Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ ۱۹۹۲ء فرموده احترت را برای انسخ الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد ۱۱
نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر ۱ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفتہ المسح الرابع رحمہ اللہ
نمبر شمار خطبه فرموده 1 له 2 3 4 LO 5 6 له 7 8 9 فہرست خطبات عنوان 03 جنوری 1992 ء | جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے روح پرور نظارے 10 جنوری 1992ء قادیان میں اسلام کی فتح اور غلبہ کے ساتھ واپسی کی امنگ پیش نظر رہے | 17 جنوری 1992ء قادیان دار الامان کا کامیاب دورہ ، اظہار تشکر نیز قادیان کیلئے نئے منصوبوں کا اعلان 24 جنوری 1992 ء | درویشان قادیان کی قربانیوں کو خراج تحسین، ہندوستان کی جماعتوں کی ترقی کیلئے ہدایات 31 جنوری 1992 ء | غلبہ اسلام کی عظیم الشان پیشگوئی امام مہدی سے وابستہ ہے 07 فروری 1992 ء | مسیح محمدی کی غلامی میں من انصاری الی اللہ کا اعلان ، دعوت الی اللہ کو تیز سے تیز کر دیں 14 فروری 1992 ء دعوت الی اللہ کے پہلے انفرادی منصوبے بنا ئیں اور سب سے پہلے منصوبہ دعا ک بنائیں 21 فروری 1992 ء | اسوہ رسول پر چلتے ہوئے گھروں کو جنت نشان بنا دیں صفحہ نمبر 1 15 223 23 47 69 87 105 123 28 فروری 1992ء خاتم، سراجاً منيرا اور شاہدا کا مفہوم، ہر داعی الی اللہ کو اپنے دائرہ میں سراج بننا ہوگا 141 10 - 06 مارچ 1992 ء روزہ زکوۃ کا معراج اور روزے کا معراج رمضان ہے، اپنے گھروں میں عبادات کا ماحول پیدا کریں 159 11 12 13 13 / مارچ 1992ء 20 / مارچ 1992ء دعوت الی اللہ سے آپ کی قوت قدسیہ زندہ ہوگی دعوت الی اللہ میں حکمت سے کام لیں 177 197 27 / مارچ 1992ء لیلة القدر کا ساری زندگی سے تعلق ہے اس کی قطعی نشانی یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہو 215 14 | 03 اپریل 1992 ء | حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات پر اُن کا ذکر خیر 15 | 10 اپریل 1992 ء | انالله و انا اليه رجعون کا پیغام موت سے ڈراتا نہیں بلکہ خوف کو بھگاتا ہے 16 17 اپریل 1992 ء غلبہ اور عزت حاصل کرنے کے لئے خدا کے رنگ اختیار کریں 17 | 24 اپریل 1992 ء | دنیا کو کمزوریوں سے پاک کرنے کے لئے آپ کو مامور فرمایا گیا ہے 18 یکم مئی 1992ء تربیت کے جہاد کا معیار بلند کریں، اصلاحی کمیٹی کے قیام کا اعلان 231 251 269 287 305
نمبر شمار خطبه جمعه 19 20 21 22 22 عنوان صفی نمبر 08 مئی 1992ء داعی الی اللہ کے دل میں بنی نوع انسان کیلئے سچی ہمدردی اور پیار ہونا چاہئے 323 15 مئی 1992 ء اخلاق محمدی اپناتے ہوئے ہمت ، صبر سے لیڈ رصفات لوگوں کو دعوت الی اللہ کریں 341 29 مئی 1992ء اپنی ذات کیلئے خود مربی بہنیں نو مبائع کا اول ذمہ دار داعی الی اللہ ہے 359 5 جون 1992ء چین اور روس کے لئے وقف عارضی کی تحریک 377 23 12/ جون 1992ء دعاؤں کی قبولیت کے لئے اعمال کا صالح ہونا ضروری ہے 395 24 19 جون 1992 ء دنا فتدلی کے نتیجہ میں آپ شفیع الوری بن گئے، حضور کا عرفان حضرت مسیح موعود کو حاصل ہوا 407 25 26 جون 1992ء مزمل سے مراد کہ آپ استغفار کی چادر میں لپٹ گئے / | 26 03 جولائی 1992 ء حضرت مسیح موعود کی ہدایت کی روشنی میں تبتل و توکل کی عارفانہ تشریح 27 10 جولائی 1992 ء خدا کی رضا کی خاطر کی گئی مالی قربانی ہر موسم میں پھل لاتی ہے 1992 17 28 جولا رسول کریم نے کل عالم کیلئے شفیع ہیں وہ حقیقی وسیلہ ہیں 29 | 24 جولائی 1992 ء حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی کے عظیم نمونے 30 31 / جولائی 1992 ء اسوہ رسول کی روشنی میں اپنے اخلاق کو بلند سے بلند تر کریں 31 07 اگست 1992 ء | جھوٹ سے کلیہ پر ہیز توحید کامل سے تعلق جوڑنے کے مترادف ہے 32 | 14 / اگست 1992 ء | سچائی سے محبت اور جھوٹ سے نفرت کو اپنے مزاج کا حصہ بنادیں 33 33 21 اگست 1992ء جھوٹ سے بچیں کہ یہ بت کی نجاست ہے 34 28 اگست 1992ء مکر کانت انسانی معاشرے کو دکھوں میں مبتلا کر دیتا ہے 35 36 37 04 ستمبر 1992ء خدا کا مکر خیر لازما مکر شر پر غالب آتا ہے، الحرب خدعة کی وضاحت 423 439 459 475 495 515 535 553 573 593 615 635 11 ستمبر 1992ء تمام خرابیوں اور بیماریوں کا ایک ہی حل ہے کہ عبادت پر قائم ہو جائیں 18 ستمبر 1992ء تم أُمَّةً وَسَطًا بنوتو محمد کے شایان شان امت بن جاؤ گے.تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کی وضاحت 655 1992 25 38 دعوت الی اللہ کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اور اس کے بغیر چین نہ پکڑیں.675
نمبر شمار تاریخ عنوان صفحہ نمبر 689 39 | 02/اکتوبر 1992ء ماہرین صنعت ، بینکنگ روس میں نصرت جہاں کے تحت وقف کریں.40 09 اکتوبر 1992 ء احمدی اسلامی جہاد سے کبھی پیچھے نہیں رہیں گے، بوسنیا میں اسلامی جہاد بالسیف آج جائز ہے.705 41 42 16 اکتوبر 1992ء اے محمد مصطفی کے غلامو! اس شان کے ساتھ عبادت کرو کہ آپ کی پیار کی نظریں تم پر پڑیں.723 23 اکتوبر 1992ء | آداب مسجد کی اہمیت اور ان کا عرفان 743 43 30 اکتوبر 1992ء تحریک جدید کے ۵۹ ویں سال کا اعلان ، اپنی وسعت کے مطابق قربانی کریں 765 1 45 06 نومبر 1992ء بنگلہ دیش میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش، بنگلہ دیشی حکمرانوں کو نصائح 13 /نومبر 1992ء اللہ تعالی آنکھوں اور دل کی خیانت کو بھی خوب جانتا ہے 783 803 46 20 نومبر 1992 ء بد دیانتی سے بچیں اور دیانت دار بہنیں ، امراء قوم کی بد دیانتی قوم کو ہلاک کر دیتی ہے 821 47 48 49 50 50 51 27 /نومبر 1992ء جماعت کو حوض کوثر بنا نا ہوگا، سیکرٹریان اشاعت کو تفصیلی ہدایات 841 04 دسمبر 1992 ء خدا اپنی امانتیں امینوں کے سپرد کیا کرتا ہے، اپنی دینی ودنیاوی امانتوں کے حق ادا کریں 859 11 دسمبر 1992ء احمد یہ مساجد کو مسمار کرنے سے خدا کی تائید اٹھ گئی ہے 18 دسمبر 1992 ء دعوت الی اللہ کے کام کو منظم طور پر کریں، بنگلہ دیش کی سربراہ کو تنبیہ اور نصیحت 25 دسمبر 1992ء وقف جدید کے ۳۷ ویں سال کے آغاز کا بابرکت اعلان نوٹ : ۲۲ مئی ۱۹۹۲ء کا خطبہ جمعہ بوجوہ ریکارڈ نہیں ہوسکا.877 897 917
خطبات طاہر جلد ۱۱ 1 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے روح پرور نظارے پاکستانی اور کشمیری احمدیوں کے اخلاص کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت اقصی قادیان) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.جلسہ سالانہ جو سو سالہ جلسہ سالانہ ہونے کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا ، خدا کے فضل سے بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا اور اس جلسہ کے بعد آج پہلا جمعہ ہے جو ہمیں مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے اور سال کا بھی یہ پہلا جمعہ ہے.اس لحاظ سے سب سے پہلے میں تمام جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کو صد سالہ جلسہ سالانہ کے بخیر و خوبی گزرنے پر اور نئے سال کے آغاز پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ، اپنی طرف سے بھی اور قادیان کے درویشوں اور باشندگان کی طرف سے بھی اور ان سب مہمانوں کی طرف سے بھی جو ابھی تک یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں.جلسہ سالانہ جب قریب آیا تو دن رات کی رفتار میں تیزی آنی شروع ہوئی اور یوں لگتا تھا کہ اچا نک دن رات کے چکر کو کسی نے لٹو کی طرح گھما دیا ہے اور دن گھنٹوں میں گزرنے لگے اور جب ہوش آئی تو جلسہ پیچھے رہ چکا تھا اور تمام ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ادا ہو چکی تھیں.اس سے پہلے بھی مجھے گلے کی تکلیف تھی جو یہاں آنے کے بعد غالباً کسی گھی کی الرجی سے شروع ہوئی اور مجھے ڈر تھا کہ یہ کہیں جلسہ کی ذمہ داریوں میں حائل نہ ہو جائے.یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب احسان ہے کہ جلسہ کے آغاز پر یہ تکلیف بالکل غائب ہو گئی اور پوری طرح مجھے اپنی ذمہ داریوں کو ادا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 2 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء کرنے کی توفیق ملی.جلسہ کے بعد یہ تکلیف پھر از سر نو واپس آئی تو مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے عاجز بندوں سے اعجازی سلوک فرماتا ہے لیکن بشریت کے تقاضوں سے وہ بالا نہیں ہوتے.پس وہ اعجازی دور تھا جو گزر گیا.اب میرے بشری تقاضوں کی بیماری ہے جس نے مجھے آ پکڑا ہے لیکن اللہ کے فضل سے طبیعت پہلے کی نسبت بہتر ہے.کل مجھے انشاء اللہ دہلی جانا ہوگا.پرسوں وہاں ایک اہم بین الاقوامی مجلس سے خطاب ہے.احباب جماعت سے گزارش ہے کہ وہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس اہم ذمہ داری کو بھی اسی طرح اپنے خاص فضل کے ساتھ عمدگی کے ساتھ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ، جیسے پہلے اس نے عمدگی سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ایسی باتیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجہ میں دنیا کو کچھ فائدہ پہنچے محض منہ کی باتیں نہ ہوں بلکہ ایسی باتیں ہوں جو دل سے نکلیں اور دل پر اثر کرنے والی ہوں.جن کے نتیجہ میں خیالات میں بھی تبدیلیاں ہوں اور دلوں میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوں کیونکہ یہ دنیا جس دور میں سے گزر رہی ہے اس میں سب فتور خیالات اور دلوں کا فتور ہے.امنِ عالم کی سرسری سطحی باتیں کرنا ایک فیشن سا بن چکا ہے لیکن فی الحقیقت بہت کم ہیں جو مضمون کی تہہ میں ڈوب کر حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے امن کے خواہاں ہیں اور امن کو حاصل کرنے کے لئے وہ کسی قربانی کے لئے تیار ہیں.چونکہ میرا مضمون امن عالم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں سب احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ ایسے رنگ میں اس مضمون کو ادا کرنے کی توفیق ملے کہ وہ لوگ جو عموماً سطحی باتوں کے عادی ہیں ان کی نظر بھی گہرائی میں اترے ،مسائل کی تہ تک پہنچیں اور اپنے ماحول اور گردوپیش میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں.ہم ایک غفلت کی حالت میں سے گزررہے ہیں اور اس غفلت کی حالت کو قرآن کریم نے خسران کی حالت بیان فرمایا ہے.وَالْعَصْرِ ) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ وہ زمانہ گواہ ہے، اس زمانے کی قسم کہ اس وقت کا انسان گھاٹے میں ہوگا.یعنی تمام کا تمام انسان گھاٹے میں ہوگا.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سوائے ان چندلوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور حق بات کی نصیحت کی وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ) ( العصر (۴۲) صبر کے ساتھ صبر کی نصیحت کی اس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ یہ جماعت جس کا یہاں ذکر ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
خطبات طاہر جلدا 3 خطبه جمعه ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء جماعت ہے جس کا آغاز قادیان کی اسی بستی میں آج سے تقریباً سو سال پہلے ہوا تھا.پس امن عالم کے حصول کے لئے اگر چہ ہماری طاقتیں بہت محدود ہیں اور إِلَّا الَّذِينَ کی ذیل میں ایک مختصر سے گروہ کے طور پر ہماراذکر ہوا ہے.اگر چہ اتنی تھوڑی تعداد کے لئے بظاہر ممکن نہیں کہ وہ تمام عالم کے گھاٹے کو نفع میں تبدیل کر دے.مگر قرآن کریم نے جو نسخہ عطا فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ اگر وہ ایمان پر قائم رہیں.نیک اعمال کے ساتھ چمٹے رہیں اور وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ خواہ کوئی سنے یا نہ سنے حق بات کی نصیحت کرتے رہیں.حق بات کی نصیحت حق طریق پر کرتے رہیں اور صبر کی نصیحت کرتے رہیں اور صبر کے طریق پر نصیحت کرتے رہیں.یہ وہ نسخہ ہے جو قرآن کریم نے تمام عالم کے گھاٹے کو نفع میں تبدیل کرنے کا پیش فرمایا ہے.خدا کرے ہمیں اس کی توفیق ملے.بعض دفعہ ایک نسل کو اپنی زندگی میں ایک انقلاب کا منہ دیکھنے کی توفیق مل جاتی ہے.بعض دفعہ دو نسلوں کو یکے بعد دیگرے انقلابات کے کچھ حصے دیکھنے کی توفیق ملتی ہے لیکن ہمارا اسفر لمبا ہے.احمدیت کو آئے ہوئے آج تک سوسال سے کچھ زائد عرصہ گزرا کئی نسلیں ہماری گزر چکی ہیں اور ابھی ہم نے لمبا سفر طے کرنا ہے.یہی حکمت ہے کہ صبر پر اتنا زور دیا گیا.وہ لوگ جو صبر کی توفیق نہیں رکھتے اگر ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے کا میابی دکھائی نہ دے تو وہ حوصلے ہار بیٹھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کی پیروی کا کوئی فائدہ نہیں.جان کا زیاں ہے اور کوششوں کا نقصان ہے لیکن وہ لوگ جو خدا کی خاطر کوشش کرتے ہیں وہ اپنے مقصد کو اپنی آخری صورت میں نہ بھی حاصل کر سکیں تب بھی درحقیقت ان کا ایک مقصد ہر لمحہ پورا ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے رضائے باری تعالیٰ کا حصول.وہ دنیا میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں اپنی ذات کی خاطر نہیں ، اپنی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں ، اپنے رسوخ کو پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے.پس ان میں سے جو بھی جس حالت میں بھی جان دیتا ہے وہ کامیاب حیثیت سے جان دیتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہوئے جان دیتا ہے کیونکہ اس کے رب کی رضا کی نگاہیں اس پر پڑرہی ہوتی ہیں.یہی وہ یقین کامل ہے، یہی وہ اعلیٰ درجہ کا احساس ہے جسے فوز عظیم کہا جاتا ہے.یعنی ایسی کامیابی کہ دشمن کو دکھائی دے یا نہ دے مگر ہر شخص جو اس کامیابی کا مزہ چکھتا ہے اور اس میں سے گزرتا ہے وہ کامل یقین رکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گیا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ خطبه جمعه ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء ایسا ہی ایک واقعہ ایک ایسے صحابی کے ساتھ پیش آیا جن کو جب قتل گاہ پر لے جایا گیا.دشمن کے نرغے میں آکر بعض اور صحابہ کے ساتھ وہ بھی پکڑے گئے تھے تو جب انہیں قتل گاہ میں لے جایا گیا اور تلوار ان کی گردن پر چلنے لگی تو انہوں نے آخری فقرہ یہ کہا کہ فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ خدا کی قسم ! ربِّ کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کیسی عجیب بات ہے.فوز کی ایک نئی تعریف دنیا کے سامنے ابھری ہے اور یہی وہ تعریف ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.وہ فقرہ سن کر بہت سے کفار مکہ جو اس قتل میں شریک تھے ششدر رہ گئے ، حیران ہوئے کہ یہ کیسا جملہ ہے.ایک شخص جو قتل ہونے کے قریب ہے اس کی زندگی کے چند لمحے باقی ہیں وہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ رب کعبہ کی قسم ! میں تو کامیاب ہو گیا.یہ کیسی کامیابی ہے.تب ان کی توجہ اسلام کی طرف پھری اور اس ایک جان نے بہت سی سعید رومیں اپنے پیچھے چھوڑ دیں.ایک کامیابی تو ان کو وہ نصیب ہوئی کہ وہ ہمیشہ کے لئے اپنے رب کے پیارے ہوئے اور ایک کامیابی وہ نصیب ہوئی کہ اگر ایک سرگردن سے اتر اتو اور کئی سر محمد رسول اللہ کی غلامی میں جھک گئے اور وہ جان ضائع نہیں گئی.پس فوز کے یہ معنی ہیں جن کو جماعت احمدیہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر حصولِ مقصد ہم سے بہت دور دکھائی دیتا ہے تو زندگی کا ایک مقصد ایسا ہے جو ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ رضائے باری تعالیٰ کا حصول ہے اگر ہم خود اپنے نفس میں مطمئن ہو جائیں کہ ہمیں رضائے باری تعالیٰ حاصل ہو رہی ہے ، ہم پر اس کے پیار کی نگاہیں پڑ رہی ہیں تو سب سے بڑی کامیابی یہی ہے اس سے بڑی اور کوئی کامیابی نہیں.جلسہ سالانہ کے متعلق چند مختصر باتیں میں جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وہ جلسہ کے بعد پہلی بار یہ خطبہ سن رہی ہیں اس لئے ان کو توقع ہوگی کہ قادیان سے متعلق اور جلسہ سے متعلق میں اپنے کچھ تاثرات بیان کروں.یہ مضمون بہت مشکل ہے کیونکہ دل کی جو کیفیات تھیں اور ہیں ان کا بیان ممکن نہیں.ایک عجیب خواب کی سی دنیا سے نکل کر ہم آئے ہیں.جو مناظر ہم نے جلسہ میں عشق اور محبت کے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر فدائیت کے نظارے دیکھے، تمام دنیا سے آئے ہوئے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پروانے اس بستی میں بہت تکلیفیں اٹھا کر جمع ہوئے.ہندوستان کے کونے کونے سے اس کثرت سے احباب جماعت یہاں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 5 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء تشریف لائے کہ آج تک سو سالہ تاریخ میں کبھی ان جگہوں سے اس کثرت سے احباب جلسہ سالانہ میں شریک نہیں ہوئے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں بھاری اکثریت غربت کا شکار ہے اور اتنی غربت کا شکار ہے کہ ان کے لئے ریل کے تیسرے درجہ کے سادہ دوطرف کے کرائے اکٹھا کرنا بھی ممکن نہیں تھا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح انہوں نے قرض اٹھائے یا کسی اور صاحب دل آدمی نے ان کی ضرورت کو محسوس کر کے ان کی مدد کی مگر میں نے جو کثرت سے نگاہ ڈالی تو بھاری اکثریت ایسی تھی جو غرباء کی تھی مگر دل کے غنی تھے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ تعریف ان پر صادق آتی تھی کہ الغنى غنى النفس ( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر ۵۹۶۵)سنو اغنی یعنی امیری اور تو نگری اصل میں دل کی امیری اور تو نگری ہوا کرتی ہے.وہ دنیا کی تمناؤں سے بے نیاز اس بستی میں آپہنچے جہاں ان کو سکون ملنا تھا.جس کی راہ وہ بڑی مدت سے دیکھ رہے تھے.ان کی آنکھوں نے وہ دیکھا جس کے متعلق مجھے بہتوں نے کہا کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا.ہماری تمنائیں تھیں کہ ہم اپنی زندگی میں کبھی خلیفتہ امیج کو دیکھیں لیکن سوچ بھی نہیں سکتے تھے.ایسے بوڑھے تھے جو معلوم ہوتا تھا کہ زندگی کے آخری کنارے پر پہنچے ہوئے ہیں.ایسے اپاہج تھے جو کرسیوں پر بیٹھ کر آئے.ایسے بیمار تھے جن کو ان کے رشتہ داروں نے سہارے دیئے.قطع نظر اس کے کہ یہاں کے موسم کی سختی کے وہ عادی نہیں تھے.اکثر ایسے علاقوں کے رہنے والے تھے کہ جہاں سارا سال گرمی ہی پڑتی ہے سردی کم سردی نام کی ہے اور حقیقت میں وہ سردی سے آشنا نہیں مگر انہی ایک دو کپڑوں میں ملبوس جو گرمیوں کے کپڑے تھے اور جن کے وہ عادی ہیں ان میں وہ تشریف لائے لیکن ان کے اندر ایک ایسا ولولہ ، ایسا جوش تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سب سے کم ہیں جو بیمار پڑے.وہ جو ٹھنڈے علاقوں سے آئے تھے.وہ جن کو تن بدن ڈھانکنے کے سارے سامان میسر تھے ان میں بہت زیادہ نزلہ زکام اور بخار نے راہ پائی لیکن عجیب بات تھی کہ ان میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کا ناک بہہ رہا ہو یا سردی سے کانپ رہا ہو.ایک عجیب گرمی تھی جو خدا تعالیٰ نے ان کو اندر سے عطا کر دی تھی اور یہ حیرت انگیز اعجاز تھا جو عام حالات میں ممکن نہیں ہے.ان کی اکثریت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی تھی جنہوں نے کبھی قادیان کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا مثلاً اڑیسہ کے غریب اور تو نگر احمدی ، دل کے امیر احمدی دو ہزار سے زائد تعداد میں یہاں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 6 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء پہنچے اور خدا کے فضل کے ساتھ ان کی کیفیت یہ تھی کہ دن بدن اُن کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہوئی دکھائی دیتی تھی.جب آغاز میں ان سے تعارف ہوا تو ان کی نگاہوں میں کچھ تھوڑی سی اجنبیت تھی، کچھ پہچان کی کوشش کر رہے تھے یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کیا چیز ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اور کچھ فاصلہ ساتھا لیکن آنا فانا وہ فاصلے قربتوں میں تبدیل ہو گئے اور اسکے بعد ان کا جوش اور ولولہ نا قابلِ بیان تھا.آج تک ہم نے کبھی کسی جلسہ سالانہ میں ایسے نظارے نہیں دیکھے جیسے ہندوستان کی دُور دُور سے آئی ہوئی جماعتوں کے اخلاص کے نظارے ہم نے دیکھے.ان میں کیرالہ کے غرباء بھی تھے.ان میں آندھرا پردیش کے بھی تھے لیکن یہ ایسا موقع تھا جس میں غرباء کو امراء سے الگ کرنا شاید زیادتی ہو.یہ وہ موقع تھا جہاں واقعۂ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے تھے.جہاں کوئی تفریق نہیں رہی تھی ، سارے دل کے امیر دکھائی دیتے تھے، سارے حضرت محمد مصطفی ملی صلى الله اور آپ کے اس غلام کامل کے شیدائی دکھائی دیتے تھے جس نے قادیان کی بستی میں جنم لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا میں اس کے دل سے نور کے سوتے پھوٹے.پس یہ وہ نظارے ہیں جن کے بیان کی مجھ میں طاقت نہیں ہے.شاید ویڈیو والوں نے کچھ ریکارڈ کئے ہوں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو اس فضا میں دم لے رہے تھے جنہوں نے ان کے جذبے، ان کے ولولے دیکھے وہ کسی طرح بھی بیان کی حد میں نہیں آسکتے.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں نے کیا پایا اور کیا لے کر لوٹے ؟ مگر میں یہ یقین رکھتا ہوں اور اس میں مجھے ذرہ بھی شک نہیں کہ خدا کے فضل سے وہ اگر پہلے کسی لحاظ سے کمزور بھی تھے تو یہاں سے مالا مال ہو کر لوٹے ہیں اور کسی چیز کی کوئی کمی انہوں نے محسوس نہیں کی.اب ایک دور ہے جو شروع ہونے والا ہے لیکن اس سے پہلے میں پاکستان کے احمدیوں کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبے عرصہ کے بعد پاکستان کے غرباء کو بھی یہ توفیق ملی کہ وہ کسی حد تک یعنی سارے تو نہیں آسکتے تھے ناممکن تھا لیکن کسی حد تک یہاں پہنچ سکیں اور جن کے لئے انگلستان پہنچ کر ملاقات ناممکن تھی ان کو بھی خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ قریب آئیں اور یہاں سے آکر جلسہ میں شمولیت کریں.میرے ساتھ ملاقاتیں کریں اور قریب سے دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے.ان کی کیفیت بھی نا قابل بیان تھی.اکثر یہ صورت حال تھی کہ میرے ضبط کا بڑا سخت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 7 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء امتحان تھا.مجھے ہمیشہ ڈر رہا کہ اگر میرا ضبط ٹوٹ گیا تو یہ لوگ بچوں کی طرح پلک پلک کر رونے لگیں گے.میری جدائی ان پر اور بھی زیادہ سخت ہو جائے گی اور خدا کے ہاں جو علیحدگی کے بقیہ دن مقدر ہیں وہ پہلے سے زیادہ تلخ ہو جائیں گے.اس لئے میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہنستے ہوئے، مسکراتے ہوئے ، ہاتھ اٹھاتے ہوئے سب کو سلام کہوں ،سب کے سلام قبول کروں اور حوصلے بڑھاؤں لیکن جو دل کی کیفیت تھی خدا کے سوا اور کوئی نہیں جانتا.بڑے سخت امتحان سے گزرنا پڑا.ان کے آنے کے نظارے بھی عجیب تھے.ان کی واپسی کے نظارے بھی عجیب تھے.ایک موقع پر میری بچیاں بسوں کی رخصت کا منظر دیکھنے کے لئے گئیں.ہمارے خاندان کے بھی بہت سے لوگ اس میں جارہے تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ سب لوگ کھڑکیوں سے اُلٹے پڑتے تھے.گویا وہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے نہیں جانا.ہم نہیں جانا چاہتے.چنانچہ میری بچی نے اپنی کسی عزیزہ سے پوچھا کہ تم کیوں الٹ رہی ہو تو اس نے کہا.یہاں سے جانے کو دل نہیں چاہتا.دل چاہتا ہے کھڑکی سے چھلانگ لگا دوں.پس یہ وہ کیفیتیں ہیں جن کو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی فصاحت و بلاغت جیسا کہ حق ہے ان کو سمیٹ سکے اور ان کو زندہ جاوید تحریروں میں تبدیل کر سکے.لیکن یہ عجیب دن تھے جو گزر گئے.اب ہمیں آئندہ کا سوچنا چاہئے.یہ جلسہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نہ صرف ایک تاریخی جلسہ تھا بلکہ تاریخ ساز جلسہ تھا اور تاریخ ساز جلسہ ہے.جو لطف ہم نے اٹھائے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ زندہ رہیں گے لیکن وہ لطف اس لئے زندہ نہ رہیں کہ ہم جیسے ایک نشئی ایک نشے کی حالت میں لطف اٹھاتا ہے ویسے اس سے لطف اٹھاتے رہیں.وہ لطف اس لئے زندہ رہنے چاہئیں تاکہ ہمیشہ ہمیں عمل کے میدان میں آگے بڑھاتے رہیں اور ہماری ذمہ داریاں ہمیں یاد کراتے رہیں اور یاد کرائیں کہ ایک نیا دور ہے جس میں احمدیت داخل ہو چکی ہے.ترقیات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ہمارے سامنے کھلا پڑا ہے.ایسے نئے ایوان گھل رہے ہیں جن میں پہلے احمدیت نے کبھی جھانکا نہیں تھا.چنانچہ میں یقین رکھتا ہوں کہ خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کی جماعتوں میں یہ احساس بیداری پیدا ہوا ہے اور بعض جگہ جو چھوٹی چھوٹی پژمردہ سی جماعتیں تھیں.جن کے خطوں سے امید کی کوئی غیر معمولی کرن نظر نہیں آتی تھی.جن کے خط کچھ مجھے بجھے ، کچھ دبے دبے ایسا منظر پیش کرتے تھے جیسے وہ احمدیت کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 8 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء زندہ ہیں اور احمدیت کے ساتھ زندہ تو رہیں گے لیکن اتنے کمزور ہیں کہ وہ احمدیت کی زندگی سے اپنے ماحول کو زندہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.اب جو لوٹے ہیں تو ان کی کیفیت یکسر بدل چکی تھی.ان میں سے بہت تھے جنہوں نے مجھ سے کہا کہ اب زندگی کا ایک بالکل نیا دور شروع ہوا ہے.اب آپ دیکھیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کس طرح ہندوستان میں چاروں طرف احمدیت کانور پھیلائیں گے.اب گزشتہ زمانوں اور آئندہ زمانوں میں ایک نمایاں فرق پڑ چکا ہے اور یہ جلسہ اس کی حد فاصل ہے.پس اس پہلو سے یہ جلسہ ایک تاریخ ساز جلسہ ہے.میری دعا ہے کہ ان کے ولولے ہمیشہ زندہ رہیں.جہاں تک منصوبوں کا تعلق ہے ان کو تفصیل کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے کہ کس طرح منصوبے بنانے ہیں.کس طرح ان پر عمل درآمد کرنا ہے.ان کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر چہ ظاہری طور پر آپ غریب ہیں اور بڑے بڑے اُمید افزا اور تمناؤں سے بھر پور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن کھلے دل کے ساتھ خوب منصوبے بنائیں اور بالکل پرواہ نہ کریں کہ ان پر کیا خرچ آتا ہے.عالمگیر جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے غریب نہیں ہے اور ساری عالمگیر جماعت احمد یہ آپ کی پشت پر کھڑی ہے.تمام عالمگیر جماعت احمد یہ ہمیشہ قادیان کی ممنون احسان رہے گی اور ان درویشوں کی ممنون احسان رہے گی جنہوں نے بڑی عظمت کے ساتھ ، بڑے صبر کے ساتھ ، بڑی وفا کے ساتھ اس امانت کا حق ادا کیا جو اُن کے سپرد کی گئی تھی اور لمبی قربانیاں پیش کیں.اس لئے آپ کو کوئی خوف نہیں ، آپ کو کوئی کمی نہیں.اللہ کے فضل کے ساتھ جتنے مفید کارآمد منصوبے آپ بنا سکتے ہیں اور ان پر عمل کر سکتے ہیں ، انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تمام ضرورتیں عالمگیر جماعتیں پوری کریں گی اور میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اس لحاظ سے بہت حد تک نظر انداز ہوتا رہا ہے.اس میں ہم سب کا قصور ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے.ہندوستان کا اپنا ایک حق تھا جسے ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے تھا.ہندوستان وہ جگہ ہے جہاں خدا تعالیٰ نے آخرین کا پیغامبر بھیجا جو ہر مذہب کا نمائندہ بن کر آیا.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا جَرِى اللهِ فِى حُلَل الانبیاء ( تذکر صفحه ۶۳) کہ ایک شخص دکھائی دیتا ہے مگر خدا کا پہلوان ہے جو تمام انبیاء کے چونے اوڑھے ہوئے آیا ہے.اسی میں تمہیں کرشن دکھائی دے گا ، اسی میں تمہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 9 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء بڑھا دکھائی دے گا، یہ مسیح کی تمثیل بھی ہے اور مہدی بن کر بھی آیا ہے.انبیاء سے تمام دنیا میں جتنے بھی وعدے کئے گئے تھے وہ آج قادیان کی بستی میں اس ذات میں پورے ہورہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مامور فرمایا ہے.پس اس پہلو سے ہندوستان کا ایک مرکزی اور دائمی حق ہے جسے نظر انداز کرنا ہماری غلطی تھی.دیگر ممالک میں پہنچے.افریقہ اور امریکہ اور سپین اور یورپ کے ممالک میں مساجد تعمیر کیں اور اذانیں دیں اور اسی بات پر مطمئن رہے کہ خدا کے فضل سے افریقہ کے بعض ممالک میں جماعت اس تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ بعید نہیں کہ آئندہ چند سالوں میں وہاں جماعت کو کلی اکثریت حاصل ہو جائے.یہ سب باتیں اپنی جگہ اطمینان بخش ضرور ہیں مگر ہندوستان کو نظر انداز کرنا ہر گز جائز نہیں تھا اور عقل کے تقاضوں کے خلاف تھا کیونکہ جو اہلیت اور صلاحیت ہندوستان میں جماعت احمدیہ کی نشوونما کی ہے، وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو.یہاں دنیا کے مختلف مذاہب آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.یہاں جو بظاہر مذہبی فسادات ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ، وہ دراصل سیاسی گروہ بندیوں کے نتیجہ میں اور چھوٹی چھوٹی چپقلشوں کے نتیجہ میں ہوتے ہیں ورنہ ہر مسلمان کو آزادی ہے کہ اپنی مساجد میں اذانیں دے جس سے چاہے اسلام کی بات کرے.جس طرح چاہے اپنے اسلام کا اظہار کرے.کسی فرقے پر کوئی قدغن نہیں.یہی قادیان کی بستی ہے اس میں صبح کے وقت آپ تہجد کی نماز کی تلاوت بھی لاؤڈ سپیکر پر سنتے تھے.یہاں بھجن بھی ساتھ گائے جارہے تھے.یہاں گردواروں سے تقریریں بھی کی جارہی تھیں.میوزک بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی.عیسائی بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنے خدا کو یاد کر رہے تھے اور کبھی نہ کسی احمدی کو اس کی تکلیف ہوئی نہ کسی غیر احمدی کو، نہ ہند وکو، نہ سکھ کو ، سارے اس بات پر خوش تھے کہ جس کو جس طرح بھی توفیق مل رہی ہے آخر وہ خدا کو یاد کر رہا ہے.ہمیں کیا حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں.یہ وہ ماحول ہے جو ہندوستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے لئے بہت خوش آئند ہے اور اگر جماعت احمد یہ صیح طریق پر یہاں کام شروع کرے تو خدا کے فضل سے بہت تیزی کے ساتھ تمام ہندوستان میں نفوذ ہوسکتا ہے.یہاں جو مسلمان لیڈر شپ ہے وہ بد قسمتی سے اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ باوجود اس کے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 10 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء مسلمان دس کروڑ یا شاید اس سے بھی زائد ہیں.یوں لگتا ہے کہ جیسے بے سر کا جسم ہے جو بظاہر زندہ رہ رہا ہے لیکن اس میں بیجہتی نہیں ہے.جیسے ایک سر سے اعضاء میں بیجہتی پیدا ہوتی ہے.جیسے دماغ انگلیوں کے پوروں تک اثر دکھاتا ہے اور سارا جسم ایک جان ہو کر رہتا ہے ویسی کیفیت ہندوستان کے مسلمانوں میں دکھائی نہیں دیتی.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے لئے اور بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کی راہنمائی کرے اور ان کو وہ سر مہیا کرے جو آسمان سے ان کے لئے نازل ہوا ہے یعنی مہدی اور مسیح کا سر جس کے بغیر نہ ان کو زندگی کے سلیقے آئیں گے نہ ان کو دنیا میں پنپنے کے ڈھنگ آئیں گے.جس حال میں یہ بد نصیب لیڈرشپ کی غلط راہنمائی کے نتیجہ میں بار بار دکھ اٹھارہے ہیں اور بے شمار تکلیفوں کے دور میں سے گزر رہے ہیں یہاں تک کہ ایسی Tunnel ہے جس کے پرلی طرف کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی.اس ساری صورتحال کو درست کرنے کی صلاحیت احمدیت میں ہے اور احمدیت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس پہلو سے بھی ہمیں ہندوستان کی طرف غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے.جب ہم توجہ دے رہے ہیں اور دیں گے اور اور زیادہ دیتے چلے جائیں گے تو لازماً یہاں مخالفت کی بھی نئی لہریں اٹھیں گی.اب جب میں قادیان کے جلسہ کے لئے حاضر ہورہا تھا تو معلوم ہوا کہ یہاں کے بعض بڑے بڑے علماء جنہوں نے اپنے آپ کو احمدیت کے خلاف وقف کر رکھا ہے وہ پاکستان پہنچے اور وہاں کے ان مولویوں سے جو مغلظات بکنے میں چوٹی کا مقام رکھتے ہیں مشورے کئے ، سر جوڑے، حکومت پر وہاں بھی ہر قسم کے دباؤ ڈالے گئے اور یہاں بھی ڈالے گئے کہ کسی طرح اس جلسہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دو ورنہ احمدیت کو غیر معمولی ترقی نصیب ہوگی.لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے سب ارادوں کو نا کام کر دیا لیکن پاکستان میں اس کا رد عمل ابھی اور زیادہ چلے گا اور معلوم ہوتا ہے کہ کافی شدت کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ ان مولویوں کا دل بہت ہی چھوٹا ہے اور نیکی کو پنپتے ہوئے وہ دیکھ ہی نہیں سکتے.یہ عجیب بیماری ہے کہ اسلام کے نمائندہ ہیں لیکن بدیوں کو پنپتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی گلی گلی میں Drug Addiction ہورہی ہے، عورتوں کی عزتیں ختم ہو گئیں، چھوٹے بچوں کا تحفظ جاتارہا، اغواء کی وارداتیں ہورہی ہیں ، ڈاکو دن دھاڑے جہاں چاہیں جس کو چاہیں لوٹیں.ایک ایسی بدامنی کی کیفیت ہے کہ بسا اوقات یہ سوال بار بار
خطبات طاہر جلدا 11 خطبه جمعه ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء سیاستدانوں کی طرف سے بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیوں نہ دوبارہ فوج کو لائیں اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ پہلے بھی تو فوج ہی کے چھوڑے ہوئے مسائل ہیں جن سے قوم اس وقت نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور جو اُن کے لئے اس وقت زندگی اور موت کا سوال بن چکے ہیں.پس ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا کریں اور ملاں کا یہ حال ہے کہ سارے پاکستان میں جتنی چاہے گلی گلی میں بدکاریاں پھیلیں، چوریاں ہوں، جھوٹ پھیلیں اور سچائی عنقا ہو جائے ،عدالتیں ظلم اور سفا کی سے بھر جائیں، رشوت ستانی کا دور دورہ ہو ، ڈا کے پڑیں، کسی عورت کو نہ چادر نصیب ہو نہ گھر کی چاردیواری کا تحفظ ملے یہ سب کچھ ہولیکن ان کے اسلام پر جوں تک نہ رینگے، کوئی تکلیف نہ ہو.عجیب وغریب اسلام ہے لیکن اگر احمدی کلمہ لا الہ الا الله بلند کریں اور کہیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ اللہ ایک ہے اور محمد اُس کے رسول ہیں تو ان کے تن بدن کو آگ لگ جائے.اگر احمدی نمازیں پڑھیں تو تکلیف سے ان کی جان ہلکان ہونے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ احمدی نمازیں پڑھ رہے ہیں.احمدی سچ بولیں تو ان کو تکلیف ہو.ہر وہ نیکی جو اسلام سکھاتا ہے اسے عملاً تو وہ احمدیوں کے سپرد کر بیٹھے ہیں اور اب وہاں بھی مٹانے کے درپے ہیں.میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ تم نے اپنے ماحول سے وہ نیکیاں مٹنے دیں تم جانو.خدا کے حضور تم جوابدہ ہو گے لیکن خدا کی قسم ! تم ایڑی چوٹی کا زور لگاؤ تم سارے مل کر جو کرنا ہے کر گز رو مگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کو تم احمدی دلوں سے مٹا نہیں سکتے.احمدی اعمال سے تم نوچ نہیں سکتے یہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں.یہ ہماری سرشت بن چکی ہیں.پس اسلام کی اعلیٰ قدروں کے اگر ہم آج محافظ ہیں تو یہ خدا کا فیضان ہے اس نے ہمیں عطا کیا ہے ، اسی نے یہ جھنڈا ہمیں تھمایا ہے.جو چا ہو ظلم کرو، یہ جھنڈا ہم ہمیشہ سر بلند رکھیں گے.پس وہاں کے مسلمان علماء کی عجیب حالت ہے اور ہندوستان کے علماء کو یہ بات دکھائی نہیں دے رہی کہ ان کی زندگیوں میں یہ کیسا تضاد ہے.بدیوں سے گلیاں بھر جائیں اور ان کے اسلام کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ربوہ میں چھوٹے چھوٹے بچے درود پڑھتے ہوئے لوگوں کو جگائیں تو ایسی آگ بھڑک اٹھے کہ بچوں کے خلاف تھانوں میں پرچے ہو جائیں.ان کو گھسیٹ کر قیدوں میں ڈالا جائے اور ان کے خلاف مقدمے چلائے جائیں اگر کہو ! کیوں؟ کیا کیا انہوں نے ؟ ان معصوم بچوں نے کیا
خطبات طاہر جلدا 12 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء جرم کیا تھا ؟ تو جرم یہ لکھوایا جاتا ہے کہ یہ ایسے بد بخت لوگ ہیں کہ صبح نماز کے وقت لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پڑھتے ہوئے محمد رسول اللہ پر درود بھیجتے ہوئے ربوہ کی گلیوں میں پھر رہے تھے اور لوگوں کو نماز کے لئے جگار ہے تھے.جب عقلیں ماری جائیں ، جب دلوں پر قفل پڑ جائیں تو یہ سادہ سامنے دکھائی دینے والی باتیں ، روز روشن کی طرح ظاہر باتیں بھی اندھوں کو دکھائی نہیں دیتیں.اسی کا نام قرآن کریم نے دل کا اندھا پن رکھا ہے.جب دل اندھے ہو جائیں تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہے.آنکھیں جو دیکھتی ہیں دل ان کو قبول نہیں کرتے.وہ پیغام دلوں تک پہنچتا نہیں ہے.پس اس وقت پاکستان میں یہ حالت ہے اور اب جبکہ احمدیت کو اس جلسہ سالانہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی نئی کامیابیاں عطا ہونے کو ہیں اور دشمن محسوس کر رہا ہے کہ یہ جلسہ یقیناً تاریخ ساز ہے تو اور زیادہ بھڑک اٹھیں گے اور زیادہ منصوبے بنائیں گے.پس تمام عالمگیر جماعتوں کو پاکستان کے مظلوم احمدیوں کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ جس طرح اب تک اللہ تعالیٰ نے ان کو ثبات قدم عطا فرمایا ، وہ جیلوں میں گئے ہمعصوموں پر پھانسی کے پھندے ڈالنے کی کوشش کی گئی ، وہ لمبے عرصہ تک انتہائی دکھوں اور تکلیفوں میں اپنے خاندانوں سے الگ رہ کر محض اللہ ایک زندانی کی کیفیت میں دن گزار رہے ہیں.ان کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں اور باقیوں کو بھی کہ ان کو بھی خدا حوصلہ دے اور ہر امتحان سے کامیابی سے گزار دے اور سب سے بڑی دعا یہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اب ابتلاء کے یہ دن بدل کر انہیں پاکستان کے لئے بھی عظیم جزاء کے دن بنادے.ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں جو جزاء عطا فرما رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں پاکستان کے احمدیوں کی قربانی کا ایک بڑا بھاری دخل ہے.ان کی تکلیفیں ہیں جو دعا بن کر اٹھتی ہیں اور رحمت بن کر ساری دنیا میں احمد یوں پر برس رہی ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمیشہ تکلیفیں ہی اٹھاتے رہیں اور قربانیاں ہی دیتے چلے جائیں اور تمام دنیا کی احمدی جماعتیں ان کا فیض پاتی رہیں.یہ خدا کی تقدیر نہیں ہے.یہ عارضی قصے ہیں.مجھے یقین ہے کہ یہ دن بدلیں گے اور بہر حال بدلیں گے لیکن کب بدلیں گے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.جب تک نہ بدلیں ہمیں ان کے لئے استقامت کی دعا کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی برکتوں کے اس دور میں حتی المقدور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.خدا تعالیٰ نے جو راہیں ہم پر آسان کر دی ہیں اگر ہم ان پر پوری رفتار سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 13 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء دوڑنا نہ شروع کریں گے تو ہم ناشکرے بندے بنیں گے.اس لئے ہندوستان کی جماعتیں ہوں یا انگلستان کی یا یورپ اور امریکہ کی دوسری جماعتیں اور افریقہ کے وہ ممالک جن میں احمدیت خدا کے فضل سے بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے آپ سب کے لئے میرے دو پیغام ہیں.سب سے پہلے پاکستان کے احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یادرکھیں کیونکہ آپ کی کامیابیوں کے بدلے ان مظلوم احمدیوں سے اتارے جائیں گے اور اس کے لئے منصوبے بنائے جار ہے ہیں.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی طرف جو عادت منسوب فرمائی ہے وہ بہر حال کچی ثابت ہوگی کہو مَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ ) (آل عمران:۵۵) اور إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا فَمَهْلِ الْكَفِرِيْنَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًان (الطارق ۱۶.۱۸) یہ دو مختلف آیات ہیں جن میں ایک ہی مضمون کو مختلف رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے.پہلی آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ ہر وقت سچائی کے خلاف مکر میں مصروف ہیں اور میرے بندوں کو مکر آتا نہیں تو کیسے ان کے مکر کا جواب دیا جائے.فرمایا: مَكَرَ الله یہ نہیں فرمایا: مَكَرَ المومِنُوْنَ.اللہ مکر کرتا ہے لیکن مکر میں بدی کا ایک پہلو بھی پایا جاتا ہے.فرمایا: وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِینَ اللہ کے مکر میں شر کا پہلو نہیں بلکہ سارے بھلائی کے پہلو ہیں اور خَيْرُ الْمُكِرِينَ کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کا مکر غالب آنے والا مکر ہے.اس پر کوئی دوسرا مکر غالب نہیں آسکتا.تو اللہ تعالیٰ اپنی تدبیروں میں مصروف ہے اور وہ کبھی بھی ہمارے حال سے غافل نہیں رہا.ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں اس کا فضل اور بھی زیادہ قریب آجاتا ہے.دوسری جگہ فرمایا: إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًان وَاكِيْدُ كَيْدًا کہ یہ دشمن اسلام اور حق کے دشمن بڑی بڑی کیدیں کرتے ہیں.مکروفریب کے بڑے منصوبے باندھتے ہیں.کیا سمجھتے ہیں کہ میں خاموش بیٹھا رہوں گا وَ آكِيْدُ كَيْدًا ن میں بھی جو اب بڑی بڑی تدبیریں کروں گا اور بڑی بڑی تدبیریں کرتا ہوں.فَمَهْلِ الْكُفِرِيْنَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا اے مومنوں کی جماعت! ان لوگوں کو اپنی جہالت کی حالت میں کچھ دیر اور بھٹکنے دوبالآخر خدا کی تدبیر ہی غالب آنے والی ہے.خدا کرے کہ ہم جلد اس غالب تدبیر کا منہ دیکھیں جیسے کہ دنیا میں دیکھا ہے پاکستان میں بھی یہ منہ دیکھیں اور پاکستان کے باشندوں کی تقدیر بدل جائے.جب تک یہ ملاں پاکستان کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے، اس درخت کو کبھی پھل نہیں لگ سکتے.ایک بے کار درخت بن چکا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 14 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۹۲ء ہے جس پر کڑوی چیزیں تو آگ سکتی ہیں مگر ثمرات حسنہ اس کو عطا نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی جڑیں گندی ہوگئی ہیں.جب تک اہل پاکستان اپنی جڑوں سے ملائیت کے جراثیم نہ نکالیں اور محمدمصطفی ہے کے مکارم الاخلاق کو وہاں قائم نہ کریں ، اس وقت تک اس ملک کا بھی کچھ نہیں بن سکتا.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے اور دنیا میں عالمگیر تبدیلیاں برپا کرنے کی ہم عاجزوں اور غریب بندوں کو توفیق عطا فرمائے.آمین.منتقل: خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا.میں نے اہل کشمیر کا بھی خصوصیت سے ذکر کرنا تھا لیکن اس وقت خیالات دوسری طرف ہوتے چلے گئے تو ان کا ذکر رہ گیا.جہاں تک اخلاص اور جوش کا تعلق ہے کشمیر سے آنے والے ہزار ہا احمدیوں نے جس اخلاص اور جوش کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی ایک قابل دید منظر تھا، ایسا جو ہمیشہ کے لئے یادوں میں پیوست ہو جاتا ہے اور وہاں بھی غربت ہے لیکن بعض دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہے.لیکن جس طرح علاقے کا امن اٹھ چکا ہے وہاں سے ان حالات میں ان کا جوق در جوق آنا ایک بہت بڑی قربانی کا تقاضا کرتا تھا جو انہوں نے پیش کی.شروع میں مجھے یہ بتایا گیا کہ شاید ہزار کی تعداد میں کشمیری آجائیں اور اس پر بھی خیال یہ تھا کہ ہزار تو بہت زیادہ ہیں.شاید خوش فہمی کا اندازہ ہے مگر وہ جو کشمیر کے جذبے کو اور اخلاص کو جانتے تھے وہ مجھے یقین دلا رہے تھے کہ پندرہ سو دو ہزار اس سے بھی زیادہ کی توقع رکھیں.چنانچہ آخر پر مجھے یہ بتایا گیا کہ اللہ کے فضل سے کشمیر سے آنے والے احمدیوں کی تعداد تقریباً تین ہزار تک پہنچ چکی تھی.خواتین بھی بڑی کثرت سے آئیں ، مرد بھی ، بچے بھی اور بہت ہی محبت اور پیار سے اور بڑی مستعدی سے انہوں نے اپنے اپنے فرائض ادا کئے اور اب بھی ان کی کچھ تعداد ابھی پیچھے ٹھہری ہوئی ہے.کشمیر کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کشمیر کی جماعت کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتا ہوں.اللہ اس خطے کو بھی سچائی اور انصاف کا امن نصیب کرے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 15 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء محض قادیان کی واپسی ہی پیش نظر نہ ہو بلکہ قادیان میں اسلام کی فتح اور غلبہ کے ساتھ واپسی کی امنگ پیش نظر رہے ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ار جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الاقصی قادیان) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج یہ چوتھا جمعہ ہے جو مجھے قادیان دارالامان ، جماعت احمدیہ کے مستقل مرکز میں ادا کرنے کی توفیق عطا ہورہی ہے.یہ جلسہ جوسو سال کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جلسے کی یاد لے کر آیا تھا جو آپ نے پہلی مرتبہ قادیان میں شروع کیا ، اس بہت ہی اہم ادارے کی تقریب قائم فرمائی اور ہمیشہ کیلئے جماعت احمدیہ کے ایک جگہ اکٹھے ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی یادوں میں دن بسر کرنے کی ایک بہت ہی عمدہ سنت قائم فرمائی.یہ ایک ایسی سنت ہے جس کا فیض آج صرف قادیان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ۱۲۶ ممالک پر ممتد ہو چکا ہے.یہ جلسہ سالانہ جو کبھی قادیان میں ۷۵ افراد کی شمولیت کے ذریعہ شروع ہوا آج دنیا کے کم از کم ۷۵ ایسے ممالک ہیں جن میں ہزار سے بڑھ کر احمدی اپنے اپنے ملکوں کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں اور وہ لنگر جس کی بنیا د حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں قائم فرمائی اب ایک عالمی لنگر بن چکا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں یہ توفیق ملے گی کہ عنقریب سوممالک سے زائد ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ لنگر جاری کر دیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 16 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء اس جلسہ کی بہت سی برکات ہیں جو جذباتی نوعیت کی ہیں.وہ لوگ جو اس جلسہ میں دور دور سے تکلیف اٹھا کر شریک ہوئے ، جذباتی لحاظ سے وہ بہت سی دولتیں سمیٹ کر یہاں سے گئے.ایسی کیفیات سے ہمکنار ہوئے ایسے عظیم روحانی جذبات سے لذت یاب ہوئے کہ وہ جو شامل نہیں ہو سکے وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن میں آپ کو اچھی طرح اس بات سے خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جذباتی لذتیں عارضی ہیں اور فانی ہیں اور چند دلوں اور چند سینوں سے تعلق رکھنے والی لذتیں ہیں.درحقیقت یہ جلسہ اسی وقت اور انہی معنوں میں متبرک ثابت ہوگا، اگر ہم اس کا فیض آئندہ صدی تک ممتد کر دیں.اور آئندہ سوسال کے بعد ہونے والا جلسہ آپ کی آج کی قربانیوں اور آج کی محنتوں اور آج کی کوششوں کے پھل کھائے اور آپ پر ہمیشہ سلام بھیجے.یہ وہ فرق ہے جو ہر سو سال کے بعد پیدا ہونا ہے اور ہر سوسال کے اندر جماعت احمدیہ نے جو قربانیاں پیش کرنی ہیں سو سال کے بعد جب ہم مڑ کر دیکھتے ہیں یا دیکھیں گے تو اس وقت ہمیں نظر آئے گا کہ ہم سے پہلوں نے ہمارے لئے کیا پیچھے چھوڑا.اس نقطہ نگاہ سے نئی صدی کا ایک اور رنگ میں آغاز ہوا ہے یعنی جلسہ سالانہ کے سوسال منانے کی وجہ سے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس پیغام کی اہمیت کو آپ اچھی طرح سمجھیں گے.بہت سے مخلصین جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ قادیان واپسی کے سامان ہوچکے ہیں اور وہ دن قریب ہیں.یہ جذباتی کیفیت کا پھل تو ہے لیکن حقیقت شناسی نہیں ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.دنیا میں مذاہب کی تاریخ میں جہاں جہاں بھی ہجرت ہوئی ہے اور واپسی ہوئی ہے، وہاں ہجرت سے واپسی ہمیشہ اس بات کو مشروط رہی کہ پیغام کی فتح ہوئی اور اس دین کو غلبہ نصیب ہوا جس دین کی خاطر بعض مذہبی قوموں کو اپنے وطنوں سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی.مذہب کی دنیا میں جغرافیائی فتح کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی پہلو سے بھی جغرافیائی فتح کا میں نے مذہب کی تاریخ میں کوئی نشان نہیں دیکھا مگر جغرافیائی فتح صرف اس جگہ مذکور ہے جہاں پیغام کے غلبہ کے ساتھ وہ فتح نصیب ہوئی ہے.حقیقت میں قرآن کریم نے اس مضمون کو سورہ نصر میں خوب کھول کر بیان فرمایا ہے اور ہمیشہ کے لئے ہماری راہنمائی فرما دی ہے کہ اللہ کے نزدیک حقیقی فتح اور حقیقی نصر کیا ہوتی ہے.فرمایا: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ
خطبات طاہر جلدا 17 خطبه جمعه ۱۰/جنوری ۱۹۹۲ء وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ( النصر :۲ (۴) کہ جب تو دیکھے کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ اللہ کی فتح آگئی وَ الْفَتْحُ اور اسکی طرف سے فتح عطا ہوئی تو کیا نظارہ دیکھے گا.یہ نہیں کہ تم فوج در فوج علاقوں کو فتح کرتے ہوئے دندناتے ہوئے ان علاقوں پر قبضہ کر لو گے بلکہ یہ نظارہ تم دیکھو گے کہ فوج در فوج وہ جو اس سے پہلے تمہارے غیر تھے ، جو اس سے پہلے تم سے دشمنی رکھتے تھے وہ اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں گویا دین میں فوج در فوج داخل ہونے کا نام فتح ہے نہ کہ غیر لوگوں کے علاقے میں فوج در فوج داخل ہونے کا نام فتح ہے.پس فتح کا جو اسلامی تصور اور دائمی تصویر جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، قرآن کریم کی اس سورۃ نے پیش فرمایا یہی وہ تصور ہے جو حقیقی ہے، دائمی ہے، جو خدا کے نزدیک معنی رکھتا ہے اس کے سوا باقی سب تصورات انسانی جذبات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں.پس اگر جماعت احمد یہ چاہتی ہے اور واقعہ تمام دنیا کی جماعت یہ چاہتی ہے کہ قادیان دائمی مرکز سلسلہ میں واپسی ہو تو ایسے نہیں ہوگی کہ تمام علاقہ تو احمدیت سے غافل اور دور رہا ہو اور تمام علاقہ اسلام سے نابلد اور ناواقف رہے اور ہم میں سے چند لوگ واپس آکر یہاں بیٹھ رہیں.اس کا نام قرآنی اصطلاح میں نصرت اور فتح نہیں ہے اس لئے اگر کسی دل میں یہ وہم پیدا ہوا ہے تو اس وہم کو دل سے نکال دے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی میرا یہ پیغام ہے کہ آپ خدا سے وہ فتح مانگیں اُس نصرت کے طلب گار ہوں جس کا ذکر قرآن کریم کی اس چھوٹی سی سورۃ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرما دیا گیا.اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان کہ دیکھو تمہیں ایک عجیب اور ایک عظیم فتح عطا ہونے والی ہے.تم اُن لوگوں کے گھروں پر جا کر قبضہ نہیں کرو گے تم لوگوں کے ممالک اور وطنوں پر جا کر فتح کے نقارے نہیں بجاؤ گے بلکہ فوج در فوج لوگ تمہارے دین میں داخل ہونگے اور یہی وہ فتح ہے، یہی وہ نصرت ہے، جو خدا کے نزدیک کوئی قیمت اور معنی رکھتی ہے.پس خصوصیت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے، ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے جسے سمجھنا اور قبول کرنا آج کے وقت کا تقاضا ہے.آئندہ ایک سوسال محنت کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور محنت کا آغاز کرنا ہو گا ایسی محنت جس کے نتیجہ میں روحانی انقلابات بر پا ہونے شروع ہوں.پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی کثرت کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی
خطبات طاہر جلدا 18 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء اسلام کا پیغام پھیلے اور کثرت کے ساتھ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوں.یہی وہ حقیقی فتح ہے جس کے نتیجہ میں قادیان کی اس واپسی کی داغ بیل ڈالی جائے گی جس واپسی کی خوا ہیں آج سب دنیا کے احمدی دیکھ رہے ہیں لیکن وہ خواہیں تب تعبیر کی صورت میں ظاہر ہوں گی جب ان خوابوں کی تعبیر کا حق ادا ہوگا اور خوابوں کی تعبیر بنانا اگر چہ تقدیر کا کام ہے لیکن انسانی تدبیر کے ساتھ اس کا گہر ادخل ہے اور قرآنِ کریم نے جو مذہبی تاریخ ہمارے سامنے رکھی ہے اس میں اس مضمون کو خوب کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ الہی بشارتوں کے وعدے بھی ، اگر قوم تقدیر کے رُخ پر تد بیر اختیار نہ کرے تو ٹل جایا کرتے ہیں اور انذار کے ٹلنے کی تو بے شمار مثالیں ہیں.جب بھی کسی قوم نے اپنے دل کی حالت بدلی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انذار کی تقدیر بھی بدل گئی اور وہ قوم جو اپنے دل کی حالت کو بدل کر بگاڑ کی طرف مائل ہو جائے خدا تعالیٰ کی مبشر تقدیر بھی اس قوم کیلئے بدل جایا کرتی ہے.پس ہماری تقدیر کا ہماری اس تقدیر سے گہرا تعلق ہے جو اعمال صالحہ کے نتیجہ میں رونما ہوتی ہے اور جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا پانی آسمان سے برستا ہے.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان اور جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ایک جھر جھری لیکر بیدار ہو جائیں.آپ کے اندروہ صلاحیتیں موجود ہیں جو انقلاب بر پا کرنے والی صلاحیتیں ہوا کرتی ہیں.آپ جیسی اور کوئی قوم دنیا میں موجود نہیں.آپ وہ ہیں جنہوں نے سرتا پا اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر رکھا ہے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے اس دنیا سے الگ زندگی بسر کر رہے ہیں.ہر قسم کی تکالیف اور دکھوں کو برداشت کرتے ہوئے تو حید اور حق کے ساتھ چھٹے ہوئے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ ان امِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا ( آل عمران (۱۹۴) کہ اے ہمارے رب ! ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا جو یہ اعلان کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ.فَأَمَنَا پس ہم ایمان لے آئے.پس آپ مومنوں کی وہ جماعت ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں کہ وہ آپ کی برائیوں کو دور فرمائے گا.آپ کی کمزوریوں سے درگز رفرمائے گا اور آپ کو دن بدن رو بہ اصلاح کرتا چلا جائے گا یہانتک کہ موت نہیں آئے گی سوائے اس کے کہ خدا کی نظر میں آپ ابرار میں شامل ہو چکے ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 19 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء یہ وہ وعدے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کے سوا تمام دنیا میں کسی اور مذہبی جماعت سے نہیں کسی اور سیاسی جماعت سے نہیں.کسی قوم سے نہیں، آپ سے ہیں ، آپ سے ہیں، آپ سے ہیں.پس جب خدا کے نزدیک آپ کے اندر یہ صلاحیتیں موجود ہیں کہ ایمان کے بعد آپ کی بدیاں دور ہونی شروع ہوں آپ میں نئی صلاحیتیں جاگنی شروع ہوں اور خدا کے رستہ میں آپ ترقی کرتے ہوئے دن بدن ہر بدی کے بدلے اپنی ذات میں حسن پیدا کرتے چلے جائیں یہانتک کہ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران : ۱۹۴) کا وقت آپہنچے.ایسی حالت میں آپ اپنے ربّ کے حضور لوٹ رہے ہوں کہ خدا کی نظر آپ پر اس حالت میں پڑ رہی ہو کہ خدا آپ کو ابرار کے زمرے میں شمار کر رہا ہو.پس یہ وہ صلاحیتیں ہیں جن سے آپ آشنا تو ہیں لیکن ان کی اہمیت ابھی دل میں پوری طرح اجاگر نہیں ہوئی.پوری طرح وہ اہمیت دل میں بیدار نہیں ہوئی.آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے ساتھ انقلاب کے تار وابستہ ہیں.آپ کے دلوں کی دھڑکنوں کے ساتھ آج قوموں کی تقدیر وابستہ ہو چکی ہے.آپ اٹھیں گے تو دنیا جاگ اٹھے گی.آپ سوئیں گے تو سارا عالم سو جائے گا.اس لئے آج آپ دنیا کا دل ہیں ، آج آپ دنیا کا دماغ ہیں، آپ کو خدا تعالیٰ نے وہ سیادت نصیب فرمائی ہے جس کے نتیجہ میں تمام دنیا کو سعادتیں نصیب ہوں گی.پس اس پہلو سے اپنے مقام اور مرتبے کو سمجھیں اور نئے عزم کے ساتھ ، نئے ولولوں کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام اپنے ماحول اپنے گردو پیش میں دینا شروع کریں.بظاہر یہ ایک بہت ہی دور کی بات دکھائی دیتی ہے کہ اتنے تھوڑے سے احمدی، جو اس وقت پاکستان میں بھی اپنی ظاہری طور پر معقول تعداد کے باوجود پاکستان کے باقی باشندوں کے مقابل پر اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے کہ اپنے بنیادی حقوق ان سے حاصل کر سکیں.ہندوستان کے احمدیوں کا حال مقابلہ اس سے بھی زیادہ نازک ہے.اتنی معمولی تعداد ہے کہ اس تعداد کو دیکھتے ہوئے دنیا کے حساب سے اربع لگانے والا یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس قوم کو کبھی غلبہ نصیب ہو سکتا ہے لیکن قرآن کریم کا جو وعدہ ہے وہ بہر حال پورا ہوگا.وہ صفات حسنہ آپ کو عطا ہو چکی ہیں.ان صفات سے کام لینا اور باشعور طور پر یہ یقین رکھنا کہ آپ ہی کے ذریعہ دنیا میں انقلاب ہوگا.یہ سب سے پہلا قدم ہے جو انقلاب کی جانب آپ اٹھا سکتے ہیں.یہ قدم آپ اٹھائیں تو خدا کی تقدیر دس قدم آپ کی طرف آئے گی.آپ چل کر خدا کی تقدیر کی طرف آگے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 20 20 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء بڑھیں تو خدا کی تقدیر دوڑ کر آپ کی طرف آئے گی.پس دنیا کا اربع اپنی جگہ درست، لیکن روحانی انقلابات کے لئے جوار بع قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے، جس پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے روشنی ڈالی ہے، وہ یہی بتاتا ہے کہ انسان کے ساتھ جب خدا تعالیٰ کی تقدیر شامل ہو جائے تو فاصلے بہت تیزی سے کٹنے لگتے ہیں اور انسانی کوششوں سے کئی گنا زیادہ ان محنتوں کو پھل عطا ہوتا ہے جوانسان خدا کی راہ میں صرف کرتا ہے.پس بظاہر ناممکن کام ہے لیکن ممکن ہوسکتا ہے.پہلے بارہا ہو چکا ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی یہی ناممکن ممکن بنادیا گیا تھا اور آج پھر اس ناممکن کوممکن بنانا حضرت محمد مصطفی ہے کے ان غلاموں کا کام ہے، جنہوں نے آپ کی پیشگوئی کے مطابق آئے ہوئے وقت کے امام کو قبول کیا اس کی آواز کو سنا اور اس پر لبیک کہا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اپنی اس ذمہ داری کو خوب اچھی طرح سمجھ لے گی لیکن ذمہ داری کا لفظ حقیقت میں اس صورتحال پر موزوں نظر نہیں آتا کیونکہ ذمہ داری میں ایک قسم کا بوجھ کا مضمون شامل ہے.ذمہ داری یوں لگتا ہے جیسے کسی طالب علم کو جس کا دل پڑھنے کو نہ چاہ رہا ہو، یہ بتایا جارہا ہو کہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تعلیم حاصل کرو اس کے بغیر تم دنیا میں ترقی نہیں کر سکو گے.ذمہ داریوں کے ان معنوں میں روحانی قومیں انقلاب برپا نہیں کیا کرتیں.ذمہ داری کی بجائے خدا کے کام ان کے دل کے کام بن جایا کرتے ہیں، ان کی جان کی لگن ہو جاتے ہیں ان کے ذہنوں کی وہ اعلیٰ مرادیں بن جاتے ہیں جن کی خاطر وہ جیتے ہیں جن کی خاطر وہ مرتے ہیں یہ وہ چیز ہے جو انقلاب بر پا کرنے کے لئے ضروری ہے.پس بہتر الفاظ کی تلاش میں میں اگر چہ صحیح لفظ تلاش نہیں کر سکا اس لئے میں نے بار بار لفظ ذمہ داری استعمال کیا ہے.لیکن ان معنوں میں ذمہ داری نہیں جن معنوں میں قرآن کریم نے اصرا ( البقرہ:۲۸۷) کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی بوجھ کے معنوں میں نہیں بلکہ ایسے اعلیٰ مقصد کے اظہار کے طور پر میں یہ لفظ بول رہا ہوں جس مقصد سے انسان کو عشق ہو چکا ہو جو اس کے دل کی لگن بن چکا ہو.جیسے محبوب کے پیار کے نتیجہ میں عاشق طرح طرح کی قربانیاں کرتا ہے اور ان کے دکھ محسوس نہیں کرتا.محسوس کرتا بھی ہے تو وہ زیادہ پسند کرتا ہے کہ وہ دکھ محسوس کرے اور اپنے محبوب کی راہ پر چلتا رہے بجائے اس کے کہ آرام سے اپنے گھر بیٹھ رہے یا کسی اور طرف کا رخ اختیار کرے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 21 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء پس احمدیت سے ان معنوں میں حقیقی پیار ہونا ضروری ہے کہ احمدیت کا پیغام آپ کے دلوں کی آرزو بن جائے.آپ کی امنگیں ہو جائے ، آپ کی تمنائیں بن جائے.وہ خواہیں بن جائے جس میں آپ بستے رہیں.محض قادیان کی واپسی ہی پیش نظر نہ ہو بلکہ اسلام کے قادیان میں فتح اور غلبہ کے ساتھ واپسی کی امنگ پیش نظر رہے.ورنہ چند احمدیوں کا واپس آکر یہاں بس جانا حقیقت میں کوئی بھی معنی نہیں رکھتا.یہ درست ہے کہ ہم جب یہاں آئے تو یہاں کے باشندگان نے بڑی وسیع حوصلگی کا ثبوت دیا.بڑی سخاوت کے ساتھ ، بڑی وسیع القلمی کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور جن گلیوں اور سڑکوں سے ہم گزرے ہیں بار ہا یہ آوازیں آئیں کہ آپ آجائیں اور یہیں بس رہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات ان کے حسنِ اخلاق پر روشنی ڈالنے والی تھی اور ان کے اس حسن خلق کا دل پر بہت گہرا اثر پڑا لیکن در حقیقت یہ آواز نہیں ہے جو احمدیت کو دوبارہ قادیان کی طرف لائے گی بلکہ وہ آواز ہے جو امنا اور صدقنا کی آواز ہے، وہ ان گلیوں سے اٹھنے لگے.وہ اس ماحول سے اٹھنے لگے اور کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے، آپ کو حق جاننے والے، آپ کو حق پرست سمجھنے والے یہاں پیدا ہوں ، تب وہ صورتحال پیدا ہوگی کہ احمدیت فتح وغلبہ کے ساتھ اپنے وطن کو واپس لوٹے گی.اس وقت تک جو بھی خدا کی تقدیر ظاہر ہو ہم نہیں جانتے کہ کس طرح ظاہر ہوگی اور کب ظاہر ہوگی ہم اس پر راضی ہیں اور ہمارے قربانی دینے والے جو بھائی ایک لمبے عرصے سے ان مقدس مقامات کی حفاظت کر رہے ہیں ہم ان کے دل کی گہرائیوں سے ممنون ہیں اور ان کو یقین دلاتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی احمدی بستا ہے ، وہ آپ کی قدر کرتا ہے، آپ کو عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اگر ہم سے آپ کے حقوق ادا کرنے میں پیچھے کوئی غفلت ہوئی تو میں اقرار کرتا ہوں کہ ہم ان غفلتوں کے نتیجہ میں اپنے خدا سے معافی مانگتے ہوئے ہر قسم کی تلافی کی کوشش کریں گے.قادیان کی واپسی جب بھی ہو اس سے پہلے پہلے لازم ہے کہ یہاں آپ کی عزت اور آپ کے وقار کو بحال کیا جائے تا کہ آپ سر بلندی کے ساتھ ان گلیوں میں پھر سکیں.آپ کو کوئی احساس محرومی نہ رہے اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اللہ کی تقدیر سے امید رکھتا ہوں کہ مجھے توفیق بخشے گا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 22 22 خطبه جمعه ۱۰/ جنوری ۱۹۹۲ء کہ اس فیصلہ پر عملدرآمد کر کے دکھاؤں کہ قادیان کے درویشوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتری کے جو کچھ بھی سامان ہو سکتے ہیں ہم ضرور وہ سامان پورا کریں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ واپسی سے پہلے پہلے وہ حالات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جن کے نتیجہ میں آپ نفس کی پوری عزت اور احترام کے ساتھ سر بلند کرتے ہوئے ان گلیوں میں پھریں اور پھر ہمیں خوش آمدید کہیں اور پھر ہمیں اس طرح بلائیں جس طرح ایک معزز میز بان اپنے مہمان کو بلاتا ہے.خدا کرے کہ وہ دن جلد آئیں ہم انشاء اللہ تعالیٰ بقیہ جو دو تین دن قادیان میں ہیں، مختلف منصوبے سوچنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے متعلق لائحہ عمل تیار کرنے میں صرف کریں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے گزارش کی ہے قادیان ہی نہیں، بلکہ قادیان کی برکت سے ، قادیان کے درویشوں کی برکت سے ، ان منصوبوں کا فیض سارے ہندوستان کی جماعتوں کو پہنچے گا اور انشاء اللہ دن بدن یہاں کے حالات تبدیل ہونا شروع ہوں گے.یہاں کے حالات تبدیل ہوں گے تو پھر آپ ہمیں بلانے کے اہل ثابت ہوں گے.خدا کرے کہ جلد ایسا ہو اور خدا کرے کہ پاکستان کے حالات بھی تبدیل ہوں اور جلد تر تبدیل ہوں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ پہلے واپسی کہاں ہے مگر جہاں بھی اس کی انگلی اشارہ کرے گی ہم غلامانہ اس کی پیروی کرتے ہوئے حاضر ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہر حال میں رضا اور صبر کے ساتھ اپنے مولا کا پیار حاصل کرتے ہوئے جان دیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 23 223 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء قادیان دارالامان کے کامیاب دورہ پر اظہار تشکر نیز قادیان کے لئے نئے منصوبوں کا اعلان (خطبه جمعه فرموده ۱۷ جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمد للہ کہ قادیان کے تاریخی اور تاریخ ساز سوسالہ جلسہ میں شمولیت کے بعد ہمارا وفد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بخیر و خوبی اس عارضی دار ہجرت میں واپس پہنچ چکا ہے.یہ جلسہ بہت ہی مبارک تھا، بہت سی برکتیں لے کر آیا اور بہت سی برکتیں حاصل کرنے والا تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس جلسہ کی برکات اور اس کے بعد اترنے والے اللہ کے فضل ہماری اگلی صدی کے گھروں کو بھر دیں گے اور اس کے بہت دور رس نتائج ظاہر ہوں گے.اس سلسلہ میں میں مختلف پہلوؤں سے جماعت کو آگاہ کر چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی اس نئی صورتحال میں کیا کیا ذمہ داریاں ہیں.مختصر البعض امور سے متعلق آج بھی میں اس مسئلہ پر گفتگو کروں گا لیکن اس سے پہلے میں ان تمام احباب جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں بھر پور محنت اور اخلاص اور لگن اور وفا کے ساتھ حصہ لیا اور غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ کیا.کچھ کام کرنے والے تو ایسے تھے جو لمبے عرصہ سے قادیان کے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے منصوبے بھی بنارہے تھے ، ان پر عمل درآمد کرنے میں بھی حصہ لے رہے تھے اور کافی لمبے عرصے تک کی یہ خاموش خدمت اس جلسہ کی کامیابی پر منتج ہوئی ہے اور خدمت کرنے والے بعد
خطبات طاہر جلد ۱۱ 24 24 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء میں شامل ہوئے.قافلہ در قافلہ خدمت کرنے والوں کا ہجوم بڑھتا رہا لیکن آغاز میں کچھ ایسے افراد کو خدمت کا موقع ملا ہے جو ایک لمبے عرصہ سے مسلسل بڑی محنت اور توجہ اور حکمت کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے.ان میں سب سے پہلے تو United Kingdom کے امیر آفتاب احمد خان صاحب کا نام قابل ذکر ہے.ان کو بھی احباب اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.بیرونی دنیا سے جس حد تک ہندوستان پر اثرات مترتب ہو سکتے تھے ان کو منظم کرنے میں اور ان کو بروئے کار لانے میں آفتاب احمد خان صاحب نے بہت ہی غیر معمولی خدمت کی ہے.اس کے علاوہ مجھے یہاں مرکزی مددگار کی ضرورت تھی جو صاحب تجر بہ بھی ہواور دیگر کاموں سے الگ رہ کر مسلسل ہندوستان اور قادیان سے متعلق مسائل میں میری مدد کر سکے اور مجھ سے ہدایات لے اور اُن پر عمل درآمد کروائے.اس سلسلہ میں بھی آفتاب احمد خان صاحب کو غیر معمولی مؤثر قابلِ تعریف خدمت کا موقع ملا اور میرا بہت سا بوجھ بٹ گیا اور مسائل آسان ہوئے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی کو بات سمجھائی جائے تو تجربہ کار آدمی بھی اس میں کہیں نہ کہیں سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں اور بار بار پوچھنے اور نگرانی کے باوجود سقم رہ جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے United Kingdom کے امیر صاحب کو یہ ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ ایک ہی دفعہ بات سمجھ کر اس کے تمام پہلوؤں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ہیں اور پھر ان کو عملدرآمد کے سلسلہ میں یاد دہانی کی ضرورت پیش نہیں آتی.اگر ان کاموں میں مجھے بار بار الجھنا پڑتا تو کام اتنا زیادہ تھا کہ میرے لئے مشکل پیش آسکتی تھی مگر خدا نے بہت فضل فرمایا اور ایک اچھا مددگار اور نصیر مجھے عطا کر دیا.پاکستان سے چوہدری حمید اللہ صاحب اور میاں غلام احمد صاحب نے بڑے لمبے عرصہ تک بہت محنت کی ہے اور قادیان جا کر وہاں کے مسائل کو سمجھا اور میری ہدایات کے مطابق ہر قسم کی تیاری میں بہت ہی عمدہ خدمات سرانجام دی ہیں ورنہ قادیان کی احمدی آبادی اتنی چھوٹی ہے کہ ان کے بس میں نہیں تھا کہ اتنے بڑے انتظام کو سنبھال سکتے.تمام مردوزن، بچے ملا کر اس وقت کل ۱۸۰۰ کی تعداد میں قادیان میں درویش اور بعد میں آنے والے بس رہے ہیں اور اتنا بڑا جلسہ جس میں تقریباً بیالیس ہزار مہمان شرکت کر رہے تھے اسے سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں تھی.خصوصاً اس لئے بھی
خطبات طاہر جلدا 25 25 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء قادیان کی وہ آبادی جو مرکزی حصہ میں آباد ہے اس کے پاس مکان بھی بہت تھوڑے ہیں اور باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے لئے رہائش کی سہولتیں مہیا کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی.اس ضمن میں انگلستان ہی کے ایک اور مخلص خادم چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ اور ان کے ساتھیوں کا ذکر بھی ضروری ہے.ان کو بھی دعا میں یادرکھنا چاہئے کیونکہ تعمیری کاموں میں انہوں نے بہت ہی محنت سے اور شوق اور ولولے سے حصہ لیا ہے.بہت قیمتی وقت خرچ کر کے میری ہدایت پر قادیان بھی بار بار جاتے رہے اور تعمیری منصوبہ بندی میں ان کو اور ان کے ساتھ ایسوسی ایشن کے ساتھیوں کو خدا کے فضل سے خاص خدمت کی توفیق ملی ہے.یہ کام ابھی جاری ہیں اور قادیان میں جو تعمیری منصوبے ہیں یہ انشاء اللہ آئندہ کئی سالوں تک پھیلے رہیں گے اور کام بڑھتا رہے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ جس اخلاص کے ساتھ پہلے تمام دنیا کے احمدیوں نے جن کو انجینئر نگ سے تعلق ہے خدمت میں حصہ لیا ہے آئندہ بھی انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرماتا رہے گا.قادیان کے ناظر صاحب اعلیٰ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور ان کے ساتھی ناظران اور نائب ناظران نے بھی بہت لمبا عرصہ ان انتظامات کو مکمل کرنے میں بہت محنت سے کام کیا ہے اور قادیان کے درویشوں کا علاقے میں جو نیک اثر ہے اس کے نتیجہ میں علاقے سے تعاون بھی بہت ملا ہے اور وہ سب تعاون کرنے والے بھی ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں.ہندوستان کی حکومت نے بھی ہر طرح سے تعاون کیا اور پنجاب کی حکومت نے بھی بہت ہی غیر معمولی تعاون کیا ہے.یہاں تک کہ تمام عرصہ جب تک کہ میرا وہاں قیام رہا ہے خواہ مختصر عرصے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے کہیں جانا ہوتا تھا تب بھی وہاں پولیس کے تھانے کے انچارج اور ان کے ساتھی بہت ہی مستعدی کے ساتھ آگے پیچھے ہر طرح نگرانی کرتے تھے اور باہر نکلنے کی صورت میں جب قادیان سے باہر چند گھنٹے کے لئے جانا پڑا تو اس وقت بھی کوئی چالیس پچاس افراد پرمشتمل پولیس کی نفری تھی.جس میں جگہ جگہ کے ڈی ایس پی بھی شامل ہوتے رہے اور انسپکٹر پولیس وغیرہ بہت ہی مستعدی کے ساتھ انہوں نے اس طرح خدمت کا حق ادا کیا ہے جیسے کوئی احمدی خود لگن کے ساتھ شوق سے حصہ لے رہا ہو تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر صاف کارفرما دکھائی دیتی تھی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 26 26 خطبہ جمعہ ۱۷؍جنوری ۱۹۹۲ء قادیان کے بوڑھوں، مردوں، عورتوں، بچوں نے تو اپنی طاقت کی آخری حدوں کو چھو لیا.جس حد تک ان کے لئے ممکن تھا انہوں نے خدمت کی لیکن باہر سے جانے والوں نے بھی ماشاء اللہ ان کے کام کو آسان کرنے میں بھر پور حصہ لیا ہے.انگلستان کی جماعت کو بھی خدا نے توفیق بخشی.بہت ہی مستعد کارکن یہاں سے گئے ہیں اور مسلسل ان تھک رنگ میں انہوں نے خدمت کی ہے.اسی طرح پاکستان سے کثرت کے ساتھ شامل ہونے والوں میں سے ایک بڑی تعداد کو بہت عمدہ اور قابل قدر خدمت کی توفیق ملی.اسی طرح ہندوستان کی جماعتوں میں سے دور دور سے آئے ہوئے مہمان بھی تھے اور میزبان بھی بن گئے تھے اور ہر موقع پر جب بھی ان کی خدمت کی ضرورت پیش آئی ہے انہوں نے بڑے شوق اور ولولے کے ساتھ اس میں حصہ لیا.اس سلسلہ میں اڑیسہ کی جماعت کرناٹک کی جماعت اور کیرلہ کی جماعت کشمیر کی جماعت، آندھراپردیش کی جماعت ، پنجاب کی اور دہلی کی جماعتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ان سب جماعتوں میں بہت ہی ولولہ اور جوش پایا جاتا ہے.دہلی کے قیام کے دوران کیونکہ مقامی سیکیورٹی کی ضروریات کے لئے دہلی کی مقامی جماعت میں کافی افراد نہیں تھے اس لئے وہاں آندھرا پردیش کے نو جوانوں نے بہت ہی خدمت کی ہے.دہلی والوں نے بھی بھر پور حصہ لیا اور اسی طرح کشمیر اور دوسری جگہوں سے آنے والے افراد کو بھی خدا نے توفیق بخشی.غرضیکہ اس جلسہ میں کام کرنے والے خادم اور مخدوم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مل جل گئے تھے کہ میرے اور تیرے کی تمیز ممکن نہیں رہی.ہر شخص میزبان بھی تھا اور مہمان بھی تھا اور یہ ایک ایسا بھر پور جذبہ تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ ہی کا اعجاز.اور ساری دنیا میں آپ تلاش کر کے دیکھ لیں ، چراغ لے کے ڈھونڈمیں آپ کو ایسی جماعت دنیا کے پردے میں کہیں نظر نہیں آئے گی جو خدا کے فضل کے ساتھ اس طرح گہرے باہمی محبت کے رشتوں رہے میں منسلک ہو کہ خادم اور مخدوم کی تمیز اٹھ جائے.ہر شخص خادم بھی ہو اور ہر شخص مخدوم بھی ہو.اس پہلو سے جب میری نظر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر پڑتی ہے کہ سید القوم خادمهم ( الجبادل ابن المبارک کتاب الجہادحدیث نمبر: ۲۰۹) تو اس کی ایک نئی تفسیر سامنے ابھرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ قوم کا سردار وہی ہوتا ہے جو قوم کا خادم ہو.سردار کے لئے خادم ہونا ضروری ہے اور قوم کے لئے ضروری ہے کہ خادم ہی کو اپنا سردار بنایا کرے.یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 27 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء دونوں پیغام ہیں لیکن جماعت احمدیہ پر جس شان کے ساتھ اس مضمون کا اطلاق ہوتا ہے اس سے میرے ذہن میں یہ بات ابھری کہ اس دنیا کے آپ ہی خادم ہیں اور آپ ہی مخدوم ہیں کیونکہ یہ دونوں صلاحیتیں یکجا طور پر جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کی کسی اور جماعت میں اکٹھی نہیں مل سکتیں.آپ نظر دوڑا کر دیکھیں مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں.ترقی یافتہ مغربی اقوام ہوں یا پیچھے رہ جانے والی مشرقی اقوام کسی مذہب سے تعلق رکھنے والی ہوں، کسی جغرافیائی حدود سے تعلق رکھنے والی ہوں، یہ اعلیٰ شان کا امتزاج کہ خادم مخدوم ہو جائے اور مخدوم خادم بن جائے ، یہ جماعت احمدیہ کے سوا دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گا.پس ان معنوں میں آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ آپ ہی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اس عظیم الشان عارفانہ تعریف کے مستحق اور اس تعریف کے نتیجہ میں آئندہ دنیا کے سردار بننے والے ہیں کیونکہ آپ کے اندر یہ دونوں صلاحیتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں.جہاں تک آئندہ زمانے کے حالات کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ جلسہ ایک تاریخ ساز جلسہ تھا.محض تاریخی جلسہ ہی نہیں تھا.کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود ال کی بہت سی پیشگوئیاں اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان پیشگوئیوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جلسہ کے بعد خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی ہوا چلائے گا اور ہر طرف غیر معمولی ترقی کے سامان پیدا ہوں گے.اس ضمن میں ایک خوشخبری تو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہی وہاں مل گئی.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سکھر کے دو اسیرانِ راہ مولی لمبی مشقتوں اور دُکھوں کے بعد آزاد کئے گئے.آج صبح ہی کراچی میری بات ہوئی تو وہاں سے مجھے بتایا گیا کہ اللہ کے فضل سے یہاں تو جماعت میں ایک جشن کا سا سماں تھا اور بہت ہی عزت اور محبت سے جماعت نے ان سے سلوک کیا اور غیر معمولی خوشیوں کے سامان تھے تو یہ بھی اسی مقدس جلسہ کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے.اور اس یقین دہانی کے لئے کہ خدا کی طرف سے خاص تقدیر کے طور پر یہ نشان ظاہر ہوا ہے.جب میں آج دفتر میں ڈاک دیکھنے گیا تو گوٹھ علم دین سندھ سے آئے ہوئے ایک خط میں ایک خواب درج تھی.یہ گوٹھ علم دین کری ضلع تھر پارکر کے قریب ایک گاؤں ہے جہاں ابتداء میں کچھ احمدی ہوئے تھے اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اور غیر معمولی خواہش کے نتیجہ میں کہ میں خود وہاں جاؤں.بہت پہلے کی بات ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 28 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء میں کنری سے وہاں گیا اور وہاں لمبی مجلس لگی اور اللہ کے فضل سے تقریباً سارے گاؤں کو ہی احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی.تو اس پہلو سے اس گاؤں کے ساتھ میرا خاص تعلق رہا ہے اور میں پوچھتا رہتا ہوں.تو جانے سے پہلے میں نے کسی احمدی دوست کو ایک خط لکھا تھا اور پرانی باتیں یاد کرا کے اور بعض پرانے نام لے کر اپنا محبت بھرا پیغام بھیجا تھا اس کے جواب میں ان کا خط آیا ہوا تھا اور خاص بات انہوں نے یہ کھی کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ ہمارے سکھر کے اسیر آزاد ہو گئے ہیں اور اللہ کے فضل سے بہت خوشی کا سماں ہے اور میرے پاس بھی وہ تشریف لاتے ہیں تو ایک مہینے کے خطوں میں ایک ہی رؤیا ہے جس کا تعلق سکھر کے اسیروں کے ساتھ تھا اور ساتھ ہی ان کی دعا بھی ہے کہ خدا کرے میری یہ رویا پوری ہو جائے.چنانچہ پیشتر اس سے کہ میں وہ خط پڑھتا اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رویا پوری ہو چکی تھی.یہ اللہ تعالیٰ کے پیار کے اظہار کے انداز ہیں اور یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ یہ اتفاقی حادثات نہیں ہیں.جو کچھ ہورہا ہے تقدیر الہی کے مطابق ہو رہا ہے.ورنہ ایک سے زیادہ خط الجھے ہوئے خیالات کے آتے ہی رہتے ہیں جس میں مبہم سے رنگ میں بعض خوشخبریاں بھی ہوتی ہیں لیکن سکھر کے اسیران سے تعلق رکھنے والی ایسی واضح خوشخبری اور اس کی Timing کہ کس طرح وہ خط لکھا گیا اور کس وقت پہنچا کہ جب وہ خبر بھی پہنچ رہی تھی ، یہ ساری باتیں اہل ایمان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب بنتی ہیں.پس یہ بھی قادیان کے جلسہ کی برکت اور اس کے بعد آنے والے پُر فضا دور کی خوشخبری ہے اور اس کے آغاز کی وہ لہریں ہیں جو بعض دفعہ اچھے موسم آنے سے پہلے ہوا میں پیدا ہوتی ہیں اور انسان کی روح کو تراوت بخشتی ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ اور بھی بہت سی خوشخبریاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوں گی.قادیان کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ وہاں کی تھوڑی آبادی ہے.بعض دوستوں کو قادیان کے اس سفر کے نتیجہ میں بہت امیدیں بندھ گئیں کہ اب قادیان کی واپسی قریب ہے لیکن میں جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں اور گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے مختصراً اس پر گفتگو کی تھی کہ واپسی کوئی ایک دم آنا فانا رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک دفعہ لے کر جائے گا، پھر بار بار لائے گا اور امن کے ماحول میں ایسا ہوتا رہے گا اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ خدا کی کیا تقدیر کب ظاہر ہوگی اور اس کا منشا کیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 29 29 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک مرکز سلسلہ باہر ہی رہے، دارالہجرت میں ہی ہو خواہ وہ دارالہجرت پاکستان کا ہو یا کسی اور جگہ کا اور قادیان کے حالات ایسے ہوں کہ بار بار خلفائے سلسلہ کو وہاں جانے کی توفیق ملتی رہے اور باہر بیٹھ کر قریب کی نگرانی کا بھی موقع ملتا ر ہے.اس لئے خوابوں میں بسنا ان معنوں میں تو درست ہے کہ خدا تعالیٰ جو رویا دکھائے ، جو خوشخبریاں دکھائے ان امیدوں میں انسان بسار ہے ، یہی ایمان کی شان ہے لیکن ان معنوں میں خوابوں میں بسنا درست نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے من کی باتوں کو تقدیر بنا بیٹھے اور پھر یہ سمجھے کہ جو میری خواہشات اور تمنا ئیں ہیں جیسے میں ان کو سمجھتا ہوں اسی طرح خدا کی تقدیر ظاہر ہوگی.یہ طریق درست نہیں ہے یہ ایک بچگانہ طریق ہے.اس لئے سب سے پہلے تو جماعت کو اپنی امیدوں اور امنگوں کی صحت کا خیال رکھنا چاہئے اور ان کو رستے سے بدکنے اور بھٹکنے نہیں دینا چاہئے.راستے وہی معتین ہیں جو خدا تعالیٰ کی تقدیر میں مقدر ہیں اور جن کی خوشخبریاں اللہ تعالیٰ پہلے اپنے برگزیدہ بندوں کو عطا فرما چکا ہے.ان کی روشنی میں مختلف تعبیریں ہوتی رہتی ہیں.مختلف تعبیریں ہو سکتی ہیں اور اس ضمن میں بھی بہت سے خوش فہم لوگ اپنے دل کی تعبیروں کو زبردستی ان الہامات اور پیشگوئیوں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو پھر لوگوں سے شرطیں بھی باندھ بیٹھتے ہیں کہ جو تعبیر ہم نے سمجھی ہے ویسا ضرور ہو گا.یہ درست طریق نہیں ہے.اس سے پہلے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے منع فرمایا کہ جو خدا کی تقدیر ہے وہ تو ظاہر ہو گی.خوشخبریاں تو بہر حال پوری ہوتی ہیں لیکن اپنی مرضی سے ایک تعبیر کر کے اس پر تم شرطیں باندھ بیٹھو کہ یہ ضرور ہو گا یہ درست نہیں ہے لیکن جو ہونا ہے اس کی تیاری تو ہم پر فرض ہے میں اس ضمن میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک شخص نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم سے قیامت کے بارہ میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ مراد یہ تھی کہ اگر تمہیں دوسری دنیا میں جانے کا شوق ہے تو یہ شوق ایک بیرونی شوق بھی ہوسکتا ہے، ذاتی دلچسپی نہیں بلکہ تجب کے رنگ میں استعجاب کے رنگ میں انسان دلچسپی لے سکتا ہے اور یہ دلچسپی بے معنی اور بے حقیقت ہے.اگر
خطبات طاہر جلدا 30 30 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء دوسری زندگی کو حقیقت جانتے ہو اور شوق اس لئے ہے کہ تمہیں پتہ لگے کہ تمہاری بہبود کس چیز میں ہے اور مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے تو پھر تمہیں اس کی تیاری کرنی چاہئے اور یہی مضمون ہے جو آج کے حالات پر صادق آتا ہے.مستقبل کے متعلق بعض لوگ شوق سے ، یا ذرا اٹکل پچو کے ذریعہ انسان پیش خبریاں کرتا ہے یا آئندہ زمانے کو دیکھنا چاہتا ہے، ویسے دلچسپی لیتے ہیں ایسی دلچسپی کی کوئی حقیقت نہیں ہے.نفس کا ایک بچگانہ کھیل ہے اس سے زیادہ اس کے کوئی بھی معنی نہیں لیکن مستقبل میں ایک دلچپسی ایسی ہے جو زندگی کے اعلیٰ مقاصد سے تعلق رکھتی ہے.ایک انسان اپنے تن من دھن کو اسلام اور احمدیت کے اعلیٰ مستقبل کے لئے وقف کر دیتا ہے اور آئندہ مستقبل میں ہونے والے واقعات اس کی سوچوں کا ایک ایسا حصہ بن جاتے ہیں جو اس کے دل کی فکر میں ہوتی ہیں اس کے دماغ کے تفکرات ہیں کہ خدا جانے کیا ہو اور کیسا ہو اور میں اپنے فرائض سرانجام دے سکوں یا نہ دے سکوں.یہ وہ دلچسپی ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کا پوچھتے ہو تو بتاؤ کوئی تیاری بھی کی ہے.تو جماعت کو اگر قادیان کی واپسی میں اور جماعت کے عالمگیر انقلاب میں کوئی دلچسپی ہے تو اس کی تیاری کرنی ہوگی اور قادیان کے سلسلہ میں ابھی بہت کام باقی ہیں.جو کچھ خوشخبریاں سطح پر نظر آئی ہیں اور عام آنکھوں نے دیکھ لی ہیں ان کی مثال تو Iceberg کے اس تھوڑے سے حصے سے ہے جو صح سمندر پر دکھائی دیتا ہے.اس کا اصل حصہ تو پانی میں ڈوبا ہوتا ہے یعنی برف کا تو دہ جو سمندر میں تیرتا ہے اس کی تھوڑی سی Tip تھوڑی سی چوٹی ہے جو سمندر سے باہر نظر آتی ہے.ایک دفعہ پہلے بھی میں نے یہ مثال دی تھی جس پر ہندوستان کے سفر میں ایک احمدی دوست نے مجھے توجہ دلائی کہ میں غلطی سے ایک اور تین کی نسبت بتا بیٹھا.میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے توجہ دلائی کہ ایک اور تین کی نسبت نہیں ہے بلکہ برف کی کثافت پانی کے مقابل پر جتنی کم ہے اسی نسبت سے اس کا ایک حصہ پانی سے اوپر نکلتا ہے اور غالباً یہ دس میں سے ایک حصہ باہر ہوتا ہے اور نو حصے اندر کیونکہ برف کی کثافت پوائنٹ نائن (0.9) ہے یعنی پانی کی کثافت اگر ایک ہے تو برف 0.9 ہے یعنی حجم اس کا زیادہ اور وزن کم تو جس نسبت سے وزن کم ہوگا اسی نسبت سے اس کا ایک حصہ باہر نکلا ہوگا تو بعض دفعہ باہر نکلے ہوئے حصے بھی بہت بڑے بڑے دکھائی دیتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 31 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء سمندر میں سفر کرنے والے جانتے ہیں یعنی جن کا کام شمال اور جنوب میں جانا ہے اور وہ ان باتوں کے متعلق اپنی زندگی کے واقعات میں بڑے دلچسپ انداز میں تذکرے بھی کرتے رہتے ہیں کہ بعض دفعہ پانی میں سے برف کا اتنا بلند پہاڑ اونچا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ آدمی حیرت اور استعجاب میں ڈوب جاتا ہے لیکن انسان اگر یہ سوچے کہ اس سے 9 حصے زیادہ پانی کے اندر ڈوبا ہوا وہ پہاڑ ہے تو اور بھی زیادہ ہیبت بڑھتی ہے.تو یہ خوشخبریاں بھی جب پوری ہوتی ہیں تو ان کا ایک حصہ باہر دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور جوڈوبے ہوئے حصے ہیں وہ مسائل سے تعلق رکھتے ہیں جو مسائل حل ہو جائیں وہ سطح سمندر سے باہر دکھائی دے رہے ہوتے ہیں اور جو ابھی ڈوبے ہوئے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہوتے ہیں پس ہمیں ان ڈوبے ہوئے مسائل کی طرف توجہ کرنی ہوگی.قادیان کی عظمت اور عزت اور جلال اور جمال کو بحال کرنے کے لئے ساری دنیا کی جماعتوں کو بہت محنت کرنی ہے اور ہندوستان کی جماعتوں کے کھوئے ہوئے وقار اور مقام کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے ساری دنیا کی جماعتوں کو بہت محنت کرنی ہوگی.اس سلسلہ میں جہاں تک آبادی کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں قادیان کو Industrialize کرنے میں ضرور محنت کرنی ہوگی.جب تک وہاں تجارتی اور صنعتی مراکز قائم نہ کئے جائیں اس وقت تک صحیح معنوں میں باہر سے احمدی آکر وہاں آباد نہیں ہو سکتے اور مقامی احمدیوں کا انخلاء رُک نہیں سکتا.درویشوں نے اور بعد میں آکر بسنے والوں نے اتنی بڑی قربانی دی ہے کہ وہاں پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے ، دور بیٹھے اس کی باتیں سن کر آپ کو تصور نہیں ہوسکتا کہ کتنے محدود علاقے میں رہ کر انہوں نے ساری زندگیاں ایک قسم کی قید میں کائی ہیں اور اپنے دنیاوی مفادات کو ایک طرف پھینک دیا، قربان کر دیا اور مقامات مقدسہ کی حفاظت اور ان کی نگہبانی کے لئے اپنی ، اپنے بچوں اور اپنی بیگمات کی زندگیاں قربان کیں.بہت ہی بڑی عظیم الشان قربانی ہے، اس کا بھی حق ہے اس لئے ساری دنیا کی جماعتوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے بھر پور کوشش کریں.چنانچہ یہاں سفر سے پہلے میں نے جو تحریک کی اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے
خطبات طاہر جلدا 32 32 خطبہ جمعہ ۱۷؍جنوری ۱۹۹۲ء ساتھ ساری دنیا کی جماعتوں نے بہت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ صرف قادیان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی دیگر جماعتوں کی بھی اس خاص موقع پر خدمت کی توفیق ملی اور یہ جلسہ ان کے لئے روحانی برکتیں بھی لے کر آیا اور جسمانی برکتیں بھی لے کر آیا اور بہت ہی غیر معمولی طور پر ان لوگوں نے اس کی لذت محسوس کی ہے تو یہ جسمانی طور پر جو خدمات ہیں اس میں ساری دنیا کی جماعتوں نے حصہ لیا ہے ورنہ یہ ممکن نہیں تھا اور یہ اچھا ہوا کہ پہلے یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے طور پر انفرادی طور پر وہاں جا کر کسی کو دینے کی بجائے جماعت کی معرفت کوشش کریں جو کچھ پیش کرنا ہے جماعت کو دیں تا کہ ایک مربوط طریق پر منظم منصوبے کے ساتھ جو جوضرورتمند ہیں ان کو یہ چیزیں پہنچائی جائیں اور ان کی عزت نفس پر کوئی ٹھیس نہ آئے ، ورنہ انفرادی طور پر جب کوئی انسان کسی غریب کی خدمت کرتا ہے تو لینے والے کی آنکھ جھکتی ہے خواہ وہ چیز کتنی ہی محبت سے پیش کی جائے.پس خدا تعالیٰ نے بہت فضل فرمایا اور اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تمام دنیا کے احمدیوں نے اپنے تحائف مرکز کی معرفت بھجوائے اور بہت بڑی رقوم اس سلسلہ میں اکٹھی ہوئیں جن کے نتیجہ میں جو بھی خدمت کی جاسکی ہے وہ ٹھوس ہے اور مختلف رنگ کے مختلف طبقات کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عارضی اور بعض دفعہ مستقل ضرورتیں پوری کرنے کے سامان مہیا ہوئے.آئندہ کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی امداد کی ضرورت کو ختم کرنا سب سے اہم خدمت ہے.جب ضرورت ہو امداد کرنا لازم ہے اور یہ جماعت کے عالمی فرائض میں داخل ہے لیکن قرآن کریم نے خدمت خلق کا جو اعلیٰ تصور پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ ضرورت اٹھا دو اور کسی شخص کو محتاج نہ رہنے دو بجائے اس کے کہ وہ باہر مدد کے لئے دیکھتار ہے.وہ اس نظر سے باہر دیکھے کہ کون محتاج ہے جس کی وہ ضرورت پوری کرے.یہ اعلیٰ شان کی خدمت کی وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم میں ملتی ہے اور جس پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے نہایت ہی حسین رنگ میں عمل کر کے دکھایا ہے.پس یہ دوسرا حصہ ہے جو میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور عالمگیر جماعت احمدیہ کو اب اس طرف توجہ کرنی چاہئے.اس ضمن میں ہندوستان کے جو تاجر ہیں اور ہندوستان کے Industrialist ہیں ان کے متعلق میں وہاں ہدایات دے آیا ہوں.وہ انشاء اللہ تعالیٰ قادیان کی اقتصادی بحالی کے لئے پوری
خطبات طاہر جلد ۱۱ 33 33 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء کوشش کریں گے لیکن باہر کی دنیا سے بھی کثرت سے لوگ وہاں جاسکتے ہیں اور ہندوستانی قوانین کا لحاظ رکھتے ہوئے وہاں کئی قسم کی صنعتیں قائم کر سکتے ہیں.اس کی طرف آنے سے پہلے ایک رؤیا میں بھی اشارہ ہوا جس کی اور بہت مبارک تعبیروں میں سے ایک یہ بھی تعبیر ہے کہ باہر کی دنیا کے صنعتکاروں اور صاحب حیثیت احمدیوں کو قادیان میں خدمت کی توفیق ملے گی.جس دن میں نے قادیان سے روانہ ہونا تھا اس صبح کو رویا میں دیکھا کہ چوہدری شاہ نواز صاحب مرحوم مغفور بہت ہی اچھی صحت میں اور بہت خوبصورت دکھائی دینے والے قادیان آتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد یعنی مردوں کو میں نے دیکھا ہے اور دور دور کے رشتہ دار اور مداح ایک جمگھٹ بنا کر ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں بہت ہی محبت اور تعریف کی نظر سے ان کو دیکھ رہے ہیں.جو پگڑی انہوں نے پہنی ہوئی ہے وہ مجھے تو بہت خوبصورت لگ رہی ہے اور باقی ان کو یہ مشورے دے رہے ہیں کہ نہیں اس طرح نہیں آپ اس طرح باندھیں.کوئی کہتا ہے اس طرح نہیں اس طرح باندھیں.تو میں چوہدری صاحب کو کہتا ہوں کہ چوہدری صاحب آپ تو مجھے اس میں اتنے اچھے لگ رہے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں آپ کو کبھی ایسا لگتا نہیں دیکھا تھا اور چوہدری صاحب یہ کہتے ہیں اور بغیر آواز کے بھی مسلسل ان کے دل کی یہ آواز سنائی دے رہی ہے کہ باقی سب مشورے دینے والوں کو کہتے ہیں تم جو مرضی مشورے دو میں تو وہی مانوں گا جو مجھے یہ کہے گا اور کسی کی بات نہیں مانی.بار بار ان کے دل سے جس طرح خوشبو اٹھتی ہے اس طرح یہ آواز اٹھ کر مجھ تک پہنچتی ہے اور میں بھی بڑے اطمینان اور محبت سے ان کو دیکھتا ہوں کہ اللہ نے خاص اخلاص ان کو بخشا ہے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کر رہے کہ کتنے مداح ہیں کس طرح تعریفیں کر رہے ہیں اور کیسے کیسے مشورے دے رہے ہیں لیکن یہی کہتے جارہے ہیں کہ میں تو وہی مانوں گا جو یہ کہے گا.چنانچہ اس کی اور بہت سی مبارک تعبیریں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باہر کے احمدی Industrialists کو قادیان جا کر خدمت کی توفیق ملے گی اور دوسرے اس میں یہ پیغام ہے کہ برکت اسی میں ہوگی جو خلیفہ کی مرضی کے ماتحت کام ہو، اس کی خوشنودی کے مطابق ہو ، اور اپنے طور پر یا اپنے حوالی حواشی وغیرہ کے ساتھ ان کے مشوروں پر چل کر خود کوشش کرو گے تو وہ خدا کے نزدیک مقبول کوشش نہیں ہوگی.پس یہ ایک تعبیر ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے جو میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 34 =4 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء بیان کر رہا ہوں اور تمام دنیا کے احمدی تاجروں اور صنعتکاروں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر اس نیست سے کہ قادیان جو حضرت اقدس مسیح موعود اللہ کی پیدائش اور روحانی پیدائش کا مقام ہے اس کی خاطر وہ اپنی توفیق کے مطابق کچھ خدمت کا حصہ لیں تو قادیان کی بہت سی رونقیں بحال ہوسکتی ہیں جن کا مرکز سلسلہ کے آخری قیام سے گہرا تعلق ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ایک لمبا عرصہ محنت کا کام ہے.مسائل بہت سے ہیں جوڈو بے پڑے ہیں آپ کو دکھائی نہیں دے رہے مگر بہت مسائل ہیں جن پر نظر پڑتی ہے تو خطرہ محسوس ہوتا ہے.Iceberg کی جو مثال میں نے دی ہے یہ عمدادی ہے کیونکہ اس میں جو حصہ باہر دکھائی دیتا ہے بڑا خوشنما لگتا ہے اور خوشخبری کا پیغام ہوتا ہے کہ زمین کی طرح کا ایک جزیرہ سمندر کے اندرمل گیا لیکن جو ڈوبا ہوا حصہ ہے اس سے لاعلمی کے نتیجہ میں ہمیشہ حادثات ہو جاتے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے عظیم الشان جہاز نچلے حصوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئے تو مراد یہ ہے کہ جو مسائل گہرے ہیں اور ڈوبے ہوئے ہیں ان پر اگر نظر نہ رکھی جائے تو وہ خطرناک ہو سکتے ہیں اس لئے قادیان سے تعلق رکھنے والے ان مسائل پر نظر رکھنا ہمیں ضروری ہے جو اس وقت سطح سے نیچے ہیں ان میں ایک حصہ قادیان کے درویشوں کی اقتصادی بحالی کا حصہ ہے یہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور دوسرا حصہ قادیان کے باشندوں میں یہ احساس کروانا ہے کہ جماعت احمدیہ کے وقار کے ساتھ تمہارے دنیاوی فوائد بھی وابستہ ہیں اور یہ وہ احساس ہے جو پہلے ہی ابھر چکا ہے.مثلاً اس دفعہ جلسہ میں چونکہ غیر معمولی تعداد میں لوگ باہر سے تشریف لے گئے تھے اور بعض دفعہ ضرورت کے مطابق انہوں نے وہاں کی دکانوں سے چیزیں خریدیں.بعض دفعہ قادیان کی محبت اور شوق میں کوئی تحفہ گھر لیجانے کے لئے انہوں نے وہاں سے چیزیں خریدیں تو وہاں کے تاجروں کے ایک نمائندہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے تخمینے کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی شاپنگ ہوئی ہے جو قادیان جیسے قصبے کے لئے ایک بہت بڑی چیز تھی.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بار بار تاجروں کے وفود آئے اور بڑی منت سماجت کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ واپس آجائیں ساری برکتیں جماعت ہی کی ہیں.جماعت ہی کا مرکز ہے.آپ کے بغیر کوئی بات نہیں بنتی.ان کی نظر روحانی رونقوں پر تو نہیں تھی ان کی تو اقتصادی فوائد پر نظر تھی.اس پہلو سے اگر وہاں اقتصادی خدمت کے کام ہوں تو اس علاقہ پر بہت عمدہ اثر مترتب ہوگا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 35 55 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء اور جو طلب پیدا ہو چکی ہے وہ اور زیادہ بڑھے گی.اس طلب میں صرف اقتصادی فوائد پیش نظر نہیں تھے بلکہ مقامی طور پر جو بھاری اکثریت ہے وہ سکھوں کی ہے اور سکھوں نے دل کی گہرائی سے یہ محسوس کیا ہے کہ یہ جماعت نیک جماعت وہ ہے، نیک لوگوں کی جماعت ہے اور ان کے دل میں نیکی کی عزت اور قدر ہے اور بگڑے ہوئے حالات کی وجہ سے وہ امن چاہتے ہیں.چنانچہ سکھوں کے بہت بڑے بڑے وفود یعنی بڑی بڑی حیثیت کے وفود جن کے پیچھے قادیان کی بہت سی آبادی تھی انہوں نے مل کر اس بات کا اظہار کیا کہ ہم نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ قادیان کی اصل برکت جماعت احمدیہ سے ہے اور یہ صرف قادیان تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر جماعت احمد یہ قادیان میں واپس آجائے تو سارے علاقے کی برکتیں لوٹ آئیں.یہ جو تاثر ہے یہ بغیر کسی لاڈ کے بغیر کسی بناوٹ کے بے اختیار دلوں سے اٹھ رہا تھا.یہاں تک کہ ایک موقع پر جب میں صبح کی سیر کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں چلا جاتا تھا تو واپسی پر ایک گوردوارے کے سربراہ مجھے ملے اور انہوں نے کہا.آپ گزر رہے ہیں شکر ہے خدا کا کہ ہمیں ملنے کا موقع مل گیا.انہوں نے کہا کہ ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ آپ آئے ہیں تو قادیان میں بڑے مرید بنائے ہیں.مراد یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے بہت مداح پیدا ہو گئے ہیں اور ایک وفد نے تو یہ کہا کہ ہم تو جماعت احمدیہ کے ساتھ ایسا تعلق رکھتے ہیں کہ ہمیں یہاں کے لوگ آدھا احمدی کہتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم پورے احمدی ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ جو تائید کی ہوائیں چلائی ہیں یہ کوئی بے مقصد ہوا ئیں نہیں ہیں اور کوئی عارضی خوشیوں والی ہوائیں نہیں ہیں.خدا تعالیٰ بتا رہا ہے کہ میں دلوں کو اس طرف مائل کر رہا ہوں اور ان کو مستقل باندھنے کے لئے اب تمہیں محنت کرنی ہوگی اور کوشش کرنی ہوگی اور جن اعلیٰ مقاصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے دلوں کو بدلا ہے ان مقاصد کی پیروی سنجیدگی سے کرنی ہوگی.اس پہلو سے میں نے جیسا کہ بیان کیا ہمیں وہاں قادیان کو Industrialize کرنے کی بہت ضرورت ہے تاکہ بیرونی غریب جماعتیں کثرت سے وہاں جا کر آباد ہوں.بہت سے گجر مسلمان ہیں جو قادیان میں آتے بھی رہے بیعتیں بھی کرتے رہے.پھر اپنے کاموں سے ادھر ادھر بکھر جاتے رہے.ان کو اگر مستقل قادیان میں بیٹھنے کے سامان مہیا ہوجائیں تو ان کے اندر
خطبات طاہر جلدا 36 96 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء استقامت پیدا ہوگی.یہ نہیں کہ آئے تعلق باندھا اور پھر رفتہ رفتہ وہ تعلق بھول گیا بلکہ مستقل مستحکم تعلق پیدا ہو گا تو اس طرح قادیان کی احمدی آبادی بڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی مرکزیت کے مرتبے اور مقام میں رفعت پیدا ہوگی اور ایک وزن پیدا ہو جائے گا.اس کے نتیجہ میں اور بھی زیادہ علاقہ ایسی نظروں سے جماعت کو دیکھے گا کہ جیسے ہر وقت منتظر ہیں کہ کب آؤ اور برکتیں واپس لے کر آؤ یہ جو احساس ہے یہ اتنا سنجیدہ احساس ہے اور اس تیزی سے وہاں ترقی کی ہے کہ ایک سکھ لیڈر اپنے ساتھیوں کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے کافی بڑا وفد لے کر آئے تھے انہوں نے کہا کہ جب آپ لوگ گئے تھے اور ہم یہاں آکر آباد ہوئے تھے تو لوگ ہمیں کہتے تھے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیاں ہیں کہ ہم واپس آئیں گے تو ہم آپس میں مذاق کیا کرتے تھے.باتیں تو ہم سن لیتے تھے لیکن باہر جا کر آپس میں مذاق کیا کرتے تھے کہ دیکھو جی! کیسی بچگانہ باتیں ہیں.ایک دفعہ گیا ہوا کب واپس آتا ہے اور کیسے آسکتا ہے.ہم تو اب یہاں آباد ہو گئے.کہتے ہیں لیکن اب جلسہ کے بعد ہم یہ باتیں کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب کی ساری باتیں کچی تھیں اور ان لوگوں نے آنا ہی آنا ہے اور قادیان کو چھوڑنے والے نہیں اور بھولنے والے نہیں.انہوں نے لازماً آنا ہے اور وہ پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی.تو دیکھیں خدا تعالیٰ نے آنا فانا کیسی فضا بدلی ہے اور یہ جو باقی رہنے والی برکتیں ہیں ان میں سے یہ برکتیں ہیں جن کو سنبھالنا اور ان کی مزید افزائش کرنا جماعت احمدیہ کے نیک اعمال سے تعلق رکھتا ہے.محض نیک خواہشات سے تعلق نہیں رکھتا.پس میں جو نصیحت کر رہا ہوں اس کو سنجیدگی سے قبول کریں.جس کو قادیان میں کسی قسم کی صنعت قائم کرنے یا قادیان سے تجارت کرنے کی توفیق ہو اس کو اس میں ضرور کوشش کرنی چاہئے.قادیان کے درویشوں کو میں نے یہ نصیحت کی ہے کہ کشمیر وغیرہ سے اور دوسرے ارد گرد کے علاقوں سے جو چیزیں باہر ایکسپورٹ ہوتی ہیں تم لوگ مل کر چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بناؤ.ان میں حصہ لو.باہر کے احمدی اس معاملہ میں تمہارے ساتھ تعاون کریں گے.ہمیں لکھو کیا کچھ کر سکتے ہو.باہر سے ہم ایسے احمدیوں سے رابطہ کریں گے جودوسری طرف سے ان کے مددگار ثابت ہوں.تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تجارتیں چمکیں گی اور وہاں لوگوں کے لئے رزق کے اچھے انتظام پیدا ہوں گے بہت سے احمدیوں کو Employment ملے گی اور یہ نہیں ہو گا کہ بچے پہلے اور پھر رزق کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 37 37 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء تلاش میں ساری دنیا میں باہر نکل گئے بلکہ اردگرد سے، دور دور کی جماعتوں سے احمدی بچے بڑے شوق کے ساتھ روحانی کشش کے علاوہ اپنے روزگار کی تلاش میں بھی قادیان آنا شروع ہو جائیں گے اور اس طرح قادیان کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوگا.قادیان کی آبادی کا ایک حصہ ایسا ہے جس نے بہر حال قادیان کو سر دست چھوڑنا ہی چھوڑنا ہے اور وہ خواتین ہیں، بچیاں ہیں.چھوٹی آبادی میں رشتوں کے بہت مسائل پیدا ہو جاتے ہیں.قادیان کے مرد تو تلاش روزگار میں باہر نکل جاتے ہیں.قادیان کے نکلے ہوئے نوجوان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.مڈل ایسٹ وغیرہ میں بھی ہیں اور باہر ان کی شادیاں بھی ہو جاتی ہیں.بچیاں پیچھے خالی رہ جاتی ہیں اور ان کے لئے لازم ہے کہ باہر شادیاں کریں کیونکہ وہاں قادیان میں بسنے والے مقامی مرد تو اتنی تعداد میں موجود ہی نہیں ہوتے.اس لئے تمام دنیا کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ برکت کے لئے اور خدمت کے لئے جہاں تک جس کے لئے ممکن ہو وہ قادیان سے رشتے تلاش کرے اور اس سلسلہ میں ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کو براہِ راست بھی لکھے اور مجھے بھی لکھے اور ناظر صاحب امور عامہ سے بھی بیشک براہِ راست رابطہ کرے.بہت سی ایسی بچیاں ہیں جو بہت ہی عمدہ تربیت یافتہ ہیں لیکن تعلقات کی کمی کی وجہ سے ان کے گرد وہ جو ایک قیدی ہے اس میں محدود ہونے کی وجہ سے وہ اور ان کے والدین نہیں جانتے کہ اچھا رشتہ کہاں مقدر ہے.تو ساری دنیا کی جماعتوں کو منظم طور پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ امراء اگر وہاں پر رابطہ کر کے ان کی بچیوں کے کوائف اس شرط پر منگوائیں کہ تصویروں کے ساتھ بھجوائیں تفصیل سے بھیجیں ہم اپنی تحویل میں رکھیں گے ، عزت واحترام کے ساتھ ان قواعد کا خیال رکھیں گے اور مناسب رشتوں کی راہنمائی کریں گے کہ فلاں فلاں جگہ وہ کوشش کر لیں تو اس سے اس مسئلہ کے حل میں بہت مدد ملے گی.جماعت احمدیہ کا رشتہ ناتے کا جو انتظام ہے، اس میں یہ ذمہ داری نہ جماعت قبول کرتی ہے نہ کر سکتی ہے اور عقلاً کرنی بھی نہیں چاہئے کہ دونوں فریق کو یقین دلائے کہ رشتہ اچھا ہوگا اور آپ کرلیں گویا کہ جماعت کی ذمہ داری ہے.یہ بالکل نامناسب بات ہے.نہ جماعت ایسا کرے گی، نہ جماعت سے ایسی توقع رکھنی چاہئے ورنہ ہر رشتہ جس میں خدانخواستہ کوئی نہ کوئی الجھن پیدا ہو جائے اسکی ذمہ داری جماعت پر تھوپی جائے گی.جماعت کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ حتی المقدور اپنے علم کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 38 888 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء مطابق فریقین کا ایک دوسرے سے تعارف کروائے گی اور جو معلومات انسان کو معلوم ہوسکتی ہیں اور ہر قسم کی معلومات انسان کو نہیں ہوسکتیں، اندر کے حالات ایسے ہیں جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ صدق کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ فریقین تک پہنچا دے گی.اس سے زیادہ جماعت اور کچھ نہیں کر سکتی اور نہ جماعت سے اس سے زیادہ کسی کو توقع رکھنی چاہئے لیکن ان حدود کے اندر بہت مدد ہو جاتی ہے.ورنہ باہر کے رشتوں میں اتنے اندھیرے ہیں ،اتنے پردے ہیں ، ایسی لاعلمی کی باتیں ہیں، ایسی دھوکے کی باتیں ہوتی ہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے اکثر جھوٹ اور فریب ہی ہوتا ہے یا اندھیرے کی چھلانگ ہے.تو جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ ہر مسئلے کے گر دروشنی کی ایک فصیل کھڑی کر دیتی ہے اس روشنی کے نتیجہ میں بہت کچھ دیکھنے کی توفیق مل جاتی ہے.تو تجارت میں بھی اور انڈسٹری میں بھی جماعت کا جو مرکزی نظام ہے اسی حد تک کام کرے گا اور رشتوں کے معاملہ میں بھی اسی حد تک کام کریگا.تعارف کروائے گا اور لاعلمی کے بہت سے اندھیرے دور کرے گا اور بہت سے وسائل پر روشنی ڈالے گا کہ یہ یہ امکانات روشن ہیں.ہماری اطلاع کے مطابق فلاں شخص کی یہ Reputation ہے، جہاں تک جماعت کو توفیق ہے ہم نے جائزہ لیا ہے، یہ ٹھیک نظر آ رہا ہے باقی آپ کا کام ہے کہ اپنی تجارت ہے، اپنی ذمہ داریاں ہیں، اپنے رشتے کرنے ہیں.دعا بھی کریں، استخارے بھی کریں اور مقدور بھر ذاتی کوشش کر کے مزید چھان بین بھی کریں.تو اس تمہید کے بعد میں توقع رکھتا ہوں کہ رشتوں کے معاملے میں بھی تمام عالمگیر جماعتیں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی.نہ صرف وہاں سے رشتوں کے کوائف منگوا ئیں بلکہ اپنے ہاں کچھ ایسے لوگ جو بعض بڑی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ان کے نام اور کوائف اور تصویریں بھی قادیان بھجوائیں اور درمیانی عمر کے اچھے رشتے بھی کیونکہ ضروری نہیں کہ ساری بچیوں کی عمریں بڑی ہورہی ہوں.چند کی ہورہی ہیں.باقی اکثر ایسی ہیں جو اچھی تعلیم یافتہ سلجھی ہوئی ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے نوک پلک سے درست اور شادی کی عمر میں ہیں تو ان کو ایسے لڑکوں کے کوائف بھی بھجوائیں جن کو قادیان میں شادی کی خواہش ہو اور وہاں والے بھی ان کو دیکھیں اور ان کی تصویریں اور ان کے کوائف جان کر رابطے قائم کرنا شروع کریں.اس سے اگلا جو قدم ہے اس کا رشتوں سے ایک تعلق ہے اس لئے اب بعد میں میں اسے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 39 30 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء بیان کرتا ہوں بہت سے احمدی دوستوں نے جلسہ کے بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ قادیان میں جائیداد بنائیں.مکانات خرید میں اور دوسری جائیداد بنا ئیں تا کہ جلسہ کے دنوں میں جوتنگی محسوس ہوئی تھی وہ آئندہ نسبتا کم محسوس ہو اور جس حد تک ہو سکے رہنے والوں کے لئے فراخی میسر آئے اور وہ یہ خواہش رکھتے تھے کہ بے شک انجمن کے نام پر لے لی جائے ، روپیہ وہ بھیجیں گے اور سارا سال انجمن استعمال کرے، جب ہم جلسہ پر آئیں تو ہمیں بھی اور ہمارے مہمانوں کو بھی وہاں ٹھہرنے کی سہولت ملے.یہ تجویز اچھی ہے.قادیان کی بحالی کے سلسلہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم وہاں کثرت سے جائیدادیں بنائیں لیکن اس ضمن میں جو ملکی قوانین ہیں ان کو بہر حال پیش نظر رکھنا ہوگا.ان کا ہم مطالعہ کروارہے ہیں اور انشاء اللہ جماعت کو راہنمائی ہوگی لیکن ایک راستہ ایسا ہے جس کا رشتوں سے تعلق ہے، جس شخص کی شادی قادیان میں یا بھارت کی جماعتوں میں ہو جائے.مثلاً کشمیر میں بھی یہ بڑا مسئلہ ہے.ادھر اڑیسہ وغیرہ میں بھی ہماری بہت سی احمدی بچیاں اس عمر کو پہنچ رہی ہیں کہ زیادہ دیر ہو تو پھر مایوسی کی طرف مائل ہو جائیں گی تو جن دوستوں کو ہندوستان میں جائیدادیں بنانے کی خواہش ہو اور ان کے عزیز مثلاً شادی کی عمر کے ہوں اور وہ وہاں شادی کروالیں تو جس بچی سے شادی ہوئی ہے اس کے رشتہ دار بھی ان کے نام پر جائیدادیں لے سکتے ہیں.وہ خود بھی لے سکتے ہیں.روپیہ بھیجوانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی کیونکہ باہر کے رشتہ دار کو حق ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو وہاں روپیہ بھیج سکے تو اقتصادی مسئلہ ہے جو اس معاشرتی مسئلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اس ضمن میں دوست اس بات کو پیش نظر رکھیں گے کہ وہاں جائیداد بنانی ہے اور ممکن ہو تو اپنے رشتہ داروں کے نام پر بنائیں ورنہ ہر شخص کی جائیداد انجمن تو نہیں سنبھال سکتی اور یہ بھی ابھی تحقیق طلب ہے کہ انجمن کو اس طرح بے نامی جائیداد خریدنے کی حکومت اجازت بھی دے گی کہ نہیں.اس لئے بہتر یہی ہے کہ جو معروف اور مستند رستے ہیں ان کو اختیا ر کیا جائے.زمینیں خریدنے کے سلسلہ میں ایک نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے تعلقات کے پیش نظر بعض لوگ پھر پھرا کر بعض لوگوں سے سودے کر لیتے ہیں.قادیان کے حالات میں یہ بہت نامناسب اور جماعت کے مفاد کے منافی حرکت ہے.اگر ہم نے وہاں Rehabilitate ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمارا پروگرام ہے اور جس طرح وہاں کی آبادی میں ایک طبعی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 40 40 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء طلب پیدا ہو چکی ہے تو یہ خطرہ ہے کہ وہاں کی جائیداد میں بہت تیزی کے ساتھ مہنگائی کی طرف مائل ہو جائیں.ابھی اس جلسہ کے نتیجہ میں ہی قادیان میں قیمتیں عام ہندوستان کی قیمتوں سے ڈیڑھ گنا بڑھ گئی تھیں.وہی چیزیں جب ہم قادیان میں ڈیڑھ سوروپے کی لے رہے تھے دہلی میں سو (۱۰۰) کی مل رہی تھیں ، امرتسر میں بھی اسی قیمت پر.تو اگر جائیدادوں کی طرف یہ رجحان ہوا جیسا کہ ہونا ہے اور ابھی سے آثار ظاہر ہیں تو بے ہنگم طریق پر جائیدادیں خریدنے کے نتیجہ میں جماعت کو بہت مالی نقصان پہنچے گا اور مرکزی مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا.انفرادی طور پر بھی ہر شخص نقصان اٹھائے گا.ایک آدمی اپنی طرف سے یہ چالا کی کر رہا ہے کہ میں جلدی سے سودا کرلوں بعد میں قیمتیں بڑھ جائیں گی تو دراصل اس کی اس عجلت کے پیچھے ایک بد نیتی کار فرما ہوتی ہے.بد نیتی یا خود غرضی کہہ لیں.خالصہ نیکی نہیں ہوتی جائیداد خریدنے میں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس وقت وقت ہے میں لے لوں ، کل کو جب مہنگائی بڑھے گی اور لوگوں میں طلب پیدا ہوگی تو اس زمین کا ایک حصہ بیچ کر میں بہت منافع حاصل کر کے دوسرے حصہ پر اپنا مکان آسانی سے بنا سکتا ہوں.اسے بدنیتی نہ کہیں لیکن خالص نیکی نہ رہی بلکہ کچھ اغراض نفس بھی شامل ہو گئیں اور اس کے نتیجہ میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ اگر میں اس طرح کھلی مارکیٹ میں جا کر قیمتیں خراب کرنے لگوں تو کل کو آنے والے میرے بھائیوں کو بڑا نقصان پہنچے گا.جماعت نے جو بڑے وسیع رقبوں کی زمینیں حاصل کرنی ہیں اور آئندہ جو ہمارے منصوبے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کے پاس وہاں کثرت سے زمینیں ہوں تا کہ ان میں مرکزی منصوبوں پر عمل درآمد ہو سکے، ان کو بڑا شدید نقصان پہنچے گا.جو چیز آج ایک لاکھ روپے کی مل رہی ہے وہ دیکھتے دیکھتے ڈیڑھ لاکھ ، دولاکھ، تین لاکھ کی ہو جائے گی تو وہی جماعتیں جو باہر سے قربانی کر رہی ہیں ان کی قیمت خرید گویا کہ 13 One Third) رہ جائے گی اور نقصان پہنچانے والے بھی وہی باہر کے لوگ ہوں گے جو ایک طرف جماعت کی معرفت چندے بھی بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف ان چندوں کو ملیا میٹ کرنے کا بھی انتظام کر رہے ہیں اس لئے یہ یا درکھیں کہ کوئی شخص براہ راست وہاں کوئی سودا نہیں کرے گا.میں وہاں انجمن کو ہدایات دے آیا ہوں کہ جس نے سودا کرنا ہے وہ آپ کو لکھے یا مجھے لکھے اور ہم ان کی خاطر تلاش کر کے مناسب قیمتوں پر بغیر کسی منافع کے جگہ ڈھونڈ کر دیں گے.آگے ان کا کام ہے وہ پسند کریں کہ یہ جگہ لینی ہے یا فلاں جگہ لینی ہے لیکن پورے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 41 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء اعتماد کے ساتھ ان کو اس نظام کے مطابق چلنا چاہئے.ان کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے کہ دنیا کا ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا نظام دیانتداری کے ساتھ ان کی خدمت کے لئے تیار ہے اور ان کے اپنے آخری مفاد کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انفرادی سودا بازیوں کی بجائے جماعت کی معرفت اپنا کام کریں اور اس کے نتیجہ میں ایک اور خطرہ سے بھی ہمیں نجات مل جائے گی کیونکہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں جماعت کو دلچسپی ہے کہ جماعت وہاں ضرور زمین بنائے اور انفرادی لینے والے جب وہاں ایک دواڑے بنا لیتے ہیں تو ساری سکیم تباہ ہو جاتی ہے چنانچہ ایک دو ایسے واقعات میری نظر میں آئے.قادیان کے پھیلاؤ کی خاطر ہم نے ایک منصوبہ بنایا ہوا ہے اس منصوبے میں جن علاقوں میں بعض آئندہ پروگرام تھے ان میں بعض لوگوں نے اپنے طور پر زمینیں لے لیں چنانچہ ان کو میں نے متنبہ کیا.میں نے کہا یہ درست نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت میں بڑا اخلاص ہے انہوں نے کہا جس قیمت پر ہم نے لی ہیں ہم حاضر ہیں آپ ہم سے واپس لے لیں یا چاہیں تو اس کے متبادل ہمیں کوئی جگہ دے دیں.چنانچہ بعض دفعہ متبادل جگہ دے دی گئی.بعض دفعہ اسی قیمت پر وہ زمین ان سے لے لی گئی تو خدا کے فضل سے اب تک کوئی خرابی نہیں پیدا ہوئی لیکن خرابی کے احتمالات دکھائی دینے لگ گئے ہیں.اس لئے میں ساری دنیا کی جماعتوں کو سمجھا تا ہوں کہ یہ بہت اچھا کام ہے.وہاں جائیدادیں لینی چاہئیں لیکن نظام کے مطابق ، نظام کے رستے سے.دستور اور طریقے کے ساتھ یہ کام کریں تاکہ ساری جماعت کے مفاد کے تقاضے پورے ہوں اور انفرادی مفاد جماعتی مفاد سے ٹکرائے نہیں.اب چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے آخری ایک شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اس کے بعد آج کے خطبہ کو ختم کروں گا.وہاں کی سکھ آبادی نے جس محبت کا سلوک کیا ہے اس میں ایک خاص پہلو یہ تھا کہ اپنے مکانات پیش کئے اور بعض لوگوں کو جب یہ خبریں ملیں کہ غیر احمدی آبادی میں بھی مہمان ٹھہرائے جارہے ہیں تو بڑے ذوق شوق سے وہاں دوڑتے ہوئے آئے.بعض لوگ رات بارہ ایک دو بجے تک ٹھہرے رہے جب تک قافلے آنہیں گئے کہ ہم اس وقت جائیں گے جب ہمارے حصے کے مہمان دو گے اور بعض ایسے خاندان جنہوں نے مہمان اپنے گھر ٹھہرائے تھے انہوں نے بعد میں ملاقاتیں کیں اور انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا سرور آیا ہے، ایسا لطف آیا ہے کہ کبھی زندگی میں ایسا مزہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 42 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء نہیں آیا تھا.ایک کمرے میں ہم سب اکٹھے ہو گئے اور سارا گھر مہمانوں کو دے دیا اور مہمانوں نے بھی ہم سے محبت کا ایسا سلوک کیا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ صدیوں کے آشنا ہوں.بچپن سے اکٹھے رہے ہوں تو یہ جو تحریک کی تھی یہ خاص طور پر اسی نیت سے کی گئی تھی.قادیان کو میں نے لکھا تھا کہ آپ کے پاس ساری محنتوں کے باوجود، کوششوں کے باوجود ابھی بھی مہمانوں کو ٹھہرانے کی جگہ نہیں ہے.آپ غیر مسلموں خصوصاً سکھوں تک پہنچیں اور ان سے کہیں کہ قادیان کے مہمان ہیں.تم بھی قادیان کے باشندے ہو اس میں حصہ لو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں طرف کے تعلقات وسیع ہوں گے اور قادیان کی واپسی کا صرف اس چھوٹے سے حصے سے تعلق نہیں ہے جو اس وقت ہمارے قبضہ میں ہے.سارے قادیان کے دلوں کا ہمارے قبضہ میں آنا ضروری ہے اور اس ضمن میں یہ جو کوشش تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مؤثر اور بہت ہی کامیاب ثابت ہوئی ہے.چنانچہ آنے سے پہلے جو وفود ملے ان میں سے ایک وفد اسی سلسلہ میں ملا تھا.اس نے کہا کہ ہم سے تو لوگ ناراض ہیں کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا اور جو قصے ہم آگے لوگوں کو سناتے ہیں کہ اس طرح مہمان تھے.ایسے ایسے عجیب انسان تھے.ایسی شرافت کے ساتھ انہوں نے ہم سے برتاؤ کیا.ایسی محبت اور اخلاص کے ساتھ سلوک کیا.کہتے ہیں وہ قصے سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے تو انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ اگر آپ ہمیں پہلے اطلاع کریں تو قادیان میں شاید ہی کوئی گھر ہو جو مہمان رکھنے کے لئے تیار نہ ہو اور اس وقت قادیان کی آبادی کا جو پھیلاؤ ہے اگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آثار ظاہر فرمائے ہیں وہ ان عہدوں پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اسی طرح احمدیت کی محبت سے بھرے رکھے تو آئندہ مہمان ٹھہرانے کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا.جس طرح پرانے زمانہ میں قادیان کی چھوٹی آبادی تھیں تمیں چالیس چالیس ہزار مہمانوں کو ٹھہرالیا کرتی تھی اب یہ آبادی جو وسیع ہو چکی ہے، کچھ اور بھی بہت سے مہمان خانے بننے والے ہیں یہ سب ملا کر میں سمجھتا ہوں کہ ڈیڑھ دولاکھ تک بھی وہاں مہمانوں کے ٹھہرانے کا انتظام ہو سکتا ہے.اس کے لئے تیاری کا جتنا وقت چاہئے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ ہماری توفیق بڑھا رہا ہے.اس دفعہ ہم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ حکومت ہندوستان پچاس ہزار تک اجازت دے دے مگر تجربہ نے بتایا کہ پچاس ہزار کی ہمارے اندر توفیق نہیں تھی.نہیں سنبھال سکتے تھے.یعنی پوری
خطبات طاہر جلدا 43 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء کوشش کے باوجود سارے کارکن مل کر بھی کام کرتے تب بھی قادیان کے حالات ابھی ایسے نہیں ہیں کہ جماعت احمدیہ قادیان میں اتنے مہمان ٹھہر اسکے لیکن اب وہ وسعتیں پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں آغاز ہو چکا ہے تو اگلے سال میں سمجھتا ہوں اگر خدا نے تو فیق دی اور یہی اس کا منشاء ہوا کہ ہم پھر وہاں اس جلسہ میں جائیں تو پہلے کی نسبت دو تین گنا زیادہ مہمانوں کو وہاں ٹھہرایا جا سکے گا.پس ہندوستان کی حکومت نے جو دس ہزار کی شرط لگائی وہ معلوم ہوتا ہے تقدیر خیر ہی تھی جسے ہم تقدیر شتر سمجھ رہے تھے.ہم سمجھتے تھے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ پورا تعاون نہیں کیا لیکن ہندوستان کی حکومت کہتی تھی کہ یہاں کے حالات ایسے ہیں ہماری ساری فوجیں ، ہماری پولیس وغیرہ سارے پنجاب میں اس طرح مصروف ہے کہ ہم اتنے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتے.اس لئے تعاون کرنا چاہتے ہیں مگر مجبوری ہے.ان کا تو یہ عذر تھا لیکن دراصل جو مجھے دکھائی دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ کی ہمارے اندر بھی استطاعت نہیں تھی، طاقت نہیں پیدا ہوئی تھی.اس لئے طاقت کو بڑھا ئیں تو اللہ تعالیٰ باقی آسانیاں خود پیدا فرما دیگا اور طاقت کو بڑھانا بھی اسی کا کام ہے.اس لئے آخر پر میں ایک دفعہ پھر تمام عالمگیر جماعتوں کی طرف سے ان سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے قادیان کے جلسہ کو کامیاب بنانے میں بھر پور حصہ لیا ہے.اپنوں کا بھی ، غیروں کا بھی ، ہندوستان کی حکومت کا بھی ، پنجاب کی حکومت کا بھی ، پاکستان کی حکومت کا بھی کہ انہوں نے کوئی روک نہیں ڈالی اور جیسا کہ خطرہ تھا کہ معاندین جو حسد کی آگ میں جل رہے تھے وہ رستے میں شرارت پیدا کریں گے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حکومت پاکستان نے اس معاملہ میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی ورنہ کئی شرارتیں پیدا ہو سکتی تھیں.کئی تکلیف دہ واقعات رونما ہو سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس شر سے بھی ہمیں بچایا.اس پہلو سے میں حکومت پاکستان کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں.آخر پر دو ایسے مرحومین کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں جن کا جماعت انگلستان سے تعلق تھا اور وہ دونوں ہم وہیں پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں.ایک ہمارے کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ ہیں جو جماعت احمد یہ انگلستان کے ایک بہت ہی پیارے اور ہر دلعزیز انسان تھے.بڑی عمر کے باوجودان کا دل جوان تھا ان کا جسم جوان صحت مند ، ہر قسم کے مقابلوں میں حصہ لیتے ، ہر وقت مسکراتے رہتے اور بڑی عمر میں دین کی خدمت کا ایسا جذبہ تھا کہ ایک دفعہ میں نے تحریک کی کہ گورمکھی جاننے والے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 44 خطبہ جمعہ ۱۷؍جنوری ۱۹۹۲ء ہمارے پاس کم رہ گئے ہیں تو انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ گورمکھی زبان سیکھی اور اس میں بہت اعلیٰ سرٹیفکیٹ حاصل کئے.ان کی گورمکھی کی جو تحریر میں نے دیکھی ہے.اخباروں میں بھی چھپتی رہی ہیں ان کی کتابت ہی ایسی خوبصورت تھی کہ آدمی حیران رہ جاتا تھا.یہ سب کام انہوں نے اس عمر میں ولولے اور جوش سے سیکھے اور انگلستان کی جماعت میں تو یہ ایک خلا ہے جو بہر حال رہے گا.جماعت دیر تک ان کو یاد رکھے گی.ان کے لئے دعائیں کرتی رہے گی.باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی میں درخواست کرتا ہوں ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.ان کی بڑی خواہش تھی کہ قادیان میں دفن ہوں اس خواہش کا اظہار وہ مجھ سے بھی کر چکے تھے اور یہ بھی بڑی خواہش تھی کہ میں جنازہ پڑھاؤں تو قادیان میں ان کی اچانک وفات سے ان کی یہ دونوں دلی خواہشات پوری ہوگئیں.بہشتی مقبرہ میں ان کو تدفین نصیب ہوئی.مجھے ان کی قبر پر جا کر دعا کی بھی توفیق ملی.دوسرے ہمارے چوہدری آفتاب احمد صاحب بھی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو انگلستان کی جماعت میں بہت معروف ہے.خدمت دین میں پیش پیش اور سارا خاندان اور ان کی ساری اولا واللہ کے فضل سے بہت ہی اخلاص رکھتی ہے اور سلسلہ کے کاموں میں پیش پیش ہے ان کی بیگم صاحبہ کی بہت خواہش تھی کہ وہ قادیان جلسہ دیکھیں.باوجود اس کے کہ بہت ہی خطر ناک بیماری تھی.جگر بار بار کام کرنا چھوڑ دیتا تھا.میں نے ان کو مشورہ بھی دیا کہ آپ نہ جائیں.یہ بڑی خطر ناک چیز ہے.اس سفر کی صعوبت آپ برداشت نہیں کر سکیں گی لیکن پتہ نہیں ڈاکٹر کو کیا کہہ کر اس سے اجازت لے لی کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں کوئی بات نہیں.وہاں جا کر بہت زیادہ تکلیف بڑھ گئی وہاں تو خدا تعالیٰ نے فضل کیا.جب دعا کے لئے وہ بار بار کہتی رہیں اور ڈاکٹروں نے کوشش کی.پھر جب ہم دتی آکر دوبارہ گئے ہیں تو اس وقت وہ پاکستان کے لئے روانہ ہو چکی تھیں اور ٹھیک تھیں لیکن اب اطلاع ملی ہے کہ وہاں جا کر یہ تکلیف عود کر آئی اور ہسپتال میں داخل ہوئیں اور غالباً آپریشن ہونا تھا.ہوا یا نہیں اللہ بہتر جانتا ہے مگر ہسپتال ہی میں وفات ہوگئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.تو آپ کے نمائندوں میں سے ایک کو خدا تعالیٰ نے قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت بخشی جلسہ دیکھنے کے بعد اور ایک کو ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت بخشی.یہ تو ان کے لئے بھی سعادت ہے اور ساری جماعت انگلستان کے لئے بھی ہے لیکن ان کے
خطبات طاہر جلدا 45 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۹۲ء اہل وعیال ان کے بچے بہر حال غمگین ہیں اور ان کی جدائی کا دکھ محسوس کرتے ہیں.مرحومین کو بھی دعا میں یاد رکھیں اور ان خاندانوں کو بھی دعا میں یا درکھیں.آج کا خطبہ جاپان، ہمبرگ جرمنی اور پاکستان میں کراچی اور ماریشس میں سنا جا رہا ہے اور پورے لنڈن میں بھی یہ اس وقت مختلف جگہوں پر Relay ہورہا ہے.ہمارے جسوال برادران نے ماشاء اللہ یہ بہت ہی عمدہ انتظام کیا ہے اور قادیان میں بھی ان بھائیوں کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی ہے.اگر یہ ہمت نہ کرتے ، بہت ہی محنت اور کوشش سے کام نہ لیتے تو وہاں کے خطبات یہاں سنائی نہیں دیئے جاسکتے تھے.ایسے آلے ساتھ لیکر گئے جو بڑے بوجھل اور بہت ہی محنت طلب تھے.ان کو وہاں جا کر Install کیا.وہاں سارا انتظام سنبھالا تو اللہ تعالیٰ نے جماعت انگلستان کو جلسہ کے موقع پر یہ بھی ایک سعادت بخشی ہے کہ ان کے کارکنوں میں سے جسوال برادران کو غیر معمولی تاریخی خدمت کی توفیق بخشی ہے.اللہ ان کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے.ان سب جماعتوں کو جو یہ خطبہ سن رہی ہیں میں سب یو کے کی جماعت کی طرف سے اور اپنی طرف سے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کا پیغام دیتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 47 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء درویشان قادیان کی قربانیوں کو خراج تحسین ہندوستان کی جماعتوں کی ترقی کے لئے بنیادی ہدایات خطبه جمعه فرموده ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت کی.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمُهُمْ ۚ لَا يَسْلُونَ النَّاسَ الْحَا فَا وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيْمٌ ) (البقره:۲۷۴) پھر فرمایا:.پیشتر اس سے کہ میں خطبہ کا مضمون شروع کروں جو دوست مسجد میں حاضر ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ مہربانی فرما کر ذرا آگے کو کھسک آئیں کیونکہ باہر سردی زیادہ ہے اور بہت سے دوست باہر سردی میں بیٹھے ہوں گے نماز کے لئے اگر ان کو باہر جانا پڑے تو دوبارہ جا سکتے ہیں.باہر اعلان کروا دیا جائے یا دوست سن ہی رہے ہوں گے.بہر حال جو بھی باہر سردی میں مشکل محسوس کرتے ہوں گے وہ اندر تشریف لے آئیں امید ہے کچھ نہ کچھ جگہ نکل آئے گی.(اور آگے آجائیے.آپ ذرا آگے کی طرف سرکیں، قریب آجائیں.نماز کے لئے مسجد میں گنجائش نکل آئی گی ، ضرورت ہوگی تو چند منٹوں کے لئے نماز کے لئے باہر تشریف لے جائیں.باقی اندر آ کر خطبہ سن سکتے ہیں.)
خطبات طاہر جلد 48 خطبه جمعه ۲۴ /جنوری ۱۹۹۲ء یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ البقرہ کی آیت ۲۷۴ ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان فقراء کے لئے یہ خدمتیں اور یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے جو خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے اور ایسے گھیرے میں ہیں کہ جس کے نتیجہ میں باہر نکل کر کسب معاش ان کے لئے ممکن نہیں اور وہ زمین میں کھلا پھر نہیں سکتے.اپنی مرضی سے جہاں چاہیں جانہیں سکتے يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ جاہل ان کو امیر سمجھتا ہے.بے ضرورت سمجھتا ہے مِنَ التَّعَفُّف کیونکہ انہیں مانگنے کی عادت نہیں.کسی بِهِ داء د وسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تَعْرِفُهُمْ بِسِمُهُم یعنی اے محمد ! تو ان کی علامتوں سے جو ان کے چہرے پر ظاہر ہیں، ان کی پیشانیوں پر ظاہر ہیں ان سے ان کو پہچانتا ہے لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافَا وہ پیچھے پڑ کر لوگوں سے مانگتے نہیں ہیں.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِیم اور جو کچھ بھی تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو، مال دیتے ہو.خیر سے مراد یہاں مال ہے.فَاِنَّ اللهَ بِہ عَلِیم اللہ تعالیٰ اسے بہت جانتا ہے..یہ آیت اور اس سے پہلے کی جو آیات ہیں جن میں صدقات کا مضمون بیان ہوا ہے، تمام اہل تفسیر کے نزدیک اصحاب الصفہ پر اطلاق پانے والی آیات ہیں.اصحاب الصفہ وہ مہاجرین تھے مسجد نبوی کے ایک تھڑے پر زندگی بسر کر رہے تھے.ان کے متعلق مختلف روایات ہیں.اصحاب الصفہ کی جو تعداد ہے اس میں بھی اختلافات ہیں لیکن بالعموم جو مستند روایات ہیں مثلاً بخاری میں بھی ستر کا ذکر ہے کہ کم و بیش ستر اصحاب الصفہ تھے جو دن رات مسجد نبوی میں ہی رہائش پذیر تھے.ان کا پس منظر یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف آنا شروع ہوئے تو ان کے لئے گزراوقات کی کوئی صورت نہیں تھی.مسجد میں جب ایک گروہ اکٹھا ہو جاتا تھا تو حضرت اقدس.محمد مصطفی امیہ یہ اعلان فرمایا کرتے تھے کہ جس کے گھر دو کا کھانا ہو وہ تیسرے کو ساتھ لے جائے اس طرح یہ مہاجرین مختلف گھروں میں بٹتے رہے لیکن کچھ ایسے تھے جن کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی وہ رفتہ رفتہ اسی مسجد میں ہی بسیرا کر گئے اور ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے ستر یا بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہوگئی.شان نزول تو اصحاب الصفہ ہی ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کو کسی شان نزول کی حدود میں محصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دائمی کلام ہے اور تمام عالم پر اثر انداز ہے اس لئے شانِ نزول تک
خطبات طاہر جلد ۱۱ 49 49 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء قرآن کریم کی آیات کے مضامین کو محدود کرنا یہ خود محدود عقل کی علامت ہے اور قرآن کریم کی شان کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض لوگ یہ رجحان رکھتے ہیں کہ شانِ نزول بیان کی اور معاملے کو وہیں ختم کر دیا گویا کہ ہر آیت اپنی شان نزول کے ساتھ مقید ہو کر ماضی کا حصہ بن چکی ہے یہ درست نہیں ہے.شانِ نزول کچھ بھی ہو آیات اپنے اندر اس بات کی قومی گواہی رکھتی ہیں کہ ان کا اطلاق وسیع تر ہے اور آئندہ آنے والے زمانوں پر بھی ہوتا چلا جائے گا.مثلاً یہی آیت جس میں یہ ذکر ہے کہ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ کہ جاہل ان کو تعفف کی وجہ سے غنی شمار کرتا ہے.اب جہاں تک اصحاب الصفہ کا تعلق ہے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں ہوسکتا تھا جو اصحاب الصفہ کو غنی شمار کرتا ہو کیونکہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ہم میں سے اکثر کے پاس تو چادر بھی نہیں تھی جس کو اوڑھ داورد صلى الله.لیتے اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا.رات کو کوئی دوست کھانا پیش کر دیتے تھے صبح آنحضور یہ آکر ہمارا حال دریافت فرماتے اور پوچھا کرتے کہ کچھ کھانے و ملا یا نہیں؟ اور اس پر ہم عرض کرتے کہ یا رسول اللہ کچھ ملا ، تو بہت خوش ہوتے.خدا کا شکر ادا کرتے کہ الحمد للہ خدا کی راہ میں فقیروں کو کچھ کھانے کومل گیا.یہ کیفیت جن لوگوں کی ہو ان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ کوئی بھی جاہل خواہ کیسا بھی جاہل کیوں نہ ہوان کو امیر سمجھتا تھا اور حاجت مند نہیں سمجھتا تھا یہ ایک بالکل غلط بات ہے اس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.پھر اگلی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا کہ تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمُهُم تو اُن کے چہروں کی علامتوں سے ان کو پہچانتا ہے.اصحاب الصفہ کوتو چہروں کی علامتوں سے پہچاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی.وہ سب سامنے تھے.ان کا حال ظاہر وباہر تھا.آنحضرت ﷺ دن رات ان کی فکر میں غلطاں رہا کرتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کو پہچاننے کی ضرورت ہو.یہ شانِ نزول تو یقیناً اصحاب الصفہ ہی ہوں گے جیسا کہ روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تمام مسلمان سوسائٹی میں خدا کے ایسے بہت سے بندے تھے جن کے رزق کی راہیں تنگ ہو چکی تھیں اور جو عام روز مرہ کی زندگی میں اپنی غربت کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے.انہی کے متعلق آنحضرت نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جس کو دو تین کھجوریں میسر آجائیں یا دو لقمے میسر آجائیں بلکہ مسکین وہ ہے جو خدا کی راہ میں صبر کے ساتھ گزارا کرتا ہے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا تا.اپنی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 50 50 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء ضرورتوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا.پس اصحاب الصفہ تو اپنے حالات کی وجہ سے ظاہر ہو کر سامنے آچکے تھے کچھ آیات کا مضمون اُن پر ان معنوں میں ضرور صادق آتا ہے کہ شدید غربت کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اور فاقوں کے باوجود کسی سے مانگتے نہیں تھے.- حضرت ابو ہریرہ کی وہ روایت بار ہا آپ نے سنی ہوگی اور بار ہاسنائی بھی جائے تو وہ کبھی پرانی نہیں ہوتی کہ ایک دفعہ فاقوں سے بے ہوش ہو گئے اور لوگ سمجھے کہ مرگی کا دورہ ہے چنانچہ جوتیاں سنگھانے لگے.بعض روایات میں آیا ہے کہ ان کو ہوش میں لانے کے لئے تھپڑ بھی مارے گئے اور لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا دورہ ہے حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ میں فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہوا تھا.تو جن کی یہ کیفیت ہے ان کا خواہ وہ اصحاب الصفہ میں تھے یا باہر تھے.اس وقت تھے یا آئندہ آنے والے تھے ان سب پر ان آیات کا مضمون اطلاق پاتا ہے.پھر فرمایا : أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے اور ان کا باہر جانا ممکن نہیں تھا.بعض مفسرین مثلاً قرطبی نے یہ لکھا ہے کہ مراد یہ تھی کہ وہ روزی کمانے کے لئے باہر نہیں جاسکتے تھے کیونکہ اردگرد حالات خراب تھے.یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اصحاب صفہ کے علاوہ اور مسلمان بھی سارے مدینہ میں بس رہے تھے.وہ جب باہر جاسکتے تھے اور کما سکتے تھے تو صرف اصحاب الصفہ پر ہی کیا قیامت آپڑی تھی کہ وہ باہر نہیں جاسکتے تھے ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی لحاظ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ایک اور روایت بھی اس تفسیر کو غلط قرار دیتی ہے جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ جو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ بہتر ہے.جس کو دیا جائے اس کی نسبت جو ہاتھ دینے والا ہے وہ بہتر ہے اس قسم کی نصائح کے اثر کے نتیجہ میں اصحاب الصفہ کے متعلق آتا ہے کہ یہ جنگلوں میں لکڑیاں کاٹنے کے لئے چلے جایا کرتے تھے اور جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور وہاں بیچ کر جو کچھ ملتا خود غربت کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے تو اس لئے یہ خیال کہ باہر کا ماحول ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ درست نہیں ہے.ان پر کچھ اور قیود تھیں اور وہ قیود حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کی قیود تھیں.یہ آنحضرت کا دامن چھوڑ کر باہر جانا نہیں چاہتے تھے.بعض روایات میں آتا ہے کہ ان سے سوال کیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 51 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء گیا تو انہوں نے کہا نہیں.ہم تو یہیں رہیں گے ، اسی مسجد میں رہیں گے.ایک صحابی نے رسول اللہ سے گزارش کی کہ یارسول اللہ! ان کو حکم دیں کہ یہ بھی باہر نکل کر کام کریں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ان کا حال معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں.کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ سے سوال کیا گیا کہ تم کیوں نہیں با ہر نکلتے تو انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میری بہت سی عمر، عمر کا ایک بڑا حصہ جہالت میں ضائع ہو گیا.اب زندگی کے باقی دن ہیں، میں نہیں چاہتا کہ ایک لمحہ بھی ایسا آئے کہ آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائیں اور میں دیکھ نہ سکوں یا آپ کی باتیں نہ سن سکوں تو یہ محبت کے قیدی تھے.اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ سے مراد یہ ہے کہ بہت اعلیٰ مقصد کے لئے اللہ کی راہ میں خود قیدی بن کر بیٹھ رہے تھے ورنہ جس طرح مدینہ میں بسنے والے باقی انصار اور مہاجرین کے لئے زمین کھلی تھی اور وہ اپنی کمائی کی خاطر جب چاہیں جہاں چاہیں جا سکتے تھے اس طرح ان پر بھی تو کوئی قید نہیں تھی.یہ جو مضمون ہے یہ اس زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ قادیان کے احمدی باشندوں پر صادق آتا ہے.ان کے متعلق بھی جو مضمون میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ غربت اور تنگی اور مشکلات کا دور گزرا ہے یہ جسمانی قید تو کوئی نہیں تھی کہ جس کے نتیجہ میں وہ ان مشکلات کے دور میں سے گزرے اور آج تک گزر رہے ہیں بلکہ محض ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر خود اپنے آپ کو انہوں نے محصور کر رکھا ہے اور وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الدار کی حفاظت ہے اور قادیان کی مقدس بستی کو ہمیشہ آبا در رکھنے کا عزم ہے.پس ایک اصحاب الصفہ وہ تھے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں تھے.کچھ وہ تھے جو مدینہ میں بستے تھے.محمد رسول اللہ ان کو پہچانتے تھے اور باقی سب کو دکھائی نہیں بھی دیتے تھے کیونکہ وہ سائل نہیں تھے، مانگنے کے عادی نہیں تھے.عزت دار لوگ تھے اور ایک وہ بھی ہیں جو آخرین میں پیدا ہوئے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں پیدا ہوئے اور وہ اصحاب الصفہ خاص طور پر آج قادیان میں بسنے والے درویش ہیں.درویش کی اصطلاح تو اب انہوں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر لی ہے جو قادیان سے ہجرت کے دوران وہاں ٹھہرے تھے لیکن میں جب درویش کہتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ وہ سارے جو قادیان کی عزت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 52 59 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء الله در اس کے تقدس کی خاطر قربانی کی روح کے ساتھ قادیان آبسے.یہ سارے دور یشان قادیان ہی ہیں اور ان پر اصحاب الصفہ کا اور ان آیات کا مضمون بہت عمدگی سے صادق آتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے فیوض میں سے ایک فیض قرآن کریم میں یہ بھی بیان ہوا کہ وہ آخرین کو اولین سے ملانے والا ہے یعنی ان کے غلاموں میں سے ایک ایسا پیدا ہوگا جو دور آخر میں بسنے والے محمد مصطفیٰ" کے غلاموں کو اؤل دور میں پیدا ہونے والے غلاموں کا ہم عصر کر دے گا ،ان کا ساتھی بنادے گا.پس قادیان کے یہ درویش بھی انہی ساتھیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تیرا سو سے لے کر چودہ سو سال تک کے زمانے کی فصیل پاٹ دی اور خدا کے فضل سے اولین میں شمار ہوئے.ان کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت سی ایسی تجویزیں ہیں جو میرے زیر غور ہیں اور جن کے متعلق مختصراً مختلف وقتوں میں قادیان میں بھی میں جماعت کے سامنے گزارش کرتا رہا ہوں.پچھلے خطبہ میں بھی میں نے کچھ بیان کیا تھا.اب اسی مضمون کو کچھ اور آگے بڑھا کر جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ کس رنگ میں ہمیں قادیان کے ان دریشوں کے حقوق ادا کرنے ہیں کیونکہ ان کا ہم پر احسان ہے.ہمارا ان پر احسان نہیں ہوگا اگر ہم ان کی خاطر کچھ کریں.وہ صحابی جس نے رسول اللہ اللہ سے یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! آپ اصحاب الصفہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ یہ باہر نکل جائیں ، اس کا ایک بھائی اصحاب الصفہ میں شامل تھا خود باہر نکلتا تھا اور کماتا تھا اور اچھا کھاتا پیتا تھا.اس کے ذہن میں دراصل خاص طور پر اپنا بھائی تھا کہ یہ بھی ہاتھ پاؤں کا ٹھیک ٹھاک ہے.یہ کیوں پاگلوں کی طرح یہاں بیٹھ رہا ہے، نکھا ہے.آنحضرت ﷺ اس کو حکم دیں تو یہ بھی باہر نکلے.اس کے جواب میں جو بات آنحضور اللہ نے بیان فرمائی جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ تم نہیں اس کا حال جانتے.وہ یہ بات تھی کہ بعض دفعہ خدا بعضوں کی وجہ سے دوسروں کو رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں کیا پتہ کہ تمہیں جو رزق مل رہا ہے وہ اس کی برکت سے مل رہا ہو.یہ ان کے وہ چھپے ہوئے حال تھے جن کا ایک ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس جواب میں کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قادیان کے درویشوں کی برکت بھی اسی طرح سب دنیا کی جماعتوں کے اموال میں شامل ہو چکی ہے.ان کی سہولتوں اور ان کی آسائشوں میں شامل ہو چکی ہے.وہ لوگ جو شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں ان کی برکتیں پھیلتی ہیں اور ہم اگر ان کی خاطر کچھ کریں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 53 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء گے تو ان پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ ان کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش میں کچھ کریں گے.اگر ان کی برکت سے خدا تعالیٰ نے ہمیں مثلاً وسیع رزق عطا نہ بھی کیا ہو تب بھی ان کا حق ہے کہ وہ ساری جماعت کی خاطر ایک فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے قادیان میں بیٹھ رہے اور انہوں نے بہت ہی عظیم خدمت سر انجام دی ہے لیکن جیسا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کی ہے اس میں ادنی سا بھی شک نہیں کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر اسیر ہو جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اسیر ہیں جن کو باہر نکلنے کی اس لئے طاقت نہیں کہ زنجیروں نے باندھ رکھا ہے یا جیل خانے کی دیوار میں حائل ہیں یا وہ گیٹ حائل ہیں جن میں سلاخیں جڑی ہوئی ہیں.وہ بھی اصحاب الصفہ کی ایک قسم ہیں اور قادیان کے وہ درویش خصوصیت کے ساتھ جن پر ظاہری پابندیاں کوئی نہیں ہیں.کوئی زنجیریں ان کے پاؤں باندھنے والی نہیں.کوئی ہتھکڑیاں ان کے ہاتھوں کو جکڑنے والی نہیں لیکن ایک فرض کی ادائیگی کے طور پر ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر قربانی کرتے ہوئے وہ نسلاً بعد نسل قادیان کے ہور ہے ہیں ان کا حق ہے اور ان کے حقوق ہمارے اموال میں داخل ہیں اور ہماری سہولتوں میں داخل ہو چکے ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو قرآنِ کریم نے ایک دوسری جگہ بیان فرمایا ہے.جہاں فرمایا وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاریات: ۲۰) کہ جولوگ امیر ہیں کھاتے پیتے ہیں جن کو آسائشیں عطا ہوئی ہیں ان کے اموال میں سائل کے حق بھی ہیں اور محروم کے حق بھی ہیں.محروم سے یہاں مراد وہ مسکین ہے جس کی تعریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمائی اور یہ تعریف اصحاب الصفہ کے ضمن میں بیان ہوئی تھی.پس قادیان والے سائل تو نہیں ہیں لیکن بہت سے خاندان محرومین میں داخل ہیں.ان کے لئے جو تحائف جماعت نے بھجوائے ، بہت ہی اچھا کام کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سے بہت فوائد حاصل ہوئے لیکن یہ ایسا کام ہے جو مستقلاً با قاعدہ منصوبے کے تحت کرنے والا کام ہے.وقف جدید کا میں نے جو نیا اعلان کیا تھا کہ وقف جدید کو باہر کی دنیا میں بھی عام کر دیا جائے صرف پاکستان تک محدود نہ کیا جائے.اس سے اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس میں اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی کہ قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کے لئے ہمیں باہر سے بہت کچھ کرنا تھا اور اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو بہت سے ایسے اہم کام جو سرانجام دینے کی توفیق ملی ہے ان سے
خطبات طاہر جلد 54 54 خطبه جمعه ۲۴ /جنوری ۱۹۹۲ء ہم محروم رہتے.پس اس کے لئے جہاں تک چندوں کا تعلق ہے میں کوئی اور خصوصی تحریک نہیں کرنا چاہتا.وقف جدید کی تحریک کو آپ مزید تقویت دیں.اس وقت تک وقف جدید بیرون میں تقریباً ایک لاکھ پاؤنڈ کے وعدے ہو چکے ہیں اور وقف جدید کا قادیان سے یا ہندوستان کی جماعتوں سے جو گہرا تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی صورت میں اس طرح بھی ظاہر ہوا کہ میں نے قادیان میں جلسہ کے دوران پڑھائے جانے والے جمعہ میں یہ بیان کیا تھا کہ جب وقف جدید کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں پہلا خطبہ دیا ہے تو وہ ۲۷ دسمبر تھی اور جلسہ کا درمیانی دن تھا اور قادیان میں اب جب میں حاضر ہوا تو جلسہ کے عین درمیان میں جمعہ آیا اور وہ ۲۷ / دسمبر کا دن تھا اور اسی دن وقف جدید کا مجھے بھی اعلان کرنا تھا کیونکہ دستور یہی ہے کہ سال کے آخری جمعہ میں اعلان کیا جاتا ہے.تو اس وقت میری توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی کہ یہ تو ارد کوئی خاص معنی رکھتا ہے.پس یقینا یہ تو ارد اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ وقف جدید کا ایک تعلق تو پاکستان سے تھا جس کا آغاز پاکستان سے کیا گیا لیکن وہ دوسرا تعلق جس کے لئے میں نے تحریک کی تھی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا یافتہ فعل ہے اور خدا کے منشاء اور تائید کے مطابق ہی ایسا ہوا ہے اور قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کو بھی تمام بیرونی دنیا کے احمدیوں کی غیر معمولی مالی امداد اور قربانی کی ضرورت ہے اور وہ وقف جدید کے راستے سے کی جائے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس وقت تک ایک لاکھ پاؤنڈ سالانہ کے وعدے ہو چکے ہیں لیکن جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے ہمیں قادیان اور ہندوستان پر سالانہ کم از کم ایک کروڑ خرچ کرنا ہوگا اور آئندہ کئی سالوں تک اس کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ جو تفصیلی منصوبے قادیان کی عزت اور احترام کو بحال کرنے کے لئے میں نے بنائے ہیں اور جو تفصیلی منصو بے ہندوستان میں جماعت کے وقار اور جماعت کی تعداد اور رعب اور عظمت کو بڑھانے کے لئے بنائے ہیں وہ کر وڑ ہا روپے کا مطالبہ کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے جلسہ قادیان میں بھی بیان کیا تھا کہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب بھی ہم کوئی نیک کام خدا کی خاطر ، اس کی رضا کی خاطر شروع کرتے ہیں تو خواہ کتنے بڑے اموال کی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ رستے کی سب روکیں دور فرما دیتا ہے اور وہ اموال مہیا ہو جاتے ہیں اور اگر کم بھی ہوں تو ان میں برکت بہت پڑتی ہے اور کبھی بھی میں نے یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 55 59 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء نہیں دیکھا کہ کوئی منصوبہ خالصہ اللہ بنایا گیا ہو اور جب اس پر عمل کرنا ہو تو روپے کی کمی یا دیگر ایسی مجبوریاں حائل ہو جائیں اور ہم اس پر عمل درآمد کرنے سے محروم رہ جائیں ایسا کبھی نہیں ہوا نہ آئندہ کبھی انشاء اللہ ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے خاص سلوک ہے.یہ ایک زندہ خدا کا تعلق ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا جب تک جماعت خدا تعالیٰ سے تعلق قائم رکھے گی.پس فکر کے طور پر میں عرض نہیں کر رہا بلکہ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ آئندہ قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کے لئے جو بھی خدمتیں کرنی ہوں ان کے لئے رخ ، رستہ وقف جدید کے چندے کا رستہ ہے.اس راہ سے با قاعدہ مسلسل قربانی پیش کرتے رہیں جو وقتی طور پر تحریکیں ہیں وہ ایک دو سال کے کام تو کر دیتی ہیں لیکن مستقل ضرورتیں پوری نہیں کر سکتیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قادیان اور ہندوستان کی ضرورتیں لمبے عرصہ کی ضرورتیں ہیں اور جماعت کے بہت بڑے مفادات ان سے وابستہ ہیں.ہندوستان میں جماعت کی خدمت کرنے میں اتنے عظیم الشان عالمی مفادات ہیں کہ اگر آپ کو ان کا تصور ہو تو دل میں غیر معمولی جوش پیدا ہو اور کبھی بھی اس خدمت سے نہ تھکیں.جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے ساتھ ہندوستان کی جماعتوں کے بیدار ہونے ، قادیان کی عظمت کے بحال ہونے اور وہاں کثرت سے جماعت کے پھیلنے کا ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق مقدر ہے.اس کے نتیجہ میں عظیم انقلابات برپا ہوں گے اس لئے اس بات کو معمولی اور چھوٹا نہ سمجھیں.جب خدا آپ کو غور کی توفیق عطا فرمائے گا تو آپ اندازہ کریں گے کہ کتنے بڑے بڑے عظیم مقاصد اس منصوبے کے ساتھ وابستہ ہیں.جہاں تک قادیان کے اندر بعض منصوبوں پر عملدرآمد کا تعلق ہے، ہسپتال بھی ان منصوبوں میں سے ایک تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہسپتال کو بہت بہتر حال تک پہنچانے کی توفیق مل چکی ہے.گزشتہ دو تین سال سے ہم یہ کوشش کر رہے تھے کہ بجائے اس کے کہ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری جہاں ایک ان کوالیفائیڈ غیر تعلیم یافتہ ڈاکٹر بیٹھا ہوا اور آنے والے کی مرہم پٹی کر لے یا پیٹ درد کے لئے کوئی مکسچر بنا کر دے دے، قادیان کا ہسپتال تو چوٹی کا ہسپتال ہونا چاہئے.اس میں ہر قسم کی جراحی کے سامان ہونے چاہئیں.ہر قسم کے جدید سامان اور آلات مہیا ہونے چاہئیں.اس ہسپتال
خطبات طاہر جلد ۱۱ 56 56 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء کا نام روشن ہونا چاہئے.بجائے اس کے کہ قادیان کے ہر مریض کو کٹھیوں میں ڈال کر بٹالہ یا امرتسر یا جالندھر بھجوایا جائے ، بٹالہ یا امرتسر یا جالندھر یا دیگر علاقوں سے لوگ قادیان کے ہسپتال میں شفاء کے لئے آئیں.کیونکہ جو شفا خدا نے قادیان کے ساتھ وابستہ کر رکھی ہے اُس سے اردگرد کا علاقہ فی الواقعہ ہی محروم ہے کیونکہ اس شفا کے ساتھ دعاؤں کا بھی تعلق ہے.اس شفاء کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیئے گئے وعدوں کا تعلق ہے.پس اگر ہسپتال کی ظاہری حالت بہتر بنائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ جو شفا اس ہسپتال میں تمام پنجاب کے باشندوں کو یا باہر سے آنے والوں کو نصیب ہوگی اس کا عشر عشیر بھی وہ باہر نہیں دیکھیں گے.چنانچہ ابھی سے یہ محسوس ہونا شروع ہوا ہے کہ اگر چہ ابھی پوری طرح قادیان کے ہسپتال کے وقار کو بحال نہیں کیا جاسکا.لیکن جو کچھ بھی کیا جا چکا ہے اس کے نتیجہ میں مریضوں کا غیر معمولی رخ ہو چکا ہے اور بہت سے مریض دور دور سے آتے ہیں جن کو توفیق ہے کہ بہت بڑے ہسپتالوں میں جا کر زیادہ سے زیادہ اخراجات کر سکیں وہ بھی قادیان یہ کہہ کر اس نیت کے ساتھ آتے ہیں کہ جو شفاء یہاں میسر ہے وہ باہر نہیں مل سکتی.پس اس ضمن میں ابھی آنے سے پہلے ان کی بعض ضروریات کے سامان مہیا کر کے آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے جو کچھ پیش کیا تھا اسی میں سے وہ خرچ بھی کیا گیا.بہترین ایکسرے کی مشینیں وہاں لگ چکی ہیں.تجربات کی بہترین مشینیں کچھ وہاں لگ چکی ہیں کچھ مہیا کی جارہی ہیں.ہر قسم کے جدید آلات جو مریضوں کی سہولت کے لئے ضروری ہیں اُن کے لئے اخراجات مہیا کر دیئے گئے ہیں اور موجودہ ہسپتال کے ساتھ قادیان کا جو ر ہائشی علاقہ تھا سر دست اس میں سے ایک حصہ ہسپتال کے لئے وقف کر دیا گیا ہے.اس سے پہلے خدا تعالیٰ نے جو تو فیق بخشی تھی کہ مکانات بنائے جائیں اور ان میں سے کچھ تقسیم کے لئے بھی ہوں.یہ سکیم تھی جو بوت احمد کے نام سے جاری کی گئی تھی اس میں تقسیم کے لئے جو مکانات تھے وہ تو نہیں تھے لیکن ۲۳ مکانات بنائے گئے تھے.اب ان کا یہ فائدہ پہنچ رہا ہے کہ قادیان کے مرکزی علاقے سے بعض درویش خاندانوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری ہو تو بڑی سہولت سے ایسا ہوسکتا ہے.چنانچہ یہ تجویز مکمل ہوگئی ہے.مکانوں کی نشاندہی ہوگئی ہے.اب دوسرے دور میں یہاں سے انشاء اللہ عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ وہاں جا کر ان مکانوں کو ہسپتال کے اندر جذب کرنے کے لئے نہایت جدید طریق
خطبات طاہر جلد ۱۱ 57 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء پر ایک ایسا منصوبہ پیش کریں گے کہ جس سے یہ نہیں لگے کا کہ گویا پرانے مکان ساتھ مدغم کئے گئے ہیں بلکہ ایک ہی رنگ کا مکمل ہسپتال رونما ہو گا تو آئندہ چھ سات مہینے کے اندر اندر انشاء اللہ وہاں کے ہسپتال کے اندر ایک نئی شان و شوکت پیدا ہوگی اور یہ ساری عالمی جماعت کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی جماعت قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے گی.ہسپتال کے سلسلہ میں ایک یہ بھی منصوبہ بنایا گیا ہے کہ بیرونی ڈاکٹر جو کسی نہ کسی فن میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں یا ملکہ ان کو عطا ہوا ہے اور وہ جب بھی ان کو توفیق ملے قادیان کے ہسپتال کے لئے وقف کریں اور اس صورت میں ہم وہاں کیمپ لگایا کریں گے.مثلاً کوئی آنکھوں کے آپریشن کا ماہر ہے اور وہ ایک مہینہ دو مہینے وقف کرتا ہے تو دور دور کے علاقے سے لوگوں کو یہ دعوت دی جائے گی کہ آئیں اور قادیان سے مفت فیض حاصل کریں اور ان آپریشنوں کی کوئی فیس نہیں لی جائے گی یا اگر لی گئی تو اس رنگ میں کہ صاحب حیثیت امراء سے کچھ لے لیا جائے گا اور غرباء کا محض مفت علاج ہو گا اسی طرح دل کے ماہرین ہیں.پھیپھڑوں کے ماہرین ہیں اور انتڑیوں وغیرہ کی بیماریوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہیں.اعصابی امراض کے ماہرین ہیں ، سرجری میں ہڈیوں کی سرجری کے سپیشلسٹ ، دل کی سرجری کے سپیشلسٹ وغیرہ وغیرہ.جہاں تک میں نظر ڈال کر دیکھ رہا ہوں خدا کے فضل سے ہر مرض کے علاج میں اس وقت احمدی ماہرین مہیا ہو چکے ہیں اور خدا کے فضل سے اپنے اپنے دائرے میں بہت شہرت یافتہ لوگ ہیں.ہر قسم کی جراحی کا کام اگر چہ اس وقت وہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے لئے ایک سپورٹ کمپلیکس کی ضرورت ہوا کرتی ہے.مثلاً دل کا سر جن یعنی جو دل کا ماہر جراح ہے وہ ہر جگہ تو ہسپتال میں جا کر آپریشن نہیں کر سکتا.اس کے لئے بہت سے ایسے متعلقہ سامان چاہیں ، بہت سے ایسے ماہرین چاہئیں جو سب مل کر وہ فضا قائم کرتے ہیں جس میں جراحی کا وہ درخت لگتا ہے تو امید یہی ہے کہ انشاء اللہ رفتہ رفتہ اس ہسپتال کو بڑھاتے بڑھاتے اس مقام تک پہنچادیں گے کہ جس میں دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں اس کا شمار ہو اور خدا کے فضل سے آغاز ہو چکا ہے.ایک اور پہلو تعلیم کا ہے.اس حصہ میں میں جماعت کو دعاؤں کی تحریک کرتا ہوں کہ ابھی بہت سی روکیں ہیں.جہاں تک جماعت احمدیہ کے سکول اور کالج کا تعلق ہے اگر چہ حکومت نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 58 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء صدرانجمن کے نام یہ جائیداد میں بحال کر دی ہیں اور اس میں ہم ہندوستان کی عدلیہ کے بڑے ممنون ہیں جنہوں نے بہت ہی اعلیٰ انصاف کے ساتھ کارروائی کی.کسی تعصب کو انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا اور اس ثبوت کے مہیا کرنے پر کہ وہ صدر انجمن احمد یہ جو اُن چیزوں کی مالک تھی بلا انقطاع قادیان میں موجود رہی ہے اور وہی مالک ہے اس لئے اس کو مہاجر قرار دے کر تمہیں ان جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں.اس دلیل پر ہندوستان کی عدلیہ نے انصاف کا بہت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور یہ جائیدادیں بحال کر دیں.لیکن جب تک یہ جائیدادیں بحال ہوئیں اس وقت تک بہت سے اداروں پر دوسرے قابض ہو چکے تھے.مثلاً تعلیم الاسلام کا لج جو پہلے تعلیم الاسلام سکول ہوا کرتا تھا اسے اس وقت سکھوں کا ایک ادارہ ہے جو چلا رہا ہے.نام اس کا مجھے یاد نہیں ، خالصہ نام سے کوئی ادارہ ہے اور وہ انہی کے قبضہ میں ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ اس کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ دیکھ کر رونا آتا ہے.جس حال میں ہم نے تقسیم کے وقت اس عمارت کو چھوڑا تھا اس حال سے بہت زیادہ بدتر ہو چکی ہے لیکن اس کو بحال کرنے کے لئے یا اس میں مزید اضافے کی خاطر کوئی بھی خرچ نہیں کیا گیا یہانتک کہ جو کمرہ زیر تعمیر تھا ، جس کی چھت پڑنے والی تھی ، جس حالت میں اینٹیں پڑی تھیں اسی طرح آج بھی پڑی ہیں اور وہ تالاب جسے پیچھے چھوڑ کر آئے تھے جو سکول کا سوئمنگ پول (Swimming Pool) تھا بعد میں کالج کا بن گیا اسے اس زمانہ میں ٹینک (Tank) کہا کرتے تھے اور اس کی حالت یہ ہے کہ اس میں اب گندا پانی جمع ہے کوئی دیکھ بھال کا انتظام نہیں.لیکن وہ وقار عمل سے اور بڑی دعاؤں کے ساتھ تیار کیا گیا تھا.اسکی تعمیر ایسی اعلیٰ اور پختہ ہے کہ میں نے پھر کر دیکھا ہے ایک اینٹ بھی ابھی اپنی جگہ سے نیچے نہیں بیٹھی حالانکہ کھلے آسمان کے نیچے بغیر دیکھ بھال کے پڑا ہوا ہے.تو اصل دعا تو یہی کرنی چاہئے کہ قادیان میں تعلیمی اداروں کو بحال کرنا ہے تو یہ عمارتیں جماعت کو واپس ملیں.اس سلسلہ میں کچھ گفت وشنید کا میں وہاں آغاز کر آیا ہوں.کچھ یہاں سے سکھوں کی اس لیڈر شپ سے بھی بات کریں گے جو باہر ہے اور پنجاب میں بھی اس تحریک کو چلایا جائے گا.اگر وہ ہمیں یہ ادارہ واپس کر دیں تو بہت وسیع کھیل کے میدان بھی اس کے ساتھ ہیں اور ایسا شاندار کالج دوبارہ وہاں قائم کیا جاسکتا ہے جو تمام پنجاب بلکہ ہندوستان میں ایک شہرت اختیار کر جائے.دور دور سے طلباء وہاں آئیں.بہترین اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 59 خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۹۲ء معیار ہوں اور اس کے ساتھ ہی سکول کا قیام بھی تعلق رکھتا ہے.پہلے خیال تھا کہ کالج کے قرب میں الگ سکول تعمیر کیا جائے جو بہترین معیار کا ہو.مگر سوال یہ ہے کہ اگر سکول بہترین معیار کا بنادیا جائے اور کالج جس حال میں ہے اسی حال میں ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.سکول کے چند سالوں کے بعد بچوں کو پھر باہر نکلنا پڑے گا اور پھر غیر فضا سے بداثرات قبول کرنے کے احتمال باقی رہیں گے اور محض سکول سے کسی مقام کی شان نہیں بڑھا کرتی.اس کے ساتھ ایک تعلیمی تسلسل ہونا چاہئے.آئندہ تعلیم کا انتظام.اس سے آگے تعلیم حتی کہ اس معیار کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے اور پھر وسیع کیا جائے.یہ مقاصد ہیں جن کے پیش نظر ہمیں قادیان میں تعلیمی سہولتیں مہیا کرنی ہیں اور بہت اعلی پیمانے کی تعلیمی سہولتیں مہیا کرنی ہیں.میرے ذہن میں جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ زبانوں کے لحاظ سے بھی یہ بہترین سکول اور بہترین کالج ہو جائیں اگر جرمن زبان پڑھانی ہے تو باہر سے جرمن قوم کے لوگ وہاں جا کر ٹھہریں اور خدا کے فضل سے ایسے موجود ہیں جو میری تحریک پر اپنے آپ کو پیش کر دیں گے.انگریز انگریزی پڑھائیں.عرب عربی پڑھائیں اور اسی طرح مختلف زبانوں کے ماہرین جو اپنے ہاں اہل زبان کہلاتے ہیں وہ جا کر ان بچوں کو تعلیم دیں تو اس پہلو سے پنجاب میں خصوصیت کے ساتھ اتنا بڑا خلا ہے.اگر ہمیں یہ توفیق ملے تو انشاء اللہ تعالیٰ بڑی دور دور تک اس تعلیمی ادارے کا شہرہ ہوگا.کیونکہ بدنصیبی سے سکھوں نے تو ہم پرستی کے تابع ہو کر پنجابی پر اتنا زور دے دیا ہے کہ اب وہاں تقریباً تمام اداروں میں پنجابی میں ہی تعلیم دی جارہی ہے اور باقی زبانیں عملاً کالعدم ہیں یا انہیں کالجوں سے اگر با قاعدہ دیس نکالا نہیں ملا تو ان کی حوصلہ افزائی کا ایسا انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے باقی زبانیں عملاً مر چکی ہیں یا محض رسمی طور پر پڑھائی جاتی ہیں اور اس کا شدید نقصان سکھ قوم کو پہنچے گا.میں نے ان کے لیڈروں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم لوگ بہت ہی غلط فیصلہ کر چکے ہو.پنجابی کو مقام دو، بے شک اس کی خدمت کرو، یہ تمہارے لئے جائز ہے، قومی لحاظ سے ضروری بھی ہوگا لیکن بین الاقوامی زبانوں کو چھوڑ کر اگر صرف پنجابی میں تعلیم دی تو باہر نکل کر یعنی پنجاب سے باہر جا کر یا تم جتنی تعلیم دے سکتے ہو ان حدود سے اوپر جا کر یہ بچے کیا کریں گے.دنیا میں سائنس کی ساری کتابیں یا انگریزی میں ملیں گی یا جرمن میں ملیں گی یا فرنچ میں ملیں گی یا جاپانی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 60 60 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء میں ملیں گی اور پنجابی میں تو کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی اور دنیا کے دوسرے ادارے ان کو قبول ہی نہیں کریں گے تو یہ در اصل ایک وسیع پیمانے پر علمی خود کشی ہے مگر یہ للہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہندوستان کی حکومت کا ایک قانون یہ ہے کہ کسی صوبے میں جو تعلیمی پالیسی ہے، اس صوبے سے متعلق ادارے اس تعلیمی پالیسی کے اختیار کرنے کے پابند ہیں لیکن ہر صوبے میں مرکزی تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے کے امکانات ہیں اس لئے پنجاب کا کوئی تعلیمی ادارہ دہلی کے تعلیمی نظام سے متعلق ہونا چاہے تو وہ ہوسکتا ہے.علی گڑھ کے تعلیمی نظام سے متعلق ہونا چاہے تو وہ ہوسکتا ہے اور اس پر پھر اسی ادارے کا قانون صادر ہوگا جس سے وہ متعلق ہے تو اس لئے جماعت احمدیہ کی راہ میں ایک نہایت اعلیٰ پیمانے کا تعلیم اور تدریس کا نظام جاری کرنا مشکل نہیں ہے اور قانو نا کوئی روک نہیں ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ نمونہ جب قائم ہو گا تو باقی سکھ اداروں کو بھی ہوش آئے گی اور وہ بھی ہماری تقلید کی کوشش کریں گے اور قومی فائدہ پہنچے گا.تو اس ضمن میں جب باہر سے اساتذہ بلانے کا یا اور خدمات کا وقت آئے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ساری دنیا کی جماعتیں اس میں حصہ لیں گی.سر دست تو میں دعا کی تحریک کر رہا ہوں کہ بہت باقاعدگی سے سنجیدگی سے دل لگا کر دعا کریں کہ قادیان کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کے لئے خدا پھر ہمیں توفیق بخشے کہ پرانے تعلیمی اداروں کی روایات کو زندہ کر سکیں اور جو کر دار وہ پہلے ادا کرتے رہے ہیں از سر نو پھر وہ یہ کردار ادا کر سکیں.قادیان کو تو ساری دنیا میں علم کا مرکز بننا ہے اور خدا نے اس کام کے لئے اُسے چن رکھا ہے.پارٹیشن سے پہلے کی بات کر رہا ہوں کہ جن دنوں میں قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھا مگر علمی لحاظ سے اس کی بڑی شان تھی اور پنجاب میں دور دور تک قادیان کے سکول سے نکلے ہوئے طلبا کی عزت کی جاتی تھی ، احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ کالجوں میں داخل کرنے کی راہ میں کوئی روک نہیں ہوا کرتی تھی.انگریزی زبان کا معیار اتنا بلند تھا اور کھیلوں کا معیار اتنا بلند تھا کہ ان دو غیر معمولی استثنائی امتیازات کی وجہ سے قادیان کے طلباء جب چاہیں گورنمنٹ کالج میں، ایف سی کالج میں کسی بہترین ادارے میں داخل ہونا چاہیں تو ان کو عزت کے ساتھ لیا جا تا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو خدا کے فضل سے یہ دونوں امتیاز حاصل تھے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 61 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء انگریزی زبان میں بھی غیر معمولی ملکہ اللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا تھا، ایک قدرت حاصل تھی اور فٹ بال کے بھی بہترین کھلاڑی تھے یہاں تک کہ جب میں گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا ہوں تو اس وقت تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تصویر ان طلباء کی صف میں لٹکی ہوئی تھی جنہوں نے گورنمنٹ کالج میں غیر معمولی اعزازی نشانات حاصل کئے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کا انگریز پروفیسر غالباً Stefencen نام تھا ، مجھے پوری طرح یاد نہیں ، اس نے ایک دفعہ اُن سے کہا کہ قادیان میں تم لوگ کیا کرتے ہو؟ وہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ دو چیزوں کے کارخانے لگے ہوئے ہیں، اچھے انگریزی دان اور اچھے کھلاڑی.جو بھی قادیان کا طالب علم آتا ہے اس کا زبان کا معیار بہت بلند ہے اور کھیلوں کا معیار بہت بلند ہے اور کھیلوں کا معیار واقعةُ اتنا بلند تھا کہ قادیان کی سکول کی ٹیم پنجاب کے چوٹی کے کالجوں سے ٹکرایا کرتی تھی اور اکثران کوشکست دے دیتی تھی.قادیان کی کبڈی کی ٹیم سارے پنجاب میں اول درجے کی ٹیم تھی.تو کھیلوں کا معیار بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ بلند تھا اور ان دونوں چیزوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے.اچھے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ اچھے کھلاڑی بھی پیدا ہوتے ہیں اور لاز ما عقل اور ذہن کی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کی طرف بھی یہ ادارے توجہ دیتے ہیں.اب قادیان میں دوسری مشکل یہ در پیش ہے کہ ان کے لئے کھیلوں کا کوئی انتظام نہیں ہے میں نے سکول کے بچوں سے بچیوں سے سوالات کئے.وہاں لجنہ سے ، خدام الاحمدیہ سے جائزے لئے تو یہ دیکھ کر بہت ہی تکلیف ہوئی کہ غیروں نے تو تعلیم کی طرح کھیلوں کی طرف بھی توجہ چھوڑ دی ہے اور قادیان کے سکولوں اور کالجوں میں کوئی بھی معیارنہیں رہا نہ تعلیم کا نہ کھیل کا ہر لحاظ سے پیچھے جا پڑے ہیں حالانکہ اللہ کے فضل سے علاقے میں صحت کا معیار بہت بلند ہے اور اگر جذ بہ ہوتا ، ایک انتظام کے تحت علم اور صحت دونوں کی طرف توجہ کی جاتی تو قادیان ابھی بھی خدا کے فضل سے یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ پنجاب میں اسی طرح چمکے جس طرح پہلے چمک کر دکھا چکا ہے تو کھیلوں کی طرف ہمارے اندرون میں یعنی قادیان کے اس حصہ میں بھی کوئی توجہ نہیں جس میں درویش بستے ہیں اور اس طرح بچوں کی زندگیاں ضائع ہو رہی ہیں.لڑکیوں کے لئے کھیلنے کا کوئی انتظام نہیں.محدود علاقے میں قید ہیں.پس تعلیمی منصوبے کے علاوہ ایک منصوبہ یہ بنایا گیا ہے کہ ان کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 29 62 خطبه جمعه ۲۴ /جنوری ۱۹۹۲ء ہر قسم کی صحت جسمانی کے سامان مہیا کئے جائیں.بہترین Gymnasium بنائے جائیں.لجنہ کے لئے ایک کھلی زمین خرید کر یا اگر کوئی موجودہ زمین اس کام کے لئے مل سکتی ہو تو اسے احاطہ کر کے لڑکیوں اور عورتوں اور طالبات وغیرہ کے لئے وقف کر دیا جائے.وہاں ہر قسم کی جدید کھیلوں کے انتظام ہونے چاہئیں اور باہر سے کوئی احمدی بچیاں کسی فن میں مہارت رکھتی ہیں.ہندوستان میں بھی کئی کھیلوں کی اچھی اچھی ماہر بچیاں ہیں تو وہ وہاں اپنا وقت لگا ئیں.وہاں جا کر ان کو تعلیم وتربیت دیں.تو ان کے لئے کچھ تو ایسا سامان ہونا چاہئے جس سے وہ دل کی فرحت اور سکینت محسوس کریں.محض ایک سنجیدہ ماحول میں جو روحانی سہی لیکن اتنا تنگ ماحول ہے کہ اس میں زندگی گھٹی گھٹی محسوس ہوتی ہے.ایسے ماحول میں ان بچیوں کو اور لڑکوں اور بڑوں کو زندگی بسر کرنے پر مجبور رکھنا یہ ظلم ہے اس لئے عالمی جماعت کا یہ فرض ہے کہ ان کی اس قسم کی علمی اور صحت جسمانی کی ضرورتیں ضرور پوری کریں اور اس شان سے پوری کریں کہ علاقے میں اسکی کوئی مثال نہ ہو.پس اس بارہ میں میں ہدایات دے آیا ہوں کہ اب تفصیلی منصوبے بنانا تمہارا کام ہے.بناؤ اور جو بھی بناؤ گے انشاء اللہ عالمی جماعت فراخدلی کے ساتھ ان پر عمل درآمد کرنے میں تمہاری مدد کرے گی.اور میری خواہش ہے کہ آئندہ جلسہ سے پہلے پہلے عورتوں اور مردوں کے لئے یہ سپورٹس کمپلیکس مکمل ہو چکے ہوں یا مکمل نہ سہی تو نظر آنے شروع ہوں اور ان کا فیض دکھائی دینے لگے.ہمارے احمدی بچوں کے چہروں پر صحت دکھائی دے اس لئے یہ بھی وہ ایک ضروری منصوبہ ہے جو شروع کیا جاچکا ہے لیکن یہ قادیان تک محدود نہیں رکھنا.علمی اور صحت کے یہ دونوں منصوبے ہندوستان کی باقی جماعتوں میں ممتد ہوں گے کیونکہ ان کی بھی محصور کی سی ایک کیفیت ہے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمان بعض را ہنماؤں کی غلطیوں کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھے جارہے ہیں.ان میں جماعت احمد یہ بھی ان تکلیفوں میں حصہ دار بنی ہوئی ہے اگر چہ غلط پالیسیوں کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کوئی تعلق نہیں لیکن دوسری مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کی طرح کے ملاں وہاں بھی جماعت کے خلاف نفرت کی تحریکات چلاتے اور بھڑکاتے ہیں اور کوئی ہوش نہیں کر رہے کہ باہر کی دنیا میں کیا گندا اثر پیدا کر رہے ہیں اس لئے احمدیوں کے لئے دوہری مشکلات ہیں اور وہ ان مخالفتوں میں محصور ہو چکے ہیں.چنانچہ بعض جماعتوں کے ساتھ جب تفصیلی انٹرویو ہوئے تو پتا لگا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 83 63 خطبه جمعه ۲۴ /جنوری ۱۹۹۲ء کہ واقعہ ان کی محصور کی سی کیفیت ہے.وہ عام روز مرہ کے اپنی زندگی کے حقوق سے کلیۂ محروم ہیں.مسلمان ان سے کنی کتراتے ہیں.ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نہیں رکھتے کیونکہ ان کو نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ہند و ویسے ہی دور ہٹتے چلے جار ہے اور دن بدن ہند و قوم پرستی یا تشدد پرستی کی جو تحریکات ہیں وہ زیادہ قوی ہوتی جارہی ہیں اور یہ دراصل پاکستان اور بعض دوسرے مسلمان ممالک کی جہالت کا طبعی نتیجہ ہے.سورنگ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اسے قومیائی حدود میں جکڑو نہیں اور غیروں کے مقابل پر ایسے ذرائع اختیار نہ کرو کہ وہ سمجھیں کہ تم اپنے مذہب کو زبر دستی ان پر ٹھونستے اور ان کو ان کے حقوق سے محروم کرتے ہو.اگر ایسا کرو گے تو اس کا رد عمل پیدا ہو گا.اور اگر اس کے بعد ہند و منوسمرتی کی تعلیم کی طرف رخ کریں اور یہ اعلان کریں کہ اگر پاکستان میں مسلمانوں کو حق ہے کہ قرآن کی تعلیم کو ساری قوم پر ٹھونس دیں خواہ کوئی اسے قبول کرے نہ کرے تو ہمارا کیوں حق نہیں کہ ہم منوسمرتی کی تعلیم کو ساری ہندوستانی قوم پر ٹھونسیں خواہ کوئی قبول کرے یا نہ قبول کرے.پس غلطیوں کے یہ جودور رس نتائج ہیں ان سے آنکھیں بند ہیں.دو قدم سے زیادہ دیکھ نہیں سکتے اور یہ جو نظر کی کمزوری کی بیماری ہے یہ جب راہنماؤں میں ہو جائے تو ساری قوم کے لئے ہلاکت کا موجب بنتی ہے.بہر حال ہندوستان میں جو یہ شدیدر و چل پڑی ہے یہ بہت ہی خطرناک عزائم کو ظاہر کر رہی ہے اور دن بدن مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ رواسی طرح چلتی رہی تو سارے مسلمان وہاں محصور ہو کر رہ جائیں گے اور احمدیوں پر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوہری حصار ہے ایک حصار غیروں کی غلطی کی وجہ سے ہے اور ایک حصار دل کی مجبوری کی وجہ سے خدا کی خاطر جو بھی مخالفت ہوا نہوں نے بہر حال قبول کرنی ہے اور بڑی وفا کے ساتھ احمدیت سے وابستہ رہنا ہے.یہ وہ اصحاب الصفہ ہیں جو وسیع تر دائرے سے تعلق رکھنے والے اصحاب الصفہ ہیں.پس قادیان کے لئے بہبود کی جوسکیمیں ہیں ان سے ہندوستان کی باقی جماعتوں کو محروم نہیں رکھا جائے گا اور وہاں بھی صوبائی امار تیں قائم کر کے جہاں نہیں تھیں وہاں قائم کر دی گئی ہیں اور جہاں تھیں ان کو بیدار کیا گیا ہے.یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جہاں اقتصادی ترقی کے منصوبے بناؤ وہاں تعلیمی ترقی کے بھی منصوبے بناؤ.چنانچہ کشمیر میں خدا کے فضل سے پہلے ہی بہت سے سکول بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 64 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء اعلیٰ روایات کے ساتھ چل رہے ہیں.باقی صوبوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اسی طرح مدارس قائم کریں اور جہاں جہاں ممکن ہو کا لجز قائم کریں.ٹیکنیکل کالجز کی وہاں بڑی ضرورت ہے اور قادیان میں بھی انشاء اللہ خیال ہے کہ اعلیٰ پائے کا ٹیکنیکل کالج بھی قائم کیا جائے گا.تو سارے ہندوستان کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ایک کروڑ سالانہ کی رقم بھی کوئی چیز نہیں ہے لیکن اگر وقف جدید کے ذریعہ ایک سال کے اندر اندر ایک کروڑ کی رقم بھی مہیا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ شروع کرنے کے لحاظ سے خدا کے فضل سے کچھ نہ کچھ سرمایہ میسر آ جائے گا اور باقی اللہ تعالیٰ اور رستے عطا کرتارہتا ہے.جماعت احمدیہ کی عالمی قربانیوں کا جو مجموعہ ہے اس میں سے جہاں مرکزی منصوبوں پر خرچ ہورہے ہیں مختلف ممالک پر خرچ ہورہے ہیں ایک حصہ اس میں سے بھی قادیان اور ہندوستان کی احمدی جماعتوں کے لئے مزید مخصوص کیا جا سکتا ہے تو آپ دعاؤں میں یاد رکھیں اور مالی قربانیوں کی جہاں تک توفیق ملے اسے بڑھانے کی کوشش کریں.وقف جدید کی مالی قربانی پر نظر ثانی کریں.بہت سے احمدی ہیں جو غربت اور تنگی کی حالت میں بھی ہر چندے میں شامل ہیں.وہ تقریباً اپنی استطاعت کی حد کو پہنچے ہوئے ہیں لیکن میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی خاطر وہ جو قربانیاں پیش کرتے ہیں یا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت دے گا اور ان کی حدود وسیع تر کرتا چلا جائے گا.وہ آیت جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس سے پہلے اس مضمون کی آیات ہیں جو میں اب آپ کے سامنے رکھ کر اس خطبہ کو ختم کروں گا جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے خدا کی خاطر خود محصور ہو گئے اور جن کے رزق کی راہیں تنگ ہوگئیں یا بند ہوگئیں جو لوگ قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دین اور دنیا دونوں جگہ جزاء دینے والا ہے اور ان کے اموال کو رکھتا نہیں بلکہ ان میں بہت برکت دیتا ہے.پس وہ برکت جو درویشوں کے ذریعے دوسروں کو پہنچتی ہے اس مضمون کو قرآن کریم نے یہاں ایک خاص رنگ میں کھول کر بیان فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی یہی ہے کی اس نصیحت کا اس آیت سے ہی تعلق ہے جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ تمہیں کیا پتہ کہ کن لوگوں کی وجہ سے تمہارے اموال میں برکت پڑ رہی ہے.پس جو لوگ ان غریبوں پر خرچ کرتے ہیں جو خدا کی خاطر محصور ہوئے خدا کا واضح وعدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں بہت برکت دے گا.فصاحت و بلاغت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 99 65 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء کا عجیب انداز ہے کہ پہلے یہ مضمون بیان فرمایا اور پھر بعد میں ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی خاطر ان لوگوں کو برکت ملنے والی ہے.فرمایا: اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِی اگر تم خدا کی راہ میں اخراجات کو قربانیوں کو کھول کر پیش کرو، اعلانیہ کر دو تا کہ دوسروں کو تحریک ہو تو فَنِعِمَّا هِی.ان تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ : یہ بھی اچھی بات ہے.اس میں کوئی برائی نہیں.وَاِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمُ لیکن اگر تم ان کو مخفی رکھو اور خدا کی راہ کے فقیروں پر خرچ کرو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ ساتھ ان غریبوں کی خدمت کا جو سب سے بڑا فیض تمہیں پہنچے گاوہ یہ ہے کہ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَاتِكُم اللہ تعالیٰ تمہاری بدیاں دور کرے گا.تمہاری کمزوریاں دور فرمائے گا.پس تمام دنیا میں ہمیں تربیت کے جو مسائل در پیش ہیں خاص طور پر ترقی یافتہ یا آزاد منش ممالک میں ان کا ایک حل قرآن کریم نے یہ بھی پیش فرمایا ہے کہ خدا کی راہ میں محصور اور غرباء پر خرچ کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی کمزوریاں دور فرمائے گا اور خود تمہاری اصلاح کے سامان مہیا فرمائے گا.پھر فرمایا وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.یاد رکھو کہ تم جہاں بھی جو کچھ بھی خدا کی راہ میں کرتے ہو تمہارے اعمال سے خدا خوب واقف ہے.ہر چیز پر اس کی نظر ہے.تمہارا کوئی عمل بھی ایسا نہیں جو خدا کی نظر میں نہ ہو.پھر فرمایا لَيْسَ عَلَيْكَ هُدْهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ اے محمد! تجھ پران کی ہدایت فرض نہیں ہے.تو نے پیغام پہنچانا ہے.نصیحت کرنی ہے اور تو بہترین نصیحت کرنے والا ہے.وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ ہاں اللہ ہی ہے جس کو چاہے گا ہدایت بخشے گا.جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے.پھر اس جملہ معترضہ کے بعد واپس اس مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ جو کچھ تم یا درکھو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو فَلا نُفُسِكُم وہ دراصل اپنی جانوں پر خرچ کر رہے ہو.یہ نہ مجھو کہ دوسروں پر کوئی احسان کر رہے ہو.تمہارا خرچ اپنے فوائد کے لحاظ سے اور برکتوں کے لحاظ سے خود تم پر ہورہا ہے.وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مد مصطفی اے کے تربیت یافتہ ساتھی اپنے نفوس میں برکت کی خاطر خرچ نہیں کر رہے بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کر رہے ہیں.پس یہ مراد نہ کبھی جائے.کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ یہ تعلیم دے رہا ہے کہ اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 99 66 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء نفس پر خرچ کرنے کی خاطر خرچ کرو.فرمایا ہم جانتے ہیں کہ تمہار ا علیٰ مقصد خدا کی رضا ہے مگر جب خدا کی رضا حاصل ہو جاتی ہے تو محض دین میں نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں بھی رضا مل جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا ایک نتیجہ ہے کہ جو یہ فرمایا گیا کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اپنی جانوں پر خرچ کرتے ہو.ان دونوں آیات کے ٹکڑوں کو ملا کر پڑھا جائے تو مضمون یہ بنے گا کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ تم جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو محض اللہ کے پیار کی خاطر اس کی محبت جیتنے کے لئے اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو لیکن اس رضا کا ایک ظاہری نتیجہ بھی ضرور نکلے گا اور وہ یہ کہ تمہارے اموال میں ایسی برکت ملے گی کہ گویا تم دوسروں پر نہیں بلکہ خود اپنی جانوں پر خرچ کرنے والے تھے اور اس کی مزید تفسیر یہ فرمائی کہ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقرہ :۲۷۳) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے یقین جانو وہ تمہیں خوب لوٹا یا جائے گا.تُوَفَّ إِلَيْكُمُ میں صرف لوٹانے کا مضمون نہیں بلکہ بھر پور طور پر لوٹایا جائے گا اور تم سے کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.یہ ایک محاورہ ہے.طر ز بیان ہے.جب کہا جائے کہ کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ محض عدل کیا جائے گا بلکہ بالکل برعکس مضمون ہوتا ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (البقرہ :۲۸۲) ان سے ظلم نہیں کیا جائے گا تو مراد یہ ہوتی ہے کہ انہیں بہت زیادہ دیا جائے گا.ظلم تو در کنار اتنا عطا ہوگا کہ احسانات ہی احسانات ہوں گے.یہ ایک طرز بیان ہے جو مختلف زبانوں میں ہے.عربی میں اور خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم میں اس طرز بیان کو اختیار فرمایا گیا تو لَا تُظْلَمُونَ ، وَلَا يُظْلَمُونَ) (النساء: ۱۲۴) کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ظلم نہیں کرے گا جتنا دیا اتنا واپس کر دے گا.مراد یہ ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی کمی واقع نہیں ہوگی.اتنا دے گا کہ تمہارے پیٹ بھر جائیں گے تم کانوں تک راضی ہو جاؤ گے.یہ معنی ہے اس آیت کا.یہ سب بیان کرنے کے بعد فرمایا لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اس وقت جو ہم خرچ کرنے کی تاکید کر رہے ہیں تو یہ عام خرچ نہیں بلکہ خصوصیت سے ان فقراء کی خاطر خرچ ہے جو خدا کے رستے میں گھیرے میں آگئے اور ان میں زمین پر چل کر اپنے کمانے کے لئے گنجائش نہیں رہی.وہ محبت کی رسیوں میں باندھے گئے اور ہمیشہ کے لئے محمد مصطفی ﷺ کے قرب میں انہوں نے ڈیرے ڈال دیئے حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں.کھانے کے بھی وہ محتاج ہیں.پہنے کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 67 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء بھی ، اوڑھنے کے بھی محتاج ہیں.ان کی ساری ضرورتیں خدا پر چھوڑ دی گئی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ تمہیں فرماتا ہے کہ تم ان کی ضرورتیں پوری کرو خدا تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا اور تمہاری ضرورتیں پوری کرنے میں کوئی کمی نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو بھی انہی معنوں میں اصحاب الصفہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.وہ جس رنگ میں بھی ہوں جہاں بھی ہوں خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ان کی خدمت کی توفیق بخشے اور ان کا فیض خدا تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں ساری دنیا کی جماعت پر نازل ہوتار ہے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 69 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء غلبہ اسلام کی عظیم الشان پیشگوئی امام مہدی سے وابستہ ہے.پہلا خطبہ جمعہ جو تمام یورپ میں سیٹلائٹ کے ذریعہ براہ راست سنا اور دیکھا گیا.(خطبه جمعه فرموده ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْكَرَة الْمُشْرِكُونَ (الف (1) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِيْنِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (ا) ۲۹) پھر فرمایا:.یہ دو آیات قرآنیہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں سے پہلی سورۃ الصف سے لی گئی ہے اور اس کی دسویں آیت ہے اور دوسری سورۃ الفتح سے.سورۃ الصف کی آیت میں یہ ذکر ہے کہ وہی صلى الله خدا ہے جس نے اپنے اس رسول یعنی محمد مصطفی میﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه تا کہ وہ اس دین حق کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کر دے.وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ خواہ مشرک اُسے کتنا ہی ناپسند کریں.بعینہ انہی الفاظ میں یہ آیت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 70 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء سورۃ توبہ میں بھی آئی ہے لیکن ذرا سے اختلاف کے ساتھ یہ مضمون اس دوسری آیت میں بیان فرمایا گیا جو سورۃ الفتح کی ۲۹ ویں آیت ہے اور جس کی میں نے بعد میں تلاوت کی تھی.اس میں اللہ تعالے فرماتا ہے کہ وہی اللہ ہے جس نے اس رسول یعنی محمد مصطفی ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اس دین کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کر دے.وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا اور خدا سے بڑھ کر کوئی قابل اعتماد گواہ نہیں ہو سکتا.اس بات کے لئے خدا کی گواہی بہت کافی ہے کہ یہ تقدیرلا زما رونما ہو کر رہے گی اور دُنیا کی کوئی طاقت اس کو تبدیل نہیں کر سکتی.یہ وہ پیشگوئی ہے جس کا تعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور سے ہے اور تمام گزشتہ مفسرین اس بات کو یا لکھ چکے ہیں یا دوسروں کی کتابوں میں پڑھ کر ان سے اختلاف نہیں کیا کہ ان پیشگوئیوں کا تعلق حضرت مسیح سے یعنی مسیح کی بعثت ثانیہ سے اور امام مہدی سے ہے.اس کے دور میں تمام دنیا کو دین واحد پر جمع کیا جائے گا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے کامل غلام اور الله صلى الله صلى الله بروز کے طور پر وہ کام جس کا آغاز حضرت اقدس محمد مصطفی میں نے شروع فرمایا اس کا انجام اور اتمام مہدی اور مسیح کے زمانہ میں ہوگا.گویا مہدی اور مسیح کے لئے تمام دُنیا کو جمع کرنا مقدر تھا.سورہ جمعہ میں بھی جو جمع کا مضمون آنحضرت مہ کے بروزی ظہور کے سلسلہ میں بیان فرمایا گیا اس میں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ دوزمانوں کو جمع کرنے والا ہوگا.وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ - (الجمعه : ۴) وہ اُس شان کا وجود ہو گا کہ جو حضور اکرم ﷺ کی بعثت ثانیہ کا مرتبہ رکھتا ہوگا اور آپ ہی کی غلامی میں اور آپ ہی کے آغاز کئے ہوئے کاموں کی تکمیل کی خاطر آئے گا اور آخَرِيْنَ میں بسنے والوں کو اولین سے ملا دے گا یعنی ان کے ساتھ جمع کر دے گا تو جمع کے مضمون کا سورہ جمعہ کے ساتھ جو گہرا تعلق رکھتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ایک گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے اور یہ وہ دعوی ہے جو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی نہیں فرمایا بلکہ آپ کی تائید میں بڑے بڑے مفسرین اور مفکرین یہی بات لکھتے چلے آئے ہیں.سب سے پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عبارت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.خدا تعالے نے جو تمام نعمت کی ہے ( یعنی نعمت کو تمام کیا ہے ) وہ یہی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 71 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا.( یعنی جمعہ کے دن ہی نعمت اپنے پایہ تکمیل کو پہنچی ) یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر تمام نعمت جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی صورت میں ہوگا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا.وہ جمعہ اب آ گیا ہے کیونکہ خدا تعالے نے وہ جمعہ مسیح موعود کے لئے مخصوص رکھا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں.یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ اللہ کے کے ذریعے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ کہہ کر فرمائی تھی.یہ وہی زمانہ ہے جو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعت و ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.“ یعنی ایک زمانہ میں تمام بنی نوع انسان کو حضرت محمد مصطفی ہوا کے جھنڈے تلے جمع کرنے والا جمعہ اور دو مختلف زمانوں کے غلامان محمد مصطفی علیہ کو ایک جگہ اکٹھا کر دینے والا جمعہ وہی جمعہ ہے جو امام مہدی اور مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس وقت رسول اللہ ﷺ کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے.اتمام نعمت کا وقت آ پہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دے گا کہ اس کا نذیر سچا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۳ صفحه : ۱۰۴) اب میں پرانے مفسرین کے بعض حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان تصریحات کی بڑی قوت کے ساتھ تائید ہوتی ہے.تفسیر
خطبات طاہر جلدا 72 لله خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء قرطبی میں اسی آیت کے تحت یعنی لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّم کے تحت لکھا ہے کہ قال ابو هريرة والضحاك هذا عند نزول عیسی علیه السلام و قال السدى ذاك عند خروج المهدی " ( تفسیر قرطبی جلد نمبر ۳ صفحه ۱۸۳-۱۸۴) یعنی حضرت ابو ہریرہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کہ اللہ تعالے آنحضرت ﷺ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا نزول مسیح کے وقت پورا ہوگا اور شدی کہتے ہیں کہ ظہور مہدی پر یہ وعدہ پورا ہوگا.دراصل تو یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ان دونوں کا یہ کہنا اختلاف کا رنگ نہیں رکھتا بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جس وجود کے ذریعے یہ وعدہ پورا ہوگا اس کا ایک نام سیح ہے اور ایک نام مہدی ہے.حضرت امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں میں ترجمہ پڑھ کر سناتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اس آیت میں وعدہ ہے کہ اللہ تعالے تمام دینوں پر اسلام کو غالب کرے گا اور اس وعدہ کی تکمیل مسیح موعود کے وقت میں ہوگی اور سدی کہتے ہیں کہ یہ 66 وعده مهدی موعود کے زمانہ میں پورا ہوگا.“ ( تفسیر کبیر جز و نمبر 1 تفسیر سورۃ التوبه زیر آیت ہذا) حضرت مولانا اسماعیل صاحب شہید بالا کوٹ اسی آیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” ظاہر ہے کہ دین کی ابتداء حضرت رسول مقبول ﷺ سے ہوئی لیکن اس کا اتمام مہدی کے ہاتھ پر ہوگا.“ (منصب امامت صفحہ: ۷۰) اب ایک اور دلچسپ چیز میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے عموماً احمدی بھی واقف نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام جمعہ بھی ہے جو پیشگوئی کے طور پر آپ کے رکھے گئے یعنی امام مہدی کا نام جمعہ بھی ہے جو پہلے سے ہی مذکور چلا آتا ہے.چنانچہ النجم الثاقب جلد نمبر ا مؤلفہ مولانا ابوالحسنات محمد عبد الغفور میں یہ درج ہے کہ جمعہ مہدی کے مبارک ناموں میں سے ہے یا آپ کی ذات شریف سے کنایہ ہے یا اس نام سے موسوم ہونے کی وجہ اس کا لوگوں کو جمع کرنا ہے.حضرت امام علی تقی علیہ السلام نے فرمایا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ الله 73 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء جمعہ میرا بیٹا ہے ( یعنی امام مہدی جس کا نام جمعہ ہے وہ میرا بیٹا ہے ) اور اسی کی طرف اہل حق اور صادق لوگ جمع ہوں گے....وہ تمام دینوں کو ایک دین پر جمع کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس پر اتمام نعمت کرے گا اور حق کو اس کے ذریعے ظاہر و ثابت اور باطل کو محو کرے گا اور وہ مہدی ہے.“ النجم الثاقب جلد نمبر ا مؤلفہ مولانا ابوالحسنات محمد عبدالغفور ۱۳۰۸هجری) آج کا دن احمدیت کی تاریخ میں ایک بہت ہی مبارک دن ہے.یہ جمعہ جماعت کی دوسری صدی کے آغاز میں ایک بہت ہی عظیم سنگ میل نصب کر رہا ہے اور جماعت کو جمع ہونے کے ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے.جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے ذریعہ سب سے پہلے خطبات کے نظام کو مواصلاتی رابطوں کے ذریعے صوتی لحاظ سے نہ صرف ایک بر اعظم میں بلکہ دنیا کے بہت سے بڑ اعظموں میں دور دراز کے ممالک تک پہنچانے کی توفیق ملی.یہ بھی جمع کا ایک نیا رنگ تھا اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آئندہ دور میں بنی نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے جھنڈے تلے جمع کرنا مقدر تھا اس لئے یہ ظاہری علامتیں بھی جماعت احمدیہ کے ہی حق میں پوری ہو رہی ہیں اور کسی جماعت کو بھی یہ توفیق نہیں ملی حالانکہ جماعت احمد یہ ایک غریب اور چھوٹی سی جماعت ہے اور اس کے مد مقابل جو دشمن ہیں وہ دنیا کے لحاظ سے اتنے طاقتور ہیں کہ بڑی بڑی حکومتوں کے مالک ہیں اور اتنے ارب ہا ارب روپے کے مالک ہیں کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.پس اس پہلو سے آج کا جمعہ جماعت احمدیہ کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے اظہار کے لئے ایک بہت عظیم نشان بن کر ظاہر ہوا ہے.صوتی لحاظ سے ہی نہیں آج تصویری لحاظ سے بھی بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عاجز غلام اور خلیفہ اسیح کو یہ توفیق ملی ہے کہ ایسا خطبہ دے رہا ہے اور ایسا جمعہ پڑھا رہا ہے جو ایک بہت ہی طاقتور براعظم کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صوتی لحاظ سے بھی پہنچ رہا ہے اور تصویری لحاظ سے بھی پہنچ رہا ہے یعنی ٹیلی ویژن کے ذریعے روس کے انتہائی مشرق یعنی ولاڈی واسکٹ سے لے کر یورپ کے انتہائی مغربی علاقوں تک یعنی غالبا اس میں آئرلینڈ کا مغربی کنارہ ہوگا یا Britain کا مجھے اس وقت پوری طرح ذہن میں نہیں لیکن جو بھی یورپ کے جزائر ہیں ان میں بھی جو انتہائی مغرب کی طرف ہے ان سب میں یہ خطبہ ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھا اور سُنا جاسکتا ہے اور اسی طرح ناروے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 74 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء کے شمال سے لے کر سپین کے جنوب میں جبل الطارق تک یہ خطبہ خدا کے فضل سے دیکھا اور سُنا جاسکتا ہے اور ترکی کے اس حصہ میں بھی جو یورپ کا حصہ کہلاتا ہے اس میں بھی یہ خطبہ اسی طرح مواصلاتی ذرائع سے صوتی اور تصویری لحاظ سے نشر ہورہا ہے.پس یہ دن ہمارے لئے جذباتی لحاظ سے ایک بہت ہی ہیجانی دن ہے لیکن اس کا صرف جذبات سے تعلق نہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے.دنیا کو ان ذرائع سے جمع کرنا اور دین میں جمع کرنا اور خطبہ کے ذریعے جمعہ کے دن جمع کرنا یہ وہ سارے مقدرات ہیں جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے اور ان آیات کریمہ سے ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے.یعنی سورۃ جمعہ، سورۃ صف ،سورۃ توبہ اور سورۃ فتح کی ان پیشگوئیوں سے ہے جن کا مظہر آج دنیا میں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام یعنی جماعت احمدیہ ہے اور یہ ایسا اعزاز ہے جومل چکا اور دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اب اس اعزاز کو جماعت احمدیہ سے چھین نہیں سکتیں.ایسی سعادت ہے کہ جس کے حصے آگئی جسے خدا نے عطا فرما دی وہ اب دنیا کی تمام عظمتیں رکھنے والی سلطنتیں بھی مل کر چاہیں تو اب اُس سے چھین نہیں سکتیں.جو سبقت جماعت کو نصیب ہوگئی وہ نصیب ہوگئی اور اب ان کے لئے تو اگر وہ ظالم ہیں اور دشمنی رکھتے ہیں تو سر پیٹنے اور واویلا کرنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہا مگر ہمیں اس بات پر کوئی خوشی نہیں کہ دشمن اس کے نتیجہ میں غیظ و غضب دکھاتا ہے اور جوش دکھاتا ہے اور نفرت میں پہلے سے بڑھ جاتا ہے.ہماری تو دعا یہ ہے کہ اس نے ذریعہ سے کثرت کے ساتھ غیر احمدی مسلمانوں کو یہ خطبات براہ راست سننے اور دیکھنے کی توفیق ملے اور اس کے نتیجہ میں جو دوریاں ہیں وہ کم ہو جائیں، جو فاصلے ہیں وہ پائے جائیں اور جن جن کو خدا نے فراست عطا فرمائی ہے وہ نہ صرف اپنے کانوں سے سنیں بلکہ آنکھوں سے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ یہ جھوٹے اور جھوٹوں کے مونہوں کی باتیں ہیں یا بچوں کے کلام ہیں اور اس رنگ میں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہدایت کے نئے سامان پیدا فرمائے.ہمیں اس بات میں خوشی ہے کہ اگر ایک بھی سعید روح اس نئے ذریعہ سے سچ کو پا جاتی ہے اور حق کی آغوش میں آجاتی ہے تو ہمارے لئے یہ ایک اور جمعہ یعنی عید کا دن ہوگا.جہاں تک جمعہ کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے اب میں ان سے متعلق آپ کو کچھ سمجھانا چاہتا ہوں.آپ نے یہ تو دیکھ لیا کہ خدا کی تقدیر نے خوب کھول کر روز روشن کی طرح واضح فرما دیا کہ جماعت احمدیہ اور جمعہ کا ایک بہت ہی گہرا رشتہ ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 75 55 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء ایک تاریخی رشتہ بھی اور ایک حال کے زمانے پر پھیلا ہوا رشتہ ہے اور ایک مستقبل کے زمانے میں رونما ہونے والے واقعات کا رشتہ ہے.اور یہ ایسے گہرے تقدیری رشتے ہیں جن کے نتیجہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح امام مہدی جمعہ بھی تھے اور امام مہدی بھی تو.جماعت احمدیہ، جماعت احمدیہ بھی ہے اور جمعہ بھی ہے.پس جمعہ کے ساتھ ہماری ساری بقاء وابستہ ہے.ہمارے تمام کاموں کا نیک انجام تک پہنچنا وابستہ ہے اور اس دن کے جو حقوق ہیں وہ ہمیں لازماً ادا کرنے ہوں گے اگر ہم نے اس دن کے حقوق ادا نہ کئے تو احمدیت تو ان برکتوں سے محروم نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو لازما پورا ہوگا.محمد مصطفی ﷺ کی خوشخبریاں ہیں جن کو دنیا کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی.مگر بعض نسلیں ان برکتوں سے ضرور محروم رہ سکتی ہیں.وہ نسلیں جن کو خدا تعالے نے کھول کر برکتوں کی راہیں دکھا دی ہوں وہ ان پر آگے قدم بڑھا کر ان برکتوں کے حصول کی کوشش نہ کریں ان کی محرومی ضرور ہو سکتی ہے.پس خدا نہ کرے کہ ہماری نسل محروموں کی نسل شمار ہو کیونکہ ہماری نسل کو ہی خدا نے یہ معجزے دکھائے ہیں اور اوپر تلے مسلسل ظاہر ہونے والے نشانات کی صورت میں یہ معجزے دکھائے ہیں.جب سے احمدیت اپنی دوسری صدی میں داخل ہوئی ہے نئے نئے اعجازی نشان احمدیت کے حق میں ظاہر ہورہے ہیں اور یہ نشان ان نشانوں میں سے ایک بہت ہی عظیم الشان بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ سب سے بڑا عظیم نشان ہے کیونکہ اس نشان نے کھول کر اسلام کے غلبہ کو احمدیت کے غلبہ کے ساتھ نہ ٹوٹنے والے رشتوں میں جوڑ دیا ہے.جمعہ کے تعلق میں میں اس سے پہلے جماعت کو نصیحت کر چکا ہوں کہ جمعہ کے حقوق ادا کریں، خود بھی جمعہ میں حاضر ہوں اور اپنے بچوں کو بھی لایا کریں.جن لوگوں کو تو فیق نہیں ملتی کہ وہ ہر جمعہ میں حاضر ہو سکیں ان کو چاہئے کہ وہ کم سے کم تین میں سے ایک جمعہ تو ضرور پڑھ لیا کریں اور جن کے بچوں کو تعلیمی اداروں کی پابندیوں کے نتیجہ میں ہر جمعہ میں شامل ہونے کی توفیق نہیں مل سکتی کوشش کریں کہ ان کے اساتذہ ان کے لئے استثنائی فیصلہ کرتے ہوئے ان کو اجازت دیں اگر نہ دیں تو کم از کم تین جمعوں میں سے ایک جمعہ ان کو سکول جانے سے روک دیں اور وہ جمعہ میں حاضر ہوا کریں یہ جو میں نے کہا تھا اس کا تعلق آنحضرت ﷺ کے بعض واضح فرمودات سے ہے اور انہی سے متعلق میں کچھ مزید روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ नै 76 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء جامع ترمذی، ابواب الجمعة باب ماجاء فی ترک الجمعه من غیر عذر میں یہ روایت درج ہے کہ حضرت ابو جعد ضمری ( ان کے صحابی ہونے کے متعلق محمد ابن عمر کی روایت ہے اور انہی کے حوالے سے ان کو صحابی کہا جاتا ہے.اسی لئے بریکٹ میں یہ درج ہوتا ہے کہ ان کو بھی فلاں وجہ سے صحابی شمار کیا گیا ورنہ معروف صحابہ میں ، معلوم صحابہ میں ان کا نام نمایاں نہیں ہے مگر بہر حال تمام محدثین جنہوں نے ان کی روایات درج کی ہیں بطور صحابی ہی ان کی روایات درج کرتے ہیں ) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جوشخص مسلسل تین جمعہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے یا جمعہ کو حقیر سمجھتے ہوئے ترک کرتا ہے اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ایک دوسری روایت میں درج ہے کہ جو تین جمعہ عمد ا چھوڑ دے وہ منافق ہے.یہ حدیث جو میں نے پیش کی ہے سنن ابو داؤد میں بھی ہے سنن النسائی میں بھی ہے ، سنن ابن ماجہ میں بھی ہے اور ترمذی میں بھی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے.پس بہت سے رستوں سے بہت ہی قابلِ اعتما داحادیث کی کتب میں کثرت کے ساتھ اس حدیث کو بیان فرمایا گیا جو اصل الفاظ ہیں وہ قابل غور ہیں.آپ نے فرمایا.مـن تـرك الـجـمـعـة ثلث مرات تهاون بها طبع الله على قلبه “ (ترمذی کتاب الجمعہ حدیث نمبر : ۴۶۰) تھاون کا ترجمہ یہ کیا گیا کہ ہلکے پھلکے رنگ میں سستی کے طور پر غفلت کے طور پر وہ جمعہ چھوڑ دیا اور تھاوناً کا ایک مطلب ہے کہ جمعہ کی Institution کو جمعہ کے مقدس دن کو خفیف سمجھتے ہوئے بے حقیقت اور بے وزن سمجھتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے میرے نزدیک یہ دوسرا معنی زیادہ مضبوطی کے ساتھ اس صورت حال پر اطلاق پاتا ہے کیونکہ اس کی سزا بہت سخت بیان ہوئی ہے.غفلت کی وجہ سے اگر کوئی فرض رہ جائے تو اس پر ایسی سخت سزا یقینا تعجب انگیز ہے لیکن جب یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا تو اس کا تعلق عام غفلت اور سستی سے نہیں بلکہ جمعہ کو معمولی سمجھنے سے اور حقارت کی نظر سے دیکھنے سے تخفیف کی نگاہ سے دیکھنے سے ہے.پس وہ لوگ جو رفتہ رفتہ جمعہ کی قدر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی فرق ہی نہیں پڑتا جمعہ پر حاضر ہوں یا نہ ہوں، ہو گئے تو ٹھیک ہے نہ ہوئے تو کیا ہے ان کے لئے اس میں بہت بڑا انتباہ ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 77 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء مضمون ہم نے جمعہ کی عظمت کو دوبارہ قائم کرنا ہے کیونکہ ہماری بقاء کا جمعہ سے تعلق ہے.یہ میں نے قرآن کریم کی آیات اور احادیث کی روشنی میں خوب کھول دیا ہے.جمعہ کے جو عظیم الشان پھل ہمیں عطا ہونے ہیں وہ جمعہ کی عظمت کو قائم کرنے کے نتیجہ میں عطا ہوں گے اور آج کا جمعہ اس ضمن میں ایک عظیم قدم ہے جو ہم آگے اٹھارہے ہیں.یورپ کے ممالک میں خصوصیت کے ساتھ اور اسی طرح دوسرے مغربی ممالک میں جماعت احمد یہ جگہ جگہ بکھری ہوئی ہے اور اتنی تعداد میں مساجد کے قریب احمدی نہیں رہتے کہ ان کے لئے عملاً ہر جمعہ میں شامل ہونا ممکن ہو بعض تو مساجد سے اتنے دور رہتے ہیں کہ ان کے لئے شاید ہی کسی جمعہ میں شامل ہوناممکن ہو پھر مختلف کاموں پر ہوتے ہیں، مختلف کاروبار ہیں ان میں پھنسے ہوئے تو جن کے لئے اس تھوڑے سے وقفے میں جو درمیان میں کھانے کی چھٹی کا وقفہ ہوتا ہے.جمعہ میں حاضر ہونا ممکن نہیں ہوتا اسی لئے میں اس سے پہلے زور دیتا رہا کہ کوشش یہ ضرور کریں کہ تین میں سے ایک جمعہ ضرور پڑھیں تا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کی اس انذار کی حد میں نہ آئیں کیونکہ بہت ہی بدنصیبی ہوگی کہ آنحضرت ﷺ نے کھلا کھلا انذار فرمایا ہو اور ایک آدمی جمعہ کو بھی تخفیف کی نظر سے دیکھے اور اس انذار کو بھی تخفیف کی نظر سے دیکھے اس لئے میں نے ایک دفعہ یہ تحریک چلائی اور اللہ کے فضل سے جماعت نے اس کے نتیجہ میں مثبت ردعمل دکھایا.بعض لوگوں نے اپنی نوکریاں چھوڑ دیں، بعض بچوں نے اپنے ہیڈ ماسٹروں سے کہا سکول سے نکالتے ہو تو نکالو ہم تین میں سے ایک جمعہ جا کر تو ضرور پڑھیں گے اور بہت سی جگہ سے ایسی اطلاعیں ملیں کہ اساتذہ کو ان کے سامنے سر جھکانا پڑا اور انہوں نے زور کے ساتھ ، اپنے عزم کے ساتھ جمعہ کی عظمت منوا کر چھوڑی.بعض احمدیوں نے نوکریوں سے استعفیٰ دیئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان کو نئی نوکریاں عطا کیں جن میں یہ شرط تھی کہ جمعہ کے دن ان کو ضرور چھٹی ملا کرے گی.اور ایک صاحب نے لکھا کہ میری نوکری تو چھٹی لیکن جو دوسری نوکری ملی ہے اس میں تین دن چھٹیاں ہیں یعنی جمعہ کی بھی چھٹی ہے.ہفتہ کو بھی اور اتوار کو بھی تو اس لحاظ سے ان کو جمعہ کا سارا دن دینی کاموں میں صرف کرنے کے لئے میسر آ گیا تو جو لوگ خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں اور دین کی خدمت میں عزم دکھاتے ہیں اللہ ان کی ان کوششوں کو ضائع نہیں فرماتا اور ان پر ہمیشہ رحمت کی نظر رکھتا ہے اور اپنے فضل کے ساتھ ان کی ضرورتیں خود پوری کرتا ہے.لیکن اب خدا
خطبات طاہر جلدا 78 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء نے ہمارے لئے ایک اور سہولت پیدا کر دی ہے.وہ Dish (ڈش) ہے جس کے ذریعے جمعہ کے اس خطبہ میں شامل ہوا جا سکتا ہے وہ انگلستان میں تو غالباً تین سو پاؤنڈ یا ساڑھے تین سو پچاس پاؤنڈ میں ملتا ہے لیکن جرمنی میں ڈیڑھ سو پاؤنڈ کے لگ بھگ قیمت کے مارک میں بیل جاتا ہے اور جرمنی کے امیر صاحب نے آج جو فیکس بھیجی ہے اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ تمام احمدی مراکز میں جہاں Missionaries ہیں یعنی تمام مشن ہاؤسز میں خدا کے فضل کے ساتھ ڈش نصب کر دیئے گئے ہیں اور آج کا خطبہ وہاں براہ راست دیکھا بھی جائے گا اور سنا بھی جائے گا اور اس کے علاوہ تین سواحمدی احباب نے یہ ڈش حاصل کرنے کے لئے درخواست دے دی ہے.کچھ کومل چکے ہوں گے اور کچھ کومل جائیں گے تو اس صورت میں یہ ممکن ہو گیا ہے کہ اس کثرت کے ساتھ جمعہ کے مراکز قائم کر دیئے جائیں اور یہ نظام کے تحت ہونا چاہئے کہ ہر احمدی کو اپنی سہولت کے تحت جمعہ میسر آسکے اور اس کے لئے مسجد بھی ضروری نہیں ہے.وہ عارضی مقام جسے نماز کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے یعنی نمازوں کا مرکز وہاں بھی جمعہ ہو سکتا ہے لیکن جمعہ کے لئے امام کا مقرر ہونا ضروری ہے ورنہ ہم خود جمع نہیں رہیں گے.احمدیت نے جو جمیعت دنیا کے سامنے پیش کی ہے یہ ہر پہلو سے جمعہ کے باریک معانی کو پورا کرنے والی ہے.تو جمیعت میں امامت کا ایک نظام کے ساتھ منسلک ہونا بھی لازماً داخل ہے.اس لئے یہ نہیں ہوگا کہ ہر شخص جس کے پاس ڈش خریدنے کی استطاعت ہے وہ اپنی مرضی سے ڈش خریدے اور اپنے گھر میں جمعہ پڑھانے لگ جائے.اس سے تو بجائے جمعہ کے افتراق پیدا ہو گا.اس لئے خطبہ سُن لینا اپنی ذات میں ایک بابرکت کام ہے یہ تو گھروں میں سُنا جاسکتا ہے اور اس کا فائدہ ہوگا لیکن اس کو جمعہ قرار نہیں دیا جائے گا.جب تک نظام جماعت کی طرف سے با قاعدہ جمعہ کے مراکز قائم نہ ہوں اور وہاں امام مقرر نہ ہوں اور وہ امیر کی طرف سے مقرر ہوں گے ہر شخص اپنی مرضی سے امام نہیں بن سکتا.پس جمعہ کا یہ مفہوم ہے جو اب ہر لحاظ سے اس نئے دور میں بھی صادق آنا چاہئے.آج تو صرف یورپ میں یہ آواز پہنچ رہی ہے.لیکن اب وہ دن آنے والے ہیں اور بہت دور نہیں کہ مختلف بر اعظم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کی آواز کے ذریعہ اور تصویر کے ذریعہ جمع کئے جائیں گے اور اس طرح جمعہ کا نظام سارے عالم میں پھیلتا چلا جائے گا اور یہ ایک رنگ میں آئندہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 79 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء پوری ہونے والی عظیم الشان پیشگوئیوں کا پیش خیمہ ہوگا.پس دوسری صدی کے سر پر جماعت احمدیہ کو یہ توفیق ملنا کوئی معمولی بات نہیں.محض جذباتی ہیجان کا قصہ نہیں ہے.واقعہ ایک بہت ہی عظیم الشان پیشگوئی کے پورے ہونے کے آثار ہیں جو ظاہر ہورہے ہیں اور وہ آثار انشاء اللہ دن بدن زیادہ شان کے ساتھ ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور قوت پکڑتے چلے جائیں گے.جمعہ کی اہمیت کے سلسلہ میں ایک اور روایت حضرت سمرہ سے مروی ہے.رسول اکرمی نے فرمایا.احضرو الجمعه وادنوا من الامام فان الرجل ليتخلف عن الجمعه حتى انه ليتخلف عن الجنة وانه لمن اهلها (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر : ۱۹۲۵۳) فرمایا جمعہ پر حاضر ہوا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو کیونکہ جو شخص جمعہ سے پیچھے ہلتا ہے وہ جنت سے بھی دور ہو جاتا ہے حالانکہ وہ اس کا اہل ہوتا ہے.یہ سادہ سے چند الفاظ ہیں لیکن دیکھیں ان میں کتنی گہری حکمتیں بیان فرما دی گئی ہیں اور باتوں باتوں میں عرفان کے عظیم خزانے ہیں جو لٹائے جارہے ہیں.جمعہ پر حاضر ہوا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو ان کا کیا تعلق ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا.جمعہ کا امام سے تعلق ہے اور دراصل اس امام سے تعلق ہے جو خدا مقررفرماتا ہے.اور امام مہدی ہی کے ذریعہ جمعہ کے ہر معنی میں جمعہ سے تعلق رکھنے والی برکتیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی تھیں اور درمیانی عرصہ میں لوگوں نے ان برکتوں سے صلى الله محروم رہنا تھا.مقدریہ تھا کہ جن عظیم کاموں کا آغاز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کی تکمیل آپ کے کامل غلام امام مہدی کے ذریعہ ہوئی تھی.پس امامت کا جمعہ سے گہرا تعلق ہے اور جمعہ کے قریب ہونے کے ساتھ آپ نے امام کے قریب ہونے کا مضمون بھی بیان فرما دیا.سادہ سی باتوں الله میں حکمت کے کیسے کیسے خزانے دفن ہوتے تھے.آنحضرت ﷺ کی حدیث کو سرسری نظر سے پڑھنے والا ایسا ہی ہوتا ہے جو سمندروں کو سرسری نظر سے دیکھے دنیا کے نظاروں کو سرسری نظر سے دیکھے اور گزر جائے اس بیچارے کو پتا ہی نہیں چلتا کہ سمندر کی تہہ میں ڈوبے ہوئے کتنے موتی ہیں، کتنے خزانے ہیں ، بعض بنجر زمینوں کی گہرائی میں خدا تعالیٰ نے کتنی نعمتیں انسان کے لئے دفن کر رکھی ہیں، صحراؤں میں تیل کے چشمے ہیں.پس کائنات ایک زندہ خدا کی مظہر ہے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ اس زندہ خدا کی روحانیت کا مظہر تھے اور ہیں اور اس لحاظ سے آپ کی باتوں کو سطحی نظر سے دیکھنا اپنی جان پر ظلم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 80 60 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء کرنا ہے.اب ضمنا چلتے چلتے آپ فرماتے ہیں کہ جمعہ پر حاضر ہوا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو.اب ان دونوں باتوں کو جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ دراصل امام کے قریب ہونا ہی جمعہ ہے ایک امام کے ذریعے ہی دنیا میں اسلام کی جمعیت قائم ہو سکتی ہے اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.پس فرمایا کہ جمعہ کو ظاہری طور پر حاضر ہو کر اس کے تقاضے پورے نہ کرو بلکہ اس کے معنوں پر نظر رکھا کرو.امام سے قربت اختیار کرواسی کے ذریعے تمہیں حقیقی معنوں میں جمعہ نصیب ہوگا پھر فرمایا کیونکہ جوشخص جمعہ سے پیچھے ہٹتا ہے وہ جنت سے بھی دور ہو جاتا ہے اس ارشاد نبوی کا پہلی دونوں باتوں سے تعلق ہے.جو شخص جمعہ سے پیچھے ہٹنا شروع ہوتا ہے اس کے دل پر آہستہ آہستہ زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ اہلیت کے باوجود جنت سے محروم رہ جاتا ہے اسی طرح جو امام سے پیچھے ہٹنے لگتا ہے اس کے دل پر بھی رفتہ رفتہ زنگ لگنے شروع ہو جاتے ہیں ، اس کے اندر بھی بُعد پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے بدظنیوں کی طرف میلان شروع ہو جاتا ہے اور اگر وہ روحانی ترقی کی صلاحیت بھی رکھتا ہوتو اپنی جان پر اس ظلم کے نتیجہ میں وہ اس صلاحیت کے پھل سے محروم رہ جاتا ہے.پس حضور اکرم ﷺ نے جمعہ پر حاضر ہونے پر ہی زور نہیں دیا.جمعہ میں حاضر ہو کر اس کا عرفان حاصل کرنے پر زور دیا ہے اور گہرائی میں اُتر کر اس کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.جہاں تک اہلیت کا تعلق ہے مراد یہ ہے کہ جو لوگ امام سے وابستہ ہو چکے ہوں.یہ انہی کا ذکر چل رہا ہے ان سب کو خدا تعالیٰ جنت میں داخل ہونے کی اہلیت عطا کر دیتا ہے اور اہلیت کا آغاز ہی اس تعلق سے ہوتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا اہلیت کا ٹکٹ نہیں ہے بلکہ اہلیت والوں میں داخل ہونے کا اعلان ہے اور اس داخلے کے بعد دیگر شرطیں پوری کرنا ہوں گی اور ان شرطوں میں تقرب الی الامام بھی ایک شرط بیان فرمائی گئی ہے جمعہ کا تقرب کرو، جمعہ کی عظمت کو پیش نظر رکھو.اس میں حاضر ہوا کرو اس دن کی بہت ہی عظیم الشان برکتیں ہیں.احادیث میں اس کثرت سے بیان ہوئی ہیں کہ ان پر ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے.ان سب برکتوں کا حاصل کرنا جمعہ سے تعلق رکھتا ہے جمعہ کے آغاز سے پہلے بھی تعلق رکھتا ہے جمعہ کے بعد بھی تعلق رکھتا ہے.سورہ جمعہ جہاں یہ بیان فرمایا گیا کہ جب اذان دی جائے تو جمعہ کی طرف دوڑ کر آؤ.اس کے بعد فرمایا گیا کہ جمعہ کے بعد پھر بے شک دنیا میں پھرا کرو، اپنے کاموں میں مشغول ہو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 81 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء جایا کرو اور خدا کے فضل حاصل کیا کرو مگر اس کا ذکر بلند کرتے ہوئے.پہلے بھی ذکر ہے اور بعد میں بھی ذکر ہے، اور بہت سی برکتیں جن کا جمعہ کی تیاری سے تعلق ہے، بہت سی برکتیں ہیں جن کا جمعہ کے دوران فرشتوں کے نزول سے تعلق ہے، بہت سی برکتیں ہیں جو جمعہ کے بعد بکھرنے کی صورت میں حاصل ہوتی ہیں اور وہ کام جو انسان چھوڑ کر جمعہ کے لئے حاضر ہوتا ہے جب دوبارہ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو سورہ جمعہ کی تصریح کے مطابق اس میں پہلے سے زیادہ برکتیں ملتی ہیں اور خدا کا فضل پہلے کی نسبت زیادہ میسر آتا ہے اس لئے جو وقت انسان بظاہر قربان کرتا ہے وہ وقت ضائع نہیں جاتا بلکہ کم پھل کی بجائے زیادہ پھل لے کر آتا ہے.وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا (الانفال: ۴۶) اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی کثرت کے ساتھ کیا کرو.یہ مضمون قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے اور سورہ جمعہ کے تعلق میں بھی بیان ہے.پس جمعہ کے تقرب کا معنی محض جمعہ میں حاضر ہو جانا نہیں بلکہ جمعہ کی برکات کے او پر غور کرتے رہنا اور کوشش کرتے رہنا کہ وہ ساری برکتیں انسان کو نصیب ہوں اور اذان کی آواز پر حاضر ہونے کا مضمون امامت سے تعلق رکھتا ہے اور تقرب الی الامام کے مضمون کو بھی اس نے ڈھانپا ہوا ہے.مراد یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر آواز دی جائے.جب جمعہ ہونے کا اعلان کیا جائے تو بلا تاخیر اس پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جانا.امام مہدی نے جو ساری دنیا میں اذان دی ہے یہ وہی اذان ہے جس کا سورۃ جمعہ میں ذکر ہے.جب بھی اذان دی جائے اور تمہیں بلایا جائے تو تم دوڑتے ہوئے تیزی کے ساتھ جمعہ کے لئے حاضر ہو جایا کرو.یہ جمعہ ظاہری جمعہ بھی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا اور تقرب الی الا مام کا مضمون بھی اس میں شامل ہے جو حضرت رسول اکرم ﷺ نے ہمارے سامنے کھولا.احضروا الجمعة وادنوا من الامام.جمعہ میں حاضر ہوا کرو اور امام کا قرب اختیار کرو یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یا امام مہدی پر اپنی پوری شان کے ساتھ صادق آتا ہے اور آپ نے جو اذان دی ہے وہ سارے عالم کو اکٹھا کرنے کی اذان دی ہے اور اس کا ذکر آپ احادیث میں سُن چکے ہیں اور تفاسیر میں پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح گزشتہ بزرگ اور آئمہ اور اہل فلسفہ اس مضمون کو اچھی طرح سمجھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعہ پر لکھا کہ ایک بھی مفتر نہیں ہے جس نے اس بات سے اختلاف کیا ہو یا جس نے یہ بیان نہ کیا ہو.جہاں تک تفصیل صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 88 82 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء سے جائزہ لینے کا تعلق ہے مجھے تو اس کا موقع نہیں ملالیکن اگر کسی مفسر نے ذکر نہ بھی کیا ہو اور غیر احمدی مولویوں کی عادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قسم کے دُعاوی پر وہ کوشش کرتے ہیں ،تلاش کرتے ہیں کہ کسی ایک مفسر کو جو چاہے کیسی بھی ثانوی حیثیت رکھتا ہو تلاش کر کے اس کی کتاب نکال کر دکھا ئیں کہ اس میں تو ذکر نہیں ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عارفانہ کلام کو سمجھتے ہی نہیں اور نہ حضرت محمد مصطفی اللہ کے کلام کو سمجھتے ہیں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ ذکر عام ہوتا اور اگر کسی ایک بھی مفسر کو اس سے اختلاف ہوتا اور وہ اتفاق نہ کرتا تو وہ ضرور اس بات کا اظہار کرتا.اسی لئے شروع میں میں نے ان معنوں میں یہ دعویٰ کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعویٰ کو میں انہی معنوں میں ہمیشہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی مراد یہ ہے کہ بڑے بڑے مفسرین نے کھول کھول کر آئندہ زمانہ کے غلبہ اسلام اور بنی نوع انسان کے ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے کو مسیح موعود کے دور سے وابستہ فرمایا اور امام مہدی کے دور سے وابستہ فرمایا اور جنہوں نے یہ ذکر نہیں کیا انہوں نے خاموشی کے ساتھ اس بات پر صاد کر دیا کہ ان کو بھی اس مضمون سے اتفاق ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کی آواز پر لبیک کہنا آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرنا یہ یہی مضمون ہے کوئی باہر کا مضمون نہیں.چنانچہ اس مضمون پر مزید روشنی آنحضرت ﷺ کی ایک اور حدیث سے پڑتی ہے آپ نے فرمایا کہ جب تمہیں پتا چلے کہ امام مہدی ظاہر ہوا ہے.امام مہدی نے کسی جگہ اپنے آنے کا اعلان کیا ہے تو اُس کی طرف جاؤ خواہ تمہیں برف کے تو دوں پر گھٹنوں کے بل بھی اس تک پہنچنا پڑے.(ابن ماجہ کتاب الفتن حدیث نمبر : ۴) یہ وہی اذان کا جواب ہے جو میں بیان کر رہا ہوں کہ سورہ جمعہ میں ذکر ہے اور امام مہدی علیہ السلام کی اذان سے اس کا تعلق ہے ورنہ آنحضرت ﷺ اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں فرمایا کرتے تھے.وحی پر مبنی باتیں تھیں اور قرآنی مضامین کو سمجھ کر انہی مضامین کو اپنے الفاظ میں بیان فرماتے تھے کہ اگر تم سنو کہ امام مہدی ظاہر ہو گیا ہے تو خواہ برف کے تو دوں پر یعنی گلیشیرز پر سے گھٹنوں کے بل بھی چل کر جانا پڑے تو اس تک پہنچو اور پہنچ کر کیا کرو.ایک حدیث میں آتا ہے اُسے میر اسلام کہو.اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ آنحضرت ہی اللہ کو اپنے عاشقوں کا کتنا خیال ہے کہ آخر تک کے تمام زمانے پر نظر ڈال کر ایک ایسا عاشق نظر آیا جس کے متعلق آپ کا دل یقین کے ساتھ گواہی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 83 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء دے رہا تھا کہ ایسا عشق مجھ سے اور کوئی نہیں کرے گا اور اس کے جواب میں اس کو بتانے کی خاطر کہ میری تیرے دل پر نظر ہے ، خدا نے مجھے تیری کیفیات سے آگاہ فرما دیا ہے.یہ حکم دیا کہ جو کوئی بھی اس آواز کو سنے وہ برف کے تو دوں پر سے بھی گھٹنوں کے بل چلے اور وہاں پہنچے اور امام مہدی علیہ السلام کو میر اسلام کہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب لدھیانہ میں تشریف لے گئے اور وہاں غیروں نے اکٹھے ہو کر شور کیا اور بڑے گندے رنگ میں بہت مخالفت کا اظہار کیا تو اس وقت چوٹی کے ایک مولوی جن پر اُن کی نظر تھی کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذ باللہ مغلوب کر سکتے ہیں اُن کو او پر بھیجا گیا اور ان کی یہ کیفیت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتے ہی اُن کے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ سچا ہے.کوئی کج بحثی کی بجائے مخالفت کی بات کرنے کی بجائے آپ نے صلى الله.کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر کی اور کہا کہ میں آج محمد مصطفی علیہ کا سلام آپ کو پہنچا تا ہوں کیونکہ آپ ہی سچے مہدی ہیں ، آپ ہی کے متعلق ہمیں حکم ملا ہے.پس وہ قرب جس کا اس حدیث میں ذکر ہے اسی قرب کا سورۃ جمعہ میں بھی ذکر ہے اور اس آواز پر کیسے لبیک کہنا ہے اس کا اِن کھلی کھلی احادیث میں ذکر ہے.پس جماعت احمدیہ کو جمعہ کے ساتھ بہت گہری وابستگی ہے اور جمعہ کے عظیم معنوں میں جمعہ کے ساتھ ایک ایسا تعلق قائم ہوا ہے جودنیا کی کسی جماعت کو کبھی اس طرح نصیب نہیں ہوا.پس جمعہ کے ساتھ جیسا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہہ کر تعلق جوڑا ہے اسی طرح اس جمعہ سے بھی تعلق جوڑیں کیونکہ یہ جمعہ اور مسیح موعود علیہ السلام کو الگ نہیں کیا جا سکتا.آپ کا نام جمعہ رکھا گیا اس لئے لازم ہے کہ ہم اس جمعہ کی ظاہری تقریب کو بھی ایک تقدس کا مقام دیں.ایک محبت کا مقام دیں.ایک عزت اور احترام کا مقام دیں.آپ بھی اس کے ساتھ وابستہ ہوں.اپنی اولا دوں کو بھی اس کے ساتھ وابستہ کریں اور اب جبکہ خدا تعالیٰ نے یورپ کے براعظم کے ساتھ یہ احسان کا سلوک فرمایا ہے اور اس احسان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کی ہجرت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.جس علاقے نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والے کو پناہ دی ہو اس علاقے کے مقدر میں کچھ برکتیں لکھی جاتی ہیں.کچھ سعادتیں اس کو نصیب ہوتی ہیں ، پس یہ سعادت بے وجہ نہیں ہے.انگلستان نے اس ہجرت میں جماعت احمدیہ کے مرکز کو پناہ دی ہے اور یہ مقدر تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 84 خطبہ جمعہ ۳۱ / جنوری ۱۹۹۲ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی طور پر اپنے نام کو آدھا عربی رسم الخط میں اور آدھا انگریزی رسم الخط میں لکھا ہوا دیکھا.(تذکرہ صفحہ نمبر ۲۶) یہ ایک پیشگوئی تھی کہ کسی وقت آپ کا ایک ایسا خلیفہ کچھ عمر مشرق میں بسر کرنے کے بعد وہاں کے مرکز سے تعلق رکھتے ہوئے کچھ عمر کا حصہ مغرب میں بسر کرے گا.یہ عرصہ کتنا ہوگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن یہ پیشگوئی یقینی طور پر بتا رہی تھی کہ حضرت مسیح موعود کے کسی خلیفہ کو آپ کی نمائندگی میں ہجرت کرنی ہوگی اور انگلستان میں اس کو پناہ دی جائے گی ورنہ مسیح موعود علیہ السلام کا آدھا نام انگریزی میں لکھنے کا کوئی اور مفہوم سمجھ میں نہیں آسکتا.پس یہ وہی برکت ہے مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کو پناہ دینے کی برکت جس کو خدا تعالیٰ نے مختلف رنگ میں مغرب کی جماعتوں کے لئے ظاہر فرمایا ہوا ہے اور فرماتا چلا جارہا ہے انگلستان اس بر اعظم کا حصہ ہے یہ برکتیں اس سارے براعظم پر پھیل رہی ہیں اور آج کا مبارک جمعہ جس نے یہ تقریب پیدا کر دی کہ ایک وسیع بر اعظم میں دور دراز کے لوگ عملاً امام وقت کے خطبہ کوئن بھی سکیں اور دیکھ بھی سکیں اور ایک گونہ بدنی شمولیت کا احساس اور لطف حاصل کر سکیں.یہ بھی ہجرت کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے یورپ کو عطا فر مایا.جمعیت کا جو یہ آغاز ہوا ہے اس میں چونکہ جمعہ کا بہت گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق میں بار بار بیان کر چکا ہوں اس لئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ جماعت اس سے حتی المقدور استفادہ کرے.جہاں جہاں ممکن ہو وہاں با قاعدہ مراکز مقرر کئے جائیں.امام مقرر کئے جائیں ان کی متابعت میں یہ خطبہ سننے کے بعد جو پیشگوئی کے رنگ میں پورا ہو رہا ہے اس لئے ہر گز سے ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس خطبہ کو کوئی بھی اہمیت نہ دی جائے کیونکہ یہ واقعہ اور یہ نظام عظیم الشان پیشگوئیوں کا مصداق ہے کہ امام جماعت احمدیہ کا خطبہ براہ راست دور دراز علاقوں میں سُنا بھی جاسکتا ہے اور دیکھا بھی جا سکتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نظام قائم ہونا چاہئے کہ یہ خطبہ اگر با قاعدہ جمعہ کا وقت ہو تو اس رنگ میں سُنا جائے کہ با قاعدہ مراکز قائم ہوں وہاں ائمہ مقرر ہوں اور وہاں یہ خطبہ سننے کے بعد پھر سنت کی ادائیگی کے رنگ میں ایک مختصر خطبہ امام دے دے.عربی کا مسنونہ خطبہ پڑھ سکتا ہے اور ضروری باتیں جو مقامی حالات کے مطابق کہنی ہیں مختصر کہہ دے اور پھر جمعہ کی باجماعت نماز کروائے.اس رنگ میں اس خطبہ کا ان کے مقامی جمعوں کے ساتھ امتزاج ہوسکتا ہے لیکن پورا جمعہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 85 59 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء میرے ساتھ وہاں نہیں پڑھا جا سکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کے آگے ہونا اور بھی بہت سی ظاہری شرطیں ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے اور میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ جائز ہوگا کہ جمعہ کی نماز میں وہ میرے ساتھ شامل ہو کر سمجھیں کہ ان کی باقاعدہ جمعہ کی نماز ہوگئی ہے.اس لئے میں تاکیڈا یہ کہتا ہوں کہ خطبہ سنہیں اُس سے استفادہ کریں.اس کے بعد مختصر خطبہ مسنونہ یا کچھ زائد دے کر اپنی نماز جمعہ پڑھیں.اس طرح انشاء اللہ بہت ہی بابرکت نظام قائم ہو جائے گا.جو آنحضرت ﷺ کی مقرر کردہ راہوں پر چلتے ہوئے اس زمانے کی برکتیں بھی حاصل کر رہا ہوگا.اس کے علاوہ گھر میں جو خواتین اور بچے ہیں جن کے لئے یہاں پہنچنا ممکن نہیں ان کو تو یہ تاکید ہے کہ جس جس کو استطاعت ہے اگر ایک گھر کو استطاعت ہے تو وہ خود اپنے لئے ڈش خریدے جس کے ذریعے یہ خطبہ دیکھا اور سُنا جاسکے اور اگر ایک گھر میں استطاعت نہ ہو تو محلہ کے دو چار گھر مل کر خواہ جمعہ وہاں با قاعدہ ادا ہو یا نہ ہو کوشش کریں کہ وہ خود بھی شامل ہوں اور اپنے بچوں کو بھی شامل کریں.چھوٹی عمر کے بچوں کو بھی ساتھ شامل کرنا چاہئے.کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ بچپن میں انسان جو چیزیں دیکھتا اور سنتا ہے ان کا بہت گہرا اثر دل پر پڑتا ہے اور ہمیشہ کے لئے وہ دل پر انمٹ نقوش بن جاتے ہیں.وہ نقوش دل پر بھی قائم ہوتے ہیں اور دماغ پر بھی قائم ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے جب میں قادیان کی گلیوں میں پھرتا تھا تو سب سے زیادہ وہ پرانے زمانے یاد آتے تھے وہ صحابہ یاد آتے تھے جو وہاں گزرا کرتے تھے.ہم ان کو پہلے سلام کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے.اکثر وہ ہم سے بھی پہل کر جاتے تھے.گلیوں میں اتنی کثرت سے صحابہ پھرتے ہوئے نظر آتے تھے.وہ فقیر درویش جو وہاں تھڑوں پر پڑے نظر آتے تھے.ان کے اندر بھی ایسا تقدس تھا کہ بچپن کی وہ یادیں انمٹ نقوش بن چکی ہیں اور قادیان کی گلیوں میں پھرتے ہوئے ظاہری طور پر دوسرے نظارے بھی میں دیکھ رہا ہوتا تھا لیکن دل اور دماغ ان پرانی یادوں میں بھی محو ہوتا تھا اور ان نظاروں کو دوبارہ نظر کے سامنے لے آتا تھا.تو اس لئے اگر بچپن میں اس قسم کی تقریبات میں شمولیت کی توفیق ملی ہو تو اس سے جماعت کے ساتھ ایک گہری وابستگی ہو جاتی ہے اور خلافت کے نظام کے ساتھ ہو جاتی ہے.پس بچوں کے لئے بھی ایک بہت خوبصورت موقع ہے.ان کو ایک دلکش سعادت مل رہی ہے کہ وہ بھی گھر بیٹھے اپنے ماں باپ کے ساتھ یہ چیزیں دیکھیں ان کو پھر خدا خود یہ توفیق دے گا کہ وہ موازنہ کریں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 86 98 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۹۲ء گے کہ یہ کس قسم کے ٹیلی ویژن کا نظارہ تھا اور وہ جو ہم دنیا کے ٹیلی وژنز پر دیکھتے ہیں وہ کس قسم کے نظارے ہوتے ہیں اور دل لازماً رفتہ رفتہ ان چیزوں کی طرف کھنچتے چلے جائیں گے کیونکہ نیکی کو اللہ تعالیٰ نے ایک طاقت عطا فرمائی ہے جو کوئی اس سے چھین نہیں سکتا.ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے.اس میں انہوں نے آنحضرت کے کے متعلق بتایا کہ آپ کو ہم نے ممبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ لوگوں کے جمعہ ترک کرنے کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچ جائیں گے کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور پھر وہ غافلوں میں جا شامل ہوں گے.( صحیح بخاری کتاب الجمعۃ ) پس خدا کرے کہ ہمیں توفیق ملے کہ جمعہ کی عظمت کو قائم کریں اور ایک بھی احمدی ایسا نہ ہو جو آنحضرت ﷺ کے اس انذار کا مصداق بنے اور خدا کرے کہ باقی دنیا میں بھی رفتہ رفتہ یہ رابطے قائم اور مضبوط ہوں اور گھر گھر میں جمعہ کی برکتیں پہنچیں.اس کا تبلیغ عالم کے ساتھ جو گہرا تعلق ہے اس سلسلہ میں میں کچھ خطبات پہلے دے چکا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ جب بھی توفیق ملے گی میں مزید بیان کروں گا کیونکہ جمعہ کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ سارے عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا جائے.جو مقدر ہے وہ تو ہے ہی لیکن اس مقدر کا ہماری تدبیروں سے ایک گہرا تعلق ہے اور جس احمدی نسل کو زیادہ قوت اور خلوص کے ساتھ اور زیادہ حکمت کے ساتھ وہ تدبیریں سوچنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی روحانی پھل انہی کے مقدر میں ہو گا وہ سارے وعدے انہی کے حق میں پورے ہوں گے.خدا کرے کہ ہماری یہ نسل وہ نسل نکلے جس کو خدا کے فضل کے ساتھ یہ توفیق ملے کہ قرآن کریم میں مندرج جمعہ سے متعلق پیشگوئیاں اور احادیث میں درج شدہ جمعہ سے متعلق پیشگوئیاں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمائی گئی جمعہ سے متعلق پیشگوئیاں تمام تر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور یہ نسل مبارک اور غیر معمولی سعادتوں والی وہ نسل ثابت ہو جو خود خدا کے ساتھ گہرا تعلق قائم رکھتے ہوئے یہ عظیم الشان فیض حاصل کرے اور پھر ہمارے ہاتھوں سے ساری دنیا کو یہ فیض نصیب ہو.ہم وہ کوثر بن جائیں جو محمد رسول اللہ یہ کی کوثر ہے جس کا فیض کبھی ختم نہیں ہوتا اور تمام دنیا میں اس کے فیض پھیلانے کے لئے آج ہمیں چنا گیا ہے.خدا کرے کہ ہم اس منصب کے اہل ثابت ہوں.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 80 87 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء مسیح محمدی کی غلامی میں مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ ۖ کا اعلان دعوت الی اللہ کے کام کو تیز سے تیز تر کر دیں ( خطبه جمعه فرموده ۷ فروری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ ليْهِ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ لا يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمُ وَيُدْخِلُكُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ فَأَمَنَتْ طَابِفَةٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ ظَابِفَةٌ ، فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوّهُمْ فَأَصْبَحُوا ظُهِرِينَ) (القف: ۱۱ تا ۱۵) پھر فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں میں نے یہ مضمون کھول کر بیان کیا تھا کہ جمعہ کا ایک معنی جمع کرنے کے ہیں اور آخری زمانہ میں جب تمام دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کیا جانا مقدر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 88 خطبہ جمعہ کے رفروری ۱۹۹۲ء ہے اس کا ذکرسورۃ جمعہ میں ملتا ہے اور أُخَرِيْنَ (الجمعہ :۴۰) میں ظاہر ہونے والے حضرت محمد مصطفے ے کے جس غلام کامل کا ذکر سورہ جمعہ میں کیا گیا ہے اسی کے زمانہ میں تمام دنیا کوامت واحدہ بنانا مقدر ہو چکا تھا اور اسی کا ذکر ہے جو قرآن کریم کی دیگر آیات میں ملتا ہے جن میں آنحضرت مے کے متعلق یہ خوشخبری دی گئی کہ آپ کے دین کو لازم دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے گالیکن یہ کیسے ہوگا اور اس ضمن میں وہ آخرِینَ یعنی جماعت احمدیہ سے منسلک وہ سعید بخت روحیں جن کو خدا تعالیٰ نے اس عظیم الشان کام کے لئے منتخب فرمایا ہے وہ کیا کریں اور کیسے کوشش اور جد و جہد کریں کہ اس عظیم الشان بلند مقصد کو حاصل کر سکیں ؟ عاجز بندے ہیں، بے اختیار ہیں، بے کس ہیں، بے بس ہیں، دنیا کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتے لیکن ایک بہت بڑا مقصد اور ایک بہت عظیم الشان فریضہ ہے جو مسیح موعود علیہ السلام کے ان عاجز غلاموں کے سپر دفرمایا گیا اسے کیسے حاصل کیا جائے گا ؟ اس ضمن میں قرآن کریم نے جو طریق بتایا ہے وہ آج میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.سورہ جمعہ سے پہلے سورہ صف ہے اور القف اور الجمعہ کے مضامین ایک دوسرے سے گہرا رابطہ رکھتے ہیں.اور سورہ جمعہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جس اذان کا ذکر ہے وہ تو ایک ایسی اذان بھی ہے جو ہر جمعہ کو ہر مسجد سے دی جاتی ہے لیکن ایک وہ عالمی اذان بھی ہے جس کو امام مہدی نے آنحضرت ﷺ کے دین کی طرف بلاتے ہوئے دینا تھا اور سورۃ الصف میں اس امام مہدی کے ظہور کا ذکر موجود ہے جس نے مسیح کی شکل میں احمد کی تمثیل بن کر اس دنیا میں آنا تھا.یہ ایک تفصیلی اور لمبا مضمون ہے لیکن اگر آپ سورۃ الصف کا بغور مطالعہ کریں اور اس کے بعد سورۃ الجمعہ کے مضامین پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ الصف میں جس غلام کامل حضرت محمد مصطفی میت اللہ کی خبر دی گئی تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ کی احمد شان کا مظہر بن کر دنیا میں آئے گا اس کے سپر د جو عظیم الشان کام ہونا تھا وہ کیسے سرانجام پانا تھا ؟ اس کا ذکر سورۃ الصف میں تفصیل سے موجود ہے.اور سورۃ جمعہ میں بتایا گیا کہ وہ لازماً کامیاب ہوگا اور ایک ایسا وقت آئے گا کہ تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا جائے گا.پس ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ سورۃ الصف میں بیان کردہ ان صفات پر غور کرے جو مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی صفات ہیں.جن کے متعلق فرمایا گیا کہ اگر تم یہ صفات اختیار کرو گے ، یہ اطوار اپنا ؤ گے اپنی زندگی کو اس طرز پر ڈھال لو گے تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ فتح جو
