہوں دشمن کو معلوم ہو کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 672 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء صلى الله اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں.آئے ہیں تو یہاں آئے ہیں اور اس وقت آنحضور ﷺ کا یہ کہنا کہ ابوبکر گھبراتے کیوں ہو.خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ کامل تو گل کی نشاندہی کرتا ہے اور ایسا تو کل کسی بھاگنے والے کے دل میں پیدا نہیں ہوتا ، ناممکن ہے.صلى الله پس عظیم گواہی ہے غار ثور کی گواہی ، جو قیامت تک خدا کی توحید پر بھی گواہی دیتی رہے گی اور حضرت محمد مصطفی ہے کے موحد ہونے پر بھی گواہ رہے گی.آپ کامل توحید کے جذبے سے سرشار تھے.آپ کی توحید میں کوئی جھول نہیں تھا، کسی قسم کی لغزش نہیں تھی ، لرزش نہیں تھی.انتہائی خطرے کے وقت تو حید آزمائی گئی اور اسی طرح ثابت قدم رہی.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جو توحید بنی نوع کو عطا فرمائی ہے آپ کے وجود کا ذرہ ذرہ ، آپ کی زندگی کا لمحہ لحہ اس پر گواہ رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:." آج صفحہ دنیا میں وہ شئے کہ جس کا نام توحید ہے بجز امت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی فرقہ میں نہیں پائی جاتی اور بجز قرآن شریف کے اور کسی کتاب کا نشان نہیں ملتا کہ جو کروڑہا مخلوقات کو وحدانیت الہی پر قائم کرتی ہو اور کمال تعظیم سے اس سچے خدا کی طرف رہبر ہو.ہر یک قوم نے اپنا اپنا مصنوعی خدا بنالیا اور مسلمانوں کا وہی خدا ہے جو قدیم سے لا زوال اور غیر مبدل اور اپنی ازلی صفتوں میں ایسا ہی ہے جو پہلے تھا.“ پھر آپ فرماتے ہیں: (براہین احمدیہ حصہ دوم.روحانی خزائن جلد اول صفحه ۱۱۷ تا ۱۱۸) توحید کا وعظ کر کے سب قوموں اور سارے فرقوں اور تمام جہان کے لوگوں کو جو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے مخالف بنالیا جو اپنے اور خولیش تھے ان کو بت پرستی سے منع کر کے سب سے پہلے دشمن بنایا...“ توحید اور توکل کا مضمون یہ اکٹھا چلتا ہے.جتنا زیادہ کوئی موحد ہو اتناہی زیادہ متوکل ہوتا چلا جائے گا اور جتنا زیادہ متوکل ہو اتنا ہی انسان بے خوف بھی ہوتا چلا جاتا ہے.ان چیزوں کا آپس میں ایک لازم و ملزوم کا سا تعلق ہے.کامل توحید کامل تو کل پیدا کرتی ہے.کامل تو گل ، کامل بے خوفی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 673 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء پیدا کرتا ہے اور استغناء پیدا کرتا ہے.غیر اللہ سے انسان ان کی بھلائی چاہتے ہوئے بھی بے پرواہ ہو جاتا ہے یعنی جہاں تک ان کی بھلائی کا تعلق ہے، ان کے مفادات کا تعلق ہے انسان ان کے لئے اپنی جان گھلاتا رہتا ہے.ان کے غم میں خود گھلتا رہتا ہے.جہاں تک ان کے شر کا تعلق ہے ان سے کلیاً بے نیاز اور بے پرواہ ہو جاتا ہے.پس بیک وقت تو حید بنی نوع انسان کی گہری ہمدردی بھی پیدا کرتی ہے اور ساتھ ہی ان سے استغناء بھی عطا کرتی ہے کیونکہ تو کل کے نتیجے میں یہ استغناء نصیب ہونا ایک لا زم بات ہے.پس فرمایا کہ وہ جولوگوں کو خلاف بناتے چلے گئے توحید کی خاطر.یہ بتاتا ہے کہ آپ کا خدا صرف ایک ہی تھا.دنیا کی کسی طاقت پر آپ کا کوئی انحصار نہیں تھا ورنہ کسی کو تو اپنارہنے دیتے ، کسی کو تو دوست بنا کر چلتے.سب کو ایسی باتیں کہیں توحید کی خاطر ، جوان کو کسی نہ کسی پہلو سے بری لگتی تھیں.پس ہر ایک کو اپنا دشمن بنالینا تو حید کے لئے یہ کامل تو کل کی نشاندہی کرتا ہے اور کامل تو حید کے بغیر یہ تو گل نصیب نہیں ہوسکتا.وو...اپنے اور خولیش تھے ان کو بت پرستی سے منع کر کے سب سے پہلے دشمن بنایا.یہودیوں سے بھی بات بگاڑ لی کیونکہ ان کو طرح طرح کی مخلوق پرستی اور پیر پرستی اور بداعمالیوں سے روکا.حضرت مسیح کی تکذیب اور توہین سے منع کیا جس سے ان کا (یعنی ان یہودیوں کا اور مشرکوں کا ) نہایت دل جل گیا اور سخت عداوت پر آمادہ ہو گئے...“ حضرت عیسی کی تکذیب سے اس قوت کے ساتھ منع فرمایا ہے اور ایسی تنبیہ اور تو شیخ کی ہے یہود کو کہ اس کے نتیجے میں یہود آپ کے دشمن ہو گئے اور جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے....اسی طرح عیسائیوں کو بھی خفا کر دیا گیا کیونکہ جیسا کہ ان کا وو اعتقاد تھا ( کے موافق ) حضرت عیسی کو نہ خدا نہ خدا کا بیٹا قرار دیا اور نہ ان کو پھانسی مل کر دوسروں کو بچانے والا تسلیم کیا...“ اس طرح عیسائیوں کو بھی اپنا دشمن بنالیا.عیسی کی خاطر یہود کو دشمن بنایا اور توحید کی خاطر عیسائیوں کو دشمن بنا لیا.پھر فرمایا.عیسی کی خاطر نہیں کہنا چاہئے حق کی خاطر ، سچائی کی خاطر.پھر فرماتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 674 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء...آتش پرست اور ستارہ پرست بھی ناراض ہو گئے کیونکہ ان کو بھی ان کے دیوتوں کی پرستش سے ممانعت کی گئی اور مدار نجات کا صرف توحید ٹھہرائی گئی.(براہین احمدیہ حصہ دوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۱۰۹) پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ہمارے نبی ﷺ اظہار سچائی کے لئے ایک مسجد داعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے.آپ فوت نہ ہوئے جب تک اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر تو حید کا جامہ نہ پہن لیا.“ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۶) پھر فرماتے ہیں:.یاد رہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر وفریب ہو (اس سے) منزہ سمجھنا...“ یہ سب بت ہیں غیر اللہ کے مظاہر ہیں.ان سب سے پر ہیز کے بغیر، ان سب سے قطع تعلقی کے بغیر سچی تو حید نصیب نہیں ہوسکتی.چنانچہ غور سے اس کو پھر سنئے.ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر وفریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا ( یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کو قادر تجویز نہ کرنا) کوئی رازق نہ ماننا ( یہ یقین رکھنا کہ رزق اسی سے عطا ہوتا ہے اور وہی بہتر اور پاک رزق ہے جو خدا عطا کرتا ہے ) کوئی معر اور کوئی مذلت خیال نہ کرنا.( یہ نہ سمجھنا کہ کوئی غیر اللہ ہماری عزت لوٹا سکتا ہے یا کوئی غیر اللہ ہمیں ذلیل کر سکتا ہے.) کوئی ناصر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 675 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء اور مددگار قرار نہ دینا.( خدا ہی کو حقیقت میں تمام نصرت کا سرچشمہ سمجھنا، تمام مدد کا سر چشمہ سمجھنا اور اس کے سوا کسی کو ناصر اور مددگار قرار نہ دینا ) اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا.(انسان کی محبت خدا تعالیٰ کے لئے خاص ہو جائے ) اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا...“ تذلل خاص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے انسان کی انسان چاہے عزت کرے مگر اس کے سامنے تذلیل اختیار نہ کرے، جھکے نہیں اس کے سامنے گریہ وزاری نہ کرے، اس سے منت سماجت کر کے نہ مانگے کیونکہ یہ سارے ہی شرک کی قسمیں ہیں.خدا تعالیٰ کے لئے تذلل کو خاص کرنا ایک بہت ہی اہم چیز ہے.آنحضرت ﷺ ایک دفعہ ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے ایک غزوہ کے دوران سفر میں یہ واقعہ پیش آیا.تو ایک مشرک آیا تو اس نے سوتے میں آپ کی تلوار اٹھائی تلوار سونت کے سر پر کھڑا ہو گیا اور اس نے آنحضرت ﷺ کو جگا کے پوچھا بتاؤ اب تمہیں میری تلوار سے کون بچا سکتا ہے.آپ اسی طرح آرام سے لیٹے رہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ.اس کی ایسی ہیبت اس کے دل پر طاری ہوئی وہ لرز اٹھا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.آنحضرت ﷺ نے وہی تلوار پکڑی اور فرمایا اب بتاؤ تمہیں اس تلوار سے کون بچائے گا.اس نے منت سماجت شروع کی.آپ مجھے معاف فرما دیں.رسول اللہ اللہ نے منع فرمایا کہ نہیں.خدا ہی ہے جو بچائے گا وہی بچاتا ہے.پس منت سماجت کو خدا کے لئے خاص رکھنا اور کسی اور انسان کے سامنے اپنی جان کی خاطر بھی نہ جھکنا.یہ توحید خالص ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کر رہے ہیں.یہ تمام صفات صلى الله وہ ہیں جو بدرجہ اتم حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ میں پائی جاتی تھیں.وو الله...اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا...“ غیروں سے کوئی امید ان معنوں میں نہ رکھنا کہ گویا وہی سہارا ہیں.ثانوی طور پر خلائی طور پر انسان، انسان سے امیدیں باندھتا ہے مگر جب انسان امیدوں کو توڑتا ہے تو اس کے ساتھ موحد کا دل نہیں ٹوٹا کرتا.جو مشرک دل رکھتے ہیں ان کے دل ٹوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان کی امیدیں اسی شخص سے وابستہ ہوتی ہیں جس نے امیدوں کو حسرتوں میں بدل کر ان کے دل توڑ دیئے ہیں مگر جس کی امیدیں خدا سے وابستہ ہوں.اگر انسان سے وہ امیدیں پوری نہ ہوں تو انسان اور زیادہ بے نیازی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 676 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کرتا ہے.دل اس کا سجدہ ریز ہو جاتا ہے.الحمد للہ یہ بھی ایک عارضی سا سہارا بنا ہوا تھا یہ بھی ٹوٹ گیا.مجھے کوئی پرواہ نہیں، میرا سہارا تو خدا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو تو حید کا نقشہ کھینچ رہے ہیں اس کو غور سے پڑھنے سے توحید کا گہر اعرفان نصیب ہوتا ہے.’...اپنا خوف اسی سے خاص کرنا...“ کئی قسم کے خوف کے مقامات آتے ہیں.اگر انسان موحد ہوتو ہر خوف کا مقام، مقام امن میں بدل سکتا ہے کیونکہ خوف صرف خدا کا ہے.اگر خدا کا خوف دل میں ہو تو ہر دوسرا خوف زائل ہو جاتا ہے اس کی پرواہ کوئی نہیں رہتی.تو حید کیسی امن کی تعلیم ہے.توحید کے دامن میں آ کر ہر دوسرے دامن سے نجات مل جاتی ہے اور کامل امن دنیا میں انسان کو نصیب ہوتا ہے.اس کو پتا ہو کہ خدا کے سوا کوئی بندہ مجھے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ، اس کا اذن نہ ہو.یہ جو مضمون ہے ان ہی لوگوں کے حق میں صادق آتا ہے.جو موحد ہوتے ہیں ورنہ دنیا میں جن کا تعلق تو حید کے ذریعے نہیں ہے ان کی خدا تعالیٰ کو کیا پرواہ ہے؟ وہ لوگ ایک دوسرے کے ظلم کے ساتھ کاٹے جائیں ، زندہ رہیں یا بچ رہیں.ان کی زندگیاں ان کا مرنا سب بے حقیقت ہوتا ہے.یہ مضمون جو ہے خوف والا.یہ موحد بندوں پر صادق آتا ہے، جو موحد ہوں جو خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوں، جو خدا کی خاطر غیر اللہ کا خوف دل سے نکال دیں، ان کے متعلق خدا کے اذن کے سوا کسی کو اختیار نہیں ہوتا کہ انہیں کوئی گزند پہنچا سکے اور جب گزند پہنچتا ہے تو کامل شرح صدر کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہیں.جانتے ہیں کہ یہ میرے اللہ کی اجازت سے ہوا ہے اس لئے ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ عاشق اپنے معشوق کی رضا پر ہمیشہ راضی رہتا ہے.پھر فرماتے ہیں:...پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی.( وہ کون سی تین قسمیں ہیں؟ ) اول ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکتہ الذات اور باطلہ الحقیقت خیال کرنا.“ کچھ ایسے الفاظ ہیں جو عام طور پر اردو سمجھنے کے باوجود بعض لوگ نہیں سمجھ سکتے اس لئے ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 677 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کی مزید وضاحت کرتا ہوں.فرماتے ہیں ” تو حید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا یعنی دیکھتے ہوئے کہ چیزیں موجود ہیں لیکن اتنا عرفان رکھنا کہ یہ چیزیں اپنی ذات میں نہیں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے محض خدا تعالیٰ کے اذن سے لٹکی چیزیں ہیں جہاں اذن ختم ہوا یہ چیزیں معدوم ہو گئیں ان کی کوئی بھی حقیقت باقی نہیں رہے گی.یہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کے کشف کی صورت میں میں نے بات جماعت کو سمجھائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی جو پٹھان افغان مہاجر تھے.بزرگ صاحب کہلاتے تھے.بہت ہی بزرگ صاحب کشف والہام انسان تھے.ان کے دل میں عجیب عجیب قسم کے سوال اٹھا کرتے تھے جن کو وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر حل کیا کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کا ان سے ایسا تعلق تھا کہ وہ ادھر سوال کیا ادھر اللہ تعالیٰ ان کو جواب بھی دے دیتا تھا.ایک دفعہ انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اے خدا تو کہتا ہے تو ایک ہے اور کوئی بھی نہیں یہ دنیا کیا ہے، ساری کائنات کیسی ہے؟ بے شمار حشرات الارض ہیں ان کو کوئی گن اور شمار نہیں کر سکتا.بے شمار مخلوقات ہیں اور پھر کائنات تو اتنی وسیع ہے کہ ہمارا تصور بھی اس کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا.پھر وہ ساری کائنات بے شمار ذروں پر مشتمل، اتنا بھاری وجود ہم دیکھ رہے ہیں جو بے شمار وجودوں میں منقسم ہے اور تو کہتا ہے کہ تیرے سوا اور کوئی وجود نہیں.تو مجھے سمجھا تو سہی کہ یہ ہے کیا ؟ یعنی توحید ان معنوں میں کہ تیرے سوا کچھ بھی نہیں ہے.اس کا یقین میرے دل میں عرفان کے ساتھ پیدا فرما دے، یقین تو ہے مگر طمانیت قلب چاہتا ہوں.اسی حالت میں آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی.آپ نے دیکھا کہ ایک کلاس روم میں بیٹھے ہوئے ہیں اور سامنے Black Board کے ساتھ اللہ تعالیٰ کھڑا ہے اور استاد بن کر ان سے گفتگو فرمارہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ دیکھو میں لکھتا ہوں پھر چاک سے کچھ لکھا اور پوچھا بتاؤ یہ کیا ہے.1 لکھ دیا.انہوں نے کہا یہ ایک ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے ایک ہی ہے اور اس کے ساتھ نیچے بہت سے زیرو لکھنے شروع کر دیے ہر زیر و پر اللہ تعالیٰ پوچھتا تھا کہ بتاؤ یہ کیا ہے.0 صفر کچھ بھی نہیں.پھر ایک اور صفر لکھ دیا، پھر ایک اور صفر لکھ دیا ، پھر ایک اور صفر لکھ دیا.یہاں تک کہ جب بہت سے صفر لکھے گئے تو ان میں سے ایک صفر کو اٹھا کر ایک کے دائیں طرف کر دیا.اب بتاؤ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا دس.ایک اور صفر دائیں طرف لگا دیا اب بتاؤ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 678 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کیا ہے؟ انہوں نے کہا سو (100).ایک اور صفر دائیں طرف لگا دیا اب بتاؤ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہزار یہاں تک کہ Black Board ختم ہو گیا اور وہ گنتی شمار میں نہیں آ سکتی تھی.اس حالت میں کشف ختم ہوا.تب ان کو سمجھ آئی کہ باقی کائنات کی حیثیت کیا ہے.لامتناہی وجود ہیں گنتی میں مگر جب تک خدا کے دائیں طرف ہیں اس وقت تک ان کا وجود دکھائی دے گا.جب وہاں سے ہٹے یا معزول ہوئے ان کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہے گی.پس ایک، ایک ہی ہے اور اس کے مقابل پر باقی سب صفر ہے.وہ خدا تعالیٰ کے تعلق کے نتیجے میں دکھائی دیتے ہیں.اس کے بغیر اپنی ذات میں دکھائی نہیں دے سکتے.پس یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما ر ہے ہیں کہ اول یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہا لکۃ الذات اور باطلہ الحقیقت خیال کرنا...“ ہالکۃ الذات کا مطلب ہے ان کی ذات میں ہی ان کی ہلاکت داخل ہے.ہر چیز جو وجود میں آتی ہے اس کا عدم ہو جانا اس کے وجود میں منقش ہوتا ہے،لکھا جاتا ہے اور کوئی چیز بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے اور باطل فی الحقیقت، وہ کچھ بھی نہیں ہیں، وہ صفر ہی ہیں.اللہ ہی ہے جو ان صفروں کو کوئی قدر بخش دے ورنہ اس کے سوا ان صفروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے.وو...دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا...“ صفات کے لحاظ سے توحید کے متعلق فرماتے ہیں ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا.یہ بہت اہم مضمون ہے دیکھیں اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.رب العالمین صلى الله ب سے زیادہ تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا ہوالیکن آپ کو رب نہیں قرار دیا گیا.آپ کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ قرار دیا گیا ہے.حالانکہ سورۃ فاتحہ میں پہلا تعارف رب کا ہوا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (الفاتح ٢-٣) الرَّحْمَنِ کی صفت سے آپ کو متصف فرما دیا گیا یعنی رَحْمَةً لِلْعَلَمِنِینَ کی شکل میں اور رحیمیت کی صفات بھی آپ کے حق میں بیان فرمائی گئیں.بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (التوبہ: ۱۲۸) آپ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 679 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کو رؤف بھی خدا تعالیٰ نے قرار دے دیا ، رحیم بھی قرار دے دیا.مگر رب قرار نہیں دیا کیونکہ حقیقی ربوبیت خدا کے سوا کسی کو نصیب نہیں.اسی طرح الوہیت بھی ایک صفت تنزیہی ہے ایسی صفت ہے جس میں اور کوئی شریک نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دوصفات ہیں، جن کو خاص طور پر توحید کے ذکر میں چنا ہے.فرماتے ہیں یعنی کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں.وہ لوگ جن سے انسان کے ذرائع معاش وابستہ ہیں جو دیکھنے میں کوئی احسان کرنے والے وجود دکھائی دیتے ہیں.یہ یقین رکھنا کہ یہ اسی کے ہاتھ کا ایک نظام ہے اس کے سوا کچھ نہیں.خدا تعالیٰ نے تم تک فیض پہنچانے کے ذریعے بنا رکھے ہیں.اپنی ذات میں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے."...تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اسی میں کھوئے جانا.“ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۴۹_۳۵۰) اس کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف جگہ قرآن یا آنحضرت ﷺ کے حوالے سے پیش فرمائی ہے.فرماتے ہیں.”اے غافلو اور دلوں کے اندھو! قرآن جیسے ضلالت کے طوفان کے وقت میں آیا ہے کوئی نبی ایسے وقت میں نہیں آیا...“ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۵۶) اب یہاں یہ فقرہ قابل غور ہے اور بہت ہی پر لطف ہے.انبیاء کا ذکر نہیں فرمایا قرآن کا ذکر فرمایا ہے.فرماتے ہیں اے غافلو اور دلوں کے اندھو! قرآن جیسے ضلالت کے طوفان کے وقت میں آیا ہے کوئی نبی ایسے وقت میں نہیں آیا ، یعنی در اصل حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کو ایک ہی چیز کے دو نام قرار دے دیا.ایک وہ قرآن ہے جو پیغام الہی کی صورت میں ہے ، ایک وہ قرآن ہے جو آنحضرت میلہ کی اس ذات کی صورت میں ہے جو مجسم پیغام الہی ہے یعنی تمام قرآن کی صفات آنحضرت ﷺ کے دل میں دھڑکتی تھیں، آپ کے خون میں جاری تھیں، آپ کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 680 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء رگ رگ میں پیوستہ تھیں.آپ کی صفات حسنہ قرآن ہی کی صفات کا دوسرا جلوہ تھا.پس ایک چھوٹے سے لفظ کے استعمال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کتنا گہرا مضمون بیان فرما دیتے ہیں.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”جوشخص میری تحریرات کو تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں مخفی تکبر پایا جاتا ہے (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۳۶۵) یعنی اتنی توجہ نہیں دیتا، اتنا مرتبہ نہیں ان کا سمجھتا ، اس میں مخفی تکبر پایا جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ تم ایک دو دفعہ پڑھ کے دیکھ لو تمہیں بہت سی باتیں نہیں سمجھ آئیں گی.پھر پڑھو، پھر پڑھو اور غور سے پڑھو.ٹھہر ٹھہر کر تب تمہیں سمجھ آئے گی میں کہنا کیا چاہتا ہوں.فرمایا: قرآن جیسے ضلالت کے طوفان کے وقت میں آیا ہے کوئی نبی ایسے وقت میں نہیں آیا اس نے دنیا کو اندھا پایا اور روشنی بخشی..66 اب یہاں لفظ ”اس“ جو ہے یہ دونوں طرف جا رہا ہے.قرآن کی طرف بھی اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی طرف بھی.”...اس نے دنیا کو اندھا پایا اور روشنی بخشی اور گمراہ پایا اور ہدایت دی اور مردہ پایا اور جان عطا فرمائی...“ یہ تمام وہ باتیں ہیں جو قرآن کریم نے ، قرآن کریم کی طرف بھی منسوب فرمائی ہیں اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی طرف بھی منسوب فرمائی ہیں.پس ایک چھوٹا سا لفظ بھی یعنی بیچ میں ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے بدل کر فقرے میں ضمیر کو اس طرح پھیر دیا ہے کہ دونوں طرف برابر چسپاں ہوتی ہے.فرماتے ہیں.وو...تو کیا ابھی ضرورت ثابت ہونے میں کسر رہ گئی اور اگر یہ کہو کہ تو حید تو پہلے بھی موجود تھی.قرآن نے نئی چیز کون سی دی ؟ تو اس سے اور بھی تمہاری عقل پر رونا آتا ہے.میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ توحید پہلی کتابوں میں ناقص طور پر تھی اور تم ہرگز ثابت نہیں کر سکتے کہ کامل تھی...“ 66 (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۵۶) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام توحید کے ساتھ اپنے تعلق کو ان لفظوں میں ظاہر
خطبات طاہر جلد ۱۲ فرماتے ہیں.681 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.“ مغربی ممالک میں جو عیسائی ممالک ہیں.ان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے یہ پیغام بہت غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر دم اس فکر میں تھے اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق رکھتے ہیں.تو آپ کیوں اس فکر میں غلطان نہیں رہتے ؟ فرماتے ہیں: میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنے سے خون ہوتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے...66 اب یہ جو فقرہ ہے، کوئی شریف النفس انسان اس کو پڑھ کر جھوٹے کا فقرہ قرار نہیں دے سکتا.عجیب اس میں صداقت کی طاقت ہے کیسا گہرا درد ہے فرماتے ہیں: "...میری جان عجیب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشتِ خاک کو رَبِّ الْعَلَمِینَ سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولا اور میرا قادر و توانا خدا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے...وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا...“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷ ) جہاں پہلی نصیحت میں آپ کے لئے لمحہ فکر یہ ہے اور اپنے دلوں کو ٹولنے کا ایک موقع ہے آپ کو چاہئے کہ اپنے دلوں کو ٹول کر دیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فکر سے کیا آپ نے بھی حصہ پایا ہے.کیا آپ کی جان بھی اس طرح سنگی محسوس کرتی ہے.ہر طرف اپنے ماحول میں، اپنے گرد و پیش ایسے لوگوں کو دیکھتے ہوئے جن کے دلوں میں ایک عام انسان خدا کے ایک عاجز بندے کو خدا بنا کر دکھا دیا گیا اور عیسائیت نے یہ ظلم کیا ہے.خدا کے بندوں کے دلوں میں خدا کا ایک اور بندہ بٹھا دیا ہے کہ یہی تمہارا خدا ہے اور عاجز انسان کو رب العالمین بنا دیا گیا ہے.اگر آپ کے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہیں ہوتی.کوئی غم اور فکر آپ کی جان کو کھانے نہیں لگتا تو آپ کا تعلق
خطبات طاہر جلد ۱۲ 682 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء اسی قدر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے کمزور پڑ چکا ہے.اس تعلق کو مضبوط کرنا ضروری ہے کیونکہ اس دنیا کے فیض رساں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بنایا گیا ہے اور جتنا آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزاج کے قریب ہوں جتنا آپ کے جذبات کو اپنا ئیں اسی قدر آپ دنیا کے فیض رساں بن سکتے ہیں.پس فرماتے ہیں و میں کبھی کا اس غم سے فنا ہوجاتا.اگر میرامولا اور میرا قادروتو انا خدا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.“ دوسرا پیغام آپ کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری ہے کہ آپ کے ذریعے تو حید کو مغرب میں فتح نصیب ہوگی.یہ مقدر ہو چکا ہے.غم لگانے کی دیر ہے، فکر کرنے کی دیر ہے.سچا غم لگا ئیں تو خدا تعالیٰ ساتھ ہی خوشخبری دے رہا ہے کہ تو حید کا سورج مغرب سے طلوع ہوگا.یہ بھی طلوع ہو گا کہ آپ کے دلوں سے اٹھنا شروع ہو اور اپنے ماحول کو جگمگانے لگے.یہ وہ سورج ہے جو ہر دل سے اٹھ سکتا ہے.یہ کوئی ایسا سورج نہیں ہے جو بظاہر باہر سے چمکتا ہے.یہ دلوں سے اٹھنے والا سورج ہے اور جس کے دل سے توحید کا سورج اٹھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری دی گئی ہے کہ مغرب میں بسنے والے احمدیوں کے دل سے جب تو حید کا سورج اٹھے گا.تو مقدر ہے کہ وہ اپنے ماحول کو توحید سے روشن کر دے.پس بہت بڑی خوشخبری ہے اس لئے عیسائیت کے غلبے سے مایوس ہونے کا کوئی مقام نہیں ہے.یہ ویسا ہی ہے جیسے غار ثور میں حضرت اقدس محمد رسول الله الا اللہ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا تھا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام آپ کو مغرب کے اندھیروں میں یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ ہرگز فکر نہ کرنا.خدا ہمارے ساتھ ہے اور ضرور مغرب سے توحید کا سورج طلوع ہو گا اور تمام دنیا کو منور کرے گا.اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ بعید نہیں کہ اہل مغرب اہل مشرق کے مقابل پر جلد تر تو حید کے غلام بن جائیں اور توحید کے عاشق ہو جائیں اور چونکہ دنیاوی لحاظ سے ان قوموں کو خدا تعالیٰ نے بہت سی عظمتیں بخشی ہیں ، بہت سی ایسی صلاحیتیں ہیں جن کو انہوں نے اپنی محنت سے صیقل کر لیا ہے کہ جب یہ موحد بن جائیں گے تو پھر لازماً تمام دنیا پر تو حید اس طرح یورش کرے گی کہ جیسے چڑھتا ہوا سورج تمام دنیا پر غالب آجایا کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 683 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء پس ایک یہ مفہوم ہے مغرب سے تو حید کے سورج طلوع ہونے کا.فرماتے ہیں."اگر میرا مولا اور میرا قادر وتوانا خدا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.“ اب بتائیں کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشرق میں بیٹھے ہوئے ، اکثر مسلمانوں کی اکثریت مشرق میں موجود، سارا دینی جہاد مشرق سے شروع ہوا ہے اور فرماتے ہیں خدا مجھے یہ تسلی دیتا ہے کہ مغرب سے توحید کا سورج طلوع ہو گا.کسی انسان میں ادنی سی شرافت اور حیا ہو تو وہ اس فقرے کو پڑھنے کے بعد مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا قرار نہیں دے سکتا.نفس کی باتیں ہی نہیں ہیں.خدا کا کلام ہے جو اسی طرح آپ کے دل پر نازل ہوا اور اسی طرح آپ نے ہمارے سامنے رکھ دیا.مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتا لگے گا.پس اللہ تعالیٰ کی ان خوشخبریوں پر کامل یقین رکھیں اور تو کل رکھیں، خود موحد بن جائیں پھر دیکھیں کہ کس طرح دیکھتے دیکھتے مغرب کی کایا پلٹ جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.(آمین) اس کا باقی حصہ انشاء اللہ تعالی آئندہ خطبے میں پیش کروں گا.اب چونکہ اس جمعے کے معاً بعد ناروے کا جو میرا خطبہ تھا.وہ ایک اہم پیغام بھی رکھتا ہے.وہ آپ کو سنایا جاتا ہے.اس لئے میں اس خطبے کو یہاں ختم کرتا ہوں اور نماز کے بعد احباب بیٹھے رہیں تو انشاء اللہ تعالی ناروے کا خطبہ بھی آپ سن سکیں گے.
684 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 685 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء بنی نوع انسان کی خدمت یہ ہے کہ خدا کی طرف بلائیں حضرت مسیح موعود کا محمد اس کی توحید کا عرفان ( خطبه جمعه فرموده ۰ ار ستمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی :- وَالهَكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ ۚ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ ) (البقرة :١٦٤) پھر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ جرمنی کو اپنا اٹھارواں جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق عطا ہوئی ہے اور اس جلسے کے ساتھ ہی دنیا بھر میں مختلف جماعتوں میں بھی کئی قسم کے دینی اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں اور ان سب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کو بھی جلسہ جرمنی کے ساتھ دعاؤں میں اور ذکر میں شامل کر لیا جائے.یہ تو اب ممکن نہیں رہا کہ چھوٹے چھوٹے اجتماعات کا بھی جو شہری یا تحصیل لیول کے ہوں ان کا بھی ہر دفعہ جمعے میں کثرت کے ساتھ ذکر آئے کیونکہ جمعے کے لئے پھر اور کوئی موضوع رہے گا نہیں.سوائے اس کے کہ یہ اعلان ہوا کریں کہ اب فلاں جگہ اجتماعات ہو رہے ہیں، اب فلاں جگہ اجتماعات ہو رہے ہیں اور کثرت کے ساتھ جماعت پھیل چکی ہے، ذیلی مجالس مستعد ہو چکی ہیں.صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ ضلعی سطح پر اور شہری سطح پر اور قصباتی سطح پر بھی اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں.ان سب کا ذکر تفصیلا تو ممکن نہیں ہے لیکن چونکہ یہ سلسلہ ابھی شروع ہے اور بہت سی بڑی بڑی مجالس خصوصیت سے توقع رکھتی ہیں چند اہم نام آپ کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 686 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء سامنے پڑھ کر سناتا ہوں تا کہ ان کو بھی دعاؤں میں شامل کرلیں.ایک مجلس خدام الاحمد یہ گھانا کی سالانہ ریلی اس وقت منعقد ہو رہی ہے اور وہ سب بھی ٹیلی ویژن کے ذریعے آپ کے اس پروگرام میں شریک ہیں اور آپ کو اپنے پروگرام میں شریک کرنا چاہتے ہیں.مجلس انصاراللہ ضلع حیدر آباد کا سالانہ اجتماع منعقد ہورہا ہے.خدام الاحمدیہ ضلع میر پور کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہے ہیں.کراچی کا سالانہ اجتماع کل سے شروع ہو گا اور اطفال الاحمدیہ سرگودھا کا سالانہ اجتماع بھی آج ہی شروع ہو رہا ہے.اسی طرح امیر صاحب یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ نے درخواست کی ہے کہ مسجد واشنگٹن کی تعمیر کا کام عنقریب شروع ہونے لگا ہے اور تمام احباب جماعت خصوصیت سے واشنگٹن کی مسجد کی تعمیر کے کام کو ور مسجد کو اپنی دعاؤں میں ان معنوں میں یا درکھیں کہ خالصہ توحید کی خاطر قائم ہونے والی یہ مسجد توحید کا حقیقی گڑھ بنی رہے اور توحید کا پیغام سارے امریکہ میں پھیلانے کے لئے ایک اہم اور دائی کردار ادا کرے.اس دعا میں امریکہ کی بہت اہم تعمیر ہونے والی مسجد کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں.تو حید کے سلسلے میں خطبات کا ایک سلسلہ جاری ہے جو ابھی تک ختم نہیں ہو سکا.آج اگر وقت ملا تو کوشش کروں گا کہ ختم ہو ورنہ پھر آئندہ خطبے تک مضمون کو مزید بڑھانا پڑے گا.دراصل تو حید کا مضمون خصوصیت کے ساتھ اس سال سے تعلق رکھتا ہے جسے ہم نے عالمی خدمت بنی نوع انسان کا سال قرار دے رکھا ہے.میں آپ پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ توحید کے بغیر قیام عدل ممکن نہیں اور جب تک قیامِ عدل نہ ہو اس وقت تک کوئی احسان کا نظام جاری نہیں رہ سکتا.یہ خدمت خلق کی باتیں ، یہ ایک دوسرے کی بھلائی کے قصے، یہ غریبوں کو امداد دینا ، اگر عدل کا نظام نہ ہو تو یہ سب منہ کی باتیں ہیں.ان میں کوئی بھی حقیقت اور گہرائی نہیں پائی جاتی.پس تو حید ہی وہ بنیاد ہے جس پر عدل قائم ہوسکتا ہے اس کے بغیر کسی اور بنیاد پر عدل قائم نہیں ہوسکتا عدل قائم ہو تو احسان کی بات ہوتی ہے بغیر عدل کے احسان کی بات نہیں ہوا کرتی ہے.اس پہلو سے میں نے اپنے خطبات کو سب سے پہلے تو جماعت کے فائدے تک ہی محدود رکھا ہے یعنی اپنے دلوں میں توحید قائم کرو، اپنے نفوس میں توحید قائم کرو، اپنی نیتوں میں توحید قائم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 687 خطبہ جمعہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۹۳ء کرو، اپنے اعمال میں توحید قائم کرو، اپنے گرد و پیش کے تعلقات میں، عزیزوں ، رشتہ داروں سے تعلقات میں ، بہن بھائیوں کے ساتھ تعلقات کے علاوہ دوستوں سے تعلقات میں ، غرضیکہ یہ مضمون رفتہ رفتہ جوں جوں کھل رہا ہے اس کا دائرہ بھی پھیلتا جا رہا ہے لیکن بنیادی مقصد جو پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ ساری جماعت تو حید پر اس طرح قائم ہو جیسے تو حید پر قائم ہونے کا حق ہے.اپنے خیالات اور اعتقادات میں بھی تو حید پیدا کرے، اپنے اعمال میں بھی تو حید پیدا کرے، ہر قسم کے تضادات سے پاک ہو جائے ، تب جماعت کو یہ توفیق ملے گی کہ قیام تو حید کے سلسلے میں اگلا قدم اٹھا سکے.اگلا قدم یہ ہوگا کہ ہم تمام بنی نوع انسان کو توحید کی طرف بلائیں جبکہ خود موحد بن چکے ہوں اور توحید کے فوائد سے تمام بنی نوع انسان کو آگاہ کریں اور توحید پر قائم ہونے کی تلقین کریں اور صاف بتائیں کہ توحید پر قائم ہوئے بغیر دنیا میں ہرگز عدل قائم نہیں ہو سکتا اور اگر عدل قائم نہ ہو سکا تو امن قائم نہیں ہوسکتا.اس کے بعد تیسرا درجہ خدمت خلق کا ہے جب آپ تو حید پر قائم ہو جاتے ہیں تو تمام بنی نوع انسان کا درد آپ کا درد بن جاتا ہے کیونکہ خدا کی مخلوق کا درد خالق سے الگ نہیں ہوسکتا جس خالق سے محبت ہو اس کی مخلوق سے بھی محبت لازم ہے.پس خدمت خلق کا مضمون بھی دراصل توحید کے چشمے سے ہی پھوٹتا ہے اور تبھی سچا ہو گا اگر توحید پر آپ کا قیام سچا ہے، اگر تو حید سے آپ کی وفا سچی ہے.اس ضمن میں اگلا قدم تبلیغ کا ہے جب آپ دعوت الی اللہ دیتے ہیں تو وہ بھی درحقیقت تو حید ہی کی خاطر دیتے ہیں اور اگر خدا ایک ہے تو زمین پر اس کے بندوں کا ایک ہونا بھی لازمی نتیجہ ہے خدا کی وحدت کا ، اور زمین پر تو حید قائم کرنے کے لئے تبلیغ ضروری ہے.پس یہ وہ سلسلہ ہے مضمون کا، جسے میں کچھ عرصے سے چلا رہا ہوں اور اس کا بقیہ حصہ ممکن ہے آخری خطاب میں بیان کروں...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اقتباسات میں نے تو حید کا مضمون آپ کو گہرائی میں سمجھانے کے لئے چنے ہیں.وہ میں آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں اور جہاں تشریح ضروری ہوگی وہاں ساتھ تشریح کرتا چلا جاؤں گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: آخر سچائی کی فتح ہے کیونکہ یہ امر انسان سے نہیں ہے اور نہ کسی آدم زاد کے ہاتھوں سے بلکہ اس خدا کی طرف سے ہے جو موسموں کو بدلا تا اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 688 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء وقتوں کو پھیرتا اور دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے.وہ تاریکی بھی پیدا کرتا ہے مگر چاہتا روشنی کو ہے.وہ شرک کو بھی پھیلنے دیتا ہے مگر پیار اس کا توحید سے ہی ہے اور نہیں چاہتا اس کا جلال دوسرے کو دیا جائے.جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہو جائے.خدا کا قانون قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے.جتنے نبی اس نے بھیجے سب اسی لئے آئے تھے کہ تا انسانوں اور دوسری مخلوقوں کی پرستش دور کر کے خدا کی پرستش دنیا میں قائم کریں اور ان کی خدمت یہی تھی کہ لا الہ الا اللہ کا مضمون زمین پر چمکے جیسا کہ وہ آسمان پر چمکتا ہے.ان سب میں سے بڑا وہ ہے جس نے اس مضمون کو بہت چمکایا مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵) یعنی ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی امی.اس اقتباس میں ایک امر خاص طور پر آپ کے ذہن نشین ہونے کے لائق ہے کہ تمام انبیاء نے توحید کی حمایت کی اور اس حمایت کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی کامل حمایت ان کو نصیب ہوئی.پس اگر آپ خدا کی حمایت چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ توحید کی حمایت پر مستعد ہو جائیں.یہی ایک طریق ہے جس سے خدا تعالی کی تائید و نصرت اور حمایت آپ کے حق میں قطعی ہو جائے گی.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی تو حید کا رنگ پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: در محضرت یہ اعلی درجہ کے یکرنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جانباز اور سب خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر تو کل کرنے والے...“ یہ وہ تو حید کا رنگ ہے جو اپنائے بغیر انسان حقیقت میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہو نہیں سکتا.وہ تو حید جو فرضی طور پر آسمانوں میں بس رہی ہو یا آپ کے خیالوں کی دنیا میں رہے لیکن آپ کی نیتوں کی گہرائی میں نہ اتر سکے.آپ کے اعمال میں داخل نہ ہو اور آپ کے رگ و پے میں سرائت نہ کر جائے.وہ تو حید محض ایک کھوکھلی تو حید ہے، اس کا حقیقت میں خدا کی واحدانیت سے کوئی تعلق نہیں.توحید کے نتیجے میں انسان کے دل پر جو نقش جمتے ہیں، اس کی فطرت جو رنگ اختیار کرتی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 689 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء ہے اور جو جلوے دکھاتی ہے، یہ مضمون حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کو سمجھنے ہی سے انسان پر روشن ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: در محضرت اعلی درجہ کے یکرنگ اور صاف باطن...“ یکرنگ کا جو لفظ ہے یہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان ایک خدا کا قائل ہو اور سچے دل سے قائل ہو اور اس کے اندر دورنگی پائی جائے.دورنگی تو حید کی نفی ہے.دورنگی شرک کا مظہر ہے.اگر ایک خدا کا انسان قائل ہو اور ایک ہی خدا کی عبادت کرنے والا ہو اور کامل خلوص کے ساتھ ایک خدا کی چوکھٹ پر سر جھکانے والا ہو.اس کی فطرت سے دور نگی غائب ہو جاتی ہے.پاک صاف یک رنگ انسان ایک نئے وجود کے طور پر ابھرتا ہے اور یہ وہ آنحضرت ﷺ کی غیر معمولی شان کے ساتھ چپکنے والی صفت تھی جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو حید کے بیان میں سب سے پہلے رکھا.آنحضرت یہ اعلی درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن تھے.یادرکھیں صاف باطنی یک رنگی سے عطا ہوتی ہے جو یک رنگ نہ ہو اس کا باطن صاف نہیں ہوسکتا کیونکہ یک رنگی اس وقت نصیب ہوتی ہے.جب انسان جو کچھ ظاہر ہے اس کے مطابق دل میں رکھے، جو کچھ دل میں ہے اسی کے مطابق ظاہر کرے اور اس کے وجود میں سے تفرقہ مٹ جائے یعنی اپنی ذات کا تفرقہ مٹ جائے جو نظر آنے والا وجود ہے وہی باطن میں چھپا ہوا وجود بن جائے.جب یہ بات نصیب ہو جائے تو اس کے نتیجے میں دل پاک وصاف ہو جاتا ہے.کوئی کسی قسم کا خدشہ کسی سے نہیں رہتا.کوئی ایسی چیز نہیں رہتی جسے انسان ظاہر کرتے ہوئے شرما جائے اور یہ جو شرم کا ختم ہونا ہے.یہ اپنی ذات میں ایک حسین صفت بن جاتا ہے، شرم ہر لحاظ سے بہت ہی اعلیٰ درجے کا خلق ہے لیکن اگر انسان بدی کو چھپانے کے لئے شرم کرے تو خلق تو پھر رہے گی لیکن پاک باطنی عطا ہو نہیں سکتی.پس اس مضمون کو مزید کھولنے کی ضرورت ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی حلیہ کی شرم دورنگی کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ یک رنگی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے نتیجے میں تھی آپ کی ایک رنگی نے آپ کو خدا سے ہمکنار کر دیا اور اپنی صفات حسنہ کو دوسروں سے چھپانے کے لئے آپ نے اپنی صفات حسنہ پر پردے ڈالے ہیں.یہ حیا کے پردے تھے اور دورنگی کے مظہر نہیں تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 690 خطبه جمعه ۱۰ار ستمبر ۱۹۹۳ء اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ جائیں کہ وہ خدا کے پاک بندے جو اپنی خوبیوں کو ظاہر کرنے سے شرماتے ہوں ، بدیوں کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ خوبیوں کو ظاہر کرنے سے حیار کھتے ہوں ان کی صفت کو دورنگی نہیں کہا جاتا.یہ صفت ان کی انتہائی پاک باطنی کی دلیل اور جہاں بد انسان اپنی برائیوں پر پر دے ڈالتا ہے اور نیکیوں پر یا خیالی نیکیوں پر سے جو ان کا وجود ہی کوئی نہیں ہوتا.پردے اٹھاتا ہے اور انہیں نیکیاں بنا بنا کر دکھاتا ہے وہاں موحد انسان اپنی خوبیوں پر پردے ڈالتا ہے اور خوبیوں پر پردہ ڈالنا حیا کی وجہ سے ہے.وہ دورنگی نہیں ہے بلکہ یک رنگی میں داخل ہے.پھر فرمایا: ”..خدا کے لئے جانباز اور خلقت کے بیم وامید سے بالکل منہ پھیر نے والے...“ خدا کے لئے جانباز اپنا سب کچھ خدا کی خاطر پیش کرنے، دینے والے ہمہ وقت اپنی جان کو تھیلی میں لئے پھرنے والے کہ جب خدا کی طرف سے قربانی کا مطالبہ آئے وہیں اپنی جان خدا کے حضور پیش کر دوں.یہ مضمون ہے جانبازی کا اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے.خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل انحصار کے نتیجے میں بنی نوع انسان سے نا امید رہتی ہے ، نہ خوف رہتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی ذات میں کامل ہوا ہے.امیدیں بعض قسم کی ضرور ہوتی ہیں.اس لئے یہ تشریح کرنی ضروری ہے کہ یہ نہ سمجھیں کہ کسی سے کوئی امید نہیں تھی.بعض معنوں میں آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ سے امیدیں رکھتے تھے.ان سے بلند کرداری کی امیدیں رکھتے تھے، ان سے یکرنگی کی امیدیں رکھتے تھے، ان سے تو کل الی اللہ کی امیدیں رکھتے تھے.پس نیکی کی امیدیں رکھنا ان امیدوں میں داخل نہیں جن کی نفی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں.امید سے مراد یہ ہے سہارا ڈھونڈنا اور کسی کے سہارے پر بنا کر نا.اس بات پر امید نہیں تھی کہ اگر صحابہ ساتھ دیں گے تو میں کامیاب ہوں گا.صحابہ کے ساتھ دینے پر دل پر ایک امید سے بڑھ کر یقین تک کی حد تک انحصار پایا جاتا تھا یعنی انحصار اس بات پر نہیں تھا کہ صحابہ مدد کریں گے تو کامیاب ہوں گے لیکن صحابہ کی نیکی پر انحصار تھا.جانتے تھے کہ صحابہ ہمہ وقت جان فدا کرنے کے لئے تیار ہیں.بس یہ امیدیں ان سے وابستہ ضرور تھیں مگر کامیابی پر ان امیدوں کا کوئی اثر نہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 691 خطبه جمعه ۱۰ار ستمبر ۱۹۹۳ء کامیابی خالصہ اللہ تعالیٰ پر مصر تھی، اللہ تعالی کی حمایت پر منحصر تھی اور اگر ساری دنیا آپ ﷺ سے منہ پھیر لیتی تب بھی ایک ذرہ بھر بھی آپ کے دل میں مایوسی راہ نہ پاسکتی تھی.یہ وہم دل میں گزر ہی نہیں سکتا تھا کہ ان لوگوں سے تو امید تھی ، اب یہی منہ پھیرے جاتے ہیں، میرا کیا ہوگا.آنحضرت ﷺ کی تو حید ان معنوں میں بار ہا آزمائی گئی ہے.صلح حدیبیہ کے وقت بھی ایسا ہی موقع پیش آیا، جنگ احد کے وقت بھی یہ تو حید آزمائی گئی ، جنگ حنین کے وقت بھی یہ تو حید آزمائی گئی.جن صحابہ سے بڑی بڑی تو قعات تھیں.ان میں سے بعض ان توقعات پر پورا نہیں اترے لیکن آنحضرت ﷺ کے تو کل پر کوئی فرق نہیں پڑا.پس یہ معنی ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خلقت سے امید اٹھ گئی یعنی یہ ایسی امید خلقت سے نہیں لگا رکھی تھی جس امید پر بنا ہو جائے جس امید سے حقیقی کامیابی وابستہ کر دی جائے.ان کے اعلیٰ اخلاق سے توقعات وابستہ تھیں مگر ان معنوں میں نہیں تھیں کہ خلقت پر تو کل ہے اور بیم کا معنی ہے خوف.خلقت کا خوف بھی کلیۂ دل سے اٹھ گیا ہے.مکی دور میں یہ پہلا حصہ خلقت کا خوف کلیۂ دل سے اٹھ جانا پوری شان سے ظاہر ہوا ہے اور مدنی دور میں امید والا حصہ پوری شان سے ظاہر ہوا ہے.اگر آپ تفصیل سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اگر چہ یہ دونوں صفات مکی دور میں بھی جلوہ گر دکھائی دیں گی.مگر بیم والا حصہ یعنی بنی نوع انسان سے خوف کا کلیۂ فقدان، یہ پوری شان کے ساتھ مکے میں چکا ہے اور امیدوں کا محض خدا سے وابستہ ہونا اور اپنے پیاروں سے بھی امید لگا کر اس پر انحصار نہ کرنا.یہ کلیہ بڑی شان کے ساتھ مدنی دور میں چکا ہے اور اسی کا نام تو گل ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.الله "...اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے ( یعنی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تو کل محض اللہ ہی پر تھا ) کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ تو حید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درداٹھانا ہو گا بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجالائے ، جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 692 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعات خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کر کے کھلے کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۱۱۱-۱۱۲) اور اس قدر دشمن جولفظ ہے یہ شائد آپ میں سے بعضوں کو سمجھ نہ آئے.یہاں تو قف کریں گے تو مضمون کی سمجھ آئے گی.آنحضرت ﷺ کے اس قدر دشمن، چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیرا ڈال رکھا تھا.پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں یعنی انبیاء پر نظر ڈال کر دیکھیں اس درجہ دشمنی کسی نبی کی نہیں کی گئی تھی.اس قدر دشمنوں نے کسی نبی کو نہیں گھیر اجیسا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ علے دشمنوں کے نرغے میں تھے اور پھر ایسی ثابت قدمی اور ایسا استقلال دکھلانے والا نبی آپ کی اس شان کا اور کوئی دکھائی نہیں دے گا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس مقدس نبی کے وعظ اور تعلیم نے ہزاروں مردوں میں توحید کی روح پھونک دی اور دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک ہزاروں انسانوں کو موحد نہ بنا لیا...یہ پہلو خاص طور پر جماعت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ انسان کی توحید کا ایک ظاہری نشان یہ ہے کہ اس کی تو حید اس کے سینے میں بند نہ رہے بلکہ اپنے ماحول کو موحد بنانے لگے حقیقی موحد وہ ہے جس کی توحید کا نور اردگرد پھیلتا ہے جس کے قرب و جوار میں دوسرے موحد پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں، پس اگر آپ یہ کہیں کہ ہم موحد ہو چکے ہیں، خدا کے سوا ہم کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکاتے ، خدا کا کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے.مگر آپ کی تو حید آپ کے سینوں میں بند رہے، آپ کی بیوی بھی موحد نہ بن سکے، آپ کے بچے بھی موحد نہ بن سکیں.آپ کے گرد و پیش ماحول میں اس تو حید کا کوئی جلوہ دوسروں کو توحید سے متاثر نہ کر سکے تو پھر آپ کی توحید وہ تو حید نہیں ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی توحید تھی جس کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد ۱۲ 693 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء وو...وہ خدا ماننے کے لئے پیش کیا جس کو قانون قدرت پیش کر رہا ہے.زہد و تقوی اور عبادت اور محبت الہی کی نصیحت کی اور ہزار ہا آسمانی نشان دکھلائے جواب تک ظہور میں آرہے ہیں...“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۴) توحید کے نتیجے میں انسان خدا نما بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے موحد بندوں کے لئے نشان دکھلاتا ہے.یہ دوسری علامت ہے جو نمایاں طور پر موحد کی ذات میں ثابت ہوتی ہے.موحد کی ذات میں چمکتی ہے اور دنیا کو دکھائی دینے لگتی ہے.اگر چہ موحد ریا کاری سے کام نہیں لیتا لیکن جس خدا کو دکھاتا ہے جب اس کا جلوہ موحد کی ذات میں دکھائی دینے لگتا ہے اسی کا نام اعجاز ہے اور اسی کا نام نشان ہے.یعنی موحد کی ذات میں خدا جلوہ گر ہو جاتا ہے ہمو حدخدا نما وجود بن جاتا ہے اور اسی کا نام معجزہ ہے اس کے سوا معجزے کی کوئی حقیقت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تو حید کے معجزے کے طور پر آپ کی زندگی کے نشان ہی پیش نہیں فرمائے بلکہ یہ فرمارہے ہیں کہ آپ کے وصال کے بعد آج تک آپ کی تو حید اسی طرح جلوہ گر ہے اور آج بھی اس توحید کے اعجاز ہم دیکھ رہے ہیں.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود بھی حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کی توحید ہی کی جلوہ گری ہے اور اسی کے نتیجے میں آپ کا روحانی وجود پیدا ہوا ہے.پھر فرماتے ہیں: " وہ خدا ماننے کے لئے پیش کیا جس کو قانون قدرت پیش کر رہا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی تو حید کو رائج الوقت دیگر مذاہب کی تو حید کے مقابل پر سب سے نمایاں اور سب سے آشان کی توحید کے طور پر پیش فرمایا.ہوسکتا ہے دوسرے مذاہب کے پیروکار یہ خیال کریں کہ محض لاف زنی ہے ایک بڑا دعویٰ ہے.ہر مذہب کے ماننے والے یہی کہا کرتے ہیں کہ جو تو حید ہم نے پیش کی ہے ویسی کہیں اور پیش نہیں کی گئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس توحید کی ارفع شان کو ظاہر کرنے کے لئے دو ایسی قطعی دلیلیں پیش کی ہیں جن کو کوئی دوسرے مذہب کا پیروکار اپنے مذہب میں اس طرح دکھا نہیں سکتا.ایک جگہ فرمایا:
خطبات طاہر جلد ۱۲ 694 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء اسلام اس خدائے واحد کو پیش کرتا ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوا کرتا.اس کی صفات ہمیشہ سے اسی طرح آج بھی جلوہ گر ہیں جیسے قدیم میں کبھی جلوہ گر ہوئی تھیں اور تمام صفات زندہ ہیں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ رہیں گی...“ پس وہ لوگ جو خدا کو ماضی کا حصہ بنا بیٹھے ہیں وہ یہ یقین کرتے ہیں کہ خدا اب نہیں بولتا ے پہلے بولا کرتا تھا ، خدا اب بندوں سے ہم کلام نہیں ہوتا اور بندوں پر اس طرح ظاہر نہیں ہوتا جیسے پہلوں پر ظاہر ہوا کرتا تھا.عملاً وہ خدا کو زمانے میں تقسیم کر دیتے ہیں کہ ایک گزشتہ زمانوں کا خدا ہے جو اور طرح کی صفات دکھاتا ہے، ایک موجودہ زمانے کا خدا ہے جو اور طرح کی صفات دکھاتا ہے.پس وہ خدا جو وقت میں تقسیم ہو جائے وہ واحد خدا نہیں رہ سکتا، وہ دوحصوں میں زمانے کے لحاظ سے بٹا ہوا خدا بن جاتا ہے.اب دیکھیں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو بیٹا بنانے کا تصور عہد نامہ جدید میں تو نہیں لیکن عہد نامہ جدید کے بعد جلد ظہور میں آیا اور بنا اس عقیدے کی اس بات پر ہے کہ خدا کا یہ بیٹا ازل سے ہے لیکن ازل سے اس کی شان جلوہ گر نہیں ہوئی تھی تو اس لحاظ سے بھی عیسائیت نے وہ بظاہر تو حید کا دعویٰ کیا لیکن عملاً تو حید زمانی سے انکار کر دیا.ان کے نزدیک خدا کا بیٹا ایک ایسے وقت میں ظاہر ہوا ہے کہ جب اس سے پہلے دنیا کے تمام مذاہب اس کے وجود سے بے خبر تھے اور گویا صفات الہی اگر موجود بھی تھیں تو دنیا ان سے کلیہ بے خبر تھی اور پہلے زمانوں کے تمام انسان خدائے واحد کی اس صفت سے نا آشنا ر ہے اور بے فیض رہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس واحد خدا کا تصور اسلام کی طرف منسوب فرما رہے ہیں وہ ایسا خدا ہے جو زمانے میں کسی پہلو سے تقسیم نہیں ہو سکتا اور صلى الله دوسرا پہلو اس اقتباس میں یہ بیان فرمایا کہ دیکھو حضرت محمد مصطفی امت ہو نے وہ خدا ماننے کے لئے پیش کیا جس کو قانون قدرت پیش کر رہا ہے اور قانون قدرت کا اطلاق بھی اسلام کے ہر پہلو پر یکساں ہوتا ہے.کوئی ایک گوشہ بھی اسلام کا ایسا نہیں جس کو ماننے سے قانون قدرت کے کسی پہلو سے ٹکراؤ ہوتا ہو.اس پہلو سے بھی جب آپ تثلیث کے عقیدے کو دیکھتے ہیں تو تثلیث کا عقیدہ قانون قدرت سے کھلم کھلا ٹکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے.پس زبانی توحید کا دعویٰ اور بات ہے حقیقت میں تو حید کو جاری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 695 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء کر کے دکھا دینا اور زمانی لحاظ سے بھی خدا کی توحید ثابت کرنا اور مکانی کے لحاظ سے بھی یعنی مکان کی وسعتوں میں خدائے واحد کو واحد خدا کے طور پر دکھانا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ عرض کرتے ہیں: یہ کام ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی امیہ نے جس شان سے کر کے دکھایا ہے اس سے پہلے کبھی کسی نبی کو ایسی توفیق نہیں ملی پھر فرماتے ہیں.میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جودنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجے پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی ، اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا.اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مراد میں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے.وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعے سے نہیں پاتا وہ محرومِ ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ، ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبیلہ کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے.خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے میسر آیا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۸ تا ۱۱۹)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 696 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس ایک ایسی روحانی اور عظیم آسمانی زبان میں اپنے مطلب کو بیان کر رہا ہے.اس کے مضمون میں آپ ڈوب کر پڑھیں تو لمحہ لمحہ آپ کے دل کی کیفیت تبدیل ہوتی چلی جائے گی یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کلام کے ساتھ خدا دل میں اتر رہا ہے.آنحضرت ﷺ کا عرفان اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ان معنوں میں نصیب ہوتا ہے کہ گویا آپ کے عرفان کے ساتھ خدا کا عرفان نصیب ہو رہا ہے اور خدا کے عرفان کی دولت کو پانے کے لئے یہی ایک فرماں روا رسول وہ ہے جس کے خزانے سے آپ حقیقت میں خدا کا عرفان پاسکتے ہیں.پہلے اس صلى الله نبی ﷺ کا عرفان پانا ضروری ہے.فرماتے ہیں: وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی.وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا...66 سوال یہ ہے کہ توحید کے ساتھ پہلوانی کا کیا تعلق ہے؟ انسان سوچ سکتا ہے کہ مضمون تو توحید کا بیان ہو رہا ہے یہاں کچھ اور ذکر چاہئے تھا.ایسا صوفی منش انسان ، ایسا عارف باللہ اس کو دوبارہ دنیا میں لایا مگر حقیقت یہ ہے کہ توحید کو دنیا میں قائم کرنا ایک عظیم پہلوانی کا تقاضا کرتا ہے.جری اللہ ہی ہے جو تو حید کو دنیا میں قائم کرتا ہے.اپنے نفس سے لڑنے کے لئے بھی جتنی پہلوانی کی ضرورت ہے وہی انسان کو میسر نہیں آتی ، اپنے نفس میں توحید کو جاری کرنے کے لئے جتنی غیر معمولی طاقت کی ضرورت ہے وہی انسان کو میسر نہیں آتی.اس لئے کوئی شخص اپنے وجود کے اندرونے کو بھی موحد نہیں بنا سکتا اس لئے کہ اس میں وہ طاقتیں نہیں ہیں، ان طاقتوں کے ساتھ مسلسل لڑائی کر کے غیر اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر قوت کو مغلوب کرنا پڑتا ہے.پس لفظ پہلوان، یہاں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر الہام ہوا تھا کیونکہ لفظ پہلوان ہی درحقیقت اس مضمون کو کھولتا اور بڑی شان کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ غیر معمولی جد و جہد کرنی پڑی ہے آپ کو، غیر معمولی طاقت اور شان کے ساتھ آپ نے غیر اللہ کا مقابلہ کیا ہے.تب کہیں جا کر تو حید کو دنیا میں نافذ کیا ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی خطبات میں ذکر کر چکا ہوں.آپ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی موحد بننے کے لئے اپنے نفس سے لڑائی شروع کر کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نفس کو زیر کرنا کتنا مشکل کام ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 697 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء صلى الله در حقیقت پاک دامنی کے لئے انسان کی جدو جہد ، تو حید کے لئے جدوجہد کا ہی دوسرا نام ہے.موحد ہی ہے جو ہر پہلو سے یک رنگ، پاک دامن ہوا کرتا ہے اور اس پہلو سے بڑے بڑے پارساؤں کو بھی دیکھیں تو ان کے دامن بھی داغدار دکھائی دیں گے کیونکہ نفس کی کمزوریاں جگہ جگہ انسان کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں اور گناہ کے چھینٹوں سے انسان کا دامن داغدار ہوتا رہتا ہے.ہاں ایک وجود تھا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا وجود، جنہوں نے خود اپنے متعلق فرمایا کہ شیطان تو میری رگ و پے میں دوڑنے والا ہے جیسا کہ ہر انسان کے لئے مقدر کیا گیا ہے مگر میرا شیطان مسلمان ہو چکا ہے.”شیطان مسلمان ہو گیا“ (ترمذی کتاب الرضاع حدیث نمبر: ۱۰۹۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کی ہر باغیانہ طاقت کو آپ نے زیر کر دیا.ہر بدی کی تحریک کرنے والے جذبے کو آپ نے لگام دے دی اور ایک ایسے پاک وجود کے طور پر ابھرے جس کے نفس سے غیر اللہ کی طرف کوئی تحریک نہیں ہوتی.بدی کا کوئی محرک بھی دل میں باقی نہیں چھوڑا.اسے پہلوانی کہتے ہیں اور یہ پہلوانی پہلے اپنے نفس کو زیر کرتی ہے پھر غیروں کو زیر کرنے کی طاقت عطا ہوتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو...وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی.(آپ نے دنیا میں اس کو قائم فرمایا.وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.(اور یہ کیسے لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجے پر محبت کی اور انتہائی درجے پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی...“ توحید کے نتیجے میں اللہ کی محبت درجہ کمال کو پہنچتی ہے کیونکہ جب غیر باقی نہ رہے.ایک ہی حسین نقش ہو، وہ خدا کی ذات کا نقش ہو تو کسی اور سے محبت رہ نہیں سکتی.لیکن ایک اور قسم کی محبت تمام بنی نوع انسان سے ہو جاتی ہے وہ خدا کے واسطے سے ہے جو محبوب ہو اس کو جو چیز پیاری لگتی ہے.محبت کرنے والے کو بھی پیاری لگنے لگتی ہے اور یہی وہ مضمون ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں کامل شان کے ساتھ جلوہ گر ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اس نے خدا سے انتہائی درجے پر اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور جتنی وہ محبت بڑھی اسی قد رخدا کی مخلوق سے بھی محبت پیدا ہوئی اور خدا کی مخلوق سے محبت کسی ذاتی تعلق یا دل کی نرمی کے نتیجے میں نہیں تھی بلکہ عشق الہی کے نتیجے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 698 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء میں تھی اور یہ وہ محبت ہے جس کے نتیجے میں انسان کو عظیم قربانیوں کی تو فیق ملتی ہے ورنہ عام طور پر انسانی ہمدردی کا جذ بہ دوسری قوموں میں بھی آپ کو دکھائی دے گا لیکن جہاں ان لوگوں سے نفرت کا سلوک کیا جائے ، ان کے احسان کو قبول کرنے کی بجائے ان پر پتھر برسائے جائیں وہاں وہ سب محبتیں اٹھ جاتی ہیں اس کا کچھ بھی وجود باقی نہیں رہتا.انسان پھر پتھر کا جواب پتھر سے دینے لگتا ہے، گالی کا جواب گالی سے دینے لگتا ہے مگر اگر محبت بنی نوع انسان کی منہ کی محبت نہ ہو بلکہ خدا کے وجہ کی محبت ہو، خدا کے چہرے کی محبت ہو اور خدا کی خاطر اس کی مخلوق سے محبت کی جائے تو وہ مخلوق جیسا بھی اس سے کسی محبت کرنے والے سے سلوک کرے اس کی محبت کا منہ نہ پھیر سکے، ناممکن ہو جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جس درجے پر بنی نوع انسان سے ہمدردی کی ہے اور ان کی خاطر آپ ﷺ کی جان گداز ہوئی.اس کی مثال آپ کو دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گی کیونکہ اس شان سے اللہ تعالیٰ کی محبت رکھنے والا وجود اور کوئی پیدا نہ ہوا حالانکہ تمام انبیاء خدا ہی سے محبت کے نتیجے میں ایک نیا وجود پکڑتے ہیں اور تمام انبیاء کی محبت بنی نوع انسان سے خدا کے واسطے سے ہی ہوتی ہے.اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اس معاملے میں رسول اکرمی صلى الله مستی نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ نہیں فرمار ہے کہ صرف حضرت محمد رسول اللہ ہی ہے کو خدا کی خاطر بنی نوع انسان سے محبت ہوئی ، یہ فرمارہے ہیں کہ آپ کو خدا سے اتنی محبت ہوئی کہ خدا کی تمام مخلوق سے محبت ہو گئی جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے.خدا کی محبت کا کرشمہ اس مخلوق سے بھی آپ کے دل میں جلوہ گر ہوا اور اس وجود کی محبت میں تبدیل ہوتا رہا.یہ وہ مضمون ہے کہ اس پہلو سے دنیا میں آپ کو کہیں بھی کوئی اور نبی ایسا دکھائی نہیں دے گا اس کا ثبوت یہ ہے کہ جتنے دنیا کے انبیاء آئے ہیں وہ سب قو می بھی تھے اور زمانے کے لحاظ سے وقتی بھی تھے اور جتنا چاہیں آپ انبیاء کی براہ راست تعلیم میں تلاش کر کے دیکھ لیں تمام بنی نوع انسان کی محبت کا ذکر آپ کو وہاں نہیں ملے گا.صرف حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺے ہیں جن کے ذکر میں قرآن کریم بار ہا یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ تمام مخلوقات سے آپ کا تعلق تھا، تمام بنی نوع انسان کے لئے آپ رحمت تھے، ہر ایک ذات کے لئے آپ کے دل میں رافت پائی جاتی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو بلند دعاوی کرتے ہیں ساتھ ساتھ ان کے دلائل بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 699 خطبه جمعه ۱۰ار ستمبر ۱۹۹۳ء پیش کرتے چلے جاتے ہیں.اب ہم وہ ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ علیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ہم نے بھی یہ سال عالمی خدمتِ خلق کا سال منانے کا فیصلہ کیا ہے.میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ سال کس رنگ میں منایا جائے گا اور کس رنگ میں یہ سال منانے کا حق ادا ہو سکتا ہے؟ صرف ایک ہی رنگ ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا رنگ ہے.وہ رنگ اختیار کریں اپنے وجود سے دورنگی دور کر دیں.خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہوں اور جس مخلوق سے محبت کریں خدا کی محبت کی خاطر کریں اور خدا کی محبت کے جذبے سے مجبور ہو کر کریں.خاطر کا لفظ نسبتا نرم ہے کیونکہ جب انسان کہتا ہے کہ اس کی خاطر کرو اس میں کچھ کوشش اور کچھ جد و جہد ، کچھ تکلف پایا جاتا ہے.بعض دفعہ ایک فقیر مانگتا ہے جو صاحب خانہ ہے اس کا دل نہیں چاہتا اس کو دینے کو.وہ کہتا ہے اپنے بچوں کی خاطر ، اپنی بیوی کی خاطر ، اپنے پیاروں کی خاطر.خاطر کہہ کہہ کر ایسے دل کو پسمانے کی کوشش کرتا ہے جس کے دل سے اس کے لئے کوئی رحم نہیں اہل رہا ہوتا، کوئی دل میں رحم کا جذ بہ خود بخود پیدا نہیں ہوتا مگر خدا کی محبت میں جب آپ کسی بنی نوع انسان سے محبت کرتے ہیں تو خاطر کا لفظ بیچ میں سے اٹھ جاتا ہے.خدا کی محبت کا طبعی تقاضا ہے کہ آپ بنی نوع انسان سے محبت کریں.کسی انسان سے پیار سچا ہو تو اس کے پیاروں کو ویسے ہی دیکھ کے پیار آتا ہے.میں نے پہلے بھی بار ہا ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو ہم نے قادیان کے زمانے میں بچپن میں دیکھا ہوا ہے.وہ باتیں جو اس وقت سمجھ نہیں آتی تھیں اب سمجھ آتی ہیں.وہ مشرک نہیں تھے بڑے موحد صحابہ تھے اور تو حید کے مضمون کو خوب سمجھتے تھے لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کا تعلق محض نظریاتی تعلق نہیں تھا گہرا اقلیمی تعلق تھا اور عشق کی حد تک.اسی لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے بچوں کو دیکھتے تھے جن کا خونی رشتہ تھا تو بڑھ کر ان سے پیار کرتے اور بعض صحابہ زبردستی ہمارا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر چوم لیا کرتے تھے اور بچپن میں مجھے یاد ہے اتنی شرمندگی ہوتی تھی کہ دل چاہتا ہے کہ زمین میں انسان گڑ جائے اور کچھ پیش نہیں جاتی تھی کیونکہ ان کی بزرگی کا تقاضا تھا کہ ضرورت سے زیادہ ان سے زور آزمائی نہ کی جائے.وہ کھینچ کھانچ کر آخر ہاتھ کو پیار کر ہی لیا کرتے تھے.اس وقت پوری طرح یہ مضمون واضح نہیں ہوا کہ ہم کیا ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ اتنے بڑے بڑے بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فیض یافتہ لوگ یہ ہم جیسوں کے ہاتھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 700 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء چوم رہے ہیں.بعد میں سمجھ آئی کہ یہ محبت کا کرشمہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ان لوگوں کی محبت میں از خود تبدیل ہوتی تھی جن کا مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی تعلق تھا.ایسے واقعات ہوئے انگلستان میں بھی کہ کسی انگریز نے پوچھا.میرے ساتھ بھی یہ واقعہ ہوا ہے.ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مصافحہ کیا ہوا ہے.میں نے کہا ہاں کیا ہوا ہے.میرا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور چوم لیا کہ میں اس ہاتھ کو چومنا چاہتا ہوں جس نے مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے ہاتھ کو پکڑا ہوا ہے.یہ محبت کی باتیں ہیں ،محبت ہی کے نتیجے میں یہ دیوانگی، یہ شوق پیدا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں عظیم خدمتوں کی توفیق بخشی جاتی ہے.پس بنی نوع انسان کی محبت اگر کسی کی خاطر کریں گے یعنی خاطر کا لفظ بیچ میں لائیں گے تو کچھ تکلف پایا جائے گا.حضرت رسول اکرم ﷺ کا جو نقشہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھینچ رہے ہیں.وہ یہ ہے کہ خدا کے ایسے عاشق ہوئے کہ اس کے نتیجے میں طبعا از خود بنی نوع انسان کی محبت آپ کے سینے میں جوش مارنے لگی اور ناممکن ہو گیا آپ کے لئے خدا کی مخلوق سے محبت نہ کریں.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو آپ اپنے نفسوں میں جاری کریں گے تو آپ خدمت خلق کا حق ادا کرنے کے اہل ہوں گے پھر یہ خیال نہیں رہے گا کہ ہم جن کی خدمت کرتے ہیں وہ نسل پرستی کے جذبے سے مجبور ہو کر ہمیں پتھر مارتے ہیں، ہمارے گھروں کو جلاتے ہیں.ہم کیوں ان کے ساتھ ایسے تعلقات رکھیں.یہ سارے جو بعد کے فاصلے ہیں یہ سب مٹ جاتے ہیں.یہ سارے نفرتوں کے ذریعے معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان محبت کرتا ہے اللہ کی خاطر ، خدا کے چہرے کے لئے خدا کی مخلوق کے چہرے پیارے لگنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو کچھ کسی انسان پر زیادتی ہو کسی قسم کے مظالم ہوں ان سے قطع نظر وہ ان کے لئے دعائیں کرتا اور ان کی بہبود کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ ان قوموں کے لئے بھی دعا کی تحریک کی ہے جنہوں نے جماعت پر بڑے بڑے مظالم کئے ہیں.بعض دفعہ جب پاکستان میں یہ مظالم حد سے بڑھتے رہے جیسا کہ اب بہت بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ وہاں کی عدالت عالیہ نے بھی ایسا انصاف کا خون کیا ہے کہ دنیا میں عدلیہ کا رروائی میں شائد اس سے بڑا انصاف کا خون کبھی نہ کیا گیا ہو لیکن میں پھر بھی جماعت کو پاکستان کے لئے اور پاکستان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 701 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء کے مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوں.بعض دفعہ بہت سخت احتجاج کے خط بھی ملے.کچھ تو کبھی بددعا بھی کر دیں کچھ تو ہمارے دل ٹھنڈے ہوں، کچھ تو خدا اپنے جلال کا جلوہ دکھائے.ہمیں بھی پتا لگے کہ یہ دشمن ہوتے کون ہیں؟ لیکن باوجود اس کے کہ انتہائی دکھ پہنچتا ہے ان ظلموں سے میں مجبور کر دیتا ہوں اپنے آپ کو کہ میں ان کے لئے بددعا نہ کروں کیونکہ اگر میں ان کے لئے بددعا کروں گا تو مجھے ڈر ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے میرا ویسا تعلق قائم نہیں رہے گا جیسا میں چاہتا ہوں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے انتہائی دکھوں کے وقت بھی ، انتہائی مصیبت کے وقت بھی جبکہ خدا کا غضب دوسروں پر چمکنے کے لئے تیار کھڑا تھا جیسے بجلی چمکتی ہے کسی کو بھسم کرنے کے لئے ایسی کیفیت تھی مگر جب خدا کے فرشتوں نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے یہی فرمایا کہ یہ جانتے الله نہیں ہیں ، میں ان کی تباہی کی دعا نہیں کروں گا، میں ان کی ہدایت کی دعا کروں گا.پس یہ ہے خدمت خلق کا مضمون جسے آپ توحید سے سمجھ سکتے ہیں جب آپ موحد بنیں گے تو سمجھنے کی بات نہیں رہے گی.از خود یہ مضمون آپ کے دل میں فطرت ثانیہ بن کر اٹھے گا اور آپ کے خون میں جاری ہو جائے گا، آپ کی رگ و پے میں سرایت کر جائے گا، آپ کی فطرت ثانیہ بن جائے گا.اس کے سوا آپ کے لئے چارہ نہیں رہے گا.آپ ایسے انسان بنیں گے کہ اپنے پر ظلم کرنے والوں کی خیر خواہی چاہیں گے.اس جذبے کے ساتھ آپ بنی نوع انسان کو موحد بنانے کی تیاری کریں.اور اس کا کچھ حصہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میں انشاء اللہ بعد میں آپ کے سامنے رکھوں گا.پھر فرماتے ہیں: وو...انتہائی درجے پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا.اس کو تمام انبیاء اور 66 تمام اولین اور آخرین پر فضیلت بخشی...“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو پڑھ کر روح وجد میں آجاتی ہے، ایک ایک فقرے میں ایسے ایسے عظیم موتی جڑے ہوئے ہیں، انسان دنگ رہ جاتا ہے.وہ کیسا قلم تھا، کیسی تحریر تھی ،سلطان القلم کا جو خطاب آپ کو ملا ہے یہ اس سے بڑھ کر کوئی تصور نہیں انسان کرسکتا کہ خدا کسی کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 702 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء سلطان القلم قرار دے دے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کو غور سے پڑھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ ایسا سلطان القلم ہے کہ اس کی تحریر کو سمجھنے کے لئے بھی انسان کو غیر معمولی توجہ، محنت اور اپنی نظر اور دل کو صیقل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے.فرماتے ہیں: ” خدا جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا.اس نے تمام انبیاء اور تمام اولین اور آخرین پر فضیلت بخشی.“ تو حید کا دعویٰ کافی نہیں ہے.توحید کے لئے خدمات جود نیا کو دکھائی دیتی ہیں.وہ بھی کافی نہیں ہیں، اصل بات یہ ہے کہ تو حید دل کے اندر کتنی گہرائی سے پھوٹی ہے اور توحید کے نتیجے میں انسان کا وجود کہاں تک متاثر ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جو خدا نے سب انبیاء پر اولین اور آخرین پر فضیلت بخشی تھی.اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کے دل کے رازوں کی گہرائی سے واقف تھا اور ان کی کہنہ تک خدا کی نظر تھی.جانتا تھا کہ تو حید کبھی کسی کے دل میں اس گہرائی کے ساتھ پیوستہ نہیں ہوئی اور اس طرح کسی کا دل کبھی خدا کی محبت میں خالص نہیں ہوا جیسا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو توفیق ملی پس دل پر نگاہ کر کے آپ کو فضیلت بخشی گئی محض ظاہری کاموں کو دیکھ کر نہیں.پھر فرماتے ہیں: (جب فضیلت بخشی تو کیا ہوا اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے.وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے...جب خدا نے ساری فیض کی کنجیاں محمد رسول اللہ ﷺ کو تھما دیں تو محمد رسول اللہ سے تعلق توڑ کر کسی اور سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرنا غیر اللہ سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے مترادف ہے.یہ لفظ بہت سخت ہے، وہ ذریت شیطان ہے، لیکن جب آپ اس مضمون کو گہرائی میں اتر کر دیکھیں گے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ایسے شخص کو ذریت شیطان سمجھا جائے.اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فیضان کی تمام کنجیاں کسی وجود کو تھما دی ہوں تو اس سے ہٹ کر کسی اور فیض کو طلب کرنے والا غیر اللہ سے فیض طلب کرتا ہے.یہاں آنحضرت ﷺ کے موحد کامل ہونے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 703 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء کا ایک ایسا عظیم نقشہ کھینچا گیا ہے.جب سے دنیا بنی ہے میرے خیال میں کبھی کسی نے کسی کے موحد دنیا کامل ہونے کا ایسا حسین اور سچا نقشہ نہیں کھینچا یعنی خدا کی توحید میں محمد رسول اللہ کی توحید میں مدغم ہوگئی اور اس طرح آپ نے اپنی ذات کو خدا کی ذات کے ساتھ ہمر نگ کر دیا کہ خدا کی تمام صفات آپ ﷺ کی ذات میں جلوہ گر ہوئیں اور آپ کو چھوڑ کر دیگر صفات سے فیض پانا ایسا ہی ہے جیسا شیطان سے فیض پانا.یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم ایک دوسرے رنگ میں یوں بیان فرماتا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى ( الانفال: ۱۸) پھر فرماتا ہے وہ جو بیعت کا مضمون ہے اِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (افتح ۱۰) محمد رسول اللہ نے جب وہ کنکریوں کی مٹھی کفار کی طرف پھینکی مَا رَمَيْتَ تو نے نہیں پھینکی وہ مٹھی تیری نہیں تھی إذْ رَمَيْتَ حالانکہ تو نے پھینکی تھی مگر وہ خدا کی مٹھی تھی.وَلَكِنَّ اللهَ رَی اللہ نے وہ چلائی تھی.پھر فرمایا یہ جو مومن تیری بیعت کر رہے ہیں تیری بیعت نہیں کر رہے، اللہ کی بیعت کر رہے ہیں.تیرا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے لیکن يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ اللہ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ پر ہے.کسی وجود کا متابعت میں، غلامی میں اپنے آقا سے کامل ادغام یہ بھی ایک توحید کا منظر پیش کرتا ہے.غیر اللہ کی نفی تو انسان کرتا ہی ہے ہر وہ متحد کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا آخری مقام یہ ہے کہ جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اپنے وجود کی نفی کر دی جائے اور کلیہ اپنے وجود کو مٹا دیا جائے تا کہ صرف ایک ہی وجود، اللہ کا وجود باقی رہے.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کہ محمد رسول صلى الله اللہ ﷺ نے اپنے وجود کو کلیہ مٹاڈالا اور صرف خدا کا وجود باقی رہا.آپ کو نظر انداز کر کے کسی اور سے فیض پانا ایسے ہی ہے جیسے خدا کے سوا خدا کے مقابل پر بنائے ہوئے جھوٹے بتوں سے فیض پانے کی کوشش کی جائے تبھی فرماتے ہیں: وو..ازیت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیات کی کبھی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.(اپنے آپ کو فرماتے ہیں ) ہم کیا چیز ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ ہماری حقیقت کیا ہے..“ صلى الله 704 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعلق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے بالکل ویسا بن جاتا ہے جیسے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق خدا سے قائم ہوا جیسے خدا کے ساتھ تعلق میں اپنے وجود کو مٹا ڈالا اور وہ تعلق تام ہو گیا.گویا ایک ہی وجود بن گیا، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اپنے وجود کو کلیۂ مٹاڈالا اور جہاں وہ مضمون بیان کرنا شروع کیا وہاں معاً اس طرف خیال چلا گیا.میں بھی تو ہوں جو محمد رسول اللہ اللہ کی باتیں کرتا ہوں مگر میں کیا ہوں.مجھے تم مٹا ہوا سمجھو، میرے وجود کو کچھ نہ تسلیم کرو.میں تو صرف وہی ہوں جو محمد رسول اللہ ہیں اور محمد رسول اللہ نے مجھے بناڈالا ہے.اس کے سوا میری کوئی بھی حقیقت باقی نہیں رہی.پھر فرماتے ہیں : " ( اس کے نتیجے میں پھر علامت ظاہری ہونی چاہئے وہ ہے ) زندہ خدا کی شناخت...“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۹) اور اللہ تعالیٰ کے تائیدی معجزات جو ایسے بندے کے حق میں از خود جاری وساری ہو جاتے ہیں.ایک بہتے ہوئے چشمے کی طرح اس کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں پس جتنا بڑا موحد ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی زندگی میں اس کے تائید میں اللہ تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوں گے اور جتنا بڑا موحد ہو گا اتنا ہی خدا تعالیٰ کے نشانات، اس کے بعد ہمیشہ باقی اور جاری وساری رہیں گے.یہ وہی مضمون ہے کہ خدا کی مکانیت اور زمانیت کے لحاظ سے توحید کا اقرار کرنا نہ مکان میں اس جیسا کوئی ہو، نہ زمانے میں اس جیسا کوئی ہو.جب آپ زمانے میں بھی خدا کو واحد اور لاشریک مان جاتے ہیں ہر زمانے کا خدا ایک ہی رہتا ہے.تو آپ کے مرنے کے بعد آپ کا زمانہ مٹ نہیں جا تا بلکہ خدا کے زمانے میں آپ کا زمانہ جاری ہو جاتا ہے اور یہی واقعہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ کے جاری و ساری زندہ معجزات کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہوا اور یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرمارہے ہیں.پھر فرماتے ہیں: اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش
خطبات طاہر جلد ۱۲ 705 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۹۳ء کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اوران پر زبان یا ہاتھ یاکسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کر وگو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.“ (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۱) اس اقتباس پر میں آج کے خطبے کا مضمون ختم کرتا ہوں جو کچھ آپ کے سامنے آنحضرت ﷺ کی سیرت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس الفاظ میں میں نے پیش کیا ہے.اسی کا خلاصہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ پیش کر رہا ہوں.یہ وہ سیرت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ سب کی ذات میں جاری ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.ان باتوں کو اپنا صلى الله لیں یا اپنے وجود کا لازمی اور دائی حصہ بن جائیں تو پھر یقین کریں کہ آپ کا حضرت محمد رسول اللہ سے ایک ایسا گہرا اٹوٹ تعلق قائم ہو جائے گا جو تعلق لا ز ما الہی تعلق میں تبدیل ہوگا کیونکہ محمد رسول اللہ کی ذات سے کوئی تعلق آپ کی ذات پر ٹھہرتا نہیں بلکہ آپ دروازے کی طرح بن جاتے ہیں یہاں سے وہ تعلق گزر کر خدا تک پہنچتا ہے.آپ کے وجود کے مٹنے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے جسے آپ ہمیشہ پیش نظر رکھیں وہ لوگ جو خدا کی خاطر اپنے وجود کو مٹاتے ہیں جب ان سے تعلق بڑھتا ہے تو وہ شرک نہیں کہلا تا بلکہ ایسے بچے موحدین کے ساتھ تعلق از خود خدا سے تعلق میں تبدیل ہوتا رہتا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ سے آپ کا تعلق آپ کی توحید کی بناء پر ہے اس لئے لازم ہر محبت کا رشتہ الہی محبت کے رشتوں میں تبدیل ہو گا اور یہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف وقتوں میں اور مختلف طریق پر ہمیں سمجھانے کی کوشش کی اسے خوب اچھی طرح سمجھ کر تو حید پر قائم ہوں اور غیر اللہ کی نفی شروع کریں.غیر اللہ کی نفی سے متعلق انشاء اللہ میں آئندہ خطبات کے سلسلے میں کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا.میں ایک دفعہ پھر اس مضمون کو دہراتا ہوں جو توقعات مسیح موعود علیہ السلام کو آپ سے وابستہ ہیں لیکن یا درکھیں کہ مسیح موعود علیہ السلام بھی محمد رسول اللہ کی طرح موحد تھے.آپ ہی کی غلامی میں آپ کو تو حید کا فیض عطا کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ سے امیدیں وابستہ ہیں ان معنوں میں کہ آپ کی ذات سے توقعات ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد کا انحصار آپ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 706 خطبه جمعه ۱۰ر تمبر ۱۹۹۳ء پر نہیں ہے.اگر آپ نے ان امیدوں پر پورا اترتے ہوئے اس پیغام کو آگے بڑھایا تو آپ خوش نصیب ہوں گے لیکن اگر آپ سے جو امیدیں وابستہ کی گئی ہیں ان امیدوں کو آپ نے سچا نہ ثابت کیا تو مسیح موعود علیہ السلام سے جو خدا نے وعدے کئے ہیں وہ پھر بھی پورے ہوں گے.میں نہیں ہوں گا آپ نہیں ہوں گے ہم سب خدا نخواستہ نعوذ باللہ اگر ان امیدوں پر پورا نہ اتریں تو خدا اور وجود پیدا کر دے گا کیونکہ توحید کامل کا یہ مطلب ہے انسان سے جو امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں ان پر انحصار نہیں ہوتا.کبھی کسی نبی نے کسی انسان پر ان معنوں میں انحصار نہیں کیا.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جو انصار تھے ان پر انحصار نہیں تھا اس لئے ان کا محمد رسول اللہ پر احسان کوئی نہیں تھا اور اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ جائیں تو پھر یہ آپ کو پتا لگے گا کہ مدد آپ کر رہے ہیں لیکن احسان آپ پر ہو رہا ہے کیونکہ وہ شخص جس کی مددکا کوئی محتاج ہو وہ جب کسی کی مددکرتا ہے تو اس پر احسان کرتا ہے.مگر ایسا شخص جب کسی کی مدد کرتا ہے جو اس کی مددکا محتاج نہ ہو تو اس کا مدد قبول کرنا اس پر احسان ہو جایا کرتا ہے.پس ان معنوں میں اچھی طرح سمجھ لیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مدد کرنا اور آپ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدد کرنا ہر گز کسی معنوں میں بھی آپ پر احسان نہیں کیونکہ نہ محمد رسول اللہ کا پیغام آپ کی مددکا محتاج ہے اور نہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا، اس پیغام کو آگے بڑھانا آپ کی مدد کا محتاج ہے.یہ خدا کا کام ہے اس نے بہر حال کرنا ہے.آپ کو جو تو فیق عطا ہوتی ہے یہ آپ پر احسان ہے.چنانچہ قرآن کریم نے آنحضرت کو یہ جواب سکھایا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسلام قبول کر چکے ہیں ، ہمارے احسان ہیں.ان سے کہو لَا تَمُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ (الحجرات: ۱۸) بیوقوفوا مجھے پر اپنا اسلام نہ جتایا کرو، مجھ پر اپنے اسلام کا احسان مت دھر و.تم ممنونِ احسان ہو جن کو اسلام عطا ہوا ہے.ہم ممنونِ احسان نہیں ہیں.ایک امیر کی خدمت میں آپ کوئی چھوٹا سا تحفہ پیش کریں وہ محتاج نہیں ہوتا.وہ خوشی سے قبول کرتا ہے تو اس کا احسان ہوتا ہے.پس ان معنوں میں کبھی بھی ، ساری دنیا کا تمام وجود بھی ، حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے کامل خادم بن جائیں تو صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ پر ایک ادنی سا بھی احسان نہیں کر سکتے.وہ زیر احسان ہوں گے کیونکہ خدا نے ان کو اس کام کی تکمیل کے لئے چنا ہے.پس آپ بھی اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدمت دین کے ہر میدان میں آگے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 707 خطبه جمعه ۱۰ستمبر ۱۹۹۳ء الله بڑھیں جتنی آپ خدمت کی توفیق پائیں گے یا درکھیں اتنا ہی آپ محمد رسول اللہ ﷺ اور اس زمانے میں آپ کی تائید میں قائم کئے جانے والے امام مسیح موعود کے زیر احسان ہوتے چلے جائیں گے.ان پر احسان نہیں کر سکتے.پس اس کا جواب کیا ہے؟ اس کا جواب کثرت سے درود پڑھیں.محمد رسول اللہ اللہ پر بھی درود پڑھیں اور آپ کی حقیقی جسمانی اور روحانی آل پر بھی درود پڑھتے رہیں.تاکہ ان احسانات کا بدلہ اتارنے کی تمنا کچھ حد تک پوری ہو جائے.درود کے ذریعے بھی آپ احسان نہیں اتار سکتے یا درکھیں.درود کے ذریعے احسانات کا ایک شعور دل میں پیدا ہوتا ہے جو آپ کو عزت نفس عطا کرتا ہے اور یہ ایک عظیم الشان مضمون ہے جس کے نتیجے میں انسان کے اخلاق سدھرتے چلے جاتے ہیں اور وہ زیادہ معزز ہوتا چلا جاتا ہے.پس آخر پر اس نصیحت کے ساتھ اس خطبے کو ختم کرتا ہوں ان معنوں میں جن معنوں میں میں نے تفصیل بیان کی ہے، کثرت کے ساتھ خدمت دین کریں اور خدمت دین کے ساتھ خدمت بنی نوع انسان کریں.بنی نوع انسان کی خدمت میں سب سے اول خدمت یہ ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ کی راہ کی طرف بلائیں اور جتنی بھی خدمت کی توفیق پائیں.یادرکھیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ابدی احسان ہے جو آپ کی ذات پر ہے اور اس احسان کا بدلہ تو آپ نہیں چکا سکتے ، اس احسان کا شعور زندہ رکھنے کے لئے آپ کثرت سے درود پڑھا کریں.یہ درود بھی پھر آپ پر مزید احسانات کی بارش بن کر برستا رہے گا.آپ کے اور آپ کی نسلوں کے مقدر سنوارتا چلا جائے گا.خدا اس کی ہمیں تو فیق عطا فرمائے.(امین).باقی انشاء اللہ تعالیٰ جو اختتامی خطاب ہے اس میں اس مضمون کے سلسلے میں باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا.
708 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 709 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء امربالمعروف کی طاقت کوئی معمولی طاقت نہیں.ہر مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے.(خطبه جمعه فرموده ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) پھر فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کیں : كُنْتُمْ خَيْرَاً مَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ.( آل عمران : ۱۱۱) آج کے جمعہ کے دن کچھ ایسے اجتماعات ہیں جن کے ذکر کے متعلق مجھ سے خواہش کا اظہار کیا گیا ہے.سب سے اول مجلس انصار اللہ U.K کا سالانہ اجتماع آج یعنی ۷ ار ستمبر کو شروع ہو رہا ہے.انشاء اللہ تین دن جاری رہے گا اور صدر صاحب انصار اللہ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ چونکہ کثرت سے انصار نے یہاں سے اسلام آباد جانا ہے جہاں یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اس لئے آج جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی اکٹھی پڑھادی جائے.مجالس انصار اللہ ضلع تھر پارکر ضلع پشاور اور ضلع گوجرانوالہ (پاکستان ) کے سالانہ اجتماعات بھی ۱۶ اور ے ا ستمبر کو منعقد ہورہے ہیں یعنی آج اور مجالس انصار اللہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ وضلع
خطبات طاہر جلد ۱۲ 710 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء مظفر آباد اور ضلع جھنگ کے سالانہ اجتماعات بھی آج ۷ ار ستمبر کو منعقد ہورہے ہیں.مجالس انصار اللہ ضلع راجن پور ضلع بہاولنگر، ضلع بہاولپور کے سالانہ اجتماعات کل ۶ ار ستمبر سے شروع ہو چکے ہیں اور آج بھی جاری رہیں گے.ان سب کے لئے جو پیغام آج میں آپ کے سامنے رکھوں گا اس کا تعلق اس آیت کریمہ سے ہے جو میں نے ابھی تلاوت کی تھی.كُنتُمْ خَيْرًا مَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اس آیت سے متعلق میں پہلے بھی مختلف خطبات میں روشنی ڈال چکا ہوں لیکن آج پھر اس کے ایک پہلو کو خاص طور پر آپ کے سامنے رکھوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم بہترین امت ہو یعنی جب سے دنیا میں خدا تعالیٰ نے مذاہب کا آغاز فرمایا ہے اور امتوں کو دنیا کی بھلائی کے لئے نکالا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ سب امتوں سے بہتر تم ہو.أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ جو بنی نوع انسان کی خاطر ، ان کی خدمت کے لئے ، ان کی بھلائی کی خاطر کھڑی کی گئی ہے اور اس بھلائی کی تعریف یہ ہے کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تم نیکی کا حکم دیتے ہو.” وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بدیوں سے روکتے ہو وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ اور اللہ پر ایمان لاتے ہو وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمُ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُوْنَ کچھ ان میں سے ایسے ضرور ہیں جو ایمان والوں میں شمار ہو سکتے ہیں لیکن بھاری اکثریت ایسی ہے جو ایمان نہیں لاتے یعنی اپنے دین کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے بھی ان کی اکثریت ایسی ہے جن کا کوئی ایمان نہیں لیکن چند ایک ایسے ضرور ہیں اور ہر مذہب میں ہوتے ہیں جو صاحب ایمان کہلا سکتے ہیں.اس آیت میں جو نکتہ خصوصیت سے میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ اس کی ترتیب ہے.قرآن کریم میں آپ جہاں جہاں بھی ایمان کا ذکر پڑھیں گے ایمان کا ذکر پہلے کرتا ہے اور عمل صالح کا بعد میں کرتا ہے یہاں ترتیب بدل گئی ہے یہاں فرمایا ہے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تمہارے بہترین ہونے کی خصوصیت کے ساتھ نشانی یہ ہے، تمہاری امتیازی شان یہ ہے کہ تم لوگوں کو معروف کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.تو جہاں تک مرتبے کا تعلق ہے ایمان کا مرتبہ بہر حال پہلے ہے جب ترتیب بدلی جائے تو ضرور اس میں کوئی حکمت پیش نظر ہوتی ہے.پس سوال یہ ہے کہ وہ کیا حکمت ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے نیکی کے عام کاموں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 711 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء کا ذکر پہلے فرما دیا اور ایمان کا ذکر بعد میں کیا.اس ضمن میں یاد رکھنا چاہئے کہ نیکی کے عام کام جو بنی نوع انسان کی بھلائی سے تعلق رکھتے ہیں اس میں نہ صرف یہ کہ سب مذاہب والے کسی نہ کسی حد تک شامل رہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں مسلمانوں سے آگے بھی بڑھ جاتے ہیں.مثلاً خدمت خلق کے کام جتنا عیسائی تو میں کر رہی ہیں بدنصیبی ہے کہ آج عالم اسلام کو وہ توفیق نہیں مل رہی.اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوگی کہ اپنے مسلمان بوسنین بھائی جو گھر سے بے گھر ہوئے ان کو پناہ دینے والے بھی وہی ہیں جن کی ظالمانہ عدم دلچسپی سے وہ لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور عالم اسلام کو یہ توفیق نہیں ملی کہ ان کی خدمت کر سکے.پس خدمت کے کاموں میں مسلمانوں کا کوئی ایسا امتیاز نہیں ہے کہ جس میں دوسرے شریک نہ ہوں.اسلام جب اپنی اعلیٰ حالت پر تھا اس وقت خدمت کے ہر کام میں مسلمان سب دوسری قوموں سے بڑھ چکے تھے تبھی ان کو خیر امۃ فرمایا گیا کیونکہ اگر خدمت کے کسی کام میں بھی دوسرے آگے بڑھتے تو مسلمان اس پہلو سے خَيْرَ أُمَّةٍ نہیں کہلا سکتے تھے.پس یا درکھیں کہ خَيْرَ أُمَّةٍ میں اعلیٰ مرتبہ جس کی خدا توقع رکھتا ہے وہ بیان ہوا ہے تم سے خدا یہ توقع رکھتا ہے کہ تم خدمت خلق کے کاموں میں سب سے آگے ہو اور سب قوموں کی بھلائی تم سے وابستہ ہو.لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر حال میں مسلمان یہ اعلیٰ مقصد پورا کر سکیں یا ان کی توقعات پر پورا اتریں اس لئے عام دنیا کا جو حال ہے وہ ہم اسی طرح دیکھتے ہیں کہ ایمان والی قوموں میں نسبتاً کم ایمان والی بعض دفعہ خدمت کے کاموں میں آگے بڑھ جاتی ہیں اور بعض دفعہ بے ایمان قو میں بھی خدمت کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں.تو جو عام چیز ہے اور جو بنی نوع انسان میں مشترک ہے اس کا یہاں بیان ہے اور اس میں سے بھی وہ چیز چنی گئی ہے جو جسمانی خدمت کی بجائے روحانی اور اخلاقی اور قومی اقدار کے لحاظ سے خدمت کہلا سکتی ہے جو بالا اور افضل خدمت ہے.ایک غریب کو روٹی کھلا دینا بھی اچھی بات ہے لیکن روٹی کھلانے کی تلقین کرنا جس کے نتیجے میں صاحب حیثیت قو میں غریبوں کی طرف توجہ کریں یہ سب سے افضل بات ہے کیونکہ اگر نصیحت کے ذریعہ آپ لوگوں کے مزاج بدل دیں، ان کی اقدار میں پاک تبدیلیاں پیدا کر دیں ان کو نیک کاموں کی طرف مائل کر دیں تو آپ کی ذاتی توفیق جو بہت تھوڑی ہوسکتی ہے اس توفیق میں ان سب قوموں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 712 خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۹۳ء کا حصہ شامل ہو جائے گا جو صاحب توفیق ہیں.اب احمدی اپنی تعداد کے لحاظ سے اتنے تھوڑے اور اپنے مالی وسائل کے لحاظ سے اتنے محدود ہیں کہ اگر یہ چاہیں بھی تو دنیا کی بھوک دور نہیں کر سکتے ، دنیا کا ننگ مٹانہیں سکتے ، ننگے بدن کو کپڑا نہیں پہنا سکتے خود بوسنیا کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم اپنے دل کی طمانیت کی خاطر حسب توفیق کچھ نہ کچھ ضرور کر رہے ہیں لیکن جو عظیم ضرورت ہے اس کے مقابل پر وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، نہ ہو سکتا ہے.تو اس کا متبادل یہ ہے اور بہتر متبادل کہ جو کچھ توفیق ہے وہ ضرور کرو لیکن توجہ اس بات کی طرف دو کہ دنیا کو بتاؤ کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور ان کو کیا کرنا چاہیے.تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تم معروف کا حکم عام کرو.اسی ہدایت کے پیش نظر یعنی قرآن کریم کی اس تعلیم کے پیش نظر میں نے کثرت کے ساتھ ساری دنیا کی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ دن رات خطوط کے ذریعے ، رابطوں کے ذریعے ، اخباروں میں کالم لکھوا کر اور بڑے بڑے لوگوں کو ذاتی طور پر مل کر متوجہ کر کے یہ احساس بیدار کریں کہ آج کی تاریخ میں ایک معصوم قوم پر حد سے زیادہ ظلم ہورہا ہے اور اگر آج کے انسان نے اس سے آنکھیں بند رکھیں تو کل وہ ضرور اس جرم کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنے گا اور اس سزا سے بچ نہیں سکتا.یہ کہا جاسکتا ہے کہ بڑی بڑی قوموں کی طاقت ہے ان کے بغیر ہم کیا کر سکتے ہیں مگر امر بالمعروف میں بہت بڑی طاقت ہے.امر بالمعروف میں جتنی طاقت ہے دنیا کی کوئی اور طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اگر امر بالمعروف کو عام کیا جائے اور تمام زبانوں پر یہ بات جاری ہو جائے کہ ظلم ہو رہا ہے اور ہم نہیں برداشت کریں گے یا نہیں پسند کریں گے تو اس کا نفسیاتی دباؤ بڑی طاقتور قوموں پر اتنازیادہ پڑ جاتا ہے کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں.پھر امر بالمعروف میں کوئی جغرافیائی قید نہیں ہے جو صاحب حیثیت اور طاقتور قو میں ہیں وہاں بھی تو امر بالمعروف کرنا ہے اور ان کی رائے عامہ کو تبدیل کرنا ہے.اس پہلو سے جماعت امریکہ کو میں نے خصوصیت سے توجہ دلائی کہ امر بالمعروف پر بہت زیادہ زور دیں چنانچہ پتالگا کہ ہزار ہا خطوط وہاں سے بعض دفعہ روزانہ اور بعض دفعہ ہفتوں میں لکھے گئے اور بڑے چھوٹے مرد عورتیں سب تمام بڑے بڑے سینیٹرز اور کانگریس مین اور بڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹرز اور ٹیلی ویژن کے صاحب اختیار
خطبات طاہر جلد ۱۲ 713 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء لوگوں کو لکھتے رہے اور اس کے نتیجہ میں ایک عام فضا میں یہ احساس بیدار ہونا شروع ہوا.ان کے جو جوابات ان کو ملے ہیں اور انہوں نے جو مجھے ان کے نمونے بھیجے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ امربالمعروف کی طاقت کوئی معمولی طاقت نہیں ہے.بار بار جب ایک ہی سینٹر کو مختلف جہتوں سے چھوٹے بڑوں نے بے ساختہ اپنی تکلیف کا اظہار کیا اور انسانیت کی خاطر جوان کے جذبات کچلے گئے ہیں ان کا ذکر کیا تو ایک امریکن کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بڑوں سے احتجاج کیا ہے اور اس کا جتنا اثر پڑا ہے وہ ان کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے.کئی جوابات ایسے ہیں جن میں سیکرٹری کی طرف سے جواب نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگوں نے اپنے ہاتھ سے دستخط کر کے بھیجے ہیں کہ ہاں ہمیں احساس ہے یہ ہماری قوم کی غلطی ہے کہ جتنی توجہ دینی چاہئے تھی نہیں دی جارہی.ہم اپنے بڑوں کو متوجہ کریں گے تو امر بالمعروف ایک بہت عظیم الشان اور بہت بڑی خدمت ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے جس کو جنگ کی حالت میں جرمنی نے بہت ہی حکمت اور عقل کے ساتھ استعمال کیا.اگر چہ بالمعروف حکم نہیں تھا لیکن نفسیاتی طور پر بات وہی تھی کہ اگر ایک بات کو کسی قوم میں عام پھیلایا جائے تو اس سے قوم کے خیالات پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اس کے نظریات اور رجحانات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پس آج کی دنیا میں جسے Fifth Column کہا جاتا ہے وہ اسی نفسیاتی پرو پیگنڈے کا نام ہے جس میں کوئی ہتھیار نہیں چلتا ، کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا تا.ہوٹلوں میں مختلف جگہوں پر بیٹھ کر باتیں عام کی جاتی ہیں اور جب بار بار کوئی قوم یہ سنتی ہے کہ ہم ہار گئے ہم مارے گئے تو نفسیاتی لحاظ سے وہ مغلوب ہو جاتی ہے جب بار بار یہ ذکر سنتے ہیں کہ فلاں قوم او پر آگئی ، غلبہ پاگئی تو اس کے غلبے کے لئے وہ اپنے نفس کو تیار کر لیتے ہیں.پس امر بالمعروف میں عام باتیں بھی شامل ہیں خواہ ہوٹل میں بیٹھیں ، خواہ گاڑی میں سفر کر رہے ہوں جہاں بھی آپ پھر رہے ہوں وہاں اچھی باتوں کو عام کریں.پھر فرمایا ہے وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ بری باتوں سے روکتے ہیں یہاں یہ جو قرآن کریم کی خصوصی ترتیب ہے اس کو قائم رکھا گیا ہے.جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے نیکی کو بیان فرمایا ہے، نیکی کو پہلے بیان فرمایا ہے بدی کو دور کرنے کا بعد میں ذکر کیا ہے اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المومنون: ۹۷) جو اچھی چیز ہے اس کے ذریعے بدی کو دور کرو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 714 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء اس سلسلے میں پہلے بھی میں جماعت کو سمجھا چکا ہوں کہ اس میں بہت گہری حکمت ہے ایسی گہری حکمت ہے کہ اگر اس کو آپ پالیں تو دنیا میں بہت سے بڑے بڑے جو انقلابات ہیں ان کی کامیابی یا ناکامی کا راز آپ پا جائیں گے قرآن کریم کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ صرف برائی کو دور کرے جب تک کہ جس چیز کو دور کر رہا ہے اس سے بہتر چیز نہ پیدا کردے.Annihilation کے قرآن کریم خلاف ہے.کوئی مثبت چیز ہے تو دو اور پھر اس کے بدلے برائی کو دور کرو.اب کسی نے پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہیں آپ اس کو کہہ دیں کہ پھٹے ہوئے کپڑے بری بات ہے اتارو ، ان کو پھینکو اور اس کے بدلے اچھے کپڑے نہ دیں تو ظلم ہوگا.خلا پیدا کرنے کے لئے اسلام نہیں آیا، اسلام بری باتوں کو اچھی باتوں سے بدلنے کے لئے آیا ہے.اس لئے بظاہر انسانی سوچ یہ کہ سکتی تھی کہ پہلے برائیاں تو دور کر لو پھر بھلائی قائم کرنا مگر خدا کی حکمت بالغہ یہ نہیں کہتی ، اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب صافی پر نازل ہوا.پس ہر جگہ بہتر چیز کولانے کا پہلے حکم ہے بد چیز کو دور کرنے کا بعد میں حکم ہے پس یہاں اسی ترتیب کو قائم رکھا گیا.فرمایا معروف کا حکم دیتے ہیں اور ایسی اچھی بات بتاتے ہیں کہ جس کے ذریعے قوموں کو بڑی مشکلات سے نجات ہی نہیں ملتی بلکہ ان کے بدلے اعلیٰ اقدار حاصل ہو جاتی ہیں، اعلیٰ اقدار کی شناخت ہو جاتی ہے.پس جب اعلیٰ اقدار کی شناخت ہو جائے پھر برائیاں دور کرنا نسبتاً آسان بھی ہو جاتا ہے اگر اچھی بات کی سمجھ آ جائے تو پھر انسان بری بات سے ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بدلے ایک بہتر چیز مل چکی ہے ، ورنہ خالی برائیاں دور کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں آپ سے کچھ نہیں ہوگا.قرآن کریم کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار یہ نکتہ پیش فرمایا ہے کہ عرب شعراء اور عرب اہل ادب کو شاعری اور ادب سے نسبتاً جو تعلق ٹوٹا اور قرآن کی طرف مائل ہوئے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ شعر وادب کے خلاف اسلام نے کوئی مہم چلائی تھی بلکہ شعر سے بہتر کلام الہی نازل ہوا تھا.ادب سے زیادہ لطیف ایسی آیات اتر آئیں جن میں صاحب ذوق آدمیوں کو ذاتی دلچسپی پیدا ہوگئی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں بھی اس مضمون کو چھیڑا ہے یہ بیان فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 715 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء ہے کہ قرآن کریم کا ذوق ایسا بڑھا اور اس کا ایسا چسکا پڑا کہ قرآن کریم نے ہر دوسرے ذوق کو مٹا دیا.پر تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کی یہ وہی الہی ترتیب ہے جو اسلام کے نظام میں ہر جگہ آپ کو جاری وساری دکھائی دے گی.پس اس پہلو سے فرماتا ہے کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تم بہترین ہو اس لئے نہیں کہ تم بدیاں مٹاتے ہو اور نظام فرسودہ اور نظام کہن کو ملیا میٹ کر دیتے ہو بلکہ اس لئے کہ تم بہتر نظام لے کر آتے ہو.ہر بری چیز کا ایک بہتر متبادل پیش کرتے ہو اور وہ پیش کرنے کے بعد پھر ادنی چیزوں سے لوگوں کی توجہ ہٹاتے ہو کہ اس اعلیٰ کو چھوڑ کر کیوں اس ادنیٰ میں اٹکے رہو گے.یہی وہ طریق ہے جس سے نصیحت میں اثر پیدا ہو جاتا ہے، نصیحت میں قوت پیدا ہو جاتی ہے.خالم خولی کسی چیز کو چھوڑنے کا حکم نہیں بلکہ پہلے بہتر چیز دیتے ہو اور پھر دوسری چیز چھڑاتے ہو.آج کل اطباء کا بھی اسی طرف رجحان ہے کہ کوئی بد عادت چھڑانے سے پہلے اس کا کوئی متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی عادت ڈالو تو پھر جو بد عادت ہے وہ بھی آہستہ آہستہ چھٹ جائے گی چنانچہ آج کل اس قسم کے اشتہار ٹیلی ویژن وغیرہ پر عام آتے ہیں کہ فلاں چیز چھوڑنی ہے تو اس کے بدلے میں ہم یہ چیز دیتے ہیں یہ شروع کرو گے تو اس کے اثر کے تابع تمہاری بری چیز کی خواہش ہی مٹ جائے گی.اس کے بعد فرمایاوَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ او تم پھر اللہ پر ایمان لاتے ہو اس لئے نہیں کہ ایمان باللہ سب سے آخری چیز ہے بلکہ اس لئے کہ مومنوں کو غیر مومنوں سے ممتاز کر رہا ہے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اور وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ میں تو مومن غیر مومن سارے شامل ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے تُؤْمِنُونَ بِاللهِ کہہ کر دو باتوں کی طرف خصوصیت سے ہمیں متوجہ فرمایا.فرمایاامر بالمعروف اور نھی عن المنکر ایمان کے بغیر بھی ہوسکتا ہے.مگر ایمان کے ساتھ ہو تو پھر اس کی اور ہی شان ہے.صاحب ایمان لوگوں کا امر بالمعروف اور صاحب ایمان لوگوں کا نهي عن المنكر ان لوگوں سے بہت بہتر ہوتا ہے جو ایمان سے خالی ہوں.اس پہلو سے ہمیں متوجہ فرمایا گیا کہ دیکھو اہل کتاب میں بھی یہ باتیں موجود ہیں لیکن ایک چیز کی کمی ہے ان میں بھاری اکثریت بے ایمانوں کی ہے جن کو کوئی ایمان نہیں معمولی ہیں جو ایمان لاتے ہیں.پس کاش وہ ایمان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 716 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء لانے والوں میں سے ہوتے تو ان کے امر بالمعروف اور ان کی نھی عن المنکر میں ایک نئی شان نئی جلا پیدا ہو جاتی لگان خَيْرًا لَّهُمْ کے لئے بہتر یہ ہوتا.پس دیکھیں کہ آیت کا آغاز خیر کے لفظ سے ہوا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ اور خیر کی اعلیٰ مثال ایمان کو بیان فرمایا گیا ہے کیونکہ یہ اچھی اچھی باتیں بیان کرنے کے بعد جب اہل کتاب کا ذکر فرمایا تو یہ فرمایا وَ لَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ پس خیر کی تعریف ہی دراصل ایمان ہے اور ایمان سے پہلے کی حالتیں خیر کی ذیل میں آتی ہیں.مگر ادنی شعبے ہیں اعلیٰ شعبہ نہیں.اعلیٰ شعبہ ایمان باللہ ہے اور ایمان کے نتیجے میں امر بالمعروف میں بھی ایک نئی شان پیدا ہو جاتی ہے اور اعتماد پیدا ہو جاتا ہے اور نھی عن المنکر یعنی بری چیزوں سے روکنے میں بھی ایک شان پیدا ہو جاتی ہے اور ایک اعتماد پیدا ہو جاتا ہے.شان ان معنوں میں کہ زیادہ بہتر رنگ میں اچھی باتوں کا حکم دینے کی انسان اہلیت اختیار کر جاتا ہے.اپنی عقل سے اگر انسان اچھی باتوں کا حکم دے تو کئی جگہ اس کی عقل ٹھو کر کھا سکتی ہے جس کو وہ بعض دفعہ اچھا سمجھتا ہے وہ اچھا ہوتا نہیں.بعض دفعہ وہ اپنے قومی نقطہ نگاہ سے کسی چیز کو اچھا سمجھ رہا ہے مگر دوسری قوموں کے نقطہ نگاہ سے وہ اچھی نہیں ہوتی لیکن صاحب ایمان کی بھلائی کی تعریف ایک ہی رہتی ہے.وہ اللہ کے حوالے سے سوچتا ہے اس لئے صاحب ایمان جس کو بہتر سمجھتا ہے وہ اسی کو بہتر سمجھتا ہے جو اس کے نزدیک خدا کو پسند ہو.پس اللہ کے حوالے سے جب بھلائی اور برائی کی تعریف کی جائے تو سب سے زیادہ قابل اعتماد بن جاتی ہے اور اس میں جلا بھی پیدا ہو جاتا ہے اور اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے.ان معنوں میں فرمایا که وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہت بہتر تھا ان کی اچھی باتیں مزید چمک اٹھتیں.ان کی بری باتیں حقیقتا بری ہو کر دنیا کو دکھائی دینے لگتیں کیونکہ ان کے کہنے سے ضروری نہیں کہ کوئی بری بات دنیا کو بھی بری لگے بلکہ اگر وہ صاحب ایمان ہوں اور اللہ کے حوالے سے بات کریں تو پھر جو بات اہل ایمان کو دنیا کے ایک ملک میں بری لگتی ہے وہ دنیا کے دوسرے انسانوں کو بھی بری لگتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ انسان اور انسان میں تفریق نہیں کرتا.اس مضمون کو آج آپ کے سامنے خصوصیت سے اس لئے رکھ رہا ہوں کہ ہمارا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 717 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سفر ایمان کی تلقین پر جا کر ختم ہوتا ہے.یہی آخری منزل ہے اور خیر کی بھی اعلیٰ تعریف یہی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.ہم خیرامت ہو نہیں سکتے.اگر ایمان پھیلانے سے پہلے پہلے ہم اپنے سفر کو ختم کر دیں اور یہ سمجھیں کہ ہم نے بھلائی کی تعلیم دے دی بری باتوں سے روک دیا بس یہی کافی ہو گیا.آخری منزل ایمان ہے پس دعوت الی اللہ ہی دراصل وہ آخری منزل ہے.جس کی طرف یہ آیت كُنتُمْ خَيْرَ اُمَّةِ امت محمدیہ کو متوجہ کر رہی ہے کہ اے امت محمدیہ تم سے قوموں کی بھلائی وابستہ ہے اور ان کی خاطر تم پیدا کی گئی ہو.مگر یا درکھو کہ وہ آخری توقع جو خدا کی تم سے ہے وہ ایمان پھیلانے کی ہے.وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ اس میں نہ صرف یہ کہ یہ مضمون کھول دیا گیا کہ خیر کا آخری مقام کیا ہے بلکہ اس آیت نے مضمون میں ایک درد پیدا کر دیا ہے.کاش اہل کتاب یہ سمجھ لیتے کہ ایمان ہی سب کچھ ہے اگر ایمان نہ ہو تو یہ ساری باتیں بریکار جاتی ہیں کاش ایسا ہوتا تو ان کے لئے یہ بہتر ہوتا.پس جو قوم بہتر ہے اور بہتری کے لئے پیدا کی گئی ہے اس کا فرض ہے کہ سب کو بہتر بنانے کی کوشش کرے.پس دعوت الی اللہ ایک ایسا مضمون ہے جس کا گہرا رشتہ اس آیت کریمہ سے ہے اور امت محمدیہ کے قائم کرنے کا اعلیٰ مقصد یہی ہے کہ بنی نوع انسان کو ایمان عطا کرے ایمان سے پہلے دو باتیں ہیں جن کو وہ ضرور شروع کرے.اول امر بالمعروف اور دوسرے نھی عن المنکراس ترتیب میں ایک اور حکمت بھی ہے جس کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آپ اگر صرف ایمان کی تعلیم دیں اور لوگوں کو صرف ایمان کی طرف بلائیں مگر آپ کے اندر ان کے معاملات میں دلچسپی لینے کی عادت نہ ہو اور ان کے خیر وشر میں دلچسپی لینے کی عادت نہ ہو تو آپ کی طرف وہ توجہ نہیں کریں گے.یہ گر بھی اس آیت نے ہمیں سکھا دیا.پیشتر اس سے کہ تم ان کو کہو کہ آؤ اور ہمارے ساتھ شامل ہو کہ اسی میں تمہاری نجات ہے ان کے خیر وشر میں تو دلچسپی لو، ان کو بھلی باتیں تو بتاؤ ایسی باتیں جن میں مذہب کی تفریق سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جب سچ بولنے کی تعلیم دو گے تو کون کہہ سکتا ہے کہ تم مسلمان ہو ہم عیسائی ہیں تم ہمیں بیچ کی تعلیم نہ دو یا تم مسلمان ہو ہم ہندو ہیں تم ہمیں سچ کی تعلیم نہ دو.پس یہاں جو امر بالمعروف ہے اس سے مراد وہ اچھی باتیں ہیں جن کو انسان بحیثیت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 718 خطبہ جمعہ ۱۷ستمبر ۱۹۹۳ء انسان اچھا سمجھتا ہے اور مذہب کے فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا کسی کو اگر بد دیانتی سے روکا جائے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم تو مسلمان ہو اور میں ہندو یا میں سکھ ہوں مجھے کیوں بددیانتی سے روکتے ہو.یہ ایک مشترک انسانی قدر ہے اور یہی وہ عرف ہے جس کی طرف آیت کے پہلے حصے نے توجہ دلائی ہے کہ اچھی باتیں بتاؤ.ان سے کہو دیکھو! غریب بھوکے مررہے ہیں چلو ان کی مدد کریں تم بھی ساتھ شامل ہو جاؤ یہ گلی گندی ہے آؤ اس کو صاف کرتے ہیں.فلاں شخص لاعلم ہے چلو اس کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں، فلاں شخص بے فن ہے اس کو کوئی فن نصیب نہیں جس کی وجہ سے وہ بھوکا مر رہا ہے آؤ اس کو کوئی فن سکھائیں.یہ ساری باتیں وہ ہیں جو امر بالمعروف سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں مذہب کی تفریق سے ہرگز کوئی فرق نہیں پڑتا.تو پہلے قدر مشترک اختیار کرو پھر اکٹھاسفرشروع ہوگا قوموں کو ان کی بھلائی کی باتیں بتاؤ اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے ان کو آپ کی اعلیٰ انسانی قدروں پر یقین ہوگا ان کے دل میں یہ بات جاگزیں ہو جائے گی کہ اچھا انسان ہے، اچھی باتیں سوچتا ہے لوگوں کی بھلائی میں دلچسپی لیتا ہے، یہاں کوئی بحث نہیں چلے گی نہ کسی بحث کی ضرورت ہے.کوئی مقابل پر آپ کو گالی نہیں دے گا کوئی مخالفت نہیں کرے گا کوئی یہ نہیں کہے گا کہ جاؤ جاؤ اپنی اچھی باتوں کو اپنے گھر رکھو.اگر کوئی کہے گا تو وہ سر پھرا ہی ہوگا.لیکن عام انسانی تاثر یہی ہے کہ جب اچھی بات آپ کسی کو کہتے ہیں اگر وہ نہیں بھی کر سکتا تو شرمندگی سے سر جھکالے گا لیکن بنیادی طور پر آپ کی نیکی کا اس کے دل پر ضرور اثر پڑے گا.پھر آپ معاشرے کی برائیاں دور کرنے میں نہ صرف لفظاً کوشش کریں بلکہ مقدور بھر کوشش کریں گے.مثلاً دنیا میں Drug کے عادی ہیں، چوری عام ہورہی ہے اور کئی قسم کی بدیاں ہورہی ہیں جو معاشرے میں ناسور بن چکی ہیں ان سب کے سلسلے میں جب آپ بات کرتے ہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے تو اس سے تعلق رکھنے والی ایک بات ایسی ہے جو کبھی اس سے جدا نہیں ہو سکتی.جو نصیحت کرے کہ فلاں بات نہیں کرنی چاہئے اگر وہ اس میں ہو تو وہ شخص ناصح نہیں بلکہ منافق بن جاتا ہے اور اس کا کبھی نیک اثر نہیں پڑتا اس لئے نھی عن المنکر میں بھی اور امر بالمعروف میں بھی یہ دونوں باتیں شامل ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے امت محمدیہ! میں تمہیں ایساد یکھنا چاہتا ہوں کہ تم زبان سے جو کچھ کہو تمہارا کر دار اس کا گواہ بن جائے تم جب بھلائی کی باتیں بیان کرو تو بھلائی تم میں پائی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 719 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء جائے جب تم بد باتوں سے روکو تو ان باتوں سے تم خود پاک ہو چکے ہو، یہ مضمون اس میں شامل ہے.پس اس پہلو سے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جماعت احمدیہ کی اصلاح کے لئے بہت ضروری ہے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جی ہم میں کمزوریاں ہیں ہم کیسے لوگوں کو نصیحت کر سکتے ہیں؟ قرآن کریم نے ان کا منہ بند کر دیا ہے نصیحت کا حکم دے ہی دیا ہے جیسے بھی ہو نصیحت ضرور کرنی ہے.جب نصیحت کرو گے تو تمہارا نفس آپ ہی تمہیں پکڑے گا.ہر روز شرمندگی اٹھانی پڑے گی جب علیحدہ بیٹھو گے تو سوچو گے میں یہ باتیں کہہ کے آیا ہوں مجھ میں تو یہ نہیں ہیں اور اندر اندر تمہارا نفس ندامت اور شرم سے کٹنا شروع ہو جائے گا بسا اوقات تم پانی پانی ہو رہے ہو گے لیکن مجبور ہو خدا نے تمہیں دوسرا رستہ ہی نہیں دیا حکم دے دیا ہے کہ تم نے ضرور امـــربــــالــمـعـروف کرتا ہے پس جوامر بالمعروف غیروں کی جانب ہے وہ اندر کی طرف بھی ایک رخ رکھتا ہے اور وہ لوگ جو دل کے بچے ہوں اگر ان میں بعض خوبیاں نہ بھی ہوں تو امر بالمعروف کے نتیجے میں ان خوبیوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور رفتہ رفتہ انسان وہ خوبیاں اپنانے کا اہل ہوتا چلا جائے گا.بدیوں سے روکنے والا شخص اگر اس میں کچھ شرافت اور حیا باقی ہو تو جب رو کے گا اس کا دل کئی گنازیادہ طاقت سے اس کو روک رہا ہوگا.اس کا ضمیر اس کو ملامت کر رہا ہو گا کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا ضمیر پھر ایسا طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے کہ ان کی راتوں کی نیند حرام کر دیتا ہے وہ بے چینی سے لکھتے ہیں کہ ہم میں فلاں برائی ہے جو جاتی نہیں فلاں کمزوری ہے جو ٹتی نہیں فلاں خوبی ہم اپنا نا چاہتے ہیں کوشش کر رہے ہیں لیکن نہیں اپنا سکتے یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک طبعی نتیجہ ہے اور اس معاملے میں خدا نے آپ کو کوئی آزادی نہیں دی.ہر مسلمان کے لئے حکم ہے کہ اس نے ضرور امر بالمعروف کرتا ہے اور ضرور نھی عن المنکر کرنی ہے اور دوسری طرف یہ شرط لگادی ہے کہ جو تم کہتے ہو ایسا کیا بھی کرو.اب بتائیں کہ جائے کہاں کوئی ؟ دونوں طاقتوں کے بیچ میں ایسا پھنسا ہے کہ قرآن کریم نے کوئی جائے فرار باقی نہیں چھوڑی.ایک طرف یہ آواز ہے کہ امر بالمعروف کرو نهی عن المنکر کرو اور دوسری طرف آواز آرہی ہے کہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف :۳۰۴) کیوں ایسی باتیں کہتے ہو جو کرتے نہیں.اللہ کے نزدیک وہ باتیں کہنا جو تم کرتے نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 720 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء بڑا گناہ ہے.اب بتائیں کوئی بے چارہ مومن جائے تو کہاں جائے سوائے اس کے کہ سیدھا ہو جائے اور درمیان کی راہ پر چل پڑے اسی کا نام صراط مستقیم ہے.دونوں طرف خدا نے پہرے بٹھارکھے ہیں اور وہ بیچ کی راہ پر گامزن ہونے پر مسلمان کو مجبور کر دیتا ہے پس دیکھیں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا یہ ایک مزید فائدہ کیسا ہمیں حاصل ہوا.وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ ان معنوں میں ایمان بعد میں آئے گا کہ جب یہ باتیں ہوں تو پھر حقیقت میں ایمان نصیب ہوتا ہے.ایمان سے یہ باتیں نصیب ہوئی ہیں اور ایمان ہو تو ان باتوں میں جلا پیدا ہوتی ہے، ان باتوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے لیکن ایک اور فائدہ بھی تو ہے کہ جب آپ یہ باتیں کرتے ہیں تب آپ کو سمجھ آتی ہے کہ ایمان ہوتا کیا ہے تب ایمان کی ایک نئی حلاوت آپ کو نصیب ہوتی ہے.ایسا امر بالمعروف کرنے والا جو خود نیکیوں پر قائم ہو ایسا بدیوں سے روکنے والا جوخود بدیوں سے عاری ہو وہ حقیقت میں ایمان کی لذت پاتا ہے اور ایمان کی حلاوت اسے ہی نصیب ہوتی ہے.وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ فرمایا اہل کتاب کو کیا پتا کہ نیکی ہوتی کیا ہے؟ جب تک ایمان نہ لائیں ان کو نیکی نہیں مل سکتی ان کو نیکی کا مزہ نہیں آسکتا.پس دونوں باتوں کو لازم وملزوم کر دیا ایک طرف نیکی کے نتیجے میں ترقی یافتہ ایمان کی حالت عطا ہوتی ہے دوسری طرف ایمان سے خالی نیکیاں کرنے والوں کو بتایا جارہا ہے کہ تمہیں پتا ہی نہیں کہ نیکی ہوتی کیا ہے ایمان لاؤ گے تو نیکی کا پتا چلے گا.یہ وہ نصیحت ہے جس کا آخری نکتہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایمان ہے اور ایمان کی طرف بلانا ہے کیونکہ خَيْرَ أُمَّةٍ کہنے کے بعد ایمان لانے والوں کے متعلق يرًا لَّهُمْ فرما دیا.وہی لفظ خیر ہے جو دونوں جگہ استعمال ہوا ہے.پس اس پہلو سے میں جماعت کو بار بار نصیحت کر رہا ہوں کہ دعوت الی اللہ کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں.اس ضمن میں کچھ پہلے باتیں کہہ چکا ہوں وہ آج یاد دہانی کے لئے دہرانا چاہتا ہوں میں نے جلسے کے دنوں میں یہ اعلان کیا تھا کہ پہلے تین مہینے تربیت پر خاص زور دیں یعنی جو نئے آنے والے ہیں ان کو سنبھا لیں ان کو تعلیم دیں، ان کی تربیت کریں ، ان کو اعلیٰ اخلاق کے مضامین سمجھائیں اور ان پر عمل پیرا کرنے میں ان کی مدد کریں.یہ وہ حصہ ہے جو اس دور سے تعلق رکھتا ہے جس میں اب میں خطبہ دے رہا ہوں ابھی تین
خطبات طاہر جلد ۱۲ 721 خطبہ جمعہ ۷ارستمبر ۱۹۹۳ء مہینے نہیں ہوئے جلسے پر میں نے بات کی تھی اکتوبر کے آخر تک اس تربیتی دور کا وقت ہے اور ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے اور جہاں تک میں جماعت کی رپورٹوں سے اندازہ لگا رہا ہوں میرے خیال میں بہت سی جماعتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی.ایک طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری تبلیغی کوششوں کو پھل لگنے کی ہوا ایسی شان کے ساتھ چل پڑی ہے کہ کوششوں کا کہنا تو یونہی تکلف ہے.پھل ویسے ہی تیار ہوئے پڑے ہیں.اب تو درخت ہلا کر پھل اکٹھے کرنے والی بات رہ گئی ہے اور دوسری طرف تربیت کے تقاضے پورا کرنے کی جو ذمہ داری بڑھ رہی ہے میں سمجھتا ہوں ابھی ہم اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے.بس بہت ہی اہم بات ہے کہ جو پھل اللہ تعالیٰ عطا فرمارہا ہے اسے سنبھالیں جو بھی احمدی ہوتا ہے امیر کا کام ہے کہ جائزہ لے کہ وہ کسی کے سپر د ہوا بھی ہے کہ نہیں، کوئی اس سے مستقل تعلق رکھ بھی رہا ہے کہ نہیں، کوئی نظر ڈال بھی رہا ہے کہ نہیں کہ احمدی ہونے کے بعد کہیں کھسکنا تو نہیں شروع ہو گیا یعنی غیروں کے اثر اور ان کے دباؤ کے نیچے یا معاشرے کی دوسری کشش کے نتیجے میں اس نے آہستہ آہستہ واپسی کا سفر تو نہیں کرلیا، یہ ہو جایا کرتا ہے مگر آپ کو اس ضمن میں ہوشیار ہونا پڑے گا اگر نگرانی رکھیں اور ہوشیار رہیں.ہر نئے احمدی پر نظر ہو، پتا ہو کہ کوئی پیار کرنے والا ، کوئی محبت کرنے والا ، کوئی اچھی نصیحت کرنے والا ، کوئی نیک اعمال والا شخص یا خاندان ان کی نگرانی کر رہا ہے، ان کو جذب کر رہا ہے تو پھر یہ اطمینان ہوگا کہ ہاں یہ کام صحیح خطوط پر چل پڑا ہے لیکن جس کثرت سے خدا کے فضل سے احمدی ہورہے ہیں اسی کثرت سے جو تربیت کے تقاضے ہیں میں سمجھتا ہوں اس میں ابھی کمی ہے.اسی لئے ساری دنیا کی جماعتوں کو میں اچھی طرح یاد دلاتا ہوں اور آئندہ پھر بھی یاد دلاتا رہوں گا کہ پہلے ان کو سنبھالیں اور ان کو سنبھالنے کی ایک ترکیب یہ ہے کہ ان کو مبلغ بنادیں جس طرح آپ جب دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں تو آپ کا نفس آپ کو نصیحت کرتا ہے اسی طرح جو نیا ایمان لانے والا ہے جب وہ دوسرے ساتھیوں کو ایمان کا پیغام پہنچاتا ہے تو وہی پیغام اس کے اندر بھی مل رہا ہوتا ہے وہ اس کو پہلے سے بڑھ کر تقویت دے رہا ہوتا ہے، جب غیر اس کے مقابل پر دلائل لاتا ہے تو وہ خود ڈھونڈتا ہے کہ جو مذہب میں نے اختیار کیا ہے اس کی تائید میں دلائل کیا ہیں اور اس طرح اس کا نفس تربیت شروع کر دیتا ہے.بارہا میں نے آپ کو توجہ دلائی ہے کہ باہر کا مربی بھی اچھا ہے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 722 خطبہ جمعہ ۷ارستمبر ۱۹۹۳ء جب نفس کے اندر مربی پیدا ہو جائے تو اس کی کوئی مثال نہیں.پس ہر نفس میں مذکر بھی ہونا چاہئے اور مز کی بھی نصیحت کرنے والا بھی ہونا چاہئے اور پاک کرنے والا بھی.پس آپ اپنے تجربے سے جانتے ہیں اور یقین پر قائم ہیں کہ جب آپ دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں تو آپ در حقیقت اپنے آپ کو نصیحت کر رہے ہوتے ہیں.پس اس ترکیب کو نئے آنے والوں پر استعمال کریں ان کو توجہ دلائیں کہ ہمیں اور اپنے جیسے احمدی لا کر دو ایک آئے ہو تو تم دس لے کے آؤ ان کو تبلیغ میں جھونک دیں جوں جوں وہ تبلیغ کریں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا ایمان ہی ترقی نہیں کرے گا ان کا علم بھی ترقی کرے گا اور تزکیہ نفس ہوتا چلا جائے گا ان کو غیر آپ کی طرف دھکیلیں گے بجائے اس کے کہ مرکز سے ان کا سفر باہر کی طرف ہو باہر سے مرکزیت کی طرف سفر شروع ہو جائے گا کیونکہ مبلغ کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مخالفت باہر کی طرف سے دھکیل کراندر کی طرف لے کے جاتی ہے.پس وہ آپ سے زیادہ گہرا تعلق رکھنے پر مجبور ہوں گے بار بار آپ کے پاس آئیں گے، آپ سے مسائل کا حل پوچھیں گے اور اپنی تکلیفوں کا ذکر کریں گے اور اس پر جو صبر کی طاقت نصیب ہوئی ہے وہ ان کے اندر ایک نئی طاقت عطا کرے گی کیونکہ صبر سے انسان کو بڑی طاقت نصیب ہوتی ہے.پس ایک طریق یہ ہے کہ ہر نئے آنے والے احمدی کو آپ پیار سے اپنے ساتھ چمٹا کر پھر بھیجیں کہ جاؤ تبلیغ کرو.صلى الله یہ اس سے ملتا جلتا مضمون ہے جو حضرت ابراہیم کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْلى ( البقرہ:۲۶۱)اے میرے اللہ ! مجھے دکھا تو سہی کہ تو مردے کیسے زندہ کرتا ہے مراد یہ تھی کہ حضرت ابراہیم“ کو یہ فرمایا گیا تھا کہ تو نے ساری دنیا کو زندگی عطا کرنی ہے اور یہ پیشگوئی اس بات میں شامل تھی کہ آنحضرت ﷺہ جنہوں نے سب دنیا کو زندہ کرنا ہے آپ کی نسل میں آپ کی دعاؤں سے پیدا ہوں گے.اپنے ماحول میں ، اپنے گردو پیش میں ہر جگہ آپ کو موت دکھائی دے رہی تھی.عرض کیا کہ اے خدا ایمان تو میں لایا ہوں کہ تو ضرور ایسا کرے گا لیکن دکھائی نہیں دے رہا.کچھ میری طمانیت کا بھی تو انتظام کر، مجھے بھی تو اطمینان نصیب ہو کہ ہاں اس طرح ہوگا اور ایسے ہوا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چار پرندے پکڑو فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ان کو اپنے ساتھ مائل کر لو، اپنے قریب لے آؤ ، اپنے ساتھ مانوس کردو یہاں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 723 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء تک کہ تمہارا پیار ان کے دل میں پیدا ہو جائے پھر ان کو چار سمتوں میں مختلف پہاڑیوں پر چھوڑ دو پھر ان کو آواز دو، دیکھو کس طرح وہ لپکتے ہوئے اڑتے ہوئے تمہاری طرف آتے ہیں.تو سعید روحوں کو بلانے کے لئے یہی ڈھنگ ہے کہ پہلے آپ ان کو سینے سے لگائیں اور پھر ان کو تبلیغ پر مامور کر دیں، جتنا تبلیغ کریں گے اتنا ہی وہ آپ کے زیادہ قریب ہوتے چلے جائیں گے چاروں سمت دنیا میں پھیل جائیں گے اور زندگی کا وہی پیغام دوسروں کو عطا کرنے لگ جائیں گے وہ زندگی جو آپ کی وساطت سے ان کو عطا ہوئی ہے وہ غیروں کو عطا کریں گے اور رہیں گے ہمیشہ آپ کے غیر کے نہیں ہوں گے.کیسا عظیم نکتہ ہے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ چاروں سمت میں پھیل جانے والے وجود تمہارے ہی رہیں گے غیروں کے نہیں ہو سکیں گے کیونکہ وہ تم سے زندگی پا کر لوگوں کو زندگی دینے کے لئے تو نکلے ہیں.یہ مضمون اس لئے اس میں شامل ہے کہ سوال ہی یہی تھا رَبِّ اَرِنِى كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سوال گندم اور جواب جو اللہ تعالیٰ ہے جواب دینے والا اس کے جواب میں لازماً سوال پیش نظر رہتا ہے.پس سوال تو یہ ہے کہ زندہ کیسے کرتا ہے؟ خدا فرماتا ہے پرندے پکڑو اپنے ساتھ مانوس کرو اوران کو بھجوا دو.کس لئے بھجواؤ ؟ زندگی کا پیغام پہنچانے کے لئے اور پھر جو تم سے زندگی پائیں گے وہ زندہ رہیں گے، موت سے ٹکرائیں گے لیکن موت ان پر غالب نہیں آئے گی اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تم ان کو پکارو گے تو اڑتے ہوئے تمہاری طرف چلے آئیں گے.پس ایسے پیغامبر دنیا میں بھیجو جن کے ساتھ تمہارا پیار تمہارا تعلق ان کے ایمان کو تقویت عطا کر چکا ہو ان کے ایمان کو مستقل بنا چکا ہو پھر ان سے تبلیغ کا کام لو پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ ہر طرف زندگی عطا کرتا ہے اور مردوں میں سے زندگی نکالتا ہے.یہ جو سلسلہ ہے یہ بڑے زور اور بڑی شان کے ساتھ افریقہ میں ظاہر ہو چکا ہے ، چل پڑا ہے، تیز قدموں کے ساتھ آگے روانہ ہو چکا ہے اور دن بدن اس کی رفتار میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور وسعت اثر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.یورپ کو میں نے متوجہ کیا تھا کہ تم کیا انتظار کر رہے ہو، تم بھی آگے بڑھو، یہ بھی تو آخر انسان ہیں، یہ بھی تو زندگی کے پیاسے ہیں ، زندگی کے محتاج ہیں.امـــــر بالمعروف کا ان کا بھی تو حق ہے، نھی عن المنکر کے یہ بھی تو ضرورتمند ہیں لیکن کم لوگوں نے توجہ دی ہے مگر جنہوں نے توجہ دی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثابت ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 724 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء تقاضا کر رہی ہے، اب حالات بدل چکے ہیں ، اب انکار کے زمانے ماضی کا حصہ بن رہے ہیں،اب مستقبل ہمیں یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ دل آمادہ ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر بڑی شان سے صادق آ رہا ہے کہ.آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار (درین صفحہ ۱۳۰) میرا یوسف یعنی اسلام کی سچائی کا سورج طلوع ہورہا ہے مجھے اس کی خوشبو آرہی ہے.تم چاہے دیوانہ کہو ان اندھیروں میں خواہ تمہیں روشنی کی رمق دکھائی نہ دے مگر میں دیکھ رہا ہوں اور میں یوسف کے بدن کی خوشبو پار ہا ہوں.یہ دور آچکا ہے اب حال ہی میں جرمنی میں جو جلسہ ہوا اس سے ایک مہینہ پہلے میں نے جرمن احمدیوں کو بیدار کیا اور متوجہ کیا میں نے کہا میں نے تم سے ایک مہینے کے اندراندر ایک ہزار یورپین احمدی مسلمان لینے ہیں اس پر وہ لوگ مجھے لکھ رہے تھے کہ آپ نے تو ہماری بنیادیں ہلا دیں.ایک مہینے میں ایک ہزار؟ گزشتہ دس سال میں بھی ہزار نہیں ہوئے گزشتہ سو سال میں بھی ہزار جرمن یا یوروپین باشندے مسلمان نہیں ہوئے تو انہوں نے کہا آپ کیا باتیں کر رہے ہیں لیکن ایک یقین تھا چنانچہ خصوصیت سے بعضوں نے کہا کہ جب ہم نے جلسہ سالانہ UK پر پہلی عالمی بیعت دیکھی تھی تو ایک بات کا یقین ہو گیا تھا کہ اللہ تعالی جب آپ کے دل میں تحریک ڈالتا ہے تو خود ہی پورا کر دیتا ہے اس لئے اس یقین کے ساتھ ہم میدان میں کود پڑے اور ان کو ہزار کہہ کر میرے دل میں یہ حرص اور بڑھ گئی.میں نے کہا اللہ میاں! ہزار تو میں نے کہا ہے لیکن چودہ صدیاں ہوگئیں ہیں اسلام کو، چودہ سو یوروپین تو دے دے تا کہ ہم یہ کہیں کہ ہر صدی کا ایک سو ملا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سولہ سو دے دیئے.اب یہ عجیب بات ہوئی ہے.سارے جرمن احمدی حیران پریشان بیٹھے ہیں کہ یہ ہو کیا گیا ہے.جس کو ہم انہونی بات کہتے تھے وہ آنکھوں کے سامنے ہوگئی اور ہم نے دیکھ لیا.تو میں یہ آپ کو بتا رہا ہوں کہ آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار خدا کی قسم ! مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، وہ دن بدن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 725 خطبہ جمعہ ۷ ارستمبر ۱۹۹۳ء قریب آ رہا ہے آپ اس طرف بڑھیں اس کے استقبال کی تیاری کریں اور جس طرح میں نے کہا ہے اپنا جو کچھ ہے ہمت سے اس میدان میں جھونک دیں.بیلی یہ انگلستان کی جماعت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے لیکن سب دنیا کی جماعتوں کے لئے چیلنج ہے، انگلستان کو میں نے اس لئے پہلے مخاطب کیا ہے کہ آپ میرے سامنے بیٹھے ہیں اور آپ کے سامنے ایک پوروپین ملک کی مثال ہے لیکن مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ اگر انگلستان بیدار نہ ہوا تو تحکیم بھی ان کو پیچھے چھوڑ جائے گا کیونکہ حجیم والوں سے جتنی میں نے توقع رکھی تھی اس سے دگنے سے زیادہ تو ابھی تک وہ بنا چکے ہیں اب جلسے سے پہلے جب ان کو ایک ٹارگٹ دیا گیا تو وہ اللہ تعالی کے فضل سے انہوں نے پورا کیا اور اس سے زائد کیا.جلسے کے کچھ دن کے بعد اب میں تحکیم گیا ہوں تو اتنے ہی اور احمدی بنا چکے تھے یہ کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں میں ان سے ملا ہوں ، ملاقاتوں پر آئے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور سمجھدار اور ہوشیار لوگ خوب اچھی طرح سمجھ کے ہوئے ہیں اور بڑے نیک ارادے رکھتے ہیں، عزم صمیم کئے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے اپنے دائرے میں اب ضر و ر احمدیت کو پھیلائیں گے.پھر دونئے ملک ان کو عطا ہوئے دونئی قوموں کے لوگ ان کو ملے ایک مقدونیہ (Macedonia) کا جوڑا تھا جہاں میرا خیال تھا کہ پہلے کوئی نہیں لیکن جرمنی میں جا کے پتہ چلا کہ میسے ڈونیا کے وہاں بھی خدا کے فضل سے احمدی ہوئے ہیں.پھر یوگوسلاویہ کی ایک اور ریاست مانٹینیگر (Maonetenegor) کا ایک خاندان بھی وہاں احمدی ہوا ہے.اب یہ دو جگہیں ایسی ہیں جہاں اس سے پہلے ہماری پہنچ نہیں تھی لیکن ان سے جب میں ملا ہوں تو میں بے حد متاثر ہوا.بڑے عظیم ارادے رکھتے ہیں انہوں نے مجھے سے مل کر کہا کہ آپ اب فکر نہ کریں اب ہماری قوم ہماری ذمہ داری ہے ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں ہم دعائیں کر رہے ہیں آپ بھی ہمارے لئے دعائیں کریں انشاء اللہ واپس جا کر ہم نے بڑی تیزی سے اپنی قوم میں پیغام پھیلانا ہے.تو یہ ہوا ئیں کسی انسان کے بس میں تو نہیں کہ وہ چلائے یہ تقدیر الہی ہے جو ہوا چلا رہی ہے اس ہوا کے رخ پر چلنے کے لئے آپ سے کہہ رہا ہوں ہوا کے مخالف چلنے کے لئے تو نہیں کہہ رہا.پاکستان میں کیسے شدید حالات آپ نے دیکھے ہیں دن بدن علماء اور بعض دوسرے علماء
خطبات طاہر جلد ۱۲ 726 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء جیسے جہلاء کی جماعت سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور عناد جو ہے وہ قابو میں نہیں آرہا لیکن خدا تعالیٰ کے پیار کی ہوائیں عوام کے دل بدل رہی ہیں، ان کے خیالات کی رو میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے جو ٹارگٹ پاکستان کو دئے گئے تھے ان کی میں تفصیل نہیں بتا تا کیونکہ مولوی اس سے بہت تکلیف اٹھا ئیں گے، بہت آزار پھیلے گا ہم تو پا کے دکھ آرام دو والوں میں سے ہیں اس لئے اس پر پردہ ہی رہنے دیا جائے تو اچھا ہے ورنہ بہت عذاب میں مبتلا ہوں گے ان کے لئے عَذَابٌ أَلِيمٌ (البقرہ:۱۱) بن جائے گا کہ ان حالات میں جبکہ حکومت نے اور مولویوں نے مل کر ساری کوششیں کرلیں کہ لوگ احمدیت کو چھوڑ کر مرتد ہو جائیں لیکن خدا کے فضل سے جوق در جوق لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.پس خدا کی چلائی ہوئی ہوائیں ہیں ان کو روک کوئی نہیں سکتا.زور لگا کر دیکھ لیا اور لگا کر دیکھ لیں ان کی ہر کوشش ناکام اور نامراد ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہوائیں چل رہی ہیں یہ جھکڑ بن رہی ہیں یہ بڑے بڑے تو اناؤں کو اکھیڑ پھینکیں گی ان کے قدم اکھیر دیں گی.یہ تو ایسی ہوائیں ہیں جو اگر شہروں کے خلاف چلیں تو شہروں کو ملیا میٹ کر دیتی ہیں.کسی کا اختیار کیا ہے کسی کی طاقت کیا ہے آپ کو ان ہواؤں کے رخ پر چلنے کے لئے میں بلا رہا ہوں، ان کے ساتھ ساتھ چلیں.اور ان سے مزید طاقت پائیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ انقلاب جس کو آپ پہلے دور دیکھا کرتے تھے وہ کس تیزی سے آپ کی طرف بڑھتا ہے.پس وہ سب مجالس جو آج کسی نہ کسی رنگ میں اجتماع میں شامل ہورہی ہیں ان کو میرا یہی پیغام ہے کہ خَيْرَ أُمَّةٍ بن کر دکھا ئیں خَيْرَ أُمَّةٍ کی تعریف یہ ہے کہ وہ نیک کاموں کی طرف لوگوں کو بلائیں اور جب نیک کاموں کی طرف بلائیں تو خود نیک کام کریں بدیوں سے دنیا کو روکیں اور جب بدیوں سے دنیا کو روکیں تو خود بدیوں سے رکنے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ رفتہ رفتہ سب بدیاں اپنی ذات سے نوچ نوچ کر باہر پھینک دیں.پھر وہ اس لائق ہو جائیں گے کہ ایمان کی تعلیم دیں.جو انسان نیکی پر قائم ہو جائے اور بدیوں سے پاک ہور ہا ہو سچا ایمان تو اسی کو نصیب ہوتا ہے اور وہی ہے جو ایمان کی طرف بلانے کی اہلیت اختیار کر جاتا ہے.دیکھیں قرآن کریم کی آیات میں کس طرح تطابق ہے ، کتنے گہرے رشتے ہیں فرماتا ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 727 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۹۳ء إلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ( حم السجدہ: ۳۴) یہی مضمون ہے جو یہاں بیان ہو رہا ہے خدا کی طرف بلانے والے سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اس سے زیادہ حسین بلاوا اور کس کی طرف ہوسکتا ہے مگر وہی بلا واحسین ہوگا جہاں بلانے والے کا عمل اس کی تائید کرتا ہوں عمل بھی اچھا ہو.یہاں بلاوے کو بعد میں رکھا ہے عمل کو پہلے رکھا ہے فرمایا امر بالمعروف کرو، اچھے کام کرو، بدیوں سے روکو،خود بدیوں سے رک جاؤ پھر ایمان لاؤ اور پھر دنیا کو یہ پیغام دو کہ کاش تم ایمان لے آتے تو تمہارے لئے بہتر ہوتا.آؤ اور ایمان والوں میں شامل ہو جاؤ.پس اس کام کو فضیلت دیں ؟ اولیت دیں.تین مہینوں میں جو عرصہ باقی ہے اس میں نو مبائعین کو اپنے سینے سے لگائیں ان کو پیار دیں ، ان کو حضرت ابراہیم کی طرح اپنے ایمان کی گرمی سے زندہ کریں اور طاقت بخشیں اور پھر ان کو آمادہ کریں کہ وہ دنیا میں نکل جائیں ان کو بتائیں کہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ بچی زندگی پانے والوں کو موت سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا جو روحانی طور پر زندگی پا جاتے ہیں وہ چاہے شمال میں جائیں یا جنوب میں جائیں مشرق میں جائیں یا مغرب میں جائیں وہ غالب بن کر جاتے ہیں غالب بن کر رہتے ہیں.وہ موت سے ڈرتے نہیں ہیں بلکہ مردوں کو زندہ کرنے والے بن جاتے ہیں.پھر ایسے لوگوں کو بار بار اپنی طرف واپس بلا ؤ اور ان کو پھر پیار دو تا کہ ان کے اندر مزید تقویت ہو اور تمہارا ایمان بھی مزید طاقت پائے یہ سلسلہ جاری کرو تو دیکھو دیکھتے دیکھتے کس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا کا جو قبرستان ہے یہ زندگی کی آماجگاہ بن جائے گا.آپ قبرستان میں کب تک اکیلے جئیں گے.وہ کام کر کے دکھائیں جو خدا کے انبیاء کرتے ہیں صدیوں کے مردے قبریں پھاڑ پھاڑ کر باہر نکلتے ہیں اور الہی رنگ اختیار کرتے جاتے ہیں.پس خدا کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ہو.تمام دنیا میں خصوصیت سے اجتماع والوں کو بالعموم ساری جماعت کو یہی میری نصیحت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