خطبات طاہر جلدا 89 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء بظاہر دور دکھائی دیتی ہے.وہ قریب لائی جائے گی اور وہ نصرت جس کے وعدے تم سے کئے گئے تھے تم اپنی آنکھوں کے سامنے اس کو دیکھ لو گے.جو آیات قرآنیہ میں نے تلاوت کی ہیں یعنی جو سورۃ الصف سے اخذ کی ہیں ان کا اب میں ترجمہ کرتا ہوں اس سے آپ کو کھلا کھلا وہ پیغا مل جائے گا جو آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی آنے والی جماعت کی صفات کے طور پر کھول کر دیا.یہ کہنا کہ اس کا تعلق صرف مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے ہے درست نہیں اس لئے پیشتر اس سے کہ میں ان آیات کا ترجمہ کروں اس مضمون کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں.الله سب سے اول اور سب سے آخر حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ اور آپ کے ساتھی ہیں.تمام پیشگوئیاں جن میں احمد کی پیشگوئی بھی شامل ہے اول طور پر حضرت اقدس محمد مصطف مع ہے کے متعلق ہی ہیں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اور آپ کی صفات کا ذکر ہے تو ان معنوں میں نہیں کہ صرف آپ کے لئے یہ مخصوص تھیں اور کسی اور کے لئے نہیں بلکہ ان معنوں میں کہ یہ تمام پیشگوئیاں حضرت محمد مصطف عمل ہے اور آپ کے غلاموں کے لئے ہیں اور جو صفات حسنہ بیان ہوئیں وہ بھی آپ کے غلاموں پر صادق آتی ہیں لیکن آخرین کے پل کے ذریعہ، آخرین کے رابطے کے ذریعہ جسے سورۃ جمعہ نے ہمارے سامنے رکھا آپ کو اولین سے ملایا گیا ہے اور ملانے کے معانی یہ تو بہر حال نہیں لئے جاسکتے کہ ایک وقت میں یا ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں گے.نہ ہم جگہ کے لحاظ سے ، نہ ہم وقت کے لحاظ سے ان اولین میں شامل ہو سکتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں بار ہا فرمایا گیا.پس ملنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ صفات کے ذریعے ملنے کی صورت ہے، اخلاق کے ذریعے ملنے کی صورت ہے، کردار کے ذریعے ملنے کی صورت ہے اور لگن کے ذریعے ملنے کی صورت ہے.پس یہی وہ مضمون ہے جو سورہ صف میں اس رنگ میں بیان فرمایا گیا کہ اولین پر تو ضر ور صادق آیا لیکن آخرین پر بھی صادق آئے گا اور لازم تھا کہ صادق آتا کیونکہ اس کے بغیر آخرین کو اولین سے ملایا جا ناممکن نہیں پس اس وضاحت کے ساتھ اب آپ اس ترجمہ کو پیش نظر رکھیں جو میں آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں فرمایا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيْمِ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں ایک تجارت کی اطلاع نہ دوں.ایک تجارت کی
خطبات طاہر جلدا 90 90 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء خبر نہ دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گی.دنیا کی کوئی تجارت ایسی نہیں جو کسی کو دردناک عذاب سے بچا سکے.پس تجارتوں کے دور میں جبکہ دنیا کی توجہ بیع کی طرف ہو اس وقت ایک ایسی تجارت کی خوشخبری دینا جو ہر قسم کے درد ناک عذاب سے نجات کی ضمانت دیتی ہو ایک بہت عظیم الشان خوشخبری ہے فرمایا وہ کیسے ہوگا؟ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ یہ تجارت اس طرح کی جاتی ہے کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور پھر اُس کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کا جہاد کرو یعنی اس تجارت کو تم اس طرح پاؤ گے کہ تم خدا پر ایمان لاؤ گے اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ گے اور خدا اور اس کے رسول کی راہ میں اپنے اموال کا بھی جہاد کرو گے اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کرو گے.ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تمہیں پتا ہو کہ اس تجارت کے کیسے کیسے فوائد ہیں اگر تم اس تجارت کی حقیقت سے آگاہ ہو جاؤ تو تمہیں سمجھ آئے گی کہ یہ تجارت تمہارے لئے ہر دوسری چیز سے بہتر ہے.ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُم.یہ ایسی تجارت ہے جس میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور کوئی نقصان کی بات نہیں.اِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ کا یہ بھی معنی لیا جا سکتا ہے کہ کاش تمہیں علم ہوتا ، کاش تم سمجھ سکتے اگر تم سمجھ سکتے تو ضرور یہ بات مان لیتے کہ اس تجارت میں بہت بڑے فوائد ہیں اور کچھ فوائد خدا اس کے بعد گن کر بتاتا ہے.فرمایا: يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ.اس تجارت کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ خدا تمہارے گناہوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.کون انسان ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ میں گناہ گار نہیں ہوں ؟ جو گناہ گار نہیں تھے وہ بھی استغفار ہی کرتے رہے.سب سے بڑھ کر معصوم اور قطعی طور پر معصوم حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کی ذات تھی.آپ کا بھی لمحہ لمحہ استغفار میں گزرا.پس وہ لوگ جو حقیقۂ گناہوں میں ڈوبے پڑے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی گناہ میں ملوث نہ ہو جاتے ہوں ان کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے.فرمایا تم اس تجارت میں لگ جاؤ تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے گناہوں سے صرف نظر فرمائیں گے اور انہیں بخش دیں گے.وَيُدْخِلُكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ اور ایسی جنتوں میں تمہیں داخل کریں گے جہاں نہریں بہتی ہوں.تمہاے قدموں تلے نہریں بہہ رہی ہوں.وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً اور بہت ہی پاکیزہ گھر میسر ہوں.فِي جَنَّتِ عَدْنٍ.ایسی جنتوں میں جو ہمیشگی کی جنتیں ہیں کوئی عارضی مقام نہیں ہے، کوئی ایسا گھر نہیں ہے جو آج لیا اور کل بیچ دیا آج ملا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 91 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء اور کل کسی نے باہر نکال دیا بلکہ ایسا گھر ہے جو بینگی کا ہے اور کوئی اس میں سے تمہیں باہر نہیں نکال سکے گا.ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظيم اسے کہتے ہیں عظیم کا میابی یعنی یہ مقصد حاصل ہو جائے کہ انسان کے گناہ بخشے جائیں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اسے ہمیشگی کی جنتیں عطا ہو جائیں تو اس کا نام فوز عظیم ہے.یہ فوائد ہیں جو اس تجارت سے ہیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا لیکن ان فوائد کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے سے ہے.یعنی آخرت سے ہے.دور کے فوائد ہیں اگر چہ وہ دور ہر انسان کے قریب بھی ہے.کوئی نہیں جانتا کہ کس وقت وہ مرکز خدا کے حضور حاضر ہو جائے گالیکن جولوگ اس دور میں مگن رہتے ہیں ان کو وہ دنیا جو مرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے بہت دور دکھائی دیتی ہے.پس پہلے وہ فوائد بیان کئے جو حقیقی ہیں، جو اصلی ہیں جو لا زما نصیب ہوں گے اور ہمیشہ کے لئے ہوں گے اور اولیت ان ہی کو ملنی چاہئے لیکن پھر دنیا کے فوائد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تمہیں جو برکتیں اس جہاد سے نصیب ہوں گی وہ صرف مرنے کے بعد نہیں ہوں گی بلکہ اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے، اپنے جیتے جی تم اُن برکتوں کو دیکھ لو گے اور وہ کیا ہیں فرمایا: وَ أُخْرَى تُحِبُّونَهَا اور ایک دوسری بڑی کامیابی تم کو یہ نصیب ہو گی جو تم دل و جاں سے چاہتے ہو اس سے تمہیں محبت ہے یعنی نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِیب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں نصرت عطا ہوگی اور فتح تمہارے قریب لائی جائے گی.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اور اے محمدﷺ! مومنوں کو بشارت دے دو کہ ایسا ہوگا اور ضرور ہوکر رہے گا.اب یہاں نَصْرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ کی جو خوشخبری ہے اس کی تفصیل سورۃ النصر میں ہمیں یوں ملتی ہے إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِيْنِ اللهِ أَفْوَاجًان کہ وہ وقت یاد کرو جب تم خدا کی نصرت اور فتح کو دیکھو گے.جب نصرت اور فتح تمہیں عطا کی جائے گی اور اس شکل میں کہ فوج در فوج لوگ خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہوں گے اور فرمایا کہ مومنوں کو سب سے زیادہ اس چیز سے محبت ہے.ہر وقت وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو کاش ہم اپنی آنکھوں سے فتح کا وہ دن دیکھ لیں تو فرمایا جس تجارت کی طرف ہم تمہیں بلا رہے ہیں اس تجارت کے دائمی فائدے تو ہیں ہی جو لازماً نصیب ہوں گے لیکن تم تو چاہتے ہو کہ مرنے سے پہلے فتح اور نصرت کا دن بھی دیکھ لو.اگر یہی تمہاری تمنا ہے، اسی مقصد سے تمہیں دلی محبت ہے تو فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 92 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء جو تجارت کرنے کے لئے ہم تمہیں ہدایت دے رہے ہیں وہ تجارت کرو.اللہ تعالیٰ وعدہ فرما تا ہے کہ وہ نصرت اور فتح ضرور عطا فرمائے گا اور یہ یقین دلانے کے لئے فتح کو قریب لا کر دکھایا گیا کہ اگر چہ آخری زمانہ میں فتح دور دکھائی دے گی اور بظاہر ناممکن ہوگا کہ کوئی ایک نسل اپنی آنکھوں سے اس فتح کو دیکھ لے لیکن اگر اس تجارت میں مگن ہو جائے جس تجارت کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ اس فتح کو قریب کیا جائے گا.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ مومنوں کو بشارت دو اعلان عام کر دو کہ خدا کے فضل کے ساتھ یہ ساری نعمتیں تمہیں عطا ہونے والی ہیں.اس کے بعد فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ.جس تجارت کا ذکر گزرا ہے اس تجارت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو.كُونُوا اَنْصَارَ الله تم خدا سے نصرت چاہتے ہو تو خدا کی نصرت تو کرو جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ نصرت کے لئے خدا کے حضور حاضر کرد و یعنی اپنی سب طاقتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نصرت کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسان اپنی ساری زندگی کے روز مرہ تجربہ میں دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے اگر کوئی شخص اپنا سب کچھ آپ کے حضور پیش کر دے تو فطری تقاضا ہے کہ آپ اپنا سب کچھ اس کو پیش کرنا چاہیں لیکن جب میں فطری تقاضا کہتا ہوں تو مرادان لوگوں کا فطری تقاضا ہے جن کی فطرت سلیم ہو ، جن کی فطرت پر میل نہ پڑ گئی ہو، جو وہی فطرت رکھتے ہوں جس فطرت پر پیدا کئے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر انسان کو صحیح کچی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی صورت پر انسان کو پیدا کیا ہے.پس یہ جو مضمون ہے کہ اللہ کی فطرت پر انسان پیدا کئے گئے اس مضمون سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر آپ کی فطرت صحیح ہو اور اس میں دنیا کی ملونی کی وجہ سے گندگی شامل نہ ہو گئی ہو تو خدا تعالیٰ آپ سے جو سلوک کرے گا اسے پہچاننے کے لئے اپنے نفس کو پہچانیں.جو سلوک آپ خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں یہ دیکھیں کہ آپ وہ سلوک لوگوں سے کس صورت میں کیا کرتے ہیں اور لوگ وہ سلوک آپ سے کب کیا کرتے ہیں.پس اپنے نفس کو پہچاننے کے ذریعہ تم خدا کو پہچان سکو گے اور خدا تعالیٰ سے تعلقات کو درست کر سکو گے.پس یہ وہی مضمون ہے جو بیان فرمایا گیا پہلے فرمایا کہ نصرت تمہیں ضرور عطا ہوگی اگر تم وہ تجارت کرو جس کی طرف تمہیں بلایا جارہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا گیا کہ اس تجارت کے لئے شرط ہے کہ خدا کی خاطر مسیح کے انصار بنو.جو لفظی ترجمہ ہے وہ یہ ہے مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ کہ اللہ کے
خطبات طاہر جلدا 93 خطبہ جمعہ سے فروری ۱۹۹۲ء مسیح نے کہا کہ کون ہے جو میرے انصار بنیں اللہ کے لئے.تو مراد یہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام تو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا مسیح جو مسیح مہدی ہو گا.حضرت محمد مصطفی ماہ کے دین کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کرنے کے لئے آئے گا تمہیں اس کا انصار ہونا پڑے گا اور انصار بھی دل و جان کے ساتھ جو کچھ تمہارے حضور ہے، تمہارے پاس ہے اس کے حضور حاضر کرنا ہوگا اپنی جان کے تحفے بھی پیش کرنا ہوں گے.اپنے اموال کے بھی تھے پیش کرنا ہوں گے اور دن رات بی گن لگانی ہوگی کہ ہم جس طرح بھی بس چلے اور جو کچھ بھی ہمارا اختیار ہے ہم نصرت دین کے لئے اپنے آپ کو ناصر بنادیں اور خدا کی راہ میں ہم جو کچھ بھی خدمت کر سکتے ہیں وہ بجالائیں.انصار اللہ میں ایک دائمی حالت کا ذکر فرمایا گیا ہے.اگر نصرت طلب کی جائے تو نصرت وقتی بھی ہو سکتی ہے لیکن مسیح ناصری کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے وقتی نصرت طلب نہیں کی تھی.چند قربانیوں کی طرف نہیں بلایا تھا اُس نے کہا تھا کہ.مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ کون ہے جو اللہ کی خاطر میرا مددگار بنتا ہے اور یہاں انصار سے مراد ہے ساری زندگی کے لئے مددگار بنارہنا کسی عارضی مدد کے لئے پیش نہ کرنا بلکہ ہمیشہ کے لئے خادموں کی فہرست میں شامل ہو جانا.چنانچہ اس مضمون کو سمجھتے ہوئے انہوں نے یہی جواب دیا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ ان کے جواب میں یہ نہیں تھا کہ ہاں ہم اللہ کے لئے تیرے مددگار بنتے ہیں بلکہ وہ اس مضمون کو خوب سمجھ گئے تھے کہ مسیح کا مددگار بننا اور اللہ کا مددگار بننا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس مسیح نے تو خوب وضاحت کر دی کہ اللہ کی خاطر میرے مددگار بنو.جواب میں انہوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ.ہاں ہم حاضر ہیں ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہمیشہ اللہ کے مددگار رہیں گے تو مضمون ایک ہی ہے لیکن اختصار کے ساتھ بیان فرمایا گیا اور یہ بتایا گیا کہ دونوں باتیں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس مسیح مہدی کے انصار بننا اور اللہ کے انصار بنا یہ دو مختلف چیزیں نہیں ہیں.فرمایا کہ جب تم تجارت کرو گے اور اس رنگ میں تجارت کرو گے تو پھر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ ضرور تمہارا مددگار ہوگا اور وہ فتح جو تمہیں دور دکھائی دیتی ہے وہ تمہارے قریب لائی جائے گی.یہ وہ مضمون ہے جسے جماعت احمدیہ کو خوب اچھی طرح سمجھ کر اس پر عمل درآمد کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اس کے بغیر ہم اگلی سورۃ میں دی گئی خوشخبری کے اہل نہیں ہوسکیں گے اور وہ سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ مسیح محمدی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 94 خطبہ جمعہ کے رفروری ۱۹۹۲ء علوم جب یہ اعلان کرے گا کہ میرے انصار بنو تو اس شان کے ساتھ اس کی آواز پر لبیک کہا جائے گا کہ خدا تعالیٰ سورہ جمعہ میں گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ جو آئندہ زمانے میں ظاہر ہونے والے مسیح کے انصار بنیں گے ان کو اولین سے ملایا جائے گا اور ان کو ایک ہی مقام پر جمع کر دیا جائے گا یعنی محمد مصطفی سے کے اولین غلاموں کے ساتھ ان کو اکٹھا کر دیا جائے گا.پس کتنا بڑا انعام ہے، کتنی بڑی خوشخبری ہے جو آپ کے لئے ، جو آخرین کی جماعت میں مقدر ہو چکی ہے جس کا قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر موجود ہے اور وہ طریق کار بھی بتا دیا گیا جس طریق پر آپ نے مسیح کی نصرت کرنی ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا اور آپ کو بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کی توفیق بخشے گا.اس ضمن میں میں بہت سے خطبات پہلے بھی دے چکا ہوں اور ان خطبات میں میں نے جماعت کی تنظیموں کو نصیحت کی تھی کہ آپ اس کام کو اس طرح مرتب کریں ، اس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ بجالائیں کہ تمام احمدی جن کے دل میں خدمت کا کچھ بھی جذبہ ہے وہ اس نظام سے وابستہ ہو جائیں اور اس سے استفادہ کریں اور پھر اس کی نگرانی رکھیں اور حتی المقدور کوشش کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانا شروع کریں.میں نہیں جانتا کہ منتظمین نے یا اصلاح و ارشاد کے سیکرٹریوں یا دعوت الی اللہ کے سیکرٹریوں نے کس حد تک اس طرف توجہ کی یا امراء نے اپنے فرائض کو اچھی طرح سمجھ کر انہیں بجالانے کی کوشش کی.تمام دنیا کی جماعتوں میں مختلف رد عمل ہوں گے.کہیں کوئی امیر زیادہ مستعد ہیں کہیں کوئی امیر ذاتی طور پر دعوت الی اللہ سے قلبی تعلق رکھتے ہیں ایسی جگہوں میں یقیناً خدا کے فضل سے اچھے نتائج نکلے ہوں گے لیکن بہت سی ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں امراء کے پاس یا وقت نہیں ہے یا مزاج اور دماغ نہیں ہے کہ ان باتوں کو سن کر اس طرح ان پر عمل درآمد کریں یا بعض دفعہ ان کو ایسے مددگار میسر نہیں ہوتے جو ان کی باتوں کو سُن کر توجہ کریں اور ان کی مدد کریں.پس اسی لئے میں نے ان خطبات کے آخر پر دعا کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تمام عہدیداران عہد یداران جوان نصیحتوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ یہ مددمانگیں کہ:
خطبات طاہر جلد ۱۱ 95 95 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَل لِّي مِن لَّدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا (بنی اسرائیل (۸) کہاے میرے اللہ ! مجھے اس اعلیٰ مرتبہ اور اس اعلیٰ مقام پر فائز فرما.مجھے اس اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فر ما آدخِلْنِی سے مراد مجھے داخل کر دے.مُدْخَلَ صِدْقٍ، سچائی کے ساتھ کس میں داخل کر دے؟.یہاں مراد یہ ہے کہ اس مقام محمود کی طرف لے جا.اس اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا دے جس کا تو محمد مصطفی علیہ سے وعدہ فرماتا ہے اور آپ کی غلامی میں اس کا کچھ نہ کچھ فیض ہمیں بھی میسر آنا ہے.ساتھ ہی میں نے توجہ دلائی کہ اس دُعا کا انجام یہ بیان فرمایا گیا اور آخرت پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ وَ اجْعَلْ لِي مِن لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا.میں کامیابی کی طرف کوئی بھی قدم کامیابی کے ساتھ اُٹھا نہیں سکتا جب تک مجھے تیری طرف سے کوئی مدد میسر نہ ہو جو سلطان ہو جو غالب آنے کی طاقت رکھتا ہو ایسا مددگار مجھے ضرور مہیا فرما کہ اس کے بغیر میرا سفر طے نہیں ہوسکتا تو یہاں بھی ایک نصیر کا ذکر ہے.پس اللہ تعالیٰ کی نصرت کرنے کے لئے بھی ایک کا نصیر کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نصیر ملکوتی طاقتوں سے تعلق رکھنے والا نصیر ہے.اگر چہ دنیا میں بھی یہ نصیر میسر آتے ہیں اور بارہا ہم نے ان دعاؤں کے نتیجہ میں انسانوں کو ان معنوں میں نصیر بنتے دیکھا ہے جن معنوں میں قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں که اول طور پر یہاں ملکوتی طاقتیں مراد ہیں یہاں جبرائیل کی طرف اشارہ ہے اور جبرائیل کے تابع جتنی قوتیں انسان کو نیکی کی طرف لے جاتی ہیں اور اندھیروں سے نکالتی ہیں ان سب طاقتوں سے مدد مانگنے کی ایک التجا ہے جو اس دُعا میں کی گئی ہے.پس خدا تعالی کی نصرت کرنے کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے نصرت مانگنی پڑے گی.ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا مضمون آپ دیکھیں ہر جگہ پھیلا پڑا ہے.زندگی کا کوئی شعبہ نہیں ہے جو اس دعا کے اثر سے باہر ہو.تو پہلی نصیحت میری آپ کو بھی یہی ہے جیسا کہ تمام عہدیداران کو کی تھی کہ بحیثیت احمدی ہر شخص کا کام ہے کہ وہ نصرت کے لئے تیار ہو اور نصرت کے لئے ہر وقت اللہ سے نصرت طلب
خطبات طاہر جلد ۱۱ 96 96 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء کرے.ایک نصرت آغاز میں ہوگی اس کے نتیجہ میں آپ کو نصیر یا انصار بنایا جائے گا.اور ایک نصرت اس کے بعد آئے گی جو اس کے نتیجہ میں ظاہر ہوگی اس مضمون کو آپ سمجھیں تو خدا تعالیٰ کی دو صفات کے مضمون کو آپ سمجھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ اول بھی ہے اور آخر بھی ہے.پہلا بھی ہے اور سب سے بعد بھی ہے یعنی خدا کے بغیر کوئی برکت والی بات شروع ہو ہی نہیں سکتی اور جب آپ شروع کرتے ہیں تو ہر نیک انجام جو ظاہر ہوتا ہے ہر نیک نتیجہ جو نکلتا ہے اس میں بھی آپ خدا تعالیٰ کا تصور دیکھتے ہیں اور بالآخر خدا کو اپنی جزا دینے کیلئے آخر پر منتظر پاتے ہیں.پس نصیر بننے کے لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بار بار یہ دعامانگنی ضروری ہے کہ اے خدا ہمیں نصیر عطا فر ما یعنی روحانی طور پر ہمارے دلوں کو طاقت بخشنے والا، ہمارے دماغوں کو اس نہج پر چلانے والا ، ہماری سوچوں کو روشن کرنے والا ، ہماری کوششوں میں برکت ڈالنے والا، ایسا نصرت کرنے والا عطا فرما جو سلطان ہو جس میں یہ طاقت ہو کہ جب کسی کی مدد کرے تو اس کی مدد کامیابی اور قوت کے ساتھ کرے اور اس مدد کا نیک نتیجہ ظاہر ہو.پس آج کے خطبہ میں اور شاید اس کے بعد بھی ایک دو اور خطبوں میں میں جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے ہر فرد بشر کو جو احمدیت سے تعلق رکھتا ہے براہ راست یہ پیغام دیتا ہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور تبلیغ اس طرح کریں جس طرح قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کی تفصیل میں کچھ تعلق اور باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس آیت میں جو عمومی تصویر کھینچی گئی ہے اسے ہم اُردو میں اس طرح پیش کر سکتے ہیں کہ تن من دھن کی بازی لگا دو اپنا سب کچھ اس راہ میں جھونک دو کچھ بھی باہر نہ رکھو.یہ وہ چیز ہے جو گن سے ن رکھتی ہیں جیسے کسی چیز کی لو لگ جاتی ہے، کسی چیز سے انسان کو عشق ہو جائے.وہ کیفیت ہے جو بیان فرمائی گئی ہے اور یہ ایک مضمون نگاری نہیں بلکہ فی الحقیقت ہے یہی معنی ہیں اور اس کے سوا کوئی اور معنی نہیں بنتے ہیں جو اس آیت میں بیان فرمائے گئے کیونکہ عشق کے بغیر انسان نہ تو اپنا مال پیش کر سکتا ہے نہ جان پیش کر سکتا ہے.کوئی پاگل تو نہیں ہو گیا کہ کسی کو اپنا سب کچھ دے دے، مال بھی دے دے اور جان بھی دے دے.یہ مضمون عشق سے تعلق رکھتا ہے اگر انسان محبت میں پاگل ہو تب ہی وہ ایسی حرکت کرتا ہے ورنہ کوئی سر پھرا تو نہیں کہ بے وجہ کسی کو اپنا مال بھی دے دے اپنی جان بھی اس
خطبات طاہر جلدا 97 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء کے حضور حاضر کر دے جب فرمایا: مَنْ اَنْصَارِى إِلَی اللہ.تو دراصل کن معنوں میں انصار بننا تھا اس کا نقشہ پہلے ہی کھینچا گیا ہے اور اس کے بعد مسیح کا یہ پیغام دیا گیا تا کہ انسان خوب اچھی طرح سمجھ لے کہ جب میں نے خدا کی راہ میں مسیح کے انصار میں داخل ہونا ہے تو مجھ سے کیا توقع کی جاتی ہے.ناصر بننا کس کو کہتے ہیں؟ پہلے خوب سمجھایا گیا پھر مسیح کا دعوی پیش کیا گیا پھر مسیح موسوی کی قوم کا جواب پیش کیا گیا اور عملاً یہ صلائے عام دی گئی کہ اے محمد مصطفے ﷺ کے غلاموا مسیح موسوی سے اس کی قوم نے جو محبت اور عشق کا سلوک کیا تھا کیا تم مسیح محمدی سے اس سے بڑھ کر محبت اور عشق کا سلوک نہیں کرو گے؟ اگر مسیح موسوی کے غلاموں نے بڑی شان کے ساتھ اور بڑی عاجزی کے ساتھ اور کامل خلوص اور صدق کے ساتھ خدا کی خاطر مسیح کے حضور اپنے اموال اور جانیں پیش کر دیئے تھے تو کیا تم بھی ایسا نہیں کرو گے یہ وہ سوال ہے جو اس میں مضمر ہے، اس میں شامل ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ایک عشق کا نظارہ ہے.حضرت مسیح کے انصار کے حالات پر آپ نظر ڈالیں تو واقعہ یوں لگتا ہے جیسے وہ دیوانے ہو گئے.ایک وہ کیفیت تھی جب حضرت مسیح صلیب کی آزمائش سے ابھی گزرے نہیں تھے.اس کیفیت میں آپ بعض دفعہ ان کے متعلق ایسے تبصرے بھی کر دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ایمان میں کوئی جلا نہیں تھی ، کوئی خاص شان نہیں تھی، ایسے بھی تھے جنہوں نے دنیا کی لالچ میں مسیح پر لعنت بھیج دی.ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر مسیح کو سولی پر لٹکوا نا گوارا کر لیا لیکن میں بعد کی بات کر رہا ہوں.جب مسیح نے قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو اس وقت ان کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوا ہے اور وہی انصار جو ڈرے ڈرے، چھپے چھپے کمزور دکھائی دیتے تھے انہوں نے پھر اتنی عظیم الشان قربانیاں پیش کی ہیں کہ تاریخ نبوت میں حضرت محمد مصطفے ہے کے دور کے سوا آپ کو کہیں ایسی عظیم الشان قربانیاں دکھائی نہیں دیں گی.تین سو سال کے عرصہ پر پھیلی ہوئی ایسی دردناک قربانیاں ہیں اور ایسی مستقل مزاجی رکھنے والی قربانیاں ہیں کہ جن میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی کبھی کوئی کمزوری نہیں آئی ایک نسل بھی بعض دفعہ قربانیاں کرتے ہوئے تھک جاتی ہے اور یہ پوچھنا شروع کر دیتی ہے کہ کب خدا کی مدد آئے گی؟ کب ہمارے دن بدلیں گے؟ لیکن مسیح کی دعوت پر جن لوگوں نے نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ کہا کہ ہم انصار اللہ ہیں انہوں نے اس وعدہ کا حق ادا صلى الله
خطبات طاہر جلدا 98 88 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء کر دیا اور جانیں دیں، جانوروں کے سامنے ڈالے گئے ، درندوں کے سامنے ڈالے گئے ،لوگ بڑے بڑے تھیڑ زمیں اور تماشہ گاہوں میں بیٹھے ہوتے تھے اور ان کے سامنے پنجروں سے بھوکے شیر یا بیل یا اور قسم کے خوفناک جانور حضرت مسیح کے غلاموں پر چھوڑے جاتے تھے کیونکہ وہ دنیا کی خاطر دین کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے.ان کو پہلے ڈرایا جاتا تھا اور ان کی عاقبت کے بارہ میں خوب اچھی طرح خبر دار کر دیا جاتا تھا بار بار ان کو سمجھایا جاتا تھا کہ توبہ کرلو اور مسیح کو چھوڑ واور ہمارے خداؤں کے سامنے سر جھکاؤ ورنہ تمہارا یہ انجام ہوگا.یہ ساری باتیں سننے کے بعد یقین کرنے کے بعد وہ یہی کہا کرتے تھے.کہ ہم مسیح کو کبھی نہیں چھوڑیں گے جو چاہو کر لو اور اس کے نتیجہ میں پھر ان پر بڑے بڑے ابتلاء آئے ان کی سچائی کو طرح طرح سے آزمایا گیا اور یہ جو باتیں میں بیان کر رہا ہوں یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی بھی افسانہ نہیں یہ تاریخی حقائق ہیں کہ ان ایمان لانے والوں کمزوروں اور بھوکوں کو تماشہ گاہوں میں میدان کی طرف سے نکالا جاتا تھا اور دوسری طرف سے بھوکے شیروں یا بھیڑیوں یا اور درندوں کو چھوڑا جاتا تھا اور وہ آنا فانا ان کو چیر پھاڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتے تھے ان کی ہڈیوں کو جھنجھوڑتے تھے ان کے گوشت کو کھاتے اور ان کے خون کو پیتے تھے اور سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھا اور خوشی سے نعرے لگائے جاتے تھے کہ یہ مسیح کے ایک اور ماننے والے کو ہم نے اس بدانجام کو پہنچایا یہ ایک نسل کی بات نہیں دو نسل کی بات نہیں ایک سوسال میں کئی نسلیں گزر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے ابھی ایک سو سال ہوئے ہیں اور آپ دیکھیں کہ ہماری چوتھی پانچویں نسل بلکہ چھٹی نسل تک میں نے ایک خاندان میں گن کر دیکھے تھے اور یہ چھ نسلیں ایک سوسال کے اندراندر پیدا ہوگئی ہیں تو تین سو سال تک کتنی نسلیں ہیں جنہوں نے کامل وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا ہے اور مسیح ناصرٹی سے وفا کی ہے.یہ مطلب ہے انصار اللہ بنے کا لیکن میں بعض دفعہ تعجب سے اور دُکھ سے دیکھتا ہوں کہ پاکستان سے بعض احمدی لکھ دیتے ہیں کہ اب تو حد ہو گئی کہ اب اور کتنی مدت تک خدا ہم سے انتظار کروائے گا ؟ اتنی تکلیفیں پہنچ گئیں خدا کی مدد کیوں نہیں آتی.کیوں نقشے نہیں بدلتے ، کیوں دشمن ہلاک نہیں ہوتا؟ میں حیرت سے دیکھتا ہوں اور میرا دل خون ہو جاتا ہے ان باتوں کو سن کر کہ تم نے مسیح مہدی سے وعدہ کیا ہے کہ ہم اپنی جان مال عزت سب کچھ پیش کر دیں گے اور جو اپنی جان دے دے اس کو پھر اس سے کیا غرض کہ میرے بعد کیا ہوگا یا میں کیا دیکھتا ہوں اور کیا
خطبات طاہر جلدا 99 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء نہیں دیکھتا.انصار اللہ جب کہہ دیا تو سب کچھ خدا کے سپرد کر دیا مسیح محمدی کی طرف منسوب ہو کر سوسال نہیں صرف ایک نسل کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے تم ہمت ہار دو تو کیا تمہیں زیب دیتا ہے که مسیح محمدی کے انصار ہونے کا دعوی کرو.پس اس سورۃ الصف میں ہمارے لئے ایک پوری تاریخ کھول کر بیان فرما دی گئی ہے ہمارا کیا کردار ہونا چاہئے، کن کن قربانیوں کی اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے کس عہد و پیمان کی ہم سے توقع رکھتا ہے اور پھر سابق مسیح کی طرف اشارہ کر کے پوری مسیحیت کی تاریخ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی اور بتایا کہ اس راہ میں یہ یہ ابتلاء آئیں گے، یہ یہ مشکلات پیش ہوں گی.ایک نسل کی فتح کا سوال نہیں ، دو نسلوں کی فتح کا سوال نہیں تمہاری فتح کا زمانہ لمبا بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک وعدہ فرما دیا اور وہ وعدہ فتح قریب کا وعدہ ہے.یہ وہ پہلو ہے جو میں آپ کے سامنے خوب اچھی طرح کھولنا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہا اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ مجھے مسیح ناصری سے تشبیہ دی گئی لیکن محمد ﷺ کی برکت سے میری تکلیفیں بھی کم کی گئی ہیں اور اسی نسبت سے تمہاری تکلیفیں بھی کم کی گئی ہیں.فرمایا اگر محمد مصطفے ﷺ کی برکت نہ ہوتی تو میں بھی روئے صلیب ضرور دیکھتا کیونکہ میں الله صلى الله واقعہ مسیح کا مثیل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی برکت سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے ہماری آزمائشوں کو چھوٹا بھی کر دیا اور آسان بھی فرما دیا ہے.پس آپ نے اس مضمون کو بھی خوب کھول کر بیان فرمایا کہ اگر چہ مسیح کو تین سو سال کے بعد غلبہ عطا ہوا تھا اس لئے اگر مجھے اور میری جماعت کو بھی تین سو سال میں غلبہ عطا ہو تو کوئی تعجب یا اعتراض کی بات نہیں لیکن میں یہ یقین رکھتا صلى الله ہوں کہ محمد ﷺ کی برکت سے ہمارے غلبے کی مدت کو کم کر دیا جائے گا.وہ زمانہ جو قر بانیوں کا زمانہ ہے وہ چھوٹا کر دیا جائے گا اور جزا کے زمانہ کولمبا کر دیا جائے گا.پس فتح قریب نے یہاں یہ وعدہ کیا ہے کہ اے محمد مصطفے ﷺ کے غلامو! اگر تم یہ وعدہ پورا کرو اس تجارت کی طرف آجاؤ جس کی طرف ہم تمہیں بلاتے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہاری فتح کے دن قریب کر دے گا اور تمہیں تین سو سال کے انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی.پس اس وجہ سے میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک معنوں میں ہمارے اختیار میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 100 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء ہے.بظاہر ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں لیکن جن شرطوں کے ساتھ ہمیں خدا تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کے لئے ہمیں بلایا ہے اُن شرطوں کو پورا کرنا فی الحقیقت ہر انسان کے اختیار میں ہے ان معنوں میں اختیار میں ہے کہ اگر وہ خدا سے نصرت طلب کرتے ہوئے یہ عہد کرے کہ اے خدا! میں تیری راہ میں ناصر بنا چاہتا ہوں.میں انصار اللہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں تو پھر ضرور ہر انسان کے بس میں اور اختیار میں ہے کہ وہ خدا کے انصار میں ان معنوں میں شامل ہو جائے جن معنوں میں قرآن کریم نے یہ تفصیل بیان فرمائی ہے اور اگر ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نصرت کو محمد مصطفی ﷺ کی برکت سے قریب کر دیا جائے گا تمہاری فتح کے دن قریب کر دیئے جائیں گے اور اتنے لمبے انتظار کی زحمت گوارا نہیں کرنی ہوگی.پس جماعت احمدیہ کی ہر نسل جو گزررہی ہے وہ ایک امکانی حالت سے گزر رہی ہے اور وہ امکانی حالت فتح کی طرف بلا رہی ہے.اگر ساری جماعت وہ کوشش کرے جس کا اس سورۃ میں ذکر ہے تو لا ز ما تمام دنیا کی فتح کا سہرا ایک نسل کے سر بھی لکھا جا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جن لوگوں نے نصرت کا وعدہ کیا وہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے لیکن اس کثرت سے ان کو پھل لگے کہ دیکھتے ہی دیکھتے احمدیت کا پودا صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر کے ممالک میں بھی نصب ہو چکا تھا اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوئی جس کی نسل میں سے اکثر احمدی آج دنیا میں موجود ہیں.میں نے تبلیغ کے ذریعہ پھیلاؤ کا جو جائزہ لیا ہے میں آپ کو یقین سے بتا سکتا ہوں کہ جس کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تبلیغ ہوئی اور جس کثرت سے جماعتیں اس زمانہ میں پھیلی ہیں اس کا عشر عشیر بھی کبھی بعد میں نہیں ہوا.تمام صحابہ ثمر دار شجر تھے وہ شجر طیبہ بن چکے تھے جن سے ہر حالت میں پھل کے وعدے کئے گئے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم اعلان فرماتا ہے کہ وہ زمین میں مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہیں لیکن شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ہر موسم میں ان کو پھل لگتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت سے ایسے صحابہ عطا ہوئے جو طیب درختوں کی صورت میں لہلہاتے رہے.پھولتے پھلتے رہے اور ہر موسم میں ان کو پھل لگتے رہے.اب جب میں قادیان گیا تو بہشتی مقبرہ میں گھوم پھر کے کتبات پڑھتا تھا ان میں سے بہت سے ایسے کتبات تھے جن سے مجھے یاد آ جا تا تھا کہ ہاں میں
خطبات طاہر جلدا 101 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء نے بھی ان کو دیکھا ہوا ہے اس شکل وصورت کے تھے.یہ وہ بزرگ صحابی تھے جو اس زمانے میں سادہ سے کپڑوں میں عام لباس میں غریبانہ چال کے ساتھ چلتے تھے اور ہم وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ خدا کے حضور ان کا کتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے لیکن خدا نے ہمیں یہ سعادت عطا فرمائی تھی کہ ان پاک چہروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے.پس ان قبروں پر گزرتے ہوئے دعا ئیں بھی کرتا تھا اور اپنی سعادت پر خدا کا شکر بھی ادا کرتا تھا.میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ وہ صحابہ نہیں جن کا انصار کی جماعت میں قرآن کریم میں ذکر موجود ہے.یہ وہ ہیں جنہوں نے آخرین کو اولین سے ملایا تھا اور خدا نے ان سے اپنے وعدے پورے کئے.اتنی بڑی مخالفت کا طوفان تھا کہ آج پاکستان میں جو مخالفت ہو رہی ہے اُس مخالفت کے سامنے اس مخالفت کی کوئی بھی حیثیت نہیں.ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ملاں پھرے اور ہندوستان سے لے کر عرب ممالک کے آخر تک انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عناد اور دشمنی کی ایک آگ لگادی اور بڑے فخر سے یہ اعلان کئے کہ ہم نے تمام دنیا میں اس شخص کے خلاف ایسی نفرت پیدا کر دی ہے کہ ایک آگ بھڑک رہی ہے جو اس کو خاکستر کر کے رکھ دے گی.تمام دنیا کے علماء نے اس کو دنیا کا بدترین انسان قرار دے دیا اور یہ فتویٰ دیا کہ اس کو مارنا، لوٹنا قتل کرنا اس کی اولا دو جان عزت پر ہاتھ ڈالنا سب کچھ خدا کے نزدیک جائز ہے بلکہ باعث ثواب بن گیا ہے.اس کو اور اس کے ماننے والوں کو جس کے بس میں آئے جس طرح لوٹے، مارے، کوٹے ، جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے.یہ دین کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو خدا کے حضور بڑی عزت پائے گا.اس قسم کی آگ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چاروں طرف بھڑ کائی گئی.اس آگ کو گلزار بنانے والے وہ صحابہ تھے جگہ جگہ ابراہیمی طیور تھے جو پیدا کئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کے ساتھ خدا نے اپنے سارے وعدے پورے کئے ورنہ آج آپ یہاں نہ ہوتے.آج آپ ہندوستان میں بھی نہ ہوتے کہیں آپکا وجود مکن نہیں تھا کیونکہ جس قسم کی مخالفت اور ملیا میٹ کر دینے والی نفرتیں پھیلا دی گئی تھیں وہ ایسی نفرتیں تھیں کہ یوں لگتا تھا کہ نظریں لوگوں کو کھا جائیں گی.ان واقعات کو آپ پڑھیں جن مشکلات سے احمدی اس زمانہ میں گزرے ہیں تو آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح ان معصوموں کو کتنی بڑی بڑی تکلیفیں دی گئیں لیکن جب خدا نے فَتْحُ قَرِیب فرمایا تو اس زمانہ کے لحاظ سے جو فتح ہوئی وہ بہت بڑی فتح تھی.احمدیت
خطبات طاہر جلدا 102 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء کا ان خطروں سے بچ کر سلامت گزر جانا اور خزاں کے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت سے اشجار طیبہ عطا ہونا یعنی ایسے درخت عطا ہونا جو پھولنے پھلنے والے ہوں اور جن کو دنیا میں کوئی کاٹ نہ سکے، بر باد نہ کر سکے ، کوئی ان کو بے ثمر نہ بنا سکے.یہ نصرت کا وعدہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پورا ہوا.اب آپ کو نصرت کے دوسرے دور میں داخل کر دیا گیا ہے.اس دوسری صدی نے نصرتوں کا اور فتوحات کا ایک نیا باب کھولا ہے اور اس صدی کے سر پر کھڑے ہونے والوں کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صدی کے سر پر کھڑے ہونے والے بزرگ صحابہ سے ملتی ہے اور یہ دور کئی معنوں میں نئی برکتیں لے کر دوبارہ آپ کے سامنے آیا ہے.پس اگر آپ انصار ہونے کا حق ادا کریں گے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.جان مال عزت جو کچھ بھی ہے خدا کے حضور پیش کریں گے اور ایک لگن لگالیں گے ، ایک دھن سر پر سوار کر لیں گے کہ ہم نے ضرور احمدیت کو فتح یاب کرنا ہے اور دعوت الی اللہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں کثرت سے لوگوں کو داخل کرنا ہے تو پھر نصرت کا وہ وعدہ جس کا سورہ نصر میں ذکر ہے که فوج در فوج لوگ داخل ہوں گے اس وعدے کو آپ اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھیں گے اور اگر ہم ان نصیحتوں پر عمل کریں جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھی ہیں اور اس خلوص اور وفا کے ساتھ عمل کریں جس کی توقع کی جاتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہرگز بعید نہیں کہ اس صدی میں ہی تمام دنیا پر اسلام غالب آجائے.اس صدی کے آخر تک تو ہم میں سے شائد ہی کوئی پہنچے یعنی اگر ان میں سے پہنچے تو وہ بچے پہنچیں گے کہ جو میری بات کو سنیں بھی تو سمجھ نہیں سکتے.لیکن اس صدی میں کیا ہو گا ہم اپنی زندگیوں میں یہ ضرور دیکھ سکتے ہیں اگر ہم اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا دیں اور جیسا کہ اس مضمون کا حق ہے منصوبہ بنائیں.صرف جماعتی منصوبہ نہ بنائیں بلکہ انفرادی منصوبے بنائیں ، دعائیں کریں، جد و جہد کریں، دن رات اس کام میں اپنے دل کو لگائیں اور اپنے ذہنوں کی سب سے بڑی فکر یہ بنالیں تو مجھے یقین ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ عظیم الشان انقلاب رونما ہونے شروع ہو جائیں گے اور ہم صرف وعدوں پر نہیں جئیں گے بلکہ ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ لیں گے جیسے بعض دفعہ برسات آنے سے پہلے ہوائیں چلتی ہیں جو بتا دیتی ہیں کہ برسات آنے والی ہے
خطبات طاہر جلدا 103 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۹۲ء پس آپ صرف ان ہواؤں کو ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ پھر برسات کے ابتدائی چھینٹوں کو بھی دیکھ لیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ بعض جگہ کے ملکوں میں وہ زور سے برستی ہوئی بارش کو بھی پالیس اور ایسا بعض جگہ ہونا شروع ہو چکا ہے.پس دنیا کے سب احمدیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقام اور مرتبہ کو سمجھیں.گزشتہ جمعہ میں ان سعادتوں کا جو میں نے ذکر کیا تھا.اس کے متعلق مجھے خطوط آ رہے ہیں اور احمدی جائز طور پر خدا کے حضور سر بسجود ہیں کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں اس رنگ میں فرمایا گیا اور یہ عظیم سعادت انہیں نصیب ہوئی کہ دنیا کو جمع کرنے کی بعض نئی صورتیں بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.میں ان کو بتاتا ہوں کہ یہ سعادت تو ہمیں اللہ کی طرف سے نصیب ہو گئی لیکن اس سعادت کے پیچھے جو سعادتیں کثرت کے ساتھ ہماری منتظر ہیں ان کی طرف چل کر جانا ہو گا.وہ ایسی سعادتیں نہیں کہ آپ کسی وقت پیدا ہو جائیں اور اتفاقاً وہ سعادتیں آپ تک پہنچ جائیں.وہ ایسی سعادتیں ہیں کہ جن کی طرف چل کر جانا ہو گا.کچھ پھلوں کو لینے کے لئے ہاتھ بڑھانا ہوں گے، کچھ تو کوشش کرنی ہوگی اس کوشش اور جدوجہد کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں اور آخر پر انہی الفاظ میں بلاتا ہوں جن الفاظ میں مسیح ناصری نے اپنے ماننے والوں کو خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے کے لئے بلایا تھا اور جو دراصل مسیح محمدی ﷺ کی آواز تھی جو آغاز میں مسیح ناصری کے ذریعے اٹھائی گئی.مسیح ناصری کے ذریعہ جو انصار پیدا ہونے تھے ان کو تمام دنیا کو ایک جگہ جمع کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن مسیح محمدی کے ذریعے انصار اللہ کا جو نیا دور چلنا تھا ان کو تمام دنیا کی فتوحات کی بشارتیں دی گئی ہیں.پس انہی الفاظ میں میں آپ کو پھر مسح محمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں اس منصب پر فائز ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائز فرمایا ہے اور آپ کو خدا کی طرف نصرت کے لئے بلاتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں.مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ کون ہے جو میرے انصار کی جماعت میں داخل ہو اللہ کی خاطر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے انصار کی جماعت میں اللہ کی خاطر داخل ہو.اسی اسلوب میں اسی طرز میں، انہی اداؤں کے ساتھ جن اداؤں کا قرآن کریم میں ذکر فر مایا گیا ہے.اگر آپ سچے دل سے اس آواز پر لبیک کہیں گے تو میں آپ کو فَتح قَرِيب کی خوشخبری دیتا ہوں اور کوئی نہیں ہے جو اس خوشخبری کو ٹال سکے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 105 خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۹۲ء دعوت الی اللہ کے لئے پہلے انفرادی منصوبے بنائیں اورسب سے پہلا منصوبہ دعا کا بنائیں.خطبه جمعه فرموده ۱۴رفروری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.اللهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمُوتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُونَ (الرعد:۳) پھر فرمایا:.گزشتہ خطبہ میں، میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ دعوت الی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ دل میں ایک جوش پیدا ہو جائے ، ایک گہری لگن اس کام سے پیدا ہو جائے جو محبت اور عشق میں تبدیل ہو جائے اور انسان نہ صرف دوسروں کے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنے دل کی مجبوری سے دعوت الی اللہ میں مصروف رہے اور اس کی زندگی کا سکون اور چین دعوت الی اللہ کے ساتھ وابستہ ہو جائے.یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں عظیم روحانی انقلاب برپا کرتا ہے.ولولے اور محبت اور جوش کا اپنا ایک مقام ہے لیکن صرف یہی کافی نہیں کیونکہ ولولے اور جوش اور محبت ایندھن سے مشابہت رکھتے ہیں جو توانائی مہیا کرتے ہیں لیکن محض پڑول لے کر تو آپ سفر نہیں کر سکتے اس توانائی کے استعمال کے لئے جتنی اچھی مشین آپ کو مہیا ہو گی اتنا ہی بہتر اس توانائی کا نتیجہ نکلے گا اور اس سے
خطبات طاہر جلدا 106 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء آپ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں گے.پس دوسری بات منصوبہ بندی کی ہے.ایک منصوبہ بندی کا میں نے ذکر کیا تھا کہ جماعتوں کو ملکی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی منصوبہ بندی کرنی چاہئے.آج میں انفرادی منصوبہ بندی سے متعلق بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.سب سے پہلے تو منصوبہ بندی کی اہمیت آپ پر واضح کرنے کے لئے میں نے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا انتخاب کیا جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ تقدیر کا مالک ہے اور قرآن کریم میں كُنْ فَيَكُونُ (البقرہ:۱۱۸) کا جو ذکر ہمیں ملتا ہے اس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جب کسی بات کے متعلق فیصلہ کرے اور کہہ دے کہ یہ ہو جائے تو وہ ہو کر رہتی ہے.یہ بات درست ہے اور یہ تاثر درست ہے لیکن یہ بہت مختصر سی بات ہے.کیسے ہوتی ہے اور کیونکر رونما ہوتی ہے؟ اس کا ذکر قرآن کریم میں تفصیل سے مختلف جگہ ملتا ہے اور بار ہا خدا تعالیٰ اس سلسلہ میں تدبیر کا ذکر فرماتا ہے.باوجود اس کے کہ وہ قادر مطلق ہے جس چیز کا فیصلہ چاہے آنا فانا بھی کر سکتا ہے لیکن فرماتا ہے کہ میرے وقار اور میری شان کے خلاف ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی تدبیر کے کسی چیز کو ظاہر کروں.پس میرے حکم کے ساتھ تدبیر کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے.پس یہاں تدبیر کا تعلق ثانوی ہے.جو تقدیر کے ماتحت ہے سب سے پہلے خدا کی تقدیر ظاہر ہوتی ہے پھر وہ تقدیر تدبیر کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اسی سے پھر قانون قدرت جاری ہوتے ہیں اور ہر قسم کی تخلیق کا نظام چلتا ہے.قرآن کریم کی جو آیت کریمہ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے یہ سورۃ الرعد کی تیسری آیت ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَوتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا اللہ کی ذات وہ ذات ہے کہ جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں پر بلند کر رکھا ہے.جن کو تم دیکھ نہیں سکتے بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا کا ایک مطلب یہ ہے کہ بغیر ستونوں کے جن کو تم دیکھتے ہو لیکن اس کا معنی وہی ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے کہ ایسے ستونوں کے بغیر بلند کئے رکھا ہے جن کو تم دیکھ سکتے ہو یعنی وہ ستون جو تمہیں نظر آتے ہیں جن کو تم عام طور پر دیکھتے ہو.ویسے ستون استعمال نہیں فرمائے بلکہ نہ نظر آنے والے ستونوں پر اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو اپنے اپنے مقام پر سنبھال رکھا ہے ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ یہ سب نظام مکمل کرنے کے بعد پھر وہ اپنی کرسی
خطبات طاہر جلدا 107 خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۹۲ء حکومت پر استوای فرمایا گیا اور شمس اور قمر کو اس نے مسخر کر دیا.كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّى یہ سب اپنے اپنے منتھی کی طرف مسلسل حرکت میں ہیں.يُدَبَّرُ الْآمر اس طرح خدا تدبیر فرماتا ہے.يُفَصِّلُ الْآیت اور اپنے نشانوں کو کھول کھول کر تمہارے سامنے رکھتا ہے لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُونَ تاکہ تم اپنے رب کی لقاء کا یقین پیدا کر سکو.ان آیات میں جوستونوں کا نہ نظر آنا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہماری آنکھیں بہت سے ایسے ذرائع کو دیکھ نہیں سکتیں جن کے ذریعہ ایک نظام چل رہا ہولیکن ہماری آنکھوں کا نہ دیکھنا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ذریعے موجود نہیں ہیں بلکہ ذریعے موجود ہوتے ہیں اور ایسے ذرائع بھی خدا استعمال فرماتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتے اور اس کا نام اللہ تعالیٰ نے تدبیر رکھا ہے.قرآن کریم میں تدبیر سے متعلق جو مختلف آیات ہیں ان کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ خدا کی بعض تدبیریں ظاہر وباہر ہیں وہ ہر ایک کو دکھائی دیتی ہیں.بعض تدبیریں مخفی ہیں اور جہاں تک مخفی تدبیروں کا تعلق ہے اگر خدا ہمیں خبر نہ دیتا تو جس زمانہ میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں اس زمانہ میں کسی کوان تدبیروں پر اطلاع نہ ہوتی.آج کے زمانہ میں خدا کی ان تدبیروں کو بنی نوع انسان میں سے جو سائنس دان ہیں اور جنہوں نے کھوج لگائے ہیں انہوں نے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور تدبیروں کی تہہ تک اُترنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے پس پردہ اور بھی تدبیریں ہیں جو مخفی ہیں اور نظر نہیں آرہیں.وہاں تک پہنچنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کے پیچھے اور بھی تدبیریں ہیں جو ہمارے علم سے ابھی مخفی ہیں اور دکھائی نہیں دیتیں تو خدا تعالیٰ کی تدبیر کا جو سلسلہ ہے یہ تہ در تہ چلتا ہے بطن در بطن جاری ہے اور بہت سی تدبیریں ہیں جو ظاہر دکھائی دیتی ہیں بہت سی ہیں جو نہیں دکھائی دیتیں اور آج سائنس دانوں کو جو یہ تدبیریں دکھائی دینے والی ہیں تو ان کا بھی قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات خود اپنے حکم سے ان تدبیروں کو ظاہر فرماتا ہے اور ایسی تقدیر جاری کرتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کو خدا تعالیٰ کے نظام کے مخفی راز معلوم ہونے شروع ہو جاتے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ الزلزال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 108 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا يَوْمَبِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَانُ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَان (الزلزال : ۲ تا ۶) کہ ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ زمین اپنے گہرے اور بھاری راز اگلنے لگے گی اور زلزلے کی سی کیفیت طاری ہوگی جس طرح زلزلے میں زمین لاوہ اگلتی ہے اور بہت ہی بڑی مقدار میں Heavy Metals کو بعض دفعہ لاوے کے ذریعے باہر نکالتی ہے اسی طرح زمین کے گہرے راز اور بھاری راز بھی ہیں.فرمایا ایک ایسا وقت آئے گا گویا زمین پر زلزلہ طاری ہو جائے گا.اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا.اس وقت انسان کہے گا کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟ کتنی حیرت انگیز دریافتیں ہورہی ہیں وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا.اس زمین کو کیا ہو گیا ہے یہ کیسی حرکتیں کر رہی ہے کیسی کیسی عجیب باتیں اور اپنے سینے کے راز اُگل کر ہمارے سامنے لا رہی ہے فرمایا.يَوْمَبِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَانُ بِأَنَّ رَبَّكَ أَولى لما.اس دن یہ زمین اپنے راز اگلے گی لیکن اتفاقا نہیں بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا.اس لئے کہ اے محمد یہ تیرے رب نے زمین پر یہ وحی نازل فرمائی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اشارہ فرمائے تو اس وقت راز اگلنے لگو تو وہ سائنس دان اپنی تحقیق کے ماحصل کے نتیجہ میں مغرور ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑے بڑے کھوج لگا لئے ہیں ، بہت سے راز معلوم کر لئے ہیں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے پہلے ہی یہ راز ہم پر روشن فرما دیا تھا کہ آئندہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جبکہ سائنس دانوں کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے یہ تو فیق عطا فرمائے گا اور اگر خدا تعالیٰ یہ توفیق عطا نہ فرمائے تو کسی کی طاقت نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے مخفی رازوں کو معلوم کر سکے.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ ( البقرہ:۲۵۶) کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے علم میں سے ایک ذرے پر بھی احاطہ کر سکے مگر خدا کے اذن کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یہ تو خیر ایک تمہیدی بیان تھا جو میں نے دیا ہے.اصل مقصد آج اس آیت کو آپ کے سامنے پیش کرنے کا یہ ہے کہ آپ کو بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ جو قادر مطلق ہے وہ بھی تدبیر فرماتا ہے اور بعض موقع پر وہ تدبیر مخفی رہتی ہے اور نظر نہیں آتی لیکن کام کر رہی ہوتی ہے چنانچہ آگے فرمایا کہ يُفَصِّلُ الْآیتِ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 109 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء تدبیر ایسی ہے کہ اگر خدا خود کھول کر بیان نہ کرتا تو تمہیں معلوم نہ ہوتا.اللہ تعالے اپنی بعض آیات خود کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم خدا تعالیٰ سے ملاقات کے دن کے بارہ میں یا خدا تعالیٰ سے ملاقات کے مضمون پر یقین حاصل کر سکو کیونکہ ان باتوں سے خدا تعالیٰ جو اپنے نشانات کھول کر بیان فرماتا ہے انسان کے دل میں ایمان بڑھتا ہے اور اس ہستی کی لقاء کی تمنا بھی پیدا ہوتی ہے.اُمید بھی بندھتی ہے اور بالآخریقین بھی پیدا ہوجاتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی جس کا علم تھوڑا ہے یا عمر کے لحاظ سے بچہ ہے یا بہت بوڑھا ہے یا اپنے وسائل کے لحاظ سے بہت ہی محدود طاقتیں رکھتا ہے وہ کیسے منصوبہ بنائے منصوبہ بنانا تو فرض ہو گیا.اگر خدا منصو بہ بناتا ہے تو خدا کے بندوں کو بھی محض گن کہہ کر کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا.خدا کے بندوں کا گن تو ان کا مصمم ارادہ ہوا کرتا ہے یہ عہد ہوتا ہے کہ ہم یہ کام ضرور کریں گے.پس جب دعوت الی اللہ کی تحریک کی جاتی ہے تو ہزاروں لاکھوں احمدی ہیں جن کے دل میں گن کا لفظ اس طرح ظاہر نہیں ہوتا کہ گن کی شکل میں ظاہر ہو مگر نیک ارادوں کی صورت میں نیک تمناؤں کی صورت میں گن کا لفظ اُن کے دلوں میں اُٹھتا ہے ان کے ذہنوں پر چھا جاتا ہے اور وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے بھی کچھ کرنا ہے اور آگے ہوتا کچھ نہیں.کچھ دیر کے بعد یہ گن کی آواز دھیمی ہوتی ہوتی آہستہ آہستہ غائب ہو جاتی ہے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے تخلیق کا طریق نہیں سیکھا.گن کہہ کر خدا تعالیٰ معاملے کو وہیں ختم نہیں فرما دیتا بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش کے سلسلہ میں بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تدبیر فرماتا ہے اور یہ ساری کائنات خدا کی تدبیر کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے جو تقدیر کے تابع ہے.پس خدا کا بندہ کس طرح تدبیر سے مستغنی ہو سکتا ہے.تدبیر کیا ہے اور کس طرح اختیار کرنی چاہئے اس سلسلہ میں اب آپ کو کچھ بتاؤں گا لیکن میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فیصلے کے بعد تد بیر کا سلسلہ تقدیر اور تدبیر کا ایک تعلق قائم کرتا ہے اور تدبیر وہ وسیلہ ہے جو خالق کو مخلوق سے ملاتی ہے تدبیر نہ ہو تو خدا تعالیٰ کی تقدیر ہمارے تصور اور ادراک سے بہت بالا کہیں کام کرتی رہتی اور ہمیں اس کا علم نہ ہوتا یہ جو کائنات میں قوانین جاری ہیں یہ تدبیریں ہیں اور ان تدبیروں کے راستے ہم خدا کی تقدیر کو پہچانے لگتے ہیں گویا یہ پل کا سا کام دیتی ہے جو مخلوق کو خالق سے ملاتی ہے.یہاں تقدیر پہلے ہے اور تدبیر بعد میں ہے.جب انسانی سطح سے ہم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 110 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء الله بات کرتے ہیں، انسانی زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں تو تدبیر پہلے آتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف بلند ہوتی ہے اور پھر خدا کی تقدیر میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہی وہ مضمون ہے جس کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا بعض الجھے ہوئے پراگندہ بالوں والے انسان جن کے سر میں خاک پڑی ہو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ خدا ایسا ضرور کرے گا تو خدا ایسا ضرور کر دیتا ہے.(ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر: ۳۷۸۹) تو بعض دفعہ نیک بندے کی تدبیر جو خدا کی خاطر بنائی جاتی ہے خدا تعالیٰ کو ایسی پیاری لگتی ہے کہ وہ اس کی تقدیر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر خدا کی تقدیر دنیا میں تدبیریں اختیار کرتی ہے اور وہ خدا کی غالب تدبیریں ہیں جو انقلاب برپا کیا کرتی ہیں.پس اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ تدبیر بندے کے لئے بہت ضروری ہے اور مخلصانہ تدبیر ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کی تقدیر کو حرکت میں لاتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یہی تدبیر اللہ کی تقدیر بن جایا کرتی ہے.تو ہر وہ دعوت الی اللہ کرنے والا جو دل میں نیک ارادے باندھتا ہے اگر وہ ان ارادوں کے بعد کسی وقت آرام سے بیٹھ کر تد بیر نہیں سوچتا منصوبہ نہیں بنا تا تو ایسا ہی ہے جیسے ایک خیال دل میں پیدا ہوا اور اس پر عمل نہیں ہوا اور وہ محض ضائع گیا اور اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا اس لئے جماعتوں کو تو اپنے طور پر منصوبے بنانے ہوں گے لیکن ہر فرد کا اپنا کام ہے کہ وہ بھی منصوبہ بنائے اور جب وہ منصوبے بنانے بیٹھے گا تو اس وقت اس کو سمجھ آئے گی کہ کیوں اب تک وہ دعوت الی اللہ میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکا.بغیر منصوبے کے کوئی بات ڈھب سے چل ہی نہیں سکتی اور منصوبه Grass root Level پر بنانا چاہئے یعنی انفرادی سطح پر عوامی سطح پر ، ہر شخص کا اپنا منصوبہ بننا ضروری ہے یہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر یہ منصوبہ نہ بنا ہو تو جماعتی اونچی سطح کے سارے منصوبے فرضی ہوں گے اور ان میں حقیقت نہیں ہو گی.وہ لوگ جنہوں نے کام کرنے ہیں وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان کی صلاحیتیں کیا ہیں، وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان کے اخلاص کا مرتبہ کیا ہے وہ بہتر جانتے ہیں کہ وہ کتنا وقت دے سکتے ہیں اور کتنا علم ان کو حاصل ہے، کون کون سے ذرائع ان کے پاس ہیں، اگر عمومی منصوبے میں کچھ کام ان کے سپر د کر دیئے جائیں تو منصو بہ بنانے والے اگر لندن میں بیٹھے ہیں تو ان کو کیا پتا کہ لیسٹر میں فلاں گھر میں جو بچی ہے اس پر اس منصوبے کا اطلاق ہی نہیں ہوسکتا یا کسی اور ملک میں ملک کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر ایک عظیم الشان منصو بہ بنایا جا رہا ہوتو وہ اس منصوبہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 111 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء کے وقت تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس منصوبے کو انفرادی منصوبوں میں ڈھالنے کی راہ میں کتنی وقتیں حائل ہیں.ایک اور طریقہ منصوبہ بنانے کا یہ ہوا کرتا ہے کہ انفرادی منصوبہ بنوایا جائے اور ان منصوبوں کو اکٹھا کر کے ان کی روشنی میں مرکزی منصوبہ بنایا جائے یہی مقبول طریق ہے یہی درست طریق ہے ورنہ حقیقت میں اکثر جو مرکزی منصوبے ہوتے ہیں وہ الا ماشاء الله فرضی اور خیالی رہتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دفعہ ایک موقع پر ہدایت دی کہ اس طرح تفصیل کے ساتھ کاموں کو تقسیم کیا جائے اور مجھے مرکزی شعبے کی طرف سے رپورٹ ملی کہ ہم نے اس طرح تقسیم کر دیئے ہیں.میں نے کہا کہ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ آپ گھر بیٹھیں ایک فقرہ لکھ دیں کہ ہم نے کام تقسیم کر دیئے ہیں.چند منٹ میں آپ الائمنٹس کر دیں کہ تم نے اتنا کرنا ہے.تم نے اتنا کرنا ہے مراد یہ ہے کہ پہلے آپ اُن سے پتا کریں کہ ان کی صلاحیتیں کیا ہیں؟ کتنے دوست ان کاموں میں شامل ہو سکتے ہیں؟ ان دوستوں سے وعدے لیں اور معلوم کریں کہ واقعہ وہ تیار ہیں بھی کہ نہیں.پھر ان کوائف کو اکٹھا کریں.ان کے نتیجہ میں جو مرکزی منصوبہ بنے گا وہ حقیقی ہوگا ورنہ یہ سب فرضی باتیں ہیں.پس جماعت کے عمومی منصوبے کی کامیابی کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جو دعوت الی اللہ کا ارادہ رکھتا ہے وہ اپنے لئے کسی وقت بیٹھ کر الگ منصو بہ بنائے.اب دیکھیں دعوت الی اللہ کرنے والوں میں بڑی عمر کے لوگ بھی ہیں چھوٹے بچے بھی ہیں ،عورتیں بھی ہیں، مرد بھی ہیں، کالج کی پڑھنے والی لڑکیاں بھی ہیں اور کام کرنے والے لوگ ہیں، ہر ایک کے حالات مختلف ہیں، ہر ایک کا علم مختلف ہے ، ہر ایک کو مختلف وقتوں میں مختلف دنوں میں وقت میسر آتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کسی مرکزی کلاس میں شامل ہو ہی نہیں سکتے لیکن نیک ارادہ رکھتے ہیں.ان سب کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے تو دعا کریں ، دو نفل پڑھیں.اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں اور خدا سے یہ عرض کریں کہ اے خدا! تو جانتا ہے کہ ہمارے پاس بہت ہی معمولی ذرائع ہیں اور ہمیں ہر لحاظ سے کمزوری کا احساس ہے اپنی بے بسی کا احساس ہے.اس لئے آج ہم تیری خاطر منصوبہ بنانے کے لئے بیٹھے ہیں تو ہمیں روشنی عطا فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ جو منصوبہ بنائیں تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو اور جو منصوبہ بنائیں وہ ثمر دار بنے اس کو پھل
خطبات طاہر جلدا 112 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء ملیں اور پھل لگنے تک جو محنت مجھے کرنی چاہئے مجھے اس محنت کی توفیق بھی عطا فرما.یہ دعا کر کے دونفل پڑھ کے اگر کوئی شخص منصوبہ بنانے کے لئے بیٹھے گا تو یقیناً اس کے بعد وہ کام شروع ہو جائے گا اکثر دعوت الی اللہ کرنے والے جو غافل ہیں وہ اس لئے ہیں کہ نہ وہ دعا کرتے ہیں نہ سنجیدگی سے اپنی ذات کے لئے کوئی منصوبہ بناتے ہیں.آپ کے علم میں مختلف طبقات کے احمدی ہوں گے آپ ان پر نظر ڈال کر دیکھ لیں، اپنے نفس کا بھی جائزہ لے کر دیکھیں آپ کو معلوم ہو گا کہ دعوت الی اللہ کی خواہش تو پیدا ہوئی لیکن عملاً ٹھوس کام کرنے کی طرف بہتوں نے پہلا قدم بھی نہیں اُٹھایا.تعلقات کے دائرے ہیں وسیع سوشل رابطے موجود ہیں لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ دعوت الی اللہ کیسے کریں گے؟ سکول جانے والے بچے ہیں، بچیاں ہیں اگر وہ چاہیں تو اپنے دائرے میں تبلیغ کی تو فیق مل سکتی ہے مگر کیسے کریں اس کی ان کو سمجھ نہیں آتی اس لئے باہر سے جو پیغام ان کو ملتے ہیں کہ تبلیغ کرو، وہ کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے.پس ہر شخص کو بیٹھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے دعا کرنے کے بعد اپنا منصو بہ خود بنانا چاہئے مثلاً ایک سکول کی بچی جب کاغذ لے کر بیٹھے گی تو پہلے تو خالی دماغ کے ساتھ اس کو سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا لکھوں، کیسے منصوبہ بناؤں؟ یہ جو بے بسی کا احساس ہے یہ کچھ دیر رہے گا پھر وہ سوچے گی اور غور کرے گی تو کہے گی اچھا! میری فلاں فلاں سہیلیاں ہیں، فلاں مس ہے اس کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں تو میں ان کو کوئی لٹریچر دے دیتی ہوں ان کو گھر پر دعوت پر بلا لیتی ہوں.اپنے امام صاحب کو یا کسی اور بزرگ سے درخواست کرتی ہوں کہ میں اپنی سہیلیوں کو یا اپنی مس وغیرہ کو دعوت پر بلا نا چاہتی ہوں آپ اگر تشریف لاسکیں یا آپ کی بیگم میں یہ صلاحیت ہو کہ ان سے گفتگو کرسکیں تو وہ آجائیں یا پھر لجنہ سے درخواست کر سکتی ہے غرضیکہ اس کے منصوبے کا آغاز ہو جائے گا.پھر آگے منصوبہ کیسے بڑھے اس سلسلہ میں جب میں یہ مضمون آگے بڑھاؤں گا تو اس بچی کو جس کے متعلق میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اس طرح کا غذ لے کر منصوبہ بنانے کیلئے بیٹھے گی اور چھوٹوں بڑوں سب کو کئی قسم کے اور خیالات ، کئی قسم کے ایسے طریق معلوم ہوں گے جن کے ذریعہ وہ خدا کے فضل سے اپنے لئے چھوٹا سا منصوبہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.منصوبوں کے سلسلہ میں سب سے پہلے دعاؤں کا منصوبہ بنانا چاہئے.بجائے اس کے کہ انسان یہ سوچے کہ میں اپنے دوستوں کو بلاؤں اور پھر کسی کو ڈھونڈوں کہ ان کو تبلیغ کر سکے.سب سے
خطبات طاہر جلدا 113 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء پہلے خدا کو بلائیں کیونکہ خدا کی خاطر کام ہونے ہیں اور سب سے زیادہ معین اور مددگار تو اللہ ہے اور جب تک خدا کا وجود ذہن پر غالب نہ رہے اور تبلیغ کے سلسلہ میں ہر وقت توجہ خدا کی طرف مبذول نہ ہو اس وقت تک کوئی تبلیغ بھی کامیاب نہیں ہو سکتی.اس لئے منصوبے میں سب سے پہلے دعا ئیں لکھیں.آپ نے نمازوں میں بہت سی دعائیں سنی ہوں گی اگر روز مرہ توفیق نہیں ملتی تو جلسے کی نمازوں میں ہی کئی دفعہ آپ دعاؤں والی آیات سنتے ہیں یا سُنتی ہیں.ہوسکتا ہے کہ اکثر کو ان کے معانی نہ آتے ہوں اس لئے پتا ہی نہ لگے کہ ہم کیا سن رہے تھے اور ان دعاؤں میں کیا طاقتیں ہیں.اس سلسلہ میں جب میں نے خطبات میں بعض نیک لوگوں کی جو دعائیں بیان کی تھیں وہ آپ کی مددکر سکتی ہیں.خطبات کا وہ سلسلہ جس میں عبادات میں جان ڈالنے کا مضمون چل رہا تھا اس میں صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے تابع نیک لوگوں کی دعائیں ہیں جو قرآن کریم میں درج ہیں جن پر خدا نے انعام فرمایا وہ بیان کی گئی ہیں.ان دعاؤں میں بہت سی ایسی دعائیں ہیں جن کا دعوت الی اللہ سے تعلق ہے.پس جب آپ دعا کا منصوبہ بنا ئیں تو سب سے پہلے ان دعاؤں کی طرف دھیان جانا چاہئے اور چونکہ یہ مضمون سورہ فاتحہ سے شروع ہوا تھا اس لئے سب سے پہلی دعا جو آپ کے ذہن میں آنی چاہئے وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا ہے.اب اس سے معاملہ اس حد تک آسان ہو گیا کہ یہ دعا ہے جو اکثر احمدیوں کو آتی ہے یا آنی چاہیے اور اس کے بغیر نہ نماز مکمل اور نہ کوئی اور نیک کام مکمل.تو جب منصو بہ بناتے وقت ایک بچہ یا بچی جب سوچ رہے ہوں تو ان کو سوچنا چاہئے کہ میں دعاؤں کا منصوبہ بنارہی ہوں یا بنا رہا ہوں اور اگر مجھے بنیادی دُعا سورہ فاتحہ ہی یاد نہیں تو میں کام کو کیسے آگے چلاؤں.پس ایسی صورت میں منصوبہ بنانے والا سب سے پہلے اپنے اوپر لازم کرے گا اور یہ لکھے گا کہ مجھے نماز پڑھنی چاہئے اور سورۃ فاتحہ کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے اور سورۃ فاتحہ میں جو مرکزی دعا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ وہ دعا کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے لئے خاص طور پر یہ مضمون ذہن میں رکھتے ہوئے دعا مانگنی چاہئے کہ اے خدا! کہ میں تیری ہی عبادت کرتی ہوں یا کرتا ہوں یا جب لفظ ہم بولتے ہیں تو اس میں مذکر مونث کا سوال اُٹھ جاتا ہے اس لئے میں ”ہم“ کے صیغہ میں بات کروں گا.ہم جو عبادت کرتے ہیں یا کریں گے صرف تیری کرتے ہیں اور صرف تیری
خطبات طاہر جلد ۱۱ 114 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء عبادت کریں گے.یہ فیصلہ ہے مگر تیری توفیق کے بغیر یہ ممکن نہیں.اس لئے ايَّاكَ نَسْتَعِينُ.ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں اور ہمیشہ تجھ سے ہی مدد مانگتے رہیں گے.یہ بنیادی دُعا کرنے کے بعد اس دعا کے ذریعے مختلف مضامین میں دعائیں مانگی جاسکتی ہیں مثلا ایک دعوت الی اللہ کرنے والا پھر دوبارہ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے یہ دعا مانگ سکتا ہے کہ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ہی کریں گے اور ہم میں ساری دنیا اس کے ساتھ شامل ہو اور یہ دعا ارادہ بن جائے کہ ہم دنیا سے غیر اللہ کی عبادت کو مٹانے کا عزم رکھتے ہیں، ہم بطور بنی نوع انسان جن کی نمائندگی میں کر رہا ہوں یا کر رہی ہوں.ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اے خدا! تیرے سواد نیا میں اب کسی اور کی عبادت نہیں ہوگی اور اس غرض کے لئے ہم جو کوشش کرنا چاہتے ہیں اس میں تیری مدد چاہئے اور تو ہماری مددفرما تا کہ ہم کامیابی کے ساتھ تیرا پیغام دنیا میں پھیلا سکیں اور تیری عبادت کو قائم کر سکیں.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا جو روزانہ ہر نماز کی ہر رکعت میں خدا کا ہر بندہ خدا سے مانگتا ہی ہے اس دعا کو دعوت الی اللہ کی دعا کے لئے ظرف بنا دیں، وہ برتن بنادیں جس میں آپ اللہ سے اللہ کے فضلوں کی بھیک مانگیں اور پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان لوگوں کی دعائیں یاد کریں جن لوگوں نے خدا سے انعام پائے اور دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں انہوں نے عاجزانہ دعائیں کیں.ایسی دعائیں کیں جن کو خدا نے اس حد تک پسند فرمایا کہ حضرت محمد مصطفی امیہ کو وحی کے ذریعہ مطلع فرمایا کہ یہ بندہ فلاں زمانے میں میری خاطر دُعا کے لیے نکلا تھا اور یہ دعا کرتا تھا.یہ اس لئے کیا کہ آپ کی امت ہمیشہ دعاؤں سے فائدہ اُٹھاتی رہے تو ایک دعوت الی اللہ کرنے والے کو یہ پتا ہی نہ ہو کہ اس سے پہلے دعوت الی اللہ کرنے والوں نے خدا سے کس کس رنگ میں مدد مانگی تھی، جو مقبول ہوئی، جو خدا کو پسند آئی وہ کیسے اپنے لئے خدا تعالیٰ سے اچھے فیض کی توقع رکھ سکتا ہے.اس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہی نہیں ہوگا نہ ادھر سے جواب آئے گا.پس ان دعاؤں میں سے مثلاً حضرت موسیٰ کی دُعا ہے: صلى الله رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي ( ۲۹ تا ۲۹)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 115 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کے لیے یہ دعا ضروری ہے.رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى اے اللہ! مجھے شرح صدر عطا فرما.شرح صدر کے مضمون میں لگن اور ولولہ بھی داخل ہے اور وہ کامل یقین بھی داخل ہے جو اپنے پیغام پر ایک انسان کو حاصل ہوسکتا ہے.اے خدا میں جو بات کہوں اس کے متعلق میرا دل اپنی گہرائیوں تک مطمئن ہو کہ میں صحیح بات کر رہا ہوں اور درست بات کہ رہا ہوں پوری طرح شرح صدر نصیب ہو اور اس مضمون میں میرے دل میں ایک ولولہ پیدا ہو کیونکہ جو بات یقین کی طرح میخ کی طرح میرے دل میں گڑ جاتی ہے اس سے لا ز مأولولہ پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جہاں بڑے جوش کے ساتھ بنی نوع انسان کو پیغام دیئے ہیں وہاں آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ان مقامات پر واضح طور پر یہ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کے لئے میرے دل میں بے حد جوش پیدا ہوا ہے اور میں رُک نہیں سکتا، مجھے یہ اختیار نہیں ہے کہ میں اس موقع پر خاموش رہوں.پس شرح صدر یقین سے پیدا ہوتا ہے اور یقین کے نتیجہ میں بے انتہا جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ولولہ موجیں مارنے لگتا ہے.پس رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِی کی دعا کرتے وقت یہ مضمون ذہن میں رکھیں.وَيَسّر کی آمدنی اور میرا کام میرے لئے آسان فرما دے.اب دیکھیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا مختلف لوگ مختلف علم رکھتے ہیں مختلف طاقتیں رکھتے ہیں، مختلف ان کی صلاحیتیں ہیں اور ہر دعوت الی اللہ کرنے والا آغاز میں طبعاً ایک جھجک محسوس کرتا ہے اور اپنی لاعلمی اور بے بضاعتی کے احساس کے نتیجہ میں وہ سمجھتا ہے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اس میدان میں کوئی کامیابی حاصل کر سکوں تو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے یہ دعا ئیں ہمارے سامنے رکھیں کہ ان دعاؤں سے فائدہ اُٹھاؤ اور ان دعاؤں میں یہ دعا شامل ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ وَيَسرلی آفرینی اے خدا میرا کام بہت مشکل ہے میرے بس کی بات نہیں.دنیا کے سب سے بڑے جابر بادشاہ کو پیغام ہدایت دینے کے لیے تو نے مجھے چُنا ہے اور مجھے ارشاد ہے کہ میں جا کر اپنی اس کمزوری کے باوجود جو میں محسوس کر رہا ہوں اس کو یہ پیغام دوں اور اس عظیم مقصد کو حاصل کروں.فرمایا وَ يسر لی اَمرِی میرا یہ معاملہ آسان فرما دے.اس دعا کے ساتھ بڑے بڑے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں اور آسان ہوتے دیکھے گئے ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں جن دعوت الی اللہ کرنے والوں نے یہ دعائیں کیں ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے
خطبات طاہر جلدا 116 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء فضل سے ان کے نتیجہ میں مشکلوں کو آسان فرما دیتا ہے.کئی دعوت الی اللہ کرنے والے ایسے ہیں جنہوں نے اس مضمون کی دعا کے ساتھ اپنے واقعات لکھے ہیں کہ اس طرح ایک موقع پر ہم تبلیغی گفتگو کے دوران سخت مشکل میں پھنس گئے اس وقت ذہن اسی دعا کی طرف متوجہ ہوا اور دعا کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر وہ مشکل حل فرما دی اور اس مشکل کام کو آسان فرما دیا اور مخالف کو خدا کے فضل سے شکست کھانی پڑی.پس یہ دُعا ئیں بہت طاقتور دعائیں ہیں یہ وہ روحانی ہتھیار ہیں جن کے بغیر کوئی داعی الی اللہ میدان میں نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اس پر وہی بات صادق آئے گی کہ ے اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ހނ کیسی لڑائی کو نکلو گے جب کہ وہ ہتھیار آپ کے پاس نہ ہوں جو آزمودہ ہتھیار ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے خود آپ کے لئے مہیا فرما دیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ پہلے بھی بڑے لوگوں نے یہ ہتھیار استعمال کئے تھے اور کامیابی سے استعمال کئے تھے.آؤ اور میرے اسلحہ خانے سے یہ ہتھیار لو اور ان ہتھیاروں سے سج دھج کر پھر میدان میں نکلو.وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِی.اے خدا میری زبان کی گانٹھ کھول دے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپ کو لکنت تھی اور لکنت کے نتیجہ میں وہ سمجھتے تھے کہ میں پیغام صحیح پہنچا نہیں سکوں گا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس بشری کمزوری تک اس دعا کو محدود رکھنا درست نہیں ہے کیونکہ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي مراد صرف یہ نہیں ہے کہ میں بغیر لکنت کے بات کر سکوں.مراد یہ ہے کہ مجھے فصیح و بلیغ کلام کی قدرت عطا فرمانا، میں جو مضمون بیان کروں کسی مضمون کے بیان کے وقت میری زبان میں گانٹھ نہ پڑے.کوئی تردد نہ آئے.پس یہ تبلیغی میدان میں گفتگو کے وقت فصاحت و بلاغت مانگنے کی عجیب دعا ہے.دیکھیں کیسی نیک انجام دعا ہے کسی پہلو کو خالی نہیں چھوڑتی.پھر عرض کیا کہ اے خدا! میری فصاحت و بلاغت کس کام کی اگر دشمن میری بات سمجھے ہی نہ.ایسی فصاحت و بلاغت عطا فرما کہ يَفْقَهُوا قَوْلِي کے میرے مخاطب میری باتوں کو سمجھنا شروع کر دیں.پھر اگر وہ انکار کریں گے تو ان پر حجت تمام ہو چکی ہوگی پھر خدا کی تقدیر حرکت میں آئے گی.پس فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق اس دعا کے نتیجہ میں حجبت تمام ہونے کے بعد ہوا ہے.لاعلمی کی حالت میں اُن سے یہ سلوک نہیں کیا گیا.پس بہت عظیم الشان دُعا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 117 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء ہے اور بہت گہرے مطالب رکھتی ہے پس جو بھی دعوت الی اللہ کا منصوبہ بنانے بیٹھے وہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سورۃ فاتحہ کے مضمون کو ذہن میں رکھے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی آیت پہلے لکھے پھر سوچے کہ اس آیت کے تابع اور کونسی آیات قرآنی ہیں جو میرے کام میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں ان میں سے یہ آیت جیسا کہ میں نے چن کر پیش کی ہے یہ بھی شامل کرے پھر وہ دعا ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقره: ۲۵) کہ اے ہمارے رب! أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا ہم پر اپنے فضل سے صبر نازل فرمادے.افْرِح کی دُعا میں ایک بہت ہی لطیف بات یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل ہوتا ہے اور أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا کا مطلب ہے کہ صبر کو ہمارے لئے آسان فرمادے صبر میں ہمیں شرح صدر عطا فرما ایسے صبر کی طاقت عطا فرما جس سے طبیعت میں فراغت کا احساس ہو اور کھلے دل سے صبر کرے ورنہ بعض ایسے صبر کرنے والے بھی ہوتے ہیں جو واویلا بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں صبر آ گیا اور ساتھ ان کا دل بھی غم میں گھلتا رہتا ہے تو آفریح کی دُعا بہت ہی عظیم الشان دُعا ہے.اس راہ میں تکلیفیں آئیں گی.یہ بھی اس دعا کا پیغام ہے اس دعا سے دعوت الی اللہ کرنے والے کو یہ تنبیہہ بھی ہو جاتی ہے کہ جو کام ہے اس راہ میں مشکلات ہوں گی ، دل آزاریاں ہوں گی ، طرح طرح کے دُکھ دیئے جائیں گے ، عزتوں پر حملہ کیا جائے گا، جان مال پر بھی حملہ ممکن ہے ، پس یہ راستہ بہت مشکل راستہ ہے.اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر اس راستہ کا طے کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے تو یہ دُعا سکھائی.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا.اے خدا! وہ صبر دے جو دل میں کشائش پیدا کر دے.دل میں ایک اطمینان کا احساس بھی پیدا کر دے کہ ہم اس صبر سے خوب راضی ہو جائیں.وَثَبِّتُ اَقْدَامَنَا.اور اس راہ میں ہمارے قدموں کو مضبوط کر.اب دیکھیں أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا کے ساتھ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا کا گہرا تعلق ہے.وہ صبر جوطوعاً و کرہا اس طرح اختیار کیا جائے کہ انسان اس صبر پر راضی نہ ہو.اس کے نتیجہ میں اس کو جدوجہد کی طاقت نصیب نہیں ہو سکتی وہ صبر طاقت بخشتا ہے جس کے ساتھ شرح صدر عطا ہو.جو کچھ
خطبات طاہر جلدا 118 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء کسی نے انسان سے کرنا ہے کر گزرے.ہر قسم کے دُکھوں میں مبتلا ہونے کے بعد خدا کی خاطر اس کو گھلے دل کے ساتھ صبر نصیب ہو جائے پھر وہ کہتا ہے اب ٹھیک ہے.جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب تو میں سب کچھ اپنی ساری طاقتیں اس راہ میں جھونک دوں گا اور کسی منزل پر میرے قدم نہیں ڈگمگائیں گے.یہ وہ آرزو ہے جو اس دُعا کی صورت میں مانگی گئی ہے.وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا ہمارے قدموں کو مضبوط فرما دے.وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور ہماری یہ جد و جہد رائیگاں نہ جائے.وہ جد و جہد جس کا آغاز یکطرفہ مظالم سے شروع ہوا.مد مقابل نے نصیحت فرمانے کی بجائے ہمیں دُکھ دیئے.یہاں تک کہ ہمیں تجھ سے صبر کی التجا کرنی پڑی.اس کا انجام یہ کر کہ ہمیں فتح نصیب فرما اور ہمیں دُکھ دینے والے مغلوب ہو جائیں.اب یہ وہ دعا ہے کہ اگر یہ بھی منصوبہ میں داخل ہو تو دیکھیں کیسے کیسے لطف دے گی اور کتنی عظیم طاقتیں آپ کو عطا کرے گی اور دعا مانگتے وقت آپ کے حوصلے بڑھیں گے ، آپ کا یقین بڑھے گا اور عزم میں مضبوطی پیدا ہوگی کیونکہ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا کی دُعا اگر قبول ہو تو عزم کی مضبوطی اس میں شامل ہے.جس کے عزم مضبوط نہ ہوں اس کے قدم بھی مضبوط نہیں ہو سکتے.پس یہ اور اس جیسی اور دعائیں ہیں.میں اس وقت دُعاؤں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.میں صرف یہ سمجھا رہا ہوں کہ آپ منصوبے کیسے بنائیں گے.ہر منصوبہ بنانے والا پہلے دُعاؤں کا منصوبہ بنائے اور دعاؤں کا منصو بہ بناتے وقت یا در کھے کہ عبادت کا قیام ضروری ہے.عبادت کے قیام کے بغیر اور نیک اعمال کے بغیر دعاؤں کو رفعت عطا نہیں ہوتی.کسی کلمہ کو بلندی نصیب نہیں ہوتی تو منصوبہ بناتے وقت انسان سوچتا بھی رہے اپنے نفس کا محاسبہ بھی کرتا رہے اور اگر نیک ارادے کے ساتھ ،عزم صمیم کے ساتھ منصوبہ کے لئے بیٹھا ہے تو لازماً منصوبہ بناتے وقت کی جو فکریں ہیں وہ اس کے دل پر نیک اثر ڈالیں گی اور بہت سی پاک تبدیلیاں اس کے اندر پیدا کریں گی.بہر حال دعاؤں کے مضمون میں ایک اور بات کو بھی داخل کر لیں کہ منصوبہ بناتے وقت یہ بھی فیصلہ کریں کہ جن لوگوں کو میں یا ہم تبلیغ کریں گے ان کے لئے بھی دعائیں کیا کریں گے اور اپنی دعاؤں کی طاقت کے کرشمے ان کو دکھا ئیں گے اور ان کو بتائیں گے کہ جس خدا کی طرف سے ہم آرہے ہیں اور جس خدا کی طرف تمہیں بلانے کے لئے دعوت دے رہے ہیں اس خدا سے ہمارا تعلق ہے اور وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے.پس ہم خدا کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 119 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء رستے سے آرہے ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں.دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دُعاؤں کو قبول فرماتا ہے اور تم پر ہمارا خدا سے تعلق ثابت کر دیتا ہے.سب دلیلوں سے بڑی دلیل دُعا کی دلیل ہے اور مقبول دُعا کی دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تبلیغی ہتھیاروں میں سب سے بڑی فوقیت دُعا کو دی اور اپنی صداقت کے نشانوں کے طور پر سب سے زیادہ مقبول دعاؤں کو پیش فرمایا.ایسی کتابیں تحریر فرمائیں جیسے حقیقۃ الوحی.نشان آسمانی وغیرہ.جن میں کثرت سے ان دعاؤں کا ذکر ہے جن کی قبولیت کے خدا نے ظاہر و باہر نشان دکھائے اور بہت سے احمدی ہیں جن کے آباؤ اجدادان مقبول دعاؤں کو دیکھ کر احمدی ہوئے تھے.شائد ہی آج احمدیت میں کوئی ایسا گھر ہو جن کے آباؤ اجداد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں احمدی ہوئے ہوں اور ان کی احمدیت میں دُعاؤں کا دخل نہ ہو یا اُن کی اپنی دُعاؤں کا دخل ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابہ کی دُعاؤں کا دخل ہے یا انہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کا فیض پایا ہے یا حضرت مسیح موعود کی دُعاؤں کو قبول ہوتے دیکھا ہے اور اس سے مرعوب ہو کر انہوں نے احمدیت کی سچائی کو قبول کیا.پس سارے دلائل ایک طرف اور مقبول دُعائیں ایک طرف اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے.اب کثرت سے یہ رجحان پیدا ہو گیا ہے مختلف ممالک سے لوگ خط لکھتے ہیں کہ میں عیسائی ہوں، میں ہندو ہوں، میں سکھ ہوں ، میں فلاں ہوں، میں مسلمان ہوں، لیکن احمدی نہیں.لیکن آپ کی مقبول دُعا کے بعض واقعات میں نے سُنے ہیں.بعض احمد یوں نے مجھے بتایا ہے اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے اس معاملہ میں دُعا کریں اور پھر بسا اوقات ان کا ایک خط آتا ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ یا وہ بھگوان کہتا ہے تو بھگوان کی کر پاسے وہ کام جو بظا ہر ممکن نہیں تھا وہ ہو گیا ہے اور میرے فلاں فلاں دوست نے بھی دُعا کے لئے کہا ہے اور فلاں نے بھی کہا ہے گویا کہ دُعا کروانے والوں کا سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے.بعض دفعہ لڑکوں کے لئے دُعا مانگنے کے لئے درخواست کرتے ہیں.اس میں میں شرط لگا تا ہوں کہ دُعا کے لئے کوئی شرط نہیں ہوا کرتی مگر میں اپنی دل کی مجبوری سے یہ شرط لگا تا ہوں کہ لڑکے کوموحد بناؤ گے مشرک نہیں بناؤ گے.ایک خدا کی عبادت کرنے والا بناؤ گے کیونکہ اگر میں یہ شرط نہ لگاؤں تو وہ مجھے نعوذ باللہ خدائی طاقتوں والا سمجھنے لگیں گے اور دُعا کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ جس کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 120 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء دعا کرے اس کو توحید پر قائم رکھے.اس کا سر اپنے سامنے نہ جھکائے بلکہ اس خدا کے سامنے جُھکائے جس کی طرف سے اور جس سے گریہ وزاری کے ساتھ وہ فیض مانگتے ہوئے اس کے لئے دُعا کر رہا ہے اور اللہ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی بھی توفیق ملی.یہاں ایک بنگالی دوست ہیں.ان کی بیوی بھی تعلیم یافتہ ہیں.پڑھتے ہیں.وہ ایک دفعہ اپنی بیماری کے سلسلہ میں آئے اور پھر ہو میو پیتھک دواؤں سے تو توجہ ہٹ گئی لیکن دُعاؤں کی طرف زیادہ ہوگئی اور سب سے زیادہ دُعاؤں کے لئے کہا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ان کی بہت سی مرادیں پوری ہوئیں.اب وہ کل باوجود اس کے کہ وقت نہیں لیا ہوا تھا وہ پہنچے کہ میں نے ضرور ملنا ہے.ساقی صاحب نے کہا کہ وہ بڑا زور دے رہے ہیں.میں نے کہا بلا لیں اُن کو.جب ملے تو کہنے لگے کہ ہم تو سب ٹھیک ہیں لیکن میری بیوی کی ایک دوست ہیں اُن کو بڑا سخت ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ اس وقت بہت ہی خطرناک حالت میں ہسپتال میں ہیں.وہ چونکہ میری بیوی سے آپ کے متعلق سنتی رہتی ہیں اس لئے اس نے مجھے اصرار کے ساتھ بھجوایا ہے کہ فوری طور پر جاؤ اور ان کو دُعا کے لئے کہو تب مجھے چین آئے گا.پس دُعا کا معجزہ ایک زندہ معجزہ ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا تعلق صرف خلیفہ وقت سے نہیں ہے بلکہ ہر اُس شخص سے ہے جو خلافت احمد یہ سے خلوص کا تعلق باندھتا ہے اور اس راستے سے وہ اپنے تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت محمد مصطفی سے بھی مضبوط کرتا ہے اور آخری مقصد اس تعلق کا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے.یہ وہ تو حید ہے جس پر قائم ہونے کے نتیجہ میں دُعاؤں کو برکت ملتی ہے.مقبولیت کا فیض عطا ہوتا ہے اور ان دُعاؤں کے فیض سے آپ جگہ جگہ دیکھیں گے کہ لوگ احمدیت کی صداقت کے قائل ہونا شروع ہو جائیں گے.لیکن افسوس ہے کہ دُعاؤں کے مضمون میں دعوت الی اللہ کرنے والے پوری طرح استفادہ نہیں کر رہے.بعض دعوت الی اللہ کرنے والے دُعاؤں کی طرف متوجہ تو ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ دُعا سے مراد صرف اتنا ہے کہ مجھے لکھ دیں کہ میں ان کے لئے دُعا کروں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو پھل لگائے یا خود اپنی کوششوں کو پھل لگانے کے لئے خدا سے دُعا مانگتے رہیں.اس سے انکار نہیں کہ یہ درست طریق ہے لیکن صرف یہی طریق نہیں ہے بلکہ دعا ایک ایسا زندہ درخت ہے جو ہر موسم میں ہر حال میں اعجازی پھل دکھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی جیسا کہ حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 121 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک روایت ملتی ہے.یہ ایک شہادت ہے کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے جو اُس وقت بچے تھے اور آپ کے ساتھ غالبا بہشتی مقبرہ کے باغ میں جارہے ہیں ایک ایسے پھل کی درخواست کی جس کا موسم نہیں تھا اور آپ نے دُعا کے ساتھ درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہ پھل اُن کو دے دیا کہ یہ لو.خدا تعالیٰ نے تمہیں پھل عطا فرمایا ہے.اگر یہ روایت کرنے والے صادق نہ ہوتے تو اس واقعہ کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے حالات سے ہم سب لوگ واقف ہیں اور روایت کرنے والوں کے متعلق ہزار ہا گواہیاں ہیں کہ اُن کو جھوٹ سے کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں تھا.اس لئے ان باتوں پر یقین کرنا پڑتا ہے جن کے متعلق جب تاریخ بتاتی ہے تو یقین نہیں آتا.پس دُعا میں یہ بہت بڑی طاقت ہے کہ وہ اعجازی پھل عطا کرتی ہے.اس یقین کے ساتھ آپ ان لوگوں کے لئے دُعا کریں جن کو آپ تبلیغ کرتے ہیں اور ان کے لئے صرف احمدیت کی دُعانہ کریں کیونکہ احمدیت کی دُعا میں ان کی تمنائیں ساتھ شامل نہیں ہیں.ان کے لئے وہ دُعا کریں جس دُعا کا فیض وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ان کی دل کی تمنا پوری ہوں تب اُن کو یقین آئے گا.ایک بیمار ہے جو حالت زار تک پہنچا ہوا ہے.کئی ایسے مریض ہیں جن کے متعلق ڈاکٹر جواب دے دیتے ہیں، کئی ایسے مصائب ہیں جن میں انسان پھنس کر نجات کی کوئی راہ نہیں پاتا اور گھیرے میں آجاتا ہے کئی ایسی تکلیفیں ہیں جو قریبیوں سے پہنچتی ہیں، کئی ایسی تکلیفیں ہیں جو دشمنوں سے پہنچتی ہیں.انسان کو سو قسم کے آزار ہیں اور ہر انسان جو بظاہر خوش بھی دکھائی دیتا ہے اس کو کوئی نہ کوئی فکر ضرور ہوتی ہے پس دعوت الی اللہ کرنے والے کو اپنے منصوبہ میں یہ بات لکھ لینی چاہئے کہ میں انبیاء کی زبان میں بھی دُعائیں مانگوں گا اور دُعا کے لئے دوسروں کو بھی لکھوں گا اپنے لئے بھی دُعا کروں گا لیکن خُدا تعالیٰ سے یہ اعجاز بھی مانگوں گا جن لوگوں کو میں تبلیغ کرتا ہوں اُن کو میری دُعا سے دُنیاوی فوائد بھی حاصل ہوں ، مادی فوائد بھی عطا ہوں تا کہ ان کا دل اس یقین سے بھر جائے کہ یہ شخص جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے یہ گھر سے آنے والا ہے، کوئی دور کی آواز نہیں ہے بلکہ گھر کے اندر سے اُٹھنے والی آواز ہے.اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے جب یہ منزل طے ہو جائے تو ہر دوسری روک رستے سے اُٹھا دی جاتی ہے.اس کے نتیجہ میں ضروری نہیں کہ ایک انسان حق کو قبول کر لے لیکن جس شخص کی دُعاؤں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 122 خطبه جمعه ۱۴ / فروری ۱۹۹۲ء کا فیض کوئی پاتا ہے اس کے لئے دل میں ایک ملائمت پیدا ہو جاتی ہے، نرم نرم گوشے پیدا ہو جاتے ہیں.اس کی بات کو ادب اور احترام سے سنتا ہے اور بے وجہ کی حجت بازیوں میں مبتلا ہو کر اس کے پیش کردہ دلائل کو رد نہیں کیا کرتا بلکہ اس کو بہت ہی ادب اور احترام سے اس خواہش کے ساتھ سنتا ہے کہ میرے دل میں جاگزین ہوں میں بات کو سمجھ جاؤں چنانچہ میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ بسا اوقات ایسے لوگ کچھ دیر کے بعد اس دُعا کی بھی درخواست شروع کر دیتے ہیں کہ دُعا کریں ہمیں ہدایت نصیب ہو.دعا کریں ہمیں توفیق ملے کہ ہم آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں اور یہ سلسلہ بعض دفعہ اس تیزی سے بڑھتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے قادیان کے سفر میں ایک سکھ خاندان سے رستہ چلتے تھوڑا سا تعلق قائم ہوا وہ اتنی تیزی سے بڑھا پہلے تو انہوں نے اپنے بچوں کے لئے اپنی مشکلات کے لئے دُعا کا کہنا شروع کیا پھر ایک دفعہ وقت لے کر آئے کہ میں نے ضرور ملنا ہے ان کو میں نے وقت دیا تو مجھے کہا کہ آپ میرے لئے اب یہ دعا کریں کہ اللہ مجھے ہدایت دے.میں نے کہا.ہاں ہاں میں آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں تو کہا کہ نہیں نہیں آپ بات نہیں سمجھے مطلب ہے مجھے طاقت دے کہ میں آپ کے ساتھ شامل ہو جاؤں.اب یہ جو باتیں ہیں یہ دُعا کے کرشمے ہیں اور دعوت الی اللہ کے لئے سب سے زیادہ ضروری دعا ہے.باقی باتیں میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.میں نے اس مضمون کو بہت کھول کر آپ پر روشن کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی فرمایا کہ يُفَصِّلُ الأيتِ.بعض معاملات وہ خوب کھول کھول کر بیان کرتا ہے کیونکہ بعض ایسے اسباب ہیں جو نظر سے مخفی ہوتے ہیں جیسے وہ عمود جن پر ساری کائنات اُٹھالی گئی ہے دکھائی نہیں دیتے.اگر اللہ تعالیٰ کھول کھول کر بیان نہ کرے تو لوگوں کو پتا بھی نہ لگے کہ ایسے عمود موجود ہیں پس دُعا کا عمل بھی ان عمود میں سے ہے جو سب سے زیادہ طاقت رکھتا ہے ساری کائنات کو یہ عمود اُٹھا سکتا ہے لیکن لوگوں کو نظر نہیں آرہا ہوتا.پس اس آیت کریمہ سے نصیحت پاتے ہوئے میں نے بھی اس مضمون کو آج خُوب کھول کر آپ کے سامنے رکھا ہے.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اپنے لئے ہر منصو بہ بنانے والا اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے گا.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 123 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء دعوت الی اللہ اپنے گھروں سے شروع کریں.اسوہ رسول پر چلتے ہوئے اپنے گھروں کو جنت نشان بنا دیں.خطبه جمعه فرموده ۲۱ رفروری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَا وَ يُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ وَ إِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ وا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ * وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (۱) نقال: ۳/۳۰) پھر فرمایا:.ط گزشتہ خطبہ میں میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اللہ تعالیٰ جو قادر مطلق ہے اور جب چاہے جس چیز کا فیصلہ فرمائے.جس انداز سے چاہے اُسے عدم سے وجود میں لاسکتا ہے.اس کے باوجود وہ منصوبہ بناتا ہے اور ہر کام جس کا فیصلہ کرتا ہے اس کے لئے ایک باقاعدہ منصوبہ بنا تا ہے تو اس منصوبے کے تحت وہ کام جاری ہو جاتے ہیں.تو مومن کا کام ہے جو خدا کا سچا بندہ ہے کہ اللہ ہی کے رنگ اختیار کرے اور جس طرح خدا تعالیٰ ایک فیصلے کے بعد منصوبہ بناتا ہے مومن بھی اپنے کاموں میں منصوبہ بنائے.مومنوں کے منصوبے سے متعلق گفتگو چل رہی ہے اس سلسلہ میں میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 124 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء یہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ کا فر بھی منصوبہ بناتا ہے.پس مومن کے لئے یہ کسی صورت ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ منصوبے کے بغیر اپنی زندگی کو کسی بہتر رنگ میں ڈھال سکے.ایک طرف اس کے آقا و مالک کا مزاج ہے جو منصوبے بناتا ہے.اگر اس سے محبت ہے اور اس سے پیار ہے ، اگر اُسے عقل کل سمجھتا ہے تو لا ز ما اُس کی پیروی کرنی ہوگی اور اگر نہ کرے تو دشمن کے ہاتھوں مارا جاتا ہے کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ دشمن بھی منصوبے بنارہا ہے.یہ دو آیات جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے ان میں انہی منصوبوں کا ذکر ہے اور ان منصوبوں کے ذکر سے پہلے ہی ان کا علاج بھی بیان فرما دیا گیا ہے.فرمایا یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا انَ تَتَّقُوا اللهَ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کرو يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وہ تمہیں کھلی کھلی واضح فتح عطا فرمائے گا.فرقان ایسی دلیل کو بھی کہتے ہیں اور ایسی قوت کو بھی کہتے ہیں جو کھرے کھوٹے میں تمیز کر دے.جو حق کو باطل کے مقابل پر کھول کر سامنے لے آئے اور اس میں غلبے کا مفہوم بھی ہے کیونکہ سب سے بڑی دلیل جو عوام الناس سمجھتے ہیں وہ غلبے کی دلیل ہے.پس یوم الفرقان قرآن کریم میں بیان فرمایا یہ جنگ بدر کا وہ دن تھا جبکہ دشمن نے پہچان یہ جیتے ہوئے لوگ ہیں اب ان سے مقابلہ نہیں ہو سکتا.اس دن حضرت اقدس محمد مصطفی ملے اور آپ کے غلاموں کی فضیلت کھلے کھلے نشان کے طور پر روشن ہوگئی.پس فرمایا کہ تمہارے لئے ایک ہی طریق ہے کہ تقوی اختیار کرو، تقوی اختیار کرو گے تو خدا تعالیٰ وعدہ دیتا ہے کہ وہ تمہیں فرقان عطا فرمائے گا اور فرقان کے ساتھ ويُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ تمہاری برائیاں دور فرمائے گا.وَيَغْفِرْ لَكُمْ اور تم سے جو پہلے گناہ سرزد ہو گئے اُن سے بخشش کا سلوک فرمائے گا.وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑے فضل والا ہے وَ إِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا.فرمایا ہم تمہیں مطلع کرتے ہیں کہ دشمن تمہارے خلاف منصوبے بنارہے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو واحد کے صیغے میں مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بھی یہ دشمن تیرے خلاف منصوبے بناتے ہیں جن کا تین نکاتی پروگرام ہے لِيُثْبِتُوكَ ایک یہ کہ تیرے قدم اکھاڑ دیں.جس پیغام کو لے کر تو چلا ہے اور جس عزم کے ساتھ اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے کا اقدام کر رہا ہے اس عزم میں تمہارا یقین ہٹا دیں یا اُس عزم کی پیروی میں تمہارے قدم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 125 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء لڑکھڑا دیں گویا کہ اپنے پیغام کا حق ادا کرنے کے اہل نہ رہو.اَوْ يَقْتُلُوكَ یا تجھے قتل کر دیں.یہ پہلے منصوبے کی ناکامی کالازمی نتیجہ ہے.اگر تیرے ثبات قدم کو وہ نقصان نہ پہنچاسکیں تیرے قدم نہ لڑکھڑا ئیں تو پورے عزم اور قوت کے ساتھ ، پوری شان کے ساتھ ، پورے صبر کے ساتھ ، پورے حو صلے اور تو گل کے ساتھ ، اپنے مقصد کی پیروی میں ثابت قدم رہے تو پھر ان کے لئے کوئی چارہ نہیں رہے گا سوائے اس کے کہ تیرے قتل کا منصوبہ بنائیں اور اگر تل میں ناکام ہوں تو يُخْرِجُوكَ كم سے کم اتنا تو ضرور کریں کہ تجھے ملک بدر کر دیں.یہ ایک طبعی ترتیب ہے جس کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے.بالکل اسی طرح دشمن الہی جماعتوں کا مقابلہ کیا کرتا ہے اور اسی طرح آغاز ہوتا ہے ، اسی طرح اس کا وسط آتا ہے ، اسی طرح اس کا انجام ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پیغام کو دلائل کے ذریعہ اور منطقی طاقتوں کے ذریعہ ناکام کیا جا سکے تو کوئی نہیں جو بے وجہ تلوار کو ہاتھ میں اٹھائے اس لئے تلوار ہاتھ میں لینے کا خیال آتا ہی اس وقت ہے جبکہ دشمن دلائل کی دنیا میں کلیہ نامراد ہو چکا ہوتا ہے.پس جب وہ نامراد ہوگا تو کیا کرے گا.جب ایمان سے تمہیں متزلزل نہ کر سکے اور اپنے منصوبوں میں تم ثابت قدم رہو تو پھر تلوار اٹھتی ہے اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں اور اگر تلوار ناکام نظر آئے اور ایسے حالات نہ پیدا ہوں کہ ان کے دشمن کو تلوار کے ذریعہ نیست و نابود کیا جا سکے تو پھر ملک بدر کرنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں کہ یہ فتنہ ملک سے باہر ہی نکل جائے اور مصیبت سے ہمارا پیچھا چھوٹے اور تو کوئی راہ نہیں ہے.فرمایا یہ تین منصوبے ہیں جو وہ تیرے خلاف بنارہے ہیں وَيَمْكُرُونَ اور ہم پھر تاکیڈا بتاتے ہیں کہ وہ مسلسل دن رات مکر کرنے میں مصروف ہیں.نا پاک منصوبے بنانے میں وہ دن رات لگے ہوئے ہیں لیکن وَيَمْكُرُ الله ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اللہ بھی ان منصوبوں کا تو ڑ کرتا چلا جا رہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ منصوبے جو دشمن بنا تا ہے اس کی اگر مومن کو اطلاع نہ بھی ہو تو خدا تعالیٰ ان منصوبوں کا تو ڑ کر رہا ہوتا ہے اس لئے مومن کے منصوبے بناتے وقت یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی کامیابی کا انحصار Intelegence پر ہو.دشمن کے منصوبوں پر اطلاع کے نتیجہ وہ منصوبے بنا رہا ہوتا ہے.اس نے مثبت پہلو میں منصوبے بنانے ہی ہیں کیونکہ اللہ کی پیروی کرتا ہے لیکن دشمن بھی مسلسل منصوبے بنانے میں مصروف ہے.اگر ان منصوبوں پر مومن کو اطلاع
خطبات طاہر جلد ۱۱ 126 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء ہو جائے تو اس کا بھی فرض ہے کہ اللہ جوابی کارروائی کرتا ہے مومن بھی جوابی منصو بہ بنائے لیکن اگر اطلاع نہ ہو تو اُسے کامل یقین رکھنا چاہیے کہ اس کا خدا ہمہ وقت اس کا نگران ہے اور دشمن کے شر پر اطلاع رکھتا ہے اور اس کے شر کو توڑنے کے لئے اُس کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے خدا تعالیٰ بھی جوابی منصوبے بنا رہا ہے.وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ - خَيْرُ الْمُكِرِينَ کا مطلب ہے کہ دشمن تو نا پاک اور گندے منصوبے بناتا ہے لیکن اللہ اچھے اور پاک منصوبے بناتا ہے.اچھے اور گندے میں فرق ایک تو مقصود کے لحاظ سے ہوا کرتا ہے ، ایک لائحہ عمل کے لحاظ سے ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص بعض دفعہ یہ کہتا ہے کہ میں نے نیک مقصود سامنے رکھا ہوا ہے.اس لئے جھوٹ کے ذریعہ نیک مقصد حاصل کرلوں، شر کے ذریعہ نیک مقصد حاصل کروں، کیا فرق پڑتا ہے اور جماعت کے اکثر معاندین کا یہی حال ہے.وہ سمجھتے ہیں جماعت کے خلاف جھوٹ بھی جائز ، گند بھی جائز ، ہر قسم کی لغو حرکت جائز کیونکہ ہمارا اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ جس کو ہم شر سمجھتے ہیں جس کو ہم جھوٹ سمجھتے ہیں مٹادیں.پس اس کو مٹانے کے لئے ہم ہر قسم کے گندے حربے کو استعمال کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا ایسا نہیں کیا کرتا اللہ کا جوابی مکر جھوٹ اور گند اور بہتان اور ہر قسم کے ظلم اور سفا کی کے مقابل پر ایک صاف ستھرا پروگرام ہوتا ہے جس کے ذریعہ خدا تعالے کو کسی غلط کام میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.وَ اللهُ خَيْرُ المکین اس کا منصوبہ ہمیشہ صاف رہے گا.پس جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی جماعت کو دشمن کے منصوبوں کی اطلاع ہوئی ہے جھوٹ کے مقابل پر کبھی جھوٹ نہیں بولا گیا، شر اور فتنہ پھیلانے کے مقابل پر کبھی شر اور فتنہ نہیں پھیلایا گیا.بعض دفعہ یہ بھی بہتان لگاتے ہیں کہ احمدیوں نے شیعہ سنی فساد برپا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے.بھٹو صاحب اپنے آخری دور حکومت میں اپنی جان اسی طرح بچایا کرتے تھے کہ ہر فساد کی ذمہ داری احمدیوں پر ڈالنے کے لئے وہ Intelegence کے ذریعہ پہلے ہی یہ خبریں پھیلا دیا کرتے تھے، اخباروں میں اشتہار دے دیا کرتے تھے کہ احمدی فلاں شرارت کرنے لگے ہیں اس سے بچ جاؤ حالانکہ احمدیت کے مزاج میں ہی وہ بات نہیں چنانچہ بسا اوقات ایسا ہوا کہ جب احمدیوں کے خلاف کوئی الزام لگایا گیا یعنی اس قسم کا گندہ قتل کا الزام ، شر پھیلانے کا الزام تو بڑے چوٹی کے تجربہ کار پولیس افسروں نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم احمدیت کا مزاج جانتے ہیں یہ ہوہی نہیں سکتا ان کی سوسالہ تاریخ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 127 خطبه جمعه ۲۱ رفروری ۱۹۹۲ء سامنے کھڑی ہے.یہ اگر منصوبہ بنائیں گے تو خَيْرُ الْمُكِرِينَ والا منصوبہ ہوگا.شــر الـمـاكـرين والا نہیں ہوسکتا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالله خَيْرُ الْمُكِرِينَ مومن کو بھی جب جوابی منصوبہ بنانا ہوتو خَيْرُ الْمُكرِین ہونا پڑے گا.خیر کا دوسرا مطلب بہتر کا ہے جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.اس منصوبے میں غالب آنے کی صلاحیت ہوتی ہے.دشمن کے ہر منصوبے کو یہ بہتر منصوبہ لازماً نا کام کر دیتا ہے.پس صلاحیتوں کے لحاظ سے بہتر کے معنی میں خَيْرُ الْمُكِرِينَ ہے.اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ابتداء ہی میں مومن کو جو نصیحت فرمائی ہے وہ دراصل دشمن کے سارے منصوبوں کا توڑ ہے اور خدا تعالیٰ کا مومن کے لئے منصوبے بنانا اس مرکزی نقطہ سے تعلق رکھتا ہے جس کا بیان اس سے پہلے ہو گیا ہے کہ اس کو مضبوطی سے پکڑ لوتمہارے سارے کام ٹھیک ہو جائیں گے.وہ تقوی ہے.اس ساری آیت میں ایک ہی چابی رکھی گئی ہے.باقی سب اس چابی کے ذریعہ کھلتے ہوئے تالوں کے مناظر دکھائے گئے ہیں لیکن خدا کے منصوبے بنانے کا تعلق بھی مومن کے تقویٰ سے ہے.جس مومن میں تقویٰ نہ ہو اس کے لئے خدا منصو بے نہیں بنایا کرتا ، اس کے حق میں کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوتا، اُسے کوئی فرقان عطا نہیں کی جاتی.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے لئے انفرادی طور پر منصوبہ بنائیں تو اس میں دعا کے بعد سب سے اہم قابل توجہ بات یہ ہے کہ اپنے تقویٰ کا منصوبہ بنائیں اور تقویٰ کا منصوبہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو علم ہو آپ میں کیا کیا کمی ہے اور وہ کمی بعض دفعہ ایسی بھی ہوتی ہے کہ جو آپ کے بس میں ہو کہ اُسے دور کر دیں اور بعض دفعہ ایسی بھی ہوتی ہے کہ آپ اپنی برائیوں کے ہاتھوں مغلوب ہو چکے ہوتے ہیں اور کوئی پیش نہیں جاتی.ان دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ نے آپ کو متقی ہی قرار دیا ہے.یہ بہت ہی قابل ذکر نکتہ ہے، یہ بہت ہی توجہ کے لائق نکتہ ہے کہ یہاں متقی کی یہ تعریف نہیں فرمائی کہ متقی وہ ہے جو نیتوں میں بھی کامل ہو اور عمل میں بھی کامل ہو اس میں نقائص نہ ہوں میں صرف ان کی مددکروں گا.اگر یہ ہوتا تو دعوت الی اللہ کرنے کے لئے خدا کے ہاتھ کچھ بھی باقی نہ رہتا کیونکہ تقویٰ کی مصیبت یہ ہے کہ جتنا تقومی بڑھتا ہے اُتنا ہی انسان اپنے آپ کو گناہ گار بھی سمجھنے لگ جاتا ہے اور بسا اوقات درست ہوتا ہے کیونکہ اس کا نیکی کا معیار بڑھتا رہتا ہے جس چیز کو وہ نیکی سمجھتا ہے وہ ایک مقام پر نہیں رہتی بلکہ اس کا معیار بلند ہوتارہتا ہے اسی کا نام عرفان ہے.تو تقوی اُس کے نقائص کھول کھول کر سامنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 128 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء لاتا ہے اور جب نقائص سامنے لاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں متفق نہیں ہوں.جب اپنے آپ کو متقی نہیں سمجھتا تو وہ کہے گا مجھے فرقان عطا نہیں ہوگی، مجھ سے خدا یہ سلوک نہیں فرمائے گا، وہ سلوک نہیں فرمائے گا، میرے لئے منصوبے نہیں بنائے گا تو پہلا قدم اُٹھانے سے پہلے ہی اس کی کمر ہمت ٹوٹ جاتی ہے.یہاں دیکھیں خدا نے کیسی عجیب تعریف فرمائی ہے.یہ دراصل وہی تعریف ہے جو قرآن کریم میں سورۃ بقرہ کے آغاز میں ہی بیان کی گئی ہے.فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.وہاں متقی سے مراد اعلی درجے کے تربیت یافتہ لوگ نہیں ہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی ہدایت پاچکے ہوتے ہیں.وہاں تقوی کی وہ تعریف ہے جو اس آیت میں پیش نظر ہے کہ انسان سچائی کے ساتھ ، خالص نیت کے ساتھ پاک ہونے کا ارادہ کرے.یہ فیصلہ کرے کہ اس راہ پر چلنے کے لئے مجھے اس راہ کے اسلوب بھی سیکھنے ہوں گے اور میں اپنی موجودہ کمزوریوں کے ساتھ اس رستے پر چلتا ہوا اچھا نہیں لگتا.یہ ارادہ کر کے جب وہ یہ فیصلہ کرے کہ میں پوری کوشش کروں گا کہ اپنے نقائص کو دور کروں اور اپنی خوبیوں میں اضافہ کروں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے متقی قرار دے دیا ہے.تیرا یہ ارادہ ہی مجھے منظور اور مقبول ہے اگر یہ خالص ہے اگر یہ سچائی کے ساتھ کیا ہوا ارادہ ہے تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ تجھے ضر ور فرقان عطا کرے گا کیونکہ میری خاطر میرے رستے پر چلنے کے لئے تو نے یہ پروگرام بنایا ہے.فرقان کا مضمون یہ بات کھول رہا ہے اور بعد میں آنے والی آیت یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر کر رہی ہے کہ یہاں وہ متقی مراد ہے جو دعوت الی اللہ کا ارادہ کر کے گھر سے نکلتا ہے یا دعوت الی اللہ کے ارادے گھر بیٹھے باندھتا ہے اور ان سوچوں میں غلطاں ہے اور پریشان ہے کہ اے خدا میں تو کمزور ہوں.میرے اندر یہ بیماری ہے وہ بیماری ہے طرح طرح کے عوارض مجھے لاحق ہیں میں تو اپنے آپ کو اس لائق نہیں پاتا کہ باہر نکل کر تیری طرف دنیا کو بلاؤں کیونکہ جو تیری طرف بلانے والا ہو اس میں تیرے جیسے اخلاق چاہئیں.دنیا دیکھ تو سکے کہ کس کی طرف سے آیا ہے.یہ وہ شکوک اور شبہات ہیں جن کے رد کے طور پر آیت کا بقیہ حصہ ہے اور بقیہ حصہ یہ بتارہا ہے کہ یہ وہم پہلے پیدا ہوئے ہیں تو سب سے پہلے سب سے بڑی خوشخبری رکھ دی.ہم تجھے فرقان کی بشارت دیتے ہیں ، تیرے اور غیر میں تفریق کی جائے گی.یہاں لفظ فرقان دوہرے معنی رکھتا ہے.اس پر آپ غور کریں تو انسان قرآن کی فصاحت و بلاغت پر وجد میں آجاتا ہے.دعوت الی اللہ کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 129 خطبه جمعه ۲۱ رفروری ۱۹۹۲ء والے میں اور جس کو دعوت الی اللہ کی جاتی ہے اس میں ایک فرق تو ہونا چاہئے.اگر فرق نہ ہو تو بلانے والا کس طرف بلاتا ہے اگر وہ اعلیٰ اخلاق کا مالک نہیں ، اگر وہ اعلیٰ خوبیوں کا حامل نہیں، اگر وہ خدا کی صفات اپنے اندر نہیں رکھتا اور اس میں اور غیر میں تفریق ہی کوئی نہیں ہے تو اندھا اندھے کو بصارت کی بشارت دے رہا ہے.کوئی بلانے والا اگر خود بھوکا ہو تو خوراک کی طرف کیسے بلا سکتا ہے.تو یہ مضمون ہے کہ پھر کچھ نہ کچھ تمہارے اندر ہونا چاہئے اور خدا فرماتا ہے ہم تمہیں فرقان عطا کریں گے اور فرقان عطا کرنے کی تشریح یہ ہے کہ وَ يُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ.اللہ تعالیٰ تمہاری برائیاں دور فرمادے گا.جب برائیاں دور فرمادے گا تو تم میں اور تمہارے غیر میں تمیز ہو جائے گی بہت نمایاں فرق نظر آئے گا.وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (ال عمران:۳۲) اور تمہارے گناہوں سے بخشش کا سلوک فرمائے گا.بخشش سے مراد اخروی بخشش ہی نہیں وہ تو ہے ہی لیکن اس دنیا میں جب بخشش ہوتی ہے تو انسان اپنے اعمال کے بدنتائج سے بچایا جاتا ہے.پس مراد یہ ہے کہ جو بداعمالیاں تم سے سرزد ہورہی ہیں یا ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بدنتائج سے تمہیں محفوظ رکھے گا ہومرتبہ وہ تمہاری پردہ پوشیاں فرمائے گا.بے شمار مرتبہ تم پریشان ہو گے کہ اب میں ان برائیوں کا برا نتیجہ دیکھنے والا ہوں اور دشمن بھی دیکھے گا اور کیا کہے گا کہ کون تھا کس کی طرف بلاتا تھا اور کیسی حرکتیں کرتا رہا؟ تو اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری مدد کو آؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تیری نیت متقی بننے کی ہے.پس یہاں متقی سے مراد وہ پاک نیت انسان ہے جو نیک بننے کا فیصلہ کرے اور خدا کی خاطر ایسا کرے اور تبلیغ کی خاطر ایسا کرے کیونکہ اگلی آیت کھلا کھلا بتارہی ہے کہ یہ تبلیغ کا مضمون ہے اور دعوت الی اللہ والے کے سوا کسی اور کا ذکر نہیں ہے کوئی عام ذکر نہیں.فرمایا پھر ہم تمہیں فرقان کے دوسرے معنوں میں بھی فرقان دیں گے یعنی تمہیں دشمن پر ایک ایسا غلبہ عطا کر دیں گے کہ تمہارا مقصود تمہیں حاصل ہو جائے گا اس کے لئے فرمایا کہ دیکھو اللہ کے پاس بے شمار بہت بڑے فضل ہیں.وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کہ اللہ بہت بڑے بڑے فضلوں والا ہے.اس کے پاس کسی قسم کی کمی نہیں ہے.پھر آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تو چونکہ متقیوں کا سردار ہے اس لئے دیکھ ہم تیرے سے یہ یہ سلوک کر رہے ہیں.تو سویا ہوا ہوتا ہے تو دشمن کی شرارتوں سے دن کو بھی اور رات کو بھی غافل
خطبات طاہر جلدا 130 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء بیٹھا ہوا ہوتا ہے تو تیرے لئے خدا جاگتا ہے اور تیرے لئے دشمن کے ہر منصوبے کو نا کام کرنے کے لئے ایک مقابل کا منصوبہ بنارہا ہوتا ہے.پس تقومی آنحضرت ﷺ کی طرف بڑھنے کا نام ہے کیونکہ آپ نے ہمیں زبان ہی سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعہ تقویٰ کے مضمون سکھائے ہیں.پس ان معنوں میں فرمایا کہ تمہیں دشمن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں مگر یہ متنبہ بھی فرما دیا کہ جب تم متقی بنو گے، جب خدا تمہاری کمزوریاں دور فرمائے گا تمہیں فرقان عطا کرے گا.تو پھر یا د رکھنا بڑی مصیبتیں پڑیں گی تمہارے قتل کے منصوبے بنائے جائیں گے.سب سے پہلے تو تمہیں گالیاں دے کر یا مغلظات بک کر اور ہر قسم کے بہتان تم پر لگا کر تمہیں ڈرا دھمکا کر اپنے مقصد سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی اور یہ تاثر پیدا کر کے کہ اس مقصد کی پیروی میں گھانا ہی گھاٹا ہے، متزلزل کرنے کی کوشش کی جائے گی.تم کہو گے کہ کس مصیبت میں مبتلا ہو گئے، کیا ضرورت تھی اس مشکل میں پڑنے کی؟ آرام سے گھر بیٹھو اور دشمن بھی یہی کہے گا کہ تم نے خود اپنے اوپر مصیبتیں ڈالی ہوئی ہیں آرام سے گھر کیوں نہیں بیٹھتے اور یہی وہ پروپیگنڈا ہے جو حکومت پاکستان نے ۱۹۷۴ء کے بعد اور پھر ۸۴ء کے بعد بڑے زور سے ساری دنیا میں کیا.جب بھی احمدی اپنے درد ناک حالات بیان کرتے رہے تو بسا اوقات عدالتوں نے جن کے ہاں اُن کے کیس پیش تھے انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ہمیں حکومت پاکستان کی طرف سے یا اُن کے فلاں فلاں نمائندے کی طرف سے یا Ambessidor کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ تم خود شرارت پیدا کرتے ہو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ باہر نکل کر لوگوں کو اپنی طرف بلاؤ.جب تم تبلیغ کرو گے تو پھر جو تیاں کھاؤ گے، مار پڑے گی حالانکہ نیک کام کی طرف بلا نا جرم نہیں ہے اور ان لوگوں کے اپنے قانون کے مطابق جرم نہیں ہے جو یہ اعتراض کرتے ہیں.وہ تو احمد یوں کو اپنے مقصد میں نا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو یہ ہے تمہیں اپنے ملک میں جگہ نہیں ملی ہم بھی اپنے ملک میں جگہ نہیں دینا چاہتے اور اس وجہ سے یہ دلیل بناتے ہیں کہ تم آرام سے گھر بیٹھے رہو کوئی تمہیں کچھ نہیں کہتا.ظلم تب ہو گا جب تم گھر بیٹھے رہو کسی کو کچھ نہ کہو کسی کو اپنی طرف بلا ؤ نہیں اور پھر لوگ تمہیں گھر جا کر ماریں پھر تمہارا حق ہے ہمارے ملک میں آجاؤ لیکن دعوت دیتے ہوئے مار کھاؤ گے تو پھر یہ تمہارا قصور ہے.یہ دلیل واقعہ بہت سی عدالتوں میں پیش کی گئی اور پھر جماعت کی طرف سے اس کا معقول مؤثر رد بھی پیش کیا جاتارہا لیکن بعض جوں نے نہیں تسلیم کیا.
خطبات طاہر جلد 131 خطبه جمعه ۲۱ رفروری ۱۹۹۲ء تو مومن تو بغیر دعوت کے رہ نہیں سکتا اور دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں دعوت الی الخیر دینا یا آپ خیر کو چھوڑ بھی دیں تو ایسی دعوت دینا جس میں ایک شخص زبانی بغیر کسی زبردستی کے، بغیر کسی لالچ کے کسی کو اپنا ہم خیال ہونے کی طرف بلاتا ہو یہ جرم نہیں ہے اور اس دعوت کے نتیجہ میں کسی کو مارکٹائی کا کوئی حق نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے متنبہ کر دیا کہ تم سے فرقان کا وعدہ تو ہے لیکن فرقان کے اور آج کے درمیان کافی منازل ہیں.وہ چھوٹا سا ذرہ ، ریزہ جو سیپی کے منہ میں جاتا ہے ایک دن ہی میں تو موتی نہیں بن جایا کرتا.سب سے پہلے خوشخبری رکھ کر حوصلہ بڑھا دیا ہے کہ تمہیں فرقان تو ملنی ہی ملنی ہے لیکن ملنے سے پہلے کچھ مشکلات آئیں گی، کچھ مراحل ایسے بھی آئیں گے جن میں بہت خوف ہیں ہم تمہیں پہلے سے متنبہ کرتے ہیں اور یہ بھی وعدہ کر رہے ہیں کہ ان خوفوں کو دور کیا جائے گا اور خدا تمہاری حفاظت فرمائے گا.پس ہر تبلیغ کرنے والے کو یہ وارننگ ہے، یہ تنبیہ ہے کہ خواہ وہ کیسی ہی ہمدردی کے ساتھ ، نیک نیت کے ساتھ ، نیک طریق پر پیار اور محبت کے طریق پر ملائمت کے ساتھ تبلیغ کرے گا چونکہ اس کی تبلیغ میں غالب آنے کی طاقت موجود ہے اس لئے لازماً اس کی مخالفت غلط طریق اختیار کرے گی اور دلائل میں نا کامی کی وجہ سے دشمن دوسرے طریق اختیار کرے گا.تو داعی الی اللہ کے لئے جو عام تنبیہ فرما دی گئی اس کا علاج بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تقویٰ کے طور پر آپ کے سامنے رکھا اور تقویٰ کی آسان تعریف کر کے اس کو آپ کے سامنے رکھا ہے.خالص نیت اور خلوص کے ساتھ تم فیصلہ کر لو.اب جو احمدی منصوبہ بنانے والا ہے خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا ہے اُسے اب تقومی کے موضوع کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھنا ہو گا، یہ دیکھنا ہوگا کہ روزمرہ کی زندگی میں اس میں کیا کیا بد اخلاقیاں پائی جاتی ہیں؟ کیا کیا ایسی کمزوریاں ہیں جن کے ذریعے جس کو آپ دعوت الی اللہ کرتے ہیں وہ قریب آنے کی بجائے آپ سے دور ہٹ سکتا ہے ،اگر وہ بیرونی زندگی کی کمزوریاں ہیں تو وہ نکتہ بہ نکتہ لکھ کر ان کے متعلق توجہ کرنا تقویٰ ہے.اگر ان کمزوریوں سے آپ آنکھیں بند رکھیں اور تسلیم نہ کریں تو یہ تقویٰ نہیں ہے.تقویٰ کا لفظی ترجمہ ” بیچنا ہے تو جس کو گڑھوں کا پتا ہی نہیں وہ بچے گا کیسے؟ پس تقویٰ کی ابتدائی تعریف کی رو سے آپ کو سروے کرنا ہوگا، ایک جائزہ لینا ہوگا کہ کہاں کہاں میرے گڑھے ہیں کہاں کہاں میں ٹھو کر کھا سکتا ہوں ، کون کون سی مجھ میں کمزوریاں ہیں جن
خطبات طاہر جلدا 132 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء کے رستے دشمن مجھ پر حملہ آور ہو گا اس لئے اپنی کمزوریوں کا با قاعدہ چارٹ بنا نا ہوگا.کھلا کھلا نہیکھیں لیکن اپنے علم میں ضرور لے آئیں، ذہن میں ان چیزوں کو حاضر کرلیں اور ان کو دور کرنے کے منصوبے کا نام تقویٰ ہے.وہ ہوگا خدا کی مدد سے اور خدا کے فضل سے لیکن آپ کے ذہن میں وہ باتیں حاضر ہوں گی تو پھر اگلا قدم اٹھے گا ورنہ اس ابتدائی تعریف میں آپ متقی نہیں قرار دیئے جاسکتے.سچے دل سے ، خلوص نیت کے ساتھ نیکی کی کوشش کرنا تقویٰ ہے لیکن نیکی کیا ہے؟ اس کا آغاز ہے بدیوں سے بچنا، اور بدیوں سے بچنے کے لئے بدیوں کا علم ہونا ضروری ہے.پس قرآن کریم کے ایک ایک لفظ میں اگر آپ اتر کر دیکھیں تو اور بہت سی نئی راہیں دکھائی دینے لگتی ہیں.آپ کے سامنے کئی ایسے ایوان کھلتے ہیں جن میں آپ نے پہلی دفعہ جھانک کر دیکھا ہوتا ہے.پس ہر داعی الی اللہ کو اپنی کمزوریاں دور کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنانا چاہئے اور ان کو لکھنا چاہئے.وہ بھی جو بیرونی کمزوریاں ہیں اور جن کا معاشرے سے تعلق ہے اور جو اندرونی کمزوریاں ہیں وہ بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں.بیرونی کمزوریوں کا تعلق زیادہ تر آپ کی ذات سے ہے.آپ جب کسی کو دعوت دیتے ہیں اور آپ لین دین میں بدنام ہیں تو لاکھ دعوتیں دیتے پھریں لوگوں کو پتا ہے کہ یہ لین دین کا کچا آدمی ہے باتیں بناتا ہے.اگر مبالغے کی عادت ہے.جھوٹ بول دیتے ہیں تو آپ کی بات کا اعتماد اٹھ جائے گا، اس میں وزن نہیں رہے گا، آپ جتنی مرضی چرب زبانی استعمال کریں جھوٹے کی بات کا وزن ہی کوئی نہیں ہوتا اور دیکھا گیا ہے کہ ایک آدمی خوب باتیں کر کے سمجھتا ہے کہ میں نے ساری مجلس کو مسحور کر لیا لیکن جب وہ مجلس چھوڑ کر جاتا ہے تو سارے ہنس پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بڑا ہی گئی ہے ، بڑا ہی جھوٹا ہے اور وہ سمجھتا ہے لوگ مسحور ہو گئے ہیں لیکن لوگ دل میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ جائے تو ہم بتائیں کہ یہ ہے کیا ؟ اور سچا آدمی چھوٹی سی بات کرتا ہے.بظاہر لوگ رد بھی کر دیتے ہیں ، ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اس نے بات کی ہے کسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا.بعض مخالفت کرتے ہیں لیکن سچی بات دل میں ڈوبنے کی تاثیر رکھتی ہے.اس وقت نہیں تو کچھ اور دیر کے بعد سچی بات اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے یا دکھانے کی کوشش کرتی ہے، اس میں طاقت ہے.پس بیرونی تعلقات میں اس قسم کی کمزوریاں دور کرنا فہرست کے اول پر آئے گا.جن کے نتیجہ میں آپ بدنام ہوں اور آپ کی نیک بات کا اثر نہ پڑے اور اس کا زیادہ تر آپ کی ذات سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 133 خطبه جمعه ۲۱ رفروری ۱۹۹۲ء تعلق ہے.پھر جب بدنامی والی باتوں سے نیچے اتر کر دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بدنامی والی باتیں جڑیں رکھتی تھیں اور وہ جڑیں آپ کے دل اور مزاج اور دماغ میں گہری پیوستہ ہیں.ایک پھل آپ نے کاٹ لیا تو دوسرا پھل بھی اس جڑ سے پیدا ہو گا اور وہ بد نیتوں کی جڑ ہے، وہ خود غرضیوں کی جڑ ہے، وہ ایسی کجیاں ہیں جو فطرت کے اندر گہری پیوستہ ہیں اور جب تک ان کجیوں کو ان کی جڑوں سے کھینچ کر باہر نکال کر نہ پھینکا جائے ایک شاخ کو کاٹیں گے تو دوسری شاخ پھر نکل آئے گی.ایک تنا گرے گا تو دوسرا تنا اپنی جڑوں سے باہر آجائے گا اور پھر انسان کو نمبر ۲ طریق پر اپنی فطرت کا گہرا اندرونی جائزہ لینا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ میں مالی لین دین میں کمزوری کیوں دکھاتا تھا، کیا تو کل کی کمی ہے یا طبیعت میں شوخی اور چالا کی ہے؟ سچ جھوٹ کا فرق معلوم نہیں اور بدی کا اور حرام پیسے کا بھی اتناہی مزا آتا ہے جتنا حلال پیسے کا.تو یہ بیماری جو ہے زیادہ گہری ہے اور یہ صرف لین دین سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ اور بہت سے اس کے اثرات ہیں جو سارے انسانی اخلاق کے دائرے پر پھیلے ہوئے ہیں.اس طرح منصوبہ بنا ئیں گے تو پھر منصو بہ در منصوبہ بننا شروع ہو جائے گا.یہ تو بیرونی حالت سے تعلق رکھنے والا منصوبہ ہے.ایک اندرونی حالت ہے جو گھر میں ظاہر ہوتی ہے.آپ کا اپنے بچوں سے سلوک ہے، آپ کا اپنی بیوی سے سلوک ہے، آپ کا اپنی والدہ سے، اپنی بہنوں سے سلوک ہے ، اپنی بیوی کی والدہ اس کی بہنوں سے اس کے باپ اس کے رشتہ داروں سے سلوک ہے، ایک اور دنیا آپ کے گھر سے نکل آئی جو گھر کی دنیا ہے لیکن بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس کا تعلق نہ صرف آپ کی موجودہ زندگی سے ہے بلکہ آپ کی اولاد کی قیامت تک کی آئندہ زندگی سے ہے.آپ باہر بدنام ہوں گے تو غیر آپ کی بات کو توجہ سے نہیں سنے گا یا وزن نہیں دے گالیکن گھر میں اگر آپ بگڑ گئے تو آپ کی نسلیں بگڑ جائیں گی.بجائے اس کے کہ آپ دعوت الی اللہ کے ذریعہ دوسروں کو باہر سے اسلام کے اندر داخل کرنے والے بنیں یا خدا کی راہ میں ان کے قدم کھینچیں ان کو دھکا دے کر پیچھے ہٹانے والے بن جائیں گے.ان کو ہی نہیں اپنی اولا د کو بھی وہ تو آپ کے نہیں بن سکے لیکن آپ کی اولاد جو آپ کی کہلاتی تھی وہ بھی آپ کی نہیں رہے گی.بسا اوقات بداخلاق خاوندوں کی بیویاں ایمان کھو بیٹھتی ہیں اور ان کی اولا دان کو اس طرح دیکھتی ہے کہ ذلیل لوگ ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے.نیکیاں باہر کی دنیا کے لئے دعوؤں کے طور پر ہیں
خطبات طاہر جلدا 134 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء حقیقت میں اس شخص کے اندر کچھ بھی نہیں.چنانچہ میں نے ایسی اولا دوں کو بار ہا اتنا بر باد ہوتے دیکھا ہے کہ دل اس بدی کے بد نتائج پر نظر ڈال کر لرزتا ہے.گھر میں اپنے اخلاق کو لازماً اچھا بنانا ہو گا جب دعوت الی اللہ کے مثبت نتائج کی بجائے منفی نتا ئج نکل رہے ہوں گے اور جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ بھی کھو رہے ہوں گے لیکن اس طرف جماعت نے ابھی پوری توجہ نہیں دی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور وہ سمجھتے ہی نہیں کہ اس کی اہمیت کیا ہے؟ ساری جماعت مراد نہیں بلکہ جماعت میں ایک طبقہ ہے جو اللہ کے فضل سے زرخیز زمین کی طرح ہے ان پر جب نصیحت کا بیج گرتا ہے تو وہ اس کو مٹا نہیں دیتے.بلکہ اس کے خواص کو ابھارتے ہیں اور اپنے سینے میں اس کو جگہ دیتے ہیں ،وہ نشو ونما پاتا ہے اور اس سے آگے پھر اور آگے نیکیاں بڑھتی ہیں، نیکیوں کے نئے نئے پھل لگتے ہیں چنانچہ پھر بسا اوقات بعض لوگ خوشی سے دعائیں لینے کی خاطر لکھتے ہیں کہ ہم نے گھر میں یہ یہ بدسلوکی کی تھی یا کیا کرتے تھے اور آپ کا فلاں خطبہ پہنچا تو اس کے بعد ہم نے سوچا اور خدا کے فضل سے توفیق مل گئی کہ اب ہم اس بد خلقی سے تائب ہو چکے ہیں، گھر صاف ہو گیا ہے اور نتیجہ کہتے ہیں کہ اب گھر کا مزا آیا ہے.اتنی خوشی ہوئی ہے اور ہمارے گھر میں ایسے اچھے تعلقات پیدا ہو گئے ہیں کہ دیکھنے والے بھی رشک کریں.تو جماعت کو جب میں کہتا ہوں کہ ابھی توجہ نہیں دی تو مراد یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ ساری جماعت ہی بہری گونگی ہے ، چند ایسے ہیں اور میرے خیال میں گھر کے معاملے میں چند سے بھی زائد ایسے ہیں جو اپنے گھر میں کم سے کم بنیادی اخلاق کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے.میں نے بیویوں کی بات کی ہے ، خاوندوں سے بیویوں کے تعلقات بعض دفعہ خاوندوں کی وجہ سے بگڑتے ہیں بعض دفعہ خاوندوں کے بیویوں کی وجہ سے بگڑتے ہیں.دونوں طرف احتمالات ہیں اور امکان موجود ہے لیکن زیادہ تر مرد کا قصور ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: خیرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَا هُلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لاهلى.( ترندی کتاب المناقب حدیث نمبر : ۳۸۳۰) تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے، اپنی بیوی،اپنے گھر والوں کے لئے اور اپنے اہل خانہ کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم میں سب سے اچھا ہوں.بعض دفعہ لوگوں کو جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلرِّجَالُ قَومُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ ( النساء: ۳۵) ہم نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 135 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء ان عورتوں کو سیدھا رکھنا ہے خواہ ڈنڈے کے ساتھ سیدھارکھنا پڑے ، بدتمیزی کے ساتھ سیدھا رکھنا پڑے گالی گلوچ دے کر سیدھا رکھنا پڑے یہ ہمارا کام ہے.اس لئے عورت ذات کوٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ محکم ہو، رعب ہو اور اس کی مجال نہ ہو کہ خاوند کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر سکے.یہ اس آیت پر تہمت ہے اور ایسی تہمت ہے جس نے سارے اسلام کو دنیا میں بدنام کر رکھا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس غلط تشریح کا کوئی رستہ ہی باقی نہیں چھوڑا.فرمایا خیــر کــم خـيـر کـم لاهله صلى الله وانا خیر کم لاهله - آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ قو ام تھے اور آپ کے قو آم ہونے نے کبھی بھی بدخلقی کا مظاہرہ نہیں کیا.کبھی بھی بد خلقی کا لباس نہیں اوڑھا تو وہ کیسے بدقسمت اور بدنصیب قو آم ہیں جو رسول اللہ اللہ کی تو امی سے سبق لینے کی بجائے ایسے غلط معنی کرتے ہیں جن کا اس آیت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر غور کریں کہ کس طرح وہ حمل کے ساتھ اور حوصلے کے ساتھ اپنی بیگمات کی بعض دفعہ سخت باتیں بھی سن لیا کرتے تھے.تکلیف دہ باتوں پر بھی اپنے آپ کو دکھی محسوس کرتے تھے مگر کبھی ایک دفعہ بھی حضرت اقدس محمد ﷺ نے گھر میں بد کلامی نہیں کی.ایک دفعہ بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا.پس تو آم کے کیا معنی ہیں آپ آنحضرت ﷺ سے سیکھیں.پھر آپ کو پتا لگے گا کہ آپ کی بدتمیزیاں قابل مواخذہ ہیں اور خدا کے نزدیک یہ یقیناً پکڑی جائیں گی.چنانچہ اس کا ایک بد پھل کڑوا پھل تو یہ ملتا ہے کہ اولاد برباد ہو جاتی ہے.اچھے دعوت دینے والے نکلے کہ نئی زمینیں فتح کرنے کی بجائے جو زمین حاصل تھی وہی ہاتھ سے جاتی رہی.جس جگہ سے غیر قوموں کو فتح کرنے نکلے تھے وہ قوم ہی اپنی نہ رہی.اپنی سرزمین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے.پس دعوت الی اللہ کے وقت ایسی بدنصیبی نہیں ہونی چاہیئے.پس منصوبے میں یہ بات شامل کریں.خاص طور پر میں اُن احمدی بد نصیب مردوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ نمازوں میں تو بڑے پکے ہوتے ہیں ، جماعتی کاموں میں بھی آگے ہوتے ہیں لیکن گھروں میں ظلم کرتے ہیں.وہ اپنی ساری نیکیوں کو اپنے ہاتھ سے مٹارہے ہوتے ہیں کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہتا.بعض دفعہ عورتوں کے بڑے درد ناک خط ملتے ہیں اور اُن کی ظلموں کی وہ داستانیں اگر سچی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کہتے تو یہ ہیں کہ یہ نمازی بھی ہے ، جماعت کا عہدیدار بھی ہے لیکن گھر آتا ہے تو بد تمیزیاں کرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر گالیاں دیتا ہے.میرے ماں باپ کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 136 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء گالیاں دیتا ہے.میرے گھر والوں کو دیتا ہے.اگر بدقسمتی سے کوئی رشتہ دار ہمارے گھر آجائے اور میں اس کو چائے پلا رہی ہوں تو اس کا منہ بگڑ جاتا ہے کہتا ہے تم نے میر امال کیوں اس کو کھلا دیا ؟ ایسا بدنصیب اور بد خلق انسان دعوت الی اللہ کے لائق کیسے ہوسکتا ہے اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ صرف یہی نقصان نہیں ہے بلکہ یہ ظلم ایسا ہے جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ایسے شخص سے ضرور مواخذہ کرے گا.کسی کی بچی تمہارے گھر آئی تو اس کے ساتھ تم اس قسم کی بدتمیزیاں کرو اور اس کی زندگی اجیرن کر دو لیکن وہ بے بس ہو اور تمہارے مقابل پر بے اختیار ہو، ذرا احتجاج کرے تو تم اس کو بدنی سزائیں دو اور کہو کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ بدنی سزا دو.یعنی قرآن کریم پر بھی حملہ، حدیث پر بھی حملہ.کلام اللہ پر بھی اور سنت پر بھی حملہ اور ان سب کو تحریف کے ساتھ ، اپنی زبان اور اپنے عمل کی تحریف کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر کے تم ساری دنیا پر ظلم کر رہے ہوتے ہو اور اسلام کی ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہو جسے کوئی مہذب دنیا میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.پھر دعوت الی اللہ کو بھی نکلتے ہو اپنے نام بھی لکھوا دیتے ہو.اس لئے اگر اور کچھ نہیں تو مظلوم کی بددعا سے ہی ڈرو.وہ عورت جو نسبتی اور بے بس ہے اس کو اپنے گھر ڈال کر اس پر زیادتیاں ، اس کے رشتہ داروں پر زیادتیاں ، ایسی کمینی حرکتیں کہ اگر اس کا کوئی عزیز چائے پی لے تو تم بھر جاؤ کہ میرے پیسے کو تم اپنے عزیزوں پر تقسیم کر رہی ہو حالانکہ قرآن کریم نے ذی القربی کا جو حکم دیا ہے کہ خبر دار ہم تمہیں نیکی کی نصیحت کرتے ہیں خیرات کی نصیحت کرتے ہیں لیکن ذی القربی کو نہیں بھولنا تو ذِي الْقُرْبی میں بیوی اور اس کے بھائی ، اس کے ماں باپ ، اس کے غریب رشتے دار سب شامل ہوتے ہیں اور تمہارا اخلاقی فرض ہے کہ ان کا خیال کرو.ان سے حسن سلوک کرو عزت کا سلوک کرو اور رحمی رشتوں کوتوڑو نہیں.پس یہاں جب آپ بد اخلاقی کرتے ہیں تو اس کا ایک اور بد نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ایسے گھر میں آپ کسی کو دعوت پر بلا نہیں سکتے اور جب آپ منصوبہ بنائیں گے تو اس منصوبے میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہئے کہ میں اپنے دوستوں کو کبھی کبھی دعوت پر بلاؤں، بیوی اپنی سہیلیوں کو اپنے گھر دعوت پر بلائے ، بچے اپنے دوستوں کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں اور گھر میں لا کر دکھائیں کہ گھر ہوتا کیا ہے آپس کے تعلقات ان کو دکھائی دیں ایک پیار اور محبت کی جنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں وہ محسوس کریں کہ اسلامی گھر میں تو آئندہ کی جنت کا وعدہ نہیں بلکہ اس دنیا کی جنت
خطبات طاہر جلدا 137 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء کا نمونہ پیش کر دیا گیا ہے اور اس کے بغیر مغربی دنیا میں تو دعوت الی اللہ بہت مشکل ہے.آپ کے بہت سے ایسے ملنے جلنے والے ہو سکتے ہیں جنہوں نے اسلام کے متعلق غلط تصور باندھے ہوئے ہیں اور وہی وجوہات ہیں جو میں بیان کر رہا ہوں کہ کسی جہالت کے دور میں قرآن کے معنی بگاڑ بھی دیئے گئے ، سنت کے معنی بھی بگاڑ دئیے گئے اور بد بخت جاہلوں نے اپنی بد اخلاقیوں کو نعوذ باللہ قرآنی تعلیم کی طرف اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ کی طرف منسوب کر کے سندات حاصل کیں اور اپنی بدبختیوں کو چھپانے کے لئے اسلام کا حوالہ دے کر دنیا کے سامنے کہا کہ ہم تو نیکی کر رہے ہیں.ہمیں تو خدا نے یہ اجازت دی ہے کہ اس قسم کی بدتمیزیاں کرتے پھریں تو دیکھئے اسلام کی کیا تصویر دنیا کے سامنے بنے گی.یہ وہ منفی دعوت الی اللہ کرنے والے ہیں جو منہ سے تو یہی کہیں گے کہ آؤ ہم تمہیں اسلام کی طرف بلاتے ہیں لیکن ان کی ساری زندگیاں اور پوری نسلیں تاریخ میں گواہ ہیں کہ انہوں نے دنیا کو اسلام سے بد کا دیا ہے، متنفر کر دیا ہے.پیچھے پھینک دیا ہے.پس آپ نے اپنا ہی حساب نہیں دینا.ان گزرے ہوئے بد بخت زمانوں کا بھی حساب دینا ہے جبکہ محمد مصطفے ﷺ کی سنت اور خدا کے کلام سے کی گئیں، جب کہ اسلامی معاشرے کو ایسا بد زینت، بدزیب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا کہ اس کے نتیجہ میں تبلیغ ممکن ہی نہیں رہی.پس آج اگر احمدی نے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ نہ بنایا اور اپنے گھر میں ان اسلامی اخلاق کو جو حضرت محمد مصطفی کی سیرت سے روشن ہوئے ہیں جن کے بعد کسی ابہام کی کوئی گنجائش نہیں رہی کوئی نجی سے نجی اور شقی سے شقی مولوی بھی جو قرآن کے غلط معنی کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے صلى الله ایک واقعہ ایسا نہیں دکھا سکتا جس میں آپ نے اپنے گھر والوں سے زیادتیاں کی ہوں اور پھر اس کی تعلیم دیتا ہے.پھر مارنے میں جلدی کرتا ہے کہتا ہے مارنے کا مطلب یہ ہے کہ اٹھاؤ ڈنڈا اور بیوی کو سیدھا کر دو.پس اخلاق حسنہ کے ساتھ گھر کی اصلاح کرنا یہ قوام کے معنی ہیں آنحضرت ﷺ نے یہی قوامی دکھائی تھی جس کے اعجاز میں آپ کی بیگمات امہات المؤمنین سب دنیا کے لئے نمونہ بن گئی تھیں.پس اپنے بیرونی اخلاق کی بھی حفاظت کرنی پڑے گی.اپنے اندرونی اخلاق کی بھی حفاظت کرنی پڑے گی.یہ دعوت الی اللہ کے پروگرام کا ایک لازمی حصہ ہے کوئی معمولی حصہ نہیں اور آپ اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 138 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء منصو بے میں اس کو ضرور داخل کریں.پھر قوام ہونے کی حیثیت سے آپ کو اپنے بچوں کے اخلاق کے متعلق بھی منصوبہ بنانا ہوگا اگر منصوبہ بنانے والا باپ ہے اور اگر منصوبہ بنانے والی ماں ہے تو چونکہ گھر کی سپر داری اس کے پاس ہے اس لئے اسے بھی اپنے بچوں کا منصوبہ بنانا ہوگا اور اپنے خاوند کی اصلاح کرنے کے لئے بھی اُسے کچھ منصوبہ بنانا ہوگا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض عورتیں مجھے خط لکھ دیتی ہیں اور پھر میں کوشش کرتا ہوں.نظارتیں حرکت میں آتی ہیں.ذیلی تنظیمیں حرکت میں آتی ہیں.دور دراز تک بعض دفعہ ان کے درد کی آواز کا ردعمل پید اہوتا ہے اور خدا کا فضل ہے.یہ جماعت احمدیہ پر اللہ کا احسان ہے ورنہ دنیا کی اور کسی جماعت میں یہ ممکن نہیں کہ اس طرح کسی دور دراز کے ملک میں کوئی مظلوم عورت آواز اٹھائے اور خلیفہ وقت کے سینے سے ٹکرا کر وہ آواز نظامِ جماعت کو پہنچے اور اس کو بیدار کرے اور پھر دور دراز کا سفر کر کے افریقہ کے جنگلوں میں یا نجی میں یا کسی اور ملک میں ایک احمدی گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور گھر کے مالک کو بلاتا ہے کہ میں نے تم سے مخفی بات کرنی ہے اور وہ کہتا ہے کہ تمہارے متعلق خلیفہ وقت کا یہ تاثر ہے اپنی اصلاح کرو اور پھر وہ اصلاح کرتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد دونوں کی طرف سے دعاؤں کے خط ملتے ہیں کہ الحمد للہ ہم نے اطاعت کا ایسا شیریں پھل پایا ہے کہ آپ کی طرف سے اگر پیغام نہ ملتا تو شاید ہم یہ برائی کبھی محسوس بھی نہ کرتے لیکن اللہ نے فضل فرمایا اور اب ہم ٹھیک ٹھاک ہیں.اسی طرح بعض دفعہ احمدی بچیوں کی کمزوریاں ، بعض دفعہ بیویوں کی کمزوریاں گھر والوں کی طرف سے ہی بطور اطلاع بھجوائی جاتی ہیں اور خدا کے فضل سے نظام حرکت میں آتا ہے تو نظام آپ کی پوری طرح مدد کرنے پر مستعد کھڑا ہے اور ہم دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن دعوت الی اللہ کرنے والے ولا زماً اپنی اصلاح کا ، اپنے گھر کی اصلاح کا ایک منصوبہ بنانا ہوگا.یہ اس کے تقویٰ کی تعریف ہے جو قرآن کریم نے بیان فرما دی کہ نیک بنو اور بدیوں سے بچنے کی کوشش شروع کر دو.اگر تم ایسا کروگے تو اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ تمہیں فرقان عطا فرمائے گا.تم میں اور تمہارے غیروں میں ایک تفریق کر دی جائے گی.جس طرح رات اور دن میں اشتباہ نہیں رہتا.دن رات سے جدا ہے اور ہمیشہ جدار ہے گا اور رات دن سے جدا ہے اور جن میں ذرا بھی دیکھنے کی طاقت ہو وہ دن اور رات میں ذرا بھی شبہ نہیں کر سکتے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرقان نصیب ہوگا.تمہارے اخلاق حسنہ تمہاری شخصیت کو ایسا صیقل کریں گے ، ایسی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 139 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء روشنی عطا کریں گے کہ تمہارے مقابل پر دوسرے اندھیرے دکھائی دیں گے اور لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں گے کیونکہ تم روشنی کے نمائندہ بن چکے ہو گے.روشنی خواہ چھوٹی سی بھی ہو وہ ضرور کھینچتی ہے.آپ اندھیری رات میں چمکتے ہوئے ایک جگنو کو دیکھتے ہیں اور آپ کا دل خوش ہوتا ہے اور بچے لپکتے ہیں کہ کسی طرح ہمارے ہاتھ میں آجائے ہم اُسے اپنے کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے کر جائیں دوسروں کو بھی دکھا ئیں.پس روشنی میں ایک طبعی جذب ہے اور جتنا اندھیر از یادہ ہو اتنا ہی روشنی زیادہ کشش رکھتی ہے.پس آج دنیا اندھیری ہے.دنیا پر ایک تاریک رات چھائی ہوئی ہے.آپ روشنی کا انتظام کریں.اپنے اعلیٰ اخلاق کی روشنی کا انتظام کریں اور یہ روشنی آپ کو تقوی سے نصیب ہوگی اور اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کے لئے کھڑا ہے.میں نے جب کہا کہ نظام جماعت آپ کی مدد کے لئے کھڑا ہے تو یہ بھی خدا کی مدد کا ایک اظہار ہے اور نہ کسی اور کا نظام جماعت کیوں آپ کی مدد کے لئے کھڑا نہیں ہوتا یا کمزوروں کی مدد کے لئے کھڑا نہیں ہوتا.وہ جو اللہ کے نمائندے ہیں انہی کو تو فیق ملتی ہے.پس اللہ کئی طریق پر آپ کی مدد فرمائے گا.جب نظام کی طرف سے آپ کو آواز جاتی ہے تو وہ خدا کی آواز ہی ہوتی ہے اور اس پر اگر آپ لبیک نہیں کہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ تقویٰ سے عاری ہیں.پس تقویٰ کا ایک یہ معنی بھی ہے کہ اگر خود توفیق نہیں تھی تو جب باہر سے نیکی کی آواز آئی تو کم سے کم اس آواز پر ہی لبیک کہنے کی کوشش کریں.پس اس طرح جماعت احمدیہ میں متقی لوگ پیدا ہوں گے اور جتنے متقی لوگ پیدا ہوں گے اتنے ہی دعوت الی اللہ کو زیادہ پھل لگیں گے.پس اب آخر پر میں یہ گزارش کروں گا کہ اپنے گھروں میں اب یہ بات رائج کر دیں اگر آپ اکیلے داعی الی اللہ ہیں تو اپنا منصوبہ بنائیں اور گھر میں بچوں کو بھی آمادہ کریں، بیوی کو بھی اس سکیم میں شامل ہونے کے لئے آمادہ کریں اور پھر جب بچے منصوبے بنا ئیں تو آپ ان سے منصوبہ لے کر ان کے ساتھ بیٹھا کریں اور ان کو بتائیں کہ اس منصو بہ میں یہ یہ کمزوری ہے آگے وہ منصوبہ تفصیل سے کیسے بناتا ہے اس کا میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں ذکر کروں گا.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کیونکہ اس وقت دنیا کو دعوت الی اللہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ایسے عالمی حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ لوگ دعوت الی اللہ قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں.بہت زیادہ توجہ ہے.میں نے جیسا کہ ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا قادیان کے سفر پر مجھے یہ تجربہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 140 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۹۲ء ہوا ہے کہ جن کے متعلق ہم یہ سمجھتے تھے کہ ان کے دل میں اسلام کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے.قادیان جانے کے نتیجہ میں یہ پتا لگا کہ سب کے دلوں میں دروازے کھلے ہوئے ہیں کوئی پیغام پہنچ ہی نہیں رہا اور دل پیاسے ہیں متمنی ہیں ، دور دراز سے سکھوں کے بھی ہندوؤں کے بھی حیرت انگیز خط آتے ہیں.وہ میاں وسیم احمد صاحب کو قادیان خط لکھتے ہیں.کئی لوگوں نے ٹیلی ویژن پر تقریر میں سنی ہیں، کمٹی نے قادیان کے جلسے خود دیکھے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو یہ لکھتے ہیں کہ ہم نہیں جا سکے مگر قادیان والے کچھ ہمارے واقف ہیں.وہ آکر ہمیں باتیں بتاتے ہیں اور بعض یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم دوکاندار ہیں ہمارے پاس دوسرے دوکاندار آتے ہیں اور وہ آکر یہ باتیں کرتے ہیں.ایک میڈیکل سٹور والے کا خط تھا کہ میں دوائیاں بیچتا ہوں اور قادیان سے کئی دفعہ مریض آتے ہیں اور آتے ہی وہ قادیان کی باتیں شروع کر دیتے ہیں کہتے ہیں کہ قادیان والے تو ہم نے اب دیکھے ہیں کہ کیا چیز ہیں اور اگر امن ہے تو جماعت احمدیہ سے ہوگا اور کسی ذریعہ سے نہیں ہوگا.تو دل تو تیار بیٹھے ہوئے ہیں.آپ میں روشنی ہوتو وہ روشنی دلوں میں جائے گی ناں.وہ نور پیدا کریں جس کے بغیر اندھیرے دور نہیں ہوا کرتے.چھوٹا سہی جگنو ہی کا نور سہی مگر جگنو کی طرف بھی تو لوگ لپکتے ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں.آپ سے بھی اسی طرح دنیا پیار کرے گی اور آپ کے نور سے اپنے سینوں کو روشن کرے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 141 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء حضرت رسول کریم کی خَاتَمَ ، سِرَاجًا منيرا اور شَاهِدًا ہونے کا مفہوم ہر داعی الی اللہ کو اپنے دائرہ میں سراج بننا ہوگا.خطبه جمعه فرموده ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَ أَصِيلًا هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَبِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّوْرِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيمًا تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَم وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا يَاَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَدَعْ أَذْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيْلًا (الاحزاب :۴۹۲۲۲) پھر فرمایا:.یہ آیات جو سورہ احزاب سے لی گئی ہیں اور جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.یہ آیت خاتم النبین سے معابعد واقع ہیں اور ان کا آیت خاتم النبیین کے مضمون سے گہرا تعلق ہے.ان کا تشریحی ترجمہ یوں ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو، کثرت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 142 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء سے خدا تعالیٰ کا ذکر کرو اور ذکر کیا کرو.وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا یہاں تک کہ سوتے جاگتے ، صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو بُكْرَةً وَأَصِیلا کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ صبح بھی اور شام بھی مگر محاورہ میں ہم جب صبح و شام کہتے ہیں تو جیسے اُردو میں دوام کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ویسے عربی محاورہ میں بھی بُكْرَةً وَأَصِيلًا کا یہ مطلب نہیں کہ صبح کر لیا کرو اور پھر شام کو بلکہ دن رات صبح و شام خدا کی یاد کیا کرو اور تشبیح کیا کرو.هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَبِكَتُهُ يوه.یہ خدا ہے ، وہ اللہ ہے جو تم پر سلام بھیجتا ہے اور تم پر صلوۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اس کی متابعت میں ایسا ہی کرتے ہیں.لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ تاکہ وہ تمہیں اندھیروں میں سے روشنی کی طرف نکال لائے وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا اور وہ مومنوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلم جس دن وہ اپنے رب سے ملیں گے تحفتہ ان کو سلام کہا جائے گا.وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بہت ہی معزز اجر تیار فرما رکھا ہے.اے نبی ! اِنَّا اَرْسَلْنَك شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ہم نے تجھے شاہد بنا کر بھیجا اور مبشر بنا کر بھیجا اور نذیر بنا کر بھیجا یعنی ان قوموں پر جن کو تو مخاطب کر رہا ہے.ان پر بھی تجھے گواہ بنایا اور کیونکہ تو تمام عالمین کا پیامبر ہے اس لئے تمام عالمین پر تجھے گواہ بناکر بھیجا گیا اور جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے تمام انبیاء پر بھی حضرت اقدس محمد طفے یہ شاہد ہیں تو شاہدا کا مطلب یہ ہوگا کہ اے وہ نبی جسے ہم نے سب مخاطبین کے لئے تمام جہانوں کے لئے اس زمانہ کے لئے اور اگلے زمانوں کے لئے بھی اور پہلے انبیاء کے لئے بھی اور آئندہ آنے والوں کے لئے بھی گواہ بنا کر بھیجا ہے.وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا اور خوشخبریاں دینے والا صلى الله اور ڈرانے والا.گواہ سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ان پرنگران مقررفرمایا گیا ہے.یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہ جو پہلے گزر گئے اور وہ جو بعد میں آنے ہیں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی جیہ کے صلى الله وصال کے بعد جنہوں نے پیدا ہونا ہے اور وہ جو اُس زمانے میں تھے مگر اُن پر آنحضور ﷺ کی براہ راست ذاتی نظر نہیں تھی اُن پر آپ کیسے گواہ ٹھہرے یا گواہ ٹھہریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گواہ سے مراد ایسی کسوٹی ہے جس پر کسی دوسرے کے اعمال اور سچائی کو پر کھا جاتا ہے.گواہ جو گواہی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 143 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء دیتا ہے کہ فلاں شخص نے جرم کیا یا فلاں شخص معصوم ہے اس کی گواہی سے اس کے اعمال کی برائی یا اچھائی ثابت ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس سے ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے.تو نبی کی گواہی سے مراد یہ ہے کہ نبی کے اعمال ، اس کے اخلاق ، اس کے اسوۂ حسنہ پر ان لوگوں کو پرکھا جائے گا اور اس پہلو سے آپ کا زمانہ ماضی پر بھی ممتد ہے یعنی تمام انبیاء کی سچائی کے آپ ﷺ گواہ ہیں آپ کی کسوٹی پر انبیاء کی صداقت کو اور ان کے مرتبے اور مقام کو پر کھا جائے گا.اب دیکھئے اس بات کا آیت خاتم کے ساتھ گہرا تعلق ہے.خاتم کا معنی ہے تصدیق کرنے والا تو تصدیق گواہ کیا کرتا ہے اور اگر وہ پختہ تصدیق ہو تو مہر کے ذریعہ اس کا مزید اثبات ہوتا ہے ورنہ بنیادی طور پر تصدیق اور گواہی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.تو خاتم سے مراد یہ ہوئی کہ ایسا گواہ آیا جو اگلوں پچھلوں ، اس زمانے اور اُس زمانے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اور تمام جہانوں کے لئے ایک کسوٹی بنا دیا گیا.اس کے اعمال ، اس کے اخلاق ، اس کی نصیحت ، اس کی ہدایات پر تمام گزشتہ انبیاء کے اعمال بھی پر کھے جائیں گے اور ان کے مقامات کی تعیین کی جائے گی اور آئندہ آنے والوں کے لئے بھی اور اس زمانے میں بھی ان سب کے جو خدا کے حضور کسی رنگ میں جوابدہ ہیں آنحضرت ﷺ کے نمونے کے مطابق اور اس کے پیش نظر فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ کس مرتبے کس مقام سے تعلق رکھتے ہیں بخشش کے لائق ہیں یا سزاوار تو شاهدا سے مراد یہ ہے جس - کا گہرا تعلق لفظ خاتم سے ہے.وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ان معنوں میں جب کوئی شاہد بنتا ہے تو بعضوں کے لئے وہ خوشخبریاں لے کر آتا ہے اور بعضوں کے لئے وہ انذار لے کر آتا ہے یعنی ان کو ڈراتا ہے.جس کا مطلب دو طرح سے ہے.وہ جو گزر گئے یا جن تک براہ راست آنحضرت میاہ کی رسائی نہیں ہوئی ان کے متعلق تبشیر اور انذار کا معاملہ ان کی عاقبت سے تعلق رکھتا ہے وہ خوش نصیب ہیں جو آنحضور ﷺ کے اسوہ کے مطابق بخشش کے لائق ٹھہرائے گئے اور وہ بدنصیب ہیں جو اس امتحان میں صلى الله پاس نہیں ہو سکے ، اس پر پورا نہیں اتر سکے.تو اُن کے لئے بشارت اور ڈرانا یہ دونوں چیز میں اس دنیا میں فائدے کا موجب تو نہیں بن سکتیں لیکن ان کے انجام کے متعلق گواہ بن جاتی ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جن تک نصیحت پہنچتی ہے اُن کے لئے بشیر اور نذیر ہونے کا مضمون یہ ہے کہ اگر تم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 144 خطبه جمعه ۲۸ رفروری ۱۹۹۲ء ایسا کرو گے تو تمہارے لئے خوشخبریاں مقدر ہیں.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے لئے بہت بڑی رسوائیاں اور ذلتیں اور عذاب اور نا مرادیاں ہیں.تو بشیر اور نذیر کا مضمون اس دنیا پر ہمارے اعمال کی اصلاح کی خاطر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس دنیا پر ہمارے اعمال کے عواقب کو ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے بعد ازاں فرمایاوَدَاعِيًّا إِلَى اللهِ اور ہم نے تجھے داعی الی اللہ بنایا ہے.بِاِذْنِ اللہ کے حکم سے.وَسِرَاجًا منيرا.اور ایک روشن چراغ بنا یا جو دوسرے چراغوں کو بھی روشن کرنے والا ہے.جہاں تک یہ داعی الی اللہ کا محاورہ ہے ممکن ہے کسی اور نبی کے متعلق بھی ایسا محاورہ استعمال ہوا ہولیکن میری نظر سے نہیں گزرا.یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس کو حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کے لئے گویا خاص کیا گیا حالانکہ ہر نبی کا متبع داعی الی اللہ ہوتا ہے.دوسرے معنوں میں تو ضرور انبیاء کے متعلق یہ لفظ ملتے ہیں لیکن اس ترکیب کے ساتھ کہ اے نبی ! تو داعی الی اللہ ہے اُسے مخاطب کر کے لقب کے طور پر میرا مطلب ہے کہ کسی نبی کے متعلق میں نے یہ لفظ نہیں پڑھا کہ خدا نے اُسے اس لقب سے نوازا ہو کہ تجھے میں داعی الی اللہ بنا تا ہوں اور تجھے داعی الی اللہ مقرر کیا جاتا ہے.بِاِذْنِم ، اللہ کے حکم سے.داعی الی اللہ تو سب ہیں لیکن تو ایک ایسا داعی الی اللہ ہے جسے خصوصیت کے ساتھ خُدا کے اذن کے ساتھ دعوت پر مقرر فرمایا گیا.یہ لقب خصوصیت سے حضرت اقدس محمد مصطفی ملی کے اعزاز کے لئے اور آپ کے عالی مرتبہ کے اظہار کے لئے استعمال ہوا ہے.یہاں بِاذْنِهِ نے ایک اور معنی پیدا کر دیا اور وہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے کام ہیں جو انسان کے بس میں نہیں ہوتے اور ان کی طاقت سے باہر ہو جاتے ہیں.اُس حد سے پرے دعاؤں کے اعجاز کا مضمون شروع ہوتا ہے اور وہ طاقتیں جو انسان کو میسر نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کو میسر ہیں اس لئے اپنے بندوں کو وہ بعض دفعہ ایسے کاموں کے لئے کہتا ہے جو بظاہر ناممکن ہیں مگر خدا کی طاقت کے شامل ہونے سے وہ ظاہر ہو جاتے ہیں اور دنیا سمجھتی ہے کہ یہ خدائی کام تھا جو ایک بندے سے سرزد ہوا مگر انبیاء اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہماری طاقت نہیں ہے یہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا.چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا جہاں مُردوں کو زندہ کرنے کا ذکر ہے اور معجزے دکھانے کا ذکر ہے وہاں وہ ساتھ ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ، اللہ کے حکم سے ، میرا اس میں کوئی دخل نہیں.تو داعی الی اللہ کا کام عام حالات میں آسان دکھائی دیتا ہے.مگر نتیجہ پیدا کرنے کے لحاظ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 145 خطبه جمعه ۲۸ رفروری ۱۹۹۲ء سے بہت مشکل کام ہے کیونکہ دراصل یہ مُردے کو زندہ کرنے والا کام ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح کے مُردوں کو زندہ کرنے کے مضمون کے ساتھ اللہ تعالے نے اِذْنِم کی وضاحت فرما دی اسی طرح حضرت محمد مصطف ملالہ کو بھی مردوں کو زندہ کر دینے والا قرار دیا ، بیان فرمایا اور یہ وہی مضمون ہے جس کی طرف اشارہ ہے.آپ کیسے مُردوں کو زندہ کرتے تھے؟ دعوت الی اللہ کے ذریعہ اور جب دعوت الی اللہ کے ذریعہ مُردوں کو زندہ کرتے تھے اور اللہ کے اذن سے ایسا ہوا کرتا تھا ورنہ روحانی مُردوں کو زندہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں.وَسِرَاجًا منیرا خود تو روشن ہیں ہی لیکن روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور یہ وہ مضمون ہے جس کا لفظ خاتم سے گہرا تعلق ہے.خَاتَم اُس مُہر کو کہتے ہیں جس میں کچھ تصویر کندہ ہو یا الفاظ کندہ ہوں اور اس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ جس چیز پر لگے اس میں اپنی جیسی شکل کے نشان پیدا کر دے، اپنی جیسی شکل کے نقوش پیدا کر دے.پس حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کا خاتمہ قرار دیا جانا آپ کے فیوض کو بند کرنے کی طرف اشارہ نہیں بلکہ تمام فیوض کے جاری کرنے کی طرف کھلی دلالت ہے یعنی خاتم سے مراد یہ ہے کہ جو اپنے آثار کو دوسروں میں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.یہ رجولیت کی نشانی ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ کوئی شخص نامراد اور لا ولد نہیں ہے بلکہ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ آگے اپنے جیسے انسان پیدا کر سکے ، اپنے جیسے مرد پیدا کر سکے.پس چونکہ آیت خَاتَمَ النَّبِيِّنَ کا پس منظر یہی بیان ہوا کہ دشمن آپ کو لا ولد کہتے تھے یعنی کسی مرد کا والد نہ ہونے کی وجہ سے گویا آپ کی نسل منقطع ہونے پر دلالت کرتے ہوئے آپ کے لئے بعض سخت الفاظ استعمال کیا کرتے تھے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے تو اُس پس منظر میں جب آپ لفظ خاتم کو پڑھتے ہیں تو یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ جو جو الزامات ہیں ، جو جو پس منظر بیان کیا گیا ہے اس سب کی نفی فرمائی جا رہی ہے اور نفی ان معنوں میں فرمائی جا رہی ہے کہ دنیاوی لحاظ سے اگر چہ بظاہر تو مردوں کا باپ نہیں لیکن اے محمد ! ہم نے تجھے خاکہ بنادیا، تجھ میں وہ صفات حسنہ پیدا کیں جو آگے تو دوسروں میں پیدا کرسکتا ہے اور روحانی میدان کے، تیرے جیسے مرد تجھ سے پیدا ہوں گے اور بکثرت پیدا ہوں گے.اسی مضمون کو دَاعِيَّا إِلَى الله میں بیان فرما دیا گیا اور سِرَاجًا منیرا میں بیان فرمایا گیا.تو روشن چراغ ہے، ایسا چراغ جو دوسرے اندھے چراغوں کو بھی روشن کر سکتا ہے اور ایک کی بجائے دو تین چار پانچ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 146 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء شمعیں روشن ہوتی چلی جائیں گی اور اس طرح کثرت کے ساتھ تیرا نور دنیا میں پھیل جائے گا.اس مضمون کی تائید میں اس سے پہلے جو آیات گزری ہیں وہ بہت بڑی گواہ بن جاتی ہیں کیونکہ خاتم النبین کی آیت کے معابعد خدا تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرً ا یہ ایک ایسا مضمون بیان ہوا ہے جس کے نتیجہ میں مومنوں پر واجب ہو گیا ہے کہ اب کثرت سے اللہ کا ذکر کرو.وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا اور دن رات خدا تعالیٰ کی تسبیح کرو.اس مضمون کا ولادت کے ساتھ تعلق ہے، ایسی ولادت کے ساتھ تعلق ہے جو بہت عظیم الشان ہو اور اعجازی رنگ رکھتی ہو اور خاتم النبیین کا مضمون ان دو باتوں کے درمیان بیان ہوا.ایک طرف دشمن کا اعتراض کہ تم جیسے کسی مرد کا باپ نہیں اس طرح بیان فرما دیا گیا کہ اس اعتراض کی بے حقیقتی کو بھی ساتھ ظاہر کر دیا گیا دشمن کہتا تھا کہ مردوں کا باپ نہیں.خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر اس طرح فرمایا کہ ہاں تم جیسے مردوں کا باپ نہیں اور تم جیسے مردوں کا باپ ہونا عزت کا نہیں ذلت کا موجب ہے ، رسوائی کا موجب ہے ، نامرادی کا موجب ہے.ایسی نا پاک نسلیں چھوڑ کر جانے والا جو تمہاری جیسی نسلیں ہوں ہر گز کسی فخر کے لائق نہیں کسی فخر کا حقدار نہیں تو دیکھیں اس اعتراض کو کیسے پیارے رنگ میں بیان فرمایا.ما كان مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ (الاحزاب : ۴۱) ہاں ہاں یہ درست ہے کہ محمد تم جیسے مردوں کا باپ نہیں ہے.وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ اللبن ہاں اللہ کا رسول ہے اور رسول پیدا کرنے والا باپ ہے.ایسا باپ ہے جو کثرت سے ایسے انعام یافتہ لوگ پیدا کر سکتا ہے، کرتا رہا ہے اور کرے گا جن کی شان نبوت تک پہنچتی ہے.اسی مضمون کو اگلی آیات میں ایک اور رنگ میں یہ بتانے کے لئے بیان فرما دیا گیا کہ یہاں عظیم الشان روحانی ولادت کی خوشخبری دی جارہی ہے.ایک تو روحانی لحاظ سے عام پیدائش ہے وہ تو کثرت سے آنحضرت ﷺ نے مُردے زندہ فرمائے اور صحابہ میں نبوت کی شان رکھنے والے بڑے بڑے عظیم صحابہ پیدا ہوئے لیکن اس کے علاوہ کسی مخصوص ولادت کا بھی ذکر ہے.چنانچہ اس طرز بیان کی وضاحت کے لئے میں سورہ ال عمران کی بیالیسویں آیت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ حضرت زکریا نے جب خدا تعالیٰ سے نشان کے طور پر ایک بیٹا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 147 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء ایسی عمر میں مانگا جبکہ بظاہر بیٹا عطا نہیں ہوسکتا اور انسانی خواص اور صلاحیتیں مضمحل ہو چکی ہوتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی اولاد پیدا کرنے کی استطاعت باقی نہیں رہتی بال سفید ہو گئے ، ہڈیاں گل گئیں، بڑھا پا سر پر چڑھ گیا.یہ کیفیت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ نے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایک عظیم بیٹا عطا فرمائے گا.اس پر متعجب ہو کر حضرت زکریا نے یہ عرض کیا کہ اے خدا! اگر یہ بات ہے تو مجھے کوئی نشان عطا کر کس طرح مجھے یقین ہو کہ ایسا ممکن ہے، میں کیا ترکیب کروں؟ کیا مجھ پر واجب ہے جس کے بعد مجھے تسلی ہو کہ ہاں اس کے نتیجہ میں وہ عظیم الشان بیٹا جو موعود بیٹا ہے مجھے عطا کیا جائے گا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! قَالَ ايَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمُز ا (ال عمران: ۴۲) کہ آئندہ تین دن تو بھی انسان سے کلیڈ تعلق تو ڑ کر محض خدا کی یاد میں مصروف ہو جا.یعنی آئندہ تین دن ایک قسم کا تبتل اختیار کر لے.اپنے ساتھیوں ، دوستوں عزیزوں کسی سے بات نہ کر.اشارہ ان سے کہہ دے کہ میرے یہ ایام اللہ کے لئے خاص ہیں اور میں ان ایام میں تمہیں کسی پہلو سے شامل نہیں کرنا چاہتا.وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا (ال عمران :۴۲) اور کثرت سے اللہ کا ذکر کر.وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ اور رات دن اس کی تسبیح کر.اب دیکھیں بعینہ وہی مضمون ہے جو آیت خاتم النبین کے معا بعد بیان فرمایا گیا.وہاں نبوت کے بند ہونے کی خبر نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطف علی کی روحانی نسل میں سے ایک عظیم الشان نبی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے اور اس مضمون کو یہ دعا ثابت کرتی ہے جو اس کے معا بعد رکھی گئی کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا یہ وہی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود الہاما حضرت زکریا کو سکھائی اور اس بات کے نشان کے طور پر کہ اس دعا کے بعد یقینا اللہ تعالیٰ پھر رجوع برحمت فرماتا ہے اور روحانی اولا دعطا فرمایا کرتا ہے.اسی دُعا کو خاتم النبیین کی آیت کے بعد مومنوں کو کثرت سے کرنے کی ہدایت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے.کثرت سے خُدا کو یاد کرو اور دن رات صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم پر مزید سلامتیاں بھیجے گا جو پہلے ہی تم پر درود اور سلام بھیج رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی.پس حضرت اقدس محمد مصطفے مے کے عظیم الشان کوثر کا یہاں ذکر ہے اور میرے نزدیک خاتم کا مضمون اور کوثر کا مضمون دراصل ایک ہی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 148 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء چیز کے دو نام ہیں ، دو طرز بیان ہیں لیکن بنیادی طور پر بات یہی ہے کہ فیض مصطفے ﷺ نا پیدا کنار ہے اس کی حد بندی ممکن نہیں.نہ مراتب کے لحاظ سے حد بندی ممکن ہے، نہ زمانے کے لحاظ سے، نہ جگہ کے اعتبار سے ، پس وہ کون و مکان اور وقت کی قید سے آزاد اور بالاتر ایک مرتبہ ہے جو ایسا فیض ہے جو ہر حالت میں پہلوں کو بھی پہنچ سکتا تھا اور پہنچا.اس زمانے کے لوگوں کو بھی پہنچ سکتا تھا اور پہنچا اور آئندہ بھی پہنچتا رہے گا اور یہ فیض ایک عظیم الشان وجود کی صورت میں بھی ظاہر ہونے والا ہے صلى الله جسے آنحضرت ﷺ کا عظیم روحانی فرزند قرار دیا جا سکتا ہے.اس تشریح کے بعد اب جو داعی الی اللہ کا مضمون ہے اس کی طرف واپس آ تا ہوں.آنحضرت ﷺ کا فیض کیسے بنی نوع انسان تک پہنچے اور وسعت پذیر ہو اور پھیل جائے.اس مضمون میں مومنوں نے کیا کام کرنے ہیں.ان کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ پہلے خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس محمدمصطفی اللہ کے فرائض کی تعین فرما دی.فرمایا.یہ وہ خاتم ہے جس کا فیض ان ذرائع سے دنیا میں پھیل رہا ہے اور پھیلتا چلا جائے گا اور خاتم کا فیض پھیلانے کے لئے سب سے زیادہ اہم ترین ذمہ داری خود حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ پر عائد ہوتی تھی تو فرمایا کہ تو اس طرح اس فیض کو عام کر.فرمایا ہم نے تجھے شاہد بنا کر بھیجا ہے ،مبشر بنا کر بھیجا ہے، نذیر بنا کر بھیجا ہے.یہ پیغام لوگوں کو دے.اس کے بغیر تیرے آنے کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اور وضاحت کرتے ہوئے فرمایا وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ اور ہم نے تجھے اللہ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا ہے اور یہ تینوں صفات جو تجھے عطا کی گئی ہیں اسی مقصد کو پورا کرنے کے ذرائع ہیں.خُدا کی طرف بلانے کا ایک ذریعہ شہادت کا بھی ہوتا ہے اور تبشیر بھی ایک ذریعہ ہے اور انذار بھی ایک ذریعہ ہے اور آنحضرت ﷺ کو یہ سارے ذرائع بڑی شان اور قوت کے ساتھ عطا فرمائے گئے.پس آج اگر ہم داعی الی اللہ بننا چاہتے ہیں تو اول یہ کہ ہر داعی الی اللہ کو مبارک ہو کہ یہ وہ لقب ہے جو خود خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کو عطا فرمایا اور اس لقب میں شامل ہونے کے لئے اپنی توفیق کے مطابق اس میں حصہ پانے کے لئے ہر دعوت الی اللہ کرنے والا کوشش کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ سے ایک گونا مماثلت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس کو دعوت کے لئے کیا کرنا چاہئے فرمایا نگران ہو، نگران سے مراد داروغہ نہیں ہے اس کی وضاحت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 149 خطبه جمعه ۲۸ رفروری ۱۹۹۲ء خدا تعالیٰ دوسری جگہ فرما چکا ہے.نگران سے مراد یہ ہے کہ تمہارے قول ، تمہارے فعل کا حسن، تمہارے اعمال کی دلکشی لوگوں کے لئے ایک ایسا نمونہ بن جائے کہ وہ اُن کے اپنے اعمال پر گواہ بن جائے.وہ تمہارے آئینہ میں اپنی شکل دیکھا کریں اور معلوم کر لیا کریں کہ ان میں کیا کیا نقائص ہیں اور کن کن خوبیوں سے وہ محروم ہیں.پس ان معنوں میں ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کو اپنے ماحول اور اپنے گردو پیش کے لئے اور خود اپنے گھر میں اپنی اولاد کے لئے گواہ بننا ہوگا اور وہ حضرت اقدس محمد مصطف علی کی گواہی کے معنوں میں گواہ نہیں ہے، ان معنوں میں گواہی نہیں دے رہا جن معنوں میں آنحضرت ﷺ کی گواہی کا فیض دنیا کو پہنچا ہے تو اس حد تک وہ دعوت الی اللہ کے کام کی اہلیت سے محروم ہوتا جاتا ہے.پس اسی لئے میں نے گزشتہ خطبہ میں اپنے روز مرہ کے اعمال کو سنوارنے اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی ہدایت کی تھی اس کا دعوت الی اللہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.آپ کو باہر بھی اور گھر میں بھی گواہ بنا ہوگا اور آپ کے خوبصورت اعمال دنیا کے لئے آئینہ کے طور پر پیش ہوں جن میں وہ اپنے چہرے دیکھیں اور آپ کی خوبیوں سے متاثر ہو کر اپنے اندر بھی ویسی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گویا کہ ایک دلکش وجود پیدا ہونا شروع ہو جائے اور یہی ہے جو دراصل خاتمیت کی مہر ہے جو آپ کے اوپر لگ رہی ہوگی.محمد مصطفے ﷺ کے حسن کی بے نظیر مہر بالکل ویسی تو نہیں ظاہر ہوا کرتی لیکن جہاں تک آنحضرت ﷺ کی کوشش کا تعلق ہے آپ نے کامل سچائی کے ساتھ وہ مہر بعینہ اسی طرح ہر شخص پر لگانے کی کوشش ضرور کی ہے.یہ دو باتیں ایسی ہیں جن کو خوب باریکی سے سمجھنا ضروری ہے.مہر کچی ہوتو وہ لازماً اپنی تمام صفات کو دوسرے تک پوری صفائی کے ساتھ منتقل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور مہر کی سچائی اس کی اس خاصیت سے پر کھی جاتی ہے لیکن دوسری طرف بعض دفعہ مادہ کمزور ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض کا غذا ایسے ہوتے ہیں جو اچھی بھلی مہر او پر لگاؤ تو وہ اس کے نقوش کو پھیلا دیتے ہیں اور ان کے او پر صحیح تصویر ابھرتی نہیں.بعض چکنے کاغذ ہیں ان کے اوپر آپ جتنا چاہیں لکھنے کی کوشش کریں کوئی نقش بھی نہیں ابھرتا یا ابھرتا ہے تو جلدی مٹ جاتا ہے تو یہ قصور مہر قبول کرنے والے کے قصور ہیں.جہاں تک مہر کی ذات ہے آنحضرت ماہ کی مہر اپنی ذات میں کامل ہے اور اس مہر کے تین نقوش
خطبات طاہر جلد ۱۱ 150 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء ایسے بیان ہوئے ہیں جو ہر داعی الی اللہ کے لئے لازم ہے کہ انہیں اپنائے اور مستقل طور پر ان کو اپنے او پر مرتسم کرلے اور ایک ان میں سے شَاهِدًا ہے، ایک ہے مُبَشِّرًا ، اور ایک ہے، نَذِيرًا.شاہد کے متعلق میں پچھلے خطبہ میں بھی بیان کر چکا ہوں اور آج بھی کچھ وضاحت کی ہے.مبشر سے متعلق میں خصوصیت سے دعوت الی اللہ کرنے والوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ انبیاء پہلے خوشخبریاں دیا کرتے ہیں اور ڈرانے کی باری بعد میں آتی ہے.اس لئے جہاں بشیر اور نذیر کا ذکر آیا ہے ، انذار بشارت کے بعد بیان ہوا ہے، بالکل واضح بات ہے.تو پہلے اس کے کہ آپ لوگوں کو ڈرا کر اپنے سے بھی بھگا دیں اور بد کا دیں ضروری ہے کہ ان کو وہ خوشخبریاں بتائیں جن کے نتیجہ میں ان کی زندگیاں بدل جائیں گی تکلیفیں دور ہوں گی ان کے مسائل حل ہوں گے، ان کو کچھ حاصل ہوگا.ایسی بات کی طرف ان کو بلائیں جس کے نتیجہ میں ان پر واضح ہو چکا ہو کہ ہمیں ہر قسم کے فوائد میسر آئیں گے، ہماری دنیا بھی سنورے گی اور ہماری عاقبت بھی سنورے گی.پس تبلیغ کے لئے بشیر ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے اور شاہد کے بعد سب سے اول ہے.شاہد کا تعلق آپ کی ذات سے ہے.آپ اپنی ذات کو چمکائیں اور خوب تر بنا ئیں یہاں تک کہ آپ لوگوں کے لئے دلکشی کا موجب بن جائیں تا کہ آپ صحیح معنوں میں شاہد بن سکیں پھر بشارت کی باری آتی ہے.پھر آپ لوگوں کو خوشخبریاں دیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو بچانے کے لئے سامان پیدا کر دیئے ہیں.خدا تعالیٰ قریب آ گیا ، وہ ظاہر ہو گیا اس کے لئے کسی دوسرے واسطے کی ضرورت نہیں وہ تمہاری دعائیں بھی سنے گا.یہ وہ زمانہ ہے جہاں وہ بچوں کی دعائیں بھی سنتا ہے.اور اس کا فیض عام ہوتا چلا جارہا ہے.تم اس خدا سے تعلق جوڑو تو تمہیں یہ فائدے ہوں گے.اور ان فوائد کو وہ اپنی شہادت کی نسبت سے بیان کرے کیونکہ سب سے پہلے اس کا اپنا وجود اس کے سامنے ہے بعض لوگ دوسروں کی مثالیں دے دے کر خدا کے پیار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس مضمون کا بھی فائدہ ہے اور ضرورت پیش آتی ہے.جو کمی انسان میں ہو وہ کمی دوسروں کی نسبتاً اعلیٰ درجہ کے وجودوں کی مثالوں سے پوری کی جاسکتی ہے.در حقیقت اسی کا نام شفاعت ہے لیکن اس کی باری بعد میں آئے گی پہلے اپنے متعلق تو بتائیں کہ میں نے خدا میں کیا دیکھا اور خدا سے کیا پایا.پس یہاں آپ کی شہادت سے مبشر کا ایک ایسا تعلق بھی قائم ہوا ہے جس نے شہادت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 151 خطبه جمعه ۲۸ رفروری ۱۹۹۲ء کا ایک نیا رُخ ہمارے سامنے رکھ دیا.آپ کو اس بات کا شاہد بننا ہوگا کہ ہاں ایک زندہ خدا موجود ہے اور یہ گواہی اپنی ذات میں دینی ہوگی.خدا کی ہستی کے سب سے زیادہ قوی ثبوت کے طور پر خود انبیاء کی ذات خدا کے سامنے پیش کی جاتی ہے دنیا کا کوئی مفکر، کوئی فلسفی کسی دلیل کے ذریعہ قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت نہیں کر سکتا جیسا کہ انبیاء کی ذات اپنی ذات میں خدا پر گواہ بن جاتی ہے.پس ان معنوں میں شاہد بننے کے لئے وہ خوبیاں جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے عمومی خوبیاں ، اخلاقی خوبیاں ، کمزوریوں سے پاک ہونے کی کوشش یہ ابتدائی قدم ہیں لیکن جب دعوت الی اللہ کے لئے نکلیں گے تو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ دور کے کوئی گواہ ان کے سامنے نہ رکھو، کوئی دور کی شہادتیں پیش نہ کرو.پہلے اپنی شہادت پیش کرو اور بتاؤ کہ میں نے خدا کو کیا دیکھا ہے ، میں نے کیا پایا ہے ، مجھ سے اس نے کیا سلوک کیا ہے، مجھے اس کے قریب ہونے سے کیا فائدے پہنچے.ان معنوں میں اگر آپ شاہد ہوں گے تو آپ مبشر بھی ہو جائیں گے.اگر ان معنوں میں شاہد نہیں ہوں گے تو آپ کی تبشیر بے معنی ہوگی.خود ہر قسم کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے مصیبتوں میں مبتلا ، جب سہاروں کی ضرورت ہو تو بے سہارا محسوس کرنے والے، لوگوں کو خوشخبریاں دے رہے ہوں گے کہ آؤ ایک ایسے خدا کی طرف آؤ جو ہر قسم کی ضرورتیں پوری کرتا ہے ، ہر قسم کے اندھیروں سے نکالتا ہے ہر قسم کے مصائب کو آسانیوں میں بدل دیتا ہے.ہر قسم کے غموں کو خوشیوں میں تبدیل فرماتا ہے ہر قسم کے رنجوں کو دور کرتا ہے، ہر قسم کے فکروں کو امیدوں میں تبدیل فرما دیتا ہے، یہ بشارتیں آپ کیسے دیں گے؟ یہ کہہ کر کہ تیرہ سو سال پہلے ایسا ہوا تھا اور دو ہزار سال پہلے ایسا ہوا اور اس سے پہلے ایسا ہوا تھا یہ باتیں تو پھر کسی کے دل کو لگیں گی نہیں.اپنی ذات میں ضرور آپ کو کوئی گواہی دینی ہوگی.اور میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ ایسے ذاتی تجارب عطا فرماتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں وہ گواہ بنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر ایک انسان اپنی ذات کو خوب ٹٹول کر دیکھے تو اُسے خدا کے وجود کی وہ جھلکیاں اپنی ذات میں دکھائی دینے لگیں گی.روزمرہ کی زندگی میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر احمدی کو ایسے تجارب ہوتے رہتے ہیں جن کے ذریعہ اس کا ایمان تقویت پاتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ خدا کے ایمان والا زمانہ نہیں رہا.اس قدر دہریت کا شہرہ ہے اور اس قد ر مادہ پرستی ہے کہ بقول اکبر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 152 یہ بُت پردہ نہیں کرتے ، خُدا ظاہر نہیں ہوتا خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء کہ یہ بت جو ہیں یہ پردہ نہیں کر رہے، اللہ ظاہر نہیں ہور یا.اُس کے بعد کہتا ہے غنیمت ہے کہ میں کافر نہیں ہوتا یہ بھی شکر ہے کہ ان باتوں کے ہوتے ہوئے میں ابھی مومن ہوں اور کا فرنہیں ہوا تو زمانہ ایسا ہے کہ جن پر خدا ظاہر نہ ہو جن پر دنیا کے بہت بے نقاب ہو چکے ہوں اور ہوتے چلے جارہے ہوں.مادہ پرستی اپنی تمام شان اور ظاہری سطحی حسن کے ساتھ ان کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہو تو وہ اگر ابھی بھی خدا کے قائل ہیں تو یہ اللہ کا احسان ہے نعمت ہے، خدا کا شکر ہے کہ وہ کافر نہیں ہوئے.پس اس پہلو سے احمدی اور غیر احمدی میں ایک فرق ہے احمدی اس لئے کا فرنہیں ہوتا کہ اس نے خدا کو دیکھا ہے اور دیکھ رہا ہے اور ہر روز خدا اس پر جلوہ گر ہوتا ہے.شدید سے شدید مصائب میں ہر تکلیف اور تنگی کے دور میں احمدی کے لئے خدا تعالیٰ کی دوستی کے نشان ملتے ہیں.اس کی زیارت کی جھلکیاں وہ دیکھتا ہے اور ہر شخص اپنی توفیق کے مطابق ایسا کرتا ہے یہ نہیں کہ ہر آدمی ولایت کے ایسے اعلیٰ مقام پر ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو کھلا کھلا صاف عظیم نشانات کے ذریعہ دکھائی دینے لگے مگر حسب توفیق جتنی کسی کی صلاحیت ہو اس کے مطابق خدا تعالیٰ اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس تبلیغ کے لئے ایک زندہ خدا کا اپنی ذات کے آئینہ میں دکھانا بہت ہی ضروری ہے.باقی سب دلائل اُس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بعد میں آنے والی باتیں ہیں.پس مبشر بنیں اور پھر اُس کے بعد انذار کی باری آئے گی یعنی ڈرانے والی باتیں جن کو نڈ رکہتے ہیں وہ بتانے کے لئے بعد کا مضمون ہے.بعد کا وقت اس کے لئے مناسب ہے پہلے تبشیر ، پھر ڈرانا.اور اس پہلو سے آپ پھر اُن کو آگاہ کریں کہ ان کے معاشرے میں کیا ہورہا ہے.کتنے دکھ پھیل رہے ہیں ، دن بدن مصیبتیں ان کو گھیر تی چلی جارہی ہیں ، ان کے دلوں کے سکون اٹھتے چلے جارہے ہیں ، ان کے گھر بے چین ہو گئے ہیں اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہورہا ہے.آج کل بڑے زور سے انگلستان کے دانشوروں اور سیاستدانوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ جرم کیوں بڑھ رہا ہے اور ایک پارٹی دوسری پارٹی کو اس کا ذمہ دار قرار دیتی ہے.جو اپوزیشن والے ہیں وہ حکومت کی پالیسیز پر کہتے ہیں تمہاری وجہ سے تمہاری غلط پالیسیز کی وجہ سے یہ سب نقصان ہو رہا ہے حالانکہ یہ سب باتیں فرضی ہیں.جرم خدا سے دوری کے نتیجہ میں بڑھتا ہے اور اس کا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 153 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء اس سے گہرا تعلق ہے یہ ایک Equation ہے جو سائنسی Equation ہے.اس کو کوئی بدل نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ کوئی سوسائٹی خدا سے دور جارہی ہو اور دنیا کے کوئی ذرائع اُسے جرائم سے پاک وصاف کرسکیں ، کوئی دنیا کا قانون ایسا نہیں کرسکتا.قانون تو انسانی جسم کی حدود سے باہر تک کام کرتا ہے اور مجرم کرنے ، نہ کرنے یا اس کے رجحانات کا تعلق انسانی نیتوں سے ہے اور اُن خواہشات سے ہے جنہیں وہ آزاد بھی چھوڑ سکتا ہے اور پابند بھی کر سکتا ہے اور یہ وہ جگہ ہے ، یہ انسان کی وہ کائنات ہے جس تک صرف خدا کی رسائی ہے.پس خدا پر ایمان جتنا کمزور ہوگا، خدا سے تعلق جتنا ہلکا ہوتا چلا جائے گا اسی قدر جرائم نے لازماً بڑھنا ہے.پس اس نسبت سے ان کو سمجھنا چاہئے اور پھر ان معنوں میں بھی یہاں شہادت دینی چاہئے کہ ہم نے تو خدا سے قریب ہو کر ، ان برائیوں سے نسبتاً پاک ہو کر اس دنیا میں ہی ایک قسم کی جنت حاصل کر لی ہے.ہم غریب بھی ہیں تو ہمیں تسکین قلب نصیب ہے، ہم قربانیاں دیتے ہیں تو تکلیف کی بجائے لطف محسوس کرتے ہیں تم چار آنے ٹیکس زیادہ دے دو تو ذہنی عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہو.ہم ہزاروں روپے دے کر بھی اگر تکلیف محسوس کرتے ہیں تو صرف یہ کہ کاش ہم زیادہ دے سکتے لیکن اس میں بھی ایک لطف ہے.پس ہماری تکلیفوں میں بھی ایک سکینت ہے اس میں بھی جنت کا مزہ ہے اور تمہارے دنیا کے آراموں میں بھی ایک جہنم ہے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جو بالکل سچا ہے.آپ اپنے گردو پیش میں اپنے دوستوں کے حالات پر نظر ڈالیں جتنے بے تکلف ہوتے جائیں گے اتنا ہی آپ پورے یقین کے ساتھ خود بھی سمجھیں گے اور اُسے بھی سمجھا سکیں گے کہ دنیا کی لذتوں کی پیروی کے نتیجہ میں ایک قسم کا ہیجان تو مل جاتا ہے لیکن سکینت نہیں ملتی تسکین قلب نصیب نہیں ہوتا یہ صرف اللہ کی محبت اور اس کے ذکر سے ملتی ہے تو انذار سے یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کو کہہ دیں کہ جاؤ تم جہنمی ہو.انذار سے مراد یہ ہے کہ اس کی جہنم اس کو اس طرح دکھا ئیں کہ آپ اُس کی تکلیف میں شامل ہوں، اُس کا دکھ محسوس کرنے والے ہوں اور حضرت محمد مصطفے عام کا انذار بعینم اس طرز کا انذار تھا.ملاں والا انذار نہیں تھا کہ مانتے ہو تو مانو نہیں تو جاؤ جہنم میں شلوار کا ایک پائنچہ ٹخنے تک اونچا ہو گیا تو کہہ دیا کہ جاؤ تم جہنمی ہو چکے ہو.کوئی سوال کر بیٹھے تو کہہ دیا کہ تم نے سوال ایسا کیا ہے کہ تم کافر ہو گئے.یہ انذار تو ظالمانہ انذار ہے، جہالت کا انذار ہے ، تاریکیوں کی پیدائش ہے،
خطبات طاہر جلد ۱۱ 154 خطبه جمعه ۲۸ رفروری ۱۹۹۲ء اس کا نور سے کوئی تعلق نہیں.نور محمد مصطفے ﷺ سے اس کا دور کا بھی علاقہ نہیں.حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کے اندار کا یہ رنگ ہے کہ دوسروں کو ڈراتے ہیں اور اُن کے غم میں خود ہلاک ہوتے چلے جارہے ہیں.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:٤) اسے محمد یہ تو کیسا انذار کر رہا ہے.لوگوں کو ڈرا رہا ہے اور اُن کے خوف سے اپنی جان کو ہلکان کرتا چلا جارہا ہے.اُن کے دکھ میں خود مبتلا ہو گیا ہے.اس رنگ سے ، اس محمد تمی طریق سے انذار کریں تو پھر آپ کے انذار کے نتیجہ میں زندگی پیدا ہوگی.خوف سے لوگ بلک کر دور نہیں بھاگیں گے بلکہ اس انذار کے باوجود آپ کے قریب آئیں گے.پس مومن کی وہ تبشیر اور مومن کا وہ انذار جو حضرت محمد مصطفى ع الله فی وه ک داب اور اسلوب اور طریق پر ہو وہ ایسا انذار ہے اور وہ ایسی تبشیر ہے جولوگوں کو بڑی شان کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ کھینچتے ہیں اور اس طرح دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنے کے اہل بن جاتے ہیں.باذنه فرمایا کہ تم جو چاہو کوشش کر لو یہ وہ کھیتی ہے جو پھل دعاؤں کے ذریعہ دے گی محض ہل چلانے اور محنت کرنے کے نتیجہ میں خود بخود اس میں پھل نہیں لگیں گے کیونکہ یہ مردوں کو زندہ کرنے والا معاملہ ہے.یہ دنیا کے عام قوانین سے بالا ایک قانون ہے جبکہ ساری دنیا کی توجہ مادہ پرستی کی طرف ہو اور ان کو ہر قسم کی ظاہری لذتیں میسر ہوں ان کو بظاہر ایک اجاڑ زندگی کی طرف کھینچ لانا، کامل آزادی کی زندگی سے پابندیوں کی ایک زندگی کی طرف دعوت دینا ، باہر کی آزاد دنیا میں سانس لینے کی بجائے محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہونے والے قوانین کے زنداں خانے میں داخل ہونے کی دعوت دینا.جہاں صبح شام اٹھتے بیٹھتے ہر قدم پر قدغنیں ہوں گی.ایسی پابندیاں ہوں گی کہ یہ نہیں کرنا، یہ کرنا ہے اور وہ کرنا ہے تو ایسی زندگی کی طرف دعوت دینا کوئی آسان کام تو نہیں.دعوت آپ جس طرح چاہیں دے دیں دلوں کو بدلنا آپ کے قبضہ میں نہیں ہے وہ دعا سے حاصل ہوتا ہے.تو باذنہ سے مراد یہ ہے کہ اگر محمد مصطفی ہو نے خدا کے اذن سے مردے زندہ کئے تھے ، اگر آپ کی صلى الله دعوت کو اللہ کے اذن سے پھل لگے تھے تو پھر اے محمد مصطفی ہے کے غلامو ا تم جو بہت ادنی مقامات پر فائز ہو تم اس وہم کا کیڑا بھی اپنے دماغ میں داخل نہ ہونے دینا کہ محض تمہاری کوششوں سے تمہاری دعوت الی اللہ کامیاب ہو جائے گی بِاِذْنِیم کی طرف نظر رہے اور اللہ سے اذن حاصل کرنے کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 155 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء لئے دعائیں کرنی ہوں گی.ان معنوں میں اگر آپ دعوت کریں اور ان شرطوں کے ساتھ دعوت کریں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کی دعوت بے اثر اور بے ثمر رہ جائے.چنانچہ اس کے معا بعد ایک دوسرا پہلو یہ بیان فرمایا کہ وَسِرَاجًا منيرا.تو ایسا چراغ ہے جو اپنی روشنی کو اس طرح دوسروں میں منتقل کرتا ہے کہ وہ بھی چراغ بن جاتے ہیں یعنی ایسا خاتم ہے جو آگے چھوٹے چھوٹے خاتم پیدا کرتا ہے اور اگر چہ آنحضرت ﷺ کی خاتمیت بے مثل اور بے نظیر ہے مگر اپنے مرتبے اور اپنے مقام کے لحاظ سے بے مثل اور بے نظیر ہے اپنی بنیادی صفات کے لحاظ سے بے مثل اور بے نظیر ورنہ خاتمیت رہے ہی نہ.خاتمیت کے بے مثل اور بے نظیر ہونے کے دو معنی ہیں.ایک یہ کہ ویسا اور کوئی پیدا نہیں ہوگا.ایک یہ کہ جس صفائی اور شان کے ساتھ آپ کو اپنی صفات دوسروں میں منتقل کرنے کی طاقت بخشی گئی ہے ویسی کبھی دنیا میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی نہ ہو سکتی ہے.ان معنوں میں آپ کی خاتمیت بے نظیر ہے لیکن اگر خاتمیت کے بے نظیر ہونے کا یہ معنی لیا جائے کہ وہ صفات کسی دوسرے میں منتقل ہو ہی نہیں سکتیں.وہ نقوش کسی قیمت پر آگے کسی اور میں ظاہر نہیں ہوں گے خواہ کتنی مہریں لگا ئیں تو یہ خاتمیت کے انکار کرنے کے مترادف ہے، یہ تو خاتمیت کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے.ایک طرف مہریں بناتے جائیں اور دوسری طرف مہریں مٹاتے چلے جائیں.ایسا غیر معقول تصور خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.پس ان معنوں میں آپ کو بھی خاتمہ بنا ہو گا اور اپنی صفات کو دوسروں کی طرف منتقل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی گویا ایسے سراج بننا ہو گا جو آگے چراغ روشن کرسکیں اور یہ بات بہت ہی فصیح و بلیغ مثال کے ذریعہ بیان فرمائی گئی ہے آنحضرت مہ جو چراغ روشن صلى الله فرماتے تھے وہ چراغ آنحضرت ﷺ کی مثل نہیں بن جایا کرتا تھا.محمد مصطفی میلہ کا چراغ بے مثل اور بے نظیر رہا لیکن چراغ کی بنیادی صفات ضرور دوسرے میں منتقل فرما دیا کرتے تھے.پس ان معنوں میں ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کو اپنے نور کو دوسروں میں منتقل کرنے کی صلاحیت اختیار کرنی ہوگی اور یہاں دعوت الی اللہ کا ایک بہت ہی اہم نکتہ بیان فرما دیا گیا جس سے غفلت کے نتیجہ میں ہم بہت سے پھلوں کو ضائع کر دیتے ہیں.جس نے دعوت الی اللہ کی ہے اس کا فرض ہے کہ جس کو خدا کی طرف بلایا ہے.اس کی تربیت بھی کرے اور اس وقت تک مطمئن نہ ہو جب تک اس حد تک مستحکم نہ کر لے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 156 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء جس حد تک وہ خود مستحکم ہے.اسوقت تک مطمئن نہ ہو جب تک وہ ساری صفات حسنہ جو اس نے اسلام سے اخذ کی ہیں اُس دوسرے شخص میں جاری کرنے کی کوشش نہ کر لے گویا اپناDuplicate پیدا کر لے.اپنے جیسا دوسرا وجود پیدا کرے وہ یہاں وہ بے مثل ہونے والا مضمون صادق نہیں آتا جو آنحضرت ﷺ کے تعلق میں میں نے بیان کیا ہے.یہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جس کو آپ اپنا نور عطا کر رہے ہیں وہ چراغ آپ سے بھی زیادہ روشن ہو جائے اور یہی وہ کوشش ہے جو ہر مومن کو کرنی چاہئے چراغ بنانا آپ کا کام ہے، اپنے نور کو اس میں منتقل کرنے کی کوشش کرنا آپ کا کام ہے اور پھر یہ بھی دعا کرنی چاہئیے اے خدا اگر اس کی صلاحیتیں زیادہ ہیں تو اُسے روشن تر بنادے.ایسے احمدی آپ پیدا کریں گے تو وہ محفوظ احمدی ہیں ان تک شیطان کی رسائی نہیں ہوسکتی، ان کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، اُس کے گرد آپ نے حصار بنا دی ہے.ان معنوں میں دعوت الی اللہ کے جو پھل ہیں ان کو دوام بخشا جاتا ہے اور یہ وہ کام ہے جو بڑے اور چھوٹے سب برابر کر سکتے ہیں آنحضرت ﷺ کی خاتمیت کا فیض حاصل کرنا اور شاہد بننا یہ بچوں کے بس کی بھی بات ہے.احمدی بچوں کے متعلق میں نے کئی دفعہ واقعات سنے ہیں کہ اُن کے ارد گرد کے بچے کیونکہ اُن سے مختلف دکھائی دیتے ہیں اس لئے جب ماں باپ کبھی سکول جائیں تو ان کے بچوں کے اساتذہ اُن سے واضح طور پر پوچھتے ہیں کہ تم کیسی تربیت کر رہے ہو.تمہارے بچوں کے اخلاق اور عادات ان دنیا کے عام بچوں سے حیرت انگیز طور پر بہتر ہیں اور بہت سی جگہ احمدی بچوں کو عملاً داد دینے کے لحاظ سے کلاس کے لئے نمونہ بنا کر پیش کیا گیا.بعض احمدی بچوں نے مجھے خطوں میں لکھا کہ ہماری استانی نے یا استاد نے ہمیں کہا کہ کلاس میں لیکچر دو کہ تم کیا ہو اور جو تم ہو یہ کس طرح بنے ہو تو شاہد تو وہ بن گئے.اس لئے شاہد بننے کے لئے بڑھاپے کا انتظار نہیں کرنا.بچپن سے ہی آپ شاہد بن سکتے ہیں.بچپن ہی سے آپ کو شاہد بنانے چاہیں اور ان معنوں میں آپ کی خاتمیت کا اثر آپ کے بچوں پر پڑنا چاہئے کہ ان میں آنحضرت ﷺ کی صفات حسنہ کی جھلکیاں دکھائی دینے لگیں اور پھر وہ آگے تبشیر بھی کریں اور انذار بھی کریں.جو احمدی طالب علم ایسا کرتے ہیں خدا کے فضل سے اگر وہ دعا گوہوں اور نیکی ہو تو ان کو پھل لگتے ہیں اور بالعموم میں نے دیکھا ہے کہ جیسا تبلیغ کرنے والا ہو عموماً اس سے فیض یافتہ نواحمدی بھی اُس کے اخلاق کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں ضرور اخذ کر لیتا ہے.اس کی ادائیں ویسی ہی ہو جاتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 157 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء اس کی قلبی کیفیات بھی اسی نہج پر چل پڑتی ہیں.ابھی چند دن ہوئے ایک احمدی لڑکی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک اعمال ، نیک فطرت اور اچھا اثر رکھنے والی بچی ہے، کالج میں پڑھتی ہے وہ ایک لڑکی کو لے کر آئی جسے وہ ایک دفعہ پہلے بھی لے کر آئی تھی.وہ ایک انگریز لڑ کی ہے.جب پچھلی دفعہ وہ مجھے ملی تو اس نے چند سوالات کئے اور مجھے کہا کہ اسلام میں میری دلچسپی تو صرف اس لڑکی کی وجہ سے ہے.یہ سب سے مختلف ہے.اس میں سب سے زیادہ اعلیٰ اخلاق ہیں اور اس کی ذات میں ایک ایسی روحانی کشش ہے کہ میں فطرتا اپنے آپ کو اس کی طرف مائل پاتی ہوں اس لئے میں نے تو جو کچھ اثر قبول کیا ہے اس کی ذات سے کیا ہے.اب آگے جب یہ مجھے مسائل بتاتی ہے تو انہیں سمجھنا بھی ضروری ہے کیونکہ صرف ذات کافی نہیں.اس نے شاید چند سوال کئے یا ایک دو کئے اور باقیوں کے متعلق بعد میں بات کرنے کا فیصلہ ہوا اور وہ بچی چلی گئی.اب جو چند دن پہلے آئی تو اُس نے کہا اس عرصہ میں میں کافی مطالعہ بھی کر چکی ہوں.مطالعہ تو جاری رہے گا لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میرا دل یقین سے بھر گیا ہے اور میں بیعت کرنا چاہتی ہوں لیکن خدا کے لئے مجھے رمضان سے پہلے پہلے مسلمان بنالیں تا کہ میرا رمضان ضائع نہ جائے.میں نے کہا تم ابھی بنو.یہ بات جو تم نے کہی ہے اس کے بعد میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی چین محسوس نہیں کروں گا اگر میں تمہیں فوراً اسلام میں با قاعدہ داخل نہ کرلوں.ملاقاتیں ختم ہونے پر آخر پر اُس نے بیعت کی.آخری ملاقات تھی.بیعت کے بعد مجھے اتنی خوشی محسوس ہوئی کہ میں نے بے اختیار ا سے کہا You have made my day اُس نے بے ساختہ اس کے جواب میں یہ کہا کہ and you have made my life میں نے کہا کہ تم نے میرا دن بنا دیا.اُس نے کہا آپ نے تو میری زندگی بنا دی.مگر میں دعوت الی اللہ کرنے والوں کو خوشخبری دیتا ہوں کہ جب وہ کسی کی زندگی بنائیں گے تو خدا اُن کی ایک اور زندگی بنا دے گا اور یہ ایک ایسا جاری فیض ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا.اس سے محرومی ، زندگی کو ضائع کرنا ہے.اس لئے ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دعائیں کرتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھائیں.اپنے روحانی پھلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں.ان کی لذتوں سے فیضاب ہوں اور آگے اُن کو سراج بنا دیں ایسا سراج جو اور چراغ روشن کرنے والا سراج بن جائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 159 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء روزہ زکوۃ کا معراج ہے اور روزے کا معراج رمضان ہے.اپنے گھروں میں عبادات کا ماحول پیدا کریں.( خطبه جمعه فرموده ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ b مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَنْتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۴ تا ۱۸۷)
خطبات طاہر جلدا پھر فرمایا:.160 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء جماعت احمدیہ مسلمہ کے نزدیک آج یورپ میں رمضان المبارک کا پہلا دن ہے اور آج پہلا روزہ ہے لیکن 'جنگ کی ایک خبر سے مجھے معلوم ہوا کہ یہاں بہت سے دوسرے فرقوں نے جمعرات ہی کو پہلا روزہ شمار کر کے رمضان شروع کر دیا تھا.اس سے متعلق مختصر وضاحت پیش کرنی چاہتا ہوں.علم فلکیات کے ماہرین اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر چہ بعض دنوں میں چاند مطلع پر ظاہر تو ہوتا ہے اور زمین کے کنارے سے اُبھرتا تو ہے لیکن اس کی عمر اگر چھوٹی ہو اور دیکھنے والے کے ساتھ اس کا زاویہ بہت چھوٹا ہو تو کسی طرح بھی نظر آنا ممکن ہی نہیں ہے.خواہ مطلع کیسا ہی صاف کیوں نہ ہو لیکن وہ چاند جو چھوٹی عمر کا ہو اور اس کی عمر ماہرین نے معین کر رکھی ہے مثلاً ۵ منٹ سے کم عمر کا ہو تو کسی قیمت پر بھی کسی صورت میں بھی وہ نظر آ نہیں سکتا.پس قرآن کریم ن مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ کی شرط لگائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چاند کی آنکھوں کے ساتھ رویت ممکن ہو اور اس کی شہادت دی جا سکے.پس جب ایسا چاند جو چھوٹی سی عمر کا ہوکر ، چھوٹی عمر میں ہی مر جاتا ہے وہ کسی طرح بھی آنکھ سے نظر آنا ممکن ہی نہیں تو اس پر شریعت کے احکامات کی بنیاد رکھنا کسی طرح بھی جائز نہیں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کے زمانے میں اس قسم کا چاند نہ بھی دکھائی دیا نہ کبھی بعد میں دکھائی دے سکتا ہے.پس جماعت احمدیہ کا موقف سو فیصد درست ہے اور بعض دوسرے مسلمانوں نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے اور اخبارات میں اس کی تائید میں بعض خطوط بھی لکھے ہیں.بہر حال یہ ایسی فقہی باتیں ہیں جن میں افسوس ہے کہ امت مسلمہ میں اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے.جب تک عقلیں ایک طرزفکر پر سوچنا نہ شروع کریں اور دل ہم آہنگ نہ ہوں ایسے اختلافات کا رستہ بند نہیں کیا جاسکتا.جن آیات کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے یہ رمضان المبارک سے تعلق رکھتی ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر بھی روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.تا کہ تم تقوی اختیار کرو اور تقوی حاصل کرو گویا کہ روزے رکھنے کا مقصد تقویٰ بیان فرما یا گیا اس سے تقوی میں ترقی ہوتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 161 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء ايَّا مَا مَّعْدُو دَتِ گنتی کے چند دن ہیں اور اُن میں بہت سے فوائد تمہارے لئے مضمر ہیں.اَيَّا مَا مَّعْدُو رت میں یہ لفظ ظاہر تو نہیں ہے کہ بہت سے فوائد مضمر ہیں مگر یہ مضمون اس کے اندر شامل ہے کہ چند دن کی بات ہے اس کے مقابل پر تمہیں اتنے فوائد ہوں گے تھوڑی سی تکالیف اُٹھا لوتو نقصان نہیں بلکہ بہت سے فائدے ہوں گے.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا اَوْ عَلَى سَفَرٍ.ہاں تم میں سے اگر کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو.فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ.تو اسے اجازت ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں روزے پورے کر لے.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ اور وہ لوگ جو اس کی طاقت رکھتے ہوں اُن کو فدیہ طعام دینا ہو گا جو کہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے.یہاں يُطيقونہ کے دو طرح سے ترجمے کئے جاسکتے ہیں.ایک ترجمہ يُطيقُونَہ کا یہ ہو گا جو طاقت نہیں رکھتے اور ایک ترجمہ یہ ہو گا جو طاقت رکھتے ہیں تو یہ دونوں مضمون بہت عمدگی کے ساتھ اس موقعہ پر اطلاق پاتے ہیں.جب ہم طاقت نہیں رکھتے کی بات کریں گے تو اس سے مراد یہ ہوگی کہ جولوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اُن کے لئے فدیہ طعام ہے حضرت مصلح موعودؓ نے یہی معنی شمار کئے ہیں اور یہ مطلب لیا ہے کہ کچھ ایسے ہیں جو روزے کی ویسے طاقت رکھتے ہیں مگر سفر کی وجہ سے طاقت کے باوجو د روزہ چھوڑتے ہیں وہ فدیہ کے ذریعہ اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں اور احساس محرومی کو پورا کر سکتے ہیں اور يُطيقون، جہاں مثبت معنی لئے جائیں یعنی جو اس کی طاقت رکھتے ہیں تو یہاں طاقت سے مراد فدیہ کی طاقت ہوگی نہ کہ روزہ کی طاقت.تو مطلب یہ ہوگا کہ جولوگ روزہ کی طاقت تو رکھتے ہوں مگر الہی رخصت سے استفادہ کرتے ہوئے روزہ نہ رکھتے ہوں اور انہیں نہ رکھنے کا احساس ہو اور وہ یہ طاقت رکھتے ہوں کہ کسی غریب کو کھانا کھلا سکیں تو غریب کو کھانا کھلا کر اپنے احساس محرومی کی تسکین کر لیں.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ اور جو شخص طوعی طور پر یہ نیکی جس کو لفظوں میں ظاہر نہیں کیا گیا کہ کون سی نیکی؟ فَمَنْ تَطَوَّعَ.پس جو شوق سے اپنی مرضی سے کسی جبر سے نہیں اس نیکی کو اختیار کرنا چاہے تو اس کے لئے بہتر ہے اس سے غالبا فدیہ کی ادائیگی مراد ہے یعنی وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اُن کو بھی فدیہ دینا چاہئے اگر وہ فدیہ دیں تو اُن کے لئے بہتر ہے.دوسرے اس سے مراد طوعی روزوں کا ذکر ہو سکتا ہے.نفلی روزوں کا ذکر ہو سکتا ہے، ایک تو فرضی روزوں کی بات ختم ہوئی اس موقع پرنفلی روزوں کا ذکر بھی ہونا چاہئے تھا کیا نفلی
خطبات طاہر جلدا 162 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء طور پر بھی روزے رکھے جاسکتے ہیں تو قرآن کریم نے اس کی بھی تعلیم دے دی کہ فرضی روزوں میں تو شرائط کے ساتھ بات کھول دی گئی.اس کے علاوہ اگر تم نفلی روزے رکھنا چا ہو تو بہت ہی بہتر ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ اس کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے کہ ایک مہینہ کے فرضی روزوں کے ساتھ تین مہینے کے یعنی اگر سارے دنوں کو شمار کر لیا جائے تو حضرت خلیفہ اسیح الاول کے حساب سے آپ تین مہینے نفلی روزے بھی رکھتے تھے.گویا ایک قسم کی وصیت کی آخری حد یعنی ۱/۳ اس رنگ میں پوری ہو گئی.بعض لوگ دسویں حصہ کی وصیت کرتے ہیں اور سال میں ایک مہینہ دسویں حصہ کے قریب تر ہے اور اگر چار مہینے کے روزے رکھے جائیں تو وہ قربانی وصیت کی انتہائی حد۱/۳ کو چھوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت مہ جس چیز کی دوسروں کو اجازت دیتے تھے اور جس حد تک اجازت دیتے تھے اس کا مکمل نمونہ خود پیش فرمایا کرتے تھے.آپ ۱/۳ سے زائد مالی قربانی یا جانی قربانی کی بالعموم اجازت نہیں دیتے تھے.سوائے اس کے کہ کوئی غیر معمولی استثنائی صورت ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق سے آپ نے آپ کے گھر کا پورا مال وصول فرمالیا اور وہ بھی مخصوص آدمیوں کے لئے اُن کی طاقتوں کو دیکھ کر آپ ایسا فیصلہ فرماتے تھے مگر عمومی دستور جو آپ کے نمونے سے اور قول سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ قربانی کو ۱/۳ کی حد تک پہنچاؤ.کیونکہ اس میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں، تمہاری بیوی کے بھی حقوق ہیں ، بچوں کے بھی حقوق ہیں، عزیزوں ہمسایوں کے حقوق ہیں، غرباء کے حقوق ہیں، وہ قربانیاں اُن کے علاوہ ہیں اور اگر انسان اُن کو عبادت سمجھ کر خدا کی مرضی کی خاطر سرانجام دے تو ان معنوں میں ساری ساری زندگی اور تمام اموال اور جو کچھ انسان خرچ کرتا ہے وہ سب کچھ خدا کے ہاں عبادت ہی شمار ہوگا.فرمایا فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ.یہاں یہ بات بتانی ضروری ہے کہ یہاں یہ بات نہیں ہے کہ مریض ہو اور سفر پر ہواور خدا کی طرف سے تمہیں رخصت دی گئی ہو کہ روزے نہیں رکھنے تو تم شوق سے بےشک روزے رکھ لیا کرو.سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے ان معنوں میں کہ خدا نے رخصت عطا فرما دی ہے اور رخصت سے فائدہ نہ اٹھانا بھی ایک قسم کی ناشکری بن جاتی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب سفر اختیار کرو تو ز بر دستی خدا کو خوش کرنے کی کوشش نہ کرو اور اسی مضمون کو قرآن کریم کی یہ آیات آگے جا کر کھولتی ہیں.ط
خطبات طاہر جلد ۱۱ 163 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جولوگوں کے لئے ہدایت ہے اور صرف عام ہدایت نہیں.وَبَنْتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ.اور ہدایت میں سے بھی جو اعلی درجہ کی کھلی کھلی ہدایت روشن ہدایات جو چمکتے ہوئے جواہر کی طرح روشن اور چمکدار ہیں وہ ہدایات قرآن کریم اپنے اندر رکھتا ہے.وَالْفُرْقَانِ اور ایسی دلیلیں جو کھرے کھوٹے میں تمیز کرنے والی ہوں، جو دن کو رات سے الگ کرنے والی ہوں وہ چوٹی کی کھلی کھلی دلیلیں بھی اپنے اندر رکھتا ہے یعنی فرقان خود مضمون کو کھولنے والی دلیل کو کہتے ہیں یا ایسی بات جو الہی شان و شوکت رکھنے کی وجہ سے اپنی ذات میں ایک چمکتا ہوا نشان بن جائے.اس پر پھر بنت مزید لگا دینے کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے پہلے انبیاء کو بھی فرقان عطا کی گئی بَنْتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ کا یہ محاورہ میں نے پرانے انبیاء کے متعلق نہیں پڑھا.اگر کہیں ہوگا تو میرے علم میں نہیں.تو مراد یہ ہے کہ قرآن کریم نہ صرف ہدایت رکھتا ہے نہ صرف فرقان رکھتا ہے بلکہ ہدایت اور فرقان میں جو چوٹی کی اعلیٰ درجے کی ہدایات اور اعلیٰ درجے کی فرقان ہیں وہ قرآن کریم میں آپ کو ملیں گی.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ پس جو بھی اس مہینے کو دیکھے اس کا گواہ بنے یا اس مہینے کو پالے اس مہینے میں سے گزرے.شَهِدَ کے اندر یہ سارے معنے شامل ہیں فَلْيَصُمہ تو اس کا فرض ہے کہ وہ روزے رکھے.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرِ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ پھر اس بات کو دہرایا گیا کہ جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو وہ دوسرے ایام میں روزے رکھے.یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جب پہلے اجازت دی گئی تو وہاں مَنْ تَطَوَّعَ کا مضمون اطلاق نہیں پاتا تھا.اس سے پہلے یہی مضمون گزر چکا ہے کہ جو بھی مریض ہو یا سفر پر ہو وہ دوسرے ایام میں روزے رکھے اور اس کے معا بعد فرمایا کہ ہاں کوئی شوقیہ نفلی نیکی کرنا چاہے تو اس کے لئے بہتر ہے.یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا تو ایک طرف خدا نے اجازت دی اور دوسرے ایام میں روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی.ساتھ ہی فرما دیا کہ جو شوقیہ نیکی کرے تو شوق سے کرے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت ان معنوں میں اہمیت نہیں رکھتی کہ ضرور اس پر عمل کیا جائے.عمل کر سکو تو بہتر نہ کرو تو کوئی حرج نہیں بلکہ اگر نفلی روزے رکھ لو تو اور بھی بہتر ہے.فَهُوَ خَيْر له سے یہ غلط نہی پیدا ہو سکتی تھی اس لئے اس مضمون کو دہرایا گیا ہے اور یہاں شوق
خطبات طاہر جلدا 164 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء سے روزہ رکھنے کی اجازت اگر ذہن میں ہو تو اس کا ذکر نہ کر کے اس خیال کو رد فرما دیا گیا.پس قرآن کریم جب تکرار کرتا ہے تو بے وجہ تکرار نہیں کرتا.کسی احتمال غلطی کو دور کرنے کی خاطر قرآن کریم تکرار کرتا ہے یانئے مضامین کی طرف توجہ دلانے کے لئے تکرار فرماتا ہے.فرمایا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَر.یاد رکھو اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہوتو تمہیں دوسرے ایام میں روزے رکھنے ہوں گے.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر اس بات کو کھول دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی کو پسند فرماتا ہے تکلیف کو پسند نہیں کرتا.مریض کے لئے اگر وہ حقیقی مریض ہو یعنی اپنے نفس کے تو ہمات کا مریض نہ ہو بلکہ واقعہ مجبور ہو، روزہ رکھنے کی اجازت نہ دینے میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ روزے کے ساتھ عبادات چلتی ہیں اور بہت سی نیکیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں.ایک شخص جو حقیقتا مریض ہو اس کو اگر روزے کی مشقت میں ڈال دیا جائے تو اس کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے.اُس کے لئے خیالات کی پاکیزگی اور یکجہتی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا ممکن نہیں رہتا اور وہ عبادات کا حق ادا نہیں کر سکتا اس لئے محض اس وجہ سے کہ سب نے روزے رکھے ہوئے ہیں اب روزہ رکھ لوں تو آسانی پیدا ہو جائے گی اگر وہ روزے رکھتا ہے تو یہ نیکی نہیں ہے بلکہ کمزوری کا نشان ہے.پس قرآن کریم نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں ان میں گہری حکمتیں ہیں اُن سے پوری طرح استفادہ کرنا چاہئے لیکن شرط یہ ہے کہ مریض حقیقی ہو اور نفس کا بہانا نہ ہو.پھر فرمایا وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُ يكُم تاکہ تم اس عدت کو پورا کر سکو.جب یہ فرمایا کہ اگر بیمار ہو یا سفر پر ہو تو تم نے رمضان میں روزے نہیں رکھنے ، بعد میں رکھنے ہیں تو بعد میں رکھنے کی حکمت اب بیان فرمائی ہے کہ ہم بعد میں اس لئے کہہ رہے ہیں تا کہ اس عدت کو جو مومنوں پر فرض کی گئی ہے پورا کر سکو اور اس میں محروم نہ رہ جاؤ.پس بعد کے روزے رکھ کر تم مہینے کے میں ۳۰ روزوں کی تعداد کو پوری کر لو گے یا ۲۹ کی تعداد کو پوری کر لو گے تو تمہیں اطمینان ہو جائے گا کہ ہمیں کوئی ایسا نقصان نہیں ہوا جس کی تلافی نہیں ہو سکتی.اس میں مریضوں اور سفر والوں کو یہ تسلی دی گئی ہے اگر چہ تم رمضان کے مبارک مہینے میں
خطبات طاہر جلدا 165 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء روزے نہیں رکھ سکے لیکن تمہارے بعد کے روزے خدا کے نزدیک ایسے ہوں گے جیسے تم نے رمضان کے روزوں کی عدت پوری کر لی ہو اور تمہیں کوئی روحانی نقصان نہیں ہے.جب نقصان کوئی نہیں ہے تو بے وجہ پھر تکلف کر کے رمضان میں روزہ رکھنا جائز نہیں.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ.آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد !وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی.اگر تجھ سے میرے بندے میرے بارہ میں دریافت کریں فَإِنِّي قَرِيب تو میں قریب ہوں.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعوت کو سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں.فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی شرط یہ ہے کہ وہ بھی میری باتوں پر لبیک کہا کریں اور جن نیکیوں کی طرف میں ان کو بلاتا ہوں اُن پر عمل کیا کریں.وَلْيُؤْمِنُوا لی اور مجھ پر ایمان لائیں لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ ہدایت پائیں.اس مضمون کا روزوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور اس رکوع سے روزوں کا جو ذ کر چلا ہے اس کا پہلے رکوع میں مذکور عبادات کے ساتھ گہرا تعلق ہے کیونکہ اس سے پہلے رکوع میں زکوۃ کا یعنی مالی قربانی کا ذکر چل رہا تھا اور پہلے رکوع سے بھی پہلے کا یہ مضمون شروع ہوا ہے.تو درحقیقت یہ دو الگ الگ باتیں بیان نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو مختلف پہلو بیان ہورہے ہیں.خدا کی خاطر مالی اور جانی قربانی کیسے کی جاتی ہے اور خدا تم سے کیا توقع رکھتا ہے؟ کن شرائط کے ساتھ اس قربانی کو قبول فرمائے گا اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں تمہیں کیا کچھ حاصل ہوگا ؟ زکوۃ کے مالی حصے کے متعلق ذکر فرما کر اُس کے فوائد بیان کر دیئے اور بتایا اس سے تمہارے اموال میں کمی نہیں آئے گی بلکہ وہ بڑھیں گے تمہارے اعمال میں پاکیزگی پیدا ہوگی اور تمہیں برکتیں نصیب ہوں گی ہر طرف سے نشو و نما ہو گی.ان آیات میں جس زکوۃ کا ذکر فرمایا ہے اس کی جزاء خدا خود ہے اور یہ یعنی روزہ مالی اور جانی قربانی جو زکوۃ کے عنوان کے تابع آتی ہیں ان کا معراج ہیں.دوسری عبادتیں جیسا کہ نماز ہے وہ اپنا ایک الگ مرتبہ اور مقام رکھتی ہیں وہ زکوۃ میں شمار نہیں ہوتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نمازوں کی عبادت کو زکوۃ سے الگ بیان فرمایا ہے اور بعض پہلوؤں سے روزوں پر فضیلت دی ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس مضمون پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سارا مضمون مربوط ہے اور یہ باتیں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت ابوہریرہ
خطبات طاہر جلدا 166 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء کی حدیث ہے قال رسول الله الله لكل شئ زكوة وزكوة الجسد الصوم......والصيام نصف الصبر - ( سنن ابن ماجہ کتاب حدیث نمبر : ۱۷۳۵) آپ نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوۃ روزے ہیں اور روزہ نصف صبر ہے.نصف صبر اس لئے فرمایا کہ صبر میں کسی چیز سے کلیہ محرومی پر انسان جو حوصلہ دکھائے اور راضی برضا ر ہے یہ سارا مضمون بھی داخل ہے لیکن رمضان شریف میں روزے کے دنوں میں انسان جوصبر دکھاتا ہے اس امید پر دکھاتا ہے کہ تھوڑی دیر کی بات ہے یا چند دنوں کی بات ہے پھر مجھے کھانے پینے کی ہر جائز چیز سے استفادہ کی کھلی چھٹی مل جائے گی تو نصف صبر فرمایا.آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ جہاں حدیثیں صحیح ہیں اور درست ہیں اور کوئی ملاوٹ نہیں ہے ان میں.وہاں ان کی عظیم الشان روشن نشانیاں موجود ہیں.ایسی گہری حکمت کی باتیں ہیں جو حدیث وضع کرنے والے کے ذہن میں آہی نہیں سکتیں.اب مثلاً صبر کہہ دینا کافی تھا.آج جو آپ نے بات سنی ہے جنہوں نے پہلی دفعہ سنی ہے ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ نصف صبر کی بات کریں.پس یہ عارف باللہ کا کلام ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے کلام پر کھلی کھلی شہادت ہے.پس آپ نے فرمایا کہ یہ زکوۃ ہے اور زکوۃ کی ایک قسم ہے اور اس قسم میں نصف صبر کا ثواب بھی شامل ہو جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس سے پہلے رکوع میں زکوۃ کا مضمون چل رہا ہے تو دیکھیں قرآن کریم کی آیات کس طرح ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں، مضبوط رشتے ہیں اور ایک تسلسل ہے جس میں عرفان کا ایک دریا بہتا چلا جا رہا ہے.اسی ضمن میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ایک اور حدیث بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں ( وقت بچانے کے لئے صرف ترجمہ پر ہی اکتفا کروں گا ) یہ بھی حضرت ابو ہریرہ کی بیان فرمودہ حدیث ہے.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے سب کام اُس کے اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا بنوں گا.(صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۷) یہ وہی مضمون ہے جس کی طرف میں نے قرآن کریم کی ان آیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اشارہ کیا تھا.روزے کی ہدایت کے معا بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَانِي قَرِيبٌ.کہ اگر لوگ میرے متعلق تجھ سے سوال کریں یا جب میرے بندے تجھ سے سوال
خطبات طاہر جلد ۱۱ 167 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء کریں تو میں قریب ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص جب خدا کے متعلق پوچھے تو خدا و ہیں اس کی باتوں کا جواب دینے لگے گا.جو روزے کی عبادت جیسا کہ حق ہے ادا کرے اُس کی جزاء کا بیان ہورہا ہے اور جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزے کی جزاء میں خود ہوں.قرآن کریم کی یہ آیات اسی مضمون کو بیان فرماتی ہیں اور یہی اس مضمون کا پہلے مضمون سے تعلق ہے کہ جو شخص خدا کی خاطر خدا تعالیٰ کی فرمودہ شرائط کے مطابق روزے رکھتا ہے ان کو کیا جزا ملے گی جیسا کہ زکوۃ کی جزاء پہلے بیان ہوئی ہے اس زکوۃ کی جزاء یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے میں خود اس کی جزاء ہوں.إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ.ان کو بتا دے کہ روزوں کے نتیجہ میں، ان عبادات کے نتیجہ میں میں ان کے قریب ہو جاؤں گا یا ان کو اپنے قریب دکھائی دوں گا اور اتنا قریب کہ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.جب پکارنے والا مجھے پکارے گا تو میں اس کی باتوں کا جواب دوں گا.فَلْيَسْتَجِبوالى اس معنی میں فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ یہ نشانات دیکھیں گے تو پہلے سے بڑھ کر میری اطاعت کریں گے.پس ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں جن پر میں خود جزا بن کر ظاہر ہوں کہ پہلے سے بڑھ کر میری ہدایات پر لبیک کہیں اور وَلْيُؤْمِنُوا لی اور ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوتے ہوئے مجھ پر ایمان لائیں.بغیر ایمان کے تو خدا کودیکھنا ممکن ہی نہیں.خدا سے سوال و جواب اور دُعاؤں کی قبولیت کا نشان بے ایمان لوگوں کو عطا ہوا ہی نہیں کرتا تو وَلْيُؤْمِنُوا لی کا مطلب ہے کہ ایمان کے اعلیٰ تر مقامات بھی آتے چلے جاتے ہیں.ایمان کا ایک مقام ہے جس سے انسان سفر کا آغاز کرتا ہے دن بدن جتناوہ خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اس کے ایمان میں ترقی ہوتی چلی جاتی ہے.مزید نشانات ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ خدا تعالیٰ سے الہامات کا شرف حاصل کرلے مکالمہ مخاطبہ کی سعادت اس کو نصیب ہو، صاحب کشف ہو جائے ، سچی رؤیا اس کو دکھائی دینے لگیں یہ ساری باتیں اور تجربے ہیں جو خدا کا قرب رکھنے والوں کے تجارب ہیں جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو فرمایا اس کا ایمان اور ترقی کرتا ہے ، اس کی اطاعت کی طاقت بڑھتی ہے.پس ان معنوں میں فرماتا ہے کہ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.تا کہ وہ مزید ہدایت پاتے چلے جائیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا رستہ ہے.يَرْشُدُونَ میں ایک جاری
خطبات طاہر جلد ۱۱ 168 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء دریا کا سا مضمون بیان ہوا.ایک ایسے مسافر کا سا مضمون ہے جو رستے پر چلتا چلا جاتا ہے اور ہر قدم اسے مزید ہدایت کی طرف لے جاتا ہے.پھر فرمایا فانه لی وانا اجزی به بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر ۱۹۰۴) وہ میرے لئے عمل کرتا ہے پس میں اس کا اجر ہوں.اس میں ایک چھوٹی سی مشکل ہے جس کا حل کرنا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ انسان جو دوسرے اعمال کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے اور روزہ میرے لئے رکھتا ہے حالانکہ کوئی عمل بھی جو خدا کے لئے نہ کیا جائے وہ بے معنی اور نامراد ہوتا ہے.اور مومن کی شان کے تو خلاف ہے کہ وہ سارے عمل اپنے لئے کرے اور صرف ایک روزے کا عمل خدا کی خاطر کرے.حضرت اقدس محمد اللہ کا تو یہ حال تھا کہ کوئی ایک ادنی سی حرکت بھی اور ادنی سا سکون بھی ایسا نہیں فرماتے تھے جو خدا کی خاطر نہ ہو.بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالتے تھے تو اللہ کی خاطر تو پھر آپ یہ کیا فرمارہے ہیں اس کو خوب سمجھ لینا چاہئے ورنہ کسی غلط فہمی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں.مومن کی ہر قسم کی عبادت بالآخر خدا کی خاطر ہوتی ہے پھر روزے میں اور عام عبادت میں یہ کون سی تفریق ہے جو آنحضرت ﷺ نے فرمائی اس مضمون کو سمجھنا چاہئے.ہم روز مرہ جو عبادتیں کرتے ہیں ان عبادتوں پر اگر ہم قائم رہیں تو ہمارے لئے فی ذاتہ وہ کافی ہے اور خاص طور پر یہ بات سمجھنی چاہئے کہ کھانا پینا جائز ہے.اپنی اہلیہ سے تعلقات جائز ہیں اور اس قسم کی بہت سی باتیں جائز ہیں جن کی خدا نے ہمیں اجازت دے رکھی ہے.پس اس حالت میں زندگی بسر کرنا جس میں خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے استفادہ کی اجازت ہے اور بعض جگہ پابندی ہے دراصل اس مضمون کو ظاہر کرتا ہے کہ پابندیاں سو فیصدی ہماری خاطر ہیں.اگر ہم ان پابندیوں کو توڑیں گے تو نقصان اٹھائیں گے اور استفادہ جن شرائط کے ساتھ کرنے کی اجازت ہے اس طرح استفادہ کریں تو ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے اور ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے.پس اس سود و زیاں کے مضمون کو خوب کھول کر روز مرہ کی زندگی میں ظاہر فرما دیا گیا اور انسان جو حقیقت میں نیکی کو سمجھتے ہوئے نیکی بجالاتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ اپنی خاطر کر رہا ہے اور رکنے میں اس کا فائدہ ہے جہاں روکا گیا ہے.چلنے میں اس کا فائدہ ہے جہاں اس کو چلنے کی اجازت دی گئی ہے.پس یہ سارا مضمون اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہر چیز جو انسان بظاہر خدا کی خاطر کر رہا ہے درحقیقت اس کے اپنے فائدہ کے لئے
خطبات طاہر جلدا 169 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء ہے.رمضان میں ان چیزوں سے رکنا پڑتا ہے جن کی اجازت ہے جن کے فائدے اور نقصان خوب کھول کر بیان ہونے کے باوجود بعض صورتوں میں جہاں فائدہ نقصان سے بڑھ کر ہو ہمیں ان سے استفادہ کی اجازت دی گئی ہے.پس جائز چیزوں سے رکنا یہ خدا کی خاطر ہے یعنی ہر چیز خدا کی خاطر ہی ہے لیکن رمضان مبارک میں یا عام روزوں کے وقت انسان جائز چیزوں سے جور کتا ہے ان جائز چیزوں میں اگر نقصان ہوتا تو عام حالات میں بھی خدا روک دیتا اس لئے باوجود اس کے کہ عام فائدہ کے لحاظ سے وہ روزمرہ کی زندگی میں اپنے فائدہ کے سارے کام کرتا ہے.رمضان میں جو زائد مشقت اٹھاتا ہے اور جائز ضرورتوں کو بھی حج دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اس کی صحت کو خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں.بہت سی تنگی برداشت کرنی پڑتی ہے بہت سے کاموں میں حرج بھی واقعہ ہوتا ہے لیکن خدا کی خاطر ایسا کرتا ہے.پس اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس کو ان معنوں میں خدا کی خاطر قرار دیا ہے کہ ایک زائد فعل ہے جو عام نیکی سے بالا ہے اور اس میں انسان ضروری نہیں ہے کہ اپنے ذاتی فوائد سمجھ کر اس پر عمل کر رہا ہو.تبھی بہت سے لوگ ہیں کہ جب روزوں کا مہینہ گزرتا ہے تو وہ اچانک سکون میں آجاتے ہیں وہ کہتے ہیں الحمد للہ.خدا نے موقع دیا.بڑا بوجھ تھا اس بوجھ سے ہم نکل آئے یہ ان کی فطری آواز ہوتی ہے.وہی لوگ ہیں جو رمضان میں سکون پاتے ہیں جو بہت اعلیٰ مقامات پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اور وہ بھی شرط صحت اور شرط جوانی کے ساتھ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جوانی کے ایام میں ایک بار چھ مہینے کے روزے مسلسل رکھے لیکن بڑی عمر میں خود فرماتے ہیں یہ تو جوانی کے مزے تھے اب تو مجھ میں یہ طاقت نہیں رہی.فرماتے ہیں ایک وقت تھا کہ میں پیدل ۱۲ میل چل کر بٹالے چلا جاتا تھا اور پھر واپس بھی آجایا کرتا تھا اور مجھے کوئی تھکاوٹ نہیں ہوتی تھی اب میں پانچ چھ میں چلتا ہوں تو مجھے تھکاوٹ ہو جاتی ہے.کھانے میں تاخیر ہوتو میں دقت اور نقصان محسوس کرتا ہوں تو فرمایا کہ روزوں کے مزے بھی جوانی کی باتیں ہیں تو اس لئے بعض صورتوں میں روزوں سے جسم کو نقصان بھی پہنچتا ہے اور ہر حالت میں انسان یہ نیکی نہیں کرسکتا.پس آنحضرت ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ عام نیکیوں سے یہ مختلف چیز ہے اور خدا کی خاطر توفیق کی حد تک یہ نیکی اختیار کرنی چاہئے.پس ان معنوں میں فَمَنْ تَطَوَّعَ کا ایک اور معنی ہمارے سامنے ابھرا کہ روزے کی نیکی
خطبات طاہر جلدا 170 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء ایسی ہے جو مستقلاً ایک حالت پر نہیں رکھی جاسکتی جبکہ وہ ساری نیکیاں جو انسان اپنے لئے اختیار کرتا ہے وہ مستقلاً ایک حالت پر رکھی جاسکتی ہیں.مثلاً نماز ہے بیمار بھی ہو ، بڑھاپے کی آخری حد کو بھی چھو رہا ہو نماز فرض ہی رہے گی خواہ اندرونی طور پر نماز پڑھنے کی سہولتیں مل چکی ہوں مگر روزے کی یہ بات نہیں ہے روزہ پوری شرطوں کے ساتھ رکھیں گے یا نہیں رکھیں گے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ بیمار ہیں تو اللہ تعالیٰ کہے کہ چلو پانی پی لو کوئی فرق نہیں پڑتا.جب تک بیمار ہو تھوڑا کھالیا کرو پھل کھا کر دودھ پی کر گزارا کر لو لیکن روزہ ضرور رکھو پس روزے کی نیکی کا استطاعت سے گہرا تعلق ہے.پس فَمَنْ تَطَوَّع کے ایک معنی یہ بنے کہ روزہ ایک ایسی نیکی ہے جس کا انسانی استطاعت سے گہرا تعلق ہے کہ استطاعت نہ ہو تو اس کو اختیار نہیں کرنا چاہئے اور اس سے نقصان ہو سکتا ہے.پس صاحب استطاعت لوگ جب تک استطاعت کے زمانہ میں ہوں اس استطاعت سے استفادہ کریں تو اس کی جزا خدا بنے گا اور اللہ تعالیٰ محض اپنی خاطر ایک چیز چھوڑنے والے کو جس کی عام حالت میں اجازت ہو غیر معمولی طور پر عزت بخشتا ہے اور اسے اپنا قرب عطا کرتا ہے.اب روزے کے ساتھ بعض ایسی برائیاں بھی لگی ہوئی ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ ظاہری جسمانی کمزوریاں بعض برائیاں بھی اس کے اندر نظر آتی ہیں لیکن خدا کی خاطر انسان برداشت کر سکتا ہے ان میں سے ایک منہ کی بد بو ہے.اب آنحضرت ﷺ ایسے لطیف مزاج کے حامل تھے کہ آپ کو جو طبعی شوق تھا آپ خود فرماتے تھے کہ کو تھا ہیں جن سے میری فطرت کو ایک طبعی لگاؤ ہے ان میں ایک خوشبو تھی اور بد بو سے سخت متنفر تھے اور یہ لطافت اور یہ نظافت آپ نے خدا سے پائی تھی.ہر چیز ہم خدا ہی سے پاتے ہیں مگر خدا سے ان معنوں میں پانا کہ خدا کے مزاج اختیار کر کے انسان الہی رنگوں میں رنگین ہو جائے اور ویسی ہی لطافت کے مظاہرے کرے لیکن روزے کے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے دار کی منہ کی بو بھی مجھے ایسی پسند ہے کہ مشک کی بو بھی اس کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے کہ میری خاطر کیا ہے.تو روزے کے کچھ ظاہری نقصانات بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن چونکہ وہ محض اللہ کی محبت کی خاطر اختیار کئے جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ ان صورتوں کو جو عام حالات میں قابلِ نفرت ہیں ان کو بھی قابل محبت حالتوں میں بدل دیتا ہے ورنہ بد بو اور بد بو کی پسندیدگی ایک وقت میں اکٹھے رہتے ہوئے نظر نہیں آتے ایک دوسرے سے متضاد دکھائی دیتے ہیں اور چونکہ یہ محبت کا مضمون ہے اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 171 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.اس پر آپ مزید غور کریں تو آپ کو اپنی زندگی کے تجارب میں ایسے واقعات دکھائی دیں گے جس شخص سے پیار ہو اور محبت ہو اس کی بیماری کی حالت کی بد بو اور کئی ایسی چیزیں انسان کو نہ صرف یہ کہ برداشت ہوتی ہیں بلکہ اس کی خاطر اس کے قریب رہتے ہوئے ان چیزوں سے ایک لگاؤ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ بری لگنی بند ہو جاتی ہیں.اپنی ذات سے انسان محبت کرتا ہے اور روزانہ غسل خانہ وغیرہ میں حاجات کے لئے جاتا ہے تو اپنی بو بری نہیں لگتی.بعض لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم بو والے حصہ سے آئے ہیں لیکن کوئی شخص وہاں چلا گیا ہو تو اس کی بو سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے تو یہ قرب کی علامتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے محبت کا پیغام دیا ہے.فرمایا اے روزے دارو! تم میرے محبوب بن گئے ہو تمہاری بظاہر بری باتیں بھی مجھے پیاری لگنے لگ گئی ہیں اور یہ عشق کا مضمون ہے پس روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا عشق سے گہرا تعلق ہے اور محبوب کی خاطر اللہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے پیار کے لئے جن چیزوں سے پر ہیز کرتے ہیں جن کی عام حالات میں اجازت ہے اس کی جزاء بھی پھر اللہ تعالیٰ خود بن جاتا ہے کیونکہ عاشق کی جزاء تو محبوب ہی ہے پس یہ روزہ زکوۃ کا معراج ہے اور روزے کا معراج رمضان ہے.جس میں قرآن کریم نازل ہوا وہ تمام برکتیں جو امت محمدیہ کو عطا ہوئیں ان کا رمضان شریف سے گہرا تعلق ہے.الله آنحضرت مزید فرماتے ہیں کہ روزے کے تو دو مزے ہیں اور ہر روزے دار کی دوموجیں ہیں.ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے اور ایک جب خدا اس کو ملتا ہے.اب یہ اصل توجہ والی بات ہے جس کی طرف میں ساری جماعت کو خاص طور پر متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جب انسان روزہ کھولتا ہے تو اس کو اس لئے مزہ آتا ہے کہ ایک چیز کی بہت طلب پیدا ہو چکی ہوتی ہے اور جب اس طلب کی سیرابی ہو، جب بھوک کے وقت روٹی ملے، پیاس کے وقت پانی یا اور نعمتیں نصیب ہوں تو انسان کو عام حالتوں سے بہت زیادہ مزہ آتا ہے.اگر رمضان میں سے ہم گزرجائیں اور بھوک کی طلب اور اس کے بعد اس طلب کی سیرابی سے تو واقف ہوں لیکن خدا کی طلب اور خدا کے دیدار کی لذت سے نا آشنار ہیں تو یہ رمضان ایک بے معنی اور بے حقیقت سارمضان ہو جائے گا اور اپنے مقصد کو کھودے گا کیونکہ مقصد یہ بیان فرمایا کہ رانِّي قَرِيب تم رمضان میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 172 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء گزرو تو مجھے اپنے قریب پاؤ گے.مقصد یہ بیان فرمایا کہ میں روزے دار کی خود جزا بن جاتا ہوں.پس وہ کیسا رمضان ہے جس میں بھوکے رہنے کی جزا تو ملتی ہو لیکن روح کی تشنگی کی کوئی جزا نصیب نہ ہو اور اس کا تعلق تشنگی سے بھی ہے کہ تشنگی ہی محسوس نہ ہو یعنی خدا کی طلب پیدا نہ ہو اور اس کے لئے دن بدن خواہش زیادہ بڑھتی چلی نہ جائے تو یہ مرض ہے.وہ مریض جو لمبا عرصہ بھوکا رہتے ہیں اور اس کے باوجود کھانے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی ان کی کھانے کی خواہش پیدا نہ ہونا ان کے لئے نعمت تو نہیں ہے کہ تکلیف نہیں ہورہی ، کھانا نہیں کھاتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ علامتیں گہرے مرض میں ظاہر ہوتی ہیں اور کھانے کی طلب نہ ہونا یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ مریض دن بدن موت کی طرف حرکت کر رہا ہے اور اس کی زندگی کے گہرے سرچشمے ہیں وہ سو کھنے لگ گئے ہیں.طلب کا زندگی کے گہرے سرچشموں سے بہت گہرا تعلق ہے اسی لئے میں نے اپنے ہومیو پیتھک کے ہمیشہ کے تجربہ میں یہ بات محسوس کی ہے کہ جب کسی دوا سے فائدہ ہو تو کھوئی ہوئی طلب زندہ ہونا شروع ہو جاتی ہے اور مریض جب یہ علامتیں ظاہر کرتا ہے کہ مجھے فلاں چیز دو جس سے پہلے نفرت ہو چکی تھی تو میں سمجھتا ہوں کہ اب خدا کے فضل سے مرض سے افاقہ ہو رہا ہے اور زندگی لوٹ کے آرہی ہے تو اس رمضان میں ہر احمدی کو اس پہلو سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کہیں بیمار تو نہیں رمضان سے گزرا ہے بھوک کے بعد کھانے کی لذت سے آشنا ہو گیا ہے.پیاسے رہتے ہوئے جب پانی ملایا کوئی اور نعمت ملی.مثلاً بعضوں کو کوکا کولا کا شوق ہے، کسی کو شربت والے دودھ کا مزہ آرہا ہوتا ہے ٹھنڈے مشروب کئی قسم کے ہیں اُن سے اُس نے عام حالات سے بہت بڑھ کر پیاس کی وجہ سے بہت لذت پائی تو یہ وہ تجارب ہیں جو ہر کس و ناکس کو نصیب ہوتے ہیں کیونکہ یہ بدنی تجارب ہیں لیکن رمضان کا مقصد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تکلیف دینا نہیں ہے بلکہ روحانی فوائد حاصل کرنا ہے.اگر ہمارے تجربے بدنی حدود تک رہیں اور روحانی لذات کی طرف ذہن ہی نہ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عسر تو ہم نے حاصل کر لیا ئیسر حاصل نہ کی کیونکہ قرآن کریم جب فرماتا ہے کہ اللہ کیسر چاہتا ہے تو یہاں وہ کیسر مراد ہے جو خدا تعالیٰ کی لقاء کا یسر ہے.جس کا قرآن کریم کی ایک اور سورۃ میں ذکر ہے کہ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرانُ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ ( شرح:-)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 173 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء وہاں یسر کی اعلیٰ درجے کی تعریف قرآن کریم نے خود بیان فرما دی.فرمایا: اے محمد ﷺ ہر تنگی کے بعد ہم نے آسانی رکھ دی ( عسر کا معنی ہے تنگی میسر کا معنی ہے.آسانی ) ہر تنگی کے بعد ہم نے آسانی رکھ دی اور تیری آسائش کا منتہیٰ یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت کر.فَإِذَا فَرَغْتَ.پس جب دنیا کے دھندوں سے ، دنیا کی مصیبتوں اور مشکلات سے تو فارغ ہو جایا کرے، فانصب تو خدا کے حضور کھڑا ہو جایا کر وَ إلَى رَبِّكَ فَارُ غَبْ اور اپنے رب سے اپنا لیسر چاہ.تو وہ یسر جو اس صورت میں بیان ہوا ہے وہی یسر یہاں مراد ہے کیونکہ یہاں بھی لقائے باری تعالیٰ کے مضمون پر یہ آیات منتج ہوتی ہیں اور وہاں جا کر انتہا پکڑتی ہیں.روزے کی تنگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں ایک آسائش پیدا کرنا مقصود ہے.یادرکھو اگر تم نے اس آسائش کو نہ پایا تو روزے کی تنگی محض بریکار جائے گی اور تمہارے اوپر یہ بات صادق آئے گی کہ ہر عسر کے ساتھ عسر ہی ہے اور اس کے بعد کوئی کسر نہیں ہے.پس دنیاوی آسائش کو جو ہر بدن کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے جو نگی کے بعد تنگی دور ہونے پر انسان محسوس کرتا ہے اس کو مقصود نہ سمجھیں.یہاں یسر سے مراد وہ اصطلاحی میسر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی لقاء مراد ہے.اور قرآن کریم نے خوب کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اِنِّي قَرِيبٌ.میں قریب ہوں.بطور جزا کے تمہارے قریب ہوں.آنحضور ﷺ نے اس مضمون کو خوب روشن فرما دیا تو یہ رمضان اس بات کی نگرانی کا رمضان بنادیں کہ آپ اور آپ کے اہل وعیال لقائے باری تعالیٰ کی تلاش کریں.اس کے لئے دل میں طلب پیدا کریں اور پیاس پیدا کریں اور اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر بیمار ہیں.پھر اس بیماری کا علاج ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلقہ ملفوظات میں بہت سے مضامین پھیلے پڑے ہیں جن کا رمضان سے تعلق ہے.اگر چہ تحریروں میں بھی ہے لیکن ملفوظات میں جو بے ساختگی پائی جاتی ہے اور جو گہرا اثر پایا جاتا ہے وہ اپنا ایک الگ مزاج رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عام تربیت کیلئے ملفوظات کا استعمال بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے.پس جماعتوں کو بھی متعلقہ ملفوظات کو تلاش کر کے عام کرنا چاہئے اور اس رمضان میں انتظامیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ روحانی تربیت کی طرف توجہ ہو اور مقصود بالذات خدا تعالیٰ ہو.یعنی اس رمضان سے گزر کر اولیاء اللہ پیدا ہوں اس رمضان سے گزر کر اعلیٰ درجے کے
خطبات طاہر جلدا 174 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء معنوں میں اولیا اللہ نہ سہی مگر کثرت سے ایسے احمدی پیدا ہوں جو خدا کے قرب کا لطف اُٹھا چکے ہوں جن کی باتوں کا خدا نے کسی نہ کسی رنگ میں جواب دے دیا ہو خواہ سچی خوابوں کے ذریعہ دیا ہو، خواہ دل کے اندر خاص تموج پیدا کر کے دیا ہو بعض دعاؤں کی حالتوں میں غیر معمولی طور پر گریہ کی تو فیق عطا فرمائی ہو اور اس کے نتیجہ میں سکیت بخشی ہو.اللہ تعالیٰ کے قرب کے اظہار کے کئی طریق ہیں کچھ چھوٹے چھوٹے ابتدائی ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو آگے بڑھتے ہوئے اولیا ء اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں اور پھر انسان وہ لطف بھی اُٹھاتا ہے جو اولیاء کے لطف ہیں اور جب میں اولیاء اللہ کی بات کرتا ہوں تو اس میں تمام انبیاء شامل ہیں.سب سے بڑا ولی نبی ہوا کرتا ہے اور اولیاء اللہ کی اصطلاح عملاً روحانی مراتب میں سے چاروں مراتب پر اطلاق پاتی ہے یعنی صالح شہید صدیق اور نبی.پس ان وسیع تر معنوں میں ہمیں خدا تعالیٰ کا ولی بنے کی کوشش کرنی چاہئے اور روزہ ہمیں اس ولایت کے حصول کے قریب تر کر دیتا ہے.سب سے بہتر سواری جس پر بیٹھ کر ہم خدا کا قرب اختیار کر سکتے ہیں وہ روزے کی سواری ہے کیونکہ اس میں بیٹھنے سے پیشتر اس سے کہ آپ سفر شروع کریں اللہ تعالیٰ کی آواز آتی ہے.اِنِّي قَرِيب.یعنی اگر صحیح معنوں میں آپ روزہ دار بن جائیں.اور اس کے سارے حقوق ادا کریں تو اللہ تعالیٰ کے قرب کی آواز آپ کو عطا ہوگی.اس ضمن میں سارے گھر کا ماحول درست کرنے کی ضرورت ہے.مثلا گھروں میں عبادات کا ایک ذوق شوق پیدا کرنا چاہئے.بڑے چھوٹے سارے فرضی عبادات بھی بڑی توجہ سے ادا کریں اس کے علاوہ فلی عبادات کریں.تہجد کے وقت ماں باپ اُٹھیں تو بچوں کو بھی اُٹھائیں اور ان کو بتا ئیں کہ کھانا مقصود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی لقاء مقصود ہے، پہلے عبادتیں کرو پھر وقت نکالو اور کھانے لئے آؤ اور ان کو ان کی عقلوں اور ان کے علم کے مطابق خدا تعالیٰ کا پیار پیدا کرنے کے لئے کچھ باتیں بتائیں کوئی ذوق شوق ان کے دل میں پیدا کریں.بچپن میں یہ آسان ہوتا ہے اور اگر انسان خدا تعالیٰ سے دوری کی حالت میں لمبا عرصہ گزار دے تو بڑی عمر میں اس کی گندی عادتیں دنیا پر منہ مارنے کے رجحانات سختی اختیار کر جاتے ہیں اور اس کے لئے پھر نرمی کے مضامین کی طرف لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے.پس نرمی کے مضامین جو دل کو نرم کریں، جو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے انسان کو تیار کریں وہ بچپن سے ہی دلوں میں ڈالنے چاہیں اور عبادات کا ماحول گھروں میں پیدا کرنا چاہئے.