728 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 729 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء تمہارا اصل اور حقیقی جوڑا خدا تعالیٰ کی ذات ہے بس اسی کی طرف دوڑو اور اس میں پناہ ڈھونڈو.(خطبه جمعه فرموده ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں:.مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ (الذريات :۵۲۵۰) پھر فرمایا:.آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا بھر میں جماعت کی مختلف تنظیموں کے اجتماعات یا تربیتی جلسے ہورہے ہیں اور دن بدن جماعتوں میں یہ شوق بڑھتا جا رہا ہے کہ ان کے جلسوں اور ان کے مختلف اجتماعات کا ذکر بھی خطبہ کے ذریعہ ساری دنیا کی جماعتوں تک پہنچے اور اس طرح ان کو ان تقریبات میں سب دنیا کی دعائیں میسر آئیں تو کچھ اجتماع کل سے شروع ہیں، کچھ آج سے، کچھ کل سے شروع ہوں گے جو اجتماعات کل سے شروع ہو چکے ہیں اور آج جمعہ کے بعد ختم ہونے ہیں ان میں سے مجلس انصار اللہ ضلع گجرات کا سالانہ اجتماع ہے، خدام الاحمدیہ ٹیکسلا ہے، خدام الاحمدیہ ضلع ساہیوال ہے.خدام الاحمدیہ ضلع خانیوال اور فیصل آباد کی دارالذکر کی مجلس ہے.وہ مقامات جہاں آج سے یہ دینی اجتماعات شروع ہورہے ہیں ان میں مجلس خدام الاحمدیہ جاپان ہے.لجنہ اماءاللہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 730 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء جاپان اور جماعت احمد یہ تنزانیہ کا سالانہ جلسہ ہورہا ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کا ایک روزہ اجتماع ہے اور مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع کراچی کا اجتماع ہے، اسی طرح خدام الاحمدیہ بیوت الحمدر بوہ نے بھی درخواست کی ہے کہ ہمیں بھی یادر کھا جائے.وہ مقامات جہاں کل سے اجتماعات شروع ہو رہے ہیں ان میں جماعت احمد یہ سری لنکا، مجلس انصار اللہ سوئٹزر لینڈ.یہ ان کا دوسرا سالانہ اجتماع ہے.لجنہ اماءاللہ کینیا اور لجنہ اماءاللہ ضلع بدین کا پہلا سالانہ اجتماع ہے.اسی طرح مجلس انصار اللہ ربوہ کا بھی ۲۵ ستمبر سے سالانہ اجتماع شروع ہورہا ہے لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ لاہور کے اجتماعات ۳۰ ستمبر کو ہوں گے، اس سے پہلے کا جمعہ چونکہ آج ہی بنتا ہے.یہ اجتماع اگلے جمعہ سے پہلے ہو جائے گا اس لئے ان کو بھی اپنی دعا میں شامل رکھیں.جہاں تک پیغامات کا تعلق ہے ان سب اجتماعات کے لئے کوئی الگ پیغامات تو اب بھیجنے ممکن نہیں ہیں اور ویسے بھی اب اس کثرت سے اجتماعات منعقد ہورہے ہیں کہ ناممکن ہے کہ ہر اجتماع کے لئے الگ الگ پیغام بھیجے جائیں.خطبہ جمعہ ساری جماعت کے لئے پیغام ہوتا ہے اور تمام ذیلی تنظیمیں اس میں شامل ہوتی ہیں.پہلے خطبات کی نصیحتوں پر عمل کر لیں اور نصیحتیں ختم ہو چکی ہوں تو پھر آپ کا حق ہے کہ اور مانگیں لیکن پہلی ختم نہ ہوئی ہوں اور مزید کے مطالبے شروع ہوں، یہ درست نہیں ہے اس لئے ہر جمعہ کا خطبہ آپ سب کے لئے جنہوں نے پیغام کا مطالبہ کیا ہے اور ساری دنیا کی جماعت کے لئے قدر واحد کے طور پر ایک پیغام ہو جاتا ہے اور اسی کو اپنا پیغام سمجھیں.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا دنیا سے بھاگ کر اللہ کی طرف جانے سے تعلق ہے، اس سے پہلے خطبات کا جو سلسلہ شروع تھا اس میں توحید کا مضمون بیان ہورہا تھا کہ تو حید کس کو کہتے ہیں اور جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ توحید کا اس طرح حق ادا کرو جیسا کہ توحید کا حق ادا کرنے کا حق ہوا کرتا ہے، اس شان کے ساتھ تو حید پر قائم ہو.اس کے بعد دوسری نصیحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تبتل میں بھی ویسا ہی رنگ اختیار کرو تبتل کا مطلب ہوتا ہے ایک چیز سے کٹ کر الگ ہو جانا.اس تنے سے کلیہ جدائی بتل - بنل اور تبتل یہ عربی کے ماضی کے صیغے ہیں.ان کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 731 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء مطلب ایک ہی ہے بگل اور قبل میں ذرا شدت پائی جاتی ہے.مضمون وہی ہے کسی کو کاٹ دیا کسی کو کاٹ کر الگ کر دیا.جدا کر دیا اور تبتل کا مطلب ہوتا ہے خود کٹ کر الگ ہو جانا.عربی لغات میں تَبَيَّلَ کو خالصہ اللہ کے لئے ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم سے یہ حوالہ ملا ہے اس لئے لغات بھی اس کو یہی بیان کرتی ہیں کہ تبتل سے مراد غیر اللہ سے کٹ کر یا دنیا سے کٹ کر خالصہ اللہ کا ہو جانا ہے.جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس پڑھا تو مجھے کچھ تعجب ہوا کیونکہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ تبتل پہلے ہوتا ہے اور توحید کے ساتھ تعلق و وابستگی تنبل کے بعد قائم ہوتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی گہری حکمت کی وجہ سے تو حید کو پہلے رکھا ہے اور تبتل کو بعد میں رکھا ہے.بعد میں جوں جوں میں نے غور کیا مجھے یہ بات پوری طرح سمجھ بھی آتی گئی اور پورے یقین کے ساتھ دل میں گڑتی چلی گئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تر تیب بدلی ہے یہ آپ کے عارف باللہ ہونے کا ایک عظیم نشان ہے اور اس مضمون پر جتنا گہرا غور کریں اتنا ہی یہ بات کھلتی چلی جاتی ہے کہ اصل تبتل یعنی غیر اللہ سے کٹنا خدا کے وجود سے پیوند کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ہوسکتا.محض ایک خلا کے لئے کوئی چیز چھلانگ نہیں مارا کرتی جب تک دوسری طرف کوئی ایسا قدم تھا منے کی جگہ دکھائی نہ دے جس پر پاؤں رکھ کر چھلی طرف سے پاؤں اٹھایا جا سکے کوئی معقول آدمی وہ قدم نہیں اٹھا سکتا.اسی لئے جب زمیندار پیوند کرتے ہیں تو ایک شاخ کو اپنی اصل شاخ سے کچھ دیر جڑارہنے دیتے ہیں اور دوسری سے جوڑ دیتے ہیں.جب وہ یہ دیکھ لیتے ہیں کہ دوسری شاخ سے اس کا پیوند پختہ ہو گیا ہے تو پھر پہلی سے کاٹ دیتے ہیں.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ترتیب کو اسی حکمت کے پیش نظر بدلا اور ہمیں یہ سمجھایا کہ تمہیں سچا تبتل نصیب ہو ہی نہیں سکتا.جب تک خدائے واحد و یگانہ سے پہلے سچا پیار نہ ہو.وہ تعلق قائم ہوگا تو تنبل کی توفیق ملے گی ورنہ تبتل محض ایک نام کا تبتل رہے گا.پس انہی معنوں سے تعلق میں، میں نے وہ آیات کریمہ آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں جو سورۃ الذاریات سے لی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ وَ جَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں تا کہ تم نصیحت پکڑو.جوڑے پیدا کرنے کا تعلق ایک کی دوسرے سے وابستگی میں مضمر ہے ایک جوڑے کو جوڑا بھی کہا جاتا ہے جب ایک کا دوسرے سے تعلق ہو اور آپس میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 732 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء مناسبت پائی جاتی ہو اور ایک طبعی فطری جوڑ دکھائی دے اس کے بغیر کسی چیز کو جوڑ اقرار نہیں دیا جاسکتا تو فرمایا کہ اس پر غور کرو ہم نے جو ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں، یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر تمہیں گہرا تفکر کرنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے.یہ تنبیہ کرنے کے بعد ہم جو بات کرنے لگے ہیں وہ گہرے غور کی بات ہے.فرماتا ہے فَفِر وا اِلَى اللهِ ، پس اللہ کی طرف دوڑو.الله اب تعجب کی بات ہے کہ دنیا میں جوڑے پیدا کئے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ کی طرف کیوں دوڑیں.تعجب کے اس مقام کو حل کرنے کے لئے ذہن کو بیدار فرمایا یہ کہہ کر کہ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ یعنی جو بات ہم کہہ رہے ہیں یہ بہت گہری حکمت کی بات ہے.غور کرو گے تو سمجھ آئے گی جس طرح دنیا میں جوڑے ہیں اسی طرح روح کے لئے ایک جوڑا ہے جو اللہ ہے اس کے سوا اور کوئی جوڑا نہیں اگر تم دنیا میں پر کتے رہو گے اور دنیا میں اس روح کے لئے تعلق کا ایک جوڑا تلاش کرو گے تو تمہیں کچھ نصیب نہیں ہوگا اور تمہارے حصہ میں ناکامی اور نامرادی لکھی جائے گی کیونکہ روح کو بالآخر خدا سے تعلق باندھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے پس فرمایا کہ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ تمہاری روحوں کا حقیقی جوڑا تو اللہ ہے اس کی طرف دوڑو.إِنِّي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ میں تمہیں اس کی طرف سے کھل کھلا ڈرا رہا ہوں یعنی آنحضرت ﷺ کو ارشاد ہے کہ یہ اعلان کر دو کہ تمہیں ڈرا رہا ہوں، باقی سب جوڑے دھو کے کے جوڑے ہیں ان میں کچھ بھی حقیقت نہیں.اپنی روح کوان سے پیوستہ کر دو گے تو تمہارا نقصان کا سودا ہوگا.پس خدا کی طرف بلانے کے لئے ڈرانے کا مضمون بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور یہی تبتل ہے.فرار کا تعلق بھی خوف سے ہے فرمایا کہ باقی چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے تعلق رکھو گے تو مقام خوف ہے، مارے جاؤ گے.پس اس مضمون کو سمجھ کر اس کی طرف دوڑو جو حقیقت میں تمہارا آخری اور ابدی جوڑا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے فرمایا.وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللهِ الْهَا أَخَرَ.الا معبود کے لئے بھی آتا ہے اور ہر اس ذات کے لئے بھی جس سے انسان کو فطری تعلق پیدا ہو جائے اور وہ تعلق اتنا بڑھ جائے کہ دوسرے تعلقات پر غالب آ جائے.پس اس مضمون پر سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ ہم دنیا میں جو دوسرے تعلق رکھتے ہیں کیا یہ اس آیت کے منافی تو نہیں کہ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ کیا یہ اس آیت کی نافرمانی میں تو ایسا نہیں کرتے کہ ہم تمہیں اللہ سے ڈرا رہے ہیں.اصل میں تمہارا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 733 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء آخری جوڑ ا اللہ ہی ہے اس کی طرف دوڑ وفرمایا.وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللهِ اِلَهَا أَخَرَ مراد یہ ہے کہ اللہ کی محبت پر کسی اور کی محبت کو غالب نہ رہنے دینا وہی اصل ہے اس کے بعد جتنے تعلقات ہیں وہ ثانوی ہو جاتے ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں رہتی اور پہچان یہ ہے کہ جب اس تعلق سے وہ تعلق ٹکراتے ہیں تو وہ ٹوٹتے ہیں اور یہ تعلق قائم رہتا ہے اس کے سامنے سر جھکاؤ اور کسی اور کے سامنے سر نہ جھکاؤ.اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کسی کی اطاعت نہ کرو اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ماں باپ کی بھی اطاعت کرو، اولوالامر کی بھی اطاعت، بہت سی اور بھی اطاعتوں کے حکم ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں جس کو امیر مقرر کرتا ہوں اس کی اطاعت کرو، اگر اس کی اطاعت نہیں کرو گے (مسلم کتاب الامارہ حدیث نمبر :۳۴۱۶) تو میری بھی نہیں کرو گے تو سر جھکانے کے مختلف مفاہیم ہیں، مختلف مضمون ہیں.ان مضامین اور ان مفہوموں میں ہم لوگ ایک دوسرے کے سامنے سر جھکاتے ہیں مگر اس سر جھکانے کے وقت ہماری نیتیں ہمیں کیا بتا رہی ہوتی ہیں.یہ امر ہے جو دراصل یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم نے کسی اور کو اپنا معبود بنایا ہے کہ نہیں بنایا.اللہ تعالیٰ کی خاطر سر جھکاتے ہیں یا اس پہلو سے یقین کے ساتھ ہم کسی کی اطاعت کر رہے ہیں کہ یہ دنیا کی عزت کے رشتے ہیں اور انسان ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور ہے مگر جب یہ اطاعت خدا تعالیٰ سے ٹکرائے گی تو پھر اس اطاعت کے کوئی معنی نہیں رہیں گے.اسی طرح محبت کی باتیں ہیں.ایک انسان کو اپنے ماں باپ سے بھی پیار ہے ، اپنے بچوں سے بھی پیار ہے ، اپنے دوستوں سے بھی پیار ہے، بیوی سے بھی پیار ہے.یہ سب پیارا پنی ذات میں اس آیت کے مضمون کے منافی نہیں ہیں کہ ہم نے ہر چیز کا ایک جوڑا پیدا کیا ہے.لیکن تمہارا اصل حقیقی جوڑا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.فَفِرُّوا اِلَى اللهِ پس اللہ کی طرف دوڑ و، جب تک خدا کا تعلق ان سب تعلقات پر غالب رہتا ہے اس وقت تک یہ منافی نہیں ہیں یعنی اگر خدا کا تعلق ایک طرف ہو اور بیوی کی محبت دوسری طرف تو خدا کا تعلق قائم رہے اور بیوی کی محبت ٹوٹ جائے یا اس پہلو سے مغلوب ہو جائے.بچوں کا تعلق جب خدا کے تعلق سے ٹکرائے تو بچوں کے تعلق چور ہو جائیں لیکن خدا کا تعلق قائم رہے.اسی طرح یہ موازنہ زندگی کے ہر تعلق کے وقت اپنا سراٹھاتا ہے اور ہمارا امتحان لیتا ہے.ہر موازنہ کے وقت ہماری توحید آزمائی جاتی ہے اور ہما را فرار الى الله آزمایا جاتا ہے.اس وقت فَفِرُّوا اِلَی اللہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ایک بے چینی کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 734 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء کیفیت ہوگی یعنی ایک دوسرا معنی اس فرار کے لفظ میں پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم کسی تعلق والے سے اس لئے منہ موڑ رہے ہیں کہ خدا کا تعلق یہی تقاضا کر رہا ہے.اس وقت یقیناً حالت اضطراب ہوتی ہے اور اضطراب کے وقت انسان کسی پناہ کو ڈھونڈتا ہے کسی سکون کی جگہ تلاش کرتا ہے.فرمایا.فَفِرُّوا الی اللہ جس کی خاطر تم نے یہ تعلق تو ڑا ہے یا اس تعلق پر خدا کو ترجیح دی ہے تمہیں امن بھی اس کی ذات میں نصیب ہو گا اور وہیں تمہیں سکینت قلب میسر آئے گی پس دوڑ کر اس سکینت کے مقام کی طرف آؤ.پس ہر آزمائش کے وقت خدا کی طرف حرکت میں ایک تیزی پیدا ہو جاتی ہے.ہر خوف سے بچنے کے لئے انسان خدا کی طرف پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑتا ہے.پس یہ مضمون ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر لو تو پھر ہر طرف سے ایک فرار کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو لامتناہی ہوگا.مختلف وقتوں میں مختلف تعلقات میں تم آزمائے جاؤ گے اور وہ جو حقیقتا اللہ تعالیٰ کا عرفان رکھتا ہے، اس کی توحید کا قائل ہے، اس کو ایک ہی جائے فرار دکھائی دے گی اور کوئی جائے فرار نہیں ہوگی اس کے برعکس جو اللہ سے بھاگتے ہیں ان کوشش جہات میں ہر طرف فرار کی راہیں دکھائی دیتی ہیں، ہر غیر اللہ جہاں جہاں بھی ہو گا وہ خدا سے بھاگ کر امن کی جگہ دکھائی دیتا ہے لیکن ہر جگہ اس کو سراب پاتا ہے اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں دیکھتا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر اس پر غالب آجاتی ہے اور اس کی سزا کا وقت آجاتا ہے.پس یہ تبتل الی اللہ کا مضمون ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو حید کے بعد رکھا کیونکہ تو حید کا عرفان نہ ہو اور اس سے گہرا تعلق نہ ہو تو خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف بھاگنے کا مضمون پیدا ہی نہیں ہوتا.انسان تو خوف کے مقام سے امن کے مقام کی طرف بھاگتا ہے.جب امن کے مقام کا پتا ہی نہ ہو کہ ہے کون سا تو اس وقت تک اس کی طرف بھاگ نہیں سکتا اور امن کے مقام کا جب ہر دوسرے مقام سے موازنہ ہورہا ہے تو ہر دوسرے مقام سے انسان خدا کی طرف بھاگے گا یقینی طور پر اور قطعی طور پر اس کے علم میں یہ جائے امن ہمیشہ اس کے پیش نظر رہنی چاہئے.لوگ بعض دفعہ کسی خاص خطرے کے وقت خاص جگہ کو اپنے امن کے لئے مقرر کر لیا کرتے ہیں.جنگیں ہوتی ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ تم زیر زمین کوئی پناہ گاہ کھو د لو اور اس کو مضبوط کر لو اور اس میں ضرورت کی چیزیں اکٹھی کر لو اور یا درکھو کہ اس کے رستے پتا کر لو کہ کون سے ہیں.جب خوف کا الارم بجے گا تو تمہیں دوڑ کر وہاں جانا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 735 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء ہے.اسی طرح جب جہازوں وغیرہ میں آپ سفر کرتے ہیں تو آپ کو بتایا جاتا ہے، مختلف وقتوں میں اعلانات ہوتے ہیں کہ خطرہ ہو تو مقام امن کیا ہے.کس طرف ہے، کون سے رستے سے آپ وہاں پہنچیں گے.سمندری جہازوں میں بھی یہ چیزیں لکھی جاتی ہیں، تو دیکھیں قرآن کریم کا اعلان کتنا عظیم الشان ہے.فرمایا ہر دوسری چیز سے خطرہ ہے.تم خطرے کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہو.تمہیں بارہا یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے دوڑنا ہے.ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اے محمد ﷺ تو اعلان کر دے کہ اِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ.میں اس کی طرف سے یہ انذار کرنے کے لئے مقرر فرمایا گیا ہوں جس طرح مقر ر لوگ تمام مسافروں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں سنو یہ بڑا ضروری اعلان ہے.غور سے سن لو اور اپنی امن کی جگہوں کو اچھی طرح پہچان لو.پس یہ اتنا عظیم الشان اعلان ہے کہ خوف سے بچنے کا اس سے بہتر اعلان کبھی اس شان کے ساتھ دنیا میں نہیں کیا گیا اور زَوْجَيْنِ کے مضمون کو بیان کرنے کے بعد جو یہ اعلان ہے اس نے بتادیا کہ ہر دوسرے تعلق سے خوف ہے اور اس میں گہری حکمت کا راز ہے.ہر تعلق یقیناً مقام خوف ہے، وہ تعلق کئی طرح سے اپنے اندر خوف رکھتا ہے.توقعات بڑی ہوتی ہیں وہ ٹوٹ جاتی ہیں، تو قعات فرضی ہوتی ہیں، ان میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، دوسرے تعلقات کے نتیجہ میں تعلقات بگڑ جاتے ہیں ، بے وفائیاں ہیں جو رستے میں حائل ہوتی ہیں ، قضا و قدر کے عوامل ہیں جو ان تعلقات کو تو ڑ لیتے ہیں اور انسان کا کچھ نہیں رہتا پس اگر کسی ایک تعلق سے ایسی وابستگی ہو کہ گویا وہی آخری تعلق ہے تو ایسے انسان کے مقدر میں نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں رہتا، بعض ماؤں کو بچوں سے تعلق ہوتا ہے اور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ بچے مر جائیں تو پاگل ہونے لگتی ہیں بعضوں کے اوپر تو ایسی آزمائش آتی ہے کہ ایک ہی بچہ ہے اور وہ مرجاتا ہے لیکن اس میں تو حید پر قائم ماں اور شرک کی طرف مائل ماں کے رد عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.میں نے خود ایسی مائیں دیکھی ہیں جن کا ایک ہی بچہ مر گیا لیکن ان کو اللہ تعالی کی طرف سے عجیب حوصلہ عطا ہوا ہے.فَفِرُّوا اِلَی اللہ انہوں نے ضرور کیا ہے، دنیا سے تعلق کم ضرور ہوا ہے.دنیا کے تعلق ان کو بے حقیقت دکھائی دیئے اور زیادہ خدا کی طرف مائل ہو گئیں ، زیادہ دعا گو، زیادہ تہجد گزار بن گئیں اور ہمہ تن ذکر الہی میں مصروف رہنے لگیں لیکن بے چینی اور بے قراری جس طرح شرک کی طرف مائل عورتوں میں ہوتی ہے وہ ان میں نہیں پائی گئی.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 736 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء اب شرک کی طرف مائل ہونا بھی ایک درجہ بدرجہ مضمون ہے یہ مراد تو نہیں ہے کہ ہر ماں اپنے بچے کے غم میں پاگل ہو رہی ہو تو وہ ضرور مشرک ہے.بعض دفعہ وقتی طور پر ایک غم دبا لیتا ہے لیکن پھر ایسی مائیں جلدی سنبھل جاتی ہیں لیکن بعض ہیں جو ہمیشہ ہمیش کے لئے روگ لگا بیٹھتی ہیں اور ان کے لئے کچھ رہتا ہی نہیں، تو مراد یہ ہے کہ ان کی جائے فرار تو وہ بچہ تھا جو ان کا اصل زوج تھا، وہ نہ رہا تو کوئی جائے فرار نہ رہی لیکن یہ آیت ہمیں بتا رہی ہے کہ ہر ایسے موقع پر جب غیروں سے تعلق ٹوٹیں گے خواہ ان کی طرف سے ٹوٹیں یا حادثات کے نتیجہ میں ٹوٹیں یا تمہاری غلط امنگوں اور وابستگیوں اور توقعات کے نتیجہ میں ٹوٹیں تو یا درکھو کہ مومن کے لئے ہمیشہ ایک ہی جائے پناہ ہے اور وہ اللہ ہے.فَفِرُّوا اِلَی الله پس اللہ کی طرف دوڑو.پس تبتل کے مضمون کی ہر تفصیل اس آیت کریمہ میں بیان ہوگئی اور بنیادی نکتہ یہی ہے کہ امن کی جگہ کا علم نہ ہو، اس سے تعلق نہ ہو، یہ یقین نہ ہو کہ یہاں ضرور امن نصیب ہوگا تو پھر فرار کا مضمون پیدا ہی نہیں ہوتا.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر سے میں نے جو ترتیب بدلی ہوئی دیکھی تو ابتداء میں اپنی جہالت کی وجہ سے کچھ تعجب ہوا لیکن جتنا میں نے اس مضمون پر غور کیا میں حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا.عجیب عرفان ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص شان ہے کہ انبیاء کو ایسا عرفان نصیب ہوتا ہے اور اس کے بغیر یہ باتیں قلم سے نکل نہیں سکتیں ، زبان پر جاری نہیں ہوسکتیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو عزت اور وقار کی نظر سے دیکھو اور غور سے اس کا مطالعہ کرو تو پتا چلے گا کہ قرآن کریم اور احادیث کے عظیم الشان عرفان کے سمندر ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کے کوزوں میں بند ہیں.اسی ضمن میں آنحضرت مہ کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں آنحضور ﷺ نے دوسرے شعراء تعليم کو بہت کم پسند فرمایا ہے اور ان کے شعر پر کوئی داد دی ہے.کئی ایسے خوش نصیب شعراء ضرور ہیں جن کے قصائد پر آنحضرت میکو نے خوشنودی کا اظہار فرمایا ایک ایسا قصیدہ قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ آنحضور ﷺ نے اس شاعر کو اپنی چادر انعام کے طور پر عطا فرما دی تھی.اس کے علاوہ ایک ایسا شعر ہے جس کے متعلق آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جتنے بھی شعر کہنے والے ہیں ان میں سے کسی شاعر نے کبھی اس سے زیادہ سچی بات نہیں کی.یہ داد بے اختیار آپ کے دل سے اٹھی ہے وہ شعر لبید
خطبات طاہر جلد ۱۲ کا ہے لبید کہتا ہے.737 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء اَلَا كُلَّ شَيْءٍ مَّا خَلَا اللَّهَ بِاطِل (بخاری کتاب المناقب:۳۵۵۳) خبر دار ! غور سے سن لو! اللہ کے سوا ہر دوسری چیز باطل ہے ایک ہی حق ہے خدا سے آنحضرت ﷺ کے عشق کے نتیجہ میں یہ شعر ایسا دل پر لگا ہے کہ بے اختیار دل سے داد اٹھی ہے.واہ واہ کیا کلام ہے کہ کبھی کسی شاعر نے اس سے زیادہ سچی بات نہیں کی اللہ کے سوا ہر چیز کا باطل ہو جانا، یہی بات آپ کو فرار کی طرف مائل کرتی ہے ایک ہی وجود رہ جائے گا.باقی کچھ نہیں رہے گا ایک مستقبل میں بھی اس کے معنی ہیں، سب تعلق بے کار چلے جائیں گے کوئی ساتھ نہیں دے گا صرف ایک اللہ کا تعلق ہے جس کے ساتھ بیشگی کا سفر ہے، اس کی طرف دوڑو، جس سواری پر چڑھ کر آپ نجات کا سفر اختیار کر سکتے ہیں جبکہ خطرہ ہو کہ سیلاب آنے والا ہے ، جب کہ خطرہ ہو کہ جنگلی درندے وہاں اس علاقہ میں راہ پانے والے ہیں، جبکہ خطرہ ہو کہ ڈاکو آئیں گے یا فوج کشی ہوگی ، تو ان سب حالات میں وہ سواری جو امن کے مقام کی طرف لے جاتی ہے وہی ایک سواری ہے جس کا ذکر اس شعر میں ملتا ہے.اَلَا كُلَّ شَيْءٍ مَّا خَلَا اللَّهَ بِاطِلٌ خبر دار ! خدا کے سوا ہر دوسری چیز باطل ہے.الله یہ چونکہ ایک گہرا عارفانہ مضمون تھا اس لئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اس پر ایسی داد دی جیسی داد کبھی کسی شاعر کو نہیں دی گئی اور بڑا ہی خوش نصیب ہے لبید کہ سب سے زیادہ عارف باللہ نے اس کو داد دی ہے اور ایسی بات ہوئی ہے کہ جس کی کوئی مثال آپ کو دنیا میں دکھائی نہیں دے گی، ہو سکتا ہے کہ دوسرے انبیاء نے بھی بعض شعراء کو داد دی ہو مگر رسول اکرم سے بڑھ کر صاحب عرفان اور صاحب ذوق انسان متصور ہی نہیں ہوسکتا.یہ دونوں باتیں قطعی ہیں اللہ کا جیسا عرفان آنحضرت مالیہ کو نصیب ہوا یہ آپ کے فرار الی اللہ سے ثابت اور بالکل ظاہر وباہر ہے اور جس کے ذوق نے خدا کو محبت کے لئے چن لیا ہو اس سے بہتر ذوق ہو ہی نہیں سکتا تو سب سے زیادہ عارف باللہ اور سب سے زیادہ صاحب ذوق انسان جس پر وہ کلام نازل ہوا جس سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام اور کوئی نہیں تھا جس کو خود کلام پر وہ قدرت نصیب ہوئی کہ تمام اہل علم پکار اٹھے کہ رسول اکرم افصَحُ الْعَرَبِ بعد کتاب اللہ ہیں کہ کتاب اللہ کے بعد سب سے زیادہ فصیح و بلیغ انسان حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ تھے.اس کے باوجود آپ نے لبیڈ کو اس کے ایک شعر پر داد دی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 738 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء ہے.میں نے تو جب یہ پڑھا تو میں اس بات پر سر دھنے لگا کہ کیا شان ہے لبید کی بخ بخ لبید محمد رسول اللہ اللہ سے داد پا رہا ہے لیکن یہ شعر ہے ہی ایسا.کیسا پیارا کلام ہے! الا كلَّ شَيْءٍ مَّا خَلَا اللَّهَ بِاطِلٌ میں احادیث کی طرف، پھر دوبارہ انشاءاللہ واپس آؤں گا ان سے پہلے اس ضمن میں چند اور آیات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن میں یہی مضمون مختلف طرح سے بدل بدل کر پیش کیا گیا ہے کبھی ایک پہلو سے کبھی دوسرے پہلو سے اور اس مضمون پر اگر چہ بہت سی اور آیات بھی ہیں لیکن چونکہ اس کو ایک دو خطبات میں سمیٹنے کا میرا ارادہ تھا اس لئے سارا مواد نہیں بلکہ چند آیات نمونے کی لی گئی ہیں.فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيْهِ أَ فَأَمَّا مَنْ أوتِيَ كِتُبَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا وَيَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُورًاتٌ وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتُبَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ فَسَوْفَ يَدْعُوا تُبُورًا وَيَصْلَى سَعِيرًات (الانشقاق : ۷-۱۳) اس کی پہلی آیت ہے جو خصوصیت سے پیش نظر ہے.باقی اس کے نتائج ہیں جو بعد کی دیگر آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں.فرمایا: يَايُّهَا الْإِنْسَانُ اے انسان! إِنَّكَ كَادِ إلى رَبِّكَ كَدْحًا تو پوری کوشش اور زور لگا کر جدوجہد کے ساتھ اپنے رب کی طرف جانے والا ہے فَمُلقِیهِ.پس خوشخبری ہو کہ تو ضرور اسے مل جائے گا.اس آیت کا اللہ تعالیٰ کے مختلف بندوں پر مختلف رنگ میں اطلاق ہوتا ہے جہاں تک حضرت محمد اقدس مصطفی ﷺ کا تعلق ہے اول اطلاق آنحضور ﷺ کی ذات پر ہے اور اس کے معنی دوسرے انسانوں پر اطلاق کے معنوں کے مقابل پر بہت ہی زیادہ رفیع الشان ہیں.یعنی یہی آیت ادنی انسان پر بھی اطلاق پاتی ہے اور اعلی پر بھی پاتی ہے اور ایسا کلام ہے کہ ہر اطلاق کے مطابق اپنے مضمون بدلتی ہے اور ہر اطلاق کے مطابق ڈھلتی چلی جاتی ہے آنحضور ﷺ پر جب اس کا اطلاق کیا جائے جو اول مخاطب ہیں تو یہ مطلب ہے کہ اے انسان کامل! الانسان ، جو فی الحقیقت انسان کہلانے کا مستحق ہے اور تمام انسانیت کا خلاصہ اور تمام
خطبات طاہر جلد ۱۲ 739 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء انسانیت کا مرجع ہے.تمام انسانیت کی معراج ہے.اِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا تیرے لئے تو اس کے سوا ہے ہی کچھ نہیں کہ اپنی تمام تر طاقتیں ہر وہ صلاحیت جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے وہ اللہ کے لقاء کی خاطر صرف کر دے اور اسی میں اپنی ساری قوتوں کو ہلاک کر دے.کچھ بھی باقی نہ چھوڑے، تمام جان کے ساتھ ، تمام شعور کے ساتھ ، تمام ہمت کے ساتھ ، اپنے وقت کے ہر ہر لمحہ کو اللہ کے لئے وقف رکھے.یہ تیرا مقد رہے.تو نے اس کے سوا کرنا کچھ نہیں اِنک گادِ مح تو ہے ہی ایسا، یہ مطلب بنتا ہے.اس کے سوا تجھ سے کچھ ہو ہی نہیں سکتا.فَمُلقِیه پس خوشخبری ہو کہ تو وہ ہے جو ضرور اپنے رب سے ملے گا.فَمُلقِیہ میں کوئی بعد کی خوشخبری نہیں ہے بلکہ ہر آن ہر کوشش کے نتیجہ میں یہ خوشخبری ہے گا دِے اِلى رَبِّكَ كَدْحًا کا مطلب یہ ہے کہ ساری زندگی یہی جدوجہد ہے یہی تلاش ہے.یہ خوشخبری کا جو پیغام ہے اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جب تیری جد و جہد ختم ہو صلى الله جائے گی تب تو خدا سے ملے گا.آنحضرت مہ کی صورت میں جب یہ آیت آپ ﷺ پر اطلاق پاتی ہے تو مضمون یہ بن جاتا ہے کہ تیری ہر کوشش تجھے خدا سے ملائے گی.ہر لمحہ تو خدا کی ایک نئی شان دیکھے گا، نیا جلوہ تجھ پر ظاہر ہوگا.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى (الضحی : ۵) کا مضمون اس کے ساتھ مل کر ایک نئی شان میں ظاہر ہوتا ہے کہ تیری آخرت پہلے سے ان معنوں میں بہتر ہے کہ ہر لمحہ جونئی جدوجہد تو خدا کے حصول کی خاطر کرتا ہے اس کے نتیجہ میں ہر لمحہ اللہ تجھے ایک نئی شان کے ساتھ دکھائی دے گا.اس کا دوسرا اطلاق عام ہے اور وہ بھی درجہ بدرجہ ہے اس کا ادنی اطلاق یہ بنے گا کہ وہ انسان جس کا عرفان البہی نہ ہو اور اللہ کی طرف جانا چاہے اس کا یہ سفر بڑا کٹھن ہو جاتا ہے ایک ہے عرفان کے نتیجہ میں خدا کی طرف دوڑنا، اس میں بھی ایک بڑی شدید مشقت پائی جاتی ہے، مشقت ان معنوں میں کہ جیسے محبوب کی طرح دوڑنے کے لئے انسان سعی کرتا ہے اور ہر تیزی کو بھی سست روی سمجھ رہا ہوتا ہے وہ اپنی طرف سے پورا زور لگا رہا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ ابھی کچھ زور ہی نہیں لگ رہا، وہ فاصلے جیسے میں چاہتا ہوں ویسے طے نہیں ہورہے ، پس یہاں گنگا کا مطلب ہے کہ محبوب سامنے دکھائی دے رہا ہے پورے زور سے اس کی طرف بڑھ رہا ہوں لیکن جس شان ، جس تیزی کے ساتھ بڑھنا چاہتا ہوں وہ تیزی ابھی پوری نہیں ہوئی ہے پھر انسان اور زور لگا تا ہے پھر اور زور لگا تا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 740 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء ایک یہ ہے کہ جس کے سامنے ایک مبہم سا تصور ہے یقینی طور پر قطعی حالت میں اس محبوب سے ابھی نہ آشنائی ہوئی ہے نہ اس کا حسن پوری طرح جلوہ گر ہوا ہے لیکن عقیدہ یہ تسلیم کر بیٹھا ہے کہ ایک خدا ہے اور عقیدہ یہ مان چکا ہے کہ اس خدا کی طرف بڑھے بغیر میری نجات نہیں ہے.یہ سالک کے سفر کا آغاز ہے جو اس طرح ہوتا ہے پس فرمایا کہ اِنَّكَ كَادِحَ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا تجھے بڑی محنت کی ضرورت پڑے گی بڑی مشکلات سامنے آئیں گی ہر قدم جو خدا کی طرف اٹھائے گا کسی اور جانب سے پرے ہٹائے گا اور یہ ہے جو دراصل تبتل کا مضمون ہے.ایک سمت سے جب ایک قدم دوسری سمت میں اٹھتا ہے تو ہر قدم پر ایک منزل دور ہورہی ہے اور دوسری منزل قریب ہو رہی ہے.اپنے تعلقات کی ہر منزل سے خدا کی طرف کا سفر بڑا ہی مشقت کا سفر ہے.بڑی جانکاہی کی ضرورت ہے بہت محنت چاہئے بڑی قربانیاں در پیش ہیں.فرمایا کہ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ گدا اے انسان تو نے اللہ کی طرف سفر اختیار کرنا تو ہے.جس نے بھی کرنا ہے مگر یا درکھو کہ بڑا مشکل کا سفر ہے لیکن ایک چیز ہے جو تجھے سہارا دے گی اور وہ چیز خدا کا یہ یقینی وعدہ ہے کہ خواہ تم مشکل ڈال کر سفر کر و خداوعدہ کرتا ہے کہ آخر وہ تم سے ملاقات کرلے گا اور تمہاری یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی.پس تبتل کی دو انتہا ئیں اس آیت میں بیان ہو گئیں.تبتل کی ایک انتہاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے تبتل کی انتہاء ہے اس میں پیچھے سے کھینچنے والا کوئی رستہ نہیں تھا کسی اور منزل کا خیال نہیں تھا جو قدم تھام رہا تھا، کوئی ایسا محبوب وطن نہیں تھا جسے چھوڑ کر اللہ کی طرف ہجرت فرما رہے تھے.ایک ہی کشش تھی اور وہ صرف ایک اللہ کی کشش تھی اور باقی سب رستے پہلے ہی ٹوٹ چکے تھے.پس تبتل یہاں ایسا تل ہے کہ جیسے محبوب کی طرف ایک روح از خود اڑتی ہوئی چلی جاتی ہے اور غیر کے روکنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ایک تبتل وہ ہے جو ابتدائی سفر کرنے والے کا تبجکل ہے اسے ہر منزل پر دوسروں سے تعلق کاٹنے پڑتے ہیں.بندھن توڑنے پڑتے ہیں، مشکل زمین پر قدم رکھتا ہے تو پاؤں دھنستے ہیں.زمین وہیں روکتی ہے لیکن زور لگا کر آگے بڑھتا ہے.دونوں کا انجام تو وہی ہے کہ خدا ملے گا لیکن بڑا فرق ہے.کہاں وہ مضمون کہ اڑتی ہوئی روح حرکت کر رہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے میرے آقا ! میری روح تیری طرف اڑتی ہوئی چلی جارہی ہے.وہی مضمون آنحضرت ﷺ کی ذات میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 741 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء اس آیت کے اطلاق سے پیدا ہوتا ہے اور ہم جیسے عاجز انسانوں کو رستے کی مشکلات سے آگاہ کرتا ہے.فرماتا ہے کہ یہ سفر آسان کرنا ہے تو ملاقات کا خیال غالب رکھو، یہ پیش نظر رکھو کہ تم سے ایک وعدہ ہے کہ اللہ تم سے ضرور ملاقات کرلے گا اور یہاں بھی قدم قدم کا مضمون صادق آتا ہے.تمام وہ لوگ جو دنیا سے تعلق تو ڑ کر ( یعنی ان معنوں میں جن معنوں میں میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور آئندہ بھی کچھ کروں گا ) خدا کی طرف حرکت کر رہے ہوتے ہیں ان کو کچھ نہ کچھ طعمہ کے طور پر ان کی محنت کی جزاء ساتھ ساتھ مل رہی ہوتی ہے.ورنہ محض عدم تعلق سے ایک خیالی محبوب کی طرف حرکت ممکن ہی نہیں ہے.جب وہ دنیا سے تھوڑا تھوڑا تعلق توڑتے ہیں تو وہیں اللہ سے ایک قسم کی ملاقات حاصل کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پیار سے ان پر ضرور جلوہ گر ہوتا ہے اگر یہ نہ ہو تو یہ سفر ناممکن ہو جائے.پس وہ لوگ جو سالک ہیں اور آغاز سفر میں ان کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ان کی محنت کا پھل ساتھ ساتھ نہیں ملتا تو ان کی محنت درست نہیں ہے، اس میں ضرور خامیاں ہیں.ان کو غلط نہی ہے کہ وہ دنیا سے تعلق توڑ کر خدا کی طرف جارہے ہیں.کیونکہ فَمُلقِیه کا وعدہ صرف آخرت کا وعدہ نہیں بلکہ ہر کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے لقاء کے ملنے والے انعامات ہیں جو انسان کو ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور نصیب ہوتے رہتے ہیں.پس یہ آیت کریمہ تبتل کے مضمون میں ایک بہت عظیم مرتبہ رکھتی ہے اور اس کے سارے پہلوؤں کو بیان فرماتی ہے.پھر سورۃ الانعام آیت ۱۵-۱۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ أَغَيْرَ اللهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِلَى أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ) صلى الله اے محمد تو یہ اعلان کر دے کہ میں اللہ کے سوا کوئی ولی کیسے ڈھونڈوں ، اس کا سوال ہی کیا پیدا ہوتا ہے.فَاطِرِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وہی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اس کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے ہی نہیں تو کسی اور کی درگاہ کی طرف ذہن جا کیسے سکتا ہے.اس کے سوا ہے ہی کوئی نہیں.پس یہاں بھی غیر اللہ سے تعلق توڑنے سے پہلے ایک فاطر کے وجود کا تصور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 742 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء ضروری ہے جو انسان کا مددگار بنتا ہے اور ہمیں یہ آیت رستہ سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر عزیزوں سے تعلق توڑنا ہو تو اللہ تعالیٰ کی مثبت صفات پر غور کرو.اس کے نتیجہ میں غیر اللہ سے تعلق ٹوٹے گا.محض ایک خیالی چھلانگ نہیں لگائی جا سکتی.قرآن کریم نے اس سفر کو ایک اور آیت میں یوں بیان فرمایا ہے.إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (ال عمران : ۱۹۱) اہل عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور اہل عقل جوں جوں اس مضمون کو سمجھتے چلے جاتے ہیں کہ فاطر یعنی ابتداء میں پیدا کرنے والا اور خالق ،اس میں نئے تنوعات کرتے چلے جانے والا وہ ایک ہی وجود ہے تو پھر غیر اللہ سے طبیعت بہتی چلی جاتی ہے.اس سے تعلق مدھم پڑتا چلا جاتا ہے اور اس سفر کے دوران غور کے نتیجہ میں ہر غور کے بعد ان کی فطرت یہ آواز دیتی ہے کہ اے خدا! تیرے سوا اور کوئی نہیں ہے.سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (ال عمران : ۱۹۲).یہ دنیا باطل ہے.اگر تو نے ہم پر احسان نہ فرمایا تو ہمارا اس دنیا سے تعلق ایک عذاب کا تعلق بن جائے گا.یہ آگ ہی آگ ہے اگر تو نہ ہو.اس آیت کے متعلق میں پہلے بھی مختلف وقتوں میں بیان کر چکا ہوں اس لئے پوری آیت پڑھ کر تفسیر نہیں کرتا لیکن اس تعلق میں میں آپ کو یہ یاد کرا تا ہوں کہ یہ وہی مضمون ہے کہ قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَه فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ کی قدرتوں پر غور کرنے کے نتیجہ میں انسان اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے تو پھر دنیا سے تعلق ایک نیا رنگ اختیار کرتا ہے اور اس تعلق کے بڑھنے کو انسان آگ سمجھتا ہے اور اس تعلق کو باطل قرار دیتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر اس تعلق کو حقیقی بنالیا تو پھر میرا ٹھکانہ آگ کے سوا کچھ نہیں، اس کا انجام آگ کے سوا کچھ نہیں اور پھر اللہ کی طرف دوڑنے کا مضمون اس سے نکلتا ہے.پھر فرمایا وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ یہ وہ ذات ہے جو کھلاتی ہے اور اس کو کوئی چیز نہیں کھلاتی وہ مستغنی بھی ہے.اگر اس سے تعلق جوڑو گے تو ہر قسم کا رزق تمہیں عطا ہوگا.يُطْعِمُ میں صرف کھانا مراد نہیں بلکہ توانائی کی ساری قسمیں آجاتی ہیں کیونکہ طعام دراصل انسان کے لئے قوت یعنی زندہ رہنے کی طاقت مہیا کرتا ہے اور دیگر سب توانائی کھانے سے ملتی ہے.روحانی معنوں میں بھی یہاں طعام کا ذکر فرما دیا گیا.هُوَ يُطْعِمُ اس سے ہر طرح
خطبات طاہر جلد ۱۲ 743 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء کی توانائی نصیب ہوتی ہے اور تمہاری کسی توانائی کی اس کو ضرورت نہیں.اس لئے اس سے تعلق توڑو گے تو توانائی سے محروم رہ جاؤ گے اور اس کا کوئی نقصان نہیں.اس لئے یہ نہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ اپنے حرص میں اپنے کسی فائدہ کے لئے تمہیں بلاتا ہے تمہارے فائدہ کے لئے تمہیں بلاتا ہے اس لئے ایسے خدا کی طرف دوڑو جس کے بغیر تمہاری حقیقی بقاء ہو ہی نہیں سکتی.فرمایا قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آنْ أَكُونَ اَوَّلَ مَنْ أَسْلَم میں اسلام لانے والوں میں سب سے پہلا ہو جاؤں.اب یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ایک عظیم الشان انعام ہے کہ سب پہلوں سے آپ کے اسلام کو پہلے قرار دے دیا.یہاں اول زمانی نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں ملتا ہے کہ اس سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم سے فرمایا اسلِم قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرہ:۱۳۲) اے ابراہیم ! اسلام لے آ.یعنی خدا کے سپر د ہو جا، تو کہا کہ اے اللہ ! میں تو ہو چکا.میں تو پہلے سے ہو چکا ہوں.زمانے کے لحاظ سے آنحضور ﷺ سے ہزاروں برس پہلے تھے لیکن اس کے با وجود فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے.مراد یہ ہے کہ خدا کے نزدیک میں پہلا ہوں.لامتناہی زمانہ ماقبل گزر چکا ہو تب بھی اللہ جانتا ہے کہ اسلام میں مجھ سے اول اور کوئی نہیں ہے اور حکم دیا ہے تو بیان کیا ہے ورنہ شاید بیان بھی نہ فرماتے.طبیعت میں ایسا انکسار تھا کہ اپنے باطنی حسن کو مجبوری کے سوا خود کھول کر بیان نہیں فرمایا کرتے تھے.بعض باتوں کا حکم دیا گیا ہے اِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ - أَنْ أَكُونَ کے بعد پہلے اسلام نہیں لائے.اس مضمون کو اچھی طرح یاد رکھیں.یہ نہ سمجھیں کہ مراد ہے کہ جب خدا نے حکم دیا تب میں سب سے پہلے اسلام لے آیا.خدا کے حکم دینے سے پہلے جب تک یہ آیت نازل نہیں ہوئی رسول اللہ اللہ کی کیا حالت تھی اور وہ اگر بعد میں اسلام لائے تو اول ہو کیسے گئے.یہاں حکم سے مراد ہے کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تو ہی ہے اور اس کا اعلان کر.دنیا کو بتادے کہ تجھ سے بڑھ کر کوئی اسلام لانے والا نہیں ہے.وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اور مشرکین میں سے نہ ہو.آیت کے اس بقیہ حصے نے تو اس راز سے خوب پردہ اٹھا دیا کہ پہلی دفعہ کچھ کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ آپ کی حالت جاریہ کا ذکر ہے.آنحضرت یہ کس لمحہ مشرک ہوئے تھے جو یہ حکم تھا کہ مشرکوں میں سے نہ ہو.آپ پر کون سا ثانیہ ایسا گزراتھا کہ جب آپ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 744 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء ہر وقت خدا کے حضور حاضر نہیں تھے ، اسلام کی حالت میں نہیں تھے؟ تو آیت کے دوسرے حصے نے بتادیا کہ کوئی تازہ حکم نہیں ہے بلکہ آپ کی ایک جاری وساری ہمیشہ باقی رہنے والی حالت کا تعارف کروایا جارہا ہے آپ نے جیسے کبھی شرک نہیں کیا ویسے ہی ہمیشہ سے آپ مسلمان تھے اور یہاں لَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكيْنَ میں دراصل خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ اس آیت کے سب سے زیادہ مصداق کہ شرک نہیں کرنا اور اسے پورا کرنے والے محمد رسول اللہ ﷺ ہیں.ایک جگہ صلى اللهم امریعنی حکم ہے کہ یوں کرو، دوسری جگہ مناہی ہے کہ یوں نہ کرو.بظاہر دونوں ہدایات وقتی طور پر ہیں لیکن دونوں مضامین ثابت کر رہے ہیں کہ آنحضور ﷺ کی ابدی طور پر جاری وساری حالت کا نام شرک نہ کرنا اور اسلام لے آنا ہے.پس باقیوں کے لئے نمونے کے طور پر آپ کی ذات کو پیش فرمایا گیا ہے.اس سے ایک مضمون یہ بھی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے اصل میں اسی کو دیتا ہے جو اس کا مصداق ہو.ویسے تو سب کو حکم ہے مگر جو خدا کے حکم نہیں مانتے وہ خدا کی عبودیت سے باہر نکل چکے ہوتے ہیں اور حکم میں اصل مراد وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ اس پر عمل کرنے والا ہو.ان معنوں میں اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اکرم یہ کو جب خدا نے فرمایا کہ مشرکوں میں سے نہ ہو تو یہی وہ بندہ ہے جو سب سے زیادہ شرک سے نفرت کرنے والا اور شرک سے پر ہیز کرنے والا تھا.اس سے بڑھ کر یہ مناہی کسی اور ذات پر صادق نہیں آتی تھی.پس خدا نے اس کو کہنے کے لئے چنا ہے اور اس کے حوالے سے تم سب کو حکم ہے اسلام کا حکم بھی آنحضور کے حوالے سے ہے کیونکہ آپ اول ہو گئے اور اسی اقلیت میں شرک نہ کرنے کی اولیت بھی داخل ہو گئی.پس جو ان دونوں مضامین میں اول ہے اس کے پیچھے لگو.اس کی پیروی کرو، اس سے سیکھو.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمِ.تو ان سے کہہ دے کہ میں اس بات سے بہت خائف رہتا ہوں کہ اگر میں نے اللہ تعالیٰ کی معصیت کی تو ایک یوم عظیم کا عذاب بھی ہے جو سامنے کھڑا ہے.اگر آنحضرت لیلی لیلی صلى الله ہر وقت خدا سے اس بات میں خائف رہتے ہیں کہ ایک یوم عظیم کا عذاب سامنے کھڑا ہے حالانکہ ان کے متعلق اللہ یہ گواہی دے چکا ہے کہ اسلام لانے والوں میں سب سے اول ہیں.شرک نہ کرنے والوں میں سب سے اول ہیں تو باقیوں کا کیا حال ہونا چاہئے.اِنِّى لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ - کا مضمون مزید سمجھ آیا کہ آپ کو کیوں چنا ہے.خدا کی طرف سے ڈرانے کے لئے اس کو چنا گیا ہے جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 745 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے اور خدا سے ڈرنے کے نتیجہ میں خدا سے دور نہیں جارہا بلکہ خدا کی طرف آرہا ہے.پس ڈرنے کا یہ مفہوم ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے.خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا جن باتوں سے دور ہوتا ہے، جن باتوں کے نتیجہ میں تمہیں پرے پھینک دیتا ہے یا تم اس سے پرے ہٹ جاتے ہو ان باتوں سے ڈرو تو تم خدا کی طرف دوڑو گے اور یہی تقویٰ کا مضمون ہے، یہی تبتل کا مضمون ہے جس کے مختلف پہلو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ سورہ طور آیت ۴۴ میں فرماتا ہے.أَمْ لَهُمُ الهُ غَيْرُ اللهِ سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) کیا ان کے لئے اللہ کے سوا کوئی معبود ہے بھی؟ ہے کون؟ ساری کائنات خدا کے سوا خالی پڑی ہے.سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ.اللہ ان باتوں سے بہت پاک ہے جن باتوں کا وہ شرک کرتے ہیں یعنی ہر قسم کے شرک کے مضمون سے اللہ تعالیٰ منزہ ہے اور پاک ہے اور اس کا شرک ہو ہی نہیں سکتا ، اس لئے شرک محض خلا کا ہے، جہالت کا ہے، کچھ بھی نہیں ہے یونہی فرضی باتیں ہیں، اس کے سوا کوئی بھی حقیقت نہیں.سُبحن اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ.اللہ ان باتوں سے بہت بلند ہے جن باتوں میں اس کا شریک ٹھہرایا جارہا ہے.سُبْحن کا یہ مضمون تفصیل کے ساتھ اب دوسری طرح سورۃ الروم میں کھول رہا ہے.یہاں فرمایا.سبحن الله - اللہ تعالیٰ ان باتوں سے پاک ہے جن میں شریک ٹھہرایا جارہا ہے.وہ کون سی باتیں ہیں؟ ان باتوں کو یہ آیت کھولتی ہے فرمایا فَسُبِّحْنَ اللَّهِ حِيْنَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ (الروم : ۱۸) اللہ کی ذات کی پاکیزگی ، اس کی سبحانیت ، اس طرح تم پر کھلتی چلی جائے گی کہ جب تم صبح میں داخل ہو رہے ہو اور غور کرو تو صبح ہے ہی خدا کی اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو اندھیروں سے روشنی میں لانے والا ہو.جب دن کی سختیوں سے رات کے آرام میں داخل ہور ہے ہو تو اس وقت بھی تمہیں یہی دکھائی دے گا کہ اللہ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے.وَ حِيْنَ تُظهِرُونَ ) اور جب تم ظہر کے وقت قیلولہ کرتے ہو یا دھوپ کی سختی سے درختوں کے سائے میں آتے ہو یا دن کی سردی سے دو پہر کی دھوپ میں آرام پاتے ہو تو ہر حالت میں تمہیں یہ دکھائی دے گا کہ وہ جو فاطر ہے اسی کی ذات میں پناہ ہے، اسی نے پناہ کا نظام قائم فرمایا ہے، اسی کا قانون ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 746 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء جو صبح بھی جاری ہے اور شام کو بھی جاری ہے اور دو پہر کو بھی جاری ہے تو سُبحن کا مضمون بتاتا ہے کہ ان میں صرف ایک خدا ہی ہے اور خدا کے سوا کسی کا دخل ہی نہیں ہے.اب دنیا میں ایک دہر یہ سائنس دان بھی یہ کہنے پر تو بہر حال مجبور ہے کہ اس نظام کا ئنات میں کسی اور کا ہاتھ نہیں.وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا بھی نہیں لیکن اس کا جھوٹ تو بالبداہت واضح ہے لیکن یہ تو اقرار کرتے ہیں کہ کوئی اور بہر حال نہیں.آئن سٹائن نے جب اس بات پر غور کیا تو وہ ان معنوں میں ضرور خدا کا قائل ہو گیا کہ ایسا کامل نظام، کائنات میں ایسا توازن ، اتنا خوبصورت توازن خدا کے سوا ہو نہیں سکتا.پس ان خدا دانوں میں سے وہ بھی ہے جن کو دن اور رات پر غور کرنے کے نتیجہ میں خدا کے متعلق اتنا سا علم تو ضرور ہو گیا کہ اس کائنات کا ایک پیدا کرنے والا ضرور ہونا چاہئے لیکن آئن سٹائن نے یہ نہیں کہا کہ صرف پیدا کرنے والا ، وہ یہاں نہیں ٹھہرا بلکہ یہ جانتا ہے کہ اس کو Maintain کرنے والا بھی ہے کیونکہ پیدا کر کے بھول جانے والا تو اس بات کا ضامن نہیں ہے کہ آئندہ یہ نظام اسی طرح جاری ہے.پس آئن سٹائن کے اس فقرے سے مجھ پر یہ تاثر ہوا کہ اتنا صاحب عقل ضرور تھا کہ کائنات پر غور کرنے کے نتیجہ میں ایک خالق کو ہی نہیں پہچانا بلکہ ایسے خالق کو پہچانا جس کا جاری نظام میں دخل ہے اور وہ اس بات پر نگران ہے کہ یہ توازن نہ بگڑے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف تبتل کائنات پر غور کے نتیجہ میں بھی ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ غور کے نتیجہ میں تبتل نصیب ہو.جب تک فطرت سے یہ آواز بلند نہ ہو کہ ہاں اے خالق ! ہم نے تجھے پہچان گئے ، تیرے سوا کوئی نہیں.اس وقت تک خدا کی ہستی کا یہ یقین عقل کی نشاندہی کرنے والا ایک معمولی سا مضمون تو ہے یعنی یقین اس بات کی نشاندہی تو کرتا ہے کہ صاحب عقل ہے لیکن ان اولوا الباب میں داخل نہیں ہے جو پھر اگلا قدم اٹھاتے ہیں اور اس کائنات سے ہٹ کر اس کے وراء جو ہستی ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ہے اس کی طرف ان کی توجہ مائل ہوتی ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کا صاحب ایمان ہونا ضروری ہے.پس تجمل کی مختلف قسمیں ہیں.آئندہ خطبہ میں میں تبتل کے مضمون پر انشاء اللہ مزید روشنی ڈالوں گا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی احادیث کے حوالے سے ان آیات کی اور تشریحات آپ کے سامنے پیش کروں گا.اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے اس لئے اجازت چاہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 747 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء آپ اپنے نفس کے بچے مربی بن جائیں.تبتل کے حقیقی معنی اللہ کا رنگ اختیار کرنا ہے.( خطبه جمعه فرموده یکم اکتو بر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.فَاطِرُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ b مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيرُ (الشورى :۱۲) پھر فرمایا:.پیشتر اس سے کہ میں اس آیت کریمہ کے مضمون پر روشنی ڈالوں اور گزشتہ خطبہ کے تعلق میں مضمون کو آگے بڑھاؤں اجتماعات اور جلسوں سے متعلق ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں یہ رواج کیونکہ اب عام ہوتا جا رہا ہے کہ خطبوں کا آغاز اجتماعات کے ذکر سے ہو اس لئے وہ جماعتیں جواب اجتماعات منعقد کرنے والی ہیں ان کی طرف سے درخواستیں آتی رہتی ہیں اور ہم ان کو جمعہ وار مرتب کر رہے ہیں تا کہ جس حد تک ممکن ہو ان کا ذکر خیر چل پڑے تو ان کو بھی خوشی ہوگی اور وہ محسوس کریں گے کہ ہم بھی گویا اس خطبہ میں موجود ہیں اور حاضر ہیں اور سب دنیا میں ایسے اجتماعات کی تحریک بھی ہوتی رہے گی تو وقت کے لحاظ سے انشاء اللہ جب تک توفیق ہے اس وقت تک یہ ذکر چلتا رہے گا.مجلس انصار اللہ ضلع راولپنڈی اور مجالس خدام الاحمدیہ ضلع اوکاڑہ اور ضلع رحیم یار خان کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 748 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء سالانہ اجتماعات ۳۰ ستمبر سے شروع ہیں اور آج اختتام پذیر ہوں گے یعنی کل سے شروع ہو کر آج ختم ہونے والے ہیں، ضلع قصور کی تینوں ذیلی تنظیموں انصار خدام اور لجنہ کے سالانہ اجتماعات آج یکم اکتوبر کو منعقد ہورہے ہیں.جماعت احمدیہ ماریشس کا جلسہ سالانہ یکم سے تین اکتوبر تک منعقد ہورہا ہے، جماعتِ احمد یہ فرانس اپنا تیسرا جلسہ سالانہ دو تین اکتوبر کو منعقد کر رہی ہے، مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ کا سالانہ اجتماع کل دو کو شروع ہو کر تین اکتوبر تک رہے گا.لجن اماء اللہ ہندوستان کے ماہ اکتوبر میں مختلف صوبوں میں اپنے اپنے صوبائی اجتماعات منعقد ہورہے ہیں پہلے ایک مرکزی اجتماع ہوا کرتا تھا.لیکن چونکہ ملک پھیلا ہوا ہے اور بعض علاقوں میں جماعتیں بہت غریب ہیں ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ سب قادیان اکٹھی ہوسکیں.قادیان جلسہ سالانہ پر ا کٹھے ہو جاتے ہیں اور اجتماعات صوبائی صورت اختیار کر گئے ہیں کہ ہر صوبہ کا اجتماع الگ ہوتا ہے.تو صدر صاحبہ لجنہ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ نے لکھا ہے کہ ان سب اجتماعات میں ان کو دعاؤں میں یا درکھا جائے.مجلس خدام الاحمدیہ کوریا کا سالانہ اجتماع یکم اور دو اکتوبر کو منعقد ہورہا ہے.کوریا میں اللہ تعالی کے فضل سے ایک دو سال سے نئی جماعت قائم ہوئی ہے اور بعض با ہمت نو جوانوں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ ہم خود ہی اس جماعت کو قائم کریں گے اور خود ہی مشن کا انتظام کریں گے.جو عہد کر کے گئے تھے ان بے چاروں نے پہلے تو بہت خدمت کی مگر مالی حالات نے پھر اجازت نہ دی.اب ان کے بدلے کچھ اور خدام وہاں پہنچ گئے ہیں اور جاپان کی مجلس یا جماعت ہر لحاظ سے ان کی سر پرستی کرتی ہے اور ان کی مدد کرتی ہے.پس اس اجتماع میں رونق پیدا کرنے کے لئے جماعت جاپان سے بھی آٹھ خدام شرکت کے لئے کوریا تشریف لے گئے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ پیغام تو سب کے لئے پیغامِ واحد ہی ہے لیکن اس موقع پر اتنا یا دکر دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ گزشتہ عالمی بیعت کے بعد جو جلسہ.U.K پر ہوئی تھی جماعت میں تبلیغ کا ایک نیا ولولہ پیدا ہو چکا ہے اور ہر جگہ سے یہ خبر مل رہی ہے کہ وہ علاقے جو بیعت کروانے میں پیچھے رہ گئے تھے وہ بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ نئے ارادے باندھ رہے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 749 خطبہ جمعہ یکم اکتوبر۱۹۹۳ء کہ ہم بھی انشاء اللہ آئندہ سالانہ بیعت میں بھر پور حصہ لیں گے اور جہاں خدا کے فضل سے کامیابیاں ملی تھیں ان کی طرف سے بعض جگہوں سے تو یہ اطلاع مل رہی ہے کہ ہم دگنا نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ پھل حاصل کرنے کی اب کوشش کریں گے اور دو گنا کرنے کے ارادے تو عام مل رہے ہیں اس لئے ساری جماعت دعاؤں میں بھی شامل ہو اور تمام ذیلی تنظیمیں خصوصیت کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ میں بھی کام کریں اور جماعت کے اجتماعی منصوبے میں بھی ان کی مدد گار ہوں.جہاں جماعت کا اجتماعی منصوبہ چل رہا ہو وہاں ذیلی تنظیموں کا الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کوئی حق نہیں رہتا.وہاں ہر ذیلی تنظیم کاممبر خواہ عورت ہو ، مرد ہو، بچہ ہو وہ جماعت کی مجموعی حیثیت میں شامل ہوکر فردِ جماعت کے طور پر کام کرتا ہے اور جہاں نظام جماعت اجازت دیتا ہے کہ اپنے دائرہ میں کچھ اچھے کام الگ کرو تا کہ خصوصی جوش اور خصوصی توجہ کے ساتھ ایک خاص حلقے میں کام آگے بڑھے تو وہاں یہ بہت ہی مستحسن بات ہے.پس عمومی نظام جماعت کا احترام کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار کے اندر جہاں تک آپ کو اجازت اور توفیق ہے آپ بھی اس کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ جب ہم پھل کی بات کرتے ہیں تو پھل تو آسمان سے ملتا ہے زمین پر کوشش ہوتی ہے.پس آپ کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی جب تک آپ غیر معمولی طور پر دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالے سے اس کا فضل نہ مانگیں.آسمان ہی سے پانی اترتا ہے خواہ وہ زمین ہی سے اٹھتا ہولیکن صاف شفاف حالت میں بخارات کی صورت میں چڑھتا ہے اور زمین کے گند چھوڑ جاتا ہے، یہی حال دعاؤں کا ہے وہ دعائیں ہی ہیں جو آسمان کا پانی بن کر اترا کرتی ہیں اور وہی دعائیں مقبول ہوتی ہیں جو انسان کی دنیوی آلودگی سے پاک ہو کر خالصہ اللہ بخارات کی شکل میں اٹھتی ہیں اور وہی ہیں جو آسمان سے اللہ کی رحمتوں کا پانی بن کر برستا ہے اور اسی سے پھل لگتے ہیں.پس ضروری ہوا کہ ہم کوششیں تو بہر حال کریں لیکن پھلوں کی توقع اللہ سے رکھیں اور ایسی دعائیں کریں جو آسمان پر مقبول ٹھہریں اور ہم پر اللہ کے فضل بن کر برسیں.پس آپ سب کے لئے یہ پیغام واحد ہے.اب میں اس مضمون کی طرف واپس آتا ہوں جو گزشتہ جمعہ میں چل رہا تھا.میں نے اس آیت کی تلاوت کے بعد کہ وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ وَ جَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو.فَفِرُّوا إِلَى اللهِ نصیحت کیا ہے؟ فِرُّوا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 750 خطبہ جمعہ یکم اکتوبر۱۹۹۳ء إلى الله ، اللہ کی طرف دوڑو اِنّى لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِین میں تمہیں اس کی طرف کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں.وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللهِ اِلَهَا أَخَرَ (الذریت : ۵۰-۵۱) خدا کے سوا کسی اور کو معبود نہ بنانا.اِنّى لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ میں اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ڈرانے والا ہوں.یہ گزارش کی تھی کہ جوڑے تو دنیا میں بہت ہیں.خدا کے سوا ہر چیز جوڑا جوڑا ہی ہے لیکن اللہ کے ساتھ انسانی روح کا جو تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ سے آخری جوڑ ہے اسی مضمون کے تعلق سے اب میں نے ایک ایسی آیت کی تلاوت کی ہے جو اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے اور ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتی ہے.جوڑے کے مضمون میں خدا تعالے کی طرف دوڑنے سے کسی کو یہ وہم پیدا ہوسکتا ہے کہ نعوذ باللہ، اللہ ہمارا جوڑا ہے خدا سے جوڑ ہونا اور بات ہے لیکن خدا کا جوڑا ہونا بالکل اور بات ہے چنانچہ یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ جوڑے کا مضمون بیان کر کے اس وہم کو دور فرماتی ہے کہ خدا کا بھی کوئی جوڑا ہو سکتا ہے فرمایا فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وه زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا اس نے تمہارے جوڑے تم ہی میں سے پیدا کئے ہیں.جوڑوں کا مضمون ایک ہی قسم کے نفوس سے باہم تعلق کو چاہتا ہے جب نفوس ایک ذات سے تعلق رکھتے ہوں تو جوڑے بن سکتے ہیں ورنہ کوئی جوڑا نہیں بن سکتا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالے دوسری جگہ فرماتا ہے کہ آتى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ (الانعام:۱۰۲) که خدا کا بیٹا ہو کیسے سکتا ہے وَ لَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ اس کی کوئی صاحبہ نہیں ہے پس جہاں بیٹے کا مفہوم ہوگا وہاں صاحبہ کا مفہوم بھی آجائے گا، جہاں جوڑے کا مفہوم ہو گا وہاں مذکر اور مؤنث کا مضمون بھی ذہن میں آجاتا ہے.ایک جوڑے کی ایک قسم اور ایک جوڑے کی دوسری قسم ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے نفوس میں سے تمہیں جوڑے بنایا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ، تا کہ وہ تمہاری پرورش کا انتظام کرے، تمہاری نشو ونما کا انتظام کرے.بیج سے جس طرح ان صفات کی پرورش ہوتی ہے جن کو پیج لئے ہوئے ہوتا ہے اور اس نوع کے پودوں کی نشو ونما ہوتی ہے جس سے وہ بیج بنتا ہے جہاں تک خدا کی ذات کا تعلق ہے فرمایا لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ ، اس جیسی کوئی چیز نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس جیسی کوئی چیز نہیں تو پھر خدا فر وا اِلَی اللہ کا حکم کیوں دیتا ہے اور دوسری جگہ اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 751 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء مضمون کو اور آگے بڑھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ۳۱) کہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے.الناس کو پیدا فرمایا ہے ایک طرف یہ بیان کہ خدا جیسا کوئی نہیں اور دوسری طرف یہ بیان کہ خدا نے اپنی فطرت پر سب کو پیدا کیا ہے.اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے بعض احادیث بھی آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن میں بنیادی طور پر یہ تضاد دور کر دینا چاہتا ہوں جو بعض ذہنوں میں خلش پیدا کر سکتا ہے کہ یہاں کچھ کہا جا رہا ہے وہاں کچھ کہا جا رہا ہے.ایک جگہ فرمایا کہ تم سب جوڑے جوڑے ہو پس اللہ کی طرف دوڑو، حالانکہ انسان تو اپنے جوڑے کی طرف دوڑا کرتا ہے تو کیا بات ہے جب اس کا جوڑا ہی کوئی نہیں تو اس کی طرف کوئی دوڑے ہی کیوں ؟ پھر دوسری جگہ فرمایا لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ اس جیسی تو کوئی مثل نہیں جب اس جیسی مثل ہی کوئی نہیں تو غیر مثل کا اس سے جوڑ کیا ہوا؟ اور پھر فرمایا کہ فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا اللہ کی فطرت ہے اللہ کا مزاج ہے جس پر خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے.فِطْرَتَ الله “ والی جو یہ آیت ہے اس نے کئی ذہنوں میں خلش پیدا کی اور کئی ترجمہ کرنے والوں نے اس کے مختلف ترجمے کئے تا کہ اس تصور سے نجات پالیں کہ گویا خدا نے کسی کو واقعہ اپنی فطرت پر پیدا کیا اور ترجموں کی یہ کوشش عربی کے دائرے کے اندر رہی ہے، اس کے مخالف نہیں رہی یعنی عربی اجازت دیتی ہے کہ ایسے ترجمے کئے جائیں کہ جن سے یہ ظاہر نہ ہو کہ خدا کی فطرت پر انسان کو پیدا فرمایا گیا ہے بلکہ یہ ترجمہ کیا جائے کہ وہ فطرت جو اللہ نے پیدا کی ہے یعنی دنیا میں جس کو نیچر کہتے ہیں جو خدا نے پیدا فرمائی ہے اس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے.یہ ترجمہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے غلط نہیں ہے کیونکہ عربی الفاظ اس کے متحمل ہیں لیکن میں آپ کو نمایاں طور پر جو توجہ دلا نا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ترجمہ بھی درست بلکہ اوّل ہے کہ اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو پیدا فرمایا ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے.پھر لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ والا مضمون کہاں چلا گیا؟ بات یہ ہے کہ ہر خالق کی اپنی تخلیق پر ایک چھاپ ہوتی ہے اور ناممکن ہے کہ خالق کی فطرت کی چھاپ اس کی تخلیق پر نہ ہو.ایک مصور ہے وہ ایک بہت خوبصورت تصویر بناتا ہے یا بھڑی تصویر بناتا ہے جیسی بھی تصویر بناتا ہو اس مصور کا جو اندرونی مزاج ہے اس کے تصورکا منتہی کہ وہ کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 752 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء چاہتا ہے وہ سب چیزیں کسی نہ کسی نامکمل حالت میں اس کی تصویر میں ضرور ظاہر ہوتی ہیں اور اگر وہ فن میں قابل ہو تو کامل طور پر اس کی چھاپ ہو جائے گی تبھی جو ماہرین ہیں وہ قیمتی پینٹنگز کوان کی طرز سے پہچانتے ہیں.دنیا میں بڑے بڑے دھوکہ دینے والے ایسے شخص پیدا ہوئے ہیں جن کو خدا نے تصویروں کی نقل اتارنے کا فن بخشا ہے کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں ایک مقدمہ چلا تھا کہ ایک شخص نہایت چوٹی کے مصوروں کی تصویروں کی ایسا عمدہ فقل اتارتا تھا کہ کوئی عام آدمی پہچان نہیں سکتا تھا خواہ اسے اس فن سے کیسا ہی تعلق ہو وہ کافی قیمت وصول کرتا تھا وہ تصویر میں جب پکڑی گئیں تو اس پر بڑا بھاری مقدمہ چلا کہ یہ دھوکا دے کر لوگوں سے پیسے وصول کرتا ہے حالانکہ تصویر میں وہ خود بنا رہا ہے اور یہ چوٹی کے بڑے بڑے مصورجن کی تصویروں کی نقل اتاری گئی ہے ان پر یا ان تصویروں کے مالکوں پر ظلم ہے، آخر پر اس کے حق میں فیصلہ اس لئے ہوا کہ اس کے نیچے وہ اس مصور کے دستخط نہیں کرتا تھا اس کی پشت پر اپنے دستخط کیا کرتا تھا اور قیمت وہ وصول کرتا تھا جو اس اصل تصویر کی ہو ہی نہیں سکتی ، اگر اصل تصویر کی قیمت کے لگ بھگ یا برابر وصول کرتا تو پھر تو اس کا فراڈ ثابت ہو جاتا لیکن عام نقال سے زیادہ اور اصل سے کم قیمت وصول کرتا تھا.چنانچہ عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا.لیکن پہنچانا کیسے گیا ؟ اس طرح کہ جو چوٹی کے ماہرین ہیں وہ ہر مصور کا مزاج ایسا سمجھتے ہیں کہ وہ تصویر سے مصور کا مزاج پہچانتے ہیں اور ان کی نظر میں مصور کا مزاج اتنا واضح پہچانا جاتا ہے کہ وہ صاف بتا سکتے ہیں کہ یہ تصویر فلاں کے سوا اور کسی کی ہو ہی نہیں سکتی یا یہ تصویر اس کی نہیں ہو سکتی ،کسی بھی اور کی ہوگی تو یہ ایسے نامکمل مصور کا ذکر چل رہا ہے جو اپنی خواہش کو اپنی تصویر میں تمام تر پیش کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انسانی کمزوریاں لاحق ہو جاتی ہیں.ایک دفعہ میں نے ذکر کیا تھا کہ ایک مصور کو فرانس کے ایک بادشاہ نے ایک تصویر بنانے کے لئے حکم دیا جو چھت کے اوپر تصویر بنارہا تھا اس نے بہت لمبی عمر اس میں گزار دی.وہ تصویر بنی ہوئی آج تک موجود ہے اور دنیا کے عظیم شاہکاروں میں سے ہے.میں نے بھی وہ دیکھی ہے حیرت انگیز کام ہے.انسان یقین نہیں کر سکتا کہ کسی نے تقریباً ایک عمر کی محنت میں کسی بڑی جگہ پر کھڑے ہو کر جس طرح کہ مزدور اپنے کام کے لئے بناتے ہیں یوں الٹاسر اوپر اٹھا کر وہ تصویریں بنائی ہیں لیکن سب کچھ بنانے کے بعد جب اس نے ایک عمومی نظر سے اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 753 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر ۱۹۹۳ء تصویر کو دیکھا تو جو اس کی آرزو تھی وہ نہیں تھی اور اپنی ناکامی کے غم میں اسی جگہ سے چھلانگ لگا کر اس نے خود کشی کر لی تو جو کم نظر لوگ ہیں ان کو بعض دفعہ تصویریں بہت ہی خوبصورت اور اعلی دکھائی دیتی ہیں لیکن مصوّر جو صاحب فن ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے دل کی اصل تمنا ظاہر نہیں ہوئی اسی طرح شعروں کا حال ہے.بعض شعروں پر لوگ داد دے رہے ہوتے ہیں لیکن شاعر جانتا ہے کہ جومیں کہنا چاہتا تھا، کہ نہیں سکا.غالب کے متعلق آتا ہے کہ اس نے اپنے دیوان کے اتنے حصے ضائع کئے ہیں کہ اگر وہ سارے محفوظ ہوتے تو بہت ضخیم کتاب بنتی لیکن نہ صرف یہ کہ وہ ہر شعر پر بار بار محنت کرتا تھا بلکہ جو چاہتا تھا سمجھتا تھا کہ میں وہ ادا نہیں کر سکا.اس لئے جو اس نے کہا اس میں سے بہت سا حصہ اس نے ناراض ہو کر ضائع کر دیا کہ اس لائق نہیں ہے کہ دنیا کے سامنے پیش کروں.پس ہر مصور کا ایک نقش ہے جو اس کی تصویر پر چھپ جاتا ہے ہر شاعر کا ایک نقش ہے جو اس کے شعروں میں مضمون بن کر داخل ہو جاتا ہے اس شعر کی فطرت بن جاتا ہے اور وہ شاعر ہی کی فطرت ہے جو شعر کی فطرت ہوتی ہے لیکن اللہ تو صناعی میں اور اپنے مضمون کو بیان کرنے میں اور اپنی تخلیق میں درجہ کمال رکھتا ہے اس سے اوپر کا درجہ ہو نہیں سکتا ھوَ الْخَلْقُ الْعَلِيمُ (الحجر:۸۲) ہے.اس لئے یہ کہنا کہ خدا نے اپنی فطرت انسان پر نقش نہیں کی یا نہیں کر سکا یہ غلط ہے لیکن درجہ کمال تک وہ فطرت نقش ہو چکی ہو تب بھی خالق اور ہے اور مخلوق اور ہے کسی شعر کو آپ شاعر نہیں کہہ سکتے.اس جیسا ہے ہی نہیں یعنی اس جیسا ہوتے ہوئے بھی ویسا نہیں کتنی عظیم تصویر ہی کیوں نہ ہومگر اس تصویر کو آپ مصوّر نہیں کہہ سکتے.تصویر، تصویر رہے گی مصوّر، مصوّ ر ر ہے گا حالانکہ مصوّر کا اندرونہ، اس کی فطرت ، اس کا مزاج ، اس کی بلند اور نازک خیالی یہ سب چیزیں اس تصویر میں موجود ہوتی ہیں، اسی طرح شعر کا حال ہے تو خالق ہمیشہ اپنی مخلوق سے الگ رہے گا اور خالق کی مخلوق خواہ کیسے ہی درجہ تک نہ پہنچی ہو وہ خالق نہیں کہلا سکتی یا خالق کی مثل بھی نہیں کہلاسکتی.آپ کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تصویر تو فلاں مشہور مصوّر کی مثل ہے تو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ کا مضمون متضاد نہیں ہے بلکہ یہ توجہ دلا رہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو فطرت پیدا فرمائی ہے اور انسان کو جس فطرت پر پیدا فرمایا ہے وہ اس میں اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ چمک بھی اٹھے گی تب بھی وہ خالق کا شریک نہیں ہو سکتا.چنانچہ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا کی بہترین مثال حضرت اقدس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 754 خطبہ جمعہ یکم اکتوبر۱۹۹۳ء محمد رسول یہ ہیں.وہ فطرت وہ ہے جو اللہ کے نور کے ساتھ چپکی ہے اور پہلے ہی اتنی روشن تھی کہ قرآن گواہی دیتا ہے کہ اگر آسمان سے یہ نور کا شعلہ نہ بھی اتر تا تو تب بھی اس نے بھڑک اٹھنا تھا یعنی اپنی ذات میں چمک اٹھنے کے لئے تیار تھی کیونکہ بالکل شفاف تھی اور اگر شفاف تھی تو پھر اللہ کی فطرت صلى الله پر تھی اللہ کا جلوہ اس میں دکھائی دینا چاہئے تھا.پس ثبوت سے پہلے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی رہتا ہے میں اللہ کا جلوہ ان آنکھوں کو جود دیکھ سکتی تھیں نمایاں طور پر دکھائی دیتا تھا لیکن جب آسمان سے الہام کا نورا ترا ہے تو فرمایا نُورٌ عَلَى نُورٍ (النور (۳۶) ایک نور دوسرے نور میں مدغم ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نور کا اتصال ہے جو اس نے پیدا فرمایا تھا اور یہاں اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ (البقرہ:۱۵۷) کا مضمون ایک اور شان کے ساتھ صادق آتا ہے، لوگ تو مرنے کے بعد خدا کی طرف صلى الله واپس جانے کا سوچتے ہیں.آنحضور ہے اسی لمحہ خدا میں جاتے تھے جب نُورٌ عَلَى نُورِ کا مضمون آپ کے حق میں بیان فرمایا گیا لیکن خدا نہیں تھے لیسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ اللہ جیسا کوئی نہیں، اسی نور مجسم کو فرمایا کہ یہ اعلان کر دے: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ (الكيف: 1) تجھے دیکھ کر یہ تعجب میں مبتلا ہوں گے جو تجھے قریب سے جانتے ہیں وہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ خدا کا ایسا کامل مظہر اس سے پہلے کبھی دکھائی نہیں دیا.نہ سوچا جا سکتا ہے ان سب کے سامنے یہ اعلان کر کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ ان سب باتوں کے باوجود میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہی ہوں اس سے زیادہ میری کوئی حیثیت نہیں - يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ اله وَاحِدٌ ہاں ایسا بشر ہوں جس پر وحی نازل ہو رہی اور اس وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تمہارا اللہ ایک ہی ہے اور کوئی الہ نہیں.پس خدا تعالیٰ کا اپنی مثل پیدا کرنے کا سوال ہی نہیں لیکن اپنی فطرت پر پیدا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ آخری اتصال کے لئے الہی صفات حاصل کرنے کی صلاحیت بندوں میں رکھ دی ہے کیونکہ اس کے بغیر محبت کا اتصال ہو ہی نہیں سکتا.یہ وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کا آخری جوڑ ہے جس طرح ایک قطرہ سمندر میں ڈوب کر سمندر میں داخل ہو جاتا ہے مگر سمند رقطرے کا جوڑ نہیں ہے لیکن فرق یہ ہے کہ قطرہ سمندر کا مثل ضرور ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 755 خطبه جمعه یکم اکتو بر۱۹۹۳ء کہ بندہ میر امثل بھی نہیں ہے.کوئی میر امثل نہیں ہے لیکن بندے میں میں نے اپنی صفات کو اختیار کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے.پس غیر ہوتے ہوئے ،خدا جیسا نہ ہوتے ہوئے بھی وہ خدا تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.یہ معنیٰ ہے اللہ کی فطرت پر بندے کا پیدا کرنا اور ان معنوں میں جس نے ایسی عظیم صلاحیت حاصل کی کہ وہ اپنی ذات کو بالکل مٹا دیا اور کلیۂ الہی صفات میں رنگا گیا اس کو احتیاط کے طور پر دنیا کو سمجھانے کے لئے یہ اعلان کرنے پر مامور فرمایا گیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ان سب رنگوں کے باوجود جو تم مجھ میں خدا کے رنگ دیکھتے ہو میں ایک بشر ہوں، بشر سے زیادہ میری کوئی حیثیت نہیں.ہے.یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے اپنی فطرت پر انسان کو پیدا نہ کیا ہوتا تو انسان کے لئے خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا کوئی سوال باقی نہ رہتا.محبت کے لئے کچھ ایسی اقدار کی ضرورت ہوتی ہے جو دونوں میں مشترک ہوں.اقدار کے مشترک ہونے کا مضمون بڑا گہرا اور باریک ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ صرف ایک خوبصورت آدمی ایک خوبصورت چیز سے محبت کر سکتا ہے لیکن اس کی فطرت کے اندر حسن کا ایک تصور موجود ہے اور ہر شخص کا حسن کا تصور الگ الگ ہے جہاں وہ اپنے حسن کے تصور کو واقعہ مشہود صورت میں دیکھتا ہے، اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے.ایک وجود کی صورت میں ڈھلا ہوا دیکھتا ہے تو وہاں اس کا اس وجود پر عاشق ہونا ایک طبعی امر ہے اور ایسا امر ہے جس پر اس کا اختیار ہی کوئی نہیں رہتا.ناممکن ہو جاتا ہے کہ اس کی محبت میں وہ مبتلا نہ ہولیکن ضروری نہیں کہ اس کا مثل ہو.غیر مثل ہوتے ہوئے محبت کرتا ہے.ایسے ایسے خوفناک انسانوں کو ایسے ایسے خوبصورت وجودوں سے محبت ہو جاتی ہے کہ آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک ہوگی لیکن ہو جاتی ہے.پیرس میں ایک چرچ نـو تـخـدام (Notredame) ہے یعنی My Lady کا چرچ اس کا نام ہے ہماری لیڈی اس کے اوپر فرانس کے ایک ناول نگار نے ایک ناول لکھا ہے جس کا نام ہے Hunch back of Notredame میں نے انگلش میں اس کا ترجمہ پڑھا تھا.مطلب ہے نوٹر ڈم کا کبڑا اس میں کہانی یہ بیان کی گئی ہے کہ اس چرچ میں ایک خادم تھا جو کبڑا تھا اس کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے جو ہر لحاظ سے اپنے حسن میں اپنی سیرت میں کامل ہے (غالبا حضرت Marry کے تصور کی کوئی لڑکی ہے یا اس سے ملتا جلتا کوئی مضمون تھا) اور یہ شخص بے چارہ نہایت ہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 756 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر ۱۹۹۳ء بھیا نک خوفناک قسم کا کبڑا جس کے جسم کے سارے اعضاء ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یعنی ایک عضو کو دوسرے سے مناسبت نہیں ہے اور اس کا عشق درجہ کمال تک پہنچا ہوا ہے.یہ کتاب چونکہ ایک خاص نفسیاتی نقطہ نگاہ سے لکھی گئی تھی اس لئے اس کا شمار عام ناولوں میں نہیں ہوتا بلکہ اس کو ناولوں کی دنیا میں اس وجہ سے ایک غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے کہ انسانی فطرت پر گہری نظر رکھتے ہوئے اس نے عاشق اور معشوق کا ایک موازنہ کیا ہے اور غور کرنے والے کے لئے اس میں بہت مواقع ہیں کہ محبت کے مضمون کو سمجھ سکے.پس وہاں کیا جوڑ ہے بھلا ؟ لَيْسَ كَمِثْلِ شَيْءٍ میں جو مضمون ہے وہ کسی حد تک یہاں بھی مل رہا ہے لیکن جب خدا کہتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ تو وہاں اس کبڑے کو حضرت مریم کے حسن سے جو مناسبت تھی اس سے بہت ہی زیادہ ، اتنی زیادہ دوری پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا.گوبر کے ایک کیڑے کو انسان سے کیسے محبت ہوسکتی ہے، مناسبت کوئی نہیں لگتی لیکن انسان اس کا خالق نہیں ہے اس لئے قدر مشترک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر خلق میں اپنی کوئی چھاپ رکھی ہے اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے اس کو اپنی فطرت پر پیدا فرمایا ہے اس کو اپنی صفات کے مشابہ ایسی صفات سب سے زیادہ دیں کہ ان صفات سے محبت کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے.پس حسن کا وہ موہوم تصور جو اس کبڑے کے دل میں تھاوہ قدرمشترک تھی لیکن مماثلت کوئی نہیں تھی.وہاں وہ حسن ایک خوبصورت پیکر کی صورت میں جلوہ گر تھا.یہاں یہ حسن ایک مہم موہوم تصور کی صورت میں دل کے اندر بیٹھا ہوا ہے، جما ہوا ہے ،فطرت کا نقش بنا ہوا ہے.اسی مضمون پر غور کرتے ہوئے پرانے فلسفیوں نے حسن کی ایک یہ بھی تعریف کی ہے کہ حسن اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان واضح طور پر جانتا تو نہیں کہ کیا ہے لیکن یہ جانتا ہے یعنی اس کی فطرت میں یہ بات نقش ہے کہ اللہ کے قریب جو چیز ہے وہ حسین ہے اور جو اللہ سے دور ہے وہ بدصورت ہے.پس خدا کے تصور کا حسن کے تصور کے ساتھ جو جوڑ ہے وہ انہی معنوں میں جوڑ ہے کہ خدا کا مثل تو نہیں لیکن ایک جوڑ ہے.یہ وہی جوڑ ہے جو ہر انسانی فطرت میں موجود ہے اور ان معنوں میں ی فروا الی اللہ کا حکم ہے.فرمایا گیا ہے جوڑوں کے ساتھ تمہارا تعلق ہو جائے گا، تمہاری محبتیں رہیں گی لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (الروم:۲۲) تک فرمایا.بیوی تمہارے لئے پیدا کی گئی اس لئے کہ تم اس سے سکینت حاصل کرو لیکن اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا جہاں تک طمانیت کا تعلق ہے فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 757 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر ۱۹۹۳ء أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ) (الرعد: ۲۹) اللہ کے ذکر کے سوا تمہیں طمانیت نصیب نہیں ہوگی.بیوی سے وقتی سکون مل جایا کرے گا.تھکاوٹ دور ہو جایا کرے گی لیکن وہ طمانیت جواس حسن کامل تک پہنچنے سے آخری صورت میں نصیب ہو سکتی ہے، جس کا ایک نقش تمہاری فطرت میں موجود ہے اس کی تمہیں تلاش ہے لیکن پتا نہیں کہ وہ کیا ہے اور کہاں ہے اس کی طرف دوڑو.خدا تعالیٰ کا صلى الله رسول ﷺ تمہارے سامنے اعلان کر رہا ہے کہ اس کے سوا تمہیں کہیں طمانیت نہیں ملنی.اگر جوڑوں کے ساتھ اس طرح دل لگا کر بیٹھ رہو گے کہ وہی تمہاری خواہشات کا آخری مرجع بن جائیں گے یعنی انہی کی طرف خواہشات لوٹیں گی اور وہیں کھڑی ہوجائیں گی تو پھر تم ناکام رہوگے تمہیں کبھی حقیقی اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا پس اللہ کے ساتھ جو انسان کا تصور وابستہ ہے وہ دراصل اسی قسم کا محبت کا تعلق ہے.جس شخص سے یا جس چیز سے انسان حقیقت میں زیادہ محبت کرنے لگتا ہے وہی اس کا معبود بن جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم نے ہمیں اس سلسلہ میں بھی متنبہ فرمایا ہے.فرمایا کہ ایسے لوگوں کی طرح نہ بننا جو اپنی ھواء کو اللہ بنا لیتے ہیں، اپنے دل کی خواہشات کی پرستش شروع کر دیتے ہیں کیو نکہ خواہش کا انسان کے ساتھ عاشق اور معشوق کا سا جوڑ ہوتا ہے اور جتنی زیادہ خواہش بڑھے اتنی اس کو حاصل کرنے کی تمنا بڑھ جاتی ہے تو ہر شخص کے دل میں جو بت ہیں وہ ضروری نہیں کہ مجسم بت ہوں.تمنائیں بت بن جاتی ہیں اور ان کے حصول کے لئے بعض دفعہ اتنی شدت دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور ان کی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے بغیر انسان کو چین نہیں آتا.یہ بات بالآخر انسان کو شرک تک پہنچا دیتی ہے.فرمایا کہ دیکھ تم اپنی تمناؤں کی عبادت نہ کرنے لگ جانا.تبتل الی اللہ کا مضمون اس مضمون سے تعلق رکھتا ہے قرآن جب کہتا ہے کہ اللہ کی طرف تبتل اختیار کر و قر آن جب کہتا ہے کہ فَفِرُّوا اِلَى اللهِ اللہ کی طرف فرار اختیار کرو تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ کس چیز سے کس طرف فرار ہے.اللہ کا وجود تو ہر جگہ ہے جس طرف آپ منہ پھیریں گے وہاں خدا دکھائی دے گا تو پھر فرار کیسا؟ کہاں سے؟ کس طرف کو فرار؟ اس مضمون میں ایک اور آیت جو پوری نہیں پڑھی گئی یہ بھی ہے صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ ہے أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةَ وَنَحْنُ لَهُ عَبدُونَ (البقره: ۱۳۹) کہ اللہ کا ایک رنگ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةَ اللہ سے زیادہ بہتر ، اللہ سے حسین تر رنگ اور کس کا ہوسکتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 758 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر ۱۹۹۳ء وَنَحْنُ لَهُ عبدُونَ ہم تو اسی کی عبادت کریں گے، اسی کی عبادت کرنے والے ہیں.یہاں بھی مفسرین اور مترجمین نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اللہ کی طرف رنگ منسوب نہ کریں جبکہ قرآن کر رہا ہے ان کی نیک نیت یہ ہوتی ہے کہ کوئی عام آدمی غلطی سے یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ خدا بھی کوئی رنگدار چیز ہے اور اس رنگ کو پکڑ و حالانکہ عام انسان روزمرہ کے محاورے میں رنگ کا مضمون سمجھتا ہے اس سے مراد اس کی فطرت کے نقوش ہیں اس کی ادائیں ہیں، اس کی اپنی شخصیت کا ایک رنگ ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہاں صبغۃ کا ترجمہ دین کیا ہے تا کہ عامتہ الناس اس مضمون کو سمجھ لیں.دین بھی دراصل انسانی صفات کے مجموعہ کو کہا جاسکتا ہے اس کا اسلوب اس کا مسلک یہ سب دین کہلاتا ہے.تو حضرت مصلح موعودؓ نے وہ لفظ چنا ہے جو رنگ کے قریب ترین ہے.لیکن سیدھی صاف بات جو دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کچھ مزاج ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اس مزاج سے حسین تر کوئی مزاج نہیں، ان صفات سے زیادہ دلکش اور کوئی صفات نہیں ہیں ان کو اختیار کرو.ان کو اختیار کرو گے تو پھر تم جس بنا پر جس رنگ میں تمہاری تخلیق فرمائی گئی ہے تم اس تخلیق کے درجہ کمال تک پہنچ جاؤ گے.مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو فطرت پر پیدا فرمایا گیا ہے لیکن ہر انسان میں الہی رنگ دکھائی نہیں دے رہے.اس لئے کہ یہاں اس فطرت کے اندر جو نقوش ہیں وہ ابھی چاہتے ہیں کہ ان میں رنگ بھرے جائیں.بعض بچوں کی ایسی کتابیں ہوتی ہیں جس میں بظاہر صفحہ خالی ہوتا ہے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن جب بچے ان پر مختلف رنگوں کی پنسلیں پھیرتے ہیں تو اندر سے نقوش اٹھنے لگتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے وہ تصویر ابھر آتی ہے.بچپن میں مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعود غالباً بمبئی سے یا کسی سفر سے ایسی کھیلیں بچوں کے لئے لے آئے تھے اور ہم بہت حیران ہوا کرتے تھے کہ خالی صفحہ ہے مگر ایک خاص پنسل تھی جس کو اس پر بار بار پھیرنا پڑتا تھا اور پنسل کے پھیر تے پھیر تے اندر سے نقوش ابھر رہے ہوتے تھے اور بڑے خوبصورت نقوش ابھر آتے تھے.تو یہ مراد ہے کہ تمہاری فطرت میں خدا کا نقش ہے تو سہی لیکن تمہاری نظر سے اوجھل ہے، غائب ہے.وہ تمہارے لئے مٹ سا گیا ہے اور کسی کو دکھائی نہیں دیتا.تم باشعور طور پر اللہ کے رنگ اس میں بھرو اور جب خدا کے رنگ بھرو گے تو اس فطرت میں سے ایک الہی نور نکلے گا خدا کی شکل تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 759 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء کوئی نہیں لیکن اس کی صفات حسنہ اس کے وجود کا تشخص کرتی ہیں.پس وہ صفات حسنہ تمہاری ذات میں اس طرح ظاہر ہوں گی کہ تم مظہر خدا بن جاؤ گے، تمہارے اندر خدا دکھائی دینے لگے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے عشق میں جو مضمون سب سے زیادہ بیان فرمایا وہ یہی ہے کہ میں اس کو خدا تو نہیں کہہ سکتا مگر خدا نما ضرور تھا.ایسا خدا نما کہ کبھی ایسا اور خدا نما آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا، نہ پیدا ہوا نہ ہوسکتا ہے.خدا نما تبھی ہو سکتا ہے کہ اگر خدا کی شکل اس میں دکھائی دے یعنی ان معنوں میں شکل جو میں بیان کر چکا ہوں.خدا کے رنگ اس میں دکھائی دیں.خدا کی فطرت اس میں دکھائی دے.یہ مضمون واضح ہونے کے بعد اب میں وہ حدیث پڑھتا ہوں جس کا میں نے ذکر کیا تھا اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمایا ان الله عز و جل خلق ادم على صورته (مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۳۲۳۰) اور اس طرح وہ جو اشتباہ تھا وہ دور فرما دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کی فطرت پر پیدا ہو علی صورتہ کا تو پھر اور مطلب نکلتا ہی نہیں.جو خدا کی صورت ہے اس پر پیدا فرمایا ہے اور اللہ کی صورت کیا ہے؟ اللہ کی صورت صفاتِ حسنہ ہیں اس کے سوا اس کی کسی صورت کا کسی کو علم نہیں تو یہاں جو ہمارے ہاں سیرت کہلاتی ہے اللہ کے ہاں وہی صورت بن گئی ہے کیونکہ وہ لطیف تر وجود ہے.ہر لطیف وجود کا جسم بھی دوسروں کے مقابل پر لطیف ہوتا ہے تو خدا کا چونکہ جسم کوئی نہیں ہے اس لئے اس کی صورت صفات کی صورت میں ہے اور مرنے کے بعد ہماری روح کی بھی صورت صفات کی صورت بن جائے گی اور وہ کیا ہوگی.ہم ابھی اس کا تصور نہیں کر سکتے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں علم نہیں ہوسکتا کہ تم کس صورت میں اٹھائے جاؤ گ.وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ (الواقعہ :۱۲) ہم تمہیں ایسی صورت میں اٹھا ئیں گے کہ تمہیں تصورہی کوئی نہیں تمہیں علم ہی کوئی نہیں ہوسکتا.پس یہ جو مولویوں کا واہمہ ہے کہ جنت کے ایک پیڑ کے نیچے حلوے کے ایک ڈھیر کے اوپر ہم بیٹھے حلوے کھا رہے ہوں گے یہ جاہلانہ تصور ہیں ، ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں.وہ تمثیلات ہیں ہمیں بتانے کے لئے کہ بہت اچھی چیزیں ہیں لیکن حقیقت میں ہماری جو موجودہ صورتیں ہیں وہ غائب ہو چکی ہوں گی.مٹی مٹی میں مل جائے گی سیرت سے ایک صورت نکلے گی.یہاں خدا کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 760 خطبه جمعه یکم اکتو بر۱۹۹۳ء صورت سے مراد ظاہری صورت نہیں بلکہ سیرت ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.یہ حدیث قدسی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ آدم کو میں نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے.یہاں جسم مراد نہیں ہے بلکہ آدم کی سیرت ہے جو مذکور ہے اور اس پہلو سے اس بات کو مزید تقویت ملی کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی فطرت کے رنگ ہیں.پھر یہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات میں خیال رکھتا ہے.یہاں لفظ عیال اس لئے استعمال فرمایا ہے که بنی اسرائیل کا یہ زعم غلط ثابت ہو جائے کہ خدا ان کو بصورت خاص ایسا پیار کرتا ہے کہ کسی اور انسان سے ممکن ہی نہیں.اگر یہ مضمون بیان نہ کرنا ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم اس خیال سے کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو جائے خدا کی ذات سے تعلق میں عیال کا لفظ استعمال نہ فرماتے.بنی اسرائیل کو Children of Israel کہا جاتا ہے اور اس پر وہ بڑا فخر کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی اللہ کے بچے ہیں اور کوئی نہیں.تو ساری مخلوق کو عیال اللہ فرما دیا اور اس میں کمال یہ ہے کہ مخلوق کا لفظ استعمال فرمایا ہے انسان کا نہیں تا کہ انسان کو بھی یہ گمان نہ ہو کہ میں ہی زیادہ پیارا ہوں، پیارا وہی ہوگا جو خدا کے قریب ہوگا اور آنحضرت ﷺ نے یہی مضمون ساتھ بیان فرما دیا.فاحب الخلق الى الله من احسن الى عياله (حديقة الصالحین صفحه ۵۷۳۰) خدا کے نزدیک سب سے اچھی مخلوق وہ ہے جو اس کی مخلوق کی قدر دان ہو، اس کے لئے خیر پیدا کرنے والی ہو، اس کی بھلائی چاہتی ہو.پس عیال کا معنی بھی سمجھ آ گیا کہ نعوذ باللہ ظاہری اولاد مراد نہیں.اس مضمون کا کسی معنوں میں بھی اس سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے مگر پیاری ہے اور خالق کو اپنی ہر خلقت سے ایک پیار ہوتا ہے، ہر تخلیق سے ہوتا ہے.وہ پیار ہے جو یہاں بیان ہوا ہے اور یہ بھی روشنی ڈال دی گئی کہ ماں کو اپنے بچوں سے کیوں پیار ہوتا ہے.ماں اپنے عیال سے اس لئے پیار کرتی ہے کہ وہ اپنے جیسے کچھ وجود پیدا کرتی ہے.ان وجودوں پر ماں کی چھاپ ہوتی ہے اور ان سے اس چھاپ کی وجہ سے اس کا گہرا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تو کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ناممکن ہے کہ خالق کسی چیز کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 761 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء پیدا کرے اور اس کی خالقیت کا کوئی نقش اس پیدا شدہ چیز پر نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا.کہیں تھوڑا ہوگا کہیں زیادہ ہوگا.ان میں سے بہترین کون سی ہے حالانکہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کردہ ہیں.مراد یہ ہے کہ ہر چیز پر خدا کا بہر حال ایک نقش ضرور ایسا ہے جو خدا سے تعلق کے لئے اس کو ایک رابطے کا کام دیتا ہے خواہ اس کی دوسری شکلیں خدا سے ظاہری طور پر کوئی بھی تعلق نہ رکھتی ہوں.اب انسان ہے، انسان کے اندر بے شمار کمزوریاں بھی ہیں ان سے خدا تعالیٰ کا تعلق نہیں وہ تو خدا تعالیٰ کی چھاپ نہیں ہیں، وہ خدا تعالیٰ کی چھاپ کا عدم ہیں.پس خدا کی ساری مخلوقات میں کچھ مثبت پہلو ہیں جو خدا تعالیٰ کے نقش کی یاد کراتے ہیں.یہاں اللہ کا نقش دکھائی دیتا ہے، کچھ منفی پہلو ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات سے ہٹنے کے نتیجہ میں یا دور ہونے کے نتیجہ میں اس میں پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان خدا کی فطرت پر پیدا ہوا ہے.اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ہر انسان اسی طرح حسین ہے جیسے ایک خالق کی ہر تخلیق ویسی ہی ہوگی.خالق نے تو ٹھیک تخلیق بنائی لیکن اگر اس کی تخلیق کے رنگ قائم رکھنے میں ہر ایک نے الگ الگ سلوک کیا ہے.اگر ایک اچھے آرٹسٹ کی تصویر آپ دیکھیں جو خواہ سینکڑوں سال پرانی ہو اس سے طبیعت کے اوپر اس کی صلاحیتوں کا ، اس کی اعلیٰ قدروں کا، اس کے ذہن کے اندر حسن کا جو تصورہے اس کا بہت اچھا اور گہرا اثر پڑتا ہے لیکن اگر اس تصویر پر کوئی بچہ سیاہی پھیر دے یا کوئی جاہل اس کے اندر کوئی رخنہ ڈال دے تو اس تصویر کی قیمت ہی کوئی نہیں رہتی.جن تصویروں میں ایسا نقص پیدا ہو جائے وہ آرٹ کی اعلیٰ قابل قدرحد سے نکل ہی جایا کرتی ہیں.اگر ہر نقش کو بگاڑ دیا جائے تو پھر اس کا کیا بنے گا.یہ وہ مضمون ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی فطرت پر پیدا فرمایا لیکن ہم نے اس فطرت کی حفاظت نہیں کی.انسان اس وقت اس فطرت کے قریب تر ہوتا ہے جب وہ معصوم ہو اور اسی لئے بچے کے متعلق فرمايا كل مولود يولد على الفطرة (بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر: ۱۲۹۶) کہ ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے.یہاں وہی فطرت مراد ہے جو اللہ کی فطرت ہے.بچے میں جو معصومیت ہے جب تک ویسی معصومیت انسان میں پیدا نہ ہو اس وقت تک خدا کی فطرت وہاں رنگ نہیں دکھا سکتی اور اسی لئے تو بہ کرنے والے کے متعلق آنحضرت مہ نے فرمایا کہ وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسے نوزائیدہ بچہ ہو.پس دیکھیں وہی مضمون ہے جس کو مختلف شکلوں میں پھیر پھیر کر بیان کیا جا رہا ہے کہ ہر قتم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 762 خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء کی سوچ والے انسان کو سمجھ آسکے، اس کے دل پر نقش ہو جائے.پس ہم خدا کی فطرت پر ہیں لیکن ہم نے ہر اس جگہ جہاں رنگ بھرنے چاہئیں تھے وہاں اللہ کے رنگ نہ بھرے بلکہ غیر اللہ کے رنگ بھر دیئے.اپنی تمناؤں کے رنگ بھر دیئے.اپنے ان تعلقات کے رنگ بھر دیئے جن کی بناء خدا کی محبت نہیں بلکہ غیر اللہ کی محبت ہے.پس وہی سادہ کاغذ جس میں خدا کی تصویر ابھرنی چاہئے تھی وہاں جگہ جگہ غیر اللہ کی تصویر یں ابھرتی ہیں اور بڑی بھیا تک تصویریں ابھرتی ہیں.اس صورت میں وہ چیز قدر کے لائق نہیں رہتی.اس صورت میں وہ چیز جلا دینے کے قابل ٹھہرتی ہے.پس اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں سکھایا کہ یہ دعا کرو کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (ال عمران :۱۹۲) اے اللہ تو نے یہ چیزیں باطل تو پیدا نہیں کی تھیں اگر اپنی فطرت پر پیدا کی تھیں تو باطل کیسے ہو سکتی تھیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم اس فطرت کی حفاظت نہیں کر سکتے ، اس کی قدر نہیں کرتے.اس سے اتنا دور جا پڑتے ہیں.ان نقوش کو ایسا بھیا نک بنا دیتے ہیں کہ اس کے بعد یہ جلانے کے قابل رہ جاتی ہے.پس وہ پردہ جس پر ایک بہت اعلی قسم کے مصور نے اپنے کمالات کا اظہار کیا ہو اور بعد میں وہ کسی جاہل کے ہاتھوں پڑ جائے اور وہ اس کا حلیہ بگاڑ دے تو اس کو اگر آپ بیچنے کی کوشش کریں گے تو جس کے پاس جائیں گے وہ آپ کو یہی مشورہ دے گا کہ آگ میں جلا دو.جیسے ہمارے وہاں بعض دفعہ مذاق میں کہتے ہیں کہ تم اس سے چائے پکال یعنی ان کاغذوں کو جلا کر کچھ تو فائدہ اٹھاؤ.اس کے سوا اس کا کوئی فائدہ نہیں، تو وہی مضمون ہے کہ اے خدا ہمیں ایسا نہ بنے دینا کہ آگ کے ایندھن کے سوا ہماری قیمت کوئی نہ رہے اور جلا کر جسم کئے جانے کے لائق ٹھہرائے جائیں.پس اس لئے ضروری ہے کہ غیر اللہ سے اللہ کی طرف دوڑو.اب اس پہلو سے جب آپ اپنے حالات پر غور کریں یا میں کرتا ہوں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ بہت سے اندھیرے گوشے ہیں جہاں توحید کی روشنی ایسی نہیں چمکی کہ وہاں غیر اللہ کے جو چھپے ہوئے وجود ہیں.ایسے وجود ہیں کہ جو بعض دفعہ ظاہر ہوتے ہیں اور بعض دفعہ دکھائی نہیں بھی دیتے لیکن عمل کر رہے ہوتے ہیں جس طرح بعض دفعہ جراثیم کسی کو اندر اندر کھا رہے ہوتے ہیں، وہ وجود نہیں دکھائی دیتے جب تک کہ توحید کا پورا نور ہر گوشے پر نہ چمک اٹھے.اسی لئے تو حید پہلے ہے اور تبتل بعد میں ہے.حضرت شیخ سعدی نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ فرمایا ہے.763 ہر بیشہ گماں مبر که خالیست شاید که پلنگ خفته باشد خطبہ جمعہ یکم اکتو بر۱۹۹۳ء جھاڑیوں یا درختوں کا ہر وہ جھرمٹ جس میں جانور چھپ جاتے ہیں تم بے فکری سے اس جنگل میں یوں نہ چلنا کہ گویا ہر جھرمٹ، ہر گوشہ جو ہے وہ جانوروں سے خالی پڑا ہے.شاید کہ پلنگ خفتہ باشد ہوسکتا ہے کہ کوئی چیتا اس میں چھپا ہوا ہو.پس انسان کے لئے اس میں ایک بڑی عظیم نصیحت ہے.ہم اپنے دل کے گوشوں سے بے خبر سفر کرتے رہتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس میں بہت سے چیتے بلکہ بہت ہی زیادہ ہولناک جانور چھپے ہوئے ہیں.انذار کا مضمون اس بات سے تعلق رکھتا ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اِنّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ میں خدا کی طرف سے تمہیں کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں.پس وہ ڈرانے والی کیا بات ہے ! وہ یہ بات ہے کہ ہمارے وجود میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غیر اللہ کے بہت سے نقوش تمہارے دل میں موجود ہیں جنہوں نے فطرت کے اس نقش کو چھپا دیا ہے جس پر خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے.جب تک وہ نقش ظاہر نہیں ہو گا خدا سے ایک میٹنگ پوائنٹ نہیں بنے گا.اتحاد اور اتصال کی جگہ قائم نہیں ہو سکتی.ہر چیز پر ہر دوسری چیز کا نقش جم ہی نہیں سکتا جب تک وہ چیز اتنی صاف نہ ہو یا اتنی اس کی نوعیت کے مطابق نہ ہو جائے کہ وہ باہم ایک دوسرے کے ساتھ ایک طبعی تعلق رکھتے ہوں.بعض سیاہیوں پر دوسرے رنگ نہیں چڑھ سکتے.بعض چکنے کا غذ پر بعض اور قسم کی سیاہیاں نہیں لکھی جاسکتیں مگر جب ان کے مزاج کی سیاہی استعمال کریں تو وہ فورا بڑے شوخ رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں.تو فرمایا کہ خدا کا خوف کرو، خدا کی طرف تم نے دوڑنا ہے، کس چیز سے دوڑنا ہے، تمہارے وجود کے اندر غیر اللہ کے رنگ موجود ہیں ، ہر رنگ کی نشاندہی کرنی ہوگی.جہاں غیر اللہ کا رنگ دیکھو گے اس رنگ کو چھوڑ کر اللہ کے رنگ کی طرف دوڑ ناور نہ تو خدا کا وجود ہر جگہ ہے.آپ کہاں سے کس طرف دوڑیں گے مگر اپنے وجود میں ڈوب کر آپ اگر دیکھیں گے تو آپ کو ہر جگہ سے دوڑنے کی اتنی جگہیں دکھائی دیں گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے کہ ان خطرات کی حالت میں میں زندگی بسر کر رہا تھا.پھر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہمیں اس حالت میں موت نہیں دیتا کہ ابھی ہم نے غیر اللہ سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 764 خطبہ جمعہ یکم اکتوبر۱۹۹۳ء اللہ کی طرف سفر اختیار نہیں کیا ہوا.ظاہراً کیا ہوا ہے، ارادوں کی صورت میں کیا ہوا ہے لیکن جب عملاً یہ سفر شروع کرتے ہیں تو اتنے مضبوط بندھن ہم غیر اللہ سے باندھ چکے ہوتے ہیں کہ ہماری خواہشات کا جو سلسلہ ہے وہ اتنا وسیع ہے کہ ان خواہشات کی رسی توڑنا ایک بہت بڑا کام ہے.غیر اللہ کا خوف ہے وہ بھی دامنگیر ہے، غیر اللہ کی طمع ہے وہ بھی دامنگیر ہے اور انسانی تعلق کے ہر دائرے میں یہ رسے بندھے ہوئے ہیں.ایک گوشہ تو نہیں جہاں خطرہ ہو ، دل کے سارے گوشوں میں خطرات ہی خطرات بسے ہوئے ہیں.اس لئے فرمایا فَفِرُّوا اِلَی اللہ خدا کے لئے خدا کی طرف دوڑو.اِنّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ.میں اس کی طرف سے تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں.پس اس حیرت انگیز انتباہ کے اور اتنے روشن انتباہ کے بعد ہمیں لازماً بیدار مغزی سے اپنے نفوس کا مشاہدہ کرنا ہو گا.وہ جگہیں تلاش کرنی ہوں گی جہاں غیر اللہ کے بھیانک ، بدصورت اور مہلک جانور چھپے بیٹھے ہیں.ان سے تعلق تو ڑ کر خدا کی طرف جانا ہوگا اور اس طرح خدا کی طرف جانے کے بعد بہت سے رستے نکل آئیں گے.ایک انسان کا ایک مزاج ہے، اسی پر انسان غور کر کے دیکھ لے.مثلاً کسی سے محبت کا تعلق ، رحمت ، شفقت کا مزاج.اس میں اللہ تعالیٰ کے مزاج کا اپنا ایک رنگ ہے اور غیر اللہ میں بھی رحمت اور شفقت پائی جاتی ہے لیکن اس کا ایک اور رنگ ہے.پس رنگوں کا مضمون اس تعلق میں تب ظاہر ہوگا جب آپ اپنی ایک ایک صفت پر غور کریں گے اور معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس صفت میں اللہ کا رنگ ہے یا غیر اللہ کا رنگ.دیکھنے والے کو تو ہر شفیق آدمی شفیق ہی دکھائی دے گا.وہ پیار کرتا ہے، محبت کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ بڑا ہی محبت کرنے والا مہربان وجود ہے.لیکن جب آپ دیکھیں گے کہ اس کی محبت عدل سے عاری ہے.جب دیکھیں گے کہ اس کی محبت غیر اللہ کی عبادت کرنے والی محبت بن جاتی ہے تو اس کے اندر اللہ کا رنگ نہیں ہو گا.بظا ہر صفت نظر آئے گی.رحمانیت اور رحیمیت کے کچھ جلوے آپ اس کی ذات میں دیکھیں گے لیکن صِبْغَةَ اللهِ سے عاری، اللہ کے رنگ سے خالی ، تو یہ مضمون اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے اور زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتا ہے کہ محض خدا کی ظاہری صفات کا کسی بندے میں پایا جانا کافی نہیں، اس کی ہر صفت پر جو خدا کی صفت سے ملتی جلتی ہے اللہ کے رنگ کا غالب آنا ضروری ہے جب وہ صبغۃ اللہ کے رنگ کے مشابہ ہو جائے تو پھر رحمانیت محبت کے لائق ہو گی، پھر رحیمیت محبت کے لائق ہو گی اس کے بغیر محض
خطبات طاہر جلد ۱۲ 765 خطبہ جمعہ یکم اکتوبر۱۹۹۳ء دھوکے کی باتیں ہیں.آئندہ خطبہ میں اس مضمون کے دوسرے پہلوؤں پر انشاء اللہ روشنی ڈالوں گا کیونکہ ہماری اصلاح کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے.جب تک ہم اس مضمون کی گہرائیوں میں اتر کر خود اپنا مربی بننے کی صلاحیت اختیار نہیں کرتے تو ہم دنیا کے مربی نہیں بنائے جا سکتے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب جو غلبے کا وقت آ رہا ہے اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں.اس کے ساتھ اس مضمون کا بہت گہرا تعلق ہے اگر ہمیں خدا نے جلدی غلبہ عطا کر دیا اور ہم مربی بنے کی صلاحیت سے عاری رہے تو ہم دنیا میں اللہ کے رنگ پھیلانے کی بجائے کچھ اللہ کے رنگ اور کچھ غیر اللہ کے رنگ پھیلانے والے بن جائیں گے جو بہت ہی خطرناک صورت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے یہ ناپسند فرمایا کہ اس حالت میں ہم دنیا کی غلط تربیت کریں تو پھر ہماری فتح کا دن بہت دور تک ٹال دیا جائے گا.جو قریب آتی ہے وہ دور کر دی جائے گی.پس آپ اپنے نفس کے بچے مربی بن جائیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ حسیں جو دور ہیں وہ آپ کے قریب کر دی جائیں گی.یہ نہیں ہوگا کہ قریب کی تحسیں آپ سے دور ہٹا دی جائیں اور اس میں گہری حکمت کا راز ہے.اس کو سمجھیں اور بڑے غور سے ان مضامین کو سنیں اور کوشش کریں کہ آپ کے اندر اپنے نفس کی تربیت کی صلاحیت پیدا ہو جائے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین).
766 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 767 خطبه جمعه ۱/۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء اللہ اور رسول کو ہاں میں جواب دو تو موت سے زندگی پاؤ گے.مسلسل نگہداشت اور اپنے داغوں کو مٹانا تبتل ہے.خطبه جمعه فرموده ۱/۸ تو بر۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.فَسُبْحَنَ اللهِ حِيْنَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُوْنَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَ حِينَ تُظْهِرُوْنَ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَيَّ وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ (الروم : ۱۸ -۲۰) پھر فرمایا:.گزشتہ جمعہ پر میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ بعض اجتماعات منعقد ہورہے ہیں بعض جلسے ہورہے ہیں اور ان سب کی خواہش ہے کہ ہمارا نام بھی جمعہ میں اگر سنا دیا جائے تو سب دنیا کو پتا لگے کہ ہم بھی ایک دینی مصروفیت میں اس وقت مشغول ہیں اور ہمارے لئے بھی دعائیں ہوں گی.یہ ایک نیک نیت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ناموں کو شامل کرنا چاہتے ہیں مگر بہت سے نام تو وقت پر پہنچ گئے لیکن کئی ایسے بھی تھے کہ میں جمعہ کے بعد واپس گیا ہوں تو وہاں فیکس آئی پڑی تھی اس لئے ان کی خواہش کے احترام میں پہلے میں ان کے نام لیتا ہوں.ہماری عمومی دعائیں جو ان سب کے لئے کی گئی تھیں وہ تو ان کو پہنچ ہی چکی ہوں گی لیکن اب صرف رسما ان کا نام لینا باقی ہے.کچھ ایسے اجتماعات ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 768 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۹۳ء جو آج شروع ہو رہے ہیں یا اس وقت پہلے سے جاری ہیں اور کچھ دن تک جاری رہیں گے.جو نام لینے سے رہ گئے تھے ان میں سے ایک مجلس خدام الاحمدیہ ضلع جہلم کا سالانہ اجتماع جو ۳۰ ستمبر سے یکم اکتوبر تک منعقد ہوا.اس مجلس میں بہت سی ایسی مجالس ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کام کی بہت بڑی صلاحیتیں بخشی ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا وہ تعلق نہیں جو مومنانہ اخوت کے نتیجہ میں پیدا ہونا چاہئے اس کی وجہ سے ان کی ساری صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں.لمبے عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے، ہزار دفعہ سمجھانے کی کوشش کی مختلف لوگ گئے لیکن ان کا حال وہی ہے کہ سر پیچ کا کہایا بچوں کا کہا سر آنکھوں پر لیکن پر نالہ وہیں رہے گا، وہاں سے نہیں ہلے گا جہاں لگ گیا پر نالہ وہیں لگا رہے گا.اس پر نالے سے رحمت کا پانی بھی برس سکتا ہے اور عذاب کا پانی بھی برس سکتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اگر پر نالہ نہیں بدلنا تو پانی تو بدلیں.اس سے خدا کے غضب کا پانی تو قبول نہ کریں مگر پتا نہیں وہ کون سی زبان استعمال ہوگی کہ وہ سمجھیں گے اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت واخوت کا تعلق قائم کریں گے.ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ میں درست ہوں اور ساری شرارت دوسرے کی وجہ سے ہو رہی ہے.شکایت بازی کا سلسلہ ہے جولا متناہی ، چل سو چل اور ختم ہی نہیں ہورہا.ان کے حوالے سے میں جہلم کی جماعت کو عموماً بھی اور باقی سب مجالس کو اور جماعتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اجتماعات تو جامعیت کا نشان ہوتے ہیں، اکٹھا کرنے کی ایک مثال ہوتے ہیں.اگر ا کٹھے ہوں اور دل ایک دوسرے سے دور ہوں تو ایسے اکٹھے ہونے کا کوئی بھی فائدہ نہیں، خدا تعالیٰ کے نزدیک جہاں دل نہ ملے ہوں وہاں کی جمیعت اکٹھا کرنے کی بجائے تفریق کا موجب بنا کرتی ہے.پس ایسے جن کے دل نہ ملے ہوں وہ جتنا اکٹھے ہوں گے دشمنیاں اور بڑھیں گی اور ایک دوسرے پر اعتراض کے مواقع ہاتھ آئیں گے کہ دیکھ لو جی ! فلاں عہد یدار، اس نے یہ کیا اور یہ نہیں کیا ہمارے آدمی کو ووٹ نہیں ملے وہ ہوتا تو یوں ہوتا.شیطان کے سو قسم کے وسوسے ہیں جو پھر دل میں راہ پا جاتے ہیں اور اجتماع تفریق کا نشان بن جاتا ہے.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں اور بار بار نصیحت کرتا ہوں کہ یہ دن اکٹھے ہونے کے ہیں، ہم نے خود ہی اکٹھے نہیں ہونا ، تمام جہان کو اکٹھے کرنا ہے، اس لئے یہ چھوٹی چھوٹی گھٹیا کمپنی باتیں زیب نہیں دیتیں، اگر باز نہیں آؤ گے تو پھر خدا تم سے دوسرا سلوک کرے گا.پھر بندے کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے وہ ایک طرف رہ جاتا ہے، پھر نظام جماعت کارفرما نہیں رہے گا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 769 خطبه جمعه ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء پھر او پر کا جو اللہ کا نظام ہے، نظام سے اوپر جو ایک غالب نظام ہے وہ چلے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ تقویٰ کے ساتھ اپنے سب بغض اور کینے ختم کریں اور مؤمنانہ اخوت کے ساتھ ایک جان ہو جائیں تا کہ جو برکتیں سارے جہان پر نازل ہو رہی ہیں اس کی کچھ بوندیں محمود آباد، جہلم وغیرہ پر بھی پڑ جائیں تو کیا نقصان ہے.آسٹریلیا نے ۲ اکتو بر تا۴ راکتو بر تربیتی کلاس منعقد کی تھی ان کا نام بھی پڑھنے سے رہ گیا تھا آج خدا کے فضل سے مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس اطفال الاحمدیہ چنتہ کنٹہ صوبہ آندھرا پردیش (انڈیا) کے اجتماعات ہو رہے ہیں.یہ ایک اچھی مخلص جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد جلد ترقی کر رہی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اجتماعات ان کو ترقیات کے نئے دور میں داخل کر دیں گے.جماعت احمد یہ ناروے کا گیارہواں جلسہ سالانہ ارا کتوبر سے منعقد ہو رہا ہے.جماعت احمد یہ ناروے کے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے North Cape میں مسجد بنانے کی حامی بھری تھی اور ان کے سپر د میں نے یہ کام کیا تھا کہ چندوں کی اپیل سے پہلے وہاں زمین لیں اور جماعت قائم کریں.پھر ساری دنیا سے چندوں کی اپیل کی جائے گی اور آپ کی جو کمی ہے وہ پوری ہو جائے گی.انہوں نے یہ خوشخبری بھیجی ہے کہ اللہ کے فضل سے کمیون نے با قاعدہ فیصلہ کر کے وہاں ایک نہایت ہی عمدہ با موقع او پر کی زمین جو ایک خوبصورت پہاڑی چوٹی پر واقع ہے اور ایک ایکڑ سے زیادہ رقبہ ہے وہ جماعت احمدیہ کو مسجد کے لئے تحفہ پیش کر دی ہے اور انہوں نے کوئی پیسہ وصول نہیں کیا.دوسرا کام کرنے کے لئے ان کا وفد اب وہاں گیا ہے یا جانے والا ہے جو تبلیغ کر کے وہاں جماعت قائم کرے گا.جب یہ دونوں شرطیں اکٹھی ہو جائیں گی تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ چندہ کی عام تحریک بھی کر دی جائے گی.اس سے پہلے جو ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ میرے ساتھ جو قافلہ تھا انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تحریک سے پہلے ہی کر دیا تھا.اس میں میں نے بھی اپنا وعدہ شامل کر لیا اس طرح ہمارے قافلے کا دو ہزار پاؤنڈ کا وعدہ اور کچھ خطبہ کے نتیجہ میں دوست از خود وعدہ بھی لکھوا گئے یا رقم ادا کر دی.بہر حال جب عام تحریک ہوگی اور جب جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہاں جماعت بھی کچھ قائم ہو جائے گی تو مسجد کے کام کا آغاز ہو جائے گا.جماعت احمد یہ ناروے اللہ کے فضل سے بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 770 خطبه جمعه ۱/۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء مستعد ہورہی ہے اور کچھ اندرونی تفرقے جو تھے وہ مٹ رہے ہیں ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ غیر معمولی ترقیات عطا فرمائے.مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی چوتھی مجلس شوری کل ۹/ اکتوبر سے شروع ہو رہی ہے.خدام الاحمدیہ جرمنی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد جلد ترقی کر رہی ہے اور بڑے بلند پایہ منصوبے بنارہی ہے اور خدا کے فضل سے ہمتیں جوان ہیں.میں نے جماعت پاکستان کو پہلے بار بار نصیحت کی تھی کہ چندوں میں جرمنی آگے نکلنے والا ہے ذرا ہوش کرو.نکلنے نہ دینا لیکن نکل گیا.اب میں خدام الاحمدیہ کی طرف سے سب دنیا کو نوٹس دے رہا ہوں کہ جرمنی کی خدام الاحمدیہ اس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر باقی مجالس خدام الاحمدیہ نے ہوش نہ کی تو ان کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی.ان کا تبلیغی منصو بہ اتنا عظیم الشان ہے کہ جب دو ہزارواں سال شروع ہوگا تو اس سال کے لئے یا اس سال تک کے لئے انہوں نے ایک لاکھ بیعتوں کا وعدہ لکھوایا ہے.اب بظاہر لگتا ہے کہ یہ پاگلوں والا خیال ہے.اتنی بڑی تعداد میں یورپ میں احمدی بنانا ناممکن ہے لیکن جو عالمی بیعت تھی وہ کب ممکن تھی؟ جرمنی میں پندرہ سو کے قریب جو یورپین احمدی ہوئے ہیں یہ کون سا ممکن دکھائی دیتا تھا ؟ تو اب ہم ناممکنات کی دنیا سے ممکنات کی دنیا میں جاچکے ہیں.وہ دنیا جہاں دعا اور اللہ کی تقدیر دعا کو قبول کر کے غیر ممکن کو ممکن بنا دیتی ہے.یہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو ! ز ور دعا دیکھو تو ( کلام محمود صفحه : ۱۰۵) پس یہ ناممکن باتیں دعا کے زور سے انشاء اللہ ہوں گی.جماعت جرمنی کو بھی اور خصوصیت سے خدام الاحمدیہ جرمنی کو میں متوجہ کرتا ہوں کہ اب تک جو کامیابیاں ہیں ان میں اگر آپ کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ آپ کے زور باز ویا اچھے منصوبوں کے نتیجہ میں ہیں تو برکتیں ہاتھ سے جاتی رہیں گی.جتنی بڑی کامیابیاں ہوں اتنا ہی سر جھکنا چاہئے اور یقین رکھیں کہ خالصہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ہمیں خدا جو توفیق بخشتا ہے وہ بھی اس کا فضل ہی ہے، جو اچھے خیال سمجھاتا ہے یہ بھی اس کا فضل ہی ہے ورنہ انسان لاکھ زور مارے اپنی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا.پس دعا کریں اور یقین رکھیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بلند منصوبوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے گا اور آپ باقی دنیا کے لئے بھی نمونہ بنیں گے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 771 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء گزشتہ جمعہ پر میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ خالق کی اپنی مخلوق پر ایک چھاپ ہوتی ہے اور خالق کا حسن اس کی تخلیق میں ضرور جلوہ گر ہوتا ہے.اس ضمن میں ایک اور شبہ یا وہم ہے جس کا ازالہ ضروری ہے.جب ہم خدا تعالیٰ کی کائنات پر نظر کرتے ہیں تو بعض بہت ہی بھیا نک اور بدصورت چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں.ایسے ایسے خوفناک شکلوں کے جانور ہیں جن کو بچے دیکھیں تو ڈر سے ان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں اور ایسی مخلوقات ہیں جو اس سے پہلے زمین میں دفن ہو گئیں ان کو انہوں نے جب موت سے دوبارہ اجالا ہے یعنی ان کے دبے ہوئے ڈھانچوں سے، ان کے پنجروں کو دیکھ کر انہوں نے ان کی از سرنو تخلیق کی کوشش کی ہے تو بڑے بڑے بھیا نک جسم سامنے آئے ہیں.پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر خالق کی چھاپ میں یہ بدصورتی کیسے ہوگئی.میں اب آپ کو اسی مثال کی طرف واپس لے کر جاتا ہوں جو میں نے ایک تصویر کے ساتھ مصور کے حسن کی نسبت کی صورت میں بیان کی تھی ہر مصور کو اپنی تصویر سے ایک نسبت ہوتی ہے اور وہ حسن کی نسبت ہے جو مصور میں پایا جاتا ہے لیکن تصویر میں سارے حسن کی تو نہیں بنائی جاتیں.تصویریں بعض دفعہ بڑی بڑی خوفناک اور بھیانک بنائی جاتی ہیں اور بعض مصنف ایسے ایسے خوفناک کریکٹر اور کردار اپنے قلم سے اچھالتے ہیں کہ انسان ان کو حیرت زدہ ہو کر دیکھتا ہے لیکن اس کے باوجود محبت کی نظر سے نہیں بلکہ بعض دفعہ خوف کی نظر سے ، بعض دفعہ نفرت کی نظر سے.پھر وہ مضمون کہاں گیا کہ ہر مصنف کو اپنی تصنیف سے نسبت ہے.ہر مصور کو تصویر سے ایک نسبت ہے جو وہ بناتا ہے.بات یہ ہے کہ تخلیق کا حسن قطع نظر اس کے کہ کیا تخلیق ہے، اپنی ذات میں ایک مقام رکھتا ہے ایک مصور جب بدصورت چیز بنا کر دکھانا چاہتا ہے تو اس کے قلم سے اگر کہیں خوبصورتی ظاہر ہو جائے تو مصور کا کمال نہیں ہوگا بلکہ اس کی غلطی اور اس کی خامی ہوگی.جب ایک بھیانک تصور کو مصور ہو یا ایک لکھنے والا ہو اپنے قلم سے کاغذ پر اتارتا ہے تو جتنا بھیا نک وہ تصور ہے بعینہ ویسا تصور کاغذ کے اوپر نقش ہو جانا چاہئے.پس اگر بھیانک تصور کو پیش کرنا مقصد ہواور وہ مقصد بعض اغراض کے پیش نظر ہوا کرتا ہے تو تصویر کا بھیانک ہونا ایک لازمی بات ہے.اگر بھیا تک نہیں ہوگی تو مصور کا نقص ہوگا.اگر وہ مضمون بھیا نک نہیں ہوگا تو ایک مصنف کا نقص ہوگا.اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے.پس جب وہ ایک خاص مقصد کے لئے ایک چیز کو پیدا کرتا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 772 خطبه جمعه ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء لئے اس کا بھیا نک پن ظاہر ہونا ضروری ہے تو لازم ہے کہ ویسا ہی بھیا نک ہوجیسا خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کا حسن اس کی تخلیق کے بھیانک پن میں ہے.حیرت انگیز طریق پر اس کو ہیبت ناک بنادیا گیا ہے اور جب آپ اس مضمون کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں تو عام مصنف اور عام مصور کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ایک اور حسن بھی دکھائی دیتا ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا تصور کرنا ہو، اسے پہچانا ہوتو کچھ علامتیں آفاقی ہیں کچھ علامتیں ہیں جو تمہارے اپنے وجود کے اندر پائی جاتی ہیں.پس اس پہلو سے جب ہم اس مضمون کو دیکھتے ہیں تو ایک بہت ہی دلکش انداز میں اس پر روشنی پڑتی ہے اور ایک معمہ حل ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر تخلیق اپنی ذات میں کامل ہے اور اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے مکمل ہے.باہر کی دیکھنے والی آنکھ اس کو نہیں سمجھ سکتی لیکن وہ مخلوق خود اپنے نفس میں جانتی ہے، روز مرہ کے تجربہ سے جانتی ہے کہ جیسی میں بنائی گئی ہوں اس میں ذراسی تبدیلی پیدا کر دی جائے تو میری تخلیق کا مقصد ہاتھ سے جاتا رہے گا اور باطل میں تبدیل ہو جائے گا، جھوٹ بن جائے گا.پس گوبر کا کیڑا بھی آپ دیکھ لیں.آپ کو باہر سے دیکھتے ہوئے چاہے کتنی ہی بدی اس میں دکھائی دیتی ہو ، بدصورتی دکھائی دیتی ہو، گند دکھائی دیتا ہولیکن گوبر کے کپڑے میں کوئی اس کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا.اگر کرے گا تو خدا کی تخلیق میں نقص پیدا کر دے گا.ڈائنا سورز (Dinosaurs) آپ کو کتنے ہی بھیانک کیوں نہ دکھائی دیں مگر اس وقت ان کی بقا کے لئے اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے وہی شکل ہے جو کام دے سکتی تھی.اس شکل میں کوئی ایسی تبدیلی کی جاتی جو ان کو ان کے دائرہ کار سے باہر لے جاتی جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اس کا ایک دائرہ جو کھینچا گیا ہے اس دائرے کے اندران کو نہ رہنے دیتی اور ان کو باہر نکال دیتی تو وہ ان کی ہلاکت کا دن ہوتا.پس یہ بھی ایک مضمون ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو مؤمن کے دل سے یہ جو آواز اٹھتی ہے کہ مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا (ال عمران : ۱۹۲) اس سے یہ مضمون حل ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اپنے اندر ایک خاص مقصد لئے ہوئے ہے اور اس کی تخلیق اس مقصد کے عین مطابق ہے اور اس میں کوئی باطل کا پہلو نہیں ہے.تو وہ بھیانک ڈائنا سورز (Dinosaurs) اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو بہت ہی خوبصورت دکھائی دیں گے اور دل سے بے اختیار وہی آوا ز اٹھے گی کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 773 خطبه جمعه ۱/۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِيْنَ که واه واه سبحان اللہ ! کیسا عظیم خالق ہے.بدصورتی پر بھی احسن کا لفظ اطلاق پائے گا.آنحضرت مہ جب اپنی وحی لکھوایا کرتے تھے تو ایک ایسا مضمون آیا جس میں کائنات کے حسن کا مضمون تھا اس وقت لکھنے والے کا تب کے دل سے بے اختیار یہ کلمہ بلند ہوا کہ فَتَبْرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِينَ (المومنون : ۱۵) واہ واہ اللہ کی ذات کیسی مبارک ہے! اَحْسَنُ الْخُلِقِيْنَ ہے اور بعینہ یہی وہی تھی جو بعد میں نازل ہو رہی تھی.وقت کی آواز یہ تھی.فطرت کی آواز تھی کہ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ جو اس کے دل سے بلند ہوئی لیکن جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں یہی ہے.یہی لکھو تو اس کا ایمان لرز گیا.ٹھوکر کھا گیا اور وہ بد بخت انسان مرتد ہو کر اسلام کے دائرے سے باہر چلا گیا.پس بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ فطرت سے بے اختیار ایک گواہی اٹھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر جہاں بھی آپ غور کریں گے خواہ وہ کیسی ہی بدصورت ہو، کیسی ہی بدزیب دکھائی دینے والی هو فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِینَ کا کلمہ بے اختیار، بے ساختہ دل سے اٹھے گا.اس میں ایک اور پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چیزیں پیدا کرتا ہے ان کے بعض مقاصد اس وقت دکھائی نہیں دیتے ، بعد میں دکھائی دیتے ہیں اور بعض مقاصد موازنہ کرنے کے لئے ہوتے ہیں.اگر بدصورتی نہ ہو تو حسن کا تصور ہو ہی نہیں سکتا.ہر چیز کے دو Pools ہیں، دو کنارے ہیں اور ان دو کناروں کے بعد سے ایک نیا مضمون پیدا ہو جاتا ہے جتنا بعد زیادہ ہو اتنا ہی ہر کنارے کی اہمیت زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے جتنا وہ قریب اور مدغم ہوں گے اتنا ہی ان کی اہمیت آپس میں مدغم اور مبہم ہوتی چلی جائے گی.پس کسی مضمون کو نتھار کر پیش کرنا ہو تو دونوں طرف کے کناروں کے خصائل یا ان کے نقوش کو بڑی وضاحت کے ساتھ خوب نکھار کر پیش کرنا ہو گا.پس جہاں حسن ہے وہاں بدصورتی کا مضمون لازم ہے.جہاں رحم ہے وہاں ظلم کا مضمون بھی لازم ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے اس کے کچھ حصوں پر پہلے میں کئی دفعہ روشنی ڈال چکا ہوں.سر دست اتنا کہنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی باطل نہیں ہے اور جس تخلیق کو آپ سب سے زیادہ بدصورت سمجھتے ہوں اس تخلیق میں بھی بعض مخفی حسن ہیں جو اس مخلوق کو خود معلوم ہیں، وہ اس کی شاکلہ میں داخل ہیں.وہ مخلوق سب سے بہتر جانتی ہے کہ مجھ میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتا.خالق
خطبات طاہر جلد ۱۲ 774 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء نے جیسا بنایا ویسا ہی ٹھیک تھا اور دوسرے اس کے بعض حسن ہیں جو موازنہ سے ظاہر ہوتے ہیں.بعض حسن ہیں جو آج نہیں تو کل ظاہر ہوں گے ، بعد کے زمانوں میں نکھر کر سامنے آتے ہیں.یہ ایک بہت ہی لمبا اور وسیع مضمون ہے میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ یا درکھیں جہاں بدصورتی بھی ہے وہاں ایک پیغام ہے جو آپ کو ضرور ملتا ہے اور بدصورتی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بدصورتی سے حسن کی طرف حرکت کریں، جہاں حسن کھینچتا ہے وہاں بدصورتی دھکا دیتی ہے اور بدصورتی کا دھکا دینے والا جو مضمون ہے کہ جس کو بدصورتی کی شناخت ہو جائے اس کو بدصورتی اپنے سے دور کرتی ہے، یہ سبحان کے لفظ میں بیان ہوا ہے اور جہاں جہاں خدا تعالیٰ کی سبحانیت کا ذکر ہے وہاں دراصل اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے اور تبتل کے لئے اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے.جہاں حمد کا مضمون ہے وہاں حسن کی ایک کشش ہے جس کا بیان ہوتا ہے اور جہاں سبحان کا مضمون ہے وہاں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جو بھی خامیوں کے تصورات ہیں، جو بھی بدیوں کے تصور ہیں ان تمام تصورات کے ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ پاک ہے.اس میں خامی کا کوئی ادنی سا بھی پہلو نہیں ہے.یہی وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے جو ابھی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی.فرماتا ہے.فَسُبْحن اللهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُوْنَ پس اللہ کی تسبیح کرو.ایک یہ مضمون ہے اور سبحان اللہ میں دوسرا مضمون یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ پاک پاؤ گے تم خواہ شام میں داخل ہورہے ہو یا صبح میں داخل ہورہے ہو تمہیں خدا تعالیٰ ہر نقص سے پاک دکھائی دے گا.شام میں داخل ہونے کے وقت کون کون سے ایسے نقائص ہیں جن کی طرف انسان کی توجہ پھرتی ہے.ایک تو روشنی کو آپ اندھیروں میں بدلتا ہوا د یکھتے ہیں ، امن کو خوف میں تبدیل ہوتا ہوا د یکھتے ہیں.یہ وہ مضامین ہیں اور ان کے علاوہ اور بہت سے مضامین ہیں جن کا دن کے رات میں داخل ہونے سے تعلق ہے ان سب پہلوؤں کی برائیوں سے آپ اللہ تعالیٰ کو پاک پائیں گے.پس خواہ تم دن سے رات میں داخل ہور ہے ہو یا رات سے دن میں داخل ہو رہے ہو.رات کے دن میں داخل ہونے میں رات کے تجارب بھی آجاتے ہیں.رات کی بعض تکلیف دہ یادیں بھی آجاتی ہیں اور پھر دن کی محنت جو سامنے کھڑی ہوتی ہے اور کئی قسم کی مشکلات جن کا دن سے تعلق ہے وہ بھی سامنے آجاتی ہیں.تو یہ ایسا مضمون ہے جو ہر انسان کی سوچ کے مطابق نئے نئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 775 خطبه جمعه ۱٫۸ کتوبر ۱۹۹۳ء واقعات میں ڈھل سکتا ہے اور ان واقعات کے تعلق میں انسان اللہ تعالیٰ کو برائیوں سے پاک دیکھ سکتا ہے اگر دیکھنا چا ہے تو.پس جب وقت بدل رہا ہو.حالات بدل رہے ہوں تو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کی تسبیح کا مضمون ضرور دل میں اٹھتا ہے.لیکن اس مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وہ صرف بدیوں سے پاک نہیں ہے.بدیوں سے پاک دیکھو گے تو تمہیں اس میں حمد دکھائی دینے لگے گی جو ایک مثبت مضمون ہے.جو بدی نہیں ہے اس کے بدلے ایک بہت عظیم الشان حسن موجود ہے.محض بدیوں سے پاک قرار دینا کامل تعریف نہیں ہے بلکہ ہر بدی جس سے کوئی چیز پاک ہوتی ہے اس کے مقابل پر اسے ایک خوبی اپنانی پڑے گی ورنہ وہ وجود نامکمل رہے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جب کہتے ہیں کہ وہ شام کے وقت بھی تمہیں پاک دکھائی دے گا اور صبح کے وقت بھی پاک دکھائی دے گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ وہ صرف بدیوں سے پاک ہے.اس کے لئے تو حد ہی حمد ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی.کائنات کا کوئی ذرہ، کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں خدا کی حمد کا مضمون دکھائی نہ دے رہا ہو.پھر پہلے مضمون کو شروع کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ کہ تم جب دن سے شام میں داخل ہوتے ہو اور اس کے بعد رات آجاتی ہے تو عَشِيًّا سے مراد وہ رات ہے اور رات سے دن میں داخل ہوتے ہو تو پھر وہ دو پہر میں تبدیل ہو جاتی ہے.پس جب تم رات میں داخل ہو کر رات گزار رہے ہوتے ہو یا دن میں داخل ہونے کے بعد دن کے عروج تک پہنچتے ہو.پس اندھیروں کا بھی ایک عروج ہے جس کا عَشِيًّا میں ذکر فرمایا گیا اور روشنی کا بھی ایک عروج ہے جس کا تُظهِرُونَ میں ذکر فرمایا گیا.ظہر کے وقت جب سورج سر پر چڑھتا ہے اور اس کے بعد بہت عرصہ تک اس کی تمازت اپنی پوری قوت سے جلوہ دکھا رہی ہوتی ہے.فرمایا اس وقت بھی تم خدا کو ہر کمزوری، ہر برائی سے پاک دیکھو گے.يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَقِّ وہ زندوں سے مردے پیدا کرتا ہے، زندوں کو مردہ بنادیتا ہے.يُخرِ حج کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے نکالتا ہے.يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيَّتِ زندوں سے مردوں کو نکالتا ہے.وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَقِّ مردوں سے زندوں کو نکالتا ہے.یہاں تک جب ہم پہنچتے ہیں تو یہ مضمون تھوڑے سے خدشات کا پہلو ہمارے سامنے رکھتا ہے.پہلے فرمایا.يُخْرِ محِ الْحَى
خطبات طاہر جلد ۱۲ 776 خطبه جمعه ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء مِنَ الْمَيِّتِ وہ مردوں سے زندہ پیدا کر دیتا ہے.یہ خوش خبری کی بات ہے انسان کہتا ہے الحمد للہ.مردوں سے زندہ پیدا ہوں گے لیکن معا ساتھ ہی فرما دیا کہ وَيُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَيِّ وہ پھر زندوں سے مردے بھی پیدا کر دیتا ہے.یہ ایک خوف کا مقام ہے لیکن بات یہاں ٹھہر نہیں گئی.پھر فرمایا.وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وہ زمین کو اس کی موت کے بعد پھر زندہ کر دیتا ہے.وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ تم اسی طرح زمین سے نکالے جاؤ گے یا ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف نکالے جاؤ گے.یہ مضمون ظاہری طور پر تو پورا ہوتا ہوا ہمیں دکھائی دیتا ہے.اس میں کسی سائنس دان کی گواہی کی ضرورت نہیں.ہر انسان دیکھتا ہے جانتا ہے کہ مردوں سے زندہ نکل رہے ہیں.اس کے کئی قسم کے مطالب ہیں.ایک مطلب یہ ہے کہ ایک نسل مرجاتی ہے اور دنیا سے تعلق کاٹ کر الگ ہو چکی ہوتی ہے.اس نسل کے بعد اس نسل کو زندہ رکھنے کے لئے انہی میں سے زندہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جو دراصل ان کو زندگی بخش رہے ہوتے ہیں یعنی پہلی نسل کے لوگ جو مر گئے ان کے بعد آنے والی نسلیں در اصل انہی مردوں کی زندگی کا نشان بنتی ہیں اور انہی کی زندگی کو جاری رکھنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں لیکن ان زندوں سے پھر مردے بن جاتے ہیں.تو اس میں ایک نصیحت تو یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کسی چیز کو بقا نہیں ہے.تم اگر آج زندہ ہو تو کل مر بھی جاؤ گے، اگر آج مری ہوئی تو میں ہو تو کل زندہ بھی ہو جاؤ گے.پس یہ مضمون ایک اور پہلو سے ہمارے سامنے کئی نصیحتیں لے کر آتا ہے.قوموں کے عروج و زوال اور زوال وعروج کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتا ہے.وہ لوگ جو ایک خاص قسم کی مردنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے مقابل پر طاقتور تو میں ان پر سوار ہیں اور ان پر غالب آچکی ہیں.یہ آیت ان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ دیکھو! گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ زندوں کو کچھ عرصہ زندگی کا موقع دیتا ہے اور ان کو آزماتا ہے.ان کو آزمائش کے دور سے گزارتا ہے اور پھر وہ اس اکھاڑے سے نکل جاتے ہیں ، ان کا دنگل ختم.ان کے بدلے پھر اور لوگ آیا کرتے ہیں.آج تم مردہ ہو تو کل زندہ بھی ہو سکتے ہو، آج جو زندہ ہیں اگر وہ اتر ائیں گے اور اس امتحان پر پورا نہیں اتریں گے تو کل وہ مر بھی سکتے ہیں بلکہ ضرور مریں گے.تو یہ جو عرصہ حیات ہے اس کی آزمائشوں کا ذکر اس مضمون میں آجاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور پھر زمین کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 777 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء کرتا ہے.وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ یاد رکھو کہ یہ جو زندگی اور موت کا سلسلہ اور ان کا ادلنا بدلنا ہے جہاں تک انسان کا تعلق ہے تمہارے لئے یہ آخری بات نہیں ہے.تم پھر زندہ کئے جاؤ گے اور جب زندہ کئے جاؤ گے تو حساب کتاب کے لئے زندہ کئے جاؤ گے.دنیا میں جو تمہاری آزمائشیں ہو رہی ہیں ان کی جزا یا سز ا تمہیں مرنے کے بعد دی جائے گی اس بات کو نہ بھولنا.ہمارے سامنے سزا یا جزا کے دو قسم کے نظام رکھ دیئے.ایک وہ جو انسانی زندگی کے بدلتے ہوئے حالات اور قوموں کے تغیرات سے تعلق رکھتے ہیں.وہ بہت سی قو میں جو اپنے عروج کی حالت میں کبھی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور انتہائی تکبر میں مبتلا تھیں وہ پیوند خاک ہو گئیں اور ان کی عظمتیں مٹ گئیں، ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ تاریخ کے صفحات میں ان کا ذکر ماتا ہے اور بہت سی مردہ تو میں جن پر بعض غالب تو میں سوار تھیں اور یوں لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی اس حالت سے باہر نہیں نکل سکیں گی وہ دنیا پر غالب آئیں اور ان پہلوں کے نشان مٹ گئے لیکن وہ باقی رہیں.پس تاریخ عالم جو سبق دیتی ہے یہ سبق بھی ان آیات میں مذکور ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا گیا کہ ادلنے بدلنے کا یہ مضمون اس دنیا میں ختم نہیں ہو جائے گا.آخر پھر تم زندہ کئے جاؤ گے اور اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے.دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (المومنون :۸۰) تم گھیر گھار کے جوق در جوق خدا کی طرف لے جائے جاؤ گے جس طرح ایک گڈریا اپنے گلے کو ہانک کر یا گھیر کر اس مقام کی طرف لے کر جاتا ہے جہاں اسے لے جانا مقصود ہو اسی طرح بالآخر تم اللہ کی طرف لوٹو گے.اس میں جو روحانی مضمون ہے وہ یہ ہے کہ مذہبوں کا بھی یہی حال ہے بہت سے مذاہب انبیاء کے ذریعے زندہ کئے جاتے ہیں وہ مردوں سے نکلتے ہیں لیکن اگر وہ اپنی زندگی کی حفاظت نہ کرسکیں تو بعد میں آنے والی نسلیں مرجاتی ہیں.یہ مضمون کمال کے ساتھ اس صورتحال پر بھی صادق آتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جو انبیاء کوقبول کرتے ہیں اور ان سے زندگی پاتے ہیں وہ بحیثیت قوم خود نہیں مرا کرتے.ان کی وہ زندگی ویسی ہی ابدی ہے جیسا کہ فرمایا کہ زمین کو اللہ تعالیٰ اس کے بعد پھر زندہ کر دے گا اور اس زندگی کے بعد تم خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے.وہ ایک ابدی زندگی ہے.پس جہاں تک انبیاء کو قبول کرنے والی قوموں کا اور ان پہلی نسلوں کا تعلق ہے جنہوں نے قربانیاں دے کر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 778 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء انبیاء کو قبول کیا ان کے لئے کوئی موت نہیں لیکن بعد میں آنے والے مرجایا کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ (الاعراف (۱۷۰) بعض بڑے بڑے نیک اعمال کرنے والے مقدس وجود تھے مگر بد قسمتی سے ان کی نسلیں ختم ہو گئیں.ایسی نسلوں نے ان کا ورثہ پایا جنہوں نے بد اعمال شروع کر دیئے اور ان کی زندگی موت میں تبدیل ہوگئی.پس بعض قو میں زندگی کی حالت میں جب اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک حق کو قبول کرتی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ موت کی حالت سے نکل کر ایک حق کو قبول کرنے کے نتیجہ میں زندگی پاتی ہیں ان کے لئے نصیحت ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کرنا ان کو بھی نہ مرنے دینا لیکن یاد رکھنا کہ تم سے کوئی ایسا ابدی وعدہ نہیں ہے کہ تم زندگی پاؤ گے تو لازماً تمہاری آنے والی نسلیں ہمیشہ زندہ رہیں گی.اس کے لئے یہ اصول یا درکھنا کہ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (البقره: ۱۲۵) کہ میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا.پس تم ایسی زندگی اختیار کرو جیسے کہ ایک روح ایک دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیا کی طرف حرکت کر جاتی ہے اور وہ زندگی جو موت کے ساتھ ادلتی بدلتی ہے وہ ایک دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے.پس تمہارے لئے ہم نے دنیا میں یہ موقع پیدا کر دیا ہے کہ خدا کے حضور پیش ہونے سے پہلے موت کی حالتوں سے ابدی طور پر نکل جاؤ.اپنی نسلوں کو بھی نکالو اور خود ایسے نکلو کہ پھر کبھی دوبارہ موت کی طرف لوٹ کر نہ جاؤ.یہ وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا اور اس تعلق سے میں نے اسے تبتل کے مضمون کے لئے چنا ہے.میں آج کل آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تبتل ضروری ہے.تل کا مطلب ہے ایک حالت کو چھوڑ کر، ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جماعت یا دوسری جگہ کی طرف منتقل ہو جانا یہاں تک کہ پہلی جگہ سے رشتے ٹوٹ جائیں تعلق ختم ہو جائیں ، یہ آیت بتاتی ہے کہ اس دنیا میں تم خواہ کتنی دفعہ مارے جاؤ اور زندہ ہو، بالآخر تم نے اس دنیا کو چھوڑ دینا ہے.بالآخر تمہیں اس دنیا سے رخصت ہونا ہوگا اور وہ تبتل جو بے اختیاری کا تبتل ہے وہ تو تم نے اختیار کرنا ہی کرنا ہے.کوئی نہیں ہے جو اس کے بغیر رہ سکے، بالآخر لازماً اس دنیا سے رخصت ہو کر تمہیں خدا کی طرف لوٹنا ہے.لیکن وہ تبتل جوتمہارے اختیار میں ہے اگر وہ تم نے مرنے سے پہلے اختیار نہ کیا تو تمہارا دل دنیا کی جن چیزوں میں اٹکا ہوا ہوگا.وہی تو قیامت کے دن تمہارے لئے جہنم کا موجب بن جائے گا کیونکہ جس سے تعلق ہو اس سے انسان جتنا دوری اختیار کرتا ہے اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے.جس سے تعلق نہ ہو جتنا اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 779 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء قریب ہواتنی ہی مصیبت پڑ جاتی ہے.آپ جانتے ہیں اور ہر انسان کی روز مرہ کی ملاقاتوں میں یہ بات آئے دن ظاہر ہوتی رہتی ہے.اگر تعلق والا پیارا ملتا ہے تو دل نہیں چاہتا کہ وہ اٹھ کر جائے اور کوئی بور کرنے والا یا کسی پہلو سے جو آپ کے لئے ناقابل قبول ہو یا بعضوں کو بعض شخصیتوں سے الرجی ہوتی ہے ایسا آدمی پاس آکر بیٹھ جائے تو مصیبت بن جاتی ہے حالانکہ وہ بے چارا کچھ بھی نہیں کہ رہا ہوتا.کوئی ظاہری تکلیف نہیں دے رہا ہوتا، بعض دفعہ وہ آپ کی روٹی بھی نہیں کھاتا.آپ کے لئے کچھ لے کر بھی آتا ہے لیکن جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں چلو اچھا ہوا، شکر ہے آخر نجات ملی.اس نے پیچھے توڑ دیئے تھے.تو وہ لوگ جو یہاں تقتل اختیار نہیں کرتے ان کے اس دنیا میں بیٹھے ٹوٹیں گے.وہاں جو وجود دکھائی دیں گے ان سے کبھی اس دنیا میں تعلق پیدا نہیں ہوا اور تعلق اس لئے پیدا نہیں ہوا کہ آخر وقت تک دنیا کے وجودوں سے ایسا تعلق قائم رکھا کہ جس کے ٹوٹنے سے ایک روحانی عذاب پیدا ہو جاتا ہے.ایسی حالت میں جان دی کہ تبتل نہیں ہو سکا تھا.ایسی صورت میں انگلی دنیا جہنم ہی جہنم ہے.لیکن محض اس طرح کی نہیں جیسے میں بیان کر رہا ہوں کیونکہ جہنم کی وہ شکل ایسی ہے جس کا ہم حقیقت میں تصور نہیں کر سکتے ہم جو چیزیں آج ایک جذبات اور کیفیات کی صورت میں سوچ رہے ہیں یہ اگلی دنیا میں موجودات بن جائیں گی.ان کو ظاہری جسم عطا کر دیئے جائیں گے اور اس صورت میں ان کے عذاب دینے کی طاقت بہت بڑھ چکی ہوگی اور یہ وہ مضمون ہے جو بیان کر کے یہ آیت وارننگ دیتی ہے کہ كَذلِكَ تُخْرَجُونَ تمہیں ہم لازماً یہاں سے نکال دیں گے.اس دنیا کو تم چھوڑ دو گے.اس لئے روحانی طور پر اس سے نکلنے کی تیاری کرو.آنحضرت ﷺ بھی جن مردوں کو زندہ کرنے کے لئے آئے وہ یہی مردے تھے جو روحانی طور پر مردہ تھے، ان کو بھی ایک موت کی حالت سے نکال کر ایک زندگی کی حالت میں داخل فرمایا گیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمُ (الانفال: ۲۵) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ اللہ اور اس کے رسول کی بات کا ہاں میں جواب دو لبیک کہو.اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُم جب وہ تمہیں بلاتا ہے تا کہ تمہیں زندہ کرے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 780 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں یا يُّهَا النَّاسُ نہیں فرمایا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا فرمایا ایمان لانے والے تو پہلے ہی زندہ ہو چکے ہیں.پھر نئی زندگی سے کیا مراد ہے جس کی طرف بلایا جا رہا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں تبتل مراد ہے ایمان لانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنے کی پہلی صلاحیت عطا ہوئی ہے مگر ابھی دنیا سے تبتل نہیں ہوا.اب یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ہر شخص اپنے نفس پر غور کر کے جانچ سکتا ہے، پہچان سکتا ہے، ہر انسان صاحب تجربہ ہے.ہم سب جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاکر آنحضرت میﷺ سے تجدید بیعت کر چکے ہیں.آپ پر دوبارہ حقیقی اور گہرا ایمان لے آئے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہم تبتل کی مختلف حالتوں پر ہیں.ہم میں سے بہت سے ہیں جو ایمان لانے کے باوجود اس آواز پر لبیک نہیں کہہ سکتے جو زندگی کی آواز ہے اور وہ زندگی ایک قسم کی موت کو چاہتی ہے.مردوں سے نکل کر زندگی میں آنا مردہ حالت پر موت وارد کرنے کے مترادف ہے اور ویسی ہی تکلیف دہ چیز ہے جیسے زندگی سے موت میں داخل ہونا لیکن زاویہ نظر بدل جاتا ہے.جس طرح ایک زندہ کے لئے بڑی مصیبت ہے کہ وہ موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھے اور اپنی طرف آتا ہوا محسوس کرے پتا ہو کہ اب میں جانے والا ہوں.ایسی حالت میں انسان کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں لیکن وہ لوگ جو مردے ہیں جب ان کو موت سے زندگی کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے.زندگی کا جواب ہاں میں دینا بڑی مصیبت ہے.اب یہ بات تو قطعی طور صلى الله پر ثابت ہوگئی کہ آنحضرت ﷺہ مومنوں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں.جو ایمان لے آئے ہیں ان کو زندگی بخشنا چاہتے ہیں اور زندگی کی راہوں کی طرف بلا رہے ہیں.فرمایا: اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ اللہ اور اس کے رسول کو ہاں میں جواب دو اس کی آواز پر لبیک کہو لیکن جب لبیک کے موقعے آتے ہیں تو ہم اپنے اندر کتنی کمزوریاں پاتے ہیں اور وجہ یہی ہے کہ ہمارا تبال نہیں ہوا.ہم رسوں سے بندھے ہوئے ہیں.جہاں جہاں آنحضور ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے دقت محسوس کی جائے یا لبیک نہ کہی جائے ایسی مجبوری ہو جائے یا بہت زور لگا نا پڑے اور بڑی مصیبت سے قربانی کر کے لبیک کہنا پڑے تو اس موقع پر آپ بہترین طور پر اپنی جانچ کر سکتے ہیں کہ کتنا آپ کا تل ہوا ہے اور کتنا ہونا باقی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 781 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء جس جس اندھیرے سے آپ کو روشنی کی طرف بلایا جاتا ہے اس اندھیرے نے آپ کے قدم تھامے ہوئے ہیں کہ نہیں.یہ مضمون ہے جو ان آیات میں بیان ہوا ہے اگر قدم تھامے ہوئے ہیں تو آپ کے لئے خدا اور رسول کی آواز کا ہاں میں جواب دینا بہت مشکل ہو جائے گا.باوجود اس کے کہ آپ جانتے ہیں کہ زندگی کی طرف بلا رہے ہیں.پس جس طرح زندہ کا مرنا مشکل ہے اسی طرح مرے ہوئے کا جینا بھی تو مشکل ہے کیونکہ مشکل کا سارا راز انقطاع میں ہے.ایک حالت کو چھوڑ کر دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے.اس حالت پر پڑے ہوئے آپ کی جڑیں جتنا اس میں قائم ہو چکی ہوں گی اور آپ اس کے ساتھ پیوستہ اور وابستہ ہو چکے ہوں گے اتنا ہی آپ کے لئے جگہ تبدیل کرنا مشکل ہو جائے گا.پس اللہ تعالیٰ تبتل کا ہی مضمون اس رنگ میں بیان فرما رہا ہے کہ دیکھو ہاں میں جواب دینا ورنہ تم مرے رہو گے.خالی ایمان تمہارے کسی کام نہیں آئے گا.پھر فرمایا : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (الانفال: ۲۵) تمہاری نیتیں جو کچھ بھی ہوں تم اپنے لئے کئی قسم کے بہانے تراش لیا کرو گے کہ اس بات کا تو میں جواب نہیں دے سکتا اس لئے کہ یہ مشکل ہے، فلاں بات کا اس لئے نہیں دے سکتا کہ یہ مشکل ہے.آج میں اتنا بوجھ اٹھا نہیں سکتا کل کوشش کروں گا.نفس ہزار قسم کے بہانے ڈھونڈتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یا درکھنا جب خدا اور خدا کے رسول تمہیں بلاتے ہیں تو تمہاری نیتوں کے بیچ میں خدا بیٹھا ہوا ہے.کیسا حیرت انگیز نقشہ کھینچا گیا ہے.يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہ انسان کی ذات اور اس کے قلب کے درمیان میں خدا ہے حالانکہ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان اپنے قلب کے قریب ترین ہے.یہاں قلب سے مراد نیتوں کی آخری آماجگاہ ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تم سے بہتر تمہیں جانتا ہے اور جو بھی سوچو گے، جو بھی پیغام تمہارا دل تمہیں بھیجے گا اور وہ عذر بن کر تمہاری زبانوں سے نکلے گا.ایک Sensor بیچ میں ہو رہا ہوگا.اللہ تعالیٰ پتا کر لے گا کہ اصل بات کیا تھی.دل سے کیا اٹھا تھا اور زبان سے کیا نکلا ہے.اس کا ایک عظیم الشان Sensor کا نظام ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے اور پھر وہی بات فرمائی.وَاَنَّةَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ.پس اس آیت میں جو تُخْرَجُونَ کہہ کر فرمایا کہ زمین سے نکالے جاؤ گے اور پھر خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے اس کو یہاں یوں بیان فرمایا کہ وَاَنَّةَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ تم نے آخر وہیں چلے جانا ہے.اس لئے اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 782 خطبه جمعه ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء سے پہلے پہلے جن بدیوں سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہو علیحدگی اختیار کرلو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں: یا درکھو انسان کو اللہ تعالیٰ نے تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا ہے.اس لئے اس کو چاہئے کہ اسی میں لگا ر ہے.اس جہان کی جس قدر چیزیں ہیں.بیوی، بچے ، احباب، رشته دار، مال و دولت اور ہر قسم کے املاک، ان کا تعلق اسی جہان تک ہے.اس جہان کو چھوڑنے کے ساتھ ہی یہ سارے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں...وہ مضمون جو میں ان آیات کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں یہ وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.”...اس جہان کو چھوڑنے کے ساتھ ہی سارے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ ہے اور اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی اس کی ضرورت ہے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ: ۳۴۸) پس جس جہان میں جارہے ہیں وہ خلاؤں کا جہان نہ نکلے.یہ نہ ہو کہ یہاں سے کچھ بھی اس جہان والے سے تعلق کی صورت میں ساتھ لے کر نہ جائیں.ایک جگہ سے تعلق کا ٹا جائے اور دوسری جگہ تعلق قائم نہ ہو تو یہ بربادی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اتنا کیوں نہیں سوچتے کہ یہ جو دنیا کے تعلقات ہیں، زیادہ سے زیادہ پیارے لوگ.تمہارے بچے ، تمہارے اقرباء، تم سے محبت کرنے والے، تمہارے محبوب ، تمہاری دولتیں، یہ ساری کی ساری ایک دن لازماً یہیں رہ جائیں گی.ان کا ایک ذرہ بھی تمہارے ساتھ نہیں جائے گالیکن ایک وجود ہے جو یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے.اس سے اگر تم نے یہاں تعلق قائم کر لیا تو وہاں وہ کام آئے گا.وہاں تنہائی محسوس نہیں کرو گے اور جتنا تعلق یہاں قائم کرو گے اتنا ہی وہاں تمہارے لئے دلجمعی کے سامان ہوں گے اور دل لگانے کے لئے خدا تعالیٰ تمہارے لئے ایسی ایسی چیزیں ظاہر فرمائے گا کہ جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے.تصور نہ کرنے کا مضمون دوسری جگہ بیان ہوا ہے اس کو میں نے یہاں داخل کیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 783 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء ہے کیونکہ اس موقع کے لئے ہی ہے.مراد یہ ہے کہ اگر اس دنیا میں خدا سے تمہارا تعلق قائم ہو گیا تو پھر اس دنیا میں جو تعلق قائم ہو گا وہ اس سے بہت زیادہ لذیذ بن کر ظاہر ہو گا جو تم اس دنیا میں چکھ چکے ہو.بظاہر یہی کہو گے کہ ہم نے پہلے بھی یہ چکھا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہیں تم نہیں جانتے یہ تو بالکل اور چیزیں ہیں، ویسی ہیں ملتی جلتی ہیں لیکن اپنی کیفیت اور کمیت اور لذتوں کے لحاظ سے گویا زمین آسمان کا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں خدا سے تعلق کا مضمون بیان فرمایا وہاں پہلے دنیا سے عدم تعلق کا مضمون بیان فرمایا ہے اور اسی کا نام تبتل الی اللہ ہے کیونکہ ایک تعلق کے ہوتے ہوئے دوسرا تعلق ہو نہیں سکتا.ہر معاملہ میں موازنہ ہوتا ہے.ایک طرف سے دوسری طرف حرکت کرنے کے لئے لازم ہے کہ دوسری طرف کا تعلق غالب آجائے اور ایک طرف کا تعلق مغلوب ہو جائے.یہ قانون قدرت ہے کسی انسان کے اندر طاقت ہی نہیں کہ جس میں تبدیلی پیدا کر سکے.اگر کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو اس کے مقابل پر جو چیز آئے گی اور اس تعلق کی راہ میں حائل ہوگی اس سے ویسی ہی نفرت پیدا ہوگی.نصیحت کرنے والے لاکھ نصیحتیں کریں اگر ایک انسان کو کسی سے محبت ہے اور ناصح اس محبت کی راہ میں حائل ہوتا ہے تو عام حالات میں آپ نصیحت کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ بہت بہت شکریہ.جزاک اللہ.بڑی اچھی بات کی لیکن اگر وہ آپ کی محبت کی راہ میں حائل ہوتا ہے تو آپ اس کو ایسی نفرت سے دیکھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو میرا سب سے بڑا دشمن ہے.اس بد بخت کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ میرے تعلقات کے معاملات میں دخل دے.پس تجمل دوسرے تعلق کے لئے ضروری ہے اور جتنا تعلق بڑھے گا اتنا تنبتنل آسان ہو جائے گا.جتنا نتل زیادہ ہوگا اتنا دوسرے تعلق کے قائم ہونے کے امکانات زیادہ روشن ہوتے چلے جائیں گے.پس اس پہلو سے جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ہم روزانہ اپنا امتحان بھی کر سکتے ہیں اور اپنے آپ کو دیکھ بھی سکتے ہیں اگر ہم ذراسی ہوش پیدا کر لیں تو ہمارے اندر وہ آئینے موجود ہیں جن میں ہماری روزانہ جو شکل بن رہی ہے وہ دکھائی دے سکتی ہے.خدا سے ملے کہ نہیں ملے یہ مضمون اگر مہم رہے گا تو آپ کو کچھ بھی پتا نہیں چلے گا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن سبحان اللہ کے مضمون نے ہمیں بتا دیا کہ یہ تو بڑا آسان مضمون ہے.اگر تم بدیوں سے متنفر ہور ہے ہو تو تم لا ز ما تبجبل اختیار کر رہے ہو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 784 خطبه جمعه ۸/اکتوبر ۱۹۹۳ء اگر بدیوں سے تمہاری محبت بڑھ رہی ہے تو لازماً تم اللہ سے غیر اللہ کی طرف جارہے ہو اور روزانہ ہم اپنی بدیوں کو جانتے پہچانتے ہیں ہمیں پتا ہے کہ ہمارے اندر کیا کمزوریاں ہیں اور وہی اندھیرے ہیں جہاں سے نکل کر اگر ہم دوسری طرف حرکت کریں گے تو اندھیروں کے مقابل پر ہر طرف خدا ہی کی ذات ہے.ان معنوں میں وہ محیط ہے.کسی بھی اندھیرے سے آپ نکلیں گے تو خدا کی ذات نظر آئے گی کیونکہ وہ روشنی ہے، اندھیرے سے نکلے کا مضمون یہ ہے کہ روشنی کی طرف جائیں.پس ان معنوں میں تبتل کے مضمون کو سمجھ کر اپنی ذات پر چسپاں کریں.اپنی بدیوں کو روزانہ دیکھیں ، اپنی کمزوریوں کو دیکھیں، نمازوں میں سستی ہو جاتی ہے.سنتی کیوں ہوتی ہے؟ کبھی غور کریں تو پتا چلے گا کہ تبتل نہیں ہوا.نماز کے مقابل پر ایک چیز زیادہ پسندیدہ ہے اور اس پسندیدہ چیز کو چھوڑا نہیں جاتا.آنحضرت کی کیفیت اس کے برعکس تھی.آپ ﷺ کے متعلق روایت میں آتا ہے کہ آپ جب نماز چھوڑ کر دوسرے کاموں میں جاتے تھے تو دل نماز میں اٹکا ہوا ہوتا تھا.ہم عام انسان ایسے ہیں کہ خواہ عبادت کے کسی مقام پر بھی ہوں ہم میں ، ہماری ذات میں ، ہمارے مشاہدہ میں ضرور ایسے مواقع آتے ہیں کہ نماز خدا کے حضور ادا کر رہے ہیں اور دل کہیں اور اٹکا ہوا ہے اور بار بار خیالات کو کھینچ کر اس طرف لے کر جاتا ہے تو تجبل ہوا انہیں تو نماز کیسے قبول ہوگی.پہلے جو دنیا کے دھندے ہیں ان سے چھٹکارا نصیب ہوگا تو پھر اللہ کے دھندوں سے تعلق پیدا ہو گا.ایک چھوٹی سے مثال آپ کے سامنے رکھی ہے لیکن یہ ایسی مثال ہے جس پر اگر غور کریں تو ایسی بکثرت مثالیں آپ اپنی زندگی میں وارد ہوتی روز مرہ دیکھیں گے اور آسانی کے ساتھ اپنی حالت کو خوب پہچان سکتے ہیں.کسی باہر سے آنے والے کی ضرورت نہیں کہ آکر شناخت کرے.آپ کے دل میں آپ کا ایک آئینہ ہے جو آپ کی تصویر دکھا رہا ہے اور اگر آپ نے اس تصویر کی طرف توجہ نہ کی تو وہ نقش پکے ہوتے چلے جائیں گے.یہ وہ خطرہ ہے جس سے میں آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں.ایک ایسا شخص جو تصویر میں دیکھ رہا ہے اور اپنے داغوں کو پہچانتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ ان داغوں سے نجات پائے ، وہ اگر نامکمل حالت میں بھی مرگیا تو اس کی ہجرت خدا کی طرف ہو رہی ہوگی اور اس کے لئے امن کا پیغام ہے لیکن ایک شخص جو داغوں کو دیکھتا ہے اس کو فکر پیدا نہیں ہوتی.اس کے داغ ضرور بڑھتے ہیں اگر وہ اپنے گھر میں گند دیکھتا ہے اور گند دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو کچھ دنوں کے بعد وہ گھر گند کا انبار بن جاتا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 785 خطبه جمعه ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء ہے، گندگی کے ڈھیر اس گھر میں لگ جاتے ہیں.پس مسلسل نگہداشت کرنا ، اپنی کمزوریوں کو پہچاننا اور پیش نظر رکھنا اور ان داغوں کو مٹانے کی کوشش کرتے چلے جانا جو بدیوں کے داغ ہیں یہ تبتل ہے.پھر ہر کمزوری کے مقابل پر آپ کو حمد کا ایک مضمون بھی دکھائی دینے لگے گا.اگر کمزوری سے نکلیں گے تو دکھائی دے اور نہ نہیں دکھائی دے گا.اکثر انسانوں کی کمزوری کی حالت ان کی ذات میں حمد کی ایک حالت بنی ہوئی ہوتی ہے.کیونکہ جس چیز سے محبت ہے اس کی دل میں تعریف ہے تو محبت ہے.حمد کا مضمون بھی دیکھیں کتنا بدل جاتا ہے.آپ بدیوں میں مبتلا ایک شخص کی حمد کو پہچانیں گے تو معلوم ہوگا کہ بعض لوگ ہیں جن کو ڈرگ ( Drug) سے محبت ہے اور ڈرگ کی حمد کرتے ہیں.جانتے ہیں کہ ہلاکت ہے لیکن دل میں حمد کا ایک بگڑا ہوامفہوم پیدا ہو جاتا ہے.پس دل میں حمد کا سچا مفہوم پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک پہلے حقیقی تبتل نہ ہو جائے اور بدی کی پہچان نہ ہو جائے.پس بدیوں کی پہچان کریں اور بدیوں کو چھوڑنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کریں.ایک جہاد شروع کر دیں، کوشش کریں اور بالآخر کامیابی کیسے ہوگی اس کا میں انشاء اللہ آئندہ ذکر کروں گا.ابھی بہت سی اور باتیں آپ کے سامنے رکھنے والی ہیں.کچھ مثالیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے پیش کر کے آپ کو بتانا ہے کہ جب تبتل ہو تو پھر کیا ہوا کرتا ہے اور امید ہے ان حوالوں سے جماعت کو انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ گہرا اور حقیقی عرفان نصیب ہوگا.اس کے بعد پھر حمد کا مضمون شروع ہو گا ، ذکر الہی کا مضمون.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھیں کس عمدگی کے ساتھ اس مضمون کو ترتیب دی ہے فرمایا تو حید خالص کے بغیر تمہیں تبتل کی کچھ سمجھ نہیں آئے گی.توحید کے سہارے تبتل ہوگا.جب تبتل ہوگا تو کس طرف ؟ حمد الہی کی طرف اور حمد الہی ذکر پیدا کرتی ہے اور حمد کا جتنا شعور بڑھتا ہے اتنی ہی محبت بڑھتی جاتی ہے، اتنا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے جس سے محبت ہو لوگ اس کے تذکروں میں ہی مزے لیتے رہتے ہیں، اسی کا نام یاد کی لذتیں ہیں.ایک مہجور انسان جو ہجر میں مبتلا ہے، اپنے محبوب سے دور ہے اس کا ذکر اس کی یاد بن جاتا ہے اور جہاں ہم خیال بیٹھتے ہیں وہ پھر ان کے تذکرے کیا کرتے ہیں.پس تبتل بالآخر لا ز ما ذکر میں تبدیل ہوگا.اور ذکر کیا ہے؟ اس مضمون پر انشاء اللہ اس کے بعد روشنی ڈالوں گا.
786 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 787 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء تبتل کا اصل مطلب بدیوں سے نجات حاصل کرنا.کشتی نوح میں بیان تعلیم کی پر معارف تشریح ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ اکتو بر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے ارشاد فرمایا.گزشتہ جمعہ پر تل کا مضمون بیان کرتے ہوئے میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ مرنا ہی مشکل نہیں.زندہ ہونا بھی بہت مشکل ہے بلکہ مرنے سے زیادہ مشکل ہے.اس سلسلہ میں مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے آج پھر کچھ اجتماعات کا اعلان کرنا ہے.جو اجتماعات کل سے شروع ہو چکے ہیں اور آج بھی جاری ہیں غالباً میرے آج کے اس خطبہ کے بعد جو وہاں شام کے قریب کسی وقت سنا جائے گا یہ اجتماع ختم ہوں گے ان میں مجلس انصار اللہ کے اجتماعات، بہاول نگر ، رحیم یارخان، اوکاڑہ، جہلم اور نواب شاہ ضلع کے ہیں.یہ سب کل ۱۴ را کتوبر سے شروع ہوئے ہیں اور آج ختم ہوں گے.یہ ساری وہ مجالس ہیں جن میں مختلف وقتوں میں دوروں کی توفیق ملتی رہی بہت سے ایسے چہرے ہوں گے جو ابھی بھی انصار اللہ کے مختلف عہدوں پر فائز ہوں گے.وہ مقامات جہاں پر اجتماعات ہو رہے ہیں وہ بھی اکثر میری نظر میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل کے ساتھ ان مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن مقاصد کے پیش نظر یہ اجتماعات ہوتے ہیں.خدام الاحمدیہ کے اجتماعات جو کل سے شروع ہوئے ان میں ضلع گوجرانوالہ، نارووال،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 788 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء گجرات ، راولپنڈی ،لودھراں، پشاور کے اجتماعات ہیں.پشاور کا اجتماع اگر چہ ضلعی ہے لیکن دوسرے اضلاع سے بھی خدام شرکت کر رہے ہیں اس لئے عملاً یہ صوبائی بھی بن گیا ہے.جو اجتماع آج سے شروع ہورہے ہیں ان میں مجلس انصار اللہ ضلع اٹک ، خدام الاحمدیہ ضلع نواب شاہ اور ڈرگ روڈ کراچی کے اجتماعات ہیں.اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ ضلع نوشہرو فیروز کا اجتماع بھی ۱۵ را کتوبر سے ہی شروع ہو رہا ہے اور کل ختم ہوگا.جو اجتماع کل سے شروع ہوں گے ان کے ذکر کے متعلق بھی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اس میں مجلس انصار اللہ ضلع بدین اور گجرات (پاکستان) کے اجتماع ہیں اور اسی طرح مجالس انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ ، اطفال الاحمدیہ آل آندھرا ہندوستان کے سالانہ اجتماعات ۱۶ سے شروع ہو کر ۱۷؎ اکتوبر تک جاری رہیں گے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ہر اجتماع پر الگ الگ نصیحتوں کی نہ تو ضرورت ہے نہ عملاً ان کا کوئی فائدہ ہے کیونکہ جو صیحتیں ساری جماعت کو کی جاتی ہیں ان میں خدام، انصار، لجنات، اطفال سب پیش نظر ہوتے ہیں.ان نصیحتوں پر کان نہ دھرنا اور الگ نصیحتوں کا مطالبہ کرنا یہ تو ایک بے معنی سی بات ہے.اس پر تو وہی لطیفہ صادق آتا ہے جیسا کہ شاید پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ایک میراثی اپنی بہن سے ملنے گیا اور پنجاب میں یہ رواج ہے کہ جو بھائی اپنی بہن سے ملنے جاتا ہے وہ پنیاں لے کر جاتا ہے وہ بے چارہ کبڑا تھا اور بہن کے گلہڑ نکلے ہوئے تھے.گٹھلیاں سی دونوں طرف تھیں، بہن نے جب دیکھا کہ بھائی خالی ہاتھ آیا ہے تو مذاق کے طور پر اس نے کہا کہ بھائی اپنوں کی یہ گھڑی جو تم نے اٹھا رکھی ہے اتار کر مجھے پکڑا دو یعنی اس کے کبڑا ہونے کی طرف اشارہ تھا اور مذاق تھا کہ تم خالی ہاتھ آئے ہو، ہاتھ میں تو کچھ نہیں ہے.شاید تم نے پیٹھ کے اوپر یہ پیوں کی گٹھڑی اٹھا رکھی ہے.بھائی میراثی تھا اس نے فورا جواب دیا کہ پہلے انگلیاں تے لنگائے، یعنی جو پہلے گلے میں انکلی ہوئی ہیں وہ تو پہلے کھاؤ پھر دوسری پنیوں کا مطالبہ کرنا تو جب بھی مجھ سے بار بار نصیحتوں کا مطالبہ ہوتا ہے تو ذہن اس لطیفے کی طرف چلا جاتا ہے.وہ لطیفہ تو محض مذاق ہے لیکن جو میں کہہ رہا ہوں یہ حقیقت ہے وہ نصیحتیں جو پہلے کی جائیں اگر وہ گلے میں انکی رہ جائیں اور دل تک نہ اتریں یا کانوں میں پھنس جائیں اور ذہن میں نہ جائیں تو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 789 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء ایسی نصیحتوں کا فائدہ کوئی نہیں اور ایسی نصیحتیں سننے والا مزید کے مطالبے کا حق نہیں رکھتا.پس میں خطبات میں جو کچھ کہتا ہوں وہ بہت ہے بلکہ بعض دفعہ دل پر یہ بوجھ پڑتا ہے کہ اتنا زیادہ کہہ دیا گیا ہے کہ ابھی شاید جماعت میں اس یہ سب کچھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں ہے لیکن بار بار دہرا کر کچھ تسلی ہوتی ہے کہ جو باتیں ضرورت سے زیادہ محسوس ہوئی ہوں، بار بار کہنے سے دل نشین ہو جائیں گی اور اس سے رفتہ رفتہ جماعت کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی.میں زندگی اور موت سے متعلق جو مضمون بیان کر رہا تھا اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ موت سے زندگی زیادہ مشکل ہے اور روحانی زندگی کے متعلق تو یہ سو فیصد درست ہے کہ زندہ ہونا زیادہ مشکل ہے، زندہ ہونے کی تمنا بھی مشکل ہے اور یہ خیال کہ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ میں بدیوں سے چھٹکارا حاصل کروں اور نیکیوں کی طرف حرکت کروں.یہ محض ایک خوش فہمی ہے.ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، اس میں حقیقت نہیں ہے.عملاً جب میں نے غور کیا تو صوفیاء کا ایک مقولہ میرے ذہن میں آیا جو صوفیاء کو بہت پسند ہے کہ مو تو قبل ان تموتوا کہ مرنے سے پہلے مرجاؤ.اس سلسلہ میں مجھے خیال آیا کہ احادیث میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ نے ایسا فرمایا ہو جہاں تک میں نے تلاش کیا ہے یا کروایا ہے مجھے ایسی کوئی حدیث دکھائی نہیں دی لیکن قرآن کریم میں یہ ذکر ضرور ملتا ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلائیں تو استَجيبُوا ( الانفال: ۲۵) اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کا جواب دو اور زندہ ہونے کے لئے آگے بڑھو.پس موت کا انہیں زندگی کا ذکر ہے اور انبیاء موت سے زندہ کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس زندگی کو دراصل دوسرے صوفیاء نے موت کا نام دے دیا ہے کیونکہ وہ زندگی موت سے بھی زیادہ دو بھر ہے جن باتوں کی طرف بلایا جاتا ہے وہ گویا مر جانے کے مترادف ہے.پس اپنے اپنے ان تعلقات پر اگر آپ غور کریں جن تعلقات نے آپ کو خدا کے مقابل پر کسی اور بدی کا غلام بنا رکھا ہے تو پھر آپ کو بات کی کچھ سمجھ آئے گی کہ ان تعلقات سے چھٹکارا حاصل کرنا تو الگ رہا ان تعلقات سے چھٹکارے کی گہری تمنا کا پیدا ہونا بہت مشکل کام ہے.قرآن کریم نے اسی لئے حضرت یوسف کو ایک عظیم الشان مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے.حضرت یوسف کی طرح کے واقعات لاکھوں، کروڑوں،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 790 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء اربوں دنیا میں ہو رہے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو چاہتے ہوں گے کہ اس بدی میں مبتلا نہ ہوں جس بدی کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ بدی ہے لیکن بے اختیار ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں، بے اختیار ہیں ہم کوشش تو کرتے ہیں مگر چھٹکارا نصیب نہیں ہوتا.قرآن کریم نے اس نفسیاتی بیماری کو خوب کھول کر ایک مثال کی صورت پیش فرما دیا.فرمایا ایک یوسف بھی تو تھا جس کے پیچھے ایک ایسی عورت پڑی تھی جس میں خود ذاتی طور پر رعنائیاں تھیں، حسن کا کمال تھا، جذب تھا اور یہی مضمون ہے جس کی طرف اس میں اشارہ ملتا ہے کہ اس نے بھی ارادہ کیا اور اس نے بھی ارادہ کیا یا خواہش کی.حضرت یوسف کے متعلق فرمایا کہ خواہش کی یا کر لیتے اگر اللہ تعالیٰ یہ نہ کر دیتا.تو حضرت یوسف کی خواہش کے متعلق یہ شرط پیش کر دی کہ خواہش ہوسکتی تھی.بھاری امکان تھا طبعی تقاضے تھے مگر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گیا.میں نے جو یہ کہا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ زلیخا کو ایک خوبصورت، دلکش عورت کے طور پر پیش کرتا ہے.اس کا استنباط اسی سے ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کے دل میں اس کی طرف جھکنے کا طبعی طور پر امکان موجود تھا اور بڑا قوی امکان موجود تھا.اتنا قوی کہ جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ گویا ارادہ کر لیا لیکن اللہ کا فضل حائل ہوا اور اللہ کے فضل نے حضرت یوسف کو اس ظلم کا شکار ہونے سے بچالیا.وہ کیوں ہوا؟ اس مضمون کو کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے ایک دعا کی.پہلے اپنے نفس پر غور کیا اور غور کرنے کے بعد یہ دعا کی کہ اے خدا! جس طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں میں نفس کے تجزیہ کے بعد اس یقین تک پہنچا ہوں کہ مجھے قید ہونا زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس بدی کا شکار ہو جاؤں.اس سے یہ مزید استنباط بھی ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ کرنا درست نہیں ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے ارادہ کر لیا تھا.مراد یہ ہے کہ ارادے کے تمام محرکات موجود تھے.اگر خدا کا خاص فضل اس شخص پر نازل نہ ہوا ہوتا اور اللہ کی خاص قدرت نے اس کو پاک نہ کیا ہوتا تو وہ ضرور ارادہ کر لیتا لیکن یہ دعا حائل ہوگئی ہے اور یہ دعا بتاتی ہے کہ ارادہ نہیں تھا کیونکہ فرماتے ہیں کہ مجھے تو قید ہونا زیادہ منظور ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگی جائے کہ اے اللہ مجھے قید زیادہ منظور ہے عام حالات میں تو انسان کہتا ہے کہ اے اللہ مجھے بچالے.یہ کیوں مطالبہ کرے کہ مجھے ایک اور مشکل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 791 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء میں ڈال دے.اس مضمون پر غور کرنے سے کچھ اور باتیں سامنے آتی ہیں.اول یہ کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعا اس وقت کی دعا ہے جبکہ ان کی شرارت بڑھتے بڑھتے ایک ایسی سازش میں تبدیل ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں آپ کو جیل سامنے دکھائی دے رہی تھی اور جانتے تھے کہ انہوں نے مجرم بنا کر مجھے جیل خانے بھجوادینا ہے.یہ ایک احتمال تھا.اس احتمال کی صورت میں آپ نے اپنے دل کو ٹولا ایک طرف وہ کشش تھی جو ایک طبعی کشش تھی اور دوسری طرف خوف حائل تھا کہ اگر میں اس گناہ میں مبتلا نہ ہوا تو پھر یہ سزا ملے گی.ان دونوں متفرق سمتوں کے دباؤ کے نیچے آکر پھر دل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں بچنا چاہتا ہوں اس وقت کی دعا نا مقبول ہو ہی نہیں سکتی.پس وہ لوگ جو تبتل چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ایک عظیم مثال ہے.تبتل سے پہلے نفس کا تل ہوناضروری ہے ورنہ ظاہری تبتل ممکن نہیں ہے اور جہاں تک دوسری حکمتوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ اے میرے بندے! تو قربانی کے لئے تیار ہے میں تجھے جیل سے بھی بچاتا ہوں لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اس بدی کے پیچھے ایک بہت بڑا حسن پوشیدہ تھا.جیل میں جانے سے ہی ترقیات کے وہ تمام دروازے کھلے ہیں جن کے متعلق ویسے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.لیکن اس مشکل کے رستے سے اللہ تعالیٰ نے فراخی کے رستے کھول دئے اور حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو اس عظیم مقام تک پہنچایا جہاں پہنچانا مقدر تھا لیکن حضرت یوسف کی دعا اس میں مددگار بن گئی.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مثالیں محفوظ فرمائی ہیں ان کی دنیا پر آپ غور کر کے دیکھیں انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے.عظیم کلام ہے جس کے اندر اپنی سی ایک دنیا ہے، اپنے قانون چل رہے ہیں اور ایک بات کو دوسری بات سے گہرا ربط ہے.پس تبتل کا مضمون ہم پر ظاہر ہو گیا کہ اگر تبتل کرنا ہے تو تبتل بہت مشکل کام ہے.مرنے سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ انسان جس چیز سے چمٹارہتا ہے اس سے علیحد گی عملاً موت دکھائی دیتی ہے.پس یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جہاں زندگی کی ہر تمناموت دکھائی دے رہی ہے.ایک دفعہ کا مرنا نہیں ہے.بار بار کا مرنا ہے لیکن زندہ ہونے کی خاطر اور زندہ ہونے کی تمنا کے رستے میں یہ باتیں روک ہیں.تو تمنا ہی نہیں اٹھتی.یہ تمنادعا سے اٹھ سکتی ہے دعا کے نتیجے میں بیدار ہوسکتی ہے ورنہ سوئی پڑی رہے گی.اس حصے کی طرف میں بعد میں آؤں گا پہلے میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ تبتل کہاں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 792 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء سے کہاں ہوگا جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ تبتل کا اصل میں مطلب ہے بدیوں سے نجات حاصل کرنا.بدیوں سے تعلق توڑنا ، یہ تعلق دو طرح سے ٹوٹ سکتا ہے ایک یہ کہ بدیاں دھکا دے دیں.حالات ایسے پیدا ہو جائیں کہ انسان مجبور اور بے اختیار ہو جائے کوئی رستہ باقی نہ رہے ایسی صورت مثلاً یوں پیدا ہوتی ہے کہ کسی کا محبوب مرجائے تو ایسا سخت دھکا لگتا ہے کہ انسان دنیا سے ہی بیزار ہو جاتا ہے.کسی ماں کا پیارا بیٹا فوت ہو جاتا ہے کسی کی ساری جائیداد برباد ہو جاتی ہے گھر بار کو آگ لگ جاتی ہے یا ڈا کو لوٹ کر لے جاتے ہیں.ساری عمر کی کمائی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے.ایسے موقع پر تل کے لئے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن یہ تجل اصل میں وہ تبتل نہیں ہے جس کی طرف قرآن کریم بلا رہا ہے.اس تبتل کے نتیجہ میں کئی قسم کی باتیں ہوسکتی ہیں.مثلاً جب انسان کو ایک دھکا لگتا ہے گہرا صدمہ پہنچتا ہے تو بعض دفعہ انسان ایسی صورت میں خدا کی طرف جانے کی بجائے انسانوں کی طرف مائل ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ دنیا کے اس دھکے کے نتیجہ میں ضرور خدا ہی کا خیال آئے وہ اور زیادہ دنیا کی چیزوں کی طرف گرتا ہے.بعض دفعہ ایسا آدمی ہوش گنوا بیٹھتا ہے، پاگل ہو جاتا ہے.اس طرح اپنا تعلق تو ڑتا ہے کہ ہوش بھی جاتے رہتے ہیں.اس مضمون میں ایک اندرونی ربط ہے اصل میں وہ تعلق جوٹوٹ نہ سکے وہ غالب آچکا ہو اس کو انسان بھلائے تو بھول سکتا ہے ورنہ ٹوٹ نہیں سکتا.پس ایسا شخص جو کسی ایسی چیز سے محبت کرتا ہے گویا وہ اس کا معبود بن چکی ہے اس سے علیحد گی ممکن نہیں.ایسی مائیں جو عملاً اولاد کی پرستش کر رہی ہوتی ہیں جب وہ اولا دہاتھ سے جاتی رہتی ہے تو اس لئے پاگل ہوتی ہیں کہ ہوش اور اولاد کی یاد اور اولاد کا تعلق ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.موت کے سوا علیحد گی ممکن نہیں پس ذہن میں موت آجاتی ہے اور اسی کو پاگل پن کہتے ہیں.پس یہ تبتل جو دنیا کے دھکے کے نتیجے میں پیدا ہولازم نہیں کہ خدا کی طرف دھکیلے مگر خدا کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے.اس لئے بعض لوگ جو کہتے ہیں فلاں شخص کو صدمہ پہنچا اور وہ بہت بزرگ بن گیا ہے.درولیش بن گیا ہے لوگ اس کے پاس دعاؤں کے لئے جاتے ہیں لیکن وہ جو درویش ہے اس کی کیفیت میں اور اس درویش کی کیفیت میں جس نے خدا کی خاطر تعلق توڑے ہوں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.بعض دفعہ لوگ اس کو بت تو بنا لیتے ہیں لیکن وہ بت حقیقت میں خدا کے حضور سجدہ ریز
خطبات طاہر جلد ۱۲ 793 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء نہیں ہوتا.دنیا سے مجبوری کا تعلق کاٹنے کے بعد جو دھکے کھا کر آتا ہے اس کو اگر اللہ تعالیٰ اپنی درگاہ میں جگہ دے دے تو احسان ہے لیکن اس سے وہ محبت پیدا نہیں ہوسکتی جواللہ تبتل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور للہی تنبل انہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہر موقع پر خدا کو ترجیح دے کر غیر اللہ سے منہ موڑتے ہیں اور تعلق قطع کرتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے اسے احسن القصص بیان فرمایا.میں شروع میں جب پڑھا کرتا تھا تو حیران رہ جاتا تھا کہ یہ قصہ آخر ایسا احسن کیا ہے لیکن جوں جوں غور کیا تو اس بات کی سمجھ آتی گئی کہ تنبل کے مضمون میں ایک عظیم الشان قصہ ہے.قرآن کریم جب قصہ کہتا ہے تو حقیقت کو قصہ بتا تا ہے پس قرآنی اصطلاح میں ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر جتنا غور کریں انسان حیران ہوتا چلا جاتا ہے.پس بے انتہا تعلق ہو اور بے انتہا تعلق کے سارے محرکات موجود ہوں اور خوف بھی بے انتہا ہو، خوف کے سارے موجبات دوسری طرف موجود ہوں اور انسان کا دل بیچ سے پہلے یہ فیصلہ کرے کہ نہ میں خوف سے ڈروں گا نہ میں اپنے ذاتی تعلق کی حرص میں غلط فیصلہ کروں گا میں جس کا ہوں اسی کا ہو چکا ہوں.اسی سے مدد مانگتا ہوں اسی کی طرف جھکتا ہوں اور اسی سے چاہتا ہوں کہ وہ مجھے اس صورت حال سے بچا لے.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شان کے ساتھ اس دعا کو قبول فرمایا اور ہر بدی سے بہتری کی ایک صورت پیدا فرما دی اور ترقیات کا عظیم سلسلہ شروع کیا ہے.پس اس پہلو پر غور کر کے اپنی بدیوں پر نظر ڈال کر یہ فیصلہ کریں کہ آپ کس حد تک ان سے علیحدہ ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.جب کشتی نوح کا مطالعہ کرتا ہوں تو بعض دفعہ عبارتوں سے خوف آتا ہے، بعض دفعہ دل لرزتا ہے کہ ہیں ! یہ بھی ہے اور یہ بھی ہے اور یہ بھی وہ ایسا مقام ہے جس سے کلیہ علیحدگی کا حکم ہے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بھی میری جماعت میں سے نہیں ہے، وہ بھی میری جماعت میں سے نہیں ہے.اس تعلیم کو آپ پڑھیں اور پڑھنے کے بعد ہر فقرے پر ٹھہریں اور غور کریں کہ آپ کو اس سے ڈر تو نہیں لگ رہا اور آپ کو یہ دو بھر اور بوجھل تو نہیں معلوم ہو رہا اگر ہے تو وہیں خوف کا مقام موجود ہے.جولوگ تبتل کر چکے ہیں اور ہر پہلو سے تل کر چکے ہیں ان کے لئے یہ تحریر آسان ہو چکی ہے وہ پڑھتے ہوئے بے خوف گزر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 794 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء سکتے ہیں اور ان کے دل میں کوئی خدشہ نہیں ہوگا کہ اوہو! میں تو یہاں بھی مارا جارہا ہوں، یہاں بھی مارا جارہا ہوں اور یہاں بھی مارا جارہا ہوں.میں اس تحریر کے چند نمونے محض اندازہ لگانے کی خاطر آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ لگانے میں آسانی ہو کہ تبتل ہے کیا اور کس حد تک آپ ان پہلوؤں میں تجبل اختیار کر چکے ہیں فرمایا.یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے.ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے.اس سے بچو...“ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی محاورہ ہی اختیار فرمایا ہے بچنے کوموت نہیں کہا بلکہ زندگی کہا ہے.دوسرے معنوں میں وہ بھی کہا جاسکتا ہے یہ غلط نہیں مگر میں بتا رہا ہوں کہ یہاں بعینہ زندگی کی طرف بلانے کے لئے نافرمانی کو موت قرار دیا ہے.وو...دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...66 کتنے ہیں جو آسانی سے جھوٹ چھوڑ سکتے ہیں؟ یہ سوال ہے جو میں نے پہلے اٹھایا تھا اس کی مثال دے رہا ہوں بکثرت لوگ جھوٹ کی کسی نہ کسی عادت میں مبتلا ہیں، کوئی بڑا جھوٹ بولتا ہے کوئی چھوٹا جھوٹ بولتا ہے، کوئی روزمرہ جھوٹ بولتا ہے، کوئی اس وقت جھوٹ بولتا ہے جب بچنے کا کوئی اور ذریعہ دکھائی نہ دے اور جھوٹ کے سوا کوئی اور سہارا دکھائی نہ دے، کوئی معمولی ابتلاؤں میں جھوٹ بولتا ہے، کوئی انتظار کرتا ہے اور جب کوئی بہت بڑا ابتلا آ جائے تو وہاں جھوٹ بولتا ہے.یہ سارے پھسلنے کے مقامات ہیں اور ہر حالت میں جھوٹ سے پر ہیز یہ تبتل ہے اس کی تمنا پیدا ہو جائے اور پھر انسان یہ فیصلہ کر کے دعا کرے کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا اور اس کے نتیجہ میں ہر قسم کے بدنتائج قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہوں.یہ یوسفی دعا بنے گی اس کے سوا اس دعا کی کوئی اہمیت نہیں.پس جو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 795 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو جی ! بڑی دعا کرتے ہیں لیکن بدیاں چھٹ نہیں رہیں.جھوٹ کی عادت ہے مصیبت ہے بار بار چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر مبتلا ہوجاتے ہیں وہ اپنے نفس پر غور کریں ان کو وہاں جواب ملے گا کہ وہ اس سے بچنا نہیں چاہتے وہ ادنیٰ حالتوں سے بچنے کی خواہش رکھتے بھی ہوں تب بھی جب وہ بڑے مقامات پر غور کر کے دیکھیں گے تو اگر وہ بچے ہیں تو ان کا دل ان کو بتا دے گا کہ تم فلاں جگہ جا کر جھوٹ سے پر ہیز کی طاقت نہیں رکھتے.اس وقت انسان اپنے ضمیر کو جھنجھوڑے اور فیصلہ کرے کہ میں جو دعا کے لئے ہاتھ پھیلا رہا ہوں اور میرا دل مجھے کسی اور طرف لے کر جارہا ہے یہ کونسی دعا ہے.اس میں کوئی سچائی نہیں وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ( فاطر : 11) وه عمل صالح جو دعا کو قوت بخشتا ہے اور کلام کو اونچا کرتا ہے وہ پہلا عمل یہ نیت کا عمل ہے.اپنے اندرونے کو قطعی طور پر اپنے سامنے رکھ کر انصاف اور تقویٰ سے فیصلہ کریں کہ آپ اس بدی کو چھوڑنا چاہتے ہیں کہ نہیں چاہتے اور پھر دعا کریں پھر دیکھیں وہ دعا کس طرح قبول ہوتی ہے.کوئی تیر ایسا نشانے پر نہیں لگ سکتا جس طرح اس شخص کی دعا لگتی ہے جو اپنے نفس کو صاف اور ستھرا کر کے کلیۂ خدا کے لئے ہو کہ اللہ ہو کر قبلہ رخ ہو جائے اور اپنا رخ خدا کی طرف پھیر دے اور پھر یہ کہے کہ اے خدا! میں تیرا ہو چکا ہوں مگر میں مجبور ہوں میں خوفزدہ ہوں کہ کہیں غیر مجھے اچک نہ لے غیر مجھے اپنا نہ لے، یہ دعا جب آپ کریں گے تو ہو نہیں سکتا کہ وہ نا مقبول ہو کبھی ایسی دعا نا مقبول نہیں ہوئی ،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وو...اور فریب کو نہیں چھوڑ تا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...“ کتنے ہیں جو فریب دہی سے کلیہ پاک ہیں ہر حالت میں ، ہر مشکل کے وقت انسان کا دماغ فریب کی طرف ضرور جاتا ہے.ایک ٹیکس کی چوری ہے ایک تجارت کے معاملہ میں نفع کی تمنا ہے.ایک مکان بیچنے کی خواہش ہے ایک لڑکی جو بیمار ہے اس کی شادی کرنے کی تمنا ہے.ہرایسی حالت میں جس میں انسان کی زندگی روز مرہ آزمائشوں میں پڑتی ہے وہاں آپ کو فریب کا ایک درندہ چھپا ہوا دکھائی دے گا ہرایسے گوشے میں وہ ”پلنگ“ ہے.جن کا میں نے پچھلی دفعہ ذکر کیا تھا کہ شه ماید که پلنگ خفته باشد غور کرنا یہاں حملہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی چیتا تیار بیٹھا ہے اور وہاں دماغ ضرور فریب کی طرف مائل ہوتا ہے.یہ خیال کہ وہ اس طرف جاتا نہیں ہے.یہ درست نہیں ہے.نیک کا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 796 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء دماغ بھی کسی نہ کسی عذر کی طرف جاتا ہے اور بد کا دماغ بھی جاتا ہے نیک کا دماغ جب جاتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو ٹولتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ نہیں.میں نے یہ کام نہیں کرنا اور بدفریب دہی کی وہ باتیں لذت کے ساتھ سوچتا ہے اور اس لذت میں گم ہو کر اپنے آپ کو یہ Compliments دے رہا ہوتا ہے ، اپنی یہ تعریف کر رہا ہوتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کون ہوشیار ہوگا.میں نے یہ ترکیب سوچ لی ہے اور یہ ترکیب سوچ لی ہے.یہی فریب کا ایک فطری رجحان ہے جو تمام گناہوں سے پہلے انسان کے دل میں جنم لے چکا ہوتا ہے.جتنے بھی گناہ ہیں ان کی تعریف آپ جو چاہے کر لیں لیکن ہر انسان گناہ کے وقت دل میں جانتا ہے کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے میں کھلم کھلا منظر عام پر پیش کروں اور اس پر فخر کروں.یا سزا کا خوف مانع ہو جائے گایا اپنی Reputation یعنی دنیا کے سامنے جو اپنی شان بنارکھی ہے اس کے داغدار ہونے کا خیال مانع ہو جائے گا.پس اس وقت انسان ضرور فریب کی بات سوچتا ہے کہ میں اس طرح بچوں گا اور اس طرح بچوں گا.یہ طریق اختیار کروں گا اور یہ طریق اختیار کروں گا اگر پکڑا گیا تو یہ کہوں گا اور یہ ساری باتیں فریب کے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ہر جگہ ایک ایسا بندھن ہے جس کو توڑے بغیر آپ خدا کی طرف جاہی نہیں سکتے.تو دعا کس طرح کریں گے کہ اے اللہ! مجھے فریب سے بچا اور وہ دعا کام کیا آئے گی جہاں اپنے آپ کو آپ نے فریب سے باندھ رکھا ہے، ہر ابتلا کے وقت ایک جھوٹے خدا کی پناہ مانگ رہے ہوتے ہیں اور دعا کر رہے ہیں اور کروا ر ہے ہیں کہ اے اللہ ! ہم فریب سے نجات چاہتے ہیں ہمیں بخش دے.دعا کا مضمون کوشش کے بعد یا کوشش کے ساتھ شروع ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ہر وہ کوشش جود عا کے برعکس سمت میں جا رہی ہے آپ کی دعا کو نا کام کر دیتی ہے سوائے اس کے کہ ایک اور لطیف مقام تک انسان پہنچ جائے جہاں خوب دل کو مٹول کر دیکھے کہ مجھے برائی سے نفرت بھی ہے اور میں واقعہ فیصلہ کر رہا ہوں کہ میں اس سے بچنا چاہتا ہوں اس وقت عجز کی ایک اور کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان خدا کے حضور عرض کرتا ہے کہ اے اللہ ! معاملہ میری کوشش کی حد سے آگے جا چکا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے تو میں اس برائی میں ہمیشہ مبتلا رہوں گا.میں عادی بن گیا ہوں ایسے ہی گناہوں میں ملوث لوگوں کی مثال Drug Addicts کی سی ہے.وہ لوگ جو Drugs وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں بسا اوقات کچھ عرصہ کے بعد ان کی اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 797 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء Drug Addiction کے بدنتائج ان کو دکھائی دے رہے ہوتے ہیں.محسوس ہورہے ہوتے ہیں اور بار بار بھنا بھنا کر وہ کوشش کرتے ہیں کہ نجات مل جائے لیکن پوری طرح اس کے غلام بن چکے ہوتے ہیں.ایسی صورت میں اگر واقعہ یہ دعا کی جائے کہ اے خدا مجھے نجات بخش دے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمادے کہ اس کی کوشش میں طاقت پیدا ہو جائے.اس کو ایسے ذرائع میسر آجائیں کہ وہ واقعہ Drug Addiction سے دور ہٹ کر کسی اور طرف رخ اختیار کرے یا واقعہ اس سے وہ ذرائع چھین لئے جائیں جن کے ذریعے وہ Drug Addiction میں مبتلا ہوتا ہے.دونوں صورتیں ہیں.دعا کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایک بدی پر آمادہ انسان جو بدی پر تیار بیٹھا ہو لیکن دل کی آخری گہرائی میں خلوص کی کوئی رمق باقی ہو اور خدا سے یہ دعا کرے کہ اے خدا! میں ارادہ کئے بیٹھا ہوں لیکن دل نہیں چاہتا کہ تیری رضا کے خلاف کوئی لذت حاصل کروں.اس لئے تو میری مددفرما اور اس بدی کو مجھ سے ٹال دے تو بسا اوقات ایسا ہوگا کہ خدا تعالیٰ اس کے رستے میں اور گناہ کے رستے میں کوئی طبعی روک پیدا کر دے گا.چاہتے ہوئے بھی مجبور ہو جائے گا.پس نیتوں کا خلوص ہے جہاں سے تبتل کا مضمون شروع ہوتا ہے پہلے دل کے تعلقات کو بدیوں سے توڑیں یا توڑنے کا قطعی ارادہ کرلیں پھر اللہ سے دعامانگیں تو پھر انشاءاللہ تعالیٰ آپ کو ہر برائی سے تنبل اختیار کرنے یعنی علیحدگی اختیار کرنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں...جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...“ یعنی ہر وقت اس پر دنیا سوار ہے یہ بھی ملے وہ بھی ملے.اکیلا اس کو غیر اللہ کی محبت نہیں قرار دیا لیکن ساتھ ایک اور علامت بیان فرما دی جس کے نتیجہ میں دنیا کی خواہش حقیقتاً غیر اللہ کی محبت بن جاتی ہے فرمایا وو...اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا...“ جو شخص دنیا کی خواہش رکھتا ہے کہ جو ایک فطری چیز ہے اور ساتھ آخرت کا مضمون بار بار اس کے سامنے آتا ہے وہ آخرت کا تصور اس کی دنیا کی خواہش کو معتدل کر دیتا ہے.بعض دفعہ آخرت کا تصور دنیا کی خواہش کو اس حد تک معتدل کر دیتا ہے کہ انسان میں ایک استغناء پیدا ہو جاتا ہے میری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 798 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء خواہش تو ہے کہ یہ چیز مل جائے گناہ نہیں ہے لیکن آخرت کے تصور کے بعد پھر انسان یہ بھی کہتا ہے کہ میری خواہش تو ہے مگر نہ ملے تو کوئی بات نہیں.اللہ ملے تو بہت ہے اللہ کی رضا چاہیئے اگر رضا کے مطابق ہے تو ملے ورنہ نہ ملے.یہ بھی ایک قسم کا تل ہے.یعنی دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود بے تعلقی کا ایک ایسا انداز جو انسان کو غنی کر دے، بے پروا کر دے، ہو جائے تو ٹھیک ہے نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا.اللہ راضی رہے یہ وہ مقام ہے جہاں سے پھر خدا کی طرف حرکت مثبت طور پر شروع ہو جاتی ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیسا متوازن بیان فرمایا ہے کہ...وہ شخص جو دنیا کی لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف وو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے، جو شخص در حقیقت 66 دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا.وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...ہرایسا موقع جہاں دین کا ایک مفاد ہو اور اس کے مقابل پر دنیا کا کوئی مفاد ہو وہاں انسان باریک نظر سے غور کرے کہ دین کے مفاد کو ترجیح دے گا یا دنیا کے مفاد کو ترجیح دے گا.یہ بہت ہی مشکل مضمون ہے کیونکہ بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عالم لوگ بھی اس مضمون پر ضرور ٹھوکر کھا جاتے ہیں کیونکہ ہمیشہ کے لئے ایک گہری نظر کے ساتھ اپنے نفس کے محاسبے کی عادت ڈالنا حقیقت کو پانے کے لئے ضروری ہے.بعض دفعہ بعض ایسے لوگ جنہوں نے زندگیاں وقف کی ہوئی ہوتی ہیں ان کے افسران کی طرف سے ان سے کوئی سختی کا معاملہ کیا جاتا ہے یا جس جگہ ان کی تقرری ہوئی ہوتی ہے ان کی بے اعتنائی کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہوتے ہیں.ایسی صورت میں جب وہ ایسے لوگوں سے نظام کے متعلق باتیں کرتے ہیں جن کا نظام کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے وہ اپنے دل کے دکھ ان کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اس طرح کچھ تسکین پاتے ہیں.تو وہ اس وقت یہ نہیں سوچ رہے ہوتے کہ ہم نے دین کو دنیا پر نہیں بلکہ دنیا کو دین پر مقدم کر لیا ہے کیونکہ جب کسی شخص کے سامنے ایک ایسی بات بیان کی جائے جس کے نتیجہ میں ان لوگوں کے متعلق برا اثر پڑے جو دین کو چلانے پر مامور کئے گئے ہیں تو لازماً اسی حد تک دین سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے انسان کے دل میں دین کا احترام اٹھ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ انسان دین اور دین والوں سے دل برداشتہ ہونے لگتا ہے لیکن اس کے مقابل پر جو شخص بیان کر رہا ہے اس کے لئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے، اس سے تعلق بڑھتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 799 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء اس کے گرد ایک گروہ بننا شروع ہو جاتا ہے اور ایک چھوٹا سا جھوٹا خدا وہاں جنم لے لیتا ہے.اب یہ جو مضمون ہے اس کو اگر آپ گہرائی سے سمجھیں اور جماعت احمدیہ میں اٹھنے والے فتنوں کی تاریخ پر اس کو چسپاں کر کے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہ مضمون کس حد تک بار بار اطلاق پاتا ہے اور بڑے بڑے ہوشمند ٹھوکر کھاتے رہتے ہیں.کسی سے شکوہ ہے اور اگر وہ شکوہ دین کے معاملہ میں ہے تو اس کے لئے قرآن کریم نے ایک ہی رستہ بتایا ہے کہ إِنَّمَا أَشْكُوا بَغِى وَحُزْنِی إِلَى اللهِ (یوسف:۸۷) یہ دعا یہاں بھی بہت زور کے ساتھ صادق آتی ہے.ایسا شخص جو اپنے آپ کو خدا کی خاطر پیش کئے ہوئے ہے اگر دنیا کی ہمدردی سے اس لئے باز رہتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ ان لوگوں کے دین کو نقصان نہ پہنچ جائے تو ایسا شخص لاز مأخدا کی طرف جھکے گا اور اس کا دنیا سے تبتل ہوگا اور تعلق کا قدم اللہ کی طرف آگے بڑھے گا.پس تبتل کا مضمون بہت ہی باریک مضمون ہے.بڑی لطافت کے ساتھ ، گہری نظر کے ساتھ اتر کر دیکھنا پڑتا ہے.مثالیں سامنے رکھ کر ان پر غور کریں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کس طرح بار بار آپ نے اللہ سے تبتل کیا ہے اور غیر اللہ کی طرف جھک گئے ہیں.جب ہمیشہ دین غالب رہے گا اور دین کے مفادات غالب رہیں گے تو سچا مظلوم بھی دین سے بددل کرنے کے خیال سے ایسی نفرت کرے گا جیسے اس کو آگ میں پھینکا جارہا ہو.وہ اپنی ذات میں ان باتوں کو دبا جائے گا تا کہ خدانخواستہ کوئی اور بھی ہلاک نہ ہو جائے.ایسا شخص پھر ہلاک نہیں ہوا کرتا جو دوسروں کی ہلاکت کا موجب نہ بنے وہ خود کبھی ہلاک نہیں کیا جاتا.جو دوسروں کو ہلاکت سے بچانے کیلئے اپنے نفس پر ایک ہلاکت طاری کر لیتا ہے اللہ کے فضل کا ہاتھ ضرور اس کی طرف بڑھتا ہے اور اسے ضرور اٹھاتا ہے اور بلند مقامات کی طرف لے کر جاتا ہے.مگر دنیا کی ہمدردیاں لینے کی خاطر دنیا سے اپنے دکھ پھولنے والے نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے بہت لوگ ٹھوکر کھاتے ہیں اور بہت بہت ابتلا اور فتنے بنتے ہیں اور جب ان کو سمجھایا جائے تو کہتے ہیں کہ واقعہ درست ہے.میں درست واقعات کی بات کر رہا ہوں.جھوٹ کی بات نہیں کر رہا، بہتان کی بات نہیں کر رہا.جھوٹ اور بہتان باندھ کر دین اور دین والوں سے متنفر کرنا تو بہت بڑا گناہ ہے اور بہت بڑے عذاب کا تقاضا کرتا ہے.میں نفس کے دھوکے میں مبتلا ہونے والوں کی بات کر رہا ہوں جو سچ دیکھتے ہیں، واقعہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 800 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء درست ہے جس کے خلاف ان کو شکایات ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ میری دین کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ میں آپ نقصان اٹھا جاؤں اور کسی اور کی ٹھوکر کا موجب نہ بنوں.یہ سچی مامتا جس کی مثال حضرت سلیمان کے فیصلے کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے.دو عورتوں کا آپس میں جھگڑا ہوا.دو عورتوں کے بہت پیارے دو بچے تھے.ایک کا بچہ مر گیا تو وہ مامتا میں ایسی پاگل ہوئی کہ اس نے کہا کہ میں تو بچے کے بغیر رہ نہیں سکتی.چنانچہ اس نے دوسری عورت کا بچہ اس سے چھین لیا اور اسے اپنا بنالیا.دونوں عورتیں جھگڑ رہی تھیں اور کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیسے فیصلہ کریں.حضرت سلیمان کی عدالت میں ان کو پہنچایا گیا.بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے جب دونوں طرف کی باتیں سنیں تو فیصلہ فرمایا کہ آسان بات تو یہی ہے کہ اس بچے کے دوٹکڑے کر دیئے جائیں.آدھا ایک کو دے دیا جائے اور آدھا دوسری کو دے دیا جائے.کیونکہ ہم تو عالم الغیب نہیں.ہمیں نہیں پتا کہ کس کا ہے.پس یہ ناممکن ہے کہ ایک کومحروم کر کے دوسری کو دیا جائے.ہوسکتا ہے کہ وہ جسے محروم کیا جائے وہی کچی ماں ہو اس لئے ایک ہی علاج ہے کہ اس کو دوٹکڑے کر دیا جائے.جس کا بچہ تھا اس کی چھینیں نکل گئیں.اس نے واویلا شروع کر دیا اور کہا کہ میں جھوٹی تھی یہ بچہ اس کا ہے اس کو دے دو.وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ اس کے بچے کے دوٹکڑے کئے جائیں اور حضرت سلیمان کی یہی حکمت تھی جس کی وجہ سے وہ غیر معمولی طور پر صاحب حکمت مشہور ہوئے انہوں نے کہا کہ میں سمجھ گیا ہوں کہ کس کا بچہ ہے.جو رو رہی تھی کہ میرا بچہ نہیں ہے اس کو بچہ پکڑا دیا.پس وہ جو سچی محبت کرنے والے ہیں وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ جس چیز سے محبت ہے.اس کو نقصان پہنچے.” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا کا یہ مضمون ہے.ہر فیصلے کے وقت میں یہ سوچوں گا کہ میرے دین کو نقصان ہورہا ہے یا مجھے نقصان ہورہا ہے.اگر دین کو نقصان ہورہا ہے تو اپنا ہر نقصان انسان خوشی سے قبول کر لے یہ تل ہے اور یہ تجمل لازماً اسے خدا کی گود تک پہنچائے گا.یہ ناممکن ہے کہ ایسا انسان خدا کی محبت کے بغیر پھر زندہ رہ سکے یا خدا کی محبت اسے قبول نہ کرے اور خدا کی محبت کی حالت میں جان نہ دے.پس یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں کہ ” جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام کتنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 801 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء گہرا اور کتنا محتاط اور کتنا فصیح و بلیغ ہے.اس موقع پر در حقیقت کا لفظ عمد سوچ کر داخل کیا گیا ہے محاورۃ نہیں فرمایا میری بیعت کرتے وقت سب کہتے ہیں کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا لیکن رحقیقت کتنے ہیں جو رکھتے ہیں یا رکھنے کی تمنا رکھتے ہیں.پس فرمایا جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے اور قمار بازی سے ( یعنی جوئے سے ) بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.اب یہ تو تحریر اکثر دلوں پر بہت بوجھل ہے کیونکہ ہر بدی اگر اپنی انتہا میں نہیں تو کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی شکل میں انسان کے اعمال میں نہیں تو اس کے دل میں پنپ رہی ہوتی ہے، اس کی نیتوں میں داخل ہوتی ہے، تمنا بن چکی ہوتی ہے اور اگر کوئی چیز انسان کے اور اس کی بدی کی راہ میں حائل ہے تو خواہش کی کمی نہیں، بے اختیاری حائل ہوتی ہے.بہت سے معصوم ایسے ہیں جو مجبور ہیں، بے اختیار ہیں ، ان کی بدی تک پہنچ نہیں ہوتی.پہنچ ہو اور پھر نہ کریں تو یہ نیکی ہے اور اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں.یہ ساری چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تمہاری نیتوں میں داخل رہیں تو تم کبھی تنبل اختیار نہیں کر سکتے.نیتوں کو پاک صاف کرو، نیتوں کی گہرائیوں سے جڑوں کو اکھیڑ کر پھینک دو.پھر دعا کروتو پھر دیکھو کہ کس طرح نیکی اسی سرزمین میں جڑیں پکڑتی ہے جہاں پہلے بدیاں پنپ رہی تھیں.فرمایا:...ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش وو آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...“ ہمارے کتنے جوڑے ہیں جن کی زندگیاں اسی لئے برباد ہوئیں کہ کہیں خاوند بیوی سے خیانت کر رہا ہے کہیں بیوی خاوند سے خیانت کر رہی ہے اور یہ خیانت کئی طرح سے ہوسکتی ہے.حقوق کی ادائیگی میں کمی ، چوری چھپے کچھ تعلقات قائم رکھنا یا ایک ملکیت کو دوسرے کے سپر د کر دینا.یہ تفاصیل بیان کرنے کا موقع نہیں مگر انسان کے زندگی کے دائروں میں میاں بیوی کے تعلقات کا دائرہ بھی بہت وسیع دائرہ ہے اور اس دائرہ میں ہر قسم کی خیانت کے مضمون بار ہا جگہ پاجاتے ہیں.ان موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قول پیش نظر رکھ کر غور کریں کہ :
خطبات طاہر جلد ۱۲ 802 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۳ء ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“ پھر بعض لوگ اپنے تعلقات کو نہیں توڑ سکتے.ایک شخص ایسی مجلسوں میں بیٹھتا ہے جہاں دین پر طعن آمیزی ہورہی ہوتی ہے تخفیف کی نظر سے فیصلوں کو دیکھا جاتا ہے.کبھی خلیفہ وقت کے، کبھی امیر کے کبھی کسی اور عہدیدار کے کبھی صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے فیصلہ کو، کبھی دوسرے عہد یداران کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی اس پر مذاق اڑایا جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ جی! دیکھو یہ باتیں ہورہی ہیں.کیا فضول بات ہے، کیا معنی رکھتی ہے، کئی قسم کے تمسخر کے فقرے کسے جارہے ہوتے ہیں اور ایسی مجلس میں بعض لوگ جا کر بیٹھتے ہیں اور اس مجلس سے علیحدہ نہیں ہوتے.قرآن کریم نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ جب دین کی تخفیف کو دیکھتے ہو تفصیل بیان نہیں فرمائی ، ہر قسم کی تخفیف اس میں شامل ہے تو اس وقت تک اس مجلس سے الگ ہو جایا کرو جس وقت تک یہ مضمون جاری ہے.یہ بہت ہی وسیع حو صلے کی تعلیم ہے.یہ نہیں فرمایا کہ مستقلاً ان سے قطع تعلق کر لو.کیونکہ اگر ہر بدی پر فورا پورا قطع تعلق اختیار کر لیا جائے تو پھر ایسے لوگوں کی اصلاح کیسے ممکن ہو گی.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نیک ہیں وہ کلیہ ایک مکمل الگ سوسائٹی بن جائیں اور ان کا بدوں کے ساتھ کسی قسم کا اٹھنا بیٹھنا نہ ہو.قرآن کریم نے کس حکمت کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمایا کہ جب تک وہ مجلس بد ہے اس مجلس میں تم نے نہیں بیٹھنا.اگر اس میں بیٹھو گے تو تم بے غیرت ہو گے اور اگر تم بیٹھو گے تو تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے، ہاں جب وہ مجلس بدیوں سے پاک ہو چکی ہو اور رنگ اختیار کر چکی ہو پھر بے شک ان میں واپس جایا کرو اور ملا کرو تا کہ تمہاری نیکی کا اثر ان پر پڑے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“ اب صرف بیٹھنے کو منع نہیں فرمایا.فرمایا ایسی حالت میں بیٹھتا ہے کہ بے غیرت بنتا ہے.ہاں میں ہاں ملانا لفظ ہی نہیں بلکہ خاموش رہنے کے نتیجہ میں بھی ہوا کرتا ہے.اسے حدیث تقریری کہتے ہیں یعنی ایک انسان ایک بد بات کو سن رہا ہے اور اس کے خلاف کھل کر یا اپنے ماضی الضمیر کو،
خطبات طاہر جلد ۱۲ 803 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء اپنے دل کی بات کو بیان نہیں کرتا یا چپ کر کے بیٹھا رہتا ہے تو ایسا شخص عملاً اس میں شامل ہو جاتا ہے.پس ہاں میں ہاں ملانے سے مراد یہ ہے کہ ایسی مجالس میں جہاں دین کو تخفیف یعنی حقارت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہو اور دین پر مذاق اڑائے جا رہے ہوں تو ایسا شخص جو وہاں سے نہیں اٹھتا اور عملاً ان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے.فرمایاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.پھر فرمایا’ہر ایک زانی، فاسق ، شرابی، خونی چور، قمار باز ، خائن، مرتشی ، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعلساز اور ان کا ہمنشین...‘“ یعنی ایسے لوگوں کے ساتھ جو عملاً موید بن چکا ہوتا ہے.یہ جانتے ہوئے کہ یہ بدیاں ہیں پھر بھی ان کے ساتھ تعلقات ایسے بڑھا لیتا ہے کہ دراصل ان سے استفادہ کر رہا ہوتا ہے.یہاں ہم نشین سے مراد اتفا قایا کچھ دیر کے لئے کہیں بیٹھنے والا یا ساتھ پھرنے والا مراد نہیں ہے.ہم نشین ایک محاورہ ہے جیسے شرابیوں کے ہم نشین ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ کچھ کھا پی بھی لیتے ہیں اگر نہ بھی پیتے ہوں تو اس مجلس کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں تو ہم نشین کا مطلب ہے کہ جوان کی ان سب بدیوں میں کسی نہ کسی رنگ میں یا مؤید ہوتے ہیں یا ان کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں، یہ مجلسیں ان کو اچھی لگ رہی ہوتی ہیں.تبھی وہ ان میں اٹھنا بیٹھنا اپنا ایک مستقل شعار بنا لیتے ہیں.زندگی کا حصہ بن جاتا ہے.فرمایاوہ سب میری جماعت میں سے نہیں ہیں.پھر فرمایا : وو اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“ یہاں اس پہلے مضمون کے ساتھ تہمتیں لگانے کا جو ذ کر ملادیا ہے یہ قابل غور بات ہے کیونکہ میں نے تہمتیں لگانے والوں کے حالات پر جہاں تک غور کیا ہے اور کافی مختلف قسم کے ایسے حالات سامنے آتے ہیں تو ان پر غور کا موقع ملتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ہر تہمت لگانے والا خود کسی بدی میں مبتلا ہوتا ہے اور تہمت لگانا اس بدی کو چھپانے یا اس بدی کا جواز ڈھونڈنے کے نتیجے میں ہوتا ہے.ایک آدمی جو کسی خاص گناہ میں ملوث ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اور شخص ایسا پاکباز ہے جس کی سوسائٹی میں عزت اور قدر ہے تو وہ اگر دیکھتا ہے کہ ایسے شخص پر تہمت کا موقع مل گیا ہے یعنی حالات کے نتیجہ میں ممکن ہے کہ لوگ اس بات کو قبول کر لیں کہ یہ شخص بھی اس بدی میں مبتلا ہے تو وہ ضرور وہاں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 804 خطبه جمعه ۱۵ را کتوبر ۱۹۹۳ء تہمت لگائے گا اور عملاً اس سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو جی ! یہ لوگ سب یہ کر رہے ہیں اور ہم پر باتیں کر رہے ہیں.عورتیں کہ دیتی ہیں کہ وہ دیکھو جی پر دے میں کیا کیا کرتی ہے اور میری بے پردگی پر اعتراض ہے اور اس کی اپنی ادائیں دیکھو کیا ہیں.ہر تہمت کے پیچھے ایک احساس کمتری ضرور ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص احساس کمتری سے پاک ہو اور تہمتیں لگانے کا عادی ہو.میرے اس بیان کو آپ اپنے تجربہ پر اطلاق کر کے دیکھ لیں.آپ کو ہر تجربہ کی روشنی میں ان تہمت لگانے والوں میں کوئی نہ کوئی ایسی کمزوری نظر آئے گی جس پر عملاً پردہ ڈالنے کے لئے اور جواز مہیا کرنے کی خاطر وہ معصوموں کو الزامات سے چھیدتے ہیں اور ان کے دل زخمی کرتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام بدیوں کا ذکر کرنے کے بعد جو یہ فرمایا کہ وو اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا.وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے در تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی...کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کر ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں ( وفاداری کا یہ عہد تقبل کے بعد ہے اس سے پہلے نہیں ہوسکتا ) کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے“ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه : ۱۸-۲۰) پس آج یہ مضمون اسی حد تک بیان کر کے اب اجازت چاہتا ہوں.باقی باتیں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں پیش کروں گا.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 805 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۹۳ء تبتل پہلے نیتوں میں ہوتا ہے.تبتل ہوگا تو دنیا کی کوئی قیمت آپ کے سامنے نہیں رہے گی.رسول کریم کی تبتل کی مثالیں خطبه جمعه فرموده ۲۲ اکتو بر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حسب سابق اس خطبہ کا آغاز بھی مختلف ممالک میں مختلف جماعتی اجتماعات کے ذکر سے کرتا ہوں.مجلس انصار اللہ ضلع اسلام آباد (پاکستان) کا تربیتی اجلاس کل سے شروع ہے اور آج اختتام پذیر ہوگا.مجلس خدام الاحمدیہ بنگلہ دیش کا سالانہ اجتماع بھی شروع ہے جو ۲۱ سے ۲۳/اکتوبر تک جاری رہے گا.آج مجلس انصار اللہ ضلع سیالکوٹ اور ضلع لودھراں مجلس انصار اللہ بیت التوحید لاہور کے سالانہ اجتماعات ہورہے ہیں.آج اور کل لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ یادگیر (ہندوستان) اور لجنہ اماء اللہ کیرالہ کا صوبائی اجتماع اور اسی طرح مجلس خدام الاحمد یہ بھارت کا سولہواں اور اطفال الاحمدیہ بھارت کا پندرھواں سالانہ اجتماع آج ۲۲ اکتوبر سے شروع ہورہا ہے.خدام الاحمدیہ بھارت کا سالانہ اجتماع تو دراصل بہت پرانا ہے.جب سے خدام الاحمدیہ کا آغاز ہوا ہے وہ قادیان بھارت ہی سے ہوا تھا.اس لئے تعجب ہے کہ انہوں نے اپنا سلسلہ کیوں کاٹ لیا جبکہ پاکستان کی جماعتوں نے یہ گنتی اسی وقت سے شروع کر رکھی ہے جب سے کہ خدام الاحمدیہ کا آغاز ہوا تھا.بھارت کا جو اجتماع ہے وہ بہر حال اسی وقت سے شروع ہونا چاہئے جب سے کہ خدام الاحمدیہ کا اعلان کیا گیا تھا.اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ بھارت ملک کا الگ اجتماع اب ہورہا ہے تو وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 806 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء پھر چند سال کی گنتی ہے.جب میں نے یہ اعلان کیا کہ ایک مرکزی صدر کی بجائے مختلف ممالک کے اپنے اپنے صدران ہوں گے تو اس حساب سے پھر ان کا یہ اجتماع اس وقت سے شمار ہونا چاہئے.بہر حال یہ سولہواں نہیں ہے اس سے بہت پرانا یہ اجتماع چل رہا ہے.لجنہ اماءاللہ پنجاب (ہندوستان) کا سالانہ اجتماع کل بروز ہفتہ شروع ہو گا جماعت احمدیہ ٹرینیڈاڈ ٹوباگو کا جلسہ سالانہ پرسوں ۲۴ اکتوبر کومنعقد ہورہا ہے.اس سلسلہ میں صرف ایک دو باتیں خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں اول تو مجلس خدام الاحمد یہ بنگلہ دیش اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی فعال مجلس ہے اور میری توقعات سے بہت بڑھ کر مخلص اور فدائی خدام اس مجلس میں ہیں.بہت سخت گھمبیر حالات میں جبکہ ہر طرف سے خطرات نے ان کو گھیر رکھا تھا اور تعداد بہت تھوڑی تھی انہوں نے بڑی جوانمردی کے ساتھ اور بڑی ہمت اور اخلاص اور توکل کے ساتھ وقت گزارے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ساتھ ساتھ اس کے پھل بھی عطا کئے.اللہ تعالیٰ ان کی روایات کو بھی ہمیشہ زندہ رکھے اور پہلے سے بڑھ کر ان کو خو بیوں میں بڑھائے اور دنیا بھر کے خدام کو اس پہلو سے اپنے اپنے ملک میں بھی اور دنیا میں بھی مثالی بنا دے.جہاں تک مجلس انصار اللہ سیالکوٹ (پاکستان) کا تعلق ہے.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیالکوٹ کو دنیا بھر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.جماعت احمدیہ کے آغاز پر گورداسپور کے علاوہ جس ضلع نے سب سے زیادہ احمدیت کی خدمت کی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا ہے وہ ضلع سیالکوٹ تھا اور اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے بھی اس ضلع کے احمدیوں پر اتنے فضل نازل فرمائے کہ آج ساری دنیا میں ان بزرگوں کی اولاد میں اپنے باپ دادا کی خدمات کا وہ پھل کھا رہی ہیں اور ان خاندانوں کو اتنی حیرت انگیز ترقیات ہوئی ہیں کہ انسان حیرت سے دیکھتا ہے کہ کس ضلع سے لوگ اٹھے ہیں اور کس طرح ساری دنیا پر پھیل گئے اور دینی دنیاوی ہر لحاظ سے بڑی بڑی عظمتیں حاصل کیں.بڑے بڑے مقامات حاصل کئے اور آئندہ ان خاندانوں نے دوسری جگہ پر پھیل کر خدمت کے جھنڈے بلند کئے اور ابھی بھی دنیا کی اجتماعی خدمات میں سیالکوٹ کے احمدیوں کی نسلوں کی خدمات کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے اس کے بعد کیا ہوا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا بنی اور کیا بگڑی کہ انہوں نے دین کی ان خدمات میں دلچسپی کم کر دی ( میں منہ موڑنے کا لفظ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 807 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء استعمال نہیں کرنا چاہتا ) دنیا کے دھندوں میں زیادہ مشغول ہو گئے دین پر سیاست کو ترجیح دینے لگے.خاندانی رقابتوں اور شراکتوں میں مبتلا ہو گئے اور دنیا کی ذلیل ذلیل نمبر داریوں میں اپنی عزتیں شمار کرنے لگے اور چوہدراہٹ کا وہ بگڑا ہوا تصور جس نے ایک لمبا عرصہ تک پنجاب پر قبضہ کئے رکھا تھا وہ ان خاندانوں کے سروں میں سما گیا اور اس کے بعد پھر وہ سارا وقار کھو بیٹھے.سیالکوٹ کی جماعتیں صف اول میں شمار ہونے کی بجائے سب سے پیچھے جا پڑیں اور اب وہ ماضی کی یادگاریں ہی رہ گئی ہیں جیسے کھنڈرات رہ جایا کرتے ہیں.ان میں کم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان پرانی اقدار کو زندہ رکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں.اب کچھ عرصہ سے یہ احساس بیدار ہورہا ہے انصار اللہ سے میں خصوصیت سے مخاطب ہوتا ہوں کہ آپ کے اس دنیا میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں اگر چہ خدام انصار سے پہلے بھی مر سکتے ہیں، اطفال بھی خدام سے پہلے مر جاتے ہیں لیکن بالعموم جب ہم ایک گروہ کی بات کرتے ہیں تو انصار کے اس دنیا میں رہنے کے دن خدام اور اطفال کے مقابل پر تھوڑے ہیں.ان تھوڑے دنوں میں خدمت کی جتنی توفیق ہے وہ حاصل کر لیں.کھوئی ہوئی روحانی اقدار کو از سر نو حاصل کرنے کی جس حد تک کوشش ہے آپ اگر یہ کوشش کریں تو آپ کے نیک اثرات آپ کی نوجوان نسل پر بھی اور چھوٹی نسلوں پر بھی پڑیں گے اور میری ہمیشہ سے یہ دعا رہی ہے اور تمنا رہی ہے اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کہ سیالکوٹ کو اللہ تعالیٰ وہ مرتبہ اور مقام عطا فرمائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ان کو عطا ہوا تھا.پس ان کھوئی ہوئی اقدار کو از سر نو حاصل کریں اور پھر چمٹ جائیں.حرز جان بنالیں اور نہ چھوڑیں جب تک کہ خدا کا بلا وانہ آجائے.یعنی اس دنیا میں رہتے ہوئے جب تک زندہ ہیں ان اعلیٰ اور بزرگ اقدار سے چمٹے رہیں.اسی میں ان کی زندگی ہے اسی میں ان کی دنیا ہے.اسی میں دین ہے.جب سے وہ و با پڑی ہے جس کا میں نے ذکر کیا.سیالکوٹ کی جماعتوں کا نہ دین رہا نہ دنیا رہی، آپس میں پھٹ گئے ، عزتیں اور وقارمٹ گئے.اس ضلع میں وہ لوگ جو پہلے جماعت احمد یہ پر زبانیں دراز کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جن پر جماعت کا ایک عظیم رعب طاری تھا ان لوگوں نے اٹھ اٹھ کے ان لوگوں کو بھی گالیاں دیں.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھی زبانیں دراز کیں اور ہر طرح سے گندا چھالے تو یہ کوئی زندہ رہنے کے آثار نہیں ہیں.زندہ رہنے کے اسلوب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 808 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء نہیں ہیں اگر زندہ رہنا ہے تو شان کے ساتھ زندہ رہیں.ہٹ کر اور گر کر اور دنیا کے سامنے بچھ کر زندہ رہنے کے انداز موت سے زیادہ مشابہ ہیں زندگی سے کم.باقی سب جماعتیں اور خدام اور انصار اور لجنات بھی اس امر کویا درکھیں کہ اسی میں زندگی کا راز ہے کہ انسان دین کو دنیا پر مقدم رکھے.جس دن آپ نے دنیا کو دین پر مقدم کرنا شروع کیا وہی دن آپ کے ہلاکت کے سفر کا آغاز ہوگا.پھر آپ کا ہر قدم تنزل کی طرف اٹھے گا.اس لئے ہمیشہ اس بنیادی نکتے کو یاد رکھیں اور یہی تجمل کا مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی ایک جملے میں آپ کو ہمیشہ کے لئے تقبل کاراز سمجھا دیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.چھوڑنے کا نہیں فرمایا.مقدم رکھنے کا فرمایا ہے.ہندوستان کی جماعتوں کے لئے بھی یہی پیغام ہے.ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ سے متعلق میں یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے بہت اچھی لجنہ ہے.بہت بیدار ہے، خدمات میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ بسا اوقات آگے نکل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان لجنات کو بھی اپنے فضل کے ساتھ ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہنے اور آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرما تار ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ قرآن کریم نے حضرت یوسف کے قصے کو بہترین قصہ قرار دیا.بہت ہی حسین، بہت ہی دلکش.شروع میں تو مجھے تعجب ہوتا تھا لیکن میں نے جتنا غور کیا مجھے اس قصے کا حسن اور زیادہ نمایاں اور جاذب نظر ہو کر دکھائی دینے لگا.اس پر میرے ایک پرانے بزرگ استاد نے مجھے توجہ دلائی ہے کہ یہاں اَحْسَنَ الْقَصَصِ (یوسف:۴) فرمایا گیا ہے احسن الـقـصـص نہیں فرمایا.قصہ کی جمع فصص ہوتی ہے اور القصص سے مراد قصہ نہیں بلکہ تبع کرنا ہے جستجو کرنا اور اسی قسم کا مضمون ہے، قصے کا بیان کہا جا سکتا ہے ان کا میرے دل میں بڑا احترام ہے.میں جانتا ہوں کہ وہ علوم عربیہ پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں معذرت کے ساتھ ان کا یہ مشورہ قبول کرنے سے قاصر ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم نے جہاں یہ بات بھی لکھی ہے جو میرے سامنے پیش کی گئی وہاں اس بات پر بھی زور دیا اور بڑی واضح قطعی گواہیاں پیش کیں کہ سورہ یوسف میں جہاں اَحْسَنَ الْقَصَصِ فرمایا گیا ہے.وہاں بہترین قصہ مراد ہے اور اس کے دلائل پیش کئے.مثلاً انگریزی ڈکشنری میں سب سے زیادہ اہم اور مستند کتاب Lane ہے.Lane جہاں اور معنے بیان کرتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 809 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء وہاں یہ بھی لکھتا ہے کہ اَحْسَنَ الْقَصَصِ میں لفظ قصص قصے کا متبادل ہے کیونکہ یہ Substantive ہے اور عربی لغت سے یہ ثابت ہے کہ بعض دفعہ Substantive کو اسم کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.پس یہاں اس کا ترجمہ قصہ کرنا نا جائز نہیں لیکن اس سے بہت بڑھ کر ایک بہت ہی بزرگ صاحب فہم اور صاحب عرفان عالم دین حضرت علامہ امام راغب کی گواہی ہے.میں تو علامہ امام راغب کے علم سے جتنا استفادہ کرتا ہوں اتنا ہی ان کی محبت میرے دل میں بڑھتی جاتی ہے اور درود میں میں ان کو بھی آل میں شامل کرتا ہوں کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ پر جتنی گہری نظر ڈال کر انہوں نے وہ کتاب لکھی ہے جسے مفردات امام راغب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کی کوئی اور نظیر سارے عالم اسلام میں پیش نہیں کی جاسکتی.بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا اور قرآن سے گواہیاں نکالیں اور جو بات بیان کی اس کی قرآن سے ایسی ٹھوس شہادت پیش کی ہے کہ کسی عالم کو پھر اس کے مقابل پر زبان کھولنے کی جرأت نہیں ہو سکتی.یہ ایک لمبی بحث ہے آپ اس میں فرماتے ہیں.وَالْقَصَص الأخبار المتتبَّعة يعنى قصص ان خبروں کو بھی کہتے ہیں جن کی پیروی کی جائے.پس قصص یعنی تتبع کے نتیجہ میں جو اخبار ہاتھ آتی ہیں ان کو بھی نقص کہا جاتا ہے.الْقَصَصُ الْحَقُّ ( آل عمران : ۶۳) کہ دیکھیں قرآن کریم نے فرمایا انقَصَصُ الْحَقُّ حق کے بیان کرنے کا طریق مراد نہیں ہے بلکہ حق کے تعلق میں قصے مراد ہیں.پھر فرماتے ہیں قرآن کریم نے فرمایا.نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ کہ اس نے قصے بیان فرمائے یہاں قصص نہیں فرمایا ”بیان کرنے کا طریق بیان فرمایا تو مراد ہو ہی نہیں سکتا.پس ثابت ہوا کہ قرآن لفظ نقص کو قصہ کے متبادل بھی استعمال کرتا ہے.پھر اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں.نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ کہ ہم تیرے سامنے بہترین قصہ بیان کر رہے ہیں ، سب سے زیادہ حسین قصہ بیان کر رہے ہیں.پس ان مثالوں میں جہاں قصص قصہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے حضرت امام راغب نے اس آیت کریمہ کو بھی شامل کر لیا ہے.یہ میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ بزرگ عالم جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ تو ہمیشہ بلاتر در جب بھی ان کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آئے کہ جس کی طرف مجھے متوجہ کرنا ہو یہ ضرور متوجہ فرماتے ہیں اور ان کا بڑا احسان ہے کہ اس معاملہ میں کسی جھوٹے خوف میں یا جھوٹے ادب میں مبتلا نہیں ہوتے لیکن بہت سے ایسے علماء ہیں جو سمجھتے ہوں کہ میں نے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 810 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء غلط بات کہی ہے لیکن دل میں اس وجہ سے چھپا جاتے ہیں کہ شاید ادب کا غلط تصور ہے یا اس وجہ سے چپ ہو جاتے ہیں کہ میرے تقویٰ کا غلط تصور ہے اور ڈرتے ہیں کہ میں برا مناؤں گا.ان سب کے علم میں یہ بات آجانی چاہئے کہ یہ ترجمہ درست ہے غلط نہیں ہے اگر چہ بعض علماء لفظ نقص کا دوسرا معنی بھی لیتے ہیں جو غلط نہیں لیکن بہت بڑے بڑے علماء کے نزدیک یہ بھی درست ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ گزارش کی تھی کہ صوفیاء کا ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے موتــوا قبل ان تموتوا.میں نے احادیث میں تلاش کیا کہ آنحضرت ﷺ نے بھی کہیں یہ فرمایا ہے تو میرے علم میں ایسی کوئی حدیث تو نہیں آئی جس میں یہ فرمایا ہو کہ موتوا قبل ان تموتوا.لیکن ایک اور حدیث میں اس مضمون کو آنحضرت ﷺ نے زیادہ احسن رنگ میں یوں پیش فرمایا ہے: يايها الناس توبوا الی الله قبل ان تموتوا کہ اے بنی نوع انسان ! اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ اختیار کر و پیشتر اس سے کہ تموتوا تم مرجاؤ.بادر و ابا لاعمال الصالحة قبل ان تشغلوا اور اعمال صالحہ بجالانے میں جلدی کرو پیشتر اس کے کہ تم دوسری باتوں میں مشغول کردئے جاؤ.ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوۃ حدیث نمبر : ۱۰۷۱) دوسری باتوں میں مشغول کر دئے جانے کا جو مضمون ہے یہ مزید وضاحت طلب ہے.اس میں بہت ہی گہری حکمت کا بیان ہے.اگر انسان اعمال صالحہ کی بجا آوری میں جلدی نہیں کرتا تو ایسے مواقع بسا اوقات ہاتھ سے کھوئے جاتے ہیں اور پھر ہاتھ نہیں آیا کرتے.ہر انسان کے اندر تبدیلی کا ایک وقت آتا ہے.دل سے ایک موج اٹھتی ہے جو نیکی کی موج ہوتی ہے.اس وقت وہ کہتا ہے کہ میں یوں کر دوں اور یوں کر دوں.قرآن کریم کے مطالعہ کے وقت احادیث کے مطالعہ کے وقت ، بزرگوں کے اقوال خصوصاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات سے بار ہادل میں ایسی لہریں اٹھتی ہیں کہ میں اپنے کو یہ کرنے پر آمادہ پارہا ہوں.میرا دل چاہتا ہے میں ایسا ہو جاؤں وہ وقت اس نیک ارادے کو عمل میں ڈھال دینے کا ہے اور اگر انسان جلدی نہ کرے تو یہ وقت ضرور ہاتھ سے چلا جاتا ہے، وہ کیفیت مدام نہیں رہتی اسی طرح رمضان المبارک میں بھی ایسے وقت آتے ہیں، ایسی راتیں آتی ہیں جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ خدا کے حضور حاضر کر دے اور اس وقت ہمت نہیں ہوتی کہ اس خواہش پر عمل پیرا ہو سکے.عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں رمضان گیا اور نیک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 811 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء ارادے بھی اس کے ساتھ رخصت ہوئے.پس آنحضرت میں نے قبل ان تشغلوا جو فرمایا تو مراد یہ ہے کہ نیک کاموں کے علاوہ ایسے مشاغل میں مبتلا ہو جاؤ جو تمہیں نیک کاموں سے غافل کر دیں، جن کی وجہ سے تمہارے نیک مواقع ہاتھ سے جاتے رہیں.تشغلوا میں ایک اور بھی تنبیہہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی نقدی تمہیں مصیبتوں میں مبتلا فرمادے، تم ایسے گورکھ دھندوں میں پڑ جاؤ جو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بنیں اور پھر نیک اعمال کی طرف لوٹنے کی تم میں صلاحیت ہی نہ رہے.تشغلوا میں مرضیں بھی آجاتی ہیں ایک صحتمند انسان عبادت کا جیسا حق ادا کر سکتا ہے بیمار نہیں کر سکتا لیکن اگر انسان صحت کے ہوتے ہوئے عبادت سے غافل رہے تو بسا اوقات ایسے انسان میں ایسی بیماریاں آجاتی ہیں کہ وہ پھر عبادت کے لائق ہی نہیں رہتا یہ مضمون بڑا وسیع ہے.ہر نیکی کی راہ میں کوئی نہ کوئی بیماری حائل ہو سکتی ہے.پس آنحضور یہ نے قبل ان تشغلوا کہہ کر احتمالی بیماریوں کا بھی ذکر فرما دیا احتمالی حادثات کا بھی ذکر فرما دیا اور کئی قسم کے گورکھ دھندے جو انسان کو گھیر لیتے ہیں اور انسان ان میں مبتلا ہو جاتا ہے ان کا بھی ذکر فرما دیا اور اس بنیادی فطرت انسانی کا بھی ذکر فرما دیا کہ ہر انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو نیک ارادوں پر تیار پاتا ہے اس وقت وہ ارادہ اگر عمل میں نہ ڈھلے تو وقت ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.پس اس پہلو سے توبوا الى الله قبل ان تموتوا کا مضمون جو دراصل تبتل سے تعلق رکھتا ہے اس کے یہ سارے پہلو بھی ہمارے سامنے آگئے.یعنی تمل ہر اس موقع پر اختیار کیا جاسکتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ایک روحانی تحریک پیدا ہورہی ہو.اس طرح زیادہ آسانی کے ساتھ ٹکڑ اٹکڑا تل کی توفیق مل سکتی ہے.جب دل میں ایک نیکی کی لہر دوڑی اس حصہ پر عمل کر لیا کیونکہ وہ عمل کرنے کا سب سے زیادہ آسان موقع ہے کہ دل کی ہوائیں اور دل کے مزاج اس نیکی کو اختیار کرنے کے مطابق چل رہے ہیں، ان کے مخالف نہیں چل رہے.اس پہلو سے تبتل کو اختیار کرنے کے طریق ہمیں سمجھا دیئے گئے کہ اگر تم زور اور کوشش کے ساتھ تبتل اختیار کرنے کی کوشش کرو گے یعنی بعض بدیاں چھوڑ کر نیکیوں کی طرف آنے کی کوشش کرو گے تو ممکن ہے کہ تمہیں توفیق نہ ملے.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایسے وقت تم پر ضرور آئیں گے جب نیکی کی طبعی تحریک دل میں پیدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 812 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء ہو رہی ہے اس وقت تجمل اختیار کر لینا ورنہ تشغلوا اور نہ وہ بیماریاں جن سے بچ کر خدا کی طرف آنے کی ہم تمہیں ہدایت کر رہے ہیں وہ تمہیں گھیر لیں گی ہم ان میں مشغول ہو جاؤ گے پھر تمہارا بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تجل کے مضمون پر فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے ( یعنی انسان جو اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے ) پھر دوسرے سے بھی تعلق رکھتا ہے تو توحید کہاں رہی ؟ (ایک نہ رہا کچھ اور بھی اس کے ساتھ پیدا ہو گئے ) یا خدا تعالیٰ کو رازق مانتا ہے مگر کسی دوسرے پر بھی بھروسہ کرتا ہے یا دوسرے سے محبت کرتا ہے یا کسی سے امید اور خوف رکھتا ہے تو اس نے واحد کہاں مانا ؟ غرض ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے سے تو حید حقیقی متحقق ہوتی ہے مگر یہ اپنے اختیار میں نہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ہستی پر کامل یقین سے پیدا ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه : ۳۴۸-۳۴۹) پھر فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع ( یعنی تبتل.علیحدگی ) اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا.( ملفوظات جلد چہارم صفحه :۳۳) یہ بہت ہی گہرا امضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.فرمایا: اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے محویت سے مراد ہے خدا کے لئے خالص ہونا.اس کا لفظی ترجمہ تو ہے اس میں کھوئے جانا.خدا تعالیٰ میں کھوئے جانے کی ضرورت ہے اور یہ کیسے حاصل ہوسکتا ہے جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع نہ ہو یعنی پہلی منزل اس کی یہ ہے کہ دنیا سے انسان کا ٹا جائے.اگر کا ٹا نہیں جاتا تو اس کا پیوند خدا تعالیٰ کی ذات میں لگ نہیں سکتا جب تک کہ صفات سدیم سے اس کا تعلق کا ٹا نہیں جاتا اور دنیا کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش
خطبات طاہر جلد ۱۲ 813 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء اور محویت پیدا نہیں ہوتی.دو جنتیں بیک وقت برابر نہیں پل سکتیں ایک محبت کوضرور غالب ہونا ہے جب دنیا کی محبت غالب رہے گی اور جب تک دنیا کی محبت غالب رہے اللہ تعالیٰ کی محبت جڑ نہیں پکڑ سکتی.پس آپ جب بھی محبت کے مضمون پر غور کریں گے تو مشکل یہ پیش آئے گی کہ یہاں ایک جڑ کا سوال نہیں بیسیوں سینکڑوں، ہزاروں جڑیں ہیں جنہوں نے ہمیں غیر اللہ کی محبت میں باندھ رکھا ہے، غیر اللہ کی محبت کی زمین میں ہم پیوست ہیں.بعض لوگوں کی جڑیں ہلکی ہیں اور او پر ہیں اور بعض زلازل بعض آندھیاں ان کی جڑیں اکھیڑنے میں ان کی مدد کرتی ہیں.غم پڑتے ہیں، مصائب وارد ہوتے ہیں اور ان درختوں کی جڑیں جو زمین میں پیوستہ تھیں ان سے الگ ہو جاتی ہیں.پھر اللہ فضل فرمائے تو خدا تعالیٰ کی محبت کی زمین میں وہ دوبارہ پیوست ہوسکتی ہیں لیکن بعضوں کی جڑیں گہری ہوتی ہیں.جو بھی ابتلاء آتے ہیں، جیسی کیسی نصیحت کی جائے وہ اسی طرح اس زمین میں گہری پیوست رہتی ہیں تو فرمایا کہ جب تک پہلے یہاں سے جڑیں اکھیڑو گے نہیں اللہ کی محبت میں وہ جڑیں لگ نہیں سکتیں جب ایک دفعہ اکھیڑی جائیں تو پھر کیا ہوتا ہے فطرتوں میں طبعی جوش پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ ایک ایسا شخص جس کی جڑیں اکھڑ جائیں اس کی بقاء کا زمانہ بہت تھوڑا ہے وہ جتنی جلدی ممکن ہوان جڑوں کو دوبارہ اسی زمین میں پیوست کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہی پودوں کا حال ہے جو پودے ہواؤں اور آندھیوں سے اکھڑ کر اپنے اصل موطن سے الگ ہو جاتے ہیں اپنی جگہوں سے جدا ہو جاتے ہیں جہاں بھی ہوا ان کو ٹھہراتی ہے وہاں وہ فوری طور پر جڑیں زمین پر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں تو فرمایا کہ دنیا سے جڑیں اکھیڑو تو پھر ایک طبعی جوش پیدا ہوگا کہ کہیں تو جڑیں لگیں.پھر خدا کی ذات میں محویت کا معاملہ آسان تر ہو جائے گا تم خود بخود چاہوگے کہ دنیا سے کاٹے گئے ، خدا تو ملے اور کم سے کم اس مجبوری کے پیش نظر ہی تمہیں اللہ تعالیٰ میں محو ہونے میں مدد ملے گی.اس کے بغیر ثبات میسر نہیں آسکتا.جڑوں کے اکھڑنے کا جو مضمون میں نے اب بیان کیا ہے اس کا ثبات سے تعلق ہے.جڑیں پیوستہ ہوں تو ثبات آتا ہے اور جب تک انسان خدا تعالیٰ کی ذات میں محو نہ ہو نیکیوں پر ثبات اس لئے نہیں آسکتا کہ دنیا کی زمین میں اگر جڑیں گہری پیوست ہوں تو نیکیاں شاخوں پر صرف عارضی بہار کے سرسری اثر کے طور پر دکھائی دیتی ہیں.جڑیں فیصلہ کرتی ہیں کہ اس درخت نے کیا بننا ہے اور کیسے رہنا ہے اور کوئی نیکی وہاں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ جڑیں اس کی تائید نہ کریں.پس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 814 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء جب تک انسان کی محبت کی جڑیں اللہ تعالیٰ کی ذات میں پیوستہ نہیں ہو جاتیں اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمہاری نیکیوں کو ثبات میسر نہیں آسکتا.ہم نے روزمرہ دیکھا ہے کہ ایک انسان نیکیوں کو اختیار کرتا ہے پھر اکھڑ جاتا ہے پھر اختیار کرتا ہے پھرا کھڑ جاتا ہے.ہر وقت اس دغدغہ میں اس کا وقت گزرتا ہے کہ کیا کروں، کس طرح اپنی نیکیوں کو ثبات بخشوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا حل پیش فرما دیا کہ اس کا حل محبت الہی میں ہے.ہر محبت کے مقابل پر محبت الہی کا ایک موقع ہے جس جس محبت میں تم دنیا سے تعلق کاٹ کر اللہ تعالیٰ کی محبت اختیار کرو گے تو لازماً وہیں تمہاری ان نیکیوں کو ثبات مل جائے گا جن کا اس مضمون سے تعلق ہے.پھر آنحضرت ماہ کی مثال دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: آنحضرت ﷺ اس قدر خدا میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ آپ کی صلى الله زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوگئی تھی اور آپ کے وجود میں نفس مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا ( یہ کامل تبتل ہے ) اور آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی ( ریویو آف ریلیجنز - جلد اول صفحه: ۱۷۸) تقتل کا یہ مضمون اپنی انتہا تک پہنچا ہوا ہے اس سے آگے کا تجمل ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں اس کی محبت میں ہر دوسرا تعلق بالکل کا لعدم ہو جائے بلکہ عدم ہو جائے اور اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے.جو شخص اپنے نفس سے کامل طور پر کاٹا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے نفس کا ذکر فرمایا ہے، کامل طور پر اپنے نفس سے کاٹا گیا مخلوق اور اسباب سے کاٹا گیا.امر واقع یہ ہے کہ مخلوق اور اسباب سے کٹنے سے پہلے نفس سے کٹنا ضروری ہے یہ یاد رکھیں.مخلوق اور اسباب کے تعلق کی جڑیں نفس کے اندر ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عرفان کی بہت ہی گہری بات فرمائی ہے اور بڑی حکمت سے اس ترتیب کو قائم فرمایا ہے.فرماتے ہیں حضرت محمد مصطفیٰ نفس سے کاٹے گئے.اپنی ذات سے کاٹے گئے اور اس کے نتیجہ میں لازم تھا کہ مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ آپ میں باقی نہ رہے تب ایسا ہوا کہ آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری کہ اس میں غیر کی ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 815 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۹۳ء اس کے بعد کی جو دنیا ہے اس میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اپنے نفس سے بھی ایک تعلق پیدا ہوا.مخلوق سے بھی ایک تعلق پیدا ہوا اور اسباب سے بھی ایک تعلق پیدا ہوا مگر کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ نے فرمایا کہ و لنفسک علیک حق دیکھو میرے بندے تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.پس وہ قطع تعلق ایک نئے تعلق میں تبدیل ہو گئی جو اللہ کی طرف سے ملا اور یہی مضمون خلق سے تعلق اور اسباب کے ساتھ تعلق پر بھی برابر حاوی ہے اور برابر اطلاق پاتا ہے.گویا آپ کا ہر تعلق رضائے باری تعالیٰ کے تابع ہو کر ایک نئی روح کے ساتھ قائم ہوا ہے اور اسی حد تک قائم ہوا.جس حد تک خدا نے چاہا کہ یہ تعلق قائم ہو.پس نفس کے تعلق میں اور مخلوق کے تعلق میں اور اسباب کے تعلق میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ایک کامل مثال بن گئے جس حد تک آپ آپنے نفس کا لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کے نفوس کا لحاظ رکھتے تھے وہ ایک خاص تفریق جو اپنے نفس اور غیروں کے درمیان کی جاتی تھی.وہ تل کی ایک بہت ہی اعلیٰ مثال ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تعلقات کو ایک نئی روح ملتی ہے ،نئی روشنی عطا ہوتی ہے.ویسا ہی اگر ہم کریں اور ویسا ہی اسباب سے تعلق رکھیں جیسا حضرت اقدس محمد رسول اللہ نے اسباب سے تعلق توڑنے کے بعد پھر دوبارہ خدا کی خاطر قائم فرمایا ہے تو یہی اس دنیا میں نجات کا آخری ذریعہ بلکہ پہلا اور آخری ذریعہ ہے اس سے بہتر نجات کی کوئی اور تعریف ممکن نہیں دنیا بھر کے مذاہب میں آپ تلاش کر لیں مگر یہ تعریف جو تقتل اور پھر دوبارہ تعلق کی آنحضرت ﷺ کی سیرت پر غور کرنے کے بعد ہمیں سمجھ آتی ہے اس سے بہتر نجات کی کوئی اور تعریف ممکن نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ( الاحزاب : ۷۲ ) تم نجات کی راہیں پوچھ رہے ہو ہم تمہیں فوز عظیم کی راہ بتاتے ہیں.تم نجات کی کیا با تیں کرتے ہو ہم نجات کی ایسی راہ بتاتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر نجات ممکن نہیں ہے اور وہ نجات خدا اور محمد رسول اللہ کی متابعت میں ہے.اللہ کی اطاعت کرو.محمد رسول اللہ اللہ کی اطاعت کرو اس میں ساری نجات ہے.پس میں جو نجات کا مضمون اس کے ساتھ باندھ رہا ہوں تو اپنی طرف سے نہیں بلکہ قرآن کریم نے واضح طور پر اس کو نجات ہی کے مضمون کے طور پر پیش فرمایا ہے.اب میں آپ کے سامنے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے تبتل کی چند مثالیں رکھتا ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 816 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء یہ تو ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے اور بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر چند ایسی مثالیں جن سے آپ کو یہ مضمون سمجھنے میں آسانی ہوگی جو میں نے چینی ہیں.ایک نصیحت کے طور پر بخاری.کتاب صلى الله الرقاق باب قول النبی اله الا الله کن فی الدنیا کانک غریب.یہ عنوان حضرت امام بخاری نے باندھا ہے.حضرت ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت تم نے میرے کندھوں کو پکڑا اور فرمایا تو دنیا میں ایسا بن جا گویا تو پر دیسی ہے یا راہ گزر مسافر ہے.( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر ۵۹۳۲) ی تل کی وہ تعریف ہے جو آنحضرت ﷺ کی ذات پر سب سے زیادہ صادق آئی اور اس کی روشنی میں ہم اس مضمون کو زیادہ بہتر رنگ میں سمجھ سکتے ہیں.ترمذی.کتاب الزھد میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت مسی چٹائی پر سور ہے تھے جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلو مبارک پر نظر آئے.ہم نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے نرم سا گدیلہ نہ بنادیں.اگر ایک نرم سا گدیلہ ہم آپ کے لئے بنا دیں تو کیا اچھانہ ہو؟ آپ نے فرمایا: مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق؟ میں اس دنیا میں اس شتر سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے اترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا.(ترمذی کتاب الزهد حدیث نمبر : ۲۲۹۹) یہ عجیب مثال ہے.آپ سفر کرتے ہیں تو آپ کو بہت سی چیزیں اچھی بھی لگتی ہیں.سفر کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چیزوں کا پسند آنا منع نہیں ہے.آرام کی بھی ضرورت پڑتی ہے.کئی سایہ دار اشجار راہ میں آپ کی مہمانی کے لئے آپ کو آرام پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما رکھے ہیں.لیکن سفر کی حالتوں پر غور کر کے دیکھیں وہ سب تعلقات عارضی دکھائی دیتے ہیں اور انسان کسی جگہ اپنی منزل بنا کر ٹھہر نہیں جایا کرتا.اچھے مقامات بھی آتے ہیں، برے مقامات بھی آتے ہیں ،سبزہ زاروں میں چشمے بھی بہہ رہے ہوتے ہیں میٹھے پانی بھی مہیا ہوتے ہیں.صحراؤں میں پیاس کی تلخیاں بھی برادشت کی جاتی ہیں اور کئی قسم کی مصیبتیں ہیں لیکن ایک مسافر جب ان سے گزرتا ہے تو نہ تکلیفیں ہمیشہ کے لئے اس کو مغلوب کر دیتی ہیں یا مایوس کرسکتی ہیں، نہ عارضی لذتیں اس کے قدم تھام سکتی ہیں.وہ سمجھتا ہے کہ یہ لذتیں بھی عارضی ہیں یہ میرا اصل مقام نہیں ہے اور یہ تکلیفیں بھی آئیں اور چلی گئیں مگر میری منزل تو کہیں اور ہے.پس ہمیشہ منزل کا خیال اس کے دامنگیر رہتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 817 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء اور سفر کے تعلقات کبھی بھی دائمی نہیں بن سکتے.مجھے یاد ہے بچپن میں چونکہ مجھے پہاڑوں پر جانے کا بہت شوق تھا.ہمالہ کے خوبصورت پہاڑوں پر جو ایک بہت وسیع سلسلہ ہے جب بھی جاتا تھا اور جب سکول کی چھٹیوں کے دن ختم ہورہے ہوتے تھے اور واپس جانا ہوتا تھا تو مجھے بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر یاد آجاتا تھا اور اکثر ان جگہوں پر بیٹھ کر یہ شعر گنگنا کر میں بہت لذتیں محسوس کرتا تھا اور وہ شعر یہ ہے کہ جو چمن سے گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بلبل زار سے کہ خزاں کے دن بھی قریب ہیں نہ لگانا دل کو بہار سے پس انسان کے لئے خواہ خوبصورت جگہیں ہوں یا تکلیف دہ جگہیں، بہار کے موسم ہوں یا صلى الله خزاں کے موسم ہوں، پیغام واحد یہی ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے کہ نہ وقتی آرام تمہیں متکبر کردیں اور جھوٹی ملکیت کی تمنائیں تمہارے دلوں میں پیدا کریں اور نہ عارضی تکلیف دہ مقامات تم پر نفسیاتی لحاظ سے غالب آکر تمہیں مایوس کر دیں اور تم سمجھو کہ تمہارا سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا.مسافر کی طرح رہو گے تو آرام کی زندگی کے ساتھ بھی تمہارے تعلقات درست رہیں گے اور تکلیف کی زندگی کے ساتھ بھی تمہارے تعلقات درست رہیں گے.پھر حضرت سہیل بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا.اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ بھی مجھے چاہنے لگیں.بڑا مشکل سوال ہے.انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ایسا کام کروں کہ اللہ محبت کرے تو دنیا سے تعلق توڑنا پڑے گا اور ایسا کام کروں کہ دنیا مجھے چاہنے لگے تو گویا اللہ سے تعلق توڑنا پڑے گا.کتنا مشکل سوال تھا جو بظاہر کیا گیا لیکن جواب صلى الله دیکھیں.کیسا عارفانہ کیسا عظیم جواب ہے.آنحضور یہ فرماتے ہیں.دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا اور یہی فعل تمہارے لئے لوگوں کی محبت بھی پیدا کر دے گا.یہ فرمایا جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو تو لوگ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے.(ابن ماجہ کتاب الزهد حدیث نمبر ۴۰۹۲۰) کتنا حیرت انگیز عارفانہ جواب ہے.اس کو پڑھ کر عقل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ کیسا برجستہ جواب اللہ تعالیٰ نے فوراً آنحضرت علی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 818 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء کو سمجھایا ہے جو اس سوال کے دونوں پہلوؤں پر برابر اطلاق پاتا ہے اور ایک ہی نیکی ہے جس کے اجر کے طور پر اللہ بھی محبت کرتا ہے اور بندے بھی محبت کرتے ہیں.ہمارے تعلقات کے جتنے بھی دائرے ہیں، دنیا میں جتنے فساد ہیں ان کی جڑ دنیا کی محبت اور اس رنگ میں محبت ہے کہ دوسرے کے مال پر حرص کی نگاہیں پڑتی ہیں جو اپنا حق نہیں ہے وہ لینے کی تمنا دل میں پیدا ہوتی ہے.اگر کسی شخص کو کامل یقین ہو جائے کہ اس شخص کو میری وجاہت میں ، میرے اموال میں، میری اچھی چیزوں میں ایسی دلچسپی ہرگز نہیں کہ انہیں اپنا لے، اس حد تک دلچسپی ہے کہ یہ چیزیں زیادہ ہوں تو یہ خوش ہو.ایسے شخص سے لا زماوہ شخص محبت کرے گا جس کو اس کی طرف سے اسی کی طرح کا کامل اطمینان نصیب ہو اور کامل بے خوفی عطا ہو جائے.دراصل حضوراکرم نے لفظ مسلم ہی کی یہ تعریف فرمائی ہے اور انسان کا اسلام کامل ہو نہیں سکتا جب تک اس سے دنیا بے خوف نہ ہو جائے اور تمام دنیا کو اس کی طرف سے حقیقت میں سلامتی کا پیغام نہ پہنچے.یہ کیسے ممکن ہے اس کا یہی طریق ہے کہ دنیا کی محبت دل پر اس طرح سرد ہو جائے کہ جو کسی کی ملکیت ہے وہ اس کو مبارک رہے اور اس کو حاصل کرنے کی کوئی تمنا کوئی خیال دل میں پیدا نہ ہو اور جہاں تک اللہ کی ذات کا تعلق ہے دنیا کا وجود اس کے سامنے ایک مردار کے طور پر دکھائی دے اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک زندہ محبت کے طور پر ہمیشہ اس کے دل پر غالب رہے.میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں بھی بہت سے اختلافات، بہت سے خاندانی مسائل اس نصیحت پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں ہیں.بہت سے ایسے خطوط مجھے ملتے ہیں ، بہت سے ایسے مقدمات قضاء میں جاتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایک باپ نے آنکھیں بند کیں تو اولاد جائیدادوں پر ایک دوسرے سے لڑ پڑی.بعض ایسے مقدمے میرے سامنے ہیں جو ہیں پچیس سال سے مسلسل چل رہے ہیں اور کسی طرح کسی فیصلے سے ہر فریق کو اطمینان حاصل ہوتا ہی نہیں.بہنیں بھائیوں سے لڑ پڑی ہیں، بھائی بہنوں سے لڑ رہے ہیں.آگے ان کے بچے ان اختلافات کو لے دوڑے ہیں اور مسلسل سردردی کا سامان یہاں تک کہ بالآخر مجھے جراحی کا عمل کرنا پڑا اور فیصلہ کرنا پڑا کہ اب چاہے اس کو انصاف سمجھو یا نا انصافی سمجھو قضاء کے اس آخری فیصلے پر عمل کرو تو جماعت کے ساتھ رہو گے ورنہ جماعت سے کاٹے جاؤ گے اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے یہ تبتل معکوس اختیار کر لیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 819 خطبه جمعه ۲۲ را کتوبر ۱۹۹۳ء کہ جماعت کو چھوڑ دیا.اللہ سے منہ موڑ لیا، دنیا کو دین پر مقدم کر لیا لیکن وہ حرص نہ چھوڑی جو دوسرے کے مال پر نظر رکھنے کی حرص ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو.یہاں یہ بھی نہیں فرمایا کہ حق ہے یا نہیں ہے یہ بحث نہیں اٹھائی.فرمایا کہ خدا سے محبت ایسی تام ہو جائے اور خدا کی خاطر دنیا ایسی حقیر دکھائی دینے لگے کہ تم میں ایک عظیم احسان کا جذبہ پیدا ہو جائے.اللہ کی خاطر جب دنیا سرد ہوتی ہے تو انسان بعض دفعہ اپنے حق کو دوسرے کے قبضہ میں دیکھے تب بھی وہ اس کو چھوڑ دیا کرتا ہے اور اللہ کی خاطر یہ قبول کر لیتا ہے کہ اگر یہی بات ہے تو ٹھیک ہے خدا میرا رازق ہے.تم جتنا مجھ سے چھینو گے اس سے بہت زیادہ عطا کر دے گا.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حق کے لئے جدوجہد نہیں کرنی چاہئے مگر جہاں جدو جہد کی حد ختم اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی حد سے متصادم ہونے کا خطرہ ہو وہاں یہی حکم ہے کہ وہاں قدم روک لو اور خدا کی خاطر اپنے نقصان کو برداشت کر جاؤ.اگر خدا غالب ہے اور می و ملکیتیں مغلوب ہیں تو ہر ایسے موقع پر جہاں یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ حق چھوڑوں یا نہ چھوڑوں خدا کا تعلق ہی فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے.پھر اگر انسان اللہ کی خاطر ہر حق چھوڑنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر لے تو یہ سچا تنبل ہے جو اس کی زندگی کے ہر عمل میں کارفرما رہے گا اور جہاں بھی ایسا مقام آئے جہاں ایک چیز سے علیحدگی ، دوسری چیز کو اختیار کرنے کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں وہاں انسان ہمیشہ صحیح فیصلہ کرے گا.میں نے تو دیکھا ہے کہ لوگ بہنوں کے حق مار جاتے ہیں اور ان کو وراثتوں سے محروم کر دیتے ہیں.ابھی پرسوں مجھے ایک بچی کا بڑا دردناک خط ملا ہے.اچھے کھاتے پیتے بھائی ہیں ، ماں باپ جائیداد چھوڑ کر گئے اور اس غریب بہن کو جس بیچاری کے آٹھ دس بچے بھی ہیں.خاوند غریب ہے ، ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا ، چھوڑا ہوا ہے اور خود عیش وعشرت کی زندگی میں مبتلا ہیں اور بہن کا حق ان کے مال میں داخل ہے.قرآن کریم فرماتا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذریت :۲۰) کہ خدا سے تعلق رکھنے والے جو نیک لوگ ہیں ان کا تو یہ حال ہے کہ جو ان کا مال ہے اس میں بھی سائل اور محروم کا حق ہوتا ہے.اس کا ایک معنی یہ بھی ہے لیکن وہ کیسے لوگ ہیں جو سائل اور محروم کا حق چھین کر اپنے مال میں داخل کرتے ہیں وہ مومن نہیں کہلا سکتے.پس قضاء
خطبات طاہر جلد ۱۲ 820 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۹۳ء جو فیصلے کرے جب بھی کرے اس پر عمل درآمد کی کسی کو توفیق ملے یا نہ ملے لیکن ایک قضاء ہے جو آسمان پر قائم ہے اس قضاء کے فیصلوں اور اس کی تنفیذ سے کوئی دنیا میں بچ نہیں سکتا.اس لئے میں ساری جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی کا حق ان کے مال میں شامل ہے تو اس حق کو الگ کر دیں.وہ جہنم کا ٹکڑا ہے جوان کے پیٹ میں جاچکا ہے جب تک وہ اس پیٹ میں ہے وہ سارے نظام کے لئے جہنم اور آگ پیدا کرنے کا موجب بنا رہے گا اور قیامت کے دن وہ پکڑیں جائیں گے.اس لئے آنحضرت ﷺ نے تبتل کی جو صحیح تعریف فرمائی ہے اس کے پیش نظر سب سے پہلی بات یہ کریں کہ اپنے اموال میں اپنی جائیدادوں میں، اپنی ملکیتوں میں سے سب غیر کے حقوق نکال دیں اور پھر اپنے اموال پر غیروں کے حقوق خود قائم کریں اور خدا کی خاطر مال سے بے رغبتی کے نمونے دکھائیں.یہ جو دوسرا قدم ہے یہ احسان کا قدم ہے.اگر دنیا پر انسان کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور خدا کی محبت باقی رہ جاتی ہے تو پھر جہاں بھی کوئی محروم نظر آئے گا.جہاں بھی سائل دکھائی دے گا، جہاں بھی کوئی تکلیف میں مبتلا شخص سامنے آئے گا انسان خدا کی خاطر اس کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ خدمت کی کوشش کرتا ہے.بہنوں کا حق تو ایک ایسا عظیم حق ہے کہ حضرت عمر کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کی مثال ان کے سامنے بیان کی گئی کہ وہ اپنے بھائی کی مدح میں گیت کہتے ہوئے کھلتی نہیں.مسلسل کہتی چلی جاتی ہے اور ہمیشہ اس کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہے تو حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے.یہ کیا دیوانگی ہے کہ ایک شخص کے ذکر سے تم تنگ ہی نہیں آرہی، تھک ہی نہیں رہیں.اس نے کہا آپ کو پتا نہیں میرا بھائی کیسا تھا.وہ تو ایسا تھا کہ میرے ماں باپ کی وفات کے بعد آدھی جائیداد برابر بانٹ کر میرے سپرد کر دی.ابھی اسلام کی وراثت کا نظام نہیں آیا تھا.یہ اس وقت کی بات ہے اور میرا خاوند عیش و عشرت میں مبتلا عیاش، غیر ذمہ دار، اس نے وہ ساری جائیداد ضائع کر دی.میرے بھائی کو پتا چلا.پھر اس نے اپنی جائیداد آدھی کی اور آدھی میرے سپرد کر دی.وہ کہتی ہے سات دفعہ اس طرح ہوا ہے، سات دفعہ میرے خاوند نے اس نیک بھائی کی جائیدا دضائع کی اور سات دفعہ اس نے پاک کمائی میں سے آدھا کر کے میرے سپرد کر دیا کہ لوتم تکلیف میں نہ رہو.یہ ذکر سن کر حضرت عمر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپ نے صاد فر ما دیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 821 خطبه جمعه ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۳ء کہ ہاں تم ٹھیک کرتی ہو.اس بھائی کا حق ہے کہ اس کی حمد کے گیت گائے جائیں.پس بہن بھائی کا جو اصل تعلق ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان اپنی بہنوں کی خاطر کوشش کرے.اگر ویسا نہیں بن سکتا جیسا وہ بھائی تھا تو کچھ نہ کچھ تو بہنوں کی رعایت رکھے.کجا یہ کہ ان کے مال کھا کر بیٹھا ہو اور اس کی اولاد نازوں کے ساتھ پل رہی ہو اور بہن کے بے چارے بچے بھوکے مر رہے ہوں تو تقتل کے مضمون کو آپ جتنا سمجھیں گے اتنا ہی آپ بہتر انسان بنتے چلے جائیں گے.تجبل سب سے پہلے نیتوں میں ہوتا ہے.جب نیتوں کے تقتل میں دنیا کی کوئی قیمت آپ کے سامنے نہیں رہے گی تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کسی کا حق ماریں اور اس کے بعد پھر لازماً خدا بھی آپ سے محبت کرے گا اور بنی نوع انسان بھی ضرور آپ سے محبت کریں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کو سمجھنے کے بعد میں امید رکھتا ہوں کہ اگر جماعت عمل کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کے لئے ترقیات کی بہت راہیں کھلیں گی اور ہمارا معاشرہ ایک انتہائی حسین اور جاذب نظر معاشرہ بن جائے گا جس کی کوئی اور مثال دنیا میں دکھائی نہیں دے گی اس مضمون کے باقی حصے کو چھیڑنے سے پہلے اب میں ایک وفات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی نماز جنازہ غائب کا.ہمارے ایک بہت ہی فدائی واقف زندگی امیر جماعت احمد یہ کینیڈا کی بیگم فیضیہ کل وفات پاگئی ہیں اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت ہی خاموش قربانیاں کرنے والی، بہت ہی دعا گو، نیک فطرت خاتون ایسی ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ کبھی زندگی میں انہوں نے کسی کو کوئی دکھ دیا ہو ان کے خلاف جماعت میں کسی طرف سے کبھی کوئی شکایت نہیں سنی اور نہ اور بھی مبلغین کی بیویاں ہوتی ہیں اپنی غلطی سے یا کسی کی غلطی سی یہ تاثر ضرور پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی کو دکھ پہنچایا اور جب میں دوروں پر جاتا ہوں تو مجھ سے یہ ذکر چلتے ہیں لیکن اس نیک خاتون کے متعلق اچھی بات ہی سنی.ہمیشہ لوگوں کی بھلائی میں وقف تھی اور بڑے صبر کے ساتھ ایک ایسے واقف زندگی کے ساتھ گزارا کیا جو اپنے اہل وعیال کے حق کو بعض دفعہ نظر انداز کر کے جماعت کی خدمت میں لگا رہتا تھا.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ہماری سب خواتین کو ان کی ان نیک عادات کا حامل بنادے جو خدا کی محبت بھی حاصل کرتی ہیں اور بنی نوع انسان کی بھی.اب میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ہوگی.نماز کے بعد احباب فوری طور پر صف بنالیں.