خطبات طاہر جلدا 175 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۹۲ء تلاوت کی عادت ڈالنی چاہئے.ہر بچے کو آپ جب تلاوت کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اکثر بچوں کو تلاوت کرنی ہی نہیں آتی اور وہ جو میں کئی سال سے انصار خدام لجنہ کے پیچھے پڑا ہوا ہوں کہ خدا کے لئے اس طرف توجہ کرو.اس نسل کو کم از کم صحیح تلاوت تو سکھا دو ورنہ ہم خدا کے حضور پوچھے جائیں گے اور ہماری اگلی نسلوں کی بے اعمالیاں بھی ہم سے سوال کریں گی.ان تینوں تنظیموں کے عہدیداروں کو اس دوران تجر بہ ہو جائے گا کہ کس حد تک ہم نے ان نصیحتوں پر عمل کیا ہے اور ہر گھر کو پتا چل جائے گا کہ کس حد تک انہوں نے ان خدمت کرنے والوں سے خود اپنی بھلائی کی خاطر تعاون کیا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس پہلو سے بہت سے خلا ہیں.پس یہ رمضان ایک بیداری کا رمضان بن جائے.ہوش کا رمضان بن جائے.اپنے تجزیہ کا رمضان بن جائے اور انسان ان دونوں پہلوؤں سے اپنا جائزہ لے کہ کیا میں دین کی ابتدائی ضروری باتیں پوری کرنے کی طرف متوجہ ہو چکا ہوں کہ نہیں.کیا میرے گھر میں ہر بچے ہر بڑے کو قرآن کریم کی تلاوت کرنی آگئی ہے کہ نہیں اور کیا اس رمضان کے ساتھ عبادتوں میں ذوق شوق بڑھا ہے کہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی طلب پیدا ہوئی ہے کہ نہیں.خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اسی کی مدد سے سب کچھ ہونا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اے ہمارے رب! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں.تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.تو ہمیں تو فیق عطا فرما کہ آج دنیا کی تمام قوموں میں سب سے زیادہ عبادت گزار احمدی بن جائیں اور ان کی عبادات تیرے حضور قبولیت کا درجہ پائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 177 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء دعوت الی اللہ کے روحانی جہاد سے روحانی مردوں کو زندہ کریں.دعوت الی اللہ سے آپ کی قوت قدسیہ زندہ ہوگی.( خطبه جمعه فرموده ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ سے پہلے جمعہ میں دعوت الی اللہ کا مضمون چل رہا تھا جو ابھی باقی ہے.بیچ میں رمضان کا پہلا جمعہ آیا اس لئے میں نے مضمون کو وقتی طور پر چھوڑ کر رمضان کے مضمون پر خطاب کیا تھا اب واپس اسی مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.میں یہ بیان کرتا رہا ہوں کہ اجتماعی منصوبہ بندی سے پہلے انفرادی منصوبہ بندی ضروری ہے اور انفرادی منصوبہ بندی کے بغیر اجتماعی منصوبہ بندی حقیقی نہیں ہو سکتی ایک فرضی خیالی منصوبہ بندی رہے گی.پس جڑوں تک پہنچ کر ان کی کیفیت ان کی صلاحیت کو جانچنا ضروری ہے اس کے مطابق پھل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.اس سلسلہ میں آج سب سے پہلی بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کتنے غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کریں گے تو بسا اوقات حیرت انگیز طور پر ایسے خیالی اندازے پیش کئے جاتے ہیں کہ جن میں ظاہری طور پر کوئی حقیقت نہیں ہوتی بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم سو بنا ئیں گے، بعض کہتے ہیں ہزار بنائیں گے بعض کہتے ہیں ہم پانچ سو بنائیں گے اور اسی طرح مختلف اندازے لگا کر وہ جو اندازے منصوبہ بندی کمیٹی کو پیش کرتے ہیں تعجب کی بات یہ ہے کہ منصوبہ بندی کمیٹی ان کو اس طرح قبول بھی کر لیتی ہے اور ان کے ملک کا احمدی بنانے کا حقیقی
خطبات طاہر جلدا 178 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء مسلمان بنانے کا تخمینہ ہے یہ فرضی طور پر ایک غبارے کی طرح پھول جاتا ہے بعض دوست دعا کے مضمون اور منصوبے کے مضمون میں فرق نہیں کر سکتے انہوں نے یہ سن رکھا ہے اور بجا سن رکھا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے یہ ہدایت فرمائی کہ جب خدا سے مانگو تو کھلا مانگا کر تھوڑا نہ مانگا کرو آگے اس کی مرضی ہے کہ وہ دے نہ دے یہ دعا کا مضمون ہے.منصوبے کا مضمون نہیں ہے.جس قادر مطلق سے بے انتہا مانگنے کی ہدایت ہے وہی قادر مطلق جب خود مسلمانوں کے لئے منصوبہ بناتا ہے تو دنیاوی حسابات کو حقیقی اسباب کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ بناتا ہے حالانکہ وہ چاہے تو لا متناہی منصوبہ بنا سکتا ہے چنانچہ دیکھیں کہ حضرت محمد مصطفی میلہ کو خدا تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی کہ تمہارے لئے ابتدائی منصوبہ یہ ہے کہ تم ایک ہو گے تو دو پر غالب آؤ گے اگر ایک سچا مومن ہوا تو وہ دو پر غالب آئے گالیکن بعد ازاں اس منصوبے میں تدریجی ترقی ہوگی بالآخر میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ایک مومن دس پر غالب آئے گا لیکن الفاظ یہ نہیں تھے کہ ایک مومن دس پر غالب آئے گا.بلکہ پہلے یہ تھا ایک دو کی بجائے سو دو سو پر غالب آئے گا اور پھر بعد میں جو دس کا مضمون ہے وہ بھی ایک سے شروع نہیں ہوتا بلکہ فرمایا کہ بہیں دوسو پر غالب آئیں گے.اس میں بڑی گہری حکمت ہے اللہ چاہے تو ہر مومن کو دو پر بھی غالب کر سکتا ہے اور چاہے تو ہر مومن کو دس پر بھی غالب کر سکتا ہے لیکن بعض باتوں کا تعداد سے گہرا تعلق ہوتا ہے.Large Numbers ایک سائنس ایجاد ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ کہ ضروری نہیں کہ ایک شخص ایک جماعت کا حصہ ہو اور اس جماعت کے ہر شخص کو برابر استعداد حاصل ہومگر ایک کمز و شخص ایک جماعت کا حصہ ہوسکتا ہے جبکہ جماعت کی مجموعی طاقت اس ایک کمزور شخص کی طاقت کو جمع کرنے سے زیادہ بنتی ہے.مثلاً ایک کمزور شخص ہے جسے دوسرے ساتھی سے نصف طاقت حاصل ہے اب اگر اسے ایک بڑی جماعت میں شامل کر لیا جائے تو ممکن ہے کہ اس کی طاقت مجموعہ کے ساتھ مل کر دگنی ہو جائے.پس ایسی گفتگو انفرادی طور پر نہیں کی جاتی بلکہ جماعتی طور پر کی جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم نے جب یہ وعدہ فرمایا کہ ایک دو پر غالب آئے گا اور ایک دس پر غالب آئے گا تو اس کو جماعتی اندازے کے مطابق پیش فرمایا ہے انفرادی اندازے کے طور پر پیش نہیں فرمایا.تو دیکھیں اللہ تعالیٰ جو قادر مطلق ہے اس نے کتنی گہری حکمت کے ساتھ منصوبہ بنایا ہے اور کتنا واقعاتی منصوبہ بنایا ہے.کوئی فرضی بات
خطبات طاہر جلد ۱۱ 179 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء اس میں داخل نہیں فرمائی جبکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بات کو داخل فرمانا اس کا امر بن جاتا ہے اور جیسا وہ فرما تا ہے ویسا ہو کر رہتا تھا مگر مسلمانوں کے حالات ان کی طاقتوں کو دیکھ کر ایک حقیقی منصوبہ بنایا پھر اس منصوبے میں اور عام انسانی منصوبے میں ایک اور نمایاں فرق ہے.ہم آج جب مڑ کر تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ طاقتور اور ایمان میں مضبوط مومن محمد مصطفی مے کے ساتھی مومن دکھائی دیتے ہیں.اس وقت بھی جو لوگ ان روحانی تجربوں میں سے گزر رہے تھے وہ جانتے تھے کہ اس سے زیادہ شان کے مومن نہ پہلے پیدا ہوئے نہ بعد میں ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ منصوبہ بناتے وقت ان اولین مومنین سے یہ وعدہ نہیں کیا کہ تم ایک دو پر غالب آؤ گے بلکہ یہ وعدہ لمبا کر دیا یعنی بعد میں آنے والے ایک دس پر غالب آجائیں گے اور ابتداء کے جو پختہ مومن ہیں وہ ایک دو پر غالب آئیں گے اس میں آخر کیا بات تھی.انسانی منصوبے کے لحاظ سے کچھ غلط ہو گیا ہے لیکن الہی منصوبہ چونکہ لازماً درست ہوتا ہے اس لئے خدا نے گہرے نفسیاتی حالات پر غور فرما کر یہ منصوبہ پیش کیا.ابتداء میں جب مومن اپنے غیر سے ٹکراتا ہے تو غیر کو مومن کا تجربہ نہیں ہوتا اس لئے غیر کا حوصلہ بڑا ہوتا ہے اور مومن کی اصل طاقت کو نہیں سمجھتا اس لئے زیادہ زور کے ساتھ اور اپنے لحاظ سے یقین کے ساتھ مومن سے مقابلہ کرتا ہے کہ میں اس کو شکست دے لوں گا لیکن جوں جوں مومن کا رعب بڑھتا جاتا ہے اسی نسبت سے غیر کے مقابلے کی طاقت کمزور پڑتی چلی جاتی ہے.پس حضرت محمد مصطفی میہ کے ابتدائی ساتھیوں کا رعب تھا جب وہ قائم ہوا تو اس نے بعد میں آنے والوں کو بھی عظیم طاقتیں عطا کر دیں.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یا بعد کے زمانوں میں آپ جو عظیم فتوحات دیکھتے ہیں کہ تھوڑے بہتوں پر غالب آگئے یہ ان کا کمال نہیں تھا بلکہ الہی منصوبے میں یہ بات داخل تھی کہ حضرت محمد مصطفی ہے کے ساتھی مومنوں کی شان جوں جوں ظاہر ہوتی چلی جائے گی غیروں پر رعب پڑتا چلا جائے گا اور اپنوں میں مزید حوصلہ پیدا ہوتا چلا جائے گا، مزید یقین ہوتا پیدا چلا جائے گا.پس دیکھیں الہی منصو بہ کتنا واقعاتی کتنا حقیقی ہے اور خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے مضمون کو اس منصوبہ میں داخل نہیں فرمایا.پس مومن جب منصوبہ بناتا ہے تو دعا کے مضمون کے ساتھ کیوں منصوبے کا اختلاط کرتا ہے اللہ سے اس کے رنگ سیکھنے چاہئیں.منصوبہ خالصہ حقیقی ہونا چاہئے ، واقعاتی ہونا چاہئے چنانچہ وہ لوگ
خطبات طاہر جلدا 180 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء جو لکھ دیتے ہیں کہ جی! ہم نے سو بنانے ہیں پھر سارا سال Panic میں بڑی گھبراہٹ میں خط لکھتے ہیں کہ اتنے مہینے رہ گئے ابھی تک ایک بھی نہیں بنا، اتنے ہفتے رہ گئے ابھی تک ایک نہیں بنا خدا کیلئے دعا کریں.دعا اپنی جگہ ہے اس کا ایک الگ مضمون ہے، الگ دائرہ ہے.منصوبہ ایک الگ چیز ہے اگر آپ منصوبہ خدا کے رنگ میں رنگین ہو کر نہیں بنائیں گے تو وہ دعا جو خدا کے رنگ سے الگ دعا کی جاتی ہے اس میں بھی طاقت پیدا نہیں ہوگی.منصوبہ حقیقی بنا ئیں پھر اس کو دعاؤں سے طاقت دیں پھر دیکھیں کہ وہ منصوبہ کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے.ایک صاحب ہیں جن کے دو قسم کے کام ہیں ایک دنیوی کام ہے اس میں بھی وہ منصوبہ بناتے ہیں ایک تبلیغی منصوبہ ہے جو د نیوی منصوبہ ہے.اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ میرا یہ منصوبہ ہے کہ یہ تجارت یہاں تک پہنچ جائے اور جو تبلیغی منصوبہ ہے وہ یہ ہے کہ میں سال میں ایک سواحمدی بناؤں گزشتہ سات آٹھ سال سے میرا یہ تجربہ ہے کہ ہر سال ان کا دنیوی منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے اور روحانی منصوبہ نا کام ہو جاتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی نیت میں فتور ہے.میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس طرف توجہ کم دیتے ہیں اور زیادہ سنجیدگی سے اپنے دنیوی منصوبے کی طرف متوجہ ہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں چونکہ ایک تجربہ کار تاجر ہیں وہ دنیوی منصو بہ بناتے وقت حقائق کو سامنے رکھتے ہیں اور جو ان کی صلاحیتیں ہیں انہی کے پیش نظر منصوبہ بناتے ہیں لیکن جب وہ اپنا روحانی منصوبہ بناتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کو جانچتے ہی نہیں.دیکھتے ہی نہیں کہ ان میں تو فیق کتنی ہے کبھی کسی غیر سے بات کر کے دیکھی اس کا دل جیت کے دیکھا یا دکھایا اس پہلو سے اپنے نفس کا جائزہ لینے کے بعد اگر وہ منصوبہ بناتے تو حقیقی ہوتا.پس کوئی بچہ ہو یا بڑا،مرد ہو یاعورت جیسا کہ میں نے گزارش کی ہے جب بھی اپنے گھر میں بیٹھ کر منصوبہ بنائے تو اس کو اپنی حیثیت کا ، اپنی توفیق کا ، اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ہو گا اور اس کے مطابق منصو بہ بنا نا ہوگا اور ایسا منصوبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں کہ ایک انسان واقعہ یہ سمجھے کہ میں ایک سال میں ایک احمدی نہیں بنا سکوں گا تو یہ کہے کہ میں اس سال کوشش شروع کروں گا.اور اس سال کے تجربہ کی روشنی میں میں سمجھتا ہوں کہ شاید آئندہ سال مجھے پھل لگ جائے اور ایک آدمی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ تین سال میں مجھے پھل لگ جائے اور اس تجربہ میں اگر وہ ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرے گا تو پہلے سال کا تجربہ، دوسرے سال کا تجربہ اور تیسرے سال کا تجربہ اس کو اس بات کی لیاقت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 181 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء عطا کریں گے کہ وہ آئندہ بہتر اور صحیح منصوبہ بنا سکے.اب اس سلسلہ میں تمام جماعت کو براہ راست یہی ہدایت ہے کہ اپنا منصوبہ بناتے وقت خود غور کیا کریں.صلاحیتوں کو جانچا کریں ،اپنے ماحول کو دیکھا کریں کہ کس زمین میں کام کر رہے ہیں.پتھریلی ہے ، سنگلاخ ہے یا زرخیز ہے.ان لوگوں کے احمدیت کے متعلق کیا تاثرات ہیں، دنیا داری میں وہ کہاں پہنچے ہوئے ہیں، ان کو دین کی ضرورت محسوس بھی ہوتی ہے کہ نہیں.یہ بہت سے ایسے امور ہیں جن کا تبلیغ کو پھل لگنے سے براہ راست تعلق ہے.افریقہ کے بعض ممالک ہیں جن میں دین کی طلب بھی ہے اور فطرتیں سعید ہیں چونکہ غربت ہے اس لئے دنیا داری کے تکبر حائل نہیں ہیں، مادہ پرستی ان کے اور دین کی راہ میں حائل نہیں ہوئی ان امور کے پیش نظر وہاں زمینیں زیادہ زرخیز ہیں اور بعض دنیا دار قومیں ہیں جو نہ صرف یہ کہ دنیاوی اموال اور سیاسی برتری کی وجہ سے باقی دنیا کو نیچا دیکھتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ کسی اور کی احتیاج محسوس نہیں کرتیں ، وہ تو میں یہ بجھتی ہیں کہ ہمیں کسی اور سے کچھ لینے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ہم تو دنیا کو دینے والے ہیں، ہم سیاسی اقتصادی ہر لحاظ سے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں.پس جتنی ان کی احتیاج کم ہوگی اتنا ہی وہ غیر کی بات کم سنیں گے ضرورت محسوس نہیں کریں گے لیکن اس کے علاوہ دنیا کی دولتیں ان کو دنیا کی لذتوں میں اس طرح مگن کر دیتی ہیں کہ اگر غیر کی بات سنیں اور سمجھ بھی آجائے تو وہ لذتیں چھوڑی نہیں جاتیں.اس معاشرے سے الگ نہیں ہوا جاتا جو معاشرہ ان کی زندگی کے رگ وپے میں پیوست ہو چکا ہے.پس یہاں انگلستان میں جو منصوبہ بنایا جائے یا جرمنی میں بنایا جائے وہ اور ہے افریقہ کا منصو بہ اور ہے جاپان کا منصوبہ اور ہے.ملکی حالات کو بھی دیکھنا ہوگا صرف اپنے نفس کا جائزہ نہیں لینا ہوگا پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ میں کتنا وقت دے سکتا ہوں اور کس کو میں نے بلانا ہے اور جس کو بلانا چاہتا ہوں اُس کے لئے میرے پاس بلانے کی صلاحیت بھی ہے کہ نہیں علم بھی ہے کہ نہیں چنانچہ اس پہلو سے ہر اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائے اور معلوم کرے کہ کون اس کا امکانی ٹارگٹ ہوسکتا ہے.ٹارگٹ سے مراد ہے نشانہ لیکن یہ نشانہ دوسری اصطلاح کا نشانہ ہے دنیوی اصطلاح کا نہیں.اس مضمون کو سر دست یہاں چھوڑتے ہوئے اب میں نشانے کی بات شروع کرتا ہوں اور پھر دوبارہ اس مضمون کی طرف واپس آؤں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 182 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء ہم ایک روحانی جہاد کر رہے ہیں اور اس کا نام دعوت الی اللہ ہے.روحانی جہاد اور مذہبی مادی جہادان دو چیزوں میں فرق ہے.دونوں مذہبی جہاد ہیں لیکن مذہبی مادی جہاد سے میری مراد یہ ہے کہ یہاں مادی ہتھیار استعمال کرنے پڑتے ہیں توپ و تفنگ، تلوار بندوقیں، جو کچھ بھی ہتھیار کسی کو میتر ہوں ان کے ذریعہ لڑا جاتا ہے.دونوں جہاد ہیں لیکن ان دونوں جہاد کے مقاصد اول اول ایک دوسرے سے بالکل مختلف دکھائی دے رہے ہیں ایک جہاد کا مقصد زندہ کرنا ہے اور ایک جہاد کا مقصد مارنا ہے.جو تلوار کا جہاد ہے اس کے نتیجہ میں موت وارد کی جاتی ہے ،سراڑائے جاتے ہیں گردنیں کائی جاتی ہیں نیزوں کی آنی میں لوگوں کو پرویا جاتا ہے اور یہ بھی جہاد ہے اس کا اول مقصد مارنا ہے لیکن اعلیٰ مقصد زندہ کرنا ہی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جو پہلا ظاہری مقصد دکھائی دیتا ہے وہ مارنا ہے جو زیادہ مارے گا وہی زیادہ کامیاب مجاہد ہو گا.حضرت علی کے قصے جو آپ سنتے ہیں کہ اس طرح انہوں نے دشمن قتل کئے وہاں قتل ایک قابل فخر چیز دکھائی دے رہی ہے کیونکہ خدا کی خاطر خدا کے نام پر مظلو موں نے تلوار اٹھائی اور دشمن کو مارا لیکن روحانی جہاد جو ہم کر رہے ہیں اس کا اول مضمون بالکل مختلف ہے اور وہ ہے زندہ کرنا مردوں کو زندگی عطا کرنا اور یہ وہ جہاد ہے جس کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام نے اللہ تعالیٰ سے فنِ جہاد سیکھا اور یہ عرض کیا.رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْي الْمَوْتُى (البقرہ: ۲۶۱) اے اللہ! مجھے دنیا کو زندہ کرنے کا عظیم مشن تو سپر دفرما دیا، مجھے یہ بھی تو بتا کہ میں کیسے زندہ کروں گا.تو کیسے زندہ کرتا ہے؟ زندگی پیدا کرنے کے اپنے اسلوب بتا دے میں وہی سیکھوں گا میں تجھ سے ہی ہر چیز سیکھتا ہوں.پس دیکھیں خدا تعالیٰ سے تبلیغ کے گر سیکھنے کا کیسا عمدہ طریق ہے ربِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى.اے میرے خدا ! تو مجھے دیکھا کہ مردوں کو تو کیسے زندہ کرتا ہے چنانچہ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے آپ کو جو مضمون سکھا یا وہ بارہا میں بیان کرچکا ہوں فرمایا چار پرندے پکڑلے اور ان کو کیا کر ؟ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ (البقره: ۲۶۲)، فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اپنے سے مانوس کر لئے ان کا دل اپنے ساتھ لگالے وہ تجھ سے پیار کرنے لگیں.پھر ان کو چار مختلف سمتوں میں چھوڑ دے اور جب تو ان کو بلائے گا وہ اڑتے ہوئے لپکتے ہوئے تیری طرف آئیں گے.اس مضمون میں دعوت الی اللہ کے گر سکھائے گئے.یہ بتایا گیا کہ مردوں کو کیسا زندہ کیا جاتا ہے.پہلے روحانی مردوں کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنا پڑتا ہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 183 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء ان کا اپنے ساتھ تعلق قائم کرنا پڑتا ہے اس کے بغیر کوئی بات نہیں سنے گا.پس وہ تو میں جو متکبر قو میں ہیں ان میں بھی جب آپ منصو بہ بنا ئیں تو منصوبہ بناتے وقت پہلے اپنی صلاحیت کا بھی جائزہ لیں کہ آپ میں کسی کو اپنے ساتھ لگانے کی کتنی توفیق ہے.اس کے مختلف طریق ہیں جن کے متعلق میں ذکر کرتا ہوں لیکن پہلے میں اس مضمون کو ختم کرلوں.فرمایا: چار سمتوں میں ان کو پھیلا دے اس میں ایک بہت بڑا انکشاف یہ فرمایا گیا کہ کسی ایک سمت میں تبلیغ نہیں کرنی خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے.ہر طرف سے زندگیوں کو کھینچتا ہے اور مردوں کو زندہ کرتا ہے انسان نہ عالم الغیب ہے نہ قادر مطلق ہے اسے اپنی کوششوں کو ہر سمت پھیلانا چاہئے اگر انگلستان میں بھی بیٹھا ہوا ہے تو صرف انگریزوں کو تبلیغ نہ کرے، یہاں دوسری قومیں بھی آباد ہیں مشرق کی بھی مغرب کی بھی ، شمال کی بھی اور جنوب کی بھی چنانچہ چاروں سمت کے پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کریں اور جہاں جہاں بھی وہ تبلیغ کے لئے جاتا ہے وہاں ضروری نہیں کہ ہر رنگ اور نسل کے آدمی اس کو میسر ہوں لیکن ہر مزاج کے آدمی میسر ہوتے ہیں اور مزاج کے اعتبار سے بھی کوئی شمال سے تعلق رکھتا ہے، کوئی جنوب سے کوئی مشرق سے کوئی مغرب سے ہر مزاج کے انسان ہر قوم میں میسر آتے ہیں تو دوسری نصیحت گویا یہ ہوئی کہ ہر مزاج کے آدمی کو ڈھونڈو اور تم نہیں جانتے کہ کس مزاج سے کیا نتیجہ ظاہر ہوگا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسے پتھر بھی تو ہیں جن سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں پس پتھر کو بھی ابتدا ءرڈ نہ کرو اس پر زور لگاؤ کوشش کرو اور جب تم دعا کر کے ساتھ مناسب کوشش کرو گے تو بعید نہیں کہ پتھر سے بھی رحمت کے چشمے پھوٹ پڑیں.تو چاروں طرف تبلیغ کرنا ، ہر قسم کے مزاج کے آدمی کی تلاش رکھنا ان پر کوشش کرنا اور پھر ان کو اپنے ساتھ مانوس کر لینا یہ تبلیغ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے.یہاں ایک اور امر بھی قابل توجہ ہے کہ وہ لوگ جو مانوس نہیں ہوتے ان سے مسلسل سر ٹکرانا اس منصوبے کے خلاف ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو سکھایا.بعض لوگ اس خیال سے کہ پتھر سے بھی تو چشمے پھوٹتے ہیں بعض ایسے آدمیوں پر اپنا وقت ضائع کرتے چلے جاتے ہیں جن کے دل کی سختی ان کے پیار اور محبت سے نرم نہیں پڑتی، ان کو ان سے کوئی لگاؤ پیدا نہیں ہوتا اور تبلیغ کے نتیجہ میں قریب آنے کی بجائے بسا اوقات ان کے دل میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں یا
خطبات طاہر جلدا 184 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء نفرتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں اور یہ تجربہ بھی بسا اوقات میرے سامنے احمدیوں نے بیان کیا ہے کہ بعض دوست دیکھنے میں بہت اچھے، بہت شریف النفس بڑا تعلق رکھنے والے تھے لیکن جب ان کو تبلیغ شروع کی گئی تو اندر سے ایسی نفرتوں کے لاوے اُبلے ہیں کہ ہم حیران رہ گئے کہ یہ شخص ان نفرتوں کو اندر پال رہا تھا اور ظاہری طور پر ہم سے اچھے تعلقات رکھتا تھا تو تبلیغ کے نتیجہ میں یہ معلوم ہوگا کہ پتھر کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ وہ پتھر ہے جس کا ذکر وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (البقرہ:۲۵) میں ہے کہ یہ جہنم کے وہ ایندھن ہیں جس میں انسان بھی ہے اور خاص طور پر پتھر دل انسان ہیں.تو سوال یہ ہے کہ پتھر کی حقیقت معلوم کرنے کے بعد پھر اس پر وقت ضائع کرنا اس منصوبے کی روح کے منافی ہے.جو پرندہ مانوس نہ ہو اس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا.باز کو آپ مانوس کر لیتے ہیں لیکن ممولے کو آپ مانوس نہیں کر سکتے اور جتنے بھی لوگ پرندے پالتے ہیں ان میں میں نے آج تک مملوے کو پالتے کسی کو نہیں دیکھا لیکن باز پل جاتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ ہر طرف کوشش کرو تمہیں علم نہیں کہ کون تم سے مانوس ہو گا.کہیں پتھر دل بھی موم ہو جائیں گے کہیں موم سخت ہو جائے گی اور پتھر میں تبدیلی ہو جائے گی اس لئے چاروں طرف ہاتھ مارو لیکن جلد جائزہ لو کہ کون اس لائق ہے کہ اس پر تمہارا وقت صرف ہو اور تمہاری توجہ اس پر نتیجہ خیز ثابت ہو.اس پہلو سے جائزہ لینے کے بعد پھر آپ اپنے ذاتی منصوبے کی طرف لوٹیں اور دیکھیں کہ آپ میں کتنی توفیق ہے اور یہ منصوبہ فورا نہیں بن سکتا اس لئے یہ طریق ہی غلط ہے کہ فارم تقسیم ہو گئے اور ہر ایک نے کہا جی ! میں ایک بناؤں گا ایک کی حد تک تو چلیں کسی حد تک قبول ہو جائے.ابتدائی تجربے کے لئے کوئی نمبر لکھنا ہے لکھ لیں لیکن اگر یہ ایک ایک سال کے اندر پورا نہ ہو تو پھر لازم ہے کہ سارے منصوبے پر نظر ثانی کی جائے.اس پہلو سے کام نہیں ہوتا جو چیز میرے دل میں فکر پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ منتظمین جب منصوبوں کو اعداد وشمار میں ڈھالتے ہیں تو اس کے بعد کا غذ سمجھ کر اس سے غافل ہو جاتے ہیں وہ کاغذ کسی نہ کسی تہہ میں چلا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں جس نے وعدہ کیا تھا اب اس کا کام ہے اور ہمارا یہ کام ہی نہیں کہ ہم جائزہ لیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کتنی اس نے دلچسپی لی اور اس کی حقیقی صلاحیت کیا تھی لیکن اگر مقامی یا ملکی نظام باشعور ہو اور باہوش ہو تو وہ وقتا فوقتا ان افراد سے رابطہ رکھے گا اور معلوم کرے گا کہ انہوں نے اس ضمن میں کتنے آگے بڑھائے ، کن لوگوں میں کوشش کی اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 185 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء اگر اس کے منصوبے کو پھل لگنے کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوں تو پھر بھی ضروری نہیں کہ اس کو رد کیا جائے اگر کوششیں ہو رہی ہیں تو بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک سال کی بجائے جیسا کہ بعض درخت دو تین سال، چار پانچ سال، چھ سال بعد پھل دیتے ہیں ایک انسان کی کوششیں اثر کر رہی ہوتی ہیں اور پھل کچھ دیر کے بعد لگتا ہے لیکن پھل کے آثار ضرور ظاہر ہوتے ہیں.پس انتظامیہ کا کام ہے کہ آثار کا جائزہ لے اور ہر فرد کا بھی کام ہے جب خدا تعالیٰ سے وعدہ کیا ہے تو اس کے لئے کوشش تو کرے.جس نے سو کا وعدہ کیا ہے اس کو کم از کم ہزار پر کام کرنا چاہئے اور ہزار پر بیک وقت کام تو کر نہیں سکتا اسے ہر روز تبلیغ کرنی ہوگی اور دن رات کرنی ہوگی.میں یہ نہیں کہتا کہ سوغیر حقیقی ہے بعض علاقوں میں ہزار بھی حقیقی ہو جاتا ہے جیسا کہ افریقہ کے بعض علاقوں میں ہے ایک شخص نے مجھ سے پانچ سو کا وعدہ کیا تھالیکن خدا کے فضل سے اس سال چالیس ہزار احمدی ہوئے.تو منصوبوں کا تعلق اپنی ذات سے بھی ہے، اپنے ماحول سے بھی ہے، نیک نیتوں سے بھی ہے، پاک ارادوں سے ہے، نیک اعمال سے ہے ان خدا داد صلاحیتوں سے ہے کہ جن کے نتیجہ میں بعضوں کی باتیں اثر دکھاتی ہیں بعضوں کی باتیں کوئی اثر نہیں دکھاتیں.پس اس پہلو سے جب آپ ماحول کا جائزہ لیں گے تو ساتھ ساتھ اپنا جائزہ بھی لیتے چلے جائیں گے اور آپ یہ محسوس کریں گے کہ کچھ لوگ آپ کے قریب آرہے ہیں اور ان میں نرمی کے آثار ظاہر ہور ہے ہیں.یہ نرمی کے آثار یہ فیصلہ کرنے میں مدد کریں گے کہ آپ کا منصوبہ حقیقی تھایا غیر حقیقی تھا ایک سال میں ایک نہیں بنا تین سال میں پانچ بن گئے تو ایک ہی بات ہے بعض دفعہ دودو تین تین سال انتظار کے بعد پھر اچانک پھل لگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھل لگتے ہیں پس میں سو کے خلاف نہیں کہہ رہا کہ منصوبے میں سو کا عدد نہ آئے یا ہزار کا عدد نہ آئے.میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ حقیقی ہو اور جب آپ فیصلہ کریں تو آپ کی تمام قو تیں اس فیصلے کی تائید میں اٹھ کھڑی ہوں اور آپ کا خلوص بتائے کہ آپ نے سچائی سے اور دیانتداری سے منصوبہ بنایا تھا منشی عبداللہ صاحب آف سیالکوٹ یا مولوی عبد اللہ صاحب سیالکوٹی کا پہلے بھی کئی دفعہ میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی کہ ہر شخص سال میں کم از کم ایک احمدی ضرور بنائے اور منشی عبداللہ صاحب یا غالباً مولوی عبد اللہ صاحب جو بڑے مخلص صحابی تھے بزرگ تھے انہوں
خطبات طاہر جلدا 186 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء نے وعدہ کیا کہ میں سو بناؤں گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھے کہ شوق اور جوش میں انہوں نے یہ وعدہ کر لیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن ان سے سو کہاں بنے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بیان فرماتے ہیں لیکن اس کے بعد ہر سال یہ دستور قائم ہو گیا جب بھی جلسہ سالانہ پر بیعتوں کا دن آتا تھا تو مولوی عبداللہ صاحب اپنی سو بیعتیں الگ رکھتے تھے.فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے یہ دلچسپ نظارہ دیکھا کہ میں اس میدان کی طرف جہاں دوستوں کو بیعتوں کے لئے اکٹھا کیا گیا تھا جارہا تھا تو مولوی عبداللہ صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف جھپٹے کہ یہ میرا آدمی تم نے یہاں سے نہیں اٹھانا.اُس نے بازو پکڑ کر اس کو کہا ہوگا یہاں نہیں بیٹھنا وہاں بیٹھو جس طرح عقاب شکار پر جھپٹتا ہے اس طرح جھپٹے کہ خبردار جو میرے آدمی کو یہاں سے اٹھایا میں حضرت خلیفتہ اسیح کو سو پورے کرا دوں پھر جہاں مرضی لے جاؤ.اُس سے پہلے میں نے ہاتھ نہیں لگانے دینا اور وہ جب تک زندہ رہے سو پورے کرتے رہے تو سو پورا کرنا نا ممکن نہیں ہے.ان کا منصوبہ حقیقی تھا ، فرضی نہیں تھا اور دعا ئیں بھی ساتھ شامل تھیں حقیقی اس لئے تھا کہ وہ ایک وقت میں تو ہزار پر کام نہیں کر سکتے تھے لیکن ایک سال میں کئی ہزار پر کام کرتے تھے، روزانہ تبلیغ کے لئے نکلتے تھے اور صبح کے وقت کسی کو پکڑا ، دوپہر کے وقت کسی کو پکڑا ، شام کے وقت کسی کو پکڑا، اپنے وقت کو اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ دن میں چار پانچ آدمیوں سے ضرور رابطہ ہوتا تھا.خدا تعالیٰ نے فراست عطا فرمائی تھی ، خدا تعالیٰ نے دل موہنے والی طبیعت عطا فرمائی تھی ، دعاؤں کی عادت تھی اس لئے مہینے میں وقتا فوقتا کئی دفعہ ان کی کھیتی پھل دیتی تھی.پس اس قسم کا منصوبہ ہو جو حقیقی بھی ہو اور اگر وقتی طور پر حقیقی نہ بھی دکھائی دے تو اتنا مخلصانہ ہو کہ آپ کی تمام صلاحیتیں اس کی تائید میں جاگ پڑیں ، اٹھ کھڑی ہوں اور اس کی تائید میں دن رات لگ جائیں اور خدا سے یہ عہد کریں کہ میں نے فرضی منصو بہ نہیں بنانا.میں نے اپنی اندرونی صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر زیادہ سے زیادہ منصوبہ بنالیا ہے.اب تو میری مددفر ما اور دن رات اگر محنت بھی کرے گا اور دعائیں بھی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور پورا کرے گا.پھر منصوبہ کے ساتھ اس کے تفصیلی عوامل کو دیکھنا چاہئے جو تبلیغ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہر ملک کے عوامل مختلف ہیں.بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وقتی طور پر تبلیغ میں مدد ملتی ہے لیکن بالآخر وہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں ان سے پر ہیز ضروری ہے.بعض باتیں بظاہر وقتی طور پر فائدہ نہیں دیتیں لیکن بالآخر فائدہ دیتی ہیں ان کو اختیار کرنا ضروری
خطبات طاہر جلدا 187 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء ہے.پس تبلیغی منصوبہ کوئی بازیچہ اطفال نہیں ہے کہ ایک دم بیٹھے ہوئے منصو بہ بن جائے.جو بھی منصوبہ بنائے گا وہ ابتداء میں اپنی توفیق کے مطابق جو بھی بنتا ہے بنائے لیکن جو باتیں میں سمجھا رہا ہوں ان کو پیش نظر ضرور رکھے ورنہ اس کو نقصان ہوگا.اب حضرت نوح نے جب تبلیغ شروع کی تو جتنے طریق ممکن تھے ان سب طریق کو اختیار کیا اور ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ میں تمہیں یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا تعالیٰ کے خزائن ہیں.یہ کیوں کہا گیا ؟ اس لئے کہ بہت سے لوگ دنیا کے لالچ میں دین کو قبول کر لیا کرتے ہیں اور کئی احمدی بھی اپنی نادانی میں ایسے وعدے کر دیتے ہیں جن کے نتیجہ میں لوگوں کے دل میں بڑی طلب بیدار ہو جاتی ہے کسی نئی جگہ گئے وہاں کہا جی ! دیکھو احمدی ہو گے تو یہ فائدہ ہوگا، ہم تمہیں ہسپتال بنا کر دیں گے ہم کالج بنا کر دیں گے یہ خرچ ہوگا، غریبوں کے لئے یہ یہ کام کریں گے ، انڈسٹری قائم کریں گے، یہ وعدے وہ اپنے طور پر کرنے شروع کر دیتے ہیں اور غالبا چونکہ انہوں نے یہ سود نیئر ز دیکھے ہیں کہ افریقہ میں کیا ہو رہا ہے اور فلاں ملک میں کیا ہورہا ہے.اس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم یہ باتیں کریں گے تو لوگ جلدی ہماری طرف مائل ہوں گے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہسپتالوں کی طرف مائل ہوتے ہیں ، سکولوں کی طرف ہوتے ہیں ، اقتصادی فوائد کی طرف ہوتے ہیں یا خدا کی طرف نہیں ہوتے ہیں.پس آپ وہ آیات پڑھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ حضرت نوح نے کس طرح کھول کھول کر بتادیا ہے اور جہاں فائدہ کی لالچ دی ہے.وہاں اس رنگ میں دی ہے کہ اس کا انسان کی ذات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے.فرمایا اگر تم سچائی کو قبول کر لو گے تو خدا آسمان سے ایسی بارشیں برسائے گا جو تمہارے لئے مفید ہوں گی اور تمہاری اقتصادی حالت میں ایک حیرت انگیز تبدیلی کردیں گی.زمین پہلے سے بڑھ کر اگائے گی اور تمہیں بہت ہی زیادہ اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے.یہ نہیں فرمایا کہ میں تمہیں دوں گا یا ہماری جماعتی کوششوں سے تمہاری اقتصادی حالت بہتر ہوگی.پس ہم جب خدمت کی باتیں کرتے ہیں تو تبلیغ کی غرض سے لوگوں کے دل جیتنے کے لئے ان کو لالچ نہیں دے رہے ہوتے.یہ جماعت کا مزاج ہے کہ اس نے خدمت کرنی ہے اور اس مزاج کو دنیا میں روشناس کرایا جاتا ہے لیکن براہ راست وعدہ دے کر کہ ہم تمہارے لئے یہ کریں گے تم
خطبات طاہر جلدا 188 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء ہماری طرف آجاؤ.یہ تبلیغ کا طریق اختیار کرنا گمراہی ہے اس کا قرآن کریم کے بیان کردہ طریق سے کوئی تعلق نہیں.ہاں جو ایمان لے آتے ہیں ان کی تالیف کا مضمون الگ ہے اور ان کی تالیف کا مضمون قرآن کریم میں کھلا کھلا بیان ہوا ہے.پس تبلیغ کرتے وقت جب آپ تبشیر سے کام لیں گے تو یا درکھیں کہ یہ تبشیر خدا کے حوالے سے ہونی چاہئے اور گزشتہ زمانوں کی قوتوں کی تاریخ کے حوالے سے ہونی چاہئے نہ کہ اپنی طرف سے ایسے وعدے کئے جائیں کہ جن کے نتیجہ میں ان میں حرص و ہوا بیدار ہو اور دنیا کی لالچ کے نتیجہ میں وہ دین کو قبول کرنے والے ہوں.پس تبلیغی منصوبے میں بہت ہی بار یک باتیں پیش نظر رکھنی پڑتی ہیں.احتیاطیں پیش نظر رکھنی پڑتی ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ اگر آپ تقویٰ پر قائم رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا تبلیغی منصوبہ غلط نہیں ہوسکتا.تقویٰ ایک عظیم مضمون ہے جو زندگی کے ہر دائرے پر حاوی ہے اور اس کے نتیجہ میں آپ کے منصوبے کی اس وقت بھی اصلاح ہو رہی ہوتی ہے جب آپ بنا رہے ہوتے ہیں اور اس وقت بھی اصلاح ہو رہی ہوتی ہے.جب اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور تقویٰ آپ کو صاف صاف روشنی دیتا ہے.ابتداء کی روشنی نہیں ہے نہ یہ انتہا کی روشنی ہے یہ ایسی روشنی ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے جیسے اندھیرے میں کوئی روشن ٹارچ لے کر سفر کر رہا ہو.پس تقویٰ کو پیش نظر رکھ کر اگر آپ تبلیغی منصوبہ بنائیں گے تو آپ کے اندر بہت ہی حیرت انگیز نفسیاتی تبدیلیاں پیدا ہوں گی سب سے پہلے آپ اپنی نیت کو پرکھیں گے کہ آپ کیوں تبلیغ کر رہے ہیں.کیا محض اللہ ہے یا تعداد بڑھانے کے لئے ہے یا اپنے نفس کے دکھاوے کے لئے ہے.کئی قسم کی نیتیں نیکیوں میں داخل ہو جایا کرتی ہیں اور ان کو گندا کر دیتی ہیں.پس تقویٰ کے ساتھ پہلے نیتوں کو کھنگالنا اور ان کو صاف کرنا بے انتہا ضروری ہے ورنہ اگر آپ تعداد بڑھانے کے لئے تبلیغ کریں گے تو یہ ایک قسم Territorial Movement بن جائے گی یعنی جس طرح دنیا کے بادشاہ تلوار کے ذریعے علاقے فتح کرتے ہیں اس طرح نظریات کے حامل لوگ نظریات کے ذریعہ انسانوں کے ملک اپنے لئے بناتے ہیں اور انسان کو سر زمین کے طور پر دیکھتے اور ویسا ہی اس سے سلوک کرتے ہیں اور انسان کو سرزمین کے طور پر شمار کرنا تقویٰ کے بالکل منافی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی کی نشاندہی کرتا ہے اسی وجہ سے دنیا میں اکثر تباہیاں پیدا ہوئی ہیں.انبیاء کے رستے میں
خطبات طاہر جلدا 189 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء سب سے بڑی روک یہی رجحان ہے.جب انبیاء دعوای کرتے ہیں.ایک سچائی کی طرف بلاتے ہیں تو مد مقابل جتنی قو تیں ہیں وہ اپنے پیروکاروں کو اپنی سرزمین کے طور پر دیکھ رہے ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زمین ہماری راج دھانی پر حملہ ہو گیا ہے اور ان میں سے ایک بھی ٹوٹ کر خدا کے بھیجے ہوئے کی طرف جاتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اتنی زمین ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اس طریق کار کو اسی اصطلاح میں بیان فرما کر اُن کو دکھا دیا کہ تم زمینوں کے طور پر دیکھتے ہو تو یاد رکھو کہ تمہاری زمینیں کم ہوں گی اور محمد مصطفی ﷺ کی زمینیں بڑھیں گی.کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ روز بروز تمہاری زمین کو کم کرتا چلا جا رہا ہے.پس اگر زمینیں ہی ہیں تو تمہاری زمینیں تمہاری نہیں رہیں گی اور تمہارے ہاتھ سے نکلنے والی ہیں مگر یہ نہیں فرمایا کہ محمد مصطفی ﷺ اپنی زمین بڑھا رہے ہیں اس لئے کہ آپ ان کو اپنی زمین کے طور پر دیکھتے ہی نہیں تھے.آپ تو سچائی کو دیکھتے تھے خدا تعالیٰ کے قرب اور خدا تعالیٰ کی محبت کو دیکھتے تھے ، آپ یہ چاہتے تھے کہ خدا کا قرب بڑھے، خدا کی محبت بڑھے، سچائی پھیلے، اخلاق اور اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں جو انسانوں کو سرزمین بنا لیتے ہیں، ان کا اخلاق کی پاک تبدیلیوں سے کوئی علاقہ نہیں رہتا علاقے سے واسطہ تو ہوتا ہے اور خوبیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.پس یہ ایک بہت ہی احتیاط کا مضمون ہے جس کا تبلیغی منصوبے سے گہراتعلق ہے.اگر آپ نے اس کو صحیح نہیں سمجھا اور تعداد بڑھانے کی خاطر آپ نے تبلیغیں کیں تو آپ کی تبلیغ بھی بے برکت ہو جائے گی اور خطرہ ہے کہ جماعت کا رخ بدل جائے اور اس میں مولویانہ رنگ پیدا ہونا شروع ہو جائیں.اس وقت جماعت کا سب سے بڑا مسئلہ مولویوں کا یہی ٹیڑھا رجحان ہے یا پادریوں کا یہ ٹیڑھار جحان ہے یا پنڈتوں کا یہ ٹیڑھار جان ہے انہوں نے خدا کی مخلوق کو اپنی سرزمین بنا رکھا ہے اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ زمین کم نہ ہو جائے اور خدا کی سرزمین کم ہوتی ہے تو بداخلاقی کی وجہ سے کم ہو رہی ہوتی ہے.پس جس زمین کے وہ مالک ہیں اُس کے اخلاق کی ان کو کوئی پرواہ نہیں.وہ جتنے مرضی گرتے چلے جائیں خواہ انسان سے حیوان اور حیوان سے بدترین حیوان بن جائیں ، نہ ملاں کو فکر ہے نہ پنڈت کو فکر ہے، نہ پادری کو فکر ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میرے پیرو کا راتنے ہی رہیں یا بڑھ جائیں.اب پاکستان میں دیکھ لیجئے کیا ہورہا ہے.کثرت کے ساتھ مولوی بظاہر اسلامی جہاد میں مصروف ہیں ،ایک
خطبات طاہر جلدا 190 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء دوسرے کے فرقے کے خلاف اسلامی جہاد میں مصروف ہیں، سیاستدان کے خلاف اسلامی جہاد میں مصروف ہیں ، جماعت احمدیہ کے خلاف اسلامی جہاد میں مصروف ہیں اگر نہیں مصروف تو اسلامی تعلیم کے جہاد میں مصروف نہیں ہیں وہ.وہ اعلیٰ اخلاق جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے دنیا کو عطا کئے جن کے بغیر اسلام کا ڈھانچہ ہی نہیں بنتاوہ اخلاق نہ صرف یہ کہ پاکستان سے نا پید ہور ہے ہیں بلکہ اس تیزی سے ناپید ہورہے ہیں جیسے زمینیں بنجر اور شور بن رہی ہوں ان کی طرف توجہ نہیں ، زمین بڑھانے کی طرف توجہ ہے.پس وہ کیسے بد نصیب راہنما ہیں جن کی زمینیں تو بڑھیں لیکن بنجر ہشور زمینیں بڑھیں ، جن میں کچھ بھی نہ آگ سکے، کوئی روئیدگی پیدا نہ ہو.ایسی بدبختی بدنصیبی حق کے دشمنوں کو تو زیب دیتی ہوگی حق داروں کو زیب نہیں دیتی ، مومن کو زیب نہیں دیتی اس لئے اپنے اعلیٰ مقصد کے طور پر ہمیشہ خدا اور خدا والوں کا مضمون پیش نظر رکھا کریں.دعوت الی اللہ ہے دعوت الی الاحمدیہ نہیں ہے دعوت الی الاسلام بھی نہیں ہے.دعوت الی اللہ ہے اور اسی مضمون کا لقب خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو عطا فرمایا کہ تو تو اللہ کی طرف بلانے والا ہے.پس جب اللہ کی طرف بلانے والا ہے تو ہمیشہ پیش نظر یہ ہو کہ خدا کی زمین بڑھے اور اللہ کی زمین ان اخلاق حسنہ کے پھیلانے سے بڑھتی ہے جو خدا والوں کے اخلاق ہوتے ہیں، سچائی کے پھیلانے سے بڑھتی ہے.پس آپ کا مقصد خالصہ اللہ کی طرف دعوت دینا ہے اور یہی مقصد پیش نظر رہنا چاہئے.تعداد خود بخود اس کے اندر داخل ہوتی ہے.جب خدا والے خدا والوں کے اخلاق لے کر پھیلتے ہیں تو تعداد تو بڑھتی ہی بڑھتی ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک صفت بغیر موصوف کے موجود ہو.ان دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا.جب خدا والی صفات بڑھیں گی تو وہ انسان بھی ہونے چاہئیں جو خداوالی صفات ساتھ لے کر بڑھتے ہیں.پس یہ دو باتیں یہاں ایک دوسرے کے ساتھ الجھ کر بظاہر ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتی ہیں لیکن نیت میں جو فرق ہے وہ بہت ہی ضروری ہے.جب آپ یہ نیت رکھیں گے کہ میں نے خدا والے لوگ پیدا کرنے ہیں تو آپ کی توجہ ہمیشہ صفات حسنہ کی طرف رہے گی ،نیکیوں کی طرف رہے گی اور نیک لوگ جو صفات حسنہ لے کر پیدا ہوں گے ان کی ایک تعداد بھی ہوگی.پس تعداد سے نفرت پیش نظر نہیں ہے.خد اوالوں کی تعداد جتنی بڑھے بہت ہی اچھا ہے اور بغیر تعداد بڑھے صرف
خطبات طاہر جلدا 191 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء خدائی صفات تو بڑھ ہی نہیں سکتیں سوائے اس کے کہ اندرونی طور پر تربیت کے ذریعہ بڑھیں لیکن میں تربیت کا مضمون نہیں بلکہ میں دعوت الی اللہ کا مضمون بیان کر رہا ہوں اس میں جو تربیت کا پہلو ہے وہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ جس کو آپ مسلمان بنا ئیں جس کو احمدیت کی طرف بلائیں اس نیت سے بلائیں کہ اس کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو وہ پہلے سے بہتر انسان بنے اور اس کے لئے پھر کوشش کرنی ہوگی.پس وہ دعوت الی اللہ کرنے والے جو دلائل کے ذریعہ مد مقابل کو مغلوب کر دیتے ہیں اور اگر اس کی جماعت میں یا اسلام میں بھرتی کرا بھی لیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ میرا مقصد پورا ہو گیا وہ دھوکے میں ہیں.ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کو لازماً دیکھنا ہو گا جس کو میں احمدی مسلمان بنانے میں کامیاب ہوا ہوں اس کے اندر پہلے کے مقابل پر کیا پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ پاک تبدیلیوں کے رجحان کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں میں کیا کر سکتا ہوں.پس ہر داعی الی اللہ کو اگر وہ خدا کی خاطر دعوت دیتا ہے دعوت میں کامیاب ہوتے ہی پھر اس کا مربی بننا ضرور ہو گا اس کے بغیر اس کی نیت کی صفائی اور پاکیزگی ثابت نہیں ہو سکتی.پس جولوگ بنا بنا کر پھینکے جاتے ہیں ان کا تعداد بڑھنے کا رجحان ظاہر ہو جاتا ہے.جو لوگ بنا کر پھر ان کی پرورش کرتے ہیں وہ خالصہ اللہ کے لئے بناتے ہیں وہ بچے داعی الی اللہ ہیں.اب مائیں اگر بچے پیدا کر کے پھینکتی چلی جائیں تو ان کو کون سنبھالے گا ایک طرف سے وہ زندگی پارہے ہوں گے دوسری طرف سے موت کے منہ میں دھکیلے جارہے ہوں گے.پس ہر داعی الی اللہ کو اس کا مربی بننا ہو گا جس کو وہ دعوت دیتا ہے اور اس پہلو سے اس کے وقت پر بہت بڑے تقاضے ہوں گے.صرف تبلیغ کا تقاضا نہیں بلکہ تربیت کا تقاضا بھی اس کے وقت پر قائم ہوگا.پس اس پہلو سے جب وہ منصوبہ بناتا ہے تو ان باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.وہ بزرگ صحابہ جنہوں نے سو سو بیعتیں کروائیں یا ہزار ہزار بیعتیں کروائی ہیں ان کے اندر نقش پیدا کرنے کی صلاحیتیں بہت تھیں اور یہ ایک فرضی بات نہیں ہے بلکہ میں ان صحابہ کو ان میں سے بہتوں کو ذاتی طور پر جانتا تھا اور ان کے بنائے ہوئے احمدیوں سے ان کی وفات کے بعد بھی بہت دیر تک ملتا رہا ہوں اور میں نے یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ بعض دا عین الی اللہ ایسے تھے جن کو پھل لگتا تھا لیکن پھل کے ساتھ وہ اپنی صلاحیت بھی اس پھل میں منتقل کیا کرتے تھے جیسے وہ روحانی وجود تھے ویسی روحانیت
خطبات طاہر جلدا 192 خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۹۲ء بھی اس پھل کو عطا کیا کرتے تھے.جیسے ان کی ذات میں شیرینی پائی جاتی تھی ویسے وہ شیرینی اس پھل کو بھی عطا کر دیا کرتے تھے.یہ تو طاقت نہیں تھی کہ جس کو احمدی بنا ئیں ہر وقت اس کی تربیت میں لگیں رہیں لیکن میں نے اس مضمون پر غور کر کے جو اس کا حل معلوم کیا ہے وہ یہ تھا کہ وہ احمدی بنتے ہی اس وقت تھے جب ان کی نیکی کا اثر قبول کر چکے ہوتے تھے اور یہ صیح احمدی بنانے کا اصل راز ہے.آپ کسی شخص میں اپنی نیکی کے اثرات اپنی پاک صلاحیتوں کو سرایت کر دیں یہاں تک کہ نام کے لحاظ سے وہ جو چاہے رہے عملا وہ آپ کے اندر جذب ہورہا ہو اور آپ کی نیکیاں اختیار کر رہا ہو.ایسے شخص پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا تو صرف نام کا ہی فرق ہے میں تو بیچ میں سے آپ کا ہی ہوں اور بہت سے اچھے دعوت الی اللہ کرنے والے جب اپنے بنائے ہوئے احمدیوں کو لے کر آتے ہیں تو بسا اوقات میں یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایمان لانے سے پہلے ان کی تربیت ہو چکی ہوتی ہے اور دراصل تربیت ہے جو ان کو اس فیصلے کی طاقت بخشتی ہے کہ میں اب وہاں کا نہیں رہا یہاں کا ہو چکا ہوں.پس اس رنگ میں آپ کو تبلیغ کرنی ہوگی کہ تربیت کے تقاضے بھی ساتھ ساتھ پورے ہوں اور اگر وہ پورے نہیں ہوئے تو جس طرح مرغی کو اپنے چوزوں کو کچھ عرصے تک اپنے پروں میں رکھنا پڑتا ہے جیسے ماں کو کچھ عرصہ تک اپنے نوزائیدہ بچوں کے اوپر اپنی رحمت کا سایہ دراز رکھنا پڑتا ہے ان کی ساری ضرورتیں پوری کرنی پڑتی ہیں اس طرح آپ کو بھی نو مبائعین کی کسی حد تک روحانی، بعض جسمانی ضرورتیں بھی پوری کرنی ہوں گی.ان سب باتوں کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ بنائیں گے تو وہ حقیقی منصو بہ ہوگا لیکن اگر ان کو بھلا کر بنائیں گے تو آپ چاہے ہزار کہیں ، چاہے دس ہزار کہیں فرضی اور غیر حقیقی باتیں ہیں.پس تجربے کے ساتھ ساتھ آپ کے منصوبے کی اصلیت ظاہر ہونی شروع ہوگی لیکن بنانا ہر ایک کے لئے ضروری ہے.نیت خالص ہو تو اللہ تعالیٰ اس نیت کو پھل لگاتا ہے اور طاقتوں کو بھی بڑھا دیتا ہے.پس وہ شخص جس کی نیت خالص ہو اور پاک ہو آغاز میں اگر اس کو کچھ پھل نہ بھی ملے لیکن وہ دعائیں کرتا رہے اور حکمت کے ساتھ کہ جیسا میں بیان کر رہا ہوں تفصیلی طور پر تمام تبلیغی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آگے بڑھے گا تو اس سفر کے دوران اس کی اپنی اتنی تربیت ہوگی ایک سال دو سال تین سال کے اندر اندر خدا کے فضل سے وہ بہت ہی باشمر درخت بن جائے گا اور جب وہ باشمر درخت بن جائے تو پھر خدا کی حفاظت میں آجاتا ہے اور کوئی نہیں جو اس پر ہاتھ ڈال سکے.اس
خطبات طاہر جلدا 193 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء کونئی جرات عطا ہوتی ہے.انبیاء سے جو عصمت کا وعدہ ہے اس میں یہ عصمت بھی شامل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو فرماتے ہیں.اے آنکہ، سوئے من بدویدی، بصد تبر از باغباں بنترس، که من شارخ مثمرم در مشین فارسی: ۱۰۶) تو یہی مضمون آپ نے بیان فرمایا ہے.میں تو وہ شاخ ہوں جس کو پھل لگنے شروع ہو گئے کیسے ممکن ہے کہ باغباں تمہیں اجازت دے کہ تم مجھ پر بد نیتوں سے حملے کرو اور مجھے کاٹ کر خاک میں ملا دو.میں پھل دار شاخ ہوں جس کو شمر لگتے ہیں تو دعوت الی اللہ کرنے والا جب آگے بڑھتا ہے تو اس کو خدا تعالیٰ کی قربت کا احساس بھی پہلے سے بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے اور یہ روحانی جماعتوں کی تربیت کے لئے بہت ہی اہم بات ہے.دعوت الی اللہ غیر کو اپنی طرف بلانے کا نام نہیں ہے بلکہ غیر کے ساتھ خود بھی خدا کی طرف حرکت کرنے کا نام اور جوں جوں آپ دعوت الی اللہ کے تقاضے پورے کرتے ہیں تو آپ کو روحانی تجربہ بتائے گا اور جس میں ایک ذرہ بھی شک باقی نہیں رہے گا کہ آپ خدا کو پہلے سے بڑھ کر اپنے قریب دیکھیں گے اور خدا کے قریب ہونے کا احساس ایک عجیب شان سے آپ پر جلوہ گر ہوگا اور وہ شان آپ میں عاجزی پیدا کرے گی.ہاں مستکبر دشمن کے مقابل پر آپ کو للکارنے کی یہ صلاحیت عطا ہوگی.اے آنکہ، سُوئے من بدویدی، بصد تبر از باغباں بترس که من شاخ مثمرم اس ضمن میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے واقعات پڑھ کر دیکھیں حیات قدسی مثلاً ایک کتاب ہے جس کو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت میں عام کرنا چاہئے کیونکہ دعوت الی اللہ کے دور میں ایک کامیاب داعی الی اللہ جیسا کہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تھے ان کے حالات کا پڑھنا بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے.اس میں آپ یہ راز پائیں گے کہ آپ کو قرب الہی کے جو غیر معمولی نشانات عطا ہوئے ان میں سے اکثر کا تعلق دعوت الی اللہ سے ہے اور دعوت الی اللہ کو چونکہ آپ نے حرز جان بنا لیا تھا.آپ نے مقصود بنالیا تھا کسی بیمار کے سہارے بیٹھ کر بھی دعائیں کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 194 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء تھے تو یہ دعائیں کرتے تھے کہ اے اللہ ! مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا معاملہ ہے ان لوگوں پر میں تیرے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت روشن کرنی چاہتا ہوں اپنی صداقت ظاہر نہیں کرنا چاہتا.میری ولایت مانیں نہ مانیں مگر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ولایت ان پر ثابت ہو جائے چونکہ نیت دعوت الی اللہ کی ہوتی تھی اس لئے مردے جی اُٹھتے تھے.خدا کے فضل سے ایسے بیمار شفایاب ہو جاتے تھے جن کے متعلق صحت کی امید بظاہر کوئی نہیں رہتی تھی اور اس کے علاوہ کثرت سے اور بھی معجزے آپ کی ذات سے ظاہر ہوئے لیکن ان پر آپ غور کر کے دیکھ لیں آپ کو ان معجزوں کی تہہ میں دعوت الی اللہ کی سچی روح دکھائی دے گی.پس آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں دعوت الی اللہ زندہ نہیں ہوئی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں آپ کی قوت قدسیہ زندہ ہوئی ہے.آپ نے دعوت کو زندہ نہیں کیا دعوت نے آپ کو زندہ کیا اور آپ میں سے ہر ایک کو دعوت الی اللہ زندہ کر سکتی ہے.ہر شخص اگر دعوت الی اللہ کے مضمون کو سمجھ کر اس کے حق ادا کرے گا تو ہرشخص ولی بنے کی صلاحیت رکھتا ہے.دعوت غیروں کو ہی خدا کے قریب نہیں کرے گی بلکہ آپ کو خدا کے قریب تر کرتی چلی جائے گی اور جماعت میں کثرت کے ساتھ اولیاء اللہ پیدا ہوں گے.جن کی خاطر خدا عظیم نشان دکھائے گا اور دنیا میں ہر جگہ وہ یہ نشان دکھا رہا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے کثرت سے ایسی اطلاعات ملتی ہیں کوئی عام احمدی جس کو نہ زیادہ علم ہے نہ کبھی نیکوں میں شمار ہوا.سادہ سا عام آدمی ہے لیکن دعوت الی اللہ کی برکت سے وہ خدا کے قریب ہونے لگا اور اس کی باتوں میں اعجاز پیدا ہو گیا.اس کے دعاوی کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمایا اور اس کی تائید میں آسمانی ہوائیں چلائیں.پس آپ دعوت الی اللہ کے لئے تیار ہوں اٹھ کھڑے ہوں ،منصوبے حقیقی بنائیں ، ان سے دعوت کے راز سیکھیں جنہوں نے کامیاب دعوت کی ہوئی ہے.ابراہیمی صفات اختیار کریں جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی تھیں اور وہ راز سیکھیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کو خود بتلائے تھے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کامیاب دعوت الی اللہ کرنے والے صحابہ کی زندگیوں پر نظر ڈالیں ان کا مطالعہ کریں اور جماعتوں کو چاہئے کہ ایسے واقعات کو کثرت کے ساتھ اپنے اخبارات میں شائع کریں یا چھوٹے چھوٹے مضامین کی صورت میں لوگوں تک پہنچائیں.آج جو دعوت الی اللہ کے تجربے ہو رہے ہیں ان کو کثرت کے ساتھ احباب جماعت کے سامنے لانا بھی تمام ملکوں کی
خطبات طاہر جلدا 195 خطبه جمعه ۱۳/ مارچ ۱۹۹۲ء جماعتوں کا فرض ہے اپنے اپنے ملک کی سطح پر ایسا کریں اور جو غیر معمولی اثر کرنے والے واقعات ہیں آ ں آنکھیں کھولنے والے واقعات ہیں ان کو دوسرے ممالک میں بھی بھجوائیں ، اُن کے رسالوں میں بھی شائع ہوں.ایک ماحول پیدا ہوگا، ایک فضا بنے گی ایک موسم ظاہر ہوگا اور یہ موسم دعوت الی اللہ کے پھلوں کا موسم بن جائے گا.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اس رمضان المبارک کی دعاؤں میں خاص طور پر اپنے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب داعی الی اللہ بنائے اور دوسروں کو خدا کی طرف بلانے کی برکت سے آپ بھی بڑی قوت کے ساتھ خدا کی طرف کھینچے جائیں اور خدا کے ہو جائیں اور یہی سب سے بڑا پھل اور سب سے بڑی جزاء ہے جو دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں آپ کو عطا ہوگی.خدا تعالیٰ ہمیں اُس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 197 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء دعوت الی اللہ میں حکمت سے کام لیں خدمت خلق اور دعوت الی اللہ کو الگ الگ رکھیں.خطبه جمعه فرموده ۲۰ مارچ ۱۹۹۲ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يا يُّهَا النَّبِيُّ حَرِضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ اِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَاِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ تَغْلِبُوا الْفَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ اَثْنَ خَفَّفَ اللهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفَ يَغْلِبُوا الْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصبرين ) (الانفال : ۲۲ - ۲۷) پھر فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں نے آیات پڑھے بغیر جن آیات کا حوالہ دیا تھا اُن سے متعلق ایک سوال آیا ہے.کسی نے یہ توجہ دلائی ہے کہ ابتداء میں خود اللہ تعالیٰ نے نرمی فرماتے ہوئے نسبت کو ہلکا رکھ دیا اور ایک مومن کے مقابل پر دو کفار کی نسبت قائم فرمائی اور بعد ازاں اس نسبت کو بڑھا کر ایک اور دس کی نسبت بنا دیا لیکن قرآن کریم میں پہلے ایک اور دس کی نسبت کا ذکر آتا ہے اور بعد میں ایک اور دو کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 198 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء نسبت کا.چنانچہ ان آیات کی تلاوت میں نے اسی غرض سے کی ہے تا کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ اگر چہ پہلے ایک اور دس کی نسبت کا ہی ذکر ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا ہے کہ یہ بعد کی بات ہے.پہلے بیان کرنے میں ایک حکمت ہے میں اسی کی طرف ابھی آپ کی توجہ دلاؤں گا.ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نبی.مومنوں کو قتال کی تحریص دلا.اگر تم میں سے ہیں صبر کرنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سوایسے ہوں تو وہ ایک ہزار پر غالب آجائیں گے.کن لوگوں پر ؟ اُن لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا.بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ اس لئے کہ وہ لوگ سمجھتے نہیں ، نا سمجھ لوگ ہیں.آلْنَ خَفَّفَ اللهُ عَنْكُمْ لیکن سر دست اللہ تعالیٰ تم سے رعایت کا سلوک فرماتا ہے.وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا اور جانتا ہے کہ ابھی تم میں کچھ کمزوری ہے.پس اب یہ دستور ہے کہ فَاِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ.اگر تم میں ایک سوصبر کرنے والے ہوئے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک ہزار صبر کرنے والے ہوئے تو وہ دو ہزار پر غالب آئیں گے اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے.پس ان آیات کے ترجمہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ابتداء میں کمزوری کا ذکر فر مایا گیا ہے لیکن جیسا کہ میں نے متوجہ کیا تھا اس سے مراد نعوذ باللہ ایمان یا صلاحیتوں کی کمزوری نہیں بلکہ پہلے ایک اور دس کی نسبت کا ذکر فرمانا یہ بات بتا رہا ہے کہ اس نسبت کا حقیقی اور سچا اطلاق حضرت محمد ﷺ اور آپ کے متبعین پر ہوتا ہے اور آپ کی برکت سے بعد میں جب اسلام میں مزید طاقتیں پیدا ہو جائیں گی، رعب بڑھ جائے گا ، اقتصادی کمزوریاں دور ہو جائیں گی ، ہتھیاروں کی کمزوریاں دور ہو جائیں گی تو وہ جو ہرمحمد ﷺ وَالَّذِينَ مَعَهُ (الاعراف: ۶۵) اور ان لوگوں میں جو آپ کے ساتھ ہیں پوری طرح چمکے گا اور ایک کو دس پر غلبہ نصیب ہونے کا دور بھی شروع ہو جائے گا.جہاں تک دلیل کا تعلق ہے یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم اس موقعہ پر یہ دلیل دیتا ہے کہ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ.اس لئے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں.حقیقت میں اپنے پورے مقصد کا ادراک، اُس کی گہری سمجھ اور اس پر پورا یقین ہے جو غیر معمولی طاقت پیدا کرتا ہے اور جس شخص کو اپنے مقصد کا کوئی ادراک نہ ہو، سمجھ نہ ہو کہ میں کیوں یہ کام کر رہا ہوں ، وہ طاقت ور ہوتے ہوئے بھی اندرونی طور پر کمزور ہو جاتا ہے.پس ایک بہت ہی عظیم الشان نفسیاتی حکمت کی طرف متوجہ فرمایا گیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 199 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء ہے.فرمایا مومن اور صبر کرنے والا مومن وہ ہے جسے اپنے مقصد پر اتنا کامل یقین ہے اور اتنی گہرائی سے اس کو سمجھتا ہے کہ تکلیف اُٹھاتے ہوئے بھی وہ اُس صبر پر قائم رہتا ہے اور صبر کا مقصد کے فہم سے گہرا تعلق ہے.جب انسان پر تکلیف وارد ہوتی ہے تو اس وقت اس کا مقصد دوبارہ اُس کے سامنے آتا ہے یعنی ظاہری طور پر باشعور طور پر اُس کے سامنے اُبھرتا ہے اور دوبارہ وہ اپنے مقصد کو کھنگالتا ہے اور اس وقت وہ دیکھتا ہے کہ ہاں یہ مقصد اس لائق ہے بھی یا نہیں کہ میں اس کی خاطر جان دوں اور اس کی خاطر قربانیاں پیش کروں.یہ ایک ایسی نفسیاتی حقیقت ہے جس میں کوئی استثنی نہیں.مذہبی قومیں ہوں یا غیر مذہبی تو میں ہوں ان کی تاریخ میں ہمیشہ ایسے صبر آزما وقت آتے ہیں جن میں مقصد پر یقین سب سے نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور اگر اس موقع پر انسان اپنے ذہن میں یا سپاہی اپنے ذہن میں مقصد کو کھنگال کر سمجھیں کہ یہ تو بے مقصد لڑائی ہے، بے فائدہ لڑائی ہے تو وہ اپنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں ، دل چھوڑ بیٹھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم ثانی میں خصوصیت سے جرمن قوم نے اس حربے کو اپنے مد مقابل پر استعمال کیا اور پروپیگنڈا کے ذریعہ جسے وہ Fifth Column کہتے تھے ، مقصد سے تعلق کاٹنے کی کوشش کی جاتی تھی اور مقصد کو اجنبی بنانے کی کوشش کی جاتی تھی اور مقصد کو باطل اور بے معنی بنانے کی کوشش کی جاتی تھی.چنانچہ ہندوستان میں کثرت سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ تم کن کی خاطر لڑ رہے ہو وہ لوگ جنہوں نے تمہیں اپنا غلام بنارکھا ہے.کس قوم کی خاطر؟ کیا اپنی غلامی کو پیشگی بخشنے کے لئے تم یہ قربانیاں دے رہے ہو.اس قسم کی با تیں قہوہ خانوں میں ہر جگہ ہوا کرتی تھیں.تو دیکھیں قرآن کریم نے کیسی عمدہ بات بیان فرمائی ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی مدد کا تعلق ہے وہ مضمون دوسری جگہ بیان فرمایا لیکن جہاں ایک ایسا دعویٰ کیا ہے جو حسابی دعویٰ ہے اور اس حسابی دعوئی کے لئے کوئی قطعی منطقی دلیل ہونی چاہئے تھی اور وہ دلیل یہ بیان فرمائی کہ تم اپنے اعلیٰ مقصد کو سمجھتے ہو اس کے نتیجہ میں تمہیں صبر عطا ہوتا ہے اور یہ لوگ بے مقصد لڑائی کر رہے ہیں اور جب مشکل دور میں سے گزرتے ہیں تو اُس وقت اپنے مقصد کا کھوکھلا پن ان پر ظاہر ہونے لگتا ہے اور ان میں صبر کی طاقت نہیں رہتی.چنانچہ آپ ابتدائی اسلامی جنگوں پر نظر ڈال کر دیکھیں تو ہمیشہ آپ کو یہ دو باتیں نمایاں طور پر کارفرما دکھائی دیں گی، مسلمانوں کو صبر عطا ہوا ہے اور دشمنوں کو بے صبری اور بہت تھوڑی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 200 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء آزمائش سے گزر کر وہ اپنے مقصد سے تعلق تو ڑ بیٹھتے تھے اور اسی لئے بعد میں تیزی کے ساتھ مسلمان ہونے لگتے ہیں.پس یہ مضمون ہے جس کو ہر داعی الی اللہ کو آج بھی اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.جہاں تک تاریخ اسلام کے آغاز کے غزوات اور سریہ وغیرہ کا تعلق ہے میں نے جائزہ لیا تو حضرت محمدیہ کے زمانہ میں جتنے بھی غزوات پیش آئے یعنی ایسے جہاد جن میں آنحضرت میں نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور اسی طرح بہت سے سر یہ بھی یعنی جن میں حضور اکرم ﷺ نے خود شرکت نہیں فرمائی لیکن وہ جہاد ہی تھا اور آنحضرت یہ کی ہدایت کے تابع غیروں سے مقابلہ ہوا.اُن میں ایک اور تین سے نسبت نہیں بڑھی اس لئے ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تم سے تخفیف کی جاتی ہے تو یہ سامان بھی فرما دیا کہ ایک اور دس کی نسبت کا سوال ہی نہ پیدا ہو.صلى الله اگر اس آیت کے نزول کے بعد اور اس راز کو سمجھ لینے کے بعد اس وقت دشمن ایک کے مقابل پر دس کی تعداد میں حملہ آور ہوتا تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو خدا کی طرف سے وہ ضمانت نہیں تھی لیکن حفاظت کے اور طریق اللہ تعالیٰ استعمال فرماتا ہے اور ان طریقوں میں سے ایک طریق یہ ہے کہ دشمن کو اس بات کی نہ عقل دی نہ توفیق دی کہ ایک مسلمان کے مقابل پر دس آجائیں یا سو کے مقابل پر ہزار نکل کھڑے ہوں.صرف ایک موقع ایسا ہے جس میں جنگ موتہ پر حضرت زید بن حارثہ کی قیادت میں لشکر رومیوں کے علاقہ کی طرف بھیجا گیا مسلمانوں کی تعداد ہزارتھی اور رومیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے بچانے کی یہ صورت پیدا فرما دی کہ حضرت خالد بن ولید کو یہ سمجھ دی کہ اس موقع پر دشمن سے ٹکرانا معقول بات نہیں ہے ، دشمن کے نرغے سے بچ کر نکل آنا معقول بات ہے.چنانچہ بہت ہی حیرت انگیز صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے آپ نے دشمن کے اس گھیرے سے نکل کر مسلمان فوج کو بچالیا اور یہ آپ کا بھا گنانہیں تھا بلکہ الہی تقدیر کے تابع ایسا واقعہ ہوا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس وقت نسبت ایک اور دس کی نہیں رہی تھی بلکہ ۳ ہزار کے مقابل پر ایک لاکھ تھے تو نسبت بہت بڑھ چکی تھی.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو حساب پیش فرمایا آنحضرت مے کے دور میں اسی حساب کا اطلاق ہوا ہے اور ایک دو سے کچھ تھوڑا سا جب بڑھا تو اس کے مقابل پر غیر معمولی امداد کی گئی جس کو فرشتوں کی امداد بیان فرمایا گیا اور حسب موقع دشمن کی تعداد کوملحوظ رکھتے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 201 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء ہوئے قرآن کریم بتاتا ہے کہ فرشتے نازل کئے گئے یہ فرشتے کیا تھے ؟ اس کے متعلق دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا ہے کہ فرشتوں کا مضمون تمہارے دل کی تسلی کے لئے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ رسد یعنی مد داللہ ہی کی طرف سے آیا کرتی ہے.تم ان باتوں کی کنہ کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے مستقل طور پر تمہیں فرشتوں کی تعداد بتائی گئی ہے مگر اصل مقصد مدد کرنا ہے اور خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیسے مدد کی جاتی ہے چنانچہ وقتی طور پر رعب بڑھا کر اور دشمن سے غلطیاں کروا کر خدا تعالیٰ اس طرح مددفرماتا ہے لیکن بالعموم جہاں تک مقابلے کے نتیجہ کا تعلق ہے وہاں ایک اور دو کی نسبت دکھائی دیتی ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جتنے مقابلے ہوئے ہیں اُس دور میں اگر کل کفار مقتول کا شمار کریں اور مسلمان شہداء کا شمار کریں تو بالعموم یہی نسبت دکھائی دیتی ہے چنانچہ قاضی سلیمان منصور پوری نے اپنی كتاب رحمة للعالمین میں تمام اعداد و شمار اکٹھے کر کے یہ نکتہ پیش کیا لیکن اس میں انہوں نے بعد کے بھی بہت سے اعداد و شمار اکٹھے کئے اور کچھ زبردستی بھی کی ہے اس لئے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ” رسول رحمت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حساب کو رد کیا ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے مسلمانوں کو نتیجہ کے لحاظ سے بالعموم ایک اور دوکا یا ایک اور دو سے زیادہ کا غلبہ عطا ہوا ہے.پس امید رکھتا ہوں کہ جو وعدے اللہ تعالیٰ نے آغاز میں حضرت اقدس محمد ﷺ کے اولین ساتھیوں سے کئے تھے اور ان کی برکت سے تابعین کو غیر معمولی جو رعب اور غیر معمولی غلبے عطا ہوئے اس دوسرے دور میں یعنی آخرین کے دور میں بھی اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کرنے والوں سے ایسا ہی سلوک فرمائے گا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کو غیر پر جو غلبہ عطا ہوا اس میں وقت کے گزرنے سے کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اب اس دور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کے آثار نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو وہاں ایک اور دس کی نسبت سے بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ نسبت کے ساتھ کامیابیاں عطا فرمارہا ہے.اس میں ایک اور مضمون یہ پیش نظر ہے اور رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد محض ظاہری قتال نہیں ہے بلکہ ہر قسم کا مقابلہ اس میں شامل ہے اور یہ ایک عمومی دستور بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ قومیں جو بامقصد ہوں، جوصبر کرنے والی ہوں ، منظم ہوں اور اپنے آپ کو ایک اعلیٰ مقصد کے لئے قربان کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 202 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء کیلئے ہمیشہ تیار ہیں تو اگر کسی ملک میں ان کی تعداد دس فیصد ہو جائے تو وہ ضرور غالب آجاتی ہیں، اس کے بعد حساب یکسر بدل جاتا ہے.پہلے رفتہ رفتہ آہستگی کے ساتھ ترقی ہوتی ہے لیکن جب آپ ایک اور دس کی نسبت حاصل کر لیتے ہیں تو سارا ملک آپ کے قدموں میں آجاتا ہے.یہ وہ خوشخبری ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں بعض ملکوں میں پہلے سے بہت بڑھ کر تیزی سے کام کرنا چاہئے کیونکہ ہم اُس موڑ تک پہنچ رہے ہیں جس کے بعد چڑھائی ختم ہے اور پھر تیزی کے ساتھ سارا ملک خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے مخلصین کی جھولی میں ہوگا.میں ذرار کا اس لئے کہ ظاہری طور پر قدموں میں ہوگا“ کا محاورہ آرہا تھا مگر مضمون کی مناسبت سے یہاں بجتا نہیں تھا.تو فصاحت و بلاغت کو بعض موقع پر ایک طرف رکھنا چاہئے اور مضمون کو بہر حال ترجیح دینی چاہئے تو اس پہلو سے ان کی جھولی میں ہو گا.اس طرح جھولی میں ہوگا جیسے ایک چمن سے محبت کرنے والا پھول چن چن کر اپنی جھولی میں ڈالتا ہے اور اس غرض سے جھولی میں ہوگا کہ ان پھولوں کو حضرت اقدس محمد مصطفی امتی ہے کے قدموں میں ڈالا جائے اس نیت سے اس مضمون کو سمجھ کر آپ دعوت اللہ کریں.اب میں واپس اس مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.میں بتا رہا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ پہلے پرندوں کو مانوس کرو پھر وہ تمہارے ہو جائیں گے اور تمہاری آواز کے نتیجہ میں لبیک کہیں گے پھر وہ غیروں میں رہ کر بھی تمہارے رہیں گے.اس میں ایک اور بہت بڑی حکمت کی بات ہے کہ وہ مذہبی قو میں جو رفتہ رفتہ آہستگی سے پھیلتی ہیں اُن کو اکثر صورتوں میں معاشروں میں غلبہ نصیب نہیں ہوتا اور اُن کے بنائے ہوئے مسلمان یا مومنین عموماً غیر معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہیں جہاں غیر معاشرے کا غلبہ ہوتا ہے اور ایسی صورت میں ان کے ضائع ہونے کا بہت بڑا خطرہ درپیش ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اسی تربیت کا مسئلے کا حل بھی حضرت ابراہیم کو سکھلا دیا.فرمایا اگر تم نے اُن کو اپنی ذات کے ساتھ مانوس کرلیا تو پھر وہ تمہارے رہیں گے.مختلف سمتوں میں چلے جائیں گے مختلف پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر بیٹھیں گے مگر تمہاری ایک آواز کے نتیجہ میں دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آئیں گے.ان کو مستقل اپنا بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اُن کے ساتھ محبت کرو اور اس محبت کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کا تعلق اپنے
خطبات طاہر جلدا 203 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء دل کے ساتھ باندھ لو.دعوت الی اللہ کرنے والے پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس کو وہ خدا کی طرف بلائے اس کا خدا کی طرف آنا عارضی نہ ہو.یہ نہ ہو کہ چند دن کے بعد وہ غیر معاشرے میں جائے اور پھر غیروں کا ہور ہے.پس جہاں تبلیغ میں خشکی ہوتی ہے وہاں عموماً ایسے آنے والے ضائع ہو جاتے ہیں.جہاں تبلیغ میں محبت اور تعلق کے جذبات غالب ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنے والے ہمیشہ مستقل دین کے ہی ہو رہتے ہیں اور ضائع ہونے والوں میں عموماً میں نے یہی محسوس کیا ہے کہ ان کو دعوت الی اللہ کرنے والوں کے تعلق میں ایک خشکی تھی کوئی روحانی نرمی اور گرمی نہیں تھی.بہر حال اب سوال یہ ہے کہ مانوس کیسے کیا جائے.مانوس کرنے کے متعلق میں پہلے بھی ایک دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ تعلقات بنانے کے بہت سے طریق ہیں اور سب سے نمایاں اور واضح طریق احسان کا طریق ہے اور اگر احسان ایسا ہو کہ جس کے نتیجہ میں جس پر احسان کیا جائے وہ یہ نہ سمجھے کہ اپنی کسی غرض سے کر رہا ہے.تھوڑا احسان بھی ہوتا ہے اور غیر معمولی اثر ڈالتا ہے.ایک آدمی کو ایک چائے کی پیالی پلانا کون سی احسان کی بات ہے، معمولی بات ہے بعض دفعہ پلانے والا اُس سے بہت زیادہ غریب ہوتا ہے جس کو وہ پلائی جاتی ہے لیکن اگر امیر آدمی کو ایک غریب آدمی چائے کی پیالی پلائے اور امیر جانتا ہو کہ اسے مجھ سے کوئی غرض نہیں ، مجھ سے کوئی کام نہیں تو چائے کی ایک پیالی ہی اس کے دل میں ایک بھاری احسان بن کر بیٹھ رہے گی اور اس طرح احسان کا مضمون عام دنیا کے حسابات سے مختلف ہو جاتا ہے.پس اگر کسی کو مانوس کرنا ہو تو قرآن کریم نے جو طریق احسان کا بیان فرمایا ہے اس کے مطابق مانوس کریں.فرمایا: وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدثر:۷) ایسا احسان نہ کیا کرو جس کے نتیجہ میں زیادہ حاصل کرنا مقصود ہو اور جس کا مقصد کچھ اور لینا اور اپنی دولت کو یا اپنی طاقت کو بڑھانا ہو.اب یہ جو پیغام ہے اس میں دعوت الی اللہ کرنے والوں کے لئے بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ وہ غیروں سے اس رنگ میں حسن سلوک کریں کہ اُن کو حسن سلوک کرنے والے کا کوئی فائدہ اس میں دکھائی نہ دے.بعض لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں ، مریضوں کی تیمارداری کرتے ہیں، جیلوں میں جاتے ہیں ، وہاں ضرورت مندوں کا خیال رکھتے ہیں ، پھر بعض دفعہ ان غریبوں کے لئے جن کا کوئی سہارا نہ ہو بعد میں کوشش بھی کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 204 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء میں نے اُس کی ایک مثال دی تھی کہ پاکستان کی جیلوں میں سے ایک جیل جانے والے داعی الی اللہ نے مجھے ایک شخص کے حالات لکھے جو بہت ہی دردناک تھے اور وہ شخص کوئی چھپیں تھیں سال سے بغیر کسی مقدمہ کے صعوبتوں میں مبتلاء تھا اور کوئی اس کا پاسبان نہیں تھا، کوئی اس کا پُرسان حال نہیں تھا.اس کا معاملہ ہم نے ایمنسٹی کو دیا اور ایمنسٹی نے اس کے لئے کوشش کی اور کامیابی نصیب ہوئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ آزاد ہوا لیکن آزاد ہوتے ہی حضرت محمد ﷺ کا غلام بن گیا.پہلے وہ ہندو تھا، پھر موحد بنا اور موحد بھی ایسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے کلام کا ، آپ کے پیغام کا ، آپ کی ذات کا عاشق ہو گیا اور اُس نے آزادی کے بعد مجھے ایک بہت ہی دلچسپ خط لکھا کہ اب اس دور میں جبکہ احمدیت کے ذریعہ مجھے اسلام کی حقیقی تعلیم سے تعارف ہوا ہے تو مجھے پتا چلا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ پس وہ احسان کریں جو چھوٹا بھی ہو تو خود غرضی کا نہ ہو جس میں خود غرضی کا کوئی پہلو نہ ہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ احسان کرتے ہی تبلیغ شروع نہ کر دیں، اگر چہ تبلیغ بھی احسان ہے لیکن جب آپ احسان کرتے ہی تبلیغ شروع کرتے ہیں تو اگلا سمجھتا ہے کہ اب سمجھ آگئی ہے کہ کس لئے مجھے بلا رہا ہے.چائے کی پیالی پر بلایا اور ساتھ تقریر شروع کر دی اور ایسے لوگ بیچارے جن کو چائے کی پیالی پلائی جارہی ہوتی ہے وہ پھر چائے زہر مار کرتے ہیں لطف نہیں اٹھاتے.وہ کہتے ہیں میں کس مصیبت میں پھنس گیا، اس مصیبت سے نجات ملے.ایک پیالی چائے کے بدلے اس شخص نے اتنی لمبی تقریر جھاڑ دی اور پھر وہ دامن بچاتے ہیں اور آئندہ اس شخص سے ملنے سے بھی گریز کرتے ہیں.تو احسان سے مراد ایسا احسان ہے جس کے بعد ارد گرد کوئی غرض دکھائی نہ دے رہی ہو اور وہ غرض جو آپ رکھتے ہیں یہ اس وقت ظاہر ہو جب کہ یہ غرض احسان کا رنگ اختیار کر چکی ہو اور جس شخص پر یہ غرض ظاہر ہورہی ہے احسان کے رنگ میں ظاہر ہورہی ہے.اس کے بہت سے طریق ہیں اور مانوس کرنے کا جو علم ہے یہ تو اللہ تعالیٰ فطرتا عطا کرتا ہے اور پھر تجربہ سے یہ علم بڑھتا ہے.بے چارے بعض مبلغ ہیں وہ اپنی سادگی میں اس طرح تبلیغ کرتے ہیں مثلاً ایک خاتون ہیں ان کو تبلیغ کا بڑا شوق ہے وہ مجھے ملنے آئیں میں نے ان سے پوچھا کہ بتائیں کس طرح تبلیغ کی ؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ جو اعتراضات کے جواب کے رسالے شائع ہوئے تھے ان میں سے تین رسالے اس کو دے آئی ہوں.میں نے کہا اس طرح تقسیم کرنا مقصود تو نہیں تھا.تو پھر میں نے کہا کیا نتیجہ نکلا تو کہنے لگیں کہ
خطبات طاہر جلدا 205 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء میں دوسری دفعہ ملی تو اور بھی ناراض تھی.اس طرح تو پھر ناراض ہوں گے.تبلیغ کے ساتھ جو حکمت کو باندھا گیا ہے اس حکمت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے اور مانوس کرنے میں مضمون سے مانوس کرنا داخل ہے.دیکھیں ! ایک عورت ہے جس کے گھر کی گائے یا بھینس ہے ، وہ روزانہ اس کا دودھ دھوتی ہے لیکن جب تک پسمائے نہیں اس وقت تک وہ گائے یا بھینس اس کو دودھ نہیں دیتی.پانی ڈالتی ہے ، نرم ہاتھوں سے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرتی ہے اور یہاں تک کہ دودھ آ جاتا ہے اور جب وہ دودھ دوہتی ہے تو اس گائے یا بھینس پر احسان کرتی ہے کیونکہ دودھ سے بھرا ہوا وہ تھن اُس کے لئے بوجھ بن جاتا ہے تو غرض پوری ہورہی ہے لیکن احسان کے رنگ میں اور اس سے پہلے پیار اور محبت سے دل لبھانا جس کو ہم بچپن میں پتا نہیں پنجابی تھی یا اُردو مگر پسمانا' کہا کرتے تھے کہ گائے بھینسوں کو پسما یا جا تا تھا تو بغیر پسمائے آپ مضمون کی طرف لے آئیں گے اور جس طرح گائے دولتی مارتی ہے اور اگر تھوڑا سا دودھ پہلے دوہا ہوا ہو تو بعض دفعہ وہ بھی ضائع ہو جاتا ہے تو ایسا کام نہ کریں کہ آپ خدا کی خاطر کسی کو پسمائے بغیر خدا کا ذکر شروع کر دیں اور بجائے اس کے کہ وہ آپ کی طرف مائل ہو وہ دولتی مارے اور آپ کی ساری محنت ضائع چلی جائے.میری مراد یہ ہے کہ صرف ذاتی تعلق قائم کرنا ہی نہیں بلکہ مضمون کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں بھی مراحل ہوتے ہیں اور اُن کو درجہ بدرجہ اختیار کرنا چاہئے.بعض لوگ بڑی حکمت سے کام کرتے ہیں.ایسی کتابیں دیتے ہیں جن کا براہ راست تبلیغ کا کوئی مضمون نہیں ہوتا یا ایسی کتابیں دیتے ہیں جن میں کتاب وصول کرنے والے کو اپنے مقصد کے لئے ایک بہت عمدہ ہتھیار ہاتھ آجاتا ہے.مثلاً عیسائی علاقوں میں مسلمان ہیں جن کو عیسائیوں سے مقابلے کی استطاعت نہیں ہے یا صلاحیت نہیں ہے ان کو آپ احمدیت کا وہ لٹریچر دیں جس میں عیسائیوں کے مد مقابل بڑے قومی دلائل پیش کئے گئے ہیں تو ایسا لٹریچر وصول کرنے والا یہ نہیں سمجھے گا کہ مجھے کی جارہا ہے بلکہ اس کے لئے تقویت کا سامان ہوگا.اگر مسلمانوں کو جن کو خدا تعالیٰ نے آنحضرت مالی کی محبت ودیعت فرمائی ہے جیسے دودھ میں پلائی گئی ہو ، بد سے بد بھی حضرت محمد مصطفی امیہ سے محبت ضرور رکھتا ہے آنحضرت ﷺ کی سیرت کی وہ کتب دی جائیں جن میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کو ایسی شان سے پیش کیا گیا ہے، ایسے عظیم طریق پر پیش کیا گیا ہے کہ اس کی مثال دوسری کتب میں دکھائی نہیں
خطبات طاہر جلدا 206 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء دیتی.مثلاً ”سیرت خاتم النبین ہے مثلا مصلح موعودؓ کی کتاب Life of Muhammad ہے.اگر یہ آپ ان کو دے دیں تو ان کے اندر نہ صرف یہ کہ پہلے سے بڑھ کر آپ کے لئے تعلق پیدا ہوگا بلکہ احمدیت سے ایک تعلق قائم ہو جائے گا اور اُن کو اس مطالعے کے دوران رفتہ رفتہ یہ سمجھ آئے گی کہ احمدیت تو کچھ اور چیز ہے جو ہم سمجھتے تھے وہ نہیں.پھر طلب پیدا ہوگی اور وہ طلب آپ کے لئے مواقع پیدا کر دے گی کہ آپ ان کو کتابیں بھی دیں اور احسان بھی کر رہے ہوں گے.پاکستان میں ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے بتایا میں اس طرح تبلیغ کرتا ہوں کہ دانشوروں اور پروفیسروں میں میرا آنا جانا ہے ان میں سے ایسے بھی ہیں جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں یا شک رکھتے ہیں ، فرشتوں وغیرہ کے مضمون پر مذاق اڑاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اُن کے مد مقابل اُن سے لڑتے جھگڑتے ہیں اور بخشیں کرتے ہیں تو میں اُن کو ایسی کتابیں جیسے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ملا لگتۃ اللہ ہے یا تقدیر الہی ہے یہ دیتا ہوں اور اس سے دونوں فریق میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے.جو ملائکتہ اللہ کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں وہ حضرت مصلح موعود کی کتاب ”ملا لگتۃ اللہ جب پڑھتے ہیں تو ان کو ملائکتہ اللہ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.وہ اس لائق ہو جاتے ہیں کہ واقعہ ٹھوس دلائل سے ملائکہ کی حقیقت کا دفاع کریں اور ملائکہ کے وجود کا دفاع کریں اور دوسروں کے دل میں جو شکوک ہوتے ہیں وہ اس لئے زائل ہو جاتے ہیں کہ اُن کے ہاں ملائکہ کا تصور ہی اوٹ پٹانگ اور عجیب وغریب سا ہے اور ملائکہ کا سچا تصور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر ہمیں عطا کیا لیکن نیا تصور نہیں عطا کیا.سو فیصدی قرآن کریم پر بنی سو فیصدی احادیث اور اقوال حضرت محمد ﷺ پر بنی لیکن اُس نور تک غیروں کی نظر نہیں گئی اور فرضی کہانیوں کو اپنا بیٹھے اور قرآن اور حدیث کی حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا.بعض دفعہ انسان فرضی کہانیوں میں بستا ہوا حقیقت کو دیکھتے ہوئے بھی پہچان نہیں سکتا یہ بھی ایک قسم کا اندھا پن ہے.چنانچہ بہت سے غلط عقائد جو احمدی ہونے سے پہلے نئے احمدی ہونے والوں کے ہوا کرتے تھے جب احمدی ہونے کے بعد وہ مڑ کر اُن کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ ہمیں پہلے خیال کیوں نہیں آیا.کیسی بے وقوفوں والی باتیں تھیں جن پر ہم ایمان رکھا کرتے تھے اور اُن کو کبھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ہوا کیا تھا؟ مگر غفلت کی آنکھ اندھی آنکھ ہوا کرتی ہے.اُسے دیکھتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا.پس جب آپ اپنے دوستوں کو ان کے
خطبات طاہر جلدا 207 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء مناسب حال اس قسم کی کتابیں دیں گے تو اُس کے نتیجہ میں اُن کی غلط فہمیاں دور ہوں گی ان کو احمدیت میں اس لحاظ سے دلچسپی پیدا ہوگی کہ ان کا دل گواہی دے گا کہ یہ نور ہے یہ روشنی عطا کرنے والی چیز ہے.اسی طرح مثلاً Introduction to the study of the Holy Quran ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن کریم کے تعارف میں ایک بہت ہی عمدہ مقالہ لکھا ہوا ہے.بعض لوگ وہ پہلے عیسائیوں کو دیتے ہیں.اب میرے نزدیک یہ بعض صورتوں میں تو درست ہے مگر بہت سی صورتوں میں یہ درست نہیں ہے کیونکہ وہ عیسائیوں کے خلاف اس قدر شدید حملہ ہے جس کو آپ سے مضبوط تعلق قائم نہ ہو یا اسلام میں گہری دلچسپی پیدا نہ ہوئی ہو بعض دفعہ وہ اس حملے کی تاب نہ لا کر آپ سے بھی بھاگتا ہے اور اسلام سے بھی بھاگتا ہے اور بعض دفعہ اس کے دل میں محبت کی بجائے ایک نفرت پیدا ہوتی ہے جو کمزوری کے احساس سے پیدا ہوتی ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ میں اس دشمن سے لڑ نہیں سکتا اور اس کے نتیجہ میں اس کی کمزوری نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے پاس ایک دفعہ ایک امریکن سفیر نے یہ شکایت کی کہ مجھے (اسلام میں ) تھوڑی سی دلچسپی پیدا ہوئی تھی تو مجھے کسی نے آپ کی کتاب Introduction to the study of the Holy Quran دی.آپ نے تو بہت سخت حملے کئے ہیں بالکل ناواجب حملے کئے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تم نے وہ حملے نہیں دیکھے جو غیر سینکڑوں سال سے اسلام پر کر رہے ہیں اب اگر ہم ان کا دفاع کریں تو تم لوگ کہتے ہو کہ یہ سخت ہیں.جب تم سختی کرتے ہو تو تمہیں اس وقت احساس نہیں ہوتا.ایک ہند و پرائم منسٹر نے بھی مجھ سے بات کی کہ آپ کی فلاں کتاب میں بہت سختی کی گئی ہے اور وہ یہی کتاب تھی.اب اگر یہی کتاب کسی مسلمان کو دیں تو بالکل برعکس نتیجہ نکلے گا.پہلے مسلمانوں کو دیں اور مسلمان جب یہ پڑھ لیں گے تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ احمد بیت اس طرح اسلام کا دفاع کرتی ہے تو اُن کے لئے یہ تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے اور یہی کتاب ایک عیسائی کے لئے اس وقت تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہے جب آپ چند منازل طے کر چکے ہوں کسی حد تک اس کے مضمون سے شناسا کر چکے ہوں اور جیسا کہ میں پسمانے“ کا لفظ استعمال کرتا رہا ہوں اُس کے لئے پسمانے کی منزل ذرا دیر میں آئے گی.بعض گائیں بڑی کڑوے مزاج کی ہوتی ہیں ان کے لئے کافی محنت کرنی پڑتی ہے
خطبات طاہر جلدا 208 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء ہاتھ ہاتھ پھیر نے تھپکانا، پیار کرنا.پانی کے چھینٹے دینے ورنہ وہ دولتیاں بھی مارتی ہیں اور سینگ بھی مارتی ہیں.تو مختلف مزاج کے لوگ ہیں ان کو سمجھنا چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کے مضمون میں ہر جگہ حکمت کو پہلے رکھا ہے ہر دوسری چیز کو بعد میں.پس حکمت کے تقاضے یہ ہیں کہ پہلے اس کے دل کو اپنے لئے نرم کرو، اپنے لئے دل نرم کرنے کے بعد پھر ایسے ذرائع اختیار کرو کہ اسلام کے لئے اس کا دل نرم ہونا شروع ہو اور جوں جوں دل نرم ہو اُس سے استفادہ کرو اور مناسب حال تبلیغ کرو ، مناسب حال اس کو کتب مہیا کرو اور یہ وہ سلسلہ ہے جو پھر رفتہ رفتہ خود بخود بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.پہلے طلب پیدا کرنی ضروری ہے، اس نکتہ کو آپ اچھی طرح سمجھ جائیں.اگر طلب پیدا کئے بغیر آپ نے احسان کا بدلہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ احسان اُلٹ ہو جائے گا اور بے کار جائے گا.پس تعلقات کے دائرے وسیع کر کے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رفتہ رفتہ مضمون کھول کر آگے بڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ایک بہت زیادہ گہرا اثر رکھنے والا کلام ہے اور اس سے بھی بھر پور استفادہ کرنا چاہئے.بعض دفعہ آنحضرت ﷺ کی محبت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نعتیہ کلام سنایا جائے تو اس سے دل پر گہرا اثر پڑتا ہے.پھر بعض دفعہ ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ اقتباسات پیش کئے جائیں جو حضور اکرم ﷺ کی شان میں ہیں تو اس کے دل پر گہرا اثر پڑتا ہے.پس ہر شخص کے حالات دیکھ کر اُس کے مطابق اس کے ساتھ رفتہ رفتہ سلوک ہونا چاہئے.بہت سے احمدی ایسے ہیں جنہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے تبلیغ سے پہلے آپ کے خطبات سنانے شروع کئے اور وہ خطبات سنائے جن میں براہ راست کو ئی تبلیغ نہیں ہے.تربیت کے مضمون سے تعلق رکھنے والے ہیں ، عبادت کے مضمون سے ، گلف کے مضمون سے وغیرہ وغیرہ اور ان کو سننے کے بعد سننے والے کے دل میں خود ایک طلب پیدا ہوئی اور انہوں نے ہم سے مطالبے شروع کئے اور ہم نے ان کو لٹریچر دینا شروع کیا.ایک پٹھان دوست جو آزاد علاقے کے رہنے والے ہیں وہ اس وقت جمعہ میں میرے سامنے موجود ہیں انہوں نے مجھے خود بتایا ہے کہ میرے دل میں تو احمدیت کی محبت کی وجہ خطبات
خطبات طاہر جلدا 209 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء تھے.مجھے ایک احمدی دوست ایک دفعہ مسجد پہنچا گیا یہ دکھانے کے لئے دیکھو تو سہی ہم کیسے نماز پڑھتے ہیں خطبہ کیسا ہوتا ہے.اس کے بعد پھر ایسا شوق پیدا ہوا کہ ہر خطبہ میں یہیں آ کر سنتا ہوں اور ہر جمعہ یہیں ادا کرتا ہوں اُن کو سننے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گر گئی ہے کہ آپ بچے ہیں اس لئے مجھے اب اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.جو آپ کہیں گے میں ٹھیک سمجھوں گا اور ٹھیک کہوں گا اور چنانچہ وہ اللہ کے فضل سے بڑی وفا کے ساتھ احمدیت کے ساتھ تعلق میں نہ صرف قائم رہے بلکہ بڑھتے چلے جارہے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی اردگر داحمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں.تو طریق کار کا صحیح ہونا بہت ہی اہم ہے اور طلب پیدا کرنے سے پہلے دعوت دینا ظلم کے مترادف ہے.ایسی زمین میں بیچ پھینکنے کے مترادف ہے جو پتھریلی ہو جسے نرم نہ کیا گیا ہو جس پر محنت نہ کی گئی ہو جس میں نمی موجود نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے دعوت الی اللہ کرنے والے یہی روتے رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کا یہی شکوہ رہتا ہے کہ ہم تو تبلیغ کرتے ہیں کوئی سنتا ہی نہیں.کوئی سنانے والی بات کرو تو سُنے گا ناں تبلیغ کا مضمون تو تبلیغ کا ذکر کئے بغیر غالب نے بڑے عمدہ رنگ میں بیان کیا ہے.کہتا ہے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبہ دل اُس پر بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے (دیوان غالب صفحہ :۲۹۲) میں تو بلاتا ہوں مگر آئیں گے جذبہ دل سے ہی.پس اے جذ بہ دل ایسا کوئی کرشمہ دکھا کہ اُن پر ایسی بن جائے کہ اُن سے دن آئے بنے ہی نہ.تیری طرف آنے پر مجبور ہو جائیں.تو امر واقعہ یہ ہے بڑی گہری بات کر گیا ہے باتوں سے بلایا جاتا ہے مگر کھینچتا جذبہ دل ہی ہے.اگر جذ بہ دل نہیں ہوگا تو با تیں بالکل بے اثر رہیں گی.کچے دھاگے کی طرح ہوں گی ان میں کھینچنے کی کوئی طاقت پیدا نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ کتب جن کا خصوصیت کے ساتھ مشرقی یورپ اور روس کی سوسائٹی پر ایک دم گہرا اثر پڑتا ہے ان کتب میں سب سے نمایاں میں نے مسیح ہندوستان میں پائی ہے.یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے سابقہ عیسائی دنیا جود ہر یہ ہوگئی اور اشترا کی دنیا کہلاتی ہے اس کے باشندوں پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے.ایک دم گہری دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور وہ خدا کو ابھی نہیں مان
خطبات طاہر جلدا 210 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء رہے ہوتے لیکن اس کتاب میں وہ حقیقت پاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ پھر مطالبہ شروع کر دیتے ہیں.ابھی بھی جب ہم نے اپنا ایک نمائندہ روس بھیجا اور ایک نمائندہ وفد بلغاریہ بھجوایا اور دونوں کی یہی رپورٹ تھی کہ یہ کتاب فورا شائع ہونی چاہئے اور روس کی طرف سے شدت سے مطالبہ ہے.چنانچہ ہم نے یہ طبع کروائی ہے اور بھی بہت سی کتابیں طبع کروائی ہیں.اگلی بات میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ دعوت الی اللہ کرنے والے کو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اپنے منصوبے میں اس بات کو شامل کرنا چاہئے کہ کن لوگوں میں وہ زیادہ عمدگی کے ساتھ تبلیغ کرسکتا ہے.بعض لوگ رشین سپیشلسٹ ہوتے ہیں اور اُن کو پھر انہی میں دن رات کام کرنا چاہئے.دوسروں تک بھی بات پہنچانا فرض ہے لیکن جہاں زیادہ سہولت سے شکار حاصل ہوتا ہو شکاری پہلے وہیں جایا کرتا ہے اور بعض دفعہ ایک بڑے شکار کے لئے چھوٹے شکار کو چھوڑا بھی جاتا ہے.چنانچہ اچھے شکاری وہ ہیں جو جائزے لیتے ہیں کہ کہاں کہاں موجود ہیں اور ان کی مرضی کا شکار ، ایسا شکار جس کو شکار کرنے کے فن آتے ہوں وہ ماہر ہوں وہ کہاں ملتا ہے چنانچہ وہ تیزی کے ساتھ اُنہی جگہوں پر جاتے ہیں اور رستے کے شکار کو چھوڑتے چلے جاتے ہیں تا کہ وقت ضائع نہ ہو اور اصل مقصد کو نقصان نہ پہنچے.پس شکار ہے تو بظاہر مارنے والا لفظ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کر دی ہے تمثیلات کی باتیں ضروری نہیں کہ سو فیصدی اطلاق پائیں.یہ مضمون سمجھانے کی خاطر بیان کئے جاتے ہیں اور جہاں تک تبلیغی شکار کا تعلق ہے اس کا تعلق اس شکار سے ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سکھایا گیا ہے مارنے کے لئے نہیں بلکہ اپنا بنانے کے لئے.چنانچہ اس زمانہ میں خاص طور پر مغربی دنیا میں کثرت سے آپ کو ایسے شکاری ملیں گے جو پرندوں کی حفاظت کے لئے ان کو پھنساتے ہیں.Extinction سے بچانے کے لئے ، فنا سے بچانے کی خاطر وہ ان کو جالوں میں قابو کرتے ہیں اور پھر بعض دفعہ وہ ان کو خاص قسم کے ٹیکے لگاتے ہیں بعض دفعہ ایسے نشان لگاتے ہیں کہ کوئی دوسرا شخص غلطی سے ان کو مار نہ بیٹھے.کئی ذرائع اختیار کئے جارہے ہیں لیکن پہلے قابو کرتے ہیں اور ایسی مہمات بھی آپ کے دیکھنے میں آئیں گی جہاں ہاتھیوں کو بے ہوش کر کے پہلے قابو کیا جاتا ہے اور پھر ان کی بقا کے سامان کی خاطر اُن کو مناسب جگہ پہنچا دیا جاتا ہے جہاں اُن کی زندگی کم خطرے میں ہو اور خوراک وغیرہ کافی مہیا ہو تو یہ وہ طریق ہیں جن سے شکار بظاہر شکار ہے لیکن نیتیوں کے فرق کے نتیجہ
خطبات طاہر جلدا میں بہت زیادہ فرق پیدا ہو جاتا ہے.211 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء پس آپ کی نیت زندہ کرنے کی ہے، آپ کی نیت بچانے کی ہے.آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانے کے لئے مسیحا نفس بنائے گئے ہیں.اگر آپ نے زمانے کو نہ بچایا تو اس کے بچنے کے آثار نہیں ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً بتایا گیا کہ یہ لوگ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں.“ ( تذکرہ صفحہ :۴۲۶) دیکھیں کتنا پیارا اظہار ہے، زندگی کے فیشن سے ان کو زندگی کی ادائیں ہی نہیں یاد ہیں اور بظاہر فیشن میں مبتلا ہیں لیکن یہ موت کے فیشن ہیں جو قوموں کو ہلاک کر دیا کرتے ہیں.زندگی کے فیشن نہیں ہیں.زندہ رہنے کے گر ان کو یاد نہیں رہے اس لئے آپ نے ان کو زندگی کے فیشن سکھانے ہیں اور واقعہ دعوت الی اللہ زندہ کرنے کی خاطر کرنی ہے ورنہ اگر آپ نے ان کو زندہ نہ کیا تو یہ نہیں بچائے جائیں گے.آنحضرت ﷺ کے متعلق خدا تعالیٰ نے اسی لحاظ سے فرمایا کہ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال : ۲۵) یہ تمہیں زندہ کرنے کی خاطر بلاتا ہے مارنے کی خاطر نہیں.پس ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کو ہمیشہ یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہئے کہ میں نے زندہ کرنا ہے اور یہ اعلیٰ مقصد پیش نظر رہے تو اُس کے من پر اس کا بہت ہی صالح اثر پڑے گا اور اس کے نتیجہ میں اس کو خدا تعالیٰ خود بخود ایسے آداب اور ایسے اسلوب سکھلائے گا جن سے دعوت الی اللہ کرنے والے میں زندگی کے آثار دن بدن نمایاں ہونے شروع ہو جائیں گے.ایسا شخص تبلیغ کو محض دلائل میں محدود نہیں کرے گا، اس کا مقصد زندہ کرنا ہے، وہ اس کی نیکیوں کو تلاش کر کے اُن کو اُبھارنے کی کوشش کر رہا ہو گا.وہ کوشش کرے گا کہ اس کے اندر کوئی دبی ہوئی چنگاری، کوئی زندگی کی رمق موجود ہے تو اُسے ہوا دوں، اُسے پھونکوں ، اُس کو آہستہ آہستہ طاقت بخشوں اور اُس کے اندر جو ادھر اُدھر بیکا رلکڑیوں کا انبار لگا پڑا ہے اُسے اُس چنگاری کے ذریعہ ایک زندہ نور کی شکل میں تبدیل کر دوں.پس یہ وہ نکتہ ہے جسے میں خاص طور پر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آپ زندہ کرنے والے ہیں اور زندگی پیدا کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ پہلے کوئی پیغام کو تسلیم کر لے.ہر شخص کے اندر مخفی خوبیاں ہوتی ہیں.آج کل تو دیا سلائیوں اور لائیٹروں (Lighters) کے زمانے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 212 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء پرانے زمانوں میں ہندوستان میں مجھے یاد ہے عورتیں راکھ میں آگ دبا دیا کرتی تھیں اور صبح صبح خشک لکڑیاں لے کر بیچ میں سے چنگاری تلاش کیا کرتی تھیں اور اس چنگاری پر کاغذ رکھ کر یا بار یک خشک لکڑیاں رکھ کر پھونکیں مار کر اس آگ کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں.یاد رکھیں ہر انسان میں اللہ تعالیٰ نے زندگی کی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں.وہ دب جاتی ہیں بعض دفعہ راکھ کے ڈھیر کے تلے نظروں سے غائب ہو جاتی ہیں مگر ضرور ہوتی ہیں.بد سے بدآدمی میں بھی بعض ایسی خوبیاں ہیں جن ے تعلق پیدا کر کے آپ اس کو زندہ کرنا شروع کر سکتے ہیں یعنی اس شخص کی زندگی کے سامان فراہم کر سکتے ہیں.پس جب آپ کسی شخص سے ایسا تعلق پیدا کریں گے تو اُس کو آپ سے اسی قسم کا ایک تعلق پیدا ہوگا اور یہ ہ تعلق ہے جو زبان سے کسی پیغام کی طرف بلانے کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوا کرتا.ی زندگی کا گہرا تعلق ہے جس میں ایک انسان محسوس کر لیتا ہے اور اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص سچا ہے، اسے میری بقا میں دلچسپی ہے اور میری بھلائی میں دلچسپی ہے اسے مجھ سے کوئی اپنا مقصد نہیں ہے بلکہ میرے سارے مقاصد اس سے وابستہ ہیں.پس جب آپ فرض کریں کسی مریض کے پاس ہسپتال جاتے ہیں تو اس طرح ہمدردی کریں کہ اس کا ظاہری آزار دور ہو، اس کو مشورے دیں اس کا خیال رکھیں.اگر ایسے مرض کا کوئی تجزیہ ہو تو بتائیں کہ فلاں جگہ ایسا مریض شفا پا گیا اور اس تک پہنچنے میں جو مدد دے سکتے ہیں اس کو دیں.اب میں اپنی بیگم کی بیماری کے سلسلہ میں ہسپتال جاتا ہوں تو اردگرد کے مریضوں سے جن سے بھی رابطہ ہو ان کو میں مشورے دیتا ہوں آپ یہ کریں وہ کریں.میں خود تو آپ کا علاج نہیں کر سکتا کیونکہ میرے پاس لائسنس نہیں ہے لیکن آپ فلاں فلاں ڈاکٹر سے رابطہ کریں امریکہ میں یا انگلستان میں فلاں قسم کے علاج ایجاد ہو چکے ہیں اور خدا کے فضل سے اس کے نتیجہ میں مریضوں میں بڑی گہری دلچپسی پیدا ہوتی ہے اور اُن کے رشتہ داروں میں بڑی دلچسپی پیدا ہوتی ہے.بعض لوگ بعد میں پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص تھا جو یہ باتیں ہم سے کر گیا ہے تو آپ کو انسان کی ذات میں دلچسپی لینی چاہئے اور اس ضمن میں جو میں اب بات کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کی خوبیوں کو تلاش کرنا چاہئے.اس کی خوبیوں سے اپنا تعلق جوڑ نا چاہئے اور اس کی خوبیوں کی افزائش کا انتظام کرنا چاہئے اور اس کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر اس ضمن میں قیدیوں کے ساتھ رابطے میں جماعت احمدیہ کے لئے بڑے مواقع ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 213 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء کئی ایسے قیدی ہیں جن کے ساتھ احمدیوں نے رابطے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں بہت سی پاک تبدیلیاں پیدا ہوئیں.ابھی کچھ دن پہلے مجھ سے بھی ایک انگلستان کے قیدی ملنے کے لئے آئے ، وہ پیرول پر کچھ دیر کے لئے باہر آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک احمدی نے مجھ سے بات شروع کی، میں اُس کے کردار اور اُس کی گہری ہمدردی سے جو وہ میری بھلائی چاہتا تھا اور دوسرے قیدیوں کی بھلائی چاہتا تھا اس سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ میں بڑی تیزی کے ساتھ احمدیت میں دلچسپی لینے لگا.اُس نے بتایا کہ جب دوسرے مسلمانوں کو علم ہوا اور بعض مولوی بھی وہاں آتے ہیں تو انہوں نے مجھے پورے زور سے روکنے کی کوشش کی.انہوں نے کہا کہ یہ بہت گندے ہیں اور خبیث لوگ ہیں.اس سے بہتر ہے کہ تم عیسائی رہو لیکن اُن کے جال میں نہ پھنسنا.کہتا ہے میں نے اُن کو بتایا کہ تمہیں پتا کیا ہے؟ میں اُن کو جانتا ہوں اگر کوئی شرافت، نجابت انسانی قدریں ہیں تو ان لوگوں میں ہیں.اگر مذہب یہ قدریں پیدا کرنے کے لئے نہیں آتا تو مجھے ایسے مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تو تم اپنی دلیلیں اپنے پاس رکھو.میں نے تو جن کا ہونا تھا ہو چکا ہوں چنانچہ وہ بڑے خلوص کے ساتھ اور محبت کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آئے اور کہا کہ اب میں کل واپس جیل جاؤں گا اور میرا بقیہ جتنا عرصہ وہاں بسر ہوگا میں نے احمدیت کی تبلیغ کے لئے وقف رکھنا ہے تو قیدی ہوں یا اور کئی قسم کے مریض اور بیمار اور گندی عادتوں میں مبتلا اور ڈرگز (Drugs) میں پھنسے ہوئے ہیں اور کئی قسم کی مشکلات میں گرفتار لوگ ایسے ہیں کہ جن کے اندرا گر آپ دلچسپی لیں گے اور دلچسپی لیتے ہی پیغام نہیں دیں گے بلکہ دلچسپی لیتے ہوئے ان کی ایسی بھلائی کے انتظام کریں گے جس میں ان کو دلچسپی ہو تو پھر وہ منزل آئے گی کہ وہ آپ میں اور آپ کے پیغام میں دلچسپی لینے لگیں گے.ان کے اندر وہ طلب پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کو خدا تعالیٰ وہ پرندے عطا کرے گا جنہیں ابراہیمی طیور کہہ سکتے ہیں جو آپ کے ہو جائیں گے.پھر جس ماحول میں بھی جائیں گے آپ کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ آپ کے قدموں میں یا آپ کی جھولی میں آجایا کریں گے.آپ کے ہاتھوں پر بیٹھ جایا کریں گے.آپ کے ہو جائیں گے اور خدا کے ہو جائیں گے.یہ وہ نیت ہے جس کو لے کر آپ نے دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے.اس ضمن میں میں آپ کو ایک دلچسپ حدیث سناتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ
خطبات طاہر جلدا 214 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۹۲ء فرمایا کہ مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے.یہ حدیث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی اور اس کی کوئی سند نہیں ملتی تھی.میاں انیس احمد صاحب کو علمی شوق ہے آخر انہوں نے ایک کتاب سے جس کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں لیکن صحیح کتاب ہے جو مؤقر کتاب ہے سے اس سند کو تلاش کر کے مجھے بھجوایا.جب میں نے اس حدیث پر غور کیا تو مجھے تعجب ہوا کہ عمل جو نیک نیتی کے ساتھ کیا جائے وہ بہر حال بہتر ہوتا ہے.خالی نیست عمل سے بہتر کیسے ہوگی ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مضمون سمجھایا کہ اس میں گہری حکمت یہ ہے کہ مومن کی نیتیں جو دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں بہت زیادہ نیک عمل کی خواہاں ہوتی ہیں اور کسی انسان میں یہ طاقت ہی نہیں کہ اپنی خواہشوں کے مطابق اپنی ہر نیت کو عمل میں ڈھال سکے.اسی طرح بدلوگ بدی کی نیتیں بہت رکھتے ہیں لیکن کس بد کو تو فیق ملتی ہے کہ وہ ہر بدی کر سکے اسی لئے تو غالب نے یہ کہا ہے کہ ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے (دیوان غالب صفحہ: ۳۴۶) تو مومن کو نا کردہ وہ نیکیوں کی حسرت کی داد چاہئے اور کئی نیکیاں اُس کے دل میں ہوتی ہیں.نیت میں موجود ہوتی ہیں لیکن انہیں وہ کر نہیں سکتا اور اس مضمون کو جب آپ احمدی زندگی پر اطلاق کر کے دیکھیں تو آپ کو کثرت سے ایسے احمدی دکھائی دیں گے جن کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ میں بھی روس میں تبلیغ کے لئے جاؤں، میں فلاں چندے میں حصہ لوں ، وہ چند قدم بڑھ سکتے ہیں پورا کام نہیں کر سکتے ہیں.پس اس پہلو سے مومن کی نیتیں اس کے عمل سے بڑھ جاتی ہیں اور اس حدیث میں یہ خوشخبری ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ اُس کی اس نیت کا بھی ثواب دیتا ہے جو وہ کر نہیں سکا جسے وہ عمل میں نہیں ڈھال سکا.تو اپنی نیتوں کو خوبصورت اور حسین بنا دیں اور للہ وقف کر دیں.پھر دیکھیں کہ آپ کی دعوت الی اللہ میں کتنی برکت پڑتی ہے.خدا کرے کہ ہماری نیتیں زیادہ سے زیادہ عمل کے سانچوں میں ڈھل سکیں اور جو نہیں ڈھل سکیں ان کو بھی خدا تعالیٰ قبول فرمالے اور ان کا ثواب مترتب فرمائے.آمین ثم آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 215 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا انسان کی ساری زندگی سے تعلق ہے.لَيْلَةُ القدر کی قعی نشانی یہ کہ انسان میںپاک تبدیلی پیداہوئے.(خطبه جمعه فرموده ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں : حون وَالْكِتَبِ الْمُبِينِ فُ إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبُرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿ أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ رَحْمَةً مِنْ رَّبَّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ ) (الدخان:۷۲) پھر فرمایا:.رمضان ایک دفعہ پھر اپنے اس عشرے میں داخل ہو گیا ہے جس میں رمضان کی راتیں نسبتا زیادہ بھیگ جاتی ہیں اور دن بھی بھیگ جاتے ہیں.یہ وہ عشرہ ہے جو دعاؤں کی قبولیت کا عشرہ ہے اگر چہ ہر دن انسان پر دعا کی قبولیت کا دن بن کر چڑھ سکتا ہے اگر اسے کچی تو بہ اور استغفار کی توفیق ملے لیکن یہ وہ دن ہیں جو خصوصیت کے ساتھ قبولیت دعا کے دن کہلاتے ہیں اور یہ وہ راتیں ہیں جو خصوصیت کے ساتھ قبولیت دعا کی راتیں کہلاتی ہیں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں یہی خبر دی ہے کہ ان راتوں میں گویا خدا اپنے بندوں کے زیادہ قریب آجاتا ہے.ان راتوں کے ساتھ کچھ خاص تقدیریں وابستہ ہیں اور ان تقدیروں کو انقَدرِ کے طور پر قرآن کریم نے بیان
خطبات طاہر جلدا 216 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء فرمایا ہے.الْقَدْرِ سے مراد سارا نظام تقدیر بھی ہے اور اس کے اور بھی بہت سے معنی ہیں جن سے متعلق میں مزید کچھ گفتگو کروں گا.مگر یہ وہ راتیں ہیں جن میں انسان کی تقدیر بنائی جاتی ہے اور انسان اس تقدیر کے بننے کی راہ میں روک بھی بن جاتا ہے اور خود اپنے مقدر کو بگاڑ بھی لیتا ہے اور خدا تعالی کی طرف سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کس کا مقدر بنا ہے اور کس کا بگڑا ہے.ان معنوں میں بھی لیلتہ القدر کا تعلق ساری انسانی زندگی کے ماحصل سے ہے اور انہی معنوں میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرِ کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے.ہزار مہینہ انسان کی اوسط زندگی کو ظاہر کرتا ہے اور قدر کی ایک رات جس میں انسان کی تقدیر بن جائے وہ اس کی ساری زندگی سے بہتر ہے کیونکہ اس کی ساری زندگی کی غفلتیں ، اس کے گناہ اس رات دھوئے جاسکتے ہیں اور اگر یہ رات اسے نصیب نہ ہو تو ساری زندگی باطل ٹھہرتی ہے.لیلتہ القدر جس کی تلاش کا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے آخری عشرے میں طاق راتوں میں حکم دیا ہے اس کا ایک تعلق تو فرد کے ساتھ ہے اور ایک معین رات کے ساتھ ہے یعنی ایسی رات آتی ہے جس میں قبولیت کا ایک خاص لمحہ انسان کو عطا کیا جاتا ہے اور یہ رات ایک معین رات بن کر آتی ہے اور آخری عشرے میں اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں ،ستائیسویں یا انیسویں رات لیلۃ القدر ہوسکتی ہے.فرمایا اس کو تلاش کرو جس کا مطلب یہ ہے کہ آخری عشرے میں غیر معمولی طور پر جد و جہد کرو اور اپنی کمریں کسی لو جیسا حضرت محمد ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آخری عشرے میں اپنی کمر کس لیا کرتے تھے.( بخاری کتاب الصلوۃ التراویح حدیث نمبر ۱۸۸۴) پہلے بھی بہت عبادت کرنے والے تھے مگر عبادت کا جوش آخری عشرے میں ظاہر ہوتا تھا اس کی کوئی مثال نہیں، اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا.اور تلاش کرو کہ تمہیں بھی نصیب ہو جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رات ہے تو معین لیکن ہر شخص کے مقدر میں نہیں ہے اور قدر کے ایک معنی یہ بھی اس رات پر صادق آتے ہیں کہ یہ رات خود بخود ہاتھ بڑھا کر ہر ایک کو نصیب نہیں ہو سکتی بلکہ یہ رات خود فیصلہ کرے گی کہ میں نے کس کا مقدر بنا اور کس کا مقدر نہیں بنتا.پس ان معنوں میں افراد کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے.ایک معین رات آتی ہے معین اشخاص کو نصیب ہوتی ہے اور بہت سے ہیں جو بدنصیبی میں محروم رہ جاتے ہیں.اس کی پہچان میں نور کی تلاش کی بہت باتیں کی جاتی ہیں اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ روشنی
خطبات طاہر جلدا 217 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء نازل ہو، آسمان میں بادل ہوں، چھینٹے پڑیں اور خاص قسم کی روشنی کا آپ مشاہدہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مغفرت کی رات ہے، بخشش کی رات ہے اور پاک تبدیلی کی رات ہے، یہ نور ہے جس کو تلاش کرنا چاہئے اور یہ نور ظاہری طور پر بھی متمثل ہو سکتا ہے اس سے انکار نہیں لیکن یہ دل میں ایک شعلے کے طور پر گرتا ہے اور جس کے دل پر یہ نور نازل ہو وہ جان لیتا ہے کہ آئندہ اس کی زندگی ایک تبدیل شدہ زندگی ہے، اس پر ایک انقلاب آچکا ہے پہلی زندگی نہیں رہی اور پہلی زندگی جس کے مقابل پر ایک رات دکھائی دیتی ہے جس کے آخر پر وہ تو بہ اور قبولیت کی فجر نمودار ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا گیا کہ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ کہ مَطْلَعِ الْفَجْرِ تک یہ رات جاری رہے گی یعنی قدر کا آخری مقام مَطْلَعِ الْفَجْرِ ہے اور یہ مَطْلَعِ الْفَجْرِ جس کو نصیب ہو جائے گویا اس کو قدر کی رات مل گئی اگر مطلع فجر نہ ہوا تو اندھیرا تو اس کے مقدر میں رہا لیکن قدر کی رات نصیب نہ ہوئی.لیل اور لیلۃ میں ایک فرق ہے جو مرزوقی نے خصوصیت سے بیان کیا ورنہ بہت سے اہل لغت یہ کہتے تھے یا کہتے رہے ہیں اب بھی کہتے ہوں گے کہ لیل اور لیلۃ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن مرزوقی نے بہت ہی حکمت کی بات ہے.مرزوقی نے کہا کہ لیل اور لیلۃ مشترک معنی بھی رکھتے ہیں.دن کے مقابل پر رات نہار کے مقابل پر لیل ممکن ہے کہ اسی طرح ہم وزن اور ہم معنی ہوں جیسے یوم کے مقابل میں لیلہ کہا جاتا ہے.لیکن مرزوقی نے کہا کہ حقیقت میں جس طرح لیل اور نھار کا جوڑ ہے اسی طرح یوم اور لیلہ کا جوڑ ہے اور ان دونوں کے اندر مشترک معنی پائے جاتے ہیں.نہار ایک عام دن کو کہتے ہیں، زمانے کو نہیں کہتے چنانچہ قرآن کریم میں آپ کو کہیں بھی نہار کا لفظ ایک وسیع زمانے پر اطلاق پاتا ہوا دکھائی نہیں دے گا لیکن یوم کا لفظ قرآن کریم میں ہمیشہ ایک معین دن سے بہت بڑھ کر ایک پھیلے ہوئے وسیع زمانے کو ظاہر کرنے کے لئے بیان فرمایا گیا چنانچہ چھ ایام میں زمین و آسمان کی پیدائش یہ ظاہر کرتا کہ بہت وسیع زمانے سے بھی یوم کا تعلق ہے.پھر قرآن کریم میں ایسے یوم کا ذکر فرمایا جو اس شمار کے مطابق جو ہم کرتے ہیں ایک ہزار سال کی مدت کے برابر ہے.پانچ ہزار سال کا دن بھی بتایا گیا اور پچاس ہزار سال کا یوم بھی بیان کیا گیا تو اگر مرزوقی کی بات درست ہے اور یقینا درست ہے تو لیلہ میں بھی اسی طرح وسعت پائی جائے گی اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ وسیع زمانہ پایا جائے گا.218 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء الله آنحضرت ﷺ کے پیغام کا اور قرآن کریم کا کسی ایک معین رات سے جو نہ ہار کے مقابل کی لیل ہو تعلق نہیں ہے بلکہ ایک ایسی وسیع رات سے تعلق ہے جس کے مقابل پر یوم آتا ہے اور جو وسیع زمانہ رکھتی ہے.افراد کو تو ایک رات کا ایک لمحہ نصیب ہو جائے تو ان کی زندگی بن جاتی ہے اور ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے مگر حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا مقصد اس سے بہت زیادہ وسیع تھا اس لئے آپ کے اوپر لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا مضمون اپنی پوری وسعت اور اپنی پوری شان کے ساتھ چسپاں ہوگا اور ہرگز اسے ایک عام انسان کے اوپر صادق آنے والے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے مضمون کے مساوی قرار نہیں دیا جا سکتایا مشابہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا.یہ وہ معنی ہیں جن کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی اور فرمایا کہ لیلہ سے مراد حضرت محمد ﷺ کی نسبت سے یہ بنتی ہے کہ سارا زمانہ معصیتیوں اور دکھوں میں کلیۂ ڈوب چکا تھا.ایسی مصائب کی رات تھی ، ایسی گناہوں کے غیر معمولی طور پر بڑھ کر چھا جانے کی رات تھی گویا ظلمت ہر جگہ مسلط ہو چکی تھی.ان اندھیروں میں محمد مصطفی ﷺ کا نور چمکا اور یہ اس رات کی فجر تھی یعنی حضرت محمد مصطفی ملے پر جواللہ کا نور نازل ہوا ہے.یہ وہ نور ہے جس نے رات کی تقدیر بدلی اور حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ میں محمدمصطفی ﷺ کا طلوع مراد ہے اور اس کی نسبت سے حضور اکرم ﷺ کو سورج بیان فرمایا گیا ہے جبکہ دیگر انبیاء کو مختلف القابات ملے ہیں.سورج کا لفظ خصوصیت کے ساتھ حضرت محمد مصطفی مے کے لئے مقدر فرمایا گیا.اور اس میں یعنی خدا کے اس فیصلے میں کہ محمد مصطفی ﷺ کو سورج بیان فرمایا گیا لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے معنی اور فجر کے معنی مضمر ہیں.لیل کبھی نصف دنیا پر آتی ہے کبھی دوسری نصف دنیا پر آتی ہے اور سورج وہ ہے جو دونوں دنیاؤں کی قسمت بدل دیتا ہے، دونوں دنیاؤں کے اندھیروں کو باطل کر کے دن چڑھا دیتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو عالمی انقلاب بر پا فرمانا تھا اس کا تعلق زمین کے کسی ایک خطہ سے نہیں تھا بلکہ تمام کائنات پر جو رات چھا جانی تھی اور چھا چکی تھی.چھا جانے کے معنوں پر میں مزید روشنی ڈالوں گا جو رات چھا چکی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے میں اس مضمون کو شروع کرتا ہوں.وہ ایسی رات تھی جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : ۴۲ ) یعنی خشکی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 219 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء اور تری سارے فساد سے بھر گئے تھے اس رات کو قدر کی رات کیوں قرار دیا گیا جو گنا ہوں اور ظلمات کے دنیا پر غیر معمولی طور پر چھا جانے اور اس کو مغلوب کرنے کی رات تھی اس لئے کہ قدر کی رات میں خدا نے آخر اس رات کی سن لی اور اس رات کو دن میں تبدیل کرنے والا سورج چڑھا دیا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ ک فجر ظاہر ہوئی.ان معنوں میں آنحضور ﷺ منبر بن کر دنیائے معصیت پر طلوع ہوئے اور جس نے بھی آنحضور ﷺ کی روشنی کے حصول کے لئے اپنے کواڑ کھولے، اپنے روشندان کھول صلى الله دیئے، اپنے دل کے دریچے کھول دیئے ، اس نے آنحضور ﷺ کے نور کو پالیا اور اس کے تمام اندھیرے روشنیوں میں بدل گئے، جس نے اس نور کے سامنے آنے سے گریز کیا یا اس نور کی روشنی کے قبول کرنے میں اپنی ذات کے خلاف خساست سے کام لیا اور کنجوسی سے کام لیا کچھ کونوں پر پر دے ڈال رکھے اور کچھ حصے اس نور کے لئے پیش کر دیا ان کی حالت ملی جلی سی حالت ہے.آنحضور مالیہ کے فیض سے کسی حد تک فیضیاب ہوئے اور کچھ اندھیرے کونے باقی رکھ دیئے.ان سے کیا سلوک ہوگا اس کے متعلق قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی مغفرت فرما دے، چاہے تو ان کو پکڑ لے ان کا معاملہ محفوظ معاملہ نہیں ہے اور ان کے لئے مقام خوف موجود ہے.پس اس مقام خوف کو دور کرنے کے لئے یہ رات آتی ہے جو انفرادی پیغام بن کر آتی ہے.امت محمدیہ ہے میں بھاری تعداد ایسے انسانوں کی ہے جو مقام خوف پر موجود ہیں.آنحضرت ﷺ صلى الله کے نور کی پوری طرح قدر نہیں کر سکے ، ان کی زندگی کے بہت سے گوشے اندھیرے ہیں، اُن کے بہت سے اخلاق تاریک اخلاق ہیں اور وہ ان اخلاق کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کے نور کو منعکس نہیں کرتے بلکہ اپنی ذات کی تاریکیوں کو اخلاق کی شکل میں دنیا پر ظاہر کر رہے ہوتے ہیں.پس یہ ایک قسم کا ایک مجموعہ تضاد بن جاتا ہے.کچھ نور ہے جو حضور اکرم کی نمائندگی میں ظاہر ہو رہا ہے اور کچھ اندھیرے ہیں جو اپنی ذات سے پھوٹ رہے ہیں.اس کیفیت میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت مبتلا ہے.ان کے لئے صبح کیسے نازل ہوگی، ان کے اندھیرے کس طرح روشنیوں میں تبدیل کئے جائیں گے.اس کے جواب کے طور پر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ لیلتہ القدر ایک نعمت عطا ہوئی ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ تم سارا سال جتنی کوشش کرتے ہو، ساری زندگی جتنی کوشش کرتے ہو اور تم ان کوششوں کے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہو، تمہارے لئے مایوسی کی کوئی بات نہیں ، جس
خطبات طاہر جلدا 220 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء ذات کو میں نے دنیا کے اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنے کے لئے بھیجا ہے اس ذات پر جس رات میں نے یا جن راتوں میں میں نے قرآن کریم کا نزول فرمایا یہ راتیں مجھے اتنی پیاری ہیں کہ اگران راتوں میں اُٹھ کر میرا کوئی بندہ مجھ سے کامل خلوص کے ساتھ بخشش طلب کرے گا اور اپنے پرانے گناہوں سے تائب ہوتے ہوئے میرے غفران کی چادر میں لپٹنے کے لئے بے چین ہو جائے گا تو میں اس سے وعدہ کرتا ہوں یہ رات اس کی زندگی کی تمام راتوں اور تمام دنوں سے بہتر ہوگی اور وہ اپنی زندگی کے مقصود اور مطلوب کو پا جائے گا.پس آنحضرت ﷺ کی زندگی کا مقصود اور مطلوب دونوں دنیاؤں کو روشن کرنا اور ہر زمانے کے لئے روشن کرنا اور ہر زمانے کے لئے روشن کرتے چلے جانا تھا اور افراد کے لئے پیغام یہ تھا کہ وہ ایسی رات کو تلاش کریں جس سے ان کی ساری زندگی روشن ہوتی چلی جائے.چنانچہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا دور یعنی اس آخری عشرے کا دور ہمارے لئے وہ مبارک رات لے کر آتی ہے.لیکن افسوس ہے کہ ہم اکثر خاص راتوں میں سے گزرنے کے اس عشرے کی خاص راتوں میں سے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کو تلاش کرتے ہوئے گزرنے کے باوجود پھر واپس اپنی تاریک راتوں میں لوٹ جاتے ہیں.وہ تاریک راتیں جو ہمارے اپنے گناہوں اور اپنی کمزوریوں کی راتیں ہیں جن کو لیلتہ القدر نہیں کہا گیا جو صرف راتیں ہی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ قدر کی کوئی خوشخبری نہیں دی گئی.پس یہی وہ راتیں ہیں جو قدر کی راتیں ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی تقدیر خیر بھی ظاہر ہوتی ہے اور تقدیر شر بھی.تقدیری شران بدنصیبوں کے لئے جو ان راتوں سے فائدے اٹھائے بغیر ان سے گزر جاتے ہیں اور تقدیر خیر ان کے لئے جو ان راتوں میں سے کوئی ایک ایسا لمحہ پا جاتے ہیں جس کی چمک دمک، جس کی لماس ان کی ساری زندگی کی تاریکیوں کو روشن کر دیتی ہے.پس یہ وہ خاص مبارک راتیں ہیں جن میں ہم داخل ہو چکے ہیں اور جماعت احمدیہ کو ان کی طرف خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے اور ہم میں سے ہر شخص کو انفرادی طور پر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان راتوں سے گزر کر وہ ایک نیا انسان بن کر نکلے اور اس کی اپنی تاریک راتیں ہمیشہ کے لئے اُس سے منہ موڑ لیں اور حضرت محمد مصطفی سے کا سورج ہمیشہ کے لئے اس پر روشن ہو اُس کے ہر تاریک گوشے کو روشنی میں تبدیل فرما دے.دوسرا معنی جو زمانے کے ساتھ تعلق رکھنے والا جو معنی ہے اس کی تکرار کی طرف قرآن کریم
خطبات طاہر جلدا 221 خطبه جمعه ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء میں اشارہ ہے.اس لئے میں نے آج کی تلاوت کے لئے سورۃ قدر کو نہیں چنا بلکہ سورۃ دخان کی ان آیات کو چنا ہے جن میں لیلۃ القدر کے دوبارہ ظہور کا ذکر فرمایا گیا ہے.اور یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ آئندہ زمانے کے اندھیروں کو بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت ثانیہ کے ذریعہ روشنی میں تبدیل فرمایا جائے گا اور یہ آنحضرت ﷺ کا ہی فیض ہوگا اور حضور اکرمہ کا ہی نور ہوگا جو دوبارہ آخری صلى الله زمانے میں چمکے گا.سورۃ دخان میں ان آیات کو رکھنے میں ایک بڑی حکمت ہے.سورۃ دخان وہ سورۃ ہے جو اندھیروں سے تعلق رکھتی ہے.جس کے متعلق فرمایا گیا کہ دھواں دنیا پر چھا جائے گا اور بڑا مہلک دھواں ہوگا.مادی لحاظ سے بھی وہ مہلک دھواں ہوگا.اس کی Radiation زندگی کو ہلاک کرنے والی ہوگی اور روحانی لحاظ سے بھی ایک ایسی تہذیب کا دھواں ہوگا جو ساری دنیا کو روحانی ہلاکتوں میں مبتلا کر دے گا.جس پر اس دھوئیں کا سایہ آیا اس کے لئے روحانی موت کا پیغام بن کر آئے گا اور جس نے اُس کو قبول کیا اور اُس سے محفوظ نہ رہا اُس کی اُخروی زندگی گویا کہ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہوگئی.ایسے موقع پر کوئی خوشخبری بھی تو ہونی چاہئے تھی، کوئی بچنے کی راہ بھی تجویز ہونی چاہئے تھی.آنحضرت ﷺ نے دجال سے ڈرایا اور سورۃ دخان کے مضمون کو دجال کے ساتھ باندھا اور ہمیں اس بات کی عقل عطا فرمائی کہ دجال کا زمانہ سورۃ دخان میں بیان ہوا ہے اور اس کے بچنے کے لئے ہمیں بہت سی نصائح فرمائیں.اُن نصائح میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم دقبال کے زمانے سے بچنے کے لئے سورۃ کہف کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات کی تلاوت کیا کریں کیونکہ ان میں دجال کی دونوں حیثیتوں کی نشان دہی ہوتی ہے.اس کے مذہب کی بھی کھلے کھلے لفظوں میں تعیین کی گئی ہے اور اس کی سائنسی ترقی کا بھی آخری آیات میں ذکر ہے.يُحْسِنُونَ صُنعًا (الکہف:۱۰۵) کہہ کر فرمایا کہ وہ صنعت و حرفت میں اتنی حیرت انگیز ترقی کرے گا کہ وہ خود بڑے فخر سے یہ سمجھا کرے گا اور سوچا کرے گا کہ دیکھو میں کس شان کا خالق بن گیا ہوں.کیسی کیسی عجیب اور عظیم صنعتیں پیدا کر رہا ہوں گویا وہ خدا کے مقابل پر خدائی کا دعویدار بھی بن بیٹھے گا.ایسے موقع پر دجال کے دوفتوں سے بچنے کی طرف اشارہ فرمایا گیا.ایک فتنہ مذہب کا فتنہ ہے یعنی خدا کے ساتھ شریک ٹھہرا لینا اور عاجز بندہ کو واقعہ خدا کا بیٹا قرار دے دینا اور دوسرا فتنہ ان کی تہذیب اور تمدن اور صنعتوں کے نتیجہ میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 222 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء پھیلنے والے شر کا فتنہ ہے.پس اس موقع پر ان سے بچنے کے لئے کیا ظہور پذیر ہوگا.فرمایا کہ گویا ایک اور لیلۃ القدر جو محمد مصطفی نے کی لیلتہ القدر ہے آخری زمانہ میں بھی ظاہر ہوگی اور اُس زمانے کی بھی سنی جائے گی.اس مضمون کو قرآن کریم میں مختلف جگہ پر مختلف رنگ میں بیان کیا گیا ہے.چنانچہ ایک جگہ فرمایا: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ (العصر : ۴۲) یعنی زمانے کی قسم کہ سارا زمانہ گھاٹے میں چلا گیا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۴۲) کا نقشہ ہے لیکن ایک استثنیٰ کے ساتھ.یہ اُس زمانے کی بات ہے جب محمد مصطفی اے کے ماننے والے بھی موجود ہوں گے اور اُن کا استثنیٰ فرمایا گیا اس لئے اگر آپ بار یک نظر سے دیکھیں تو یہ دو مختلف زمانے کی باتیں ہیں.ایک وہ زمانہ ہے جس کے متعلق فرمایا کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ اور وہ زمانہ ہے جبکہ اس فساد کو دور کرنے کے لئے ایک ہی سورج ظاہر ہوا ہے اور وہ محمد مصطفی میر کا سورج ہے اور اُس کی شعاعوں اور اُس کی روشنی کے نتیجہ میں پھر نورانی وجود پیدا ہونے شروع ہوئے لیکن جب محمد مصطفی میل ہے ظاہر نہیں ہوئے جب تک آپ کی فجر طلوع نہیں ہوئی یہ رات مکمل رات تھی.مگر آخری زمانے کی جس رات کا ذکر سورہ عصر میں فرمایا گیا اس میں مستخئی ساتھ ہی کر دیا اور اس میں ایک یہ بھی خوشخبری ہے کہ آنحضور کے ماننے والوں پر قیامت تک کوئی ایک ایسا دور نہیں آئے گا جس میں کچھ مومن اور کچھ صالحین ایسے نہ ہوں جن کو خدا تعالیٰ ہلاک ہونے والوں سے مستقلی قرار نہ دے دے.لازماً قیامت تک محمد رسول اللہ ﷺ کا نور کسی نہ کسی شکل میں ضرور زمین پر جلوہ گر رہے گا اور ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آسکتا خواہ سارا زمانہ تاریکیوں میں ڈوب جائے کہ وہ تاریکیاں اس نور کو بھی غرق کر دیں یہ ضرور چمکتا رہے گا اور امید کی کرنیں دنیا کو عطا کرتا رہے گا.پس وَالْعَصْرِ نے جس اندھیری رات کا ذکر فرمایا وہاں لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے مضمون کو ایک اور رنگ میں بیان فرمایا ہے.فرمایا روشنی پوری طرح مٹی نہیں ہے ابھی موجود ہے.تم ٹولو اور دیکھو، اپنے دل کو ٹول کے دیکھوا اگر تم مومن ہو اور خدا کے پاک رسول محمد مصطفی ﷺ سے وابستہ ہو تو تم میں سے ہر ایک کے اندر استثناء کے امکانات موجود ہیں اور وہ استثناء کامل اس طرح بنے گا کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحُتِ.ایسے لوگوں کو مستثنیٰ کیا جائے گا جوصرف آنحضور
خطبات طاہر جلدا 223 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء پر ایمان ہی نہیں لاتے بلکہ عمل صالح سے اُس ایمان کی تصدیق کرتے ہیں اور پھرا کیلے نہیں رہتے بلکہ اجتماعی کوشش کرتے ہیں.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.تو اُن کے ذریعہ رات کس طرح تبدیل کی جائے گی اور وہ کیسے تبدیل کی جاتی ہے اس مضمون کو بیان فرمایا.وہ ایسے بندے ہوں گے جو گھاٹے والے زمانہ سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن استثناء صرف اُن کی ذات تک محدود نہیں رہے گا.وہ اسی بات پر راضی نہیں رہیں گے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے مستثنیٰ کر دیا اور ہم ہلاک الله ہونے والے نہیں بلکہ اُن کی صفات یہ بیان فرمائیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والے ہیں، نیک اعمال کرنے والے ہیں اور ان دونوں باتوں کو اپنی ذات تک محدود رکھنے والے نہیں بلکہ دعوت الی اللہ کرنے والے ہیں، اپنی خوبیوں کو زمانے میں پھیلانے والے اور اپنی نیکیوں کو دنیا میں بانٹنے والے ہیں اور اُن کا طریق کیا ہے؟ فرمایا وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ.نیک نصیحت اُن کے پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہے.کوئی تلوار اُن کے ہاتھ میں نہیں کوئی نیزے کی انی اُن کے پاس نہیں ہیں جس سے ڈرا کر اور سینوں کو چھید کر وہ دلوں میں ایمان داخل کریں.وہ نیک نصیحت کرنے والے لوگ ہیں اور نیک نصیحت ایسی جو حق کے ساتھ کرتے ہیں، حق بات کی کرتے ہیں اور حق پر قائم رہتے ہوئے نیک نصیحت کرتے ہیں اور پھر دنیا خواہ سنے یا نہ سنے مایوس نہیں ہوتے اور اپنی نصیحت پر قائم رہتے ہیں اور مستحکم رہتے ہیں، ان کے پائے ثبات پر لغزش نہیں آتی.وہ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی کیسے ان کی نصیحت کا جواب دیتا ہے، نیک نصیحت کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ فرمایا وَتَوَاصَوْا بِالصّبرِ.وہ صبر کے ذریعہ نیک نصیحت کرتے ہیں مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں.کبھی نہیں تھکتے اور پھر دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں.جس کا مطلب ہے کہ وہ زمانہ بہت سے دکھوں میں مبتلا ہوگا اور اُن انسانوں کو صبر کی تلقین کرنا اُن کی اُمیدوں کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہوگا.پس وہ خود بھی خدا کے صابر بندے ہیں، نیک نصیحت پر صبر کر کے بیٹھ رہتے ہیں ، حق بات کی نصیحت کرتے ہیں اور وہ لوگ جو بے چین ہوتے ہیں کہ زمانے کا کیا بنے گا اور ان کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ یہ وہ نور ہے جو ضائع ہونے کے لئے نہیں آیا ہے، یہ وہ نور ہے جس کی سرشت میں ناکامی نہیں لکھی گئی.یہ لازماً غالب آنے والا نور ہے کیونکہ یہ وہی نور ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے پہلے بیان فرمایا ہے کہ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ کہ فجر تولا ز ما طلوع ہوگی اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 224 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء صلى الله محمد مصطفی ہے جن کے وجود سے یہ اندھیری رات ایک قدر کی رات میں تبدیل ہوئی ہے وہ بالآخر اس روشنی پر منتج ہو جائے گی جسے فجر کی روشنی کہا جاتا ہے جو سارے عالم کو ڈھانپ لیتی ہے اور یہ روشنی آدھے زمانے کے لئے نہیں رہے گی بلکہ یہ دن دوسری دنیا پر بھی چڑھے گا اور لازماً اس کے نور سے تمام دنیا استفادہ کرے گی.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم کی مختلف آیات کے اکٹھے مطالعہ سے بلاشبہ بڑے واضح طور پر روشن ہوتا ہے.یہ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں اور جن کا سورۃ دخان سے تعلق ہے ان کا آنحضرت ملے کی آخرین میں بعثت سے تعلق ہے جس کی خوشخبری سورہ جمعہ میں دی گئی تھی اور اسی لئے اس لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے دوبارہ ذکر کو سورہ دخان کے ساتھ وابستہ فرمایا گیا کیونکہ اس سورۃ میں ایک بہت ہی خطرناک عالمی اندھیرے کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حق حمد اور محمد والا خدا ہے.والكتب الْمُبِينِ اور اس کھلی کھلی کتاب کی قسم ، اس کھلی کھلی کتاب کی گواہی ہے.اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبُرَكَةِ کہ ہم نے اس قرآن کو جو صاحب حمد اور صاحب مجد خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ایک ایسے تاریک زمانہ میں اُتارا ہے جسے برکت دی گئی ہے.تاریک ہوتے ہوئے بھی وہ برکتوں کا زمانہ ہے کیونکہ تاریک راتوں میں جو روشنی پا جاتا ہے اس سے بڑھ کر مبارک اور کوئی نہیں ہوسکتا.دن کے ظاہر ہونے پر جو روشنی پاتے ہیں وہ روشنی تو ہر کس و ناکس کو مل جاتی ہے مگر اصل برکتیں ان لوگوں کے مقدر میں ہوتی ہیں جو اندھیری راتوں میں روشنیاں پا جاتے ہیں تو فرمایا ایک ایسی لمبی طویل رات کا زمانہ آنے والا ہے جس کے متعلق ہم تمہیں پہلے سے ہی خوشخبری دیتے ہیں کہ اس رات کے تمام دکھوں کا علاج قرآن کریم میں ہے جو حمید اور مجید خدا کی طرف سے نازل کیا گیا.اسی کتاب کے نزول نے آنحضرت میلہ کے طفیل دنیا کی اندھیری راتوں کو مبارک راتوں میں تبدیل کر دیا ہے لیکن یہ مبارک راتیں صرف اُن کے لئے مبارک ہوں گی جو قر آن کریم کی روشنی سے فیض اٹھا ئیں.باقیوں کے لئے تو وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسُر کی تقدیر جاری و ساری رہے گی.پھر فرمایا.إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ اب دیکھیں خدا تعالیٰ کا کلام کیا فصیح و بلیغ ہے.لَيْلَةٍ مُبرَكَةِ کے بعد بظاہر یہ آنا چاہئے کہ خوش ہو جاؤ ، مبارک راتوں کا زمانہ آ گیا ہے لیکن فرماتا ہے.اِنَّا كنا مُنْذِرِينَ.ہم تمہیں ڈرا رہے ہیں.پیغام کو سمجھو ، راتیں راتیں ہی ہیں اور ان کے خطرات اسی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 225 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء طرح ہی ہیں.ہم یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ حضرت محمدمصطفی امیہ سے تعلق جوڑ کر تمہاری ظلم کی اندھیری راتیں مبارک راتوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں لیکن تمہیں ضرور کچھ کرنا ہوگا اگر تم کچھ نہیں کرو گے اور کوشش نہیں کرو گے اور محنت کر کے محمد رسول اللہ اللہ کے نور سے تعلق نہیں باندھو گے تو پھر تمہاری راتیں مبارک راتیں نہیں بن سکیں گی تو مُنذِرِینَ کہہ کر یہ بات بیان فرما دی اور پھر انگلی آیت میں فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ میں اسی مضمون کو مزید وضاحت سے بیان فرمایا.چنانچہ فرمایا کہ یہ کیسی راتیں ہیں.یہ کیسا دور ہے جس میں قرآن کریم نازل فرمایا گیا ہے.یہ ایسا دور ہے جس میں فرق کر کے دکھایا گیا ہے.فرمایا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ يُفْرَقُ کا مطلب ہے کھول کر بیان کر دیا گیا تشہیر کر دی گئی اور فرق کر کے تمیز کر کے دکھا دیا گیا.کس بات میں؟ أَمْرِ حَكِيْمٍ میں.حکمت والے امر میں یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کا جوامر نازل ہوا ہے اس میں ہے اور پھر آمد کا مطلب تقدیر بھی ہے ہر اہم بات جس کا انسان سے تعلق ہے امرالہی سے تعلق رکھتی ہے اور آمر کا مطلب حکومت بھی ہے.پس صاحب حکومت ،صاحب قدر، صاحب جلال خدا کی طرف سے جس کے سامنے تمام دنیا بالکل بے اختیار اور بے حیثیت ہے.جس کا امرِ چلتا ہے کسی اور کا امرِ اُس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا.وہ جب اپنا آمد جاری فرماتا ہے تو کوئی صاحب امر رہتا نہیں ہے.اندھیروں میں، اپنی جہالتوں میں بسنے والے لوگ بعض دفعہ اپنے آپ کو صاحب امر سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تھوڑی دیر کے لئے امرِ عطا ہوا ہے اب ہم ہی صاحب امر ہیں مگر قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ امر صرف خدا کے لئے ہے اور جب خدا اپنا امرِ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو سارے امرِ باطل ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ ہم نے فرق کر کے دکھانے والا کلام نازل فرمایا ہے.ایسا کلام جس میں ہر ایسے معاملے میں فرق کر کے دکھایا گیا ہے جو صاحب حکمت ہے اور انسان کی تقدیر سے اس کا تعلق ہے.ہر آمر حکیم کو ہر بدامر سے الگ کر کے دکھایا گیا ہے یہ معنی ہیں یعنی حکمتوں کے خزانے لٹائے گئے ہیں اور ان میں کوئی بھی کنجوس نہیں کی گئی.كُلُّ اَمْرٍ حَكِیمِ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی مصالح اور اس کے فوائد کے لئے جتنی بھی حکمتیں ضروری تھیں ان حکمتوں سے تعلق میں تمام امور بیان فرما دیئے گئے اور کھول کر فرما دیئے گئے یعنی انسان کی تمام ضرورتیں
خطبات طاہر جلدا 226 خطبه جمعه ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء قرآن کریم نے پوری دیں اور جس انسان کی ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں اس کو کسی رات کا کیا ڈر رہتا ہے.یہی وہ قرآن ہے جو لیلة یعنی اندھیروں کے زمانوں کو ایک دائمی روشنی کے زمانے میں صلى الله تبدیل کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ پر یہ کلام نازل ہوا آنحضور ﷺ اسی لحاظ سے خدا کا نور کہلائے یعنی آپ میں اور کلام میں حقیقہ کوئی فرق نہیں رہا.جیسا کلام الہی تھا ویسے آپ بن گئے.جن سانچوں میں کلام الہی انسان کو ڈھالنا چاہتا ہے حضرت محمد مصطفی رہتی ہے انہی سانچوں میں ڈھلتے چلے گئے.کلام مجسم نور تھا.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ بھی مجسم نور ہو گئے اور یہ وہ نور ہے جو لَيْلَةُ الْقَدْرِ کو دکھائی دینا چاہئے یعنی محمدمصطفی ﷺ کا نور ، کلام الہی کا نور جو درحقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس آپ اگر ایک ظاہری چمک کو ، ایک بجلی کی چمک کولیلۃ القدر سمجھ کر اپنی ذات میں خوش ہوتے رہیں تو آپ کی مرضی ہے جو چاہیں سوچیں اور جو چاہیں کریں لیکن وہ نور جو دل پر نازل نہیں ہوتا تو جیسا کہ میں نے کھول کر بیان کیا ہے قرآن کا نور اور محمد مصطفی ﷺ کا نور ہے وہ نورا اگر آپ کو نصیب نہیں ہوتا تو ہزار بجلیاں آپ پر چمکتی رہیں آپ کے لئے یہ روشنی کا پیغام نہیں بلکہ ہلاکت کا پیغام لے کر آئیں گی آپ کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے والی ہوں گی ، آپ دھوکوں میں مبتلا ہو جائیں گے نفس کے اندھیروں میں اور زیادہ ڈوب جائیں گے.آپ سمجھیں گے کہ آپ اہل اللہ بن گئے ہیں.اس رات ولی بن کر اُبھرے ہیں لیکن اگر دل نے یہ گواہی نہ دی کہ آپ پر کلام الہی کا نور نازل ہوا ہے، آپ کے اندر ایک پاک تبدیلی کی گئی ہے اور محمد مصطفی سے آپ کا ایک اٹوٹ رشتہ جوڑ دیا گیا ہے تب تک یہ ظاہری علامتیں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.ہاں اگر یہ نصیب ہو جائے تو اور پھر بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پیار اور محبت کے سلوک کے اظہار کے طور پر یہ ظاہری علامتیں بھی ظاہر فرماتا ہے.قادیان میں بچپن کے زمانہ میں مجھے یاد ہے کہ لَیلَةُ الْقَدْرِ کی راتوں کی صبح اکثر لوگ سوال کیا کرتے تھے کہ کچھ ظاہر ہوا لیکن بزرگ صحابہ، عارف باللہ لوگوں سے جب بھی یہ سوال کیا گیا ہے تو انہوں نے اپنی قلبی کیفیت کو نشان بتایا ہے اور ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ دل پر جو کیفیت طاری ہوئی ہے وہ ایک انشراح کی کیفیت تھی ، انبساط کی کیفیت تھی ، روحانی سرور کی کیفیت تھی اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے کچھ ظاہری نظارے ایسے بھی دکھائے جن سے اندرونی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 227 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء کیفیتوں کو مزید تقویت ملی لیکن بچے بعض دفعہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جی ہم نے لیلتہ القدر دیکھ لی.اتفاق سے موسم ایسا تھا کہ رات بجلیاں چمکیں اور روشنی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوئی اور بچوں نے سمجھ لیا کہ جی ہم نے لیلۃ القدر دیکھ لی.ان کا شغل ٹھیک تھا، نیکی کی خاطر یہ بچپن کی باتیں تھیں مگر بڑوں کو بچپن کی یہ باتیں زیب نہیں دیتیں کیونکہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا ساری زندگی سے تعلق ہے.اگر آپ یہ سمجھتے رہیں کہ آپ کو یہ مبارک لحہ نصیب ہو گیا ہے اور زندگی تاریک ہے تو کتنا بڑا دھوکہ ہے.اس کی قطعی نشانی یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی پاک تبدیلی پیدا ہو کہ اس کا ماضی اس کے مستقبل سے جدا ہو جائے.اس کے اندر ایک نیا وجود پیدا ہو اور اس وجود کی روشنی پھر ہمیشہ بڑھتی رہے گی کیونکہ ایک ہی آن میں نہ اُسے کامل طور پر قرآن کریم کا نور نصیب ہوسکتا ہے نہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نور سے اس کا کامل تعلق پیدا ہوسکتا ہے.پھر یہ کون سا نور ہے جس کی میں بات کر رہا ہوں.یہ نور قدر کا نور ہے، فیصلے کا نور ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے ایک فیصلہ اُترتا ہے اور دل کے نور سے تعلق قائم کرنے کے لئے دل کا فیصلہ بنتا ہے.یہ دونور ہیں جو ملائے جاتے ہیں اور یہی وہ نور ہیں جن کو قرآن کریم نُورُ عَلَى نُورٍ ( النور : ۳۶) کہہ کر بیان فرماتا ہے.محمد مصطفی ﷺ پر جونور آسمان سے نازل ہوا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دل سے ایک شعلہ چمکا تھا اور پھر آسمان سے وہ نور انتر ا جسے محمد مصطفی و کایا قرآن کا نور یا خدا کا نور کہا جاتا ہے.پس ایسا نور ہر دل سے ایک شعلے کی صورت میں اُٹھنا چاہئے.یہ نو ر اٹھے گا تو خدا کی طرف سے وہ نور نازل ہوگا اور یہ تقدیر ہے جو لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی تقدیر سے تعلق رکھنے والی تقدیر ہے جو ہر انسان پر آسکتی ہے اور اگر وہ چاہے تو ہر انسان کے نصیب میں ہے.پس دعاؤں کے وقت اپنے اندر کوئی ایسی پاک تبدیلی پیدا کرنا جس کے بعد آپ دنیا کے نہ رہیں بلکہ خدا کے ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کی کچھ علامتیں مشاہدہ کرنا جو آپ کے دل کو ہلا کر رکھ دیں اور آپ کی موت کو زندگی کا ایک نیا پیغام دے دیں.وہ موت جو آپ نے خدا کی خاطر قبول کی تھی اس موت کو زندگی میں تبدیل کریں اور خدا کی خاطر دنیا سے تعلق کاٹ کر، توڑ کر دنیا کی روشنیوں سے منہ موڑ کر جب آپ نے اپنے لئے ایک قسم کا اندھیرا قبول کیا تو خدا تعالیٰ کا نازل ہونے والا نور اس اندھیرے کو یک
خطبات طاہر جلد ۱۱ 228 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء دفعہ روشنی میں بدل دیتا ہے.یعنی ایسی امید میں تبدیل کر دیتا ہے جس کے بعد آپ کا نور خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے منشاء کے مطابق تدریجاً بڑھتا رہتا ہے.بعضوں میں زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتا ہے، بعضوں میں نسبتا کم تیز رفتاری سے بڑھتا ہے اور یہ نور انسان کی حفاظت کرتا ہے اور انسان کے لئے اس حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ وہ استغفار سے کام لے.مغفرت کا اس نور کو بچانے اور سنبھالنے کے ساتھ گہرا تعلق ہے.حقیقی لَيْلَةُ الْقَدْرِ تو اس کی ہے جس کے پاس یہ نور ہمیشہ کے لئے رہے لیکن بعض دفعہ ایک انسان کو نور عطا ہوتا ہے اور اپنی غفلت سے اس کو سنبھال نہیں سکتا.اسے بچانے کے لئے اس کو جو کوشش کرنی پڑتی ہے اس کا نام استغفار ہے.جیسے بعض دفعہ آپ دیا لے کر چلتی ہوئی ہواؤں میں نکلیں تو کس طرح آگے ہاتھ رکھ رکھ کر یا عورتیں بعض دفعہ اپنی چادر کے پلو ڈال ڈال کر اس کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں.یہی استغفار ہے.استغفار کا مطلب یہ ہے کہ پناہ میں آنا، چھپنا کسی بداثر سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنا، اُس سے تعلق توڑنا.پس ہواؤں سے اس طرح اپنے آپ کو بچانا یہ استغفار ہے.ہمیں یہ خوشخبری تو دی گئی ہے کہ جو نور آنحضرت ﷺ کو عطا ہوا اس کو دنیا کی کوئی آندھی بجھا نہیں سکے گی وہ ہمیشہ چمکتا رہے گا لیکن ہر شخص کو اس بات کی ضمانت نہیں دی گئی کہ اس کا نور محفوظ رہے گا بلکہ استغفار کے ذریعہ ہمیں نصیحت فرمائی گئی کہ مسلسل اس نور کی حفاظت کی کوشش کرو.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالے فرماتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کا نور لوگوں کی پھونکوں سے بجھایا نہیں سکتا.ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ پیشگی کا نور ہے اور خدا اس کی حفاظت فرما رہا ہے لیکن اس ضمانت کے باوجود حضرت اقدس محمد مصطفی مے بھی ہمیشہ اس نور کی والحانہ حفاظت فرمایا کرتے تھے.دن کو بھی استغفار فرماتے تھے، راتوں کو بھی استغفار کیا کرتے تھے ، زندگی کا ہر لمحہ اس نور کے گرد استغفار کی حطانیں میں قائم کرتارہتا تھا اور ان کو مضبوط بناتا چلا جاتا تھا اور اونچا کرتا چلا جاتا تھا.پس خدا کی طرف سے اس نور کی حفاظت کا جو وعدہ ہے اس نے آنحضور ﷺ کو غافل نہیں کیا بلکہ اس کی اور زیادہ قدر کر دی.اور زیادہ آپ کی طرف سے اس نور کو قائم دائم رکھنے کے لئے کوششیں ہوئیں.پس ہم جو کمزور ہیں ہم پر بھی لازم ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ہمیں لَيْلَةُ الْقَدْرِ عطا
خطبات طاہر جلدا 229 خطبه جمعه ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء فرمائے اور خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ نصیب ہو تو ہم بھی اس نور کی حفاظت کریں اور دل و جان سے اس پر نگران رہیں.اپنے نفس کی پھونکیں ہیں جن سے ہمیں ڈرنے کی زیادہ ضرورت رہتی ہے.دشمن کی پھونکیں بے حقیقت اور بے معنی ہیں لیکن نفس کی پھونکیں زیادہ خطرناک ہیں.وہ اس نور کو بجھانے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں.اس لئے یہ دعا بھی سکھائی گئی من شرور انفسنا و مــن سـيـات اعما لنا ( ترمذی کتاب النکاح حدیث نمبر :۱۰۲۳) کہ اے خدا ہم تجھ سے من شرور انفسنا اپنے نفس کے شرور سے پناہ مانگتے ہیں.و من سیات اعمالنا اور اپنے اعمال کی بدیوں سے.یہ سب سے زیادہ خطر ناک حملہ ہے جو انسان پر ہو سکتا ہے اور وہ شیطان اس نور کے بجھانے کے در پے ہوتا ہے جو انسان کے رگ وریشے میں موجود ہے اور یہ اس انسان کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے.شرور انفسنا ومن سيات اعمالنا.ہمارے اندر دبے ہوئے کچھ شرور ہیں اور شر کا بھی شعلے سے ایک تعلق ہے لیکن یہ شیطانی شعلہ ہے.یہ خدا کے نور کو بجھانے کے لئے کوشش کرنے والا شعلہ ہے.اور اس کے مقابل پر جو آسمانی نور ہے اس کو نور کہا گیا ہے نار نہیں فرمایا گیا.پس دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالے ہمیں اس رمضان کے اس آخری عشرے میں اس حالت میں داخل فرمائے کہ ہم میں کثرت سے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی زیارت کرنے والے پیدا ہوں، ایسے خوش نصیب پیدا ہوں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن اور محمد مصطفی ﷺ کے نور کے ساتھ ایک دائمی تعلق عطا ہو اور وہ تعلق ان کی سابقہ زندگی کے تمام اندھیروں کو روشنی میں بدل دے.ایسے لوگ اگر پیدا ہوں گے تو پھر زمانے کی تقدیریں ان سے وابستہ ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کا سورہ عصر میں ذکر فر مایا گیا.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ.ہم زمانے کی قسم کھاتے ہیں.سارا زمانہ اس بات پر گواہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان گھاٹے میں چلا گیا.مشرق بھی گھاٹے میں چلی گئی، مغرب بھی گھاٹے میں چلی گئی.شمال اور جنوب بھی ، کالے اور گورے اور زرد اور سرخ تمام قو میں اس وقت گھاٹے کی حالت میں ہیں.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ.ہاں خدا کے پاک رسول محمد مصطفی میں اللہ کے شیروں کے ، وہ مستثنی قرار دیے گئے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقی معنوں میں حضرت رسول اکرم ﷺ کو قبول کیا اور آپ پر ایمان لائے اور اس کے نتیجہ میں آپ
خطبات طاہر جلدا 230 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۹۲ء کے اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوئیں.یہ وہ لوگ ہیں جوحق کے ساتھ اور صبر کے ساتھ زمانے کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور یہ وہ قدر ہے جو آپ کو عطا کی گئی.اے جماعت احمد یہ اس قدر کی رات کی قدر کرو تم نے وہ صبح طلوع کرنی ہے جو نور مصطفی ﷺ کی ہوگی تم نے وہ صبح طلوع کرنی ہے جونور فرقان کی صبح ہو گی لیکن دعاؤں عاجزی اور انکساری کے ساتھ ،صبر کے ساتھ اور حق کے ساتھ مستقل مزاجی کے ساتھ یہ جد و جہد کرتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ کیا تمہیں خود یہ صبح نصیب ہوگئی ہے کہ نہیں اگر تمہیں یہ صبح نصیب ہوگئی ہے تو یاد رکھو کہ دنیا کی تقدیر بھی روشن ہو جائے گی اور اگر تمہیں یہ صبح نصیب نہیں ہوئی تو کس روشنی سے دنیا کی تقدیر بدلو گے؟
خطبات طاہر جلد ۱۱ 231 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات اور اُن کا ذکر خیر خطبه جمعه فرموده ۳ را پریل ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی.كُل مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّ بْنِ (الرحمن:۲۷-۲۹) پھر فرمایا:.سورۂ رحمن کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں ایک ایسا عظیم الشان دائمی اعلان کیا گیا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں اور توحید کا گہرا راز اس میں بیان فرمایا گیا ہے اور خدا کے واحد اور احد ہونے کے باوجود مخلوقات سے اس کے تعلقات کا راز اس میں کھولا گیا ہے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ.ہر وہ چیز جو سطح ارض پر موجود ہے وہ مٹ جائے گی باقی نہیں رہے گی فَانِ.ہلاک ہونے والی ہے وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تیرے رب کا چہرہ جو جلال اور اکرام والا چہرہ ہے صرف وہی باقی رہے گا لیکن اس آیت کے ترجمہ میں ترجمہ کرنے والوں کو دقت پیش آتی ہے اور اس لئے مختلف ترجمے پیش کیے جاتے ہیں ”خدا کا چہرہ سے کیا مراد ہے؟ بعض لوگ اس سے ذات باری تعالیٰ مراد لیتے ہیں اور ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ خدا کی ذات باقی رہے گی اور ہر دوسری چیز مٹ جائے گی بعض یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہیں جس پر پڑیں اور جس کو خدا کا وجہ نصیب ہو جائے وہ مستثنیٰ ہے وہی باقی رہے گا جسے اللہ کی رضا حاصل ہوگی اور خدا کی رضا باقی رکھے.حضرت مصلح موعودؓ نے یہی عارفانہ ترجمہ تفسیر صغیر میں فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 232 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہر چیز فانی اور بے معنی اور بے حقیقت ہے اور ان کی بقا کے کوئی معنی نہیں جو بظاہر نظر بھی آئیں وہی چیز باقی ہے جو رب کی رضا کے ساتھ باقی ہے اور رب کی رضا کے ساتھ زندہ ہے.اس کے علاوہ اس میں ایک اور بھی راز بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز میں باقی رہتی ہیں تو وہ فی ذاتہ باقی نہیں رہ سکتیں.الا نے یہ استثناء کر کے متوجہ فرمایا کہ ہم خدا کے سوا بھی تو بے انتہا وجود دیکھتے ہیں اور مرنے کے بعد کی زندگی کا ہم سے وعدہ بھی کیا گیا ہے تو كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ سے کیا صرف یہ مراد ہے کہ ہر چیز اس دنیا سے مٹ کر ایک نئی زندگی میں داخل ہوگی لیکن یہ مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ جس کی وابستگی ہوگی اُسے نئی زندگی ملے گی اور اُسے بقا نصیب ہوگی.سوائے اس کے جسے خدا کا وجہ نصیب نہ ہو تو وجہ سے مراد توجہ بھی ہے.رحمت شفقت پیار اور محبت کا تعلق یہ ساری باتیں پیار کی توجہ میں داخل ہوتی ہیں.پس وَجْهُ رَبِّكَ کا مطلب یہ ہوگا سوائے ان کے جن کو خدا کے پیار کی توجہ نصیب ہو وہ فنا ہونے والے وجود نہیں ہیں وہ ہمیشہ باقی رکھے جائیں گے.پس ان معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی می یہ سب سے اول اس آیت سے مراد ہیں اور سب سے اول یہ آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی پر اطلاق پاتی ہے.آج جمعہ کا مبارک دن ہے اور ۲۹ رمضان ہے یہ جمعتہ الوداع کہلاتا ہے اس جمعہ کے آغاز ہی میں یعنی جب جمعرات کا سورج ڈھل گیا اور اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعہ کی رات شروع ہو گئی اور جب انگریزی نقطہ نگاہ سے بھی رات کے بارہ بجے ایک دو منٹ اور پر ہوئے تو اس وقت میری بیوی کو رب کا بلا وا آ گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رُجِعُونَ اس سے پہلے میں نے ان کا ذکر نہیں کیا کرتا تھا اُس کی وجوہات یہ ہیں اول یہ کہ مجھے ڈر تھا کہ اگر جذبات پر قابونہ رہا جماعت جو پہلے ہی نڈھال ہے بالکل ذبح کی حالت کو پہنچ جائے گی.جماعت سے جو میراتعلق ہے ایسا ہے کہ میں جماعت کے دل میں رہتا ہوں اور جماعت میرے دل میں رہتی ہے یہ ایسا تعلق ہے جو خطوں کا محتاج نہیں پیغاموں کا محتاج نہیں کسی کو بتانا نہیں پڑتا کہ اُسے مجھ سے کتنی محبت ہے یہ ایسے جاری وساری زندہ رشتے ہیں جو وَجْهُ رَبَّك کے طفیل ہمیں نصیب ہوئے ہیں اور وَجْهُ رَبَّكَ کی یہ علامات ہیں کہ یہی محبتیں اتنی شدت پکڑ جائیں کہ دوسری دنیاوی محبتیں ان کے مقابل پر کوئی حیثیت نہ رکھیں تو ایک تو یہ خوف دامنگیر تھا کہ کہیں میرے جذبات کے غلبہ کے نتیجہ میں وہ احمدی جو پہلے ہی شدت کے ساتھ میرا دکھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 233 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء محسوس کر رہے ہیں ان کی حالت غیر نہ ہو جائے.دوسرے یہ بات پیش نظر تھی کہ ضرورت ہی کیا ہے وہ جانتے ہیں میں جانتا ہوں ، اطلاعیں مل رہی ہیں اور سب کو علم ہے کہ کیا صورت حال ہے تیسری ایک وجہ یہ تھی کہ باوجود اس کے کہ بعض رویا ایسی ملتی رہیں جن سے یہ خیال گزرتا تھا کہ شاید خدا تعالیٰ کی تقدیر شفا کی صورت میں ظاہر ہولیکن بعض اور کچھ ایسی علامتیں ساتھ ساتھ جاری رہیں کہ جن کے نتیجہ میں میں یقین کے ساتھ جماعت کے سامنے کوئی نظریہ پیش نہیں کر سکتا تھا اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر وصال کی خبر ملتی تو تب بھی میں جماعت کو کسی نہ کسی رنگ میں تیار کرتا اگر واضح طور پر شفا کی خبر ملتی تو تب بھی میں تیار کرتا اور بتا دیتا کہ خدا نے یہ خوشخبری عطا فرمائی ہے جس طرح اس سے پہلے بتایا گیا اور بڑی شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں وہ نظارہ پورا فرمایا تو اس وقت کوئی ایسی بات نہیں تھی.مثلاً میں آپ کے سامنے اب اس عرصہ کے کچھ واقعات کھول کر بیان کروں گا اس سے کچھ آپ کو اندازہ ہو گا کس گومگو کشمکش کی حالت سے ہم گزرے ہیں.لیکن سب سے پہلے میں یہ بتا تا ہوں کہ آپ کی پیدائش ۱۹۳۶ء میں ۲۱ جنوری کو ہوئی اور اس لحاظ سے مجھ سے تقریبا آٹھ برس چھوٹی تھیں اور ہماری شادی ۱۹۵۷ء میں جلسہ سالانہ کے بالکل قریب ہوئی تاریخ تو مجھے یاد نہیں لیکن ۱۷ کا خیال آتا ہے غالبا ۷ اردسمبر کو ہوئی اور ایک لمبا عرصہ ہمارا اس طرح اکٹھے گزرا کہ باوجود بعض اختلافات کے انہوں نے بڑے صبر کے ساتھ مجھ سے گزرا کیا.ذہنی اور معاشرتی اختلافات جو روز مرہ کے رہن سہن کے معیار ہیں ان کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتے ہیں.ہمارے والدین نے ہمیں بچپن میں بہت ہی سادہ حالت میں رکھا اور نہایت غریبانہ حالت میں زندگی بسر ہوئی.باوجود اس کے کہ وہ ساری ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں جو امیروں کے بچوں کو ان معنوں میں نصیب ہوتی ہیں کہ پہاڑوں پر جانا اور شکار وغیرہ دوسرے شوق پورے کرنا تا کہ کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے بالا ارادہ ہمیں Tough بنانے کی کوشش کی اور سادہ زندگی کی تعلیم جو دوسروں کو دیتے تھے اپنے گھر میں بھی یہی تعلیم عملاً جاری تھی.ان کے ہاں معیار زندگی ہمارے ہاں معیار زندگی سے بہت اونچا تھا.جب ہمارے گھر آئیں تو ایک واقف زندگی کے ساتھ بیاہی گئیں جس کا روز مرہ کا گزارا بھی بہت معمولی تھا.تو بہت تکلیف میں وقت کاٹا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 234 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء لیکن بڑے ہی صبر کے ساتھ کبھی مطالبے نہیں کئے.ساری زندگی میں مجھ پر یہ بوجھ نہیں ڈالا وہ لا ؤ جو تمہارے پاس نہیں ہے.مزاج کے اختلاف کی وجہ سے اور دینی پس منظر کے اختلاف کی وجہ سے رفتہ رفتہ بہت توجہ اور پیار کے ساتھ اور سمجھا بجھا کر ان کی تربیت کرنی پڑی شروع میں ان کو جماعت کی خواتین اور جماعت کی تنظیموں سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ اس تعلق کو قائم کیا لیکن اس سے پہلے میں شادی کے استخارہ سے متعلق ایک بات بتادوں.قادیان میں ۴۶ ۱۹۴۵ء کی بات ہے کہ جب میں نے ان کے ساتھ شادی کا پیغام دینے کا فیصلہ کیا.حضرت مصلح موعود کی یہ عادت تھی کہ بیٹوں سے بھی پوچھا کرتے تھے بیٹیوں سے بھی پوچھا کرتے تھے، اپنی مرضی نہیں ٹھونستے تھے لیکن اگر کوئی غلط فیصلہ ہو تو اُسے سمجھا دیا کرتے کہ یہ مناسب نہیں ہے.اس طرح ایک بہت اعلیٰ پاکیزہ افہام وتفہیم کے ماحول میں سب کے رشتے طے ہوئے.تو میں نے جب ان سے شادی کا فیصلہ کرنا تھا اس سے پہلے استخارہ کیا اور رویا کی حالت میں یعنی جاگتے ہوئے نہیں بلکہ نیند کی حالت میں الہام ہوا اور اس کے الفاظ یہ تھے کہ ” تیرے کام کے ساتھ اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا.“ اس وقت مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میرے کون سے کام ہیں ؟ وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھ سے کیا کام لے گا.اس میں یہ عجیب پیغام تھا کہ عملاً کاموں میں ان کو شرکت کی اتنی توفیق نہیں ملے گی لیکن میرے تعلق کی وجہ سے خدا ان کو میرے کاموں میں شریک فرمادے گا اور ان کو بھی اس کا ثواب پہنچتا رہے گا.اس ثواب میں یہ ہمیشہ بڑے صبر اور رضا کے ساتھ حصہ لیتی رہیں اور مجھ سے ان کا جس حد تک تعاون ممکن تھا ہمیشہ کیا لیکن خاص طور پر قادیان کے اس سفر پر میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے.جانے سے دو تین ہفتے پہلے اچانک ان کی حالت بگڑی ہے اور دراصل وہی وقت تھا جب پتے کا کینسر شروع ہو چکا تھا اور تفصیل سے اس کا علم نہیں تھا.ڈاکٹروں کا بھی اس طرف ذہن نہیں گیا پتھری سمجھتے رہے اور بعض ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ پہلے یہاں آپریشن کروایا جائے پھر قادیان کا سفر اختیار کیا جائے ورنہ خطر ناک ہے.میرے لئے یہ اس لئے ممکن نہیں تھا کہ اگر میں اُن کو چھوڑتا تو ان کے مزاج کا مجھے علم تھا یہ میری موجودگی کے بغیر دوسرے خیال کرنے والے ہاتھوں میں تسلی نہیں پاسکتی تھیں.پھر بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ ایلو پیتھی کی دوائیاں کام نہیں کرتیں تو ہومیو پیتھی دینی پڑتی
خطبات طاہر جلدا 235 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء تھی اور خاص طور پر درد کے دوروں میں وہ بہت زیادہ مددگار ثابت ہوئیں.تو میں نے ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا کہ میں ٹھہر سکتا ہوں پھر قادیان کا پروگرام کینسل کرنا پڑے گا اور ساری دنیا سے احمدی آ رہے ہیں اور ہندوستان کے کونے کونے سے احمدی آرہے ہیں لیکن آپ کا فیصلہ ہے.آپ بتائیں کہ آپ ٹھہریں گی یا جانا چاہیں گی انہوں نے کہا میں جاؤں گی.چنانچہ یہ جو قربانی تھی اس نے قادیان کا تاریخی جلسہ ممکن بنا دیا.پس ان معنوں میں ہمارے اُن سب کاموں میں شریک ہو گئیں جو نیکی کے کام ہمیں قادیان میں کرنے کی توفیق ملی اور یہ احسان مجھ پر بہت بھاری ہے.قادیان کے دنوں میں جب بیماری شدت اختیار کرتی تھی اور درد سے تڑپتی تھیں تو مجھے کہا کرتی تھیں کہ کوئی دوائی دو اور میں بعض دوائیاں دیتا تھا.ایلو پیتھی دوائیاں بھی ساتھ جاری تھیں مگر اُن سے پورا آرام نہیں آتا تھا کیونکہ وہ کینسر کے نقطہ نظر سے نہیں دی جارہی تھیں تو اللہ کے فضل سے بعض دفعہ تو چند منٹ کے اندر اندر سکون سے سو جایا کرتی تھیں.لیکن یہ بات دل میں جاگزیں ہوگئی تھی کہ میری بیماری بہت گہری ہے اور ڈاکٹروں کو پتا نہیں لگ رہا.مجھے کہتی تھیں کہ کینسر تو نہیں ہے.تو میں نے پھر جب ایک دفعہ دعا کی تو ایک عجیب رؤیا دیکھی.جس کی وجہ سے مجھے تسلی ہوئی لیکن بعد کے حالات سے مجھے پتا چلا کہ اللہ کی خاص شان تھی ایک خاص رنگ میں اس نے تسلی کا اظہار فرمایا لیکن اس کے باوجود تقدیر بدلنے کا کوئی سوال نہیں تھا.تقدیر اپنی جگہ قائم رہی.ایک رؤیا میں میں نے دیکھا کہ ان کی والدہ امتہ السلام ایک گھر میں کھڑی ہیں اور گھر کا نقشہ اس طرح ہے جس طرح یہ مسجد لمبائی میں ہے اور یہاں تقریباً ۲.۳ چوتھائی جگہ کے سامنے وہ یوں اس طرف منہ کر کے جدھر سے میں آرہا ہوں کھڑی ہیں اور بائیں ہاتھ ایک نالی سے پارا ایک کچن یعنی باورچی خانہ ہے جس میں کوئی کھڑا ہے اور کھانے پکے ہوئے ہیں اور آپا میرا انتظار کرتی ہیں.پھر مجھے دیکھ کر خوشی سے کہتی ہیں وہ آ گیا ہے اور گھر کی حالت وہ یہ مجھے بتاتی ہیں کہ ساری نالیاں بند ہیں اور کھانا ساتھ تیار ہے لیکن اس طرف نہیں آسکتا اور کوئی نہیں کھارہا اور کچن میں بالکل ٹھیک اسی طرح کھانا موجود ہے.ساتھ یہ کہا کہ ایک دفعہ پہلے بھی اس طرح نالیاں بند ہوئی تھیں.جب یہ آیا تو اس نے کوئی چیز چلائی اور آسمان کی طرف اڑ کر پھر کوئی چیز گری اور نالیاں کھل گئیں اب پھر ایسا ہی ہوگا کہ نالیاں کھل جائیں گی.تو اس پر صبح اٹھ کر مجھے تاویل یہ سمجھ آئی کہ پہلے جب دل کی بیماری کا حملہ ہوا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 236 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء تو اس وقت بھی معدہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا تھا اور الٹ دیتا تھا اور ہمیں وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی.ڈاکٹروں نے ہر قسم کی دوائیں دیں لیکن کارگر ثابت نہیں ہوتی تھیں.جب ہسپتال میں داخل کرائی گئیں تو پتالگا کہ دل کی نالیاں بند ہیں اور نالیاں بند ہونے کی وجہ سے یہ ساری تکلیف تھی.چنانچہ ڈاکٹروں نے وہ نالیاں کھولیں اور بعد میں Angioplasty بھی ہوئی لیکن اس وقت تو وقتی طور پر سنبھال لیا اور پھر جب امریکہ لے کر گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ نالیاں کھولنی پڑے گی اور اس وقت مجھے یہ ذہن میں نہیں تھا لیکن جب یہ خواب آئی تو مجھے پہلی دفعہ سے مراد یہی نظر آئی کہ پہلے بھی نالیاں بند تھیں.قادیان میں بھی اور دتی میں بھی کوئی چیز معدہ میں نہیں ٹھہر تی تھی اور الٹی آتی تھی اور بہت تکلیف کی حالت تھی جو بھی کھاتی تھیں وہ الٹ جاتا تھا اس لئے بڑی تیزی سے کمزور ہورہی تھیں تو اس وقت خواب کے باوجود یہ اندازہ نہیں تھا کہ نالیاں بند ہونے سے کیا مراد ہے.لیکن جب یہاں آکر ڈاکٹر نے آپریشن کیا اور پتا کی پتھری تشخیص کرتے ہوئے پتھری نکالنے کے لئے آپریشن کیا تو اس نے بغیر آپریشن کے پیٹ بند کر دیا اور مجھے یہ اطلاع بھیجی کہ ان کے معدے کی انتڑیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی نالیاں بند ہیں اور اس وجہ سے کھانا الگتا ہے ، اندر جاہی نہیں رہا.میں نے اس کے متبادل کے طور پر انتری کو کاٹ کر معدہ سے براہ راست جوڑ دیا ہے اور نالی کھل گئی ہے.چنانچہ اس کے بعد خدا کے فضل سے یہ سلسلہ جاری رہا پھر جب کیمو تھراپی کا وقت آیا تو ڈاکٹروں نے دیکھا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بہت ہی زیادہ لمبی بیماری اور تکلیفوں سے متاثر ہو چکی ہیں.جگر کا بڑا حصہ کینسر سے کھایا گیا تھا، گردے جواب دے رہے تھے اور خطرہ تھا کہ اگر گردے کی نالیاں بند ہوگئیں تو کسی قسم کی Chemotherapy نہیں کی جاسکتی ہمیں جب انہوں نے بتایا تو میں نے اپنی دوائی بھی شروع کی اور خاص طور پر دعا پر بہت زور دیا تو جب نتیجہ نکلا تو ڈاکٹر Evans کے یہ الفاظ تھے کہ Ducts are open نالیاں کھلی ہیں اور بڑے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ نالیاں کس طرح کھل گئیں؟ وہ سمجھتے تھے کہ بند ہو چکی ہونگی.جب میں نے یہ رویا گھر میں بچیوں کو بتائی تو انہوں نے کہا اس کا کیا مطلب ہے کہ شفا ہو جائے گی ؟ میں نے کہا اللہ بہتر جانتا ہے.مجھے نالیاں کھلنے تک کا پیغام ہے اور یہ بات تو ہو چکی ہے تو عزیزہ فائزہ نے اپنے طور پر یہی تعبیر کی کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ابھی فکر کی بات ہے کیونکہ اتنا حصہ پورا ہو گیا ہے اللہ نے بعد میں کوئی خبر دی ہے کہ نہیں میں نے کہا کہ مجھے تو اس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 237 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء کے متعلق کوئی خبر نہیں ملی.عزیزہ فائزہ نے ایک اور رو یا بیان کی جو بالکل واضح تھی اور اس وقت سے پھر باوجود اس کے کہ دعا میں کوئی کمی نہیں کی اور خدا کے فضل سے تو کل قائم رہا ہے لیکن پیغام نظر آ گیا تھا کہ کیا ہے.انہوں نے رویا میں دیکھا کہ عزیزہ نعیمہ کھو کھر جو یہاں لجنہ کی بڑی اچھی کارکن اور بی بی سے خصوصیت سے بہت تعلق رکھنے والی ہیں اور ہمیشہ ہر رنگ میں بہت خدمت کرتی رہیں وہ آئی ہیں اور بی بی فائزہ کو کہتی ہیں کہ آپ نے جلسہ میں نظم پڑھنی ہے اور اس کے لئے میں آپ کو تیاری کرواؤں گی.تو فائزہ کہتی ہیں کہ مجھے در عدن دو میں اس میں سے نظم پڑھوں گی.وہ کہتی ہیں نہیں ، در عدن سے نہیں پڑھنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نظم ہے وہ چنی ہوئی ہے ایک عورت آپ کو پڑھ کر سنائے گی اور وہی پڑھنی ہے دوسری کوئی نہیں پڑھنی حالانکہ ان کی عادت تحکم کی بالکل نہیں لیکن فائزہ حیران ہوتی ہے جب وہ عورت نظم پڑھتی ہے تو وہ یہ ہے.اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے (درشتین: ۱۵۷) کہتی ہیں اتنی سریلی اور اتنی پر اثر آواز ہے کہ وہ دل میں ڈوب گئی اور سارے وجود پر ایک عجیب قسم کی سکینت طاری ہوگئی با وجود اس کے کہ بظاہر ڈراؤنی تھی یعنی پیغام موت کا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے سکینت طاری فرما دی تو جب انہوں نے مجھے رؤیا سنائی تو ساری بات بالکل واضح نظر آ رہی تھی.بہت سے احمدی دوست ایسی رویا بھیجتے رہے ہیں جن میں بظاہر خوشخبری تھی لیکن جن کو رویا کی پہچان ہوان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس میں کوئی معنی نہیں ہے رویا میں جو پیغامات ملا کرتے ہیں وہ تصویری زبان میں ملتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص انداز ہے جو عام نظاروں سے خدا کی بھیجی ہوئی رویا کو مختلف کر دیتا ہے چنانچہ اکثر یہ جو رویا آتی ہے کہ ہم نے دیکھا بی بی بہت بیمار ہے بہت خطرناک حالت ہے پھر ایک دم اچھی ہو جاتی ہیں یہ اگر کوئی پیغام رکھتی ہیں تو خطر ناک پیغام ہے کیونکہ اکثر میرا تجربہ ہے کہ جب کسی بہت خطر ناک مریض کے متعلق دکھایا جائے کہ ایک دم اچھا ہو گیا تو اس سے مراد صحت نہیں بلکہ وصال ہوا کرتا ہے.تو ایسی رؤیا کثرت سے آتی رہیں اور بعض رویا ایسی تھیں جن کی رؤیا دیکھنے والوں نے اور تعبیر کی لیکن تعبیر بالکل مختلف تھی.مثلاً ایک بچی نے مجھے رویا بھیجی یا کسی نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 238 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء اپنی بیٹی کی رؤیا بھیجی کہ اس نے دیکھا کہ ایک جگہ لجنہ کا اجتماع ہے وہاں ایک غیر احمدی اٹھ کر یہ اعلان کرتی ہے کہ اشتہار میں اعلان آیا ہے کہ مرزا طاہر احمد کی بیوی فوت ہو گئی ہیں میں اپنی امی سے کہتی ہوں کہ اس نے اس کے نیچے یہ لکھا ہوا نہیں سنایا کہ الیس الله بکاف عبده کیا اللہ اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں ہے؟ اس رویا کی بھی عزیزہ فائزہ نے تعبیر سمجھ لی اور یہ سن کر مجھے اشارہ بات کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد کے وصال کی خبر تھی تو آپ کے متعلق الیس الله بکاف عبدہ تھا جانے والے کے متعلق نہیں تھا اس سے میں سمجھ گیا کہ ان کو پیغام مل گیا ہے.تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ رویا یونہی بیکار ہے یا ہم نے یہ تعبیر کی تھی اور وہ نکلی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ رویا کا علم ایک بڑا گہرا علم ہے اور بہت ہی سائنٹیفک علم ہے اس میں گہرے اندرونی روابط پائے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کلام کی نشانیاں پائی جاتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اس پہ آساں ہے (در نمین :۶) اور حقیقت یہ ہے کہ الہی پیغامات ایک خاص رنگ رکھتے ہیں اور اُن کی اپنی ایک پہچان ہے.مگر علاوہ ازیں بعض دفعہ پیغام الہی ہوتا ہے لیکن تعبیر سمجھ نہیں آرہی ہوتی.اس میں حکمتیں بھی ہوتی ہیں.مجھے اپنی اس رویا کی جس میں نالیاں کھلنے تک کی بشارت ہے آگے نہیں تھی، حکمت یہ سمجھ آئی کہ بی بی مجھ سے روزانہ پوچھتی تھیں کہ آپ نے کوئی رؤیا دیکھی اور ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ میں آپ کی دعا سے اچھی ہوں گی.اس پر میں بالکل بے بس تھا.جب خدا کی طرف سے کوئی واضح بشارت ہی نہیں تھی تو میں کیا کہتا اس سے ان کا دل اس بات سے ڈوبتا تھا کہ مجھے کوئی بشارت نہیں ہوئی.چنانچہ پھر اس کا علاج مجھے یہ سوجھا کہ یہی رویا بار بار بتایا کرتا تھا کہ آپ نے دیکھا نہیں قادیان میں خدا نے مجھے بتایا تھا کہ نالیاں کھل گئیں اب دیکھیں نالیاں ہی کھل رہی ہیں.دونوں ڈاکٹروں نے یہی بات کی پہلے ڈاکٹر نے بھی دل کی نالیاں کھلنے کی بات کی اور دوسرے ڈاکٹر نے بھی انتریوں وغیرہ کی نالیاں کھلنے کی بات کی گردوں کی نالیاں کھلنے کی بات کی اور معدہ ایک قسم کا باورچی خانہ ساتھ لگا ہوا تھا وہاں بہترین کھانا ہوتا تھا لیکن نالیاں بند ہونے کی وجہ سے دوسری طرف پہنچ نہیں سکتا تھا تو میں نے کہا کہ جب یہ ساری
خطبات طاہر جلدا 239 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء باتیں پوری ہوگئی ہیں تو پھر پریشانی کی کیا وجہ ہے اس رنگ میں میں ان کو ٹالتار ہا لیکن تقریبا دس پندرہ دن کی بات ہے میں نے قرآن کریم کھولنے سے پہلے اس خواہش کا شدید اظہار کیا کہ اے خدا مجھے کچھ تو بتا اور جس آیت پر میری نظر پڑے وہی میرا پیغام ہو تو جس آیت پر نظر پڑی وہ یہ تھی.ادْخُلُوهَا بِلم امنین اس جنت میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ.اس کے پہلے ہے إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَعُيُونِ (المجر :۴۶) کہ جنت باغات اور چشموں میں ہوں.اُدْخُلُوهَا بِسَلْمِ آمِنِينَ اس میں تم سلام اور امن کے ساتھ داخل ہو تو وہ پیغام بالکل واضح تھا.اس سے پھر میرے دل میں ایک بات گر گئی اور یہ اس کی بناپر نہیں بلکہ ویسے ہی مجھے یقین تھا کہ آپ جمعہ کے دن فوت ہوں گی.پچھلے جمعہ بہت سخت Crises آیا ہے.چند دن پہلے بالکل ٹھیک ٹھاک تھیں اور جمعہ کو بڑی تیزی سے حالت بگڑی اور اب پھر جمعرات کو تیزی سے حالت بگڑنی شروع ہوئی ہے.تو جب تک جمعہ نہیں آیا.اس وقت تک آپ کی حالت سنبھل چکی تھی اور بڑے سکون کے ساتھ بات کرتی تھیں لیکن اس سکون کی بھی ایک وجہ تھی وہ صرف بیماری سے تعلق رکھنے والی بات نہیں تھی بلکہ ایمانیات سے تعلق رکھنے والی بات تھی.کچھ عرصہ پہلے Hospital کے ڈاکٹروں نے مجھے یہ پیغام بھیجا کہ آپ نے جو ہمیں کہا تھا کہ Growth کہا کریں تو آپ کے کہنے کی وجہ سے ہم اب تک کینسر کا نام نہیں لے رہے میں نے کہا تھا Growth کہا کریں Growth بھی تو کینسر کی ایک قسم ہے اور جھوٹ بھی کوئی نہیں ہے لیکن لفظ کینسر نہ بولیں اس سے ان کا دل بیٹھے گا اور پہلے ہی نصف دل کام کر رہا ہے.بیماری بھی اتنی شدید ہے تعاون انہوں نے بڑا اچھا کیا.عام طور پر اس قسم کی باتوں میں تعاون نہیں کیا کرتے لیکن بہت ہی تعاون کیا لیکن آخر مس ہار پر جو ڈاکٹر ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ اب مزید مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتا اب میں کل لازماً بتاؤں گی اس پر میں نے کہا کہ وہ جو بتائیں تو پھر میں بتاؤں گا اور ان کو میں نے کہا کہ آئندہ اگر آپ سے پوچھیں گی تو آپ بے شک بتائیں لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ آپ سے کبھی نہیں پوچھیں گی چنانچہ میں نے ان کو آرام سے آہستہ سے سمجھایا میں نے کہا آپ جو غیروں سے پوچھتی ہیں کہ آپ کو کینسر ہے کہ نہیں آپ یہ بتائیں کہ کینسر کوئی ایسی بیماری ہے جسے خدا ٹھیک نہیں کر سکتا اور اگر وہ مارنا چاہے تو وہ کینسر کا ہی محتاج ہے.نزلے والے بھی مرجاتے ہیں شہد کی
خطبات طاہر جلدا 240 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء مکھی کاٹے تو وہ اس سے بھی مرجاتے ہیں، چھینک آنے سے مرجاتے ہیں.مرنے والے بغیر بہانے کے بھی مرجاتے ہیں تو اللہ کے بلانے کے ہزار لاکھ ، کروڑ رستے ہیں اور کینسر کوئی نعوذ باللہ خدا تو نہیں ہے اگر آپ کا پورا ایمان ہے اور آپ یقین رکھتی ہیں کہ خدا ہے اور خدا تعالیٰ میں قدرت ہے تو پھر دعا کریں لیکن کینسر کے اوپر اتنا زور نہ دیں گویا یہ بلا ایسی ہے جس کا کوئی علاج نہیں پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ دیکھیں آپ کو لاحق بے چینی کی وجہ ہے.آپ دعا کرتی ہیں تو دعا کے ساتھ دعا کے قبول نہ ہونے کا تصور ہی نہیں ہے آپ سمجھتی ہیں کہ دعا ضرور اسی رنگ میں قبول ہو جس طرح آپ کر رہی ہیں یا جس طرح لوگ آپ کے لئے کر رہے ہیں میں نے کہا کہ یہ دعا کے اندر نہیں ہے میں آپ کو سمجھا تا ہوں کہ دعا اس طرح کرنی چاہئے کہ پہلے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپر د کریں اور یہ کہہ دیں کہ ہم ہر طرح راضی ہیں ، تیری رضا کے مطابق ہمارا دل سو فیصدی راضی رہے گا مطمئن ہے کوئی شکوہ نہیں اب ہماری التجا ہے کہ ایسا کر دے لیکن وعدہ ہے کہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر بھی ہم تیرے ہی ہیں کوئی اور رستہ نہیں ہے.پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ دیکھیں میں بھی تو جاؤں گا ہم میں سے ہر ایک نے جانا ہے یہ تو ایسی چیز ہے جو اہل ہے.بچوں کے نام لئے گھر جو مہمان ٹھہرئے ہوئے تھے ان کے بارہ میں کہا کہ ان میں سے ہر ایک پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ آخری جان کنی حالت میں بستر پر ہوگا.میرے بچے بھی ہوں گے ان کی اولادیں بھی ہوں گی پہلے کوئی اس چیز سے بچ گئے تھے جو آپ کو یہ خیال ہے کہ شاید یہ بات ٹل جائے ایک دفعہ یہ کہا کہ مولوی ہنسیں گے میں نے کہا کہ جن کی قسمت میں بدبختی ہو ان کا میں کیا علاج کر سکتا ہوں.تقدیر الہی پر اگر کوئی ہنستا ہے تو اس کی بدبختی ہے لیکن میں یہ دعا نہیں کروں گا کہ مولوی ہنستے ہیں اس لئے خدا یوں کرے میں نے جو آپ کو دعا کا طریقہ بتایا ہے وہ یہ ہے اور مجھے تو یہی پسند ہے یہ سنتے سنتے رقت پیدا ہو گئی.آہستہ اشارہ سے کہا کہ بس کریں.بس بس بہت ہوگئی اور یہ کہا میں خدا سے معافی مانگتی ہوں.میں خدا سے معافی مانگتی ہوں میں خدا سے معافی مانگتی ہوں.مجھ سے گناہ ہوا غلطی ہو گئی.اے خدا! مجھے معاف کر دے آئندہ کہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گی.کبھی کسی سے ایسے نہیں پوچھوں گی اور اس عہد پر آخری دم تک قائم رہیں یہاں تک کہ Miss Harper نے کل حیرت سے کسی کو کہا کہ عجیب بات ہے جب تک انہوں نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 241 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء ( میرا کہا انہوں نے ) ان سے کوئی بات نہیں کی (اور مجھے نہیں پتا کہ کیا بات کی ہے ) سخت بے چین تھیں اور بار بار مجھے پوچھتی تھیں کہ بتائیں کیا بیماری ہے.میں ٹھیک ہو جاؤں گی کہ نہیں لیکن اس کے بعد ایسا اطمینان ہے کہ بے چینی کا کوئی اظہار نہیں اور بے قراری کا بالکل اظہار نہیں، نہ مجھ سے پوچھانہ بات کی مجھے ضرورت ہی نہیں پڑی تو اللہ کے فضل سے وہ بات کو سمجھ کر آخری دم تک دعا کے ساتھ اس سلسلہ میں قائم رہیں اور غیر اللہ کی طرف نہیں دیکھا.آخر پر یہ حالت تھی کہ بجائے اس کے کہ ہم ان کو تسلی دیتے وہ ہمیں تسلی دیتی تھیں.مجھے کہا کہ آپ بس کر یں اتنا نہ غم فکر کریں اتنا غم نہ لگائیں.میں نے جواب دیا کہ بی بی میں مجبور ہوں.مجھے تو دور کے غم بھی تکلیف دیتے ہیں کوئی کسی کونے میں بیمار ہوم میں بے چین ہو جاتا ہوں.پاکستان میں احمدیوں نے میری جان نکالے رکھی ہے کبھی اتنا عذاب میں مبتلا نہیں ہوا جتنا پاکستان سے خبریں آنے پر اور احمدیوں کی تکلیف پر عذاب میں مبتلا ہوتا رہا ہوں تم تو میرے قریب ہو تمہارا تو دکھ میری آنکھوں کے سامنے بالکل پاس ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں محسوس نہ کروں ہاں اللہ صبر کی توفیق دیتا ہے.میرا حال غم تک ہی ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ غیروں پر نہ کھلے لیکن یہ کہو کہ تکلیف نہ ہو میں نے کہا یہ میرے بس کی بات نہیں ہے.تو پھر اشارے سے کہا ٹھیک ہے میں سمجھ گئی ہوں لیکن بعض دفعہ مجھے یہی کہا کرتیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں.باوجود اس کے کہ کینسر کی اس بیماری میں شدید تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہو کر لوگ مرتے ہیں لیکن کل یہ اللہ کا عجیب احسان تھا کہ آخری وقت میں بڑی ہی پرسکون تھیں.میں نے کہا میں بچیوں کو بلاتا ہوں بلایا بھی لیکن کہتی تھیں کہ نہیں بلا نا ان کو گھبراہٹ ہوگی.میں نے کہا کہ یہ بات میں نہیں مانوں گا ان کا حق ہے.میں مجبور ہوں ان کو ضرور بلانا ہے نظر آرہا تھا کہ اب جارہی ہیں تو بچیاں آئیں ان سب کو یہی کہا کہ گھبرانا نہیں میں ٹھیک ہو جاؤں گی آپ نہ گھبرائیں.پھر مجھے کہا کہ آپ جائیں آپ نے روزہ رکھا ہے نماز پر جانا ہے میں نے کہا میں آجاتا ہوں لیکن نہیں آپ نے واپس نہیں آنا.میں نے کہا کہ نہیں وہ تو میں نے آنا ہی آنا ہے چنانچہ رات بارہ بجے کے قریب جو اطلاع ملی ہے وہ مبشر کی طرف سے یہی تھی ( ڈاکٹر مبشر نے بڑی خدمت کی ہے ) کہ اطلاع آئی ہے کہ حالت سخت تشویشناک ہے تو چنانچہ اسی وقت میں بچیوں کولے کر گیا تو رستے میں عزیزم ڈاکٹر مبشر احمد کاٹرانسمیشن کے ذریعہ یہ پیغام ملا کہ میں نیچے لفٹ کے
خطبات طاہر جلدا 242 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء سامنے انتظار کر رہا ہوں.میرے ساتھ جو بیٹیاں بیٹھی ہوئی تھیں میں نے انہیں کہا کہ اب تمہیں بات کی سمجھ آگئی ہے.اگر حالت تشویشناک ہوتی تو مبشر بی بی کے بستر کا پہلو چھوڑ کر نہ آتا نیچے جو آ گیا ہے اس لئے اب تم تیار ہو جاؤ اور مجھ سے وعدہ کرو کہ صبر کا نمونہ دکھاؤ گی اور کوئی ایسی حرکت نہیں کروگی جس سے خدا تعالیٰ ناراض ہو میں نے کہا ہم نے دنیا کو صبر سکھانے ہیں ہم اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح بے چین ہو جائیں اور واویلا شروع کریں تو ٹھیک نہیں ہے اور عجیب بات ہے کہ ان کی والدہ نے بھی کسی کو مخاطب کر کے کہا کہ اب تم واویلا نہ کرنا اورصبر سے کام لینا چنانچہ اللہ کے فضل سے بچیوں نے عظیم الشان نمونہ دکھایا ہے اور پوری وفا کے ساتھ اپنے عہدوں پر قائم ہیں اور آئندہ انشاء اللہ ان کو قائم رکھے گا.یران کی بیماری کے مختصر حالات تھے.ایک خاص بات جو میرے دل کو بہت بھائی وہ یہ تھی کہ ایک دفعہ میں نے کہا کہ بی بی میں آپ کے لئے بہت دعا کر رہا ہوں آپ کو تصور نہیں کہ کس طرح کر رہا ہوں تو کہتی ہیں صرف میرے لئے نہ کریں.ساری دنیا کے بیماروں کے لئے کریں اور بھی تو بیمار ہیں وہ بھی تو دکھوں میں مبتلا ہیں.میں نے کہا میں پہلے ہی ان کے لئے دعا کر رہا ہوں اور کبھی ہوا ہی نہیں کہ تمہارے لئے کروں اور توجہ پھیل کر ساری دنیا کے بیماروں تک نہ پہنچے جس جس ملک میں، مختلف Continents میں لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں تمہارے دکھ کا فیض دعاؤں کی صورت میں سب کو پہنچ رہا ہے اس پر چہرے پر بڑا اطمینان آیا اور کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے اس طرح دعا کیا کریں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابتداء سے آپ کا لجنہ وغیرہ سے کوئی تعلق نہ تھا کیونکہ تربیت اور رنگ کی تھی لیکن میرے کاموں میں بہت ہی بوجھ اٹھایا ہے کیونکہ میرے تعلقات بہت وسیع تھے اور ہر وقت مہمانوں کا آنا جانا لگارہتا تھا گھروں میں میٹنگز ہونی میرا بے وقت گھر سے باہر نکل جانا صبح ایک سفر پر روانہ ہوا کہ رات کو آجاؤں گا لیکن وہاں سے آگے بنگال چلا گیا.کئی دفعہ دو دو ہفتے بعد تین تین ہفتے بعد لوٹا لیکن کبھی بھی عدم تعاون کا اظہار نہیں کیا یہ شکوہ نہیں کیا کہ آپ یہ مجھ سے کیا کرتے ہیں مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بتاتے بھی کچھ نہیں.میں سلسلہ کے کام کیا کرتا تھا تو بہت سی ایسی باتیں تھیں جن کا گھر میں اشارہ بھی ذکر نہیں کرتا تھا اس پر یہ شکوہ کبھی کیا کرتی تھیں کہ باقیوں کو پتا ہے آپ مجھ سے ہی راز رکھتے ہیں مجھ سے فلاں نے پوچھا کہ آپ نے فلاں کام کیا فلاں جگہ گئے مجھے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 243 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء نہیں بتایا.میں نے کہا کہ میں جماعتی کاموں کو اور گھر کے معاملات کو الگ الگ رکھتا ہوں اور میں نہیں پسند کرتا کہ مجھ پر جو جماعتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں میں ان کا گھر والوں سے ذکر کروں اس طرح پھر گھروں کے دخل شروع ہو جاتے ہیں اور پھر تبصرے اور بہت سی باتیں شروع ہو جاتی ہیں اس طرح میرے کاموں پر غلط اثر پڑنے کا خطرہ ہے تو اس بات کو ہمیشہ قبول کئے رکھا اور وفات کے دن تک کبھی بھی جماعتی کاموں میں دخل اندازی نہیں کی نہ کوشش کی نہ مجھ سے جستجو کی نہ مشورے دئے اگر مشورے دئے ہیں تو معمولی مثلاً ا نمبر انگلستان میں مسجد فضل لندن کے پاس جماعت کے گیسٹ ہاؤس کو ٹھیک کرنا ہے، مہمان آتے ہیں اور وہ بہت گندی حالت میں ہیں.وہاں جا کر کام بھی کیا لیکن رفتہ رفتہ جماعت کی خواتین سے تعلق بہت بڑھ گیا اور خاص طور پر ہجرت کے بعد بہت وسیع تعلق ہوا.آسٹریلیا میں نجی میں، سنگاپور میں، پھر یورپ کے Continent کے سب ممالک میں، کینیڈا میں، امریکہ میں جہاں جہاں گئیں بہت ہی انکساری کے ساتھ خواتین سے ملتی تھیں اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جوفطر تا ودیعت ہوئی تھی اس میں کوئی تکلف نہیں تھا کبھی بھی اپنے آپ کو کسی معنوں میں بڑا نہیں سمجھا اور ہر ایک سے برابر محبت سے پیار سے ملتی تھیں.خاص طور پر انگلستان کی خواتین سے تو بہت ہی تعلق تھا اور کہا کرتی تھیں کہ ان کے بہت ہی احسانات ہیں.بہت خدمت کی ہے لیکن یہ تکلیف تھی کہ میں ان سے بیماری کی حالت میں نہیں مل سکتی کیا کروں؟ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کہ اس حالت میں آکر لوگ مجھے دیکھیں.اس لئے میں اچھی ہوں گی تو پھر ملوں گی پیغام دے دو کہ میرے دل میں قدر ہے میں احسان فراموش نہیں ہوں، میں جوں روکتی ہوں وہ میری مجبوری ہے چنانچہ میں نے جس حد تک بھی مجھ سے ہو سکا لجنہ والیوں کو پیغام بھیجے کہ بی بی کے متعلق وہ غلط تصور نہ کریں.نعوذ بالله من ذلک.ایسا آپ سے عدم تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ تعلق کی وجہ سے ہے اور اور بہت چند ایک تھے جن کے ساتھ اتنی بے تکلفی تھی یا بیماری کے دوران ہو گئی.جن کو آپ اپنے ساتھ برداشت کر لیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ انہی کے سپر د خدمت کرو.ان میں ایک کیپٹن بشری نرس ، سردار رفیق صاحب کی بیگم ہیں انہوں نے بہت خدمت کی ہے.ایک لئیقہ احمد کرائیڈن کی ہیں انہوں نے دن رات خدمت کی ان دونوں کی خدمت بہت سراہتی تھیں.اس کے علاوہ اور بھی ایسی خواتین تھیں جن کو خدمت کا موقعہ ملا ہے امتہ القدوس ایاز جو ڈاکٹری کے چوتھے سال میں پڑھ رہی ہیں اور افتخار ایاز صاحب کی بیٹی ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 244 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء ان سے بہت خوش تھیں.ایک تو وہ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ان کے مرض کو بجھتی تھیں.دوسرے ان کا مزاج اتنا دھیما، میٹھا، محبت کرنے والا ہے کہ بہت ہی پیار کے ساتھ ان کو سمجھاتی تھیں.چنانچہ ان سے بہت خوش رہتی تھیں کئی دفعہ قدوس مجھے بتاتی تھیں کہ آپ پہلے آتے تو حیران ہو جاتے کہ کتنے اچھے موڈ میں مجھ سے باتیں کرتی رہیں اور اپنی پرانی باتیں بتاتی رہیں جو سفر آپ کے ساتھ کئے ، یہ وہ سب قصے سناتی رہیں.ان تین خواتین کو تو بہت ہی غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی ہے.اس کے علاوہ صبیح لون صاحبہ ہیں، نعیمہ کھوکھر صاحبہ ہیں اور سب کو جہاں جہاں موقع ملا خدمت تو انہوں نے کی لیکن مجبوری کی وجہ سے ان کو زیادہ موقع دیا نہیں جاسکا.باہر سے جو آئے ہیں ان کو پہلے تو میں بہت روکتا رہا کیونکہ میری طبیعت پر بوجھ پڑتا تھا کہ لوگ آجائیں اور خاص طور پر ان کو اپنی ذہانت کی وجہ سے فوڑ اپتا لگ جاتا تھا کہ کوئی بات ہوگئی ہے.جو لوگ آرہے ہیں مگر بہر حال بہنوں بھائیوں کا حق ہے میں اس کو روک نہیں سکتا تھا.چنانچہ بہت مشکل سے ذہنی طور پر تیار کیا اور کہا کہ میں نے روک تو دیا ہے کہ کیا ضرورت ہے آنے کی.وہ بہت اصرار کر رہے ہیں کہ ہمارا دل ملنے کو چاہتا ہے آپ کیوں روکتے ہیں؟ تو کیا پھر میں اجازت دے دوں ؟ شروع میں تو کہتی تھیں کہ اجازت نہ دو لیکن میرے بار بار مختلف طریق سے کہنے پر آخر آمادہ ہو گئیں تو عزیزہ شاہدہ نسیم ان کے بھائی نسیم کی بیوی اور نسیم دونوں آ گئے صبیحہ آگئیں جو ان کی بڑی بہن ہیں.فوزیہ بھی چند دن ہوئے پہنچ گئیں میری بہنوں نے بہت زور دیا مگر میں نے کہا کہ نہیں مناسب نہیں ہے.آپ لوگ ٹھہریں، اپنی بہنوں کی تو اور بات ہے.میری بہنیں بھی پہنچنی شروع ہو گئیں تو ان کو خطرہ ہوگا کہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہو گیا ہے لیکن امتہ الجمیل اور باجی امتہ القیوم جو میری بڑی باجی ہیں اور بھائی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی بیگم ہیں یہ یہاں پہنچ گئی تھیں.کل ہی پہنچیں اور ملاقات ہوگئی دیکھ لیا یہ ان کا عرصہ حیات اور بیماری کا دور تھا.بعض دفعہ تسلی کے لئے میں جو باتیں ڈھونڈتا تھا.ان میں ایک یہ بات بھی تھی جس کو بڑے ہی جذ بہ تشکر کے ساتھ سنا کرتی تھیں میں نے کہا دیکھو! آج دنیا میں ایک مریض ہے جس کے لئے اتنی دعائیں ہو رہی ہیں کہ خدا کی قسم ساری دنیا میں کوئی مریض ایسا نہیں جس کے لئے اتنی دعائیں ہو رہی ہوں.مشرق سے مغرب تک دنیا ہے میں نے کہا کہ مجھے خط ملتے ہیں تم اندازہ نہیں کر سکتی کہ کتنے
خطبات طاہر جلدا 245 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء نڑپانے والے خط ہیں.آدمی حیران ہو جاتا ہے کالے گورے ہر رنگ کے لوگ دور دراز ملکوں میں اس قدر بے قرار ہیں تو خدا نے تمہیں یہ سعادت نصیب کی ہے کہاں سے کہاں تمہیں پہنچادیا شکر کرو مجھے کہا کہ آپ لاکھ لاکھ شکر کریں.میں نے کہا کہ ہاں میں تو لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوں تو آخری دور میں دعاؤں کی طرف ، نیک باتوں کی طرف ، ذکر الہی کی طرف بہت ہی توجہ رہی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آخری دنوں میں پوری طرح بغیر کسی تردد کے بغیر کسی استثناء کے کامل طور پر راضی برضا ہو چکی تھیں اور اپنے آخری وقت کا اندازہ ہو چکا تھا.رات جس وقت دم تو ڑا ہے کوئی تکلیف نہیں تھی.باتیں کر رہی تھیں اور یہی اللہ سے میری بہت زیادہ دعا تھی کہ اے خدا! آرام سے اُٹھانا بشر کی نرس جو ساتھ تھیں انہوں نے کہا کہ باتیں کر رہی تھیں کوئی تکلیف نہیں تھی بڑے سکون میں تھیں تو ایک بات کے بعد دوسری بات نہیں آئی میں نے دیکھا تو گھبرا کر باہر گئی ڈاکٹر نے آکر دیکھا تو اس نے کہا کہ یہ تو دم توڑ چکی ہے.اس طرح خدا نے اس التجا کو قبول فرمالیا اور بڑے سکون کے ساتھ رخصت ہوئیں.ان کی نماز جنازہ انشاء اللہ کل اسلام آباد میں ظہر کی نماز کے بعد ہوگی لیکن اس نماز جنازہ کے ساتھ میں ایک نماز جنازہ غائب بھی شامل کرنا چاہتا ہوں اور وہ ایک ایسی خاتون کی نماز جنازہ ہے جن کے متعلق ایک خاص بات محرک ہے.ہمارے چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ جو انڈونیشیا میں مستقل طور پر مبلغ فائز ہوئے ہیں ان کی بیگم فاطمہ بیگم صاحبہ کو بھی بی بی والا کینسر تھا.یعنی پتے کا کینسر جو کینسر میں سب سے زیادہ خطر ناک سمجھا جاتا ہے.یہ بات پیش نظر رکھیں اب جو اصل محرک بناوہ ایک اور بات ہے وہ یہ ہے کہ حضرت بھائی جان کی بیگم طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ نے مجھے ایک خواب لکھی اور لکھا کہ میں اس کی وجہ سے بہت پریشان ہوں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث اس دنیا میں کہیں مجھ سے ناراض نہ ہوں کہتی ہیں کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ وہ آتے ہیں اور میری طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور ایک معمولی سی عام سی لڑکی ہے اس کے ساتھ شادی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ شادی کر کے اس کو لے جاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام دوست محمد ہے جب میں نے یہ رویا پڑھی تو اسی وقت میں نے آفاقی نظر ڈال کر دیکھا کہ خدا کے نزدیک کون ایسا ہے کہ جس کا اتنا مرتبہ کہ عالم بالا میں خلیفہ ہو اس کے استقبال کے لئے تیاری کرلے اور ویسے دیکھنے میں وہ معمولی سی انسان ہو.میں نے ان کو تعبیر تو اسی وقت لکھ
خطبات طاہر جلدا 246 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء دی لیکن جب میں نے نظر ڈالی تو مجھے یہی فاطمہ بیگم نظر آئیں میں نے لکھا کہ فاطمہ بیگم کے وصال کی خبر ہے آپ کے لئے پریشانی کی کوئی خبر نہیں ان کو ملیں اور میری طرف سے عیادت کریں اور سلام پہنچا ئیں چنانچہ وہ گئیں اور مجھ سے تعجب کا اظہار بھی کیا کہ آپ نے یہ کیسی تعبیر کی ہے اصل بات یہ ہے کہ وہ بہت ہی فدائی اور غیر معمولی صابرہ واقف زندگی عورت تھیں خاوند نے وقف کیا شادی کے ۴۱ سال کے عرصہ میں سے صرف ااسال اکٹھے رہنا نصیب ہوا اور ۳۰ سال جدا رہے اور نہایت غربت کی حالت میں زندگی بسر کی شادی کے ۴۱ سال جماعت کے کوارٹروں میں بسر ہوئے ان کی چار بیٹیاں ہیں ان کو پڑھانا اور ان کی دیکھ بھال کی ، شادیاں بھی خود کیں اور خاوند تو الگ دنیا میں بسنے والے انسان تھے ان کا اپنی بیوی اور بچیوں کے سودوزیاں سے گویا کوئی بھی تعلق نہیں تھا اور کلیاً ذمہ داری انہوں نے پوری کی.میری ان سے پہلے وقف جدید میں واقفیت ہوئی میں فارغ ہو کر ہو میو پیتھک کیا کرتا تھا.تو کوارٹرز کے اکثر مریض وہاں آتے تھے.فاطمہ بیگم بھی اپنی ایک بچی کو لے کر آئیں جن کو الرجی کی بڑی تکلیف تھی.غالباً طیبہ چیمہ تھیں یا امتہ الحمید یا بشری یا ثمینہ مجھے اب یاد نہیں ثمینہ تو نہیں تھیں وہ بہت چھوٹی ہیں.طیبہ اور امتہ الحمید میں سے کوئی تھیں.غالباً طیبہ تھیں وہ بی ایس سی میں یا ایم ایس سی میں پڑھ رہی تھیں.سائنس کی سٹوڈنٹ تھیں میں نے بہت علاج کیا مگر میرے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن مسلسل آتی تھیں اور کہتی تھیں آپ پر مجھے اعتماد ہے آپ جو بھی ہے علاج کریں.بعد میں اللہ تعالیٰ نے پھر کسی اور ذریعہ سے شفا بخش دی.اس وقت میں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے اور اتنی ہی واقفیت ہے.بڑی صابرہ شاکرہ کسی قسم کا کوئی تصنع نہیں ، کوئی ریا نہیں بہت سادہ زندگی ، سلسلہ کی فدائی.دس سال تک صدر لجنہ بھی رہیں.اور قرآن کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا.خود بھی بڑے شوق سے سیکھا.دوست محمد کے متعلق مجھے خیال آیا کہ ان کے والد ضرور کوئی صحابی ہوں گے یا کوئی بزرگ ہوں گے ورنہ ان کا نام دوست محمد نہ بتایا جا تاجب تحقیق کی تو پتا چلا کہ ان کے والد چوہدری محمد عبد اللہ صاحب جو قلعہ صوبہ سنگھ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے انہوں نے ۱۴ سال کی عمر میں ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اور وہ صحابی تھے اور بہت ہی فدائی اور عاشق انسان
خطبات طاہر جلد ۱۱ 247 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء تھے.زندگی کا اکثر حصہ وہی جماعت کے امیر رہے اور گھٹیالیاں کالج بنانے میں بھی انہوں نے بڑی محنت کی.یہ اس دور کے لوگ ہیں جن میں پٹواریوں میں ولی پیدا ہونا بہت شاذ کی بات ہوا کرتی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ پٹوار خانوں سے اولیاء پیدا کر دیئے.ان کی بھی چار بیٹیاں تھیں اور فاطمہ بیگم کی بھی چار بیٹیاں اور میری بھی چار بیٹیاں تو جب میں نے غور کیا تو یہ سارا تعلق قریب آگیا اور بیماری بھی وہی تھی.ان کے کوائف وغیرہ پہلے مل چکے تھے.مگر چونکہ مجھے بعض رؤیا وغیرہ کی وجہ سے اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے.اُدْخُلُوهَا بِسَامٍ آمِنِينَ ( الحجر : ۴۷ ) کی خوشخبری سے دل میں یقین تھا کہ اب دن قریب ہیں اس لئے میں نے سوچا کہ ان کا جنازہ بھی بی بی کے جنازے کے ساتھ ہی پڑھاؤں گا.ایک جنازہ حاضر اور ایک جنازہ غائب اور ساتھ واقفین کو یہ تلقین کرنے کا بہانہ بھی ہاتھ آجائے گا کہ اس کو وقف کہتے ہیں خاوند نے وقف کیا اور کامل وفا کے ساتھ بیوی نے اپنی زندگی کی ساری جوانی دین کے حضور پیش کر دی اور سارے دکھ خود اٹھائے اور خاوند کو بے فکر کر کے دین کے لئے چھوڑ دیا.اس کے برعکس آج کے زمانہ میں ایسے واقفین ہیں کہ جب وہ باہر آتے ہیں اور جماعت کے صدقے ان کو مقامی نیشنلٹی نظر آنے لگتی ہے تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور اس میں بڑی حد تک بیویاں ذمہ دار ہوتی ہیں.اپنے خاوندوں کو کہتی ہیں کہ اب کیا ضرورت ہے بس ٹھیک ہے.اپنی نیشنلٹی لو اور وظیفے لو.اپنے بچوں کو یہاں تعلیم دلا ؤ جماعت میں کیا رکھا ہے.اگر نہیں بھی کہتیں تو عملاً یہی ہے.مجھے تحریک جدید کی طرف سے بعض لوگوں نے یہ متنبہ کیا ہے.آپ اس معاملہ میں بہت زیادہ سہولت دئے رہے ہیں.بہت زیادہ نرمی کر رہے ہیں.واقفین کو ان کی بیگمات کے ساتھ اجازت ہے اور پھر لمبا عرصہ ٹھہرے رہتے ہیں تو اس سے تو خطرہ ہے کہ وہ بھاگ جائیں گے.میں نے ہمیشہ ان کو جواب دیا کہ جو خدا کے ہیں، وہ خدا کے پاس رہیں گے ، اور جو نہیں ہیں وہ بھاگ جائیں گے.مجھے ان کو رکھنے کی ضرورت نہیں ہے جو خدا کا ہے وہ نہیں بھاگ سکتا اس کا آخری سانس خدا کے قدموں میں ہوتا ہے اور وفا کے ساتھ وہ خدمت دین پر قائم رہتا ہے.یہ وقف ہوا کرتا ہے تو کئی لوگ ایسے آئے ، چلے گئے وہ سمجھتے ہیں ہم چالاکیاں کر گئے ہیں مگر وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ (البقرہ:۱۰) وہ اپنے نفسوں کے خلاف چالاکیاں کر رہے ہیں ، دھوکہ دے رہے ہیں تو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 248 خطبه جمعه ۳ راپریل ۱۹۹۲ء اپنے وجودوں کو اپنی اولاد کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں، ان کا کچھ بھی نہیں رہا، نہ دین رہانہ دنیا ہی.تو یہ گھاٹا کھانے والے لوگ ہیں.وفادار اور کامل وفادار ہی ہے جس کا وقف قبول ہوتا ہے اور اس ضمن میں بیویاں ایک غیر معمولی کردار ادا کر سکتی ہیں اور یہ وہ ہیں جن کے متعلق تاریخ خاموش رہ جاتی ہے.تو آپ لوگ متعجب نہ ہوں کہ میں نے آج کیوں خصوصیت سے ان کا ذکر کیا ہے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ احمدیت کی تاریخ میں کچھ ابواب ہیں جو سیاہی سے کتابوں میں لکھے جارہے ہیں کچھ ان کے پس منظر میں روشنائی سے لکھے جانے والے ایسے ابواب بھی ہیں جن کو ظاہری آنکھ نہیں دیکھ رہی.کتنی قربانی کرنے والی عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے خاوندوں کے بغیر اپنی جوانیاں ڈھال دیں اور زندگی کے آرام تج دیئے.اور بڑے صبر کے ساتھ اپنے دکھوں کو اپنی حد تک اپنی چھاتیوں میں محفوظ کئے ہوئے وہ وفا کے ساتھ سلسلہ کی خدمت پر قائم رہیں، عہد بیعت پر قائم رہیں عہد وقف پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ خاوندوں کو قائم رکھا اور جب ان میں کمزوری آئی تو اٹھ کھڑی ہوئیں اور کہا خبردار! یہ وہ رستہ ہے جس سے واپسی کا کوئی سوال ہی نہیں تو ان کا بھی تاریخ میں ذکر آنا چاہئے.میں نے سوچا کہ اب وقت ہے صرف میری بیوی کا حق نہیں اور واقفین زندگی ہیں جن کی بیویاں ہیں جنہوں نے بڑی بڑی اور بہت زیادہ قربانیاں کی ہیں ان کو بھی حق ہے کہ تاریخ ان کے ناموں کو زندہ رکھے اور ان کے لئے دعائیں کی جائیں.صرف مشکل یہ ہوتی ہے کہ عورتوں کے معاملات میں بعض دفعہ جب با قاعدہ کو ائف اکٹھے کئے جائیں تو مبالغہ آمیزی کوئی مقابلے کچھ ریا کاریاں شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے میں نے ابھی تک ایسا نہیں کہا لیکن دوسرے جن کے علم میں ایسی مخلص خواتین آتی ہیں جو فوت ہو چکی ہوں یا ابھی زندہ ہوں ان کو چاہئے کہ وہ ان کی تاریخ محفوظ کر کے تحریک جدید کو بھجوائیں تاکہ ان کے نام بھی کتابوں میں دعاؤں کی خاطر لکھے جائیں.جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے وہ تو کسی ظاہری ذکر کا محتاج نہیں ہے اس کے ہاں تو ان واقفین کی یہ پاک مقدس بیویاں بھی وقف کے طور پر ہی شمار ہوں گی اور ان کا فیض انشاء اللہ ان کی آئندہ نسلوں کو پہنچتا رہے گا.اس کے بعد اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.بی بی کی طرف سے آپ سب کو سلام کیوں کہ وہ بار بار اظہار تشکر کرتی تھیں کہ جماعت کتنی پیاری ہے اور کتنی دعائیں کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلدا 249 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۹۲ء انہیں بھی غریق رحمت کرے اور ہم سب کا بھی نیک انجام کرے اور ہماری اولا دوں کو پوری وفا کے ساتھ دین حق پر قائم رکھے اور خدمت دین کی تو فیق صرف یہی نسلیں نہ پائیں بلکہ نسلاً بعد نسل قیامت تک ہماری اولا دیں پوری وفا کے ساتھ خدمت دین کی توفیق پاتی رہیں.آمین خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا:.مجھے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کہا ہے کہ پاسپورٹ پر تاریخ پیدائش ۲۱ جنوری ۱۹۳۵ء لکھی ہوئی ہے مجھے علم ہے غلطی سے لکھی گئی تھی اور پھر ٹھیک نہیں ہوسکی تو وہی چل رہی ہے مگر اصل تاریخ پیدائش ۱۹۳۶ء ر ہے کیونکہ میرے پاس جو پہلا پاسپورٹ پڑا ہوا ہے اس پر ۱۹۳۶ء ہی لکھی ہوئی ہے بعد میں کسی وجہ سے غلطی ہوگئی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 251 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ کا پیغام موت سے بے خوف کرتا ہے.عائلی زندگی میں اسوہ رسول ﷺ اپنائیں.(خطبه جمعه فرموده ۱۰ راپریل ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.عید کے خطبہ پر میں نے اپنی اہلیہ کی وفات کے حوالے سے جماعت کے مردوں کو پُر درد اور پر زور نصیحت کی تھی کہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک کیا کریں اور ان کے اہل وعیال کو، ان کے والداؤں کو اور ان کی بہنوں وغیرہ کو بھی اس نصیحت میں شامل کیا تھا اور یہ بھی بیان کیا تھا کہ بعض اوقات بے بس اور کمزور عورتیں اپنے سسرال کی طرف سے طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنتی ہیں اور کچھ کر نہیں سکتیں.ان کی مظلومیت میں بے اختیاری کی حالت ایک ایسی دردناک کیفیت ہے جو یقیناً ظالموں کو عذاب میں مبتلا کر سکتی ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ان دعاؤں کے ذکر میں جو بارگاہ الہی میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں مظلوم کی دعا کو بہت اہمیت دی ہے کہ یہ دعا ایسی ہے جو د نہیں کی جاتی تو اس وجہ سے جو نصیحت کی گئی وہ مردوں یا اُن کے خاندان والوں کے خلاف بات نہیں تھی کسی غصے یا بغض کے نتیجہ میں نہیں تھی نہ اس کا کوئی موقع تھا نہ اس کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے بلکہ از راہ ہمدردی میں نے ایسا کہا لیکن عید کی ملاقات کے دوران ایک صاحب ایسے ملے جو اس پر بہت ہی خفا اور ناراض تھے اور مجھ سے شکوہ کیا کہ آپ بعض دفعہ ایک ہی طرف کی باتیں کرتے رہتے ہیں دوسری طرف کا خیال ہی نہیں کرتے کیا عورتیں ظالم نہیں ہوسکتیں.بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۱ بڑی ظالم عورتیں بھی ہوتی ہیں., 252 خطبہ جمعہ ۱۰ را پریل ۱۹۹۲ء اس بات پر میں نے اُن کو سمجھایا کہ ابھی میں مستورات کی طرف سے ہو کر آیا ہوں اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے الفاظ میں اُن کو بھی نصیحت کی ہے کہ وہ اپنے حقوق ادا کریں لیکن یہ موقع ایسا تھا جس سے میں نے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اگر کسی ایک غم کے نتیجہ میں کثرت سے خوشیاں پھیل جائیں تو یہ تو بہت اچھا سودا ہے اس میں شکوے یا نا راضگی کی کوئی بات نہیں.امرِ واقعہ یہ ہے کہ میں اس بات سے خوب باخبر ہوں کہ عورتیں بھی ظالم ہوتی ہیں، ہو سکتی ہیں ،عورتیں بھی ایسی ہوتی ہیں جو گھروں کو برباد کرنے کا موجب بن جاتی ہیں ، عورتیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کی طبیعت میں فساد پایا جاتا ہے اور نشوز پایا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ مرد جو بعد ازاں بڑے ہو کر عورتوں پر ظلم کا موجب بنتے ہیں وہ ایسی ہی ماؤں کی گود میں پلتے ہیں جو ظالم صفت ہوتی ہیں اور اُن کے اندر خاص طور پر ایک یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی بچیوں کے مقابل پر اپنے بیٹوں کو خدا بناتی ہیں اور اُن کی بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے اور اُن کی ہر جائز ناجائز بات کو برداشت کیا جاتا ہے.ان کی اپنی بہنیں ان کے سامنے گھر میں لونڈیوں کی سی حیثیت رکھتی ہیں کسی کی مجال نہیں کہ اپنے بھائی کے خلاف کوئی شکایت بھی کر سکیں.چنانچہ ایسے گھر بھی ہیں جہاں عورتیں واقعہ مردوں کی عملاً پرستش کرتی ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی معاشرتی خرابیاں ہیں جو عورتوں سے جنم لیتی ہیں اولاد میں پنپتی ہیں اور اولا د جب بڑی ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ وہ برائیاں بھی نشو ونما پاتی ہیں اور معاشرہ گندہ ہو جاتا ہے لیکن یہ بات ان کے ذہن میں نہیں آئی کہ ان سب نصیحتوں کا وہ موقع نہیں تھا.ایک عورت کی موت کے حوالے سے اگر عورتوں کونصیحت کی جاتی کہ تم ظلم نہ کرو تو بہت ہی بدزیب اور بیہودہ سی بات ہوتی ، مزاج سے گری ہوئی ایک بات تھی اور اس کا پیغام دنیا کو یہ ملتا کہ گویا میں اپنی بیوی کے مظالم کی شکایت کر رہا ہوں.براہ راست اس کو کچھ نہیں کہتا لیکن اس نصیحت کے بہانے اس کو کوس رہا ہوں کہ تم مجھ پر یہ ظلم کر کے گئی ہو تو موقع اور محل کی مناسبت سے بات ہونی چاہئے.یہ ہرگز مطلب نہیں تھا کہ میں دوسری طرف کی کمزوریوں سے ناواقف ہوں.ایک پہلو تو یہ تھا جو وضاحت کے طور پر بیان کرنے کے لائق تھا لیکن اس ضمن میں اور بھی کچھ باتیں ہیں جو میں
خطبات طاہر جلدا 253 خطبہ جمعہ ۱۰ را پریل ۱۹۹۲ء آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.ظلم کے مختلف معیار ہیں اور اس کا انسان کے احساس کے معیار سے بہت گہرا تعلق ہے.بہت سی ایسی باتیں ہیں جو انسان اپنے مزاج کے مطابق کرتا ہے اور اُن کو ظلم نہیں سمجھتا اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کو انسان بعض دفعہ عام اخلاق سے گرا ہو انہیں دیکھتا لیکن خدا کے نزدیک یا ان لوگوں کے نزدیک جن کے اخلاق بلند ہوں وہ باتیں اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں.تو مختلف انسانی معیار ہیں جن کے ساتھ انسان کی نظر نئے پیمانے تراشتی رہتی ہے اور ان پیمانوں میں نئی صورتیں دیکھتی رہتی ہے.پس اپنے سلوک کو جو غیر کے ساتھ کیا جاتا ہے دیکھنے کے بھی مختلف پیمانے ہیں جو نظر کی لطافت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی نظر میں لطافت ایسی تھی اور آپ کے اخلاق کا مرتبہ اور مقام اتنا بلند تھا کہ وہ باتیں جو آپ اپنے لحاظ سے کمزوریاں سمجھتے تھے اور کثرت سے ان پر استغفار فرمایا کرتے تھے.ایک ولی اللہ کی نظر میں وہ نیکیاں شمار ہوسکتی تھیں اور ان اعمال پر اسے وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ کوئی مغفرت طلب کرنے یعنی استغفار کا مقام ہے.پس میری مراد یہ تھی اور یہ ہے کہ جماعت کے اخلاق کے معیار بلند کروں اور اُن کی طبیعتوں میں لطافت اور نظافت پیدا کرنے کی کوشش کروں.اس کے نتیجہ میں وہ خود اپنے اعمال کے بہترین نگران بن سکتے ہیں اگر ذوق کا معیار بلند نہ کیا جائے تو اخلاق کا معیار بلند نہیں ہوسکتا اور بسا اوقات انسان خود اپنے سے اندھیرے میں رہتا ہے.پردے اٹھنے کا محاورہ آپ نے جو صوفیا کی زبان سے سنا ہوا ہے.یہ ایک حقیقی بات ہے یہ محض صوفیانہ خیالات کی نازک خیالی نہیں ہے بلکہ بہت گہرے تجربہ کے نتیجہ میں بعض صوفیا نے تمثیل کے طور پر یہ بات پیش کی ہے کہ انسان پردوں میں رہتا ہے اور جب اس کے پردے اٹھتے ہیں تو پھر وہ عارف باللہ بنا شروع ہوتا ہے.تو حقیقت یہ ہے پہلے اپنے نفس سے پردے اٹھا کر اپنے وجود کو دیکھنا شروع کریں تب آپ اس بات کے اہل ہوں گے کہ آپ دنیا کے ساتھ حسن سلوک کر سکیں جو لوگ پردوں میں رہتے ہیں وہ ہمیشہ مظلوم رہتے ہیں.چنانچہ میں نے بعض اوقات ایسے میاں بیوی کے جھگڑے سنے ہیں جو بدھیبی سے دونوں ہی پردوں میں تھے.ساری عمر میاں اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا رہا اور ساری عمر بیوی اپنے آپ کو مظلوم بجھتی رہی اور کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ اپنی ذات سے بالا ہو کر انسان اپنے نفس پر اندھیروں کے جو پردے چڑھاتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 254 خطبہ جمعہ اراپریل ۱۹۹۲ء چلا جاتا ہے اور پھر آخر ان میں ڈوب جاتا ہے.ان پر دوں سے باہر آ کر وہ حقائق کا مشاہدہ کرے اور اس کے کئی طریق ہیں.وہ ذات جو انسان کے لئے ظلمات پیدا کرتی ہے.ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو وہی ذات انسان کی ظلمت دور کرنے کا موجب بھی بن جاتی ہے.حقیقت میں آخری طاقت انانیت ہی ہے.اپنے نفس کے ساتھ پیار ہی ہے جو منفی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے اور مثبت چیزیں بھی پیدا کرتا ہے.مثلاً ایسے خاوند جن کا میں نے ذکر کیا جن کے ساتھ مائیں اور دوسرے عزیز بھی شامل ہوتے ہیں.ایک نہتی بے بس عورت ان کے گھر میں ہے اس کو طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں ، طرح طرح کی بدسلوکیاں کرتے ہیں اور وہ بے اختیار اور بے بس گھلتی چلی جاتی ہے.اُن کو کبھی اس بات کا خیال آہی نہیں سکتا کہ وہ زیادتی کر رہے ہیں کیونکہ وہ بعض ایسی کمزوریاں دیکھتے ہیں جو اس عورت میں موجود ہوتی ہیں اور پھر فرضی طور پر ان کمزوریوں کو بڑھایا بھی جاتا ہے.معمولی سے نقص بھی ان کو بڑے بڑے دکھائی دیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جب تشدد کرتے ہیں اور سختی کرتے ہیں تو ان کو پتا نہیں لگتا کہ کتنا دکھ ہو رہا ہے.اس بات کو سمجھنے کے لئے وہ اپنی ذات کے حوالے سے ایک اور رنگ میں بھی دیکھ سکتے ہیں.ان کی بہنیں ہیں ان کی مائیں ہیں ان کے اور عزیز ہیں جن سے ان کو گہرا پیار ہے وہ اگر یہ سوچیں کہ ان کے ساتھ اگر ایسے سلوک ہوں جب یہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں تو پھر ان کا کیا حال ہو گا.ایسی صورت میں ان کی غیرت بہت بھڑک اٹھتی ہے اور وہ جان دینے اور جان لینے پر آمادہ ہو جایا کرتے ہیں وہ لوگ جو دوسروں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں اگر وہ اپنی عزت کے حوالے سے مزید غور کریں تو وہ یہ معلوم کر کے حیران رہ جائیں گے کہ کس بے باکی کے ساتھ وہ ایسے کاموں پر آمادہ ہوتے تھے جو اگر ان سے کیا جائے تو وہ اپنی جان دینے اور دوسرے کی جان لینے پر تیار ہوں.تو نفس کا حوالہ دو طرح سے ہو سکتا ہے نفس کا ایک حوالہ وہ ہے جس میں ظالم اپنے اندرونے سے بے خبر دوسرے کے نقائص ڈھونڈتا چلا جاتا ہے اور اپنے بدلے دوسرے سے لیتا چلا جاتا ہے.ایک حوالہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو انسان ظالم سمجھے یا ان لوگوں کے خلاف ظلم کا تصور باندھے جو اس کو پیارے ہوں اور پھر دیکھے کہ کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا نہیں ہورہا اس طرح انسان کی آنکھیں کھلتی ہیں اور وہ کچھ نظر آنے لگتا ہے جو پہلے نظر نہیں آسکتا.دوسرے زندگی کے سفر میں سب سے زیادہ لطافت پیدا کرنے والی چیز تقویٰ ہے اگر انسان
خطبات طاہر جلدا 255 خطبه جمعه ۰ ار ا پریل ۱۹۹۲ء تقویٰ اختیار کرے اور خدا کی طرف اُس کے پیار کو حاصل کرنے کا سفر شروع کر دے تو اس سفر کے آداب کا نام تقویٰ ہے.مراد یہ ہے کہ انسان ایک پیارے کا دل جیتنا چاہتا ہے اور ہر وقت اس بات پر نگران رہتا ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے جس سے یہ مجھ سے ناراض ہو جائے جو اس کو بری لگے.یہ خوف ہی دراصل تقویٰ ہے.تقویٰ کا مطلب بعض چیزوں سے بچنا ہے اور عرف عام میں اس کا ترجمہ خدا کا خوف کیا جاتا ہے.خوف کن معنوں میں ؟ اس بارہ میں پہلے بھی میں روشنی ڈال چکا ہوں آج میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں.غالباً پہلے بھی کہہ چکا ہوں گا لیکن دوبارہ اس بات پر اصرار کرنا چاہتا ہوں کہ تقویٰ سے مُراد یہ خوف ہے کہ میں ان باتوں سے بچوں جن باتوں سے مجھے اپنے محبوب کی ناراضگی دیکھنی پڑے اور وہ مجھ سے خفا ہو جائے.یہ ایک منفی طاقت ہے جو مثبت نتائج پیدا کرتی ہے.تقویٰ بظاہر ایک منفی طاقت ہے بچنے کا نام تقویٰ ہے اور بچنے سے مراد جیسا کہ آپ سفر پر جارہے ہوں تو ٹھوکروں سے بچنا راہزنوں سے بچنا، کئی قسم کے اتفاقی حادثات اور نقصانات سے بچنا.یہ سارے بچنے کے مفہوم اس میں داخل ہیں جو منفی پہلو رکھتے ہیں لیکن ان کا جو مثبت نتیجہ ہے وہ جان، مال، عزت اور خوشیوں کی حفاظت ہے اسی لئے قرآن کریم نے خوشیوں کے موقع پر خصوصیت سے بیان فرمایا.شادی بیاہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ جن آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ان تین آیات میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے خوشی کا موقع اور خوف کی باتیں مراد یہ ہے کہ یہ خوف تمہاری خوشیوں کی حفاظت کرے گا اور تمہیں کئی قسم کے عذابوں سے پناہ میں رکھے گا.چلتے چلتے آپ کو ٹھوکر لگ جاتی ہے.خدا نخواستہ گر جاتے ہیں کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے بعض دفعہ ایسے بھی نقصان ہو جاتے ہیں کہ انسان عمر بھر چلنے سے محروم رہ جاتا ہے ایک چھوٹی سی غفلت کے نتیجہ میں ساری زندگی کا عذاب ہے تقویٰ کا سفر بھی اسی قسم کا سفر ہے.اس کو معمولی بات نہ سمجھیں تقویٰ کے فقدان کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسان ایسی ٹھو کر بھی کھا جاتا ہے جو اس کے لئے ہمیشہ کے لئے روحانی عذاب کا موجب بن جاتی ہے.پس اس پہلو سے میں مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی خدا کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں مردوں کے متعلق اس لئے بات کو خصوصیت سے بار بار دہراتا ہوں کہ مرداگر مظلوم ہوتو اس کے لئے نجات کے رستے نسبتاً زیادہ ہیں اور آسان ہیں مرد باہر کی دنیا میں ایک آزاد زندگی بسر کر سکتا ہے.