822 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 823 خطبه جمعه ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۳ء تبتل خدا کی طرف ہجرت کرنے کا نام ہے.تتلیہ ہے کہ انسان دل سے مخفی بتوں سے رہائی پائے.(خطبه جمعه فرموده ۲۹ را کتوبر۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اجتماعات کے اعلانات کے سلسلے میں پہلے تو ایک معذرت پیش ہے کہ لجنہ اماءاللہ تامل ناڈو ہندوستان نے بھی گزشتہ مرتبہ یہ خواہش کی تھی کہ ان کے اجتماع کا بھی اعلان کیا جائے.یہ صوبائی اجتماع تھا مگر غلطی سے وہ نام پڑھا نہیں گیا.اب ان کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں.کل سے جو اجتماعات شروع ہیں وہ مجلس انصار اللہ ضلع راولپنڈی کا اجتماع ہے جو ۲۸؎ اکتوبر سے شروع ہوا ہے اور آج ختم ہوگا.انصار اللہ سٹوٹ گارڈ جرمنی ریجن کا اجتماع ہے جو ۳۰؎ اکتوبر کو ہو رہا ہے.جماعت احمد یہ سپین کا نواں جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے کل ۳۰ اکتوبر تک جاری رہے گا.لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش کا سالانہ اجتماع ۳۱ اکتوبر کو منعقد ہوگا.لجنہ اماءاللہ ساؤتھ افریقہ کا آٹھواں سالانہ اجتماع ۳۱ اکتوبر کو ہورہا ہے.ہندوستان کے جنوبی صوبوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، کیرالہ اور کرناٹک کی ساؤتھ ریجنل سالانہ کانفرنس ۳۱ اکتوبر سے یکم نومبر تک منعقد ہوگی.خدام الاحمدیہ پاکستان کا سالانہ اجتماع جو ۲۱ / تا ۲۳ اکتوبر ہونا تھا جس کی حسب توقع اجازت نہیں ملی.توقع تو عموماً اچھی چیز کی لگائی جاتی ہے مگر وہاں خدام الاحمدیہ کو بھی اور دیگر جلسہ یا اجتماع کرنے والی مرکزی تنظیموں کو اب عادت پڑ چکی ہے کہ انکار میں جواب آئے گا.اس لئے توقع
خطبات طاہر جلد ۱۲ 824 خطبه جمعه ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۳ء امید کی شکل میں نہیں بلکہ مایوسی کی شکل میں ہوتی ہے اور معلوم ہے کہ وہ کیا جواب دیں گے؟ اس سلسلے میں میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ہو یا انصار اللہ یالجنہ اماءاللہ ان کو اپنی مسلسل کوششوں میں ناکامی سے مایوس نہیں ہونا چاہئے.امر واقعہ یہ ہے کہ جلسہ سالانہ جب سے انہوں نے بند کیا اور ساتھ ہی ذیلی تنظیموں کے اجتماعات بند کئے.یہ انہی پابندیوں کا فیض ہے جو ساری دنیا اب اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عالمی اجتماعات اور عالمی جلسوں کی صورت میں دیکھ رہی ہے اس لئے یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کو ایک ایسی نیکی کا پھل ملتا ہے جسے کرنے کی توفیق ملتی ہے بعض دفعہ ایک نیکی نہ کرنا اس درد کی وجہ سے بہت بڑا ثواب بن جاتا ہے جس نیکی کی راہ میں کوئی مجبوری حائل ہو اور انسان کا دل بے قرار ہو کہ میں وہ نیکی کروں لیکن مجبور نہ کر سکے بعض ایسی بھی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایسی نیکیوں کا ثواب کی ہوئی نیکیوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی یہ ایک الہی اشارے کے تابع عمرے اور حج کی نیت سے سکے کی طرف روانہ ہوئے ، ساتھ آپ کے جاں نثاروں کا ایک بڑا قافلہ تھا اور حدیبیہ کے میدان پر جا کر آپ کو روک دیا گیا.وہ واقعہ بار بار جماعت کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے.اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا لیکن یہ یاد دلاتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے صحابہ رضوان اللہ تعالی عنہم کی رائے اور اجتماعی رائے کے خلاف اللہ کی رائے کو ترجیح دی یعنی اللہ کے منشاء کو ترجیح دی اور باوجود اس کے کہ بشدت صحابہ کا اصرار تھا کہ ہم جانیں فدا کر دیں گے مگر یہ حج ضرور ہو گا یا یہ عمرہ ضرور ہو گا لیکن آنحضور نے رضائے باری تعالیٰ کو فوقیت دی اور یہی ہونا تھا.آپ سے اس کے سوا کوئی کسی قسم کی توقع رکھی نہیں جاسکتی اور تمام صحابہ کی رائے کو رد کر دیا.اس کے نتیجے میں وہ عمرہ اور حج جو نہیں ہو سکے تھے ان کی جزا قرآن کریم میں ایسی بیان ہوئی ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے کسی مقبول حج کسی مقبول زیارت کی ایسی جزاء نہیں دی گئی.فرمایا کہ تيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ( افتح ) احمد ہم تیرے اس فعل سے ایسا راضی ہوئے ہیں کہ تو نے ہماری خاطر ایک نیکی سے محرومی اختیار کر لی یعنی نیکی کا فلسفہ یہ ہے کہ خدا کی خاطر کوئی چیز کی جائے اور اسی فلسفے کی طرف دراصل توجہ دلائی گئی ہے خدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 825 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء کی خاطر کسی نیکی سے رک جانا بعض دفعہ اس سے بھی بڑی نیکی بن جاتی ہے چنانچہ فرمایا کہ ہم تجھ سے یہ سلوک کرتے ہیں کہ تیسر ا صرف ماضی کی غلطیاں ہی یا بشری کمزوریوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایسی صورتیں جن سے تجھے تکلیف پہنچی ہو وہی معاف نہیں کی جاتی بلکہ آئندہ ہمیشہ کے لئے تمام غلطیاں معاف کی جارہی ہیں.اتنی بڑی جزا ایک ایسی نیکی کی ہے کہ جو کی نہ جاسکی.لیکن دنیا کی نظر میں جو نیکی نہ کی جاسکی اگر نیتوں میں خدا ہی خدا ہو اور اس نیکی سے روکنا بھی خدا ہی کی خاطر ہوتو عملاً یہ نیکی شمار ہو جاتی ہے.پس مجلس خدام الاحمدیہ ہو یا انصر اللہ یا دوسری ذیلی تنظیمیں یا صدرانجمن جو اپنے جلسوں کی درخواستیں دیتی چلی جارہی ہے اور ہر دفعہ مایوسی ہوتی ہے.پاکستان کی ایسی تمام مرکزی تنظیموں کو میں متوجہ کرتا ہوں آپ کی نیکی رائیگاں نہیں گئی.آپ جن جلسوں اور اجتماعات سے محروم کئے گئے ہیں یہ آپ کے محرومی کے نتیجے میں درد کا فیض ہی ہے جو ساری دنیا میں عام ہو رہا ہے.ایک جلسہ سالانہ پر کتنے احمدیوں کو توفیق ملا کرتی تھی حاضر ہونے کی اور ایک اجتماع پر کتنے احمدیوں کو حاضر ہونے کی توفیق ملا کرتی تھی.اب دیکھیں ہر جمعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے آٹھ دس گنا زیادہ احمدیوں کو بیک وقت مرکزی خطابات سننے کا موقع مل رہا ہے اور اسی طرح دیگر اجتماعات کا حال ہے لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ میں ان کو ایک ترکیب سوجھاؤں کہ اگر مجلس خدام الاحمدیہ، انصار الله، لجنہ اماءاللہ پاکستان کو یہ توفیق ہو تو جس طرح جرمنی کے خدام نے اپنے خرچ پر اپنے اجتماع کو ساری دنیا کا اجتماع بنایا تھا اس طرح آپ بھی کوشش کر لیں.اگر توفیق ہو ان دنوں میں ہم یہاں آپ کی طرف سے سالانہ اجتماع بنا دیا کریں گے اور آپ ویڈیو بنا کر اپنے ان مقررین کی جن کو آپ کو شامل کرنا چاہتے ہیں ، خواتین تو نہیں ہو سکیں گی مگر باقی ہو سکتے ہیں.وہ بھیج دیا کریں، چند ویڈیو آپ کی چلیں گی ایک مرکزی تقریر میں کر دیا کروں گا.اس طرح آپ کا سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ آپ کو ہر دفعہ یہ خیال ہو کہ نہیں ہوا، ڈپٹی کمشنر نے روک دیا ہے، پھر یہ کہنے کی بجائے آپ کہیں گے کہ ایک ڈپٹی کمشنر کیا ہزار ڈ پٹی کمشنر بھی اس اجتماع کو روک نہیں سکتے جو خدا کی اجازت سے کیا جارہا ہو جسے اللہ کی تائید حاصل ہو.وہ ایک شہر کا ، ایک ملک کا اجتماع نہ ہو بلکہ ساری دنیا کا اجتماع بن جائے.پس آپ کے اجتماع اس طرح ساری دنیا میں عام ہو جائیں گے اور ابھی بھی اللہ کے فضل سے دیگر اجتماعات کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 826 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء ذکر میں، میں نے آپ کا ذکر بھی کر دیا ہے تو میرے نزدیک آپ بھی ان اجتماعات کی فہرست میں شامل ہیں دیگر انصار اللہ اور لجنہ بھی اسی طرح شامل ہیں.ان سب کو میری ایک نصیحت یہ ہے کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ پر عالمی بیعت کے بعد میں نے نصیحت کی تھی کہ آپ اگلے تین ماہ تربیت کی طرف توجہ دیں.میرے خیال میں مجھے نہیں یاد کہ اس سے پہلے کبھی جماعت کی طرف سے بیعت کرنے والوں کے لئے اس قسم کی سکیم کا آغاز کیا گیا ہو.تمام دنیا میں مسلسل با قاعدہ منصوبے بنا کر ساری جماعتیں نو مبائعین کو اپنے اندر جذب کرنے اور ان کی تألیف قلب کے لئے پروگرام بنائیں اور ان کی تربیت کریں.اب جبکہ یہ وقت تقریبا ختم ہو چکا ہے.جو رپورٹیں مل رہی ہیں ان سے اندازہ ہوا ہے کہ اس طرح عالمی بیعت کی تحریک ایک الہی تحریک تھی خدا کے فضل سے یہ تحریک بھی غیر معمولی طور پر برکت پاگئی ہے اور محسوس ہوا ہے کہ اس کی شدید ضرورت تھی.اس لئے یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے ہی دل میں تحریک ڈالی گئی اور از خود پیدا ہونے والا کوئی خیال نہیں ہے.جن تجربات کی اطلاعیں ملی ہیں ان کو پڑھ کر جہاں بے حد خوشی ہوئی وہاں افسوس بھی ہوا کہ کاش پہلے ہم اس طرف توجہ کرتے تو بہت سے لاکھوں میں احمدی ہونے والی جماعتیں رفتہ رفتہ ضائع نہ ہو جاتیں.شدت سے محسوس ہوا کہ جو بیعت کرتے ہیں ان کی تربیت کا تو آغاز ہوتا ہے.یہ سمجھ کر کے احمدی ہو گئے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ ہر ملک میں مختلف قسم کی رسوم رائج ہیں، مختلف قسم کی مذہبی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، چھوٹے چھوٹے مسائل میں بھی اور بڑے بڑے مسائل میں بھی جب تک باقاعدہ مستقل رابطہ کر کے ان کی تربیت کا انتظام نہ کیا جائے ،بعض غلطیاں ایسی جڑ پکڑ جاتی ہیں کہ پھر ان کا اکھیڑنا مشکل ہو جاتا ہے.چنانچہ جب میں غانا دورے پر گیا تھا تو بعض پرانی جماعتوں میں جہاں پیدائشی طور پر کثرت سے احمدی موجود تھے.وہاں بھی ایسی پرانی بعض بدر سمیں پائی گئیں جن کے متعلق مجھے حیرت ہوئی کہ پہلے کیوں نہیں ان کو اکھیڑا گیا لیکن اس طرح وہ گہری ان کے اندر داخل ہو چکی تھیں اور احمدیت میں رہتے ہوئے ان کی جڑوں کو قائم رہنے دیا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کے ساتھ مجھے بھی بہت سرکھپائی کرنی پڑی، بہت سمجھانا پڑا اور بڑی مشکل سے پھر آخر وہ پرانے فرسودہ خیال ان کے دلوں سے نکالے.تو ابھی جو دورے کئے گئے ہیں ان کی طرف سے رپورٹیں مل رہی ہیں کہ ہم تو لرز گئے یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 827 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء دیکھ کر کہ اگر ہم ان کو چھوڑ دیتے تو ان جماعتوں بے چاروں کا بننا کیا تھا ؟ ایمان تو لے آئے لیکن بعض بدر میں ، بعض بیوقوفوں والے خیالات ، بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو دین میں ایسی اہمیت دینا ، جن کی دین میں گنجائش ہی کوئی نہیں.وہ ابھی تک اسی طرح تھے یعنی یہ خیالات ، یہ بدر سمیں، یہ پست چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دینے کے رجحان ، یہ اسی طرح موجود تھے.چنانچہ ان مہمات کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے حیرت انگیز کامیابیاں ہوئی ہیں ان علاقوں کی کایا پلٹ گئی ہے.پھر میں نے یہ تحریک کی تھی کہ آئمہ کو اور ان کے لیڈروں کو اپنے پاس بلائیں اور ان کو سکھائیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہی طریق تربیت کا سکھایا ہے کہ کیوں نہیں ہر علاقے سے جہاں اسلام پھیلتا ہے ایک فرقہ مرکز میں نہیں پہنچتا.پہنچنا چاہئے ، وہاں پہنچیں.تفقہ فی الدین حاصل کریں اور پھر واپس لوٹیں.ظاہر ہے کہ یہ ایمان لانے والوں پر صادق آنے والا کلام ہے، غیروں سے تو خطاب نہیں کیا جا رہا.قرآن کریم نے تو چودہ سو سال پہلے خوب کھول کر سمجھا دیا تھا.جہاں جہاں اسلام پھیلے گا اس پر اطمینان نہ کر لینا، لازم ہے کہ ان کے نمائندے مرکز میں پہنچیں اور تربیت حاصل کریں اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو دین سکھائیں.اس پہلو سے یہ سلسلہ بھی اللہ کے فضل سے بہت سے ممالک میں جاری ہوا اور بہت ہی نیک نتائج اس کے ظاہر ہوئے لیکن جہاں جہاں ابھی یہ کام نہیں ہو سکے.میں ذیلی تنظیموں کو خصوصیت سے متوجہ کرتا ہوں کہ وہ تربیت کے معاملے میں جماعتوں کا ہاتھ بٹائیں اور اپنے امراء کو پیشکش کریں اور جو حصہ امراء تربیت کے سلسلے میں ان کے سپر د کریں اس میں وہ آگے بڑھ کر شوق سے حصہ لیں اور اپنے اجتماعات میں لا زما نومبائعین کو ضرور شامل کیا کریں اور ان کی تربیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ ڈالنے شروع کریں.جو شروع میں شائد بوجھ لیں پھر بہت ہلکے محسوس ہوں گے اور ان کو نظام کا با قاعدہ حصہ بنا ئیں اگر اس طرح آپ انجذاب کا کام کریں گے یعنی جذب کرنے کا انتظام کریں تو دیکھتے دیکھتے یہ ایک صالح خون کی طرح آپ کے پاک وجود کا حصہ بن جائیں گے.اگر ایسا نہیں کریں گے تو نظام از خودان کو دھکا دے کر باہر نکالے گا جو وجود نظام میں ہضم نہ ہو سکے، جذب نہ ہو سکے.اگر اسے نظام باہر نہ نکالے تو وہ نظام فاسد ہو جاتا ہے.یہی قرآن کریم سے روحانی نظام سے متعلق پتا چلتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 828 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء اور یہی جسمانی نظام کا حال ہے جو سب دنیا ویسے ہی جانتی ہے.ہم جو چیز کھاتے ہیں اس کا صالح حصہ ہمارے خون میں جاتا ہے، جذب ہوتا ہے، ہمارے وجود کا حصہ بنتا جاتا ہے، جو چیز فساد کا موجب بن سکتی ہے نظام جسمانی کے لئے خلل کا موجب بن سکتی ہے، اس میں خرابی پیدا کرسکتی ہو، اس کو وہ تمام اعضاء جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے قائم فرمائے ہیں.باہر نکال دیتے ہیں اور اگر وہ باہر نکالنے کا سلسلہ از خود نہ ہو تو سارا نظام جسمانی فساد ہو جاتا ہے.پس یہ بھی ضروری ہے کہ جب آپ تربیت کرتے ہیں ان میں سے جو صالح اور قائم رہنے والے اور پاک طینت لوگ ہیں وہ از خود آپ کے وجود کا مستقل حصہ بنتے چلے جائیں گے اور وہ جو بھی رکھتے ہیں اور غلطی سے جلد بازی میں آگئے ، وہ اسی تربیت کے دوران آپ سے آرام سے الگ ہو جائیں گے اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کون آپ کا ہے اور کون آپ کا نہیں ہے اور جتنے الگ ہوں گے ان کے بدلے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان سے بہتر زیادہ صالح ، ان سے زیادہ پیار کرنے والے اور زیادہ قربانی کرنے والے لوگ میں تمہیں دوں گا اور کثرت سے دوں گا.پس اس تربیت کے نظام کو اگر پوری طرح عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تو یہ نہ سمجھیں کہ تین مہینے ہو چکے ہیں اس لئے بات آئی گئی ہوگئی.یہ بات اس وقت تک آئی گئی نہیں ہوگی جب تک کہ سب نومبائعین کی تربیت کا کام اس حد تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا کہ وہ با قاعدہ نظام کا حصہ بن جائیں اور اس ضمن میں ، میں یہ جماعتوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ جیسے کہ میں نے کہا ہے کہ ذیلی تنظیموں سے استفادہ کریں اور کچھ ان پر ذمہ داریاں ڈالیں اور پھر وہ مستقل اس کام کو جاری رکھیں.اس کے لئے ایک مرکزی ٹیم الگ بنا دیں جو تبلیغی کاموں سے علاوہ خالصہ اسی کام کے لئے وقف رہے کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں کو تربیت کے لئے خدا تعالیٰ مقرر فرمانا چاہتا ہے ان کا ایک الگ گروہ کے طور پر ذکر فرمایا ہے.کیوں نہ ہر قوم سے ایک ایسا فرقہ مرکز میں نہیں آتا جو خالصہ تربیت کے کام کرتا ہے یا کرے گا.پس میں سمجھتا ہوں کہ تربیت کا نظام تین مہینے کے لئے تو ہنگامی نظام تھا، تین مہینے کے بعد ساراسال بلکہ سالہا سال ہمیشہ کے لئے یہ قرآن کا بیان فرمودہ جاری نظام بن جائے جس کو ہم اس طرح اختیار کر لیں کہ نظام جماعت کا ایک اٹوٹ انگ ہو جائے ، نا قابل جدا حصہ بن جائے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 829 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء نظام جماعت میں نئے آنے والوں کی تربیت کے لئے ایک الگ شعبہ اس رنگ کا قائم ہو جائے جو پہلے نہیں تھا.اصلاح و ارشاد تو ہے تربیت کے سیکرٹری بھی ہیں ، تربیت کے مختلف عہدے موجود ہیں لیکن میں جس بات کا ذکر کر رہا ہوں وہ خصوصیت سے نومبائعین کے حوالے سے کر رہا ہوں اور اس پہلو سے ہمیں اب مستقلاً ایسے شعبے کے قیام کی ضرورت ہے اور اعلیٰ پیمانے پر اس نظام کو جاری کرنا ضروری ہے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ اب ہماری تبلیغی کوششوں کو کثرت سے پھل لگنے والے ہیں.یہ گزشتہ سال جو واقعہ ہوا ہے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے.یہاں آئندہ زمانوں کے حالات کا ایک پیش خیمہ ہے، آئندہ کیا ہونے والا ہے اس کی خوشخبری دینے والا واقعہ تھا.پس اللہ کی تائید کی ہوائیں لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کے لئے چل پڑی ہیں.انہیں سنبھالنے کی تیاری کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ لوگ خود بھی نقصان اٹھائیں گے جو بغیر تربیت کے پڑے رہیں گے اور آپ کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور آپ کے اندر بھی غلط رسمیں جاری کریں گے، اسلام سے ہٹی ہوئی عادات اپنے ساتھ لے کر آئیں گے اور کئی قسم کی بدیاں ہیں جو ان کے ساتھ داخل ہو جائیں گی.اس لئے لازم ہے کہ نئے آنے والوں کو پہلے Quarantine میں رکھا جائے ان کی تربیت کی جائے ، ان کے جراثیم دھوئیں جائیں ان کو ہر قسم کے گند سے صاف کیا جائے اور پاک صالح وجود بنا کر نظام جماعت کا حصہ بنایا جائے.اب میں واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو گز شتہ کئی خطبات سے جاری ہے.تبتل کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بارہا موت کا ذکر فرمایا ہے کہ مرجاؤ لیکن جہاں جہاں موت کا ذکر فرمایا ہے وہاں زندہ ہونے کا ذکر بھی ہے.زندہ ہونے کے لئے مرو کیونکہ موت کے بغیر ایک نئی زندگی مل نہیں سکتی اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام موت کہتے ہیں وہی تقتل ہے تبتل کا دوسرا نام سمجھ لیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: او پئے دلدار، از خود مرده بود از پئے تریاق ، زہرے خورده بود ( درشین فارسی: ۲۱۲) کہ دیکھو وہ یعنی حضرت محمد مصطفی میں یہ آپ کے عشق میں یہ ترانہ گایا جا رہا ہے حضرت مسیح موعود کا یہ کلام آنحضور ﷺ کی فضیلتوں کے بیان میں ہے.کہتے ہیں:
خطبات طاہر جلد ۱۲ 830 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء او پئے دلدار، از خود مرده بود وہ اپنے محبوب کی خاطر اپنے وجود سے خود کھویا گیا اپنے اوپر موت وارد کر دی.از پئے تریاق ، زہرے خورده بود تریاق حاصل کرنے کی خاطر زہر کھایا گیا.کیسا پیارا کلام ہے، کیسا عمدہ ایک بیان ہے کہ اس لئے کہ تریاق ملے اس نے زہر کھا لیا یعنی وہ حالت اختیار کر لی جس کے بعد اللہ تعالی نے لازماً تریاق دینا ہی دینا تھا.تا نہ، نوشد ، جامِ ایں زہرے، گسے گے رہائی یا بد از مرگ آں جسے (درشین فاری: ۲۱۳) کہ جب تک کوئی یہ زہر خود نہ کھا لے اسے 'گے رہائی یا بد از مرگ آں جسے انسان جو خس و خاشاک ہے بے حیثیت ہے اسے اس موت سے رہائی مل کیسے سکتی ہے.پس یہاں موت اور موت سے رہائی کا مضمون اکٹھا ہی بیان فرمایا ہے یعنی ایک موت سے رہائی کے لئے ایک موت اختیار کرنی پڑتی ہے.زیر این موت است پنہاں، صد حیات زندگی خواہی، بخور جام ممات (در رشین فارسی :۲۱۳) اس موت کے نیچے پنہاں ہیں سینکڑوں زندگیاں ، زندگی خواہی تو زندگی کا خواہاں ہے، زندگی چاہتا ہے.نور جام کمات موت کے جام پی لے اسی میں زندگی ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.توحید کا نور اپنی پوری شان کے ساتھ اس وقت تک انسان میں چمک نہیں سکتا جب تک اس سے پہلے آفاقی معبودوں کی نفی نہ ہو جائے.یعنی تنبل کے مضمون کو اس رنگ میں بیان فرما رہے ہیں کہ ایک توحید تقتل کے بعد ہے.ایک تو حید تبتل سے پہلے ہے، تو حید کو اختیار کرتے ہو تو تبتل کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.خدا کی خاطر دنیا چھوڑنی ہو اس سے پہلے ، توحید کی ضرورت ہے مگر فر مایا ایک توحید تبتل کے بعد جلوہ گر ہوتی ہے.وہ ایک عظیم الشان تو حید کا تصور ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے.فرماتے ہیں: توحید ایک نور ہے جو آفاق و انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 831 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء پیدا ہوتا ہے وجود کے ذرے ذرے میں سرایت کر جاتا ہے.اپنی پوری شان کے ساتھ اس وقت انسان میں چمک نہیں سکتا جب تک اس سے پہلے آفاقی معبودوں کی نفی نہ ہو جائے.پس بجز خدا اور اس کے رسول کے ذریعے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہوسکتا ہے...“ یہاں ان لوگوں کے لئے ایک خوشخبری ہے جو سمجھتے ہیں تبتل کا مضمون اتنا مشکل ہے کہ اس کو سنے اور سمجھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں تبتل کی طاقت ہی نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ قتل کی طاقت اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کسی کو بھی مل نہیں سکتی.گزشتہ سے پیوستہ جمعہ پر کسی خطبہ سننے والے احمدی نے ایک دلچسپ تبصرہ کیا.اس نے کہا آج تو تنبل کا مضمون سمجھنے کے بعد مجھے تو یوں لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے سوا اور کوئی بھی احمدی نہیں رہا.یہی احمدی کہلا سکتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو فرماتے ہیں میری جماعت میں سے نہیں ہے ، یہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ان کا یہ فقرہ ایک دلچسپ تبصرہ تو ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ خلفاء بھی اللہ تعالیٰ کی تائید کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکتے.انبیاء ایک ایسا تائید یافتہ گروہ ہے جن کے متعلق ہم لب کشائی نہیں کر سکتے لیکن خلفاء کا یہ حال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب جان جان آفرین کے سپر د کر رہے تھے تو بے قرار ہو کر بستر پر تڑپ تڑپ کر یہ کہہ رہے تھے.لالی ولا عـــلــــی ( مسند احمد جز اول صفحہ ۴۶) اے میرے اللہ ! میں نیکیوں کا حساب نہیں مانگتا، میری غفلتوں سے درگزر فرمادے.اس لئے کہنا بھی درست نہیں کہ خلفاء بھی اس مقام پر جاپہنچے ہیں جہاں وہ سمجھیں کہ بخشے گئے.امر واقعہ یہ ہے کہ بخشش کے لئے ایک بے قرار دل چاہئے جو ہر وقت ، ہر آن ترساں رہے، خدا سے خوف زدہ رہے اور جانتا ہو اور یہ حقیقت ہے کہ صحیح جانتا ہے وہ کہ میرے اعمال اس لائق نہیں ہیں کہ اس خدا کے حضور قبول کئے جائیں.وہ بخش دے، رحمت سے درگز رفرمادے اور قبول فرمادے تو اس کی رحمت کی شان ہے ورنہ حقیقت میں، میں حقدار نہیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں تبتل کی تعریف کرتے ہوئے ایسا جلالی کلام فرمایا جس کو سن کر انسان لرز اٹھتا ہے اور ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ میں بھی جماعت سے باہر نکل گیا لیکن ساتھ دلداری بھی فرمائی ہے، طریق بھی سکھائے ہیں کہ کس طرح انسان اپنی کمزوریوں کے باوجود خدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 832 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء کی درگاہ میں قبولیت کا درجہ پالیتا ہے.فرماتے ہیں:.پس وہ بجز خدا اور اس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہوسکتا ہے.آنحضرت ﷺ کا وسیلہ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو.تو پھر تمہیں یہ اپنے ذرے ذرے کو خدا کی خاطر فنا کر دینے کا مقام حاصل ہو سکتا ہے.انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کر دے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۸) یہ بھی بڑا مشکل کام ہے.فرمایا تو صرف یہ ایک کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو یہی دکھائی دیتا ہوگا کہ صرف اتنی سی بات ہے.جو خودی پر موت وارد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو پتا چلتا ہے کہ یہ صرف بھی بڑا ہی مشکل کام ہے.میں نے تو اکثر جگہ خودی کو ہی لوگوں کی ہلاکت میں کارفرما دیکھا ہے.اتنی خطرناک چیز ہے کہ ہر جگہ خودی ، خودی، خودی ، پتا نہیں.اقبال کے دماغ میں کون سی خودی گھسی ہوئی تھی کہ جس کے نتیجے میں کہتا تھا کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے (کلیات اقبال صفحہ ۳۸۴) وہ تصور خودی کا جو قرآن نے پیش فرمایا ہے جو محمد رسول اللہ اللہ نے پیش فرمایا ، جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھایا، وہ خودی تو مہلک ہی مہلک ہے اور اس کو ایسے مٹا دینا چاہئے کہ جیسے وجود ہی کوئی نہیں رہے.فرماتے ہیں: خودی پر موت وارد کر دے، اس شیطانی نحوست کو چھوڑ دے.“ امر واقعہ یہ ہے کہ خودی شیطانی نحوست ہے اور شیطانی نحوست کہنا اس لئے بہت موزوں ہے کہ شیطان کے متعلق قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ایسی جگہ سے حملہ کرتا ہے کہ جہاں سے تمہیں خبر نہ ہو اور خودی کا حملہ ہمیشہ ایسی جگہ سے ہوتا ہے کہ انسان کو خبر نہیں ہوتی.متکبر لوگ اپنے نفس اور اپنی انا کی خاطر نیکیاں دکھانے والے، اپنے نفس اور انا کی خاطر دوسروں پر تنقید کرنے والے، نظام سے باغی ہونے والے وغیرہ وغیرہ.بے شمار گروہ ہیں جو خودی کے مارے ہوئے ہیں اور ان کو پتا ہی نہیں.ان سے حال پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سب نیکی کی باتیں ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے اس شیطانی نحوست کو چھوڑ دیں.بہت ہی عمدہ تذکرہ ہے.خودی کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 833 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء مضمون پر یہ شیطانی نحوست ہے اس سے نجات حاصل کرنا لازم ہے.فرمایا شیطانی نحوست کس طرح اس کو لاحق ہو جاتی ہے.اس کی چند مثالیں دی ہیں.فرمایا ”...اس شیطانی نحوست کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں...“ صاحب علم لوگوں کا تکبر بھی وہ خودی ہے جو خدا کے دربار میں رڈ ہو جاتی ہیں.پس کوئی ایک انسان یہ سمجھے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور میری اسی سے نجات ہے میں سب سے بڑا ہوں.یہ بھی اسے سب سے چھوٹا کر کے چھوڑتی ہے یہ بات بھی.پھر فرمایا وو...ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگا رہے...66 عالم ہو کر اپنے آپ کو جاہل سمجھے.اس سلسلے میں یہ بات میں ضرور سمجھانا چاہتا ہوں کہ عالم ہوکر ، جو میں نے لفظ کہے ہیں ان کے اندر ایک خامی ہے، اس بیان میں ایک خامی چھپی ہوئی ہے.سچا عالم جب غور کرتا ہے اپنے علم پر اور ساری کائنات پر اور دیگر علماء کے حال پر اور ان علوم کے بے شمار مضامین پر جن سے وہ کلیہ بے بہرہ ہے اور پھر ہر عالم کے اس بنیادی نقص پر کہ کسی عالم کا بھی علم کامل نہیں ہوتا اور بڑے سے بڑا عالم بھی علم کے میدان میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور پھر وہ خدا پر نظر ڈالے.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (السجدہ :) کے مقام پر نظر ڈالے تو کوئی دنیا میں عالم ایسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں عالم ہو کر پھر گر رہا ہوں.وہ حقیقت میں اپنے آپ کو ضرور جاہل سمجھے گا اور اس وقت سچا بجز پیدا ہوتا ہے.بعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہیں تو ہم عالم لیکن عجز کی خاطر کہتے ہیں ہمارے پاس کہاں علم ، ہم تو لاعلم لوگ ہیں.وہ ان کا لا علم بنا بجر نہیں ہوتا بلکہ دکھاوا ہو جاتا ہے.بعض امیر جس طرح کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو مزدور ہیں بس دو وقت روٹی کمانے والے ہیں حالانکہ لاکھ پتی ہوتے ہیں.ان کا انداز بیان بھی ایک فخر رکھتا ہے.ہم کیا ہیں مزدور ہی مزدور روٹی کمانے والے ہیں اور لاکھوں کروڑوں روپے جمع ہوتے ہیں ان کے.تو علم کے ساتھ یہ حرکت کی جائے یا دولت کے ساتھ حرکت کی جائے بنیادی طور پر انسان کی انا جو ہے وہ اسے یہاں بھی دھوکہ دے رہی ہے.یہ بھی شیطانی نحوست ہے.سچا عجز وہ ہے جو حقیقت پر مبنی ہو اور انسان اگر گہری فراست کے ساتھ اپنی یافت پر غور کرے جو کچھ وہ حاصل کر چکا ہے اسے پہچانے ، پر کھے، اسے معلوم ہوگا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے.کوئی حیثیت نہیں ہے، پھر وہ سچا بجز پیدا ہوتا ہے جس کے بعد دعا میں جان پڑ جاتی ہے، طلب میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 834 خطبه جمعه ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۳ء قوت پیدا ہو جاتی ہے ورنہ آپ منہ سے انکار کر رہے ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے.اے خدا میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، دل کہہ رہا ہو کہ کافی کچھ ہو.محض خدا کی خاطر گر رہے ہو.تو دعا میں جان کہاں سے پڑے گی.دعا میں جان تو خطرے کے مقام سے پڑتی ہے ایک آدمی جو چھت سے گر رہا ہو رگرتے وقت کی اس کی چیخ ہے وہ اور قسم کی چیخ ہے محض بناوٹ سے چیخ مارنا بالکل اور بات ہے.ایک بچے پر ایک درندہ جھپٹ رہا ہو اس کی جو شیخ ہے وہ بالکل اور نوعیت کی ہے اور عام حالات میں بچے کا چیختا رہنا اور ہے اگر ماں بچے کی وہ چیخ سن لے جو حقیقی خطرے کے وقت دل سے نکلتی ہے تو ماں اپنی جان اپنا سارا وجود خطرے میں جھونک دیتی ہے تا کہ اس بچے کو بچالے.بس دعا میں قوت پیدا کرنے کے لئے یہ مضمون سمجھنا ضروری ہے اپنے عجز کو حقیقی بنا ئیں اور آپ کا عجز ہے ہی حقیقی ، ہم سب کا عجز حقیقی ہے، اگر ہم اس کو پالیں اگر اپنے وجود کی حقیقت کو سمجھ جائیں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں.حقیقت میں ذلیل کیڑوں سے بڑھ کر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے اور خدا نے جو عزتیں دی ہیں محض اس کی پردہ داریاں ہیں اور اس کی رحمت ہے جس کی چادر نے ہمیں لپیٹا ہوا ہے ورنہ حقیقت میں انسان خدا کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا.اس حیثیت سے اپنے گردو پیش کے خطرات کو محسوس کر کے اگر دعا میں لگا ر ہے تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: توحید کا نور خدا کی طرف سے اس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اس کو بخشے گا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۴۸) یہ وہ تو حید ہے جونئی زندگی بخشتی ہے کیونکہ سب کچھ کی نفی جو ہو گئی.تب تو حید قائم ہوئی ہے.اگر ساری کائنات کی نفی کر دیں اور اپنے وجود کو قائم رکھیں تو حید کیسے ہو جائے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کلام بہت گہرے معنی رکھتا ہے اسے محض سرسری طور پر نہ پڑھیں ہر ر انسان کہتا ہے لا اله الا اللہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں.لیکن وہ سوچتا نہیں کہ گر دو پیش کی نفی تو کر رہا ہے، کہنے والا اپنی بھی نفی کرتا ہے کہ نہیں اور اپنی نفی کرنا سب سے بڑا مشکل کام ہے.یہ فی جگہ جگہ کرنی پڑتی ہے، روز مرہ زندگی میں بے شمار قدم ایسے اٹھانے پڑتے ہیں جہاں یہ مضمون آپ کے سامنے ایک تنبیہ کے طور پر آ کھڑا ہوتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا تم اپنی نفی کر کے یہ قدم اٹھا رہے ہو یا خدا کی مرضی کے علاوہ ایک الگ قدم اٹھایا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد ۱۲ علیها 835 خطبه جمعه ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۳ء السلام تنبل کے مضمون کو ہجرت کے طور پر بیان فرماتے ہیں اور حقیقت میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے تجبل کو ہجرت کے رنگ میں ہی ایک اور موقع پر بیان فرمایا ہے.آنحضرت اللہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں.انما الاعمال بالنية وانما لامرى مانوی فمن كانت هجرته الى الله و رسوله فهجرته الى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها او امراة يتزوجها فهجرته الى ما هاجر اليه ( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۲، مسلم کتاب الاماره حدیث نمبر ۳۵۳۰) اس میں آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ دیکھو اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف دوسروں سے قطع تعلق کر کے چلنا یہی حقیقی ہجرت ہے اور اس حقیقت کا آغاز نیت سے ہوگا.ور نہ تمہاری تمام حرکتیں خدا کی طرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہوں گی.تم سمجھ رہے ہو گے کہ تم خدا کی طرف جارہے ہو لیکن فی الحقیقت کسی اور وجود کی طرف چل رہے ہو گے.اتنی عظیم الشان حدیث ہے کہ زندگی کے ہر عمل پر اور عمل سے پہلے ہر نیت پر یہ نگران بن گئی ہے اور ہماری کمزوریوں کی طرف اشارہ فرمارہی ہے اور متنبہ کر رہی ہے کہ کن کن باتوں میں تمہیں توجہ کے ساتھ غور وفکر کے ساتھ اپنی نیتوں کا تجزیہ کرنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ تمہاری نیتیں بچی ہیں یا جھوٹی ہیں.فرمایافمن كانت هجرته الى الله و رسوله فهجرته الى الله جس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہے جس نے دنیا چھوڑی ہے خدا اور رسول کی خاطر وہ تو انہی کی طرف رہے گی.یہ تو سادہ سی بات ہے لیکن ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہے دنیا کو پالے گا.امراة يتزوجھا جس کی ہجرت عورت کی طرف ہے تو وہ اس سے نکاح کرلے گا.فهجرته الى ما هاجر اليه عملاً اس کی ہجرت وہی شمار ہوتی ہے جس کی نیت سے وہ چلا ہے.پس ان دو باتوں کا کیا تعلق ہے.جس کی ہجرت اللہ کی طرف وہ اللہ کی طرف ہو گی اور مراد یہ ہے کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری ہر ہجرت اسی طرف ہے جس طرف تم بظاہر سمجھتے ہوئے عین ممکن ہے یہ خطرہ لاحق ہے کہ تم سمجھ رہے ہو خدا کی طرف جا رہے ہو لیکن مقصد کوئی اور دنیا کی چیز ہو.پس تم دنیا کی چیز تو پالو گے لیکن خدا کو نہیں پاسکو گے.اگر ہجرت خالصہ اللہ کے لئے ہوگی تو دنیا پر ٹھہرو گے نہیں.رستے میں دنیا بھی پاسکتے ہو مگر اصلی مقام تک پہنچو گے یعنی خدا جس کی طرف تم ہجرت کر رہے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی ہجرت
خطبات طاہر جلد ۱۲ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 836 خطبه جمعه ۲۹ را کتوبر ۱۹۹۳ء یقیناً میری مثال ایک ایسے شخص کی مثال ہے جس نے محبت کو ہر چیز پر چن لیا ہو اور خدا کی طرف پورا جھک گیا ہو اور قرب کے میدانوں میں سعی کرتا ہو ( یعنی خدا تعالیٰ جہاں جہاں ملتا ہے وہاں کوشش کر کے تیزی سے قدم اٹھا رہا ہو ) اور اس کے ملنے کے لئے وطن سے دوری اختیار کی ہو اور وطن کی مٹی کو اور ہم عمروں کی صحبت کو چھوڑ اہو اور اپنے محبوب کے شہر کا قصد کیا ہو اور چلا ہو.66 کیسی پیاری تفسیر ہے تبتل الی اللہ کی.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی وطن میں رہتے تھے جہاں پیدا ہوئے انہی لوگوں میں پرورش یافتہ تھے.جن کے ساتھ آپ نے عمر گزاری اور ظاہری طور پر ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑ امگر آپ کا دل گواہ تھا اور اس عبارت کا ایک ایک لفظ گواہ ہے کہ آپ سچے ہیں کہ بارہا خدا کی خاطر ان سب چیزوں کو خیر آباد کہنا پڑا ہے.ان سے رخصت ہونا پڑا ہے کیونکہ دل ہمیشہ اللہ کی طرف مائل رہا.جہاں ان چیزوں کا قرب خدا سے دور کرنے کا موجب بن سکتا تھا وہاں ہر دفعہ آپ نے نیت میں ان چیزوں کو چھوڑ دیا اور خدا کی طرف مائل ہو گئے.یہ وہ تل کا سفر ہے جو زندگی بھر انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اسی کے نتیجے میں پھر دراصل وہ توحید کا نور حاصل ہوتا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا حال بچپن سے یہی تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ تنجل یافتہ تھے.آپ کی فطرت میں تبتل الی اللہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کو ایک دفعہ یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آج کل ایسا بڑا افسر برسراقتدار ہے جس کے ساتھ میرے تعلقات ہیں پس اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں تمہاری مرضی کی بہت اعلی نوکری دلوا سکتا ہوں.یہ وہ سکھ دوست جو ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تلاش میں گئے اور آخر ان کو ڈھونڈ کر یہ پیغام دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جواب دیا.حضرت والد صاحب سے عرض کر دیں کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا.(سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ ۴۳۰)
خطبات طاہر جلد ۱۲ 837 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء دادا کا یہ پیغام تھا کہ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ عرض کر دیں.میری نوکری کی فکر نہ کریں.میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں.یہ سکھ زمیندار حضرت والد صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کر واپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے تو یہ جواب دیا ہے.میں نے تو جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا ہوں.شاید وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جواب کی اہمیت کو نہ سمجھتا تھا.مگر والد صاحب کی طبیعت بڑی نکتہ شناس تھی کچھ دیر خاموش رہنے پر فرمانے لگے.اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نوکر ہو چکا ہوں تو پھر خیر ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بڑے رئیس نے ہمارے دادا صاحب سے پوچھا کہ سنتا ہوں آپ کا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے مگر ہم نے اسے دیکھا نہیں ہے.دادا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا تو ہے مگر تازہ شادی شدہ دلہنوں کی طرح کم نظر آتا ہے.اگر اسے دیکھنا ہومسجد کے کسی گوشے میں جا کر دیکھ لیں.وہ تو مسیتر ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تبتل آغاز ہی سے خدا تعالیٰ کی طرف سے فیض یافتہ تل تھا، ایک فطرت ثانیہ بن چکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ اگر مجھے اس امر کا یقین دلایا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ ان تکلیفوں اور بلاؤں کو لذت اور محبت کے جوش و شوق کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہے اور باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اور دکھ کی صورت میں دلایا جائے کبھی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکالنے کو ہزار بلکہ لا انتہاء موت سے بڑھ کر دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قراردیتی ہے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۳۴۰) پھر نصیحت کے رنگ میں ہمیں فرماتے ہیں :.سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اسی کو یارو! بتوں میں وفا نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 838 اس جائے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو خطبه جمعه ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۳ء دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں (در ثمین صفحہ :۱۵۲) پس وہ لوگ جو دنیا سے دل لگا کر دنیا کی محبتوں میں منہمک ہو جاتے ہیں ان کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ ان کی موت ہمیشہ بے اطمینانی کی موت ہوتی ہے، کبھی انہیں زندگی سے سچی طمانیت نہیں ملتی کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے: آلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:۲۹) خبر دار سچی طمانیت صرف اللہ کے ذکر سے ملے گی کیونکہ اس ذکر کی خاطر دل پیدا کئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں: ہر چہ غیر خدا بخاطر تست آں بت تست ، اے بایماں ست پر حذر باش، میں بتان نہاں دامن، دل، ز دستِ شاں پر ہاں (در ثمین فارسی صفحہ ۲۶) کہ ہر چہ غیر خدا، بخاطر تست.اے ست ایمان والے ہر وہ خدا کا غیر جو تیرے دل میں ہے یہ تیرے دل کا ایک بت ہے.پر حذر باش، زمیں بتان نہاں لازم ہے تجھ پر کہ ان چھپے ہوئے بتوں سے خوفزدہ رہو ان سے بچ کر رہو.دامنِ ، دل ، ز دستِ شاں پر ہاں اپنے دل کا دامن ان کی قید سے چھڑ الواور آزاد ہو جاؤ.پس تبتل کا یہ معنی ہے کہ اپنے دل کے مخفی بتوں سے انسان رہائی پائے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح مر جائے کہ دنیا کے آرام ، دنیا کی نعمتیں، دنیا کی لذتوں سے کلیہ کنارہ کش ہو جائے اور ایک فقیر کا کمبل اوڑھ کر اس دنیا سے الگ ہو جائے، تو یہ درست نہیں ہے کہ مقام تل اس مقام سے زیادہ مشکل ہے جس مقام میں فقیر دنیا سے پناہ مانگتے ہیں اور علیحدگی اختیار کر جاتے ہیں.تبتل کا مطلب ہے کہ اس دنیا میں رہنا، اس کے ساتھ ساتھ چلنا، ہر روز اس کی لذتوں اور کشش سے آزمائے جانا اور ہرلمحہ اس بات پر نگران ہونا کہ یہ تمام لذتیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے مقابل پر بیچ ہیں.جہاں میں اس دوراہے پر آؤں گا کہ جہاں ایک طرف لذتیں ہوئیں دوسری طرف خدا کی محبت ہوئی تو ان لذتوں کو اس طرح ترک کر دوں گا جیسے ایک بد بودار مردار کو انسان چھوڑ کر الگ ہو جایا کرتا ہے.یہ وہ تل کی روح ہے ورنہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 839 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء حقیقت میں دنیا کی زمینیں ، اچھے لباس، اچھا کھانا، اچھا پینا مومنوں پر حرام نہیں ہے بلکہ قرآن کریم تو فرماتا ہے قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِى أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ صلى الله (الاعراف :۳۴) اے محمد یہ تو اعلان کر دے کون ہے جس نے اللہ کی زینت کو حرام قرار دیا ہے وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی ہے.وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ اور ماکولات یعنی کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو اچھی چیزیں وہ ساری کی ساری قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيُوةِ الدُّنْیا (الاعراف: ۳۴) تو کہہ دے کہ میں نے تو یہ ساری نعمتیں ایمان والوں کی خاطر پیدا کی ہیں فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اس دنیا میں لیکن خَالِصَةً يَوْمَ الْقِیمَ ةِ اس دنیا میں غیر بھی شریک ہیں، قیامت کے دن تو صرف مومنوں کے لئے ہوں گی.كَذَلِكَ نُفَصِلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اسی طرح ہم آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں.یہاں لفظ خالصہ بہت ہی اہم بیان ہے جس پر غور کریں وہ مؤمن جو دنیا میں باقی غیر مؤمن لوگوں کی طرح نعمتوں میں شریک ہوتے ہیں ان کے لئے قیامت کے دن خالص کیسے ہوسکتی ہیں.خالصہ تب بن سکتی ہیں جب اس دنیا میں ان نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے خدا کی خاطر جب بھی موقع آیا ان نعمتوں کو انہوں نے یکسر ایک غلیظ اور رڈی چیز کی طرح پھینک دیا اور جدائی اختیار کر لی.اب رمضان آئے گا تو اس میں بھی خدا کے مومن جو بھی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے عادی ہیں لیکن اس طرح خدا کی خاطر ان نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کر جاتے ہیں.یہ نعمتیں بہت سے ایسے مواقع پر سامنے آتی ہیں جہاں گناہ کے نتیجہ میں حاصل ہوسکتی ہیں.چوری کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہیں ، خیانت کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہیں، وہ نعمتیں وہ نہیں ہیں جو خدا نے اپنے مومن بندوں کے لئے پیدا کی ہیں.مومن بندوں کے لئے وہ نعمتیں پیدا کی ہیں جو خدا ان کو عطا فرماتا ہے اور رزق حلال کے طور پر یا جائز نعمتوں کے طور پر ان کو ملتی ہیں وہاں جو لوگ ان نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور نا جائز ذرائع سے ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيِّمَةِ دنیا میں تو یہ سب شریک ہیں.حلال حرام جو کچھ سب مل کر کھاتے رہے ہیں لیکن مومن بندے ہمیشہ حرام کے مقام سے کیونکہ رک جاتے رہے ہیں اسی لئے قیامت کے دن یہ نعمتیں انہی کے لئے خاص ہوں گی ان کے غیر اس میں شریک نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 840 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی مضمون کو مزید کھولتے ہوئے بیان فرماتے ہیں : ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو، ملا زمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ ( النور : ۳۷) والا معاملہ ہو...“ ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی تجارت اور کوئی کاروبار ان کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرنے والا ہو، یہ مراد ہے.اس دنیا میں رہتے ہوئے اگر ہر چیز خدا سے غافل کرنے کی بجائے خدا کا ذکر یاد دلانے والی بن جائے تو دنیا میں اس رنگ میں رہنا اور اس سے تعلق جوڑ ناہرگز منع نہیں ہے لیکن وہ تعلق جو خدا کی ذات سے غافل کرے اور انسان کو خدا سے تو ڑ کر اپنی طرف کھینچ لے.وہ تعلق ہے جس کی مناہی فرمائی گئی ہے.پھر فرماتے ہیں: وو...کاروبار تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامر ونواہی کالحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر ( ملفوظات جلد پنجم صفحه : ۵۵۰) تو یہ مفہوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر قسم کے گناہ کرتے رہو.مراد یہ ہے کہ اللہ سے ڈر کر ر ہو اس ڈر کے دائرے میں جو کچھ کر واس میں تم آزاد ہو اور تمہیں کوئی خوف نہیں یہ جب خدا کا خوف آ جائے تو ہر غیر اللہ کے خوف سے انسان آزاد ہو جاتا ہے.خوف سے بچنے کا یہی طریق ہے کہ ایک خوف کو یعنی اللہ کے خوف کو غالب کر لیں اور پھر کسی غیر اللہ کا، کسی اور چیز کا خوف انسان کو ڈرا نہیں سکتا، اس کو مرعوب نہیں کر سکتا ، اس کی زندگی جہنم نہیں بنا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر انسان کی زندگی کا یہ مدعا ہو جائے کہ وہ صرف تنعم کی زندگی بسر کرے...“ یعنی یہ آپ کو خوب کھول کھول کر سمجھانا پڑتا ہے کہ زندگی میں رہتے ہوئے تبتل کیسے اختیار
خطبات طاہر جلد ۱۲ 841 خطبه جمعه ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۳ء کرنا ہے؟ کس حد تک جانا ہے؟، کس حد سے آگے قدم نہیں بڑھانا ایک وہ بیان ہے کہ دیکھو ان حدود کے اندر رہتے ہوئے جو چاہو کرو کہ دیکھو ان تعلقات میں ایسے نہ بڑھ جانا کہ تم سے یہ سلوک ہو جائے.یہ ضمون بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو...انسان کی زندگی کا یہ مدعا ہو جائے کہ وہ صرف تنعم کی زندگی بسر کرے اور اس کی ساری کامیابیوں کی انتہا خوردونوش اور لباس و خواب ہی ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے کوئی خانہ اس کے دل میں باقی نہ رہے ، تو یادرکھو کہ ایسا شخص فطرۃ اللہ کا مقلب ہے.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۱۸) بہت ہی پیارا کلام، بہت ہی گہرا عارفانہ کلام ہے.میں نے آپ سے پہلے بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے.اس کا کیا مطلب ہے اس کا ایک نیا مطلب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت سے میرے ذہن پر ابھرا ہے اور بہت ہی پیارا مطلب ہے.اللہ کی فطرت میں تو دنیا کی کوئی آلودگی نہیں ہے ، اللہ کی فطرت میں نہ کھانا پینا، نہ اس کی ضرورت ہے ، نہ آرام کی ضرورت ہے، نہ دنیا وی تنعم اس کی فطرت اور مزاج کے مطابق ہے.تو وہ انسان جوان چیزوں پر انحصار کر جاتا ہے.وہ فطرۃ اللہ کا مقلب یعنی الٹ بن جاتا ہے.وہ خالصی ان چیزوں کا ہوکر رہتا ہے.پس اگر چہ انسان کلیۂ خدائی صفات اختیار نہیں کرسکتا.مگر اس حد تک خدائی صفات اختیار کرنے کا اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موقع ملتا ہے کہ وقتاً فوقتاً خدا کی خاطر ان چیزوں سے منہ موڑ کے، ان چیزوں سے رشتہ توڑ کر وہ بظاہر محرومی اختیار کر لیتا ہے اور یہ جھلکیاں ہیں جو خدا کی فطرت کی اس کی ذات میں ظاہر ہوتی ہیں.یہ اس کی نجات کا موجب بنتی ہیں اور اس کے برعکس، فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی فطرت کا مقلب ہے.خدا کی فطرت میں جو باتیں ہیں اس کے برعکس وہ بن جاتا ہے دنیا کا کیڑا ہوکر زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ موت ہے اس میں کوئی زندگی نہیں.پھر فرماتے ہیں: مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لے.“ (ملفوظات جلد اول صفحه : ۹۰) بڑا بدنصیب انسان ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لے.اسی کا دوسرا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 842 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۹۳ء نام موت ہے اور یہ وہ موت ہے جس کے بعد پھر کوئی زندگی نہیں ہے.مر کے وہی زندہ ہوں گے جو اس زندگی میں خدا کے ساتھ زندہ ہیں، جو خدا کی خاطر اس دنیا کی موت اختیار کر لیتے ہیں اور اللہ میں وہ رہ کر زندہ ہوتے ہیں.ان کی زندگی ابدی ہے کوئی موت ان کو مار نہیں سکتی ، وہ ہمیشگی کا مقام پا جاتے ہیں ، وہ اہل بقاء ہیں لیکن وہ لوگ جو اس دنیا میں زندہ رہتے ہوئے روز مر جاتے ہیں یعنی اللہ سے جدا ہو کر مر جاتے ہیں ان کی موت دائمی ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ تبتل اختیار کریں جس تبتل کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا نور ہم پر جلوہ گر ہو.ہمارے سارے وجود کونو رانی بنادے.یہ اگر ہم کر لیں تو ساری دنیا کی نجات ہمارے ساتھ وابستہ ہو جائے گی اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا کی نجات آج ہمارے ساتھ ہی وابستہ ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 843 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کریں اور رضائے باری ہی سب سے بڑی جزا ہے.تحریک جدید کے سال نو کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۵/ نومبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :.الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ ۚ وَاللهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمُ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ * وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةِ أَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ ط ج يَعْلَمُهُ وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَاِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدْهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَ ط أَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقره: ۲۶۹-۲۷۳) پھر فرمایا:.آج میں تحریک جدید کے سالِ نو کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.۱۹۳۴ء سے جب سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 844 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء تحریک جدید قائم ہوئی ہے آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس پر ۵۹ سال پورے ہوتے ہیں اور اب تحریک جدید ساٹھویں سال میں داخل ہو رہی ہے اور اسی حساب سے آج ہم دفتر اول کے ساٹھویں سال میں داخل ہوں گے.دفتر دوم میں ۴۹ سال پورے ہو چکے ہیں اور دفتر دوم اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پچاسویں سال میں داخل ہوگا.دفتر سوم کے ۲۸ سال پورے ہو چکے ہیں اور انیسویں میں داخل ہو رہا ہے دفتر چہارم کے آٹھ سال پورے ہو چکے ہیں اور اب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نویں سال میں داخل ہو رہا ہے.۱۹۴۶ء سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے مختلف دفا تر خصوصیت کے ساتھ مختلف تنظیموں کے سپرد کئے تھے.چنانچہ ۱۹۴۶ء میں دفتر اوّل کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انصار اللہ کے سپر دفرمایا اور بعد ازاں دفتر دوم کو ۱۸ / جنوری ۱۹۵۰ء کو خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا.66 آپ کے الفاظ یہ تھے : تحریک جدید دفتر دوم کی مضبوطی کا کام اس سال میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا ہے.“ دفتر سوم کے متعلق میں نے ۱۹۸۲ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ کام میں خصوصیت سے لجنہ اماءاللہ کے سپرد کرتا ہوں اور دفتر چہارم کو کسی اور ذیلی تنظیم کی خصوصی تحویل میں دینے کا تو کوئی اعلان نہیں ہوالیکن چونکہ یہ آخری دفتر تھا اور اس میں زیادہ تر بچے شامل تھے.اس لئے یہ خود بخود انصار اللہ کے ساتھ ہی منسلک ہو گیا کیونکہ انصار اللہ کی تربیت میں بچوں کی تربیت بھی خصوصیت سے داخل ہے.بہر حال اگر پہلے باقاعدہ اعلان نہیں بھی ہوا تو اس اعلان کے ذریعہ میں اسے بھی انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں.۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسح الثالث نے ایک اور بھی تحریک فرمائی اور وہ یہ تھی کہ نومبائعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری انصار اللہ پر ہوگی.اس پہلو سے یہ اعلان آج کے حالات میں تو ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں نئے احمدی بن رہے ہیں.لاکھوں کی تعداد میں غیر قوموں سے غیر مذاہب سے احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ رفتار آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی اور بڑھتی چلی جائے گی.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ انصار اللہ پر یہ ساری ذمہ داری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 845 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء عائد کرنا شاید ان کی طاقت سے بڑھ کر ہو.اس لئے مناسب یہی ہوگا کہ اس میں اتنی ترمیم کر لی جائے کہ آئندہ سے نو مبائعین کو تحریک جدید کے چندے میں شامل کرنے کی ذمہ داری ان تنظیموں کی ہوگی جن تنظیموں کے افراد جماعت میں داخل ہوتے ہیں مثلاً اگر خواتین اور بچیاں داخل ہو رہی ہیں تو لجنہ کا کام ہو گا کہ ان کو تحریک جدید میں شامل کرے.اگر ۴۰ سال سے اوپر کے دوست شامل ہو رہے ہیں تو انصار کا کام ہوگا اور اگر ۱۵ اور ۴۰ کے درمیان ہیں تو وہ خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اطفال الاحمدیہ کو حسب سابق بے شک انصار اپنے ساتھ رکھیں لیکن اس میں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بچے جو اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں باقاعدہ داخل نہیں ہوتے.وہ لڑکے ہوں تو خدام الاحمدیہ کے سپر دہوتے ہیں اور اگر بچیاں ہوں تو لجنہ کے سپر د ہوتی ہیں.اس لئے اس تفریق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ وضاحت کر دینی ضروری ہے کہ انصار اللہ کے سپر دوہ بچے ہوں گے جو اطفال الاحمدیہ کی تنظیم سے کم عمر کے بچے ہیں یعنی پیدائش کے بعد سے لے کر سات سال کی عمر تک جب تک کہ وہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل نہیں ہو جاتے.اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل ہونے کے بعد وہ با قاعده مجلس خدام الاحمدیہ کے سپر د ہو جاتے ہیں.اس لئے اگر پہلے کوئی ایسا اعلان ہوا تھا جس سے غلط فہمی ہوگئی ہو تو اسے کالعدم سمجھیں.نئی صورتحال یہ بنی ہے کہ دفتر اول جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا.مجلس انصار اللہ کی ہی خصوصی ذمہ داری رہے گی.اسی طرح دفتر دوم مجلس خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری رہے گی اور دفتر سوم لجنہ اماءاللہ کی خصوصی ذمہ داری رہے گی.جہاں تک دفتر چہارم کا تعلق ہے یہ انصار اللہ کے سپرد ہے لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحتیں کی جارہی ہیں کہ جو چھوٹے بچے ہیں وہ انصار اللہ کے سپر د اور جو باقاعدہ اطفال کی تنظیم میں داخل ہو چکے ہیں.وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد اور تمام نو مبائعین جو لاکھوں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے.وہ اپنی اپنی عمر کے لحاظ سے متعلقہ تنظیم کا حصہ ہوں گے اور ان کے سپر دہوں گے.یہ بہت وسیع کام ہے اور بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اس سلسلہ میں کچھ بیان کرنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں مختلف اجتماعات ہو رہے ہیں اور جو شروع ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں، آج ہو رہے ہیں یا پہلے سے شروع ہیں یا کل شروع ہوں گے ان سب کو ان کے زمانے کے لحاظ سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 846 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء اکٹھا کر کے میں آج ان کے متعلق اعلان کرتا ہوں کیونکہ ان سارے اجتماعات میں شمولیت کرنے والے اس بات کا شوق سے انتظار کرتے ہیں کہ ان کا نام میری زبان پر جاری ہو اور ساری دنیا کے احمدی اس نام کو سن کر ان کو اپنی دعا میں شامل کر لیں.سب سے پہلے کل سے شروع ہونے والے وہ اجتماع جو آج تک جاری ہیں اور آج غالباً اس خطبہ کو سن کر وہ اختتام پذیر ہوں گے ان میں جماعت احمدیہ ضلع اوکاڑہ کا جلسہ سالانہ ہے جو کل سے شروع ہوا ہے.مجلس انصار اللہ ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے سالانہ اجتماعات بھی کل سے شروع ہوئے ہیں.یہ تینوں آج انشاء اللہ تعالیٰ اختتام پذیر ہوں گے.آج مجلس انصار اللہ بنگلہ دیش کا اجتماع شروع ہو رہا ہے.اسی طرح لجنہ اماءاللہ ضلع سرگودھا کا اجتماع ہو رہا ہے.یہ آج اس رنگ میں ہمارے ساتھ افتتاح میں شامل ہو جائیں گے یا ہم ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے.Brong Ahafo یہ غانا کا ایک ریجن ہے.وہاں کی تمام جماعتوں کا جلسہ سالانہ آج ۱۵ نومبر سے شروع ہو رہا ہے اور کل اختتام پذیر ہوگا.اڑیسہ ہندوستان کی لجنات کا صوبائی اجتماع آج ۵/نومبر سے شروع ہو رہا ہے، یہ ے نومبر تک جاری رہے گا.مجالس انصار اللہ کولون ریجن جوسن کا سالانہ اجتماع کل ۶ نومبر کو منعقد ہو گا اور Wanwal Oru ( ونوالیوو) جزیرہ نجی کی جماعتوں کا جلسہ سالانہ ۶ رنومبر سے شروع ہو رہا ہے.دو دن جاری رہے گا اور ے نومبر کو اختتام پذیر ہوگا.ان سب نے اپنے اپنے لئے خصوصی پیغام کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے.ان کا پیغام وہی ہے جو آج خطبہ کا موضوع ہے اور میں پہلے ہی اعلان کر چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے تمام افراد جو کسی نہ کسی تنظیم سے منسلک ہیں ان کے سپر د تحریک جدید کے چندوں کی خصوصی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یہ سب اس وقت میرے مخاطب ہیں، ان اجتماعات میں شامل ہونے والے اور ان مجالس سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر کے سارے احمدی افراد اس وقت میرے مخاطب ہیں اور آپ سب کے لئے پیغام یہ ہے کہ امسال تحریک جدید کو ہر پہلو سے کامیاب بنانے کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا فرما ئیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین توفیق عطا فرمائے.جہاں تک مالی رپورٹ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۶۱ ملکوں کی جور پورٹس آ چکی ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 847 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء ان کے مطابق جماعت احمد یہ عالمگیر کے وعدہ جات سال ۹۳-۹۲ء میں 4 کروڑ 85 لاکھ 39 ہزار 242 روپے تھے اور وصولی 4 کروڑ 87 لاکھ 21 ہزار 425 روپے ہے.یہ رپورٹ پاکستانی روپوں میں مرتب ہوئی تھی جس کا اسٹرلنگ پاؤنڈ میں متبادل یہ ہے کہ تمام دنیا کے چندہ دہندگان جو 61 عالمی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی طرف سے 10 لاکھ 87 ہزار 836 پاؤنڈ کے وعدے موصول ہوئے تھے اور وصولی اللہ کے فضل سے 10 لاکھ 91 ہزار 919 پاؤنڈ ہوئی ہے.اس ضمن میں میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے اب ملکوں کے لحاظ سے جماعتوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور گزشتہ سال 135 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں چندوں کے لحاظ سے ابھی تربیت مکمل نہیں ہوئی.تربیت تو کبھی کسی لحاظ سے مکمل نہیں ہوا کرتی لیکن مطلب یہ ہے کہ اتنا آغاز بھی نہیں ہوا کہ وہ ہر چندے کو پہچان لیں اور اس میں شمولیت اختیار کریں.اس لئے نئے ممالک میں اس وقت تک میری ہدایات یہی تھیں کہ چندہ عام کی طرف ان کو لایا جائے اور شرح بھی بے شک نسبتا ملکی رکھی جائے.عام طور پر وہ احمدی جو خدا کے فضل سے احمدیت میں جذب ہو جاتے ہیں اور ثبات قدم اختیار کر جاتے ہیں ان کو کم از کم 1/16 ہر مہینے دینا ہوتا ہے یا جب بھی آمد ہو اس کا 1/16 دینا ہوتا ہے لیکن جو کمزور ہیں یا مالی لحاظ سے جن پر ذمہ داریاں ہیں اگر وہ مجھے لکھیں تو میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق جتنا بھی وہ خوشی سے دے سکتے ہیں وہ قبول کیا جائے گا.نئے ملکوں کی جماعتوں کے متعلق یہ عمومی ہدایت ہے کہ جولوگ ان کی تربیت پر مامور ہیں وہ شروع میں ان کو صرف چندے کی عادت ڈالیں اور شرح پر زیادہ زور نہ دیں کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب چندوں کا آغاز فرمایا تھا تو اس وقت کوئی شرح مقر ر نہیں فرمائی تھی بلکہ یہ اعلان فرمایا تھا ہر شخص اپنے اخلاص اور توفیق کے مطابق جس حد تک کوشش کر سکتا ہے مالی جہاد میں شمولیت کی کوشش کرے اور اپنے اوپر کچھ فرض ضرور کرلے لیکن جب فرض کرے تو اس میں پابندی ضرور اختیار کرے.یہی پالیسی نئی جماعتوں کے لئے تھی اور ہے یعنی جہاں ابھی پوری طرح نظام جماعت گہرے طور پر مستحکم نہیں ہوا، وہاں کی جماعتیں جن لوگوں کے سپرد ہیں وہ وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اسی نصیحت کے مطابق ان سے چندہ ضرور لیں لیکن شرح مقرر نہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 848 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء کریں اور حسب توفیق جس نے جو چندہ دینا ہو خواہ وہ ایک پیسہ ہو وہ اپنے اوپر فرض کر لے اور پھر وہ ضرور ادا کرے.جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ساری جماعتوں کا بجٹ لازماً بن جائے گا اور ساتھ ہی تحریک جدید کے متعلق ان کو کچھ نہ کچھ سنانا شروع کر دیں کیونکہ چندہ عام کے بعد سب سے زیادہ اہم تحریک جو عمومی طور پر جماعت کے لئے جاری فرمائی گئی ہے وہ تحریک جدید کا چندہ ہے.کیونکہ اس کا تعلق ساری دنیا میں اشاعت اسلام سے ہے اور خالصہ اس اعلیٰ مقصد کے لئے وقف ہے پس آج جو میں یہ نئی ہدایت دے رہا ہوں اسے دنیا بھر کی جماعتیں اچھی طرح سمجھ لیں.جہاں پہلے چندے کے معاملہ میں نرم روی اختیار کرتے ہوئے آہستہ آہستہ دل موہ کر نئے احمدیوں کو چندوں سے واقفیت کرائی جاتی تھی اور ان کو آہستہ آہستہ ان باتوں کا عادی بنایا جاتا تھا ان کے لئے یہ نئی ہدایت ہے کہ تحریک جدید کے چندے کو بھی اب وہ اس میں شامل کر لیں اور چاہے کوئی کتنی تھوڑی رقم بھی ادا کرنا چاہے اس کو اس طرح قبول کر لیں کہ تحریک جدید کے لئے جو کم سے کم معیار ہم نے مقرر کیا ہوا ہے.مثلاً پاکستان میں اگر وہ ۲۴ روپے ہے یا ۱۲ روپے ( مجھے یاد نہیں ) لیکن جتنا بھی ہے، کم سے کم جو معیار مقرر کیا ہوا ہے اس کے متبادل اگر کوئی ایک شخص چندہ نہیں دے سکتا تو دو تین چار پانچ کو، پورے خاندان کو اس چندے میں شامل کر لیں.سال میں ایک دفعہ دینا ہے اگر اس طرح ایک دفعہ دینے کی عادت پڑ جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے آئندہ بہت برکت پڑتی ہے.مجھے یاد ہے کہ تحریک جدید کے چندے کے آغاز کے بعد جماعت کے دوسرے چندوں پر بھی غیر معمولی اثر پڑا تھا کیونکہ اس سے پہلے کوئی ایسی تحریک نہیں تھی کہ چھوٹے بچے کم سنی میں چندوں میں شامل ہوتے.ہر کمانے والا چندہ دیتا تھا اور بسا اوقات اس چندے سے ان کی بیویاں بھی نا واقف رہتی تھیں بچے بھی ناواقف رہتے تھے بلکہ جہاں تربیت کی کمی تھی وہاں بیویاں چونکہ خود قربانی نہیں کرتی تھیں اس لئے بعض بیویاں خاوندوں کی قربانیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں اور اپنی اولاد کے دل میں بھی اس سلسلہ میں وسوسے پیدا کیا کرتی تھیں، نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اس کا بعض علاقوں میں بھاری نقصان پہنچا اور اچھے مخلص قربانی کرنے والے والد کے بچے ماں کے اس اثر کے نیچے رفتہ رفتہ سرکتے ہوئے جماعت سے دور ہونے لگے کہ بیوی کی پیار کی نظر اس پیسے پر ہوتی تھی جو خاوند اس کے ہاتھ پر رکھتا تھا اور پریشانی اور گھبراہٹ کی نظر اس پیسے پر ہوتی تھی جو وہ جماعت کو پیش کرتا تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 849 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء چونکہ بیوی کو شامل کرنے کی کبھی کوئی کوشش ہی نہیں کی جاتی تھی اس لئے چندہ دینے سے جو لطف حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اس سے وہ بیویاں بیچاری محروم رہیں اور اس زمانہ میں یہ نقصان سب سے زیادہ ہوا ہے.پھر بچے بھی ہاتھ سے نکل گئے لیکن تحریک جدید کے آنے کے بعد حیرت انگیز طور پر جماعت کے مالی نظام کو تقویت ملی کیونکہ خواتین اس میں شامل ہونا شروع ہوئیں اور ایک دفعہ اگر خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے تو اس سے اتنا لطف آتا ہے اور آئندہ مالی قربانی کے لئے انسان کو اس طرح طاقت ملتی ہے کہ جتنا دیتا ہے آئندہ اس سے زیادہ دینے کی کوشش کرتا ہے.ایک چندہ دیتا ہے تو دوسرے چندوں میں بھی ادا ئیگی کی تمنا پیدا ہو جاتی ہے پس اس پہلو سے تحریک جدید نے ایک غیر معمولی اہم خدمت سر انجام دی ہے اور اسی لئے میں دنیا کی ساری جماعتوں میں تحریک جدید کو رائج کرنے کی ہدایت دے رہا ہوں.نئی جماعتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اللہ کی راہ میں چندہ دینے کی عادت پڑے گی خواہ وہ بالکل معمولی رقم ہو.یہ بحث نہیں ہے کہ کتنی ہے، اتنی معمولی بھی ہو کہ عام دنیا کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہ ہو لیکن جو شخص معمولی رقم سے بھی قربانی شروع کرتا ہے یہ ہمارا تجربہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ اسے مزید قربانی کی تو فیق ضرور ملتی ہے اور مزید نیکیوں کے لئے اس کا حوصلہ بڑھتا ہے.پس اس پہلو سے تحریک جدید کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی جماعتوں کی طرف سے رپورٹیں آنی ضروری ہیں اور کچھ نہ کچھ شامل کرنے کی کوشش شروع ہو جانی چاہئے.ہمارے مال کا جو مرکزی نظام ہے اس کا فرض ہے کہ ۶۱ جماعتوں کے علاوہ، وہ جماعتیں جن کی رپورٹیں نہیں آئیں لیکن وہاں نظام جماعت قائم ہے ان کو بار بار توجہ دلائیں اور ان سے کہیں کہ آپ کی وجہ سے ایک خفت ہوئی ہے.وہ رپورٹ جو شامل نہیں ہوئی اس کا ذکر بھی نہیں آیا اور قربانی کے لحاظ سے جماعت کا عمومی تاثر مجروح ہوا ہے.پس آپ کو چاہئے کہ وقت کے اوپر اپنی رپورٹیں بھجوایا کریں اور وہ ممالک جن کی جماعتیں ابھی تک شامل نہیں ہوئیں ان کو شامل کرنے کے لئے ابھی سے با قاعدہ یاد دہانی کی جدوجہد شروع کر دیں اور جو بھی نظام وہاں مقرر ہے اس کو استعمال کریں اگر وہ ممالک ابھی بعض دوسرے ممالک کے پروں کے نیچے ہیں اور ان سے تربیت حاصل کر رہے ہیں تو ان ممالک کو توجہ دلائیں کہ وہ ان نئے ممالک میں خصوصیت سے قربانی کی روح پیدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 850 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء کرنے اور اسے بڑھانے کی کوشش کریں.جہاں تک آپس کی دوڑ کا تعلق ہے میں اس کا اس لئے ذکر کیا کرتا ہوں کہ استباق فی الخیرات، قرآن کریم نے ہمارا نصب العین مقررفرمایا ہوا ہے.نسبقت فی الخیرات کا مطلب ہے.اچھی چیزوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، یہ بہت اہم پہلو آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے کبھی کسی مذہب نے اپنے متبعین کے لئے یہ نصب العین مقرر نہیں کیا.اس پہلو سے اسلام ایک حیرت انگیز استثنائی شان رکھتا ہے.جس میں دنیا کا کوئی اور مذہب شریک نہیں.اچھے سے اچھے مختلف نصب العین یعنی Mottos مقرر کئے جاسکتے ہیں کہ ہم تمہارے سامنے یہ مقصد ر کھتے ہیں اسے حاصل کرنے کے لئے دوڑ لگاؤ اور کوشش کرو.یہ نصب العین! سوچیں کہ زندگی کے ہر دائرے پر حاوی ہو گیا ہے.ہراچھی بات میں ہر نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.حیرت انگیز دوڑ ہر وقت جاری ہے، ہر گھر میں ہے، ہر وجود کے اندر اس کا احساس موجود ہے اور انسانی زندگی نیکیوں کے لحاظ سے سینکڑوں ہزاروں حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے.پس کوئی بھی نیکی ہو جہاں کسی اور شخص کو آپ ایک اچھا کام کرتا دیکھیں وہاں یہ تحریک دل میں پیدا ہونی چاہئے کہ میں اس معاملہ میں اس سے آگے بڑھوں اور یہ انفرادی تحریک جب اجتماعی تحریک میں بدلتی ہے تو نیکیوں کا ایک سمندر بلکہ مواج سمندر بن جاتا ہے یعنی اس جوش کے ساتھ لہریں اٹھتی ہیں اور اتنا حیرت انگیز ہیجان پیدا ہو جاتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر لہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے.یہ خوبصورتی آپ کو اسلام کے سوا اور کہیں دکھائی نہیں دے گی.پس اس معاملہ میں بھی آپ کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب میں اعلان کرتا ہوں کہ فلاں جماعت فلاں سے آگے نکل گئی یا اس وقت بڑی جماعتوں کا یہ حال ہے تو اس کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ باقی جماعتوں کو تحریک ہو کہ وہ ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ ان کے لئے دعا کی تحریک ہو اور دعا کی تحریک بھی دو پہلو رکھتی ہے.جو سبقت لے گئے ہیں ان کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی نیکیوں کی سبقتیں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے یہ دعا کہ اگر ان کی پوری صلاحیتیں استعمال نہیں ہوئیں تو اللہ تعالیٰ انہیں پوری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 851 خطبه جمعه ۵/ نومبر ۱۹۹۳ء صلاحیتیں استعمال کرنے کی توفیق بخشے.پھر وہ اگلوں سے آگے نکل جائیں تو پھر اللہ کا فضل ہے.پس میں نے یہ دعا نہیں کہی کہ ان کے لئے یہ دعا کرو کہ پہلوں سے آگے نکل جائیں کیونکہ ان کے لئے تو آپ یہ دعا کر چکے ہیں کہ اللہ انہیں سبق ہیں قائم رکھنے کی توفیق بخشے.اس طرح تو دعا میں تضاد پیدا ہو جائے گا.میں نے یہ دعا کہی ہے کہ باقیوں کے لئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی پوری صلاحیتیں کماحقہ استعمال کرنے کی توفیق بخشے.ہر ایک کے اندر Potentials ہوتے ہیں جو ابھی استعمال نہیں ہوئے ہوتے.پھر اللہ کی شان ہے، اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے وہ سبقت عطا فرما دے.پھر وہ آگے نکل جائیں تو وہ بھی آپ کی دعا کا فیض پانے والی ہوں گے.پہلے اگر اپنی سبقت کو سلامت رکھیں اور محفوظ رکھیں تو وہ بھی آپ کی دعا کا فیض پانے والے ہوں گے.اللہ کرے کہ اس پہلو سے یہ اعلان جو میں کرنے لگا ہوں یہ جماعت میں نیکیوں کو بڑھانے اور نیکیوں کو ہر طرف فروغ دینے کا سبب بنے.گزشتہ مرتبہ جب میں نے اعلان کیا کہ عام چندوں میں جرمنی پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا ہے تو پاکستان کو بہت تکلیف پہنچی تھی لیکن اب میں اہلِ پاکستان کو خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کو تحریک جدید میں حسب سابق دنیا میں سب سے آگے رہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور کوئی ملک ان سے یہ جھنڈا نہیں چھین سکا.ان کے چندوں کا کل مجموعہ 2لاکھ 91 ہزار 199 پاؤنڈ بنتا ہے.جرمنی کی جماعت دوسرے درجہ پر کچھ عرصہ سے چلی آ رہی ہے لیکن فاصلہ کم کر رہی ہے اس لئے میں پاکستان کی جماعتوں کو پھر متنبہ کر دیتا ہوں کہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہیں دی گئی.یاد رکھ لینا کہ ان کا فاصلہ بہت تھوڑا رہ گیا ہے وہ 2 لاکھ 44 ہزار 440 تک پہنچ گئے ہیں.اللہ کرے کہ پاکستان کو اور زیادہ آگے بڑھنے کی توفیق ملے اور جرمنی کو اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کرنے کی توفیق ملے اور پاکستان کی جو صلاحیتیں استعمال نہیں ہوئیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی بروئے کار لانے کی توفیق عطا فرمائے.امریکہ مالی قربانی میں مسلسل آگے آ رہا ہے اگر چہ مجھے یہ یقین ہے اور امیر صاحب امریکہ گفتگو کے دوران مجھ سے اس معاملہ میں متفق رہتے ہیں کہ ابھی امریکہ کی بہت سی ایسی صلاحیتیں ہیں جو خوابیدہ حالت میں ہیں اور اگر وہ ساری بروئے کار آجائیں اور جاگ اٹھیں تو ہوسکتا ہے کہ امریکہ دنیا میں سب سے آگے نکل جائے مگر سر دست امریکہ کو تیسرا درجہ حاصل ہے.اگر چہ وقف جدید میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 852 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء یہ اول آچکا ہے لیکن تحریک جدید میں 1لاکھ 35 ہزار 704 پاؤنڈ چندہ دے کر یہ تیسرے نمبر پر ہے.یو کے جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قربانیوں میں مسلسل ترقی کر رہی ہے اور بڑا متوازن قدم ہے.ان کا چندہ 1لاکھ 15 ہزار پاؤنڈ تھا اور یہ چوتھے نمبر پر ہیں.کینیڈا بھی اپنی پانچویں پوزیشن کو برقرار رکھے ہوئے ہے.73 ہزار 714 پاؤنڈ ان کا چندہ تھا.انڈونیشیا میں اللہ کے فضل سے جلد جلد ترقی ہو رہی ہے اور خدا کے فضل سے وہ مختلف چندوں میں بڑی باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں اور مسابقت کی رو سے وہ پہلے سے زیادہ اپنے سے اگلوں کے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں.ان کا چندہ 53 ہزار 119 پاؤنڈ ہے.جاپان کی جماعت بہت چھوٹی ہے لیکن مالی قربانیوں میں ماشاء اللہ بہت ہی نمایاں کردار ادا کرنے والی ہے.ان کا چندہ 22 ہزار 544 تھا اور ساتویں پوزیشن ہے.ماریشس کی جماعت بھی بڑی ہوشمندی کے ساتھ آگے قدم بڑھا رہی ہے.19 ہزار 190 پاؤنڈ چندہ دے کر آٹھویں پوزیشن حاصل کی.ہندوستان میں غربت بہت ہے اور اگر چہ جماعت کی تعداد کینیڈا، انڈونیشیا، جاپان وغیرہ سے بہت زیادہ ہے لیکن غربت کی وجہ سے ان کا چندہ صرف 17 ہزار 536 پاؤنڈ تھا اور یہ بھی ان کے حالات کے لحاظ سے اللہ کے فضل سے بہت کافی ہے.سوئٹزر لینڈ چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود تحریک جدید کے چندے میں غیر معمولی مقام رکھتی ہے.کل عالمی چندے کے لحاظ سے ان کی دسویں پوزیشن ہے یعنی 16 ہزار 628 پاؤنڈ لیکن جب فی کس قربانی کی بات کریں تو سوئٹزر لینڈ کی جماعت دنیا میں سب سے آگے نکل گئی ہے.سوئٹزر لینڈ میں 116,628 پاؤنڈ صرف 102 چندہ دہندگان نے دیئے ہیں.مجھے اس پر یہ شبہ پڑا تھا کہ شاید انہوں نے بچوں کو شامل نہ کیا ہوتا کہ ان کا فی کس چندہ بڑھ جائے.اس لئے فون پر اچھی طرح تسلی کروائی اور امیر جماعت سے تصدیق کی ہے کہ اس چندے میں عورتیں بچے ، نہ کمانے والے سارے شامل ہیں.اس پہلو سے 102 حصہ لینے والوں کی اوسط 163 پاؤنڈ فی کس چندہ دہندہ بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیرت انگیز طور پر غیر معمولی اونچا مرتبہ رکھتی ہے.جاپان جو پہلے اول ہوا کرتا تھا اس دفعہ سوئٹزر لینڈ نے کوشش کر کے انہیں پیچھے چھوڑا ہے.گزشتہ سال جب میں نے جاپان کے متعلق اعلان کیا تھا تو سوئٹزر لینڈ کی طرف سے احتجاج آئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 853 خطبه جمعه ۵/ نومبر ۱۹۹۳ء تھے کہ نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم آگے ہیں لیکن تحقیق کر کے یہی پتا چلا تھا کہ سوئٹزرلینڈ پیچھے رہ گیا ہے تو اس دفعہ انہوں نے کچھ زیادہ ہی غیرت دکھائی ہے اور زور لگا کر جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.جاپان کے اوپر اور بھی بہت سارے چندوں کی ذمہ داریاں ہیں جو سوئٹزر لینڈ پر نہیں ہیں.ہر چندے میں وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے زیادہ قربانی کرنے والے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر ان کو چشم پوشی سے کام لینا چاہئے اور سوئٹزر لینڈ کو بے شک آگے رہنے دیں کیونکہ اس دفعہ مسجد کی تعمیر کا جو چندہ ان پر ڈالا گیا ہے وہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.اگر انہوں نے سوئٹزر لینڈ کو پیچھے چھوڑنے کی خاطر وہاں توفیق سے بڑھ کر حصہ لیا تو دوسرے چندے متاثر ہو جائیں گے.اس لئے قربانی کا جو معیاراب ہے اسے بے شک اتنا ہی قائم رکھیں لیکن مسجد کی تعمیر کے لئے وہ خصوصیت سے توجہ دیں.وہاں زمین سب سے مہنگی ہوتی ہے لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ ٹوکیو کے پاس ایک بہت اچھی زمین مل گئی ہے اور ان کو فوری طور پر جتنا قرض در کار تھا وہ مہیا کر دیا گیا ہے.امید ہے خدا کے فضل سے وہ سودا ہو چکا ہوگا.بقیہ تین سال انہوں نے قرض بھی واپس کرنا ہے اور مسجد اور مشن کی عمارت بھی خود بنانی ہے.پیجیئم کی جماعت بھی اللہ کے فضل سے تیز قدموں سے آگے بڑھ رہی ہے.تبلیغ کے میدان میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے اعلان کیا تھا ماشاء اللہ انہوں نے توقع سے بڑھ کر چابک دستی دکھائی ہے اور ہوشیاری سے کام کیا ہے، دعاؤں سے کام لیا ہے اور خدا نے پھل بھی خوب دیئے.مالی بیلی لحاظ سے بھی یہ جماعت ترقی کر رہی ہے.ان کی اوسط 129 فی کس ہے اور تحکیم کے حالات کے لحاظ سے یہ بہت اچھی اوسط ہے.ان کا تیسرا نمبر ہے.امریکہ کی اوسط 68 پاؤنڈ بنتی ہے اور ان کا نمبر چوتھا ہے.فرانس کی اوسط 60 پاؤنڈ ہے اور ان کا پانچواں نمبر ہے.ان کے علاوہ جو چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جن میں چندہ دہندگان تھوڑے ہیں اس لئے ان کو شامل نہیں کیا گیا.ان میں سے تھائی لینڈ، فلسطین، کوریا، گوئٹے مالا ، لیتھوانیہ کی اوسطیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بہتر ہیں.موازنے کی فہرستوں میں اب تک آپ نے شاید سوچا ہو کہ افریقہ کا نام نہیں آیا.افریقہ میں غربت بہت زیادہ ہے اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جو شدید اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں لیکن اخلاص میں کمی نہیں ہے.اگر ان کا نام ان فہرستوں میں نہیں آیا جن فہرستوں میں بڑے بڑے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 854 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء چندے دینے والے ملکوں کا ذکر ہوا ہے تو اس میں افریقہ کا قصور نہیں لیکن مالی قربانی کی طرف توجہ کا جہاں تک تعلق ہے اس کا اندازہ آپ کو اس بات سے ہو جائے گا کہ اپنی قربانی میں فی صد اضافہ کرنے کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے آگے زیمبیا ہے جو افریقہ کا ملک ہے اور تیسرے نمبر پر غانا ہے، یہ بھی افریقہ کا ملک ہے، پھر ساتویں نمبر پر گیمبیا آتا ہے اور دسویں نمبر پر تنزانیہ.پس وہ پہلی دس جماعتیں جنہوں نے سال گزشتہ میں جو اب ختم ہو رہا ہے، اپنے پچھلے چندے سے غیر معمولی اضافے کے ساتھ حصہ لیا تھا ان میں چار افریقن ممالک کو خدا کے فضل سے جگہ ملی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس امتیاز کو وہ آئندہ بھی قائم رکھیں گے اور باقی افریقن ممالک جن کا ذکر نہیں ملا وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ کے فضل کے ساتھ کم سے کم تناسب کے لحاظ سے آگے بڑھنے کی فہرستوں میں شامل ہو جائیں گے.میں یہاں دعا کا یہ اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ افریقہ کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے لئے حسب توفیق کوشش کر رہی ہے اور مختلف قسم کی ایسی سکیمیں جاری ہیں جن کے ذریعہ افریقہ کی اقتصادی حالت کو اس نقطہ نگاہ سے بہتر بنایا جا رہا ہے کہ وہاں کا پیسہ وہاں سے نکل کر باہر نہ جائے بلکہ باہر سے پیسہ وہاں خرچ ہو اور پھر وہیں استعمال ہو اور جو کچھ منافعے ملیں ان کو دوبارہ افریقہ کی بہبود کے لئے ہی استعمال کیا جائے.جب میں افریقہ کے دورہ پر گیا تھا تو میں نے جماعت کی طرف سے ان سے یہ وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ میں جماعت عالمگیر کی طرف سے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ دور جو آپ کے خون چوسنے کا دور تھا جماعت احمد یہ اس کا رخ پلٹے گی اور کم سے کم ایک عالمگیر جماعت ضرور ایسی پیدا ہو چکی ہے جو آپ کی خدمت کے لئے آگے آرہی ہے اور جو باہر سے پیسہ افریقہ میں بھیجے گی بجائے اس کے کہ افریقہ کا پیسہ نکال کر باہر بھجوائے تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پہلے سے بڑھ کر ان کی اقتصادی حالت کو بھی بہتر بنانے کی توفیق ملے، ہزار لاکھ دوسرے ایسے ذرائع ہیں جن تک ہماری دسترس نہیں ، ہم پہنچ ہی نہیں سکتے انہیں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے افریقہ کے لئے مسخر فرما دے اور ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ان کی اقتصادی حالت کو بہتر کر دے.اب میں ان آیات کا ترجمہ کرتا ہوں جن کی میں نے تلاوت کی تھی کیونکہ اس میں مالی قربانیوں کا فلسفہ بیان ہوا ہے اور مالی قربانیوں سے متعلق نصیحتیں فرمائی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 855 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ ۚ وَاللهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً کہ دیکھو! شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے.ان دو چیزوں کا کیا تعلق ہے پہلے اس پر غور فرمائیں.جب حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا تو ایک طرف یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لو.ساری دنیا میں تبلیغ کا جال پھیلانا مقصود ہے اس لئے تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو اور ساتھ ہی فرمایا کہ ہر قسم کی فحشاء سے بچو، دنیا کے ہر قسم کے عیش و طرب کے سامانوں سے احتراز کرنے کی کوشش کرو.یہاں تک کہ جو تم پر جائز ہے اس میں بھی محض اس حد تک حصہ لو جتنا بہت ضروری ہو.حلال کو حرام تو نہیں فرمایا لیکن فرمایا کہ حلال سے پورا استفادہ نہ کرو کیونکہ تمہیں خدا کی خاطر روپے کی ضرورت ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جو قو میں فحشاء میں مبتلا ہوں ان سے مالی قربانی کی تو فیق چھین لی جاتی ہے.فحشاء کا مطلب ہے دنیا کی لذتوں میں حصہ لینے کی دوڑ میں انسان ایسی بدرسمیں اختیار کر جائے جو پھیلنا شروع ہو جائیں جو وبائی رنگ اختیار کر لیں اور کھلم کھلا بدیوں کی دوڑ شروع ہو جائے.اب آپ دیکھیں کہ جہاں کھلم کھلا بدیوں کی دوڑ ہو وہاں الا ماشاء اللہ ہمیشہ انسان کی کمائی اس کی ضرورتیں پوری کرنے سے پیچھے رہ جاتی ہے.دل چاہتا ہے کہ میں اس ماڈل کی کارلوں، دل چاہتا ہے کہ میں اس قسم کے نئے وڈیوز خریدوں.اس قسم کے عیش و عشرت میں حصہ لوں اور ایسی ایسی سیر میں کروں وغیرہ وغیرہ.اور شراب و کباب اور ناچ گانے کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے.جتنا بھی زیادہ ہو اتنا ہی یہ لوگ اس میں مزید مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں.تو جن قوموں کو یہ لتیں پڑ جائیں اور ان کے ہاں ان باتوں کو زیادہ اہمیت دی جائے ان کے بجٹ ہمیشہ ان کی ضرورت سے پیچھے رہ جاتے ہیں.پھر وہاں چوری چکاری ہوتی ہے، ڈاکے ڈالے جاتے ہیں.Drug Addiction کے ذریعہ Crime بڑھتے ہیں اور ساری سوسائٹی دکھوں میں مبتلا رہتی ہے.قرض لے لے کر اپنا مستقبل تباہ کرتے ہیں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کے لئے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے ایک فقرے کے اندر بیان فرمایا ہے کہ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے لیکن فحشاء کی دعوت دیتا ہے.کتنی بڑی منافقت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 856 خطبه جمعه ۵/ نومبر ۱۹۹۳ء ہے، کتنی بڑی شیطانی ہے ، جب تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگتے ہو تو ایک طرف تمہیں فقر سے ڈراتا ہے لیکن دوسری طرف فحشاء کی دعوت دے کر تمہارے فقر کا انتظام کرتا ہے اور اس بات کو پکا کر دیتا ہے کہ تم ہمیشہ اقتصادی لحاظ سے بد سے بدتر حال تک پہنچتے چلے جاؤ.پس فحشاء اور فقر کا یہ رشتہ قرآن کریم نے حیرت انگیز باریک نظر سے بیان فرمایا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو فحشاء کی ہر قسم سے بچنے کی تلقین کے علاوہ زندگی کے جو جائز مزے تھے ان میں بھی کمی کرنے کی تلقین فرمائی.عورتوں سے کہا زیور پہنا تمہاری ضرورت ہے تمہیں اجازت ہے مگر خدا کی خاطر زیور بنانا اگر کم کر دو اور چندے بڑھا دو تو اور بھی اچھی بات ہے.امیروں سے کہا کہ تم نعمتیں استعمال کرو مگر خدا کی خاطر اپنے کھانوں میں تکلفات کم کر دو، اپنے کپڑوں میں تکلفات کم کر دو، اپنی روزمرہ کی سیر و تفریح میں تکلفات کم کر دو، ہر جگہ سے بچت کرو تا کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے اور جہاں تک خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے کے ساتھ غربت کا خوف ہے اس کی اللہ تعالیٰ نفی فرماتا ہے.فرماتا ہے شیطان جھوٹ بولتا ہے.جن باتوں کی شیطان تعلیم دیتا ہے ان میں غربت کا حقیقی خطرہ ہے لیکن خدا جس جگہ خرچ کرنے کی طرف تمہیں بلاتا ہے.اس میں خدا اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ تم غریب نہیں ہو گے، پہلے سے بہتر حال میں جاؤ گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعِدُكُمُ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلا اللہ تم سے مغفرت کا بھی وعدہ فرما رہا ہے اور فضل کا وعدہ بھی.اس تعلق میں فضل کا مطلب یہ ہے کہ جتنا تم کما کر حاصل کرنے کے حقدار بنے ہو تو اس سے زیادہ تمہیں دے گا.اللہ تعالیٰ جب فضل فرماتا ہے تو عام حالات میں جتنا کمانا ہوتا ہے اس کی توقع سے بڑھ کر تمہیں عطا فرما دیتا ہے.مغفرت کا تعلق فحشاء سے ہے.فرمایا جو کچھ کمزوریاں تم سے لاحق ہوگئی ہیں اگر تم خدا کی خاطر ان سے بچو گے تو خدا مغفرت کا وعدہ فرماتا ہے.ان کا نقصان تمہیں نہیں پہنچے گا اور جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو میں مالوں میں کمی نہیں کروں گا بلکہ اضافہ کروں گا اور یہ ایک گہری حکمت کی بات ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے فقر اور فحشاء کی نسبت اگر آپ غور کریں تو یہ بہت ہی حکمت کا کلام ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ اس میں توجہ دلاتا ہے کہ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ دیکھو! خدا جس کو چاہے حکمت عطا کرتا ہے.میں نے محمد رسول اللہ ج
خطبات طاہر جلد ۱۲ اللہ 857 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء و حکمت کے لئے چن لیا ہے.يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعہ: ۳) یہ ان کو تعلیم بھی دیتا ہے اور حکمت بھی بتاتا ہے تو دیکھو کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کیسی پیاری پیاری حکمت کی باتیں تم تک پہنچائی جا رہی ہیں.وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ لیکن ہم جانتے ہیں کہ عقل والوں کے سوا کسی نے نصیحت نہیں پکڑنی.عقل اور حکمت کا کیا تعلق ہے صاحب عقل ہی حکمت سے فائدہ اٹھایا کرتے ہیں.جن کو عقل نہ ہو ان کے لئے تو حکمت کی باتیں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.وہ اس سے منہ موڑ کر دوسری طرف چلے جاتے ہیں.ایک عقل ہے جو انسان کی اندرونی صفت ہے اور ایک حکمت ہے جو باہر سے پیغام بن کر اس کے ذہن پر یا دل پر اترتی ہے تو فرمایا کہ جس طرح آنکھ اگر روشنی دیکھنے کی اہلیت رکھے تو روشنی اس کو فائدہ پہنچاتی ہے، ایک اندھے کو تو روشنی فائدہ نہیں پہنچایا کرتی ، اس طرح حکمت سے استفادہ کے لئے جو محمد رسول اللہ اللہ کے وسیلے سے تمہیں عطا کی جارہی ہے.تمہارے اندر بھی عقل کا ایک نور ہونا چاہئے.وہ ہے تو تم حکمت سے فائدہ اٹھاؤ گے.فرمایا: وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللهَ يَعْلَمُهُ ، وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ کہ دیکھو ! تم جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا خرچ نہیں بھی کر سکتے مگر خرچ کی تمنا رکھتے ہو، نذر مان رکھی ہے کہ مجھے توفیق ملے تو میں یہ بھی خدا کی راہ میں خرچ کروں.اس کی کیا جزاء ہے؟ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے مال بڑھائے گا.یہاں سب سے اعلیٰ سب سے افضل اور سب سے پاکیزہ جزا بیان فرمائی ہے.فرمایا ہے: فَإِنَّ اللهَ يَعْلَمُہ یاد رکھو! اللہ جانتا ہے.جس محبوب کی خاطر ، جس پیارے کی خاطر تم قربانی دے رہے ہو اس کی اس پر نظر ہے اس سے زیادہ اور اس سے بڑھ کر اور جزاء ہو ہی نہیں سکتی.آپ اگر کسی پیارے کے لئے کچھ خرچ کریں اور اس کو پتا نہ لگے تو بے چین رہتے ہیں جب تک کہ اس کی نظر میں بات نہ آ جائے.پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”ستے پتر دا منہ کیہہ چمنا مائیں بھی کہتی ہیں کہ اگر بیٹے کو پتا ہی نہیں لگا کہ کس نے منہ چوما ہے تو کیا فائدہ چومنے کا.جہاں تک اپنے اظہار محبت کا تعلق ہے چومنا ایک طبعی فعل ہے لیکن اس کے مقابل پر بھی تو ایک جواب چاہئے.پس اللہ فرماتا ہے کہ تم اگر خدا کی خاطر کرو گے تو تمہارے لئے سب سے بڑی خوشخبری
خطبات طاہر جلد ۱۲ 858 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء یہ ہے کہ اللہ کو پتا ہے.کوئی قربانی کسی اندھیرے میں کسی وقت رات کو دنیا کی نظر سے الگ ہو کر ، چھپ کر تم خدا کی راہ میں کرتے ہو اور کرتے خدا کی خاطر ہو تو اسے پتا لگ گیا ہے تمہیں پھر اور کیا چاہئے.پس چندہ دینے والے کے لئے سب سے بڑی جزاء اللہ کی رضا ہے جو اس کے علم سے حاصل ہوتی ہے.فرمایا وہ تو اللہ جانتا ہے وَ مَا لِلظَّلِمِینَ مِنْ أَنْصَارٍ لیکن جو لوگ ظلم کرنے والے ہیں ان کے لئے کوئی مددگار نہیں.اب یہ بھی ٹھہر کر غور کرنے والی بات ہے.یہاں ظلم کرنے والے اور مددگار کا کیا تعلق تھا ؟ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں چندہ دینے سے ڈرتے ہیں وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں اور بظاہر اپنا پیسہ بچارہے ہیں لیکن کسی مشکل اور کسی مصیبت کے وقت کوئی ان کے کام نہیں آئے گا لیکن جو خدا کی خاطر خرچ کرنے سے ڈرتے نہیں ہیں اور اپنی جانوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ اپنی جانوں پر رحم کرتے ہوئے خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں ان کو ضرور انصار مہیا ہوں گے.پس یہ ایک خوشخبری ہے جو بظا ہر نفی کے رنگ میں بیان فرمائی گئی ہے.مطلب ہے کہ وہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو پھر خدا کی طرف سے کوئی مددگار نصیب نہیں ہو گا.لیکن تم جو کرتے ہو اس کی ایک جز تو یہ بیان کر دی گئی کہ اللہ جانتا ہے.وہ تمہیں پیار سے دیکھ رہا ہے.دوسرے اس کی یہ جزا بیان کر دی گئی کہ جب بھی تم مشکل میں پڑو گے.جب بھی کوئی مصیبت واقع ہوگی یا تمہیں کسی مدد کی ضرورت ہوگی تو اللہ جو جانتا ہے کہ تم نے اس کی خاطر قربانیاں دی تھیں وہ تمہارے لئے انصار پیدا فرمائے گا.ایسے انصار بھی بعض دفعہ مقرر ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ جن پر خدا الہام کرتا ہے وحی کے ذریعہ ان کو بتاتا ہے کہ فلاں کو ایک مدد کی ضرورت ہے.چنانچہ آج بھی میں دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ کسی ضرورت مند کے لئے جو کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اللہ تعالیٰ رویا میں کسی کو ہدایت فرماتا ہے کہ اس کو ایک چیز کی ضرورت ہے اور بعض دفعہ پھر مجھے وہ خطوط پہنچتے ہیں کہ ایک شخص ایسی رؤیا دیکھتا ہے کہ فلاں شخص کو فلاں چیز کی ضرورت ہے اور واقعہ وہ ضرورت مند ہوتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کا سامان فرما دیتا ہے تو انصار کا مضمون جو ہے وہ محض اتفاقاً دنیا میں مددگار کا مضمون نہیں ہے بلکہ ایسے مدد گار کا مضمون بیان ہو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 859 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء رہا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر فرمائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو الہاما اور وحی کے ذریعہ آپ کی تائید پر کھڑا کیا جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد پر بھی سینکڑوں ہزاروں ایسے افراد مامور فرمائے گئے جن کو خدا نے وحی کے ذریعہ فرمایا کہ اس شخص کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہو.پس وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ اپنی جان پر ظلم کرنے والے وہ بیچارے ظالم ہی ہیں جن کے لئے کوئی انصار مہیا نہیں کئے جاتے.اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ اگر تم کھل کر صدقات دو تو یہ بھی اچھی بات ہے کیونکہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ (البقرہ:۱۴۹) کے مضمون کے ساتھ اس کا تعلق ہے.جب تم اعلان کرتے ہو کہ فلاں آگے نکل گیا اور فلاں آگے نکل گیا تو یہ اعلان تبھی کر سکتے ہو کہ اس نے بتایا ہو کہ میں ہوں اور میں نے اتنا دیا ہے تو یہ کھلم کھلا اعلانیہ دینے والی بات ہے.فرمایا یہ بھی بہت اچھی بات ہے.وَاِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لیکن اگر تم چھپاؤ اور خدا کے محتاج بندوں پر مخفی ہاتھ سے خرچ کرو تو یہ خود تمہارے لئے بہتر ہے پہلی بات فَنِعِمَّا کہہ کر یہ بیان فرمائی کہ ساری سوسائٹی کے لئے ، ساری قوم کے لئے ، سارے نظام کے لئے یہ بات بہتر ہے کہ کھلم کھلا بھی نیکیاں کی جائیں تا کہ دوسروں کو تحریک ہو لیکن جہاں فرمایا مخفی ہاتھ سے دو وہاں فرمایا تمہارے لئے بہتر ہے.خطرہ ہے کہ اگر تم اعلانیہ ہی خرچ کرتے رہے تو تمہارے دلوں پر زنگ لگ جائیں گے ، خطرہ ہے کہ تمہاری نیتوں میں فتور آ جائے گا.تم خدا کی خاطر خرچ کرنے کی بجائے اپنی انا کو مطمئن کرنے کے لئے ، اپنی ریاء کی خاطر خرچ کرنے لگو گے، کیسی مکمل تعلیم ہے.اگر صرف خرچ کی تعلیم ہی میں ان چند آیات کا موازنہ ساری دنیا کے مذاہب کی تعلیم سے کر کے دیکھ لیں تو آپ کو اسلام سے بہتر بلکہ اس کے قریب آتی ہوئی بھی کوئی اور تعلیم دکھائی نہیں دے گی.نہایت کامل ، ہر پہلو پر نہایت باریک نظر ڈالنے والی تعلیم ہے.فرمایا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - اس کی جزا جیسا کہ ظاہر ہے یہی ہونی چاہئے تھی اور یہی بیان ہوئی ہے کہ تمہارے نفس کے اندر مخفی بدیاں ہیں.اگر تم چھپا کر صرف خدا کے علم میں لا کر کوئی نیکی کرتے ہو تو وہ ان مخفی بدیوں کو کاٹتی ہے، اس کا گہرا تعلق ان بدیوں سے ہے.پس ایک انسان جس کو اپنی نیکی کی کہیں سے کوئی جزاء
خطبات طاہر جلد ۱۲ 860 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء نہ ملے یہاں تک کہ Recognition ہی کوئی نہ ہو، کوئی پہنچانے ہی نہ تو اس کا دل لازماً خدا کی طرف دیکھے گا، خدا ہی کی طرف نظر رکھے گا اور اس کی ایک جزا اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تمہارے اندر جو خفی بدیاں پلتی رہتی ہیں اللہ ان بدیوں کو نیکی کی اس ادا کے ذریعہ دور فرما دے گا.فرمایا.وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ الله ان سب باتوں سے واقف ہے جو تم کرتے ہو.ط لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم پر ان کو ہدایت دینا ان معنوں میں فرض نہیں ہے کہ زبر دستی ان کو ہدایت پہنچا کر چھوڑو ورنہ تم اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے.تمہارا کام ہے ہدایت پہنچاؤ اور بہترین رنگ میں پہنچانا تم نے اگر یہ کام مکمل کر دیا تو تمہارا فرض ختم ہو جاتا ہے.وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ تشار حقیقت یہ ہے کہ انسان کا کام صرف پہنچانا ہی ہوتا ہے.اصل ہدایت اللہ تعالیٰ عطا فر ما یا کرتا ہے.آپ اچھی سے اچھی بات اچھے سے اچھے رنگ میں کسی کے سامنے پیش کر دیں.اگر خدا اس مخاطب کو اس لائق نہ سمجھے کہ وہ ہدایت پا جائے تو آپ کی ساری باتیں بریکار جائیں گی.ایک پتھر پر جتنی مرضی موسلا دھار بارش برسے، وہ بنجر کا بنجر رہے گا.پس یہ خدا فیصلہ کرتا ہے کہ کون ہدایت سے فائدہ اٹھائے گا اور کون نہیں اٹھائے گا.فرمایا : اے محمد ﷺ ! تیرا کام اتنا ہے کہ تو ان کو ہدایت دیتا چلا جا.وَلكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ تَشَاءُ اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا ہدایت عطا فرمائے گا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ یاد رکھو تم ان نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے جو خرچ کرتے ہو یا خرچ کرو گے تو عملاً خدا کو فائدہ نہیں پہنچا رہے.خدا پر احسان نہیں رکھ رہے، لِانْفُسِكُمُ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ہر حال میں تمہارے اپنے لئے ہی ہے.اس میں یہ مضمون بھی بیان ہو گیا ہے کہ جب تم کسی غریب کو بھی دیتے ہو تو یہ نہ سمجھا کرو کہ تم نے بڑا بھاری احسان کر دیا ہے کہ اس کی ضرورت پوری کی.خدا نے جو یہ وعدہ فرما دیا کہ جب تم غریب کو دو گے اس کے بدلے تمہاری برائیاں دور کی جائیں گی تو عملاً تم نے اپنے اوپر احسان کیا ہے.غریب کی تو ایک مادی ضرورت پوری ہوئی ہے تمہاری ایک روحانی اور دائی ضرورت پوری کی گئی ہے.پس اس پہلو سے دیکھو تو خدا کا احسان ہے کہ اس نے اس نیکی کو قبول فرما لیا ہے اور اس کے نتیجہ میں تم نے غریب کو جتنا فائدہ پہنچایا اس سے بڑھ کر اپنی جان کو پہنچایا.جماعت کا چندہ دیا ہے تو تب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 861 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۹۳ء بھی جو برکتیں دنیا اور آخرت میں چندہ دینے والے کو عطا ہوتی ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اس کے مقابل پر اس چندے کا فائدہ کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا.چنانچہ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ کہ اے محمد مصطفے میہ کے غلامو! آپ کے تربیت یافتہ لوگو! ہم جانتے ہیں کہ تم کسی اور مقصد کے لئے نہیں، کسی فائدہ کے لئے نہیں محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہو.کیسی عمدہ یاد دہانی فرمائی گئی ، ساتھ ساتھ فائدے بھی بیان فرمارہا ہے، ساتھ یہ بھی فکر ہے کہ کہیں فائدے ہی ان کا متاع، ان کا مقصد، ان کا مطمع نظر نہ بن جائیں.جو فائدے بیان کئے جاتے ہیں کہیں دل ان فائدوں میں نہ اٹک جائے.فرمایا یہ فائدے زائد فائدے ہیں.جو سچے مومن بندے ہیں جن کی تربیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ان کی ہرگز ان فائدوں پر نظر نہیں ہے.یہ اللہ کی طرف سے فضل کے طور پر عطا ہونے کے وعدے ہیں.ان کی نظر صرف اللہ کی رضا پر ہے اور اس توقع کے ساتھ کہ تم ایسے ہی رہو گے ہم تم سے مزید یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ سارا تمہیں واپس کر دیا جائے گا.وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ تم پر اس معاملہ میں ظلم یعنی کمی نہیں کی جائے گی.جب عربی میں منفی مضمون اس طرح بیان ہوتا ہے تو یہ مراد نہیں ہوتا کہ جتنا تم نے خرچ کیا ہے پورا پورا دے دیا جائے گا وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کا مطلب ہے کہ اتنا زیادہ دیا جائے گا کہ کسی ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جتنا تم خرچ کرتے ہو وہ تمہیں لوٹایا جائے گا اور اس سے زیادہ دیا جائے گا، اس سے زیادہ دیا جائے گا، یہاں تک کہ کوئی کمی نہیں کی جائے گی.یہ جو عربی محاورہ ہے کہ نفی کے رنگ میں احسان یا مثبت پہلو کو بیان کیا جاتا ہے.اس کی روشنی میں اس کا یہ مطلب بنے گا کہ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ تمہارے لئے یہ وہم و گمان کرنا بھی مشکل ہو جائے گا کہ گویا کسی پہلو سے تم سے کمی کی گئی ہے.ہر پہلو سے تمہیں توقع سے بڑھ کر عطا ہوگا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ دنیا میں جماعت کے مالی نظام میں حصہ لینے والے بھی ان نصیحتوں کو پیش نظر رکھیں گے اور وہ جو اس مالی نظام میں کارندے بنے ہوئے ہیں، خدمت گار ہیں وہ بھی ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدمتیں کریں گے اور جن کو اس معاملہ میں خدمت کی توفیق ملتی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 862 خطبه جمعه ۵ / نومبر ۱۹۹۳ء ہے ان کے حق میں تو ان سب چندہ دہندگان کی جزا لکھ دی جاتی ہے جو ان کی تحریک سے چندے ادا کرتے ہیں.پس ایک سیکرٹری مال اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھے کہ مجھے دھکے کھانے پڑتے ہیں ، جگہ جگہ دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں.دن رات مصیبت پڑتی ہے اور پھر لوگ آگے سے باتیں کرتے ہیں.ان کو یا درکھنا چاہئے کہ ان کی جزا بھی تو بہت زیادہ ہے.جتنے لوگ ان کی تحریکات کو سن کر محض رضائے باری تعالیٰ کی خاطر انفاق کرتے ہیں.خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان سب کا چندہ ان کے لئے بھی جزا بن جاتی ہے جن کی تحریک پر دیا جاتا ہے اور دینے والے کی جزا کم نہیں کی جاتی.وَانْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کا ایک یہ بھی مفہوم ہے.کسی کی جزا بھی کم نہیں کی جائے گی.دینے والے کو توقع سے بھی بہت بڑھ کر دیا جائے گا اور تحریک کرنے والے کو بھی اس سب ثواب میں شریک کر دیا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ ہمارے مالی نظام کو اسی طرح پاک اور شفاف رکھے.ہمیشہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کریں اور اللہ کی طرف سے فضل کے طور پر جو وعدے ہیں وہ ہم پر اسی طرح نازل ہوتے رہیں.ہم سے پہلوں نے جو خرچ کئے تھے ان کا پھل ہم کھا رہے ہیں اور مالی لحاظ سے وہ خاندان جن کے آباء و اجداد نے قربانیاں دی تھیں کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں.پس یا درکھیں کہ آج جو خرچ کریں گے کل ان کی نسلیں بھی اسی طرح خدا کے فضلوں کی وارث بنائی جائیں گی مگر خدا کے لئے اس خاطر نہ کریں.محض رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کریں.اسی میں ساری برکتیں ہیں اور یہی سب سے بڑی جزا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 863 خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۹۳ء عمیق نظر سے دیکھیں تو خلیفہ وقت کا ہر فیصلہ درست ہوتا ہے.خلیفہ جب فیصلہ کرتا ہے تو تو کل پر بنا کر کے کرتا ہے.( خطبه جمعه فرموده ۱۲ نومبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.الَّذِيْنَ أَمَنُوْا وَتَطْمَبِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَين الْقُلُوْبُ الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ طُوبي لَهُمْ وَحُسْنُ مَابٍ پھر فرمایا:.(الرعد: ۲۹-۳۰) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کے حوالے سے میں نے گزشتہ چند خطبات میں تبتل الی اللہ کا مضمون بیان کیا تھا.اس تحریر میں تبتل کے بعد ذکر اللہ کا مضمون بیان فرمایا گیا ہے اور نصیحت کی گئی ہے کہ تبتل میں بھی ایک خاص رنگ ہو اور ذکر اللہ میں بھی ایک خاص رنگ ہو.اس پہلو سے تو آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ ذکر اللہ کے مضمون پر خطرات کا سلسلہ چلے لمصل گا.اس ضمن میں میں جماعت کو پھر یاد دہانی کراتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر اللہ کے موضوع پر ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ایک بہت ہی گہری عالمانہ اور عارفانہ تقریر فرمائی تھی.چند سال پہلے میں نے متعلقہ نظارت کو نصیحت کی تھی کہ اس تحریر کو اور اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 864 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء کے علاوہ عرفان الہی اور بعض دیگر تقریروں میں مثلاً تربیت الہی وغیرہ کو کثرت سے شائع کرنا چاہئے تا کہ ہماری آج کی نسلیں بھی ان علوم اور عرفان کی باتوں سے فیض یافتہ ہوں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں بکثرت ہر خطبے پر بھی اور جلسے کے دنوں میں خصوصیت کے ساتھ عام بانٹے جایا کرتے تھے.ایک لنگر کھلا ہوا تھا علم و عرفان کا ماشاء اللہ جس سے جماعت کی کئی نسلوں نے تربیت پائی ہے کیونکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت کا دور باون سالہ دور ہے.باون سال کے اندر جب یہ خلافت کا آغاز ہوا ہے تو بیک وقت تین نسلیں تو آپ کی مخاطب تھیں انصار بھی ، خدام بھی ، اطفال بھی.اس باون سالہ دور میں کئی پلٹے کھائے ہیں ان نسلوں نے اور جو طفل اس دن پیدا ہوا تھا جس دن آپ خلیفہ بنے ہیں اس کی عمر وصال کے وقت باون سال کی تھی لیکن ہر طفل اس عمر کا تو نہیں تھا اس لئے دو تین نسلیں ایسی ہیں جو آپ کی تربیت کے نیچے گزر گئیں اور اس طرح بہت سے تربیت کے امور میں ان کو استحکام نصیب ہوا ہے بوڑھے پیچھے جو ان چھوڑ گئے ، جوانوں نے بچوں کو جگہ دی اور بچے پیدا ہوئے.وہ بھی جوان ہوئے.بوڑھے ہونے والے بچوں نے کچھ بچے پیدا کئے ہوں گے جو جوان ہوئے ، بڑھاپے کی طرف مائل ہوئے دو تین نسلیں ہیں جو فیض یافتہ تھیں.اس دور کے خطبات کو اور اس دور کی تقاریر کو جماعت کے سامنے بار بارلانا چاہئے.ذکر اللہ کے مضمون پر وہ تقریر ایک بہت ہی غیر معمولی اہمیت کی حامل تقریر ہے.اسے جماعت کو کثرت سے پڑھنا چاہئے.میں یہ کوشش کروں گا کہ اس انداز کے علاوہ دوسرے انداز سے ذکر اللہ کے مضمون پر روشنی ڈالوں.چند باتیں دہرائی بھی جائیں گی.لیکن انداز الگ الگ ہوتے ہیں.میں نے جو طریق اپنے سامنے رکھا ہے وہ یہ ہے کہ آیات قرآنی میں جہاں جہاں ذکر کا مضمون ملتا ہے اس کے حوالے سے جماعت کو نصیحت کروں اور جہاں تک بس چلے یہ سمجھاتا چلا جاؤں کہ قرآن کریم میں ہر تکرار میں کوئی نہ کوئی نیا مضمون ضرور داخل فرمایا جاتا ہے اور جس سیاق وسباق میں قرآن کریم کوئی ایک بات پیش فرماتا ہے اسی سیاق و سباق میں بھی جب وہی بات پھر دوبارہ پیش فرماتا ہے تو آیات کے مطالعہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ محض وہی مضمون نہیں بلکہ کسی اور حکمت کے پیش نظر اسی بات کو دوہرایا جارہا ہے لیکن جہاں سیاق و سباق بدل جائیں وہاں بہت سے نئے مضامین پیدا ہوتے ہیں.پس ذکر کے موضوع پر جب میں نے آیات کا مطالعہ کیا تو ایک بہت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 865 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء اور چونکہ اور بھی بہت سے امور پر خطبات دینے ہوتے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ مجھے اس مضمون کو مختصر کرنا پڑے لیکن اختصار کے باوجود میرا خیال ہے ممکن ہے اگلے چھ ،سات یا شائد اس سے بھی زائد خطبات ذکر ہی کے مضمون پر چلیں گے اس مضمون میں داخل ہونے سے پہلے میں چند اعلانات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اب تو یہ با قاعدہ خطبوں کا ایک مستقل حصہ بن چکا ہے.جہاں جہاں بھی اجتماعات ہو رہے ہوں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے اجتماعات کا بھی اس خطبے میں ذکر خیر چلے اور اجتماعات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ نصیحتیں بھی کی جائیں.آ ج ۸، ۹ نومبر کو مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی مجلس شوری منعقد ہورہی ہے.صدر صاحب جواب انصار میں جانے والے ہیں اور ان کی جگہ نئے صدر کا انتخاب ہو چکا ہے.ان کی خواہش ہے کہ میرے اس دور میں ہی اس شوری میں میری شمولیت ہے چونکہ یہ آخری شمولیت ہوگی یہ لفظ تو انہوں نے نہیں کہے لیکن پس تحریر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ اس آخری شوری میں ان کی شرکت ہے میں ضرور ذکر خیر کروں اور کچھ نصیحت کروں.لجنہ اماءاللہ بہار کا صوبائی اجتماع ۱۳/ نومبر سے شروع ہو رہا ہے ۱۴ نومبر کو اختتام پذیر ہو گا.لجنہ اماءاللہ آندھرا پردیش کا صوبائی اجتماع بھی ۱۳ اور ۱۴/ نومبر یعنی کل اور پرسوں منعقد ہوگا.تحریک جدید کے سلسلے میں ایک اعلان بھی کرنا ہے اور پہلے میں وہ اعلان کر کے پھر دوبارہ اجتماعات کے مضمون کی طرف واپس آؤں گا.مکرم وکیل المال صاحب نے مجھے توجہ دلائی ہے اور بالکل درست توجہ دلائی ہے.اطفال اور ناصرات کو جو باقاعدہ اصطلاحی طور پر عمر میں چھوٹے ہیں یا ناصرہ کہلانے کی عمر سے چھوٹی ہیں، جو بچوں کی عمر میں ہیں یعنی ماں باپ کے زیر تربیت ہی رہتے ہیں، باقاعدہ کسی جماعت کے یا تنظیم کے سپرد نہیں ہوتے ان کو انصار اللہ کے سپر د کرنے کی بجائے تحریک جدید کے چندوں کے سلسلے میں ان کو لجنہ کے ہی سپر د کیا جائے.مجھے یاد آ گیا ہے کہ پہلے بھی ایک دفعہ میں نے ایک خطبے میں یہی نصیحت کی تھی کہ وہ بچے جو ابھی اس عمر کو نہیں پہنچتے یا وہ اطفال الاحمدیہ کے نظام میں داخل نہیں ہوئے یا ناصرات کے نظام میں داخل نہیں ہوئے.ان کی تربیت کا اول اور آخر فرض ماں باپ پر ہے اور سب سے زیادہ وہی ذمہ دار ہیں.پس اس پہلو سے ماں باپ میں سے زیادہ ماؤں پر انحصار ہے تو یہ ان کا مشورہ درست ہے.وہ جو پہلا اعلان تھا اس کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 866 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء کالعدم سمجھتے ہوئے اب یہ جماعت نوٹ کر لے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو چندوں کی عادت ڈالنا خصوصیت سے تحریک جدید میں شامل کرنا یہ ماؤں کا فرض ہے اور ماؤں کا انفرادی فرض تو ہے ہی لیکن لجنہ اماءاللہ کا اجتماعی فرض بھی ہوگا وہ اپنے ذمہ یہ کام سنبھالیں.اجتماعات کے سلسلے میں سب سے پہلے تو شوری کی بات ہے.شوریٰ کا نظام جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا نظام خلافت کے بعد نظام اسلام میں سب سے زیادہ اہم نظام ہے.یہ وہ نظام ہے جس کا نبوت سے بھی تعلق ہے اور نبوت کے بعد خلافت سے بھی تعلق ہے سب سے زیادہ صاحب فہم اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب نبی ہوتا ہے.صاحب فہم عام معاملات میں میں کہہ رہا ہوں.یعنی اس کی عقل اتنی روشن ہوتی ہے کہ دنیا کے عام معاملات میں بھی سب سے زیادہ صاحب فہم ہوتا ہے اور تعلق باللہ کے نتیجے میں جو فیض اس کو عطا ہوتے ہیں ان میں اور کوئی غیر نبی برابر کا شریک نہیں ہوسکتا اور ان سب میں سب سے زیادہ فیض یافتہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے تھے.جن کی نبوت سے پہلے کی کیفیت کو بھی اللہ تعالیٰ نے نور کے طور پر بیان فرمایا.فرمایا وہ پہلے ہی نور تھا ہاں جب شعلہ الہام نور بن کر اس کے دل پر اترا ہے تو نُورٌ عَلَى نُورٍ (النور: ۳۶) ہو گیا.ایک نور دوسرے نور پر اترا ہے.کسی شخصیت کا اتنا خوبصورت اور اتنا پاکیزہ تعارف دنیا کے کسی اور مذہب میں آپ کو دکھائی نہیں دے گا اور اس لئے دکھائی نہیں دے گا کہ ایسا ہوا ہی کبھی نہیں کہ کوئی شخص نبوت سے پہلے ہی مجسم نور ہو اور ادنیٰ بھی شائبہ اس میں ظلمت اور تاریکی کا نہ پایا جائے.پس آنحضر نُوْرٌ عَلَی نُورٍ تھے اور دنیا میں آپ کی فراست کا تعلق بھی اسی نور سے تھا یعنی ہر معاملے میں آپ صاحب فہم اور صاحب فراست تھے اور نو ر اس حالت کو کہتے ہیں جس میں دکھائی دیتا ہے.جب ایک چیز صاف اور واضح دکھائی دے اسی کو دراصل عقل کہا جاتا ہے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ سب عقلمندوں سے بڑھ کر عقل مند تھے اور آئندہ بھی آپ سے بہتر عقل مند انسان پیدا نہیں ہوسکتا.لیکن آپ کو بھی مشورے کا حکم دیا گیا تھا.شَاوِرُهُمُ فِي الْأَمْرِ ( آل عمران : ۱۲۰) جب اہم امور کی باتیں ہوں تو ان سے مشورہ کر لیا کرو.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (آل عمران: ۱۶۰) لیکن پھر مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ تو نے کرنا ہے.پس مشورے کی قیمت اپنی جگہ ہے.نبیوں میں سے بھی نبیوں کا سرتاج حضرت محمد مصطفی اللہ کو بھی خدا تعالیٰ نے اس معاملہ میں مستثنیٰ قرار نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 867 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء دیا لیکن یہ فرمایا کہ مشورہ کر لیکن پھر فیصلہ خود کرنا ہے.پس مشورہ اپنی جگہ ضروری ہے اور اس کی بہت سی حکمتیں ہیں یعنی صرف یہ حکمت نہیں ہے کہ بعض پہلوؤں پر انسان کی نظر نہیں ہوتی ،مشورے کے دوران وہ پہلو سامنے آجاتے ہیں.پہلوؤں پر نظر نہ ہونا، عقل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا دنیا کے حالات میں ہر چیز پر صرف خدا کی نظر ہے اور کوئی شخص کتنے ہی بڑے مقام سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو وہ عالم الغیب نہیں ہے پس مشورے میں بہتر عقل کی بات کی احتیاج کا ذکر نہیں ہے یہاں.اس لئے حکم نہیں دیا گیا آنحضور ﷺ کو ، ہو سکتا ہے کہ نعوذ باللہ تجھ سے زیادہ عقل والا انسان کوئی اچھی بات تیرے سامنے پیش کر دے.مراد صرف یہ ہے کہ تو عالم الغیب نہیں ہے اور بہت سے لوگوں کے علم میں باتیں ہیں.ساری باتیں تیرے علم میں آجائیں پھر فیصلے کا بہتر مجاز تو ہے یعنی آپ کی عقلی برتری کو بھی بڑے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا اور بشری کیفیت کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا.مشورہ اس لئے ضروری نہیں ہے کہ تجھ سے زیادہ روشن خیال لوگ موجود ہیں اس لئے ضروری ہے کہ بہت سی باتیں ان کے علم میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ تیرے علم میں نہ ہوں.جب سب باتیں سامنے آجائیں پھر صحیح فیصلہ ہوا کرتا ہے.جب فیصلے کا مقام آئے گا تو تو نے فیصلہ کرنا ہے.مشورہ لے قبول کر یا نہ کر یہ تیرا کام ہے.پس یہ ہے شوری کی روح اور نظام جماعت میں یہی سلسلہ خلافت کے حوالے سے اسی طرح جاری ہے یعنی ہر خلیفہ وقت کو جماعت احمد یہ مشورہ دیتی ہے اور جماعت سے خلیفہ وقت مشورے لیتا ہے.لیکن آخری فیصلہ خلیفہ وقت خود کرتا ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی نیابت میں اس مقام پر ہے جہاں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی فراست کو اتنا نورضرور عطا کر دیتا ہے کہ ہر دوسرے شخص سے بہتر فیصلہ کرنے کا مجاز ہو جاتا ہے.لیکن اس کے علم میں ساری باتیں آنی ضروری ہیں.جب علم میں سب باتیں آ جاتی ہیں تو پھر وہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ درست صلى الله نکلتا ہے اور اگر کوئی غلط فیصلہ ہو جائے تو اللہ ضامن ہے وہ فیصلوں کو خود درست کروالیتا ہے.یہ دوسرا مضمون جو ہے یہ تو کل الی اللہ میں بیان ہوا ہے.فرمایا فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ جب تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو اپنی ذات اور اپنی فراست پر تو کل نہیں کرنا.اللہ جانتا ہے کہ تو بہت صاحب فراست ہے.تجھ جیسا نور خدا تعالیٰ نے کسی اور کو عطا نہیں کیا لیکن اس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 868 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء کے باوجود چونکہ تو خدا کے سامنے جواب دہ ہے اس لئے جب تو فیصلہ کرتا ہے تو اپنی فراست پر ، اپنی ذہانت پر، اپنی عقل مندی پر انحصار بالکل نہیں کرنا.اللہ پر توکل کرنا ہے.اللہ پر توکل کے نتیجے میں اس فیصلے کو دو طرح سے برکت حاصل ہو جاتی ہے اور حفاظت مل جاتی ہے آخر انسان انسان ہے ہو سکتا ہے بعض حالات میں بعض مشوروں کے اثر کے نیچے ایک ایسا فیصلہ بھی کر لے جو بعینہ درست نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ ایسے امور حقائق کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں جو فی الواقعہ حقیقت نہیں ہوتے اور اس میں غلطی مشورہ دینے والوں کی انہوں نے بغیر چھان بین بعض واقعات پیش کر دیئے.فیصلہ کرنے والا ان واقعات کو نظر انداز کر کے فیصلہ نہیں کر سکتا اور اگر غلط واقعات پیش ہوں گے تو پھر بعض دفعہ فیصلے بھی اسی حد تک غلط ہو سکتے ہیں.اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر یہ تنبیہ فرمائی کہ جب آپس میں تم لوگوں کے اختلافات ہوتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی فریق اپنی چرب زبانی کے نتیجے میں اپنے معاملے کو اس طرح پیش کرے کہ حق کو چھپا دے.جو مجھے دکھائی دے گا میں اس کے مطابق فیصلہ کروں گا.اس صورت میں ہو سکتا ہے یعنی بہت بعید کی بات ہے.میں سمجھتا ہوں یہ واقعہ ہوا کبھی نہیں مگر آنحضرت مہ نے اپنے انکسار کی وجہ سے امت کو سمجھانے کی خاطر یہ بتایا ہے کہ اگر مجھ سے ہو سکتا ہے تو تم سے یقین ہوسکتا ہے.فرمایا ہوسکتا ہے کہ میں اس اثر کے نتیجے میں غلط باتیں میرے سامنے کی گئی ہیں اور اس رنگ میں کی گئی ہیں کہ میں ان کو سچ تسلیم کر بیٹھا ہوں کسی کا حق کسی اور کو دے دوں.فرمایا ایسی صورت میں جس کو وہ حق دیا گیا ہے وہ یادر کھے کہ حق کے طور پر نہیں دیا گیا وہ ایک جہنم کا ٹکڑا ہے جسے وہ کھائے گا.اس میں بھی بہت ہی گہری حکمت ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تم اس فیصلے کے پابند نہیں رہے.خود فرما رہے ہیں ممکن ہے کسی شخص کے جھوٹے بیان کی وجہ سے ایسے حالات میرے سامنے رکھ دیئے جائیں کہ میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے کسی کا حق کسی اور کے سپرد کر دوں.فرمایا یہ بعید از امکان نہیں ہے مگر ایسا کروں تو یہ نہیں فرمایا کہ پھر جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہے وہ چونکہ جانتا ہے کہ اس کا حق ہے وہ بغاوت کر دے اور کہے کہ نہیں میں یہ حق نہیں چھوڑوں گا.ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نعوذ باللہ من ذالک غلطی کی ہو.دوسرے کے الله متعلق بھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا فیصلہ غلط ہو گا.یہ فرمایا ہے کہ تم حق لے لو گے تو جہنم لو گے اور اس طرح عالم انصاف کو فساد سے بھی بچالیا اور دور کے غلطی کے احتمال کا ایک تو ڑ بھی اس فیصلے میں رکھ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 869 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء دیا.یعنی جس کے حق میں غلط فیصلہ ہو جاتا ہے وہ پھر ذمہ دار ہو جاتا ہے کہ حق میں فیصلہ ہونے کے باوجود ازخودا سے واپس کرے.تو یہ ہے کہ نظام شوریٰ کی روح میں آپ کے سامنے کھول کر بیان کر رہا ہوں.بعض دفعہ غلط فیصلہ ہوسکتا ہے اگر حقائق غلط ہوں.جہاں تک حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کا تعلق ہے میں نے جہاں تک مطالعہ کیا ہے ایک چھوٹا سا شائبہ بھی اس بات کا دکھائی نہیں دیا کہ آپ کا فیصلہ غلط ہو گیا ہو.ہاں وقتی طور پر لاعلمی کے نتیجے میں فیصلے میں تر و دفرمایا ہے اور اس کی وجہ سے بعض دفعہ کسی کو تکلیف پہنچی ہے.مثلاً حضرت عائشہ کا واقعہ ہے جسے واقعہ افک کے نام سے سب جانتے ہیں.اس ضمن میں جو واقعات آنحضو ر ہ کی خدمت میں پیش کئے گئے ان کی وجہ سے آپ نے یکطرفہ فیصلہ نہیں کیا مگر جو حضرت عائشہ کا حق تھا کہ آنحضور یہ ان کی بریت کرتے کچھ عرصے تک وہ اس حق سے محروم رہیں.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے طور پر خود بریت فرمائی.اس عرصے میں حضرت عائشہ کی جو کیفیت تھی، جو حالت تھی غم کی.اس کا اس سے تصور کریں کہ جب آنحضرت ﷺ نے جا کر خوشخبری دی کہ اے عائشہ ! تجھے خدا نے بری کر دیا ہے تو یہ کہا کہ آپ نے تو نہ کیا.عورتوں کا ایک خاص انداز ہے شکوے کا آپ نے تو مجھے دکھ میں مبتلا رکھا ہے.تو یہ وہ مثال ہے کہ ایک بات کا علم نہیں تھا اس وجہ سے احتیاط برتی ہے، اپنے رشتے اپنے قرب کی وجہ سے جانتے ہوں گے ضرور، یہ میں نہیں کہہ سکتا لیکن قانونی طور پر شاید یہ نہ سمجھتے ہوں کہ میں اگر یہ فیصلہ دوں گا تو انصاف کی دنیا میں ایک صحیح مثال قائم کرے گا.ہوسکتا ہے یہ خوف دامنگیر ہو.ایک انسان ذاتی طور پر کسی کو بری الذمہ سمجھتا ہے لیکن ظاہری حالات میں چھان بین اس حد تک نہیں پہنچی ہوتی کہ اسے بری قرار دے سکے اور اگر قرار دے دے تو پھر اپنے دل کے اطمینان کے مطابق کسی کو بری قرار دے دینا آئندہ انصاف کی دنیا میں کئی قسم کے ابہام پیدا کر سکتا ہے.جب میں سوچتا ہوں کئی قسم کی ایسی وجوہات سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے ممکن ہے کہ آنحضو ر ہو نے جانتے ہوئے بھی حضرت عائشہ کی بریت نہ فرمائی ہو لیکن خدا نے فرمائی.یہ تو کل کا مضمون ہے اگر تو کل کرو گے تو دو باتوں میں سے ایک ضرور ہوگی اگر غلط فیصلہ ہے تو اللہ درست فرما دے گا کیونکہ جس کی ذات پر توکل کر کے تم نے فیصلہ کیا ہے وہ ذمہ دار ہے کہ تمہاری غلطیوں کو بھی درست کر دے گا.دوسری بات یہ کہ ان غلطیوں کے خمیازے سے ان سب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 870 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء لوگوں کو بچائے گا جن پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے.یہ جو برکت ہے ذاتی طور پر حضرت اقدس محمد مصطفی میل کا فیض ہے جو آگے خلافت کو پہنچا ہے اور میں نے خلافت اولی یعنی اول زمانہ کی صلى الله - خلافت حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ کی خلافت جسے خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اس پر بھی غور کیا ہے اور میں کامل یقین سے کہہ سکتا ہوں ہر مشورے کے بعد ہر خلیفہ کا فیصلہ درست تھا.مؤرخ جو چاہے اس میں بعض دفعہ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرے لیکن بہت سے ایسے فیصلے ہیں جن کے بعد آپ کو فتنے بھی دکھائی دیتے ہیں مگر اگر عمیق نظر سے دیکھیں تو ہر خلیفہ کا فیصلہ درست ثابت ہوتا ہے اور خلافت کے آخرین کے دور میں جو خلافت جاری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت کہلاتی ہے اس میں بھی میرا یہی مشاہدہ ہے میں نے بڑی گہری نظر سے حضرت مصلح موعودؓ کے دور کی تمام مجلس شوری کی کارروائیوں کو پڑھا ہے بہت سے ایسے فیصلے ہیں جو میری نظر میں ہیں جن کا میں خود گواہ ہوں.اول تو آپ کو یہ بات دکھائی دے گی کہ اکثر صورتوں میں خلیفہ وقت اکثریت کے فیصلے کو قبول کر لیتا ہے.شاذ ہی کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس میں قبول نہیں کرتا.لیکن جہاں قبول نہیں کرتا وہاں ہمیشہ وہی درست نکلتا ہے اور جماعت ہمیشہ گواہ بن جاتی ہے کہ ہاں یہی بات درست تھی.ہم سے کوتا ہی ہو گئی.پس جن لوگوں نے مجلس شوری کی کارروائیوں کا مطالعہ کیا ہو ان پر تو یہ بات اتنی کھل جاتی ہے کہ کسی وہم کسی شک کا سوال بھی باقی نہیں رہتا.لیکن جنہوں نے وہ دور دیکھا ہے اور خود مطالعہ نہیں کیا وہ خود ایک مجسم گواہ بنے بیٹھے ہیں.الله پس خلافت کے ساتھ شوریٰ کا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیض کے نتیجے میں ایک ویسا ہی رشتہ بن گیا ہے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ شوری کا ایک رشتہ اللہ تعالیٰ نے قرار دیا تھا اور خلیفہ بھی جب فیصلہ کرتا ہے تو تو کل پر بنارکھتے ہوئے کرتا ہے.اگر کوئی فیصلہ اکثریت کا نہیں مانتا تو ناممکن ہے کہ دعا کر کے، تو کل کرتے ہوئے وہ الگ فیصلہ نہ کرے.جب بھی کرتا ہے خوف کے ساتھ ، انکسار کے ساتھ ، دعا کر کے،خدا سے ہدایت مانگتے ہوئے اور پھر فیصلے کے وقت اسی پر تو کل کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے.اس کے علاوہ جو مجالس شوریٰ ہیں.ان میں ہر صدر مجلس شوری کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو فی ذاتہ یہ تحفظ حاصل نہیں ہے.لیکن اس میں بھی شک نہیں ہے کہ دنیا کی جتنی بھی دوسری مجالس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 871 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء شورای ہیں.ان کے صدر ان کے مقابل پر احمدی صدر کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ نسبتا زیادہ روشنی عطا کرتا ہے، اس کی زیادہ حفاظت کرتا ہے اور الا ما شاء اللہ بہت احتیاط کے ساتھ مجلس شورای کی کارروائی کرواتے اور لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتے اور مشوروں پر غور کرتے ہیں لیکن آخری فیصلے کے پھر بھی وہ مجاز نہیں ہیں.اس لئے ایسی تمام مجالس شوریٰ جو دنیا میں کہیں بھی منعقد ہورہی ہوں.ان سب کے فیصلے آخری فیصلے کے لئے خلافت کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں.اب چونکہ ذیلی تنظیموں کا نظام عام ہو رہا ہے ، اب چونکہ جماعت کی مجالس شوری کا نظام بھی ساری دنیا میں عام ہورہا ہے.اس لئے اس موقعے پر میں سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کو پھر یاد کرواؤں کہ آپ کی مجلس شوری کے فیصلے خواہ کسی بھی حیثیت میں وہ مجلس شوری منعقد ہوئی ہو فیصلے ایک رنگ میں تو فیصلے کہلا سکتے ہیں ایک رنگ میں محض مشورے ہیں.فیصلہ ان معنوں میں کہ وہاں کی اکثریت نے یہ بات طے کی اور اس مجلس کے صدر نے بھی اس سے اتفاق کر لیا لیکن حقیقی معنوں میں وہ آخری فیصلہ شمار نہیں ہو سکتے جب تک کہ خلافت کی طرف سے ان پر صادنہ ہو جائے اور اسی لئے بکثرت ایسے فیصلوں پر مجھے غور کرنا پڑتا ہے جو دنیا کے کونے کونے سے مجلس شوری کے فیصلوں کے طور پر میرے سامنے پیش ہوتے ہیں اور قرآنی نظام کی صداقت اور عظمت کا گہرا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے.اگر یہ نظام نہ ہوتا تو جماعت بکثرت دھو کے کھاتی ٹھوکروں میں مبتلا ہوتی ، ایک نظام اور ایک وحدت سے منسلک رہنے کی بجائے مختلف راستے اختیار کر لیتی مختلف مجالس شوری کے فیصلے ایک ہی ملک میں دوسری مجالس شورای کے فیصلوں سے متصادم ہو جاتے اور ذیلی جماعتوں کے فیصلے جماعتی فیصلوں سے متصادم ہو جاتے.ایک فساد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا.پس یہ بھی اسی آیت کریمہ کا فیض ہے.وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ کہ فیصلے کا مرکز ایک ہی رکھا ہے اور باقی سارے غور مشورے کی حد تک ہیں.یہ سارے فیصلے جب ایک مرکز خیال میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک مرکز فکر میں زیر غور لائے جاتے ہیں تو تمام فیصلوں میں یک جہتی پائی جاتی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور کہیں کوئی افتراق کا کوئی شائبہ بھی باقی نہیں رہتا.کل عالم کا نظام جماعت ایک ہی سمت میں قدم بہ قدم آگے بڑھتا ہے اور اس طرح قدم ملا کر آگے بڑھتا ہے کہ سب کا رخ بھی وہی اور سب کی آواز بھی ایک ہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 872 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء طرح اٹھتی اور ایک ہی طرح خاموش ہوتی ہے.ایک بہت ہی خوب صورت نظام ہے، اس نظام کی قدر کرنی چاہئے اور اس کی حفاظت کرنی چاہئے.اس نظام کا ڈکٹیٹر شپ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ فیصلے جو خلیفہ وقت کی طرف سے صادر ہوتے ہیں اگر ان کا مطالعہ کر لیں اور ان مشوروں پر غور کریں جو بھیجے گئے تھے تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے جماعت کو غلط فیصلوں سے محفوظ رکھا اور ایک جگہ بھی کسی ایک ادنی سے موقعے پر بھی خلیفہ کا فیصلہ آمرانہ نہیں ہوتا.ایک معقول وجہ پرمبنی ہوتا ہے جس کی وہ وضاحت کرتا ہے اور ہر دل مطمئن ہو جاتا ہے.چنانچہ جب یہ فیصلے جماعتوں کو پہنچتے ہیں تو اختلافی فیصلوں کے متعلق بہت زیادہ تشکر کے اظہار آتے ہیں.به نسبت موافقانہ فیصلوں کے مجھے اپنے اس مختصر دور میں ایک بھی مثال یاد نہیں کہ کسی مجلس شورای کے فیصلے کو ترمیم کے ساتھ قبول کیا ہو یا رد کیا ہو اور وضاحت کی ہو کہ کیوں ایسا کیا گیا ہے.تو کسی کی طرف سے شکوے کا اظہار ہوا ہو کہ او ہو ہو آپ نے ہماری اکثریت کی رائے کو رد کر دیا اور ٹھیک نہیں کیا.بلاشبہ ہر دفعہ اظہار تشکر اور دعاؤں پر مبنی خطوط ملتے ہیں کہ اس طرف ہماری نظر نہیں گئی اور بڑا اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک بڑی ٹھوکر سے بچا لیا اور نظام جماعت کی خود حفاظت فرمائی.پس نظام شوری جو اہمیت رکھتا ہے.یادرکھیں یہ نظام خلافت کے ساتھ وابستہ رہ کر اہمیت رکھتا ہے.اگر اس نظام کو خلافت کے نظام سے الگ کر دیا اور بے تعلق کر کے اس سے استفادے کی کوشش کی.تو یہ فائدے کی بجائے آپ کی ہلاکت کا موجب بھی بن سکتا ہے کیونکہ یہ شوریٰ پھر جماعت میں انتشار پیدا کر دے گی اور طرح طرح کے وساوس جماعت میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے.پس مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی شورای ہو یا دنیا میں کہیں اور شورای منعقد ہو رہی ہو یا آئندہ ہو ان سب کو میری ایک ہی نصیحت ہے کہ شوری کی روح کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ اگر آپ مجالس شورا ی کو نظام خلافت سے وابستہ رکھیں گے اور ایک ہی وجود کے دو اجزا کے طور پر ان سے استفادہ کریں گے تو اس آیت کریمہ کی برکت ابد تک آپ کے ساتھ رہے گی اور آپ کی حفاظت کرے گی اور فیصلہ کرنے والے کا اللہ پر تو کل ساری جماعت کا تو کل بن جائے گا اور اللہ تعالیٰ ساری جماعت کو اس تو کل کی جزا دے گا اور غلطیوں سے ان کو محفوظ فرمائے گا اور تمام فیصلوں میں برکت رکھے گا اور ان پر صیح معنوں میں عمل درآمد کی توفیق بخشے گا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 873 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء پس اس نصیحت کے بعد میں لجنہ اماءاللہ بہار کی درخواست کی طرف اور بہار اور اس کے علاوہ آندھرا پر دیش کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ اس موقعے پر ہمیں بھی کوئی نصیحت فرمائی جائے.لجنہ کو جو میری نصیحت ہے اس کا دراصل تنبل ہی سے ایک تعلق ہے کیونکہ تل کا مضمون اگر اس کو گہری نظر سے دیکھیں تو ہر بری عادت ہر غلط چیز سے تعلق توڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجحان کا مضمون ہے اور یہ ایسا مضمون ہے جو زندگی کے ہر دائرے پر محیط ہے.خواتین کی تربیت کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ بعض بدیاں جو رفتہ رفتہ خواتین میں راہ پا جاتیں ہیں.ان کی طرف متوجہ کروں اور یہ ایسی بدیاں ہیں جو بار بار نکال دینے کے باوجود پھر واپس داخل ہو جاتی ہیں.ایسا ہی ہے جیسے کسی کو کان پکڑ کر بار بار اٹھایا جائے کہ چھوڑ واس مجلس سے تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں.تو پھر کسی دوسرے رستے سے آ کر وہیں بیٹھ جائے.پس بعض بدیاں ہیں جو نفسیاتی لحاظ سے بعض ایسے رخنوں سے داخل ہو جاتی ہیں.جہاں انسانی نفس عملاً ان کو بلاتا ہے اور دعوت دیتا ہے.پس ایک طرف سے ایک نکالنے والا اعلان کرتا ہے کہ نکلو نکلو یہ جگہ چھوڑ تمہارا یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں.دوسری طرف سے تمام نفسوس کے اندر ایک آواز دینے والا پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے تمہیں نکالا جاتا تھا لیکن مستقل تو نہ پیچھا چھوڑ دو، کبھی کبھی آ بھی جایا کرو، آؤ مل بیٹھتے ہیں.کچھ لطف اٹھاتے ہیں.یہ جو بدیاں ہیں ان میں رسم و رواج کی بدیاں ہیں ، ان بدیوں میں بے پردگی کا رجحان ہے.ان بدیوں میں سماج سے متاثر ہو کر بعض حرکتوں میں ملوث ہونے کی عادتیں ہیں.یہ تمام وہ بدیاں ہیں جو بار بار احمدی خواتین میں داخل ہونے کی کوشش کرتیں ہیں اور بار باران کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے.پھر کچھ دیر کے بعد جب خواتین سمجھتی ہیں کہ یہ بات پرانی ہوگئی.تو پھر ان کو دعوت دیتیں ہیں کہ آجاؤ اب کافی جدائی ہو گئی ، اب پھر کچھ دریل بیٹھتے ہیں.تو اب مجھے پھر اطلاعیں ایسی مل رہی ہیں کہ بعض بدیاں بڑے زور کے ساتھ دوبارہ احمدی خواتین کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کی تقریبات میں داخل ہو رہی ہیں.سب سے پہلے پردے سے متعلق میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ رفتہ رفتہ وہ پردہ جو برقعے سے چا در بنا تھا اب وہ ایسی چادر بن گیا ہے جو سر سے سرک کر کندھوں پر آ گئی ہے اور کندھوں سے بھی سرکتی جارہی ہے اور بعض دفعہ پھر کہتے ہیں کہ جب خالی چادر ہی اٹھانی ہے تو پھر کیا فائدہ پھینکو اس کو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 874 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء دکھاوا ہی ہے ناں ایک اور پھر وہ چادر کندھے سے بھی اتر جاتی ہے.مجھے بہت سے طعنے ملتے ہیں جماعت کی بعض پردہ دار خواتین کی طرف سے کہ آپ ان سے پردہ پوشی کر رہے ہیں.ایک نے تو مجھے یہ بھی لکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ انگلستان جا کے آپ بہت ماڈرن ہو گئے ہیں اور بعض باتوں کی طرف اب عمداً توجہ نہیں دیتے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے.جو بات درست ہے وہ میں آپ کو سمجھا تا ہوں.کہ اس میں میرا قصور ہے تو کس حد تک ہے.ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ تربیت میں ڈنڈا نہیں چلا کرتا اور جب بھی چلتا ہے وقتی فائدہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ نقصان بھی بہت پہنچا جاتا ہے.تو شروع سے ہی میر اطبعی رجحان اس طرف ہے کہ تربیت میں اگر آپ ڈنڈا نہیں چلائیں گے تو پھر دوسرے طریق پر بہت محنت کرنی پڑے گی.اور بار باران باتوں کو چھیڑ نا پڑے گا مختلف طریق پر جماعت کو سمجھانا پڑے گا، ایک دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس سے کیا فائدہ ہو رہا ہے اور بیماری پھر بھی دکھائی دے رہی ہے.لیکن یہ اس کی کم نظری ہے.ڈنڈے کی صفائی اول تو دل کی صفائی نہیں ہوا کرتی.اس میں سرخمیدہ ہو سکتے ہیں لیکن ٹیٹر ھے مزاج سیدھے نہیں ہوا کرتے.نصیحت کے اثرات کے تابع اگر چہ آہستہ اثر ہو یا تھوڑا اثر ہومگر ایسے اثرات پیدا ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ قوم کی سرشت بننے لگ جاتے ہیں.اگر ایک سال میں ایسی بات نہ ہو دو میں نہ ہو دس میں نہ ہو.ہمیں سال میں بھی نہ ہو.تب بھی قرآنِ کریم کا یہ فیصلہ لازما سچا نکلتا ہے فَذَكِّرُ انْ نَفَعَتِ الذكرى (الاعلی : 10) اے محمد یہ تو نصیحت کر اور کرتا چلا جا اور ہم تجھے یقین دلاتے ہیں کہ نصیحت ضرور فائدہ مند ہوگی.پس جہاں تک پردے کے متعلق نصیحت کا تعلق ہے.میں نے خلافت کا آغاز ہی اس نصیحت سے کیا تھا اور لجنہ اماءاللہ کو نہیں بلکہ جلسہ سالانہ میں خواتین کے اجتماع کے موقعے پر ان کے جلسہ سالانہ پر پہلا خطاب ہی اس موضوع پر رکھا تھا اور اس کے بعد مسلسل مختلف وقتوں میں مختلف طریق پر سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں.لجنات کے خطاب میں جرمنی میں بھی اور امریکہ میں بھی.انگلستان میں بھی دوسرے خطبات میں بھی عورتوں کو نصیحت کرتا رہا ہوں کہ پردہ اگر برقع نہیں ہے تو کچھ تو ہے ناں.جو کچھ ہے اس کی تو حفاظت کرو.یہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں ہر حالات میں بعینہ وہ برقع پردہ نہیں جو پاکستان میں رائج ہے یا ہندوستان میں رائج ہے.اگر اسی کو بعینہ پردہ سمجھا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 875 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء جائے تو عرب میں کچھ اور رنگ کا ہے، انڈونیشیا میں اور رنگ کا ہے، مختلف ممالک میں اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں.انگلستان میں اور رنگ کا ہے، امریکہ میں اور رنگ کا اور جرمنی میں اور رنگ کا ہر جگہ رنگ بدلے ہیں.لیکن سب سے اہم بات جس سے یہ معترض نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان کے اپنے ملک میں بھی مختلف معاشروں میں اور اور رنگ کے پردے ہیں.کھیتوں میں عورتیں جب اپنے خاوندوں یا بھائیوں وغیرہ کی روٹی لے کر جاتیں ہیں.تو وہ کون سے برقعے پہن کے جاتی ہیں.روز مرہ کھیتوں میں کام کرتی ہیں، دودھ بیچنے والیاں آتی ہیں اور اچھی شریف بیبیاں ہوتی ہیں.لیکن باوجود اس کے کہ بہت سی احمدی جماعتوں میں وہی رواج ہیں جو کہ دیگر دیہات میں ہیں.یہ اعتراض کرنے والے ان پر نہیں کرتے کیا اس وقت یہ ماڈرن ہو چکے ہوتے ہیں.اصل میں ان کا ضمیر یہ گواہی دے رہا ہوتا ہے.پردہ حالات کے مطابق ہوا کرتا ہے اور پردے کی ایک روح ہے.اس روح کی حفاظت ضروری ہے.پس کھیتوں میں کام کرنے والی اگر گھونگھٹ لیتی ہے اور اس حد تک لیتی ہے کہ راستے میں ٹھوکریں نہ کھاتی پھرے بلکہ اس کو رستہ دکھائی دے اور اپنے آپ کو اس حد تک ڈھانپ کر رکھتی ہے اور اس حد تک لجاجت سے چلتی ہے کہ اس کی حیا نمایاں ہو جاتی ہے.اس کے بدن کے حسن سے باہر اس کی حیا دکھائی دینے لگتی ہے.چنانچہ یہ جو کیفیت ہے یہ حقیقت میں پردہ ہے اور پردے کی حقیقی روح اس کے اندر داخل ہے.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس ایک بیٹی کو جو حضرت موسیٰ کو یہ پیغام دینے کے لئے واپس آئی تھی کہ میرا باپ تجھے بلا رہا ہے.اس کی چال کے متعلق فرمایا کہ عَلَی اسْتِحْيَاء وہ حیا کے ساتھ لچکتی ہوئی آئی تھی.ایک لچک ہوتی ہے جو انسان اپنے حسن کو ظاہر کرنے کے لئے ، دکھانے کے لئے لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ہوتی ہے.ایک حیا کے نتیجے میں عورت جھولتی ہے اور اس کے بدن میں ایک لچک پیدا ہو جاتی ہے.ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے.جو شرما کر چلنے والی عورت ہے.اس کی حیا اس کا پردہ بن جاتی ہے اور نظروں کو دھکا دیتی ہے کہ خبردار جو مجھے بری نظر سے دیکھا پس پردے کی روح کو سمجھنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 876 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء چاہئے اور روح کی حفاظت کرنی چاہئے.جہاں پردہ بر فتنے کی صورت میں رائج ہو چکا وہاں بہت بڑا خطرے کا مقام ہے یہ کہہ کر کہ پردے کی روح تو ہم قائم رکھ رہی ہیں برقعے کی کیا ضرورت ہے.انسان برقعے کو اتار پھینکے کیونکہ یہ بات بچی بھی ہو سکتی ہے جھوٹی بھی ہوسکتی ہے اور اکثر صورتوں میں جھوٹی ہوتی ہے.وہ خواتین جو برقع اتار کے پھینکتی ہیں.اگر ان کو واقعہ پردے کی روح پیاری ہو تو اپنی خاطر نہ ہی اپنی اولاد کی خاطر اس مصیبت کو کچھ دیر اور برداشت کر لیتی ہیں.جانتی ہیں کہ یہ پردہ اس طرح ضروری نہیں جانتی ہیں کہ مجھ میں خدا تعالیٰ نے مجھے عفت عطا کی ہے مجھے حیا عطا کی ہے.میں ہرگز کسی غیر کو نہ بری نظر سے دیکھتی ہوں نہ اس کی بری نظر کو دعوت دیتی ہوں.پھر بھی وہ برقعے کو اس لئے جاری رکھتیں ہیں کہ ان کی آگے بچیاں ہیں کہیں وہ غلط پیغام نہ لے لیں.عام طور پر وہی اتارتی ہیں جن کے سامنے بہانہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہم روح کو قائم رکھ رہی ہیں آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کی نظر دل پر ہوتی ہے.انما الاعمال بالنيات ( بخاری کتاب الوحی حدیث نمبر :1) اعمال کا فیصلہ نیتوں پر ہوتا ہے.اس لئے حقیقت میں جو دل کی گہرائی کا فیصلہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مصیبت سے نجات پانا چاہتے ہیں.دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے ہم ابھی تک برقعوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور برقعوں سے نکل کر جود نیا دکھائی دیتی ہے وہ ان کو زینت دکھائی دیتی ہے، وہ دلکش دکھائی دیتی ہے اور جب وہ برقع پھینکتی ہیں تو وہیں ٹھہر تیں نہیں پھر اس دلکشی کی طرف ضرور حرکت کرتی ہیں.ضرور قدم اٹھا تیں ہیں کہ اس زینت سے کچھ حصہ پالیس جس کے غیر مزے اڑا رہے ہیں.یعنی ان کا قدم احمدی معاشرے سے غیر احمدی معاشرے کی طرف مسلم معاشرے سے غیر مسلم معاشرے کی طرف ضرور اٹھتا ہے.اگر یہ اٹھ رہا ہے تو ان کے نفس کا بہانہ جھوٹا تھا.انہوں نے پردے کی شکل نہیں بدلی پردے کو رد کیا ہے اور بیک وقت رد کرنے کی طاقت نہیں اس لئے رفتہ رفتہ منزل بہ منزل رد کرنا چاہتی ہیں.پہلے چادر میں آئیں گی ، پھر چادر سرکے گی ، پھر چادر اٹھا کے پھینک دی جائے گی، پھر مکس پارٹیاں ہوں گی، پھر کلبوں میں جانا شروع ہوں گے.اور ان کے دیکھتے دیکھتے ان کی بیٹیاں ان سے دس قدم اور آگے بھاگ رہی ہوں گی اور جب وہ ہاتھ سے نکلیں گی جب غیروں سے شادیاں کریں گی یا بغیر شادی کے بھاگ جائیں گی تو پھر وہ روتی ہوئی میرے پاس آئیں گی یا کسی اور کے پاس پہنچیں گی کہ دیکھو جی یہ معاشرہ کیسا زہریلا ہے کتنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 877 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء خطرناک ہے ہم کیا کریں اب ہمارا بس کوئی نہیں ہے.وہ یہ نہیں جانتی کہ ان کا بس تھا انہوں نے استعمال نہیں کیا بچپن سے اپنی اولا د کو غلط پیغام دیا ہے.بہانے تراشے ہیں اور حیا کے ساتھ اپنی عزت کی حفاظت نہیں کی اور بچے اس پیغام کو خوب سمجھتے ہیں اور جب وہ سمجھ لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس پر چھوٹے موٹے بہانے کی بھی کیا ضرورت ہے.پھر نکلو دنیا میں آزادی کے ساتھ جو چاہو کرتے پھرو.پس عورتوں کا قوم کی تربیت میں بہت گہرا دخل ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے.ایسی اطلاعیں ملتی ہیں کہ جن سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے بیاہ شادی کے موقعے پر تو بہت ہی زیادہ بے احتیاطیاں شروع ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ باراتیں آتی ہیں اور ایسے خاندانوں کی جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر ہوں لیکن ان گھروں میں باراتیں آتیں ہیں وہ بہانہ یہ بناتے ہیں کہ بارات تو ہمارے قبضے کی نہیں تھی.پوری بے پر دبارات اس میں غیر احمدی بھی بے پر داور احمدی عورتیں بھی بے پر داور مل جل کر اکٹھے ایک ہی ہال میں دعوتیں منائی جا رہی ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے تو.اس سے وہ لڑتے ہیں اس سے جھگڑتے ہیں کہ تم کون ہوتے ہو ہمارے اندر دخل دینے والے.اس ضمن میں یہ بھی سمجھانا ضروری ہے کہ اعتراض اگر کریں گے تو پھر یہی سلوک ہوگا.قرآن کریم نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ جب تم معاشرے میں کوئی برائی دیکھ تو اعتراض کرو.یہ اعتراض بھی ایک خاص انداز کی بات ہے.یہ فرمایا ہے اسے دور کر د یعنی اول مقصد برائی کو دور کرتا ہے.جس انداز سے وہ دور ہو سکتی ہے وہی صحیح انداز ہے.اگر دور ہونے کی بجائے وہ بڑھ جائے یا بغاوت میں تبدیل ہو جائے تو قرآنی ہدایت کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ایسا ہوگا.فرمایا اس کو دور کرو اور اگر دور کرنے کی طاقت نہیں ہے تو نصیحت کے ذریعے اسے روکنے کی کوشش کرو.پس نصیحت اور اعتراض میں زمین آسمان کا فرق ہے.جب ایک انسان نصیحت کرتا ہے تو نصیحت کا انداز وہ کس سے سیکھے گا.معترضین سے؟ یا حضرت محمد رسول اللہ اللہ سے ؟ آنحضرت ﷺ کی نصیحت کے نتیجے میں کبھی کسی کو دھکا نہیں لگا.آنحضور ﷺ کی نصیحت کے نتیجے میں کبھی کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوئی بلکہ اس نصیحت میں پیار بھی پایا جاتا تھا اور دردبھی پایا جاتا تھا اور پھر حتی المقدور یہ احتیاط ہوتی تھی اس نصیحت کے نتیجے میں اس شخص کی دوسروں کے سامنے سبکی نہ ہو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 878 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء پس نصیحت کے اس انداز کا فقدان اعتراض ہے اور بعض لوگ جماعت میں نیکی کے نام پر گویا اپنی ذات کو یہ کریڈٹ دے رہے ہوتے ہیں، خود یہ سہرا اپنے سر پر لگا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو ہم ناصح ہیں.ہمیں تو یہ باتیں پسند نہیں اور کہتے اس انداز سے ہیں کہ ان کی انا کو تو خراج تحسین ہو جاتا ہے.لیکن جس کو کہی جاتی ہے اس کو بات فائدہ نہیں پہنچاتی ، اس کا غلط ردعمل پیدا ہو جاتا ہے.پس اگر ایسے مواقع ہیں جہاں اس قسم کی نا واجب حرکتیں ہو رہی ہیں.تو اسلامی تعلیم کے مطابق کام کریں.اسلامی تعلیم کے مطابق وہ خاندان کے بڑے جن کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ ان باتوں کو روک دیں ان کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں کو روکیں کیونکہ گھر کے بڑے کہیں کہ اگر ایسی حرکت ہوگی تو ہم شامل نہیں ہوں گے.اگر یہ ایسا کہیں تو ان کی بات کا ضرور اثر ہوتا ہے.روک دینے سے مراد یہ ہے کہ اگر تم میں روکنے کی طاقت ہے سہی طریق پر تو روکو اور جن لوگوں نے نہیں روکا وہ با قاعدہ مجرم بن جاتے ہیں اور اگر روکنے کی طاقت نہیں تو زبان سے سمجھاؤ اور زبان کے سمجھانے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا طعن آمیزی کا رنگ نہیں ہونا چاہئے.جہاں طعن آیا وہاں بات اثر چھوڑ دے گی.نصیحت اور پر درد نصیحت کے ذریعے ان کو سمجھا ئیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر دل میں برا مناؤ.دل میں برا منانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دل کے اندر ہی بر امنا کر محسوس کر کے بیٹھ جاؤ.اس برا منانے کا کوئی اثر ضرور ظاہر ہونا چاہئے.چنانچہ قرآن کریم نے ایسی مجالس جن میں بدذ کر چل رہے ہوں ان میں برا منانے کا ایک طریقہ خود سکھا دیا ہے.فرمایا جب تک ایسی باتیں ہیں ان سے اٹھ کے آجاؤ.پس ایسی شادیاں ہو رہی ہوں جہاں بے حیائیاں ہو رہی ہوں اور بعض دفعہ تو یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ اس بہانے کہ لڑکیاں ہی ہیں ناچ کئے گئے ہیں اور اس بہانے کہ صرف گھر کے لوگ ہیں تو دولہا میاں نے بھی بیوی کے ساتھ مل کے وہاں ڈانس کئے.یہ شاذ کے طور پر واقعات ہیں.لیکن نہایت ہی خطرناک دروازے کھولے جا رہے ہیں.اگر یہ دروازے بند نہ ہوئے اور آئندہ یہ باتیں رواج پا گئیں تو جنہوں نے یہ دروازے کھولے ہیں ان پر آنے والی نسلوں کی بھی لعنتیں پڑیں گی.اور وہ خدا کے نزدیک ذمہ دار قرار دیئے جائیں گے.یہ کوئی بہانہ نہیں ہے کہ اور نہیں ہیں ہم ہی ہیں.ہمارے سامنے کیا ہو رہا ہے.اصل میں یہ باتیں اس بات کی مظہر ہیں کہ دل میں غیر اللہ کا رعب پڑچکا ہے.وہ بعض باتیں غیر سوسائٹیوں میں دیکھتے ہیں اور بڑا سخت دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ ہم بھی ایسا کریں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 879 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء جب دل چاہنے لگ جائے تو اس کے ہو گئے جس کے اوپر دل آ گیا.اب موقع ملنے کی بات ہے.بہانہ ڈھونڈ کر مخفی طور پر چھپ کر کھائیں یا لوگوں کے سامنے کھا ئیں.جہاں تک دل کی خواہش سے کھانے کا تعلق ہے وہ واقعہ تو ہو گیا.اب سو رکھا نا منع ہے یہ مطلب تو نہیں کہ سوسائٹی میں منع ہے.چھپ کے کھانا بھی تو اسی طرح منع ہے جس طرح باہر کھانا منع ہے.تو اگر رسمیں بے ہودہ ہیں اور وہ دجالی رسمیں ہیں تو وہ چاہے آپ سب کے سامنے کریں چاہے چھپ کے کریں ان کی دجالیت تو ضرور اپناز ہر ظاہر کرے گی اور آپ کی روحانیت کو ضرور مارے گی.آپ کیا تصور کر سکتے ہیں کہ ایسے لوگ جو شادیوں کے بہانے یا اس قسم کی بے پردگیاں کریں آنے والی مہمان عورتوں کی عزت کا بھی خیال نہ کریں، بیرے باہر کے کھلم کھلا اندر پھر رہے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے.آج کل کی ماڈرن سوسائٹی میں یہی چل رہا ہے.یہ کہتے ہوئے مہمان عورتوں کی عصمت سے کھیلنے کا ان کا کیا حق ہے.اگر بے حیائی کرنی ہے تو پھر مہمان خواتین کو ایک طرف کر دیں ان کو کہیں آپ اٹھ کے چلی جائیں.جن کو اپنی عزت اپنے پردے کا پاس ہے وہ یہاں نہ بیٹھیں کیونکہ ہم ایسی حرکتیں کرنے والے ہیں جن کو آپ لوگ پسند نہیں کریں گے.ان کو یہ چاہئے کہ پھر ان کو الگ کر کے پھر اگر کچھ گند کرنا ہے تو کریں لیکن ذمہ دار ضرور ہوں گے اس گند کے لیکن مجھے یہ اطلاعیں بھی ملتی ہیں کہ مہمانوں کو بلایا گیا اور اس کے بعد مردوں کو جو کھلم کھلا بیچ میں پھر رہے تھے ان کو چھٹی دی کہ اچھا جی اب تم لوگ چلے جاؤ اب ہم یہاں خواتین ہیں اور اس کے بعد غیر مرد، بیرے، لچے لفنگے ہر قسم کے گندے اخلاق والے ان کو کہا آ جاؤ اب اندر کھانے سرو کرو یہ کرو وہ کرو.قرآن کریم نے جہاں گھر کے نوکروں سے پردے میں نرمی کا اظہار فرمایا ہے وہاں ایسے نوکروں کا ذکر ہے جن میں اربہ نہیں رہی.غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ ( النور :۳۲) جن کے اندر ، گھر والے جانتے ہیں کہ کوئی نفسانی خواہش کا شائبہ بھی موجود نہیں ہے اور گھر کے پلے ہوئے بچے یا بڑے ہوئے ہوئے ایسے ہیں جن سے ہر عورت کی عزت کلیہ محفوظ بلکہ اس کا واہمہ بھی اس کے دماغ میں نہیں آ سکتا.اس ذمہ داری پر اس اصول کے تابع جب گھر میں نوکروں سے نسبتا نرمی کی جاتی ہے.تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہوٹلوں کے بیروں کو بھی اندر بلا لو اور ان کی موجودگی میں بلا ؤ جو تمہارے گھر
خطبات طاہر جلد ۱۲ کے افراد نہیں ہیں.880 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء پس یہ سارے نفس کے بہانے ہیں.اب آپ یہ بتائیے کہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ سہ لوگ ذکر اللہ کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تبتل کے بعد ذکر کا مضمون بیان فرمایا ہے.میں آئندہ خطبے میں انشاء اللہ تعالیٰ اس مضمون کو مزید واضح کروں گا.تبتل ہر ایسی چیز سے ضروری ہے جس کے ساتھ ذکر اللہ اکٹھارہ ہی نہیں سکتا.یہ لوگ جن کی نظریں دنیا کی چمک دمک پر جا پڑیں ہوں اور دنیا کی چمک دمک کی مقید ہو چکی ہوں اس کی قیدی بن چکی ہوں.جن کے اندر ہر وقت یہ تمنا کروٹیں بدلے کہ موقع ملے تو ہم بھی ایسا کریں.جب موقع ملے تو وہ ایسا کرتے ہیں.لیکن ایسے لوگوں کی سوچیں ان کو اللہ کے ذکر کا موقع ہی نہیں دیا کرتیں.ان کی تمناؤں کے رخ بدل چکے ہوتے ہیں.دنیا ان کی مطلوب ہو چکی ہوتی ہے اور یہ خیال کہ عذر سے وہ ایسی بے پر دمجالس میں شامل ہو کے آئیں اور ادھر بیٹھ کے ذکر الہی میں مصروف ہو جائیں.یہ محض بچگانہ خیال ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نصیحت فرمائی ہے اس پر تفصیل سے عمل کریں.ہر اس چیز سے علیحدگی اختیار کر لیں جس چیز کے نتیجے میں آپ لا ز ما ذ کر الہی سے محروم ہو جائیں گے.اور یہ جو مضمون ہے یہ بہت وسیع ہے چند مثالیں میں نے آپ کو دیں ہیں نصیحت کے طور پر لجنہ کا فرض ہے کہ ان باتوں میں نگران رہے.اگر کوئی بلانے والی خود یہ کہ کر نہیں آپ کو اٹھاتی کہ اب ہم ایسی حرکتوں میں ملوث ہونے والے ہیں یا ہو سکتا ہے کہ آپ کے دل پر چوٹ لگے تو قرآن کریم نے جو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم خود اٹھ کے آجایا کرو.اس سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا تیں.یہ ہے اصل معاشرے کا دباؤ.ڈنڈے مارنا نہیں ہے.ڈنڈے مارنے کے نتیجے میں نصیحت نہیں ہوا کرتی مگر معاشرہ اگر وہ طریق اختیار کرلے جن کی قرآن نے نصیحت فرمائی ہے.جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت سے ثابت باتیں ہیں تو نہی عن المنکر کا یہ بہترین انداز ہے اور یہ جو برائیاں بار بار اندر آتی ہیں بار بار دھکے کھا کر باہر چلی جائیں گی.ان کو گھر کے ماحول کے اندر خوش آمدید کہنے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ دوسری طرف سے یہ اثرات جو ہیں یہ بھی پوری طرح بیدار رہیں گے.پس یہ انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والی بات ہے کہ بعض برائیاں آپ نکالیں تو واپس آئیں گی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ معاشرے کی خرابیاں بار بار واپس آنے کی کوشش نہیں کریں گی.مگر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 881 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۹۳ء قرآن کریم نے اس کے جواب میں نہی عن المنکر کرنے والے مامور فرما دیئے ہیں.ہر گھر میں مامور فرمائے ہیں ہر مجلس میں مامور فرمائے ہیں ہر گلی میں، ہر شہر میں.ان کا کام ہے کہ جب آئیں تو وہ مقابل پر آواز اٹھا ئیں.شرافت کی آواز دینی نہیں چاہئے مگر شرافت کی آواز شریفانہ طور پر بلند ہونی چاہئے اور وہ وہی طریق ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا طریق تھا.نصیحت کے نام پر بد تمیزیاں نہ کریں، نصیحت کے نام پر دل آزاریاں نہ کریں مگر دل داری کی خاطر نصیحت سے احتراز بھی گناہ ہے.دل داری کی خاطر خاموشی سے ایک بدی کو قبول کر لینا بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے.یہ درمیان کی جو صراط مستقیم ہے.اس پر قائم رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
882 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 883 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء پھر فرمایا:.سچے ذکر سے بچے اعمال صالحہ ظاہر ہوتے ہیں.تَطْمَينُ الْقُلُوبُ اعمال صالحہ میں ڈھلتا ہے.(خطبه جمعه فرموده ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل ،لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں: الَّذِينَ آمَنُوْا وَتَطْمَيِنُ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ القُلُوبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ طولي لَهُمْ وَحُسْنُ مَابٍ آج چونکہ ذکر کے موضوع پر انشاء اللہ تعالیٰ خطبات کا آغاز ہو گا.گزشتہ کچھ جمعہ میں بھی میرا یہی ارادہ تھا لیکن وقت نہیں مل سکا دوسری باتوں میں سارا خطبے کا وقت گزر گیا.اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو شروع کروں.جس کے عنوان کے طور پر یہ آیت کریمہ میں نے پڑھی ہے.میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ تحکیم کا دوسرا جلسہ سالانہ کل ۲۰ نومبر سے شروع ہورہا ہے اور دو دن جاری رہ کر ۲۱ کو اختتام پذیر ہو گا.اسی طرح مجالس انصار اللہ ویسٹ کوسٹ ریجن یونائیٹڈ سٹیٹ کا امریکہ کا سالانہ اجتماع بھی کل سے شروع ہو رہا ہے اور ۲۱ نومبر تک جاری رہے گا.مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ گوئٹے مالا ۲۰ اور ۲۱ نومبر کو عورتوں کے حقوق پر اجتماع منعقد کر رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 884 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء یہ ایک نیا انداز اختیار کیا ہے انہوں نے ، جو برانہیں کہ اپنے اجتماعات کا ایک عنوان بھی رکھ لیا ہے، جو خصوصیت کے ساتھ اس موضوع پر تقریریں ہوں گی یا نیک نمونے دکھائے جائیں گے.جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان بھی ۲۱ نومبر کو دوسرا نیشنل یوم تبلیغ منارہی ہیں.مکرم ناظر صاحب دعوت و تبلیغ نے خصوصیت سے اس موقع پر کچھ کہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.چونکہ ذکر کا مضمون چل رہا ہے اس لئے ذکر کے حوالے سے جو صیحتیں ہوں گی وہ ساری آپ سب کو جن کا میں نے نام لیا ہے اسی طرح ہیں جس طرح باقی دنیا کی جماعتوں کو ہیں.لیکن ان مواقع پر جبکہ مختلف لوگ مرد و خواتین اکٹھے ہوں گے تو خصوصیت سے ذکر سے متعلق ان کو تربیت دینا بھی آپ کا فرض ہے.یعنی ذکر کا مضمون سن کر جو طبیعتوں میں طبعی طور ایک پر شوق پیدا ہوگا.دلوں میں ہیجان پیدا ہوں گے.ان کو طریقہ سکھانا اور یہ بتانا کہ کس طرح ذکر کے مضمون کو آپ بعد میں جاری رکھیں اور.آگے جا کے دوسروں کو بھی سمجھا ئیں.یہ موضوع ان اجتماعات کا خاص طور پر مقرر کر لیں.علاوہ ازیں میں جماعت پنجم کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ بہت ترقی کرنے والی جماعت ہے، بہت منظم ہے، امیر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو ایسے عطا ہوئے ہیں جو نیک، دعا گو، پاک باطن اور ذاتیات سے بالکل الگ محض لله وقف ہیں اور اب اللہ کے فضل سے جماعت پنجم کو ایسے خدمت کرنے والے بھی عطا ہو گئے ہیں جو امیر کے رنگ میں رنگین ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ کوششیں جو پہلے پھل نہیں لایا کرتی تھیں اب اچانک شمر دار ہو گئی ہیں.اصل میں امیر صرف اکیلا کافی نہیں.اس کے ساتھ اس کے متبعین بھی متقی ہونے چاہئیں اور جب دونوں اکٹھے ہو جائیں، تقویٰ کے مضمون پر اکٹھے ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کھیتیاں جو بظاہر ٹھیک ٹھاک دکھائی دیتی ہیں مگر پھل نہیں دیتیں وہ اچانک پھل دار ہو جاتیں ہیں.تو جہاں جہاں بھی میں نے غور کر کے دیکھا ہے جماعتیں ثمر دار بنی ہیں وہاں ان دونوں باتوں کا دخل ہے.تبھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے.وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( الفرقان: ۷۵) امامت کے بغیر تو دنیا میں کوئی نظام بھی نہیں چل سکتا.لیکن شرط یہ بیان فرما دی.متقی پیچھے چلنے والے ہوں گے تو پھر امامت کی برکت سے وہ فائدہ اٹھا سکیں گے یا امامت ان کے تعاون سے ثمر دار ہو جائے گی.تو یہ دونوں باتیں بیک وقت ضروری ہیں.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کیئم کو خصوصیت سے میں یہ یاد دہانی کراتا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 885 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء ہوں کہ جن نیکیوں کے نتیجے میں آپس میں تعاون اور ایک دوسرے سے محبت اور خدمت کے جذبے سے کام کرنے کی روح کے نتیجے میں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اب پھل دار بنایا ہے.ان نیکیوں کی حفاظت کریں اور ہرگز ان میں کسی قسم کا رخنہ نہ پیدا ہونے دیں.ایک امیر کے ساتھ محبت کرتے ہوئے ،اس کی اطاعت میں، اس کے پیچھے چلیں اور ہر نیک آواز پر لبیک کہنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی توقع سے بھی زیادہ بڑھ کر آپ کو کامیابیاں نصیب ہوں گی.مجالس انصار اللہ ویسٹ کوسٹ ریجن یوایس اے کو خصوصیت سے یہ پیغام ہے کہ جیسا کہ آیت کریمہ میں آپ نے سن لیا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ تو خبر دار ذکرِ الہی سے ہی دل اطمینان پاسکتے ہیں اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے.آپ امریکہ، ایک ایسے ملک میں کام کر رہے ہیں ، یارہ رہے ہیں.جہاں اس کے بالکل برعکس ایک نعرہ ہے جو بلند کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام کوششیں اس نعرہ کو سچا ثابت کرنے کے لئے وقف ہیں کہ خبر دار دنیا کی پیروی ہی میں تمہیں سکون ملے گا اور ساری طمانیتیں دنیا کمانے میں ہیں اور دنیا کی لذتیں حاصل کرنے میں ہیں.تو ان دونوں نعروں کا کتنا فرق ہے.ایک قرآن کا نعرہ ہے وہ آسمان کا نعرہ ہے اور جو امریکہ کا نعرہ ہے وہ زمین کا نعرہ ہے.لیکن یہ نعرہ ایسا ہے جس کے جھوٹ سارے ملک میں ظاہر و باہر ہیں.کوئی دل نہیں ہے جو وہاں طمانیت پاسکا ہو.دولتوں کے انبار لگے پڑے ہیں.عیش وعشرت کے سارے سامان مہیا ہیں.جتنے بھی انسان سوچ سکتا تھا یا بنا سکتا تھا.وہ امریکہ کے قدموں میں پڑے ہیں لیکن ہر دل بے قرار ہے، ہر دل بے چین ہے جتنے زیادہ ڈرگ میں چین ڈھونڈ نے والے امریکہ میں ہوں گے شاید کسی ملک میں اتنے کم ہوں.جتنے پاگل خانے ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو بے اطمینانی کے نتیجے میں پاگل ہوئے ہیں.یعنی ساری زندگی کی بے چینیوں نے ان کو پاگل بنا دیا ہے.جتنے پاگل خانے امریکہ میں آباد ہیں ساری دنیا میں کہیں آباد نہیں.اتنے زیادہ کہ ان پاگل خانوں میں چونکہ وہ سمانہیں سکتے ان سے زائد بچے ہوئے پاگل وہ (Old Peaple Home) میں بھی چلے گئے ، آرام گاہوں میں بھی پہنچ گئے.اور ابھی تک پاگل زیادہ ہیں اور جگہیں کم ہیں.اور نفسیات کے ماہرین نے جو تجزیہ کیا ہے وہ بتاتے ہیں کہ یہ سارے پاگل وہ ہیں جو زندگی کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 886 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء بے اطمینانی سے پاگل ہوئے ہیں.جو دنیا کا سب سے زیادہ امیر ملک، جو دنیا کو امن دینے کا دعویٰ کر رہا ہے.اس کے اپنے گھر امن سے خالی پڑے ہیں.اپنے سینے اجڑے ہوئے ہیں.تو آپ ان کو بتائیں اور خصوصیت سے ان اقوام کو جو صدیوں سے مظلوم ہیں اور اب وہ کسی طرح طمانیت کی تلاش کر رہی ہیں.ان کو سمجھائیں کہ Infriorty Complex یعنی احساس کمتری میں کہیں طمانیت نہیں ملے گی آپ کو.انتقام میں کوئی طمانیت نہیں ہے.دنیا کی لذتوں کی پیروی میں کوئی طمانیت نہیں ہے اگر طمانیت ہے تو ذکر اللہ میں ہے.یہ مضمون جوں جوں آگے بڑھے گا اور کھلتا چلا جائے گا آپ کو نہ صرف سمجھ آئے گی بلکہ دل کی گہرائیوں تک یہ یقین اتر جائے گا کہ قرآن کا یہ دعویٰ سب دعوؤں سے سچا ہے کہ اس دنیا میں طمانیت سوائے ذکر الہی کے اور کسی طرح نصیب نہیں ہوسکتی.مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ گوئٹے مالا نے جو عورتوں کے حقوق پر اجتماع رکھا ہے.یہ مشترکہ اجتماع ہونے کے لحاظ سے اس میں ایک خاص، ایک دلچپسی کی بات پیدا ہو گئی ہے.یعنی عورتیں ہی صرف عورتوں کے حقوق کی بات نہ کریں بلکہ مرد بھی عورتوں کے حقوق کی بات کریں.اس کا اگلا قدم پھر یہ ہونا چاہئے کہ مردوں کے حقوق پر بھی دونوں اجتماع اکٹھے ہوں یعنی صرف ایک طرف کی باتیں نہ ہوں، دوسری طرف کی بھی باتیں ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے کئی مرتبہ بیان کیا ہے.دنیا کی تاریخ میں وہ پہلا مرد جس نے عورتوں کے حقوق کی باتیں کی ہیں وہ حضرت محمد مصطفیٰ تھے اور وہ باتیں فرمائی جو آپ سے پہلے کبھی کسی نے نہیں فرما ئیں اور نہ آئندہ زمانوں میں کبھی کوئی پیدا ہو سکتا ہے جو عورتوں کے حقوق کے متعلق ایسی پیاری تعلیم دے سکے.تعلیم تو آسمان سے اتری اللہ نے نازل فرمائی لیکن جس دل پر نازل فرمائی وہ دل پہلے ہی عورتوں کے لئے ایک حسین اسلوب رکھتا تھا.ایک حسین انداز تھا.پس حضرت خدیجہ سے جو آپ کو حسن سلوک تھا وہ تعلیم کے صلى الله بعد کب ہوا ہے، وہ تو پہلے کا تھا.آنحضور ﷺ نے حضرت خدیجہ سے وحی کے نزول سے بہت پہلے شادی کی اور وہ سارا دور جو آپ کے حسن سلوک کا ہے اس دور میں اور تعلیم کے بعد کے دور میں کوئی فرق نہیں ہے.یہ ایک حیرت انگیز ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ دل جس پر آسمان سے نوراترا تھا وہ مجسم نور تھا اور کوئی ایک ذرہ بھی عورت کے حقوق کی ادائیگی میں آپ نے کمی نہیں فرمائی.ورنہ حضرت خدیجہ اس حوالے میں بعد میں بات کرتیں کہ اللہ نے یہ فرمایا اب مجھے یہ حقوق دو، وہ حقوق دو، زیادہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 887 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء کرو، وہ تو ہمیشہ ممنون رہیں کہ اس سے زیادہ احسان کرنے والا خاوند دنیا میں کسی کو عطا نہیں ہوسکتا.پس وہ وجود جس نے عورتوں کے لئے ناصرف تعلیم دی بلکہ اس کا دل مجسم عورت کے حقوق کے لئے ایک تعلیم تھا.الہبی تعلیم نے اس کے حسن کو اور ابھارا ہے لیکن کردار کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کا کردار عورت کے لئے پہلے بھی ویسا ہی نمونہ تھا.پس اس پہلو پر غور کرتے ہوئے مردوں کو چاہئے ، جیسا کہ خدام الاحمدیہ گوئٹے مالا کو بہت اچھا خیال آیا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی باتیں اپنی مجالس میں کیا کریں.اپنے اجتماعات میں، اپنے جلسوں میں یہ نہ ہو کہ عورتوں کی طرف سے مطالبے ہوں کہ ہمارے حقوق غصب کئے جا رہے ہوں اور پھر آپ کو اس کے اوپر کچھ کہنا پڑے اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ مردوں کے حقوق کی باتیں اپنی مجالس میں کیا کریں اور اپنے اجتماعات میں اور جلسوں میں عورتوں کو سکھائیں کہ انہوں نے کیا حقوق ادا کرنے ہیں اور اس طرح ایک بہترین معاشرہ پیدا ہو جائے گا.حقوق کی طلب ایک نفسیاتی رجحان پیدا کر دیتی ہے اس سے جھگڑے بھی پیدا ہوتے ہیں اس سے سرکشیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں بعض دفعہ انسان اپنے جائز حقوق سے زیادہ مانگنے لگ جاتا ہے.تا کہ گفت وشنید میں کچھ تو ہاتھ آئے اور جھوٹ شامل ہو جاتا ہے مطالبوں میں لیکن جہاں حسن و احسان کا اظہار کرتے ہوئے ادائیگی کی باتیں کی جائیں.مالک خود یہ کہے کہ میں تمہیں یہ بھی دینا چاہتا ہوں، یہ بھی دینا چاہتا ہوں، یہ بھی دینا چاہتا ہوں.اس کے نتیجے میں کوئی جھوٹ شامل نہیں ہوسکتا.وہ اتنا ہی دینے کی باتیں کرے گا جتنا دل آمادہ ہے اور مد مقابل پھر یہ نہیں سمجھتا کہ میرا حق کم دیا گیا ہے.وہ احسان کے نیچے دبتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں اتنا نہ کریں مجھے اتنا ہی کافی ہے.اور یہ روز مرہ کی زندگی میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں.وہ مالک یا کام لینے والے جو محسن ہوتے ہیں ان کے تابع جن لوگوں کو کیا گیا ہے وہ ہمیشہ کوشش کر کے ان کے حق سے زیادہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو ان کو دیا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں یہ بہت زیادہ ہے یہ احسان ہے.تو یہ بہترین رشتہ جو ایک نظام میں ایسا حسن پیدا کر سکتا ہے جو دنیا وی نظام میں متصور ہی نہیں ہو سکتا ، سوچا ہی نہیں جا سکتا.یہ اسلام کے اندر ممکن ہے کیونکہ اسلامی تعلیم اس کی گنجائش رکھتی ہے.عدل کے لحاظ سے بھی پوری ہے اور احسان کے لحاظ سے بھی پوری ہے اور ایتاء ذی القربی کے لحاظ سے بھی پوری اور کامل
خطبات طاہر جلد ۱۲ 888 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء ہے.تو یہ بھی مجھے خیال آیا کہ اس حوالے سے بھی یعنی لجنہ اماءاللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے مشترکہ حوالے سے آئندہ ایسے بھی مضامین زیر نظر رہنے چاہئیں.جن میں عورتیں مردوں کے حقوق کی باتیں کریں اور مرد عورتوں کے حقوق کی.جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان ۲۱ نومبر کو یوم تبلیغ منا رہی ہیں.ہندوستان کی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیداری پیدا ہو رہی ہے.اگر چہ بہت دیر سے سوئے ہیں، بہت لمبے عرصے کے بعد اب آنکھیں کھلنی شروع ہوئی ہیں لیکن جہاں بھی اٹھے ہیں ماحول کو دیکھا ہے، کچھ خیال آیا ہے، کچھ اپنے تلافی مافات کے ارادے باندھے ہیں.یعنی جو کچھ گزر گیا گزر گیا آئندہ ہم کوشش کر کے آگے بڑھیں گے.تو اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے.ابھی بہت منزلیں انہوں نے طے کرنی ہیں.ہندوستان میں جس حالت میں جماعت احمدیہ کو چھوڑ کر، ہندوستان کے مہاجرین پاکستان گئے اس میں اور چند سال پہلے تک کی حالت میں کوئی نمایاں ترقی کا فرق نہیں تھا.بلکہ کئی جگہ نقصان بھی پہنچے.تو اب چونکہ ایک ان جماعتوں سے براہِ راست تعلق پیدا ہو چکا ہے اور اب ٹیلی ویژن کے ذریعے خطبات کے ساتھ جو رابطہ بنا ہے.اس سے خدا کے فضل سے جو اطلاعیں مل رہی ہیں.دور دزار کے وہ لوگ جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ خلیفہ وقت سے وہ مل سکتے ہیں، گفتگو کر سکتے ہیں ، وہ خط لکھ رہے ہیں کہ ہمیں اب سمجھ آنی شروع ہوئی ہے کہ خلافت کیا چیز ہے اور احمدیت کیا ہے اور بڑے نیک ارادے لے کر وہ نئے عزم کے ساتھ میدانِ عمل میں نکلے ہیں.تو ان کے لئے دعا کریں اب یوم تبلیغ نیشنل منایا جا رہا ہے.اس کے مقابل پر ان کی مشکلات بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ دوطرفہ ان کو بلکہ دوطرفہ سے بھی زیادہ سمتوں سے ان کو خطرات درپیش ہوتے ہیں.اول تو جو د یو بند کے علماء اور ان کے ہم مذاق اور ہم مزاج علماء وہ محسوس کر رہے ہیں کہ جماعت وہاں ترقی کر رہی ہے.اور بڑے سخت رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں.جتنی گندی گالیاں پاکستان میں دی جارہی ہیں وہ کوشش کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ گندی گالیاں دی جائیں.جتنے احمدیت پر پاکستان میں جھوٹ بولے جارہے ہیں وہ مقابلہ کر رہے ہیں کہ اس سے زیادہ بولیں.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کے مولوی ہمارے ہی بچے ہیں ناں آخر ہم سے سیکھا ہے.ان بدیوں میں ہم سے کیوں آگے نکل جائیں.تو اس لئے وہ جو وہاں سے جو جھوٹوں کی لسٹیں آ رہی ہیں.حیرت ہوتی ہے کہ بعض مولوی قبر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 889 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء میں پاؤں لڑکائے بیٹھے اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ جتنا بھی جو بول سکے جو جھوٹ اس آخری حد کو پہنچ چکے ہیں اور بعد کی حد پھر وہ موت ہے.پھر موت کے بعد پھر جواب طلبیاں ہیں.تو اس دنیا میں تو جھوٹ کی آخری حدیں چھو چکے ہیں.ان کی رپورٹیں پڑھ کے بجائے ، شروع میں تو تھوڑا غصہ بھی آتا تھا کہ کیا کر رہے ہیں لیکن اب تو غصے سے گزر کر ہنسی آنے لگ گئی ہے.وہ بھی بڑے پاگل ہیں جو مان لیتے ہیں ان باتوں کو احمدی سامنے بس رہے ہیں دیکھ رہے ہیں کون لوگ ہیں، منتفی ، خدا پرست، خدا کا خوف رکھنے والے، عبادتوں میں آگے، نیکیوں میں سب سے پیش پیش، ماحول کے نمونہ آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اور مولوی کی بات سن کے کان کی بات مان رہے ہیں اور آنکھ کی بات نہیں مان رہے.حالانکہ لیس الخبر كالمعاينة (منداحمد: ۱۷۴۵) آنکھ کی دیکھی ہوئی چیز کا خبر کیسے مقابلہ کر سکتی ہے.مگر جہالت کی باتیں ہیں ساری تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان مصیبتوں، ان جہالتوں کے نتیجہ میں جماعت کو نقصان پہنچانے کی بجائے جماعت کے لئے افزائش کا انتظام فرمادے.کیونکہ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ جب یہ جھوٹے گندے پروپیگنڈے اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں اور لوگ پھر دوبارہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جن کے متعلق وہ دلوں میں غلط تصورات قائم کر چکے ہوتے ہیں تو اچا نک آنکھ میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور گویا جیسے ایک دم انسان جھنجھوڑا جائے تو اٹھ کھڑا ہوتا ہے.کہتے ہیں ہاں یہ تو وہی لوگ نہیں ہیں جو ہم سنا کرتے تھے اور اس کے نتیجے میں پھر زیادہ تیزی سے وہ احمدیت میں داخل ہونے لگتے ہیں.تو ہندوستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبولیت کی لہر بھی دوڑ رہی ہے مخالفت کی بھی ہے.لیکن دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حفاظت میں رکھے اور ان کی ہر کوشش کو ان کی توقع سے بڑھ کر مثمر ثمرات حسنہ فرمائے یعنی پھل دار بنادے.دوسرا ان کو خطرہ ہے ہند و مسلمان Jealousy یعنی رقابت کا ،مسلمانوں کی طرف سے پیٹھ میں چھراگھونپا جاتا ہے، اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہی نہیں ہیں ، یہ دنیا کے سب سے گندے لوگ ہیں اور ہندو جانتے ہیں کہ اگر تبلیغ کر کے ہندوستان کو کوئی مسلمان بنا سکتا ہے تو یہ جماعت احمد یہ ہے اس لئے اللہ کا اتنا فضل تو ہے کہ ہندو ناجائز بہانہ بنا کر ابھی تک حملہ آور نہیں ہو رہے.الا ما شاء اللہ ، کہیں کہیں بعض دفعہ کوشش ہوئی اور نہ اتنی انہوں نے شرافت ضرور دکھائی ہے کہ جب تک کوئی قطعی عذر ان کے ہاتھ نہ آئے اس وقت تک وہ نفرت پھیلانے کی کوشش نہیں کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 890 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء مگر ان کی بھی برداشتیں آخر ایک حد رکھتی ہیں.جن علاقوں میں اللہ کے فضل سے ہندوؤں میں سے مسلمان ہونے شروع ہوئے ہیں.وہاں یقیناً طرز عمل بدلا ہے اور عوام الناس کی طرف سے بڑے سخت مطالبے ہوئے ہیں.یہاں تک کہ ان کو گھروں سے نکال دیا جائے یا ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں ورنہ ہم حملے کریں گے، ان کے گھروں کو جلائیں گے.ایسی مہمات وہاں بھی چلائی گئی ہیں مگر ایک فرق ہے کہ وہاں کی حکومت کے کارندے اب تک اس بات پر قائم ہیں کہ اگر شرارت کی پہل دوسروں کی طرف سے نہیں ہوئی یا انہوں نے تمہاری شرارت کا بدلہ شرارت سے نہیں دیا تو ہم ان پر ظلم نہیں ہونے دیں گے.خدا کرے یہ جو بنیادی انسانی حق کی حفاظت کا خیال ہے یہ دنیا میں عام ہو جائے اور بجائے اس کے کہ ہم ہندوؤں کی مثالیں دیں.اس سے ہزار گنا شاندار مثالیں مسلمانوں کی دیں کہ دیکھو پاکستان میں یہ ہو رہا ہے اور انڈونیشیا میں یہ ہورہا ہے.اور ملائیشیا میں بھی ہورہا ہے اور عرب ممالک میں یہ ہو رہا ہے لیکن افسوس یہ کہ سارے نظر دوڑانے کے بعد اس قسم کے انصاف کی مثالیں سر دست تو ہندوستان سے ہی ہاتھ آئی ہیں.پاکستان سے بھی ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ وہاں بدلوگوں نے بدیوں کے ذریعہ شریف لوگوں کی آواز کو دبا دیا ہے ورنہ میرا جائزہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا مزاج منصفانہ ہے.غیر منصف ہو بھی چکے ہوں تو ان کے دل کے اندر شرافت آخر اسلامی قدروں کے نتیجہ میں جو شرافت پیدا ہوتی ہے وہ گھٹ تو جاتی ہے مرنہیں جایا کرتی موجود ہے اور جہاں غیر کا خوف نہ ہو وہاں وہ شرافت دیکھاتے ہیں.میں نے موازنہ کیا تھا اس سے صرف یہ مراد ہے کہ وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کے کارندے غیر کے خوف کے باوجود یعنی اپنے ہم مذہب کے خوف کے باوجود انصاف پر قائم ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ور نہ وہ ہندو قوم سے تعلق رکھنے والے افسران ہیں.وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بدنام ہوں گے ہمیں لوگ کہیں گے کہ تم مسلمانوں کی سر پرستی کر رہے ہو تو اس لئے ہم ہاتھ کھینچتے ہیں.لیکن اس حد تک ان کی اخلاقی حالت نہیں گری اور وہ کہتے ہیں کہ انصاف اگر ہے تو ہم اس کو سہارا دیں گے.لیکن وسیع پیمانہ پر بعض دفعہ پالیسی کے لحاظ سے دب جاتے ہیں.مثلاً اجودھیا میں جو واقعہ ہوا.بابری مسجد کو جو شہید کیا گیا.اس میں بھی آپ یہ فرق دیکھیں گے کہ حکومت نے کھلم کھلا یہ حق نہیں دیا کسی کو بہانے بنائے کہ ہم مجبور ہو گئے یہ ہو کر رہے ہیں اور وہ کرنا چاہتے تھے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 891 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء نہیں کر سکے وغیرہ وغیرہ لیکن کھلم کھلاحق نہیں دیا اور جنہوں نے شرارت کی ان کی مذمت ضرور کی جو پاکستان کے ساتھ میں موازنہ کر رہا ہوں یہ کھول کے بتانا چاہتا ہوں شرافت کا عدم شرافت سے موازنہ نہیں ہے.مگر شرارت کی آواز اتنی خوفناک ہو چکی ہے کہ شرافت ڈر گئی ہے اور دب گئی ہے.یہاں تک کہ جب پاکستان میں مسجد میں جلائی گئیں تو کسی حکومت کے کارندے نے اوپر سے نیچے تک ایک نے بھی مذمت نہیں کی.اب مسلمان ہو کر مسجد میں جلانے کی مذمت کی ان کو تو فیق نہیں مل رہی.ہندوؤں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ شدت سے اس کی مذمت کریں.بلکہ زور سے اس کوشش کو کچل دیں.لیکن انہوں نے اتناز ور کیا ہے کہ اوپر سے نیچے تک عام انسانوں سے لے کر دانشوروں تک، لکھنے والوں سے لے کر شاعروں تک سب نے سارے ہندوستان نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے.آپ کہہ سکتے ہیں جھوٹے منہ سے کی ہے مگر کی تو ہے.جھوٹے منہ کی بات تو اللہ بہتر جانتا ہے.ایک شاعر نے اس موضوع پر جو شعر لکھے ہندوستان کی مشہور اخباروں میں چھپے مجھے اس وقت ان کا نام یاد نہیں لیکن معروف لکھنے والے ہیں.انہوں نے اس موضوع پر ایسی زبر دست نظم کہی ہے.انہوں نے کہا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم نے مسجد مٹائی ہے تم نے دنیا سے مندر سب مٹادیئے ہیں.کیونکہ جب ایک عبادت کرنے والا جب ایک عبادت گاہ کو مٹاتا ہے تو عبادت گاہوں کے نام نہیں ہوا کرتے ہر عبادت گاہ مٹ جایا کرتی ہے.بہت ہی خوبصورت کلام ہے.لیکن پاکستان میں آپ کو اتنی احمدی مسجدوں کی بے حرمتی ہوئی ہے اتنی مسجد میں گرائی گئیں، مسمار کر دی گئیں.کہیں سے مقابل پر یہ اٹھتی آواز دیکھائی نہیں دی.پس میں جو تجزیہ کرتا ہوں انصاف پر کرتا ہوں.ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ مسلمانوں میں سے شرافت اٹھ گئی ہے مگر جو شریر لوگ ہیں ان کی آواز کو انہوں نے غالب آنے دیا ہے اور قانون شریر کی حفاظت کر رہا ہے یہ مصیبت ہے.ہندوستان میں ابھی قانون شریر کی حفاظت نہیں کر رہا.اگر قانون ساتھ ہو جائے تو بہت بڑا نقصان مسلمانوں کو پہنچے.پس اللہ تعالیٰ پاکستان کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے اور دعا کریں کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ ہر خطرے سے محفوظ رکھے.یعنی ہندوستان کی جماعت کو جو تبلیغ کر رہی ہے اور ان سے کوئی ایسی بے وقوفی بھی سرزد نہ ہو کہ دشمن کو جائز بہانہ ہاتھ آ جائے.تبلیغ کے نتیجے میں کچھ تکلیف تو پہنچنی ہی پہنچنی ہے.اگر تبلیغ کامیاب ہو گی تو ناممکن ہے کہ تکلیف نہ ہو لیکن جو اپنی بے وقوفی سے نقصان پہنچتا ہے وہ اس طرح ثواب کا مستحق تو نہیں بناتا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 892 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء جس طرح بغیر کسی بے وقوفی کے محض اللہ کی خاطر، اللہ کی ہدایت کے تابع چلتے ہوئے آپ کام کریں اور پھر نقصان پہنچے یہ دوسری قسم کے نقصان کا اللہ ذمہ دار ہو جایا کرتا ہے اور ایسے بندوں کا جو خالصۂ اللہ کے لئے کام کرتے ہیں اللہ ہر چیز میں کفیل ہو جایا کرتا ہے.پس انشاء اللہ جب میں ذکر کا مضمون آگے بڑھاؤں گا اس میں آپ کو ایسی مثالیں نظر آئیں گی کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں اس کو پوری قرآن اور حدیث کی تائید حاصل ہے.آیات کریمہ جو میں نے تلاوت کی ہیں.دوسورۃ الرعد سے آیت 29 اور 30 لی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کے ذکر پر طمانیت پا گئے.یعنی تسکین مل گئی.آلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ القُلُوبُ خبر دار سنو.اللہ ہی کے ذکر سے دل تسلی پایا کرتے ہیں.الَّذِینَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے.طوبی لھم ان کے لئے بہت ہی قابلِ رشک مقام ہے ایسا مقام جو ممتاز کر دیتا ہے ان کو دوسروں سے طوبی جن معنوں میں جس طرح بولا جاتا ہے اس سے بعض دفعہ یہ شبہ پڑتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ خوشخبری لیکن خوشخبری کے مقام پر بولا جاتا ہے.لیکن لفظ کا مطلب خوشخبری نہیں.طاب کہتے ہیں ایک چیز نتھر کر او پر صاف ستھری ہو جائے.تو ایسا مقام جو بالا ہو اور نظر کے نمایاں اور ممتاز ہو جائے اور قابلِ رشک ہو.بہت پاکیزہ ہو.اس مقام، اس مرتبے ، اس شان کو خوبی کہا جاتا ہے.وَحُسْنُ مَابِ اور بہت ہی خوب صورت دلکش جگہ لوٹنے کی ہے.پہلی بات ان آیات میں یہ قابلِ غور ہے کہ ان دونوں آیات کا تعلق کیا ہے.جہاں تَطْمَةُ الْقُلُوبُ والی بات فرمائی گئی.وہاں اس کے سوا کوئی جزا بیان نہیں ہوئی.جہاں عَمِلُوا الصَّلِحَتِ کی بات ہوئی وہاں ایک جزا بیان ہوئی ہے.جو لگتا ہے کہ بہت ہی شان دار جزاء ہے تو ان دونوں کا آپس میں تعلق کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَينُ قُلُوبُهُمْ کی جو آیت ہے.دوسری آیت اس کے بدل کی حیثیت رکھتی ہے یعنی آمَنُوا دونوں میں مشترک ہے اور ذکر اللہ اور عمل صالح یہ دو الگ الگ چیزیں آمَنُوا کے تعلق سے بیان ہوئیں ہیں.اس میں بہت سے مضامین بیان ہوئے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 893 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء ایک آپ کی توجہ کے لئے میں خصوصیت سے یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ذکر کا ایک جھوٹا تصور جو مسلمان صوفیاء میں رواج پا گیا.اس کی یہ آیت نفی کرتی ہے.بعض صوفیاء یہ سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے مختلف زمانوں میں کہ اللہ کے ذکر کے بعد انسان دوسرے اعمال سے بے نیاز ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ بعض صوفی فرقوں میں یہ تصور بھی جگہ پا گیا کہ ذکر اللہ کرو اور نمازوں سے مستثنی ، ذکر اللہ کرو اور بنی نوع انسان کی خدمت سے مستقلی ، ذکر اللہ کو مختلف گوشوں میں چلے جاؤ اور دنیا سے تعلق کاٹ لو یہی ذکر اللہ کا مفہوم ہے.قرآن کریم نے ان دو آیتوں کو اوپر نیچے رکھ کر ایک خاص ترتیب سے اس مضمون کی کلیۂ نفی فرما دی.فرمایا ہم جس ذکر اللہ کی بات کر رہے ہیں کہ وہ تَظمین القُلُوبُ عطا کرتا ہے وہی ذکر اعمالِ صالحہ میں ڈھلتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ذکر سچا ہو اور اعمال صالحہ نہ رہیں یا اعمالِ صالحہ سے انسان مستغنی ہو سکے تو تکرار کے ساتھ فرمایا الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَبِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ اور الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ یہ عملاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اور ذکر الہی سے ایک مزید بات یہ بیان فرما دی.اعمالِ صالحہ کا تو ہر جگہ ذکر ملتا ہے قرآن کریم میں ، ایمان کے بعد ذکر کے بعد جب اعمال صالحہ کا ذکر ملا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ذکر اعمالِ صالحہ کو ایک نیا حسن عطا کر دیتے ہیں ذکر کے بغیر جو اعمالِ صالحہ ہیں ان میں وہ جان نہیں پڑتی وہ غیر معمولی حسن پیدا نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں طوبی لھم انہیں کہا جا سکے.تو یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تم ایمان لاؤ اور اللہ کا ذکر کرو پھر تمہیں طمانیت نصیب ہوگی اور طمانیت کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر جاؤ.طمانیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دنیا کی جدو جہد سے آزاد ہو جاؤ گے جہاد سے مستغنی ہو جاؤ گے.اس کے باوجود تمہیں ضرور جہاد کرنا ہو گا اس کے باوجود تمہیں دنیا کے تمام مشاغل میں حصہ لینا ہو گا لیکن ہر دنیا کے تعلق میں ذکر الہی دلوں پر غالب رہے گا اور جب ذکر الہی غالب رہے گا تو تمہارے اعمالِ صالح کو ایک نیا حسن عطا ہو جائے گا.ایک نئی شان عطا ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں طوبی لَهُمْ ایک ایسا مرتبہ عطا ہو گا جو سب دوسرے مرتبوں سے ممتاز ہے.ایک قابلِ رشک حالت عطا ہو جائے گی.وَحُسْنُ هَابِ اور تم واپس جس ٹھکانے کی طرف لوٹو گے وہ بہت ہی حسین ٹھکانہ ہے.بہت ہی خوب صورت مقام ہے.یعنی مرنے کے بعد جس کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 894 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء تو ذکر اللہ کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.ذکر اللہ کو ایک انسانی زندگی میں تمام اعمال صالحہ میں ایک غیر معمولی فوقیت حاصل ہے اور اسی مضمون کو قرآن کریم ایک دوسرے رنگ میں بیان فرماتا ہے.عبادت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ اللہ کا ذکر اَكْبَرُ ہے.حالانکہ عبادت بھی تو ذکر ہے اور یہ خیال کر لینا کہ عبادت کم تر ہے اور عبادت کے باہر ذکر زیادہ ہے.یہ اس کا مطلب درست نہیں ہے.اس کے بہت سے اور بھی معنی ممکن ہیں لیکن اس موقع پر میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں.کہ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَر کہہ کے یاد کرایا کہ خالی عبادت کا ظاہر کچھ حیثیت نہیں رکھتا.عبادت کرو اور ظاہری طور پر تمام ارکان ادا کرو اور عبادت کا خیال رکھو.تمام الفاظ جو پڑھے جاتے ہیں وہ پڑھے جائیں، تمام دعا ئیں جو کی جاتی ہیں کی جائیں لیکن اگر ذکر اللہ اس پر غالب نہ رہا تو عبادت میں وہ شان پیدا نہ ہوگی.پس جب آپ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں تو اس طرح بھی مضمون کو ادا کر سکتے ہیں.جس طرح ایک قاری کسی مضمون کو پڑھ رہا ہے اور اس کے ذہن میں وہ مطلب آ رہا ہے ساتھ ساتھ اور اس طرح بھی ادا کر سکتے ہیں کہ اس مطلب کے ساتھ ساتھ کہ دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی لہریں دوڑنے لگیں.دل ان لہروں کے نتیجہ میں یا جھومنے لگیں یا بعض دفعہ تھر تھرانے لگتے ہیں خدا کے رعب سے اور خدا کے عشق سے.تو اگر دلوں میں تموج پیدا نہیں ہوتا اور آپ نماز پڑھتے چلے جاتے ہیں.تو وہ نماز یقیناً نسبتا کم درجہ کی ہے لیکن وہ نماز جس پر ذکر اللہ غالب آجائے وہی اکبر ہے وہ سب سے بڑی عبادت ہے.پس اور معنی ہیں لیکن یہ معانی لازم ہیں اس کے ساتھ اس لئے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ عبادت جو باقاعدہ کی جاتی ہے اس کو چھوڑ دو اس سے بہتر باہر کا ذکر ہے.اس عبادت کے اندر ذکر الہی نہایت ضروری اس عبادت کو زندہ کرنے کے لئے ضروری ہے.اب ذکر کے تعلق میں چند اور باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں پہلے تو میں ابتدائی طور پر جو مختلف اہلِ علم نے ذکر کے متعلق اپنے تصویر پیش کئے ہیں یا صوفیاء اولیاء اللہ نے جن کو ذکر کے تجارب ہوئے انہوں نے اپنے تجربہ کی رو سے ذکر کا ایک مضمون سمجھا ہے.اہل لغت نے ذکر کے کیا معنی لئے ، کیا کیا معانی سمجھے یہ باتیں میں ابتداء آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پھر انشاء اللہ تعالیٰ آیاتِ قرآنی اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے ذکر کے مضمون کو واضح کرتا چلا جاؤں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 895 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء اہل لغت لکھتے ہیں ذَكَرَ الشَّيْءَ ذِكْرًا وَ ذَكَرًا وَ ذِكْرًا وَتَذْكَارًا ، حَفِظَهُ - یعنی ذَكَرَ کا ایک مطلب ہے کسی چیز کو یاد کرنایا گھوٹہ لگا کر حفظ کرتے ہیں.اس کے لئے عرب لفظ ذَكَرَ استعمال کرتے ہیں.اس نے ایک چیز کو یاد کر لیا جس طرح قرآن کریم یا د کیا جاتا ہے جس طرح بچے کتابیں یاد کرتے ہیں.تو ذکر اللہ اس حوالے سے کیا معنی رکھے گا.اس حوالے سے ذکر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس طرح بار بار ذہن نشین کرتے چلے جاؤ کہ جہاں بھی ان سے ملتا جلتا مضمون ہواز خود وہ یاد آ جائیں.جو حافظ قرآن ہوں جن کو اچھی طرح قرآن کریم حفظ ہو جب بھی کوئی آیت سے ملتا جلتا مضمون سامنے آتا ہے اچانک وہ آیت ذہن میں ابھر آتی ہے یہ حفظ ہے تو اللہ کو حفظ کرنے کا کیا مطلب ہے.اللہ کو حفظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ حسنہ پر ایسا غور ہو کہ موقع اور محل کے مطابق جس صفت کا کسی ایسی چیز سے تعلق ہو کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہوں یا سن رہے ہیں یا دیکھ رہے ہیں یا محسوس کر رہے ہیں.اچانک اللہ تعالیٰ کی صفت کا وہ پہلو آپ کے سامنے ابھر آئے.ان معنوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اللہ کا ذکر کیا ہے.پھر ذکر کا مطلب ہے جَرَى الشَّى عَلَى لِسَانِک یعنی ذکر اس بات کو کہتے ہیں جو زبان پر جاری ہو.ذکر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ صرف یاد آ جانا کافی نہیں بلکہ اس یاد کو بیان کرناضروری ہے اور جگہ جگہ آپ کی مجالس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر چلنا چاہے تبھی وہ ذکر بنے گا.یعنی خاموش ذکر بھی ذکر ہی ہے لیکن زبان سے جاری ہونا بھی ذکر کے مضمون میں داخل ہے.پس اللہ اگر ذہن میں ہے اللہ اگر دل میں ہے تو اس کا زبان پر جاری ہونا ایک طبعی اور ضروری امر ہے.پس اپنی مجالس میں اپنی روزمرہ کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور کیا کریں اور یہ وہ ذکر ہے جو نماز کے باہر کا ذکر ہے.کیونکہ نماز میں تو آپ جاتے ہی خدا تعالیٰ سے باتیں کرنے کے لئے ہیں.اپنے گھروں میں ہر وقت مختلف مواقع پر سیر وتفریح میں یا گھر میں بیٹھے ہوئے یا دفتر یا دنیا کے کاموں میں یا تجارتی گفتگو میں یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اگر اللہ آپ کو یاد ہو تو زندگی کے کسی موقعے میں ایسا اتفاق ہو کہ خدا سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو یعنی اس موقع پر خدا کی کوئی خاص صفت یاد نہ آ سکے، ہو ہی نہیں سکتا اس لئے ساری زندگی ذکر سے بھری ہوئی ہے.اگر آپ محسوس کریں اور اس حوالے سے تلاش کیا کریں اور تلاش تبھی آپ کر سکیں گے اگر ذہن میں موجود ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 896 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء پس صفات باری تعالیٰ پر غور کرنا اور اسے یاد کرنا اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے اس مفہوم کو سمجھنا یہ ذکر کے پہلے معنی ہوں گے یعنی حفظ کرنا اللہ کو اور اس کے طبعی نتیجے کے طور پر پھر خدا تعالیٰ زبانوں پر جاری ہونا شروع ہو جائے گا اور ایسے لوگ جن کو خدا حفظ ہو جائے.وہ لا زما اس کا ذکر کرتے ہی رہتے ہیں.حافظ قرآن دیکھ لیں جہاں اچھے حافظ قرآن ہوتے ہیں.بات بات پران کو آیتیں یاد آتی ہیں.بات بات پر وہ بیان کرتے ہیں دیکھو فلاں آیت میں یہ لکھا ہوا ہے.پس اس پہلو سے خدا کو حفظ کریں اور خدا کا ذکر کیا کریں.پھر ذَكَرَ الشَّيْءَ اِسْتَحْضَرَهُ یعنی کوشش کر کے ذہن میں کسی چیز کولا نا یہ بھی ذکر کہلاتا ہے.کوئی چیز آپ کو یاد آ رہی ہوتی ہے جیسے کوئی چیز آپ کے ذہن میں تھی اس وقت اچانک سامنے نہیں آتی.تو آپ سوچتے ہیں بعض دفعہ آپ ماتھا بجاتے ہیں.ٹھہر ٹھہر و ایک بات مجھے یاد آ رہی ہے.کوشش کر کے اس کو بھینچ کر لے آتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق کہ اگر خود بخود بھی وہ ذہن میں نہ ابھرے تو چونکہ دل اٹکا ہوا ہو اس لئے دل چاہے کہ وہ بات آپ کو یاد آئے جو اللہ سے اس تعلق کو جوڑ دے اور کوشش کر کے خدا کے ذکر میں ان باتوں کو تلاش کرنا جو موقع اور محل کے مطابق ہوں یہ بھی ذکر الہی ہے اور اس میں محنت کرنی پڑتی ہے.بعض لوگ بھول جاتے ہیں وہ بعض دفعہ علامتیں بنالیا کرتے ہیں یا درکھنے کے لئے اور اس لئے ذکر کے معنوں میں وہ گانٹھ بھی آتی ہے جو لوگ رو مال میں دے لیتے ہیں یا کپڑے میں دے لیتے ہیں تا کہ اس گانٹھ سے وہ بات یاد آ جائے جس کی خاطر وہ گانٹھ دی گئی تھی.لیکن وہ بات بھی ان کو یاد آتی ہے جن کے ذہن میں گانٹھ کے ساتھ اس کا تعلق قائم رہتا ہے ورنہ بعض لوگ تو گانٹھوں پر گانٹھیں دیتے جاتے ہیں.ایک شخص تھا اس کو کسی نے دیکھا اس کا رومال سارا گانٹھوں سے بھرا پڑا تھا.ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گانٹھیں ہی گانٹھیں چل رہی تھیں.اس نے کہا تمہیں کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا یہ جو گانٹھ میں نے جو دی ہے ناں پہلی اس لئے دی تھی کہ ایک میں بات بھول جاتا ہوں میری بیوی نے مجھے کچھ کہا تھا تو میں نے گانٹھ دے دی کہ مجھے یاد آ جائے تو اس نے کہا پھر وہ دوسری گانٹھ اس نے کہا مجھے گانٹھ کا یا نہیں رہتا کہ کیوں دی تھی.تو وہ دوسری گانٹھ میں نے اس لئے دی تھی کہ پہلی گانٹھ یاد آ جائے.اور اسی طرح تیسری اور چوتھی اور پانچویں.تو اگر اللہ سے تعلق نہ ہو اور خدا سے اتنی واقفیت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 897 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء نہ ہو کہ فور ابات یاد آ جائے تو آپ جتنی مرضی گانٹھیں دے لیں تو وہ گانٹھیں ہی رہ جائیں گی.مگر یہ ذکر کا آخری مقام ہے.اگر اور کچھ نہیں تو کچھ گانٹھیں ہی دے لیا کریں یا درکھنے کے لئے.کچھ فیصلے کر لئے کریں کہ فلاں بات جب ہوگی تو میں اللہ کو یاد کروں گا.مثلاً کھانا کھانا ہے، پانی پینا ہے، اچھی مزے کی چیز حاصل کرنا ہے.آرام کے وقت اور کوئی نعمت کا میسر آ جانا، تجارت میں کامیابی وغیرہ وغیرہ.یہ گانٹھیں ہیں.ان لوگوں کے لئے گانٹھیں ہیں جو عام طور پر ان چیزوں سے گزرتے ہیں اور خدا کو یاد نہیں کرتے کچھ تو ہیں جن کو یاد آتا ہی چلا جاتا ہے.تو آغاز اس سے کریں کہ ان چیزوں کو گانٹھیں بنائیں اور خدا کے ذکر کے لئے بہانے بنالیں اور پھر روزانہ دیکھا کریں کہ گانٹھ کر وہ بات یاد آئی بھی تھی کہ نہیں اس طرح کوشش کر کے آپ دوسرے حصے میں داخل ہو جائیں گے جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ کوشش کر کے بات یاد کرنا اور یہ اہلیت رکھنا کہ یاد آ جائے.اس سے پھر اللہ تعالی نسبتا زیادہ یاد آنا شروع ہو گا اور پھر اس مقام میں داخل ہو جائیں گے کہ جہاں خدا حفظ ہونا شروع ہو جائے گا یعنی از بر ہو جائے گا.خود بخود بغیر کوشش کے اور جب اس مقام پر پہنچتے ہیں تو پھر آپ کثرت سے اللہ کا زبان سے بھی ذکر کرنے لگتے ہیں اور دل سے یہ پھوٹتا ہے اور خود بخود ظاہر ہوتا ہے اور تمام ماحول اس ذکر سے لذت یاب ہوتا ہے.کیونکہ آپ کو جو دل کی کیفیات ہیں وہ بیان کرنے کے لئے دل ہی سے طاقت ملتی ہے.ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ذکر جو ہے وہ لوگوں کے لئے پسندیدہ ہوتا ہے.اس کے بغیر جوذ کر الہی ہے.وہ کسی پر اثر نہیں کرسکتا.چنانچہ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں اگر ان تجارب سے آپ نہ گزرے ہوں اور آپ کسی دہر یہ کوکہیں کہ خدا ہے تو آپ کی آواز میں بھی جان ہی نہیں ہو گی.اس بے چارے نے کہاں سے قبول کرنا ہے.کہتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ اگر دلیل مانگی تو کیا دوں گا از خود فطری جوش سے بات نہیں نکلتی اور چونکہ خدا حفظ نہیں ہوتا اس لئے اس کی تائید میں کوئی دلیل بھی یاد نہیں رہتی.جن تجارب کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں سے آپ گزریں تو ہر تجربہ جس میں خدا تعالیٰ کی کوئی صفت آپ نے سوچی آپ کے حالات پر صادق آئی آپ نے اس سے لطف اٹھایا.خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت بن جاتی ہے.آپ کی زندگی کا ہر واقعہ جس نے خدا یاد دلایا وہ اللہ کے حق میں ایک دلیل ہے.اور آپ کو اس معاملے میں پھر دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکتا تو ذکر کو زبان سے جاری کرنے سے پہلے جو تمام
خطبات طاہر جلد ۱۲ 898 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء مرحلے ہیں.ان کی طرف آپ کو متوجہ رہنا چاہئے.اب میں بعض ذکر کے تعلق میں بعض دوسرے بزرگوں کے اقوال پیش کرتا ہوں.کچھ نئے پہلو اس سے آپ کے ذہن میں آجائیں گے.علامہ قشیری نے ذکر کے متعلق اپنی ایک کتاب میں مختلف بزرگوں کے، صوفیاء کے حوالے اکٹھے کئے ہیں.اور وہ مختلف بزرگوں کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں اور اپنے تجربوں کے لحاظ سے بھی ذکر کے مختلف پہلو بیان کرتے ہیں.سئل الواسطى عن ذكر فقال الخروج من ميدان الغفلة الى فضاء المشاهدة على غلبة الخوف و شدة الحب“ یہاں لفظ میں نے فَضَاءُ پڑھا ہے فِضَاءُ بھی پڑھا جا سکتا ہے.فضاء کا مطلب ہے کھلی ہوا اور فضاء کا مطلب ہے وہ کھلی جگہ جو جنگلوں اور جھاڑیوں کے درمیان اچانک ایک کھلے سے میدان کے طور پر ابھرتی ہے تو چونکہ اس پر کوئی اعراب نہیں ہیں اس لئے دونوں طرح مضمون بہر حال ٹھیک سمجھ آ جا سکتا ہے.واسطی سے جب پوچھا گیا کہ ذکر کیا ہے تو کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا الخروج من میدان الغفلة - انسان غفلت کے میدان میں پڑا رہتا ہے.وہاں سے نکل کر اگر وہ مشاہدہ کے میدان میں آجائے یا مشاہدہ کی فضا میں داخل ہو جائے.تو اس کے نتیجے میں ، مگر اس کے ساتھ شرطیں ہیں کچھ عـلـى غلبة الخوف و شدة الحب.یہ واقعہ اس طرح ہو کہ دل پر اللہ کا خوف غالب ہو اور دل پر اللہ کی محبت بھی غالب ہو.بیک وقت خوف اور محبت دل پر غلبہ کر جائیں اس حالت میں جب وہ غفلت کے میدان سے نکل کر مشاہدہ کے میدان میں یا مشاہدہ کی فضا میں داخل ہوتا ہے اس کا نام ذکر ہے.تو یہ زبان آپ سمجھے کہ نہیں کیا کہنا چاہتے ہیں.اس پر غور کریں اور سمجھیں کہ یہ بزرگ صوفی کہ جنہوں نے زندگیاں گزاری ہیں.ذکر الہی کو سمجھنے میں، اس پر غور کرنے میں، اس میں مصروف رہ کر.انہوں نے اپنی زندگیوں کے خلاصے کچھ نہ کچھ بیان کئے ہیں.اور یہ باتیں قابل غور ہیں.غفلت کے میدان سے مراد یہ ہے کہ میدان تو دونوں زندگی کے میدان ہی دراصل ہیں.دو الگ الگ میدان نہیں ہیں.زندگی کے میدان میں آپ غفلت کی حالت میں بھی آپ وقت گزار سکتے ہیں.آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ گرد و پیش میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے آپ تنہا ہیں اس میدان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 899 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء میں کہ اچانک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو شعور عطا ہوتا ہے.اور آپ مشاہدہ کے میدان میں داخل ہوتے ہیں.جو باتیں ابھی میں نے پہلے آپ سے کیس تھیں وہ دراصل مشاہدہ کے میدان کی باتیں تھیں.کھانا تو آپ روز کھاتے ہیں.ذکر کے بعد بھی کھائیں گے تو میدان تو وہی رہا مگر ایک غفلت کی حالت میں کھانا تھا اور ایک شعور کی حالت میں.جب شعور کی حالت میں کھاتے ہیں تو کھانے کے ساتھ ایک اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور وہاں اللہ تعالی یاد بھی آتا ہے اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں بڑھتا ہے اور اس کے نتیجے میں کئی قسم کے آپ انسانیت کے راز سکھ لیتے ہیں.ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے.کہ ان کے پاس کچھ مرید بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں ایک لڈوؤں کا ٹوکرا آیا تو ٹو کرا ان کو پیش کیا گیا تو انہوں نے سب میں وہ لڈو بانٹے اور ایک لڈو خود بھی اٹھا لیا.مریدوں نے مزے سے جلدی جلدی سے وہ لڈو کھا لئے.ختم ہو گئے سارے، ٹوکرا ہی ختم ہو گیا اور ان کے ہاتھ میں وہ لڈو اسی طرح پکڑا ہوا تھا اور وہ ایک ایک دانہ کھا رہے تھے اور کھاتے تھے اور پھر غور میں مبتلا ہو جاتے تھے.یہ مراد نہیں ہے کہ ہر کھانے والا اسی طرح کھائے مگر بعض دفعہ بعض خاص کیفیتیں تعلق باللہ کی انسان پر اس طرح غالب آ جاتی ہیں کہ اس طرح کھانے میں بھی مزہ آتا ہے.اور ایک خاص مزہ آتا ہے.تو ایک شاگرد نے عرض کیا ہم تو لڈو کھا گئے، مزے کئے ، آپ ایک ہی کو پکڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں.دانہ دانہ کھا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے.تو انہوں نے کہا کہ میں سوچ رہا ہوں ساتھ ساتھ کہ یہ جولڈو ہے اس میں جو میرا استعمال ہوا تھا.وہ کیسے بنا تھا ؟ مجھے خیال آتا ہے کہ او ہو ایک کوئی زمیندار کسی جگہ علی السویرے اٹھ کے جبکہ ابھی دنیا آرام کر رہی تھی.موسم سردی کا تھا یا گرمی کا نکلا.اور اس نے ایک بل اٹھایا ساتھ اپنے بیلوں کو جوتا اور دیگر آلات لے کر وہ کھیتوں کی طرف روانہ ہوا.اس نے وہاں محنت کی گندی جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ کر باہر پھینکا اور اس محنت کے وقت اس کو کیا پتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس سے یہ کام کیوں لے رہا ہے اس کو کیا پتہ تھا کہ اس محنت کے پھل کا ایک دانہ میرے منہ میں بھی آئے گا لیکن وہ ایک غفلت کی حالت میں کام کر رہا تھا.لیکن میں نے سوچا کہ اوہو یہ تو خدا تعالیٰ نے جو تسخیر کائنات کی ہے وہ اس طرح کی ہوئی ہے کہ بے تعلق دور دراز کے لوگ کچھ کام کر رہے ہیں اور انسان کو پتا ہی نہیں کہ دراصل وہ اس کی خدمت کر رہے ہیں.چنانچہ اس نے محنت کی اور پھر میں نے سوچا کہ او ہو یہ بل تو لکڑی سے بنا ہو گا اور ساتھ اس کے لوہے کا پھل بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 900 خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء ہوگا اور بیل بھی آخر کہیں سے آئے ہیں.ان پر بھی منتیں ہوئی ہیں.تو اس سے پہلے ایک ترکھان تھا جو محنت کر رہا تھا.اس نے لکڑی کو خاص طور سے کاٹا اور پھر مجھے خیال آیا کہ اوہو اس لکڑی سے پہلے ایک لکڑ ہارا بھی تو ہو گا.اس نے جا کے جنگل سے وہ لکڑی کاٹی ہوگی اور وہ پھر جنگل کیسے ہو گا.کہتے ہیں ایک دانہ تو ختم ہو گیا لیکن یہ مضمون تو جاری تھا پھر ایک اور دانہ پھر اور دانہ اور اس طرح مضمون سے مضمون نکلتا چلا گیا اور پھر میٹھا بھی بنا ہے اس کے بعد، پھر گھی بھی آیا ہے کہیں سے ، پھر وہ کڑاہ، جس میں حلوائی نے وہ لڈو بنائے اور پھر وہ نظام تجارت جس کے ذریعے چیزیں بکیں اور دوکان دار تک پہنچی اور پھر آگے آئیں اور پھر وہ کاغذ جن میں لیٹے گئے یا ٹوکرے جنہوں نے بنائے.تو کہتے ہیں یہ مضمون تو ایک لامتناہی مضمون تھا.اور اس مضمون کا جو مجھے مزہ آ رہا تھا وہ اس لڈو میں کہاں ہے.تو لڈو کا مزہ تو جب اللہ کی یاد میں تبدیل ہوا ہے تو ایک حیرت انگیز لطف اس میں پیدا ہو گیا تو یہ ہے مشاہدے کی فضا یعنی جب صوفیاء بات کرتے ہیں کہ غفلت کی فضاء سے ، میدان سے نکلو اور مشاہدے کے میدان میں داخل ہو تو مراد یہ ہے کہ میدان تو وہی ہے یہ دو میدان نہیں ہیں.اسی میدان میں ہوش آ جاتی ہے اور ہوش آتے آتے انسان وہ چیزیں دیکھنے لگتا ہے جو پہلے ہی موجود تھیں اس کو نظر نہیں آرہیں تھیں.اور پھر غلبہ خوف اور شدت حب اس کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.بظاہر یہ لگتا ہے کہ عبارت کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے میدان میں داخل ہو حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہوش آنے کا نتیجہ ہی خوف ہے.جس چیز کو خطروں سے آگاہی نہ ہو.وہ بے خوف ہوتا ہے.اس کو کیا پتا کہ آگے میرے لئے کیا پڑا ہوا ہے.جب اس کو بتایا جائے کہ کیا ہے اور کیا کیا ہلاکتوں کے سامان اس کا انتظار کر رہے ہیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں.تو لاعلمی بھی ایک قسم کی بہادری پیدا کرتی ہے جو جہالت کی بہادری ہے وہ بچی بہادری نہیں ہے.تبھی بعض تو میں شراب پی کرلڑا کرتی ہیں اور ویسا نہیں لڑا جا تا.ہمارے ہندوستان میں بعض غیر مسلم تو میں لڑائی سے پہلے ضرور شراب پیا کرتی تھیں.کیونکہ شراب کے نشے میں آکر ان کو اپنے خطروں کا پتہ نہیں لگتا تھا کہ خطرے کیا کیا ہیں اور وہ بس ایک دھکے کے ساتھ زور سے داخل ہو جاتے تھے میدانِ جنگ میں جتنے مارے گئے مارے گئے.بعد میں ہوش آتی تھی کہ کیا واقعہ ہو گیا ہے.تو اس لئے علم کے نتیجے میں خوف پیدا ہوتا ہے تو جب آپ ذکر کریں گے تو پھر پتا لگے تو کہ اوہو ان باتوں سے میں تو غافل رہا ہوں.ان میں مجھ سے کوتاہیاں ہوئی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 901 خطبہ جمعہ ۱۹/ نومبر ۱۹۹۳ء ہیں اور ان معاملوں میں میں مجرم بن رہا ہوں اور دوسری طرف علم محبت پیدا کرتا ہے.جب اللہ کے حوالے سے آپ زندگی گزارتے ہیں.تو آپ کے دل میں بے پناہ محبت اس وجود کی پیدا ہوتی ہے جس نے آپ کی خاطر یہ سب کچھ کیا ہے.تو جب واسطی نے یہ کہا کہ غفلت کے میدان سے مشاہدے کے میدان میں نکلو تو بالکل درست کہا ہے.اور یہ ایک محض سہانا ایسا کلام نہیں جس طرح صوفی اپنے دکھاوے کے لئے بنا لیتے ہیں گھڑ لیتے ہیں ایک صاحب تجر بہ صاحب مشاہدہ کا کلام ہے.ذوالنون مصری کہتے ہیں :.مَنْ ذَكَرَ اللهَ تَعَالَى ذِكْرًا عَلَى الْحَقِيقَةِ نَسِيَ فِي جَنْبِ ذِكْرِهِ كُلَّ شَيْءٍ وَ حَفِظَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ كُلَّ شَيْءٍ وَ كَانَ لَهُ حِفْظًا عَنْ كُلَّ شَيْءٍ“ اس کا ترجمہ اب میں پڑھ دیتا ہوں لیکن اس مضمون کو انشاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان کروں گا.وقت نہیں رہا.ذوالنون مصری کہتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا فی الحقیقت ذکر کیا.وہ ذکر ہر دوسری یاد کو مٹا دیتا، یعنی لا الہ کا مضمون اس کو تب سمجھ آتا ہے جب الا اللہ کی حقیقت پر غور کرے اور جب اللہ کی حقیقت پر فی الواقعہ غور کرتا ہے تو تب وہ محسوس کرتا ہے کہ ارد گرد کوئی بھی باقی نہیں رہا.سب مٹ گئے وہ اکیلا وہی اور خدارہ گیا ہے اور اللہ اس کے لئے ہر چیز پر اس کا محافظ بن جاتا ہے.جب غیر اللہ کے سہارے ٹوٹ گئے، کوئی رہا ہی نہیں میدان میں جس کو پکارے جس کو آواز دے تو پھر اس کی حفاظت کا سارا ذمہ خدا تعالیٰ کے اوپر ہو جاتا ہے.اس مضمون پر انشاء اللہ آئندہ میں ایک حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی حدیث پیش کر کے پھر باقی مضمون کو وہاں سے پھر بیان کریں گے.