خطبات طاہر جلدا 256 خطبہ جمعہ ار ا پریل ۱۹۹۲ء مرد عموم طاقت ور ہوتا ہے اس لئے اس پر جسمانی دباؤ اور جبر بھی نہیں ہوسکتا.مرد کو اختیار ہے جب چاہے گھر چھوڑ کر باہر نکل جائے اور ناراضگی کا اظہار کرنا چاہے تو دو دو تین تین راتیں پھر نہ آئے.مرد کے او پر عورت بالعموم ہاتھ نہیں اٹھاتی.اگر اٹھاتی ہے تو پھر اسے زیادہ نقصان پہنچتا ہے تو مرد کو بعض طبعی فوقیتیں حاصل ہیں اس کے نتیجہ میں میں خصوصیت سے مردوں کو نصیحت کرتا ہوں کیونکہ جس کو طبعی فوقیتیں حاصل ہوں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا: الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء: ۳۵) مرد عورتوں سے زیادہ قوی اور اس بات کے زیادہ اہل ہیں کہ انہیں صراط مستقیم پر رکھ سکیں.پس اس پہلو سے مردوں کو اپنے متعلق جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ میں اپنی طاقت اور فوقیت کا ناجائز استعمال تو نہیں کر رہا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ نے مرد کو جو قوام کی صفت عطا کی ہے وہ رحم دلی کے نام پر اپنی قوامیت کو قربان کر دے.میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بات بھی آپ کو سمجھاؤں.بیویوں سے حسن سلوک عورتوں سے نرمی اور خوشی خلقی ان کے ظلم کو حو صلے کے ساتھ برداشت کرنا اور ان سے عفو کا سلوک کرنا اور رحم کا سلوک کرنا یہ ساری خوبیاں ہیں، یہ مرد کے زیور ہیں جو اُسے خدا کی نظر میں اور زیادہ دیدہ زیب بنا دیتے ہیں لیکن نرمی کے نام پر پیار اور محبت کے نام پر اصولوں کے سودے کر لینا اور اپنی قوامیت کو قربان کر دینا یہ حسن خلق نہیں ہے بلکہ سو الخلق ہے بدخلقی کا نام ہے اور خدا تعالیٰ کے ہاں یہ چیز قابل قبول نہیں ہے چنانچہ ایسے مرد جو اپنی عورتوں کو بے راہ روی میں مبتلا دیکھتے ہیں اور نرمی کے نام پر، حسنِ سلوک کے نام پر ان سے صرف نظر کرتے ہیں یا دوسروں پر زیادتی کرتے دیکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ عورت ہے، کوئی حرج نہیں کہ ہم اس سے نرمی کا سلوک کریں اور یہ بے شک کسی کے متعلق زبان درازی کرتی رہے ہم حو صلے سے اسے برداشت کریں.وہ مرد یقینا غلطی پر ہیں حسن سلوک یہ نہیں ہے.کسی کو کسی کے خلاف چغلی کرتے دیکھتے ہیں اور مزے کے ساتھ بیٹھ کر اس کی بات سنتے ہیں اور اس کو ٹوکتے نہیں اور اسے سمجھاتے نہیں اس کا نام حسن خلق نہیں ہے اور بظاہر نرمی پھر ظلم بن جاتی ہے.پس جب میں ظلم کی بات کرتا ہوں تو اسلام کی وسیع تر اصطلاح میں ظلم کی بات کرتا ہوں.بعض دفعہ بختی ظلم ہے، بعض دفعہ نرمی ظلم ہے.چنانچہ بات کو مختصر کرنے کے لئے میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا حوالہ دیا کیونکہ وہ موقع ایسا نہیں تھا کہ بہت تفصیل سے یہ باتیں سب کو سمجھاتا میں نے کہا کہ آپ پر اگر زیادتی بھی ہو تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا رنگ اختیار کریں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 257 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء اور آپ نے عورتوں کے ساتھ سلوک کے جو پاک نمونے ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے چھوڑے ہیں جو ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے ان سے استفادہ کریں.آنحضرت ﷺ کا طریق یہ تھا کہ بہت سی باتوں میں اپنی بیگمات کی زیادتیاں برداشت فرماتے تھے اور ایسے مواقع بھی آئے کہ قرآن کریم میں ان کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگیاں چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دنیا کے مال دیتا ہوں اور رخصت کر دیتا ہوں حسن سلوک کے ساتھ علیحدہ کروں گا کوئی سختی نہیں ہوگی لیکن میرے ساتھ نہیں رہ سکتیں.یہ آخری اور بہت ہی تکلیف دہ فیصلہ تھا.جس کے پس منظر میں کچھ باتیں ہوں گی.قرآن کریم نے ان کی تفصیل بیان نہیں فرمائی اس لئے ہمارا بھی کام نہیں ہے کہ ہم ان تفاصیل کو تلاش کریں ویسے بھی ادب کا مقام ہے کہ ان باتوں میں ہر گز کھوج نہ لگائیں لیکن بالعموم یہ یقین کریں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یقینا کچھ دکھ محسوس فرمایا ہوگا، کوئی تکلیف پہنچی ہوگی اس دکھ کے ازالے کے لئے اس تکلیف کو رفع فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اعلان عام کرنے کی ہدایت فرمائی اور آپ کو بری الذمہ فرما دیا.اس کے بعد یقینا آپ کی ازواج مطہرات میں کوئی غیر معمولی پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہوگی کیونکہ اس کے بعد پھر کوئی تنبیہہ نظر نہیں آتی اور پھر کوئی ایسا واقعہ دکھائی نہیں دیتا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سے کسی بیگم سے شکوہ کے نتیجہ میں اس کو علیحدہ فرمایا ہو.یہ تو بالمعموم حضور اکرم ﷺ کا اسوہ ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ آپ کو بھی کچھ نہ کچھ تکلیفیں ضرور پہنچیں لیکن آپ نے وسیع حوصلگی کا اظہار فرمایا اور بہت بڑے کھلے دل کے ساتھ ان چیزوں سے صرف نظر فرماتے رہے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود نصیحت فرمائی کہ اس صورت حال میں آخری علاج علیحدگی ہے.احباب جماعت کو اس مضمون کو بھی خوب ذہن نشین رکھنا چاہئے بہت سی ایسی باتیں ہیں جن میں اصلاح کی کوشش نرمی سے ہی جاری رہنی چاہئے اور جہاں تک نصیحت کا تعلق ہے نصیحت سے کام لینا چاہئے لیکن اگر پانی سر سے گزرتا دیکھیں تو اسی قرآنی ہدایت کے پیش نظر اپنی بیویوں کے سامنے بات کھول دینی چاہئے کہ اس صورت حال میں ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ بات جتنی جلدی ہوتو اتنا ہی بہتر ہے.بعض لوگ تقریباً ساری عمر بیویوں کے ساتھ گزار دیتے ہیں.پانچ پانچ، چھ چھ
خطبات طاہر جلدا 258 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء بچے ہو گئے اور پھر اس کے بعد ڈنڈا اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ تو جاہلانہ بات ہے اگر وہ ظالم ہی تھی تو اتنا لمبا عرصہ تم کیا کرتے رہے ہو؟ قرآن کریم نے بڑے لطیف انداز میں یوں بیان فرمایا ہے کہ جب تم بیویوں کو علیحدہ کرتے ہو تو حسن سلوک سے کیا کرو.یاد کرو کہ تم ان سے استراحت کرتے رہے ہو ، بے تکلف لطف اُٹھاتے رہے ہو ان باتوں کا کچھ تو پاس کرو، کچھ تو حیا کرو.الفاظ یہ نہیں مگر مضمون بعینہ یہی بیان ہوا ہے تو مردوں کو آنحضرت ﷺ کا اسوہ اختیار کرنا چاہیئے اور اس اسوہ میں یہ بات داخل ہے کہ اصول کی قربانی آپ نے کبھی نہیں کی بے حد محبت اور بے حد عفو کا سلوک کرنے کے باوجود آپ نے کبھی ایک دفعہ بھی کسی اصول کی قربانی نہیں دی چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ کے متعلق یہ روایت ملتی ہے کہ ایک موقع پر کسی بیوی کی طرف سے کوئی تحفہ آیا جس سے ان کو تکلیف ہوئی اور آپ نے وہ برتن توڑ دیا آنحضرت یہ خود اٹھے اور برتن اپنے ہاتھ سے جوڑا اور پھر نصیحت فرمائی کہ اس کے بدلے صحیح اچھا برتن بھجوا ؤ اور آپ کی ناراضگی آپ کے چہرے پر ایسی واضح لکھی گئی تھی کہ باوجود اس کے کہ کوئی سخت کلامی نہیں کی لیکن اس کا دکھ ہمیشہ کے لئے حضرت عائشہؓ کے دل پر نقش ہو گیا.(نسائی کتاب عشرۃ النسائی حدیث نمبر: ۳۸۹۳) ایک موقع پر آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں کسی زوجہ محترمہ کا ذکر آیا تو حضرت عائشہ صدیقہ نے چھوٹی انگلی اٹھا کر فرمایا.وہ یعنی وہ چھوٹے سے قد والی چھنگلی کے برابر.غالبا وہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات تھی.(ابوداؤ دکتاب الادب حدیث نمبر :۴۲۳۲) آنحضرت ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ عائشہ تم نے ایک ایسی چھوٹی سی بات کی ہے کہ اسے اگر سمندر میں پھینکا جائے تو سارا سمندر متغیر ہو جائے.کتنا عظیم الشان کلام ہے.کیسی پاکیزہ نصیحت ہے اور کتنا سخت جواب اس نرمی کے اندر ہے لیکن بہت ہی ملائمت اور بہت ہی زیادہ لطف کے ساتھ آپ نے بات کو پیش فرمایا لیکن اگر حساس آدمی ہو تو وہ ہمیشہ اس بات کی تکلیف محسوس کرتا رہے گا کہ مجھ سے کیوں ایسی غلطی سرزدہ ہوئی جس کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کو مجھے اس طرح نصیحت فرمانی پڑی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے وصال کے بعد وہ خود مدتوں یہ بات اپنے متعلق بیان فرماتی رہیں کہ مجھے بھی وہ دن دیکھنا پڑا جب میں نے ایسی بات کر دی تھی تو آنحضرت ﷺ نے جواباً فرمایا کہ دیکھو عائشہ اتم نے چھوٹی سی بات کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 259 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء ہے لیکن اتنی تلخ ہے کہ اگر سمندر میں ڈالا جائے تو سمندر متغیر ہو جائے یعنی اس کا رنگ بدل جائے اس کا مزا بدل جائے ، اس کی کیفیت میں تبدیلی پیدا ہو جائے.امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی بھی اپنی محبت پر اصول کو قربان نہیں فرمایا.حضرت عائشہ صدیقہ سے آنحضور ﷺ کو جو پیار تھا وہ ظاہر وباہر ہے اور ہمیشہ اسلام کی تاریخ میں وہ ایک درخشندہ پیار کی مثال کے طور پر زندہ رہے گا کہ مرد کو عورت سے کیسا پیار ہونا چاہئے لیکن اس پیار کے نتیجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اصولوں کو قربان کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی گئی اور ہمیشہ موقع پر صحیح نصیحت فرمائی اس کو قو آم کہتے ہیں یہی وہ قو ام لفظ ہے جو قرآن کریم میں مردوں کے متعلق آیا ہے.تو میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ آپ قوام ہیں آپ ظلم سے باز رہیں اور مطلب یہ بھی تھا کہ ظلم سے باز رکھیں دونوں باتیں قو آم میں آتی نہیں لیکن اگر مغلوب الغضب ہو جائیں، اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آجائیں اور نہ صرف اپنی بیوی کوکو سنا شروع کریں بلکہ اس کے ماں باپ کو بھی چھید جائیں اور طرح طرح سے ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنادیں تو نہ یہ حسن خلق ہے، نہ یہ قوامیت ہے، نہ یہ مردانگی ہے، یہ تو گھٹیا کمینی ذلیل بات ہے.تو میں اگر احمدیوں کو ایسی گھٹیا، کمینی، ذلیل باتوں سے روکتا ہوں تو کسی کو اس بات میں ناراضگی کی ضرورت نہیں.احمدیوں سے اپنی محبت کے نتیجہ میں ایسا کرتا ہوں.میں جانتا ہوں کہ ہم میں بہت سی کمزوریاں ہیں اور میرے فرائض میں داخل ہے کہ ان کمزوریوں کو دور کروں.میری تمنا ہے کہ ہمارا ہر گھر جنت نشاں ہو جائے.پس اس طبعی تمنا کے نتیجہ میں جب نصیحت کرتا ہوں تو بعض دفعہ اس میں سخت الفاظ بھی آجاتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کسی تلخی کے نتیجہ میں بات نہیں ہوتی.مثلاً میرا یہ کہنا کہ ایسی صورت میں میں تمہیں عذاب الیم میں خوشخبری دیتا ہوں قرآن کریم نے بعض عذابوں سے متنبہ کرنے کے لئے یہی خوشخبری کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ تمہیں ہم عذاب کی خوشخبری دیتے ہیں اور یہ خوشخبری ایسی صورت میں دی جاتی ہے جب انسان ایسی حالت میں جان دے کہ وہ ظالم ہو اور بخشش طلب کرنے کا کوئی موقع باقی نہ رہے.پس مراد یہ ہے کہ نعوذ بالله من ذلک سارے مرد ہی ظالم ہیں مراد یہ تھی کہ موت سے پہلے پہلے اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کرلو کہ تمہیں قرآن کے الفاظ اور حضرت محمد مصطفی ماہ کی تنبیہہ عذاب الیم کی خوشخبری نہ دے رہی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ
خطبات طاہر جلدا 260 خطبه جمعه ۰ ار ا پریل ۱۹۹۲ء اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بھی اللہ ہی کی پناہ مانگی جاتی ہے اللہ ہی کی پناہ میں آنا چاہئے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس بات کو سمجھ کر ہمارے مرد اور عورتیں اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں گے.دوسرے اس موقع پر نصیحت کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ بری چیز اگر ہو جائے تو اس سے اچھی بات نکالی جائے اور یہ اسلوب میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ہے سے ہی سیکھا ہے.موت سے زندگی طلب کرنے کی خواہش ایک ایسا رجحان ہے جو قوموں کو ترقی کی راہ میں بہت آگے بڑھا دیتا ہے.ہر تکلیف کو اچھی حالت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر نا یہ ایک ایسی بات ہے جو طبعی رجحان سے تعلق رکھتی ہے ورنہ بعض لوگ ایک موت کے نتیجہ میں مر جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتے ہیں بعض لوگ موت سے زندگی پاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ زندگی کی راہوں پر قدم مارنے لگتے ہیں تو یہ وجہ تھی جو میں نے اس موقع پر خصوصیت سے نصیحت کی.میں چاہتا تھا کہ ایک عورت کی وفات کے نتیجہ میں جو غم پہنچتا ہے وہ سینکڑوں زندہ عورتوں کی خوشیوں میں کیوں نہ تبدیل کر دیا جائے.کیوں نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھائیں جس کے نتیجہ میں ہرگھر میں خوشیوں کی لہریں دوڑیں اور اس کا طبعی فیض اس مرنے والی کو بھی پہنچتا رہے گا جو اس پاک نصیحت کا بہانہ بن گئی جس سے گھروں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوئیں.اس نیک نیت اور نیک تمنا کے ساتھ میں نے وہ نصیحت کی تھی اس میں ہرگز کوئی یکطرفہ ظلم نہیں تھا جس کے نتیجہ میں کسی مرد کے لئے کوئی ناراضگی کی وجہ ہو.اس ضمن میں میں اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرہ: ۱۵۷) سے متعلق بھی آپ کو کچھ کہنا چاہتا ہوں.دوست تعزیت کے لئے تشریف لا رہے ہیں.مرد بھی خواتین بھی دور دور سے بڑی محبت کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور خطوط بھی کثرت کے ساتھ لکھ رہے ہیں.میں نے امیر صاحب (یو.کے) سے گزارش کی تھی کہ میرا دل بخوبی واقف ہے میں سب احمدیوں کے متعلق جنہوں نے مجھے بتایا ہے ان کے متعلق بھی اور جنہوں نے نہیں بتایا ان کے متعلق بھی خوب احساس رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری احمدیوں کے حال پر جس حد تک نظر ہے میں ان کے جذبات اور ان کی کیفیت سے واقف ہوں اور دل کی گہرائی سے ان کا احترام بھی کرتا ہوں لیکن اگر مسلسل اس طرح باقاعدہ جماعت کے بعد جماعت نے آنا شروع کیا تو اس میں کچھ قباحتیں بھی ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 261 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء اس لئے آپ نرمی اور محبت اور پیار سے ان کو سمجھائیں کہ ناقدری کی وجہ سے میں ان کو نہیں روکتا بلکہ بعض قباحتیں ہیں جو میرے پیش نظر ہیں اس کی وجہ سے روکتا ہوں.ایک تو یہ کچھ دن کے بعد غم اپنی شدت کے مقام سے اترنا شروع ہو جاتا ہے جس طرح پارہ گرمی سے چڑھتا بھی ہے اور سردی سے اترتا بھی ہے غم کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے جب اترنا شروع ہو جاتا ہے پھر ایک ایسے مقام پر آجاتا ہے کہ اس غم کی ہمدردی کے لئے پھر ایک طبعی جذ بہ زبردستی انسان کو مجبور نہیں کر رہا ہوتا بلکہ ارادے اور کوشش سے سوچ کر بعض باتیں کرنی پڑتی ہیں جب وفات کی خبر تازہ تھی یا کچھ دن تک تازہ رہتی ہے تو اس وقت بے اختیاری سے از خودلوگ چلے آتے ہیں ان کو روکنا جائز نہیں لیکن جب غم اس مقام سے اتر چکا ہو اور پھر یہ سوچ کر کہ ہمیں بھی جانا چاہئے فلاں گیا ہے اور فلاں گیا ہے ہم کیوں نہ جائیں.جب ایک منظم طریق پر تحریک کے نتیجہ میں لوگوں کے وفود تیار کئے جائیں تو اس میں کچھ تصنع پیدا ہو جاتا ہے اور پھر ایسے لوگ بھی بیچ میں شامل ہو سکتے ہیں جن کو تکلیف ہو جو مالی لحاظ سے دقت محسوس کر رہے ہوں یا مصروف الاوقات ہونے کی وجہ سے وہ مجبور ہوں کہ کسی اور کام کو قربان کر کے آئیں تو ان کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور بعض لوگ یہ بھی بیان نہیں کر سکتے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کہا کہ نہیں تو جس نے ہمیں نصیحت کی ہے یا توجہ دلائی ہے وہ یہ سمجھے گا کہ اس کو شاید کم محبت ہے، اس کو کم تعلق ہے.ایسے نیک کام کے لئے کہا اور اس نے آگے سے جواب دے دیا تو بہت سے لوگ بے وجہ ابتلا ؤں میں پڑ جاتے ہیں اور تصنع اور تکلفات کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں.پھر میرا وقت بھی مجبورا ایسے کام پر صرف ہوتا ہے جس کی میں ضرورت نہیں سمجھتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ غم کا جو ابتدائی ریلا تھا.اس میں ساری جماعت مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک شریک تھی اور اس کا اظہار ہو یا نہ ہو جس طرح ساری دنیا میں بے ساختہ دعائیں ہو رہی تھیں ان دعاؤں کا علم بھی اس بات کے لئے کافی ہے کہ جماعت کو اس وفات کے نتیجہ میں غیر معمولی صدمہ پہنچا ہوگا بلکہ بعض صورتوں میں ایسا صدمہ کہ میں نہیں جانتا کہ ان کو مجھ سے تعزیت کرنی چاہئے یا مجھے ان سے تعزیت کرنی چاہئے تو جب ان سب کیفیات پر میری نگاہ ہے تو پھر کیوں رسمی طور پر ہم ان باتوں کو لمبا کر دیں اور اتنا کھینچیں کہ اس کے نتیجہ میں تکلفات پیدا ہوں اور ابتدائی جذبات کی پاکیزگی پر کچھ میل آجائے اس لحاظ سے میں نے امیر صاحب (یو.کے ) سے
خطبات طاہر جلدا 262 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء گزارش کی تھی کہ آپ میری طرف سے جماعتوں کو پیغام دے دیں کہ کبھی عام ملاقاتوں کے درمیان یا ویسے اگر ضرورت سمجھیں تو ذکر کر دیں مگر اس کی بھی ضرورت نہیں ہے اس سے بعض اوقات بجائے فائدے کے تکلیف پہنچتی ہے اور طبیعت میں اضطراب پیدا ہوتا ہے اس لئے حتی المقدور اب اس معاملے کو رفتہ رفتہ ختم کرنا چاہئے.ساتھ ہی آنے والوں کو نصیحت کرتا رہا ہوں جس میں اب میں ساری جماعت کو شامل کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اب اس کے بعد میں امید رکھتا ہوں کہ رسمی طور پر وفود کا سلسلہ بند ہو جائے گا.وہ نصیحت یہ ہے، یہ رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ کے پیغام کو سمجھنا چاہئے.ہمیں یہ نصیحت ہے کہ جب کسی جان کا یا مال کا نقصان ہو تو اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھیں.اس کا پیغام بالعموم لوگ سمجھتے نہیں اور بالعموم رجحان یہ ہوتا ہے کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس چیز پر پڑھا جا رہا ہے جو چیز ہاتھ سے ضائع ہو گئی یا نکل گئی حالانکہ یہ اِنَّا لِلهِ اپنے اوپر پڑھا جاتا ہے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ انه لله و انه اليه راجعون.جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکلی ہے وہ اللہ کی تھی وہ اللہ کی طرف لوٹنی ہی تھی پھر کیا غم ہے فرماتا ہے یہ پڑھا کرو اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.ہم اللہ کے ہیں اور لازماً اس کی طرف لوٹ کر جائیں گے.پس ہرموت انسان کو زندگی کا پیغام دے رہی ہوتی ہے کوئی نقصان کا پیغام نہیں دے رہی ہوتی ہے اگر آپ اِنَّا لِلہ کے پیغام کو سمجھ جائیں تو دراصل یہ اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ مرنے والے پر نہیں بلکہ زندہ رہنے والے پر پڑھا جارہا ہے.وہ خود اپنے اوپر پڑھ رہا ہے اور اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تو چلا گیا جس نے جانا تھا اس نے خدا کی تقدیر کے سامنے سرخم کر دیا لیکن میں نے بھی جانا ہے اس کی تیاری کے وقت ختم ہو چکے ہیں اور یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن میرے لئے ابھی کچھ وقت باقی ہے.پس وہ انجام جس کو آپ اپنی آنکھوں کے سامنے غیب کی صورت میں دیکھ رہے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ آپ کو یہ متوجہ کرتا ہے یہ تمہارا بھی انجام ہوگا ایک دن تم بھی اس طرح جان دے رہے ہو گے یا دے چکے ہو گے اور لوگ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ پڑھ رہے ہو گے اور ان بیچاروں کو غفلت کی حالت میں پتا نہیں ہوگا کہ یہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 263 خطبه جمعه ۱۰ را پریل ۱۹۹۲ء پر تو نہیں بلکہ ہمیں اپنے اوپر پڑھنا چاہئے پس اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ کا پیغام یہ ہے کہ اے خدا ! ہم سمجھ گئے ہم نے اس حقیقت کو پالیا کہ ہم تیرے ہی ہیں تجھ ہی سے وجود میں آئے تھے لِلهِ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ تیرے ہیں بلکہ یہ ہے کہ تجھ سے ہی پیدا ہوئے ، تیری ہی ذات حقیقی اور دائمی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں جو کچھ وجود میں آتا ہے وہ تجھ سے وجود میں آتا ہے اور جو خالق ہے وہی مالک بھی ہوا کرتا ہے.پس إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ میں یہ ساری باتیں شامل ہیں کہ اے خدا ! ہم اس لئے تیرے ہیں کہ تیرے ہی سے وجود میں آئے تو نے عدم سے ہمیں وجود کی خلعت بخشی اور ہما را تجھ سے جدائی کا سفر ایک دن ختم ہو جائے گا اور پھر لوٹ کر تیری ہی طرف واپس آئیں گے.تجھ سے الگ رہ کر جو ہماری زندگی کا عرصہ گزرا اس عرصہ میں ہم نے جو کچھ پایا کیا اس کا جواب ہم نے تجھے دینا ہے اور کس کیفیت میں یہ جدائی کا عرصہ گزرا اس کیفیت کی طرف اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ آپ کو متوجہ کر رہا ہے اور آپ کو خبر دار کر رہا ہے.کیا خدا کے ہوتے ہوئے اور خدا کا رہتے ہوئے آپ نے خدا سے علیحدگی کا یہ وقت گزارا یا غیروں کا بن کر یہ وقت گزارتے رہے اگر اس عرصہ میں غیر کے ہو گئے تو پھر کس منہ سے خدا کی طرف واپس جائیں گے.یہ پیغام ہے جس کو ہر اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے والے کو سمجھنا چاہئے اور اس کے نتیجہ میں اپنے اندر کچھ پاک تبدیلیاں کرنی چاہئیں.سب سے پہلے تو یہ شعور بیدار ہونا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں جس کے مرضی ہو چکے ہوں حقیقت میں ہم خدا کے ہیں وہی مالک ہے.نہ ہم اپنی بیوی کے نہ اپنی بہن کے نہ ماں کے نہ باپ کے نہ بچوں کے جس کے ہیں اسی کی طرف جائیں گے اور جب وہ بلائے گا ہمیں اختیار نہیں ہے کہ نہ کر سکیں تو ہم جب دوسروں کے بنتے ہیں تو کیا دوسروں کے بنتے ہوئے خدا کو چھوڑ تو نہیں دیتے ؟ کیا خدا سے تعلق قطع کر کے غیروں کے تو نہیں بن رہے؟ اگر ایسی حالت میں غیروں کے بن رہے ہیں تو جب آپ خدا کی طرف جائیں گے تو غیر بن جائیں گے غیر ہو کر جائیں گے اور اس صورت میں آپ خدا کے سامنے جواب دہ بھی ہوں گے اور محاورے کے مطابق فی الحقیقت اسے منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے.پس ہر موت سے زندگی کا ایک پیغام ملتا ہے اور ہر موت سے ہمیں زندگی کا پیغام حاصل کرنا چاہئے.اگر ایک مرنے والا اپنے پیار کرنے والوں کو زندہ کر جائے تو کتنی مبارک موت ہے.اگر ان کے اندر زندگی کا ایک شعور بیدار کر جائے اور
خطبات طاہر جلدا 264 خطبه جمعه ۱۰ را پریل ۱۹۹۲ء ان کو یاد دلایا جائے کہ تم نے وہیں آنا ہے جہاں میں جارہا ہوں لیکن تیاری کر کے آنا.اگر مجھ سے غفلت کی حالت میں کچھ دن بسر ہو گئے تو میرے لئے بخشش کی دعا مانگنا لیکن خود اس بات کو خوب با ہوش طرح ذہن نشین کر کے رکھنا کہ میں نے بھی آخر خدا کی طرف لوٹنا ہے اور اس کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے.یہ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ کا جو پیغام ہے یہ بہت ہی زندگی بخش ہے اور موت سے زندگی حاصل کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بکثرت اور بار بار نصیحت فرمائی ہے.آپ کے ملفوظات میں بھی اور کتب میں بھی عام تحریرات میں بھی یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ موت سے سبق سیکھو اور ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھو کہ تم نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ نظم کہ اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے (درین صفحہ ۱۵۷) یہی مفہوم پیش کر رہی ہے اور یہی توجہ دلا رہی ہے کہ اپنے مرنے کی تیاری رکھو.بعض دفعہ نو جوان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لمبی زندگی پڑی ہوئی ہے بڑا وقت ہے.کچھ دیر دنیا کی عیش کر لیں بعد میں دیکھی جائے گی لیکن موت کی تو خبر ہی کوئی نہیں ، اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے.خدا جب چاہے جس کو چاہے بلا لے اس لئے اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ کا پیغام سمجھنے کے بعد اس دعا کی طرف بھی انسان کی توجہ ہوتی ہے کہ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (ال عمران : ۱۹۴) کہ اے اللہ ! ہم غفلت کی حالت میں بہت سا وقت گزار چکے اور ایسی حالتیں اور بھی ہم پر آسکتی ہیں کہ جب ہم تیرے ہوتے ہوئے غیر کے ہو جائیں لیکن ہماری یہ التجا ہے کہ ہمیں نہ بلانا جب تک کہ ہم تیرے نہ ہو چکے ہوں.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ کا یہی مطلب ہے کہ ابرار کے ساتھ شمار کرنا اور ابرار اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کی نیکیاں ان کی کمزوریوں پر غالب آچکی ہوں.جب وہ مریں تو خدا کے حضور نیکوں میں شمار ہو جائیں.پس اپنے لئے یہ دعائیں بھی کرتے رہنا چاہئے.جو شخص موت سے باخبر رہے اُسے زندگی میں ہی ایک نئی زندگی مل جاتی ہے اور اِنَّا لِلهِ کے پیغام کے سمجھنے کے نتیجہ میں ایک انسان عالم بقا میں داخل ہو جاتا ہے.اِنَّا لِلہ کا پیغام آپ کو موت سے ڈراتا نہیں بلکہ موت کے خوف کو مار دیتا ہے.اگر آپ اس پیغام کو پوری طرح سمجھ لیں تو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 265 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ خدا کے ہیں خدا کے ساتھ رہ رہے ہیں اور خدا کے ساتھ رہیں گے اور اسی طرف واپس جائیں گے.خدا تعالیٰ کے قرب کا جو دائمی احساس ہے اور اس کا ہور ہنے کا احساس ہے.یہ پیغام جو آپ کو ملتا ہے کہ تم اس کے ہو تو اس کے بن کر دکھاؤ یہ ایک ایسا زندگی بخش پیغام ہے جو انسان کو عالم بقا میں لے جاتا ہے.موت کی دہلیز اس کی پہلی اور دوسری زندگی میں کوئی فرق نہیں کرتی بلکہ ایک قدم اُٹھانے والی بات ہے.ایک قدم یہاں سے اُٹھا دوسری طرف چلا گیا لیکن یہ لوگ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتے ہیں.پس اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ کے پیغام میں بقاء کا پیغام ہے.میں نے اپنی بچیوں کو ان کی والدہ کی وفات پر جو باتیں سمجھائیں ان میں ایک یہ بات بھی تھی کہ میں نے بہت غور کیا ہے.مجھے موت کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے ،خدا کے حضور پیشی کا ڈر ہے لیکن موت کا ڈر کوئی نہیں.میرے لئے تو بالکل معمولی حیثیت ہے جس طرح آج آئے کل آئے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر فکر ہوتی ہے تو صرف ان لوگوں کے غم کی جو پیچھے رہ جائیں گے.اس کے سوا مجھے موت کے تصور میں کوئی بھی اجنبیت دکھائی نہیں دیتی ، کوئی بھی تکلیف دہ بات نہیں ہے جس کے نتیجہ میں پریشان ہوں اور یہ جو پیغام مجھے ملا ہے یہ اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کے نتیجہ میں ملا ہے.میں نے جب اس پر غور کیا تو مجھے سمجھ آئی کہ ہم جس کے ہیں کل جب اس کی طرف لوٹیں گے تو اس وقت اس کے نہیں ہوں گے بلکہ اس لئے لوٹیں گے کہ اس کے ہیں.ان دو چیزوں میں فرق ہے.اس کی طرف لوٹ کر اُس کے نہیں ہوں گے بلکہ ہیں اس لئے لوٹیں گے اور اگر اس کے ہیں اور اس کے باوجود اس کے نہ رہے ہوں تو پھر خوف کا مقام ہے.پھر بہت ہی دردناک اور تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے.جہاں تک لوٹنے کا تعلق ہے اس انجام کوتو کوئی ٹال ہی نہیں سکتا جو چاہے کر لے.بڑے سے بڑا آدمی بھی جائے گا ، چھوٹے سے چھوٹا بھی آدمی جائے گا، بوڑھا بچہ ہر ایک نے آخر وہاں ضرور جانا ہے.بڑے بڑے اطباء جن امراض کے ماہر ہوتے ہیں بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی تقدیران کو دکھاتی ہے کہ اصل غلبہ میرا ہی ہے اور وہ انہی مرضوں سے مرتے ہیں جن مرضوں کی شفا میں وہ شہرت پاچکے ہوتے ہیں.ہمارے پاکستان کے بڑے بڑے ہارٹ سپیشلسٹ تھے جو دل کی بیماری سے گئے.اُن کا علم ان کے کام نہیں آسکا.پس شفاء کا علم بھی اور دعا بھی یہ دونوں چیزیں موت کے سامنے عاجز آجاتی ہیں اور اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ نے جس قوت کے ساتھ اس مضمون کو ہمارے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 266 خطبہ جمعہ اراپریل ۱۹۹۲ء سامنے رکھا ہے اس کا اس سے تعلق ہے تبھی موت کے وقت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ پڑھا جاتا ہے.خدا کا ہونا ایک غالب حقیقت ہے اور ایک دائگی حقیقت ہے.اس کی ملکیت ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے.باقی سب چیزیں عارضی ہیں اور موت کا ملکیت سے تعلق ہے کیونکہ جس کی اصل ملکیت ہے وہ بالآخر نمایاں ہو کر دکھائی دے گی اور بیچ کے سب دھو کے اُڑ جائیں گے جس میں انسان اپنے آپ کو خواہ عارضی طور پر خواہ مستقل طور پر مالک سمجھتارہا.سب ملکیتیں فنا ہو جائیں گی.کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.قرآن کریم نے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی یہی تعریف فرمائی ہے کہ وَمَا أَدْرُ بكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿ ثُمَّ مَا أَدْرِيكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَيذِ لِلهِ (الانفطار: ۲۰۱۸) کہ تمہیں کیا پتا کہ يَوْمِ الدِّینِ کیا چیز ہے.جب ہم مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہتے ہیں تو خدا فرما تا ہے کہ کبھی سوچا بھی ہے کہ يَوْمِ الدِّینِ ہوتا کیا ہے.کیسے تمہیں سمجھائیں که يَوْمِ الدِّينِ کیا ہے ؟ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا.کوئی ذات نہ اپنے لئے ، نہ کسی اور کے لئے کسی چیز کی مالک ہوگی کوئی جان نہ کسی جان کی مالک ہوگی ، نہ کسی اور جان کی امین ہوگی نہ اپنی مالک ہو گی.نہ اپنے لئے کوئی امانت اپنے پاس رکھتی ہوگی.سب کچھ خدا کی طرف لوٹ جائے گا.صرف ایک مالک رہے گا اور وہ خدا کی ذات ہے اس کے سوا کوئی مالک نہیں رہے گا.جب ملکیتیں ساری فنا ہو جانے والی ہیں تو اسی کا نام موت ہے یعنی غیر اللہ کی ملکیت کی ذات میں موت شامل ہے کیونکہ وہ ملکیت دائمی ہو نہیں سکتی اس لئے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں مل سکتی.خدا کی طرف لوٹنے کا مطلب اس کی ملکیت کا ادراک کروانا ہے یہ بتانا ہے کہ حقیقی مالک وہی ہے اس لئے تم اس کی طرف لوٹو گے اور اگر آپ وہ ملکیت چوری کر چکے ہیں.مالک نہ ہوتے ہوئے اس کا غلط استعمال کر بیٹھے ہوں اور لوگوں کے مالک بن چکے ہوں اور ان پر ناجائز قبضے کئے ہوں.ان کی عزتیں ان کی جانیں ان کے اموال ان کی خوشیاں آپ کے ہاتھ میں محفوظ نہ ہوں اور آپ نے ان پر ناجائز تصرف کر لئے ہوں تو پھر جب مالک حقیقی کے سامنے پیش ہوں گے تو یقیناً
خطبات طاہر جلدا 267 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۹۲ء جواب دہ ہوں گے.پس اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ کے اندر بڑے گہرے بڑے تفصیلی زندگی کے پیغام ہیں اور ہر موت مومن کو یہ زندگی بخش جام پلا کر جاتی ہے.جب وہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھتا ہے تو یہ اس کا آب بقا ہے جسے وہ پیتا ہے لیکن عجیب طرح لوگ پیتے ہیں کہ یہ آب بقاء ان کو ہضم نہیں ہوتا ان کو یہ پتا ہی نہیں کہ یہ کیا پی رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس مرنے والے کے لئے زہر کا پیالہ تھا جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.میں یہ کہ رہا ہوں کہ یہ تو گیا اورختم ہو گیا.پس اس کے آگے کچھ نہیں، میں باقی ہوں، بالکل الٹ بات ہے.پیغام تو یہ تھا کہ تم باقی نہیں رہو گے اور عارضی طور پر کسی غلط فہمی میں بھی مبتلا نہ ہو جانا.یہ جانے والا اس بات کو یقینی بنا کر جارہا ہے کہ تم بھی نہیں رہو گے اور لا ز ما تم نے اپنے خدا کی طرف جانا ہے.پس اتنی قطعی حقیقت کو بھلا دینا اور اپنی زندگی کو غفلت کی حالت میں بسر کرنا اور ظلم کی حالت میں بسر کرنا بہت بڑا ظلم ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس نصیحت سے فائدہ اُٹھائے گی.اپنے حال پر غور کریں.اپنے آپ کو تنقید کا نشانہ بنا ئیں تو آپ کو اپنی ذات میں سے ہی ہر نا کامی میں سے مراد یں مل جائیں گی اگر اس کے برعکس غیروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی عادت ڈالی اور دوسروں میں ظلم تلاش کئے اور اپنے ظلم سے غافل رہے تو پھر آپ کا ہر قدم موت کی طرف اُٹھ رہا ہے غیر اللہ کی طرف اٹھ رہا ہے، آپ خدا کے نہیں رہے اور خدا کے نہیں ہو رہے اس ظلم کی حالت میں جان نہ دیں.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر مرنے والا ایسی حالت میں جان دے رہا ہو کہ اس پر رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر :۲۹) کی آیت صادق آرہی ہو.وہ راضی حالت میں خدا کے حضور حاضر ہورہا ہو اور خدا کی رضا پا کر خدا کے حضور حاضر ہورہا ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 269 خطبہ جمعہ ۱۷ارا پریل ۱۹۹۲ء غلبہ اور عزت حاصل کرنے کے لئے خدا کے رنگ اختیار کرے (خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ را پریل ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرُتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيرٌ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَالَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ وَاَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَي النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّكِرِينَ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةِ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوْا فِيْهِ وَكَانُوا مُجْرِمِيْنَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَاهْلُهَا مُصْلِحُونَ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا مُلَكَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ وَكُلًّا نَقُضُ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ، وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ و ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ وَقُلْ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوا عَلى مَكَانَتِكُمْ ط
خطبات طاہر جلد ۱۱ 270 خطبہ جمعہ ۷ ارا پریل ۱۹۹۲ء إِنَّا عَمِلُونَ وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (هود:۱۱۳ تا ۱۳۴) پھر فرمایا:.آج زمانہ بڑی تیزی کے ساتھ اخلاقی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ روکیں جو فساد کے بڑھنے کی راہ میں حائل تھیں وہ دنیاوی اغراض کی روکیں تھیں، اعلیٰ اقدار کی روکیں نہیں تھیں اور جب وہ روکیں اُٹھیں تو تیزی کے ساتھ دنیا خود غرضی سے اپنے مطالب کے حصول میں کوشاں ہے اور خود غرضی کی جو یہ نئی لہر اٹھی ہے اس نے تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.یہ وہی لہر ہے جو پہلے ایک دبی ہوئی قوت کے طور پر موجود تھی لیکن بعض بیرونی عوامل کے نتیجہ میں پوری طرح کھل کھیلنے کی طاقت نہیں پاتی تھی.اب وہ بیرونی عوامل اُٹھا دیئے گئے ہیں اور ہر قوم ایک دوسری قوم کے خلاف موج کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے.یہ وہ صورتحال ہے جو انتہائی خطر ناک ہے اور تمام دنیا کے امن کو بر باد کرنے کے لئے گویا سارے عالم میں تیاری ہو رہی ہے.یہ وہ وقت ہے جبکہ مغرب کو متہم کرنا اور مشرق کو مستثنیٰ کرنا ایسا ہی غلط ہو گا جیسے مشرق کو متہم کرنا اور مغرب کو مستی کرنا.میں نے قوموں کے حالات کا بغور مطالعہ کیا ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغرب ظالم ہے اور مشرق نہیں یا مشرق ظالم ہے اور مغرب نہیں ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲) کا ایک نیا نقشہ دنیا میں ابھر رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی تکلیف اور اس تکلیف کو دور کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم یہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ زمانے کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے.یا ڈوبتے ہوئے زمانے کو بچانے کے لئے ہمیں وہ کشتی عطا فرمائی گئی ہے جس نے نوح کی کشتی کا سا کام کرنا ہے.یہ کشتی جتنی وسیع ہوگی اتنے ہی زیادہ بنی نوع انسان کو بچانے کی اہلیت رکھے گی.اس پہلو سے میں دعوت الی اللہ پر خصوصیت سے زور دیتا رہا ہوں.ہم کیسے ہی مخلص کیوں نہ ہوں.ہم کتنے ہی بنی نوع انسان کی ہمدردی چاہنے والے کیوں نہ ہوں جب تک ہم میں انفرادی طاقت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 271 خطبہ جمعہ ۷ ارا پریل ۱۹۹۲ء اتنی پیدا نہیں ہوتی کہ تمام عالم میں پھیل کر تمام عالم کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں دنیا کی مددکریں.تو اس وقت تک ہماری آواز میں صدا بصحرا کی حیثیت رکھتی رہیں گی اور اس سے زیادہ ان کا فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس جدو جہد کو چھوڑ دیا جائے اور تعداد بڑھنے کا انتظار کیا جائے.قرآن کریم نے انبیاء کی سنت اسی طرح محفوظ فرمائی ہے اور بار بار یہ تاریخ دہرائی ہے کہ انبیاء نے نیکی پھیلانے اور بدی کو روکنے کے لئے تعداد کا انتظار نہیں کیا بلکہ جب وہ اکیلے تھے اس وقت بھی دنیا کو یہی تعلیم دیتے رہے اور جب وہ زیادہ ہوئے تو اس وقت بھی یہی تعلیم دیتے رہے حقیقت میں دعوت الی اللہ کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ایک گہرا تعلق ہے.دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں ایک کو طاقت ملے تو دوسرے کو ضرور طاقت ملتی ہے لیکن ایک دوسرے کا انتظار نہیں کرتا.جس حد تک ممکن ہو یہ دونوں بنیادی فرائض جو ہم پر عائد فرمائے گئے ہیں ان کی ادائیگی میں جماعت کو مستعدی دکھانی چاہئے.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ ھود کا آخری رکوع ہے.سورہ ھود کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر بعض اور سورتوں کے متعلق بھی لیکن ھود کی خصوصیت سے آپ نے بیان فرمایا کہ مجھے تو اس سورۃ نے بوڑھا کر دیا ہے.میرے بال اس سورۃ نے سفید کر دیئے ہیں.اس سورۃ میں وہ کیا بات تھی جس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آپ نے بتایا کہ میں نے اتنا دکھ محسوس کیا ہے کہ گویا میرے بال اس سورۃ میں بیان فرمودہ قوموں کے دردناک حالات کی وجہ سے سفید ہوئے.جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے سورہ ھود پڑھنے سے ہر احمدی کو ان بدنصیب قوموں کے حالات معلوم ہو سکتے ہیں جو باوجود اس کے کہ انبیاء اور ان کی جماعتوں نے ان کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن وہ گویا رستیاں تڑوا کر اپنے ہلاکت کے گڑھے کی طرف سرپٹ دوڑنے لگیں اور بالآخر ہلاک ہوگئیں.وہ تاریخ آپ کو قرآن کریم میں مختلف جگہ مذکور دکھائی دے گی مگر سورہ ھود میں بہت تیز لہروں کے ساتھ اور بار باراٹھنے والی لہروں کے ساتھ اس تاریخ کا اعادہ فرمایا گیا ہے اور ایک ہی بیٹھک میں جب آپ سورہ ھود پوری پڑھ صلى الله جاتے ہیں تو پھر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا غم تھا جس نے حضرت اقدس محمد ے کے مقدس بالوں کو سفید کر دیا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 272 خطبہ جمعہ ۱۷ارا پریل ۱۹۹۲ء آخری رکوع جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں ان فتنوں کا علاج بیان فرمایا گیا ہے اور وہ نصیحتیں بیان فرمائی گئی ہیں کہ اگر وہ قو میں جو اصلاح کا دعوئی لے کر اٹھتی ہیں ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہوں تو وہ تاریخ تبدیل ہو سکتی ہے.یہ جو کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر قوموں میں پاک تبدیلی پیدا ہو بھی جائے تب بھی بدوں کی تاریخ دہرائی جائے گی.تاریخ دہرانے میں دو اطراف کارفرما ہوتی ہیں اگر دونوں طرفیں ویسا ہی رویہ اختیار کریں تو لازماً پہلی تاریخ دہرائی جائے گی کیونکہ خدا کی تقدیر کسی سے نا انصافی کا سلوک نہیں فرماتی اور کسی کو نا واجب رعایت نہیں دیتی.اگر قوم کے نیک و بد کے دو حصے بنائے جائیں تو اگر نیکوں نے اپنی کوشش میں کمی کر دی ہو یا نیک کسی وجہ سے مجبور ہو چکے ہوں اور ان کا پیغام نہ سنا جائے تو قوموں کی ہلاکت کی تاریخ لازماً دہرائی جائے گی اور بدقوموں کا اس میں یہ کردار ہوگا کہ وہ بار بار کی نصیحتوں کے باوجود نیک لوگوں کی نصیحتوں پر ایک دفعہ پھر عمل کرنے سے انکار کر دیں اور اپنی ضد پر مصرر ہیں.پس یہ قوم کے دو حصے ہیں اگر یہ اپنی عادات کو تبدیل نہ کریں اور بعینہ وہی اعمال اختیار کریں اور طریق اختیار کریں جو پہلے کئے گئے تو تاریخ دہرائی جائے گی اور یہ تاریخ ضروری نہیں کہ بد ہو.چنانچہ سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کا ذکر فرمایا جس کی تاریخ ویسی نہیں تھی جیسی پچھلی قوموں کی تھی یعنی تاریخ کا نتیجہ وہ ہلاکت نہ نکلا جو پہلی قوموں کی تاریخ کا نتیجہ نکلا اس لئے کہ بالآخر اس قوم نے توبہ کی ، استغفار سے کام لیا اور ان کی وہ ہلاکت جو گویا اس طرح مقدر ہو چکی تھی کہ نبی کو مشروط طور پر ان کی ہلاکت کی اطلاع دے دی گئی تھی لیکن جب قوم نے پاک تبدیلی کر دکھائی تو وہ ہلاکت کی خبر بھی ٹال دی گئی اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ کاش یونس کی قوم کی طرح اور بھی قو میں ہوتیں کہ جو اس طرح نبی وقت کی ہدایت سے استفادہ کرنے کے بعد بالآخر اصلاح کرتیں اور ہلاکت سے بچ جاتیں.پس جب میں تاریخ دہرانے کی بات کرتا ہوں تو دونوں قسم کی تاریخوں کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ تو میں جنہوں نے آخر نصیحت پکڑی اور بچ گئیں.ان میں سب سے بڑی اور پاکیزہ اور سب سے اونچی مثال حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم کی ہے.آپ کی مثال اور حضرت یونس کی مثال میں ایک کھلا کھلا فرق ہے.حضرت یونس کی مثال بیان کرنے کے بعد میر افرض ہے کہ آپ کو اس پاکیزہ اور سب مثالوں سے بڑھ کر پاکیزہ مثال سے بھی آشنا کروں اور اس فرض
خطبات طاہر جلد ۱۱ 273 خطبہ جمعہ ۱۷ارا پریل ۱۹۹۲ء سے مطلع کروں تا کہ آپ حضرت یونس کی قوم والی دعائیں نہ کریں بلکہ وہ دعائیں کریں جو حضرت ر مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوم کے لئے کی تھیں.حضرت یونس کی قوم کو نجات ملی لیکن یونس کی دعا کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس قوم نے جب عذاب کو اپنے سر پر کھڑے دیکھا اور حضرت یونس کے اپنے ملک کو چھوڑ کر ہجرت کر جانے کے بعد ان کو اچانک یہ احساس ہوا کہ سب سے نیک انسان وہی تھا جو ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اب اگر عذاب آ جائے تو بعید نہیں ہے.اس قسم کے اور اس سے ملتے جلتے احساسات نے انہیں گریہ وزاری پر مجبور کیا اور جب ان کا عذاب ٹل گیا تو حضرت یونس کا رد عمل اس سے بالکل مختلف تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رد عمل تھا.آپ کا رد عمل اور قوم کے ساتھ آپ کا جو رشتہ تھا وہ بھی تاریخ کو دہرانے والا ایک رشتہ تھا مگر بہتر کر کے دہرانے والا.یونس کی تاریخ کو اس رشتے نے دُہرایا مگر بہت بہتر شکل میں اور بدلے ہوئے انداز کے ساتھ.قوم بچ تو گئی جس طرح یونس کی قوم بچی تھی مگر ایک نئی شان کے ساتھ بچائی گئی اور وہ شان، شانِ محمدی ہے جس کے نتیجہ میں قوم پر فضل ہوا.سفر طائف کے دوران حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اہل طائف نے جوانتہائی ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک فرمایا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس بات پر آمادہ دکھائی دیتا ہے اور اس غرض سے فرشتے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیغامبر بنا کے بھیجے جاتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو یہ قوم ان پہاڑوں کے نیچے کچلی جائے اور ہمیشہ کے لئے ان کا نشان مٹ جائے.یہ فرشتے بھیجنا اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا بلکہ خدا تعالیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو نمایاں کر کے دنیا کے سامنے سورج کی طرح روشن صورت میں دکھانا چاہتا تھا اور یہ بتانا چاہتا تھا کہ اس شان کے نبی بھی دنیا میں آئے ہیں اور سب شانوں سے بڑھ کر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہے.جب ابھی زخموں سے خون رس رہا تھا ، جب بدن کا انگ انگ دکھ رہا تھا ، انتہائی درد ناک حالت میں آپ دعا کر رہے تھے تو اس وقت فرشتے ظاہر ہوتے ہیں اور آپ کا یہ جواب ہے کہ اے خدا! میں نہیں چاہتا کہ یہ قوم ہلاک ہو.یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور کس سے کر رہے ہیں؟ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے وہاں بھی یہ دعا کی جو ایک اور موقع پر بھی فرمائی کہ اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون (مسند احمد جلد ۴ صفحه: ۳۳۵)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 274 خطبہ جمعہ ۱۷ارا پریل ۱۹۹۲ء قبل ازیں میں یہ بیان تو کرتا رہا لیکن بعض علماء کہتے تھے کہ طائف کے ساتھ اس روایت کا تعلق نہیں یہ دعا کسی اور موقع پر کی گئی تھی مگر چند دن ہوئے ہیں مجھے قطعی طور پر تاریخی حوالہ مل گیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف کے موقع پر بھی یہ دعا کی کہ اللـهـم اهــد قـومـي فانهم لا يعلمون اے میرے اللہ ! اس قوم کو ہدایت دے یہ نہیں جانتے.تو دیکھیں سنت یونس اور سنت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کتنا فرق ہے وہاں قوم کی ندامت اور پشیمانی نے قوم کو بچایا ہے.یہاں قوم کوکوئی ندامت نہیں تھی، کوئی پشیمانی نہیں تھی لیکن حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت بیکراں نے ان کو بچایا ہے.آپ کے دل میں رحمت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا.ظالموں کے حق میں بھی آپ دعا کرنے والے تھے.یہ واقعہ میں نے خصوصیت کے ساتھ جماعت کے سامنے اس لئے رکھا ہے کہ صرف پاکستان کے مظالم کا سوال نہیں ہے.تمام دنیا میں جماعت کے خلاف مظالم کرنے کا Potential بنیادی طور پر اہلیت موجود ہے.جہاں بھی آپ ترقی کریں گے آپ کے خلاف سازشیں ہوں گی، جہاں بھی آپ ترقی کریں گے آپ کے خلاف مظالم ہوں گے اور مظالم کی یہ تاریخ بار بار دہرائی جانے والی تاریخ ہے.یہ نہ سمجھیں کہ پاکستان میں حالات تبدیل ہو گئے تو اس کے بعد ہمیشہ کے لئے آپ کے لئے آسانی اور سبک رفتاری کا سفر ہو گا ہر قدم پر روکیس پڑنے والی ہیں.جس جس ملک میں آپ سر اٹھا ئیں گے اور جس جس ملک میں آپ کا سر اٹھانا ایک قوت کے ساتھ ہوگا، ایسی علامتیں رکھتا ہوگا کہ اُس سے دشمن یہ سمجھے کہ اب یہ غالب آنے والے ہیں وہاں کیسا ہی مہذب ملک کیوں نہ ہو لازماً آپ کی شدید مخالفت ہوگی اور یہ لمبا سفر ہے تو کس کس کی ہلاکت کی دعا کریں گے، کس کس کی تباہی چاہیں گے.گویا آپ سب دنیا کو بچانے کی بجائے ساری دنیا کو ہلاک کرنے کے لئے مبعوث فرمائے گئے ہیں.اس لئے آج پاکستان کے حق میں جو ردعمل دکھانا ہے وہی رد عمل ساری دنیا کے متعلق ہمیشہ کے لئے آپ کا طے شدہ رد عمل ہے اس لئے قرآن کریم نے جو نصیحتیں سورہ ھود کے آخر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمائیں وہ میں نے آپ کے سامنے پڑھ کرسنا دی ہیں اور اب میں ان کا ترجمہ بھی کرتا جاتا ہوں اور جہاں مناسب ہوا اُس کی تشریح کروں گا تا کہ آپ کو بتاؤں کہ جماعت کو کس کردار کو اپنانا ہے اور اس سے چمٹ جانا ہے.بدی چاہتے ہوئے اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 275 خطبہ جمعہ ۷ ار ا پریل ۱۹۹۲ء انتقام کی جو طبعی بات ہے پیاس کو پورا نہ کریں بلکہ وہ انتقام لیں جو حضرت محمد ﷺ کا انتقام تھا جس نے فتح مکہ کے وقت انتقام کی ایک ایسی نئی تاریخ قائم کر دی جس کی ایک چھوٹی سی مثال یوسف اور اس کے بھائیوں کے معاملے کے طور پر قرآن کریم میں بیان ہوئی لیکن بہت محدود مثال تھی.ایک بھائی نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا لیکن حضرت محمد مصطف مے ایک نئی شان یوسفی کے ساتھ دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئے اور شدید ترین دشمنوں کو بھی آپ نے ان واحد میں معاف فرما دیا.ایسے دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا جنہوں نے آپ کے محبوب صحابہ نجیسے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے.ان کا کلیجہ نکال کر چبا لیا ان کو بھی معاف فرما دیا گیا.پس وہ شان یوسفی ہے جو دنیا کو بچانے والی شان ہے جس کے نتیجہ میں اس عالم کی بقا کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اگر جماعت احمدیہ نے وہ شان نہ دکھائی تو یہ دنیا ہلاک شدہ سمجھیں.جو آثار میں دیکھ رہا ہوں نہایت ہولناک اور خوفناک ہیں.تو میں خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا غیر ترقی یافتہ ہوں سب ظالم ہو چکی ہیں اور ظلم ایک دوسرے کے خلاف چڑھائی کر رہا ہے ظلم ایک دوسرے کے خلاف موجیں مار رہا ہے.بعض حالات میں طاقتور ظالم دکھائی دیتا ہے اور کمزور ظالم نہیں دکھائی دیتا لیکن کمزوری کو جب پردے میسر آجائیں جب وہ چھپ کر ظلم کر سکے اُس وقت اگر وہ ظلم سے باز رہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کمزوری تو ہے ظلم نہیں ہے لیکن جہاں کمزوری کو کوئی ناواجب سہارا مل جائے ، جہاں اخفاء کے پردے پڑ جائیں وہاں اگر کمزوری ظلم کرے تو اس کمزوری کو بھی ظالم کمزوری کہیں گے مظلوم کمزوری نہیں کہیں گے.پس انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ تقویٰ سے لولگائیں اور تقویٰ کی وفا اختیار کریں.سچائی سے چمٹیں اور قومیتوں کے فساد سے کنارہ کش ہو جائیں کیونکہ یہ فساد دنیا کو ہلاک کرنے والے فساد میں.رنگ ونسل کی تمیز سے بالا ہو کر اگر آپ نے دنیا کو ہدایت اور نیکی کی طرف بلایا تو پھر آپ میں یہ قدرت ہوگی کہ آپ تمام عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر دیں.اگر آپ نے رنگ ونسل سے بالا ہونے کی صلاحیت اختیار نہ کی تو آپ خود بھی ڈوبیں گے اور دوسری قوموں کو بھی لے ڈوبیں گے اور احمدیت کی فتح کا ان اداؤں کے ساتھ کوئی امکان نہیں ہے.لیکن ہم نے ضرور فتح یاب ہونا.اس لئے مجھے یقین ہے کہ جماعت احمد یہ انشاء اللہ تعالی وقتی تکلیفوں اور جذبات کو قربان کرتے ہوئے اعلیٰ اقدار کی لازماً حفاظت کرے گی اور قومی تفریقات اور نسلی امتیازات سے بالا ہو کر حق کے ساتھ چمٹی رہے گی اور حق کے ساتھ اور صبر
خطبات طاہر جلد ۱۱ کے ساتھ نصیحت کرتی رہے گی.276 خطبہ جمعہ ۷ ارا پریل ۱۹۹۲ء اب میں آپ کے سامنے ان آیات کا ترجمہ رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيرٌ کہ اے محمد ! مضبوطی کے ساتھ اس بات پر قائم ہو جا جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لے.وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ اور وہ سارے لوگ بھی تیری پیروی میں میرے احکامات کو مضبوطی سے پکڑ لیں جنہوں نے تو بہ کر کے تیرے ساتھ شمولیت اختیار کی ہے.وَلَا تَطْغَوا اور تم حدوں کو نہ پھلانگو، حدوں سے تجاوز نہ کرو یعنی توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دو تَطْخَوا کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو حدود مقرر فرمائی ہیں ان کو پھلانگ کر بے راہ روی اختیار نہ کرنا اور دوسرا تَطْغَوا کا مطلب یہ ہے کہ تو ازن اختیار کرو کسی معاملے میں بھی خواہ وہ دنیا کے ہوں یا دین کے ہوں درمیانی حد سے تجاوز نہ کروا پنے معاملات کو متوازن رکھو إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ اور یا درکھو کہ خدا تعالیٰ تمہارے اعمال پر نظر رکھ رہا ہے اور چونکہ اعمال کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے مترتب فرمانا ہے.اس لئے اگر ہمارے اعمال کی گہرائیوں میں بھی رخنے ہوئے اور نیتوں میں فتور ہوا تو نیک نتیجہ بہر حال نہیں نکلے گا.فرمایا وَلَا تَرَكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ اَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ اور ہرگز ان لوگوں کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم سے کام لیا ہے، جنہوں نے ظلم کو اپنا شیوہ بنالیا ہے فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ایسی صورت میں تمہیں ضرور آگ کا عذاب پنچے گا وَمَالَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ اولیاء اور یاد رکھو کہ خدا کے سوا تمہارا دوست کوئی ہے ہی نہیں ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ اُس دوستی کو چھوڑو گے تو پھر کہیں سے مدد نہیں دیئے جاؤ گے.کیسا عظیم کلام ہے اور الہی جماعتوں کے حالات اور تعلقات کا کتنا پیارا اور واضح نقشہ کھینچا گیا ہے.جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کے ظلم کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں یعنی ظلم کے نتیجہ میں دوست بنانا چاہتے ہیں.یہ عجیب الٹی عقل کی بات ہے لیکن مذہب کے معاملے میں یہی ہوا کرتا ہے.ظالم ظلم کرتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ظلم سے باز نہیں آؤں گا جب تک میرے ساتھ شامل نہ ہو اور میری طرز اختیار نہ کرو، میرے جیسے نہ بن جاؤ تو میں تمہیں مارتا چلا جاؤں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 277 خطبہ جمعہ ۷ ارا پریل ۱۹۹۲ء گا.فرمایا ہرگز ان کے جیسا نہیں بنا کیونکہ ظالم تمہارا کیسے ہوسکتا ہے جو تم سے نفرت کا سلوک کر رہا ہے اور ظلم کا سلوک کر رہا ہے وہ تمہارا ہو ہی نہیں سکتا اور یا درکھو دنیا میں کوئی بھی تمہارا نہیں ہے.جب تم خدا کے ہو گئے تو سب تمہارے دشمن ہو چکے ہیں.اسی لئے میں آپ کو بتارہا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جماعت کی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے لا ز ما آپ پر ظلم ہوگا.قرآن کریم یہ فرمارہا ہے اور قرآن کریم کی ہر بات لا ز ما او قطعی طور پر سچی ہوتی ہے.تو یہ ظلم ایک فطری ظلم کی کیفیت کا نام ہے.جب بھی کوئی خدا والا بنتا ہے اور خدائی جماعتیں دنیا میں قائم ہوتی ہیں تو ان کے خلاف ساری دنیا کا ظلم ایک لازمی نتیجہ ہے خواہ وہ پہلے ظاہر ہو یا بعد میں ظاہر ہولیکن فطرتاً اہلیت کے لحاظ سے وہ ظلم ان سب قوموں میں موجود ہے اور قرآن کریم نے متنبہ فرمایا کہ مَالَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ یا د رکھو خدا کے سوا کوئی تمہارا ولی نہیں ہے، کوئی تمہارا دوست نہیں ہے اس کو چھوڑ دو گے تو ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ پھر کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا خواہ تم ظلم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا نہ کرو اس سے قطع نظر یہ ظالم تمہارے کبھی نہیں ہو سکیں گے اور ظالموں کا یہ رویہ ہے.وہ ایک دفعہ اپنے ساتھ شامل کرنے کے بعد دو چار دن ہی دیکھیں چڑھایا کرتے ہیں، دو چار دن ہی پھولوں کے ہار پہناتے ہیں پھر کبھی بھی ان کے نہیں رہتے ، ان کی مصیبتوں میں ساتھ شامل نہیں ہوتے.کبھی ظالموں کو آپ اس طرح نہیں دیکھیں گے کہ کسی کو مرتد کیا اور پھر اس کے لئے در ددل سے دعائیں ہو رہی ہیں اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کے اخلاق کی اصلاح کی کوشش کی جارہی ہے.ارتداد کی ساری تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھ لیں ایک بھی جگہ آپ کواستثناء دکھائی نہیں دے گا.کتنا سچا کلام ہے.فرمایا ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ساتھ شامل کر کے خدا سے تعلق کاٹ دیں گے لیکن تمہارے نہیں بن سکیں گے.پس ایک تو یہ ہے کہ ان جیسا نہیں بننا اور دوسرا یہ فرمایا کہ اس میں صرف مذہب کی تبدیلی مراد نہیں بلکہ عادات کی تبدیلی بھی مراد ہے.مشرق میں اگر مذہب کی تبدیلی پر زور دیا جا رہا ہے تو مغرب میں بنیادی اسلامی معاشرے کو چھوڑ کر غیر اسلامی معاشرہ اختیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے ملکوں میں بسنا ہے، ہمارے اندر شامل ہونا ہے تو تمہیں اپنے معاشرے کو ترک کرنا ہو گا اور ہمارے معاشرے کو اپنا نا ہوگا.اب یہ وہ ایسا مقام ہے جہاں ایک مومن کا کام
خطبات طاہر جلد ۱۱ ہے کہ فراست سے کام کرے.278 خطبہ جمعہ ۱۷ارا پریل ۱۹۹۲ء معاشرے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک قومی عادات اور روایات کی بناء پر جن کا مذہب سے کوئی ٹکراؤ نہیں.وہاں ہر احمدی کی قوم سے محبت اور وفا کا تقاضا یہ ہے کہ ان حصوں کو اپنالے جن حصوں میں خدا چھوڑ کر کوئی معاشرہ اختیار نہیں کرنا پڑتا یا معاشرتی اطوار اختیار نہیں کرنے پڑتے.لیکن ایک وہ معاشرہ ہے جو کل عالم کا مشترکہ معاشرہ ہے جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے وہ اعلیٰ اخلاقی کردار پرمبنی معاشرہ ہے اس کا کسی قومیت سے تعلق نہیں.وہ اسی طرح انگریز کا ہے جیسے ہندوستانی کا، اسی طرح جاپانی کا ہے، جیسے پاکستانی کا ، نہ مشرق کا فرق نہ مغرب کا وہ معاشرہ بین الاقوامی معاشرہ ہے یعنی نور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ ہے جس کے متعلق فرمایا لَّا شَرْقِيَّةِ وَلَا غَرْ ( النور : ۳۶) وہ ایسا معاشرہ ہے جس کو نہ تم مشرق کا قرار دے سکتے ہو نہ مغرب کا.یہ وہ معاشرہ ہے جس کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے ورنہ اس آیت کا بطلان لازم آئے گا، اس کا انکار لازم آئے گا.فرمایا وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا ظَلَمُوا سے مراد ضروری نہیں کہ جسمانی طور پر یا اقتصادی طور پر کسی پر ظلم کیا جائے.ظَلَمُوا سے مراد شرک ہے.شرک کرنے والے، بدیاں کرنے والے، گناہ کرنے والے لوگ ، خدا ہر قسم کی دوری اختیار کرنے والے، یہ سارے ظالم ہیں اور قرآن کریم میں ظلم کی اصطلاح ہر قسم کی تاریکی پر اطلاق پاتی ہے تو فرمایا کہ جن معاشروں میں خدا سے دوری کی تاریکی موجود ہے اس تاریکی کو نہ اپنا لینا اگر تم نے اپنا لیا تو یہ بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ تمہیں اپنا سمجھ لیں گے.اگر تم مشرقی ہو تو مشرق مشرق ہی رہے گی.یا درکھنا کہ مغرب مغرب ہی رہے گی یہ دونوں اس طرح امتزاج اختیار نہیں کر سکتے کہ ایک ہو جائیں.اس کی وجہ مشرقیت اور مغربیت نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض تو میں طاقتور ہیں اور بعض کمزور ہیں اور کمزور قو میں جب طاقت والوں کے رنگ اختیار کرتی ہیں اور ان کی نقلیں اتارتی ہیں تو طاقتور قو میں ظاہری طور پر ان سے حسن سلوک بھی کریں لیکن نفسیاتی طور پر وہ اس یقین پر اور زیادہ قائم ہو جاتی ہیں کہ یہ گھٹیا اور ذلیل لوگ ہیں اور اُن کا احساس برتری پہلے سے بھی بڑھ جاتا ہے اس لئے کمزور قو میں خواہ احساس کمتری کا شکار ہوں یا اس کے بغیر ہوں جب تک وہ عقل اور اقتصادیات اور دنیاوی ترقی کے لحاظ سے اسی پلیٹ فارم پر برابر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 279 خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۹۲ء کے نہ ہو جائیں جس پر آج بعض تو میں فائز ہیں.اس وقت تک ان کا معاشرہ اختیار کرنے سے آپ کو عزت نصیب نہیں ہو سکتی، یہ ناممکن ہے.مشرق میں جاپان ایک بڑی قوم کے طور پر ابھرا ہے اس کے متعلق بعض دانشوروں نے لکھا.یہ غالباً جاپان ہی کے کسی دانشور کی بات ہے کہ جاپان نے ہر طرح مغرب کی نقل اتاری لیکن برابری نہ ہو سکی لیکن جب جاپان نے طاقت اختیار کر لی اور اقتصادی لحاظ سے غالب آ گیا اسلحہ کے لحاظ سے بھی اور فنون حرب کے لحاظ سے بھی ایک طاقت بن کر اُبھرا تو پھر ہم برابر کے ہو گئے.تو یہاں برابری اور غیر برابری کا مسئلہ قومیتوں کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ دنیا میں طبعی طور پر بعض فوقتوں کے رکھنے اور بعض فوقتوں کے نہ رکھنے کے نتیجہ میں ہواگر مشرق کے وہ حالات ہوں جو آج مغرب کے ہیں تو مغرب بھی خواہ جتنا چاہیں مشرق کی نقل اتارے ان کے برابر نہیں ہو سکے گا.پس ان معنوں میں میں سمجھا رہا ہوں کہ اس میں قومی اور نسلی تفریق کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے.جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا.فرمایا وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا تمہیں اس کے نتیجہ میں نقصان تو پہنچے گا، تمہارے حصہ میں آگ تو آئے گی لیکن اولیاء نصیب نہیں ہوں گے.کمزوروں اور غریبوں کا ایک ہی ولی ہے اور وہ اللہ ہے.وہی ہے جو آسمان سے اتنا جھکتا ہے کہ زمین کے پست ترین رہنے والوں سے بھی تعلق قائم کر لیتا ہے اور تحت الشری میں بسنے والوں سے بھی ایک تعلق قائم کر لینا ہے.اس کے سوا کوئی دوسرا ولی ہو ہی نہیں سکتا.انسان تو بنیادی طور پر متکبر ہے اور ذراسی اس کو فضیلت حاصل ہو جائے تو نچلے آدمی کو نچلا ہی سمجھتا ہے.اور اس کے ساتھ جھک کر اُس سے برابری اختیار نہیں کیا کرتا.تو مشرق میں بسنے والے احمدیوں پر جہاں ظلم ہورہے ہیں ان کے لئے بھی یہ نصیحت اُسی طرح کارگر ہے جس طرح مغرب میں بسنے والے احمدیوں پر جو غیر اسلامی معاشرے سے متاثر ہو کر ان لوگوں کے رنگ اختیار کرنے لگتے ہیں.جہاں جہاں اسلامی قدروں کو قربان کر کے وہ رنگ اختیار کرتے ہیں، وہاں وہ گھاٹے میں ہیں جہاں ان قدروں کو قربان کئے بغیر اچھی باتیں اور دنیا کے لحاظ سے بے ضرر باتیں اختیار کرتے ہیں وہاں وہ خوبی بن جاتی ہے.پس احمدی کو بالغ نظر ہوتے ہوئے اس طرح معاملات کا تجزیہ کرنے کے بعد آخری فیصلہ سچائی کے حق میں دینا چاہئے اور اسی کا نام تقویٰ ہے، اس کا نام عقل کل ہے اگر جماعت احمد یہ کچے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 280 خطبہ جمعہ ۷ارا پریل ۱۹۹۲ء معنوں میں گہری تفصیل کے ساتھ متقی ہو جائے تو اتنی عقلمند جماعت بنے گی کہ دنیا کی کوئی جماعت، کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی کیونکہ آخری بات عقل اور حکمت کی بات ہی ہوا کرتی ہے جو جیتا کرتی ہے.جن قوموں نے بھی ترقی کی ہے عقل اور حکمت سے ہی ترقی کی ہے.اسی سے ان کو دنیوی طاقتیں بھی نصیب ہوئی ہیں اور عقل گل تقویٰ کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی.پھر فرمایا وَ اَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَي النَّهَارِ یہ جو تمہیں کہا گیا ہے کہ ان کی طرف نہ جھکو اور خدا ہی تمہارا ولی ہے تو خدا کو پھر ولی بنانے کی بھی تو کوشش کرو اور اس کی ولایت کو پکا کرنے کی کوشش کرے.کیونکہ تمہیں یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ خدا کے سوا کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا.اس کا طریق بیان فرما کہ وَاَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِي النَّهَارِ اپنے دنوں کو عبادتوں سے گھیر لو صبح بھی عبادت کرو اور شام کو بھی عبادت کرو اور راتوں کو بھی اپنے لئے عبادت کے محافظ قائم کرو یعنی اپنی راتوں کی عبادت کے ذریعہ خود اپنی حفاظت کے سامان کرو.یہ ولایت کا معنی ہے جس کو قرآن کریم نے اس نصیحت کے معابعد بیان فرمایا کہ خدا کے سوا تمہارا کوئی ولی نہیں ہے.مدد ملے گی تو وہاں سے ملے گی.کن کو ملے گی؟ کیسے ملے گی؟ کس طرح؟ پھر اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا.فرمایا یہ اعلیٰ مقصد تمہیں عبادتوں کے ذریعہ نصیب ہوگا.وَاَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِي النَّهَارِ دن کے دونوں کناروں پر عبادت کے نگہبان مقرر کر دو.صبح بھی عبادت کرو اور شام کو بھی عبادت کرو اور کچھ رات کو بھی اٹھ کر عبادت کیا کرو اور پھر یا درکھو اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ نیکیاں ضرور بدیوں کو مٹا دیا کرتی ہیں.اب یہ ایک عجیب بیان ہے اور ایسا بیان ہے جس کو ٹھہر کر نسبتا زیادہ گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہئے.عام طور پر ہم دنیا کی تاریخ میں یہ دیکھتے ہیں کہ نیکیاں ظاہر ہوتی ہیں ،سچائیاں ظاہر ہوتی ہیں اور بار بار بدیاں اُن پر غالب آتی ہیں اور سچائیاں کالعدم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.کتنے نبی دنیا میں آئے آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک، بار بار نیکیوں کی لہریں اٹھیں لیکن بالآخر وہ دب گئیں اور ہم نے نیکیوں کو بدیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا.قرآن کریم ایک عجیب اعلان فرما رہا ہے.حیرت انگیز طور پر ایک انقلابی اور مختلف اعلان ہے جو بظاہر تاریخ کے مخالف ہے اور وہ ہے إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ حسنات ہیں جو برائیوں کو کھا جایا کرتی ہیں اور ختم کر دیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 281 خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۹۲ء کرتی ہیں.اسی نیکی اور بدی کے مقابلے کی تاریخ کو اب ایک اور طرح سے دیکھیں تو ایک دم تبدیل شدہ منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے.انسان کے لئے بدی کرنا آسان کام ہے اور یہ پہاڑ سے نیچے اتر نے والی بات ہے اور نیکی کرنا ایک مشکل کام ہے اور یہ پہاڑ پر چڑھنے والی بات ہے اور قرآن کریم نے اسی مثال کے طور پر نیکی کو بیان فرمایا.جب بدیاں پھیلتی ہیں.میں یہ بعد میں بتاؤں گا کہ اس وقت حسنات کی کیفیت کیا ہوتی ہے تو ایک آسان کام ہے اور ہر قسم کے طبعی محرکات اور عوامل بدیوں کی تائید میں حرکت کر رہے ہوتے ہیں.اپنی نیکی کو سنبھال کر رکھنا بڑا مشکل کام ہے.اور جب بدیاں زور مارتی ہیں تو ایک دفعہ انسان نیچے جانا شروع ہو تو وہ گرتا چلا جاتا ہے اس کے مقابل پر بدیوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنا یہ ایک بہت بڑی قوت چاہتا ہے اور اگر یہ ہو تو یہ مجزہ ہے اور ہر نبی کے وقت یہی ہوا کرتا ہے اور سب سے زیادہ شان کے ساتھ یہ مجزہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوا.جہاں خدا نے ایک دفعہ یہ اعلان فرمایا کہ اے محمد ﷺ ہم تجھے ایسی تاریک رات میں یعنی اس لیلۃ القدر میں جو زمانے کی لیلۃ القدر ہے بھیج رہے ہیں کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ساری دنیا میں ہر طرف خشکی ہو یا تری ہو، مذہبی دنیا ہو یا غیر مذہبی فساد پھیل چکا اور غالب آ گیا ہے ظَهَرَ کا مطلب ہے چڑھ دوڑا ہے.دنیا پر جس طرح موجیں چڑھ جایا کرتی ہیں اس طرح ہر چیز پر فساد چڑھ گیا ہے ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا ہے إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ یاد رکھو کہ جو نیکیاں ہم نے تجھے بخشی ہیں ان نیکیوں میں یہ طاقت ہے کہ بدیوں پر غالب آ جائیں اور وہ نیکیاں جن کا خدا کی ذات سے گہرا تعلق ہوتا ہے، جو عبادت کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہیں، جو ولایت کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہیں وہ نیکیاں کبھی مغلوب نہیں ہوا کرتیں اور ہر نبی کے زمانے میں تھوڑایا بہت یہ معجزہ رونما ہوتا آپ دیکھیں گے کہ کامل بدی میں سے نیکی نکلنی شروع ہوتی ہے.راتوں سے دن کی شعاعیں پھوٹتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سعید روحوں کی ایک درخشنده صبح نمودار ہو جایا کرتی ہے.کہیں تھوڑی کہیں زیادہ مگر تھوڑی بھی ہو تو ایک عظیم فتح ہے.حسنات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہر طاقت اُن کے مقابلے میں جتھا کر لے اور انسانی فطرت ان طاقتوں کی تائید میں کھڑی ہو تب بھی جو سچی نیکیاں ہیں ان کو غالب آنے کی استطاعت ہے اور خدا تعالیٰ کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 282 خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۹۲ء تقدیر یہ ہے کہ وہ ضرور غالب آئیں گی.پس اگر نیکیاں غالب نہ رہیں اور مغلوب ہو جا ئیں تو یا درکھیں وہ نیکیاں نہیں ہیں ان کا جو چاہیں نام رکھ لیں نیکیاں مغلوب نہیں ہوا کرتیں.وہ اُس دور کی باتیں ہیں جبکہ لوگ اپنے دین کو بدل چکے ہوتے ہیں جبکہ تعلق باللہ کی بجائے ریا کاری شروع ہو چکی ہوتی ہے، جبکہ وحدانیت کی بجائے انا نیت جگہ لے لیتی ہے اور انسان نفس پرست ہو جاتا ہے اس وقت آپ کو جو عبادتیں دکھائی دیتی ہیں وہ بالکل کھو کھلی اور بے معنی عبادتیں ہوتی ہیں اور وہی زمانہ ہے جبکہ بدیاں نیکیوں پر جو بظاہر نیکیاں ہوتی ہیں غالب آنے لگتی ہیں چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو بار ہا مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے اس کے بعد ایسے لوگ ان کے وارث بن گئے جو حقیقی طور پر نیک نہیں رہے تھے ، وہ بدیوں کے شکار ہو چکے تھے پس وہ نسل جو نیکیوں پر قائم ہو اور کچی نیکیوں پر قائم ہو وہ مغلوب نہیں ہوا کرتی.تین صدیوں تک ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ نیکیاں دنیا پر غالب آتی چلی گئی ہیں.معاشرہ میں بُرائیاں بھی آئیں تو بہت محدود حصہ میں اور بالعموم وہ معاشرہ نیکی کا معاشرہ تھا جہاں نیکی پنپتی ہے اور نیکی کے پنپنے کے نتیجہ میں قوموں کو جو دوسری سعادتیں نصیب ہوا کرتی ہیں وہ ساری نصیب ہوئیں.جب نیکی آتی ہے تو یہ صرف روحانی طور پر کسی قوم کو فضیلت نہیں بخشتی بلکہ دنیاوی فضیلتوں کے پیغام بھی ساتھ لاتی ہے.وہ مقصود نہیں ہوتے لیکن نیکی کے اندر ایک بنیادی صفت ہے کہ نیک آدمی غالب آنے کے لئے بنایا گیا اور اس کا غلبہ صرف مذہب کے دائرے میں محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ غلبہ ایک عمومی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور قوم بحیثیت قوم غالب آجاتی ہے.مذہب کی تاریخ میں آپ کو یہ بات ہر جگہ بار بار دہرائی جاتی دکھائی دے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا.پس یہ بات اللہ تعالیٰ نے یاد کروا دی ہے کہ تم راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنا لیکن اس کے لئے ایک کسوٹی بھی ہم تمہیں دیتے ہیں اگر تم سچے عبادت گزار ہوئے ایسے عبادت گزار ہوئے کہ تمہیں ولایت نصیب ہو تو اس کی علامت یہ ہوگی کہ تمہاری نیکیاں بدیوں پر غالب آئیں گی اور یہ مضمون دو طرح سے ظاہر ہوگا.ایک یہ جو شخص بچے معنوں میں ایک نیکی اختیار کرتا ہے اس کی نیکی پرورش پاتی ہے، بڑھتی ہے، پھولتی اور پھلتی ہے اور رفتہ رفتہ گناہوں کو سر کا سرکا کر باہر نکالنا شروع کر دیتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 283 خطبہ جمعہ ۷ ارا پریل ۱۹۹۲ء بعض لوگ ہیں انہوں نے نیکی کا ایک چھوٹا سا عہد کیا ہوتا ہے، ایک وقت میں ایک نیکی کا عہد کر لیتے ہیں اور پھر ان کا انجام ولایت پر ہوتا ہے، ابرار میں موت ہوتی ہے.یہ مضمون ہے جو انفرادی حیثیت اور ان کا پر ہوتا یہ جو سے صادق آتا ہے اور بالکل سچا اور قطعی مضمون ہے.جو شخص خدا کی خاطر نیکی کا عہد کرے اور نیکی پر قائم ہو جائے خواہ وہ چھوٹی ہی نیکی کیوں نہ ہو، ابتداء میں نیکی کا ایک معمولی حصہ ہی کیوں نہ ہو.اس میں نشو ونما کی طاقت ہوتی ہے اور وہ ضرور رفتہ رفتہ انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے چنانچہ بہت سے اولیاء اللہ کے حالات کا آپ مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ ایک دن یا ایک رات میں آنا فاناولی نہیں بنائے گئے تھے.انہوں نے سچے دل سے بعض باتوں سے توبہ کی اور بعض نیکیاں اختیار کیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ اُن نیکیوں کو اتنا بڑھا دیا جیسے زرخیز زمین میں بیج پڑتا ہے اور بعض دفعہ سینکڑوں گنا بڑھ کر وہ دنیا کے لئے فوائد کا موجب بن جاتا ہے.پس نیک آدمی کی ذات میں نیکی پرورش پاتی ہے، یہ اس کا ایک مطلب ہے.دوسرا یہ ہے کہ قومی طور پر اگر آپ نیک ہوں گے اور بچے نیک ہوں گے تو غیر سوسائٹی پر آپ کو غلبہ نصیب ہوگا اور ضرور ہو گا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بچے نیکوں پر بدوں کو غلبہ عطا ہو جائے اور یہ بات ہم دنیا میں ہر جگہ مشاہدہ کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ ہر قسم کے مخالف حالات میں بھی ترقی پذیر ہے اور مخالفت خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہو،معمولی ہو یا شدید ہو یہ جماعت میں برکت ہی پیدا کر رہی ہے.پس کتنی سچی بات ہے کہ اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ لیکن اس راز کو اچھی طرح پلے باندھ لیں کہ یہ حسنہ وہی ہے جو خدا سے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہو.دنیاوی عادت کے طور پر نہ ہو، دکھاوے کے طور پر نہ ہو، اقتصادی فوائد کی غرض سے نہ ہو.جس طرح بعض قو میں لمبا اقتصادی تجربہ رکھتی ہیں تو تجارتی معاملات میں بالکل صاف ہوتی ہیں اور بعض نادان سمجھتے ہیں بڑی کچی قومیں ہیں حالانکہ جہاں ان کی تجارت کو حقیقی معنوں میں خطرہ درپیش ہو وہاں یہ سب نیکیاں ٹوٹ پھوٹ کر بالکل بریکار اور ضائع ہو جاتی ہیں اور بکھر جاتی ہیں.وہ قائم نہیں رہ سکتیں ، وہ وفا کرنے والی نیکیاں نہیں ہوتیں.وفا کرنے والی نیکی وہی ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو اور خدا کی عبادت کے نتیجہ میں وہ پرورش پائیں.ایسی نیکی ہر قسم کے مخالفانہ حالات میں بھی زندہ رہنے اور باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اسی لئے میں بارہا جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں کہ قرآن کریم نے نیکی کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 284 خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۹۲ء تعریف میں باقی ہونا داخل فرما دیا.صالحات وہی ہیں جو باقیات بھی ہیں.کتنی عظیم کتاب ہے، کیسا فصیح و بلیغ کلام ہے؟ ایک جگہ جس بات کا ذکر فرمایا گیا ہے لازماً ہر جگہ اس قرآن میں جو تئیس سال میں نازل ہوا ہے.اسی مضمون کو دہرایا گیا ہے اور اس کو تقویت دی گئی ہے اور مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے.سارے قرآن کریم میں ایک بھی تضاد آپ کو دکھائی نہیں دے گا.پس إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ کا باقیات ہونا یہ دراصل ایک ہی مضمون کی دو شکلیں ہیں.پس جماعت احمدیہ کو جو مقابلے در پیش ہیں ان کی باقی باتیں میں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا کیونکہ جتنی آیات تلاوت کی گئی ہیں وہ زیادہ ہیں اور تشریح کے ساتھ بیان کرنے کا وقت تھوڑا تھا اس لئے میں اس آیت پر اس خطبہ کو ختم کروں گا.یذْهِبْنَ السَّيِّاتِ کے مضمون کو سمجھیں اور اس میں ایک گہرا راز ہے چنانچہ قرآن کریم نے متنبہ فرمایا ہے کہ ذلِكَ ذِكْرَى لِلذَّكِرِينَ یاد رکھو! کوئی معمولی بات نہیں ہے، یونہی کوئی محاورہ نہیں ہے جس طرح بعض دانشور محاورے گھڑ دیا کرتے ہیں اور وہ بڑے ہر دلعزیز بھی ہو جایا کرتے ہیں.ذکری لِلہ کرین جو اللہ کا ذکر کرنے والے لوگ ہیں، جو گہری فہم رکھنے والے لوگ ہیں ان کے لئے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے.پس آپ کو غالب آنے کا راز سمجھایا گیا ہے.ایسا راز جو اتنا قطعی اور قوی ہے جو نا کام نہیں ہوگا اور کبھی آپ سے بے وفائی نہیں کرے گا.آپ کی تبلیغ کی کامیابی کا ایک ایسا راز آپ کو بتلا دیا گیا کہ وہ بے شک آپ کو براہ راست دکھائی نہ دے کہ تبلیغ میں مد ہو گا لیکن قرآن کریم کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی.آپ اپنی ذات میں حسنات کو قائم فرمائیں اور قائم کرنے کا طریق یہ ہے کہ عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنا ذاتی تعلق بڑھا ئیں.دن کو بھی عبادت کریں، رات کو بھی عبادت کریں اور ذکری سے نصیحت حاصل کریں.ذکری خدا کے ذکر کو بھی کہتے ہیں.ذکری تاریخ میں آنے والی قوموں کے حالات کو بھی کہتے ہیں جو سبق آموز حالات ہوں تو فرمایا کہ تم قوموں کی تاریخ کا ، ان کے عروج وزوال کا مطالعہ کیا کرو اور مذہبی نقطہ نگاہ سے تم ہمیشہ یہ بات دیکھو گے جب تو میں خدا سے دور ہٹی ہیں تو ہلاک کر دی گئی ہیں اور دنیاوی طاقت ان کو بچا نہیں سکی اور جن قوموں نے اپنے معاشرے کو غیر معاشرے سے مرعوب ہو کر چھوڑ دیا ہے اور وہ مجھی ہیں کہ یہ زیادہ ترقی یافتہ لوگ ہیں.ہمیں ان جیسی عادتیں اختیار کرنی چاہئیں.ان کے ساتھ ڈانس کریں ، ان کے ساتھ شرابیں پئیں، ان
خطبات طاہر جلدا 285 خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۹۲ء کے ساتھ آزادی سے پھریں تو ہمیں عزت کا مقام ملے گا.یہ قوم پھر ہمیں اپنے جیسا درجہ دے گی.فرمایا یہ سب دھوکہ ہے.ذِکری کا یہ بھی معنی ہے.قرآن کریم ذکری کی پہلے مثال بیان فرما چکا ہے.کہتا ہے کہ بیوقوف نہ بننا.انسانی نفسیات کے خلاف باتیں ہیں.ناممکن ہے کہ بدوں کے رنگ اختیار کر کے تمہیں عزت نصیب ہو جائے.عزت حاصل کرنے کے لئے خدا کے رنگ اختیار کرنے ہوں گے.اس جیسے اخلاق اپنانے ہوں گے.عزت حاصل کرنے کے لئے ایسی حسنات کو اختیار کرنا ہو گا جن کے اندر یہ غالب طاقت موجود ہے کہ وہ بدیوں کو زائل اور باطل کرتی چلی جاتی ہیں اور نیکی وہی ہے جو غالب ہو کر چکے جیسے کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.حقیقت میں جب ایک احمدی سچی نیکی اختیار کرتا ہے تو اس کا معاشرہ اس سے متاثر ہورہا ہوتا ہے.اس سے مرعوب ہو رہا ہوتا ہے.ظاہری طور پر چند دن باتیں ہوتی ہیں کہ جی تم پاگل لوگ کس زمانے کے انسان ہو.آج کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہا لیکن نیکی دل میں گہرا اثر کرنے والی چیز ہے اور کچھ عرصے کے بعد جو لوگ ایک نیک کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں وہ اس سے مرعوب ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کی عزت کرتے چلے جاتے ہیں، اس سے نیکی کے رنگ سیکھنے لگتے ہیں اور نیک انسان اکیلا نہیں رہتا.وہ ایک جاگ کے قطرے کی طرح ہوتا ہے جسے خواہ سمندر میں بھی پھینک دیا جائے.اس کے مقدر میں بڑھنا ہی بڑھنا ہے.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یہ تاریخ یعنی نیکیوں کی تاریخ اسی طرح دہرائی گئی تھی لیکن بہت بڑی شان کے ساتھ جو پہلے برتنوں میں دہرائی جاتی تھی، جو پہلے تالابوں میں دہرائی جاتی تھی وہ تمام عالم کے سمندروں میں دہرائی گئی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ساری دنیا کی اصلاح کے لئے قائم فرمایا گیا.آپ نے وہی کام کرنا ہے تو اسی طریق پر کرنا ہو گا جس طریق پر خدا نے آپ کو سمجھایا اور آپ نے کر کے دکھایا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 287 خطبه جمعه ۲۴ راپریل ۱۹۹۲ء دنیا کو کمزور یوں سے پاک کرنے کے لئے آپ کو مامور فرمایا گیا ہے.آپ اس پر قائم ہو جائیں خدا آپ کی حفاظت فرمائے گا.(خطبه جمعه فرموده ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ ۖ إِنَّ الْحَسَنُتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّكِرِينَ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيْلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوْا فِيْهِ وَكَانُوْا مُجْرِمِينَ (هود: ۱۱۵ ۱۱۷) پھر فرمایا:.یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان سے متعلق کچھ بیان کرنے سے پہلے اپنے ایک گزشتہ خطبہ کے حوالے سے ایک تصحیح کرنی چاہتا ہوں.میں نے ۳ / اپریل کے خطبہ میں اپنی اہلیہ آصفہ بیگم کی تاریخ پیدائش ۲۱ / جنوری ۱۹۳۶ء بیان کی تھی اور حوالہ یہ دیا تھا کہ ان کے پہلے پاسپورٹ میں یہ تاریخ درج ہے.میں نے جا کر دیکھا تو واقعہ یہی تاریخ پاسپورٹ پر درج ہے لیکن پاسپورٹ پر اندراج میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ اب مجھے چھوٹی آپا حضرت سیدہ اتم متین صاحبہ نے پرانے الفضل دیکھ کر وہاں سے حوالہ بھیجا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سن بھی اور تاریخ بھی غلط درج تھی ان کی پیدائش ۲۱ ؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو نہیں بلکہ ۶ ارجنوری بروز بدھ ہوئی تھی یعنی ۱۵ اور ۱۶ کی درمیانی رات کو جبکہ ۱۶ کی تاریخ شروع ہو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 288 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء چکی تھی.اسی طرح تاریخ شادی میں بھی غلطی ہوگئی تھی میں نے کہا تھا کہ مجھے یاد نہیں ہے لیکن غالباً کہا تھا کہ سترہ ہے.وہ بھی وہاں سے حضرت چھوٹی آپا نے الفضل دیکھ کر بتایا ہے کہ ۸/ تاریخ کور بوہ سے بارات لاہور کے لئے روانہ ہوئی تھی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں یہ بارات گئی تھی.حضرت مصلح موعودؓ بوجہ بیماری خود شرکت نہیں فرما سکے تھے اور ۹ر دسمبر کو پیر کے روز لاہور میں شادی ہوئی اور پھر اسی روز وہاں سے واپس ہوئی پس یہ دو تاریخیں درست کرنے والی تھیں معمولی باتیں ہیں لیکن چونکہ یہ خطبات تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں اس لئے ان میں غلطی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کی تصحیح ساتھ ساتھ ہوتی رہنی چاہئے.آج میں نے جو آیات کریمہ تلاوت کی ہیں یہ انہی آیات میں سے لی گئی ہیں یا انہی کا حصہ ہیں جو پہلے بھی تلاوت کی جاچکی ہیں.پہلے تقریبا پورا رکوع میں نے تلاوت کیا تھا.پہلی آیت یعنی أَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَقِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ اگر چہ زیر بحث لائی جا چکی ہے لیکن آج اس آیت سے دوبارہ تلاوت اس لئے شروع کی کہ مجھے جمعہ کے بعد یہ بتایا گیا کہ زُلفا کی بجائے میں زُلفا پڑھ گیا تھا جہاں تک اس کی تصیح کا تعلق ہے وہ تو کیسٹ میں کر دی گئی تھی اور جماعتوں کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا لیکن آج اس بات کو دہرانے کا مقصد اور ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے اس سلسلہ میں مزید تحقیق کی قرآن کریم میں یہ لفظ جس طرح مستعمل ہوا ہے اُن جگہوں کو دیکھا اور لغت کے حوالے سے مزید غور کیا کہ زُلفا اور زُلَفًا میں کیا فرق ہے.قرآن کریم میں مثلاً لفظ زُلفی کی کھڑی زبر کے ساتھ تین مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ اس کا معنی قرب ہے لیکن زُلفا لفظ کی لغت کا جب میں نے مستند کتب سے جائزہ لیا تو ایک ایسا امر سامنے آیا جو ایک بہت قیمتی چھپا ہوا موتی تھا.جسے اس آیت کے ضمن میں بیان ہونا چاہئے تھا لیکن وہ نظر سے اوجھل ہو گیا اور میں نے سوچا کہ بعض غلطیوں سے بھی اللہ تعالیٰ بہت سی برکتیں نکال دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حکمتیں بہت باریک ہیں.پہلے میں آپ کے سامنے مختصر الغوی بحث رکھتا ہوں، قرآن کریم کی اس آیت میں لفظ زُلَفًا جو استعمال ہوا ہے اس کا مصدر ہے ظَلْفًا وَ زَلَفَاً و زَلِیفًا یہ تین مصادر آئے ہیں اور ان مصادر میں کہیں بھی فکلمہ یعنی " پر ضمہ یعنی پیش نہیں ہے زُلفا و زَلَفًا و زَلِيْفًا اور زُلَفًا کا لفظ مصدر میں یہاں استعمال نہیں ہو الیکن اس مصدر سے ایک اور اشتقاق ہوا ہے یعنی اس سے مشتق نکلا ہوا ایک اور
خطبات طاہر جلدا 289 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء لفظ ہے اور وہ ہے.النُّلْفَةُ زلف اور اس آیت کریمہ میں جو لفظ زُ لَفاً استعمال ہوا ہے.وہ اسی زُلْفَ سے لیا گیا ہے.اس سے آگے پھر زُلفاً بنتا ہے.جو قابل ذکر بات تھی وہ یہ تھی کہ میں اس مضمون کے متعلق یہ رجحان رکھتا تھا کہ اس آیت میں لفظ زُلفاً صرف رات کے ٹکڑے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا.بلکہ قرب الہی کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے کیونکہ لفظ زُلفی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں قرب کے معنی ہیں، رات کے معنی نہیں ہیں.( زلف ی، کھڑی الف سے جو زلفی لفظ ہے اس میں قرب کے معنی ہیں اور رات کے معنی نہیں ہیں ) اسی طرح اور مصادر میں بھی قرب کے معنی ہیں اور رات کے معنی نہیں مثلاً یہیں جو اصل مصدر زُلفا وَ زَلَفًا و زَلوُفًا ہے اس میں قربت اور کسی سے دوستی چاہنا اس کے قریب ہو جانے کے معنی تو ہیں مگر رات کے معنی نہیں لیکن اس سے جو مشتق ہوا ہے زُلْفَةً اس میں خدا تعالیٰ کا یہ عجیب تصرف ہے کہ رات کے معنی بھی ہیں اور قربت کے معنی بھی ہیں اور یہ دونوں معنی یہاں اکٹھے ہو گئے ہیں.پس قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ کرشمہ ہے کہ ان تمام لفظوں میں سے وہ لفظ اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا جس میں محض رات کے ٹکڑے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں اور یہ مضمون ویسے ہی ہے جیسے فَتَهَجَّدُ بِه نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ( بنی اسرائیل : ۸۰) میں بیان ہوا ہے کہ رات کو اٹھ کر اگر تم نوافل پڑھو گے اور تہجد پڑھو گے تو یہ ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں پیار عطا ہوگا اور مقام محمود عطا ہوگا.پس اس آیت کے اب یہ معنی بنیں گے.وَاَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِي النَّهَارِ نماز کو قائم کرو، عبادت کیا کرو، دن کے دونوں کناروں کے وقت یعنی صبح بھی سورج نکلنے کے بعد دن کے پہلے حصہ میں بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے دن کے آخری حصے میں بھی وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ اور رات کے کسی حصہ میں بھی لیکن زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ میں کسی حصے سے زیادہ معنے پائے جاتے ہیں کیونکہ زُلف کا مطلب رات کا وہ حصہ بھی ہے جو دن کے ساتھ لگا ہوا ہو اور دونوں طرف زُلفا کا لفظ اطلاق پاتا ہے.تو مراد یہ ہے کہ دن کے دونوں کناروں پر بھی ، ابھی دن ہو تو نماز پڑھا کرو، عبادت کیا کرو اور رات کے دونوں کناروں پر بھی یعنی ان کناروں پر جو دن سے ملتے ہیں عبادت کیا کرو اور وَزُلَفًا کا الگ آزاد معنی یہ ہو گا اور رات کے کسی حصہ میں اٹھ کر الگ عبادت بھی کیا کرو.پانچوں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 290 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء وقت کی ساری نمازیں اور ان کے اوقات اس آیت کریمہ میں بیان ہو گئے اور زُلفا میں ہمیں یہ مزید معنی ملے کہ اگر تم رات کو اُٹھ کر الگ عبادت کرو گے تو تمہیں قرب الہی عطا ہو گا.ایسا قرب الہی جو عام نمازوں سے بڑھ کر ہے اور یہ نماز تمہیں اپنے رب کے قریب تر کر دے گی.پس اس مزید اضافی تشریح کے ساتھ اب میں اگلی آیت کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کیونکہ اس آیت کریمہ کے دوسرے پہلوؤں پر گزشتہ خطبہ میں گفتگو ہو چکی ہے.وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ صبر سے کام لے کیونکہ اللہ تعالی محسنین کا اجر ضائع نہیں فرماتا محسنین کون لوگ ہیں؟ اس کا ایک تعلق نماز سے بھی ہے اور چونکہ نماز کی بات ہو رہی ہے اس لئے سب سے پہلے نماز سے تعلق رکھنے والے معنی بیان ہونے چاہئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے محسن کی یہ تعریف فرمائی کہ جو اس طرح عبادت کرے گا کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر وہ ایسی عبادت کے مقام پر ابھی فائز نہیں ہوا اسے یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے کہ گویا خدا کو سامنے کھڑا دیکھ رہا ہے تو کم سے کم اتنا تو کرے کہ یہ احساس بیدار ر کھے کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے اور ساری عبادت کے وقت اس کے ذہن پر یہ ایک تصور مستولی ہو اور یہ بات طاری ہو کہ میں خدا کے حضور کھڑا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے.یہ حسن ہے جو ایسی نماز ادا کرتا ہے تو اس آیت کریمہ میں پہلے فرمایا وَ اصْبِرُ پھر فرمایا کہ اِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ که یقینا اللہ تعالی محسنین کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا.صبر کا جہاں تک تعلق ہے اس کے مختلف معانی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں عام غم کی حالت میں انسان خدا کی خاطر جو برداشت کرتا ہے اور حوصلہ نہیں چھوڑتا اسے بھی صبر کہا جاتا ہے لیکن نیکیوں کے ساتھ چمٹ جانے کو بھی صبر کہا جاتا ہے.مضبوطی سے نیکی پر ہاتھ ڈالنا اور اس پر قائم ہو جانا اسے صبر کہتے ہیں.صبر کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے.پہلے میں یہ بیان کر لوں پھر محسنین کے تعلق میں اگلی بات بیان کروں گا.نیکی کے دو کنارے ہیں ایک وہ جب انسان نیکی میں داخل ہوتا ہے اس وقت نیکی پر انسان کو دوام حاصل نہیں ہو جا تا بلکہ نیکی کو اختیار کرنے میں کچھ محنت کرنی پڑتی ہے.جدو جہد کرنی پڑتی ہے.نیکی عقل کے لحاظ سے تو اچھی لگتی ہے لیکن عادت اور مزاج کے لحاظ سے مشکل معلوم ہوتی ہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 291 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء جہاں بھی مشکل اور تکلیف کا مضمون ہوگا وہیں صبر کا مضمون ہوگا.پس صبر کی اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ ایک شخص اگر نئی نئی نماز شروع کرے، نیا نیا سچ بولنا شروع کرے، نیا نیا لین دین میں معاملہ صاف رکھنے کی کوشش کرے تو شروع میں اُسے بہت دقت پیش آتی ہے نماز کے لئے اٹھنا اور اس پر قائم ہونا بھی مشکل، سچ بولنا بھی مشکل اور معاملات صاف کرنا بھی مشکل غرضیکہ ہر نیکی ، یہ ایک لازمہ ہے کہ نیکی کی ابتداء میں انسان دقت محسوس کرتا ہے، تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کا یہ معنی کیا کہ نیکی سے چمٹ جائے، کسی حالت میں اُسے چھوڑے نہیں اور جب نیکی اس سے آگے ترقی کر جاتی ہے تو پھر وہ احسان میں داخل ہو جاتی ہے.ہر نیکی انسان کو احسان کی طرف لے کر جاتی ہے اور اس وقت نیکی میں ایک لطف پیدا ہو جاتا ہے.محسن کا ایک یہ معنی بھی ہے کہ اپنے فعل کو زیادہ خوبصورت بنانے والا.پس عبادت کے لحاظ سے محسن کا مطلب ہے، وہ شخص جو عبادت کرتے وقت گویا خدا کو دیکھ رہا ہو اور آمنے سامنے اس سے گفتگو کر رہا ہو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر یہ نہیں تو کم سے کم حاضر باش رہے یہ خیال ہمیشہ اُسے دامن گیر رہے کہ میں سب سے اعلیٰ اور اجل ہستی کے سامنے کھڑا ہوں اور اس حضوری کے جو تقاضے ہیں ، جو ادب اور احترام اس احساس کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کی عبادت اور اس کی حرکات وسکنات میں پیدا ہو جائے.محسن کا دوسرا مطلب ہے کسی چیز کو خوبصورت بنانے والا پہلے سے بہتر کر دینے والا کسی چیز میں حسن داخل کرنے والا پس وہ لوگ جو نیکی پر صبر سے قائم ہو جاتے ہیں ان کی نیکی پھر حسین ہو جاتی ہے اس میں دلکشی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ نیکی محض جبر سے نہیں کرتے بلکہ اسکی محبت میں کرتے ہیں.نیکی کے ساتھ ایک لطف وابستہ ہوتا ہے جو ابتداء میں حاصل نہیں ہوا کرتا کچھ عرصے کے تجربہ کے بعد اس میں سے وہ حسن پھوٹتا ہے اور نیکی سے محبت پیدا ہو جاتی ہے.تو صبر کے بعد محسن کی تعریف پھر یہ ہوئی کہ وہ لوگ جو نیکیاں اختیار کرتے ہیں اور صبر سے مستقل مزاجی کے ساتھ کوشش کے ساتھ ، باوجود اس کے کہ دل مائل نہ ہو وہ اس نیکی کو مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں اور پھر کسی حالت میں اس کو چھوڑتے نہیں رفتہ رفتہ ان کی نیکی میں سے ایک حُسن پھوٹتا ہے اور ان کی نیکی میں ایک نور پیدا ہو جاتا ہے اور ایک دلکشی پیدا ہوتی ہے.پس وہ نیکیوں سے جبر کے ساتھ نہیں بلکہ محبت کے نتیجہ میں تعلق رکھنے لگ جاتے ہیں اور وہ نیکیاں بغیر کسی کوشش اور بغیر جدوجہد کے ان کی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 292 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء ایسی حالت میں جب نماز میں داخل ہو تو پھر وہ محسنین کی نماز بنتی ہے.ایسی حالت میں انہیں دیدار نصیب ہوتا ہے اور حسن کے دیدار سے زیادہ اور کسی چیز میں لذت نہیں.پس اس کے معنی یہ ہوں گے کہ صبر کے ساتھ نماز ادا کرنے والے اگر چہ آغاز میں انہیں نماز کے مزے نہ بھی آتے ہوں تو وہ اس یقین کے ساتھ کہ یہ اچھی چیز ہے اُس سے چمٹے رہتے ہیں پھر نماز میں ایک حسن پھوٹتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پھر خدا تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوتا ہے اور وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کا آنحضور ﷺ نے ذکر فرمایا کہ وہ خدا کو اپنے سامنے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور اسی میں نماز کی اصل لذت ہے اور اس سے پہلے کا مرتبہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے کھڑا ہوا محسوس کرنے لگ جاتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ مرتبہ کو پہلے بیان فرمایا کہ یہ مقصود ہونا چاہئے اور بیچ کی منزل کو بعد میں بیان فرمایا جس میں سے ہر محسن ضرور گزرتا ہے.پس جب نمازیں جاگ اٹھتی ہیں اور ان میں روشنی پیدا ہوتی ہے تو پہلے ان کے اندر اپنا ایک ذاتی حسن پیدا ہوتا ہے پھر خدا تعالیٰ کے قرب کا احساس نمایاں ہو جاتا ہے اور نماز کے ہر حصہ پر غالب آجاتا ہے.اس قرب سے پھر دیدار الہی پھوٹتا ہے اور نمازی کو اپنا محبوب خدا اپنے سامنے کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے.سجدہ کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ خدا کے قدموں میں سجدہ کر رہا ہے اور یہ نماز کی وہ لذت ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ کہ یاد رکھو! اللہ احسان کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا.پس جولوگ دعوت الی اللہ اس طریق پر کریں جس طریق پر قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور عبادت اور نیکیوں کے ساتھ ایسا تعلق قائم کریں جیسا کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہے تو بالآخر وہ ضرور کامیاب ہوں گے اور صبر کے یہ بھی معنی ہیں کہ اپنے نیک انجام پر یقین رکھیں.اگر یہ یقین نہ ہو تو صبر آ ہی نہیں سکتا.حقیقی صبر اُسی کو نصیب ہوتا ہے جو خدا پر ایمان لاتا ہے اور آخرت پر ایمان لاتا ہے کیونکہ آخرت اچھے انجام کی خبر دیتی ہے.دنیا میں کوئی کتنی ہی تکلیفوں میں سے گزررہا ہو یا اس کا کوئی قریبی گزررہا ہو جب دل میں یہ کامل یقین جاگزیں ہو کہ بالآخر ان تکلیفوں سے صرف چھٹکارا ہی نصیب نہیں ہونا بلکہ اس سے بہت بہتر حالت عطا ہوگی جو دنیا کی سب تکلیفوں کے مقابل پر اتنی عظیم الشان نعمت ہوگی کہ سب تکلیفیں بھول جائیں گی تو اس کے نتیجہ میں صبر عطا ہوتا ہے.صبر کا یقین سے ایک بہت گہرا تعلق ہے تو فرمایا کہ جب نماز کو پکڑو یا نیکیوں کو پکڑو تو دل میں یہ کامل یقین ہونا چاہئے کہ بالآخر یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 293 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء نیکیاں یا یہ عبادتیں تمہیں نیک انجام تک پہنچائیں گی اور اگر تم ایسا کرو گے تو یاد رکھو خدا تعالیٰ بھی ایسا ہی سلوک تم سے فرمائے گا اِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ.اللہ تعالیٰ ہرگز کبھی بھی احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں فرمایا کرتا.پھر فرمایا.فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيْلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ اے کاش ایسا ہوتا، ایسا کیوں نہ ہوا.فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ کہ پرانے لوگوں میں سے، پرانی بستیوں میں سے، پرانی قوموں میں سے جو تم سے پہلے گزریں ایسے عقل والے لوگ کیوں نہ پیدا ہوئے کہ جو فساد سے روکتے اور زمین کو فساد سے پاک کرنے کی کوشش کرتے إِلَّا قَلِیلًا مِّمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ہاں چند ایسے لوگ تھے جومستثنیٰ تھے.پہلے لوگوں میں سے بھی ایسے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ فساد کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اس کے نتیجہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات بخش دی.وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أَتْرِفُوْا فِيْهِ وَوَكَانُوا مُجْرِمِينَ لیکن یہ لوگ جنہوں نے ظلم کی راہ اختیار کی.انہوں نے کس چیز کی پیروی کی فرمایا وَ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ ان لوگوں نے ان آسائشوں کی پیروی کی جو خدا تعالیٰ نے ان کو عطا کی تھیں یا مضمون یوں ہے کہ مَا أُتْرِفُوا فِیهِ جو ان کو میسر آئیں یا ان کو دی گئی تھیں یعنی نعمت کی زندگی ، آسائش کی زندگی عیش و عشرت کی زندگی، ان چیزوں کو انہوں نے ترجیح دی وَ كَانُوا مُجْرِ مِيْنَ اور وہ مجرم بن گئے یا مجرم تھے.اس آیت میں جو تدریج بیان ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مجرم بننا ظَلَمُوا کے نتیجہ میں ہوا.اور ظَلَمُوا کی تشریح یہ فرمائی کہ وہ آسائشوں کے پرستار ہو گئے آسائشوں کی پیروی کرنے والے ہو گئے دنیا کی لذتوں کے لئے وقف ہو گئے.اس سے پہلے یہی لفظ ظَلَمُوا ان آیات میں گزرا ہے جو میں پہلے تلاوت کر چکا ہوں.فرمایا وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ان لوگوں کی طرف ہرگز نہ جھکو جن کی طرف تمہارا کوئی میلان نہ ہو جو ظالم ہوئے اب اس آیت میں ظلم کی تشریح فرما دی ہے کہ ہم نے جو تمہیں خبر دار کیا ہے کہ ظالموں کے قریب بھی نہ ہونا ان کی طرف جھکنا نہیں تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہاں اس مضمون میں ظلم سے کیا مراد ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 294 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء اس مضمون کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظلم سے یہ مراد ہے کہ انسان دنیا کی لذتوں میں کھویا جائے اور ان کی پیروی کو اپنا مقصود اور مطلوب بنا بیٹھے.دنیا کی لذتیں اور آسائشیں ان کا مقصود اور قبلہ بن جائے.ایسے لوگ جن کا یہ قبلہ بن جاتی ہیں فرمایا ان کی طرف کوئی میلان نہیں ہونا چاہئے ، ان کی طرف کوئی جھکاؤ نہیں ہونا چاہئے.اگر تم ایسا کرو گے تو یاد رکھو کہ ظالم لوگ ایسا کیا کرتے ہیں اور جب ظالم ایسا کرتے ہیں تو خدا کے حضور مجرم کے طور پر حاضر ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے یا ہو گا اس کے متعلق آگے پھر تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے.اس میں جماعت احمدیہ کے لئے بہت ہی گہری نصیحت ہے جو اس زمانے میں آج کل کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں بہت کام دینے والی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جب کل کو عالم میں تبلیغ کا منصوبہ بنایا تو اس کے ساتھ تحریک جدید کا اعلان فرمایا اور تحریک جدید صرف مالی قربانی کا نام نہیں جس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں تبلیغ ہوئی تھی بلکہ تحریک جدید اُس پروگرام کا نام ہے جس کے نتیجہ میں احمدیوں کو یہ تلقین کی گئی کہ عمداً آسائشوں سے روگردانی کرو اور دنیا کی لذتوں میں غرق نہ ہو.جہاں تک ممکن ہے، توفیق ہے سادہ زندگی اختیار کرو اور عیش و عشرت کی دنیا کو چھوڑ دو اور اپنی تمام تر تو جہات خدمت دین کی طرف مائل کر دو.تو لَا تَزكَنُوا میں جو نصیحت قرآن کریم نے فرمائی ہے وہ ہے ظالموں کی طرف نہ جھکو.حضرت مصلح موعودؓ کا جو پروگرام تھاوہ محسنین کی طرف جھکنے کا پروگرام تھا اور اس آیت کا جو مثبت نتیجہ نکلتا ہے اس کا وہ پروگرام تھا کہ یہ نہ کرو تو پھر کیا کر و فر مایا محسنین کی طرف جھکو اور اس کے متعلق ایک تفصیلی پروگرام دیا گیا..آج کل جو مغربی معاشرہ ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی لذتوں کی طرف بلانے والا معاشرہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو سے اب مغرب اور مشرق میں کوئی تمیز نہیں رہی.پاکستان میں بھی مادہ پرستی کے اسی طرح ابتلاء ہیں جیسے مغرب میں ہیں.ہندوستان میں بھی ویسے ہیں جیسے مغرب کے دوسرے ممالک میں ہیں.چین اور جاپان دوسرے ایشیائی ملک جس طرف بھی آپ نظر ڈالیں سب میں یہی بلا قوموں کو کھاتی ہوئی دکھائی دے گی کہ دنیا کی لذتیں اور ان کا تتبع اور ان کی طرف دوڑنا اور پاگلوں کی طرح عیش و آرام کی زندگی کے طلبگار ہو جانا اور اسی کے لئے وقف ہو جانا یہ آج قومی رجحانات کا خلاصہ ہے خواہ مغرب کی دنیا ہو یا مشرقی ہو اس پہلو سے سب برابر ہو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 295 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء چکے ہیں اور یہی وہ بڑی مصیبت ہے جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی رفتار پر نہایت ہی مضر اثر پڑسکتا ہے.جماعت احمدیہ خواہ مغربی معاشرے میں نبرد آزما ہو یا مشرقی معاشرے میں نبرد آزما ہو یعنی جہاد میں مصروف ہو جماعت کا وہ حصہ جو تنم کی زندگی کواپنا قبلہ بنالیتا ہے سوسائٹی کی طرف دوڑتا ہے اور سوسائٹی کی رنگینیوں کو دین کی سادگی پر فوقیت دیتا ہے اور ترجیح دیتا ہے وہ حصہ عملاً جماعت سے کٹنا شروع ہو جاتا ہے اور نیک کاموں میں وہ ممد اور مددگار رہنے کی اہلیت نہیں رکھتا دل میں اگر نیکیاں ہیں بھی تو جن کا قبلہ دنیا ہو جائے ، جن کی زندگی کا مقصود عیش و طرب ہو اُن کے لئے نیک کام کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور دو طرح کے نقصان ہوتے ہیں.اول یہ کہ ساری جماعت ساری دنیا میں جہاد میں مصروف ہے اور کہیں دعوت الی اللہ کے پروگرام بیان کئے جارہے ہیں، کہیں خدمت خلق کے پروگرام بیان کئے جارہے ہوں، کہیں دنیا کے بڑے بڑے عظیم ممالک کو فتح کرنے کے منصوبے پیش کئے جارہے ہوں.وہاں یہ حصہ جس کا دنیا کی طرف رجحان ہو جاتا ہے اوّل تو ایسے مواقع پر حاضر ہی نہیں ہوتا جہاں یہ نیک نصیحتیں کی جاتی ہیں.یہ جمعوں سے دور ہو جاتے ہیں ، جماعت کی مجالس سے دور ہو جاتے ہیں ان کی اولا دمیں خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اور ان کی بچیاں لجنات سے رفتہ رفتہ کنارہ کش ہونے لگ جاتی ہیں اور ان میں اور جماعت کے نیک کاموں میں فاصلے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور اس کا بالآخر یہ نقصان پہنچتا ہے کہ صرف ان کا حال ہی ہاتھ سے نہیں جاتا بلکہ ان کی آئندہ نسلیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور ایسے لوگوں کے بچے پھر اپنے والدین کے مقابل پر جماعت سے بہت زیادہ دور ہٹ جاتے ہیں کیونکہ والدین نے کم سے کم نیک لوگوں کی گود میں پرورش پائی ہوتی ہے ایسی جو نسلیں میرے پیش نظر ہیں ان میں اکثر وہ بڑے لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد صحابہ یا صحابہ نہیں بھی تھے تو بزرگ تابعین تھے اور بہت ہی پاکیزہ لوگ تھے.نیک خلق اور نیک عمل کرنے والے اور ان کو مل کر ہی انسان کے دل میں نیکی کی ایک بشاشت پیدا ہوتی تھی ایسے لوگوں کو انہوں نے اپنے گھروں میں چلتے پھرتے دیکھا ہوا ہے.وہ اب موجود نہ بھی رہے ہوں تو ان کی نیکی کا یہ اثر ضرور ان کے دل میں جاگزیں ہو چکا ہے کہ احمدیت کچی ہے اور احمدیت کے نتیجہ میں خدا ملتا ہے لیکن دنیا داری کی حرص اور عیش و طرب کی لالچ نے احمدیت سے تعلق کمزور کر دیا لیکن ایمان بہر حال موجود ہے.جن بیچارے بچوں نے یہ کمزور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 296 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء ہوئے ماں باپ دیکھے اور ان کے آباؤ اجداد نہیں دیکھے ان کے دل پر وہ اثر بھی باقی نہیں رہا جو اس پہلی نسل کے دل پر باقی تھا.ایمان میں بھی کمزوری آگئی.اپنے ماں باپ کو انہوں نے دنیا کے عیش و عشرت میں اور اس عیش و عشرت کی تلاش میں سرگرداں دیکھا ہے اور دنیا کی لذتوں کی طرف دوڑتا ہوا دیکھا ہے تو اس سے ان کو ایمان کا تو کوئی پیغام نہیں ملا.احمدیت کی سچائی کا جو پیغام ملا ہے وہ ایک لفظی سا پیغام ہے اور نیک اثر کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں پر جاگزیں نہیں ہوا نقش نہیں بنا، اس لحاظ سے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی آئندہ نسلوں کو بھی تباہ کر جاتے ہیں اور وہ نسلیں پھر اور دور ہٹ جاتی ہیں.شروع میں احمدیت کے نام کی شرم رہتی ہے.جب اللہ تعالیٰ انہیں امیری کے ابتلاء کے ذریعہ آزمائے تو پھر وہ بیچارے بدنصیب خاندان ہٹتے ہٹتے جماعت سے بالکل ہی تعلق تو ڑ بیٹھے ہیں.ایسی بہت سی نسلیں ہیں جن کا مختلف وقتوں میں مجھے جائزہ لینے کا بھی موقعہ ملا اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا بھی موقع ملا مختلف وجوہات سے ایسا ہوا لیکن ایک بڑا ابتلاء دنیا پرستی کا ابتلاء تھا جس نے جماعت کے بہت سے خاندانوں کو رفتہ رفتہ جماعت سے کاٹ دیا اور اگر جماعت میں رہے بھی تو ایک نیم جان کی حالت میں، نہ زندوں میں نہ مردوں میں اور آئندہ نسلیں پھر ان کی بالکل ختم ہوگئیں.جو موجودہ نسل ہے جو اللہ کے فضل سے اس وقت اخلاص میں ترقی کر رہی ہے اور میں نے اپنے تجربے سے دیکھا ہے جہاں تک بھی خدا تعالیٰ نے مجھے جماعت سے رابطے کی توفیق بخشی ہے میں خدا کے فضل سے یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے چھوٹے بڑے مرد اور عورتیں سب ہی رفتہ رفتہ دین میں ترقی کر رہے ہیں اور ان کی جماعت احمد یہ اور اس کے مقاصد سے محبت بڑھتی جارہی ہے اور تعلق مضبوط ہورہا ہے.بہت سے ایسے نوجوان بھی تھے اور بڑے بھی جو کناروں تک پہنچے ہوئے تھے.وہ رفتہ رفتہ واپس آرہے ہیں اور ایک نیا ولولہ پیدا ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے نئی صدی کے سر پر آپ کو رکھنے کی یہ جزا دی ہے کہ اپنی طرف سے آپ کے قدم مضبوط کر دیئے ہیں اور آپ کو خدا تعالی گھیر کر واپس جماعت کے دل کی طرف لا رہا ہے تا کہ آپ آئندہ دنیا کے لئے دل بن جائیں اور مرکزی کردار ادا کریں اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح نمونہ بنیں جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت کی نسل آج تک ہمارے لئے ایک نمونہ ہے اور ہمیشہ نمونہ بنی رہے گی.پس یہ وہ مضمون ہے جسے میں اچھی طرح ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مشرق
خطبات طاہر جلدا 297 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء میں ہوں یا مغرب میں.جیسا کہ قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے دنیا کی لذتوں سے اس حد تک لاز مارو گردانی کرنی ہوگی کہ آپ کا دل گواہی دے کہ آپ ایک سرسری سی نظر سے ان باتوں سے تعلق رکھتے ہیں.ان کے ہو نہیں گئے ورنہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں جو نعمتیں پیدا کی ہیں وہ مومنین کے لئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر نعمت جو پاک ہو وہ مومن کے لئے ہے اس سے کنارہ کشی کرنے کی تعلیم نہیں ہے.نعمتوں کی طرف رجحان کو درست کیا گیا ہے.یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارا قبلہ اور مقصود دنیا کی نعمتیں نہ بن جائیں ورنہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ نعمتیں تو ہم نے مومنوں کے لئے پیدا کی ہیں اس دنیا میں بھی اور آخری دنیا میں تو خالصہ مومنوں کے لئے ہوں گی.پس جہاں تک نعمتوں کا تعلق ہے اُن سے استفادہ کرنا منع نہیں لیکن عیش و طرب یعنی نعمتوں کا غلط استعمال اور پھر نعمتوں کی طرف غلط رجحان یہاں تک کہ وہ زندگی کا مقصود بن جائیں اور ان کے بغیر انسان سمجھے کہ میری ساری عمر ضائع ہوگئی یہ باتیں غلط ہیں.اس جدو جہد کو آسان کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ تعلیم فرمائی کہ صبر کرو اور یا درکھو کہ اگر تم محسن بن جاؤ گے تو تمہارا کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا.پس صبر کے ایک اور معنی بھی اس صورتحال پر اطلاق پارہے ہیں کہ دنیا طلبی سے روگردانی کے وقت بھی کچھ صبر کرنا پڑتا ہے اور جب آپ مضبوطی سے صبر پر قائم ہو جائیں گے تو اس صبر سے بھی ایک حسن پھوٹے گا.معاشرتی لحاظ سے وہ حسن کیا ہے یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.دنیا کی مثلاً جو لذتیں ہم مغرب میں دیکھ رہے ہیں وہ خاندان خواہ احمدی ہوں یا غیر احمدی ہوں ، مسلم یا غیر مسلم ، عیسائی غیر عیسائی ، دہریہ ، سارے خاندان اس پہلو سے یکجائی صورت میں میرے پیش نظر ہیں جو لوگ دنیا طلبی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ان کی زندگی سے سکون اٹھ جاتا ہے.ان کے گھروں سے امن اٹھ جاتا ہے، ان کے ہاں کسی چیز کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں رہتی.معاشرہ دن بدن دکھوں میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک ایسا موقع آتا ہے کہ نہ بیٹی باپ کی ہے، نہ باپ بیٹی کا ، نہ بیٹا ماں کا ہے نہ ماں بیٹے کی ، بہن بھائی سے جُدا ہو جاتی ہے اور اس طرح اس گھر میں اکٹھے رہتے ہیں جیسے کچھ جانور اتفاقا ایک جگہ اکٹھے کر دیئے گئے ہوں.ان کی معیشت اکٹھی ہو گئی ہے لیکن صرف کچھ عرصے کے لئے اور جب ذرا بڑے ہوئے تو پھر جس طرح کبوتر چونچیں مار کر اپنے چھوٹے بچوں کو جب وہ ذرا سا الگ ہونے کی صلاحیت اختیار کر لیتے ہیں تو گھونسلے سے باہر نکال دیتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 298 خطبه جمعه ۲۴ راپریل ۱۹۹۲ء اسی طرح آجکل کی مغربی دنیا میں بہت سی جگہ بچوں سے یہ سلوک ہوتا ہے.جرمنی میں خصوصیت سے بعض جرمن احمدیوں نے میرے سامنے بعض واقعات بیان کئے.مجھے تو یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ یہ تو روز مرہ کی بات ہے.بیٹا بڑا ہوا تو اس کے بعد وہ اپنے گھر میں اپنے رہنے کا بل ادا کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح اگر باپ بعد میں آ کر اس کے پاس ٹھہرے تو باپ اس کو اپنا بل دے گا.وہ جو ایک خاندان کی اعلیٰ قدریں ہیں اور ایک دوسرے کے لئے ایثار اور قربانی کی اور ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی وہ ساری قدریں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور ماضی کی بات ہو چکی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ پھر ایک دوسرے کے ساتھ سختی ہے ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا تو کیا سوال عدل بھی باقی نہیں رہتا.کئی مستثنیٰ بھی ہیں.کئی ایسے خاندان بھی جانتا ہوں، انگلستان میں بھی اور جرمنی میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی جن میں بہت قرب ہے اور ایک دوسرے سے بہت پیار کرنے اور والے ہیں.ساری قوم ایک سی نہیں لیکن رجحان وہی ہے جو میں بتارہا ہوں اور یہ بڑھتا ہوا رجحان ہے اور ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جب سے یہ قائم ہوا ہے آگے ہی بڑھا ہے پیچھے نہیں ہٹا.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے وہ خاندان جو مغرب میں زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے.شروع میں ان کو صبر کرنا پڑے گا اپنے بچوں کو بھی ، اپنی بیویوں کو بھی ، اپنی بچیوں کو بھی سمجھانا ہو گا کہ اس معاشرے میں کچھ نہیں ہے صرف دکھ ہی دکھ ہیں ، وقتی عارضی لذتیں ہیں ان سے کنارہ کشی کرو اور اس میں ہی صبر ہے اور اس کے لئے لازماً کچھ عرصہ صبر سے کام لینا پڑتا ہے.اس کے نتیجہ میں پھر گھر کا جو محبت اور پیار کا پاکیزہ ماحول پیدا ہوتا ہے وہ حسن ہے جو صبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور جن گھروں میں یہ حسن ہو ان کی باہر کی طرف نظر ہی نہیں رہتی.وہ گھر خود کشش کا موجب بن جاتے ہیں اور ہر وہ شخص جو ان گھروں سے وابستہ ہوتا ہے باہر سے گھبرا کر جلد از جلد گھر لوٹنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کو اپنے باپ سے، اپنی ماں سے، اپنی بہنوں سے، اپنے بھائیوں سے، اپنے عزیزوں سے جو پیار ملتا ہے اور جو اپنائیت ہوتی ہے، جو یقین ہے کہ یہ ہمارے ہیں اور ہم ان کے ہیں اس کے نتیجہ میں ایک ایسا خوبصورت سکون نصیب ہوتا ہے کہ اس کی مثال باہر کی دنیا میں کم پائی جاتی ہے اور وہ لوگ جو دنیا کی لذتوں کی پیروی کرنے والے ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ یہ لذت کیا چیز.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 299 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء ہے.پس اس کے نتیجہ میں پھر یہ لوگ رفتہ رفتہ محسن بن جاتے ہیں.اپنے معاشرے کا حسن دوسروں کو دینے لگ جاتے ہیں وہ لوگ جو ان کے گھروں میں آتے ہیں وہ ان گھروں کی لذت کو دیکھ کر محسوس بھی کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں حسرتیں اٹھتی ہیں کہ کاش ہمیں بھی ایسے پاکیزہ گھر نصیب ہوتے.ان سے وہ دوستیاں کرتے ہیں ان سے تعلق بڑھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے نمونے دیکھ کر پھر ان میں سے کئی اسلام اور اسلام کی سچی تشریح یعنی حقیقی اسلام، احمدیت کو قبول کر لیتے ہیں ایک بچی کی میں نے مثال دی تھی اس نے پچھلے رمضان سے ایک دوروز پہلے بیعت کی تھی.اُسے جب میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ جو احمدی بچیاں ہیں اور ان کے گھر کا ماحول ہے.یہ مجھے ایسا پُرکشش لگتا تھا، ایسا پیارا لگتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں لازماً مجھے اس مذہب کی تحقیق کرنی پڑی اور جب میں نے تحقیق کی تو مجھے دل سے یہ مذہب پیارا لگنے لگا تو محسن کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ وہ کسی حسن کو اختیار کرلے.فرمایا صبر کے نتیجہ میں محسن بنو گے اور جب محسن بنو گے تو وہ حسن جو تمہیں صبر نے بخشا ہے وہ تم دوسروں کو بانٹنے لگ جاؤ گے.موتی بن جاؤ گے تمہارا فیض دنیا کو پہنچے گا اور اس طرح یہ حسن پھیلتا چلا جائے گا.لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ وہ اس کے پھل اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے.اُس کے احسان کی زندگی ضائع نہیں جائے گی بلکہ اس زندگی کو وہ اس دنیا پر غالب دیکھیں گے اور کامیاب دیکھیں گے اور جان لیں گے کہ اس میں ایک طاقت ہے اور اسی طرز زندگی نے بالآخر دنیا پر غالب آتا ہے.پس ان معنوں میں جماعت کو صبر پر قائم ہونا چاہئے اور جہاں تک مشرقی دنیا کا تعلق ہے پاکستان ہو یا ہندوستان ، جو حالات ہم جانتے ہیں، ہمیں علم ہے کہ نئی نسلیں بہت تیزی کے ساتھ اُن ساری برائیوں کا شکار ہو رہی ہیں جن میں سے اکثر کا آغاز امریکہ میں ہوتا ہے.وہاں وہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ساری دنیا میں برآمد کی جاتی ہیں اور بہت تیزی کے ساتھ امیر بھی اور غریب بھی نشوں کے مریض، گناہ کے ہر طریق پر منہ مارنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے سچ اور جھوٹ کی تمیز اٹھ چکی ہے ، حلال اور حرام کمائی کی تمیز اٹھ چکی ہے، انصاف اور ظلم کے درمیان کوئی تفریق نہیں رہی اور ہر پہلو سے ہمارا معاشرہ اتنا داغدار اور گندہ ہو چکا ہے اور اس قدر زخمی ہو چکا ہے کہ وہ خواہ ان دکھوں کو محسوس کریں نہ کریں دیکھنے والے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 300 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء سے جانتے ہیں کہ یہ زخم دراصل موت کی طرف لے جانے والے زخم ہیں، ایسے زخم ہیں جن میں.بہت سے ناسور بن چکے ہیں، ایسے ہیں جو کینسر کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ان سے بچنا مشکل دکھائی دیتا ہے.ان لوگوں کی اصلاح کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم فرمایا گیا ہے.اگر اُن ہتھیاروں سے لیس ہو جائیں جن ہتھیاروں کا قرآن کریم نے یہاں ذکر فرمایا ہے تو پھر جد وجہد کا آغاز ہوگا اور وہ آغاز کیسے ہو گا؟ فرمایا فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ اے کاش! تم سے پہلی قوموں کو یہ عقل آ گئی ہوتی کہ وہ بات سمجھ جاتے کہ جب معاشرہ چاروں طرف بیمار ہو چکا ہو اور دن بدن موت کی طرف آگے بڑھ رہا ہو تو ان کو بچانے والے ہلاکت کے گڑھوں سے واپس بلانے والے، ایسے آواز دینے والے ہونے چاہئیں جو بار بار اُن کو متنبہ کریں اور کہیں کہ تم ہلاکت کی طرف جا رہے ہو واپس آؤ.ان آواز دینے والوں کی صفات کیا ہیں ، وہ پہلے بیان ہو چکیں.وہ صبر کرنے والے ہیں، وہ احسان کرنے والے ہیں، احسان کے ہر معنے میں وہ احسان کرنے والے ہیں.وہ لوگ ہیں جو خدا کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی عبادتیں زندہ ہو جاتی ہیں.ان کی راتیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا تعلق باندھ لیتے ہیں اور خدا اُن کا قبلہ بن جاتا ہے.ایسا قبلہ جو قبلے کی طرف کہیں نہیں بلکہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے.اگر وہ اُسے دیکھ نہیں سکتے تو وہ انہیں دیکھ رہا ہوتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کریم نے أولُوا بَقِيَّةِ فرمایا صاحب عقل لوگ یہ ہیں اور یہ لوگ لازماً پھر معاشرے کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں یہ خاموش رہ ہی نہیں سکتے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان مراتب کو حاصل کر چکے ہوں اور معاشرے سے بے نیاز اور بے پرواہ ہو جائیں.لازما وہ خدا کی طرف بلانے والے بنتے ہیں اور خدا کی طرف بلانے کے لئے پہلا قدم بدیوں سے روکنا ہے، برائیوں سے معاشرے کو پاک کرنے کی کوشش کرنا، فرمایا اگر وه الفَسَادِ فِي الْأَرْضِ سے لوگوں کو روکتے تو سوائے ان تھوڑے سے لوگوں کے جن پر اللہ نے احسان فرمایا، قو میں اس بد انجام کو نہ پہنچتیں.اب یہ وہ ایک ایسی آیت ہے جو ہمارے اور ہمارے دشمن مولویوں میں نمایاں تفریق اور تمیز کرنے والی آیت ہے.وہ دین کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن برائیوں کے خلاف کوئی جہاد نہیں کرتے.ان کا اگر جہاد ہے تو گھوم پھر کر بالآخر احمدیوں پر ظلم کرنا اُن کے جہاد کا نام ہے اور
خطبات طاہر جلدا 301 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء قرآن کریم فرماتا ہے کہ جہاد ظلم کے خلاف ہونا چاہئے نہ کہ ظلم کے ذریعہ تو کیا اُن کی سچائی ہے؟ کیا ان میں حقیقت ہے؟ وہ احمدی جو بعض دفعہ ان لوگوں کے چکر میں آکر کمزوری دکھاتے ہیں میں ان کی عقل پر حیران ہوتا ہوں کہ اتنی کلی کلی تمیز اللہ تعالیٰ نے دکھا دی ہے.ایسا واضح فرق کر دیا ہے کہ گویا احمدیت کو فرقان عطا فرما دیا ہے اور پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سچے ہیں کہ وہ سچے ہیں.قرآن کریم کی ان آیات کی کسوٹی پر اُن کو پر کھ کر دیکھیں تو کسی میں اگر معمولی سی بھی عقل ہو تو اُسے دور کا بھی یہ واہمہ نہیں ہو گا کہ احمدیت کا معاند ملاں سچا ہو سکتا ہے.اس کی ساری زندگی ظلم کی تعلیم دینے پر وقف ہو چکی ہے اور وہ ظلم جس کو خدا تعالیٰ ظالم قرار دیتا ہے دنیا کی عیش پرستی اور اس کی لذتوں میں کھو جانا اور اس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان سے نا انصافی کا سلوک کرنا ، معاشرے میں ہر قسم کی بدی کا پیدا ہو جانا اس ظلم کے خلاف ان کے تمام احساسات یوں ہیں گویا مر چکے ہیں.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ پاکستان کے علماء کونصیحتا یہ بات کہی تھی اگر چہ میں جانتا ہوں کہ وہ نصیحت کو سننے والے نہیں مگر خواہ کوئی سنے یا نہ سنے نصیحت کرنا تو ہمارا فرض ہے اور قرآن کریم کی یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ نصیحت کرو.میں نے اُن سے کہا کہ کچھ دیر کے لئے تم احمدیت کا پیچھا چھوڑو اور اسلام کو بچانے کی کوشش کرو.گلی گلی میں، گھر گھر میں اسلام مر رہا ہے اسلامی اقدار مر رہی ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اسلامی معاشرے سے یہ سنت غائب ہو رہی ہے.اس پر تمہارا دل کیوں نہیں روتا ، اس پر تمہاری جان کیوں نہیں نکلتی ، اس پر تمہاری راتوں کی نیند کیوں حرام نہیں ہو جاتی.تم اُٹھو اور یہ عظیم جہاد کرو.ملک کی گلی گلی ، شہر شہر، تم قریہ قریہ، گاؤں گاؤں بستی بستی میں اور مسلمانوں کو جو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کو بتاؤ اور دکھاؤ کہ وہ حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے کتنا دور جاچکے ہیں اور کتنا دور ہوتے چلے جارہے ہیں.آج پاکستان کے کسی شہر میں نمونیہ ہزار، پندرہ سو، دو ہزار آدمی منتخب کریں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی کسوٹی پر اُن کو پرکھنے کی کوشش کریں وہ پر کھنے کی کوشش ہی گستاخی رسول معلوم ہوگی.یعنی مثال کے طور پر وہ لوگ جو سندھ میں ڈاکے ڈال رہے ہیں اور اغوا کر رہے ہیں اور جس طرح گلی گلی میں ظلم اور سفاکی سے کام لیا جا رہا ہے، بے حیائی عام ہو رہی ہے، زندگی کا مقصد گندے گانے سننا ہی ہے اس کے سوا کچھ باقی رہا ہی نہیں یا گندی فلمیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 302 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء میسر آجائیں تو عیش وعشرت کی انتہا ہو جاتی ہے.ہر قسم کی برائیوں کی پیروی ہو رہی ہے، جھوٹ بولا جارہا ہے، رشوت لی جا رہی ہے، دی جارہی ہے، ان لوگوں میں سے نمونے چنیں اور اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی کسوٹی پر پرکھو تو جس کو آنحضور سے محبت ہے اس کو اس پر.بے انتہا غیرت محسوس ہوگی.وہ کہے گا ان کو پرکھوں، ان کی حیثیت کیا ہے؟ یہ تو میرے آقا پاک محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہے کہ ان کی کسوٹی پر ان لوگوں کو پر کھ کر دیکھا جائے.یہ تو دکھائی دے رہے ہیں ، نظر آ رہے ہیں کہ کن کے ہیں اور کن کے ہو چکے ہیں.یہ ملاں کو نظر نہیں آ رہا.میں نے کہا! خدا کے لئے اگر تمہیں اسلام سے محبت ہے تو یہ کام کیوں نہیں کرتے.جو چند مسلمان رہ گئے ہیں اُن کو ہی غیر مسلم بنا کر اسلام کو تم نے پاک کرنا ہے جو غیر مسلم یعنی اپنے عمل کے ذریعہ غیر مسلم اسلام میں بھر گئے ہیں ان کی اصلاح کی طرف تمہیں کوئی توجہ نہیں ہے.لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ یہ آپ ہی کا کام ہے.آپ وہ اُولُوا بَقِيَّةِ ہیں جو معدود چند ہیں اُس اُمت کے مقابل پر جو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہورہی ہیں چند لیکن آپ کو خدا نے یہ عقل دی ہے.آپ کا یہ کام ہے کہ تمام دنیا کے معاشرے کو بدیوں سے پاک کرنے کے لئے اعلانِ جنگ کریں.یہ جہاد شروع کریں، ہر جگہ اپنے دفتر کے ماحول میں، اپنے کاروبار، اپنی دکان کے ماحول میں، اپنے تعلیمی ماحول میں، اپنے دوستوں کے تعلقات کے ماحول میں، جہاں بھی آپ جائیں وہاں بُرائیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیں اور ہر قوم کی مخصوص بُرائیاں ہیں.پاکستان کی اپنی بُرائیاں ہیں، ہندوستان کی اپنی ہیں اور انگلستان کی اپنی ہیں، اور ضروری نہیں کہ ہندو پاکستان کے معاشرے چونکہ ملتے ہیں اس لئے ان کی بُرائیاں بھی ایک جیسی ہوں.ایک لطیفہ ہے لیکن اس میں برائیوں کا فرق کر کے دکھایا گیا ہے.کہتے ہیں کہ ایک کتا پاکستان کا بارڈر کراس کر کے ہندوستان جا رہا تھا اور ایک کتا ہندوستان کا بارڈر کر اس کر کے پاکستان آرہا تھا.جو ہندوستان سے آ رہا تھا وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا، غریب بھوکا، فاقوں کا شکار اور جو پاکستان سے جار ہا تھا وہ بڑا مسٹنڈا ، موٹا تازہ ، اچھی خوراک سے پلا ہوا کتنا تھا تو اس پاکستانی کتے نے ہندوستان والے کتے سے جب پوچھا کہ تم بارڈر کراس کر کے پاکستان کیوں آ رہے ہو.اُس نے کہا بھوکے مر گئے، نظر نہیں آ رہا تمہیں.میری شکل دیکھو، میری صورت دیکھو.فاقوں کا شکار ہوں پھر اُس نے کہا کہ میری بات تو قابل فہم ہے لیکن تم بتاؤ کہ تمہیں کیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 303 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء سوجھی ہے، تم کیوں ہندوستان جارہے ہو تو اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں روٹی تو بہت ملتی ہے مگر بھونکنے نہیں دیتے.آزادی ضمیر ہی نہیں تو دیکھ لیں ہمسایہ ملک ہیں.ایک ہی قسم کا پس منظر ہے یہاں ایک بُرائی ہے وہاں دوسری برائی ہے.وہاں اور قسم کا جہاد ہے یہاں اور قسم کا جہاد ہے لیکن بنیادی طور پر جہاد اللہ کی خاطر ہونا چاہئے.خدا کی خاطر دنیا کے معاشروں کو کمزوریوں اور بُرائیوں سے پاک کرنے کے لئے آپ کو مامور فرمایا گیا ہے آپ اس پر قائم ہو جائیں.خدا آپ کی نسلوں کی حفاظت فرمائے گا، آئندہ نسلوں کی حفاظت فرمائے گا.آپ کا فیض اس صدی کے آخری کنارے تک پہنچے گا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 305 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء جہادا کبر یعنی تربیت کے جہاد کا معیار بلند کریں اصلاحی کمیٹیوں کے قیام کا اعلان خطبه جمعه فرموده یکم مئی۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا مَلَكَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ، وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ و ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (هود: ۱۱۸ تا ۱۲۱) پھر فرمایا:.جن آیات کریمہ کی دو جمعہ پہلے تلاوت کی گئی تھی انہی کا مضمون جاری ہے آج جس آیت سے میں نے یہ مضمون شروع کیا ہے وہ ہے وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمِ قَ أَهْلُهَا مُصْلِحُونَ کہ خدا ہر گز ایسا نہیں کرتا کہ کسی بستی والوں کو بظلم ظلم کی رو سے ہلاک کر دے وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ جبکہ اس کے رہنے والے اصلاح میں مصروف ہوں.اَھلُهَا کا ایک معنی تو ” عام رہنے والے ہے یہاں اھلھا سے مراد ہے وہ جو بستی کا حق ادا کرنے والے
خطبات طاہر جلدا 306 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء لوگ ہیں جو اس بستی کے اہل ہیں اور وہ تھوڑی تعداد میں ہوا کرتے ہیں، قرآن کریم کی کسی آیت پر اگر صحیح غور کرنا ہو تو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ اس آیت کو دیکھا جائے تو پھر اصل مضمون ظاہر ہوتا ہے.یہ تمام آیات بتارہی ہیں کہ بہت تھوڑے ہیں جو حق کو پانے والے ہیں، بہت تھوڑے ہیں جن کو نیکی کی توفیق ملتی ہے اور اکثر ایسے ہیں جو ضائع چلے جاتے ہیں.پس آٹھٹھا سے ساری بستی کے اہل مراد نہیں ہیں بلکہ وہ جو بستی کے اہل کہلانے کا حق رکھتے ہیں اور انکی تعریف یہ ہے کہ وہ اصلاح میں مصروف رہتے ہیں.جہاں تک خدا تعالیٰ کی طرف ظلم کے منسوخ ہونے کا تعلق ہے یہ ظلم کے معانی کے اس طرح منافی ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم منسوب ہو کیونکہ ظلم عدل کے فقدان کو کہتے ہیں اور اندھیروں کو کہتے ہیں.ہر قسم کی تاریکی ظلم کے تابع ہے ہر قسم کی نا انصافی ظلم کے تابع ہے.تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ جونور کا منبع ہو اور جس سے عدل کے میزان نکلیں، جو عدل کے سلیقے دنیا کو سکھائے، جس کی ساری کائنات عدل کی ایک جیتی جاگتی تصویر بنی رہے اس کی طرف ظلم منسوب ہو سکے.اس لئے جب بھی قوموں کی ہلاکت کے فیصلے کئے جاتے ہیں تو لازماً ان قوموں کی کمزوریوں کے نتیجہ میں ، ان کی خرابیوں کے نتیجہ میں ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور جن کو بچایا جاتا ہے ان کو بھی عدل کے پیمانوں سے نہیں بلکہ رحم کے پیمانوں سے بچایا جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو خوب اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعہ میں جبکہ فرشتوں نے آپ کو حضرت لوط کی قوم کی ہلاکت کی خبر دی.یہ خدا تعالیٰ سے آپ کی گفتگو اور مناجات کا ذکر ہے فرشتوں سے انہوں نے بحث کی اور مراد یہ تھی کہ خدا تعالیٰ تک یہ بات پہنچےاور اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے میں تبدیلی فرمائے.اس کا تفصیلی ذکر بائبل میں ملتا ہے.بارہا پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت ابراہیم کی یہ کوشش تھی کہ خدا تعالیٰ چند نیکوں کے بدلے ساری قوم کو معاف فرمادے.چنانچہ فرشتوں سے لمبی بحث چلی ہے یہاں تک کہ آخر پر آکر حضرت ابراہیم نے یہ کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ اگر وہاں دس نیک ہوں تب بھی خدا اس قوم کو ہلاک کر دے گا تو فرشتوں نے کہا دس نیک ہوں تب بھی ہلاک نہیں کرے گا.حضرت ابراہیم نے پھر اپنا ہاتھ اُٹھا لیا کہ ایسی بدنصیب قوم جہاں دس بھی نیک نہ ہوں ان کے لئے اسقدر بحث کرنا اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 307 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء مناجات کرنا بالکل بے فائدہ اور ناحق ہے.پس جہاں جہاں مُصْلِحُونَ کا ذکر ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری بستی اگر اصلاح کرنے والی ہو تو اس کو اللہ ہلاک نہیں کرتا لیکن ہرگز یہ مراد نہیں ہے.بستی میں جو اہلیت رکھنے والے لوگ ہیں (اہل سے مراد باشندے ہیں مگر اہل کا ایک اور معنی بھی ہے کہ جو اہل کہلانے کے مستحق ہیں) وہ گنتی کے چند افراد ہوں وہ اگر کوشش میں مصروف ہوں اور ان کی اتنی تعداد ہو کہ اس نتیجہ میں قوم کی زندگی کے امکانات پیدا ہو جا ئیں تو جب تک ان کی کوشش کا نتیجہ نہیں نکلتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کو موقع دیتا چلا جاتا ہے اور اس حالت میں قوم کو ہلاک نہیں کرتا کہ مُصْلِحُونَ اپنی کوششوں میں مصروف ہوں.پس اس آیت کو آپ دوبارہ دیکھیں تو آپ کو پتا لگے گا کہ وَاَهْلُهَا مُصْلِحُونَ میں اصلاح کی ایک جاری کوشش کا ذکر ہے ، وہ اصلاح میں مصروف لوگ ہیں جو اپنے کام میں لگے چلے جاتے ہیں اور حتی المقدور کوشش کرتے چلے جاتے ہیں جب تک ان کو پورا موقع عطا نہیں کر دیا جاتا جب تک ان کی کوششوں کا آخری نتیجہ نہیں نکلتا اس وقت تک قوم کو ہلاک نہیں کیا جاتا.آخری نتیجہ نکلنے کی دوصورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ ان کی اصلاح کے نتیجہ میں کچھ لوگ اصلاح کے اثر کے نیچے اپنے آپ کو درست کرنے لگ جاتے ہیں ، ان کے اعمال اچھے ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت شروع کر دیتے ہیں خواہ جزوی ہو خواہ کلی ہو نیکی کی بات کا نیک ردعمل دکھانا یہ نتیجہ ہے.ضروری نہیں کہ وہ فوری طور پر ایمان لے آئیں ایمان لانے کا مسئلہ بعض دفعہ دیر میں طے ہوتا ہے.اگر اصلاح کی طرف کوئی توجہ شروع کر دے تو بالآخر از ماوہ ایمان پر منتج ہوتا ہے.ایسا شخص جو نیک باتوں کا مثبت جواب دینے لگتا ہے ، شرافت کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ نیک نصیحت کو قبول کرتا ہے وہ بالآخر ایمان دار بن جاتا ہے اور اس کا انجام نیکوں کے ساتھ ہوتا ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار (در مشین : ۱۳۷) جس کے اندر نیکی کے آثار ہوں اس نے لازماً یہیں آ کر مرنا ہے، اس کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں فرمائے گا.پس وہ قومیں جن میں خرابیاں کثرت سے پھیل رہی ہوں اگر ان میں مصلحین پیدا ہو جائیں اور ان کی کوششوں کا نیک اثر ظاہر ہونا شروع ہو جائے تو ان قوموں کی آزمائش کو خدا تعالیٰ ان
خطبات طاہر جلد ۱۱ 308 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء معنوں میں لمبا کر دیتا ہے کہ مصلحین کو خوب موقع دیتا ہے اور قوم کو بھی خوب موقع دیتا ہے کہ صورتحال سے فائدہ اُٹھا کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں.پس کسی قوم کو بچانا ہو تو محض دُعا ئیں کام نہیں آئیں گی.دعاؤں کے ساتھ تدبیر کا ایک مضمون ہے جو ساتھ کے ساتھ چلتا ہے اور ضروری ہے کہ تدبیر کو اس کی انتہا ء تک پہنچایا جائے.اس کے ساتھ پھر دُعاؤں کو بھی انتہاء تک پہنچایا جائے.یہ دونوں قو تیں ایسی ہیں جو مل کر یقیناً قوموں کی کایا پلٹ سکتی ہیں.یہ ایسی قوی طاقتیں ہیں کہ جس کے نتیجہ میں پھر قوموں کی تقدیر میں بدلتی ہیں.مردے زندہ ہو جاتے ہیں.حیرت انگیز روحانی انقلاب برپا ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ میں اس آیت کا زندہ نقشہ اس شان سے دکھائی دیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا.نہ آئندہ کبھی نظر آ سکتا ہے.آنحضور ﷺ نے کوششوں کو انتہاء تک پہنچا دیا اور دعاؤں کو بھی انتہا ء تک پہنچا دیا اس کے نتیجہ میں دیکھتے دیکھتے مردہ بستیاں زندہ ہونی شروع ہوئیں اور ساری قوم کی کایا پلٹ گئی اور حیرت انگیز روحانی انقلاب برپا ہوا جس کا اثر پھر صدیوں تک جاری رہا ہے.آج بھی اس کا فیض دنیا میں جاری وساری ہے اگر چہ اس شان کے ساتھ وہ فیض دکھائی نہیں دیتا.امت مسلمہ گر کر خواہ کسی بھی گراوٹ کے مقام تک پہنچ گئی ہو آنحضرت یہ کی تعلیم کی پیروی اور دعاؤں کی برکت سے اپنے مقابل پر دوسری امتوں کی نسبت ان کے دلوں میں کم شقاوت ہے.ان میں نیکی کا جو پانی ہے وہ بہت گہرا نیچے نہیں گیا.تھوڑا سا کھودنے سے پھوٹ پڑتا ہے اور بڑی بھاری تعداد ایسی ہے جو فطرتا نیک ہے اور اس کے نتیجہ میں اگر ان پر کوشش کی جائے تو باقی قوموں کی نسبت ان پر کوشش کرنا زیادہ مفید ہے پس خصوصیت سے وہ احمدی جو پاکستان میں ہونے والے لمبے مظالم سے بہت دُکھی ہیں اور بعض دفعہ بددعا کی طرف مائل ہوتے ہیں اور بعض دفعہ یہ فیصلے کر دیتے ہیں کہ بس یہ قو م گئی ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ اصلاح کی کوششوں کو انتہاء تک پہنچانا ضروری ہے اور جیسا کہ اس سے پہلے مضمون گزر چکا ہے یہ چیز صبر کے سوا ممکن نہیں ہے.صبر کا مطلب ہے کہ کسی موقع پر بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں.اپنے اوپر تکلیف لے لیں دوسرے کی تکلیف کی تمنانہ کریں اور ظالم کے لئے بھی بددُعا میں جلدی نہ کریں.صبر کے ساتھ اگر وہ اصلاح کی کوشش کریں گے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کی مت میں بہت گہری خوبیاں موجود
خطبات طاہر جلد ۱۱ 309 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء ہیں.ان کی بدیاں نسبتا سطحی ہیں چنانچہ ہر بڑے ابتلاء کے وقت مسلمانوں کی خوبیاں بہت جلد چمک کر باہر نکلتی ہیں اور حیرت انگیز قربانیاں یہ اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں صرف مصیبت یہ ہے کہ ان کی لیڈرشپ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ایک لیڈرشپ نازل فرمائی حضرت امام مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظہور اسی بات کی علامت تھی کہ تمہارا بدن گندہ نہیں ہے اسی بدن پر نیا سر لگایا جائے گا اور وہ سر ہے جو خدا سے روشنی پائے گا اس لئے سر بدلنے کی ضرورت ہے بدن بدلنے کی ضرورت نہیں سرخود بخود اس بدن کی اصلاح کرلے گا جو اس کے ساتھ وابستہ ہو جائے لیکن جو بدن سر سے وابستہ نہ ہونا چاہے اس کا تو کوئی علاج نہیں.یہ مثال میں ضمناً اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ آپ اصلاح کی حکمتوں کو سمجھیں.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ میں مصلح بھیجا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بدن میں اصلاح کی صلاحیتیں موجود ہیں اور ان سے پوری طرح استفادہ کرنا چاہئے اور اس معاملہ میں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا اور اُمید کا دامن نہیں چھوڑنا.دعا کرتے چلے جائیں اور اصلاح کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں اگر ایک قوم کی ظاہر اہلاکت مقدر بھی ہو چکی ہو تو وہ ظاہری ہلاکت کی تقدیر تبدیل ہو جائے گی یہی حال دوسری دنیا کا ہے.یہ مطلب نہیں کہ صرف مسلمانوں کو بچایا جائے گا مراد یہ ہے کہ جو بھی نیکی کی طرف قدم اُٹھانے کی کوشش کرے گا لبیک کہے گا اس کو بچایا جاسکتا ہے پس جس جس ملک میں کوئی احمدی موجود ہے اس کا اپنے ملک سے وفا کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں بھی اصلاح کی کوشش شروع کر دے.کچھ عرصہ قبل میں نے اندرونی اصلاح کے لئے پاکستان میں کچھ اصلاحی کمیٹیاں بنائیں کچھ ہندوستان میں اصلاحی کمیٹیاں بنائیں اور مقصد یہ تھا کہ وہ نوجوان مرد ہوں یا عورتیں جو بُری تہذیب کے اثر سے ضائع ہو رہے ہیں، بداثرات کو قبول کر رہے ہیں.کوئی Drug کا Addict ہو رہا ہے، کوئی کسی اور برائی میں مبتلا ہورہا ہے.جب سارا معاشرہ گندہ ہو تو اس معاشرے میں ڈوبے ہوئے کپڑے کا کلیۂ اس اثر سے الگ رہنا اور اس اثر کو ہمیشہ رد کرتے چلے جانا بہت مشکل کام اس کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اندرونی طور پر ایک نظام ہونا چاہئے جو مقابلہ کرے.اس غرض سے میں نے اصلاحی کمیٹیاں بنائیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے کمزوروں پر نظر رکھ کر پیشتر اس سے کہ وہ اثر کو قبول کر لیں آثار دیکھ کر ان کی اصلاح کی کوشش شروع کر دیں.اس سے پہلے غلطی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 310 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء یہ رجحان پیدا ہو رہا تھا کہ جو شخص کسی بُرائی میں اتنا بڑھ جائے کہ اس کے خلاف آپریشن کا ، جراحی کا فیصلہ کرنا پڑے اس کا معاملہ زیر نظر لایا جائے اور پھر یہ کہا جائے کہ مجبوری ہوگئی ہے اب اس کو کاٹ کر پھینکا جائے.یہ بات اس آیت کے منافی ہے کاٹ کر پھینکنے کا عمل تو دراصل خدا کی طرف سے فیصلہ ہوتا ہے اور اس وقت ہوتا ہے جب خدا فیصلہ کرتا ہے کہ یہ قوم بگڑ کر ضائع ہو چکی ہے اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اس عمل کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی.ہمارا کام مُصْلِحُونَ کا ہے.یعنی یہ کوشش کرتے چلے جانا کہ کوئی بھی کاٹ کر نہ پھینکا جائے تو ہماری کوشش تو اس سے بہت پہلے شروع ہونی چاہئے بجائے اس کے کہ یہ انتظار کرتے رہیں کہ کوئی شخص بیماری کی انتہا تک پہنچ جائے تو کہا جائے کہ بس اب یہ گیا اب اس کو دفن کر دو.ان کمیٹیوں سے متعلق میرا پروگرام یہ ہے کہ ساری دنیا میں ان کمیٹیوں کو رائج کرنا چاہئے انگلستان میں بھی ، امریکہ میں بھی یورپ کے اور مشرق کے تمام ممالک میں بھی کیونکہ بیرونی اصلاح سے پہلے اندرونی اصلاح کی ضرورت ہے اگر اندرونی اصلاح کا معیار بلند ہوگا تو جماعت بیرونی اصلاح کے لائق ہو گی اگر اندرونی اصلاح کا معیار بلند نہیں ہو گا تو باہر سے بُرائیاں آپ کے اندر سرایت کرنے لگ جائیں گی بجائے اس کے کہ آپ دوسروں کی بُرائیاں دور کریں آپ ان کی بُرائیوں کا شکار ہو جائیں گے اس لئے میں مُصْلِحُونَ کا صرف یہ معانی نہیں سمجھتا کہ غیروں کی اصلاح کرو.مُصْلِحُونَ کا جو عمل ہے وہ دونوں صورتوں میں جاری وساری ہے دونوں ہی جہاد ہیں.تربیت کا جہاد بھی اور تبلیغ کا جہاد بھی اور تبلیغ کے جہاد کا معیار براہ راست تربیت کے جہاد کے معیار سے متعلق ہے.جتنا تربیت کا جہاد بلند معیار کا ہوگا اتنا ہی تبلیغ کا معیار از خود بلند ہوتا چلا جائے گا اس لئے ہر ملک میں نظام جماعت کی طرف سے اور طرز کی اصلاحی کمیٹیاں بننی چاہئیں.یعنی اس بات کا انتظار کرنے والی نہیں کہ جیسے مکڑی جالے میں بیٹھ کر انتظار کرتی ہے کہ کوئی بے وقوف مکھی پھنسے تو اس کے مارنے کا انتظام کیا جائے صرف ایسے بیماروں کو ان کی طرف منتقل نہ کیا جائے کہ جن کے متعلق فیصلہ ہو کہ ان کو اب کیا سزادی جائے بلکہ کمیٹی کا فرض ہو کہ وہ یہ نظر رکھے کہ آثار کے لحاظ سے کس خاندان میں کمزوریاں آ رہی ہیں.کن کی بچیاں بے پرواہ ہوتی چلی جارہی ہیں، کن کے لڑ کے باہر کی طرف رُخ کر چکے ہیں اور جماعت سے محبت کی بجائے ان کا تعلق رفتہ رفتہ کٹ کر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 311 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء غیروں سے محبت کی طرف منتقل ہو رہا ہے، ان لوگوں پر نظر رکھ کر ان کو پیار اور محبت سے واپس لانا بہت زیادہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ جب معاملہ حد سے گزر جائے اور بدیاں کسی میں سرایت کر جائیں اس وقت ان بدیوں کو نوچ کر جسم سے باہر نکال پھینکنا بڑا مشکل ہے.تو اس آیت پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اب ضروری ہے کہ تمام دنیا میں جماعتیں اس غرض سے اصلاحی کمیٹیاں قائم کریں کہ جو بیماریوں کی پیش بندیاں کرنے والی ہوں.اس سلسلہ میں ایک مرکزی اصلاح کمیٹی ہر امیر کے تابع کام کرے گی اور ان کو اختیار ہے اور حق ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مجلس خدام الاحمدیہ مجلس انصاراللہ اور لجنہ اماءاللہ سے وہ پورا پورا فائدہ اُٹھا ئیں.وہ اگر مناسب سمجھیں تو بعض معاملات کو خدام کی معرفت طے کریں ، بعض کو لجنات کی معرفت طے کریں بعض جگہ تینوں کو بیک وقت کوشش کرنی پڑے گی.ایک خاندان کا معاملہ ہے وہاں نیک اثر ڈالنے کے لئے خدام کو بھی حرکت دینی ہوگی، انصار کو بھی اور لجنات کو بھی اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اگر آپ یہ کام شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آپ کے حق میں ضرور پورا ہوگا کہ آپ کی وجہ سے تو میں بچائی جائیں گی.آپ کی وجہ سے اگر جماعتیں بچائی جائیں گی تو یہی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قوموں کو بچانے کی اہل قرار دی جائیں گی اور جب تک وَاَهْلُهَا مُصْلِحُونَ کا عمل جاری ہے خدا تعالیٰ کے عذاب کی تقدیر نہیں اُترے گی.دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ اس رنگ میں ہو جائے کہ کوششیں انتہا تک پہنچ جائیں اور مقابل پر رد عمل بھی انتہا ء تک پہنچ جائے اور پتھر کی طرح لوگ ہوں جو اثر کو قبول نہ کریں تو ایسی صورت میں پھر ہلاکت کی تقدیر کی راہ میں دنیا کی مصلحین کی کوئی جماعت حائل نہیں ہو سکتی.وہ تقدیر لازماً آتی ہے اور پھر مُصْلِحُونَ سے کیا سلوک ہوتا ہے؟ یہاں اھلھا کا دوسرا معنی نمایاں طور پر ابھر کر کارفرما ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.میں نے یہ ترجمہ کیا تھا کہ اھل کا مطلب صرف رہنے والے نہیں بلکہ رہنے والے کہلانے کا حق رکھنے والے لوگ ہیں جو حقیقت میں اہلیت رکھتے ہیں کہ اس ملک کی طرف منسوب ہوں جن کے اندر زندگی کے آثار اور کردار موجود ہیں جو اہل ملک اور ملک کے باشندہ کہلانے کے مستحق لوگ ہیں.اس کے متعلق قرآن کریم سے پتا چلتا ہے دوسری آیت میں بہت کھل کر یہ مضمون آیا ہے کہ جب قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو اس فیصلہ تک
خطبات طاہر جلدا 312 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء مسلسل اصلاح میں مصروف رہتے ہیں ان کو ان جگہوں کو وارث بنا دیا جاتا ہے اور یہ قرآن کریم میں بار ہا بہت کھل کر بیان ہوا ہے.مضمون پس اہلیت کا مضمون وراثت کے مضمون کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو بات بالکل کھل جاتی ہے آپ اصلاح میں مصروف رہیں دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ اپنی اصلاح بھی کریں اور ماحول کی اور غیروں کی اصلاح بھی کریں اور یہی اصلاحی کمیٹیاں نہیں تو کچھ اور اصلاحی کمیٹیاں پہلو بہ پہلو مقرر کی جائیں جو معاشرے کی بُرائیوں کے خلاف علم بلند کرنا شروع کر دیں.ان میں لکھنے والے نوجوان اخبارات سے رابطے کریں، دانشوروں سے رابطے کریں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو اگر ہے، تو ان کو لکھا جائے پروگراموں میں شامل ہوں.ایسے سیمینار مقرر کئے جائیں جن میں بُرائیوں کے خلاف مذہب کی تمیز کو نظر انداز کرتے ہوئے جہاد کا پروگرام شروع کیا جائے اور یہ جو جہاد ہے یہ لکی سطح پر ہوگا اس میں لیڈرشپ احمدی کے ہاتھ میں ہونی چاہئے کیونکہ حقیقت میں احمدی ہی مفاد پرستی کے چھوٹے چھوٹے خیالات سے بالا ہو کر اصلاح کا کام کر سکتا ہے احمدی Racialism سے پاک ہے، تعصبات سے پاک ہے، مذہبی تعصبات سے پاک ہے ورنہ وہ آنحضور ﷺ کی طرف منسوب ہونے کا حق ہی نہیں رکھتا کیونکہ آنحضور ﷺ کی طرف منسوب ہونے کا حق وہی رکھتا ہے جو رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (انبیاء : ۱۰۸) کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرے اور عالمین میں کوئی تفریق ہی نہیں کی گئی.کالوں کا عالم اور گوروں کا عالم شمالیوں کا عالم اور جنوبیوں کا عالم مشرق اور مغرب کے عالم صلى الله میں کوئی فرق نہیں دکھایا گیا ، مذہبی عالم کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے.آنحضور ﷺ اسی طرح عالمین کے لئے رحمت ہیں جس طرح رب العلمین نے آپ کو اپنی ربوبیت کے تابع رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ قرار دیا ہے.رَبِّ الْعَلَمِینَ کی ربوبیت جس طرح تمام عالموں پر یکساں ہے اور اللہ تعالیٰ سب کی برابر تربیت فرماتا ہے اسی طرح رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا جو یہ لقب ہے.یہ کوئی معمولی لقب نہیں ہے اپنی وسعت اور گہرائی میں اس سے بڑا لقب دنیا کے کسی دوسرے نبی کو عطا نہیں ہوا.پس احمدی کے لئے رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کے مضمون کو سمجھ کر حضرت اقدس محمد مصفا والا اللہ سے تعلق جوڑ نا چاہئے اور جب یہ تعلق قائم ہو جائے گا تو آپ کی نظر بہت بلند ہو جائے گی.آپ کے حوصلے بہت وسیع ہو جائیں گے.آپ Racialism کا شکار ہو ہی نہیں سکتے ناممکن ہے کہ آپ
خطبات طاہر جلدا 313 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء کالوں اور گوروں اور سفیدوں اور سرخوں کی تفریق میں کسی قسم کی پارٹی بن سکیں آپ کے دل میں رحمت کا خیال موجزن رہے گا.ہر بنی نوع انسان کے دُکھ کو دور کرنے کا سچا جذ بہ دل میں پیدا ہوگا.ہر ایک کا پیار دل میں پیدا ہو گا اور رحمۃ للعالمین کے ساتھ انصاف کا گہراتعلق ہے.ایک عالمی انصاف کے بغیر کوئی شخص کسی کے لئے رحمت بنایا ہی نہیں جاسکتا.ان دونوں مضمونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن اس تفصیل میں جانے کی نہ سر دست ضرورت ہے نہ موقع لیکن یا درکھیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں یا بین المذاہب تعلقات میں جس شخص کو انصاف نصیب نہ ہو وہ رحمت نہیں بن سکتا لا ز ما آپ کو وسیع پیمانے پر انصاف کے سلوک کی اہلیت پیدا کرنی ہوگی اس کے بعد آپ رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ بنائے جائیں گے اس سے پہلے نہیں اور یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کی آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے.ایسی صورت میں جب آپ مُصْلِحُونَ کا کردار ادا کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں حیرت انگیز انقلاب بر پا ہوگا اور اس گر کو سمجھنے کے بعد آپ کو سچے مصلح اور جھوٹے مصلح میں تفریق کی بھی سمجھ آ جائے گی.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے مفسدین ہیں کہ جب ان کو کہا جائے کہ اصلاح کرو تو قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (البقرہ :۱۲) وہ کہتے ہیں ہم تو بڑے مصلح ہیں ہم تو اصلاح کرنے کی غرض سے قائم ہوئے ہیں فرمایا أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لا يَشْعُرُونَ ( البقرہ:۱۳) خبر دار یہی وہ مفسدین ہیں جن کا ہم ذکر کرتے چلے آرہے ہیں ان کے اندر فساد کی ساری باتیں موجود ہیں وَلكِن لَّا يَشْعُرُونَ لیکن بیوقوفوں کو شعور ہی نہیں ہے کہ وہ مفسد ہیں.میں نے جو دو باتیں آپ کے سامنے بیان کی ہیں یہ شعور پیدا کرنے والی باتیں ہیں.ان پر آپ غور کریں تو آپ کے اندر مفسد اور مصلح کی تفریق کا شعور پیدا ہو جائے گا.یہ وہی مــفــســديــن ہیں جن پر آپ نظر ڈال کر دیکھ لیجئے کہ اصلاح کے نام پر نا انصافیاں کرتے ہیں.اصلاح کے دعوے کر کے اپنے مخالفوں سے جن کے خلاف انہوں نے کئی بہانوں سے جدوجہد کے آغاز کئے ہوتے ہیں ان سے جب بھی انصاف کا معاملہ آئے نا انصافی کا سلوک کرتے ہیں.یہ جماعت اسلامی دیکھ لیں مصلحین کا دعویٰ کرنے والے یہ مصلحین کی جماعت بنتی ہے.پاکستان میں جماعت احمدیہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 314 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء کے معاملہ میں جب بھی فیصلہ کا وقت آیا ان بدنصیبوں نے ہمیشہ نا انصافی سے کام لیا ہے.تقویٰ کو چھوڑ دیا، قرآن کے انصاف کے اصولوں کو چھوڑ دیا ان کے حج ہوں یا غیر حج ہوں جب بھی فیصلہ کا وقت آیا ہے انہوں نے احمدی سے ہمیشہ نا انصافی کی ہے تو نا انصافی بتاتی ہے کہ کون مفسد ہے.آزمائش کے وقت انصاف پر قائم ہو جانا اور بظاہر اپنے قریب کے خلاف فیصلہ دے دینا اور اپنے دور کے حق میں فیصلہ دے دینا یہ انصاف کا ایسا تقاضا ہے جس پر پورے اترے بغیر کوئی شخص منصف نہیں کہلا سکتا اور جو منصف نہ ہو وہ رحمت نہیں بن سکتا وہ ہمیشہ زحمت بنے گا کیونکہ عدل اور انصاف کے فقدان کا نام زحمت ہے اور عدل اور انصاف کے قیام کے بعد رحمت پیدا ہوتی ہے.اس مضمون کو میں نے مختصر بیان کیا ہے تا کہ آپ اس کو خوب سمجھ لیں اس کو سمجھنے کے بعد ہر احمدی کا دل یقین سے بھر جاتا ہے کہ وہ یقینا مصلح ہے اور اس کے متعلق یہ اعلان نہیں کیا جاسکتا کہ وَلكِنْ لا يَشْعُرُونَ کہ ہیں تو مفسد لیکن وہ سمجھتے نہیں کیونکہ جو انصاف پر قائم ہو اس کو خدا تعالیٰ رحمت کی خوبیاں بھی عطا فرماتا ہے اور ایسے شخص کو مفسد کہا ہی نہیں جاسکتا یہ عقل کے خلاف بات ہے.پس ان معنوں میں آپ اصلاح کی کوشش کریں.اول تقاضا انصاف کا ہے، انصاف پر قائم ہوں پھر آپ کے اندر مصلح بننے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور مصلح بنیں تو پہلے اپنوں کی طرف توجہ کریں کیونکہ جنہوں نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے جب تک وہ اندرونی اصلاح نہ کریں وہ غیر کی اصلاح نہیں کر سکتے اور اصلاح کے وقت فساد کے بڑھنے کا انتظار نہ کریں بلکہ آثار سے پہچانیں کہ کہاں کہاں فساد کے احتمالات پیدا ہورہے ہیں.ان خاندانوں تک پہنچیں، ان نو جوانوں تک پہنچیں ان بڑوں تک پہنچیں اور پیشتر اس سے کہ ان کا قدم اتنا آگے نکل جائے کہ آپ بھاگ کر بھی ان کو پکڑ نہ سکیں ان تک پہنچیں اور پیار کے ساتھ گھیر کر اُن کو واپس لے آئیں اس کے ساتھ ساتھ آپ غیروں کی اصلاح کی طرف توجہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آپ کے حق میں ضرور پورا ہوگا کہ آپ کے فیض سے تو میں بچائی جائیں گی اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ اگر قو میں بچتی ہیں تو ان کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے.دنیا میں جو تاریخ بن رہی ہے یہ دو طرح سے بن رہی ہے ایک تاریخ مہروں کی تاریخ ہے ایک پس پردہ ہاتھ کی تحریر ہے جو مہریں چلا رہا ہے اگر آپ مذہبی دنیا سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو بالکل اور قسم کی تاریخ اُبھرتی ہے.قرآن کریم نے جب یہ فرمایا کہ ہم نے عہد کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ جو کچے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 315 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء لوگ ہیں، جو مصلحین ہیں وہ خواہ تھوڑے بھی ہوں ان کو زمین کا وارث کیا جائے گا.اس نقطہ نگاہ سے جب آپ تاریخ کو دیکھیں تو وہ تاریخ جو دنیا کے نقطہ نگاہ سے مورخین کی لکھی ہوئی تحریر ہے اسے آپ بالکل مختلف پائیں گے اور زمین و آسمان کا فرق ان دونوں تاریخوں میں نظر آئے گا.ایک تاریخ کے علمی ثبوت آپ کے پاس نہ بھی ہوں مگر سارا عالم واقعاتی طور پر اس کے حق میں گواہی دے رہا ہے اور ایک تاریخ لکھنے والے ہیں جو ان حقائق کو کلیۂ نظر انداز کر کے ایک اور قسم کی تاریخ لکھتے ہیں اب مثال کے طور پر دیکھیں کہ جب آپ مصر کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں.دنیا کے بڑے بڑے چوٹی کے علماء، مؤرخین نے بڑی محنت کر کے بہت کھوج لگا کر مصر کی تاریخ کو محفوظ کیا ہے اور مختلف زاویوں سے اس کا جائزہ لیا ہے اس تاریخ کے بنانے میں جو عوامل کارفرما تھے ان کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، اس کے جو نتائج نکلے ہیں ان کا مطالعہ کیا ہے، آپ یہ سارا کچھ پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو بنی اسرائیل اور یہود کا اس تاریخ میں کوئی کردار دکھائی نہیں دے گا.کہیں اشارۃ وہم کے طور پر مورخ لکھ دے گا کہ سُنا ہے کہ موسیٰ بھی اس زمانہ میں ہوا کرتا تھا سُنا ہے بنی اسرائیل بھی رہتے تھے ، یہود بھی تھے لیکن ہمارے پاس کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ فرعون ڈو با بھی تھا کہ نہیں اور اس کے ساتھ کیا بنا ؟ اور یہ بھی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ موسیٰ“ کسی زمانے میں گزرا تھا اور پھر بعض مورخین لکھیں گے کہ یہ بھی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ موسی" تھا بھی کہ نہیں تھا اور قرآن کریم کہہ رہا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے اور ہمیشہ سے یہی فیصلہ کارفرما ہوتا چلا آیا ہے کہ جو خدا کے نزدیک سچے رہنے کی اہلیت رکھتے ہیں اللہ ان کو وارث بنائے گا.اب آپ مڑ کر دیکھیں کہ مصر اور اس کا سارا علاقہ کن لوگوں کے قبضہ میں دیا گیا.بالآخر یہود تو موجود ہیں جو بطور وارث بڑے بڑے علاقوں میں حکومتیں کرتے رہے اور آج تک چلے آرہے ہیں لیکن فرعونیوں اور مصریوں کے دیگر ایسے طبقات جو اس وقت مصر کی سلطنت پر قابض تھے جن کا ذکر مؤرخ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ کرتا ہے ان کے دبدبے بھی چلے گئے ان کی شوکتیں بھی مٹ گئیں وہ زیرزمین دفن ہو گئے.وارث کون ہے؟ وارث یہود ہیں پھر عیسائیوں کو دیکھ لیں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ کے زمانہ کا مطالعہ کریں تو اکثر تاریخوں میں آپ کو عیسائیت کا کہیں نشان بھی نہیں ملے گا.صلیب کے واقعہ کو گزرے ۳۴ سال ہو جاتے ہیں تو پہلی مرتبہ کہیں تاریخ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 316 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء میں آپ کو حضرت عیسی کا معمولی ساذ کر نظر آتا ہے اور مؤرخ جب اس زمانہ کی تاریخ لکھتا ہے تو اس کو عیسائیوں کا کوئی خاص کردار دکھائی نہیں دیتا.سینکڑوں سال کے بعد وہ اس لائق ہوتے ہیں کہ ان کو تاریخ کا حصہ بنایا جائے لیکن قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ یہی لوگ وارث ہوں گے.پس وہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام جو بالکل بے طاقت اور نہتے تھے اور اپنے دشمنوں کے مقابل پر کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے چند ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر گئے لیکن اب دیکھیں کہ عیسائیت ساری دنیا میں کتنے وسیع علاقوں کی وارث بنائی گئی ہے.تو یہ جو وراثت کا مضمون ہے یہ بہت گہرا ہے اور بہت سچا ہے حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کے ماننے والے ہندوستان کے وارث بنادیئے گئے ، حضرت زرتشت کے ماننے والے فارس کے وارث بنادئے گئے.حضرت کنفیوش کے ماننے والے چین کے وارث اور دوسرے مشرقی ممالک کے وارث بنائے گئے.تو اگر وراثت کے نقطہ نگاہ سے آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہی لوگ وارث ہیں جو اپنے زمانہ میں اس لائق ہی نہیں سمجھے جاتے تھے کہ تاریخ ان کا ذکر کرے اور اگر کرتی تھی تو بہت ہی حقارت کے ساتھ بالکل معمولی سا ذ کر کہ سنا ہے کنفیوشس بھی ایک بادشاہ کے سہارے ہوتا تھا اس کے دربار سے لٹکا ہوا ایک شخص تھا یا عیسی علیہ الصلواۃ والسلام تھے جن کا یہ ذکر چلتا ہے.قرآن کی تاریخ دیکھیں کتنی سچی اور کتنی قطعی ہے.اس کی زندہ شہادت ہے سارا عالم اس بات کا گواہ ہے کہ وراثت نیکوں اور کمزوروں کو عطا کی جاتی ہے.پس مُصْلِحُونَ کے ساتھ وراثت کا تعلق ہے اگر آپ نے اس دنیا کا وارث بننا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ کی تقدیر نے آپ کو وارث بنانے کے لئے کھڑا کیا ہے تو آپ کولاز ما مصلح ہونا پڑے گا اور مصلح ہونے کے لئے پہلے اندرونی اصلاح کرنی ہوگی اور پہلے سے مراد ہے کہ اولیت اس کو دینی ہوگی ورنہ دوسرے درجہ پر ساتھ ہی ساتھ باقی دنیا کی اصلاح کے لئے بھی آپ اُٹھ کھڑے ہوں.دعوت الی اللہ میں مصروف ہوں اور اپنے بچوں اور بڑوں کی تربیت میں مصروف ہوں.تو دیکھیں خدا کی تقدیر کس طرح آپ کے لئے عظیم الشان کام دکھائے گی.آج اگر کوئی احمدی یہ دعویٰ کرے کہ آئندہ وہ دنیا کا وارث ہو گا اور مستقبل اس کے ہاتھوں میں دیا گیا ہے تو ساری دنیا اسے پاگل سمجھے گی کہ یہ کتنے بے وقوف لوگ ہیں کتنے جاہل ہیں.ان کی کسی ملک میں بھی کوئی حیثیت نہیں اور مستقبل کا مالک بننے کا دعوی کرتے ہیں ایک دفعہ ایک Correspondent نے مجھ سے یہ سوال شروع کئے اور وہ اسی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 317 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء طرح مجھے دیکھ رہا تھا جیسے عجیب بے وقوفوں والی باتیں کر رہے ہیں کہ جی ! ہم دنیا کے آئندہ مالک ہیں ہم دنیا کا مستقبل ہیں.میں نے کہا تمہیں بات سمجھ نہیں آئے گی تم عیسائی ہو تم پہلے حضرت عیسی کے زمانے میں واپس جاؤ وہاں جا کر دیکھو کہ حضرت عیسی کا دعوی ہمارے دعوئی کے مقابل پر کتنا مضحکہ خیز دکھائی دیتا تھا.ہم نے تو ایک سو سال میں اتنی عظیم الشان ترقی کی ہے کہ ۲۶ ممالک میں پھیل گئے ہیں.عیسائیت کا ایک سو سال کے بعد کیا حال تھا.واپس مڑو.وہاں جا کر دیکھو اور پھر غور کرو اور پھر بیشک اُس زمانہ میں تمسخر آمیز مضامین لکھو کہ یہ پاگل، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اپنے ملک سے نکالے گئے کسی ملک میں بھی ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ، کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، کوئی معاشرتی اور علمی حیثیت نہیں ہے کوئی اقتصادی حیثیت نہیں ہے بالکل معمولی معمولی تعداد میں چند جماعتیں ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا کے وارث بنائے جائیں گے.میں نے کہا کہ واپس جاؤ اور وہاں بیٹھ کر پھر دوبارہ یہ مضمون لکھو کہ عیسائی کتنے بے وقوف لوگ ہیں پہلے سو سال کے اندر جب کوئی رومن بادشاہ چاہتا تھا ان کو اپنے گھروں کے اندر زندہ جلا دیا کرتا تھا اور جب چاہتا تھا ان کو پکڑ کر عدالتوں میں پیش کرتا تھا اور پھر عدالتوں سے یہ فیصلے ہوتے تھے کہ جانوروں کے سامنے ان کو پھینکا جائے اور بھوکے جانوران کو پھاڑ کھائیں.ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کریں ، بھنبھوڑیں اور ساری دنیا جو تما شا دیکھنے والی ہو وہ ہنسے اور مذاق اُڑائے یہ ان کی طاقت تھی.میں نے کہا اس وقت پر مضمون لکھو کہ یہ پاگل کے بچے، ان کی حیثیت کیا ہے.جانوروں کو زندہ کھلائے جاتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ یہ ساری دنیا کے وارث بنائے جائیں گے اور آج واپس آکر پھر دیکھو تو دنیا کی کونسی طاقت ہے جہاں یہ وارث نہیں بنائے گئے.یہ قرآن کریم کی سچائی کا اعلان ہے اور تاریخ کا ایک مختلف منظر ہے جس کو قرآن کریم نے ایک خاص زاویے سے پیش فرمایا ہے اور اس کا تعلق اصلاح سے ہے.پس آپ مُصْلِحُونَ ہو جائیں اور وراثت کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں، اس خدا پر چھوڑ دیں وہ خدا جس نے ہمیشہ مُصْلِحُونَ کو وارث بنایا ہے اور بنا تا چلا آیا ہے اور کبھی اس میں فرق نہیں کیا صلى الله وہ ضرور آپ کو اس زمین کا وارث بنائے گا اور اس لئے بھی وارث بنائے گا کہ حضرت محمد مصطفی احتی سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ لازما اسلام کو آخر اس تمام زمین کا وارث بنایا جائے گا.آپ کے طفیل ایسا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 318 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء ہو گا لیکن وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور قرآن کے حوالے سے ذکر کیا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یاد رکھیں کہ مُصْلِحُونَ اپنے زور سے اصلاح نہیں کر سکتے.اور اصلاح میں نا کام بھی رہیں تب بھی وہی جیتے ہیں اور مُصْلِحُونَ اس لئے کامیاب قرار نہیں دیئے جاتے کہ ان کے اندر حقیقہ اصلاح کی صلاحیتیں پوری طرح پیدا ہو چکی ہوتی ہیں.مُصْلِحُونَ تو بعض دفعہ خود اپنی اصلاح بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی موت کا حکم آجاتا ہے اور وہ خدا کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں.ان کی بخشش کا تعلق رحم سے ہے ان کی بخشش کا تعلق اصلاح میں کامیابی سے نہیں ہے.چنانچہ وہ قو میں جو اصلاح میں مصروف ہوں اگر اس حالت میں مریں کہ خود ان کے اندر برائیاں موجود رہیں تو ان کو بھی خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے اور رحم کے نتیجہ میں بخشتا ہے اور اس میں ایک انصاف بھی پایا جاتا ہے.انصاف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دستور بنالیا ہے کہ جولوگ نیکی کی کوشش شروع کر دیں اگر نیکی میں کامیاب ہونے سے پہلے مارے جائیں گے تو میں انہیں بخشوں گا.رحم سے یقینا تعلق ہے لیکن ایک بہت باریک اور پاکیزہ انصاف سے بھی اس کا تعلق ہے کیونکہ عمر کا فیصلہ کرنا اللہ کے اختیار میں ہے.ایسا شخص جو نیکی کی کوشش شروع کر دیتا ہے اگر وہ مر جاتا ہے تو نہایت لطیف انصاف کی رو سے اگر دیکھا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ نہیں پتا کہ آخری نتیجہ کیا نکلتا تھا لیکن تو جانتا ہے کہ جب میں مرا ہوں تو اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی اصلاح کی کوشش کر رہا تھا اس لئے خدا تعالیٰ کے نہایت اعلیٰ اور لطیف انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر رحم فرمائے اور اس کے اندھیرے مستقبل کا سوال نہ اُٹھائے وہ جانتا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کیا بن جاتا لیکن جس حالت پر موت دی ہے اس حالت کو مستقبل میں لمبا کر دے.یہی وہ مضمون ہے جس کو حضور اکرم ﷺ نے اس مثال میں بیان فرمایا کہ ایک بد ،بد شہر سے ہجرت کر کے نیکوں کے شہر کی طرف اس نیت سے روانہ ہوا تھا کہ ان کی صحبت میں رہ کر اسکی اصلاح ہو جائے.ساری بدیاں اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہوئی تھیں رستے میں اُس کو موت آجاتی ہے اور مرتا اس حالت میں ہے کہ زمین پر گھسٹتا ہوا ( آنحضور ﷺ نے یہ نقشہ کھینچا ہے ) کہنیوں کے بل گھٹنوں کے بل کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح میں اس شہر کے قریب ہو کر جان دوں.(مسلم کتاب التو بہ حدیث نمبر : ۴۹۲۷) وہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 319 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء حدیث آپ نے بار ہاسنی ہے کتنی عظیم اور حیرت انگیز لطیف مضمون پر مشتمل ہے.فرمایا اللہ تعالی اس کے حق میں فیصلہ کرے گا اور خواہ اس کی موت بدوں کے شہر کے قریب ہو خدا ایسا انتظام کرے گا کہ جب فرشتے فاصلہ نا ہیں ( یہ ایک تمثیل ہے ) تو وہ فاصلہ جو نیکوں کے شہر کی طرف ہے چھوٹا کر دیا جائے گا اور جو بدوں کے شہر کی طرف ہے اُسے لمبا کر دیا جائے گا تا کہ اس شخص کی موت نیکی کے قریب شمار ہو.یہ رحم کا مضمون ہے اور کوشش میں جان دینا یہ انصاف کا مضمون ہے.تو انصاف کا رحم کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اس لئے میں نے آپ کو کہا کہ منصف بنیں گے تو مصلح بنیں گے اور منصف بنیں گے تو رحم کے لائق قرار دیئے جائیں گے.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ آگے بڑھا کر اور کھول کر اس کا تعلق رحم سے باندھتا ہے تو آپ مصلح بنیں اور مصلح بننے کی کوشش میں اگر جان جاتی ہے تو کسی خوف کی ضرورت نہیں.اللہ بہت رحم کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ کا اعلیٰ انصاف آپ کے لئے رحم میں تبدیل ہو جائے گا لیکن آپ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ بھی ایک خبر دی ہے کہ کوشش فرض ہے اس کا نتیجہ نکلنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ نتیجہ نکلنے کا ایک تعلق تو اللہ تعالیٰ سے ہے اور ایک تعلق لوگوں سے ہے اور خدا کے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سابق میں جن لوگوں نے کبھی بھی انکار پر ضد کی ہے ان کی زبر دستی اصلاح نہیں کی اس لئے کوششیں خواہ کتنی ہی مخلصانہ کیوں نہ ہوں، کتنی ہی زیادہ دعا ئیں اس کے ساتھ کیوں نہ ہوں لَا يَنالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (البقرہ: ۱۲۵) کا مضمون ہمیشہ غالب رہتا ہے.وہ لوگ جو اپنی بات پر مصر ہوں ان کی تقدیر نہ کسی کی دُعاؤں سے بدلتی ہے نہ اصلاحی کوششوں سے.تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوشاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَاحِدَةً اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ، اُسے اختیار ہے.قدرت ہے تو تمام بنی نوع انسان کو نیکی پر اکٹھا کر دیتا اور ایک جان بنادیتا، ایک امت بنا دیتا.وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ زبر دستی کسی کی اصلاح نہیں کرتا اور ٹیڑھے لوگ پھر اپنی بھی پر مصر ہو جایا کرتے ہیں تو مصلحین بظاہر نا کام ہوتے ہیں لیکن جن معنوں میں اب میں نے تفصیل بیان کی ہے فی الحقیقت وہ نا کام نہیں ہوا کرتے کیونکہ پھر وہ زمین کے وارث بنائے جاتے ہیں.لَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ سوائے ان کے جن پر اللہ رحم فرمائے.یہاں وہی مُصْلِحُونَ مراد ہیں جن کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 320 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ وہ رحم کے نتیجہ میں بچائے جاتے ہیں ورنہ ان کی کوششیں حقیقت میں بنیادی طور پر اتنی اہلیت نہیں رکھتیں کہ ساری دنیا کو تبدیل کر سکیں ، نہ بیچاری تبدیل کر سکتی ہیں لیکن کوشش بڑی مخلصانہ ہوتی ہے پھر اندرونی کمزوریاں بھی رہ جاتی ہیں.اگر کمزوریوں پر نظر کر کے اللہ پکڑنا چاہے تو ہم میں سے کوئی بھی بخشا نہیں جاسکتا.تو رحم کا انصاف سے یہ گہرا تعلق ہے.تم کوشش شروع کر دو.دیانت داری سے کوشش شروع کرو پھر جس حالت میں بھی موت آئے گی اللہ تعالیٰ تمہیں نیکوں میں شمار کر دے گا.إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ کا یہ معنی ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ رحم فرمائے اور خدا کے رحم کا انصاف سے تعلق ہے.ناانصافی سے تعلق نہیں ہے.لِذلِكَ خَلَقَهُمُ اللہ نے اسی لئے پیدا کیا تھا کہ ان کے لئے مواقع مہیا کر دے کہ خدا کا رحم ان کو نصیب ہو جائے اور وہ بچائے جائیں لیکن ایسا نہیں ہوتا.بہت تھوڑے ہیں جو خدا تعالیٰ کے رحم کا فیض پانے والے بنتے ہیں.وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا مَلَكَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِینَ اور یقیناً خدا کا یہ فیصلہ اپنے کمال کو پہنچا اور رونما ہو گیا کہ لَأَمْلَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ کہ میں ضرور جہنم کو جنات یعنی بڑے لوگوں سے وَالنَّاسِ اور عوام الناس سے بھر دوں گا.جو مضمون بیان ہو رہا ہے اسی کی روشنی میں اس آیت کی سمجھ آجاتی ہے ورنہ یہ آیت بہت الجھنیں پیدا کرنے والی نظر آتی ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس لئے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور بنی نوع انسان کو پیدا فرمایا تا کہ اللہ ان پر رحم فرمائے.إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّک ان کے سوا نہیں بچائے جاتے جن پر خدارحم کر دیتا ہے اور فرمایا کہ وَ لِذلِكَ خَلَقَهُم اس رحم کی خاطر ، اس بچائے جانے کی خاطر ان کو پیدا فرمایا ہے اور ساتھ ہی کہہ رہا ہے کہ ہم نے عہد کر لیا تھا کہ جہنم کو چھوٹوں بڑوں سے بھر دیں گے تو جب عہد کر دیا تھا تو پھر رحم کا کیا سوال باقی رہتا ہے؟ لیکن وَ لِذلِكَ خَلَقَهُمْ اور وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا مَلَكَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ کو اکٹھا پڑھیں تو مضمون سمجھ میں آجاتا ہے.اس سے پہلے یہ بیان ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ زبر دستی کسی کو تبدیل نہیں کرتا اور چونکہ وہ علم الغَيْبِ (الانعام: ۷۴) ہے اس لئے وہ جانتا تھا کہ اکثر لوگ رحم سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے.اکثر
خطبات طاہر جلدا 321 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء لوگوں کی خاطر بہت نیک بندے اپنی جان کھپائیں گے، اپنی ساری طاقتیں ان کی اصلاح کے لئے صرف کر رہے ہوں گے.وہ آرام سے سورہے ہوں گے تو وہ راتوں کو اٹھ کر ان کے لئے دعائیں کر رہے ہوں گے وہ ان پر ظلم کر رہے ہوں گے لیکن وہ خدا تعالیٰ سے ان کے لئے رحم کی بھیک مانگ رہے ہوں گے.یہ ساری کوششیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رحم کے لئے پیدا کیا تھا.خدا کی تقدیر، اس کی رحمت کی تقدیران پاک بندوں کی صورت میں ان بدنصیب لوگوں کو بچانے کے لئے پوری کوشش کرتی ہے.دنیا کی ہر تدبیر وہ اختیار کرتے ہیں اور عقل کے ذریعہ ، دلائل کے ذریعہ، تاریخی، علمی، عقلی نقلی دلائل کے ذریعہ ان پر بات خوب روشن کر دیتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو سمجھ جاتے ہیں کہ ہاں یہی سچا رستہ ہے.پھر ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں پھر ان کے ساتھ ماریں کھاتے ہیں اور ان کو بچانے کے لئے کوشش کرتے ہیں.ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ان کے لئے وہ غمناک ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگی کسی غیر کے دکھوں میں اجیرن بن جاتی ہے.یہ باتیں ہیں جن کے لئے خدا نے پیدا کیا تھا یعنی اپنی طرف سے خدا کی جماعت ہر کوشش کر دیتی ہے پھر فرماتا ہے کہ اگر وہ نہیں مانیں گے تو زبردستی نہیں بچایا جائے گا.اگر اللہ چاہتا تو اکٹھا کر دیتا لیکن پھر کائنات کا منصوبہ بے معنی ہو جاتا ہے کہ زبردستی کسی کو بچایا جائے اور زبردستی کسی کو ہلاک کیا جائے.اگر ہلاکت میں زبر دستی کا مضمون اطلاق نہیں پاتا تو بچانے پر بھی زبر دستی کا مضمون اطلاق نہیں پائے گا.پس وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی بات سچی نکلی کہ ان بدنصیبوں نے ان کوششوں کے باوجود بھی ان سے استفادہ نہیں کرنا تھا اور ان میں سے بھاری تعداد ایسی تھی جس نے ضائع ہو جانا تھا اور ہدایت کا موقع پاتے ہوئے بھی ہدایت سے بدنصیب رہنا تھا لیکن اس مضمون کو سمجھنے کے بعد پھر بھی مایوسی کا کوئی سوال نہیں ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے جس کثرت سے بنی نوع انسان کا بچایا جا نا مقدر ہے اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی پس ہمیں لازماً بنی نوع انسان کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور پھر اس بات کو خدا پر چھوڑ دینا چاہئے وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ کا مضمون تو بہر حال ظاہر ہوگا لیکن وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ کا مضمون بھی لازم صادر ہوگا اور ظالموں کی صف
خطبات طاہر جلدا 322 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۹۲ء لپیٹی جائے گی اور ان ظالموں کے پیچھے ان کے ایسے وارث پیدا ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک زندہ رہنے کی اور بنی نوع انسان کی راہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے.زمین ان کے سپرد کی جائے گی اور یہ وارث آئندہ دنیا میں حضرت محمد مصطفی مے کے سچے غلاموں کے سوا اور کوئی نہیں ہے.آپ کو خدا نے توفیق بخشی ہے کہ اس میدان کو جو خالی پڑا ہے آگے بڑھیں اور بھر دیں خدا تعالیٰ آپ کا فیض ساری دنیا میں پھیلائے اور آپ کے ذریعہ تمام دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی رحمت کا وارث بنادے.یہی دعائیں کرتے رہیں یہی کوشش ہو یہی مطلوب ہو، یہی مقصود زندگی ہو.خدا کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کے رحم کے نتیجہ میں اس سارے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 323 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء کامیاب دعوت الی اللہ کے لئے دعاؤں پر زور دیں.داعی الی اللہ کے دل میں بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی ہونی چاہئے.پھر فرمایا:.( خطبه جمعه فرموده ۸ مئی ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کیں.وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَ ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ.وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَمِلُونَ ) وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُكُهُ فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (هود: ۱۲۱ تا ۱۲۴) وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ وہ سب چیزیں جو انبیاء کے واقعات سے متعلق ہم تجھے بتاتے ہیں ہم تجھے پڑھ کے سناتے ہیں.مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ان سے تیرے دل کو تقویت ملتی ہے اور تیرے دل کو ثبات نصیب ہوتا ہے.وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ اور اس میں جو کچھ بھی ہے حق ہے.وَمَوْعِظَ اور نصیحت ہے.وَ ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ اور یاد رکھنے کی باتیں اور یاد کر کے لوگوں کو سنانے والی باتیں ہیں مومنوں کے لئے.وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 324 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ مومنوں کیلئے تو حق بھی ہے مَوْعِظَةٌ بھی ہے اور ذِکری بھی ہے لیکن وہ لوگ جو بہر حال ایمان نہیں لائیں گے.ان سے کہہ دے اعْمَلُوْا عَلَى مَكَانَتِكُمْ تم اپنی جگہ کوششیں کرتے رہو اِنَّا عَمِلُونَ ہم بھی تو مسلسل کوشش میں مصروف ہیں.وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں.وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ یہ اللہ ہی کیلئے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ابھی پردہ غیب میں ہے وَالَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ اور امر بالآخر اسی کی طرف لوٹنے والا ہے میت کے تمام تر، ہرقسم کا امر بالآخر خداہی کی طرف لوٹنے والا ہے.فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ اے محمد طاہر کا خطاب شروع ہو گیا.اے محمد ﷺ فَاعْبُدُهُ اللہ کی عبادت کر وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ اور اللہ ہی پر توکل کر.وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ تیرا رب اس بات سے غافل نہیں ہے جو تم سب لوگ کرتے ہو.اس میں بہت ہی لطیف ضمائر کی تبدیلی ہے.واحد کا صیغہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو خطاب کرتے ہوئے چلتا ہے فَاعْبُدُهُ سے لے کر.فَاعْبُدُہ تو اس کی عبادت کر وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ اور اسی پر توکل کر وَ مَا رَبُّكَ اب تیرا رب غافل نہیں ہے عَمَّا تَعْمَلُونَ یہ نہیں فرمایا کہ اس چیز سے جو تو کرتا ہے عَمَّا تَعْمَلُونَ جو تم سب لوگ کرتے ہو.اگر اس میں کوئی انذار کا پہلو ہے تو وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر اطلاق نہیں پاتا.اگر کوئی مخفی ناراضگی کا اظہار عَمَّا تَعْمَلُونَ میں ہو رہا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ خدا غافل ہے یہی رنگ ہے اس عبارت کا کہ کچھ ھنگی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں تو اس سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بچانے کیلئے اچانک جمع کا صیغہ استعمال فرمالیا اور واحد کا صیغہ جس میں اپنائیت چل رہی تھی ، پیار کا اظہار ہورہا تھا اسے ترک فرما دیا.یہ وہ آیات ہیں اُس رکوع کی آخری آیات جس کی میں نے تین جمعہ پہلے تلاوت کی تھی اور اسی مضمون کو میں آگے بڑھا رہا ہوں.یہ بات اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے اسے بچالیتا ہے اور مصلحین کو بچاتا ہے اور مصلحین میں سے بھی وہ جن کو خدارحم کی نظر سے دیکھتا ہے.ان کے اندر بعض ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں سے صرفِ نظر فرماتا ہے اور ان سے بخشش کا سلوک فرماتا ہے.ہر شخص رحم ہی سے بچایا جائے گا اپنے زور بازو سے کوئی بچایا نہیں جا سکتا لیکن رحم بچانے پر مستعد اور لوگ نہ بچنے پر کوشاں.یہ مضمون ہے جو اس رکوع
خطبات طاہر جلد ۱۱ 325 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء میں شروع سے آخر تک بیان ہورہا ہے.بہت زور لگا یا آنحضرت ﷺ اور آپ کے متبعین نے اور اس پہلے انبیاء نے لیکن وہ بدنصیب تو میں جو بچنے پر آمادہ نہ ہوں انہیں پھر کوئی چیز خدا کی تقدیر اور اس کے پکڑ سے بچا نہیں سکتی.یہ اعلان فرمانے کے بعد آنحضرت ﷺ کے دلی جذبات پر نظر ڈالی گئی ہے، آپ کے کیفیات پر نظر ڈالی گئی ہے.اس سے پہلے یہ بات میں بیان کر چکا ہوں کہ آنحضور ﷺ نے جن سورتوں میں عذاب کا ذکر تھا اور پرانی قوموں کا ہلاک ہونے کا ذکر تھا ان سے متعلق فرمایا اور خصوصاً سورہ ھود کے متعلق تھا کہ اس نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے.معلوم ہوتا ہے یہ سارے واقعات پڑھتے ہوئے آنحضور ہے کے دل کو گہری تکلیف پہنچتی تھی اور یہ خوف دامن گیر ہو جاتا تھا کہ کہیں میری قوم سے بھی یہ سلوک نہ ہو اور یہ لوگ بھی اسی طرح عذاب کا نشانہ نہ بنیں اور صفحہ ہستی سے مٹانہ دیئے جائیں جیسے پہلی قومیں منائی گئی تھیں اور اسی دکھ کا آپ نے ذکر فر مایا کہ دیکھو میرے بال سورۃ ھود نے سفید کر دیئے.اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے وَكُلًّا نَقُضُ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ہم جو گزشتہ انبیاء کے قصے تجھے سنارہے ہیں ڈرانے کیلئے نہیں بلکہ تیرے دل کو تقویت دینے کیلئے اور اس میں ایک پیشگوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ کی قوم بچائی جائے گی.اپنے اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض مصلحین کی وجہ سے اور بعض ایسے نیک لوگوں کی وجہ سے جن کی نیکی ان کی بدیوں پر بالآخر لازماً غالب آجائے گی.یہ وہ مضمون ہے جو یہاں بیان ہوا ہے.ایک طرف یہ فرما دیا کہ خدا تعالیٰ زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتا، جو قوم بچنا نہ چاہے اسے بچاتا نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سارے ایک جیسے ہو جاتے مگر ایسا نہیں کیا جاتا اور نہیں کیا جائے گا اور یہ ساری باتیں سن کر آنحضور ﷺ کے دل پر جو گزرتی تھی اور جس کا بیان آپ نے فرمایا اس بیت پر نظر ڈال کر اگلی آیت نازل ہوئی معلوم ہوتی ہے فرمایا.وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ انباء الرُّسُلِ یہ ساری رسولوں کی باتیں یہ پرانے قصے جو ہم تیرے ساتھ دوہرا رہے ہیں تجھے ڈرانے کیلئے نہیں تیرے دل کو تقویت دینے کیلئے اس میں یہ خوشخبری تھی کہ تیری قوم ہلاکت سے بیچ جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ ایمان لے آئے گی بالآخر نجات پائے گی لیکن اس کا ذریعہ کیا ہے ایک طرف ایک تقدیر عام بیان ہو چکی ہے کہ ایسی قو میں جو توجہ نہیں کرتی جو مصلحین
خطبات طاہر جلدا 326 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء پر ظلم کرتی ہیں وہ ہلاک کر دی جاتی ہیں.اگلا مضمون اسی سے تعلق رکھتا ہے اور اسی بات کی تشریح ہے اسی معمہ کا حل ہے کہ یہ قوم پھر کیوں بچائے جائے گی.فرماتا ہے وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عُمِلُونَ تم نے دلائل کے ذریعے پیغام پہنچانے میں انتہا کر دی ،نرمی اور محبت اور خلوص کے ساتھ ان کے دل جیتنے کے لئے جتنی کوشش ہو سکتی تھی وہ سب کوشش کر بیٹھے، اب تم ان سے کہہ دو کہ تم جو کر سکتے ہو کرتے چلے جاؤ لیکن ہماری کوششوں کو انتہا تک پہنچانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کوششیں چھوڑ دیں گے.ہم جانتے ہیں کہ تم ضد کر بیٹھے ہو، جانتے ہیں کہ تم اس عمل سے باز آنے والے دکھائی نہیں دیتے جس عمل پر تم بڑی شدت کے ساتھ قائم ہوئے ہو لیکن ہم بھی نیکیوں کے معاملے میں اور نصیحت کے معاملے میں تم سے کم صبر دکھانے والے نہیں ثابت ہوں گے.إِنَّا عُمِلُونَ ہم بھی وہ کرتے چلے جائیں گے جو کچھ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے.اس میں آج کل بھی دا عین الی اللہ کیلئے بہت بڑی نصیحت ہے اور بہت بڑا پیغام ہے.وہ پیغام یہ ہے کہ اگر کوئی قوم اپنے اخلاق سے بظاہر ہلاک ہونے کے لائق دکھائے دی جائے ،اگر کوئی قوم اپنے ضد اور تعصب اور مظالم کے نتیجے میں یوں محسوس ہو کہ اب ان کی ہلاکت لکھی جاچکی ہے اور ان کو کوئی بچا نہیں سکتا اور گزشتہ قوموں میں جو تباہی کے آثار ظاہر ہوا کرتے تھے اور جن کے نتیجے میں وہ تباہ کر دی جاتی تھیں وہ سارے آثاران میں پیدا ہو چکے ہیں.اس کے باوجود کام چھوڑنے کا وقت نہیں ہے.یہ کہہ کر ان سے الگ ہو جانے کی اجازت نہیں ہے کہ ہم تو تمہیں ہلاک شدہ دیکھتے ہیں اس لئے تم جاؤ اپنا کام کرو ہم اب کوشش چھوڑ بیٹھیں گے اور مزید تمہیں پیغام نہیں دیں گے.پہلا سبق یہ دیا گیا ہے اس صورتحال میں کہ عمل نہیں چھوڑ نا اگر دشمن اپنا عمل نہیں چھوڑتا تو مومن کو ہر گز زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنا عمل چھوڑ بیٹھے.اس لئے سنے یا نہ سنے تم نے پیغام دیتے چلے جانا ہے، دیتے چلے جانا ہے اور دیتے چلے جانا ہے.یہ وہی مضمون ہے فَذَكِّرُ اِنْ نَّفَعَتِ الذكرى ( الاعلی: ۱۰) اے محمد مصطفی یہ تو نصیحت کرتا چلا جا اور کرتا چلا جا اور کرتا چلا جا اور یہ یقین رکھ کہ تیری نصیحت بالآخر رائیگاں جانے والی نہیں اِن نَفَعَتِ الذِّكْرَى - الذِّكْرُى میں بالعموم بھی نصیحت اور پرانے ایام کی یادوں کو تازہ کر کے لوگوں کو ڈرانے کا مضمون ہے لیکن میرے نزدیک
خطبات طاہر جلد ۱۱ 327 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء یہاں الذكری سے مراد خصوصیت سے حضرت محمد مصفیہ کی زبان سے جاری ہونے والا الذكرى ہے اور یہ خوشخبری تھی کہ تیری نصیحت رائیگاں جانے والی چیز ہی نہیں ہے.یہ یقین رکھ اور مسلسل نصیحت کرتا چلا جا.تو وہی مضمون اس رنگ میں بیان ہوا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم نے ہرگز ایمان نہیں لانا جو اپنے اعمال سے ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی کہتے ہیں ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں.لَا يُؤْمِنُونَ ہرگز ہی ایمان نہیں لائیں گے.ان سے کہہ دے اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ تم اپنی جگہ کام کرتے چلے جاؤ اِنَّا عَمِلُونَ ہم بھی ضرور یہ کام کریں گے اور ہمارا جوفریضہ تبلیغ فرمایا گیا ہے اس سے کبھی کوتاہی نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود اس سے تقدیر نہیں بدل سکتی فرمایا وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ کسی اور چیز کی ہم خواہاں ہیں تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ ہونے والا ہے، کوئی ایسی بات نازل ہونے والی ہے جس کے نتیجہ میں حالات میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اس وقت جو دکھائی دے رہا ہے وہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ انکار کر بیٹھے ہیں اور بچائے نہیں جاسکتے لیکن پردہ غیب میں جو کچھ چھپا ہوا ہے وہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا.اس لئے بھی اپنے عمل کو جاری رکھنا ضروری ہے کیونکہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو حال میں ہوتے ہوئے بھی پردہ غیب میں ہوتی ہیں اور جو مستقبل سے تعلق رکھنے والی غیب کی باتیں ہیں وہ بہر حال انسان سے اوجھل ہی رہتی ہیں.فرمایا تمہاری نظر میں یہ ہلاک شدہ ہیں لیکن ان کے اندر کچھ واقعات، کچھ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان کے دلوں میں کچھ تحریکات چل رہی ہیں اور ان پر تمہاری نظر نہیں ہوسکتی ان پر اللہ تعالیٰ کی نظر ہوسکتی ہیں.فرمایا اس لئے غیب کا علم سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا.نہ تمہیں حال کا علم ہے نہ تمہیں مستقبل کا علم ہے تم ظاہر پر فتوے لگاتے ہو لیکن قوموں میں جو تبدیلی آیا کرتی ہیں بعض دفعہ مخفی تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور تمہیں ان کا اندازہ نہیں ہوتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اس قوم سے متعلق جس کے آپ اولین مخاطب تھے یعنی ہندوستان کے باشندگان جو بعد میں ہندو پاکستان کے باشندگان میں تبدیل ہوئے ان کے متعلق فرمایا کہ را ئیں تبدیل کر دی جائیں گی، نیا آسمان بنے گا نئی زمینیں بنیں گی اور آراء کی تبدیلی کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ البروج کی تفسیر میں یہ لکھا کہ ایسا وقت جب آئے گا جب
خطبات طاہر جلد ۱۱ 328 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء احمدیوں کے گھر جلائے جائیں گے، ان پر مظالم کئے جائیں گے، ان کو جیلوں میں ٹھونسا جائے گا اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوگا.اس وقت ان کی قربانیوں کے نتیجے میں دلوں میں اندر ہی اندر تبدیلیاں پیدا ہورہی ہوں گی اور بظاہر وہ دکھائی نہیں دیں گی لیکن دل بالآخر قوم کے اندر پیدا ہونے والے رد عمل ایک بم کے دھماکے کی طرح پھٹیں گے اور اسی قوم میں سے احمدیوں کے فدائی ، شیدائی، ان سے محبت کرنے والے اور احمدیت کی خاطر قربانیاں کرنے والے پیدا ہوں گے.یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان ہوا اور مختلف آیات میں مختلف رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے.پس داعین الی اللہ کے لئے ان آیات میں بہت گہری نصیحت ہے.فرمایا کہ ٹھیک ہے بعض تو میں ضد کر بیٹھتی ہیں اور اڑ جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی یہی ہے کہ جو ضد کر بیٹھے گا اس کو ز بر دستی تبدیل نہیں کرے گا مگر یہ کہنا کہ انسانی فتویٰ کہ فلاں قوم ضد کر کے اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ اس پر حجت تمام ہو گئی ہے، یہ انسان کا کام نہیں ہے.حقیقی فتویٰ اللہ دے سکتا ہے.اس لئے انسان کا کام یہ ہے کہ ایسے مایوس کن حالات دیکھتے ہوئے بھی مایوس نہ ہو.دشمن ہر وقت تمہارے مٹانے کی کوشش کر رہا ہے نکما تو نہیں بیٹھا ہوا ہے.تم کس طرح ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جاؤ گے.یہ بچیں یا نا بچیں اس سے قطع نظر تمہیں اس کام کولاز ما جاری رکھنا ہو گا.جو تمہارے سپردکیا گیا ہے اور ان سے کہ دو کہ ٹھیک ہے تم بھی جو کر سکتے ہو کرتے چلے جاؤ جو ہمارے بس میں ہے ہم ضرور کرتے چلے جائیں گے.پھر ان سے کہو کہ انتظار کرو کیونکہ اس لڑائی کا فیصلہ زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہونا ہے.تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں اور اس کی حکمت یہ بیان فرمائی وَلِلهِ غَيْبُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ غیب تو الله کے پاس ہے تمہیں کیا پتا کہ غیب کی کیا باتیں ہیں.غیب سے منصہ شہود میں کیا کیا چیز میں ابھرنے والی ہیں کہ ساری ایسی باتیں ہیں جن کا خدا تعالیٰ کے علم غیب سے تعلق ہے بندے سے تعلق نہیں.پھر فرمایا وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّه اسی کی طرف ہر امر بالآخر لٹایا جاتا ہے.امر کے لٹائے جانے کے متعلق قرآن کریم میں بکثرت آیات موجود ہیں لیکن امر کے خدا کی طرف لٹائے جانے کا ایک مطلب ہے قضاء قدر کی تقدیر کا ظاہر ہو جانا.آسمان پر جو فیصلے ہیں ان کا زمین پر نازل ہونا یعنی فیصلوں کے متعلق آخری اختیار بندوں سے کھینچ لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع پا کر جاتا ہے.پھر آسمان سے ایک تقدیر بنائی جاتی ہے اور وہ تقدیر زمین پر نازل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے
خطبات طاہر جلدا 329 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں.ایک آیت سورۃ بقرہ آیت ۲۱۱ میں فرمایا هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَيْكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ كياوه اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر اندھیروں کے پردوں میں جو بادلوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں، ایک مثال دی گئی ہے کہ بادلوں میں جن کے اندر ظلمات ہوتی ہیں اور اندھیروں کے پر دے ہوتے ہیں ان میں خدا تعالیٰ نازل ہو اور الامرحلہ ہر معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے اور اس قسم کے فیصلے کے متعلق فرمایا وَ إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ ایسے فیصلے اس وقت ہوتے ہیں جب سارے امور خدا کھینچ کر واپس اپنی طرف لے جاتا ہے جب دنیا والوں سے فیصلوں کی طاقت تلف کر دی جاتی ہے اور ایسا وقت آتا ہے کہ جب قوموں کے فیصلے زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر کئے جاتے ہیں.ایک تو یہ قضاء قد ربھی ہے جس کے نتیجے میں تو میں ہلاک کی جاتی ہیں لیکن ایک اور بھی ہے جس کے نتیجے میں تو میں بچائی جاتی ہیں اور وہ قضاء قدر ہے جس کی طرف اس آیت میں نصیحت فرمائی گئی ہے.وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُكُلُّهُ فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ اگر ہلاکت کی قضاء قدر کا ظاہر ہونا ہوتا تو اس مضمون کو اس طرح بیان نہ فرمایا جاتا جس طرح اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.اس میں امید کو زندہ رکھا گیا ہے اور فرمایا تو عبادت میں مصروف ہو جا اور عبادت کرتا چلا جا وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ اور اللہ پر توکل رکھ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اور اللہ تعالیٰ اس بات سے غافل نہیں ہے جو تم لوگ اس دنیا میں کرتے رہتے ہو اور کرتے رہو گے.اس سے پتا چلتا ہے بعض دفعہ جب قو میں ضد کر بیٹھتی ہیں اور بظاہر ان کو بچانے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا اس وقت عبادت کے نتیجے میں اور توکل کے نتیجے میں آسمان سے فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس فیصلے کا بھی انسانی کوشش سے گہرا تعلق ہے.جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زبر دستی کسی کو تبدیل نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی کوششوں کے نتیجے میں جو بھی ماحصل اس کا انسان کے انجام سے گہرا تعلق ہے وہ لوگ جو ضد کر بیٹھے ہیں ان کو زبردستی بچایا نہیں جاتا لیکن ایک تدبیر ایسی ہے جس سے ان کی ضد کی حالت بدل سکتی ہے اور وہ دعا ہے اور وہ عبادت ہے اگر تم عبادت پر زور دو تو خدا تعالیٰ ان کے اندرونی حالات کو بدل سکتا ہے اور ان کے اندر سے ہی پشیمانی پیدا ہوسکتی ہے اور جب ان کے اندر پشیمانی کے جذبات پیدا ہوں گے تو پھر خدا تعالیٰ کی دوسری تقدیر کہ پشیمان لوگوں کو
خطبات طاہر جلدا 330 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء ہلاک نہیں کیا کرتا وہ کارفرما ہو جاتی ہے اور پھر ایسی قوموں کو بچالیا جاتا ہے.یہ بہت بار یک تعلق.دعا اور تدبیر کا جس کو آخری علاج کے طور پر یہاں بیان فرمایا گیا ہے.ہے پس نصیحت یہ بنی کہ وہ تو میں جو ضد کر بیٹھیں اور ان میں مصلحین نہ رہیں وہ ہلاک کی جاتی ہیں لیکن اگر مصلحین ان میں موجود ہوں اور کوشش کرتے رہیں تو پھر وہ بچائی جاسکتی ہیں لیکن زبردستی خدا تعالیٰ کسی کو نہیں بچایا کرتا.پھر فرمایا کہ یہ قوم جس کو تو مخاطب ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضد کے آخری مقام پر پہنچ چکی ہے اس لئے ان کو صاف یہ کہہ دے کہ تم بھی کوشش کرو اور ہم بھی کوشش کرتے چلے جائیں گے.تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کریں گے اور ان کی کیفیت بدلانے کیلئے تم عبادت پر زور دو.عبادت پر مستعد ہو جاؤ اور خدا پر توکل رکھو اور یہ یقین کرو کہ زمین کے بعض فیصلے آسمان پر کئے جاتے ہیں اور جب خدا یہ فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو پھر سب سے زیادہ فیصلہ کن امر عبادت ہے.عبادت کے نتیجے میں پھر تقدیریں بدلا کرتی ہیں.یہی وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی گہرائی کے ساتھ سمجھا اور ایک ایسی بات لکھی جو چودہ سو سال کے عرصے میں سوائے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور کسی نے نہیں لکھی.ایک عارف باللہ کا کلام اتنا ممتاز اور نمایاں ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے دوسرے علماء بھی اس کی گردکو نہیں پہنچ سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اگر بارش کیلئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کیلئے ضروری ہوتے ہیں.اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں...“ بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه : ۱۰) یعنی اسباب تو ضروری ہیں اور خدا تعالیٰ کی جو یہ تقدیر ہے یہ اپنی جگہ جاری وساری رہے گی تو تم تبدیل نہیں کر سکتے.تم فیصلہ دیتے ہو اسباب کے نہ ہونے کے نتیجے میں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دعا کرو تو اسباب تو میں نے ہی پیدا کرنے ہیں.دعا اسباب پر غالب آجاتی ہے ان معنوں میں کہ دعا کے نتیجے میں پھر خدا کی دوسری تقدیر حرکت میں آتی ہیں اور اسباب پیدا کر دیتی ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 331 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء "...اور اگر قحط کیلئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہیں...“ ارباب کشف اور کمال وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ کشوف کے ذریعہ اسرار غیب سے مطلع فرماتا ہے اور جو اپنے اندر صالحیت کے کمالات رکھتے ہیں، نیکی اور پاکیزگی کے کمال رکھتے ہیں...ان پر بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہیں کہ ” کامل کی دعا میں ایک قوت تقویم پیدا ہو جاتی ہے...“ جو شخص کامل ہو اس کی دعا میں ایک تخلیق کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور اپنے رب کی صفت خالقیت میں وہ حصہ پاتا ہے اور جو چیز وجود میں نہیں ہے وہ عدم سے وجود میں آجاتی ہے اس کی دعا کی طاقت سے...یعنی باذنہ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے...“ دنیاوی حالت سے ہی وہ تصرف کرتی ہے اور آسمان میں پیدا ہونے والی حرکتوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے...اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے...اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان اپنے مقصود کے حق میں ، اس کی تائید میں ایک خاص پہلو کی تلاش رکھتا ہے وہ خاص پہلوان دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے مقصود کو حاصل کرنے کیلئے جتنی تائیدی ہوائیں ہیں وہ چل پڑتی ہیں.وو...خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیر میں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے...66 آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کے تمام صحیفوں میں اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں صرف قرآن کا سوال نہیں ہے.تمام انبیاء کی کتب میں اور خدا تعالیٰ نے جوصحائف ان کو عطا فرمائے ان میں اس کی بکثرت مثالیں ملیں گی اور...اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے...جو اعجاز کا نام آپ نے سناء معجزہ دکھانا، حیرت انگیز طور پر ایک بظاہر ناممکن چیز کا وقوع پذیر ہو جانا، فرمایا یہ ہی اس کی ایک قسم استجابت دعا سے تعلق رکھتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 332 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء...اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے...“ اور یہ عبارت بھی لطیف ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام بڑا ہی محتاط ہے.آپ فرماتے ہیں...اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء کے ظہور میں آئے ہیں...ماضی میں جتنے بھی انبیاء نے معجزات دکھائے یا جو کچھ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد وہ عجائب دکھلانے والے علماء بھی لد گئے اور صاحب کرامات لوگ ختم ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کی دنیا میں پھر عجائب دکھانے والے لوگ باقی نہیں رہے.یہ نہیں فرمایا کہ وہ لوگ ختم ہو گئے فرمایا اب تک امت محمدیہ میں کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں آیا کہ کرامات دکھانے والے، عجائب دکھانے والے بزرگ اور اولیاء موجود نہیں تھے.میرے زمانے تک یہ ان کا کام تھا اور وہ دکھاتے رہے ہیں.آخر پر جو بات ظاہر ہوئی آپ فرماتے ہیں میرے ذریعہ خدا تعالیٰ ان اعجازات کو جاری و ساری فرماتا ہے فرماتا رہے گا...اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں...اور وہ یہی دعائیں ہیں جن کے اثر سے خوارق ظاہر ہوتے ہیں.خوارق کہتے ہیں ایسی چیز کو جو عام عادت سے ہٹ کر ہو.عام طور پر جو دستور دکھائی دیتا ہے.اس سے ہٹ کر کوئی عجیب سی بات رونما ہو جو ظاہری قانون کے تابع دکھائی نہ دے.اس کو خارق عادت کہتے ہیں.عادت سے ہٹی ہوئی چیز قدرت قادر کا تماشہ دکھلا رہے ہیں وہ خوارق ہیں.وہ خدا کے قانون پر غالب آنے کا تماشا نہیں دکھلا ر ہے.وہ قدرت قادر کا تماشا دکھلاتے ہیں.وہ یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں نہاں در نہاں ہیں.ایک قدرت کے پردے میں ایک دوسری قدرت بھی کارفرما ہوتی ہے اور جس کو تم خارق سمجھتے ہو، جس کو تم سمجھتے ہو کہ قانون سے ہٹی چیز ہے وہ دراصل خدا کی ایک بالا قدرت کا تماشا دکھا رہی ہوتی ہے.یہ وہ کلام ہے جو ایک عارف باللہ کا، جو خدا سے گہرا تعلق رکھنے والا ہے اس سے ظہور پاتا ہے.اس کا کلام ہے اور سارا کلام الہی نور سے منور ہے.کتنا محتاط کلام ہے، کتنا باریک لطافتوں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 333 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء میں اتر کر حقائق و معارف کو پیش فرما رہا ہے.اب سنئے کہ وہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی اور جو مضمون بیان کیا تھا.ان کا آنحضرت ﷺ کی دعا سے کیا تعلق تھا اور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں....وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں عجیب ماجرہ گزرا کہ لاکھوں وو مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے...“ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں، کیسا خوبصورت کلام ہے بیابانی ملک میں صحرائی ملک ہے جس میں کچھا گتا نہیں، نہ پانی ہے نہ زندگی کے آثار ہیں.وو...بیابانی ملک میں عجیب ماجرہ گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھی جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.66 وہ امی جس کو دنیاوی کوئی علم نہیں ہے بے کس و بے بس ہے ساری قوم اس کو چھوڑ بیٹھتی ہے اس کی ہلاکت کے در پے ہے کیسے ممکن تھاوہ یہ حیرت انگیز معجزات دکھا تاد نیا کو.اس کی فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں اور انہوں نے دنیا میں ایک شور مچا دیا.اللهم صل و سلم و بارک علیه و آله بعدد همه و غمه وحزنه لهذه 66 الامة و انزل عليه انوار رحمتک الی الابد اے اللہ سلامتی بھیج اور درود بھیج اور برکتیں بھیج اس وجود پر اور اس کی آل پر اتنی برکتیں اور اتنی سلامتیاں بھیج که بعدد همه و غمه وحزنه لهذه الامة - جتنا اس کو اس امت کیلئے غم تھا، دیکھ تھا اور ان غموں اور دکھوں میں امت کی خاطر ہلکان ہوا کرتا تھا، جس شدت سے اس کے غم تھے اور جس کثرت سے اس کے غم تھے ، اسی کثرت اور اسی شدت کے ساتھ اس کی امت پر رحمتیں نازل فرما اور اس پر ہمیشہ رحمتیں نازل فرما تارہ کتنی عجیب دعا ہے آج کے داعی الی اللہ کیلئے اس سے بڑا کامیابی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 334 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء کا اور کوئی نسخہ بیان نہیں ہوسکتا.آگے فرماتے ہیں....اور میں اپنے ذاتی تجربے سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے.( برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 11) وہ داعی الی اللہ جو یہ کہتے ہیں ہم نے کوشش کو بھی انتہا تک پہنچا دیا اور دعا کوبھی بوجوہ کمال تک پہنچا دیا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.ان کو میں سمجھا تا ہوں کہ ان کے نفس کا دھوکہ ہے.جب کوشش درجہ کمال کو پہنچادی جائے اور مایوس ہوئے بغیر تو کل کے ساتھ اور صبر کے ساتھ خدا کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے اور راتوں کو اٹھ کر ان لوگوں کیلئے دعا کی جائے جن کو بچانے کیلئے آپ کوشاں ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ دعائیں نا مقبول ہوں.وہ لازماً کارگر ہوں گی مگر اگر وہ مقبول نہیں ہوتی آپ دعائیں کرتے ہیں تو ان میں کوئی نقص ہے ایک ایسا نقص ہے جس کو میں نے محسوس کیا ہے اور میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.عموماً یہ دعا کرنے والے جب دعا کرتے ہیں تو بڑی سخت گھبراہٹ میں گڑ گڑاہٹ میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ میرے وعدے کا وقت آ گیا، میرا وعدہ جھوٹا نکلے گا میں کیا کروں گا، میں نے تو سوکا وعدہ کیا تھا ایک بھی نہیں بن رہا.اپنے حوالے سے دعائیں کر رہے ہوتے ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ کی دعاؤں کی قبولیت کا راز یہ نہیں بتایا گیا کہ آپ یہ فرماتے تھے کہ اے اللہ میں کیا کروں گا، میں کن لوگوں میں شمار ہوں گا اگر میری قوم ہلاک ہوگئی تو مجھے شرمندگی ہوگی ہرگز نہیں فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تجزیہ فرمایا ہے کہ آپ کو ان لوگوں کا بے حد غم تھا، ان کی ہلاکت کا فکر تھا جو آپ کو دامن گیر تھا ان کیلئے آپ کی جان ہلاک ہو رہی ہوتی تھی.اس قدر گہرا تعلق تھا بنی نوع انسان سے ایسی سچی ہمدردی تھی ان سے کہ ان کیلئے آپ راتوں کو اٹھ کر ان کی بھلائی کیلئے رویا کرتے تھے.اپنے حوالے سے دعائیں نہیں کیا کرتے تھے بلکہ یہ عرض کیا کرتے تھے کہ میں ان کے غم میں ہلاک ہوا جارہا ہوں اور اس مضمون کو قرآن کریم میں دوسری جگہ بڑی شان اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا.یہی طرز دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی.فرماتے ہیں.شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا (درثمین صفحہ : ۱۰)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 335 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء کس قدر راتوں کو اٹھ کر گڑ گڑاتے تھے اور دردناک دعائیں کرتے تھے مگر لوگوں کی بھلائی میں اور ان کی خاطر کہ خدا اس قوم کو بچالے.پھر فرمایا.ہے ایک عالم مر رہا ہے تیرے پانی کے بغیر اے خدا! پیاس سے مرا جار ہا ہے تمام عالم.آگے پھر فرماتے ہیں کہ ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار (در شین صفحه : ۱۲۸) بنی نوع انسان کیلئے جو ہم و غم ہے اس میں اگر شدت پیدا ہو اور انسان گہری تکلیف محسوس کرلے دوسرے کیلئے تو اس سے دعاؤں میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور اگر صرف اپنی نیک نامی کا فکر ر ہے تو دعائیں خواہ کتنے زور شور سے کی جارہی ہوں اور دعائیں خالی جانے والی، خطا جانے والی تیروں کی طرح ہوتی ہیں.پس آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو اگر گہری نظر سے پڑھیں تو ان میں حیرت انگیز طور پر ہمارے ان مسائل کا حل موجود ہے جو ہمیں لایــنــحــل دکھائی دیتے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کا کوئی حل نہیں.ہم نے کوششیں بھی کر دیں ، ہم نے دعا ئیں بھی کر لی ہیں پھر بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا.پس داعی الی اللہ کے دل میں اگر بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اور پیار ہے اور جن کیلئے دعا کرتا ہے ان کی ہلاکت کیلئے وہ خود اپنے آپ کو ہلکان کر رہا ہے.تو پھر یقین جانیں اس کی دعائیں ضرور رنگ لائیں گی.جس طرح پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے زمانے میں وہ معجزات دکھا چکی ہیں اس زمانے میں بھی دکھائیں گی.لیکن اس میں مزید اس حکمت کو شامل کر لیں کہ ہمیشہ ہواؤں کے رخ پر چلنے والوں کی رفتار ہواؤں کے مخالف چلنے والوں سے تیز ہوا کرتی ہے.آپ کی دعا اگر ہلکے چلنی والی ہے تیز ہوا میں اگر شامل کر لیں تو وہ بھی تیز رفتار ہو جائے گی.تو اپنی دعاؤں کو مقبول بنانے کا ایک یہ طریقہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی میں نے جو ہمیشہ کیلئے ابدالاباد تک بنی نوع انسان کیلئے اپنی امت کیلئے دعائیں کی ہیں ان کا حوالہ دے کر اپنی دعاؤں کو ہمیشہ ان میں شامل کر لیا کریں اور ان کے ساتھ آپ کی دعاؤں میں ایک نئی قوت اور تیز رفتاری رونما ہوگی جو اس سے پہلے آپ کے مشاہدے میں کبھی نہیں آئی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعاؤں کا ذکر کرتے ہوئے الی الابد کا لکھا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 336 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء ہوا ہے کہ جس طرح تیرا غم دعا ئیں بن کر ابد تک ان کیلئے رحمتیں چھوڑ گیا ہے اسی طرح اے میرے خدا تو اس اپنے پیارے بندے کیلئے ہمیشہ ہمیش کے لئے اسی غم اور اسی دکھ اور اس کی پیشگی کے جاری ہونے کی نسبت سے ہمیشہ اس پر رحمتیں فرماتا جا.تو آپ کی دعا ئیں آج بھی جاری ہیں ان دعاؤں میں اپنی دعائیں شامل کر دیں تو ان دعاؤں کا فیض آپ کی دعاؤں کو ملے گا، ان میں ایک نئی طاقت پیدا ہوگی ،ان میں حیرت انگیز معجزے دکھانے کی شان پیدا ہو جائے گی ، ان کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی.پس دعاؤں سے غافل نہ ہوں اور امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور دعاؤں کے نتیجے میں قوموں کی تقدیریں بدل دیا کرتا ہے، وہ اسباب پیدا کر دیا کرتا ہے.وہ اسباب قوموں کے حالات بدلنے کے موجب ہوتے ہیں.اس پہلو سے اب واپس پاکستان کی طرف چل کر دیکھتے ہیں.خصوصیت کے ساتھ اس وقت میرے سامنے پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان ہیں.دن بدن ان کے حالات بگڑ رہے ہیں.اگر یہ دعا کی غیر معمولی تقدیر ان کو بچانے کیلئے آسمان سے نہ اتری اور اس پہلو سے الامر کا صلى الله خدا کی طرف لوٹا اور پھر زمین پر نازل ہونا یونہی بیان کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دعا امرالہی بن کر آسمان پر اٹھیں اور امرالہی بن کر نازل ہوئیں ہیں.خدا کے اذن اور اس کی توفیق سے آپ کو دعا کی تو فیق ملی اس میں ایک ایسی غیر معمولی قوت پیدا ہوئی کہ وہ آسمان تک رفع کرگئی اور پھر آسمان سے وہ الامر نازل ہوا جس نے زمین کی تقدیر بدلی ہے.اس پہلو سے جب ہم پاکستان کے اور ہندوستان کے مسلمانوں کے خصوصیت سے حالات دیکھتے ہیں اور اسی طرح باقی دنیا کے مسلمانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک تکلیف دہ بات جو دکھائی دیتی ہے کہ قرآن کریم کا بیان کردہ اصل وہ بالکل بھلا چکے ہیں کہ جب تک لوگ صالح نہ ہوں اس وقت تک ان قوموں کو ہلاکت سے بچایا نہیں جاسکتا.سارے عالم اسلام میں معلوم ہوتا ہے یہ اطلاع ہی نہیں ملی کہ قرآن کریم میں یہ نسخہ بیان فرمایا ہے.ایک نیا نسخہ بنارہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب تک شریعت کا قانون نازل نہ کیا جائے اس وقت تک قو میں بچ نہیں سکتیں.اب پاکستان میں دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں.بداخلاقی اپنے درجہ کمال تک پہنچ چکی ہے، بے حیائی ظلم ، سفا کی ، ڈا کے معصوم بچوں کو اس وجہ سے قتل کر دینا کہ وہ پیسے نہ دئے گئے ان کے بدلے غریب ماں باپ پر اتنے بڑے بڑے تاوان ڈالے جاتے ہیں کہ ان
خطبات طاہر جلدا 337 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء کو یقین ہو کہ بچہ ہلاک کر دیا جائے گا تب بھی تاوان نہیں دے سکتے.یہاں تک ظلم پہنچ گیا ہے اور علماء کا تجزیہ یہ ہے کہ یہ ساری تباہیاں اسی لئے ہیں کہ پاکستان کی حکومت شریعت کا قانون جاری نہیں کرتی.اگر شریعت کا قانون جاری کر دے تو ہماری قوم بچ جائے گی اور کیونکہ شریعت کا قانون جاری نہیں کرتی اسی لئے خدا تعالیٰ بندوں کو حکم دے رہا ہے تم سفاک ، ظالم، بدخلق ، بدطنیت ہر لحاظ سے بدیوں میں ڈوب جاؤ ، سب کچھ ہو جاؤ سوائے نیکی کے ہر راہ اختیار کرلو.یہ ان کی عقلیں بتارہی ہیں.یہ عجیب عقلیں ہیں جو ان کو یہ سمجھا رہی ہیں کہ اصل ہلاکت کی یہ وجہ ہے.حالانکہ جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں.ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (عود: ۱۱۸) فرمایا ہے اگر ہمارے عذاب سے بچنا ہے کسی بستی نے تو ان کے اہل کو مُصْلِحُونَ ہونا پڑے گا.یہ نہیں فرمایا کہ شریعت کا قانون جاری کرنا پڑے گا.اگر لوگ بد بخت ہیں ، لوگ گندے ہیں ، ظالم ہیں ،سفاک ہیں تو شریعت کا قانون کیسے ان کو بچا سکتا ہے.شریعت کا قانون تو جاری ہو چکا ہے.ان بے وقوفوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ انہوں نے کیا جاری کرنا ہے.وہ تو چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ پر نازل ہو کر جاری ہو چکا ہے اور اس قانون پر عمل کرنے سے دنیا کی کوئی حکومت روک نہیں رہی.کیا پاکستان کی حکومت نے یہ قانون بنالیا ہے کہ جب تک ہم شریعت کو نافذ نہ کرلیں کسی مسلمان نے سچ نہیں بولنا کسی مسلمان نے حسن خلق سے کام نہیں لینا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی بے حیائیوں میں مبتلا ہو جائے ، شرا ہیں پئے ،ڈاکے مارے ،غریبوں کے مال ضبط کرے ہمعصوم بچوں کو ہلاک کرے ہر قسم کی بدامنی پھیلانے کی تمام کارروائیوں میں مصروف ہو جائے کیونکہ ہم نے ابھی شریعت کے نافذ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا.کتنی بیوقوفوں والی بات ہے شریعت ملاں نے نافذ کرنی ہے؟ شریعت تو اللہ نافذ فرما چکا اور ہر مسلمان پر شریعت پر عمل فرض ہو چکا ہے اور کوئی حکومت کسی مسلمان کو روک نہیں سکتی صرف احمدیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے یعنی شریعت کے نفوذ کی خبران کو تو ہوئی نہیں احمدیوں کو ہوئی ہے.وہ بیچارے شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت کہتی ہے کہ نہیں ہم نے شریعت پر عمل نہیں کرنے دینا اور جو عمل نہیں کرتے ان کو اگر زندہ بھی جلائیں گے تو وہ نہیں کریں گے اور ملاں یہ کہتا ہے کہ نہیں ڈنڈا چلا ؤ گے تو شاید یہ عمل کرلیں اور اسی وجہ سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 338 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۹۲ء قوم ہلاک ہورہی ہے کہ تم شریعت نافذ نہیں کر رہے حالانکہ ان کو تو پتا ہی نہیں کہ چودہ سو سال پہلے سے شریعت نافذ ہوئی ہے.اگر تو ان کو خبر ہی نہیں ہوئی اس بات کی اور اگر مسلمان شریعت پر عمل نہیں کر رہے ار محمد مصطفی اللہ کی شریعت پر عمل نہیں کر رہے تو ضیاء یا نواز شریف کی شریعت پر کیسے عمل کریں گے.کیا یہ خدا سے بڑے لوگ ہیں؟ ان کو علم ہے کہ شریعت محمد مصطفی ملے پر خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھی پھر بھی وہ عمل نہیں کر رہے اور یہ انتظار کر رہے ہیں کہ ضیاء یا نواز شریف کا قانون جاری ہو اور ہم پھر عمل شروع کریں تو اس شریعت پر عمل کرنے سے بہتر ہے کہ جہنم میں چلے جائیں کیونکہ جو شریعت خدا کی خاطر نہیں بلکہ بندے کی خاطر اطلاق پاتی ہے تو اس شریعت کی کوئی بھی حقیقت نہیں وہ تو شرک ہے.پس یہ بیوقوفی کی حد ہے.اس قوم کو اگر بچنا ہے تو وہی نسخہ استعمال کرنا ہوگا جو قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے.وہاں نفاذ شریعت کا کوئی حکومت کے تعلق میں ذکر نہیں ملتا.نفاذ شریعت کا بندوں ،انسانوں سے تعلق میں ذکر ملتا ہے.فرمایا لوگ مصلح ہو جائیں گے.اپنی اصلاح کریں گے، دوسروں کی اصلاح کریں گے.تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بچائے جائیں گے.یہ مشکل ہے جو ہمیں در پیش ہے اور اب تک ہم جو کوشش کر چکے ہیں ان کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہورہا اور بعض دفعہ احمدی مایوس ہور ہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قوم کے ہلاک ہونے کا وقت آ گیا، پکڑے جانے کا وقت آ گیا.یہ ساری صورت حال سمجھا کر میں آپ کو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں یقین رکھیں کہ جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے ہم عالم الغیب نہیں، بنیادی طور پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت میں بہت سی خوبیاں مضمر ہیں ، بہت فطری نیکیاں ان میں چھپی ہوئی ہیں.ذرا اس مٹی کو نم کرنے کی ضرورت ہے، سوز و گداز پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ آپ کی آنکھوں کے پانی سے نم ہے، آپ کا سوز و گداز ہے امت محمدیہ کے ان کے غافلوں کے دلوں میں منتقل ہوگا اور ان کے اندر زندگی کی گرمائی پیدا کر دے گا.پس دعائیں کریں اور دعاؤں سے غافل نہ ہوں اور اپنے عمل کو جاری رکھیں جو کوششیں ہیں ان سے باز نہ آئیں اور یاد رکھیں کہ دشمن اپنی کوششیں کرتا چلا جائے گا.آپ کو بھی یہی حکم ہے کہ آپ نے لازماً ان کوششوں پر ثبات دکھانا ہے ، مضبوطی سے قائم ہونا ہے اور پھر وہ دعائیں کریں جو دعائیں حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے کیں اور اس انداز سے دعائیں کریں جس انداز سے حضرت اقدس محمد مصطفی میں ہو نے دعائیں کیں.پھر آپ کو یہ حق ہے کہ ان سے کہیں تم بھی انتظار کرو، ہم بھی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 339 خطبه جمعه ۸ مئی ۱۹۹۲ء انتظار کریں گے پھر یقیناً آپ کے حق میں ویسی ہی تقدیر نازل ہوگی جیسے آنحضور ﷺ کے حق میں نازل ہوئی تھی اور صدیوں کے مردے قبریں پھاڑ کر زندہ ہوکر اس زمین سے باہر نکل آئے تھے اور پشتوں کے بگڑے الہی رنگ پکڑ گئے تھے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ ہوتا دیکھ لیں یہی ہماری زندگی کا مقصود و مطلوب ہے.اے اللہ ایسا ہی کر.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انشاء اللہ آئندہ جمعہ سے پہلے میں سفر کرنے والا ہوں اور انشاء اللہ فرانس اور سپین وغیرہ میں کچھ ہفتے گزار کر واپس آؤں گا.اس عرصے میں آئندہ جمعہ تو پیرس میں ہوگا وہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ وڈیو اسی رات کو بھجوا دیں گے اور آئندہ کے متعلق یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ایک جمعہ کی وڈیوا گلے جمعہ اسی طرح سیٹلائٹ کے ذریعے دکھائی جائے تا کہ جن دوستوں کو ایک دفعہ عادت پڑ گئی ہے، شوق پیدا ہو چکا ہے ان کو اس عرصہ میں بھی کچھ نہ کچھ دیکھنے کیلئے ملتا رہے.انشاء اللہ باقی پھر واپسی پر فوری Live کا سلسلہ جاری ہے، وہ اسی طرح ہو جائے گا.سفر میں ہر لحاظ سے ، ہر پہلو سے کامیابی کیلئے احباب دعائیں ضرور کریں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 341 خطبه جمعه ۱۵رمئی ۱۹۹۲ء اخلاق محمدی اپناتے ہوئے ہمت ،صبر سے دعوت الی اللہ کریں.لیڈر صفات لوگوں کو دعوت الی اللہ کریں.( خطبه جمعه فرموده ۱۵ مئی ۱۹۹۲ء بمقام احمد یہ مشن ہاؤس فرانس) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيْئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقُهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (لم الجد ۳۳ (۳۶) © ۳۴۰ تا پھر فرمایا:.قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان سے جماعت بہت حد تک متعارف ہو چکی ہے کیونکہ نمازوں میں بار ہا ان کی تلاوت کرتا ہوں اور بارہا خطبات میں اس مضمون کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں.جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوا ہے یعنی دعوت الی اللہ کا مضمون.قرآن کریم کی آیات میں یہ عظیم بات پائی جاتی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ اپنی طرف سے ایک مرتبہ ان آیات کے مضمون کو خود کھول کر بیان کر دیں لیکن پھر جب دوبارہ ان پر غور کرتے ہیں تو ضرور کوئی نئی چیز انہی آیات میں سے پھوٹتی ہے جن کی طرف پہلے توجہ نہیں گئی ہوتی اور جن سے بنی نوع انسان کے لئے مزید فائدے کے سامان ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 342 خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۹۲ء ان آیات پر بھی میں نے جب بھی غور کیا ہمیشہ کچھ نہ کچھ نئی بات نظر آئی ، کوئی نہ کوئی نیا نکتہ ہاتھ آیا اس لئے میں نے آج دوبارہ اس مضمون کو چھیڑتے ہوئے ان آیات کا سہارا لیا ہے.قرآن کریم جہاں تبلیغ کا مضمون بیان کرتا ہے وہاں صبر کے مضمون کوضرور ساتھ باندھتا ہے کبھی براہ راست کبھی بالواسطہ لیکن تبلیغ اور صبر کو الگ الگ کر کے انفرادی طور پر ایک دوسرے سے جدا گانہ شکل میں پیش نہیں کیا گیا لیکن ان آیات میں جس صبر کی طرف اشارہ ہے وہ ایک بہت بڑے پینج کے نتیجہ میں پیش آنے والا صبر ہے.عام حالات میں جب انسان کسی کو تبلیغ کرتا ہے تو طبعاً ایک منفی رد عمل سامنے آتا ہے اور تبلیغ سنے والا یہ مجھتا ہے کہ مجھے یہ بے وجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے مجھے شکار کرنا چاہتا ہے اور شکار کارد عمل خواہ وہ حیوانی شکار ہو، پرندوں کا ہو، چوپایوں کا ہو یا انسانوں کا ہو ایک ہی طرح کا ہوا کرتا ہے.شکار اول طور پر شکاری سے بھاگتا ہے اس لئے شکار کے ساتھ صبر کا مضمون خود بخود وابستہ ہو جاتا ہے لیکن یہاں ایک اور بات بیان ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا شکار جو خود شکاری ہوں اور جو دشمنی میں اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے میرے سامنے جو باتیں ہیں ان پر میں تفصیل سے آپ کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں.عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ مؤید ہو ، نرم مزاج ہو اور جس میں شرنہ پایا جا تا ہو صرف اسی کو تبلیغ کرنی چاہئے.جہاں تک تجربہ کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ وہ لوگ جن میں سعادت پائی جاتی ہے جو ظاہری طور پر نرم مزاج رکھتے ہیں ان میں تبلیغ نسبتاً زیادہ فائدہ دیتی ہے لیکن اس کا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بنایا جا سکتا.بعض لوگ ایسے ہیں جن کی طبیعتوں میں نرمی پائی جاتی ہے اور مداہنت پائی جاتی ہے، ترقی اخلاق کی وجہ سے نہیں بلکہ منافقت کی وجہ سے پائی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ جب احمدیوں کا تبلیغ کا واسطہ پڑتا ہے تو بعض دفعہ عمریں گزار دیتے ہیں لیکن ایک انچ بھی آگے نہیں آتے اور بیچارے بھولے بھالے احمدی سمجھتے ہیں کہ وہ بہت شریف آدمی ہے.کبھی مخالفت نہیں کرتا ہمیشہ اچھی بات کرتا ہے مگر اپنی جگہ اسی طرح قائم جس طرح کہ پہلے تھا اور اس کے ساتھ تعلقات میں انسان اپنی عمر ضائع کر دیتا ہے.جہاں تک انسانی تعلقات کا معاملہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص سے اچھا تعلق رکھنا چاہئے لیکن جب تبلیغ کی نیت سے تعلق رکھا جاتا ہے تو ایک مقصد پیش نظر ہوتا ہے مقصد یہ ہے کہ جس کو تبلیغ کی جائے وہ قریب تر آئے یہاں تک کہ وہ کلیڈ
خطبات طاہر جلدا 343 خطبه جمعه ۱۵ مئی ۱۹۹۲ء صداقت کی جھولی میں آپڑے.پس جہاں تک عام تعلق کی بات ہے اس سے کوئی بھی کسی کو منع نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے کہ دنیا داری کے تعلقات میں تم ہر ایک سے تعلقات رکھو لیکن جہاں با مقصد تعلق ہے وہاں مقصد را ہنمائی کرے گا کہ یہ تعلق کتنی دیر تک قائم رہنا چاہئے اور کہیں بے سود تعلق تو نہیں ہے.پس جو تعلق تبلیغ کی نیت سے رکھا جاتا ہے.اس میں ضروری ہے کہ انسان اس بات پر نظر رکھے کہ جس سے تعلق رکھا جارہا ہے وہ وقت کو ضائع تو نہیں کر رہاوہ قریب آرہا ہے یا نہیں آرہا.اگر ایک شخص اپنی جگہ پر اٹکار ہے اور انسان اس کے ساتھ عمر گنوادے تو اس کی عمر ضائع جائے گی صرف اس کی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے لوگوں کی عمریں ضائع جارہی ہیں جن کی طرف وہ توجہ دے سکتا تھا.پس جب ایک شکاری کا وقت ضائع جاتا ہے تو بہت سے نقصانات اس کو پہنچ رہے ہوتے ہیں ایسے شکار کے پیچھے لگا رہتا ہے جس کو چھوڑ کر دوسرا شکار اس کے ہاتھ آسکتا تھا مگر یہ روحانی شکار ہے.دنیا کے شکار میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شکاری ایک شکار کے ساتھ لگ جائے تو باقی پرندوں کے لئے غنیمت ہے ان کی قسمت جاگ گئی کہ ایک بے وقوف شکاری غلط سمت میں چلا گیا لیکن وہ روحانی پرندے جو ابراہیم کے پرندے ہیں وہ تو زندہ کرنے کے لئے مارے جاتے ہیں.چنانچہ حضرت ابراہیم نے جب خدا سے شکار کا طریقہ سیکھا تھا تو یہی پوچھا تھا کہ مُردوں کو کیسے زندہ کیا جاتا ہے؟ پس مومن کا شکار اگر چہ باتیں شکار کی ہی ہوں بالکل برعکس نتیجہ کے لئے کیا جاتا ہے.دنیا کا عام شکاری مارنے کے لئے شکار کرتا ہے اور مومن زندہ کرنے کے لئے شکار کرتا ہے.آنحضرت مہ کی بھی یہی صفت بیان فرمائی گئی کہ جب بھی اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلا میں يُحْيِيكُم (الانفال: ۲۵) تا کہ وہ تمہیں زندہ کریں تو اِستَجِيبُوا (الانفال: ۲۵) اس وقت ان کی آواز پر لبیک کہا کرو.پس جب میں شکار کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں تو یا درکھیں ہم نے زندہ کرنے کے لئے شکار کرنا ہے پس وہ شکار جو کسی آدمی کی غفلت کی وجہ سے زندگی سے محروم رہ گیا اور غلط توجہ کے نتیجہ میں عدم توجہ کا شکار ہو گیا اور اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی اس کا گناہ بھی تو کچھ اس کے سر آئے گا اس لئے مومن کو اپنی زندگی کے اوقات کی بڑی تفصیل سے نگرانی کرنی ہوتی ہے اس کے وقت کی ایک قیمت ہے اس کے وقت کے لحہ لحہ کا ایک حساب ہے اور عام وقت کی طرح اس کا وقت نہیں ہے اسے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 344 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۹۲ء اپنے وقت کے ہر حصہ کی قیمت حاصل کرنی ہے یا اس کا حساب چکانا ہے اگر قیمت حاصل نہیں کرتا تو خدا کے سامنے اسے حساب دینا ہے.پس جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شرفاء میں تبلیغ ہونی چاہئے نرم لوگوں میں تبلیغ ہونی چاہئے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ساتھ ساتھ نگرانی بہت ضروری ہے کہ اس تبلیغ کا فائدہ ہے نہیں ہے؟ کس حد تک ہے؟ اور ایک حد کے بعد اللہ تعالیٰ کے سپر د کیا جائے اور انسان ایسے شخص سے ہاتھ کھینچ لے جو کسی طرح اثر قبول نہیں کرتا لیکن اس کے برعکس بھی ایک شکل ہے کہ بعض لوگ شدید مخالف ہوتے ہیں اور عام طور پر لوگ ان مخالفوں کا شکار نہیں کرتے اس طرف رخ ہی نہیں کرتے قرآن کریم کی ان آیات میں خصوصیت سے ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے.صلى الله فرمایا فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ اے محمد مصطفی میں ہے اور ان کے ساتھی شکار یو! تم بڑے بڑے خوں خواروں کا شکار کرنے نکلے ہو.ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے نکلے ہو جو تمہاری جان کے دشمن ہیں ان کا جب بس چلے وہ تمہیں ہلاک کر دیں تمہیں تباہ و برباد کر دیں تمہارا کچھ بھی باقی نہ چھوڑیں.جاؤ اور خدا کا نام لے کر ان پر ہاتھ ڈالو اور ہم تمہیں گر سکھاتے ہیں کہ کس طرح ان پر فتحیاب ہونا ہے.گر کی بات بعد میں آتی ہے لیکن یہاں دیکھیں کہ مومن کے لئے کتنا بلند مقصد بیان کر دیا.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ دیکھو! اچانک تم کیا دیکھو گے کہ وہ شخص جو تمہارا شدید دشمن ہے كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيدٌ وہ جانثار دوست میں تبدیل ہو جاتا ہے.اس میں اس بات کی نصیحت ہے کہ دین میں جو بڑے بڑے مخالف اور بظاہر سختی سے دین کے ساتھ ٹکرانے والے لوگ ہیں جن سے بظاہر تمہیں خیر کی کوئی امید نہیں ہے ان کا بھی رخ کیا کروان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے جواہر پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں کہ جب وہ ہاتھ آئیں گے تو بہت قیمتی خزانہ ہاتھ آئے گا.پس اسلام کے آغاز میں ہم یہی حالات دیکھتے ہیں کہ وہ جو جاہلیت میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے وہ جب مسلمان ہوئے ہیں تو اسلام کے سب سے بڑے دوست بن گئے اور اسلام کو ان کی وجہ سے غیر معمولی تقویت حاصل ہوئی.پس آپ اپنی تبلیغ میں دشمنوں پر بھی ہاتھ ڈالیں کیونکہ آپ محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (فتح : ٣٠)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 345 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء صلى الله ان لوگوں میں سے ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ہونے کے دعویدار ہیں اور آپ کی غلامی کو اپنا فخر سمجھتے ہیں.پس شکار کے وہ انداز سیکھیں جو آنحضور ﷺ کے انداز ہیں.ابراہیمی انداز کو آگے بڑھا دیا گیا ہے.ابراہیم کی سنت کو مزید صیقل کر دیا گیا ہے.مزید چمکایا گیا ہے.ابراہیم کو تو یہ حکم تھا کہ ان پرندوں کو پکڑو جو تم سے مانوس ہو سکتے ہوں اور یہ تبلیغ کا پہلا دور ہے وہ لوگ جو شرافت سے بات کو سنیں ان کے ساتھ تھوڑا سا پیار کیا جائے تو وہ طبعا نرمی رکھتے ہوں اور پیار کا جواب پیار سے دینے والے ہوں.یہ ابراہیمی طیور میں مر محمد مصطفی اے کے سپر د جو پرندے کئے گئے ہیں وہ خوں خوار دشمن ہیں وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ آپ کو دیکھیں بھی چنانچہ آنحضور ﷺ نے جو پاک تبدیلیاں کر کے دکھائیں وہ ایسے ہی لوگ ہیں جیسا کہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تم دیکھو گے کہ تمہارے خونخوار دشمن جانثار دوست بن جائیں گے.آنحضور ﷺ نے ایسے پتھروں کو موم کر دیا اور ایسے پتھر پھاڑے اور زندگی کے چشمے بہا دیئے کہ انبیاء کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.ایک موقع پر ایک صحابی جنہوں نے آنحضور ﷺ کی زندگی میں آپ کی صحبت میں کچھ سال گزارے تھے ان سے آنحضور ﷺ کے وصال کے بعد کسی نے سوال کیا کہ آپ ہمیں آنحضور ﷺ کا حلیہ بتائیں ہم آپ کے منہ سے سننا چاہتے ہیں آپ کی آنکھوں نے ان کو دیکھا ہے جس پیار اور محبت سے آپ وہ تذکرہ کر سکتے ہیں کوئی اور نہیں کر سکتا تو آپ ہمیں بتائیں کہ آنحضور ﷺ کیسے تھے؟ یہ بات سُن کر وہ صحابی جواب دینے کے لئے زار و قطار رونے لگے ان کی چکی بندھ گئی.پوچھنے والے نے تعجب کیا کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے میں نے تو صرف اتنا سا سوال کیا تھا کہ آنحضور ﷺ کا حلیہ بتا ئیں آپ ﷺ کی شکل کیسی تھی ؟ اور یہ صاحب بجائے حلیہ بتانے کے رونے لگے.جب کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پایا تو جواب دیا کہ دیکھو آنحضور ﷺ کے زمانہ میں میری زندگی پر دو ہی وقت آئے ایک وقت وہ تھا کہ میں دشمنی میں اتنا شدید تھا کہ نفرت کی وجہ سے میں اس چہرہ کو دیکھ نہیں سکتا تھا.ان کے نام سے ہی ایسی کراہت آتی تھی ایسا غصہ آتا تھا کہ بارہا مواقع آئے مگر میں نفرت کی وجہ سے آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکا پھر جب محمد مصطفی اللہ کے عشق کا غلام بنا تو ایسی کا یا بیٹی کہ محبت نے جوش مارا اور محبت کی وجہ سے اس وجود پر میری نظر نہیں ٹکتی تھی تو آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ محمدمصطفی سیہ کا حلیہ کیسا تھا تو خدا کی قسم میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میری نظروں نے کبھی نفرت سے نہیں دیکھا اور کبھی محبت کے وفور سے نہیں دیکھا صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 346 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء اور واقعہ میں نہیں جانتا کہ محمد مصطفی ﷺ کا حلیہ تفصیلا کیا تھا.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر ۳۲۱) پس دیکھیں کہ وہ اس آیت کریمہ کا کیسا زندہ ثبوت تھے کہ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَ حَمِيمٌ جس طرح ہم کہتے ہیں اس طرح تم تبلیغ کر کے دیکھو اور ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ دشمنوں میں سے تمہیں حیرت انگیز طور پر محبت کرنے والے وجود ملیں گے پس دشمنوں کو نظر انداز نہیں کرنا اور آنحضور ﷺ کی زندگی میں تو یہ مجزے اتنی دفعہ ہوئے ہیں اور اس کثرت سے ہوئے ہیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں ہے سارے عرب کی بھی تو نفرت میں تقریب وہی کیفیت تھی.حضرت خالد بن ولید کو دیکھیں کیسے سخت دشمن تھے وہ ایک واقعہ جواُحد میں گزرا ہے جس کا دکھ جب بھی اسے پڑھتے ہیں انسان کے دل میں اس طرح تازہ ہو جاتا ہے جیسے کل کا واقعہ ہو یعنی آنحضور زخمی ہو کر نڈھال ہو کر شہیدوں کی طرح زمین پر جا پڑے اور آپ کے اوپر دوسری لاشیں آگریں ایسا تکلیف دہ واقعہ ہے کہ جب بھی انسان پڑھے تو اس کی عجیب گداز کی کیفیت ہوتی ہے بھیگی آنکھوں کے بغیر یہ واقعہ پڑھا ہی نہیں جاتا اور اس واقعہ میں سب سے بڑا نمایاں کردار خالد بن ولیڈ نے ادا کیا تھا.یہ وہ جرنیل تھا جس نے موقع کی نزاکت کو سمجھا اور معلوم کر لیا کہ مسلمانوں سے کیا غلطی ہوئی ہے اور کفار کے بھاگتے ہوئے لشکر کو ایک دم پلٹ دیا اُن کا رُخ بدل دیا اور اپنے سواروں کے ساتھ مسلمانوں کے عقب سے حملہ کر کے وہ فتح جو تقریباً مکمل ہو چکی تھی اسے وقتی طور پر ایک شکست میں بدل دیا.یہ وہ خالد ہے لیکن جب وہ آنحضور ﷺ کی محبت کے اسیر ہوئے جب آپ کے عشق کا تیران پر لگا تو ایسی کا یا بیٹی کہ اس کے بعد پھر تمام زندگی ہر جہاد میں اس شوق سے حصہ لیا کہ کاش میں بھی شہید ہوں لیکن یہ حسرت پوری نہ ہو سکی.آپ نے اسلام کے لئے اس کثرت سے جہاد کیا ہے اور ایسی شاندار سپہ سالاری کی ہے کہ اسلام کے جہاد کے نام کے ساتھ ہی خالد بن ولید کا نام اچانک اُبھر کر سامنے آجاتا ہے لیکن ایسی حالت میں جان دی کہ بستر پر پڑے ہوئے ہیں جان کنی کی حالت تھی ساتھیوں سے کہا کہ میرے پیٹ سے کپڑا تو اُٹھاؤ.انہوں نے کپڑا اٹھایا تو کہا کوئی ایک انچ تو دکھاؤ جہاں زخموں کے نشان نہ ہوں.میرا سارا جسم زخموں سے چور ہے اور داغدار ہے جانتے ہو میں نے یہ زخم کیوں کھائے ؟ اس شوق میں کہ میں محمد مصطفی حملے کے دین کی خاطر جان دوں اور میں بھی شہیدوں میں شمار ہوں لیکن وائے حسرت کہ میرے مقدر میں یہ نہیں تھا اور آج بستر پر جان دے صلى الله
خطبات طاہر جلدا 347 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء رہا ہوں.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِیمُ یہ اس آیت کی سچائی کی صلى الله ایک اور زندہ اور تابندہ مثال بن گئے کہ آنحضور ﷺہ عام پرندوں کے شکاری نہیں ہیں.یہ تو شکاری پرندوں کے شکاری ہیں ان خونخوار جانوروں کے شکاری ہیں اور ان کی ایسی کایا پلٹتے ہیں کہ حیوانوں کو انسان اور انسانوں کو خدا انما انسان بنا دینے والے ہیں یہ اس آیت کا مضمون ہے.پس اگر ہم جیسا کہ ہمارا یقین ہے محمد مصطفی ﷺ کے نہ صرف غلام بلکہ عاشق غلام ہیں اگر ہم اس خاطر دنیا میں قائم کئے گئے ہیں کہ محمد ﷺ کی سنت کو دوبارہ زندہ کریں اور زندہ کر کے سارے عالم میں جاری کر دیں تو پھر ہمارا فرض ہے.ہمارا فرض کیا ہے؟ ہمیں تو اس بات کی لولگ جانی چاہئے یہ دھن لگ جانی چاہئے کہ اپنی ذات میں اُسوہ محمدیہ کو زندہ کر کے دکھا ئیں.محمدمصطفی صل اللہ کی زندگی دو طریق پر ہے ایک تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے خدا کے ساتھ زندہ ہیں اس زندگی پر کوئی کبھی موت نہیں آسکتی لیکن آپ کی ایک زندگی امت محمدیہ میں ہو کر ہے جہاں کوئی مسلمان روحانی طور پر مرتا ہے وہاں اس زندگی میں کمی آجاتی ہے.جہاں کوئی مسلمان روحانی طور پر زندہ ہوتا ہے وہاں محمد مصطفی ﷺ کو ایک اور زندگی ملتی ہے یہ وہ زندگی ہے جس کا ہر غلام محمد اللہ سے تعلق ہے، یہ وہ زندگی ہے جس کا آج جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق ہے.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ کو ہر میدان میں جب بھی زندہ کرنے کی آپ توفیق پائیں گے تو آپ یقین رکھیں کہ آپ نے حمد اللہ کی شان کو اپنے اندر زندہ کیا دعوت الی اللہ کی شان کو بھی پوری طرح اپنے اندر زندہ کریں.یہ مضمون ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دشمنوں اور دشمنوں کے لیڈروں سے ڈریں نہیں بلکہ ان تک پہنچیں اور حکمت اور پیار کے ساتھ اس طریق پر جس طریق پر اس آیت نے آپ کو تبلیغ کا گر سکھایا ہے ان کو بھی ضرور پیغام پہنچا ئیں.جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کو بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حیرت انگیز طور پر بے شمار پھل عطا ہوتے ہیں کیونکہ دشمنوں میں سے جو لیڈر ہیں اگر وہ آئیں تو اکثر وہ اکیلے نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ قوم کی قوم آیا کرتی ہے.بعض ملکوں سے تبلیغ کی رپورٹیں آتی ہیں ان میں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں کہ فلاں علاقے میں کوئی احمدیت کا نام نہیں سننا چاہتا تھا وہاں کا جوسب سے بڑا دشمن تھا ہم اس تک پہنچے اور جب باتیں کیں تو یہ معلوم کر کے حیران رہ گئے کہ اس کے اندر یہ سعادت پائی جاتی تھی.