902 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 903 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء سب سے بڑاذ کر الہی نماز ہے.مختلف مسلمان فرقوں کے ذکر الہی کے طریق اور تصورات (خطبه جمعه فرموده ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں:.وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى إِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى إِنَّ السَّاعَةَ أُتِيَةٌ أَكَادُ أَخْفِيْهَا لتجرے كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى ( :۱۴-۱۲) پھر فرمایا:.ذکر کے مضمون میں جہاں میں نے گزشتہ خطبہ کو ختم کیا تھا اس سے آگے آج انشاء اللہ مضمون کو چلاؤں گا لیکن اب جیسا کہ روزمرہ کا ایک رواج بن چکا ہے اور ایک مجبوری بھی ہے کیونکہ دنیا میں جو مختلف اجتماعات ہو رہے ہوتے ہیں ان کی طرف سے ایسی خواہش کے اظہار ملتے ہیں کہ ہمارا ذ کر خیر بھی اس مجلس میں چلے تا کہ سب دنیا سے ہمیں دعائیں ملیں.پس اس پہلو سے اگر تھوڑا سا وقت ہر جمعے پر ان کے ذکر میں خرچ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.اللہ تعالیٰ ان سب اجتماعات کو جن کی میں آگے فہرست پڑھتا ہوں اور ان کی تفصیل بیان کروں گا اپنے فضل کے ساتھ اپنے ذکر کی آماجگاہ بنا دے.آج خصوصیت سے ان اجتماعات کے لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ یہ ساری مجلسیں اللہ کے ذکر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 904 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء کی مجلسیں بن جائیں اور آئندہ بھی ہمارے اجتماعات ہمیشہ ذکر کے لئے خالص ہو جایا کریں.ذکر کے سلسلہ میں میں خصوصیت سے یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور یہی مضمون میرے خطبے کا ہوگا کہ سب سے اہم ذکر عبادت کا قیام ہے یعنی اس نماز کا قیام ہے جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا اور جس کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاک سیرت میں جاری کر کے دکھایا ہے.سب سے اعلیٰ ، سب سے افضل ، سب سے بہتر ذکر وہی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو باقی ذکر کی پھر کوئی قیمت نہیں رہتی، کوئی اہمیت نہیں رہتی پس نمازوں پر بہت زور دیں.وہ اجتماعات جو آج ہونے ہیں یا کل شروع ہوں گے.ان سے پہلے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ایک یادداشت دی ہے کہ گزشتہ خطبے پر تین اجتماعات کا ذکر نہیں ہو سکا تھا چونکہ ان کی طرف سے شکوہ آتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا نام آج لے دیا جائے خواہ اجتماعات پہلے ہو چکے ہوں.پس مجالس انصار اللہ ضلع سکھر قصور اور ساہیوال کے یہ تین سالانہ اجتماعات تھے جن کا ذکر رہ گیا تھا.مجلس انصاراللہ ضلع مظفر گڑھ کا ایک روزہ سالانہ اجتماع آج ۲۶ نومبر کو منعقد ہو رہا ہے.مجلس انصار اللہ ہمبرگ کار ریجنل سالانہ اجتماع کل منعقد ہوگا.مجلس خدام الاحمد یہ سری لنکا کا سالانہ اجتماع پرسوں ۲۸ نومبر کو منعقد ہو گا.اس کے علاوہ آج مانچسٹر میں لجنہ اماءاللہ کی بھی کوئی میٹنگ ہے یا اجتماع ہے انہوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کو بھی دعا میں یادرکھیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ (طه) (٤٦) کہ اللہ کا ذکر اکبر ہے.اس سے بعض صوفیاء نے اور بعض مفسرین نے یہ مطلب بھی نکالا ہے کہ نماز کے مقابل پر اللہ کا ذکر جو ساری زندگی پر پھیلا پڑا ہو وہ اکبر ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے.یہ آیت میں آپ کے سامنے دوبارہ پڑھ کر سنا تا ہوں اور اس کی ترتیب سے آپ خود ہی سمجھ جائیں یا سمجھ جانا چاہئے کہ یہاں نماز کے ذکر کا تذکرہ چل رہا ہے نماز سے باہر کا نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ ( :٢٢) اس میں سے پڑھ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ جو تجھ پر وحی کی جارہی ہے مِنَ الْكِتُبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ اور سب سے اہم مضمون کتاب میں نماز کے قیام کا مضمون ہے.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ نماز کے فوائد میں سے یہ دو فوائد ہیں کہ نماز
خطبات طاہر جلد ۱۲ 905 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء فحشاء سے روکتی ہے اور منکر سے روکتی ہے.اب یہ دو منفی صفات ہیں جن کا ذکر ہے اگر یہیں بات ختم سمجھی جائے اور نماز کے علاوہ کسی اور بات کا ذکر شروع ہو جائے تو گویا نماز کا مقصد صرف بعض چیزوں سے روکنا ہے بعض فوائد عطا کرنا نہیں ہے.یہ غلط فہمی پیدا ہونی ہی نہیں چاہئے کیونکہ قرآن کے بیان کا انداز یہ ہے کہ نماز فحشاء سے روکتی ،منکر سے روکتی ہے.وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ لیکن سب سے بڑا فائدہ نماز کا یہ ہے کہ تمہیں ذکر عطا کرتی ہے اور ذکر ان سب چیزوں سے بڑا ہے.اس میں ایسی ترتیب ہے جس کا تعلق اسی مضمون سے ہے جو میں پہلے بیان کرتا آیا ہوں یعنی پہلے تبتل الی اللہ ہوتا ہے پھر ذکر چلتا ہے.فحشاء کے ساتھ اگر تعلق جڑا رہے اور ناپسندیدہ باتیں دل میں جمی رہیں تو پھر ذکر اللہ کا کیا سوال پیدا ہو گا ؟ پس فرمایا کہ نماز پہلے تمہیں پاک صاف کرتی ہے تمہارے زنگ دھوتی ہے جس طرح قلعی گر کو برتن دیئے جاتے ہیں تو پہلے وہ تیزاب سے اس کے گندا تارتا ہے اور جب وہ اس قابل ہو جائیں کہ قلعی کو قبول کریں تو پھر قلعی کا رنگ جمایا جاتا ہے.پس یہ قرآن کریم کا طرز بیان ہے اس سے یہ معنی نکالنا کہ گویا نماز کے ذکر کو چھوڑ کر نماز سے باہر کے ذکر کی بات شروع ہوگئی ہے اور وَلَذِكْرُ اللهِ أكبر کہہ کر بیان فرمایا کہ نماز تو بری باتوں سے روکے گی لیکن جب نماز سے فارغ ہو جاؤ گے اور پھر ذکر کرو گے تو وہ بہت بڑی بات ہے.قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے کہ ذکر کا تعلق نماز سے ہے.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى تجھے میں نے چن لیا ہے.پس غور سے اس بات کو سن جو تجھ پر وحی کی جارہی ہے.لا إِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى یقیناً میں ہی وہ خدا ہوں جو ایک ہی ہے "لَا اِلهَ اِلَّا آنا ، میرے سوا اور کوئی خدا نہیں کوئی معبود نہیں ” فَاعْبُدنی پس میری عبادت کر.وَاَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی اور نماز کو ،، قائم کر.میری عبادت کر اور نماز کو میرے ذکر کے لئے قائم کر.پس عبادت کا تو مقصد ہی ذکر کا قیام ہے اور اگر ذکر نہ ہو تو عبادت ایک خالی کھوکھلا برتن رہ جاتا ہے.پس وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ کا تعلق قیام صلوۃ سے ہے اور جملہ عبادات سے ہے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 906 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء ذکر الہی نماز میں تب نصیب ہوگا اگر پہلے اپنے دل کو فحشاء اور منکر سے پاک کر لیں.یہ وہ مضمون ہے جس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اسے خوب غور سے سمجھ کر پھر نماز کو قائم کرنا چاہئے.اب آپ دیکھیں کہ اگر نماز پڑھتے وقت ایک انسان کا قلبی تعلق بے ہودہ باتوں سے جڑا رہا ہو.وہ کہیں سے دامن چھڑا کر آیا ہے لیکن دل و ہیں اٹکا ہوا ہے تو عبادت میں ذکر الہی کیسے قائم ہوسکتا ہے.چند فقرے منہ سے وہ نکالے گا تو پھر ذہن ان چیزوں کی طرف لوٹ جائے گا جہاں دل اٹکا پڑا ہے.کہیں پیاروں کی یاد آئے گی، کہیں تجارت کے مسائل اس کے ذہن کو اپنی طرف کھینچ لیں گے، کہیں کوئی ٹیلی ویژن کے پروگرام اس کو اپنی طرف مائل کرلیں گے، کہیں کوئی کھیلیں یا اور دلچسپیوں کے مشاغل، سیر و تفریح کی باتیں اسے اپنی طرف مائل کرلیں گی اور کھینچ لیں گی.تو ذکر الہی کا بیچارے کو کہاں سے موقع ملے گا.ذکر الہی کا مضمون تو یہ ہے کہ ہر حالت میں انسان کا دماغ اس حالت سے چھلانگ لگا کر اللہ کے ذکر کی طرف مائل ہو جائے اور قرآن کریم نے ذکر کا مضمون اسی طرح بیان فرمایا ہے.الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (ال عمران : ۱۹۲) وہ زمین و آسمان کو دیکھتے ہیں اس کی سیر کرتے ہیں اس کے حسن سے لذت یاب ہوتے ہیں لیکن اس طرح کہ ذہن ان چیزوں کو دیکھ کر خدا کی طرف دوڑتا ہے اور دل اللہ کی طرف اچھلتا ہے اور ہر بات سے ان کو اللہ یاد آنے لگ جاتا ہے.پھر راتوں کو سوتے ہوؤں کا نقشہ یہ کھینچا.تتجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجدہ: ۱۷) کہ ان کے پہلو نیند کی لذتوں کے باوجود بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں.کس حالت میں الگ ہوتے ہیں يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا اپنے رب کو وہ پکار رہے ہوتے ہیں، خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی.تو ذکر الہی ساری زندگی پر حاوی ضرور ہے لیکن مراد یہ ہے کہ زندگی کا ہر شغل، زندگی کا ہر مشغلہ، زندگی کی ہر دلچسپی اللہ کی طرف ذہن کو مائل کر دے اور دل اس طرح اس طرف اچھلے جس طرح بچہ ماں کی چھاتیوں کی طرف دودھ کے لئے اچھلتا ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے کہ یہاں ذکر ختم ہو جائے گا اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 907 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء یہی ذکر کافی ہے.یہ ساری چیزیں نماز کی تیاری کے لئے ہیں اگر یہ ماحول قائم ہوگا تو پھر نماز میں ذکر ہو سکے گا ورنہ نہیں ہوگا اور نماز میں یوں لگے گا کہ عارضی طور پر ہم ان دنیا کی لذتوں سے چھٹی لے کر آئے ہیں اور یہاں سلام پھیر اوہاں اللہ میاں کو سلام اور واپس دنیا میں مائل.لیکن خدا نے جس دنیا کا نقشہ کھینچا ہے وہاں دنیا کا ہر مشغلہ خدا کی طرف پھینک رہا ہے، انسان کو اس کی طرف کھینچ رہا ہے، اس کی طرف منتقل کر رہا ہے.ذکر الہی سے متعلق جو مختلف صوفیا نے سمجھا، یا کہا، یا اس کے مطابق تعلیم دی اس کا مختصر ذکر کرنے کے بعد پھر میں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے قرآن میں بیان فرمودہ ذکر کی تعریف کروں گا اور آپ کو سمجھاؤں گا کہ حقیقی ذکر کیا ہے؟ لیکن اس سے پہلے اہل لغت نے جو قرآن کی مختلف آیات کو دیکھ کر ذکر کے معانی بیان کئے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ذکر کے معنی ہیں شہرت، نماز، دعا، قرآن کی تلاوت ، تسبیح ، شکر ، اطاعت، اللہ کی حمد و ثنا، شرف اور عزت.جیسا کہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اِنَّهُ لَذِكْرُ لَكَ وَلِقَوْمِكَ (الزخرف: ۴۵) دیکھ یہ باتیں تیری قوم کی عزت و شرف کے لئے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ تو ہیں مختلف تراجم جو ذ کر کے مختلف محل اور موقع کے مطابق کئے گئے ہیں لیکن اس سے بات پوری طرح سمجھ نہیں آسکتی.صرف ترجمے سننے سے تو آپ کو کچھ مضمون سمجھ نہیں آئے گا.اب میں آپ کے سامنے پہلے صوفیاء اور دیگر بزرگان امت کے حوالے سے ذکر کے اس مضمون کو پیش کرتا ہوں جو انہوں نے سمجھا اور اس پر عمل کیا اور اس پر لوگوں کو عمل کی طرف بلایا لیکن اس سے پہلے میں آپ کو بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بہت سے ایسے ذکر کرنے والے فرقے پیدا ہوئے جو ذ کر کے مفہوم کو پوری طرح سمجھ نہ سکے یا آغاز میں خالصہ اللہ کے ذکر کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا لیکن بعد میں آنے والے اس مضمون سے غافل ہو کر رسم و رواج کے پابند ہو کے رہ گئے اور ذکر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا.ان سب فرقوں پر اسی آیت وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ کا اثر معلوم ہوتا ہے.آیت کریمہ میں جو فرمایا گیا ہے وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَر کہ اللہ کا ذکر اکبر ہے تو اس سے بعض صوفیاء نے یہ سمجھ لیا کہ نماز جو ہے وہ نسبتا معمولی حیثیت کی چیز ہے اگر ذکر میں مشغول ہو جاؤ تو پھر نماز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.چنانچہ ظلم کی حد ہے کہ ایسے فرقے بھی ایجاد ہوئے جنہوں نے امت کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 908 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء نمازوں سے تائب ہونے کی تلقین کی اور کہا کہ دن رات ذکر میں مصروف رہو نماز کی کوئی ضرورت نہیں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ذکر ایجاد کرنے کی کوششیں کی گئیں اور وہی مضمون ان پر صادق آیا کہ ماں سے زیادہ چاہے پھیپھے کٹنی کہلائے.“ ذکر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنا ہے جن کو اللہ نے مجسم ذکر قرار دیا ہے یعنی ایسا وجود ہے جس کے وجود میں اور ذکر میں فرق کوئی نہیں رہا.ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں جس طرح لوہا مقناطیس بن جاتا ہے اسے لوہا بھی کہہ سکتے ہیں اور مقناطیس بھی کہہ سکتے ہیں.لوہا جب آگ میں پڑ کر سرخ ہو جاتا ہے اور آگ کی حرارت کو اپنا لیتا ہے تو آگ اور لو ہے میں فرق کوئی نہیں رہتا.پس قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم مجسم ذکر الہی تھے.پس ذکر سیکھنا ہے تو آپ سے سیکھیں اور آپ نے قیام نماز پر اتناز ور دیا ہے کہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہمیشہ نماز میں انکا رہتا تھا ایک نماز اور دوسری نماز کے درمیان ہر وقت دل میں یہ تمنا تھی کہ پھر میں دوبارہ مسجد میں با قاعدہ نماز کے لئے جاؤں اور اسی کیفیت میں راتوں کو اٹھتے تھے اور بعض دفعہ راتیں اس طرح جاگ کر گزاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حکماً آپ کو روکا کہ اتنی عبادت نہ کیا کرو کچھ کم کر لو اور بدلتے ہوئے وقتوں کے لحاظ سے کبھی کچھ زیادہ کر لی لیکن آرام کے لئے بھی وقت رکھو.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر اس کے حوالے کے بغیر جب بھی قرآن کریم پر غور ہوگا تو وہاں دھو کے کا امکان ہے جو بعض دفعہ واضح اور بعض دفعہ یقینی ہو جایا کرتا ہے پس میں جو مثالیں دوں گا اس سے یہ مراد نہیں کہ قرآن کریم نے یہ ذکر پیش کئے تھے.قرآن کریم نے وہی ذکر پیش کئے ہیں جو ہمیں سنت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتے ہیں.ان کے سوا ذکر کی کوئی حقیقت نہیں ہے مگر بعض ایسے بزرگ تھے جنہوں نے وقت کی ضرورت کے لحاظ سے بعض دفعہ ذکر کو عام لوگوں کے لئے آسان بنانے کے لئے کچھ ترکیبیں سوچیں.میں سمجھتا ہوں ان پر حرف نہیں ہے وہ خود بزرگ تھے.نیک لوگ تھے اگر سوچ میں ا سمجھ میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے لیکن ان کے ذہن میں غالباً ایسے نو مسلم تھے جن پر عبادت آسان نہیں تھی.پس آغاز میں انہوں نے عبادت سے تو نہیں روکا ہو گا.میں ہرگز یقین نہیں کر سکتا کہ ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 909 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء سلسلوں کے جو بانی مبانی تھے انہوں نے عبادت کے مقابل پر ذکر پیش کیا ہو گا لیکن عبادت کا چسکا پیدا کرنے کے لئے عبادت سے تعلق جوڑنے کے لئے ، انہوں نے ذکر کی بعض ایسی صورتیں پیش کیں جس سے عامۃ الناس کو ذکر میں دلچسپی پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پھر عبادت میں بھی لذت آنی شروع ہو جائے مگر بعد میں آنے والوں نے ان باتوں کو بگاڑ لیا.اب میں ان سلسلوں کا مختصراً ذکر کروں گا.چشتیہ ایک مشہور سلسلہ ہے ان کے ہاں کلمہ شہادت پڑھتے وقت الا اللہ پر خاص زور دیا جاتا ہے اور اس کو وہ ضر میں لگانا کہتے ہیں لا اله الا الله الا اللہ.اور یہ ضر میں لگاتے لگاتے وہ نفسیاتی طور پر اتنے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کو یوں لگتا ہے گویا ہر ضرب دل پر لگ رہی ہے سارا وجود کا اپنے لگ جاتا ہے اور جب آپ ان کو یہ کرتے دیکھیں تو واقعہ لگتا ہے کہ وہ ذکر سے پوری طرح مغلوب ہو چکے ہیں لیکن یہ ضربیں آپ کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کبھی دکھائی نہیں دیں گی.صحابہ کے اندر آپ کو یہ ضر میں دکھائی نہیں دیں گی اس لئے جو بھی رعب کا نظارہ ہے یہ ظاہری آنکھ کا ہے.بگڑے ہوئے وقتوں میں سادہ لوح لوگ ان باتوں سے بہت مرعوب ہو جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں دیکھو یہ ہے ذکر.ذکر کر رہا تھا اور تڑپ اٹھا اور اس کا بدن لرز نے لگ گیا.لیکن اگر اس ذکر کے سوا اسی طریق پر اور لفظ کہہ کرضر میں لگاؤ تو کیا اس سے بھی اسی قسم کا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ نفسیاتی کیفیات ہیں.ذکر حقیقی اگر ملے گا تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے گا.وہاں بھی بدن کا رواں روواں کانپنے لگتا ہے اور ساری جلد متحرک ہو جاتی ہے.اس ذکر سے جس کو آپ حضرت محمد رسول اللہ الیہ کی زبان سے سنیں گے اور اس کیفیت سے جو کیفیت آنحضور ے اور آپ کی غلامی میں آپ کے صحابہ کی ہوا کرتی تھی اس سے بھی دل لرز اٹھتے ہیں.اب یہ جو لوگ ہیں یہ عموماً ان الفاظ کو دہراتے ہیں اور سر اور جسم کے بالائی حصے کو حرکت دیتے ہیں.ان لوگوں میں شیعہ حضرات کثرت سے ہیں.ان کی امتیازی خصوصیت سماع کا رواج ہے.کہتے ہیں سماع یعنی گانوں کی صورت میں نغموں کی صورت میں اگر ذکر سنا جائے تو ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.بعض دفعہ اس وجدانی کیفیت میں یہ لوگ تھک کر چور ہو جاتے ہیں.عموماً صلى الله یہ لوگ رنگدار کپڑے پہنتے ہیں اور ان میں زیادہ تر بادامی رنگ کو ترجیح دی جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 910 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء ان کے آگے اور بہت سے سلسلے ہیں.ایک چشتیہ نظامیہ ہے جس کو ہندوستان میں بہت شہرت ہوئی اور دہلی میں حضرت خواجہ حسن نظامی کا جو سلسلہ ہے اس کا تعلق اسی چشتیہ نظامیہ سے ہے.خواجہ حسن نظامی کے الفاظ میں یہ سنئے.وہ لکھتے ہیں اول بارہ روز خلوت میں بیٹھنا چاہئے.یعنی انہوں نے ذکر کے کیا طریق اختیار کئے.اول بارہ روز خلوت میں بیٹھنا چاہئے کہاں؟ قرآن وحدیث سے یہ بارہ روز کی خلوت ملتی ہے.ہمیں یہ تو پتا ہے کہ ہر سال ایک مہینے کے دس دن کے لئے مسجد میں اعتکاف کرنا چاہئے.یہ وہ ذکر کا طریق ہے جو ہم نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ سے سیکھا اور جس کا قرآن میں ذکر ہے اور قرآن پر مبنی ذکر ہے مگر اب نئی نئی ایجادیں سنئے.کہتے ہیں ”اول بارہ روز خلوت میں بیٹھنا چاہئے ہر روز تمیں مرتبہ دعا حزب البحر پڑھنی چاہئے.شروع کرنے سے پہلے ایک دائرہ کھینچا جائے جس میں داخل ہونے کا ایسا راستہ رکھیں کہ داخل ہوتے وقت عامل کا رخ قبلے کی جانب ہو.اب صاف پتا چلتا ہے کہ ہندوستان کے اندر جو جنتر منتر کے طریق رائج تھے، جو جادو کے طریق رائج تھے ان سے متاثر ہو کر ان صوفیوں نے اس قسم کی لغو چیزیں ایجاد کر لیں جن کا نہ قرآن سے تعلق، نہ سنت سے تعلق ، نہ عقل ان کو تسلیم کر سکتی ہے.”جب داخل ہو جاؤ تو لکیر کھینچ کر داخلی دروازہ بند کر لو تو گویا کہ اب شیطان وہاں داخل نہیں ہو سکے گا.پھر کہتے ہیں کہ ”جب عمل پڑھ چکو تو فولاد کی چھری یا چاقو سے دائرہ کا منہ کاٹ کر اپنے باہر نکنے کا رستہ بناؤ.یعنی ذکر وکر سے فارغ ہونے کے بعد جو لکیر کھینچی ہے اس کا چاقو سے فولاد کا چا تو بہتر رہے گا) کاٹا جائے اور باہر نکلنے کا رستہ بنایا جائے.ورنہ ریشمی ڈورے کا دائرہ بنا لیا جائے اور دائرہ بناتے وقت آیت الکرسی پڑھی جائے اور دوران عمل میں غذا جو کی روٹی ہونی چاہئے اور صاحب الحزب حضرت ابوالحسن کی روح سے پہلے اپنے خیال میں اجازت لے لینی چاہئے.اے ابوالحسن! میں اللہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اجازت ہے نا.اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ آگے سے بولے گا کون؟ کیا فرق پڑتا ہے.صرف کہنا ہی کافی ہے کہ اجازت دے دو اور ساتھ ہی اجازت مل گئی.کتاب اعمال حزب البحر نوشته شمس العلماء خواجہ حسن نظامی دہلوی اشاعت نہم جولائی ۱۹۴۰ ء دہلی ) ذکر الہی کا ایک نقشبندیہ طریق بھی ہے اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے نقشبند یہ یقیناً آغاز میں سب سے بہتر تھا اور سنت سے ہٹا ہوا نہیں تھا لیکن بعد میں تصور شیخ کے داخل ہونے نے ان کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 911 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء مسلک سے کچھ ہٹا دیا.وہ ذکر جلی کے خلاف ہیں یہ جو آوازیں نکالنا اور حرکتیں کرنا ہے یہ اس کے خلاف ہیں.ذکر خفی کو جائز سمجھتے ہیں.مراقبہ میں سر کو جھکائے آنکھوں کو زمین پر لگائے خدا تعالیٰ کی یاد میں محو ہونے کا ایک طریق ان میں رائج ہوا.موسیقی اور سماع کے سخت خلاف ہیں.وہ سمجھتے ہیں یہ سنت سے ہٹی ہوئی چیزیں ہیں اور ان کا بداثر پڑ سکتا ہے.احکام شریعت پر سختی سے عامل ہیں ان کے ہاں مرشد اپنے مریدوں سے علیحدہ نہیں بیٹھتا بلکہ حلقے میں ان کا شریک ہو کر بیٹھتا ہے اور توجہ الی الباطل سے ان کی راہنمائی کرتا ہے.یہ آغاز میں ان کا طریق تھا اور یہی وہ فرقہ ہے نقشبندیہ جس نے روس میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی اور روس کی پچھلے ایک سوسالہ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ وہاں اسلام کو زندہ رکھنے اور قائم رکھنے میں سب سے اہم کردار نقشبندی فرقے نے ادا کیا ہے اور یہ جو فرقہ ہے اس کی کم سے کم روس میں جو شاخیں تھیں وہ اس قسم کے صوفی نہیں تھے کہ جو عمل سے ہٹ کر اپنے آپ کو مسجدوں میں یا بعض گوشوں میں محو کر دیا کرتے ہوں.یہ عملی زندگی میں حصہ لیتے تھے جہاد کے قائل تھے اور سب سے زیادہ زار کی حکومت کے خلاف یا بعد میں اشترا کی حکومت کے خلاف اسلام کی طرف سے جو کوئی جوابی کارروائی ہوئی ہے وہ سب سے زیادہ اسی نقشبندی فرقے کی راہنمائی میں ہوئی ہے اور سب سے زیادہ ان سے روس کا زار ڈرا کرتا تھا چنانچہ نقشبندی فرقہ کے متعلق یہ جو خاص پہلو ہے یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہ غور اور فکر اور اپنے دل میں ڈوب کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے دل پر اور اپنی رگ و پے میں نقش کرنے کا نام ہے یہاں تک تو اس میں کوئی خرابی نہیں لیکن افسوس ہے کہ بعد ازاں وہ شیخ جو ان میں بیٹھا کرتا تھا اس کی طرف جب یہ طاقت منسوب ہوئی کہ وہ اپنے غور اور فکر سے، اپنی اندرونی طاقتوں سے دوسروں کے دلوں میں نقش کو جاری کرتا ہے تو اس سے بدعتیں شروع ہو گئیں اور بعد ازاں یہ کیفیت ہوئی کہ تصور اللہ کی بجائے تصور شیخ نے جگہ بنالی اور اس فرقے میں یہ ہدایت کی گئی کہ تم جب بیٹھو تو خدا کی بجائے شیخ کا تصور کرو اور شیخ کی مدد کرو کہ وہ خدا کا تصور تمہارے اندر داخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس طرح یہ فرقہ بھی جس کا آغاز خالصۂ شریعت پر تھا اور نیک نیتی پر تھا یہ بھی رفتہ رفتہ بگڑتا ہوا ایک بدعت بن گیا.قادریہ فرقہ بیشتر سنی اسلام سے تعلق رکھتا ہے اور بہت سے مولوی جو ہندو پاکستان میں ملتے ہیں وہ اس قادر یہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.قادری سماع کی بعض شکلوں کے مخالف ہیں.ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 912 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء کے حلقوں میں موسیقی کو کوئی جگہ نہیں ہے.عام طور پر سبز رنگ کی پگڑی پہنتے ہیں اور لباس کا کوئی نہ کوئی حصہ بادامی رنگ کا ہوتا ہے.درود شریف کو اہمیت دیتے ہیں ان کے ہاں ذکر خفی اور ذکر جلی دونوں جائز ہیں.پس اس پہلو سے جہاں تک یہ باتیں ہیں ان میں کوئی بھی قابل اعتراض بات نہیں ہے یہ عین سنت کے مطابق ہے.حضرت عبد القادر جیلانی کا پاک اثر ہے کہ بہت دیر تک یہ فرقہ ان بدعات سے بچا رہا جو دیگر صوفی فرقوں میں جا پا گئیں لیکن بعد کے زمانے کے مولویوں نے اس فرقے کی طرف اور ان کے فلسفے کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کر دیں کہ اس سے یہ فرقہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ توحید سے شروع ہو کر شرک پر جا پہنچا اور اس پاک اور شفاف پانی کو بھی گندے پانی میں تبدیل کر دیا گیا.اس کی مثالیں میں آخر پر آپ کے سامنے رکھوں گا.سہروردیہ فرقہ بھی صوفیاء کے ان چارا ہم بنیادی فرقوں میں سے ایک ہے.ان کے ہاں ذکر ہی چلتا ہے لیکن ایک خاص طریق انہوں نے یہ اختیار کیا ہے کہ سانس بند کر کے ہو کا ورد کرتے ہیں.یعنی لا اله الا اللہ اور وہاں تک دم روک لیا اور جب پورے زور کے ساتھ سانس نکلتا ہے ہو کی آواز اٹھتی ہے تو یہ پھر ہو کے ذریعے گویا خدا تعالیٰ کی ذات واحد پر زور دیتے ہیں.اس طرح ہو کا رواج دینے میں غالباً ہندوستان کے سادہ لوح لوگوں کے لئے ایک خاص کشش ہوگی کیونکہ اکٹھی ہو کی آواز جب ایک جماعت سے نکلے تو لازماً اثر تو ہوتا ہے مگر یہ فرقہ یہیں تک محدود ہو گیا یعنی اللہ تعالیٰ کی باقی صفات پر غور کرنا.ان سے استفادہ کرنا، ان کو اپنے دل پر نقش کرنا یہ ساری باتیں تو ایک طرف رہ گئیں بس ہو ہی ہو باقی رہ گیا.قادیان میں مجھے یاد ہے وہ دوست غالباً اسی فرقے کے تھے جن کو ہم ”بابا ہی“ کہا کرتے تھے ہو کی بجائے ان کی آواز ہی نکلا کرتی تھی اور بعض لوگ کہتے تھے کہ اصل میں چھینک آتی تھی تو اس کی وجہ سے ہی نکلتی تھی مگر بعض سمجھتے تھے کہ نہیں یہ ہو ہی ہے.اللہ کا ذکر کر رہے ہیں مگر ” ہو“ والی آواز میں نے سنی ہوئی ہے جب یہ رکا ہوا دم ایک دم چھٹتا ہے تو بڑے زور سے ہو کی آواز اٹھتی ہے لیکن اس فرقے میں ویسے عام طور پر کوئی بد رسمیں داخل نہیں ہوئیں.سماع سے بے اعتنائی کرتے ہیں.نغموں وغیرہ کے ذریعے ذکر کو پسند نہیں کرتے اور تلاوت قرآن کریم پر زور دیتے ہیں جو ایک بہت اچھی بات ہے.اب میں بعض دوسرے غیر صوفی فرقوں کی مثال دیتا ہوں.ان میں آغا خانی کا طریق ذکر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 913 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس کو سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر عملاً اسلام کی تعلیم سے بہت زیادہ دور جاچکا ہے اور واضح طور پر شرک میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ علماء کے نزدیک یہ سارے کے سارے ابھی تک بہتر (۷۲) فرقے کی تھیلی میں داخل ہیں.ان کے اسلام پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے.اس حد تک نہیں ہے کہ اسمبلیوں میں قانون پاس اور ان کو دھکے دے کر باہر نکالا جائے.یہ ساری باتیں ابھی تک اسلام میں قابل قبول ہیں.اسماعیلی فرقہ کے پیشوا اور موجودہ امام ظاہر پرنس آغا کے دادا His highnes سر آغا سلطان محمد شاہ نے بذریعہ خط اپنے مریدوں کو تعلیم دی اور وہ تعلیم اس نصیحت سے شروع ہوتی ہے کہ نماز پڑھو ( اور رفتہ رفتہ اس نماز کا انداز بھی سکھایا جاتا ہے اور نماز میں کیا پڑھنا ہے؟ یہ بھی بتایا جاتا ہے ) وہ فرماتے ہیں ”نماز پڑھو.نماز پڑھو.نماز پڑھو.خدا تم کو برکت دے.خدا کا نام لو.خداوند شاہ علی تم کو ایمان اور اخلاق دے خدا سے کیا مراد ہے؟ ” خداوند شاہ علی تم کو ایمان اور اخلاق دے.یا شاہ! میری شام کی نماز اور دعا قبول کر.جو حق تم کو ملا میں اس کا واسطہ ہوں.یعنی اگر کسی کو یہ وہم ہو کہ یہاں اللہ ہی مراد ہے کہ اللہ کا بھی ایک نام علی ہے.تو یہ وہم ہے.یہ خود بخو داس کو مٹا دیتا ہے، باطل کر دیتے ہیں.کہتے ہیں ”شاہ علی مراد ہے اور وہ جس کو اس کا حق ملا ہے یعنی ولایت اور خلافت وغیرہ جو اس کا حق تھا وہ اس کو دیا گیا ہے.کہتے ہیں ”خداوند شاہ علی تم کو ایمان اور اخلاق دے یا شاہ ! میری شام کی نماز اور دعا قبول کر جو حق تم کو ملا میں اس کا واسطہ دیتا ہوں.اے ہمارے آقا سلطان محمد شاہ! یہ کہہ کر اس کے بعد سجدہ کرو نیز یہ دعا لکھی ہے کہ اڑتالیسواں امام دسواں بے عیب اوتار ہمارا خداوند آغا سلطان محمد شاہ داتا.یہ کہو اور اس کے بعد سجدہ کرو.“ ایک ذکری فرقہ بھی ہے جس کا بہت تذکرہ آج کل پاکستان میں ہو رہا ہے اور علماء زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح ذکری فرقے کو بھی اسلام کے دائرے سے خارج قرار دیا جائے.یہ لوگ کیا ہیں اور ان میں کون سی بنیادی خرابی ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس فرقے کا طریق یہ ہے کہ دن میں تقریباً دو ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں.ایمان مجمل اور ایمان مفضل پر یقین رکھتے ہیں.ان کے ذکر کے کلمات حسبی ربی جل الله.الله هو.الله هو ہیں از درازی صفحہ ۱ اعباسی لیتھو آرٹ پریس فیر روڈ کراچی سے طبع ہوا ہے ).اسی طریقے کے کئی اور ذکر ہیں جن کے ذریعہ یہ دن رات اللہ کی تسبیح کرتے ہیں.ذکری کون ہیں؟
خطبات طاہر جلد ۱۲ 914 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء ان کے مطابق مہدی نے دنیا میں آ کر نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور دیگر تمام ارکان اسلام کو منسوخ کیا.نماز کی جگہ صرف ذکر کا حکم دیا.عبادت کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں.یہ شریعت سے وہ بنیادی انحراف ہے جس کی بنا پر ان پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کی مہم چل پڑی ہے.لیکن یہ مہم حقیقت میں ایک ایسے تعلق میں چلی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ جب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں چلی ہے.یہ سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے ذکری علاقے سے منتخب ہونے والے ایک ممبر اسمبلی نے کھل کر جماعت احمدیہ کی تائید کی اور اعلان کیا اور اپنی پریس کانفرس میں یہ کہا کہ بالکل ظلم ہوا ہے اور زیادتی ہو رہی ہے اور احمدیوں کو اسلام سے خارج کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں تھا.اس پر علماء ان کے پیچھے پڑے اور چونکہ ان کا ووٹ ذکری علاقے سے تھا یعنی سیاسی ووٹ ان کو ذکری علاقے سے ملتا تھا اس لئے ان کے خلاف مہم چلاتے ہوئے انہوں نے ذکری فرقے کی صف لپیٹنے کی کوشش کی ہے.وہ تو اللہ کو پیارے ہو گئے مگر جو اللہ کو پیارے نہیں ہوئے یہ ابھی تک ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور عملاً ان کو بغض معاویہ کی وجہ سے ذکریوں سے بیر ہے یعنی جماعت احمدیہ کی دشمنی میں ذکریوں سے بیر ہے.ورنہ ان کے ہاں ایسے فرقے ہیں جہاں حیرت انگیز طور پر مشرکانہ عقیدے پائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے صوفی فرقے ہیں جنہوں نے نماز کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے ان کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہے لیکن ایک بات ہے کہ ذکریوں نے جہاں نماز کو غیر ضروری قرار دیا وہاں پنجگانہ ذکر کوضروری قرار دیا ہے معلوم ہوتا ہے نماز کی شکل انہوں نے بدلی ہے.کلیۂ قرآن سے انحراف نہیں ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہر ایک ذکری فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان اس پر پانچ وقت ذکر کرنا فرض ہے.جو بھی ذکر نہ کرے وہ اپنے فرض سے غافل ہے.ذکر کثیر کرنے والوں کو ذکری فرقے میں اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.ذکر دوطریقوں سے کیا جاتا ہے ایک جلی اور ایک خفی.ذکر جلی با جماعت ہوتا ہے اور ذکر خفی اکیلے اکیلے.تو ٹھوکر انہوں نے یقیناً کھائی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی بعض دوسرے فرقے کھا چکے ہیں اور ان سے موجودہ دور کے علماء کوکوئی عناد نہیں.علامہ شہرستانی فرماتے ہیں.ایک فرقہ اصحاب الروحانیات بھی ہے.ان کو کبھی کبھی اسلام سے خارج نہیں کیا گیا.اس فرقے کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کا صانع ایک مقدس وجود ہے اور اس کا قرب فرشتوں کی اطاعت کے واسطے سے بھی مل سکتا ہے کیونکہ فرشتے ہی ایسے وجود ہیں جو ہر قسم کی غلطی سے پاک
خطبات طاہر جلد ۱۲ 915 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء ہیں.پس وہ فرشتے ہمارے رب ، الہ وسید و شفیع ہیں جو ہمیں رب الارباب اور الہ الا للہ تک پہنچاتے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں ملتا ہے ذکر الہی سے ملتا ہے.اس فرقہ کے نزدیک انبیاء کی اطاعت ضروری نہیں کیونکہ وہ تو ہمارے جیسے انسان ہیں ان کی بجائے ہمیں فرشتوں کی اطاعت کرنی چاہئے.الملل والنحل للشهرستانی جلد دوم صفحه ۹۵ تا ۹۹ برحاشیه کتاب الفصل في الملل و الاهواء والنحل ) اب ان فرقوں کی بات سنئے جو آج کل دوسروں پر فتوے لگانے میں سب سے پیش پیش ہیں.اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ: ایک دفعہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی نے یا اللہ کہتے ہوئے بغیر کشتی کے دجلہ پار کیا.یعنی صرف یا اللہ کہتے جاتے تھے اور دجلہ دریا انہوں نے بغیر کشتی کے پار کر لیا.ایک شخص نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کی کس طرح آؤں.فرمایا یا جنید ! یا جنید! کہتا چلا آ ، جس طرح میں نے یا اللہ کہا ہے تو یا جنید کہتا چلا آ.وہ یہی کہتے ہوئے بے چارہ چل پڑا.دجلہ پار کر رہا تھا کہ یا اللہ کہنے لگ گیا.اس شیطانی وسوسے کے نتیجے میں فوراً غوطے کھانے لگا.“ یہ اہل اسلام کا وہ فرقہ ہے جس کی تعداد ہندوستان اور پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور یہ مسلمان ہے.کہتے ہیں دیکھوان نے اللہ کہا، اس شیطانی وسوسے کے نتیجے میں وہ غوطہ کھانے لگا.حضرت جنید نے فرمایا.ارے نادان ابھی تو جنید تک پہنچا نہیں اللہ تک کیسے رسائی ہوگئی.ڈوبتے ہوئے کو آواز دی پاگل کہیں کے ابھی جنید تک تو تو پہنچا نہیں ہے اللہ تک کیسے پہنچ گیا.اسی کی سزامل رہی ہے تجھے.یا اللہ کہنے کی کیسے جرات ہوئی.“ ( ملفوظات مجد د مائتہ حاضر اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی حصہ اوّل صفحه ۱۱۷) فقیر نور محمد سروری قادری نے ایک مجذوب فقیر کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا لو نام کا ان پڑھ جٹ.اس نے کسی بزرگ کے فرمان پر سورہ مزمل کا چالیس روز کا چلہ شروع کیا.اس مجذوب فقیر کی طرف سے پیغام ملا کہ اگر اسے کلام کا شوق ہے تو یہ سورہ مزمل وغیرہ کا چلہ چھوڑے اس کی جگہ یہ دعا پڑھے.وہ چلہ یہ تھا.لا اله من كان الا الله تن كان‘ کوئی مطلب ہی نہیں.نہایت لغو اور بے ہودہ الا اللہ تن کان “ اس شخص نے بیان کیا کہ میرے ہر رگ وریشہ اور تمام بدن میں اس قدر غوغا اور شور اور جوش و خروش ہوا کہ گویا اس ذکر کا ایک طوفان برپا ہے اور میر اوجود اس ذکر کی لذت
خطبات طاہر جلد ۱۲ 916 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء سے معمور ہو گیا.(سورہ مزمل جہاں کچھ نہ کرسکی وہاں ”تن کان“ نے اس کے وجود میں اک زلزلہ برپا کر دیا) یہ کیفیت اس ذکر الہی کی ہے جو ان علماء اور بعض دوسرے لوگوں کی بدقسمتی سے اب مسلمانوں میں رواج پا رہا ہے.اب میں ذکر کے مثبت پہلو آپ کے سامنے پیش کرنا شروع کرتا ہوں.رسالہ الخورشید یہ میں لکھا ہے.قیل ذکر الله با القلب سيف المريدين دل کا جو ذکر ہے یہ دراصل مریدوں کی تلوار ہوتی ہے اور ہر غیر اللہ سے ہر بدی سے دل کا ذکر انسان کی حفاظت کرتا ہے.حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیش کر کے اس پر بہت عمدہ تبصرہ فرمایا ہے.وہ حد بیث یہ ہے.کہ وہ شخص جس کو میرا ذکر مجھ سے سوال کرنے سے منع کر دے یعنی مراد یہ ہے کہ ذکر میں ایسا مشغول ہو کہ دست سوال دراز کرنے کا اس کے لئے موقع ہی نہ رہے.اللہ کی یا داور محبت میں ایسا کھویا گیا ہے کہ وہ سوال کرنا ایک معمولی بات اور بے معنی بات سمجھتا ہے.اس حد تک اللہ کی یاد اس پر غالب آجاتی ہے کہ ایسے شخص کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں اس کو اس سے بہت زیادہ دیتا ہوں جتنا سوال کرنے والے کو دیتا ہوں.یعنی بعض لوگ جو مجسم ذکر الہی بن جاتے ہیں ان کے دل کی ہر دھڑکن ، ان کی ہر خواہش دعا بن جایا کرتی ہے اور دعا اور ذکر میں یہ فرق ہے.اس فرق کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ذکر ہے محبوب کی یاد اور وہ خالصہ محبت سے تعلق رکھنے والی بات ہے اور سوال سے مراد یہ ہے کہ اپنے قریبی پر جس پر اعتماد ہو، جس پر انسان کو یہ بھر وسہ ہو کہ ہاں میرا قریبی ہے اس کے پاس انسان مشکل کے وقت جائے اور کہے کہ اب میری ضرورت پوری کرو اور ایک شخص ایسا بھی ہے جو محبت میں ایسا غرق ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو مانگنے سے عار کرتا ہے، عار رکھتا ہے یا سمجھتا ہے کہ محبت کے اعلیٰ آداب کے خلاف ہے کہ میں مانگوں.ایسی سوچ وقتی طور پر تو درست قرار دی جاسکتی ہے اور فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ اعلی درجہ کا تعلق ہے یہ بھی درست نہیں ہے.صوفیانہ ٹوٹکے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اس نے عشق میں ترقی کر لی ہے کہ اب یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 917 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء سوال کی حاجت نہیں رکھتا.تو ایسے شخص کو اگر آپ نے ہر سوال کرنے والے سے افضل قرار دیا تو تمام انبیاء سے اس کو افضل ماننا پڑے گا کیونکہ قرآن کریم نے ہر نبی کے ذکر میں اس کی دعا لکھی ہوئی ہے.پس سب سے زیادہ دعا کرنے والے اور خدا سے طلب کرنے والے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھے.اس لئے جب اس قسم کی حدیثیں زیر بحث آئیں تو ان کو ٹوٹکے نہیں بنانا چاہئے.ان سے ایسے نتیجے نہیں اخذ کرنے چاہئیں جو قرآن اور سنت انبیاء کے خلاف ہوں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جو ذکر الہی میں ایسا ڈوب جاتا ہے کہ اس وقت اس کیفیت سے نکل کر کچھ مانگنے کودل نہیں چاہ رہاہوتا اور یا دوسرے معنوں میں یہ کہنا چاہئے کہ وہ شخص جو ہر وقت ذکر الہی میں ڈوبا رہتا ہے خواہ وہ سوال کرے یا نہ کرے اللہ اس کا نگران بن جاتا ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے کہ یہ حدیث دعا کرنے کے خلاف ہے.قرآن کریم دعا کے مضمون سے بھرا پڑا ہے.دعا کے بغیر تو اللہ کی چوکھٹ تک رسائی ممکن نہیں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَيٌّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) کہ ان سے کہہ دے اللہ کو تمہاری کیا پر واہ ہے اگر تمہاری دعا نہ ہو.پس دعا کے مضمون کے یہ حدیث مخالف نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ذکر الہی محبت کے نتیجے میں ان کی زندگی پر چھا جاتا ہے اور ایسی کیفیت میں اگر ان کو دعا کا وقت میسر نہ بھی آئے اور دعا کی طرف ان کی واضح توجہ نہ بھی پھرے تب بھی اللہ کے ہاں وہ محفوظ لوگ ہیں.اللہ خودان کی نگرانی کرتا ہے خودان کی حاجت روائی فرماتا ہے.اس حدیث کے اسی مضمون کے متعلق ایک اور حدیث بخاری کتاب الرقاق باب التواضع میں ہے.حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں یہاں دعا کے بغیر ہی خدا کے تعلق کی ایک دائمی کیفیت بیان ہو رہی ہے جو ذکر الہی میں مصروف رہتا ہے وہ دوست بن جاتا ہے اور جب دوست ہو جائے تو ضروری تو نہیں ہوا کرتا کہ دوست مانگے تو دواس کا تعلق رحمانیت سے ہو جاتا ہے.چنانچہ عباد الرحمن کا جو مضمون قرآن کریم میں بیان ہوا ہے یہ وہی ہے جو احادیث میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ رحمن خدا کے بندے بن جائیں وہ مانگیں تو ضرور ملتا ہے اور بھی ملتا ہے.لیکن نہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 918 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء مانگیں تب بھی ملتا ہے یہ مراد ہے.یہ مرادنہیں کہ رحمن کے بندے ہو کر رحیم سے اپنا تعلق کاٹ لیتے ہیں بلکہ رحمانیت کی صفت میں ڈوب جاتے ہیں اس لئے اگر نہ بھی مانگیں تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو دے دیتا ہے اور بعض دفعہ تو خود پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے مانگنا کیا ہے.انسان کو چاروں طرف سے مختلف خطرات درپیش ہوتے ہیں.ایسی حالت میں اس کو خطرات درپیش ہیں اس کو پتا ہی نہیں کہ کہاں سے، کس خطرے نے حملہ کرنا ہے، کہاں دشمن چھپا ہوا ہے، کل کی اسے خبر نہیں.وہ مانگے گا کیسے؟ تو ذکر الہی کے تعلق میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک راز ، ایک بہت ہی قیمتی خزانہ عطا کر دیا کہ ضروری نہیں کہ تم مانگو تو تمہیں دیا جائے.تم اللہ کے ذکر میں ڈوبے رہو، پھر تمہیں یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ کیا مانگنا ہے اور کب مانگنا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں دے رہا ہوگا.پس دعا سے ذکر کا مضمون افضل ہے یہ بات بہر حال قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے.دوسرے جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں دعا کا ذکر ملتا ہے وہاں ہر جگہ مانگنے کے معنوں میں نہیں.وہاں پیار سے اللہ کے ذکر کے معنوں میں بھی دعا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے آیت پڑھی تھی.تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا یہاں جو مضمون ہے وہ عاشق کا مضمون بیان ہوا ہے.یہ نہیں کہ آنکھ کھلتے ہی مانگنے لگ جاتے ہیں کہ اے اللہ میاں یہ بھی دے، وہ بھی دے.مراد یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں آنکھیں کھلتی ہیں.کروٹیں بدلتے ہوئے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.ان کے پہلو آرام گاہوں کو چھوڑ دیتے ہیں.وہ اللہ کو پکارتے ہوئے اٹھتے ہیں.دعا کا معنی صرف مانگنا نہیں پکارنا بھی ہے اور یہ اعلی معنی ہے پس ذکر اور دعا یہاں ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں میرا بندہ جتنا میرا قرب، اس چیز سے جو مجھے پسند ہے اور میں نے اس پر فرض کر دی ہے، حاصل کر سکتا ہے اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا.اس میں ذکر کے تمام جھوٹے طریقوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا.اللہ فرماتا ہے کہ میں کسی سے محبت اس لئے نہیں کرتا کہ وہ میرا نام لیتا رہتا ہے میں سب سے زیادہ محبت اس شخص سے کرتا ہوں جو سب سے زیادہ میرے احکامات کی پیروی کرتا ہے.شریعت پر چلنے والا ہے.وہ شریعت جو میں نے محمد ﷺ کو عطا کی جو حمد ﷺ کی سنت بن گئی وہی سچا ذکر ہے اسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 919 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ملیں گی.خدا تعالیٰ کے قرب کے ذریعے حاصل ہوں گے.پس جو چیز مجھے پسند ہے اور میں نے اس پر فرض کر دی ہے جو وہ کرتا ہے وہ مجھے سب سے زیادہ پیارا لگتا ہے اور نوافل کے ذریعے سے میرا بندہ میرے قریب ہو جاتا ہے.فرائض لازم ہیں اس کے بغیر قرب کا کوئی سوال ہی نہیں ہے نوافل اس قرب کو آگے بڑھانے والے بنتے ہیں.فرماتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا دوست بنالیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے.اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے یعنی میں ہی اس کا کارساز ہوتا ہوں اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں پس اس کیفیت میں مانگنے کی نفی نہیں ہے فرمایا نہ بھی مانگے تب بھی میں اس سے یہ سلوک کرتا ہوں لیکن جب مانگتا ہے تو اور بھی زیادہ پیار سے اس کو دیتا ہوں اور زیادہ بڑھا کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یادر ہے کہ بندہ تو حسن معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے اور اس کے کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درودیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اس کی پوشاک میں اور اس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نا مراد ہلاک نہیں کرتا اور ہر ایک اعتراض جو اس پر ہو اس کا آپ جواب دیتا ہے وہ اس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان ہو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 920 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے.وہ اس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور شریروں پر جو اس کو دکھ دیتے ہیں آپ تلوار کھینچتا ہے.ہر میدان میں اس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضا و قدر کے پوشیدہ راز اس کو بتلاتا ہے.غرض پہلا خریدار اس کے روحانی حسن و جمال کا جوحسن معاملہ اور محبت ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے.خدا ہی ہے.پس کیا ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج ان پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۲۵) یہ ذکر جیسا کہ واضح ہے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ذکر چل رہا ہے جب فرماتا ہے وہ اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے تو معاً قرآن کریم کی اس آیت کی طرف توجہ منتقل ہوتی ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى (الانفال: ۱۸) اے محمد ! تو نے دشمن پر کنکریوں کی مٹھی نہیں پھینکی ، جب تو نے پھینکی.وہ اللہ تھا جس نے پھینکی اور دوسری جگہ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 11) کہہ کر صحابہ پر جو ہاتھ تھا اسے اللہ کا ہاتھ قرار دے دیا.پس ذکر الہی وہی ہے جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ سے سیکھا اور خدا تعالیٰ کی ہدایت کے تابع اپنی ذات میں جاری کر کے دکھا دیا اسی ذکر کو پکڑیں اسی میں ساری کامیابی ہے وہی خدا سے دوستی بنانے کا ایک وسیلہ بنتا ہے اس کے سوا ساری ذکر کی باتیں محض افسانے اور کہانیاں ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 921 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء ذکر اللہ کی اعلیٰ منازل تک پہنچانے والا رسول محمد پھر فرمایا:.مصطفى اور یہی رسول ظلمت سے نور میں لے جانے والا ہے.( خطبه جمعه فرموده ۳ دسمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں.اَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فَاتَّقُوا اللَّهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا قَدْ اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلتِ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّوْرِ وَ مَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيْهَا اَبَدًا قَدْ اَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا (الطلاق: ۱۳۱۱) آج بھی خطبے کے آغاز میں دو اجتماعات کا ذکر کرتا ہوں.ایک لجنہ اماء اللہ سنگا پور کا ساتواں سالانہ اجتماع 4 دسمبر کو یعنی کل منعقد ہو رہا ہے اور ایک ہی دن جاری رہے گا.دوسرا مجلس انصار اللہ ساؤتھ ریجن USA کا سالانہ اجتماع کل اور پرسوں یعنی 4 ، 5 دسمبر کو منعقد ہو گا.اللہ تعالیٰ ان دونوں اجتماعات کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور احمدیت کے سامنے جو نئی صدی کے نئے تقاضے ابھر رہے ہیں ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ان اجتماعات کو خصوصیت سے ان نئے تقاضوں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 922 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء کے پیش نظر ترتیب دیا کریں کیونکہ جیسا کہ میں آج کل خطبات میں ذکر کر رہا ہوں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئی قو میں احمدیت میں داخل ہونے والی ہیں اور ہو رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں کثرت کے ساتھ تسبیح کی ضرورت ہے اور استغفار کی ضرورت ہے اور تسبیح اور استغفار کا تعلق ذکر الہی سے ہی ہے.یہ مضمون قرآن کریم نے مختلف جگہ مختلف سورتوں میں باندھا ہے لیکن تسبیح بھی ایک ذکر ہے اور استغفار کی قبولیت بھی ذکر پر مبنی ہے.اہلِ ذکر کا استغفار زیادہ قبول ہوتا ہے اور جو ذکر سے عاری ہوں ان کے استغفار کی کوئی حقیقت نہیں ہوا کرتی.پس ذکر الہی پر جیسا کہ سنت سے ثابت ہے زور دیں اور ذکر الہی میں چونکہ اول نماز ہے اس لئے نماز کے قیام کی کوشش کریں اور نماز کے قیام کی کوشش میں نماز با ترجمہ سیکھنا، نماز کے آداب سکھانا، نماز پر قائم کر دینا ،نماز با جماعت کی عادت ڈالنا، اس کے تمام لوازمات سے آگاہ کرنا یہ سارے امور ہیں.پس ایک روزہ اجتماع میں جس حد تک بھی ممکن ہے اس کی کوشش کر دیکھیں مگر ایک روز میں یہ کام ہونے والے نہیں ہیں.قیام نماز کا تعلق تو ساری زندگی سے ہے.آغاز سے آخر تک نماز کے قیام کی کوشش میں ہی مومن کی زندگی صرف ہو جاتی ہے.پس ایک روزہ اجتماع میں ان کو کچھ سبق تو آپ دیں گے.وہ ضرور دیں لیکن اجتماع کے بعد کی مسلسل نگرانی یہ ہے سب سے اہم بات اگر اجتماع کو آپ بیج بونے کا دن قرار دے لیں اور بیج بو کر اس سے غافل ہو جائیں تو اس پیج سے آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا.اگر وہ پھوٹے بھی اگر اس کے چگنے والے اس کو نہ بھی چگیں اور وہ پھوٹ جائے تو پھوٹنے کے بعد مختلف جانور اس کو چر جاتے ہیں، بغیر پانی کے بعض دفعہ سوکھ کے مرجاتا ہے.پس اس پیج کا پھوٹنا جس کا نگران کوئی نہ ہو.ایسا ہی ہے جیسے کسی کی قسمت پھوٹ جائے ، کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.تو اجتماعات بھی بیج بونے کے دن ہیں ان دنوں میں اچھے نیکی کے بیج بوئیں اور پھر ان بیجوں کی نگرانی کریں، کیسے پھوٹتے ہیں اور پھر ان کی کیسی حفاظت کی ضرورت پیش آتی ہے، کیا کیا محنت ان پر کرنی پڑتی ہے؟ ان سب باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سارے سال کی تربیت کے پروگرام بنائیں.پس ہر اجتماع کے بعد ایک Fallow up پروگرام بھی ہونا چاہئے یعنی اجتماع میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی مسلسل نگرانی کہ وہ کس حد تک لوگوں نے یاد رکھا، کس حد تک اس سے استفادہ کیا، کس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 923 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء حد تک بعد میں واقعہ ہونے والے اعمال کی طرف توجہ ہوئی یا نہ ہوئی ؟ یہ جو میں نے بیان کیا بعد میں واقع ہونے والے اعمال یہ مشکل سا محاورہ بن گیا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک مضمون ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے.وہ یہ ہے کہ ہر اجتماع کے بعد کچھ نیکیاں دل میں جنم لیتی ہیں، کچھ نیک تمنائیں دل میں پیدا ہوتی ہیں، نیک ارادے لے کر لوگ واپس لوٹا کرتے ہیں.وہ سب بے کار جاتے ہیں اگر بعد میں کوئی اعمال واقع نہ ہوں اعمال ان کا تنتبع نہ کریں.ان سے تعلق رکھنے والے اعمال ظاہر ہونے نہ شروع ہو جائیں.تو یہ جو میں نے کہا کہ بعد میں واقع ہونے والے اعمال اس سے مراد یہ تھی کہ ہر اجتماع کے وقت جو نیک ارادے دل میں پیدا ہوتے ہیں نئی تمنائیں، نئی امنگیں کروٹیں لیتی ہیں ان کا پیدا ہونا اور ان کا دل میں ایک ہنگامہ پیدا کر دینا محض جذباتی چیز ہوگا اگر اس کے بعد نیک اعمال ان کے نتیجے میں پیدا نہ ہوں اور وہ مستقلاً آپ کی زندگی کا حصہ نہ بن جائیں.روہ پس اجتماع بہت ہی اچھی چیزیں ہیں لیکن اجتماع اگر وہیں ختم ہو جائیں جہاں ان کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے تو بالکل ایک بے کار کوشش ہے اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.پس جو بھی آپ نے پروگرام ان اجتماعات میں رکھے ہیں لجنہ کے ہوں یا انصار اللہ کے بعد میں ان کی نگرانی کریں ساتھ ساتھ چلیں.دیکھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جب آپ کی والدہ کو خدا تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ یہ اس بچے کو دریا میں بہا دو اور خوف نہ کرو.بظاہر اتناہی کافی ہونا چاہئے تھا کہ خدا نے کہہ دیا کہ خوف نہ کرو لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہدایت تھی کہ اس کی نگرانی کرو اس کی پیروی کرو.چنانچہ حضرت موسیٰ کی بہن ساتھ ساتھ کنارے کنارے چلتی رہی ہیں.دیکھنے کے لئے کہ یہ صندوق جس میں یہ بچہ بند ہے اس سے کیا ہوتا ہے، کون اس کو پکڑتا ہے کیا واقعہ رونما ہوتا ہے؟ اور وہی تنتبع تھا جس نے بعد میں جا کر اور بابرکت صورتیں اختیار کر لیں.پس ساتھ ساتھ جا کر دیکھنا یہ زمینداروں کا روزمرہ کا پیشہ ہے.پانی چھوڑتے ہیں کھیت کے لئے ہر ایک کے ساتھ ساتھ یعنی اس نالی کے ساتھ ساتھ جس میں پانی جاتا ہے چلتے ہیں دیکھتے ہیں کہیں کوئی سوراخ تو نہیں ہے.اور پھر جب کھیت تک وہ پانی پہنچ جاتا ہے پھر بھی کئی دفعہ اس کھیت کے چکر مارتے ہیں.یہ دیکھنے کے لئے کہیں سے ٹوٹ تو نہیں گیا، کہیں زیادہ تو نہیں آ رہا، کہیں کم تو نہیں رہ گیا.پس قرآن کریم نے جو تربیت کے رنگ ہمیں سکھائے ہیں وہ ایسے ہی ہیں.اس پہلو سے اجتماع تو ایک آغاز ہے بس جس کو آپ اختتام کہتے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 924 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء مسلسل ہیں وہ ایک اختتام نہیں ہے.وہ آغاز ہے اور آغاز کے بعد پھر سارا سال اگلے اجتماع تک محنتیں جاری رہنی چاہئیں.اب اصل مضمون کی طرف یعنی ذکر الہی کے مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے یعنی ان آیات کریمہ کے حوالے سے واپس آتے ہوئے جن کی میں نے تلاوت کی ہے.میں ایک اور بات کی وضاحت کرنی چاہتا ہوں جس کا تعلق لجنہ اماءاللہ ہی سے ہے.گزشتہ ایک خطبے میں میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ اپنے شادی بیاہ وغیرہ کے مواقع پر ایسی بدرسومات میں مبتلا نہ ہوں جو احمدیوں کو زیب نہیں دیتیں اور ایک دفعہ یہ بد رسومات آپ کی تقریبات میں رہ پا گئیں تو یہ بیماریاں ہمیشہ کے لئے چھٹ جائیں گی اور بڑھتی رہیں گی اور پھر آپ ان کا کوئی علاج نہیں کر سکیں گی.بعض مثالیں میں نے دی تھیں اور بعض نصیحتیں کی تھیں.اس سلسلے میں لجنہ کی طرف سے ایک معین سوال میرے سامنے رکھا گیا ہے وہ صدر لجنہ لھتی ہیں ایک جگہ کی کہ لاہور میں کراچی میں اور پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں اب روز مرہ یہ رواج بن گیا ہے کہ بیاہ شادی کے مواقع پر ہوٹلوں سے ٹھیکے کئے جاتے ہیں اور ہوٹلوں کے بہرے مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی انتظام سنبھالتے اور ان کو کئی دفعہ اندر داخل ہونا پڑتا ہے.بعض دفعہ برتن لگانے کے لئے بعض دفعہ دیکھنے کے لئے اور کسی کھانے کی ضرورت ہے کہ نہیں غرض یہ کہ ان کا آنا جانا تو رہتا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ بعض خواتین نے اس خطبے سے یہ تاثر لیا ہے کہ آئندہ اگر ایسا واقعہ کہیں ہوا تو وہ مخلصین جن تک میری آواز پہنچی ہے کہ قرآنی تعلیم کے پیش نظر ایسی جگہوں سے جہاں خدا تعالیٰ کے احکامات کی بے حرمتی ہو رہی ہواٹھ کر آجایا کریں.وہ لکھتی ہیں کہ بعض ایسی خواتین نے یہ مطلب لیا ہے کہ اگر کوئی ہوٹل کا بہرہ کبھی اندر آیا تو اس وقت بھی سب کا فرض ہے کہ وہ اٹھ کر باہر چلی جائیں.جہاں تک سب کے فرض کا تعلق ہے یہ فرض تو ہر شخص کے او پر مختلف شکل میں عمل دکھائے گا کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو قائم کردہ محرمات ہیں ان کے خلاف ہے کہ نہیں.بعض صورتوں میں تو واضح ہوا کرتا ہے بعض صورتوں میں متشابہات سے تعلق رکھتا ہے.یعنی بعض خواتین جن کا اپنا اخلاقی معیار بہت بلند ہے.بعض دفعہ وہ چھوٹی باتوں پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہیں سمجھتی ہیں کہ یہ مکروہ چیزیں ہیں جو ہمارے اندر نہیں ہونی چاہئیں.بعض ایسی خواتین ہیں جو روزمرہ کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 925 خطبه جمعه ۳ دسمبر ۱۹۹۳ء معاشرے اور تمدن میں حصہ لینے کے نتیجے میں اتنا دور ہٹ چکی ہوتی ہیں کہ اسلامی معاشرے کا صحیح تصور ان کے ذہن میں نہیں رہتا اسلامی تمدن سے بھی پوری واقفیت ان کو نہیں رہتی.چنانچہ بعض باتیں جو معیوب ہیں وہ ان کو معیوب دکھائی نہیں دیتیں.وہ سمجھتی ہیں کچھ نہیں چلو ٹھیک تو ہے ساری دنیا اس طرح کر رہی ہے.ہم کیوں نہ کریں، ہم کیوں پرانے زمانے کی عورتیں بن کر بیٹھی رہیں؟ تو ان دو قسموں کی عورتوں کے درمیان مختلف قسم کی منازل ہیں کوئی ایک طرف مائل ہے کوئی دوسری طرف مائل ہے.کوئی ایک انتہاء کی طرف ہے کوئی دوسری انتہاء کی طرف ہے.کچھ وہ لوگ ہیں جو درمیانی رہ اختیار کئے ہوئے ہیں.اس لئے ہر ایک کا رد عمل ایک نہیں ہوگا.ہر چیز پر ہر ایک کا اپنا ایک رد عمل ہوگا.ایک چیز تو میں پھر دوبارہ یاد دلانی چاہتا ہوں کہ میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ رد عمل اس طرح نہ دکھائیں کہ وہ تقریب بالکل برباد ہو کے رہ جائے اور جو غیر ہیں ان پر بھی یہ اثر پڑے کہ ان کا بائیکاٹ ہو گیا ہے، ان کو ذلیل ورسوا کر دیا گیا ہے.خوشی کے موقع پر ایک غم کی تقریب بن جائے یہ مناسب نہیں ہے جائز نہیں ہے.آنحضرت ﷺ بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اس طرح فرمایا کرتے تھے کہ کم سے کم دل شکنی جو ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہ ہو بعض دفعہ ایک معیوب بات کے متعلق اظہار کرنا پڑتا ہے، ایک ناپسندیدگی بغیر بیان کے صرف اداؤں سے تو نہیں ہوتی بعض دفعہ بیان بھی ضروری ہوتا ہے.اس سے کچھ دل شکنی بھی ہوتی ہے لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا طریق یہ تھا کہ اگر زبان سے کام لئے بغیر بات ہو جائے اور اس طرح کسی کی دل شکنی نہ ہوتو آنحضور ﷺہے یہی طریق اختیار فرمایا کرتے تھے.پس عَبَسَ وَتَوَلَّى والے واقعہ میں یہی پاک نمونہ آپ سے ظاہر ہوا.آنحضوری ایک کسی قبیلہ کے سردار سے محو گفتگو تھے تبلیغ ہو رہی تھی ، اس کو سمجھا رہے تھے کہ اسلام کیا چیز ہے اتنے میں ایک صحابی جو نا بینا تھے یعنی آنکھوں سے اندھے تھے مگر دل کے بینا.وہ حاضر ہوئے اور ان کو پتا نہیں تھا کہ کون بیٹھا ہے اور کس طرح مصروف ہیں.انہوں نے ایک دو بار دخل دیا اور اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ حضور کریم ﷺ نے زبان سے ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا لیکن ماتھے پر بل پڑ گئے اور یہ ناپسندیدگی کا اظہار کم سے کم ضروری اظہار تھا.اس مہمان کو بتانے کے لئے کہ تمہاری عزت افزائی کی خاطر میں یہ پسند نہیں کرتا کہ ہماری باتوں میں کوئی محل ہو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 926 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء لیکن اس نیک صحابی کی دلداری کی خاطر اس رنگ میں اظہار فرمایا کہ اس کو پتا بھی نہیں لگا کہ مجھ سے، میرے کسی فعل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے.یہ بہت ہی ایک بار یک مضمون ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو کیوں نہ سمجھایا.اصل بات یہ ہے کہ عشاق جب اپنے محبوب کے پاس پہنچتے ہیں تو اس قسم کی رسم و رواج کے پابند نہیں رہا کرتے جن کو ہم آداب کی رسم ورواج کہتے ہیں.ایک عاشق تھا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ڈوبا ر ہنے والا وجود جو ذکر الہی کے متعلق اور دین سے متعلق معلومات لینے کے لئے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اس کی اس ادا کو حضور اکرمی ای رد نہیں فرمانا چاہتے تھے.آئندہ بھی اس سے اس قسم کی اداؤں کی توقع تھی.اس قسم کے طرز عمل کی توقع تھی لیکن جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جو آپ کے سامنے جو گفتگو تھا اس کو صرف اتنا بتا نا کافی تھا.کہ تم برا نہ منانا میں ایک قسم کی معذرت تم سے کرتا ہوں.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے سے آداب سیکھیں تو آپ کو روز مرہ کی زندگی میں تعلقات میں بار یک در باریک راہیں بھی دکھائی دینے لگیں گی اور پتا چلے گا کہ کس موقع پر کیا طرز اختیار کرنی چاہئے.پس ایک نصیحت یہ ہے کہ حتی المقدور ایسے موقعوں پر عقل سے کام لیا کریں اور ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہونے دیں جس سے میزبان کے دل کو دکھ پہنچے مثلا جب یہ ایسے آثار ہو تو پہلے ہی پتا لگ جایا کرتا ہے.جہاں بے پردگی کے سامان ہوں وہاں عین وقت پہ تو نہیں پتا چلا کرتا.اس وقت علیحدگی میں صاحب خانہ کو بتایا جا سکتا ہے کہ ہم پردہ دار لوگ ہیں، ہم سے یہ نہ کریں.یہ ہماری روایات کے خلاف ہے.ہم پسند نہیں کرتے یہ بدیاں ہمارے معاشرے میں راہ پا جائیں یہ سمجھانا ہی اول تو بہت حد تک کافی ہو جائے گا.اور اگر اس کے باوجود کوئی نہ سمجھے تو پھر معذرت سے ان سے جدا ہونا اگر ان کی دل آزاری کا موجب بنتا بھی ہے تو قصور پھر جدا ہونے والے کا نہیں ہے.اس نے ادب اور احترام سے علیحدگی میں بات کر لی ہے.اور یہ نہیں کہ جب تقریب شروع ہوگی تو ایک دم جم گھٹا کر کے کچھ لوگ اٹھ کر چلے گئے جس طرح اسمبلیوں میں واک آوٹ ہوتے ہیں.یہ ہرگز میں نے نہیں کہا ایک تہذیب ہے، ایک سلیقہ ہے اور وہ سلیقہ قرآن کریم نے یہ سکھایا ہے کہ اس کے بعد مستقل تعلقات منقطع نہیں کرنے قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب تک یہ بات ہو مجلس میں اس وقت تک اٹھ کے باہر رہو جب وہ بات ختم ہو جائے تو پھر واپس آؤ.اگر آپ نے جدائی کی طرز ایسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 927 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء اختیار کی جس سے دل شکنی ہو ، دل آزاری ہو تو آپ چاہیں گے بھی تو دوبارہ آپ کو اپنے گھروں میں گھنے کون دے گا.پس طرز میں حسن ادا چاہئے.ایسی طرز سے جدائی ہو کہ دوسرا مجبوری سمجھے اور آپ سے اس کے تعلقات منقطع نہ ہوں.دوسرا پہلو ہے کہ بیروں والا چل پڑا ہے اس کے متعلق میں کیا مشورہ دیتا ہوں یا کیا نصیحت کرتا ہوں.افسوس یہ ہے کہ بعض تیسری دنیا کے ملک پہلی دنیا کے ملکوں سے بعض باتیں سیکھتے ہیں اور ان سے کچھ زیادہ ہی آزاد خیال ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ باتیں جوان ملکوں میں رہ کر احمدی اختیار کئے ہوئے ہیں.وہ ان کے اوپر دوبھر ہو جاتی ہیں.یہاں بھی تو خواتین بستی ہیں، یہاں بھی تو شادیاں ہوتی ہیں اور انگلستان میں میں گواہ ہوں اللہ کے فضل کے ساتھ شاید ہی کبھی کوئی شکایت کا موقع پیدا ہوا ہو.یہاں خواتین خواتین میں خود کام کرتی ہیں اور مردوں کو بیچ میں گھنے کی اجازت نہیں دیتیں.تو ایک آزاد ملک اور آزاد ملکوں میں صف اول میں کھڑے ہوئے ملک میں رہنے والی احمدی خواتین اگر ان اقدار کی حفاظت کر سکتی ہیں.تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں لاہور ہو یا کراچی ہو وہاں کس طرح اتنے زیادہ ایڈوانس لوگ ہو گئے ہیں کہ ان قدروں کی حفاظت کر ہی نہیں سکتے.کوئی حکم تو نہیں ہے حکومت کا یا اللہ تعالیٰ کا یہ جب شادی ہو تو ضرور بیروں سے خدمت لو، یہاں میری بچی کی بھی شادی ہوئی تھی اور بھی شادیاں ہوتی ہیں اور جو احمدیت کو وقار عمل نے آداب سکھائے ہیں وہ ان موقعوں پر ہمارے کام آتے ہیں اور یہ روح خدا کے فضل سے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ انگلستان کی جماعت میں پائی جاتی ہے کہ جہاں کسی بھائی کو ضرورت پڑے اجتماعی خدمت کی مردوں کی ضرورت ہو تو مرد اجتماعی خدمت کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں عورتوں کی ضرورت ہو تو عورتیں اجتماعی ضرورت کے لئے حاضر ہو جاتی ہیں.یہاں تو کھانے بھی خود پکاتے ہیں اور الا ما شاء اللہ بعض دفعہ ہوٹلوں سے بھی پکوا لیتے ہیں لیکن خود پکاتے ہیں.خود میزیں لگاتے خود کرسیاں لگاتے اس کے بعد برتنوں کی صفائی خود کرتے تو اتنے بڑے کام یہاں ہو سکتے ہیں تو پاکستان کی لجنہ کیوں محروم رہ جاتی ہے کیوں اس کو توفیق نہیں کہ وہ ایسے کام خود کر سکے.اگر بیاہ شادیوں کے موقع پر عورتوں کے معاملات ہوں تو لجنہ کومستعدی اور اخلاص کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں.مردوں کے معاملات ہوں تو انصار اور خدام کو یہ کام سنبھالنے چاہئیں.ہم نے ان کو نمونے دینے ہیں ہم نے ان کو دکھانا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 928 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء اسلامی معاشرہ بعض اقدار کے ساتھ وابستہ ہے.ان اقدار کی حفاظت تم نہیں کر سکتے تو ہم غلامانِ محمد مصطفی سے ہم یہ کر کے دکھائیں گے اور بتائیں گے کہ کس طرح ان اقدار کی حفاظت کی جاتی ہے.پس مشورہ تو یہی ہے کہ اس طریق کو وہاں بھی اختیار کریں.یہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر مردکھانا لے کر آتے ہیں تو بیچ یعنی عورتوں کے کھانے کے بڑے وسیع حال اور مردوں کے آنے کے جگہ کے درمیان ایک چھوٹا سا کمرہ بعض دفعہ قناتوں کی صورت میں بعض دفعہ ویسے ہی کمرہ اس غرض کے لئے وقف کیا جاتا ہے کہ جب مرد آئیں کھانا لے کر تو وہاں عورتیں نہ ہوں.وہ کھانے کا برتن ضرورت کی چیزیں ساری میزوں پر لگا دیں.وہ رخصت ہو جائیں اور عورتیں آئیں اور سنبھالیں اور اپنی بہنوں کی خدمت خود کریں.جو میری بچی کی شادی ہوئی تھی اس میں چونکہ مہمان زیادہ تھے اس لئے ہم نے یہی طریق اختیار کیا تھا اور کوئی دقت نہیں ہوئی اور میرے گھر کی بچیاں بھی اس خدمت میں شامل تھیں.وہ لطف اٹھا رہی تھیں بلکہ انہوں نے بعد میں کہا کہ ہمارے خاندان کی جتنی بچیاں وہاں موجود تھیں کہ جو مزہ خدمت والی دعوت میں آیا ہے ویسا پہلے کبھی نہیں آیا.تو کوئی حرج نہیں ہے ناممکن باتیں نہیں ہیں.لیکن بہر حال اگر کوئی دوسرا طریق بھی اختیار کرتا ہے تو ایک آخری احتیاط ضرور کرنی چاہئے کہ جب بیروں کو اندر بلانا ہو تو پہلے اعلان کیا جائے.یہاں جب دعا کے لئے مجھے خواتین شادی کے موقع پر دعوت دیتی ہیں کہ کھڑے کھڑے یہاں خواتین میں بھی آکر دعا کر وا جائیں.بچی کو دیکھ لیں تو میرے ساتھ ان کے بچی کے اور بچے کے دونوں کے رشتہ دار بھی بعض دفعہ اندر داخل ہوتے ہیں.وہ نہ بھی ہوں تب بھی تاکیڈا میں جانے سے پہلے منتظمین منتظمات سے کہتا ہوں کہ پہلے اعلان کروائیں کئی قسم کی خواتین ہیں احمدی بھی ہیں غیر احمدی بھی ہیں.بعض پر دے میں زیادہ پکی ہیں.بعضوں کے پردوں کے معیار ذرا مختلف ہیں اور ویسے بھی کھانے میں بیٹھے ہوئے انسان اگر کسی سے پردہ نہ بھی کرے تب بھی دوپٹے سر کے ہوئے ہوتے ہیں ایسی حالت میں خواتین بیٹھی ہوتی ہیں کہ مناسب نہیں کہ مردان کو ایسی حالت میں دیکھیں وہ اعلان کروائیں تو جب اعلان ہو جاتا ہے اور کچھ وقفہ ملتا ہے کہ جن عورتوں نے اپنے آپ کو سنبھالنا ہے درست کرنا ہے کر لیں تو پھر ہم اندر جایا کرتے ہیں تو اس طرح بیروں کو اندر داخل کرنے سے پہلے اعلان کہ وہ خواتین جو پردہ کرنا چاہتی ہیں یا اپنے آپ کو ویسے سنبھالنا چاہتی ہیں وہ کر لیں تا کہ بیرے آ کر کھانا رکھ کر واپس چلے جائیں گے یا کسی کام کی غرض
خطبات طاہر جلد ۱۲ 929 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء سے آئیں گے اور واپس چلے جائیں گے تو یہ کم سے کم ضروری ہدایت ہے جس پر عمل کرنا چاہئے.لجنہ اماءاللہ سنگا پور اور اسی طرح انڈونیشیا کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ ان اقدار کو اپنے ہاں رائج کرنے کی کوشش کریں ان ملکوں میں الا ما شاء اللہ پر دے کا رواج بہت کم ہے اور چونکہ اکثر عورتیں سنگا پور میں مثلاً با ہ مختلف کاموں میں حصہ لیتی ہیں اس لئے ان کے لئے اس احتیاط کے ساتھ اپنے آپ کو پردہ میں مقید رکھنا ممکن نہیں ہے جس طرح بعض نسبتا غریب ملکوں میں ممکن ہوتا ہے.ان کو میری نصیحت یہ ہے کہ احمدی اقدار تو یو نیورسل ہیں یعنی اسلامی اقدار ایسی نہیں ہیں جن کا کسی ایک ملک سے تعلق ہو جہاں تک پردے کی روح کا تعلق ہے اس کی حفاظت دنیا کے ہر ملک میں ممکن ہے.ایسا نہ ہو تو پھر اسلام ایک پرانے زمانے کا ایک متروک مذہب سمجھا جائے گا.اسلام ہر زمانے کے لئے ہے، ہر ملک کے لئے ہے.اس کے احکامات میں کوئی ایسی سختی اور تنگ نظری نہیں ہے جس کے نتیجے میں بعض ملکوں میں اس پر عمل ہی نہ ہو سکے.پس اسلام نے جہاں بھی ہمیں آداب سکھائے ہیں وہاں مختلف حالتوں سے تعلق رکھنے والے احکامات ہیں اور ایک بڑا وسیع Scepticism ہے.یعنی ایک وسیع دائرے میں اصول کے تابع یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ہو تو یوں کر لو یہ ہو تو یوں کر لو یہاں تک کہ آخری صورت میں اس کی روح کیسے قائم رکھی جاسکتی ہے.اب عبادتوں کو دیکھیں عبادتیں فرض ہیں پانچ وقت مسجد میں جانا مردوں کے لئے فرض ہے.لیکن مختلف حالتوں میں مختلف نرمی کے سلوک بھی قرآن کریم میں ملتے ہیں احادیث میں بیان ہوئے ہیں اور زندگی عبادت کے ساتھ ساتھ بھی آسان کر دی گئی ہے.یعنی عبادتوں کو مشکل بنا کے نہیں دکھایا گیا بلکہ ہر حالت کے مطابق ان کو آسان فرما دیا گیا ہے.پس پردے میں بھی ایک بڑا وسیع مضمون ہے اس پر میں مختلف وقتوں میں روشنی ڈال چکا ہوں.ان سب باتوں کو میں اب دہرا تو نہیں سکتا.وہ موجود ہیں ٹیسٹس کی صورت میں چھپے ہوئے مضامین کی صورت میں.خواتین ان کو دیکھیں، پڑھیں اور غور کریں اور جہاں تک اسلام نے ایک وسیع دائرہ کھینچا ہے اس دائرے کے اندرر ہیں اس سے باہر نہ کیں، باہر نکلے گی تو اس سے نقصان پہنچے گا.پس انڈونیشیا ہو یا سنگا پور ہو یا افریقہ کے ممالک ہوں جہاں پر دے کے مختلف رنگ رائج ہیں.ان کو اسلامی پردے کی روح سے قدم باہر نہیں نکالنا چاہئے اور وہ روح ایسی نہیں کہ دکھائی نہ دے.برقع تو دکھائی دیتا ہے لیکن برقع نہ بھی تو روح دکھائی دیتی ہے.وہ عورت جو دل کی پردہ دار
خطبات طاہر جلد ۱۲ 930 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء ہے اس عورت کی ادا ئیں نظر آ جاتی ہیں، پہچانی جاتی ہیں.ناممکن ہے کہ کوئی بھٹکی ہوئی نظر اس عورت پر پڑے اور اس کی حوصلہ افزائی ہو.وہ عورت اپنے آپ کو سنبھالنا جانتی ہے.پس یہ کم سے کم روح ہے جس کو قائم رکھنا ضروری ہے اور ایسے ممالک جہاں سے پردے اٹھ رہے ہیں.وہاں اس روح کو زیادہ خطرات درپیش ہیں کیونکہ جہاں پر دے اٹھ چکے ہیں وہاں تھوڑا سا بھی انسان کوشش کرے تو اسلامی پردے کی روح کی طرف قدم بڑھ سکتا ہے.جہاں سے پردے اٹھ رہے ہوں وہاں نفسیاتی بیماریاں قوم کے دل میں جگہ لے لیا کرتی ہیں.وہاں ذرا سا بھی پردہ بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے کسی عورت کو اگلے زمانے کی چیز دکھائے گا اور شرم نیکی سے نہیں بلکہ بدی سے آنے شروع ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں اگلی نسلیں اور بھی زیادہ آگے قدم بڑھاتی ہیں.وہ مجھتی ہیں تھوڑی سی چھٹی ملی ہے تو اس سے بھی زیادہ ہونی چاہئے اور تیزی کے ساتھ اسلامی اقدار کی طرف سے پیٹھ پھیرتی ہوئی ہماری بچیاں غیر اسلامی اقدار کی طرف بڑھنے لگتی ہیں.پس پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ ایسے ممالک میں جہاں پہلے بڑی شدت کے ساتھ پر دے رائج تھے اب بعض نئے تقاضوں کے پیش نظر ویسی سختی نہیں ہو سکتی.وہاں روح کی حفاظت اور بھی زیادہ احتیاط کے ساتھ ضروری ہے اور بھی زیادہ توجہ کے ساتھ ضروری ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس کے بعد کوئی مزید وسوسے دلوں میں پیدا نہیں ہوں گے.جو میں نے بیان کرنا تھا کر دیا.توفیق تو اللہ ہی دے گا اور میری دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ جو باتیں میں کہتا ہوں الفاظ کے چکر میں نہ پڑیں اس کی روح کو سمجھیں اس کے مفہوم کو ذہن نشین کریں اور دل سے ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں.وہ دو آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی ان کا ترجمہ یہ ہے اَعَدَّ اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا اللہ نے ان کے لئے بہت ہی شدید عذاب تیار کر رکھا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کر والے اولوالالباب، اے عقل والو.یہاں ان سے کیا مراد ہے.ان کا ذکر پہلی آیت میں ہو چکا ہے.اور وہ ایک لمباذکر ہے اس لئے میں نے اس آیت کی یہاں تلاوت نہیں کی.وہ قومیں مراد ہیں وہ بستیاں جن کے رہنے والوں نے اپنے رب اور اپنے طرف آنے والے رسولوں کی اطاعت سے روگردانی کی ، ان کی نافرمانی کی اور پھر وہ کس حال کو پہنچے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 931 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء اس کا ذکر پہلی آیت میں ملتا ہے.یہ دوسری آیت جس کی میں نے تلاوت کی تھی یہاں سے شروع ہوتی ہے.اعدَّ اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا الله تعالیٰ نے ان کے لئے بہت شدید عذاب تیار کر رکھا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ پس اے اولو الالباب اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یہاں اولو الالباب سے خصوصیت سے وہی اولو الالباب مراد ہیں جن کی تعریف قرآن کریم میں دوسری جگہ اہلِ ذکر کے طور پر کی گئی ہے.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جنوبهم وہ اولوالالباب وہ صاحب عقل لوگ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں.چنانچہ اسی مضمون کو نبھاتے ہوئے اس آیت کریمہ میں بھی ذکر ہی کے مضمون کو کھول کر ہمارے سامنے پیش فرمایا گیا ہے.اولو الالباب کی تعریف یہ ہے الَّذِینَ آمَنُوا وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور مخاطب وہ ہیں يَأُولِي الْأَلْبَابِ اے اولی الالباب یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے ہو.قَدْ اَنْزَلَ اللهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے ذکر اتارا ہے.رَّسُولًا جو رسول ہے.يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آیت اللہ تم پر اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے.مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا کھلی کھلی روشن آیات ہیں.لِيُخْرِجَ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ تا کہ وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں اور نیک عمل کئے ہیں ان کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے.وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا پس جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح کرے يُدْخِلْهُ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ ان کو اللہ تعالیٰ ایسی جنات میں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.خُلِدِينَ فِيْهَا أَبَدًا ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے.قَدْ اَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک غیر معمولی شان کا رزق بنا رکھا ہے، تیار فرما رکھا ہے.یعنی عَذَابًا شَدِيدًا کے مقابل پر یہ انجام ہے ان لوگوں کا.بعض لوگوں کے لئے اَعَدَّ اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا اور بعض لوگوں کے لئے قَدْ أَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ایسے نیک بندے کے لئے ایک غیر معمولی شان کا رزق تیار کر رکھا ہے.اب یہاں جو ذکر کا مضمون ہے.اسے ایک وجود کی صورت میں پیش فرمایا گیا ہے اور وہ وجود حضرت اقدس محمد مصطفی سے ہیں.آپ تو ذاکر تھے ، مذکر تھے.خدا کو یا در کھنے والے اور لوگوں کو خدا کی یاد کرانے والے تو دراصل ذکر لفظ کے اندر یہ دونوں مفہوم اس وقت شامل ہوتے ہیں اگر کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 932 خطبه جمعه ۳ دسمبر ۱۹۹۳ء شخص ان دونوں باتوں میں سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام تک جا پہنچے.کوئی اللہ کا ذکر اس طرح کرے اور اس کثرت سے کرے کہ اس کے وجود میں اور ذکر میں فرق باقی نہ رہے یعنی ذاکر ذکر بن جائے.تو ایسے موقع پر اس سے بڑی تعریف ممکن نہیں کہ اسے ذکر کہہ دیا جائے.کوئی بدیوں میں حد سے زیادہ بڑھ جائے تو اسے بدی کہہ دیتے ہیں یہ تو مجسم بدی ہے.وہ پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذِكْرًا تو مجسم ذکر تھا اور ایسا ذکر ہم نے تمہارے اندر اتارا ہے اس لئے کہ تم اولی الالباب ہو.اولی الالباب وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کی چیزوں کو دیکھ کر کائنات کو ، خدا کی مخلوقات کو، بدلتے ہوئے موسموں کو، ہر تغیر و تبدل کو جب بھی وہ دیکھتے ہیں خدا یاد آتا ہے.تو فرمایا کہ تم خدا کو یاد کرنے والے لوگ ہو تم روز مرہ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کوشش کرتے رہتے ہو.پس مبارک ہو کہ ہم نے تمہارے لئے ایک مجسم ذکر وجودا تار دیا ہے.تمہیں یہ سکھائے گا کہ ذکر ہوتا کیا ہے.تم اپنی دانست میں جس کو ذکر سمجھتے ہو محمد رسول اللہ کی راہنمائی کے بغیر تمہیں اندازہ ہی نہیں ہوسکتا کہ ذکر کیا ہوتا ہے.اس کے مقابل پر تمہارے ذکر کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اس لئے باوجود اس کے کہ تم اہلِ ذکر ہو تمہیں ایک مربی کی ، ایک مذکر کی ضرورت ہے اور یہ وجود وہ ہے جو مجسم خدا کی یاد بھی ہے اور مجسم خدا کی یاد دلانے والا بھی ہے.جیسے متقیوں کے لئے قرآن ہدایت ہے ویسا ہی مضمون ہے.متقی ہیں تو ہدایت پائیں گے اور ہدایت پائیں گے تو پھر متقی بنیں گے پھر ان کو پتا چلے گا کہ تقویٰ ہوتا کیا ہے.تو ذکر کی اعلیٰ منازل تک پہنچانے والا رسول ہم نے تمہارے اندر اتار دیا تا کہ تمہاری ساری تمنائیں پوری ہو جائیں.تمہیں معلوم ہو کہ ذکر کیا ہوتا ہے.وہ تمہارے اندر اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے بہت کھلی کھلی نشانیاں پیش کرتا ہے تا کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور عمل صالح اختیار کرتے ہیں انہیں ظلمات سے روشنی کی طرف نکال لے جائے.اب یہ دیکھیں کتنا عظیم الشان حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مقام بیان ہوا ہے.کن لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال کر لے کے جائے جو پہلے ہی ایمان لے آئے ہیں اور پھر پاک اعمال ، نیک اعمال کرنے والے ہیں.وہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ویسے ہی نور میں ہیں.فرمایا نہیں تمہیں اندازہ نہیں کہ نور ہوتا کیا ہے، تمہیں پتہ نہیں کہ ذکر کس کو کہتے ہیں؟ تم انسانی کوششوں کی حد تک ذکر کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 933 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء صلى الله حاصل کرنے کی ، ذکر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہو، ذکر الہی میں مصروف رہنے کی کوشش کرتے ہو اور انسانی کوششوں کی حد تک تم ایمان بھی لے آئے ہو اور عمل صالح بھی اختیار کر چکے ہولیکن جب اس وجود کی پیروی کرو گے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہیں.ان سے ذکر کے آداب سیکھو گے ان سے حقیقت میں نور کا حصہ پاؤ گے جونور خدا نے عطا فرمایا ہے.تمہیں یوں محسوس ہوگا جیسے تم اندھیروں میں تھے اور روشنیوں میں نکل آئے ہو.یہ جو واقعہ ہے یہ ایک دفعہ ہور ہنے والا واقعہ نہیں ہے یہ ایک مسلسل جاری واقعہ ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لانے والے اور اعمال صالح کرنے والے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں جب آپ کی احادیث پر غور کرتے ہیں تو ایک مرتبہ نہیں سینکڑوں ہزاروں مرتبہ اگر انہیں شعور حاصل ہو ان کو یوں محسوس ہو گا کہ وہ بہت سے اندھیروں کی حالتوں میں زندگی بسر کر رہے تھے اور نئے رستے کھلتے ہیں روشنی کی طرف جانے کے، نئے بلاوے آتے ہیں نور کی طرف.پس حضور اکرم یا اللہ کا یہ فرض اور یہ مقام اور یہ مرتبہ کہ اندھیروں سے نور کی طرف لانے والا ہے اس کا تعلق محض کافروں اور منکرین سے نہیں ہے بلکہ ہر مومن سے اس کی زندگی کے آخری سانس تک جاری رہتا ہے اور آنحضرت ﷺ ان لوگوں کو جو سمجھتے ہیں کہ ہم اہلِ نور ہیں ان کو وہ الہی نور عطا کرتے ہیں کہ جب وہ مڑ کر دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری گزشتہ زندگی ایک تاریکی میں بسر ہو رہی تھی.پس قرآن کریم نے دیکھیں کس گہرائی کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا تعارف فرمایا اور کس طرح ہمارے جیسے کمزور انسانوں کی ہر طرح کی غلط نبی کو دور فرما دیا کہ تم بظاہر کیسا ہی ذکر کر رہے ہو کیسے ہی نیک اعمال بجالا رہے ہو محمد ﷺ کی محتاجی سے باہر نہیں جا سکتے.جس دن تم نے اس محتاجی سے باہر قدم رکھا تم اندھیروں کی طرف لوٹ جاؤ گے.یہی وجود ہے جس کی طرف لازما ہر حال میں، ہمیشہ کوشش کر کے انچ انچ ، جتنی توفیق ملے قریب تر ہونا پڑے گا اور جب تک قریب ہوتے رہو گے تم اندھیروں سے روشنی کی طرف حرکت کرتے رہو گے.وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا اب دوبارہ پھر دہرایا ہے وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا تُدْخِلْهُ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ اس ایمان کے بعد جس کا پہلے ذکر چلا ہے.ان اعمال صالحہ کے بعد جن کا پہلے ذکر ہو چکا جب تم محمد رسول اللہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 934 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طفیل اندھیروں سے نور کی طرف نکالے جاؤ گے.پھر ایک ایمان نصیب ہوگا، پھر وہ اعمالِ صالحہ نصیب ہوں گے جو دائمی ہیں کیونکہ ان کی جزا بھی دائمی ہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مددکی بغیر جو اعمال صالحہ ہیں ان کے دوام کی کوئی ضمانت نہیں ہے.جو ایمان کی.ہے اس کے ہمیشہ قائم رکھنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے.مگر اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اپنا تعلق بڑھاؤ گے اور اس دامن سے وابستہ رہو گے، چمٹے رہو گے تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ تمہیں ایک نیا ایمان نصیب ہو گا، نئے اعمال صالح عطا کئے جائیں گے اور وہ ایسے ہیں جو دائمی ہیں.خُلِدِينَ فِيهَا ابدا کیونکہ ان کا اجر دائی ہے اور دائی اجر دائمی اعمال کے نتیجے میں مستنبط ہوا کرتا ہے.اگر چہ اعمال موت کی وجہ سے عارضی دکھائی دیتے ہیں مگر دائگی اعمال سے مراد وہ ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ابد کی زندگی بھی عطا کرتا تو یہ مومن جو نیک اعمال کے عادی ہو جاتے ہیں ابد تک کرتے چلے جاتے اور کبھی نہ تھکتے پس اللہ کا احسان ہے کہ موت نے ان کے دار العمل کو ایک موقع پر آ کرختم کر دیا اور لامتناہی دارالا جر میں وہ داخل کر دیئے جاتے ہیں.قَدْ اَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا یہاں لَہ سے مراد ہر ایسا مومن بھی ہو سکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اول طور پر اس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مراد ہیں کیونکہ جمع کے صیغے کے بعد اچا نک واحد کا صیغہ استعمال کرنا کوئی معنے رکھتا ہے.یہ کہا تو جاسکتا ہے کہ ان لوگوں میں سے ہر فرد مراد ہے لیکن حقیقت میں ذِكْرًار سُولًا کی طرف یہ ضمیر اول طور پر جاتی ہے، یہ اشارہ اول طور پر اس طرف جاتا ہے.فرمایا وہ ذکرِ رسول وہ جو مجسم ذکر ہے قَدْ أَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا تم لوگوں کو یہ جنت ملے گی جن میں ہمیشہ جن کے باغات کے نیچے پانی یعنی خدا کے پاکیزہ محبت کے پانی بہہ رہے ہوں گے.لیکن محمد رسول اللہ کے لئے ایک اور بھی زیادہ احسن رزق مقرر فرمایا گیا ہے جس کی کنہ تک تم پہنچ نہیں سکتے.اس لئے رِزْقًا کو نکرہ میں بیان فرما دیا.نکرہ بعض موقع پر عرب اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ غیر معمولی شان بیان کرنی پیش نظر ہو یعنی ایک رزق کوئی ایسا رزق جسے تم جانتے نہیں ہوا اگر تم جانتے الرزق کہا جاتا.جسے تم سمجھ نہیں سکتے اس کی کوئی مثال تم نے دیکھی نہیں کبھی.ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایک قسم کا رزق ہے تمہیں کچھ پتا نہیں وہ کیا چیز ہے.اور چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اس دنیا میں مقام اور مرتبے کا حقیقی عرفان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 935 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء شاید ہی کسی کو نصیب ہو جس کو خدا تعالیٰ عطا فرمائے.اس لئے آپ کا آخری مقام آپ کے غلاموں سے اوجھل ہے اس لئے اس مقام کی جزا بھی اوجھل ہے.یہ مضمون ہے جو یہاں بیان فرمایا جا رہا ہے.کوئی وجود اتنا بلند قامت ہو کہ اس کا اوپر کا سر نیچے دکھائی نہ دے.ویسا ہی منظر قرآن کریم کھینچ رہا ہے کہ تمہارا رزق تو تمہاری کوششوں اور نیکیوں سے مناسبت رکھتا ہے اور اس کو ہم الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں.تم جانتے ہو کہ کس قسم کے ایمان تمہارے ہیں، کس قسم کے اعمالِ صالحہ ہیں.ان سے ملتی جلتی ایک جنت کی جزاء ہم تمہیں بتارہے ہیں کہ یہ ہوگی لیکن ایک میرا بندہ ایسا ہے جس سے تم ذکر سیکھ رہے ہو ، جس سے تم نور پار ہے ہو اس کے مقام کی انتہا تمہیں معلوم نہیں ہے.اس لئے اس کی جزا کو بھی نہیں سمجھ سکتے.قَدْ اَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بہت ہی عظیم الشان، ایک بہت ہی حسین رزق مقرر فرما رکھا ہے.پس ذکر کے گر اگر سیکھنے ہیں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان عبارتوں سے گزشتہ خطبے میں میں نے واضح کیا تھا محمد رسول اللہ اللہ سے سیکھیں.باقی سب محض تماشے ہیں، شعبدہ بازیاں ہیں ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.اسی مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اور اقتباسات میں آج آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آئندہ خطبے سے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذکر کے متعلق جس حد تک میری طاقت میں ہے احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيٍّ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ محمد رسول اللہ اللہ کی حقیقت کو بھی ، آپ کی کنہ کو بھی اللہ کی مرضی کے سوا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اور محض اس حد تک احاطہ کر سکتا ہے جس حد تک خدا اجازت دے اور رہنمائی فرمائے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے آقا اور مولی کے ساتھ ایک ایسا رشتہ تھا جس رشتے کے متعلق خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ کیا رشتہ ہے.اس لئے جب آپ کی آنکھ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں تو کچھ اور زیادہ سمجھ آنے لگتی ہے جو ہماری اپنی آنکھ ویسے دیکھنے سے معذور تھی اور قاصر تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا ان اعمال خیر کو جو پیغمبر میں اللہ سے ملے
خطبات طاہر جلد ۱۲ تھے ترک کر دیا.“ 936 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء رہے ہیں.یعنی آج کل کے صوفیاء اور آج کل کے جو گوشہ نشین، فقیر بنے ہوئے ہیں ان کے متعلق فرما اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا ان اعمال خیر کو جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ملے تھے ترک کر دیا اور ان کی بجائے خود تراشیدہ دورد و وظائف داخل کر لئے اور چند قافیوں کا حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا.“ یعنی قافی کا یہی مفہوم ہے کہ جتنی یاد ہو گئیں بس وہی کافی ہیں.بلھے شاہ کی قافیوں پر وجد میں آجاتے ہیں اور یہی وجہ سے کہ قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو وہاں بہت ہم کم لوگ جمع ہوتے ہیں.لیکن جہاں اس قسم کے مجمع ہوں وہاں ایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے.نیکیوں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذتِ روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا.“ کیسا پاکیزہ تجزیہ فرمایا ہے اس کو کہتے ہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانا مضمون کو کس طرح کھول کر دکھا دیا ہے.وہ لوگ جو وجد کرتے ہیں قوالیوں پر، وہ لوگ جو وجد کرتے ہیں قافیوں پر اور اسی قسم کے کلام پر جس کا ذکر مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اگر ان کو سچا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا تو جتنا وجد وہ ایک بندے کی باتوں پر کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ وجد وہ قرآن پر کرتے لیکن جب قرآن کے ذکر کرتے ہیں تو یہ لوگ یا تو ان مجلسوں میں جاتے نہیں یا ان مجلسوں میں ان کو نیند آنے لگتی ہے.بے تعلق سے ہو جاتے ہیں اور سب سے عظیم نشانی ان کی اس بات کی یہ ہے کم رغبتی نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ ان کی رہتی ہے، باقی رہتی ہے.پس آپ دیکھ لیں.ان علاقوں کا دورہ کر لیں، جہاں بلھے شاہ یا باہو سلطان وغیرہ کے نغمے الاپے جاتے ہیں یا میاں محمد کے گیت پڑے جاتے ہیں.وہ لوگ جو ان سے لذت اٹھا رہے ہوتے ہیں، وہ لوگ جو پڑھ کر سناتے ہیں.ان کی عملی زندگی ان کی اس لذت کو جھٹلا رہی ہوتی ہے.یا یوں کہنا چاہئے ان کی عملی زندگی اس لذت کی تعریف کر رہی ہوتی ہے.اس کا تعین کر رہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 937 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء ہوتی ہے.وہ بتاتی ہے کہ یہ لذت روحانی نہیں تھی جس قسم کے جسمانی شہوانی غلامیوں میں یہ لوگ جکڑے ہوئے ہیں ویسی ہی ان کی لذت ہے.یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ ایک شخص کو ذکر الہی سے لذت نصیب ہو اور وہ پاک نہ ہو.اس کے وجود میں کوئی پاک تبدیلی پیدا نہ ہوا سے اعمالِ صالحہ سے محرومی قائم رہے.پس وہ لوگ جو ان مجلسوں میں جاتے ہیں جیسے بد اعمال لے کر جاتے ہیں ویسے ہی بد اعمال لے کر واپس آ جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان مجلسوں میں جانا برائیوں کو کم کرنے کی بجائے برائیوں میں اضافے کا موجب بن جاتا ہے کیونکہ ان علاقوں میں یہ رواج ہے کہ بعض دفعہ عورتیں بھی گھنگر و پہن کر اور بعض بازاری عورتیں اپنی روحانیت کے اظہار کے لئے اس طرح میدان میں نکلتی ہیں کہ تھرکتی ہوئی رقص کرتی ہوئی ان کے گیت گاتے ہیں اور لوگ ان عورتوں کے نظارے میں محو ہو جاتے ہیں اور دنیا سمجھ رہی ہے کہ یہ بھی خدا والے ہیں وہ بھی خدا والی ہے اور کوئی پاک تبدیلی پیدا ہونے کی بجائے نفسانی شہوات پہلے سے بڑھ جاتی ہیں جب وہ واپس آتے ہیں.اور ایسے سلسلے مزاروں پر بھی چلتے ہیں ہر قسم کی بدیوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں وہاں Drug addiction کے نظارے دیکھنے ہوں تو سب سے زیادہ ان مزاروں پر دکھائی دیں گے.بڑے بڑے مست فقیر بیٹھے ہوئے ہیں جو دراصل کوئی نہ کوئی نشہ کر رہے ہیں.اور وہ اس دنیاوی نشے میں اپنے ذات کو کھوئے ہوئے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اہل اللہ لوگ ہیں خدا میں اپنے آپ کو مگن کر دیا خدا کی ذات میں کھوئے ہوئے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تجزیہ دیکھیں کتنا پیارا، کتنا پاک اور صاف ہے فرمایا یہ تو نہیں کہ لذت ان کو نہیں آتی.وہ تو حال ڈالتے بعض دفعہ ان کو دورے پڑ جاتے ہیں بعض دفعہ کا نپتے ہوئے وہ بے ہوش ہو کے وہ زمین پہ جاپڑتے ہیں.لیکن فرمایا لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا.“ لذت نفس سے بھی ویسی ہی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں.شہوانی جذبات کی جب سیری ہو.اس دوران جبکہ شہوانی جذبات کی سیری کی طرف انسان بڑھ ہوتا ہے جسمانی لحاظ سے بعض دفعہ ویسے ہی لرزے طاری ہو جاتے ہیں.جیسے اللہ کے ذکر میں اس کی محبت میں آگے بڑھتے ہوئے بعض دفعہ سارے وجود پر ایک تھر تھری آجاتی ہے، ایک زلزلہ سا طاری ہو جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ان دونوں چیزوں میں فرق اگر دیکھنا ہے تو ان کے اعمال کا جائزہ لو اگر وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 938 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء بد اعمال لوگ ہیں ، دنیا کی لذتوں میں پڑے ہوئے ہیں اگر وہ انسانی حقوق ادا کرنا تو درکنار ہمیشہ حقوق غصب کرنے کے درپے رہتے ہیں.جھوٹے، رشوت خور، چوریوں کے کمائے ہوئے مال، لوگوں کے ہتھیائے ہوئے مال، ان کی عزتوں اور بڑائیوں کا موجب بنے ہوئے ہیں.دنیا کی سیاستیں ان کے لئے محض دنیا کمانے کا ذریعہ ہیں نہ کہ خدمت انسانیت کرنے کا ذریعہ.ان کے اس کردار میں تم کو کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے.ہاں ان کو مزاروں پر جاتے ہوئے دیکھو گے ان کو کافیاں سنتے ہوئے دیکھو گے اور یہی ان کی نیکی کا معراج ہے.تصویر میں چھپ جائیں گی کہ فلاں بزرگ سیاست دان نے فلاں مزار پر جا کے چادر چڑھا دی اور فلاں جگہ جا کر اس نے کافی میں حصہ لیا لیکن اس کے نتیجے میں اس کے اندر کیا پاک تبدیلی پیدا ہوئی یا اس نے قوم کے رویے میں کیا تبدیلی کر کے دکھائی اس کا کوئی ذکر آپ کو کہیں نہیں ملے گا.پس وجہ یہی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے فرق نہیں سمجھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض ان رقص و سرود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاں اتار لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھتے ہی وجد ہو جاتا ہے.( یعنی پگڑی اتار کے پھینک دی.یہ بتانے کے لئے کہ ہم وجد کی حالت میں ہیں.اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیدا ہو گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جنہوں نے نماز سے لذت نہیں اٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں.وہ روح کی تسلی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہوتا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ لوگ جو اس قسم کی بدعتیں مسلمان کہلا کر نکالتے ہیں.اگر روح کی خوشی اور لذت کا سامان اسی میں تھا تو چاہئے تھا کہ پیغمبر خدا جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیا میں تھے وہ بھی اسی قسم کی کوئی تعلیم دیتے یا اپنے اعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے.میں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گڈی نشین اور صاحب سلسلہ ہیں پوچھتا ہوں کہ کیا پیغمبر خدا تمہارے درود و وظائف اور چلہ کشیاں اور الٹے سیدھے لٹکنا اعلوم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 939 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء بھول گئے تھے.اگر معرفت اور حقیقت شناسی کا یہی ذریعے اصل تھے.مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شریف میں یہ پڑھتے ہیں الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدہ:(۴۱) اور دوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو تو ڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں...“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 63-64 یہ مضمون تو ابھی انشاء اللہ کافی خطبوں تک جاری رہے گا.انشاء اللہ جہاں سے میں نے بات ختم کی ہے آئندہ خطبے میں یہاں سے اس بات کو پھر اٹھاؤں گا.انشاء اللہ.
940 خطبات طاہر جلد ۱۲
خطبات طاہر جلد ۱۲ 941 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء حمد کے سوا کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی.سب سے بڑا وظیفہ نماز ہے.(خطبه جمعه فرموده ۱۰ار دسمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.کچھ دیر پہلے تک تو یہی خیال تھا کہ آج کسی اجتماع کا اعلان نہیں کرنا پڑے گا لیکن جب میں جمعہ پر آ رہا تھا تو بنگال سے اطلاع ملی ہے کہ مجلس انصار اللہ چٹا گانگ کا اجتماع آج 10 دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے اور زعیم اعلیٰ نے خصوصی طور پر دعا میں یا درکھنے کی درخواست کی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اور اقتباسات سے میں آج کے خطبے کا آغاز کرتا ہوں.جو ذکر الہی کے سلسلے میں ہی ہیں.آپ فرماتے ہیں:.الله د پیغمبر علیہ کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کے بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذت روح کے لئے نہیں ہے بلکہ لذت نفس کی خاطر ہے.لوگوں نے لذت نفس اور لذتِ روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے.حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں.اگر لذت نفس ( یعنی نفسانی مزے جو ہر دنیاوی چیز سے انسان اٹھا سکتا ہے ) اور لذتِ روح ایک ہی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 942 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء چیز ہے.تو میں پوچھتا ہوں کہ ایک بدکار عورت کے گانے سے بدمعاشوں کو زیادہ لذت آتی ہے.ایسا کیوں ہے؟“ اگر یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تو بد کار عورت کے گانے پر نیک لوگوں کی بجائے بد معاشوں کو کیوں زیادہ مزا آتا ہے.کیا ان میں لذت روح اٹھانے کا زیادہ مادہ پایا جاتا ہے؟ بہت ہی عمدہ اور بڑی آخری ناطق دلیل آپ نے پیش فرمائی ہے.کیا وہ لذت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے صلى الله جائیں گے؟ ہر گز نہیں.جن لوگوں نے خلاف شرع اور خلاف پیغمبری راہیں نکالیں ہیں ان کو یہی دھو کہ لگا ہے کہ وہ نفس اور روح کی لذت میں کوئی فرق نہیں کر سکتے.اور نہ وہ ان بیہودگیوں میں روح کی لذت اور اطمینان نہ پاتے ان میں نفس مطمن نہ نہیں ہے جو بلھے شاہ کی کافیوں میں لذت کے جو یاں ہیں.روح کی لذت قرآن شریف سے آتی ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه :۶۳) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہم جس خدا کو جانتے ہیں اس کی عبادت اور پرستش کے لئے نہ تو ان مشقتوں اور ریاضتوں کی ضرورت ہے اور نہ کسی مورتی کی حاجت ہے اور ہمارے مذہب میں خدائے تعالیٰ کو حاصل کرنے اور اس کی قدرت نمائیوں کے نظارے دیکھنے کے لئے ایسی تکالیف کے برداشت کرنے کی کچھ حاجت نہیں.بلکہ وہ اپنے بچے پریمی بھگتوں کو آسان طریق سے جو ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے بہت جلد ملتا ہے.انسان اگر اس کی طرف ایک قدم اٹھا تا ہے تو وہ دو قدم اٹھاتا ہے.انسان اگر تیز چلتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کے ہردے میں پر کاش کرتا ہے.“ پھر جہاں تک بہترین وظیفے کا تعلق ہے اکثر لوگ، زیادہ تر ان میں غیر احمدی دوست ہیں.جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی مؤثر وظیفہ بتائیں کوئی ایسا وظیفہ جو ہمارے سارے بگڑے کام بنادے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 943 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی سوال کے جواب میں کہ بہترین وظیفہ کیا ہے.فرمایا.نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے استغفار ہے اور درود شریف ، تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے ہم و غم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں.آنحضرت کے کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا ہے.أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ( یعنی خبر دار اللہ ہی کے ذکر سے دل طمانیت پاتے ہیں.) اطمینان وسکیت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قسم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت ﷺ کی شریعت کے مقابلہ میں بنا دی ہوئی ہے.مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں.ان وظائف اور اور اد میں ( یعنی ورد کا جمع ہے اوراد ) دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اپنے اور ا د میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والے کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.(مولوی صاحب سے مراد حضرت خلیفہ امسیح الاول حکیم مولوی نور الدین ہیں.جب حضرت مسیح موعود محض مولوی صاحب کہتے ہیں تو سب سے نمایاں طور پر آپ کا نام ذہن میں ابھرتا ہے اور وہ ہی مراد ہوتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 944 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو.اس سے تمہیں اطمینانِ قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہئے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے.اس لئے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی نماز کو میری یاد کے لئے قائم کرو.( ملفوظات جلد سوم صفحہ: 310,311) حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کا ذکر کا طریق کیا تھا اور ذکر کے تعلق میں کیا نصیحت فرمایا کرتے تھے.اب میں احادیث کی روشنی میں اس مضمون پر روشنی ڈالتا ہوں.عن جابر رضی الله تعالى عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وعلى آله و سلم يقول افضل الذكر لا اله الا الله وافضل الدعاء الحمد لله ترندى كتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۳۰۵) جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.انہوں نے کہا میں نے رسول اکرم ﷺ کو سنا یہ کہتے ہوئے کہ سب سے افضل ذكر لا اله الا الله ہے.وافضل الدعاء الحمد لله اور دعاؤں میں سے اعلیٰ دعا الحمد للہ ہے.یہاں افضل الذكر لا اله الا الله جو قرار دیا ہے.اس کے متعلق میں پہلے تو حید کے مضمون پر خطاب کرتے ہوئے روشنی ڈال چکا ہوں.دراصل اس میں ہر قسم کا منفی اظہار بھی شامل ہے جوذ کر کے ساتھ ضروری ہے یعنی لا الہ الا اللہ میں اور ہر قسم کا مثبت اظہار بھی شامل ہے جو ذ کر کے لئے ضروری ہے.منفی ان معنوں میں کہ خدا سو جتنے تعلقات ہیں ان سب کی نفی کر دی جائے.اور ہر قسم کے معبود کی نفی لا الہ میں نفی جنس ہے اور اور بھی نفی کے سب مضامین شامل ہیں.اله کہتے ہیں ایسا وجود جس کے سامنے انسان اپنی انا کو جھکا دیتا ہے.اور تو ڑ دیتا ہے ہر دوسرے تعلق میں آنا کا کوئی نہ کوئی پہلو باقی رہتا ہے اور بعض موقع انسان اختلاف کی صورت میں کہتا ہے اچھا جاؤ بھاڑ میں جاؤ تم ادھر اور میں ادھر.لیکن معبود کے ساتھ تعلقات میں یہ تعلق قطع کرنے کا کوئی امکان داخل نہیں ہے کیونکہ انا تو ڑ کر یہ تعلق رکھا جاتا ہے.تبھی اس کا اعلیٰ نشان سجدے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.انسان اپنے وجود کو ماتھے کومٹی میں ملا کر اور اپنے وجود کو زمین پر پھنک کر بتاتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 945 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء کہ میں کچھ بھی نہیں رہا میر اسب کچھ مٹ گیا ہے.دوسرا اللہ میں محبت کا مضمون بھی پایا جاتا ہے.خواہش کی انتہاء کا تو ایسا وجود جس کے ساتھ تمام تر محبتیں وابستہ ہوں تمام تمنا ئیں وابستہ ہوں تمام خواہشات کا مرجع ومنبع ہو ایسے وجود کو بھی اللہ کہا جاتا ہے.پس اللہ سے ملتا جلتا لفظ ہی خواہشوں کے لئے عربی میں پایا جاتا ہے.تو لا الہ کا مطلب یہ بنا کہ کوئی بھی ایسا وجود نہیں.جس کے سامنے میں نے اپنی انا توڑی ہو اور اپنے وجود کو مٹا دیا ہواس طرح کہ میری کوئی حیثیت نہیں اور میں اس بے حیثیتی میں دوسرے کے سامنے جھک گیا ہوں.اور اس کی ہر بات کو تسلیم کروں گا.خواہ وہ خدا کی طرف سے ہو یا نہ ہو اور نہ محبت ایسے وجود سے رکھتا ہوں جس کے بعد میری ساری محبتیں تمام تر اس کے لئے ہو جائیں اور کسی اور کی محبت کی براہ راست گنجائش باقی نہ رہے.یہ جو براہ راست کا لفظ میں نے داخل کیا ہے.یہ اس لئے کہ جب ہم آگے بڑھیں گے ذکر کے مضمون میں تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم انسانی تعلقات میں محبت کی نفی نہیں فرماتے مگر اس کو ایسے رنگ میں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کی محبت اس کے مقابل پر نہیں رہتی.اس میں شامل ہو کر وہ محبت ظاہر ہوتی ہے.تو جب وہ موقع آئے گا تو آپ اس کو سنیں گے.پس یہ کہنا درست ہے کہ اللہ میں ہر قسم کی محبتوں کا مرکز کا مضمون پایا جاتا ہے اور ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ تیرے سوا تیری محبت کے سوا ہماری کوئی محبت باقی نہیں رہی.ایسا وجود ہے جس کے سامنے جب جھکتے ہیں.تو خوف سے بھی جھکتے ہیں، طمع سے بھی جھکتے ہیں.ہرقسم کی تمنا ئیں اس سے وابستہ ہو جاتی ہیں ہر قسم کے تعلقات اس سے باندھے جاتے ہیں.تو ان سب کی اللہ کے سوانفی کر دینا یہ سب سے بڑا ذکر ہے.ذکر کا ایک پہلو یعنی.اور پہلو سے تفصیل سے میں روشنی ڈال چکا ہوں.کہنے کو تو چھوٹی سی بات ہے یعنی تھوڑے وقت میں کہی جاسکتی ہے.مگر غور کریں تو ساری زندگی غور کریں اور تلاش کرتے رہیں آپ کو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی قسم کے اللہ ملتے ہی رہیں گے.جن کے سامنے آپ نے سرجھکایا ہو گا یا جن کی محبت سے آپ وابستہ ہو گئے ہوں گے اور اس میں اللہ کی محبت کا دخل نہیں ہو گا.پس مضمون بہت وسیع ہے اور ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے اور ہر دفعہ ذکر کے وقت اس پہلو کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ لا الہ الا اللہ کا مضمون صادر نہیں ہوتا یعنی اطلاق نہیں پاتا.پس
خطبات طاہر جلد ۱۲ 946 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء مومن اپنے عرفان کے آخری مقام پر بھی پہنچ چکا ہو وہ جو توحید کا کلمہ بیان کرتا ہے اس میں لا الہ سے بات شروع کرتا ہے.بعض تو ایسے صوفیاء بھی گزرے ہیں جنہیں اس بنا پر قتل کر دیا گیا.علماء کے فتویٰ کے نتیجے میں جن کا یہ دعوی تھا ابھی ہم لا الله سے باہر ہی نہیں نکلے الا اللہ کی بات کیا کریں.یعنی ساری زندگی انہوں نے غور وفکر میں گزار دی اور وہ کہتے تھے کہ ابھی ہم اللہ کے اثبات والی منزل میں داخل ہی نہیں ہوئے.ابھی تو لا الہ کا جھگڑا ہی نہیں ختم ہوا طرح طرح کے الہ نظر آتے چلے جاتے ہیں.ایک اللہ کو مٹاتے ہیں اس کے پیچھے سے دوسرا اللہ سر اٹھا لیتا ہے.تو ہم کیسے کہیں کہ الا الله ایک مغل بادشاہ نے اس کے نتیجے میں ایک ایسے فقیر صفت انسان کو علماء کے مجبور کرنے اور فتوی دینے کے نتیجے میں قتل کروا دیا.تو سرمد ان کا نام تھا، نام تو کچھ اور تھا لیکن سرمد کہتے تھے کہ گویا وہ ہمیشہ کے زندہ رہنے والے انسان ہیں انہوں نے پیشگی پالی اس دنیا میں تو دیکھئے کہ لا الہ کا مقام کیا ہے اور مرتبہ کتنا بڑا ہے ذکر میں کہ بعض صوفیاء نے اپنی جانیں دے دیں اور اس مقام سے باہر ہی نہیں نکلے اپنا وجود مٹادیامگر اور کوئی معبود نہیں ہے.یہ مضمون سمجھنے میں ابھی پوری دسترس ان کو حاصل نہیں ہے.الا اللہ جب کہتے ہیں تولا اللہ کا طبعی نتیجہ یا تو یہ نکلتا ہے کہ سب دنیا خلا ہے، کچھ بھی نہیں، کوئی حقیقت نہیں یا پھر یہ نکلتا ہے کہ اللہ کے سوا کچھ بھی اور نہیں ہے.جو بھی ہم دیکھتے ہیں، اللہ ہی کا جلوہ ہے.اللہ ہی کے تعلق سے پھر چیزیں نیا وجود پکڑتیں ہیں اور ان کے سوا وجود کی بھی کوئی حقیقت نہیں.نہ محبت ہے، نہ نفرت ہے.کچھ بھی باقی نہیں.یہ ہے ذکر اور جب اللہ کے ذکر میں داخل ہوتے ہیں.تو اللہ ہے کیا؟ یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اللہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ، احادیث کا مطالعہ، روزمرہ کائنات پر غور، یہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں.پس خلاصہ اسے سب سے بڑا ذ کر اسی لئے قرار دیا ہے.اس میں ہر چیز شامل ہوگئی ہے.ذکر کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جو لا اله الا اللہ کے سائے سے باہر رہا ہو.اور افضل الدعاء الحمد لله ، دعا جو سب سے بڑی دعا الحمد للہ ہے اس کا ایک معنی تو یہ ہے یعنی ایک اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ صرف کلمہ الـحـمـد لله بیان فرمایا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سورۃ فاتحہ مراد ہے اور نماز میں جو ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا لازم قرار دیا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 947 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء گیا.اس کی وجہ یہی ہے کہ نماز در حقیقت سب سے اعلیٰ دعا ہے اور اس دعا کا طریق سورۃ فاتحہ ہمیں بتاتی ہے.سورۃ فاتحہ کے ذریعے دعا کامل ہوتی ہے.لیکن اگر صرف لفظ یعنی پہلا جملہ الحمد للہ کو ہی یہاں منطوق سمجھا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا منشاء سمجھا جائے تو پھر اس کا یہ مطلب بنے گا کہ حمد کے سوا کوئی دعا قبول نہیں ہو سکتی.تو جب مانگتے ہوتو تعریف کرنا ضروری ہے.یہاں ایک انسانی فطرت میں جو جو ہر پایا جاتا ہے اس کی طرف اشارہ ہے اور چونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح فطرت، اپنی فطرت پر پیدا فرمایا ہے.اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ہم اگر اپنی فطرت کو جو پاک حالت میں ہو بگڑی نہ ہو اس کو پہچان لیں، اس پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ سے تعلقات کے راستے دکھائی دینے لگیں گے.اللہ تعالیٰ سے تعلقات کے صحیح طریق سمجھ آنے لگیں گے.جن معاملات میں انسانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں جس طریق پر مضبوط ہوتے ہیں.جن معاملات میں انسانی تعلقات کاٹے جاتے ہیں جن طریق پر کاٹے جاتے ہیں.اگر انسان اپنے نفس میں ڈوب کر غور کرے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلقات استوار کرنے کا گر سیکھ سکتا ہے اور یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ میں کیا کروں گا تو اللہ سے تعلق کا ٹا جائے گا.الحمد لله کا مضمون تو ہر فقیر ہی نہیں بلکہ ہر شخص جانتا ہے.جس نے کسی سے کچھ طلب کرنا ہو اس کی تعریف کرتا ہے.ایک عاشق اپنے محبوب کے حسن کی تعریف کرتا ہے حالانکہ محبوب جانتا ہے شاید اس سے بھی زیادہ اس کو حسن پر زعم ہو جو عاشق جانتا ہو.لیکن پھر بھی وہ تعریف کرتا ہے.ایک فقیر جس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اس کی تعریف کرتا ہے.پس اگر دنیا کے تعلقات میں تعریف طلب کے ساتھ ایک لازمی تعلق رکھتی ہے ایک اٹوٹ تعلق رکھتی ہے.تو اللہ سے طلب کرتے وقت حمد کو نہ بھولنا.الحمد ہی میں تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا راز پایا جاتا ہے.یہ تو ہے پہلا سطحی معنی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ میرے نزدیک الحمد للہ میں محض یہ تعریف نہیں ہے جس کا ہم روز مرہ انسانی تعلقات میں ذکر کرتے ہیں بلکہ ایک ایسی تعریف ہے جس کا انسانی تعلقات سے تعلق ہی نہیں ہے.سطحی طور پر یہ بات درست ہے جو میں نے عرض کی ہے لیکن زیادہ گہرائی میں عارف باللہ کو اس کے پیچھے ایک اور بات دکھائی دیتی ہے.وہ یہ ہے کہ حم حقیقت میں خدا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 948 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء ہی کی ہے اور کسی چیز کی نہیں ہے.ایک شخص جتنا فقیر ہوا تنازیادہ دینے والے کو اس پر رحم آتا ہے.جتنا ننگا ہو، جتنا بے اختیار ہو، بھوکا ہو کچھ بھی اس کے پاس نہ ہو.جتنی زیادہ بے بسی کی بے اختیاری کی حالت پائی جاتی ہے اتنا ہی دیکھنے والے کو رحم آتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ بعض دفعہ سنگ دل آدمی بھی کسی کو ایسی بدحالت میں دیکھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ نکال دیتے ہیں.توالحمد للہ بہترین دعا ہے، اس کے جو حقیقی معنی میں سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اگر تم غور کرو تو تمہاری حمد ہے ہی کوئی نہیں.تم ہر چیز سے عاری ہو.اللہ نے جو کچھ دے دیا تھوڑا بہت اسی پر ناز کرتے پھرتے ہو تمہارا اپنا کچھ بھی نہیں ہے.اگر ان معنوں پر غور کرتے ہوئے دل کی گہری سچائی سے بے اختیار تمہارے دل سے چیخ اٹھے کہ اے اللہ مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے.سارے جہان میں کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے مگروہ جو تیری ذات سے اس کو عطا ہوئی اور جس میں تیری ذات جھلکتی ہے.پس الحمد للہ تمام تر تعریف کلیۂ کامل تعریف ہر چیز تعریف سے تعلق رکھنے والی.تیری ہے ہماری کچھ بھی نہیں ہے.جب ایک عارف باللہ دل کی گہرائی سے یہ اقرار کرتا ہے تو یہ اقرار اس میں شامل ہے کہ میں تو بالکل ننگا ہو گیا ہوں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہا میں تو نہتا ہو گیا.ہر تعریف میں دل کی گہرائی سے سوچ سمجھ کر یقین سے تیرے پاک نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں تجھ میں ہے اور مجھ میں کچھ بھی نہیں.اس حالت میں اپنے وجود کو جب وہ خدا کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس پر رحم ایک لازمی بات ہے.انسان جب ایک دوسرے پر اس حالت میں رحم کر دیتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تو بہت ہی رحیم وکریم اور رحمن و رحیم ہے.تبھی اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے بعد الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا ذکر ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت میں اللہ کی تعریف کرتے ہیں اور دنیا کو تعریف سے خالی کرتے ہیں.اچانک وہ دیکھیں گے کہ ان کا رب بہت رحم کرنے والا اور بہت ہی رحیم ہے.بار بار رحم کرنے والا ہے.تو آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جہاں جہاں بھی ذکر فرمایا ہے اس کا سرسری مطالعہ نہ کیا کریں بلکہ گہرائی میں اتر کر دیکھیں.تو مضامین کے جہاں ان میں پوشیدہ دکھائی دیتے ہیں.ایک اور حدیث ہے مسلم کتاب الذکر سے لی گئی ہے.عن ابى موسیٰ رضی الله تعالى عنه قال كنا مع النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم في سفر فجعل الناس يجهرون بالتكبير
خطبات طاہر جلد ۱۲ 949 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء فقال النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم ايها الناس اربعوا على انفسكم انكم لستم تدعون اصم و لا غائبا انكم تدعون سميعا قريبا و هو معكم.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر : ۴۸۷۳) مسلم کتاب الذکر میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے.بعض لوگوں نے بڑی بلند آواز سے تکبیر کہنا شروع کر دی.الله اکبر، الله اکبر کے ورد سے وہ ساری وادی گونج اٹھی ہو گی.آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایاایها الناس اربعوا على انفسکم اے انسانو! کچھ میانہ روی اختیار کرو، ایک بات میں حد سے زیادہ ایک طرف نہ جھک جایا کرو.میانہ روی کی راہ اختیار کرو.انکم لستم تدعون اصم ولا غائبا تم کسی بہرے کو تو مخاطب نہیں ہو رہے نہ کسی غائب کو مخاطب ہورہے ہو.تم تو اس کو پکار رہے ہو جو بہت سنے والا ہے اور قریب ہے.وھو معکم وہ تو تمہارے ساتھ ہے.اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بلند آواز سے تکبیر کرنا منع ہے.موقع اور محل کے مطابق بعض دفعہ بلند آواز سے تکبیر کرنا نہ صرف منع نہیں بلکہ ضروری ہو جایا کرتا ہے.جنگِ احزاب کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا وہ نعرہ جس کے نتیجے میں خوف زدہ ہو کر جو احزاب جمع ہوئے ہوئے تھے، قبیلوں کے لوگ وہ دوڑ پڑے ہیں.یعنی جس آواز سے ڈر کر پہلے کسی کے پاؤں اکھڑے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ سارے قافلے نے اپنے اپنے خیمے اکھڑ دیئے اور بعض سواریوں پر اس طرح سوار ہو کر دوڑنے کی کوشش کی کہ وہ کلوں کے ساتھ بندھی ہو ئیں تھیں، بے حد افراتفری پیدا ہوئی ہے.اس کا آغاز نعرہ تکبیر سے ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم رات کو خیمے سے باہر آئے اور بلند آواز سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیا الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر.یہ نعرہ سن کے تمام صحابہ اس نعرے میں شامل ہو گئے اور اتنی شوکت تھی اتنی ہیبت تھی اس نعرے کی کہ دشمن سمجھا کہ ان کو غیب سے کوئی کمک آگئی ہے.وہ کمک تو اللہ کی طرف سے آئی تھی اللہ کی طرف سے بشارت ملی تھی لیکن انہوں نے اپنی نادانی میں یہ سمجھا کہ دنیا جس سے وہ خوف کھاتے تھے دنیا کی مددان کو ملی ہے اور اس سے ان کے حو صلے ٹوٹ گئے.پس نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنا صرف اس روایت سے نہیں بلکہ اور بھی بہت سی روایات
خطبات طاہر جلد ۱۲ 950 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء سے ثابت ہے.جہاد کے دوران مسلمان نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے تھے اور دشمنوں پر ہیبت طاری ہوتی تھی.یہاں اور موقع ہے سفر میں جارہے ہیں.ذکر الہی کی تمنا پیدا ہوئی ہے.تو سب نے اونچی اونچی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا.اس سے خطرہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو خاموش ذکر کرنا چاہتے ہیں.ان کے ذکر میں ایسے لوگ مخل ہو جاتے ہیں.یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اس کو ایک رسم ہی نہ بنا لیا جائے.جس طرح الله هو ، الله هو کی آوازیں بلند کرنے والوں نے ذکر کی بجائے اس کو ایک رسم بنالیا اور سننے والوں پر ہیبت طاری کرنے کی ایک بے وجہ کوشش کی گویا ہم بہت بزرگ ہیں اللہ کی ہیبت نہیں ہماری ہیبت سے ڈرو.پس ان رسومات کو قطع کرنے کے لئے ان کا قلع قمع کرنے کے لئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ دیکھو تم کس کو مخاطب ہو رہے ہو.اللہ کو؟ وہ تو بہرا نہیں ہے، وہ دور بھی نہیں ہے، بہرے کو اونچی آواز میں سناتے ہیں، جو دور ہو اس کو اونچی آواز میں پکارتے ہیں وہ تو نہ بہرہ ہے نہ دور ہے، تمہارے ساتھ ہے.تو یہاں ذکر کا انداز سکھایا گیا ہے.وہ ذکر الہی جو زیادہ تر دل میں کیا جاتا ہے اور زبان پر اگر اظہار ہوتو اتنا اونچا نہیں ہوا کرتا کہ جس سے ساتھیوں کے ذکر میں خلل واقع ہو جائے اور غالبا خلل ہی کا مضمون ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تہجد کے وقت بھی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کونصیحت کرتے ہوئے ایک کو فرمایا کہ تم ذرا اونچا کر تھوڑ اسا تا کہ رات کا وقت ہے مراد یہ تھی کہ کہیں دل میں سوچتے سوچتے نیند ہی نہ آ جائے.کچھ ہلکا سازبان پر بھی ذکر جاری ہو اور جو اونچی آواز سے کر رہے تھے ان کو فرمایا که انتنا اونچی نه کر و دھیما دھیما، ذرا تحمل سے ہتھوڑا تھوڑا پڑھو.تو ہر موقع محل کے مطابق حضرت اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نصیحت فرمایا کرتے تھے.اس لئے ایک نصیحت کو موقع محل سے ہٹا کر اس سے نئے استنباط کرنا جائز نہیں ہے.جو نسبتا کم علم لوگ ہوں وہ چھوٹی بات پر زیادہ اچھل جاتے ہیں اور علماء کو میں نے دیکھا ہے کہ حدیث کا ایک پہلو پکڑ لیا اسی پر شور مچاتے چلے جاتے ہیں.سوچتے نہیں کہ وہ ایک موقع سے تعلق رکھنے والی حدیث ہے ایک اور موقع سے تعلق رکھنے والی ویسی ہی حدیث اور معنے رکھتی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کلام میں نتیجہ نکالنے میں جلدی نہیں کرنی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 951 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء چاہئے.کسی نے یہ حدیث پڑھ لی اور فرض کریں کسی مجلس میں بیٹھا ہوا نعرہ ہائے تکبیر بلند ہورہے ہیں.اٹھ کے کھڑا ہو گیا کہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں.تو اکثر تھر دل لوگ، چھوٹے دل لوگ چھوٹے سے علم پر اچھل جاتے ہیں اور بے وجہ اٹھ کر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں.اس لئے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ آنحضور کے کلام کو نہ صرف گہرائی میں جا کر اس کا معنی تلاش کرنے کی کوشش کریں بلکہ اس کے گرد و پیش پر بھی نظر ڈالا کریں.کون سا موقع تھا کیا محل تھا جس میں وہ بات فرمائی گئی اور اس کے مطابق پھر نتیجہ اخذ کیا کریں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.عن ابی هریره رضى الله تعالى عنه عن النبي صلى الله عليه وعلى آله و سلم قال سبعة يظلهم الله تعالى في ظله يوم لا ظل الا ظله الامام العادل وشاب نشأ بعبادة الله ورجل قلبه معلق بالمساجد.(مسلم کتاب الزکوۃ حدیث نمبر:۱۷۱۲) یعنی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ سات ایسے انسان ہیں جن پر ایک ایسے دن خدا کا سایہ ہو گا جس دن خدا کے سائے کے سوا کوئی اور کوئی سایہ نہیں ہو گا.مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا نقشہ کھینچا گیا ہے.جبکہ سب ملکیتیں خدا کی طرف لوٹ جائیں گی.کوئی مجازی سایہ بھی میسر نہیں ہو گا سوائے خدا کے سائے کے.فرمایا سات ایسے انسان ہیں جن کو وہ سایہ نصیب ہو گا جن پر خدا کی رحمت سایہ فگن ہوگی.امام عادل امام ہو اور عادل ہو ، عدل کرنے والا ہو.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ایسا امام ہو جو شریعت کے مطابق حکومت کرے.حکومت کا خلاصہ یہ ہے کہ عدل ہو اور وہی امام خدا کے سایہ فضل تلے ہو گا.جو عدل سے حکومت کرے.پھرفرمایاوشاب نشاء في عبادتة الله تعالیٰ.اور وہ جوان جو جوانی ہی میں راتوں کو اٹھ کے خدا کی عبادت کرنے والا ہو.و رجل قلبه معلق بالمساجد اور ایسا شخص جس کا دل مسجدوں میں انکا ر ہے.ایک نماز کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری، چوتھی ، پانچویں اور پھر دوبارہ یہی سلسلہ شروع.ہر روز ہر وقت نماز کی طرف دھیان رہے کہ اب کون سی نماز آنے والی ہے اب کون سی نماز آنے والی ہے اور بار بار مسجدوں کے پھیرے لگانے والا ہو.فرمایا ایسا شخص بھی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 952 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سایہ تلے ہوگا.ورجلان تحابا في الله اجتمعا اليه وتفرقا الیہ.اور دو ایسے شخص جو اللہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں یعنی لا الله والا وہی مضمون جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا.ساری محبتیں مٹ گئی ہیں مگر اللہ کی محبت کے نتیجے میں جو محبتیں پیدا ہوتیں ہیں وہ نہیں مٹیں.تو زیادہ قوت کے ساتھ جلوہ گر ہوتیں.دو ایسے مرد جو محض اللہ کے لئے محبت کرتے ہوں.اسی محبت میں وہ ایک دوسرے سے ملیں اور اسی محبت میں ایک دوسرے سے جدا ہوں.ورجل دعته امراة ذات منسب و جمال فقال انی اخاف الله اور وہ شخص جسے ایک صاحب منصب ، صاحب عزت اور صاحب جمال عورت اپنی طرف بلائے اور وہ اسے کہے کہ انسی اخاف الله کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں.یہاں حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ ہے.اور اس مضمون میں جو جو بھی داخل ہے ان سب کی طرف.ورجل تصدق بصدقة فاخفاها حتى لا تـعـلم شماله ما تنفق يمينه ایسا شخص جو اس طرح صدقہ دے کہ اسے چھپالے دنیا کی نظر سے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو یہ پتا نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے.ورجـــل ذکر الله خاليا ففاضت عیناہ اور اس شخص پر بھی اللہ کی رحمت کا سایہ دراز ہوگا جو اکیلا ہو، تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتا ہو اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں اس محبت کے نتیجے میں.پس یہ سات ہیں.جن پر خدا کی رحمت کا سایہ ہو گا اور ان میں، آخر پر جو میں نے ذکر کیا ہے.یہ ہے ذکر الہی کا انداز یعنی خدا کو علیحدگی میں جب کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو.اس طرح پیار سے یاد کیا جائے کہ بے اختیار محبت کے آنسو آنکھوں سے رواں ہو جائیں اور ایسے ذکر کرنے والے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خوشخبری دی ہے کہ یقینا قیامت کے دن جب کوئی سایہ میسر نہ ہوگا.اللہ کی رحمت کا سایہ ایسے شخص پر دراز ہوگا.ترمذی کتاب الدعوات میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.ان رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم قال ينزل ربنا تبارک و تعالی كل ليلة الى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الاخر فيقول من يدعونى فاستجيب له من يسالني فاعطيه ومن
خطبات طاہر جلد ۱۲ 953 يستغفرني فاغفر له.( ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۱۲۶۱) خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہمارا رب رات کو سماء الدنیا کی طرف اس وقت اترتا ہے حين يبقى ثلث اللیل الآخر کہ رات کا آخری تہائی ابھی باقی ہوتا ہے یعنی وہ وقت جو تہجد کا وقت ہے اس سے تہجد کے وقت کی تعین بھی ہوگئی کہ پوری رات کو اگر تین حصوں میں تقسیم کر دیں.تو آخری تیسر ا حصہ جو ہے وہی دراصل معروف اور مستحب تہجد کا وقت ہے.فرمایا اللہ تعالیٰ ایسی صورت میں ہمارا رب نازل ہوتا ہے اور یہ کہتا ہے من يدعوني فاستجيب له کون ہے جو مجھے پکارتا ہے تا کہ میں اس کی پکار کا جواب دوں.معین شخص نہیں ہے کہ جس کی پکار کا میں جواب دے رہا ہوں یا دیتا ہوں یعنی اس تلاش میں آواز دیتا ہے.کون ہے مجھ سے محبت کرنے والا میں میدان میں اس کو اجر دینے کے لئے آ گیا ہوں.پس مجھے بلانے والا ہے کون جس کی آواز کا میں جواب دوں.افسوس ہے کہ نبوت سے زمانہ جتنا دور چلا جاتا ہے.اتنا ہی یہ میدان خالی ہوتا چلا جاتا ہے اور حقیقت میں اللہ کی محبت میں اٹھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے.پس ایسے وقت میں جہاں نبوت سے دوری یعنی وقت نبوت سے دوری اپنی ذات میں ایک محرومی ہے.وہاں ایک پہلو سے وہ غیر معمولی فضل بھی بن جاتی ہے کیونکہ جب ایسے وقت میں خدا کی خاطر اس کی محبت میں اٹھنے والے کم ہورہے ہوں اگر کوئی اٹھے اور اس کی آواز کا جواب دے تو وہ عام لوگوں کے مقابل پر زیادہ فیض پاتا ہے کیونکہ جنس جتنی کم ہوتی جاتی ہے قیمت بڑھتی جاتی ہے.پس یہ مضمون یہاں بھی صادق آتا ہے.اللہ تو اتر آیا ہے لیکن مانگنے والے نہیں ہوتے.فرمایا اس وقت خدا فرماتا ہے وہ کون ہیں مجھ سے مانگنے والے، وہ کہاں ہیں، میں آگیا ہوں تا کہ میں ان کی دعاؤں کو قبول کروں.من يسالنی فاعطیہ کون ہے جو مجھ سے سوال کرتا ہے تا کہ میں اسے عطا کروں.ومن يستغفرني فاغفر له کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کر رہا ہے تا میں اس کی بخشش کو قبول کروں، اس کی استغفار کو قبول کروں اور اسے بخشش دوں.عن جابر بن عبد الله قال خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم فقال يا ايها الناس ارتعوا في رياض الجنة قلنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 954 يارسول الله ما رياض الجنة.( حديقة الصالحين صفحه :۹۲) خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک دفعہ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اے لوگو ! جنت کے باغات میں چرو، جس طرح بھیٹر بکریاں چرتی ہیں.ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ جنت کے باغ ہے کیا چیز ؟ جہاں جا کر ہم چریں.فرمایا.قـال مـجـالــس الذکر ، ذکر کی مجلسیں ، ذکر کی مجلس لگاؤ.جو پہلا مضمون تھا وہ اکیلے یاد کرنے کا تھا.یہاں مجلسوں میں یاد کرنے کا ذکر ہے اور اسے ریا کاری نہیں فرمایا گیا بلکہ محبت کے تقاضے کے نتیجے میں بعض دفعہ دو عشاق ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ہیں.جیسے ایک شاعر نے کہا ہے کہ آ عند لیب مل کے کریں آہ وزاریاں تو ہائے گل پکار ہم چلا ؤں ہائے دل تو محبت میں یہ مضمون شامل ہے کہ بعض دفعہ تنہائی میں علیحدہ ہو کر ایک مجنون صحراؤں میں نکل جاتا ہے اپنے محبوب کی یاد میں، کبھی وہ اپنے جیسوں کی تلاش کرتا ہے کہ آؤ مل بیٹھ کر اپنے پیارے کا ذکر کریں.تو ریاض فرمایا جس کا مطلب ہے باغ.ایسی جگہ جہاں ایک جیسے اور بھی بہت سے وجود پائے جاتے ہیں ملتے جلتے خوبصورت پھول اکٹھے کئے جاتے ہیں.تو فرمایا کہ ریاض الجنۃ میں جاکر چرا کرو.پوچھا وہ ریاض الجنۃ کیا ہے تو فرمایا کہ ذکر کی مجالس لگاؤ.قال اغذوا وروحا وذكروا من كان يحب ان يعلم منزلته عند الله تعالى.(حديقة الصالحين : ۹۲) فرمایا صبح بھی ایسا کرو اور شام کو بھی ایسا کرو اور اللہ کو ہر وہ شخص یاد کرے من كان يحب ان يعلم منزلته عند اللہ تعالیٰ.اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے مقام کو خدا کے حضور معلوم کرے کہ وہ ہے کیا ؟ یہ بہت ہی گہرا امضمون ہے اس پر ٹھہر کر غور کریں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کتنا عظیم نقطہ سمجھایا جا رہا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں خدا سے تعلق ہے خدا کو بھی ہم سے تعلق ہوگا اور بعض تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی سمجھتے ہیں کہ خدا کا ہم سے لازم ہے تعلق.جیسے یہود دعوی کیا کرتے تھے یا عیسائی ایک زمانے میں دعوی کیا کرتے تھے کہ ہم ہی ہیں جو خدا کو پیارے ہیں.جو چاہئیں ہم کرتے پھریں ہمیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 955 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء اس کی کھلی چھٹی ہے تو ایسے پیارے جن کو یقین ہو کہ ہر حال میں ہم سے پیار کرنے والا ضرور پیار کرے گا.بجائے پاک وصاف ہونے کے گنہ گار ہونا شروع ہو جاتے ہیں.ایسے بچے جو ماں باپ کی اندھی محبت پر ایمان رکھتے ہوں اور یہ دعوے کرتے پھریں کہ ہم فلاں کے بیٹے ہیں کون ہے جو ہمیں پوچھ سکے، ہم جو چاہیں کریں.وہ بھٹک جایا کرتے ہیں اور اکثر ان کا انجام گنہگاری پر ہوتا ہے یا جرائم پر ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی نہیں ہے کہ کوئی قوم ایسا دعوی کر بیٹھے کہ ہم خدا کے احباء ہیں کون ہے جو ہم پہ ہاتھ ڈال سکے.کون ہے جو ہم پہ تنقید کرے ہم جو چاہیں کرتے پھریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ اللہ سے تعلق ایسے نہیں ہوا کرتے.تم خدا کا ذکر کیا کرو اور پھر اس ذکر کے نتیجے میں تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارا اللہ سے کیا تعلق ہے.اللہ کو تم کیسے پیارے ہو.یہ مضمون بہت گہرا ہے.قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے.فَاذْكُرُونِي اَذْكُرُكُمْ کہ اے میرے بندو! میرا ذکر کیا کرو میں اس کے جواب میں تمہارا ذکر کروں گا.پس اگر ایک انسان سچا ذکر کرتا ہے اور اس ذکر کے نتیجے میں خدا اس وعدے کو پورا فرما تا ہے کہ میں تمہارا ذکر کروں گا.تب اس کی علامتیں اس کو دکھائی نہ دیں.تو اس کو صاف معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا خدا کے ہاں کوئی مقام نہیں ہے یعنی اس کے ذکر ہی کوکوئی حیثیت نہیں ہے.پس اپنے ذکر کی حیثیت پہچاننے کے لئے آنحضرت نے کیسا معرفت کا نقطہ ہمارے سامنے رکھا کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر تم اپنا مقام اپنا مرتبہ خدا کے حضور معلوم کرنا چاہتے ہو کہ تمہاری منزل خدا کے حضور ہے کیا.تو ذکر کرو اور پھر اس کا جواب تمہیں ضرور ملے گا.یہ بات اس میں حذف ہے پر شامل ہے.مگر جس طرح میں نے آیت کریمہ بیان کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی کوئی بھی نصیحت بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی فرمان کے اپنی ذات میں آپ کے وجود سے نہیں پھوٹا کرتی تھی.ہر نصیحت کا منبع اللہ تعالیٰ کا کوئی الہام، کوئی وحی ہوا کرتا تھا.اور احادیث کو اگر قرآن کریم میں تلاش کریں تو ہر حدیث کی جڑ آپ کو قرآن کریم میں ملے گی.پس اس پہلو سے اس آیت کریمہ سے ملا کر اس حدیث کا یہ مطلب سمجھتا ہوں کہ تم اگر سچا ذکر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 956 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء کرنے والے ہوا اگر سچا عشق ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تمہارا ذ کر نہ کرے.جب ایک پیارے کا ذکر کرتے ہو تو پیارا تمہارا ذکر کرتا ہے.اگر اس کو قبول کر لے اگر وہ قبول نہ کرے تو اس کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کرتا.مائیں کہتی ہیں ہمارے بچے نے ہمیں اس طرح یاد کیا اس لئے کہ ان کو پیار ہوتا ہے اور کوئی بے حیا اگر ان کا ذکر کرتا تو وہ اس کے ذکر سے شرماتیں ہیں بجائے اس کے کہ اس کا ذکر کریں.پس خدا تعالیٰ کے حضور اپنے ذکر کا مقام معلوم کرنا ہو.یہ مراد ہے تو ذکر کر کے دیکھو اگر لر خدا کا جواب ملے گا ویسا ہی سلوک اللہ تم سے فرمائے گا تو یقین کرنا کہ پھر تم صحیح رستے پر چل رہے ہوا اور تمہارا ذ کرسچا تھا.فلينظر كيف منزلة الله تعالى عنده فان الله تعالى ينزل العبد منه حيث انزله من نفسه “ ( حديقة الصالحين :۹۲) اور یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وہی مقام اپنے پاس عطا فرماتا ہے جیسا خدا کا مقام اس بندے کے ہاں ہے.یعنی جو کچی عزت اللہ کی کی ہے جو سچا مقام اس کو اپنے دل میں دیا ہے.ویسا ہی مقام تمہارا خدا کے دل میں بنتا چلا جائے گا.پھر حضرت ابی رزین کی روایت ہے کہ انه قال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ابی رزین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.الا ادلک علی ملک هذا الامر الذي تصيب به خير الدينا والاخرة “ که ابی رزین کیا میں تجھے وہ بنیاد نہ بتاؤں جس پر اس امر کا انحصار ہے کہ تو دنیا میں بھی خیر پا جائے اور آخرت میں بھی خیر پا جائے.ملیک کہتے ہیں وہ چیز جس پر کسی چیز کی بنا ہو.فرمایا میں تمہیں اس بات کی بنیاد نہ بتا دوں.جس پر یہ بات منحصر ہے، جس بنیاد پر کہ تجھے دنیا میں بھی خیر پہنچے اور آخرت میں بھی خیر پہنچے.یہ سوال اٹھانے کے بعد جواب کا انتظار کئے بغیر آنحضرت مہ نے پھر وہ بنیاد کی وضاحت فرمانی شروع کی.فرمایا.علیک بمجالس اهل الذکر تجھ پر فرض ہے کہ وہ مجلسیں جو اللہ کے ذکر کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 957 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء لگائی جاتی ہوں وہاں ضرور پہنچا کر.ان مجالس سے تعلق رکھ ، ان سے وابستہ رہ.واذا خـــــــوت فحرک لسانک ما استطعت بذکر الله.پس جب تو اکیلا ہو تو اپنی زبان کو جہاں تک ممکن ہے اللہ کے ذکر کے ساتھ حرکت دیا کر.و احب فی الله و ابغض فی الله.اور اللہ ہی کی خاطر محبت کیا کر اور اللہ ہی کی خاطر بغض کیا کر.یا ابا رزین.اے ابور زین.هل شعرت ان خرج رجل من بيته طائرا اخاه شیعه سبعون الفا ملک کلهم يصلون عليه ويقولون ربنا انه ذکر فیک فصله فان استعت ان تعمل جسدک فی ذالک ففعل.“ ( مشکوۃ کتاب الآداب باب الحب فی اللہ ومن اللہ ) آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابی رزین کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایسا شخص جو اپنے گھر سے نکلا کسی دوسرے بھائی کو ملنے کے لئے محض اللہ کی محبت میں اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے چلتے ہیں.جو اس پر درود بھیجتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب اس نے تیری خاطر تعلقات باندھے ہیں.فصلہ تو اپنا تعلق اس سے باندھ لے.یعنی خدا سے اپنا تعلق بڑھانے کا ایک اور ذریعہ یہ ہاتھ آیا کہ خدا کی محبت میں اگر آپ انسانوں سے تعلق باندھتے ہیں تو جتنا تعلق باندھتے ہیں فرشتے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اپنا تعلق اور تو ان سے بڑھا دے.فان استطعت ان تعمل جسدک فی ذالک ففعل.اگر اے ابی رزین اگر تجھ میں طاقت ہے کہ اس معاملے میں جو میں بیان کر رہا ہوں اپنا سارا وجود جھونک دے تو بے شک جھونک دے، کوئی نقصان کا سودا نہیں.تمام تر طاقتوں کے ساتھ اس بات میں کھویا جا اور یہ ایک بہترین سودا ہے اس کے بارے میں کوئی تردد کی ضرورت نہیں.یعنی وہ باب جو اس بات میں باندھا گیا ہے کہ اللہ کی خاطر محبت اور اللہ ہی کی طرف سے محبت.اب باقی مضمون انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا.ایک ضروری اعلان کرنا ہے.آج ظہر کے بعد عصر پڑھی جائے گی جیسا کہ آج کل دن چھوٹے ہیں جمع ہورہی ہے اور اس کے بعد دو جنازہ ہائے غیب ہوں گے.ایک جنازہ مکرم شیخ محمد حنیف صاحب کا ہے.کوئٹہ کی جماعت کے تقریبا 28 سال امیر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 958 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء رہے ہیں اور آج صبح اطلاع ملی ہے کہ اچانک وفات ہو گئی ہے.اچا نک تو نہیں کہنا چاہئے لمبے عرصے سے گردے کی بیماری میں مبتلا تھے.ان سے میرا بہت پرانا تعلق تھا اور اس تعلق کی بنا ان کا اخلاص اور خلافت سے ان کی وابستگی تھی.اتنا گہر ا عشق تھا خلافت سے اور ایسی وابستگی تھی کہ یہی ہمارے تعلق کی بنا بنی اور اس پر آخر اختلاف بھی ہوا.اس کا مختصر ذکر کروں گا تا کہ ان کو دعا میں یادرکھیں اس ذکر میں اور یہ ایک قسم کی حب فی اللہ و بغض فی اللہ والی مثال بھی سامنے آ جاتی ہے.بغض کی حد تک نعوذ باللہ نہیں تھا لیکن اختلاف تھا، تھوڑا بھی تھا، اسی بناء پر تھا.ایک مرکزی بنیادی اصول پر جو اللہ کی خاطر قائم تھا.اس میں آپ کچھ اور طرف سے دیکھتے تھے اور میں کچھ اور طرف سے دیکھتا تھا.آپ لمبا عرصہ تک صد سالہ جو بلی کمیٹی کے صدر رہے.قضاء بورڈ کے ممبر رہے.خلافت کمیٹی کے ممبر رہے.قرآن مجید کی منتخب آیات اور حدیث کا ترجمہ بلوچی زبان میں کیا.کوئٹہ کی امارت کے دوران بڑے بڑے وہاں فتنے پیدا ہوئے بہت ڈٹ کر مقابلہ کیا.غیروں کی طرف سے جو بار بارسخت ابتلاء جو جماعت پر لا دے گئے.ان ابتلاؤں میں آپ بھی ثابت قدم رہے اور جماعت کو بھی ثابت قدم رکھا.بڑے حو صلے اور صبر اور ہمت کے ساتھ ان سے مقابلہ کیا.خلافت کے ساتھ آپ کا جو گہرا تعلق تھا اس کی میں مثال دیتا ہوں کہ پہلے کی بات ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے زمانے میں ہمیشہ ہمارے گھر ٹھہرتے تھے آکے.ربوہ جب بھی آتے تھے، بہت ہی محبت اور پیار کا تعلق تھا.ایک معاملے میں میں نے ایک ان کو ایسی بات لکھی کہ جوابا مجھے پر ہی برس پڑے یہ سمجھتے ہوئے کہ گویا میں نے خلافت کی کماحقہ عزت میں کچھ کی دکھائی ہے.ایسی نگی تلوار تھے خلافت کے ادب اور احترام کے حق میں پھر میں نے ان کو سمجھایا پھر سمجھ آئی پھر معذرت بھی کی.میں نے کہا آپ کو کیا ہو گیا ہے.میں یہ بات کہہ رہا ہوں وہ نہیں کہہ رہا جس کا آپ کو خطرہ ہے اور اس خطرے کی وجہ سے بعض لوگوں سے یہ بدظن ہو جاتے تھے اور بعض مخلصین کو سمجھتے تھے کہ خلافت کا جیسا ادب اور احترام لازم ہے وہ نہیں کر رہے.اور جماعت میں اگر کوئی کہیں اختلافات پیدا ہوئے تو صرف ان کی اس عادت کی وجہ سے ہوئے ورنہ یہ جماعت کے ایسے عاشق ، ایسے خدمت کرنے والے تھے کہ جماعت بھی مقابل پر فدائی تھی اور اسی بنا پر پھر مجھ سے اختلاف ہوا.میں نے ان کو سمجھایا دوسروں کے ذریعے پیغام بھیجوائے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 959 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی اکثریت خلافت کی عاشق ہے ان کی بعض باتوں میں بعض اختلافات میں اور محرکات ہوں گے خلافت سے دوری نہیں ہے.آپ ضرورت سے زیادہ اپنا رد عمل دکھاتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض نقصانات کا بھی خدشہ ہے اور بالآخر اسی بنا پر اسی اختلاف کی وجہ سے امارت کوئٹہ سے پھر یہ لمبے عرصے کی خدمت کے بعد جدا ہوئے اور لاہور جا کر پھر وہیں سکونت اختیار کر لی.بہت اچھے ہومیو پیتھ تھے اور ہومیو پیتھی مجھ سے ہی سیکھی تھی مگر بہت جلد مجھے سکھانے لگ گئے تھے.اور نئے نئے نقطے بتایا کرتے تھے مگر بہت ہی ہر دلعزیز تھے، فوج میں خاص طور پر آپ کے مریض بھی بڑی کثرت سے تھے اور مرید بھی بڑی کثرت سے تھے.کوئٹہ میں اکثر سپاہی سے لے کر جرنیل تک ان کے مداح اور ان کے حلقہ بگوش تھے ان کے پاس آیا کرتے تھے.اپنے جسمانی روحانی مرضوں کے علاج کے لئے ، لاہور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا.اب چونکہ آخری دنوں میں اس وجہ سے ایک ہلکا سا ایک غلط فہمی کا سایہ درمیان میں حائل تھا کہ جس طرح یہ سمجھتے تھے کہ مجھے سے ہمیشہ تعلق رہا اور خلافت سے تعلق رہا اس طرح میں نے ان کے ساتھ گویا ویسا حسنِ سلوک نہیں کیا.ایک کمیشن مقرر کیا اس کو میں نے کہا کہ ہمارے تعلقات سے قطع نظر صرف یہ دیکھیں کہ جن جماعت کے افراد کے متعلق ان کا پیٹن ہے کہ ان کو خلافت سے پورا تعلق نہیں ہے.یہ یمن درست ہے یا غلط ہے اور اگر غلط ہے تو سمجھائیں ، چھوڑیں اس بات کو اللہ خود حفاظت کرے گا خلافت کی.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا اصل میں اپنے بزرگ والد سے انہوں نے خلافت کا عشق ایسا ورثے میں پایا تھا کہ وہ ایک دوسرے کنارے کی طرف زیادہ مائل ہو چکا تھا.اب دیکھیں اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کو جانے سے پہلے کس طرح پاک صاف دل کر کے بلاتا ہے.یہ ایسا عجیب واقعہ ہوا کہ چند ہفتے پہلے میری بچیوں نے ذکر کیا کہ شیخ صاحب جو ہمارے گھر آیا کرتے تھے وہ بہت اچھے انسان تھے اس قسم کی باتیں اس زمانے کی یادیں شروع کیں تو میں نے انہیں اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھا کہ میں نے کہا کہ مجھے تو یہ تاثر ہے کہ شاید آپ کے دل میں کچھ ہلکا سا دوری کا پردہ آ گیا ہے.غلط فہمی کی وجہ سے حالانکہ مجھے آپ سے مسلسل اسی طرح ذاتی محبت ہے جیسے پہلے ہوا کرتی تھی بلکہ میری بچیوں کو بھی ہے اور وہ بچپن کی باتیں کر رہی تھیں.اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 960 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۹۳ء جواب میں پھر ان کا بہت ہی پیارا اخلاص کا خط ویسا ہی ملا جیسے پرانے زمانے میں لکھا کرتے تھے اور اچانک ساری میل اگر تھی بھی تو دھل گئی تو بالکل دل صاف ہو گئے.پھر میں نے جوابا ایک خط ان کو لکھا وہ شاید ابھی رستے میں ہی ہو گا کہ ان کا وصال ہو گیا.تو میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو پاک دل ہوں للہ محبت کرنے والے ہوں خواہ غلطی بھی ہو جائے اور اللہ بغض کرنے والے ہوں خواہ غلطی بھی ہو جائے.اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں سے پردہ پوشی فرماتا ہے اور ان سے رحم کا سلوک فرماتا ہے.بلانے سے پہلے ان کے سب حساب صاف کر دیتا ہے.ان کی تین بچیاں ابھی قابل شادی ہیں گل آٹھ بچیاں ہیں جن میں سے پانچ کی شادی ہو چکی کی ہے اور تین ابھی باقی ہیں.ان کی بچی کا مجھے فون آیا تھا میں نے کہا پہلی بھی تو خدا ہی نے کروا ئیں تھیں سب خوش ہیں اپنی جگہ پہ ، بہت نیک بچیاں ہیں.ان کی بھی خدا ہی حفاظت فرمائے گا خودسر پرستی کرے گا.گھبراؤ نہیں اور آپ بھی دعا میں اس بات کو پیش نظر رکھیں.ان کی بیوہ بھی بہت نیک، بہت ہی فدائی ، بہت اخلاص کے ساتھ خدمت کرنے والی خاتون ہیں.ان کے علاوہ ایک جنازہ اور کوئٹہ سے جو کبری بیگم کا ہے.بہت ہی مخلص خاتون تھیں.دعا گو اور کچی رؤیا دیکھنے والی اور مجھے کل ہی کسی نے بتایا کہ یہ وہ ہیں، جو بچپن میں ہمارے گھر رہا کرتی تھیں.کبری ایک خاتون ہوتی تھیں لمبے قد کی جن کو میری امی سے بہت تعلق تھا اور بچپن کا ایک لمبا عرصہ وہ ہمارے گھر رہی ہیں.اس کے بعد پھر مجھے پتا نہیں کہاں چلی گئیں.تو کل ہی مجھے ایک کوئٹہ کی خاتون نے بتایا کہ یہ وہی تھیں جو تمہارے گھر رہا کرتی تھیں.تو آج یہ دو کوئٹہ کے جنازے ہیں جن کی نماز جنازہ ہائے غائب انشاء اللہ عصر کی نماز کے معا بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 961 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء ذکر الہی کے اسلوب محمد مصطفی جمیلہ صل سے سیکھیں ذکر الہی کی مجلس عام کریں اور دنیا کو ان مجالس میں بٹھا ئیں.(خطبہ جمعہ فرموده ۷ اردیسمبر ۱۹۹۳ء بمقام بیت الفضل لندن ) پھر فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صفتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيْمٌ بِمَا يَفْعَلُوْنَ (النور: ۴۳) ذکر کا جو مضمون چل رہا ہے.اس گفتگو سے پہلے کچھ اجتماعات کا اعلان کرنا ہے.ان کے لئے دعا کی درخواست کرنی ہے.اب تو یہ روز مرہ کا دستور بن چکا ہے اور جوں جوں اللہ کے فضل سے احمدیت ترقی کرے گی یہی سلسلہ اجتماعات کا اور جلسوں کا جاری رہتے ہوئے اتنا بڑھ جائے گا کہ میرا نہیں خیال کہ آئندہ پھر خلفاء کے لئے ممکن ہو کہ وہ خطبات میں ان سب کا ذکر کرسکیں اس لئے جتنے دن بھی ہوسکیں اچھے دن ہیں جو آج میسر ہیں جماعت کو.مجلس خدام الاحمدیہ ڈھا کہ 17 تا 24 / دسمبر تعلیمی وتربیتی کلاس منعقد کر رہی ہے.مجلس خدام الاحمدیہ ڈھا کہ ہی نہیں بلکہ ساری مجلس عاملہ بنگلہ دیش ما شاء اللہ بہت ہی مستعد، بہت ہی بہادر اور قربانی کرنے والی مجلس ہے اور پچھلے دنوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستان میں ناکامی کے بعد اور انتخابات میں ذلت کی مار کے بعد علماء نے اب بنگلہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 962 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء دیش کا رخ کیا ہے اور وہاں اسی طرح فتنہ وفساد پھیلانا چاہتے ہیں جیسے کبھی پاکستان میں پھیلا چکے تھے.وہی مطالبے ہیں وہی شور، وہی سازشیں اور بنگال کی جماعت کی طرف سے بار بار دعا کی درخواستیں ملتی رہی ہیں.اللہ کے فضل سے وہ بہادر ہیں ڈٹے ہوئے ہیں اور حکومت کو انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر اسی قسم کی شرارت تم نے یہاں کی جیسی پاکستان میں کروائی گئی تھی تو ہم سارے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے حاضر بیٹھے ہیں اور تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم تھوڑے ہونے کی وجہ سے تم لوگوں سے مرعوب ہو جائیں گے لیکن پھر بعد میں بنگلہ دیش سے ہمیشہ کے لئے امن اٹھ جائے گا.اس سے بدتر حال میں پہنچو گے جس حال میں احمدی کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں پاکستان کا نقصان ہوا اور اس وقت سے قوم منتشر ہوئی ہوئی ہے، بٹی ہوئی ہے، بہت ہی درد ناک حالت ہے.بہر حال انہوں نے سمجھا کر کھلے بندوں اشتہارات دے کر بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے.خطوط کے ذریعے بھی لیکن خاص طور پر وہ دعا کی درخواست کرتے ہیں.تمام عالمگیر جماعت احمدیہ سے درخواست ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی جماعتوں کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں اور عالم اسلام کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کیونکہ احمدیت پر جتنی ضرب پڑتی ہے ان کی طرف سے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیں تو بہت ترقی دیتا ہے لیکن عالم اسلام پر وہ ضرب پڑ جاتی ہے اور اس کے نقصانات بہت گہرے اور دیر پا ظاہر ہوتے رہتے ہیں.ہندوستان میں جو بابری مسجد سے ہوا اس سے پہلے اس کے پس منظر میں احمدی مساجد جلائی گئیں ، منہدم کی گئیں، بر باد کیا گیا.بنگلہ دیش میں حملے ہوئے.وہ ساری باتیں یہ بھول جاتے ہیں اور پھر یہ نہیں سوچتے کہ یہ ایک سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں نصیحت دینے کے لئے یا بات سمجھانے کے لئے اپنی خاموش زبان میں جاری رہتا ہے.ایک بدی بدی کے پھل لاتی ہے اور ایک غلط حرکت کے نتیجے میں اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں اور بات سمجھتے نہیں ہیں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں نو نشانات حضرت موسی نے پے در پے ان کو دکھائے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور ہر دفعہ کچھ تھوڑ اسا گمان ہوتا تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے لیکن پھر وہی پرانی باتیں پھر وہی حرکتیں یہاں تک کہ ساری قوم خدا کے حضور غرق ہوگئی.یعنی وہ جو غرق ہوئے وہ بھی اور جو دوسرے بچے تھے وہ بھی خدا کے نزدیک غرق ہو چکے تھے.تو اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 963 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء قوموں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے ، عبرت کی آنکھیں خدا تعالیٰ سے مانگنی چاہئیں.اللہ ہی ہے جو بصیرت عطا فرماتا ہے، ورنہ خالی آنکھیں تو کچھ نہیں دیکھتیں.وہ سب کچھ بنگلہ دیش میں بھی کروایا جا رہا ہے.جو پاکستان میں ہو چکا ہے اور ہورہا ہے.اس لئے خصوصیت سے دعا میں یادرکھیں بنگلہ دیش کی جماعتوں کی اللہ حفاظت فرمائے.بہر حال جو بھی اس کی تقدیر ظاہر ہوگی ایک بات قطعی ہے کہ جماعت کے حق میں خیر کا نتیجہ ظاہر ہو گا.یہ تو جماعت بارہا دیکھ چکی ہے.ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں.گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ کی جماعت کی تاریخ یہ بات خوب کھول چکی ہے دنیا پر کہ جتنا چھوٹا کرنے کی کوشش کرو گے اس جماعت کو اتنی بڑی ہو کے نکلے گی.جتنا کمزور کرنے کی کوشش کرو گے اتنی طاقتور ہوگی، جتنا نام مٹانے کی کوشش کرو گے اتنا ہی یہ نام پھیلتا چلا جائے گا.پس یہ تو اللہ کی ایک ایسی تقدیر ہے جس سے کوئی دنیا کی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.یہ وہ سنت ہے جسے کوئی دنیا کی طاقت مٹا نہیں سکتی.لیکن اس رستے میں دکھ بھی اٹھانے پڑتے ہیں.إِلَّا أَذًی کا مضمون خود قرآن کریم نے فرمایا ہے کچھ نہ کچھ تو دکھ تمہیں ضرور پہنچے گا تو اگر دکھ مقدر میں ہے تو اللہ ہمارے دلوں کو تقویت عطا فرمائے حوصلہ بخشے کہ ہم اس کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے جو دکھ کے کانٹے رستے میں ہیں ان کی تکلیف بھی رضائے باری کی خاطر ہنستے ہوئے سر جھکاتے ہوئے قبول کریں اور جو خیران رستوں پر آگے ہماری منتظر ہے.اللہ اس خیر کو بڑھا تار ہے اور ہر قدم پر ترقی احمدیت کے قدموں کو چومتی رہے.تو بنگال کی جماعتوں کو بھی میں اس بارے میں مطمئن کرتا ہوں کہ جو کوشش ہے ضرور کریں.فیصلہ وہی ہوگا جو اللہ کی تقدیر نے چاہا اس فیصلے میں اگر کوئی برائی بھی ہوئی.تو قطعی طور پر یقینی طور پر اس برائی کے پیٹ سے آپ کے لئے بھلائی نکلے گی اور اتنی نمایاں اور بڑی ہو کر وہ بھلائی دنیا کو اور آپ کو دکھائی دینے لگے گی.تو پھر وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہوگی کہ انسان کوشش کر کے دنیا کو بتائے کہ دیکھو ہم پر یہ فضل ہوئے ، وہ فضل تو پھر خود بولتے ہیں، اپنے آپ کو خود دکھاتے ہیں.تو امید ہے انشاء اللہ جماعت احمد یہ بنگلہ دیش یہ باتیں سن کر تقویت حاصل کرے گی اور جو کوشش کر رہے ہیں اس سے بڑھ کر دعاؤں میں زور لگائے گی.مجلس خدام الاحمدیہ کینما سیرالیون کا صوبائی اجتماع آج ۷ار دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے.کاسل جرمنی کی داعیان الی اللہ کی ایک تربیتی کلاس ۱۸؍ دسمبر کو منعقد ہو رہی ہے.جماعت احمدیہ کینما
خطبات طاہر جلد ۱۲ 964 خطبہ جمعہ کے ارد سمبر ۱۹۹۳ء کا جلسہ سالانہ بھی کل ۱۸؍ دسمبر سے شروع ہو رہا ہے اور فرینکفرٹ جرمنی کی نومسلموں کی تربیتی کلاس بھی اللہ کے فضل سے ۱۹؍ دسمبر کو شروع ہوگی.نومسلموں کی تربیت کا جواب نیا دور شروع ہوا ہے یہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اس سے پہلے مجھے یاد نہیں کہ کبھی منظم طریق پر نو مبائعین یا نومسلمین کو اپنے اندر جذب کرنے اور ان کی تربیت کرنے کا اس طرح منصوبہ کے تحت پروگرام بنایا گیا ہو لیکن جو جماعتیں اللہ کے فضل سے مستعد ہو چکی ہیں.انہوں نے بہت اچھے منصوبے بنائے ہیں بہت عمدگی سے ان پر عمل ہو رہا ہے.جرمنی میں تقریبا 1600 کے لگ بھگ بیعتیں ہوئی تھیں اور اب جہاں تک مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں ساری جماعت جرمنی ان کو مختلف حصوں میں بانٹ کر خاندان خاندان کر کے سنبھال چکی ہے اور شاذ ہی کوئی ایسا بچا ہو جو اس مؤاخات کے فیض سے باہر رہا ہو یعنی خاندانوں کے سپرد بعض خاندان کر دیئے گئے ہیں، بعض کیمپ ہیں جو اس علاقے کی جماعتوں کے سپر د کر دئیے گئے ہیں.ان سے تعلق رکھا جا رہا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صرف محبت سے ہی نہیں جیتا جا رہا، دین کی ٹھوس تربیت کا انتظام کیا جا رہا ہے.نمازیں سکھانا بچوں کے لئے بھی بڑوں کے لئے بھی ، روز مرہ کے دینی زندگی کے سبق دینا اور پھر اجتماعات میں ان کے سپر د عہدے کرنا، ان کے سپر د ذمہ داریاں کر کے ان کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا، ان کو اسلامی طریق کے نعرے سکھانا ، بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر واقعۂ دلوں میں ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں.تو وہ اب جب عربی طریق پر یا اردو کے الفاظ میں خاص مواقع پر خدا کی حمد کریں گے، خدا کا ذکر بلند کریں گے.تحمید و تکبیر بلند کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کا بہت گہرا اور لمبا اثر پڑے گا.تو ان سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کہ یہ سارے تربیتی اجتماعات ہر پہلو سے کامیاب رہیں اور جو کمزوریاں رہ گئی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے عفو کا سلوک فرمائے اور اس کے نتیجے میں جماعت نہ صرف مستحکم ہو بلکہ آئندہ تیزی سے آگے بڑھنے کی بنیادیں قائم ہوں.ہر منزل جو ہم آگے بڑھتے ہیں ایک اور منزل کی خوشخبری دیتی ہے لیکن وہاں ہیں کیمپ مضبوط کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمارا سفر بلندیوں کی طرف ہے.اور بلندیوں کی طرف جو سفر ہوتے ہیں ان میں یہ ایک محاورہ ہے ” بیس کیمپ کو مضبوط بنانا جتنا ہمیں کیمپ مضبوط ہوگا اتنی ہی زیادہ آگے بلندی کی طرف حرکت کرنے کے سامان میسر آئیں گے، کم سے کم خطرات سے انسان زیادہ سے زیادہ سفر طے کر سکتا ہے.تو ہم بلندیوں کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 965 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء طرف چڑھنے والے ہیں.ہر منزل جو ہم جیتیں گے وہاں اب لا زما نہیں کیمپ بنانے ہوں گے اور ان کو جتنا مضبوط بنائیں گے اتنی ہی بلند تر چوٹی پھر آگے آپ کا انتظار کر رہی ہوگی.میں امید رکھتا ہوں اسی طرح انشاء الله منزل بہ منزل اب یہ قافلہ جلد جلد بلندی کی طرف رواں دواں رہے گا اور بڑھتا چلا جائے گا.ذکر کے سلسلے میں میں نے جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا تو نہیں دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے جو کچھ بھی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور پرندے بھی صف به صف، یعنی ایک صف کے اوپر دوسری صف، پرندے بھی تسبیح کر رہے ہیں.كُلِّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَ تَسْبِيحَهُ ہر ایک کو اپنی عبادت کا اور تسبیح کا انداز سکھایا گیا ہے اور وہ جان چکا ہے.وَاللهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ اور اللہ تعالیٰ اس چیز کو جو تم کرتے ہو خوب جانتا ہے.ذکر کے سلسلے میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا انداز ذکر پیش کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ہمیں کس طرح ذکر کرنا سکھایا.یہ بہت وسیع مضمون ہے مگر جو چند احادیث میں نے منتخب کی تھیں ان میں سے جو باقی ہیں وہ میں آج آپ کے سامنے رکھتا ہوں.لیکن اس سے پہلے میں امراء القیس کا ایک شعر آپ کو سنا تا ہوں جس کا ذکر ہی کے مضمون سے عملاً تعلق ہے.اس کا ذکر اور طرح کا تھا اور مومن کا ذکر اور طرح ہوتا ہے لیکن ذکر کا مضمون ملتا جلتا ہی ہے.وہ کہتا ہے کہ قفا نبك من ذكر حبيـب و منزل بسقط اللواء بين الدخول فحومل کہ اے میرے دو ساتھیو ! قفا تم ذرا ٹھہرو.نبک من ذکر حبیب و منزل ہم کچھ دیر اپنے محبوب کے ذکر سے اور اس کی منزل کے ذکر سے رونہ لیں.ذرا ٹھہراؤ.کچھ دیر رکواؤ.کہ ہم اس کا پیاراذ کر چھیڑ کر کچھ آنسو بہاتے ہیں.بسقط اللواء وہ منزل ایک ایسی جگہ واقع ہے.جیسے بسقط اللواء کہا جاتا ہے اور دخول اور حول دو مقامات کے درمیان واقع ہے.شعراء کا عموما یہی طریق ہے کہ جہاں جہاں محبوب کے آثار دیکھتے ہیں.وہاں ٹھہرتے ہیں اور عام یادوں سے بڑھ کر ان مقامات پر محبوب کی یاد آتی ہے.پس جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے کہ یاد کے ساتھ آنسو بھی بہتے ہیں.جہاں تک ذکر الہی کا تعلق ہے وہاں کسی ایک منزل کا سوال نہیں جو ذکر کی طرف آپ کی توجہ پھیرے.خدا تعالیٰ تو ہر جگہ جلوہ دکھا رہا ہے اور ہر جلوہ اس شان کا ہے کہ ناممکن ہے کہ آپ کسی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 966 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء طرف نظر ڈالیں اور ذکر کی طرف توجہ مبذول نہ ہو.اگر امراء القیس کے لئے ایک منزل اس حد تک محبوب کی یاد دلاتی تھی جو اپنے ساتھیوں کو ساتھ ملا کر وہاں ٹھہر کر رونا چاہتا تھا تو ہمیں تو ساری کائنات کا ایک ایک ذرہ اللہ کی یاد دلاتا ہے.یعنی اس مومن کو یاد دلاتا ہے جس کو بصیرت ہو اور اللہ کی محبت سے انسان کی آنکھیں اگر ہمیشہ ظاہر اتر نہ بھی رہ سکیں تو بسا اوقات دل میں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دل اندر سے محبت میں پکھل کر روتا ہے.اور ظاہر آنسو نہ بھی برس رہے ہوں تو ایک محبت کی بارش اندر کی طرف ہوتی ہے اور ہر اہلِ تجربہ یہ جانتا ہے کہ ضروری نہیں کہ آنسو آ نکھوں کے رستے ہیں جو پیار اور محبت کی باتیں ہوتی ہیں ان میں دل نرم ہو کے پکھل جاتا ہے اور قرآن کریم نے اسی قسم کے نقشہ کھینچے ہیں کہ بعض دفعہ دل پگھل جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ روح آستانہ الوہیت پر بہنے لگتی ہے تو آنسو جس طرح بہتے ہیں اسی طرح دل پگھل کر آستانہ الوہیت پر بہنے لگتا ہے اور یہ جو موقع ہے.یہ کوئی ایک موقع نہیں بلکہ ساری کائنات میں ہر طرف یہ مواقع پھلے پڑے ہیں.صبح سے رات تک انسان جتنا بھی سوچے خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کے بے حد بے شمار مضمون اس کی نظر کے سامنے آتے ہیں اور ان کا انسان حق ادا نہیں کر سکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کی کیفیت یہ تھی کہ دن رات ہمہ تن ہمیشہ ہر بات میں اللہ ہی کی یاد آپ کو آتی تھی اور اللہ ہی کی یاد میں محورہ کر آپ نے زندگی گزاری ہے.تمام دنیا سے تعلقات اللہ تعالیٰ کی یاد کے حوالہ سے ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجے میں آپ کی محبتیں تھیں.اللہ تعالیٰ کی آنکھیں جس سے پھرتی تھیں آنحضرت ﷺ کی آنکھیں بھی اس سے پھر جاتی تھیں.گویا خدا نما وجود ان معنوں میں تھے کہ جہاں آپ کی محبت کی نظر پڑی ضرور وہاں خدا کی محبت کی نظریں پڑتی تھیں.جس کو آپ نے ناراضگی کی آنکھ سے دیکھا خدا کی ناراضگی کی آنکھ بھی اس کو اسی طرح دیکھتی تھی اور یہ دوطرفہ مضمون ہے.ذکر کرنے والے بعض دفعہ اس طرح ان سے محبت کرتے ہیں کہ ان کو علم ہوتا ہے کہ خدا ان صلى الله سے محبت کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں محبت پیدا ہوتی ہے.بعض دفعہ ان کو کسی سے محبت پیدا ہوتی ہے تو خدا ان سے ضرور محبت کرتا ہے اور یہ مضمون حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ہمارے سامنے خوب کھول دیا ہے اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کے پیارے ہمہ وقت یہ کوشش کرتے ہیں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 967 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء اللہ کے پیاروں سے پیار کریں اور اللہ کا ان سے یہ سلوک ہوتا ہے کہ ان کے سب پیاروں سے پیار کرتا ہے اور جن سے وہ ناراض ہوں ان سے خدا ناراض ہوتا ہے.یہ مضمون ہے دونوں کے رجحانات کا ایک ہو جانے کا مضمون جب دل مل جائیں تو نیتیں مل جاتی ہیں ، رجحانات ایک ہو جاتے ہیں اور ایک ہی سمت میں سارے تعلقات کے دھارے بہتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے متعلق جو فرمایا گیا کہ آپ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (النجم :۱۰) آپ دو قوسوں کے درمیان ایک وتربن گئے.اس کی عموما یہ تصویر کھینچی جاتی ہے جو درست ہے اور بہت سے معانی پر حاوی ہے.یہ دو قوسیں یعنی دو کما نہیں جن سے تیر چلایا جاتا ہے.وہ یوں آمنے سامنے ہوں اور بیچ میں ایک وتر ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور بندوں کی دنیا کے درمیان، صلى الله اللہ اور مخلوق کے مابین حضرت محمد یہ اس مرتبے تک پہنچ گئے جہاں خدا کا تنزیہی مقام شروع ہوتا ہے.یعنی اس سے آگے مخلوق کی کوئی گنجائش نہیں اور مخلوق کی انتہا وہاں تک ہے اس سے آگے بڑھ الله نہیں سکتی اور دونوں قوسوں کے درمیان حضرت محمد رسول اللہ وتر بن گئے.میں اس مضمون کو ایک اور طرح سے بھی دیکھتا ہوں.اگر دونوں قوسیں ایک ہی سمت میں ہوں.ایک بڑی اور ایک نسبتا چھوٹی اور دونوں کا وتر ایک ہو تو جو تیر اس سے چلایا جائے گا.وہ دونوں قوسیں بیک وقت چلائیں گی.دونوں کی طاقتیں ایک دوسرے سے بالکل مدغم ہو جا ئیں گی اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس تیر چلانے میں کتنا اس کی طاقت نے حصہ لیا اور کتنا اس کی طاقت نے حصہ لیا بلکہ وہ ایک ہی وجود کے ایک ہاتھ کے چلائے ہوئے تیر بن جاتے ہیں.ان معنوں میں جب ہم اس آیت کریمہ پر غور کرتے ہیں.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى (الانفال: ۱۸) جس کے معنے کنکریوں کی مٹھی پھینکنا بھی ہے لیکن لفظی ترجمہ تیر چلانا ہے تو یہ معنی ہوئے کہ اے محمد جب تو نے تیر چلایا تو تیری قوس تو اللہ کی قوس سے الگ نہیں ہے.تیری قوس کے ساتھ اللہ کی قوس شامل ہے.پس جب تو نے تیر چلایا تو اللہ نے تیر چلایا اور یہ فرق نہیں رہا.پس جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں اس کو قرآن کی سند حاصل ہے.آنحضرت ﷺ نے بڑی وضاحت سے بار بار مختلف رنگ میں کھول کر یہ بیان فرمایا ہے کہ بعض بندے ذکر الہی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ اپنا وجود الگ نہیں رہتا اور اس کا ایک طبعی نتیجہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 968 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۹۳ء رہتا ہے کہ اللہ سب کچھ ان کے ساتھ شامل فرما دیتا ہے ان کا ایک قطرہ خدا کے سمندر میں اس طرح مدغم ہوتا ہے کہ ہر قطرے میں ان کا حصہ پایا جاتا ہے اور ہر قطرہ ان کے ایک قطرے میں اپنے جلوے دکھا رہا ہوتا ہے.اس لحاظ سے خدا کے ساتھ ہم آہنگ ہونا شرک کا مضمون نہیں رکھتا بلکہ محویت کا مضمون رکھتا ہے.لا الہ کا مضمون ہے اس کے سوا اور کوئی مضمون نہیں شرک یہ ہے کہ خدا الگ رہے اور بندہ الگ رہے.خدا کی طاقت کا الگ ذکر کریں اور بندے کی طاقت کا الگ ذکر کریں.مگر اگر بندے کی طاقت خدا میں مدغم ہو چکی ہو اور خدا ہی کی طاقت بندے کی طاقت کے ساتھ جلوے دکھائے تو اسے شرک نہیں کہتے اس کا مطلب ہے کہ لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کہ دراصل خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.اللہ ہی ہے جو جلوہ گر ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نے مختلف طریق پر صحابہ کو سمجھایا کہ کس طرح ذکر کیا کرتے ہیں اور ایسا پیارا انداز ہے کہ اس کو سن کر ممکن ہی نہیں کہ انسان ذکر الہی کی طرف مائل نہ ہوذ کر الہی کا عاشق نہ ہو جائے.اب میں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجلس کی تلاش رہتی ہے.جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہورہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں.ان کی ساری فضا سایہ برکت سے مامور ہو جاتی ہے.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر: ۴۷۵۴) پس وہ آیت کریمہ جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی.دراصل اسی کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے.اَلَمْ تَرَاَنَّ اللهَ يُسِحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صفت یہاں فرشتوں کی جو تصویر آنحضور ﷺ نے کھینچی ہے.وہ پرندوں کی طرح ہے جو اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں اور ایک دوسری آیت میں انہی تسبیح کرنے والے فرشتوں کا یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ وہ جو کو بھر دیتے ہیں.وَتَرَى الْمَلَيْكَةُ حَافِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ( الزمر :۷۶) تو دراصل پرندوں کی اصطلاح میں فرشتوں کی باتیں بھی کی جاتی ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ خود پرندے بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں.جس زبا ن میں ، جس طریق پر خدا نے ان کو سمجھایا ہے.تو اس حدیث سے اس آیت کریمہ کی تطبیق ہوتی ہے.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۲ 969 خطبہ جمعہ ۱۷ر دسمبر ۱۹۹۳ء فرمایا.يملاء ما بينهم و ما بين السماء الدنيا “یہ فرشتے ہیں جو ذ کر کرتے ہوئے ان مجلس کے اوپر اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں اور اس ذکر میں ساتھ شامل ہو جاتے ہیں اور پھر تہ بہ تہ،صف بہ صف جیسے پر پھیلائے ہوئے پرندے ایک تہہ کے بعد دوسری تہہ میں آسمان میں بلند تر ہوتے چلے جا رہے ہوں اور سارا آسمان ایسے پرندوں سے بھر جائے.ویسا ہی نقشہ حضور اکر مکہ کھینچتے ہیں.ساری فضا ان کے سایہ برکت سے مامور ہو جاتی ہے.جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں.تو وہ فرشتے بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ سب جانتا ہے یعنی خدا کا پوچھنا اس لئے نہیں کہ وہ اس کو علم نہیں ہے.پھر کس لئے ہے؟ اس لئے کہ جب انسان کسی پیارے کی مجلس کی باتیں جانتا بھی ہو تو ان کو دوبارہ سنتا ہے پھر سنتا ہے اور پھر سنتا ہے اور پیاس نہیں بجھتی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں سے ویسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا کہ وہ مجھ سے کرتے ہیں.جو میرے ذکر کے متلاشی رہتے ہیں اور میرے ذکر سے ان کو لطف آتا ہے.مجھے بھی ان کے ذکر سے لطف آتا ہے.تو یہ جو پوچھنا ہے اب بار بار جو ذ کر آئے گا اس سے یہی مراد ہے کہ ایسے بندوں سے اللہ پیار کا اظہار کرتا ہے.فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے.کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے ، تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور وہ تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ یعنی جانتے ہوئے کہ کیا مانگتے ہیں، پوچھتا ہے کہ کیا مانگتے ہیں؟ اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! انہوں نے تیری جنت تو نہیں دیکھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی کیا کیفیت ہوگی اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیں؟ پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر فرماتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں؟ فرشتے عرض کرتے ہیں تیری آگ سے پناہ چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں دیکھی تو نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 970 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء کا کیا حال ہوا گر وہ میری آگ دیکھ لیں ؟ پھر فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری بخشش طلب کرتے تھے.اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کہتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا اور میں نے ان کو پناہ دی.اس چیز سے جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی.اس پر فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ان میں فلاں غلط کار شخص بھی شامل تھا وہ وہاں سے گزر رہا تھا ذ کر کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھا تو تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہتا.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر: ۴۷۵۴۰) اب ذکر الہی کا بیان اس سے بہتر تصور میں بھی نہیں آسکتا.ایسا بیان جو ذکر الہی کی محبت پیدا کر دیتا ہے دل اس سے پگھلنے لگتا ہے.اس میں خاص طور پر یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ جنت مانگتے ہیں.تو انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ وہ کہتے ہیں نہیں دیکھی.فرماتا ہے اگر وہ دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہو.تو امر واقعہ یہ ہے کہ جو دعا ئیں ہم کر رہے ہیں.ان دعاؤں کی کنہ سے ہم خود واقف نہیں ہیں.بعض دفعہ ایک انسان غلطی سے ایک سودا کر لیتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ یہ تو بہت ہی بری چیز تھی.چنانچہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ایک سادہ لوح زمیندار کراچی گھومتا پھر تامنی مارکیٹ میں چلا گیا.جہاں بہت بڑے بڑے سودے ہو رہے تھے.پیسوں کے حساب سے کہ ایک پیسہ ایک دھیلا اس میں اضافہ ہو گیا ایک پائی اضافہ ہو گیا وہ سمجھا کہ کوئی چیز بک رہی ہے اور پائیوں اور دھیلوں اور پیسوں کے حساب سے بولیاں بڑھ رہی ہیں.تو اس نے بھی ساتھ بولی دینی شروع کر دی کہ اچھا پھر ایک دھیلا میرا ایک پیسہ لکھ لو میرے دو پیسے لکھ لو.تو سب حیران ہو گئے اور ششدر رہ گئے وہ سمجھے کہ بہت ہی بڑا کوئی سیٹھ آ گیا ہے اس سے مقابلہ ممکن نہیں.چنانچہ اس کے نام بولی لکھی گئی.جو کروڑوں کی تھی اور اس کو بیچارے کو علم نہیں تھا کہ سودا کیسا ہوا ہے.اچانک خبر آئی کہ اس ، جس کا بھی سودا ہورہا تھا وہ ایک دم اس کی قیمت بڑھ گئی ہے.تو سارے سیٹھ اس پر ٹوٹ پڑے کہ نقد و نقد ہم سے اتنا منافع لو اور یہ سودا ہمارے نام کر دو.تو ویسا ہی نقشہ اللہ کھینچ رہا ہے فرمایا وہ تو سادہ زمیندار کی طرح ہیں بولی کس بات کی دے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 971 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء رہے ہیں.مجھ سے جو مانگ رہے ہیں میں نے دے تو دیا ہے.لیکن وہ ایسا ہے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا اور یہی بات ہے جو قرآن کریم نے جنت کے متعلق بیان فرمائی ہے.کسی آنکھ نے نہیں دیکھی کسی کان نے نہیں سنی ، ان کے تصور سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ زمین و آسمان پر ساری کائنات پر محیط ہے.تو ذکر الہی کرتے ہوئے چند منٹ میں آپ کتنے بڑے بڑے سودے کر لیتے ہیں اور ساری کائنات خدا سے لے لیتے ہیں اور آپ کو پتا نہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کتنی بڑی بڑی چیزیں ملتی ہیں.الله اسی لئے آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ دو کلمات ہیں کلمتان خفیفتان ، ہلکے پھلکے ہیں.حبيبتان الى الرحمن اللہ کو بہت پیارے ہیں.ہلکے پھلکے ہیں لیکن ثقيلتان في الميزان وزن میں بہت بھاری ہیں.حبیبتان الی الرحمن اللہ کو وہ دونوں بہت پیارے کلمے ہیں.وہ کیا ہیں.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.پاک ہے اللہ حد کے ساتھ سبحان الله العظیم وہ اللہ پاک ہے جو بہت عظیم ہے.تو یہ دو کلموں میں جو سودے ہیں وہ بہت بھاری ہیں.یہ مراد ہے میزان ان کا بہت بھاری ہے اور زبان پر ہلکے ہیں.( بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۵۹۲۷) اب سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.پر ہی غور کریں تو جتنا آپ اس میں ڈوبتے چلے جائیں گے اتنا ہی مضمون اور گہرا ہوتا دکھائی دے گا بلکہ محسوس ہوگا.جتنا اس مضمون میں سفر کریں اتنا یہ مضمون پھیلتا چلا جاتا ہے.سبحان اللہ کا مطلب ہے کہ اللہ پاک ہے.اور کس کس چیز سے پاک ہے.اس پر غور کریں تو پھر تسبیح ہو گی ورنہ خالی زبان سے کہہ دینے سے بات بنے گی نہیں.وزن ان میں پیدا ہوتا ہے مگر ہر قاری کے لحاظ سے مختلف وزن پیدا ہوتا ہے.جب آنحضرت ﷺ سبحان اللہ کہتے تھے.تو ایک عام قاری کی طرح سبحان اللہ نہیں کہتے تھے بلکہ ساری زندگی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے سے پاک کیا تھا اور ساری زندگی اس تلاش میں رہے کہ کوئی ذرہ بھی ایسا نہ ہو جو خدا تعالیٰ کے عظمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے دل کی دنیا کو اس لائق نہ ٹھہرائے کہ اس میں خدا تعالیٰ جلوہ گر ہو.صلى الله یہ آنحضرت ﷺ کی ایک سوچ تھی.جو آپ کی ساری زندگی میں ہر طرف ہمیں آپ کے اقوال سے بھی اور آپ کے اعمال سے بھی صاف دکھائی دیتی ہے.سبحان اللہ کا یہ معنی پھر بنتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 972 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء کہ ہر وقت اللہ کی تسبیح کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے نفس کو پاک کرتے چلے جانا کیونکہ نا پاک جگہ پر پاک وجود نہیں آیا کرتے.پس اللہ کے لئے دل کی صفائی کرنا ان معنوں میں ہو کہ کچھ جگہ تھوڑی سی اب صاف کر لی کچھ بعد میں اور ہمیشہ جگہ کی صفائی جاری رہے.بعض دفعہ اچانک مہمان آجاتے ہیں تو انسان کو یہ طاقت نہیں ہوتی کہ سارا گھر ایک دم صاف کر سکے تو تھوڑی سی جگہ بنا لیتے ہیں.بھاگ دوڑ کر بچے بھی حصہ لیتے ہیں مائیں بھی ، سب دوڑتے ہیں کہ ایک کمرہ ہی جلدی سے صاف کر لو اور اس کے جو گندے کپڑے اور سامان جو وہاں بکھرے ہوتے ہیں سب اٹھا اٹھا کر ایک کمرے میں پھینک دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو جب مہمان بنانا ہے تو انبیاء کا مقام تو بلند ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا تو بہت بلند تر تھالیکن روزمرہ کی زندگی میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ سبحان کا مضمون اپنے نفس میں جاری کرنا ہوگا تھوڑی سی جگہ بنالیں اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ پاک آدمی پاک جگہ پہ بیٹھتا ہے، پاک جگہ کو پسند کرتا ہے یہ درست ہے مگر یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر اس گھر میں اور کوئی گندی جگہ ہوگی تو وہ اس گھر کو چھوڑ کر چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ وہ اپنے بندے کی ایک تھوڑی سی جگہ بھی اگر صاف دیکھے تو اس جگہ سے تعلق جوڑ لیتا ہے اور پھر اس کے قرب کا احساس اردگرد کے ماحول کو پاک صاف کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور رفتہ رفتہ گھر صاف ہونے لگتا ہے.تو جتنا سبحان اللہ کا مضمون ذہن میں وسعت اختیار کرے اور جتنا یہ آپ کی دنیا کے عمل میں ڈھلتا چلا جائے اتنا ہی اس مضمون میں وزن پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.پس آنحضرت مہ جب سبحان اللہ کہتے تھے تو آپ کا سارا وجود گواہ تھا کہ میں واقعہ اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھتا ہوں.اتنے یقین کے ساتھ پاک سمجھتا ہوں اور پاکی کی میری نظر میں اتنی قیمت ہے کہ خدا کی پاکی پر جہاں جہاں نظر پڑتی ہے میں وہاں وہاں اپنے وجود کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے.اس وجود کو بھی پاک کرتا چلا جاتا ہوں.تو دراصل یہ لا الہ کا سفر ہے.سبحان الله الله کے سوا اور کچھ نہیں ہے جو بھی ہے ناپاک ہے اور خدا نا پاک نہیں ہے اس لئے ظاہر بات ہے کہ ہر نا پا کی کالعدم ہے اس کی حیثیت ہی کوئی نہیں رہتی.اس کو مٹادینا ضروری ہے.وہ بے وجہ، بے حق ، ناحق بیٹھی ہوئی ہے وہاں اور لا الہ اس طرح انسان کے دل پر جاری ہوتا ہے اس کے اعمال میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 973 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء جلوے دکھاتا ہے اور سبحان اللہ کا مضمون وزن اختیار کرتا چلا جاتا ہے.توثقيلتان فی المیزان کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہلکے پھلکے گلے نہیں ہیں.منہ سے تم نے چھوٹی سی بولی لگا دی ہے.اس کے پیچھے بڑ اوزن ہے.غیر معمولی بہت ہی بھاری مضمون ہے جو تم بیان کر رہے ہو اور یہ مضمون جتنا بھاری ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی خدا کو پسند آتا چلا جاتا ہے.حبیبتان الى الرحمن یہ دونوں کلے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ کلمہ کہنے والا اتنا ہی زیادہ اللہ کا قریب ہوتا ہے، اس کا محبوب بنتا چلا جاتا ہے.دوسرا حصہ ہے سبحان الله العظیم کہ اللہ عظیم ہے.عظمت کا مضمون حمد سے تعلق رکھتا ہے.پس جہاں سبحان الله و بحمدہ نے حمد کہہ کر ایک دروازہ کھولا گیا ہے کہ صرف سبحان الله نہیں کہنا بلکہ حد بھی کرنی ہے.وہاں سبحان الله العظیم نے وہ حمد کا ایک لامتناہی سلسلہ آپ کے سامنے کھول کے رکھ دیا ہے.ایک ایسی دنیا میں آپ کو لے جاتا ہے.سبحان الله العظیم کا کلمہ کہ جہاں ہر طرف حمد ہی حمد ہے.مگر ان دونوں میں ایک فرق ہے.سبحان کے ساتھ حم کا تعلق ہے، سبحان کا مضمون جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی حمد کا مضمون ساتھ ساتھ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور یہاں تک کہ آپ کی دنیا صرف حمد کی دنیا رہ جاتی ہے اور وہ دنیا جس کا ذکر ہے سبحان اللہ العظیم میں.بعض لوگ یہ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اعظم نہیں کہا گیا حالانکہ اکبر کہا گیا ہے اور بہت سی جگہوں پہ خدا کا سب سے بڑا ہونا ، سب سے زیادہ علم والا ہونا ، سب سے زیادہ اپنی دوسری صفات میں تمام دوسرے بظاہر صفات میں مشابہ لوگوں سے آگے اور برتر ہونا یہ مضمون نظر آتا ہے.مگر عظیم کے تعلق میں کہیں اعظم نہیں فرمایا گیا.چنانچہ جرمنی کے اجتماع میں ایک دفعہ ایک عرب دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا اور اس پر جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا وہ میں نے اسے سمجھایا بعد میں مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ لفظ عظیم میں جو عظمت پائی جاتی ہے وہ لفظ اعظم میں نہیں پائی جاتی.عظیم ایک ایسے وجود کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں ہر صفت میں ایک ایسی شان رکھتا ہو کہ اس کی عظمت سے گویا ساری کائنات بھر گئی ہے اور ہر بری چیز کے مقابل پر جو اچھی صفت ہے وہ اس کے حامل کو عظیم کہتے ہیں.مثلا چھوٹی گھٹیا بات نہیں کرنی کسی کی دل آزاری نہیں کرنی ، پیار کا سلوک کرنا ہے.جتنی بھی صفات روز مرہ آپ کی زندگی میں آپ کو اچھی لگتی ہیں.جس چیز میں ، جس شخص میں پائی جائیں گی وہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 974 خطبہ جمعہ کے ارد سمبر ۱۹۹۳ء عظیم ہوگا اور اگر وہ تمام صفات حسنہ کسی ایک وجود میں پائی جائیں تو اس کو حقیقی معنوں میں ہم عظیم کہہ سکتے ہیں کہ بڑا عظیم انسان ہے.ایک لفظ عظیم میں آپ نے اس کو پتا نہیں کتنی دا دیں دے دی ہیں اور حقیقت میں جب کسی انسان کا آپ کے دل پر رعب پڑتا ہے اور آپ اس کی صفاتِ حسنہ سے متاثر ہوتے ہیں.تو بے اختیار دل سے اس کی عظمت کا ترانہ اٹھتا ہے.وہ بہت عظیم انسان ہے اور وہاں کسی سے مقابلے کا مضمون نہیں ہوتا.اس کے مقابل پر عظیم کا سوال کبھی نہیں اٹھا نہ ذہن اس طرف متوجہ ہوتا ہے.اپنی ذات میں گویا بے مقابلہ رہ گیا ہے وہ شخص اور مقابلے کا کوئی سوال نہیں رہا.سبحان الله العظیم کہہ کر یعنی سکھا کر ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی کہ سبحان کا رستہ اختیار کرو.پہلے اللہ تعالیٰ کو ، ہر عیب سے بلکہ ہر غیر اللہ سے پاک خیال کرو.یقین کرو اس کے مضمون کو سمجھو، اس کو اپنی زبان کے ساتھ اپنے دلوں پہ جاری کرو.پھر تمہیں حمد کی اجازت ہوگی.یعنی پھر تم مجاز ہو گے اس بات کے تمہارا حق ہوگا کہ حمد بیان کرو کیونکہ گندگی کے ساتھ حمد نہیں رہ سکتی.ہر جگہ جہاں پا کی پیدا ہوگی اس کے ساتھ ہی حمد کا مضمون خود بخود ابھر آئے گا اور پھر تم سبحان اللہ العظیم کہو گے تو ایک نئی شان کے ساتھ کہو گے نئے عرفان کے ساتھ کہو گے.اللہ کی عظمت اس طرح تمہارے وجود پر چھا جائے گی کہ کسی اور وجود کا سوال ہی نہیں رہے گا.اکبر کا کیا سوال، اعظم کا کیا سوال ہے پھر.جب اور ہے ہی کوئی نہیں تو لا اله الا اللہ میں جو مضمون ہے وہی عظیم کے لفظ نے وہی ان کلمتان میں ہے یعنی ان دو کلموں میں ہے.اور لفظ عظیم میں اکیلا ایک عظیم رہ گیا ہے.تو کوئی اور وجود ہے ہی نہیں تو اس کے ساتھ مقابلہ کیا کیا جائے.یہ وہ طریق تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے صحابہ کو سمجھایا کرتے تھے کہ اس طرح حمد کی جاتی ہے.یہ دو کلمات آپ ہی نے تو بیان فرمائے کہ خدا کو بہت پیارے ہیں اور ان میں وزن بھی بہت ہے.زبان پر ہلکے ہیں لیکن اس میں ایک ایک فقرے میں گہرے مضامین پوشیدہ ہیں.ہلکے ہیں لیکن ہلکے سمجھنا نہ اور اگر ہلکے نہ سمجھو گے اور وزن دار سمجھو گے تو پھر وزن کی تلاش بھی کرو گے.ورنہ بغیر تلاش کے اسی طرح زبان فر فر کرتی آگے نکل جائے گی.مطلب ہے ٹھہر ٹھہر کر سوچ سوچ کر سمجھ سمجھ کر اپنے وجود میں جاری کرتے ہوئے آگے بڑھو اور پھر تم ایسی دنیا میں پہنچ جاؤ گے.جہاں خدا کے سوا کسی کی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 975 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۹۳ء عظمت باقی نہیں رہتی ایک ہی ہے جو عظیم ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ جو جنت، خدا تعالیٰ فرماتا ہے جنت دیکھی ہے؟ وہ کہیں گے نہیں دیکھی تو نہیں.اچھا اگر دیکھ لیتے تو پھر کیا کرتے؟ بغیر دیکھے یہ حال ہے کہ مجھ سے جنت مانگ رہے ہیں تو ان کو کیا پتا کہ کیا مانگ رہے ہیں پھر فرماتا ہے جہنم کبھی دیکھی ہے انہوں نے ؟ وہ کہتے ہیں نہیں.وہ کہتا ہے اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی پکڑ کا احساس ہو جائے تو اس کے گناہ کا کوئی سوال ہی اس کے لئے باقی نہیں رہتا.سب کچھ جل جائے اس میں اور اگر اس کی بخشش کا پتا چل جائے تو وہ تو سمجھے کہ ساری کائنات ہی میری ہے، موجیں کرتا پھرے.تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے مابین، دونوں کے درمیان انسان کو چلاتا ہے.اپنی بخشش کا بھی اظہار کرتا چلا جاتا ہے اور اپنی پکڑ سے بھی متنبہ کرتا چلا جاتا ہے.فرماتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی بخشش کرنے والا نہیں اس کی رحمت ہر دوسری چیز پر محیط ہے اور پھر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بتاتا ہے کہ اللہ کی پکڑ سے زیادہ اور کوئی پکڑ نہیں ہے.تو جنت اور جہنم یہ دو مضمون ہیں جو ہمارے سامنے کھول رہے ہیں اور آنحضرت یہ فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں تمہارے لئے ابھی بہت سے سفر باقی ہیں جب تم جنت مانگتے ہو تو تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کیا مانگ رہے ہو اس لئے اور غور کرو.خدا تعالیٰ کے جنت کے مضمون کو اور سمجھو، معلوم تو کرو کہ وہ ہے کیا چیز اور خدا کا خوف دل پر جاری کرنے کی غرض سے جہنم کے مضمون کو بھی زیادہ گہرائی سے سمجھو اور ہلکے پھلکے انداز میں اس کو نہ لینا.اگر تم جہنم کے مضمون سے واقف ہو جاؤ تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے ان کا کیا حال ہو؟ یعنی کوئی ایسی کیفیت ہے کہ جس کو انسان سمجھ نہیں سکتا کہ کیسی عجیب کیفیت طاری ہو جائے گی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا شخص، ایسے لوگ جو خدا کے ذکر میں اس طرح محو ہوں کہ صرف ذکر الہی کی بات ہو رہی ہے.اللہ کی پیار کی باتیں ہیں اور بخشش طلب کی جارہی ہے.اس سے اس کی نعمتیں مانگی جارہی ہیں.ایسے لوگوں کے ساتھ جو بیٹھ جائے وہ بھی بدنصیب نہیں ہوا کرتا.تو ہم تو ساری دنیا کے لئے برکتیں لے کر آئے ہیں.ساری دنیا کی نجات کا موجب بن کر آئے ہیں.اگر دنیا ہمارے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 976 خطبہ جمعہ ۱۷ر دسمبر ۱۹۹۳ء ساتھ نہیں بیٹھتی تو ہمیں چاہئے کہ ذکر الہی کی مجالس لے کر دنیا تک پہنچیں اور ان مجالس کو عام کریں.وہ لوگ جو اس وقت دعوت الی اللہ میں مصروف ہیں.ان کو میں خصوصیت سے اس حدیث کے حوالے سے یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں.دعوت الی اللہ کا اگر صرف یہی مقصد ہو اگر احمدیوں کی تعداد بڑھے تو یہ تو ایک لغو اور بے معنی مقصد ہے.اللہ سے محبت کرنے والوں کی تعداد بڑھانا مقصد ہے.خدا کا ذکر کرنے والوں کی تعداد بڑھانی ہے.پس اگر بھرتی کر کے آپ ایک طرف پھینکتے چلے جائیں ان کو تو کیا فرق پڑتا ہے، خدا کے بندوں کی دنیا تو اربوں تک ہے.چند آدمی ہم نے اپنی جماعت میں مزید داخل کر لئے تو کیا فرق پڑے گا.وہ آدمی بنا ئیں جن کے آنے سے، جن کے ذکر سے زمین سے آسمان تک فرشتوں سے بھر جائیں اور فرشتے ان پر سایہ کریں اور جو ان کے ساتھ بیٹھے اس کے بھی مقدر جاگ جائیں.خواہ وہ چلنے پھرنے والا مسافر ہی کیوں نہ ہو.جس کے پاس وہ بیٹھیں اس کے نصیب جگادیں اور یہ ذکر الہی سے ممکن ہے کیونکہ یہ مضمون ذکر الہی کے تعلق میں بیان ہوا.پس جن لوگوں کو آپ احمدی بناتے ہیں.ان کے ساتھ ذکر کی مجلسیں لگائیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ذکر کے بہت سے مضمون سمجھا دیئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کھوئی ہوئی باتوں کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دنیا کے لئے لائے تھے لیکن رفتہ رفتہ مسلمان بہکتے بہکتے ان باتوں سے دور چلے گئے اور ان کے مضامین کو سمجھنے کے قابل نہ رہے.ذکر کا مضمون آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اور بڑے بڑے صوفیاء جیسے کہ میں نے پچھلے خطبے میں بیان کیا تھا.ذکر کے انداز بدل بیٹھے، اس کی ماہیت سے نا واقف ہو گئے اور کہیں سے کہیں محمد رسول اللہ کے غلاموں کو ہانک کر کسی اور جگہ پہنچا دیا.پس ہمارا کام ہے ان کو ، بنی نوع انسان کو ، خصوصا امت محمدیہ کو وہ ذکر سکھائیں جس کا ذکر حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں بھی ملتا ہے اور آپ کی ساری زندگی اسی ذکر پر مشتمل تھی اور اس سے کام میں برکت پڑے گی سب سے اچھی تربیت یہ ہے.میں نے تو ساری زندگی میں غور کر کے اس سے بہتر نسخہ کوئی نہیں دیکھا تربیت کا کہ اللہ کا ذکر کرو.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے.إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا الله ( آل عمران : ۱۳۶) وہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان فاحشہ بھی ہو جائے تو ذکر الہی کرتے ہیں.اب فاحشہ اور ذکر الہی کے درمیان استغفار نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 977 خطبہ جمعہ ۱۷ر دسمبر ۱۹۹۳ء رکھا اس کے بعد استغفار رکھا ہے.قرآن کریم پڑھ کے دیکھیں فرمایا اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر وہ بخشش طلب کرتے ہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو محبت ہوتی ہے اور اگر کسی سے محبت ہو اور کوئی ایسا فعل سرزد ہو جو اس سے دوری کا موجب بن سکے تو معافی بعد میں آئے گی پہلے اس کی یاد آئے گی اور جو خدا کو پہلے یاد کرتے ہیں پھر معافی مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے خوشخبری دی ہے کہ ہم انہیں معاف فرما دیں گے.تو بخشش بھی محبت سے پنپتی ہے اگر تعلق ہو اور ایک انسان جھک جائے اور کہے کہ مجھے معاف کر دو.تو بعض دفعہ ایک انسان کہتا ہے کہ تم کیوں معافی مانگ رہے ہو میں تو تم سے ناراض ہو ہی نہیں سکتا.یہ معافی مانگ کے شرمندہ نہ کرو.تو اللہ تعالیٰ کے عجیب انداز ہیں اپنے محبت کے اظہار کے.فرمایا فاحشہ کر دیتے ہیں بعض دفعہ لیکن ذَكَرُوا الله فورا اللہ کی یاد آتی ہے اور جھکتے ہیں اس کے گرد اور روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں معاف فرما دے.جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو معاف کر چکا ہوں.پس یہی مضمون ہے جو اس حدیث میں بیان ہو رہا ہے.اللہ فرماتا ہے وہ میرے ذکر کرنے والے بندے ہیں.ان کو بتاؤ کیا فرماتا ہے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں ان کو معاف کر چکا ہوں.آنحضور ﷺ کے الفاظ یہ ہیں.ان باتوں کے بعد یعنی جن کا ذکر گزر چکا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھے سے مانگا اور میں نے ان کو اس چیز سے پناہ دی جس چیز سے وہ میری پناہ طلب کرتے تھے.تو اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی اپنے پیاروں کی دعائیں سننے کے لئے گویا تیار بیٹھا ہے اور فرشتوں کو جو بیچ میں ڈالا تو ان سے دو وجوہات سامنے آتی ہیں.ایک تو یہ کہ اپنے پیار کے اظہار کے لئے ، دوسرے یہ نہیں کہ ان سے کچھ پوچھ رہا تھا ان کو بتا نا مقصود تھا اور یہ بتانا تھا کہ ان بندوں کو میں معاف کر چکا ہوں ان کی بخشش کے سامان ہو چکے ہیں ان کو میں سب کچھ دے چکا ہوں جو مجھ سے یہ مانگتے رہے ہیں.یہ اس لئے ضروری ہے اظہار کہ فرشتے وہی کرتے ہیں جو اللہ کرتا ہے وہی چاہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے اور جس سے خدا راضی ہو اس کی تائید میں فرشتے چلتے ہیں.پھر تو یہ مضمون محض ایک کہانی کے رنگ میں نہیں ہے.اس کے اندر گہرے سبق ہیں اور بہت ہی گہری معلومات ہیں.مراد یہ ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 978 خطبہ جمعہ ۷ار دسمبر ۱۹۹۳ء ان کا ذکر جو خدا کا ذکر کرتے ہیں.اللہ ملاء اعلیٰ میں فرماتا ہے اور ان کے ذکر کے ساتھ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام طاقتیں ان کی سمت میں روانہ، ان کی تائید میں روانہ ہو جاتی ہیں.وہ تائیدی ہوائیں اللہ ان کی خاطر چلاتا ہے اور وہ ان کی مؤید بن جاتی ہیں.ایک اور حدیث سے جو حضرت انس سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا اور ذکر ہے کہ یہ حدیث اللہ نے چونکہ بیان فرمائی ہے یہ حدیث قدسی ہے.جب بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں.جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہا تھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتے ہوئے جاتا ہوں.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۵۲۷) یہ ہے تو بہت پیارا ذ کر چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا لیکن پتا ہی نہیں چلتا کہ گھنٹہ یوں نکل جاتا ہے کہ چند منٹ ہوں.تو انشاء اللہ پھر باقی آئندہ سہی.آئندہ ایک خطبہ جو ہے میرا وہ ماریشس میں آئے گا اور وہاں سے میں مخاطب ہوں گا.جس طرح ماریش والے اس وقت ٹیلی ویژن پر دیکھ ر ہے ہیں پتا نہیں ٹیلی ویژن کی وہاں اجازت بھی ہے کہ نہیں مگر دنیا والے دیکھ رہے ہیں.تو اگلے جمعہ میں آپ انگلستان والے انشاء اللہ ٹیلی ویژن میں مجھے دیکھیں گے اور سنیں گے اور بیک وقت سب کی یادتو ممکن نہیں ہے لیکن تازہ تازہ جدائی آپ سے ہوگی اس لئے اس موقع پر یا درکھیں آپ یادر ہیں گے اور کبھی کبھی میری آنکھ آپ کو تصور میں دیکھے گی ضرور کہ اس طرح مجلس کوئی یہاں لگی ہوئی ہے کوئی وہاں لگی ہوئی ہے.اب دعا کریں آخر پر یہ درخواست ہے کہ اللہ یہ سفر با برکت کرے اور اس کے نیک نتائج ظاہر فرمائے.ایسے منصوبے بنانے کی توفیق ملے کہ ماریشس کا جزیرہ جلد از جلد احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آجائے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 979 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء رسول کریم علیہ سے زیادہ کوئی اللہ کی محبت میں گرفتار نہیں ہوا.آپ کا پاکیزہ وجود تھا جو کلیۂ خدا کی محبت میں غرق ہو گیا.( خطبه جمعه فرموده ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء بمقام روز بل ماریشس ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَتَرَى الْمَلَبِكَةَ حَافِينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيْلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الزمر : ۷۶) پھر فرمایا:.خطبات کا یہ سلسلہ جو کچھ عرصہ سے جاری ہے ذکر الہی سے متعلق ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو شروع کروں، آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ آج کا بین الاقوامی جلسہ جو قادیان میں منعقد ہو رہا ہے ، ہم اس جلسے میں آج ٹیلی ویژن کے ذریعہ شامل ہورہے ہیں اور اس بین الاقوامی جلسے میں دنیا کی اور بھی جماعتیں اور مجالس شامل ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ عجیب انتظام جماعت احمدیہ کے ذریعہ فرما دیا ہے کہ جلسہ قادیان میں ہو یا لندن میں یا ماریشس میں ، وہ اللہ کے فضل سے ایک بین الاقوامی صورت اختیار کر جاتا ہے لیکن خصوصیت سے قادیان میں ہونے والا جلسہ ہمارے لئے بہت ہی مبارک بھی ہے اور معزز بھی ہے.ایک ایسا جلسہ ہے جس کے ساتھ بہت سی پاکیزہ یادیں وابستہ ہیں پس یہ دن ایک غیر معمولی دن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، اسی کی دی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 980 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء ہوئی توفیق کے مطابق آج ہم جو ماریشس میں احمدی موجود ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بین الاقوامی قادیان کے جلسے میں شرکت کر رہے ہیں.کچھ اور بھی جلسے ہیں، کچھ اور بھی ذیلی تنظیموں کے اجتماعات ہیں جو اس دن آج ہمارے ساتھ ہیں.ان میں سے لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا اپنا دسواں سالانہ اجتماع اور دوسری مجلس شوری منعقد کر رہی ہے.بعض عرب ممالک کی لجنات نے بھی اللہ کے فضل کے ساتھ اب اجتماعات شروع کر دیئے ہیں.ضلع جہلم، واہ کینٹ، ٹیکسلا کی جماعتوں کا سالانہ جلسہ ہورہا ہے.جماعت ہائے مبی، نائیجیریا، نیوزی لینڈ کا جلسہ بھی ہو رہا ہے.جلسہ نائیجیریا میں شمالی علاقے کے ایک بہت ہی معزز امیر جو اپنے وسیع علاقے میں سب سے زیادہ معزز عہدے پر فائز ہیں اور امیر کہلاتے ہیں.( یہ خالص مسلمانوں کا علاقہ ہے).وہ مجھے انگلستان میں آکر ملے بھی تھے اور بہت سی غلط فہمیاں ان کی دور ہوئیں چنانچہ وہ بھی اب خدا تعالیٰ کے فضل سے نائیجیریا کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں.خصوصیت سے ان کو بھی میں ساری جماعت کی طرف سے السلام علیکم کہتا ہوں.ان کی شمولیت ان کے لئے اور ان کے سارے علاقے کے لئے با برکت ثابت ہو.اسی طرح جماعت سپین کی ذیلی تنظیموں یعنی خدام، لجنہ اور انصار کے سالانہ اجتماعات بھی ہو رہے ہیں.جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ اور جماعت احمد یہ جرمنی کے مختلف ریجنز کے تربیتی کورسز یعنی درس جاری ہیں.اس ضمن میں خصوصیت سے یہ گزارش کروں گا کہ آپ بھی اسی پیمانے پر اپنے ہاں کام شروع کریں ( ماریشس والے خاص طور پر اس وقت میرے مخاطب ہیں ) جماعت جرمنی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یورپ میں تبلیغ کے میدان میں سب پر بازی لے گئی ہے اور حیرت انگیز انقلابی کام کئے ہیں.چونکہ بہت تیزی سے قدم آگے بڑھ رہے ہیں،اس لئے ان کو میں نے خصوصیت سے نصیحت کی تھی کہ جن جن دوستوں کو آپ کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے.ان کے لئے مستقل تربیت کے انتظام ہونے چاہئیں چنانچہ ان کو با قاعدہ طریق سمجھایا کہ اس طریق پر آپ مختلف تربیتی اقدام کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جو اطلاعات مل رہی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بالکل ہدایت کے مطابق پوری تن دہی اور پورے اخلاص کے ساتھ جماعت جرمنی کی مختلف تنظیمیں اور جماعت جرمنی سے وابستہ سب خدام مل کر بہت عمدگی سے تربیتی کلاسز کا انعقاد کر رہے ہیں اور نو مسلم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 981 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء بھی اور مسلمانوں سے بھی جو احمدی ہوئے ہیں وہ با قاعدہ ان میں حصہ لیتے ہیں مختلف کام ان کے سپرد کئے جاتے ہیں.جماعتی تنظیم سے اور چندوں کے نظام سے ان کو آگاہ کیا جاتا ہے، نظام خلافت کا مضمون انہیں سمجھایا جاتا ہے اور پھر انتظامات میں ان کو شامل کرنے کے لئے انتظامی تربیت بھی ان کو دی جاتی ہے.امید ہے کہ اگلے سال کی کثیر تعداد میں بیعتوں سے پہلے پہلے جو گزشتہ سال احمدی ہوئے ہیں وہ پوری طرح جماعت میں ضم ہو چکے ہوں گے، جذب ہو چکے ہوں گے.باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے اور اسی طریق پر وہاں بھی تربیتی انتظامات ہونے چاہئیں.قادیان کے جلسے کا جہاں تک تعلق ہے ، اس میں خصوصیت کے ساتھ میں ان سب سے مخاطب ہوں جو دنیا کے کونے کونے سے آج قادیان میں حاضر ہوئے ہیں.قادیان کے باشندگان اس وقت بھاری اکثریت میں سکھ ہیں اور سکھوں نے جماعت احمدیہ سے ہمیشہ بہت حسن سلوک سے کام لیا ہے.ساری دنیا کی جماعتیں اس پہلو سے ان کی ممنون ہیں.مذہبی اعتقادات میں اختلافات اپنی جگہ مگر انسانی قدروں کے لحاظ سے، انسانی سطح پر اعلیٰ تعلقات استوار کرنا یہ الگ بات ہے اور مذہبی اختلافات اس دوسرے معاملہ میں مانع نہیں ہیں.اس کو روکتے نہیں بلکہ مذہب بحیثیت مجموعی انسانی قدروں پر اضافے کی خاطر آتا ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرتا ہے جوں جوں اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھتا ہے انسانی تعلقات بھی اسی طرح پاکیزہ اور مقدس ہوتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نام پر نفرتیں نہیں بکھیری جاتیں بلکہ محبتوں کے پھول بچھائے جاتے ہیں.اس پہلو سے قادیان کے باشندے نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کر رہے ہیں.باوجود اس کے کہ وہ جانتے ہیں سکھوں کے بنیادی عقائد میں سے بعض ایسی باتیں ہیں جن سے ہمیں اختلاف ہے اور ان کو ہمارے عقیدوں سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود انسانی سطح پر ہم مل جل کر رہ سکتے ہیں اور سب گوروں کی یہی تعلیم ہے کہ انسان کو انسان سے محبت کرنی چاہئے.حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے.پس آپ جو وہاں جمع ہیں آپ سے میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے ہمیں سکھلایا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: ۶۱ ) احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کیا ہے؟.پس آپ ان سے حسن سلوک کریں یہاں تک کہ آپ کے حسن سلوک کی یا دان کو اور زیادہ اس محبت کے رستے پر آگے بڑھائے اور تمام دنیا میں انسانی بھائی چارے کی جو مہم
خطبات طاہر جلد ۱۲ 982 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء جماعت احمدیہ نے شروع کر رکھی ہے اس کو مزید تقویت ملے.یہ سال جو گزرا ہے اسے میں نے عالمی بھائی چارے کا سال قرار دیا تھا اور جماعتوں کو نصیحت کی تھی کہ پوری کوشش کریں کہ اس سال کے دوران مختلف مذاہب کے لوگ مختلف قوموں کے لوگ ، مختلف جغرافیائی خطوں سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے قریب آئیں.پس قادیان کا جلسہ اس سال کا ایک اختتام ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ اختتام بہترین پھل اپنے چھوڑ جائے گا جو میٹھے ہوں گے، باقی رہنے والے ہوں گے اور انسانی اخلاق کی صحت کے لئے مفید اثرات پیچھے چھوڑیں گے.اب ذکر الہی کے مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.ذکر الہی کا مضمون صرف ایک جلسے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ عالمی طور پر تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے اور کسی ایک لمحہ کی بات نہیں بلکہ ساری زندگی کے تمام لمحوں پر یہ ذکر محیط ہے اور صرف مسلمانوں کا ذکر نہیں ، دنیا کے ہر مذہب نے اپنے اپنے طور پر ذکر الہی پر کچھ نہ کچھ زور دیا ہے اور مذہب کا آخری خلاصہ ذکر ہے.پس ذکر سے متعلق بہت کھول کھول کر جماعت کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ذکر ہے کیا ؟ کیسے کیا جاتا ہے؟ اور اس کے نتیجہ میں آپ کے اندر کیا پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور ہونی چاہئیں.اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کے ذکر کے طریق بیان کر رہا تھا اور بات اس طرح چھڑی تھی کہ ایک مشہور عرب شاعر امراؤالقیس ہوگزرا ہے جس نے اپنے دوستوں کو یہ کہہ کر ایک منزل پر رکنے کی ہدایت دی کہ یہ میرے محبوب کی منزل کے مٹے ہوئے نشانات ہیں.انہیں دیکھ کر میرا محبوب مجھے یاد آتا ہے.پس اے مرے ساتھیو! تم بھی ٹھہرو کچھ عرصہ مل کر ان مٹتے نشانات پر آنسو بہا لیں.میں نے ذکر کیا تھا کہ ایک شاعر اپنے محبوب کے ساتھ ایسا تعلق رکھتا تھا کہ اس کی منزل کے مٹے ہوئے نشانات بھی اس کو اس کا ذکر کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو اللہ کے ذکر سے ہم کیسے غافل ہو سکتے ہیں جس کے نشانات تمام کائنات پر محیط ہیں جو آفاق میں بھی ہیں اور انفس میں بھی ہے.باہر بھی ہے اور اندر بھی ہے.انسان خواہ باہر کی دنیا کا مطالعہ کرے یا اپنے نفس میں ڈوب جائے ہر جگہ اسے خدا تعالیٰ کے مٹتے ہوئے نہیں بلکہ ہر جگہ زندہ اور ابھرتے ہوئے نشان دکھائی دیں گے.وہ نشانات ہیں تو زندہ اور روشن بھی ہیں لیکن انسانی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اس لئے بعض لوگوں کو نہ وہ نشان دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ان میں روشنی نظر آتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ یہ شعور
خطبات طاہر جلد ۱۲ 983 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء ہے جو بیدار ہوتا ہے.یہ بصیرت ہے جسے بینائی عطا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں خواہ آپ کسی طرف دیکھیں و ہیں خدا تعالیٰ کی عظمت کے اس کی تسبیح کے اس کی تحمید کے نشان ابھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یعنی آپ کی ذات کو ان کو دیکھنے کا شعورمل رہا ہوتا ہے اور اس وجہ سے یوں لگتا ہے کہ گویا وہ نشان ابھر کر آپ کے سامنے آرہے ہوں اور پھر وہ روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں حالانکہ وہ پہلے سے ہی روشن ہیں.وجہ یہ ہے کہ آپ کے اندر تاریکی دور ہو رہی ہے.آپ اپنے اندر ایک نئی روشنی پاتے ہیں.اسلئے وہ روشن نشانات آپ کو اسی نسبت سے روشن دکھائی دینے لگتے ہیں پس اس ذکر میں سب سے زیادہ اہم ذکر حضرت محمد مصطفے ﷺ کا ذکر ہے.آپ سے زیادہ کوئی اللہ کی محبت میں گرفتار نہیں ہوا.وہ ایک ایسا پاکیزہ وجود تھا جو کلیۂ خدا کی محبت میں غرق ہو گیا کچھ بھی اپنا باقی نہ چھوڑا.آپ کی زندگی کے ہر لمحے پر خدا کی یاد محیط تھی پس اگر ہمیں خود علم نہ ہو کہ ہم کیسے ذکر کریں تو وہ مذکر ہمارے سامنے ہے.وہ نصیحت کرنے والا اپنی ذات میں ایک زندہ ذکر ہے.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تم میں ذکر اً رسولاً بھیجا ہے.ایسا رسول گمبھیجا ہے جو مجسم ذکر ہے پس اس لحاظ سے آنحضرت مہ کی سیرت کا مطالعہ ذکر الہی کا بھی مطالعہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ذکر ہے.یہ رسول مجسم ذکر ہے.پس خدا کے ذکر کا مطالعہ سب سے بہتر حضرت اقدس محمد ہی کی ذات میں ہو سکتا ہے.احادیث میں سے چند جو میں نے اس موقع کے لئے منتخب کی ہیں، آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اسکے قریب ہو جاتا ہوں.جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کے آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتے ہوئے جاتا ہوں.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر : ۴۸۵۰) یہ وہ مضمون ہے جو ہر خدا کے قریب ہونے والا بندہ ہمیشہ اپنی ذات میں مشاہدہ کرتا ہے.یہ ایک ایسی گواہی ہے جو ساری کائنات میں پھیلی پڑی ہے یعنی ہر انسان جو خدا تعالیٰ سے پیار کی بات کرتا ہے، اس سے تعلق بڑھاتا ہے اسے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے.خدا کا یہ تعلق ہر بندے سے برابر ہوتا ہے اور انسان محسوس کرتا ہے کہ خدا کی طرف تھوڑا سا قدم آگے بڑھایا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت زیادہ میری طرف توجہ فرمائی اور احسان فرماتے ہوئے میرے قریب آیا.لیکن آنحضرت ﷺ سے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 984 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء صلى الله زیادہ خدا کسی اور انسان کے قریب نہیں ہوا اور جس تیزی سے خدا تعالی آنحضرت میﷺ پر جلوہ گر ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ذکر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند تھا اور سب سے زیادہ قوت اور دل کی گہرائی کے ساتھ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے کیونکہ خدا تعالیٰ جب یہ وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم ایک بالشت میری طرف آؤ تو میں ایک ہاتھ تمہاری طرف آؤں گا.تم چل کے آؤ تو میں دوڑ کر آؤں گا.جیسے خدا کو ہم نے آنحضرت ﷺ کی طرف آتے ہوئے دیکھا ہے ویسا دنیا میں کبھی کوئی اور نظارہ دکھائی نہیں دیا.یہی وہ مضمون ہے جو ہمیں عرش الہی کے معنی بھی سمجھاتا ہے اور اسی تعلق میں میں نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی تھی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَتَرَى الْمَلَئِكَةَ حَافِينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی تو ملائکہ کو دیکھے گا جو عرش کے گرد جمگھٹے بنائے ہوئے یعنی ایک دوسرے پر گرتے ہوئے اکٹھے ہوتے چلے جاتے ہیں (یعنی جھرمٹ پر جھرمٹ بنے ہوئے ) اور اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کی حمد کے گیت گاتے ہیں اور وہ وقت ہوتا ہے جب بڑے بڑے فیصلے کئے جاتے ہیں اور وہ تمام فیصلے حق کے ساتھ کئے جاتے ہیں اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ یعنی تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.اس سے پہلے میں نے ایک حدیث پڑھی تھی اس میں ذکر تھا کہ آنحضرت ﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ جب کسی مجلس میں میر اذ کر کیا جاتا ہے تو فرشتے تہ در تہ ، غول در غول اس مجلس پر اترتے ہیں.یہاں تک کہ زمین سے آسمان تک اس ذکر کو ڈھانک لیتے ہیں اور وہ فرشتے اس ذکر اور اس حمد میں شریک ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ذکر لے کر خدا کے حضور بلند ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ فیصلے فرماتا ہے کہ کن کو بخشا جائے گا اور کن سے درگزر کی جائے گی اور کن سے غیر معمولی احسان کا سلوک کیا جائے گا.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر : ۴۷۵۴) پس اس آیت کریمہ میں جو ذکر ہے وہ وہی ذکر نظر آتا ہے جو اس حدیث میں ہے اور اس سے ہمیں عرش کا مضمون بھی سمجھ آ جاتا ہے.عرش در اصل اس دل کا نام ہے جس میں خدا کی یاد ہو.کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اسے مکمل فرمالیا تو اس کے بعد عرش پر قرار پکڑا.ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف: ۵۵).
خطبات طاہر جلد ۱۲ 985 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء تو دنیا کو بنا کر دنیا سے ہٹ کر کہیں دور تو نہیں چلا گیا.اگر عرش کسی دور کے بعد از تصور کا نام ہے تو پھر خدا نے پھر یہ کیا کیا کہ چھ دن میں دنیا بنائی ، اسے مکمل کیا اور انسان میں روح پھونکی اور اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ خدا کی یاد کر سکے اور پھر عرش پر واپس چلا گیا اور وہاں جا کر بیٹھ رہا.یہ ایک جاہلانہ تصور ہے اسے قرآن شریف کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.عرش پر قرار پکڑنے سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ دل بنائے جو ذکر الہی سے معمور ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے.وہ دل بنائے جن میں اللہ کا نام لیا جاتا تھا اور جیسا کہ اس حدیث میں وعدہ کیا گیا ہے کہ جہاں تم خدا کا ذکر کرو گے وہاں ضرور خدا توجہ فرمائے گا.اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر توجہات کے ساتھ ان کے دلوں میں اتر نے لگا جو اس کا عرش بن گئے یہی وہ معانی ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معراج کا ایک عظیم فلسفہ بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ لوگ عرش کو کائنات سے پرے ڈھونڈتے ہیں لیکن حقیقت میں محمد ﷺ کا دل ہی تھا جو عرش الہی تھا.اس پر خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب تر نظارے آپ نے دیکھے ہیں کیونکہ وہ صفات باری تعالیٰ کی آماجگاہ تھا.تمام اسماء جو اللہ کی صفات سے تعلق رکھتے ہیں وہ تمام تر آنحضرت ے کے دل میں جلوہ گر تھے اور وہی وہ مقام تھا جہاں خدا تعالیٰ کو اترنا چاہئے تھا.پس یہ آیت کریمہ جو بیان فرما رہی ہے کہ فرشتے حول العرش اکٹھے ہو جاتے ہیں.اول طور پر اس عرش سے مراد حضرت محمد مصطف ماہ کا قلب مطہر ہے اور پھر تمام ذکر کرنے والوں کے دل ہیں جہاں خدا کی یاد کے ساتھ ساتھ خدا کچھ نہ کچھ اتر تا رہتا ہے اور فرشتے وہیں جائیں گے جہاں خدا جائے گا یعنی مقام کے لحاظ سے تو حرکت نہیں ہوتی لیکن معنوی لحاظ سے جہاں خدا کو پائیں گے ( کیونکہ عرش کے گردفرشتے گھومتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں لکھا گیا ہے ) وہیں فرشتے ہوں گے.پس وہ حدیث جو یہ بتاتی ہے کہ ذکر الہی کرنے والوں پر فرشتے تہہ بہ تہہ، طبق به طبق زمین سے آسمان تک اترتے ہیں اور زمین کو آسمان تک مکمل بھر دیتے ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ عرش الہی پر اتر رہے ہیں اور آنحضر مجسم ذکر الہی تھے.اس وقت وہاں ذکر الہی کرنے والے خدا کا عرش بن جاتے ہیں.آنحضرت یہ چونکہ مجسم ذکر الہی تھے اس لئے خدا ہمیشہ وہیں جلوہ گر رہا اور ایسا اترا کہ پھر گویا وہاں سے دوبارہ اٹھنے کا نام نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 986 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء لیا.شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو ہمیشہ ہمیش کے لئے ہرلمحہ لحہ مجسم ذکر بن چکا ہو.اگر کوئی بنا ہوتو پھر اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ لقب ملنا چاہئے کہ وہ ذکر الہی بن گیا لیکن جہاں تک میں نے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے مجھے کسی مذہب میں اس مضمون کی کوئی آیت نظر نہیں آئی کہ خدا تعالیٰ نے کسی اور نبی اور پیارے کو مجسم ذکر کہا ہو.سو اس پہلو سے اگر چہ تمام انبیاء ذکر الہی ہوتے ہیں لیکن آنحضور ﷺ سے زیادہ کوئی وجود ذکر الہی کہلانے کا مستحق نہ بنا.حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مکہ کے راستے پر چلتے ہوئے ایک پہاڑ کے پاس سے گزرے جسے جمدان کہا جاتا ہے.اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.صلى الله عن ابي هريرة قال كان رسول الله لا يسير في طريق مكة فمر على جبل يقال له جمدان فقال سيروا هذا جمدان سبق المفردون قالواوما المفردون يارسول الله قال الذاكرون الله كثيراً و الذاكرات ( صحیح مسلم - كتاب الذكر والدعاء والتوبۃ والاستغفار حدیث نمبر : ۴۷۳۴) کہ اس جمد ان کی سیر کرو.مفردون سبقت لے گئے.یعنی صرف یہی نہیں فرمایا کہ اس پہاڑ پر پھیل جاؤ اور سیر کرو.بلکہ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ مفردون سبقت لے گئے.صحابہ کرام نے عرض کیا صلى الله کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ مفردون کون ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والے.اس ضمن میں میں نے جو تحقیق کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی میں مفرد کا لفظ بھی پایا جاتا ہے اور مفرد کا بھی.مُفرد کا مطلب ہے کہ خود الگ ہو جانے والا.چنانچہ ایسا سوار جو گھڑ سواری کرتے ہوئے اکیلا کہیں نکل جائے اسے مفرد کہتے ہیں لیکن مفرد مجہول مضمون ہے یعنی وہ جسے اکیلا کر دیا گیا ہو.تو میں نے غور کیا کہ آنحضرت ﷺ کے تو ہر لفظ میں گہری حکمت ہوتی تھی.کیا وجہ ہے کہ آپ نے خود بخود الگ ہونے والوں کو مفرد نہیں فرمایا بلکہ مفرد فرمایا ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ مفرد آج بازی لے گئے ہیں.مفرد کا مطلب ہے کہ جو ایک طرف لے جایا گیا ہو، جوا کیلا کر دیا گیا ہو.تو مراد یہ ہے کہ عشق الہی میں اللہ کے ذکر سے مجبور ہو کر کچھ لوگ الگ الگ پہاڑوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور وہ جو مجبور کر کے ایک طرف لے جائے گئے ہیں اور جنہوں نے باقیوں سے تعلق توڑا ہے کیونکہ وہ شرماتے تھے کہ ان کے سامنے اللہ کی محبت کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر ہوں اور ان کی آنکھوں سے برسنے لگیں پس وہ مفرد ہوئے ہوئے یعنی علیحدہ کر دئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 987 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء صلى الله گئے اور عشق نے ان کو علیحدہ کر دیا تو عشق کی مجبوری سے الگ ہونے والوں کے متعلق رسول پاک نے فرمایا کہ وہ بازی لے گئے اور ساتھ سب کو ہدایت فرمائی ہے کہ تم بھی سیر کرو.مراد یہ ہے کہ تم بھی سیریں کر کے کچھ ویسی کیفیات اپنے دل میں پیدا کر و.جیسی میرے صحابہ کے دل میں پیدا ہوئی ہیں اور خدا نے مجھے خبر دی ہے کیونکہ آنحضور ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات بھی نہیں فرمایا کرتے تھے لازماً اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعہ بتایا ہوگا کہ آج تیرے یہ عشاق ہیں جن کو میری محبت مجبور کر کے الگ الگ پہاڑ پر لے گئی ہے.باقیوں کو بھی کہا کہ یہ بھی کوشش کریں.چنانچہ صحابہ کے پوچھنے پر آپ نے تشریح فرمائی کہ مفرد کون ہوتے ہیں.جہاں تک آپ کے ذکر کے اوقات کا تعلق ہے.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ.عن عائشه رضى الله عنها قالت كان رسول الله يذكر الله على كل صلى الله احیانه ( ترندی کتاب الدعوۃ حدیث نمبر : ۳۳۰۶) الله که محمد رسول اللہ ﷺ تواللہ تعالیٰ کو ہر لمحہ یاد کیا کرتے تھے.میں کس لمحہ کی بات کروں.کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں رسول اللہ ﷺ اللہ کے ذکر سے غافل رہے ہوں.بخاری و ترمذی میں مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت یہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے.خدا تعالیٰ کے جلال اور کبریائی کا جاری تھا.آپ خود بھی اس سے بے حد متاثر تھے.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ذکر سے وجد میں آکر دائیں بائیں جھوم رہے تھے اور آپ کے پاؤں کے نیچے سے منبر اس زور سے ہل رہا تھا اور کانپ رہا تھا کہ مجھے ڈر لگا کہ کہیں منبر خود بھی ٹوٹ کے نہ گر جائے اور آپ کو بھی نہ لے گرے.تو ایک عاشق کی اپنے محبوب کو یاد کرنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے آنحضرت کے دل پر بھی ایک وجد کی صورت طاری ہو جایا کرتی تھی اور بعض دفعہ اس کا اثر جسم پر بھی ظاہر ہوا کرتا تھا اور خدا کے ذکر سے ایسے جھومتے تھے کہ راوی کہتا ہے کہ منبر بھی ساتھ کانپ رہا تھا اور اس شدت سے کانپ رہا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ وہ خود بھی ٹوٹ جائے گا اور آنحضرت ﷺ کو بھی اس سے گر کر کہیں چوٹ نہ آجائے.(مسند احمد حدیث نمبر: ۵۳۵۱) حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: صلى الله عن ابي هريرة عن النبي عله قال ان الله تعالى يقول يا ابن آدم تفرغ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 988 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء لعبادتی املأ صدرك غنى وأسد فقرك والا تفعل ملأت یدیک شغلاً ولم اسد فقرک ( ترندی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث نمبر : ۲۳۹۰).اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اے میرے بندے میری عبادت کے وقت میرے لئے فارغ ہو جایا کر یعنی اپنے دل میں اور خیال نہ آنے دیا کر اور میرے لئے اپنے سارے وجود کو خالص کر لیا کر کہ اس میں کوئی باقی نہ رہے.اگر تو ایسا کرے گا تو میں تیری چھاتی کو غناء سے بھر دوں گا.کوئی حاجت تیرے دل میں باقی نہ رہے گی.یہ جو محاورہ ہے کہ چھاتی کو غناء سے بھر دینا.یہ بہت ہی پیارا اور بہت ہی گہرا محاورہ ہے اس میں ڈوب کر اس کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ نہیں فرمایا کہ اسے بے شمار دولت عطا کروں گا.یہ نہیں فرمایا کہ اس کے دل کو مستغنی کر دوں گا بلکہ فرمایا کہ اس کی چھاتی غناء سے بھر دوں گا.غناء سے چھاتی بھرنا اس وقت ہوا کرتا ہے جب انسان سر سے پاؤں تک راضی ہو جائے گا اور کسی چیز کی حاجت نہ رہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے مل جائے دوسرا غنا کا یہ مطلب ہے کہ وہ دنیا سے مستغنی ہو جائے.خدا کا اتنا پیارا سے عطا ہو اور خدا کے ذکر سے اتنا مزہ آئے کہ غیر اللہ کی حاجت ہی نہ رہے.پر واہ ہی نہ رہے کہ کسی اور کے پاس ہے بھی کہ نہیں.اس کو وہ کچھ مل جائے جس کی اسے چاہت ہے یعنی خدا اسے مل جائے اور پھر دنیا سے بے نیاز ہو جائے.یہاں اللہ تعالیٰ نے دل نہیں فرمایا بلکہ صدر فرمایا ہے کہ اس کی چھاتی بھر دوں گا.اس حدیث کا اطلاق مختلف لوگوں کے اوپر مختلف رنگ میں ہو گا بعض لوگ ضرورت مند ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ضرورت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ توجہ اللہ کے پیار کے ذکر سے ہٹ کر اپنی مشکل ، مصیبت اور ضرورت کی طرف اتنی زیادہ منتقل ہو جاتی ہے کہ خدا کا ذکر اپنی ضرورت کو پورا کرنے کا محض ایک ذریعہ رہ جاتا ہے.بار بار ان کا فقر اور مصیبت ذہن پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اللہ کی یاد سے ہٹا کر اس طرف لے جاتے ہیں.ایسی صورت میں بھی دعا مانگی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرماتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نصیحت فرما رہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ان ضرورتوں سے ہی مستغنی ہو جاؤ.کوئی خیال ، کوئی مصیبت ایسی باقی نہ رہے جو خدا کے ذکر سے غافل کرنے والی ہو تو عبادات ایسے کیا کرو کہ اپنی چھاتی میرے سوا ہر دوسری چیز سے خالی کر لیا کرو.جب تم اس طرح عبادت کرو گے تو میں تمہیں ہر مصیبت سے خالی کروں گا.ہر لالچ سے تمہارے دل کو پاک کروں گا یا دوسرے لفظوں میں تمہیں اتنا کچھ دوں گا جس کی تمنا تمہیں ہے یا اتنا
خطبات طاہر جلد ۱۲ 989 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء دوں گا کہ تمہاری تمنا کہے گی کہ میں سیراب ہو گئی ہوں.زیادہ سے زیادہ جو تمنا پھیل سکتی ہے وہ چھاتی کو ہی بھرا کرتی ہے تو فرمایا کہ تمہاری چھاتی ہی غناء اور استغناء سے بھر دوں گا.ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ تجھے مستغنی کر دوں گا اس لئے کہ تو غریب ہونے کے باوجود خدا کی محبت سے راضی ہوگا.یہ وضاحت بھی ساتھ ہی فرما دی ہے کیونکہ بعض دفعہ یہ بھی تو ہو جاتا ہے کہ ایک انسان ذکر الٹی میں ایسا ڈوب جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی پروا اس کو نہیں رہتی لیکن یہاں صرف یہی مضمون نہیں ہے.یہاں فرمایا ہے کہ میں غربت کو تجھ تک پہنچنے سے روک دوں گا اور غربت تجھے ہاتھ نہیں لگا سکے گی.تو وہ خدا کی خاطر اپنی دنیا کے جھمیلوں سے پاک ہو جاتے ہیں اور ان سے کٹ کر خدا کا ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی ساری ضرورتیں خود پوری فرما دیتا ہے اور ان کا امن بن جاتا ہے پس ہر پہلو سے یہ حدیث انسان کے لئے ایک عظیم الشان پیغام ہے کہ ذکر الہی کے نتیجہ میں تمہاری اعلیٰ تمنائیں بھی پوری ہوں گی یعنی خدا اپنے وجود سے تمہارے سینوں کو بھر دے گا اور تمہاری ادنی تمنائیں بھی پوری ہوں گی اور غربت تمہارے قریب بھی نہیں پھٹکے گی.غربت کو اذن نہیں ہوگا کہ تمہارے گھر کے دروازے کھٹکھٹا سکے تمہیں آخرت بھی عطا ہو گی اور دنیا بھی عطا کی جائے گی اور فرمایا کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہارے ہاتھ کاموں سے فارغ ہی نہیں کروں گا.دن رات مصیبت میں مبتلا رہو گے.کام کرو گے منتیں کرو گے.دنیا کی کمائیوں کے پیچھے پڑو گے لیکن ہاتھ کچھ نہیں آئے گا کیونکہ غربت تو میرے حکم سے دور ہوا کرتی ہے.میں تم سے غربت کو دور نہیں کروں گا اور اس کا ضامن نہیں بنوں گا.پھر دن رات کماؤ، محنت کرو.تمہاری حرص بھی بڑھتی چلی جائے گی جو کچھ لینا چاہتے ہو وہ ہمیشہ تمہاری پہنچ سے آگے آگے دوڑے گا.پس وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم تو کاموں کے نتیجہ میں امیر ہو گئے.ہم تو غربت سے باہر آگئے پھر اس حدیث کا کیا مطلب؟.ان کو انسانی نفسیات کا علم نہیں جن کو اللہ تعالیٰ غنا عطا نہ کرے ان کو اگر کروڑوں بھی مل جائے تو ان کی تمنا اربوں تک جا پہنچتی ہے اور اربوں بھی مل جائے تو تمنا کھربوں تک جا پہنچتی ہے.ایک وادی عطا ہو تو دوسری وادی کی حرص میں مرتے اور جیتے ہیں.دو وادیاں مل جائیں تو چاہیں گے کہ سارا علاقہ نصیب ہو جائے یا ساری دنیا مل جائے.آنحضرت ﷺ نے یہ مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان کو پوری دنیا بھی مل جائے تو وہ مالی کہیں گے کہ ایک اور دنیا ملے لیکن ان کا پیٹ جہنم کی آگ کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی.سواس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 990 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء یہ خیال نہ کریں کہ جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم محنت کر رہے ہیں.پیسہ بھی تو مل رہا ہے.ہر پیسہ طمانیت نہیں بخشا.ہر پیسہ سے سکون نہیں ملا کرتا.وہ پیسہ جو ذکر کرنے والوں کو ملتا ہے اس میں طمانیت قلب شامل ہوتی ہے.وہ اللہ کی طرف سے ایک عطا اور ایک فضل کے طور پر عطا ہوتا ہے اور خدا کے فرشتے غربت کو دور کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اس طرح انسان روحانی غربت سے بھی بچتا ہے اور جسمانی غربت سے بھی بیچ کر زندگی بسر کرتا ہے.بڑے بڑے امیروں کے متعلق ہم نے سنا ہے اور بعض کو دیکھا بھی ہے کہ بہت دولتوں کے باوجود دلوں میں آگ بھڑ کی رہی اور کبھی طمانیت نصیب نہیں ہوئی ہمیشہ مشغول رہے ہیں اور ان کا شغل بڑھتا گیا ہے کیونکہ جو کچھ وہ مزید کمانا چاہتے ہیں وہ ان کو نصیب نہیں ہوا.ساری زندگیاں اس آگ میں جھونک دیتے ہیں مگر اس کے باوجودطبیعت سیر نہیں ہوتی تو جسے اللہ فقر کا غلام بنادے اسے کوئی اور طاقت اس غلامی سے نجات نہیں بخش سکتی.حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ؛ عن ابن عباس رضي الله عنه قال ؛ قيل يا رسول الله اى جلسائنا خيراً؟ قال مـن ذكـر كـم الـلـه رويته وزاد في علمكم منطقه، وذكركم بالاخرة عمله.(الترغيب والترهيب الترغيب فى مجالسة العلماء ص ۲۶ بحواله ابو یعلی) آنحضرت ﷺ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ کونا شخص ایسا ہے جس کے پاس بیٹھنا ہمارے لئے زیادہ بہتر اور مفید ہے.آپ نے فرمایا ایسے شخص کے پاس جس کے دیکھنے کی وجہ سے تمہیں خدایا د آجائے.جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کو دیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آئے.اب جہاں تک ایسے شخص کا تعلق ہے ایسے شخص کو ڈھونڈ نا اور ہر ملک اور ہر قوم میں اس کی تلاش کرنا بظاہر ایک ناممکن کام ہے.اس لئے جسمانی روئیت اگر نصیب نہ ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ روحانی روئیت کی کوشش کی جائے.آنحضرت مہ کی صحبت میں جہاں تک ممکن ہو وقت گزاریں.یہ ممکن ہے کہ آخرین میں ہو کر بھی آپ کو اولین کی صحبت نصیب ہو جائے.قرآن میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے کہ ایسے آخرین بھی ہیں جو ابھی تک آنحضرت ماہ کے ساتھیوں سے نہیں ملے لیکن ایسا وقت میں لاؤں گا کہ ان کو اولین کے ساتھ ملا دوں گا.پس ایسے ملنے والوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل تھے جو دن رات آنحضور ﷺ کی صحبت میں بسر کر
خطبات طاہر جلد ۱۲ 991 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء رہے تھے اور اس صحبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی صحبت بھی آپ کو نصیب رہتی تھی.پس ایسا شخص اپنے ماحول میں ، اپنے ملک میں، اپنی قوم میں نصیب نہ ہو تو سب سے اچھا علاج یہی ہے کہ آنحضرت کے ذکر میں زیادہ وقت گزاریں.آپ کی ذات کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کریں اور گفتگو بھی کیا کریں.اس طرح وہ تینوں شرائط بھی پوری ہو جائیں گی جو آنحضرت ﷺ نے اچھی صلى الله صحبت کی شرائط بیان فرمائی ہیں کہ ایسا شخص جس کو دیکھ کر اللہ کی یاد تازہ ہو.محمد رسول اللہ ہے سے بڑھ کر تو کوئی ایسا شخص نہیں ہو سکتا جسے دیکھ کر اللہ کی یاد تازہ ہو اور اس کی گفتگو تمہارا علم بڑھائے.احادیث کا مطالعہ کریں علوم کا خزانہ ہیں.غور سے ٹھہر ٹھہر کر ان کا کھوج لگا ئیں تو ہر خزانے کی تہہ میں مزید خزا نے نظر آئیں گے.پھر فرمایا و ذکر کم بالاخرة عملہ اور اس کا عمل تمہیں ہمیشہ آخرت کی یاد دلائے.پس اس کے جواب میں ، میں نے یہی مضمون پایا کہ آنحضرت ﷺ صحابہ کو یہی فرمار ہے نی تھے کہ میرے پاس رہا کرو.جتنا ممکن ہو میرے ساتھ وقت گزارو.مجھے دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے گا.میری باتوں سے خدا کی طرف توجہ منتقل ہوگی اور میرا یہ عمل دیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال زیادہ شدت سے آئے گا.پس میرے ذریعہ سے تم یہ تینوں فیض پاسکتے ہو.اصحاب صفہ وہ اصحاب تھے جنہوں نے اس مضمون کو خوب سمجھا.دنیا تج کر دی اور ہمیشہ کے لئے مسجد کے تھڑوں پہ آکر بیٹھ رہے.نہ رزق کمایا اور نہ رزق کا خیال ان کے دل میں آیا.یہ وہی لوگ تھے جن کے سینے خدا کی طرف سے غناء سے بھر دیئے گئے اور ان کی ضرورتیں اللہ تعالیٰ پوری فرمانے لگا.غربت کے دور بھی انہوں نے دیکھے اور سختیاں بھی اٹھائیں لیکن باوجود اس کے وہ مسجد سے چمٹے رہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقتافوقتاً ظاہر ہوا کرتے تھے اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کی بھی اتنی دولتیں دیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں ہے.پس خدا کے دونوں وعدے ان کے حق میں پورے ہوئے.اصحاب صفہ میں سے ایک حضرت ربیعہ بھی تھے جو آنحضرت ﷺ کے خادم تھے.وہ بیان کرتے ہیں صلى الله حدثنار بيعة بن كعب الا سلمى قال كنت ابيت مع رسول الله علم فاتيته بوضوئه حاجته فقال لى سل فقلت أسالك مرافقتک فی الجنته قال اوغير ذلك قـلـت هو ذاك قال فـاعـنـى على نفسك بكثرة السجود (مسلم کتاب الصلوۃ حدیث نمبر :۷۵۴ ) کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت کے لئے رات کو
خطبات طاہر جلد ۱۲ 992 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء صد الله ان کے گھر سویا کرتا تھا.رات کو اٹھ کر آپ کے وضو کا پانی لاتا اور دوسرے کام کاج کرتا.ایک دن آپ نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ مانگنا ہے تو مانگ لو.یہ ایک خاص موج آیا کرتی ہے.وہ لوگ جو بڑے بڑے مراتب پر فائز ہوتے ہیں بعض دنیاوی بادشاہ ہوں یا امیر کبیر لوگ ہوں بعض دفعہ موج میں آکر اپنے خدام سے کہتے ہیں کہ آج وقت ہے مانگ لو جو مانگنا ہے.محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی انسان دنیا میں پیدا نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے.عجیب موج تھی جو آپ کے دل میں اٹھی اور عجیب شان تھی اس غلام کی مسجد کے تھڑوں پر بسنے والے ایک خالی ہاتھ انسان کی.اس کو مخاطب کر کے صلى الله آنحضور نے فرمایا کہ اے میرے محبت کرنے والے بتا کیا مانگتا ہے، آج مجھ سے مانگ لے.اس نے عرض کی کہ میں صرف یہ مانگتا ہوں کہ جنت میں بھی مجھے آپ کا ساتھ میسر ہو.حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ چاہئے.اس نے کہا کہ بس یہی کافی ہے، اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہئے.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں دعا کروں گا لیکن کثرت سجود وصلوۃ سے تم بھی اس بارے میں میری مدد کرو.عجیب شان کے نبی تھے جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی.پہلے فرمایا کہ مانگ کیا مانگتا ہے.پھر جب اس نے مانگا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں تو پھر یہ نہیں فرمایا کہ ہاں تجھے مل گیا.بلکہ یہ فرمایا کہ تم بھی کثرت سجود و صلوۃ کے ذریعہ میری مدد کرو.آپ کا پیغام شاید آپ نہیں سمجھے.مراد یہ ہے کہ تم نے بہت زیادہ مانگ لیا ہے.جنت میں محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہونا بہت ہی بڑی چیز ہے اور میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں دوں گا لیکن مجھ میں جتنی طاقت ہے دینے کی ، وہی دے سکتا ہوں.اللہ نے ہی دینا ہے تو تم میری مدد کرو.میں تمہارے لئے دعا کروں گا تم بھی اپنے لئے دعا کرو کہ اے خدا مجھے محمد رسول اللہ اللہ کا ساتھ اٹھا.اس میں آنحضور ﷺ کے ساتھ ہونے کی تمنا بہت بڑی تمنا ہے.محمد رسول اللہ کی دعائیں ساتھ ہوں تب بھی اپنی کوشش کی ضرورت رہتی ہے.حضرت معادؓ کی روایت ہے.عن معاذبن جبل قال أخذ بيدى رسول الله الله فقال انی لاحبک یا معاذ فقلت صلى الله وأنا احبك يا رسول الله فقال رسول الله علم فلاندع أن تقول في كل صلاة رب أعنى على ذکرک و شکرک و حسن عبادتک (سنن نسائی، کتاب السهو،حدیث نمبر : ۱۲۸۶).الله کہ آنحضرت ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ ! میں تم سے محبت کرتا ہوں.میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 993 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ ہر نماز میں یہ دعائیہ کلمات کہنا کبھی نہ چھوڑنا.کہ اے میرے اللہ میں تیری مدد چاہتا ہوں کہ تو مجھے اپنا ذ کر عطا فرما.کامیابی اور عمدگی سے ذکر کرنے میں میری مددفرمادے اور اپنے شکر کی توفیق بخش اور بہترین رنگ میں اپنی عبادت کی توفیق بخش.یہ محبت کا بہترین تحفہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے حضرت معادؓ کو عطا فرمایا.ایک عاشق اور معشوق کے درمیان کھل کر پیار کا اظہار ہوتا ہے.وہی وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی طرف سے نذرانے پیش کرتا ہے.اپنی محبت کے اظہار کے ثبوت کے طور پر کچھ ہدیہ دیتا ہے کہ یہ قبول فرمائیں.محمد نے خود ہاتھ پکڑ کر معاذ کو فرمایا کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں اور یہ دعا تحفہ دی کہ اس سے بڑا تحفہ اور کوئی نہیں دیا جا سکتا کہ کسی کو یہ دعا سکھائی جائے کہ اے خدا مجھے اپنے ذکر کی توفیق عطا فرما.میری مدد کر کہ تیرا ذکر کروں اور ذکر بھی ایسا ہو کہ شکر واجب ہو جائے اور شکر کا حق ادا نہ ہورہا ہو.اگر ذکر کا حق انسان اپنی توفیق کے مطابق ادا کرے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اتنا پیار کا جلوہ دکھاتا ہے کہ فوراً انسان شکر کے مضمون میں داخل ہو جاتا ہے.آگے اس مضمون کی حدیثیں آئیں گی جن سے پتا چلتا ہے کہ انسان بہت تھوڑا کرتا ہے اور اللہ اس سے بہت زیادہ کرتا ہے پس اگر ذکر کی سچی توفیق ملے تو اللہ یہ وعدہ ضرور پورا فرماتا ہے کہ تم میرا ذکر کرو گے تو میں تمہارا ذ کر کروں گا اور بہتر ذکر کروں گا اور جب خدا ذ کر کرے گا تو ذکر سے ہٹ کر مضمون شکر میں داخل ہو جاتا ہے کہ میں شکر کا حق کیسے ادا کروں گا.تو فرمایا کہ یہ بھی دعا کیا کرو کہ ایسی عبادت کی توفیق بخش کہ جو بہت ہی خوبصورت ہو.ایسی حسین کہ تیرے پیار کی نظریں اس پر پڑنے لگیں.پھر آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا.صلى الله عن انس بن مالک عن رسول الله عله قال ما من قوم اجتمعوا يذكرون الله لا يريدون بذلك الا وجهه الا ناداهم مناد من السماء أن قوموا مغفورا لكم قد بدلت سيئاتكم حسنات (مسند احمد حدیث نمبر : ۱۲۰۰۰) آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کچھ لوگ یا کوئی قوم خدا کے ذکر کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 994 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء اکٹھی ہوئی ہو ( جیسے آج آپ اور ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کے احباب مرد اور عورتیں اور بچے خالصہ ذکر الہی کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں) وہ اللہ عز وجل کا ذکر کرنے والے ہوں اور کوئی مراد ہیں مانگنے کے لئے نہ آئے ہوں.صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اللہ کے حسن کا چہرہ دیکھنے کے لئے اس کے پیار کی توجہ کھینچنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہوں مگر ضرور ہمیشہ آسمان سے ایک منادی کرنے والا یہ منادی کرتا ہے کہ اے لو گو اٹھو تم بخش دئے گئے ہو.تمہاری تمام برائیوں کو حسنات اور خوبیوں میں بدل دیا گیا ہے.پس کیسے پیارے پیارے ذکر کے انداز آنحضرت میہ نے ہمیں سمجھائے اور کیسے صلى الله پیارے پیارے نتائج سے ہمیں آگاہ فرمایا.ہر لمحہ، ہر موقع پر، ہر حالت میں آنحضرت ﷺ ذکر میں مشغول رہتے تھے محور ہتے تھے، ڈوبے ہوئے رہتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول پاک کو اپنے پاس نہ پا کر آپ کو تلاش کرنا شروع کیا کہ مجھے چھوڑ کر کہاں گئے ہیں.ایک جگہ آپ کو سجدہ کی حالت میں پایا.آپ کے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں.(یعنی اس میں نماز کا طریق بھی سکھایا جارہا ہے کہ جب سجدہ کریں تو پاؤں کی انگلیوں کو پیچھے کی طرف نہ سمیٹا کریں سامنے کی طرف رکھا کریں وہ بھی قبلہ رخ رہیں ) تو کہتی ہیں کہ میں نے اس حالت میں آنحضرت ﷺ کو یہ دعا کرتے سنا کہ اے خدا میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں.مجھے اپنی ناراضگی سے اپنی پناہ میں لے لے.یہ اس دعا سے اگلی دعا کا مقام ہے جس میں انسان شیطان سے پناہ مانگتا ہے.یہاں اللہ ہی کی ذات ہے کوئی اور ذات باقی نہیں رہی.کوئی دنیا کا جھگڑا نہیں ہے.صرف اللہ سے اس کی ناراضگی اور تنگی کی پناہ مانگی جارہی ہے جو انسان کی کسی کوتاہی کے نتیجہ میں ہو سکتی ہے ضروری نہیں ہے کہ گناہ کی لغزش ہو.اے خدا میں تجھ سے تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تو مجھ سے ناراض ہو.تیری سزا سے تیری عافیت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تو مجھ سے ناراض ہو.تیری سزا سے تیری پناہ کی گود میں آجاتا ہوں گویا کہ ایک ہاتھ مارنے والا ہو تو دوسرے کی پناہ میں آجاتا ہے اور یہ مضمون اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہایت اعلیٰ حسن کے ساتھ اطلاق پاتا ہے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس کی رحمت اس کی ہر دوسری صفت پر حاوی ہے تو اس کا بچانے والا ہاتھ اس کے سزا دینے والے ہاتھ سے زیادہ طاقتور ہے.اس کی رضا کا چہرہ اس کی ناراضگی کے چہرے سے زیادہ روشن اور غالب ہے.تو یہ بتانے کے صلى الله لئے کہ آنحضرت ﷺ نے کیسی گہری حکمت کے ساتھ دعا مانگی ہے.آنحضور یہ کے کلام میں ڈوب
خطبات طاہر جلد ۱۲ 995 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء کر دیکھیں تو حکمتوں کے عظیم خزانے ہیں ایک ایک حدیث یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ خدا کا سب سے سچا انسان ہے ورنہ ایک بات بنانے والے کا تصور آنحضور ﷺ کی حدیث کے قدموں تک بھی نہیں پہنچ سکتا.پھر عرض کرتے ہیں کہ اے خدا میں ایک پناہ تجھ سے چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسی شناء اپنی تو جانتا اور کرتا ہے یہ نہ ہو کہ میں ویسی نہ کر سکوں اور تیری نظر سے گر جاؤں.پس مجھے اپنی ثناء کے وہ گر سکھا کہ جن کے نتیجہ میں تجھے یوں معلوم ہو کہ گویا تو اپنی صفت کر رہا ہے ایسے اعلیٰ راز ہمیں اپنی حمد کے سکھا کہ جس کے نتیجہ میں تیرا دل اس حمد سے اس طرح راضی ہو کہ تو جانتا ہو کہ اس طرح حمد کی جاتی ہے.(ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوۃ حدیث نمبر :۱۱۶۹۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آدمی ذات تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے (در ثمین صفحہ ۱۴) کہ جوحمد خدا کی گاتے ہیں وہ عام انسانوں کے تصور سے بالا تر ہے.وہ تو ایسی حمد ہے کہ انسان ہی اس کے پیچھے نہیں لگتا بلکہ فرشتے بھی اس سے سیکھتے ہیں.پس وہ یہی حمد ہے جس کا ذکر انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا میں خود فرمایا اور اس کی طاقت خدا سے مانگی اور ہمیں بھی یہ سکھایا کہ ہم بھی مانگیں کہ ایسی حد سکھا کہ جوتو اپنی کر سکتا ہے اور اس سے بہتر اور کوئی حد نہیں اور اگر ہم ایسا کریں تو فرشتے بھی ویسا ہی کریں گے اور یہی وہ مضمون ہے جس میں آدم فرشتوں سے بازی لے گیا کیونکہ آدم کو بھی خدا تعالیٰ نے ہی سکھایا تھا کہ وہ اسماء کیا ہیں ؟ اور جب خدا نے سکھائے تو اس وقت تک فرشتے ان سے بے خبر رہے اور آدم نے سکھائے تو فرشتوں نے سیکھے.آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا بھی استاد بنادیا مگر خود سمجھا کر ، خود عطا کر کے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو یہ فرماتے ہیں تو اس میں کچھ مبالغہ نہیں ہے.وہ خدا کے بندے جو خدا سے حمد سکھتے ہیں پھر ساری مخلوق ان کی محتاج بن جاتی ہے.یہاں تک کہ فرشتے بھی مقبول حمد کے گران سے سیکھا کرتے ہیں.( حضور اقدس نے وقفہ فرمایا کہ وقت آج خطبہ کے لئے ڈیڑھ گھنٹہ کا تھا لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ اتنا وقت نہیں دیا گیا دس منٹ اور ہیں اور اس دس منٹ کے تعلق میں یہ اطلاع بھی میں آپ کی خدمت میں پیش کر دوں کہ قادیان کے اس جلسہ میں دس ہزار سامعین شامل ہیں جو اس وقت وہاں ہو رہا ہے اور دس ہزار قد وسیوں کی بھی تو پیش گوئی تھی.اس لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دس ہزار قدوسیوں کی برکت ان کو عطا فرمائے اور ان کے جلو میں ان
خطبات طاہر جلد ۱۲ 996 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء کے قدموں میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے والے بہنیں مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قادیان والے ہمیں بہت آسانی سے عمدگی کے ساتھ بغیر کسی مداخل Intruption کے صاف دیکھ رہے ہیں اور چونکہ میں بھی وہاں سے ہو آیا ہوں.میں جانتا ہوں کہ کس قسم کے لوگ کون کون کہاں کہاں سے آئے ہوتے ہیں.میں بھی تصور کی آنکھ سے، صلى الله ان کو دیکھتا ہوں اور ان سب کو اپنی طرف سے بھی اور آپکی طرف سے بھی محبت بھر اسلام پہنچا تا ہوں.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک اور رات کا ذکر ہے ( پہلے بھی بے چاری اٹھ کر ڈھونڈنے کے لئے گئی تھیں ) عورتوں کو تو وہم ہی ہوتے ہیں کہ ہمارا خاوند ہم سے ہٹ کر کسی اور کے پاس تو نہیں چلا گیا.آنحضرت ﷺ کی اور بھی ازواج تھیں.حضرت عائشہ سے بہت محبت فرماتے تھے مگر عورت کا دل عورت ہی کا دل ہے تو راتوں کو اٹھ کر دیکھا کرتی تھیں کہ ہیں بھی یہاں کہ نہیں.ایک دفعہ پہلے کہا کہ میں نے دیکھا تو آپ نہیں تھے.میں گھبرا کے نکلی تو دیکھا کہ آپ سجدہ ریز تھے.اب کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں پھر اٹھی اور آپ نہیں تھے اور مجھے یہ خیال آیا کہ آپ کسی اور صلى الله بیوی کے پاس چلے گئے ہوں گے.اسی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ محمد رسول اللہ نے سجدہ ریز تھے.رکوع کر رہے تھے اور پھر سجدہ کے عالم میں چلے گئے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے میرے اللہ تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور تیرا اور کوئی شریک نہیں.سبحان اللہ و بحمده والا مضمون عرض کر رہے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں تو آپ کے بارے میں کچھ اور سوچ رہی تھی آپ تو کسی اور عالم میں نکلے.مجھے کیا پتا تھا کہ یہ اللہ کے عشق اور اللہ کی محبت میں مبتلا ہو کر بیویوں کے دامن چھوڑ کر باہر نکل جاتا ہے.پس یہ ہے ذکر کا انداز جو محمد رسول اللہ اللہ کے ذکر کا انداز تھا.عن مطرف عن ابيه قال: رأيت رسول الله يصلی و فی صدره ازیر کازیر الرحى من بكائه (ابو داود ، كتاب الصلواة، باب البكاء في الصلواۃ حدیث: ۷۶۹) حضرت مطرف روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ایک دفعہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا.آپ کی گریہ وزاری کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز میں نکلتی تھیں کہ جیسے چکی چل رہی ہو.ایسے گڑ گڑا، گڑ گڑا کر آپ اللہ کا ذکر فرمارہے تھے اور اس کی محبت میں اس کی حمد و ثناء اور حمد کے گیت گا رہے تھے کہ آواز سے ایسے لگتا تھا کہ آپ کے سینہ میں چکی چل رہی ہو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 997 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء حدثنا ابو سعيد الاشج، اخبرنا حفص بن غياث و ابو خالد الاحمر عن حجاج بن ارطاة عن رياح بن عبيدة قال حفص ع ابن اخی سعید و قال ابو خالد عن مولى لابي سعيد عن ابی سعید قال: كان النبى اذا اكل او شرب قال الحمد لله صلى الله الذي اطعمنا وسقانا و جعلنا مسلمين (ترمذى كتاب الدعوات حدیث: ۳۳۷۹) حضرت ابوسعید روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ جب کھانا کھاتے اور پانی پیتے تو کہتے کہ سب تعریف خدا کے لئے ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا.اب دیکھیں کہاں امرؤ القیس کی وہ منزل جہاں مٹے ہوئے نشانات اسے اپنی محبوبہ کی یاد دلاتے ہیں اور کہاں انسانی زندگی کے ہرلمحہ کی ہر منزل جہاں ہر تجر بہ خدا کی طرف لے جاتا ہے لیکن یہ مٹتے ہوئے نشان نہیں بلکہ روشن تر ہوتے ہوئے نشانات ہیں جو خدا کی یاد کو انسانی دل میں زندہ کرتے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ عالم تھا کہ کھانا کھاتے تھے تو دعا کرتے تھے، پانی پیتے تھے تو دعا کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ سبحان اللہ والحمد للہ.کہ سب تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا.پھر حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ے جب غزوہ میں شامل ہوتے تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ تو ہی میرا بازو ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے اور تیری ہی مدد سے میں لڑتا ہوں یعنی جنگ کی حالت میں بھی آپ اللہ کو یاد کرتے اور یا درکھتے تھے.حضرت ابی امامہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے آگے سے دستر خوان اٹھایا جاتا تو آپ یہ ذکر کرتے تھے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، بہت زیادہ تعریفیں ، بہت زیادہ پاکیزہ اور برکت والی.اے خدا تجھے ترک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی تجھ سے بے نیاز ہو سکتے ہیں.یہ بہت ہی گہری دعا ہے اور موقع ومحل کے لحاظ سے نہایت ہی شان سے پوری اتر رہی ہے.کھانا اس وقت اٹھایا جاتا ہے جب طبیعتیں سیر ہو جاتی ہیں کچھ عرصہ کے لئے انسان بے نیاز ہی نہیں ہو جاتا بلکہ دوبارہ کھانا پیش کرنے پر غصہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ اب دفعہ بھی ہو اب اس چیز کو اٹھا کر لے جاؤ.مجھے اب کوئی حاجت نہیں رہی.دنیا کی حاجت روائیاں بعض دفعہ اس طرح انسان کو سیر کر جاتی ہیں کہ اپنی محبوب چیز سے پوری طرح لذت اٹھانے کے بعد وہ کچھ دیر کے بعد اس کی کوئی قدر دل میں نہیں رکھتا.ایسے وقت میں آنحضرت نے یہ دعا کرتے ہیں، حیرت انگیز حکمت کے مالک تھے، نا قابل بیان عرفان آپ کو عطا فر مایا گیا ہے.دعا کرتے ہیں کہ بہت تعریفیں اور برکتیں تیری ذات کے لئے ہوں کہ تجھے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 998 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء ترک نہیں کیا جا سکتا.کھانے کو تو ہم نے ترک کر دیا.کچھ بھی پرواہ نہیں رہی.سامنے سے اٹھا کر لے جایا جارہا ہے لیکن تجھے کیسے چھوڑیں؟ ایک لمحہ کے لئے بھی تیرے بغیر قرار نہیں آسکتا اور تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتے.عدم ترک صرف عدم ضرورت کی وجہ سے نہیں ہوتا.محبت بھی ہے اور ضرورت بھی ہے.دونوں چیزیں اکٹھی ہیں.ایک طرف دل ہے کہ ایک پل بھی نہیں ٹھہرے گا، مجبور کر دے گا کہ ہر وقت تیرا ذکر کریں اور دوسری طرف اگر کسی کا دل نہ بھی چاہے تو پھر بھی خدا کے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے.خوراک کے بغیر کچھ عرصہ کے لئے رہ سکتا ہے.لیکن اللہ کے فضل کے بغیر ایک لمحہ کے لئے بھی اسے کچھ نصیب نہیں ہو سکتا.اس کا اپنا وجود قائم نہیں رہ سکتا.امر واقعہ یہ ہے انسان کی زندگی میں خود اس کے اندر جو کارخانہ جاری رہتا ہے اسے باریک نظر سے آپ دیکھیں تو ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ ایک ایک لمحہ خدا کی خاص حفاظت کا نظام جاری ہے ورنہ انسان کے کل پروزوں میں سے چھوٹے سے چھوٹے بھی کروڑ ہا ایسے پرزے ہیں جن میں سے ایک بھی اگر وقت پر اپنا کام کرنا بند کر دے تو انسان کا سارا وجود یک دم مٹ جائے اور ان کی حفاظت کا ایک مستقل انتظام خاموشی کے ساتھ ہمارے اندر جاری ہے تو کھانا اٹھاتے وقت اس سے بہتر دعا اور کوئی نہیں کی جاسکتی تھی اے خدا ہمیں تو ہر وقت تیری ضرورت ہے.ایک لمحہ بھی تجھ سے بے نیاز نہیں رہ سکتے.محبت کرنے والوں کو بھی تیری ضرورت ہے اور محبت نہ کرنے والے بھی تیرے ہی سہارے جیتے ہیں.پس ہم پر ہمیشہ پیار اور محبت کی حاجت روائی کی نظر رکھ.اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے اس لئے اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان تمام مجالس کو جو ذکر الہی کے لئے قائم کی جارہی ہیں ان سب کو قبول فرمائے اور اپنے فضل سے برکتیں نازل فرمائے.قادیان کے اس اجتماع پر اسی طرح فرشتے نازل ہوں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ زمین سے آسمان تک تمام جو ان فرشتوں سے بھر گیا اور اسی طرح وہ درود اور سلام بھیجتے رہیں اور وہ قادیان کے جلسے کی خبریں اور ایسے دوسرے جلسہ کی خبریں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوں اور قضاء وقدر یہ فیصلہ کرے کہ اللہ ان سب سے راضی ہو گیا.اللہ نے ان سب کو بخش دیا.ان کی خطائیں معاف فرما دیں اور اس جنت کی خبر ان کو دی جس جنت کے طلبگار ہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 999 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء وقف جدید کے چندوں کے بڑھنے پر اظہار خوشنودی اور سال نو کا اعلان.MTA کے بارہ گھنٹے جاری ہونے اور الفضل انٹرنیشنل کے اجراء پر جماعت کو مبارکباد ( خطبه جمعه فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء بمقام روز بل ماریشس ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.1993 ء کا سال جمعہ کے روز ہی شروع ہوا تھا اور جمعہ کے روز ہی ختم ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی برکتیں جماعت کے لئے لایا ہے جو آئندہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سال اس حال میں اختتام پذیر ہورہا ہے کہ اگلے سال کے لئے بھی بہت سی خوشخبریاں پیچھے چھوڑ کر جارہا ہے.جن کا ذکر میں انشاء الله وقف جدید کے اعلان کے بعد دوسرے حصے میں کروں گا.جیسا کہ سابقہ روایات رہی ہیں ہر سال کے آخر پر جو آخری خطبہ ہو اس میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.وقف جدید کا آغاز 1957 ء کے آخر میں ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب تک خدا تعالیٰ نے مجھے منصب خلافت پر فائز نہیں فرمایا میں اس وقت سے لے کر آخر تک وقف جدید میں ایک خادم کی حیثیت سے کام کرتا رہا.اس پہلو سے اس تحریک سے مجھے ایک زائد قلبی وابستگی بھی ہے اور یہ اعلان کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ یہ تحریک اللہ کے فضل کے ساتھ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور اس کا فیض زیادہ وسیع ممالک پر محیط ہو رہا ہے.جب میں نے 1993ء کے نئے سال کا اعلان کیا تو مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1000 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء وقف جدید کا جو بیرون کا حصہ ہے یعنی وقف جدید کا ایک تعلق تو پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان سے ہے اور شروع میں وقف جدیدا انہی ممالک سے مخصوص رہی چندوں کے اعتبار سے بھی اور خدمت کے اعتبار سے بھی.چند سال پہلے میں نے یہ اعلان کیا کہ جہاں تک چندوں کا تعلق ہے سب دنیا کو وقف جدید کی تحریک میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا تو ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں چندے جمع کئے جاتے تھے اور اسے ساری دنیا پر خرچ کیا جاتا تھا اب جبکہ ساری دنیا میں جماعتیں مستحکم ہو چکی ہیں تو اسی اصول کے تابع کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : (۶) کوشش کرنی چاہئے کہ باہر سے چندہ اکٹھا کر کے اب ان ممالک میں وقف جدید کے مقاصد پر خرچ کریں.اس پہلو سے جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی اخلاص کے ساتھ لبیک کہا گذشتہ سال کے آغاز پر میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیرونِ پاکستان کا چندہ اب کروڑ کے قریب پہنچ چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت ذرا مزید کوشش کرے تو اس سال کے اختتام تک انشاء اللہ بیرون کا چندہ ایک کروڑ سے زائد ہو سکتا ہے.جس وقت میں نے یہ اعلان کیا اس وقت پاکستان سمیت کل وعدہ جات ایک کروڑ باون لاکھ چھیالیس ہزار آٹھ سو چھیاسٹھ روپے کے تھے اور بہت بڑی رقم جو درمیان میں رہ گئی تھی وہ وصولی میں کی تھی.پھر بھی مجھے یہ یقین تھا اور یہ میرا لمبا تجربہ ہے کہ یہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے، ایک اعجازی جماعت ہے اس جماعت سے جتنی بھی بڑی توقعات کی جائیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں پورا کرتا چلا جاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر بعض دفعہ ایک ناممکن بات بھی ممکن ہوتی دکھائی دیتی ہے پس اسی امید پر میں نے یہ اعلان کیا تھا.آج مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ 1993ء میں وقف جدید کی مجموعی وصولی ایک کروڑا کا نوے لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے اس میں سے اگر پاکستان ، بنگلہ دیش وغیرہ کا وعدہ نکال دیا جائے تب بھی ایک کروڑ بیس لاکھ روپے باہر کی وصولی ہے اور پاکستان ، بنگلہ دیش اور بیرون ممالک کی وصولی ملا کر ایک کروڑا کا نوے لاکھ اڑسٹھ ہزار باسٹھ روپے ہوئی ہے.جہاں تک بیرون کے وعدوں کا تعلق ہے وہ ترانوے لاکھ انتیس ہزار تین سو بہتر روپے کے تھے جبکہ وصولی ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ اکتیس ہزار تین سو پانچ روپے تک پہنچ گئی.پس خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت نے اس توقع کو بہت نمایاں طور پر پورا کیا اور میں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1001 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح آئندہ بھی جماعت کا قدم ترقی کی طرف رواں دواں رہے گا.جہاں تک جماعتوں کی آپس کی دوڑ کا تعلق ہے میں نمونہ چند جماعتوں کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں.آج بھی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھنے کے لئے نکالی ہیں.مجموعی طور پر خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کو دنیا بھر کی جماعتوں پر وقف جدید کے چندے کے لحاظ سے سبقت حاصل ہوئی ہے اور وہ باقی ممالک سے نمایاں طور پر آگے ہے.گزشتہ سال جب جماعتوں کے عام چندوں اور چندہ وصیت وغیرہ کے متعلق میں نے موازنہ پیش کیا تھا اور یہ بتایا تھا جرمنی نے اس سال جماعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.اس پر مجھے پاکستان سے بہت سے احتجاج کے خطوط ملے ، شکووں کے خط ملے، جیسے میں نے جرمنی کو زبر دستی آگے کر دیا ہو اور یہ پڑھ کر مجھے لطف آتا تھا کہ ساتھ جوش کا اظہار تھا کہ بس ایک دفعہ غلطی ہوگئی.اب ہم نے انہیں آگے نہیں نکلنے دینا اور اب ماشاء الله وقف جدید کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے جرمنی کو تیسرے نمبر پر کر دیا ہے اور تقریباً جرمنی سے دو گنے وعدے ہیں.پس اللہ کے فضل سے ساری جماعتیں سبقت فی الخیر کا ایک ایسا جذ بہ رکھتی ہیں کہ اس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم کسی اور جماعت میں نہیں مل سکتی.پاکستان نمبر ایک ہے اور امریکہ چالیس لاکھ تریسٹھ ہزار روپے کی وصولی کے ساتھ دوسرے نمبر پر آتا ہے.تیسرے نمبر پر جرمنی ہے اور جب تک ماریشس کا نام نہیں آتا میں یہ فہرست پڑھتا چلا جاؤں گا چوتھے نمبر پر کینیڈا ہے، پانچویں نمبر پر برطانیہ ہے، چھٹے نمبر پر انڈیا ہے، ساتویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے، آٹھویں پر جاپان ہے.نویں پر انڈونیشیا اور دسویں نمبر پر ماشاء اللہ ماریشس ہے.جماعت کی تعداد کے لحاظ سے ماریشس نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں قربانی کی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک فرمائے.فی کس قربانی کے لحاظ سے سوئٹزرلینڈ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وقف جدید میں ہم نے دنیا کے کسی اور ملک کو آگے نہیں نکلنے دینا.اس سال بھی خدا کے فضل سے وہ اس عہد پر قائم رہے چنانچہ فی کس وصولی کے لحاظ سے یعنی (80) اس پونڈ سے کچھ زائد فی کس چندہ وقف جدید ، چندہ دہندگان نے ادا کیا جو خدا کے فضل سے غیر معمولی قربانی ہے کیونکہ بے شمار دوسرے چندے بھی ہیں اور وقف جدیدان میں نسبتاً چھوٹی حیثیت کا چندہ ہے.اس میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ نمایاں طور پر غیر معمولی قدم آگے بڑھایا ہے بلکہ جاپان جو کبھی ان کے قریب تھا اسے تقریباً نصف فاصلے پر پیچھے چھوڑ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1002 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء.گئے ہیں.جاپان کا فی کس وعدہ 47 پونڈ ہے.بیلجیئم ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجودخدا کے فضل سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے جماعت میں تبلیغ کے لحاظ سے بھی غیر معمولی جوش ہے ان کی وصولی فی کس کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے اور امریکہ بہت معمولی فرق کے ساتھ چوتھے نمبر پر اورنمبر پانچ پر جرمنی ہے.اگر دسویں نمبر پر ماریشس ہوتا تو میں پوری لسٹ پھر پڑھ جاتا تا کہ آپ کا نام پھر سامنے آجائے لیکن ایک اور لسٹ ہے.جس کے لحاظ سے آپ کا نام سامنے آنیوالا ہے، ماشاء اللہ.ایک پہلو سے افریقہ کا ایک ملک غانا سب دنیا سے آگے نکل گیا ہے اور وہ پہلو چندہ دہندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرنے کا ہے.یعنی وقف جدید میں جتنے پہلے چندہ دینے والے تھے ، ان میں کتنا مزید اضافہ ہوا ہے اس لحاظ سے سب سے زیادہ اضافہ کرنے والا غانا ہے ان کی تعداد 1992ء میں صرف 2520 تھی اور اب ماشاء اللہ 9970ہوگئی ہے.جماعت غانا بھی ہر پہلو سے بیدار ہورہی ہے اور ماشاء اللہ نمبر دو پر گیمبیا ہے جہاں پر ابھی بہت زیادہ کام کی گنجائش ہے نمبر تین پر فلسطین ہے جنہوں نے سو فیصد سے بھی زائد چندہ دہندگان کی تعداد بڑھائی ، پھر انڈونیشیا ہے پھر جسم اور چھٹے نمبر پر ماریشس کی باری ہے جہاں 843 وعدہ دہندگان کی تعداد خدا کے فضل سے بڑھ کر 1142 ہو چکی ہے اور جس طرح میں نے یہاں جماعت کو مخلص پایا ہے اور ہر فردِ بشر سے ملاقات کر کے میں نے یہاں اندازہ لگایا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ معمولی سی توجہ کرنے سے آئندہ سال تعداد کے لحاظ سے بھی یہاں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے.ساتویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے.مختلف جماعتوں کے آگے بڑھنے میں منتظمین کی محنت ، خلوص اور دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے.وہ جماعتیں جو محض صفر کے قریب ہوتی ہیں جب ان کی انتظامیہ میں تبدیلی پیدا کی جائے ، مخلص فدائی کارکن آگے آئیں تو غیر معمولی طور پر وہاں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور صفر کے قریب ہونے کی بجائے وہ سو کے قریب پہنچ جاتی ہیں.یہ عمومی طور پر سب دنیا میں ہمارا تجربہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمدیہ کا اخلاص عالمی طور پر تقریباً یکساں ہی ہے.تمام دنیا کے احمدی قربانی اور فدائیت کے جذبے اور اخلاص میں ایک لحاظ سے برابر کی چوٹ ہیں لیکن انتظامیہ کمزور ہو جاتی ہے، بعض جگہ انتظام کا تجربہ نہیں ہوتا.نئے نئے ممالک ہیں ان کو سلیقہ نہیں کہ کس طرح کام کرنا ہے، کس طرح دل بڑھانا ہے اور ہر فرد بشر تک پہنچنا ہے.جتنی بھی خامیاں دکھائی
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1003 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء دی گئی ہیں وہ کارکنوں کی کمزوری یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے ہیں.یہی غانا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے لمبی چھلانگیں مار کر آگے نکلا ہے ایک زمانے میں بہت پیچھے تھا اب انتظامیہ میں ایک بیداری بھی پیدا ہورہی ہے.ایک نیا ولولہ پیدا ہورہا ہے.تجربہ بڑھ رہا ہے.تبلیغ کے میدان میں بھی غانا اب بڑے زور سے آگے بڑھ رہا ہے اور چندوں کے میدان میں بھی اب خدا کے فضل سے بیداری کے آثار نمایاں ہیں.اس لئے تمام دنیا کے امراء کو اپنی انتظامیہ کے معیار پر نگاہ رکھنی چاہئے اور جہاں کہیں کمزوری دیکھیں تو یقین کریں کہ جماعت کے اخلاص کی کمزوری نہیں یہ انتظامیہ کی کمزوری اور نا تجربہ کاری ہے.اس پہلو سے امیر اگر اپنے ہر شعبے پر نظر رکھے اور سال کے آغاز ہی سے کمزور شعبوں کو خاص توجہ دے کر آگے بڑھانے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ سال کے آخر تک یہ ساری کمزوریاں دور نہ ہو جائیں.دنیا کے ہر ملک کے متعلق میرا تجربہ یہی ہے کہ جہاں انتظامیہ کو بہتر بنایا گیا وہاں اللہ کے فضل سے جماعت نے ضرور ساتھ دیا ہے.کبھی شکوہ نہیں ہوا کہ جماعت کمزور ہے ، ہمت ہار بیٹھی ہے، اخلاص کے ساتھ جواب نہیں دیتی کیونکہ اس جماعت کی گھٹی میں لبیک اللھم لبیک لکھ دیا گیا ہے.یہ اللہ کی تقدیر ہے جو جاری ہو چکی ہے.اس لئے جماعت کے اخلاص کے بارے میں میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہو گا منتظمین کو بیدار رہنا چاہئے اور توجہ کرنی چاہئے.امریکہ نے جو غیر معمولی طور پر وقف جدید میں کامیابی حاصل کی ہے اس کا سہرا بھی ایک حد تک وہاں کے نیشنل سیکرٹری وقف جدید انور محمود خان صاحب کے سر پر ہے اور امیر صاحب USA نے خاص طور پر ان کی محنت کی تفصیل بھیجی ہے تا کہ ان کو دعا میں یاد رکھا جائے.اسی طرح باقی سب دنیا میں جو خلصین خدمت دین پر مامور ہیں ان کو آپ سب اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.وصولی کی اجتماعی حیثیت کے لحاظ سے یعنی وقف جدید کے تمام شعبوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے (باہر کی دنیا میں تو زیادہ چندے نہیں ہیں لیکن پاکستان میں وقف جدید کے اور بھی شعبے ہیں مثلاً بالغان کا چندہ ہے ، اطفال کا چندہ ہے.اس کے علاوہ وہ مراکز جہاں وقف جدید کے معلم بھیجے جاتے ہیں.ان کا ایک الگ چندہ ہوتا ہے پھر تھر پارکر کی تحریک کے لئے الگ چندہ ہے تو ان سب چندوں کو عمومی طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے ) پاکستان کی جماعتوں کا مقابلہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کراچی سارے پاکستان کی جماعتوں میں اول نمبر پر ہے، ربوہ دوسرے نمبر پر ہے لاہور تیسرے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1004 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء نمبر فیصل آباد چو تھے اور سیالکوٹ پانچویں نمبر پر ہے، اسلام آباد چھٹے نمبر پر ہے، گوجرانوالہ نمبر سات، راولپنڈی نمبر آٹھ پر ہے.گجرات نمبر نو اور شیخو پورہ دسویں نمبر پر ہے.جہاں تک دفتر اطفال یعنی محض بچوں سے چندہ اکٹھا کرنے کا تعلق ہے اس میں بھی کراچی تمام پاکستان کی جماعتوں میں سبقت لے گیا ہے اور ربوہ کی بجائے لاہور دوسرے نمبر پر آیا ہے اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ ربوہ ، پھر فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، سیالکوٹ ،شیخو پورہ ، سرگودھا اور پھر کوئٹہ کی باری ہے.ی مختصر کوائف میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں.تمام دنیا کی جماعتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں لیکن دعا میں صرف اپنے آپ کو یاد نہ رکھیں بلکہ سب دنیا کی جماعتوں کو یاد رکھیں.خصوصیت سے وہ جماعتیں جو غیر معمولی قربانی کر کے آگے بڑھ رہی ہیں ان کے لئے جزاء کی دعا کرنی چاہئے اور جو پیچھے رہنے والی ہیں ان کے لئے آگے بڑھنے کی دعا کرنی چاہئے.ہماری دعاؤں میں اجتماعیت ہونی چاہئے اور یہ نہ ہو کہ ہر جماعت صرف اپنے لئے دعا کرے پس میں تمام دنیا کی جماعتوں کو تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں اور خصوصیت سے جو محنت کرنے والے کارکنان میں ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں تا کہ ہمارا آئندہ سال پہلے سے بہت بڑھ کر با برکت ثابت ہو.اس ضمن میں یہ ایک عجیب اتفاق ہے یا اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ ماریشس کی سرزمین سے میں نے وقف جدید کے اگلے سال کا اعلان کرنا تھا اور ماریشس کے ہی ایک مخلص نوجوان جو واقف زندگی ہیں یعنی عبد الغنی جہانگیر ان کو اللہ تعالیٰ نے رویاء میں وقف جدید کے متعلق ہی کچھ دکھایا اور تقریباً مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے انہوں نے بڑے تعجب سے مجھے یہ رویا لکھا جو بہت معنی خیز ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رویاء دیکھا جس کا دل پر گہرا اثر ہے لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ کیا مطلب ہے ؟ میں نے دیکھا کہ جماعت احمد یہ ایک میز کی طرح ہے جس کی ٹانگیں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں لیکن وقف جدید کی اور تحریک جدید کی دو ٹانگیں باقی ٹانگوں سے زیادہ تیز بڑھ رہی ہیں.یہاں تک کہ دیکھتے دیکھتے وقف جدید کی ٹانگ بہت ہی زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہوگئی تحریک جدید کی ٹانگ نے پوری کوشش کی کہ ساتھ مقابلہ کرے لیکن نہ کر سکی تو اچانک میں نے دیکھا کہ تحریک جدید کی ٹانگ میں بولنے کی طاقت پیدا ہوئی اور اس نے کہا بس بس ! اب میں اس سے زیادہ برداشت نہیں کر
خطبات طاہر جلد ۱۲ سکتی.تم بڑھنا کم کر دو، ہلکا کر دو.1005 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء وقف جدید کی ٹانگ نے جواب دیا یہ میرے بس کی بات نہیں ہے میں اپنے اختیار سے نہیں بڑھ رہی، مجھے بڑھنا ہی بڑھنا ہے.اس کی تعبیر کچھ تو چندوں کی شکل میں نظر آ رہی ہے.جس تیز رفتاری کے ساتھ وقف جدید کے چندے گزشتہ سال کے مقابل پر بڑھ رہے ہیں اتنا تیز اضافہ تحریک جدید میں نہیں ہے.اس کے علاوہ برکت والی تعبیر کے متعلق امید رکھتا ہوں کہ وہ تعبیر پوری ہو گی اور وہ یہ ہے کہ وقف جدید کے عمل کا میدان ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان ہیں.اس وقت یہ صورت ہے کہ تحریک جدید کے تابع جو دوسری جماعتیں ہیں وہ بہت زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اس لئے مجھے امید ہے اور میری دعا ہے کہ جہانگیر صاحب کی یہ خواب ان معنوں میں پوری ہو کہ اچانک دیکھتے دیکھتے بنگلہ دیش ہندوستان اور پاکستان کی جماعتیں اس تیزی سے آگے بڑھنے لگیں کہ باہر کی جماعتوں سے آگے نکلنے لگیں اور وہ احتجاجا کہیں کہ تم کچھ بڑھنا کم کر دو اور وہ یہ جواب دیں کہ ہمارے بس کی بات نہیں.یہ ہمارے رب کی تقدیر ہے جسے ہم بدل نہیں سکتیں اور خدا کرے کہ میری یہ تعبیر کچی نکلے اور اس کو سچا ثابت کر کے دکھلانے میں ان جماعتوں کو جو محنت کرنی ہے، جو دعا کرنی ہے، جس اخلاص سے خدمت کرنی ہے ہم سب مل کر ان کے لئے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق بخشے اور واقعہ یہ نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آغاز اس ملک سے ہوا جو آج ان تین ملکوں میں بٹا ہوا ہے یعنی بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان اور جہاں سے آغاز ہوا اس علاقے کا پیچھے رہ جانا ایک رنگ میں تکلیف کا موجب ہے.یہ درست ہے کہ وہاں مخالفت بھی غیر معمولی طور پر زیادہ ہوئی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی تقدیر فیصلہ فرمائے تو مخالفت کی کوکھ سے تائید کے ایسے دریا بہہ نکلتے ہیں اور اس قدر قوت سے وہ چشمے پھوٹتے ہیں کہ پھر دنیا کی مخالفانہ طاقتوں کی کچھ پیش نہیں جاتی.پس یہ جو آواز عبدالغنی جہانگیر کو سنائی دی گئی ہے کہ وقف جدید ہے کی تحریک کہتی ہے میرا بس کوئی نہیں ، چاہوں بھی تو رک نہیں سکتی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کا فضل.جو مجھے بڑھاتے ہوئے آگے لے جا رہا ہے اس لئے اس معاملہ میں میرا کوئی اختیار نہیں.خدا کرے جن معنوں میں میں نے اس کی تعبیر سوچی ہے اللہ انہی معنوں میں ہماری تو قعات سے بڑھ کر اس کی تعبیر کو پورا فرمائے.