خطبات طاہر جلدا 348 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء کچھ دیر میں اس نے اپنے رویہ کو تبدیل کیا پھر اس نے دلچسپی لینی شروع کی پھر وہ خدا کے فضل.احمدی ہوا اور اس کے نتیجہ میں اب گاؤں گاؤں میں احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے ایسی ایک رپورٹ کچھ عرصہ ہوا انڈونیشیا سے بھی ملی کہ وہ صاحب جو ایک علاقہ کے چیف کہلاتے تھے بڑے معزز اور کافی وسیع طور پر لوگوں میں اثر رکھنے والے.وہ پہلے احمدیت کی دشمنی میں اوّل اوّل تھے جب وہ احمدی ہوئے تو ان کا مشغلہ ہی یہ بن گیا کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتے ہیں اور وہاں اعلان کرتے ہیں کہ دیکھو تم نے مجھے کیسا پایا وہ جب ان کو بتاتے ہیں کہ ہاں تم ہمارے پیر تھے اور پیر تو کہتے ہیں کہ میں تو اب کسی اور کا مرید بن چکا ہوں.میں تو اب پیر نہیں رہا اب بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے تو پھر بعض دفعہ گاؤں والے جن میں شرافت ہے وہ کہتے ہیں تم ہمارے اب بھی پیر ہو جدھر تم نے قدم رکھا ہے وہیں ہمارا قدم پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس علاقہ میں جہاں پہلے احمدیت کا نشان بھی نہیں تھا وہاں کثرت سے جماعتیں بنی شروع ہو گئیں.یہ ایک ملک کی بات نہیں ہر ملک پر یہ بات اسی طرح صادق آتی ہے.یہاں بھی بہت سے ایسے نوجوان ہیں یا دوسری عمر کے لوگ ہیں جن کے اندر لیڈری کی صفات پائی جاتی ہیں ایسے ہیں جن کے اندر لیڈری کی صفات کے ساتھ اسلام دشمنی بھی پائی جاتی ہے اور وہ اسلام کی مخالفت میں یا حق کی مخالفت میں نمایاں طور پر جس رنگ میں بھی وہ کوشش کر سکتے ہیں وہ کرتے ہیں ان تک بھی پہنچنا چاہئے اور اس طرح پہنچنے کے بہت سے ذرائع ہیں.فرانس کو پیش نظر رکھ کر جب میں بات کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ آج یہاں جماعت بہت چھوٹی ہے اور ابھی تک فرانسیسی قوم تک ان کا رابطہ گہر انہیں ہوسکا.نیچے آج تک فرانس میں جتنی بھی تبلیغ ہوئی ہے اکثر و بیشتر وہ غیر فرانسیسی کو ہی ہوئی ہے مثلا یہاں مرا کو سے آنے والے لوگ ہیں، یہاں افریقہ کے مختلف ممالک سے آکر بسنے والے لوگ ہیں، یہاں پاکستانی ہیں جہاں تک تبلیغ ہوئی ہے عام طور پر ان لوگوں میں ہوئی ہے اور فرانسیسی کی جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ دنیا پرست ہیں، وہ دنیا دار ہیں، انہیں دین میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.جب بات کرتے ہیں تو وہ کورا سا جواب دے دیتا ہے.میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہر قوم میں خدا تعالیٰ نے نیک فطرت لوگ رکھے ہوئے ہیں اور دشمنوں کی دشمنی کے بھیس میں بھی آپ کو بڑے نیک فطرت لوگ ملیں گے.جو شاید مخالف دکھائی دیتے ہیں جب وہ نرم پڑتے ہیں تو ان کے اندر ایک حیرت انگیز انقلاب بر پا ہو جایا کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 349 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء پس آپ کی ہمت اگر ٹوٹ جائے تو فرانس کی ہمت ٹوٹ جائے گی ایک قوم کی قسمت آپ کے سپرد کی گئی ہے آپ نے ہمت نہیں ہارنی کیونکہ جب داعی الی اللہ ہمت ہار دیتا ہے تو درحقیقت اُس ساری قوم کی ہمت ٹوٹتی ہے.نصیحت کرنا بڑا مشکل کام ہے، نصیحت کرنے کے لیے غیر معمولی طاقتوں کی ضرورت ہے اسی لئے قرآن کریم نے صبر کی تلقین فرمائی.اور یہ وہ دوسرا پہلو ہے جو میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں فرمایا.فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ لیکن یاد رکھو یہ معجزے یونہی رونما نہیں ہو جایا کرتے دشمنوں کو دوست بنانا آسان کام نہیں ہے.اس کے لئے صبر کی ضرورت ہے.وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُ وا لیکن اس کے علاوہ کچھ اور بھی ضرورت ہے کیونکہ سارا خطاب واحد میں ہے اور اس میں اول مخاطب حضرت محمد مصطفی ملتے ہیں اور آپ کو جو صبر عطا ہوا تھا وہ لفظ صبر کے تابع پوری طرح بیان نہیں ہوسکتا تھا اس لئے جہاں عام مومنوں کے صبر کا ذکر فرما کر جمع کے صیغہ میں یہ کہا کہ وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ تو وہاں ساتھ ہی پھر واحد کی بات کی ہے کہ وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِیمٍ اس جمع کا ذکر چھوڑ دیا ہے جس طرح پہلے گ.ک.ک یعنی تو، تو تو ، کر کے مخاطب کیا جا رہا تھا.مومنوں کا عمومی ذکر کرتے ہی خدا پھر واپس اسی مضمون کی طرف پلٹا ہے اور محمد مصطفی ﷺ کے متعلق فرمایا ہے وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ.اس عظیم مقصد کو ایک عظیم اخلاق کا حصہ دیئے گئے انسان کے سوا اور کوئی پورانہیں کرسکتا.وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں ان کو بھی ملے گا اور اصل کامیابی جو غیر معمولی اور اعجازی کامیابی ہے وہ اس کو ملے گی جس کو حظ عظیم عطا ہوا ہے.حظ حصے کو کہتے ہیں ٹکڑے کو کہتے ہیں اور بہت عظیم ٹکڑا ملا ہے کس چیز کا ٹکڑا یہ بیان نہیں فرمایا.صبر کی بات ہو رہی ہے اس لئے پہلے ذہن صبر کی طرف جاتا ہے اور اس پہلو سے جب ہم آنحضور ﷺ کو دیکھتے ہیں تو بلاشبہ ان سے بڑا صا بر انسان کبھی اس دنیا میں پیدا نہیں ہوا.ہر میدان میں ،صبر کی ہر آزمائش میں آپ اس شان سے پورے اُترے ہیں کہ اس کی کوئی مثال کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی.ذاتی نقصان کی کیفیت دیکھ لیجئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کے دُکھ برداشت کرنے کی کیفیت دیکھ لیجئے.صبر کے جتنے بھی امتحان آسکتے ہیں وہ سب آنحضور ﷺ پر زندگی کے مختلف حصوں
خطبات طاہر جلدا 350 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۹۲ء میں مختلف شکلوں میں آئے اور حیرت انگیز طور پر آپ ﷺ نے ہر امتحان میں نمایاں کامیابی عطا فرمائی ایسی جو چاند سورج کی طرح روشن کامیابی تھی اول زندگی میں آپ کے والد کا وصال بعض روایات میں آپ کی پیدائش سے پہلے ہو چکا تھا.یعنی پیدا ہی یتیم ہوئے ہیں اور چھوٹی عمر تھی کہ والدہ کا وصال ہو گیا اب بچپن میں والد اور والدہ کے بالکل بغیر آپ کو دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنا پڑی اور اس صبر کے ساتھ اور اس شان کے ساتھ آپ نے یہ دور گزارہ ہے کہ اس میں احساس کمتری کو ایک ذرہ بھی داخل نہیں ہونے دیا صبر کے امتحان کے وقت لوگ عام طور پر منفی صفات دیکھتے ہیں لیکن میں نے انسانی فطرت پر جہاں تک غور کیا ہے یتامی کے لئے سب سے بڑا امتحان احساس کمتری کا امتحان ہوتا ہے وہ یتیم جوصبر نہ کر سکے وہ لازماً احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور احساس کمتری پھر بہت بھیانک کردار پر منتج ہوتا ہے.دنیا میں اکثر ٹیڑھے دماغ ، خطر ناک سوچیں سوچنے والے، دنیا کو غلط فلسفے دینے والے، اگر آپ ان کی زندگی کا جائزہ لیں تو زندگی کے کسی نہ کسی دور میں احساس کمتری کا شکار ہوئے ہوتے ہیں.آنحضور ﷺ نے اپنی عسر اور یتیمی کا دوران کیفیتوں سے متاثر ہوئے بغیر اس شان کے ساتھ گزارہ ہے کہ آپ کے سپر د نیا کا عظیم ترین کام کیا گیا ہے.یعنی نبیوں میں سے بھی جو کام آپ کے سپر د ہوا ہے وہ کسی اور نبی کو نہ صرف یہ کہ دیا نہیں گیا بلکہ اس کا ایک معمولی حصہ بھی نہیں دیا گیا.سارے عالم کو خدا تعالیٰ کی چوکھٹ پر لا ڈالا.ایک ایسے شخص کے سپرد کیا گیا جس کا نہ باپ تھا اور نہ ماں تھی.لوگوں کے رحم و کرم پر پلتا رہا اور جس نے جب دعوی کیا تو اپنی ساری قوم کلیپ اس کی دشمن ہو گئی یہ حَظِّ عَظِیمٍ کی بات ہو رہی تھی.صبر کا حصہ ملا تو اتنا بڑا کہ اس کی کوئی مثال دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.پھر آپ کے بیٹے ہوئے.کہتے ہیں گیارہ بیٹے پیدا ہوئے اور گیارہ کے گیارہ چھوٹی عمر میں بہت بچپن میں یا چند سالوں کے بعد فوت ہو گئے اور ہر بچے کی موت پر دشمن ہنستا تھا اور کہتا تھا کہ دیکھو یہ تو لاولد مرا جاتا ہے اور دنیا کی بادشاہی کے دعوے کرتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق جب ہم یہ ذکر پڑھتے تھے کہ بشیر اول فوت ہوا تو کس طرح دشمن نے بغلیں بجائیں، کس طرح صحابہ کے دل خون ہوئے اور صحابہ کے بعض واقعات جب پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شدید تکلیف کی حالت میں تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کوئی اثر نہیں تھا.آپ جانتے تھے کہ خدا کا وعدہ ضرور پورا ہوگا.یہ بچہ
خطبات طاہر جلدا 351 خطبه جمعه ۵ ارمکی ۱۹۹۲ء فوت ہو گیا ہے تو کوئی اور مقدر والا بچہ بعد میں عطا ہو گا لیکن جو صحابہ تھے وہ جانتے ہیں کہ ان کے دل کی کیا کیفیت تھی اس واقعہ کو دیکھ کر جب میرا ذہن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف جاتا ہے تو ساری روح پکھل کر آپ کے لئے درود بن جاتی ہے.کتنی عظیم آزمائش تھی ؟ ابتر کہنے والے چاروں طرف پھیلے پڑے تھے.ہر بچے کی وفات کے بعد ابتر ابتر کے نعرے اُٹھتے تھے تبھی تو قرآن کریم نے یہ ذکر محفوظ فرمایا ہے کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الكوثر :) اے محمد ! تو دیکھے گا کہ تیرے دشمن ابتر رہ جائیں گے اور ان کی اولادیں تیری اولادیں بن جائیں گی لیکن جہاں تک اس وقت کی دنیا کا تعلق ہے ان کو تو ان باتوں کی سمجھ نہیں تھی کہ روحانی طور پر صلى الله یہ ساری کی ساری قوم محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈال دی جانے والی تھی وہ تو یہ دیکھتے تھے کہ ایک بیٹا فوت ہوا پھر دوسرا ہوا، پھر تیسرا ہوا ، پھر چوتھا ہوا اور ہر دفعہ ہنسی مذاق اُڑا کر اسے اپنی دانست میں ذلیل اور رسوا کر دیتے ہیں اور نہ محمد ﷺ کچھ کر سکتا ہے نہ محمد ﷺ کا خدا کچھ کر سکتا ہے.اب دیکھیں ! ہر پیدائش اور ہر موت کے بعد کتنی شدت کے ساتھ یہ طعنہ آپ کے دل کو چیرتا ہوگا لیکن آپ صبر اور عزم کا ایک پہاڑ تھے.ایک روایت آتی ہے کہ ایک عورت کا بیٹا فوت ہو گیا اور وہ اسکی قبر پر کھڑی شدید تکلیف کی حالت میں گریہ وزاری کر رہی تھی.آنحضور ﷺ اس کے پاس سے گزرے اور فرمایا بی بی ! صبر کرو.اس بے چاری کو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ کہنے والا کون ہے اس نے کہا کہ صبر اپنا بیٹا فوت ہو تو پتا چلتا صلى الله صلى الله ہے کہ صبر کیا ہوتا ہے؟ پاس سے گزرتے ہوئے آرام سے کہ دیا کہ صبر کرو.یہ کوئی آسان بات نہیں ہے آنحضور ﷺ نے صرف اتنا کہا بی بی میرے گیارہ بچے پیدا ہوئے اور گیارہ ہی فوت ہو گئے اور یہ کہہ کر آگے چل پڑے.کسی نے کہا کہ اے ناداں بے وقوف بڑھیا! تو نے کیا بات کی ہے یہ تو محمدمصطفی سے تھے وہ دوڑی دوڑی پیچھے گئی کہ یا رسول اللہ ! مجھے معاف کر دیں میں صبر کرتی ہوں.آپ نے فرمایا صبر کا ایک وقت ہوا کرتا ہے وہ وقت گزر چکا ہے.( بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر: ۱۳۵۲) وقت تو ہر ایک کوصبر دے ہی دیتا ہے.پس آنحضور ﷺ کے متعلق جب یہ فرمایا کہ وہ صبر کرنے والا ہے تو صبر کہ کر نہیں فرمایا.عام مسلمانوں کے ذکر پر فرمایا.وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا اس عظیم مقصد کو صبر کرنے والوں کے سوا کوئی نہیں پاسکتا اور پھر دیکھیں کہ ہمارے آقا ومولا کوکس طرح جدا کر کے ممتاز
خطبات طاہر جلدا 352 خطبه جمعه ۵ ارمکی ۱۹۹۲ء کر کے ان کا ذکر آیت کے اس حصہ میں فرمایا وَ مَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ اس عظیم مقصد کو حقیقت میں پانے والا ہمارا محمد ﷺ ہے کیونکہ اسی صبر میں اسے حَظِ عَظِیمٍ عطا کیا گیا ہے اور حَظِّ عَظِیمٍ تو چونکہ پوری طرح کسی ایک مضمون سے باندھا نہیں گیا اس لئے حَظِّ عَظِيمٍ میں وہ سارا پچھلا مضمون آگیا ہے جو اس آیت کے شروع میں ہے اور اس پہلو سے ہمیں آنحضور ﷺ کی پیروی میں نہ صرف صبر سیکھنا ہوگا بلکہ حَظِّ عَظِيمٍ میں سے کچھ نہ کچھ حصہ تو پانا ہوگا.اور اس کا پہلا حصہ تو یہ ہے کہ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ داعی الی اللہ بنو گے تو تمہاری بات اچھی ہوگی ورنہ ساری باتیں بے کار اور بے معنی ہیں تم ساری عمر باتیں کرتے گزارو گے ان میں حسن پیدا نہیں ہو گا.ہاں اگر تم اللہ کی طرف بلانے والے ہو تو تمہارا کام بہت ہی حسین ہے بات کرنی ہے تو یہ کرو وَ عَمِلَ صَالِحًا مگر خالی اللہ کی طرف نہیں بلانا نیک اعمال کر کے دکھاؤ.بتاؤ کہ جس کی طرف بلانے آئے ہو اس کے ساتھ تعلق ہے اللہ کے ساتھ تعلق ہو تو تمہارے اعمال میں پاک تبدیلی ہونی چاہئے ،تمہارے اندرکشش ہونی چاہئے ، تمہارے اندر روز بروز تبدیلیاں رونما ہوتی رہنی چاہئیں کیونکہ خدا تعالیٰ لا متناہی ہے اور اس سے تعلق والا کبھی ایک مقام پر نہیں رہا کرتا اس کی زندگی مسلسل ایک سفر ہے جو خدا کی طرف ہے اور کبھی بھی کسی حالت میں بھی آپ یہ نہیں کہہ سکتے آپ نے اپنا سفر مکمل کر لیا.پس یہ مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے اور جس کے متعلق بعد میں شہادت دی کہ وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ اس مضمون کو اپنے درجہ کمال تک محمد مصطفی یا اللہ نے پہنچایا اور آپ نے ہر اس صفت سے بڑا حصہ پایا ہے جو صفات اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہیں.پھر فرمایا اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ جو چیز اچھی ہے اس کے ساتھ بُری چیزوں کا دفاع کر و یعنی جب بھی کوئی تمہارے ساتھ بُرائی سے پیش آئے اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اور نیکی کی بات کرو اور تبلیغ میں انسان کو روز مرہ اس چیز سے واسطہ پڑتا ہے.انسان روز مرہ ایسے دشمن کی باتیں سنتا ہے جن کو پیار اور محبت سے سچائی کی طرف بلایا جارہا ہے لیکن وہ آگے سے بیہودہ بات کرتے ہیں سخت کلامی سے پیش آتے ہیں، تمسخر سے پیش آتے ہیں اور جہاں جہاں بھی ممکن ہو وہاں پھر وہ جبر اور تشدد سے بھی پیش آتے ہیں قتل کے بھی درپے ہو جاتے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 353 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۹۲ء ہیں اس قسم کے مد مقابل سے ہر انسان کو جو دعوت الی اللہ کرنے والا ہے زندگی کے مختلف حصوں میں واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے فرمایا یا درکھو اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ احسن بات سے دفاع کرنا اور یہاں تو سینه کا لفظ نہیں لیکن دوسری آیات کریمہ میں سینہ کا ذکر ہے اور یہاں بعض باتیں عملاً چھوڑ دی گئی ہیں، اس سے مضمون میں وسعت پیدا ہوتی ہے.جب بھی تبلیغ کرنے نکلو اچھی بات تلاش کرو دلائل میں سے بھی بہترین چنو ، طرز بھی وہ اختیار کرو جو سب سے اچھی نظر آئے جس میں کشش پائی جائے اور جب بُرائی دیکھو تو اُسے حسن کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کریں.یہ صفات اگر تم میں آجائیں تو پھر تم دشمن کو دوست میں بدلنے کی اہلیت حاصل کر لو گے اور فرمایا جو مومن صبر کرتے ہیں انہیں ضرور یہ صفات ملتی ہیں اور ان کے مقاصد پورے ہوتے ہیں لیکن ان تمام خوبیوں میں سے سب سے زیادہ شاندار حصہ اگر کسی کو ملا ہے تو وہ حمد مصطفی یا اللہ تھے وہ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ تھے.بدی کا جواب حسن سے دینے میں موزوں کلام کے لئے بہترین انتخاب کرنے کے لحاظ سے آپ سے بہتر دنیا میں کبھی کوئی پیدا نہیں ہوا.آنحضرت ﷺ کی نصائح آپ احادیث میں پڑھیں، آپ کی طرز بیان کو دیکھیں دل عش عش کر اُٹھتا ہے.چودہ سو سال سے اوپر گزر گئے کہ وہ باتیں کہی گئی تھیں مگر آج بھی زندہ ہیں، وہ سادہ سا کلام ایسی عجیب چمک اور ایسی شان رکھتا ہے کہ آنکھوں کو چندھیا دینے والا ہے.ایسا جذب رکھتا ہے کہ دل بے ساختہ اس کی طرف کھچا چلا جاتا ہے.پس یہ نصیحت ہو رہی ہے کہ جب تم تبلیغ کے میدان میں نکلو تو صبر کرو.صبر کے بغیر تو گزارہ ہونا ہی نہیں مگر اس سے آگے قدم بڑھاؤ اور اس کی پیروی کرو جسے حَظِّ عَظِیمٍ عطا ہوا تھا.جس کو تبلیغ کی ہرشان اپنے پورے عروج کے ساتھ عطا کی گئی تھی.پس آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر اگر چلنا ہے تو پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ چھوٹے بڑے ہر قسم کے شخص سے تبلیغی رابطہ رکھنا ہے خواہ وہ بظاہر نرم مزاج کا ہو یا سخت مزاج کا ہو.بڑے سے بڑا دشمن بھی ہو تو اس تک بھی بات پہنچانی ضروری ہے اور بغیر خوف کے اُسے بات پہنچانی ہے.یہ بات یادرکھتے ہوئے اسے بات پہنچانی ہے کہ آنحضرت بڑے سے بڑے دشمن تک بھی حق بات پہنچاتے تھے اور بے خوف ہو کر پہنچاتے تھے.ایک موقع پر ابو جہل جو آنحضور ﷺ کے معاندین میں چوٹی کا معاند مشہور ہے.جب بھی آنحضور ﷺ کے دشمنوں کی بات کرتے ہیں تو ابو جہل کا نام سب سے پہلے ذہن میں اُبھرتا ہے اور دنیائے اسلام
خطبات طاہر جلد ۱۱ 354 خطبه جمعه ۵ ارمکی ۱۹۹۲ء میں کسی اور دشمن کا نام معروف ہو یانہ ہو لیکن اسلامی دنیا میں مشرق سے مغرب تک دشمن کا ایک نام ایسا ہے جو ہر مسلمان کو معلوم ہے اور وہ ابو جہل کا نام ہے ایسا شدید معاند لیکن ایک مرتبہ ایک شخص فریاد لے کر آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! ابوجہل نے میرا کچھ قرض دینا ہے اور وہ دیتا نہیں.آپ نے حلف الفضول کیا ہوا ہے.آپ نے ایک زمانہ میں یہ قسم کھائی تھی کہ جب بھی کسی غریب اور بے کس کو مدد کی ضرورت ہو گی آپ آگے آئیں گے ، میں اس حلف الفضول کا حوالہ دیتا ہوں آئیے میری مدد کریں.ایک لفظ کہے بغیر ، ذرا سے تردد کے بغیر آنحضور اُس سمت روانہ ہوئے جہاں ابو جہل کے متعلق بیان کیا جا تا تھا کہ وہ بیٹھا ہوا ہوگا، وہ کہیں مجلس لگایا کرتا تھا.پس آپ اُٹھ کر انہیں مجالس کی طرف چل پڑے اور جا کر سیدھا ابو جہل کو مخاطب کر کے کہا کہ اے فلاں ! یہ شخص ہے اس کے تو نے اتنے پیسے دینے ہیں.ٹال مٹول کرتے ہوئے بہت لمبا عرصہ ہو گیا ہے اب اسے ادا کرو اور اس نے بغیر اعتراض کئے بغیر تردد کئے، بغیر بہانے کے اسی وقت رقم کی ادائیگی کے لئے احکام جاری کئے.(سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۳۴۰) جب آنحضور ﷺ وہاں سے روانہ ہو گئے تو اس کے ساتھیوں نے اسے شرمندہ کیا، اُسے ذلیل کیا کہ تم کیسے دشمن ہو.ہمیں تو اس شخص کی مخالفت میں ایسے بھڑکاتے ہو کہ آگ لگا دیتے ہو اور آج وہ آیا ہے اور اس نے تم سے ایک بات کی ہے لیکن تمہاری مجال نہیں تھی کہ اس کا انکار کر سکو اور وہیں تابع فرمان کی طرح اس کی بات پر عمل کر دیا.ابو جہل نے کہا کہ تم نے وہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے.عام حالات ہوتے تو میں اس شخص سے وہی سلوک کرتا جیسا میں ہمیشہ کرتا ہوں مگر جب یہ مجھے کہ رہا تھا کہ اس شخص کا حق ادا کرو اور میرے دل میں بغاوت کے جذبات اُٹھ رہے تھے تو اس وقت میں دیکھ رہا تھا کہ جیسے دومست اونٹ ہوں اور مجھ پر حملہ کے لئے تیار کھڑے ہوں.ان کے منہ سے جھا گیں بہ رہی ہوں اگر میں انکار کرتا تو مجھے نظر آرہا تھا کہ یہ اونٹ مجھ پر پل پڑیں گے.یہ کیا واقعہ ہوا؟ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید کا جو وعدہ ہے اور اپنے غلاموں کے حق میں جو وہ نشان دکھاتا ہے ان کی ایک مثال ہے.دشمن بھی ایسا جیسا ابو جہل لیکن آنحضرت اللہ محض خدا کی خاطر اپنے ایفائے عہد کی خاطر ہر قسم کی جسمانی اور جانی خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کی طرف چل پڑے تھے.اللہ نے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ کشفاً ابو جہل کو دو اونٹ دکھائے جو مست اونٹ تھے اور جیسے حملہ کے لئے تیار بیٹھے ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 355 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء یہ جو کیفیت ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ کشف اور الہام بھی مختلف نوعیت کے ہوا کرتے ہیں.بعض کشوف مخالفانہ کشوف ہوتے ہیں اور بعض کشوف موافقانہ کشوف ہوتے ہیں.نیک اور بد کی تمیز کشفوں اور الہاموں کی کیفیات سے بھی پتا چلتی ہیں.پس ابو جہل کا یہ جو کشف ہے یہ اس کے مخالف کشف تھا، اس کی تائید میں کشف نہیں تھا اور آنحضور ﷺ کی تائید کا کشف تھا لیکن دکھایا اس کو گیا مگر یہ بات اس وقت ظاہر ہوئی جب خدا کی خاطر ایک بندے نے ہر قسم کی قربانی کا فیصلہ کر لیا اور بظاہر اپنی ہلاکت کے سامان اپنے ہاتھوں سے کئے.ایک دشمن کے منہ میں چلے جانا ایسی ہی بات ہے جیسے شیر کی غار میں انسان داخل ہو جائے اور پھر بغیر کسی اور ساتھی کو لئے ، بغیر کسی محافظ کو لئے اُٹھ کر چل پڑتے ہیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس جذبہ کی قدر فرمائی اس لئے آپ کو بچایا.پیس یہ ہے وہ عظیم حصہ جو حضرت رسول اکرم ﷺ کو ہر خلق میں عطا ہوا ہے اور آپ کو بھی ہر خلق میں سے کچھ نہ کچھ آنحضور ﷺ سے حصہ لینا ہو گا.آنحضور نے تو ہر خلق میں سے حصہ عظیم لے لیا ہے لیکن جو حصے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی اتنے ہیں کہ سارے مسلمانوں میں تقسیم ہو جائیں تب بھی ختم نہ ہوں اور جو حصے اپنائے ہیں اصل میں تو اپنانے والے وہی حصے ہیں.خلق عظیم میں سے جو حصے آپ نے اپنائے ہیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے میں نے ابھی یہ بات کی ہے کہ جو حصے چھوڑے ہیں وہی مسلمانوں میں تقسیم ہو جا ئیں تو ختم نہ ہوں.یہ فقرہ ایسا ہے جو اکثر لوگوں کو سنتے ہی سمجھ نہیں آئے گا اس لئے کچھ وضاحت کرنی پڑے گی.آنحضور ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ مکارم الاخلاق پر فائز کئے گئے تھے.(سنن الکبری بہیقی جز اصفحہ: ۱۹۱) اخلاق کی بہت سی قسمیں ہیں.کچھ چھوٹی چھوٹی قسمیں ہیں، کچھ بہت الله ہی اعلیٰ درجے کی قسمیں ہیں.پس آنحضرت ﷺ کے متعلق جب یہ فرمایا کہ حصہ لیا ہے تو یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ بعض اخلاق چھوڑ دیتے ہیں بعض لے لئے ہیں.اس کی وضاحت ضروری ہے یہ ہرگز مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ بیچ میں سے وہ حصہ لیا جو سب سے زیادہ اعلیٰ درجے کا حصہ تھا اور اس کا اختیار کرنا سب سے زیادہ مشکل تھا.حیاء میں سے وہ حصہ لیا جو سب سے زیادہ اعلیٰ پائے کا تھا اور جسے اختیار کرنا سب سے زیادہ مشکل تھا.ایثار میں سے وہ حصہ لیا جو اس سے پہلے اور کسی اور کو نصیب نہیں ہوا تھا صبر میں سے وہ حصہ لیا جس کی کوئی اور مثال دنیا میں دکھائی نہیں دیتی تو حَظِّ عَظِيمٍ کہہ کر یہ نہیں فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 356 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۹۲ء کہ بعض اخلاق میں آپ پیچھے رہ گئے.کچھ کو اختیار کیا اور کچھ چھوڑ دیتے.حَظِّ عَظِیمٍ میں عظیم کا لفظ بتا رہا ہے کہ سب سے بالا سب سے شاندار اخلاق کو آپ نے اپنا لیا اور جو چھوڑ دیئے ہیں وہ عام لوگوں کے اخلاق سنوارنے کے لئے بھی کافی ہیں.وہ ایسے اخلاق ہیں جو عام طور پر دنیا میں کوئی صلى الله اختیار کرے تو وہی دنیا میں بہت ہی خلیق اور اعلیٰ اخلاق کے انسان کے طور پر شہرت پالے.پس جب میں نے کہا کہ باقی اخلاق بھی اگر مسلمان اپنالیں إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا میں تو وہ بھی داخل ہو جائیں مگر ہمارے سپر د جو کام ہے وہ بہت عظیم ہے اس لئے ہمیں عام اخلاق سے بڑھ کر وہ حصہ جو محمد رسول اللہ اللہ نے اپنے لئے چنا ہے اس میں سے بھی کچھ آپ سے مانگنا چاہئے او راس میں سے بھی کچھ اپنے لئے اختیار کرنا چاہئے.یہ وہ مضمون ہے جسے اگر آپ اچھی طرح سمجھ جائیں تو آپ کی دعوت الی اللہ کا کام مشکل ہونے کی بجائے آسان ہو جائے گا.مصیبت بننے کی بجائے ایک راحت میں تبدیل ہو جائے گا.ساری زندگی آپ اس کام میں لگے رہیں کبھی آپ نہیں تھکیں گے کیونکہ آنحضور ﷺ آخری سانس تک اس کام سے نہیں تھکے.آپ کو اس تکلیف میں راحت ملے گی جو اس راہ میں آپ اُٹھاتے ہیں کیونکہ آنحضرت مہ کو اس تکلیف میں راحت ملا کرتی تھی جو آپ اس راہ میں اُٹھاتے تھے.پس حَظِّ عَظِیمٍ کی طرف توجہ کریں اور کام اتنا بڑا ہے اور اتنا مشکل ہے کہ اس کے بغیر یہ مشکل ہمارے لئے آسان نہیں ہوگی.اب تک جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ بہت ہی کم ہیں جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کی ہے.جماعتوں میں سے بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو جذ بہ تو رکھتے ہیں لیکن ان کو ان کے نظام نے نہ تو با قاعدہ بچے کی طرح تربیت کرتے ہوئے اپنایا اور طریقہ سکھایا کہ کیسے تبلیغ کرنی ہے اور نہ ان میں یہ استعداد ہے کہ از خود وہ کر سکیں.پس بہت سے امکانی داعیان الی اللہ ایسے ہیں جو بن سکتے تھے لیکن نہیں بن سکے.اس سلسلہ میں میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں امراء کو نصیحت کروں گا.انفرادی طور پر نصیحتیں ہیں جو جماعت کے ہر فرد سے تعلق رکھتی ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جو نصیحت سنتے ہیں.نصیحت پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے ان کے لئے مربی کی ضرورت ہوتی ہے اور مربیوں کے لئے پھر باقاعدہ ایک نظام کی ضرورت ہے.باقاعدہ نظام کے تابع ایسے مربی ہوں جو ان بندوں تک پہنچیں ان کی تربیت کریں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 357 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۹۲ء ان کو ادنیٰ سے اعلیٰ مقامات تک پہنچائیں.پس ہمیں دونوں طرف با قاعدہ نگرانی کرنی ہوگی کتنے احمدی ہیں جو خطبات کے اثر سے واقعہ داعی الی اللہ بن گئے ہیں.کتنے ہیں جن کے اندر تمنا میں پیدا ہوئی ہیں لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں.کتنی جماعتیں ہیں جہاں تبلیغ کے نتیجہ میں نمایاں طور پر کثرت سے لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے ہیں.کتنی ہیں جہاں شاید تبلیغ ہورہی ہے لیکن اثر کوئی نہیں ہو رہا.اگر آپ جماعت کے حالات کو Categories کے طور پر تقسیم کرنا شروع کریں تو آپ کو بہت سے ایسے گروہ ملیں گے جن کی طرف نظام جماعت کو با قاعدہ توجہ کرنی ہو گی.اگر وہ نہیں کریں گے تو وہ گروہ ضائع ہو جائیں گے.ان کے اندر ذاتی طور پر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کو عمل میں ڈھال سکیں.پس بہت سے کام ہیں جو نظام جماعت کو ادا کرنے ہیں.بہت سے کام ہیں جو انفرادی ہیں لیکن امیر جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نظر رکھے کہ کتنے افرادان انفرادی پروگراموں سے فائدہ اُٹھارہے ہیں اگر وہ ایک دفعہ کہہ کر غافل ہو جاتا ہے تو اس نے اپنی امارت کا حق ادا نہیں کیا کیونکہ اس کے لئے بھی صبر کا مضمون ہے اور نصیحت کرنے والے کو سب سے زیادہ صبر میں سے حصہ لینا چاہئے.یہ مضمون بھی میں نے اسی آیت کریمہ سے سیکھا ہے.کیونکہ آنحضرت مہ کو جو یہ فرمایا کہ وہ حَظِّ عَظِيمٍ رکھنے والے انسان ہے تو پہلے صابرین کا ذکر کر دیا تھا.اس میں ایک بہت گہرا راز ہے اور وہ یہ ہے کہ صابر بنانے والا جس نے اپنے ساتھیوں کو ایسا صابر بنادیا کہ خدا بڑے پیار سے ان کا ذکر کر رہا ہے.اندازہ کرو کہ وہ خود کتنے بڑے صبر والا ہوگا.اور واقعہ یہ ہے کہ جو خود صبر والا ہو وہی دوسرے کو صابر بنا سکتا ہے اور جس میں آپ صبر نہ ہو وہ کس کوصبر کی تلقین نہیں کر سکتا تو فرمایا محمد مصطفی کے صبر کا اندازہ کرو کتنا بڑا حصہ پایا ہوگا کہ إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا جتنے ایمان والے صابر تم دیکھ رہے ہو یہ محمد ﷺ کی کوششوں کا ہی پھل ہیں.انہی کے اخلاق کی خیرات ہیں کہ اتنے صبر کرنے والے پیدا ہوئے ہیں.پس تم بھی محمد مصطفی حلیہ کے در سے صبر کی خیرات حاصل کرو.پھر تم دیکھو گے کہ تمہیں عظیم تبدیلیاں پیدا کرنے کی طاقت عطا ہو گی اور تم واقعہ وہ کام کر دکھاؤ گے جو بظاہر نا ممکن دکھائی دیتے ہیں.پس فرانس ہو یا جرمنی ہو یا ہالینڈ ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک ہر ملک محمد مصطفی امیہ کا ملک ہے صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 358 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۹۲ء کیونکہ آپ کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ بنا کر بھیجا گیا ہے.ہر ملک کی جماعت کا اولین فرض ہے کہ جس ملک میں رہتے ہیں جس ملک کا نمک کھاتے ہیں جس ملک کا پانی پیتے ہیں اس کے باشندوں کی طرف بھر پور توجہ کریں اور ان میں سے لیڈ ر صفات لوگ چنیں خواہ وہ دشمنی میں آگے بڑھے ہوئے ہوں.ہمت اور صبر اور اخلاق محمدی کے ساتھ ان کو تبلیغ کریں گے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ انہی دشمنوں میں سے آنحضرت ﷺ کے دین پر جان نچھاور کرنے والے دوست پیدا ہو جائیں گے.خدا کرے کہ فرانس کی جماعت کو فرانس میں اور دیگر ملکوں کی جماعتوں کو دیگر ملکوں میں یہ روحانی انقلاب برپا کرنے کی توفیق عطا ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 359 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء اپنی ذات کیلئے خود مربی بنیں.نو مبائع کا اول ذمہ دار داعی الی اللہ ہے.خطبه جمعه فرموده ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء بمقام سپین ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت اب ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جبکہ ہر احمدی خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا بالآخر انشاء اللہ تعالیٰ داعی الی اللہ بن جائے گا اور وہ دور پیچھے رہ جائے گا جب احمدی یہ سمجھا کرتے تھے کہ تبلیغ کرنا مبلغ یا مربی کا کام ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مبلغ اور مربی تو بہت بعد کی پیداوار ہیں.احمدیت کا آغاز وہی اچھا آغاز ہے جو اسلام کے آغاز جیسا ہو کیونکہ احمدیت اسلام کے ہی آغا ز کو کا نام ہے.حضرت اقدس محمد مصفی ہی نہ تشریف لائے تو کوئی مربی کسی ظاہری طور پر رسمی طور پر واقف زندگی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا، کوئی مدرسہ نہیں تھا سوائے اس روحانی مدرسہ کے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جاری فرمایا اور جس کی درسی کتاب صرف قرآن تھی.اس کے سوا نہ کوئی مدرسہ تھا نہ کوئی اور کتب تھیں.حدیثیں بھی زبانی نصیحت کے طور پر آپ کے عشاق میں گھوما کرتی تھیں.تو پڑھنے کے لئے حدیثوں کی کتاب بھی موجود نہیں تھی.ایسی حالت میں اسلام پھیلا ہے کہ ہر وہ شخص جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لایا اس نے آپ ہی کے رنگ اختیار کرنے کی کوشش کی.جیسا مبلغ ، جیسا مربی آپ کو پایا، ویسا مبلغ اور ویسا مربی بنا تو کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں تھی مگر پوری دیانتداری کے ساتھ ، پورے تقویٰ کے ساتھ ، انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتوں کو کام
خطبات طاہر جلد ۱۱ 360 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء لاتے ہوئے ان سب نے کوشش ضرور کی کہ اپنے آقا و مولیٰ کے قدم پر قدم رکھیں.اور جیسے آپ کو خدا کا پیغام پہنچانے کا اس قدر ولولہ تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ اپنے رب کی محبت میں یہ پاگل ہو گیا ہے.عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّهُ.(غزالی صفحه: ۱۵۱) محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے اور اسی کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے تھے یہ مجنون ہے اِنَّكَ لَمَجْنُونُ (سورة الحجر ۷) تو تو مجنون ہے، تجھے تو جنون ہو چکا ہے.در حقیقت بظاہر یہ ایک بہت ہی بیہودہ اور تکلیف دہ بات تھی لیکن در حقیقت اس میں ایک گہرا راز ہے اور ایک بہت عارفانہ نکتہ ہے جسے بطور عارفانہ نکتہ کے تو انہوں نے نہیں سمجھا.جہاں تک ان کی زبانوں کا تعلق ہے وہ ہرزہ سرائی تھی لیکن فی الحقیقت اس میں ایک بہت گہرا عارفانہ نکتہ ہے کہ تبلیغ کا جنون اسی کو ہو سکتا ہے جو اپنے رب کا عاشق ہو جائے.جو شخص اپنے رب پر عاشق ہو وہ لازماً اپنے عشق کی دھن میں دنیا کو اس طرف بلاتا رہے گا.اس سے بے نیاز اور قطع نظر کہ دنیا اسے کیا کہتی ہے، کیا بجھتی ہے.پس ان دونوں باتوں میں ایک گہرا جوڑ تھا.حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کے متعلق سارا عرب جانتا تھا کہ ان سب میں سب سے زیادہ صاحب عقل اور صاحب دانش تھے بچپن سے جوانی تک ، جوانی سے پختگی کی عمر تک آپ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اپنے میں سے سب سے زیادہ امین ،سب سے زیادہ صدیق، سب سے زیادہ عقل اور حکمت کی باتیں کرتے ہوئے پایا چنانچہ ہرایسے مشورے کے لئے جس میں قوم کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہوتا یا ہر ایسے مشورے کے لئے جس کے لئے ایک صائب الرائے کے لئے نظریں کسی معقول انسان کو تلاش کیا کرتی تھیں سب نظریں بلاشبہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی کی طرف اٹھا کرتی تھیں.یہی نہیں بلکہ بچپن ہی سے آپ کے عقل و دانش کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت بھی جبکہ آپ کی عمر چھوٹی تھی جب عرب سرداروں میں خوب جھگڑا ہوا کہ کس قوم کو پہلا حق دیا جائے کہ وہ حجر اسود کو اٹھا کر اس جگہ نصب کرے جو اس کے لئے مقرر کی گئی تھی اور یہ جھگڑا کسی طرح طے نہیں ہوتا تھا.تو اچانک لوگوں کی نگاہیں اٹھیں اور انہوں نے حضرت محمد مصطفی ایت اللہ کو جب وہ خدا کے نبی بنائے نہیں گئے تھے، کو ابھی بچپن کی عمر میں تھے اپنی طرف آتے دیکھا اور سب نے بے اختیار کہا کہ وہ آنے والا آ گیا ہے.یہ سب جھگڑے طے کر دے گا، اسی کی طرف بات کو لوٹا دو.چنانچہ آنحضور کے جب اس مقام پر پہنچے صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 361 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء تو سب سرداروں نے بغیر کسی اختلاف کے اپنی عمر اور سرداری کے رعب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس چھوٹی عمر کے نوجوان سے یہ کہا کہ آپ بتائیں کہ ہم میں سے کون زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس پتھر کو اٹھا کر اس موعود جگہ پر نصب کرے جو مقرر کی گئی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے بغیر جھجک کے ایک ایسا فیصلہ دیا جوعلم و حکمت اور دانش کی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا.آپ نے فرمایا کہ ایک چادر لاؤ اس چادر کو بچھایا گیا.فرمایا تم سب سردار اس چادر کے کونے پکڑ لو اور خود پتھر اٹھا کر اس چادر کے بیچ میں رکھ دیا.جس کا حق تھا اُسے پہنچ گیا اور کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوئی.کسی کے ذہن میں یہ بات نہ گئی کہ اس پتھر کو نصب کرنے کا اولی حق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی کو ہے لیکن یہ بات ابھی منصہ شہود پر ابھری نہیں تھی ، ابھی حقیقت بن کر سامنے نہیں آئی تھی.آنحضرت ﷺ کی صلاحیتوں سے تو وہ باخبر تھے مگر یہ بھی جانتے تھے کہ اس نور پر ایک آسمان سے اترنے والا ایک نور ہے جو اس نور کو ایسا دوبالا کر دے گا کہ اس کی کوئی مثال دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گی.پس آنحضرت ﷺ کی عقل نے اپنی معصومیت میں وہ فیصلہ کیا جو دیکھنے والے کی نگاہ میں خود غرضی کا بھی ہوسکتا تھا لیکن سارا عرب گواہ ہے کہ کسی دماغ کے گوشے میں بھی یہ وہم نہیں گیا کہ آنحضور تی ہے نے خود اپنی خاطر پتھر پہلے اٹھانے کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہے.اس کے سواحل کوئی نہیں تھا.خود بخود تو پتھر لڑھک کر اُس چادر پہ جانہیں سکتا تھا.منصفانہ تقسیم اس سے زیادہ ہو نہیں سکتی تھی کہ سب سرداروں کو کہا جائے کہ تم بیک وقت چادر کو پکڑ لو اور اس پتھر کو اٹھا کر اس چادر پر رکھتا کون؟ وہی معصوم انسان جس کے ذہن میں یہ ترکیب آئی.اس نے فیصلہ کیا کہ میں اٹھا کر رکھ دیتا ہوں تا کہ سرداروں کا جھگڑا ختم ہولیکن دراصل اس میں آئندہ ہونے والے واقعات کا ایک بیج تھا جو بڑی عمدگی اور پاکیزگی کے ساتھ بویا گیا.سارے عرب کی سرداری نہیں ، تمام دنیا کی سرداری آپ کو عطا ہونی تھی کیونکہ خانہ کعبہ عربوں کی آماجگاہ نہیں بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ ( آل عمران : ۹۷) یہ وہ پہلا گھر ہے خدا کا جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا اور بكة میں بنایا گیا ہے.پس آپ کو اس گھر کی سرداری عطا ہوئی تھی جو تمام دنیا میں خدا کی خاطر بنانے والے گھروں میں سب سے پہلا گھر تھا اور سارے بنی نوع انسان کے لئے مشترک اس لئے یہ کہنا کسی عرب سے یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ کو مجنون کہہ دیتا.جانتا تھا اور بچہ بچہ جانتا تھا، کوئی اس بات سے عرب میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 362 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء بے خبر نہیں تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی اہل علم ودانش کا سر چشمہ ہیں.پس جنون کہنے کے ساتھ اس کی کوئی تو جیہہ بتانی ضروری تھی ، یہ بتانا ضروری تھا کہ یہ عشق کا جنون ہے اس کے بغیر کوئی سننے والا اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا.عشق کا جنون ایسا جنون ہے جو عاقل کو بھی دیوانہ کر دیتا ہے اور عقل اور دیوانگی میں جو دوری پائی جاتی ہے جو بعد ہے، عشق کا پل ہے جو ا سے پاٹ دیتا ہے، یکجا کر دیا کرتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو ایسی پیاری زبان میں بیان فرمایا جب یہ کہا تا نه دیوانه شدم، ہوش نیامد بسرم اے جنوں، گرد تو گردم که چرا احساں کر دی ( در نشین فارسی صفحه: ۲۱۷) جب تک میں دیوانہ نہیں ہو گیا مجھے ہوش نہیں آیا، لیکن یہ دیوانگی آئی کہاں سے.اے جنوں ، گرد تو گردم که چرا احساں کر دی.یہ عشق کا جنوں تھا جس نے یہ دیوانگی عطا فرمائی.تو جس کا مضمون محبت اور عشق کا چل رہا ہے.پہلا شعر یہ ہے اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی ( در مشین فارسی صفحہ ۲۱۷) پس اس پہلے شعر کی روشنی میں جب آپ اس شعر کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محبت کا مضمون ہے اور محبت ہی وہ چیز ہے جو عقل اور جنون کو اکٹھا کر دیا کرتی ہے.پہلے شعر کا مطلب جن کو فارسی نہیں آتی ان کی خاطر بتاتا ہوں.فرماتے ہیں : اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی.اے محبت تو نے عجیب قسم کے نشان ظاہر کئے ہیں.زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی.تو نے زخم اور مرہم کو یار کے رستے میں اکٹھا کر دیا ہے.زخم اور مرہم دو جدا چیز میں ہیں.ایک ہی چیز جوز خم بھی ہو جائے اور مرہم بھی بن جائے اسی کا نام جنون ہے.تانہ دیوانہ شدم ہوش نیامد بسرم دیکھیں اسی مضمون کو کس عمدگی سے آپ نے آگے بڑھایا.یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ تو دیوانگی کی بات ہے.زخم اور مرہم ایک کیسے ہو سکتے ہیں.ایک ہی چیز کے دو نام کیسے بن سکتے ہیں.فرمایا اس طرح کہ تمہیں عشق میں جنون ہو جائے.تا نہ دیوانہ شدم ہوش نیامد بسرم.جب تک میں دیوانہ نہیں ہو گیا مجھے ہوش نہیں آئی.اے جنوں گرد تو گردم.اے جنوں تو میرا کعبہ بن جا.تیرے گرد میں گھوموں.تو نے کتنا بڑا احسان کیا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 363 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء پس یہی وہ نکتہ تھا جس کو عرب حضرت اقدس محمد مصطفی ہی کی ذات میں پہچان گئے تھے، جانتے تھے اس عقل و دانش کے سرچشمے کو اگر عشق کا دیوانہ نہ کہا جائے تو کوئی ہماری بات کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس لحاظ سے یہ بات عارفانہ تھی حقیقت یہی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو اپنے رب سے عشق ہو گیا تھا.ورنہ جو راہ خدا میں دیوانگی کے کام آپ سے ظاہر ہوئے جو حیرت انگیز کام جو دیکھنے والے کو ناممکن دکھائی دیتے تھے آپ کی ظاہری طور پر بے بس اور بے کس ذات سے وہ عظیم معجزے جو ظاہر ہوئے ہیں یہ حقیقت میں عشق ہی کے معجزے تھے.اور حقیقی عشق ہی ہے جو عقل و دانش کو کامل کرتا ہے اور پختہ کرتا ہے.عشق کی دیوانگی کے بعد انسان جانتا ہے کہ عقل کے کیا معنی ہیں.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا احمدیت کا آغاز وہی آغا ز سچا ہو گا جو اسلام کا آغاز تھا جس کے بغیر احمدیت کے کسی دوسرے آغاز کے کوئی معنی نہیں اور ان معنوں میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اسی طرح احمدیت کا آغاز فرمایا جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ کو عشق کے نتیجے میں جنون عطا ہوا.اسی طرح حضرت مسیح صلى الله موعود علیہ الصلوة والسلام کو آپ ﷺ کی غلامی میں پہلے عشق اور پھر جنون عطا ہوا تھا پھر جنون کا عرفان عطا ہوا اور آپ سمجھ گئے کہ اس کے بغیر دنیا میں انقلاب بر پا کرنا ممکن نہیں اور آپ کے زمانے میں ایسا ہی ہوا.کوئی مدرسہ جاری نہیں ہوا جس میں مبلغ تیار ہوتے ہوں ، کوئی ایسی کتابیں نہیں تھیں جو تدریس کے طور پر پڑھائی جاتی ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے ادنی ادنیٰ غلام بھی جن کو کوئی تعلیم حاصل نہیں تھی، دنیا کی بھی کوئی تعلیم حاصل نہیں تھی ، لفظوں کی مھمدھ بدھ سے بھی واقف نہیں تھے.وہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں آکر ایسے صاحب عرفان بنے کہ بڑے بڑے لوگوں کے منہ اُنہوں نے بند کر دیئے.ایسا علم ان کو عطا ہوا جو روحانی علم تھا، جو قرآن کا علم تھا، جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے روحانی چشموں کی صورت میں جاری رہتا تھا اور آپ کے دل سے نور کے سوتوں کی طرح پھوٹا کرتا تھا ، ان کے دماغوں کو بھی معطر کر دیتا تھا اور دلوں کو بھی روشن کر دیتا تھا.وہ یہ نور لئے پھرتے تھے جس سے وہ اپنے علاقوں کو روشنی عطا کرتے رہے.چنانچہ احمدیت کے آغاز کی تاریخ میں جب میں نے پاکستان میں دورے کے وقت مختلف
خطبات طاہر جلد ۱۱ 364 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء دیہات میں معلوم کیا کہ کون لوگ تھے جو پہلے احمدی ہوئے ، تو بسا اوقات یہ معلوم کر کے حیران رہ جاتا تھا کہ ابتدائی احمدی ہونے والے کوئی بڑے عالم نہیں تھے ، سیدھے سادھے سادہ لوح زمیندار.اگر پڑھنا جانتے تھے تو بس شُدھ بدھ کی حد تک اس سے زیادہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ کو ایک نظر دیکھا وہ نظر عشق میں تبدیل ہو گئی.وہ عشق جنون میں بدل گیا اور وہی جنون تھا جس نے ان کے علاقوں میں ایک عظیم انقلاب بر پا کر دیا.حیرت انگیز بات ہے کہ تھوڑے تھوڑے سادہ لوح تقریباً ان پڑھ زمینداروں نے اپنے علاقوں میں ہر طرف ایک تہلکہ مچا دیا.پس احمدیت کا آغاز حقیقتا وہی آغاز ہے جو اسلام کا آغا ز تھا اور ہمیشہ کے لئے سچا آغاز کہلانے کا مستحق یہی آغاز ہے جو آج بھی ہے، کل بھی ایسا ہی ہوگا.پس آج احمدیت خدا کے فضل کے ساتھ دوبارہ اسی مضمون کی طرف لوٹ رہی ہے اور جگہ جگہ میں نظر دوڑا کے دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر شخص خواہ وہ علم میں کسی مقام پر ہو یا لاعلمی میں کسی جگہ کھڑا ہو اس کا اب ایک ہی جیسا حال ہوتا چلا جا رہا ہے.ان پڑھ بھی تبلیغ کر رہے ہیں، پڑھے لکھے بھی تبلیغ کر رہے ہیں.رفتہ رفتہ یہ جوش اور ولولہ پھیلتا چلا جا رہا ہے ، بچوں میں بھی شوق پیدا ہو گیا ہے لڑکیاں بھی اپنی اپنی توفیق کے مطابق اپنے سکولوں میں تبلیغ کرتی ہیں اور ہر دورے کے وقت مجھے نئے دلکش مناظر دکھائی دیتے ہیں.اس سے پہلے جب میں سپین میں آیا تھا میں نے آپ کو خود بتایا تھا کہ ایک لحاظ سے طبیعت بڑی برگشتہ اور مایوس تھی ایک لمبے عرصے سے یہاں مشن قائم تھا لیکن سوائے ایک خاندان کے اور سوائے ایک دو اور افراد کے کسی کو تبلیغ کا شوق نہیں تھا.جب میں آیا میرے ساتھ نو جوان سیروں پر گئے ان کو سمجھایا ، مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں ہوئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ زمین زرخیز تھی اور پیچ کو قبول کرنے والی تھی.چنانچہ اب جب میں نے یہاں دیکھا ہے تو خدا کے فضل سے ایسے ایسے نو جوان اور مرد اور عورتیں اور بچے تبلیغ میں مصروف ہو چکے ہیں کہ ان کی کوشش کے نتیجے میں جن لوگوں کو دلچسپی پیدا ہوئی ہے وہ آکر گواہی دیتے ہیں، وہ ملتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ کیوں ان کو احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی.اور سب سے اچھی رپورٹ وہی ہے جو متاثر آدمی دیا کرتے ہیں ورنہ اپنے ہاتھ سے لکھ لکھ کر خط بھیجوانا کہ ہم اتنی تبلیغ کر رہے ہیں اور اتنی تبلیغ کر رہے ہیں وقتی طور پر وہ خوشی تو پہنچا دیتا ہے لیکن یقین کے مقام تک نہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 365 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء پہنچاتا.بہت سے ایسے ہیں جو ہر لحاظ سے بچے ہیں.ان کی زبان بھی سچی ان کی تحریر بھی کچی ان میں مبالغہ نہیں ہوتا.ایسے خطوں سے بچی رپورٹیں ملتی ہیں اور دل خوش ہوتا ہے لیکن ایسے بھی ہم میں کمزور ہیں جو اپنی بات کو سجا کر پیش کرنا جانتے ہیں.خواہ نیت نیک ہی ہو خواہ نیت یہ ہو کہ اس طرح ہم زیادہ دعا ئیں کھینچیں گے مگر زیادہ دعاؤں کے شوق میں جو مبالغہ کر جاتے ہیں اسی حد تک دعاؤں کے فیض سے وہ محروم ہوتے چلے جاتے ہیں.دعا زمین سے تو اٹھے گی مگر صرف ایک کنارے پر دعا نہیں بنا کرتی.دعا مکمل تب ہوتی ہے جب دوسرے کنارے تک پہنچے اور وہاں مقبول ہو جائے.اگر وہاں نہ پہنچے اور اس کا دوسرا سرا عرش کے پاؤں سے نہ باندھا جائے تو خواہ زمین سے عرش تک اٹھتی ہوئی دعا دکھائی دے وہ بریکار جائے گی.اصل دعا اس کو ملتی ہے جو پاکیزگی اور سچائی کے ساتھ بات بیان کرتا ہے.مگر بہر حال میری دعا تو یہی ہے کہ جو کمزور ہیں جو کسی وجہ سے اپنی رپورٹوں میں مبالغہ بھی کر دیتے ہیں اگر کوئی کمی رہ جاتی ہے تو اللہ اپنے فضل سے پوری کر دے.ان کے حق میں بھی دعائیں سنے لیکن جو دل کی گہرائی سے نکل کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچنے والی دعا ہے وہ وہی ہے جب انسان کسی کی محنتوں کے پھل کو دیکھتا ہے.ایک زمیندار آپ سے کہے کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنے بل چلائے ، اتنے پانی دیئے، اتنی راتوں کو جا گا.بہت خوشی ہوگی اس کی باتیں سن کر لیکن جب آپ پوچھیں کہ گھر میں گندم کتنی ہاتھ آئی تو کہے کہ گندم تو ضائع ہوگئی کچھ بھی ہاتھ نہ آیا تو ساری خوشی ملیا میٹ ہو جائے گی اور افسوس میں بدل جائے گی لیکن ایک شخص کچھ نہ بتائے صرف یہ بتائے کہ میرے گھر خدا کے فضل سے میری زمینوں سے فی ایکٹر ستر من گندم ہاتھ آئی ہے.وہ ستر من کا لفظ اس کی سارے سال کی محنتوں کی تصویر ایسی خوبصورتی سے آپ کے سامنے بیچ دے گا کہ کسی رپورٹ کی ضرورت نہیں رہتی.پس میں نے جو اس دورے میں محسوس کیا ہے.فرانس میں بھی اور سپین میں بھی وہ یہ ہے کہ وہ لوگ ملے ہیں آکر جن کو تبلیغ پہنچی ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ کہاں سے پہنچی ہے.جو بیعتیں ہوئی ہیں وہ اس کے علاوہ خود گواہ ہیں اور ہمیشہ کے لئے گواہ بنی رہیں گی کہ خدا کے فضل سے آپ کی چھوٹی سی جماعت میں زندگی کی ایک نئی روح دوڑ رہی ہے اور ابھی آغاز ہے اگر اسی طرح باہمی محبت کے ساتھ ، امیر کی اطاعت میں یکجان ہوتے ہوئے جو بہت ہی ضروری ہے ایک دوسرے پر بدظنیاں کرتے ہوئے نہیں بلکہ حسن ظنیاں کرتے ہوئے ، ایک دوسرے کی کمزوریوں سے درگزر کرتے ہوئے خدا کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 366 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء راہ میں دعوت الی اللہ کرتے رہیں گے تو یہ آپ کے نیک اعمال یعنی اندرونی نیکیاں لازماً خدا کے حضور مقبول ہوں گی اور اس کے نتیجے میں آپ کا بیرونی کام پھل دار بنے گا.بارہا میں نے جماعت کو سمجھایا ہے کہ قرآنِ کریم جو ایک اعجاز ہے ، کلام اور حسنِ کلام کا اعجاز ، اس نے دعوت الی اللہ کے مضمون کو نیک عمل کے ساتھ باندھ دیا ہے.فرماتا ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا (لحم السجدۃ : ۳۴) اس سے زیادہ حسین قول والا کون ہو سکتا ہے اس سے زیادہ جاذب نظر پر کشش بات اور کس کی ہوسکتی ہے جس نے خدا کی طرف بلایا اور خوبصورت اعمال سے اپنے قول کو تقویت بخشی.پس دوسری بات جو میں نے محسوس کی ہے اور جس کا پہلی بات سے گہرا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ آپ سپین میں آپس میں چھوٹی چھوٹی کمپنی باتوں پر جھگڑے نہیں کریں.اس سے پہلے لوگ ملاقاتیں مانگا کرتے تھے اور مجھے اندازہ ہو جاتا تھا کہ مربی کے خلاف شکایتیں کرنی ہیں.ایک نے شکایت کی دوسرے نے اس کی شکایت کو توڑا، ایک اور نے وقت مانگا اس نے اس کے متعلق کیڑے ڈالے جس نے بات کی تھی ، ایک چوتھے کو خیال آیا کہ میں اس کی بات کا جواب دوں.عجیب وغریب قسم کی کھچڑیاں بیہودہ ہی پکتی تھیں اور دال میں کہتے ہیں کالا کالا لیکن یہ ایسی کھڑی تھی جس میں دال نہیں صرف کالا کالا ہی ہوتا تھا نہایت طبیعت متنفر ہوتی تھی.کچھ کوڈانٹا، کچھ کو سمجھایا پیار سے ، کچھ سے خط و کتابت کی لمبا عرصہ بخشیں کیں ،سمجھایا اور میں نے کہا کہ میں اس بات کو سمجھا کے چھوڑوں گا ورنہ نہیں چھوڑوں گا کہ جب تک امیر کی اطاعت پر تم اکٹھے نہیں ہو جاتے جب تک امیر کے ساتھ نرمی کا سلوک نہیں کرتے ، ادب اور محبت کا سلوک نہیں کرتے.جب تک تمہارا حوصلہ اتنا نہیں بلند ہوتا کہ امیر تم پر سنی بھی کرے اور نا واجب سختی بھی کرے تب بھی جس طرح بچہ اپنے باپ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیتا ہے اور اس کی سخت باتوں کو بھی سن لیتا ہے.جب تک اس جذبے کے ساتھ اپنے امیر کی باتیں سننے کی عادت نہیں ڈالو گے تمہارے کاموں میں برکت نہیں پڑے گی جو چاہو کرتے رہو.تمہاری نیکیاں ساری ضائع چلی جائیں گی ان کو پھل نہیں لگے گا کیونکہ قرآن کریم نے تبلیغ کے پھل کے سلسلے میں یہی انداز ہمیں سمجھایا ہے مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا اس سے بہتر کس کے قول میں کشش ہو سکتی ہے.اَحْسَنُ معنی حسین، جاذب نظر، دلوں کو
خطبات طاہر جلدا 367 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء کھینچنے والا.جس کا عمل نیک ہو اگر عمل نیک نہیں ہے تو باتیں خواہ کتنی پیاری ہوں ساری ہوا میں ہر طرف اُڑ کر بکھر جائیں گی اور ان کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا.وہ کسی زمین میں پیوست نہیں ہوں گی.وہ کوئی ایسا بیج نہیں بنیں گی جن سے آگے نو نہال درخت پھوٹیں اور ان درختوں کو پھر پھل لگیں.اس لئے تم خواہ خواہ اپنی باتوں کو ضائع نہ کرو بلکہ اکٹھے رہو، پیار اور محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر رہو، ایک امیر کی اطاعت میں سر تسلیم خم کرو اور اگر اس کی کمزوریوں سے درگزر نہیں کر سکتے.تو اس کی معرفت مجھے لکھو، میں اسے سمجھاؤں گا چنانچہ اس کے نتیجے میں مجھے بہت سے لوگوں نے بعض شکایتیں لکھیں تحقیق ہوئی اور کئی دفعہ بچی نکلی.اس پر مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوا.میں نے کہا آپ کو یہ حق دیا تھا آپ نے اس کو استعمال کیا ہے چنانچہ اس شخص کو جس کے خلاف وہ درست رپورٹ تھی اس کو بھی سمجھایا گیا.بڑی سرزنش کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ جماعت کے اندر سعادت کا مادہ پایا جاتا تھا.کوئی ایک شخص بھی خدا کے فضل سے ضائع نہیں ہوا.بعضوں سے بہت سختی کی ، بعضوں کو عہدوں سے ہٹایا گیا، کہا گیا کہ آئندہ تمہارے سپرد کوئی خدمت نہیں کی جائے گی لیکن چونکہ سعادت تھی اس لئے انہوں نے میری سختی کو بھی شرح صدر کے ساتھ قبول کیا، سر تسلیم خم کیا ، اپنی غلطیوں کو سمجھا، یا نہیں بھی سمجھا تو معافی مانگی اور عہد کیا کہ آئندہ پھر آپ کو ہماری طرف سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.نیچے اب یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بالکل نئی حالت پر آچکی ہے.اب ضرورت ہے کہ اس جماعت کو خود اپنی تربیت کی طرف توجہ کرنے پر آمادہ کیا جائے.اس بارے میں ان کو سمجھایا جائے کہ سب سے اچھی تربیت وہی ہوتی ہے جو انسان خود کرے.جس کے دل میں ایک مربی پیدا ہو جائے ، جس شخص کو یہ محسوس ہو کہ میرے سپر د بڑے بڑے کام ہو چکے ہیں اور میں کرنا شروع کر چکا ہوں لیکن میرے اندر پوری استطاعت نہیں ہے ، میں پوری طرح ان کاموں کا اہل نہیں ہوں تبلیغ کرتا ہوں لیکن میرا دینی علم کمزور ہے، نیکی کی تعلیم دیتا ہوں لیکن بنیادی کمزوریاں ہیں.عبادت کی طرف سے غافل ہوں یا نماز پڑھتاہوں تو ترجمہ نہیں جانتا.لوگ مجھ سے پوچھیں گے کہ نماز کیا ہے تو میں کیا سمجھاؤں گا.یہ وہ سوالات ہیں جو خود بخود ایک مبلغ کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس سفر کا ایک لازمی حصہ ہیں.پس اب ضرورت ہے کہ جماعت کو اس اہم شعبے کی طرف متوجہ کیا جائے یعنی خود اپنی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 368 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء تربیت کا شعبہ اور جماعت کو سمجھایا جائے کہ باہر کا مربی ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک انسان کے اپنے دل میں ایک مربی نہ پیدا ہو جائے.اپنی علمی کمزوری کی طرف توجہ ہو اور دل اس بات پر بار بار زور لگائے اور اپنی ذات میں آپ سے احتجاج کرے اور کہے کہ مجھے کچھ بتاؤ میں کیا کروں.میرے لئے کچھ کرو کیونکہ مجھے موجودہ حالت پر چین نہیں آتا.دل کا یہ کام ہے، دل کی زبان بظاہر گونگی ہے علمی لحاظ سے تفاصیل میں نہیں جاتا لیکن بہت ہی پیارا کام ہے جو یہ کرتا ہے.مچلتا ہے ، بیقراری کا اظہار کرتا ہے،مطالبے کرتا ہے خواہ وہ بالکل سادہ ستھرے، خواہ معمولی زبان میں مطالبے ہوں یا زبان نہ بھی ہو تو ان کے مطالبوں کا مطلب سمجھ آجاتا ہے.چھوٹے بچے جن کو بولنا نہیں آتا جب وہ اپنی ماؤں سے مطالبے کرتے ہیں تو زبان سے تو نہیں کیا کرتے وہ اپنے چھوٹے سے بستر پہ تڑپتے ہیں، ٹانگیں مارتے ہیں، روتے ہیں ، چیتے ہیں.ماں کا کام ہے سمجھے اور جب تک وہ سمجھ نہ جائے وہ بچے اپنی ضد نہیں چھوڑتے اپنا مطالبہ نہیں چھوڑتے.پس دل کا یہی حال ہے.عقل اگر ماں باپ کا مقام رکھتی ہے، عقل زبان رکھتی ہے ،عقل سمجھتی ہے اور سمجھانا جانتی ہے.تو دل بھی اپنی زبان رکھتا ہے اور اپنے طور طریق ہیں جن کے ذریعہ یہ دوسرے کو بات سمجھا دیا کرتا ہے.اور دل کے سمجھانے کے طریق ایک معصوم بچے کی طرح اس کی بے چینی اور بیقراری ہے.پس ایک انسان جسے اپنی کمزوری کا احساس ہو اور وہ احساس بے چینی میں بدل جائے.اس احساس کے نتیجے میں وہ نہ دن کو چین پائے نہ رات کو چین پائے وہ ضرور کچھ نہ کچھ دماغ کو آمادہ کر کے چھوڑے گا کہ وہ اس کے لئے کچھ کرے.پس وہ لوگ جو علمی ترقی کرتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی مدرسے میں تعلیم پائیں.بہت سے ایسے احمدی میرے علم میں ہیں جنہوں نے خود اپنی تربیت کی ہے اس لئے کہ ان کا دل پہلے تڑپا تھا، ان کے دل نے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ جو مقام اور مرتبہ مجھے عطا ہوا ہے اس کے مطابق مجھے علم نہیں ہے اور اس لحاظ سے میں پیچھے رہ گیا ہوں.چنانچہ اس وجہ سے ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوئے انہوں نے از خود منتیں کیں، خود پڑھنا شروع کیا، اپنی کمزوریوں کو دور کیا ، اگر دلائل میں کمزور تھے تو دلائل کی طرف توجہ کی غرضیکہ مربی دل میں پہلے پیدا ہوتا ہے.تب انسان حقیقت میں علمی اور دینی تربیت حاصل کرتا ہے.اگر دل سے وہ مطالبہ نہ پیدا ہو ، دل سے کسی چیز کی تڑپ کی آواز سنائی نہ دے تو باہر سے لاکھ کوشش کی جائے ایسے
خطبات طاہر جلد ۱۱ شخص پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا.369 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاسز لگا کرتی ہیں، انصار اللہ بھی کرتے ہیں ، لجنہ بھی ، کتنے ہیں جو ان میں آتے ہیں؟ کتنے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ وہ چند گنتی کے لوگ جن کے دل میں پہلے سے ہی احساس ہوتا ہے کہ ضرورت ہے.جب آواز پہنچتی ہے کہ ایسا انتظام ہو گیا ہے تو وہ شوق سے مزے سے اس میں حصہ لیتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کے دل میں مربی پیدا نہیں ہوتا ان تک لاکھ آوازیں پہنچائی جائیں ، ہر خطبے میں اعلان ہو بلکہ ہر نماز میں بھی اعلان کیا جائے تو ایسے لوگ جن کے دل کے اندر سے طلب پیدا نہیں ہوتی وہ سنی ان سنی کر کے وہاں سے گزر جاتے ہیں اور ان کو کوئی پیغام نہیں مانتا.کوئی فیض ان کو نہیں مانتا.پس میں جب کہتا ہوں کہ جماعت سپین کو اب یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر مربی پیدا کرو.تبلیغ کے جو کام شروع کئے ہیں اس کے دوران جو خامیاں ہمیں نظر آئی ہیں کسی باہر سے آنے والے نے وہ خامیاں تمہیں نہیں بتانی تبلیغ کے دوران تمہیں خود معلوم ہو گا تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ کس علمی کمی کو تم نے محسوس کیا ہے، کسی دینی تربیت کی کمی کو تم نے محسوس کیا ہے.یہ احساس ایک ایسا احساس ہے جسے ان مٹ بنانا ضروری ہے کیونکہ ایسا احساس تو ہر شخص کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ بعضوں کے احساس آئے اور مٹ گئے جیسے ریت پرلکھی ہوئی تحریر میں ہوا کرتی ہیں.آج آندھی ایک طرف سے چلی ہے ایک سمت کی لہریں ڈال گئی ہے.دوسری دن دوسری سمت سے چلی ہے ان اہروں کو بدل کر اس نے ان کا رخ بدل دیا نئی سمت کی لہر میں بن گئیں.کبھی جھکڑ اس طرح چلتے ہیں کہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا کھڑی سی بن جاتی ہے.تو ایسا شخص جو نیک نصیحتوں کو اس طرح قبول کرتا ہے جیسے ریت ہواؤں کے اثر کو قبول کرتی ہے اس کی قبول کرنے کی صلاحیت کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا، وہ بغیر شک کے مٹ جایا کرتی ہے لیکن بعض ایسے لوگ ہیں جن کو ایک چھوٹی سی بات بھی اس طرح گہرا اثر کر جاتی ہے کہ ان کے دل کی ان مٹ تحریر بن جایا کرتی ہے.ان کی زندگیاں اس پیغام سے پھر ہمیشہ فائدہ اٹھاتی رہتی ہیں اور ہمیشہ تبلیغ ہوتی رہتی ہے.بڑے لوگوں کے واقعات آپ پڑھیں ، ان کی زندگیوں کے سرگزشت خواہ خود انہوں نے لکھی ہو یا کسی نے لکھی ہو ان کو پڑھ کر دیکھیں آپ کو بسا اوقات یہ معلوم ہوگا کہ ایک انسان جس کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 370 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۹۲ء اللہ تعالیٰ نے بڑا مرتبہ عطا کیا جب اس سے پوچھا جائے کہ بتاؤ کس چیز نے تمہیں اتنی لمبی اور اتنی مسلسل ایک ہی سمت میں جاری وساری محنت پر آمادہ کیا تو وہ سوچ کر تمہیں یہ بتائے گا کہ فلاں وقت یہ واقعہ ہوا تھا، میں بچہ تھایا میری اتنی عمر تھی ، میں نے یہ نظارہ دیکھا تھا اور وہ پیغام ایسا میرے دل پر نقش ہوا کہ پتھر کی لکیر بن گیا اور ہمیشہ اس نے مجھے آئندہ میرے نشو و نما کے زمانے میں میرا مقصد یاد کرایا، میرا رخ معین کیا اور مجھے اس محنت پر آمادہ کرتارہا اس کی طاقت بخشتا رہا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل کے ساتھ اس مقام پر پہنچایا ہے.پس ایسے دل پہلے بنا ئیں جوان تحریکات کو جو وقتا فوقتا آپ کے دل میں ضرور اٹھتی ہیں اور ہر مبلغ کے دل میں اٹھتی ہیں، ان کو مستقل کر دے، ان کو دائمی بنادے ، اس بات کی ضمانت دے کہ یہ نیک تحریکات جو آپ کے دل میں اٹھتی ہیں وہ ضائع نہیں جائیں گی.چنانچہ فرشتوں کے متعلق آنحضرت مے نے جو مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے کہ فرشتے جب نیکی کی تحریک کرتے ہیں تو بعض دل ہیں جو ان کو قبول کر لیتے ہیں اور پھر ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.بعض دل ہیں جو متاثر ہوتے ہیں اور پھر ان کو بھول جاتے ہیں.اور وہ وقتی طور پر ایک لذت کو محسوس کرتے ہیں لیکن وہ دائمی لذت نہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیکی کی طرف کئی ٹھوس اقدام کرنے کی توفیق بخشی ہے وہاں اس ضروری قدم کی طرف بھی آپ متوجہ ہوں گے.آپ میں سے ہر ایک خود اپنی تربیت کی کوشش کرے گا اور اپنی تربیت کی کوشش میں وہ جماعت سے جس حد تک مدد ممکن ہے طلب کرے گا.یہ نہیں ہو گا کہ مربی پیچھے پھر تار ہے کہ تم اس سے یہ بات حاصل کرو، وہ بات حاصل کرو بلکہ شاگر د مربی کے پیچھے پھرے اور کہے مجھے وقت دو میں نے یہ بھی تم سے سیکھنا ہے اور یہ بھی سیکھنا ہے.چنانچہ واقعہ ایک زمانہ تھا جب پنجاب میں خصوصیت کے ساتھ یہ رواج تھا کہ لوگ مولویوں کی تلاش میں نکلا کرتے تھے.اب حالات بدل گئے ہیں ، اب بیچارہ مولوی یا مدرس اپنے شاگردوں کی تلاش میں نکلتا ہے کہ کوئی آئے اور میری بات سنے.نصیحت کرنے والا ڈھونڈتا ہے ایسے دلوں کو جو اس کی نصیحت کی طرف متوجہ ہوں لیکن ایک نیک دور ایسا بھی تھا جبکہ طالب علم اساتذہ کی تلاش میں نکلا کرتے تھے اور اب بھی ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے ہی ہوتا ہے.جنہوں نے علوم وفنون
خطبات طاہر جلد ۱۱ 371 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء میں ترقی کی ہے، سائنسوں میں ترقی کی ہے وہ ممالک آج بھی اچھے اساتذہ کے نام کی قدر کرنے والے ہیں اور ان کی تلاش میں لوگ جاتے ہیں.ایسی یو نیورسٹیوں میں داخل ہونے کے لئے محنت کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں جن میں اچھے مدرس موجود ہوں لیکن تیسری دنیا میں بدقسمتی سے بات اُلٹ چکی ہے.آواز میں دی جاتی ہیں کہ آؤ اور ہم سے پڑھو لیکن کوئی نہیں پڑھتا.یہ تو خیر ظاہری دنیا کا حال ہے.دین کا جہاں تک تعلق ہے وہاں ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے.پہلے بھی یہی تھا آج بھی ہے، کل بھی یہی رہے گا کہ مذگر اور مدرس ، نصیحت کرنے والا اور علم عطا کرنے والا آواز میں دیتا رہتا ہے آؤ اور مجھ سے نصیحت حاصل کرو، آؤ اور مجھ سے علم سیکھو لیکن لوگ پیٹھ پھیر کر منہ موڑ کر چلے جاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے اسی مضمون کو بیان فرمایا وَ إِذا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَوْسًا ( بنی اسرائیل :۸۴) کہ دیکھو جب ہم نعمت نازل کرتے ہیں یعنی نبوت نعمت کی سب سے اعلیٰ قسم نبوت ہی ہے اور یہاں نبوت ہی کے معنوں میں نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا تذکرہ چل رہا ہے اس کے بعد یہ آیت آتی ہے فرماي وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ دیکھو وہ نعمت جب ہم نے سب سے اعلیٰ انسان پر نازل فرمائی یعنی محمد رسول اللہ پر تو دوسرا انسان.یہاں الإِنسَانِ سے مراد ایک تو محمد رسول اللہ ہیں جن کو نعمت بنا کر بھیجا گیا اور ایک وہ انسان ہے جس کو آپ نے مخاطب کر کے نعمت عطا کرنے کے لئے اپنی طرف بلایا اآعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِہ پس محمد رسول اللہ ﷺ کی نعمت سے استفادہ کرنے کی بجائے ان جاہلوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ اَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِے پہلو تہی کی اور پیٹھ پھیر لی اور دوسری طرف منہ کر کے چل پڑے.یہ نعمت اپنے گھر رکھو، ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے.پس اس وجہ سے اس مضمون کو سمجھانے کی ضرورت ہے.دنیا کے لحاظ سے خواہ دنیاوی علوم میں کسی قوم کی کیسی ہی حالت کیوں نہ ہو ، دینی علوم کے متعلق قرآن کریم کا یہ فتویٰ جس طرح پہلے صادق آتا تھا اس طرح آج بھی صادق آتا ہے.جب خدا کی طرف سے نعمت بانٹنے کا اعلان ہوا کرتا ہے تو بد قسمت انسان اکثر اوقات اس کی طرف پیٹھ کر دیتا ہے اور اس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے.مگر جماعت احمد یہ تو بدقسمتوں میں سے نہیں ہے، جماعت احمد یہ تو ان خوش نصیبوں میں سے ہے جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو قبول کیا اور ایمان لائے اور اس
خطبات طاہر جلدا 372 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء نعمت کو جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی صورت میں دنیا میں نازل ہوئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کر کے آگے بڑھنے کا اعلان کیا تو جماعت احمدیہ ہی وہ جماعت ہے جس نے لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف آگے بڑھنے کا تہیہ کیا اور حسب توفیق کسی نے تھوڑا پا یا کسی نے زیادہ پایا اور بہت ہی خوش نصیب ثابت ہو گئے.پس آج بھی ضرورت ہے کہ اس نعمت کی طرف توجہ کے لئے دل پیدا کیا جائے اور دینی تربیت کے لئے جب تک آپ کے دل میں خواہش پیدا نہیں ہوگی ، جب تک آپ کے دل میں تمنا بیدار نہیں ہوگی ، جب تک آپ کے اندر ایک خود مربی پیدا نہیں ہو گا، جو آپ کو بتائے کہ آپ کو ضرورت ہے علم حاصل کرنے کی ، آگے بڑھیں اور حاصل کریں اس وقت تک جماعت کا تربیتی اور علمی نظام آپ کے حق میں کچھ بھی نہیں کر سکتے.یہ نظام تو آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ نظام ہے، یہ نظام وہ ہے جس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے اور اس کے متعلق جیسا کہ میں نے قرآن کی گواہی پیش کی ہے جب تک کوئی توجہ نہیں دے گا اسے کچھ عطا نہیں ہوگا.پس اس پہلو سے ہمیں جماعت سپین کو بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور چونکہ جماعت سپین سے جو میں باتیں کرتا ہوں یہ ساری دنیا میں پھیلیں گی اور ہر جماعت تک پہنچیں گی اس لئے جماعت کے حوالے سے ساری دنیا کی جماعتوں کو میرا یہی پیغام ہے کہ احباب جماعت میں اپنی تربیت کرنے کی طرف کوشش کرنی چاہئے یا جوڑنا چاہئے دلوں کو اور بتانا چاہئے تم خود سیکھنے کی خواہش کرو، خود تمہارے دل میں تڑپ پیدا ہو پھر تم پیچھے پڑو، پھر تم مربیوں کو ڈھونڈ و، پھر اگر وہ سنتی کرتے ہیں اور تمہاری طرف توجہ نہیں کرتے تو ان سے بھی شکوے کرو ان کی بات سے مرکز کو بھی مطلع کرو.پس ہر احمدی کے لئے خدا کے فضل سے اب نئے نئے چشمے کھولے جا رہے ہیں اور وہ چشمے جو پہلے سے موجود تھے لیکن ان کا پانی رک چکا تھا اس پانی کو دوبارہ جاری کیا جارہا ہے.اب وقت ہے کہ آپ اپنی تربیت کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ کریں اور ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور خود دیکھیں کہ آپ کی بات میں خدا کے فضل سے پہلے کی نسبت کتنا زیادہ اثر پیدا ہو جاتا ہے.ابھی چند دن پہلے میں مسجد بشارت پید رو آباد میں ایک جماعت کی چھوٹی سی مجلس شوری بلا کر ان کو میں نے سپین میں تبلیغ کے متعلق کچھ ہدایتیں دی تھیں.انشاء اللہ تعالیٰ ان ہدایتوں سے متعلق
خطبات طاہر جلدا 373 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء ساری جماعت کو مطلع کیا جائے گا.ریکارڈنگ موجود ہے، میں امید رکھتا ہوں کہ امیر صاحب تک وہ پہنچائیں گے، بڑے چھوٹے ، مرد عورت سب کا خود اپنے کانوں سے وہ سننا ضروری ہے.وہ جب آپ سنیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ ایک دو سال کے اندر پین کو وسیع پیمانے پر اور سائنسی طریق پر حکمت کے ساتھ احمدیت کا پیغام پہنچانے کا ایک منصوبہ تیار ہوا ہے.اس میں آپ سب کا حصہ لینا ضروری ہے.وہ لوگ جو مربی یا مبلغ بن چکے ہیں اللہ کے فضل سے ان کے لئے خوشخبری ہے کہ ان کو یہ بتایا جائے گا کہ کس طرح تبلیغ کرنی ہے لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں تبلیغ کے بعد پھر اپنی تربیت کی بڑی ضرورت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تبلیغ کے کام پھیلتے ہیں تو تربیت کے تقاضے خود بخود پھیل جاتے ہیں اور ہر نیا آنے والا تربیت کی طلب کرتا ہے.وہ آپ سے پوچھے گا کہ مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟ اب جو تو نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے تو میں کیسا وجود بنوں؟ کس طرح میں اسلام اور احمدیت سے استفادہ کروں؟ یہ سارے سوال ہیں جو اٹھنے والے ہیں.اگر آپ نے اس سے پہلے پہلے کہ یہ تبلیغ کثرت سے پھیل جائے اپنی تربیت نہ کی تو آنے والے کل کو سنبھال نہیں سکیں گے اور جو شخص خواہ وہ کیسا ہی محنتی زمیندار کیوں نہ ہو اپنے پھل کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کی محنتیں پھل لانے کے باوجو د ضائع ہو جائیں گی.بعض دفعہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے پھل کوسنبھالنا بعض دفعہ نہیں ہوتا اور ہر زمیندار کو تجربہ ہے کہ جب تک دانے گھر نہ آجائیں اس وقت تک اس کا دل اطمینان نہیں پکڑتا.دانوں کا گھر میں آجانا تربیت سے تعلق رکھتا ہے.پھل سنبھالنے کا یہی مطلب ہے.ورنہ ہم نے دیکھا ہے سارا سال محنتیں کرنے کے باوجود بعض دفعہ آخری چند دنوں میں ایسی آندھی آتی ہے ایسا طوفان برپا ہوتا ہے کہ ساری فصل جو پکی ہوئی ہے، کٹ کر چند دنوں کے اندرگھر پہنچنے والی تھی وہ مٹی میں گھل جاتی ہے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو آپ جن کی تربیت کر رہے ہیں ان کے پیچھے تو ہمیشہ دن رات بعض مخالف طاقتیں لگی رہتی ہیں اور جب وہ احمدی ہو جاتے ہیں تو اور زیادہ شدت کے ساتھ منصوبے بنا کر اُن کو آپ سے توڑنے کی کوشش کی جائے گی اس لئے کسی اتفاقی آندھی کا سوال نہیں ہے، ہر روز چلنے والی ایک مصیبت کا نام ہے یعنی تبلیغ کی راہ میں جو لوگ حائل ہوتے ہیں وہ ایک مصیبت ہیں جو ہمیشہ ہر نئے ہونے والے احمدی کے پیچھے پڑ کر واپس مرتد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کے راہ میں مشکلات
خطبات طاہر جلد ۱۱ 374 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء حائل کرتے ہیں کئی طرح سے اس کو آپ سے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ادھر مخالفانہ طاقتیں اس کو آپ سے جدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ادھر آپ کی غفلت خود اس کو دھکے دے رہی ہے.ایسی حالت بہت ہی دردناک حالت ہوتی ہے.یعنی سارا سال محنت کے بعد یا ایک، دو، تین ، چار، پانچ سال بعض دفعہ دس سال کی محنت کے بعد ایک پھل لگا ہے اور اسے سنبھالنے کی بجائے اسے مخالفانہ طاقتوں کے سپر د کر دیا جاتا ہے.سنبھالنے میں دو طرح کے کام ضروری ہیں.ایک یہ کہ جس نے تبلیغ کی ہے اس کو لازماًیہ سمجھنا چاہئے کہ اولین ذمہ داری اس کی ہے.اس کو خدا تعالیٰ نے روحانی اولاد عطا کی ہے یہ اس کی کھیتی کا پھل ہے اور اس کو سنبھالنے میں سب سے پہلی ذمہ داری اس کی ہے اور سب سے زیادہ اہلیت بھی اسی کی ہے.اسے چاہئے کہ ہر آنے والے کے ساتھ ایسا گہراذاتی تعلق بنائے جیسے اپنے خاندان کا وہ کوئی فرد ہو.اس کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک کرے، اس کو اپنے گھر میں بلائے ، اس کے گھر آنا جانا شروع کرے، اس کے مسائل میں اس کا معین اور مددگار ہو، اس کا مشیر بن جائے ، ہر بات میں وہ سمجھے کہ سب سے پہلے اگر مجھے کسی طرف سے مددمل سکتی ہے تو میرے روحانی مربی کی طرف سے مل سکتی ہے.ایسے تبلیغ کرنے والے جو پھل حاصل کرنے کے بعد اس طرح اپنے اُس پھل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو خدا انہیں عطا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کی تبلیغ پھر نئے نئے رنگ لاتی ہے اور وہی پھل آئندہ کے لئے بیج بن جاتا ہے اور وہی بیج ہے جو آئندہ لہلہاتی ہوئی کھیتیوں میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے.ایسے لوگوں کی تبلیغ ایک مقام پر پہنچ کر ضائع نہیں ہوتی بلکہ اور نشو ونما پاتی ہے، پلیتی ہے، پھولتی ہے، پھلتی ہے اور پھیلتی ہے.پس تبلیغ کے مضمون کو اگر آپ گہرائی میں سمجھیں تو یہ نہ ختم ہونے والا مضمون ہے جو لوگ آپ کی تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوئے ہیں ان کو ایسا احمدی بنانا ہے کہ وہ خود آگے مبلغ بن جائیں.ایسے ان کی تربیت کرنا کہ وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گہرے طور پر وابستہ ہو جائیں.آپ سے محبت کرنے لگے آپ سے تعلق رکھنے لگے اور ذاتی طور پر آپ سے اُس کا پیار پیدا ہو جائے.یہ نہ صرف یہ کہ انتہائی ضروری ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں کھلم کھلا یہی پیغام ہے جو آپ کو دیا گیا ہے.چنانچہ وہ آیت جس کی بارہا میں نے تلاوت کی ، بارہا اس کے مضامین آپ کو سمجھائے ہیں.اُن
خطبات طاہر جلدا 375 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ (حم السجدة: ۳۵) دیکھو تبلیغ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ پھل صرف حاصل کرو اور پھر ان کو چھوڑتے چلے جاؤ.تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کو جب تم مسلمان بناتے ہو تو ایسا مسلمان بناؤ کہ وہ تم سے محبت کرنے لگے، تمہارا عاشق ہو جائے اور اتنا گہرا رابطہ تم سے پیدا ہو جائے گانَهُ وَلِيٌّ حَمِید کہ گویاوہ جانثار دوست بن گیا ہے.اس رنگ میں آپ نے جب غیروں کو تبلیغ کرنی ہے، تو یاد رکھیں جو آپ کا جانثار دوست ہے وہ آپ کے رنگ پکڑے گا.جیسے احمدی آپ ہیں ویسا ہی وہ بنے گا اسی لئے بہت ہی ضروری ہے کہ آپ کی محبت کے نتیجے میں وہ نقصان نہ اٹھائے.آپ کی بد عادتیں اس میں منتقل نہ ہو جائیں ، آپ کی لغزشیں اس کی لغزشیں نہ بن جائیں، آپ کی کمزوریاں اس کی کمزوریاں نہ ہو جائیں.پس تبلیغ کا مضمون بہت ہی گہر ا مضمون ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ غور کرنے والا مضمون ہے اور بڑی تفصیل کے ساتھ ذمہ داریاں عائد کرنے والا مضمون ہے.پس جب میں کہتا ہوں کہ اپنی تربیت کریں تو ان سارے تقاضوں کو ، ان احتمالات کو ، ان امکانات کو مد نظر رکھ کر کہتا ہوں.خدا کرے کہ ہر احمدی ایسا مبلغ بنے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس تبلیغ کی برکت سے اس کے نفس کا مربی بیدار ہو جائے.اپنے نفس کی تربیت کی طرف وہ متوجہ ہو اور اس تربیت کے نتیجے میں اس کے اعمال زیادہ حسین ہوتے چلے جائیں اور پھر اس کے حق میں پہلے سے زیادہ خدا کا یہ وعدہ پورا ہو کہ جس کے اعمال اچھے ہوں گے اس کے قول میں اور زیادہ تاثیر پیدا ہوتی چلی جائے گی.پھر اس کی تربیت کے نتیجے میں جو نئے احمدی اپنی اصلاح کریں وہ بھی خدا کے فضل کے ساتھ ایسے داعی الی اللہ بن جائیں جن کی آواز میں غیر معمولی کشش ہو، جن کے عمل پہلے سے بڑھ کر حسین ہوتے چلے جائیں.یہ وہ طریق ہے جس کے نتیجے میں روحانی انقلاب برپا ہوا کرتے ہیں، یہی وہ طریق ہے جس کے نتیجے میں آغاز اسلام میں ایک ایسا انقلاب بر پا ہوا جس نے دشمن کی آندھیوں کے رُخ موڑ دیئے اور کوئی طاقت اس انقلاب پر غالب نہ آسکی.یہی وہ انقلاب تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بڑی شان اور شوکت کے ساتھ جاری ہوا اور باوجود اس کے کہ اس وقت احمدیت نہایت کمزور حالت میں تھی اس کے باوجود ایسی غیر معمولی طاقت کے ساتھ احمدیت نے نشو ونما اختیار کی ، اس شان کے ساتھ آگے بڑھی ہے کہ ہر مقابل کے منہ پھر گئے لیکن وہ احمدیت کا منہ
خطبات طاہر جلدا 376 خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۹۲ء پھیرنے میں ناکام رہا.یہ وہ صفات حسنہ ہیں جو آج بھی آپ کے اندر پیدا ہوں گی تو آج بھی ویسے ہی نتائج نکلیں گے جیسے کل نکلے تھے، جیسے آج نکلے ہیں، ویسے ہی نتائج پھر کل بھی نکلیں گے اور آئندہ آنے والی نسلیں آپ کو دعائیں دیں گی کہ جو انہیں تبلیغ کے اسلوب سکھائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خدا کرے کہ جب سپین میں آئندہ آؤں تو اس سے بھی بہت بہتر حالت ہو اور آپ کے نمونے بتا کر باقی دنیا کو بھی تبلیغ کی تحریک کروں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 377 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء سپین اور روس میں وقف عارضی کرنے کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۵/ جون ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چند دن قبل میں فرانس اور سپین کے دورے سے واپس آیا ہوں اس سے پہلے دو خطبات میں جو دونوں ہی سپین میں دیئے تھے اس سفر سے متعلق میں کچھ باتیں بیان کر چکا ہوں لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ چونکہ ریکارڈنگ خراب ہوئی تھی اس لئے ان خطبات کو Televise نہیں کیا جا سکا اور جس طرح پہلے کثرت سے احباب براہ راست استفادہ کر سکتے تھے اُس طرح استفادہ نہیں کر سکے اب میں آپ کے سامنے چند باتیں مختصر ارکھوں گا ان دو خطبات کے مضمون کو دہرانا تو یہاں ممکن نہیں ہے.پہلی خوشکن بات جو آپ کے علم میں آنی چاہئے وہ یہ ہے کہ فرانس اور چین دونوں جماعتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں بیداری ہے اور دعوت الی اللہ کے کام میں وہ اس سے بہت زیادہ مستعد ہیں جیسا میں نے ان کو پہلے دیکھا تھا جس حالت میں ان کو میں نے گزشتہ سفر کے دوران پایا تھا اس سے کئی حصے آگے نکل چکے ہیں.مردوں میں بھی عورتوں میں بھی اور بچوں میں بھی دعوت الی اللہ کا شوق پایا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نشو و نما کے آثار دکھائی دے رہے ہیں.خدا کے فضل سے دونوں جگہ میرے جانے سے پہلے بھی مقامی لوگوں کی توجہ تھی مختلف ممالک سے آئے ہوئے مختلف علاقوں میں بسنے والوں کی توجہ تھی بیعتیں بھی ہو رہی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے جانے پر بھی غیر مسلموں کی طرف سے کافی دلچسپی کا اظہار کیا گیا.مجالس میں آتے رہے ،سوال و جواب میں حصہ لیتے رہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مجالس کے بعد بیعتیں بھی ہوتی رہیں.فرانس میں جو سب سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 378 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء بڑا خوشکن پھل ملاوہ یہ تھا کہ جزائر غرب الہند کے ایک نئے ملک میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت کا پودا لگا ہے.یہ فرانسیسی بولنے والا ملک ہے وہاں کے باشندے جو تقریباً کلیۂ رومن کیتھولک عیسائی تھے ان میں سے ایک صاحب کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی اور وہ صاحب اثر ہیں اور ان کا ایک بڑا خاندان ہے انہوں نے باہر سے آئے ہوئے کچھ اور مسلمان افریقنوں کی مدد کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کا کام کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ تقریباً دو تین سومسلمان وہاں پیدا ہو چکے ہیں.یہ جب ہمارے اجلاس میں تشریف لائے تو رفتہ رفتہ بڑی تیزی کے ساتھ ان کے اندر احمدیت کی محبت پیدا ہونی شروع ہوئی لیکن بعد میں گفتگو سے پتا چلا کہ یہ دراصل اس سے پہلے ہی دلچسپی لیتے تھے اور مشن میں ان کا آنا جانا تھا.وجہ یہ بیان کی کہ مسلمان تو ہو گئے تھے ، توحید سے محبت تھی لیکن جتنے دوسرے مسلمان فرقے دیکھے ان پر دل ٹکتا نہیں تھا اور اُکھڑا اُکھڑ ا محسوس کرتے تھے کہ جس چیز کو میں حاصل کرنا چاہتا تھا وہ حاصل ہو نہیں سکی اس احساس محرومی کے ساتھ یہ متلاشی رہے.جب فرانس مشن سے ان کا رابطہ ہوا تو بڑی تیزی سے احمدیت میں دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی.جب میں وہاں گیا تو ملاقات کے دوران میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس علاقے میں جب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تسلی ہو تو خدا کرے کہ آپ وہ پہلے ہوں جو احمدیت کا پودا لگانے والے ہوں اور ایک منظم طریق کے ذریعہ سارا ملک اسلام کے لئے فتح کرنے والے ہوں تو انہوں نے کہا کہ میرے دل کی تسلی کا تو یہ حال ہے کہ دل چاہتا ہے ابھی بیعت لیں.میں نے انہیں سمجھایا کہ کچھ اور پڑھ لیں انہوں نے کہا کہ پڑھنے کی سب باتیں تو ایک طرف ہیں.میں تو آپ سے مل کر اتنا مطمئن ہو چکا ہوں کہ میرے لئے اب مزید انتظار کی گنجائش نہیں.ان کا جوان بیٹا بھی ساتھ تھا چنانچہ ان دونوں نے بڑی محبت اور اخلاص سے اسی وقت بیعت کی اور مجھ سے یہ عہد کیا کہ میں اپنے ملک کے ان باشندوں کو بھی تبلیغ کروں گا جو یہاں موجود ہیں اور خط و کتابت کے ذریعے اپنے ملک میں بھی تبلیغ کروں گا اور پھر اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ بہت جلد وہاں ایک بڑی تعداد میں احمدی پیدا ہو چکے ہوں گے تو اس وقت میں آپ کو وہاں آنے کی دعوت دوں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ ایک بہت ہی اچھا پھل تھا جو ہمیں عطا ہوا.دونوں جگہ مبلغ انچارج ماشاء اللہ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے جماعتوں میں آپس میں جو کچھ اختلافات اور شکر رنجیاں پائی جاتی
خطبات طاہر جلدا 379 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء تھیں وہ بالکل نابود ہو چکی ہیں اور ایک لمبا عرصہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اور دیگر ذرائع سے بھی سمجھانے کی توفیق ملی.خصوصاً سپین میں ایک لمبے عرصہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراضگیاں، مربی سے دوریاں اور بدظنیاں وغیرہ وغیرہ امراض پائی جاتی تھیں لیکن اس دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ خدا کے فضل سے سب ایک جان ہیں نظام کا احترام ہے.مربی کے ساتھ گہرا ادب کا تعلق ہی نہیں بلکہ پیار اور محبت کا تعلق قائم ہو چکا ہے اور یہ اسی کی برکتیں ہیں.پس اس حوالے سے میں دنیا کی ساری جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ محض دینی علم کوئی چیز نہیں ہے جب تک اس کے ساتھ حسین عمل شامل نہ ہو، اس کے بغیر تبلیغ مکمل نہیں ہوتی اور حسین عمل میں آپس کا نفاق ایک زہر کی طرح گھل جاتا ہے.حسین عمل انفرادی طور پر خواہ کیسا ہی ہوا اگر جماعتوں میں آپس میں نفاق پایا جاتا ہے، دل بٹے ہوئے ہوں یا نظام جماعت سے بار بار شکوے پیدا ہوتے ہوں اور انسان کی انانیت اس کو امیر سے دور کر دے تو انفرادی حسن عمل سارا بیکار جاتا ہے کیونکہ دودھ خواہ کیسا ہی خالص کیوں نہ ہو اس میں اگر زہر کا قطرہ گھول دیا جائے تو وہ سارا دودھ زہریلا ہو جاتا ہے.پس نفاق جماعتوں کے لئے ایک زہر ہے.بعض لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں.ہماری بات سنی جائے اور دوسرے کو سزادی جائے.میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری انا نیت کو اس سے تسکین مل جائے اور میں کسی کو سزا دے بھی دوں تو تمہیں اس سے کیا ثواب پہنچے گا لیکن اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ” سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۰) تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اس میں بہت بڑا ثواب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق کی سچائی کا اظہار ہو گا اور جس کو امام وقت سے سچا تعلق ہو وہ اس کی باتوں کو تخفیف سے نہیں دیکھ سکتا اور جس کا تعلق اس کی ذاتی جذباتی قربانی سے ثابت ہو جائے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس پر پیار کی نظر ڈالتا ہے.تو جھگڑا خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو ایک موقع ہے اس میں ذاتی انتقام لینے کا بھی موقع ہے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے اگر واقعہ کوئی مظلوم ہے اس کا حق ہے کہ وہ اتنا ہی بدلہ لے جتنا اس پر ظلم کیا گیا ہے اور اس سے زیادہ نہیں لیکن اگر وہ اس حق کو چھوڑ دے اور خدا کے لئے صبر اختیار کرے اور عفو سے کام لے تو اس کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ اجر کیا ہے؟ اس کی تفاصیل نہیں بیان فرمائی گئیں وہ اللہ کی
خطبات طاہر جلدا 380 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء محبت اور اس کی رضا کا اجر ہے کسی کے منہ کی خاطر کوئی انسان اپنا حق چھوڑتا ہے تو اسے اس سے لازماً بہت تعلق پیدا ہو جاتا ہے.میں نے اپنے مختلف جماعتی سفروں کے دوران خود ذاتی طور پر یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے بعض جھگڑنے والے لوگوں کو سمجھایا جن کے جھگڑے بڑی دیر سے چلے آرہے تھے اس سے پہلے اور بھی لوگ سمجھا چکے تھے لیکن چونکہ اس زمانہ میں میں صرف وقف جدید یا خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے ہی سفر کرتا تھا مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک خونی تعلق ہونے کی وجہ سے جماعت میں نسبتا زیادہ نرمی کا گوشہ دل میں پایا جاتا تھا.پس جہاں دیگر معلم، مبلغ وغیرہ اس سے پہلے نا کام ہوئے وہاں غالباً اسی تعلق کی وجہ سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خونی رشتہ کی برکت ہی سے ان لوگوں نے اپنے حقوق کو چھوڑا اور اس کے بعد کبھی بھی ان کی محبت میرے دل سے نہیں مٹی.میں یہ تجربہ اس لئے بتارہا ہوں کہ آپ یہ تجربہ کر کے دیکھ لیں آپ کی خاطر اگر کوئی شخص اپنا حق چھوڑتا ہے تو اس کا آپ کے دل میں ایک مستقل مقام بن جاتا ہے اور اگر آپ کے اندر شرافت ہے اور شکر گزاری کے جذبات ہیں تو کبھی بھی آپ اس شخص کی محبت کو اپنے دل سے نکال نہیں سکیں گے جس نے آپ کی خاطر اپنے ایک حق کو چھوڑا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کے حضور اپنا مقام بنانے کا اتنا قیمتی نسخہ عطافرمایا ہے کہ اس کی اور کوئی مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی.فرمایا بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کر واللہ کی خاطر یہ قربانی کر کے دیکھو.لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے آپ کو سچا سمجھ رہے ہوتے ہیں پس اس نسخہ کی خوبی دیکھیں کہ دونوں طرف کارگر ہے محبت کی ایسی دو دھاری تلوار ہے کہ دونوں دلوں پر یکساں اثر کرتی ہے کیونکہ فریقین دونوں اپنے آپ کو سچا سمجھ رہے ہوتے ہیں.فرمایا سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل اختیار کر و دونوں خدا کی خاطر اپنے آپ کو جھوٹوں کی طرح گرادو اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنے بھائی کا دل جیتنے کی کوشش کرو، بھائی کا دل جیتا جائے یا نہ جائے جو ایسی کوشش کرے گا خدا کا دل ضرور جیت لے گا.پس ایک انتقام کا رستہ ہے اس میں ایک بہت ہی بڑی تنبیہ بھی حائل ہے فرمایا دیکھنا اتناہی بدلہ لینا جتنا تم پر ظلم کیا گیا ہے.ایک ذرہ بھی اس سے زیادہ جانے کی اجازت نہیں اور کون انسان ہے جو انصاف کے معاملہ میں عین اس حد پر رک جائے جہاں دوسرے سے نا انصافی نہ ہو سکے.جب
خطبات طاہر جلد ۱۱ 381 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء غصے ہوتے ہیں تو بالعموم جتنی کسی کو تکلیف پہنچے جب تک اس سے زیادہ تکلیف نہ پہنچا لیں دل ٹھنڈا نہیں ہوا کرتا اور وہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں مگر بہت کم جو انتقام میں انصاف کو پیش نظر رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں.تو پہلا رستہ اگر کسی نے اختیار کرنا ہے تو وہ ایک حد تک تو جائز ہے لیکن اگر ایک دو قدم بھی اس سے آگے نکل جائے تو وہی انتقام اس کے اوپر اُلٹ پڑے گا اور وہ خدا کی ناراضگی کا موجب بن جائے گا.دوسرا پہلو وہ ہے جو سراسر نفع کا پہلو ہے کوئی نقصان کا سودا نہیں کوئی نقصان کا خطرہ ہی نہیں.تمام تر فائدے ہی فائدے ہیں بھائی کی محبت جیتیں گے اور جو اس کا لطف ہے وہ ایسا دائگی لطف ہے جو انتقام کا لطف نہیں ہے اور اگر وہ محبت جیتنے میں نا کام بھی ہو جائیں تو خدا کی محبت لازماً جیتیں گے اور اس کے فضل کئی طرح سے نازل ہوتے ہیں جماعت میں بہت برکت پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طور پر فضل نازل ہوتے ہیں صرف انفرادی طور پر ہی ایک انسان کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ساری جماعت کو اس سے بہت فائدہ پہنچتا ہے.پس میں نے آپ کے سامنے یہ جو دو مثالیں رکھی ہیں ان میں ایک بڑا عنصر یہی تھا کہ پہلے اگر اختلافات پائے جاتے تھے اور خصوصیت سے مربی سے یا مقرر کردہ امیر سے کچھ شکوے تھے تو میرے سمجھانے کے نتیجہ میں ان شریف ، نیک نفس احمدیوں نے اپنے پرانے کردار کو یکسر بدل ڈالا اور خدا کی خاطر شیر وشکر ہو گئے اور اب اس کا خودالطف اُٹھارہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت نشو و نما پانے والی جماعتیں بن چکی ہیں.سپین کے سلسلہ میں یہ بتانا ضروری ہے کہ میں ویسے تو وہاں بہت دیر سے نہیں گیا تھا اور جانا ہی تھا لیکن فوری بہانہ Expo بن گیا.سپین میں Expo کا انعقاد ہوا ہے یعنی ساری دنیا سے مختلف قسم کی انڈسٹریل اور دیگر نمائش وہاں لگائی گئی ہیں اس Expo میں جماعت احمدیہ کو بھی چھوٹا سا سٹال لگانے کی توفیق ملی اور وہ سٹال سب دوسرے سٹالوں سے مختلف اور منفرد تھا ایک تو اس لحاظ سے مختلف اور منفرد تھا کہ سب سے چھوٹا اور غریبانہ سٹال وہی تھا اس سے چھوٹا کوئی اور سٹال آپ کو وہاں دکھائی نہیں دے گا.آئس کریم بیچنے والے چھوٹے چھوٹے کھوکھے بھی اس سے بڑے تھے اور معمولی معمولی ممالک کے جو سٹال تھے وہ بھی مقابلہ بہت بڑے اور عظیم الشان دکھائی دیتے تھے لیکن جو بڑے ممالک ہیں انہوں نے تو اربوں روپیہ وہاں خرچ کیا.بڑے بڑے محلات تعمیر کئے اور اپنی نمائش پر اتنا غیر معمولی زر کثیر خرچ کیا ہے کہ اس سے انسان مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.بڑی بڑی حکومتوں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 382 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء میں سے امریکہ کا سٹال تھا، کینیڈا کا سٹال تھا، جاپان کا سٹال تھا، چین کا سٹال تھا.وہ سارے دیکھنے والے تھے لیکن وہ سارے سٹال ایسے تھے جن کا لطف دنیا کے لطفوں سے تعلق رکھتا تھا اور دائمی نہیں تھا.ایک انسان جاتا ہے اور ان چیزوں کو دیکھتا ہے لطف اندوز ہوتا ہے اور کچھ دیر کے بعد وہ بھول جاتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے سٹال میں ابدی اور دائمی لطف اور سکینت کے سامان تھے وہ لوگ جن کو وہاں آنے کی توفیق ملی جب انہوں نے تمام دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم دیکھے اور ایک سو سے زائد زبانوں میں انہوں نے قرآن کریم کی منتخب آیات کے تراجم دیکھیے احادیث کے تراجم دیکھے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کے تراجم دیکھے تو ان کے اندر ایک عجیب غیر معمولی شوق پیدا ہوا.ان کی آنکھوں میں چمک آئی انہوں نے کہا کہ ہماری زبان بتائیں وہ بھی ہے کہ نہیں جب وہ زبان ان کو دکھائی جاتی تھی تو عجیب فرط طرب سے یوں لگتا تھا جیسے ایک بلب اچا نک روشن ہو جائے اور بڑی گہری دلچسپی وہ لینے لگ جاتے تھے.اس کے نتیجہ میں بہت سی کتابیں خریدی بھی گئیں کچھ لٹر پچر مفت بھی تقسیم کیا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پوری دنیا میں اسلام کا نور پھیلانے کا جو موقع جماعت احمدیہ کو وہاں ملا ہے یہ بہت بڑی سعادت ہے اللہ تعالیٰ اس میں بہت برکت ڈالے.وہاں جا کر سٹال دیکھنے کا اور نمائش دیکھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سٹال کے منتظمین کے ساتھ اور سپین کی جماعت کے ساتھ اس سٹال سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا.عام طور پر گزرتے گزرتے کوئی شخص اتفاقا دیکھتا اور اگر اس کے پاس وقت ہوتا تو وہ اندر آجاتا تھا حالانکہ یورپ سے اور دیگر ممالک سے لوگ اور خود پین کے باشندے بھی اس کثرت سے وہاں آرہے ہیں کہ گزشتہ دو مہینے کے اندر اندر ساٹھ لاکھ آدمی وہ نمائش دیکھ چکا ہے اور ساٹھ لاکھ میں سے کئی ایسے ہیں جو کئی کئی دن آتے ہیں کیونکہ بہت بڑی نمائش ہے تو اس میں سے ابھی جماعت کا حصہ جتنا چھوٹا سٹال ہے اس کی نسبت سے بھی نہیں ملا یعنی آنے والوں کے مقابلہ پر جو نمائش پر آتے ہیں بہت کم لوگ اس سٹال پر آسکے ہیں یا استفادہ کر سکے ہیں چنانچہ میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ کس طرح خوبصورت اشتہار بنائیں اور اس میں یہی بات لکھیں کہ دنیا کے لطف لے رہے ہو ایک لطف یہ بھی لو جو کبھی نہیں مٹے گا، ایک ایسی خوشبو بھی لگاؤ جس کو کوئی دھوبی اور کوئی لا نڈری بھی دھو کر اُسے زائل نہیں
خطبات طاہر جلدا 383 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء کرسکتا، جو مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی ، اسلام کے پیغام کا یہ ایک چھوٹا سا سٹال ہے آؤ اور اس کو بھی دیکھو.اس طرح جو مختلف لوگ Queue میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں ان میں وہ اشتہار تقسیم کر ولوگوں سے ملو، رابطے پیدا کرو تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمارے سٹال کی توجہ دسیوں گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے اور بھی بہت سے منصوبے بنائے گئے کہ کس طرح لوگوں کے دل جیتنے ہیں.کس طرح لوگوں کو لانا ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس سفر کے بعد اس سٹال سے استفادہ پہلے سے بہت بڑھ چکا ہوگا.اس کے علاوہ سپین میں کئی تبلیغی منصوبے بھی بنائے گئے اور ایک ایسا منصوبہ پیش کیا گیا جو اس سے پہلے ذہن میں نہیں آیا تھا اور اس کی جو کیسٹ ہے میں نے ہدایت کی ہے کہ وہ تمام ملکوں کے امراء کو بھجوائی جائے وہ اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق ان تدبیروں پر عمل کر کے دیکھیں جو اس میں بیان کی گئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ سب ملکوں کے اندر تبلیغ کا ایک نیا انداز پیدا ہو جائے گا جو انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوگا.سپین میں وقف عارضی کے متعلق میں اس سے پہلے بھی تحریک کر چکا ہوں لیکن وہاں وقف عارضی کے کوئی ایسے سامان مہیا نہیں تھے جس کے نتیجہ میں لوگ مطمئن ہو کر وہاں جا کر اپنے وقت کو بہترین مصرف میں لا سکتے اور پوری قیمت وصول کر سکتے.اس سلسلہ میں بھی ایک منصوبہ اس دفعہ پین میں تیار کیا گیا ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اب انشاء اللہ تعالیٰ وقف عارضی جو پین جائیں گے وہ واپس آکر جو قصے سنائیں گے اس سے لوگوں میں بھی تحریک پیدا ہو گی کیونکہ ایک آدمی جب اپنے روحانی تجارب بیان کرتا ہے بسا اوقات اس کے گرد و پیش ماحول میں بہت زیادہ دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ قادیان کے سفر سے واپس آنے والوں نے مختلف ممالک میں جو اپنے قصے سنائے ہیں تو بعض لوگوں کے مجھے خطوط موصول ہوئے ہیں اور بعضوں نے فون پر مجھ سے کہا کہ ایسی حسرت پیدا ہوئی ہے اور ہم ایسا پچھتا رہے ہیں کہ کاش سب کچھ خرچ کر کے بھی ہم وہاں پہنچ سکتے تو پہنچ جاتے اور یہ ایسا موقع ضائع ہوا ہے جو پھر کبھی ہاتھ نہیں آسکے گا لیکن وہ آئندہ جلسوں کیلئے بھی ابھی سے تیاری کر رہے ہیں تو جو آنکھوں دیکھا حال واپس آکر سناتا ہے اس کا اور اثر پڑتا ہے اس لئے میں اُمید رکھتا ہوں کہ اب جو واقفین عارضی پین جائیں گے وہ پہلے سے بہت بہتر حالات میں وہاں منظم طریق پر
خطبات طاہر جلدا 384 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء کام کر سکیں گے اور سپین کی جماعت کی ٹیم اس کام کے لئے تیار ہو رہی ہے وہ سارے پین کے جائزے لے گی ، ہر قسم کی معلومات ان کو مہیا کرے گی.ایک کمزوری جو بڑی نمایاں طور پر دکھائی دیتی تھی وہ یہ تھی کہ وقف عارضی کے لئے شرط ہے کہ واقف عارضی اپنے خرچ پر ٹھہرے، اپنے خرچ پر سفر اختیار کرے، اپنی رہائش کا انتظام کرے.اپنا کھانا خود پکائے لیکن مسجد بشارت پیدر د آباد کے پاس رہائش کی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جو ہر آنے والے کے مزاج کے مطابق ہو اور مسجد سے بہت دور ٹھہر کر وقف عارضی سے پورا استفادہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مشن کے ساتھ مضبوط رابطہ ہو، مبلغ انچارج سے ہدایات لے کر اس کی مرضی کے مطابق اگر کام ہو تو اس میں بہت زیادہ برکت پڑتی ہے لیکن اس کا اب یہ ایک حل خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہو گیا ہے میرے گزشتہ سفر اور اس سفر کے دوران جماعت احمد یہ سپین نے بہت عظیم الشان وقار عمل کر کے مسجد کے احاطہ میں ایک بنگلہ بنایا ہے اور جو انہوں نے اس نیت سے بنایا ہے کہ جب میں وہاں جاتا ہوں تو میرے لئے بھی ٹھہرنے کی جگہ بہت مشکل سے ملتی ہے لیکن میرے ساتھ جو سٹاف کے لوگ اپنا وقت وقف کر کے بعض دوسرے ساتھ جانے والے جو ہیں ان کو بھی ٹھہرنے میں دقت پیش آتی ہے.تو اس خیال سے انہوں نے میرے لئے ایک چھوٹا سا بنگلہ بنایا اور ساتھ جو دوسری عمارت تھی اس کی توسیع کی.اب اس میں کافی اضافے ہو چکے ہیں.رہائش اور دفاتر کے انتظامات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں مسجد بھی خدا کے فضل سے بہت وسیع ہوگئی ہے تو جماعت سپین نے ایک بہت عظیم تاریخی خدمت کی ہے.وہاں نو جوان محنت کر کے بہت مشکل حالات میں بسر اوقات کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلسل اتنی لمبی قربانی کر رہے ہیں.مالی لحاظ سے بھی بہت قربانی پیش کی گئی ہے مگر جانی قربانی جو وقار عمل کر کے وہاں کی گئی ہے وہ غیر معمولی ہے اس سے مجھے خیال آیا کہ اس بنگلہ کا ایک حصہ واقفین عارضی کے لئے رکھا جائے.سپین میں معمولی ہوٹل، ایسے ہوٹل جن میں ٹھہر نا گزر اوقات کے لئے بس ٹھیک ہے لیکن کوئی بہت زیادہ خوش کن نہیں ہوتا وہ روزانہ جتنا کرایہ وصول کرتے ہیں اگر ایک ہفتے کے لئے ایک خاندان سے اتنا وصول کیا جائے مثلاً اگر دو افراد وقف عارضی پر جارہے ہیں اور کرایہ 100 پاؤنڈ ہفتہ ہو تو یہ تقریباً 16 پاؤنڈ روز کا ہو جائے گا اور میاں بیوی کے لئے فی کس روزانہ 8 پاؤنڈ ہے جو سپین کے لحاظ سے زیادہ نہیں مگر اس میں بڑی بات یہ ہے کہ ساتھ بہت بڑا بیٹھنے والا کمرہ ہے کھانے کا کمرہ الگ ہے، باورچی خانہ، بہت عمدہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 385 خطبہ جمعہ ۵/ جون ۱۹۹۲ء.ٹائلٹ الگ صحن ہر لحاظ سے Furnish اگر اس معیار کا ہوٹل وہاں تلاش کیا جائے تو چھپیں تمہیں پاؤنڈ روزانہ خرچ پر وہ عمارت میسر آئے گی تو بہر حال یہ تحریک جدید ان سے طے کرے گی اگر واقفین عارضی کو سو پاؤنڈ ہفتہ آسان دکھائی دے تو وہ سو پاؤنڈ ہفتہ میں اس بنگلہ میں ٹھہر سکتے ہیں اور ساتھ بیٹھنے والے کمرہ میں ان کے ایسے بچے سو سکتے ہیں جو گند کرنے والے نہ ہوں اور ایسے شریر نہ ہوں جو ہاتھ سے نکلے جاتے ہوں اور ان کو سنبھال کر رکھنا ممکن نہ ہو.ایسے بچوں کو تو واقفین ساتھ نہ ہی لے کر جائیں تو بہتر ہے مگر مہذب عقل والے بچے اور نسبتاً پختہ عمر کے بچے ساتھ ہوں تو تین چار بچے زائد وہاں آرام سے سو سکتے ہیں.ہمارے بچے بھی اسی فیملی روم میں سوتے رہے یا اس کو Furnished room کہہ لیجئے وہاں سوتے رہے تو ایک فیملی سے اگر ایک سو بیس چھپیس پاؤنڈ ہفتے کا کرایہ وصول کر لیا جائے تو اسے جماعت اپنے فائدے میں استعمال کر لے گی اور وقف کی جو یہ شرط ہے کہ اپنے خرچ پر رہے وہ شرط بھی پوری ہو جائے گی اور باہر ٹھہر نے کی نسبت ہر قسم کی زیادہ سہولت یہاں میسر آئے گی اور اسی طرح مبلغ کی راہنمائی بھی میسر آئے گی تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس تجربہ سے لوگ فائدہ اٹھائیں گے.بہت سے احمدی احباب سیر و سیاحت کے لئے گرمی کی چھٹیوں میں جاتے ہیں اگر وہ وقف کرلیں یا سیر و سیاحت کی نیت سے ہی جائیں تو ان کو بھی وہاں ٹھہرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنی سیر کے ساتھ خدمت دین کو بھی شامل کریں اور جس حد تک ممکن ہے دونوں کام بیک وقت سر انجام دیں تو اس بنگلہ سے یہ ایک مستقل فائدہ پہنچ جائے گا اور اس کا جاری ثواب ان خدمت کرنے والوں کو بھی پہنچتا رہے گا جنہوں نے بڑی محنت سے اس بنگلہ کو تیار کیا ہے.اس کے علاوہ سپین سے متعلق میں یہ بات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ جب بھی ہم وہاں جاتے ہیں اور بہت عظیم الشان پرانی عمارتوں کو دیکھتے ہیں تو بڑی حسرت سے اسلام کی ترقی کے اس دور پر نظر ڈالتے ہیں جس کے کھنڈرات باقی بچے ہوئے ہیں اور ان عظیم الشان سلطنتوں کی کامیابیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور ان ناکامیوں سے دُکھ اُٹھاتے ہیں جو کہ بالآخر وہاں اسلام کے صفایا پر منتج ہوئیں لیکن ان عمارتوں کو دیکھتے ہوئے ، ان شاندار محلات سے محظوظ ہوتے ہوئے ،ان کھنڈرات کی موجودہ حالت سے دُکھ اُٹھاتے ہوئے بہت کم ہیں جو حقیقت حال کا تجزیہ کر سکتے ہیں
خطبات طاہر جلدا 386 خطبہ جمعہ ۵/ جون ۱۹۹۲ء اگر آپ اسلام کی عظمت ان حکومتوں میں سمجھیں جو غیر ملکوں پر قائم کی گئیں تو اس لحاظ سے ہر وہ ملک جس نے مسلمان ممالک پر قبضہ کیا ہے اس کی عظمت کے بھی گیت گانے چاہئیں انہوں نے بھی دوسری زمینوں پر جا کر مسلمان ممالک پر قبضے کئے تو کیا ان کا حق نہیں ہے کہ وہ عیسائیت کی عظمت کے گیت گائیں اور وہاں سے عیسائیوں کے نکل جانے پر کف افسوس ملیں اور دکھ محسوس کریں.اس سوچ میں کچھ ٹیڑھا پن ہے، کچھ غیر اسلامی سی بات پائی جاتی ہے وہ لوگ جو کسی ملک کے باشندے ہیں ان کا حق ہے کہ وہ غیر قوموں کو جو ان پر مسلط ہو جائیں ان کو اپنے ملک سے باہر نکالیں اگر ہندوستان کا یہ حق تھا کہ وہ انگریز کو باہر نکالے، اگر پاکستانی کا حق یہ تھا کہ انگریز کو باہر نکالے، اگر دنیا کی دوسری نو آبادیات اور کالونیز کا ، سب کا یہ حق تھا جیسا کہ ہے چین کا حق تھا افریقہ کے تمام ممالک کا حق تھا کہ وہ غیر قوموں کو اپنی سرزمین سے باہر نکالیں تو یہ سوال ذہن میں اُٹھتا ہے کہ اہل سپین کا کیوں حق نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو جو غیر قوموں سے تعلق رکھنے والے تھے اور وہاں بزور شمشیر مسلط ہوئے ان کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیں.تو اگر آپ نے اپنی سوچ کی راہیں Nationalism کی راہیں بنا لیں.اگر آپ نے قومیت کے تصور سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو ایک قوم کے طور پر سمجھا اور ان کھنڈرات پر ایک قوم کے نقصان کے طور پر آنسو بہائے تو یہ سب جھوٹ ہے اور بے معنی ہے اور بے حقیقت ہے اور انصاف کے تقاضے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قسم کی سوچوں کو بالکل ترک کر دیا جائے.دوسری ایک اور سوچ ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس ملک میں سات آٹھ سو سال تک رہا ہے لیکن کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ ظاہری طور پر اتنی عظیم عمارتیں بنانے کے باوجود جن کی عظمت ،شان اور شوکت آج بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.وہ اس طرح وہاں سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور ہمیشہ کے لئے باطل کر کے نکال دیئے گئے کہ ان کے مذہب ان کی تہذیب کے کوئی نشانات وہاں دکھائی نہیں دیتے.سارا سپین کٹر کیتھولک عیسائی بن گیا اور مسلمانوں کا بطور مسلمان وہاں سے نام و نشان مٹادیا گیا یہ واقعہ آنا فانا نہیں ہوا.اسلام کو مٹاتے ہوئے اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالتے ہوئے ان کو تقریباً دوسو سال لگے.سوال یہ ہے کہ سات آٹھ سوسال میں ان فاتح قوموں نے اسلام کو وہاں نافذ کرنے کے لئے کیا کیا ؟ کیا یہ ممکن ہے اور عقلاً انسان اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ اسلام کا پیغام اس طرح پہنچایا جائے جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ایک
خطبات طاہر جلدا 387 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء شدید مخالف عرب کو پہنچایا تھا اور پھر ان کی وساطت سے باقی دنیا کو پہنچایا اور اس سختی کے ساتھ آٹھ صدیوں تک رد کیا جائے کہ ساری قوم کلیۂ اس سے نابلد ر ہے، یہ ہو نہیں سکتا کوئی بنیادی دینی خرابیاں ان لوگوں میں پیدا ہو چکی ہوں گی جس کے نتیجہ میں وہ دنیا کی عظمتوں کے سامنے ہی سرنگوں ہو گئے اور اسلام کو ظاہری زینت کا سبب تو بنالیا لیکن دلوں میں انقلاب بر پا کرنے کے لئے اسے استعمال نہیں کیا گیا.اس نقطہ نگاہ سے جب میں نے اندلس کے محلات کو اس دفعہ دیکھا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت ہی گہری تکلیف پہنچی کہ ایک طرف ہم اس بات کی لذت محسوس کرتے ہیں کہ ان محلات کو سجانے والوں نے نہایت ہی اعلیٰ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، نہایت باریک فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیت کو قلعہ پر لکھوکھہا بار کندہ کیا ہے اتنی بار کندہ کیا ہے کہ لکھوکھہا کہنا ہرگز مبالغہ نہیں ہوسکتا ہے ان تمام محلات میں جس طرح بار بار قرآن کریم کی آیات بھی اور لا غالب الا اللہ اور اسی قسم کے دوسرے کلمات کندہ کئے گئے ہیں اگر یہ نقوش ایک کروڑ سے زائد بنیں تو ہرگز بعید از عقل نہیں ہیں ممکن ہے کئی کروڑ تک یہ بات پہنچ جائے کیونکہ صرف غرناطہ میں نہیں اور غرناطہ کے الخضراء میں ہی نہیں بلکہ دوسرے محلات میں بھی ہر جگہ اس فن کو دُہرایا گیا ہے.مسجد قرطبہ میں بھی جا کر آپ دیکھیں ،مسلمانوں کے جو دیگر قلعے ہیں ان سب میں قرآنی آیات کو اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور حمد کے بعض کلمات کو اس خوبصورتی سے کندہ کیا گیا ہے کہ سات آٹھ سو سال گزرنے کے بعد بھی اب تک وہ اسی طرح موجود ہیں.ان میں سے ہر ایک کو تو سات آٹھ سو سال نہیں گزرے لیکن بعضوں کو پانچ سو سال گزرے ہیں.بعضوں کو سات سو سال یعنی آخری دفعہ جب مسلمانوں کو نکالا گیا ہے تو وہ ۱۴۹۲ء میں نکالا گیا تھا اس کے بعد دوسوسال تک یعنی ۹۲-۱۶۹۰ء تک کچھ آثار باقی رہے پھر مٹا دیئے گئے تو یہ عرصہ اور اس سے پہلے جو عر صے ہیں مثلا عبدالرحمن ثالث جنہوں نے اس فن کو فروغ دیا ہے اور سپین میں دنیاوی طور پر جو سب سے زیادہ عظمتیں حاصل کی گئی ہیں وہ ان کے دور میں یعنی عبد الرحمن ثالث کے دور میں حاصل کی گئی ہیں.یہ دور دسویں صدی کے آخر اور گیارہویں صدی کے آغاز سے تعلق رکھتا ہے تو اس زمانہ کی تحریریں بھی اس طرح چمک رہی ہیں.پس پندرہ سو سال پہلے کی ہوں یا سات آٹھ سوسال پہلے کی تحریریں ہوں بالکل یوں لگتا ہے کہ جیسے انہیں آج نقش کیا گیا ہے.میں یہ سوچتا رہا کہ انسان ظاہری طور پر استقرار کو دیکھ کر واقعہ کتنا مرعوب ہو جاتا ہے اور
خطبات طاہر جلدا 388 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء اگر یہ کوشش کی جاتی کہ یہ تحریریں دلوں پر کندہ ہوتیں اور تمام اہل سپین کے دلوں پر لا غالب الا اللہ لکھا جاتا تو یہ تحریریں ایسی انمٹ تحریریں ثابت ہو تیں کہ قیامت تک چلتی رہتیں بظاہر پڑھی نہ جاتیں لیکن خدا کی تقدیر یہ ثابت کر دکھاتی کہ یہ وہ تحریر ہے جو دل پر ایک دفعہ نقش ہو جائے تو پھر مٹائی نہیں جاسکتی.ایسے لوگوں کی گردنیں تو تلوار سے کائی جاسکتی ہیں مگر دلوں پر لا اله الا الله يا لا غالب الا اللہ کی کندہ ہوئی تحریریں مٹائی نہیں جاسکتیں.نسلاً بعد نسل چلتی ہیں اور چلتی چلی جاتی ہیں تو یہ سوچتے ہوئے میں بہت ہی گہرے غم میں مبتلا ہو گیا اور میں نے سوچا کہ اب اس ظلم کی تلافی اگر کسی جماعت کے ذمہ ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے.ہم نے وہاں ایک نئے جہاد کا آغاز کر دیا ہے اور اس جہاد کو لازماً جاری رکھنا ہے اور آگے بڑھاتے چلے جانا ہے.ایک دو دفعہ تحریک کرتا ہوں تو کچھ لوگ لبیک کہتے ہیں پھر کچھ عرصہ کے بعد دوسرے کاموں میں مشغول ہو کر میری نظر دوسری طرف چلی جاتی ہے تو احباب کی توجہ بھی دوسرے کاموں کی طرف پڑ جاتی ہے.خلیفہ وقت تو ایک قبلہ نما کی حیثیت رکھتا ہے جدھر وہ منہ کر لیتا ہے ساری جماعت رفتہ رفتہ اسی طرف منہ کر لیتی ہے لیکن یہ وہ قبلہ نما ہے جسے ہر اس قبلہ کی طرف منہ کرنا ہوگا جس کی طرف تو حید بلا رہی ہے اور توحید کی عظمتوں کے تقاضے ہیں کہ قبلوں کو بار بار نظر کے سامنے رکھا جائے.ایک تو قبلہ وہ ہے جو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے میسر آتا ہے لیکن خدا کی توحید کے قبلے بہت پہلے پڑے ہیں فَأَيْنَمَا تُوَتُوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ ( البقره : ۱۱۲) یہ وہ آیت کریمہ ہے جو اسی مضمون کو بیان فرما رہی ہے کہ جہاں تک سمجھ آسکے جہاں تک ممکن ہو قبلہ درست کر لیا کرو.کعبہ ہی کی طرف منہ کرو مگر یا درکھو کہ اصل قبلہ خدا کی طرف منہ کرنا ہے.جس طرف بھی تم رُخ کرو گے وہیں تم خدا کو پاؤ گے تو ان معنوں میں توحید کے قبلے چاروں طرف پھیلے پڑے ہیں اور ہر قبلے کا اپنا ایک محاذ ہے اور ہمیں جماعت کو بار بار یاد دہانی کروانی پڑے گی کہ اس محاذ کی طرف بھی رُخ کرو اور خدا کی خاطر یہاں بھی جہاد کرو اور اس جہاد کی طرف بھی رخ کرو اور خدا کی خاطر یہاں بھی جہاد کرو اور اس تیسرے اور چوتھے اور پانچویں اور چھٹے اور ساتویں محاذ کی طرف بھی رُخ کرو کیونکہ ہر طرف ایک ہی خدا کا قبلہ ہے جس کی طرف منہ کرتے ہوئے تم نے اسلام کا عظیم جہاد کرنا ہے.پس سپین کے جہاد کو بھی بھلانے نہیں دینا اسے نظر انداز نہیں کرنا کسی ایسی فائل میں اسے دفن نہیں کرنا جس کی طرف پھر مدتوں نظر نہیں پڑتی.بار بار یاد کروانا میرا کام ہے اور میں
خطبات طاہر جلدا 389 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء یقین رکھتا ہوں کہ بار بار اس یاد دہانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ دلوں میں تحریک پیدا فرمائے گا اور نئے واقفین بڑے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کریں گے.پس اہل یورپ کے لئے خصوصیت سے ایک اچھا موقع ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اب وہاں ٹھہرنے کی ایسی سہولت مہیا ہو گئی ہے کہ مارکیٹ ریٹ پر ویسی سہولت آپ کو اتنی کم قیمت میں میسر نہیں آسکتی اور جو مسجد کے پاس ٹھہرنے کا لطف ہے وہ اس کے سوا ہے یعنی ان سب باتوں پر اضافہ ہے.وہاں سے آپ کو وقف عارضی کے نئے پروگرام ملیں گے اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے با قاعدہ ایک منصوبہ ان کو سمجھایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں اب جب واقفین عارضی وہاں پہنچیں گے تو ان کو اپنے سامنے ایک ٹھوس پروگرام دکھائی دے گا اور اس کے لئے ہر قسم کی سہولتیں ان کو مہیا کی جائیں گی یعنی لٹریچر وغیرہ کی معلومات کی سہولتیں اور اس وقت تک انشاء اللہ بعض علاقوں میں ہمارے بعض ایسے رابطے بھی قائم ہو چکے ہوں گے کہ واقفین عارضی جب وہاں جائیں تو اپنے آپ کو بالکل اجنبی علاقوں میں نہ پائیں گے بلکہ احمدیت سے تعلق رکھنے والے اور اسلام سے محبت رکھنے والے کچھ گھرانے پہلے سے وہاں موجود ہوں گے جو ان کی تائید کریں گے اور ان کی نصرت کریں گے.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس نئے پروگرام سے پین میں انشاء اللہ تعالیٰ زندگی کی ایک نئی لہر دوڑے گی.جب میں پچھلے دورہ پر گیا تھا تو اس وقت جو احمدی ہوئے تھے وہ اللہ کے فضل کے ساتھ بہت ہی ثابت قدم ہیں اور ان میں سے بعض تو ایسے ہیرے اور جواہر بن کر چمکے ہیں کہ بار ہارشک کے ساتھ میں ان کا ذکر کرتا رہا.ایک عورت سولیداء جو ملک کی مشہور شاعرہ تھی وہ احمدی ہوئی اس نے جماعت کے لٹریچر کا مسلسل اپنی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور نہایت اعلیٰ زبان ہے اور دن رات وہ خدمت میں مصروف رہتی ہے.خود ہی ترجمے کرتی ہے، پھر خود ہی ٹائپ کرتی ہے اور اسے احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے ایسی محبت ہے کہ وہاں مجالس میں بھی جب میں عیسائیت اور اسلام کے موازنے کرتا تھایا اور ایسی باتیں بیان کرتا تھا تو اس پر جب نظر پڑتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے اسلام کے عشق میں وہ پکھلی جارہی ہے.ان کے دو بچے بھی ہیں جو بیمار اور معذور بچے ہیں مگر اس کے باوجود یہ اتنا وقت خدمت دین کے لئے نکالتی ہے.ایک اور صاحب تھے جو فرنیچر کی ایک بڑی دوکان کے مالک تھے وہ بھی ایک دفعہ تشریف
خطبات طاہر جلد ۱۱ 390 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء لائے ہوئے تھے.انہوں نے تین دن کے قریب وہاں قیام کیا اور ان کی حالت میں بھی میں نے غیر معمولی پاک تبدیلی دیکھی.تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی اہل سپین اب پہلے کی نسبت بڑھ کر اسلام کی آواز پر لبیک کہیں گے ماحول ایسا دکھائی دیتا ہے.میں نے سوال و جواب کی جتنی مجالس وہاں منعقد کی ہیں اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اب ان لوگوں میں بہت جلد تبدیلی کے امکانات پیدا ہور ہے ہیں.ایک مجلس میں عیسائیت کو خالصہ عقلی لحاظ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ وہ چونکہ لمبے عرصہ سے متشد دعیسائیوں کا ملک رہا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ ناراض ہو جائیں بعض لوگ ناپسندیدگی کے اظہار کے طور پر مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں لیکن ہر موضوع پر تفصیلی بحث کے بعد جب میں سوالات کا موقع دیتا تھا تو اکثر سر جھکے رہے اور اگر کسی نے سوال کیا بھی تو وہ اس کا جواب سنتے ہوئے بہت جلدی تائید میں سر ہلانے لگ گیا اور جب وہ دوروزہ مجالس اپنے اختتام کو پہنچیں اور میں نے پھر اعلان کیا کہ کوئی سوال کرنا ہو تو اب پھر بتا ئیں تو کوئی شخص بھی کوئی سوال پیش نہ کر سکا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ سب مطمئن ہیں.بعض خاندان بطور خاندان آئے ہوئے تھے.وہ ایک مجلس کے بعد بہت دیر تک وہاں رہے.وہیں کھانا کھایا اور بہت گہری دلچسپی لینے لگے تو اس لئے یہ مشاہدہ تو میں خود کر چکا ہوں کہ سپین میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں اور اسلام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے.اور امید ہے کہ واقفین عارضی بھی انشاء اللہ تعالیٰ اس عظیم موقع سے فائدہ اُٹھائیں گے.درخت کبھی ایسی حالت میں بھی ہلائے جاتے ہیں جب پھل نہیں ہوتا کبھی ایسی حالت میں بھی کہ پھل کچا ہوتا ہے اور کبھی ایسی حالت میں بھی کہ پھل پکا ہوتا ہے.ہم بچپن میں جب شکار وغیرہ پر جاتے تھے تو کئی جگہ بیریوں کو ہلاتے تھے.پھل جب کچے ہوتے ہیں تو وہ اُترتے نہیں اور اگر اُترے بھی تو کوئی تلخ پھل ہاتھ آتا ہے لیکن جب پھل تیار ہوتو ذرا سا جھکور نا دینے سے ہی کثرت سے پھل گرتا ہے کہ انسان سے سنبھالا نہیں جاتا.تو مجھے لگ رہا ہے کہ اب اللہ کے فضل کے ساتھ بہت سے ممالک میں پھل پکنے لگے ہیں اور ہمیں ان کو جھنجوڑ کر پھل اکٹھا کرنے والے کثرت سے درکار ہیں.جب پھل پکنے کا وقت آتا ہے تو پھل کا سنبھالنا واقعہ مشکل ہو جاتا ہے.اہل یورپ جانتے ہیں کہ جب یہاں چیریز (Cherries) کے پکنے کا وقت آتا ہے تو زمیندار کس طرح بڑے بڑے بورڈ لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ آؤ جتنا چاہتے ہو تو ڑ کر خود کھاؤ اور جتنے لے کر جاؤ گے صرف اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 391 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء یسے لیں گے.ان کو پتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھل ان سے سنبھالا نہیں جاسکتا.تو یہ پھل تو بہت ہی قیمتی ہے.اس پھل کے لئے ہمیں کثرت سے ایسے واقفین عارضی چاہئیں جو اس پھل کی لذت سے خود بھی وہاں مستفید ہوں اور یہ پھل ایسا ہے جس کو جتنا کھائیں گے اتنا ہی یہ بچتار ہے گا اور دائی ہوتار ہے گا.یہ ایسا پھل نہیں جسے آپ کھا کر ختم کر سکیں لیکن سنبھالنا ضروری ہے.پس اس کو سنبھالنے کے لئے وہ خاندان جن میں سیر کا بھی اور خدمت دین کا بھی جذبہ ہے ان کے لئے ایک بہترین موقع ہے.آخری چند منٹ میں میں روس سے متعلق بھی کچھ توجہ دلانا چاہتا ہوں.خدا کے فضل سے اب روس میں بھی بہت تیزی سے احمدیت میں دلچسپی پیدا ہورہی ہے اور جتنے وفد یہاں سے گئے ہیں وہ بہت ہی مثبت نتائج کی خوشخبریاں دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر وفد کے دورہ کے دوران بڑے بڑے رابطے پیدا ہوئے اور اس دفعہ جب مولوی منیر الدین صاحب شمس گئے ہیں تو کئی جگہ باقاعدہ ٹھوس جماعتیں پیدا ہوئی ہیں.بڑے اچھے اچھے صاحب اثر لوگ احمدیت سے مستقلاً وابستہ ہوئے ہیں اور وہاں جا کر پتا چلا ہے کہ کس طرح غیر معمولی طور پر احمدیت کا پیغام قبول کرنے کے لئے وہاں صلاحیت موجود ہے.بعض لوگوں نے اپنے طور پر جماعت کا لٹریچر وہاں پھیلا نا شروع کیا ہے..U.S.S.R یعنی یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک جو پہلے ہوا کرتی تھی اب یہ ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے یا عملاً ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اس کو عام باہر کی زبان میں Russia کہتے ہیں حالانکہ رشیا ان میں سے صرف ایک ریاست کا نام ہے تو جب میرے منہ سے رشیا نکلے تو مراد یہ ساری ریاستیں ہیں.ان میں جو مسلمان ریاستیں ہیں ان میں تو اس پیغام کے نتیجہ میں ایسا مثبت رد عمل دکھایا گیا ہے کہ کئی اخبارات نے فوری طور پر اسے اپنے اخبارات میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور روس یعنی جو واقعہ رشیا ہے اس میں بھی ایک وسیع چھپنے والے اخبار نے بڑے شوق سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں یہ پیغام اپنے ملک کے لئے شائع کروں گا اور سب کا یہ ردعمل تھا کہ اہل روس کو اس کی شدید ضرورت ہے.وہاں جو جائزے لئے گئے ہیں ان کے نتیجہ میں واقفین عارضی کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ بنتی تھی کہ اگر وہ مثلاً ماسکو جا کر ٹھہریں یا لاعلمی کی حالت میں سفر کریں تو حکومت کا قانون ایسا ہے کہ باہر کے مسافر کو بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے.یعنی ماسکو میں روزانہ ایک سو تھیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 392 خطبہ جمعہ ۵/ جون ۱۹۹۲ء سے ایک سو چالیس ڈالر پر روزانہ ہوٹل ملے گا اور لازماً اس کو یہ بیرونی کرنسی میں ادا کرنا ہوگا تو یہ اکثر واقفین عارضی کی توفیق سے باہر بات تھی.اس کا حل یہ کیا گیا ہے کہ ماسکو میں ہم نے اپنا ایک فلیٹ لے لیا ہے اس فلیٹ کو بھی اسی طرح جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت سستے کرائے پر واقفین عارضی کے لئے پیش کیا جائے گا.جس نے وقف کرنا ہے وہاں جائے وہاں ہم نے مستقل سٹاف بھی مقرر کر لیا ہے.ایک اچھا انگریزی سمجھنے والا ایک اچھا روسی بولنے والا سکالر جماعت نے وہاں با قاعدہ (Employ) کرلیا ہے.وہ اس فلیٹ میں موجود ہو گا اور آپ کی ہر قسم کی راہنمائی بھی کرے گا اور اس کی وساطت سے دوسری جگہ جو ہمارے روابط ہوئے ہیں وہاں تک پہنچنا آسان ہو گا.کم سے کم روپیہ خرچ کر کے سفر کرنے کے متعلق وہ ہر قسم کی مدد کرے گا اور اس کے لئے یہاں بھی معلومات اکٹھی کی جاچکی ہیں.یعنی وہ صاحب اگر وہاں ہوں یا نہ ہوں اس سے قطع نظر فلیٹ کی چابی یہاں تبشیر سے حاصل کریں اور وقف عارضی کا گروپ سیدھا ماسکو جا کر تسلی سے ٹھہرے.اگر وہ ہمیں ڈالر روزانہ پر کمرہ لے لیں تو کہاں یہ نہیں ڈالر اور کہاں ڈیڑھ سوڈالر روزانہ اور اگر کسی میں توفیق کم ہو تو اس سے بھی سستا کیا جا سکتا ہے مگر سستا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ جماعت نے تو مستقلاً اس پر خرچ کیا ہے.اس کی بجلی ، پانی وغیرہ ہر چیز کا خرچ ہوگا ، گیس کی سہولت ہے، ٹیلی فون کی سہولت ہے سینٹر میں واقع ہے.اگر کوئی اس قسم کی سہولت والا مکان وہاں کرایہ پر عارضی طور پر لے تو اسے روزانہ دو اڑھائی سو ڈالر دینے پڑیں گے.بہر حال یہ روپیہ زیر بحث نہیں ہے.میں تو یہ سمجھا رہا ہوں کہ واقفین عارضی کی سہولت کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ کم سے کم خرچ پر ان کا سفر مکمل ہو اور زیادہ سے زیادہ معلومات ان کو سفر اختیار کرنے سے پہلے مہیا کر دی جائیں.اس سلسلہ میں لمبی محنت کے بعد اب ہم نے تبشیر میں بہت سی معلومات اکٹھی کر لی ہیں.بہت سے روابط اور ان کے پتا جات اکٹھے کر لئے گئے ہیں.روسی زبان میں لٹریچر شائع ہو چکا ہے اور مزید ہورہا ہے اور جتنا شائع ہوا ہے بہت ہی مفید پایا گیا ہے.تو اب ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اور ہر قسم کے ایسے جہاد کے سامانوں سے مرقع ہو کر واقفین روس جا سکتے ہیں اور مختلف علاقوں میں جا کر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت دین کا کام سرانجام دے سکتے ہیں.اس ضمن میں ایک آخری بات میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ وہاں رابطوں کے لئے ہمیں تبلیغ
خطبات طاہر جلدا 393 خطبہ جمعہ ۵/ جون ۱۹۹۲ء کے علاوہ بھی کچھ باتیں کرنی ہوں گی.روس اس وقت خطر ناک اقتصادی بدحالی کا شکار ہے اور باہر کی دنیا سے جو تاجر جا رہے ہیں وہ اکثر لوٹنے کی نیت سے جارہے ہیں.میں احمدی تاجروں کو یا واقفین عارضی کو جو تاجر نہ بھی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ اگر وہ وہاں جا کر کچھ تجارتی رابطے قائم کر سکتے ہوں تو اس کے کئی فوائد ہیں.ایک تو یہ ہے کہ جو سفر خالصہ دین کے لئے اختیار کیا گیا ہوا گر اس کے نتیجہ میں دنیا بھی حاصل ہو جائے جو پھر دین کی خدمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے اچھا سودا اور کیا ہوسکتا ہے اور وہاں اس کے بہت مواقع ہیں.جو معلومات ہمیں میسر آسکی ہیں وہ ہم نے اکٹھی کی ہیں اور تاجر ،Industrialist اور اس قسم کے دوست جو مثلا ہوٹل کا کام جانتے ہوں ان کے وہاں جا کر ذرائع معاش حاصل کرنے کے بہت مواقع ہیں اور حاصل کرنے سے زیادہ مہیا کرنے کے بہت مواقع ہیں اور مجھے اس وقت دوسرے حصہ میں زیادہ دلچسپی ہے.اگر احمدی تاجر اس نیت سے وہاں زیادہ روابط پیدا کرے اور احمدی کارخانہ دار اس نیت سے وہاں کا رخانہ بنائے اور ریسٹوران کا تجربہ رکھنے والے احمدی اس نیت سے وہاں ریسٹوران کھولیں کہ مقامی طور پر لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر بنائی جائے تو جہاں احمدیت قائم ہو چکی ہے وہاں احمدیت کو خدا کے فضل سے بہت سی مالی سہولتیں حاصل ہو جائیں گی اور انتہائی غربت کی حالت میں بھی ان لوگوں نے چندے شروع کئے ہیں تو اگر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت سے ان کو دین کے علاوہ دنیا بھی مل جائے تو بہت بڑا استحکام حاصل ہو گا اور ان کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کی توجہ بھی پیدا ہوگی اور جب بھی آپ ایسے ملک سے تجارت کرتے ہیں جیسا روس اس دور میں ہے تو اس میں تجارت کرنے والے کے لئے نقصان کا کوئی احتمال نہیں رہتا.کچھ نہ کچھ فائدہ اس کو ضرور پہنچے گا لیکن اگر آپ اپنے فائدہ کو پیش نظر نہ رکھیں اور دین کی خاطر ضرورت مند لوگوں کے فائدہ کو پیش نظر رکھیں تو دنیا کا فائدہ تو ہوگا ہی روحانی طور پر عاقبت کا فائدہ بہت ہوگا.اس دنیا میں بھی آپ کی عاقبت سنور جائے گی.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.ان دونوں تحریکوں میں بھر پور حصہ لیں.اب وقت آگیا ہے کہ جو واقفین عارضی دیر سے منتظر تھے وہ اب میدان میں جھونکنے کا لفظ میں بول رہا تھا رک گیا لیکن اب میں ان کو اس نیت سے کہتا ہوں کہ اگر یہ خدا کی خاطر بھی ہے تو ہمیں اپنی جان، مال، عزتیں واقعہ اس میں جھونک دینی چاہئیں لیکن یہ بھٹی ایسی بھٹی ہے جسے خدا تعالیٰ نے گلزار بنانے کا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 394 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۹۲ء فیصلہ کر لیا ہے اس لئے بے دھڑک ہو کر اس میں چھلانگیں لگا ئیں.آپ یقینا اسے گزار پائیں گے اور خدا کی رضا کی ابدی جنتیں حاصل کرنے کی جگہ آپ کو میسر آئے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 395 خطبه جمعه ۱۲ جون ۱۹۹۲ء دعاؤں کی قبولیت کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں.اپنے گھروں کو جنت نشاں بنا ئیں.(خطبه جمعه فرموده ۱۲ جون ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَا وَإِلَيْكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَ عُمْيَانًا وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا أُولَبِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ يُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَمَّا خَلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (الفرقان: ۷۸۷۱) پھر فرمایا:.گزشتہ ایک لمبے عرصہ سے کئی خطبات میں خصوصیت کے ساتھ عائلی زندگی کو بہتر بنانے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 396 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء سے متعلق نصیحتیں کرتارہا ہوں اور اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سے مخلصین ہیں جنہوں نے ان نصیحتوں کی طرف کان دھرے اور اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ ان باتوں کو قبول کر کے اپنی گھریلو زندگی کو جنت نشان بنانے کی کوشش کی اور مختلف خطوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے مردوں نے بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور عورتوں نے بھی ایسا ہی کیا لیکن اس کے باوجود آج بھی ایسے ہی تکلیف دہ واقعات نظروں کے سامنے آتے رہتے ہیں جیسے کل آیا کرتے تھے.تعداد میں کچھ کمی ہو گئی ہوگی، کچھ لوگوں نے اصلاح کرلی ہوگی اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن احمد یوں میں اب بھی ایسے خاوندوں کی بھی اور ایسی بیویوں کی بھی ایک تعداد موجود ہے جن کی طرز عمل گھروں کو جنت بنانے والی نہیں بلکہ جہنم بنانے والی ہے اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ عائلی زندگی کی خرابیاں ساری قوم پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ایک ہی نسل پر نہیں بلکہ آئندہ کئی نسلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں.اس بات کو معمولی بات نہ سمجھو گھر ایک ایسی چیز ہے جس کی طرف انسان جب لوٹ کر آتا ہے اگر وہ مرد ہے تو وہ بھی اس تصور سے گھر کی طرف لوٹتا ہے کہ وہاں جا کر تسکین ملے گی دنیا کے جھنجوں میں پڑنے سے جو تھکاوٹ ہوگئی ہے وہ دور ہوگی اور راحت اور تسکین کے سامان میسر آئیں گے.عورت بھی اسی خیال سے گھر کی طرف لوٹتی ہے یا اسی خیال سے اس کو بھی گھر کی طرف لوٹنا چاہئے مگر ایسے گھر جہاں میاں بیوی میں جھگڑے چلتے ہوں، ایسے گھر جو سیاست کا شکار ہوں جہاں صرف میاں بیوی کے آپس کے اختلاف ہی کارفرما نہ ہوں بلکہ ان کے رشتہ داروں کی دخل اندازیوں کی وجہ سے کئی قسم کی سیاستیں کھیلی جاتی ہوں ایسے گھر ہمیشہ جہنم کا نمونہ بنے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بہت گہرے اور وسیع نقصانات ہوئے ہیں.میں دوبارہ ان کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ اس سے پہلے تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں ، ایک گھر ہی نہیں اُجڑ تا بلکہ نسلیں اُجڑ جاتی ہیں، ارد گرد کے رہنے والوں پر بڑا اثر پڑتا ہے، معاشرے پر بداثرات پڑتے ہیں اور کئی قسم کی بد عادتیں قوم میں پھیل جاتی ہیں، ایسے لوگوں کے اندر کوئی کشش نہیں رہتی جن کی عائلی زندگیاں جہنم کا نمونہ ہوں اور لوگ قریب آنے کی بجائے ان سے دور بھاگتے ہیں.میں نے یہ نصیحت بھی کی کہ اگر اصلاح آپ کے بس میں نہیں ہے تو قرآن کریم نے ایک دعا سکھائی ہے جو ایسی مؤثر ہے کہ جہاں جہاں عائلی خرابیوں کے اثرات پہنچتے ہیں وہاں وہاں اس دُعا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 397 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء کا اثر تریاق کے طور پر سرایت کر جاتا ہے.یہ آئندہ نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور موجودہ زمانے کو بھی ہر قسم کی خرابیوں کا توڑ اس دعا میں سکھایا گیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کے با وجود کئی گھر بدنصیبی سے اس دعا کے فائدے سے محروم رہے.میں نے اس خیال سے دوبارہ ان آیات پر غور کیا کہ ایسی مؤثر دعا قبول کیوں نہیں ہو رہی یا کم سے کم بعض گھروں کی صورت میں نہیں ہو رہی تو معرفت کے بعض ایسے سکتے ہاتھ آئے کہ میں نے سوچا کہ جماعت کو بھی ان میں شریک کروں.قرآن کریم نے جہاں جہاں دعائیں سکھائی ہیں وہاں ان دُعاؤں کا ایک ماحول بھی بتایا ہے.جیسے بیج بونے کے موسم ہوتے ہیں، جیسے فصلیں کاٹنے کے موسم ہوتے ہیں اور انہی موسموں میں بیج بوئے جاتے ہیں جو بونے کے موسم ہیں اور انہی موسموں میں فصلیں کائی جاتی ہیں جو کاٹنے کے موسم ہوتے ہیں وہ موسم ایک زمیندار کے لئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کب کاشت کرنی ہے ، کب پھل کاٹنا ہے پھر زمینیں مختلف قسم کی ہیں آب و ہوا کا اختلاف ہے.یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ کون سا پودا کس جگہ صحیح معنوں میں کاشت کیا جا سکتا ہے یا نصب کیا جا سکتا ہے اور کس فضا میں وہ پھل دے گا.تو قرآن کریم کی دعاؤں پر جب میں نے اس نقطہ نگاہ سے غور کیا اور توجہ اسی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوئی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر دعا کا موسم بیان فرمایا گیا ہے اس کا پس منظر بیان فرمایا گیا ہے.تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کونسی دعا ئیں کس طرح کی جائیں تو مقبول ہوتی ہیں اور کیوں مقبول ہوتی ہیں.کیا باتیں ایسی ہیں کہ اگر وہ نہ پیدا ہوں تو دُعاؤں میں اثر پیدا نہیں ہوتا.اصولی طور پر بھی دعا سے متعلق نصیحتیں موجود ہیں کہ اگر دعا کرنی ہے تو مثلاً نیک اعمال کے ذریعہ اس کو طاقت دو.کلمہ طیبہ دعا کی صورت میں بھی اُٹھتا ہے لیکن خدا کے دربار تک تب پہنچتا ہے اگر عمل صالح ، نیک اعمال اُسے پمپ کر کے اوپر بھیج رہے ہوں اگر نیک اعمال اس میں اُڑنے کی طاقت ہی پیدا نہ کریں تو جانور خالی پروں سے تو نہیں اڑ سکتا اس کے اندر طاقت ہونی چاہئے.پس دعا کا مضمون بہت ہی دلچسپ ہے اور قرآن کریم میں جس رنگ میں بیان ہوا ہے اس کی روشنی میں دعاؤں کی مقبولیت یا نا مقبولیت سے متعلق کوئی پہلو ایسا نہیں جو قرآن نے پیش نہ فرمایا ہو.اب یہی عائلی زندگی کی بحث ہے.میں نے اس سے پہلے کی چند آیات اور اس کے بعد کی آیات پچھنی ہیں جن میں یہ آیت دُعا کے طور پر نصب ہے.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 398 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کہ خدا کے وہ بندے جن کا ذکر ہو رہا ہے یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جوڑوں سے خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں اپنے ساتھیوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما وَذُريَّتِنا اور آئندہ جونسلیں جاری ہوتی ہیں ان سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فر ما وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا اور ہمیں متقیوں کا امام بنانا.اس دعا کا اثر بہت وسیع ہے اور عائلی زندگی سے تعلق رکھنے والے سارے مضامین اس کے تابع آجاتے ہیں.کچھ کے متعلق میں نے پہلے ذکر کیا تھا.اب میں آپ کو بتا تا ہوں کہ میاں بیوی میں بہت سے اختلافات مثلاً بچوں کے متعلق پیدا ہو جاتے ہیں اور بچوں کی تربیت کے متعلق بھی جو اختلافات ہیں وہ بعض دفعہ بہت سخت سنگین صورت اختیار کر جاتے ہیں.بعض دفعہ بچیوں کی شادیاں نہیں ہو رہی ہوتیں اور اس کی وجہ سے ایک مصیبت بن جاتی ہے، بعض دفعہ شادیاں کی جاتی ہیں تو اس انداز سے نہیں کی جاتیں جو خدا کو منظور ہے اور اس کے نتیجہ میں اپنا گھر بھی اور دوسروں کا گھر بھی جہنم بن جاتا ہے تو اس دُعانے ہمیں یہ سکھایا کہ اے خدا ! ہمیں ایک دوسرے سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما بلکہ اپنی اولاد کی طرف سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما.وہ لوگ جو اولاد کے حق میں یہ دُعا کرتے ہیں ان کو اس دعا کے سیاق و سباق پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ خدا کے نزدیک آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی کیا ہے ورنہ ایک انسان اس نیت سے یہ دعا کرے کہ اے خدا! میری اولا د بڑے بڑے مراتب تک پہنچے ، بڑی دولتیں سمیٹے خواہ رشوت کھا کر ہی وہ امیر بنی ہو تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی.اس کی نیت میں اگر فتور ہے، اگر وہ آنکھوں کی ٹھنڈک کی تعریف ہی نہیں سمجھتا تو ہزار یہ دُعا کرے وہ قبول نہیں ہو سکتی.اس دُعا کا ایک موسم ہے جو اس کے ساتھ بیان ہو چکا ہے.اس موسم کے پیش نظر یہ دعا مانگی جائے گی اور اس موسم میں جب مانگی جائے گی تو ضرور قبول ہوگی.اس میں آنکھوں کی ٹھنڈک کی تعریف بھی بیان فرما دی ہے.ان لوگوں کی محبتیں کس چیز میں ہیں.ان کی چاہتیں کیا ہوتی ہیں ، ان کی آرزوئیں کیا ہیں ، ان کو کیا چیز پسند ہے؟ یعنی وہ مومن جس کی پسند یہ ہو، جن کی چاہتیں یہ ہوں ، جن کی آرزوئیں یہ ہوں ، وہ جب خدا سے دُعا مانگتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما تو پھر ان کو یہ ٹھنڈک عطا کی جاتی ہے اور ضرور کی جاتی ہے.اب بہت سے ایسے جھگڑے ہیں جس میں میں سمجھتا ہوں کہ اس دُعا کے مضمون کو نہ سمجھنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 399 خطبه جمعه ۱۲ جون ۱۹۹۲ء کے نتیجہ میں اعمال بگڑتے ہیں اور پھر ایک انسان جتنا چاہے یہ دُعا مانگے وہ دُعا قبول ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر اعمال کا رُخ مشرق کی طرف ہے اور دُعا کا رُخ مغرب کی طرف ہے تو نتیجہ وہی رہے گا جو اعمال کا رُخ ہے کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ زبردستی کسی قوم کی تقدیر نہیں بدلا کرتا.عمل بتاتے ہیں کہ اصل نیست کیا ہے اور عمل کے بغیر دعا رفعت نہیں پاتی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عمل مشرق کا ہو تو مغرب کی طرف کی دُعا کیسے آگے بڑھ سکتی ہے.وہ بھی گھسیٹتی ہوئی مشرق کی طرف نکلتی چلی جائے گی اور بالکل الٹ نتیجہ پیدا کرے گی.میرے سامنے ایسے تکلیف دہ واقعات آتے رہتے ہیں.میں چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور اس کے بعد میں آپ کو سمجھاؤں گا اور آپ خود ہی سمجھیں گے کہ جن لوگوں کے یہ اعمال ہوں ان کی دعا ئیں ان کے حق میں کیسے پوری ہوسکتی ہیں کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا - بعض خاندان ایسے ہیں جن میں سیاست کے رشتے ہوتے ہیں.بہنیں آپس میں مل کر سر جوڑتی ہیں ، ساس بھی شاید شامل ہو جاتی ہو بعض اوقات بھائی بھی شامل ہو جاتے ہیں اور ایک قسم کا نجوٹی ہوتا ہے اور بہت سے ایسے گھر ہیں جہاں رشتوں سے پہلے ایسی سیاستیں برتی جاتی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ امیر کی لڑکی لے کر آئیں گے اس کے نتیجہ میں بیٹے کا مستقبل بھی بنے گا اس کے لئے کارلی جائے گی اس کے لیے فریج مانگے جائیں گے.شروع میں بے شک نرمی دکھاؤ، بے شک شروع میں یہی کہو کہ جی ہمیں تو بیٹی چاہئے اور کچھ نہیں چاہئے اور جب یہ وعدے کر لو اور اگلے کو دھوکہ دے لو تو پھر جب بیٹی قابو آئے گی تو پھر اس کے ذریعے جیسے لیور ہاتھ آجاتا ہے اس کے لئے دباؤ ڈالیں گے اور کہیں گے کہ اب یہ کر واب وہ کرو.بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ گیا ہوا ہے مگر جب تک تم مدد نہ کرو گے اس کا گزارا ہی نہیں ہو سکتا نہیں کرو گے تو تمہاری بیٹی کی زندگی جہنم بنے گی.یہ باتیں جو میں بیان کر رہا ہوں یہ کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں واقعہ خاندانوں میں ایسی بدبختی کی باتیں ہوئی ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہر طرف درد بکھر گیا ہے، عذاب پیدا ہو گیا ہے، ایک معصوم بچی کی زندگی برباد، اس کے رشتہ داروں کی زندگی برباد.ایسے ایسے معزز شریف خاندانوں میں ایسی باتیں ہوئی ہیں جن کو میں دیر سے جانتا ہوں.ان کے اندر خدا کے فضل سے تقویٰ ہے، نیکی ہے، سادگی ہے اور اس سادگی کی وجہ سے وہ فتنے کی ایسی باتوں میں مبتلا ہو گئے اور دھوکا میں آگئے اور اب اُن کی بچی کی زندگی عذاب بنی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 400 خطبه جمعه ۱۲ جون ۱۹۹۲ء ہوئی ہے سارے گھر والوں کے لئے عذاب بن گئی ہے.اب ایسا خاندان اگر یہ دعائیں کرے گا کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ اے خدا! ہماری بیویوں سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، ہمارے خاوندوں سے ٹھنڈک عطا فرما، ہماری اولادوں سے ٹھنڈک عطا فرما تو عملاً وہ جنت مانگ رہے ہیں لیکن انکے عمل جہنم مانگ رہے ہیں زبان جنت مانگے گی تو خدا زبان کی بات نہیں مانے گا عمل کی بات سنے گا اور جیسا کہ قرآن کریم نے اس بات پر خوب اچھی طرح روشنی ڈال دی ہے کہ جو نیتوں کا پھل ہے وہ ان کو ملے گا اور اعمال کے نتیجے ظاہر ہوں گے.ایسے لوگوں کو قُرَّةَ أَعْيُنِ کی بجائے آنکھوں کا عذاب نصیب ہوگا اور آج اگر انہوں نے کسی کو دھوکا دے بھی دیا تو کل دنیا ان کو دھو کے دے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ یہ دھو کے الٹا کرتے ہیں آگے بدنسلیں پیدا ہوں گی کئی قسم کے بہت سے عذاب ہیں جو یہ لوگ مستقبل کے لئے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لئے شادیاں کرتے ہیں ، ایسے مرد بھی ہیں صرف عورتوں کا قصور نہیں.ایسے مرد ہیں جو مثلاً انگلستان ، جرمنی یا دوسرے ملکوں میں آتے ہیں اور پناہ ڈھونڈتے ہیں یا کوئی اور بہانے تلاش کرتے ہیں کہ انہیں یہاں Nationality مل جائے مگر ان کی کوئی پیش نہیں جاتی پھر وہ ترکیب سوچتے ہیں کہ شادی کی جائے اور بعض دفعہ ایسی جگہ شادی کرتے ہیں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اگلے بھی مجبور ہیں بعض بچیوں کی شکلیں خراب ہوتی ہیں.بعض کی عمریں زیادہ ہو رہی ہوتی ہیں اور وہ اٹکی ہوئی ہوتی ہیں.بیچارے ماں باپ بڑی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں.وہ بھی ایسی صورت میں شادی کر دیتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اگر وہ غور کریں تو ان کو دکھائی دے سکتا ہے کہ یہ لڑکا مطلب پرست ہے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے شادی کر رہا ہے.اس وقت جان کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں.ایک چیز ایک معمولی عقل والے انسان کو دکھائی دینی چاہئے لیکن وہ نہیں دیکھتے اور لڑ کا بھی بدنیتی اور بدبختی سے کچھ دیر کے بعد جب اس کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو ان کی بیٹی کو طعنے دینے لگتا ہے کہ تو بدصورت ہے، تو ایسی خبیث ہے، تو ایسی ہے کہ تجھ سے اور کس نے شادی کرنی تھی وہ کہتی ہے کہ پھر مجھ سے تو نے کیوں کی، میں ویسی ہی ہوں جیسی تم لے کر آئے تھے پہلے تو نے مجھے دیکھا تھا اگر یہ بدیاں ایسی ہیں جن سے تمہاری زندگی کا گزارہ نہیں ہو سکتا تھا تو کیوں مجھے ماں باپ کے گھر سے اکھیڑا.تو کہتا ہے مجھے تو بہت مل سکتی تھیں اگر میں نے Asylum لینا تھا تو
خطبات طاہر جلدا 401 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء کوئی گوری نہ گھر میں اُٹھا لاتا.اس لئے مجھے تمہاری کیا ضرورت تھی؟ تم تو ہو ہی بد بخت اور بدنصیب.اب سوال یہ ہے کہ ایسا شخص اگر ایک گھر کی زندگی برباد کرتا ہے تو وہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے جنت عطا کرے گا.ایسے لوگوں کے لئے بسا اوقات اس دنیا میں بھی جہنم کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.یہ بہت بڑا گناہ ہے.اول تو یہ کہ انسان خود اپنی شکل وصورت نہیں بنا سکتا.یہ بھی درست ہے کہ طبیعت پر بھی جبر نہیں کر سکتا اگر ایک شخص مزاج کا حسن پرست ہے یا حسن پرست نہ سہی اس کے مزاج میں کم سے کم بعض ایسی لطافتیں پائی جاتی ہیں بعض قسم کی شکلوں سے چاہیں بھی تو گزارہ نہیں کر سکتا.یہ ایسی چیز نہیں ہے جو شادی سے پہلے اس کے علم میں نہ ہو.اپنے آپ کو وہ جانتا ہے جس سے شادی کرنا چاہتا ہے اس کو دیکھا بھالا ہے جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا فرض ہو جاتا ہے کہ جس قسم کی بھی چیز ہے لازماً اس کے ساتھ آخر تک گزارہ کرے اور اگر نہیں کر سکتا تو عزت واحترام کے ساتھ پوری کوشش کے بعد نا کامی دیکھتے ہوئے اسے اس طرح رُخصت کرے کہ اس کی عزت پر ، اس کے ماں باپ کی عزت پر حرف نہ آئے لیکن یہ تو چند کوڑیاں کمانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ چاہے خاندانوں کے سکون برباد ہو جائیں انہوں نے کسی قوم میں Asylum ضرور لینا ہے خواہ شادی کے بہانے ملے یا کسی اور بہانے.یہ اگر اس وہم میں مبتلاء ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت ملے گی جزا ملے گی ان کی دُعائیں قبول ہوں گی ان کی آئندہ جب بھی شادی کریں گے بیویوں کی طرف سے یا اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک ملے گی تو یہ سب فرضی قصے ہیں جھوٹ ہے.ایسے لوگوں کی دُعائیں مقبول نہیں ہوتیں جو دعاؤں کے آداب سے ناواقف ہیں ان دعاؤں کے جو تقاضے ہیں ان کے ساتھ جولو از مات ہیں ان سے بے پرواہی کرتے ہیں.اس دعا کے لوازمات ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں اور وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جس شخص نے ان لوازمات کا جوان دُعاؤں کے گرد لپیٹے ہوئے ہیں جو ان کا موسم بنارہے ہیں اس لحاظ سے کیا لازماً اس کی یہ دعا قبول ہوگی؟ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا حق ادا کرتے ہوئے ان لوازمات کو پورا کرتے ہوئے کوئی دعا مانگے اور خدا اس کو رد کر دے.جن کی بھی مقبول ہوئی ہیں اسی طرح مقبول ہوئی ہیں اور جو ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا وہ فرضی جنت میں ہے کہ میری دُعا قبول ہو رہی ہے یا میں نے دُعا کا حق ادا کر لیا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ ނ 402 خطبه جمعه ۱۲ جون ۱۹۹۲ء یہ بہت لمبا مضمون ہے اس میں سے میں نے چند آیات جو ساتھ جڑی ہوئی ہیں وہ میں نے چنی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَ ولَيْكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا بہت سے لوگ ہیں جو گناہوں میں ملوث رہتے ہیں، بد دیانتیاں کرتے ہیں، خیانتیں کرتے ہیں ان کی سزا کا اس سے پہلے ذکر ہے فرمایا لیکن مایوس نہیں ہونا چاہئے ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو تو بہ کرتے ہیں ان کا استثناء ہے.اللہ تعالیٰ ان تو بہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اگر وہ اخلاص سے توبہ کریں.إِلَّا مَنْ تَابَ وَأُمَنَ پھر از سر نو ایمان لائیں.پہلے اپنی بداعمالیوں سے تو بہ کریں پھر حقیقی خدا پر ایمان لائیں جو تو بہ کے بعد ظاہر ہوتا ہے اس پہلے ایک فرضی خدا ہے جس کی عبادت کی جارہی ہے اس پر ایمان لائیں.وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا اور توبہ کے بعد بچے خدا پر ایمان لانے کے نتیجہ میں نیک اعمال ضرور ظہور پذیر ہوتے ہیں وَ عَمِلَ عَمَلًا اس کا طبعی نتیجہ ہے.فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا یہی وہ شخص ہے جو تو بہ میں اللہ کی طرف یوں جھپٹتا ہے جیسے بچہ ماں کی گود کی طرف جاتا ہے مَتَابًا کہتے ہیں یہی کچی تو بہ ہے اسی کا نام تو بہ ہے، اس طرح یہ لوگ تو بہ کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف لپکتے ہیں فرمایا وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ ان کی بعض اور صفات ہیں جو تو بہ کر لیتے ہیں جھوٹ نہیں بولا کرتے.اب ایسا معاشرہ جس میں رات دن جھوٹ بولے جارہے ہیں، فریب کاری سے کام لیا جارہا ہے وہ خود بخود مستی ہوتا چلا جا رہا ہے.یہ اِلَّا جو ہے ایک طرف بدیوں سے استثناء پیدا کر کے نیکیوں کا ذکر کرتا ہے اور یہ نیک لوگوں کے لئے خوشخبری ہے اور دوسری طرف از خودان کو جو اس استثناء کے اندر ہیں محفوظ نہیں ہوتے ، نکال کر باہر پھینکتا چلا جاتا ہے.فرمایا وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزور یہ وہ لوگ ہیں جو پھر جھوٹ نہیں بولتے وَاِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَا ماوه جب لغو باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو ان میں ملوث نہیں ہوتے.عزت کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں، اپنا دامن بچاتے ہوئے وہاں سے نکل جاتے ہیں وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ یہ وہ لوگ ہیں ان پر جب ان کے رب کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا
خطبات طاہر جلدا 403 خطبه جمعه ۱۲ جون ۱۹۹۲ء صُمَّا وَ عُمْيَانًا وہ اندھوں اور بہروں کی طرح ان سے سلوک نہیں کرتے کہ سنی ان سنی کر دیں.اس آیت پر پہنچ کر مجھےسمجھ آئی کہ میں بھی تو آیات پڑھ کر ہی سمجھا تا ہوں ، اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں کہتا تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس کا ذکر فرما دیا تھا کہ تم لاکھ آیتیں پڑھو جو لوگ خود آیتوں سے صاحب بصیرت والا سلوک نہیں کرتے اور ایسے لوگوں والا سلوک نہیں کرتے جو پوری توجہ سے سُنتے ہیں ان کے لئے یہ آیات کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گی ، بے کارجائیں گی.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا یہ سب کرنے والے لوگ وہ ہیں جن کی یہ دُعا قبول ہوتی ہے کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا کہ اے خدا! ہمارے لئے بطور رحمت نازل فرما مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا ہمارے جوڑوں سے اور ہماری اولاد سے قُرَّةَ أَعْيُنِ آنکھوں کی ٹھنڈک وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اور ہمیں ایسی اولاد عطا فرما اور اولاد در اولاد عطا فرما کہ ہم متقیوں کے امام بننے والے ہوں.تو اگر دل میں تقویٰ کی قیمت ہے تو پھر ہی انسان متقیوں کا امام بننے کی دُعا مانگتا ہے اور جو گھر اپنی اولاد میں تقویٰ پیدا نہیں کر رہا اور اس کی لذت تقویٰ کے سوا اور باتوں میں ہے تو اس کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے.جن کے گھروں کی لذتیں دنیا داریوں میں، دنیاوی فوائد حاصل کرنے میں ہیں ان کی شادیاں اسی طرح دنیا کی خاطر ہوتی ہیں اور ایسی شادیوں کے نتیجہ میں یہ دعا بالکل ہی بے حمل اور تمسخر کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے کوئی بھی اس کا فائدہ نہیں ہوتا.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ سے کام لیں ، اپنے معاشرے کو درست کریں، یہ جو ایک دوسرے سے شادی کی دھو کے بازیاں ہیں یا حرص و ہوا میں شادی کرنا جو ہے اس کے بہت بڑے نقصانات ہیں اس کے نتیجہ میں آپ خدا کی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں اور آپ کو علم بھی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو جیسا کہ نصیحتیں کی گئی ہیں ان لوگوں میں شامل ہو جن کا ذکر ہے کہ وہ تو بہ کرتے ہیں اور بچی تو بہ کرتے ہیں اللہ کی طرف جھکتے ہیں اور جس طرح بچہ ماں کی گود میں پناہ مانگتا ہے اس طرح وہ تو بہ کرتے ہوئے اس کی طرف لپکتے ہیں پھر ان میں ایک وقار پیدا ہو جاتا ہے پھر وہ جھوٹ سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کی آیات اُن پر پڑھی جاتی ہیں تو احترام سے ان کو سنتے ہیں، وقار کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کرتے ہیں.جب یہ دُعا کرتے ہیں تو اس دُعا کا لازماً نتیجہ نکلتا ہے اور وہ نتیجہ دہرا ہے.اس دنیا کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 404 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء جزا ہی نہیں بلکہ آخری دنیا کی جزا بھی ہے فرمایا اُو بِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں جنت میں دہری منزلوں والے بلند و بالا مکان عطا کئے جائیں گے.جیسا کہ میں نے ایک دفعہ پہلے بیان کیا تھا کہ ان کی جنت کی ایک منزل دنیا میں بن جاتی ہے یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ جنت میں واقعی دو منزلہ مکان ہوں گے یہ قرآن کریم کا حسن بیان ہے یہ بتانے کے لئے کہ خدا کی رضا کا ایک گھر تمہیں پہلے اس دنیا میں مل چکا ہو گا، جنت میں اس سے بالا مکان ملے گا اس کے اوپر اللہ کی رضا کی ایک اور منزل تیار ہوگی.فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کو دہرے فائدے ہیں اس دنیا کی جنت بھی پا جائیں گے اور اُس دنیا کی جنت بھی نصیب ہوگی جو اس دنیا کی جنت سے بالا تر ہوگی بلند تر ہوگی.اس دنیا کی جنت سے انہوں نے نکالے جانا ہے، ہر انسان نے آخر نکالے جانا ہے.پس فرماتا ہے أُولَبِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے.یہ جو صبر والی دوسری بات ہے یہ بھی عائلی زندگی کو بہتر بنانے والوں کو یاد رکھنی چاہئے.دُعائیں کریں اور دیانتداری کے ساتھ کوشش کریں کہ حالات بہتر ہوں.ایک دوسرے کی کمزوریوں سے در گزر کریں اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں اس کے باوجود پھر بھی صبر کی ضرورت ہوگی کیونکہ بعض عادتیں انسانوں میں اس حد تک داخل ہو چکی ہوتی ہیں کہ وہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں ، بعض مردوں کو بعض عورتوں کی بعض عادتیں پسند نہیں بعض عورتوں کو بھی بعض مردوں کی بعض عادتیں پسند نہیں ہوتیں اور وہ لوگ جو صبر کرنے والے نہ ہوں وہ ہمیشہ ان عادتوں کو اچھالتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو بار بار تنگ کرتے رہتے ہیں اور طعنے دیتے رہتے ہیں اور وہ چند معمولی عادتیں ہیں جو ان کی زندگی کو جہنم کا نمونہ بنادیتی ہیں.ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ اور ایسے کمینے خیالات والے لوگ جو ایک دوسرے کی معمولی سی کمزوری سے بھی درگزر نہیں کر سکتے.وہ دعا بھی کریں گے تو ان کو فائدہ نہیں دے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں صبر کا مادہ نہیں ہوتا جنت ان کو ملے گی جو ساتھ صبر کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں.سب کچھ کرنے کے بعد ، کوششوں کے بعد ، دعاؤں کے بعد پھر بھی دیکھیں گے مثلاً عورتیں دیکھیں گی کہ بے چارے مردوں کی بعض کمزوریاں ہیں جو دور نہیں ہو رہیں تو وہ صبر کے ساتھ ان سے گزارہ کریں گی.مرد دیکھیں گے کہ بعض بیویوں کی کمزوریاں ہیں جو دور نہیں ہور ہیں بعض ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتیں.مثلا شکل وصورت سے لازماً وہ شخص جو دُعا
خطبات طاہر جلدا 405 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء کرتا ہے کہ اے اللہ ! کہ میری بیوی کی طرف سے مجھے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرمادہ اگر صبر نہیں کر سکتا تو یہ دعا اس کو کیا فائدہ دے گی.جب بدصورت بیوی پر نظر پڑے گی تو اس کا دل بھڑ کے گا اور جذبات اس کے دل میں اشتعال پیدا کریں گے اور وہ کہے گا کہ یہ میں کس مصیبت میں مبتلا ہو گیا.اب شکل تو بیوی نہیں بدل سکتی عادتیں تو کسی حد تک بدل سکتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقت پسند بنو.زندگی میں تمہیں مکمل جنت نصیب ہو ہی نہیں سکتی لیکن اگر صبر کرو گے تو اس کے نتیجہ میں تمہارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور صبر کرنے والا مشکل حالات میں بھی زیادہ سکون سے زندگی بسر کر سکتا ہے.بعض لوگ غریب ہیں روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور ان کے اندر بے صبری پائی جاتی ہے.ان کے حالات جب بدلتے ہیں ناخوش ہی رہتے ہیں اچھا کھانا مل گیا تو اچھے مکان کے لئے بے چین ہو گئے.اچھا مکان مل گیا تو اس سے بڑے محل کے لئے بے قرار ہو گئے.ہر وقت دل میں ایک کھجلی سی رہتی ہے کہ کچھ کمی ہے جس کو ہم پورا نہیں کر سکتے اور یہ بے قراری ہمیشہ ان کو بے سکون رکھتی ہے لیکن بعض ہیں جو روکھی سوکھی بھی کھا رہے ہیں تو آپس میں اکٹھے بیٹھ کر خدا کا شکر کرتے ہوئے کھاتے ہیں اور اس کی لذت اُٹھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اندر صبر کا مادہ پایا جاتا ہے اور صبر کے نتیجہ میں واقعہ وہ سوکھی روٹی بھی زیادہ مزا دیتی ہے بہ نسبت اس امیر کی مرغن روٹیوں کے جو بے صبرا ہے.تو خدا تعالیٰ نے اس دُعا کی کاشت کے جو موسم بیان فرمائے ہیں اور اس کے پھل لانے کے لئے جو شرائط بیان فرمائی ہیں اُن کا حق ادا کریں پھر دیکھیں کہ خدا کے فضل سے کیسا پاک نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.فرمایا أُولَبِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا ان کو جو بالا جنتیں نصیب ہوں گی ، دومنزلہ مکان نصیب ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دُنیا میں انہوں نے صبر سے کام لیا ہے.جو کچھ ملا اُسی کو جنت بنالیا اور خدا کی رضا پر راضی رہے اس کے بدلے خدا تعالیٰ ان کو دوسری دنیا میں جو جنت دے گا وہ دائی ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا وہ ہمیشہ ہمیش اس جنت میں رہیں گے.حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقَامًا ان کا مستقر بھی اچھا اور مقام بھی اچھا یہاں حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا میں میرے نزدیک مُسْتَقَر سے مراد دنیا کی زندگی کا تجربہ ہے اور مُقَامًا سے وہ آخری دائی قیام گاہ ہے جو جنت میں نصیب ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو دنیا میں
خطبات طاہر جلدا 406 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۹۲ء خدا کی رضا کی خاطر اپنے گھروں سے عارضی طور پر جنت تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے صبر کی وجہ سے ان کی دُعاؤں کی وجہ سے ان کی پاک تبدیلیوں کی وجہ سے ان کو دنیا میں بھی واقعہ ایک جنت عطا کر دیتا ہے لیکن وہ جنت تو مُسْتَقَر ہے، ایک عارضی ٹھکانہ ہے جیسے موسمی پرندوں کا گھر ہولیکن ہم ان کو بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کے لئے ایک دائی جنت بھی بنا رکھی ہے جو ان کا آخری مقام ہے اور وہ اس جنت سے بہت بلند تر ہے جو اس دنیا میں انہوں نے پائی ہوگی اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے.پھر فرمایا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ.ان کو خوب اچھی طرح سمجھا دو کہ اگر تم دُعا نہیں کرو گے جس طرح کہ دُعا کا حق ہے تو پھر خدا کو تمہاری کچھ بھی پرواہ نہیں ہوگی.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو دُعا کا حق اس طرح ادا نہیں کرتے جیسا بیان فرمایا گیا ہے وہ لاکھ کوشش کر لیں خدا کی مدد کے بغیر ان کی دنیا کی زندگی سنور نہیں سکتی اور جس کو دنیا کی جنت نصیب نہیں ہوگی اس کو آخرت کی جنت بھی نصیب نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق عطا فرمائے کیونکہ یہ میرے لئے بہت ہی تکلیف دہ بات ہے کہ مسلسل نصیحتوں کے باوجود آئے دن ایسے خاندانوں کے متعلق جن کو میں دونوں طرف سے جانتا ہوں ایسی خبریں سنتا رہتا ہوں کہ اپنی بے وقوفیوں اور حماقتوں کی وجہ سے یا چھوٹی نظر کی وجہ سے آپ بھی تکلیف میں مبتلا ہوئے اور دوسروں کے لئے بھی عذاب بنا دیا اور آئندہ نسلوں کے لئے بھی انہوں نے جنت کی تعمیر نہیں کی بلکہ اپنے ہاتھوں سے وہ ایسی بنیادیں کھڑی کر گئے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں آئندہ گھروں میں بھی ان کے لئے جہنم ہی ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم آج آنکھیں کھول کر ان آیات کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھیں جو ہم پر پڑھی جاتی ہیں اور اندھوں اور بہروں کی طرح ان سے سلوک نہ کریں اور اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر خدا کا وعدہ ہے کہ دنیا میں بھی جنت نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی جنت نصیب ہوگی اور آخرت کی جنت بلند تر اور دائی اور ہمیشہ رہنے والی ہوگی اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 407 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات کا عرفان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سب سے بڑھ کر حاصل ہوا.دَنَا فَتَدَٹی کے نتیجہ میں آپ شفیع الوری بن گئے.خطبه جمعه فرموده ۱۹ جون ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوى ) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلى ) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى (النجم: ۲ تا ۱۰) پھر فرمایا:.دنیا میں بلند مراتب کی طرف یا اعلیٰ مقامات کی طرف یا اونچے مقاصد کی طرف راہنمائی کرنے والے تین قسم کے ہو سکتے ہیں.ایک وہ جو آثار سے یہ اندازہ لگائیں کہ کوئی اعلیٰ چیز جو مقصود اور مطلوب ہے کس طرف ہو گی اور پھر ان کو جو آثار کا مطالعہ کر کے براہ راست نتائج اخذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کو اپنے پیچھے آنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس طرح ان کو اعلیٰ اور بلند مقاصد کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 408 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء طرف ہدایت کرتے ہوئے ، راہنمائی کرتے ہوئے لے جاتے ہیں.ایک وہ ہیں جو بلند مراتب یا اعلیٰ مقاصد کو پا چکتے ہیں ان کو حاصل کر لیتے ہیں اور حاصل کرنے کے بعد ، ان سب راہوں سے پوری طرح واقف ہونے کے بعد جن راہوں کو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے پھر دنیا کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور دنیا کو یا اپنے دوسرے ساتھیوں کو ان مقاصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے بالآخر وہاں پہنچا دیتے ہیں اور ایک تیسری قسم یہ ہے کہ نہ وہ آثار پڑھ سکتے ہیں نہ وہ مقصد کو پانے والے ہوتے ہیں بلکہ محض سرداری کے شوق میں دنیا کو دھوکہ دیتے ہوئے دنیا کو ایسی چیزوں کی طرف بلاتے ہیں جن کی ان کو کچھ بھی خبر نہیں ہوتی اور یہ بھی دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو بالا رادہ دھوکہ دیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جس کی طرف بلا رہے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہے اور ایک وہ جو غفلت کی حالت میں بعض عقائد یا بعض جاہلانہ خیالات کو ورثہ میں پالیتے ہیں اور کبھی ہوش کی آنکھ سے یہ نہیں دیکھتے کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت بھی ہے کہ نہیں.چنانچہ اس طرح خود بھی اندھے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اندھوں کی طرح ایک ایسی چیز کی طرف ہدایت دیتے ہیں جس طرف جانے کی ان میں صلاحیت ہی کوئی نہیں اور جس کی حقیقت کا ان کو علم نہیں ہے.قرآن کریم نے ان سب مثالوں کو خوب کھول کر واضح فرمایا ہے.عجیب بات یہ کہ پہلی دو قسم کی مثالیں جانوروں میں ملتی ہیں لیکن آخری قسم کی مثال جانوروں میں دکھائی نہیں دیتی.آپ کو جانور کہیں بھی دوسرے جانوروں کو دھوکہ دیتے ہوئے دکھائی نہیں دیں گے.کہیں جانور ایک ایسے بلند مقصد کی طرف بلاتے ہوئے دکھائی نہیں دیں گے جن کے متعلق ان کو کچھ بھی علم نہ ہولیکن اشرف المخلوقات میں یہ تینوں قسمیں ملتی ہیں اور سب سے زیادہ قسم آخری قسم ہے یعنی دھوکہ دینے کی حالت میں لوگوں کو ایک بلند مقصد کی طرف بلانا یا غفلت کی اور جہالت کی حالت میں اس کو چہ سے کلیہ بے خبر ہونے کے باوجو دلوگوں کو ایسے مقصد کی طرف بلانا جس سے ان کو کوئی آگا ہی نہیں.قرآن کریم نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ان لوگوں میں سر فہرست رکھا ہے جو مقصد کو پالینے کے بعد، اس کے کوچوں کے آداب سے خوب آشنا ہونے کے بعد اُن کی کنہ کو سمجھنے کے بعد اور ہر پہلو سے ان کی خوبیوں اور ان کے خطرات سے واقف ہونے کے بعد پھر وہ دنیا کو یا دوسروں کو اُس بلند مقصد کی طرف بلاتے ہیں.یہ کیسے ہوا ؟ کس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اس کے اہل
خطبات طاہر جلد ۱۱ 409 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء بنائے گئے ؟ کس طرح آپ کو تیار فرمایا گیا ؟ یہ وہ مضمون ہے جو ان آیات میں ملتا ہے جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.النَّجْمِ إِذَا هَوى میں ریا ستارے کو گواہ بنا تا ہوں.کس وقت وہ گواہ بنے گا ؟ جب وہ نیچے جھک جائے گا اور دنیا کے قریب آجائے گا.یعنی مستقبل کا کوئی گواہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے.دوسرا معنی یہ ہے کہ جب بھی وہ جھکتا ہے اور قریب آتا ہے.جہاں تک اس معنی کا تعلق ہے بالعموم ترجمہ کرنے والوں کارجحان اس دوسرے معنی کی طرف جاتا ہے حالانکہ ثریا ستارا تو ویسے کبھی بھی زمین کی طرف نہیں جھکتا.معنوی لحاظ سے مستقبل میں اس نے ضرور جھکنا تھا اور انہی معنوں میں قرآن کریم نے ایک پیشگوئی کے رنگ میں اس گواہ کو پیش فرمایا ہے.مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوی یہ جو تمہارا ساتھی ہے یعنی محمد مصطفی ہے اس نے ہر گز اپنی راہ کو کھویا نہیں یعنی جس راہ پر وہ چلا ہے اس راہ کو آخر تک مضبوطی سے پکڑے رکھا ، وہ سیدھی راہ تھی ، مقصد تک پہنچانے والی راہ تھی اور اس راہ کو اس نے گم نہیں کیا ، اس سے بھٹکا نہیں وَمَا غَوی اور غوی کا مطلب ہے گمراہ نہیں ہوا یعنی راہ چھوڑ کر ، بھول کر کسی پہلو سے بھی وہ اس راہ سے الگ نہیں ہوا.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى.یہ وہ شخص ہے جو تمنا کے مطابق کلام نہیں کرتا بلکہ حقیقت پر مبنی کلام کرتا ہے خواہشوں پر مبنی کلام نہیں کرتا إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحی وہی کہتا ہے جو اس پر الہام کیا گیا ہے.جس کی اس پر وحی فرمائی گئی ہے.پھر فرمایا: عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوی.اس مضمون کو جو یہ تمہارے سامنے بیان فرماتا ہے بہت ہی طاقتور صلاحیتوں والے نے اس سے بیان فرمایا ہے یعنی خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.ذُو مِرة.وہ بار بار اپنے جلوؤں کو دُہراتا ہے.بار بار ان صفات کی جلوہ گری فرماتا ہے جن صفات کا اس مضمون سے صلى الله تعلق ہے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بعثت اور بعد میں ہونے والے واقعات.وَهُوَ بِالْأُفُقِ الأعلى.وہ خدا جس نے اس بندے یعنی محمد ھوے سے کلام کیا ہے اس نے اس وقت کلام کیا جب وہ اُفق اعلیٰ پر تھا.اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہر نبی کا ایک افق ہے وہ نبی اُس اُفق سے بلند حرکت خدا کی طرف نہیں کر سکتا.اس کی ایک استعداد ہے اس استعداد سے بڑھ کر آگے قدم نہیں رکھ سکتا اور ہر دوسرے نبی کا اُفق حضرت محمد مصطفی میلے کے افق سے نیچے تھا تو فرمایا اس خدا نے اس سے کلام کیا ہے جو بلند ترین اُفق پر تھا اور اس سے ملنے کے لئے اسے اس
خطبات طاہر جلدا 410 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۹۲ء بلندی تک اُٹھنا لازم تھا.جب تک یہ اس بلندی تک رفعت نہ پاتا اس خدا کو پانہیں سکتا تھا جو خدا افق اعلیٰ پر جلوہ گر تھا.پھر فرمایا ثُمَّ دَنَا فَتَدَتی پھر یہ قریب ہوا اور پھر یہ نیچے جھکا فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی اس طرح وہ دو کمانوں کا درمیانی و تر بن گیا.اس مضمون سے متعلق مزید کچھ بیان کرنے سے پہلے میں آپ کو بتا تا ہوں کہ جیسا کہ جانوروں میں بھی خدا تعالیٰ نے انسانوں کے لئے بہت سی اچھی مثالیں رکھیں ہیں اور جانوروں میں بھی بیان کردہ پہلی دو صلاحیتیں موجود ہیں.چنانچہ آپ لوگوں میں سے جن لوگوں نے زندگی سے متعلق فلمیں دیکھی ہوں یعنی محققین نے زندگی کی بقاء سے متعلق بہت محنت کر کے جو فلمیں تیار کی ہیں ان میں وہ بعض دفعہ ایسے مناظر دکھاتے ہیں کہ لاکھوں پر مبنی بڑے بڑے ریوڑ ہیں گلے ہیں جن میں ہر قسم کے مویشی اور حیوانات وغیرہ بھی شامل ہو جاتے ہیں اور پانی کی کمی کی وجہ سے سخت بے چین ہوتے ہیں ان کو اپنے میں سے ہی بعض ایسے صاحب صلاحیت جانور راہنمائی کرتے ہوئے ایک سمت میں لے جاتے ہیں جس سمت میں ان کو پانی کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور باقی سب اندھا دھند اُن کی پیروی کرتے چلے جاتے ہیں.بعض دفعہ یہ ایک اتنا بڑا جلوس بن جا تا ہے کہ تیز رفتاری سے دوڑتے ہوئے بھی گھنٹوں میں اس کا آخری کنارا پہنچتا ہے اور آگے لگے ہوئے کچھ جانور ہیں جن پر اُن کو پورا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد کبھی جھوٹا نہیں نکلا یہ الگ بات ہے کہ پانی تک پہنچنے سے پہلے یہ سارے جانور پیاس اور بھوک سے مر جائیں لیکن وہ سمت کبھی غلط نہیں ہوتی جس سمت کی طرف وہ حرکت کر رہے ہوتے ہیں اگر کہیں پانی میسر آسکتا ہے تو وہاں آسکتا ہے اس کے سوا اور کسی سمت میں اس سے قریب تر پانی میسر نہیں آسکتا.تو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں میں بھی ہمارے لئے کیسی اعلیٰ اور پاکیزہ مثال رکھی ہے کہ یہ وہ بظاہر بے وقوف اور بے سمجھ حیوانات ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی فطرت میں جو بعض خوبیاں ودیعت فرما دی ہیں ان میں وہ بنی نوع انسان کے لئے مثال بن جاتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی مثال دی ہے اور شہد کی مکھی کو خاص طور پر اس رنگ میں پیش فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی فرمائی.جس کا مطلب ہے کہ جانوروں میں سے یہ سب سے زیادہ غیر معمولی روحانی صلاحیتیں رکھنے والی چیز ہے جس کے متعلق اگر تحقیق کی جائے دن بدن اعلیٰ سے اعلیٰ نئے مضامین روشن ہوتے چلے جائیں گے اور عقل دنگ ہوتی چلی جائے گی کہ کس طرح اس چھوٹی سی
خطبات طاہر جلدا 411 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۹۲ء مکھی کے اندر جو چھوٹا سا دماغ ہے وہ کتنے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیتا ہے الہی کارناموں میں سے وہ ایک ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ بعض لوگ یا بعض مخلوقات یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ پہلے جگہ کو دریافت کرتی ہیں ، اعلیٰ مقصد کو خود حاصل کرتی ہیں پھر دعوت دیتی ہیں اس کے بغیر نہیں.چنانچہ شہد کی مکھی میں یہ خوبی پائی جاتی ہے.شہد کی مکھیوں میں سے بعض اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر فطر تا تیار فرمائی گئی ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وحی فرمائی اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر بعض غیر معمولی صلاحیتیں ودیعت فرما دی ہیں اور اس کا نام وحی ہے یعنی شہد کی مکھی کے تعلق میں اس کو وحی کہا جائے گا.شہد کی مکھیوں کا ایک حصہ ایسا ہے کہ جب مکھیوں نے اُڑ کر کہیں جانا ہو ، جب ایک چھتا بے کار ہو چکا ہو اور نئے چھتے کی تلاش ہو تو یہ کھیاں اُڑ کر پہلے چاروں سمت میں پہلے رائیکی کرتی ہیں یعنی جائزہ لیتی ہیں کہ ہر پہلو سے سب سے اچھا چھتا کون سا ہوسکتا ہے اور ہر ایک مکھی ہر سمت میں اُڑ پنے اپنے جائزے کی رپورٹ لے کر واپس اپنے چھتے تک پہنچتی ہے اور پھر یہ بھی معلوم کرتی ہے کہ رس والے پھول قریب ترین کہاں اور کتنے پائے جاتے ہیں.ان تمام معلومات سے پوری طرح مرقع ہو کر وہ جب واپس پہنچتی ہیں تو ایک قسم کا ناچ ناچتی ہے، وہ ایک ایسا ناچ ہے جس پر سائنسدان ابھی تک تحقیق کر رہے ہیں اور ابھی تک مکمل طور پر اس کی زبان کو سمجھ نہیں سکے کہ وہ کیسے یہ ناچ ناچتی ہیں، کیسے اُس زبان کو دوسری لکھیاں سمجھتی ہیں لیکن اس حد تک اس مضمون پر ان کی رسائی ہو چکی ہے کہ قطعی شواہد کے طور پر اس بات کو پیش کر سکتے ہیں کہ اس ناچ میں اشاروں کی ایک زبان ہے جو معین طور پر شہد کی مکھیوں کی ملکہ اور اس کی ساتھیوں کو یہ اطلاع دیتی ہے کہ ہم نے ایک جگہ دریافت کی ہے وہ جگہ یہاں سے اتنے فاصلہ پر ہے، اس کا زاویہ یہ ہے اور اس جگہ کی نوعیت یہ ہے اور دوسری مکھی دوسری طرف سے اڑ کر آئے گی اور وہ یہ رپورٹ پیش کرے گی کہ ہم نے بھی ایک جگہ دیکھی ہے اور وہ اتنے فاصلہ پر ہے اور اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں اور یہ یہ سہولتیں مہیا ہیں پھر بھی ابھی فیصلہ نہیں کیا جائے گا یہاں تک کہ اور مکھیاں آئیں گی.ہر لکھی اپنی اپنی رپورٹ ناچ کی شکل میں پیش کرتی ہے.اس ناچ کی تصویریں، اس کے زاویے مختلف شکلوں میں محفوظ کئے گئے ہیں اور وہ مضامین جن میں اس ناچ کی تصویر میں ملتی ہیں ان کو پڑھتے ہوئے انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور کلام الہی کی تائید میں
خطبات طاہر جلدا 412 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء اس کی صداقت میں دل بے اختیار اچھل اچھل کر گواہی دیتا ہے.کسی جانور کے متعلق قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے اس پر وحی فرمائی سوائے شہد کی مکھی کے اور شہد کی مکھی کی صلاحیتیں واقعۂ وحی سے سجائی گئی ہیں اور وحی سے مزین ہوئی ہیں اور وحی سے ترتیب پاگئی ہیں ورنہ ایک مکھی ویسی ہی مکھی تو ہے جیسی گندگی پر گرنے والی لکھی ہے.کوئی نمایاں فرق نہیں ہے.ایک ہے جو بیماریاں پھیلاتی اور گندگی پر منہ مارتی ہے اور ایک ہے جو دنیا میں شفاء پھیلاتی اور نہایت پاکیزہ خوراک کے سوا کسی اور خوراک کو پسند نہیں کرتی اور اس کے اندر جو صلاحیتیں ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا وہ ایسی عظیم الشان ہیں کہ انسانوں میں سے بھی بلند پایا قلبی اور ذہنی صلاحیتوں کے مالک اس ناچ کی زبان کو نہ پوری طرح سمجھ سکتے ہیں نہ اس زبان کو پوری طرح دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں.آج اگر ان کو کہا جائے کہ باہر سے جائزہ لے کر واپس آؤ اور ہر ایک یہ رپورٹ پیش کرے کہ کون سی چیز کتنے فاصلہ پر ہے اور اس کو ایک ناچ کے ذریعے تفصیل کے ساتھ بیان کرو تو بہت مشکل مضمون ہے.انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کو استعمال کر کے بعض اشاروں کی زبانیں بنا سکتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں لیکن اگر ایسی زبان نہ بنائی گئی ہو اور انسانوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ از خود ایک ناچ ایجاد کریں ، از خود وہ اس کی زبان بنا ئیں اور پھر بغیر دوسروں کو بتائے اس سے یہ توقع رکھیں کہ وہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھے گا، یہ بات ناممکن ہے لیکن شہد کی مکھی میں یہ بات پوری ہے.چنانچہ وہ پہلے مقصد کو پاتی ہے، اس کو حاصل کرتی ہے، اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں سے واقف ہوتی ہے اور اس راہ کے خطرات سے آگاہ ہوتی ہے اور پھر اپنے چھتے کی طرف لوٹتی ہے اور پھر ان اطلاعات کو بتا کر کہتی ہے کہ آؤ میرے پیچھے آؤ.شہد کی مکھیاں ان ساری اطلاع دینے والوں کی اطلاع کا موازنہ کرتی ہیں ملکہ ہر چیز کو ذہن میں محفوظ رکھتی ہے اور بالاآخر اس ایک سمت میں روانہ ہو جاتی ہے جو اس کے نزدیک سب سمتوں میں سے سب سے بہتر ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ہے ان انبیاء کے سرفہرست ہیں ، ان انبیاء کے سردار ہیں جن سب انبیاء کو خدا تعالیٰ نے ایسی ہی صفات سے مرصع فرمایا اور وحی کی طاقت سے ایسا ہوا.ان کے سوا انسانوں میں اور کوئی نہیں ہے جو ان خوبیوں سے پوری طرح آراستہ اور مزین ہو جن کا میں ذکر کر رہا ہوں پورے یقین اور سچائی کے ساتھ ایک اعلیٰ مقصد کو حاصل کرتے ہیں ، پوری تحقیق کرتے ہیں، اس
خطبات طاہر جلدا 413 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۹۲ء ك ماله وما عليها سے واقف ہوتے ، مثبت اور منفی پہلوؤں سے پوری طرح باخبر ہو جاتے ہیں.نقصانات سے باخبر ہوتے ہیں فوائد سے باخبر ہوتے ہیں اور جب بلاتے ہیں تو کامل یقین کے ساتھ بلاتے ہیں.ایک ذرہ بھی شک نہیں ہوتا کہ جس سمت میں ہم بلا رہے ہیں ہم ہو کر آئے ہیں، ہم نے دیکھ لیا ہے.وہ چیز جو تمہیں بتارہے ہیں کہ وہاں ہے وہاں ہے اور لینے کے لائق ہے.اس مضمون کو سب سے زیادہ شان کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے رب سے سیکھا اور سب سے زیادہ صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ اسے دوسروں کے سامنے پیش فرمایا.یہ وہ مضمون ہے جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے جن کا ترجمہ ابھی میں نے آپ کے سامنے رکھا.فرمایا وَالتَّجْمِ اِذَا هَوى - بلند مرتبہ ستارہ شریا ایک وقت زمین کی طرف جھکے گا اور ایک بات کی گواہی دے گا اور وہ یہ ہے کہ یہ حمد مصطفی ﷺ ایسا نہیں جو کبھی بھی رستہ کھو دے.اگر اس کے جانے کے چودہ سوسال بعد بھی یہ واقعہ رونما ہوا تو چودہ سو سالہ تاریخ پر وہ شریا گواہ بن کر اترے گا اور آئندہ کے زمانہ پر بھی یہ گواہی دے گا کہ جس پاک رسول نے آج تک رستہ نہیں کھویا.جس کی تعلیم آج بھی مستقیم ہے وہ کل بھی اسی سمت میں ہمیشہ روانہ رہے گا اور جس طرح پہلوں کے لئے وہ ایک سچا اور قابل اعتما در اہنما تھا کہ جس کی باتوں میں کوئی لغزش، کوئی غلطی نہیں اسی طرح آئندہ زمانوں میں بھی ایسا ہوگا.اس پیشگوئی کو جو قرآن کریم میں بیان فرمائی گئی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی ایک حدیث کی روشنی صلى الله میں جب ہم پڑھتے ہیں تو ایک بہت ہی لطیف مضمون آنکھوں کے سامنے اُبھرتا ہے.آنحضوری نے فرمایا کہ لو كان الايمان معلقاً عند الثريا لنا له رجل أورجال من هولاء (بخارى كتاب التفسیر حدیث نمبر: ۳۵۱۸) یہ مضمون اس وقت بیان فرمایا جب یہ گفتگو تھی کہ آنحضور ﷺ اگر دوبارہ آئیں گے جیسا کہ سورہ جمعہ میں بیان فرمایا گیا ہے تو کیسے آئیں گے ؟ کیوں آئیں گے ؟ کیا مقاصد ہوں گے ؟ تو فرمایا کہ اس واپسی کے مضمون کو نہایت ہی لطیف رنگ میں ثریا کے ساتھ باندھ دیافرمایا ثریا سے تعلیم دوبارہ نیچے اُترے گی.ثریا تک چلی جائے گی اور پھر دوبارہ نیچے اُترے گی اور ایک شخص ثریا تک بلند ہو گا اور اس تعلیم کو واپس لے کر آئے گا.ثریا کے نیچے اترنے کے یہ معنی ہیں اگر یہ معنی نہیں ہیں تو ثریا ستارہ تو نیچے اتر نہیں سکتا.اگر وہ اپنا محور چھوڑ کر زمین کی طرف جھکے گا تو فائدے کی بجائے ایسا نقصان پہنچا دے کہ اس کا پھر کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ثریا کا اپنے محور کو چھوڑ
خطبات طاہر جلدا 414 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۹۲ء کر زمین کی طرف جھک جا نالا ز ما قیامت کی بربادی پیدا کر دے گا اور سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا.ساری کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اس لئے لازماً اس کو معنوی طور پر سمجھنا ہوگا اور اس زبان کو مذہب کی زبان کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہو گا.فرمایا وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَی.ایک ایسا وقت آئے گا کہ شریا سے گواہی اترے گی شریا کے اترنے سے مراد یہ ہے کہ ثریا سے گواہی زمین پر اترے گی اور وہ اعلان یہ کرے گی کہ میرے آقا ومول محمد مصطفی ﷺ ایک لغزش نہ کرنے والے پاک رسول ہیں جن کی تعلیم کو زمانہ بدل نہیں سکتا جن کی تعلیم کو زمانہ ہمیشہ کا نقصان پہنچا نہیں سکتا ، اس تعلیم کی حفاظت آسمان سے کی جائے گی اور آسمان سے کی جارہی ہے.اسی مقصد سے خدا تعالیٰ نے اس گواہ کوثریا تک بلند فرمایا اور پھر ثریا سے نیچے اُتارا.اسی مضمون کو آگے جا کر قرآن کریم اس سے بہت بڑھ کرشان کے ساتھ دُہرانے والا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے ایک غلام کی خبر ہے کہ وہ ثریا تک بلند ہو گا اور ثریا سے ایمان کو واپس لا کر زمین پر یہ گواہی دے گا کہ محمد مصطفی میں سچے ہیں اور آپ ہی کا دین ہے جو سب دنیا کی نجات کا موجب بن سکتا ہے.اس کے سوا کوئی نجات کی راہ نہیں لیکن وہ آقا جس سے یہ فیض پائے گا اس کا مرتبہ کیا ہے ، اس نے کیا سیکھا اور کس سے سیکھا تھا یہ مضمون ہے جو اس کے بعد بیان ہوا ہے.فرمایا وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اس کی گواہی میں یہ بات بھی شامل ہوگی کہ محمد مصطفی ﷺ جو کچھ بیان فرماتے ہیں اپنی ذات سے اپنی خواہشات کے مطابق بیان نہیں فرماتے ، آپ کی تمناؤں کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں.صلى الله پس جھوٹے دعویدار جو کہتے ہیں کہ آؤ! ہم تمہیں بھلائی کی راہ دکھاتے ہیں ، اعلیٰ مقاصد کی طرف لے کر جاتے ہیں ان کی طرف نظر ڈالیں تو سوائے انبیاء کے باقی ضرور کسی نہ کسی شک میں مبتلاء ہوتے ہیں اور جب بلاتے ہیں تو دل کی کوئی تمنائیں ان کے بلانے کے اخلاص کو گندا کر چکی ہوتی ہیں.بہت سی خواہشات ہیں.لیڈر بننے کی خواہشات، راہنما بننے کی تمنا اور دیگر فوائد حاصل کرنے کی تمنائیں، ان کے اس دعوے کو گدلا کر دیتی ہیں اور میلا کر دیتی ہیں لیکن ایک وہ وجود ہے یعنی محمد مصطفیٰ ہ جس کی دعوت میں نفس کی کوئی بھی میل نہیں، ایک ذرہ ایک ادنی سی میل بھی نہیں ہے.اپنی طرف سے کہتا ہی کچھ نہیں، وہی کچھ کہتا ہے جس کی اُس پر وحی فرمائی جاتی ہے اور وحی فرمانے والے میں کوئی کمزوری نہیں.دیکھیں اس مضمون کو کتنا طاقتور بنا دیا گیا ہے.عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوی.سکھانے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 415 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء والا بھی ایسا ہے کہ اس سے بڑھ کر مضبوط قوای کی کوئی چیز ممکن نہیں ہے یعنی خالق و مالک اللہ تعالیٰ خود اس کا اُستاد ہے اور وہ شَدِیدُ القوی جس کی صفات بہت ہی عظیم اور غیر معمولی طاقتیں رکھتی ہیں ایسی طاقتیں جن کی کوئی اور مثال تمہیں کہیں دکھائی نہیں دے گی.وہ استاد ہے جس نے اس شاگرد یعنی محمد مصطفی ﷺ پر وحی فرمائی اور خود اسکو سکھایا یعنی وحی فرمانے کے بعد علم کا مضمون بھی اس میں بیان فرمایا گیا جیسا کہ سورہ جمعہ میں فرمایا گیا ہے کہ آیات پڑھ کر سُناتا ہے اور پھر علم دیتا ہے تو وہی ترتیب ہے اور وہی مضمون کی گہرائی اور وہی وسعتیں ہیں لیکن ایک اور شان اور ایک اور رنگ کے ساتھ اس مضمون پر روشنی ڈالی جارہی ہے.فرمایا ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى.خدا تعالیٰ اس مضمون کو بار بار ظاہر کرنے والا ہے.اس جلوہ کو کئی رنگ میں ظاہر فرمانے والا ہے جس کا ایک مطلب تو یہ ہے اور اول مطلب یہی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر خدا صرف ایک دفعہ جلوہ گر نہیں ہوا بلکہ بار بار ہوا ہے اور بار بار عظیم شان کے ساتھ ہوا ہے اور اس جلوہ گری نے بالآخر ایک ایسی شکل اختیار فرمالی که گویا مستقل محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ رہنے لگا اور آپ کے وجود پر اپنا عرش پکڑ لیا.چنانچہ فرماتا ہے، ذُومِرَّةٍ..وہ بار بار جلوہ دکھانے والا خدا ہے ، بار بار اپنی طاقتوں کو ظاہر کرنے والا خدا ہے.فَاسْتَوی پھر وہ عرش پر مستحکم ہو گیا اور یہاں عرش سے مراد قلب محمد مصطفی اللہ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی مضمون بیان ہو رہا ہے.بعد میں ان آیات میں اس قلب کا خصوصیت سے ذکر فرمایا جائے گا.جیسا کہ فرمایا: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأی (النجم :۱۲) کہ اس قلب نے جو کچھ دیکھا ہے، اس قلب پر خدا کا جو جلوہ ظاہر ہوا اور وہاں قرار پکڑ گیا اس کے متعلق یہ قلب جو کچھ بتاتا ہے جھوٹ نہیں بتا تا.بالکل سچی باتیں بتا رہا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَغلى باوجود اس کے کہ خدا افق اعلیٰ پر تھا اور افق اعلیٰ پر ہے.اس کے قریب آنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کی بلندشان میں کسی قسم کی کمی آئی ہو اور وہ نیچے اتر آیا ہو.اپنے وجود اور تمکنت اور شان کے لحاظ سے اس کے اندر کسی قسم کا کوئی تنزل ممکن نہیں ہے.پھر حضرت محمد ﷺ کی لقاء اپنے رب سے کیسے ہوئی ؟ فرماتا ہے.ثُمَّ دَنَا فَتَدَثْى وه افق اعلیٰ پر تھایا ہے اور محمد اللہ نے معراج کیا ہے اُس اُفق اعلیٰ تک بلند ہوا ہے.یہ بجا ہے کہ اللہ کی طاقت اور اس کی راہنمائی اور اس کی غیر معمولی نصرت کے ساتھ ایسا ہوا مگر محمد اللہ کا مرتبہ افق اعلیٰ الله وہ
خطبات طاہر جلدا 416 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۹۲ء تک بلند کیا گیا ہے اور افق اعلیٰ سے مراد وہ اُفق ہے جس سے بلند تر کوئی اُفق ہو نہیں سکتا اور معراج کے افق کے سوا اور کسی افق کا یہاں ذکر نہیں ہے کیونکہ معراج کا اُفق وہ تھا جس پر حضور اکرم علی علی کے ساتھ کوئی اور کبھی شریک نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے نہ کبھی ہو سکے گا.تمام دوسرے انبیاء اپنے اپنے افق تک بلند ہوئے اور پھر اس اُفق پر قرار پا کر اپنی قوم کی طرف واپس آئے لیکن افق اعلیٰ تک سوائے حضرت محمد ﷺ کے اور کوئی بلند نہیں ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ تمام صفات حسنہ اور اس کے کمالات کی وہ ہرشان جس کا انسان متحمل ہو سکتا تھا ، جس تک انسان رسائی پاسکتا تھا اور اسے قبول کرنے کی اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقت بخشی گئی تھی ، وہ حد امکان تک آنحضرت مہ کو عطا ہوئی اور اس ظرف کے مطابق اس کے کناروں تک خدا تعالیٰ نے اسے اپنے جلوے سے بھر دیا.یہ افق اعلیٰ تک آپ کا معراج ہے اور پھر چھوڑ کر نہیں گیا.بار بار اس جلوے میں تموج ضرور آیا ہے لیکن عرش پھر ہمیشہ محمد ﷺ کے قلب پر ہی رہا ہے اور ہمیشہ قلب محمد مصطفی ﷺ جس حالت اور جس شان میں پایا جاتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا عرش ہمیشہ اسی طرح قرار پکڑا ر ہے گا اور جلوہ گر رہے گا.پھر فرمایا ثُمَّ دَنَا فَتَدَى دَنَا سے مراد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.افق اعلیٰ کی طرف دیا ہے.مفسرین نے بالعموم اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے دنا کیا یعنی آپ خدا کی طرف بلند ہوئے اور اس کے قریب بڑھے فَتَدَلی اور اللہ تعالیٰ نیچے اترا اور گویا کہ بین بین ایک مقام ایسا تھا جہاں جا کر انسانیت اور الوہیت کا اتصال ہوتا ہے.صلى الله حضرت اقدس محمد ﷺ نے دَنَا فرمایا اور خدا تعالیٰ نے تدلی فرمایا.یہ معنی مشہور اور عام ہیں اور تفسیر صغیر میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے یہی معنی کئے ہیں.اس معنی کو غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ قرآن کریم نے بعض دفعہ ضمائر کو مجہول چھوڑ دیا اور وضاحت کے ساتھ ان کی تعیین نہیں فرمائی تا کہ تھوڑے لفظوں میں ایک سے زیادہ مطالب بیان ہوسکیں.پس اس پہلو سے ہر گز تعجب نہیں کہ دنا اور تدلی کی ضمائر کو خدا تعالیٰ نے واضح کئے بغیر کیوں چھوڑ دیا تا کہ اس سے اور بہت سے مضامین نکلیں لیکن ایک وہ مضمون جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قلب پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے وہ اس آیت کا ایک ایسا مضمون ہے جو اس آیت کی شان کو افق اعلیٰ تک پہنچادیتا ہے اور اس سے بلند مرتبہ مضمون آپ کے علم میں دنیا کی کسی تفسیر میں نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد 417 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء فرماتے ہیں.دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى جب یہ آیت شریفہ یعنی دَنَا فَتَدَلی نازل ہوئی جس کا مطلب ہے کہ قرب ہوا اور نیچے جھک گیا.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ تو دو کمانوں کا ایک واحد وتر بن گیا.فرماتے ہیں جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے الہام ہوئی یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس کے خاص معنی سمجھانے کی خاطر تبر کا اللہ تعالیٰ نے یہی آیت الہام فرمائی.تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعین میں تامل تھا.میں مترڈ دتھا کہ یہ آیت میرے متعلق کیوں نازل ہوئی اگر یہی مطلب لیا جائے کہ یہ تمہارے متعلق ہے تو فرمایا کہ مجھے تامل تھا.میں اس کو قبول نہیں کر سکتا تھا اور تشخیص نہیں کر سکتا تھا تب طبیعت دعا کی طرف مائل ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کی کہ اے خدا! اس آیت کا مجھ پر نازل فرمانا کیا مقصد رکھتا ہے.اس معنی کو خود مجھ پر روشن فرما دے.فرماتے ہیں ،اسی تامل میں کچھ خفیف سی خواب آ گئی.ایک نیند کی غنودگی کی حالت طاری ہو گئی.اور اس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے.اس کی تفصیل یہ ہے.’دنو سے مراد قرب الہی ہے...یعنی بندے کا خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ، اس کی طرف بڑھنا اور...تدلی سے مراد وہ هبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تـــخــلــق باخلاق اللہ حاصل کر کے اس ذات رحمان رحیم کی طرح شفته على العباد عالم خلق کی طرف رجوع کرے (براہین احمدیہ ہر چہار حص روحانی خزائن جلد اصفحہ: ۵۸۸) اب دیکھیں اس مضمون کے ساتھ اس آیت میں کتنی عظیم رفعت عظمت اور وسعت دکھائی دینے لگتی ہے.جو پہلے ہی موجود تھی لیکن کبھی انسان کی نظر اس بلندی تک نہیں اٹھی تھی.جس بلندی تک الہام نے اور پھر خود اللہ تعالیٰ کی نازل فرمودہ تشریح نے اس مضمون کو او پر پہنچا دیا ہے.اس نظر کو اس حد تک بلند کر وا دیا کہ هُوَ بِالْأُفُقِ الأغلى کا مضمون ذہن میں روشن ہو جاتا ہے اور اب سمجھ آتی ہے کہ بیک وقت دونوں معنے کیوں درست ہیں.اس آیت کا پہلا معنی یہ بتاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اپنی تمام تر تمناؤں اور خواہشات کو خالص خدا تعالیٰ کی خاطر کر کے اپنے رب کی طرف بلند ہوئے اور جب اپنے تمام دین کو کلیۂ خالص کر کے اسی کے ہو گئے اور اس کی طرف بڑھے تو انسانی الله
خطبات طاہر جلدا 418 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء طاقت میں یہ نہیں تھا کہ وہ محض اپنی طاقتوں سے خدا کو حاصل کر سکے، فَتَدَلی تو پھر خدا تعالیٰ نے تدلى فرمایا خود اترا اور اس پاک بندے کا ہاتھ تھام لیا.اسے ان بلند یوں تک پہنچا دیا جن بلندیوں تک پہنچنے کا یہ حق دار تھا لیکن بشری تقاضوں کے پیش نظر الہی مدد اور نصرت کے بغیر اس کے لئے تنہا یہ کام کرنا مشکل تھا.پس دنسو کے نتیجہ میں ایک ترکی ہوا اور اس تدلی اور دنو نے آپ کو ان معنوں میں ایک جان بنا دیا کہ جیسا کہ فرمایا: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنی.جس طرح آپس میں یوں جُڑی ہوئی دو کمانیں ہوں اور وتر ان کے بیچ کا ہو جو ان دونوں کو اکٹھا کر رہا ہو.اس کا ایک اور معنی بھی ہے کہ دونوں کمانوں کا رُخ ہو اور پھر بیچ میں ایک وتر ہو.یہ الگ مضمون ہے.اس وقت میں اس پہلے والے مضمون کو بیان کرتا ہوں.فرمایا کہ جس طرح دو کمانوں کو ایک وتر جو ان دونوں کے درمیان اکٹھا باندھا گیا ہو یک جان کر دیتا ہے اور ان کو جوڑنے کی وہی تنہا وجہ بن جاتا ہے اسی طرح مخلوق اور خالق کے درمیان محمد مصطفی ﷺ نے دیا اور ترکی کے نتیجہ میں وہ مرتبہ اور مقام حاصل فرمایا کہ آپ شفیع الوری بن گئے.آپ کے ذریعے خالق کا مخلوق سے رشتہ اپنے کمال کو پہنچا اور تعلق کا یہ رشتہ اس سے بلند تر کبھی پہلے قائم نہیں ہواتھا اور بھی یہ مضمون اپنے معراج کو نہیں پہنچاتھا جیسا کہ حمد مصطفی ﷺ کے دنوسے صلى الله اور اللہ کی ترکی سے ایسا ہوا اور اس اشتراک کا نتیجہ کیا نکلا.اگر صرف اپنی ذات میں آنحضور سے نے کچھ پایا ہے تو ہمیں کیا ؟ بنی نوع انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اور اگر وہ پایا ہے لیکن خدا کی صفات نہیں پائیں تو پھر اس دنو کی کوئی بھی حقیقت نہیں رہتی.اس موقع پر خدا کی جو سب سے بڑی شان جلوہ گر ہوئی ہے وہ اپنی طرف آنے والے ایک بندے کی خاطر خود جھکنا ہے اور یہ خدا کی شان انکسار ہے.اس کو انکسار کا نام بے شک نہ دے سکیں لیکن شان وہی ہے کہ اتنا مستغنی ہونے کے باوجود، اتنا بلند مرتبہ ہونے کے باوجود کائنات میں سے کچھ بھی نہ ہو تب بھی اس کی شان غنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا.وہ ایسا مستغنی ہے لیکن پھر جھکتا ہے تو اگر اس عظیم شان سے جو اس موقع پر سب سے بڑھ کر جلوہ گر ہوئی ہے حضرت محمد مصطفی میں حصہ نہ پاتے تو یہ مضمون نامکمل رہتا.آپ کا اتصال بے معنی ہو جاتا تو خدا تعالیٰ نے ان ضمائر کو تعین کئے بغیر چھوڑ کر کیسی شان کا مضمون پیدا فرما دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس مضمون کو الہام کر کے پہلی آیت کے حق میں بھی گواہی دے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 419 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء دی که وَالنَّجْمِ إِذَا هَوای محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کا ایک عظیم گواہ آنے والا ہے.وہ ثریا سے آپ کی سچائی کی شہادتیں لے کر نیچے اُترے گا ، ایمان کو دوبارہ زندہ کرے گا اور بعد کے ہمیشہ ہمیش کے آنے والے زمانوں کے لئے یہ اعلان کر دے گا کہ جیسا کہ گزشتہ چودہ سو سال میں اس رسول نے کبھی کوئی ٹھوکر نہیں کھائی کبھی لغزش نہیں کھائی اس کی تعلیم کی حفاظت کی ذمہ داری آسمان کے طاقتور ذُو مرة خدا نے اٹھائی ہے میں اس کا گواہ ہوں کہ اسکی ہر بات سچی نکلی ہے.انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے جب آپ پر یہ مضمون ظاہر فرمایا اور آپ نے اس کی گواہی دی تو گویا وَالنَّجْمِ اِذَا هَوای کی زندہ مثال بن گئے.ثریا کے اترنے اور گواہی کا مضمون کس شان کے ساتھ اس موقع پر پورا ہوتا ہے.یہ الہام کا وہ مقصد تھا جو اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکسار اور تضرع اور دعا کے نتیجہ میں آپ پر ایک رویا کے ذریعہ روشن فرمایا گیا.تو آپ فرماتے ہیں کہ محمد ﷺ نے دنو کیا اور پھر آپ ہی نے تدلی کیا.جب خدا کو پالیا اور خدا کی صفات سے مرصع ہو گئے تب آپ کا دل بنی نوع انسان کی ہمدردی میں پگھلا اور اس بلندی سے نیچے اترے تا کہ آپ نے جس اعلیٰ مقصد کو حاصل کیا ہے اس میں تمام بنی نوع انسان کو شریک کریں اور ہر ایک کو بتائیں کہ میں نے ایک عظیم چیز کو پالیا ہے جس سے عظیم تر چیز کا تصور ممکن نہیں ہے.تمام زندگیوں کا وہ سر چشمہ ہے.سب نعمتوں کا وہ منبع ہے جیسا میں نے اس کو پایا ہے آؤ میں تمہیں بلاتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ میرے پیچھے پیچھے آؤ.میں تمہیں ان بلندیوں تک پہنچانے کی استطاعت رکھتا ہوں کیونکہ میں سب کچھ دیکھ آیا ہوں.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اپنے سارے وجود سے اس کو پایا.میرے دل پر وہ خدا جلوہ گر ہوا اور میں ان سب نعمتوں کی طرف تمہیں بلانے کے لئے واپس آیا ہوں جو نعمتیں مجھے اپنی تمام شان کے ساتھ اور اتمام نعمت کے ساتھ عطا فرمائی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی مضمون کو خدا تعالیٰ کے تعلق میں بیان فرمایا ہے اور یہ جو مشابہتیں ہیں یہ بتاتی ہیں کہ یہ عظیم روحانی کا ئنات ہے جن کے آپس میں گہرے اندرونی رشتے ہیں.ایک جاہل ملاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بد تمیزی کی زبان کھولتا ہے تو اس بے چارے بد نصیب بد بخت کو پتا نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا جیسا عرفان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوا ہے اس کی مثال آپ کو کہیں
خطبات طاہر جلدا 420 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء اور دکھائی نہیں دے گی اور اس عرفان کے نتیجہ میں اللہ کا جو عرفان اس زمانہ میں آپ کو عطا ہوا اس کی بھی کوئی اور مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی.آپ فرماتے ہیں."..ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو 66 صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں.وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے صادق وفادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا....کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه: ۲۱) پس آنحضرت ﷺ کو اگر خدا نے اپنے عجائبات کے اظہار کے لئے چنا ہے اور آپ کے قلب کو اپنے عرش کی تختہ گاہ بنانے کے لئے چنا ہے تو اس لئے کہ محمد مصطفی ﷺ میں اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں اور وہ صفات وہی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ صادق تھے اور وفادار تھے اور خدا تعالیٰ کی کامل قدرتوں پر کامل یقین رکھتے تھے.فرماتے ہیں:....کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتا نہیں کہ اس کا وو ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اُس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اُس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) ”اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو.“ محرومو، دیکھیں اس تعلق میں کیسا پیارا لفظ بیان فرمایا ہے.میں نے تو پا لیا ہے تم جو محروم ہو جنہوں نے نہیں پایا.میں پانے کے بعد اور اس چشمے سے سیراب ہونے کے بعد تمہیں بلا رہا ہوں کس درد، بے قراری اور تڑپ کے ساتھ آپ بنی نوع انسان کو بلا رہے ہیں.ایک پانے والا ہی اس شان اور اس کرب کے ساتھ اور اس بے قراری کے ساتھ بلا سکتا ہے محروم کبھی نہیں بلا سکتا.بڑے ہی اندھے اور بد نصیب وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت کو پڑھ کر بھی آپ کا عرفان حاصل نہ کر سکے.ساری دنیا کے جھوٹے بھی مل کر اس شان کی سچی گواہی نہیں دے سکتے جو اپنے اندر اپنی صداقت کی عظمتیں خود رکھتی ہے.کسی جھوٹے
خطبات طاہر جلدا 421 کے وہم و گمان میں بھی یہ عبارت نہیں آسکتی.فرماتے ہیں.خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں ،کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں “ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۱-۲۲) یہ ہے دعوت الی اللہ اور اس طرح دعوت الی اللہ کے مضمون کا حق ادا ہوتا ہے.ہر بلانے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور پانا ہو گا.اگر اس کی رسائی اُفق اعلیٰ تک نہیں تو جس کی رسائی ہے اس کے پیچھے چل کر کچھ نہ کچھ بلندیاں اسے ضرور حاصل کرنی ہوں گی ، اس چشمہ سے کچھ نہ کچھ سیراب ہونا تو اس کے لئے لازم ہے ورنہ اس دعوت میں نہ جان پڑے گی نہ اس میں صداقت کی وہ عظمت ہوگی جو بڑی قوت کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے.یہ مقناطیسی طاقت ایک حقیقت ہے اور اسی کوملتی ہے جس کا مقناطیس سے رابطہ پیدا ہو جائے.پس اپنے اندر وہ آہنی صفات پیدا کریں جو مقناطیس سے جڑ کر آپ کو مقناطیس بنادیں اور مقناطیس کے قریب ہونے کی کوشش کریں پھر اُن صفات کی جلوہ گری آپ میں ہوگی جن صفات کا ذکر اس سورۃ کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے جس کی کچھ تلاوت میں نے آپ کے سامنے کی ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی غلامی اور اس بلند تر آقا کی غلامی کا حق آپ کو عطا ہو گا جس کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے سب کچھ پایا.حضرت رسول اکرم ﷺ کی اس شان کے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہ آپ نے جب بلایا تو پہلے پایا پھر بلایا.آپ فرماتے ہیں.ے آنکھ اس کی دُور ہیں ہے دل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے (درشتین صفحہ: ۸۳) آنکھ اس کی دور میں ہے ، دور کی باتیں دیکھتا ہے ، افق اعلیٰ پر نظر ہے مگر دل یار کے قریں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 422 ہے.اس کے دل پر یار جلوہ گر ہو چکا اور اسے اپنا تخت بنالیا.پر دے جو تھے ہٹائے اندر کی راہ دکھائے خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۹۲ء دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے (درین صفحہ: ۸۳) اندروالا یہ کام کر سکتا ہے.بیرونی نظر سے دیکھنے والا جواندر نہ پہنچا ہووہ پردے ہٹا کر کسی کو اندر آنے کی دعوت نہیں دے سکتا.دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے.پس وہ سب احمدی جو مرد ہوں یا خواتین ، بڑے ہوں یا بچے اگر دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں تو دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قربت کے کچھ آثار اپنے اندر پیدا کریں.جتنے یہ آثار پیدا ہوں گے جتنی آپ کی یافت اور جتنا آپ کے پانے کا مرتبہ بلند ہو گا اتنی ہی آپ کے اندر غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی چلی جائے گی.آپ اس بات کے حقدار ہوں گے اور بنی نوع انسان مجبور ہوں گے کہ آپ کی آواز کوسنیں اور اُسے قبول کریں اور آپ کے پیچھے چلیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 423 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء مزمل سے مراد ہے کہ آپ استغفار کی چادر میں لپٹ گئے.تبتل الی اللہ کے ذریعہ اپنے جسم کے زخم صاف کریں.( خطبه جمعه فرموده ۲۶ جون ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَايُّهَا الْمُزَّمِّلُ قَمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَةَ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلان اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ۖ إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْئًا وَ أَقْوَمُ قِيْلًا نَ إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا وَاذْكُرِ اسْمَ رَبَّكَ وَتَبَيَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا ل رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا (المزيل :٢-١٠) پھر فرمایا:.یہ آیات قرآنیہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَيُّهَا الْمُزَّمِّل اے چادر میں لیٹے ہوئے خدا کی رحمت کا انتظار کرنے والے قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا رات جاگ کر کاٹا کر سوائے اس کے کہ اس کا کچھ حصہ آرام کے لئے رکھ لے.نِصْفَةَ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیلا یا تو نصف رات جاگ کر کاٹ اور نصف آرام کے لئے رکھ یا اس میں سے کچھ کم کرلے.اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 424 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء تَرْتِيلا اس میں سے کچھ اضافہ کر دے اور قرآن کریم خوش الحانی سے پڑھا کر.إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلاً ہم تجھے ایک بہت ہی بوجھل بات بتانے والے ہیں ایسی بوجھل بات جس کو برداشت کرنا ، جس کے تقاضے پورے کرنا بہت ہی مشکل کام ہے.اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا لیکن اس کا علاج بھی تجھے بتاتے ہیں.رات کو اٹھنا اور خدا کی عبادت کرنا گفس کو پاؤں تلے روندنے کے لئے سب سے بڑا اور طاقتور ذریعہ ہے وَأَقْوَمُ قِيلًا اور کچی بات اور مضبوط بات وہی ہے جو رات کو اُٹھ کر کی جاتی ہے.اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا دن بھر تیرے لئے بہت کام ہیں تو کاموں میں بے حد مصروف رہتا ہے وَاذْكُرِ اسْمَ رَبَّك اپنے رب کا نام بلند کیا کر اور اس کا ذکر کیا کر وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا اور غیروں سے تعلق کاٹ کر کلیۂ اس کی طرف خالص ہو جا یعنی کاملہ اس کا ہو جا یہاں تک کہ کسی غیر سے کوئی بھی تعلق نہ رہے رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وہ مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی رب ہے لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وہی ایک خدا ہے جس کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلا اس پر تو کل کر اور وہی تیراو کیل ہے.ان آیات میں جو مضمون تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے اس سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود کا ایک بہت ہی عارفانہ اقتباس میں نے آج آپ کے سامنے پڑھنے کے لئے مخصوص کیا ہے لیکن اس سے پہلے میں مختصراً آپ کو بتا تا ہوں کہ دن کے مضمون کے ساتھ ان آیات کا بہت گہرا تعلق ہے.اس سے پہلے گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی سے اعلیٰ شان یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اپنے رب کے قریب ہوئے اور اتنا قریب ہوئے کہ افق اعلیٰ تک آپ ﷺ کی رسائی ہوئی وہ افق اعلیٰ جس پر کسی اور نبی کی رسائی نہیں ہوئی تھی وہاں آپ ﷺ نے اپنے رب سے وہ سب کچھ پایا جو ایک بندہ پاسکتا ہے اور پھر اس سے بوجھل ہو کر، اس رحمت سے لد کر زمین کی طرف جھکے اور بنی نوع انسان کے لئے رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گئے.الله یہ مضمون اتنی عظمتوں اور رفعتوں والا مضمون ہے کہ عام انسان یہ سوچتا ہے کہ شاید میری وہاں تک رسائی ممکن ہی نہیں اس لئے یہ باتیں میرے لئے نہیں بلکہ مجھ سے بہت اونچی باتیں ہیں اور اس مضمون پر غور کرنے کے بعد بعض دفعہ دل میں تحریک اور تحریص ہونے کی بجائے عام انسان بجھ سا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 425 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء جاتا ہے کہ کہاں وہ عظمتیں اور رفعتیں جن تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رسائی ہوئی اور کہاں وہ بلند پروازیاں اور کہاں عاجز زمین کا کیڑا ؟ یہ باتیں تو صرف حضور ہی کے لئے خاص ہیں ہم لوگ اس میں مخاطب ہی نہیں اور ان باتوں کو قبول کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے.یہ خیال غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مضمون فصاحت و بلاغت کے ساتھ رفعتوں کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے تو انسان کا ذہن ایک ایسی فضاء میں اُڑنے لگتا ہے کہ اس کو حقیقت کی دنیا میں اس مضمون کو چسپاں کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور اس کی تفصیل سے آگاہ نہیں ہوتا.قرآن کریم نے ان آیات میں جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں دَنا کی کیفیت بیان فرمائی ہے فرمایا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا دن کیسے ہوا تھا.اور یہ وہ دنو ہے جس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ہر مومن پاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک Realistic مضمون ہے ایک حقیقت پر مبنی مضمون ہے.اب یہ اونچی فضاؤں کی باتیں نہیں ہور ہیں.اس دنیا میں دنیا سے تعلق توڑنے اور خدا سے تعلق جوڑنے کا مضمون بیان ہوا ہے اور ایسے واقعاتی رنگ میں بیان ہوا ہے کہ انسانی ذہن رفعتوں میں نہیں الجھتا بلکہ دنیا کے عام حالات میں چلتے پھرتے اپنی زندگی پر اس مضمون کو چسپاں کرتے ہوئے اپنے حالات کا جائزہ بھی لے سکتا ہے اور اپنے لئے آئندہ لائحہ عمل بھی معین کر سکتا ہے.پس دنا کے مضمون میں آنحضور ﷺ کی رفعتوں کا ذکر فرما کر خدا تعالیٰ نے اس موقع پر آنحضور ﷺ کے ان کمالات کا ذکر فرمایا ، ان محنتوں اور جدو جہد کا ذکر فرمایا جن کے نتیجہ میں آنحضور ﷺ کو رفعتیں عطا ہوئیں.یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَايُّهَا الْمُزَّمِّلُ اے چادر میں لیٹے ہوئے انسان مُزَّمِّل کی ایک عام تشریح یہ کی جاتی ہے کہ آنحضور ﷺ پر جب وحی نازل ہوئی تو واپس جا کر آپ نے اس وحی کے اثر کے نتیجے میں ایسی کیفیت محسوس کی جیسی کیفیت بخار چڑھنے سے پہلے ہوتی ہے یعنی آپ کی طبیعت پر اتنا غیر معمولی اثر تھا، اتنی قوی وحی تھی کہ اس کے بوجھ سے آپ کانپ رہے تھے اور اس موقع پر آپ نے زملونی فرمایا کہ مجھے چادر اوڑھ دو، مجھے کپڑے پہنا دو.یعنی جس طرح بیمار آدمی کہتا ہے کہ مجھ پر لحاف ڈال دو میں سردی محسوس کر رہا ہوں تو یہ کوئی ملیر یا والی کیفیت تو نہیں تھی کہ زملونی فرمارہے تھے یہ تو ایک غیر معمولی طاقت و روحی کے نزول کے نتیجہ میں جسم پر جود باؤ پڑا ہے اس سے یوں معلوم ہوتا ہے بدن پارہ پارہ ہورہا تھا جیسے کہا جاتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 426 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء ہے کہ جسم Shatter ہو گیا اس وقت جو آپ نے سردی محسوس کی ہے اس کے نتیجہ میں فرمایا زملونی تو ایک معنی اس کا یہ کیا جاتا ہے کہ یا يُّهَا الْمُزَّمِّل اے وہ شخص جو میری وحی کے رعب تلے چادر میں لپٹ گیا ہے اور ایک مستقل معنی اس کا یہ ہے کہ وہ شخص جو دنیا سے تعلق توڑنے کے لئے اللہ کے لئے خالص ہونا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو سمیٹ رہا ہے اور لپیٹ رہا ہے.چادر گرمی سے بچاؤ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے اور سردی سے بچاؤ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے.یہ ایک قسم کی Insulation ہے.ایک ایسی چیز جو ماحول سے کاٹتی ہے اور آپ کے بدن کو ماحول کے اثرات سے محفوظ رکھتی ہے تو اس کا دائمی اور مستقل معنی یہ ہے کہ اے میرے وہ بندے جو تمام دنیا سے کٹ کر میرے لئے خالص ہو جانا چاہتا ہے جو دنیا کے ہر قسم کے اثرات سے بچ کر اپنا قبلہ صرف مجھے بنانا چاہتا ہے اور میری تحویل میں آجانا چاہتا ہے میں تجھے اس کا علاج بتاتا ہوں کہ یہ کیسے ہوگا.پس پہلے دنیا سے کٹنے کا اور خدا کے لئے خالص ہو جانے کا ارادہ ہے.اس ارادے کے بعد اگلا قدم کیا ہے.فرمایا قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا.رات کو اُٹھا کر وہ لوگ جو پانچ وقت کی عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت میں کچھ نہ کچھ رات کا حصہ پایا جاتا ہے، مغرب کی نماز بھی رات کی نماز ہے عشاء کی نماز بھی رات کی نماز ہے اور صبح کی نماز کا ایک حصہ بھی رات ہی کی نماز کہلاتا ہے کیونکہ سورج غروب ہونے اور سورج چڑھنے کے مابین جو زمانہ ہے وہ رات کا زمانہ ہے لیکن اس میں جس عبادت کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور وہ تہجد کی عبادت کا ذکر ہے.پس رات کے نصف سے مراد یہ نہیں ہے کہ سونے کے بعد اور عام طور پر صبح کی نماز پر اُٹھنے سے پہلے جو وقت ہے اس کا نصف اگر اس کا نصف کیا جائے تو آرام کے لئے بہت ہی تھوڑا وقت ملتا ہے پس رات کے نصف سے مراد یہ ہے کہ کچھ حصہ پہلے ہی عبادت میں کٹ جاتا ہے.مغرب کی نماز ہے وہ بھی عبادت میں صرف ہوتی ہے، پھر سنتیں ہیں نوافل ہیں ہر شخص کو اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس پر کچھ نہ کچھ وقت لگانا پڑتا ہے.پھر عشاء کی نماز اور اس کے تقاضے اور آگے اور پیچھے سنتیں اور عبادتیں ہیں، پھر صبح کی نماز کی تیاری اور صبح کے وقت کی تلاوت یا نماز پر جانے سے پہلے سنتیں یہ تو وہ حصے ہیں جو ہر مومن کو کچھ نہ کچھ نصیب ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نصف رات اس کے علاوہ خدا کی خاطر صرف کیا کر.وہ جو نصف رات ہے.اس کے متعلق مختلف مفسرین نے مختلف اندازے لگائے ہیں یہ
خطبات طاہر جلدا 427 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء مضمون جو یہاں بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص موسم میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اور بعد کے بدلتے ہوئے موسموں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، سال کے مختلف حصوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مضمون کو آگے بڑھایا گیا ہے.سب سے چھوٹی رات گرمیوں کی رات ہوتی ہے.پس گرمیوں کی رات میں اگر نصف عبادت کی جائے تو کوئی بڑا وقت عبادت کا نہیں ہے.پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس آیت کا نزول گرمیوں میں ہوا ہے اور گرمیوں ہی سے بات شروع ہوئی ہے.فرمایا.قم الیل إِلَّا قَلِيلًا گرمیوں کی راتیں تو اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ مغرب اور عشاء اور صبح کی عبادتوں کو اگر نکال دیا جائے تو پچھلی رات میں بہت تھوڑ اوقت رہتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بقیہ رات کا اکثر حصہ عبادت ہی میں خرچ ہو.پس فرمایا قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا تھوڑا سا وقت آرام کا ملے گا باقی وقت عبادت میں صرف کر.آگے پھر جب گرمیاں سردیوں کی طرف مائل ہوتی ہیں تو راتیں بڑی ہونے لگتی ہیں.پھر فرمایا نِصْفَةَ أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيْلًا پھر إِلَّا قَلِيْلًا کی بجائے نصفہ فرما دیا کہ ٹھیک ہے آگے راتیں لمبی ہونے والی ہیں اب اس کو آدھا کر دے اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا اور بھی تھوڑا سا کم کر دے پھر فرمایا اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ ترتیلا جب لمبی راتیں آئیں گی تو پھر عبادت کو کچھ لمبا بھی کر دیا کر کیونکہ جہاں آرام لمبا ہو گا وہاں عبادت بھی تو لمبی ہو جانی چاہئے تو ان معنوں میں سارے سال کی عبادتوں کا ذکر ان تین آیات میں بڑی لطافت کے ساتھ تدریجی اور ارتقائی رنگ میں بیان فرما دیا.اس کے بعد فرمایا إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا ہم جو تجھے تیار کر رہے ہیں تو یہ دراصل اس وجہ سے تیار کر رہے ہیں کہ ہم تجھے ایک بہت ہی بوجھل بات بتانے والے ہیں بہت ہی عظیم بات بتانے والے ہیں اور اس نصیحت سے پہلے کی یہ تیاری ہے جو بات بیان فرمائی جائے گی اس کا تعلق الْمُزَّ مِل سے ہے.ایک ایسے شخص سے ہے جو پہلے ہی دنیا سے قطع تعلق ہو کر خدا کی طرف مائل ہونا چاہتا ہے فرمایا اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا تمہیں دنیا سے تعلق توڑنے اور خدا کی طرف مائل ہونے کے لئے محنت چاہئے کیونکہ دنیا کے تقاضے اور اس کے لوازمات ہر طرف سے انسان کو چمٹے ہوئے ہیں ان سے الگ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے رات کو اُٹھا کر کیونکہ رات کی عبادت نفس کو کچلنے کے لئے سب سے زیادہ طاقتور ذریعہ ہے وطعا کہتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 428 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء پاؤں تلے روند نا یعنی اتنی محنت اس کام کے لئے کرنی پڑے گی کہ گویا اپنے نفس کو پاؤں تلے روندنا ہوگا، بار بار کچلنا ہوگا، جیسے ایک کیڑے کو کچلا جاتا ہے اور یہ روند نا ایک دن اور ایک رات کا روند نا نہیں ہے بلکہ زندگی بھر کا ساتھ ہے.تمہیں زندگی کی ہر رات اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور رات کو اس لئے فرمایا کہ دن کے وقت زندگی کے سو دوسرے تقاضے انسان کو لاحق ہو جاتے ہیں.کہیں ریاء کے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں کہ کوئی شخص دیکھ رہا ہے ،کہیں شرم و حیا مانع ہو جاتے ہیں.دن کی عبادت میں اگر ریا نہ بھی ہو تو دوسرے کے دیکھنے کے نتیجہ میں انسان خدا کے حضور تنہائی کا لطف حاصل نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ دل میں جو بے اختیار کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان ان کیفیات میں ایسی حرکتیں کرتا ہے، ایسے چہرے بناتا ہے، ایسے کلمات منہ سے نکالتا ہے کہ جن میں ایک قسم کا جنون سا پایا جاتا ہے اور یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا اس حالت کو دیکھ رہی ہو اس لئے رات کے وقت سے بہتر اور کوئی وقت نہیں ہے جبکہ باقی دنیا سوئی ہوئی ہوتی ہے گھر والے بھی یا آرام کر رہے ہیں یا دوسرے کمروں میں ہوں گے.تو رات کے وقت خدا تعالیٰ کے لئے علیحدگی اختیار کرنا یہ فطرتی لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے.سب سے زیادہ اس بات کے قریب ہے کہ آپ واقعتہ اللہ تعالیٰ کے لئے الگ ہو جائیں اور اس حالت میں آپ کو اللہ سے ایسی باتیں کرنے کا موقع مل سکتا ہے جو عام دنیا کے روز مرہ کے زندگی کے حالات میں نہیں مل سکتا.فرمایا وَاَقْوَمُ قِيلًا اور رات کی بات میں اصل وزن ہے کیونکہ اس وقت تم خدا سے جو باتیں کرتے ہو اس میں کسی اور مقصد کی ملونی ہو ہی نہیں سکتی.کوئی آدمی پاگل تو نہیں کہ گرمیوں کی رات ، چھوٹی سی رات جس کا کچھ وقت مغرب اور عشاء میں گزر گیا کچھ صبح کی تیاری میں اور جو تھوڑا سا وقت ملا اس کو بھی نصف یا اس سے کچھ زیادہ عبادت میں صرف کر دے.تو رات کا وہ اُٹھنا اس کی سنجیدگی ، اس کے اخلاص اور اس کے محض اللہ عبادت کرنے پر گواہ بن جاتا ہے.فرمایا ایسی صورت میں جب تم خدا سے بات کرو گے تو خدا اس پر زیادہ توجہ دے گا اور خدا تعالیٰ یہ جان لے گا کہ تمہاری بات میں سچائی کا وزن ہے ، سچی اور سیدھی بات کر رہے ہو اور اس کے نتیجہ میں تمہیں وہ طاقت ملے گی جس طاقت کی تمہیں اللہ تعالیٰ کے لئے دنیا سے الگ ہونے کے لئے سخت ضرورت ہے.خدا سے طاقت حاصل کئے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان کلیۂ دنیا سے تعلق تو ڑ کر خدا کا ہو جائے.اس کے بعد فرماتا ہے کہ اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا يعنى
خطبات طاہر جلدا 429 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء دلیل دے رہا ہے کہ دن کو تو اور بھی بہت سے کام ہیں رات میں جو صلحتیں ہیں ان کے علاوہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ دن کے وقت اگر تم علیحدہ کوٹھڑی میں چھپنا بھی چاہو تو چھپ نہیں سکتے.لوگ تمہیں ہر وقت کاموں کے لئے بلا رہے ہیں ادھر سے آواز آرہی ہے اُدھر سے آواز پڑ رہی ہے یہاں تک کہ قرآن سے پتا چلتا ہے کہ بعض لوگ آنحضرت ﷺ کے گھر کی طرف چلتے ہوئے دور سے آوازیں دینے لگ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا ادب کا مقام ہے.آہستہ بولا کرو اگر تم رسول کے سامنے اونچی آواز کرو گے تو تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا تمہارے اعمال بے کارجائیں گے تو خدا تعالیٰ کا یہ شدت کے ساتھ ناراضگی کا اظہار ہے یہ صاف بتا رہا ہے کہ بکثرت ایسا ہو رہا تھا اور ضرورت مند دیوانے ہوتے ہیں وہ آنحضور ﷺ کی طرف لپکتے ہوئے بعض دفعہ اونچی آوازوں سے بلانا شروع کر دیا کرتے تھے مگر دن رات میں سے بہت تھوڑا وقت تھا جو آنحضوری کا اپنا وقت تھا.باقی سب بنی نوع انسان کے لئے خدا کے کاموں کے لئے وقف تھا.خدا فرماتا ہے کہ اس وقت میں سے اُٹھا کرو جو خالصہ تمہارا ہے اس میں جب خدا کو دو گے تو یہ تمہارے اخلاص پر بھی دلالت کرے گا اور عقلاً بھی اس کے سوا کچھ کیا نہیں جاسکتا.دن کے وقت تو تم عبادت کے لئے کلیہ الگ نہیں ہو سکتے وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ جو بات بیان فرمائی گئی تھی کہ ہم تجھے بہت ہی بوجھل بات بتانے والے ہیں وہ یہ ہے کہ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا اللہ کانام بلند کیا کرو اور مقصد یہ ہے کہ خدا کا نام لیتے لیتے دنیا کے سب نام رفتہ رفتہ تمہارے ذہن سے اُٹھ جائیں اور دنیا سے کامل طور پر تعلق ٹوٹ جائے تَبَثَلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا تَبَثَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا دنیا کی ہر چیز سے تعلق توڑ کر کلیۂ خدا کے ہو جاؤ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ تب تمہارے لئے تمہارا رب مشرق اور مغرب کا رب بن کر اُبھرے گا پھر جس طرف تم منہ کرو گے وہاں رب ہی رب ہوگا اور کوئی وجود باقی نہیں رہے گا لا إلهَ إِلَّا هُوَ یہ معنی ہیں لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ کے زبان سے تو لاکھوں کروڑوں اربوں لوگ اقرار کرتے رہے، کرتے رہیں گے مگر ان کو کیا پتا کہ لا إلهَ إِلَّا هُوَ کیا ہوتا ہے.فرمایا پھر ایک ہی خدارہ جائے گا اور کچھ نہیں رہے گا فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاً پھر اس کو اپنا وکیل بنا.لوگ کہتے ہیں ہم خدا پر تو کل کرتے ہیں یہ نہیں پتا کہ تو کل کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کے دو حصے ہیں.ایک ہے دنا کا حصہ اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 430 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء دنا جب ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ سے قرب حاصل کر کے اس سے طاقت حاصل کر کے جب انسان دنیا کی طرف دوبارہ جھکتا ہے تو وہ کامل طور پر متوکل ہو جاتا ہے اور خدا ہر معاملے میں اس کا وکیل رہتا ہے اور کبھی بھی وہ خدا کی وکالت سے باہر نہیں ہوتا.تَبَتَّل کا مضمون ایسا ہے کہ اگر انسان پوری طرح سمجھ جائے تو خوف سے لرزنے لگے اور اس وقت زملونی کے معنی سمجھ آتے ہیں اس کے بغیر سمجھ نہیں آسکتے.دنیا کے ہر تعلق سے اپنا تعلق اس طرح توڑنا کہ خدا کے مقابل پر اس کو ذہنی طور پر اور قلبی طور پر قربان کرنے کا فیصلہ کر لینا اس کا نام تبثل ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرو تو آپ کا چونکہ تبتل ہو چکا تھا اس لئے آپ ذہنی طور پر اور قلبی طور پر اس وقت سے تیار بیٹھے تھے.صرف انتظار فرمارہے تھے کہ کب یہ بیٹا جوان ہو اور اس کو خدا تعالیٰ نے جو انفرادی حق عطا فر مایا ہے اس حق کو خود استعمال کرے اور میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے خود اپنے آپ کو پیش کرے تب میں اسے ذبح کروں گا لیکن اپنے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ذبح کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے.پس تبل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر تعلق کو کلیۂ توڑ ڈالے.تبتل کا مطلب یہ ہے کہ ہر تعلق کو ذہنی اور قلبی طور پر توڑنے کے لئے اس سچائی کے ساتھ تیار ہو جائے کہ جب بھی آزمائش میں ڈالا جائے ہمیشہ پورا اُترے اور یہی مضمون حضرت ابراہیم کے لئے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ جب بھی اللہ نے اس کو آزمایا اس کو پورا پا یا اس کو سچا پایا.ہر آزمائش پر وہ پورا اترا.اب تبتل ایک دینی اور قلبی Exercies ، ایک کسرت اور ورزش کا نام ہے اور یہ ورزش رات کو اٹھ کر صحیح معنوں میں ہوتی ہے اور انسان اپنے اوپر نظر ڈالتا ہے.اپنے حالات پر نظر ڈالتا ہے تو جگہ جگہ اپنے آپ کو وہ اس طرح باطل سے چمٹا ہوا دیکھتا ہے یاد نیاوی لذتوں کے ساتھ اس طرح آلودہ پاتا ہے کہ اس وقت اس کو سمجھ آتی ہے کہ اگر اس حالت میں میں ان سے علیحدگی اختیار کروں تو سخت زخمی ہو جاؤں گا اور مجھے توفیق نہیں ملے گی کہ اس درد کو برداشت کرسکوں.اس کے لئے تیاری کیسے کی جاتی ہے یہ شفاء پانے کا ایک مستقل سلسلہ ہے جو رفتہ رفتہ قدم قدم جاری رہتا ہے اور اپنے منتہی کو اور کامل منتہی کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات میں پہنچا اور باقی سب کے لئے ایک سفر کا نام ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے زخم کے اوپر کھر نڈیا ایک چھلکا سا آجاتا ہے.اس
خطبات طاہر جلدا 431 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء چھلکے کے ساتھ بدن کا ایک تعلق ہوتا ہے.جب تک وہ زخم شفاء نہ پا جائے وہ چھلکا علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، علیحدہ کرنے کی کوشش کریں گے تو شدید تکلیف بھی ہوگی اور فائدہ بھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ بدن کا وہ حصہ علیحدگی کے لئے تیار ہی نہیں ہے.جو بیمار حصہ ہے اس کی بیماری کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اس چھلکے کی ضرورت ہے اس کے بغیر وہ رہ ہی نہیں سکتا اور صحت مند بدن کا ایک بیرونی چھلکے پر انحصار یہی ایک گناہ ہے اور یہی بیماری ہے پس بدن کا بیمار حصہ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا شفاء نہ پا جائے اور اس چھلکے کی ضرورت سے آزاد نہ ہو جائے اس وقت تک اس کے چھلکے کا رہنالازم ہے اس کو زبردستی کاٹ کر پھینکیں گے تو بے فائدہ ہوگا.شفاء پانے کا جو یہ مضمون ہے اسے قرآن کریم نے بہت کھول کر بیان فرمایا کہ بی نتیں کرو تو پھر تم رفتہ رفتہ شفاء پاؤ گے، ہم نے دنیا میں دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کے چھلکے خود بخود اترتے ہیں کیونکہ وہ ان کو چھیڑتے نہیں ہیں اور ان کے بدن کو کلیہ یہ موقع میسر آتا ہے کہ غیر کی دخل اندازی کے بغیر وہ آہستہ آہستہ صحت پاتے چلے جاتے ہیں.پس وہ بیمار حصے جب صحت پا جاتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس چھلکے کی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی.ذراسی انگلی لگی کپڑ اسر کا یا تو ساتھ ہی وہ چھلکا اتر کر نیچے گر جاتا ہے اور آپ کو کبھی احساس بھی نہیں ہوا کہ اس کے نتیجہ میں آپ کو کوئی نقصان ہوا ہے لیکن اس کے بعد کچھ کھلی رہتی ہے اور وہ جو کھجلی ہے وہ پھر بیماری کو دعوت دینے کا ذریعہ بن جایا کرتی ہے.جب گناہوں سے انسان اپنا تعلق تو ڑتا ہے تو شفاء کی ایک منزل تو وہ ہے کہ چھلکا اتر جاتا ہے.تبتل کا ایک مقام حاصل ہو گیا لیکن جب تک کھجلی باقی ہے پورا تبثل نہیں ہو سکتا.کھجلی کے نتیجہ میں بندر مثلاً بار بار اس صحت والے حصے کو کھجاتے ہیں اور زخم بنا لیتے ہیں.اسی طرح بچوں کے متعلق آتا ہے کہ بندر اور بچے دونوں ہی اپنے زخم کو صحت پانے کے بعد پھر کھجا کھجا کر دوبارہ بیمار کر لیتے ہیں.اس لئے ان کے متعلق خاص احتیاط کرنی پڑتی ہے.انسانوں میں سے بھی ایسے ہوتے ہیں اور اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ بڑی محنت کر کے ایک گناہ سے تعلق توڑا اور تبتل اختیار کیا، گناہ کا چھلکا اُتر گیا اور کھجلی باقی رہ گئی اور کھجلی نے پھر آخر چھیلنے پر مجبور کر دیا اور پھر وہی چھلکا اور پھر وہی سلسلہ.تو بجائے اس کے کہ ایک زخم کے بعد دوسر از خم مندمل ہو ایک ہی زخم کے ساتھ جھگڑے ساری عمر کے جھگڑے بن جاتے ہیں اور عام دنیا میں اکثر آدمی ایسے ہیں کہ ان کا بدن چھلنی ہوتا ہے.آپ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 432 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء اپنے اوپر غور کر کے دیکھیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے برکت نصیب ہوئی ہوئی ہے.حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا اور آپ کی وساطت سے اور آپ کے زاویے سے آنحضور ﷺ کا نور آپ کی ذات پر بڑی شان کے ساتھ چپکا ہے.اس کے باوجوداگر رات کو اٹھ کر اپنے نفس کا تجزیہ کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ کے بدن پر کتنے پھوڑے ہیں.ہم میں سے ہرایک کا یہی حال ہے.ان پھوڑوں کی نشاندہی شفاء کی طرف پہلی منزل ہے اور وہ لوگ جو سو جاتے ہیں وہ نشاندہی نہیں کر سکتے.راتوں کو اُٹھنے کا اس مضمون سے دہرا شہر اتعلق ہے.روحانی معنوں میں ایک پیغام ہے کہ تم سوئے رہو گے تو کیسے پتا چلے گا کہ تمہارے زخم پر کیا کیا داغ ہیں اور کہاں کہاں سے چھلنی ہوا پڑا ہے.اُٹھو گے یعنی نفس کو بیدار کرو گے تو پھر ان باتوں کی سمجھ آئے گی پس راتوں کو تمہارا جسم بھی بیدار ہو اور نفس بھی بیدار ہو اور ان دونوں بیداریوں کے ساتھ تم اپنے حالات کا جائزہ لوتو پھر تمہیں معلوم ہو گا کہ تمہارے جسم پر جگہ جگہ کئی قسم کے پھوڑے پھنسیاں اور زخم موجود ہیں اور ان زخموں کی وساطت صلى الله سے تم دنیا سے چھٹے ہوئے ہو.پس تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبتِیلًا خدا کی طرف تَبَثّل اختیار کرو.آنحضور ﷺ کو جو مثال بنایا گیا تو اس سے ہر گز یہ مراد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک آنحضور کے بدن پر زخم تھے.اس مضمون کی نفی پہلی آیت نے کر دی ہے فرمایا یا يُّهَا الْمُزَّمِّل تجھ پر تو استغفار کی چادر کے سوا اور کچھ نہیں ہے تیرے بدن سے باہر کی فضا کا تعلق ٹوٹ چکا ہے اب اندر کا ایک سفر ہے جو چادر کے اندر سفر ہوتا ہے یعنی دنیا سے تعلق توڑنے کے بعد پھر ایک اور تبل کا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ باریک در بار یک تعلقات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اندرونی صفائی.اس کا تعلق جلد کے زخموں سے نہیں ہے.اس کا تعلق روح کے اندر چھپی ہوئی مخفی حالتوں اور کیفیات سے ہے اور ان کیفیات میں اتر کر جب انسان اپنے آپ کو کھنگالتا رہتا ہے تو پھر کثرت سے استغفار کرتا ہے اور یہی وہ استغفار تھی جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی استغفار تھی.آپ کے بدن پر کوئی چھلکے نہیں تھے چادر تھی اور وہ استغفار کی چادر تھی اس کے بعد آپ نے اندرونی ا سفر اختیار فرمایا اور اس سفر کے دوران آپ کے درجات بلند ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ اس آخری مقام پر پہنچے جس کا نام اُفق اعلی ہے.یعنی سب اُفقوں سے بلند افق جس تک انسان کی رسائی ہو سکتی تھی آپ وہاں تک پہنچے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 433 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء اور دنیا کی طرف واپس لوٹنے سے پہلے یہ تبتل ضروری ہے اس لئے اس مضمون کا سمجھنا آپ کے لئے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.جنہوں نے دنیا کو دعوت الی اللہ دینی ہے ہر دعوت الی اللہ دینے والا بعض حصوں میں دعوت دینے کا اہل ہے اور بعض حصوں میں دعوت دینے کا اہل نہیں ہے.جن زخموں سے وہ شفاء پا چکا ہے جن زخموں کے چھلکے اس کے بدن سے اتر چکے ہیں جن زخموں کی کھجلی بھی مندمل ہو چکی ہے اور اس کے ناخن کو اپنی طرف کھینچتی نہیں ہے ان حصوں میں ایک انسان دعوت الی اللہ کا مستحق ہوتا جاتا ہے اور ان حصوں میں خدا کا تعلق قائم ہوتا چلا جاتا ہے.یہ مضمون سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر آپ یہ مضمون نہیں سمجھیں گے تو بڑی سخت مایوسی پیدا ہوگی.اگر یہ انتظار کیا جائے کہ سارا بدن صحت مند ہو جائے سارے چھلکے اتر جائیں.ان چھوڑی ہوئی جگہوں کو کامل شفاء ہو جائے اور چھلکوں کی ضرورت کا وہم و گمان بھی دوبارہ دل میں نہ گزرے اور ناخن اس طرف کبھی نہ بڑھیں تو اس کے بعد ہم پوری طرح تبتل الی اللہ کریں گے اور خدا کی طرف دنو کریں گے اگر یہ خیال ہو تو ہم میں سے اس زمانہ میں اللہ کی عطا کردہ توفیق سے شاید ہی کوئی ہو جسے یہ مرتبہ عطا ہو جائے ورنہ یہ ناممکن ہے لیکن قدم قدم بلندیوں کی طرف بڑھناممکن ہے.اس لئے اس مضمون کو سمجھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ سنیں گے تو پہلے آپ کا دل دہل جائے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان رفعتوں سے کلام کر رہے ہیں جن تک پہنچنے کی خدا نے آپ کو توفیق بخشی.آنحضور ﷺ کی پیروی میں آپ نے بھی ایک تبتل اختیار فرمایا اور ان فضاؤں میں اُڑنے لگے جن فضاؤں کی طرف آنحضور ﷺ نے تمام بنی نوع انسان کو اڑنے کی دعوت دی تھی اور بلندیوں سے مخاطب ہور ہے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نفس کے کیڑوں کو کوئی اوپر سے آواز دے رہا ہے کہ ادھر آؤ اور ادھر آؤ اور ادھر آؤ اور جس طرح میں جدو جہد کر کے اور قربانیاں کر کے ان بلند مقامات پر فائز کیا گیا ہوں تم بھی انہی مقامات کی طرف آگے بڑھو لیکن سننے والے کیڑے ہیں مکوڑے ہیں ایسے ہیں جن کے پر جل چکے ہیں اور ایسے ہیں جن کو ابھی پر عطا ہی نہیں ہوئے اور ہزار ہا قسم کی گندگیوں میں ملوث ہیں ان کے لئے کتنی لمبی منازل ہیں جن سے گزر کر انہیں پر پرواز عطا ہوگا.ان باتوں کو سوچ کر انسان کا دل بیٹھ جاتا ہے لیکن جب آپ اس مضمون کو سمجھتے ہیں کہ بے شمار
خطبات طاہر جلد ۱۱ 434 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء بیمار ایسے ہوتے ہیں جن کے بدن پر کئی قسم کی آلائشیں لگی ہوتی ہیں کئی قسم کے پھوڑے اور پھنسیاں اور زخم لاحق ہوتے ہیں وہ ایک دم تو شفاء نہیں پا جایا کرتے.شفاء کی کوشش کرتے ہیں اور جب اخلاص کے ساتھ کوشش کرتے ہیں تو ایک زخم ٹھیک کرنے کے بعد رک نہیں جایا کرتے بلکہ آگے بڑھتے ہیں اور دوسرے زخم کو بھی ٹھیک کرتے ہیں اور تیسرے کو بھی کرتے ہیں اور چوتھے کو بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض ایسے جسم ہیں جن پر مچھلی کے چانوں کی طرح زخم ہوتے ہیں اور ایک ایک زخم کو مندمل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.تو جس کو اللہ سے تعلق ہے تو وہ پہلے اپنی ذات میں تبثل کا مضمون جاری کرے گا تب یہ حق اس کو عطا ہو گا کہ وہ بنی نوع انسان کو خدا کی طرف بلائے یہ ضروری نہیں کہ کامل شفاء کے بعد بلائے.وہ ایک داغ بھی تو دکھا سکتا ہے کہ دیکھو مجھ میں یہ داغ تھا جو خدا نے اپنے فضل سے دور فرما دیا اور صحت عطا فرمائی تم بھی اسی راستہ کو پکڑو تم بھی اپنے رب سے تعلق باندھوتو اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء عطا فرمائے گا اور اس کے نتیجہ میں تمہیں تو کل نصیب ہوگا.دنا کے بعد تدلی کا جو مضمون ہے اس پر جیسا کہ میں نے بیان کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک انقلابی روشنی ڈالی ہے، عرفان کا ایک حیرت انگیز سمندر ہے جو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جوش مار رہا ہے اور اس سمندر سے وہ موتی نکلے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر میں جڑے ہوئے ہیں.بہر حال جس رنگ میں بھی آپ اس کو بیان کریں جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے دَنا اور تدلی کا مضمون پڑھتے اور سمجھتے ہیں تب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا مقام اور مرتبہ تھا.اس سلسلہ میں جو تحریر میں نے آج پڑھنے کے لئے اختیار کی ہے اس کا تو اب وقت نہیں رہا میں گھڑی دیکھ رہا ہوں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں اور وہ تحریر بی ہے اور اس میں بعض جگہ ٹھہر ٹھہر کر آپ کو مضمون سمجھانے بھی ہوں گے.اسے تو میں اگلے جمعہ کے لئے رکھتا ہوں لیکن آنحضور ﷺ کی ایک اور تحریر دنا اور تدلی کے سلسلہ میں میں پیش کر دیتا ہوں اور آج کے خطبہ میں اسی پر اکتفا کروں گا.فرماتے ہیں.دَنَا فَتَدَلَّى (النجم : 9) آنحضور ﷺ کی شان میں آیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوع انسان کی طرف جھکا....66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۳۵۶)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 435 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء پہلے خدا سے تعلق جوڑا پھر اس کے بعد بنی نوع انسان کی طرف جھکا.آنحضرت ﷺ کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل وو سکتی اور اس کمال میں آپ کے دو درجے بیان ہوئے ہیں ایک صعود اور دوسرا نزول...“ صعود معنی اوپر چڑھنا اور نزول معنی واپس آنا.حضرت مسیح کے متعلق جو نزول کا لفظ آیا ہے اگر آپ انہی معنوں کو اس پر اطلاق کر کے سمجھیں تو آپ کو سمجھ آئے گی نزول کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے خدا کی طرف جائے گا خدا سے حاصل کرے گا پھر وہ تمہاری طرف جھکے گا ورنہ دنیا میں کسی انسان کو یہ توفیق نہیں ہے نہ اس منصب پر اسے فائز کیا جاسکتا ہے کہ وہ مہدی بن جائے یا عیسی دوراں ہو، مسیح دوراں بن جائے جب تک وہ پہلے خدا کی طرف رجوع نہ کرے اور صعود نہ کرے اور پھر نزول نہ کرے.اس وقت تک وہ تمہیں شفاء دینے کی اہلیت نہیں رکھ سکتا.پس نزول میں یہ وہ پیغام تھا جو دنیا کے اندھے نہیں سمجھ سکے اور اپنی زبان میں اس کے پتا نہیں کیا کیا مطلب کرتے رہے.یہاں تک کہ اس مضمون کو ناممکن بنا دی جسم کی حد تک محدود کر دیا.نہ کبھی کوئی جسم اترے اور نہ کبھی دنیا کو اس پر ایمان لانے کی توفیق ملے گویا اس مضمون کو نہ سمجھ کر ہمیشہ کے لئے مسیحیت کی صف لپیٹ دی گئی ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پہلا صعود ہے پھر نزول ہے.اسی کو اچھی طرح یا درکھو جس کا صعود ہوتا ہے اس کا نزول ہوتا ہے اور قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کے سوا دنیا کے کسی نبی کے لئے نزول کا لفظ استعمال نہیں ہوا.میں نے بہت غور کیا حالانکہ تمام نبیوں کا صعود ہوتا ہے اور نزول ہوتا ہے لیکن اپنے معنوں میں سب سے اعلیٰ درجے کا صعود آنحضرت مہ کو نصیب ہوا اور انہی معنوں میں آنحضور یہ کے نازل ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے.نہ ابراہیم کے نازل ہونے کا ذکر ، نہ موسیٰ“ کے نازل ہونے کا ذکر، نہ عیسی کے نازل ہونے کا ذکر یعنی پہلے عیسی کا اور نہ آدم کا نہ کسی اور نبی کا.قرآن میں خدا نے صلى الله محمد رسول اللہ کے نازل ہونے کا ذکر فرمایا اور آپ نے اپنے غلام کامل کے نازل ہونے کا ذکر فرمایا.یہ وہ مضمون ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کہ پہلے صعود ہوگا پھر نزول ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 436 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء وو...اللہ تعالیٰ کی طرف تو آپ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذات اقدس کے دنو کا درجہ آپ کو عطا ہوا....کھینچے جانے کا مطلب در اصل تبتل ہے اور اس مضمون کو میں آئندہ انشاء اللہ مزید تفصیل سے بیان کروں گا.فرماتے ہیں ایسے کھینچے گئے کہ خدا تعالی کی طرف سے آپ کو دنو کا درجہ عطا ہوا ہے.”...دنو اقرب سے ابلغ ہے...66 یعنی ایک لفظ ہے اقرب یعنی قریب ترین.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اقرب کے مقابل پر دنسو کا لفظ زیادہ فصیح و بلیغ ہے.اس سے زیادہ فصیح و بلیغ لفظ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اقرب میں تو یہ معنی بھی پائے جا سکتے ہیں کہ ویسے ہی خدا نے تقدیر کسی کو اپنے قریب رکھ لیا ہے مگر دنو میں پورے سفر کا حال بیان ہوا ہے.دنیا سے سفر شروع کیا ہے اور عروج کے اس اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں اور اس سارے سفر کی تمام منازل سے واقف ہوئے اور درجہ بدرجہ ترقی پانے کے سارے راز آپ نے پائے.تب آپ بنی نوع انسان کے استاد مقرر ہوئے کیونکہ ہر منزل کے ہر راز سے واقف بنائے گئے پس جب آپ ان معنوں میں لفظ دنو پر غور کرتے ہیں تو اقرب کا لفظ اس کے مقابل پر محض ایک سطحی سالفظ اور بے معنی سالفظ دکھائی دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ دنو اقرب سے ابلغ ہے اگر کوئی صاحب نظر انسان ہو تو اسی ایک فقرے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا قائل ہوسکتا ہے.سخت ہی متعصب اور جاہل اور اندھا ہوگا جو یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا راز نہ پاسکے.پھر فرماتے ہیں....اس لئے یہاں یہ لفظ اختیار کیا جب اللہ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپ نے حصہ لیا....66 یعنی دنیا سے کٹنے کے بعد خالی نہ رہے.خدا کے فیوض اور برکتوں سے حصہ پایا تو...پھر بنی نوع پر رحمت کے لئے نزول فرمایا.یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 437 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء فرمایا ہے.آنحضرت ﷺ کے اسم قاسم کا بھی یہی سر ہے....66 آپ کو جو تقسیم کرنے والا بیان فرمایا ہے اس میں بھی یہی راز ہے فرماتے ہیں: "...آپ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ کا نزول ہوا....یعنی تقسیم کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ آپ کی جھولی میں روحانی رزق ڈالتا ہے تو آگے آپ تقسیم کرتے ہیں اس کا نام ہے قاسم پھر فرمایا."...اس دَنَا فَتَدَلُّی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کے علو مرتبہ کی دلیل ہے.66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحه : ۳۵۶) آج کا مضمون میں یہیں تک پہنچا کر میں جماعت کو مختصر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ نے حقیقی معنوں میں داعی الی اللہ بنا ہے تو وہ سارے ذرائع جو میں آپ کے سامنے بیان کرتا رہا ہوں اور جد و جہد کے وہ تمام طریق جو آپ کو سمجھا تا رہا ہوں ان کو اختیار کر یں لیکن ان ذرائع اور ان طریقوں میں جان تب پڑے گی اگر آپ کے اندر آسمان سے خدا تعالیٰ کی محبت کی جان پڑے گی اگر وہ جان آپ میں نہ پڑی تو وہ سارے ذرائع بریکار ہوں گے وہ مٹی کی مورتیں ہوں گی جن میں نفس نہیں پھونکا گیا.پس جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات سے آپ کی ذات میں اور آپ کی کوششوں میں امر نہ پھونکا جائے اس وقت تک آپ زندہ نہیں ہو سکتے اور آپ کی کوششیں بالکل بیکار اور بے معنیٰ ہوں گی.پس آپ کو لازم ہے کہ اس جدوجہد میں خدا تعالیٰ سے زندگی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور خدا تعالیٰ سے زندگی حاصل کرنے کا راز یہ ہے کہ دنیا کے تعلقات پر موت وارد کریں ایک حصہ ایک طرف سے مرے گا تو دوسری طرف سے زندہ ہو گا.جب تک موت اور زندگی کا یہ سلسلہ جاری نہیں ہوتا اس وقت تک ایک احمدی حقیقت میں داعی الی اللہ بننے کا حق ادا نہیں کر سکتا.حق ادا کر نا تو بہت دور کی بات ہے اس سفر کا کوئی قدم بھی اس کو نصیب نہیں ہوسکتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی سعید فطرت کو اس کی وجہ سے اس کی دعوت پر حق پانے کی توفیق عطا فرمادے لیکن ایسی دعوت جس کے نتیجہ میں غیر تو زندگی پا رہے ہیں اور انسان خود زندگی سے محروم ہو، یہ کیسی محرومی کی دعوت ہے کیسی بدنصیبی کی دعوت ہے.یہ تو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 438 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۹۲ء ایسی ہی دعوت ہے جیسے کہ کشمیریوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ غریب لوگوں کے لئے کپڑے بنتے ہیں اور آپ ان کے بدن خالی اور ننگے ہوتے ہیں.بعض لوگوں نے اسے یوں بیان کیا کہ غریب کشمیری کی مثال تو ایک سوئی کی طرح ہے جولوگوں کے لئے ہر وقت محنت کے ساتھ ہر غوطے کے ساتھ ایک ٹانکا بھرتی اور اُن کے بدن ڈھانپنے کے سامان کرتی ہے لیکن آپ ہمیشہ نگی رہتی ہے.تو خدا کرے کہ صلى الله آپ وہ سوئی نہ بنیں جو لوگوں کے بدن ڈھانچے اور آپ نگی رہے.خدا کرے کہ آپ محمد مصطفی ہے کی طرح وہ اوڑھنی پہننے والے بن جائیں جن کو مزمل کہہ کر مخاطب فرمایا گیا آپ کے گرد خدا کی رضا کی چادر ہو، مغفرت کی چادر ہو، استغفار کی چادر ہو اور اس چادر میں لپٹ کر آپ دنیا کو اپنی طرف بلائیں اور اس چادر میں رہتے ہوئے عبادت کے حق ادا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 439 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں تبتل وتوکل کی عارفانہ تشریح (خطبہ جمعہ فرموده ۳ جولائی ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.پھر فرمایا:.سورۃ المزمل کی جن آیات کی میں نے گزشتہ جمعہ تلاوت کی تھی اور اس مضمون کا ایک حصہ بیان کیا تھا اسی کے متعلق آج انشاء اللہ اس مضمون کا دوسرا حصہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر کی روشنی میں پیش کرتا ہوں.وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ الله کو یاد کیا کر اور اس کی طرف انقطاع کر یعنی ہر دوسری چیز سے تعلق کاٹ کر خدا کا ہو جا.رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ جب تير تعلق مشرق سے کٹ جائے گا اور مغرب سے بھی کٹ جائے گا.جب اس دنیا میں تو خود اپنے ارادے کے نتیجہ میں نہ کہ بے بسی کے نتیجہ میں تنہا رہ جائے گا.جب تو عمداً سب دنیا سے منہ موڑے گا.نہ مشرق تیرا رہے گا نہ مغرب تیرا ر ہے گا تو یا درکھ کہ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مشرق بھی خدا کا ہے اور مغرب بھی خدا کا ہے.خدا کے سوا کوئی معبود تیرے لئے باقی نہیں رہے گا.فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا.پس اس پر توکل
خطبات طاہر جلد ۱۱ 440 خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۹۲ء کر.جب دنیا تجھ سے کاٹی گئی تو خدا سارے کا سارا تیرا ہو جائے گا.اس کے بعد کا مضمون پھر کیا ہوتا ہے؟ دنیا سے کٹنے کے معنی کیا ہیں؟ کیا دنیا سے بے تعلقی کے نتیجہ میں دنیا سے کاٹا جاتا ہے یا اور وجوہات ہیں؟ تَبَتُل کا یہ معنی کرنا کہ دنیا سے بے رغبتی کرلے اور دنیا سے نفرت کرلے درست نہیں ہے کیونکہ اگر دنیا سے نفرت ہو جائے تو پھر اُس دنیا میں واپسی کا کوئی سامان پیدا نہیں ہوتا.وہ دنیا جسے نفرت اور دلی قلبی تعلق کے کٹنے کی وجہ سے انسان چھوڑتا ہے پھر وہاں دوبارہ واپس آکر کیا کرنا ہے لیکن یہ جو بے تعلقی ہے اس میں تعلق کا ایک مضمون بھی ساتھ ساتھ جاری ہے.دنیا کے تعلقات موجود ہیں لیکن ان تعلقات کو اس طرح منقطع کر دے کہ ان میں قوت اور غلبہ نہ رہے اور جب بھی وہ خدا کے تعلق کے مقابل پر آئیں ان کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے لیکن فی ذاتہ دنیا ہے کلیۂ تعلق تو ڑ نا مراد نہیں ہے تعلق رکھتے ہوئے بھی عملاً ایسی صورت اختیار کرنا جیسے یہ تعلق ثانوی اور بے حیثیت ہے اور بے حقیقت ہے.تو پھر اس تعلق میں ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے.اس زندگی کے متعلق حضرت مسیح موعود نے پہلے تبتل کی تفصیلی تشریح فرمائی اس کے بعد زندگی پر روشنی ڈالی پھر بنی نوع انسان سے ایک نیا تعلق جو پیدا ہوتا ہے اس مضمون کو بڑی گہری فراست اور عرفان کے ساتھ بیان فرمایا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تشریح فرمائی ہے اس کا ایک پس منظر ہے.چنانچہ ۱۳ ستمبر ۱۹۰۱ء میں یہ بات الحکم میں شائع ہوئی ہے.ایڈیٹر لکھتے ہیں کہ تبتل کی حقیقت جو ۱۳ ستمبر ۱۹۰۱ء کو جو مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعود دام اللہ فیوضہم نے سید امیر علی شاہ صاحب ملہم سیالکوٹی کے استفسار پر بیان فرمائی.سید امیر علی شاہ سیالکوٹ کے ایک بزرگ تھے، صاحب الہام تھے.ان کو اللہ تعالیٰ نے البهاما یہ ارشاد فرمایا کہ اگر تبتل کے معنی سیکھنے ہیں تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دریافت کریں.اس بنا پر انہوں نے سوال کیا اور حضرت اقدس نے اس کی تشریح فرمائی.آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں وہ تشریح یہ ہے.”میرے نزدیک رویا میں یہ بتانا کہ تبتل کے معنی مجھ سے دریافت کئے جائیں.اس سے یہ مراد ہے کہ جو مذہب میرا مذ ہب اس بارہ میں ہے وہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 441 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء اختیار کیا جائے.منطقیوں یا نحویوں کی طرح معنی کرنا نہیں ہوتا بلکہ حال کے موافق معنی کرنے چاہئیں.ہمارے نزدیک اُس وقت کسی کو متبتل کہیں گے جب وہ عملی طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام اور رضا کو دنیا اور اس کی متعلقات و مکروہات پر مقدم کرے کوئی رسم و عادت کوئی قومی اصول اس کار ہنرن نہ ہو سکے...“ کوئی رسم ، کوئی عادت، کوئی قومی جذ بہ یا قومی وفاداریاں خدا کے تعلق پر ڈا کے نہ ڈالیں اس کے رہنرن نہ بن جائیں...“ "...نہ نفس رہزن ہو سکے، نہ بھائی نہ جورونہ بیٹا نہ باپ.غرض کوئی شئے اور کوئی بھی متنفس اس کو خدا تعالیٰ کے احکام اور رضا کے مقابلہ میں اپنے اثر کے نیچے نہ لا سکے اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ایسا اپنے آپ کو کھو دے کہ اس پر فنائے اتم طاری ہو جائے اور اس کی ساری خواہشوں اور ارادوں پر ایک موت وارد ہو کر خدا ہی خدارہ جاوے.دنیا کے تعلقات بسا اوقات خطرناک رہزن ہو جاتے ہیں.حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی رہزن حضرت تو ہوگئی.پس تبتل تام کی صورت میں یہ ضروری امر ہے کہ ایک سکر اور فنا انسان پر وارد ہومگر نہ ایسی کہ وہ اسے خدا سے گم کرے بلکہ خدا میں گم کرے.غرض عملی طور پر تبتل کی حقیقت تب ہی کھلتی ہے جبکہ ساری روکیں دور ہو جائیں اور ہر قسم کے حجاب دور ہو کر محبت ذاتی تک انسان کا رابطہ پہنچ جاوے اور فناء اتم ایسی حاصل ہو جاوے.قیل وقال کے طور پر تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور انسانی الفاظ اور بیان میں بہت کچھ ظاہر کر سکتا ہے مگر مشکل ہے تو یہ کہ عملی طور پر اسے دکھا بھی دے جو وہ کچھ کہتا ہے.یوں تو ہر ایک جو خدا کو ماننے والا ہے پسند بھی کرتا ہے اور کہہ بھی دیتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کوسب پر مقدم کروں اور مقدم کرنے کا مدعی بھی ہو سکتا ہے لیکن جب ان آثار اور علامات کا معائنہ کرنا چاہیں جو خدا کے مقدم کرنے کے ساتھ ہی عطا ہوتے ہیں تو ایک مشکل کا سامنا ہو گا.بات بات پر انسان ٹھوکر کھاتا ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 442 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء جب اس کو مال اور جان کے دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اُن سے اُن کی جانوں اور مالوں یا اور عزیز ترین اشیاء کی قربانی چاہتا ہے حالانکہ وہ اشیاء اُن کی اپنی بھی نہیں ہوتی...“ یعنی خدا کی دی ہوئی ہوتی ہیں.یہ میں نے اپنی طرف سے تشریح کی ہے.الله.لیکن پھر بھی وہ مضائقہ کرتے ہیں.ابتد البعض صحابہ کو اس قسم کا ابتلاء پیش آیا.رسول اللہ یہ و بناء مسجد کے واسطے زمین کی ضرورت تھی.ایک شخص سے زمین مانگی تو اُس نے کئی عذر کر کے بتادیا کہ میں زمین نہیں دے سکتا.اب وہ شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا تھا اور نہ اللہ کے رسول کو سب پر مقدم کرنے کا عہد کیا تھا لیکن جب آزمائش اور امتحان کا وقت آیا تو اُس کو پیچھے ہٹنا پڑا.گو آخر کار اُس نے وہ قطعہ دے دیا.تو بات اصل میں یہی ہے کہ کوئی امر محض بات سے نہیں ہو سکتا جب تک عمل اس کے ساتھ نہ ہو اور عملی طور پر صحیح ثابت نہ ہوتا جب تک امتحان ساتھ نہ ہو.ہمارے ہاتھ پر بیعت تو یہی کی جاتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا اور ایک شخص کو جسے خدا نے اپنا مامور کر کے دنیا میں بھیجا ہے اور جو رسول صلى الله اللہ ﷺ کا نائب ہے.جس کا نام حکم اور عدل رکھا گیا ہے اپنا امام سمجھوں گا.اس کے فیصلے پر ٹھنڈے دل اور انشراح قلب کے ساتھ رضا مند ہو جاؤں گا لیکن اگر کوئی شخص یہ عہد اور اقرار کرنے کے بعد بھی ہمارے کسی فیصلہ پر خوشی کے ساتھ رضامند نہیں ہوتا...“ پر رضامند ہونے کا نہیں فرما ر ہے بلکہ فرمارہے ہیں کہ فیصلہ پر خوشی کے ساتھ رضامند نہیں ہوتا.”...بلکہ اپنے سینہ میں کوئی روک اور اٹک پاتا ہے تو یقیناً کہنا پڑے گا کہ اس نے پورا تبتل حاصل نہیں کیا اور وہ اس اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا جو تبتل کا مقام کہلاتا ہے بلکہ اس کی راہ میں ہوائے نفس اور دنیوی تعلقات کی روکیں اور زنجیریں باقی ہیں اور ان حجابوں سے وہ باہر نہیں نکلا جن کو پھاڑ کر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 443 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء انسان اس درجہ کو حاصل کرتا ہے.جب تک وہ دنیا کے درخت سے کاٹا جا کر الوہیت کی شاخ کے ساتھ ایک پیوند حاصل نہیں کرتا اس کی سرسبزی اور شادابی محال ہے...پس دنیا سے کٹنے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ سے وابستہ ہونے کا مضمون تبتل میں پایا جاتا ہے جسے تبتل الی کے الفاظ کے استعمال سے بیان فرمایا گیا.یعنی ایک چیز سے کٹنا اور ساتھ ہی دوسری چیز سے پیوستہ ہو جانا کیونکہ درمیان کی حالت خطرے کی حالت ہے اور اگر ایک چیز کو اس کی اصل سے اکھیڑ کر دوسری طرف جلدی منتقل نہ کیا جائے تو زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.مگر قرآن کریم نے جو مضمون بیان فرمایا ہے وہ ایک ساتھ ہی جاری ہونے والا مضمون ہے.ایک طرف انسان کہتا جاتا ہے اور دوسری طرف پیوست ہوتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں.وو...دیکھو جب ایک درخت کی شاخ اُس سے کاٹ دی جاوے تو وہ پھل پھول نہیں دے سکتی خواہ اسے پانی کے اندر ہی کیوں نہ رکھو اور ان تمام اسباب کو جو پہلی صورت میں اس کے لئے مایۂ حیات تھے ، استعمال کر ولیکن وہ کبھی بھی بار آور نہ ہوگی.اسی طرح پر جب تک ایک صادق کے ساتھ انسان کا پیوند قائم نہیں ہوتا وہ روحانیت کو جذب کرنے کی قوت نہیں پاسکتا جیسے وہ شاخ تنہا اور الگ ہو کر پانی سے سرسبز نہیں ہوتی.اسی طرح پر یہ بے تعلق اور الگ ہو کر بار آور نہیں ہوسکتا.پس انسان کو متبتل ہونے کے لئے ایک قطع کی ضرورت بھی ہے اور ایک پیوند کی بھی.خدا کے ساتھ اُسے پیوند کرنا اور دنیا اور اس کے تمام تعلقات اور جذبات سے الگ بھی ہونا پڑے گا.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بالکل دنیا سے الگ رہ کر یہ تعلق اور پیوند حاصل کرے گا.نہیں بلکہ دنیا میں رہ کر پھر اس سے الگ رہے.یہی تو مردانگی اور شجاعت ہے اور الگ ہونے سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی تحریکیں اور جذبات اس کو اپنا زیر اثر نہ کر لیں اور وہ ان کو مقدم نہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 444 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء کرے بلکہ خدا کو مقدم کرے.دنیا کی کوئی تحریک اور روک اس کی راہ میں نہ آوے اور اپنی طرف اس کو جذب نہ کر سکے.میں نے ابھی کہا ہے کہ دنیا میں بہت سی روکیں انسان کے لئے ہیں.ایک جو رویا بیوی بھی بہت کچھ رہزن ہو سکتی ہے.خدا نے اس کا نمونہ بھی پیش کیا ہے.خدا نے صرف ایک نہی کی تعلیم دی تھی اس کا اثر پہلے عورت پر ہوا پھر آدم پر ہوا...“ یہ عرفان کا بہت بڑا نکتہ ہے جسے ازدواجی تعلقات میں اور عائلی تعلقات میں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے گھر والوں سے حسن سلوک کرو اور اُن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو.خوش اخلاقی سے پیش آؤ تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اصولوں کے سودے کرو اور خدا کے تعلق کواز دواجی تعلق پر قربان کر دو.پس یہ توازن رکھنا تبت میں بہت زیادہ ضروری ہے اور یہ توازن تبھی ہو سکتا ہے کہ انسان دنیا میں رہے بھی اور دنیا کا نہ ہو کر دنیا میں رہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آدم کی کہانی میں تمہیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ خدا نے جب نہی کا حکم دیا تو اس کا پہلا اثر عورت پر پڑا تھا.یعنی اس کے انکار کی طرف میلان عورت کے دل میں ہوا اور اس سے متاثر ہو کر پھر آدم سے غلطی ہوئی.پس تمہارے لئے گھر میں ایک ٹھوکر کا بھی مقام ہے اور اس مقام سے ہمیشہ بچتے رہن یہ بھی تبتل کی تعلیم کے تابع ہے اور ہمیشہ اس کو پیش نظر رکھنا چاہئے.پھر فرماتے ہیں.وو..غرض تبتل کیا ہے؟ خدا کی طرف انقطاع کر کے دوسروں کو محض مردہ سمجھ لینا.بہت سے لوگ ہیں جو ہماری باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں اور کہتے ں کہ یہ سب کچھ بچا اور درست ہے مگر جب اُن سے کہا جاوے کہ پھر تم اس کو قبول کیوں نہیں کرتے تو وہ یہی کہیں گے کہ لوگ ہم کو برا کہتے ہیں...“ جیسا کہ ہم دعوت الی اللہ کے تعلق میں روز مرہ محسوس کرتے ہیں اور بعض احمدی بسا اوقات خط بھی لکھتے ہیں اور زبانی بھی بتاتے ہیں کہ ایک شخص احمدیت کے بہت قریب آ گیا ہے.علیحدگی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا اقرار کرتا ہے.کہتا ہے احمدیت سچی ہے لیکن جب کہا جائے کہ بیعت کیوں نہیں کرتے تو کہتا ہے کہ دنیا کے تعلقات حائل ہیں.لوگ کیا کہیں گے؟ مجھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 445 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۹۲ء میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ دنیا کے طعنے برداشت کر سکوں یا اپنے عزیزوں اور اقربا کی مخالفت سہہ سکوں.پس یہی وہ مضمون ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں کہ...جب اُن سے کہا جاوے کہ پھر تم اس کو قبول کیوں نہیں کرتے تو وہ یہی کہیں گے کہ لوگ ہم کو برا کہتے ہیں.پس یہ خیال کہ لوگ اس کو برا کہتے ہیں یہی ایک رگ ہے جو خدا سے قطع کراتی ہے.66 یعنی تبتل الٹ ہو جاتا ہے.خدا سے کٹ کر بنی نوع انسان سے تعلق قائم ہو جاتا ہے.رخ بالکل پلٹ جاتا ہے.پس فرمایا.وو...جو خدا سے قطع کراتی ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا خوف دل میں ہو اور اس کی عظمت اور جبروت کی حکومت کے ماتحت انسان ہو پھر اس کو کسی دوسرے کی پرواہ کیا ہو سکتی ہے وہ کیا کہتا ہے کیا نہیں ؟ ابھی اُس کے دل میں لوگوں کی حکومت ہے نہ خدا کی.جب یہ مشرکانہ خیال دل سے دور ہو جاوے پھر سب کے سب مردے اور کیڑے سے بھی کم تر اور کمزور نظر آتے ہیں.اگر ساری دنیا مل کر بھی مقابلہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں کہ ایسا شخص حق کو قبول کرنے سے رک جائے.تبتل تام کا پورانمونہ انبیاء علیہم السلام اور خدا کے ماموروں میں مشاہدہ کرنا چاہئے کہ وہ کس طرح دنیا داروں کی مخالفتوں کی باوجود پوری بے کسی اور نا توانی کے پرواہ تک نہیں کرتے.اُن کی رفتار اور حالات سے سبق لینا چاہئے.“ قرآن کریم میں انبیاء کے حالات کا مطالعہ کریں بلا استثناء ہر نبی جب وہ خدا کی خاطر ساری قوم سے کاٹا جاتا ہے اور ساری قوم اس کے مخالف اور اس کے مثانے کے در پہ ہو جاتی ہے تو متبتل کا عظیم پاک نمونہ دکھاتا ہے.پس تبتل تام وہ ہے جس کے ساتھ امتحان بھی شامل ہو.ایک تبتل وہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے اور تبتل حاصل کرنا بھی بڑا مشکل ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہمیشہ ٹولتا رہے اور دیکھتا رہے کہ کہاں کہاں اس کا تعلق ابھی بنی نوع انسان کے کسی حصہ سے یاد نیاوی
خطبات طاہر جلدا 446 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۹۲ء خواہشات کے کسی حصے سے ہے اور ہر جگہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اپنے نفس کی صحت کا انتظام کرتے ہوئے اس تعلق کے چھلکے کو الگ کرتا رہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سے اگلا قدم سمجھا رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ تبتل اور توکل کے درمیان ایک امتحان کا مقام ہے اور تبتل کا سچا ہونا امتحان کے بغیر ثابت نہیں ہوتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تشریح کی روشنی میں جب ہم آپ کے اس کلام کا مطالعہ کرتے ہیں کہ تبتل کا اعلیٰ اور پاک اور سچا نمونہ خدا کے انبیاء دکھاتے ہیں تو یہ سو فیصدی درست بات ہے کیونکہ ہر نبی کے تبتل کے ساتھ ایک امتحان لگا ہوتا ہے اور اس کا تبتل بار بار آزمایا جاتا ہے اور ایسے خوفناک طریقوں پر آزمایا جاتا ہے کہ عام انسان کے بس میں نہیں کہ اتنے شدید مخالفانہ حالات کا اس طرح مستحکم ہو کر مقابلہ کر سکے.ایک درخت پر جس طرح آندھیاں چلتی ہیں اگر وہ زمین میں پیوست اور مستحکم نہ ہو تو جڑوں سے اکھیڑا جاتا ہے.اسی طرح انبیاء پر خدا کے اقرار کے بعد اور خدا کی توحید کے اعلان کے بعد آندھیاں چلتی ہیں اور وہ اس امتحان میں اسی طرح پورے اترتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا.إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجده: ۳۱) کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں اور خدا ہمارا رب ہے وہ معاً آزمائے جاتے ہیں.ثُمَّ اسْتَقَامُوا.اس آزمائش پر پھر وہ پورا اترتے ہیں اور استقامت دکھاتے ہیں.یہ کہنا کہ رب ہمارا ہے اس میں استقامت کا کیا سوال ہے؟ استقامت کا لفظ بتا رہا ہے کہ اس رب کہنے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کے نزول کے درمیان کچھ واقعات گزر گئے ہیں.کچھ شدید آزمائشیں آن پڑی ہیں بمخالفتوں کی آندھیاں چلائی گئی ہیں اور ان کے قدم اکھیڑنے کی کوشش کی گئی ہے تب وہ اپنے قدموں میں قائم رہتے ہیں ایک ذرہ بھی اپنے اقرار سے اور اپنے ایمان سے ملتے نہیں.اس کے نتیجہ میں پھر تو کل کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.تو کل محض ایک فرضی تو کل نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ الله کی طرف سے ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں.اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا.ہر گز کسی خوف کا مقام نہیں کسی غم کا مقام نہیں ، خدا تمہارے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 447 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء ساتھ ہے، خدا نے ہمیں تمہاری حفاظت کے لئے بھیجا ہے.تو تبتل کا مضمون یہ وہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ انبیاء میں اس کو تلاش کرو.فرماتے ہیں کہ انبیاء اور خدا کے ماموروں میں مشاہدہ کرنا چاہئے کہ تبتل تام کیا ہوتا ہے.پھر فرماتے ہیں:.وو ”...بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں ایسے لوگ جو برا نہیں کہتے مگر پورے طور پر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ برا کہیں گے کیا اُن کے پیچھے نماز پڑھ لیں ؟ میں کہتا ہوں ہر گز نہیں.اس لئے کہ ابھی تک اُن کے قبول حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھر ہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اور ہلاک کرنے والا ہے...“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تبتل کے بغیر دنیا پرانحصار کی زندگی کو شرک قراردے رہے ہیں اور شرک کی حقیقی اور آخری تعریف یہی ہے کہ خدا پر کسی اور چیز کا متقدم کیا جائے.یہ وہ درخت ہے جس کا پھل زہریلا ہے.یہ وہ درخت ہے جس سے حضرت آدم کو منع فرمایا گیا تھا.اسی درخت کی طرف اشارہ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس زہر یلے درخت سے اس کا تعلق ٹوٹتا نہیں تو اس کے پیچھے تمہاری نمازیں کیسے صحت مند ہو جائیں گی.وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اور ہلاک کرنے والا ہے.یا درکھیں یہاں فرقہ مراد نہیں ہے.نہ کسی مذہب کی طرف اشارہ ہے.اسی درخت کی بات ہو رہی ہے جسے حضرت آدم کے زمانہ میں حضرت اقدس جل شانہ نے زہریلا اور ناپاک اور ممنوعہ درخت قرار دیا تھا.اسی درخت کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے فرما چکے ہیں.فرماتے ہیں یہ ایسا درخت ہے کہ اس کی شاخ کو زہر یلے پھل لگیں گے، کوئی میٹھا پھل نہیں لگ سکتا.پھر فرمایا.وو...اگر وہ دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے...‘اس سے ثابت ہوا کہ اشارہ شرک کی طرف ہے اور اللہ تعالیٰ پر غیر اللہ کوترجیح دینے کا ذکر فرمارہے ہیں.”...اگر وہ دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے تو ان سارے حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پر واہ نہ کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 448 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامنگیر نہ ہوتا بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے پس تم یادرکھو کہ تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوق خدا.جب تک یہ حالت نہ ہو جاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہو جاوے اور کوئی شیطان اور رہزن نہ ہو سکے اس وقت تک ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے لیکن جب دنیا کی برائی بھلائی محسوس ہی نہ ہو بلکہ خدا کی خوشنودی اور ناراضگی اس پر اثر کرنے والی ہو یہ وہ حالت ہوتی ہے جب انسان ہر قسم کے خوف وخون کے مقامات سے نکلا ہوا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں شامل ہو کر پھر اس سے نکل بھی جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کا شیطان اس لباس میں ہنوز اس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اگر وہ عزم کر لے کہ آئندہ کسی وسوسہ انداز کی بات کوسنوں گا ہی نہیں.تو خدا اسے بچالیتا ہے.ٹھوکر لگنے کا عموماً یہی سبب ہوتا ہے کہ دوسرے تعلقات قائم تھے.اُن کو پرورش کے لئے ضرورت پڑی کہ ادھر سے ست ہوں.ستی سے اجنبیت پیدا ہوئی...“ مراد یہ ہے کہ جب دوسرے تعلقات ابھی قائم رہیں اور ان شاخوں کو انسان سرسبز رکھنا چاہے.یہ وہ مضمون ہے جو بیان فرما رہے ہیں.ان کو تازہ کرنے کے لئے ضرورت پڑی کہ ادھر سے سست ہوں تو وہ زندگی کا چشمہ جو انسان کے دل سے پھوٹتا ہے وہ بیک وقت دورخوں پر نہیں بہہ سکتا.جس طرح زمیندار کھالے کے آگے بند باندھ کر ایک کھیت سے تعلق تو ڑتا ہے تو پھر دوسرے کھیت کو پانی دیتا ہے.بالکل وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں کہ ادھر ضرورت پڑی تو ادھر سے ستی ہو گئی.خدا کا تعلق کاٹ کر پھر دنیا کے تعلقات کو سنبھالا جارہا ہے اور ان کی نشو ونما کی جارہی ہے.سستی سے اجنبیت پیدا ہوئی جب خدا سے تعلق میں ستی پیدا ہو تو اس سے اجنبیت آجاتی ہے.“ پھر فرماتے ہیں.پھر اس سے تکبر اور پھر انکار تک نوبت پہنچتی...تبتل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خدا ہیں.نہ آپ کو کسی کی مدح کی پرواہ نہ ڈم کی.کیا
خطبات طاہر جلدا 449 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۹۲ء کیا آپ کو تکالیف پیش آئیں مگر کچھ بھی پرواہ نہیں کی کوئی لالچ اور طمع آپ کو کام سے روک نہ سکا جو آپ خدا کی طرف سے کرنے آئے تھے.جب تک انسان اس حالت کو اپنے اندر مشاہدہ نہ کرلے اور امتحان میں پاس نہ ہوئے کبھی بھی بے فکر نہ ہو پھر یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ جو شخص متبتل ہوگا متوکل بھی وہی ہوگا...“ پھر اس آیت کریمہ کے آخر پر جو میں نے ابھی تلاوت کی تھی اللہ تعالیٰ تبتل کے بعد تو کل الیہ کا مضمون بیان فرماتا ہے.ادھر تبتل کروا دھر تو کل کرو اور یہ دونوں لازم ملزوم ہیں.بعض دفعہ تو کل کے نتیجہ میں تبتل پیدا ہوتا ہے اور بعض دفعہ تبتل کے نتیجہ میں تو کل پیدا ہوتا ہے اور یہ دونوں مضمون بعض دفعہ ایک دم بیک وقت اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک انسان کے لئے تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ اپنے نفس کے حالات کا گہرا مطالعہ کرنے کے عادی ہوں اور اپنی نیوں کی کنہہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان با وجود اس خوف کے دنیا سے قطع تعلق کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی بھی اس کا سہارا نہیں رہا.وہ ایک قسم کا خلاء میں چھلانگ مارتا ہے اور اس چھلانگ لگانے کے نتیجہ میں وہ خدا کے پیار کے ہاتھوں میں آجاتا ہے اور وہ پیار کے ہاتھ اسے گرنے سے بچالیتے ہیں.پس بعض دفعہ تبتل پہلے پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں تو کل پیدا ہوتا ہے.بعض دفعہ تو کل ایک صاحب عرفان کو اتنا گہرائی کی حد تک نصیب ہوتا ہے کہ اس کے لئے تبتل کے معنی کوئی نہیں رہتے.اور تبثل تو کل کا ایک لازمی نتیجہ ہے.وہ جسے ہر طرف خدا ہی خدا دکھائی دینے لگے اور اس کے سوا ہر دوسری چیز بے حقیقت اور بے معنی نظر آنے لگ جائے اور دل کو محسوس ہونے لگ جائے تو اس کا تنتل ایک طبعی تبتل ہے.اُس کے تعلقات غیر اللہ سے کمزور پڑتے پڑتے از خود بالکل مٹ جاتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جو شخص متبل ہوگا متوکل بھی ہوگا.گویا متوکل ہونے کے واسطے متبتل ہونا شرط ہے کیونکہ جب تک اوروں کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ اُن پر بھروسہ اور تکیہ کرتا ہے.اُس وقت تک خالصہ اللہ پر توکل کب ہو سکتا ہے.جب خدا کی طرف انقطاع کرتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 450 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء ہے.تو وہ دنیا کی طرف سے توڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جبکہ کامل تو کل ہو...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس فقرے میں دونوں کنارے بیان فرما دیے ہیں اور یہ جو مضمون ہے یہ روز مرہ کی زندگی میں ایسے لوگوں پر بھی صادق آتا ہے تا کہ اُن کو خدا کے پیار کے نمونے دیکھنے اور ان کو سمجھنے کی توفیق ملے جن کا کامل تبتل نہیں ہوتا لیکن کسی ایک موقع پر وہ آزمائش پر پورا اترتے ہیں.دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو کہ جہاں احمدی ہوں اور اُن کو یہ تجربے نہ ہوئے ہوں.مجھے بعض دفعہ خطوں کے ذریعہ لوگ ان تجارب سے مطلع کرتے ہیں اور ان کی تحریر میں ایک وجدانی کیفیت ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں فلاں وقت تھا جب دنیا کا ایک سہارا تھا جس کے متعلق ہم جانتے تھے کہ یہ سہارا جھوٹ کے بغیر اختیار کرنا ممکن نہیں اور خدا کے حکموں کی نافرمانی کے بغیر اس بچاؤ کی تد بیر کو ہم اختیار نہیں کر سکتے تھے.اس وقت ہم بڑی آزمائش میں پڑے.آخر یہ فیصلہ کیا کہ جو ہوتا ہے ہو گزرے لیکن ہم خدا کے فرمان کو توڑتے ہوئے اس پناہ میں نہیں آئیں گے.کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہوا اور اچانک حالات ایسے بدلے کہ جو نا ممکن دکھائی دیتا تھا وہ ممکن ہو گیا اور ہر وہ شخص جس کے ساتھ بچاؤ کے امکانات وابستہ تھے لیکن جو پہلے دشمن تھا، جو پہلے صریح مخالف تھا اُس کے دل میں پاک تبدیلیاں ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عجیب معجزہ ہوا کہ وہ لوگ جو پہلے مخالفانہ کوششیں کر رہے تھے وہ تائید میں کوشش کرنے لگے.یہ مضمون اس طرح بھی صادق آتا ہے بالکل ناممکن دکھائی دینے والے کام پر وہ غیب سے ممکن ہو کر ابھرتے ہیں اور انسان اپنے خدا کونئی صورت میں پاتا ہے اور اس فیض کے جلوؤں کو دیکھتا ہے.یہ تبتل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے جبکہ ابھی تو کل نہیں ہوا لیکن یہ نمونے اس لئے دکھائے جاتے ہیں تا کہ تو کل کے نتیجہ میں پھر تبتل پیدا ہو.جب انسان تقتل کے بعد تو کل کو پالیتا ہے.جب دیکھتا ہے کہ مجھے گرتے ہوئے کو خدا کے ایک غیبی ہاتھ نے سنبھال لیا تو پھر خدا کی خاطر گرنا طبیعت پر دوبھر نہیں ہوتا.خدا کی خاطر ہر خطرے میں چھلانگ لگانے کے لئے اس کو آسمان سے ایک نئی طاقت عطا ہوتی ہے.خدا کے فضل کے یہ جزوی نمونے اور اس کا ولی اور متوکل بن جانا اس غرض سے ہے تا کہ مومن اس سے اگلے قدم اٹھائے
خطبات طاہر جلد ۱۱ " 451 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء اور تبتل اور توکل کے اعلیٰ مقامات کی طرف آگے بڑھے.پھر فرماتے ہیں....جب خدا کی طرف انقطاع کرتا ہے تو وہ دنیا کی طرف سے تو ڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جبکہ کامل تو کل ہو جیسے ہمارے نبی کریم کامل متل تھے ویسے ہی کامل متوکل بھی تھے.اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم و قبائل کے سرداروں کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے.آپ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا اسی لئے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپ نے اٹھالیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی.یہ بڑا نمونہ ہے تو کل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.اس لئے کہ اس میں خدا کو پسند کر کے دنیا کو مخالف بنالیا جاتا ہے مگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کو نہ دیکھ لے...“ یعنی یہ اعلی انتقام جس میں تو کل تبتل کا موجب بنتا ہے یہ تب ہوتا ہے جب انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے.وو...جب تک یہ امید نہ ہو کہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے.جب یہ امید اور یقین ہو جاتا ہے تو وہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنالیتا ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اور دوست بنا دے گا.جائیداد کھو دیتا 66 ہے کہ اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے...یہ مضمون بھی ایسا ہے جو جماعت کے مشاہدہ میں روز مرہ آتا رہتا ہے.بہت سے احمدی ایسے ہیں جن میں سے کچھ مجھے لکھتے ہیں اور کچھ نہیں بھی لکھتے لیکن میں جانتا ہوں کہ جو خدا پر توکل کرنے والے اور خدا کے خاص فیض کے مظہر احمدی ہیں ان کے چہرے بتا دیتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں.وہ خدا کی خاطر مالی قربانی کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ غیب سے ایسے حالات میں جب ان کو کوئی توقع نہیں ہوتی ان کی ضرورتیں پوری فرما دیتا ہے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ مضمون روز مرہ اس طرح جاری رہتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ہو جب وہ خدا کے فیض کے ایسے جلوے نہ دیکھیں.چنانچہ ان کا دل خدا کے لئے مالی قربانی پر اور خدا کی خاطر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے پہلے سے زیادہ کشادہ
خطبات طاہر جلدا 452 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء ہوتا چلا جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی حالت کو بیان فرما ر ہیں کہ جب وہ دیکھ لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ ایک جائیداد گئی تو خدا اس سے بہتر دوسری جائیداد ضرور دے گا.ایک مالی نقصان ہوا تو خدا اپنے فضل سے نقصان کو اس طرح پورا کرے گا کہ پہلے سے بہت بڑھ کر عطا فرمائے گا.پھر تبتل کا ہونا تو کل کا ایک لازمہ ہے اور ان معنوں میں یہ دونوں لازم اور ملزوم بن جاتے ہیں.فرماتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا تو تبتل ہے اور پھر تبتل اور تو گل توام ہیں.تقبل کا راز ہے تو کل اور توکل کی شرط ہے تبتل یہی ہمارا مذ ہب اس امر میں ہے.66 الحکم جلد نمبر ۳۷ صفحه ۱ تا ۳ پر چه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۱ء) یہی عبارت ملفوظات جلد اوّل صفحه ۵۵۱ تا ۵۵۵ پر بھی درج ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی ایک عبارت پیش کرتا ہوں.فرماتے ہیں.وو...مرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے.مرشد کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی رنگ کا ہے جیسے ایک نادان و نا واقف بچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہوا اصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال میں سمجھتا ہے کہ وہ گوڈی کر رہا ہے...“ ہم نے بارہا ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ کوئی اچھا سا پودا بہت پیار کے ساتھ گھر میں نصب کیا تو آکر دیکھا کہ بچے اس کی کھدائی کر رہے ہیں.شاخیں کاٹ رہے ہیں اور ان کے اس حفاظتی اقدام کے بعد جو وہ اپنی طرف سے اس پودے کی حفاظت کی خاطر کر رہے ہوتے ہیں اس پودے کے بچنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.بالکل متضمحل ہو جاتا ہے.نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے اور ان کی وہ گوڈی ختم ہی نہیں ہو رہی ہوتی تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی ایسا ہی نظارہ دیکھا ہے اور وہ نظارہ اس موقع پر یاد آ گیا ہے کہ بعض لوگ ایک صاحب عرفان آدمی کو اپنا مطاع بنائے بغیر مرشد پکڑے بغیر اپنی ذات سے اس رنگ میں عبادت کرتے ہیں کہ ان کی جان ہلکان تو ہو جاتی ہے لیکن نہ انہیں تبتل نصیب ہوتا ہے اور نہ انہیں تو کل عطا ہوتا ہے اور ایک طرف سے اگر کاٹے جاتے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 453 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء ہیں تو دوسری طرف پیوست نہیں ہوتے.پس ایک نادان بچے کی گوڈی کا معاملہ ہے جو اُن کے ساتھ ہوتا ہے.فرماتے ہیں ”...اپنے خیال میں سمجھتا ہے وہ گوڈی کر رہا ہے.یہ گمان ہرگز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجائے گی نہیں جب تک رسول نہ سکھلائے انقطاع الی اللہ اور تبتل تام کی راہیں حاصل نہیں ہوسکتیں...“ خود بتلایا.پھر طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیونکر حل ہو.اس کا علاج اس کے بعد یہ مضمون استغفار میں داخل ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں.وَانِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ (صور:۴) یا درکھو کہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے.جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں...اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : ۵) میں ہم خدا سے جو استعانت کرتے ہیں یہ وہی مضمون ہے فرمایا.وو...صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے.اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ : ۶۶.۶۷) اس مضمون کا تعلق اپنی نفسانی خواہشات سے علیحدگی سے ہے.اس مضمون کا تعلق ایسے انسان سے ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ چمٹا ہوا ہے.اس میں ارادہ پیدا ہو چکا ہے.اس میں خواہش بیدار ہوگئی ہے کہ میں ان تعلقات کو خدا کی خاطر اس طرح توڑ دوں کہ یہ تعلقات خدا کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 454 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء تابع ہوکر قائم رہیں.خدا سے آزاد رہ کر قائم نہ ہوں.یہ تل کا مضمون ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ استغفار کے بغیر یہ ممکن نہیں اور وہ مرشد کامل جس کو ہم نے پکڑا ہے وہ تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ استغفار کرنے والا تھا.بعض نادان جاہل معاندین اسلام آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اتنے استغفار جو کیا کرتے تھے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی گناہ گار تھے.ان جاہلوں کو پتا نہیں کہ استغفار نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے.استغفار کے بغیر گناہ سے نجات ممکن ہی نہیں ہے.گناہ کے خلاف سب سے طاقتور دفاع استغفار ہے جو شخص ہر وقت استغفار میں مصروف رہتا ہے اس سے گناہ کی اہلیت چھین لی جاتی ہے.اس کی گناہ کی طاقت مر جاتی ہے کیونکہ استغفار میں ہر وقت خدا کی طرف یہ توجہ ہے کہ اے خدا! مجھے اس بدی سے بھی بچا، اس بدی سے بھی بچا، اپنی امان میں لے ، اپنی حفاظت میں رکھ ،اپنی رضا کی چادر اوڑھا دے اور میرے بنی نوع انسان سے تعلق اسی حد تک قائم رہیں جس حد تک تیری رضا ہے.اس رضا سے باہر میرا ہر تعلق کاٹا جائے.جو شخص دن رات یہ دعائیں کرتا ہے نفسیاتی لحاظ سے اس کے لئے گناہ کی گنجائش ہی کوئی نہیں رہتی کیونکہ گناہ سے تعلق کے لئے دل میں ایک خواہش کا پیدا ہونا ضروری ہے.اس خواہش کی انسان پہلے اپنی سوچوں میں پرورش کرتا ہے اس کو طاقت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ توانا ہو کر دل میں اچھلتی ہے اور عمل میں چھلانگ لگانے کی کوشش کرتی ہے.تب دماغ اس کے ساتھ شامل ہو کر اس کے لئے تدبیر کرتا ہے، اس کو سمجھاتا ہے، بتا تا ہے کہ اس خواہش کو عمل میں ڈھالنے کے لئے تمہیں یہ یہ طریق اختیار کرنے چاہئیں.اس طرح گناہ پرورش پاکر ایک ایسے بچے کی طرح وجود میں آجاتا ہے جو ماں کے پیٹ سے اپنی مدت پوری کر کے پیدا ہوتا ہے.اس طرح جب یہ گناہ کے تابع ہوتا چلا جاتا ہے.یہ جو کیفیات ہیں ان کی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت سی منازل ہیں.بہت سے مرحلے ہیں جن مرحلوں سے خواہشات گزر کر پھر گناہ بنتی ہیں.استغفار ان کی جڑ پر تبر رکھتا ہے اور یہ وہ گوڈی ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشارہ فرمایا.بظاہر ایک ایسا مضمون بیان فرمایا جس کا بعد میں بیان کئے جانے والے مضمون استغفار سے تعلق نہیں تھا اور ایک آدمی جو سرسری نظر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کا مطالعہ کرتا ہے وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ابھی تو گوڈی کی باتیں کر رہے تھے ، ابھی استغفار کی باتیں شروع
خطبات طاہر جلد ۱۱ 455 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء کر دیں.پہلے فرما رہے تھے کہ رسول سے سیکھو.اب یہ رسول کا ذکر کوئی نہیں اور قرآن کریم کا ذکر فرما دیا.ان تینوں باتوں میں کیا تعلق ہے جیسا کہ میں نے آپ کو سمجھایا ہے اگر آپ گہرائی کے ساتھ غور کریں تو ایک ہی مضمون کے مختلف مراحل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں اور آنحضور ﷺ کے استغفار کے تعلق کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کثرت سے بیان فرمایا ہے کہ اس گفتگو میں جو مجلس میں ہو رہی تھی آپ نے اپنی جماعت پر یہ حسن ظنی فرمائی اور درست حسن ظنی فرمائی کہ جب میں استغفار کہوں گا تو سب سے پہلے ان کا ذہن حضرت اقدس محمد ہے صلى الله کی طرف منتقل ہوگا اور استغفار میں گوڈی کا جو مضمون ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار ہا پہلے بیان فرما چکے ہیں.پس استغفار ناپاک خواہشات کی گوڈی کرتا ہے اور اُن کو انسان کے نفس کی زمین سے اکھیڑ کر باہر پھینک دیتا ہے اور بیجوں کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے اوپر مٹی ڈالتا ہے یعنی نیک اور پاک نیتوں کی حفاظت کرتا ہے اور نیک اعمال کو قوت دیتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کہ اس کے دو پہلو ہیں.ایک طرف کمزوری کے خلاف گناہ کے خلاف انسان کے اندر یہ طاقت ہونا کہ اُس سے اپنے آپ کو کاٹ کر الگ کرے اور دوسری طرف نیکیوں کے لئے مثبت طاقت عطا ہونا.پس استغفار کے نتیجہ میں دونوں باتیں حاصل ہو رہی ہوتی ہیں.ایک طرف نا پاک پودے اکھیڑ کر پھینکے جارہے ہیں دوسری طرف پاکیزہ پودوں کے لئے ان کو چوروں اور ڈاکوؤں سے بچا کر لٹیروں سے محفوظ کر کے نشو و نما کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر مختلف جگہ مختلف رنگ میں روشنی ڈالی ہے.اب میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ اس تنبل کے بعد جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا پھر بنی نوع انسان کی طرف جھکنا ضروری ہو جاتا ہے لیکن وہ تعلق ایک اور رنگ اختیار کر لیتا ہے.تو تبتل کے معنی خدا کی مخلوق سے نفرت تو ہر گز نہیں ہیں.محبت ہے لیکن محبت کو درست کرنا اور صحت مند بنانا اور خدا کے تابع کر دینا.جب انسان کے تمام جذبات اور اس کی کیفیات اور اس کے خیالات اور اس کی نتیں کلیۂ خدا کے تابع ہو کر خدا کے رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں تو پھر بنی نوع انسان اور خدا کی مخلوقات کا ایک نیا عرفان اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.وہ خدا کی نظر سے اور خالق کی نظر سے ان
خطبات طاہر جلد ۱۱ 456 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء چیزوں کو دیکھتا ہے اور خلق کی نظر سے دیکھنا اور مخلوق کی نظر سے دیکھنا دو مختلف چیزیں ہیں.ایک انسان جب ایک مخلوق کی حیثیت میں دوسری مخلوق سے اپنے تعلقات قائم کرتا ہے تو اس میں ہمیشہ یہ خوف دامنگیر رہتا ہے کہ خدا کی کسی اور مخلوق سے جس سے کم تعلق ہے اپنے تعلق کی خاطر انسان ظلم نہ کرے.اس سے نا انصافی کا برتاؤ نہ کرے کیونکہ مخلوق تو ساری خدا کی ہے.ایک مخلوق پسندیدہ ہوگئی.ایک اس کے مقابل پر مغضوب بن گئی.ایک مخلوق کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسری مخلوق کو معیوب بنایا گیا یا اس کی نفرتیں بودی گئیں؟ کیونکہ انسان کا تعلق ایک مخلوق سے ایک غیرت کا تعلق ہے.مخلوق ہونے کے نتیجہ میں ہم جنسی کا بھی تعلق ہے لیکن اس کے باوجود دوسری مخلوق غیر رہتی ہے.جب انسان خالق کی نظر سے مخلوق کو دیکھتا ہے تو ایسے ہے جیسے ماں کی نظر سے بچوں کو دیکھ رہا ہو.جسے ایک تخلیق کرنے والا اپنی سب تخلیق کو پیار کی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے.اس کی اس محبت کے نتیجہ میں اس کی بعض تخلیقات کو بعض دوسری تخلیقات سے کوئی خطرہ نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو عارف باللہ ہیں اور ان تمام مراحل سے گزرے ہوئے ہیں وہ ان کیفیات کو اندر سے جانتے ہیں.آپ اپنے ایک عربی کلام میں فرماتے ہیں اور اس میں اس مضمون کو اور زیادہ آگے بڑھا دیا گیا.العاقلون بعالمين يرونه والعار فون به رَأَوُ اشياء (القصائد الاحمدیہ صفحہ: ۲۲۹) فرمایا ہے کچھ عالمین ہیں اور عالمین وہ ہیں جو خدا کی مخلوق پر اس طرح غور کرتے ہیں کہ مخلوق خدا اُن کو خدا کی طرف لے جاتی ہے.تعلق باللہ مخلوق سے ایک عام تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور گہرائی سے اس کا مطالعہ ان کو خدا کی طرف لے جاتا ہے.فرمایا.والـعــار فــون بـه رأو اشياء.لیکن عارف وہ ہوتا ہے جو خدا کو پالینے کے بعد پھر خدا کی نظر سے اُن چیزوں کو دیکھنے لگ جاتا ہے.پہلے علم نے مخلوق کی نظر سے اس کو خدا کی طرف راہنمائی کی جیسا کہ اولی الالباب والی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.خدا کی مخلوقات پر غور کیا ہر مخلوق خدا کی طرف انگلی اٹھا رہی ہے.اسی کی طرف اشارے کر رہی ہے.اسی کی طرف چلے جانے کا اعلان کرتی یا ہدایت کرتی چلی جاتی ہے.پھر خدا کو پالیتا ہے تو مخلوق سے قطع تعلق وائی نہیں ہو جا تا بلکہ دائی ہو جاتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 457 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۹۲ء ہے لیکن اصلاح شدہ تعلق.وہ تعلق جیسا خدا کو اپنی مخلوق سے تعلق ہے ویسا تعلق بن جاتا ہے.کتنا گہرا عارفانہ شعر ہے.العاقلون بعالمين يرونه والــعــــــار فـــون بــــــه راو اشياء پھر جب انسان عرفان کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے.عارف باللہ بن جاتا ہے تو پھر اللہ کی نظر سے ساری مخلوق کو دیکھنے لگ جاتا ہے.إِنَّا غمسنـــا مــن عــنــاية ربـنــا في النور بعد تمزق الا هوا (القصائد الاحمديه صفحه : ۲۳۰) ہم نے اپنے رب اللہ کی عنایت سے فی النور ، خدا کے نور میں غوطے لگائے بعد تمزق الا هو اء اور یہ غوطے تب لگائے جب اپنی ھواو نفس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.ان سے کلیہ تعلق تو ڑیا.انی شـــربـــت کـــوس موت للهدى فوجدت بعد الموت عيـن بـقـاء (القصائد الاحمدیہ صفحہ: ۲۳۱) میں نے موت کے پیالے پر پیالے پیئے للهدی: ہدایت کی خاطر فـو جـدت بـعد الموت عين بقاء پس موت کو اختیار کرنے کے بعد میں نے آب بقا کا چشمہ حاصل کیا.بقا کا پانی، بقا کا سر چشمہ مجھے اس موت کو اختیار کرنے کے بعد نصیب ہوا.فرمایا: يا ايها الناس اشربوا من قربتى قد ملئ من نور المفيض سقائی (القصائد الاحمدیہ صفحہ: ۲۳۱) اے بنی نوع انسان آؤ اور میری مشک سے خوب پانی پیو.قــد مـلـى مـن نور المفيض سقائی کیونکہ یہ مشک فیضان کرنے والے خدا کے نور سے بھری ہوئی ہے.اس میں دنیاوی تعلقات کی کوئی ملونی باقی نہیں رہی.یہ بنی نوع انسان کی طرح وہ لوٹنا ہے جسے تدلی کہا جاتا ہے دَنَا فَتَدَلی.جب حضرت محمدیہ نے خدا کی طرف رجوع کیا اور خدا کا فیضان حاصل کیا.خدا نما بن گئے.سارے خدا کو اپنے وجود میں اس طرح داخل فرمالیا کہ غیر اللہ کا کوئی نشان باقی نہیں رہا.آپ کا ہاتھ اٹھتا تھا تو خدا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 458 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۹۲ء کا ہاتھ اٹھا تھا.آپ کی نظر کسی پر پڑتی تھی تو خدا کی نظر پڑتی تھی.آپ کا دل کسی کی طرف مائل ہوتا تھا تو خدا کا دل مائل ہوتا تھا.آپ کا دل کسی سے اچاٹ ہوتا تھا تو خدا کا دل اچاٹ ہوتا تھا.یہ وہ کیفیت تھی جس کے بعد آپ بنی نوع انسان کی طرف دوبارہ جھکے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ ہی کی غلامی سے یہ فیض پایا اور ایک دفعہ پھر دنیا کو دَنَا فَتَدَلی کا یہ نظارہ دکھایا ہے.جماعت احمدیہ اگر ابدی زندگی چاہتی ہے.اگر جماعت احمد یہ دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنا چاہتی ہے تو اس مضمون کو پوری طرح سمجھ کر اسے دلوں پر ، اپنے دماغوں پر ، اپنے اعمال میں جاری کر دیں پھر دیکھیں کہ آپ خدا کے ہو جائیں گے اور خدا آپ کا ہو جائے گا اور دنیا کا کوئی تعلق اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 459 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء خدا کی رضا کی خاطر کی گئی مالی قربانی ہر موسم میں پھل لاتی ہے.اخلاص کا معیار بڑھائیں چندہ خود بخود بڑھ جائے گا.(خطبہ جمعہ فرموده ۰ ار جولائی ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کیں.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَّمْ يُصِهَا وَابِلٌ فَطَلُّ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقره:٢٦٢) پھر فرمایا:.جماعت احمدیہ کا ایک مالی سال ختم ہوا اور جماعت اب اپنے دوسرے مالی سال میں داخل ہو چکی ہے یعنی ۳۰ جون پر جس سال کا اختتام ہوا اس کے بعد یکم جولائی سے دوسرا مالی سال شروع ہو چکا ہے.اس مالی سال کی تطبیق بعض دوسرے مالی سالوں کے ساتھ نہیں ہوتی.مثلاً تحریک جدید ہے اس کا مالی سال مختلف وقت میں شروع ہوتا ہے اور وقف جدید ہے اس کا مالی سال بھی ایک اور وقت میں شروع ہوتا ہے.اسی طرح مختلف تحریکات ہیں جن کے مالی سال اس وقت سے شروع ہوتے ہیں جب وہ تحریک شروع کی گئی لیکن جماعت کے سامنے اعداد و شمار رکھنے کی خاطر ہم نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں جو بھی وصولی ہوئی ہے اس کو شمار کر لیا جائے تا کہ احباب جماعت کے سامنے گذشتہ مالی سال کی صورت حال واضح کی جاسکے.یعنی تحریک جدید کا سال خواہ کسی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 460 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء وقت شروع ہو، کسی وقت ختم ہو جوتحریک جدید کا سال گزشتہ تھا اس کی آمد کو ایک سال کی آمد کے طور پر ان اعداد و شمار میں شامل کر لیا ہے.جو میں آپ کے سامنے پیش کروں گا اس سے پہلے قرآن کریم کی جس آیت کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ اور مختصر تشریح آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ سورۃ البقرہ کی آیت ۲۶۶ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں.راہ کا لفظ تو محاورہ بولا گیا ہے.لفظی ترجمہ اس کا یہ بنتا ہے کہ ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال ابتغاء مَرْضَاتِ اللہ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے رضا نہیں بلکہ رضائیں چاہتے ہوئے کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا پر نظر رکھتے ہوئے اس کی حرص میں خرچ کرتے ہیں کہ شاید اس قربانی سے خدا کی رضا حاصل ہو جائے.تو رضا کی تمنا میں جب بھی توفیق ملتی ہے وہ مال خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.وَتَثْبِيتًا منْ أَنفُسِهِمْ اور اموال کے خرچ کا دوسرا مقصد اپنے نفسوں کو مضبوط کرنا ہے.آپ نے لفظ ثبات قدم سنا ہوا ہے.بار بار استعمال بھی کرتے ہیں.دعاؤں میں ثبات کا لفظ آتا ہے.ثبات سے مراد ہے مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جانا تو اس غرض سے وہ خرچ کرتے ہیں کہ اس سے اُن کے نفس مضبوط ہو جاتے ہیں اور قائم ہو جاتے ہیں.ان کی مثال ایسی جنت کی سی ہے، ایسے باغ کی سی ہے جو ایک پہاڑی پر ہو.ایک اونچی جگہ پر واقع ہو.اَصَابَهَا وَابِل اور اُسے موسلا دھار بارش پہنچے.فَاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ایسی صورت میں ایسا باغ جو پہاڑی پر واقع ہوا سے موسلا دھار بارش بھی پہنچے تو نقصان نہیں ہوتا بلکہ دگنا پھل دیتا ہے.فَاِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَصَلُّ.اور اگر موسلا دھار بارش نصیب نہ ہو تو شبنم ہی اس کے کام آجاتی ہے اور اسی سے وہ باغ لہلہانے لگتے ہیں.وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ اور اللہ تعالیٰ اس چیز کو جو تم کرتے ہو بہت جانتا ہے.ا یہاں مومنوں کے خرچ کے لئے دو ہی مقاصد پیش فرمائے گئے ہیں کوئی تیسرا مقصد بیان نہیں ہوا.اس کے علاوہ بعض دوسری آیات میں جو اسی تسلسل میں ملتی ہیں ایسے مقاصد بھی پیش فرمائے جو ان کے علاوہ ہیں اور ان سب کو باطل قرار دیا گیا.ایسے مقاصد جن میں ریاء کسی کو خرچ کرنے کے بعد تکلیف پہنچانا ، اس پر احسان جتانا اور اسی طرح بعض دوسری آیات میں ایک یہ مقصد
خطبات طاہر جلد ۱۱ 461 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء بیان ہوا ہے کہ دے کر زیادہ لیں.یہ وہ تمام مقاصد ہیں جن کو باطل مقاصد کے طور پر قرآن کریم بیان فرماتا ہے اور اس تسلسل میں جو آیات ملتی ہیں ان میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان کی مثال تو ایسی ہے جیسے سخت چٹان پر تھوڑی سی مٹی والی جگہ پر کوئی سبزی اُگ آئے اور جب زور سے بارش پڑے تو اس کی ساری مٹی بہہ کر اُٹھ جاتی ہے اور سبزی سمیت بہا کر لے جاتی ہے.پس یہ عارضی اور بے معنی ہے.اس کو ثبات کے مقابلے پر رکھا ہے.ثبات اس چیز کا ہوتا ہے جس کو کوئی زلزلہ، کوئی ٹھوکر کوئی طوفان اپنی جگہ سے اکھاڑ نہ سکے تو جو دو مقاصد بیان ہوئے ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر جولوگ خرچ کرتے ہیں ان کو لاز ماثبات نصیب ہوتا ہے اور ثبات کے نتیجہ میں ان کی کھیتی لہلہاتی ہے اور دوہرا پھل لاتی ہے اور خزاں کی حالت میں بھی پھل دیتی ہے.لیکن اگر بارش نہ ہو یا جب خشک سالی ہو تو اُس وقت ایسی جگہوں کے لئے شبنم ہی کافی ہو جاتی ہے کیونکہ ایسے بلند مقامات جیسا کہ نقشہ کھینچا گیا ہے وہاں کی مٹی عموماً پانی اپنے اندر جذب رکھتی ہے اور موسلا دھار بارش کا پانی آنا فانا اڑ نہیں جاتا جیسا کہ پہلی سطح کی مٹی سے اڑ جایا کرتا ہے.آج بارش ہوئی کل وہ مٹی خشک دکھائی دیتی ہے جس کی سطح پتلی ہو یا ریتلی ہو لیکن اچھی مضبوط مٹی ہو اور گاڑھی مٹی ہو اُونچی جگہ پر واقع ہو تو اُس کو نہ زیادہ بارش سے نقصان نہ کم بارش سے نقصان.پہاڑ کی مثال کے بیچ میں ایک لفظ ربوة رکھ کر عظیم الشان مضمون بیان فرما دیا گیا.اس میں ایک تو یہ تصویر کھینچی گئی ہے کہ مومن کی جو قربانیاں ہیں وہ بلند مرتبہ رکھتی ہیں.اُن کا اونچا مقام ہے، ان کی قربانیاں ایسی ہیں جیسے پہاڑی پر ایک باغ لگایا گیا ہو.اگر عام دوسرے باغ کی مثال ہوتی تو تیز بارش تو عام میدان کی فصلوں کو نقصان پہنچا دیا کرتی ہے.اچھی سے اچھی فصلیں بھی زیادہ بارش کے نتیجہ میں تباہ ہو جایا کرتی ہیں لیکن جو فصل پہاڑ پر واقع ہو وہ ضائع نہیں ہوا کرتی کیونکہ پہاڑ زائد پانی کو نیچے پھینک دیتا ہے اور بہتے پانی سے کبھی فصل کو نقصان نہیں ہوتا.چنانچہ جن پہاڑوں پر چائے کی فصل کاشت کی جاتی ہے وہ اسی وجہ سے کی جاتی ہے کہ چائے کو بہتا ہوا پانی چاہئے.ذرا پانی کھڑا ہوا اور چائے کی فصل تباہ ہوگئی لیکن بہتا ہوا پانی خواہ کتنی ہی بارش ہو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا.قرآن کریم نے ایک لفظ ربُوَةٍ رکھ کر اس مضمون کو کیسی وسعت دے دی اور کیسی شان عطا کر دی ہے.یعنی مومن کی قربانی کا بلند مرتبہ بھی بیان فرما دیا اور پھر ثبات کے ساتھ اس مضمون کو جوڑ
خطبات طاہر جلدا 462 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء دیا کیونکہ ثبات قدم میں ٹھوکر نہیں ہوتی ، کوئی ابتلاء کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.تو جس پانی کا ذکر فرمایا یہ ابتدائی حالت کا پانی ہے یعنی درمیانی بارش کا ذکر ہی نہیں فرمایا ایک موسلا دھار بارش کی انتہا ہے اور دوسری انتہاء خشک سالی کی ہے جہاں صرف شبنم گرتی ہے.ثبات قدم اس کو کہتے ہیں کہ جب مثلاً خدا تعالیٰ کے فضل سے دولت کی ریل پیل اور خدا نے رزق کی موسلا دھار بارش برسائی ہوتب بھی مومن کی نیکیوں پر قدم مضبوط رہتا ہے اور کوئی ابتلا ء اس کے دین کو، اس کے ایمان کو ، اس کے اخلاص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جب غربت کی حالت ہو تو غربت کا رزق شبنم کی طرح ہے لیکن اس کے باوجود مومن کے ایمان اور اخلاص کو وہ شبنم بھی تقویت دے جاتی ہے.نہ غربت کا ابتلا ءاس کو نقصان پہنچا تا ہے.نہ کثرت اموال کا ابتلاء اس کو نقصان پہنچا تا ہے اور دونوں حالتوں میں وہ کھیتی کونسی ہے جوا گتی ہے.وہ خدا کی خاطر خرچ کرنے کی کھیتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہیں جو خوشحالی میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی خرچ کرتے ہیں.تو اس خوبصورت مثال میں جو قرآن کریم کے الفاظ میں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے دراصل تنگی اور ترشی کا خرچ اور دولت کی فروانی کا خرچ سب شامل ہو گئے ہیں.یہ مومن کو ثبات ہے کہ ہر حالت میں وہ خدا ہی کا رہتا ہے اور خدا ہی کی خاطر اس کی قربانیاں ہوئی ہیں.اموال اور ثبات کے تعلق میں ایک اور معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں ان کو دنیا کے دوسرے عام ابتلاؤں میں بھی ٹھو کر پڑا نہیں کرتی اور لوگ جو خدا کی خاطر خرچ نہیں کیا کرتے وہ بظاہر کتنے ہی اخلاص کے دعوے کرتے ہوں ان کو جب بھی مشکل وقت پیش آئے ان کے قدم ڈگمگا جایا کرتے ہیں اور وہ پھسل جاتے ہیں.تو اگر کسی مومن نے اپنے ایمان کی حفاظت کرنی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں اسے ثابت قدم رکھے تو خدا تعالیٰ نے اس کا نسخہ بیان فرما دیا ہے کہ تم خدا کی خاطر خرچ کرو تو تمہیں ثبات قدم نصیب ہوگا.پہلے مقصد اور دوسرے میں ایک گہرا تعلق ہے.دو ہی نیک مقاصد بیان فرمائے گئے.بندوں کی رضا کا کہیں ذکر نہیں ہے.اپنے نفس کی نرمی اور قلبی جذبات کے نتیجہ میں خرچ کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ وہ کوئی برا محرک نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے باطل محرکات میں اس کا ذکر نہیں فرمایا.میرا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 463 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ خدا کی رضا کی خاطر انسان خرچ کرتا ہے.بعض دفعہ ایک غریب کی ہمدردی میں اپنے نفس سے مجبور ہو کر خرچ کر دیتا ہے.وہ خرچ بھی اچھا ہے لیکن چونکہ اس کے نتیجہ میں جزا نہیں ہے سوائے اس جزا کے جو انسان کے دل کو تسکین کی صورت میں ملتی ہے اس لئے اس کا یہاں ذکر نہیں فرمایا لیکن باطل مقاصد میں بھی اس کا ذکر نہیں فرمایا گیا.تو سوال یہ ہے یہ دو کیوں چنے گئے؟ وہ اصل خرچ جو خدا کی رضا میں جزاء کا مستحق ہوتا ہے وہ انہی دو مقاصد والا خرچ ہے اس کے سوا کوئی خرچ ایسا نہیں ہے جس کو جزا کے لائق قرار دیا گیا ہو..خرچ کرنا ہے تو اللہ کی رضا چاہو، بندوں کی رضا نہ چاہو، اپنے دل کی رضا نہ چاہو ، اپنے اقرباء کی رضا نہ چاہو، کوئی اور رضا مقصود نہ ہو، مَرْضَاتِ اللہ مقصود ہوں کہ بار بار خدا کی رضا نصیب ہو.خرچ کرتے وقت انسان مختلف کیفیات کے ساتھ خرچ کرتا ہے اور ان کیفیات میں خدا کی مختلف رضا حاصل ہوتی ہے.بظاہر ایک ہی خرچ ہے لیکن حقیقت میں خرچ کے ساتھ جو تیں شامل ہو رہی ہوتی ہیں جو جذبات شامل ہو جاتے ہیں وہ خرچ کی نوعیت بدلتے رہتے ہیں.آپ بھی اپنے چندوں پر غور کر کے دیکھیں کبھی کوئی چندہ خدا کی خاص رضا کی خاطر کسی خاص ادا کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کبھی کوئی چندہ خدا کی کسی اور رضا کی خاطر کسی اور ادا کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کبھی اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بچے بھوکے ہیں، ضرورتمند ہیں، کپڑوں کے محتاج ہیں اور انسان جانتے بوجھتے ہوئے کہ میرے بچوں کو سخت ضرورت درپیش ہے کچھ نہ کچھ خدا کی خاطر نکالتا ہے.وہ رضا کا ایک اور انداز ہے.ایک امیر آدمی ہے جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہے وہ سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور بڑے اچھے مواقع ہیں لیکن اپنے سرمایہ کاری کی خواہش کو پورا کرنے کے بجائے وہ اس میں سے ایک ٹکڑا نکال کر خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے.ایک اور شخص ہے جس کے پاس جتنا روپیہ ہے اس نے کسی ایسے مقصد کے لئے رکھا ہوا ہے کہ آئندہ کسی ضرورت کے وقت کام آئے چنانچہ جب آواز آتی ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو تو اس وقت اس کے دل کی جو کیفیت ہے وہ خدا کی خاص قسم کی رضا کی طالب ہو جاتی ہے.تو یہ تین بڑی بڑی مثالیں ہیں لیکن اس کی تفصیل کے ساتھ بہت سی قسمیں بیان کی جاسکتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہر خرچ کرنے والا اگر خدا کے تعلق میں خرچ کرتا ہے تو اس کے دل کی ایک خاص کیفیت ہوا کرتی ہے.وہ کیفیت اس قربانی کو ایک خاص رنگ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 464 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء عطا کر دیتی ہے اور وہ جو مضمون ہے وہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللہ اللہ کی مرضیاں حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے رہتے ہیں.خرچ کے محل مختلف ہوتے ہیں، مواقع مختلف ہوتے ہیں لیکن مقصود ایک ہی رہتا ہے.دوسرا ہے.وَتَثْبِيْنَا مِنْ أَنْفُسِهِمْ اپنے نفس سنبھالنے اور مضبوط کرنے کے لئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر چندے دیتے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ہماری مالی قربانیوں کے نتیجہ میں ہمیں ثبات قدم نصیب ہو.ہم مستقل خدا کے ہوئے رہیں، غیر ہمیں خدا سے چھین کر نہ لے جاسکے اور یہ دونوں مقاصد ہیں جو بڑی شان کے ساتھ پورے ہوتے ہیں اور جب آپ رَ بُوَةٍ والی مثال میں پہنچتے ہیں تو وہاں آپ کو اللہ کی رضا کا مضمون دکھائی دینے لگتا ہے اور ثبات قدم کا مضمون بھی دکھائی دینے لگتا ہے.وہ جو کھیتیاں نکلتی ہیں وہ قربانی کی کھیتیاں بھی ہیں اور جزا کی کھیتیاں بھی ہیں اور قرآن کریم نے اسی تعلق میں ایک اور مثال دی ہے کہ جو خدا کی خاطر ایک دانہ زمین میں ہوتا ہے.مثال تو دانہ بونے کی دی ہے مگر مراد اس کی یہی ہے کہ جو خدا کی خاطر مثلاً ایک آنہ خرچ کرتا ہے، خدا کی خاطر ایک دانہ زمین میں ہوتا ہے تو بعض دفعہ وہ سات بالیاں نکالتا ہے اور ہر بالی میں سوسو دانے ہوتے ہیں تو ایک دانے کے سات سو دانے بن جاتے ہیں اور اگران سات سودانوں کی جزا اس دنیا میں نصیب ہو جائے تو آپ اندازہ کریں کہ خدا کی خاطر قربانی کرنے والوں کے اموال میں کتنی برکت پڑ سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسی پر اکتفا نہیں ہے جس کو چاہے اس کے علاوہ بھی بہت دیتا ہے اور پھر دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی دیتا ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی مالی قربانی پر نظر کی تو مجموعی طور پر جماعت کا وہ چندہ جو ہمیں حالات سے اندازہ لگانا پڑتا ہے اور نظر آتا ہے آج اس سے سات سو گنا سے بھی زیادہ ہو چکا ہے یعنی یہ کھیتی ایک سو سال میں ۷۰۰ کی حد کو پار کر کے خدا کی لامتناہی عطا کی حد میں داخل ہو چکی ہے اور کوئی نسبت نہیں رہی اور وہ لوگ جو قربانیاں پیش کیا کرتے تھے ان کی اولادیں بھی، اگر آپ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت سے لے کر آج تک Trace کرتے ہوئے ان کی نشاندہی کرتے ہوئے ، کھوج لگاتے ہوئے تلاش کریں تو ایسے ایسے بزرگوں کی اولادیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جن کا بمشکل گزارا
خطبات طاہر جلدا 465 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء ہوا کرتا تھا مگر خدا کی راہ میں بڑی قربانی کرنے والے تھے.آج ان کی اولادوں میں بعض لوگوں پر نظر ڈال کر میں بتاتا ہوں کہ وہ ایسے ہیں کہ جتنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جتنی قربانی ہوئی تھی ان میں سے ہر ایک اس سے زیادہ کر رہا ہے یعنی بعض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ساری جماعت کو جو تمام مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملتی تھی آج ان بزرگوں کی اولادوں میں سے بعض ایسے صاحب دولت اور صاحب ثروت اور صاحب غنا لوگ ہیں جن کا دل غنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس زمانے کی ساری مالی قربانی کے برابر بلکہ اس سے بڑھ کر ا کیلے پیش کر رہے ہیں لیکن سب کچھ بھی پیش کر دیں تب بھی اس مرتبے کو حاصل نہیں کر سکتے جو اس زمانے میں قربانی کرنے والے کا مرتبہ تھا.اس پر اللہ کی رضا کی جو نظریں پڑتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رضا کی جو نظریں پڑتی تھیں ان کی کیفیت بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ غرباء جنہوں نے اس زمانے میں دو پیسے بھی پیش کیے وہ ایسے تھے جنہوں نے آئندہ زمانوں میں اپنی اولاد کے مقدر جگا دیئے ، ان کی اولاد میں دو کروڑ خرچ کرنے والے بھی پیدا ہوں گے تب بھی وہ اُن دو پیسوں کے مرتبے کو نہیں پاسکیں گے.تو یہ خدا کی قبولیت کا سلسلہ ہے.وہ دانہ جس کو پھل لگا تھا اس کا اپنا ایک مقام ہے اس پر آپ نظر رکھا کریں.جس دانے نے سات سودانے پیدا کئے اور سات سو کو خدا نے پھر بڑھا کر بیشمار کر دیا.وہ اصل دانہ اُن سب نعمتوں کا باپ ہے، بے شمار ان سب نعمتوں کی ماں ہے ، سب کچھ وہ ہی ہے.کثرت کے ساتھ پیدا ہونے والے وہ دانے اپنے اس دانے کا تو مقابلہ نہیں کر سکتے جس کا فیض پا کر بڑھے اور پھولے اور پھلے.اس لئے وہ مالی قربانی کرنے والے جو آج ان اعدادوشمار کو سنیں گے اور جب ان کا دل حمد سے بھرے گا وہ ان بزرگوں کو دعاؤں میں یا درکھیں جن کی قربانیوں نے یہ پھل لگائے.ان کے اموال میں بھی برکت پڑی اور ان کی قربانیوں میں بھی برکت پڑی اور جماعت احمدیہ کے اموال میں بحیثیت مجموعی ایسی برکت پڑی ہے کہ آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے کہ سوسال کے عرصہ میں اتنی عظیم قربانی کرنے والی جماعت کیسے پیدا ہوگئی.اب اس تمہید کے بعد میں آپ کے سامنے اعداد و شمار کی صورت میں حتی المقدور اختصار کے ساتھ جماعت احمدیہ کی گزشتہ سال کی مالی قربانی کا نقشہ رکھتا ہوں.لازمی چندہ جات جن میں
خطبات طاہر جلدا 466 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء چندہ عام، چندہ وصیت اور جلسہ سالانہ شامل ہیں ان میں گزشتہ سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے 5190888 پاؤنڈ پیش کئے ہیں جو 246192380 روپے کی رقم بنتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانے میں چند ہزار کی باتیں ہوا کرتی تھیں اور سارے سال میں بھی اعداد و شمار ہزاروں سے نہیں بڑھا کرتے تھے لیکن اب خدا کے فضل سے لازمی چندہ جات کی تعداد بھی 246192 ہو چکی ہے جبکہ دیگر بڑی تحریکات تحریک جدید، وقف جدید وغیرہ جو جاری ہیں.ان میں اس کے علاوہ 1960000 پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت کو ایک سال میں پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے جس کی رقم 2888851 پاکستانی روپے بنتی ہے اس کے علاوہ متفرق تحریکات ہیں جو میں نے مختلف وقتوں میں کی ہیں اور کچھ صدقات وزکوۃ وغیرہ کی رقمیں ہیں.کچھ عید فنڈ اور فطرانہ وغیرہ کی رقمیں ہیں.ان سب کو ملالیں تو ان کے علاوہ یہ 135742 پاؤنڈ بنتے ہیں جن کی رقم ( پاکستانی کرنسی میں )643098 روپے ہے.آج سے قریباً ۴۰ سال پہلے ۱۹۵۳ ء میں آپ جائیں جبکہ فساد ہوئے ہیں تو جماعت کا سالانہ بجٹ 25 لاکھ کے قریب ہوا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زمانے کے لحاظ سے آگے آکر ۵۳ء میں پہنچیں تو اس وقت جماعت کی مالی قربانی کو دیکھ کر عبدالرحیم اشرف جو ایک معاند مولوی تھے اپنے اخبار میں جس کو وہ فیصل آباد سے شائع کیا کرتے تھے بہت درد کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ جس جماعت کو مٹانے کے لئے ہم نے تحریکات پر تحریکات چلائیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا یا ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور مالی قربانی کے لحاظ سے آپ لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ یہ 25 لاکھ روپے سالانہ قربانی پیش کر رہے ہیں.کہاں وہ ۵۳ ء کا وقت جبکہ دشمن 25 لاکھ سے ششدر اور حیران رہ گیا تھا اور وہ سمجھا کہ ہم شکست کھا گئے ہیں اور آج وہ وقت آ گیا ہے کہ اگر ان سب چندوں کو ملا لیا جائے تو خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی ایک سال کی مالی قربانی ، جو میں نے حساب لگایا تھا 44 کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے.مجھے یاد ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ذمہ داری ڈالی تو اس کے بعد کسی خطبہ میں میں نے جماعت کےسامنے یہ اظہار کیا تھا کہ میں نے جہاں تک جماعت کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ہر ابتلاء کے بعد اعداد و شمار کی کیفیت بدل گئی ہے.اگر ہزاروں میں چندے ہوتے تھے تو جماعت کے
خطبات طاہر جلدا 467 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء خلاف کوئی تحریک چلائی گئی تو اس کے بعد اگلی تحریک سے پہلے لاکھوں میں پہنچ گئے اور لاکھوں میں جو چندے ہوتے تھے جب ایک اور تحریک چلائی گئی تو کروڑوں میں پہنچ گئے.چنانچہ میں نے یہ دعا کی تھی اور جماعت کو کہا تھا کہ اس دعا میں میرے ساتھ شریک ہوں کہ خدا کرے ہمارے دیکھتے دیکھتے اب یہ کروڑ اربوں میں بدل جائیں تو جب میں نے یہ تحریک کی تھی اس وقت چند کروڑ بھی چندے نہیں تھے.میں اعداد و شمار نکال کر انشاء اللہ جلسہ پر بیان کروں گا لیکن آج خدا کے فضل سے قریباً نصف ارب تک معاملہ پہنچ چکا ہے اور یہ جو اعداد و شمار ہیں یہ ساری دنیا کی جماعتوں کے نہیں ہیں.دنیا کی جماعتوں میں یہ 44 بڑی جماعتوں کے ہیں اور باقی دنیا میں جماعتیں پھیل رہی ہیں، کثرت کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں.بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جہاں ابھی چندے کا نظام مستحکم نہیں ہوا.بعض تعداد میں تھوڑی ہیں بعض غربت کی وجہ سے قربانیوں میں زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتی لیکن 126 ممالک نے بہر حال آپ کے ساتھ شامل ہونا ہے.وہ تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں ، بڑھ رہے ہیں ، پھیل رہے ہیں.چندے کا نظام رفتہ رفتہ ان میں داخل ہو رہا ہے مثلاً روس کی ریاستیں ہیں جنہیں USSR کہنا چاہئے ان میں اب جہاں خدا کے فضل سے احمدی جماعتیں قائم ہوئی ہیں انہوں نے کچھ نہ کچھ چندہ دینا شروع کر دیا ہے.تو یہ سب لوگ آخر آپ کے ساتھ شامل ہوں گے.ہمیں اول یہ دعا کرنی چاہئے کہ جیسا کہ میں نے اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ خدا اب جلد ہماری جماعت کو کروڑوں کی بجائے اربوں کے بجٹ عطا کرے اور دوسرا یہ کہ مالی قربانی جتنی بڑھے اس کی شان وہی رہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ ربوة پر ہو، خدا کے نزدیک بلند مرتبہ قربانیاں ہوں.ایسی قربانیاں ہوں جن کو کوئی ابتلاء نقصان نہ پہنچا سکے ، نہ موسلا دھار بارش نقصان پہنچا سکے، نہ خشک سالی نقصان پہنچا سکے.ہر حالت میں وہ تر و تازہ رہیں اور نئے نئے پھل دیتی رہیں اور پھر ان سے خدا کا سلوک وہی ہو جو پچھلوں کی قربانیوں سے ہوا تھا.جن بزرگوں کی قربانیوں نے وہ منزل بنائی ہے جس پر ہم آج کھڑے ہیں.خدا کرے کہ ہماری قربانیاں اسی نسبت سے خدا کی راہ میں ایک اور اونچی منزل بنا دیں اور آئندہ نسلیں ہمارا ذکر اس طرح محبت اور پیار اور دعاؤں کے ساتھ کیا کریں جس طرح ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھیوں اور غلاموں کا ذکر محبت اور پیار اور دعاؤں کے ساتھ کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 468 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء جہاں تک جماعتی موازنہ کا تعلق ہے پاکستان کے علاوہ جو بعض بڑے بڑے ممالک ہیں ان میں سے میں نے 15 ممالک آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے رکھے ہیں.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ خدا کے فضل سے کس تیزی کے ساتھ بیرونی جماعتیں قربانی میں ترقی کر رہی ہیں.جرمن صف اول پر ہے.بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ہے اور واقعہ ربوة کا مقام حاصل کر لیا ہے جرمنی کی ایک سال کی قربانی 1052717 پاؤنڈ کی ہے اور یہ سلسلہ ہر سال بڑھے چلا جا رہا ہے.اس کا مطلب ہے کہ 49870000 روپے کی قربانی صرف جماعت جرمنی کی ہے جو چند سال پہلے ساری دنیا کی جماعتوں کی مل کر بھی نہیں تھی.اگر آپ دس پندرہ سال پہلے چلے جائیں تو آپ حیران ہوں گے کہ خدا نے جماعت کے اموال میں اور قربانی کی روح میں کس قدر برکت دی ہے.امریکہ جرمن کے پیچھے پیچھے دوسرے نمبر پر آرہا ہے اور خدا کے فضل سے بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے.وہاں مالی نظام متحکم ہوتا چلا جارہا ہے اور ابھی وہاں بہت گنجائش ہے.اس لئے اگر چہ جرمنی سے کافی پیچھے ہے لیکن جرمنی کے لئے چیلنج ضرور ہے کیونکہ جس رفتار سے وہ لوگ بیدار ہورہے ہیں احساس قربانی بیدار ہورہا ہے اور نشو و نما پا رہا ہے، بعید نہیں کہ چند سالوں میں وہ جرمنی کو پکڑ لیں تو خیر مشکل ہے مگر پکڑنے کی کوشش ضرور کریں گے.قریب ضرور پہنچ سکتے ہیں تو نمبر دو پر امریکہ کی قربانی.501930 پاؤنڈ ہے.مجھے یاد ہے کہ پندرہ بیس سال پہلے کا ایک وقت تھا یا شاید اس سے بھی کم ہو کہ امریکہ کو باہر سے امداد ملا کرتی تھی.میں جب ۱۹۷۸ ء میں گیا ہوں تو اس وقت بھی یہی صورت حال تھی اور میں نے ان کو بتایا کہ دیکھو ابھی تک باہر سے مدد لے رہے ہو.یعنی جہاں تک مساجداور مشنز کے قیام کا تعلق تھاوہ محتاج تھے کہ باہر سے مدد آئے تو بنا سکیں.ان کو میں نے یاد دلایا کہ ایک زمانہ تھا جبکہ قادیان سے نہایت غریب لوگ دود و پیسے کی قربانیاں پیش کیا کرتے تھے کوئی انڈہ دے کر، کوئی مرغی دے کر کوئی بکری دے کر روپے جمع کیا کرتی اور وہ جماعت جو بھی قربانی کرتی تھی تمہارے جیسے امیر ملکوں کی طرف وہ روانہ ہوا کرتی تھی.تمہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اب باہر کے غریب ملکوں کے لئے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں.وہ جو احسان ہے وہ حروف میں یا اعداد و شمار میں شمار کیا نہیں جایا کرتا اس زمانے کی جو قربانی ہے وہ چاہے 5 ہزار یا 10 ہزار روپے کی ہو لیکن جس روح کے ساتھ وہ قربانیاں پیش کی گئی ہیں وہ ایسی روح ہے جو ہمیشہ غالب رہنے والی روح ہے اور اس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 469 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء قربانی کا بدلہ کبھی نہیں اتارا جا سکتا.ہاں بدلہ اتارنے کی ایک تمنا دل میں ہمیشہ بے قرار رہنی چاہئے یہی اس کا بدلہ ہے.تو وہ جماعتیں جن میں سے بعض اس بات کی شا کی تھیں کہ فلاں جگہ خرچ کر دیا، فلاں جگہ خرچ کر دیا، امریکہ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اُن کو میں نے اس طرح سمجھایا تھا آج خدا کے فضل سے امریکہ کی یہ حالت ہے کہ وہ واقعہ باہر کی غریب جماعتوں کی مدد کر رہا ہے اور افریقہ میں بھی جنوبی امریکہ میں بھی اور دوسری جگہ بھی ، یورپ کے بعض ممالک میں بھی ہم امریکہ کی زائد آمدن سے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کی مدد کرتے ہیں.برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے لیکن امریکہ کے قریب ہے 488575 پاؤنڈ کی ایک سال کی قربانی ہے اور اگر یہ بھی زور لگائیں تو امید ہے امریکہ کے قریب یا کبھی ان کے آگے ہو جائے کبھی دوسرا آگے ہو جائے ایسی کیفیت پیدا ہو جائے گی.انڈونیشیا خدا کے فضل سے پچھلے چند سالوں میں کافی اوپر آیا ہے.نمبر شمار کے لحاظ سے اس کا مقام بہت ہی نیچے تھا اب چوتھے نمبر پر آ گیا ہے.ان کی سال کی مالی قربانی 310497 پاؤنڈ زینتی کینیڈا پانچویں نمبر پر ہے 285563 پاؤنڈز اور غانا چھٹے نمبر پر ہے.71822 پاؤنڈز کی قربانی ہے.غانا کا ذکر خاص طور پر دعا کی تحریک کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں.یہ ایک بہت غریب ملک ہے.ایک زمانے میں اسے گولڈ کوسٹ (Gold coast) کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں سونا بہت تھا اور مغربی ملکوں نے یہاں سے خوب دولت لوٹی ہے لیکن بہت سے ایسے حالات پیدا ہوئے جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ غانا دن بدن غریب ہوتا چلا گیا.چند سال پہلے تک تو یہ حال تھا کہ عام فاقہ کشی کا عالم تھا اور ایک دفعہ ایک مبلغ نے مجھے لکھا کہ غربت اور فاقہ کشی کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ رات کو میرا دروازہ کھٹکا.میں نے باہر نکل کر دیکھا کہ کون ہے تو وہ شخص بھوکا تھا.روٹی مانگنے کے لئے آیا تھا لیکن میرے پہنچنے سے پہلے وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا تھا یعنی نقاہت غالب آگئی اور اس کو تھوڑا تھوڑا کچھ پلا کر آہستہ آہستہ اس میں جان ڈالی گئی تو پھر وہ کچھ کھانے کے قابل ہوا اور اس غربت کے باوجود جو ابھی تک جاری ہے، ویسی کیفیت تو نہیں ، اللہ کے فضل سے فرق پڑ چکا ہے لیکن بالعموم غانا کی جماعتیں غریب ہیں مگر قربانی کی روح سے بہت عظیم جماعتیں ہیں.وہاں
خطبات طاہر جلدا 470 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء غریب سے غریب لوگوں میں بھی میں نے قربانی کا بڑا جذ بہ دیکھا ہے.بڑے کھلے دل کے لوگ ہیں، بڑے حوصلے کے لوگ ہیں اور جماعت سے بڑی محبت رکھتے ہیں.وہاں دورے کے دوران دور دور کے بعض گاؤں میں بھی میں نے جا کر دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگوں کے متعلق آدمی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنا گہرا اخلاص ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے پیغام سے عشق ہے.اگر یہ جماعت مالی قربانی کی طرح تبلیغ میں بھی اٹھ کھڑی ہو جیسا کہ اب شروع ہوگئی ہے تو انشاء اللہ چند سالوں میں غانا میں انقلاب بر پا ہو سکتا تو اس پہلو سے اس جماعت کو خصوصیت سے یادرکھیں اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالی باقی افریقن ملکوں کو بھی مالی قربانی اور وسیع حوصلگی میں غانا کی تقلید کی تو فیق عطا فرمائے.ماریشس بھی اللہ کے فضل کے ساتھ بڑی مستعد جماعتوں میں سے ہے اس نے بھی اپنا نمبر اونچا کیا ہے اور ساتویں نمبر پر ماریشس کی قربانی 71659 پاؤنڈ کی ہے.پھر ہندوستان کی باری ہے یہ بھی کافی پیچھے رہ گیا تھا.اب اوپر آنا شروع ہوا ہے اور اب جماعتوں میں کافی بیداری پائی جاتی ہے اور اب میں امید رکھتا ہوں کہ جس طرح ہم نے مہم شروع کی ہے انشاء اللہ ہندوستان کی جماعتیں اب بڑی تیزی کے ساتھ نشو ونما پائیں گی اور جیسا کہ میں ان کو بار بار یاد دہانی کرا رہا ہوں وہ اللہ کے فضل سے اپنا پرانا کھویا ہوا مقام حاصل کریں گی.وہ عظمت کا مرتبہ جب ہندوستان ساری دنیا کو اپنے چندوں سے خدمت دین کے لئے رقم مہیا کیا کرتا تھا تو اب بھی میں امید رکھتا ہوں.جماعتیں اگر بیدار ہو جائیں اور عزم کے ساتھ کام شروع کریں تو وہ دن دوبارہ لوٹ سکتے ہیں.قادیان کی ہمارے دل میں ایک محبت ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے.جہاں سے پیغام پھیلا وہ محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہندوستان کو پھر صف اول میں دیکھیں اور وہاں سے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کا نور پھر ساری دنیا میں پہنچے.ناروے بھی بڑی مستعد جماعت ہے آگے بڑھ رہی ہے.ہندوستان کے بعد ناروے کی باری ہے ناروے نویں نمبر پر ہے ، پھر جاپان باوجود اس کے کہ بہت کم تعداد ہے دسویں نمبر پر آ گیا ہے.پھر سوئٹزر لینڈ گیارھویں ہے.پھر بنگلہ دیش بارہویں ہے.پھر سویڈن آتا ہے.اس کے بعد نائیجیر یا آیا اس کا چودہواں نمبر ہے.نائیجیریا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اقتصادی لحاظ سے اللہ نے بہت برکتیں عطا کی ہیں Potential کے لحاظ سے امیر ملک ہے.انفرادی طور پر مقابلہ کر کے
خطبات طاہر جلدا 471 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء دیکھیں جس کو Man to man مقابلہ کہتے ہیں تو غانا کے مقابلے پر نائیجیرین احمدی کی حالت بہت بہتر ہے اس لئے وہاں کی جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ اور اخلاص میں بھی وہ آگے بڑھیں اور جس طرح خدا نے ان پر فضل فرمایا ہے اور اس نسبت سے مالی قربانیوں میں آگے بڑھیں تعداد کے لحاظ سے وہ پیچھے ہیں لیکن اتنا پیچھے نہیں کہ غانا سے اتنا پیچھے رہ جائیں.ہالینڈ پندرھویں نمبر پر ہے.ہالینڈ کی جماعت بھی یورپ کی دیگر جماعتوں کے مقابل پر تعداد کے لحاظ سے خدا کے فضل سے بہت مخلص اور مالی قربانی میں پیش پیش ہے.بہر حال ہم امید رکھتے ہیں خدا تعالیٰ باقی سب جماعتوں پر بھی ان پندرہ کی طرح بے شمار فضل نازل فرمائے گا جو مالی قربانی میں مسلسل محنت اور اخلاص اور استقلال کے ساتھ پوری وفا کے ساتھ احیائے کلمۃ اللہ کے لئے خدا کے حضور سالا نہ پیش کرتی چلی جارہی ہیں اور ان کا معیار دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے.جیسا کہ میں نے امریکہ کے معاملہ میں بیان کیا ہے کہ ابھی بہت سے ایسے احباب ہیں جو اگر حسب توفیق خرچ کریں تو امریکہ میں ابھی بہت آگے آنے کی گنجائش ہے.یہ صورت حال کم و بیش دنیا کے ہر ملک پر پورا اترتی ہے کیونکہ کبھی بھی کسی ملک میں ایک جیسی ایمان کی حالت کے لوگ نہیں ہوا کرتے اگر چندے بڑھانے ہیں تو سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اخلاص کا معیار بڑھانے کی کوشش کریں.اخلاص کا پانی جتنا اونچا ہوگا اتنا ہی چندہ خود بخود اچھل کر باہر آئے گا اور اگر اخلاص کا معیار بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے اور چندوں کے مطالبے پر زور دیا جائے تو اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ لوگ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹنے لگ جاتے ہیں.میرا تجربہ ہے کہ وہ کمزور لوگ جو چندوں میں پیچھے ہوں ان کے پیچھے جب سیکرٹری مال وغیرہ پڑتے ہیں تو وہ دور بھاگنے لگ جاتے ہیں.بعض لوگ اپنے ایڈریس بدل لیتے ہیں کہ کہیں سیکرٹری مال ہمارے تک نہ پہنچ جائے تو اخلاص نہ ہوتو پھر تحر یک بجائے ادھر لانے کے اور زیادہ دھکیل دیتی ہے لیکن اخلاص کا معیار اونچا ہو تو پھر تحریک ہو.پھر دیکھیں وہ کس جوش کے ساتھ آگے بڑھتا ہے دونوں باتیں ضروری ہیں.چندہ طلب کرنے والا جو نظام ہے وہ بھی بہت مستحکم ہونا چاہئے اور اس نظام کا بر وقت واسطه ساری جماعت سے قائم رہنا چاہئے.بر وقت لفظ بہت اہم ہے.بعض دفعہ چندہ وصول کرنے
خطبات طاہر جلدا 472 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۹۲ء والے جماعت کے مختلف افراد تک پہنچتے تو ہیں لیکن بر وقت نہیں پہنچتے.مثلاً ایک سال گزرنے کو ہے.گیارہ مہینے ہو گئے ہیں اور سیکرٹری مال اچانک جاگ اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ او ہو ہوا بھی تو میری کافی رقم وصول ہونے والی ہے.وہ پھر دروازے کھٹکھٹاتا ہے.پہنچ تو جاتا ہے لیکن بروقت نہیں پہنچتا.اگر پہلے مہینے میں پہنچے تو بالعموم ہمارا یہ تجربہ ہے کہ پھر کسی شخص نے جتنا چندہ دینا ہوتا ہے سال کے آخر تک اس سے زیادہ دیتا ہے.پیچھے نہیں رہا کرتا.تو نظام جماعت میں جو چندہ وصول کرنے کا نظام ہے اس کو متحکم کرنا بہت ہی اہم کام ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ نظام جس کا تعلق اخلاص کا معیار بڑھانے سے ہے وہ ساتھ ساتھ مستعد ہو کر قدم بقدم چلے بلکہ آگے بڑھ کر چلے اور اگر اخلاص کا معیار بڑھانے والا نظام یعنی تعلیم و تربیت کا نظام اور نمازوں پر قائم کرنے کا نظام جو تربیت کا ہی حصہ ہے اور خدا سے تعلق بڑھانے کا نظام، یہ نظام اگر پوری طرح مستعدی کے ساتھ عمل پیرا ہو تو پھر چندہ وصول کرنے والے نظام میں کمزوریاں بھی رہ جائیں تو اتنا نقصان نہیں ہوا کرتا.اخلاص بڑھ جائے تو جیسے بچے کے لئے ماں کا دودھ بعض دفعہ اچھلتا ہے اور چھاتیوں سے باہر آجاتا ہے حالانکہ بچے نے طلب بھی نہیں کی ہوتی بلکہ یہی کیفیت اخلاص کی ہے.اگر خدا سے محبت بڑھ جائے ، انسان نمازوں پر قائم ہو جائے جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے پیار کا تعلق قائم ہو جائے تو پھر انسان از خود بغیر تحریک کے بھی ادا کرتا ہے تو یہ دونوں چیزیں ہیں جن کو جماعت کے مالی نظام کو متحکم کرنے کے لئے ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہو گا اور ایک تیسری چیز جس کا اخلاص سے بھی تعلق ہے لیکن اس کو عموماً اخلاص کے دائرے میں شامل نہیں کیا جا تاوہ دیانتداری ہے.دیانت اس سارے نظام کو مضبوطی بخشتی ہے.اگر دیانت نہ ہو تو اخلاص بھی ہو اور مالی نظام بھی مضبوط ہوتب بھی لوگ چندہ دینے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں.عالم اسلام کی آج جو بہت بڑی بدنصیبی ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں مستثنیٰ رکھا ہوا ہے اس میں ایک یہ مابہ الامتیاز ہے کہ باقی عالم اسلام کو وہ دیانت نصیب نہیں ہے اور ان میں باوجود اس کے کہ بہت سے لوگ ہیں جو قربانی کرنے کی تمنا رکھتے ہیں اور بے شمار روپیہ بھی ان کے پاس ہے وہ اس وجہ سے نہیں دیتے کہ ان کو پتا ہے جو دیں گے کھا جائیں گے اور جب اعتماد نہ رہے کہ جس مقصد کے لئے خرچ کیا جارہا ہے اس مقصد کو پہنچے گا تو دل قربانی کے لئے کھلتا نہیں ہے تو جماعت احمدیہ کی کامیابی کا راز اور نظام جماعت کی استقامت کا جو
خطبات طاہر جلدا 473 خطبہ جمعہ وار جولائی ۱۹۹۲ء مرکزی راز ہے وہ دیانت میں ہے.اخلاص کے نتیجہ میں چندہ آئے گا.مال کا نظام مضبوط ہو گا تو چندے کو سنبھالا جائے گا لیکن اگر دیانت کا فقدان ہو جائے تو یہ دونوں باتیں بالکل بیکار اور باطل ہو جائیں گی.کوئی بھی ان کی حیثیت نہیں رہے گی.پس ہمارے آڈٹ کے نظام کو بھی مستعد ہونا چاہئے اور بالعموم جماعت کا دیانت کا معیار اونچا کرتے رہنا چاہئے میری نظر تو اس پر پڑتی ہے کہ مجھے مالی لین دین میں کتنی شکائتیں بد دیانتی کے متعلق پہنچتی ہیں.اس کو میں بڑے غور اور فکر سے دیکھتا ہوں اور اس سے اندازہ لگاتا رہتا ہوں کہ اس وقت جماعت کی کیا حالت ہے.وہ لوگ جو اپنے ذاتی لین دین میں بد دیانتی اختیار کر جائیں جب وہ جماعتی لین دین میں ملوث ہوں گے تو ابتداء وہ بددیانتی نہیں کریں گے کیونکہ کچھ لوگ فرق کرتے ہیں اور یہ ایک طبعی بات ہے.مثلاً ایک شخص کوئی بات کر رہا ہو.آپ کہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو تو وہ کہتا ہے: ہیں میں آپ کے سامنے بھی جھوٹ بولوں گا.یہ بات بھول جاتا ہے کہ خدا کے سامنے کھڑا ہے اور اس کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں کر رہا لیکن ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہتا ہے کہ تو بہ تو بہ میں آپ کے سامنے بات کر رہا ہوں، میں آپ کے سامنے بھی جھوٹ بولوں گا ؟ تو اس نفسیاتی رجحان کے پیش نظر کئی لوگ بد دیانت بھی ہوں تو جماعت کے معاملے میں احتیاط کرتے ہیں اور جماعت کے معاملہ میں چندہ کھانے کے لئے ان کو حو صلے نہیں پڑتے لیکن جب معیار اور گر جائے تو پھر یہ باتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں.اب تو یہ ہے کہ لکھوکھا چندہ دینے والوں میں سے شاید کسی ایک کو شکایت پیدا ہو کہ اس کا روپیہ کسی نے جماعت کے خزانے میں جمع کرنے کی بجائے خود استعمال کر لیا لیکن اگر جماعت کی دیانت کا معیار اتنانہ رہا جتنی کہ ہم توقع رکھتے ہیں تو خطرہ ہے کہ پھر یہ باتیں عام شروع ہو جائیں گی اور اگر خدانخواستہ یہ شروع ہو گیا تو پھر نظام جماعت کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.تو دعا میں پھر اس کو بھی داخل کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اخلاص کے معیار کو بھی بلند رکھے ہمارے مالی نظام کو بھی مضبوطی عطا کرے.استقامت بخشے.ان کو طاقت بخشے.ان کو محنت کی توفیق بخشے کہ وہ برابر بروقت ہر جماعت کو مالی قربانی کی یاد دہانی کراتے رہیں اور ہمیں دیانت کا بلند معیار عطا فرمائے.یہ تینوں چیزیں اتنے بلند معیار کی ہوں کہ خدا کے نزدیک ہمارا باغ ربوة پر قائم ہو جائے.اس بلندی پر قائم ہو جائے جس پر قرآن کی نظر پیار سے پڑ رہی ہے.جس پر قرآن کے خدا کی نظر پیار سے پڑ رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 475 خطبہ جمعہ ے امر جولائی ۱۹۹۲ء رسول کریم عمل لول لول و کل عالم کیلئے شفیع اور حقیقی وسیلہ صلى الله داعی الی اللہ و خدا کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرنی چاہئے.(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ ار جولائی ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائده: ۳۶) پھر فرمایا:.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی طرف جانے کے لئے وسیلہ ڈھونڈو.وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِہ اس کی راہ میں جہاد کر ولَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تا کہ تم نجات پاؤ.وسیلہ کا ایک عام معنی ذریعہ ہے یعنی ایسا راستہ جس سے انسان کسی جگہ تک پہنچتا ہے کوئی ایسا طریق جس سے انسان کسی چیز کو اختیار کرتا ہے، کوئی آلہ کار جس سے مقصود حاصل ہو اور ان معنوں میں ہر وہ عمل جو خدا کی طرف لے کے جاتا ہو وہ وسیلہ ہے.ہر وہ دوست جس کا تعلق خدا کی طرف لے کر جائے وہ بھی وسیلہ ہے لیکن سب سے بڑھ کر خاص معنوں میں حضرت اقدس محمد ﷺہ ہی وہ وسیلہ ہیں جن کا بطور خاص یہاں ذکر فرمایا گیا ہے.ہمیں حضرت اقدس محمد اللہ نے جو دعا سکھائی کہ اذان کے بعد یہ دعا کیا کرو اس دعا میں یہ الفاظ آتے ہیں.ات مـحـمـد الـوسـيـلـة والـفـضـيـلـة صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 476 خطبہ جمعہ سے امر جولائی ۱۹۹۲ء والدرجة الرفيعة وابعثه مقاما محموداً ن الذي وعدته ( بخاری کتاب الاذهان حدیث نمبر: ۵۷۹) اے اللہ !محمد کو وسیلہ بنادے یا وسیلہ عطا فرما.میں نے وسیلہ بنادے“ کا ترجمہ ان معنوں میں کیا ہے کہ وہ مقام عطا فرما جو وسیلہ کا مقام ہے.یہ اس کے معنی ہیں کیونکہ باقی سب مضمون اعلیٰ مراتب کے عطا کرنے کی دعا ہے.پس ان معنوں میں خدا سے تعلق کا سب سے زیادہ یقینی اور قطعی اور آسان اور عمد درستہ حضرت اقدس محمدﷺ سے تعلق جوڑنا ہے.اس سلسلہ میں سب سے پہلے شفاعت کا مضمون سامنے آتا ہے کیونکہ اس تعلق کے نتیجہ میں شفاعت نصیب ہوتی ہے.عوام الناس میں شفاعت کا ایک ایسا مفہوم پایا جاتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور شفاعت کے مفہوم میں جو بہت ہی لطیف اور باریک در بار یک مطالب ہیں ان سے نہ عوام الناس کو کوئی آگاہی ہے نہ اُن علماء کو جو اُن کی تربیت کرتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق میں فنا تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں بھی فنا تھے آپ کو جو عرفان نصیب ہوا ہے وہ دنیا کے علماء کو نصیب ہونا تو درکنار اس کی خاک کو بھی وہ نہیں پہنچ سکتے.یہ ایک خدا رسیدہ عالم کا اور ایک عام دنیا کے عالم کا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جو تحریر میں نے آج آپ کے سامنے رکھنے کے لئے چینی ہے اس کو بغور سنیں تو آپ پر یہ مضمون خود بخود کھلتا چلا جائے گا.فرماتے ہیں: ”مذہبی مسائل میں سے نجات اور شفاعت کا مسئلہ ایک ایسا عظیم الشان اور مدارالمہام مسئلہ ہے..66 یعنی بہت ہی اہم مسئلہ ہے جس کو کسی قیمت پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.وو...یہ تو ظاہر ہے کہ ہر ایک انسان طبعا اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ وہ صد ہا طرح کی غفلتوں اور پردوں اور نفسانی حملوں اور لغزشوں اور کمزوریوں اور جہالتوں اور قدم قدم پر تاریکیوں اور ٹھوکروں اور مسلسل خطرات اور وساوس کی وجہ سے اور نیز دنیا کی انواع اقسام کی آفتوں اور بلاؤں کے سبب سے ایک ایسے زبردست ہاتھ کا محتاج ہے جو اُس کو اِن تمام مکروہات سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 477 خطبہ جمعہ کے ار جولائی ۱۹۹۲ء بچاوے کیونکہ انسان اپنی فطرت میں ضعیف ہے اور وہ کبھی ایک دم کے لئے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتا....66 یہ جو دلیل ہے یہ نفس کی گواہی سے تعلق رکھنے والی دلیل ہے، انسانی فطرت سے تعلق رکھنے والی دلیل ہے جو از خود ہر انسان کے دل سے پھوٹتی ہے.وہ تمام امور جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انسان کے روز مرہ کی زندگی کے تجارب کے سلسلہ میں ذکر فرمایا ہے یعنی ہوائے نفس کی طرف سے اس کو ٹھوکر لگنا غفلتوں کے پردوں میں انسان کا زندگی بسر کرنا بنفسانی حملوں کے علاوہ دیگر لغزشیں اور کمزوریاں جو آئے دن اس سے سرزد ہوتی رہتی ہیں ، لاعلمی کی ٹھوکریں،ایک انسان نیک نیت بھی ہو لیکن علم نہ ہو کہ رستہ کون سا ہے تو اس کی وجہ سے بھی وہ نقصان اُٹھاتا ہے، قدم قدم پر تاریکیوں سے معاملہ ہے، کئی قسم کے اندھیرے رستے میں حائل ہو جاتے ہیں.صحیح رستہ بھی ہو تو پھر بھی انسان اندھیروں کی وجہ سے ٹھوکر کھا جاتا ہے.مسلسل خطرات ہیں ، وساوس ہیں، کئی وساوس نفس سے پیدا ہوتے ہیں، کئی ساتھی جن میں انسان اٹھتا بیٹھتا ہے ان کی طرف سے وساوس دل میں پیدا کئے جاتے ہیں اور طرح طرح کے مصائب ہیں جن سے انسان کو روزمرہ معاملہ ہے.ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں جس پر وہ اپنی ذاتی قوت کے ساتھ غلبہ پاسکے اور یقین سے کہہ سکے کہ مجھے اس طرف سے کوئی خوف نہیں رہا.زندگی کی کیفیت تو یہ ہے کہ ایک خوف سے بچتا ہے تو دوسرے میں مبتلا ہو جاتا ہے، دوسرے سے بچتا ہے تو تیسرے میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ساری زندگی مختلف قسم کے خوفوں میں ہی مبتلا ہوتی ہے لیکن سب سے بڑا خوف غفلت کا خوف ہے جس کے نتیجہ میں خوف کا احساس مارا جاتا ہے اور یہ ساری چیزیں انسانی زندگی کے لئے ، اس کی روحانی زندگی کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے، مسلسل خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نفس ناطقہ گواہی دیتا ہے ،انسان کے اندر موجود ہے وہ اُسے بتاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا مقام نہیں جہاں تم سہارے کے محتاج نہیں ہو تمہیں ہر قدم پر سہارا چاہئے.اندھیروں کی بات کریں تو روشنی بھی تو سہارا ہے اور غیب سے روشنی نصیب ہونا یہ بھی ایک سہارا ہے، جہالت کی بات کریں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عالم عطا ہو جانا جو صحیح علم عطا کرے یہ بھی ایک سہارا ہے تو انسان محض اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتا.فرماتے ہیں کہ " 66 اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتا کہ وہ خود بخود نفسانی ظلمات سے باہر آسکے...
خطبات طاہر جلد ۱۱ 478 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی۱۹۹۲ء پس نفس پر بھروسہ کے ذریعہ انسان اعلیٰ مقاصد اور مطالب کو نہیں پاسکتا.فرماتے ہیں.”یہ تو انسانی کانشنس کی شہادت ہے...یعنی انسانی ضمیر کی گواہی ہے جو ہر انسان کو برا بر عطا ہوا ہے.پھر ایک عقلی دلیل کی طرف منعطف ہوتے ہیں.فرماتے ہیں وو...اور ماسوا اس کے اگر غور اور فکر سے کام لیا جائے تو عقل سلیم بھی اسی کو چاہتی ہے...6 یعنی اگر انسان کانشنس کو چھوڑ کر عقل کے ذریعہ ایک صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے تو وہ نتیجہ پھر وہی ہو گا جو اُس کے ضمیر نے پہلے سے نکال رکھا ہے اور بعض دفعہ ایک ضمیر بی غفلتوں کے نتیجہ میں نیم جان سا ہو چکا ہوتا ہے.بعض دفعہ اس کی آواز اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ انسان تک پہنچتی نہیں ہے اور جسے وہ ضمیر کی آواز سمجھ رہا ہے وہ اس کی بگڑی ہوئی حالتوں کی آواز ہوتی ہے.پس عقل کی بھی ضرورت ہے جو بیرونی نظر سے دیکھے اور ذاتی جذبات کے الجھاؤ سے بالا ہوکر وہ اطراف پر نظر ڈالے اور ایک نتیجہ اخذ کرے تو فرماتے ہیں کہ دو عقل سلیم بھی اس کو چاہتی ہے کہ نجات کیلئے شفیع کی ضرورت ہے.“ اب جوں جوں ہم آگے بڑھیں گے تو شفاعت کا مضمون اور کھلتا چلا جائے گا.فرماتے ہیں...کیونکہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ تقدس اور تطہر کے مرتبہ پر ہے اور وو انسان نہایت درجہ ظلمت اور معصیت اور آلودگی کے گڑھے میں ہے...اللہ تعالیٰ ایک پاک ذات ہے جس کی قدوسیت وہم و گمان سے بالا ہے اور وہ اپنے تطہر میں اپنی پاکیزگی میں اتنا بلند اور مصفی اور شفاف ہے کہ کدورتوں سے اس کا کوئی رابطہ کسی صورت دکھائی نہیں دیتا.اس کے برعکس انسان ہر قسم کی ذلتوں میں گرا ہوا، ہر قسم کے گناہوں میں ملوث ، ہر قسم کی نفسانی آلودگی میں الجھا ہوا اور ان دنیاوی گندوں سے لت پت ہے.فرمایا کیسے وہ تعلق قائم ہو کہ ایک طرف قدوس ذات ہے اور دوسری طرف گناہوں میں مبتلا انسان.تو فرماتے ہیں....اور بوجہ فقدان مناسبت اور مشابہت عام طبقہ انسانی گروہ کا اس وو لائق نہیں کہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے فیض پا کر مرتبہ نجات کا حاصل کرلیں...
خطبات طاہر جلد ۱۱ 479 خطبہ جمعہ سے امر جولائی ۱۹۹۲ء عوام الناس کا جہاں تک تعلق ہے ان کے بس کی بات نہیں کہ ان گندی حالتوں میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست فیض پاسکیں.د.پس اس لئے حکمت اور رحمت الہی نے یہ تقاضا فرمایا کہ نوع انسان اور اس میں بعض افراد کا ملہ جو اپنی فطرت میں ایک خاص فضیلت رکھتے ہوں درمیانی واسطہ ہوں....66 یعنی ایسے لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی شفاف فطرت عطا فرمائی ہے وہ بنی نوع انسان کے عوام الناس اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک رابطہ بن جائیں.اور وہ اس قسم کے انسان ہوں جن کی فطرت نے کچھ حصہ صفات 66 لاھوتی سے لیا ہو اور کچھ حصہ صفات ناسوتی سے..لاهوت صوفیاء کی اصطلاح میں اس عالم کا نام ہے جس میں صفات الہی جلوہ گر ہیں اور خدا کے سوا اور کچھ نہیں ہے وہی ہے اور وہی ہے اور وہی ہے اور اُس کے سوا کچھ نہیں.اس کو لاھوتی مقام کہتے ہیں اور ناسوتی مقام انسانوں سے تعلق کا مقام ہے جس میں خدا کی ہر قسم کی مخلوق موجود ہے اور مخلوق میں سے اول درجہ پر انسان ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ...ایسے انسان چاہئیں جن کی فطرت نے کچھ حصہ صفات لا ہوتی وو سے لیا ہو اور کچھ حصہ صفات ناسوتی سے.تا باعث لاھوتی مناسبت کے 66 خدا سے فیض حاصل کریں....ان میں بعض صفات ایسی ہوں جن میں گندگی کا کوئی ذرہ شائبہ بھی نہ ہوا یسی پاک صفات ہوں کہ گویا انہوں نے خدا کی صفات سے حصہ لے لیا ہے اور کچھ صفات بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی صفات ہوں.وہ انسانیت اور الوہیت کا سنگم بن جائیں اور اس طرح ان کو ایک طرف سے خدا تعالیٰ سے فیض پہنچے اور دوسری طرف اپنے انسانی تعلق کی وجہ سے اس فیض کو انسانوں میں جاری فرماسکیں.فرماتے ہیں.وو تا باعث لاہوتی مناسبت کے خدا سے فیض حاصل کریں اور بباعث ناسوتی مناسبت کے اس فیض کو جو اوپر سے لیا ہے نیچے کو یعنی بنی نوع کو
خطبات طاہر جلدا 480 خطبہ جمعہ کے ار جولائی ۱۹۹۲ء پہنچا ویں اور یہ کہنا واقعی صحیح ہے کہ اس قسم کے انسان بوجہ زیادت کمال لاهوتی اور ناسوتی کے دوسرے انسانوں سے ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں.گویا یہ ایک مخلوق ہی الگ ہے کیونکہ جس قدر ان لوگوں کو خدا کا جلال اور عظمت ظاہر کرنے کے لئے جوش دیا جاتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں وفاداری کا مادہ بھرا جاتا ہے اور پھر جس قدر بنی نوع کی ہمدردی کا جوش ان کو عطا کیا جاتا ہے وہ ایک ایسا امر فوق العادت ہے جو دوسرے کے لئے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے.ہاں یہ بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ یہ تمام اشخاص ایک مرتبہ پر نہیں ہوتے بلکہ ان فطرتی فضائل میں کوئی اعلیٰ درجہ پر ہے کوئی اس سے کم اور کوئی اس سے کم...یہ وہ مضمون ہے جس کو سمجھنے کے بعد شفاعت کا مضمون پھر اور زیادہ واضح طور پر انسان کے دل اور عقل میں سرایت کر جاتا ہے.اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اب دل ہمیر اور عقل کی ایک مشتر کہ گواہی پیش کرتے ہیں.کس خوب صورتی سے آپ نے اس مضمون کا ارتقاء فرمایا ہے.پہلے ضمیر کی آواز جو سب انسانوں میں قدر مشترک ہے پھر عقل سلیم کی آواز جو تمام انسانوں میں قدر مشترک ہے پھر فرماتے ہیں ایک سلیم العقل کا پاک کانشنس یہ سمجھ سکتا ہے وہ شخص جوسلیم العقل ہو اور اس کا ضمیر بھی پاک ہواور ضمیر مختلف قسم کی آلودگیوں سے گندا نہ ہو چکا ہو.اس کے اندر کوئی رخنہ نہ پیدا ہو چکا ہو.فرماتے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں شفاعت کا مضمون سمجھ آتا ہے....اور ایک سلیم العقل کا پاک کانشنس سمجھ سکتا ہے کہ شفاعت کا مسئلہ کوئی بناوٹی اور مصنوعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خدا کے مقرر کردہ انتظام میں ابتداء سے اس کی نظیر میں موجود ہیں اور قانون قدرت میں اس کی شہادتیں صریح طور پر ملتی ہیں...اندر کی جو علامتیں ہیں وہ انسانی نفوس سے تعلق رکھنے والی ہیں.بیرونی شہادتیں آفاق سے تعلق رکھنے والی ہیں اور یہ دونوں شہادتیں ہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ ہم تمہارے نفوس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 481 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۹۲ء میں بھی شہادتیں عطا کرتے ہیں اگر غور کرو تو تمہیں وہاں سے بھی شہادتیں مل سکتی ہیں اور آفاق میں بھی شہادتیں ہیں.اگر عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے بیرونی نظر سے بھی دیکھو تو تمہیں ہر جگہ حق کی شہادت مل جائے گی.فرماتے ہیں."...اب شفاعت کی فلاسفی یوں سمجھنی چاہئے کہ شفع لغت میں جفت کو کہتے ہیں...66 یعنی جوڑے کو ، دو ہونے کو ، دو کے اکٹھا ہونے کو قرآن کریم میں وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (الفجر ۴) آتا ہے کہ جفت کی دو گواہی ہے اور اکیلے کی کل گواہی ہے تو فرمایا کہ وو شفع لغت میں جفت کو کہتے ہیں.پس شفاعت کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ضروری امر جو شفیع کی صفات میں سے ہوتا ہے یہ 66 ہے کہ اس کو دوطرفہ اتحاد حاصل ہو...اب شفیع جو شفاعت کا موجب بنتا ہے اور وسیلہ بنتا ہے اس میں کیا صفات ہونی چاہئیں فرماتے ہیں جو مضمون ہم بیان کر چکے ہیں اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ایک شفیع میں دو قسم کے تعلق ہونے ضروری ہیں....یعنی ایک طرف اُس کے نفس کو خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہوایسا کہ گویا وہ کمال اتحاد کے سبب حضرت احدیت کے لئے بطور جفت اور پیوند کے ہو." یعنی اتنا گہراتعلق خدا تعالیٰ سے ہو جیسے ایک قلم دوسرے درخت پر لگ جاتی ہے اور اتنا گہرا واسطہ ہو کہ گویا ایک ہی وجود بن گئے ہیں....اور دوسری طرف اس کو مخلوق سے بھی شدید تعلق ہو گویا وہ ان کے اعضا کی ایک جز ہو.پس شفاعت کا اثر مترتب ہونے کے لئے در حقیقت یہی دو جز ہیں جن پر ترتب اثر موقوف ہے....فرمایا یہ دونوں صفات جس حد تک کسی انسان میں پائی جائیں گی اسی حد تک اس کی شفاعت کا مضمون مترتب ہوگا.پس اس پہلو سے مختلف درجے ہیں، مختلف انبیاء ہیں، ہر نبی اپنی قوم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 482 خطبہ جمعہ سے امر جولائی ۱۹۹۲ء کے لئے خاص حالات میں شفیع بنا اور قیامت کے دن بھی شفیع ہوگا لیکن ان دونوں صفات کے لحاظ سے ان کا معراج ہمیں حضرت اقدس ﷺ کی ذات میں دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وو یہی راز ہے جو حکمت الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتدا سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دیئے یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (الحجر:۳۰) یعنی جب میں آدم کو ٹھیک ٹھیک بنالوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو! اسی وقت تم سجدہ میں گر جاؤ.اس مذکورہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطرتاً خدا سے تعلق پیدا ہو جائے ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہوگا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی.پس اس لئے آدم طبعی طور پر ان کا شفیع ٹھہرے گا کیونکہ باعث نفخ روح جو راستبازی آدم کی فطرت کو دی گئی ہے...نفخ روح سے مراد ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہونا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہونا اور تعلق کا مختلف رنگ میں اظہار ہونا.اس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آدم کو راستبازی عطا ہوتی ہے کیونکہ جس کا خدا سے تعلق ہو اور جس کو خدا سے تعلق ہو جائے اس کو ضرور راستبازی عطا ہوتی ہے.یہ آدم کی فطرت کو دی گئی ہے." ضرور ہے کہ اُس کی راستبازی کا کچھ حصہ اس شخص کو بھی ملے جو اس میں سے نکلا ہے...66 پس انسانی فطرت میں نیکی کی جو سرشت پائی جاتی ہے یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلدا 483 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۹۲ء علیہ الصلوۃ والسلام وراثت کے مضمون کے طور پر بیان فرمارہے ہیں.اس کے برعکس جو عیسائی نظریہ ہے وہ گندگی کا وراثت میں جاری ہونا ہے اور گناہ کا وراثت میں جاری ہونا ہے.دیکھیں پاک سرچشمے سے کیسے پاک خیالات پھوٹتے ہیں اور جو چشمہ گندا ہو چکا ہو جس کا اپنی نبوت سے تعلق منقطع ہو چکا ہووہ اس پاک پانی کو کیسے گلہ کر دیتا ہے.قرآن کریم نے اسی کی گواہی دی ہے کہ ہر بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور ہر بچہ نیکی اور اسلام پر پیدا ہوتا ہے.یہ وہ گواہی ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس رنگ میں بیان فرما ر ہے ہیں کہ نیکی موروثی ہے.بدی موروثی نہیں ہے.بدی بعد کے اثرات سے پیدا ہوتی ہے لیکن فطرت میں جو چیز داخل فرما دی گئی ہے جس سے انسان کا خمیر اٹھایا گیا ہے وہ نیکی ہی ہے تو فرمایا کہ وو...اس کی راستبازی کا کچھ حصہ اس شخص کو بھی ملے جو اس میں سے نکلا ہے.جیسا کہ ظاہر ہے کہ ہر ایک جانور کا بچہ اس کی صفات اور افعال میں سے حصہ لیتا ہے اور دراصل شفاعت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ فطرتی وارث اپنے مورث سے حصہ لے کیونکہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ شفاعت کا لفظ شفع کے لفظ سے نکلا ہے جو زوج کو کہتے ہیں پس جو شخص فطرتی طور پر ایک دوسرے شخص کا زوج ٹھہر جائے گا ضرور اُس کی صفات میں سے حصہ لے گا.اسی اصول پر تمام سلسلہ خلقتی توارث کا جاری ہے.یعنی انسان کا بچہ انسانی قومی میں سے حصہ لیتا ہے اور گھوڑے کا بچہ گھوڑے کے قومی سے حصہ لیتا ہے اور بکری کا بچہ بکری کے قومی میں سے حصہ لیتا ہے اور اسی وراثت کا نام دوسرے لفظوں میں شفاعت سے فیض یاب ہونا ہے کیونکہ جبکہ شفاعت کی اصل شفع یعنی زوج ہے.پس تمام مدار شفاعت سے فیض اٹھانے کا اس بات پر ہے کہ جس شخص کی شفاعت سے مستفیض ہونا چاہتا ہے اُس سے فطرتی تعلق اس کو حاصل ہوتا جو کچھ اس کی فطرت کو دیا گیا ہے اُس کی فطرت کو بھی وہی ملے...یہ مضمون ارتقائی طور پر اب ایک اور منزل میں داخل ہو گیا ہے.اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا کہ شفاعت کا ایک پہلو ہے جو انسان نے وراثت حاصل
خطبات طاہر جلدا 484 خطبہ جمعہ کے ار جولائی ۱۹۹۲ء کیا یعنی آدم کو خدا تعالیٰ نے جو اپنی محبت عطا فرمائی اور الہام سے اس کی سرشت کو صیقل فرمایا اور اس کو پاک اور شفاف کیا ، یہ وہبت یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے جو یہ عطا تھی یہ آدم ہی تک نہیں رکی بلکہ اس کی نسلوں میں جاری ہوئی اور یہ وراثہ شفاعت سے حصہ لینا ہے.اب فرماتے ہیں کہ کسی طور پر بھی شفاعت سے حصہ لینا ضروری ہے.صرف وراثت تک اس مضمون کو چھوڑ دینا کافی نہیں.چنانچہ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ وہ اہل اللہ، وہ پاک لوگ جن کو خدا اعلیٰ مراتب عطا فرماتا ہے اور اعلی کمالات بخشتا ہے اُن سے تعلق خود بخود جوڑ کر انسان کے لئے لازم ہے کہ ان کا روحانی وارث بنے اور محض اس خوابیدہ سی وراثت پر اکتفا نہ کرے جو خون سے نسلاً بعد نسل اس کے اندر منتقل ہوتی چلی آرہی ہے کیونکہ وہ وراثت دب جاتی ہے، دیگر عوامل اور دیگر ایسے بہت سے اسباب ہیں جن کے نیچے دب کر وہ مغلوب ہو جاتی ہے.پس دیکھیں کہ ہر انسان جو فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور ہر بچہ جو سلیم فطرت اور نیکیاں لے کر آتا ہے ان کی کتنی بھاری اکثریت ہے جو خوفناک بدیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے.ان کے مزاج بگڑ جاتے ہیں، ان کے دل کی کیفیتیں گندی ہو جاتی ہیں ، وہ پانی جو آسمان سے صاف اور شفاف نازل ہوا تھا وہ ایسا زہریلا ہو جاتا ہے کہ ان کے اردگردان کے ماحول میں بھی ان کی پھونکوں سے لوگ مرتے ہیں.تو یہ جو غیر معمولی طور پر انقلابی کیفیت جو کا یا پلٹنے والی کیفیت پیدا ہوتی ہے یہ بتاتی ہے کہ محض موروثی نیکی کافی نہیں اگر اس کے ساتھ وہی نیکی شامل نہ ہو اور وراثت کا مضمون اس کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ اُن لوگوں سے تعلق قائم کرو جن پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی ہو جن کی روح کو خدا تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے چم کا یا ہو اور ان سے روحانی ورثہ حاصل کرو.یہ مضمون جب حضرت اقدس محمدﷺ کے تعلق میں سوچا اور سمجھا جائے تو شفاعت کا اصل اور اعلیٰ مفہوم انسان پر روشن ہو جاتا ہے.شفاعت کا معنی یہ نہیں ہے کہ محض مرنے کے بعد گنہگاروں کے متعلق رسول اللہ ہے فرما دیں کہ اے خدا ان کو معاف کر دے اور چھٹی کر.ان کی بخشش کے انتظام اس دنیا میں کرتے رہے اور کر گئے ہیں اور وراثت وہ فیض پیچھے چھوڑ گئے ہیں.فرمایا اس فیض سے حصہ پاؤ وہ دولت جو بے حساب ہے اس کا کوئی شمار ممکن نہیں وہ حضرت اقدس محمد ﷺ کے فیضان کی دولت ہے جو ایک بہتا ہوا ابدی طور پر بہنے والا اور نہ ختم ہونے والا دریا ہے.
خطبات طاہر جلدا صلى الله 485 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۹۲ء اُس سے تعلق جوڑو گے تو تمہاری ہر قسم کی پیاس بجھے گی تمہاری ہر قسم کی گندگی دور ہوگی اور اس سے شفع پیدا کرو، اس کے ساتھ پیوستہ ہو جاؤ، اس کے ساتھ جڑ جاؤ اور پھر تمہیں صحیح معنوں میں محمد مصطفی ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی.یہ نصیب ہو جائے تو پھر قیامت کی شفاعت اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے.وہ لوگ جنہوں نے اس دنیا میں حضرت اقدس محمد ے سے بڑے خلوص کے ساتھ ، دل کی گہرائی سے تعلق تھا، ایک خلوص کا دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ سارا وجود اس خلوص میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا حضرت محمد ﷺ سے تعلق قائم کیا ، اس نیت سے تعلق قائم کیا کہ آپ کے وسیلے سے خدا سے تعلق قائم ہوگا اور وہ الہی صفات جو سب سے زیادہ حضرت محمد ﷺ میں جلوہ گر ہوئیں اور کبھی اس سے پہلے کبھی کسی اور نبی میں جلوہ گر نہیں ہوئیں اور کبھی آپ کے بعد کسی آدم کی اولاد میں ان کے اس شان سے جلوہ گر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ان معنوں میں وہ نبی بھی یکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی توحید کا ایک مظہر کامل بن جاتا ہے.اس سے تعلق جوڑو اور اُس کی صفات سے حصہ پاؤ.اپنے وجود کو جتنا مٹاتے چلے جاؤ گے اور حضرت محمد ﷺ کے وجود میں ضم ہوتے چلے جاؤ گے.ان معنوں میں ایک اور مقام وحدانیت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوا کہ آپ نے اپنے وجود کو مٹا کر آنحضرت کے وجود میں اپنے آپ کو کلیۂ غائب کر دیا اور سراسر اس پاک وجود میں کھوئے گئے.پس جس طرح محمد ﷺ نے اللہ کے وجود میں کھو کر وحدانیت کا ایک نمونہ دکھایا آئندہ تمام بنی نوع انسان کے لئے اس وحدانیت تک پہنچنے کا یہ وسیلہ ہے.کوئی انسان رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر براہ راست اس وحدانیت کے اعلیٰ مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا محمد کے ساتھ مل کر یکتا ہو جائے تب وہ یکتا کو پاسکے گا اس کے سوا یکتا تک پہنچنے کا اور کوئی رستہ نہیں ہے.یہ مضمون ہے جسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رفته رفته مختلف منازل میں سمجھا سمجھا کر بیان فرمارہے ہیں.فرماتے ہیں:...وہ تو ایک ورثہ تھا جو تمہیں از خود مل گیا.یہ وہبت ہے لیکن اس کے بعد کسب کی بھی ضرورت پیش آئے گی.یہ تعلق جیسا کہ وہی طور پر انسانی فطرت میں موجود ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ایک جز ہے ایسا ہی کیسی طور پر بھی یہ تعلق زیادت پذیر ہے یعنی جب ایک انسان یہ چاہتا ہے کہ جو فطرتی محبت اور فطرتی ہمدردی بنی نوع کی اس میں موجود ہے اس میں زیادت ہو تو بقدر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 486 خطبہ جمعہ کے ار جولائی ۱۹۹۲ء دائرہ فطرت اور مناسبت کے زیادت بھی ہو جاتی ہے...66 پس جو ورثہ ملا ہے وہ اسی حد تک رکھے جانے کے لائق نہیں بلکہ اس کو بڑھانا ضروری ہے اور اگر حضرت محمد مصطفی اللہ کے فیض کے سمندر سے اس ورثے کا تعلق قائم کر دیا جائے تو وہ ورثہ اتنا بڑھ سکتا ہے کہ ایک عام انسان کی نظر میں گویا، لا پیدا کنار ہو جائے.اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں دیتے ہیں کہ ہر انسان میں محبت کا مادہ ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ انسان در اصل ”انسان“ تھا اُنس کا مطلب ہے تعلق.ایک انس کو عربی میں اُنس کہتے ہیں دو انس ہوں تو اُن کو انسان کہا جاتا ہے تو فرمایا در اصل انسان دو انسوں سے بنا ہے ایک اللہ کا انس جو اس کی فطرت میں ودیعت ہوا اور ایک بنی نوع انسان کا اُنس یعنی ہم جولیوں اور ساتھیوں اور اپنے ہم نوع لوگوں کا اُنس جو اُسے وراثہ ملا...فرماتے ہیں.وو.یہ انس تو ہر ایک میں پایا جاتا ہے مگر یہ اُنس عشق کی حالت میں کبھی کبھی تموج اختیار کرتا ہے اور اُس کے لئے انسان کو خاص محنت کرنی پڑتی ہے، ایک خاص قسم کی محبت کمانی پڑتی ہے.“ فرماتے ہیں....اسی بنا پر قوت عشقی کا تموج بھی ہے کہ ایک شخص ایک شخص سے اس قدر محبت بڑھاتا ہے کہ بغیر اس کے دیکھنے کے آرام نہیں کر سکتا.آخر اس کی شدت محبت اس دوسرے شخص کے دل پر بھی اثر کرتی ہے...یہ وہی بات ہے کہ عشق اول در دل معشوق پیدا می شود.جس کے دل میں پہلے محبت پیدا ہوتی ہے اُسے ان معنوں میں معشوق کہا گیا ہے کہ وہ عاشق بنانے والی محبت ہوتی ہے....اور جوشخص انتہا درجہ پر کسی سے محبت کرتا ہے وہی شخص کامل طور پر اور بچے طور پر اس کی بھلائی کو بھی چاہتا ہے...“ پس ایسی محبت جو بظاہر حد سے بہت بڑھی ہوئی دکھائی دے لیکن محبت کرنے والا انسان کو گناہوں میں مبتلا کر دے اور محض اپنے نفس کی خواہش کے نتیجہ میں اس کا دین بھی برباد کر دے اور اس کی دنیا بھی تباہ کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاکیزہ اور قابل اعتماد کسوٹی کے
خطبات طاہر جلدا 487 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۹۲ء مطابق وہ جھوٹی محبت ہے.فرماتے ہیں.جب محبت بہت بڑھ جاتی ہے تو پھر جس شخص سے محبت کی جاتی ہے اس کی بھلائی کے سوا انسان کچھ چاہ ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے کہ کسی معنوں میں بھی اس کی بدی کا تصور کر سکے.اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا لیکن یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کے محبوب کو کوئی ضرر پہنچے.چنانچہ فرماتے ہیں.یہ امر بچوں کی نسبت ان کی ماؤں کی طرف سے مشہود اور محسوس ہے...یعنی بچے جانتے ہیں کہ کس طرح مائیں اُن سے محبت کرتی ہیں اور کس طرح ہر آن ہر لمحہ ان کی بھلائی چاہتی ہیں.پھر فرماتے ہیں.وو...پس اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ کامل انسان جو شفیع ہونے کے لائق ہو وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے ان دونوں تعلقوں سے کامل حصہ لیا ہو اور کوئی شخص بجز ان ہر دو قسم کے کمال کے انسان کامل نہیں ہو سکتا.شفیع وہ ہے جس نے دونوں سے حصہ لیا ہو.اُس میں تمام انبیاء شریک ہیں اور انبیاء سے نیچے اتر کر صلحا اور خدا کے وہ سب پاک، راستباز بندے جو خدا کی صفات سے کچھ حصہ لیتے اور بنی نوع انسان کی محبت سے بھی حصہ لیتے ہیں اور ایک فیض کو دوسرے کی طرف جاری کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.” کوئی شخص بجز ان ہر دو قسم کے کمال صلى الله کے انسان کامل نہیں ہوسکتا، یعنی فیض تو سب کو ملے لیکن انسان کامل ایک ہی ہے یعنی حضرت محمد تھے.آپ نے فرمایا." اسی لئے آدم کے بعد یہی سنت اللہ ایسے طرح پر جاری ہوئی کہ 66 کامل انسان کے لئے جو شفیع ہو سکتا ہے یہ دونوں تعلق ضروری ٹھہرائے گئے.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عام معنوں میں ” کامل استعمال فرما رہے ہیں.رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارے کے معنوں میں نہیں بلکہ ان معنوں میں کہ ہر نبی اپنی استعدادوں کے مطابق اپنے درجہ کمال کو پہنچ جاتا ہے اور اس کا درجہ کمال یہی ہے کہ اس میں یہ دونوں صفات برابر ترقی کریں ، خدا کی محبت بھی اور بنی نوع انسان کی محبت بھی اور جتنی اس کو توفیق ہے اس کے انتہا تک پہنچ جائے تب وہ شخص درجہ کمال تک پہنچا ہوا کہلائے گا.تب اللہ تعالیٰ سے اس پر نعمت کا اتمام ہوگا اور
خطبات طاہر جلدا وہ مامور فرمایا جائے گا.فرمایا: وو 488 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۹۲ء یعنی ایک تعلق کہ ان میں آسمانی روح پھونکی گئی اور خدا نے ایسا اُن سے اتصال کیا کہ گویا اُن میں اتر آیا اور دوسرے یہ کہ بنی نوع کی زوجیت کا وہ جوڑ جو حوا اور آدم میں باہمی محبت اور ہمدردی کے ساتھ مستحکم کیا گیا تھا ان میں سب سے زیادہ چمکایا گیا...یہ انس جو انسانوں میں داخل فرمایا گیا ہے اس کا منبع اور سر چشمہ خاوند اور بیوی کا تعلق ہے.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آدم اور حوا کے حوالے سے ہمیں سمجھا رہے ہیں.فرمایا یہ سب سے زیادہ ان میں چمکایا گیا..اسی تحریک سے ان کو بیویوں کی طرف بھی رغبت ہوئی اور یہی ایک اول علامت اس بات کی ہے کہ ان میں بنی نوع کی ہمدردی کا مادہ ہے اور اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ خیر کم خيــركــم لاهله ( ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر ۳۸۳۰) یعنی تم میں سے سب سے زیادہ بنی نوع کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہو سکتا ہے کہ پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتا ؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کر کے سب سے پہلے آدم کی محبت کا مصداق اس کی بیوی کو ہی بنایا ہے.“ اور سارے محبت کے تعلق اسی سے پھوٹتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگے جا کر اس مضمون کی مختلف شاخیں بناتے اور دکھاتے ہیں کہ دیکھو اس رشتے سے پھر آگے تعلق کے کتنے رشتے پھوٹتے ہیں.دو پس جو شخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا یا اس کی خود بیوی ہی نہیں وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے...یہاں اصل میں حضرت مسیح پر حضرت اقدس محمد ﷺ کی فضیلت کے بیان کا مضمون ہے.اب وہ لوگ جو عیسائی دنیا میں رہتے ہیں ان کے سامنے یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ دیکھو مسیح نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 489 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۹۲ء جو شادی نہیں کی تو وہ معصوم تھا.شادی کرنے والے کیسے معصوم ہوئے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اُس میں مفقود ہے اس لئے اگر عصمت اُس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق الله نہیں...یا درکھیں کہ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت مسیح شفاعت کے لائق نہیں تھے.بعض ٹیڑھی سوچوں والے، ٹیڑھے دماغ والے ایسی عبارتوں سے غلط نتیجہ اخذ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق یہ ہے کہ بعض دفعہ نام لے کر بعض دفعہ نام لئے بغیر عیسائیوں کے ان جھوٹے اعتراضوں کا جواب دیتے ہیں جو ان صفات پر مبنی تھے جو ان کے فرضی مسیح میں پائی تھیں اور جواُن کے نزدیک رسول اللہ ﷺ میں نہیں پائی جاتی تھیں.جب بھی عیسائیوں کی طرف سے ایسی گستاخی کی گئی تو اُن کے اپنے معتقدات کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ملزم ثابت فرمایا.یہ مضمون ہے لیکن ہرگز یہ مراد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک حضرت مسیح اپنی قوم کے لئے شفیع نہیں تھے کیونکہ دوسری عبارتوں میں جہاں حقیقی مسیح کی بات ہوتی ہے، وہ مسیح جو عیسائیوں کے تخیل کی پیداوار نہیں بلکہ خدا کی مخلوق تھا اور خدا نے اُسے خود صیقل فرمایا تھا ، خدا نے اس میں روح پھونکی تھی اُس مسیح کا جب ذکر آتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دل محبت سے اچھلنے لگتا ہے اور بے اختیار اس مسیح کی پاکیزگی بیان فرماتے ہیں.پس یہاں جو مضمون ہے وہ ایک منطقی مضمون ہے جو عیسائیوں کے بیہودہ لغو اعتراضات کو مدنظر رکھ کر بیان فرمایا کہ اگر تمہارے نزدیک معصومیت یہی ہے کہ انسان شادی ہی نہ کرے تو یہ معصومیت تو دیوانوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے، یہ معصومیت تو ایسے لوگوں کو جو شادی کے لائق نہیں ان کو بھی حاصل ہو جاتی ہے، بچوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے.معصومیت تو ہے لیکن شفاعت نہیں.اس معصومیت کے ساتھ انسان شفاعت کا اہل نہیں قرار پاتا فرماتے ہیں.وو اور شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اُس میں مفقود ہے.اس لئے اگر عصمت اُس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے
خطبات طاہر جلدا 490 خطبہ جمعہ ۷ امر جولائی ۱۹۹۲ء کے لائق نہیں لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے.وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے کیونکہ ایک بیوی بہت سے رشتوں کا موجب ہو جاتی ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں.اُن کی بیویاں آتی ہیں اور بچوں کی نانیاں اور بچوں کے ماموں وغیرہ ہوتے ہیں...66 دونوں طرف کے تعلقات سے انسان آزمایا جاتا ہے اور دونوں طرف کے تعلقات کے پیج بوئے جاتے ہیں.دیکھیں میاں اور بیوی کے تعلقات کتنی بڑی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں.اور اس طرح پر ایسا شخص خواہ نخواہ محبت اور ہمدردی کا عادی ہو جاتا ہے.اور اُس کی اس عادت کا دائرہ وسیع ہوکر سب کو اپنی ہمدردی سے حصہ دیتا ہے لیکن جو لوگ جو گیوں کی طرح نشو ونما پاتے ہیں اُن کو اس عادت کے وسیع کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا اس لئے ان کے دل سخت اور خشک رہ جاتے ہیں.پھر فرمایا.وو شخص شفیع کے لئے جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے ضروری ہے کہ خدا سے اس کو ایک ایسا گہرا تعلق ہو کہ گویا خدا اس کے دل میں اُترا ہوا ہو اور اس کی تمام انسانیت مرکز بال بال میں لاھوتی بجلی پیدا ہوگئی ہو اور اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر خدا کی طرف بہہ نکلی ہو اور اس طرح پر الہی قرب کے انتہائی نقطہ پر جا پہنچی ہو.اور اسی طرح شفیع کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس کے لئے وہ شفاعت کرنا چاہتا ہے اس کی ہمدردی میں اس کا دل اڑا جا تا ہو.ایسا کہ گویا عنقریب اس پر غشی طاری ہوگی اور گویا شدت قلق سے اس کے اعضا اُس سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں اور اس کے حواس منتشر ہیں اور اس کی ہمدردی نے اُس کو اس مقام تک پہنچایا ہو کہ جو باپ سے بڑھ کر اور ماں سے بڑھ کر اور ہر ایک غم خوار سے بڑھ کر ہے...اس عبارت کو پڑھنے کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کا حقیقی مفہوم انسان پر روشن ہوتا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ
خطبات طاہر جلدا 491 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۹۲ء أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:٤) کہ اے محمد ! تو بنی نوع انسان کے لئے اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا کہ یہ ایمان نہیں لا رہے.کتنی بڑی ہمدردی ہے جو حضور اکرم ﷺ کی ذات میں ایسی چمکی تھی اور اس شان سے جلوہ گر ہوئی تھی کہ کبھی دنیا کے کسی دل میں یہ ہمدردی اس شان کے ساتھ نہ چپکی نہ جلوہ گر ہوئی نہ ایسی وسعت پذیر ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ آپ کو کل عالم کا نبی بنایا گیا اور کل عالم کا شفیع مقرر فرمایا گیا.اگر آپ کی ہمدردی مشرق کے لئے خاص ہوتی تو خدا گواہ ہے کہ کبھی آپ کو مغرب کا رسول نہ بنایا جاتا اور اگر آپ کی ہمدردی مغرب کے لئے خاص ہوتی تو خدا کی قسم ہے وہ کبھی مشرق کا رسول نہ بنایا جاتا.پس آپ کو مشرق اور مغرب کا رسول بنانا اور کل عالم کے لئے شفیع بنادینا آپ کے قلب مطہر اور اس کی لامتناہی صفات و ہبت کی طرف اشارہ کرتا ہے تبھی آپ کو رحمت للعالمین کا لقب عطا فرمایا گیا.تو وہ کیفیت کہ تو اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا یہ وہی ہے کہ اس پر غشی طاری ہو رہی ہے، اس کا دل ٹوٹ رہا ہے، اس کے بدن کے ٹکرے ٹکڑے ہورہے ہیں.اتنی گہری ہمدردی بنی نوع انسان سے اس کو ہو جاتی ہے اور اس کی ہمدردی نے اس کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے جو باپ سے بڑھ کر اور ماں سے بڑھ کر اور ہر ایک غم خوار سے بڑھ کر ہے." پس جبکہ یہ دونوں حالتیں اس میں پیدا ہو جائیں گی تو وہ ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ ایک طرف سے لاہوت کے مقام سے جفت ہے اور دوسری طرف ناسوت کے مقام سے جفت تب دونوں پلہ میزان کے اس میں مساوی ہوں گے یعنی وہ مظہر لاہوت کامل بھی ہوگا اور مظہر ناسوت کامل بھی اور بطور برزخ دونوں حالتوں میں واقع ہوگا.اس طرح پر اسی مقام شفاعت کی طرف قرآن شریف میں اشارہ فرما کر.آنحضرت ﷺ کے شفیع ہونے کی شان میں فرمایا ہے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنى...یہ وہی مضمون ہے جو میں پہلے بیان کرتا آیا ہوں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مضمون کے وہ لطیف اور باریک پہلو جو ایک صاحب تجر بہ عارف باللہ کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہو سکتے وہ میں اب آپ کے ساتھ Share کر رہا ہوں یعنی جس طرح میں نے ان سے لطف اٹھایا 66
خطبات طاہر جلدا 492 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۹۲ء آپ کو بھی اس لطف میں شامل کرنا چاہتا ہوں.سیہ وہ مقام ہے جس کا دعوت الی اللہ سے تعلق ہے.جس کو جتنا نصیب ہوا تنا ہی وہ دعوت الی اللہ کرنے کا اہل ہوتا چلا جائے گا اور اس کی دعوت الی اللہ میں اتنی ہی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی چلی جائے گی.دعوت الی اللہ کا مطلب ہے دو قوسوں کا ملانا.بنی نوع انسان کو خدا سے متصل کرنا اور دنا فَتَدَلی کا یہی مضمون ہے جس شخص نے خدا کے وصل کا کوئی حصہ نہ پایا ہو وہ کسی دوسرے کو منطقی طور پر خواہ چیخ چیخ کر بلائے اور دلائل سے کیسا ہی اس پر غالب کیوں نہ آجائے اس کو اللہ سے نہیں ملا سکتا.اللہ سے ملانے کے لئے اس کے وجود کا کچھ نہ کچھ حصہ لازم ہے خدا سے خود ملا ہو اور اگر سارا نہیں تو کچھ نہ کچھ تو وہ اس کو خدا سے ملا سکے.جو میں نے چنا ہے اس کا آخری حصہ یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو اور چونکہ خدا سے محبت کرنا اور اس کی محبت میں اعلیٰ مقام قرب تک پہنچنا ایک ایسا امر ہے جو کسی غیر کو اُس پر اطلاع نہیں ہوسکتی.اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ایسے افعال ظاہر کئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت اللہ نے در حقیقت تمام چیزوں پر خدا کو اختیار کر لیا تھا اور آپ کے ذرہ ذرہ اور رگ اور ریشہ میں خدا کی محبت اور خدا کی عظمت ایسے رچی ہوئی تھی کہ گویا آپ کا وجود خدا کی تجلیات کے پورے مشاہدہ کے لئے ایک آئینہ کی طرح صلى الله تھا.خدا کی محبت کاملہ کے آثار جس قدر عقل سوچ سکتی ہے وہ تمام آنحضرت ﷺ میں موجود تھے.“ ( عصمت انبیاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۵۹ - ۶۶۶) فرمایا اللہ کا تعلق تو دنیا کو دیکھنے میں دکھائی نہیں دیتا سوائے اس کے کہ خدا کی صفات بندے میں جاری ہوں.پس محمدی ﷺ میں صفات الہی جلوہ گر ہوئیں تب ہم نے دیکھا کہ آپ کا خدا سے تعلق تھا.پس ہر وہ احمدی جو کسی دوسرے کو خدا کی طرف بلاتا ہے کچھ تو صفات پیش کر سکے ، کچھ تو اپنی ذات میں دکھا سکے کہ دیکھو جب خدا سے تعلق ہوتا ہے تو یہ انسان بن جایا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت رسول اللہ ﷺ کے عشق میں ڈوب کر اپنے ان دو اشعار میں جو میں آپ
خطبات طاہر جلدا 493 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۹۲ء کے سامنے رکھتا ہوں، بتاتے ہیں کہ آپ نے کیسے خدا کو پایا اور کیوں آپ اس مقام پر فائز ہوئے کہ ہمیں بلا سکیں اور کیوں آپ ہی اس بات کے مستحق تھے جو اندر سے آیا ہو وہی اندر کی راہ دکھا سکتا ہے.جو محرم راز ہو وہی بتا سکتا ہے کہ محبوب کا قرب حاصل کرنے کے کیا راز ہیں.کس طرح انسان اپنے محبوب کو پاتا ہے.فرماتے ہیں.آنکھ اس کی دور میں ہے دل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے (درین صفحہ ۸۳) نظر قیامت کے آخری کناروں تک پہنچی ہوئی ہے، تمام بنی نوع انسان تک پہنچی ہوئی ہے لیکن دل یار سے قریں ہے ، ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے.یہ وہ کامل وجود ہے جو ہاتھوں میں شمع دیں لئے ہوئے تمام دنیا کو اس نور کی طرف بلا رہا ہے.پر دے جو تھے ہٹائے اندر کی راہ دکھائے دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے (درین صفحہ: ۸۳) سب پردے اٹھا دیئے ، اندر کی راہ دکھا دی.یار سے دل ملانے والا یہی آشنا ہے یعنی پہلے خود آشنا ہو پھر یار کی طرف بلائے تو وہ اس لائق ہوگا کہ یار سے ملائے.اس کے بغیر تو یار سے نہیں ملایا جا سکتا.جو آشنا ہی نہیں ہے اس نے کہاں کسی کو یار سے ملانا ہے.پس آشنا بنو تو تم کامیاب داعی الی اللہ بن جاؤ گے.اگر آشنا نہیں تو کچھ بھی نہیں محض دنیا کی ایک کوشش اور محنت اور دکھاوا ہے اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 495 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے عظیم نمونے جلسہ کے میز بانوں اور مہمانوں کو قیمتی نصائح (خطبہ جمعہ فرموده ۲۴ / جولائی ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.جلسہ کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان بھی دنیا کے مختلف ممالک سے یہاں جمع ہو رہے ہیں اور کچھ دنوں سے ایسی ایسی صورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے دکھائی دے رہی ہیں جن کو دیکھے ہوئے مدتیں گزرگئی تھیں.سادہ غریب لوگ جن کے ذہن میں بھی کبھی انگلستان آنے کا کوئی تصور نہیں تھا.غالب نے تو تکلفا کہا ہے کہ لکھنو آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی ہوس سیر و تماشہ سو وہ کم ہے ہم کو (دیوان غالب صفحہ: ۲۰۱) لیکن یہاں یقیناً بلا شبہ یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اُن مہمانوں پر صادق آتا ہے جن کو پنجاب میں رہتے ہوئے بھی لاہور دیکھنے کا شوق نہیں تھا اور سندھ میں رہتے ہوئے بھی کراچی دیکھنے کا شوق نہیں تھا اپنے ارد گرد کے قصبوں میں بھی ضرورت سے جایا کرتے تھے تو ہوس سیر و تماشہ تو کوئی نہیں اس لئے ان مہمانوں کی بھاری تعداد ایسی ہے جو محض اللہ بہت صعوبتیں اُٹھا کر، بہت خرچ کر کے بلکہ بہت سی صورتوں میں توفیق سے بڑھ کر اور آئندہ سالوں کی آمدن پر انحصار کرتے ہوئے قرضے لے کر بھی یہاں پہنچے ہیں یا پہنچ رہے ہیں اور پہنچیں گے.ان سب مہمانوں کی
خطبات طاہر جلدا 496 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء عزت افزائی اسی طرح ہونی چاہئے جیسے خدا کے مہمانوں کی عزت افزائی کا حق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان آپ کے ذاتی مہمان تو نہیں ہیں اللہ ہی کے مہمان ہیں اللہ ہی کی خاطر ان کے مہمان بنے ہیں.جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بار بار یہ خبر دی تھی کہ بہت دور سے کثرت کے ساتھ لوگ تیرے پاس آئیں گے.ان پیش خبریوں میں جو عطا فرمائی گئیں عجیب بات یہ ہے کہ قادیان آنے کا ذکر نہیں ملتا بلکہ تیرے پاس آنے کا ذکر ملتا ہے.میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ خلیفہ وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں آپ کا نمائندہ ہے اس لئے وہ ربوہ میں ہو یا کسی اور شہر میں مہمانوں کے رخ اُسی کی طرف پھر جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ الہام بڑی شان کے ساتھ بار بار اسی طرح پورا ہوتا ہے.لندن کے لوگوں پر مہمانوں کا سب سے زیادہ مہمانی کا بوجھ پڑتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ لندن کے لوگ اس بوجھ کو پھولوں کی طرح ہلکا سمجھتے ہوئے بڑی محبت اور اخلاص کے ساتھ خدمات بجا لاتے ہیں اور ایسے بھی گھر ہیں جہاں چار پانچ کی بجائے چالیس پچاس افراد ان چھوٹے سے گھروں میں بسیرا کر لیتے ہیں اور ربوہ اور قادیان کی وہ پرانی یاد میں آجاتی ہیں کہ وہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان اسی طرح بعض گھروں میں اس طرح سمٹ جایا کرتے تھے کہ یقین نہیں آیا کرتا تھا کہ چھوٹے سے گھر میں اتنے احباب اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن جیسا کہ قرآنی تعلیم ہے کہ دونوں طرف کے حقوق ہوا کرتے ہیں.مہمانوں کے بھی حقوق ہیں اور میز بانوں کے بھی حقوق ہیں اور جلسہ سے پہلے جمعہ پر عموماً یہی دستور ہے کہ مہمانوں کو مہمانوں کے فرائض اور اُن کے میز بانوں کو اُن کے مہمانوں کے حقوق بتائے جائیں.اسی طرح مہمانوں کو میز بانوں کے حقوق اور میز بانوں کو اُن کے فرائض بتائے جائیں.وہ فرائض جو میز بانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کے خون میں رچ بس چکے ہیں.اس کثرت سے جماعت میں مہمان نوازی کی عادت ہے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی قوم ہو جہاں اس کثرت کے ساتھ مہمان آتے ہوں اور مہمانوں کو محبت کے ساتھ اور شوق کے ساتھ قبول کیا جاتا ہو اور اس کی بڑی وجہ جلسہ سالانہ کی Institution ہے یعنی نظام جلسہ سالانہ نے ہمارے اخلاق پر بہت عمدہ اور گہرا اثر مترتب فرمایا ہے اور اس کا نتیجہ یہ
خطبات طاہر جلدا 497 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء نکلا ہے کہ دور کے مہمانوں سے بھی اجنبیت نہیں رہی اور یہ روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں بلکہ جلسہ سالانہ میں مہمانوں کو گھر ٹھہرا کر جو روحانی لذتیں میزبانوں کو ملتی ہیں ان کی یادا گلے جلسہ تک مچلتی رہتی ہے کہ کب پھر وہ دن آئیں اور پھر ہمیں میزبانی کی توفیق عطا ہو اور دوران سال بھی اس کے نیک اثر اُن کے جذ بہ مہمان نوازی کو بڑھا کر ، فزوں تر کر کے اُن کے روز مرہ کے اخلاق پر اچھا اثر ڈالتے رہتے ہیں.کہ پس اس پہلو سے جب بھی دنیا کی قوموں پر نظر ڈالتا ہوں تو بلاشبہ پورے یقین کے ساتھ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مہمان نوازی میں جماعت احمدیہ سے بڑھ کر کوئی تجربہ کار قوم نہیں ہے.مہمان نواز تو بہت ہیں عربوں میں بڑی مہمان نوازی ہے اسی طرح بعض دوسری قوموں میں بھی بہت مہمان نوازی ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ احمدی باقیوں سے بڑھ کر مہمان نواز ہیں.میں یہ کہتا ہوں کہ جتنی مہمان نوازی کا تجربہ احمدیوں کو ہوتا ہے دنیا کے پردے پر کسی اور قوم کو ایسا تجربہ نہیں کیونکہ جب ایک دوسرے کے شہروں میں سیر کے لئے بھی جائیں تو بسا اوقات احمدی گھروں میں جگہ ڈھونڈی جاتی ہے اور احمدی گھر بھی شوق سے وہ جگہیں سیاحوں کو پیش کرتے ہیں تو اس لئے چونکہ یہ تجربے بہت کثرت کے ساتھ ہو رہے ہیں اور ان کا اخلاق پر بڑا اچھا اثر بھی پڑ رہا ہے اور برا بھی پڑسکتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لئے آئندہ زمانوں کے لئے اسی طرح اخلاق پر اثرات جاری ہو سکتے ہیں.پس اس پہلو سے چند نصائح ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ ان کے اوپر پوری توجہ فرمائیں گے اور جیسا کہ پہلے ہی آپ کا مزاج مہمان نوازی کا مزاج ہے اور اسوہ انبیاء کے تابع ہے ان نصائح کے بعد آپ ان فرائض کو اور بھی حسن خلق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کے چند واقعات خالد مارچ ۱۹۹۱ء میں چھپے تھے وہیں سے یہ واقعات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس کے بعد کسی اور نصیحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس بیت مبارک میں ساتھ والے حجرہ میں لیٹے ہوئے تھے کہ کھڑکی پر لالہ شرمیت یا شاید لالہ ملا دامل نے دستک دی میں
خطبات طاہر جلدا 498 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء اُٹھ کر دروازہ کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے پہلے جا کر دروازہ کا کنڈہ کھول دیا اور پھر اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.یہاں واقعہ تو بہت چھوٹا سا ہے لیکن ایک ایسا سبق ہے جو ہماری ساری مہمان نوازی کو الہی رنگ دے سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مہمان کی تکریم ہونی چاہئے اور میں اس غرض سے اُٹھا ہوں اس صورت میں مہمان نوازی کا سارا سہرا مہمان نواز کے سر باندھا جاتا.بات وہاں تک رک جاتی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اپنے تک رکھنے کی بجائے اپنے آقا و مولا حضرت اقدس محمد اللہ کی طرف روانہ کردیا گویا خود قبلہ نہ بنے بلکہ قبلہ نما ہو گئے اور بہت بڑی نصیحت فرمائی ہے کہ اگر تم اس خیال سے حسن خلق کا مظاہرہ کرتے ہو کہ حضرت اقدس محمد اللہ نے یہ فرمایا یا ایسا کیا کرتے تھے تو حسن خلق میں مزید ایک حسن پیدا ہو جائے گا جسے قرآنی اصطلاح میں نُورٌ عَلَى نُورٍ کہہ سکتے ہیں.ایک حسن تو وہ ہے جو آپ کی فطرت سے پھوٹا ہے آپ کی فطرت کا حصہ ہے اس میں کسی تصنع کسی بناوٹ کا دخل نہیں اور ایک وہ حسن ہے جو آسمان سے حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا جس کا ذکر قرآن کریم نے نُورٌ عَلَى نُورٍ کہہ کر فرمایا اگر اس نور سے ہم حصہ پائیں اور اپنے فطری نور کو اور زیادہ صیقل کر لیں تو اس صورت میں یہ مہمان نوازی، مہمان نوازی ہی نہیں رہتی بلکہ عبادت بن جاتی ہے.مہمان کی ضرورت کا خیال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قدر رہتا تھا اور اس باریکی سے آپ خیال فرماتے تھے کہ جب کوئی مہمان روانہ ہونے لگے تو اندازہ لگایا کرتے تھے کہ اگلے شہر میں جہاں کھانا میسر ہے کتنی دیر میں پہنچے گا اور اگر رستے میں کھانے کا وقت آئے تو کبھی بھی زادراہ ساتھ مہیا کئے بغیر روانہ نہیں فرماتے تھے.قریشی محمد عثمان صاحب فرماتے ہیں ”جب میں حضور سے رخصت ہونے لگا تو فرمایا بٹالہ دو بجے کے قریب پہنچو گے راستہ میں کھانے کا وقت آجائے گا اس لئے یہاں سے ہی کھانا ساتھ کئے دیتے ہیں چنانچہ حضور نے حضرت اماں جان سے کہہ کر کھانا تیار کروا کر ہمارے ساتھ دیا.“
خطبات طاہر جلدا 499 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء اس زمانہ میں اس طرح باقاعدہ لنگر خانہ جاری نہیں تھا جس طرح آج کل ہے اور بہت سا بوجھ حضرت اماں جان خود اٹھایا کرتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بے تکلفی سے آپ کو ضروریات بتا دیا کرتے تھے چنانچہ اس مہمان نوازی میں بھی حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بہت ساتھ دیا ہے اور جب تک بیویاں خاوندوں کا ساتھ نہ دیں مہمان نوازی کے حق ادا نہیں ہو سکتے اس لئے مردوں کو چاہئے کہ اپنی عورتوں کو بھی مہمان نوازی کے اخلاق سمجھائیں اور اپنے اعلیٰ نمونے سے ان کے اندر مہمان نوازی کے جذبے پیدا کریں.یہ کام ایک دو دن کا نہیں ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ سارا سال آپ اپنی بیوی سے بدخلقی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور جب مہمان آئے تو اس کو نصیحت کریں کہ مہمانوں سے حسن خلق سے پیش آنا چاہئے اس لئے تم میرا ہاتھ بٹاؤ.ایسی صورت میں بیوی کبھی بھی بچے دل سے اپنے خاوند کا ہاتھ نہیں بٹاسکتی لیکن وہ خاوند جو آنحضرت ﷺ کی طرح روز مرہ کی زندگی میں اپنی ازواج سے حسن سلوک کرتے ہیں ان کے بوجھ بانٹتے ہیں ، ان پر بوجھ نہیں ڈالتے ، جہاں تک استطاعت ہو اپنے کام خود کرتے ہیں اور جہاں دیکھا کہ بیوی پر زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے تو ساتھ مل کر خدمت میں شامل ہو جاتے ہیں ایسی بیویاں ضرورت کے وقت اپنی جان فدا کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتی ہیں.پس محض ایک وقت کی نصیحت کی بات نہیں سارے سال کا حسن خلق ہے جو موسم پر پھل دیتا ہے اور جب مہمان نوازی کے موسم آتے ہیں تو یہی میٹھے پھل ہیں جو آپ کی سارا سال کی محنتوں کو لگتے ہیں.پس آپ یوں ہی نہ سمجھیں کہ آپ ہاتھ بڑھائیں گے تو پھل آجائے گا.اس پھل کو لانے کے لئے پانی لانا پڑتا ہے، سارا سال محنت کرنی پڑتی ہے، درخت کی سیرابی اور اس کی خوراک کے انتظام کئے جاتے ہیں تب جا کر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ درخت پھل آنے کے موسم میں پھل دیتا ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں.ایک بار میں اور میری والدہ قادیان آئے ہوئے تھے.ہم واپس ہونے لگے تو حضور ہمارے یکہ پر سوار ہونے کی جگہ تک ساتھ تشریف لائے اور ہمارے راستہ کے لئے کھانا منگوایا.وہ کھا نا لنگر خانے والوں نے کسی کپڑے میں باندھ کر نہ بھیجا تھا.تب حضرت اقدس نے اپنے عمامہ سے قریباً ایک گز کپڑا پھاڑ کر اس میں روٹی کو باندھ دیا.“ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صفحه: ۴۵)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 500 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کپور تھلوی نے بیان کیا کہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں اور سامان لایا جائے....یہ منی پور کلکتہ کے قریب ہے اور بہت دور کا فاصلہ اس زمانے میں جبکہ ریل گاڑیوں کے انتظام بھی اچھے نہیں تھے اور گاڑیاں ست رفتار کی ہوا کرتی تھیں سفر کی سہولتیں مہیا نہیں ہوا کرتی تھیں، منی پور سے کسی کا آنا ویسا ہی تھا، جیسے کسی دور کے ملک سے آرہا ہو.بہت بڑی بات تھی.تو حضرت منشی ظفر احمد فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ کہا کہ ہمارے بسترے اُتارے جائیں اور سامان لا یا جائے اور چار پائی بچھائی جائے تو خادمان نے کہا آپ اپنا سامان خود اتر وائیں چار پائیاں بھی مل جائیں گی.یہ پنجابی طرز بیان ہے پنجاب میں مہمان نوازی ہو بھی تو بعض دفعہ ایسی اکھر بات کر دیتے ہیں کہ مہمان کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ جب اخلاق سے بھی بات کرتے ہیں تو جو منجھے ہوئے لوگ ہیں ان کو اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسی بات کر گئے ہیں.تو پنجابی مہمان ہمارے کافی آئیں گے ان کو یہ خصوصیت سے یہ سمجھنا چاہئے کہ اپنے اندرانداز بیان طرز بیان میں ملائمت پیدا کریں اور موقع محل کے مطابق بات کیا کریں.مجھے یاد ہے ہم کئی دفعہ دیہات میں جایا کرتے تھے تو بڑی عزت کے ساتھ پیش آتے تھے ، بہت ہی قربانی سے بہت محنت سے مہمان نوازی کرتے تھے لیکن آداب گفتگو نہیں ہے.میں نے مثلاً کسی کو کہا کہ مرغ کا سالن اچھا بنا ہوا ہے آپ بھی لے لیں تو جواب دیتے تھے کہ ہم تو کھاتے ہی رہتے ہیں، آپ کھائیں.اب یہ طرز بیان ہے اس میں بڑی سادگی تھی.یہ نہیں تھا کہ کوئی چھیڑا گیا ہے یا یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کو مرغا کھانے کو نہیں ملتا لیکن ایک انداز بیان ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے کے مہمان خانہ کے جو ملازم تھے وہ سادہ لوگ تھے ان کو پتا نہیں تھا کہ کیسے گفتگو کی جاتی ہے.چنانچہ جب مہمانوں نے یہ بات سنی تو اسی وقت رخصت ہوئے اور یکہ میں سوار ہو کر واپس روانہ ہو گئے، منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں.” میں نے عبد الکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے ” جانے دو ایسے جلد بازوں کو.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 501 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء وہ بھی آگے سے پنجابی تھے مگر ان پر نور نبوت ابھی پوری طرح چمکا نہیں تھا.پنجابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تھے لیکن جب آسمان سے نور نازل ہوتا ہے تو پھر کوئی صوبہ کوئی ملک باقی نہیں رہا کرتا لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ کا نور ہے جو اس شان سے چمکتا ہے کہ اس میں نہ رنگ به نسل نہ جغرافیائی تمیزیں کچھ بھی باقی نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہنا مشکل ہو گیا حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم پیچھے چل پڑے چند خدام بھی ہمراہ تھے میں بھی ساتھ تھا.نہر کے قریب جاکر ان کا یکہ مل گیا اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا.چنانچہ وہ واپس آئے حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے.اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے حضور نے ان کے خود بستر اُتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اُتار لیا حضور نے اُسی وقت دونواری پلنگ منگوائے اور اُن پر اُن کے بستر کر دیئے اور اُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے اور خود ہی فرمایا کہ اس طرف تو چاول کھائے جاتے ہیں اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا غرضیکہ اُن کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا نہ آیا وہیں ٹھہرے رہے.اُس کے بعد فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے راستہ کی تکلیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا ہوں اگر یہاں آکر بھی اُسے تکلیف ہو تو یقیناً اُس کی دل شکنی ہو گی ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.“ (سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم روایت نمبر ۱۰۶۹ صفحه ۶ ۵ تا ۵۷) یہ جو واقع ہے اس میں صرف مہمان نوازی کا سبق نہیں ملتا اور بھی بہت بار یک اخلاقی اسباق ہیں.عام طور پر لوگ مہمان کی بے عزتی دیکھ کر اپنے نوکروں کی بے عزتی کرنا واجب سمجھتے ہیں کہ انہوں
خطبات طاہر جلدا 502 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء نے چونکہ مہمان سے بدخلقی کی ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اب ان پر برسیں اور اتنا ذلیل اور خوار کریں، ایسی گالیاں دیں ، ایسی سزائیں دیں کہ ان کو سمجھ آجائے کہ آئندہ مہمان سے کیسے سلوک کیا جاتا ہے.ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سمجھانے کا انداز تھا ان کو پوچھا بھی نہیں.یہ بھی پتا نہیں کیا کہ وہ کون لوگ تھے ؟ جنہوں نے ایسی بات کی.خود روانہ ہوئے ، خود سامان اُتارنے کے لئے ہاتھ بڑھائے ، خودان کے کھانے کا انتظام کیا اور جب سب سیر ہو گئے اور طبیعتیں بھر گئیں اور اطمینان نصیب ہو گیا تب بغیر ان کا نام لئے ایک عمومی نصیحت فرما کر لوگوں کو ایک اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم دی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ ” غالبًا ۱۸۹۷ ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہوگا مجھے حضرت صاحب نے بیت مبارک میں بٹھایا جو کہ اسوقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی.“ (ذکر حبیب صفحہ ۴۵) اب تو آپ میں بہت سے قادیان سے ہو آئے ہیں ،جلسہ دیکھ آئے ہیں اللہ کے فضل سے مسجد مبارک بہت بڑی ہو گئی ہے.اس وقت ایک چھوٹے حجرے کے، ایک چھوٹے سے کمرے کے برابر تھی.حجرہ نہیں لیکن کچھ بڑا کمرہ سمجھ لیجئے.فرمایا: "آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں.یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے میرا خیال تھا کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے مگر چند منٹ کے بعد جبکہ کھڑ کی کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اُٹھائے ہوئے میرے لئے کھانا لائے ہیں مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں.بے اختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتداء ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہئے.(ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۳۲۷) یہ کیسا اچھا نتیجہ حضرت مفتی محمد صادق نے نکالا یہی نتیجہ آج ہم سب کو نکالنا چاہئے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا.حضور بوریئے پر بیٹھے ہوئے تھے.مجھے دیکھ کر پلنگ اُٹھا لائے میں نے اُٹھانا چاہا تو حضور نے فرمایا یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 503 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء زیادہ بھاری ہے آپ سے نہیں اُٹھے گا.فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں مجھے یہاں نیچے زیادہ آرام معلوم ہوتا ہے.مجھے پیاس لگی تھی میں نے گھڑے کی طرف دیکھا وہاں پانی پینے کے لئے کوئی برتن نہیں تھا آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے؟ میں پانی پینے کے لئے برتن لاتا ہوں.نیچے زنانے میں جا کر آپ گلاس لے کر آئے.پھر فرمایا ذرا ٹھہریئے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بو تلمیں شربت کی لے آئے جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں.66 مجھے خیال آیا کہ شاید وہی دو مہمان ہیں جنہوں نے اپنے اظہار محبت کے بیان کی خاطر جا کر دو بوتلیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی میٹھی مہمان نوازی کی یاد میں بھیجی ہوں گی.فرمایا...ان بوتلوں کو رکھے ہوئے بہت دن ہو گئے کیونکہ ہم نے نیت کی " 66 تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر خود پئیں گے آج مجھے یاد آ گیا.چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا میں نے کہا حضور پہلے اس میں سے تھوڑا پی لیں تو میں پھر پیوں گا آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا....جو پہلی بات تھی اس میں بھی تکلف نہیں تھا.اگر تکلف ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زور دیتے کہ نہیں میں نے تو اتنی دیر سے سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں پہلے تم پیو پھر میں پیوں گا یہ بھی ایک مصنوعی انداز ہو جاتا.کیسی صاف پاکیزہ بے تکلف طبیعت تھی.اپنے اس مدت کے ارادے کو ایک طرف کر دیا اور مہمان کی دلداری کی خاطر جو تبرک چاہتا تھا آپ نے پہلے پی لیا تو گویا پہلے بھی مہمان کی دلداری مقصود تھی اپنی بڑائی مقصود نہیں تھی.پس جب مہمان ہی نے تقاضا کیا کہ پہلے آپ پی لیں تو آپ نے بے تکلف پہلے پی لیا.فرماتے ہیں....آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا اور میں نے پی لیا میں نے شربت کی تعریف کی.آپ نے فرمایا ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلا دیں آپ نے ان دونوں بوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہو گا....(اصحاب احمد جلد چہارم صفحه : ۱۶۸) ”ایک دفعہ بڑی رات گئے ایک مہمان آ گیا.کوئی چار پائی خالی نہ تھی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 504 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء اور سب سو ر ہے تھے حضرت صاحب نے فرمایا ذرا ٹھہریئے میں ابھی انتظام کرتا ہوں.آپ تشریف لے گئے اور دیر تک واپس تشریف نہ لائے مہمان نے خیال کیا کہ شاید حضرت بھول گئے ہیں اس نے ڈیوڑھی میں جھانکا تو دیکھا کہ ایک صاحب چار پائی بن رہے ہیں اور حضرت خود مٹی کا دیا لے کر کھڑے ہیں.چار پائی بنی گئی اور مہمان کو دی گئی اور ادھر مہمان صاحب عرق ندامت میں غرق ہو رہے تھے کہ میں نے آدھی رات کے وقت حضرت کو اس قدر تکلیف دی ادھر حضرت اقدس عذر فرما رہے تھے کہ ”معاف کرنا چار پائی لانے میں دیر ہوگئی.ابتدا میں مہمانوں کا کھانا حضور کے گھر سے ہی آتا تھا حضور مہمان کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے اور ایسا بھی وقوع میں آیا ہے کہ سردی کے موسم میں حضور نے مہمانوں کے لئے اپنا بستر باہر بھجوا دیا اور خود بغیر بستر کے رات گزار دی.جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت سے آدمی اپنے بستر نہیں لائے تھے مہمانوں کے لئے اندر سے بستر لانے شروع کئے.کارکن عشاء کی نماز کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضور بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے ہیں.ایک صاحبزادہ لیٹا تھا اسے شتری چوغہ اوڑھا رکھا تھا معلوم ہوا کہ آپ نے اپنا لحاف بھی مہمانوں کے لئے بھجوا دیا.میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی کپڑا نہیں رہا اور سردی بہت سخت ہے.فرمانے لگے کہ مہمانوں کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے.رات گزر جائے گی پھر وہ کسی سے لحاف مانگ کر او پر لے گئے تو حضور نے فرمایا کسی اور مہمان کو دے دو اور با وجود اصرار کے حضور نے وہ لحاف نہ لیا.(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ: ۱۸۰) محترم سیٹھی غلام نبی صاحب نے بیان فرمایا کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملاقات کے لئے قادیان گیا سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی میں شام کے وقت قادیان پہنچا رات کو جب
خطبات طاہر جلدا 505 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزرگئی اور قریباً ۱۲ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے تھے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے میں لالٹین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آ گیا تھا.میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں.سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں یہ خدا کا برگزیدہ صحیح اپنے ادنی خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا ہے اور کتنی تکلیف اُٹھاتا ہے.(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۷۷۰) یہ جو دو لفظوں میں حضرت سیٹھی غلام نبی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاص کا نقشہ کھینچا ہے یہ بہت ہی معنی خیز ہے.فرمایا کتنی لذت پاتا ہے اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ مہمان نوازی کی تکلیف میں لذت کو بہت دخل ہے اگر آپ کو لذت محسوس نہ ہو تو آپ مہمان نوازی کے بوجھ نہیں اُٹھا سکتے وہ مہمان نوازی جو چٹی محسوس ہو، جو تکلیف دہ ہو وہ مہمان نوازی ادا کرنا بہت ہی جان جوکھوں کا کام ہے لیکن وہ مہمان نوازی جولذت پیدا کرتی ہو اس کے ساتھ بھی ایک تکلیف وابستہ ہے کیونکہ تکلیف تو بہر حال ہوگی جو وز نی پلنگ اٹھائے گا جو بغیر گرم کپڑے کے رات بسر کرے گا اُسے تکلیف تو ہو گی مگر اس کے مقابل پر ایک لذت ہے جو اس تکلیف پر حاوی رہتی ہے.پس حضرت سیٹھی صاحب کا یہ فقرہ پڑھ کر میں نے بہت لطف اُٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ بھی کیسے زیرک تھے اور کیسا عمدہ کلام فرماتے تھے کہ دو لفظوں میں نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک خلق کا نقشہ کھینچا بلکہ گہری فطرت کا راز بیان فرما دیا.پس آپ کو بھی مہمان نوازی میں لذت پانی ہوگی اور اس لذت یابی کے لئے مہمان نوازی کو کسی محبوب سے منسلک کر کے مہمان نوازی کریں تو لذت کا راز پا جائیں گے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ واقعات یاد کر کے مہمان نوازی کریں گے تو چونکہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کو پیار ہے یہی پیار آپ کے مہمانوں کی طرف
خطبات طاہر جلدا 506 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء منتقل ہو جائے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اسی طرح لذت پاتے تھے.آپ ہمیشہ اپنے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر نظر رکھتے تھے اور آپ کی مہمان نوازی کی لذت آپ کو حضور اکرم اللہ سے عطا ہوا کرتی تھی اور یہ رشتے چلتے چلتے لازماً خدا تک پہنچتے ہیں.پس ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر چہ درمیان میں وسیلے تو موجود ہیں لیکن اچا نک وسیلے غائب ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور انسان خدا کی حضور میں آجاتا ہے اور اس کی لذتیں لافانی ہو جاتی ہیں.پس ان لذتوں کی تلاش کریں انہی کے ساتھ آپ کے حسن خلق میں دوام ہو گا آپ کا حسن خلق آپ کی ذات میں قرار پکڑ جائے گا آپ کے وجود کا حصہ بن جائے گا.اگر بوجھ کے ساتھ اخلاق برتیں گے وہ ایک عارضی اور فانی چیز ہو گی آج آئے اور کل چلے گئے کسی مشکل وقت میں وہ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے لیکن جو اخلاق اعلیٰ اور پاک نمونوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں، جو دل میں لذت پیدا کرتے ہیں وہ ہر مشکل وقت ساتھ دیتے ہیں اور وفا کرتے ہیں اور کبھی انسان کو نہیں چھوڑتے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان فرماتے ہیں.جب میں ۱۹۰۵ء میں ہجرت کر کے قادیان چلا آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا.اس وقت میرے دو بچے تھے.حضور کے رہائشی صحن کے ساتھ والے کمرے میں رہتے تھے اور حضوڑ کے بولنے کی آواز میں سنائی دیتی تھیں.ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت اماں جان حیران ہو رہی تھیں کہ سارا مکان پہلے ہی کشتی کی طرح پر ہے اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے.اس وقت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا قصہ سنایا...اب یہ قصہ تو ظاہر ہے کہ ان معنوں میں بے حقیقت ہے کہ ایک فرضی قصہ ہے عملی دنیا میں یہ ہو نہیں سکتا ناممکن بات ہے لیکن پرانے زمانے میں یہ رواج تھا کہ قصوں کی صورت میں اخلاقی تعلیم دی جاتی تھی.اس میں جانور بھی باتیں کرتے تھے ، بولتے تھے ،اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور کہانی سننے والے کو ایک اخلاق نصیب ہو جایا کرتا تھا.پس ان معنوں میں نہ کہ اُسے حقیقت سمجھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت اماں جان کو ایک قصہ سنایا.مفتی صاحب کہتے ہیں ہم نے وہ سارا قصہ سنا کیونکہ وہ آواز پتلی دیواروں سے ہمیں صاف پہنچ رہی تھی فرمایا.”دیکھو ایک دفعہ ایک مسافر کو جنگل میں شام ہوگئی وہ درخت کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 507 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء نیچے رات گزارنے کے لئے بیٹھ رہا اس درخت کے اوپر ایک پرندے کا آشیانہ تھا پرندہ اپنی ماں سے باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمیں پر آبیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اس کی مہمان نوازی کریں اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں اس کی سردی دور کرنے کے لئے اپنے آشیانے کی لکڑیاں نیچے پھینک دیں تا کہ یہ جلا کر سینک لے چنانچہ ایسا ہی کیا.پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے مہمان کو بہم پہنچائی اب ہمیں چاہئے کہ اسے کھانے کو بھی کچھ دیں اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جاگریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہمارا گوشت کھا لے چنانچہ پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا.(ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب صفحه : ۸۵) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قصہ حضرت اماں جان کے کانوں تک نہیں ٹھہرا آپ کے دل پر جا کر شبنم کی طرح گرتا رہا اور اُسے ایک لافانی لذت سے سیراب کر گیا اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا روز مرہ کا خلق یہی تھا.جب سردی کی ضرورت پیش آئی تو خود اپنا لباس مہمانوں کے پاس پیش کر دیا، جب کھانے کی ضرورت پیش آئی تو اپنا کھانا اُن کے حضور پیش کر دیا.تو جو کچھ انسان کو مکلف بنایا گیا وہ سب کچھ آپ نے اپنے دل کی محبت اور طبعی جوش کے ساتھ کر دکھایا.بس یہ قصہ تب اثر انداز ہوتا ہے جب ایک شخص صاحب خلق ہو اور انسان کا دل گواہی دے کہ جو کچھ کہتا ہے اس کے ساتھ اس کے قلبی جذبات شامل ہیں.پس یہ بھی ایک دو دنوں کی مہمان نوازی کی بات نہیں.یہ روز مرہ کی زندگی کے قصے ہیں.جلسہ کے مہمانوں کی تیاری کے لئے آپ کو سارا سال محنت کرنی چاہئے اور سارا سال اپنے گھر کی تربیت کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب یہ مہمانوں کے موسم آئیں تو پھر مہمانوں کے حق اسی طرح ادا ہوں جس طرح انبیاء اور اُن سے محبت کرنے والے حق ادا کیا کرتے ہیں.اس کے بعد جہاں تک مہمانوں کی خدمت کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ نصیحت کی مزید کوئی ضرورت نہیں رہتی.اب مہمانوں کو بھی تو کچھ بتانا چاہئے کہ میزبانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں ان کو بھی وہ ادا
خطبات طاہر جلدا 508 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء کریں.میز بان تو گونگا ہو جاتا ہے وہ تکلیف اٹھات ہے اور کچھ کہ نہیں سکتا.اپنے سامنے ایسی حرکتیں دیکھتا ہے جن کا بوجھ اُٹھانے کی اس کو طاقت نہیں لیکن خاموش ہے.مثلاً باہر سے آنے والے جب یہاں ہر گھر میں فون دیکھتے ہیں اور ان پر تالے بھی نہیں پڑے ہوتے اور براہ راست ٹیلی فون کے ذریعہ وہ دنیا میں ہر جگہ رابطے کر سکتے ہیں تو کچھ اُن کے سامنے اور کچھ موقع کی تلاش کر کے ایسے وقت میں جبکہ میزبان گھر پر موجود نہ ہو یا سن نہ رہے ہوں ان فونوں کا بے دھڑک استعمال کرتے ہیں اور نتیجه بعض دفعہ غریب گھرانوں میں میزبانی کا اتنا بوجھ نہیں پڑتا جتنا فونوں کا پڑتا ہے اور وہ مہینوں ان کے بل ادا کرتے کرتے اپنی سب آمد قریباً اسی پر لٹا بیٹھتے ہیں.پس مہمانوں کو بھی خدا کا خوف کرنا چاہئے میزبان نے اپنی توفیق کے مطابق آپ کی خدمت کی اور اللہ کی.تو کوئی مقصد نہیں تھا اکثر تو وہ ہمیں جو محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتے ایک دوسرے سے متعلق ہوئے ہیں.ذاتی مہمان بھی آتے ہیں لیکن ان دنوں میں اکثر مہمان ذاتی نہیں بلکہ الہی مہمان ہیں تو میز بانوں کے بھی حقوق ہیں.مہمانوں کو چاہئے ان حقوق کا خیال رکھیں.یہاں اس طرح نو کر نہیں ملتے جس طرح متمول لوگ یا درمیانے طبقہ کے لوگ بھی پاکستان اور ہندوستان میں اگر سارے وقت کا نوکر نہیں جز وقتی نوکر حاصل کر لیا کرتے ہیں.یہاں تو ساری محنت میز بانوں کو خود کرنی پڑتی ہے.انگلستان میں رہنے والے خصوصاًلندن کی جو خواتین اُن کا تو یہ حال ہے کہ خدا کے فضل سے دینی خدمت بھی اتنی بھر پور کرتی ہیں کہ بعض دفعہ میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ اپنے روز مرہ کے بوجھ اُٹھانے کے بعد ان کو یہ فرصت کہاں سے مل جاتی ہے.پھر اس کے بعد خاوند اور بچوں کا خیال رکھنا ان کو تیار کرنا روز مرہ کے کام ہی اتنے ہیں ان کو سمیٹنا ہی بہت وقت چاہتا ہے.ایسے میں اگر تھوڑی جگہ میں زیادہ مہمان آجائیں تو اس سے آپ اندازہ کریں کہ ان پر کتنا بوجھ پڑتا ہوگا.تو کوشش یہ کرنی چاہئے کہ میز بانوں کا ہاتھ بٹائیں اور کام کو ہلکا کریں.ہاتھ بٹانے کے وقت یہ بھی خیال رکھیں بعض دفعہ میزبان یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا ہاتھ بٹایا جائے.ایسی صورت میں زبردستی نہیں کرنی چاہئے.مختلف مزاج کے میزبان ہیں اگر پیار سے اُن کو سمجھا کر اُن کو آمادہ کر لیں کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ کی مدد کریں تو پھر ٹھیک ہے کہ ہاتھ بٹائیں لیکن زبردستی چھینا جھپٹی نہ کریں کہ نہیں ہم نے آپ کو پلیٹ نہیں اُٹھانے دینی.ہم اُٹھائیں گے کئی دفعہ چھینا جھپٹی میں قیمتی برتن بھی
خطبات طاہر جلدا 509 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء ٹوٹ جاتے ہیں اور الٹے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں.پس ایک تو اس بات کا خیال رکھیں.دوسرے اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے میز بانوں کے بچوں کے ساتھ مل کر قیامت برپا نہ کریں.بچوں کی فطرت میں یہ بات ہے کہ اکیلے گھر کے بچے اگر ایک درجے کا شور کر سکتے ہیں تو دو گھروں کے بیچے گیارہ یا بیس یا بائیس درجہ کا شور کر سکتے ہیں اور دونوں کو کھل کر کھیلنے کی چھٹی مل جاتی ہے کیونکہ اس خیال سے کہ دوسرے ماں باپ برا نہ منائیں.دونوں کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کے گھر پر یہ بچے قیامت ڈھا دیتے ہیں اُن کی کوئی چیز سلامت نہیں رہتی، گندگی ہر طرف پھیل جاتی ہے، کئی چیزوں کے واقعہ نقصان ہو جاتے ہیں ،شور فساد مصیبت اور زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.مہمان تو جب چاہے اپنے بچوں کو الگ کرلے لیکن میزبان کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ادب کے خلاف ہے کہ مہمان کے بچوں کو کسی رنگ میں بھی کچھ کہا جائے.اس سے اُن کو تکلیف پہنچے گی تو وہ مائیں جو اپنے بچوں کو دوسروں کے ہاں شور کرنے اور ان کی چیزیں خراب کرنے یا تنگ کرنے کی چھٹی دیتی ہیں وہ بڑی ظالم مائیں ہیں وہ وقتی طور پر صرف میزبان کو نقصان نہیں پہنچاتیں بلکہ اپنی اولا د کو ہمیشہ کے لئے خراب کر رہی ہوتی ہیں ایسے بچوں میں سے تمیز اُٹھ جاتی ہے.ان میں ایثار نہیں رہتا، وہ دوسروں کا احساس کرنے کے جذبات سے عاری ہو جاتے ہیں اور قوم کو پھر بدخلق لوگ ملتے ہیں پس ماؤں کو چاہئے کہ صاحب خلق کو اپنی گودوں میں پالیں اور بڑا کریں اور ایسی حالت میں انہیں قوم کے سپرد کریں کہ ان کے اخلاق سنور چکے ہوں اور وہ قومی اخلاق سے آراستہ ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ عمدہ معاشرت کا سلوک کریں، معاشرتی حقوق ادا کریں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بچے کے بچپن میں یہ باتیں بگڑا کرتی ہیں، جن ماؤں نے اپنی اولاد کو کھلی چھٹی دے رکھی ہو کہ جو چاہیں کریں ان کی اولاد بڑی ہو کر لازماً معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے پس آپ جبکہ مہمان بن کر مختلف جگہوں سے آئیں گے تو اگر آپ کے بچے ساتھ ہیں تو ان کو لگام دیں اور پوری طرح اس بات کا احساس کریں کہ ان کی وجہ سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو.پھر گپتوں کی مجالس سے پر ہیز کیا کریں بعض لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور گپوں کی لمبی مجالس چلاتے ہیں.یہ رواج کوئی آج کا رواج نہیں یہ انسانی فطرت کے ساتھ تعلق رکھنے والا دیرینہ رواج
خطبات طاہر جلد ۱۱ 510 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفے ہی ہے جب تم لوگوں کو کھانے پر بلایا کریں تو گپ شپ میں مصروف ہو کر نبی کو تکلیف نہ دیا کرو.آپ اندازہ کریں کہ آنحضرت ﷺ کا کتنا گہرا احترام آپ کے غلاموں کو تھا لیکن گپ شپ کی عادت ایک ایسی گہری عادت ہے کہ جس قوم میں پڑ جائے وہ احترام کے باوجود بھی باز نہیں رہ سکتی اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کو واضح طور پر یہ نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں تھی.آج روز مرہ کے تعلقات میں تو وہ احترام تو کوئی کردار ادا نہیں کر رہا جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کیا کرتا تھا اس کے باوجود یہ حال تھا.تو یہاں تو ایسا ہوگا کہ بعض دفعہ ساری ساری رات بیٹھ کر گپیں ماری جائیں گی اور صبح ہو جائے گی اور جن بچارے لوگوں نے کام پر جانا ہے اُن کو مصیبت وہ اپنے اخلاق کے مظاہرے میں اس خیال سے کہ مہمان یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.تو وقت پر اُٹھا کریں وقت پر سویا کریں اور گئیں مارنی ہیں تو الگ ہو کر کسی باہر کی جگہ پر ماریں لیکن واپسی کے اوقات کا پھر بھی خیال رکھنا ہوگا کیونکہ وہ لوگ جو کسی کے ہاں مہمان ٹھہرتے ہیں اور یہ بتائے بغیر اپنی شاپنگ کے لئے چلے جاتے ہیں کہ ہم نے کھانا باہر کھانا ہے اور پھر دیر سے آتے ہیں اور ان کا انتظار ہوتا رہتا ہے یا رات کو دیر میں آئے اور جگایا اور تنگ کیا کہ ہم فلاں جگہ سیر کے لئے چلے گئے تھے ، وہ اپنے میز بانوں کے لئے بڑی پریشانی کا موجب بنتے ہیں.سیریں اپنی جگہ اور انسانی حقوق اپنی جگہ کسی کا حق تلف کر کے آپ کو سیر کرنے کا حق نہیں ہے.حقوق ادا کریں پھر یہ نفلی کام ہیں جیسے چاہیں کریں.قرض لینے سے حتی المقدور پر ہیز کریں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ باہر سے آنے والے بہت سے یہاں آکر مہمانی کا لطف بھی اُٹھاتے ہیں اور پھر وقتا فوقتا قرض بھی لے جاتے ہیں اور بسا اوقات یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کی بچی کی شادی ہے ہم آپ کو وہاں سے کیوں نہ جہیز بنادیں، وہاں بہت اچھا زیور بنتا ہے، وہاں بہت اچھے کپڑے سلتے ہیں.یہاں جو پچاس پاؤنڈ میں آپ کو جوڑا ملتا ہے وہ کراچی لاہور میں دس دس پاؤنڈ میں مل جاتا ہے.ایسی باتیں کرتے ہیں اور یہاں کے بیچارے سادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بہت اچھا موقع ہے پھر کب نصیب ہو گا وہ اُن کے سپر در تمیں کر دیتے ہیں اور بعد میں اس وقت مجھے پتا چلتا ہے جب سال کے بعد یا دو سال کے بعد یہ چٹھی آتی ہے کہ فلاں صاحب آئے تھے ہم نے تو یہاں خدمت کی، خاطر کی لیکن وہاں سے جواب بھی نہیں آرہا کہاں غائب ہو گئے
خطبات طاہر جلدا 511 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء کچھ نہیں پتا لگ رہا اور بچی کی شادی کا وقت بھی قریب آرہا ہے کچھ پتا نہیں وہ پیسے کہاں گئے؟ پھر میں اُن کو لکھتا ہوں، تلاش کرتا ہوں اور بسا اوقات سختی بھی کرنی پڑتی ہے.یہ واقعہ نہیں ہونا چاہئے احمدیوں میں یہ بات بہت ہی بیہودہ اور نا مناسب ہے کہاں اعلیٰ اخلاق کے مظاہرے ہو رہے ہوں اور کہاں ایسی بددیانتی اور بدنصیبی کہ جس کے ہاتھ کی روٹی کھا کر گئے ہوں اسی کے ساتھ دھو کہ اور اسی پر ظلم یہ تو بہت ہی زیادہ سفا کی ہے، عام حالات میں جماعت کو مالی لین دین میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے.کئی دفعہ میں نے خطبات میں نصیحت کی ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ دن بدن جماعت اس معاملہ میں سدھر رہی ہے.کئی ایسے لوگ ہیں جو پیشہ ور لین دین میں خرابی کرنے والے ہیں وہ تو ابھی بھی ہیں.ان کے لمبے پیشے ہو چکے ہیں ان کی عادتوں میں یہ مرگی کی بیماری ایسی پڑگئی ہے کہ اب رکتی نہیں مگر اللہ کے فضل سے عام معاشرے میں اس بات کا بہت احساس پیدا ہو چکا ہے اور خدا کے فضل سے احمدی اپنے دیگر معاشرے کے ساتھیوں کے مقابل پر لین دین میں زیادہ صاف ستھرا ہے اور خیال رکھتا ہے اور میری دعا یہ ہے کہ کوئی بھی احمدی ایسا نہ ہو جو لین دین میں بد معاملگی کرے کیونکہ اس کے بہت بد اثرات مترتب ہوتے ہیں اور لین دین میں بد دیانتی کرنے والوں کی اولادیں بھی ناپاک ہو جاتی ہیں ان میں بے برکتیاں پڑتی ہیں اور وہ پھر بہت دکھ اُٹھاتے ہیں.بعض ایسے ہیں جنہوں نے آخر پر اپنی ساری جائیداد میں لٹا دیں اور کنگال ہو کر بیٹھ رہے اس لئے کہ جب وقت تھا لوگوں کو لوٹا کھایا پیا اور بعد میں سر چھپاتے پھرتے ہیں، بھاگتے پھرتے ہیں کہیں ان کو پناہ نہیں ملتی، جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے، ساری زندگی برباد ہو جاتی ہے.تو خدا کی پکڑ تو آتی ہے مگر اس کے آنے سے پہلے بچ جانا چاہئے.خدا کی خاطر اور قوم کے نام کی خاطر کیونکہ اس قوم کے اخلاق کو دیکھ کر بہت سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اس خاطر کہ لین دین کے معاملات میں صاف ستھرے ہو جائیں کہ اللہ کے لئے اگر ہم اپنے اخلاق سنواریں گے تو اللہ کے لئے آنے والوں کے لئے آسانی پیدا کریں گے پس آپ لین دین کے معاملہ میں صاف ستھرے ہو جا ئیں آپ کے متعلق کبھی کسی قسم کی شکایت نہیں آنی چاہئے.ایک بات یہ ہے کہ جب آتے ہیں تو پھر جانے کا بھی نام لیا کریں.بعض ایسے آتے ہیں کہ آکے پھر وہیں کے ہو رہتے ہیں اور میزبان کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں کس طرح ان کو
خطبات طاہر جلدا 512 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء سمجھاؤں کہ بہت ہو گیا، ہم لوگ تھک گئے ہیں اتنی لمبی عادت نہیں ہے، تکلیف ہو رہی ہے لیکن وہ جانے کا نام ہی نہیں لیتے وہ ایسی ہی کیفیت ہو جاتی ہے جیسے ایک عرب شاعر کا یہ شعر جو میں پڑھ کر سُناؤں گا ایک کہانی میں جڑا گیا ہے کہ ایک صاحب جن کو بہت کھانے کی عادت تھی وہ ایک دفعہ کسی سفر میں روانہ ہوئے رستے میں کسی کے ہاں ٹھہرے اور وہ اتنا کھاتے تھے کہ جب میزبان روٹی لے کر آتا تھا اور سالن کے لئے دوڑتا تھا تو سالن آنے تک روٹی کھا چکے ہوتے تھے اور جب وہ روٹی کے لئے دوڑتا تھا تو وہ روٹی آنے تک سالن کھا چکے ہوتے تھے اور ایسا کئی بار ہوتا تھا اور وہ جانے کا نام بھی نہیں لے رہے تھے.تو میزبان نے اشارہ اُن کو یاد دلانے کے لئے کہ آپ نے روانہ بھی ہونا ہے کہ نہیں اُن سے پوچھا کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں، کس طرف کا ارادہ تو ہے انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ایک حکیم کا نام سُنا ہے کہ معدہ کا بہت اچھا علاج کرتا ہے مجھے بھوک نہیں لگتی تو میں اس کی طرف جارہا ہوں تو اس نے کہا ٹھیک ہے میں سمجھ گیا ہوں لیکن جب آپ واپس تشریف لائیں تو میری ایک درخواست ہے اُسے ذہن نشین کر لیجئے.يا ضيفنا ان عدتنا لوجدتنا نحن الضيوف وانت رب المنزل کہ اے ہمارے معزز مہمان جب تو دوبارہ ہماری زیارت کرے تو اس حال میں تو ہمیں پائے گا کہ ہم تیرے مہمان ہوں گے اور تو ہمارا میزبان ہو گا.یہاں بعض گھرانوں کی واقعہ ایسی ہی کیفیت ہو جاتی ہے کہ گھر والے تو بیچارے مہمان بن کر رہتے ہیں اور مہمان میزبان بن چکے ہوتے ہیں.بار بار سمجھایا گیا ہے آنے والوں کو لکھ کر بھی نصیحتیں کی گئی ہیں کہ خدارا ان باتوں کا خیال رکھو اور وقت کے اوپر جاؤ اور صرف میزبانوں کے لحاظ سے نہیں حکومت کے لحاظ سے بھی جماعت نے جو وعدے کئے ہیں ان کا پاس کرو کیونکہ ایک فرد کی عزت بھی بڑے احترام کے لائق چیز ہے لیکن جماعت کی عزت اتنی بالا اور اتنی وسیع ہے اور اس کی اتنی قدر قیمت ہونی چاہئے کہ اس کے مقابل پر ہر انسان کی ذاتی ضرورتیں قربان ہو جانے کے لائق ہیں لیکن جماعت کی عزت اور نام کو قربان نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ وہ لوگ جو انگریزی حکومت سے یہ کہہ کر ویزا لیتے ہیں کہ ہم ایک مقدس جلسہ پر جارہے ہیں اپنے امام کو دیکھے ہوئے ترس گئے ، مدتیں
خطبات طاہر جلدا 513 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۹۲ء ہو گئیں ہیں اُسے ملے ہوئے اس نیت سے ہم آئے ہیں کہ وہاں جائیں اور اپنی روحانی پیاس بجھائیں ، وہ جب یہاں آتے ہیں تو اُن میں بعض کہتے ہیں جب روحانی پیاس بجھ رہی ہے تو جسمانی پیاس بھی ساتھ ہی بجھ جائے اور یہیں اسائکم لے لیا جائے.بعض پھر آ کر مجھ سے پوچھتے ہیں اور اجازت بھی لیتے ہیں کہ کیوں نہ فائدہ اُٹھا ئیں اور ساتھ ہی اسائکم بھی لے لیں.میں اُن سے کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو اگر فائدہ اٹھانا ہے تو جماعت سے باہر نکل کر اٹھاؤ.جس احمدی کے دل میں جماعت کی ناموس کا خیال نہیں ہے، اس کے وعدے کا پاس نہیں ہے، جماعت کی عزت کو اپنے چند کوڑی کے فائدوں کے لئے پاؤں تلے روندنے پر آمادہ ہے تو اس کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ایسی سزا نہیں ہے جو فوراً معاف ہو جائے یہ بھی معافی نہیں ہوگی کیونکہ تم نے ساری زندگی کا سودا کر لیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ دنیا کے عارضی چند ٹکوں کی خاطر اعلیٰ اقدار کے سودے نہ کیا کرو.پس وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی کا سودا کر لیا ہے انہوں نے تو شیطان کے پاس اپنے آپ کو بیچ دیا اُن کا پھر کبھی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اُن کے ساتھ پھر دنیا میں کیا سلوک ہو گا لیکن اُس دنیا میں بھی جہاں تک میں قرآن کریم کا پیغام سمجھتا ہوں اللہ کی مرضی ہے جس کو چاہے معاف کرے مگر ایسے لوگ بالعموم قبول نہیں کئے جائیں گے.اس لئے آپ خدا کا خوف کریں اور میز بانوں سے بھی مناسب وقت کے اندر ایسے وقت میں رخصت ہوں کہ جب آپ رخصت ہورہے ہوں تو وہ شکر نہ کریں بلکہ اُن کے دل غم سے بھرے ہوئے ہوں جب آپ آئیں تو ان کے دل خوشیوں سے معمور ہوں جب آپ جائیں تو رور ہے ہوں.ویسی ہی کیفیت ہو جیسے کسی نے ایک بچے کے متعلق ایک شعر کہا ہے کہ اے انسان تو ایسی حالت میں دنیا میں آیا کہ سب خوش تھے اور تو اکیلا رورہا تھا.اس طرح دنیا سے جانا کہ تو اکیلا خوش ہو اور سب رور ہے ہوں.تو اے آنے والے مہمانو ! اس سے سبق سیکھو اس حالت میں آؤ کہ اپنے گھروں کو یاد کر کے جیسے بھی تمہیں تکلیف ہو تو بے شک رودو لیکن کھلے ہاتھوں تمہارا استقبال کیا جائے جہاں جاؤ وہاں کے گھروں کو خوشیوں سے بھر دو اور ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرو کہ جب روانہ ہو تو تم خوش ہو کہ میں نے ایک بوجھ اُتار دیا اور تمہیں رخصت کرنے والے رور ہے ہوں کہ آئندہ جب بھی تم آؤ کھلے ہاتھوں کے ساتھ تمہارا استقبال کیا جائے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 515 خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۲ء جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو نصائح اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں اپنے اخلاق کو بلند سے بلند تر کریں (خطبہ جمعہ فرموده ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء بمقام تلفورڈ اسلام آبادیوں کے ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.الحمد للہ ہر قسم کا شکر اُسی کو واجب ہے جس نے ہمیں آج ایک دفعہ پھر یہ تو فیق عطا فرمائی کہ محض اُسی کے نام ، اُسی کے جلال اور اُسی کے جمال کی خاطر ہم یعنی احمدی دنیا بھر سے آج یہاں اس عالمی مرکز اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے ہیں.جو ہجرت کے دنوں میں جماعت احمدیہ کی خدمت کے لئے ہمیں عطا ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کو یہاں بہت سے ایسے کام کرنے کی توفیق ملی جس سے تمام دنیا میں اعلائے کلمتہ اللہ ہو رہا ہے.وہ ملک ہے جہاں دور دور سے بکثرت لوگ آتے ہیں.ایک ہی دن میں ہوائی جہازوں کے ذریعے تمام دنیا سے اس کثرت سے لوگ یہاں پہنچتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مرکز کے سالانہ جلسے کے برابر یہاں زائرین ایک ہی دن میں ویسے ہی اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں لیکن ان سب کے مقصد جدا جدا ہیں.دنیا طلبی کی مختلف شکلیں ہیں جن کی وجہ سے ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے جو اُن کی ذات سے وابستہ ہیں وہ اس ملک میں بھی جو مغرب میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی بکثرت آتے جاتے ہیں لیکن آج انگلستان کی خوش نصیبی ہے کہ آج یہاں آنے والے محض اللہ کی خاطر ، اُس کے نام کی سربلندی کی خاطر محض خدا تعالیٰ کی محبت میں مگن اور فنا ہوتے ہوئے ، بہت سے اموال خرچ کر کے، بہت سی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 516 خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۲ء تکلیفیں اٹھا کر رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے لئے یہاں آئے ہیں اور اس پہلو سے جلسہ سالانہ یو کے جماعت احمدیہ کو ایک خصوصی امتیاز حاصل ہے جس کی دوسری کوئی مثال مغرب میں منعقد ہونے والے نہ جلسوں کو ہے اور نہ جلسوں میں ملتی ہے، نہ میلوں ٹھیلوں میں ملتی ہے.جس کی غرض سے ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں کہ محض اللہ کی رضا کی خاطر مل بیٹھیں ، خدا کی اور خدا کے رسول ﷺ کی باتیں سنیں.اپنے دلوں کے گندوں کو جو طبعا جلتے رہتے ہیں.اس موقع پر دھوئیں اور صاف کریں اور خدا تعالیٰ کے پیار کے نئے جذبے لے کر اور خدا تعالیٰ کی محبت کے نئے جلوے دیکھ کر واپس اپنے اپنے وطن کو لوٹیں.اس اجتماع کے کچھ تقاضے ہیں جن کی طرف میں مختصراً آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جہاں کثرت سے لوگ اکٹھے ہوں وہاں کئی قسم کے احتمالات بھی ہوتے ہیں اور کئی قسم کی ذمہ داریاں ہیں جو عام حالات سے کچھ مختلف ہوتی ہیں.توقعات کے معیار بھی بلند ہو جاتے ہیں اور عام حالات میں ایک انسان کو ایک معمولی لغزش کرتے ہوئے انسان دیکھے تو اُسے نظر انداز بھی کر دیتا ہے لیکن جب خالصہ دینی اجتماعات میں اکٹھے ہونے والوں سے کسی سے کوئی لغزش دیکھتا ہے تو بعض دفعہ کمزور کو ٹھوکر لگ جاتی ہے اس لئے عام حالات میں جن اخلاق اور جن عادات کا آپ طبعا مظاہرہ کرتے ہیں یہاں اس موقع پر اُن آداب اور اُن اخلاق کا معیار کوشش کر کے زیادہ بلند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کو غیروں کی نگاہیں بھی دیکھ رہی ہیں اپنوں کی نگاہیں بھی دیکھ رہی ہیں.غیروں میں بھی مختلف مزاج کے لوگ ہیں اور اپنوں میں بھی مختلف مزاج کے لوگ ہیں.تکلف منع ہے لیکن اگر خدا کی خاطر تکلف کیا جائے تو تکلف بھی اچھا لگتا ہے.پس کوشش کر کے اگر نیکی اختیار کی جائے تو اس تکلف میں کوئی بُرائی نہیں.ہاں دکھاوے کی خاطر دنیا سے داد تحسین لینے کی خاطر اگر کوئی نیکی اختیار کی جائے تو وہ نیکی بدی سے بھی بدتر ہو جاتی ہے کیونکہ نیکی کے نام پر خدا کو راضی کرنے کی بجائے بنی نوع انسان کو راضی کرنا مقصود ہوتا ہے.پس یہ عام بدیوں سے بڑھ کر شرک کی حد میں داخل ہو جاتی ہے.پس میں جب یہ کہتا ہوں کہ تکلف سے بھی نیکی کریں اور اپنے اعمال کی پہلے سے بڑھ کر نگرانی کریں، اپنے روزمرہ کے اخلاق کا معیار پہلے سے بلند تر کریں تو دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ خدا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 517 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء کی رضا کی خاطر آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں.دنیا میں انسان اپنے روزمرہ کے دستور العمل میں آزاد ہوتا ہے اورمختلف لوگ مختلف تقاضوں کے پیش نظر اپنے اعمال کی درستگی کرتے ہیں.اصل درستگی اعمال کی وہی ہے جو خدا کی خاطر ہو اور خدا کو نگاہ میں رکھ کر کی جائے.وہ اعمال جو دنیا کے تقاضوں کی خاطر درست کئے جاتے ہیں وہ اُسی حد تک درست رہتے ہیں جس حد تک دنیا اُن کو دیکھ رہی ہوتی ہے اور اُن کی حدو ہیں ختم ہو جاتی ہے، تنہائی کے اعمال بدل جاتے ہیں.جب وہ دنیا اُن کو نہیں دیکھتی اُس وقت اور کردار کا انسان ظاہر ہوتا ہے یہ وہ تضاد ہے جس کو دور کرنا ضروری ہے.پس جب آپ تکلفاً محض اللہ اپنے اعمال کو درست کریں گے، اپنے اخلاق کا معیار بلند کریں گے تو یاد رکھیں کہ یہ عارضی نصیحت نہیں ہے بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو نیکی آپ نے وہاں کمائی ہوگی اُسے جاری کر دیں، ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی کا حصہ بنالیں.یہ وہ فرق ہے جو دنیا دار کی نیکی اور ایک دیندار کی نیکی میں ہوا کرتا ہے.دنیا دار کی نیکیاں دنیا کی خاطر ہوتی ہیں.معیار بدل جائیں ، تقاضے بدل جائیں تو نیکیاں بھی بدل جاتی ہیں مگر وہ نیکیاں جو خدا کی خاطر اختیار کی جاتی ہیں کیونکہ وہ ذات لافانی ہے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں اس لئے وہ نیکیاں بھی مستحکم ہو جاتی ہیں اور قرار پکڑ جاتی ہیں.یہ وہ خصوصیت کے ساتھ میرا آج آپ کو پیغام ہے کہ ان حالات کے علاوہ بھی اس رجحان کو اپنے اندر نشو و نما دیں کہ جو تبدیلیاں آپ کی ذات میں ہوں وہ خدا کی خاطر ہوں اور بندے کی خاطر نہیں اور تکلف بھی کریں تو خدا کی خاطر کریں.مثلاً اس موقع پر ذرا تکلف سے اپنے اخلاق کو درست کریں گے محض اس لئے نہیں کہ لوگ آپ کو دیکھ کر آپ کو بہتر سمجھیں گے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا کی جماعت کا تصور لے کر یہاں آئے ہیں آپ کی بدیاں دیکھ کر اُن کو ٹھوکر نہ لگے وہ یہ نہ سمجھیں کہ خدا والے ایسے ہوتے ہیں.پس اگر چہ یہ تکلف ہے لیکن اس تکلف میں بھی ایک نیکی ہے اور اُسی نیکی کو ہمیشہ ملحوظ نظر رکھنا چاہئے ورنہ انسان میں ریا کاری پیدا ہو جاتی ہے.اول تو اپنے اخلاق کو عام حالات سے زیادہ درست کریں اور کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنیں ،سخت کلامی بھی ہو تو نرم گفتاری سے پیش آئیں، کوئی بُرا بھلا بھی کہہ دے تو برداشت کریں، کسی سے تکلیف پہنچے تو حو صلے کا ثبوت دیں اور حلم کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کریں اور ہر ایک سے اچھی بات کہیں اور سلام کو رواج دیں.سلام کو رواج دینا مسلمان کو ہمیشہ اس کی حیثیت کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 518 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء یاد دہانی کراتا ہے.جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلام کا رواج بہت ہے لیکن سلام کا رواج تو دنیا کی ہر قوم میں ملتا ہے.مختلف قسم کے سلام ہیں اور مختلف قسم کے آداب ہیں لیکن اسلام نے ہمیں سلام کا جو پیغام ہمیں سکھایا ہے اُس کے ساتھ امن کی ضمانت شامل ہو جاتی ہے.جب ہم کہتے ہیں السلام علیکم ورحمتہ اللہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمہیں صرف خدا کی طرف سے سلامتی پہنچے.اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری طرف سے تم امن میں ہو اور اس حیثیت سے میں خدا سے بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی تمہیں امن عطا کرے اور اُس کی رحمت بھی تم پر ہو.پس مؤمن سے دوسرا مومن ہی نہیں بلکہ ہر مذہب والا امن میں رہتا ہے اور مومن کا سلام ہر ایک کو امن کی ضمانت دیتا ہے.اس ضمانت کے بہت سے تقاضے ہیں.آپ کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ نہ آپ کی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچے، نہ آپ کے عمل سے کسی کو تکلیف پہنچے، نہ آپ کی نگاہ سے کسی کو تکلیف پہنچے، نہ آپ کی لمس سے کسی کو تکلیف پہنچے بلکہ اس کے برعکس سلام کا اگلا مضمون یہ ہے کہ اُس کے دکھوں کو آپ امن میں تبدیل کرنے والے ہوں.پس یہ دونوں پہلو ہیں جو ہر احمدی کے ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئیں.سلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ مجھ سے تمہیں ضرر نہیں پہنچے گا یعنی سلام کہنے والا یہ یقین دلاتا ہے کہ میری طرف سے تم امن میں ہو.میری طرف سے تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.دوسر اسلام کا پہلو یہ ہے کہ تمہاری تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کروں گا تمہاری بے قراری کو قرار میں بدلوں گا، جو کچھ مجھ سے ممکن ہے میں تمہیں روحانی اور قلبی اور ذہنی سکون پہنچانے کی کوشش کروں گا.پس یہ دوسرا پہلو ایسا ہے کہ جس میں آپ کو اپنے چاروں طرف دیکھتے رہنا چاہئے ، ہوشیار رہنا چاہئے کسی بچے کو تکلیف میں دیکھیں تو اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کریں، کسی راہ ڈھونڈتے ہوئے کو پریشان دیکھیں تو آگے بڑھ کر السلام علیکم کہہ کر اپنی خدمات پیش کریں اور پوچھیں کہ اُسے کیا تکلیف ہے اُسے کسی چیز کی ضرورت ہے.غرضیکہ محض منفی پہلو اختیار نہ کریں بلکہ مثبت پہلو بھی آگے بڑھ کر اختیار کریں.بعض دفعہ بعض غیروں کو جو ہمارے جلسوں میں یا کسی اور موقع پر تشریف لاتے ہیں یہ شکایت ہوتی ہے کہ جس طرح ہمارا اعزاز ہونا چاہئے تھا ویسا اعزاز ہمیں نہیں دیا گیا بعض دفعہ یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم کسی شخص کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور اُس نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ تم کیوں آئے ہو اور کس چیز کی ضرورت ہے، کچھ لوگ گپوں میں مصروف تھے ہم پاس سے گزرے اُن کو کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 519 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء پرواہ نہیں ہوئی کہ کون آیا ہے اور کون گیا ؟ اور ایسی شکایات بعض دفعہ مختلف ممالک سے بعض غیر مسلم یا غیر احمدی مسلمان لکھ کر بھی مجھے بھیجتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں کس نظر سے جماعت کو دیکھا جا رہا ہے اور کیسی کیسی اس سے توقعات کی جارہی ہیں.یہ ایک پہلو سے جماعت کو ایک عظیم خراج تحسین بھی ہے یعنی جن برائیوں کی اطلاع دی جاتی ہے ان برائیوں میں بھی ایک خراج تحسین پوشیدہ ہے.کوئی شخص دنیا میں کسی دنیا کے مذہبی سربراہ کو یہ طعنہ دیتے ہوئے دکھائی نہیں دے گا کہ تمہارے سے تعلق رکھنے والے فلاں شخص نے اخلاق کے اعلیٰ تقاضے پورے نہیں کئے.یہ واقعہ جماعت احمدیہ کے سوا آج دنیا میں کہیں رونما نہیں ہوتا.اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے بلاشبہ دنیا کے کونے کونے سے ہر شخص جماعت سے یہ توقعات ہی نہیں رکھتا بلکہ ہر شکایت اگر تو فیق ہو اور پتا ہو مجھ تک کیسے پہنچایا جا سکتا ہے تو مجھ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا ، کافر گردانا، نہ دنیا کی ہر بدی اُن کی طرف منسوب کی مگر جب کسی احمدی سے مالی لین دین میں شکوہ پیدا ہوا تو بڑے لمبے خطوط مجھے لکھے اور کہا کہ آپ کی جماعت اور اس کی یہ حالت ، آپ کی جماعت کے فلاں شخص نے لین دین کے معاملے میں اعلیٰ اخلاقی تقاضوں کو پورا نہیں کیا.اُس نے بحیثیت مسلمان جو اُس پر ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں اُن کو ادا نہیں کیا لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کبھی کسی نے دنیا کے کسی مولوی کو چٹھی لکھی ہو کہ تمہاری طرف منسوب ہونے والے جو اسلام کے بلند ترین مقام پر فائز بتائے جاتے ہیں، جو تمام دوسری دنیا کو کا فر گردانتے ہیں اُن میں سے فلاں کے اخلاق میں یہ گری ہوئی بات ہم نے دیکھی ہے.چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ ہر سال بلاشبہ مجھے چند چٹھیاں ایسی ضرور ملتی ہیں.بعض دفعہ بڑے بڑے صاحب اثر لوگوں کی طرف سے ہوتی ہیں، بعض دفعہ ایک عام غریب انسان کی طرف سے مگر مضمون بظاہر یہی ہے کہ جماعت احمد یہ کے فلاں شخص سے ہم نے لین دین کیا اور ہم توقع نہیں رکھتے کہ وہ ہمیں کسی پہلو سے بھی نقصان پہنچائے گا لیکن جو نقصان کا موجب بنا ہے اب آپ کی ذمہ داری ہے اس نقصان کو ادا کریں یا اُس کو پکڑیں اور اُس کی سرزنش کریں اور ہمارا نقصان اُس کو کہہ کر پورا کروائیں.میں اُن کو لکھتا ہوں کہ جزاک اللہ آپ نے جماعت سے بلند تو قعات تو وابستہ رکھی ہیں جہاں تک میری کوشش ہے کہ میں اخلاقی دباؤ ڈال سکتا ہوں لیکن میں دنیا کی عدالت تو نہیں ہوں اور آپ نے جو غلطیاں کی ہیں اُن کی
خطبات طاہر جلدا 520 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی لیکن جماعت کے کسی فرد نے اگر واقعہ آپ کو نقصان پہنچایا ہے تو میں شرمندہ ضرور ہوں اور جہاں تک میرا بس چلے گا میں اس کی اصلاح کی کوشش کروں گا.تو توقعات کا معیار اتنا بلند ہے کہ جو لوگ آپ کو دنیا کی ذلیل ترین چیز قرار دیتے ہیں وہ آپ سے اعلیٰ ترین اخلاق کی توقع رکھتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے کے مسلمانوں کا معیار آپ میں دیکھنا چاہتے ہیں.پس ان بری ابتلاؤں میں بھی ایک عجیب خراج تحسین ہے.پس میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں مگر سال میں ایک بار بھی ایسی خبر پہنچے تو اس سے تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہم میں سے ایک دانہ بھی گندا ہواور پھر وہ گندا دانہ جو غیر کی نظر میں آکر جماعت کے لئے طعن کا موجب بن جائے وہ دوہری تکلیف دیتا ہے.پس اس جلسے کے موقع پر بھی اس طرح اپنے انداز بنائیں ، اس طرح لوگوں سے میل جول رکھیں اور اُن کے ساتھ حسن سلوک کریں کہ جو واقعہ اُن کے دل کی گہرائی کی توقعات ہیں اُن سے بڑھ کر اُن پر پورا اتریں.بعض چھوٹی چھوٹی مختلف نصیحتیں بھی ہیں جو اس موقع پر کرنی ضروری ہیں.جن لوگوں میں ہم یہاں آباد ہیں یعنی Surray کا ماحول ہے یہاں اس ماحول میں بعض لوگوں کی اپنی عادتیں ہیں جو دیرینہ قومی عادتیں ہیں.مثلاً صفائی کا ایک معیار ہے وہ اگر چہ بد قسمتی سے اب پہلے جیسا نہیں رہا جیسا کہ انگلستان میں میں چھپیں سال پہلے ہوا کرتا تھا لیکن اب بھی تیسری دنیا کے ممالک کے مقابل پر یہ معیار بہت بلند ہیں خصوصیت سے Surray County میں کیونکہ نسبتاً زیادہ متمول لوگ رہتے ہیں اس لئے یہاں صفائی کا معیار انگلستان کے بعد دوسرے حصوں کی نسبت بہتر ہے.کئی لوگ تماشہ بینی کے لئے یہاں آئیں گے، کئی جماعت میں دلچسپی رکھتے ہوئے یہاں آئیں گے اور چونکہ انہیں اخلاقی جانچ کا سطحی نہیں ہے یعنی گہرے اخلاق کی پڑتال نہیں کر سکتے ان کی نظر سطحی ہے بیرونی نظر سے اخلاق کو جانچتے ہیں اس لئے وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ جن غریب ملکوں سے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اُن کی اقتصادی حالت ایسی ہے کہ طبعی طور پر صفائی کا معیار وہاں گر جایا کرتا ہے.یہ کبھی نہیں سوچیں گے کہ لندن سے مشرق کے کنارے میں جہاں غربت زیادہ ہے وہاں گلیاں اُسی طرح سگریٹ کے ٹکڑوں اور کاغذوں اور گندی چیزوں اور کوکا کولا کے خالی ڈبوں سے بھری پڑی ہیں اور ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی ہے حالانکہ انگلستان ہی ہے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ دراصل اس کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 521 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء وجہ غربت ہے.غربت کے نتیجے میں بعض بدیاں خود بخود پیدا ہو جاتی ہے.اس پہلو سے جب آپ کو دیکھیں گے تو جماعت احمدیہ کے عالمی نمائندہ کی حیثیت سے دیکھیں گے.اگر آپ میں وہ بد عادتیں جو غیر ارادی طور پر آپ میں جگہ پاگئی ہیں اُن کو پیچھے اپنے ملک میں نہ چھوڑا اور یہاں ساتھ لے چلے آئے ، یہاں رہتے ہوئے بھی آپ نے ویسی ہی بے پروائی کا ثبوت دیا تو اس سے جماعت کے نام کو نقصان پہنچے گا.پس یہ بھی وہ خاص چیز ہے جسے آپ کو کوشش کے ساتھ پیش نظر رکھنا چاہئے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے چودہ سوسال پہلے جو ہمیں تعلیم دی تھی وہ انسانی زندگی کے دلچسپی کے ہر پہلو میں بلند ترین تھی، سب سے اعلی تھی اور صفائی کے بھی ایسے باریک راز آپ نے ہمیں سمجھائے کہ آج تک دنیا کی ترقی یافتہ قومیں بھی اُس معیار تک نہیں پہنچیں.یہاں زیادہ سے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ تم کوئی گندی یا فضول چیز سڑکوں پر، پبلک جگہوں میں نہ پھینکو، جوڈ بے اس کام کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اُن میں ڈالو.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم آج سے چودہ سو سال پہلے اس سے بہت آگے نکل چکی تھی.آپ نے فرمایا رستوں کے حقوق ہیں، رستوں کے حقوق ادا کرو ( بخاری کتاب الاستیذان حدیث نمبر : ۲۲۸۵) اور ایمان میں یہ بات داخل ہے کہ اگر رستہ پر کوئی بھی ایسی چیز جس سے نظر کو یا کسی اور چیز کو یا انسان کو کسی رنگ میں تکلیف پہنچتی ہو آزار کی چیز خواہ وہ کسی پہلو سے تعلق رکھتی ہو اُس کو اٹھاؤ اور اُس کو رستوں سے دور کر دو.مومن کی صفائی کا معیار محض یہ نہیں ہے کہ وہ گندگی نہ پھیلائے بلکہ مومن کی صفائی کا معیار یہ ہے کہ وہ گندگی جو دوسروں نے پھیلائی ہے وہ اُس کو دور کرے.پس اگر چہ یہاں ہماری طرف سے، انتظامیہ کی طرف سے بعض ایسے خدام متعین ہیں کہ جو رستے میں پڑی خراب چیزوں کو اٹھائیں گے اور مناسب جگہوں تک انہیں پہنچائیں گے ، ان کی صفائی کا انتظام کریں گے لیکن میں ہر احمدی سے یہ توقع رکھتا ہوں اس لئے کہ وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا غلام ہے، اس لئے کہ وہ آج آنحضور ﷺ کا سفیر بن کر یہاں آیا ہے، اس لئے ہر ایک اس بات کا خیال رکھے کہ ایذاء کی چیزوں سے رستوں کو اور پبلک جگہوں کو صاف و پاک کرے.جہاں کوئی خراب چیز گری پڑی دیکھے.اُس کو اٹھا کر مناسب جگہ تک پہنچائے تا کہ جو عام صفائی کے معاملات ہیں ہمارے لئے عبادت بن جائیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس عادت کو ایمان کا آخری شعبہ قرار دیا ہے.فرمایا ایمان کے ستر درجے ہیں ان میں سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان رستے میں گری
خطبات طاہر جلد ۱۱ 522 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء پڑی چیزوں کو اٹھائے اور چلنے پھرنے والے لوگوں کو اور اپنے دوسرے بھائیوں کو ان چیزوں کی تکلیف سے بچائے.اس کو اگر آپ پوری طرح سمجھ لیں کہ یہ کیا بات فرمائی گئی ہے تو آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی کہ جس تعلیم کا ادنیٰ شعبہ یہ ہے اُس کے اعلیٰ شعبے کیا ہوں گے.ادنی شعبہ یہ نہیں کہ آپ نے کوئی تکلیف دہ چیز باہر نہیں پھینکی.ادنی شعبہ یہ ہے کہ لوگوں کی پھینکی ہوئی چیزیں اٹھانی ہیں اور تکلیف کی چیزوں سے رستوں کو بچانا ہے.اس ضمن میں اور بھی بہت سی تعلیمات ہیں مثلاً یہ کہ رستے کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ رستوں پر کھڑے ہو کر کہیں نہ لگایا کرو.مسافروں کا حق ہے کہ رستوں سے گزریں اگر تم ٹولیاں بنا کر وہاں کھڑے ہو جاؤ اور گپ شپ میں مصروف ہو جاؤ تو چلنے والوں کو تکلیف پہنچے گی اس لئے وہ تمام راستے جو اس غرض سے بنائے جاتے ہیں کہ وہاں لوگ چلیں اور اپنے اپنے مقاصد تک پہنچیں اُن رستوں کو کھلا رکھنا اور صاف رکھنا یہ ہماری ان توقعات میں شامل ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی میے نے اپنی امت سے یہ فرما کر کئے ہیں کہ ادنی توقعات ہیں باقی سب تو قعات ان سے اونچی اور بالا ہیں.پس ہمیں ادنی تو قعات پر بھی پورا اترنا ہے اور بالا تو قعات پر بھی پورا اترنا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے کھانے کے بھی آداب سکھائے ہیں اور ایسے عظیم آداب ہیں کہ جہاں تک میں نے تفصیلی نظر ڈال کر دنیا کی مہذب قوموں کو دیکھا ہے آج تک اُن قوموں میں بھی وہ اخلاق اُس شان سے رائج نہیں ہو سکے.اس کی تفصیل میں یہاں جانے کا تو وقت نہیں لیکن چند ایک باتیں جو جلسے کے موقع سے تعلق رکھتی ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.کھانے کے وقت ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرنا یا دھکے دے کر پہلے پہنچنے کی کوشش کرنا اس کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے.اسلام کے تصور میں ایسی حرکت کی کوئی جگہ ہی نہیں ہے بلکہ ایثار کی تعلیم ہے.جب بھی کہیں کھانے کی چیز کو دیکھتے ہو تو سب سے پہلے تمہیں اپنے بھائی کا خیال آنا چاہئے خواہ بھوک سے تمہاری کیسی ہی بری حالت کیوں نہ ہو.اپنے بھائی کو اپنے اوپر ترجیح دوا سے کہو کہ پہلے آپ تشریف لائیں اس سے پہلے آپ فائدہ اٹھائیں پھر میں بھی ایسا کروں گا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے اس تعلیم کو اپنے عمل کے ذریعے ایسے بلند اور ارفع مقام تک پہنچایا کہ انسان اُس مقام کی صلى الله طرف دیکھے تو پگڑی گرتی ہے، سر سے ٹوپی گرتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 523 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء وہ واقعہ جو آپ نے بار ہا سنا ہوا ہے اس ضمن میں ایک عجیب مثال ہے.ایک موقع پر حضرت ابو ہریرہ بھوک کی شدت سے نڈھال ہو گئے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ کا یہ دستور تھا کہ مسجد کا در نہیں چھوڑتے تھے ، آنحضرت ﷺ سے ایسی محبت تھی کہ مسجد کا دامن پکڑ کر بیٹھ رہے کہ کسی وقت آنحضور اپنے گھر مسجد کی طرف نکلیں کوئی بات فرما ئیں تو اُس سے وہ استفادہ کرسکیں اور اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.دیر میں اسلام قبول کیا تھا اس لئے اس کی گزشتہ کوتاہیوں کا ازالہ اس رنگ میں کیا کہ اصحاب الصفہ میں شامل ہوئے اور ہمیشہ کے لئے مسجد کے ہو کر رہ گئے.بعض دفعہ فاقوں سے حالت یہاں تک پہنچ جاتی تھی کہ بے ہوش ہو جایا کرتے تھے.لوگ سمجھتے تھے کہ مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ بعض دفعہ مرگی والے کو ہوش میں لانے کی خاطر پرانی گلی سڑی جوتیاں سنگھایا کرتے تھے محض اللہ بے ہوش ہو کر مسجد کے صحن میں پڑا ہوتا تھا اُسے بعض لوگ جوتیاں سنگھایا کرتے تھے.ایک موقع پر حضرت ابو ہریرہ کو تکلیف زیادہ برداشت نہ ہوئی تو انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت کو اپنی طلب کا ذریعہ بنالیا.بعض آنے جانے والوں سے اُنہوں نے پوچھنا شروع کیا کہ ذرا بتاؤ تو سہی اس آیت کی کیا تفسیر ہے؟ وہ آیت یہ تھی وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر:(۱۰) کہ وہ لوگ ایسے ہیں یعنی مومن اپنی ضروریات پر غیروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں غیروں کی ضروریات پر اپنی ضرورتوں کو ترجیح نہیں دیتے بھوک ہو تو تب بھی وہ دوسروں کو کھانا کھلانے کے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں، یہ وہ مضمون ہے جس کا اس آیت کریمہ سے تعلق ہے.تو ایک صحابی آئے اور وہ تفسیر کر کے آگے گزر گئے ، پھر ایک صحابی آئے وہ تفسیر کر کے آگے گزر گئے پھر ایک اور صحابی آئے وہ تفسیر کر کے آگے گزر گئے.حضرت اقدس محمد مصطفی میں اپنے حجرے میں یہ باتیں سن رہے تھے.بالآخر دیکھا کہ کسی کو اس آیت کی تفسیر سمجھ نہیں آئی اور تفسیر پوچھنے والے کا مدعا معلوم نہیں ہوا.باہر تشریف لائے اور کہا کہ ابو ہریرہ بھو کے ہو؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس کی تفسیر کیا ہے؟ میرے پاس کچھ دودھ آیا ہے اللہ تعالیٰ نے کہیں سے بھجوایا ہے تمہاری طرح اور بھی بھوکے ہوں گے جاؤ اور تلاش کرو کہ کوئی اور بھوکا ہے تو اُس کو بھی ساتھ لے آؤ.ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب یہ سنا تو میرا دل دہل گیا.ایک پیالا دودھ کا ہو گا لیکن مجھے اتنی بھوک لگی ہے کہ یہ دودھ کا پیالا تو مجھے بھی پورا نہیں آسکے گا اور آنحضرت نے فرمایا ہے کہ جاؤ
خطبات طاہر جلدا 524 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء اور آواز دو کہ کوئی بھوکا ہے تو آ جائے.چنانچہ آپ نے آواز دی اور ایک بھو کا مل گیا اور پھر اور آواز دی، پھر اور مل گیا پھر اور آواز دی، پھر اور مل گیا یہاں تک کہ بیان کیا جاتا ہے کہ سات آٹھ اور بھو کے بھی ابو ہریرۃ کے ساتھ شامل ہو گئے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ کے پاس ایک دودھ کا پیالا تھا آپ تشریف فرما ہوئے اور ابو ہریرہ کو اپنی بائیں طرف بٹھا لیا.بائیں طرف بٹھانے میں ایک گہری حکمت تھی کیونکہ اسلامی رواج کے مطابق جب مہمانوں کو کھانا پیش کیا جاتا ہے تو دائیں طرف سے شروع کیا جاتا ہے، دائیں طرف دوسرے تھے اور ابو ہریرہ کی باری سب سے آخر پر آنی تھی.چنانچہ آنحضور ﷺ نے اپنی دائیں طرف بیٹھے ہوئے غریب مہمان کو فرمایا کہ دودھ پیو جب اُس نے پیا اور اُس کا پیٹ بھر گیا تو آپ نے فرمایا کچھ اور پیو.ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب میں سنتا تھا کچھ اور پوتو میری جان نکل جاتی تھی ، پھر دوسرے مہمان کی باری آئی ، پھر اُس کے ساتھ بھی یہی ہوا، پھر تیسرے مہمان کی باری آئی پھر اُس کے ساتھ بھی یہی ہوا، پھر چوتھے مہمان کی باری آئی پھر اُس کے ساتھ بھی یہی ہوا، یہاں تک وہ پیالا حضرت ابو ہریرہ تک پہنچا.آپ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اُس میں دودھ موجود تھا میں نے پیا اور اتنا پیا کہ میں سیر ہو گیا.تب آنحضور اللہ نے فرمایا ابو ہریرہ کچھ اور پیو.پھر میں نے کچھ اور پیا.پھر فرمایا ابوہریرہ کچھ اور پیو، پھر میں نے کچھ اور پیا.کہتے ہیں یہاں تک کہ خدا کی قسم یوں صلى الله لگتا تھا کہ میرے ناخنوں تک سے دودھ بہہ پڑے گا.تب میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہے بس.اس وقت حضور ا کرم نے وہ پیالا خود پکڑا اور بقیہ دودھ خود نوش فرمایا.( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر : ۵۹۷۱) یہ واقعہ بہت ہی عظیم واقعہ ہے.اس آیت کی ایسی تفسیر ہے جس پر کسی عالم کی کبھی نظر نہیں پہنچی.ایثار سکھا رہے تھے، اس آیت کی حقیقت بیان فرما رہے تھے، وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ بھوک کی شدت سے تم کیسے ہی بے تاب کیوں نہ ہو دوسروں کو تر جیح دو.تو ابو ہریرہ جو دوسروں سے پوچھتے تھے کہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے آپ نے اُن کو برتر مقام پر فائز کر دیا ، وہ اپنی بھوک کو قربان کرتے ہوئے دوسروں کو کھانا کھلانے والے بن گئے.یہ انہی کا فیض تھا جو حضور اکرم سے اُن کو پہنچا کہ ان سب کے اوپر بھوکوں کے لئے اس آیت کریمہ کی ایک مجسم تفسیر بن گئے اور سب سے زیادہ بھوک میں مبتلا ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی سے تھے ، وہ دودھ جو آپ کو آیا تھا وہ آسمان کی طرف سے آپ کو بھیجا گیا تھا.آپ کی بھوک مٹانے کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 525 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء آیا تھا.پس سب سے آخر پر آپ نے یہ جو دودھ نوش فرمایا تو بتایا کہ تم سب میں سب سے زیادہ اس آیت کے مضمون کو اور اس کی حکمتوں کو سمجھنے والا میں ہوں اور میں ہی وہ ہوں جو قرآن کو اپنی رگ رگ میں جاری کر چکا ہے.پس ہم سے جو توقعات ہیں وہ تو اتنی بلند ہیں کہ کہاں یہ بات کہ کیوں یہ کھڑے ہیں، دھکا نہ دو.کہاں یہ عظیم تعلیم جس کی کوئی مثال دنیا کے مذاہب میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتی.اس تعلیم کو ہمیں اپنا نا ہے اور اسی تعلیم کو ہم نے دوسروں میں پیش کرنا ہے اس لئے کھانے کے موقع پر یا کسی اور موقع پر اپنی غرض کو غیروں کی غرض پر ترجیح نہ دیں، ہمیشہ کوشش کریں کہ آپ اپنے بھائی کا خیال رکھیں.یہ تعلیم تھی جو حضرت اقدس محمد مصطفی امی ﷺ نے اس تفصیل کے ساتھ اور اس گہرائی کے ساتھ اپنے غلاموں کے رگ و پے میں پیوستہ کر دی تھی کہ اُن کے خون میں دوڑنے لگی ، بڑے سے بڑے ابتلاؤں کے وقت بھی وہ اس تعلیم کو نہیں بھولے.حضور اکرم کی غالبا زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک غزوے میں کچھ صحابہ زخمی ہوئے اور پیاس کی شدت سے کیونکہ گرمیوں کے دن تھے ، زخموں کے علاوہ بہت بڑے ابتلاء میں پڑے ہوئے تھے کہ ایک گھونٹ پانی کو ترس رہے تھے ایسے موقع پر ایک مشکیزہ لئے ہوئے خدمت کرنے والا وہاں پہنچا اس نے کسی سے کہا منہ کھولو میں تمہیں کچھ پانی پلا دوں.اُس کی نظر اپنے قریب سکتے ہوئے ایک اور بھائی پر پڑی اُس نے اس حالت میں اس کی طرف اشارہ کیا کہ تم میرے بھائی کو پانی پلاؤ پھر میری طرف آنا اور یہ عجیب واقعہ ہے جو تاریخ اسلام نے درج کیا ہے.جب وہ اُس کے پاس پہنچا تو اس کی نظر اپنے ایک اور بھائی پر پڑی تو اُس نے اس کی طرف اشارہ کیا.کتنی دفعہ یہ ہوا ہم نہیں کہہ سکتے مگر وہ ساقی بیان کرتا ہے کہ جب میں اُس آخری شخص پر پہنچا تو وہ دم توڑ چکا تھا.جب میں واپس لوٹا ہوں تو بعض اُن میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے پانی پیا لیکن وہ شخص جس نے پہلے بھیجا تھا وہ میرے پہنچنے سے پہلے دم توڑ چکا تھا تو حاجت کی ایسی شدت کے وقت بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم اور آپ کے اسوہ کو نہیں بھلایا.پس ان چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں اگر آپ پورے نہ اترے کیسے دنیا کے مربی بنیں گے، کیسے دنیا کے معلم بنیں گے.آپ نے تو ساری دنیا کو اسلام کی اعلیٰ تعلیم سکھانی ہے.پس ایسے مواقع جب اجتماع ہوتے ہیں جب اکٹھے کھانے کھائے جاتے ہیں تو اُن میں اسلامی اخلاق اپنی پوری شان کے ساتھ
خطبات طاہر جلدا 526 خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۲ء جلوہ گر ہونے چاہئیں.لوگوں کی نگاہیں محبت اور تحسین سے پڑیں تو یہ ہیں محمد مصطفی ﷺ کے غلام کہ کھانے کے آداب کوئی سیکھے تو اُن سے سیکھے، راستہ چلنے کے آداب کوئی سیکھے تو اُن سے سیکھے، راستوں کے حقوق کے آداب کوئی سیکھے تو اُن سے سیکھے.غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام ہی میں اُن کو اپنی پناہ نظر آئے ، اسلام ہی میں اُن کی ساری بے قراریوں کا علاج ہو ، اس کا نام اسلام ہے، اسی کا نام سلامتی ہے جو ہر مسلمان سے وابستہ ہو چکی ہے.پس آپ کھانے کے دوران ایسی حرکتیں نہ کریں جن سے جب مجھے اطلاع پہنچے تو میں شرم سے پسینہ پسینہ ہو جاؤں.بعض لوگوں نے مجھے جلسے سے پہلے خطوط لکھے اور اس جلسے سے پہلے مجھے متنبہ کیا کہ آئندہ یہ باتیں نہ ہوں.ایک صاحب جو شاید تشریف نہیں لائے وہ لکھتے ہیں پچھلی دفعہ میں نے دیکھا کہ کھانا جب تقسیم ہو رہا تھا تو لینے والوں نے مطالبے شروع کئے ہوئے تھے کہ دو بوٹیاں ڈالو اور چار بوٹیاں ڈالو، پانچ ڈالو اور یہ آلو ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں، یہ شور بہ ہمارے کسی کام کا نہیں ہے جو تقسیم کرنے والا تھا وہ بڑی مصیبت میں مبتلا تھا ، کھانے کا جو توازن ہے وہ تو نہیں بگاڑا جا سکتا.کھانے میں کچھ شور بہ اور کچھ بوٹیاں ہیں ، کچھ آلو ہیں اور کچھ سبزی ہو تو ہومگر آپس کا ایک توازن ہے اگر ایک مہمان ضد کر کے کوئی ایک چیز زیادہ مانگے گا تو ظاہر ہے کہ دوسرے مہمان کے لئے وہ چیز اور بھی کم ہو جائے گی نتیجہ ایسا ہو جاتا ہے.بہت سا کھانا ضائع چلا جاتا ہے بعض لوگ اپنی حرصمیں یہ خیال کر کے ہمیں بہت بھوک لگی ہے زیادہ چیز لے لیتے ہیں پھر وہ اُن سے کھائی نہیں جاتی.تقسیم کرنے والوں نے مجھے بتایا کہ بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے پیالوں کے اندر آلو کے ٹکڑے اور ہڈیاں ، بوٹیاں ایسی جو قابل استعمال تھی اسی طرح بچی رہ گئیں ، بعض ایسے پیالے تھے جس میں شور بے بچے رہ گئے.واقعہ یہ ہے کہ یہ بہت ادنی ادنی معمولی معمولی باتیں سہی، لیکن اعلیٰ اخلاق کے تقاضے جن سے کئے جاتے ہیں اُن کے کردار پر یہ داغ ہیں ، اُن کو زیب نہیں دیتیں بعض ظالم اور بیوقوفوں نے اسلام پر پھبتیاں کسیں جن میں سے سلمان رشدی بھی ایک تھا.اُس کی بدبختی دیکھیں وہ کہتا ہے کہ کیسا اسلام ے کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی سکھاتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں کا پابند کرتا ہے، طہارت کیسے کرنی ہے اٹھنا کیسے ہے، وضو کیسے کرنا ہے، یہ تو پرانے زمانے کی معمولی سی چیز ہے آج کے زمانے میں اس کی ہمیں کیا ضرورت ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جو چیزیں اسلام سے کسی نے نہیں سیکھیں دنیا کی ترقی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 527 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء یافتہ قوموں سے وابستہ ہونے کے باوجود بھی آج تک وہ ان چیزوں سے محروم ہیں.صفائی کے جو پاکیزہ تقاضے آنحضور ﷺ نے پورے فرمائے اور جن کو پورا کرنے کی ہمیں باریکی سے تعلیم دی آج بھی دنیا کی بڑی بڑی قومیں اُن سے نا آشنا ہیں یا کل تک نا آشنا تھیں.دانتوں کی صفائی کو لیجئے ، بدن کی صفائی کو لیجئے ، فراغت کے بعد پانی سے اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کا مضمون دیکھ لیجئے ، ہر معاملے میں ۴۰۰ سال پرانا اسلام آج کے زمانے سے زیادہ آ گیہے.چنانچہ کھانے کے معاملے میں بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اتناڈالو جتنا ختم کر سکو اور تمہاری پلیٹ میں زیادہ نہ بچے.(ترمذی کتاب الاطعمہ حدیث نمبر : ۱۷۲۵) چنانچہ اگر اسی تعلیم کو اپنا لیا جائے تو دنیا سے بہت سے کھانے کا ضیاع ختم ہو سکتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے ہاں بھی اتنا کھانا ضائع ہورہا ہے کہ اگر وہ ضائع شدہ کھانا بھی کسی طریقے سے غریب ملکوں تک پہنچایا جائے تو بڑے ملکوں سے بھوک دور ہوسکتی ہے.امریکہ میں ایک دن میں جتنا کھانا ضائع ہوتا ہے وہ بعض افریقن ممالک کی سارا سال کی بھوک مٹا سکتا ہے.کوئی پرواہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا رزق ہے.کھلا رزق اُن کو عطا ہوا لیکن بالکل خیال نہیں کیا کہ تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ رزق عطا ہوا ہے.اس دنیا کو رزق پیدا کرنے کے لئے جو صلاحیتیں بخشی ہیں صرف ایک قوم کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہر انسان کی کم از کم ضرورتیں پوری کرنے کی خاطر ہے.بس جہاں بچت کی عادت نہ ہو، جہاں ضیاعکے خلاف طبیعت میں ایک رد عمل پیدا نہ ہو، جہاں مزاج ایسے نہ ہوں کہ خدا تعالیٰ کے رزق کا احترام کیا جائے اسے بے وجہ ضائع نہ کیا جائے ، وہاں بڑی سے بڑی ترقی یافتہ قوم بھی ادنی اخلاق کے تقاضوں سے بھی نیچے اتر آتی ہے.یہ عجیب نظارے آپ کو آج بھی امریکہ میں دکھائی دیں گے کہ وہاں کے لاکھوں بھو کے، افریقہ کو تو چھوڑ دیں ، ہندو پاکستان کی بات نہ کیجئے امریکہ ہی کے لاکھوں بھو کے کوئی ان ڈسٹ بنوں سے جہاں ہر قسم کے گند پھینکے جاتے ہیں کھانے تلاش کر کر کے نکالتے ہیں اور اُس سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں.کوئی جس نہیں ہے کہ اس کھانے کو جو کسی انسان کے کام آ سکتا ہو گندگی میں پھینکنے کے بجائے ایسا نظام جاری کیا جائے کہ جس سے بھو کے استفادہ کر سکیں.پس حضور اکرم ﷺ نے اس زمانے میں کیسی شاندار تعلیم دی کہ کوئی کھانا ضائع نہیں ہونا چاہئے اور اپنی پلیٹ میں اتنا ڈالو جتنا ختم کر سکو اور صاف پلیٹ چھوڑا کرو.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 528 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء بنگال غالباً وقف جدید کے دورے پر گئے تھے.حضرت مولوی ابو العطاء مرحوم صاحب بھی میرے ساتھ تھے.ایک جگہ غالباً تر وہ تھی مجھے یاد نہیں بہر حال کھانے پر مجھے پتا لگا کہ یہ جماعت بہت مہمان نواز ہے اور بہت تکلفات سے کام لیتی ہے اس لئے ذرا ہوش کے ساتھ اپنا کھانا کھائیں اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں.حضرت مولوی محمد صاحب مرحوم کو ایک لطیفہ سوجھا.اُنہوں نے میرے کان میں کہا کہ یہاں رواج یہ ہے کہ اگر مہمان پلیٹ خالی کر دے تو ضرور اُس کو بھرتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ آپ سنت کے پیش نظر پلیٹ ضرور خالی کریں گے اور یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ آپ کی پلیٹ کو دوبارہ نہ بھر دیں اور آپ کو پھر سنت کا خیال آ جائے گا اور آپ پھر خالی کریں گے پھر یہ بھر دیں گے کہاں تک چل سکتے ہیں یہ بات خود سمجھ لیجئے لیکن مولوی ابوالعطاء کو نہ بتانا.اُن کی خاطر یہ کھیل کھیلی چنانچہ میں نے کہا یہ دیکھیں کیا ہوتا ہے.میں نے تو اپنی پلیٹ میں مجبوراً تھوڑا سا چھوڑ دیا کیونکہ یہ ایک ایسی مشکل تھی جس کا حل میرے پاس نہیں تھا.مجھے تو تکلفاً پوچھا کہ کھائیں گے میں نے کہا بس جزاک اللہ.میرا پیچھا چھوڑ دیا گیا.مولوی صاحب نے پلیٹ صاف کی اور اُنہوں نے دوبارہ بھر دی.مولوی صاحب احتجاج کرتے رہے خدا کا خوف کرو ایک ہی پیٹ ہے میرا میں نے جتنا کھانا تھا کھا لیا.نہیں ہم جانتے ہیں آپ اور لیجئے.بڑی مصیبت سے مولوی صاحب نے پلیٹ خالی کی تو دوبارہ لے کر آگئے چاول اور سالن.مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحب نے یوں ہاتھ آگے پھیلا دیئے تھے کہ اُن کی انگلیوں کے بیچ میں سے چاول اور شور بہ گر رہے تھے.اس حالت پر ہمیں رحم آ گیا جب ان کو سمجھایا کہ یہ قصہ ہے، یہاں کا رواج یہ ہے.آنحضرت ﷺ کی پاک تعلیم وہاں بھی رائج ہونی چاہئے ایسی مہمان نوازی تعلیم کی حدود سے تجاوز کر جائے.یہ مہمان نوازی نہیں ضیاع ہے اور اس کے نتیجے میں تکلیفیں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ وہیں ہم میں سے ایک کو محسوس ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کو پیٹ کی تکلیف ہو جائے اور اُس نے پوچھا کہ اتناز بر دستی کھلا دیا ہے اب اس کا علاج کیا ہے، علاج یہ تھا کہ فلاں کیلا کھائیں اس سے آپ کا پیٹ ٹھیک ہو جائے گا.اس نے کہا میں بہت کھا چکا ہوں.کہتے ہیں اس کا علاج بھی اب یہی ہے.کیلا زیادہ کھائے گا تو اس کا علاج ہے فلاں دہی کھائے گا یہ ٹھیک ہو جائے گا تو یہ بگڑے ہوئے اخلاق ہیں، اخلاق کے نام کچھ ٹیڑھی عادتیں بن گئی ہیں.مسلمان کا اخلاق خواہ مشرق کا ہو خواہ مغرب
خطبات طاہر جلدا 529 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء کا ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا اور اسی کا نام تو حید خالص ہے ، وہ خلق جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں عطا کیا ہے آپ کے معراج کا ہے.جیسا کہ قرآن میں فرمایا ہے لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (النور: ۳۶) یہ خدا کا نور مجسم حضرت محمد مصطفی ﷺ ایسا نور ہے جو نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کا ہے سب میں یکساں.وہ احمدی جس نے تمام دنیا کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دینی ہے اُسے اسی نور سے وابستہ ہونا پڑے گا.اسی کے قدموں سے وہ تعلیم حاصل کرنی پڑے گی جود نیا کے اخلاق کو چمکاسکتی ہے.یہ بالکل پرواہ نہ کریں کہ دنیا آپ کو کیا طعنے دیتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی تم ان کی ہدایت کے تابع ہو، وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو آپ کے اخلاق کو اور آپ کی زندگیوں کو سنوار سکتی ہیں.تمام عالم کو ایک ہاتھ پہ اکٹھا کرسکتی ہے.پس کھانے کے معاملات میں بھی کوئی ایسی بیہودہ بات نہیں ہونی چاہئے جو اسلام پر طعنے کا کسی کو موقع دے.کھانا کھا ئیں اتنا ڈالیں جتنا آپ کھا سکتے ہیں.ایسے مطالبے نہ کریں جس کے نتیجے میں آپ کے دوسرے بھائیوں کو تکلیف ہو، ایسے مطالبے نہ کریں جس کے نتیجے میں رزق ضائع ہو.بعض لوگ روٹیاں اس طرح کھاتے ہیں کچھ بیچ میں سے کھالی اور کچھ کنارے سے پھینک دی.چن چن کے بعض ٹکڑے کھائے اور بعض ضائع کر دیئے ، یہ سب وہ ضیاع ہیں جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتے.ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی اگر آج کی ترقی یافتہ قومیں پرواہ کریں تو ساری دنیا کے رزق کے مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر پر واہ نہیں کرتے.پانی ہے تو پانی ضائع کیا جا رہا ہے.اس کثرت سے پانی ضائع کرتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح مجھے عادت ہے.آنحضور ﷺ کی تعلیم کے نتیجے میں کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں تو جس طرح میں پانی سنبھال کر استعمال کرتا ہوں یعنی ٹوٹی بہتی چلی آرہی ہے منہ پر چھینٹے گرے جارہے ہیں.منہ صاف کر کے دوبارہ ہاتھ آگے بڑھایا.میں تو یہ کرتا ہوں کہ جہاں تک بس چلے ٹوٹی بند کر کے پھر پانی استعمال کرتا ہوں یا پھر برتن رکھ لیتا ہوں اُس میں پانی ڈال کر اُس سے لیتا ہوں.اگر سارا انگلستان اس قسم کی نہ کوئی بالکل میرے جیسی عادت اپنا لے کہ پانی کو ضائع نہیں ہونے دینا.آج تو سیورج کا گندہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں وہ ساری مجبوریاں ختم ہو جائیں، اتنی بیماریوں سے بچیں اور یہ سوچ بھی نہیں صلى الله سکتے.ان سارے مسائل کا حل چودہ سو سال پہلے حضرت محمدمصطفی ہو دے چکے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 530 خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۲ء ابھی کل ہی ٹیلیویژن پر ایک پروگرام کی جھلکی میں نے دیکھی یا پرسوں کی بات ہے اُس میں یہ پانی کی بحث چل رہی تھی.ایک صاحب جو بڑی دیر کے بعد انگلستان تشریف لائے تھے ، میرے ملک کا تم نے کیا حال کر دیا ہے، مجھے تو وحشت ہونے لگی ہے، میں افریقہ کے ملک میں اتنی مدت رہ کے واپس آیا ہوں جس کا پانی تم گندہ کہتے ہو وہ تمہارے پانی سے بہتر ہے کیونکہ لندن میں جو پانی پینے کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ وہی ہے جو ہماری گندگیوں کا پانی دوبارہ صاف کر کے پینے والے پانی میں ملا دیا جاتا ہے.اُس نے اُس میئر کو کہا کہ مجھے تو وحشت ہونے لگی ہے.میں بوتل کے پانی کے سوا جو سکاٹ لینڈ سے آتا ہے اور پانی تو استعمال ہی نہیں کر سکتا لیکن رونا تو یہ تھا کہ تم نے میرے ملک کا کیا بنا دیا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عادتیں غلط ہیں، بے پرواہی ہے رزق سے، پانی سے، خدا کی ہر نعمت سے اور پولوشن کی وجہ سے دنیا مصیبت میں مبتلا ہے لیکن کوئی ہوش نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم آپ کو تمام عذاب سے بچا سکتی ہے، تمام مصیبتوں سے نجات بخشتی ہے غور تو کر کے دیکھیں کتنی عظیم اور کتنی تفصیلی تعلیم ہے، زندگی کے ہر گوشے پر نظر رکھتی ہے.سوائے اس کے کہ کوئی اللہ کے نور سے کلام کر رہا ہو اس تفصیل سے انسان کی بہبود کی تعلیم نہیں دے سکتا.پس آپ نے وہ نیک نمو نے یہاں لوگوں کو دکھانے ہیں خدا اور اُس کے رسول کی خاطر ، اپنی ریاء کی خاطر نہیں.آپ صیقل ہو کے دنیا کے سامنے چمکیں گے تو اسلام چمکے گا، خدا اور خدا کے رسول کی شان بلند ہو گی.اس نقطہ نظر سے آپ اپنا خیال رکھیں اور اپنے اخلاق کی تربیت کریں اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ غلط جگہ پر کاریں پارک نہ کی جائیں جو رستوں کے حقوق کے خلاف بات ہے.بعض دفعہ ہماری مسجد لندن کے ہمسایوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے اور بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.لکھ کر بھیجتے ہیں کہ ہماری کار کے سامنے کوئی نمازی آنے والا کا ر اس طرح پارک کر گیا ہے کہ ہماری کار ہل نہیں سکتی.ہمارے گیٹ کے سامنے اس طرح کا ر کھڑی کر گیا ہے کہ ہم اپنی کار خود اپنے گھر میں داخل نہیں کر سکتے.اعلان کروانے پڑتے ہیں، کاروں کے نمبر بتانے پڑتے ہیں، پھر کوئی صاحب جاتے ہیں لیکن اُن کو ہوش کرنی چاہئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رستے کے آداب ہمیں سکھائے ہیں یہ اُن کے خلاف ہے.آپ کو ہمسائے کا بھی خیال رکھنا ہو گا ، اپنے دوسرے مسافر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 531 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء ساتھیوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا.پھر نا واجب شور جو بعض دفعہ عشاء کی نماز کے بعد جب نمازی فارغ ہوتے ہیں تو باہر باتیں کرتے ہیں اُس کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.آنحضور ﷺ نے اس کی بھی پیش بندی فرما دی ہے.کوئی ایک بار یک سا بھی حصہ اخلاق کا ایسا نہیں ہے جس کے متعلق آنحضور ﷺ کی تعلیم نہ ملتی ہو.آپ نے فرمایا نماز عشاء کے بعد اپنے گھروں کو لوٹا کرو ا اور ذکر الہی کیا کرو اور پھر مجلس سے اجتناب کیا کرو لیکن اُس کے بعد مجلسیں لگانا جو عربوں کا خصوصیت سے دستور تھا اس کو آپ نے سخت نا پسند فرمایا.نصیحت فرمائی کہ ایسی مجلسیں خدا کو پسند نہیں ہیں.یہ تو میں نہیں کہتا کہ گھروں میں جب بھی آپ بیٹھتے ہیں تو جو مجلس لگاتے ہیں وہ خدا کو نا پسند ہے.جن مجالس کا آنحضور ﷺ ذکر فرماتے تھے وہ مجالس اور رنگ کی مجالس ہوا کرتی تھیں.وہاں اپنے خاندان کی بُرائیاں بیان ہوتی تھیں اور فضول تکبر کی باتیں ہوتی تھیں اور شرا ہیں چلتی تھیں اسی قسم کی بدعات ہوتی تھیں، جوئے کھیلے جاتے تھے تو اُن سے کلیڈ پر ہیز ویسے ہی ہر احمدی پر لازم ہے لیکن آپ نے نماز کے بعد اگر کوئی مجلس لگانی ہے جس میں اچھی باتیں بھی ہوسکتی ہیں، پاک باتیں بھی ہو سکتی ہیں.دیر سے آئے ہیں دیر کے بعد ملیں گے دن کو وقت نہیں ملتا.رات کو چند منٹ یا ایک دو گھنٹے بیٹھ کر تبادلہ خیالات کرنا اُس طرح منع نہیں ہے جس طرح میں نے بیان کیا ہے.اُس زمانے کی مجالس گناہ بن جایا کرتی تھیں.مگر سڑکوں پر آپ کو یہ حق نہیں ہے، مسجد کے صحن میں آپ کو حق نہیں ہے.یہ حق تو کسی طرح نہیں ہے کہ آپ کے گھر کا شور آپ کے ہمسائے کی نیند خراب کرے کجا یہ کہ مسجد سے شور اس طرح بلند ہو کہ ہمسائے تو بہ تو بہ کرنے لگیں اور وہ ہمیں طعنے بھیجیں کہ آپ کی مسجد کیسی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بچے آرام نہیں کر سکتے ہمیں سکون میسر نہیں ہوتا، بے وقت کا شور ہے تو اس بات کی احتیاط کریں.یہاں سے جب ہم فارغ ہوں گے تو بہت سی نمازیں ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ مسجد لندن میں ادا کی جائیں گی.وہاں آپ میں سے جو توفیق پائیں گے آنے کی یا درکھیں کہ وہاں آپ کو ہرگز اونچی آواز میں گفتگو کی اجازت نہیں ہے، خدا نے اجازت نہیں دی اور اس کے نتیجے میں اگر ہمسائے کو تکلیف پہنچے گی تو آپ اس کے ذمہ دار ہیں اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے.اپنے بچوں کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 532 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء سنبھال کر رکھیں.بچے بعض دفعہ بے قابو ہو جاتے ہیں بے وجہ شور کرتے ہیں ، دوڑتے پھرتے ہیں اور حرکتوں کے ساتھ بھی نظر کو تکلیف دیتے ہیں ،شور کے ساتھ کانوں کو تکلیف دیتے ہیں اُن کو سنبھالنا اور نظم وضبط میں رکھنا ہر آنے والے کا فرض ہے.پھر آپ لندن کی گلیوں میں پھریں گے ، دوکانوں میں جائیں گے، وہاں حسن خلق کا مظاہرہ کریں.بعض باتوں میں مشرقی لوگ سخت بد نام ہیں.ان باتوں سے اجتناب کریں احمدی کے متعلق میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ چوری کرے گا لیکن آپ کو بعض لوگ اس نظر سے دیکھ رہے ہوں گے کہ گویا آپ چوری کرنا چاہتے ہیں اور اُس کی وجہ سے آپ کی نگرانی بھی ہوگی.آپ پوری احتیاط کریں کہ کسی شک کے مقام پر نہ پڑیں، کسی کو وہم بھی نہ آئے کہ آپ کی حرکت مشکوک ہے اُس کے نتیجے میں آپ کی نگرانی کی ضرورت ہے.پھر وہ گفتگو میں حسن سلوک سے کام لیں.جہاں تک چوریوں کا تعلق ہے اس ضمن میں میں یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ جب ایسے اجتماعات ہوتے ہیں جہاں خدا کے نیک بندے اکٹھے ہوں ، وہاں بعض شریر اس نیت سے بھی آ جایا کرتے ہیں کہ بھولے بھالے لوگ ہیں اس لئے موقع سے فائدہ اٹھاؤ اُن کی جیبیں کتر و، اُن کے چھوڑے ہوئے سامان چرالو کیونکہ آنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے پاکیزہ ماحول میں ہم آئے ہیں یہاں چوری کا سوال ہی نہیں لیکن یہ بھی بھولا پن ہے، ان کی سادگی ہے.مومن سے مومن محفوظ ہے لیکن شریر سے مومن محفوظ نہیں، اُس کو خود محفوظ ہونا پڑے گا، یہ خیال رکھنا پڑے گا.اتنے بڑے ہنگاموں میں ضرور ایک نہ ایک شریر آدمی بھی داخل ہو جایا کرتا ہے.ہم نے بارہا یہ دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگ جو نہ صرف یہ کہ جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے ، اُن کو بلایا نہیں گیا تھا بلکہ باہر سے شرارت کی نیت سے آئے تھے یہ بھی کسی نہ کسی طرح ٹکٹ لے کر ہمارے اس نظام میں داخل ہو گئے.اگر وقت پر پکڑا نہ جاتا تو بہت بڑا نقصان بھی پہنچا سکتے تھے.تو اپنی چیزوں کی حفاظت کریں آپ بھی تو اپنے آپ سے امن میں رہنا چاہئے اس لئے آپ کی فراست کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے مال کی پوری طرح حفاظت کریں خواہ مخواہ کسی دوسرے کو ابتلاء میں نہ ڈالیں، نہ خود ابتلاء میں پڑیں.پچھلی دفعہ یہ شکایتیں پیدا ہوئی تھیں کہ کوئی شریر گروہ لڑکوں کا ایسا آ گیا تھا جو عورتوں میں داخل ہو گئے تھے وہاں بھی چوریاں کیں، مردوں میں بھی بعض دفعہ بڑی بڑی رقموں کا نقصان پہنچایا اس کے لئے آپ سب کو نظر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 533 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء رکھنی چاہئے مومنوں کے متعلق یہ بالکل غلط تصور ہے کہ مومن بدو حال ہوتا ہے.آنحضور ﷺ یہ کہتے ہیں کہ مومن بدو ہوتا ہے وہ مومن پتا نہیں کہ کون سا بدو ہوتا ہے.جو مومن ہم نے حضرت محمد مصطفیٰ کی زبان سے سنا ہوا ہے.وہ تو یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں مومن کی فراست سے ڈرو وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے ( ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر :۳۰۵۲) وہ بدو نہیں ہوا کرتا وہ دلوں کے حال بھی پڑھ لیتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی امی یہ مومن کی فراست بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں وہ ان کی پیشانیوں سے ان کے دلوں کے حال جان لیتا ہے.جو واقعہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کا سنایا تھا وہ ایک واقعہ نہیں ایسے بے شمار واقعات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی میں گزرے ہیں کہ چہرہ دیکھتے تھے اور پہچان جاتے تھے.بات سنتے تھے اور پہچان لیتے تھے.پس جس آقا کے آپ غلام ہیں اُس سے فراست سیکھئے.آپ سے تو چوری کی توقع نہیں لیکن چوروں کو آپ سے بہت توقعات ہیں، اُن توقعات کو جھوٹا کر دیں، اُن کو رد کر دیں، نامراد بنا دیں، اپنے مال کی بھی حفاظت کریں، اپنے بھائی کے مال کی بھی حفاظت کریں غرضیکہ جو دن یہاں گزریں گے بہت ہی پاکیزہ ماحول میں گزریں.نمازوں کا خیال رکھیں قرآن کریم نے توحید کے عقیدے کے بعد سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا ہے وہ عبادت کا قیام ہے.پس آپ پر فرض ہے کہ جتنی دیر یہاں ٹھہریں عبادت کو اولیت دیں.بعض دفعہ ایسی شکایتیں ملتی ہیں کہ بعض نئے احمدی مثلاً مجھے بتاتے ہیں کہ ہم اُٹھے نماز کے لئے گئے ، تہجد پہ گئے تو خیال آیا کہ نوجوان سوئے ہوئے ہیں، نماز پہ آجائیں گے لیکن جب واپس آ کے دیکھا تو نماز کے بعد بھی ویسے ہی سوئے ہوئے تھے.یہ جو چند دن ہیں غفلت کی حالت میں بسر نہیں ہونے چاہئیں.میں جانتا ہوں کہ مسافرت میں ایسے حالات ہوتے ہیں کہ انسان تھک جایا کرتا ہے، بعض دفعہ نیند غلبہ کر لیتی ہے لیکن یہ تو استثنی ہیں.روزمرہ کی باتیں تو نہیں روزمرہ کی زندگی میں آپ کو نماز کا نگران اور محافظ رہنا چاہئے اور اس کردار کا یہاں مظاہرہ ہونا چاہئے ،مظاہرے کی خاطر نہیں بلکہ طبعی حالت کے طور پر وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے آپ کی زندگی کا جز بن چکی ہو.نمازوں کو اولیت دیں جب اذان کی آواز آپ کے کانوں میں پہنچے تو جلد از جلد دوسرے کاموں کو چھوڑ کر خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسجد کی طرف دوڑیں.صبح بھی اٹھیں تو محبت اور پیار کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو اٹھا ئیں.آنحضرت ﷺ کا دستور یہ تھا کہ جب آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی نیند سے
خطبات طاہر جلدا 534 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء مغلوب ہو تو نرم ہاتھوں کے ساتھ پانی کے چھینٹے دیا کرتے تھے ( ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوۃ : ۱۳۲۵) اس طرح اُس کی آنکھ کھل جائے.جو بھی طریقہ ہے اخلاق کا طریقہ ہونا چاہئے ، گالی گلوچ کا نہیں، طعن و تشنیع کا نہیں ، وہ صاحب جنہوں نے مجھے لکھا تھا ایک موقع پر میں نے اُن کو بھی سمجھایا تھا کہ آپ اب غیر نہیں ہیں ، آپ تو احمدی ہو چکے ہیں آپ کو کیسے خیال آیا کہ پاکستان کے احمدی آپ سے زیادہ اسلام پر حق رکھتے ہیں، اسلام تو سب کا ہے اگر آپ نے اپنے کمزور بھائی کو دیکھا تو محبت اور پیار سے اُس کو سمجھانا چاہئے تھا پانی کے چھینٹے دیتے ، اس کی منت کرتے ، اسے کہتے کہ میاں تم خوش نصیب ہو کہ اسلام میں پیدا ہوئے تمہیں تو چاہئے تھا کہ تم مجھے اسلام سکھاتے ، میں بعد میں آنے والا ہوں اور میں تمہیں سکھا رہا ہوں.غرض کہ تمہارے لئے ٹھوکر کا کوئی سوال نہیں تھا اگر تم ٹھوکر کھاتے ہو انسانوں سے تو تم ابھی تک خدا کے نہیں ہوئے ، جو خدا کا ہو جائے اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا لَا انفِصَامَ لَهَا ( البقرہ:۲۵۷).ایسے بِالْعُرُوَةِ پر اُس نے ہاتھ ڈال دیا ہے کہ مضبوط کڑے پر اُس کا ہاتھ پڑ چکا ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت اُس ہاتھ کو تو ڑ نہیں سکتی، کسی انسان کی اخلاقی کمزوری اُس کے دین کو نقصان پہنچا نہیں سکتی.پس اپنے دین کو ایسا مضبوط بنائیں کہ کسی شخص کا گندے سے گندا کردار بھی آپ کو متزلزل نہ کر سکے اور اپنے دین کو ایسا بنا ئیں کہ ڈولتے ہوؤں کو سنبھالیں اور اُن کو سہارا دیں.کسی نے کیا خوب کہا ہے.ہے نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو تب ہے گرتوں کو تھام لے ساقی پس آپ بھی گرتوں کو تھامنے والے بنیں دنیا کو گرانے والے نہ بنیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین ثم آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 535 خطبه جمعه ۷ را گست ۱۹۹۲ء جھوٹ سے کلیہ پر ہی توحید کامل سے تعلق جوڑنے کے مترادف ہے.جھوٹ سے بچیں اور دنیا کو بچائیں اسی میں ہماری نجات ہے.( خطبه جمعه فرموده ۷/اگست ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی.وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان :۷۲ تا ۷۳) پھر فرمایا:.چند خطبات پہلے تبتل الی اللہ کا مضمون بیان ہور ہا تھا اور میں نے بیان کیا تھا کہ تبتل الی الله کا توحید سے بہت گہرا تعلق ہے.انسان اس وقت تک موحد نہیں ہوسکتا.حقیقت میں ایک خدا کا عبادت کرنے والا نہیں کہلا سکتا جب تک پہلے لا الہ کا مضمون سمجھ کر ہر جھوٹے خدا کا انکار نہ کر دے.پھر اس پر خدا کی وحدت کا رنگ جمتا ہے اس کے بغیر محض فرضی طور پر انسان موحد کہلاتا ہے حقیقت میں توحید کے فلسفہ اور اس کی روح سے لا بلد رہتا ہے.چونکہ یہ ایسا مضمون ہے جس کا روز مرہ کی زندگی میں ہر انسان کا گہرا تعلق ہے محض فلسفیانہ بیان کافی نہیں ہے کیونکہ مختلف قسم کے انسان ہیں.ایک بات ایک ذہین اور تعلیم یافتہ انسان کو سمجھ آجاتی ہے، ایک عام آدمی کو سمجھ نہیں آسکتی.اس لئے جہاں تک معارف قرآن کا تعلق ہے ان کا لطف
خطبات طاہر جلدا 536 خطبه جمعه ۷۷اگست ۱۹۹۲ء اٹھانے کیلئے بھی کچھ مزاج کی پاکیزگی اور لطافت ہونی ضروری ہے لیکن اُن پر عمل کرنے کیلئے بہت زیادہ گہری لطافت اور گہری سوچ کی ضرورت ہے.جسے عام طور پر عوام الناس نہیں سمجھ سکتے یا اُن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ صلاحیتیں عطا نہیں ہوتیں کہ اُن بار یک باتوں کو سمجھ سکیں مگر قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو ہر چھوٹے بڑے کے لئے ہے.اس میں نہایت لطیف مضامین بھی ہیں جو نہایت اعلیٰ درجے کی سوچ اور فہم کا تقاضا کرتے ہیں اور سادہ اور کھلے کھلے مضامین بھی ہیں اسی لئے اس کتاب کو چھپی ہوئی کتاب بھی فرمایا گیا اور کھلی کھلی کتاب بھی فرمایا گیا.یہی حال حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی خوبیوں کا ہے.ایک عام بالکل سادہ ان پڑھ انسان دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو وہ آپ کی خوبیوں سے اس حد تک آگاہ ہو جاتا ہے کہ بے اختیار اس کا دل آپ کی محبت میں اچھلنے لگتا ہے لیکن یہ کہنا کہ میں نے حضرت محمد مصطفی امیہ کے حسن کو پالیا ہے اور پورے عرفان کے ساتھ میں آپ پر عاشق ہوا ہوں یہ بہت بڑی بڑ ہے سوائے اس کے کہ اللہ کسی کو واقعۂ نور عطا فرمائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جن آنکھوں سے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا ان آنکھوں کو نور عطا کیا گیا تھا جو حضور اکرم ﷺ کے نور کی نہایت اعلیٰ پاکیزہ لطافتوں کو شناخت کر سکتا تھا اس لئے قرآن کی طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ایک کھلی کھلی کتاب بھی ہیں اور ایک چھپی ہوئی کتاب بھی ہیں.تو جب توحید کا مضمون بیان ہو تو اس کے پیچ در پیچ باریک معارف کا بیان بھی ضروری ہے اور ایسی کھلی باتیں بھی بتانی ضروری ہیں جو ہر سطح کے انسان کی سمجھ میں آسکیں اور وہ اس کے مضامین سے استفادہ کر سکے.پس میں نے یہ آج کے خطبہ کے لئے جو موضوع چنا ہے کہ کون کون سی چیزیں جن سے تبتل اختیار کیا جاتا ہے اور توحید کی طرف سفر کے لئے کن کن چیزوں کا چھوڑ نا ضروری ہے.ان میں سب سے پہلے جھوٹ ہے.تمام برائیوں کی جڑ سب سے بڑا وہ گناہ جو قرآن کریم کے نزدیک شرک کا درجہ رکھتا ہے اور جسے نجاست قرار دیا گیا ہے اور یہ ایسا گناہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور ایک ایسا گناہ ہے جس کو بچے بھی لاعلمی میں اختیار کر جاتے ہیں اور جس سے بچنے کیلئے بہت بار یک در باریک راہ سے نیچے اترنا پڑتا ہے.پس اس مضمون کو سمجھانے کیلئے میں آج انشاء اللہ تعالیٰ پوری کوشش کروں گا اور اگر آج یہ مضمون ختم نہ ہوا تو اگلے خطبے میں اسی کو جاری رکھا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 537 خطبہ جمعہ ۷ را گست ۱۹۹۲ء قرآن کریم مومن کی شان یہ بیان فرماتا ہے.وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا جو شخص توبہ کرے اور نیک اعمال اختیار کرے، نیک عمل کرے فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا اور توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف تیزی سے جھکتا ہے.یہ مضمون جو تبتل کا مضمون ہے لیکن دوسرے لفظوں میں بیان ہوا ہے.تبتل الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کے غیر کو چھوڑو اور خدا کی طرف دوڑو اور يَتُوبُ اِلَى اللهِ مَتَابًا بالکل وہی معنی ہے صرف دوسرے الفاظ میں موقع اور محل کے مطابق اس مضمون کو بیان فرمایا گیا اور اس کی تشریح انگلی آیت میں ہے.اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے تیزی سے جھکنا کس کو کہتے ہیں؟ وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّوْرَی ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو جھوٹ کو دیکھتے بھی نہیں يَشْهَدُونَ الزُّوْرَ کا ایک مطلب ہے جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، ایک یہ ہے کہ اس پر نگاہ تک نہیں ڈالتے.اس کو مکر وہ سمجھتے ہیں ،اس سے دور بھاگتے ہیں.چنانچہ اسی مضمون کی تشریح آگے ہے.وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِمَرُ وا كِرَامًا جھوٹ کی ادنیٰ قسموں سے بھی پر ہیز کرتے ہیں.لغو باتیں جھوٹ کی ایک قسم ہے لیکن بالکل معمولی سی قسم ہے تو جب وہ لغویات کی مجالس کو دیکھتے ہیں تو اس میں ان کو کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی.مَرُّ واکر اما عزت کے ساتھ اپنا دامن بچاتے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو سچی توبہ کرنے والے ہیں اور اللہ کی طرف دوڑتے ہیں.پس جھوٹ سے بچنا اولیت رکھتا ہے تبتل اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.ہر دوسری چیز کو خدا کی خاطر آپ قربان کر دیں اور جھوٹ سے دامن نہ بچائیں تو بار یک اصطلاح میں آپ مشرک ہی رہیں گے اور وہ لا الہ کی پہلی منزل ہی طے نہیں ہوگی جس کے بعد الا اللہ اثبات ہوتا ہے.اس ضمن میں جھوٹ کی بہت ہی ضرورتیں، بہت سی قسمیں ہیں ان سے متعلق مختصر میں آپ کے سامنے ایک ایک پہلو بیان کروں گا.ایک ایسا انسان ہے جسے روزمرہ عا دتا جھوٹ کی عادت ہوتی ہے.روزمرہ کی زندگی میں جھوٹ اس کی عادت بن جاتا ہے اور اسے خیال بھی نہیں آتا کہ میں جھوٹ بول رہا ہو.سیچ شاذ کے طور پر اس کے منہ سے نکلتا ہے اور عام باتوں میں بیہودہ سرائی اور جھوٹ بولنا روزمرہ کی زندگی کا مشغلہ بن جاتا ہے.یہ ایسا شخص ہے جو غفلت کی حالت میں زندگی گزارتا ہے اسے جھوٹ سے نکالنا سب سے مشکل کام ہے.جن بری چیزوں کی عادت پڑ جائے اپنی نگاہ ان سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 538 خطبه جمعه ۷ را گست ۱۹۹۲ء غافل ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ بیماریاں بھی جو موذی ہو جائیں.بیماریاں ہونے کے باوجود انسانی جسم ان سے غافل ہو جاتا ہے.حضرت مصلح موعود قادیان کے ایک سادہ مزاج انسان کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس کو بے خیالی میں بچپن سے عادت پڑی ہوئی تھی کہ ارادہ نہیں مگر بے خیالی میں گالیاں دیتا تھا.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا دیکھو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم گالیاں بہت دیتے ہو تم ویسے تو ایک نیک انسان ہو اپنی زبان تو صاف کرو.تو اس نے بہت گالیاں دیں اس جھوٹے کو جس نے جھوٹ اس کی طرف منسوب کیا تھا.اس نے کہا بد بخت ، بد نصیب، یہ وہ فلاں اور فلاں، بڑا جھوٹ بولتا ہے جو کہتا ہے کہ میں گالیاں دیتا ہوں.آپ کو کسی خبیث نے جھوٹی اطلاع دی ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے کہا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے تمہارا کوئی قصور نہیں تم اس چیز سے باز آؤ.تو بعض عادتیں ایسا قبضہ کر جاتی ہیں کہ انسان کی اپنی نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں.جوان عادتوں کو پالنے والا ہے، جس کے اندر جنم لے رہی ہوتی ہیں.جھوٹ جب یہ صورت اختیار کر جائے تو یہ سب سے خوفناک بیماری ہے جس سے کسی کو نکالنا بہت مشکل ہے.میں نے بھی اپنے روزمرہ کے تجربوں میں دیکھا ہے کئی فریق ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں ان کے جھگڑے آتے ہیں تو جس شخص کو جھوٹ کی عادت ہو تو اسے سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور بعض عادی جھوٹے اتنے ہیں کہ اگر ان کو کہا جائے کہ جھوٹ بولتے ہو تو مشتعل ہو جاتے ہیں کہتے ہیں اور جو کچھ کہو مجھے جھوٹانہ کہنا آئندہ سے کبھی ، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جو جھوٹ ہے یہ ہماری زندگی کی دوسری سرشت بن چکا ہے.اپنے ملک میں جا کے دیکھیں سیاست جھوٹی ، تجارت جھوٹی ،عدالت جھوٹی ، زندگی کا کوئی شعبہ نہیں ہے جہاں جھوٹ جاری نہ ہو.روز مرہ کے تعلقات جھوٹے ، ایک دوسرے سے محبت کے تذکرے جھوٹے.ہر بات بناوٹ پر جھوٹ پر مبنی ہے اور اسی وجہ سے قوم کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کتنے بیمار ہو چکے ہیں.تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو بھی قبول نہیں ہو سکتی تمہاری اگر تم جھوٹ نہیں چھوڑتے اور بچی تو بہ کرنے والا تو وہ ہے جو جھوٹ کے ثانوی درجے کو بھی چھوڑ دیتا ہے اور اس کے تیسرے، چوتھے ، پانچویں درجے کو بھی چھوڑ دیتا ہے.یہاں تک کہ لغو بات براہ راست جھوٹ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 539 خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۹۲ء نہیں ہے لیکن جھوٹ کی ایک قسم ہے وہ اس سے بھی اعراض کرتا ہے اور لغو مجلس کو دیکھتا ہے تو منہ موڑ کر عزت کے ساتھ اپنا دامن بچاتے ہوئے وہاں سے نکل جاتا ہے.تو ایک وہ جھوٹ ہے.دوسرا جھوٹ وہ ہے جو ضرورت کے وقت بولا جاتا ہے.اس جھوٹ میں لالچ کے نتیجے میں بھی انسان ملوث ہو جاتا ہے اور کسی خوف کے نتیجے میں بھی انسان ملوث ہو جاتا ہے اور اس مضمون کے بالکل برعکس ہے کہ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجدة : ۱۷) کہ مومن وہ ہیں جن کو خوف ہو تب بھی وہ رب ہی کو پکارتے ہیں اور حرص ہو کوئی چیز پانے کی تب بھی اپنے رب ہی کو پکارتے ہیں.یہ ایک بہت اعلیٰ پہچان ہے اور بڑی قطعی پہچان ہے کہ کوئی انسان موحد ہے کہ توحید سے ہٹا ہوا ہے.جب حرص کا موقع پیدا ہو اگر اس کا خیال اپنے رب کی طرف جائے اور ہر ایسی چیز سے صرف نظر کر لے خواہ کیسی ہی اس کی تمنا ہو جو خدا کے علاوہ کسی اور در سے ملتی ہو.جو خدا کو چھوڑ کر نصیب ہوتی ہو.یہ ایک موحد کی شان ہے اور جب خوف کا وقت آئے اگر اللہ کا خیال پہلے آیا ہے اور اسی کی طرف انسان جھکا ہے تو وہ موحد ہے لیکن خوف کے وقت اگر دماغ میں یہ خیالات کروٹیں لینے لگتے ہیں کہ اس خطرے سے میں کیسے بچوں گا، کیا جھوٹا بہانہ بناؤں، کیا کیا سازشیں کروں ،کس کا دامن پکڑوں،کس سے سفارش کرواؤں یہ سارے ایک مشر کا نہ طریق ہیں جن کا توحید سے تعلق نہیں ہے.اب اس مضمون کو بھی آپ دیکھیں تو روز مرہ کی زندگی نے انسانی معاشرے میں یہ جھوٹ بھی پوری طرح چھایا ہوا ہے.یعنی جھوٹ کی اس قسم میں بھی بڑے، چھوٹے ، اچھے ، بُڑے سارے ملوث دکھائی دیتے ہیں.یہاں تک کہ بعض احمدی نوجوانوں کے متعلق بھی یہ دیکھ کر سخت تکلیف پہنچتی ہے.روزمرہ کی زندگی میں سچ بولتے ہیں اگر کہیں اپنا مطلب پیش آجائے ، چاہے Asylum لینا ہوں یا کسی خطرے سے کسی بدی سے بچنا ہو تو پہلے دماغ میں جھوٹ کی ترکیب آتی ہے کہ اچھا ہم یہ کرتے ہیں کہ پاسپورٹ بنوا لیتے ہیں اور جا کر کہیں گے کہ گم گیا تھا اور یہ کہہ دیں گے کہ ہم جرمنی سے نہیں آئے ہم تو سیدھا پاکستان سے آرہے ہیں.اگر جرمنی سے آئیں گے تو دوسرے ملک والے کہہ دیں گے کہ اس طرح تو تم پہلے جرمنی پہنچے تھے ان کا کام ہے Asylum دیں یا نہ دیں ہمارے پاس کیا کرنے آئے ہو.انگلستان آئے اور کسی اور جگہ پہنچے اور جاکے یہ بیان دے دیا کہ ہم تو سیدھا پاکستان سے آرہے ہیں.یہ ساری باتیں جھوٹ ہیں اور خدا کے سوا کسی اور کو رب بنانے والی بات ہے.پس جب اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلدا 540 خطبہ جمعہ ۷ را گست ۱۹۹۲ء قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجده: ۳۱) وہ لوگ جو خدا کو رب کہتے ہیں اور پھر استقامت اختیار کرتے ہیں پھر کسی اور رب کی طرف نہیں جھکتے یہی وہ لوگ ہیں جن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو تم غم نہ کرو تم نے ٹھیک دامن پکڑا ہے.وہی رب ہے وہی رب اعلیٰ ہے اور وہی تمہاری ربوبیت کے سارے سامان کرے گا لیکن جب ایک انسان خدا کو چھوڑ کر جھوٹ کا دامن پکڑ لیتا ہے اور عملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ ہمارا رب جھوٹ ہے اور اس جھوٹے خدا کے ذریعے ہمیں مشکلات سے نجات ملے گی.اب اس کا رستہ الگ اور خدا کا رستہ الگ پھر اگر وہ مصیبتوں میں پڑتا ہے تو وہ مصیبتیں بھی ابتلاء نہیں بلکہ ہلاکت کی مصیبتیں ہیں اگر اسے رزق بھی مل جاتا ہے تو وہ ایک بداور بد بنانے والا رزق ہے.اس کا شیطان سے تعلق ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں.کیوں اپنی زندگی کو تباہ کرتے ہیں ایک جگہ جھوٹا سجدہ کر دیں بعض دفعہ ساری زندگی کیلئے انسان توحید سے محروم رہ جاتا ہے.تو جھوٹ کی عبادت کرنا بہت ہی خطر ناک شرک ہے اس سے ہر قدم پر بچنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر جب آزمائشوں کے دروازے سامنے کھڑے ہوں جن سے آپ چابی لگا کر بھی گزر سکتے ہیں، تو ڑ کر بھی گزر سکتے ہیں اس وقت اگر آپ تو حید کا دامن پکڑیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو وہ چابی عطا فرمائے گا.جس سے آپ کی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے اور اگر آپ جھوٹ کا دامن پکڑیں گے تو ان دروازوں کو توڑ کر جس جنت میں جانا چاہتے ہیں اس جنت کی بجائے وہی دروازہ جہنم کی طرف لے جائے گا.اس لئے ضرورت کے وقت ایک انسان کی آزمائش ہوا کرتی ہے اور اسی کا نام استقامت ہے.عام حالات میں سچ بولنا اس کا استقامت سے کوئی تعلق نہیں.حقیقت یہ ہے کہ سچائی فطرت کا حصہ ہے.سچائی کے بغیر انسان اپنی فطری تقاضے نہیں پورے کرتا.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ یہ مضمون سمجھایا تھا کہ سارے جانوروں کی دنیا میں سچ ہی سچ ہے.کوئی جانور جھوٹ نہیں بولتا اور جانور کے جھوٹ نہ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اداؤں، اس کی حرکتوں اور اس کے رد عمل سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس بیچارے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے.انسان ہے جس نے جھوٹ سیکھا ہے اور انسان ہی ہے جس کو خصوصیت سے ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جھوٹ سے بچو.اس لئے انسان جب جھوٹ بولتا ہے تو سوائے اس کے کہ کسی اور کو رب سمجھے اس کے جھوٹ کا کوئی مقصد نہیں
خطبات طاہر جلدا 541 خطبہ جمعہ ۷ را گست ۱۹۹۲ء ہے، کسی اور کو اپنا بچانے والا سمجھے تب جھوٹ بولتا ہے اور یہ جونیت کا فیصلہ ہے اس کو پہچانتا نہیں ہے،اس کو چالا کی سمجھتا ہے.کہتا ہے کیا خوب رہی.میں نے ایسی چالا کی کی کہ پتا نہیں لگنے دیا کہ کہاں سے آیا تھا لیکن یہ بھول گیا کہ اس چالا کی میں خدا کا رستہ چھوڑ گیا ہے.عجیب بیوقوفوں والی چالا کی ہے کہ ایک ایسی منزل پالی جو بالکل عارضی اور جو بے حقیقت اور بے معنی ہے اور ایک مستقل ٹھکانے کو قربان کر دیا.پس ہر وہ ابتلاء جس میں انسان کو سچ کی آزمائش ہو اس میں بیچ پر ثابت قدم رہنا اور اس پر قائم ہو جانا خواہ کچھ بھی ہو اس کا نام تو حید ہے اور تبتل کی ایک قسم ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ تبتل اختیار کرو اور اللہ کی طرف دوڑو تو مراد یہی ہے کہ ہر وہ چیز چھوڑ دو جو خدا سے دور لے جانے والی ہے.تو مضمون قرآن کریم نے کتنا سادہ اور صاف بیان فرما دیا ہے.اس میں کوئی بار یک در بار یک فلسفے نہیں ہیں.وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا جو بھی چاہتا ہے کہ تو بہ کرے، یعنی تو بہ کرتا ہے اور نیک اعمال اختیار کرتا ہے فَإِنَّهُ يَتُوبُ اِلَى اللهِ مَتَابًا پس اس کے لئے سوائے اس کے چارہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف جھکے اور اس کی طرف تمام تر جھک جائے.مجھے اطلاع ملی ہے کہ کچھ خرابی ہے ٹیکنیکل جس کی وجہ سے وہ تصویر تو صاف جاری ہے لیکن آواز صاف نہیں جارہی اس کا حل یہ کیا ہے کہ میں خطبہ لمبا کر دوں ، خطبہ لمبا بھی کر دوں تو پہلے 15 منٹ کہاں جائیں گے.وہ تو بہر حال ہو چکے، مسئلہ تو حل نہیں ہوگا اور نہ ہی اس لئے خطبہ لمبا کر دوں کہ پہلے 15 منٹ آواز نہیں گئی یہ تو لغو بات ہے جو مضمون ہے وہی بیان کروں گا جتنا ب ہے ایک خطبہ میں اتنا ہی بیان کروں گا.) تو میں بتارہا تھا کہ تبتل کے کتنے صاف پاکیزہ معنی ہیں.قرآن کریم نے کھول کھول کر بیان فرما دیئے کہ جھوٹ نہ بولا کرو تو بہ کرنی ہے تو جھوٹ کے ساتھ گزارہ نہیں ہوسکتا اور جھوٹ کی ادنی ادنی چیزوں کو بھی ترک کر دو.ادنی چیزیں جو ہیں جن کو لغو بیان فرمایا گیا ہے اس میں ہمیں ظاہر طور پر جو چیز دکھائی دیتی ہیں وہ گپ شپ ہے.عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ گپ مار دی جائے تو جھوٹ نہیں ہے اور لغو مجالس میں گئیں خوب چلتی ہیں.بعض دفعہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر مقابلے کرتے ہیں گیئیں مارنے کے کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ ہر دلعزیز بنتے ہیں اپنی طرف سے بعض دفعہ ایک واقعہ سناتے ہیں اور واقعہ میں مزا کوئی نہیں تو سمجھتے ہیں کہ مزا پیدا کرنے کے لئے