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1006 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء اب میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں.ماریشس کی سرزمین کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آج اس مبارکباد کے ساتھ جو میں ایک تاریخی تحفہ جماعت احمد یہ عالمگیر کی خدمت میں پیش کرنے والا ہوں.اس کے اعلان کی سعادت اس سر زمین کو حاصل ہو رہی ہے اور وہ تاریخی تحفہ یہ ہے کہ جب ہم نے سیٹلائٹ کے ذریعے سب دنیا سے رابطے کا آغاز کیا تو جمعہ کا ایک گھنٹہ یا کچھ زائد وقت یا کچھ جلسوں اور اجتماعات کے موقع پر ایک دو گھنٹے زائد ملا کرتے تھے.احباب جماعت عالمگیر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار ہوتا تھا کہ آپ نے عادت ڈال دی ہے.اب ایک ہفتہ انتظار نہیں ہوتا کوشش کریں کہ خواہ کچھ بھی خرچ کرنا پڑے، روزانہ یہ پروگرام جاری ہو.آج میں نئے سال کے تحفہ کے طور پر ماریشس کی سرزمین سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سے ایشیا کے لئے جاپان سے لے کر افریقہ تک اور اس علاقے میں براعظم آسٹریلیا بھی شامل ہے.ہفتہ میں ایک گھنٹہ کی بجائے ہفتہ میں ساتوں دن بارہ گھنٹے روزانہ پروگرام چلا کرے گا اور خدا کے فضل سے یہ پروگرام اب مستقل طور پر اسی سیارے سے جاری رہے گا جس کا جماعت کو علم ہو چکا ہے اور وہ اپنے انٹینا کے رخ اس طرف کئے بیٹھے ہیں اب بیچ میں تبدیلیاں نہیں ہوں گی.پہلے جو بار بارتبدیلی کرنی پڑتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک گھنٹے کی اہمیت کوئی نہیں ہے بڑی بڑی کمپنیاں ایک گھنٹے والے کو سرکا کے کبھی ادھر پھینک دیتی ہیں کبھی ادھر پھینک دیتی ہیں.جو بڑے گا ہک ہیں ان کی خاطر ایک گھنٹہ والے کو قربان ہونا پڑتا ہے جب ہم اصرار کرتے تھے کہ ہمیں لندن کے ڈیڑھ بجے والا وقت ضرور رکھنا ہے تو کہتے تھے کہ اچھا پھر ہم تمہیں کسی اور سیارے میں پھینک دیتے ہیں.اب ہمارا ان کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ معاہدہ آئندہ سالوں میں بھی جاری رہے گا اور یہ سیارہ جو ہمارے لحاظ سے بہت زیادہ موزوں ہے ، اس کے ذریعے آئندہ تمام ایشیا کی جماعتیں ، تمام افریقہ کی جماعتیں اور خدا کے فضل کے ساتھ شمالی افریقہ کی جماعتیں بھی (جنوبی افریقہ کے متعلق میں ابھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا، غالبا وہ بھی شامل ہوں گے ) اور آسٹریلیا بھی ، یہ سارے ممالک جن کا میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روزانہ بارہ گھنٹے کا پروگرام سن سکیں گے اور دیکھ سکیں گے.جہاں تک یورپ کا تعلق ہے سر دست ہم نے روزانہ ساڑھے تین گھنٹے کا وقت حاصل کر لیا ہے اور اس کے اندر شمالی افریقہ بھی شامل ہے یعنی یورپ کا یہ جو دائرہ ہے، شمالی افریقہ تک بھی محیط ہے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1007 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء یعنی وہ دونوں طرف سے ہمارے پروگرام سن سکے گا اور سارا افریقہ اس کی لپیٹ میں ایشیا اور یورپ کو ملا کر آجاتا ہے.روس کا آخری کنارہ جو مشرق کی طرف ہے وہ بھی اس میں شامل ہے اور مغرب کی طرف اور جنوب کی طرف پرتگال کا ملک شامل ہے شمال میں ناروے کا انتہائی شمالی حصہ شامل ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اب یورپ میں بھی اور ساتھ تعلق رکھنے والے حصہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یقیناً ساڑھے تین گھنٹے روزانہ کا پروگرام بنایا جایا کرے گا.سب سے بڑی مشکل جو زیادہ وسیع پروگراموں کے سلسلے میں پیش آتی ہے وہ سافٹ وئیر (Software) یعنی پروگراموں کی تیاری ہے.بارہ گھنٹے روزانہ کا پروگرام ویڈیو پر بنانا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا یہی ایک جھجک تھی جس کی وجہ سے میں نے پچھلے سال خواہش کے باوجود اس کو ملتوی کر دیا تھا اب حالات کے تقاضے ایسے ہیں کہ اسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا.غیر معمولی طور پر نئے علاقوں کا ،نئی قوموں کانٹے مزاج کے لوگوں کا نئی زبانیں بولنے والوں کا احمدیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور طلب اتنی بڑھ چکی ہے کہ ناممکن ہو گیا ہے کہ جماعت احمدیہ حض لٹریچر کے ذریعہ ان پیاسوں کی پیاس بجھا سکے.لازم ہو گیا تھا کہ ہم ایک وسیع پروگرام کے ذریعے دنیا کی اکثر آبادی تک ٹیلی ویژن کے ذریعے پہنچ سکیں.خدا کے فضل سے ڈش انٹینا کا رواج دنیا میں اب بہت بڑھ گیا ہے ہم جس دائرے میں کام کریں گے لازماً ایک کروڑ سے زائد آدمی ان پروگراموں کو دیکھنے والے ہوں گے.ہم نے جو ڈش انٹینا کا شیشن لیا ہے وہ ایسا ہے کہ اس علاقے میں آج جو ہر دلعزیز پروگرام دکھائے جا رہے ہیں ان کے بالکل قریب واقع ہے اس لئے ہندوستان کے لوگ جس ڈش انٹینا کے ذریعے اپنے محبوب پروگرام دیکھتے ہیں اسی پر وہ ہمارے پروگرام بھی سن اور دیکھ سکیں گے.اس پہلو سے جماعت کی تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے.جہاں تک پروگراموں کا تعلق ہے گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے انگلستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ، خواتین اور مرد سینکڑوں کی تعداد میں محنت کر رہے ہیں ان کے گروپ بنا کر میں نے ہدایت کی تھی کہ اس طرح کام کرو تو ابھی مجھے اطلاع ملی ہے کہ اللہ کے فضل سے تقریباً جنوری کے ہیں دنوں کا پروگرام یعنی بارہ گھنٹے روزانہ کے حساب سے تو وہ مکمل کر چکے ہیں اور باقی کام ابھی جاری ہے.علاوہ ازیں باقی دنیا کی جماعتوں کو میں نے نصیحت کی تھی اور تفصیل سے ہدا یتیں دی تھیں کہ آپ اپنے اپنے ملک کے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہاں بولی جانے والی بولیوں کے نقطہ نگاہ سے خود
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1008 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء پروگرام بنا ئیں.اگر بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعت کا پروگرام عمدگی سے اعلیٰ مقاصد کو پورا کرتے ہوئے دکھایا جائے تو اصل ذمہ داری بنگلہ دیش جماعت کی ہے کہ وہ بہترین پروگرام تیار کریں اور ہمیں بھجواتے جائیں اور ہمارے پاس وقت اتنا ہے کہ ہم انشاء اللہ کھلا وقت ان کو دیتے چلے جائیں گے.اگر افریقہ کے کچھ ممالک مثلاً غا نا چاہتا ہے کہ ہماری مقامی زبانوں میں ہمیں ٹیلی ویژن کا پروگرام پہنچایا جائے نائجیر یا چاہتا ہے، سیرالیون چاہتا ہے، گیمبیا چاہتا ہے تو ان سب کا فرض ہے کہ اپنی اپنی زبانوں میں پروگرام بنا ئیں اور ہمیں بھیجتے چلے جائیں یہاں تک کہ بارہ گھنٹے بھی کم ہو جائیں گے اور زیادہ وقت کی ضرورت پڑے اور اس پہلو سے ہم نے معاہدے میں یہ بات شامل کر لی ہے کہ جہاں بارہ گھنٹے سے زائد ہمیں ضرورت پڑے تم نے کسی اور کے پاس یہ وقت نہیں بیچنا بلکہ پہلے گاہک ہم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جتنے وقت کی ضرورت ہوگی اتنا وقت لے لیا کریں گے جاپان کو چاہئے کہ اپنے لئے جاپانی پروگرام بنائے، کوریا کو چاہئے کہ کورین زبان میں پروگرام بنائیں غرضیکہ اب دنیا کی جماعتوں کے لئے ایک صلائے عام ہے، کھلی دعوت ہے آئیے شوق سے آگے بڑھیں، بھر پور حصہ لیں ، اگر پاکستان چاہتا ہے کہ سندھی پروگرام بھی چلیں اور بلوچی پروگرام بھی چلیں اور سرائیکی پروگرام بھی چلیں اور پنجابی پروگرام بھی چلیں ، اردو پروگرام بھی چلیں تو پاکستان کی جماعتوں کو ایسے پروگرام بنا کر ہمیں بھجوانے چاہیں.جہاں تک مرکزی پروگراموں کا تعلق ہے اس سلسلے میں سب سے اہم اور سب سے عظیم الشان پروگرام یہ بنایا گیا ہے کہ مسلسل خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہترین قرآت کے ساتھ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت ہوا کرے گی اور ہر آیت کے بعد مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ پیش کیا جایا کرے گا اور امید ہے انشاء اللہ ایک دو سال کے اندر ہم دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ترجمہ پیش کر سکیں گے.اب آپ دیکھیں کہ رشین زبان میں جو تر جمہ کیا گیا ہے کتنے ہیں جن تک وہ پہنچ سکتا ہے، کتنے ہیں جو عربی زبان میں اصل متن کو پڑھ بھی سکتے ہیں.لکھوکھا میں سے ایک بھی نہیں لیکن اچھی تلاوت سے سننا تو اور بھی دل پر اثر کرتا ہے اور اگر اچھی آواز میں پڑھ کر وہ ترجمہ سنایا جائے تو دلوں پر حیرت انگیز اثر چھوڑتا ہے.اس لحاظ سے قرآنِ کریم کو مختلف زبانوں میں متعارف کرانے کے لئے ہمارے ترجمے کافی نہیں تھے ان کو کتابی صورت میں شائع کر کے بیچنا یا دلچسپی لینے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1009 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء والوں تک پہنچا نا بہت بڑا کام تھا اور عام طور پر ہر زبان کا ایک بھاری طبقہ ایسا ہے کہ جو خواہش کے باوجود ہر چیز کو حاصل نہیں کر سکتا نہ ان کو ہمارا پتا نہ ہی ہمیں ان کا پتا.جن کو خواہش ہے ان کے پاس پیسے نہیں اور پھر بڑی تعداد میں ایسی تو میں بھی ہیں جن کی زبان میں ترجمے تو ہو چکے ہیں مگر ان کو پڑھنا ہی نہیں آتا ، مثلاً یوروبا ہے جو نائیجیریا کے شمال میں بولی جاتی ہے اس میں اگر تر جمہ ہے تو اکثر لوگ پڑھ ہی نہیں سکتے.اسی طرح افریقہ کی دوسری اور بہت سی زبانیں ہیں جن کو پڑھنے والے موجود نہیں ہیں اور ہم ترجمہ کر چکے ہیں.اب ہم جماعت کے ذریعے غیروں کو بھی ان کی اپنی زبان میں قرآنِ کریم کی تعلیم روزانہ دیا کریں گے اور اچھی تلاوت کے ساتھ جب قاری پڑھے گا تو لوگ اس کی نقل بھی اتار سکتے ہیں.وہ تلاوتیں پیش کی جائیں گی جن میں قاری ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گا آرام سے سہولت کے ساتھ کسی جلدی کے بغیر.پھر اس کا ترجمہ سمجھا سمجھا کر پڑھا جائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کے مطالب اور معانی تمام دنیا کے لئے عام کر دیئے جائیں گے اور حضرت امام مہدی کے آنے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ خزانے لٹائے گا، غیر احمدی علماء تو دنیا کے خزانوں کی انتظار لے کے بیٹھے ہیں کہ امام مہدی آئے تو دنیا کے خزانے لٹائے ان کو کیا علم کے دنیا کا سب سے بڑا خزانہ تو قرآن کریم کا خزانہ ہے جو آسمان سے اترا ہے ایسا خزانہ تو دنیا میں بھی نازل نہیں ہوا تھا اور یہی وہ خزانہ تھا جس کو بانٹنے کے لئے امام مہدی نے تشریف لا نا تھا اور آج امام مہدی کے غلاموں کو یہ توفیق مل رہی ہے کہ انشاء اللہ یہ خزانہ اب گھر گھر بانٹا جائے گا.دوسرا اہم پروگرام زبانیں سکھانے کا ہے.جب وقف نو کی تحریک کی گئی تو اس وقت سے میرے دل میں یہ خلش تھی کہ ہم ہزاروں بچوں کو قبول تو کر بیٹھے ہیں ان کی تربیت کیسے کریں گے، ان کو زبانیں کیسے سکھائیں گے، ان کی روز مرہ کی ابتدائی تربیت ان کی اپنی زبانوں میں کیسے کریں گے.ہمارے پاس تو اتنے معلم نہیں ہیں کہ جہاں جہاں بچے ہیں وہاں معلم پہنچا دئے جائیں.ہمارے پاس اتنے زبان دان نہیں ہیں کہ جہاں جہاں زبان کے خواہشمند ہیں ان کو اہلِ زبان سے ان کی اپنی زبان سکھائی جائے.اگر اربوں روپیہ بھی ہم خرچ کرتے تو یہ ناممکن تھا.جامعہ احمد یہ ربوہ میں ہی پورے استاد مہیا نہیں کہ جو عرب ہوں اور عربی کی تعلیم دے رہے ہوں ، انگریز ہوں جو انگریزی کی تعلیم دے رہے ہوں ، فرانسیسی ہوں جو فرانسیسی کی تعلیم دے رہے ہوں ، غرضیکہ زبانیں
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1010 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء سکھانے کا کام بہت ہی مشکل تھا اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے کریں گے اور اب تک خدا کے فضل سے پندرہ ہزار سے زائد واقف نو بچے جماعت کو عطا ہو چکے ہیں.جب یہ پروگرام بنا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک ایسا منصوبہ ڈال دیا جس کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی زبانیں ، اہلِ زبان کی زبان میں تمام دنیا کے احمدی بچوں کو اور بڑوں کو بھی ٹیلی ویژن کے ذریعے سکھا رہے ہوں گے اور روزانہ یہ پروگرام جاری ہوں گے، انشاء اللہ تعالیٰ.اس سلسلہ میں جو دلچسپ بات ہے وہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کا جو پروگرام دکھایا جا رہا ہوگا وہ بغیر کسی ایک زبان کے ہوگا اور اس کے ساتھ مختلف چینل میں مختلف زبانیں سکھائی جارہی ہوں گی.فی الحال وسیع تر ٹیلی ویژن کا جو انتظام ہے یعنی بارہ گھنٹے روزانہ والا اس میں ہمیں صرف دو چینل ملے ہیں یعنی بیک وقت دوز با نہیں اس پر دکھائی جاسکیں گی جبکہ یورپ کے ساڑھے تین گھنٹے ٹیلی ویژن پر ہم بیک وقت آٹھ زبا نہیں سکھا سکیں گے.لطف کی ا یہ ہے کہ کسی زبان کو سکھانے کے لئے کسی اور زبان کی ضرورت نہیں ہو گی.اگر کر یول( Creole) سکھانی ہے تو نہ وہ اردو میں سکھائی جائے گی نہ جرمن میں ، نہ انگریزی میں ، نہ فرنچ میں نہ کسی اور زبان میں سکھائی جائے گی کریول (Creole) کوکر یول (Creole) میں ہی سکھایا جائے گا اور اس طرح بچے تعلیم پاتے ہیں ، بچوں کے لئے کونسا آپ کوئی دوسری زبان کا سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ بچے کو پہلے اردو میں انگریزی سکھائی جائے یا انگریزی میں اردو پڑھائی جائے.ماں باپ کی زبان بچے ان سے سیکھتے ہیں اور بغیر کسی دوسری زبان کے سہارے سے سیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اہلِ زبان بنتے ہیں.جب دوسری زبانوں کا سہارا نہ لیا جائے تو لفظ مضمونوں میں ڈھلتے ڈھلتے دماغ پر اتنا گہرا نقش ہو جاتے ہیں کہ اس مضمون کا کوئی بھی سایہ دکھائی دے تو وہ لفظ از خود ذہن میں ابھرتا ہے.ایک لفظ کے معنی کے جتنے بھی امکان ہیں وہ معنی کے سائے سمجھ لیں تو ایک لفظ میں جتنے بھی معانی کے سائے پائے جاتے ہیں وہ بچہ جس نے بغیر کسی مدد کے زبان سیکھی ہو لفظ کے ہر شیڈ کو ہر سائے کو براہِ راست سیکھا ہو تو جہاں بھی وہ اس سائے کو دیکھتا ہے سایہ سامنے آتے ہی وہ لفظ از خود اس کے ذہن میں ابھرتا ہے، یہ جو کیفیت ہے اس کو اہلِ زبان ہونا کہتے ہیں.ہماری زبان کا ماحول اس سے ذہن میں جذب ہو جاتا ہے اور کسی اور زبان کی مدد سے ذہن میں ترجمہ نہیں کرنا پڑتا ورنہ میں جب آپ سے فرنچ یا کریول زبان میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو میں پہلے انگریزی سے فریج میں ترجمہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1011 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء کرتا ہوں اور پھر اس کو یا دکر کے آپ کے سامنے رکھتا ہوں یہ بڑی مصیبت ہے اس طرح زبان سیکھتے اور سکھاتے ہوئے کتنی دیر لگے گی.جو زبان کا طریق اب ہم نے اللہ کے فضل سے ایجاد کیا ہے وہ بغیر کسی زبان کے سہارے کے ہو گا.اس ضمن میں ہمارے ایک مخلص دوست ڈاکٹر شمیم صاحب کو کچھ عرصہ پہلے بلا کر میں نے تفصیل سے یہ سکھایا تھا اور اب وہ خدا کے فضل سے خوب سمجھ چکے ہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے چونکہ ذہن بہت ہی سائنٹفک پایا ہے اس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی پڑھ لی ہیں اور بہت سے ماہرین سے انٹرویوز بھی لے لئے ہیں ان کو جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ مہیا کر دی گئی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جو نہی وہ تیار ہوں گے تمام دنیا میں جو مختلف اہلِ زبان ہیں وہ ان تصویروں کو دیکھ کر اپنے لفظوں میں اس مضمون کو بھریں گے اور تصویر ایک ہی ہوگی.اس طرح اگر سوز با نہیں سکھائیں تو سو سکھا سکتے ہیں.رفتہ رفتہ یورپ کے چینل پر تو ایک وقت میں آٹھ زبانیں سکھائی جا رہی ہوں گی اور آئندہ مارچ سے انشاء اللہ تعالی ایشیا کے ٹیلی ویژن پر بھی بیک وقت آٹھ زبانیں سکھائی جاسکتی ہوں گی.نہ صرف چھوٹے بلکہ بڑے بھی بے تکلف زبانیں سیکھیں گے اور دنیا کے سامنے ایک نئی مثبت طرز کے ٹیلی ویژن کا آغاز ہوگا جہاں بے حیائی کی باتیں نہ سکھائی جارہی ہوں گی ، میوزک کے ذریعے اخلاق کو خراب کرنے کی باتیں نہیں ہو رہی ہوں گی ، یہ بہت ہی نفیس اور پاکیزہ پروگرام ہوں گے جو ایسے ہوں گے کہ انسانی ذہن اور دل کو جذب کرنے والے ہوں گے اور وہ اب دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں گے.اس ضمن میں میں دوسرے پروگراموں کا بھی ذکر کر دوں.ایک معلوماتی پروگرام ہم نے بچوں کے لئے رکھا، صرف بچوں کے لئے نہیں بلکہ بڑے بھی اس میں شامل ہوں گے.تمام دنیا کے ممالک کے متعلق با قاعدہ پروفیشنل طریق پر بنی ہوئی ویڈیوز ملتی ہیں ، ان ملکوں کے جغرافیائی حالات، ان کی تاریخ کے حالات، ان کے کلچر کے حالات وغیرہ وغیرہ یہ پیش کئے جاتے ہیں.مگر مشکل یہ ہے کہ مغربی دنیا کے لوگ کوئی بات بھی پڑھانا چاہتے ہوں ان سے ناچ گانے کے بغیر پڑھائی نہیں جاتی اور وہ ہم شامل نہیں کرنا چاہتے اس لئے ہم نے سوچا ہے کہ اکثر پروگرام جہاں تک ممکن ہو ہم خود بنائیں گے اس کے لئے تمام دنیا کی جماعتوں کو ہدایت دی جاچکی ہے اور وہ تیاری کر رہے ہیں.پھر میوزک کے بغیر خوش الحانی سے نظمیں اور دوسرے گانے سنانے کے لئے اور بعض بچوں کو سکھانے کے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1012 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء لئے ہم نے ایسا پروگرام بنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی، فارسی ، اردو قصائد اوران کے ترجمے مختلف زبانوں میں ترنم کے ساتھ پیش کئے جائیں.بچے کورس پیش کریں اور بڑے مل کر وہ گانے گائیں اور ساری دنیا میں خدا کی حمد کے گیت گائے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پورا ہو کہ : آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے (در نشین صفحہ ۱۷) ہم درود شریف بھی ترنم کے ساتھ پڑھا کریں گے اور اس کے معنی بھی دنیا کو سکھائیں گے.قرآن کریم کی تلاوت کے علاوہ یہ وہ زائد چیزیں ہیں جن میں پاک حمد اور نعت کے گانے اور مختلف زبانوں میں مختلف ملکوں میں بنائی جانے والی نئی نظمیں بھی شامل کی جائیں گی اس لحاظ سے بھی یہ بہت دلچسپ پروگرام ہوگا.پھر کھیلوں کا معاملہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ تمام دنیا کے احمدی بہترین طریق پر کھیلوں کی تربیت حاصل کریں کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ الــعــلــم عِلْمَانِ عِلْمِ الادْيَانِ وَعِلْم الأَبدَانِ علم تو دو ہی ہیں ایک دین کا علم ہے اور دوسرا جسموں کا علم ہے جسموں کے علم میں ساری دنیا کی سائنس آجاتی ہے.انسانی بدن کا علم بھی اور انسانی صحت کو قائم رکھنا اور اس کو آگے بڑھانے کا علم بھی.کھیلیوں کا علم بھی علم الا بدان میں شامل ہے.پس کھیلوں کے اعتبار سے مشرق بہت پیچھے ہے اور کوئی ان کو سکھاتا نہیں ہے کہ کیسے کھیلوں میں آگے بڑھا جا سکتا ہے.ہم انشاء اللہ یہ انتظام کر رہے ہیں کہ اگر فٹ بال سکھانا ہے تو فٹ بال کے بہترین ماہرین فٹ بال سکھائیں اور احمدی بچے ان سے ٹریننگ حاصل کریں اور ان کی ویڈیو دکھائی جائے اور پھر بار بار یہ پروگرام دکھائے جائیں تا کہ لوگوں کو پتا لگے کہ فٹ بال ہوتا کیا ہے.کس طرح کھیلنا چاہئے کیا کیا احتیاطیں ہیں جو برتنی چاہئیں کیا داؤ پیچ ہیں جو استعمال ہوتے ہیں پھر تیرا کی کا مقابلہ ہے اس کے متعلق بھی ہم ان لوگوں سے بہت پیچھے ہیں بلکہ سالوں پیچھے ہیں بلکہ شاید پوری صدی پیچھے ہوں.اتنا پیچھے ہیں کہ جو ابتدائی معیار ہوتے ہیں ان کے ٹیسٹ (Test) پر بھی ہم پورا نہیں اترتے پس بڑی ضرورت ہے کہ اپنی غیرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان سب قسم کی کھیلوں کو جو اولمپک میں شامل ہیں اور جن میں مقابلے کئے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1013 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء جاتے ہیں ہم تمام دنیا کے احمدیوں اور دوسروں کو بھی جو جماعت سے فیض حاصل کرنا چاہیں سکھانا شروع کریں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا انشاء اللہ تعالیٰ کھیلوں کے پروگرام کے متعلق جو میں نے ٹیم مقرر کی ہے وہ جب یہ کام مکمل کرلے گی تو مختلف کھیلوں کے احمدی پروگرام بھی احمد یہ مسلم انٹر نیشنل ٹیلی ویژن پر آپ کو دکھائے جائیں گے.باہر سے پروگرام مل تو سکتے ہیں مثلاً تیرا کی کا اور بیڈ منٹن وغیرہ کا بھی نہیکن ان میں کچھ مشکلات ہیں اول یہ کہ یہ لوگ جب تک بیچ میں ننگے جسم نہ دکھا لیں ان کو چین ہی نہیں پڑتا.فٹ بال سکھانا چاہیں تو پھر بھی بے حیائی ساتھ جائے گی، تیرا کی سکھانا چاہیں تو اور بھی زیادہ بے حیائی ساتھ آئے گی اور پھر میوزک کے بغیر تو رہ ہی نہیں سکتے.ہم نے سوچا ہے کہ اپنے پروگرام بنا ئیں ماہرین ان کے ہوں ، مزاج ہمارا ہوا اور میوزک کی بجائے درود شریف پڑھے جائیں، میوزک کے بغیر خوبصورت آواز میں نغمے ہوں گے، حمد وثنا ہوگی وقفہ جو بیچ میں لانا ہے تا کہ ”منا پلی“ (Monopoly) یعنی یکسانیت توڑی جائے وہ وقفہ بھی پاکیزہ باتوں کا وقفہ ہو گا لیکن طبیعت اس سے لذت پائے گی تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ کھیلوں کا پروگرام بھی جاری ہوگا.پھر قاعدہ میسرنا القرآن ہے اس کا تمام زبانوں میں ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اگر ترجمہ کر بھی دیا جائے تو قرآن کا صحیح تلفظ سیکھنا قاعدوں کے ذریعے ممکن ہی نہیں ہے.استاد کی لازما ضرورت پڑتی ہے.پس اس سلسلے میں بھی ہم خدا کے فضل سے پروگرام شروع کر چکے ہیں کہ تمام دنیا کی قوموں کو ان کی زبانوں میں قرآن کی تلاوت کرنے کا طریقہ سکھائیں جیسے ہاتھ پکڑ کر بچوں کو سکھایا جاتا ہے اس طرح انگلی نقطوں پر رکھ رکھ کر ان کو سکھائیں گے ، ہمارے پاس کھلا وقت ہے وقت دے کر ان کو سکھائیں گے.پروفیشنل میں ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ چونکہ انہوں نے کمائی کرنی ہوتی ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ معلومات تھوڑے وقت میں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں.زبانیں بھی آپ ویڈیو کے ذریعے سکھنے کی کوشش کریں تو تین گھنٹے ، چار گھنٹے، چھ اور نو گھنٹوں سے زیادہ کی ویڈیو نہیں ملے گی اور اس عرصے میں انسان تیزی کے ساتھ ان زبانوں کو جذب کر ہی نہیں سکتا ہم نے جو پروگرام بنایا ہے خواہ وہ زبانوں کا ہو یا قرآن کریم پڑھنے لکھنے کا ہو وہ آرام سے چلے گا ایک سال تک لکھنا پڑھنا سکھائے بغیر مسلسل زبان سکھائی جائے گی ، جب زبانوں میں اتنی مہارت حاصل ہو جائے گی جیسے تین چار سال کا بچہ جو لکھنے پڑھنے کے قابل ہوتا ہے اسے مہارت ہو جاتی ہے اور پھر اسی طریق پر جیسے بچے
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1014 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتاہے مختلف زبانیں لکھنی پڑھنی سکھائی جائیں گی اور اسی طرح خدا کے فضل سے پوراوقت لے کر قرآن سکھایا جائے گا.اگر چار گھنٹے یا دس گھنٹے کی بھی فلم ہو تو اسے دیکھ کر اگر ایک آدمی زبان سیکھنا چاہے تو چند ایک ٹکسالی کے فقرے تو جان لے گا لیکن زبان کا فہم اسے نصیب نہیں ہوسکتا اس کے لئے صبر اور حمل کی ضرورت ہے، سہج پکنا چاہئے اور ہم نے جو پروگرام بنایا ہے وہ ایسا ہی ہوگا.ایک ایک زبان سکھانے کی کئی سو گھنٹے کی ویڈیو ہوگی اور جب وہ آگے بڑھے گی تو سننے والے کے دل پر بوجھ نہیں ہو گا دماغ پر بوجھ نہیں ہو گا کہ میں جلدی سے یاد کرلوں.یہ استاد کا کام ہے اور اس ضمن میں جو نظام ہم نے بنایا ہے وہ خدا کے فضل سے سارے عالم میں یونیق“ (Unique) ہے، بے مثل ہے.استاد کے دل پر اور دماغ پر بوجھ ہے کہ میں نے پڑھانا ہے اور یاد کروانا ہے آپ آرام سے Relex ہوکر بیٹھیں اور سنیں اور جو بات آپ سمجھتے ہیں کہ میں بھول گیا ہوں وہ دوبارہ پھر آئے گی پھر آپ کو خیال ہو کہ کچھ یاد نہیں ہوا تو تیسری دفعہ پھر آئے گی ، آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک آپ کو یاد نہ ہو جائے.جس طرح مائیں بچوں کو یاد کرواتی ہیں اسی طرح آپ کے ماں باپ بن کر جماعت احمد یہ آپ کی تربیت کرے گی تو یہ ایک عظیم الشان پروگرام ہے جو اللہ تعالی نے اس سال ہمیں عطا کیا ہے اور آئندہ جاری رہنے والا اور بڑھتے چلے جانے والا پروگرام ہے.میں جماعت احمد یہ ماریشس کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے ماریشس سے اس پروگرام کو دنیا بھر میں منتشر کرنے کے لئے مالی قربانی بھی کی اور انتظامی طور پر بھی بہت مدد کی.اس سفر میں بھی ماریشس کی جماعت نے بہت محبت اور اخلاص سے محنت کی ہے جس کا فیض اب ساری دنیا کو پہنچے گا.ساری دنیا کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اب وہ دعاؤں کے ذریعے ہماری مدد کریں، نئے سال کے آغاز پر جنوری سے انشاء اللہ یہ پروگرام مستقل طور پر جاری ہو چکے ہوں گے اور نئے پروگراموں کے لئے ہمیں جماعت کی مدد کی ضرورت ہوگی.دو خوشخبریاں اور بھی ہیں کہ 7 جنوری ہی کو انشاء اللہ تعالیٰ’الفضل انٹر نیشنل‘ اپنی نئی سج دھج اور شان کے ساتھ مستقلاً جاری ہو جائیگا اور 7 جنوری کو ہی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ریویو آف ریلیجنز بھی دس ہزار کی تعداد میں شائع ہونا شروع ہو جائے گا.اس کے لئے نوجوانوں کے ایک نئے بورڈ کی تشکیل کی گئی ہے جو کہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1015 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۹۳ء انگلستان میں پلنے اور بڑھنے والے ہیں ، جماعت سے غیر معمولی محبت اور اخلاص رکھتے ہیں ، دینی علم بھی حاصل کر چکے ہیں، وہ براہ راست مجھ سے مشورہ کر کے اس نئے پروگرام کو کسی حد تک تشکیل دے چکے ہیں اور باقی دیتے رہیں گے.ہر امر میں میں نے انھیں کھلی چھٹی دی ہے جب چاہیں اور مشورے کریں.خدا کے فضل سے یہ نیار یو یو تمام عالم میں ایک بہت گہرے رنگ میں اثر انداز ہوگا.آپ کو جتنے چاہئیں ہمیں بتائیں.ماریشس کو اگر انگریزی دان طبقہ یہاں موجود ہو مثلاً 500 ریویو چاہئیں تو ابھی سے بک کرا لیں.بنگلہ دیش کو ہزار دو ہزار ریو یو چاہئیں وہ ابھی سے بک کرا لیں.ہندوستان کو جتنے چاہئیں وہ بک کرائیں لیکن پتا جات اندھے طریق پر اکٹھے نہ کریں کہ ڈائر یکٹریاں دیکھیں اور پتے اکٹھے کر لئے.ریویوا گر مفت بھی دینا پڑا تو دیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر پتے اکٹھے کریں.بعض ریویو آپ کو بھیج دئے جائیں گے ان کو لے کر بعض اہل علم سے ملیں ان کو دکھائیں ، اگر وہ دلچسپی لیں ان میں شوق پیدا ہو اور وہ پیسے نہ دے سکتے ہوں تو پھر بے شک ان کے پتے ہمیں بھجوائیں بغیر کسی رقم کے وہ ریویو دیا جائے گا لیکن یہ کہ ڈائر یکٹریاں دیکھ کر پتے اکٹھے کرلیں اس سے وقت کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے اور پیسے کا بھی نقصان ہوتا ہے.اہل علم اس میں دلچسپی لیں گے کیونکہ اس میں ایسے مضامین ہیں جن سے انشاء اللہ تعالیٰ وہ غیر معمولی طور پر متاثر ہوں گے.پس خدا کے فضل سے یہ جو آج کے سال کا آخری جمعہ ہے اور آج کے سال کا آخری دن ہے یہ آئندہ سال کے لئے اور آنے والے سالوں کے لئے عظیم الشان خوشخبریاں لے کر آیا ہے اور میں ایک دفعہ پھر ماریشس کی جماعت کو یہ مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ خدا نے ان کو اس سعادت کے لئے چن لیا کہ اس سر زمین سے یہ اعلان ہو اور تمام دنیا کی جماعت کو نئے سال کی مبارک کے ساتھ یہ عظیم تحائف پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس لائق بنائے کہ خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے شکر گزار بن سکیں ان سے پوری طرح استفادہ کر سکیں اور وہ انقلاب جو میں فضا میں ظاہر ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں ، جو ہوا میں محسوس کر رہا ہوں میری توقعات سے بھی بڑھ کر تیزی کے ساتھ آئے اور خدا کے فضلوں کی نئی برساتیں لے کر آئے ،نئی بہاریں لے کر آئے ، نئے نئے پھول گلشن احمد میں کھلتے ہوئے ہم دیکھیں ، نئے نئے رنگوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ تمام عالم میں ہم ان کو سجائیں اور ان کی خوشبو سے ساری دنیا مہک جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خطبات طاہر جلد ۱۲ 1016 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۱۲
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 آخرت آنا اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 آسکر ثانی آصفہ بیگم صاحبہ 479 اسکا تصور انسان کی دنیا کی خواہش کو معتدل کرتا ہے 797 آپ کی منت کہ غریب بچیوں کی شادی کراؤں گی 268 آخرت کی آرزوئیں باقی رہنے والی ہیں آخرین 129 سر آغا سلطان محمد شاہ صاحب آغا خانی فرقه آخرین کا آنحضرت کے پہلے زمانہ سے ملایا جانا 575 آغا خانی فرقہ میں ذکر کا طریق قرآن میں آخرین کے اولین سے ملائے جانے کی پیشگوئی 990 پرنس آغا آدم خان صاحب آدم معاذ کو بالی 335 آفتاب خان صاحب 598 آدم علیہ السلام 76,236,328,494,632 آدم کی خدا کے سامنے حضوری 340 اللہ کا آدم کو اپنی صورت پر پیدا کرنا ، اس سے مراد 759 آلوسی بائیبل کے مطابق سانپ کا آدم اور حوا کو ڈسنا سب قوموں کا ایک ہی آدم وہ اسماء کیا ہیں جو آپ نے سیکھے پروفیسر آر.بری قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی وجہ بیان کرنا آرزو آخرت کی آرزوئیں باقی رہنے والی ہیں آزادی غربی آزادی کے تصور کا فتنہ 913 912 913 435 279 276 531 788,865,873 آگ آگ سے جناتی زندگی کا پیدا ہونا آگ میں دو طرح کی صفات 496 995 277 آندھراپردیش آئن سٹائن کائنات کے پیدا کرنے والے کی نسبت نظریہ آیات قرآنیہ 505 الفاتحه الحمد لله رب العلمين (2) 129 الحمد لله رب العلمين الرحمن الرحيم (3-2) ایاک نعبد و ایاک نستعین (5) 348 اهدنا الصراط المستقيم (6) صراط الذین انعمت عليهم (7) البقرة 746 196 678 209 517 611 159,316,454 726 778 آزمائش کے مقابل پر ثابت قدم رہنا تقویٰ کا تقاضا ہے 286 خدا کا اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں ڈالنا آسٹریلیا 657 312,390,550,769,1006 ختم الله على قلوبهم (8) عذاب اليم (11) لا ينال عهدى الظلمين (125)
741 750 298 640 قل اغير الله اتخذ اولياء (16-15) اني يكون له ولد (102) ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله (109) سفها (141) 2 757 52,859 41,754 645,665,685 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 صبغة الله (139) ولكل وجهة (149) انا لله وانا اليه راجعون (157) والهكم الله واحد (164) يايها الناس كلوا مما في الارض (169 تا 171)343,363,383 قل اننی هدانی ربی (163-162) پايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام (184 تا 187) 607 قل انني هدانی ربی الی صراط مستقیم (162 تا 165) 513,531 645 839 839 984 238 778 الاعراف لباس التقوى (27) كذلك نفصل الآیت (33) قل من حرم زينة الله التي اخرج لعباده (34) ثم استوى على العرش (55) قل يايها الناس انی رسول الله (159) فخلف من بعدهم خلف(170) الانفال و ما رمیت از رمیت (18) يايها الذين أمنوا استجيبو لله (25) التوبة 703,920,967 779,781,789 480 670 678 643 283 808 799 536 319,757 863,883 635 ليظهره على الدين كله (34) الا تنصروه فقد نصره الله (41) بالمؤمنين رءوف رحيم (128) يونس قدم صدق (3) فقد لبثت فيكم عمرا من قبله (17) يوسف احسن القصص (4) انما اشكوا بثي وحزني الى الله (87) الرعد عالم الغيب والشهادة (10) الا بذكرا الله تطمئن القلوب (29) الذين امنوا وتطمئن قلوبهم (230) الحجر وان من شيء الا عندنا خزائنه (22) 157 185,542 327 303,344 722 451 843 واذا سالک عبادی عنی (187) فاذا قضيتم مناسككم (201) حافظوا على الصلوات (239) رب ارنی کیف تحى الموتى (261) فمثله كمثل صفوان (265) الشيطن يعدكم الفقر (269تا 273) لا نفرق بين احد من رسله(286) 18,286,321,341,536,574,655 355,415,610 627,645 809 235,709 976 860 330 762,772,906 351 637 180 307 175 293 لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (287) آل عمران شهد الله انه لا اله الا هو (19) القصص الحق (63) کنتم خير ا امة اخرجت للناس (111) اذا فعلوا فاحشة (136) شاورهم في الامر (160) ان في خلق السموات والارض (191) ربنا ما خلقت هذا باطلا (192) رابطوا (201) النساء ومن يطع الله والرسول (70) لن تنالوا البر (92) كتابا موقوتا (104) المائدة اذا ما اتقوا أمنوا (94) الانعام طين (3)
917 316 875 304 745 291 756 751 378 833 906 653 271 134 425 979 122 726,727 664 747 907 قل ما يعبؤا بكم ربى (78) الشعراء لعلک باخع نفسک (4) القصص على استحياء (26) العنكبوت ان الصلوة تنهى عن الفحشاء (46) الروم فسبحن الله حين تمسون (18) فسبحن الله حين تمسون (18تا20) و من ايته ان خلقكم من تراب (21 تا 23) لستكنوا اليها (22) فطرت الله التي فطر الناس عليها (31) ظهر الفساد في البر والبحر (42) السجدة علم الغيب والشهادة (7) تتجافى جنوبهم عن المضاجع (17) ومن يطع الله ورسوله (72) الاحزاب ص قال يابليس ما منعک (76 تا 79) الزمر ولو ان للذين ظلموا ما في الارض جميعا (48) قل يعبادي الذين اسرفوا (55-54) وترى الملئكة حافين من حول العرش (76) حم السجدة ان الذين قالوا ربنا الله(31) ومن احسن قولا (34) ذو حظ عظيم (36) الشورى فاطر السموات والارض (12) الزخرف وانه لذکر لک لقومک (45) 3 559 195 410 754 323 903 904 64 654 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 فاصدع بما تؤمر (95) بنی اسرائیل اقم الصلوة لدلوك الشمس (79) رب ادخلني مدخل صدق (81) انما انا بشر مثلكم (111) الكهف مریم فخلف من بعدهم خلف (60 تا 62) طه وانا اخترتك فاستمع لما يوحى (14تا16) ولذكر الله اكبر (46) يومئذ يتبعون الداعي (109) الانبياء 26,146,238,393,666 222 618,773 777 163 250,713 840 879 المؤمنون لفسدتا (23) رحمة للعلمين (108) والذين هم على صلواتهم يحافظون (11-10) خلقا آخر (15) النور 74,187,295,298,754,866 واليه تحشرون (80) عالم الغيب (93) ادفع بالتي هي احسن (97) لا تلهيهم تجارة (24) غير اولى الاربة (32) نور على نور (36) الم تر ان الله يسبح له من في السموات (42) وعد الله الذين امنوا منكم (56) 961 387,543,649 795 589 254,884 فاطر والعمل الصالح يرفعه (11) الفرقان تبارك الذي نزل الفرقان (23) واجعلنا للمتقين اماما (75)
99 117 215 857 569 397,447 395 79 878,932 921 468 221 431 738 يايها الذين امنوا هل ادلكم (12-11) يايها الذين أمنوا هل ادلكم (11 تا 14) الجمعة يايها الذين أمنوا اذا نودي للصلوة (11-10) يعلمهم الكتب والحكمة (3) هو الذي بعث في الاميين (3تا 5) و آخرین منم (4) فاذا قضيت الصلوة فانتشروا (11) المنافقون يايها الذين امنوا لا تلهكم اموالکم (10 تا 12) الطلاق ذكرًا (11) اعد الله لهم عذابا شديدا (12-11) الملک ثم ارجع البصر كرتين (5) المعارج كلا انها لظى (16 تا 24) 49,314,358,874 318 88 88 199,739 171 عبس وتولى (2) الانشقاق يايها الانسان انک کادح (7 تا 13) الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى (10) الغاشية لست عليهم بمصيطر (23) الشمس زكها (10) دسها (11) الضحى وللآخرة خير لك (5) الم نشرح ان مع العسر يسرا (7-6) 4 316,563 824 703 920 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 محمد ام على قلوب اقفالها (25) الفتح ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبک (3) انما يبايعون الله (10) يد الله فوق ايديهم (11) محمد رسول الله (30) 86,207,383,445,564,584 الحجرات 438 253,583 580 706 132 819 749,750 729 745 967 204,258,583 666 981,1000 759 19 719 انما المؤمنون اخوة (11) يايها الناس انا خلقنكم من ذكر (14) ولما يدخل الايمان في قلوبكم (15) لا تمنوا على اسلامكم (18) ق هل من مزيد (31) الذريت وفى اموالهم حق للسائل والمحروم (20) و من كل شيء خلقنا (51-50) و من كل شيء خلقنا زوجين (50 تا 52) الطور ام لهم الله غير الله (44) النجم فكان قاب قوسین او ادنی (10) فلا تزكوا انفسكم (33) الرحمن الرحمن علم القرآن (25) هل جزاء الاحسان الاحسان (61) الواقعة وننشئكم في ما لا تعلمنو (62) عسى الممتحنة الله ان يجعل بينكم (89) الصف لم تقولون ما لا تفعلون (4-3)
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 وما امروا الا ليعبدوا الله (6) البينة كتب قيمة (164) التكاثر الهكم التكاثر (2تا5) العصر والعصر ان الانسان لفي خسر (3-2) فويل للمصلين (5تا8) الماعون النصر یدخلون فی دین الله افواجا (3) ومن شر حاسد اذا حسد (6) آئیوری کوسٹ ابتلا الفلق 517 164 59 107 223 320 163 5 ابلیس کو کہاں سے نکالا گیا ؟ ابلیس کی بغاوت ابن ابو قحافه حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر سنن ابن ماجه حضرت ابن مسعود حضرت ابوذر حضرت ابورزین حضرت ابوقتادة ابواحسن ابوالخیر عبداللہ صاحب 275 274 619,629 599,601,990 440,816,987 190,810,817,995 617,630,631 523 956,957 227 910 سی مود کا اپنی نماندگی میں بھی لینے کی اجازت دینا 334 کی 598 ابوامامہ باہلی ابتلا میں نا سمجھ قیادت کا مسلمانوں کو مزید آگ میں جھونکنا 66 76,328,743 219,241 حضرت ابوبکر صدیق 159,228,540,619 629,660,669,670,671 ایک شخص کا حضرت ابو بکر کو گالیاں دینا ابراہیم علیہ السلام آپ کے نام کے ساتھ حنیفیت کے مضمون کا مستقل بیان 522 ابو جہل ابراہیم کسی پہلو سیمشرکوں میں سے نہ تھا 608،607،17 | ابو خالد الاحمر آپ کو جلانے والوں کا اب نام لیوا بھی کوئی نہیں 480 ابو خالد اللہ سے مُردوں کو زندہ کرنے کا طریق سمجھنا 722 ابوداؤد بائیبل کی پیشگوئی ،آخرین میں ابراہیم پر سلام بھیجا جائے گا 521 حضرت ابوذرغفاری 299 159,661,663 997 997 996 توحید کے ذکر میں اللہ کا آپ کے نام کو زندہ رکھنا 521 توحید کی وجہ سے آپ پر کئے جانے والے مظالم 659 توحید کے مضمون میں حضرت ابراہیم اور آنحضرت کا مقام 518 | ابورحمت صاحب آنحضرت کے ظہور کے متعلق پیشگوئی 722 ابوسعید الاحج سعید روحوں کی تربیت اور ابراہیم کا طریق 722,723 | ابوسعید صدیوں کے مُردوں کے زندہ کئے جانے کے سوال پر بجز ابوسفیان سے عرض کرنا کہ ایمان تو ہے مگر دل کو اطمینان نصیب نہیں 622 ابوطالب 151 997 997 619,630 639,640 ابراہیم سانفو الحاج ابراہیم نوک صاحب انیس ابلیس کو قیامت تک کی مہلت 599 596 276 میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ سے رحم کا سلوک فرمائے گا اور ان کو بھی اپنی رحمتوں سے خالی نہیں رکھے گا 658 حضرت ابو فکی ان پر اس کے مالک کے مظالم 660
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 حضرت ابو مسعود ابو موسیٰ رض 630,631 | احساس کمتری 948,949 اسلام میں احساس کمتری کی کوئی جگہ نہیں حضرت ابو ہریرہ 181,182,183,202,206 | احسان 226,439,516,917,951,952,953,968 احسان کی تعلیم 986,987 احسان کے نتیجہ میں رشتوں میں حسن پیدا ہونا 485 981 887 حضرت ابی امامہ ابی داؤد اٹک اجتماع اجتماع کا نماز سے تعلق اجتماع میں شمولیت کا فائدہ 997 224,225 324,788 قیام عدل کے بغیر احسان کا نظام جاری نہیں رہ سکتا 686 غریب کو دیتے وقت یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ احسان کر دیا ہے 860 کرنل احمد خان صاحب احمد رضا خان بریلوی 345 | احمد نگر 344 | احمدیت ہر اجتماع کے بعد ایک فالواپ پر وگرام بھی ہونا چاہئے 922 احمدی اور اسلامی اقدار یونیورسل ہیں 613 335 915 40,429 929 اجتماعات کا اول مقصد احمدی تاجروں کو روسی ریاستوں میں تجارت کرنے کی تحریک 56 اجتماعات کی کثرت ، ہر ایک کیلئے الگ پیغام ناممکن ہے 730 احمدی امر بالمعروف سے دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں 712 اجتماعات کے سلسلہ کا دنیا بھر میں پھیلنا احمدی ریٹائرڈ فوجیوں کو پرائیویٹ ایسوسی ایشنز بنانے اجتماعات میں صرف نمونہ دیں اور پڑھانے کا طریق 611 کی تحریک جہاں بوسنیا کو ہتھیار مہیا کرنے کا پروگرام ہو 144 اجتماعات نیکیوں کے بیج بونے کے دن ہیں اجتماع جامعیت کا نشان ہوتے ہیں اجتماع کے موقع پر اس ریزولیوشن کی ضرورت ہے کہ 665 922 768 احمدی مزاج ایک بین الاقوامی مزاج بن چکا ہے احمدی ہمیشہ نماز کی حفاظت کرنے والے بنیں 2 229 ہم روز مرہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کریں 346 احمدیت کے متعلق پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں 118,119 احمدیت اور جمعہ کا تعلق 474 459,24 128 584 پروگرام ذہانت سے ترتیب دیں تاکہ زیادہ استفادہ ہو 906 احمدیت ایک نئے دور میں داخل ہے اجتماعات پر بعض خدام کا بندے پہنا یا بٹن کھلے رکھنا 593 ظلم کے نتیجہ میں خدا ضرور اپنی نصرت دکھائے گا اور دشمنوں پاکستان میں اجتماعات پر پابندی ، ساری دنیا پر فضل 824 کی ذلت کے نظارے دنیا کو دکھائے گا جرمنی کے خدام کا اپنے اجتماع کو ساری دنیا کا اجتماع بنانا 825 احمدیت اس وقت تقویٰ کی امین بنادی گئی ہے اجتماع پر خلیفہ وقت کی ذمہ داری، احباب سے ملاقاتیں 427 احمدیت حقیقی اسلام کا پیغام دنیا میں پیش کر رہی ہے 158 یہ دن اکٹھے ہونے کے ہیں، ہم نے تمام جہان کو اکٹھے کرنا ہے احمدیت خدا کے ہاتھ کا بیج ہے جو بڑھے اور پھولے گا 458 اس لئے یہ چھوٹی چھوٹی گھٹیا کمینی باتیں زیب نہیں دیتیں 768 احمدیت سے دین و دنیا کا وابستہ کیا جانا اجودھیا 68 احمدیت کا تابناک مستقبل مگر دکھ راستے میں ضرور آئیں گے 963 اجودھیا کے واقعہ میں حکومت کا کردار احتجاج 890 احمدیت کا وحدانیت کا پیغام جس نے قومیت کو ختم کر دیا ہے، یہ اس کی سچائی کا نشان ہے 592 و ظلم جس کے خلاف احتجاج ایک احمدی کو کرنا چاہیئے 48 احمدیت کی ایک عمومی بہت ہی حسین تصویر کی وجہ 563 أحد 162,691 احمدیت کی بدولت ایک وقت عربی زبان سب سے زیادہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 بولی اور سمجھی جانے والی زبان بن کر رہے گی 7 497 239,240 254 جماعت احمدیہ کی خلیفہ وقت سے محبت کا حسین تذکرہ 41 جماعت کیلئے چار بنیادی باتیں جن کا ذکر سورہ جمعہ میں ہے 585 557 87 احمدیت کی بقا کا راز تاریخ احمدیت میں نیا سنگ میل ،شارٹ ویو پر خطبہ جمعہ 511 جماعت احمد یہ متکبرین کی جماعت نہیں ہے احمدیت کی جان خلافت اور شوری میں ہے اطاعت کی روح مسیح موعود کی صداقت کا عظیم نشان ہے احمدیت کی وحدت خلافت احمدیہ سے وابستہ ہے 547 جماعت کا ٹھوکریں کھانے کے بعد ملائم پتھر بننا احمدیت کے اعلیٰ مقاصد کے متعلق حضرت مسیح موعود کا تصور 594 جماعت کو روس کے معاملات میں حصہ لینے کی تحریک 55 احمدیت کے ذریعہ مغرب میں توحید کو فتح نصیب ہونا مقدر ہے 682 جماعت کی تدریجی ترقی کی پیشگوئی 446,514,594 احمدیت کے قیام کا مقصد، مسیح موعود کے ارشادات 446,514 جماعت کی رفتار بڑھنے سے تقریبات میں بھی اضافہ 344 احمدیت نے ہی دوبارہ نور ایمان سے ساری دنیا کو جگمگانا ہے 580 جماعت کے غریب طبقہ کو مانگنے کے لحاظ سے نصیحت 636 احمدیوں کی تہجد کی دعاؤں کی منظر کشی جماعتی کام پھیلنے سے خدمت گاروں کی بھی اتنی ہی ضرورت 512 توحید کی خاطر جتنی قربانیاں دی ہیں انکی مثال کہیں 642 جماعت میں اختلافات کی صورت میں افراد کا قضاء جانا افریقہ کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف کا اقرار کہ مبلغین کی قربانیاں میری احمدیت کی اصل وجہ ہے افریقہ میں احمدی ہونے والوں کو لالچ دیے جانا 2 595 598 اور فیصلہ نہ ماننے پر اخراج کے لئے بھی تیار ہو جانا 818 جماعت احمدیہ سے جمعہ کا خاص تعلق 401 جہاں جماعت کا اجتماعی منصوبہ چل رہا ہو وہاں ذیلی تنظیموں ترقی کے وقت کمزور تعلق والے ساتھ نہیں رہ سکتے 450 کو الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کوئی حق نہیں رہتا 749 امت واحدہ بنانے کا منظر احمدیت کے سوا کل عالم میں حضرت مسیح موعود کا جماعت کے اخلاص کی تعریف کرنا 360 جماعت کے صبر کے امتحانوں میں ڈالے جانے اور اس کے 594 127 151 379 کہیں اور نظر نہیں آئے گا امریکی احمدیوں کیلئے اخلاقی قدروں کو درپیش خطرات 347 نتیجہ میں خدائی برکتوں کے حصول کی پیشگوئی عالمی جماعت کو جمعہ پر ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی توفیق بخشی 461 حضرت مسیح موعود کی جماعت سے بلند تو قعات بنگالی احمدیوں کا ذکر خیر، تاریخ احمدیت میں ہمیشہ کے لئے صحابہ یا تابعین سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے خاندان سنہری لفظوں میں محفوظ ہونا چاہئے کا ذکر خیر آئندہ نسلوں میں جاری رکھنے کی تلقین 329 بوسنیا پر مظالم پر جماعت کو دیا جانے والا لائحہ عمل 712 خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کہ یہ متقیوں کی جماعت ہے 650 جلد عظیم انقلابات جماعت کے حق میں رونما ہوں گے 418 خدا کے فضل سے جماعتوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ 344 پاکستان کے احمدیوں کو رزق حلال کے لئے جہاد کی تحریک 378 دعا کا انتشار جماعت احمدیہ کا تشخص ہے دنیا کومحمد کے قدموں میں لانا تمہارے بس میں ہے 417 رائے عامہ درست کرنے کے لئے ساری دنیا کے احمدیوں نو مسلم احمدی اردو زبان براہ راست سیکھیں کو اپنے ملکوں میں نصیحت کرنے کی تلقین تمنا کہ ساری جماعت ایک مرکز کے گرد اس طرح اکٹھی ساری جماعت کی تربیت کا انداز ہو جائے جیسے شہد کی مکھیاں ملکہ کے گردا کٹھی ہوتی ہیں 23 جماعت کیسے لہی محبت کرنے والی جماعت شمار ہوسکتی ہے 42 موحد جماعت کیلئے مسیح موعود کے الہام میں خوشخبری 629 سب سے زیادہ احمدی بنی نوع انسان کے بہی خواہ ہیں 2 جس دن آپ نے دنیا کو دین پر مقدم کرنا شروع کیا سرحد میں بڑے بزرگوں کے باوجوداد بار کیوں آیا ، وجہ 333 و ہی ہلاکت اور تنزل کا سفر ہوگا 505 808 614 49 236 سرحد میں احمدیت ، آغاز احمدیت سے ہی شروع ہو جاتی ہے 334 اصلاح کیلئے امر بالمعروف، نہی عن المنکر ضروری ہے 719 سورہ جمعہ میں بیان خوشخبریوں کا مظہر جماعت احمد یہ ہے 576
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 کشتی نوح میں جماعت کے لئے تنبل کی تعلیم 8 794 اخوت کا ہم بہترین نمونہ پیش کر سکتے ہیں پاکستانی عدلیہ کا کلمہ پڑھنے سے احمد ہوں کومحروم کرنا 527 ہم نے تمام جہان کو اکٹھے کرنا ہے اس لئے چھوٹی چھوٹی مواصلاتی نظام کے ذریعہ جماعت پر فضل 402 گھٹیا کمینی باتیں زیب نہیں دیتیں مولویوں کے جھوٹے پروپیگینڈے سے جماعت کو ترقی ملنا 889 سیه سال عالمی بھائی چارے کا سال قرار دیا تھا نظام جماعت اللہ کے ہاتھوں کی نمائندگی کرتا ہے 273 ادب 749 ٹوپی کا ادب سے تعلق نظام جماعت کا احترام نئی اقوام کے احمدیت میں آنے پر کثرت سے تسبیح اور نئی نسل میں ادب کی کمی استغفار کی ضرورت ہے 922 | اذان 438 نو مبائعین کو جماعت کا زندہ حصہ بنانے کی ضرورت 321 اذان کے آخر پر دعا میں مقام محمود کی دعا وہ جماعت جس سے تمام دنیا کی امیدیں وابستہ ہیں 417 تم جنگل میں ہو تو اذان دو اور اگر کوئی ساتھ نہ ہو تو فرشتے وہ ظلم جس کے خلاف احتجاج ایک احمدی کو کرنا چاہئے 48 تمہارے ساتھ شامل ہوں گے ( حدیث )200, 199 نظام کے سامنے تکبر سے کام نہ لینے والوں کی صفات 277 ارتقاء کا مطلب وہ مقصد جسکے بغیر جماعت کی تعمیر کی غرض پوری نہیں ہوتی 41 اردو زبان 438 اردوزبان سیکھنے کی تلقین 768 982 251 250 198 433 501 505 جماعت اورانما المؤمنون اخوة کا مضمون بلند مقام و مرتبہ کے وقت عجز وانکساری کی ضرورت ہے 583 نو مسلم احمد یوں اردوزبان براہ راست سیکھیں ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم اور جماعت کی خدمات 138,139 حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ سید اب کبھی نہیں مرے گی 502 اس سال کا جماعت کیلئے بہت سی خوشخبریاں پیچھے چھوڑنا999 عربی کے بعد سب سے زیادہ اردو میں خدا کا الہام کرنا502 مہاجرین سے غیر معمولی محبت کے سلوک کا اظہار 102 قرآن و سنت کو سمجھنے کیلئے اردو زبان کا بکثرت استعمال 501 جماعت کو مالی قربانی کی غیر معمولی توفیق کا ملنا اپنے بزرگوں کے ذکر خیر کی مہم چلانے کی تحریک 131 336 اڑیسہ ازبکستان نظام جماعت کے سامنے سر اٹھانے والوں کی حالت 280 از دشنوء (قبیله) وہ دائمی حج جو اس وقت جماعت احمدیہ کو نصیب ہے 267 استغفار 143 یورپ کی احمدی جماعتوں کو بوسنیا کے حوالہ سے مؤاخات استغفار کا حیا سے تعلق کا نظام قائم کرنے کی تحریک استغفار کا مطلب ،حقیقت احمدیوں پر دنیا بھر میں مظالم کے وقت خلیفہ وقت کی حالت 663 استغفار کے بغیر فضل نہیں نصیب ہوسکتا احمدیوں سے بلند تو قعات جن کا صبر سے تعلق ہے 390 تسبیح اور استغفار کا ذکر الہی سے تعلق احمدیوں کی اپنے اپنے ملکوں سے وفاداری احمدیوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر لوگوں کا بیعت کرنا 563 فحشاء کے ساتھ استغفار کا تعلق آنحضرت کے استغفار کی وجہ احمدیوں کے نظم وضبط اور اعلیٰ کردار کا نمونہ احمد یہ ہوٹل ، لاہور احیاء الدین مراد صاحب اخوت 71 413 106 846 56 599 632 632-340 209 922 شوری کی مجالس میں شامل ہونے والوں کو استغفار کی تلقین 341 اسحاق 333 اسحاق تر اور ے اسد الغابه 976 430 76 599 659,660,662
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 قبیلہ اسد اسرائیل اسرائیل کا ایک وقت میں روس کو چیلنج کرنا اسرائیل کا سکیورٹی کونسل کی قرار دار کوٹھوکر مارنا اسلام اسلام ایک سائی فک مذہب ہے 9 658 45 44 105 210 اسلام پر عیسائیوں کا اعتراض کہ تلوار سے پھیلا ہے 478 اسلام کا سب سے زیادہ توحید پر زور اسلام کا کامل دین ہونا اور کمالیت کی وجہ 517 388 68 ہی تمام عالم اسلام کے مسائل کا حل ہے رزق کمانے کے لئے قوانین نہ توڑنے کی اسلامی تعلیم 369 سارے عالم اسلام پر مظالم کے حوالہ سے جماعت کو تحریک 42 سیاست کے حوالہ سے تمام عالم اسلام کونصیحت عالم اسلام پر مظالم کا بھیا نک نقشہ عالم اسلام کو اپنی کجیاں دور کرنے کی تلقین 75 104 64 قانون قدرت کا اطلاق اسلام کے ہر پہلو پر یکساں ہوتا ہے 694 عالم اسلام کو متنبہ کرنا کہ مسائل بڑھنے والے ہیں 70 ایک کے بعد دوسرا اسلامی ملک مسائل میں گھر نے والا ہے 70 اسلام کا محمد کے پہلے دور میں تیزی سے پھیلنا 386 نبی کریم کی مسلم کی بیان فرمائی ہوئی تعریف 818 اسلام کا آخری مذہب ہونا کامل ہونے کی وجہ سے ہے 465 نصیحت کہ اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی حکومت کا نام چھوڑو اور اسلام کا آغاز حقیقت میں توحید ہی کا آغاز تھا اسلام کو سب سے بڑا خطرہ انانیت سے ہے اسلام کی ابتداء میں غلاموں پر کفار کے مظالم 657 273 659 اسلام نے انصاف کی حکومت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کو پکڑ و 45 دن کے چوبیس گھنٹے سے زیادہ لمبا ہونے کی پیشگوئی صرف اسلام میں ملتی ہے 472 اسلام کی ابتر حالت اور تنزل کے متعلق آنحضرت کی پیشگوئی 581 احمدیت حقیقی اسلام کا پیغام دنیا میں پیش کر رہی ہے 158 501 درود، عالم اسلام کے حوالہ سے جامع دعا ہے اسلام کی دونشا تیں اسلام میں جھوٹے معبودوں کو گالی دینے کی ممانعت 298 اسلام آباد اسلام کی فتح کے لئے حضرت مسیح موعود کی بیقراری 101 اسلام آباد یو کے 194 356,805,1004 147,292,613 اسلام کے ابتدائی دور میں صحابہ پر توحید کی خاطر کئے عید کے پر اسلام آباد یو کے میں بوسنین مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوا اور کئی رشتہ داروں کا آپس میں ملنا 658 265 76 جانے والے مظالم کا تذکرہ اسلام کے نور کی خوبی کہ وہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی 295 حضرت اسماعیل علیہ السلام اسلام کے ہر زمانہ کے لئے مذہب ہونے کی ایک دلیل 929 آپ ہمیشہ اپنی اولا د کو عبادت کی تلقین کرتے اسلام میں احساس کمتری کی کوئی جگہ نہیں خصوصیت کہ گھر والوں کو نماز کے لئے جگایا کرتے 201 اسلام میں مجددین کی خدمات 485 574,575 اسماعیل ترارے اسلام میں بچہ خواہ جائز ہو یا نا جائز حقوق برابر ہیں 354 اسماعیلہ اسلامی ممالک کو سورۃ العصر میں مذکور دو نیکیوں کو اختیار اسیران راه مولا کرنے کی تلقین 116 اسیران راه مولا پاکستان کی قربانیوں کا ذکر اور حضور کا 566 598 335 551 اسلامی ممالک میں عدل کی حکومت قائم کرنے کی نصیحت 46 انہیں السلام علیکم کہنا احمدی اور اسلامی اقدار یونیورسل ہیں 929 اشتراکیت بعض نیکیوں میں غیر مسلم مسلمانوں سے آگے ہیں 711 اشتراکیت کے انقلاب کا ایک وقت میں خود ظالمانہ بننا 109 تمام عالم اسلام کی بری حالت اور ان کے لئے دعا کی تحریک 962 خدا کی نفی پر اشتراکیت کی بنیاد ہے جس امام مہدی کو اللہ نے بھیجا ہے اس کو قبول کرنے میں اشتعال کے نتیجہ میں عقلوں کا مارا جانا 364 46
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 ملک اشفاق احمد صاحب اصحاب الروحانیات اس فرقہ کے عقائد اور ان میں ذکر کا طریق اصحابه صفه یہ کون لوگ تھے اصلاح اصلاح کا ایک طریق 476 915 991 359,556 10 افریقن کا صحابہ، تابعین دیکھے بغیر اخلاص میں ترقی کرنا 336 افریقہ کے بعض ممالک کے امراء کا ذکر خیر 596 افریقہ کے لوگوں کا حضور کی تقریر کا بہترین ترجمہ کرنا 597 افریقہ کے مبلغین اور مجاہدین کے اخلاص کا ذکر افریقہ میں احمدی ہونے والوں کو لالچ دیے جانا 594 598 اقتصادی بدحالی کے باوجود جماعتوں کا چندہ دینا 853,854 افریقہ میں امراء کو مقامی معلمین کا خیال رکھنے کی تلقین 597 اصلاح کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ضرورت 719 افریقہ میں پاک و ہند کی طرح کے مالی نظام کے اجراء 84 شریر لوگوں کے سر براہوں کی اصلاح بھی ضروری ہے 27 افریقہ میں تبلیغ میں بہت تیزی نماز کے ذریعہ اصلاح کا صحیح طریق اطاعت کا درست طریق اطاعت 308 723 85 افریقہ میں چندوں میں غیر معمولی اضافہ ہزاروں نئے احمدی ہونے کی وجہ ، لیڈروں تک پہنچنا ہے 27 733 بذریعہ سٹیلائٹ افریقہ میں خطبات کا لائیو دیکھا جانا 570 اطاعت کی حد سے باہر نکلنے والوں کا انجام اپنے افسروں سے محض اطاعت کا سلوک نہ کریں بلکہ محبت اور ادب کا سلوک کریں اللہ اور محمد رسول اللہ کی اطاعت میں نجات وابستہ ہے 815 افغانستان 278 افریقہ 554 افضل اللہ کی خاطر سر جھکانے سے مراد 733 جماعت احمد یہ میں اطاعت کی روح حضرت مسیح موعود علامہ اقبال اقبال کا خودی کا تصور اقتصادیات 266 اقتصادی حالات میں تبدیلی کا اخلاق پر اثر 141,209,312,496,511,560 616,629,1006,1007,1008 436 334,377 832.313 368 کی صداقت کا عظیم نشان ہے حکومت کی اطاعت اور قانون کی پابندی غلامی نہیں 528 اقتصادی نظام کی ناکامی سے بددیانتی کا معیار بلند ہونا 55 محمد مکی اطاعت سے اللہ کی اطاعت سمجھ میں آئے گی 637 اقتصادیات سے طیب رزق کا تعلق معروف اطاعت سے مراد نظام کی ہمیشہ اطاعت کرنے والے لوگ اطمینان 251 277 اقتصادیات میں حلال اور حرام رزق کی اہمی البانيه 395 364 اطمینان کے حصول کا طریق اصل طمانیت ذکر اللہ میں ہے البانیہ کے رہنماؤں کو حضور کا سمجھانا 756 الترغيب والترهيب 886 بے اطمینانی کی وجہ سے امریکہ میں پاگلوں کی کثرت 885 الخورشید یہ (رساله) طمانیت کا مطلب اعتکاف افتخار احمد گوندل صاحب افریقہ 893 السيرة الحلبية 910 الفضل 596 الفضل انٹر نیشنل انٹرنیشنل افریقہ کی اقتصادی حالت کی بہتری کے متعلق حضور کا وعدہ 854 111 990 514,942 916 404 405 نئی سج دھج کے ساتھ مستقل جاری ہونے کا اعلان 1014
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 11 الفضل قادیان اللہ تعالیٰ اللہ انسان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا 334 610 اللہ اور دنیا کی محبت بیک وقت برابر نہیں پل سکتیں 813 اللہ اور محمد رسول اللہ کی اطاعت میں نجات وابستہ ہے 815 اللہ تعالیٰ سے تعلق میں عسر اور یسر کا مضمون اللہ تعالی کا عجیب سینسر کا نظام اللہ تعالیٰ کا علیم ہونا 171 781 453 اللہ کی حضوری کے وقت انسان کی دو قسم کی حرکتوں کا خود بخود ہونا اللہ کی خاطر جہاد سے مراد 340 617 733 اللہ کی خاطر سر جھکانے سے مراد اللہ کی خاطر محبت اور بعض رکھنے والوں سے اللہ کا سلوک 959 اللہ کی ربوبیت کا ذکر اللہ کی رحمت اور بخشش ہر چیز پر محیط ہے اللہ کی رحمت پر نظر رکھنے کی ضرورت اللہ کی رضا پر ہی زندگی کا انحصار ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عالمگیر وحدت کی صورت میں ظہور 590 اللہ تعالیٰ کے سامنے کائنات کا حال اللہ تعالی کے لیس کمثلہ شی ء سے مراد 101 751 اللہ کی رضا کے تابع زندگی بسر کر نیوالے اللہ کی ستاری کا پردہ اللہ کی شان کہ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی 122,123 975 440 135 396 203 339 653 973 اللہ کے نور کے حصول کے لئے آنحضرت کا واسطہ 933،932 اللہ کی صفت عدل ، عزیز اور حکیم کا تذکرہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی کیفیت اور انسان کی بے اختیاری 324 اللہ کی صفت عظیم کا تذکرہ اللہ تک پہنچنے کا نماز سے بڑھ کر کوئی اور وسیلہ نہیں ہے 350 اللہ کی طرف واپسی ہی جرائم سے روک سکتی ہے 378 اللہ کی عزت کی پناہ سب پناہوں سے بڑھ کر ہے 603 اللہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے پیدا کرنے کی تلقین 421 اللہ کی محبت پر کسی اور محبت کو غالب نہ آنے دیا جائے 733 اللہ روح کا آخری جوڑ ہے 750 312,305 205 952 اللہ سے تعلق کا ذریعہ ، نماز اللہ کی محبت کے نتیجہ میں اور محبتوں کا پیدا ہونا اللہ سے آزادی کا نام شیطان کی غلامی ہے اللہ کی محبت میں تہجد کے وقت اٹھنے والوں میں کمی 953 اللہ کا خزانوں کو وقت کے اندازہ کے مطابق نازل کرنا 635 اللہ کی مکانیت اور زمانیت کے لحاظ سے توحید کا اقرار 704 اللہ کا رات کے آخری تہائی حصہ میں حدیث کی رو سے اللہ کی نظر زمان و مکان سے بالا ہے سماء الدنیا میں نزول اللہ کا سب سے عظیم الشان جلوہ قرآن ہے اللہ کا عزیز اور حکیم ہونا اللہ کا عطا اور عذاب میں جلدی نہ کرنا 953 496 576 102 129 282 اللہ کی نظروں سے گرنا ہی رجیم کی حالت ہے اللہ کی کچھ علامتیں آفاقی اور کچھ تمہارے وجود میں ہیں 772 اللہ کے اپنی ذات پر ظلم حرام کرنے سے مراد 621 احکام کی خلاف ورزی کر کے انسان بھاگ نہیں سکتا 377 اللہ کا کان میں خرگوشی کرنا حدیث کے ان الفاظ کا مطلب 440 اللہ کے انکار کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صفات 392 اللہ کا آدم کو اپنی صورت پر پیدا کرنا ، اس سے مراد 759 اللہ کے حضور انسان کے مقام کو معلوم کرنے کا طریق 954 اللہ کا خلیفہ کو دوہاتھوں سے پیدا کرنے سے مراد 274 اللہ کسی کا قرض نہیں رکھتا 133 اللہ کو اپنی عزت کی سب سے زیادہ غیرت ہے 603 81 اللہ کے دلوں پر مہر لگانے سے مراد اللہ کے ذکر سے دائمی سکون کا ملنا اللہ کو قرضہ حسنہ دینے کے دو معانی اللہ کو واحد سمجھنا اور دوسرے سے بھی تعلق رکھنا ، تو حید نہیں 812 اللہ کے رنگ سے مراد للہ کی تسی میں ایک مضمون اور سبحان اللہ میں دوسر مضمون ہے 774 اللہ کے سوا روح کا کوئی اور دوسرا جوڑا نہیں ہے 159 319 758 732
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 اللہ کے قرب حاصل کرنے کے ذرائع اللہ کے گواہی دینے سے مراد اللہ کے مقابل دیگر تعلقات کو چھوڑنے کی تعلیم 12 919 657 782 حمد کے مضمون میں حسن کی کشش اور سبحان کے مضمون میں خامیوں کے تصورات ہیں خدا اب بھی کلام کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا 774 694 خالق جو بھی پیدا کیا اس پر اس کا نقش ضرور ہے 60,761 خدا سے جوڑ ہونا اور بات ہے، خدا کا جوڑا ہونا اور ہے 750 ابدی زندگی کے حصول کا طریق کہ خدا کی خاطر اس دنیا میں موت اختیار کرلیں 842 خدا سے ڈرنے کا مطلب خدا سے معافی مانگنے والے کا بے معنی ہونا 745 438 اگر خدا ایک ہے تو زمین پر اس کے بندوں کا ایک ہونا عرفان الہی کیلئے آنحضرت کا عرفان پانا ضروری ہے 696 بھی لازمی نتیجہ ہے خدا کی وحدت کا الہ سے مراد 687 944 574 خدا کے صبور ہونے کا مطلب خدا کے نزدیک سب سے اچھی مخلوق 101 760 ربنا اللہ کہنے پر خوف نہ کرنے کے دو معانی کا ذکر 123 الہی احکام کی حکمتیں سمجھانے کا طریق انبیاء کی آمد کا مقصد یہ تھاکہ لا الہ الا اللہ کا مضمون زمین پر چمکے 688 رحمانیت کا سب سے بڑا اعجاز آنحضرت ﷺ ہیں 666 زمین و آسمان کی پیدائش کے بعد عرش پر بیٹھنے سے مراد 985 انسان کا خدائی صفات کو چھوڑ نا جھوٹا خدا ہونے کا دعویٰ ہے610 انسان کی محبت کے بالمقابل خدا تعالیٰ کا انداز انسان کے خدا کی فطرت پر پیدا ہونے سے مراد انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ایک ایک صفت کا 919 761 764 جائزہ لے کہ اس میں اللہ کا رنگ ہے یا غیر اللہ کا انسانی تعلقات کے مقابل پر اللہ کی محبت کا مقام 945 بعض صوفیاء کوصرف اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ ان کا دعویٰ سبحان اللہ کا مطلب عبادالرحمن کا اللہ کی صفت رحمانیت سے تعلق غیر اللہ کے انکار سے مخالفت میں شدت آنا کائنات پر نظر کرنے سے بعض بھیا نک اور بدصورت چیزیں دکھائی دیتی ہیں، تو پھر خالق کی چھاپ میں یہ بدصورتی کیسے ہوگئی ، اس اعتراض کا جواب کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی یاد دلاتی ہے تھا کہ ہم لاالہ سے باہر ہی نکلے الا اللہ کی کیا باتیں کریں 946 کائنات میں صرف اللہ ہی کے ہونے کا ثبوت، حضرت بلوغت کو پہنچنے سے دنیا کے قانون سے انسان بھاگ سکتا ہے مگر خدائی قانون سے نہیں تعلق باللہ کی حقیقت 375 971 917 122 771 966 مسیح موعود کے ایک صحابی کے کشف کی صورت میں 77 تعلق باللہ کے لئے محویت ضروری ہے تعلق باللہ کے نتیجہ میں ایک نئی خلق کا عطا ہونا توحید کے ساتھ الرحمن اور الرحیم کا تعلق توحید کے ساتھ ربوبیت اور الوہیت کا تعلق توحید کے ساتھ رحمانیت اور رحیمیت کا تعلق 733 812 618 666 678 656 کسی دہریہ کے سامنے اللہ کی ہستی کا ثبوت پیش کرتے وقت آواز میں جان نہ ہونے کی وجہ لا الہ الا اللہ کہنے میں ساری کائنات کی نفی لا الہ الا اللہ کی حقیقت اور اس کا فلسفہ لا الہ میں شرک کی نفی ہے 897 834 943,944 968 محبت الہی نیکیوں پر ثبات کا طریق ہے 814 حضور کالبید کے شعر الاکل شی کی تعریف کرنا 37 763 توحید کے نتیجہ میں خدا کی محبت کا کمال درجہ تک پہنچنا 697 مومن کے لئے ہمیشہ ایک ہی جائے پناہ ہے، یعنی اللہ 736 خدا کا تصور منا نسلوں کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے 374 وجود سے غیر اللہ کا ہر نقش مٹانا ضروری ہے حدیث کی رو سے اللہ اور لوگوں کی محبت کے حصول کا طریق 817 وہ مقام جب انسان مظہر خدا بن جاتا ہے سات لوگ جنہیں بروز قیامت خدا کا سایہ نصیب ہو گا 951 ہر مشکل سے پہلے اللہ ہی کا خیال آنا چاہیئے 759 623
13 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 ہر محبت کے رشتہ کو الہی محبت کے رشتوں میں تبدیل کرنا 705 امت واحدہ بنانے کا کام خلافت احمدیہ کے سپرد ہے 547 خدا امت کے حالات سے محمد کی روح کو مطلع فرماتا ہے 229 امت واحدہ بنانے کا منظر احمدیت کے سوا کل عالم میں انسانوں سے معافی مانگنے میں جلدی اور پہل کرنی چاہئے کہیں اور نظر نہیں آئے گا لیکن خدا کی معافی کی طرف زیادہ نظر رہنی چاہئے 430 ڈش انٹینا کا احمدیوں کو امت واحدہ بنانا خدا ہر ایک کو ایک ہی طرح دکھائی نہیں دیتا 186 594 533 ساری دنیا کے امت واحدہ بننے کے متعلق حضرت خلیفہ خدا سے جب بھی مانگا جائے تو لا متناہی مانگا جائے 363،365 ثالث کی پیشگوئی 532 رحیمیت کے جلوہ کے نتیجہ میں قرآن کا ہمیشہ باقی رکھا جانا 667 سب سے اچھی تربیت یہ ہے کہ امت محمدیہ کو وہ ذکر سکھائیں جس کا ذکر آنحضرت کے ارشادات میں ملتا ہے 976 لمعجم الحجم الكبير الملل والنحل 113 915 ہم آخرین نے یہ عظیم الشان کام سرانجام دیتے ہیں 469 خدا امت کے حالات سے محمد کی روح کو مطلع فرماتا ہے 229 المهدى الموعود المنتظر عند علماء اہل السنۃ والا ملمية 150 امرأ النفیس الوصیت ، رساله الہام الہامات 965,966,982,997 امریکہ 2,45,47,94,140,179,560,609 459,646,6747,657 بعض الہام ذوالوجوہ ہوتے ہیں بعد گیارہ، انشاء اللہ تعالی خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس امالی شیخ صدوق امام / امامت 462 460 628 542 712,851,853,875,883,1001 73 امریکہ اس وقت یہودیت کا غلام بن چکا ہے امریکہ کی اکثریت انصاف پسند اور جمہوریت پسند ہے 72 پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے بڑی جنگ کے لئے تیاریاں 74 امریکہ کی جماعت کا مالی قربانی میں ترقی کرنا ، اور ا سکے کمزور پہلوؤں کا ذکر 482 73 امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لئے اس جگہ اور اس اجتماع میں ہونا ضروری ہے امامت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا 292 884 امریکہ کی دولت پر 5 فیصد آدمیوں کا قبضہ امریکہ کی موجودہ پالیسی امریکہ کے لئے تباہ کن ہے 72 امریکہ کے جلسہ سالانہ کا انعقاد 481,482 52 امریکہ کے خلاف دنیا میں نفرت کے پول کا قیام وقت کے امام کا کام ہے کہ وہ نظر رکھے اور جہاں برائیاں پیدا ہو رہی ہوں ان کو رو کے امت ، امت محمدیہ امت واحده وہ شرک جس نے مختلف امتوں کو تباہ کیا امت محمدیہ خیر الامم ہے امت محمدیہ کے خیر امت ہونے کے تقاضے امت محمدیہ کے خیر امت ہونے کہلانے کی وجہ 251 539 710 237 711 717 امریکہ کے سالانہ اجتماع اور مجلس شوری کے لئے حضور کا پیغام 344 امریکہ میں بچوں کی روحانی ہلاکت کا ایک عصر 347 بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی مادر پدر آزادی کا تصور 348 امریکی احمدیوں کی اخلاقی قدروں کو درپیش خطرات 347 امریکہ میں شادی سے قبل بچے پیدا کرنے کی خوفناک بیماری کی اوسط 33 فیصد ہے امریکہ میں عیش وعشرت اور برائیوں کی انتہا امریکہ میں غلامی کے بھیانک نقشہ کا تذکرہ امت محمدیہ کے قیام کا اصل مقصد امت محمدیہ میں ایمان کی شدید کمی 580 نوع انسان کی بھلائی امت محمدیہ سے وابستہ ہے 238 353 885 483 امریکہ میں اجتماع کے پر اس ریزولیوشن کی ضرورت ہے کہ ہم روز مرہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کریں 346
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 14 امریکہ میں 1978 میں mugging کی حالت 369 نمائندوں پر اعتراض کرنا، اپنے خطوط میں عاجزی کا اظہار امریکی احمد ہی اپنی قوم سے وفا کریں، نا جائز پیدائش، انصار اللہ امریکہ کود و تجاویز 71 کرنا مگر ابتلاء کے وقت ان کا بھڑ کنا 355 انتخاب 285-281 پاگل خانے جتنے امریکہ میں اتنے ساری دنیا میں آباد نہیں 885 نمائندگان شوری کے انتخاب میں تقویٰ کی تلقین 256 ,255 عفت اور عصمت کے حوالہ سے امریکہ میں درپیش خطرات 354 انتظامیہ یونائیٹڈ نیشنز امریکہ کی رعونت کا آج نام ہے 70 انتظامیہ کی جان پجہتی میں ہے 553 یونائیٹڈ نیشنز صرف امریکہ کی غلامی میں امریکہ کا ایک اپنے ماتحتوں سے ماں باپ کی طرح پیار کا سلوک کرے 555 بیان دینے والا نمائندہ بن چکی ہے امن امن کا سفر کوئی آسان سفر نہیں ہے 487 163 امن کے قیام کی خاطر ساری دنیا کے ممالک کو پیغام 16 امن کے قیام کی عظیم الشان تعلیم 524 امن ، توحید میں کامل امن کا نصیب ہونا 676 انتقام حقیقی اسلام میں قومی انتقاموں کی کوئی جگہ نہیں مسلمان انتقام کی خاطر نہیں بنائے گئے انجیل انڈونیشیا روس کی وجہ سے دنیا کو ایک قسم کا امن نصیب تھا 54 انڈیا 485 64 385,386,448,501 94,852,875,890,929,980 1001,1002 769 عالم اسلام کا امن محمد کی سنت میں ہے 66 حضرت انس بن مالک 228,993,978,983,997 وہ وقت جب دنیا کے امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے 72 انسان / انسانیت امید انسان اور اللہ کی محبت کے لئے قدر مشترک 755 وہ جماعت جس سے تمام دنیا کی امیدیں وابستہ ہیں 417 انسان تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے 782،841 حضور تیجا صحابہ سے امیدیں لگانا.تو کل کے خلاف نہیں 691 انسان کا خدائی صفات کو چھوڑ نا جھوٹا خدا ہونے کا دعوی ہے 610 انسان کے خدا کی فطرت پر پیدا ہونے سے مراد 761 امیر ایک امیر کو عہدہ سے ہٹانے پر اس جگہ کے لوگوں کا غلط انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ایک ایک صفت کا جائزہ لے کہ اس میں اللہ کا رنگ ہے یا غیر اللہ کا 764 طرز عمل اور خلافت کی بلندشان کا ذکر امیر اللہ خان صاحب امیر اللہ خان صاحب آف اسماعیلہ امین جواہر امیہ بن سلف امۃ الباری صاحبہ امة القدوس صاحبہ انانیت انا نیت کو توڑنے کا طریق سجدہ انانیت کے شکارلوگوں کے اندر شیطان کا آنا 286 333 335 596 660 405 748 944 277 انسان کے مٹی سے پیدا کرنے میں مضمر پیغام انسان متلون مزاج ہے 279 221 انسان، زندگی کی ابتدا کے وقت ایک ہی ماں باپ تھے 496 انسانی قدروں کے لئے ایک عالمی جہاد کی ضرورت ہے 10 انسانی معاملات سے توحید کا گہرا تعلق انسانیت کا پیغام دینے کے لئے احمدیوں کو تحریک انسانیت کے حوالہ سے جلسے کرنے چاہئیں اور حکومتوں کو 523 11 آپس میں اس نقطہ نگاہ سے آپس میں معاہدے کرنے چاہئیں 14 اس سال کو انسانیت کا سال بنا ئیں انانیت کے کچلے جانے پر اس شخص کا نظام جماعت کے قوم کی بقا انسانوں کی بہبود کے لئے کی جاتی ہے 26 29
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 15 476,491 747,787,846 ہر انسان کے اندر موجود شیطان کو کچلنے کی ضرورت ہے 282 | اوسلو وطن کی محبت سے ٹکرائے بغیر انسانیت سے محبت کی تعلیم 47 اوکاڑہ آج انسان کیلئے بڑا خطرہ گھروں کا ٹوٹنا ہے آخرت کا تصور انسان کی دنیا کی خواہش کو معتدل کر دیتا ہے 797 اولاد سے اندھی محبت جو خدا سے دور لے جاتی ہے 792 وہ حسین فطرت جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے انصار الله 244 173 اولاد اسماعیل ہمیشہ اپنی اولا دکو عبادت کی تلقین کرتے 566 والدین کی اندھی محبت ، بعض بچوں کا برائیوں میں بھٹکنا 955 انصار اللہ کے اس دنیا میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں ،ان ناجائز اولاد کے مسائل دنوں میں خدمت کی جتنی توفیق ہے وہ حاصل کر لیں 807 نیک اولا د کا والدین کے نام پر مالی قربانیاں کرنا نو مبائعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری اہل پیغام انصار اللہ کے سپر د حضرت خلیفہ ثالث نے فرمائی تھی 844 اہل پیغام کے فتنہ کا قلع قمع انصاف 354 83 648 لاہوری جماعت میں جانے والے صوبہ سرحد کے افراد 335 منصف کی تعریف صرف اللہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے 628 ایبٹ آباد انصاف پر مبنی نہ کہ مذہب پر مبنی حکومت کا تصور انصاف کے بغیر مذہبی دنیا میں فساد نہیں ختم ہو سکتا 33 ایٹم بم 35 اسرائیل کا ایٹم بموں کی وجہ سے روس کو چیلنج کرنا اسرائیل کے معاملہ میں دنیا کا انصاف کا پیمانہ 107 | ایران عالمی انصاف کی تعلیم 46 ایسیا عدل کے بغیر دنیا میں انصاف قائم نہیں ہو سکتا، سنت اللہ 51 الحاج ایم ایم حبیبو انقلاب ایمان 334 44 46,149,503 77,511,653,1006,1007 596 جلد عظیم انقلابات جماعت کے حق میں رونما ہو نیوالے ہیں 418 ایمان تزکیہ کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا انکساری 279 ایمان کا خلاصہ حدیث کی روسے 571 523 انکساری اور عجز بلندی کا پہلا زینہ بلند مقام و مرتبہ کے وقت انکساری کی ضرورت ہے 583 ایمان کی وہ قسم جب ایمان بودا ہوتا ہے انگلستان 47,71,335,410,476,491 ایمان کے مختلف در جے ایمان کا ذکر قرآن میں عمل صالح سے پہلے آیا ہے 710 506,511,590,700,725,874,875,927 978,980,1014 ایمان لانے کے بعد تقبل کی مختلف حالتیں ایمان میں حلاوت پیدا کرنے کا طریق 514 175 780 720 انگلستان کی رائل فیملی کی بعض کمزوریاں کھوج کر نکالی گئی ایمان میں خلا کے بلبلے آنا جن کا طمانیت سے تعلق ہے 623 203 ہیں جو اسلام کی رو سے ناجائز ہے انگلستان میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کامیاب تجربہ 49,50 خیر کی تعریف ہی دراصل ایمان ہے احمدیت نے ہی دوبارہ نور ایمان سے ساری دنیا کو جگمگانا ہے 580 انگلستان کے احمدی اپنی قوم سے وفا کریں شرک کا گڑھ چوہدری انور حسین صاحب اور لینز 71 514 380 479 716 726 سچا ایمان حاصل کرنے کا طریق عام طریق سے ہٹ کر قرآن میں ایمان کے ذکر سے قبل امر بالمعروف کا ذکر ایک جگہ کیا ہے، اس میں حکمت 710 حضور کی ایمان افروز باتوں کا اثر ایمان اور اعمال صالحہ پر 571
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 16 بابر بابری مسجد بابری مسجد کی شہادت میں حکومت کا کردار 435 107,962 890 بلوغت کو پہنچنے سے پہلے دنیا کے قانون سے انسان بھاگ سکتا 375 ہے مگر خدائی قانون سے نہیں بچے بغیر کوشش کے بیک وقت پانچ چھ زبا نہیں سیکھ سکتے ہیں 498 دنیا میں ہر جگہ اساتذہ کا بچوں سے کہنا کہ اب تم بالغ ہو اس کی شہادت پر بنگلہ دیش کے بعض اخباروں کا رد عمل 130 رہے ہو اس لئے اب تم مادر پدر آزاد ہو با بوالهی بخش بازیدخان امام باقر صاحب باقر شاہ محلہ پشاور بانڈی ڈھونڈاں بائییل 460,461 335 150 334 334 374 مغرب میں بچوں کیلئے مغربی آزادی کے تصور کا فتنہ 348 میں بچوں کی روحانی ہلاکت کا ایک عنصر بحار الانوار امام بخاری 347 149 181,816 حیح بخاری 47,182,177,183,188,206,227 445 441,526,577,578,620,626,659,670,737 761,835,876,971,987 بائیبل کی پیشگوئی کہ آئندہ آنے والا ایک ایسا نبی ہوگا جس کی وجہ سے آخرین میں ابراہیم کے نام پر سلام بھیجا جائے گا521 بائیبل کے مطابق سانپ کا آدم اور حوا کو ڈسنا بائیل میں تحریف بائیکاٹ 277 125 بخشش بخشش کے لئے ایک بے قرار دل کی ضرورت ہے 831 بخشش محبت سے پنپتی ہے اللہ کی بخشش کے حاصل کرنے کا طریق بائیکاٹ کی تعلیم کبھی آنحضرت نے نہیں دی ، ہاں غلطی خدا سے بخشش مانگنے کا طریق یا ناراضگی پر عارضی بائیکاٹ کا ذکر ملتا ہے با هوسلطان بچپن ابچے 146 936 بخشی بازارڈھا کہ بد دیانتی 977 626 632 126,130 اقتصادی نظام کی ناکامی سے بددیانتی کا معیار بلند ہوتا ہے 55 بچوں کو بچپن سے گھر میں نمازوں کی اہمیت احساس دلائیں 312 کوئی احمدی بددیانت نہیں ملتا وہ وقت اب نہیں رہا 379 346 بدصورتی بچوں کو نماز کا عادی بنانے کی تلقین کریں بچوں کی ناجائز پیدائش، انصار اللہ امریکہ کو دو تجاویز 355 بدصورتی اور حسن کا آپس میں تعلق بچہ کی فطرت پر پیدائش سے مراد 761 بدی 772,773 239 ہر بچے کے بنیادی حقوق برابر ہیں خواہ وہ جائز ہو یا نا جائز 354 بدیوں سے بچنے کا ایک طریق جر من احمدی عورت کے بچے کا واقعہ جس کا حضور کو روتے بدیوں سے چھٹکارے کی گہری تمنا کا پیدا ہونا بہت مشکل ہے 789 دیکھ کر آنسو صاف کرنے کے لئے ٹی وی کی طرف دوڑنا 2 36 دنیا کو روکیں اور خود بدیوں سے رکنے کی کوشش کریں 726 والدین کی اندھی محبت ، بعض بچوں کا برائیوں میں بھٹکنا 955 بدیوں سے دوری کا نام تبتل ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے بدیوں کے ساتھ ان کے نتائج کا تعلق امریکہ میں شادی سے قبل بچے پیدا کرنے کی خوفناک بیماری 353 بدیوں سے نفس کو روکنے کا ایک طریق بچیوں کے بدکنے کا علم انسان کو ہو جاتا ہے 354 359 784.792 100 719 برائی کو دور کرنا کافی نہیں اس سے بہتر چیز دینا ضروری ہے 714
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 زبان سے بدی کو روکنا نفس میں بعض بدیوں کے کرنے کے مخفی فیصلے نیکی کے بعد قرآن میں بدی کا ذکر آتا ہے 17 559 352 713 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی آپ نے فرمایا کہ اردوزبان اب کبھی نہیں مرے گی 502 ذکر الہی پر عالمانہ تقریر اس کی اشاعت کی تحریک 863,864 ہر بدی کسی نہ کسی صورت میں انسان کے اعمال میں نہیں تو سندھ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ایک شخص کے بزرگی اس کے دل میں پنپ رہی ہوتی ہے ہر بدی کے مقابل پر خوبی کو اپنا نا ضروری ہے بدین برائی 801 775 730,788 کے دعوئی پر آپ کا جلالی خطبہ دینا 544 گناہ کے معاملہ میں بے اختیاری کا علم آپ کو دیا گیا 442 حضور کا صحابہ کو دعاؤں استخارہ کیلئے لکھنا، حکمت 543 آپ کی اولاد کا آپ کے ہر چندہ کو بڑھا چڑھا کر دینا 93 برائی کو دور کرنا کافی نہیں بہتر چیز دینا ضروری ہے 250،714 آپ کے باون سالہ دور خلافت میں جماعت کی تربیت 864 880,881 برائیوں کے حوالہ سے انسانی نفسیات معاشرہ میں برائی دیکھنے پر اعتراض کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی 877 بغداد 718 بشیر رفیق صاحب بغداد پر رعونت کی آگ کا برسایا جانا آپ پر آپ کے مالک کے مظالم ایک وقت حضرت عمر کا انہیں سیدنا بلال کہنا معاشرہ میں برائیاں دور کرنے کا صحیح طریق امام کا کام ہے کہ برائیاں پیدا ہورہی ہوں ان کو رو کے 251 حضرت بلال بن رباح براہین احمدیہ برطانیہ برقع اتارنے والیوں کو نصیحت برما برہمن بڑیہ 672,674,692 94,1001 876 16,420 126 476 915 335 71 657 660 661 فتح مکہ کے وقت اعلان بلال کے جھنڈا امن کی علامت 662 بلھے شاہ بمبئی کی جماعت کی قربانی کا تذکرہ بنگال 936,942 104,758 138 941,962,963 بنگلہ دیش 6,16,179,331,420,805,823 بریڈ فورڈ بریلوی ، اس فرقہ میں ذکر کا طریق رض بزرگ صاحب کشف میں خدا تعالیٰ کی توحید کو سمجھنا بزرگ پرستی بزرگ پرستی سے نفرت الحاج بسیر وراجی صاحب بشارت صاحب ڈش ماسٹر ڈش انٹینا کے حوالہ سے ان کی مساعی کا ذکر بشری داؤ د حوری صاحبہ ان کی وفات پران کا ذکر خیر الحاج بشیر احمد او جوے حضرت میاں بشیر احمد صاحب 677 616 596 534 566 596 334,837 846,930,1000, 1005, 1008, 1015 جماعت کے صبر، استقامت اور بہادری کا ذکر 125,126 بنگلہ دیش کی جماعت کے لئے دعا کی تحریک ایک احمدی خاتون کا ابتلاء کے وقت پہلا رد عمل 962 127 پاکستان میں ناکامی کے بعد علماء کا بنگلہ دیش کا رخ کرنا 961 خدام کا انتہائی خطرناک حالات میں پھل حاصل کرنا 806 عوام کے مزاج کی ایک خاص شرافت یعنی عدل کا ذکر 129 اہل بنگال کو بتلاؤں پر خوشخبری بنوامیہ بنو عدی بنو غفار 129 658 659,660 659
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 18 بنومخزومي بنی اسرائیل 661,663 ان کا children of Israel ہونے پر فخر کرنا 760 فراعین مصر کے مظالم کا ان کی اخلاقیات پر برا اثر 388 بنی نوع بہار بہاولپور بہاو سر بھارت بیت التوحید لاہور 865,873 710 710,787 805 805 بنی نوع انسان کی بھلائی امت محمدیہ سے وابستہ ہے 238 بيت الفضل 1,19,39,59,79,99,117,137 بورکینا فاسو بوسنیا 599 42,95,100,580 141 713 157,177,195,215,235,253,271,291,303 323,343,363,425,445,513,531,549 569,589,607,627,645,665,685,709,729 747,767,787,805,823,843,863,883 903,921,941,961 بیعت کا ایک نیا تصور، جلسہ میں بیعت کے موقع پر ساری 5 703 724 426 بوسنیا کے ظالم شیطان کا رمضان میں بھی نہ جکڑے جانا 181 بوسنیا پر مظالم کی ویڈیوز کو تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو اپنے علاقائی ٹی وی چینلز پر دکھانے کی تحریک بوسنیا پر مظالم امریکن احمدیوں کے خطوط پر وہاں بڑے لوگوں کا تسلیم بیعت کرنا کہ بحیثیت قوم انہوں نے صحیح طرح توجہ نہیں دی بوسنیا کی تحریک پر جماعت کا والہانہ لبیک اور اعداد و شمار 177 دنیا کے احمدیوں کی از سرنو بیعت بوسنیا کی خدمت کے حوالہ سے یورپین جماعتوں کی تعریف 141 بیعت کے وقت غیر اللہ کی نفی بوسنیا کے لئے حضور کا چھ ہزار پاؤنڈ چندہ پیش کرنا 132 یه عالمی بیعت دراصل بڑے عالمی جلسے کی تیاری ہے 612 بوسنیا کے مسلمانوں پر مظالم کا ذکر جتنا بھی ہو کم ہے 140 پہلی عالمی بیعت سے قبل جرمن احمدیوں سے ایک ہزار بوسنیا کے مسلمانوں پر مظالم سے مغرب کی دلی تختی کا اظہار 391 یورپین باشندوں کے احمدی ہونے کا مطالبہ بوسنین مسلمانوں کا مجبوری میں بھی سؤر کھانے سے انکار کرنا 142 مدعوئین کا بیعت کرنا بوسنیا کے مہاجرین کی فہرستیں نام وار بنانے کی تلقین 147 حضرت مسیح موعود کا ایک صحابی کو اپنی نمائندگی میں بیعت بوسنیا میں مسلمان قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خطرہ لاحق 42 لینے کی اجازت دینا بوسنیا میں مسلمانوں کے درد ناک حالات اور ان کی مالی امداد 95 عالمی بیعت کا جماعت پر اثر بوسنیا پر ہونے والے مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنے کے عالمی بیعت کے بعد اگلے تین ماہ ترتیب کی طرف توجہ دینے لئے خلیفہ وقت کا جماعت کو دیا جانے والا لائحہ عمل 712 کی تلقین کے حوالہ سے رپورٹوں پر تبصرہ عصر حاضر کی تاریخ میں ان جیسی کوئی مظلوم قوم اور نہیں ہے 486 عالمی بیعت ،لاہور کے نوجوان کے جذبات کا ذکر 154 احمدی ریٹائرڈ فوجیوں کو پرائیویٹ ایسوسی ایشنز بنانے عالمی بیعت میں شمولیت کی نیت سے مختلف علاقوں کی تحریک جہاں بوسنیا کو ہتھیارمہیا کرنے کا پروگرام ہو 144 کے دوستوں کی یوکے کے جلسہ سالانہ میں شمولیت 570 عید کے موقع پر اسلام آباد یو کے میں بوسنین مسلمانوں کا عورتوں سے بیعت کے وقت آنحضرت معروف کا لفظ سب سے بڑا اجتماع ہوا اور کئی رشتہ داروں کا آپس میں ملنا 265 کہلوایا کرتے تھے بہادرشاہ ظفر بہادری لاعلمی سے سچی بہادری پیدا نہیں ہوتی 817 900 334 591 826 251 عہد بیعت خلافت پر عرفان کے ساتھ قائم رہنے کی تلقین 546 گزشتہ عالمی بیعت کے نتیجہ میں تبلیغ کا ایک نیا ولولہ پیدا ہونا 748 لدھیانہ میں بوقت بیعت سرحد کے بزرگ کا بیعت کرنا 334
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 بیگار کیمپ 19 پاکستان کے سخت حالات کے باوجود دعا کی تحریک کرنے ایک احمدی بچے کا اغوا ہونے کے بعد وہاں سے بھاگنا 9 پر احمدیوں کے بددعا کے سخت خطوط بچوں کو اغوا کر کے بیگار کیمپ لگانا بیلجئیم 9 338,725,853,883,1002 بیلجئیم کی جماعت اور اس کے امیر کی تعریف 884 بینن اس کا انتقام کا اعلان 596 730 50 596 596 596 689 700 32 9 پاکستان کے مولویوں سے لیا جانے والا اصل انتقام 404 پاکستان میں اجتماعات کی اجازت نہ ملنے پر حضور کی نصیحت 823 پاکستان میں اسلامی حکومت کا غلط تصور پاکستان میں بیگار کیمپ لگائے جانا پاکستان میں جلسہ، اجتماعات پر پابندی سے ساری دنیا پر فضل 824 علماء کا جماعت کی نسبت عوام میں نفرتیں بڑھانا 725,726 پاکستانی احمدی عرصے سے جانی قربانی پیش کر رہے ہیں 137 پاکستان میں اجتماعات نہ ہونے کی وجہ سے حضور کی پاکستان کے اجتماع کوٹیلیویژن کے ذریعہ عالمگیر بنانے کی تجویز 825 پاکستانی قوم کا مزاج منصفانہ ہے مگر وہ غیر منصف ہو چکے ہیں 890 احمدیوں کے مقدمات میں عدالت عالیہ کے مثبت روی کا ذکر 115 ڈش انٹینا کے متعلق پاکستانی احمدیوں کے چند خطوط کا تذکرہ 403 ذکری فرقہ کے ایک ممبر اسمبلی کا پاکستان میں جماعت کی پا باقی پا پاسی بی آئی سما کار یا دور بے احمد کمارا پاک باطنی / پاک دامنی پاک باطنی کا ذکر پاک دامنی کے لئے انسان کی جدو جہد تو حید کے لئے جدو جہد کا ہی دوسرا نام ہے 697 41,46,84,94,461,550,709 تائید میں پریس کانفرنس میں اعلان کرنا سینٹ پال 823,851,865,930,1000,1005,1008 پرتگال " پاکستان پاکستانی سیاست میں مذہب کا غلط استعمال پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نفرت کا پاکستان اور ہندوستان کے سیاستدانوں کا عوام کے جذبات سے کھیلنا اور اس کا بُرا اثر 914 540 1007 31 پرده 14 پردہ حالات کے مطابق ہوا کرتا ہے اور اس کی ایک روح ہے جس کی حفاظت ضروری ہے 28 پردہ کس طرح کیا جائے ، وضاحت 875 357 357 پاکستان کو اگر عدل نصیب ہو جائے تو وہ صف اول کی پردہ کی اصل روح قوموں میں غیر معمولی چپکنے والے قوم بن سکتی ہے 130 پردہ کے متعلق حضور کی اپنے دور خلافت میں بار بار نصیحت 874 پاکستانی جماعتوں میں حضور کے دورہ کے نتیجہ میں بیداری 158 پردہ میں بے احتیاطی کرنے والی بچیوں اور ان کے گھر والوں پاکستان کی حکومت کا احمدی مساجد کی شہادت پر کردار 891 کو سمجھانے میں حکمت کی ضرورت 338 پاکستان کی دیہاتی مجالس پر ٹیلیویژن کا اثر پاکستان کی عدالت عالیہ کا انصاف کا خون کرنا پاکستان کی وقف جدید میں پہلی پوزیشن 119 700 1001 اسلام میں پردہ کی تعلیم 245 اسلامی پردہ کی روح سے قدم باہر نہیں نکلنا چاہئے 929 جلسہ میں بے پردہ خواتین کونصیحت کا طریق 560 پاکستان کے احمدیوں کو رزق حلال کے لئے جہاد کی تحریک 378 پردہ ، جن ممالک سے پردے اٹھ رہے ہیں وہاں پر دہ پاکستانی احمدیوں کا صبر mta کی صورت میں ظاہر ہوا 151 کی روح کو قائم کرنا ضروری ہے پاکستان کے بچنے کی صرف ایک صورت 930 381 شادی بیاہ کے موقع پر پردہ میں بہت زیادہ بے احتیاطیاں 877
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 20 پرنس لوئی فلپ پنجاب پنجاب کے دماغ بہت اچھے ہیں پنجاب (ہندوستان) شادی کے موقع پر بچیوں کے لئے حضور کو دعا کے لئے قرآن میں آخرین کے اولین سے ملائے جانے کی پیشگوئی 990 احمدیوں کو بلانا اور حضور کا پردہ کے حوالہ سے طرز عمل 928 سورۃ فتح میں نہ صرف اولین کی فتح کی پیشگوئی کا ذکر ہے گھر کے نوکروں سے پردہ میں نرمی ، قرآن کی تعلیم 879 479 334,788 331,332,509,807 130 397 بلکہ آخرین کی فتح کا بھی ذکر ہے مسیح موعود کی جماعت کے صبر کے امتحانوں میں ڈالے جانے اور اس کے نتیجہ میں خدائی برکتوں کے حصول کی پیشگوئی 151 ٹیلیویژن کی بابت پرانی پیشگوئیوں کا تذکرہ 149 ٹیلیویژن کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی 152 806 پیغام جماعت کا خلیفہ وقت سے پیغام مانگنا ، اس کے تقاضے 489 ہر چیز کو جوڑے پیدا کرنے میں حکمت پید رو آباد پیر پگاڑ ا صاحب پیرس 731 324 66 755 پیغام ح تا تارستان 36,43 56 تاریخ انبیاء کا تاریخ بنانا پیشگوئی تاریخ عالم میں سبق 479 777 334 اسلام کی ابتر حالت اور تنزل کے متعلق آنحضرت کی پیشگوئی 581 جو تاریخ آسمان سے اترتی ہے اسکو محبت سے یاد کیا جاتا ہے 480 بائیل کی پیشگوئی کہ آئندہ آنے والا ایک ایسا نبی ہوگا جس کی سرحد میں احمدیت کی تاریخ وجہ سے آخرین میں ابراہیم کے نام پر سلام بھیجا جائے گا 521 عصر حاضر کی تاریخ نہیں بوسنیا جیسی کوئی مظلوم قوم اور نہیں ہے 486 جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ جب دو ملکوں میں بیٹھنے عیسی کے بعد 34 سال تک کسی مؤرخ نے عیسائیت کا والے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے 18 تامل ناڈو جلسہ سالانہ کی بنیاد کے وقت اس کے پھیلنے کی پیشگوئی 549 تبتل الی اللہ جماعت کی تدریجی ترقی مسیح موعود کی پیشگوئی 446,514 تنبتل الی اللہ سے مراد، اس کی حقیقت 823 730 778,792,838 746 821 حدیث کی پیشگوئی کا پورا ہونا کہ آج پہلی مرتبہ غیر معمولی تبتل الی اللہ سے مراد اوقات کے علاقوں میں با قاعدہ پانچ وقت کی نمازیں ایک جگہ تبتل الی اللہ کا ایک طریق ، کائنات پر غور با جماعت اور جمعہ اس طرح باجماعت ادا کیا گیا ہوگا 474 تبتل سب سے پہلے نیتوں سے شروع ہوتا ہے حضرت ابراہیم کی آنحضرت کے ظہور کے متعلق پیشگوئی 722 تبتل سے قبل نفس کے تبتل کا ہونا بہت ضروری ہے 791 حضرت مسیح موعود کی بد عملی اور برے کاموں سے باز نہ تبتل کو آسان بنانے والے معاملات اور تبتل کی علامتیں 783 آنے پر سخت بلاؤں کے آنے کی پیشگوئی خلافت راشدہ کے انقطاع کی درد ناک خبر 36 650 تقبل کی دو انتہاؤں کا قرآن کریم کی ایک آیت میں ذکر 740 تبتل کی طاقت اللہ کی مدد کے بغیر کسی کو بھی مل نہیں سکتی 831 چوبیس گھنٹے سے طویل دنوں کی پیشگوئی صرف اسلام میں ہے 472 تبتل کے مضمون کا ایک حدیث میں ہجرت کے رنگ میں ذکر 835 سورہ جمعہ میں بیان خوشخبریوں کا مظہر جماعت احمد یہ ہے 576 تبتل ہرایسی چیز سے ضروری ہے جس کے ساتھ ذکر اللہ قادیان کے جلسہ میں حاضرین کی تعداد دس ہزار ہونے پر اکٹھارہ ہی نہیں سکتا دس ہزار قد دسیوں کی پیشگوئی کا ذکر 995 880 سوال کا جواب کہ انسان اس دنیا کے آرام، نعمتوں ، لذتوں
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 سے کلیۂ کنارہ کش ہو کر فقیر کا کمبل اوڑھ لے 21 838 830 ہندوستان کی جماعت کا یوم تبلیغ منا نا اور انہیں نصائح 888 723 توبوا الى الله قبل ان تموتوا میں تجل کا مضمون 811 یورپ کے احمدیوں کو تبلیغ میں تیزی کی تلقین تو حید تبتل کے بعد جلوہ گر ہوتی ہے خدمت کو تبلیغ کا ذریعہ بنانے کی خاطر اختیار کر ناظلم ہے 145 توحید کے پہلے اور تجل کے بعد میں ہونے میں حکمت 762 نیکی کی تبلیغ کرتے ہوئے مرنے والا شہید ہے خواتین میں بعض بدیوں کے حوالہ سے تقتل کا مضمون 873 تثلیث دنیا کے دھکوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا تنبتل لازمی نہیں تثلیث کا عقیدہ قانون قدرت سے کھلم کھل اٹکراؤ رکھتا ہے 694 792 تجارت 37 خدا کی طرف لے جائے دین کے نقصان پر ذاتی نقصان کو اہمیت نہ دینا تقتل ہے 800 احمدی تاجروں کو روسی ریاستوں میں تجارت کرنے کی تحریک 56 کشتی نوح کی تعلیم اور تجہل کے مضمون کا تعلق موت کے بغیر زندگی نہیں ملتی ، یہی تبتل ہے 793 829 تجارت جس کے نتیجہ میں عذاب الیم سے نجات ملے 99 نماز جمعہ کے بعد تجارت کی اجازت فضل کا حصول 395 یوسف کا قصہ تبتل کے مضمون میں ایک عظیم الشان قصہ ہے 793 کوئی تجارت انسان کو ذکر الہی سے غافل کرنے والی نہ ہو 840 آنحضرت کا تتبل کے حوالہ سے اسوہ 816 تحریک جدید تبلیغ تبلیغ اور تربیت کے چار بنیادی ستون تبلیغ کا ایک بہت گہرا نکتہ 572 452 17 تحریک جدید کی اہمیت 848 تحریک جدید میں چھوٹے بچوں کو انصار اللہ کے سپرد کرنے کی بجائے ماؤں کے سپر د کیا جا ئیں وکیل المال اول کو توجہ دلا نا865 تحریک جدید کے مختلف دفاتر کو خلفاء کی طرف سے تبلیغ کا حق ہر مذہب کو ہے صرف مسلمانوں کو نہیں تبلیغ کی خاطر خدمت کرنے کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں 146 مختلف تنظیموں کے سپر دفرمایا جانا 844 تبلیغ کی کامیابی کے بعد بہت سے کرنے والے کام 321 تحریک جدید کے آغاز پر چند ممالک کے چندوں کا ساری دنیا میں خرچ کیا جانا تبلیغ کی آزادی ہر مذہب کے ماننے والے کے لئے ہو 33 تبلیغ کے لئے انبیاء نے ہمیشہ محبت سے پیغام دیا ہے 34 تبلیغ کے نتیجہ میں فساد کی وجوہات تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ تو تکلیف پہنچنی ہے اختلاف رائے کو کھنگالنے کا نام تبلیغ ہے مبلغین کی قربانیاں اصل تبلیغ ہیں افریقہ کے مبلغین اور مجاہدین کے اخلاص کا ذکر 34 891 17 595 1000 تحریک جدید کے آغاز کے وقت کئے جانے والے مطالبات 855 نو مبائعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری انصار اللہ کے سپر د حضرت خلیفہ ثالث نے فرمائی تھی 844 نومبائعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری ان تنظیموں کی ہوگی جن کے ذریعہ بیعت ہوتی ہے 845 594 تحریک تحریکات 723 687 تحریک کے وقت جماعت کا مومنانہ شان سے لبیک کہنا 84 3 افریقہ میں تبلیغ میں بہت تیزی بنگلہ دیش میں خدام کا خطرناک حالات میں پھل حاصل کرنا 806 احمد می تاجروں کو روسی ریاستوں میں تجارت کرنے کی تحریک 56 اس سال کو انسانی بہبود کا سال بنانے کی تحریک توحید قائم کرنے کے لئے تبلیغ ضروری ہے اس سال کو انسانیت کا سال بنا ئیں جرمنی کی مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک لاکھ بیعتوں کا وعدہ 770 جماعتوں کے پھلوں کی تعداد کو دو گنا کرنے کے ارادے 749 افریقہ انڈیافنڈ کی تحریک کا ذکر سعید روحوں کو تبلیغ کا ابراہیم کے طریق میں نمونہ 722,723 انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے آبا ؤ اجداد کے نام اپنی گزشتہ عالمی بیعت کے نتیجہ میں تبلیغ کا ایک نیا واولہ پیدا ہونا748 محبت کا تحفہ بھیجنے کے حوالہ سے چندہ کے نظام سے فائدہ اٹھائیں 93 26 91
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 انسانیت کا پیغام دینے کے لئے احمدیوں کو تحریک 11 22 قرآن کریم میں تربیت کا طریق پاکستان کے احمدیوں کو رزق حلال کے لئے جہاد کی تحریک 378 مُردہ دلوں کو زندہ کرنے کا ایک راز 827 331 پیشوایان مذاہب کے جلسوں کے انعقاد کی تحریک بہت مفید ہے 12 نفس کے اندر مربی پیدا ہو جائے تو اس کی کوئی مثال نہیں 722 جماعت کو روس کے معاملات میں حصہ لینے کی تحریک 55 ہر تربیتی موقع پر سب سے اہم نصیحت نماز کی حفاظت ہے 304 707 خدمت بنی نوع انسان کی تحریک اور اس کا طریق سارے عالم اسلام پر مظالم کے حوالہ سے جماعت کو تحریک 42 ترجمہ عربی ، اردو اور مقامی زبان کو اہمیت دینے کی تحریک 502,510 ترجمہ کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے غریب بچیوں کی شادی کروانے کو رواج دینے کی تحریک 269 ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے ٹیلیویژن کے ذریعہ خطبات سننے پر تربیت میں بہتری 21 مستقل اور عارضی مالی تحریکات کا ذکر 83 | ترکی احمدی ریٹائرڈ فوجیوں کو پرائیویٹ ایسوسی ایشنز بنانے کی تحریک جہاں بوسنیا کو ہتھیارمہیا کرنے کا پروگرام ہو 144 بوسنیا پر مظالم کی ویڈیوز کو تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو اپنے علاقائی ٹی وی چینلز پر دکھانے کی تحریک 141 ترندی تزکیہ 508 505 44 189,219,697,816,944,952 953,987,988 تزکیہ اور ایمان کا تعلق یورپ کی احمدی جماعتوں کو بوسنیا کے حوالہ سے مواخات تزکیہ کی حقیقت 571 571,574 کا نظام قائم کرنے کی تحریک تذکرہ تذكرة الائمه 143 62,394,456,460,463,628 542 تذلل خدا سے خاص تذلیل کرنے سے مراد 675 تربیت تربیت کرنے کا طریق تسبیح اور استغفار کا ذکر الہی سے تعلق شیخ کے حوالہ سے آنحضرت کی کیفیت سبحان اللہ کا مطلب تصوف 922 966 971 صوفیاء کا مقولہ ہے کہ موتوا قبل ان تموتوا 789,810 408 تصویر / مصور تربیت کے حوالہ سے جماعت کو نصائح کہ ایک صدی کے امریکہ میں تصویروں کی بہت اعلیٰ نقلیں اتارنے والے 326 س پر مقدمہ بعد دوسری صدی کے سر پر کھڑے ہیں تربیت کے لئے نصیحت میں اثر پیدا کرنے والے عوامل 330 ایک اچھے آرٹسٹ کی تصویر دیکھ کر اس آرٹسٹ کی تربیت کے محتاج لوگوں کو لمبی تقریریں پڑھنے کی بجائے صلاحیتوں قدروں اور اس کے دینی حسن کا تصور ابھرتا ہے ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں بھجوائیں تربیت میں ڈنڈ انہیں چلا کرتا تبلیغ اور تربیت کے چار بنیادی ستون 415 874 572 پہلے تین مہینے نئے آنے والوں کی تربیت پر زور دیں 20 دنیا کامر بی بننے کے لئے ضروری امور 765 752 761 ایک مصور کا چھت پر تصویر بنانا جو دنیا کے عظیم شاہکاروں میں 752,753 سے ہے مگر اس مصور کا خود کشی کرنا مصور کی چھاپ کا اظہار اس کی کی تصویر میں ہوتا ہے 751 تعصب کی دیواروں کو توڑنے کا نسخہ تعصب سب سے اچھی تربیت اسوہ رسول سے ہوتی ہے 976 تفسیر ابن کثیر تربیت عورتوں کا قوم کی تربیت میں بہت گہرا دخل ہے 877 تفسیر برہان 13 528 542
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 تفسیر کبیر از رازی اللہ تعالیٰ کے لیس کمثله شیء سے مراد اللہ کی تسبیح میں ایک مضمون اور سبحان اللہ میں دوسرا مضمون ہے اللہ کے دو معانی اولوالالباب سے کون لوگ مراد ہیں حبل اللہ سے مراد 23 531 751 احمدیت تمام عالم میں تقویٰ کی امین بنادی گئی ہے 584 امیر اور جماعت کے متقی ہونے سے جماعتوں کا ثمر دار ہونا 884 جماعت کے تقویٰ کا خلیفہ وقت کی ذات سے گہرا تعلق ہے254 حکمت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے، باقی سب حکمتیں جھوٹی ہیں 586 قرآن سے ہدایت پانے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے 932 774 732 930 67 لباس التقویٰ کی اہمیت متقیوں کے امام بننے کے لئے قرآنی دعا آزمائش کے مقابل پر ثابت قدم رہنا تقویٰ کا تقاضا ہے 286 تقوی کی روشنی عدل کے بغیر نصیب نہیں ہوا کرتی 130 625 254 حضرت یوسف کے قصہ کے احسن القصص ہونے سے مراد 808 خلق الانسان میں آنحضرت مراد ہیں رب السجن احب التی کی تفسیر صبغة الله.سے مراد طوبی کا مطلب فحشاء اور فقر کا تعلق فطرت اللہ سے مراد 666 790 757 892 856 751 جماعت احمد یہ متکبرین کی جماعت نہیں ہے 557 ہر مخلوق میں خدا نے ایسے اعلیٰ اخلاق رکھ دیئے ہیں جو انسان کو متکبر نہیں ہونے دیتے 432 بلند آواز سے تکبیر کرنا منع نہیں ہے 949 غزوہ احزاب ، نعرہ تکبیر کے نتیجہ میں احزاب کا بھا گنا 949 كدحًا سے مراد 739 | تلوار مُردوں سے زندہ نکلنے کے کئی مطالب ہیں 776 تلوار کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا 31 وہ اسماء کیا ہیں جو آدم نے سیکھے 995 تمثیل وهو يطعم ولا يطعم سے مراد 742 تو رات اور انجیل میں مذکور دو تمثیلات جن کا قرآن ويعلمهم الكتاب میں فرائض اور نواہی مراد ہیں 570,571 نے ذکر کیا ہے ان کا اولین و آخرین سے تعلق ہے 385 آنحضرت کے اول المسلمین ہونے سے مراد تقدير 743 تنزانیہ تنظر 730,854 ایک کی غلطی سے قوم کو سزا ملتی ہے ، ایک ڈرائیورا سیکسیڈنٹ بچوں کی ناجائز پیدائش ، انصار الله امریکہ کو دو تجاویز 355 کرتا ہے مگر ساری بس کے لوگ مارے جاتے ہیں 619 جرمنی کی مجلس خدام الاحمدیہ کا بوسنین لوگوں کے حوالہ جن کا ایک ہی بچہ ہو اور وہ مر جائے تو شرک کی طرف مائل اور توحید پر قائم ماؤں کا رد عمل تقویٰ تقومی اللہ کا فضل ہی ہے تقویٰ کا نظام خلافت اور نظام شوری سے تعلق تقوی کی حقیقت 725 584 260 257 تقویٰ کی علامت کہ چہرے منور رہتے ہیں 584,585 426 سے پروگرام بنانا اور توقع سے زیادہ بوسنیز کا آنا جہاں جماعت کا اجتماعی منصوبہ چل رہا ہو وہاں ذیلی تنظیموں کو الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کوئی حق نہیں رہتا 749 ذیلی تنظیمیں تربیت میں جماعت کا ہاتھ بٹائیں تلقین 827 ذیلی تنظیموں کو مستحکم کرنے کی بہت ضرورت ہے خشک نصیحت بریکار چیز ہے تنظیموں کو نصیحت 272 315
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 24 نو مبائعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری تو حید کے کمال کے لئے تین ضروری چیزیں تنظیموں کی ہوگی تنقید غلط تنقید کی مثال 845 557 676 توحید کے مضمون میں حضرت ابراہیم اور آنحضرت کا مقام 518 توحید کے نتیجہ میں خدا کی محبت کا کمال درجہ تک پہنچنا 697 تو حید کے نتیجہ میں دورنگی کا ختم ہونا تو حید کے نتیجہ میں کمال تو کل کا پیدا ہونا 688 671,672 توبوا الى الله قبل ان تموتوا میں تبتل کا مضمون 811 توحید میں خدا کی اولیت اور اس کے آخر ہونے کا مضمون 519 توحید تو حید اور تل کا تعلق توحید پر زور دینے والے مختلف فرقوں کا ذکر 731,734 638 605 توحید میں ساری کائنات کی نفی 834 تو حید آج بجز امت محمدیہ کے اور کسی فرقہ میں نہیں ہے 672 توحید کا ایک خاص نشان یہ ہے کہ وہ سینہ میں بند نہ رہے ہی بند ندر ہے بلکہ اپنے ماحول کومؤ حد بنانے لگے احادیث کی رو سے توحید کے مضمون کا بیان 692 525 توحید پر قیام سے خدا کا غیر معمولی رحمت کا سلوک 655 تو حید خالص جس کی حفاظت ہمیشہ کرنی چاہئے توحید خالص کے ذریعہ نفس کے بار یک دھوکوں سے بچنا 637 احمدیت کے ذریعہ مغرب میں تو حید کو فتح نصیب ہوگی 682 تو حید رفعتوں کا دوسرا نام ہے توحید سے تین چشموں کا پھوٹنا توحید سے عدل کا پھوٹنا تو حید قائم کرنے کے لئے تبلیغ ضروری ہے توحید کا تبلیغ سے تعلق توحید کا رسالت کی محبت سے گہرا تعلق 638 653 653 687 515 537 اس زمانہ میں احمدیت نے توحید کی خاطر جتنی قربانیاں دکھائی ہیں ان کی مثال کہیں اور نہیں 642 صحابہ پر توحید کی خاطر ہونے والے مظالم کا تذکرہ 658 اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عالمگیر وحدت کی صورت میں ظہور 590 اللہ کی مکانیت اور زمانیت کے لحاظ سے توحید کا اقرار 704 انسانی معاملات سے توحید کا گہرا تعلق 523 توحید کا صرف اقرار کافی نہیں عمل بھی ضروری ہے 517 جتنا بڑا مو حد ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی زندگی میں اس کے موحد جماعت کے لئے مسیح موعود کے الہام میں خوشخبری 629 تائید میں اللہ کے نشان ظاہر ہوں گے تو حید کو دنیا میں قائم کرنا عظیم پہلوانی کا تقاضا کرتا ہے، 696 حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں توحید کی اہمیت 672 توحید کی حقیقی علامتیں آنحضرت پر جلوہ گر ہوئیں توحید کی راہ میں آنحضرت کا دکھ اٹھانا توحید کے بغیر قیام عدل ممکن نہیں 593 641 686 ایک صحابی کا کشف، خدا کی تو حید کو سمجھنا 704 677 قانون قدرت ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے 688 خلافت کا توحید سے تعلق توحید کے بیان کے حوالہ سے مذہب اسلام کے دو دلائل خلافت کے ساتھ تو حید نصیب ہوگی 543 652,653 جن سے اسلام کی برتری دیگر مذاہب پر ثابت ہوتی ہے 693 دنیا بھر میں جلسہ سالانہ کا انتشار توحید کا ایک کرشمہ ہے 590 توحید کے ذکر میں اللہ کا حضرت ابراہیم کے نام کوزندہ رکھنا 521 سب خلفاء توحید کے محافظ ہیں 546 682 توحید کے ساتھ الرحمن اور الرحیم کا تعلق توحید کے ساتھ ربوبیت اور الوہیت کا تعلق توحید کے ساتھ رحمانیت اور رحیمیت کا تعلق توحید کے سوا ہر چیز غلامی ہے توحید اور وہ محبت جو شرک نہیں قرار دی جاسکتی 666 678 656 529 537 مغرب سے توحید کا سورج ضرور طلوع ہو گا عیسائیت کا توحید کا دعوی لیکن عملاً تو حید زمانی سے انکار کرنا694 غلاموں کو تو حید کے ذریعہ عزت ملنا 661 قیامت تک ہدایت پر قائم رہنے کا راز توحید میں ہے 629 موحد بندوں کی علامات 692,693
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 25 آنحضرت کے توحید سے متعلق خطابات کا صحابہ پر اثر 620 ٹوپی آنحضرت میں توحید کے ساتھ کامل وابستگی کے نشانات 618 ٹوپی کا مقصد ، اس کا ادب سے تعلق اور اس کی اہمیت 251 توحید پر سب سے زیادہ زور اسلام نے دیا ہے تورات توکل توکل کی حقیقت 517 385.384 602,603 مغرب میں بعض دفعہ سوال ہوتے ہیں کہ ٹوپی پہننا کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب 252 335 تو کل کے نتیجہ میں غلط فیصلہ کو اللہ درست فرمادے گا 869 ذکر کے سلسلہ میں بعض احادیث کو ٹو کے نہیں بنانا چاہئے 917 ایک مشرک کا آپ پر تلوار سونتا اور آنحضرت کا کمال تو کل 675 ٹورانٹو توحید کے نتیجہ میں کمال تو کل کا پیدا ہونا غار ثور میں آنحضور کا کمال تو کل کا اظہار تو مے طاہر احمد 671,672 669 598 ٹولی بین ٹھوکر تہجد کا معروف اور مستحب وقت 953 کسی غیر کے کردار سے ٹھو کر کھانا ایک گناہ ہے نماز تہجد پر پہنچنے کیلئے پانچ فرض نمازوں کا پڑھنا ضروری ہے 211 ٹیکس تہجد کی نماز میں مقام محمود کیلئے دعائیں کریں تہجد میں نبوت سے دوری کے نتیجہ میں کمی 201 953 613,628 853 71 561 729,980 جہاں ٹیکسیشن کی روح آئی وہاں سارا مالی نظام درہم برہم ہو جائے گا ایک رمضان کو دوسرے رمضان کے ساتھ تہجد سے ملائیں 208 ٹیلی ویژن / ایم ٹی اے تهران تہمت 149 ٹیلی ویژن کے ذریعہ جماعت کا پھیلاؤ 95 4 خلیفہ وقت کو براہ راست دیکھنے اور سننے کا دلوں پر اثر 21 ہر تہمت کے پیچھے احساس کمتری ضروری ہوتا ہے 804 ٹیلیویژن پر نماز دکھانے سے ہماری عبادت کے متعلق ہر تہمت اپنی بدی کو چھپانے یا اس بدی کا جواز ڈھونے کے غیروں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی نتیجہ میں لگاتا ہے تھائی لینڈ تھر پارکر 803 853 9,709,1003 mta کا تربیت پراثر mta پاکستان کے احمدیوں کے صبر کا پھل ہے mta کا غیر احمد یوں پر اثر 292 310 151 24 تھیچر (انگلستان کی وزیر اعظم ) اس کا آخری دور میں نعرہ کہ ہمیں گھروں کو بچانا ہے 245 تیل تیل کے خزانوں سے انسان کی لاعلمی مگر انجن کے ایجاد ہونے پر اس کا دریافت ہونا ٹرینیڈاڈ ٹوباگو ٹو بہ ٹیک سنگھ 635 806 709 mta کا یہ کام اب رکنے والا نہیں، انشاء اللہ یہ پھیلے گا 161 mta کی بابت پرانی پیشگوئیوں کا تذکرہ mta کی برکت سے خلیفہ وقت اور جماعت کی دو طرفہ محبت میں اضافہ 149 142 mta کی وجہ سے جمعہ کے دن کا اور زیادہ پیارا لگنا 39 mta ،خلیفہ وقت اور جماعت کے آپس میں ملاقات اور محبت کا جماعت کے خطوط کی روشنی میں ذکر 153 تا 155 mta سے نئی نسلوں میں حیرت انگیز انقلاب کا پیدا ہونا 60
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 26 mta کی وجہ سے خلافت کا جماعت سے رابطہ زیادہ تر ہو جانور سکے گا اور پھر یہ رابطہ دوطرفہ ہو جائے گا 90 362 جرم جانورں کی زبان کے متعلق سائنسدانوں کی تحقیق 494 جانوروں کی عادتیں بھی کلچر کیسا تھ بدل جاتی ہیں 410 mta کے ذریعہ خطبات کی برکت mta کے سلسلہ میں جرمنی کی جماعت کی قربانی کا تذکرہ 405 جانوروں میں آپس کے تعلقات کے بار یک قوانین ہیں 248 ٹیلیویژن کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی 152 mta کے مختلف پروگراموں کے متعلق لائحہ عمل کا تذکرہ کہ اللہ کی طرف واپسی ہی جرائم سے روک سکتی ہے 378 وہ کس طرح دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں گے 1008 ساری دنیا میں جرم اور بے اطمینانی کے بڑھنے کی ایک وجہ 376 احمدیت کی تاریخ کا مبارک جمعہ جس میں جماعت کو جرمنی تیسر اسیٹیلائٹ سٹیشن ملا 158 461 402 51,94,324,492,685,725 851,875,1001 964 ایک نشان کہ تمام عالم کی جماعت کو ایک جمعہ کے ایک ہاتھ جرمنی جماعت کا نومبائعین کی تربیت کیلئے پروگرام بنانا پر اکٹھا ہونے کی توفیق بخشی جرمنی جماعت کا یورپ میں تبلیغ میں سبقت لے جانا 980 جرمنی کی جماعت پر mta کے اثرات جرمنی جماعت کا ملاقاتوں میں mta کے اثر کا بتانا 402 نئے علاقوں میں جماعت کے پروگراموں کی طلب 1007 جرمنی کی مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک لاکھ بیعتوں کا وعدہ 770 جماعتوں کو اپنی ملکی او علاقائی سطح پر پروگرام بنانے کی تلقین 1007 جرمنی کی مجلس خدام الاحمدیہ کا بہت تیزی سے آگے بڑھنا 770 حضور کا احباب کو مستقل ٹیلیویژن دیکھنے کا کہنا جرمنی کے خدام کا اپنے اجتماع کو ساری دنیا کا اجتماع بنانا 825 دنیا کے سامنے ایک نئی مثبت طرز کے ٹیلیویژن کا آغاز 1011 جرمنی کے صدر خدام الاحمدیہ کی تعریف ہفتہ میں ایک گھنٹہ کی بجائے ہفتہ میں ساتوں دن بارہ گھنٹے روزانہ پروگرام چلنے کا اعلان مختلف زبانوں میں پروگراموں کا اجراء ثابت قدمی 23 1006 161 جزا 436 جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا چودھواں سالانہ اجتماع 401 ٹیلیویژن کے سلسلہ میں جرمنی کی جماعت کی قربانی کا تذکرہ 405 مجلس خدام الاحمدیہ کا بوسنینز کے لئے پروگرام بنانا 426 آزمائش کے مقابل پر ثابت قدم رہنا تقویٰ کا تقاضا ہے 286 جزا کی حقیقت ثقافت جماعت میں کثرت سے مشاہدہ کہ بعض دفعہ ادھر سے نیکی ثقافت کے نام پر لوگوں کا نہایت بیہودہ حرکتیں کرنا 438 کی اور اُدھر سے جز امل گئی 102 102 شاء جام غارتور جابر بن عبد الله جاپان 598 682-672-669 جزائر جسوال صاحب 944,953,954 | جسوال برادران 51,52,94,140,394,420,729 | امام جعفر صادق صاحب 730,748,852,853,1001,1002,1006 | جلسه 560 434 533 149,150 جاپانی قوم کی تہذیب میں حیرت انگیز نرمی کا ہونا مگر خدا جلسہ پر آنے والوں کو انتظامی کمزوریوں پر محبت اور بخشش سے دوری جامعہ احمد یہ ربوہ جامعہ احمدیہ قادیان 392 1009 497 کی نظر ڈالنے کی تلقین جلسہ سالانہ کا احمدیوں کے دلوں پر اثر 556 344 جلسہ سالانہ کی بنیاد کے وقت اس کے پھیلنے کی پیشگوئی 549
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 27 جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے والوں کی کیفیت کا اظہار 552,553 غیر معمولی تاریخی جمعہ جو آنحضرت پیشگوئی کی یاد دلاتا ہے 471 جلسہ سالانہ یو کے کا بہت گہرا اثر 612 ایک نشان کہ تمام عالم کی جماعت کو ایک جمعہ کے ایک ہاتھ 461 جلسہ سالانہ یوکے کے حوالہ سے امیر صاحب کینیڈا کا خط 613 پر اکٹھا ہونے کی توفیق بخشی جلسہ سالانہ یو کے کے سلسلہ میں منتظمین کو نصائح وہدایات 552 تین جمعے نہ پڑھ سکنے والوں میں سے بعض کا ملازمتوں سے جلسہ کے ایام میں فرائض سے بڑھ کر احسان کے میدان استعفے دینا اور خدا کا ان پر فضل کرنا 561 220 حدیث کی رو سے تین جمعے چھوڑنے والا کافر ہو جاتا ہے 219 میں داخل ہونے کی تلقین امریکہ کے ایک شخص کہنا کہ اب اتنے جلسے ہوں گے کہ خلیفہ حدیث کی پیشگوئی کا پورا ہونا غیر معمولی اوقات کے علاقوں میں پانچ وقت کی نمازیں ایک جگہ باجماعت اور جمعہ 474 وقت لنڈن سے ہی اس میں شامل ہوں گے انسانیت کے نام پر ہمیں جلسے کرنے چاہئیں 4 12 39 mta کی وجہ سے جمعہ کے دن کا اور زیادہ پیارا لگنا سال 93ء کا جمعہ کے روز شروع ہونا اور اسی روز ختم ہونا 999 پاکستان میں جلسہ پر پابندی سے ساری دنیا پر فضل 824 جمعۃ الوداع پیشوایان مذاہب کے جلسوں کی تحریک بہت مفید ہے 12 دنیا بھر میں جلسہ سالانہ کا انتشار توحید کا ایک کرشمہ ہے 590 جمعۃ الوداع سے دو طرح کے انسانوں کا تعلق جمعۃ الوداع کی بجائے جمعہ الاستقبال بنا دیں جلسے اور اجتماعات ایسا مرکزی نقطہ بنتے جارہے ہیں جو خلیفہ جمعتہ الوداع کے حوالہ سے دو قسم کا وداع 219 218 215 وقت کی ذات میں منعکس ہو کر مرکز بن جاتا ہے قادیان کے جلسہ سالانہ پر شاملین جلسہ کو نصائح 590 981 ایک جمعۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت کی نصیحت 219 اس حدیث کی وضاحت کہ یہ جمعۃ الوداع کی بجائے قادیان کے جلسہ سالانہ پر فرشتوں کے نزول کی دعا 998 حجۃ الوداع کے موقع کی ہے قادیان کے جلسہ میں حاضرین کی تعداد دس ہزار ہونے پر جنت دس ہزار قد وسیوں کی پیشگوئی کا ذکر قادیان کے عالمگیر جلسہ کا جماعت اور غیروں پر اثر 995 3 جنت کے متعلق مولویوں کا غلط تصور جنت میں روزہ دار کے لئے ایک الگ دروازہ 241 759 188 میری تقریروں کے علاوہ علماء کی تقاریر کو بھی غور سے سنیں 587 اس سوال کا جواب کہ جنت تو ایک ہی ہے پھر دروازے ہر اجتماع یا جلسہ کے وقت خلیفہ وقت کی ایک مستقل ذمہ داری،احباب سے ملاقاتیں 427 الگ الگ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ایک صحابی کا جنت میں آپ کا ساتھ طلب کرنا یو کے جماعت کے جلسہ سالانہ کی خلیفہ وقت کی وجہ سے ذکر کی مجالس جنت کے باغات ہیں مرکزی جلسہ کی حیثیت جمدان ( پہاڑ ) جمعه جمعہ اور احمدیت کا تعلق جمعہ کا خاص تعلق جماعت احمدیہ سے 549 986 474 401 ہمیشگی کی جنتیں جنگ 188 992 954 324 جنگ احد کے دوران آنحضرت کی اللہ کے لئے غیرت 619,630 جنگ احزاب نعرہ تکبیر کے نتیجہ میں احزاب کا بھاگنا 949 امریکہ کی پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے بڑی جنگ کی تیاری 74 جمعہ کے بعد تجارت کی اجازت اور فضل کا ذکر 395 جنوبی افریقہ تاریخ کا مبارک جمعہ جماعت کو تیسر سیٹلائٹ سٹیشن ملا 158 جنوبی امریکہ 1006 390
اشاریہ خطبات طاہرجلد 12 جنوبی ہندوستان جنید بغدادی جہاد جہاد اور حق کا باہم ملاپ جہاد سے عسر اور میسر کا تعلق 646 915 113 170 28 چندہ دینے والے کے لئے سب سے بڑی جزا چندہ کی تحریک کرنے والے کو بھی جز املتی ہے حضور اپنا ذاتی چندہ کا ذکر کرتے تو متمول لوگ بھی اپنا 858 862 چندہ بڑھاتے ، جب ذکر چھوڑ دیا تو اس طبقہ میں کمزوری آنا 131 کھلم کھلا اور مخفی چندہ دینے کی تعلیم جہاد کے دوران آنحضرت کی اللہ کے لئے غیرت 619,630 نو مبائعین کو چندہ میں شامل کرنے کی نصیحت غز و وہ احد، چند صحابہ کا دورہ چھوڑنا 619 617 859 847 والد کے نام پر چندہ دینے پر خواب میں والد کا خوشی سے ملنا 94 چندہ میں اصول یہ ہے کہ حسب توفیق جو ہے دیں اللہ کی خاطر جہاد سے مراد چنگیز خان انسانی قدروں کے لئے ایک عالمی جہاد کی ضرورت ہے 10 پاکستان کے احمدیوں کو رزق حلال کے لئے جہاد کی تحریک 378 ظلم کے خلاف جہاد کی اسلامی تعلیم جہلم اس جماعت کا اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنا جہنم کی حقیقت کا ہم تصور نہیں کر سکتے جھوٹ جھوٹ سے ہر حالت میں پر ہیز تنبل ہے جھوٹ کے جرم کا آج کی دنیا میں مشترک ہونا جیکب آباد چٹا گانگ چشتیہ فرقه 47 787,980 768 779 794 108 404 941 چین چین میں امریکہ کے خلاف نفرت چودھری حالم علی صاحب میر حامد اللہ صاحب حامد اللہ خاں صاحب حبل اللہ حبل اللہ سے مراد حبیب اللہ صاحب حج 94 487 496,506 52 567 249 335 20 67 334 حج کے وقت انسان خدا کی گود میں ہوتا ہے 327 وہ دائمی حج جو اس وقت جماعت احمدیہ کو نصیب ہے 267 آنحضرت اور صحابہ کا عمرہ اور حج کی نیت سے مکہ کا سفر 824 ان کے ہاں کلمہ شہادت پڑھتے وقت الا اللہ پر خاص زور دینا 909 چشتیہ نظامیہ چشتیہ نظامیہ کو ہندوستان میں شہرت ملنا چشتیہ نظامیہ میں ذکر کے طریق چشمه معرفت چک منگله چنتہ کنٹہ صوبہ آندھرا پردیش چندہ ( نیز دیکھئے مالی قربانی) 910 910 36 208 769 ایک احمدی کا چندہ دینے پر مال میں برکت کا واقعہ 96 چندہ دینے سے اموال میں ہر گز کمی نہیں آتی 134 حدیم حجاج بن ارطاة ح احادیث احادیث کی رو سے ذکر الہی حدیث قدسی کی تعریف احادیث علوم اور حکمتوں کا خزانہ ہیں عربی احادیث اذا تواضع العبد رفعه الله 997 691,824 9570944 225,441 991,995 280,601 181 اذا جاء رمضان فتحت ابواب الجنة افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر 113 افضل الذكر لا اله الله وافضل الدعا الحمد لله 944