خطبات طاہر جلدا 542 خطبہ جمعہ ۷ را گست ۱۹۹۲ء کچھ نہ کچھ اپنی طرف سے یہاں لگانا ضروری ہے.بظاہر یہ ذاتی منفعت کے لئے نہیں ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اس میں تو کوئی ایسا جھوٹ نہیں ہے.یہ تو مجلس کا دل لگانے کی خاطر میں نے کیا لیکن اگر بار یک نظر سے دیکھیں تو اس میں ذاتی منفعت ہی کارفرما ہوتی ہے.ایک شخص جب بات کرے جس میں لذت پیدا نہ ہوتو وہ نفسیاتی لحاظ سے الجھن محسوس کرتا ہے، سمجھتا ہے میر اوہ مقام قائم نہیں ہوا، میرا وہ رُعب قائم نہیں ہوا، میں نے مجلس کے دل نہیں جیتے اس لئے سچ سے نہیں جیتے جاسکتے تو جھوٹ سے ہی سہی.وہ پھر غلط بات کا اضافہ کر دیتا ہے.وہ جو اپنے آباؤ اجداد کے متعلق باتیں بیان کرتے ہیں یہی مقصد ہوا کرتا ہے کہ آبا ؤ اجداد میں خوبیاں نہ ہوں تو ہم بنالیتے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ ان کی بڑھائی ہماری طرف بھی منتقل ہو.تو ہر جھوٹ کا ایک مقصد ہے اور بغیر مقصد کوئی جھوٹ نہیں بولا کرتا.لغو باتیں جھوٹ کا عنصر رکھتی ہیں.لغو باتوں میں بھی ایک ذاتی منفعت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور انسان ایک دوسرے پر چالا کیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور زیادہ چالاک اور زیادہ ہوشیار بن کرلوگوں پر ظاہر ہونا چاہتا ہے.جھوٹ کی ایک قسم ہے بہانے بنانا اور یہ بھی روزمرہ کی زندگی میں ملتی ہے اور بسا اوقات انسان کو جو سچ بولنے والا بھی ہو اس کو بھی محسوس نہیں ہوتا کہ میرا پہلا رد عمل ہے کیا.ایک شخص کسی ایسی حرکت میں پکڑا جاتا ہے جس سے اس کو خجالت ہوتی ہے، شرمندگی ہوتی ہے اور فوری طور پر اس کا نفس اس کے سامنے عذر گھڑ کے پیش کر دیتا ہے یہ کہہ دو، اس طرح اس کی توجیہہ کرو.ایک غلطی ہوگئی معمولی سی غلطی ہے کوئی سزا بھی اس کی نہیں ملتی لیکن انسان کا نفس اتنا اپنی عزت کا تحفظ کرتا ہے کہ جھوٹے بہانے کے ذریعے بھی تحفظ حاصل ہے تو وہ ضرور دے گا.چنانچہ ایک غلطی ہوئی اور فور دل نے بہانہ گھڑ لیا.اتنا بہانہ جو ہے انسان کا نفس کہ آپ روزمرہ کی باتوں میں غور کریں تو کسی موقع پر آپ نے کیا بات کیوں کہی تھی؟ آپ حیران ہو جائیں گے کہ لاعلمی میں آپ جھوٹے بہانے بناتے رہے.کاموں کے دوران انتظامی معاملات میں میں نے بسا اوقات دیکھا ہے کہ کسی سے پوچھا جائے کہ میاں یہ کام یوں کیوں ہو گیا ہے؟ تو پہلا رد عمل اس کا بہانہ بنانے کا ہوتا ہے بہت کم ایسے صاف گو ہیں جن کو قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ میری غلطی میری طرف منسوب ہوگی اور اس سے بچنے کا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں اس کے باوجود وہ کھل کر صاف کہتے ہیں ہاں یہ میری غلطی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 543 خطبہ جمعہ ۷ اگست ۱۹۹۲ء مگر روزمرہ کی زندگی میں انسان بہانے بہت بناتا ہے اور بہانہ بنانا پھر رفتہ رفتہ اُچھل کر کھلے کھلے جھوٹوں میں تبدیل ہو جاتا ہے.ضرورت کے وقت جو جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں وہ سب بہانہ جو ہوتے ہیں.کوئی ایسا شخص ضرورت کے وقت جھوٹ نہیں بولتا، جس کو بہانے بنانے کی عادت نہ ہو.وہ شخص جو بہانوں سے پاک ہے اس کے لئے جھوٹ کی جڑیں ہی نہیں ہیں.جو جھوٹ کی جڑیں ہوا کرتی ہیں انسانی فطرت میں جو کہ عام طور پر دکھائی نہیں دیتیں.جو جھوٹ باہر دکھائی دیتا ہے اس کی اندر بھی ضرور جڑیں ہیں ان جڑوں کو تلاش کریں تو پھر آپ کو باہر سے جھوٹ سے بچنے کے ذرائع میسر آسکتے ہیں چنانچہ اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے میری نظر بچوں تک پہنچی اور مجھے اندازہ ہوا کہ کیوں بعض ماں باپ آئندہ کیلئے جھوٹی نسلیں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں حالانکہ وہ سچ کی تلقین کرنے والے لوگ ہیں اور مزاج کے سخت بھی ہوا کرتے ہیں ، غلطیاں تو برداشت ہی نہیں کرتے اس کے باوجود ان کے بچے جھوٹے بن جاتے ہیں.تو ایسے بعض بچوں کے حالات پر خاندانوں پر نظر رکھ کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ حقیقت یہ ہے کہ بچوں پر ناجائز بختی جھوٹ پیدا کرتی ہے.اگر ایک بچے کو روز مرہ یہ پتا ہو کہ مجھے سے پلیٹ ٹوٹ جائے گی تو جوتیاں پڑیں گی.مجھ سے فلاں چیز غلط ہوئی تو گالیاں پڑیں گی یا مار پڑے گی یا مجھے ذلیل ورسوا کیا جائے گا.وہ ہر وقت دل میں بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے ذرا اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو ہیں تم نے یہ کیا کیا وہ فوراً کوئی بہانہ بنادے گا.پس بظاہر ماں باپ کچے ہیں ، بظاہر ماں باپ غلطیوں کی سرزنش کرنے والے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہم بہت ہی نیک اور پاک اولا د پیدا کر رہے ہیں لیکن یہ کوشش عملاً جھوٹی اولاد پیدا کرنے پر منتج ہو جاتی ہے.جس قسم کی عمر ہے اس قسم کا سلوک ہونا چاہئے اگر چھوٹی عمر میں آپ کو اتنی سختیاں کرنے کا حق ہے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو شریعت کا مکلف بنادیتا تو کون ہے آپ میں سے جو عذاب سے بچ سکتا ہے.تبھی آنحضور ﷺ نے سات سال کی عمر تک بچے کو نماز پڑھنے کیلئے بختی سے ہدایت دینے کی ہدایت نہیں فرمائی.فرمایا سات سال کا ہو جائے پھر پیار اور محبت سے اس کو سمجھاؤ اور شامل ہو جائے تو ہو جائے ، شامل نہ ہو تو نہ ہو.دس سال تک اس سے یہ سلوک کرو یہاں تک نماز کا تعلق اس کے دل میں رائج ہو جائے ، راسخ ہو جائے.تب پھر اس پر تھوڑی بہت سختی شروع کرو (ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر :۴۱۸ ) اور بارہ سال کے بعد جب وہ بلوغت کو پہنچتا ہے اس کے بعد اس کا معاملہ اور خدا کا معاملہ تم اس سے پیچھے ہٹ جاؤ.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 544 خطبہ جمعہ ۷ را گست ۱۹۹۲ء اس نصیحت میں گہری حکمتیں ہیں وہ لوگ جو بچوں سے چھوٹی باتوں پر سختی کرتے ہیں حالانکہ نماز کا ترک سب سے بڑی بات ہے.اس پر بھی آنحضور ﷺ نے بہت ہی محدود عمر کے زمانے میں محدود پیمانے میں سختی کی ہدایت فرمائی ہے.ایسے لوگ ایسے بعض باپ ہوں یا مائیں وہ بچوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور بعض ایسے نوجوان میں نے دیکھے ہیں ، نوجوان کیا بڑی عمر کے بھی ان کے بچپن کی ساری تصویر ان کے اس رجحان سے نظر آجاتی ہے تو بعد میں پوچھو یہ کیا ہوا؟ ایک دم دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور فوراً بہانہ بنانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اس سے ان بیچاروں کا دردناک بچپن کا منظر سامنے آجاتا ہے کیا بیچاروں پر گزری ہوگی بچپن میں اپنے گھروں میں کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں ماں باپ نے لعن طعن کی ہوگی یہاں تک کہ عادت پڑ گئی ہے جھوٹ بولنے کی.پس پہلے بہانے بنتے ہیں، پھر جھوٹ اور بہانے انسان کی نظر سے بعض دفعہ ایسی مخفی رہتے ہیں کہ اس کو پتا نہیں لگتا کہ بہانے کب جھوٹ کے بچے پیدا کر دیں گے.جس طرح اندھیرے میں بعض دفعہ سنڈیاں پلتی ہیں اور اس کے انڈے کچھ عرصہ تک پرورش پانے کے بعد تتلیوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.تتلیاں تو پر کے ساتھ اڑتی ہیں مگر جھوٹ کی سنڈیاں بے پر کے اڑتی ہیں اور ساری سوسائٹی میں نفرتیں اور گندگیاں پھیلا دیتی ہیں.تو ہو نہیں سکتا کہ آپ جھوٹے ہوں اور خدا سے تعلق قائم ہو جائے.جھوٹے کا جھوٹ سے تعلق قائم ہوگا.اسی لئے جھوٹوں کی خوابوں پر اعتبار نہیں ہوتا.جب کوئی خواب سناتا ہے تو میری ہمیشہ اس بات پر نظر ہوتی ہے کہ اس کا اپنا مزاج کیسا ہے اگر وہ سچا اور صاف آدمی ہے تو اس کی خواب کو میں بہت عظمت دیتا ہوں اور وہ خواب سادہ ہی ہواگر اور بسا اوقات بہت گہرے پیغام مل جاتے ہیں مگر جس کی روزمرہ کی زندگی کی عادت جھوٹ بولنا لغویات میں زندگی بسر کرنا ہے اس کو خواب بھی آئے گی تو ہوائے نفس کی.اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ شاذ سے تعلق ہوتا ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی جھوٹے کو سچی خواب نہیں آسکتی ہے لیکن شاذ کے طور پر ہوتا ہے.اکثر جھوٹے کو جھوٹی خواہیں ہی آتی ہیں اور اکثر بچوں کو سچی خوابیں آتی ہیں.تو اس لئے تعلق باللہ کیلئے جھوٹ سے تبتل اختیار کرنا ضروری ہے تب اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوگا.کچھ جھوٹوں کے لئے جو ایک اپنے ذاتی دفاع کے لئے نہیں بلکہ منفعتوں کیلئے بولے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے مثال دی تھی.کسی جگہ کوئی فائدہ پیش نظر ہو اور سچ سے کام نہ بنتا ہو تو عام آدمی
خطبات طاہر جلدا 545 خطبه جمعه ۷ /اگست ۱۹۹۲ء بلا تکلف جھوٹ سے کام لینے لگ جاتے ہیں.وہ جو تم ہے جھوٹ کی یہ بعض دفعہ بہت دور تک انسانی زندگی میں تلخیاں گھول دیتی ہے.خاص طور پر جب بیاہ شادی کا معاملہ ہو چنانچہ قرآن کریم میں بیاہ شادی کے موقع پر یعنی نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں قول سدید اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.قول سدید کا مطلب یہ نہیں کہ سچ بولو - قول سدید کا مطلب ہے کہ بیچ ایسا بولو کہ اس سے کسی غلط فہمی کا کوئی امکان نہ رہے.بعض دفعہ انسان سچ بولتا ہے لیکن سچ کے باوجود بھی غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے.بعض باتوں کو چھپا لیتا ہے اور ان کا ذکر ہی نہیں کرتا لیکن جو قول سدید ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر اس چیز کا ذکر کرو جس کا ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ کوئی غلط تاثر پیدا نہ ہو.میں نے اکثر دیکھا ہے بیاہ شادی کے جھگڑوں میں قول سدید کی کمی سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے اور اس کے بعد پھر وہ لوگ ہیں جو سراسر جھوٹ سے کام لیتے ہیں ان کے جو بیاہ شادی کے معاملات ہیں.وہ تو شروع سے ہی شیطانی تعلقات سے پیدا ہونے والے ہیں اور ان سے کسی خیر کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی.بعض مائیں ہیں اپنے بیٹے کیلئے رشتہ ڈھونڈنے نکلتی ہیں.دوکوڑی کمانے والا نہ ہو اس کے متعلق ایسی جھوٹی باتیں بتاتی ہیں کہ وہ فلاں جگہ دس ہزار روپے لے رہا ہے یہ عزت ہے اور یہ خاندان ہے.بعض دفعہ ایک لڑکے کی بات کرتی ہیں اور دوسرے لڑکے کی شادی کر دیتی ہیں.بعض دفعہ ایک لڑکی کی بات ہورہی ہے اور دوسری لڑکی کی شادی ہو رہی ہے.جھوٹ ، مکر ، فریب،غلاظتیں،ایساذلیل معاشرہ پیدا کرتی ہیں کہ اس کی طرف دیکھنے سے کراہت آتی ہے اور پھر اس کے باوجودان میں وہ لوگ ہیں، بہت کم سہی لیکن ہیں جو احمدی کہلانے میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے مکر اور فریب اور ذلالت کے ذریعے تعلقات قائم کرتے ہیں جب ان کی تو قعات پورا نہیں ہوسکتیں تو طعنے دیتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ بھی احمدی ہیں دیکھ لو.مجھے طعنے دیتے ہیں کہ فلاں جگہ ہم نے شادی کی احمدی سمجھ کر اور ایسا نکلا.بعض دفعہ مجھے ان کو بتانا پڑتا ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ نے ہرگز احمدی سمجھ کر شادی نہیں کی تھی ، احمدی سمجھ کر نیک خیال کرتے ہوئے نہیں کی.مجھے پتا ہے کہ آپ نے فلاں لالچ میں کی اور فلاں لالچ میں کی اور فلاں لالچ میں کی اور وہ لالچ الٹی پڑ گئی ہے تو اپنے آپ کو کوسنے کی بجائے آپ احمدیت کو کو سنے لگ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مجھے پر ذمہ داری ڈال دی اب میں آپ کی غلطیوں کا خمیازہ خود بھگتوں یا جماعت بھگتے اور آپ کو کسی طرح اس مصیبت سے نجات ملے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 546 خطبه جمعه ۷۷اگست ۱۹۹۲ء بیاہ شادی کے جھگڑے جب بھی مجھ تک پہنچتے ہیں تو ان کا جب بھی بار یک نظر سے تجزیہ کیا جاۓ.الا ماشاء اللہ ضرور اس میں جھوٹ کی گندگی ملی ہوئی ہوتی ہے یا قول سدید سے انحراف تو ضرور ہوتا ہے.قول سدید کا تقاضا یہ ہے کہ ایک لڑکا بیمار ہے اس کی بیماری نظر نہیں آرہی تو یہ کافی نہیں ہے کہ انہوں نے پوچھا نہیں اس لئے ہم نے بتایا نہیں.قول سدید کا تقاضا یہ ہے کہ پوچھے یا نہ پوچھے جس کی بیٹی لینے جارہا ہو اس کو بتاؤ کہ میرے بیٹے میں یہ نقص ہے اور اسی طرح قول سدید کا تقاضا ہے کہ بیٹی میں مخفی نقص ہیں تو ہونے والے خاوند پر یا اس کے رشتہ داروں پر کھل کر بات وضاحت سے کر دی جائے کہ یہ اس میں نقائص ہیں اب اس کو دیکھ لیں اور اس کے باوجود قبول کرتے ہیں تو ٹھیک ہے.جولوگ قول سدید سے کام لیں ان کی شادیاں خدا کے فضل سے ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں اور بعض ایسے آدمیوں کو میں جانتا ہوں جن پر ایک دوسرے کے عیوب خوب کھول دیئے گئے تھے.اس کے باوجود انہوں نے قبول کیا ہے اور خدا کے فضل سے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا جوڑ پیدا ہوا اور نہایت پاکیزہ ماحول پیدا ہوا یہاں تک کہ ہمارے یہاں مغرب کے معاشرے میں بعض بچیاں ایسی ہیں بیچاری کہ وہ کئی قسم کی گندگیوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں.باہر سے آنے والے کسی نے شادی کی خواہش کی تو ان کی طرف سے بتادیا گیا یہ یہ کمزوریاں ان سے ہو چکی ہیں آگے تمہاری مرضی ہے شادی کرنی ہے تو کرو چنانچہ بعض لوگوں نے مجھ سے پوچھا.ان سے میں نے کہا کہ جب جیسے رسول اللہ ﷺ نے خبر دی التائب من الذنب كمن لا ذنب له ( ابن ماجہ کتاب الزهد حدیث نمبر : ۴۲۴۰) جو گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس کا کوئی گناہ نہیں.ایک طرف تم اس اسلام کے حسن کو دنیا میں پیش کرتے ہو.دوسری طرف ایک ایسا شخص بڑی صاف گوئی کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ اپنی سابقہ زندگی کو اسی لئے بتارہا ہے صرف کہ تمہیں دھوکا نہ ہو کہاں ہو اور پھر تم منہ بنا کر دوسری طرف چل پڑو گے تو یہ جائز بات نہیں.چنانچہ بعض احمدی لڑکوں کے متعلق میرے دل میں جن کی بڑی عزت ہے انہوں نے اس بات کو سنا میں نے کہا یہ فیصلہ کرو کہ نیک ہے کہ نہیں یہ بچی آپ کی.جو ہو چکا وہ ہو چکا اور تمہیں اس سے تعلق قائم کرتے ہوئے انقباص تو نہیں ہوگا کوئی تم اس کے حقوق تو ادا کر سکو گے کہ نہیں.اس کے بعد بے شک شادی کرو.چنانچہ اللہ کے فضل سے یہ شادیاں ہوئیں اور بہت ہی کامیاب اور بہت ہی پاکیزہ معاشرہ پیدا ہوا ہے لیکن جہاں چھپایا جاتا ہے وہاں بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور بعض دفعہ اس
خطبات طاہر جلدا 547 خطبہ جمعہ ۷ اگست ۱۹۹۲ء وقت چھپایا جاتا ہے جب کہ چھپانے کا حکم نہیں ہے اور اس وقت نہیں چھپایا جا تاجب چھپانے کا حکم ہے.سچ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر جگہ اپنی برائیوں کو آپ خود اچھالتے تھے یہ بھی گناہ ہے.مگر قول سدید کے تعلق سے جہاں سودے ہورہے ہوں جہاں رشتے طے ہو رہے ہوں وہاں ضرور آپ پر فرض عائد ہو جاتا ہے کہ اس کمزوری کو ضرور ظاہر کریں جس کمزوری کے علم کے بعد فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس نے آپ سے سودا کرنا ہے کہ نہیں کرنا.اسی لئے حضرت اقدس محمد رسل اللہ ﷺ نے ایسے شخص پر وہ لعنت ڈالی جو گندم کی ڈھیری کے اوپر خشک گندم رکھ دیتا ہو اندر سے گیلی ہو.(ابن ماجہ کتاب التجارات حدیث نمبر : ۲۲۱۵) چنانچہ عربوں میں دستور تھا کہ وہ گہرا ہاتھ ڈال کر دیکھا کرتے تھے جیسے دانے باہر ہیں ویسے اندر بھی ہیں کہ نہیں اور پنجاب میں تو اب بھی عام رواج ہے چاولوں کی بوری ہو، گندم کی جو مجھدار لوگ ہیں بیو پاری وہ بعض جگہوں سے وہ گہر ا سوراخ کر کے یا پیمانے اندر ڈال کر اندر کا دانہ نکال کر دیکھتے ہیں.تو جہاں سودے ہوں وہاں آنحضرت ﷺ کی نصیحت یہ ہے کہ خود اپنے اندر کے دانے نکال کر دکھاؤ اور یہ بات معیوب نہیں بلکہ آپ کو پسند ہے لیکن عام حالات میں اگر انسان ان باتوں کو ظاہر کرے جن پر خدا تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہو اور ایسے لوگوں پر ظاہر کرے جن پر ظاہر کرنا اس کے لئے فرض نہیں ہے.یہ نیکی نہیں بلکہ گناہ بن جاتا ہے.اتنا حسین امتزاج ہے مختلف توازن کا مختلف پہلوؤں کا کہ اسلام کی تعلیم میں بہت ہی حسین توازن پیدا ہو جاتا ہے.پس آنحضور ﷺ جہاں ایک طرف یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ جب بیاہ شادی کے موقع ہوں یا تجارت کے مواقع ہوں وہاں خود متعلقہ کمزوری کو نکال کر باہر پیش کیا کرو اور یہ سچائی ہے.وہاں آنحضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا حضرت ابو ہریرہ سے ایک روایت ہے کہ میں نے خود آنحضور کو فرماتے سنا کہ میری یہ ساری امت قابل بخشش ہے سوائے ان کے جو مجاہر ہے اور ہر بات کو اپنی ہر بدی سے ظاہر کرنے والے اورستاری نہ کرنے والے ہیں یہ بات ستاری نہ کرنے کے مترادف ہے کہ انسان رات کو کوئی کام کرے اور پھر صبح ہونے پر پھر دوسروں کو بتاتا پھرے.( بخاری کتاب الادب حدیث نمبر : ۵۶۰۸) پس وہ لوگ جو گناہ کرتے ہیں اور خود اپنے گناہوں سے پردے اٹھاتے ہیں ان کے اوپر آنحضور ﷺ نے لعنت ڈالی ہے، ان کو خطر ناک مجرم قرار دیا ہے پس ان دو باتوں کو ملا کر غلط نتیجے نہ نکالیں.جب میاں بیوی کی شادیاں ہو جا ئیں اس کے بعد میاں کا یا بیوی کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ پرانی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 548 خطبہ جمعہ ۷ اگست ۱۹۹۲ء باتیں جن پر خدا تعالیٰ نے پردے ڈالے ہوئے ہیں ان کو ایک دوسرے پر کھولیں.اگر کوئی ایسی بات ہے جس کے متعلق یہ خطرہ ہے کہ وہ بعد میں ظاہر ہوگی اور پھر تعلقات تلخ ہونگے اس لئے عقل کا تقاضا یہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیم بھی یہی کہتی ہے کہ پہلے ہی بات کھول دو لیکن بعض ایسے جہلاء ہیں جو اپنی اچھی بھلی شادی کو بالکل اپنے ہاتھوں سے برباد کر دیتے ہیں.چنانچہ آج کل میرے سامنے ایک معاملہ ہے ایک بیچاری سادہ مزاج بیوی جس کی زندگی اپنے خاوند سے بہت اچھی گزر رہی تھی اور ایسے معاشرے کی ہے جس معاشرے کی برائیاں اس طرح کی ہیں کہ وہاں بعض غلطیاں سرزد ہونا ایک روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے.پتا نہیں اس بیچاری کو کیا خیال آیا کہ میں اور کچی بنوں اور ایک دن اپنے میاں کے سامنے اپنی وہ پرانی باتیں کر دیں جو خدا تعالیٰ نے مخفی رکھی ہوئی تھیں.اس دن کے بعد پھر وہ میاں اس کو دکھائی نہیں دیا اور اب اس کے خط آتے ہیں کہ میں کیا کروں.بہت ہماری محبت تھی، بچے ہیں بچوں سے بڑا پیار تھا لیکن وہ متنفر ہوکر مجھ سے بھاگ گیا ہے.تو شادی بیاہ کے پہلے خاص احتیاط کے ساتھ اپنی بعض ایسی کمزوریوں کو پیش کرنا جن کے متعلق یہ خیال ہو کہ اگر براہ راست علم ہو تو سخت نقصان پہنچے گا.یہ تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ تقویٰ کے عین مطابق ہے لیکن اگر خدا نے پر دے ڈھانچے ہوں تو کئی بدیاں ہیں جو چھپی ہوئی غیروں کے سامنے نہیں ہیں تو ان کی تشہیر کرنا تو بہت ہی پرلے درجے کی حماقت ہے بلکہ خود کشی ہے اور یہ بیماری بعض مواقع پر انفرادی نقصان پہنچاتی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.میاں بیوی کے تعلقات میں ایسی باتیں بے وجہ کھولنا جو ماضی کا حصہ بن چکیں دفن ہوگئی یہ نیکی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے لیکن بعض دفعہ یہی چیزیں جو ہیں جو معاشرے میں عام گند بن کر پھیل جاتی ہیں اور غالباً یہی بڑی حکمت ہے جس کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے مجاہر کو نہایت ہی ظالم اور گناہ گار قرار دیا ہے وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے بدیوں سے شرم نہیں کرتا وہی ہے جو باہر بیٹھ کر یہ باتیں کرتا ہے اور بظاہر سچ بول رہا ہے لیکن ایسا سچ ہے جو خدا کے نزدیک جھوٹ سے بھی بد تر ہے.اس میں دو گناہ ہیں ایک یہ گناہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ستاری کے پردے کو خود اپنے ہاتھوں سے چاک کر رہا ہے اور دوسرا گناہ یہ ہے کہ ایسی باتوں سے معاشرہ گندہ ہوتا ہے.وہ نو جوان جن کی مجالس میں یہ باتیں ہوں کہ رات ہم نے یہ گناہ کیا، رات یہ بدمعاشیاں کیں، فلاں جگہ ہم نے یوں کیا.وہ ایک تو بے حیائی کے اور خدا کی ستاری کے پردہ چاک کرنے کے مرتکب تو ہیں ہی لیکن وہ نسبتاً کم گناہ گار جن کی مجلس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 549 خطبہ جمعہ ۷ را گست ۱۹۹۲ء میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کے دلوں میں گناہ کے ولولے بھر دیتے ہیں، بڑے ان کے دلوں میں جوش پیدا ہوتے ہیں، بڑی امنگیں پیدا ہوتی ہیں کہ اچھا ہم بھی یہی کر کے دیکھیں گے.پس آنحضور ﷺ کو جو دین عطا ہوا ہے نہایت ہی متوازن ہے اور اس کی ایک ایک بات صلى الله میں بڑی گہری حکمت ہے.پس آنحضور یہ نے بڑا احسان فرمایا جب ایک طرف قول سدید کا حکم ہے دوسری طرف مجاہر کے مضمون کو خوب کھول کر سامنے پیش کر دیا.دیکھو مجاہر نہ بنا اس سے تم بھی گناہ گار ہو گے خدا کے ناشکرے بنو گے اور سوسائٹی میں فحشاء پھیلا دو گے.میں نے اس پر غور کیا تو مجھے سمجھ آئی ایک بات کی اور حضرت عائشہ صدیقہ کے لئے دل سے بے حد محبت کے درود نکلے کہ ان کی قربانی ساری امت کیلئے ہمیشہ کتنی کام آئی ہے.اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض حقوق قائم فرمائے ہیں ان میں ایک حق ہر شخص کے اپنے نفس کا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو حق نہیں ہے کہ کسی پر الزام لگائے اور وہ اگر الزام لگا تا ہے تو اس کا ہر گز فرض نہیں ہے کہ وہ اس کا انکار بھی کرے.چنانچہ اگر کوئی کسی شخص پر الزام لگا تا ہے، اس نے زنا کیا اس نے یہ گند کیا اس نے وہ گند کیا.اگر وہ گواہ پیش کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے تو معاملے کی چھان بین ہوگی.ورنہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے یعنی بظاہر سچ بھی بولا ہو تب بھی خدا کے اس قانون سے وہ جھوٹا نکلتا ہے اور جس پر الزام لگایا گیا ہے اس کو کوئی اسلام کی عدالت یہ مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ انکار بھی کرے.اس کے نتیجے میں خدا نے ستاری کا ایک عجیب پردہ ڈال دیا ہے.ساری امت کے کمزوروں پر ایک عظیم الشان ستاری کا پردہ ہے کہ گناہوں سے بچولیکن اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہوں تو جب تک وہ گناہ اچھیل کر منظر عام پر نہیں آتے کہ خدا کی ستاری کا پردہ پھاڑ کر باہر نہیں آتے.اس وقت تک کسی کو حق نہیں ہے خدا کی ستاری کا پردہ پھاڑ کر جھانک کر تمہارے اندر دیکھے.صرف عورت کو حق ہے اور صرف مرد کو حق ہے جو میاں بیوی ہوں.ان کے لئے فرض نہیں ہے کہ وہ گواہ اکٹھے کرتے پھریں.ان کو خدا نے حق دیا ہے اگر عورت مرد کو گناہ گار بجھتی ہے تو لعان کر سکتی ہے کہ وہ چار دفعہ قسمیں کھا کر کہہ سکتی ہے کہ میرا خاوند اس گند میں ملوث ہے اگر وہ چار دفعہ قسمیں کھا کر انکار نہیں کرتا تو وہ اس پر جرم کی سزا عائد ہو جائے گی.یہی حال عورت کا ہوگا اگر مرد جس پر یہ الزام لگائے.تو میاں بیوی کے درمیان استثناء رکھا گیا ہے اس میں اپنی ذات میں بہت گہری حکمتیں ہیں اور عام سوسائٹی میں یہ جو مجاہر کا لفظ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 550 خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۹۲ء آنحضور ﷺ نے بیان فرمایا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے قطعی ہدایت ہے کہ کسی کوحق نہیں ہے کہ اپنی بدیوں کو خود اچھالے.پس عام حالات میں جہاں نہیں اچھالنے کا حق ہوتا ہے وہاں لوگ اچھالتے ہیں اور مجاہر بن جاتے ہیں اور جہاں اپنے فائدے مقصود ہوں وہاں اپنی ایسی بدیوں پر پردے ڈالتے ہیں جن پر پردہ ڈالنا گناہ ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں غلط ثابت ہو سکتے ہیں.پس موقع محل کے مطابق کیسی پاکیزہ سچی تعلیم ہے اور ہر موقع کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے.جھوٹ سے پر ہیز لازم ہے لیکن جھوٹ کی اس تعریف کو پیش نظر رکھیں جو قرآن کریم کے نزدیک جھوٹ ہے.وہی جھوٹ کہلائے گا اور جس باریکی سے قرآن کریم نے جھوٹ کی وضاحت فرمائی ہے مختلف حالات میں جھوٹ کی تعریف فرمائی ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے جھوٹ سے کلیہ پر ہیز کرنا تو حید کامل سے تعلق جوڑنے کی اہلیت عطا کرتا ہے.اس مضمون کو سمجھنے کے بعد اب میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں.ہر وہ احمدی جس تک میری یہ آواز پہنچے یا تحریک پہنچے کہ وہ روز مرہ کی عادت بنالے جب بھی اس پر کوئی حملہ ہو یعنی اس کے کردار پر ، اس کی ذات پر، اس کی نیتوں پر، اس کے کسی جرم کی نشاندہی کی جارہی ہو تو اچانک خود بخود رد عمل ہوتا ہے بات کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لے لیا کرے، بات کرنے سے پہلے ذرا ٹھہر جایا کرے اور اپنے نفس کا جائزہ لے کر دیکھتے تو سہی تو کیا کر رہا تھا.اکثر اوقات آپ اس کو بہانہ تلاش کرتے ہوئے موقع پر پکڑلیں گے.رنگے ہاتھوں جس طرح پکڑا جاتا ہے آپ کا نفس آپ کے سامنے فوراً آجائے گا.اوہ ہو میں تو صرف جھوٹی باتیں بیان کر رہا تھا اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو وہ جھوٹ بن کر باہر آجائے گا اور پھر آپ کے لئے مفر نہیں ہوگی بعض دفعہ ایک جھوٹ بولا جاتا ہے کبھی دو جھوٹ بولے جاتے ہیں کبھی تین جھوٹ بولے جاتے ہیں، کبھی چار بولے جاتے ہیں.پھر جھوٹوں کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے.یہ بالا رادہ کوشش کہ جھوٹ کی جو مخفی پناہ گاہیں ہیں وہاں بھی جھوٹ کو پناہ نہیں لینے دوں گا.اپنے نفس کے اندر بھی جو وساوس کی صورت میں جھوٹ پلتا ہے یا بہانوں کی صورت میں جھوٹ پلتا ہے.میں اس کو نگا کروں گا، اپنی نگاہ میں ننگا کروں گا.ضروری نہیں کہ اس کو آپ باہر اچھال کر لوگوں کے سامنے لائیں اپنے سامنے اس کو اچھالا کریں، گہری نظر سے اس کا مطالعہ کریں.تو پھر آپ وہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 551 خطبه جمعه ۷ اگست ۱۹۹۲ء سفر اختیار شروع کر دیں گے جو تو حید کی طرف سفر ہے، جو تبتل کا سفر ہے.اس ضمن میں کچھ اور احادیث نبویہ ہیں کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات ہیں وہ میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ میں پیش کروں گا کیونکہ مضمون ایسا ہے اس کا بہت ہی گہرا انسانی سوسائٹی سے تعلق ہے یہ وہ بت ہے جو انسان اگر توڑے بھی تو پھر نئے بنا دیتا ہے.یہ ایسے بت ہیں جھوٹ کے کہ ہر انسان کے اندر کے کارخانے لگے ہوئے ہیں.روز کی زندگی میں ضرور انسان ایسے حالات سے گزرتا ہے جبکہ وہ اپنے نفس میں جھانکے تو وہ پکڑا جائے گا کہ وہ جھوٹ کے بت تراش رہا تھا.عام تعلقات کے معاملے میں کسی کو دیکھا تو کہہ دیا کہ میں آپ ہی کی طرف جارہا تھا، مجھے آپ کا ہی خیال آرہا تھا.چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، مہمان نوازی کے تقاضے پورے ہورہے ہیں تو غلط بات پیش کر کے اپنا اچھا اثر جمانے کی کوشش کرنا.دل کہہ رہا ہو کہ یہ تو مصیبت بنا ہوا ہے اور زبان کہہ رہی ہے کہ شوق سے آپ نوش فرمائیں، آپ ہی کی چیز ہے.یہ روز مرہ کے جھوٹ ہیں، میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ عام گھروں میں، عام ذہنوں میں، عام روز مرہ کے حالات میں جھوٹ پلتے ہیں اور خود گھڑے جاتے ہیں اور دکھائی نہیں دے رہے ہوتے.ایک دفعہ کہتے ہیں کہ ایک دعوت کے موقع پر گلاب جامن کسی کے ہاں بہت اچھے بنے ہوئے تھے تو کسی عورت نے کہا کہ بہت اچھے گلاب جامن ہیں میں نے چھ کھائے ہیں بہت مزیدار تھے تو میزبان نے کہا اور کھائیں شوق سے کھائے تو آپ نے بارہ ہیں مگر گنتا کون ہے.تو وہ دونوں جھوٹ بول رہے تھے اس کا شوق سے کھانا کہنا ہی جھوٹ ہے کہ جو گن رہا ہے کہ میرے مہمان نے بارہ گلاب جامن کھالئے اس کا دل ہر گلاب جامن پر گڑھ رہا تھا اور اس نے تعریف کرتے ہوئے اپنے زیادہ کھانے پر پردہ ڈالا اس نے بھی جھوٹ بولا اور یہ ایک لطیفہ ہے لیکن لطیفہ دونوں طرف جھوٹ کے گند رکھتا ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں عام باتیں ہیں.اس کی اتنی مثالیں ہیں کہ اگر اس کی مثالیں بیان کرنی شروع کی جائیں تو ایک دن کے روز مرہ کے حالات انسان کے سامنے آتے ہیں اس پر گھنٹوں کی بحث ہوسکتی ہے مگر میں نے مثال دی ہے آپ کو.بہت باریک اور لطیف جھوٹ کے بہانے آپ کا دل گھڑ تا رہتا ہے اور ابتدائی حالت میں یہ دکھائی نہیں دیتے مگر ایک دفعہ یہ بن جائیں تو پرورش پاتے اور پرورش پا کر
خطبات طاہر جلدا 552 خطبه جمعه ۷ /اگست ۱۹۹۲ء پھر باہر نکلتے ہیں، بڑی بھیانک شکل میں باہر نکلتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو جھوٹ سے کلیۂ پاک کر دے پھر کیونکہ جھوٹ کو چھوڑے بغیر نہ ہم موحد بن سکتے ہیں نہ دنیا کو تو حید عطا کر سکتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آج دنیا کی نجات صرف اور صرف توحید سے وابستہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جن الفاظ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا انہی الفاظ میں میں آپ کی روحانی اولاد کو مخاطب ہو کر کہتا ہوں.خـــذوالـتـوحــد التـوحـيـد يا ابناء الفارس ( تذکره: ۱۹۷) اے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روحانی ابنائے فارس تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو، تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو کیونکہ اسی میں دنیا کی اور اسی میں ہماری نجات ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 553 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء سچائی سے محبت اور جھوٹ سے نفرت اپنے مزاج کا حصہ بنائیں اور احمدی سارے معاشرے کو سچا معاشرہ بنا دیں.( خطبه جمعه فرموده ۱۴ راگست ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (الحج: ۳۱ تا ۳۲) پھر فرمایا:.ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ وہی بات درست ہے جو خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے.وَمَنْ يُعَظمُ حُرمت اللہ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حرمات کی تعظیم کرے اللہ کی حرمات سے مراد یہ ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے معزز ٹھہرایا ہو اور جن میں خدا کی اجازت کے بغیر دخل اندازی کا حق نہ ہو اُن کو حرمات اللہ کہتے ہیں.تو جو بھی اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حرمات کی تعظیم کرے فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ الله کے نزدیک یہ اس کے لئے بہتر چیز ہے اور تمہارے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 554 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء اللہ تعالیٰ نے الْاَنْعَامُ یعنی چوپایوں کو جائز قرار دے دیا یعنی اُن کے گوشت سے تم استفادہ کر سکتے ہو إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُم سوائے اُس کے جس کا ذکر تم پر گزر چکا ہے کہ چو پایا بھی ہو اور حلال چو پایا بھی تب بھی اس کا گوشت نہیں کھانا یعنی وہ غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا ہو بتوں پر چڑھایا گیا ہو تو فرمایا إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ سوائے ان حلال جانوروں کے جو عام حالات میں تو حلال ہیں لیکن کسی مکر وہ تعلق کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان کو حرام قرار دے دیا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ اور جس سے جو بتوں سے تعلق رکھتا ہے یعنی ناپا کی اور گندگی جو بتوں سے تعلق رکھتی ہے یا شرک سے تعلق رکھتی ہے اس سے اجتناب کرو وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ اور قول زور سے اجتناب کرو یہ تا کیڈ ا فر مایا گیا ہے حُنَفَاءَ لِلهِ غَيْرَ مُشْرِكين به یہ اجتناب کن معنوں میں ہو اس کی تشریح یہ ہے کہ حُنَفَاء لِلهِ جھوٹ سے پر ہیز کرو اور اللہ کی طرف جھکا و یعنی محض جھوٹ چھوڑنے کی تعلیم نہیں ہے بلکہ جھوٹ کے بدلے خداتعالی کی پناہ میں آنا اور اس سے تعلق باندھنا غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِہ ایسا سچا ہو کہ اس میں شرک کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے، خدا کے سوا کسی قسم کا شرک بھی اس کے دل میں نہ ہو.وہ شخص ہے جو حقیقت میں زور سے یعنی جھوٹ سے اور اوثان سے تو بہ کرتا ہے اور علیحدگی اختیار کرتا ہے وَمَنْ يُشْرِكْ بِالله اور جو شخص اللہ کا شرک اختیار کرے یا شریک ٹھہرائے ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ گویا وہ آسمان سے گرا ہو فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اور زمین پر گرنے سے پہلے پرندہ اُسے اُچک کر لے جائے بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گوشت کے ٹکڑے او پر پھینکے جاتے ہیں تا کہ چیلیں اور کوے وغیرہ اُن کو اُچک لیں تو جب وہ نیچے گرنے لگتے ہیں تو با قاعدہ تیزی سے جھپٹ کر کوئی جانور آ کر اُن کو اُچک لیتا ہے تو یہ وہ منظر ہے جو قرآن کریم نے کھینچا ہے لیکن زمین سے اُٹھنے والی چیز نہیں ہے جو قرآن کریم نے کھینچا ہے لیکن زمین سے اٹھنے والی چیز نہیں ہے ، آسمان سے گرنے کا ذکر فرمایا ہے اَو تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ یا ایسی چیز ہو جو ا کھر چکی ہواور اس میں کوئی وزن نہ رہے اور ہوائیں جس طرف چاہیں اُسے اُڑا لے جائیں یہاں تک کہ کسی دور کے مقام میں کسی ایسے مقام پر جس سے لوگ آشنا بھی نہ ہوں وہاں اس گندگی کو اُٹھا کر پھینک دیا جائے.یہ شرک کی مثال دی گئی ہے.اس میں جو مرکزی نکتہ میں آپ کے سامنے پیش
خطبات طاہر جلد ۱۱ 555 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء کرنا چاہتا ہوں وہ قولَ النُّورِ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ میرے گزشتہ خطبے کا تعلق جھوٹ سے تھا اور میں نے بیان کیا تھا کہ میں آئندہ خطبے میں بھی انشاء اللہ دوبارہ اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالوں گا.لیکن اس آیت کے تعلق میں ایک اور بات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ حُرمتِ اللہ جو ہیں وہ دو طرح کی ہیں ایک وہ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے معزز ٹھہرایا ہو جیسے بیت اللہ جسے بیت الحرام کہا جاتا ہے اس کے متعلق فرمایا وَ مَنْ تُعَظمُ حُرمتِ اللهِ وہ حرمت والی جگہیں وہ ہیں جن کی تعظیم کرنی ضروری ہے اور ایک لفظ حرام مکروہ چیز پر بھی صادق آتا ہے ان کو حرمات اللہ تو نہیں کہا جاتا مگر حرام چیزمیں قرار دیا جاتا ہے جس کے مقابل پر لفظ حلال ہے.تو قرآن کریم نے یہاں دونوں چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ایک وہ حُرمتِ اللہ کہ جن کی تعظیم کا اللہ حکم دیتا ہے جیسے شعائر ہیں انبیاء ہیں، انبیاء کے رہنے کے مقامات ہیں، عبادت گاہیں ہیں یہ سب حُرمتِ اللهِ ہیں ان سب کی تعظیم ضروری ہے اور ایک وہ حرام چیزیں ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے.ان حرام چیزوں میں دو چیزوں کو اکٹھا کر فرمایا گیا ہے.ایک شرک کا اور ایک جھوٹ کا جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں اس مضمون کو کھولا تھا.در حقیقت جھوٹ اور شرک ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور آپ اس مضمون پر جتنا بھی غور کریں گے اتنی ہی بات کھلتی چلی جائے گی کہ خدا کے بعد سب سے بڑا بت جس کی پرستش کی جاتی ہے وہ جھوٹ ہے.وہ بت جن کو پتھر سے بنایا جاتا تھا یا لکڑی یا لوہے تانبے سے گھڑا جاتا تھا وہ بت تو کسی زمانے میں پوجے جاتے تھے.اب تو سب سے بڑے مشرک ممالک میں بھی گنتی کے چند ہیں جو اُن بتوں کی پرستش کرتے ہیں ورنہ بڑی بھاری اکثریت ہے جو اُن کے نام سے بھی نا آشنا ہے کبھی مندر کی طرف منہ نہیں کیا.ساری زندگیاں دنیا کی پیروی میں ہی کٹ گئی ہیں.پس وہ بت تو اب بہت شاذ کے طور پر دنیا میں رہ گئے ہیں.جن کی واقعہ پرستش کی جارہی ہو لیکن جھوٹ کا بت ایسا ہے کہ دنیا کے ہر براعظم میں، ہر ملک میں، ہر شہر میں ، ہر قصبے میں بڑی بڑی سلطنتیں ہوں یا چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوں ، بڑی بڑی اقتصادی بادشاہتیں ہوں ، یا غریب کی تجارتیں ہوں ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور اس کثرت سے جھوٹ کی عبادت کی جاتی ہے کہ شاذ ہی دنیا پر بھی یہ دور آیا ہو کہ جھوٹ کی ایسی عبادت کی جاتی ہو.وہ لوگ جو بظاہر بچے ہیں جو روز مرہ کے معاملات میں سچے ہیں وہ لوگ جو اپنے ملک
خطبات طاہر جلد ۱۱ 556 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء میں سیاست کے لحاظ سے صاف ستھرے ہیں اور قوم کے سامنے جوابدہ ہیں ، غیروں کے معاملے میں ان کی سیاست سراسر جھوٹی ہو جاتی ہے، ان کے بہانے جھوٹے ،اُن کے نظریات جھوٹے ، جو عذر رکھ کر وہ غیروں پر حملے کرتے ہیں وہ جھوٹے جو عذر رکھ کر حملے نہیں کرتے وہ جھوٹے.اب آپ کے گلف کے پس منظر ہیں، بوسنیا کے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ مغربی دنیا کا رد عمل ان دونوں میں کتنا مختلف اور کتنا جھوٹا ہے.وہاں ایک کرد کوکوئی تکلیف پہنچتی تھی تو آگ بگولہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کردوں پر ظلم ہو رہے ہوں اور انگلستان خاموش رہے اور امریکہ خاموش رہے.ہمیں چاہے طاقت استعمال کرنی پڑے جو چاہے ہم کریں گے ان مظلوموں پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور اُدھر بوسنیا کا حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو با قاعدہ منظم سازش کے طور پر صرف مظالم کا نشانہ نہیں بنایا جارہا بلکہ سکیم یہ ہے کہ اس خطے سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے اور جب کہا جائے کہ یہاں طاقت کا استعمال کیوں نہیں کرتے تو اول تو تاخیر کے بہانے بہت تھے.اب یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ ہم ایک اور ویٹ نام نہیں بنانا چاہتے.کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک اور ویٹ نام بنا دیں.صدام حسین کے اوپر ہاتھ ڈالنے میں بڑی جرأت کی گئی تھی باوجود اس کے کہ کہا یہ جاتا تھا کہ صدام حسین اتنی بڑی طاقت بن چکا ہے کہ اس کو دیکھ کر جرمنی کا ہٹلر یاد آتا ہے اور عراق ہٹلر کا جرمنی بن چکا ہے.وہاں کوئی خوف نہیں تھا لیکن یوگوسلاویہ سے تعلق رکھنے والا وہ نسلی گروہ جس نے بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم شروع کئے ہیں یہ دراصل اس کی حمایت نہیں ہے بلکہ اسلام کے ساتھ بغض ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہے اور عذر یہ تراشا جارہا ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ یہاں ایک ویٹ نام بن جائے ایک اور لمبی جنگ شروع ہو جائے حالانکہ وہ شخص جس کو تاریخ حاضرہ کی معمولی سی بھی محمد بد ہویا سیاست سے ذرہ بھی آگا ہی ہو وہ جانتا ہے کہ ویٹ نام اس لئے بنا تھا کہ اس کے پیچھے روس اور چین کی طاقتیں تھیں اور خصوص روس نے غیر معمولی طور پر ویٹ نام کو ہر قسم کے اسلحے مہیا کئے اور طاقت دی ان کی رہنمائی کی وہاں جنگی مشقیں کروائی گئیں.ان کو گوریلا وارفیئر کی ٹریننگ دی گئی بہت ہی غیر معمولی طور پر بیرونی مدد اور بیرونی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ویٹ نام بنا تھا.آج جبکہ روس ان مغربی طاقتوں کے ساتھ مل چکا ہے آج جبکہ چین کی کوئی طاقت ہی نہیں رہی کہ وہ علیحدہ اپنی مرضی سے کسی ملک میں کوئی فساد بر پا کر سکے تو یوگوسلاویہ جیسے ملک کی مجال کیا ہے
خطبات طاہر جلدا 557 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء کہ وہ بڑی طاقتوں کے مقابل پر سر اُٹھا سکے.چاروں طرف سے وہ ایسی ریاستوں میں گھرا پڑا ہے جن میں سے کوئی بھی اس کی مدد نہیں کر سکتی لیکن ان کی طرف سے آپ ایسے ایسے عجیب عذرسنیں گے که عقل دنگ رہ جاتی ہے اور عوام الناس کا یہ حال ہے کہ وہ ان کو قبول کئے چلے جاتے ہیں.پس ہر بات جھوٹ ہو چکی ہے اور بوسنیا کا جو معاملہ ہے اس کے پیچھے دراصل اسلام دشمنی ہے.میں اسے اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ گزشتہ تاریخ میں یورپ میں ترکی نے ایک کردار ادا کیا اور کئی یورپین ریاستوں پر ایک لمبے عرصہ تک اسلام کا غلبہ رہا اور ان طاقتوں کے ٹوٹنے کے باوجود بھی بعض علاقوں میں مسلمانوں کی بھاری تعداد موجود رہی لیکن آزادریاست کے طور پر ایک بوسنیا تھی جو بھاری مسلم اکثریت کی تھی اور یورپین تھی اور آزاد تھی اور اب اس کو دوبارہ اس کو وہی پہلی سی سیاسی طاقت کے طور پر قبول کیا لیکن یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یورپ میں اسلام کا کوئی دخل رہ جائے ، یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یورپ میں کسی وقت ترکی کو پھر دخل اندازی کا موقع فراہم کیا جائے.پس یہ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے یہ عیسائیت کے حق میں نہیں ہے بلکہ اسلام کی دشمنی ہے دہریوں کو بھی اسلام سے دشمنی ہے، یہود کو بھی اسلام سے دشمنی ہے.عیسائیوں کو بھی اسلام سے دشمنی ہے یہ بغض معاویہ ہے حُبّ علی نہیں ہے.پس اس کی خاطر جتنے چاہو جھوٹے بہانے بنالو اور ساری قوم قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے، ساری مغربی دنیا یا وہ مشرقی دنیا جوان کے تابع فرمان ہے وہ ان کو قبول کئے چلی جاتی ہے اور مسلمان بے چارے کو کوئی ہوش ہی نہیں ہے.مسلمان سیاست دان آگے سے ایسی لغو باتیں کرتا ہے کہ اس سے بھی طبیعت میں کراہت پیدا ہوتی ہے اور سخت تکلیف پہنچتی ہے کہ مدد تم کیسے کر سکتے ہو جن قوموں نے یہ ظلم کیا ہے ان کا ساتھ چھوڑنے کو تو تم میں جان نہیں ، طاقت نہیں ہے، مجال نہیں ہے کہ اُن سے اپنے تعلقات تو ڑو یا ان کو اقتصادی(Retaliation) رو عمل کی دھمکی دے دو یا اس حد تک ہی دو جس حد تک تم کر سکتے ہو یہ تو کسی کو توفیق نہیں ہے کہ با قاعدہ منصوبہ بنا کر اتنی بات کرے جو کچی ہو جس پر عمل درآمد کی توفیق ہو اور غیر دنیا یہ سمجھ لے کہ اسلامی دنیا اس چیز کو برداشت نہیں کرے گی.اس کی بجائے بیان یہ دیے جارہے ہیں مثلاً پاکستان یہ کہتا ہے کہ ہم فوج بھیجنے کے لئے تیار ہیں.جماعت اسلامی کا دعوی ہوتا ہے کہ چلورضا کار بھرتی کرو اور وہاں بھجواؤ.پاگل پن ہے، کون سے رضا کار؟ کیسے پہنچیں ؟ کسی میں طاقت ہے؟ کس کی مجال ہے کہ ان معاملات
خطبات طاہر جلدا 558 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء میں دخل دے، سارے جھوٹ کے قصے ہیں.پس یہ مثال میں نے کھول کر دی ہے کہ وہ دنیا وہ وقت ،جس میں سب کچھ جھوٹ ہو چکا ہے.یہ وہی دور ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خير العصر (۳۲) زمانہ گواہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان گھاٹے میں ہے پس آپ جہاں بھی تلاش کریں دیکھیں ساری دنیا بتوں کی آماجگاہ بن چکی ہے، ہر دل میں جھوٹ کے بت نے قبضہ کیا ہوا.مطلب کی بات ہے جب مطلب در پیش ہو تو ضرور جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے، بہت کم ایسے ہے.شرفا ہیں بہت کم ایسے موحد ہیں جو سخت ابتلاء میں پڑ کر بھی سچائی سے کام لیتے ہیں.پس اس لئے جماعت احمد یہ جب توحید کی دعویدار ہے جماعت احمدیہ کا ادعا یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا سے شرک کا قلع قمع کرنا ہے تو یہ باتیں مضمون نگاروں یا تقریروں سے تو نہیں ہوسکتیں.اس کے لئے تو عظیم انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہوگی اور یہ انقلاب ہمارے نفوس میں بر پا ہونا ہوگا یہ ایسا انقلاب نہیں ہے جو آپ کے سینوں سے اچھل پڑے جب تک کہ سینوں میں برپا نہ ہو.پس پہلے اپنے اعمال، اپنے کردار، اپنے خیالات، اپنی گفتار میں ایک انقلاب برپا کریں.اپنے آپ کو موحد بنا ئیں جھوٹ سے کلیہ ہجرت کر کے توحید کے دامن میں پناہ لیں پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو وہ طاقت نصیب ہوگی جس کے نتیجہ میں دنیا میں آپ ایک عظیم انقلاب بر پا کر سکیں گے اور یہ طاقت توحید کی طاقت ہے وہ ایک طاقت جس نے لازماً فتحیاب ہوتا ہے وہ توحید کی طاقت ہے.وہ ایک طاقت جس کے لئے خدا کی غیرت کسی اور چیز کو برداشت نہیں کر سکتی وہ تو حید کی طاقت ہے.پس جب موحد ہو کر خدا کی ذات میں گم ہوتے ہیں تو اسی کا نام تبتل الی اللہ ہے اور تبتل کے طریق میں سب سے بڑا تجل جھوٹ سے اختیار کرنا ضروری ہے اور سب سے بڑا شرک جھوٹ ہی کا شرک ہے.پس اس پہلو سے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ یہ کوئی نظریاتی بحثیں نہیں ہیں حقیقت کی دنیا میں اتر کر ہمیں روز مرہ کی زندگی میں ان بتوں کی تلاش کرنی ہوگی ، ان کی نشاندہی کرنی ہوگی جو بت روز مرہ ہماری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں.ہماری باتوں، ہمارے طرز عمل پر اُن کا اختیار ہے اور ہم موحد ہیں اور اس کے باوجود بیک وقت خدا کے سامنے بھی سر ٹیک رہے ہیں اور غیر اللہ کے سامنے بھی دل پیش کر رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 559 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء پس یہ متضاد زندگی کی کیفیت ہے یہ قابل قبول نہیں تضاد خود جھوٹ ہوتا ہے.پس جہاں تضاد پیدا ہو جائے وہاں ساری زندگی جھوٹ بن جاتی ہے اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ہر احمدی گھر میں ہر مرد، عورت، بچے، ہر ایک کے دل میں پوری قوت کے ساتھ جھوٹ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جس رنگ میں اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اُسے بار بار گھروں میں پیش کیا جانا ضروری ہے.میں اب چند احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی نصائح ہیں.حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علیہ نے فرمایا:.تمہیں سچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سیچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے.انسان سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے.تمہیں جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجو رسیدھا آگ کی طرف لے جاتے ہیں.ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب یعنی سخت جھوٹا لکھا جاتا ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر :۴۷۱۹) اس فرمان نبوی ﷺ پر ٹھہر کر غور کرنے کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور جھوٹ بدی کی طرف راہنمائی کرتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنے جرم ہور ہے ہیں اُن میں سے شاذ ہی کوئی جرم ایسا ہو گا جس کا تعلق جھوٹ سے نہ ہو.شاذ سے مراد وہ جرم ہیں جو اشتعال انگیزی کے وقت بغیر سوچی سمجھی سکیم کے تابع اچانک رونما ہوتے ہیں ان میں جھوٹ بعد میں آتا ہے.انسان بعد میں سوچتا ہے کہ میں کیسے جھوٹ بول کر اپنے عمل کی پاداش سے بچ سکوں گالیکن جرائم کی بھاری اکثریت وہ ہے جو جھوٹ کے بچوں کے طور پر رونما ہوتے ہیں.ایک جرم کرنے والا پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس جرم کے نتیجہ میں اگر پکڑا جاؤں اگر کوئی گواہی کسی کے ہاتھ آجائے کوئی میرا جرم کا نشان مل جائے تو میں کیا عذر تراشوں گا پہلے جھوٹ کا تانا بانا بنا جاتا ہے تو پھر اُس تانے بانے کے لباس میں انسان بظاہر دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہو کر پھر جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ چیز
خطبات طاہر جلد ۱۱ 560 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء جو ہے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے.میاں بیوی کے تعلقات پر بھی حاوی ہے.ماں باپ کے تعلقات پر بھی حاوی ہے، جہاں بھی کوئی ظلم ہو جہاں بھی کسی سے کوئی بے اعتدالی ہو، نا انصافی کا سلوک کیا جائے یا کسی کے خلاف کوئی مجرمانہ حرکت کی جائے اگر آپ ان نیوں کا تجزیہ کریں تو ہمیشہ ان سے پہلے جھوٹ ہوگا.جھوٹ نیت کے اندر داخل ہو کر حملہ کرنے والی ایک چیز ہے.جس طرح قرآن کریم نے شیطان کے متعلق فرمایا ہے کہ تم پر وہاں سے حملے کرتا ہے جہاں سے تمہیں دکھائی نہیں دیتا.وہ کون سی جگہ ہے جہاں دکھائی نہیں دیتا.بسا اوقات انسان کی نیت میں جو فساد پوشیدہ ہو وہ دکھائی نہیں دیا کرتا اور نیت کے فساد کے ساتھ ایک گناہ کا ارادہ کرنے والا انسان بسا اوقات خود اس بات سے واقف نہیں ہوتا کہ اول سے لے کر آخر تک میری نیست فساد کی تھی اور بدتھی.یہاں تک کہ اکثر اوقات یہ نیتیں انسان سے چھپ جاتی ہیں اور وہ جو سوچیں سوچ رہا ہے اور ترکیبیں کر رہا ہے کہ میں یہ جھوٹ بولوں گا اور اس طرح بولوں گا اور یہ کروں گا یہ ساری باتیں اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے وجود کے اندر صلى الله واقع ہو رہی ہوتی ہیں اور اس کو پتا نہیں لگتا کہ میں کیا کر رہا ہوں.پس آنحضرت ﷺ نے جب فرمایا کہ جھوٹ بدی پیدا کرتا ہے تو واقعہ تمام جرائم میں سب سے زیادہ کردار ادا کرنے والا اگر ایک واحد گناہ چنا جائے تو وہ جھوٹ ہی ہے اور اس کا تعلق انفرادی تعلقات سے بھی ہے اور قومی تعلقات سے بھی ہے، تجارت سے بھی ہے اور سیاست سے بھی ہے.دنیا کے ہر شعبہ پر یہ بات حاوی ہے.پہلے جھوٹ ہے پھر بدیاں پیدا ہوتی ہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ایک شخص کو نصیحت فرمائی کہ تم جھوٹ نہ بولو واقعہ یوں ہوا صلى الله کہ اس نے آنحضور ﷺ سے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں بہت بد انسان ہوں مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں ساری نیکیاں اختیار کرلوں اور ساری بدیوں سے قطع تعلق کر لوں مجھے ایک حکم فرمائیں.یہ میں عہد کرتا ہوں کہ جو نصیحت فرمائیں گے اس پر میں ضرور عمل کروں گا.تو آنحضور ﷺ نے فرمایا اچھا اگر اتنی سی بات ہے تو صرف یہ وعدہ کر لو کہ جھوٹ نہیں بولو گے اُس نے کہا کہ ہاں یہ تو معمولی سی بات ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ جھوٹ نہیں بولوں گا اس کے بعد جب وہ باہر نکلا تو اُسے ایک بدی کا خیال آیا اور معا یہ خیال آیا کہ اگر میں پکڑا گیا تو کروں گا کیا ؟ کیونکہ سوچ کو از خود یہ عادت ہوتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 561 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء کہ بدی کے ساتھ ہی بہانے ڈھونڈ رہی ہوتی ہے کہ میں کس طرح اپنا بچاؤ کروں گی یا بدی کرنے والے کا بچاؤ ہو گا.تو جب اس نے سوچا تو اس کو خیال آیا کہ جھوٹ کے سوا میرا بچاؤ ہو ہی نہیں ہوسکتا.چور تھا رات کو چوری کے لئے نکلا تو خیال آیا کہ اگر میں پکڑا گیا تو کیا کہوں گا یا رستے میں کسی نے پوچھ لیا کہ کہاں جارہے ہو تو میں کیا جواب دوں گا میں تو وعدہ کر بیٹھا ہوں میں جھوٹ نہیں بولوں گا غرضیکہ یہ سوچ بڑھتی چلی گئی اور اس کی بدیوں کے دائرے سے جھوٹ کا تعلق نکلا یہاں تک کہ بالآخر اس کو ہر بدی سے تو بہ کرنی پڑی ( تفسیر کبیر رازی، سورۃ توبہ آیت ۱۱۹) اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چونکہ وہ اس معاملہ میں سچا تھا کہ جھوٹ نہیں بولے گا اور پھر سچ کے نیک بچے پیدا ہونے شروع ہوئے اور خدا کے فضل سے اس کو کثرت کے ساتھ نیکیوں کی توفیق ملی.صلى الله تو یہ وہی مضمون ہے جسے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ انسان سچ بولتا ہے تو اس کے نتیجہ میں نیکیاں پیدا ہوتی ہیں.جھوٹ بولتا ہے تو اس کے نتیجہ میں بدیاں پیدا ہوتی ہیں.فرمایا انسان سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے.یہ بھی بہت ہی عظیم کلام ہے.ایک عارف باللہ کا کلام ہے جو انسانی فطرت پر گہری نظر رکھتا ہے.صرف یہ نہیں فرمایا کہ سچ بولتا ہے.فرمایا سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ساری زندگی سچ کے معاملہ میں جہاد کرنا پڑتا ہے جس کو ایک سطح سے دیکھا جائے اور وہ سچا نکلتا ہے اور اگر دوسری سطح سے دیکھا جائے تو وہی شخص بعض پہلو سے جھوٹا بھی نکلے گا.آزمائشوں کی بات کیسی بڑی آزمائش ہے؟ کس نوع کی آزمائش ہے؟ اور اس کے مزاج سے اُس آزمائش کا کیا تعلق ہے؟ یہ بہت سے عوامل ہیں جو مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی انسان خدا کے نزدیک سچا ٹھہرتا ہے کہ نہیں.پس روز مرہ کی زندگی میں سچ بولنے والے جھوٹے نکل آتے ہیں.روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولنے والے جب کوئی مطلب نہ ہو تو سچ بھی بول دیتے ہیں.پس آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ کوشش کرتا ہے ایک ایسی کوشش جو زندگی کا حصہ بن چکی ہو آپ فرماتے ہیں ایسا شخص بعض دفعہ ایسے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے کہ خدا کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور فسق و فجور کے متعلق فرمایا کہ جھوٹ فستق فجور کا باعث بن جاتا ہے اور یہ آگ کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذ آب لکھا جاتا ہے.پس جو جھوٹ بولنے والا ہے اس کو میں یہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک مقام پر نہیں ٹھہرا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 562 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء رہے گا.اگر اس نے جھوٹ کے خلاف جہاد نہیں کیا تو وہ اپنے جھوٹ میں لازماً بڑھے گا.میں نے کوئی جھوٹا نہیں دیکھا جو رخ موڑے بغیر اپنی ایک حالت پر قرار پکڑ گیا ہو جتنا جھوٹ بولتا تھا کل بھی اتنا ہی بولے.دس دن کے بعد اتنا ہی جھوٹ بولے آئندہ سال بھی اتنا ہی جھوٹ بولے اگر وہ جھوٹ سے پر ہیز کی کوشش شروع نہیں کرتا تو لازما جھوٹ میں ترقی کرتا ہے اور وہ شخص جو سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے وہ لازما سچ بولنے میں ترقی کرتا ہے.پس آنحضور ﷺ کے پیغام کوغور سے سنیں اور سمجھیں آپ یہ فرمارہے ہیں کہ جھوٹ بولنے والوں کو اگر تم باز نہیں آؤ گے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ خدا کے نزدیک تم کذاب لکھے جاؤ گے اور اے سچ بولنے والو تم اپنی کوشش میں تھک نہ جانا اگر تم سچ بولنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ گے تو ایسا وقت آ سکتا ہے کہ خدا کے ہاں تم صدیق لکھے جاؤ.پس ساری جماعت کو جھوٹ سے احتراز کی کوشش کی حالت میں جان دینی چاہئے اور بیچ کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے جان دینی چاہئے پھر جس منزل پر بھی جان نکلے وہی کامیابی کی منزل ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی کماحقہ تو فیق عطا فرمائے.ایک موقع پر آنحضور ﷺ نے فرمایا.کیا تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں حضرت ابو بکر روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا جی حضور ! ضرور بتائیں آپ نے فرمایا.اللہ کا شریک ٹھہرانا.والدین کی نافرمانی کرنا یہ دو باتیں بیان فرمائیں اللہ کا شریک ٹھہرانا بہت بڑا گناہ ہے اور والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے.آپ تکئے کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں آکر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے.آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کاش حضور آب خاموش ہو جائیں تا کہ حضور کو بار بار دہرانے سے تکلیف نہ پہنچے.(بخاری کتاب الادب حدیث نمبر: ۵۹۷۶) تو جھوٹ کا جب ذکر آیا تو طبیعت میں ایک غیر معمولی جوش پیدا ہو گیا اور بار بار فرمایا کہ دیکھو جھوٹ نہیں بولنا اور جھوٹی گواہی نہیں دینی.اب ملکوں کا جائزہ لے کر دیکھیں جو بچے ملک کہلاتے ہیں ان میں بھی جھوٹ اور جھوٹی گواہیاں روز مرہ کی زندگی کا ایک دستور بنتا جارہا ہے لیکن وہ ممالک جو بدنصیبی سے جھوٹ میں ایک خاص مقام حاصل کر چکے ہیں اُن کے ہاں سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں ملتا ہے جس سے سب سے زیادہ زور کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا اور بار بار تنبیہ فرمائی
خطبات طاہر جلدا 563 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء کہ دیکھو جھوٹ نہیں بولنا اور جھوٹی گواہی نہیں دینی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ ممالک جو اسلامی ، اسلامی ہونے کے دعوے کرتے چلے جا رہے ہیں اور ساری دنیا میں شور ڈال رہے ہیں کہ ہم ہیں جو اسلام کی عزت اور وقار کو قائم کرنے والے ہیں، ہم ہیں جو شریعت کا احترام دنیا میں قائم کرنے والے ہیں، ہم ہیں جو اسلامی نظام کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنے والے ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ نظام کن لوگوں پر رائج ہوگا.اسلامی عدل کن عدالتوں میں جلوے دکھائے گا.وہ عدالتیں جہاں ہر گواہ جھوٹا ہو.جہاں مقدمے کی بنا جھوٹی ہو ، جہاں مقدمے کے مقاصد جھوٹ پر مبنی ہوں ، جہاں اول سے آخر تک سارا تانا بانا جھوٹ سے بنا جار ہا ہو اس کا اسلامی نظام عدل سے کیا تعلق ہے لیکن یہ دعویٰ بھی جھوٹا.جس کو انگریزی میں کہتے ہیں He is living a lie بعض قومیں اپنی بدبختی سے جھوٹ کی زندگی بسر کر رہی ہیں اور تیسری دنیا میں ایسے ممالک تعداد میں بہت زیادہ ہیں جہاں اکثریت ایسے باشندوں پر مشتمل ہے جنہیں جھوٹ سے کوئی عار نہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے سوائے مشرق بعید کے وہاں خدا کے فضل سے جھوٹ بہت کم ملتا ہے یعنی ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کے جو حالات ہیں وہ مختلف ہیں لیکن کوریا اور چین اور ہند چینی وغیرہ کے جزائر ہیں وہاں نسبتاً کم جھوٹ ہے اور جہاں جھوٹ کم ہے وہاں اقتصادی ترقی زیادہ ہے.ان دو باتوں کا گہرا رشتہ ہے اور حضرت رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ رزق میں برکت سچ سے ہوتی ہے.( الترغیب والترہیب للمنذری جلد ۳، ۲۹ مطبوعہ مصر ) وہ جھوٹے ہیں کہ جو سمجھتے ہیں جھوٹ سے ہمارے رزق میں برکت پڑے گی.رزق اصل برکت سچ سے ہوتی ہے.مشرق بعید میں اقتصادی لحاظ سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک جاپان ہے اور سب سے زیادہ بچ جاپان میں بولا جاتا ہے.میں نے وہاں جا کر تفصیل سے جائزہ لیا ہے وہاں جو مجالس ہوئیں اور بعض دفعہ دانشوروں سے جو خطاب ہوئے ان میں میں نے کھل کر ان کو خراج تحسین پیش کیا.میں نے کہا بڑے بڑے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے مقابل پر جاپان میں سچ بہت زیادہ گہرائی کے ساتھ نافذ ہے اور ان کی روزمرہ کی زندگی میں جھوٹ کا تصور ہی کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ رزق کی سب سے زیادہ فراوانی بھی اسی ملک میں ہے.پس جو قو میں جھوٹی ہو جائیں وہاں رزق کو برکت نہیں ملتی اور کوئی جھوٹا خدا ان کا رب نہیں بنا کرتا.جھوٹ سے نفرت نہیں تو رزق
خطبات طاہر جلد ۱۱ 564 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء سے تو محبت بہت ہے اس لئے اس نکتہ کو ہی کم از کم سمجھ لیں.یہی اگر سمجھ جائیں کہ رزق سچ سے ملے گا جھوٹ سے نہیں ملے گا تو اس سے ہی ان قوموں میں عظیم انقلاب برپا ہو سکتے ہیں.الله حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.کہ انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی علامت کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے (صحیح مسلم کتاب المقدمہ حدیث نمبر ۶) اب آپ اپنی سوسائٹی کا جائزہ لے کر دیکھیں جہاں جھوٹ زیادہ ہو وہاں یہ عادت روز مرہ ہر طبقہ میں عام طور پر ملتی ہے کہ ادھر سے بات سنی اور اُدھر لے اُڑے اور دوسری طرف سے باتیں بیان کرنی شروع کر دیں.عجیب قسم کی بیہودہ گندی عادت اس لئے ہے کہ اس کا چسکا ہے.اس کے پس منظر میں بہت سی نفسیاتی خرابیاں ہیں.نفسیاتی ٹیڑھا پن ہے، کجیاں ہیں.جن کے نتیجہ میں یہ عادت پیدا ہوتی ہے.اگر اپنے بھائی سے یعنی بھائی سے مراد یہ ہے کہ اپنے ہم وطن ، اپنے ہم شہری، اپنے تعلق دار سے دلی محبت نہ ہو تو انسان اس کی برائی کی تلاش میں رہتا ہے اور جس سے محبت ہو اس کی برائی پر پردہ ڈالتا ہے اور اس کی خوبیوں کو اچھالتا ہے.تو جن سوسائٹیوں میں چغل خوریاں یاسنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے کی عادت ہو وہاں دراصل اس مرض کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس سوسائٹی میں بغض ہے، اس سوسائٹی میں حسد ہے، اس میں محبت کا فقدان ہے، بھائی بھائی سے جلتا ہے اور اس کا دشمن ہے.پس جب بھی برائی کی کوئی بات کان میں پڑے فوڑا آگے بیان شروع کر دیتے ہیں اور اس کے علاوہ مزاج کا جھوٹا ہونا اس عادت کو رواج دیتا ہے جس شخص کا مزاج جھوٹا ہو وہ تحقیق کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا جس کا مزاج سچا ہو وہ تحقیق کی طرف مائل ہوتا ہے.اگر کسی بچے کے سامنے آپ کوئی ایسی بات کریں تو وہ فورا پوچھے گا کہ بتاؤ تم نے کس سے سنی تھی وہ کون شخص ہے اس کے متعلق جائزہ لے گا کہ وہ کیسا تھا اگر وہ سچا ہو تو پھر بات کو آگے بڑھا کر مزید جستجو کرے گا.اگر وہ جھوٹا ہوگا تو و ہیں اس بات کو ترک کر دے گا کہ جس سے تم نے روایت کی ہے وہ تو ہے ہی جھوٹا آدمی لیکن بسا اوقات تحقیق کے نتیجہ میں لوگ دوسرے کا نام بھی نہیں بتاتے.میں نے تو جب بھی تحقیق کی ہے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کا نام پتا ہی نہ لگے.ابھی پچھلے جلسہ کے دنوں میں مجھ سے کسی نے شکایت کی کہ جی ! لوگ یہ باتیں کر رہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 565 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء ہیں.میں نے کہا مجھے نام بتاؤ.ایک آدمی کا نام بتاؤ کس نے بات کی ہے تو شکایت کرنے والے نے کہا کہ جی لوگ عام باتیں کر رہے ہیں میں نے کہا تم نے کسی سے بات سنی ہے یا فرشتے ہوا میں باتیں کرتے ہیں یا جن ہیں جو یہ تذکرے کر رہے ہیں.عام باتیں کر رہے ہیں تو کسی ایک کا نام بتاؤ لیکن کوئی نام نہیں نکلا.اصل میں دل کی باتیں ہیں وہاں سے اُچھلتی ہیں تو بغض کے نتیجہ میں انسان اس بات کا بھی محتاج نہیں ہے کہ کسی سے سن کر آگے بات کرے اپنے دل میں جو خیالات پیدا ہو جاتے ہیں ان کو ہی انسان دوسروں کی طرف منسوب کر کے پیش کرنا شروع کر دیتا ہے.اس مجلس میں اتفاق سے کوئی سود وسو آدمی اور بھی تھے.چنانچہ ان سے میں نے سوال کیا.میں نے کہا اچھا اس کو میں چھوڑ دیتا ہوں.آپ بتائیں کہ آپ میں سے کسی ایک نے یہ بات کہی ہے یا یہ بات سنی ہے تو سو فیصدی نے انکار کیا.انہوں نے کہا ہم بھی تو ساتھ رہے ہیں نہ ہم میں سے کسی نے کہی نہ ہم میں سے کسی نے سنی تبھی کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انسان کا جھوٹا ہونے کے لئے یہی علامت کافی ہے وہ سنتا ہے اور بات کو آگے چلا دیتا ہے.ایسی بیہودہ عادت پھر یہ بات چسکے کی بھی ہے.اگر انسان کو آپ کچھ حاصل نہ ہو تو دوسرے کو نیچا دکھانے میں اس کو ایک مزہ ملتا ہے.انسانی فطرت ہے کہ میں اونچا ہوں تو جن بیچاروں کو اونچا ہونا نہ آتا ہو وہ دوسرے کا سر نیچا کر کے اُونچا ہو جاتے ہیں.تالاب میں بعض لڑکے دوسرے کو ہاتھ مار کر بھی ڈبو دیا کرتے تھے.یہ بھی ایک فخر ہے تو جو تو میں بریکار ہو جائیں ہکتی ہو جائیں، جہاں جھوٹ کی عادت ہو، بیہودہ باتیں ہوں وہاں یہ روزمرہ کی عادتیں ہیں کہ باتیں سنیں اور آگے چلائیں اور پھر اس بات پر بڑے چسکے لئے اور اس کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض بدیاں ایسی ہیں جن کے پھیلانے میں لوگوں کو مزہ ملتا ہے اور اس لئے پھیلاتے ہیں تا کہ لوگوں میں یہ بات ہو کہ کوئی حرج نہیں.فلاں بھی اس طرح کرتا ہے ہم بھی کر لیں تو کیا حرج ہے.تو اپنی بدیوں کے رجحان کو تقویت دینے کے لئے بعض لوگ سنی سنائی بات اگر اچھے لوگوں کی طرف منسوب ہوں تو وہ فوراً اخذ کرتے ہیں اور آگے چلا دیتے ہیں تو ایک جھوٹ ہے جو چار ماؤں کا بچہ ہے اور آگے پھر بڑے ناپاک بچے پیدا کرے گا.جھوٹ کے اوپر بھی گند ہے نیچے بھی گند ہے.ایسی غلیظ چیز ہے اور قرآن کریم نے جب اس کو نجس کے ساتھ ملایا تو بہت ہی خوب ملایا.نہایت ناپاک چیز ہے.گندے ماں باپ کی اولاد اور گندے بچے پیدا کرنے والا اور بدنصیبی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 566 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء سے انسان کو سب سے زیادہ تعلق جھوٹ سے ہے.تو بہت بڑا شرک ہے اس سے توبہ کی جائے اور اگر ہم نے کوشش نہ کی اور غیر معمولی جہاد نہ کیا اور پوری توجہ اور دعا کے ساتھ جھوٹ کے ازالے کی کوشش نہ کی تو آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ہماری سوسائٹی میں جو نیکیوں کی سوسائٹی ہے اس میں بھی جھوٹ نے کتنی کتنی جڑیں جمائی ہوئی ہیں اور کن کن جگہوں میں یہ بت پوشیدہ ہے.اس کو تو ننگا کر کے نکالنا پڑے گا.جڑوں کو بھی کھود کھود کر اسے باہر نکالنا پڑے گا.اس کے لئے سب سے اچھا طریق یہ ہے کہ اپنی عادت بنالیں کہ جب کوئی نیت جنم لینے لگے، کوئی خیال پیدا ہو، کسی کے پاس جارہے ہیں، اس کے سامنے کوئی بات کرنی ہے تو اُس وقت اپنی سوچ کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں اُتریں اور سوچ کی آخری جڑ تک پہنچنے کی کوشش کریں.جس وقت یہ سوچ پیدا ہو رہی ہوتی ہے تو وہ تازہ تازہ وقت وہ ہے کہ اس کے قدموں کے نشان ملتے ہیں اور اُن قدموں کے نشانوں کی پیروی میں کھوج لگاتے ہوئے آپ اُس کے آخری کنارے تک پہنچ سکتے ہیں.جب یہ سوچ پختہ ہو چکی ہویا آگے کسی بدی کو پیدا کر چکی ہو تو پھر وقت ہاتھ سے گزر چکا ہے.پھر آپ اس کی پیروی نہیں کر سکتے.پس یہ عادت ڈالیں کہ جو بھی بات ہو اُس کی اُس سوچ کا تجزیہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہونگے کہ روزمرہ کی بالکل معصوم باتوں میں بھی نفس کو جھوٹے بہانے بنانے کی عادت ہے.روز مرہ کی ملاقات میں ہی ایسی باتیں کر جاتا ہے جو بالکل کھو کھلی ہوتی ہیں اور بے معنی ہیں جن کا سچ سے کوئی تعلق نہیں.پس اگر انسان کو عادت ہو اس کا سراغ لگائے اور واپس پہنچے کے میں نے یہ بات کیوں کر دی تھی.یہ جو فلاں صاحب رستے میں ملے تھے میں نے ان کو یہ کہہ دیا اور اکثر باتیں اس لئے کہیں ہیں کہ میں اُن کے سامنے اور زیادہ اچھا بنوں اور اچھا بننے کے شوق میں بہت سی جگہ جھوٹ کے سہارے لئے جاتے ہیں.پس انسان کو جب تک جھوٹ کی تلاش کی عادت نہ ہو یعنی جھوٹ کی نیتوں کی جڑوں تک پہنچنے کی عادت نہ ہو تو وہ حقیقت میں جھوٹ پر غلبہ نہیں پاسکتا.وہی نکتہ بنیادی نکتہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ خبر دار شیطان تم پر ایسی جگہوں سے حملے کرے گا جہاں سے تم اُس کو نہیں دیکھ سکتے.یہ مراد نہیں ہے کہ کوشش بھی کرو گے تو نہیں دیکھ سکتے اگر یہ مراد ہوتی تو کوئی نیک انسان بھی شیطان کے حملے سے امن میں نہ ہوتا مگر ساتھ یہ بھی تو فرما دیا کہ اے شیطان تجھ کو میرے بندوں پر غلبہ نصیب نہیں ہوگا.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دیکھتے بھی ہیں، جانتے بھی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 567 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء ہیں، اس لئے یہ جوذ کر فرمایا گیا کہ نہیں دیکھ سکتے ، یہ عام لوگوں کا ذکر ہے.عامتہ الناس کا ذکر ہے لیکن اگر تم جستجو کی کوشش کرو، پہچان کی کوشش کرو.خدا سے تعلق ہو اور دعا کرتے ہوئے کوشش کرو تو شیطان اپنی ہر کمین گاہ میں نگاہوسکتا ہے ہر جگہ پہچانا جاسکتا ہے.منافقت کی باتیں بہت ہوتی ہیں.آنحضرت ﷺ نے منافق کی ایک پہچان بیان فرمائی.آپ نے چار بیان فرمائیں کہ یہ اگر کسی میں پائی جائیں تو وہ منافق ہے.اول جب بات کرے تو جھوٹ بولے.دوسرے جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے.تیسرے جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے.چوتھے جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے.( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۳۲۰) ایک جگہ تین باتیں بیان ہوئی ہیں.وعدے کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور عہد کرے تو عہد شکنی کرے ، یہ دراصل ایک ہی بات کی دو شاخیں ہیں یعنی دونوں میں ایک باریک فرق ہے ورنہ بنیادی طور پر ایک ہی بات ہے.مجھے یاد ہے کہ جنوبی افریقہ کی عدالت میں جب احمدی گواہ پر مد مقابل نے ایک دفعہ یہ الزام لگایا کہ تم منافق ہو اور جماعت احمد یہ منافق ہے.یہ اوپر سے کلمہ پڑھتی ہے اور اندر سے کچھ اور سوچتی ہے تو انہوں نے یہی حدیث پیش کی اور اس کا سہارا لے کر عدالت کے سامنے اُس کے چھکے چھڑا دیئے.انہوں نے فرمایا کہ احمدی سوسائٹی بھی یہاں موجود ہے.تمہاری سوسائٹی جس کو تم غیر منافق کہہ رہے ہو وہ بھی موجود ہے.میں آنحضرت ﷺ کی پیش کردہ تین نشانیاں تمہارے سامنے رکھتا ہوں عدالت عالیہ کا کام ہے کہ دونوں سوسائٹیوں کا جائزہ لے کر دیکھے کہ کون سی منافق سوسائٹی ہے اور کون سی نہیں.جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب بحث کرے تو گالیاں بکنا شروع کر دے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی دلیل کے نتیجہ میں اُسے بہت بڑی فتح نصیب ہوئی کیونکہ وہاں کی سوسائٹی کی جو عام برائیاں ہیں وہ سب کو معلوم ہیں اور بدنصیبی سے ان لوگوں میں جو ان کے مدمقابل تھے یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں.حضرت عبداللہ بن عامر بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ایک دن ہمارے گھر میں موجود تھے کہ میری امی نے مجھے یہ کہا کہ آؤ تمہیں کچھ دیتی ہوں.عام طور پر مائیں یا بعض دفعہ باپ بھی کسی بچے کو مجلس سے اٹھانا ہو تو کوئی بہانہ بنا کر اٹھا دیتے ہیں اور چھوٹے بچے کو کہا جائے کہ آؤ میں تمہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 568 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء کچھ دوں تو وہ فورا اٹھ جائے گاور نہ اس وقت جب بچہ خاص طور پر آنحضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا تو اُس کے لئے اُٹھنا بڑا مشکل تھا تو ماں نے کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں.تو معاً آنحضور یہ ماں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا دینے کا ارادہ ہے؟ تو ماں نے کہا کہ حضور! کھجور دوں گی.آپ نے فرمایا اگر تو اسے کچھ نہ دیتی تو جھوٹ لکھا جاتا.(سنن ابوداؤ دکتاب الاداب حدیث نمبر :۴۳۳۹) دیکھیں کتنی بار یک باتوں میں آنحضور ﷺ نے کتنی گہری توجہ سے تربیت فرمائی ہے.ہمارے گھروں میں جو روزمرہ جھوٹ کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں وہاں ابتداء میں خام مال اسی طرح تیار ہوتا ہے.مائیں بھی اور باپ بھی اور بڑی بہنیں بھی اور بھائی بھی چھوٹے بچوں سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں کہ آؤ! میں تمہیں یہ دوں گا.آؤ! میں تمہارا یہ کام کر دوں گا اور اکثر جھوٹ ہوتا ہے یہاں تک کہ بچے پھر اپنے ماں باپ کی ذہنیت کو خوب اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں اور اُن پر قطعاً کوئی اعتبار نہیں کرتے.اس وقت تو وہ سچ کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور ماں باپ جھوٹ کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ جب بڑے ہوتے ہیں تو پھر یہ معاملہ الٹ ہو جاتا ہے.ماں باپ جھوٹے بھی ہوں تو تمنائیں نیک رکھتے ہیں.بچے شروع میں بظاہر سیچ کی نمائندگی کر رہے ہوں لیکن بالآخر بڑے ہو کر جھوٹے بن جاتے ہیں جن کی تربیت اس رنگ میں ہو وہ جھوٹ اختیار کر جاتے ہیں.اس وقت پھر ماں باپ واویلا کرتے ہیں کہ ہائے تجھے کیا ہوگیا، تو کیا نکلا، میں تو تجھے نیک دیکھنا چاہتا تھا یا نیک دیکھنا چاہتی تھی.اگر دیکھنا چاہتے تھے تو ویسے اعمال کرتے ، ویسی تربیت کرتے جیسا چاہتے تھے لیکن روز مرہ کی زندگی میں عملاً یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو دلوں میں، نیتوں میں جھوٹ کے پودے لگا رہی ہوتی ہیں اُس وقت وہ دکھائی نہیں دیتے.نشو ونما پاتے ہیں.بڑے ہوتے ہیں.تناور درخت بن جاتے ہیں اور ساری سوسائٹی جھوٹ کے سائے تلے آجاتی ہے.پس دیکھئے! صلى الله حضور ﷺ نے کتنی پاکیزہ اور کیسی سادہ نصیحت فرمائی ہے.فرمایا کہ اگر تو کچھ نہ دیتی ، تیری نیت میں یہ نہ ہوتا تو تجھ پر جھوٹ لکھا جاتا.جس کا مطلب ہے کہ یہ معمولی معمولی، چھوٹے چھوٹے عذر بھی خدا کے نزدیک جھوٹ لکھے جاتے ہیں.اور انسان کا نامہ اعمال اسی طرح سیاہ ہوتا چلا جاتا ہے.بہت پرانی بات ہے ایک دفعہ قادیان میں ایک ماں باپ اپنے بچے کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ، میں پیچھے پیچھے تھا.بچے کے ہاتھ میں ایک پونا گنا تھا جو ذرا لمبا تھا.اس لئے وہ کونوں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 569 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء پر آکر جگہ جگہ اٹکتا تھا تو ماں نے کہا کہ مجھے پکڑا دو.میں نے تجھے اوپر جا کر یا نیچے جا کر دے دوں گی جدھر بھی رخ تھا تو بچے نے کہا کہ ہاں ہاں کہ میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ کچھ کھا کے دیں گی اس طرح نہیں دیں گی.اب وہ ماں کی عادت سے واقف تھا اور پہچان گیا تھا.بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں.ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ہم چالا کی کر کے دھوکا دے دیں گے.دھوکہ نہیں دے سکتے وہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتے ہیں اور جس بد عادت کا معاملہ وہ بچے سے کرتے ہیں وہ بچہ پھر آئندہ اپنی نسلوں سے اسی بد عادت کا معاملہ کرتا ہے اور اپنے ملنے جلنے والوں سے اپنے تعلقات کے دائرہ میں اسی بد عادت کو پھیلاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا.بدترین آدمی تم اُس کو پاؤ گے جو ذو الوجهين ہو.جس کے دو چہرے ہوں سوسائٹی میں یہاں بیٹھتا ہے تو اور چہرہ بنالیتا ہے اور وہاں بیٹھتا ہے تو اور چہرہ بنالیتا ہے.(مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر : ۴۷۱۴) کسی ایک جگہ جاتا ہے تو اُس کے دشمنوں کے خلاف باتیں شروع کر دیتا ہے.دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اُس سے پہلے کے خلاف باتیں شروع کر دیتا ہے.تو ایسے شخص ہیں جو سوسائٹی میں نفرتیں ہوتے اور بہت سی برائیوں کو پیدا کرنے والے ہوتے ہیں.تو وہ شخص بڑا جھوٹا ، منافق اور چغل خور ہے.پس یہ تین بیماریاں اس عادت سے نکلتی ہیں.پھر آنحضور ﷺ نے آخری نکتہ کی بات یہ بیان فرمائی کہ کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ مزاج میں بھی جھوٹ کو ترک نہیں کر دیتا.یہ بہت ہی پاکیزہ بیان ہے اور ایک ایسا لطیف بیان ہے جسے پڑھ کر روح وجد میں آتی ہے فرمایا کہ ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک جھوٹ سے ایسی نفرت نہ ہو کہ جھوٹ سے نفرت اُس کے مزاج کا حصہ بن چکی ہو.مجھے یاد ہے کہ اس لحاظ سے بچپن میں میری طبیعت پر جو سب سے زیادہ اثر تھا وہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا.اُن کے کردار میں سچائی ایسی گہرائی سے ثبت تھی کہ ناممکن تھا کہ جھوٹ کا کوئی معاملہ ان کے قریب تک پہنچے.بات بھی بچی ، کردار بھی سچا، بچوں میں سچائی دیکھنے والیس اور ان کے ماحول میں جھوٹ پنپ ہی نہیں سکتا تھا.کسی کی مجال نہیں تھی کہ آپ کے سامنے کوئی جھوٹی بات کرے.تو یہ حدیث پڑھتے ہوئے فورا جو ایک وجود میرے سامنے اُبھرا ہے وہ حضرت اقدس اماں جان کا
خطبات طاہر جلدا 570 خطبه جمعه ۱۴ / اگست ۱۹۹۲ء تھا اور حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک زندہ گواہ تھیں جو آخری دم تک گواہ رہیں اور آئندہ آپ کی یادیں ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی گواہ رہیں گی.جس کی بیوی اپنے خاوند کی تربیت میں ایسی ہوچکی ہو اس کا خاوند کتنا سچا ہوگا کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خاوند جھوٹا ہواور بیوی اُس کی ہم مزاج ہو اس کی مؤید ہو اور پھر جھوٹی نہ ہوا گر خاوند جھوٹا ہو اور بیوی اس کی تائید کرتی ہے اُس کی باتوں کو سچا کہتی ہے تو لا ز مادہ جھوٹی ہے اور اگر وہ سچی ہے تو ناممکن ہے کہ خاوند جھوٹا ہو.پس ایسا مزاج پیدا کریں کہ مزاج میں سچ داخل ہو جائے ایسا مزاج پیدا کریں کہ مزاج میں جھوٹ سے نفرت ہو جائے.یہاں تک کہ خاوند اپنی بیویوں کے حق میں گواہی دے کہ وہ صدیقہ ہیں اور بیویاں اپنے خاوندوں کے حق میں گواہی دیں کہ وہ صدیق تھے.ایسے ہی لوگوں کی نسلوں میں پھر سچائی پیدا ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ساری اولاد میں ( یہی وجہ سے یہ مراد نہیں کہ صرف اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے بلکہ والدین کی طرف سے جو ورثہ آیا ہے اس میں ) سب سے زیادہ نمایاں کردار یہی تھا کہ جھوٹ برداشت نہیں تھا.بعض نسبتاً زیادہ متحمل تھے.وہ نرمی سے ، عفو اور درگزر سے کام لیتے لیکن جھوٹ سے اپنی نفرت کو ظاہر کرتے تھے لیکن بعض دفعہ کھل کر اور بعض دفعہ بڑی سختی سے جیسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ جھوٹ برداشت ہی نہیں تھا.کسی بچے سے معمولی سا جھوٹ بھی ظاہر ہو تو بعض دفعہ بھڑک اُٹھتے تھے، بعض دفعہ سخت سزا دیتے تھے، بعض دفعہ سخت الفاظ استعمال فرماتے تھے.دل کے علیم تھے لیکن زبان سے بعض دفعہ بھی بھی ظاہر ہوتی تھی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جو آپ کے چھوٹے بھائی تھے اُن سے تب ہی کسی نے شکایت کی کہ الہام میں تو ہے کہ دل کا حلیم ہوگا مگر دیکھیں حضرت صاحب مجھ پر کتنا ناراض ہوئے تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے مسکرا کر فرمایا سو چو تو سہی اسے دل کا حلیم کہا گیا ہے آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ ناراض ہوتے ہیں تو خود دل اندر سے کٹ رہا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد ایسی دلداری کرتے ہیں کہ ناراضگی کے سارے غم بھول جاتے ہیں تو جو دل کے علیم تھے وہ زبان پر جھوٹ کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کرتے تھے.جو زبان کے بھی حلیم تھے وہ نفرت تو کرتے تھے مگر اس طرح کھل کر اپنی نفرت کا اظہار نہیں کیا کرتے تھے مگر دیکھنے والے کو سمجھ آجاتی تھی کہ اس کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 571 خطبه جمعه ۱۴ را گست ۱۹۹۲ء طبیعت منغضب ہوگئی ہے تو سچ سے بیچ پیدا ہوگا.بچوں کے ہاں بچے بچے پیدا ہوتے ہیں.سوائے اُس کے کہ پھر معاشرہ اس کو تباہ کر دے.اللہ تعالیٰ گندے معاشرے سے بھی بچائے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ سارا معاشرہ سچا کر دو.ایسا سچا کر دو کہ ہر احمدی بچے کے لئے نسلاً بعد نسل سچا ماحول اس بات کی ضمانت پیدا کرے کہ ہر آنے والی نسل کچی پیدا ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اس کے بغیر ہم تبتل الى الله اختیار نہیں کر سکتے.اس کے بغیر ہم دنیا کو تو حید سے نہیں بھر سکتے.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 573 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء چار براعظموں میں براہ راست دیکھا سنا جانے والا پہلا خطبہ جمعہ جھوٹ سے بچیں کہ یہ بت کی نجاست ہے.خطبه جمعه فرموده ۲۱ اگست ۱۹۹۲ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جمعہ بابرکت ہوتا ہے لیکن یہ جمعہ جو آج کا جمعہ ہے جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے بطور خاص بہت برکتیں لے کر آیا ہے کیونکہ یہ وہ پہلا جمعہ ہے جو اسوقت دنیا کے چار براعظموں میں براہ راست دیکھا اور سنا جا رہا ہے.میری مراد یہ ہے کہ اس جمعہ کا یہ خطبہ اس وقت دنیا کے چار براعظموں میں دیکھا اور سنا جا رہا ہے.پاکستان میں جماعتیں بڑی دیر سے محرومی کی شکایت کرتی تھیں کہ خطبات کو براہ راست سننے سے محروم ہو چکی ہیں ایک شخص نے شعروں میں اپنے دل کی حکایت بیان کی تھی کہ کبھی ہم آمنے سامنے بیٹھ کر جمعہ میں شامل ہوا کرتے تھے اور خطبات سنا کرتے تھے اب کیسٹوں کے سہارے آواز پہنچتی ہے تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ جماعت کی اس گریہ وزاری کوسن لیا اور اس وقت پاکستان میں ہزار ہا لوگ جن کی تعداد ہو سکتا ہے کہ ایک لاکھ کے لگ بھگ ہو، براہ راست مجھے دیکھ بھی رہے ہیں اور میری آواز بھی سن رہے ہیں اس طرح ان کی ایک دیرینہ پیاس اللہ تعالیٰ نے بجھا دی اور انہی کی دعاؤں کی برکت ہے اور انہی کا فیض ہے جو آج اس وقت جاپان میں بھی خطبہ سنا جا رہا ہے سڈنی (آسٹریلیا) میں بھی اور افریقہ کے مختلف ممالک میں بھی اور اسی طرح بنگلہ دیش میں انڈونیشیا
خطبات طاہر جلدا 574 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء میں (Solomon Island) تک بھی یہ تصویر پہنچ رہی ہے اور آواز جارہی ہے لیکن غالباً ابھی وہاں مناسب ڈش لگانے کا انتظام نہیں ہو سکا لیکن جوں جوں یہ بات پھیلتی چلی جائے گی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں جماعتوں میں بھی براہ راست خطبہ سننے کا شوق بڑھتا.جائے گا اور ذرائع مہیا ہوتے چلے جائیں گے اور انفرادی طور پر بھی انشاء اللہ تعالیٰ کثرت کے ساتھ وہ خواتین اور بچے جو جمعہ پر نہیں جاسکتے اور وہ مرد بھی جن کے ہاں جمعہ کا وقت نہیں ہو گا گھر میں بیٹھ کر خطبات سے فائدہ اٹھا سکیں گے.پاکستان میں اس وقت پانچ بجکر پینتالیس منٹ کے قریب ہوں گے کیونکہ چار گھنٹے کا فرق ہے ہندوستان میں چھ بجے ہوں گے بنگلہ دیش میں ساڑھے چھ اور انڈونیشیا میں ساڑھے سات اور جاپان میں رات کے ساڑھے نو اور آسٹریلیا میں ساڑھے دس اور Solomon Island میں ساڑھے گیارہ.افریقہ میں مختلف وقت ہیں.اس وقت گیمبیا اور مغربی افریقہ ہم سے ایک گھنٹہ پیچھے ہیں ویسے تو دونوں کا ایک ہی وقت لیکن چونکہ یہاں گرمیوں میں وقت آگے بڑھا دیا جاتا ہے اس لئے وہاں اس وقت دن کے پونے ایک کا وقت ہوگا اور مشرقی افریقہ میں تین گھنٹے آگے ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں پونے پانچ کا وقت ہوگا تو مختلف وقت میں لیکن خطبہ ایک ہی رہے، آواز ایک ہی ہے ، تصویر ایک ہے اور اللہ تعالیٰ نے کل عالم میں یہ عجیب انتظام مہیا فرما دیئے ہیں.مولویوں کو پاکستان میں میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ احمدیوں کے رستے نہ رو کو تمہیں نقصان ہوگا اور خطبات میں خوب کھول کر بیان کیا تھا کہ تم ایک رستہ روکو گے تو خدا بیسیوں رہتے اور کھول دے گا اور اگر زمینی بند کرو گے تو آسمان سے کثرت سے فضل نازل ہوں گے کہ تم کسی زور کسی برتے پر اور کسی طاقت سے ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکو گے اس لئے برکار کی کوشش ہے کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو، اپنا پیسہ ضائع کرتے ہو، خدا کا غضب کماتے ہو اور فائدہ کچھ بھی نہیں.مجھے یاد ہے کہ میں نے اُن سے کہا تھا کہ جب آسمان سے جماعت پر فضلوں کی بارشیں نازل ہوں گی تو کیا تمہاری چھتریاں اور سائبان ان بارشوں کو روک سکیں گے.وہ رحمتوں کے بادل جو افق تا افق پھیلے ہوں اور رحمتوں کے وہ بادل جو آج چار براعظموں تک پھیل چکے ہیں اور خدا کے فضلوں کی بارشیں برسا رہے ہیں کہاں ہے وہ دنیا کا مولوی جو اس کی راہ میں حائل ہو سکے ؟ کون سی اُن کی چھتریاں ہیں، کون سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 575 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء ان کے سائبان ہیں جو خدا کے فضلوں کو روک سکتے ہوں؟ اب تو یہ حکایت عام ہورہی ہے.اب تو ان کے لئے یہ ہی ہے کہ تھے تو سنتا جا تو شرماتا جا“ تمہاری کوششوں کے برعکس نتیجے پیدا کئے ہیں اور ایسے برعکس نتیجے کہ ہمارے تصور میں بھی نہیں تھے اس لئے اپنی طرف سے تو میں نے تمہیں یہی نصیحت کی تھی کہ رک جاؤ مگر اب میں سوچتا ہوں کہ اگر رک جاتے تو پھر اللہ کا فضل ہوا وہ نہیں رکے جو کچھ تمہارا زور ہے کرتے چلے جاؤ جتنی طاقت ہے، جتنی بساط ہے جس طرح قرآن کریم نے شیطان کو یہ چیلنج دیا تھا کہ اپنا لشکر دوڑ الا ؤ ، اپنے گھوڑے چڑھالا ؤ لیکن میرے بندوں پر تمہیں غلبہ نصیب نہیں ہوگا ، جو طاقتیں ہیں بروئے کار لاؤ.خدا کی قسم تمہیں کبھی غلبہ نصیب نہیں ہوگا کیونکہ خدا کے بندوں پر غیر اللہ کوغلبہ نصیب ہونا ممکن ہی نہیں.ان کے مقدر کی بات نہیں.پس آج اس خطبہ میں سب سے پہلے تو میں پاکستان کے اپنے بھائیوں اور بہنوں اور بچوں کو اپنی طرف سے اور تمام حاضرین جمعہ کی طرف سے نہایت محبت بھرا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ کا تحفہ پہنچا تا ہوں اور دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.پھر ہندوستان میں جو سننے والے ہیں ان کو بھی بنگلہ دیش میں بھی ، انڈونیشیا میں بھی اور جاپان میں بھی اور آسٹریلیا میں بھی اور افریقہ کے مختلف ممالک میں بھی ، جو لوگ اس وقت اس خطبہ میں آواز اور تصویر کے ذریعہ حاضر ہیں ان سب کو میری طرف سے اور تمام حاضرین جمعہ کی طرف سے نہایت محبت بھر اسلام اور دعاؤں کے تھنے ہیں جو ہم آپ کے حضور پیش کرتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ چوہدری محمد علی صاحب کی ایک نظم الفضل میں چھپی تھی اس کا ایک شعر نام لئے بغیر دراصل مجھے ذہن میں رکھ کر کہا گیا تھا اور وہ بات کھلی کھلی ظاہر و باہر تھی وہ شعر تھا کہ کبھی تو اس سے ملاقات ہوگی جلسے پر کبھی تو آئے گا وہ وصل کے مہینوں میں (اشکوں کے چراغ صفحہ: ۱۸) میں تو اُن کو بتاتا ہوں کہ اب تو ہر ہفتے جلسے ہوا کریں گے اور وصل کے مہینوں کا انتظار نہیں وصل کے ، ہفتوں کا انتظار ہے جواب جاری ہو گیا اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ بند نہیں ہوگا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ بات پھیلتے پھیلتے اب امریکہ تک بھی جاپہنچے گی اور کینیڈا تک بھی اور کل عالم پر
خطبات طاہر جلدا 576 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی آواز محیط ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کا یہ کلام بڑی شان کے ساتھ پورا ہوگا.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ ( تذکرہ: ۲۶۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ادنی غلام کو یہ توفیق ملی ہے آئندہ آنے والے بھی اس الہام کی برکت سے براہ راست تمام دنیا کو مخاطب ہوا کریں گے اور زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز سنی جائے گی.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے اس کے احسانات ہیں اتنے کہ ہم ان کو گن نہیں سکتے ، اتنے کہ ساری زندگیاں بھی خدا کے حضور قربان کر دیں تو ان کے شکر ادا نہیں ہو سکتے، اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گزار بندے بنائے اور ناشکرا نہ بنائے کیونکہ اگر ہم شکر گزار بندے بن جائیں تو جو احسان ہم گن نہیں سکتے ان میں سے ہر احسان پھر نشو ونما پائے گا ہر احسان کو پھر بکثرت پھل لگیں گے اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا سلسلہ لامتناہی ہو جائے گا.پس شکر گزار بندوں کا یہ انعام مقدر ہے جو آنحضرت ﷺ کو عطا ہوا اور آپ کے فیض سے ہم سب تک پہنچا کہ لَبِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم: ۸) اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور بڑھاؤں گا اور ضرور بڑھاؤں گا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب خدا کے جو فیض ہم پر نازل ہو رہے ہیں انہوں نے تو بڑھنا ہی بڑھنا ہے اور پھیلنا ہی پھیلنا ہے پھولنا اور پھلنا ہے.تمام دنیا میں یہ بات پھیلتی جائے گی اس لئے جماعت احمدیہ کو ان ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے جو خدا کے فضلوں کے نتیجہ میں ہم پر عائد ہوئی ہیں اپنی زندگیوں میں جہاں تک ممکن ہوروحانی انقلاب برپا کرنے چاہئیں یہی وجہ ہے کہ میں نے تبتل الی اللہ کا مضمون بیان کرنا شروع کیا اور جماعت کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ جب تک غیر اللہ سے کٹ کر خدا کے نہیں ہو جاتے یا غیر اللہ سے کٹنے کا سلسلہ شروع نہیں کر دیتے اس وقت تک ہمارے سارے کام حقیقت میں خدا نہیں بنائے گا کچھ کام ایسے ہوں گے جن میں ہم خدا کی بجائے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہوں گے وہ کام تو خدا نہیں بنائے گا.خدا وہی کام بنایا کرتا ہے جن میں تمام تر تو کل اور انحصار انسان خدا کی ذات پر ہی کرے.پھر تبتل کا یہ معنی ہے کہ دنیا سے اپنی امید میں، اپنی حرصیں اپنے خوف ، اپنی طمعیں کاٹ
خطبات طاہر جلدا 577 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء دواور پھر خدا پر ہی تو کل کرو.اسی کے ہو جاؤ اور پھر دیکھو کہ تمہارے سارے کام اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود بنائے گا، تمہارے سارے بوجھ اُٹھائے گا تمہاری ساری مشکلات دور فرمائے گا تم خدا کے وہ نمائندہ بن جاؤ گے جس کا غالب آنا مقدر ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو نہیں ٹال نہیں سکے گی.یہ وہ مضمون ہے جس کی تفصیلات میں جا کر میں پچھلے دو خطبوں سے یہ بیان کر رہا ہوں کہ سب سے بڑا بت جو تبتل کی راہ میں حائل ہوتا ہے وہ جھوٹ کا بت ہے دنیا میں سب سے زیادہ عبادت جھوٹ کی ہو رہی ہے.وہ قومیں جو خدا کی قو میں کہلاتی ہیں وہ اہل مذاہب جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں جن کے مذاہب کے بنیاد میں الہام پر مبنی ہیں یعنی الہام کے ذریعہ بنیادیں قائم ہوئیں ان مذاہب کے ماننے والوں کی بھاری اکثریت اتنی بڑی بھاری اکثریت کہ بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ چراغ لے کر بھی ڈھونڈ وتو اس اکثریت میں استثناء نہیں ملے گا، جھوٹ کی عبادت کرتی ہے، ان کا اوڑھنا بچھونا جھوٹ، ان کی اُمید میں جھوٹ سے وابستہ ہیں اور وہ خوف میں نجات جھوٹ سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہر بات میں جھوٹ کی طمع ہے جو ان کا سہارا بنتی ہے.تو اگر نام خدا کالے رہے ہوں اور سجدے بتوں کے کر رہے ہوں تو خدا ایسا نادان تو نہیں کہ ان سجدوں کو جو بتوں کو کئے جارہے ہوں قبول فرمالے گا.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جب تم خدا کے سوا کسی اور نام پر جانور ذبح کرتے ہو تو وہ گوشت اور وہ قربانیاں خدا کو بہر حال نہیں پہنچتیں وہ تو دنیا کے لئے ہیں ، دنیا کے لئے ذبح ہو جاتی ہیں.پس بعض لوگ جب خدا کو مد نظر رکھ کر بھی بظاہر خدا کے لئے اپنی عبادتیں وقف کرتے ہیں ان کی نمازوں کا اُٹھنا بیٹھنا خدا کے لئے ہوتا ہوگا اور وہ بھی بظاہر ان کا گرجوں میں جا کر Services میں شامل ہونا بھی بظاہر خدا کی خاطر ہوتا ہوگا.ان کا دوسری عبادت گاہوں میں جا کر خدا کے سامنے سر جھکانا بھی بظاہر خدا کے لئے ہو گا لیکن مساجد سے باہر آنے کے بعد جب ساری زندگیاں غیر اللہ کے لئے وقف ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت اس تھوڑی سی عبادت کو کبھی قبول نہیں کرے گا جو اس کے لئے الگ کی گئی ہو.لیکن جب میں نے بظاہر وہ الفاظ استعمال کیا تو عمدا میں نے ایسا کیا کیونکہ وہ لوگ جو موحد ہیں.ان کی عبادتیں بھی اکثر خدا کے لئے نہیں ہوتیں، ان کے خیالات ان کو عبادتوں میں گھیر لیتے ہیں، ان کے فکر دامنگیر ہو جاتے ہیں، کئی قسم کے جن ہیں جو ان کو چمٹ جاتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 578 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۹۲ء عبادت کا اکثر حصہ بغیر مغز کے رہ جاتا ہے تو جب موحدین کا یہ حال ہے تو جو موحد نہیں ہیں، جو سراسر شرک کی عبادت کرتے ہیں ان کا اندازہ کریں کہ اُن کا کیا حال ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے حال سے پہلے خود واقف ہو.ہم میں سے ہر فردا اپنے نفس کا تجزیہ کرے، اپنے خیالات اپنی نیتوں کا تجزیہ کرے اور اپنا مقام معلوم کرے کہ وہ کہاں کھڑا ہے.یہ پتا کرے کہ اس کی کتنی عبادت اللہ کے لئے خالص ہے اور کتنی غیر اللہ کے لئے ہے.اس کی زندگی کا کتنا حصہ خدا کے ذکر میں گزرتا ہے اور کتنا وقت غیر کی باتیں جیتے ہوئے کشتا ہے.یہ ظاہری جینا مراد نہیں.مراد یہ ہے کہ خیالات اگر غیر سے چمٹے ہوئے ہوں تو نام خدا کا بھی لیا جار ہا ہو تو دراصل وہ غیر کا ہی لیا جاتا ہے.ہم نے ایسے تسبیح کرنے والے دیکھے ہیں جو انگلیوں سے خدا کی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں اور زبان سے گندی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں ، جھگڑا کر رہے ہوتے ہیں اور نفسانی خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ظاہر کو نہیں دیکھتا وہ حقیقت پر نظر رکھتا ہے.یہ معلوم کرنے کے لئے کہ خدا کی کس حقیقت پر نظر ہے.آپ کی اپنی نظر اسی حقیقت پر ہونی چاہئے ورنہ آپ کی نگاہ اور خدا کی نگاہ کے فیصلے مختلف ہوں گے اس لئے اس تفرقہ کو دور کریں.جب تک آپ کی نظر سچی نہیں ہوتی آپ اپنی ذات کا خدا کی نظر سے مطالعہ کر ہی نہیں سکتے.آپ کو علم ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ کے نزدیک آپ کا کیا مقام ہے.پس اسی وجہ سے میں نے تفصیل میں جا کر بتا نا شروع کیا کہ سب سے بڑا بت جھوٹ کا بت ہے جو عبادت کے خالص ہونے کی راہ میں حائل ہے اس کو تو ڑو اور اس کو تو ڑو تو اکثر بت ٹوٹ جائیں گے لیکن اور بھی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے، جن کی تفاصیل احادیث میں بیان ہوتی ہیں.ان میں سے ایک ایک موضوع کو لے کر انشاء اللہ تعالیٰ وقتا فوقتا میں آپ کے سامنے کھول کر یہ باتیں پیش کروں گا.اس وقت جھوٹ کے مضمون کے سلسلہ میں یہ تیسرا خطبہ ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے خطبہ میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ وہ قومیں جو جھوٹی ہیں ان کی اقتصادیات میں برکت نہیں ہے اور یہ صرف فرد کا معاملہ نہیں جھوٹ قوموں کے رزق کو چھین لیتا ہے اور بظاہر انسان جھوٹ کو اپنا رب بنا رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایسا ظالم رب ہے، ایسا دھو کے باز رب ہے کہ ایک ہاتھ سے کچھ دیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے اُس سے بہت زیادہ واپس لے جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 579 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء چنانچہ میں نے اس کی دو مثالیں دیں، یہاں دیندار یا غیر دیندار کا فرق نہیں ہے.وہ قومیں جو سچی ہیں اُن کے رزق میں ضرور برکت پڑتی ہے.چنانچہ مشرق بعید کی قوموں کی مثال آپ کے سامنے رکھی، جاپان کی مثال سامنے رکھی کہ ان کی بھاری اکثریت خدا کو بھی نہیں مانتی لیکن سچ بولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں جن قوموں میں سچ بولا جا رہا ہے وہاں رزق میں بہت برکت ہے.ہمارے تیسری دنیا کے ممالک کو بھی اس سے نصیحت پکڑنی چاہئے.اس خطبہ کے بعد یہ حدیث میرے سامنے آئی جس میں یہ مضمون بیان ہوا ہے یہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے حضرت اقدس محمد اللہ نے فرمایا کہ والدین سے نیک سلوک عمر کو بڑھاتا ہے، جھوٹ رزق کو کم کرتا ہے اور دعا قضاوقد رکو بدل دیتی ہے.(الترغیب والترهيب للمنذری جلد دوم۹۲ مطبوعہ مصر ) ان تین باتوں میں انسانی زندگی کے سارے مسائل حل ہو گئے انسان اپنی عمر اور صحت کے لئے کتنی کوشش کرتا ہے اس کے لئے یہ نکتہ بیان فرمایا کہ والدین سے نیک سلوک عمر کو بڑھتا ہے ہمارے ہاں بہت سے والدین جو بچوں کی شکایت اگر زبان پر نہیں لاتے تو دل میں ضرور رکھتے ہیں اور بڑے محروم ہیں وہ بچے جو ماں باپ کی خدمت کی عمر کو پہنچتے ہوں یا جب خدمت کی توفیق ملے ، ماں باپ زندہ ہوں اور پھر ان کی خدمت نہ کر سکیں تو یہ نصیحت بھی ضمناً آپ کے سامنے ہے کہ اگر آپ اپنی عمر اور صحت اور اپنے بچوں کی عمر اور صحت کے خواہاں ہوں تو اپنے ماں باپ کی جس حد توفیق ہو خدمت کریں.جھوٹ رزق کو کم کرتا ہے بڑھاتا نہیں ہے.یہ بات بہر حال کچی ہے اس لئے جھوٹ کے ذریعہ کمانے والوں کے لئے یہ انذار ہے.یہ وعید ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رزق بڑھ رہا ہے لیکن بالآخر نہ انفرادی طور پر جھوٹ سے کمائے ہوئے رزق میں برکت رہتی ہے، نہ قومی طور پر برکت رہتی ہے اور پھر دعا قضاء وقدر کو بدل دیتی ہے یہ عجیب نکتہ ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو (کلام محمود صفحه :۱۰۵) قضاء و قدر کے خلاف انسان کی کوئی تدبیر کام نہیں کر سکتی اسی کو غیر ممکن کہا جاتا ہے.جب قضاء فیصلہ دیتی ہے تو اس کو ٹالنا ناممکن ہو جاتا ہے مگر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس
خطبات طاہر جلدا 580 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء محمد مصطفی ﷺ ہی کے مدرسہ میں تعلیم پائی آپ ہی کی حکمت کی باتیں آگے پہنچائیں چنانچہ یہ بات بھی آنحضرت ﷺ ہی کی بیان فرمودہ نکتہ ہے کہ قضاء وقد ر کو دعا بدل سکتی ہے.پس جس شخص کو قضاء قدر پر کمندیں ڈالنے کا اختیار حاصل ہو جائے اس کو اس بات سے بڑھ کر کیا چاہئے ، یہ کمندیں دعا کی کمندیں ہیں جو عرش الہی تک پہنچتی ہیں اور آسمان کے کنگروں پر پیوستہ ہو کر خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جنبش دیتی ہیں اور جب آسمان پر تقدیر جنبش میں آتی ہے تو زمین کی تقدیریں اس کے تابع کام کرتی ہیں ان کی مجال نہیں کہ ان سے الگ کوئی رستہ اختیار کر سکیں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے.یہ بات وہ ہے جس کی بنیا دقرآن کریم میں ہے.قرآن کریم میں جہاں واقعہ افک کا ذکر ہے اور اور بھی بعض مقامات پر اس مضمون پر روشنی پڑتی ہے کہ جو شخص ظن کی بناء پر کسی کو داغدار کرتا ہے وہ لازماً جھوٹا ہے.خدا کے نزدیک وہ جھوٹا لکھا جاتا ہے یہ بحث ہی نہیں آتی کہ وہ واقعہ ہوا تھا ہوسکتا تھا کہ نہیں ہوسکتا تھا ظن کے ذریعہ کسی کو متہم کرنے کا حق خدا نے کسی بندے کو نہیں دیا اور دنیا کے اکثر فساد بدظنیوں کے ذریعہ ہوتے ہیں.تو یہ بھی حضرت محمد مصطفے مے کی لطیف نظر تھی جو اس بات تک پہنچی اور یہ عقدہ ہمارے سامنے کھول دیا ور نہ قرآن کریم ہم بھی پڑھتے ہیں اور عام پڑھنے والے کو یہ خیال نہیں آتا کہ اصل مراد کیا ہے.وہ صلى الله مراد آنحضرت ﷺ نے سبھی اور تفصیل سے یوں بیان فرمائی کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے اور بدظنی کی مزید قسمیں یوں بیان فرمائیں کہ ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو.اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو.(مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر ۴۲۵۰) اب یہ عجیب لطیف کلام ہے کہ بظاہر بدظنی اور تجسس دوالگ الگ چیزیں ہیں لیکن حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ کی عارفانہ نظر اس بات کو پاگئی کہ اگر پہلے بد ظنی نہ ہوتو تجسس کا بچہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا.تجسس اور دوسرے کے عیب کی تلاش کرنا یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے پہلے بدظنی ضروری ہے.جس پر آپ نیک ظنی کرتے ہیں کبھی اس کا بھی تجسس کیا ہے، کبھی اس کے عیب بھی تلاش کئے ہیں اُس کے برعکس بات ہوتی ہے، جس کے ساتھ محبت ہو، جس کے ساتھ پیار ہو ، جس پہ انسان حسن ظن کرتا ہو اس کی برائی دکھائی بھی دے تو انسان آنکھیں بند کرتا ہے، منہ پھیر لیتا ہے کسی بات کا احتمال
خطبات طاہر جلدا 581 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء نظر آئے تو سو دوسرے بہانے ڈھونڈتا ہے اُس بات کو نہ ماننے کے کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے، یہ بھی تو ہوسکتا ہے.پس آنحضرت یا اللہ نے جھوٹ کی یہ قسم بھی بیان فرما کر ہم پر بے حد احسان فرمایا کہ بدظنی ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اس سے بچو، اس سے بچو گے تو معاشرہ تمہارے شر سے بچ جائے گا اور معاشرہ امن میں آجائے گا، اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو، اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو،حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو بے رخی نہ برتو.اب یہ ساری چیزیں بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ان کی بنیا دایک ہی بات میں ہے کہ کسی شخص سے محبت کی بجائے نفرت ہو نا کسی شخص سے پیار کے تعلق کی بجائے اجنبیت کا تعلق یا دوری کا تعلق یا دشمنی کا تعلق ہونا.قرآن کریم نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایسے لوگوں کا حال بیان کیا ہے کہ جب مسلمانوں کو کوئی فتح ملتی ہے اور ان کو غنیمت ہاتھ آتی ہے تو اُن کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور اس تکلیف کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ کاش! ہم بھی وہاں ہوتے تو ہم بھی حصہ پاتے اور جب اُن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں شکر ہے ہم وہاں نہیں تھے ورنہ ہمیں بھی تکلیف پہنچ جاتی.تو بنیادی طور پر دراصل یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ ایک دوسرے سے تعلق قائم کرو، ایک دوسرے کا بھائی بننے کی کوشش کرو ، مومن ایک دوسرے کے اخو ہ ہوتے ہیں اور جو شخص سمجھتا ہے کہ یہ مومن میرے بھائی ہیں اگر یہ سمجھنے کے باوجود یہ باتیں اس میں پائی جاتی ہیں تو اس کا بھائی ہونے کا تصور جھوٹا ہے.یہ بیماریوں کی علامتیں ہیں جو دلوں میں پوشیدہ ہیں اور ان علامتوں کو ظاہر و باہر کر کے حضرت اقدس محمد مصطفے میں لے نے ان بیماریوں کو پہنچانے کا ایک عظیم نسخہ ہمیں عطا فرما دیا.اب دیکھ لیجئے جو بدظنی کرتا ہے وہ اس پر بدظنی نہیں کیا کرتا جس سے پیار ہو محبت ہو جو کسی کی عیب جوئی کرتا ہے برائیوں کی تلاش میں رہتا ہے اگر محبت اور پیار ہو بھی ایسا نہیں کرسکتا.اچھی چیز ہتھیانے کے لئے اپنے پیارے سے متعلق خیال بھی پیدا نہیں ہوسکتا، جتنا پیار بڑھے اتنا دل یہ چاہتا ہے کہ جو چیز مجھے اچھی ملی ہے میں اس کو دے دوں اور جو بھی چیز خود کو نصیب ہو رہی ہو اور اپنے پیارے کے پاس نہ ہو تو بعض دفعہ وہ اچھی چیز بری لگنے لگ جاتی ہے.اس سے انسان کو خوشی کے بجائے تکلیف ہوتی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ کے متعلق روایت ہے کہ جب آنحضور ﷺ کے وصال کے بعد باہر سے اعلی قسم کی چکیاں آئیں اور بہت ہی عمدہ آتا جب پہلی دفعہ ان چکیوں سے نکلا تو حضرت عائشہ صدیقہ کے
خطبات طاہر جلدا 582 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء الله صلى الله حضور پیش کیا گیا کیونکہ وہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی نمائندہ تھیں.آپ نے جب اس آٹے کی بنی ہوئی روٹی کا پہلا لقمہ منہ میں ڈالا تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.آپ کی خادمہ نے عرض کیا کہ یہ تو اتنا اچھا آتا ہے اس سے لطف اٹھانے کی بجائے آپ رو کیوں رہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ میرآقا، میرا محبوب جب زندہ تھا اس وقت یہ آٹا میسر نہیں تھا.جنگ احد میں آپ کے دانت شہید ہوئے وہ موٹا آٹا جو ہم بنایا کرتے تھے اس کی گندم کے ٹکڑے یا جو کے ٹکڑے بعض دفعہ دانتوں میں آجاتے تھے اور تکلیف پہنچتی تھی اس لئے آٹا میرے لئے راحت کا نہیں غم کا موجب ہے، یہ محبت کی نشانی ہے، پیار کی کچی علامت ہے.پس جس بھائی سے پیار ہو اس کی چیز کی طرف لالچ کی نظر انسان ڈال ہی نہیں سکتا اگر اپنے بھائی کی چیز کی طرف آپ لالچ کی نظر ڈالتے ہیں تو پھر تھرما میٹر رسول اللہ ﷺ نے ہمارے ہاتھ میں تھما دیا ہے جس میں آپ اپنا ٹمپریچر دیکھ سکتے ہیں.یہ محبت کا ٹمپریچر نہیں ظاہر کرے گا، نفرت کا ٹمپریچر ظاہر کرے گا.فرمایا اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو.مضمون اور کھلتا چلا جارہا ہے.دشمنی نہ کرو.پھر فرمایا بے رخی نہ برتو.پہلے تو یہ مضمون آگے بڑھ رہا تھا اب اس کا ایک اور کنارہ پیش فرما دیا که در اصل جب تم اپنے کسی بھائی سے بے رخی کرتے ہو تو وہاں بھی محبت کا فقدان ہے جو آگے پھر ان سب چیزوں میں تبدیل ہو سکتا ہے.تبھی انبیاء کو خدا تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے لئے یہ جواب سمجھایا کہ جن کو تمہاری آنکھیں حقیر اور گھٹیا جانتی ہیں میں اُن سے وہ سلوک نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے مجھے خدا کی خاطر قبول کیا ہے اس لئے مجھے اُس سے محبت اور پیار ہے.پس خدا کی خاطر ایمان لانے والوں کے لئے یہ بحث ہی نہیں رہتی کہ کوئی کس قوم سے تعلق رکھتا ہے کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے.امیر ہے کہ غریب ہے کس حال میں ہے اس سے بے رخی نہیں برت سکتا.آنحضرت معہ ایک دفعہ ایک غیر مسلم سروار سے محو گفتگو تھے اور اس وقت ایک نابینا مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس نے بات میں دخل دینا شروع کیا.اب بات میں دخل دینا اخلاق سے گری ہوئی بات ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے اس خیال سے کہ غیر مسلم ہدایت کی باتیں الله سننے آرہا ہے اور اس پر برا اثر نہ پڑے.آپ کو سمجھانا بھی چاہا لیکن دل میں یہ بھی خیال تھا کہ اس غریب کی دل شکنی ہوگی تو کیسا عجیب لطیف انداز اختیار فرمایا اپنے ماتھے پر ہلکے سے بل ڈالے جس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 583 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء سے اس دیکھنے والے غیر مسلم کو یہ معلوم ہو گیا کہ آنحضور کی یہ بات پسند نہیں فرمار ہے کہ کوئی اور شخص آکر ہماری باتوں میں دخل دے اور چونکہ وہ دخل دینے والا چونکہ اندھا تھا اس لئے اس کو وہ بل دکھائی نہیں دیئے اس کی دل شکنی نہیں ہوئی.اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْلى (عبس :۲-۳) کہ دیکھو محمد صلى الله نے ماتھے پر بل ڈالا اور چہرہ دوسری طرف کر لیا اس لئے کہ اندھا اس کے پاس اپنے دین کی باتیں پوچھنے کے لئے آیا.( ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر: ۳۲۵۴۰) پرانے مفسرین نے تو یہ لکھا ہے کہ یہ ناراضگی کا اظہار ہے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بہت ہی لطیف تفسیر بیان فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ ناراضگی کا اظہار نہیں بلکہ حضرت محمد مصطف مے کے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا ذکر ہے اور وہی ذکر ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ اندھے کو زبان سے کچھ نہیں کہا اس لئے جب اس کی دل شکنی نہیں ہوئی تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اخلاق سے کسی معنی میں بھی گری ہوئی بات تھی.آپ نے تو مہمان کی عزت افزائی فرما دی جب اس کی طرف سے اعراض کیا اور ماتھے پر ایک آدھا بل آیا ہو گا جس کا ذکر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.تو محبت کے تقاضے جب اس طرح متضاد بھی ہو جا ئیں تو ایک لطیف روح کس شان کے ساتھ اُن تقاضوں کو ادا کرتی ہے لیکن غریب سے غریب اور آنکھوں سے معذور کے لئے بھی آنحضور ﷺ نے کبھی کوئی دل شکنی کی بات نہیں کی.پس میں یہ بات اس لئے کھول رہا ہوں کہ بعض دوسرے مسلمان بھی اس خطبہ کو سنتے ہیں وہ بھی یہ تفسیریں سنتے ہیں.یہ رسول اکرم ﷺ پر غلط الزام ہے کہ آپ پر ناراضگی کے اظہار کے طور پر خدا تعالیٰ نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے.آپ نے تو اخلاق سے ذراسی بھی گری ہوئی کوئی بات نہیں کی بلکہ نہایت اعلیٰ درجے کے اخلاق کا اظہار فرمایا اپنے غریب غلام کی دلداری فرمائی اور اس کی دل شکنی سے اعراض کرتے ہوئے آنے والے مہمان کی عزت افزائی بھی فرما دی اور اس بار یک پل صراط سے بغیر لڑکھڑائے ہوئے گزر گئے.تو محبت کے تقاضے بعض دفعہ متضاد بھی ہوں تو ذہین اور لطیف جذبات اور لطیف فکر کا مالک انسان ان سب تقاضوں کو بیک وقت پورا کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی نصرت فرماتا ہے کجا یہ کہ ایک انسان دوسرے سے بے رخی برتنے کا عادی ہو.بعض دفعہ یہ چیز بڑی بڑی ٹھوکروں کا موجب بن جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 584 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء مجھے ایک صاحب نے خط لکھا کہ فلاں بڑے آدمی کو اس وقت تو بڑے آدمی سے بے چارہ کوئی زیادہ متاثر تھا لیکن مثال کے طور پر ذکر کر رہا ہوں.ہر بات میں اس کی تائید نہیں کر رہا) لے کر میں ربوہ گیا.وہاں فلاں صاحب مسجد میں باتیں کر رہے تھے اور میں اُن کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تو اُن کو گو یا پتا ہی نہیں کہ کتنا بڑا آدمی ہے اور وہ اپنی باتوں میں مصروف رہے.تو واقعہ یہ ہے کہ اعراض میں دراصل یہ بات بھی داخل ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے پاس پہنچتا ہے تو خواہ انسان باتوں میں مصروف ہو اس کی طرف کچھ نہ کچھ التفات چاہئے ، آدمی اشارہ سے ہی کچھ نہ کچھ عرض کر دے کہ میں ابھی فارغ ہوتا ہوں یا السلام علیکم کہہ کر بات کر کے اور اجازت لے کر پھر دوسری باتوں میں مصروف ہو جائے.تو جماعت احمدیہ کو بہت اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھانا چاہئے اور یہ جو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بے رخی نہ برتو ، اس سے آپ بچیں گے تو اس سے بعد کی چیزوں سے بھی بچ جائیں گے.یہ پہلا ٹھوکر کا قدم ہے جس سے آپ پہچان سکتے ہیں کہ آپ کے دل میں کوئی ریاء، کوئی جھوٹ ، کوئی غیر کے لئے محبت کی کمی تو نہیں ہے اور اسی طرح آپ اپنے نفس کے اندرونے کی باریک پر باتوں بھی آگاہ صلى الله ہو سکتے ہیں.پھر آنحضرت میں یہ ایک اور رنگ میں اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جیسا خدا نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اسے رسوا نہیں کرتا اُسے حقیر نہیں جانتا.اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.(مسند احمد مسند المکین حدیث نمبر: ۱۵۴۴۴۰) بیان کرنے والے کی تشریح ہے یعنی مقام تقویٰ دل ہے، یہ بھی مضمون میں درست ہو سکتا ہے مگر میں تو اس مضمون کو اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ حضرت محمد مصطفے مے کا دل تقویٰ کی آماجگاہ ہے.اگر کسی نے تقویٰ سے آشنائی حاصل کرنی ہے تو اس دل سے آشنائی حاصل کرے.تقویٰ کے انداز سیکھنے ہیں تو محمد مصطفے مے کے دل کی دھڑکنوں سے وہ انداز سیکھے.تو تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے سو فیصد درست بات ہے کہ محمدمصطفی اس کے دل ہی کا تقویٰ تھا جو بعد میں لاکھوں کروڑوں دلوں کا تقویٰ بن گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ایں چشمہ رواں کہ مخلق خداد ہم یک قطره زبحر کمال محمد است ( در مشین فارسی : ۸۹)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 585 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء تو واقعہ ایک قطرہ سمندر بن جایا کرتا ہے اور ساری دنیا میں اس زمانے سے لے کر آج تک چودہ سوسال سے کچھ زائد عرصہ ہو گیا کہ کروڑوں اربوں مسلمان کو تقویٰ کی تھوڑی یا بہت تو فیق ملی وہ اس دل سے پھوٹا تھا جس کی طرف اس وقت حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کی انگلی اشارہ کر رہی تھی اور آپ فرما رہے تھے کہ تقویٰ یہاں ہے تقویٰ یہاں ہے تقویٰ یہاں ہے.پس ہمیں اس دل سے تقویٰ سیکھنا چاہئے اور اس دل کی اداؤں سے آشنائی کے بغیر ہم اُس دل سے تقویٰ کیسے سیکھیں گے.پس سیرت حضرت محمد مصطفی علیہ کے خصوصاً ان حصوں کے مطالعہ کا شوق اور ذوق پیدا کرنا چاہئے اور جستجو کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہئے.جہاں آنحضرت یہ مختلف تعلقات کی آزمائشوں میں اپنی سیرت کے جلوے دکھاتے رہے وہ آزمائشوں کے وقت ہیں جو ہم سب پر آتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو ان آزمائشوں پر اس طرح پورا اترتے ہیں جیسے آنحضور ﷺے ان آزمائشوں پر پورا اُترے.پس تقویٰ سیکھنا ہے تو حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے حالات پر گہری نظر ڈالنا اور سیرت کا محض صلى الله سرسری مطالعہ کرنا بلکہ گہری نظر سے اس دل میں ڈوب کر آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق جو باتیں آپ سنتے ہیں وہ ایک عام انسان کی باتیں نہیں ہیں.اس لئے جب آپ وہ باتیں سنتے ہیں تو سطحی حسن سے متاثر ہوکر وہیں بات نہ چھوڑ دیا کریں.ایک انسان باغ میں سے گزرتا ہے اور پھولوں کا رنگ دیکھتا ، خوشبو بھی سونگھتا ہے تو اُس نے بھی ضرور اس باغ سے فیض پایا لیکن ایک شہد کی مکھی ہے جو اُس کے دل میں اترتی ہے، اُس کا رس چوستی ہے، اس کا الله فیض کچھ اور رنگ رکھتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کی سیرت میں بہت گہرائی ہے اس لئے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ اُس دل میں اتر کر تقویٰ کا رس لینے کی کوشش کریں جو حضرت محمد مصطفی امیہ کے.میں دھڑکتا ہے فرمایا.ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کی تحقیر کرے.ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں.اُس کا خون، اُس کی آبرو اور اُس کا مال.(مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر : ۴۶۵۰ اکثر مسلم ممالک میں تو خون بھی حلال ہو گیا ہے اور دوسری دو چیزیں تو پہلے ہی حلال تھیں بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان میں شاید اس وقت دوسرے تمام ممالک کی نسبت بھائی کا خون زیادہ ارزاں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 586 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء ہو چکا ہے.بھائی کا تو اور معاملہ ہے، ہر روز ایسی اندوہناک خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کسی نے اپنی ماں کو قتل کر دیا، اپنے باپ کو قتل کر دیا، اپنی بہن کو قتل کر دیا، اپنے بیوی بچوں کو قتل کر دیا اور روز مرہ کا دستور بن چکا ہے کہ ادنی سی ناراضگی پر انسانی خون لے لیا جائے اور چھوٹی چھوٹی بات پر دھمکی دینا عام بات بن چکی ہے کہ ہم تمہاری جان لے لیں گے کوئی خدا کا خوف باقی نہیں رہا.اس کا آغاز آنحضور کے فرماتے ہیں بے رخی سے ہوا تھا.جب سوسائٹی میں ایک دوسرے سے بے رخی پیدا ہو جائے تو سوسائٹی جو سفر اختیار کرتی ہے یہ اُس کی آخری منزل ہے.تو بے رخی کو معمولی نہ سمجھیں.جب آپ کے پاس کوئی آتا ہے تو اُس کی عزت افزائی کریں.اگر وقت نہ بھی ہو تو جہاں تک ممکن ہو حسن سلوک کے ذریعہ اُس کے دل میں یہ بات جا گیزیں کرنے کی کوشش کریں کہ آپ اُس سے بڑھ کر نہیں ہیں آپ اُس کی خاطر چاہتے ہیں، اُس کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن وقت کی مجبوری ہے.اگر اس بنیاد پر آپ قائم ہو جائیں تو خیر کی انگلی عمارت لازماً تعمیر ہوگی اور شر کے ہر پہلو سے آپ بچتے چلے جائیں گے لیکن یہاں اگر غلط پتھر رکھا گیا اور بے رخی کے اوپر آپ کے اخلاق کی تعمیر ہوئی تو اس کی بالائی منزلوں پر پھر خون لکھا ہوا ہے.اس منزل تک پہنچنا پھر لازماً ایک وقت کی بات ہے.جو قو میں اس نصیحت سے بے اعتنائی کرتی ہیں وہ پھر کچھ عرصہ کے بعد اُس منزل تک بھی پہنچ جایا کرتی ہیں.میں دوبارہ بتا تا ہوں کہ تین چیزیں حرام ہیں.مسلمان کا خون ، اُس کی آبرو اور اُس کا مال.آبرو تو اتنی حلال ہو چکی ہے کہ راستہ چلتے ایک دوسروں کے سروں سے ٹوپیاں اچھالی جاتی ہیں، بے عزتیاں کی جاتی ہیں سخت کلام کی جاتی ہے، گندی گالیاں دی جاتی ہیں.ہمارے ملک میں دیہات میں تو بدنصیبی سے ہل چلانے والا اور کچھ نہیں تو جانوروں کو ہی گالیاں دیتا چلا جاتا ہے اور بڑی غلیظ اور گندی گالیاں اس لئے میں خاص طور پر پاکستان کو اور ہندوستان کو بھی نصیحت کرتا ہوں لیکن پاکستان کو بہت زیادہ نصیحت کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایسا ملک ہے جس کی بھاری اکثریت حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی غلامی کا دعوی کرتی ہے.اپنی زبان کو پاک کریں ، اپنے بھائی کو اپنی زبان کے شرسے بچائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ باقی سب برائیاں بھی پھر ٹی شروع ہو جائیں گی.جہاں تک مال کا تعلق ہے وہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر غیر کا مال حلال ہے.پہلے مولویوں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 587 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء صلى الله نے یہ فتوے دینے شروع کئے کہ مسلمان کا مال تو حرام ہے لیکن غیر مسلم کا مال بے شک کھاؤ اور لوٹو جو مرضی کرو.ایک دفعہ جب بدی کی راہ کھل جائے تو پھر وہ قدم ایک جگہ رک نہیں سکتے.بدی تو پھر لازماً آگے بڑھتی ہے.اب یہ حال ہے کہ ہر ایک کا مال حلال ہو گیا ہے.اپنا مال ہے جو حرام ہے کیونکہ اس میں حرام کی آمیزش ہو چکی ہے.شاید ہی کوئی ایسا مال ہوگا جو واقعہ حلال ہو.پس عملاً یہ صورت ہے کہ ہر غیر مال حلال بن گیا ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے حرام قرار دیا تھا اور اپنا مال جس کو حلال بنانے پر زور دیا تھاوہ حرام ہو چکا ہے کیسی بدنصیبی ہے؟ اس ایک حدیث میں تمام دنیا کے معاشروں کی اصلاح کے سامان موجود ہیں.یہ تین باتیں ہیں جنہیں اگر مسلمان اپنا لیں تو مسلمانوں کے مقدر بن جائیں.اگر غیر اپنا لیں تو اُن کی تقدیریں بدل جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قطع نظر اس کے کہ کسی کا مذہب کیا ہے اگر آنحضور ﷺ کی ان تین نصیحتوں پر کوئی عمل کرے تو اُس کی دنیا لازمی سنور جائے گی اور جو تین باتیں دنیا سنوارنے کی بیان فرمائی گئی ہیں یہ تینوں نیکی کی باتیں ہیں اور نیکی کے نتیجہ میں پھر اور نیکیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان تین نصیحتوں پر عمل کرنے کے ذریعہ جن قوموں کی دنیا سنورے گی ان کا دین بھی سنور جائے گا.دنیا ہی نصیب نہیں ہوگی ان کو آخرت بھی نصیب ہو جائے گی.تو اللہ تعالیٰ اگر غیروں کو توفیق نہیں دے رہا تو احمد یوں کو تو کم از کم توفیق ہونی چاہئے کہ جس رسول اکرم ﷺ کی محبت اور عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ، جس کی خاطر اتنی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں جس کا کلمہ پڑھنے کے جرم کی سزا کے نتیجہ میں جیلوں میں جاتے ہیں ، مال لوٹے جاتے ہیں، بازاروں میں اُن کو دھکے پڑھتے ہیں ، گالیاں دی جاتی ہیں ، تھانوں میں بلایا جاتا ہے جس رسول ﷺ کی محبت میں یہ سب دکھ اُٹھا رہے ہیں اُس رسول کے فیض سے اپنی دنیا اور اپنی عاقبت سنوارتے کیوں نہیں ہیں.ان نصیحتوں پر اگر عمل کریں گے تو اس محبت کی جو سزا دی جارہی ہے اُس سے ہزاروں لاکھوں گنا اُس محبت کا فیض آپ کو پہنچے گا پس بڑی بدنصیبی ہوگی کہ محبت کے نتیجہ میں مزا تو پار ہے ہیں لیکن محبت کے فیض سے محروم ہیں.ایک اور موقع پر آنحضور ﷺ نے فرمایا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ بڑے گناہ یہ ہیں.اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا.( بخاری.کتاب الایمان حدیث نمبر : ۶۶۷۵)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 588 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء یہ جھوٹ کا مضمون ہے اور جھوٹی قسم کی بات پر پھر آگے یہ بات چل پڑی ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک خصوصاً ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں اس وقت یہ صورت حال یہ ہے کہ بھائی کا مال ہتھیانے کے لئے یا غیر کا مال ہتھیانے کے لئے عدالتوں میں بے فکر اور بے دھڑک جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ کیا ہوگا.اس سلسلہ میں آنحضرت فرماتے ہیں.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور ﷺ کے پاس دو آدمی آئے جن میں وراثت کی ملکیت کے بارہ میں جھگڑا تھا اور معاملہ پرانا ہونے کی وجہ سے ثبوت کسی کے پاس نہ تھا.آنحضرت ﷺ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا میں انسان ہوں اور ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی زیادہ لسان ہو اور بات کو بڑے عمدہ انداز اور لہجے میں بیان کرسکتا ہو.وہ سوسائٹی جھوٹ سے پاک تھی لیکن جھوٹ کی باریک قسموں میں چرب زبانی کے ذریعہ غلط حق حاصل کرنا بھی شامل ہے.پس آنحضور ﷺ نے اس بار یک جھوٹ کی قسم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے چرب زبان ہو، عمدہ طریق پر بات بیان کرے اور میں اس سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کرلوں اور اس کے حق میں کوئی فیصلہ دے دوں حالانکہ حق دوسرے فریق کا ہو.ایسی صورت میں اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئیا اور اپنے بھائی کا حق نہیں لینا چاہئے کیونکہ اُس کے لئے وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اُسے دلا رہا ہوں.اگر وہ لے گا تو قیامت کے دن وہ سانپ بن کر اُس کی گردن پر لپیٹا ہوا ہوگا.حضور کی یہ بات سن کر دونوں کی چیخیں نکل گئیں اور ہر ایک نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ساری جائیداد میرے بھائی کو دے دیں مجھے کچھ نہیں چاہئے.(ابوداؤ دکتاب الاقضیا ءحدیث نمبر: ۳۱۱۲) کتنا اعلیٰ درجہ کا ایمان تھا، کیسا یقین تھا، کیسی محبت حضرت محمد مصطفی ماہ سے تھی ، کتنا کامل صلى الله یقین اُن وعید پر تھا جو آنحضور ﷺ کی زبان پر جاری ہوا کرتے تھے کہ قیامت کے دن یہ تمہیں ملے گا.ہمارے کتنے قضیئے ہیں اور کس آسانی سے وہ نپٹ جائیں اگر انسان اس حدیث پر نگاہ رکھے اور اپنے معاملات قضا میں پیش کرتے ہوئے واضح جھوٹ تو در کنار ادنی سی چرب زبانی کے ذریعہ بھی غیر کا حق لینے سے اجتناب کیا جائے یہ اگر ہو جائے تو جماعت احمدیہ کی قضاء کا اکثر کام جو ہے وہ ہلکا ہو جائے اور مقدموں تک نوبت ہی نہ پہنچے.دراصل اس مزاج کے لوگ مقدمہ بازی کرتے ہی نہیں.اس تک پہنچتے نہیں ہیں.مقدموں سے پہلے پہلے ہی ان کے معاملات نیٹ جایا کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 589 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا اچھا تم یوں کرو کہ اندازے سے جائیداد کے دو حصے کر لو اور پھر قرعہ ڈال لو جس کے حصہ میں جو جائیداد کا حصہ آئے لے لے اور اگر وہ سمجھتا ہو کہ قرعہ میں بھی دوسرے کو کچھ پل گیا ہے تو پھر اس کو چھوڑ دے.اس خیال کو دل سے نکال دے کہ بھائی کو کچھ زیادہ مل گیا ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے ابتلاء سے ٹل گئے.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں فرمایا.آج دنیا کی حالت بہت نازک ہوگئی ہے جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں.جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنالئے جاتے ہیں...یہ آج سے سو سال پہلے کی بات ہے.آپ اندازہ کریں کہ اُس زمانہ میں جبکہ مقابلہ جھوٹ بہت ہی کم تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھوٹ سے کیسی کراہت تھی کہ جو تھوڑا سا بھی جھوٹ دکھائی دیتا تھا اس سے طبیعت کو گھن آتی تھی اور یوں لگتا تھا کہ ہر طرف جھوٹ پھیل رہا ہے.آج کے زمانہ میں جو حال ہو چکا ہے وہ نا قابل برداشت ہے.یہی باتیں سو گنا بڑھالیں تو آج کی حالت یہ بنتی ہے.فرماتے ہیں....کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے...66 کیسا پیارا کلام ہے سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے.طرز ایسی اختیار کریں گے کہ سچ کا پتا نہ لگ جائے ، جو سچ بولنے والے بھی ہیں وہ سچ سے دامن بچا کر اس رنگ میں بیان کردیں گے کہ سچ کی طرف کوئی بات اشارہ نہ کر جائے."..اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت مہ لے کر آئے تھے؟" آپ تو وہ دین لے کر آئے تھے جس کا میں نے ابھی اس حدیث میں ذکر کیا ہے لیکن آج عملاً کیا ہو رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پوچھے ان سے کوئی کہ کیا یہ وہی دین تھا جو آنحضرت مہ لے کر آئے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 590 خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۹۲ء اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پر ہیز کرو.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ ( الحج : ۳۱) بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے....یعنی خدا تعالیٰ نے بت پرستی کے ساتھ جھوٹ کو ملایا ہے.وو...جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بت بناتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی.جیسے ایک بُت پرست بہت سے نجات چاہتا ہے....یعنی بت کے ذریعہ سے نجات چاہتا ہے.یہ مراد ہے وو 66...جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی.کیسی خرابی آکر پڑی ہے.اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو اس نجاست کو چھوڑ دو تو کہتے ہیں کیونکر 66 چھوڑ دیں اس کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا...آج آپ کسی جگہ پر بات کر کے دیکھ لیں ، ہمیشہ یہی جواب ملے گا کہ ٹھیک ہے.دنیا میں رہنا ہے اس کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا.مجبوری ہے یعنی اپنے محبوب کے بغیر کیسے گزارا ہو سکتا ہے.جس نے جھوٹ کو معبود بنالیا ہو وہ اس بات میں تو سچا ہے کہ اس کا اس بت کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا.لیکن اس بات میں جھوٹا ہے کہ انجام کا روہ اُس کے کسی کام آئے گا.جھوٹ کا بت ہمیشہ دعا کرتا ہے انجام کارضر ور نقصان پہنچاتا ہے فرمایا....اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنامدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے بھلائی اور فتح اسی کی ہے.“ ( ملفوظات جلد نمبر ۴ صفحه : ۶۳۶) پھر فرماتے ہیں ” خدا تمہیں نعمت وحی اور الہام اور مکالمات اور مخاطبات الہیہ سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا.وہ تم پر وہ سب نعمتیں پوری کرے گا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 591 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء جو پہلوں کو دی گئیں لیکن جو شخص گستاخی کی راہ سے خدا پر جھوٹ باندھے گا اور کہے گا کہ خدا کی وحی میرے پر نازل ہوئی حالانکہ نہیں نازل ہوئی اور یا کہے گا کہ مجھے شرف مکالمات اور مخاطبات الہیہ کا نصیب ہوا حالانکہ نہیں نصیب ہوا تو میں خدا اور اُس کے ملائکہ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ ہلاک کیا جائے گا کیونکہ اُس نے اپنے خالق پر جھوٹ باندھا.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه: ۲۸) پس وہ لوگ جو خدا کی مخلوق پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اُس سے باز نہیں آتے بالآ خر ان کی زبانیں کھلتی ہیں اور انہیں میں سے وہ بدنصیب پیدا ہوتے ہیں جو خدا پر جھوٹ باندھنے لگتے ہیں اور وہ لوگ جو خدا کے بچوں پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ بھی دراصل خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں کیونکہ خدا کے پاک بندوں پر جھوٹ باندھنا بھی ایسا ہی ہے کہ خدا پر جھوٹ باندھا گیا ہو.اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو، احمدیوں کو خصوصیت کے ساتھ مگر تمام مسلمان عالم کو بلکہ تمام دنیا کو جھوٹ کی نجاست اور جھوٹ کی بت پرستی سے نجات بخشے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 593 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء مکر کائت انسانی معاشرے کو دکھوں میں مبتلا کر دیتا ہے.مغربی قوموں کا مکر ان کا دہرا میعار ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.أَفَمَنْ هُوَ قَابِمُ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمَّوْهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُوا عَنِ السَّيْلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (الرعد : ۳۴) پھر فرمایا:.b گزشتہ خطبوں میں تبتل الی اللہ کا مضمون بیان ہوتا رہا ہے اور آج بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے.میں جماعت کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ ہر انسان نے اپنے لئے خدا کے سوا کچھ بت گھڑ رکھے ہوتے ہیں اور اکثر صورتوں میں یہ بت خود انسان کی اپنی نظر سے بھی مخفی رہتا ہے ورنہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی موحد، توحید کا بندہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خدا کا شرک کرے لیکن قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے ان بتوں کا ذکر فرمایا ہے اور ایک ایک بت کو ننگا کر کے ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی برائیوں اور خطرات سے بھی خوب آگاہ فرما دیا ہے اس لئے قرآن کریم کے حوالے سے پہلے ایک بہت ہی بڑے بت کا ذکر کر چکا ہوں یعنی جھوٹ کا.اب کچھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 594 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء اور بتوں کے ذکر چلیں گے جن کو قرآن کریم بے پردہ کر کے ہمارے سامنے رکھتا ہے اور ہمیں مخاطب فرما کر یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ گو ہم بھی توحید کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کچھ نہ کچھ شرک کے مخفی پہلو ہمارے اندر موجود رہتے ہیں.یہ آیت کریمہ جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ کرتا ہوں اَفَمَن هُوَ قَابِعُ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ یہاں من سے مراد خدا تعالیٰ ہے.پس وہ خدا جو ہر جان کے اوپر پوری طرح نگران کھڑا ہے کہ وہ کیا کمار ہی ہے اور کیا حرکتیں کر رہی ہے کیا اُس کو چھوڑ کر تم کوئی اور معبود بھی اختیار کر سکتے ہو؟ وہ ایسا خدا ہے جس کی نظر سے تمہارا کوئی فعل بچ نہیں سکتا، نیتوں کی باریک ترین آماجگاہوں سے وہ واقف ہے، جہاں بدی کی نیتیں بھی پلتی ہیں اور جہاں نیکیوں کی نیتیں بھی پلتی ہیں ان جگہوں پر اس کی نگاہ ہے.اس سے بچ کر مخفی رہ کر تم کوئی فعل نہیں کر سکتے وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاء اور اس کے باوجود حال یہ ہے کہ ان لوگوں نے خدا کے لئے شریک بنارکھے ہیں قُلْ سَتُمُوهُم ان سے کہو کہ ان کے نام تو بتاؤ وہ بت گنا کر تو دکھاؤ کہ وہ کون کون سے بت ہیں.لَمْ تُنبِتُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ کیا تم خدا کوزمین میں ہونے والی ان باتوں سے آگاہ کرو گے جن سے واقف نہیں؟ اس سوال کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے دل کے مخفی در مخفی حالات سے بھی واقف ہے اس کو چھوڑ کر تم کہاں جاؤ گے کس کی پناہ میں آؤ گے؟ کس کے پردے کے پیچھے چھپو گے؟ بتوں کے ذکر میں فرمایا کہ تم نے جو بت بنا رکھے ہیں ان کے نام تو بتاؤ اُن کے حالات تو بیان کرو کیا تم زمین میں ہونے والی اُن باتوں سے خدا کو آگاہ کرو گے جو خدا کے علم میں نہیں ؟ یعنی خدا کا کوئی شریک نہیں، اس کے ساتھ کوئی جھوٹا بت نہیں ، یہ تو خدا کے علم میں ہے اور جو تم نے بت بنائے ہوئے ہیں اُن کی کوئی حقیقت نہیں.پس کوئی خدا، خدا کے سوا نہیں.یہ وہی مضمون ہے جو بیان ہورہا ہے.فرماتا ہے بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُ وا مَكْرُهُم خدا کے سوا شریک تو نہیں ہے لیکن مکر کا ایک بت ضرور ہے جو اُن لوگوں نے بنا رکھا ہے.پس سموهُمْ کے بعد خدا نے خود ایک بت کا نام لے دیا ہے.فرمایا تم تو نام گنا نہیں سکتے کیونکہ تم ان بتوں کو پہچانتے نہیں.تم نے خدا کے سوا فرضی مدد گار بنارکھے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں.آؤ ہم تمہیں اُن کی حقیقت سے آگاہ کریں تا کہ تمہیں علم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 595 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء ہو کہ ان بتوں کا کوئی بھی وجود نہیں.محض دھوکہ ہی دھوکہ ہے پس ایک نام خدا نے مکر بیان فرمایا وَصَدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وہ مر کرتے ہیں، مکر کو خدا بناتے ہیں اور یہ باتیں اُن کو اچھی لگتی ہیں جتنا بڑا مکار ہو اس کا مکر اُتنا ہی زیادہ خوبصورت کر کے دکھایا جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کمال کر دیا.ایسے بڑے بڑے فریب کئے ہیں کہ کوئی اُن کو سمجھ نہیں سکا کوئی میری نیتوں کی گنہ کو پانہیں سکا پس جتنا بڑا فریبی ہو اتنا ہی زیادہ وہ اپنے فریب کو خوبصورت سمجھتا ہے لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ که سب مکر کرنے والے سچی اور سیدھی راہ سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کے مکر خود ان کی راہ میں آ کھڑے ہوتے ہیں اور یہ صراط مستقیم کی خوبیوں اور منافع سے عاری ہوکر ایک باطل زندگی بسر کرنے لگتے ہیں.چنانچہ اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے فرمایا وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ کیونکہ صراط مستقیم کے بعد ضالین سے بچنے کی دعا سکھائی گئی تھی.فرمایا کہ ان کا مکر انہیں کہاں لے جاتا ہے صراط مستقیم سے محرومی کے بعد یہ ضالین میں شمار ہو جاتے ہیں اور جن کو اللہ گمراہ ٹھہرادے اُن کے لئے پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں.تو کیسے مکر ہیں ، کیسے فریب ہیں جن کے نتیجہ میں انسان راہ سے کھویا جائے اور ہر اچھی چیز سے محروم رہ کر بدیوں کی طرف بگٹٹ دوڑنے لگے جس کا انجام ذلالت کے سوا کچھ نہ ہو یہ تو کوئی نفع کا سودا نہیں.مکر کا بت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انسانی معاشرے کو طرح طرح کے دکھوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور انسان بحیثیت انسان کے بھی محروم رہتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا لیکن جو معاشرہ مکر میں مبتلا ہو جائے وہ پھر سارا معاشرہ گمراہ ہو جاتا ہے اور ہماری اکثر معاشرتی برائیاں جھوٹ کے بعد مکر سے منسلک ہوتی ہیں.مکر بھی جھوٹ ہی کی قسم ہے مگر ایک فرق یہ ہے کہ جھوٹ زبان سے خلاف واقعہ بات کو دھوکے کی خاطر بیان کرنے کو کہتے ہیں.بعض دفعہ خلاف واقعہ بات دھوکے کی خاطر نہیں بلکہ تعجب کے اظہار کے لئے بیان کی جاتی ہے ایسی بات جس کے متعلق کہنے والے کو یقین ہوتا ہے کہ وہ سراسر اس سے دھو کہ نہیں کھائے گا بلکہ حقیقت پا جائے گا اس کو جھوٹ نہیں کہتے.جیسا کہ حضرت ابراہیم نے بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس سے پوچھ لوکس نے ان کو مارا ہے؟ اب وہ بات ایسی تھی کہ بڑے بت سے کیسے پوچھا جا سکتا تھا.بَلْ فَعَلَهُ (الانبیاء ۶۴) کی ایک ضمیر اس بت کی طرف بھی جاتی ہے اور جماعت احمدیہ میں جو تفسیر کی جاتی ہے اس کے سوا اور معنی
خطبات طاہر جلدا 596 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء کر کے حضرت ابراہیم کو الزام سے بچایا جاتا ہے مگر میرے نزدیک بَلْ فَعَلَہ سے مراد یہ بھی لی جائے کہ اس بت نے ایسا کیا ہے اس سے پوچھ لوتو ہر گز جھوٹ نہیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں کسی ایک شخص کو بھی دھوکہ نہیں ہوسکتا تھا کہ واقعتا ابراہیم یہی کہنا چاہتے ہیں اور یہ بڑا بت واقعہ چھوٹے بتوں کو مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا تھا.پس ایسا بیان جو دھوکہ دینے کی خاطر نہیں بلکہ سچائی دکھانے کی خاطر ہو بظاہر خلاف واقعہ ہے لیکن نیت بھی سچائی کی ہے اور نتیجہ بھی سچائی نکلتا ہے تو اس کو جھوٹ کہنا غلط ہے.اب کوئی آدمی روز مرہ کی باتوں میں بھی ایسی بات کر دیتا ہے کہ اس کو زمین کھا گئی اس کو آسمان کھا گیا اب کون پاگل ہے جو اس کو جھوٹا قرار دے گا.یہ محاورہ ہے سچائی کے اظہار کے لئے نہ کہ چھوٹی بات کے بیان کی خاطر تو اس کو جھوٹ نہیں کہا جاتا اس لئے میں نے جھوٹ کی یہ تعریف کی کہ ایسابیان جو واقعہ کے خلاف بھی ہو دھوکہ دہی کی خاطر بیان کیا گیا ہو اور اس سے لوگ دھو کہ کھا سکتے ہوں.یہ تینوں باتیں جب اکٹھی ہو جائیں تو کلام جھوٹا ہو جاتا ہے لیکن بعض افعال ہیں جن میں لفظ استعمال نہیں ہوتے ان میں بھی اگر نیت دھوکہ دینے کی ہو اور جھوٹ دکھانے کی نیت ہو تو وہ افعال مکر میں داخل ہو جاتے ہیں مگر آنحضرت مہ نے فرمایا کہ جنگ کے وقت مکر سے کام لیا جاسکتا ہے ایسا مکر جو جھوٹ نہ ہولیکن دشمن کو غلط تاثر پیدا کر دے.پس اس حد تک مکر کی اجازت ہے جہاں بڑے مصالح خطرے میں ہوں اور جھوٹ بولے بغیر کوئی منفعت حاصل کی جاسکتی ہو.وہ دراصل ذہانت کی ایک کھیل ہے فرمایا الحرب خُدعَةٌ (بخاری کتاب الجہاد حدیث نمبر: ۲۸۰۴۰) کہ لڑائی میں تو دونوں طرف سے چالبازیاں ہوتی ہیں دشمن جھوٹ بول کر بھی چالبازیاں کرتا ہے.مومن کی زبان بند ہے وہ جھوٹ بول نہیں سکتا لیکن وہ Intelligence کے ذریعہ بہتر حکمت کے استعمال کے ذریعہ ایسی حرکتیں ضرور کر سکتا ہے جس سے دشمن غلط نتیجے نکالے اور وہ غلط نتیجہ نکالنادشمن کی ذمہ داری ہوگی کیونکہ ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کی خاطر ، ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے دونوں اکٹھے ہوئے ہیں دونوں کو عقل سے کام لینا چاہئے.یہ کھلا چیلنج ہے ان شرائط کے ساتھ وہاں مکر کی اجازت ہے اُسے مکر خیر کہیں گے مگر بد نہیں کہیں گے.باقی تمام امور میں ہر وہ مگر جس میں بدی کی نیت ہو گناہ ہے اور اس سے پر ہیز لازم ہے لیکن ہماری سوسائٹی میں مکر بھی جھوٹ کی طرح روز مرہ داخل ہو چکا ہے.اتنی دھوکہ بازی ہے کہ تجارت میں دھوکہ ہو گیا ، لین دین کے معاملات میں دھو کے ہو گئے ، گواہیوں میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 597 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء اگر جھوٹ نہیں بولا جار ہا تو دھوکے سے کام لیا جارہا ہے، رشتے مانگنے میں دھو کے سے کام لیا جارہا ہے، رشتے دیتے ہوئے دھوکوں سے کام لیا جا رہا ہے.ساری سوسائٹی میں جو دکھ پھیلے ہوئے ہیں ان میں اگر آپ تلاش کریں گے تو جھوٹ کے بعد سب سے زیادہ مجرم مکر دکھائی دے گا.یوں لگتا ہے کہ مکاری کے بغیر دنیا کے معاملات چل ہی نہیں سکتے.قرآن کریم نے اسے شرک قرار دیا اور شرکاء کی فہرست میں اسے داخل فرمایا.ان جھوٹے شریکوں کی فہرست میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں مگر تمہیں ان کا تصور بہت خوبصورت بنا کر دکھایا گیا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ اس جھوٹے خدا کے ذریعہ تم اپنے کام لے لو گے مگر نتیجہ لازماً تمہیں نقصان ہوگا.تم صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ گے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو جاؤ گے.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہمارا معاشرہ کلیہ مکر سے پاک ہونا چاہئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مد مقابل پر اگر جان لیوا دشمن بھی ہو تب بھی جھوٹ سے کام نہیں لینا لیکن مکر سے ان معنوں میں کہ حکمت عملی ایسی اختیار کی جائے کہ جس سے خود دشمن نتیجہ نکالے اُس حد صلى الله تک آنحضرت مہ کے ارشاد کے تابع مکر جائز ہے اور اسے مکر خیر کہیں گے ، ہر وہ مکر جو کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے یا اپنے ناجائز حق لینے کے لئے استعمال کیا جائے وہ مکر بد ہے.اس مکر کا جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی جنگ کے دوران مکر اس میں اپنی جان کی حفاظت کی گئی ہے.جو انسان کا جائز حق ہے اس مکر کے نتیجہ میں فریب کاری کے ذریعہ کوئی ایسی چیز طلب نہیں کی گئی جس کا انسان کو حق نہ ہو.زندہ رہنے کا حق امن کا حق ہے، دشمن یہ دونوں حق چھینے کے لئے نکالا ہے.پس اپنے حقوق کو بچانے کے لئے نیک نیت کے ساتھ جھوٹ بولے بغیر حکمت سے کام لیتے ہوئے مفادات کی حفاظت کر لینا.یہ مکرسیٹی یعنی برا مکر نہیں کہلا سکتا.ایک سچا مکر ہے اور نیک مکر ہے لیکن اس کے سوا سوسائٹی میں جتنی باتیں پائی جاتی ہیں ان میں مکر کی یہ تعریف داخل ہے اور آپ ذرا تلاش کر کے دیکھیں ہر جگہ آپ کومل جائے گی کہ ایسا مکر کیا جاتا ہے جس میں اپنے حق سے زیادہ ناجائز لینے کی کوشش ہوتی ہے یا مد مقابل کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بیاہ شادی اور رشتوں میں تو یہ مکر بہت ہی چلتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی معاشرہ میں مکر وفریب کی اتنی عادتیں پڑ چکی ہیں کہ ہمارے ہاں تو تاریخی طور پر کہتے ہیں کہ کسی عورت نے اگر کسی کے اوپر الزام لگا نا ہوکہ مجھ پر ظلم کیا گیا ہے مثلاً
خطبات طاہر جلدا 598 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء ساس اگر بہو پر یہ الزام لگانا چاہے تو کہتے ہیں اٹوائی کھٹوائی لے کر پڑ گئی.سارا دن لڑائی کی اور جب بہو کا خاوند اپنا بیٹا گھر آیا تو چادر لے کر بستر کے اوپر لیٹ گئی کہ میں آج اس کے ظلموں سے مر چلی ہوں.مکر خواہ بہو کی طرف سے ہو یا ساس کی طرف سے مکر بد ہی ہے اور ناجائز ظلم کسی پر کروانے کی خاطر کیا جاتا ہے لیکن یہ تو معمولی سی مثال ہے میں نے تفصیل سے جائزہ لے کر دیکھا ہے ابھی تک احمدیوں میں بھی مکر کا استعمال جاری ہے اور اس کے نتیجہ میں ہماری سوسائٹی میں ابھی تک بہت دکھ موجود ہیں.خصوصاً مالی لین دین میں تجارتوں میں اور رشتے داریوں کے تعلقات میں ابھی تک ایک حصہ جماعت احمدیہ میں ایسا ہے جو مکر سے کام لیتا ہے اور اُن کا مکر تب باہر نکلتا ہے جب تعلقات زیادہ بگڑ جاتے ہیں ، جب مقدمات کی صورت اختیار کر جاتے ہیں، جب قضاء میں شکائتیں آتی ہیں یا براہ راست مجھے شکائتیں پہنچتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں ایک جھوٹے بت کی عبادت ہو رہی تھی اور اس بت نے دھوکہ دیا جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ خدا کے سوا کوئی حقیقی خدا نہیں ہے.جن بتوں کو تم نے گھڑ رکھا ہے ان کی عبادتیں کرتے ہو تو کرو لیکن تم ان سے ضرور نقصان اُٹھاؤ گے کیونکہ جھوٹ سے اور فریب سے انسان کو بالحقیقت آخر کا ر نقصان پہنچتا ہے.آنحضرت ﷺ کی ان باتوں پر بہت بار یک نظر تھی کہ سوسائٹی میں کسی قسم کا بھی فریب نہ آئے چنانچہ ایک موقعہ پر حضرت اقدس محمد ﷺے بازار سے گزر رہے تھے.حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہتے ہیں: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فادخل يده فيها فنالت اصابعه بللا فقال ما هذا يا صاحب الطعام قال اصابته السماء يارسول الله قال افلا جعلته فوق الطعام حتى كى يراه الناسُ من غش فليس مِنَّا (مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر : ۱۴۷) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ آنحضرت سے بازار میں سے گزر رہے تھے کہ گندم کی یا کسی اور جنس کی ایک ڈھیری دیکھی جو کھانے کے لئے استعمال ہوتی ہے اس کو طعام“ کے طور بیان فرمایا گیا ہے تو آپ نے کھانے پینے کی اجناس میں سے ایک جنس کی ڈھیری دیکھی آنحضور علیہ نے
خطبات طاہر جلدا 599 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء آگے بڑھ کر اس میں گہرا ہاتھ آگے داخل کر دیا جب باہر نکلا تو انگلیوں پر نمی لگی ہوئی تھی آپ نے ڈھیری بیچنے والے سے پوچھا کہ اے ڈھیری والے یہ کیا دیکھ رہا ہوں یہ نمی کیسی ؟ تو اس نے بڑی ہوشیاری سے جواب دیا اصابته السماء اسے تو آسمان پہنچا ہے.سماء بارش کو بھی کہتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ بارش اُتری ہے.زمین کا گناہ آسمان کی طرف منسوب کر دیا یہ ایک مکر تھا ، وہ ڈھیری بھی مکر کی ایک تصویر تھی اور یہ جواب بھی مکر کا ایک بیان تھا کہ یا رسول یہ کہ میرا کیا قصور ہے آسمان صلى الله پہنچا ہے، آسمان سے بلا نازل ہوئی اُس نے اُسے خراب کر دیا.اب حضور اکرمہ کا جواب سنیں تو روح وجد میں آجاتی ہے.فرمایا افلا جعلته فوق الطعام اگر اوپر سے اترا تھا تو اُسے اوپر ہی کیوں نہ رہنے دیا یہ جونمی تھی اوپر کا حصہ چھوڑ کر بیچ میں تو نہیں گھس گئی تھی.آسمان کی طرف کیوں ظلم منسوب کر رہے ہو یہ تمہارا ظلم ہے اگر اسے اوپر ہی رہنے دیتے تو ٹھیک تھا کوئی بُر انہیں تھا تا کہ لوگ دیکھ لیتے ، لوگوں کو پتا لگتا کہ آسمان نے اس ڈھیری کے ساتھ کیا کیا ہے پھر جو تمہارا مقدر تھاوہ تمہیں ملتا لیکن تم نے اس کو اندر کیا اور نچلے کو اوپر کر دیا یہ الٹ پلٹ کر دینا یہ فساد ہے، یہ دھوکہ ہے، یہ مکر ہے ، پھر فرمایا من غشنا فليس منا جس نے ہمیں دھوکہ دیاوہ ہم میں سے نہیں ہے.جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بڑی گہری نصیحت ہے چھوٹی سی بات ہے بظاہر اور یہ ہمارے معاشرے میں، ہماری اقتصادیات میں روز مرہ کا دستور بنا ہوا ہے.اس قسم کا دھوکہ تو دھوکہ سمجھا ہی نہیں جاتا لیکن آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.جس نے ایسا کام بھی کیا وہ ہم میں سے نہیں صلى الله ہے، جس نے ہمیں دھو کہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی نوح میں جو عبارت کا رنگ اختیار فرمایا ہے کہ جس نے یہ کیا وہ ہماری جماعت میں نہیں ہے.جس نے یہ کیا وہ ہماری جماعت میں نہیں ہے یہ انداز آپ نے حضرت اقدس محمد ہے سے ہی سیکھے تھے آپ کی یہ طرز بیان تھی کہ جو یہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، جو یہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.پس اہل مکر کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا تعلق رسول اللہ ﷺ سے کاٹا گیا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میری جماعت میں سے نہیں ہے تو وہ جماعت صلى الله رسول اللہ ﷺ کی جماعت ہے.اس کے سوا ہے کیا ؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی جماعت نہیں تو اس جماعت کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہمٹی کی بھی قیمت نہیں ہے.پس اس کا تعلق اس فقرے سے جوڑیں الله
خطبات طاہر جلد 600 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء الله کہ فلیس منا.ہر مکر کرنے والا ، ہر فریب کرنے والا اس پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے جو میں نے بیان کیا ہے آنحضرت ﷺ سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہے اور جب تعلق توڑ لیتا ہے تو پھر صحیح راستے سے ہٹ کر گمراہی میں جاتا ہے.یہ اس آیت کریمہ کی بعینہ تفسیر ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنائی ہے فرمایا بَلْ زُيْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ بلکہ ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ ان کے مکرنے ان کو سچی راہ سے الگ کر دیا یعنی محمد رسول اللہ اللہ کی راہ سے انہوں نے تعلق توڑ لئے وَمَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ پس ایسا شخص جس کو خدا گمراہ قرار دے دے اس کے لئے پھر کوئی ہدایت دینے والا نہین.خدا کا گمراہ قرار دینا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا گمراہ قرار دینا حقیقت میں ایک ہی بیان کی دو شکلیں ہیں جس کو خدا گمراہ قرار دے اس کو آپ گمراہ قرار دیتے ہیں اور جس کو آپ گمراہ قرار دے دیں لازماً وہ خدا کے ہاں گمراہ لکھا جاتا ہے تو اتنے بڑے فتویٰ کے بعد پھر بھی اگر مکر وفریب ہماری سوسائٹی میں جاری رہیں تو اس کے نتائج سے میں نے آپ کو آگاہ کر دیا ہے ان کو پیش نظر رکھ کر ذمہ داری قبول کر کے اگر کسی کو حوصلہ ہے کہ حضور اکرم ہے سے اپنا تعلق کاٹ لے تو بے شک مکر کرتا رہے.لین دین کے معاملات میں مجھے اتنے خطوط ملتے ہیں کہ جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے چالا کی کر کے ایسا رنگ اختیار کیا ہوا ہے کہ اگر اس کو پکڑا جائے تو کہے گا میں نے تو نہیں جھوٹ بولا میں نے تو یہ کیا تھا اور یہ کیا تھا حالانکہ شروع سے آخر تک نیت ہی فساد اور دھوکے کی ہے.پس مکر کے نتیجہ میں انسان بعض دفعہ پکڑ سے بھی بچ جاتا ہے اور مکر کے پورے منصوبے میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ اگر میں پکڑا جاؤں تو نکلنے کی یہ راہ ہوگی یہ بھی ایک مکر ہی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ڈھیری والے نے آنحضور ﷺ کی پکڑ سے بچنے کے لئے اپنی طرف سے کیسی روحانی بات کی ہے.یا رسول اللہ ! اللہ کا فعل ! میں بے چارہ کیا کر سکتا تھا.خدا نے آسمان سے نازل کیا جس مصیبت کو خدا نے آسمان سے نازل کیا بندے کا کیا اختیار کہ اس کی راہ میں حائل ہو جائے.اس نے بظاہر نیکی کی اور بڑائی کی کتنی بلند رفعت اور بلند پرواز بات کی ہے.آسمان کی بات کرتا ہے لیکن دھو کہ زمین پر دے رہا ہے.آنحضور علیہ کے سامنے کوئی چالا کی کام نہیں آسکتی آپ اللہ کے نور سے دیکھتے تھے ایسی باریک نظر تھی ، ایسی روشن نظر تھی کہ ہر اندھیرے کا سینہ چیر دیتی تھی.پس وہی خدا ہے جو اسی نظر سے آپ کو دیکھ رہا ہے جس نے محمد مصطفے ﷺ کونور کی
خطبات طاہر جلدا 601 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء یہ نظر عطا فرمائی تھی.اُس کے سامنے ہیں.چالاکیاں میرے سامنے کر لیں گے، قضاء کے سامنے کر لیں گے بعض دوسرے ثالثوں کے سامنے کر لیں گے.اللہ کے سامنے چالا کی کیسے کام آئے گی اس کی تقدیر ضرور جاری ہوگی کہ پھر آپ گمراہ قرار دئیے جائیں گے اور دن بدن آپ کا قدم راہ ہدایت سے بھٹک کر گمراہی کی طرف آگے بڑھتا رہے گا.پھر بعض دفعہ لوگ جب اسی مکر میں مبتلا ہوتے ہیں تو بعض دفعہ نظام جماعت سے بھی مکر شروع کر دیتے ہیں اور چالاکیوں سے کام لیتے ہیں اور عہدوں کو عزت کا ذریعہ بنا لیتے ہیں حالانکہ جماعتی عہدے جو ہیں وہ تو خوف کا مقام ہیں، اتنی بڑی ذمہ داری کسی پر عائد ہو جس میں وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہو، اس کو خود آگے بڑھ کر مانگ کر قبول کرنا یا تو انسان کے کردار کی بہت بڑی عظمت ہے یا بہت بڑی بیوقوفی ہے.عظمت والی بات تو صرف حضرت محمد مصطفے مے پر صادق آتی تھی کہ آپ نے اس امانت کو قبول کر لیا جو خدا نے نازل فرمائی لیکن مانگی نہیں تھی قبول کرنے میں بھی بڑی عظمت تھی لیکن عہدوں کو لالچ میں مانگ کر سوال کر کے یا چالاکیاں کر کے عہدے لینا یہ عظمت نہیں ہے یہ انتہائی بیوقوفی ہے.اس لئے بیوقوفی ہے کہ اگر آپ کے اوپر ایک ذمہ داری ڈالی جائے تو اس ذمہ داری ڈالنے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے پھر آپ سے غفلت ہوتی ہے تو آپ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تو تیری خاطر یہ قبول کیا تھا ہمیں تو کوئی شوق نہیں تھا.تو نے یہ ذمہ داری ہم پر ڈال دی ہے اب ہم سے مغفرت کا سلوک فرما، ہماری پردہ پوشی فرما، غلطیاں ہو جاتی ہیں صرف نظر فرما، تو ایسے شخص کی دعا قبول ہوتی ہے خدا اس کی کمزوریوں سے صرف نظر فرماتا ہے مگر جو شوخی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور اپنی عزت کی خاطر جو بے معنی بات ہے کیونکہ عہدوں میں کوئی عزت نہیں لیکن وہ سمجھتا ہے کہ جماعت کا عہدہ ہے میں سیکرٹری مال بن جاؤں یا امیر مقرر ہو جاؤں تو میری بڑی شان ہو جائے گی جو اس سرسری نظر سے، بیرونی نظر سے عہدوں کو دیکھتا ہے اور آگے بڑھ کر ان کو قبول ہی نہیں کرتا بلکہ شاطرانہ چالوں کے ذریعہ یہ انتظام کرتا ہے کہ عہدہ اس کو ملے، ایسا شخص سوائے اس کے کہ اپنے لئے عذاب سہیڑ رہا ہو ، عذاب خرید رہا ہو اس کے سوا اس کو کوئی بھی فائدہ نہیں لیکن نظام جماعت میں بعض معاملات ایسے ہیں بعض جگہیں ایسی ہیں جو ان باتوں میں دیر سے بدنام ہیں، بعض بستیاں ایسی ہیں جہاں ہیں ہیں سال سے یہ جھگڑے چلے ہوئے ہیں کہ عہدے پر
خطبات طاہر جلدا 602 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء کون سا دھڑا قابض ہو اور جتنی تدبیریں چاہیں آپ اختیار کر لیں جتنے کمیشن چاہیں بھجوا دیں مجال ہے کہ وہ لوگ ٹس سے مس ہوں.جب انتخاب کرواتے ہیں دوسرے فریق کی طرف سے شکائتوں کی طومار شروع ہو جاتی ہے اور یہ لکھنے لگ جاتے ہیں کہ جی !فلاں نے دھوکہ دیا ،فلاں نے دھوکہ دیا، فلاں نے دھوکہ دیا یہ انتخاب بے معنی ہے اور اگر کوئی لوکل دھو کہ نظر نہ آئے تو آنے والے پر الزام لگاتے ہیں کہ جی آپ نے جو ناظر بھیجا تھا ناں وہ بڑا حریص تھا.وہ فلاں کی روٹی کھا گیا ہے.اس لئے اس کے حق میں اُس نے یہ انتظام کروایا.میں نے ایسی جماعتوں کی اصلاح کی بہت کوشش کر کے دیکھی ہے لیکن میری بس نہیں گئی اس وقت میری نظر اس آیت کریمہ پر پڑی کہ جس کو خدا گمراہ قرار دے دے ہوتا کون ہے اس کو ٹھیک کرنے والا.ان کی گمراہی ان کے مکر سے وابستہ ہے.ان لوگوں نے نظام جماعت کو کھیل بنایا اور جھوٹی عزتوں کے حصول کا ذریعہ بنایا اور چالبازیوں سے عہدوں کو حاصل کرنے کی کوشش کی پس ان کے لئے خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی ہدایت نہیں ہے جب تک یہ اس بدبختی سے باز نہیں آتے ، جب تک جماعت کے عہدے کو ایک ذمہ داری نہیں سمجھتے جس کا اُٹھانا بہت بڑی ہمت کا کام ہے دعا اور خوف اور انکسار کے ساتھ اگر انسان اس لئے قبول کرے کہ اگر میں نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا اس وقت ایسا شخص بری الذمہ ہو جاتا ہے.اس پر کوئی حرف نہیں آتا اس کا کسی جماعتی عہدہ کو قبول کرنا ہی بہت بڑی قربانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ جزا پائے گا لیکن ووٹوں میں چالاکیاں جیسا کہ بعض رپورٹیں آتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے سارا سال چندہ نہیں دیا لیکن جن کی خواہش کوئی عہدہ قبول کرنے کی ہوتی ہے وہ اپنے ساتھیوں کے چندے اکٹھے کرتے پھرتے ہیں اور انتخاب سے کچھ دیر پہلے وہ سارے سال کا بقایا اکٹھا کرکے سارے روپے سیکرٹری مال کے حضور پیش کر دئیے جاتے ہیں، اس سے رسید لی جاتی ہے پھر انتخاب کا وقت آتا ہے اس وقت وہ رسید صدرا نتخاب کے حضور پیش کر دیتے ہیں کہ دیکھ لیجئے چندہ پورا ہو گیا.شروع سے آخر تک ساری کارروائی ہی شرارت ہے، ظلم ہے وہ چندہ کیسا جو خدا کے نام پر دیا جارہا ہے اور دیا بتوں کو جارہا ہے ایسا ذلیل اور مکروہ چندہ تو اُن لوگوں کے لئے عذاب کا موجب بنے گا نہ کہ اُن کے لئے کسی ثواب کا باعث ہوگا اور بت اُن کا وہ شخص ہے جس کی خاطر انہوں نے ووٹ بنوانے کے لئے سارے سال کا بقایا پیش کیا اور اس میں بھی بہت سی مخفی چالا کیاں ہیں جن پر میری نظر پڑتی ہے تو میں حیران رہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 603 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء جاتا ہوں لیکن مجبوری ہے.اس کی زیادہ تفصیل سے چھان بین کی نہیں جاسکتی.بعض ایسے آدمی میرے علم میں ہوتے ہیں جن کو بہت زیادہ چندہ دینا چاہئے اگر وہ خدا کی خاطر چندہ دیتے تو اُن کا بقایا دس ہزار بنتا لیکن انہوں نے جس بت کی خاطر چندہ دیا ہے وہ تو ہر بیان کو قبول کرے گا وہ تو یہ چاہے گا ووٹر بن جائے سہی ، کم سے کم دے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ خدا کی خاطر تو دیا ہی نہیں جارہا، نقصان اگر ہے تو جماعت کا ہے.اس کو کیا فرق پڑتا ہے اس کو تو صرف ووٹ ملتا ہے.پھر وہ اس بات میں بھی بعض دفعہ مددکرتا ہے کہ جی !تمہارا بنتا ہی اتنا ہے اور اگرسیکرٹری مال کہے کہ تمہارا زیادہ بنتا تھا تو اس کے ساتھ جھگڑا کریں گے کہ تم انکم ٹیکس کے انسپکٹر لگے ہو تمہیں کیا پتا.جھوٹ کا الزام لگاتے ہو چپ کر کے لے لو جو دیا جاتا ہے یہی تھا جو بنتا تھا یہی دیا جارہا ہے.شروع سے آخر تک دھوکہ ہی دھوکہ اور فساد ہی فساد Exercise ہے اور یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو پتا نہیں چل رہا.جب رپورٹیں آتی ہیں تو چاہے وہ امریکہ سے آرہی ہو یا پاکستان کے کسی گاؤں سے آرہی ہو ان رپورٹوں پر پتلی سے جھلی ہے فلم ہے دھوکوں کی اس کے آر پار صاف دھوکہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے.جب فہرستیں دیکھتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ ان لوگوں نے کتنا ظلم کا سودا کیا ہے.پیسے ضائع کر دیئے اور شیطان کے حضور ڈالے نام خدا کا لیا.پھر دوسرے لوگ ہیں وہ یہ شکوے شروع کر دیتے ہیں کہ جناب آپ لوگوں کے نزدیک مال کی قیمت ہے تقویٰ کی کوئی قیمت نہیں ہے.یہ نظام جماعت ہے جس میں چندے لے کر ووٹ بنتے ہوں، پیسے وصول کر کے ووٹ بنتے ہیں خواہ کوئی نماز پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا.اُن کا اعتراض اگر بنیادی طور پر فی ذاتہ درست بھی ہو تب بھی اُن کی طرف سے دراصل یہ دھوکہ بازی ہے کیونکہ سارا سال جس بھائی نے نماز نہیں پڑھی اس کے لئے اُن کا دل بے چین نہیں ہوا.سارا سال جس بھائی نے تقویٰ کے او پر قدم نہیں مار اس کے لئے ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی ، کوئی کوشش نہیں کی نظام جماعت کو اس وقت اطلاع نہیں کی جب ان کی اصلاح کا وقت تھا اب الیکشن کے موقع پر ان کے تقویٰ کی راہ سے ہٹ جانے کا خیال ان کو کیسے آ گیا ؟ الیکشن کے موقع پر ان کی بے نمازیاں کیوں اُن کو چھنے لگیں صاف ظاہر ہے کہ تکلیف اپنے منتخب نہ ہونے کی یا اپنے کسی ساتھی کے منتخب نہ ہونے کی ہے نہ کہ کسی کی بے راہ روی کی تو تقویٰ کی راہیں بڑی باریک ہیں اور یہ مکر جو ہے یہ ہر چیز میں چلتا ہے نیکی کے نام پر بھی چلتا ہے.کھلی کھلی بدی کے طور پر تو مکر چلتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 604 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء ہی ہے لیکن بڑے بڑے نیک ناموں پر مکر چل رہا ہوتا ہے.پس جماعت کے عہدوں کو، جماعت کے نظام کو جو لوگ جھوٹی عزتوں کا ذریعہ بناتے ہیں ان کے لئے میں قرآن کریم کے الفاظ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ( فاطر:۱۱) یاد رکھو جس کو عزت چاہئے ، اللہ ہی کے پاس عزت ہے اس کے سوا آپ کو کوئی عزت نصیب نہیں ہو سکتی.خدا کے نظام سے دھوکہ کر کے، فریب کاریوں کے ذریعہ ، نظام کی جڑیں کھوکھلی کر کے اور مسلسل دھڑے بازیوں میں مبتلا ہو کر اگر آپ عزت چاہتے ہیں تو کوئی عزت نہیں ملے گی.عزت کیسے ملے گی؟ فرمایا اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر: ۱۱) کتنا پیارا صاف ستھرا پاکیزہ بیان ہے اور عزتیں حاصل کرنے کا کیسا عمدہ طریق بیان فرمایا.فرمایا.إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ اب پہلے تو اپنی نیتوں کو پاک صاف کر کے بات کرو.وہی بات خدا کے ہاں قبول ہوگی اور اس کی درگاہ میں قبولیت پائے گی جو طیب ہو.طیب ایسی بات کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کی دور کی بھی ملونی نہ ہو.ادنی سی بھی ملونی نہ ہو صاف نیت سے بات کی گئی ، پاک لفظوں میں بیان کی گئی نہایت ہی خوبصورت مہکتے ہوئے انداز میں سچائی کے ساتھ وہ بات پیش کی گئی نیت بھی پاک تھی ، طرز بیان بھی پاک اور بالآخر اس کا انجام بھی پاک تھا اس کو کہتے ہیں کلمہ طیبہ.فرمایا یہ کلمہ طیبہ ہے جو خدا تک پہنچتا ہے عزت کے حصول کے لئے وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ اور اس پاک کلمہ کو اونچا کرنے کے لئے عمل صالح کی ضرورت ہے صرف منہ کی پاک باتیں نہ ہوں بلکہ نیک اعمال ان باتوں کو تقویت دے رہے ہوں ان پروں کو توانائی بخشیں کہ وہ پر چل تو سکیں.پروں میں طاقت ہی نہ ہوتو وہ کیسے پرواز کریں گے.پس کلام کو جو پاکیزہ ہو ایک پرندے کی طرح پیش فرمانا جس میں اُڑنے کی سکت ہے مگر وہ نیک اعمال سے طاقت لیتا ہے.اگر نیک اعمال نہیں ہیں تو کلمہ طیبہ میں اڑنے کی طاقت نہیں ہوگی.فرمایا یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ تم عزتیں حاصل کرتے ہو.عزتیں ساری اللہ کے پاس ہیں اور عزت کا سوال وہاں تک کیسے پہنچتا ہے فرمایا.نیک باتوں کے ذریعہ، پاکیزہ باتوں کے ذریعہ، ایسی پاک باتوں کے ذریعہ جن کو اعمال صالحہ طاقت بخشتے ہوں.پس اگر جماعت کا کوئی عہدیدار اپنی سچائی اور پاکیزگی کی وجہ سے ہر دلعزیز بنا ہو، اگر اُس کے نیک اعمال انتخاب کے وقت پیش نظر ہوں تو یقیناً جو وہ مقام پا گیا ہے وہ عزت کا مقام ہے وہ یقیناً ایسا مرتبہ ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 605 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء جو اُس کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کی تفصیل یہی بیان فرمائی ہے.اگر وہ نہیں تو پھر ایک مکر وہ بات ہے.اس کے سوا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں فرمایا: وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيَّاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَيكَ هُوَ يَبُورُ (فاطر (۱۲) کہ وہ لوگ جو بدند بیروں میں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں ان کی عمر چالا کیوں میں گزر جاتی ہے.منصوبے بنانا ، سازشیں کرنا ، جھوٹی تدبیریں کر کے جھوٹی عزتیں حاصل کرنے کا شوق، سیاست میں بھی چلتا ہے، دین میں بھی چلتا ہے ، ہر جگہ یہی چیز چلتی جاتی ہے.فرمایا اُن کے لئے ہم خوشخبری دیتے ہیں کہ اُن کے لئے بڑا سخت عذاب ہے اور اُن کا یہ جو فعل ہے یہ تباہی کی طرف لے جانے والا ہے.ان کو اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا سوائے اس کے کہ وہ ہلاک ہو جائیں.یہ تو ہے معاشرے میں مکر مکر کے ذریعہ انسان معاشرے میں کوئی مقام حاصل کرتا ہے.کوئی حرص کے ذریعہ کسی کی بچی دھو کے سے حاصل کر لیتا ہے اور پھر اُس پر ظلم کرتا ہے.حرص و ہوا کے ذریعہ کسی کا مال غصب کر لیتا ہے.دھو کے کے ذریعہ جھوٹی عزتیں حاصل کرتا ہے.یہ سارے ایسے مکر ہیں جن کا انجام بالآخر بد ہے اور جوسوسائٹی ان مکروں میں مبتلا ہو اس کو کبھی آپ سکھ والی سوسائٹی نہیں دیکھیں گے.دن بدن دکھوں میں مبتلا ہوتی چلی جاتی ہے.عَذَابٌ شَدِيدُ کی جو پیشگوئی ہے یہ صرف بعد کی نہیں ہے اسی دنیا کی بھی ہے.ان ملکوں کا حال دیکھیں جہاں یہ چیزیں چل رہی ہیں جو ابھی میں نے بیان کی ہیں.دن بدن عذاب میں مبتلا ہوتے چلے جارہے ہیں.ان گھروں کا حال دیکھ لیں جہاں اس قسم کے فساد چلتے ہیں کسی کا آپ نیک انجام نہیں دیکھیں گے.ہر وقت دکھ، ہر وقت عذاب ، مقدمہ بازیاں، مصیبتیں ، کوئی جھوٹا رزق حاصل کیا تو وہ بھی عذاب کا موجب بن جاتا ہے اور عَذَابٌ شَدِيد اس طرح بھی بنتا ہے کہ اُن کی اولادیں بعض دفعہ ضائع ہو جاتی ہیں یا وہ ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں یا وہ ایسے بد کاموں میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ ماں باپ کے لئے ذلت اور رسوائی کا موجب بن جاتے ہیں.لوگ ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو آسمان سے اترتی ہیں اور پھر پیچھا نہیں چھوڑتیں.کئی قسم کے ابتلا ہیں جوگھیرا ڈال لیتے ہیں.پس جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے لئے عَذَابٌ شَدِيدٌ ہے تو یہ بالکل اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ مریں گے تو دیکھا جائے گا اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا.یہ عذاب ہے جو دنیا میں شروع ہو جاتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 606 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء اور دنیا کا شروع ہوا ہوا عذاب بتا رہا ہے کہ خدا نے معاف نہیں کیا.جب خدا نے یہاں معاف نہیں کیا تو آئندہ آپ کیسے خیر کی توقع لے کر آنکھیں بند کریں گے.جس کی خدا نے ستاری کرنی ہو اس دنیا میں بھی کرتا ہے.جس سے مغفرت کا سلوک کرنا ہو اس دنیا میں ہی کرتا ہے اور اس دنیا میں اس کے لئے کوئی نیا نظام جاری نہیں ہوتا.وہی نظام ہے جو اس دنیا میں جاری ہے.پس اس لحاظ سے مکر کرنے والوں کے لئے عَذَابٌ شَدِید کی جو خبر ہے وہ بالکل سچی ہے اور ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کو پورا ہوتے دیکھا ہے.پاکستان کے حالات پر نظر ڈال کر دیکھ لیں آپ میں سے اکثر پاکستانی ہیں جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ یہ کتنی سچی باتیں ہیں کہ یہ جومکر کی پہلی قسمیں آپ کے سامنے رکھی ہیں یہ عَذَابٌ شَدِید پر منتج ہوتی ہیں.اس کے سوا اور کوئی خیران سے وابستہ نہیں ہوتی.دوسری قسم کا مکر سیاست کا دجل و فریب ہے.میں نے پہلے بھی اس کی مثال دی تھی کہ خاص طور پر آج کل کی جدید سیاست خواہ وہ مغرب میں کار فرما ہو یا مشرق میں عملاً دجل ہی کا دوسرا نام ہے، فریب کاری ہے.غریب ملک بھی فریب کاریوں میں مبتلا ہیں ، امیر ملک بھی فریب کاریوں میں مبتلا ہیں فرق صرف یہ ہے کہ امیر کا دجل چل جاتا ہے اور غریب کا چلتا نہیں لیکن غریب ملکوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر انہوں نے امیر ملکوں اور طاقتور ملکوں کے اس فریب سے بچنا ہے تو اُن کی پناہ گاہ مکر میں نہیں ہے کہ یہ جھوٹا خدا ہے.ان کی پناہ گاہ سچائی میں ہے اور بتوں کی پرستش کے بجائے ان کو خدا کی پرستش کی طرف واپس لوٹنا چاہئے.آج مسلمان ممالک اپنے سیاست کے دجل کی خاطر امر یکہ کو کھلم کھلا گالیاں دیں یا نہ دیں مگر آج سارے عالم اسلام کا دل گواہی دے رہا ہے کہ امریکہ نے مسلمانوں کے ساتھ دجل سے کام لیا ہے.بوسنیا کے مسلمانوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے.قومی طور پر صفحہ ہستی سے اُن کو بالکل مٹا دینے کا منصوبہ ہے جو سامنے کھل رہا ہے.اتنے خوفناک مظالم مسلمانوں پر توڑے جار ہے ہیں کہ خود مغربی مفکرین یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہٹلر کے مظالم کو بھی ان مظالم نے شرما دیا ہے.پوری کی پوری قوم کی نسل کشی کا منصوبہ ہے جو آنکھوں کے سامنے عملی جامہ پہن رہا ہے کوئی نہیں ہے جو اس کے خلاف کوئی قدم اُٹھائے ان کے پروگرام جو سیاسی تبصروں کے پروگرام ہوتے ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 607 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء آپ سن کر دیکھ لیں.وہاں آپ کو ہر دفعہ آپ کو یہی بات دکھائی دے گی کہ سب کہتے ہیں ہم باتیں کر رہیں ہیں لیکن ان باتوں کے پیچھے ایک بھی عمل ایسا نہیں جو ان باتوں کے بعد ان کو سچا کرنے کے لئے ظاہر ہو لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جو باتیں کرتے ہیں وہ بھی بالکل معمولی ہیں.جتنے بڑے بھیانک جرم ہورہے ہیں ان کا جو علاج باتوں میں تجویز ہورہا ہے وہ علاج ہی کوئی نہیں لیکن اتنا بھی نہیں کرتے.ایک طرف بوسنیا کے یہ مسلمان ہیں جن کے ساتھ یہ ظلم ہے اور اس میں سب سے زیادہ مجرم امریکہ ہے جس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں بلکہ یورپ کے ان ممالک کو بھی آنکھیں بند کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جن کے اندر بے چینی پیدا ہورہی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نقصان ہوگا اور بالآخر ہمارے لئے یہ چیز فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی مگر دوسری طرف عالم اسلام کی ہمدردی یہ ہے کہ شیعوں کہ ساتھ ہمدردی پیدا ہوگئی یعنی مسلمانوں میں سے شیعہ ہیں جو ان کی ہمدردی کے مستحق ہیں اور عراق پر ظلم کرنے کے لئے وہ کہتے ہیں کہ تمہارے ملک کا جو یہ حصہ ہے اس پر تم نے اپنے جہاز نہیں اڑانے کیونکہ تم شیعوں پر ظلم کر رہے ہو اور ہم عیسائی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ شیعہ مسلمانوں پر کوئی ظلم ہو.کیسی منطق ہے؟ کیا دلیل ہے؟ کون سی سچائی اس میں پائی جاتی ہے؟ الف سے کی تک دھوکہ ہی دھوکہ اور فریب کاری ہی فریب کاری لیکن سنی مسلمانوں کے وہ ممالک جو ان کے ساتھ ہیں وہ بالکل خاموش بیٹھے ہوئے ہیں وہ کوئی انگلی نہیں اُٹھا ر ہے لیکن یہ دھو کہ یہاں ختم نہیں ہو جاتا.یہ جانتے ہیں کہ اگر شیعہ نام کے اوپر انہوں نے بعض شیعہ اقلیتوں کی مدد کی تو اردگرد کے سنی ممالک میں ان کے خلاف رد عمل ہونا لازم ہے پس وہ رد عمل بھی چاہتے ہیں.وہ رد عمل جو بھی ظاہر ہوگا وہ ان کے خلاف تو ہو نہیں سکتا کیونکہ طاقتور کے خلاف کمزور کا رد عمل نہیں ہوا کرتا.خصوصاً اگر کمزور بد دیانت ہو چکا ہو، جھوٹا ہو چکا ہو، فریب کار ہو گیا ہو تو اس کا فریب اُس کے خلاف چلتا ہے وہ طاقتور کی بات کو خاموشی کے ساتھ قبول کرتا ہے لیکن اپنے غصے معاف نہیں کرتا.نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کے ردعمل کے طور پر دوسری شیعہ اقلیتوں پر سنی اکثر یتیں ظلم کرنا شروع کر دیں گی اور یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ دیکھو شیعوں کی وجہ سے ایک سنی اکثریت کے ملک کے اوپر یہ تباہی آئی ہے اور کھلے عام شیعوں کی حمایت کی گئی ہے.یہ بات خطرے کا آلارم سعودی عربیہ بھی بجائے گی ، وہ منہ سے کہیں یا نہ کہیں، جتنی اُن کی ایران سے دشمنی ہے وہ ایک کھلی ہوئی بات ہے.امریکہ کے بت کے سامنے سر جھکاتے ہوئے وہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 608 خطبه جمعه ۲۸ را گست ۱۹۹۲ء زبان سے کچھ کہیں یا نہ کہیں مگر اس کے خلاف سعودی عرب کا شدید ردعمل ہوگا.چنانچہ وہ دوسرے ممالک کو پہلے بھی شیعہ سنی فساد کرانے کے لئے پیسے دیتے ہیں اب وہ اور بھی زیادہ دیں گے کیونکہ ان کو خطرہ ہوگا کہ ایرانی طاقت ہمارے اور قریب آگئی ہے.پس یہ ایسی بات نہیں ہے کہ ان لوگوں کو پتا نہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا.سازش میں یہ بھی شامل ہیں ایک طرف سنیوں پر ظلم کرنے کے لئے شیعوں کو بہانہ بنایا جائے اور بظاہر شیعوں کی حفاظت ہو رہی ہے سنیوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن یہ کیا کہ دوسری طرف سنیوں کو مجبور کیا جائے کہ پھر وہ شیعوں پر ظلم کریں اور اس طرح سارا عالم اسلام جس کے کبھی کبھی قریب آنے کے امکان ہوتے ہیں نہ صرف پھٹا رہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر ایک دوسرے سے دور ہو جائے اور نفرتیں پہلے سے زیادہ بڑھ جائیں.یہ وہ ہوشیاریاں ہیں جن کا نام سیاسی مکر ہیں.سیاست میں تو اتنے مکر چل رہے ہیں اور ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے پر آپ نظر ڈال کر دیکھیں مکر ہی مکر ہے.صرف ایک فرق ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں مثلاً اور اسی طرح ہندوستان میں بھی زیادہ تر مکر اپنے آدمیوں سے ہور ہے ہوتے ہیں.سیاست دانوں کی جتنی چالاکیاں ہیں ساری عوام کے مفاد کے خلاف ہوتی ہیں.مگر ہیں لیکن وہ مکر اپنوں پر چل رہے ہیں.ترقی یافتہ ممالک میں بھی مکر ہیں مگر غیروں پر چلتے ہیں.اپنے لوگ جو ہیں وہ ان کے مکر برداشت نہیں کرتے.مجال نہیں صدر بش کی کہ وہ امریکہ کے ساتھ مکر کر کے دیکھے جب بھی مکر کریں یا مکر کی کوشش کرتے ہیں تو جو بھی امریکہ کے پریذیڈنٹ مکر کی کوشش میں ملوث ہوتے ہیں ساری قوم اُن کے پیچھے پڑ جاتی ہے ان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے.کسی کا نام ”Water Gate “ رکھا جاتا ہے.کسی کا نام Iran Gate “ رکھا جاتا ہے.گیٹیوں کا بہت شوق ہے لیکن جتنے بھی گیٹ ہیں وہ سارے مکر پر بنتے ہیں.بے شک آپ اُن کا جائزہ لے کر دیکھ لیں وہ مکر قوم معاف نہیں کرتی اس لئے کسی بھی مغربی سیاست دان کی مجال نہیں کہ اپنی قوم سے مکر کرے لیکن جب غیروں سے مکر کرتے ہیں تو سب آنکھیں بند کر لیتے ہیں.چند ایک شریف دیانت دار صحافی آواز اُٹھاتے ہیں مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے.وہ آواز صرف تاریخ کے حقائق کو ریکارڈ کرنے کے لئے ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں.اس آواز کی بازگشت آئندہ نسلوں میں سنائی دے گی اور وہ نسلیں ان گزرے ہوئے سیاستدانوں پر لعنتیں بھیجیں گی مگر اس زمانے میں ، اس وقت یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 609 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کوئی پکڑ نہیں ہے ہم طاقتور بھی ہیں ، ہم مکار بھی ہیں، فریب میں ہر دوسرے پر بازی لے جاتے ہیں، کون ہے جو ہمارے ہاتھ کو روک سکے گا ؟ مگر قرآن کریم خبر دیتا ہے.فرماتا ہے.أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّاتِ اَنْ تَخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمُ بِمُعْجِزِيْنَ اَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (النحل : ۴۶ تا ۴۸) وہ طاقتور مکار ( یہاں طاقتور کا مضمون اس میں شامل ہے کیونکہ جو بات بیان کی جارہی ہے وہ طاقتور ہی کا بیان ہے) قو میں کیا بجھتی ہیں کہ بدی کے مکر کے ذریعہ یہ امن میں رہیں گی.ان کو امن نصیب ہو گا.کس چیز سے امن نصیب ہو گا.کیا اس بات سے امن حاصل کریں گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے اور زلزلے آئیں اور ایسے خوفناک زمینی عذاب ظاہر ہوں کہ ان کو ہلاک کردیں؟ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ یا ایسی طرف سے عذاب آنے شروع ہوں کہ ان کو پتا نہ لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے.اب امریکہ میں پچھلے دنوں جو خوفناک طوفان آئے ہیں اُس کے نتیجہ میں اب تک بیان کیا جاتا ہے کہ کم از کم پندرہ ارب ڈالر کا نقصان امریکہ کا ہو چکا ہے اور لکھوکھہا انسان شدید مصیبتوں میں مبتلا ہیں.ان کے نزدیک تو یہ ایک ارضی حادثہ ہے مگر نہیں سوچتے کہ ارضی حادثات بھی آسمان کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں اور خدا جب چاہے ان کو ٹال بھی سکتا ہے.جب چاہے ان کو عذاب کی صورت میں ظاہر فرما سکتا ہے.کسی قوم کے اوپر ان کو عذاب کے طور پر ان کی کمر توڑنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.لَا يَشْعُرُونَ نے دو باتیں ظاہر کی ہیں کہ ان کو پتا ہی نہیں کہ کہاں سے آ رہے ہیں.نہ یہ پتا چلتا ہے کہ ہماری بد اعمالیاں ہیں جن کے نتیجہ میں یہ سزا ہے اور نہ یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بداعمالیوں کے نتیجہ میں یہ سزائیں مرتب فرما رہا ہے.قانون قدرت تو قانون قدرت ہی ہے مگر
خطبات طاہر جلدا 610 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء قانون قدرت اللہ کی مرضی کے تابع چل رہا ہے.پھر فرمایا اَوْ يَأْخُذَهُمُ فِى تَقَلُّبِهِـ نمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ اور خدا تعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے کہ ان کی حرکات کے دوران ان کو پکڑے.تقلب سے مراد ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ اختیار کرنا ، ایک طرز کو چھوڑ کر دوسری طرز اختیار کرنا، ایک انداز کو چھوڑ کر دوسرا انداز اختیار کرنا.یہ جو چالا کیوں سے کروٹیں بدلتے اور پینترے بدلتے ہیں یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں.ان کی سیاستیں بھی کروٹیں بدل رہی ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اسی میں یہ محفوظ ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں چالا کیوں میں ان کو پکڑ سکتا ہے.انہی پینتروں میں یہ مارے جائیں گے.فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ یہ خدا کی تقدیر کو عاجز نہیں کر سکتے.اَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تخوف اللہ تعالیٰ اگر یہ فیصلہ فرمائے کہ رفتہ رفتہ ان کی عظمتیں ایک قصہ پارینہ بنادی جائیں اور رفتہ رفتہ یہ اپنی بلندیوں سے اُترنا شروع ہوں اور دنیا کی آنکھوں کے سامنے گھٹتے چلے جائیں اور آج طاقت و قو میں کہلاتی ہیں یہ کل کمزور قوموں کی صورت میں دنیا میں ظاہر ہوں ،اگر خدا کی تقدیر یہ کام کرنا چاہے تو کون ہے جو خدا کے ہاتھ روک سکتا ہے؟ پس وہ قومیں جو مکر وفریب کے ذریعہ اور اپنی طاقت کے برتے پر کمزوروں کو نقصان پہنچاتی ہیں ان کے لئے یہ تین ذریعے ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں کہ ان ذریعوں سے ان کو سزا ملتی ہے مگر کم ہیں جو نصیحت پکڑتے ہیں.مجھے تو اُن مسلمان ملکوں پر زیادہ افسوس ہے جنہوں نے سچائی کو پایا ، جن کی خاطر یہ شان دار کلام نازل فرمایا گیا.محمد مصطفی ﷺ کے قلب مطہر پر وہ ساری باتیں روشن فرمائی گئیں جو اُس زمانے سے تعلق رکھتی تھیں یا آئندہ زمانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور سارے مصائب کے حل بھی کھول کھول کر بیان فرما دیئے گئے.پھر بھی ان کی محرومی دیکھیں کہ ایک مکر سے دوڑ کر دوسرے ملکر میں پناہ لیتے ہیں.چھوٹے بتوں سے بھاگ کر جھوٹے بتوں کی پناہ میں آتے ہیں.یہ سوچتے نہیں اور سمجھتے نہیں کہ صرف ایک پناہ ہے اور وہ اللہ کی پناہ ہے.اگر یہ سچائی پر قائم ہو جائیں، اگر یہ خدا کی عبادت سچے دل سے کریں اور مکر کے جواب میں اعلیٰ تدبیر سے کام لیں لیکن جھوٹی تدبیر سے کام نہ لیں بلکہ اللہ کی پناہ مانگیں تو وہی ایک پناہ گاہ ہے جو دنیا کے ہر مکر سے ان کو بچا سکتی ہے مگر بدنصیبی ہے کہ لَا يَشْعُرُونَ سمجھتے نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، دیکھتے نہیں کہ کیا ہورہا ہے، اللہ ہی ہے جو
خطبات طاہر جلدا 611 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۹۲ء ان کو عقل دے.ان سب بلاؤں کا جو دنیا پر نازل ہو رہی ہیں دکھ آخر احمدی کے دل پر ٹوٹتا ہے کیونکہ خدا گواہ ہے کہ ہمیں سچے دل سے بنی نوع انسان سے محبت ہے اور سچے دل سے پیار ہے اس لئے میں جماعت احمدیہ کو خصوصیت سے دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.اس کے بعد ایک اعلان کرنا ہے ملک صومالیہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بھوک کے اتنے دردناک عذاب میں مبتلا ہو چکا ہے کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.جماعت احمد یہ بڑی دیر سے کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح ہمارا رابطہ ہو.ہم و دوہاں پہنچیں اور خدمتیں کرسکیں اور جماعت نے افریقہ کے غریب ملکوں کے لئے جو قربانی پیش کی ہے اس میں سے صومالیہ کو حصہ دیا جائے کوئی پیش نہیں کی گئی کیونکہ خدمت کے جو انتظامات اور نظام ہیں ان پر بھی ان قوموں کا قبضہ ہے اور اپنی مرضی کے خلاف کسی کو اجازت نہیں دیتے.آخر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور امریکہ کو بھی ہدایت کی ہے اور انگلستان کو بھی کہ خدمت کے لئے جو روپے آپ کے پاس اکٹھے ہیں وہ جس ادارے کے ذریعہ بھی پہنچتے ہیں وہ دیں تو سہی کچھ نہ کچھ ، ہمارے ضمیر کا بوجھ تو کچھ ہلکا ہو گا لیکن باقی دنیا کے ممالک کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ تو فیق ہے وہ ضرور صومالیہ کے اپنے غریب بھائیوں کے لئے مسلمان کی حیثیت سے نہیں ایک انسان کی حیثیت سے پیش کریں.اس کے علاوہ تمام بڑے بڑے ملکوں میں جماعت احمدیہ کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ جس طرح ریڈ کر اس وغیرہ انٹر نیشنل سوسائٹیز ہیں اسی طرح اگر مذہبی سوسائٹیاں بھی ایک بین الاقوامی حیثیت سے پہچانی اور جانی جائیں اور اُن کا ایک مقام قائم ہو سکتا ہو تو اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اپنی آزاد سوسائٹی بنانی چاہئے جو جماعت احمدیہ کی مرضی کے تابع خدمت کرے اور تقویٰ اور انصاف کے ساتھ خدمت کرے اور مذہب وملت اور رنگ ونسل کے امتیاز کے بغیر خدمت کرے.اس خدمت میں شریف النفس غیروں کو بھی ساتھ شامل کرے تو جائزہ لینا چاہئے.جہاں تک میرا تا ثر ہے عیسائی انجمنوں کو اس بات کی اجازت بھی ہے اور با قاعدہ یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ رجسٹر ڈ ہیں اگر میرا یہ تاثر درست ہے تو جماعت احمدیہ کو پورے زور سے کوشش کر کے اب بین الاقوامی خدمت خلق کا ادارہ قائم کرنا چاہئے اور اس ادارے کا دائرہ کا رتمام بنی نوع انسان تک عام ہوگا اور اس میں صرف احمدیوں سے چندہ نہیں لیا جائے گا بلکہ دنیا کے کسی بھی شریف النفس انسان سے جو اس ادارے میں شامل ہو کر خدمت کرنا چاہتا ہو اس کو بھی خدمت کا موقع
خطبات طاہر جلد ۱۱ 612 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۹۲ء دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک آخری بات اب میں جنازے کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.ابھی جنازہ غائب ہوگا.جماعت کے بہت سے خدمت کرنے والے ، پرانے بزرگ اور غیر معروف لیکن نیک لوگ گزشتہ چند ماہ کے عرصہ میں ایسے رخصت ہوئے ہیں کہ ان میں سے بعض کو میں جانتا ہوں بعضوں کے متعلق صدر انجمن کی طرف سے سفارشیں آئی ہیں کہ ہمارے علم کے مطابق متقی اور پر ہیز گار لوگ تھے.جنازہ میں مثلاً پورے لوگ شامل نہیں ہو سکے یا بچوں نے بے قراری سے خواہش ظاہر کی ہے یا خود انہوں نے مرنے سے پہلے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں.ان کی فہرست غالبا سنا - دی گئی ہے.مسعود جہلمی صاحب کا وصال ہوا.جرمنی میں بطور مبلغ فریضہ خدمت سر انجام دے رہے تھے.کوئی دو تین سال پہلے ایک ابتلا بھی آیا.میں ان سے ناراض بھی ہوا اور اس ناراضگی میں میرے لئے بہت تکلیف تھی.بعد کے خطبہ میں میں نے تفصیل سے روشنی بھی ڈالی.واقعہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ مجھے دیرینہ قلبی محبت تھی اور ان کے سارے خاندان سے بڑا گہرا تعلق تھا لیکن نظام جماعت مجھے اتنا پیارا ہے کہ جب نظام جماعت کو خطرہ دیکھوں تو کوئی قلبی تعلق کوئی مخرب اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا تو میری بھی آزمائش تھی اور ان کی بھی آزمائش تھی.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرمایا اور میں اس.آزمائش پر پورا اترا اور میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی قلبی تعلق نظام جماعت کی حفاظت کے موقع پر میری راہ میں حائل نہیں ہوا اور خواہ کیسا ہی کڑوا وہ فرض تھا میں نے پوری طاقت سے اسی طرح ادا کیا جس طرح کسی غیر کے معاملہ میں میں ادا کر سکتا تھا اور ان پر خدا نے فضل فرمایا کہ غیر معمولی وفا کے ساتھ اور ثبات قدم کے ساتھ اس ابتلا میں نظام جماعت کے ساتھ چمٹے رہے.عروہ ودھی سے ان کا ہاتھ نہیں چھوٹا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی ، اپنے رشتہ داروں کو بھی نصیحت کی.ان کا تعلق والا ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے ٹھو کر کھائی ہو.ان کی وفات کے وقت مجھے خیال آیا کہ ان کے کتبے پر کیا لکھنا چاہئے تو حضرت مصلح موعود کا یہ مصرعہ یاد آ گیا.میں نے کہا اور چند باتوں کے علاوہ وہ بہت موزوں رہے گا.بے وفاؤں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں ہوں (کلام حمود: ۸۴)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 613 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۹۲ء پس یہ وہ ایک ایسا مخلص تھا جس کے متعلق میں یہ اعلان کر سکتا ہوں کہ واقعہ وفادار تھا اور وفاداروں میں جان دی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.اور ہمارے دیگر مخلصین کو بھی جنہوں نے زندگیوں میں کئی قسم کی قربانیاں دی ہیں لیکن خدا جانتا ہے کہ کب ابتلا کا وقت آئے ان کو بھی ہر ابتلا میں ثابت قدم رکھے اور وفاداروں میں موت دے.بے وفائی کی حالت میں کسی کوموت نہ دے.بڑی بد ترین موت ہے وہ کہ ساری عمر انسان خدمت کرے لیکن آخری عمر میں آکر ابتلا میں ٹھوکر کھا کر بے وفاؤں میں جان دے دے.حافظ عبدالسلام صاحب بہت نیک اور پارسا انسان تھے.لمبا عرصہ تحریک جدید میں خدمت کی.بعد میں بھی کراچی میں جو دن گزارے تقویٰ کے ساتھ اور عبادتوں میں دن گزارے.دعا گو تھے.غالبا ۹۸ سال کی عمر میں یا اس کے لگ بھگ ان کی وفات ہوئی ہے.ان کی بڑی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں میں واپس چلا جاؤں لیکن بہر حال بہت سے ایسے ہیں جن کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کچھ اور ہیں جو ان خواہشوں میں جی رہے ہیں.ان سب کو بھی دعا میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ تمنائیں پوری فرمائے اور باقی سب جن کے نام بیان ہو چکے ہیں.عبداللطیف صاحب ستکو ہی ہیں اور بھی بہت سے ایسے خدمت کرنے والے ہیں.ان سب کو نماز جنازہ میں یا درکھیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 620 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء اوڑھنی ہیں اور سجانی ہیں یہاں تک کہ وہ اس سمندر کے ایک پھولوں کا ایک گلدستہ سا معلوم ہونے لگتے ہیں اور پہچانے نہیں جاتے.مکڑی جو جالا بن کر تاک میں رہتی ہے وہ بھی خــدعــہ ہے.جھوٹ نہیں ہے خدعہ ہے کیونکہ جہاں انسانی زندگی کی بقا کا سوال ہے اور جہاں قانون دونوں کو اجازت دیتا ہو کہ جو چا ہو کر ووہاں حکمت سے کام لے کر اپنے دشمن پر قابو پانایا دشمن کے داؤ سے بچنا جھوٹ نہیں ہے، اس کو خدعہ کہا جاتا ہے لیکن امن کے ماحول میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.جہاں امن کا ماحول ہو وہاں اگر خدعہ اختیار کیا جائے تو جھوٹ بن جائے گا اسی لئے حرب کے ماحول کو سمجھ کر اسی کی حدود کے اندر خدعہ سے کام لیں اور جہاں دشمن آپ کے خلاف مکر میں پہل کرتا ہے وہاں جوابی مکر اختیار کرنا ہے مگر اسی حد تک جس حد تک قرآن اجازت دیتا ہے اور سنت سے ثابت ہو اس سے آگے نہیں.یہ وہ پاکیزہ زندگی ہے جس کو ہمیں جماعت احمدیہ میں رائج اور نافذ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے طفیل ان پاکیزہ رسموں کو غیروں میں رائج کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مگر اُن بار یک تدبیروں اور تصرفات کو کہتے ہیں کہ وہ ایسے مخفی اور مستور ہوں کہ جس شخص کے لئے وہ تدابیر عمل میں لائی گئی ہیں وہ ان تدبیروں کو شناخت نہ کر سکے اور دھو کہ کھا جائے.“ ( حیوانات کی دنیا میں سو فیصدی مکر جاری ہے...پس مکر دو قسم کے ہوتے ہیں.اول وہ کہ جن کے عمل درآمد سے ارادہ خیر اور بہتری کا کیا گیا ہے اور کسی کو نقصان پہنچا نا منظور نہیں ہے جیسا کہ ماں اپنے بچے کو اس مکر سے دوا پلا دیتی ہے کہ وہ ایک شربت شیریں ہے اور میں نے بھی پیا ہے، بڑا میٹھا ہے....اب دیکھیں اس میں احمدی ماؤں کے لئے کتنے سبق ہیں.اس چھوٹے سے فقرے میں کتنی پیاری بات بیان کر دی گئی ہے بعض مائیں جھوٹ بول کر بچے کو خیر کی کوئی چیز دینے پر مجبور کر دیتی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اجازت نہیں دی.فرمایا شربت میں دو املا دو اور ماں خود پی کر بتادے کہ دیکھو! میں بھی پی رہی ہوں تو اس کا نام جھوٹ نہیں ہے اس کا نام مکر خیر ہے.نیت بھی خیر کی ہے ، طریق کار بھی خیر اور کچھ پہلو جو کسی کو غافل کر کے اُس کے فائدے کی ایک چیز
خطبات طاہر جلد ۱۱ 621 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء دینے کا پہلو ہے اس میں جھوٹ نہیں ہے.اس حد تک مکر امن میں جائز ہے اور مومن کی عملی زندگی میں بعض ایسے مقامات آتے ہیں جہاں امن کی حالت میں بھی ایک چھوٹی سی جنگ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اس مکر کا بھی دراصل اس معمولی سی جنگ کی کیفیت سے تعلق ہے.بچے اور ماں کے درمیان جب اختلاف پیدا ہو جائیں تو ایک چھوٹی سی جنگ کی سی شکل پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت مکر کرنا ہے مگر مگر خیر کرنا ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.66...اس مکر سے بچہ کے دل میں ایک خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دوا کو پی لیتا ہے...ہم نے بھی بار ہا اس کو استعمال کیا ہے اور اللہ کے فضل سے بڑا فائدہ پہنچتا ہے.جو بچے ضد کر کے بیٹھے ہیں اُن کو مارنے کی بجائے ، زبردستی کرنے کی بجائے اس رنگ میں دوا دے دی جاتی ہے کہ وہ اُسے قبول کر لیتے ہیں پھر فرماتے ہیں....اور جیسا کہ پولیس کے بعض لوگوں کو یہ خدمت سپرد ہے کہ وہ پولیس کی وردی نہیں رکھتے اور عام لوگوں کی طرح سفید پوش رہتے ہیں اور پردہ میں 66 بدمعاشوں کو تاڑتے رہتے ہیں پس یہ بھی ایک قسم کا مگر ہے مگر نیک مکر.لوگوں کے شر سے معصوم لوگوں کو بچانا یہ نیکی کا کام ہے.پس پولیس اگر اپنے پولیس کے لباس کے بغیر سادہ عام لباس میں نگرانی کرتی ہے تو اُس کا نام جھوٹ ہے نہ مکرشر ہے بلکہ مکر خیر ہے مگر یہی چیز کوئی چور اختیار کرتا ہے اور پولیس کا لباس پہن کر حملے کرتا ہے تو یہ مکر شر بن جاتا ہے.لباس بدلنے کا نام نہ شر ہے نہ خیر وہ نیت یا مقصد اس کو شر یا خیر بناتے ہیں جن کی وجہ سے لباس تبدیل کرنے کی کارروائی کی جاتی ہے.پس یہ بھی ایک قسم کا مکر ہے مگر نیک مکر ہے....ایسا ہی طالب علم یا وکلاء یا ڈاکٹروں کا امتحان لینے والے یا کسی اور صیغہ میں جو متحن ہوتے ہیں وہ بھی نیک نیتی سے سوال بنانے کے وقت ایک 66 حد تک مکر کرتے ہیں...یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے.ممتحن بعض دفعہ بڑی چالا کی سے اس رنگ میں سوال بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو پوری طرح ہوشیار طالب علم نہ ہو وہ ٹھوکر کھا جائے اور اُس کے پوری طرح ہوشیار ہونے کا امتحان اس لئے لیا جاتا ہے کہ اُس مضمون پر عبور حاصل ہو گیا ہے کہ نہیں اور یہ مکر خیر ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 622 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء و پس اسی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ مکر جو خدا کی شان کے مناسب حال ہیں وہ اس قسم کے ہیں جن کے ذریعہ سے وہ نیکوں کو آزماتا ہے اور بدوں کو جو اپنی شرارت کے مکر نہیں چھوڑتے سزا دیتا ہے اور اُس کے قانون قدرت پر نظر ڈال کر ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مخفی رحمتیں یا مخفی غضب اس کے قانون قدرت میں پائے جاتے ہیں بعض اوقات ایک مکار شریر آدمی جو اپنے بدمکروں سے باز نہیں آتا بعض اسباب کے پیدا ہونے سے خوش ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ان اسباب کے ذریعہ سے جو میرے لئے میسر آگئے ہیں ایک مظلوم کو انتہا درجہ کے ظلم کے ساتھ پیس ڈالوں گا مگر انہی اسباب سے خدا اسی کو ہلاک کر دیتا ہے اور یہ خدا کا مکر ہوتا ہے جو شریر آدمی کو ان کاموں کے بد نتیجے سے بے خبر رکھتا ہے اور اُس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ اس مکر میں اس کی کامیابی ہے....(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۹۹-۲۰۰) پس یہ بھی مکر کی ایک قسم ہے لیکن میں اب ایک ایسے مکر کا ذکر کرتا ہوں جس کا اُن آیات کریمہ میں ذکر ملتا ہے جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.سب سے بد مکروہ ہے جو دین کے خلاف استعمال کیا جائے اور جس کے نتیجہ میں انسان خود بھی کبھی پر قائم رہے اور دوسرے بنی نوع انسان کو بھی دھوکہ دے کر سچائی سے باز رکھنے کی کوشش کرے.چنانچہ مکر جب ترقی کرتا ہے تو جیسا میں نے شروع سے مضمون کو اس طرح اُٹھایا ہے کہ ایک انسان اپنی ذات میں مکر کرتا ہے ، اپنے ماحول میں مکر کرتا ہے پھر قومی مکر ہوتے ہیں جس میں سیاسی مکر کی مثال دی تھی.اقتصادی مکر بھی ہیں اور بھی ہر قسم کے تمدنی مگر ہیں مگر سب سے زیادہ بھیا نک جو قومی مکر کی صورت میں انسانوں پر بلائیں توڑ رہیں وہ سیاسی مکر ہیں اور ساری دنیا میں بدامنی کے ذمہ دار اکثر صورتوں میں سیاسی مکر ہی ہیں لیکن اس سے بہت بڑھ کر خطر ناک مکروہ ہے جو مذہبی مکر ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہدایت سے باز رکھا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اسی مکر کا ذکر ان آیات میں فرمایا ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائیں فرمایا.اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهُ في الظُّلمت اور کیا وہ شخص جو مردہ ہو اور پھر ہم نے اُسے زندہ کر دیا ہو اور اُس کے لئے ایک
خطبات طاہر جلد ۱۱ 623 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء ایسی روشنی مقرر کی ہو جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں پڑا ہوا ہے اور اُن سے کسی وقت بھی نہیں نکلتا.اسی طرح کافروں کے لئے ان کے اعمال خوبصورت کر کے دکھائے جائیں.اب یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ کون مردہ تھا جسے زندہ کیا گیا، کون وہ ہے جو اندھیروں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اُن سے باہر آنے کا نام نہیں لیتا اس کو مزید واضح کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكْبِرَ مُجْرِ مِنْهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا.اس طرح ہم نے تمام بڑی بڑی بستیوں اور قوموں میں ایسے بڑے لوگ پیدا کئے ہیں جو جرموں میں بڑے تھے.جو اپنے جرائم کے ذریعہ سے بڑی بڑی حیثیتیں اختیار کر گئے وہ بھی اکبر مُجْرِ مِنْهَا ہیں یا وہ لوگ جو بڑے لوگ تھے اور عواقب سے بے خوف ہو کر انہوں نے بڑے بڑے جرم کئے وہ بھی اَكْبِرَ مُجْرِ مِنْهَا میں آتے ہیں.پس ایسی سوسائٹی جو بد ہوچکی ہو اُس کے بڑے لوگ بدترین ہوتے ہیں اور مذہب میں جب مذہب بگڑ جائیں تو اُن کے بڑے لوگ یعنی علماء بدترین ہوتے ہیں.چنانچہ اس آیت کے مضمون کو وہ حدیث واضح فرماتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے رسول محمد ﷺ نے ہمیں اطلاع دی کہ جب زمانہ بگڑے گا اور لوگ اسلام کے نام پر دھوکہ دیں گے تو فرمایا علما ء ھم هم شـر مــن تحــت اديم السماء (مشكوة كتاب العلم والفضل صفحہ : ۵۸) ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.پس وہی مضمون ہے.جس حالت پر بھی اطلاق پائے گا جب شر پھیل جائے تو اُس سوسائٹی کے بڑے لوگ اپنے دائرہ کار میں سب سے زیادہ شریر ہوتے ہیں.اگر سیاست میں شر ہے تو وہ سیاسی راہنما سب سے زیادہ شریر ہیں جن کی وجہ سے شر پھیلتا ہے یا افزائش پاتا ہے.فرمایا وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكْبِرَ مُجْرِمِيْهَا لِيَمْكُرُوا فيها اور وہ پھر مکر کرتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ جہاں بھی سوسائٹی بد ہو جائے وہاں بڑے لوگ ضرور مکر سے کام لیتے ہیں نہ سیاست پاک رہتی ہے، نہ تمدن پاک رہتا ہے، نہ اقتصادیات پاک رہتی ہیں اور بدسوسائٹی کے بڑے لوگ لازماً مکر سے کام لے رہے ہوتے ہیں.یہ قرآن کریم کا ایک ایسا نکتہ ہے جس پر میں نے غور کر کے چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا تو یہ حیرت انگیز راز مجھے سمجھ میں آیا جو آج کی سوسائٹی پر اطلاق پاتا ہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 624 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۹۲ء ا بڑے لوگوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے لیکن وَمَا يَمْكُرُوْنَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ یہ جو بھی مکر کرتے ہیں یہ اُن پر الٹایا جائے گا بالآخر اس کے نقصانات ان کو ضرور پہنچیں گے.پس یہ دنیا جو بعض دفعہ بڑی بڑی ہولناک جنگوں میں دھکیل دی جاتی ہے یہ اسی آیت کی سچائی کی دلیل ہوتی ہیں ایسی جنگیں یہ بتاتی ہیں کہ وہ سیاستدان جنہوں نے چالاکیوں سے خوب کام لیا، مکروفریب کو خوب استعمال کر کے اپنی قوم کی بڑائی کی خاطر یا دوسری قوم کو نیچا دکھانے کے لئے ہر قسم کے دھو کے دیئے بالآخر جنگوں میں مبتلا ہو کر خود بھی ہلاک ہوئے اور اپنی قوموں کو بھی حد سے زیادہ عذاب میں مبتلاء کر دیا تو یہ صورتحال ہے یہ مذہبی دنیا میں بھی بالآخر اسی طرح انجام پذیر ہوتی ہے.جو مذہب میں دھوکہ دینے والے ہیں وہ پھر ضرور پکڑے جاتے ہیں.دنیا والے دنیا میں مکر کرتے ہیں وہ جب پکڑے جاتے ہیں تو اپنے ہی مکروں کے جال میں پھنستے ہیں اور مذہب میں جو دھوکہ دیتے ہیں ان کا براہ راست خدا سے مقابلہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ٹکر لیتے ہیں اس لئے ان کا حال ہر دوسرے مگر کرنے والے سے زیادہ بدتر ہوتا ہے.ان کے متعلق فرماتا ہے کہ وَإِذَا جَاءَتْهُمُ ايَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُوتُى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللهِ جب بھی کوئی دعویدار آتا ہے.اُن کے سامنے کوئی نشان ظاہر ہوتے ہیں تو بڑی طعن کے ساتھ اور تکبر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک ویسے نشان نہ دکھاؤ جیسے اللہ کے رسولوں کو دکھائے جاتے تھے اور یہ معاملہ خدا کے ہر رسول سے ہی کیا جاتا ہے.یہ آواز جو ہر طرف سے آپ کے کانوں میں پڑتی ہے کہ ہم مرزا صاحب کو نہیں مانیں گے جب تک وہ نشان نہ دکھائیں جو خدا کے پہلے رسولوں نے دکھائے تھے یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے.قرآن فرماتا ہے کہ ہر دعویدار کو یہی کہا گیا کہ تو کہاں سے رسول آ گیا.ہمیں رسولوں والے نشان دکھا اور یہ بد نصیب ہمیشہ رسولوں والے نشانوں کو پہچاننے سے محروم رہ جاتے ہیں.فرمایا اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہ کیسی نکتے کی اور گہری نفسیاتی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے.فرمایا اصل بات یہ ہے کہ تم پسند نہیں کرتے کہ جس شخص کو مقرر کیا گیا ہے اُسے مقرر کیا جائے یہ ہے ساری بات.ایک شخصی تنافر ہے.ایک اختلاف ہے جو تمہارے اور اس شخص کے مزاج اور اس کی شخصیت کا اختلاف ہے تو یہ بات تو اس طرح نہیں چلے گی اللہ فیصلہ کرے گا تم نے پسند کے مطابق جو لیڈر چنے ہیں وہ تو ہمیشہ بدترین ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر کر دیا گیا.مذہب میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 625 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء بھی بدترین اور سیاست میں بھی بدترین اور تمدن میں بھی بدترین اور اقتصادیات میں بدترین اور اب خدا کو کہتے ہو کہ وہ تمہارے مشورے سے کارروائی کرے اور تمہارے مزاج کے مطابق لیڈر بنائے یہ نہیں ہوگا.نکتے کی بات یہ ہے کہ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ اللہ جانتا ہے کہ یہ فیصلہ خدا کرے گا کہ اس نے کس کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنا ہے اور کس کو نہیں بھیجنا.سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارُ عِنْدَ اللہ یقیناً وہ لوگ جو جرم کرتے ہیں ان کو صغار پہنچے گی یعنی وہ اللہ کے نز دیک جھوٹے ہوں گے، ذلیل کر کے دکھا دئیے جائیں گے اور جب کوئی اللہ کے نزدیک چھوٹا بنا دیا جائے تو پھر دنیا کی تقدیر بھی اس کو چھوٹا بنا کر دکھاتی ہے اور آخرت میں اس سے جو سلوک ہوگا وہ تو ظاہر ہے فرمایا وَ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ اور ان کے لئے شدید عذاب مقرر ہے اس سبب سے کہ وہ مکر سے کام لیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عبارت کے آخری حصہ میں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسا شخص جو دین میں مکر سے کام لیتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ اسباب کے ذریعہ جو میسر آگئے ہیں ایک مظلوم کو انتہا درجہ کے 66 ظلم کے ساتھ پیس ڈالوں گا.“ یہ مگر حضرت محمد اللہ کے خلاف سب سے زیادہ استعمال کئے گئے.ہر قسم کے مشورے ہوئے ، کارروائیاں ہوئیں اور دعوئی یہ تھا کہ ہم اس جھوٹ کو اور فریب کو پنپنے نہیں دیں گے اور عمل یہ تھا کہ سچائی کے خلاف ہر قسم کے جھوٹ اور فریب سے خود کام لے رہے تھے.بعینہ یہی شکل آج احمدیت کو در پیش ہے، اسی صورتحال کا سامنا ہے، ہمارے سامنے جتنے دشمن ہیں وہ مکر سے کام لیتے ہیں مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ شریر اس کام کے نتیجہ سے بے خبر رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اُس کے اصل نتیجہ سے بے خبر رکھتا ہے.اس کی ایک بڑی کھلی مثال یہ ہے کہ جب ضیاء الحق صاحب نے جماعت کے خلاف وہ بدنام زمانہ آرڈینینس جاری کیا جس کے نتیجہ میں جماعت کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ایک بہت بڑی سازش اس سے پہلے تیار ہو چکی تھی اس کے بعد اس کا ایک حصہ ظاہر کیا گیا اور وہ یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کا نظام ختم کیا جائے اور کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 626 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء بہانہ رکھ کر خلیفہ وقت کو قید کیا جائے ، پھر اس کو قتل کیا جائے یا پھانسی چڑھایا جائے اور دنیا میں بدنام کیا جائے کہ ایک مجرم کے طور پر ہم اس کو پھانسی دے رہے ہیں اور اس کا انتظام نظام خلافت سے لیا جائے کہ یہ نظام اتنا خطر ناک ہے یہ تو لوگوں کے لئے قتل وغارت کے لئے وقف ہو چکا ہے اور خلافت اور دنیا میں شر پھیلانا ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں.اس لئے ہم خلافت احمدیہ کو اپنے ملک میں تو نہیں چلنے دیں گے.یہ Institution ختم کی جاتی ہے یعنی جو نظام خدا جاری کرتا ہے، جو تیرہ سوسال انتظار کے بعد خدا تعالیٰ نے جاری فرمایا ان بدبختوں نے اپنے مکر سے اسے مٹادینا چاہا.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ (الصف:۹) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مکر کی پھونکوں سے بجھا دیں.یہ نہیں ہوگا.اللہ نے جونور جاری فرمایا اُس کو اختتام تک ، درجہ کمال تک زندہ رکھے گا اور اُس کی حفاظت فرمائے گا.چنانچہ خدا نے اس کے مقابل پر جو مکر خیر کئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ساری تفصیل تو غالباً پہلے بھی آپ کے سامنے بیان کی جاچکی ہے.مختصراً یہ بتا دیتا ہوں ۱۹۸۴ء میں جو منصوبہ منظر عام پر آیا ہے اس کی تیاری بہت پہلے سے ہو چکی تھی.۱۹۸۳ء کے شروع ہی میں حکومت کی طرف سے با قاعدہ ایک حکم جاری ہو چکا تھا کہ جماعت احمدیہ کا سر براہ اس ملک کو ملک کی کسی سرحد سے کسی ذریعہ سے بھی چھوڑ کر نہیں جا سکتا اور اب تک کے شواہد یہ ہیں کہ یہ حکم ضیاء الحق صاحب نے خود لکھوایا تھا اور اسی میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کے حق میں ان سے مکر خیر کرایا جو ان پر مکر شربن کر پڑا.ان کو چونکہ مرزا ناصر احمد کہنے کی عادت تھی اور اپنے اقتدار کا اکثر حصہ انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خلافت میں گزرا ہے تو ان کے منہ سے مرزا ناصر احمد کے الفاظ نکل گئے کہ Mirza Nasir Ahmad,Head of the Ahmadiyya community can not leave the country...یا جو بھی آگے تفصیل تھی.نتیجہ یہ نکلا کہ جو حکم تھا وہ اسی طرح جاری رہا اگر وہ حکم کسی چھوٹے افسر نے بنایا ہوتا تو اس کی تو انہوں نے کھال ادھیڑر دینی تھی کیونکہ جس پاسپورٹ آفیسر کی طرف سے مجھے پاسپورٹ جاری ہوئے تھے سارے ملک کی مختلف ایجنسیاں اُس کے پیچھے پڑ گئی تھیں لیکن چونکہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 627 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء اُس نے کوئی خلاف قانون بات نہیں کی تھی.اُس نے وہ آرڈران کو دکھایا اور بار بار دکھانا پڑا کہ دیکھ لو اس میں مرزا ناصر احد کو پاسپورٹ دینا منع ہے، مرزا طاہراحمد کو دینا تو منع نہیں ہے مگر غلطی اُن سے کروائی گئی.یہ غلطی خدا کے اس مکر خیر کے جاری ہونے کا ایک ذریعہ بنی ہے جو سارے عالم میں ظاہر ہوا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے احمدیت کو مٹانے کا جوشر کیا تھا اس مکر کوخدا نے اس شان سے ان پر الٹایا ہے کہ وہی کارروائی ساری دنیا میں احمدیت کی نشو ونما اور حیرت انگیز ترقی کا موجب بنی ہے.میں بسا اوقات سوچتا ہوں جب میں آیا تھا تو کتنی تکلیف میں آیا تھا اور اپنے پیاروں کی یاد آج بھی تکلیف دہ ہے لیکن آج میں نے یہاں آکر غور کیا ہے کہ جماعت کی جو ترقیات یہاں آنے سے وابستہ تھیں اب اگر میں واپس لوٹا یا جاؤں اور مجھے پتا ہو کہ یہ تکلیفیں ہوں گی اور یہ یہ ترقیاں ہوں گی تو میں بلاتر ددان تکلیفوں کو قبول کروں گا اور پھر ہجرت پر آمادہ ہو جاؤں گا کیونکہ جو منافعے خدا نے اس ہجرت کے ساتھ وابستہ فرما دیئے اُس کا تصور بھی وہاں بیٹھے نہیں ہوسکتا تھا.اتنے وسیع رابطے ، خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اس قدر احمدیت کی شان، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام دنیا کے کونے کونے تک پہنچنا، آپ کی نمائندگی میں آپ کے اس غلام کی آواز کا دنیا کے کناروں تک پہنچ جانا ، یہ سارے مولوی کے مکر شر کے قصے ہیں جن کو خدا نے مکر خیر سے مغلوب کر دیا اور اس کے شر کے ہر پہلو کو خیر میں تبدیل فرما دیا.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کہ یہ پاگل سمجھتے ہیں کہ اپنے مکر سے ایک مظلوم کو پیس ڈالیں گے اس کا کچھ باقی نہیں رہنے دیں گے مگر خدا کی تقدیر اُس کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے اور وہ اُن کو ان نتائج سے غافل رکھتی ہے جو ان کی تدبیروں کے نتیجہ میں ظاہر ہونے ہیں.کسی کو پتا نہیں تھا کہ ان تدبیروں کا کیا نتیجہ نکلے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے وہ نتیجہ نکال کر دکھا دیا.پس مکر شر اور مکر خیر کے مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھیں اور اس معاملہ میں دھو کہ نہ کھائیں.احمدیت کے مخالف علماء جو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں لڑائی میں مکر کی اجازت دی ہے اس لئے ہم جو چاہیں وہ کریں.احمدیت کو نیچا دکھانا ہے کیونکہ یہ باطل ہے اور باطل کے خلاف ہر قسم کا مکر جائز ہے، یہ اتنا جھوٹا دعویٰ ہے اور اتنا بے بنیاد دعویٰ ہے کہ اس کی حقیقت کھولنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 628 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.حضرت اقدس محمد مصطفے یہ حق پریشان کے ساتھ قائم ہوئے اور اس جلوے کے ساتھ ظاہر ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی کوئی نبی اس شان اور استقلال کے ساتھ حق پر قائم نہیں ہوا تھا ایسا عالمی جلوہ کبھی کسی نے نہیں دکھایا.جلال بھی تھا، جمال بھی تھا، اس شان کے ساتھ آپ دنیا میں اللہ کا نور بن کر چمکے ہیں کہ مشرق اور مغرب دونوں کو برابر روشن کر دیا اور اس حق کو پھیلانے کے لئے ساری زندگی ایک ادنیٰ سے مکر سے بھی کام نہیں لیا.سب سے بڑی لڑائی آپ کے وقت میں جاری ہوئی ہے اور قرآن کریم پڑھ کر دیکھیں.ان آیات کو غور سے سنیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے اور ان کے مضمون پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر جگہ حق کے دشمن نے اس دعوی کے ساتھ مکر سے کام لیا کہ ہما را مد مقابل باطل پر ہے اس لئے ہمیں حق ہے کہ باطل کو باطل اور جھوٹ کو فریب کے ذریعہ مثانے کی کوشش کریں اور سارے انبیاء کی تاریخ میں ، آدم سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطف اللہ کے زمانے تک قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ایک بھی ایسا نبی نہیں جس نے حق پر ہوتے ہوئے باطل کے خلاف مکر سے کام لیا ہو.سارے مکر اُن کے سپر د ہو گئے تھے کہ جو چاہتے ہو کر ڈالو لیکن حق کو باطل کی ضرورت نہیں ہے.حق کو مکر کی ضرورت نہیں ہے اس لئے یہ اس فریب میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ اگر حق پر ہیں تو حق کی خاطر مکر سے کام لے سکتے ہیں.حق اور باطل کی جولڑائی ہے اس لڑائی کو اس وجہ سے کہ الحرب خدعة میں حرب کہہ کر خدعہ کی اجازت دی گئی ہے غلط نہ سمجھیں اس لڑائی میں حق کی طرف سے کوئی دھوکہ نہیں ہے.جو نظریات کی جنگ ہے جس میں حق اور باطل کا مقابلہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا اس جنگ پر آنحضرت ﷺ کا وہ مقولہ صادق نہیں آتا کیونکہ وہ مراد نہیں ہے.آنحضرت ﷺ کی اگر یہ مراد ہوتی کہ نظریاتی جنگوں میں بھی اہل حق کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ ہر قسم کے دھوکے اور فریب سے کام لیں تو سب سے بڑی جنگ تو آپ لڑ رہے تھے.سب سے بڑے حق پر تو آپ قائم تھے.باطل کی سب سے زیادہ خطرناک سازشوں کا تو آپ کو سامنا تھا ایک آپ کے کردار میں سے معمولی سی جھلک بھی دکھا ئیں جہاں آپ نے نظریاتی جنگ میں کسی قسم کے دھو کے یا تلبیس سے کام لیا ہو.کھلی کھلی کتاب ہے.آج بھی آپ کے سامنے ویسی ہی ہے جیسی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ پر نازل ہوتی تھی ایسی روشن ایسی بین کتاب ہے کہ ایک ادنی سا بھی سایہ اس پر کسی تلبیس اور دھو کے کا نہیں ہے.قول سدید
خطبات طاہر جلد ۱۱ 629 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء اور صاف بات کر کے سچائی کے ساتھ اسلام کو پھیلایا گیا اور جھوٹ کا سہارا نہیں لیا گیا.یہاں تک کہ ایک جنگ کے موقع پر حضرت اقدس محمد مصطفی عنہ کے سامنے مشرک پہلوان کو پیش کیا گیا جس کا سارے عرب میں دبد یہ تھا.یہ غالباً جنگ بدر کی بات ہے.وہ فن حرب کے لحاظ سے بہت شہرت رکھتا تھا.اُس نے اہل مکہ سے اپنا ذاتی انتقام لینا تھا اور اس غرض سے اس نے سوچا کہ اب مسلمانوں کی اُن سے لڑائی ہورہی ہے، یہ کمزور ہیں ، ضرورت مند ہیں، میں ان کے ساتھ شامل ہو کر اپنے بدلہ صلى الله اُتاروں گا.کسی صحابی نے بڑی خوشی کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مبارک ہو.بہت زبردست نامی پہلوان ہمارے ہاتھ آیا ہے اور وہ تیار ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو کر دشمنوں کے خلاف جنگ کرے.آپ نے فرمایا وہ مشرک ہے.عرض کیا گیا ہاں مشرک ہے.تو فرمایا مجھے اپنی سچائی کے لئے اور توحید کے لئے کسی مشرک کی مدد کی ضرورت نہیں ہے.(مسلم کتاب الجہا دوالسیر حدیث نمبر: ۳۳۸۸) کیسا پاک رسول ہے.آپ کے کردار کی کیسی عظمت ہے.آپ کی سچائی کی روشنی دیکھیں تو آج بھی نظر چندھیاتی ہے.وہ اتنا خوفناک وقت تھا کہ جس کے مضمرات آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی واقف نہیں ہو سکتا.آپ نے خدا کے حضور بلکتے ہوئے وہ وقت گزارا ہے.حضرت ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی حفاظت کے لئے آپ کے ساتھ خیمہ میں تھا.اس قدر کرب تھا اور اس قدر بے قراری سے آپ دعائیں کر رہے تھے کہ روتے روتے آپ کی چادر بار بار کندھوں سے گرتی تھی یا چوغہ گرتا تھا اور میں سنبھال سنبھال کر دوبارہ رکھتا تھا.اور دعا یہ کر رہے تھے کہ اللھم ان اهلكت هذه العصابة فلن تعبد في الارض ابدا (مسلم کتاب الجہا دوالسیر حدیث نمبر : ۳۳۰۹) اے میرے اللہ! اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت میدان میں ماری گئی تو دنیا میں پھر تیری کبھی عبادت نہیں کی جائے گی.اتنے بڑے مقصد کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے اور باطل کی طرف سے مدد آئی ہے مگر کس شان کے ساتھ ، کس استغناء کے ساتھ اس کا انکار فرمایا کہ جاؤ جاؤ کہ مجھے کسی مشرک کی ضرورت نہیں اور آج احمدیت کے خلاف ہر قسم کے جھوٹ ہر قسم کے مکر، ہر قسم کے فریب سے کام لیا جا رہا ہے یہاں تک کہ سچ ان کے موافق ہی نہیں آتا.جھوٹ پر مجبور ہیں اور یہ ہے حق کی شان کہ اس کا مخالف لازماً جھوٹ اور فریب اور مکر پر مجبور ہو جایا کرتا ہے کیونکہ اگر وہ سچی بات کریں تو سچی بات تو خوبصورت ہوتی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 630 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء ہے دنیا تو بچے کا حسن دیکھ کر لازماً اُس کے عشق میں مبتلا ہو جائے گی.اس لئے سچ کے خلاف فریب کاری کی ضرورت ہے اور جھوٹ کے خلاف فریب کاری کی ضرورت نہیں کیونکہ جھوٹ ہوتا ہی گندا ہے اور مکر وہ ہے اس لئے اور نقطہ نگاہ چھوڑ دیجئے عقل کے عام سیدھے سادھے نقطہ نگاہ سے بھی سچ کو فریب کاری کی ضرورت نہیں ہے اور جھوٹ محتاج ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفے لے کے متعلق ہمیشہ ایسی جھوٹی باتیں بیان کی جاتی تھیں جن کے نتیجہ میں لوگ آپ سے متنفر ہوں.اگر آپ کے دشمن آپ کی سیرت کا سچا حال بیان کرتے تو کس نے متنفر ہونا تھا.لوگ تو دوڑ دوڑ کر والہانہ آکر اپنی جان مال عزتیں آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے اس لئے ہمیشہ باطل کو مکر وفریب کی ضرورت ہوتی ہے.سچ کو ضرورت ہی کوئی نہیں ہوتی.آنحضرت ﷺ سے متعلق اس طرح جھوٹ اور فریب سے کام لیا جاتا تھا کہ جس قسم کا کوئی شخص ہو اس کے مزاج کے مطابق اُس کے سامنے جھوٹ گھڑا جاتا تھا.قرآن کریم نے اس کی مختلف قسمیں بیان فرمائیں ہیں.ایک بڑھیا عورت کے متعلق روایت آتی ہے کہ وہ ایک دفعہ باہر کسی قبیلہ سے مکہ آئی اور اس کو یہ بتایا گیا کہ وہ شخص بڑا جادوگر ہے اس سے بچ کر رہنا اور عام طور پر بڑی بوڑھی عورتیں جو ہیں وہ جادو سے بڑی ڈرتی ہیں تو وہ بڑی سخت خوفزدہ تھی کہ میں اس بستی میں جارہی ہوں جہاں اتنا خطرناک جادوگر رہتا ہے.بوجھ اُٹھایا ہوا.بوجھ سے دوہری ہوئی ہوئی ، پہلے ہی بوڑھی او پر سے بوجھ زیادہ جگہ جگہ پوچھتی پھرتی کہ جادو گر کون ہے ، کہاں ہے کہیں میں اس رستے نہ گزروں کسی نے اس کی پرواہ نہ کی.بات کرتی تھی اور سنے والا آگے گزرجاتا یہاں تک کہ ایک ایسا شخص سامنے آیا جس نے بڑی توجہ سے ہمدردی سے اس کی بات کو سنا اور اس نے کہا ابی بی میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کون ہے تم نے بہت بوجھ اُٹھایا ہوا ہے.آؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دیتا ہوں.بوجھ مجھے اُٹھا دواس کا سامان اُٹھایا.اسے منزل تک پہنچایا.جب سامان وہاں رکھا تو یہ کہا کہ وہ جادوگر میں ہوں اور اس لئے پہلے اس کو نہیں بتایا کہ کہیں وہ گھبرا کر اس فائدے سے محروم نہ ہو جائے جو آپ اس کو پہنچانا چاہتے تھے.اس بڑھیا نے دیکھیں کیسی عقل کا جواب دیا.اس نے کہا اے جادو گر اگر تو وہی جادوگر ہے تو سن کہ تیرا جادو چل گیا ہے اور میں تیرا کلمہ پڑھتی ہوں تو سچا ہے.تو سچائی کا جادوتو اس طرح چلتا ہے جسے فریب کی ضرورت نہیں ہے.یہ قریب ہے جو سچائی کے مقابل پر بار بار مات کھاتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 631 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء ہے اور پھر بھی یہ جاہل اور ظالم لوگ فریب کاری سے باز نہیں آتے.احمدیت کے متعلق میں نے ایک دفعہ Test case مباہلہ کے سلسلہ میں بھی پیش کیا تھا.میں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے متعلق جو باتیں کہتے ہیں وہ اربعے لگا کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہم سے پوچھ تو ہم وہ ہیں ہی نہیں یہ کیا وجہ ہے کہ آج تک جماعت احمدیہ نے کبھی کسی مذہب ، کسی فرقے کی طرف ایسا عقیدہ منسوب نہیں کیا جس میں انہوں نے آگے سے کہا ہو یہ ہمارا عقیدہ نہیں.کوئی دنیا میں ایک مثال قائم نہیں کر سکتا.جب ہم مقابلہ کرتے ہیں تو سچائی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں.اگر بہائیوں سے ٹکر ہے تو بہائیوں کو وہ بات کہیں گے جو وہ مانتے ہیں جو اُن کے عقیدے میں داخل ہے.جب ہندوؤں سے بات کرتے ہیں تو اُن کے وہ عقیدے لیتے ہیں جن عقیدوں پر وہ قائم ہوتے ہیں.بعض دفعہ بعض علماء بھی میری مجلس سوال و جواب میں آیا کرتے تھے اور جب وہ دیکھتے تھے کہ ہم ہمیشہ وہی بات کرتے ہیں جو مد مقابل کے عقیدے میں داخل ہے تو بعض دفعہ یہ فریب دینے کی بھی کوشش کرتے تھے کہ عوام الناس کے سامنے کہہ دیا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے.تو میں ہمیشہ کہتا تھا کہ الحمدللہ اگر یہ آپ کا عقیدہ نہیں تو آپ احمدی ہیں کیونکہ یہی احمدیوں کا عقیدہ ہے.پھر جھگڑا کس بات کا ہے ، پھر آپ اختلاف کیا کر رہے ہیں.آئیے ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں.پس حق کے لئے کوئی خطرہ اور کوئی خوف نہیں.اگر جھوٹا فریب کاری سے کام لے گا تو فریب بھی اس پر آئے گا.اس لئے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے قلعہ میں محفوظ ہے اور مامون ہے جو قرآن کریم نے حق کا قلعہ قائم فرمایا ہے.اس کی ساری دیوار میں سچائی پر بنی ہونی چاہئیں.پہلی اینٹ بھی سچائی پر مبنی ہونی چاہئے اور یہ عمارت مسلسل سچائی کی اینٹوں پر بلند ہونی چاہئے ، اس کے آخری کنکر بھی سچائی پر بنی ہونے چاہئیں.یہ وہ قلعہ ہے جس میں جماعت احمدیہ کے لئے امن ہے اور جس میں جماعت احمدیہ کے لئے حفاظت ہے.ہر قسم کے مکر وفریب کو چھوڑ کر اس امن کے قلعہ میں داخل ہوں.یہ سچائی کا قلعہ ہے جو آپ کی حفاظت فرمائے گا.اس قلعہ میں داخل ہوں گے تو دشمن کی طاقت نہیں کہ آپ کے خلاف کوئی کاری حربہ استعمال کر سکے.حربے تو استعمال کرتا رہے گا مگر ہر حربہ اس کے لئے بے معنی اور بے مقصد اور بے فائدہ ثابت ہوگا بلکہ بسا اوقات اس کے اپنے حربے اُس کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 632 خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۹۲ء خلاف اُلٹیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی پیاری نصیحت فرمائی ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں.زبان سے خواہ سچی بات بھی ہو، کیسی اچھی بھی کی گئی ہو یہ کافی نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل سچا نہ ہو جائے اور دل کی گہرائی ہے بات نہ نکلے اُس وقت تک دلوں پر فتحیاب نہیں ہوسکتی.تو نہ صرف اپنے قول کو سچا کریں بلکہ اپنے عمل کو بھی سچا کریں.اپنے دل کی گہرائی میں پرورش پانے والی نیتوں کو سچا کر لیں.اگر آپ ظاہر اور باطن اور اوپر سے نیچے تک بچے ہو جائیں گے تو لازماً آپ کی فتح ہوگی.کچھ دیر کے لئے دھو کے باز فریب کاری سے کام لے کر دھوکہ دے دیا کرتا ہے مگر سچ آخرضرورکھتا ہے اور کھلتا ہے اور پھولتا ہے اور پھلتا ہے اور لازماً پنپتا ہے.سچ ہی کو غالب آنا ہے لیکن ترکیب وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن وسنت کا عرفان حاصل کر کے پیش فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو زبان دی اور ایک دل بخشا ہے.صرف زبان سے کوئی فتح نہیں ہوسکتی.دلوں کو فتح کرنے والا دل ہی ہوتا ہے جو قوم صرف زبانی ہی زبانی جمع خرچ کرتی ہے یاد رکھو وہ کبھی بھی فتح یاب نہیں ہو سکتی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا نمونہ دیکھو کہ کیا اُن کے پاس کوئی ظاہری سامان تھے؟ ہر گز نہیں مگر پھر بایں ہمہ کہ وہ بے سروسامان تھے اور دشمن کثیر اور ہر طرح کے سامان اُسے مہیا تھے اُن کو خدا تعالیٰ نے کیسی کیسی بے نظیر کامیابیاں عطا کیں.بھلا کہیں کسی تاریخ میں ایسی کامیابی کی کوئی نظیر ملتی ہے؟ تلاش کر کے دیکھ لومگر لا حاصل.پس جو شخص خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کی دنیا ٹھیک ہوجاوے.خود پاک دل ہو جاوے نیک بن جاوے اور اُس کی تمام مشکلات حل اور دکھ دور ہو جاویں اور اس کو ہر طرح کی کامیابی اور فتح ونصرت عطا ہو تو اُس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا کامیاب ہو گیا، بامراد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 635 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء تمام خرابیوں اور بیماریوں کا ایک ہی حل ہے کہ عبادت پر قائم ہو جائیں.جھوٹ کے بتوں کو اپنے گھروں سے اکھیڑ پھینکیں.(خطبه جمعه فرموده ۱۱ ستمبر ۱۹۹۲ء بمقام ناصر باغ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گزشتہ کچھ عرصے سے تبتل الی الله کے مضمون پر خطبات کا ایک سلسلہ جاری ہے جس میں میں تفصیل کے ساتھ جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب ہم سے توقع رکھتا ہے کہ ہر دوسرے سے کٹ کر خدا ہی کے ہور ہو تو دوسروں سے کٹنے سے مراد کیا ہے؟ زندگی کے کن کن شعبوں میں انسان کی راہ میں کون کون سے بت حائل ہوتے ہیں جو اللہ کی راہ روک دیتے ہیں اور خدا کی طرف بندے کے انقطاع کے رستے میں حائل ہو جاتے ہیں.یہ سلسلہ چونکہ پاکستان میں بھی اور ہندوستان بھی اور مشرق کے دُور دراز کے ممالک تک بھی ممتد تھا یعنی وہاں تک کہ یہ آواز بھی پہنچ رہی تھی اور تصویر میں بھی اس لئے میں نے سوچا ہے کہ اُس وقت تک اسے عارضی طور پر بند کر دیا جائے جب تک کہ دوبارہ ان تمام ممالک سے رابطہ قائم نہ ہو جائے ، جن کو اس مضمون سے کچھ ہی حد تک آشنائی ہو چکی ہے اور جب دوبارہ خطبات کا عالمی Televise نظام شروع کیا جائے تو وہ یہ محسوس نہ کریں کہ اس عرصے میں بہت سے سلسلے کے ایسے خطبات تھے جن سے ہم محروم رہ گئے ہیں اس لئے سفر کے دوران جب تک یہ سلسلہ منقطع ہے میرا خیال ہے کہ متفرق امور پر حسب حالات مختلف ممالک کی جماعتوں کو اُن باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا
خطبات طاہر جلدا 636 خطبہ جمعہ الرستمبر ۱۹۹۲ء جو باتیں خصوصیت کے ساتھ ان کی توجہ کی مستحق ہوں.جرمنی کے نقطہ نگاہ سے میں نے چند امور نوٹس کی صورت میں لکھے ہیں.اس سلسلے میں بعض ایسے دوستوں نے مجھے توجہ دلائی جو پاکستان سے جرمنی کے دورے پر تشریف لاتے رہے ہیں اور بلا کم و کاست اور بے لاگ اُنہوں نے جو کچھ محسوس کیا اُس سلسلے میں انہوں نے مجھے بھی متوجہ کیا.سب سے اہم بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ نمازوں میں ستی ہے.مجھے بتایا گیا کہ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک نمازوں کی طرف کماحقہ توجہ شروع نہیں کی حالانکہ عبادات کے متعلق میں نے مسلسل لمبے عرصے تک خطبات دیئے اور ہر پہلو سے جماعت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جب تک جماعت عبادت پر قائم نہیں ہو جاتی نہ احمد بیت کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، نہ اس کے دنیا میں غلبہ پانے کے کوئی معنی ہیں کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذریت :۵۷) کہ میں نے عبادت کی غرض کے سوا کسی اور غرض سے انسان کو پیدا نہیں کیا.انسان کو اور جن کو دونوں کو پیدا کیا ہے تو عبادت کی غرض سے کیا ہے.پس اگر انسان کی پیدائش کی غرض ہی پوری نہ ہوتو باقی ساری باتیں تو ثانوی حیثیت رکھتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا اس جماعت سے تعلق ہے اور اسی سے رہے گا جو اس کی عبادت کا حق ادا کرتی ہے اور جب تک وہ یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرتی رہے گی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ، اس کے فضل ، اُس کی نفرتیں ایسی جماعت کی شامل حال رہیں گے.اگر چہ یہ درست ہے کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ قیام عبادت کے لحاظ سے تمام دنیا کی دوسری مذہبی جماعتوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے.صرف عبادت کے ظاہر ہی کو نہیں پکڑتی بلکہ اس کی روح سے بھی فائدے کی کوشش کرتی ہے.جماعت کی بھاری اکثریت ایسی ہے جس نے رفتہ رفتہ عبادت کے مضمون کو سمجھ لیا ہے اور مسلسل کوشش کر رہی ہے کہ محض ظاہری طور پر کھڑے ہونا اور رکوع کرنا اور کھڑے ہونا اور سجدے میں گرنا عبادت نہ رہے بلکہ روح بھی ساتھ خدا کے حضور قیام پکڑے، روح بھی رکوع کرنے والے کے ساتھ رکوع میں جائے اور پھر کھڑے ہونے والے کے ساتھ خدا کے حضور ایستادہ کھڑی ہو جائے اور پھر جھکنے والے کے ساتھ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جائے.یہ وہ عبادت ہے یعنی جسم اور روح کی اکٹھی عبادت جو حقیقت میں انسان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیا کرتی ہے.وہ لوگ جو محض
خطبات طاہر جلدا 637 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء کھڑے ہونے اور جھکنے اور سجدہ کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں یا ہونٹوں سے بعض لفظوں کو ادا کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں.اُن کی ساری زندگی بھی عبادت میں خرچ ہو جائے تو اُن کو کچھ حاصل نہیں ہوتا.صرف اتنا ہی حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سوچتے ہوئے مریں گے کہ ہم نے خدا کی خاطر اُس کے حکم کی پابندی کی ہے مگر اُس حکم سے ان کو کیا فائدہ پہنچنا تھا اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں.اسی لئے جماعت احمدیہ کو بار بار میں نے یہ سمجھایا کہ نماز کیا ہوتی ہے، کس طرح پڑھنی چاہئے ، کیا کیا ضروریات ہیں جن کو پورا کئے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی اور نماز کے دوران کیسی جدو جہد کی ضرورت ہے جو زندگی بھر انسان کے ساتھ رہتی ہے تاکہ نماز پڑھنے والا مسلسل پہلے سے بڑھ کر نماز سے فائدہ اٹھانے کی استطاعت حاصل کرتا چلا جائے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اگر چہ دنیا میں بہت سے ممالک میں ایسے فرقے بھی ہیں جو ظاہری نماز کی پابندی میں جماعت احمدیہ کو بھی شرماتے ہیں لیکن وہ ایک ظاہری خول سا ہے جس کے اندر کوئی زندہ روح دکھائی نہیں دیتی.وہابی فرقے کے لوگ ہیں ، بڑی بھاری تعداد میں، بہت بڑی اکثریت میں نمازیں ادا کرتے ہیں مگر اٹھنا بیٹھنا نماز کا نام ہے.روح کے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں ہوتی جو اُن کے اخلاق پر اثر انداز ہو.دیکھنے والا یہ محسوس کر سکے کہ یہ خدا والے لوگ ہیں ، ان کے اندر بنی نوع انسان کی ہمدردی پیدا ہو، اللہ تعالیٰ سے محبت اور تعلق بڑھتا چلا جائے.یہ علامتیں ہیں جو زندہ عبادت کی علامتیں ہیں وہ ان میں دکھائی نہیں دیتیں.پس اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ عبادت کے لحاظ سے دنیا میں بے مثل ہے تو محض ایک زبانی دعوی نہیں بلکہ حالات پر نظر ڈالتے ہوئے ، حقیقت کے طور پر یہ بات بیان کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی اس طرف بھی نظر جاتی ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جماعت میں نوجوانوں کا ایک ایسا طبقہ ہے جو نمازوں سے غافل ہے.جس نے ظاہر کی نماز ادا نہیں کی باطن کی اُس کی نماز کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر چہ ایسے نماز نہ پڑھنے والے بعض دوسری باتوں میں دین سے محبت کی علامات رکھتے ہیں ، مالی قربانی بھی پیش کر دیتے ہیں ، جانی اور وقت کی قربانی بھی پیش کر دیتے ہیں لیکن جب نمازوں کا وقت آتا ہے تو اُن سے غافل ہو جاتے ہیں.گھروں میں بھی نمازوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.باجماعت نماز کے لئے جب مواقع میسر آتے ہیں تو سستی اور غفلت کی حالت میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ نماز میں شامل ہوتے ہیں.638 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء قرآن کریم میں اس چیز کو ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا ہے، بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے.فرماتے ہیں ایسے نماز پڑھنے والے جن کا دل نماز میں نہ ہو جو سنجیدگی کے ساتھ نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اُس کے آداب بجا نہیں لاتے ، غفلت کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں اور غفلت کی حالت میں سلام پھیر کر چلے جاتے ہیں.فرمایا اُن کی حالت یہ ہے لا الى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلى هَؤُلاء (النساء:۱۴۴) نہ وہ اس طرف کے لوگ ہیں نہ وہ اُس طرف کے لوگ ہیں، نہ دین کے رہے نہ دنیا کے رہے.جس طرح ایک شاعر نے کہا ہے: نہ ادھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے نہ خدا ہی ملا ، نہ وصال ایسی باتوں کا کیا فائدہ جو دنیا والوں سے بھی انسان کو تو ڑ دے اور خدا سے بھی تعلق قائم نہ کر سکے.پس عبادت کی طرف توجہ کرنا زندگی کا اہم ترین فریضہ ہے.عبادت کے قیام کی خاطر حقیقت میں دنیا میں مذاہب آئے اور تمام مذاہب کی ریڑھ کی ہڈی عبادت رہی ہے اور تمام مذاہب کی سب سے پہلی، سب سے اہم تعلیم عبادت ہی تھی چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ( البینہ: ۶ ) کہ کوئی بھی مذہب دنیا میں ایسا نہیں آیا جسے خدا نے یہ ہدایت نہ کی ہو کہ عبادت پر قائم ہو جاؤ.اللہ کی عبادت کرو مُخْلِصِينَ لَهُ الدين (البيه : ) ، حُنَفَاء لِلهِ (الحج:۳۲) کے لفظ بھی آتے ہیں کہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے، ایسی حالت میں جھکتے ہوئے کہ جب گرو تو خدا کی طرف گرو اور دین کو خدا کی خاطر خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرو تو جب دنیا کے ہر مذہب کو عبادت ہی کے قیام کی خاطر پیدا کیا گیا تو احمدیت اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں رکھتی اور نہ رکھ سکتی ہے.عبادت پر اگر انسان قائم ہو جائے یا جماعتیں قائم ہو جائیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ظاہر کو بھی سنجیدگی سے اُس کے تمام لوازمات کے ساتھ ادا کریں اور باطن میں بھی اپنے نفس میں بار بار ڈوب کر ہمیشہ اس بات کی تلاش میں رہیں کہ عبادت کے نتیجے میں اُن کی روح میں کوئی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے کہ نہیں ، اللہ تعالیٰ کی یا د واقعۂ دل پر اثر انداز ہو رہی ہے کہ نہیں ، وہ دل پر تموج کی کیفیت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 639 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء آتی ہے کہ نہیں.اگر وہ نمازیں ادا کریں تو یقینا یہ نمازیں نہ صرف خود کھڑی ہوں گی بلکہ پڑھنے والے کو بھی مستحکم کر دیں گی اور اُس کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیں گی.جولوگ اس طرح نماز نہیں پڑھتے اُن کو نماز میں لطف نہیں آتا اور لطف نہ آنے کے نتیجے میں وہ اور بھی زیادہ نماز سے غافل ہوتے چلے جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ مفت کی بیگارسی ہے.باقی باتوں میں ہم ٹھیک ٹھاک ہیں، چندے بھی دے دیتے ہیں، وقار عمل بھی کر دیتے ہیں، جماعت کے فنکشن اور تقریبات پر بھی چلے جاتے ہیں تو چلو کوئی بات نہیں نماز نہ سہی.یہ بالکل جھوٹا تصور ہے، بالکل باطل، بے حقیقت،اگر نماز نہیں تو باقی کسی چیز کی بھی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ نماز خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرتی ہے اور جس کا خدا سے تعلق نہیں، اُس کا چندے دینا بھی بے معنی ہے، اُس کا وقار عمل کرنا بھی بے معنی ہے، اس کی ساری باتیں سرسری اور ایک ظاہری حیثیت اختیار کرتی ہیں اُن میں کوئی جان اور زندگی نہیں ہوتی وہ خدا کو پسند نہیں آتی.عبادت کے قیام کے سلسلے میں میں بہت سی باتیں پہلے بیان کر چکا ہوں جن کو دہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا لیکن اتنا ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ عبادت کرنے والا اگر ہمیشہ اپنے نفس میں اس بات کی تلاش کرتا رہے کہ نماز کے دوران میرا خدا تعالیٰ سے کچھ براہ راست تعلق قائم ہوا ہے یا نہیں، کوئی رابطہ بنایا نہیں بنا اور اس تعلق اور رابطے کے نتیجے میں میرے دل میں کوئی تحریک پیدا ہوئی ہے یا کوئی تموج پیدا ہوا ہے.واقعہ یہ ہے کہ جب آپ کسی محبوب سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں یا دنیا کے لحاظ سے کسی بڑے آدمی سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں خواہ وہ محبوب ہو یا نہ ہوتو جانے سے پہلے ہی خیالات میں ایسی ملاقات کے خیال میں گم رہتے ہیں اور خیالات کئی قسم کی باتیں سوچتے ہیں یعنی ذہن کئی قسم کی باتوں کو سوچتا ہے اور خیالات ان باتوں میں گم ہوتے ہیں کہ ہم یہ بھی کہیں گے اور وہ بھی کہیں گے، اگر شکایت ہے تو یہ شکایت کریں گے ، اگر کوئی طلب ہے تو فلاں بات طلب کریں گے اور جب ملاقات شروع ہوتی ہے تو بعض دفعہ ملاقات کا اپنا لطف ان کے مزاج پر ، ان کے دماغ، ان کے دل پر اس حد تک غالب آ جاتا ہے کہ ساری سوچوں کی باتیں ان کہی میں ہی رہ جاتی ہیں اور انسان بغیر کہے ہی اُٹھ کے آجاتا ہے لیکن یہ کیفیت اس لئے ہے کہ انسان کے ذہن پر اُس ملاقات کے کرنے کا خاص اثر ہوا کرتا ہے.یعنی ملاقات سے پہلے ہی وہ اثر اُس کے ذہن ، اُس کے دل پر
خطبات طاہر جلدا 640 خطبہ جمعہ ا ا ستمبر ۱۹۹۲ء قبضہ جمالیتا ہے اور اُس کے نتیجے میں انسان وہ باتیں بھی نہیں کہہ سکتا جو اُس نے کہنی ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا تصور اگر صحیح ہو تو انسان کے دل و دماغ پر اتنی قوت کے ساتھ قبضہ جمائے گا کہ اس کی کوئی اور مثال دنیا میں دکھائی نہیں دے گی اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو اگر عارف باللہ کے حالات پر غور کیا جائے تو عارف باللہ کے آئینے سے دکھائی دے سکتی ہے.روزمرہ کی زندگی میں عام انسان اس حقیقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے الله احادیث میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز نہیں بھی پڑھ رہے ہوتے تھے تو دل نماز میں انکا ہوتا تھا.یہ وہی کیفیت ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ خدا کے حضور با قاعدہ حاضری دینے کا تصور اتنا پیارا لگتا تھا اور اس سوچ میں آپ گم رہتے تھے کہ کب میں جاؤں گا اور کیا کیا با تیں اس با قاعدہ نماز کی حالت میں کروں گا اور پانچ وقت نہیں پانچ وقت سے زیادہ مرتبہ آپ ﷺ خدا کے حضور با قاعدہ حاضر ہوتے تھے لیکن تعلق کا یہ عالم تھا اور خدا کی عظمت کا وہ ایک عظیم اثر آپ کے دل پر ایسا مسلط تھا، قائم ہو چکا تھا کہ ہر روز کی بار بار کی ملاقات بھی اُس اثر میں کمی پیدا نہیں ہونے دیتی تھی ، اُس جذبے کو ہلکا نہیں کر سکتی تھی بلکہ دن بہ دن جہاں تک آپ کی عبادات کا حال درج ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلق بڑھتا ہی گیا اور دل نمازوں میں ہی اٹکا رہا.پس یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے جو صرف بیان کرنے سے آ جائے یہ دل کے اندرونی تجربے کا نام ہے اور دل کا اندرونی تجربہ حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی اور صحیح طریق پر ہی رُخ پر قدم اٹھانے پڑیں گے.اسی لئے میں کوشش کرتا ہوں کہ جیسے بچے کو ہاتھ پکڑ کر چلایا جاتا ہے، جماعت کو بار بار نماز کے متعلق ہاتھ پکڑ پکڑ کر چند قدم چلا کر دکھاؤں کہ اس طرف نماز کا رُخ ہے، ایسی نماز جہاں نصیب ہوتی ہے اور اس طرح ادا کی جاتی ہے.پس وہ لوگ جونمازوں میں سست ہیں ، بہت بڑے محروم ہیں.اُنہوں نے اپنی زندگیاں ضائع کردیں اور آئندہ کے لئے بھی اُن کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.خصوصیت کے ساتھ جماعت جرمنی کو اس امر کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور تمام ذیلی تنظیموں کو بھی اس بات پر مستعد ہو جانا چاہئے کہ اُن کا کوئی ممبر بھی بے نمازی نہ رہے اور جہاں تک افراد کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے یہ بات رکھی ہے.نماز کے وقت آپ اگر صرف یہ کوشش کر لیں کہ نماز میں کوئی ایک حالت آپ کو ایسی نصیب ہو جائے کہ خدا تعالیٰ سے بات کرتے ہوئے
خطبات طاہر جلدا 641 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء آپ کے دل میں تموج پیدا ہو، ایک تحریک پیدا ہو جیسے کسی پیارے سے جب آپ ملتے ہیں تو اُس کی بعض باتیں یاد رہ جاتی ہیں.اُن ملاقاتوں کے بعض لمحات ایسے دل پر نقش ہو جاتے ہیں کہ ہمیشہ انسان اُن کی سوچوں سے ہی لطف اندوز ہوتا رہتا ہے.نماز میں بھی کچھ اسی قسم کی کیفیات پیدا ہونی ضروری ہیں.وہی نمازیں زندہ ہیں جو دل میں حرکت پیدا کر دیں، جو ایک ایسا تموج پیدا کر دیں جس کی لہریں دیر تک باقی رہیں اور آپ کے دل و دماغ میں اُن کے نفس کی گونجتی رہے، اُن کا ترنم آپ کو لطف پہنچا تا ہے.یہ جو نفسگی اور ترنم ہیں.یہ تموج ہی کے دوسرے نام ہیں.تموج کا مطلب ہے لہریں پیدا ہونا لیکن اگر لہریں خاص موسیقی سے پیدا ہوں.ان کے اندر ایک آپس کی ہم آہنگی پائی جائے، نظم وضبط پایا جائے تو اُسی کا نام موسیقی ہے.آپ نے اچھے گانے والے بھی سنے ہیں ، بُرے گانے والے بھی سنے ہیں.کبھی آپ کو شاید یہ علم نہ ہو سکا ہو.بعض آوازیں آپ کو کیوں پسند آتی ہیں اور بعض آوازیں کیوں پسند نہیں آتیں؟ وجہ یہ ہے کہ جن آوازوں کو آپ پسند نہیں کرتے اُن کے اندر کوئی اندرونی ہم آہنگی نہیں ہے.ایک ہر چھوٹی سی اٹھی ہے دوسری بڑی اٹھی تیسری درمیان میں کہیں چلی گئی اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مزاج نہیں ملتے ورنہ اچھے پڑھنے والوں کی آوازوں میں بھی چھوٹی لہریں بھی ہوتی ہیں، بڑی لہریں بھی ہوتی ہیں اور درمیانی لہریں بھی ہوتی ہیں لیکن ان کے آپس کے رابطوں میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے، مزاج ملتے ہیں اور جب آوازوں کے مزاج ملیں تو لطف پیدا کر دیتی ہیں.اسی طرح انسان کے جب انسان سے مزاج مل جائیں تو لطف پیدا ہو جاتا ہے، وہ بھی ایک قسم کی میوزک ہے.ایک ایسا آدمی جو آپ کو پسند نہ ہو اس کے ساتھ بیٹھنا سوہانِ روح ہو جاتا ہے.بعض دفعہ عذاب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.جتنی دیر اس کی مجلس میں آپ بیٹھتے ہیں مصیبت پڑی ہوتی ہے.وہ بھی دراصل ایسے ہی ہے کہ جیسے بُری آواز والے کی آواز بیٹھے سن رہے ہیں.بُری آواز والے کی آواز کے اندر اندرونی ہم آہنگی نہیں ہوتی اور آپ کے دل میں جو خدا تعالیٰ نے میوزک کا ایک تصور ثبت کر رکھا ہے یعنی نمسگی ایسی چیز نہیں ہے جو باہر سے آتی ہے.یداللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں نغمگی کا ایک تصور ثبت کیا ہوا ہے اور اُس تصور کے ساتھ جب بیرونی نغمگی یا گانا ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو انسان کو اتنا لطف محسوس ہوتا ہے کہ اُس لطف میں بعض دفعہ وہ ایسی کیفیات میں چلا جاتا ہے جسے لوگ جذب کی حالت کہتے ہیں اور وہ ہمیشہ یاد رہتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 642 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء یہ مثال میں آپ کو اس لئے دے رہا ہوں تفصیل کے ساتھ کہ نماز میں بھی خدا کی ذات کے ساتھ ایسی ہم آہنگی ہونی ضروری ہے تب نماز میں نغمہ پیدا ہوگا اور جب وہ نغمے کی لہریں پیدا ہوں گی تو وہ ہمیشہ یادر ہیں گی.اپنے پیاروں کے ساتھ ملنے میں وہ نغمہ پیدا ہوتا ہے اور وہی آپ کے لطف کا موجب بنتا ہے.ورنہ دو آدمی پاس پاس بیٹھے ہوئے ہیں اس سے زیادہ اگر اور کچھ بھی نہ ہو تو وہ شخص جو ہم مزاج نہیں ہے وہ بھی خاموش ایک طرف بیٹھا ہو اور آپ بھی ایک طرف بیٹھے رہیں.آپ کے اندر ایک مغائرت ہوگی، ایک تناؤ پیدا ہو گا، گھبراہٹ ہو گی کب یہ مصیبت گلے سے اترے، کب یہاں سے اُٹھ کے جائے تو میں تنہائی کا لطف محسوس کروں لیکن ایک پیارا شخص بھی اسی طرح اسی فاصلے پر بیٹھا ہو ، اسی طرح خاموش بیٹھا ہو، آپ کا دل نہیں چاہے گا کہ اٹھ کے جائے.وہ کیا چیز ہے جس نے آپ دونوں کو اس زور کے ساتھ باندھا ہے، وہ آپ دونوں کی نفوس کی ہم آہنگی ہے.یہ ایک قسم کی میوزک ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کو ودیعت فرمائی ہوئی ہے اور بغیر آواز کے بھی اس کالطف محسوس ہوتا ہے.تو نماز کو زندہ کرنے کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم آہنگی پیدا کریں اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے محض نماز کے چند لمحات کافی نہیں ہوں گے.اپنی زندگی کے روز مرہ کے حالات میں یہ ہم آہنگی پیدا کی جاتی ہے.بار بارخدا کی طرف تصور اچھل اچھل کر دوڑے اور ہر بات پر کچھ نہ کچھ خدا کا خیال دل میں پیدا ہونا شروع ہو جائے.کھانا کھاتے ہوئے جب آپ اچھی چیز کھاتے ہیں.کبھی نہیں سوچتے کہ یہ مزا کیا ہے، یہ خوشبو کیا ہے، بھوک کیوں لگتی ہے، بھوک کے نتیجے میں جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو کیسا مزا پیدا ہوتا ہے؟ تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے کیسے باریک در بار یک نظام انسان کو لطف پہنچانے کے لئے پیدا فرمائے ہوئے ہیں.بچوں سے میری بات ہو رہی تھی تو میں نے اُن سے کہا کہ یہ تو سوچو کہ اگر اللہ چاہتا تو گائے بھینسوں کی طرح گھاس اور پٹھوں پر بھی تمہارا گزارا ہو سکتا تھا.جس میں گائے بھینس ،مویشیوں کے معدے ایسے بنادیئے جو پتے کھا کر بھی گزارا کر سکتا ہے تمام حیوانی دنیا میں انسان کے سوا کوئی جانور ایسا نہیں جس کی لذت کے اتنے مختلف سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہوں.خوشبو میں بھی مزار کھ دیا، لمس میں بھی مزار کھ دیا، سردی گرمی میں بھی مزار کھ دیا ، پھر مزے بھی کئی قسم کے اُن کے ساتھ آویزاں
خطبات طاہر جلدا 643 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء کر دیئے اور نظر کی کیفیت میں بھی مزا پیدا کیا چنانچہ بعض تو میں ایسی ہیں کہ جن کو کھانے کا لطف ہی نہیں آتا جب تک خوب سجانہ ہو.ان کے ہاں نظر کی لذت زبان کی لذت سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے.چنانچہ جاپان میں جن کو جانے کا موقع ملا ہو یا جنہوں نے جاپان کی کوئی فلم دیکھی ہو.وہ یہ محسوس کریں گے کہ ساری دنیا کی قوموں میں سب سے زیادہ سجاوٹ کے ساتھ جاپانی کھانا پیش کرتے ہیں اور ایسے خوبصورت کھانے سجا کر بعض دفعہ طاقوں میں لگائے ہوتے ہیں یا شیشے کی الماریوں میں کھانے کی دکانوں میں سجائے ہوتے ہیں کہ آدمی سمجھتا ہے بہت ہی مزیدار چیز ہوگی.مگر ہمارا تو چونکہ یہ ذوق مختلف ہے جب کھاتے ہیں تو دو لقے بھی نہیں کھائے جاتے ہیں لیکن اُن کے ہاں نظر کو اہمیت ہے.بعض قوموں میں خوشبو کو اہمیت ہے ، بعض قوموں میں زبان کی تیزی کو اہمیت ہے، زبان کی تیزی پیدا ہو، جیسے کہ مرچ مصالحہ کھانے والے ہیں زبان کی تیزی کا مزا چکھتے ہیں بعضوں کو اصل چیز کی خوشبو میں مزا ملتا ہے، کوئی چینی یا کوئی اور چیز زائد کر دی جائے تو اُن کا مزا کھویا جاتا ہے.لیکن یہ ساری چیزیں سوائے انسان کے کسی اور کو نصیب نہیں ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کیسے کیسے سامان فرمائے ہیں.نماز میں مزے سے پہلے روز مرہ کی زندگی میں تو خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کر لیں اور اتنے بے شمار مواقع ہیں صبح سے آنکھ کھلنے کے وقت سے لے کر رات سوتے وقت تک اگر انسان خدا کا شعور زندہ رکھے تو سینکڑوں، ہزاروں مواقع اُس کو لقائے باری تعالیٰ کے میسر آ سکتے ہیں.توجہ ہو تو ضرور کچھ نہ کچھ جھلکیاں خدا کے پیار کی ہر زندگی کے شعبے میں دکھائی دیں گے.ایسے شخص کی نماز پھر زندہ ہونے کی اہلیت رکھتی ہے جب وہ نماز میں خدا کو رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحہ ۲) کہتا ہے تو اپنے روز مرہ کے تجارب میں سے کچھ باتیں یاد آ جاتی ہیں جبکہ اس نے خدا کی ربوبیت سے لطف اٹھایا تھا، اس نے خدا کی ربوبیت کے نظارے اپنے گھر میں دیکھے، اپنے بچوں میں دیکھے، اپنے ماحول میں دیکھے، اُس ملک میں دیکھے جس ملک میں وہ بس گیا ہے پھر اُس کی رحمانیت کے نظارے، اُس کی رحیمیت کے نظارے، اُس کے مالک ہونے کے نظارے، یہ سارے روزمرہ کی زندگی میں ایسے تجارب ہیں کہ ایک دن بھی اُن سے خالی نہیں اور جو شخص باشعور ہو جائے اُس کا کوئی لمحہ ان تجربوں سے خالی نہیں ہوسکتا.باشعور ہونے میں اور اس سفر کے ابتدائی قدم اٹھانے میں بڑے فاصلے ہیں، لا متناہی فاصلے ہیں.