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 الا ادلك على ملاك هذا الامر الحب في ا الله العلم علمان علم الاديان وعلم الابدان اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون المومن مرأة المومن ان الحمد لله نحمده ونستعينه 956 40 1012 317 556 600 29 ليس الخبر كالمعاينة ما من قوم اجتمعوا يذكرون الله من قال لا اله الا الله فدخل الجنة 889 993 516 من قال لا اله الا الله وكفر بما يعبد من دون الله 527 نصرت بالرعب و لنفسک علیک حق ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة يايها الناس توبوا الى الله قبل ان تموتوا احادیث با معنی 61 366,815 953 952 810 ان الله تعالى يقول يا ابن ادم تفرغ لعبادتی 987 يايها الناس ارتعوا في رياض الجنة ان الله عزوجل خلق آدم على صورته ان ياتي على الناس زمان انصر اخاک ظالما او مظلوما انما الاعمال بالنية انما الاعمال بالنيات 759 581 47 835 876 آپ نے کبھی کسی کو نہیں مارا نہ کسی عورت کو نہ خادم کو 617 آپس کے اختلافات میں ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی چرب زبانی ثم اخذ يرتجز اعل هبل قال النبي الا تجيبونه 630 سے اپنے معاملے کو اس طرح پیش کرے کہ حق کو چھپا دے 868 ثم تكون خلافة على منهاج النبوة حب الوطن من الايمان 649 46 آنحضرت ایک دفعہ درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے 675 آنحضرت کی غزوہ میں شامل ہوتے وقت کی دعا 997 رأيت رسول الله يصلى وفي صدر ازیر 996 کھانا کھانے کے بعد کی دعا سبعة يظلهم الله تعالى في ظله يوم لا ظل الا ظله 951 آنحضرت کے انفاق فی سبیل اللہ میں رمضان میں ہوا 69 997 177 سيد القوم خادمهم میں مزید تیزی پیدا ہو جاتی تھی عن معاذ بن جبل قال اخذ بيدى رسول الله 992 پانچ نمازوں کی مثال نہر میں پانچ مرتبہ نہانے سے 206 فاحب الخلق الى الله من احسن الى عياله 760 ایک نو جوان صحابی کو آپ نے جو نصیحتیں کیں ان میں لا الله الا اللہ بھی تھا مگر آپ گا اسے اعلان کرنے سے منع فرمانا 516 قال عز وجل كل عمل ابن ادم له قيل يا رسول ا الله ای جلسائنا خيرا كاد الفقر ان يكون كفرا 183 990 367 ابن آدم کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی اپنے ماں باپ کو گالیاں نہ دیا کرو 131,132 298 كان النبي اذا اكل او شرب قال الحمد لله الذي 997 اگر انسان کو خدا کی پکڑ کا احساس ہو جائے تو اس کے كان رسول الله يذكر الله على كل احيانه 987 گناہ کا کوئی سوال ہی اس کے لئے باقی نہیں رہتا 975 كان رسول الله يـ ، يسير في طريق مكة كل مولود يولد على الفطرة کلمتان خفيفتان ثقيلتان في الميزان 986 761 971 948,949 991 578 كنا مع النبي في سفر فجعل الناس كنت ابيت مع رسول الله فاتيته بوضوئه لو كان الايمان عند الثريا لولاک لما خلقت الافلاک 162 اگر تین جمعے چھوڑو گے تو کافر ہو جاؤ گے اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی سزا اور گرفت کا اندازہ ہوتو وہ جنت کی امید ہی نہ رکھے ہاتھ کاٹ دیتا اگر میری بیٹی فاطمہ نے بھی یہ کام کیا ہوتا تو میں اس کے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نماز پڑھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی 219 439 626 219
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں 30 917 سورہ جمعہ کی آیات کی تلاوت پر کسی کا پوچھنا کہ یہ کون ہیں 577 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ گناہ کرتا ہے اور پھر دعا مانگتا جب آخری عشرہ آتا تو آپ کمر کس لیتے ہے کہ اے اللہ میرا گناہ بخش دے 442 968 جس نے ایمان اور یقین کے ساتھ روزے رکھے اس کے اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں انہیں ذکر کی مجلس کی تلاش رہتی ہے اے میرے بندو میں نے اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا ہے 621 اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے اللہ کی دوانگلیوں کے میں انسان کا دل ہے جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں 160 816 605 201 202 526 عاجزی اختیار کرنے پر ساتویں آسمان تک رفع ہونا 60 328,987 اللہ نے فرمایا کہ میں نے تیری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں 225 ذکر سے آپ کا وجد میں آنا ایک دفعہ آنحضرت چٹائی پر سور ہے تھے جب اٹھے تو حضرت عائشہ کا ایک رات آنحضرت کو تلاش کرنا 994,996 چٹائی کے نشان پہلو مبارک پر نظر آئے میرے لئے اور میری امت کے لئے ساری زمین مسجد ہے 67 ایک شخص کا حضرت ابوبکر کو گالیاں دینا، اُن کا پیمانہ لبریز ایسے دن آئیں گے جو سال کے برابر ہوں گے 472 ہوا تو انہوں نے جواب دیا، حضور کا اظہار نا پسندیدگی 299 دو عورتیں جنکے بچے کا فیصلہ سلیمان نے اپنی فراست سے کیا 289 ایک شخص کا آپ کے رعب کی وجہ سے کانپنا رسول اللہ کے مرض الموت میں ابو بکر کا لوگوں کو نماز پڑھانا 229 ایک شخص کا کہنا کہ کوئی ایسا کام بتایئے کہ میں اسے کروں تو سب سے بد ترین چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرتا ہے 226 اللہ اور لوگ مجھ سے محبت کرنے لگیں شیطان انسان کی رگوں کے اندر دوڑ رہا ہے عائشہ سے آنحضرت کے مرض کا حال دریافت کرنا 227 غزوہ احد کے دوران ابوسفیان کا اعلان کرنا کہ ہم جیت گئے ایک صحابی نے عرض کیا ماشاء الله و ماشئت حضور نے صحابہ کو جواب دینے سے منع فرمایا 619,620 ایک گڈریے کو فر مایا کہ جنگل میں اذان دو، تکبیر کہو ، امامت فرشتوں کے بھسم کرنے کے سوال پر آنحضرت نے فرمایا کرو، فرشتے تمہارے ساتھ شامل ہوں گے 199,468 یہ جانتے نہیں ہیں میں ان کی ہدایت کی دعا کروں گا 701 ایک مرتبہ ایک صحابی کسی غلام کو مار رہے تھے تو آنحضرت قبیلہ از دشنوء کے آدمی ضماد کا مکہ آنا جو جھاڑ پھونک سے 817 604 617 278 600.599 465 525 نے اسے خدا کا خوف دلایا کہ کیا کر رہے ہو کام لیتا تھا ، اس کا مسلمان ہونا دو ازواج مطہرات میں اختلاف ایک کا طعنہ دینا کہ تم یہو دن ہو 328 قیامت اشرار الناس پر آئے گی ایمان کی کچھ او پر ستر یا کچھ او پر ساٹھ شاخیں ہیں 523 کانٹے کے رستہ سے ہٹانے پر اجر اے میرے بندو تم سب ننگے ہو سوائے جس کو میں لباس پہناؤں 631 کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ گناہ مٹادیتا ہے 226 760 816 میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 697 میں جس کو امیر مقرر کرتا ہوں اس کی اطاعت کرو 733 تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں تو دنیا میں ایسا بن جا گویا تو پردیسی ہے جب بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے 978,983 نجران کے عیسائیوں کو پناہ نامہ میں توحید اختیار کرنے کی تلقین 528 92 نماز نہیں تو پھر دین میں کچھ بھی نہیں رہا اپنے بھائی سے کو واپس کرتے وقت کچھ بڑھا کر دو رمضان کی آمد پر جنت کے دروازوں کا کھولا جانا وہ دعا ئیں جو مقبول نہیں ہوتیں ان میں ماں کی اپنے 181 بچے کے خلاف بددعا ہے 261 114 خرابی دیکھنے پر ناپسندیدگی کا اظہار ایمان کا حصہ ہے 557 وہ شخص جس کو میر اذکر مجھ سے سوال کرنے سے منع کر دے 916 مجلس میں میراذکر ہونے پر فرشے تہ در تہ اترتے ہیں 984 ہر چیز کی زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے 190
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 31 ہر رمضان میں جبریل آپ کو قرآن دہراتے 167 حقیقۃ الوحی جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں 188 حکیم ابن العاص جو شخص ایک روزہ بھی بغیر شرعی اجازت کے اور بیماری کے حکمت چھوڑتا ہے اس کی قضا نہیں ہے حديقة الصاحين 189 954,956 695,704,832,833 658 حکمت تقوی سے پیدا ہوتی ہے باقی سب حکمتیں جھوٹی ہیں 586 حکمت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کرنے کی تلقین 411 حرام حرام رزق کی مثالیں حرام کھانے سے معاشرہ کا ذلیل ورسوا ہونا رزق حرام کی وجہ سے قوموں کی تباہی حرص انسان میں حرص کی حالت حسد حسد کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین قرآن میں حسد کے بالمقابل دعا کا ذکر کیا ہے 366,395 | حلال 364 372 989 115 163 عقل اور حکمت کا تعلق 857 حلال اور طیب میں فرق 365 حلال کے مضمون کا لین دین کے معاملات میں ذکر 366 پاکستان کے احمدیوں کو رزق حلال کے لئے جہاد کی تحریک 378 مومن کی پاکیزہ زندگی کے ساتھ رزق حلال کا تعلق 396 حمد سے پہلے بخشش ضروری ہے حمد کا تجل سے تعلق کامیابی کے نتیجہ میں حسد کا پیدا ہونا خدا کا اصل مقصود نہیں 172 حمد کا قبولیت دعا سے تعلق نیکی کے مقابل حسد کا شرارہ پھوٹتا رہتا ہے حسرت (شاعر) 161 406 حمد کا مقام محمود سے گہراتعلق حمد کے سوا کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی حمد کے مضمون میں حسن کی کشش 205 785 197 196 947 774 حمد کا مضمون خدا کے سوا کسی اور پر صادق ہی نہیں آتا 196 سب سے بہترین حمد سبحان کے ساتھ حمد کا تعلق عظمت کے مضمون کا حمد سے تعلق ہر کمزوری کے بالمقابل حمد کا ایک مجمون ہے 995 973 973 785 196 473 596 691 حسن کے ساتھ بدصورتی کا مضمون لازم ہے خواجہ حسن نظامی حسین سنمونو حفص بن غیاث حق حق کے لئے جدو جہد کا صحیح طریق 773 910 596 997 محمد کی حمد ہی وہ حمد ہے جس کا الحمد للہ میں ذکر ہے 819 حمید اللہ شاہ صاحب حقوق کی طلب ایک نفسیاتی رجحان پیدا کرتی ہے 887 | حنیف احمد صاحب بہنوں کو وراثت کے حق سے محروم کیا جانا، ایک بچی کا خط 819 بہنوں کے حق کے متعلق حضرت عمر ابیان 820 حنين حوا جماعت کو نصیحت کہ اگر کسی کا حق ان کے مال میں شامل بائیبل کے مطابق سانپ کا آدم اور حوا کوڈ سنا ہے تو اس حق کو الگ کر دیں عورتوں کے حقوق کے متعلق سب سے پہلے دنیا میں آنحضرت نے بات کی 820 | حیا حیا کا استغفار سے تعلق حیا کا عورت پراثر 886 277 632 875
اشاریہ خطبات طاہرجلد 12 حیات القلوب حیدر آباد خانیوال حضرت خباب بن الارت ان پر توحید کی وجہ سے مظالم خدمت خلق 542 686 729 662 32 خلافت تقویٰ کے بغیر بے معنی اور بے حقیقت ہے 254 خلافت حبل اللہ ہے خلافت راشدہ کے انقطاع کی درد ناک خبر خلافت راشدہ میں خلیفہ کا فیصلہ درست تھا خلافت سے احمدیوں کا گہرا تعلق خلافت سے سچی عقیدت کی علامت خلافت کا توحید سے تعلق خدمت بنی نوع انسان کی تحریک اور اس کا طریق 707 خدمت خلق کا توحید کے ساتھ تعلق 686 خدمت خلق کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری عوامل 700 خدمت خلق کے کام میں عیسائی قو میں آگے ہیں 711 69 67 650 870 87 544 543 280 خلافت کا معراج محمود اللہ تھے خلافت کے بعد سب سے اہم شوری کا نظام ہے 254 خلافت کے ساتھ شوری کا تعلق حضرت مسیح موعود کی قدرت ثانیہ کے ظہور کی پیشگوئی 646 337,870 خدمت کرنے کے حوالہ سے قوم کے بڑوں کا مقام خدمت کو تبلیغ کا ذریعہ بنانے کی خاطر اختیار کرنا ظلم ہے 145 احمد بہت کی وحدت خلافت احمدیہ سے وابستہ ہے 547 خدمت کی جتنی توفیق پائیں گے اتنا ہی آپ آنحضرت اور خلیفہ اسیح الثالث کے دور میں مجددیت کا فتنہ اٹھایا گیا 649 حضرت مسیح موعود کے زیر احسان ہوتے چلے جائیں گے 707 جہاں کام بڑھیں گے وہاں خدمتگار بھی خدا بڑھا دیتا ہے 410 خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے خدمت خلق منانے کا سال منانے کا طریق 686,699 تبلیغ کی خاطر خدمت کرنے کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں 146 رض حضرت خدیجہ سارا عالم اسلام مل کر زور لگا لے خلیفہ نہیں بنا سکتا کیونکہ سب خلیفے توحید کے محافظ ہیں شرک فی الخلافت کا مہلک نتیجہ 256 546 543,545 شیطانیت کا فلسفہ جس کا نبوت اور خلافت سے تعلق ہے 283 آپ کا آ نحضرت کے حسن سلوک سے متاثر ہونا 886 خطبہ خطبات قدرت ثانیہ قیامت تک کے لئے غیر منقطع ہے خطبات کو براہ راست سنے کا احباب پر اثر خطوط میں تذکرہ 533 مہدویت کا تعلق آغاز خلافہ اللہ سے ہے خطبات کے ایسے سلسلہ کا آغاز جس کاتربیت سے گہرا تعلق ہے 236 نبوت کے بغیر خلافت کا وجود ممکن ہی نہیں گلف کے متعلق خطبات میں عالم اسلام کو تنبیہ قیامت تک خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی نائیجیریا کے ایک تعلیم یافتہ عیسائی پر خلیفہ وقت کے خطبہ کا اثر 21 وہ خلیفہ جس کو نبی اللہ یا رسول اللہ کہتے ہیں براہ راست خط 70 نماز کے متعلق خلیفہ وقت کے خطبات نہ صرف مساجد میں اللہ کے ہاتھوں سے بنتا ہے بلکہ گھروں میں بھی انتظام کر کے سنائے جائیں 314 بہت چھوٹے بچوں کے خطوط سے حضور کا لطف اٹھانا 12 خطبہ الہامیہ خلافت / خلیفه / خلیفہ وقت 152,153 650 274 256 649 273 831 257 287 21 خلفاء اللہ کی تائید کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے خلیفہ خدا بنا تا ہے،اس سے مراد خلیفہ کو کسی داد کی ضرورت نہیں خلیفہ وقت کا بر او ر است خطبہ سننے پر تربیتی امور میں بہتری خلیفہ وقت کو براہ راست بعض احمد یوں کا چندہ بھجوا دینا 92 خلافت احمدیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کا ثبوت 652 خلیفہ وقت کو ٹیلیویژن کے ذریعہ براہ راست دیکھنے کا اثر 21 خلافت احمدیہ کے سوا کہیں اور مجدد کا منہ نہ دیکھیں گے 652 خلیفہ وقت کی افراد جماعت سے ملاقاتیں اور ان کی کیفیت 427
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 خلیفہ وقت کی براہ راست آواز کی طرف واسطوں سے 33 خودکشی پہنچنے والی آواز کی نسبت زیادہ توجہ دی جاتی ہے 20,313 انگلستان کے ایک امیر ترین شخص کی بیٹی کی خود کشی کی وجہ 109 خودی خلیفہ وقت کی دعا سے مشکلات کا حل ہونا ،حضرت خلیفہ ثالث کے حوالہ سے حضور کا اپنا واقعہ بیان کرنا 614 اسلام میں خودی کا تصور احمدیوں پر دنیا بھر میں مظالم کے وقت خلیفہ وقت کی حالت 663 اللہ کے خلیفہ کو دوہاتھوں سے پیدا کرنے سے مراد 274 صاحب علم لوگوں کا تکبر خودی ہے خلیفہ اول کا خلافت کے حوالہ سے انجمن کو مخاطب کرنا 648 خوشاب جماعت احمدیہ کی خلیفہ وقت سے محبت کا حسیں تذکرہ 41 خوف خون بہانے اور فساد کی ذمہ داری کسی خلیفہ پر عائد نہیں ہوتی 162 خوف سے بچنے کا سب سے بہترین طریق خلیفہ وقت اور عہدیدران کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر خیانت سے دیکھنے والوں کی مجلسوں سے علیحدہ ہونے کی تعلیم 802 خیانت کی وجہ سے کئی میاں بیوی کا بر باد ہونا یو کے جماعت کے جلسہ سالانہ کی خلیفہ وقت کی وجہ سے مرکزی جلسہ کی حیثیت ٹیلیویژن کے نتیجہ میں خلیفہ وقت کو لکھے جانے والے خطوط دارالذکر فیصل آباد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کا ذکر خُلق / اخلاق 549 دو ذررژ 118 حضرت داؤد علیہ السلام داؤد احمد حنیف صاحب دجال کے زمانہ میں دنوں کا لمبا ہونا احمدیوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر لوگوں کا بیعت کرنا 563 دجال اخلاق کی تلوار کا اثر جو اخلاق حسنہ سے حق کو قبول کرتا ہے وہ ہمیشہ اخلاق حسنہ کا ہی مظہر رہتا ہے اخلاق پر اقتصادیات کا اثر 562 دجلہ 562 | دخول (جگہ) 368 درازی (کتاب) اخلاقی اقدار کی حفاظت کا کام جماعت کے سپرد کیا گیا ہے 379 در مین اخلاقیات کے حوالہ سے قوموں کی دواقسام 367 جن قوموں میں اخلاق مٹ رہے ہوں، خدا کا تصور مت در مشین فارسی رہا ہو وہ خود اپنی نسلوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں 374 | درود شریف دنیا میں اس وقت اخلاقیات کی بری حالت ہے خلیل احمد مبشر صاحب خواب 9 596 832 833 628 735 801 729 288,289 596 472 915 965 913 101,138,200,237,259,434 486,505,995,1012 194,547,829,830 درود شریف پڑھنے کی تلقین در و د شریف کا تعلق کسی ایسی نیکی سے ہوتا ہے جو آپ کے اسوہ حسنہ کے نتیجہ میں عطا ہوتی ہے جیسی سوچ لے کر انسان ہوتا ہے ویسا ہی اس کو خواب آتا ہے 352 عالم اسلام کے حوالہ سے جامع دعا والد کے نام پر چندہ دینے پر خواب میں والد کا خوشی سے ملنا 94 | پیر دستیر خواتین دشمنی خواتین میں پائی جانے والی بعض بدیاں اور تنبل 873 نبیوں کی تحقیر سخت دشمنی کی جڑھ ہے 707 421 194 541 36 36
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 دشنام دہی دعا جو شر البر یہ ہو اس کو شر البر یہ کہنا اس حال میں گالی نہیں جبکہ کہنے والا عارف باللہ ہو 640 573,795,701,795,944,962 34 ہرانتخاب سے پہلے دعا ضرور کرنی چاہئے ہماری دعاؤں میں اجتماعیت ہونی چاہئے 258 1004 آپ کی طائف کے موقع پر ان لوگوں کے لئے عفو کی دعا 317 آنحضرت کا دعا کے وقت تنگ نظری سے منع فرمانا 634 دعا خدا کے فضل کو جذب کرنے کا ایک قطعی ذریعہ ہے 615 اذان کے آخریر دعا میں مقام محمود کی دعا دعا سے انسان کو طاقت کا ملنا دعا سے کمزوروں کی طاقت میں آواز پیدا ہونا دعا سے ذکر کا مضمون افضل ہے دعا کا انتشار جماعت احمدیہ کا شخص ہے دعا کافن بہت ہی بڑا اور عظیم فن ہے دعا کی قبولیت کا صبر سے تعلق دعا کی قبولیت کے ساتھ حمد کا تعلق 794 50 918 614 340 114 197 198 رمضان میں مسلمانوں کے لئے دعا کا صحیح طریق 194 قرآن میں حسد کے بالمقابل دعا کا ذکر کیا ہے 163 661 لیلۃ القدر میں حدیث کی رو سے مانگی جانے والی دعا 202 آنحضور کا دو عمروں میں سے ایک کا مانگنا دعوت الی اللہ ( نیز دیکھئے تبلیغ ) دعوت الی اللہ کا مقصد دعا کے ذریعہ قرآن کا فیض حاصل کرنے کی تلقین 622 دیعوت الی اللہ کرنے کے لئے ضروری چیزیں صحیح طریق خواہ وہ خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو 615 917 796 100 50 2 دعوت الی اللہ کے ساتھ حکمت کا مضمون امت محمدیہ کے قیام کا اصل مقصد جر من احمدیوں سے ایک ہزار یورپین باشندوں کے 976 418 407 717 دعا کے مضمون سے قرآن بھرا پڑا ہے دعا کے ناکام ہونے کی وجوہات نیک اعمال والی دعائیں ہی مقبول ہوتی ہیں دعاؤں کے ذریعہ ہم وطنوں کی مدد کریں احمدیوں کی تہجد کی دعاؤں کی منظر کشی افضل ترین دعا الحمداللہ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے پاکستان کے لئے دعا کی تحریک کرنے پر احمدیوں کے 946 دل احمدی ہونے کا مطالبہ تبلیغ میں بیج کے ضائع ہونے سے مراد 724 451 داعیان الی اللہ کا قرآن میں ذراع کے لفظ سے ذکر 448 غیر قوموں میں دعوت الی اللہ کا صحیح طریق موں میں دعوت! سخت خطوط آنا کہ ان کے لئے بھی تو بد دعا بھی کر دیں 700 دل کے اطمینان کے حصول کا طریق حضرت یوسٹ نے قید کی دعا کیوں مانگی ، اس کا جواب 790 خدا سے جب بھی مانگا جائے تو لا متناہی مانگا جائے 363،365 دمه خلیفہ وقت کی دعا سے مشکلات کا حل ہونا ، 614 خان بہادر دلاور خان صاحب 717 623 333,335 دمہ کی بیماری اکثر بچوں کو مالٹے کا جوش پلانے کے دین میں شکوہ کی صورت میں صرف خدا سے دعا کریں 799 نتیجہ میں ہوتی ہے روس کے عظیم طاقت بننے کیلئے دعا کی تحریک سلطان نصیر حاصل کرنے کی دعا قبولیت دعا کی سورۃ فاتحہ میں کنجی ہے قرآن کریم میں متقیوں کے لئے امامت کی دعا 53 410 210 884 دن دن سے رات یا رات سے دن میں داخل ہوتے وقت کی مشکلات قرآن میں ہر نبی کے ذکر میں اس کی دعا لکھی ہے 917 دنیا 365 774 دن کے چوبیس گھنٹے سے زیادہ لمبا ہونے کی پیشگوئی 472 مسجد واشنگٹن کے لئے دعا کی تحریک نماز در حقیقت سب سے اعلیٰ دعا ہے 686 947 دنیا کے دھکوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا تنتبل لازمی نہیں خدا کی طرف لے جائے 792
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 35 دنیا کو دین پر مقدم کرنا ہلاکت اور تنزل کا سفر ہے 808 دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حضرت اقدس کی تعلیم 798 54 دیو بند علماء کا ہندوستان میں جماعتی ترقی پر سخت رد عمل 888 ڈائنا سورز ڈائنا سورز جتنے مرضی بھیا نک دیکھنے میں لگیں مگر اُس وقت ان کی بقا اور مقاصد کے لئے وہی شکل کام دے سکتی تھی 772 818 ڈرگ روڈ کراچی روس کی وجہ سے دنیا کو جو امن نصیب تھا اس کا اٹھنا دنیا کی محبت اور دوسرے کے مال پر حرص کی نگاہیں دنیا میں فساد کی جڑ ہیں وہ جماعت جس سے تمام دنیا کی امیدیں وابستہ ہیں 417 | ڈھاکہ وہ نور جس سے آج دنیا کی ہمیشہ کی بھلائی وابستہ ہو چکی ہے 74 ڈیرہ اسماعیل خان آخرت کا تصور دنیا کی خواہش کو معتدل کر دیتا ہے 797 ڈیرہ غازی خان 494 ذکر الہی دوبئی دوره دورہ کے نتیجہ میں جماعتوں میں بیداری دہریت دہریت بہت بڑی وجہ ہے کہ باوجود اچھی باتیں سننے کے اُن پر مغربی ممالک عمل نہیں کرتے دہریت شرک کی پیداوار ہے 158 370 514 788 961 335 846 893,894,898,905,937,918, 920,922,966,982 329 ذکر الہی انسان کی ساری روح پر قبضہ کرلے ذکر الہی سے بھر پورنماز سب سے بڑی عبادت ہے 894 ذکر الہی سے سکینت کا حاصل ہوتا 885،757،319 ذکر الہی کا موجودہ نسل کی تربیت سے تعلق 329 ذکر الہی کرنے والے ہی اولوالا لباب ہیں 930,931 اولوالالباب دہریہ کے سامنے اللہ کی ہستی کا ثبوت پیش کرنے کا طریق 897 ذکر الہی کے وقت آپ کی کیفیت 910 328 ذکر الہی ہر مصیبت ضرورت سے مستغنی ہونے کا راستہ ہے 988 ذکر الہی زندگی کے تمام لمحوں پر محیط مضمون ہے دیانتداری دیانتداری کا جھنڈا احمدی اپنے ہاتھ میں لیں دیپ کراں ہزارہ دین دین قیم سے مراد دین کا خلاصہ تو حید ہی ہے 379 334 517 516 ذکر الہی کی مجالس کو عام کرنے کی تلقین ذکر الہی کے مقبول ہونے کی علامتیں ذکر الہی کے نتیجہ میں غربت سے دوری 982 976 937 989 کوئی تجارت ذکر الہی سے غافل کرنے والی نہ ہو 840 ذکر اور محبت کا تعلق دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حضرت اقدس کی تعلیم 798 ذکر کی اہمیت کے متعلق احادیث 966 978-968 893 دین کے معاملہ میں شکوہ صرف اللہ سے کرنے کی تعلیم 799 ذکر کے بغیر اعمال صالحہ میں کوئی جان نہیں ہوتی ذکر کے تعلق میں غفلت کے میدان سے نکلنے سے مراد 898 دین کے نقصان کے بالمقابل ذاتی نقصان کو اہمیت نہ دینا تقبل ہے دین مصطفیٰ کا رعب نہ مٹا ہے اور نہ مٹ سکتا ہے دین میں کوئی سختی نہیں تفقہ فی الدین کے بعد پیغام کو پھیلانے کی تعلیم 800 61 ذکر کے سلسلہ میں صوفیاء یا بعض فرقوں کا غلطی کھانا 902 895,907 ذکر کے لغوی معانی 264 حاشیہ ذکر کے نتیجہ میں اللہ کی ذات میں کھو جانا 967,968 بعض فرقوں میں پڑھے جانے والے ذکر کی مثالیں 909 827 دیوان غالب 14,132,186,454,625,635 بہت تھوڑے ذکر کے نتیجہ میں اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنا993 دیوبند تبتل ہرایسی چیز سے ضروری ہے جس کے ساتھ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 ذکر اللہ اکٹھارہ ہی نہیں سکتا حج کے دوران ذکر الہی پر زور 36 880 327 رحمت رحمت کا نصیحت کے ساتھ تعلق 944 رحمت علی امینی صاحب حدیث کی رو سے افضل ترین ذکر اور دعا حدیث میں ذکر کر نے والوں کو مفر دکہنا، اس سے مراد 986 رحیم یارخان خدا نے صرف آنحضرت کو مجسم ذکر کہا 908,983,986 | رزق دل کے ذکر الہی کا ایک حدیث میں ذکر 950 رزق حرام کی وجہ سے قوموں کی تباہی دنیا کی تمام جماعتوں کو تربیتی اجلاسوں میں بزرگوں کے رزق حلال کا انسانی معاشرہ سے گہرا تعلق ہے ذکر خیر کی مہم چلانے کی تحریک سب سے اہم ذکر عبادت یعنی نماز کا قیام ہے سچے ذکر کی علامتیں صوفیاء میں ذکر کا ایک جھوٹا تصور عبادت کے بعد ذکر اللہ سے مراد مجسم ذکر الہی بنے والوں سے اللہ کا سلوک مزاروں پر ہر قسم کی برائیوں کے اڈے نماز کا سب سے بڑا فائدہ ذکر کا عطا ہونا ہے 336 904 955 893 894 916 937 905 318-316 475 747,787 370,934 372 364 رزق کمانے کے لئے قوانین نہ توڑنے کی اسلامی تعلیم 369 پاکستانی احمدیوں کو رزق حلال کیلئے جہاد کی تحریک 378 مومن کی پاکیزہ زندگی کے ساتھ رزق حلال کا تعلق 396 366 حرام طریق سے حاصل کیا جانے والا رزق آنحضرت کو ملنے والا عظیم الشان غیر معمولی رزق 934 رسالت رسالت کا زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق 387 رسالت میں تبلیغ اور پیغام کی تکمیل بھی شامل ہے 388 آباء کا ذکر کرتے ہوئے ذکر اللہ کی منزل تک پہنچیں 336 رشته ذکری فرقه ذوالنون مصری راجستھان راجن پور امام رازی امام راغب امام راغب کی تعریف انہیں آل میں شامل کرنا 913.914 901 رشتہ کے وقت کون سی نیت ہونی چاہئے نی 140 چوہدری رشید احمد صاحب رشید خالد صاحب 710,846 531 مولا نا رفیع الدین شاہ صاحب 809 رمضان رمضان اور شکر کا تعلق راولپنڈی 9,131,178,747,788,823,1004 رمضان اور قرآن کا تعلق ربوه 9,41,88,356,405,429,534,730 958, 1003,1004,191 ربوہ میں صبح نمازوں پر جگانے کا انتظام عید کے روز ربوہ کی مساجد میں حاضری کا عالم حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمی رپورٹ رچرڈ ٹانسلر جس نے ناروے دریافت کیا رحماں 565 262 991 849 478 40 297 335 476,477 533 149 173 166 رمضان کا انسان کی جسمانی اور روحانی صحت پر اچھا اثر 173 174,175 217 181 200,201 181 168 رمضان کی جزا رمضان کی سختیوں کے بعد ایک قسم کی بشاشت رمضان کے فوائد احادیث کی روشنی میں رمضان کے آخری عشرہ کی اہمیت رمضان میں شیطان کے جکڑے جانے سے مراد رمضان میں قرآن کی تین شاخوں کا جلوہ رمضان میں مسلمانوں کے لئے دعا کا صحیح طریق 194
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 37 تہجد سے ایک رمضان کو دوسرے رمضان سے ملائیں 208 آپ کا بعض سفر سے آنے والوں کا روزہ تڑوانا 177 روز بل ماریشس رمضان میں انفاق فی سبیل اللہ میں تیزی لیلۃ القدر میں حدیث کی رو سے مانگی جانے والی دعا 202 روس 169 979,999 91,911,1007,55,54,53,44 211 حضرت ریاح بن عبيدة 531 رياض الصالحين 997 440 نماز کے قیام کے لئے رمضان کی اہمیت روح المعانی روح روح کا آخری جوڑ اللہ تعالیٰ ہے روح کا آستانہ الوہیت پر بہنا روح کی پیدائش کا مقصد اس کا جوڑا روڈ ریس روزه روزوں کا صحت اور روح پر اچھا اثر 750 966 732 589,590 ریڈیو ریڈیو کے ذریعہ خطبہ ساری دنیا میں خطبہ سنائی دینا 550 ریویو آف ریلیجنز 1014.814 رویا 190 رڈیا کے ذریعہ خدا کا کسی کو بتانا کہ فلاں حاجت مند ہے 858 زار روس روزوں کی رخصت سے فائدہ اٹھانے میں اللہ کی اطاعت 169 زار روس کا نقشبندیہ فرقہ سے ڈرنا روزوں کی قبولیت کا نشان روزوں میں عظیم الشان فوائد روزہ اور بے ہودہ گوئی سے اجتناب روزہ دار کے لئے جنت میں ایک الگ دروازہ 186 168 187 188 زبان زبان سکھانے کا طریق زبان سکھانے کے حوالہ سے حضور کا سارے عالم میں unique سسٹم 911 1010 1014 روزہ دار کے منہ کی بو کا کستوری سے بھی زیادہ بہتر ہونا 186 زبان سکھانے کے لئے معلمین کی ضرورت ہے 1009 روزہ رکھنے کی عمر 191 زبان سیکھنے کا طریق روزہ سے محروم رہنے والا وہ شخص جس کے لئے فرشتے زبان سیکھنے کے لئے صبر اور تحمل کی ضرورت روزہ کا مقصد روزے رکھیں گے، اس کی وضاحت روزہ کی قضا کا مضمون روزہ کے دوران ناک کی قربانی وعلى الذين يطيقونه کے دو معانی روزہ کے فدیہ میں احتیاط کی تلقین روزہ کے نتیجہ میں ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا روزہ کے نتیجہ میں صحت کمزور نہیں ہوتی روزہ کے آدھا صبر ہونے سے مراد روزہ میں جسم کی زکوۃ کا نکلنا روزہ میں خدا کی خاطر سختی اختیار کرنا دنیا کے ہر مذہب میں روزہ ہے 213 164 189 186 164 165 184 190 191 190 170 164 508,509 1014 زبانوں کا آپس میں فرق غیر طبعی یا غیر معقول نہیں 497 جانوروں کی زبان کے متعلق سائنسدانوں کی تحقیق 494 چھوٹے بچے بغیر کسی کوشش کے بیک وقت پانچ چھ زبا نہیں سیکھ سکتے ہیں 498 حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ اردو زبان نہیں مرے گی 502 حضور کاشش جہت کے محاورہ کا پہلی مرتبہ استعمال کرنا 23 عالمی وحدت میں زبان کا کردار 506 عربی کے بعد اردو اور پھر ہر ملک کی مقامی زبان کو اہمیت دینے کی تحریک 502,510 قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے کے لئے اردو زبان کا استعمال 501 قرآن کے مطابق ابتدا میں عربی زبان سکھائی گئی 495 ٹیلیویژن پر مختلف زبانوں میں پروگراموں کے اجراء کا پلان 161
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 38 مذہبی زبان کے طور پر عربی زبان کا سب سے بلند مقام 493 ایک دہر یہ سائنسدان بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اس مغرب میں رہنے والے احمدیوں کو عربی کی طرف توجہ کی تلقین 498 نظام کائنات میں کسی اور کا ہاتھ نہیں مقامی زبان کے ذریعہ ہی جماعت کا پیغام پھیل سکتا ہے 502 مُردوں سے زندہ نکلنے کے کئی مطالب ہیں 746 776 آدم کو اسماء سکھائے جانے سے مفسرین کا زبان مراد لینا 494 جانورں کی زبان کے متعلق سائنسدانوں کی تحقیق 494 زبان کے متعلق حضرت زبیر بن العوام 658,659 | سال زكوة اس سال کا مطمع نظر زکوۃ سے اموال میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ کمی 190 گزشتہ سال کا عالمی بیعت سے سجنا زکوۃ کے معاملے میں بعض لوگوں کا بے احتیاطی کرنا 242 گزشتہ سال کی جماعت احمدیہ میں اہمیت عالمی بھائی چارے کا سال قرار دیا تھا اس عید کوز کو ۃ سے سجانے کی کوشش کریں زلیخا زمبابوے زندگی 232 790 21 3 5 5 982 عالمی خدمت بنی نوع انسان کا سال منانے کا طریق 699،686 اس سال کا جمعہ کے روز شروع ہونا اور اسی روز ختم ہونا 999 سانگھڑ 646 زندگی کا انحصار رضائے باری تعالیٰ پر ہے 135 ساہیوال زندگی کی ابتدا کے وقت ایک ہی ماں باپ تھے 496,497 | ساؤتھ افریقہ انبیاء در اصل موت سے زندہ کرنے کے لئے آتے ساؤتھ ریجن USA ہیں اور اس زندگی کو صوفیاء نے موت قرار دیا ہے 789 انسان کی زندگی کا اصل مدعا تقویٰ کے بغیر زندگی کی کوئی ضمانت نہیں زندہ رہنے کے اسلوب سیکھنے ہوں گے 841 338 807,808 سپین ستاری ستاری کی اہمیت اللہ کی ستاری کا پردہ قوموں کی زندگی اور بقا سے تعلق رکھنی والی باتیں 324 سٹوٹ گارڈ جرمنی کائنات کی ہر زندہ چیز کامٹی کی خصلت سے پیدا ہونا 279 موت کے بغیر زندگی نہیں ملتی ، یہی تقتل ہے مُردہ دلوں کو زندہ کرنے کا ایک راز آگ سے جناتی زندگی کا پیدا ہونا حضرت زنیرہ زیره زیمبیا زینت زینت سے مراد ژند اوستا سائنس س ،ش 829 331 279 661 333 854 245 502 729,904 823 921 324,823,980 441 203 823 سجده سجدہ انانیت کو توڑنے کا نشان ہے سجدہ کا ایک مطلب سجدہ جودنیا سے چھپ کر راتوں کو کیا جاتا ہے 944 396 564 سچائی سچائی کے نور کے بغیر دنیا کی کوئی چالا کی کام نہیں آیا کرتی 74 اس زمانہ کی شفا کا علاج سچائی میں ہے آخر سچائی کی فتح ہے سخاوی 108 687 46 سخی سرور 541 635 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 679,680
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 39 سربیا سرحد (صوبہ) 145 سچی سکینت کے حصول کا طریق 323,324,331 | سلمان رشدی سرحد میں بڑے بزرگوں کے باوجود اد بار کی وجہ 333 حضرت سلمان فارسی احمدیت کی تاریخ سے ہی وہاں تاریخ کا آغاز ہونا 334 حضرت سلیمان سرحد کے بڑے لوگوں نے توجہ کی ویسی کسی نے نہیں 332 ایک بچہ کے معاملہ میں دو عورتوں کے بیچ فیصلہ سرلودها سری لنکا سزا 9,208,686,846,1004 295 642,643 578,580 288,289 800 آپ کے غیر معمولی صاحب حکمت مشہور ہونے کی وجہ 800 730,904 سلیمہ صاحبہ 567 حضرت سمیہ سزا کی دواقسام کا ذکر سزا یا جزا کے دو قسم کے نظارے سعد به تیم صاحبہ سعدی سعودی عرب سعودی عرب میں وہابیت کا زور سعید حضرت سعید بن زید 375 777 475 763 46 638 997 حضرت سمیہ اور آپ کے خاندان پر اہل مکہ کے مظالم 663 سندھ سنگاپور سوئٹزرلینڈ شرک کا گڑھ سویڈن 659 | سویز کنال ڈاکٹر سعید احمد صاحب 334 اس کی جنگ بھی منزل بنا کٹھہ نہیں جاتا سکھیکی ڈاکٹر سعید خان صاحب سعید ومان سفر سفر میں عبادت کا تصور ہی دیگر مذاہب میں نہیں 467 سفر کی حالت میں سارے تعلقات عارضی دکھائی دیتے سیاست سہروردیہ فرقہ 335 حضرت سہل 598 حضرت سہیل 544 921,929 94,179,730,852,853 980,1002,1003 514 140,338 54 912 188 817 سیادت سیادت خدمت میں ہے یہی کنجی ہے 70.71 816 904 208 سیاست سے طیب رزق کا تعلق سیاست کے حوالہ سے تمام عالم اسلام کو نصیحت سیاست کے حوالہ سے تیسری دنیا کو مشورے 395 75 28 سیاست میں مغرب کاdivide and rule کا اصول 37 سیاست میں ہارس ٹریڈنگ اور قوموں کی ہلاکت 373 سکھوں نے ہمیشہ جماعت سے حسن سلوک کیا ہے 981 سکینت سکینت کا مرکز گھر ہیں.243 ابتلا کے وقت نا سمجھ مسلمان قیادت کا عوام کو ظلموں میں جھونکنا 66 تمام عالم اسلام کا اس وقت مغرب کو سجدہ کرنا تیسری دنیا کے سیاستدانوں کا صرف روپیہ کمانا 66 371 اس غلط نہی کا رڈ کہ عورت صرف تسکین دے اور مرد لے سیاستدانوں کو نرمی سے خطوط لکھنے کی تلقین 242,243 اس کے بعد مرد پر کوئی ذمہ داری نہیں 294 غریب ممالک کے سیاستدانوں کا حال 30
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 قائداعظم کا سیاسی وحدت کا نظریہ مذہبی اقدار کو سیاست پر حاکم کرنا ضروری ہے 40 67 32 114 شادیوں میں بے ہودہ رسموں کے راہ پانے کی وجہ 878 امریکہ اور یورپ کے احمدیوں کو بوسنین بچیوں سے 270 مذہبی جنون کی حوصلہ شکنی نہ کرنے میں سیاستدانوں کا ہاتھ 16 شادی کرنے کا مشورہ مسلمان سیاستدانوں کو حق پر قائم ہونے کی تلقین مسلمانوں پر مظالم کے وقت مغرب کا پیمانہ تبدیل کرنا 105 غریب بچیوں کی شادی کروانے کی تحریک ہندو پاک کے سیاستدانوں کا عوام کے جذبات سے کھیلنا 28 و قارعمل کا شادی کے موقع پر فائدہ 33 شاکت مت امریکہ میں شادی سے قبل بچے پیدا کرنے کی بیماری 353 انصاف پر مبنی نہ کہ مذہب پر مبنی حکومت کا تصور 9,331,805,1004 چوہدری شاہ نواز صاحب سیالکوٹ حضرت مسیح موعود کے حوالہ سے خاص اہمیت سیالکوٹ کے بزرگوں کی اولا دوں کا ساری دنیا میں 806 خاندان کی قربانی کے حوالہ سے حضور کی تسلی شرک 269 927 943 475 92 پھیلنا اور اس کے بعد اگلی نسل کا بگڑنا سیام ستیلائٹ سٹیشن 806,807 479 آنحضرت مشرک سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے 744 شرک کا سب سے کڑوا پھل دہریت ہے شرک کو خدانہیں بخشا، اس سے مراد احمدیت کی تاریخ کا مبارک جمعہ تیسرے سیٹلائٹ سٹیشن کا ملنا158 شرک کی بیخ کنی میں خلفاء کا کردار سیٹیلائٹ سے اخراجات میں اضافہ پر جماعت کا اخلاص 160 شرک کی حقیقت سیرالیون سیرت المہدی صاحبزادہ سیف الرحمان صاحب سینیگال شادی بیاه 2,1008 680,836 335 596 شرک کی طرف میلان درجہ بدرجہ ہوتا ہے شرک کی مختلف قسمیں 514 536 546 535,745 شرک کی نفی انسان کو جس چیز کے لئے تیار کرتی ہے 736 675 وہ تمام صفات حسنہ آنحضرت میں پائی جاتی تھیں 608 شرک کے خلاف دو دلیلیں شادی کے موقع پر انگلستان میں احمدیوں کا اچھا طرز عمل 927 انسانی معاملات میں شرک 877 شادی کے موقع پر پردہ میں بے احتیاطیاں شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچے ہر مذہب، رسم اور قانون کے مطابق جائز قرار دئیے جاتے ہیں 353 شادی کے موقع پر حضور کو دعا کے لئے احمدیوں کا بلانا حضور کا پردہ کے حوالہ سے طرز عمل 928 ایک شرک دوسرے شرک کو پیدا کرتا ہے لا اللہ میں شرک کی نفی ہے محبت کے نتیجہ میں شرک کے قریب پہنچنا مخفی شرک کا رفتہ رفتہ کھلے شرک میں تبدیل ہونا وہ شرک جس نے مختلف امتوں کو تباہ کیا شریعت 519 515 540 968 757 542 539 541 212 وہ نعرے جن سے شرک کا اظہار ہوتا ہے شادی کے موقع پر بد رسومات سے اجتناب کی تلقین 924 شادی کے موقع پر بیروں کے رواج پر حضور کا تبصرہ 927 شریعت لعنت نہیں بلکہ ایک نعمت ہے شادی کے موقع پر ساری رات گانوں اور ڈھولکی میں گزارنا اور صبح کی نماز کو بر وقت نہ پڑھنا شادی کے موقع پر ہوٹلوں میں بہروں کے فنکشن میں عرب شعراء کا قرآن کی وجہ سے شاعری چھوڑنا 714 بعض شعراء کا اشعار کی داد کے باوجود مطمئن نہ ہونا 753 آنے کے حوالہ سے ایک صدر لجنہ کا سوال 309 924
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 41 آنحضرت کا ایک شاعر کو اپنی چادر انعام کے طور پر دینا 736 اردو اشعار اس جائے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء بے بسی دیکھو کیسٹ سے انہیں سنتے ہیں 838 434 587 405 عربی اشعار قفا نبک من ذكر حبيب ومنزل فارسی اشعار ایں سعادت بزور بازو نیست بهر مقام فلک شده یا رب مام او مبین از راه تحقیر اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے ایک حرف مہرمانہ 313 جو چمن سے گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بلبل زار سے 817 پیچ در پنجه خدا دارم حق پر شار ہوویں مولا کے یار ہوویں حقیقت کھل گئی حسرت تیرے ترک محبت کی دونو جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ٹوٹی کہاں کمند کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں 486 406 132 625 837 101 770 208 434 505 89 186 ہر بیشہ گماں مبر کہ خالیست پر حذر باش زیں بتان نہاں ہر چہ غیر خدا بخاطر تست او پئے دلدار از خود مرده بود تانہ نو شد جام ایں زہرے کسے زیرا این موت است پنہاں صدحیات شکاگو شکر اور رمضان کا تعلق شکر کے نتیجہ میں فضلوں کا بڑھنا شمالی افریقہ شمالی امریکہ شمالی پول ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا پھیلتی جائے گی شش جہت میں صدا 22 یپٹن تمیم احمد صاحب ڈاکٹر شمیم صاحب شوری شوری تقوی کے بغیر بے معنی اور بے حقیقت ہے یہ نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن شوری کی روح کس قدر ظاہر ہے نو ر اس مبدء الانوار کا گھر پر تالا پڑا ہے مدت سے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا کوئی کل کیا دیکھے 259 128 237 965 477 462 456 547 537 763 838 838 829 830 830 335 173 591 1006 390 472 338 1011 337,866,871,872 254 867,872 آتیرے بعد گلے ملنا ہی بھول گیا آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام 102 61 954 200,995,1012 724 669 14 آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے آئینہ تیری قدر کیا جانے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا شوری کو زندہ کرنے کے لئے تین ضروری باتیں 342 شوری میں بعض دفعہ روایات سے ہٹنے کی کوشش شاملین شوری کو استغفار کی تلقین 337 341 شوری کی مجلس کو زندہ ، قائم اور دائم رکھنے کا طریق 259 شوری کا ڈکٹیٹر شپ سے دور کا بھی تعلق نہیں 872 شوری کے نظام کا نبوت اور خلافت سے تعلق 866
42 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 شوری کے نظام کے ذریعہ نظام جماعت کی حفاظت 872 شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے ضروری اوامر 351 نمائندگان کے انتخاب میں تقوی کو مد نظر رکھنے کی تلقین 255 شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، اس سے مراد 370 دنیا بھر کی تمام مجالس شوری کی تجاویز آخری فیصلہ کے لئے خلافت کے سامنے پیش کی جاتی ہیں امریکہ کی مجلس شوری کے لئے حضور کا پیغام 871 344 انانیت کے شکار لوگوں کے اندر شیطان کا آنا وہ لوگ جو ذریت شیطان ہیں 277 702 ہر انسان کے اندر موجود شیطان کو کچلنے کی ضرورت ہے 282 تمام مجالس شوری کے فیصلے ایک رنگ میں فیصلے اور ایک آنحضرت کے شیطان کا مسلمان ہونا 871 رنگ میں محض مشورے ہیں تو کل کے نتیجہ میں غلط فیصلہ کو اللہ درست فرمادے گا 869 شیعہ میں ذکر کا ایک رنگ حقائق کے غلط ہونے سے غلط فیصلہ ہو سکتا ہے خلافت راشدہ اور اس خلافت میں ہر مشورے کے بعد ہر خلیفہ کا فیصلہ درست تھا 869 شیعوں کا حضرت علی کی محبت میں انتہائی غلو ص ، ص ، ط، ظ 870 صالح جابی خلافت کے بعد شوری سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے 337 صبر خلافت کے ساتھ شوری کا تعلق 870 278 909 542 598 101,111,112,191,664 112 صبر جیسی دنیا میں کوئی طاقت نہیں امور جن کے سمجھے بغیر شوری کا صحیح تشخص نہیں قائم ہو سکتا 338 صبر سے انسان کو ایک بڑی طاقت نصیب ہوتی ہے 722 آنحضرت کو بھی مشورہ کا حکم دیا گیا تقوی کا نظام خلافت اور نظام شوری سے تعلق علامه شهرستانی شهید 866 260 914,915 صبر کا قبولیت دعا سے تعلق صبر کی دواقسام 114 192 صبر کے حوالہ سے حضرت اقدس کی ہم سے توقعات 390 خالی صبر کی بجائے صلوٰۃ کے ذریعہ مدد مانگنے کی تلقین 305 شہید کیلئے حزن کی بجائے سیدھا جزا کا معاملہ ہوتا ہے 124 انسانی صبر کا دو طرح پھل لانا 404 ماں کی فطرت میں صبر ہے، اس کے ٹوٹنے سے زمین ایک شہید صحابی کی مرتے وقت کی کیفیت جان کی قربانی میں سب سے بڑی قربانی شہادت ہے 124 آسمان ٹوٹ جاتا ہے آنحضرت سب شہیدوں سے بڑھ کر شہید 668 | صحار نیکی کی تبلیغ کرتے ہوئے مرنے والا شہید ہے شیخ محمدی شیخوپوره حضرت شیر علی صاحب شیطان 37 159 335 9,380,646,665,1004 545 162,181,263,285,350,352 114 114 327,329,330,658,659,992 صحابہ پر آنحضرت کے توحید سے متعلق خطابات کا اثر 620 663 صحابہ پر مظالم کے وقت آنحضرت کی حالت صحابہ نے توحید کے عرفان کی وجہ سے قربانیاں کیں 656 قیامت تک صحابہ کی توحید کے حوالہ سے قربانیوں کا اثر 668 صحابہ کے کفار پر شدید ہونے سے مراد شیطان انسان کی رگوں کے اندر دوڑ رہا ہے 278 | صحبت شیطان اور خودی کے حملہ کا ایک جیسا ہونا 832 391 بعض معنوں میں آنحضرت کا صحابہ سے امیدیں رکھنا 690 آخرین کے اولین سے ملائے جانے کی پیشگوئی 990 اچھی صحبت کی حدیث کی رو سے تین شرائط 991 227 شیطان کی غلامی اللہ سے آزادی کا نام ہے 205 صحیح ابن خزیمہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 صدام حسین صفوان بن امیه صوفیاء 45,50,104,107 660 43 تمام انسانیت کے لئے آپ کے دل میں بھلائی کا اظہار 2 جرمنی میں کبڈی کے ایک میچ کے دوران ذاتی تبصرہ کا بغیر علم کے ساری دنیا میں نشر ہونا اور حضور کا استغفار 435 صوفیاء کا اپنی شامت اعمال سے آنحضرت کے اعمال جرمنی میں ملاقات کے دوران ایک شخص کا 12 سال 936 کو ترک کر کے خود تراشیدہ اذکار کو اختیار کرنا پرانا واقعہ یاد کرا کے حضور سے معافی طلب کرنا ان کا عقیدہ کہ نماز کے مقابل پر اللہ کا ذکر زیادہ اکبر ہے 904 حضور اپنے ذاتی چندہ کا ذکر کرتے تو متمول لوگ بھی اپنا صوفیاء میں ذکر کا ایک جھوٹا تصور 893 946 چندہ بڑھاتے ، ذکر چھوڑنے پر کمزوری آنا خلیفہ وقت کی دعا سے مشکلات کا حل ہونا بعض صوفیاء کے قتل کی وجہ ذکر کے سلسلہ میں صوفیاء یا بعض فرقوں کا غلطی کھانا 902 خلیفہ وقت ہونے کے لحاظ سے اور بڑی طاقتوں کو سمجھانے کے حوالہ سے آپ کی قلبی کیفیت صومالیہ حضرت صہیب بن سنان رومی ضماد جس کا ضمیر نماز میں اٹک گیا تو وہ نمازی بن چکا 95 661 599 264 428 131 461 73 روس کے حوالہ سے حضور کے تین مضامین کی اشاعت 56 ماریشس کے سفر کے لیے دعا کی تحریک وقف جدید کا حضور سے تعلق امریکہ میں mugging سے حفاظت کا واقعہ 978 999 369 داڑھی کے سفید ہونے کے حوالہ سے مختلف خطوط کے قوموں کی ترقی اور مرنے کا راز انسانی ضمیر سے منسلک ہے 263 ملنے پر خطبہ میں اس کی بابت ذکر وقف جدید سے میراتعلق خدائی تقدیر تھی 119 160 طبقات ابن سعد 658,663 طب ضمیمہ براہین احمد یہ طائف طارق بن اشیم 920 34,35,316 526 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع بد عادت چھڑانے سے کاطریق اکثر بچوں میں دمہ کی بیماری کی وجہ آپ کی دعاؤں کی قبولیت اور جماعت پر افضال کے حوالہ سے غیر احمدی مولوی کا ایک مضحکہ خیز بیان 638 طوالو 120 طیا مام ظاہر اپنی صحت کے لئے جماعت کو دعا کے لئے کہنا خلافت کے گیارہ سال پورے ہونے پر حضرت اقدس اسماعیلی فرقہ کا پیشوا کے ایک الہام کی طرف ذہن کا منتقل ہونا 460 | حضرت مستقی ظفر احمد صاحب انگلستان میں کالج کے زمانہ میں ایک مرتبہ کچے گھونگھوں آپ کا حضرت مسیح موعود سے عشق کا اظہار میں سے جانور نکال کر تجرباتی طور پر کھانا اور قے آنا 365 اہلیہ کے انتقال کو ایک سال ہونے پر جماعت کو غریب ظلم کی مخفی رنگ ہر ایک کے اندر پھڑک رہی ہے 268,269 715 365 560 913 6 7 66,621,663 109 47 بچیوں کی شادی کے حوالہ سے تحریک ظلم کے خلاف جہاد کی اسلامی تعلیم ایک انگریز کا آپ کے ہاتھوں کو چومنا کہ صحابہ سے میں وہ ظلم جس کے خلاف احتجاج ایک احمدی کو کرنا چاہئے 48 نے مصافحہ کیا ہوا ہے 700 ع ، ع 817 حضرت عائشہ 201,202,203,227,228 بچپن میں پہاڑوں پر جانے کا شوق بہت چھوٹے بچوں کے خطوط سے حضور کا لطف اٹھانا 12 616,626,987,994,996
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 واقعہ افک میں خدا کا آپ کی بریت کرنا عائلی زندگی عائلی معاملات خیانت کی وجہ سے زندگیاں برباد ہونا عورت سے تسکین کے بعد مرد کی کوئی ذمہ داری نہیں اس و ہم کارد 44 869 801 294 292,466,467,566, عبادت عبادت پر قائم ہونے کا طریق عبادت کا مقام محمود سے گہرا تعلق عبادت کی طرف توجہ کرنے کی تلقین بگڑے ہوئے مردوں کی بنیاد ان کی مائیں ڈالتی ہیں 296 عبادت کے بعد ذکر اللہ سے مراد بیوی سکینت کے حصول کے لئے پیدا کی گئی ہے بیویوں کو چاہئے کہ وہ سکینت بنیں حسن معاشرت کا مضمون لامتناہی ہے 756 245 297 811,904,905, 208 200-210 565 894 عبادت کے قیام سے متعلق تلقین کا درست طریق 612 عبادت کے نتیجہ میں بندوں سے حسن سلوک 11 عبادت میں ہی تمام انسانی صلاحیتیوں کا نچوڑ ہے 307 عورت خود کشش کا مرکز بنے اور گھر کو سلیقے سے رکھے 246 حضرت عباس 295 عبد / عبادالرحمن 228,659 مشرقی اور مغربی معاشرہ میں عائلی مسائل معاشرہ اچھا بنانے کے لئے گھر میں سکینت ضروری ہے 243 نظام جماعت کی تائید کرنے والے خدا کے بندے ہیں 286 معاشرہ کو آپ کی عائلی زندگی کے مطابق بنائیں 299 دو قسم کے عباد، عباد اللہ بننے کی شرط عبادالرحمن کا اللہ کی صفت رحمانیت سے تعلق موسی کا اپنی اہلیہ اور اس کے گھر والوں کا خیال رکھنا 300 عبدالباقی ارشد صاحب ہماری جماعت میں عائلی زندگی ابھی تک مثالی نہیں 295 آج سب سے بڑا خطرہ گھروں کا ٹوٹنا ہے عاجزی 244 عبدالحمید صاحب صاحبزادہ عبد الحمد ,281,715 قاضی عبد الرحمان صاحب حدیث کی رو سے عاجزی کرنے والے کا مقام 60,601 حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی عاجزی اور انکساری کا رفعتوں سے تعلق عاجزی کا حدیث کی رو سے اجر 60 273 917 475 333 333 334 545 مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی 566,567 280 عبدالرشید اغبولہ صاحب عاجزی کے نتیجہ میں رفعتوں کا حصول 602 عبدالرشید انور صاحب انکساری اور عجز بلندی کا پہلا زینہ 279 | صاحبزادہ عبدالرشید صاحبزادہ عبد السلام خدا سے بخشش کی امید رکھنا ایک بجز کو چاہتا ہے 429 عبد السلام کمارا دعا کے ساتھ بجز کا مضمون بیچے بجز کی علامت 604 833 بلند مقام کے وقت بجز و انکساری کی ضرورت ہے 583 ملک عادل شاہ صاحب عاص بن وائل عالمی بیعت ( نیز دیکھئے بیعت) تاریخ عالم کا پہلا واقعہ اور اس کا اثر عامر بن فہیرہ 333 662 چوہدری عبد العزیز صاحب، امیر ناروے عبدالعنی جہانگیر صاحب، واقف زندگی ماریشس وقف جدید کے متعلق رویا عبد القادر بھٹی صاحب عبدالقادر جیلانی 4 قاضی عبد القادر خان صاحب 660 | چوہدری عبد القدیر صاحب 596 598 333 596 333 400 1004,1005 596 541,912,916 334 552
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 عبدالقیوم خان صاحب صاحبزادہ عبدالقیوم عبدالکریم قدسی صاحب 45 335 333 61 875,890 عرب شعراء کا قرآن کی وجہ سے شاعری چھوڑنا 714 عرب ممالک میں ذیلی تنظیموں کا مستحکم ہونا 272 حضرت شہزادہ عبداللطیف شہید صاحب 333 عرفان الہی عرفان کا حصول اور آنحضرت کی دعائیں ایک عیسائی کا لکھنا کہ آپ بہت بے خوف انسان تھے 123 ان کے ذکر سے ذہن میں آنے والا ان کا تصور عبداللطیف صاحب آف ٹوپی حضرت عبد اللہ بن مسعود 330 335 816 604 عرفان کے بعد ہر طرف سے لامتناہی فرار کا سلسلہ 734 عرفان کے لئے پہلے آنحضرت کا عرفان ضروری ہے 696 قربانیوں کا گہرا تعلق گہرے عرفان سے ہے عزیز الرحمن صاحب حضرت عبد اللہ بن مسعود پر توحید کی وجہ سے مظالم 659 عزیز آباد کراچی حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ 227,228 عبید عبید اللہ میم صاحب حضرت عثمان توحید کی خاطر آپ پر مظالم 243,244 540,657 658 475 عطاء المجیب راشد صاحب طوبی) عقل اور حکمت کا تعلق اشتعال کے نتیجہ میں عقلوں کا مارا جانا گہری عقل اور تقویٰ کی روشنی کا عدل سے تعلق علم علماء 667 596 401 460 475 عثمان احمد صاحب عدل عدل توحید سے پھوٹتا ہے عدل کا فقدان لازماً فساد برپا کرتا ہے 653 564 51 عدل کے بغیر دنیا میں انصاف قائم نہیں ہوسکتا کلمہ پڑھنے سے احمدیوں کو پاکستانی عدلیہ کا محروم کرنا 527 عدنان احمد عراق 475 104 عراق سے مغربی ممالک کا نہایت ذلت آمیز سلوک 43,44 مغرب عراق کے نئے نقشے بنارہی ہے عربی زبان 51 857 46 130 159 1012 علم کی دو قسمیں علم الادیان اور علم الا بدان علماء کا شرکیہ عقائد والے فرقوں پر کوئی اعتراض نہ کرنا 913 علماء کے ابتر ہونے سے قوم کی حالت کا بدلنا علمی لحاظ سے کم علم ہونے کے باوجود بچہ کا ایک مقام پر نہ رہنا635 صاحب علم لوگوں کا تکبر خودی ہے عالم ہو کر اپنے تئیں جاہل سمجھنے کی تعلیم 582 833 833 یورپ میں طالب علم کو گھر کا کام زیادہ دینے میں حکمت 610 عربی الہامی زبان ام الالسنہ اور بے شمار خوبیوں کی مالک ہے، اسکی اہمیت، بلند مقام 499،495،496494،493 عربی زبان کے اختیار کرنے کا فائدہ عربی کے بغیر قرآن کا ابتدائی فہم بھی ممکن نہیں 503 498 حضرت علی 159 آپ سے محبت کرنے والوں کا غلو، مثالیں 540,542 حضرت عمار حضرت عمار اور آپ کے خاندان پر اہل مکہ کے مظالم 663 ملک عمر علی صاحب 333 احمدیت کی بدولت ایک وقت عربی زبان سب سے زیادہ بولی اور کبھی جانے والی زبان بن کر رہے گی 497 شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے چالیس سے زائد زبانوں حضرت عمر 516,540,619,659,660,835 حضرت عمر کا اپنے زخمی ہونے کے وقت حضرت صہیب کو عربی سے ملا کر دکھایا 496,497
46 661 831 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 بن سنان رومی کو امام الصلوۃ مقرر کرنا آپ کی آخری وقت کی دعا 387,571,810,835,894 عید کے موقع پر غریبوں کو بھی خوشیوں میں شامل کریں 232 اس عید کو ز کوۃ سے سجانے کی کوشش کریں عیسائیت 232 ایمان کا ذکر قرآن میں عمل صالح سے پہلے آیا ہے 710 عیسائیت کا توحید کا دعویٰ لیکن عملاً تو حید زمانی سے انکار 694 توحید کا صرف اقرار کافی نہیں عمل بھی ضروری ہے 517 ذکر کے بغیر اعمال صالحہ میں کوئی جان نہیں ہوتی 893 ذکر اللہ کو انسانی زندگی میں تمام اعمال صالحہ میں 539 عیسائیت کا شرک کی وجہ سے ہلاک ہونا تثلیث قانون قدرت سے کھلم کھلا اٹکراؤ رکھتا ہے 694 خدمت خلق کے کام میں عیسائی قومیں آگے ہیں آنحضرت کے بغیر اعمال صالحہ کے دوام کی کوئی ضمانت نہیں 934 ناروے میں زبر دستی عیسائی بنائے جانے عنایت اللہ زاہد صاحب عورت 596 عیسائیت کی تعلیم اور عمل میں تضاد حضرت عیسی علیہ السلام 711 478 50 76,125 عورت اور مرد کا بے پردہ مجالس لگانا بہت بڑی خرابی ہے 356 حضرت عیسی کے بعد 34 سال تک کسی مؤرخ نے عورت خود بھی کشش کا مرکز بنے اور گھر بھی سلیقے سے رکھے 246 عیسائیت کا ذکر تک نہیں کیا، مگر بعد میں تمام دنیا پر غلبہ پانا479 حضرت عیسی کو خدا ٹھہرانا، عیسائیت کی ہلاکت کا باعث 539 عورتوں سے بیعت کے وقت آنحضرت معروف کا لفظ کہلوایا کرتے تھے عورتوں کا قوم کی تربیت میں بہت گہرا دخل ہے 251 877 حضرت عیسی تعلیم میں بخشش پر زور حضرت عیسی کے نزول میں تمثیل 388 158 عورتوں کے حقوق سب سے پہلے آنحضرت نے قائم کئے 886 آپ کی آمد سے موسی کے پیغام کے دوسرے حصہ کا آغاز 388 عورتوں کے لئے فرائض کی ادائیگی میں نرمی حیا کا عورت پراثر کردار کے لحاظ سے آنحضرت معورت کے لئے نبوت سے قبل بھی ویسا ہی نمونہ تھے عہد نامہ جدید عهده / عہد یداران 237 عہد نامہ جدید کے جلد بعد بیٹا بنانے کا تصور ظہور میں آیا 694 875 | مرزا غالب 887 694 غانا اپنے دیوان کے کئی حصوں کو اس کا ضائع کرنا 625 753 2,84,534,846,854,1002 1003 غانا کی جماعت میں بیداری غانا میں پرانی احمدی جماعتوں میں بعض بدرسموں کا ہونا826 عہدہ کی سپردگی کے بعد سب سے پہلا فرض 407 | غربت غریب ایک امیر کو عہدہ سے ہٹانے پر اس جگہ کے لوگوں کا غلط طرز عمل اور خلافت کی بلندشان کا ذکر تربیت کا کام کرنے کا طریق 286 413 غربت کے ساتھ لگی خرابیاں 367 غریب کو دیتے وقت یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ احسان کر دیا ہے 860 جماعت کے غریب طبقہ کو مانگنے کے لحاظ سے نصیحت 636 تمام دنیا کے امراء انتظامیہ کے معیار پر نگرانی رکھیں 1003 ذکر الہی کے نتیجہ میں غربت سے دوری امیر اور جماعت کے متقی ہونے سے جماعتوں کا ثمر دار ہونا 884 غلام حسن صاحب پشاوری ایک سیکرٹری مال اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھے کہ اسے دھکے کھانے غلام سین اوور سیر صاحب پڑتے ہیں ، دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں 862 غلام حسین خان صاحب عید مرز اغلام حیدر صاحب عید کے روز ربوہ کی مساجد میں حاضری کا عالم 262 غلام رسول صاحب را جیکی 989 334 476 334 335 545
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 صوفی غلام محمد صاحب غلامی غلاموں کو تو حید کے ذریعہ عزت ملنا 47 335 661 خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس نصرت بالرعب غلامی کے حوالہ سے آنحضرت نے تمام عالم پر احسان فرمایا 484 دو قسم کے غالب لوگ امریکہ میں غلامی کے بھیانک نقشہ کا تذکرہ اسلام کی ابتداء میں غلاموں پر کفار کے مظالم 483 659 جس کے ساتھ انصاف ہو وہی عزیز کا غلبہ ہے غلطی 628 62 654 654 اسلام میں غلامی کے تصور پر مغربی اقوام کا تمسخر 484 بسا اوقات اپنی غلطی کا شعور ہی نہیں ہوتا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام غلطی کی اصلاح کا طریق 36,151,169,266,256,379,461, 514,604,680,705,706,859 فائزہ بی بی ایک طریقی که گ 554 555 475 جس خطے میں آپ کی بعثت ہوئی اس خطے کا مالی قربانی فائزہ بی بی کا ٹیلی ویژن پر خطبہ سننے کے اثر کا اظہار 118 میں پیچھے رہنا تکلیف دہ ہے حضرت مسیح موعود کے کلام کی عظمت اور وسعت حضرت مسیح موعود کا تنبل کے متعلق طرز کلام سلطان القلم کے خطاب کی عظمت 1005 حضرت فاطمہ 626 736 فتح الباری شرح صحیح بخاری 264 حاشیہ 831 فتح محمد صاحب سیال 702 فتنه 335 عشق رسول مصطفی میں آپ سب سے نمایاں 538,759 جماعت میں اٹھنے والے فتنوں کی تاریخ کا ایک سبب 799 آپ کی کتب کے ترجمہ کے کام کے رکنے کی اہم وجہ 501 فتوى آپ بچپن سے ہی خدا کی طرف سے تبتل یافتہ تھے 836 جنتی یا جہنمی کا فتویٰ دینا انسان کا کام نہیں آپ کا بچپن کا مسیر والا واقعہ آپ کو ملنے والا رعب آپ کی مدد کرنے سے مراد 837 62 706 آپ کے کلام کو تراجم کے ساتھ mta پر پیش کرنے کا منصوبہ 1012 آپ کے کلام میں زندگی کی خاصیت اور اس کا اثر 499 آپ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہیں 112 فنجی فحشاء فقر فحشاء اور فقر کا تعلق 536 2,141,312,560,846,980 فحشاء کے ساتھ استغفار کا تعلق فضاء کے ساتھ تعلق سے ذکر کوئی فائدہ نہیں دیتا 856 976 905 855 856 478 377,608,665,748,755,853 مالی قربانی اور فحشاء کا آپس میں تعلق آپ کو آنحضرت کا جوعرفان ملا اس کی مثال کہیں نہیں 668 704 رسول میں کلی اپنے وجود کو مٹادینا آپ کے الہامات کی کیفیت اور اردو زبان میں ذکر 502 الهامات اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے بعد گیارہ ، انشاء اللہ تعالیٰ 260 460 ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ہے 394 مسلماں را مسلماں باز کردند 236 مغفرت کا فحشاء سے تعلق فرانسسکونیگری فرانس فرشتے حدیث کی رو سے فرشتوں کے تسبیح کرنے سے مراد 969 قادیان کے جلسہ سالانہ پر فرشتوں کے نزول کی دعا 998 فرعون 64
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 48 فرعون کی ماں کا قرآن میں ذکر 300 قادیان اموال آخرت میں منتقل کرنے کے متعلق فراعین مصر کا رواج 81 فرقه 191,497,533,548,594,648, 648748,805 قادیان اور ر بوہ میں صبح نمازوں پر جگانے کے انتظام ذکر کے سلسلہ میں صوفیاء یا بعض فرقوں کا غلطی کھانا 902 کے طریق کو اپنا ئیں فرینکفرٹ جرمنی فساد 412,426,963 565 قادیان کو سنوارنے کے لئے بڑے اخراجات کی ضرورت تھی 91 قادیان کے جلسہ سالانہ پر شامین جلسہ کو نصائح 981 فساد کو مٹانے کی کوشش کے نتیجہ میں فساد کا پیدا ہونا 162 قادیان کے جلسہ سالانہ پر فرشتوں کے نزول کی دعا 998 دنیا اور مال کی محبت فساد کی جڑ ہے مذہبی فساد کے دنیا سے مٹنے کا طریق دکے دنیاہے : 818 35 قادیان کے جلسہ میں ٹیلیویژن کے ذریعہ شرکت قادیان کے جلسہ میں حاضرین کی تعداد دس ہزار ہونے 979 فضل فضل سے مراد فضل کے مختلف معانی 576 395 پر دس ہزار قد وسیوں کی پیشگوئی کا ذکر قادیان کے غیر مسلموں پر جلسہ کا اثر قادیان میں رمضان کے آخری عشرہ میں چھوٹے بچوں فضلوں کے بڑھانے کے لئے شکر کا بڑھانا ضروری ہے 591 کو بھی صبح اٹھا لیا جاتا تھا فطرت 995 3 201 56 قازکستان فطرت سے مراد اللہ کی فطرت ہے 355,751 قاعدہ میسر نا القرآن انسان کے خدا کی فطرت پر پیدا ہونے سے مراد 761 اس کا تمام زبانوں میں ترجمہ کرنا مشکل ہے 1013 وہ حسین فطرت جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے فقیر محمد خان صاحب فلسطین نہتے فلسطینیوں پر مظالم 173 335 488,580,853,1002 قانون / قانون قدرت قانون قدرت کا اطلاق اسلام کے ہر پہلو پر یکساں ہوتا ہے 694 قانون کے احترام کے لئے خدا کے تصور کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے 378 104,105 بلوغت کو پہنچنے سے دنیا کے قانون سے انسان بھاگ سکتا گندی فلموں کی وجہ سے معاشرہ کا گندا ہونا فلموں کے متعلق نصیحت پر بوہ کے دوکانداروں کا رد عمل وہ اچھی فلمیں جو دیکھی جاسکتی ہیں ڈاکٹر فہمیدہ صاحبہ فیصل آباد را نا فیض بخش صاحب نون فیضیہ صاحبہ قائد اعظم قادریہ فرقه قادریہ فرقہ میں ذکر کا طریق ہے مگر خدائی قانون سے نہیں 247 قدر اقدار 247 245,246 89 9,241,242,1004 96 821 67 911 375 929 احمدی اور اسلامی اقدار یونیورسل ہیں اخلاقی اقدار کی حفاظت کا کام جماعت کے سپرد کیا گیا ہے 379 امریکی احمدیوں کیلئے اخلاقی قدروں کو درپیش خطرات 347 انسانی قدریں دب جاتی ہیں مری ہوئی نہیں ہوتیں بنیادی انسانی قدروں کا قرآن میں ذکر کھوئی ہوئی اعلیٰ اقدار کے حصول کا طریق 48 364 336 مذہب انسانی قدروں میں اضافہ کی خاطر آتا ہے 981 قربانی قربانی کے بعد منفی رنگ میں جزا کے ذکر کی حکمت 121
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 49 قربانیوں کا گہرا تعلق گہرے عرفان اور گہری وفا سے ہے 667 تقبل کی دو انتہاؤں کا قرآن کریم کی ایک آیت میں ذکر 740 اس زمانہ میں احمدیت نے توحید کی خاطر جتنی قربانیاں دنیا کا سب سے بڑا خزانہ قرآن ہے جو آسمان سے اترا ہے 1009 دکھائی ہیں ان کی مثال کہیں اور نہیں صحابہ کو تو حید کے عرفان کا حاصل ہونا جس کی وجہ سے 642 656 رحیمیت کے جلوہ کے نتیجہ میں قرآن کا ہمیشہ باقی رکھا جانا 667 سورۃ فتح میں نہ صرف اولین کی فتح کی پیشگوئی کا ذکر ہے بلکہ آخرین کی فتح کا بھی ذکر ہے 397 انہوں نے قربانیاں کیں محمد رسول اللہ کی صداقت کی گواہی ، قربانیوں کا ابتدائی دور 657 سورۃ والعصر میں اس زمانہ کے مسائل کا نقشہ کھینچا گیا ہے 107 صبح کا قرآن مشہود ہوتا ہے 207 قرضہ حسنہ آنحضرت نے انسانی تعلقات میں بھی قرضہ حسنہ میں عام طریق سے ہٹ کر قرآن میں ایمان کے ذکر سے قبل امر بالمعروف کا ذکر ایک جگہ کیا ہے، اس میں حکمت 710 عبس وتقولی والے واقعہ میں آنحضرت کے پاک نمونہ کا اظہار 925 اللہ کے رنگ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے اللہ تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا 92 133 قرآن کریم 122,125,163,168,196,212 عربی زبان کے سمجھے بغیر قرآن کا ابتدائی فہم بھی ممکن نہیں 498 300,314,350,364,385,397,450,465, 499,532,569,574,576,622,650, 679,710,714,809,932,936,946, 947,981,1008,1013 قرآن میں مختلف الفاظ اور رنگوں میں نیکی کا ذکر 99 گھر کے نوکروں سے پردہ میں نرمی کے حوالہ سے قرآن کی تعلیم 879 محمد اور قرآن ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 679 نما زیاد کرنے کے لئے سورۃ فاتحہ راستہ صاف کرتی ہے 611 نیکی کے بعد قرآن میں بدی کا ذکر آتا ہے وہ لوگ جن کو قرآن بھی ہدایت نہیں دے سکتا 713 650 قرآن اور دیگر مذہبی کتابوں کا زبان کے لحاظ سے موازنہ 502 یوسٹ کے قصہ کو احسن القصص کہنے کی وجہ 508 793 آدم کو اسماء سکھانے سے مفسرین کا زبان مراد لینا 494 قرآن سارے عربی ادب کا خلاصہ ہے قرآن کریم کا ترجمه از پروفیسر آر بری اور اس کی خوبی 505 قشیری قرآن کریم کا سچا عرفان حاصل کرنے کا طریق 622 قرآن کریم کی مختلف قرآتیں قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں قصور 531,532 قصیدہ بردوه 124 قضاء 898 748,904 736 قرآن کو سمجھنے کے لئے صحابہ کا ایک طریق 508 ایک قضاء آسمان پر ہے اسکے فیصلوں اور اس کی تنفیذ سے قرآن کی ہر تکرار میں کوئی نہ کوئی نیا مضمون ہوتا ہے 864 کوئی دنیا میں بچ نہیں سکتا 326 قرآن میں مذکور نسل کی حفاظت کے ذرائع قرآن میں ہر نبی کے ذکر میں اس کی دعا لکھی ہے 917 نہ ماننے پر جماعت کو چھوڑنا قرآن میں آخرین کے اولین سے ملائے جانے کی پیشگوئی 990 قطب جنوبی قرآن میں آخرین کے نام سے جماعت کا ذکر ، 384,385 قطب شمالی قرآنی وحی کے نزول کے وقت کا تب وحی کا مرتد ہونا 773 اللہ کا سب سے عظیم الشان جلوہ قرآن کریم ہے اختلافات کی صورت میں قضاء میں افراد کا جانا اور فیصلہ 496 820 818,819 473 473 37,262,326,327,367,419, 581,582,592,855 بد مجلس سے اجتناب کے حوالہ سے قرآنی تعلیم کا پر حکمت ہونا802 قوم کی اخلاقی حالت کے ساتھ رزق حلال کا تعلق 364 پانچ نمازوں کا ایک آیت میں ذکر 206 قوموں کی ترقی اور مرنے کا راز انسانی ضمیر سے منسلک ہے 263
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 50 قوموں کی زندگی اور بقا سے تعلق رکھنی والی باتیں 324 جرمنی میں ہونے والے کبڈی کے میچ کے دوران حضور 240,777 کے بعض تبصرے اور ان کا پوری دنیا میں سنائی دینا 435 437 قوموں کے عروج وزوال کا نقشہ اہل قوم کے خیالات پر اثر انداز ہونے کا طریق 48,713 جرمنی میں ہونے والے میچ کے لائیو کاسٹ ہونے سے بعض اقوام کا سختی کی چکی میں پس کر ریزہ ریزہ ہونا 171 پہلے جو ہدایات دی گئیں تھیں ان پر عمل نہ ہوا جن قوموں میں اخلاق مٹ رہے ہوں ، خدا کا تصور مٹ کبری بیگم صاحبہ رہا ہو وہ خود اپنی نسلوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں 374 ان کی وفات پران کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب 960 سخت مزاج قوموں کے اندر آپس میں رحم سطحی ہوتا ہے 392 کتاب اعمال حزب البحر 910 693 عورتوں کا قوم کی تربیت میں بہت گہرا دخل ہے 877 کتاب البریہ نئی اقوام کے احمدیت میں آنے پر کثرت سے تسبیح اور کراچی 9,178,244,665,686,730,913 استغفار کی ضرورت ہے وہ شرک جس نے مختلف امتوں کو تباہ کیا 922 539 کردار 924,927,970,1003 مذہبی قوموں میں اولادوں کے نمازوں سے ہٹنے پر انجام 325 کسی غیر کے کردار سے ٹھوکر کھانا ایک گناہ ہے کردار کے لحاظ سے آنحضرت عورت کے لئے نبوت قیامت قیامت کے دن ہر کوئی اپنے گناہوں کا ذمہ دار خود ہو گا 521 وہ لوگ جنہیں قیامت کے روز دردناک عذاب ملے گا 100 کرشن کائنات 101,162,966,982 771 کائنات پر نظر کرنے سے بعض بھیا نک اور بدصورت چیزیں دکھائی دیتی ہیں ،اس اعتراض کا جواب کائنات کی ہر متحرک اور زندہ چیز جو بھی کام کرتی ہے ستی نوح 520 وہ اس کام کی ذمہ دار ہے کائنات کی ہر زندہ چیز کا مٹی کی خصلت سے پیدا ہونا 279 کائنات میں انسان کے لئے حسن کے پیغامات تبتل الی اللہ کا ایک طریق ، کائنات پر غور ایک دہر یہ سائنسدان بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اس نظام کائنات میں کسی اور کا ہاتھ نہیں 434 746 561 887 389 823 111 475 232,705,804 793 104 کرناٹک کروشیا کیریم اسد احمد خان کشتی نوح کی عبارتوں سے خوف آتا ہے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہندوستان کے دانشوروں کو نصیحت 29 659 کعبه کلام 746 377 597 963 کلام حضرت مسیح موعود کی اہمیت اور اثر 505,506,831 کلام طاہر 22,128 770 کلام حمود کلمہ طیبہ کا فر اور مومن ہونے کے درمیان بہت سے درجے ہیں 440 کلمہ پڑھنے پر احمد یوں پر مظالم کالو کامل ابن اثیر کبڈی 660,661 کلیم خاور صاحب 915 کلیات اقبال کنز العمال 527,642,643 313,832 476 601 کابل کارکنان کاسل جرمنی
گلف گلف کے متعلق خطبات میں عالم اسلام کو تنبیہ گناه 70 202,429,442,521 گناہ جس نے کیا ہو قابل مؤاخذہ وہی ہے گناہ کی تمنا دل سے نکالنے کا ایک گر گناہ کے بعد مغفرت کی سچی پہچان 355 439 442 439 اللہ کا ہر گناہ کو بخشنا سوائے شرک کے 51 479 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 394,748,846,853,1008 846 کنگ چولونگ کلون کوریا کولون ریجن کوہاٹ کویت کھیل 476,609,958,959,960, 1004 335 598 کیمبرج کینما سیرالیون کینیا 19 505 963 کھیلوں کے اعتبار سے مشرق بہت پیچھے ہے 1012 بعض اوقات ایک معمولی سے گناہ کا بوجھ تعلق بڑھنے اولمپک کی تمام کھیلوں کو دنیا کے تمام احمدیوں کو ٹیلیویژن سے بہت بڑھ جاتا ہے کے ذریعہ سکھائے جانے کا پروگرام کیسٹ کیسٹ کے نظام میں مشکلات 1012 646,805,823 دس سال سے جماعت کا کیسٹ کے ذریعہ تمام احمد یوں تک خلیفہ وقت کے پیغام کو پہنچانا بعض گناہوں کے وقت انسان کی بے اختیاری وہ لباس جس سے گناہ ڈھانپے جاتے ہیں گنی لساد 429 442 631 598 492,853,883,886,887 20 گوئٹے مالا گواہی اللہ کے گواہی دینے سے مراد گوجرانوالہ گورداسپور 94,178,332,420,473,492,560 590,591,6316,28,852,1001 730 گورنمنٹ کالج لاہور گھانا کالج گھٹیالیاں 657 9,476,709,787,1004 806 106 686 208 گردوں پر ترکی کے مظالم گالی 44 298,299 گھر ہوتا ہی وہ ہے جہاں سکینت ہو گھروں کو جہنم بنانے والے 127,128 128,297 گالی کا رواج جیسا ہماری قوم میں ہے شاید ہی کسی اور بچوں کو بچپن سے گھر میں نمازوں کی اہمیت احساس دلائیں 312 187 میں ایسے پایا جاتا ہو عورت خود کشش کا مرکز بنے اور گھر کو بھی سلیقے سے رکھے 246 اسلام کی دوسرے جھوٹوں معبودوں کو گالی دینے سے آج کے انسان کے لئے سب سے بڑا خطرہ گھروں کا ٹوٹنا ہے244 مہمان کے آنے کی صورت میں گھر کا ایک حصہ صاف کیا جانا 972 ممانعت کی تعلیم جو شر البر یہ جو اس کو شر البر یہ کہنا اس حال میں گالی نہیں کہلاتا جبکہ کہنے والا عارف باللہ ہو لجرات ( ہندوستان ) گرین لینڈ 298 640 729,788,1004 788 471 502 272,596,854,1002,1008 کیتا گیمبیا ل،م ، ن لاپ قیام لاسا" 477,478 560
94,178,589,590,582,978,979 980,1001,1002 52 142,154,533,730,924,927 1003,1004 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 لاہور لباس لباس التقوى لباس التقویٰ کی اہمیت اصل لباس تو لباس التقوی ہے لجنہ اماء الله 625 631 ماریشس کے ایک واقف زندگی کا وقف جدید کے متعلق رویا 1004 حضور کے دورہ کو دکھانے کے لئے ان کی مالی قربانی 1014 نئے سال کی مبارکباد کے لئے اس کا انتخاب 1006,1015 736,737 مال / مالی قربانی 660 272 80,81,84,85, 88,92,132,624,1005 مال کی محبت محض بے وقوفی اور دھوکا ہے 134 855 لجنہ اماءاللہ ربوہ کی خطبات کے حوالہ سے اچھی رپورٹیں 236 مالی قربانی اور فحشاء کا آپس میں تعلق لجنہ اماء اللہ کا ایک عرب ملک میں سالانہ اجتماع مالی قربانی کرنے والوں کی بے حساب جزا لجنہ یوکے کو بوسنیا کے مہاجرین کی خدمت کا موقع ملنا 103 مالی قربانی کی توفیق خدا دیتا ہے تو ملتی ہے ورنہ نہیں ملتی 139 ہندوستان کی لجنہ کی تعریف لدھیانہ لذت لذت روح اور لذت نفس میں فرق لغت 808 334 مالی قربانی کے حساب سے یہ جماعت ایک اعجازی جماعت ہے 81,82 1000 937 قرآن کریم کی لغت میں امام راغب کا بلند مقام 809 لقائے باری تعالیٰ کے حصول کا وقت لقمان احمد ابن حضرت خلیفہ اسیح الثالث لندن لواء (مقام) لودھراں لیتھوانیہ لیکچر سیالکوٹ 184 475 180,979,1006 965 788,805 853 674 مالی قربانی میں آگے بڑھنے کے لئے ایک احمدی بزرگ 133 کا خط میں اپنے نو ا سے کوتحریک کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر ثواب کا ذکر کرنے کی بجائے عذاب سے بچنے کا وعدہ ،اس میں حکمت جماعت کو مالی قربانی کی غیر معمولی توفیق کا ملنا جماعت کے غریب طبقہ کا مسلسل قربانی کرنا 100 131 131 مال اگر زیادہ ملے تو اس کی محبت بھی بڑھ جاتی ہے 131 اپنے آبا ؤ اجداد کے نام پر اپنی محبت کا تحفہ بھیجنے کے حوالہ سے چندہ کے نظام سے فائدہ اٹھائیں جماعت کا مالی نظام مضبوط ڈوریوں سے بٹے رسے کی سی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں ٹیکسیشن کی روح آئی وہاں سارا مالی نظام درہم برہم ہو جائے گا صرف جماعت احمد خدا کی خاطر اس زندگی میں آخرت 93 83 95 کی زندگی کے لئے اموال آگے بھیج رہی ہے 81,83 قومی مال کھانے کا رجحان پہلے سے بہت بڑھ گیا ہے 366 مستقل اور عارضی مالی تحریکات کا ذکر 83 83 883 205 202 لیلة القدر لیلۃ القدر کہلانے والی رات کی تفصیل ساری زندگی سے بہتر رات ماده پرستی ساری دنیا کے مذاہب کا تو حید کو چھوڑ کر مادہ پرست ہونا 515 نیک اولاد کا والدین کے نام پر مالی قربانیاں کرنا مارکس 364 آنحضرت کی مصدقہ نیک رسم ہے
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 598 53 356,802 ماں ماں کی فطرت میں صبر ہے، اس کے ٹوٹنے سے زمین آسمان ٹوٹ جاتا ہے 725 904 114 مجلس سے کب اٹھنے کی تعلیم قرآن نے دی ہے 926 احمدی گھروں میں لگائی جانے والی مجالس کا حال 310 بری مجالس میں بدذ کر چلنے پر برا منانے کا طریق 878 ذکر کی مجالس جنت کے باغات ہیں ذکر الہی کی مجالس کو عام کرنے کی تلقین 954 976 ماں کی نصیحت کا باپ کی نسبت بچوں پر اور تم کا اثر ہوتا ہے 315 نماز عشاء کے بعد مجلس لگانے کو آنحضور کا ناپسند فرمانا309 جاہل مائیں جو اپنی جہالت کو اولاد در اولاد میں منتقل کرتی علامه مجلسی ہیں ، اس کا نتیجہ قرآن میں دو قسم کی ماؤں کا بطور مثال ذکر 299 مجمع الزوائد 300 مائیں جو اپنے بیٹوں کو خراب کر کے گھر جہنم بنا دیتی ہیں 296 محبت جواپنے کے ہیں مبارک احمد ظفر صاحب مباہلہ 476 لالہ کے نتیجہ میں کیرالہ یںسب سے زیا مباہلہ کے نتیجہ میں کیرالہ میں سب سے زیادہ پھل لگے 646 149 659 457,681 41,404,537,700,705, مجموعہ اشتہارات محبت الہی نیکیوں پر ثبات کا طریق ہے محبت اور بخشش کا تعلق محبت کا بہترین تحفہ 755,757 814 977 993 افریقہ کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف کا اقرار کہ مبلغین کی قربانیاں میری احمدیت کی اصل وجہ ہے 595 محبت کے نتیجہ میں دیوانگی اور شوق کا پیدا ہونا ،مثالیں 699,700 اسلام میں الحب فی اللہ کی تعلیم 40 افریقہ کے مبلغین اور مجاہدین کے اخلاص کا ذکر 594 اللہ اور دنیا کی محبت بیک وقت برابر نہیں پل سکتیں 10,813 نو مبائعین کو مبلغ بنا دیں گے تو وہ محفوظ ہو جائیں گے 721 متی کی انجیل مٹھا ضلع مردان مٹی مٹی میں عجز اور نشو و نما کی صفات انسان کے مٹی سے پیدا کرنے میں مضمر پیغام 451,454 335 280 279 کائنات کی ہر زندہ چیز کا مٹی کی خصلت سے پیدا ہونا 279 مجدد مجددیت کی پیشگوئی میں خلافت راشدہ کے انقطاع کی دردناک خبر مجددین کی خدمات 650 574,575 اولاد سے اندھی محبت خدا سے دور لے جاتی ہے دنیا کی محبت فساد کی جڑ ہے ذکر اور محبت کا تعلق سچی محبت کی علامت 733,945 792 818 966 800 والدین کی اندھی محبت کے نتیجہ میں بچوں میں برائیاں 955 وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے حضرت محمد سے کرائے بغیر انسانیت سے محبت کی تعلیم 7 سی اللہ علیہ وسل 46 17, 177,199,201,225,239,249,280,316, 417,421,431,455,518,521,537,541, 581,593,602,608,618,639,640,689, 690,695,698,701,737,743,815,869, 887,925,933,949,984,992,994 649 خلیفہ کے ہوتے ہوئے کسی الگ مجدد کی ضرورت نہیں 651,652 خلافت ثالثہ میں مجددیت کا فتنہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 محمد اور قرآن ایک ہی چیز کے دو نام ہیں آپ کا توحید والا سفر وصال کے بعد بھی جاری 54 679 639 شرک سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے 744 شہید ہوتے وقت ایک صحابی کی آپ کے متعلق کیفیت 404 آپ کی اطاعت کے نتیجہ میں اللہ کی اطاعت کا سمجھ میں آنا 637 صحابہ پر مظالم کے وقت آنحضرت کی حالت محمد رسول اللہ کی حکومت قائم ہونے سے مراد محمد رسول اللہ کی صداقت کی گواہی، قربانیوں کا ابتدائی دور 657 صرف ایک شخص کو حضور نے نیزہ مارا تھا محمد کی سنت جیتنے والی سنت ہے محمد کے قدم سے وہ آ گیں جو ٹھنڈی کر دی گئیں 76 75 485 617 663 ایک حدیث ہی آپ کے سب سے سچا ہونے کی دلیل ہے 995 618 66 عالم اسلام کا امن محمد کی سنت میں ہے عبس وتولی والے واقعہ میں آنحضرت کے پاک نمونہ کا اظہار 925 عرفان کے لئے آنحضرت کی دعاؤں کی اہمیت 604 605 آپ کا معراج ساتویں آسمان سے بلند تر ہوا، اس کی وجہ 280 محمد مصطفی اسکی غلامی میں معراج تک پہنچنے کا تصور 643 آنحضرت ہر زمانہ والوں کے لئے معلم حقیقی 573,574 معراج قلب محمد پر ہوا تھا اللہ کی خاطر آپ کے جہاد سے مراد ایک غزوہ کے دوران سوتے ہوئے ایک مشرک کا آپ مقام محمود کے حصول کے لئے آپ کی جدوجہد پر تلوار سونتا اور آنحضرت کا کمال تو کل نماز عشاء کے بعد مجلس لگانے کو آپ نا پسند فرماتے ، وجہ 309 بائیبل میں احمد نام سے عیسی" کا آپ کی پیشگوئی کرنا 125 ہجرت کے وقت غار ثور میں آنحضور کا کمال تو کل 669 آپ پر ارب ہا ارب انسانوں کا نسلاً بعد نسلِ سلام بھیجنا 481 بعثت محمدی کا آخرین میں ظہور ایک نیا جلوہ تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ متقی توحید کی راہ میں آنحضرت کا دکھ اٹھانا 675 578 633 641 آپ ہرلمحہ خدا کے حضور حاضر تھے آپ سب شہیدوں سے بڑھ کر شہید 207 743,744 668 602 736 توحید کے مضمون میں حضرت ابراہیم اور آنحضرت کا مقام 518 آپ سے بڑھ کر صاحب عرفان اور صاحب ذوق کوئی نہیں 737 جنگ اُحد کے دوران آپ کی اللہ کے لئے غیرت 619,630 آپ صاحب صبر اور صبر کی تلقین فرمایا کرتے تھے 664 حضرت ابراہیم کی آنحضرت کے ظہور کے متعلق پیشگوئی 722 عجز کے مقام میں سب سے بلند حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ خدا نے یہ رستہ کھلا رکھا ہے ایک شاعر کو اپنی چادر انعام کے طور پر دینا کہ ایک انسان محمد تک پہنچ لیکن پہنچ کوئی نہیں سکے گا 633 آپ کا خدا پر توکل عرفان کے لئے پہلے آنحضرت کا عرفان ضروری ہے 696 آپ کا دل ہی عرش الہی تھا خدا کے آپ سے ہمکلام ہونے کے طریق خدا نما وجود خدا نے صرف آپ کو مجسم ذ کر کہا 441 759 986 خدیجہ کا آنحضرت کے حسن سلوک سے متاثر ہونا 886 دن رات تسبیح کے حوالہ سے آنحضرت کی کیفیت 966 دوزمانوں میں آپ کی دو الگ شانوں کا ظہور 125 آپ رحمانیت کا سب سے بڑا اعجاز تھے سب سے زیادہ حمد کے لائق وجود سب لوگوں کی بھلائیاں آپ سے وابستہ ہیں 666 198 238 سورۃ الصف میں آپ کی ظلمی آمد ثانی کا ذکر ہے 125 آپ کا روحانی مُردوں کو زندہ کرنا 690,691 985 779 967 559 آپ کا قاب قوسین او ادنی کا مقام آپ کا نصیحت کا انداز آپ کے نور علی نور ہونے کی بلندشان 187,866 414 آپ کی باتوں کا دلوں پر اثر آپ کی ثابت قدمی کی مثال کسی اور نبی میں نہیں ملتی 692 آپ کی زندگی کا ہر پہلو اللہ کے جلال اور جمال کے تابع تھا 620 آپ کی فطرت کی حقیقت آپ کے استغفار کرنے کی وجہ 754 430 آپ کے دل میں اللہ کے لئے عزت کی غیرت 603
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 آپ کے ذریعہ ایک نئی تاریخ کا جاری ہونا آپ کے طفیل الہی نور کا حاصل ہونا آپ کے وسیلہ ہونے سے مراد 55 480 932,933 40 آنحضرت کی مدد کے بغیر اعمال صالحہ کے دوام کی کوئی ضمانت نہیں آنحضرت کی ہر نصیحت کا منبع اللہ کا کوئی الہام یا حی ہوا کے ہر تعلق کا رضائے باری تعالیٰ کے تابع ہونا 815 کرتا تھا آپ مجسم ذکر تھے پ میں تبتل کی انتہاء کا ہونا 908,932,983 740 934 955 آنحضرت کی ہر نصیحت موقع محل کے مطابق ہوتی تھی 950 آنحضرت کے توحید سے متعلق خطابات کا صحابہ پر اثر 620 پ سے محبت کا وہ انداز جو شرک کی طرف لے جاتا ہے 539 آنحضرت کے سب انبیاء اولین و آخرین پر فضیلت کی وجہ 702 آپ کے چار بنیادی کام پ کے شیطان کا مسلمان ہونا آپ کے کامل موحد ہونے کی تفصیلات آپ کا رحمتہ للعالمین ہونا پ خدا کی تخلیق کا ایک عظیم شاہکار تھے پ کا نام احمد ر کھے جانے کی وجہ آپ کی طرز بود و باش نہایت سادہ تھی آپ کی نیکیوں اور حکمت کی کیفیت 570 278 522 146 193 196 246 193 702 920 328 661 691 146 210 آنحضرت کے کامل موحد ہونے کا نقشہ آنحضرت کے ہاتھ کا اللہ کا ہاتھ ہونا آنحضرت کا نصیحت کا طریق آنحضور کا دوعمروں میں سے ایک مانگنا آنحضور کی توحید کی بار بار آزمائش بائیکاٹ کی تعلیم کبھی آنحضرت نے نہیں دی عبادت کے بغیر مقام محمود والا شخص نہیں مل سکتا نماز کے وقت آپ کے سینہ سے چکی کی طرح آوازیں نکلنا 996 دعوی سے پہلی زندگیآپ کی صداقت کی دلیل آپ تبلیغ کے لئے طائف گئے تو فتنہ پیدا ہوا کی بنیادی صفت ، رحمۃ للعالمین 283 34 26 کی دعاؤں سے قوم کے روحانی بیماروں کو شفا ملنا159 کے دل میں ہمدردی کا جوش 25 پ کی آواز کو ہر کان نے سنا مگر اسی نے قبول کیا جنہوں نے دل کھولے ہوئے تھے آپ کے مقام محمود کی تفصیلی اور لطیف تشریح آخری مرض میں آپ کی نماز کے لئے تڑپ 159 196 227 آپ کا صحابہ کے ہمراہ عمرہ اور حج کی نیت سے مکہ کا سفر آپ ساری کائنات کی پیدائش کا مقصد اور ماحصل میں 162 مگر حدیبیہ کے مقام پر روکے جانا، اس کی غیر معمولی جزا 824 آپ کا عدل سے حکومت کر کے دکھانا آنحضرت ذاکر اور مذکر تھے آنحضرت کا اول و آخر ہونا آنحضرت کیا تبتل کے حوالہ سے اسوہ آنحضرت گا ہر لباس لباس التقویٰ تھا آنحضرت کو بھی مشورہ کا حکم دیا گیا آنحضرت کو ملنے والا رعب 931 519 15,16 23 آپ کا مذہب کے معاملہ میں مرکزیت پر زور آپ کی بے چینی یا بے صبری غلبہ اسلام کے لئے تھی 101 محمد اور پہلے رسولوں میں رسالت کے حوالہ سے فرق 388 814,816 625 866 61 محمد کی موسیقی سے مشابہت محمد کے اول اور دوسرے دور میں فرق محمد کی نصیحت میں غیر معمولی اثر کی وجہ 386 386 313 531 آنحضرت کو ملنے والا عظیم الشان غیر معمولی رزق 934 محمد کی حمد ہی وہ حمد ہے جس کا لحمد للہ میں ذکر ہے 196 آنحضرت کی باتوں کا ایمان اور اعمال صالحہ پراثر 571 محمد احمد جلبیل صاحب آپ بنی نوع سے ہمدردی میں سب سے بلند ہیں 698 شیخ محمد احمد مظہر صاحب آنحضرت کی خاموش سیرت گہرے پانی کی طرح ہے 617 شیخ صاحب نے چالیس سے زائد زبانوں کو عربی سے ملا آنحضرت کی مدد کرنے سے مراد 706 کر دکھایا 496,497
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 اس بات کی تصحیح کہ آپ صحابہ میں سے نہ تھے آپ کی پیدائش پر نام میں مضمر پیشگوئی محمد اختر امینی صاحب محمد ادریس شاہد صاحب راجہ محمد اسلم صاحب مرز امحمد اشرف علی صاحب محمد اکبر صاحب محمد ا کرم صاحب محمد اکرم خان صاحب درانی محمد الیاس صاحب محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ قاضی محمد جان صاحب محمد حاذق رفیق طاہر صاحب یخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت کوئٹہ محمد خواص خان صاحب محمد دانش مند خان صاحب محمد سابا یا نبا 56 6 6 475 599 106 476 333 333 335 335 552 335 552 957 335 335 599 335 567 335 506 مد بینہ مدینہ کا چارٹر ساری دنیا کے لئے امن کا چارٹر بن سکتا ہے 15 مذکر جواہر 596 مذہب مذہب انسانی قدروں میں اضافہ کی خاطر آتا ہے 981 مذہب کے اعلیٰ مقاصد 11 مذہب کے نام پر قتل وغارت 45 مذہب کے نام پر نفرتوں کی تعلیم 11 مذہبی میں دخل اندازی سے سیاست درست ہو سکتی ہے 31 مذہبی اقدار، اخلاق کو سیاست پر حاکم کرنا ضروری ہے 32 مذہبی جنون کی حوصلہ شکنی نہ کرنے میں سیاست دانوں کا ہاتھ ہے 16 جن سے اسلام کی برتری دیگر مذاہب پر ثابت ہوتی ہے 693 دیگر مذاہب کی نسبت اسلام کا توحید پر زیادہ زور دینا 517 دیگر مذاہب میں بزرگ پرستی 616 ساری دنیا کے مذاہب کا تو حید کو چھوڑ کر مادہ پرست ہونا 515 عبادت کے تصور کے بغیر کوئی مذہب نہیں 466 کسی مذہب کے پیروکوکلیۂ جنتی یا جہنمی قرار دینا ہمارا کام نہیں 536 یہ وقت مذہبی بحثوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا پیغام دینے کا ہے 11 دنیا کے ہر مذہب میں روزہ ہے ب میں روزہ ہے 164 مربی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب 249 دنیا کا مربی بننے کے لئے ضروری امور حضرت محمد سرور شاہ صاحب چودھری محمد شریف صاحب قاضی محمد شفیق صاحب ر ظفر اللہ خان صاحب محمد علی خان صاح محمد علی خان صاحبہ بنگش محمد فاضل صاحب قاضي محمد حسن صاحب خان العلماء محمد باشم خان صاحب محمد حنی یینی 333 335 765 نفس کے اندر مر بی پیدا ہو جائے تو اس کی کوئی مثال نہیں 722 مردان حضرت نواب محمد علی خان صاحب 333 حضرت مریم علیہ السلام 476 334 335 334 مزاج احمدی مزاج ایک بین الاقوامی مزاج بن چکا ہے مزار حضرت قاضی محمد یوسف فاروقی صاحب 334 مستدرک حاکم یاروں پر یہ تم کی برائیوں کے اڈے میجر محمود احمد صاحب 437,476 335 756 له 2 937 663 مدین 300 مسجد مسجد کی سب سے بڑی زینت تقویٰ ہے 252
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 مسجد شہید کرنے پر ایک شاعر کی نظم کا ہندوستان کی مشہور اخباروں میں شائع ہونا مسجد میں نئی نسل کا ننگے سر جانا اجودھیا مسجد کے واقعہ میں حکومت کا کردار 891 57 مسند احمد 604,630,649,660,759,831 ,937,993 250 حضرت مسیح ناصری علیہ السلام 890 مسیح کی ایک تمثیل کا انجیل اور قرآن سے موازنہ پاکستان کی حکومت کا احمدی مساجد کی شہادت پر کردار 891 مسیح کے دور میں موسوی امت کی جو حالت تھی اس کا ایک حدیث کی رو سے ساری زمین کا مسجد بنایا جانا مساجد کو آبا در کھنے کی نصیحت مسجدیں وہی ہیں جو خدا کے ذکر کی خاطر بھریں 467 230 155 گہرا تعلق مسیح کی آمد ثانی کے دور سے ہے پہلے مسیح کے دور پر ٹھہر نہ جانا تمہاری شان اس سے بڑھ کر ہونی چاہئے کیونکہ تم مسیح محمدی کے غلام ہو 450 455 450 ناروے میں مسجد کے لئے تحفہ زمین پیش کیا جانا 769 مسیح کی انجیل میں تمثیل کا تعلق محمد کی شان احمد سے 386,399 خلیفہ وقت کے خطبات نہ صرف مساجد میں بلکہ گھروں حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی انتظام کر کے سنائے جائیں یورپ کے آخری کو نہ میں مسجد کی تعمیر کا وعدہ 314 481 عید کے روز ربوہ کی مساجد میں حاضری کا عالم 262 مسجد فضل لندن مسجد مبارک ربوه مسجد نو بر اوسلو مسجد واشنگٹن صاحبزادہ میاں مسرور احمد صاحب 145,513 250 491 686 430 335 ن مسعود احمد صاحب 160,439,441,526,527,599 600,621,632,634,733,948,949,951 احمدیوں کی خوبی کہ حضرت مسیح موعود کو ماننے کی وجہ سے نیکی کی قبولیت کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے اولین سے آخرین کو ملانے والا پہلے مسیح کے دور پر ٹھہر نہ جانا تمہاری شان اس سے بڑھ کر ہونی چاہئے کیونکہ تم مسیح محمدی کے غلام ہو 359 507 450 حضرت مسیح موعود کا جماعت کے اخلاص کی تعریف کرنا 360 دعوی سے قبل کی زندگی کی بابت علماء کی شہادت مولویوں کا اعتراض کہ دکھاؤ کہ کہاں رسولوں نے مسیح 284 موعودؓ کے دور پر ناز کیا ہے 456 آپ کی صداقت کی دلیل، دعوئی سے پہلے کی زندگی 283 مسلمان 968,970,983,984,986,991 حدیثوں میں مسیح کے نزول کے لفظ کی پر معارف تشریح 152 مشكوة مشوره اس زمانہ کی مسلمان قوم کے لئے نجات کی دورا ہیں 110 مشورہ کا تو کل علی اللہ سے تعلق مسلمان قوموں کی ابتر حالت کا نقشہ مسلمان انتقام کی خاطر نہیں بنائے گئے مسلمانوں کا حق پر قائم ہونے سے ہی علاج ہوگا 580 64 114 مشورہ کی ضرورت 581 867,868 867 خلافت راشدہ اور اس خلافت میں ہر مشورے کے بعد ہر خلیفہ کا فیصلہ درست تھا مسلمانوں کا آج کل برے حالات سے نکلنے کے لئے آنحضرت کو بھی مشورہ کا حکم دیا گیا سیدھا ہونا بہت ضروری ہے 65 مصرع جات (جو اس جلد میں مذکور ہیں) ہر مسلمان کے لئے حکم ہے کہ اس نے ضرور امر بالمعروف خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 719 اور نہی عن المنکر کرنی ہے رمضان میں مسلمانوں کے لئے دعا کا صحیح طریق 194 دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں 870 866 832 635 483
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد کا خر کنند دعوی حب پیمبرم 58 454 107 54,388,479 محمد مصطفی کی غلامی میں معراج تک پہنچنے کا تصور 643 تمام انسانیت کا مرجع اور معراج آنحضور کی ذات ہے 738 عجز میں کی وجہ سے معراج میں آپ کا سب سے بلند مقام 602 اموال آخرت میں منتقل کرنے کے متعلق فراعین مصر کا رواج 81 آپ کا معراج ساتویں آسمان سے بلند تر ہوا، اس کی وجہ 280 مطرف مظفر آباد حافظ مظفر احمد صاحب مظفر احمد چوہدری مظفر گڑھ معاذ بن جبل معاشرہ 996 با با معراج موجی 710 303 476,477 904 992,993 مغرب مغرب سے توحید کے سورج کے ظہور کی پیشگوئی 40 682 مغربی اقوام کا ساری دنیا کا اپنے آپ کو مالک سمجھنا 51 مغفرت مغفرت کا حمد سے تعلق مغفرت کا فحشاء سے تعلق 205 856 معاشرہ سے طیب رزق کا تعلق معاشرہ کا سیاسی ہارس ٹریڈنگ سے تباہ ہونا 395 373 احادیث کی رو سے گناہوں سے مغفرت کی اہمیت 439 اللہ کی بخشش کے حاصل کرنے کا طریق معاشرہ کو اچھا بنانے کے لئے گھر میں سکیت ضروری ہے 243 خدا سے بخشش مانگنے کا طریق 558 سچی مغفرت کی پہچان معاشرہ کی ہاتھ سے اصلاح کرنے سے مراد معاشرہ کے اچھا ہونے کی صورت میں خرابیوں سے بچا 366 مقام محمود 626 632 442 معاشرہ میں برائی دیکھنے پر اعتراض کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی 877 مقام محمود ایک جاری اور ہمیشہ ترقی پذیر مقام کا نام ہے 198 معاشرہ میں برائیاں دور کرنے کا صحیح طریق رزق حلال کا انسانی معاشرہ سے گہرا تعلق ہے مشرقی اور مغربی معاشرہ میں عائلی مسائل ہمارے معاشرہ کا گندا ہونا معافی انسان کے دوسرے شخص سے معافی مانگنے میں اللہ کی 718 364 295 309 اذان کے آخر پر دعا میں مقام محمود کی دعا عبادت کا مقام محمود سے گہرا تعلق 198 200 عبادت کے بغیر مقام محمود اور مقام محمود والا شخص نہیں مل سکتا 210 مقدونیہ مرز ا مقصود احمد 725 335 599,685,661,670,691,824,986 ✓ 432 ملاقات خلیفہ وقت سے ملاقات کا اثر لامتناہی مغفرت سے حصہ لینے کا ایک طریق رنجیدہ بھائی سے معافی مانگنے کی عادت ہمیں پیدا کرنی چاہئیے 438 انسانوں سے معافی مانگنے میں جلدی اور پہل کرنی چاہئے ملائیشیا لیکن خدا کی معافی کی طرف زیادہ نظر رہنی چاہئے 430 ملت واحدہ معجزہ معجزہ کی حقیقت 693 427,428 589,590,890 ملت واحدہ کے لئے تیار کیا جانے والا لائحہ عمل ملتان 69 666 جتنا بڑ امو حد ہو گا اتنے زیادہ تائیدی نشانات ہوں گے 704 ملفوظات 135,152,213,361,377,380 معراج معراج قلب محمد پر ہوا تھا 605 446,594,782,812,837,840, 841,939
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 ملفوظات مجدد مائة منصور احمد مبشر صاحب منن الرحمن منور احمد خورشید صاحب منیر جواہر موت موت کے بغیر زندگی نہیں ملتی ، یہی تنبل ہے 915 596 494 596 596 829 59 ہندو پاک کے مولویوں کا گالیوں اور جھوٹ میں مقابلہ 888 338 559 مومن مومن خدا کے سامنے زندگی بسر کرتا ہے مومن کا ایک فیض عام مومن کو خدا کی پکڑ پر نظر رکھنے کی ضرورت مومن کی پاکیزہ زندگی کے ساتھ رزق حلال کا تعلق 396 مومن کی صفات فعال صفات ہیں 439 585 مومن کے لئے قیامت کے روز نعمتوں کا خالصہ ہونے ابدی زندگی کے حصول کا طریق کہ خدا کی خاطر اس دنیا میں موت اختیار کرلیں 842 سے مراد 839 مومن کے لئے ہمیشر ایک ہی جائے پناہ ہے، یعنی اللہ 736 دوسروں کو بچانے کے لئے اپنے نفس پر ہلاکت طاری مونا بنت حضرت خلیفة امسیح الرابع کرنے والے کو خدا کا بلند مقام پر لے جانا 799 789 243 صوفیاء کا مقولہ ہے کہ موتوا قبل ان تموتوا حضرت موسیٰ علیہ السلام 64,76,481,875,985 موسی کو سمجھایا گیا کہ نرمی سے بات کریں موسیٰ کی قوم کا جابر بادشاہوں پر غالب آنا جنہوں نے حضرت موسیٰ کا ذکر تک اپنے تذکروں میں نہیں چھوڑ ا 479 موسیٰ کی والدہ کا اللہ کے کہنے پر دریا میں ڈالنا موسیٰ نے نونشانات پے در پے دکھائے مگر قوم کا غرق ہونا 962 موسی کا پیغام بنی اسرائیل کے لئے تھا 922 388 موسٹی کی تعلیم میں بدلہ اور انتقام پر زور اور اس کی وجہ 388 591 ان کے نکاح کا دن اور جماعت کے محبت بھرے پیغامات کہ ٹیلیویژن پر یہ عالمی نکاح بن جائے مونالیزا مهدی 291 89 مہدی کے آنے کا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ خزانے لٹائے گا1009 مہدی کو قبول کرنے میں ہی اسلام کے مسائل کا حل ہے 68 مہدویت کا تعلق آغا ز خلافتہ اللہ سے ہے 274 936 686 725 میاں محمد میر پور موسی کی والدہ کا قرآن میں ذکر میسے ڈونیا 300 مدین کے گھاٹ پر ایک لڑکی تمنا کہ آپ سے شادی ہو جائے 300 میوزک آنحضرت کی موسی سے مشابہت میوزک کے بغیر دنیا میں پروگرام دکھانے والاٹیلیویژن 1013 386 صحیح کے دور میں موسوی امت کی جو حالت تھی اس کا ایک 455 پاکستان کے مولویوں سے لیا جانے والا اصل انتقام 404 گہرا تعلق مسیح کی آمد ثانی کے دور سے ہے مولوی 471,472 465,471 477 787 مولویوں کے جھوٹے پروپیگینڈوں پر جماعتی ترقی 889 ناروے 94,338,400,465,467,471,479 نارتھ پول نارتھ کیپ اوسلو اس علاقے کی تاریخ اور تعارف نارووال 491,494,496,506,608,683,1007 مولویوں کا اعتراض کہ دکھاؤ کہ کہاں رسولوں نے مسیح موعود کے دور پر ناز کیا ہے مولویوں کا بوسنیا کے علاقوں میں جا کر طرز عمل 456 142 مقامی لوگوں سے رابطے پیدا کرنے کی تلقین ناروے میں تعلیم کی کمی کا رجحان ناروے میں مسجد کے لئے تحفہ زمین پیش کیا جانا 481 504 769
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 60 حضرت مرزا ناصراحمد خلیفة المسیح الثالث سب سے زیادہ صاحب فہم اور اللہ کے قریب نبی ہوتا ہے 866 شیطانیت کا وہ فلسفہ جس کا نبوت اور خلافت سے گہرا تعلق ہے 283 ساری دنیا کوملت واحدہ بنانے کا جو کام خدا نے ہمارے قرآن میں ہر نبی کے ذکر میں اس کی دعا لکھی ہے 917 532 نبوت کے بغیر خلافت کا وجود ممکن ہی نہیں سپرد کیا ہے اس کا وقت قریب آ رہا ہے آپ کو نظم افصل خزانہ تو گھر میں ہے بہت پسند تھی 243 نبیل خالد ارشد صاحب خلیفہ وقت کی دعا سے مشکلات کا حل ہونا ، حضرت خلیفہ چوہدری نثار احمد صاحب ثالث کے حوالہ سے حضور کا اپنا واقعہ بیان کرنا 614 نجات 256 475 552 آپ کے دور خلافت میں مجددیت کا فتنہ اٹھایا گیا 649 اللہ اور محمد رسول اللہ کی اطاعت میں نجات وابستہ ہے 815 نو مبا ئعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری خدا کے حضور نجات یافتہ شمار کئے جانے کا طریق 421 انصار اللہ کے سپر دحضرت خلیفہ ثالث نے فرمائی تھی 844 نجران ناول نداء النصر صاحب نوٹر ڈیم پر لکھے گئے ناول کی غیر معمولی اہمیت 755,756 نسائی نائیجیریا 2,84,596,980,1008 21 نائیجیریا کے ایک تعلیم یافتہ عیسائی پر خطبہ کا اثر را با نایجیریا کے ریا کے شمال میں بولی جاتی ہے 1009 نبض پر ہاتھ رکھنے والے دو قسم کے لوگ ہیں نبی انبیاء نبیوں کی تحقیر سخت دشمنی کی جڑھ ہے انبیاء کے تبلیغ کرنے پر خون بہایا جانا 30 36 34 528 475 61,992 326 نسل کی حفاظت کے قرآن میں مذکور ذرائع جن قوموں میں اخلاق مٹ رہے ہوں ،خدا کا تصورمٹ رہا ہو وہ خود اپنی نسلوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں 374 329 ذکر الہی کا موجودہ نسل کی تربیت سے تعلق صحابہ کی نسل کے ختم ہونے پر اگلے دور کا آغاز ایسے ہی ہے جیسے انسان حج کے ماحول سے باہر نکل آئے 327 نئی نسل کو ان کے آباء کے کارنامے بتانے پر اُن میں انبیاء در اصل موت سے زندہ کرنے کے لئے آتے ہیں 789 اچھی تبدیلی کا پیدا ہونا 331 انبیاء کو قبول کرنے سے اقوام کا زندہ ہونا انبیاء کی چھوٹی سی لغرش کے وقت کیفیت 777 430 ہماری آئندہ نسلیں اللہ کی راہ میں پہلے سے زیادہ جد وجہد کرنے والی پیدا ہوں گی 213 انبیاء کی سنت کہ خدا سے تسکین دل بھی طلب کرتے ہیں 623 صحابہ یا تابعین سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے خاندان کا انبیاء کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ الہ الا للہ کا مضمون زمین پر چکے 688 ذکر خیر آئندہ نسلوں میں جاری رکھنے کی تلقین ، اس میں ستی 329 ذکر خیر ، 518 نسیم احمد باجوہ صاحب مبلغ انگلستان تمام انبیاء توحید کے علمبر دار تھے تمام انبیاء رحیمیت کے مظہر ہیں 667 567 تمام انبیاء نے اپنے اپنے زمانوں کی ضرورتوں کو پورا کیا 38 نشہ سے بچنے کی کوش مگر کامیاب نہ ہونے کی وجہ 796,797 جتنے انبیاء آئے وہ قومی اور وقتی تھے سوائے آنحضرت کے 698 نصیحت خدا انبیاء کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا ، اس سے مراد 655 نصیحت اور اعتراض میں زمین آسمان کا فرق ہے 877 خدا نے کسی اور نبی کو مجسم ذکر نہیں کہا سوائے آنحضرت کے 986 نصیحت رحمت سے باندھی جانی چاہیے رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہ کرنے سے مراد 18 316 نصیحت کا کام بہت مشکل ہے، حکمت اور سلیقے کی ضرورت ہے 357
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 61 نصیحت کے ذریعہ لوگوں کے مزاج میں تبدیلی کا طریق 711 انانیت کے کچلنے پر نظام جماعت کے نمائندوں پر اعتراض 285 نصیحت کے لئے ضروری عوامل 1003 نصیحت کے نام پر دلآزاری، بدتمیزی نہ کریں نصیحت کے وقت عزت اور وقار کا خیال رکھیں نصیحت میں اثر پیدا کرنے کے عوامل 718 881 559 330 امراء کو انتظامیہ کے معیار پرنگرانی کی تلقین جماعت میں عالمی نظام کی مختلف ملکوں میں کوشش پر اجنبیت کی وجہ سے غلط رد عمل مگر بعد میں درستگی 87 جہاں جماعت کا اجتماعی منصوبہ چل رہا ہو وہاں ذیلی تنظیموں اعلیٰ مقاصد کے لئے نصیحتیں وقف ہونی چاہئیں 560 کو الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کوئی حق نہیں رہتا 749 مرعوب ہو کر نہیں کرتا پہلی نصیحتیں اگر ختم ہوگئی ہوں تو پھر مزید کے مطالبہ کریں 730 خلیفہ نظام جماعت کا کوئی فیصلہ نفس کے کسی جذبہ سے جلسہ میں بے پردہ خواتین کو نصیحت کا طریق جماعتی نصیحتوں پر کان نہ دھرنا اور مزید کا مطالبہ بے معنی دینی نظام کی جان خلافت اور شوریٰ بات ہے رائے عامہ درست کرنے کے لئے ساری دنیا کے احمدیوں کو اپنے ملکوں میں نصیحت کرنے کی تلقین رحمت کے ساتھ نصیحت کرنے کی تلقین قرآن میں نصیحت کا ذکر 560 788 49 318 314 287 337 روحانی اور جسمانی نظام میں فاسد مادوں کو باہر نکالنے کا نظام 827 شوری کے نظام کے ذریعہ نظام جماعت کی حفاظت 872 صدمہ پہنچنے والے شخص کے لئے دو تین لائحہ عمل 288 مخطوط میں عاجزی کا اظہار مگر ابتلا کے وقت ان کا بھڑ کنا 281 ماں کی نصیحت کا باپ کی نسبت بچوں پر اور قسم کا اثر ہوتا ہے 315 عالمی نظام کے حوالہ سے احمدیوں کیساتھ اس وقت قسمت آپ کی نصیحت میں غیر معمولی اثر کی وجہ مضبوط انصیحت والے نظام کے قیام کی ضرورت آپ کی نصیحت نہ سننے والے لوگوں کا نقشہ خشک نصیحت فائدہ کی بجائے نقصان دیتی ہے آنحضرت کا نصیحت کا انداز آنحضرت کی نصائح کی عظمت 313 320 316 315 328,559 877 کی ڈور باندھی گئی ہے 76 خدا کے بندے وہی ہیں جو نظام جماعت کی تائید کرتے ہیں 286 72 وقت کی ضرورت ہے کہ نیا عالمی نظام کے ابھرے بعض واقفین کا اپنے افسر کی تختی یا ان کی بے اعتنائی سے دلبر داشتہ ہو کر نظام سے باہر کے لوگوں سے باتیں کرنا 798 جس نظام سے ہمارا تعلق ہے اس کی روح آنحضرت کی یہ نصیحت کا منبع اللہ کا کوئی الہام یا وحی ہوا کرتا تھا 955 نعرہ آنحضرت کی ہر نصیحت موقع محل کے مطابق ہوتی تھی 950 نعرہ ہائے تکبیر کے بلند کرنے کا آنحضرت کی زندگی 555 نصیحت میں طاقت پیدا کرنے کا طریق 314 سے ثبوت نظام جماعت کے نعروں میں غیر مسلموں کا شامل ہونا 949,950 3 نظام جماعت کا احترام 749 جنگ احزاب کے موقع پر نعرہ تکبیر کے نتیجہ میں احزاب نظام جماعت کی محبت کا تقاضا نظام سے کاٹے جانے والے لوگ 289 288 نظام جماعت کی ایک ترقی یافتہ مشین سے مشابہت 406 کا بھا گنا احمدیوں کو امت واحدہ بنانے کے لئے یہ سب نظام سب نعمتوں کی کثرت پر ان کی بے قدری جگہ یکساں جاری کرنے ہوں گے 86 135 قیامت کے روز نعمتوں کے مومن کیلئے خلاصہ ہونے سے مراد 839 وہ نعرے جن سے شرک کا اظہار ہوتا ہے 949 541 نعمت امامت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا 884 رانا نعیم الدین صاحب 552
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 نفرت کا جواب محبت سے دینا سیکھیں نفرت کو دور کرنے کا طریق ایک نفرت سے دوسری نفرت پیدا ہوتی ہے مذہبی نفرت کے رجحان کا باعث مذہبی ،قومی اور سیاسی نفرتوں کا حال نفس نفسیات پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نفرت کا ذکر نفس کا سچا مر بی بننے سے فتحوں کا قریب کیا جانا 404 15 540 33 14 14 765 62 نماز کاسب سے بڑا فائدہ ذکر کا عطا ہونا ہے نماز کی اہمیت، قرآنی آیات کی روشنی میں نماز کی حفاظت سے مراد نماز کی حفاظت کے مختلف طریق نماز کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کی جماعت سے وابستہ توقعات نماز کے دو فوائد نماز کے دوران ذکر الہی کے حصول کا طریق نماز کے ذریعہ اصلاح کا صحیح طریق 905 221 304 345 231 904,905 906 308 نفس کو پاک کرنے کے لئے مغفرت کی دعاؤں کی ضرورت 204 نماز کے قیام اور آداب کے ساتھ باجماعت ادا کرنے نفس کے اندر مربی پیدا ہو جائے تو اس کی کوئی مثال نہیں 722 کی کوشش کریں 637 352 نماز کے قیام کے لئے رمضان کی اہمیت نماز کے لئے آپ کی آخری بیماری میں تڑپ 922 211 227 نفس کے باریک دھوکوں سے بچنے کا طریق نفس میں بعض بدیوں کے کرنے کے مخفی فیصلے نفسیات کے مطابق بعض گناہوں کے وقت بے اختیاری 442 نماز کے متعلق خلیفہ وقت کے خطبات نہ صرف مساجد میں بلکہ گھروں میں بھی انتظام کر کے سنائے جائیں 314 713 نفسیاتی پروپیگنڈے کا اقوام پراثر امریکہ میں پاگل ہونے کی ماہرین نفسیات کے مطابق نماز کے متعلق آپ نے فرمایا کہ نماز نہیں تو پھر دین میں سب سے بڑی وجہ بے اطمینانی ہے 885,886 کچھ بھی نہیں رہا جو سمجھتے ہیں کہ ہم کاموں کے نتیجہ میں امیر ہو گئے انہیں نماز میں توجہ کے حصول کا طریق 261 209 انسانی نفسیات کا علم نہیں نوافل کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل کیا جانا نقشبندیه فرقه نقشبندیہ فرقہ میں ذکر کا طریق 989 919 910 نما زیاد کرنے کے لئے سورۃ فاتحہ راستہ صاف کرتی ہے 611 نماز کے وقت آنحضرت کے سینہ سے چکی کے چلنے کی طرح آوازیں نکلنا نمازوں کو قائم کرنے کا طریق نمازوں کو لاحق خطرات 996 265 225 345 223 225 اس فرقہ کا جہاد پر زور دینا اور زار روس کا اس سے ڈرنا911 نماز میں لذت کے حصول کا طریق نماز نماز اللہ سے تعلق کا ذریعہ ہے نما زسب سے اعلیٰ دعا ہے نما ز سب سے بہترین وظیفہ ہے 312 947 943 325 نمازوں سے خدا اور بندوں کے قریب ہونا احادیث کی رو سے نماز کی اہمیت اللہ سے خالی صبر کی بجائے صلوۃ کے ذریعہ مدد مانگنے کی تلقین 305 امیر احمدیوں کا سمجھنا کہ فجر کی نماز سے وہ مستثنی ہیں 309 185 نماز سے بڑھ کر کوئی اور وسیلہ خدا تک پہنچنے کا نہیں ہے 350 انسان کی ساری عمر کی نمازوں کی تعداد اور اجر نماز سے ہٹنے والی مذہبی قوموں کا انجام ایک گدڑیے کو فر مایا کہ جنگل میں اذان دو، تکبیر کہو اور نماز عشاء کے بعد مجلس لگانے کو آنحضور کھانا پسند فرمانا 309 امامت کرو، فرشتے تمہارے ساتھ شامل ہوں گے 199 ،468 بچوں کو بچپن سے گھر میں نمازوں کی اہمیت احساس دلائیں 312 نماز کا اجتماع سے تعلق 345
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 بچوں کو نماز کا عادی بنانے کی تلقین کریں بعض فرقوں کا نمازوں سے تائب ہونے کی تلقین کرنا اور صرف ذکر پر زودینا 63 346 908 حضرت اسماعیل کا گھر والوں کو نماز کے لئے جگانا 201 تہجد کی نماز پر پہنچنے کے لئے پانچ فرض نمازوں کا پڑھنا ضروری ہے بے نمازیوں کو نمازی بنانے کے لئے سلیقہ کی بھی ضرورت ہے 414 شیطان کا ایک نمازی بزرگ کو بہلا کر سلا دینا، اس بزرگ پانچ نمازوں کی فرضیت حدیث کی رو سے پانچ وقت کی نمازوں کو ایک آیت میں ذکر 225 206 کارونا اور شیطان کا اس کو خود جگانا 211 263 کئی قسم کے وجود آپ کی نماز پر حملہ کرتے تھے مگر آپ ان ٹیلیویژن پر نماز دکھانے سے ہماری عبادت کے متعلق کی حفاظت کیا کرتے تھے غیروں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی 292 نواب شاہ جس کا ضمیر نماز میں اٹک گیا تو وہ نمازی بن چکا 264 نوٹرڈیم ، چرچ چھ مہینے کے دن اور چھ مہینے کی رات میں نماز پڑھنے کا حضرت نوح علیہ السلام محمد 473 نورالدین حضرت خلیفہ اسیح الاول طریق،حدیث کی رو سے حدیث کی رو سے پانچ نمازوں سے میل کی دوری کا ذکر خلافت کے حوالہ سے انجمن کو مخاطب فرمانا نہر میں پانچ مرتبہ نہانے کی مثال سے 206 | نور محمد سروری قادری حدیث کی رو سے نماز کی چوری کرنے والا شخص 226 نوشہرو فیروز غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز با جماعت کی پیشگوئی کا پورا ہونا دوسرے افراد کی نماز کی حفاظت کا پیغام 474 311 ذکر الہی سے بھر پور نما ز سب سے بڑی عبادت ہے 894 سب سے اہم ذکر عبادت یعنی نماز کا قیام ہے صلوۃ وسطی کی حفاظت سے مراد 904 304 نومبائعین 225 787,488 755 76,328 943 648 915 788 نومبائعین کو اپنے سینوں سے لگائیں اور اپنے ایمان کی گرمی سے زندہ کریں اور طاقت بخشیں 727 نو مبائعین کو شروع میں صرف چندہ دینے کی عادت ڈالنے اور شرح پر زیادہ زور نہ دینے کی عہدیدران کو نصیحت 847 نو مبائعین کو مبلغ بنا دیں گے تو وہ محفوظ ہو جائیں گے 721 قادیان اور ر بوہ میں صبح نمازوں پر جگانے کے انتظام نو مبائعین کی تربیت کا نظام تین مہینے کے بعد سالہا سال کے طریق کو اپنائیں لندن میں نماز کی صورت میں دنیا کا کوئی احمدی جو 565 قرآن کے بیان فرمودہ نظام کے ماتحت اختیار کرنے کی تلقین 828 نو مبائعین کی تربیت میں جرمنی یورپ میں سب سے آگے 980 کسی دوسرے ملک میں رہتا ہے وہ اس نماز میں شامل نہ ہو 292 نو مبائعین کی تربیت کے لئے الگ شعبہ کے قیام کی تجویز 829 مفسرین کے نزدیک صلوٰۃ وسطی سے مراد وہ لذت جو نماز میں پیدا کرنی ضروری ہے 305 347 223 نو مسائعین کے ساتھ ذکر کی مجلسیں لگانے کی تلقین 976 جرمنی کی جماعت کا نومبائعین کی تربیت کے لئے اچھا پروگرام بنانا وہ نمازی جن پر لعنت پڑتی ہے آنحضرت کا قیام نماز پر زور اور نماز کے حوالہ سے آپ کی جلسے کے دنوں میں اعلان کیا تھا کہ پہلے تین مہینے تربیت ولی کیفیت 908 پر خاص زور دیں 964 720 آنحضرت کا غزوہ احزاب میں پانچ نمازوں کو عشاء کے عالمی بیعت کے بعد اگلے تین ماہ ترتیب کی طرف توجہ دینے وقت پڑھنا،اس کی وضاحت احمد کی ہمیشہ نماز کی حفاظت کرنے والے بنیں 264 229 کی تلقین کے حوالہ سے رپورٹوں پر تبصرہ جن تنظیموں نے جماعت میں داخل کروایا وہی نو مبائعین 826
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 64 کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ دار ہوں گی 845 جماعت احمدیہ کی اصلاح کے لئے امر بالمعروف اور نیت اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے نیتوں کو پاک کرنے سے تقتل کا حصول تقتل سب سے پہلے نیتوں سے شروع ہوتا ہے نیکی نیک اعمال اور دعاؤں کا تعلق 801 835 821 100 نہی عن المنکر کی ضرورت 719 جماعت میں کثرت سے مشاہدہ کہ بعض دفعہ ادھر سے نیکی کی اور اُدھر سے جز امل گئی 102 درود شریف کا تعلق کسی ایسی نیکی سے ہوتا ہے جو آپ کے اسوہ حسنہ کے نتیجہ میں عطا ہوتی ہے 421 دل کی وہ نیکی جو چہروں سے علامتیں بن کر چھلکتی ہے 564 نیک کاموں کی طرف بلائیں اور خود نیک کام کریں 726 روزے کے علاوہ کیا ہر نیکی اپنے نفس کے لئے کی جاتی نیکی اور سختی کا تعلق نیکی عزت کا ذریعہ 169 583 183 ہے،اس کی وضاحت عام طریق سے ہٹ کر قرآن میں ایمان کے ذکر سے قبل نیکی کرنے کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ خدا کی خاطر کی جائے 824 امر بالمعروف کا ذکر ایک جگہ کیا ہے، اس میں حکمت 710 نیکی کی تبلیغ کرتے ہوئے مرنے والا شہید ہے 37 713 ہر انسان کے اندر تبدیلی اور نیکی کی ایک موج اٹھتی ہے، نیکی کے بعد قرآن میں بدی کا ذکر آتا ہے تب جلدی کرنی چاہئے نیکی کی طبعی تحریک دل میں پیدا ہورہی ہو اس وقت تبتل نیکی ، خیر کی تعریف ہی دراصل ایمان ہے اختیار کر لینا ورنہ مشغولیت سے نکلنا مشکل وہ جائے گا812 قرآن میں مختلف الفاظ اور رنگوں میں نیکی کا ذکر نیکی کے مقابل حسد کا شرارہ پھوٹتا رہتا ہے نیکیوں پر ثبات حاصل کرنے کا طریق نیکیوں کو کھلم کھلم اور مخفی کرنے کی تعلیم نیکیوں کی حفاظت کا ایک طریق نیکیوں کی مختلف اقسام 161 813 859 239 344 نیند 810 716 99 جیسی سوچ لے کر انسان ہوتا ہے ویسا ہی اس کو خواب آتا ہے 352 نیو ورلڈ آرڈر نیوورلڈ آرڈر جو دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے، اس احمدی دنیا میں بہت تھوڑے ہیں مگر امر بالمعروف کے نیوزی لینڈ ذریعہ ساری دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں احمدیوں کی خوبی کہ حضرت مسیح موعود کو ماننے کی وجہ سے نیکی کی قبولیت کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے 712 کا بھیانک نقشہ و ه ی والفورڈ 359 واسطی استباق فی الخیرات قرآن نے ہمارا نصب العین قرار دیا ہے 850 اس صوفی کا ذکر کے بارے میں قول اللہ سے نیکی کا جو وعدہ کر لینا چاہئے وہ مشروط نہیں رہنا چاہیئے واشنگٹن 268 واقعات 103,104,107 980 145 898,901 686 وہ ضرور پورا ہونا چاہئے ایمان کے نتیجہ میں اور ایمان کے بغیر نیکی کرنے والوں ایک بادشاہ کا ہاتھی کا کھیل دیکھنا، ہاتھی کا مست ہونا کی حالت 720 راجپوتوں کے دستہ کا رویہ 413 برائی کو دور کرنا کافی نہیں بلکہ اس سے بہتر چیز دینا ضروری ہے 714 ایک بزرگ کا مریدوں کے ساتھ لڈو کھانے والا واقعہ 899 بعض نیکی کے کاموں میں غیر مذاہب والے مسلمانوں ایک سادہ لوح زمیندار کا کراچی کی منی مارکیٹ میں جانا 970 سے آگے ہیں 711 ایک شخص کا سارار و مال گانٹھوں سے بھرا پڑا تھا 896
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 65 ایک مغل بادشاہ کا سرمد نامی عالم ولا الہ کی وجہ سے قتل کروانا946 وقف جدید کو ساری دنیا میں جاری کرنے پر جماعتوں کا واہ کینٹ 980 لبیک کہنا 1000 وقف جدید کے بیرون کے چندوں میں وسعت 1000 صوفیاء کا کافیوں پر وجد میں آنا ، اس کے مقابل پر حقیقی وجد 936 وقف جدید کے دفتر اطفال کا تذکرہ وحدت عالمی وحدت میں زبان کا کردار وحی 506 وقف جدید کے دفتر اطفال میں پاکستان میں نمایاں پوزیشنز لینے والی جماعتوں کے نام گزشتہ سال کے حوالہ سے دوغلطیوں کی تصحیح 7 8,9 5 وحی کے ذریعہ ہزاروں افراد کا حضرت مسیح موعود کی مدد وقف جدید میں ایک موقع پر حضور کا انسپکٹر ان بھیجنا بند کرنا 95 وقف جدید میں نمایاں پوزیشنز لینے والی جماعتیں 1001 پر مامور فرمایا جانا 859 وحی اور رؤیا کے ذریعہ خدا کا کسی کو بتانا کہ فلاں حاجت مند ہے 858 دفتر اطفال کا حساب الگ رکھنے کی تلقین دفتر اطفال کے قیام کی وجہ وراثت 8 8 بہنوں کو وراثت کے حق سے محروم کیا جانا، ایک بچی کا خط 819 ماریشس کے ایک واقف زندگی کا وقف جدید کے متعلق رویا 1004 بہنوں کے حق کے متعلق حضرت عمرؓ کا واقعہ تیم جسوال صاحب 820 533 46 وقف وقف نو ان ہزاروں بچوں کی تربیت کی فکر بعض واقفین کا اپنے افسر کی سختی یا ان کی بے اعتنائی سے وہابیت 1009 149 وطن سے محبت اگر ہو تو ہجرت کرنے والی نسل کے بعد دلبر داشتہ ہو کر نظام سے باہر کے لوگوں سے باتیں کرنا798 صدیوں بعد بھی اصل وطن کو حاصل کر لیا جاتا ہے 488 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے وطن کی محبت سے ٹکرائے بغیر انسانیت سے محبت کی تعلیم 47 سعودی عرب میں وہابیت کا مردہ توحید پر زور دعاؤں کے ذریعہ ہم وطنوں کی مدد کریں یہود کا دوہزارسال بعد اپنے وطن فلسطین پر قبضہ حاصل کرنا 488 ویسٹ کوسٹ ریجن یونائیٹڈ سٹیٹ 883,885 ہادی علی صاحب چوہدری وظیفہ 50 وید حضرت مسیح موعود کے نزدیک سب سے بہترین وظیفہ باسم جان صاحب مجددی نماز ہے غیر احمدیوں کا کوئی مؤثر وظیفہ مجھ سے پوچھنا وعده 943 942 ہالینڈ ہدایت 638 502 476 335 383,400,401,426,492,748 487 للہ تعالی کے وعدہ کی کیفیت اور انسان کی بے اختیاری 324 ہدایت طلب کرنے کی عادت کو اختیار کریں اصل ہدایت اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے و قار مل 623 860 وقار عمل کے آداب شادیوں کے مواقع پر کام آتے ہیں 927 قرآن سے ہدایت پانے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے 932 وقف جدید قرآن کی ہدایت سے فیضیاب ہونے کے لئے بھی اللہ وقف جدید سے حضور کا پہلا تعلق خدائی تقدیر تھی 160 سے ہدایت مانگنی پڑتی ہے 622 وقف جدید کا آغاز اور حضرت خلیفہ رابع کا اس سے تعلق 999 قیامت تک ہدایت پر قائم رہنے کا راز توحید میں ہے 629
اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 وہ لوگ جن کو قرآن بھی ہدایت نہیں دے سکتا ہذیل قبیلہ ہزارہ ہلاکو خان ہمبرگ ہمدردی 650 659 334 487 66 ہند و جانتے ہیں کہ ہندوستان کو کوئی مسلمان بنا سکتا ہے تو وہ صرف جماعت احمد یہ ہے ہندوستان میں مسلمانوں کا ظالمانہ قتل ہندوؤں کا بتوں کی پوجا کو تو حید قرار دینا 904 ہولی اولاف اولاف ہیمبرگ یادگیر 889 42 520 477,478 411 805 اس فکر کا جواب کہ احمدی تعداد میں تھوڑے ہیں اور باتیں ساری دنیا کی ہمدردی کی کرتے ہیں 24 حضرت یاسر بنی نوع سے ہمدردی کے جذبہ میں اسلام کی خوبی 698 یا سر اور آپ کے خاندان پر اہل مکہ کے مظالم ہندوستان 392,483,496,533,748,823,852 یاسمین رحمان صاحبہ (مونا) 884,930,962,1000,1005,1007 | يسعياه ہند و جانتے ہیں کہ ہندوستان کو کوئی مسلمان بنا سکتا ہے تو وہ صرف جماعت احمد یہ ہے يسوع 889 یوپی ہندوستان اور پاکستان کی سیاست میں مذہب کا غلط استعمال 31 پور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نفرت کا ذکر 14 663 475 451,454 450 139,140 43,471,481,511,560,653,980 1006,1010 ہندوستان اور پاکستان کے سیاستدانوں کا عوام کے جذبات یورپ کی احمدی جماعتوں کو بوسنیا کے حوالہ سے مؤاخات 28 143 723 سے کھیلنا اور اس کا بُرااثر کا نظام قائم کرنے کی تحریک ہندوستان کی جماعت کا یوم تبلیغ منانا اور انہیں نصائح 888 یورپ کے احمدیوں کو تبلیغ میں تیزی کی تلقین ہندوستان کی جماعت میں بیداری اور ان کی مشکلات کا ذکر 888 یورپ میں اس وقت سیاسی طور پر بہت زیادہ بے چینی ہے 110 808 یورپ میں امریکہ کے خلاف نفرت ہندوستان کی لجنہ کی تعریف ہندوستان کے اندر جنتر منتر کے طریقوں سے اسلامی فرقوں یورپ میں بچوں پر ظلم کا متاثر ہونا ہندوستان کے سارے ہندو بھی اگر مل کر مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکیں گے ہندوستان میں بیگار کیمپ لگائے جانا 910 52 10 یورپ میں ہونے والی شوری کی مجالس سے میرے خطاب ان مجالس شوریٰ میں سنوائے جائیں جو نہیں بھی منعقد ہوں 337 42,43 حضرت یوسف علیہ السلام 10 952 یوسٹ کے قصہ کو احسن القصص کہنے کی وجہ 793,808 ہندوستان میں دیگر ممالک کی نسبت جماعت کے حوالہ یوسٹ نے بدی سے بچنے کے لئے قید کی دعا کیوں مانگی، جواب 790 سے انصاف کا ہونا 890 بدیوں سے چھٹکارا پانے کی تمنا کے حوالہ سے آپ کی مثال789 ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم اور مسلمانوں کا رد عمل 138 یوکے ہند و علاقوں میں جماعت پھیلنے پر سخت رد عمل 890 یو کے جماعت کے جلسہ سالانہ کی خلیفہ وقت کی وجہ ہندوستانی جماعتوں میں پاکستان بننے کے بعد بہت نقصان ہوا 91 سے مرکزی جلسہ کی حیثیت خدام الاحمدیہ بھارت کے سولہویں سالانہ اجتماع پر پیغام 805 حضور کا سابق صدر خدام الاحمدیہ کو بوسنیا کے حالات پر دیو بند علماء کا ہندوستان میں جماعتی ترقی پر سخت رد عمل 888 نظر رکھنے کا کام سپر دکرنا 852 549 103
67 599 Issaq Traore 411 411 479 Kingchu Long Klungo 599 Konan Emile Oje 70 808 Lane 487 479 Lui Philip 44 596 MM Habibou Elhadj 596 725 Macedonia 725 Maonetenegor 488 755 Marry 599 Mohammad Sabanaba 596 Mozakir Jonahir 488 598 Mr.Moussa Chan 445 New Testament 455 اشاریہ خطبات طاہر جلد 12 یوگنڈا یولوسلاو به یونائیٹڈ سٹیٹس یونا ٹیکٹڈ نیشنز 323,324,331,332 Kalfroa 111 Kassal 420,494,686 یونائیٹڈ نیشنز امریکہ کی رعونت کا آج نام ہے یونائیٹڈ نیشنر صرف امریکہ کا غلام ادارہ یونائیٹڈ نیشنز کے وقار کو ٹھوکر لگنا شیخ یونس کا کو یہود یہود کا دو ہزار سال بعد فلسطین پر قبضہ حاصل کرنا یہود کا گناہ کرنا اور پھر ان کا معافیاں مانگنا ، قرآن میں ذکر 429 ود و سلام میں ایک کا فریضہ ہے نہ یہود کو اسلام میں داخل کرنا مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے نہ کہ ان سے نفرت کی تعلیم دینا مسیح کے دور میں موسوی امت کی جو حالت تھی اس کا ایک گہرا تعلق مسیح کی آمد ثانی کے دور سے ہے 471,481,769 North Cape 596 755 Notredame 596 Abdul Pashed Agbola Abdul Salam Kamara 596 Pa Baki 598 Adam Moaz Coli Bali 596 Pa Doure Ahmad Kamara 73 Alaska 596 Pa.P.C.B.I.Samaka Mara 596 Alh.Bashir Ojoye 478 Richard Tansler 596 Alh.Bassirou Raji 589 Rodrigues 596 598 Saidus Manneh 596 Alh.M.A.Nuhu Alm.Ahmad Alhassan 598 Sally Jabbie 846 Brong Ahafo(غانا کا ایک ریجن) 598 Sana Cham 598 596 Sh.Unis Khanu 479 Couli Bali Boulass Fransisko Negari 598,599 Tome Tahir Ahmad 70 599 Toranm Fanny 477 Gulf Holy Olav, Den Helling 709 UK 755 Hunch Back of Notredame 56,91 USSR 596 Hussain Sunmonu 596 Unis-Kano 599 846 Wanwal Ovu 598 Ibrahim Sanfo Ismail Traore