خطبات طاہر جلدا 644 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء اس جلوس کے ایک طرف ایک عام نماز میں کوشش کرنے والا انسان ہے اور سب سے دور اتنا دور کہ تصور کی آنکھ بھی بمشکل پہنچتی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی یہ عبادت کرنے والوں کے قافلہ سالار کے طور پر اس قافلے کی سربراہی فرما رہے ہیں.ان دو کے درمیان بہت بڑے فاصلے ہیں لیکن جیسا کہ جلوسوں میں اور اجتماعی طور پر چلنے والے گروہوں میں دیکھا گیا ہے ضروری نہیں ہوا کرتا کہ جو شخص سب سے پیچھے رہ گیا ہے وہ ہمیشہ سب سے پیچھے ہی رہے.آگے پیچھے لوگ ہوتے رہتے ہیں.کچھ کوشش کرتے ہیں، زور لگاتے ہیں وہ آگے نکل جاتے ہیں، کچھ لوگ سستی دکھاتے ہیں تو پیچھے رہ جاتے ہیں.کوشش کریں کہ آپ سب سے آخر پر نہ رہیں اور آپ کا اور حضرت اقدس محمد مصطفی مہینے کا فاصلہ نسبتاً کم ہو.اس کا سب سے اچھا موقع ، اس کوشش اور جدوجہد کا نماز ہے جس کا نماز میں آنحضور ﷺ سے فاصلہ کم رہ جائے جب وہ یہ دعا کرتا ہے اے خدا مر نے کے بعد مجھے محمد رسول اللہ کی معیت میں اٹھانا، آپ کے قرب میں جگہ دینا تو اس کی دعا میں ایک جان پیدا ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نظر اُس کو اس حیثیت سے دیکھتی ہے کہ کمزور سہی لیکن سچا آدمی ہے.اس نے زندگی بھر کوشش ضرور کی تھی کہ آنحضور اللہ کا قرب نصیب ہو لیکن وہ جو قرب کی کوشش نہیں کرتے اور لوگوں کو دعا کے لئے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کریں کہ مرنے کے بعد ہمیں خدا آنحضور لے کے قدموں میں جگہ دے.ان دعاؤں کی کیا حیثیت ہے؟ منہ کی باتیں ہیں اور اگر کوئی اہل اللہ بھی اُن کے لئے دعا کرے گا تو یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی کیونکہ دعا کو نیک اعمال طاقت بخشتے ہیں.بعض دفعہ دعا کرنے والے کے نیک اعمال بعض دفعہ جس کے لئے دعا کی جاتی ہے اُس کے نیک اعمال چنانچہ بعض لوگ جن کے اندر نیک اعمال کی صلاحیت ہو اُن کے حق میں یہ دعا قبول ہو جاتی ہے، جو نیک اعمال سے کلیۂ محروم صلى الله ہوں اُن کے حق میں نہیں ہوتی.چنانچہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے دو عمروں میں سے ایک عمر خدا سے مانگا تھا یعنی دونوں مل جائیں تو بہتر ورنہ ایک تو ملے (ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر : ۳۶۱۴).یہ مراد ہے اس سے.ایک ابو جہل کا نام بھی عمر تھا اور ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی عمر تھا.ابو جہل کے حق میں دعا قبول نہیں ہوئی لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دعا قبول ہوئی حالانکہ دعا کرنے والا وہی تھا.اُس کے نیک اعمال بھی وہی تھے جو دعاؤں کو رفعت بخشتے ہیں.پس جس کے حق میں دعا کی جائے اُس کے اعمال کا بھی قبولیت دعا سے گہرا تعلق ہوا کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 645 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء پس آپ کو حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کا قرب پیارا ہے تو اس پیار کی تمنا تو کر کے دکھا ئیں.تب آپ کی دعائیں بھی مقبول ہوں گی اور دوسروں کی آپ کے حق میں مقبول ہوں گی ورنہ جس نے دنیا میں فاصلے قائم رکھے اور پرواہ نہیں کی قیامت کے دن بھی یہ فاصلے پائے نہیں جاسکیں گے اس لئے نماز کو کم از کم اس کوشش کے ساتھ ادا کریں کہ نماز میں کچھ لمحے ساری نہ سہی ، کچھ لمح لقاء کے نصیب ہو جائیں.کچھ ایسے لمحے ہوں کہ نماز ایک ملاقات بن جائے.لقاء باری تعالیٰ جو کہتے ہیں دراصل ملاقات ہے.یہ جو کہتے ہیں لقاء نصیب ہو جائے حالانکہ وہ آدمی جو لقاء کی دعائیں کرتا ہے وہ نماز بھی پڑھ رہا ہوتا ہے.تو لقاء سے مراد وہ لقاء ہے جو زندہ ملاقات کی مشیت رکھتی ہے.جب آپ کسی سے ملنے جاتے ہیں تو ہوش وحواس ، پوری توجہ کے ساتھ مل رہے ہوتے ہیں اور اس ملاقات کے نتیجے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لذتیں پیدا ہوتی ہیں جو زندگی کی یادوں کا سرمایہ بن جاتی ہیں.نماز میں بھی ویسی ہی لقاء نصیب ہو تو پھر وہ نماز زندہ ہوتی ہے اور جس کی نماز میں یہ جھلکیاں ملنی شروع ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ نمازوں پر قائم ہو جایا کرتا ہے.پس بہت سے ایسے احمدی نوجوان ، بہت سے اگر نہیں تو اتنی تعداد ضرور ہے کہ جو ہمارے لئے شدید تکلیف کا موجب ہے.ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جو نمازوں سے غافل ہیں یعنی نماز کا غافل ہونے سے مراد نماز کا پڑھتے ہوئے غافل ہونا بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نماز پڑھتے ہی نہیں.اپنی غفلت کی حالت ہے کہ پر واہ ہی کوئی نہیں رہی.ایسے لوگوں کے متعلق بعض دفعہ ان کی بیویاں مجھے لکھتی ہیں ، بعض دفعہ مائیں لکھتی ہیں، بعض دفعہ بہنیں بھی لکھتی ہیں بعض دفعہ بچے بھی لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہمارے ابو کونماز کی عادت نہیں ہے.بعض بیویاں لکھتی ہیں کہ ویسے تو بہت اچھے ہیں مگر میں ہر وقت کڑھتی رہتی ہوں کہ میرے میاں کو نماز سے کوئی شغف نہیں.سمجھاتی ہوں تو جھڑک دیتے ہیں چھوڑ دو ان باتوں کو میں جانتا ہوں، میری مرضی ہے، میر اخدا سے تعلق ہے، مطلب ہے میرا خدا سے کوئی تعلق نہیں لیکن کہتے یہی ہیں کہ میرا خدا سے تعلق ہے اور میں جانتا ہوں.کیسی ظلم کی حالت ہے آپ اپنی اس زندگی کو ضائع کر رہے ہیں جو چھوٹی سی زندگی ہے اور ایک دفعہ ختم ہوئی تو پھر واپس نہیں آنی.کیا پتا ہے کہ کس وقت کون گزر جائے اور جو بے نماز دنیا سے گزرے گا وہ اندھی حالت میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 646 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء اٹھایا جائے گا.قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ وَمَنْ كَانَ فِي هذه أعْلَى فَهُوَ فِى الْآخِرَةِ اغمی (بنی اسرائیل :۷۳) کہ دنیا میں جو اندھا ہو وہ قیامت کے دن مرنے کے بعد بھی اندھار ہے گا.اس سے مراد لقاء کا حاصل ہونا یا لقاء کا نہ حاصل ہونا ہے.وہ شخص جس کو خدا دنیا میں دکھائی نہ دینے لگے اور بار بار اس کی جھلکیاں نظر نہ آئیں.وہ جو خصوصیت کے ساتھ نماز میں آتی ہیں، وہ دنیا میں اندھا ہے اور جیسے اندھے کو پتا نہیں لگتا کہ میں کس چیز سے محروم ہوں اُسی طرح ایسا آدمی بھی بسا اوقات محسوس ہی نہیں کرتا کہ وہ کس چیز سے محروم ہو رہا ہے.اُس کے متعلق کتنی درد ناک خبر ہے.وَ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلمی جو اس دنیا میں اندھا رہا آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھایا جائے گا.وہاں بھی اُس کے لئے بصارت نہیں ہوگی.پس یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بہت ہی بڑی اور بنیادی خرابی ہے.ایسے لوگ وہ ہیں جو دراصل ماحول کا ایندھن بن جاتے ہیں.ماحول کی دلچسپیاں اُن کو کھینچ لیتی ہیں.نماز ہی ہے دراصل جو اُن کی حفاظت کرتی ہے.ہرقسم کی برائی ہرقسم کی فحشاء سے لیکن جب وہ نمازوں سے غافل ہوں تو دنیا کی دلچسپیاں اُن کو بے روک ٹوک بھینچتی ہیں.میں نے دیکھا نماز پڑھنے والوں میں بھی خرابیاں ہوتی ہیں اُن میں بھی بعض دفعہ فحشاء کی عادت ہوتی ہے لیکن ایک نمازی کی زندگی اور بے نمازی کی زندگی میں بہت بڑا فرق ہے.ایک - بے نماز انسان بے روک ٹوک اپنی بد عادتوں کی طرف بڑھتا ہے اور دوڑتا چلا جاتا ہے اور کوئی آواز اُس کو واپس بلانے کے لئے اس کے کان میں نہیں پڑتی.لیکن ایسے بھی نمازی ہیں جن سے گناہ ہوتے ہیں.بعض گناہوں کے وہ بچپن کی غلطیوں کی وجہ سے عادی بھی بن چکے ہوتے ہیں لیکن ہر نماز میں ضمیر کی آواز کانوں میں سنائی دیتی ہے اور اُن پر لعنتیں بھیج رہی ہوتی ہے کہ تم کیا کرتے آئے ہو، اب کیا کر رہے ہو؟ واپس کس دنیا میں جاؤ گے اور مسلسل کوشش کرتے ہیں، روتے ہیں، پیٹتے ہیں، گریہ وزاری کرتے ہیں اور بعض دفعہ سمجھتے ہیں کہ ہماری نہیں سنی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نماز کی آواز ضائع نہیں جایا کرتی.جلد یا بدیر آخر نماز میں اٹھنے والی ضمیر کی آواز اُن پر غالب آجایا کرتی ہے اور ہرقسم کی برائیوں سے اُن کو کھینچ کر ایک دفعہ خدا کی طرف لے آتی ہے مگر جو نماز ہی نہیں پڑھتا اُس کے لئے یہ کون سا امکان ہے؟ اُس کے بچنے کی تو ہر راہ بند ہو چکی ہوتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 647 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء اس لئے دیکھنے میں تو یہ فرق ہے کہ فلاں نماز تو پڑھتا ہے اور فلاں بدی اس میں موجود ہے اور اگر کوئی بدی اس میں موجود ہے تو یاد رکھیں کہ اُس بدی کے خلاف ہر نماز میں کوئی نہ کوئی شرمندگی بھی وہ محسوس کر رہا ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی آواز اُس کے کانوں میں ضرور پڑ رہی ہوتی ہے، لیکن ایک بے نمازی بیچارہ تو بالکل محروم ہے.اندھا دھند آنکھیں بند کئے ہوئے وہ ایک گندی عادت میں مبتلا ہے تو مبتلا ہی رہ جاتا ہے اور بد عادتیں پکڑ لیتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے مفاد سے بھی غافل ہو جاتا ہے، اپنے بیوی بچوں کے مفاد سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور بڑی ایک نحوست کی سی حالت ہے.ایسا گھر جس میں نماز نہ پڑھی جاتی ہو، جس گھر میں خاوند نماز نہ پڑھے، اُس کی بیوی کی نمازیں بے چاری کی اکیلی کام نہیں دے سکتی، بعض دفعہ بچے ماں کی بجائے باپ کی حالت کو دیکھ کر اُس سے رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور ویسے بھی گھر پر ایک نحوست سی طاری رہتی ہے.تو میں آپ کو بڑے خلوص کے ساتھ ، بڑی منت کے ساتھ یہ گزارش کرتا ہوں ، اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ نماز کو اہمیت دیں اور گھر میں سے ہر فرد نماز پر نگران ہو جائے جس طرح کہ مجھے بعض بچے لکھتے ہیں تو بہت پیارے لگتے ہیں.جب بڑوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ اُن کو نماز پڑھنے کی عادت نہیں.دعا کے لئے لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ اس بچے کے دل کی جو دعا ہے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی شاید سن لی ہو.تو نہ صرف نگران بنیں بلکہ دعائیں کرتے ہوئے نگران بنیں اور جو کوشش بھی اُن کے بس میں ہے وہ کریں تاکہ کسی احمدی گھر میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو یا بڑا ہو یا بچہ جو عبادت نہ کرتا ہو اور پھر عبادت کرنے والا بھی ایسا ہو جو ہر وقت اپنی عبادت کو زندہ کرنے میں کوشاں ہو.صرف ظاہری اُٹھک بیٹھک پر راضی نہ ہو بلکہ جب تک اُس کے دل میں سے عبادت کا مزا اٹھنا نہ شروع ہو جائے اُس وقت تک وہ تسلی نہ پائے.جرمنی کو ایسے عبادت کرنے والوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دنیا بہت زیادہ مادہ پرست ہو چکی ہے.اتنا خدا سے دور جا چکا ہے یہ ملک صرف جرمنی کی بات نہیں ، یورپ کے اکثر ممالک کہ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے ہیں جہاں جا کر کوئی روک باقی نہیں رہتی.ان کے سکولوں میں چھوٹے ہوں یا بڑے، ان کے کالجوں میں ، یونیورسٹیوں میں کھلم کھلا خدا کے خلاف باتیں، ان کی تعلیم اور تدریس میں ایسے رنگ آچکے ہیں جن کے نتیجے میں عملاً ارادے کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچوں کو خدا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 648 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء سے بدظن اور مذہب سے دور کیا جاتا ہے اور کوئی روک ٹوک نہیں.جو زیادہ آزاد خیال ہو اور بے حیا ہو ، خدا کے خلاف باتیں کرنے والا ہو، وہ سوسائٹی میں زیادہ روشن خیال سمجھا جاتا ہے.گویا اندھوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں، جن کی آنکھیں ہیں اُن کو اندھا بتایا جاتا ہے.ایسی حالت میں نماز ہی ہے جو آپ کی اور آپ کے بچوں کی حفاظت کرے گی.نماز پر قائم نہ کیا تو آپ کی بچیاں آپ کے سامنے دیکھتے دیکھتے ضائع ہو کر اس غالب معاشرے کا شکار ہو جائیں گی اور بہت بڑا نقصان ہے.زیادہ تر پاکستان سے ہجرت کرنے والے احمدیوں کو شکایت یہی ہے کہ ہمیں کھلم کھلا عبادت کی اجازت نہیں اور یہ ایک ایسا حق ہے جسے دنیا کی تمام آزاد قوموں نے تسلیم کیا ہے کہ جسمانی طور پر خواہ کوئی مارے پیٹے یا نہ مارے پیٹے اگر کسی قوم کو خدا کی عبادت کے حق سے جبر امحروم کیا جائے تو یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ قوم دوسرے ملکوں میں پناہ لینے کا حق حاصل کر لیتی ہے لیکن اگر پناہ لینے والا وہاں بھی بے نمازی ہو اور یہاں بھی بے نمازی رہے تو کس چیز سے پناہ مانگی.ایک شیطان سے دوسرے شیطان کی طرف پناہ لی نا کسی شیطان سے خدا کی طرف پناہ لینے کے لئے تو نہ آئے.پس وہ لوگ جو پاکستان سے ہجرت کر کے آتے ہیں اور پھر وہاں بھی بے نماز رہتے ہیں اور یہاں بھی بے نماز رہتے ہیں کبھی اُن کے دل نے اُن کو جھنجھوڑ نہیں.کہاں سے بھاگے تھے کدھر بھاگے تھے؟ مومن اور غیر مومن کے درمیان میں یہی فرق ہوا کرتا ہے.غیر مومن اگر شیطان سے بھاگتا ہے تو شیطان کی طرف ہی بھاگتا ہے اور مومن اگر خدا کی تقدیر سے بھاگتا ہے تو خدا کی تقدیر کی طرف ہی بھاگتا ہے.اس نکتہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی شان کے ساتھ بیان فرمایا.ایک دفعہ ایک اسلامی لشکر آپ کی قیادت میں کسی جگہ پڑاؤ کئے ہوئے تھا اور وہاں ایک خبر مشہور ہوئی کہ یہاں ایک خوفناک پلیگ پھیلی ہوئی ہے، ایک قسم کی طاعون ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُسی وقت فیصلہ لیا کہ فوراً اس جگہ سے کوچ کر جاؤ اور دوسرے محفوظ صحت مند علاقے کی طرف چلو.آپ کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا.اے امیر المؤمنین ! کیا آپ خدا کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ اپنی طرف سے بڑی طاقت کے ساتھ ، بڑے زور سے
خطبات طاہر جلدا 649 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء حضرت امیر المؤمنین کے فیصلے کے خلاف اعتراض اٹھایا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے سکون سے جواب دیا.میں خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر کی طرف بھاگ رہا ہوں.میرا خدا جیسا یہاں ہے وہاں بھی ہے اور اُس کی تقدیر خیر بھی ہے اور تقدیر شر بھی ہے تو میں اُس کی ایک تقدیر سے اس کے سوا کسی اور کی طرف نہیں جارہا اُسی کی تقدیر خیر کی طرف بھاگ رہا ہوں.( بخاری کتاب الطب حدیث نمبر ۵۷۲۹) دیکھو مومن بھاگتا ہے تو خدا کی ایک تقدیر سے اُس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتا ہے.شیطان کی تقدیر سے شیطان کی تقدیر کی طرف نہیں بھا گا کرتا.پس وہ لوگ جو ہجرت کرتے ہیں خدا کے نام پر اور اپنی بدیاں ساتھ لے کر آتے ہیں اور اُن بدیوں میں مزید ملوث ہو جاتے ہیں.وہ شیطان کی تقدیر سے شیطان کی تقدیر کی طرف جانے والے ہیں.اُن کا تو خدا کی تقدیر سے بھاگ کر خدا کی تقدیر میں آنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا.یہ بڑا کھلا امتیاز ہے.ایک سچے مومن میں اور ایک فرضی مومن میں.پس آپ اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو بتادیں ، وہ دنیا کو دکھا دیں کہ آپ نے ہجرت خدا کی طرف کی ہے اور کسی غیر کی طرف نہیں کی اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ، سب سے بڑا گواہ آپ کی عبادتیں ہیں.اگر آپ عبادتوں پر قائم ہوں اور اُن کی نگرانی کریں اور آپ میں چھوٹا بڑا ایک دوسرے کا خیال رکھے، دعائیں بھی کریں منت اور گریہ وزاری کے ساتھ ، گریہ وزاری کرنی پڑے تو اپنے بھائیوں کو عبادت کی طرف بلائیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آپ پر کیسے نازل ہوتے ہیں.بہت سی دعائیں انسان کر کر کے تھک جاتا ہے قبول نہیں ہو رہی ہوتی اور آدمی شکوے کرتا ہے میری تو قبول نہیں ہوئی.بات یہ ہے کہ عبادت کرنے والے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ بھی خاص حکمتوں کے ساتھ جو سچی عبادت کرنے والا ہو اؤل تو اس کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوتی ہیں، دوسرے اگر جو نہیں ہوتیں اُن پر اللہ تعالیٰ صبر دیتا ہے اور کبھی ایسا شخص خدا پر شکوہ زبان پر نہیں لاتا.پس تمام خرابیوں کا ایک ہی حل ہے، تمام بیماریوں کا ایک ہی دوا ہے اور وہ عبادت پر قائم ہو جاتا ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جن نوجوانوں تک میری آواز پہنچ رہی ہے کہ جن بڑوں تک چھوٹوں تک میری یہ آواز پہنچ رہی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ عبادتیں میں کمزور ہیں وہ آج ہی یہ عہد کر کے اٹھیں کہ انشاء اللہ عبادت کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے.اپنی ذات میں بھی اور غیروں میں بھی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 650 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء وہ ایک ایسی شمع روشن کریں گے عبادت کی جس کی روشنی دور دور تک پھیلے.وہ اپنے گھر ہی کو روشن نہیں کریں گے بلکہ روشنی کا مینار بن جائیں گے تا کہ دور دور تک اُن کی روشنی کے فیض سے جہاز چٹانوں سے ٹکرانے کے بجائے ہدایت کی راہ پا جائیں گے.پس اس قوم میں ایسے روشنی کے مینار بننے کی ضرورت ہے اور عبادت گزار ہی ہے جو ایسا روشنی کا مینار ثابت ہوسکتا ہے.اور بہت سے امور جو بیان کئے گئے تھے اُن کے لئے تو وقت نہیں اب رہا لیکن سب سے اہم بات میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے.ایک امر یہ بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ سیاسی پناہ کے مقدمات میں جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور لیتے چلے جاتے ہیں.یہ بڑے ظلم کی بات ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ شرک ہے.دنیا کی منفعت کی خاطر آپ جب جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں تو ایک خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا کی عبادت شروع کر دیتے ہیں اور جھوٹ کے نتیجے میں بلکہ برکتیں بھی نہیں مالتیں.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر غلط بیان دیئے بھی گئے ہیں تو اس بات سے قطع نظر کہ آپ کے سچ کی کیا سزا ہو گی آپ کو سچ بولنا چاہئے اور جو حقیقت حال ہے وہ بتانی چاہئے یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہمیں مار پڑی اور ہمیں یہ ہوا جبکہ نہ مار پڑی اور نہ کچھ اور ہوا.وہ بتانا چاہئے کہ سارے احمدی کا دل وہاں دکھا ہوا ہے.ہماری ہر چیز پر پابندی ہے ہر روز اخباروں میں منہ کالے کئے ہوئے ہوتے ہیں اُنہوں نے جھوٹ بول بول کے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جبکہ طعن و تشنیع کی ذریعہ، گالیاں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بکواس کر کے ہمارے دل چھلنی نہیں کئے جاتے اور ہر وقت فسادی کے جھوٹ کی تلوار ہمارے اوپر ٹکی ہوئی ہے کوئی امن نہیں ہے.یہ بات کہنے کے بجائے جو سو فیصدی کچی ہے جب آپ ایک فرضی مقدمہ بناتے ہیں، فرضی کہانی گھڑتے ہیں کہ ہماری ذات پر یہ ہوا تو اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور احمدیت پر بھی بڑا ظلم کرتے ہیں اور ایک غلط بالکل تاثر پیدا کرتے ہیں اس لئے جیسا کہ میں نے بارہا جھوٹ سے پر ہیز کی ہدایت کی ہے اور تبتل الی الله کے مضمون کا آغاز ہی جھوٹ سے بچنے سے کیا تھا.جھوٹ سے بچنے کی نصیحت سے کیا تھا اس کی طرف میں دوبارہ متوجہ کرتا ہوں کہ ہر قیمت پر جھوٹ سے پناہ مانگیں.بعض جرمنی میں آئے احمدیوں نے الحمد للہ بہت ہی نیک نمونہ دکھایا اور مجھے لکھا کہ یہ ہمارا کیس جھوٹا تھا.یعنی عمومی تکلیف تو تھی لیکن جو بات میں نے اپنے کیس میں پیش کی تھی وہ غلط تھی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 651 خطبہ جمعہ ا ارستمبر ۱۹۹۲ء جب سے میں نے خطبہ سنا ہے میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑ رہا ہے اور اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خط لکھ کر اب اپنے وکیل کے پاس جارہا ہوں اور اُس کو بتاؤں گا کہ میرے کیس میں یہ بات سچی ہے اور یہ جھوٹی ہے یہ بات نکال دو خواہ میرا کیس منظور ہو یا نہیں مجھے اس کی پروا نہیں ہے.بہت ہی میرے دل سے اس کے لئے یہ دعائیں نکلی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے بہتر سامان فرمائے گا لیکن اگر وقتی طور پر قربانی بھی دینی پڑے تو توحید کے قیام کے لئے ہر قربانی کم ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.قیام توحید کے لئے انسان جو قربانی پیش کرتا ہے وقتی طور پر اُس کو تکلیف بھی ہو تو آئندہ ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ امن میں آجاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اُس کی حفاظت میں خود کھڑا ہو جاتا ہے اس لئے قربانی وقتی اور سرسری سی ہے اس کے نتیجے میں ساری زندگی آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ فوائد حاصل ہوں گے.پس جھوٹ کے خدا پر لعنت ڈالتے ہوئے ، اس کا بت توڑتے ہوئے ، پاش پاش کر کے ایک طرف پھینک دیں، کسی احمدی کے دل میں، اُس کے گھر میں جھوٹ کا بت نہیں ہونا چاہئے.بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے ، اپنی طرف سے دانشور بنتے ہیں، جماعت کے عہدے داروں پر تنقید کرتے ہیں کہ اس نے یہ کیا ، اس میں یہ فلاں بات ہے.جب مجھ تک یہ باتیں پہنچتی ہیں تو میں تحقیق کرواتا ہوں تو اکثر تنقید کرنے والوں کا قصور نکلتا ہے اور اگر کچھ باتیں بُری پائی بھی جاتی ہیں عہد یداران میں تو اُس کا مناسب طریقہ ہے بجائے اس کے کہ مجلسوں میں بیٹھ کے باتیں کی جائیں ، اُس سے جھوٹے اور مکر وہ لطف اٹھائے جائیں ، جھوٹے اور مکر وہ لطف اس لئے کہ یہ غیبت کی باتیں ہیں اور غیبت کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ ایسا ہی لطف ہے جیسے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ اور اس کے لطف اٹھا رہے ہو.تو اس مکر وہ لطف کے بجائے سیدھا طریقہ کیوں نہیں اختیار کرتے جب کسی عہدیدار میں کوئی کمزوری دیکھتے ہیں اس تک پہنچ کے ادب کے ساتھ اُس کو سمجھائیں کہ آپ کے اوپر یہ بات بجھتی نہیں ہے.آپ عہد یدار ہیں یہ بات چھوڑیں اور یہ بات اختیار کریں.اگر وہ نہیں مانتا تو آپس میں ایک دوسرے سے اس کے خلاف باتیں کر کے گندے اور غلیظ جسکے حاصل کرنے کے بجائے نظام جماعت کو ، اُن عہد یداروں کے معرفت مطلع کریں.اس میں کوئی نقص نہیں ہے، بلکہ بہت ہی عمدہ بات ہے، کسی شخص کی کمزوری کے متعلق بالا افسر کو اُس کی معرفت خط لکھا جائے.اُس کو بتایا جائے کہ تمہارے اندر یہ بات ہے، ہم یہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 652 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء اوپر کے افسر کو اس لئے پیش کر رہے ہیں تمہاری معرفت تا کہ اصلاح ہو.اگر یہ طریق ساری جماعت اختیار کرے تو تمام عہدیداروں کی بھی اصلاح ہو جائے گی اور یہ جو جھوٹے دانشور بنے پھرتے ہیں، ان کا بھی ایمان ضائع نہیں ہوگا.بعض مربیوں کے متعلق شکایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا رہن سہن بڑا اونچا کیا ہوا ہے، غریب مربی بیچاروں نے کیا رہن سہن اونچا کرنا ہے لیکن بعض گھروں میں سلیقہ ہوتا ہے اور بعضوں میں نہیں ہوتا.میں نے دیکھا ہے تھوڑے روپے پر بھی بعض گھروں میں بڑی رونق ہوتی ہے ، سلیقہ اور نظافت پائی جاتی ہے اور زیادہ روپوں میں جن کو گھر چلانا نہیں آتا ، اُن کے گھر میں تو گند کے انبار ہی لگے ہوتے ہیں، افراتفری ، بدنظمی ، نہ کھانے کا لطف اور نہ رہنے کا لطف، بچوں کا شور مصیبت، گند ہر طرف تو خدا نے اگر کسی کو نظافت دی ہے تو اُس میں جلنے کی کیا بات ہے.صرف ایک بات ہے کہ کیا کوئی مربی بد دیانتی کر کے سلسلے کے ایسے روپے کو اپنی ذات پر، اپنے بیوی بچوں پر استعمال کرتا ہے یا نہیں جو اُس کے پاس امانت ہے.اس بات پر ہر شخص کا حق ہے اگر اُس کے علم میں بات آئے تو وہ اُس شخص کی معرفت بالا افسر کو مطلع کرے لیکن اتنی کمینگی اور تھر دل اختیار کرنا کہ کسی مربی کو اچھی حالت میں، نفاست کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ کر دل میں ایک قسم کی حسد کی آگ لگا لینا اور اس تکلیف میں رہنا اور ہر وقت آپس میں باتیں کرنا کہ یہ مربی ضرور کوئی بے ایمان ہے، یہ ضرور ایسا ہوگا ویسا ہوگا.دیکھو کیسا اچھا رہتا ہے.اچھار ہنا تو اچھی بات ہے.گندہ رہنے میں تو کوئی نیکی نہیں ہے.یہ جاہلوں کا خیال ہے کہ گندگی میں نیکی ہے.تمام انبیاء بہت ہی نفیس اور لطیف مزاج کے مالک ہوا کرتے تھے.سب کی طبیعت میں نظافت تھی ، نفاست تھی ، صفائی تھی ، سنجیدگی کے ساتھ مزاح کا بھی پہلو تھا.اُن کے گھروں کی نظافت کو دیکھ کر اگر کوئی کہے کہ دیکھو لوگوں کے پیسے کھا گیا تو اپنے ایمان کو گنوانے کے سوا اُس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.ہاں اگر کسی مربی کے متعلق یہ شکایت ہو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اُس نے سلسلے کے اموال پر تصرف کیا ہے تو بدظنی کے نتیجے میں آپ کو ایسا کوئی حق نہیں.وہ لوگ جن کا کام ہے سلسلے کے اموال کی نگرانی کرنا اُن کو چاہئے کہ نظر رکھا کریں اور دیکھا کریں کہ کیا اُس نے سلیقے اور بچت سے اپنا معیار بلند کیا ہے، یا غلط تصرفات کے ذریعہ کیا ہے.اُن کا کام ہے وہ اگر ٹھوس وجوہات محسوس کریں تو اوپر افسران بالا کو اُس کی اطلاع کریں لیکن مجلسوں میں یہ
خطبات طاہر جلدا 653 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۹۲ء ذکر کریں گے تو آپ کی مجلسوں کو ذلیل و رسوا کر دیں گے.غیبت بھی ہوگی اور بہت ہی گھٹیا بات ہو گی.نظام جماعت پر اس کا بہت بُرا اثر پڑے گا اس لئے وہ لوگ جن کے سامنے یہ باتیں ہوتی ہیں وہ کراہت کے ساتھ کم سے کم اس مجلس سے ہی اٹھ جایا کریں اور جیسا کہ میں نے ایک دفعہ بیان کیا تھا اُن کا یہ حق ہے کہ وہ ایسے شخص کو کہیں کہ تم نے جو باتیں بیان کی ہیں، تمہارا فرض ہے تم ان کو متعلقہ افسران تک پہنچاؤ اور اگر نہیں پہنچاؤ گے تو میں پہنچاؤں گا اور بتاؤں گا کہ تم نے کسی مجلس میں یہ باتیں کی تھیں.اگر اس طرح ساری جماعت ایک دوسرے کی نگران ہو جائے تو بہت سی بدیاں اس میں سے کٹ چھٹ کر الگ ہو جا ئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت صحت کے ساتھ نشو ونما پائے گی.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا باتیں بہت سی تھیں لیکن کچھ اس مختصر وقت میں سب سے اہم بات کی طرف میں نے متوجہ کر دیا ہے.عبادت پر قائم ہوں اور عبادت کا مغز حاصل کرنے کی کوشش کریں ، عبادت میں لقاء حاصل کرنے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ سے محبت کے جلوے ڈھونڈمیں اور سچائی پر قائم ہو جائیں اور لغو اور بیہودہ باتوں سے اپنے معاشرے کو پاک کر دیں تو اگر آپ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی جماعت بہت تیزی سے ترقی کرے گی کیونکہ آپ کے اندر ترقی کا مادہ موجود ہے.آپ کے اندر جوانی کا خون زیادہ ہے بڑھاپے کی نسبت اور دین کی محبت پائی جاتی ہے.پس اللہ کرے کہ آپ کی یہ خوبیاں آپ کی دوسری برائیوں کو زائل کرنے کا موجب بن جائیں اور آپ کے اندر دائمی زندگی پیدا کرنے کا موجب ہو جائیں جو تعلق باللہ سے حاصل ہوتی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.ابھی نماز جمعہ ہوگی ساتھ نماز عصر جمع ہوگی.پھر پرچم کشائی ہے پھر انشاء اللہ تعالیٰ ہم با قاعدہ جماعت جرمنی کے جلسے کے پہلے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کریں گے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 655 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء تم أُمَّةً وَسَطًا بوت محمدیہ کے شایان شان امت بن جاؤ گے.تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوةُ کی وضاحت پھر فرمایا:.( خطبه جمعه بیان فرموده ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء بمقام زیورچ سوئٹزرلینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِيْنَ هَدَى الله وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (البقره: ۱۴۴) جس آیت کریمہ کی خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں نے تلاوت کی ہے ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کی مساجد کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس وقت یہ خطبہ زیورچ کی مسجد سے دے رہا ہوں اور جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اُن کے بیٹھنے کے انداز سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگر مسجد میں نماز کی صفیں بنائی جائیں تو یہ پورے نہیں آسکیں گے اور اس کے علاوہ اور بھی ہونگے.ابھی وسعت کمیٹی نہیں ہے اور ممکن ہے کل اور پرسوں حاضری اس سے بہت
خطبات طاہر جلدا 656 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء زیادہ ہو جائے اس سلسلہ میں میں نے کل بھی جماعت کو عموماً توجہ دلائی تھی کہ مسجد کے لئے مناسب بڑی زمین کی تلاش کرنا آج سے بہت پہلے ہونا چاہئے تھا.اب بھی فوری طور پر اس کی طرف توجہ ہونی چاہئے لیکن مشکل یہ در پیش ہے کہ یہاں سوئٹزرلینڈ میں خصوصاً زیورچ اور جنیوا کے اردگرد زمینیں بے انتہا مہنگی ہیں بلکہ جاپان میں ٹوکیو جو سب سے مہنگا شہر سمجھا جاتا ہے غالباً اس سے بھی مقابلہ کرتی ہیں.آج صبح سیر پر جانے سے پہلے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک زمین کا ٹکڑا جو تقریباً چار کنال جو ایئر پورٹ کے قریب واقع ہے وہاں مل رہا ہے.تو میں نے سرسری طور پہ پوچھا کہ اندازہ قیمت.تو وہ گزوں میں انہوں نے اندازہ قیمت بتایا تو اُس کا میں نے حساب کیا تو وہ دس لاکھ پاؤنڈ آدھے ایکڑ کا بنتا ہے اور میرے خیال میں ٹوکیو کے قریب جو جماعت نے زمین لی ہے وہ بھی اس سے سستی ہے.تو یہ اتنی زیادہ قیمت ہے کہ مقامی جماعت کی توفیق سے بہت بڑھ کر ہے.یہ درست ہے کہ جن جماعتوں میں ضرورت پڑ جائے اور توفیق کم ہو یہ وقتی طور پر ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ پھر تو فیق بڑھا دیتا ہے لیکن جو ہمت کریں جماعتیں ان کے لئے ضرورت پوری ہو ہی جاتی ہے اور جو حصہ باقی رہ جاتا ہے مرکز دوسری جماعتوں کے چندہ میں سے وہ ادا کر دیتا ہے لیکن اس وقت ساری دنیا میں مساجد کی ضرورت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بہت کم گنجائش ہے کہ مرکزی فنڈ سے بعض جماعتوں کی مدد کی جائے جبکہ دوسری بہت بڑی جماعتیں اسی طرح محتاج ہیں کہ اُن کی ضرورتیں پوری کی جائیں تو تعداد کو بھی دیکھنا پڑے گا اور اس ملک میں جو بستے ہیں بنیادی ذمہ داری انہی کی ہوا کرتی ہے.وہ جاپان کی طاقت سے بڑھ کر تھا اگر چہ وہاں کی چندہ دہندگان کی قربانی کا معیار دنیا میں سب سے زیادہ اونچا ہے پھر بھی اُن کی طاقت سے بڑھ کر تھا تو اُن کو جماعت نے قرض کے طور پر تین سال کے لئے رقم مہیا کر دی.تو اسی طرز پر چند سالہ قرض کے طور پر اور اگر ضرورت ہو تو کچھ مدد کے طور پر یہاں کی جماعت کو بھی رقم مہیا کی جاسکتی ہے اور بہت سے ایسے نو جوان ہیں جن کو ابھی کام نہیں ملا.اللہ پر وہ امید رکھیں تو امید ہے کہ ایک دو سال کے اندر وہ برسر روزگار ہو جائیں گے تو انشاءاللہ توفیق بھی بڑھ جائے گی لیکن جگہ ایسی تلاش کریں جو تو فیق اور حیثیت کے مطابق ہو.ہمارے لئے ضروری نہیں کہ شہر کے بالکل قریب جگہ ہو اور ایئر پورٹ سے تو دور ہٹنا ہی بہتر ہے کیونکہ ہوائی اڈوں کا شور ہر وقت تنگ کرتا ہے.عرصے بعد جرمنی میں جگہ ملی ہے بہت اچھی ، بہت کشادہ اور وقتی طور پر جماعت کی ضرورتیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 657 خطبه جمعه ۱۸ر ستمبر ۱۹۹۲ء پوری کرنے والی بھی لیکن اب اس جماعت کی تعداد اللہ کے فضل سے اتنی بڑھ چکی ہے اور جماعت میں دلچسپی کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے کہ ناصر باغ بالکل چھوٹی سی جگہ ہو کر رہ گئی تھی حالانکہ ساڑھے سات ایکڑ زمین ہے اور اب باہر ایک سو ڈیڑھ سو ایکڑ کا رقبہ تلاش کیا جا رہا ہے.وہاں بھی مشکل یہی ہے کہ بہت سے ہمارے علاقہ جات ہوائی جہازوں کے شور کی نظر ہو جاتے ہیں.فرینکفورٹ ایئر پورٹ سے جاتے ہی جہاز جس جگہ سے گزرتے ہیں اور بار بار اتنا شور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ لاؤڈ سپیکر پر بھی آواز صحیح سنائی نہیں دیتی.کوئی جگہ تلاش کریں متوازن طریق پر نمبر ایک، قیمت دیکھیں خواہ دور ہٹنا پڑے کیونکہ جو جگہیں آج دور نظر آرہی ہیں کل دور دکھائی نہیں دیں گی اور ضروری تو نہیں کہ زیورچ کو ہی مرکز بنایا جائے.فاصلے پاٹنے کے لئے مرکز بنایا جائے.زیورچ جو مرکز بنایا گیا تھا جو جنیوا سے کتنا دور تھا اُس وقت یہ کیوں نہیں خیال آیا کہ جنیوا زیادہ اہم جگہ ہے اس سے تھوڑا دور نہیں ہونا چاہئے.مرکز سے بہت زیادہ دور نہیں ہونا چاہیئے.تو دوریاں اور نز دیکیاں یہ باتیں گزرتی رہتی ہیں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ احمدی کس جگہ زیادہ آباد ہوں گے لیکن بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں بھی خدا کے فضل سے مرکز ہو وہاں احمدی ضرور آبا د ہو جاتے ہیں اور مرکز بس جاتا ہے اور دوری، نزدیکی کی بخشیں اٹھ جایا کرتی ہیں.مسجد فضل لندن جب اُس کی جگہ خریدی گئی تو چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ جگہ تلاش کی بڑی محنت سے ، اچھی جگہ تھی.حضرت مصلح موعودؓ کو لکھا کہ ہر پہلو سے بہت اچھی جگہ ہے صرف ایک خرابی ہے کہ لندن سے دور ہے.اب تصور کریں کہ لندن سے اُس وقت یہ جگہ دور سمجھی جاتی تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے جواب دیا کہ باقی باتیں ٹھیک ہیں تو دوری کی فکر نہ کریں لندن خود قریب آجائے گا.اب وہ علاقہ لندن کا بہترین علاقہ ہے قیمتوں کے لحاظ سے بھی وہ بہترین رہائش کا علاقہ سمجھا جاتا ہے، امن کے لحاظ سے ہر لحاظ سے بہت اچھی جگہ ہے ، ومبلڈن پاس ہے.تو سوئٹزر لینڈ میں زمین ہونی چاہئے باقی ارد گرد کے علاقے آپ کے قریب آجائیں گے اور جگہ اچھی لیں کھلی لیں اور اتنی جگہ پہ ہاتھ ڈالیں جتنا کچھ نہ کچھ تو فیق تو ضرور ہو.حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بات نہ ہو کہ ساری مسجد کے چندے سوئٹزر لینڈ میں ہی کھپ جائیں اس لئے امید ہے کہ آپ اب سب اجتماعی طور پر نظر رکھیں گے اور کوئی دیہاتی علاقہ بھی نظر آ جائے کہیں بعض دفعہ فارمز
خطبات طاہر جلد ۱۱ 658 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء پک رہے ہوتے ہیں، وہاں زمینیں بہت سستی ہوتی ہیں.کوئی بڑا فارم ہو تو اُس کا جو فارم ہاؤس وہی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ اس پہ آپ کی ضرورتیں آگے چند سال تک پوری ہو سکتی ہیں اگر اُن کو منہدم کر کے مسجد بنانے کی اجازت مل جائے تو شرط صرف یہ ہے کہ اتنی عمارت وہاں ضرور موجود ہو کہ وہ ہماری آئندہ کے آٹھ دس سال کی عمارتوں کی ضرورت کو پورا کر سکے اور رقبہ بے شک زرعی ہو اُس کو ہم دوسری چیزوں میں استعمال کر سکتے ہیں، جلسے ہیں، اجتماعات ہر قسم کے کھیل کود کے میدان ہیں ہمیں اپنی خواتین کے لئے بھی ، ان کی تفریح کے لئے جگہ مہیا کرنی ہے.ایسے تالاب ہونے چاہئیں جس پر ہماری عورتیں، چھوٹی بچیاں وغیرہ جا کر بے تکلفی سے نہانے کی پریکٹس کریں.یہ احساس نہ رہے کہ ہم دنیا سے پیچھے ہیں.اسلام خواتین کو دنیا سے پیچھے نہیں رکھتا بلکہ ان کی حفاظت کرتا ہے.پس جہاں حفاظت کیلئے عورت کو قربانی دینی پڑ رہی ہے اب مردوں کا کام ہے کہ اُن کی تکلیفوں کو کم کریں اور ایسی صورتیں مہیا کریں کہ اُن میں یہ احساس کمتری نہ رہے کہ ہم دنیا کی لذتوں میں جو جائز لذتیں ہیں حصہ لینے میں مردوں سے پیچھے رہ گئیں.گھوڑے رکھے جاسکتے ہیں، تیر کمان رکھے جاسکتے ہیں، تیروں کے نشانے لگا نا.اگر اجازت ہو اور بڑا رقبہ ہو تو بعض جگہ بندوقوں کے نشانوں کے لئے بھی اجازت مل جاتی ہے.تو اپنی خواتین کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے اور مرد بھی اپنی بیرونی لذتوں کو لگام دیں اور عورتوں کے لئے جگہ مہیا کریں تو پھر دونوں پیسے متوازن چلیں گے.ورنہ یہ بالکل ناجائز بات ہے کہ عورت کو دبایا جائے.اسلام تمہیں بالکل اجازت نہیں دیتا اور مرد جو چاہے کھلے بندوں کرتا پھرے یہ سوسائٹی میں عدم توازن پیدا کرنے والی بات ہے.یہ جو آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے اس کا تعلق بھی توازن سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا اسی طرح ہم نے تمہیں وسط کی اُمت بنایا ہے.نہ ایک انتہا کے ہونہ دوسری انتہا کی ، نہ مشرقی ہو نہ مغربی ہو، نہ اشترا کی ہونہCapitalist ہو، ہر پہلو سے اسلام کا مزاج متوازن رکھا ہے، بیچ کا مزاج ہے.آنحضرت مہ کے متعلق بھی اور قرآن کے متعلق بھی یہی باتیں بیان ہوئیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًان قَيْمَ لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا (الکھف :۳۲) تو اُس میں کوئی غلط جھکاؤ نہیں ہے نہ اسلام میں نہ قرآن میں نہ رسول میں.بلکہ قیما ہے، بیچ میں کھڑا ہے اور مضبوطی سے مكة
خطبات طاہر جلد ۱۱ 659 خطبه جمعه ۱۸ار ستمبر ۱۹۹۲ء دوسروں کو بھی درست کرنے والا ہے.پھر آنحضرت ﷺ کو اللہ کا نور بیان کرتے ہوئے فرمایا لا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ ایسا نور ہے جو نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا دونوں کا سانجھا ہے.تو یہ مزاج ہے جو احمدیت کا مزاج ہونا چاہئے اس کے بغیر احمدیت صحت مند نہیں رہے گی.ہمارے اندر نہ افراط ہونی چاہئے نہ تفریط ہونی چاہئے ، توازن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگا دی ہے اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا کی نگرانی کرو اور اسی غرض سے تمہیں پیدا کیا گیا ہے تو یہ شرط پوری کرنی ہوگی کہ اُمَّةً وَسَطًا بنو.ایسی امت بنو جو بیچ کی ہو جس کے متعلق کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دوسروں کی زیادہ ہوگئی بلکہ درمیان کی چیز سب کی سانبھی ہوا کرتی ہے، تو برابر کا پلڑا ہو.منصف مزاج ہو، یہ بھی اس میں شامل ہے، انصاف اور تقویٰ سے کام لینے والا ہو.اگر یہ بات جماعت کو نصیب ہو جائے اور جیسا کہ مجھے اُمید ہے اللہ کے فضل سے اکثر صورتوں میں نصیب ہے لیکن اگر ساری جماعت اس بات پر قائم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اگلا وعدہ بھی ضرور پورا ہو جائے گا.لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ تا کہ تم سارے بنی نوع انسان پر نگران بنادیے جاؤ.بنی نوع انسان پر نگران بننے کے لئے یہ شرط ضروری قرار دے دی گئی کہ تم متوازن مزاج رکھتے ہو نہ مولوی ہو نہ مادر پدر آزاد.ملائیت کا بھی اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے اور عقل اور فہم اور سوسائٹی کے تقاضوں کے پیش نظر ہر قسم کی آزادی کا بھی اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے.ایک طرف مولویت کو اسلام رڈ کرتا ہے دوسری طرف آزاد منش طریقے کو بھی رڈ کرتا ہے اور یہ نہیں ہے کہ کھلے بندوں جو چاہے کرتے پھر وہ تو ازن بہت ضروری ہے، بیچ کی راہ اختیار کر نا ضروری ہے فر مایا اگر تم یہ کرو گے تو پھر تمہیں ضرور بنی نوع انسان پر نگران بنایا جائے گا اور اُس کی مثال کیا دی ہے کتنی عظیم الشان مثال ہے فرمایا وَ يَكُوْنَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا تب محمد مصطفی کے تم شایان بنو گے کہ وہ تمہارے شہید بنیں تم پر نگران بنیں.آپ کیونکہ وسطی ہیں، آپ کیونکہ نہ مشرق کے ہیں نہ مغرب کے، کیونکہ آپ میں کوئی بھی نہیں اس لئے آپ میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو تمام بنی نوع انسان کی نگرانی کی ہیں لیکن آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ خود تو امت کے ساتھ نہیں رہنا تھا اس لئے آپ کا مزاج سمجھا دیا گیا اور فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محمد رسول اللہ ہی تمام بنی نوع انسان پر نگران رہیں اور اس کے بغیر بنی نوع انسان بچ نہیں سکتے تو تمہیں محمد مصطفی ﷺ کی نمائندگی کرنی ہوگی اور اُن کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 660 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء نمائندگی کرنے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ تمہارا مزاج متوازن ہو.نہ دائیں طرف جھکنے والے بنو نہ بائیں طرف ، نہ ایک افراط کی طرف نہ دوسری تفریط کی طرف.اس معاملہ میں اگر آپ لوگ مزاج درست کر لیں تو بہت سے ایسے معاملات ہیں جہاں فتوے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.ہر قسم کے حالات میں یہ مزاج آپ کے لئے بہترین فتویٰ مہیا کر دیتا ہے اور طبیعتوں میں بھی ، ٹیڑھا پن، ٹھوکروں کے احتمالات یہ سارے اُٹھ جاتے ہیں.مثلاً یہ ممالک جہاں فاصلے لمبے ہیں.جہاں اکٹھا ہونا ایک جگہ آسان کام نہیں.یہاں جب آپ اجتماعات پر اکٹھے ہوتے ہیں تو نمازیں جمع کی جاتی ہیں.جو مولوی مزاج ہے جو ایک طرف کی سوچتا ہے وہ یہ کہے گا کہ جی احمدیوں میں تو نماز کا پورا احترام ہی نہیں رہا، نمازیں جمع کرنے میں جلدی کرنے لگ گئے ہیں حالانکہ ملک کا تقاضا جس مقصد سے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں، دینی اغراض اور اُس کی مصروفیات ، اُن کا تقاضا اور آنحضرت ﷺ کا متوازن مزاج اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ جہاں جمع کرنے کے لئے جواز موجود ہو وہاں ضرور جمع کی جائیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے ایسی حالت میں بھی نمازیں جمع کیں جبکہ نہ بارش تھی ، نہ خطرہ ، نہ سفر صرف دینی اجتماع تھا اور دینی اجتماع کا یہ تقاضا تھا کہ باقی چیزوں میں کیونکہ وقت خرچ کرنا ہے اور وہ بھی دین ہی کے خدمت کے کام ہیں اس لئے جہاں خدا نے سہولت دی وہاں نمازیں جمع کرلی جائیں لیکن ایک مولوی مزاج اس پر اعتراض کرتا ہے اور کرتا رہے گا.دوسری طرف آزاد منش لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ نمازیں جمع کرنے کی اجازت خاص قومی دینی ضرورتوں پر ہے نہ کہ روز مرہ کی زندگی میں.یہ تو نہیں ہے کہ آپ کو چھٹی ہو.چونکہ آپ نے اجتماعی دینی کاموں کے وقت نمازیں جمع کی ہیں اس لئے روز مرہ عادت ہی بنالیں ، ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کیا جا رہا ہے اور مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع کیا جارہا ہے اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر توازن نہیں ہے.توازن کے نتیجے میں ایک طرف انتہا پسندی سے بچنا ہے تو اُسی توازن کا تقاضا ہے کہ دوسری طرف کی انتہا پسندی سے بھی بچیں.یہ تو نہیں جمع والے حصے میں آپ مزاج درست کر لیں کہ ہاں جی جمع کرنے کی اجازت ہے کوئی بات نہیں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور جہاں الگ الگ پڑھنے کا حکم ہے وہاں کہیں نہیں ہمیں مشکل ہے ہمارے لئے.پنجابی میں کہتے ہیں ”میٹھا میٹھا ہڑپ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 661 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء تے کوڑا کوڑا تھو تھو کہ جب کسی پیارے کی طرف سے چیز ملتی ہے تو یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ میٹھا کھالو اور کٹر وا تھو تھو کرنا شروع کر دو.دونوں طرف برابر کی بات رکھنی چاہئے اگر ایک چیز احتراماً پسند ہے تو دوسری چیز بھی احتراماً پسند ہونی چاہئے.ایک بادشاہ کے متعلق آتا ہے کہ اُس کا ایک غلام اس کو بہت ہی پیارا تھا، بے حد عزیز اور دوسرے وزیر اُس سے جلتے تھے اس نے اُس کو وزیروں پر بڑا نگران بنایا ہوا تھا.دوسرے بڑے لوگ سارے اُس سے جلتے تھے اور اکثر بادشاہ کے کان بھرا کرتے تھے کہ اس میں کیا بات ہے جو آپ کو پسند ہے یہ تو کوئی ایسا خاص عالم فاضل نہیں ہے ، ہم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا، کونسی یہ آپ سے زیادہ وفا کرتا ہے؟ ہم ہر طرف سے زیادہ خاندانی حسب نسب والے لوگ اور معاملات حکومت کو سمجھنے والے ہیں.اس کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ ایک دفعہ ایک سردا بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا بھرے دربار میں جو بہت دور سے آیا تھا.سردے میں یہ بات ہے کہ بعض دفعہ بہت ہی کڑوا نکلتا ہے.میں نے بھی چکھ کے دیکھا ہوا ہے ایسا سردا.عام طور پر بڑا اچھا ہوتا ہے لیکن بعض سر دے غیر معمولی کڑوے جس طرح بادام کڑوا ہو جاتا ہے اس طرح سر دا بھی کڑوا ہو جاتا ہے تو سردا بہت کڑوا تھا.تو بادشاہ نے پہلے اپنے اُس غلام کو جو سب سے زیادہ عزیز تھا ایک کاش کاٹ کر دی تو اُس نے کاش لی اور جھوم جھوم کر کھانا شروع کیا.سب دیکھنے والے سمجھے کہ بہت ہی مزیدار ہے.اُس پر اس نے دوسری کاش کاٹ کے اُس وزیر کو دی جو سب سے زیادہ اعتراض کیا کرتا تھا.اُس نے ابھی چکھی تھی تو تھوکنے کیلئے باہر بھاگا اور کہا کہ اتنا گندہ سردا، زندگی میں ایسا سر دا کبھی نہیں دیکھا.تو بادشاہ نے کہا بس یہی فرق تھا جو میں تمہیں بتانا چاہتا تھا.یہ ہمیشہ میرے ہاتھوں سے اچھی چیزیں کھاتا ہے لیکن ایک دفعہ بُری بھی ملی تو کتنی قدر کی ہے اس نے.اس کو دینے والے ہاتھ سے پیار ہے چیز سے نہیں ہے اور تمہیں چیزوں سے پیار ہے دینے والے ہاتھ سے نہیں ہے.یہی معاملہ خدا کے پاک بندوں کا اللہ تعالیٰ سے ہوا کرتا ہے.اُس سے بھی وہ اس وجہ سے محبت رکھتے ہیں کہ وہ خدا ہر چیز کا دینے والا ہے، کبھی اُس کی کڑوی تقدیر بھی آجاتی ہے، اُس سے بھی وہ پیار کرتے ہیں.یہ تو نہیں کہ اچھی تقدیر پر سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھنا شروع کر دیا اور بری تقدیر پر اعتراض شروع کر دیئے کہ عجیب خدا ہے ہمیں مصیبت میں ڈال دیا.پس اس معاملے میں بھی مزاج کا درست رکھنا ضروری ہے.جہاں مزاج کا توازن یہ تقاضا
خطبات طاہر جلدا 662 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء کرتا ہے کہ نمازیں جمع کریں وہاں کریں وہاں نمازیں جمع نہ کرنا نا مناسب ہے لیکن جہاں یہ تقاضا کرتا ہے کہ نمازیں الگ الگ پڑھی جائیں وہاں الگ الگ ہی نمازوں پر نگران ہونا پڑے گا، ظہر کی نماز ظہر کے وقت پڑھنی ہوگی ،عصر کی نماز عصر کے وقت پڑھنی ہوگی.گھروں میں کوئی جواز نہیں کہ آپ یہ گندی عادت آئندہ اپنی نسلوں میں بھی منتقل کر دیں لیکن ان علاقوں میں بسنے والوں میں عموماً میں نے یہ نقص دیکھا ہے کہ اجتماعی نمازیں تو شوق سے جمع کر کے پڑھتے ہیں کہ اجازت ہے اور انفرادی نماز میں بغیر اجازت کے جمع کر کے پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی اس زمانے کا تقاضا، اس زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ نماز میں اکٹھی پڑھی جائیں.یہ بالکل ناجائز بات ہے، بالکل غلط ہے.اس زندگی کا اور دنیا پرستی کی زندگی کا تقاضا ہے کہ خدا کو زیادہ یاد کیا جائے ورنہ آپ لوگ ہلاک ہو جائیں گے.جتنا زیادہ دنیا آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اُتنا ہی خدا کی یاد پر آپ کو نگران ہونا پڑے گا.چنانچہ قرآن کریم میں نماز کے متعلق وَ الصَّلوة الوسطى جو فرمایا یہ بیان نہیں فرمایا کہ صلوۃ وسطی کیا چیز ہے.فرمایا نمازوں کی نگرانی کرو، اُن کی حفاظت کرو حفظوا عَلَى الصَّلَواتِ صَلَوَات پر نگران رہو.وَالصَّلوةِ الْوُسْطی لیکن خصوصیت سے وسطی نماز کی حفاظت کرو.اب مختلف علماء مختلف تشریحیں کرتے رہتے ہیں، جب سے قرآن نازل ہوا ہے مختلف علماء نے مختلف نظریے پیش کئے ، کوئی عصر کی نماز کو وسطی کہتا ہے، کوئی صبح کی نماز کو، کوئی عشاء کی نماز کو لیکن قرآن کی فصاحت و بلاغت کا یہ کمال ہے کہ عمداً اس کو خالی چھوڑ دیا ، تشریح کے بغیر ، وضاحت کئے بغیر کہ وسطی کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور جماعت میں دیگر علماء نے بھی اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ وسطی سے مراد وہ نماز ہے جس کی ادائیگی سب سے زیادہ مشکل ہو، جو بعض کاموں میں پھنسی ہوئی نماز ہو.ایسی نماز جو صبح کی نماز نیند کی حالت میں پڑھنی مشکل ہو جائے.ایسی نماز جو ظہر کی نماز ہو مگر کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے مشکل ہو جائے اور کسی وجہ سے کوئی نماز مشکل ہو جائے.مثلاً قافلہ دیر میں کہیں سے سفر میں واپس پہنچتا ہے یا اکیلا مسافر دیر میں واپس آتا ہے.رات کو کھڑا ہونا اُس کیلئے مشکل ہو جاتا ہے تو عشاء کی نماز بھی وسطی بن جاتی ہے.تو ہر وہ نماز جو مشکل میں پھنس چکی ہو اور جس کی ادائیگی مشکل ہو اس کو وسطی قرار دیا.پس مغرب میں رہنے والوں کے لئے ظہر بھی وسطی بن جاتی ہے اور عصر بھی وسطی بن جاتی ہے اور مغرب بھی اور عشاء بھی.ان معنوں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 663 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء میں وسطی بنتی ہیں کہ ان کی نگرانی کرو ان کی حفاظت کرو اور ان کو وقت پر الگ الگ وقت پر سجا کے پڑھو.جو طلبہ اعتراض کرتے ہیں یونیورسٹیوں میں ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا یا جگہ نہیں ہوتی یہ سب غلط باتیں ہیں قرآن کریم نے جو احکامات دیئے ہیں اس کے مطابق سہولتیں بھی ویسی ہی مہیا فرما دی ہیں.اب کوئی عیسائیت یا ہندومت تو نہیں ہے کہ جس میں عبادت کے لئے آپ کو لا ز ما چرچ میں یا مندر میں پہنچنا ہو.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کو مسجد بنا دیا ہے.(مسلم کتاب المساجد حدیث نمبر : ۸۱۰) جہاں فرائض سخت مقرر کر دیے وہاں سہولتیں بھی مہیا فرما دیں.پس دفتر میں دو گز جگہ مل جائے تو وہی نماز کے لئے کافی ہے.سکول اور کالج میں اگر اندر جگہ نہیں ملتی تو باہر نکل کر برآمدوں میں کھڑے ہو کر کوئی نہ کوئی جگہ حاصل کی جاسکتی ہے اور میرا یہ تجربہ ہے کہ اساتذہ بھی تعاون کرتے ہیں.اگر ان کو یہ بتا دیا جائے کہ ہماری نماز کے یہ اوقات ہیں اور چند منٹ کی بات ہے اگر آپ اجازت دیں.تو میرے علم میں تو آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا یعنی جب تک میں یہاں پڑھا کرتا تھا کہ کبھی ایک استاد نے بھی انکار کیا ہو بلکہ ایک دفعہ ایک استاد میرے لئے جگہ تلاش کرنے کے لئے میرے ساتھ چلے.ایک فلور پر نہیں دوسرے فلور پر ساتھ گئے.میں ان کو کہتا بھی رہا کہ رہنے دیں میں ڈھونڈ لوں گا.کہنے لگے نہیں نہیں میرا کام ہے، میں آپ کو ڈھونڈ کے دیتا ہوں.چنانچہ ایک کمرے میں انہوں نے کہہ کر جگہ بنوائی کہ اس نے نماز پڑھنی ہے اسے سہولت دو.تو بڑے نیک لوگ دنیا میں موجود ہیں.آپ اگر بتا دیں کہ خدا کی خاطر ہم نے چند منٹ عبادت کرنی ہے وقت چاہئے تھوڑی سی صاف جگہ چاہئے تو لوگ آپ سے تعاون کریں گے.توازن پیدا کرنا بہت ضروری ہے.توازن کے دونوں طرف کے تقاضے ہوا کرتے ہیں.ایک انتہاء کے بھی ہوتے ہیں، دوسری انتہاء کے بھی ہوتے ہیں.ایک طرف کے نہیں ہوا کرتے.اسی کا نام تو ازن ہے، اس کا نام أُمَّةً وَسَطًا ہے یعنی ایسی امت جو بیچ میں واقع ہو.پس آپ کو مغرب میں رہ کر اپنے مزاج کو اُمَّةً وَسَطًا کا مزاج بنانا ہوگا.حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مزاج بنانا ہو گا.تب قومیں آپ کے سپرد کی جائیں گی کہ آپ ان کی تربیت کریں.اس کے بغیر آپ تربیت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے.اسی طرح آپ کے دوسرے نیک تقاضے ہیں.جو مغرب میں بسنے کے نتیجے میں پیدا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 664 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء ہوتے ہیں.عورتوں کے لئے پر دے کا مضمون ہے ، مردوں کے لئے بغیر برقعے کے اپنی حفاظت کا مضمون ہے ، ان سب چیزوں میں حتی المقدور افراط اور تفریط سے بچنا بڑا ضروری ہے ورنہ آپ ان قوموں کی تربیت نہیں کر سکیں گے.سوئٹزرلینڈ میں میں نے دیکھا ہے کہ یا تو مذہب بالکل ہی اٹھ چکا ہے، کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا یا وہ مذہبی ہیں جو بہت ہی متعصب ہیں اور افراط کے دوسرے کنارے پر پہنچے ہوئے ہیں اس لئے ایسی قوم کا مزاج درست کرنا جس میں مذہب بھی ہو اور ساتھ کر یک بھی ہو تھوڑ اسا.دماغی حالت ہی ٹیڑھی ہو اور وہ ہمارے مولویوں کی طرح ایک مولویانہ مزاج رکھتا ہو اور دوسری طرف بالکل مادر پدر آزاد خدا کے قائل نہیں ، مذہب کی ضرورت نہیں سمجھتے.ان دو انتہاؤں کے درمیان آپ نے زندگی بسر کرنی ہے اور دونوں کے مزاج درست کرنے ہیں اس لئے آپ کو اپنی ساری زندگی کا مزاج ٹھیک کرنا ہو گا.قرآن کریم نے جب یہ فرمایا تو اس میں یہ مضمون بھی بیان فرما دیا کہ وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں اور روح کو بھول جاتے ہیں وہ اُمَّةً وَسَطًا کہلانے کے مستحق نہیں ہیں.چنانچہ یہ آیت جب پوری پڑھیں تو آگے اس مضمون کی کھل کے سمجھ آجاتی ہے فرمایا وَهَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ تَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ بظاہر ایسی بات کر دی جس کا پہلے مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے.اور مفسرین بھی اس معاملے میں اٹک جاتے ہیں کہ بات ہو رہی ہے ہم نے تمہیں اُمَّةً وَسَطًا بنایا.بیچ کی امت بنایا اور اس لئے بنایا تا کہ بنی نوع انسان کی نگرانی فرماؤ.اور اس لئے بنایا تا کہ تمہارا مزاج صلى الله رسول کے مزاج کے مطابق ہو جائے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نگرانی میں تم أُمَّةً وَسَطًا ہوتا کہ ساری دنیا کی نگرانی کر سکو اس کے معاً بعد فرمایا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ اس غرض سے بنایا تھا کہ تا کہ ہم جان لیں کہ کون ہے جو رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون ہے جو اس سے پیٹھ پھیر کر ایڑھیوں کے بل پھر جاتا ہے ،اس مضمون کا وَسَطًا والے مضمون سے کیا تعلق ہے.یہ جو دوسرا مضمون بیان ہوا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ بیت المقدس کا
خطبات طاہر جلدا 665 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء قبلہ چھوڑ دو اور خانہ کعبہ کو قبلہ بناؤ.اس گھر کو قبلہ بناؤ جو سب سے پہلے خدا کا گھر تھا.اس پر ایک فتنہ پیدا ہوا اور کچھ لوگوں نے روگردانی کی یہ کیا بات ہوئی، پہلے یہ قبلہ پھر وہ قبلہ کیا خدا کو نہیں پتا تھا کہ اس کا قبلہ کون تھا اس قسم کی بیہودہ باتیں شروع ہو گئیں تو اُمَّةً وَسَطًا کے مضمون کے ساتھ خدا نے اس مضمون کو کیوں باندھ دیا یہ وہ معاملہ ہے جو غور طلب ہے.بات یہ ہے کہ جو لوگ أُمَّةً وَسَطًا بنتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی سطحی باتوں پر نظر نہیں رکھتے ، چھوٹی چھوٹی ظاہری باتوں پر نظر نہیں رکھتے.وہ نظر رکھتے ہیں رسول اور خدا پر اور اس کے مزاج کے پیچھے چلنے والے ہوتے ہیں.جو لوگ چھوٹی چھوٹی ظاہری سرسری باتوں پر نظر رکھتے ہیں ان کے لئے ہمیشہ ٹھوکر کا مقام آتا ہے.پس کچھ ایسے لوگ تھے جن کو آنحضرت ﷺ سے محبت تھی اور آپ کا دین محمد رسول اللہ کی وساطت سے اللہ تک پہنچتا تھا.یا یوں کہنا شروع چاہئے کہ آپ کے دین کی راہ میں جو قبلہ تھا وہ اللہ تھا لیکن اس قبلے کے بیچ میں قبلہ نما محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود تھا جو ہمیشہ وہ قبلہ دکھاتا تھا.ان کا تو یہی دین تھا کہ جس طرف محمد رسول اللہ کا رُخ ہوا اسی طرف خدا ہو گا جس کیونکہ قبلہ نما آپ ہیں اور دوسرے دنیاوی قبلوں کی کوئی بھی حیثیت ان کی نظر میں نہیں تھی اس لئے اس بحث میں وہ پڑے ہی نہیں کہ بیت المقدس کا کیا مقام ہے، کب خدا نے اس کو خاص پاکیزگی بخشی کتنی دیر کے لئے بخشی، کن قوموں کے لئے وہ پاکیزگی مقدر تھی.ان رسمی بحثوں میں پڑے بغیر وہ صرف یہ جانتے تھے کہ قبلہ خدا ہے اور قبلہ نما محمد رسول اللہ.جس طرف اس کا رُخ ہو گا اسی طرف خدا ملے گا اس لئے چھوٹی چھوٹی رسمی باتیں ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئیں.ادنیٰ سے تر ڈر کئے بغیر انہوں نے فوراً قبلہ بدل دیا لیکن وہ لوگ جو ظاہر پرست لوگ ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنی اہمیت دے دیتے ہیں کہ دین کی روح بھول جاتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی نمازوں کے متعلق ہمیں پتا چلتا ہے کہ بعض دفعہ امام حسن اور امام حسین آپ کے کندھوں پر سوار ہو جایا کرتے تھے ، جب آپ مسجدے میں ہوتے تھے تو آپ پیار سے ان کو سنبھال کر ایک طرف اتار کر پھر کھڑے ہوا کرتے تھے (مسند احمد جلد ۵ صفحہ:۳۷، ۳۸).ایک دفعہ کہتے ہیں ایک پٹھان مجلس میں ایک استاد اس حدیث پر گفتگو کر رہا تھا اور اس سے پہلے یہ بتا چکا تھا کہ نماز میں کوئی حرکت نماز کے علاوہ کی جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے.کسی کو پکڑا جائے کسی کو سنبھالا جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے تو ایک شاگرد نے فوراً کہا تو پھر نعوذ باللہ کیا رسول اللہ علیہ کی نماز ٹوٹ گئی ؟
خطبات طاہر جلد ۱۱ 666 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء اب سوال یہ ہے کہ یہ ہے جہالت.ہم نے جو کچھ سیکھا ہے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ہے.اس کے نتیجے میں کچھ قواعد مترتب ہوئے.ان قواعد کے خلاف اگر کوئی آنحضرت ﷺ کی کوئی سند سامنے آجائے آپ کا فعل ایسا سامنے آجائے جو ان قواعد کے خلاف ہے تو اس فعل کو ان قواعد سے نہیں ناپا جائے گا بلکہ قواعد درست کئے جائیں گے.یہ کہا جائے گا کہ یہ قواعد بناتے ہوئے ہم سے غلطی ہو گئی آنحضور ﷺ کے سارے افعال کو پیش نظر رکھ کر یہ نہیں بنائے گئے.بعض افعال ایسے تھے جن سے پتا چلتا تھا کہ ان قواعد میں استثناء ہونا چاہئے تھا.تو اصل قبلے کی پہچان ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دین ہم نے حضرت محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ہے اور جو بات آپ سے ثابت ہے اس پر کسی دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں.فقہ نے جو قواعد بنائے ہیں اگر ان کی نظر میں وہ بات نہیں آئی تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں.آج کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی سنت کو دوبارہ زندہ کیا ہے.ایک احمدی کے لئے یہی کافی ہے کہ قبلہ نما محمد رسول اللہ ہیں تو محمد مصطفی ﷺ کا چہرہ دکھانے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور یہ مکن نہیں ہے کہ آپ کا رُخ کسی اور طرف ہو.جس طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رُخ ہو گا لازما و ہیں محمد رسول اللہ ملیں گے.پس یہی نمازیں جمع کرنے والا مسئلہ ہے ، اس کے متعلق بعض لوگ جو مولو یا نہ مزاج رکھتے ہیں اعتراض کر دیا کرتے ہیں یعنی اجتماعی ضرورت کے وقت ، دینی ضرورت کے وقت نمازیں جمع ہوتی ہیں اور بعض لوگ باہر سے آنے والے کہتے ہیں کہ یہ کیا جماعت میں گندی عادت پڑی ہوئی ہے.بات بات پر نمازیں جمع کر لیتے ہیں لیکن دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قبلہ چونکہ محمد رسول اللہ کی طرف تھا اور آپ کے رستے سے خدا کی طرف تھا اس لئے آنحضرت می نے چودہ سوسال پہلے امت کے شک دور کرنے کے لئے یہات بیان فرما دی تُجمَعُ لَهُ الصَّلوة.(مسنداحمد باقی مسند السٹرین حدیث نمبر ۷۵۶۲) مسیح جب آئے گا وہ ایسے زمانے میں آئے گا کہ اس کے لئے نمازیں جمع کروائی جائیں گی.اس کے لئے سے مراد ہے اس کی خاطر ا کٹھے ہوں گے، دینی کاموں کے لئے اکٹھے ہوں گے، ہر موقع پر نہیں.اہم دینی تقریبات جو سیح کی اغراض و مقاصد کی خاطر منعقد کی جائیں گی ان میں نمازیں جمع کروائی جائیں گی لیکن یا درکھیں یہاں انفرادی نماز کا ذکر
خطبات طاہر جلد ۱۱ ہی کوئی نہیں ہے.667 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کا مطلب ہے اجتماعی نماز کیونکہ نمازیں جمع کروانے کا مطلب ہے ایک سے زیادہ آدمی اس میں شریک ہیں.انفرادی نماز کے متعلق یہ آہی نہیں سکتا کہ تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کہ مسیح کی خاطر کوئی اکیلا بیٹھا نمازیں جمع کر رہا ہو گا.یہ تو مضمون اس کا بنتا ہی نہیں ہے.پس اس حدیث سے جب سبق حاصل کریں تو اپنا ذہنی توازن نہ چھوڑا کریں ، اس کو قائم رکھا کریں.مراد یہ ہے کہ جب اجتماعی ضرورتیں ، دینی ضرورتیں جن کا مسیح موعود کی جماعت سے تعلق ہوگا مسیح موعود کی اغراض و مقاصد سے تعلق ہوگا وہ پیش ہوں گی تو محمد رسول اللہ یہ فرماتے ہیں کہ اس میرے مسیح کے لئے نمازیں جمع کروائی جائیں گی اور کسی کا کام نہیں کہ اعتراض کرے لیکن کسی کا یہ حق بھی نہیں ہے کہ اس حدیث کو کھینچ تان کر اپنی انفرادی نمازیں جمع کرنے کا جواز حاصل کرنے کی کوشش کرے.كتبا موقوتا ہے نماز ، اوقات مقر رشدہ ہیں ان پر ہر شخص کا فرض ہے کہ ضرور ادا کرے اور اتنی زیادہ ضروری ہیں کہ ایسی جگہوں میں جہاں مساجد کے فاصلے بہت دور دور ہوتے ہیں بلکہ آپ کے ملک میں تو ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد زیورچ اور آپ میں ایسے ہیں جو سینکڑوں میل دور رہتے ہیں.تو وہاں نماز کا تصور ہی اٹھ جائے گا اگر آپ نے نماز کی حفاظت نہ کی.مساجد نماز کی حفاظت کرتی ہیں.گھروں میں اگر آپ نے نماز سے غفلت کی تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگلی نسلیں نماز کی ضرورت سے ہی بے خبر ہو جائیں گی اور جمع کرنے کی عادت بہت ہی گندی عادت ہے گھروں میں جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھوں سے نسلوں کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں اس لئے میں آپ کو صرف یہ نہیں کہتا کہ نمازیں جمع نہ کریں گھروں میں.میں یہ کہتا ہوں کہ گھروں میں باجماعت نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں.وہ لوگ جو یہاں بعض ایسے نوجوان اسائیلم کے لئے آئے ہیں ان کو دور دراز ایسی جگہوں میں انہوں نے ٹھہرایا ہے حکومت نے ، جہاں دو یا تین احمدی ہیں بس ، دور نزدیک کوئی دکھائی نہیں دیتا.ان کا فرض ہے کہ اگر دو ہیں تو دونوں مل کر نمازیں اکٹھی پڑھیں اور جہاں تک ممکن ہے وقت کے اوپر نماز میں ادا کریں.جو زائد وقت ہے اس میں وہ دینی تربیت حاصل کر سکتے ہیں.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ہم تو پڑے پڑے بور ہورہے ہیں ، زندگی اجیرن ہو گئی ہے، کیا کریں.کھلی جگہ ان کو الگ ملی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے بہت سے دینی کام ان کے سپر د کر رکھے ہیں.زبانیں سیکھنے کے لئے عام آدمی کو زندگی میں وقت نہیں ملتا.قرآن
خطبات طاہر جلد ۱۱ 668 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء اور حدیث سیکھنے کے لئے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو پہلے موقع ہی کبھی نہیں ملا.تو مرکز سے رابطہ کریں ان سے لٹریچر منگوائیں ان سے ٹیسٹس منگوائیں ، ویڈیوز منگوائیں اپنے پروگراموں کو دلچسپ بنائیں.بوریت تو آپ کی اندرونی حالت کا نام ہے.ایک انسان جس کی اندرونی حالت میں تازگی پائی جائے اور زندگی کے اندر دلچسپی کا طریقہ ہو وہ تو تنہائی میں بھی کبھی بور نہیں ہوتے.اگر بزرگ ہے تو ذکر الہی میں لگا رہے گا اگر شاعر ہے تو شعر و شاعری میں وقت لگائے گا.اگر آرٹسٹ ہے تو اپنے آرٹ کے اظہار کے لئے کوئی بہانے تلاش کرے گا.صحیح آدمی جس کے اندراندرونی لذتیں پائی جاتی ہیں بور ہو نہیں سکتا.غالب نے خوب کہا ہے کہ ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو (دیوان غالب صفحہ ۱۹۴۰) کہ اگر انسان اپنے اوپر غور کرے تو اپنی ذات میں خیالات کا ایک محشر ہے.جس طرح محشر میں مُردے اٹھائے جائیں گے اور ہزاروں لاکھوں کروڑوں اُٹھ کھڑے ہوں گے.غالب نے کتنی سچی بات کی ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے خیالات کے لاکھوں کروڑوں مُر دے دفن کر رکھے ہیں جو جاگ سکتے ہیں.اگر انسان میں شعور ہو اور ان کو جگائے اور اٹھائے تو ایک محشر بپا ہو جائے.وہ کہتا ہے ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو تنہائی ہی کیوں نہ ہو ہمارے لئے تو انجمن ہی انجمن ہے.ہم اپنے خیالات میں کھو کر ان سے اپنی لذتیں حاصل کر لیتے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک عابد ذکر الہی میں مصروف ہو جاتا ہے.ایک شاعر شعرو شاعری میں، ایک آرٹسٹ اپنے آرٹ میں.کچھ نہ کچھ کام کرنے کی عادت ہو، سلیقہ ہو تو انسان بور نہیں ہوسکتا.تو اپنے آپ کو بریکار کیوں بناتے ہیں.آپ کے لئے بہت سے کام ہیں کرنے والے.مرکز سے رابطے کریں، ایسے حکومت کے اداروں سے رابطے کریں جو زبان سکھانے والے ہیں ان سے آڈیو، ویڈیو کی چیزیں حاصل کریں، مشینیں جن سے آپ کو زبان سیکھنے میں سہولت ہو ، تعلقات بڑھا ئیں فارم والوں کے پاس جائیں.ان کی مدد کریں ان سے کہو ہم سے بھی کام لو، ہم بیکار بیٹھے ہوئے ہیں اور ان سے فارمنگ سیکھیں، زبان سیکھیں.تعلقات بڑھائیں تو اس سے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے بھی بہت اچھے مواقع میسر آجائیں گے.
خطبات طاہر جلدا 669 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء تو ایک احمدی یعنی بیکار ہونا اور بور ہونا ایک بعید تصور ہے مجھے سمجھ نہیں آسکتی کہ کس طرح ایک احمدی بریکار اور بور ہوسکتا ہے.اس کے کام اتنے زیادہ ہیں دنیا میں کہ اگر وہ ان کاموں کا شعور ہی حاصل کرلے تو ہر جگہ وہ اپنے آپ کو مصروف سمجھے گا اور وقت کم دکھائی دے گا.حضرت مولوی عبد اللہ صاحب کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ بیان فرمایا کرتے تھے تبلیغ کا بہت شوق تھا.اور ان کے طریقوں میں سے یہ بھی تھا کہ کوئی ہل چلا رہا ہے تو اس کے ساتھ چل پڑے اور اس نے کہا کہ میں ہل چلا رہا ہوں آپ نے کیا باتیں شروع کی ہوئی ہیں مجھے نہیں ہوش اس وقت.تو کہتے اچھاہل مجھے پکڑا دو، چلو تم میرے ساتھ چلو.تو اس کا کام بھی ہو جاتا تھا اور اس کو تبلیغ کرنے کا موقع مل جاتا تھا.تو کتنا اچھا ایک نمونہ انہوں نے آپ کے لئے چھوڑ دیا.آپ یہاں زمینداروں کے پاس جانا شروع کریں، ہم آئے ہیں فلاں جگہ سے ، ہم بھی اس ملک کا نمک کھا رہے ہیں ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا حق ادا کریں آپ لوگوں کے پاس کام ہے ہمیں بتائیں، کچھ نہ کچھ کام کریں اور کچھ اپنا کام لیں تبلیغ شروع کر دیں، زبان سیکھنے کا موقع ہو تو وہاں ان سے زبان بھی سیکھیں غرضیکہ بہت سے ایسے ذرائع ہیں جن کو استعمال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندگی نسبتاً بہتر صرف ہو جاتی ہے.اور پھر جب گھر سے چلے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم نے دینی مجبوریوں سے ہجرت کی ہے تو پھر اس کے تقاضوں کو نبھانا چاہئے.جس رستے کو اختیار کیا جائے اس کی تکالیف اور مشکلات کو پہلے ہی مد نظر رکھنا چاہئے ورنہ وہ لوگ جو یہاں بزدلی دکھائیں گے اور واپس جانے کی کوشش کریں گے؟ وہ باقی سب پناہ گزینوں کے معاملوں کو جھوٹا بنا دیں گے یہاں کی حکومت یہی تاثر لے گی.اس کو کیا پتا کہ کوئی شخص کس حد تک بور ہو گیا تھا.وہ یہی سمجھیں گے کہ یہ تو محض بہانہ تھا اور جب وہ پناہ لے کے واپس جاسکتے ہیں اور ان کو کوئی خطرہ نہیں تو باقی سب کا بھی یہی حال ہو گا اس لئے یا تو قدم نہیں اٹھانا تھا جب اٹھایا ہے تو پھر اس کے تقاضے پورے کریں وفا کے ساتھ قائم رہیں.مشکلات ہیں تو برداشت کریں.چند دن کی مشکلات ہیں پھر اللہ کے فضل سے دن بدل جایا کرتے ہیں.اگر خدا کی خاطر صبر کریں گے تو اللہ آپ کی دعاؤں کو بھی قبول فرمائے گا آپ کی مشکلات کو آسان کر دے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس پہلو سے بھی تو ازن دکھائیں گے اور بے وجہ اپنے آپ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 670 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء کو کسی مایوسی سے مغلوب نہیں ہونے دیں گے.متوازن آدمی کی یہ خوبی ہوا کرتی ہے اس پر اندھیرے غلبہ نہیں کیا کرتے.اندھیروں کے وقت بھی اس کو روشنی دکھائی دیتی ہے اور روشنی بھی اس کو پاگل نہیں بنا دیا کرتی.بہت زیادہ بے ضرورت اطمینان نہیں دے گی.روشنی میں بھی وہ سمجھتا ہے کہ اندھیرے آنے والے ہیں اور بے وجہ روشنی سے دل نہیں لگا بیٹھتا کہ اندھیروں کے قابل بھی نہ رہے.بہادرشاہ ظفر کے شعر بعض بڑے موقع اور محل کے مطابق ہوا کرتے تھے.وہ کہتا ہے.جب چمن سے گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بلبلِ زار سے کہ خزاں کے دن بھی قریب ہیں نہ لگانا دل کو بہار سے ( کلیات ظفر ) کہ اے صبا اگر تیرا چمن سے گزر ہو تو میرا یہ پیغام بلبل زار سے دے دینا کہ خزاں کے دن بھی قریب ہیں نہ لگانا دل کو بہار سے.دراصل یہ بہادر شاہ ظفر نے اس زمانے کی سیاسی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے.وہ بادشاہ جو کسی زمانے میں سارے ہندوستان کا بادشاہ کہلاتا تھا اس نے سلطنت مغلیہ کا زوال دیکھا.اس نے دیکھا کہ انگریز آرہے ہیں اور اب زمانے بدلنے لگے ہیں اب ہندوستان کی بہار خزاں میں تبدیل ہونے لگی ہے تو انہی مضامین کو پھر اس نے شعروں میں باندھا ہے.مگر بات بہت اچھی کی ہے اور یہی مومن کا مزاج ہے کہ جب وہ بہار دیکھتا ہے تو خزاں سے غافل نہیں ہو جایا کرتا.جب وہ خزاں میں ڈوبتا ہے تو ڈوب کر اس کا سانس بند نہیں ہو جاتا ، وہ امید رکھتا ہے بہار کی اور یقین رکھتا ہے کہ دن بدلیں گے.یہ مزاج لے کر آپ کو یہاں زندہ رہنا ہے.پھر اپنی اقدار کی حفاظت بھی کرنی ہے، اپنی زبانوں کو بھی حفاظت کرنی ہے اور پھر ان کی زبانیں بھی سیکھنی ہیں.اس سلسلہ میں بھی افراط تفریط سے بچنا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو اردو پنجابی یا پشتو جو بھی ان کی زبان ہے وہ نہیں سکھاتے اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمیں تو نہیں آئی لیکن ہمارے بچوں کو مقامی زبان آگئی.انگلستان میں بھی ایسے ہیں اور جرمنی میں بھی اور یہاں (سوئٹزر لینڈ ) بھی ہوں گے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ زبانیں کلچر کی حفاظت کیا کرتی ہیں.اگر آپ نے اپنی زبان بچوں کو نہ سکھائی اور دوسروں کی ہی زبان سیکھ کر رہ گئے اس خیال سے کہ یہ ملک ہمارا بننے والا ہے تو بہت سی آپ کی ایسی اخلاقی اقدار اور تمدنی اقدار جن کا زبان سے تعلق ہے ان سے وہ بچے کٹ جائیں گے.زبانوں کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 671 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء حرف اظہار کے لئے استعمال نہیں کیا جا تا بلکہ زبانیں مزاج کی حفاظت کیا کرتی ہیں.وہ پٹھان جو پشتو کی حفاظت کرتے ہیں اکثر ان میں سے ایسے ہیں جن کی کلچر نہیں بدلتی اور پٹھانوں میں یہ خوبی ہے خاص طور پر کہ دنیا میں جہاں جائیں وہ اپنی زبان نہیں چھوڑتے.اسی طرح Italians میں یہ خوبی ہے، اسی طرح Chinese میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں اپنی زبان کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر زبان ان کی حفاظت کرتی ہے.زبان ان کے لئے حصار کھڑا کر دیتی ہے اور ان کی کلچر جہاں بھی جائیں قائم رہتی ہے.آپ امریکہ جائیں انگلستان جائیں آپ کو چائنا ٹاؤن ملیں گے، آپ کو اٹالین آبادیاں ملیں گی جس میں ان کے کلچر اسی طرح قائم ہے جس طرح اپنے ملک میں ہوا کرتی تھی.تو احمدی کے لئے جو پاکستان سے آتا ہے اردو کی حفاظت بہت ضروری ہے.جب میں کہتا ہوں مقامی زبان سیکھیں تو ضرور سیکھیں اس کے بغیر آپ کا گزارہ نہیں ہے، اس کے بغیر آپ ان کو پیغام پہنچا ہی نہیں سکتے ، اس کے بغیر آپ ان سے اپنائیت کا رابطہ نہیں کر سکتے.یہ آپ کو غیر سمجھیں گے لیکن ان کو اپنانے کے لئے آپ تو غیر نہ ہو جائیں کہ اپنوں سے ہی جاتے رہیں.اس میں بھی توازن پیدا کرنا ضروری ہے.اُمَّةً وَسَطًا بنا ہو گا آپ اپنی زبان کی بھی حفاظت کریں، اپنے کلچر کی حفاظت کریں اور پھر دوسروں کی زبانیں سیکھیں تو آپ کو کوئی خطرہ نہیں لیکن صرف ان کی سیکھتے رہ جائیں گے تو پھر آپ کو خطرہ ہے آپ کا تمدنی پس منظر آپ کے ہاتھ سے جاتا رہے گا.اس سلسلے میں بعض دفعہ میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کو گھر میں وہ ابتدائی کتابیں بھی پڑھا ئیں جو آپ نے بچپن میں پڑھی ہوئی تھیں.مثلاً اردو پڑھاتے وقت پہلی میں جو کورس ہوا کرتے تھے اس میں بعض لطیفے تھے ، بعض سبق آموز کہانیاں تھیں خواہ وہ پر یوں بھوتوں کی ہوتی تھیں اس زمانے میں ایسی کہانیاں جوڑی جایا کرتی تھیں جن میں سبق ہوں تو وہ کہانیاں آپ نے پڑھی ہوئی ہیں ، وہ لطیفے آپ نے پڑھے ہوئے ہیں اور آپ کو یہ یاد ہوگا کہ جب بھی آپ سے پہلے جن لوگوں نے وہ کتابیں پڑھی ہیں کوئی لطیفہ بیان کرتے ہیں تو دونوں کو ایک جیسا مزہ آتا ہے اور وہ ایک رستہ ہے جس نے دونسلوں کو باندھا ہوا ہے آپس میں.وہ تمدنی پس منظر ہے جو زبان کے ذریعہ آپ کو میسر آیا ہے لیکن اگر کورس بدلنے شروع ہو جائیں جس طرح آج کل رواج چل پڑا ہے کہ ہر چوتھے پانچویں سال بنیادی کورس ہی بدل دیئے تو دو نسلوں کے درمیان رابطے ختم ہو جاتے ہیں.اس کی
خطبات طاہر جلدا 672 خطبه جمعه ۸ ار ستمبر ۱۹۹۲ء کتابیں اور ، ان کی کہانیاں اور ان کے لطائف اور ، ان کی نظمیں اور حالانکہ پرانے زمانے میں یہ خوبی تھی تعلیمی نظام میں کہ پچاس پچاس سال تک بھی ابتدائی بنیادی تعلیم کی کتا بیں بدلا نہیں کرتے تھے اور ایک رسی میں ایک کے بعد دوسری نسل باندھی جاتی تھی.تو اس پہلو سے آپ نے جو کتا ہیں پڑھی ہیں شروع میں بچپن میں، وہ مہیا کرنے کی کوشش کریں اپنے بچوں کو وہ پڑھائیں.ان کو لکھنا پڑھنا سکھائیں.پھر اور کلچرل باتیں ایسی ہیں جن کو آپ ان پر نافذ کر سکتے ہیں مثلاً بچپن کی کھیلیں ہیں.میروڈ بہ کھیلا ہوا ہے آپ نے ، آپ نے کوکلا چھوپا کی شب برات آئی یہ کھیلا ہوا ہے.آپ نے آتے ہیں آتے ہیں ٹھنڈے موسم میں کئی قسم کے کھد و کھیلے ہوئے ہیں.تو یہ ساری کھیلیں ہیں یہ بھی آپ کی نسلوں کے درمیان مضبوط رابطے قائم کرنے والی چیزیں ہیں.اس کے کھیل کے نام سے ہی فوراً آپ کو پرانی فضائیں یاد آ جاتی ہیں، وہ موسم تازہ ہو جاتے ہیں جن میں کھیلا کرتے تھے.تو ان میں اپنے بچوں کو بھی شریک کریں.ورنہ ہوگا یہ کہ یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ ایسی نسل بن کر اٹھیں گے کہ جن کی آنکھوں میں غیریت پائی جائے گی.وہ آپ کو اس طرح دیکھیں گے کہ پتا نہیں کس زمانے کے لوگ کہاں سے آگئے ہیں اور سمجھتے نہیں ہیں ان کی باتوں کو ، نہ آپ اُن کی باتوں کو سمجھیں گے ، نہ یہ آپ کی باتوں کو سمجھیں گے.اس لئے زبان اور تمدن کے روابط کو غیر معمولی اہمیت دینے کی ضرورت ہے.ان کی زبانیں بھی سیکھیں اور ان کے طور طریق بھی سیکھیں لیکن اپنے بچوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.وہ بات نہ ہو کہ غالب کہتا ہے: یہی ہے آزمانہ تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو (دیوان غالب صفحہ ۱۹۴۰) یعنی تم اتنے غیر بن گئے ہو کہ غیر ہی کے ہو چکے ہو اس کو آزمائش نہیں کہا جا تا یہ تو بڑا دکھ ہے.اس لئے اپنے بچوں کو غیر کا نہ ہو جانے دیں.ان کے ذریعہ آپ نے غیروں کے دل جیتنے ہیں یہ مقصد ہے جو آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے.غیر قوموں کو اپنانے کے لئے یہ آپ کی رسیاں ہیں جو پھینکی گئی ہیں.ان کو پکڑ پکڑ کر غیر قو میں آپ کی طرف آئیں گی لیکن اگر آپ کے ہاتھ سے یہ رسی چھوٹ جائے پھر تو غیروں کے ہو گئے یہ سب کچھ.اس لئے ہر پہلو سے اپنے مزاج میں، اپنی ہوش
خطبات طاہر جلدا 673 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۹۲ء میں اپنے طور طریق میں اپنی نسلوں سے تعلقات میں غیروں سے تعلقات میں أُمَّةً وَسَطًا بنے کی کوشش کریں.وہ امت جس کے سپر د اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام بنی نوع انسان کی نگرانی کرتا ہوں.تم أُمَّةً وَسَطًا بنو تو میرے اس رسول کے شایانِ شان امت بن جاؤ گے جس کو میں اُمَّةً وسَطًا کا نگران بنا رہا ہوں.جس کو میں تم سب پر شہید بنا چکا ہوں.اگر تم ایسے بنو گے تو پھر خدا کا وعدہ ہے کہ میں ساری دنیا کی باگ ڈور تمہیں تھا دوں گا کیونکہ تم واقعی میرے نزدیک اس لائق ٹھہر و گے کہ تمام بنی نوع انسان کی نگرانی اور حفاظت کر سکو.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.( آمین )
خطبات طاہر جلد ۱۱ 675 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء ایسے داعی الی اللہ بن جائیں جو خود اپنے نگران ہوں.دعوت الی اللہ کی محبت میں مبتلا ہو کر دعوت الی اللہ کریں اور اس کے بغیر چین نہ پکڑیں.خطبه جمعه فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء بمقام ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.یورپ کے حالیہ سفر کے دوران مجھے یہ بات معلوم کر کے اور محسوس کر کے خوشی ہوتی رہی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عموماً سب یورپ کی جماعتوں میں پہلے کی نسبت زیادہ بیداری ہے تربیتی نقطہ نگاہ سے بھی یہ احساس ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنی ہے اور تبلیغی نقطہ نگاہ سے بھی یہ احساس ہے کہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر جدوجہد کرنی ہے اور گھر بیٹھے از خود پیغام دوسروں تک نہیں پہنچ سکتے.اس سلسلے میں جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی خوشکن تجربہ ہوا.جو مجلس سوال و جواب کی میٹنگ ہمیشہ ہوا کرتی تھی اُس میں امسال کئی پہلو سے بہت نمایاں بہتری تھی.ایک تو یہ کہ بھاری تعداد میں ایسے مہمان تھے جن کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ جرمنی ، ترکی، ایران، افغانستان، عرب ممالک وغیرہ وغیرہ سے تھا اور صاف نظر آ رہا تھا کہ مختلف جگہوں پر احمدیوں نے محنت کی ہوئی ہے اور اُس محنت کا نتیجہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوا جو محض دو تین گھنٹے کی مجلس سے نہیں ہوا
خطبات طاہر جلدا 676 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء کرتا، اس کے پیچھے لمبی تیاری ہونی چاہئے.پس اللہ کے فضل سے کچھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی یاڈھائی گھنٹے کے قریب کی میٹنگ تھی شاید.اس کے بعد بیعتوں کا آغاز ہوا پہلے آٹھ نے خواہش ظاہر کی پھر اور شامل ہونے شروع ہوئے.شام تک اطلاع ملی کہ سولہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دوست احمدی ہونے کے لئے ارادہ کر چکے ہیں اور باقاعدہ بیعت کا فارم لے چکے ہیں.دوسرے روز پھر چار عربوں کی طرف سے پیغام ملا کہ ہم بھی مجلس میں شامل تھے اور فیصلہ کرنا چاہتے تھے مگر کچھ وقت لگا ہے اور رات کو دعائیں کرتے رہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اُن کو اطمینان بخشا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی موقع دیا جائے ہم آکر دستی بیعت کریں گے.ہیں کی تعداد اگر چہ بظاہر بہت تھوڑی تعداد ہے لیکن مغربی ملکوں میں چونکہ اسلام کے خلاف بہت ہی بدظنیاں پھیلائی جا چکی ہیں اور صرف اسلام کے خلاف بدظنیوں کی بات نہیں بلکہ مذہب میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے.اسلام خوبصورت دکھائی دے بھی تب بھی اسلام کی طرف آگے بڑھنا اور اُس کی ذمہ داریوں کو قبول کرنا کوئی عام معمولی بات نہیں ہے.ایسا معاشرہ جو مادہ پرست ہو چکا ہو، جس میں دنیا کی لذتوں میں کھوئے جانے کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہو، جہاں دولت کی ریل پیل ہو، جہاں نفسیاتی طور پر انسان اپنے آپ کو مینار کی چوٹی پر کھڑا دیکھ رہا ہو اور دیگر قوموں کو نیچے گہرائیوں میں وہاں مذہب تبدیل کرنا خواہ وہ معمول ہی کیوں نہ ہو معمولی بات نہیں بلکہ بہت غیر معمولی طور پر نفسیاتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے.اتنا گہرا اثر سچائی کا پڑنا چاہئے کہ اس کے بعد ایک انسان بے بس ہو جائے اور سمجھے کہ مجھے اپنی ساری سوسائٹی کو ترک کرنا پڑے تب بھی مجھے اس حقیقت کو قبول کرنا چاہئے اس میں روشنی ہے، اس میں سکینت ہے، اسی میں میری طمانیت ہے.تو اس فیصلے کے لئے محض دلائل کافی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی نمونے، لمبے تعلق اور رفتہ رفتہ دل میں جانشین ہونے والا یہ یقین چاہئے کہ صداقت اور سکینت اور طمانیت اسلام ہی میں ہیں اور اسی میں ہماری اس دنیا کی اور اُس دنیا کی بھلائی ہے.یہ فیصلے ایک دو گھنٹے کی مجالس میں تو نہیں ہوا کرتے.یہ فیصلے تو لمبا وقت چاہتے ہیں ، محنت چاہتے ہیں اور اسی لئے دعوت الی اللہ پر میں اتنا زور دیتا ہوں کہ در حقیقت ایک احمدی جو زیادہ علم نہ بھی رکھتا ہوا اگر دعوت الی اللہ کر رہا ہے تو اُس کی نصیحت اثر ضرور کر رہی ہوتی ہے شرط یہ ہے کہ اُس کا اپنا نمونہ نیک ہو، اُس کے اندر ایک ذاتی جاذبیت پائی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 677 خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء جائے.پس جو باتیں وہ خود نہیں کر سکتا اپنی لاعلمی کی وجہ سے.جب مجالس سوال و جواب میں مربیان یا دوسرے صاحب علم دوست یا مجھے موقع ملے میں شامل ہوں تو وہ علمی الجھنیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حل ہو جاتی ہیں.پھر انسان کے لئے وہ قدم اٹھانا آسان ہو جاتا ہے.پس نتائج کو دیکھ کر یہ سمجھنا کہ نتائج اچانک پیدا ہوئے یہ درست نہیں، لمبی محنت درکار ہوتی ہے پھل لگنے کے لئے ، اگر چہ ایک تھوڑے سے موسم میں پھل لگتے دکھائی دیتے ہیں لیکن پھل لگنے کے لئے بیچ سے لے کر یا اُس کی جڑیں لگانے سے لے کر پھلوں تک کے درمیانی عرصے پر بھی تو غور کریں کہ ایک محنت کرنے والے نے کتنی محنت کی ہے.آپ نے تو یہ دیکھ لیا کہ آم لگ گئے ہیں، بور آیا ہے آپ کی آنکھوں کے سامنے اور جلدی جلدی وہ پکنا شروع ہوا.چند مہینے میں وہ پھل پک گیا یا چیریز کو دیکھا بڑے خوشنما پھول دیکھائی دیئے اور دیکھتے دیکھتے وہ چیریز بنی پھر موسم گزر بھی گیا.لیکن جنہوں نے لگایا تھا اُن کو لگاتے بھی تو دیکھیں جنہوں نے حفاظت کی ہے اُن کو حفاظت کرتے ہوئے بھی تو دیکھیں.پانی دیا اور ہر موسم سے حفاظت کی اور طرح طرح سے تیار کیا اور نقصان دینے والے جراثیم سے، پرندوں اور جانوروں سے بچایا تبلیغ بھی اسی قسم کا کام ہے.مجالس سے پہلے کچھ کام ہونا ضروری ہے اور وہ کام ہے دراصل جو پھل کی بنیاد ڈالتا ہے.اگر اُس کے بغیر آپ گائے بھینسوں کی طرح غلے کے غلے گھیر لے آئیں اور مجالس میں اکٹھا کر لیں اُس کا کوئی فائدہ خاص نہیں ہوتا.شاذ کے طور پر اتفاقاً کسی دل پر اثر پڑ جائے گایا یہ ہو سکتا ہے کہ ذہن اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آئندہ میں دلچسپی لوں گا مگر نتائج نکالنے کے لئے بہر حال لمبی پہلے محنت چاہئے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دعوت الی اللہ کے کام کو سنجیدگی سے ایسے کاموں کی طرح لیں جو زندگی میں روزمرہ کے کام کئے جاتے ہیں اُن کی حقیقت سے انسان خوب آشنا ہے.ایک تاجر جانتا ہے کہ تجارت اچانک پھل دار نہیں بن جایا کرتی ،نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتی ، ایک زمیندار جانتا ہے کہ فصلیں کاشت کرنے کے لئے بھی لمبی محنت درکار ہے، باغ لگانے کے لئے اور بھی زیادہ محنت درکار ہے، سینچنا پڑتا ہے باغوں کو ، لمبی محنت کرنی پڑتی ہے.دعوت الی اللہ کے کام کے لئے بھی ایسی ہی محنت بلکہ اس سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.عام محنت میں انسان کے جذبات اتنے گہرائی کے ساتھ اُس محنت میں شامل نہیں ہوا کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 678 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء اور اُس کی اتنی زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے.ایک زمیندار اگر زمینداری کے تقاضے پورے کر رہا ہے تو جذباتی لحاظ سے وہ بیچ میں پوری طرح ملوث ہے یا نہیں.یہ بے موقع ، بے معنی سی بات ہے.لیکن اگر آپ تبلیغ کرتے ہیں تو زائد ضرورت یہ ہے کہ آپ کو جذباتی طور پر اس کے اندر مدغم ہو جانا چاہئے ، اُس تبلیغی کام کے ساتھ اور اُس میں اپنی ذات کو کھو دینا چاہئے ،محبت اور پیار کے جذبے سے تبلیغ کرنی پڑے گی اس لئے محض دماغ سوزی کی بات نہیں ، دل جلانے کی بھی بات ہے.دل ڈالیں ، دل میں بے چینی پیدا کریں، بے قراری لگالیں ، ایک بیماری کی طرح دل کو ایک روگ لگ جائے کہ میں نے یہ کام کرنا تب جا کر وہ کام ہو گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی دنیا میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے از خودل جاتا ہے اور تھوڑی سی محنت کے بعد وہ پانی دریاؤں سے ہو یا چشموں سے ہو یا کنوئیں نکال کر ہو کھیتیوں اور باغوں تک پہنچا دیا جاتا ہے اُس میں دل کی بات نہیں ہے.لیکن دعوت الی اللہ کے کام میں جو پانی آنا ہے یہ آپ کے دل کے روگ سے پیدا ہوتا ہے.یا اُن دعاؤں سے آسمان سے برستا ہے جو داعی الی اللہ ان لوگوں کے لئے کرتا ہے جن کو ہدایت پہنچانا اس کی زندگی کا جز اعظم بن چکا ہوتا ہے اُس کا مقصد اعلیٰ بن جاتا ہے.پس اُس کی گریہ وزاری میں شدید بے چینی پیدا ہو جاتی ہے اور بڑا پھل اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُنہی دعوت الی اللہ کرنے والوں کو نصیب ہوتا ہے جو اس طرح دعوت الی اللہ کے کام سے دل لگا بیٹھیں محض دماغی طور پر سمجھا دینا ، اس طرح دعوت الی اللہ کرو، اس طرح کرو، اس طرح کرو، ہرگز کافی نہیں ہے.دعوت الی اللہ کا حقیقی پھل آسمان سے اترتا ہے.یہ خاص تبدیلی اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے پیدا ہوتی ہے اور اُس کا گہرا تعلق دعوت الی اللہ کرنے والے کے قلبی رجحان سے ہے.پس آنحضرت ﷺ سے متعلق جو قرآن کریم میں یہ پڑھتے ہیں : لَعَلَّكَ بَاخِعُ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء :٤) ایک دوسری جگہ ہے فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الکہف: ۷) دونوں کا مضمون ایک ہی ہے کہ اے محمد! کیا تو اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا کہ یہ لوگ مومن نہیں ہو رہے کتنا گہرا غم تھا جو آپ نے دل کو لگا لیا.پس دعوت الی اللہ کے لئے صرف عقل اور ذہن کا تعلق نہیں ہے.حکمت کے تقاضے بعض قرآن کریم فرماتا ہے اُسے اہمیت دیتا ہے لیکن مرکزی بیچ کی بات جو قرآن بیان فرما رہا ہے وہ دل کی لگن اور ایک ایسی تمنا ہے جو ساری زندگی پر قبضہ کر لیتی ہے.جو
خطبات طاہر جلدا 679 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء صد الله اپنے خاک وجود کو جس طرح محبت جلاتی ہے، اس طرح جلانے لگتی ہیں، وہ تمنا چاہئے دعوت الی اللہ کے لئے اور وہی تمنا ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ لوہے کے دل میں اتنی شدت سے تھی کہ دنیا کے کسی نبی کے دل میں ایسی شدت پیدا نہ ہوئی ہو کیونکہ قرآن کریم نے جس طرح آنحضرت ﷺ کے دل کا حال کھینچا ہے دیگر انبیاء کے دل کی وہ کیفیت کسی اور الہی کتاب میں مندرج دکھائی نہیں دیتی.پس دلسوزی کا کام ہے، عرق ریزی باہر کی بات ہے، دلسوزی اندر کی بات ہے زمیندار جو محنت کرتا ہے وہ عرق ریزی سے کرتا ہے، پسینہ بہاتا ہے اور مومن جو خدا کی راہ میں کھیتی پر محنت کرتا ہے اُس کا دلسوزی سے تعلق ہے اور وہ دل جلاتا ہے اور اُس کی دل کی گرمی سے آسمان سے رحمت کے بادل برستے ہیں جو اُس کے دل کو بھی ٹھنڈا کرتے ہیں اور اُس کی روحانی کھیتی کی آبیاری کا کام لیتے ہیں.تو اس پہلو سے آج مجلس عاملہ میں بھی جب میں نے نصیحت کی تو یہی تھی کہ آپ میں سے ہر ایک نمونہ بن جائے ساری جماعت کے لئے ، اپنے دل کو بھی اس میں ڈال لیں تا کہ آپ کی نگرانی کے لئے کسی باہر کی آنکھ کی ضرورت نہ رہے.دل کی آنکھ روشن ہو جائے خود آپ اپنے نگران بن جائیں.فکر اگر ہو تو ویسی ہو جیسے محمد رسول اللہ ﷺ کی فکر اللہ کو تھی.اللہ کے کام تھے اور اللہ روک رہا ہے اتنا دل کو نہ جلاؤ کہ اپنے آپ کو ہلاک کر بیٹھو، وہ فکر اور رنگ کی ہو جاتی ہے.بعض مائیں ہیں جو بچوں کو کہتے کہتے تھک جاتی ہیں پڑھتے کیوں نہیں، پڑھتے کیوں نہیں ، پڑھتے کیوں نہیں اور بعض مائیں ہیں جو راتوں کو اٹھ کر پڑھتا دیکھتی ہیں تو اُن کا دل بیٹھنے لگتا ہے کہتی ہیں تم اپنی نظر گنوا بیٹھو گے تمہارے دماغ کو نقصان پہنچ جائے گا ، خدا کے لئے کچھ آرام کرو.یہ ہے دلسوزی اُن لوگوں کے لئے جو دعوت الی اللہ میں منہمک ہو جاتے ہیں پھر آسمان سے خدا کی آواز آتی ہے بس کر وحوصلہ کر وا تنانہ دل جلاؤ کہ تمہارے دل کا ضیاع ہو جائے.یہ جب لگن ہو جائے تو ایسی دعوت الی اللہ لازماً پھل دیتی ہے ناممکن ہے کہ پھل سے محروم رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیسا پاکیزہ تجزیہ فرمایا ہے اور میں عش عش کر اٹھتا ہوں جب اُس تحریر کو پڑھتا ہوں یا وہ جب مجھے یاد آتی ہے.آنحضرت ﷺ کی کامیابی کا راز ہے جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا.1400 سال کے عرصے میں بڑے بڑے امت میں بزرگ گزر گئے مگر کوئی اس راز کو پانہیں سکا.آپ نے فرمایا کہ یہ جو تو نے عجیب ماجرا عرب کے بیابانوں میں ہوتا دیکھا.یہ حیرت انگیز
خطبات طاہر جلدا 680 خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء معجزہ جانتے ہو یہ کیا تھا.یہ ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں جس نے راتوں کو اٹھ کر ایک شور بر پا کر دیا اور آسمان سے وہ رحمت کی بارش برسی کہ صدیوں کے مردے جی اٹھے اور زندوں کے رنگ بدل گئے.وہ الفاظ تو مجھے یاد نہیں مگر عجیب شوکت ہے ان الفاظ میں ، وہ شوکت سچائی کی شوکت ہے فصاحت و بلاغت کی نہیں.جیسے اچانک ایک انسان حیرت انگیز راز کو پالیتا ہے اور اُس کے نتیجے میں اُس کے دل میں ایک عجیب ولولہ پیدا ہو جاتا ہے اور بے اختیار شدت کے ساتھ دل سے وہ مضمون پھوٹنے لگتا ہے کہ میں نے ایک عظیم الشان مضمون پالیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں بعض ایسے لحات ہیں جو یاد دلاتے ہیں فلسفی کی جو غور کر رہا تھا ایک مضمون پر اور دیر تک سوچتا رہا.بالآخر اسے سمجھ آئی کہ یہ کیا مضمون ہے.Gravitation بھی تھایا جس کا بھی تھا.اچانک اُس نے شور مچادیا میں نے پالیا میں نے پالیا اور ایک راز پایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علم و معرفت کے اتنے راز پائے ہیں کہ جب وہ راز آپ دریافت کرتے تھے تو بے اختیار دل بول اٹھتا تھا کہ سب دنیا کو سناؤں اور سب دنیا کو بتاؤں کہ میں نے پالیا اور کیا پایا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریریں پڑھتے وقت مناظراتی تحریروں میں نہ اٹکا کریں.آپ پڑھتے پڑھتے اچانک ایسی جگہوں میں داخل ہوں گے جہاں ایک دم تحریر زندہ ہو کر زندگی سے اُبلنے لگتی ہے جیسے پہاڑی چشمے اُبلتے ہیں اور از خود اُس میں نشو ونما پھوٹتی ہے.وہ مقامات ہیں جہاں حقیقت میں نبی کا عرفان حاصل ہوتا ہے، خدا والے کی حقیقت پتا چلتی ہے.تو آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ لکھنا کہ جانتے ہو وہ کیا تھا ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں اس نے سارے راز حل کر دیئے دعوت الی اللہ کے.آخری بات دعوت الی اللہ کی یہی ہے ایک ایسی لگن دل میں پیدا کر لیں کہ آپ خود اپنے نگران بن جائیں ، دل میں ایک بیماری سی لگ جائے.فرق محسوس ہولوگوں کو کہ اس کو کیا ہو گیا ہے.محبت کسی کو ہو جاتی تو پہچانی جاتی ہے.چھپائے نہیں چھپتی.پس دعوت الی اللہ کا پیار بھی ایک ایسی چیز ہے جو چھپائے چھپ نہیں سکتی.جس کو یہ لگن لگ ہو جائے وہ خود تلاش کرتا ہے، ڈھونڈتا ہے ، ہر وقت بے چین رہتا ہے، اُس کو پھل نہ ملے، اُس کو سکون
خطبات طاہر جلد ۱۱ 681 خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء نصیب نہیں ہوتا اور یہی بے سکونی ہے جس پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے وہی بے سکونی تھی جو رسول اکرم ﷺ کی زندگی کا جز بن گئی اور اُس بے چینی اور بے قراری کو خدا نے محبت و پیار سے دیکھا.رو کا بھی مگر ان معنوں میں نہیں روکا کہ رک ہی جاؤ.ایک پیار کا اظہار تھا، ایک محبت کا اظہار تھا بتانے کے لئے کہ میری نظر ہے تم پر تم کیا کر رہا ہے.پس ان معنوں میں آپ داعی الی اللہ بنیں تو ناممکن ہے کہ یورپ کی زمین سنگلاخ رہے.کوئی دنیا کی زمین سنگلاخ نہیں ہے اگر ہے بھی تو اتنی زیادہ محبت کا معیار اونچا ہو جانا چاہئے جو سنگلاخ زمینوں کو بھی تبدیل کر دیا کرتا ہے ہالینڈ میں تبدیل کرنے والوں کے لئے بڑی نصیحت ہے.اس میں یہ وہ قوم ہے جس نے ساری دنیا پر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اپنی ذات پر انحصار کرتے تھے اپنی محنت کے ساتھ ، اپنی اس تقدیر کو بہتر بنا سکتے ہیں جو تقدیر خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے.جس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے.انسان نئی تقدیر تو نہیں بناتا لیکن تقدیر کے اندر خدا نے وہ گنجائشیں رکھی ہوتی ہیں کہ انسان محنت کرے تو اُس تقدیر کو بہتر کرتا چلا جائے.پس جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس کا اکثر حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے.بڑی عن قوم ہے جس نے اتنی لمبی محنت کی ہے اور مسلسل سمندر سے زمین کھینچتی رہی ہے، چھینتی رہی ہے اور اپنی زمین کو بڑھاتی چلی جارہی ہے.اس کے لئے بہت لمبی محنت درکار ہے ،عقل کی بھی ضرورت ہے لیکن جو پختہ مزاجی چاہئے.یہ ہے عظمت کردار تو جس قوم کا نصیب ہو اللہ کے فضل کے ساتھ وہ قوم نا کام نہیں ہوسکتی.بل مارک نے ایک دفعہ آئر لینڈ پر پھبتی کستے ہوئے اور اُن کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دفعہ کہا تھا کہ انگریزوں کو میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہالینڈ کے رہنے والوں کو آئرلینڈ میں آباد کر لیں اور آئرلینڈ والوں کو ہالینڈ بھیج دیں.ہوگا کیا اُس نے کہا.ہوگا یہ کہ اگر ہالینڈ کے باشندے آئرلینڈ جا کر بس جائیں تو آئرلینڈ دنیا کا عظیم ترین ملک بن جائے گا اور آئرلینڈ کے باشندے اگر ہالینڈ میں آکر بسیں تو Dais بنا ہی نہیں سکیں گے، غرق ہو جائیں گے سمندر میں اور انگریزوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا.یہ ہے تو ایک طعن آمیزی ایک قوم پر طعن آمیزی سہی لیکن ایک سیاستدان نے معلوم ہوتا ہے کہ گہری نظر سے دیکھا ہے کردار کو.آئر لینڈ کے متعلق ہم اس سے اتفاق
خطبات طاہر جلد ۱۱ 682 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء کریں یا نہ کریں کیونکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آئرلینڈ کے مزاج میں بہت خوبیاں ہیں.بعض ایسی خوبیاں بھی ہیں جو انگریز میں نہیں ہیں.اُن میں سادگی ہے ، اُن میں کھلے دل کے ساتھ مہمان نوازی کرنا، بہت سی خوبیاں ہیں لیکن ان کی بعض مجبوریاں اور بے اختیاریاں ہیں اور اُن کی سستیاں اور اُن کی غفلتیں بہت حد تک حالات کی مرہون منت ہیں.مگر ہالینڈ کے متعلق میں بل مارک کے ریمارکس سے پورا اتفاق کرتا ہوں خدا تعالیٰ نے اس قوم کو عظیم صلاحیتیں بخشی ہیں.انہوں نے رونا نہیں رویا ، ہاتھ نہیں پھیلائے.دوسری قوموں کی طرف نہیں بھاگے کہ ہم غرق ہور ہے ہیں پانی میں ہماری مدد کرو.باہر سے اپنے آلات لاؤ اور ہمارے لئے کچھ کر کے دکھاؤ.خود اٹھے ہیں اور جینے کا سلیقہ سیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے پھر ان کی مدد فرمائی ہے.یہاں کے لوگ جو ہالینڈش ہیں اُن کو یہی چیلنج اسلام کے لئے بھی تو قبول کرنا چاہئے اور وہ لوگ جو باہر سے آ کر آباد ہوئے ہیں.اُن کو بھی تو ہالینڈ سے جینے کا سلیقہ سیکھ کر ، اسلام کے لئے یہاں محنت کرنی چاہئے ، اگر سمندروں کو یہ قوم شکست دے سکتی ہے تو یقیناً انسانی طغیانیاں جو بغاوت کی طغیانیاں ہیں، انسانی طغیانیاں جو مادہ پرستی اور بدکرداری کی طغیانیاں ہیں اُن کو بھی شکست دی جاسکتی ہے.اُن کے سامنے بھی اعلیٰ اخلاق کے عظیم بند بنائے جاسکتے ہیں اور محنت کی جاسکتی ہے، ہر مخالف حالات پر انسان کے اندر غلبہ پانے کی مخفی صلاحیتیں ہیں اُن کو بروئے کار لانا چاہئے.اس چیلنج کا مجھے بشدت احساس رات کی مجلس سے ہوا.رات کی مجلس میں ایک سوال کیا گیا کہ کیا آپ اب تک احمدی مبلغین یا احمدیوں کی ہالینڈ میں کوششوں سے جو نتائج نکلے ہیں اُن سے مطمئن ہیں اور اس سوال کے ساتھ ہی جو میری نظر چہروں پر پڑی تو ایک عجیب قسم کی دبی دبی مسکراہٹیں سب چہروں پر تھیں.ہر چہرہ مسکرارہا تھا اُن میں یہ پیغام تھا کہ آپ دلائل جو مرضی دیتے رہیں.بیعتوں کے میدان میں شکست دے سکتے ہیں دے دیں بے شک لیکن کیا کریں گے اگر آپ کی ساری عمر کی محنتیں ، ساری عمر کی جستجو بے کار جائے اور بہرے کانوں پر پڑے اور کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو.کیا فائدہ اس کا؟ کیا ضرورت ہے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کی ؟ چھوڑمیں اس کو کہیں اور جا کر بیٹھ جاتے اور کسی جگہ چلے جاتے جو جلدی آپ کی باتیں سن لیں.محنت کا بدلہ دیں یہ ساری باتیں آپ تعجب کریں گے لیکن واقعہ درست ہیں ان کے چہروں پر لکھی ہوئی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 683 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء انسان کو اللہ تعالیٰ نے عجیب صلاحیتیں بخشی ہیں.ایک چھوٹی سی مسکراہٹ بعض دفعہ اتنی باتیں بیان کر جاتی ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی مسکراہٹ کے انداز میں وہ کیا بات ہے جس میں بڑے بڑے مفاہیم ہوتے ہیں.یہ بتائیں کہ مونالیزا کی مسکراہٹ آج تک ایک معمہ بنی ہوتی ہے.ایک معمہ ہے جو آج تک فلسفی اور نفسیات کے ماہر حل نہیں کر سکے اُن کو لگتا ہے کہ عجیب سی بات ہے اس میں اور آرٹسٹ نے اُس بات کو ایسا پکڑا ہے ، ایسے رنگوں میں پکڑا ہے کہ اُسے زندہ جاوید کر دیا کہ وہ کیا ہے؟ دلوں میں کھجلی سی لگ جاتی ہے.انسان کی عقل اور ہوش کے ناخن کریدتے ہیں یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ کیا ہے؟ لیکن نہیں معلوم کر سکتے.مسکراہٹوں میں خدا تعالیٰ نے اتنے مضامین رکھتے ہیں کہ چھوٹی سی مسکراہٹ ایک آدمی کو ذلیل ورسوا بھی کر دیتی ہے ، چھوٹی سی مسکراہٹ اُسے عظیم عظمت بخش دیتی ہے اور کیسی اُس میں تبدیلی ہوتی ہے.کوئی انسانی علم اُس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا.دیکھنے میں مسکراہٹ وہی ہے ہونٹ Artificially بھی تو بنا دیتے ہیں جب تصویر کھینچی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ چیز کہو اور چیز کہا جائے تو جبڑے پھیلتے ہیں مسکراہٹ آ جاتی ہے مگر مردہ، اس میں کوئی جان نہیں، کوئی پیغام نہیں.ایک سطح سی ہے جو رنگ بدل دیتی ہے.لیکن اللہ کی عجیب شان ہے کہ کیسا وہ عظیم خالق ہے انسان کے اندر اتنی بار یک لطافتیں پیدا کر دی ہیں کہ ایک مسکراہٹ کے مضمون میں بھی بڑے بڑے حکمتوں کے مضامین سمیٹ دیئے ہیں.پس رات کو جو مسکراہٹیں میں نے دیکھیں اُنہوں نے مجھے پیغام دیا اور حقیقی پیغام تھا، کوئی فرضی پیغام نہیں تھا.تم کیا کر رہے ہو؟ چالیس سال ہو گئے تمہیں یہاں آئے ہوئے.گنتی کے چالیس آدمی بھی پیش نہیں کر سکتے.کیوں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو اس ملک میں ہم نے سنا، ہم نے سوچا، ہم نے سمجھا، ہم نے رد کر دیا اور تم ہماری آواز کو کیوں نہیں سن سکتے ؟ اس کا جواب جو میں نے اُن کو دیا وہ اپنی جگہ معقول تھا، وہ درست تھا.وہ ان کی تاریخ کے حوالے سے درست تھا مگر وہ مطمئن ہوئے یا نہ ہوئے جو قلق دل کو لگ گئی وہ بعد میں باقی رہی.جواب یہ تھا کہ تم سوچو کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ساری زندگی محنت کی.اتنا عظیم انقلابی پیغمبر دنیا میں آیا اور جب صلیب دیئے گئے تو کل تھیں گنتی کے آدمی تھے.اُن میں سے بھی ایک نے توبہ کی اور ایک نے لعنت ڈالی مگر یہ ذکر میں نے مناسب نہیں سمجھا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 684 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء میں نے کہا تمیں گن لو تو کیا مسیح نا کام تھے؟ صرف یہ اعتراضی جواب نہیں تھا بلکہ میں نے اس کا فلسفہ اُن کو سمجھایا میں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ بعض تبدیلیاں دلوں اور خیالات میں رفتہ رفتہ نمودار ہونے لگتی ہیں اور آخری نتیجہ پیدا ہونے میں بہر حال وقت لگتا ہے.اگر تین سوسال اُس واقعہ کے بعد عیسائیت نے مظلومیت کی حالت میں بسر کئے اور ایک وہ جو رومن ایمپائر تیسری صدی میں بھی بعض ایسے فیصلے ہوئے کہ عیسائیوں کو زندہ اُن کے گھروں میں جلا دیا گیا، اُن کو وحشی جانوروں کے سامنے پھینک دیا گیا اور وہ ہلاک ہوئے اور قہقہے اڑاتے ہوئے بڑے بڑے امراء اُس تماشے دیکھ کر گھروں کو جایا کرتے تھے اور دنیا سمجھ رہی تھی کہ عیسائیت نا کام ہے.مؤرخ یہ کہتا ہے کہ تین سو سال گزرنے کے بعد آٹھویں یا نویں سال میں یا جو بھی وہ سال تھا چوتھی صدی کے آغاز میں اُس میں اچانک بادشاہ عیسائی ہوا اور ساری رومن ایمپائر عیسائی ہوگئی.ایسا مؤرخ بہت ہی سطحی نتیجہ نکالنے والا مؤرخ ہے.میں نے اُن کو سمجھایا کہ آپ یہ بات بھول جاتے ہیں جوں جوں صدیاں آگے بڑھ رہی تھیں اور جوں جوں عیسائیوں پر مظالم توڑے جارہے تھے.اُن کی بے اختیاری نے بھی دل بدلنے شروع کئے ہوئے تھے، ان کی مظلومیت کی حالت میں بھی جس کو زبان نہیں تھی چاروں طرف عظیم پیغام پھیلائے جارہے تھے اور وہ اُن کی سچائی کے پیغام تھے جو خدا کی تقدیر پھیلا رہی تھی اور دلوں تک پہنچ رہی تھی ، قوم میں گہری تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں اور وہ تبدیلیاں تھیں جو بالآخر ایک اچانک بہت بڑے دھماکے کی صورت میں رونما ہوئی.ورنہ قوم کا دل تیار نہ ہو تو مجال ہے کہ کوئی بادشاہ مذہب بدلے اور ساری قوم اُس کے ساتھ ہو جائے ایسے بادشاہ کو لوگ اتار پھینکیں اور اُس کا سرتن سے جدا کر دیں.اگر اُن کے مزاج کے خلاف کوئی حرکت ہوئی.تو میں نے اُن سے کہا کہ جو میں جس کو آپ تھوڑ اسمجھ رہے ہیں میں اُن کو تھوڑا نہیں سمجھ رہا.میں نے طعن کے طور پر یہ بات نہیں کی.حقیقت کے طور پر آپ کو سمجھارہا ہوں کہ مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے جو میں آدمی پیدا کئے تھے اُس نے تمیں انقلابی پیدا کر دیئے تھے.ایسے انقلابی تھے جن کے انقلاب کے پیغامات صدیوں تک نہیں مرتے.نسلاً بعد نسل اُن کے جسم مرتے چلے جاتے ہیں مگر پیغام اور زیادہ زندہ ہوتے چلے جاتے ہیں.لیکن احمدیت نے یہ کیا ہے اور یہاں یہ کر رہی ہے.آپ کی آنکھوں کو دکھائی دے یا نہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 685 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء دے میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کے فضل سے احمدیت کی وجہ سے خیالات میں پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں ، اسلام کی روز بروز غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں اور یہ اثرات انمٹ ہیں کیونکہ یہ پیغام زندہ ہے، یہ پیغام جاری رہنے والا ہے اس لئے میں تو خوش ہوں.اس لحاظ سے بعض کے اوپر میں نے اطمینان بھی دیکھا اور مسکراہٹوں کے رنگ بدلتے دیکھے لیکن وہ جو چوٹ لگا دی تھی ایک دفعہ اُس کی خلش تو پھر بھی نہ اتری.چنانچہ میں نے مجلس عاملہ کو مخاطب کرتے ہوئے آج یہی سمجھایا کہ لمبے لیکھے تو بعد کی باتیں ہیں اگلی نسلیں دیکھیں گی مگر یہ نہ ہو کہ ہم مر رہے ہوں اور دشمن ہنس رہا ہو.کچھ ہمیں اپنی تسکین کے لئے بھی تو چاہئے.ہے آج دکھلا جو دکھلانا ہے دکھانے والے.( کلام طاہر صفحہ ۱۷) یہ جب اس دور کا لیکھرام زندہ تھا یعنی جب ضیاء الحق زندہ تھے.تو اس کے متعلق جو خدا کی تقدیر ظاہر ہوئی تھی اُس سے تھوڑا پہلے بے قراری کی حالت میں یہ دعا میرے دل سے منظوم طور پر نکلی ہے ”ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا؟ کوئی کل کیا دیکھے.اے خدا اگر آج مرنے کے بعد تو نے اس شخص کی پکڑ کی تو ہمیں کیا کوئی کیا دیکھتا ر ہے آج دکھلا جو دکھلانا ہے دکھلانے والے کیسی بے قرار تڑپ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے پھر میری آنکھوں کو وہ نظارہ دکھایا.جو اس شعری دعا میں خدا کے حضور عرض کیا گیا تھا کہ ہمیں دکھا دے.کل کو تو بہر حال احمدیت نے غلبہ پانا ہے، کل کو یہاں بستی بستی سے اذانوں کی آواز سنائی دے گی.اگر آج ہم اس دنیا سے ایسے حال میں رخصت ہوں کہ ہمارے کان ان نعمتوں سے محروم چلے جائیں اور ہم نہ سن سکیں تو حید کی وہ آواز میں تو ہمیں کیا کل کوئی کیا دیکھنے والی بات ہی ہے.ہمیں کیا تو نہیں کہ سکتے ایک انداز ہے یہ خدا کا دل پھیجنے کے لئے بعض دفعہ انسان نخرے بھی کرتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کل بھی ہو تو ہمیں ہی ہے ہم پر یہ اللہ ک احسان ہے کہ ہماری نسلیں وہ چیز دیکھ لیں گی.مگر ہالینڈ کی جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ یہ جذبہ پیدا کریں اپنے اندر کہ ہم بھی تو اپنی آنکھوں سے کچھ ہوتا دیکھیں اور وہ بھی ممکن ہے کہ ہر شخص کے اندر ایک داعی الی اللہ جاگ اٹھے.وہ خود اُس کا نگران بن جائے.ہر انسان اپنے اعمال کی خود نگرانی کرے اور بے چینی محسوس کرے اور جب تک اُسے کوئی ایسا پھل نہ ملے جو بالآخر پک کر اسلام کی جھولی میں آگرے اور اُسے دوام بخشا جائے ، وہ گلنے سڑنے کی بجائے وہ ہمیشہ کے لئے دوام اختیار کر جائے اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے.
خطبات طاہر جلدا 686 خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء سی نگرانی باہر سے ممکن ہی نہیں ہے کچھ حد تک کسی حد تک ہوسکتی ہے، عمومی طور پر اس طرح ہو جاتی ہے مثلاً میں نے جب دورہ کیا تو مختلف مجالس کے لوگوں کو آتے دیکھا یہ انداز لگایا کہ ان پر کام ہوئے تھے کہ نہیں ہوئے تھے.عمومی نگرانی تو ہو جاتی ہے لیکن انفرادی کہ کون کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا ؟ یہ حقیقی نگرانی ہے جو انسان خود اپنی ذات میں ہی کر سکتا ہے اور اس کے بغیر یہ کام ہونا نہیں ہے.آپ میں سے ہر شخص اپنا نگران ہے سب سے پہلے اور اگر اپنا نگران نہیں ہے تو بیرونی نگرانیاں آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گی.بیرونی نگرانیاں اُن لوگوں کو فائدہ دیتی ہیں جن کے اندر ایک نگران پیدا ہو چکا ہو.بیرونی نگران اُس نگر ان سے باتیں کرتا ہے جو اُس کی آواز کوسنتا ہے.اُس کی نصیحتوں پر کان دھرتا ہے، ان کے مزاج کی شناسائی ہے ایک دوسرے کے ساتھ لیکن ایسا شخص جس کے اندر نگران نہیں ہے بیرونی نگران کی باتیں ایسی ہیں جیسے اردو دان کے سامنے فارسی بولنا یا پشتو دان کے سامنے ہالینڈین زبان میں بات کر رہے ہوں تو پیغام نہیں پہنچے گا تو پتا نہیں چلے گا کہ ہمیں سنے والا ہی کوئی نہیں ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کے اندر ایک نگران اُٹھے جو زندہ ہو جائے، وہ باشعور بن جائے، اُس کو ایک فکر لگ جائے، ایسی فکر لگ جائے کہ دوسروں کے چہروں سے اس کا غم ظاہر ہونے لگے.لوگ پہچانے لگیں اور پتا لگ جائے کہ اس شخص کو لو لگ گئی ہے.ایسے شخص کی نگرانی کتنی آسان ہو جاتی ہے جو نصیحت اُس کو کی جائے اُس کے اندر کے آدمی کے کان میں پڑ رہی ہو اور بیرونی کان سے ٹکرا کر واپس فضا میں مرتعش نہیں ہوتی.اندر کا پیغام سننے والا جا گا ہوا ہو تو ہر بات سنتا ہے، پلے باندھتا ہے، اندر ایک نوٹ بک لگی ہوئی ہے جس کے اندر وہ لکھتا چلا جاتا ہے اور کچھ فائدے اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُس کے اندر نئی نئی پاک تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.پس اس رنگ کے داعی الی اللہ ہمیں چاہئیں جو اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرلیں، فیصلہ کر لیں کہ ہم نے ضرور کچھ نہ کچھ کرنا ہے اس کے بغیر یہ زندگی بے معنی اور لغو اور بے حقیقت ہے.لگن ہو تو تلاش ہوتی ہے اُس کے بغیر نہیں.مجلس عاملہ کے سامنے میں نے یہ مثال رکھی تھی اور آپ کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتا ہوں کہ آتی دفعہ سوئٹزر لینڈ میں ہمیں مقامی دوستوں نے پہاڑوں کے نیچے دبی گہری غاریں دکھا ئیں جن پر پانی کے برستے ہوئے قطروں نے کئی قسم کی نقش نگاری کی ہوئی تھی.بڑے بڑے خوبصورت نقوش پیدا ہوئے تھے ، بڑے بڑے خوبصورت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 687 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء خوبصورت شکلیں بنی ہوئی تھیں وہاں ایک جڑ بھی دیکھی جس کا آخری کنارہ ابھی زمین تک، نیچے تک نہیں پہنچا تھا لڑکا ہوا تھا اور اُس کے متعلق ماہرین نے یہ بتایا تھا اور وہاں لکھا ہوا تھا کہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک درخت تھا جو خشک سالی کا شکار ہوا اور اُس کی جڑیں پانی کی تلاش میں اترتی چلی گئیں چٹانی علاقوں میں سے چٹانوں کا دل چیرتے ہوئے یہاں تک کہ آخر وہ پانی تک پہنچ گئیں.جب تک اُن کو پانی نہیں ملا اُن کی تلاش جاری رہی.یہ پیاس ہوا گر داعی الی اللہ کے دل میں تو ہالینڈ کی یا جرمنی کی یا یورپ کے دیگر ممالک کی چٹانوں کی مجال کیا ہے کہ اُن کو روک سکیں.اُنہوں نے تو پانی لینا ہی لینا ہے اور نرم جگہوں میں بھی خدا یہ طاقت بخش دیتا ہے کہ جب لو لگ جائے.جب زندگی یا موت کا سوال پیدا ہو جائے تو پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہیں اور لا زماپانی تک پہنچتی ہے.پس آپ کے لئے بھی پانی کی تلاش دل کا ایک اندرونی مسئلہ بن جائے گی.ایک بے اختیاری کی کیفیت ہوگی ، آپ کو ڈھونڈنا پڑے گا.اگر آپ اپنے ماحول میں بار بار وہیں سر ٹکرا رہے ہیں اور کچھ نہیں مل رہا تو اُس کی مثال ایک ایسی جڑ کی سی ہے کہ جس میں زندگی اور شعور نہیں.وہ بے چاری ٹکرا کے وہیں کھڑی ہو جاتی ہے اُس کو پتا ہی نہیں کہ مقصد کیا ہے، مقصد حاصل کرنا ہے اور سچی تڑپ ہو تو حصول کے بغیر چین نصیب نہیں ہوسکتا.پس دعوت الی اللہ کوئی مکینیکل کام نہیں ہے کہ باقاعدہ ٹیکنیک سکھا دی جائے اور دعوت الی اللہ شروع ہو جائے.دعوت الی اللہ ایک اندرونی بیداری کا نام ہے، ایک دل کی بھڑ کی کا نام ہے، دل میں ایک آگ لگنے کا نام ہے، دل کے مبتلا ہو جانے کا نام ہے، دل دعوت الی اللہ میں مبتلا ہو جائے جیسے ایک مرض میں مبتلا ہو جائے اور اُس کی پیاس بن جائے اور اُس کی بھوک بن جائے ،اُس کی زندگی کی بقا کا ذریعہ بن جائے.اگر ایسی دعوت الی اللہ کا جذبہ ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے تو ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور پانی ملے گا، ہر احمدی خدا کے فضل سے کچھ نہ کچھ پیدا کر کے دکھائے گا.اُس وقت پھر جب یہ ہو جائے گا پھر یہ سوال نہیں کئے جائیں گے کہ آپ مطمئن ہیں کہ نہیں.اپنی نشو ونما سے اس وقت یہ سوال ہو کہ ہم بے چین ہو گئے ہیں آپ کی نشو ونما سے ، ہمیں آپ سے خوف لاحق ہے آپ کیوں ہمارے ملک میں اس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں.آخر کیا ارادے ہیں آپ کے، آخر کیا چاہتے ہیں آپ.جب فکر کی آواز اٹھنی شروع ہو گی وہ گواہ بنے گی ہمارے
خطبات طاہر جلدا 688 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۹۲ء کاموں کے حق میں.وہ ہمیں بتائے گی کہ ہم نے صحیح سمت میں سفر شروع کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہر گھر میں ایسے داعی الی بن جائیں جو خود اپنے آپ نگران بن جائیں.دعوت الی اللہ کی محبت میں مبتلا ہو جائیں ان کے اندر ایک پیاس لگ جائے اور چین نہ پکڑے دیکھو وہ جڑ جس نے اتنا گہرا چٹانوں میں سفر کیا تھا اُس کا کوئی دماغ نہیں تھا.اب تک کوئی اعصابی نظام اُس کا دریافت نہیں ہو سکا لیکن زندہ تھی.اُس نے یہ سبق دیا کہ یہ زندگی کی علامت ہے، نہ دماغ کی علامت ہے، نہ Nerves کی علامت ہے، نہ کسی اور چیز کی زندگی کی علامت ہے.زندہ قومیں تو وہ لازماً اُس شخص سے بہتر کام کریں گی کیونکہ زندگی کے ارادوں کو حکمت بھی عطا ہوئی ہوتی ہے.پس پہلے زندگی کی شرط پوری کریں پھر حکمت کا مضمون شروع ہو جائے گا، پھر اللہ کے فضل سے آپ کی تدبیروں محنتوں کو لازماً پھل لگیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 689 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء روس میں نصرت جہاں کے تحت وقف کرنے کی تحریک ہر سطح پر جھوٹ اور خیانت سے اپنے آپ کو پاک کریں.( خطبه جمعه فرموده ۲ راکتو بر۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.یورپ کے تین ہفتے کے دورے پر جانے سے قبل جوسلسلہ خطبات کا چل رہا تھا اس میں یہ مضمون بیان ہور ہا تھا کہ تبتل کے کیا معنی ہیں.دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف جانے کا کیا مطلب ہے اور میں سمجھا رہا تھا کہ سب دنیا سے کٹ جانا تبتل کا معنی نہیں بلکہ جھوٹے خداؤں سے تعلق توڑ لینا تبتل کا حقیقی معنی ہے اور یہ جھوٹے خدا انسان کے نفس کے اندر بستے ہیں.انسان کا نفس ہی بت تراش ہے اور سب سے زیادہ شرک انسان کی ذات میں ہوتا ہے.ان تمام مخفی بتوں کو توڑنا خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کرنے کیلئے ایک لازما ہے ورنہ انسان کی گردن پر کسی نہ کسی بت کا کنڈا پڑا رہے گا اور ایک بت کی رسی تو ڑ دیں تو دوسرے بت کی رسی گردن میں حمائل رہے گی.اس لئے اس مضمون کو تفصیل سے سمجھنے کی اور سمجھانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر حقیقت میں جماعت بتوں سے آزاد نہیں ہو سکتی اور ہم نے تو تمام دنیا کو بتوں سے آزاد کرنا ہے.تو اس پہلو سے یہ جو خطبات کا سلسلہ جاری تھا اسے آگے بڑھانا تھا مگر میں یہ چاہتا تھا کہ یورپ کے سفر سے واپس آکر جب پھر پاکستان کے احمدی بھائی اور دوسرے مشرقی ممالک کے احمدی بھائی بھی اور اسی طرح افریقہ کے جاپان وغیرہ کے احمدی بھائی اس خطبے کو براہ راست سن سکیں تو پھر وہیں سے اس
خطبات طاہر جلدا 690 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء مضمون کو دوبارہ سے شروع کیا جائے.چنانچہ تین خطبات جو سفر کے بیچ پیش آئے ان میں یہ مضمون بیان نہیں کیا گیا بلکہ مقامی حالات کے پیش نظر جو نصائح ان جماعتوں کو ضروری تھیں انہیں پر اکتفا کیا گیا.عمومی طور پر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دورے پر بھی میرے دل پر بہت ہی اچھا اثر پڑا ہے جس طرح اس سے پہلے فرانس اور پین کے دورے سے واپس آکر میں نے بیان کیا تھا کہ خدا کے فضل سے جماعتیں عموماً بیدار ہورہی ہیں اور جوش اور ولولہ بڑھ رہا ہے، خدمت دین کے جذبے اٹھ رہے ہیں اور نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ ہے.یہی صورت حال اس وقت جرمنی کی بھی ہے، سوئٹزر لینڈ کی بھی ہے، ہالینڈ، کیم کی بھی ہے.جہاں جہاں میں گیا وہاں میں نے چہروں پر نئے ارادے اور نئی روشنیاں دیکھی ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ جماعت یہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ اس دور کے سارے تقاضے پورے کرے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچانے کیلئے جس حد تک ممکن ہے وہ ضرور زور لگائے گی.کچھ کمزور ہیں جو پیچھے بھی ہیں ایک وقت میں ساری جماعت کی صحت ایک جیسی ہو نہیں سکتی.ایک خاندان کی صحت بھی ایک جیسی نہیں ہوا کرتی.ایک ہی گھر میں بہت صحت مند بچے بھی ہیں ، بہت کمزور بھی ہیں ، معذور بھی ہیں.بہار جو اپنے جو بن پر بھی ہو تب بھی چمن میں کچھ مرجھائے ہوئے پتے ، کچھ موت کے کنارے کی طرف بڑھتے ہوئے پھول بھی دکھائی دیتے ہیں ،سوکھی ہوئی ٹہنیاں بھی، کانٹے خس و خاشاک یہ تو اجتماعی زندگی کا حصہ ہے لیکن بہار اور خزاں میں فرق یہ ہے کہ خزاں میں شاذ کے طور پر کہیں کہیں کچھ کو نپلیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں.سبزے سے تو خزاں بھی عاری نہیں ہوا کرتی مگر بہار میں سبزے سے محرومی استثناء ہے.تو جب بھی جماعت میں رونق ہو تو اس رونق کے پیچھے کچھ مرجھائے ہوئے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں ، کچھ کمزور بھی دکھائی دیتے ہیں مگر یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ ان کے اندر بہتر ہونے کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے، کوشش کر رہے ہیں یہ احساس ہے کہ ہمیں بھی کچھ کرنا چاہئے.پس یہ خطبات کا سلسلہ ہے جو اس مضمون میں ہماری بہت مدد کرے گا اور آج جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر بہار کی ہوائیں چل رہی ہیں ان میں خشک ہونے والے پودوں کی بھی
خطبات طاہر جلدا 691 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء اصلاح کا موجب بننے والا سلسلہ اور وہ بھی جن سے جان نکل رہی ہے ان میں دوبارہ زندگی ڈالنے کا موجب بنے گا.انفرادی اصلاح میں میں امید رکھتا ہوں کہ یہ خطبات کا سلسلہ بہت مفید ثابت ہوگا اور خدا کے فضل سے ہو بھی رہا ہے ، بعض ایسے احمدی تھے جو دور جاچکے تھے یا دور ہٹ رہے تھے.پہلے ان سے میرا تعلق بھی رہا ہے.بعض ان میں ایسے تھے جن سے میرا تعلق نہیں رہا لیکن پھر وہ تعلق بھی رفتہ رفتہ اسی طرح مٹتا رہا.اس خطبات کے سلسلے کے بعد وہ دوبارہ ملے ہیں تو ان کی کایا پلٹ چکی تھی اور ایک نے مجھے روتے ہوئے گلے لگ کے کہا کہ اب مجھے ہوش آئی ہے ، اب پتالگا کہ میں کہاں جار ہا تھا اور کہاں جا چکا تھا.میں خدا کے فضل سے پورے زور سے پلٹ آیا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی کی آخری سانس تک انشاء اللہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہوں گا.یہ جو کیفیتیں ہیں یہ بہت ہی امید افزا ہیں اور وہ لوگ جو چند برے لوگوں کو دیکھ کر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ یہ طریق زندہ قوموں کے نہیں ہیں.بُروں کو دیکھ کر مایوس ہونا ہمارا کام نہیں ، بُروں کو دیکھ کر ان پر رحم کرنا ، ان کو ساتھ لے کر چلنا اور امید بہار رکھنا یہ مومن کا شیوہ ہے.یہ جو سلسلہ خطبات کا تصویری شکل میں دنیا میں دکھایا جارہا ہے یہ انشاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتا چلا جائے گا.اس ضمن میں میں جماعت جرمنی کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں اگر چہ مالی بوجھ میں یورپ کے بہت سے ممالک شامل ہیں اور پاکستان کے بھی کچھ احباب نے یا جماعتوں نے شرکت کی ہے، دیگر ممالک سے بھی اس مد میں وعدہ جات بھی ، رقمیں بھی موصول ہوئی ہیں مگر سب سے زیادہ نمایاں خدمت جرمنی کی جماعت کو کرنے کی توفیق ملی ہے اور جہاں تک یورپ کے ٹراسمیشن کا تعلق ہے ان سب کے متعلق جماعت جرمنی نے اپنی مجلس شوریٰ میں Resolution پاس کر کے یہ یقین دلایا کہ جتنا بھی خرچ ہے تمام تر جماعت جرمنی ادا کرے گی.تو یورپ کے چندے سے جو بیچ گیا اس کو ہم نے دنیا میں ٹیلی ویژن دکھانے کیلئے استعمال کیا اور چونکہ مشرقی جماعتوں میں ابھی اتنی طاقت نہیں تھی کہ اتنا بڑا بوجھ اٹھا سکتیں تو اس لحاظ سے جماعت جرمنی کا تمام دنیا کی جماعتوں پر ایک احسان ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور دیگر حصے لینے والوں کو بھی جزائے خیر دے.اسی طرح جماعت کو میں سعید جسوال صاحب، ان کے بھائیوں اور ان کے بہنوئیوں اور ان کے بھانجوں بھتیجوں کو بھی دعا میں یادر کھنے کی تلقین کرتا ہوں کیونکہ اس خاندان نے اس معاملے میں بڑی
خطبات طاہر جلدا 692 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء محنت کی ہے اور ان میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ وسیم جسوال نے لیا ہے.ان کو تو اس بات کا جنون ہو گیا ہے، عشق ہو گیا ہے کسی طرح میں تمام دنیا میں ٹیلی ویژن کے ذریعے خطبات کا نظام اور دیگر تبلیغی پروگرام پھیلانے کا انتظام کر سکوں اور خدا نے عقل دی ہے ، سلیقہ دیا ہے لگن دی ہے بہت محنت سے انہوں نے خدا کے فضل سے وہ جگہیں تلاش کی ہیں اور پھر زبان کا بھی محاورہ اچھا ہے ، گفت وشنید کرنا جانتے ہیں.روس میں بھی، باہر بھی دوسرے ممالک جیسے میڈیا کے ایسے اداروں سے بھی انہوں نے رابطے رکھے اور خدا کے فضل سے یہ کام دن بدن خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.اسی ضمن میں ایک اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے روابط اور اثرات اب اس تیزی سے USSR میں یعنی سابقہ روسی ریاستوں میں بڑھ رہے ہیں کہ اس سے حاسدوں اور دشمنوں کے کیمپ میں کھلبلی پڑ گئی ہے اور یہاں تک کہ پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ جن کا کوئی تعلق نہیں ایسے کاموں سے وہ اپنے ملک میں ہی انصاف قائم کر لیں تو بہت بڑی چیز ہوگی.ان کا یہ حال ہے کہ ایک کانفرنس میں مسلم علماء کی کانفرنس میں گئے اور ان کو یہ تلقین کی کہ اس وقت تمہیں ضرورت ہے عالمی جہاد کی کہ تم جاؤ اور USSR میں جہاں جہاں جماعت کوشش کر رہی ہے ان کا پیچھا کرو، تعاقب کرو اور ان کو ناکام بنا دو حالانکہ ہمارے ملک میں اتنی بدیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ اگر ایک بدی کے خلاف بھی جہاد کا اعلان کیا جائے تو سارے علما ہل کے بھی اس کو دور نہیں کر سکتے لیکن مل کر دور کرنا تو در کنار اس کی طرف توجہ ہی کوئی نہیں.بدیوں سے تو ایسا ملاپ ہے جیسے گھی شکر کا ملاپ ہوا کرتا ہے اور اگر نفرت ہے تو خدا کے بھیجے ہوؤں سے نفرت ہے، ان لوگوں سے نفرت ہے جو خدا کے بھیجے ہوؤں کی منادی کر رہے ہیں اور اسلام کا پیغام اور اسلام کی خوبیوں کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں.تو یہ مقابلہ تو چلے گا اور بڑے زور سے چلے گا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت شکست کیلئے نہیں پیدا ہوئی ہے.اس نے لاز ما فتح یاب ہوتا ہے.جس میدان میں چاہیں ہمارا تعاقب کر لیں، جس معرکے میں آئیں آزما کر ہمیں دیکھ لیں.ان کے مقدر میں شکست ہے کیونکہ یہ نا کامی کی منادی کرنے والے ہیں، یہ نا مراد طاقتوں کی منادی کرنے والے ہیں جن کی قسمت میں نا کا می لکھی گئی ہے ، ان قوتوں کی منادی کرنے والے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی نمائندوں کی منادی کرنے والوں سے کیسے ٹکر لے سکتے ہیں.سو سال سے دیکھ رہے ہیں، سو سال سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 693 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء آزما چکے ہیں کبھی ہوا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک سکیں.اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے ساری دنیا میں جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر خدا کے فضلوں کا ذکر کرتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ کچھ دلوں میں آگ لگ جائے گی اور مخالفانہ کوششیں شروع ہو جائیں گی.ایک موقع پر مجھے کسی نے خط لکھ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ نام لے لیتے ہیں اور یہ پیچھے پڑ جاتے ہیں ساری جماعت کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے انہی ملکوں میں کوشش شروع کر دیتے ہیں.میرے نفس میں بھی ہلکی سی کمزوری کا خیال آیا کہ کیوں نہ خفی رکھ کر بات کی جائے وہ مخفی رکھ کر کام بڑھایا جائے لیکن پھر مجھے قرآن کریم کی تعلیم کی طرف توجہ ہوئی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ (انھی:۱۲) خدا جب تم پر نعمت کرتا ہے تو اس کو بیان کیا کرو ہرگز دشمن سے نہیں ڈرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس ہریاول کی طرح جو پھوٹتی ہے جس کی مزارع خبر گیری کرتے ہیں، فرمایا یہ تو اس لئے بھی پھوٹ رہی ہے کہ دشمن غیظ وغضب میں مبتلا ہو جائے اور کچھ پیش نہ جائے.یہ ان کی آنکھوں کے سامنے بڑھتی رہے، نشو و نما پاتی رہے اور مضبوط اور تناور درختوں میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے.پس یہ ہمارا مقدر ہے اس لئے احتیاط کے سارے تقاضے میں ایک طرف پھینک دیتا ہوں جس کو خدا نے ضمانت دے دی ہو کہ تم میری نعمتوں کی تشہیر کرو اور خوب بیان کرو اور دشمن سے کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں اس لئے وہ جو چاہیں کریں.ایک صوبے کا کیا ساری دنیا کے وزراء اور وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ جو بھی نام ان کے ہوں وہ مل کر بھی خدا کے نور کو نہیں بجھا سکتے.یہ تو وہ چراغ ہے جو روشن رہنے کیلئے بنایا گیا ہے اور روشن کرنے کیلئے بنایا گیا ہے.اس نے تمام دنیا میں روشنی پھیلانی ہے اندھیروں کو خدا تعالیٰ کے فضل سے منور کر دینا ہے تو اس لئے جماعت کو اس معاملے میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.خدا کے جو فضل ہیں انشاء اللہ بیان کئے جائیں گے.اور ان فضلوں میں سے ایک یہ ہے کہ USSR کی ریاستوں میں بڑی تیزی سے جماعت کی طرف مدد کا ہاتھ پھیلانے کی طرف توجہ ہو رہی ہے اور وہ اخلاقی قدروں میں بھی ہم سے مدد مانگ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں آکر ہماری اخلاقی قدروں کی تعمیر میں ہماری مدد کرو اور علمی میدانوں میں بھی وہ ہم سے مدد مانگ رہے ہیں اور انہیں ہم پر اعتماد ہے.اب تک خدا کے فضل سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 694 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء تیزی سے جماعت احمدیہ کے اس فلسفے کو اور جماعت احمدیہ کے کردار کو ان لوگوں نے سمجھا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ بالکل خدا تعالیٰ سے لا بلد رہتے ہوئے ایک لمبے عرصے تک خدا سے دور رہنے کے باوجود دل کی تختیاں صاف ہیں ، سادہ ہیں اور ذہن اس حد تک روشن ہیں کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کر کے دیکھنے میں ان کو کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ، فور پتا لگ جاتا ہے یہ بیج ہے یا جھوٹ ہے.پس مولوی چاہیں جتنا مرضی چاہیں شور مچائیں ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ہمارے بچے سجن ، ہمارے ساتھی کون ہیں.کس نے ہم سے وفا کرنی ہے، کس نے ہماری مدد کرنی ہے اور جگہ جگہ سے مطالبے شروع ہو گئے ہیں کہ جماعت احمد یہ آئے اور اس میدان میں بھی ہماری مدد کرے اور اس میدان میں بھی مدد کرے.اب یہ جو نظام ہے تصویری زبان میں خطبات کا دنیا میں پھیلنا یہ اس سلسلے میں بے حد مؤید اور مفید ہے اس سے پہلے ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے تھے کہ جماعتوں کو چٹھی لکھتے کہ ان ان آدمیوں کی ضرورت ہے ، ان کوائف کی ضرورت ہے.اس اطلاع کے باوجود بہت سی جماعتیں ہیں جن میں ستی ہوتی ہے.اگر امراء وقت پر اس نوٹس کو آگے چلانے کی بھی کوشش کریں تو درمیان میں منتظم کمزور ہو جاتے ہیں.ٹھیکے کے پانی کا سا حال ہے کھالا کبھی یہاں ٹوٹ گیا کبھی وہاں ٹوٹ گیا کبھی کھیت میں پہنچ کر پانی باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے.تو وسیع نظام جو ہیں ان میں اس قسم کی کمزوریاں ہوتی رہتی ہیں اور جن لوگوں تک پیغام پہنچنا چاہئے براہ راست ان تک بہت کم پیغام پہنچتا ہے لیکن اب جب میں یہ اعلان کروں گا تو مشرق اور مغرب میں، افریقہ میں بھی ہر جگہ احمدی براہ راست سن رہے ہوں گے اور جن کی ضرورت ہے وہ سن رہے ہوں گے کہ ہماری ضرورت ہے اور ان کے دل اسی وقت لبیک کہیں گے.تو بجائے اس کے کہ مہینوں یاددہانیاں کروائی جائیں،انتظار کئے جائیں ایک ہی خطبے میں، ایک ہی ثانیہ میں دنیا کے تین چوتھائی علاقوں میں خدا کے فضل سے یہ ضرورت کی اطلاع پہنچ جائے گی اور اس کے نتیجے میں جیسا کہ میں جانتا ہوں جماعت ہمیشہ نیکی کے کاموں پر لبیک کہتی ہے اس کام پر بھی وہ لبیک کہیں گے.جو مطالبے شروع ہوئے ہیں ان میں ایک ہے اکنامکس کے ماہرین کیونکہ اس وقت بہت سخت اقتصادی بحران کا شکار ہیں اور باوجود اس کے کہ مذہبی قو میں ان کو اقتصادی ماہرین مہیا کر رہی ہیں لیکن ان کو اعتماد نہیں ہے.وہ جانتے ہیں کہ یہاں سے دھوکا ہی ملے گا اور جو مشورے ہیں ان میں ہم ایسی
خطبات طاہر جلدا 695 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء مصیبتوں میں مبتلا ہو جائیں گے کہ پھر ان سے نکلنا مشکل ہوجائے گاتو وہ آزاد، بچے، دیانتدار مخلص لوگوں کے طلب گار ہیں اور ان کی نظر جماعت احمدیہ پر اٹھتی ہے اور باقاعدہ Officially یعنی با قاعدہ ریاست کے نمائندوں کی طرف سے مجھے پیغام ملا ہے کہ آپ ہمارے لئے اقتصادی ماہرین مہیا کریں،Banking کے ماہرین مہیا کریں.اگر انگلستان میں بھی اور باہر بھی ، میں جانتا ہوں بہت سے بنک کا تجربہ رکھنے والے ہیں جو بنکوں سے نکالے گئے اور اس وقت بغیر کسی روزگار کے ہیں تو روزگار کی خاطر نہیں کیونکہ وہ لوگ خود مشکلات میں مبتلا ہیں اس لئے بسر اوقات کیلئے صرف پیسے دیں گے اور کھلی تنخواہوں کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں.ان کی اقتصادیات کو اچھا کرنا، بلند تر کرنا صحت مند کرنا اس میں جو احمدی حصہ لیں گے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کی جزا ان قوموں سے نہیں ملی گی بلکہ اللہ سے ملی گی کیونکہ ہم یہ کام اللہ کی خاطر کرتے ہیں اس لئے ان کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.تھوڑے پیسے بھی لئے جائیں اور ایک عظیم الشان خدمت کی توفیق مل جائے تو اپنی ذات میں ایک صاحب دل کیلئے جزا ہے جو صاحب دل لوگ ہیں جن کا دل خدا کی طرف مائل ہو، ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں ان کے لئے یہ بڑی جزا ہوا کرتی ہے کہ نیکی کی توفیق مل گئی اور جہاں تک روز مینہ کا تعلق ہے ان کے بیوی بچے بھوکے نہیں رہیں گے، مکان کا انتظام ہوگا روز مرہ کی خوراک مہیا ہوگی اور شریفانہ صاف پوشی کے ساتھ گزارہ کر سکے گا اور اگر کہیں دقت ہو تو جماعت کو لکھیں انشاء اللہ تعالیٰ ان کی جائز ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کریں گے.کوئی حتمی وعدہ نہیں ہے لیکن یہ وعدہ ضرور ہے کہ توفیق کے مطابق کوشش کریں گے اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ یہ سلسلہ کافی پھیلے گا.اکنامکس، بینکنگ، فنانس اور اکاؤنٹنگ خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے.اسی طرح مارکیٹنگ ، بہت سارے ان کے پیداوار ہیں جو ضائع جارہی ہیں اور ملکی طور پر ان کی کوئی بھی قیمت نہیں.ریاستوں کے آپس کے تعلقات ایسے ہیں کہ ایک ریاست دوسرے کو اس کی لاگتی قیمت بھی ادا نہیں کرتی اور ان کے پاس ہیں بھی نہیں پیسے اس لئے آج کل تو جہاں تک میں نے دیکھا ہے بارٹر سسٹم پر کام چل رہا ہے لیکن بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو بڑی اچھے امکانات رکھتی ہیں ، روشن امکانات رکھتی ہیں.انہیں دنیا کی باہر کی مارکیٹ میں بھیجا جائے اس لئے ان کو مارکیٹنگ کے ماہر کی بھی ضرورت ہے.قانون دانوں کی ضرورت ہے، بزنس ایڈمنسٹریشن کے ماہرین کی ضرورت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 696 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء ہے.یہ بڑے بڑے کام ہیں جن کی ان کو ضرورت ہے دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی ماہرین ان باتوں کو سن رہے ہیں اور وہ اپنا وقت پیش کر سکتے ہیں ان کو چاہئے کہ بلا تاخیر اپنے اپنے امراء کی وساطت سے اگر وہ پاکستان میں ہیں تو وہاں نصرت جہاں میں درخواستیں دیں، وہاں انتظام کیا گیا ہے.سیکرٹری نصرت جہاں وہاں کام کر رہے ہیں وہ انشاء اللہ وہاں اکٹھی کر کے اپنے تبصرے کے ساتھ بھجوادیں گے اور جہاں تک باقی ممالک کا تعلق ہے امراء کو بھجوائیے اور امراء اپنی تصدیق کے ساتھ یا اپنے مشورے کے ساتھ مجھے چٹھیاں براہ راست بھجوادیں تا کہ جو کام مہینوں میں ہونا تھا وہ ایک ہفتے ، دس دن کے اندراندر مکمل ہو جائے اور پھر میں ان سے درخواست کروں گا کہ جائیں اور اللہ کی حفاظت میں ، خدا کی پناہ میں، خدا کی خاطر اپنے آپ کو، اپنے وجود کو، اپنے خاندانوں کو نیک کاموں میں جھونک دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہمارے آنکھوں کے سامنے پوری ہو، جو خدا نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے کہ آپ کی جماعت روس کے علاقوں میں ریت کے ذروں کی طرح پھیل جائے گی.یہ سلسلے خدا ہی کے تھے اور انہیں سلسلوں کی پیروی میں اب یہ نئے سلسلے جاری ہوئے ہیں.ایک طرف وعدے تھے دوسری طرف طلب پیدا ہورہی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس کے نتیجے میں جو جماعت کا پیغام دنیا میں پہنچے گا خصوصاً USSR کے علاقے میں اس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی.خدا کی تقدیریں ہیں کوئی انسان کی تد بیر خدا کی تقدیر کو بدل نہیں سکتی.ایک بہت اونچے طبقے کے ماہرین کی ضرورت ہے جو مارکیٹ اکانومی میں اعلی تعلیم رکھتے ہوں اور اعلی تجربہ رکھتے ہوں اور اسی طرح Foreign Nation کا بھی ان کو تجربہ ہو کیونکہ اس قسم کے ماہرین کی ضرورت ہے جو بہت اونچی سطح پر بعض حکومتوں کی خدمت کریں گے.تو جولوگ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ان دونوں باتوں کے واقف ہیں ان کو چاہئے کہ وہ بھی فوری طور پر توجہ کریں.صلى الله اب میں بقیہ وقت میں پھر اس مضمون کو شروع کرتا ہوں جو چند ہفتے پہلے شروع کیا گیا تھا اور یہ مضمون خیانت سے تعلق رکھتا ہے.اس مضمون کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے نے جھوٹ کے بعد سب سے زیادہ خوفناک اور ہولناک چیز جس کا ذکر فرمایا ہے وہ خیانت ہے جو مومن کی ایمانی حالت کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے اور اس کے متعلق آنحضرت یہ نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 697 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء مختلف جگہ ایسی عمدگی سے نصائح فرمائیں ہیں کہ جن سے انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آنحضور ﷺ کی انسانی فطرت پر کتنی گہری نظر تھی اور خدا کے کلام کو کس طرح انسانی فطرت کے بار یک گوشوں پر چسپاں کر کے ہم تک ان کے تعلقات واضح فرماتے تھے اور چھوٹی چھوٹی مثالوں میں بہت گہرے پیغام دے دیا کرتے تھے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا دوسری برائیاں ہو سکتی ہیں اور یہ بڑی عجیب بات ہے.بہت سے ایسے گناہ کبیرہ ہیں جن کے خیال سے انسان ڈرتا ہے، سمجھتا ہے، بہت ہی بھیا نک بیماری ہے جو ختم کر دے گی انسان کو لیکن آنحضرت ﷺ جن دو بنیادی بیماریوں کا ذکر فرمایا ہے وہ سب سے زیادہ خطرناک ہیں.ایک جھوٹ ہے اور ایک خیانت اور فرمایا کہ مومن کی ذات میں یہ اکٹھی نہیں ہوسکتی.اس پہلو سے سب سے پہلے تو جماعت کو اپنا انفرادی طور پر جائزہ لینا چاہئے کہ کیا وہ جھوٹ اور خیانت سے کلیت پاک ہیں.اگر جائزہ لے تو انسان لرز اٹھے کیونکہ بڑے بڑے نیک لوگ بھی جھوٹ سے اور خیانت سے کلیۂ پاک نہیں ہوتے.جھوٹ کی مختلف سطحیں ہیں بعض سطحوں پر آکر جھوٹ پھر بھی ان کے اندر پرورش پا رہا ہوتا ہے.وہ اتنا خفیف ضرور ہو جاتا ہے کہ بیماری مہلک ہے لیکن اس مقدار میں مہلک نہیں ہوتی جس مقدار میں وہ پائی جاتی ہے.وہ یہ نہیں ہوتا کہ ہر مہلک بیماری ہر انسان کو فوراً ختم کر دے.بعض مہلک بیماریاں ہیں جو ابھی اتنی معمولی مقدار میں پائی جاتی ہیں کہ جسم پر غلبہ پانے کی طاقت نہیں رکھتی لیکن اگر انہیں چھوڑ دیا جائے اپنے حال پر تو رفتہ رفتہ ہلاک کر دیتی ہے.تو مومنوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں، بعض مومن وہ ہیں جن میں بیماریوں کو جڑ سے اکھیڑ پھینکنے کا عمل جاری ہو چکا ہوتا ہے.ان پر اس حدیث کا اطلاق نہیں ہوگا ان معنوں میں کیونکہ وہ اس بات کا شعور حاصل کر لیتے ہیں کہ ہم میں جھوٹ بھی ہے، خیانت بھی ہے اور اس کے خلاف جہاد شروع کر دیتے ہیں اور جہاد کی حالت میں جو مارا جائے اسے آپ جھوٹا اور خائن نہیں کہہ سکتے.اس لئے وہ مومن ہی شمار ہوگا لیکن جہاد نیک نیت سے کرے اور پوری طاقت سے کرے تو پھر میں امید رکھتا ہوں کہ اس حدیث کا اطلاق ان معنوں میں اس پر نہیں ہوگا کہ گویا وہ کلیہ ہلاک اور خدا کی بارگاہ سے رد ہو گیا ہے.دوسرے وہ لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کے اندر جھوٹ پرورش پارہا ہے.خیانت میں وہ بڑھتے چلے جارہے ہیں اور کوئی عار نہیں ہے، کوئی حیا نہیں ہے، کوئی شرم نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 698 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء ہے نفس لوامہ موجودہی نہیں ہے.ایسے لوگوں کو وہم ہے کہ وہ مومن ہیں.اور یہ حدیث واضح طور پر کھلم کھلا اعلان کر رہی ہے کہ جس شخص میں یہ دو چیزیں اکٹھی ہو جائیں جھوٹ اور خیانت وہ مومن نہیں کہلا سکتا.ہزار دوسری بدیاں ہوں تو پھر وہ مومن کہلائے گالیکن جھوٹ اور خیانت ہوتو ایمان کی جڑیں اُکھڑ جاتی ہیں، کچھ بھی ایمان کا باقی نہیں رہتا.جھوٹ سے متعلق کچھ میں پہلے بیان کر چکا ہوں.خیانت کے متعلق حضرت محمد رسول الله تعالی کی ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا ! اے میرے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، بھوک ننگ سے جس کے ساتھ ، جس کا اوڑھنا بچھونا بہت ہی برا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ یہ بطانت پیدا کرتی ہے اور بہت ہی بری بطانت ہے ( ترندی کتاب الاستعاذہ حدیث نمبر :۵۳۷۳) یعنی اندرونی بیماری.اب یہ دو الگ الگ باتیں ہیں.انسان تعجب میں مبتلا ہوتا ہے بظاہر کہ ان دونوں صلى الله میں کیا جوڑ ہے مگر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی باتوں پر غور کرنے کیلئے ٹھہر نا پڑتا ہے مضمون میں ڈوبنا پڑتا ہے اور گہری تلاش کر کے جس طرح غوطہ خور سمندر کی تہہ سے موتی نکالتا ہے اس طرح آنحضرت ﷺ کے کلام میں ڈوب کر آپ کے مطالب کو حاصل کرنا پڑتا ہے.ظاہری نصیحت اپنی جگہ اثر دکھا دیتی ہے جس طرح سمندر کی سطح کا بھی ایک اثر ہے لیکن اس کی گہرائی میں اور بھی چیزیں ہیں جو بہت ہی مفید ہیں.تو اس حدیث کو پڑھ کر ایک مومن کے دل پر بڑا اچھا اثر پڑے گا کہ یہ دو باتیں ہیں ان سے پناہ مانگنی چاہئے لیکن ذرا اس حقیقت کو سمجھیں گے ان دونوں کا تعلق سمجھیں گے تو ایک طرف حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے مرتبے کا عرفان بڑھے گا دوسری طرف ان چیزوں سے نجات پانے کیلئے پہلے سے بڑھ کر ارادہ قوی ہوگا اور انسان دعا کے ذریعے ان سے نجات پانے کی کوشش کرے گا.بھوک کو ظاہری طور پر فرمایا کہ بہت ہی بُرا اوڑھنا بچھونا ہے.قرآن کریم میں بھی ایک جگہ لِبَاسَ الْجُوعِ (النحل :۱۱۳) فرمایا ہے.اس حدیث کی بنیاد اسی آیت کریمہ میں ہے کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو جب بھوک کا لباس پہنا دیتا ہے.تو بہت ہی بری حالت ہوتی ہے.بھوک کا لباس کیوں فرمایا گیا ؟ بات یہ ہے کہ بھوک ایک ایسی بلا ہے کہ جس پر انسان ہر دوسری ضرورت کو قربان کرتا چلا جاتا ہے اور بھو کے لوگوں کے گھروں میں پہلے زیور بکتے ہیں اور پھر برتن تک بکنے لگ جاتے ہیں پھر
خطبات طاہر جلدا 699 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء کپڑوں تک کے بیچنے کی باری آجاتی ہے اور بھوکے لوگوں کو اپنے کپڑوں کو سنبھالنے کی ہوش ہی نہیں ہوتی نہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ کپڑوں کی طرف توجہ کریں اور ان کی ضرورتیں پوری کر سکیں.تو قرآن کریم نے جو لِباسَ الْجُوعِ فرمایا واقعہ بھوک لباس بن جاتی ہے کہ ایک ایسی فلاکت کا لباس جو دیکھنے میں دکھائی دیتا ہے.بھوکے افریقہ کو دیکھیں، ان کی تصویریں دیکھیں تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ بھوک کا لباس سے کیا تعلق ہے.تو آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ بھوک جوتمہارے ظاہر کا حال کرتی ہے خیانت وہی تمہارے اندرونے کا حال کر دیتی ہے.خیانت کی جس کولت پڑ جائے وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی دوسری تمام حسنات کھائی جاتی ہیں.گویا ایک ایک کر کے اس کی نیکیاں پک رہی ہیں اور خیانت کی بھوک مٹانے کیلئے تمام خوبیاں اس کی تباہ و برباد ہو جاتی ہیں.جس میں خیانت آجائے اس میں ساری دوسری برائیاں، مراد یہ ہے کہ رفتہ رفتہ خیانت انسانی اندرون پر ایسا قبضہ کر لیتی ہے کہ اس کی تمام صلاحیتیں ختم کر دیتی ہے اس میں تمام برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں، تمام نیکیاں اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں.تو یہ وجہ ہے جو آنحضور ﷺ نے جھوٹ کے بعد خیانت کو سب سے زیادہ مہلک بیماری قرار دیا ہے اور جھوٹ اور خیانت کے متعلق صلى الله فرمایا کہ اگر یہ اکٹھے ہو جائیں تو پھر مومن کہلا ہی نہیں سکتا، اس کا ایمان ہی باقی نہیں رہتا.قرآن کریم میں خیانت کے مختلف پہلو بیان فرمائے ہیں اور کوئی پہلو ایسا نہیں ہے خیانت کا جس پر روشنی نہ ڈالی ہو.عجیب کتاب ہے کہ ہر مضمون کے ظاہر کو پیش کرتی ہے اور باطن کو بھی پیش کرتی ہے، بڑی چیزوں کو بھی بیان کرتی ہے، چھوٹی باریک در بار یک چیزوں کو بھی بیان کرتی ہے اور کوئی علم کا ایسا مضمون نہیں ہے جس کی انسان کو ضرورت ہو اس پر قرآن کریم نے تفصیل سے گہری روشنی نہ ڈالی ہو.یعنی وہ علم جو انسان کی روح کی نجات کیلئے ضروری ہیں.جہاں تک بدنی روح کا تعلق ہے ان کے بھی بڑے گہرے اشارے موجود ہیں لیکن اس وقت یہ گفتگو اس موضوع پر نہیں ہور ہی اس لئے میں واپس پہلے والے مضمون کی طرف آتے ہوئے قرآنی آیات کی روشنی میں آپ کو خیانت کی بعض قسموں سے آگاہ کرتا ہوں اور ان پر آپ نظر رکھیں اور پھر دیکھیں کہ آپ میں آپ کے گھر والوں میں، آپ کے بچوں میں ان قسموں میں سے کون سی خیانت پائی جاتی ہے اور اگر وہ پائی جاتی ہے تو اس کا سرتوڑے بغیر آپ تبتل الی اللہ اختیار نہیں کر سکتے.جو خیانت پائی جاتی ہے اس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 700 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء کی رسی آپ کی گردن پر ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن طوق ہوگا.خائنوں کی گردن میں وہ دراصل یہی رہی ہے جو دنیا میں انسان کو نیکیوں سے باز رکھتی ہے اور بدیوں سے باندھے رکھتی ہے اور جن طوقوں کا ذکر ہے قرآن کریم میں کہ جن سے انبیاء آزاد کیا کرتے ہیں، محمد رسول اللہ اللہ نے قوموں کو آزا د کیا اور وہ ان میں خیانت کا طوق ایک بہت ہی خطر ناک طوق ہے.قرآن کریم فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الانفال:۲۸) کہ اے وہ لوگو جوایمان لائے ہو اللہ کی اور رسول کی خیانت نہ کرو وَ تَخُونُوا آمَنَتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور تم اپنی امانتوں میں خیانت کرتے ہو اور جانتے بوجھتے ہوئے کرتے ہو.اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو روز مرہ کے انسانی معاملات میں اپنے معاشرے میں خیانت کرنے سے نہ جھجکتے ہوں وہی لوگ ہیں جو لازماً پھر رسول اور خدا کی خیانت بھی کرتے ہیں.انسان سے خیانت کرنا انسان کے دائرے تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسا خائن خدا اور رسول کی خیانت کرنے والے بن جایا کرتا ہے.اس لئے فرمایا ہے تم خدا اور رسول کی خیانت کرنے والے نہ ہو کیونکہ بعض خیانتیں انسان اللہ اور رسول کی ایسے کرتا ہے جس کا اس کو کوئی علم نہیں ہوا کرتا لیکن جو انسان کی کرتا ہے وہ جانتا ہے.تو جو جانتا ہے اس سے اشارہ کیا اس طرف جس کو وہ نہیں جانتا اور بتایا کہ تمہیں اگر علم نہ بھی ہو کہ تم اللہ اور رسول کے خائن ہو یا درکھنا کہ اگر تم بندوں کے خائن ہو تو تم خدا اور رسول کے بھی خائن ہو تمہیں علم ہو یا نہ ہو.پس ایک یقینی علم دوسرے مشکوک علم کی طرف اشارہ کر رہا ہے یا حاضر ، غائب کی طرف اشارہ کر رہا ہے.فرمایا یہاں ایسے ہو تو وہاں بھی ایسے ہی ہو گے.ہم تمہیں بتارہے ہیں.یہ ایسا ہی مضمون ہے جیسے فرمایا کہ جو بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا.تو خائن آدمی تقسیم نہیں کیا کرتا ، ایسے مولوی جو مال کھا جاتے ہیں ان مساجد کے یا دوسرے چندے جن کو دیئے جاتے ہیں، وہ اپنی طرف سے بڑی دین کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہاں انسانوں کا تو کوئی حرج نہیں خدا کے خائن نہیں ہیں ، ان کے لئے اس میں بڑی نصیحت ہے.اگر وہ دنیا میں خیانتیں کرتے ہیں تو خدا کہتا ہے کہ ان خیانتوں کا تمہیں علم ہے اور ہمیں یہ علم ہے کہ تم خدا اور رسول کے
خطبات طاہر جلدا 701 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۹۲ء بھی خائن ہو کیونکہ ناممکن ہے کہ انسان بندے کا خائن ہو اور خدا اور رسول کا خائن نہ ہو.پھر قرآن کریم فرماتا ہے.اِنَّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَيكَ اللهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَاسِنِينَ خَصِيمًا (النساء:۱۰۶) کہ ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے تا کہ تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرے اور لوگوں کو حکمت کی باتیں بتا لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ میں حق کے اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا بھی داخل ہے اور حکم میں حکمت کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.بِمَا أربك الله اس روشنی کے ساتھ یہ فیصلے کرے اور حکمت کی باتیں بیان فرمائے کہ جو خدا نے تجھے دی ہے.اس نور سے یہ فیصلے کرے جو خدا نے تجھے عطا فرمایا ہے.بِمَا أَرَيكَ اللهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيصًا سب کیلئے دعائیں بے شک کرمگر خائنین کے لئے ہمارے حضور دعا نہ کرنا.خصیم کا لفظ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی ان معنوں میں استعمال ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے انبیاء کو منع فرمایا ہے اور اسی طرح جبرائیل امین کو بھی کہ خائن کی حمایت میں کچھ نہ کہنا اور یہ لفظ نصیحت صرف خدا ہی سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ دنیا سے بھی تعلق رکھتی ہے.جہاں بھی ایک خائن کا معاملہ در پیش ہو اس کی حمایت میں کچھ نہیں کہنا چاہئے.بعض دفعہ لوگ بعض ایسے لوگوں کی سفارش کرتے ہیں جن سے غلطیاں ہوئیں، فلاں غلطی ہوگئی انہیں معاف کر دیا جائے اور خائنین کی بھی کر دیتے ہیں.مثلاً بعض ایسے واقعات ہیں بہت کم ہوتے ہیں اللہ کے فضل سے مگر شاذ کے طور پر مگر ہوتے ہیں کہ جماعتی احوال میں کسی نے خورد برد کی ہے.لوگ تو چٹھیاں لکھتے ہیں کہ اللہ بہت رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (التوبہ: ۱۲۸) ہے رسول اکرم یہ بے حد مہربان تھے.قرآن مجید نے ان کو رَءُوفٌ رَّحِیم قرار دیا.اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتا ہے.تو آپ جب خدا کی رحمت ، مغفرت کے گن گاتے ہیں، محمد رسول اللہ اللہ کی رحمت ، مغفرت کے گن گاتے ہیں تو کیوں ایسے لوگوں سے صرف نظر نہیں کرتے ان کو معاف نہیں فرماتے.تو ان کو پتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا ہے کہ خائن سے نہ رعایت کرنی ہے نہ اس کی وکالت کرنی ہے.تو جماعت کو اس مضمون کو سمجھنا چاہئے.دنیا کے معاملات میں بھی خائن کی کوئی حمایت نہیں کرنی چاہئے اور انبیاء کو جب فرمایا جاتا ہے وَلَا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيصًا تو لفظ خصم جو ہے یہ صرف برائی کے معنوں میں نہیں ہوتا.جھگڑا بلکہ شدت سے کسی کی وکالت کرنا دل ڈال کر ، جان ڈال کر کسی کی وکالت کرنا اور
خطبات طاہر جلدا 702 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء سفارش کرنا اس کو بھی خصومت کہتے ہیں.تو آنحضرت ﷺ کوبھی یہ نصیحت فرمائی گئی کہ تم خائنین کیلئے ہمارے پاس کوئی دعا اور سفارش نہ کرنا.وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء : ۱۰۷) اللہ سے بخشش مانگو اور خدا بہت غفور رحیم ہے بہت مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.اس آیت نے وہ سارے وہم دور کر دئے کہ اگر انسان خائنوں سے مغفرت نہیں کرے گا تو خدا کی مغفرت سے محروم رہ جائے گا.جو لوگوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا ، خدا بھی اس سے رحم کا سلوک نہیں کرتا.یہ وہی واہمہ ہے جس نے بعض لوگوں نے خائنوں کی سفارش کرنے پر مجبور کیا.تو قرآن کریم کا اعجاز دیکھیں کہ جہاں ایک دفعہ خائنوں سے نرمی نہ کرنے کا حکم دیا ہے، یہاں تک کہ ان کی سفارش سے بھی روک دیا، ان کے لئے دعا سے روک دیا.وہاں اس بات کا یقین دلایا کہ خدا کی خاطر تم ایسا کرو گے، خدا کی مغفرت سے محروم نہیں رہو گے.اللہ سے مغفرت طلب کرو، بہت ہی غفور رحیم ہے.مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نے کسی خائن میں کوئی ایسی نیکی دیکھی کہ اس کی مغفرت کا فیصلہ کرے یہ بھی ایک مطلب ہے تو وہ چاہے تو کر سکتا ہے لیکن تمہیں بیچ میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں.دو پیغام اکٹھے مل گئے ایک طرف خائن کے لئے دعانہ کرنے والے کو یہ پیغام ہے کہ اس کے نتیجے میں خدا تم سے اسی طرح مغفرت کا سلوک کرتا رہے گا جیسے پہلے کرتا تھا کہ تم خدا کی خاطر رکے ہو اور دوسری طرف یہ بھی اعلان ہے کہ خدا کو اپنی بخشش اور مغفرت کے سلوک کیلئے تمہاری سفارش ، تمہاری دعاؤں اور التجاؤں کی ضرورت نہیں ہے.خائن کا معاملہ مخفی ہے اور یہ وہ مضمون ہے جو پہلے حدیث میں بیان ہوچکا ہے.ایک خیانت کی بیماری مخفی بیماری ہے اور اس کی کنہ تک انسان پہنچ نہیں سکتا.کچھ ظاہری خیانتیں اس کو دکھائی دیتی ہیں یہ نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا کیا خیانتیں تھی اور جڑیں کہاں کہاں پہنچ ہوئی ہیں اور اس مضمون سے واقف نہیں کہ جو تھوڑی سی خیانتیں ظاہر پر اس کو دکھائی دی ہیں.اللہ فرما رہا ہے کہ یہی شخص خدا اور رسول کا بھی خائن ہے.تو کن معنوں میں ہے.بیماری اندر کہاں کہاں تک پھیلی ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اللہ بہتر جانتا ہے اور ساتھ قرآن نے یہ بھی تسلی دی کہ اگر کسی کو معاف فرمانا چاہے اللہ تو بہت غفور رحیم ہے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے.ایسا خائن جس کی بعض کمزوریوں پر کوئی
703 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء خطبات طاہر جلد ۱۱ نظر ہے خدا کی، اس کی بعض خوبیوں پر بھی تو نظر ہوگی اور وہ جانتا ہے کہ کس حد تک بیماری پھیلی کس حد تک صحت کے امکانات ہیں.تو اللہ پر اس معاملے کو چھوڑو بہت غفور رحیم ہے جس سے چاہے گا حسن سلوک فرمائے گا.وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ اَنْفُسَهُمْ (النساء: ۱۰۸) پہلے خصومت کا ذکر تھا اب مجادلہ کا ذکر فرمایا ہے.فرمایا ہے کہ ان کیلئے کسی قسم کی کوشش اور جہاد نہ کرو يَخْتَانُونَ ان لوگوں کیلئے جو اپنے نفس کی بددیانتی کرتے ہیں، اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں.يَخْتَانُونَ اَنْفُسَهُمْ - اَنْفُسَهُمْ کے معنی دو ہیں اول اَنْفُسَهُم سے مراد قوم اور سوسائٹی ہے.ایسے لوگ جو اپنی قوم اور اپنی سوسائٹی سے بددیانتی کرتے ہیں اور ان کے عہدوں کو نبھاتے نہیں ہیں ان سے رعایت نہیں کرتے اور ان کی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے ان لوگوں کے متعلق فرمایا ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہئے.دعا کیذریعے کسی اور کے ذریعے سے ان کے حق میں کوئی لڑائی نہ کرو.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَانًا اَشِيمًا اور یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ خائن گناہ گار سے محبت نہیں کرتا.اَشِیما کا خالی استعمال نہیں فرمایا یہاں.فرمایا خَوَانًا أَثِيمًا بہت زیادہ خائن، ایسا خائن جو حد سے بڑھ چکا ہو اور پھر گناہ گار بھی ساتھ ہر قسم کا ہو وہ تو ہونا ہی ہونا پھر اس نے.فرمایا اللہ ان سے محبت نہیں کرتا.یہ جو محاورہ ہے اللہ محبت نہیں کرتا.میں نے پہلے بھی سمجھایا تھا مراد یہ نہیں کہ محبت نہیں کرتا چلو نفرت بھی نہیں کرتا ہو گا.محبت نہ کرنے کا عربی کا محاورہ ہے سخت نفرت کرتا ہے کسی قیمت پر بھی ان کو برداشت نہیں کرتا.اللہ کا محبت نہ کرنا ایک بڑا گہرا بیان ہے.اس کو آپ خوب غور سے سمجھنا چاہئے.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر خدا اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نگاہ رکھتا تو کسی سے اس کا تعلق نہ رہتا لیکن اپنے بندوں کی کسی نہ کسی خوبی پر نظر رکھ کر وہ ان سے تعلق رکھتا ہے.ہیں جس شخص کے متعلق یہ آجائے کہ خدا اس سے محبت نہیں رکھتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر کوئی خوبی نہیں پاتا.کوئی تعلق کیلئے مشترکہ زمین نظر نہیں آتی جس پر وہ تعلق قائم ہو سکے.پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ نے ایسی گہری عرفان کی باتیں ہمیں سمجھائیں ہیں کہ ایک مضمون دوسرے مضمون کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے.کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا میں
خطبات طاہر جلدا 704 خطبه جمعه ۲ را کتوبر ۱۹۹۲ء فلاں سے محبت نہیں کرتا ، فلاں سے محبت نہیں کرتا تو مراد یہ ہے کہ میں اسے خوبیوں سے عاری دیکھتا ہوں.چاہتا بھی ہوں تو اس سے پیار نہیں رکھ سکتا.تو وہی مضمون ہے کہ جس طرح بھوکے کے گھر کے سامان پک جاتے ہیں ، اس کے تن بدن کے کپڑے پک جاتے ہیں اور بھوک اس کا لباس بن جاتی ہے.اس طرح خیانت اندرونی طور پر انسان کا حال کرتی ہے.کوئی رونق اندر باقی نہیں رہنے دیتی ساری خوبیاں برباد ہو جاتی ہیں.یہ خیانت کے آخری مقام کا ذکر ہے.چنانچہ قرآن کریم نے یہاں اس موقع پر خائن نہیں فرمایا اس آیت میں دوسری آیتوں میں خائن کا ذکر ہے یہاں فرماتا ہے لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَانًا أَثِيمًا حد سے بڑھے ہوئے خائن جو خیانت میں اپنے آخری مقام تک پہنچ جاتے ہیں.ان میں پھر خدا کوئی خوبی نہیں دیکھتا، کوئی ایسی بات نہیں دیکھتا کہ خدا ان سے تعلق قائم رکھ سکے.يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ هِ لوگوں سے چھپتے پھرتے ہیں.اللہ سے چھپ نہیں سکتے.چنانچہ آنحضور ﷺ نے اسے باطن کی بیماری اسی لئے قرار دیا ہے.باطن کی بیماری کئی رنگ میں ہے ایک یہ بھی رنگ ہے کہ خائن دنیا کی نظر سے چھپتا ہے اپنی بات کو چھپاتا ہے اور فرمایا کہ چھپتے ہوں گے مگر وہ اللہ کی نظر سے نہیں چھپ سکتے.وَهُوَ مَعَهُمْ اِذْيُبَيِّتُونَ ( النساء ۱۰۹) وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب ایسی رات گزارتے ہیں جس میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں.وَكَانَ اللهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا اور اللہ خوب اچھی طرح گھیرے ہوئے ہے ان باتوں کو جو وہ کرتے ہیں.یعنی چاروں طرف سے وہ خدا کے گھیرے میں ہے اس سے نکل نہیں سکتے ، اس سے بچ نہیں سکتے.تو خیانت کا مرض بہت ہی گہرا اور خطر ناک مرض ہے یہ عمومی مضمون ہے جو بیان ہوا اس کے بعد تفصیلی مضمون بھی قرآن کریم میں بیان ہوتا ہے کہ کن کن موقعوں پر، کس کس محل پر انسان خیانت کرتا ہے اور پھر بالآخر خوانا کس شکل میں بنتا ہے.اب تو وقت ختم ہورہا ہے میں انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ جمعہ میں اس مضمون کو پھر آگے بڑھاؤں گا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ باقی پاکستان اور جاپان اور انڈونیشیا اور افریقہ کے ممالک اور ہندوستان وغیرہ وغیرہ میں جو احمدی دوبارہ اس خطبے کو براہ راست سن یا دیکھ رہے ہیں.ان سب کو میں اپنی طرف سے بھی اور تمام جماعت انگلستان کی طرف سے بھی نہایت محبت بھر اسلام پہنچا تا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 705 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء احمدی اسلامی جہاد سے کبھی پیچھے نہیں رہیں گے.آج بوسنیا میں جہاد بالسیف جائز ہے.امانت و خیانت کا جاری مضمون خطبه جمعه فرموده ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.خطبات میں مضامین کے جو سلسلے چلتے ہیں ان میں بعض دفعہ یہ وقت پیش آتی ہے کہ بعض واقعات ایسے گزرتے ہیں جن پر فوری تبصرہ ضروری ہوتا ہے اور جن کے متعلق جماعت کو بعض دفعہ نصیحت کرنی پڑتی ہے، بعض دفعہ تحریک کرنی پڑتی ہے، بعض دفعہ اُن کی راہنمائی کرنی پڑتی ہے.تو اسی لئے میں خطبات کے سلسلے کے دوران ہی اب ابتداء میں چند اور باتیں کرتا ہوں تا کہ وقت کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں اور سلسلہ بھی جاری رہے.اس ضمن میں چند دن پہلے میں نے سوچا کہ بوسنیا سے متعلق میں جماعت احمدیہ کو صورت حال سے مختصراً آگاہ کرتے ہوئے ایک اہم اعلان کروں اور یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف ہے کہ مجھے اطلاع ملی کہ بوسنین مسلمانوں کا ایک مہاجر گروہ ملاقات کا خواہشمند ہے اور انہوں نے جمعہ ہی کا وقت دیا ہے اور جمعہ وہ ہمارے ساتھ پڑھیں گے چنانچہ آج جمعہ میں وہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے اس جمعہ میں شریک ہو رہے ہیں.اس سے مجھے یہ یقین ہوا کہ یہ تصرف الہی ہی تھا اور ان دونوں باتوں کا آپس کا انطباق کوئی حادثہ نہیں کوئی اتفاق نہیں بلکہ واقعہ یہ مضمون بیان کرنا ضروری تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 706 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء جماعت احمدیہ پر بہت سے مسلمان علماء اور اب حکومتیں بھی ان میں شریک ہو چکی ہیں مدت سے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہم جہاد کے قائل نہیں ہیں حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بالکل واضح موقف ہمیشہ یہ رہا اور جماعت احمدیہ کا ہمیشہ سے یہی موقف چلا آ رہا ہے کہ قرآن کریم نے جس جہاد کا ذکر فرمایا ہے وہ اپنی تمام تر صورتوں میں ، تمام شرائط کے ساتھ ہمیشہ جاری رہنے والا ایک سلسلہ ہے، جہاد بالسیف اُس کی ایک قسم ہے اور جب بھی جہاد بالسیف کی شرائط پوری ہوں، جہاد بالسیف بھی اُسی طرح فرض ہوگا جیسے دوسرا جہاد ہے لیکن شرائط کے ساتھ اور قرآن کریم کی بیان کردہ حدود کے اندر، ان کو پھلانگ کر نہیں.اس ضمن میں بوسنیا کے متعلق مجھے کامل یقین ہے کہ اگر اس دور میں ہم نے اسلامی جہاد کا کوئی موقع دیکھا ہے جہاں اسلامی جہاد کا تصور واقعی منطبق ہوتا ہے تو وہ بوسنیا کی صورت حال ہے.اس سے پہلے افغانستان کے متعلق بھی بہت جہاد کی باتیں ہوئی ہیں لیکن ایک فرق ہے بوسنیا اور افغانستان کے حالات میں.افغانستان میں اس وجہ سے افغان باشندوں کو اپنے ملک سے در بدر نہیں کیا گیا کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی مسلمان ہی تھے اور محض اسلام کی بناء پر ان کو ملک سے باہر نہیں نکالا گیا ، ہاں کیونکہ وہ طاقت جس نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل دیا اور اپنے نظام کو افغانستان پر ٹھونسنے کی کوشش کی وہ طاقت ایک بے دین طاقت تھی.اس لئے اس کے خلاف احتجاج میں اور نفرت کے اظہار کے طور پر کہ ہم کسی کو زبردستی اپنا نظام نہیں بدلنے دیں گے وہ لوگ اپنے ملک کو چھوڑ کر گھر سے بے گھر ہوئے.یہ جہاد کی ایک قسم قرار دی جاسکتی ہے اس میں ہرگز کوئی شک نہیں.لیکن بعینہ وہ جہاد نہیں جس کا قرآن کریم میں کھلم کھلا ذکر ہے.جیسا کہ سورۃ حج میں جب جہاد کی اجازت دی گئی تو فرمایا گیا ذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا الله (المج:۴۰ ۴۱) کہ اجازت دی جاتی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف تلوار اُٹھائی جارہی ہے اور ظلم کے طور پر اُٹھائی جارہی ہے کوئی حق نہیں ہے تلوار اٹھانے والوں کو.وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے محض اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے یعنی دین کی خاطر ، خدا کی خاطر محض یہ وجہ دشمنی کی تھی ورنہ اور کوئی دنیاوی دشمنی نہیں تھی.بوسنیا میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہورہا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 707 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء ہے اور بے انتہا مظالم ہورہے ہیں اُن میں صرف اسلام وجہ ہے.چنانچہ مغربی قو میں بھی اور ان کے تمام نشریاتی ادارے بھی بار بار مسلمان کا ذکر کرتے ہیں اور قومی ذکر نہیں کرتے.چنانچہ بعض دفعہ بعض ناقدین نے ان کو متوجہ بھی کیا.انہیں کہا تم کیوں بار بار مسلمان کہتے ہو یہ کیوں نہیں کہتے کہ بوسنیا کے خلاف سر بزنے حملہ کیا ہوا ہے.تو جو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں سربین اور بوسنین کی لڑائی نہیں بلکہ بوسنین کے اسلام کی وجہ سے بوسنین سے نفرت کی جارہی ہے اور جس رنگ کے مظالم وہاں توڑے جارہے ہیں وہ بلاشبہ Hitler کے دور کو بھی شرماتے ہیں.بعض ایسے جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے، دنیا کے ظلم کی تاریخ میں ایسے ابواب کا اضافہ ہورہا ہے، جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے یا سنے گئے تھے.پس بوسنیا کی صورتِ حال اس آیت کریمہ کے تابع ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی سورہ حج کی آیت جس میں اُذن لِلَّذِینَ کے ذریعہ مسلمانوں کو بعض مظلوموں کو ، بعض خاص حالات میں تلوار اُٹھانے کی اجازت دی اور اس کو خدا کی خاطر جنگ قرار دیا ہے اور یہ وعدہ فرمایا کہ اِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ تم کمزور ہو ، مظلوم ہو ، گھروں سے بے گھر کئے گئے ہو، لیکن ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تم خدا کی خاطر اس اجازت کے پیش نظر اپنے دفاع میں تلوار اُٹھاؤ گے تو اللہ تمہاری نصرت پر قادر ہے.وہ جب چاہے گا تمہیں فتح عطا فرمائے گا.تعجب کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے بے محل اور بے موقع جہاد کی باتیں کرتے ہوئے تھکتے نہیں مگر آج جب جہاد کا موقعہ ہے تو تمام اسلامی حکومتیں اس بارے میں خاموش ہیں اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اُٹھ کھڑی ہو اور سر عام دنیا کوللکار کر کہے کہ یہ موقع ایسا ہے جہاں اسلام نے جہاد کی اجازت دی ہے اس لئے ہم اس حق کو استعمال کریں گے.تمام کے تمام ایسی بڑی طاقتوں سے مغلوب ہیں اور ان کے محکوم ہیں، ان کے ساتھ غلامانہ تعلقات رکھتے ہیں کہ جو ان کو خدا سے بھی زیادہ طاقتور دکھائی دیتی ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تقاضے ایک طرف ہوں اور ان حکومتوں کی رضا کے تقاضے دوسری طرف ہوں وہاں خدا کی بالا دستی کو ایک طرف چھوڑ کر جس کے قائل ہیں اور بالآخر ہر ایک کو قائل ہونا ہی پڑے گا، ان کی بالا دستی کے تابع ہو جاتے ہیں ، یہ انہیں نزدیک دکھائی دیتی ہے.جیسے پنجابی میں کہتے ہیں اللہ نزدیک ہے، نہایت بیہودہ قسم کا محاورہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 708 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء ہے مگر ہے کہ خدا نزدیک ہے کہ مکا.تو جہاں اپنے مطالب دکھائی دیں تو وہاں منگا نزدیک دکھائی دیتا ہے اور خدا دور دکھائی دیتا ہے.اسلامی جہاد انفرادی طور پر شرائط کے بغیر نہیں ہوسکتا اور کسی ایسی سرزمین پر نہیں ہوسکتا جس زمین کا قانون وہاں کے رہنے والوں اور باشندوں کو اس کی اجازت نہ دے اس لئے وہ لوگ جو امریکہ میں مسلمان بستے ہیں وہ مجبور ہیں ان کے متعلق یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ خدا کی بالا دستی کو ترک کر کے دنیا کی بالا دستی کو قبول کر رہے ہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ملکی قانون کے خلاف بغاوت کرو اور پھر جہاد کرو.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے مکہ میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہیں دی.ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہے.تمام ظلم کی تاریخ میں جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں بسنے والے مظلوموں کو اجازت دی ہو کہ تم یہیں رہو اور ان کے بالا قانون کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے خلاف تلوار اُٹھاؤ.ہجرت کا حکم اس لئے ہے کہ جب تم ایک ظالم حکومت کے تابع ہو، اگر تم جہاد کرنا چاہتے ہو تو تمہارا پہلا فرض ہے کہ وہاں سے نکلو اور پھر ایسے آزاد علاقہ میں جہاں وہاں کے قوانین تمہیں اجازت دیتے ہوں یا قوانین خود تمہارے قبضہ قدرت میں ہوں وہاں اس کا انتظام کرو.پس یہ اولین فرض مسلمان حکومتوں کا ہے.امریکہ میں بسنے والے مسلمان یا یورپ میں بسنے والے مسلمان یا ایسے ممالک میں بسنے والے مسلمان جہاں کے قانون ان کے اس قسم کی جدوجہد کی اجازت نہیں دیتے وہ مبرا ہیں اور قرآن کریم اور سنت کے مطابق ان پر کوئی حرف نہیں لیکن مسلمان حکومتوں پر ہے.اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنی زمین کو ان کے جہاد کے لئے پیش کریں اور کثرت کے ساتھ بوسنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیں ، وہاں ان کو پناہ دیں، وہاں ان کی تربیت کریں اور ان کی ہر صورت میں مدد کریں تا کہ وہ اُس سرزمین کو طاقت کے زور سے واپس لیں.جس سرزمین کو محض از راہ ظلم طاقت کے زور سے ان سے چھینا گیا ہے اور اس کا چھینے والوں کو کوئی حق نہیں تھا.اور اختلاف کی بنا اسلام ہے ،خدا کا نام ہے.عزت بیگ، جو بوسنیا کے مسلمان صدر ہیں ان کے خلاف جتنی نفرت کی مہم چلی ہے اور جو ظلم وستم کا سلسلہ جاری ہوا ہے، یہ اس بنا پر ہے کہ انہوں نے جو Election جیتا بوسنیا کا وہ اسلام کے نام پر جیتا ہے اور شروع سے آخر تک جھگڑا ہی اسلام کا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 709 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء پس پاکستان ہو یا ترکی ہو یا ایران ہو اُن کا اولین فرض ہے کہ بوسنیا کے مہاجرین کو قبول کریں بجائے اس کے کہ ان کو یورپ میں جگہ جگہ غیر اسلامی حکومتوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا جائے.ان کا احسان ہے جو پناہ دے رہی ہیں، غیر اسلامی حکومتوں کی پناہ لینا جرم نہیں بلکہ سنت سے صلى الله ثابت ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی یہ ہے کے زمانے میں پہلی ہجرت حبشہ کی طرف ہوئی جہاں ایک غیر اسلامی عیسائی حکومت تھی، اس لئے یہ بات خوب کھول کر بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ غیر اسلامی ممالک میں وہ پناہ لیں.اعتراض صرف یہ ہے کہ مسلمان ممالک کا اولین فرض ہے کہ نہ صرف اُن کو پناہ دیں بلکہ جہاد کی تیاری کے سلسلہ میں اُن کی ہر طرح مدد کریں.پاکستان بڑے دعوے کرتا ہے کہ ہم نے افغانستان کے جہاد میں عظیم الشان قربانیاں دیں اور اپنی سرزمین ان کے لئے پیش کر دی.اللہ بہتر جانتا ہے کہ منتیں کیا تھیں.ہمیں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی رضا کی خاطر، امریکہ کی تائید سے ، وہ زمین اُن کے سامنے پیش کی گئی اور جب تک امریکہ کی مدد شامل حال تھی وہ جہاد جاری رہا، جب امریکہ نے ہاتھ اُٹھالیا تو پاکستان نے بھی ہاتھ اُٹھا لیا.امر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی دنیا وی تقاضے تھے جن کی خاطر مدد دی گئی ہے.لیکن بیچ میں کچھ نیک لوگوں کی نیک نیتی بھی ہوگی.اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ جب ایک عام جہاد شروع ہوتا ہے تو بہت سے لوگ محض اللہ اس میں شامل بھی ہو جایا کرتے ہیں اس لئے ہم کوئی عمومی فتویٰ نہیں دے سکتے کہ اُس جہاد میں جو شامل تھے اُن کے دنیا کے تقاضے تھے، دنیا کی خاطر انہوں نے کام کئے.پاکستانی فوج میں بھی بہت سے ایسے جوان ہوں گے جنہوں نے خالصتہ اللہ کسی رنگ میں اس میں حصہ لیا اور قربانیاں پیش کیں.پس ایسے لوگ تو یقیناً اللہ کی جزا پائیں گے.مگر امتحان کا وقت اُس وقت آتا ہے جب ایک ہی قسم کی صورت حال دوبارہ پیدا ہو اور دوسری صورتِ حال میں بات کھل جائے اور ٹنگی ہو جائے.پس اگر امریکہ کی رضا حکومت پاکستان کے پیش نظر نہیں تھی اور خدا کی رضا تھی تو آج خدا کی رضا کا پہلے سے بڑھ کر تقاضا ہے کہ بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی اُس سے بڑھ کر مدد کی کوشش کرو جو تم نے اپنے افغان بھائیوں کی کی تھی.وہاں ان کو بلایا جائے ، ان کو خوش آمدید کہا جائے ، ان کے یتامی کو ایسے خاندانوں میں تقسیم کیا جائے جو محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ ، ماں باپ کا حق ادا کرسکیں.اور پھر ان کے جوانوں کو فوجی تربیت دی جائے ، ہر قسم کی مدد دی جائے اور اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ اوّلین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 710 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء فرض پاکستان بحر کی اور ایران کا ہے.یہ تینوں حکومتیں مل کر یہ پروگرام بنا ئیں بجائے اس کے کہ ہر ایک اپنے اپنے نہج پر الگ الگ مدد یا تیاری کا سلسلہ شروع کرے اور یہ کرنا نہ صرف یہ کہ اسلام کے منشاء کے عین مطابق ہے بلکہ دنیا کے آج کے قوانین اور United Nations کے قوانین کے بھی بالکل مطابق ہے اور دنیا کی کسی طاقت کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے افغانستان کے معاملہ یہ مثال پوری طرح قائم ہو چکی ہے.زیادہ سے زیادہ ان کو یہ خوف ہوگا کہ امریکہ اعتراض کرے گا.امریکہ کیسے اعتراض کرے گا اُس نے تو خود جہاد کے نام پر افغانستان کی مدد کی ہوئی ہے.امریکہ کی مدد کے سہارے تو پاکستان نے یہ سلسلہ آگے چلایا تھا اور پاکستان کی سرزمین میں جہاد کرنے والے تیار ہوتے تھے اور افغانستان پر حملہ کیا جاتا تھا.یہ جب نظیر قائم ہوگئی توUnited Nations کے کسی ممبر نے کسی بڑی یا چھوٹی حکومت نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور سب سے طاقتور حکومت جو United Nations کی ممبر ہے وہ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ دار تھی.تو آج کس کا حق ہے کہ اس پر اعتراض کرے اس لئے عقلاً ، قانونا، انصاف ، رواجاً کسی کا حق نہیں ہے.تو پھر ڈرتے کس سے ہو؟ اندرونی خوف کے کچھ تقاضے ہوں جو ہمارے علم میں نہ ہوں تو الگ بات ہے ، ورنہ ظاہری طور پر جب خدا کا منشاء بھی اور دنیا کی طاقتیں بھی اس تحریک پر عملاً بات کر چکی ہوں جس کی میں تمہیں توجہ دلا رہا ہوں تو پھر کسی خوف کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اور اگر خوف ہو بھی تو یہ وقت نہیں ہے کہ جب خوف کا اظہار کیا جائے کہ پوری مسلمان قوم کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے اور ایسے خوفناک مظالم توڑے جا رہے ہیں کہ اُن کے بیان کی بھی طاقت نہیں ہے.اگر میں بیان کروں تو مجھے اپنے جذبات پر قابو نہیں رہے گا.آپ اخباروں میں خبریں پڑھتے ہیں، ٹیلی ویژن پر پروگرامز دیکھتے ہیں، جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اگر پاکستان کی حکومت ایسے جہاد کا اعلان کرتی ہے جس میں پاکستانی بھی شریک ہوں تو میں تمام احمد یوں کو تحریک کرتا کہ وہ بڑھ کر اس میں حصہ لیں اور بتائیں کہ ہم اسلامی جہاد میں کسی سے پیچھے رہنے والے نہیں بلکہ صفحہ اول میں آگے بڑھ کر لڑیں گے اور یہ پہلے بھی ہو چکا ہے.جب بھی اسلام کے تقاضے کسی جہاد کا اعلان کرتے ہیں یا جہاد کی تحریک اسلامی تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے تو جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہی بلکہ ہمیشہ آگے بڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں.پس اس موقع پر بھی جماعت احمدیہ کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 711 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۹۲ء اعلان ہے اور باقی دنیا کی جماعتوں کو میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ سرب جو مہا جر آئے ہیں ان کے ساتھ محبت کا سلوک کریں، ان سے تعلقات قائم کریں، ان کی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کریں اور اُن کے ذریعہ اگر ان کے بچے مل سکتے ہوں تو ان کے بچوں کو پالا جائے.مغرب میں بعض قوانین کی دقتیں ہیں اُن سے متعلق ہم نے غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن وقتوں کے باوجود احمدیوں کیلئے ممکن ہے کہ وہ سرب بچوں کو اپنا ئیں اور ان کیلئے ماں باپ سے زیادہ محبت کا سلوک کرنے کی کوشش کریں.ان سے ماں باپ سے بڑھ کر محبت کا سلوک کرنے کی کوشش کریں.وہ اللہ مظلوم ہیں اور اپنے بچوں سے محبت کرتے وقت تو آپ کے طبعی تقاضے ہیں اُس میں بھی نیکی ہوتی ہے کہ خدا کی خاطر محبت کی جائے.مگر ایسے بچے جو محض خدا کی خاطر یتیم بنائے گئے ہوں یہ وقت ہے کہ ان سے غیر معمولی محبت اور پیار کا سلوک کیا جائے.اور احمدی گھروں میں زیادہ سے زیادہ ان کو اپنایا جائے.پس جن ممالک میں قانونی روک کوئی نہیں ہے وہاں تو احمدیوں کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ اُن بچوں کو اپنا لیں.جہاں قانونی روکیں ہیں وہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ عارضی طور پر امانتاً وہ بچے لئے جائیں.مستقل بچہ لینا Adopt کرنا جس کو کہتے ہیں یہ نہ تو اسلام میں ویسے Adoption جائز ہے.یعنی ان معنوں میں Adoption کہ گویا وہ جائداد میں بھی شریک ہو جائے گا اور جو قوانین انسانی تعلقات کے ہیں وہ اُس بچہ پر بھی اطلاق پائیں گے اور اُس کے منہ بولے ماں باپ پر بھی اطلاق پائیں گے یہ Adoption ہے جس کی راہ میں بہت دقتیں ہیں.اور احمدیوں کو ایسی Adoption میں دلچسپی بھی کوئی نہیں کیونکہ وہ خلاف اسلام ہے.ہم امین بن کر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور اُن کے نتیجے میں نہ ہمیں کوئی ملکی حقوق حاصل ہوں گے کسی قسم کے نہ اُن بچوں کو کوئی ایسے حقوق حاصل ہوں گے جو قرآن کریم کے جاری کردہ نظامِ وراثت پر اثر انداز ہوں.اس پہلو سے ان حکومتوں کی طرف سے بھی ایک راستہ کھلا موجود ہے اور وہ امانتا وہ بچے سپرد کر دیتے ہیں بعض دفعہ تھوڑی دیر کیلئے بعض لمبے عرصے کیلئے.چنانچہ پانچ ، دس سال، پندرہ سال بھی ان بچوں کی خدمت کی توفیق مل جائے تو ایک بہت بڑی خدا تعالیٰ کی طرف سے سعادت ہوگی.تو یورپ کے ممالک میں ہر احمدی کو چاہئے یہ کوشش کرے اور ان مظلوموں سے تعلقات قائم کریں اور ان کی انسانی سطح پر ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرے اور جوضرور تیں ان کی طاقت سے بڑھ کر
خطبات طاہر جلدا 712 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء ہوں اور کسی اور طرف سے پوری نہ ہو رہی ہوں اُن سے متعلق جماعت کو متوجہ کریں.انشاء اللہ تعالیٰ جماعت اس معاملہ میں اپنے مظلوم بھائیوں کی ہر طرح مدد کرنے کی کوشش کرے گی.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت جس طرح کہ ہمیشہ ہر نیک تحریک پر ضرور لبیک کہتی ہے اس تحریک پر بھی انشاء اللہ ضرور لبیک کہے گی.خدا کرے کہ مسلمان حکومتوں کو بھی لبیک کہنے کی توفیق ملے ورنہ یہ نہ ہو کہ آئندہ زمانہ ان پر طعن کرے کہ ناداں جھک گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا پہلے قیام کی باتیں کیا کرتے تھے جب سجدوں کا وقت تھا، قیام کا وقت آیا ہے تو سجدوں میں جا پڑے ہیں.یہ بے محل اور بے ترتیب بے سلیقہ باتیں ہیں مومن کو زیب نہیں دیتیں.اب وقت ہے اسلامی جہاد کا، اس جہاد میں تمام اسلامی ملکوں کو پوری طرح حصہ لینا چاہئے اور غیر اللہ کے خوف کو بالکل دل سے نکال دینا چاہئے.دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ USSR کے سابقہ علاقوں اور ریاستوں میں جماعت احمدیہ کو میں نے نصیحت کی ہے اور کئی رنگ میں نصیحت کی ہے کہ وہ اپنے تعلقات بڑھائیں اس سے پہلے ایک تحریک کی تھی پچھلے خطبے میں کہ بعض صاحب علم دوستوں کی مختلف Professions میں مہارت رکھنے والے افراد کی بعض مسلمان یا غیر مسلم ریاستوں کو بھی ضرورت ہے اور ان کے بعض نمائندوں نے ہم سے رابطہ پیدا کیا ہے اور خواہش کی ہے کہ جماعت صاحب علم دوست جن کا میں ذکر کر چکا ہوں اپنے اپنے مضمون سے تعلق رکھنے والے اپنے نام پیش کریں.ایک اور اعلان یہ کرنا ہے کہ بہت سے ایسے USSR کے ممالک ہیں جہاں کی یو نیورسٹیوں میں تعلیم کا معیار خدا کے فضل سے بہت اونچا ہے اور بہت کم خرچ پر وہاں طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اس لئے بجائے اس کے کہ مغربی یونیورسٹیوں کی طرف مشرق کے باشندے بھا گیں، یعنی امیر ملکوں کی جو Capitalist ممالک ہیں، اُن کی یو نیورسٹیوں کی طرف بھاگیں یہ وقت ہے کہ یہ مشرقی یورپ اور USSR کی ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں.جماعت احمد یہ اس سلسلے میں ہر طرح تعاون کرے گی.مرکزی طور پر ہم نے کافی معلومات اکٹھی کی ہیں.میں سمجھتا ہوں افریقہ کے غریب طلباء کے لئے بہت اچھا موقع ہے اور پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ کے طلباء کے لئے بھی بہت اچھا موقع ہے.ہمارے تعلقات خدا کے فضل
خطبات طاہر جلد ۱۱ 713 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء سے بڑھ رہے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی سفارش پر ایسے طلباء کو جو ذہین ہوں اور علم کی ایک بنیاد قائم کر چکے ہوں اُس بنیاد پر اعلیٰ عمارتیں تعمیر کرنے کے بہت اچھے مواقع فراہم ہوں گے اور اللہ کے فضل سے اُن علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی بھی توفیق ملے گی.پس جوطلباء بھی خواہش مند ہوں اپنے اپنے ملک کے سیکرٹری تعلیم یا ناظر تعلیم وغیرہ سے رابطہ قائم کر کے مکمل کوائف ہمیں بھجوائیں.اس عرصے میں جو معلومات ہمیں مہیا ہو چکی ہیں وہ ہم مختلف ممالک کو بھجوا دیں گے.جو معلومات حاصل ہوں گی مختلف ممالک کو بھجواتے رہیں گے تا کہ اگر ممکن ہو تو و ہیں جو مختلف ممالک کے نمائندے موجود ہیں سفیر موجود ہیں ان سے رابطہ کے ذریعہ اگر وہ اپنے داخلوں کا انتظام کر سکتے ہیں تو شوق سے کریں.یہ ضروری نہیں ہے کہ مرکز کی وساطت سے یہ کام ہو.جس جس ملک میں آسانی سے یہ کام ہو سکتا ہے مرکز سے مدد لئے بغیر وہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہاں اور بھی بہت سے کام ہیں لیکن جن کو ضرورت ہو اُن کو ضرور مدد دی جائے گی انشاء اللہ.تو طلباء بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جائزہ لیں جن جن کو توفیق ہے کہ وہ پورے خرچ برداشت کر سکتے ہوں وہ خود کریں کیونکہ خرچ زیادہ نہیں ہیں لیکن اگر کوئی غریب طالب علم ہوں جو خرچ نہ برداشت کر سکتے ہوں لیکن ان کا تعلیمی معیار یہ تقاضا کرتا ہو کہ ان کو اونچی کی تعلیم دلانی چاہئے ان کو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت بھی مدد دے گی اس لئے جنہوں نے درخواستیں یہاں بھجوانی ہوں اور کچھ مدد کے بھی طالب ہوں جو جائز ہے تو وہ اپنے نظام کی معرفت ایسی درخواستیں بھجوائیں.ایک اور تحریک یہ کی گئی تھی کہ احمدی تاجران ملکوں سے تجارتیں کریں اور اپنے نمائندے بھیجیں، جائزے لیں، یونیورسٹیز قائم کریں.اس ضمن میں جو میں نے وفد Belorussia بھجوایا تھا اُس وفد کی رپورٹ خدا کے فضل سے بہت ہی خوش کن ہے اور بعض وفود دیگر ریاستوں میں بھی گئے ہیں وہاں سے بھی اچھی اطلاعات ملی ہیں.بہت بھاری امکانات ہیں تجارتوں کے بھی اور Industry کے لئے بھی کیونکہ باوجود اس کے کہ روس Technology کے لحاظ سے اور صنعتی لحاظ سے بعض شعبوں میں مغرب کا مقابلہ کرتا تھا مگر وہ شعبے دفاعی شعبے ہیں یا جارحانہ شعبے ہیں جو روز مرہ کے انسانی فوائد سے تعلق رکھنے والے صنعتی شعبے ہیں اُن میں روس بہت پیچھے رہ گیا ہے.اور زیادہ تر اُن کے اقتصادیات دانتوں اور ناخنوں کو پالنے پر لگی رہی ہیں.گوشت پوست اور آنکھیں اور جگر
خطبات طاہر جلدا 714 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء اور دل وغیرہ کی غذا کی طرف توجہ کم رہی.اسی وجہ سے یہ نظام بالآخر نا کام ثابت ہوا.اور اب جبکہ سب کچھ کھلا کھلا دکھائی دینے لگا ہے تو جن جن اعضاء میں ان کی کمزوریاں ہیں وہ بالکل سامنے آگئی ہیں اور یہ خود اب اس بات کے خواہشمند ہیں کہ تمام ممالک کے خواہ وہ پسماندہ ہوں جیسے بھی ہوں وہ لوگ وہ افراد جو مدد کی اہلیت رکھتے ہیں ہماری مدد کریں.تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میدان میں بھی جو ایک قسم کا خدمت کا جہاد ہے جماعت احمدیہ کوصف اول پر رہنا چاہئے.تجارت کے سلسلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انگلستان کی جماعت سے فوری طور پر قربانی کی بہت اعلیٰ مثالیں سامنے آئی ہیں.چنانچہ وہ وفد جو Belorussia بھجوایا گیا تھا اُس میں فہیم بھٹی صاحب ہماری جماعت انگلستان کے مخلص کارکن ہیں جو Cassets کے انتظام کے بھی سر براہ ہیں یہ اور ان کے ساتھی بھٹی خاندان کے نوجوان مل کر ساری دنیا کوفور أCassets بھجوانے کا انتظام کرتے ہیں انہوں نے مجھے یہ پیشکش کی، یعنی رپورٹ جب ہوگئی اور زبانی باتیں ہو گئیں، اس کے بعد یہ پیشکش اس طرح کی کہ اپنی بیوی اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آئے اور کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ یہ وقت ہے کہ خدمت دین کیلئے اپنے سارے خاندان کو بیچ میں جھونک دو تو میں پیشکش کرتے ہوئے ان کو ساتھ لایا ہوں.آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو اس میدان میں جھونکنے کیلئے خوب تیار ہو کر آئے ہیں.چنانچہ اللہ کے فضل سے اُن کی بیگم نے بھی اُسی طرح اُن کے ساتھ اور بڑی خوشی کے ساتھ کہا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم وہیں جا کر بیٹھ جائیں گے وہیں کے ہور ہیں گے ، انگلستان میں سب کچھ سب اثاثے ختم کر کے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر صحیح معنوں میں اُن کی خدمت ہو نہیں سکتی.دور بیٹھ کے تجارتوں کے ذریعہ وہ بات نہیں بن سکتی جو انسان وہاں جا کر خود آباد ہو جائے اور مستقل وہیں کا ہو کر رہ جائے.پھر اُس سے اُنہوں نے کہا کہ تربیت میں بھی فائدہ پہنچے گا.تو بچوں کی طرف میں نے دیکھا وہ بڑی خوشی سے مسکرا مسکرا کر ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر ہاں کر رہے تھے.تو یہ خاندان یعنی فہیم بھٹی صاحب کا خاندان خدا کے فضل.پورے کا پورا اپنے آپ کو پیش کر چکا ہے.اس کے بعد دوسرے دن ان کے دوسرے بھائی تشریف لے آئے کہ میری طرف سے بھی یہی خواہش ہے، وہ اپنے خاندان کو لے کر آئے کہ ہمارے بھائی نے جو کام کیا ہے ہم اُس سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور تیسرے دن تیسرے بھائی کا خط آگیا کہ میں
خطبات طاہر جلدا 715 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء نے اپنی والدہ کو جو امریکہ میں ہیں ان کی والدہ ، ان کے والد فوت ہو چکے ہیں ، جو حضرت مسیح موعود کے صحابی کے پوتے کے بیٹے تھے.چنانچہ اُن کی وفات کے بعد مکرم و محترم شیخ مبارک احمد صاحب سے ان کی والدہ کی شادی ہوئی) چنانچہ انہوں نے یہ بتایا کہ میں نے اپنی والدہ کو فون کیا اور بتایا کہ میرے دو بھائی وقف کر چکے ہیں میں تیسرا ہوں اور میری بھی خواہش ہے.تو والدہ نے کہا کہ اور اس سے زیادہ کیا چاہئے میری اپنی یہی خواہش تھی کہ میرے تینوں بیٹے خدمت دین پر استعمال ہوں.تو ضرور کرو، چنانچہ ایک ماں کے یہ تینوں بچے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں آگے بڑھ چکے ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ باقی جو دنیا کی مخلصین ہیں وہ بھی اس نیک مثال کی پیروی کرتے ہوئے کوشش کریں گے کہ اپنے خاندان کا ایک حصہ ان ملکوں میں آباد کر دیں کیونکہ حقیقت میں جب تک وہاں مستقلاً بیٹھا نہ جائے اُس وقت تک خط و کتابت کے ذریعہ تجارتوں سے اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا.دنیاوی فائدہ تو کسی حد تک تو ہو جائے گا لیکن جو دینی مقاصد اس کے ساتھ ملحق ہیں وہ نہیں پورے ہو سکتے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس سلسلہ میں بھی مختلف خاندان اپنے نمائندے خود بھیجیں گے اور خود فیصلہ کریں گے کہ کس ملک میں اُن کا بیٹھنا وہاں رہ جانا بہتر ہوگا اور کیا طریق اختیار کیا جائے.اس سلسلہ میں جماعت پر بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ خاندان یہ بوجھ خود اٹھائیں.ہاں اگر مشورہ کرنا چاہتے ہوں کہ ہمیں کہاں جانا چاہئے.تو اس سلسلہ میں ہم انشاء اللہ ان کو ضرور مشورہ دیں گے.ان تینوں بھائیوں نے تو مجھ پر چھوڑ دیا تھا کہ ہمیں جہاں چاہتے ہیں وہاں وہاں آباد کر دیں.چنانچہ ان کے لئے جگہیں متعین ہو چکی ہیں.انشاء اللہ عنقریب یہ لوگ اپنے اپنے آئندہ ملکوں میں جو اللہ ان کا وطن بنایا جارہا ہے اُن میں جا کر یہ انشاء اللہ خوب اچھی طرح اپنے اور اسلام کے قدم مضبوط کریں گے.تو باقی دوست بھی جو مشورہ چاہتے ہیں انشاء اللہ ان کو بھی مشورہ دیا جائے گا.اب میں گزشتہ مضمون کو پھر سے شروع کرتا ہوں ، وقت تھوڑا رہ گیا ہے ،لیکن جتنا ہواُتنا ہی انشاء اللہ تعالیٰ بیان کرنے کی کوشش کروں گا.سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے خَابِنِینَ سے معافی کے سلوک سے متعلق گفتگو کی تھی اور یہ کہا تھا کہ بعض خائنین ایسے ہیں جن کو میں معاف نہیں کرتا، تو بعض لوگ مجھے اس سے سفارشیں کرتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید میں تو یہی بتایا ہے کہ ایسے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 716 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء لوگوں سے نرمی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع ان کے ساتھ سختی کا سلوک ہونا چاہئے سختی سے مراد یہ ہے کہ ان کو جس حد تک اصلاحی ذریعہ اختیار کرنا ضروری ہے کرنا چاہئے.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر قسم کے خائن کی ہر خیانت نا قابل معافی ہے.قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بعض خَابِنِین کی خیانتوں سے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے آنحضرت مہ کو ارشاد فرمایا کہ ان کو معاف فرما اور ان سے درگزر سے کام لے.اس لئے میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ذہن میں وہ کونسے مواقع تھے جن سے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ معافی کا حق نہیں ہے یعنی اس موقعہ پر معافی کا حق نہیں.آئندہ تو بہ کرنے والوں کے لئے تو خدا کے فضل سے معافی کے دروازے ہمیشہ کیلئے کھلے ہیں.مثلاً مجھے خدا تعالیٰ نے بعض چیزوں کا امین بنایا ہے ان میں میں بھی اس بات کا مجاز نہیں ہوں کہ اس امانت کو نظر انداز کرتے ہوئے ، اس کے تقاضے نظر انداز کرتے ہوئے ، ذاتی طور پر اپنی دل کی نرمی سے کچھ فیصلے کروں.چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے جیسا کہ بعض جرموں کی سزا کے وقت قرآن کریم نے متنبہ فرمایا ہے کہ ہم جانتے ہیں تم لوگوں کے دل نرم ہیں کیونکہ رؤف رحیم کے غلام ہو، محمد رسول اللہ ﷺ کی پرورش میں ہو، تو تمہارے دلوں کی نرمی اس سزا کی راہ میں حائل نہ ہو.اُس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امانت ہے ایک قسم کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر ایک حکم آتا ہے یا بعض ایسی صورتیں پیش ہوتی ہیں جن میں ایک انسان مالک کے طور پر فیصلہ نہیں کر سکتا بلکہ امین کے طور پر مجبور ہے وہاں معافی کا کوئی حق نہیں ہے.مثلاً جو لوگ اپنے اس عہد میں خیانت کرتے ہیں کہ قضاء کے پاس جاتے ہیں قضاء سے فیصلہ کروانے کیلئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور بیچ میں سے نیت بھی دراصل یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارے حق میں فیصلہ ہو جائے تو بسم اللہ ہم اُسے قبول کریں گے اور اگر فریق ثانی قبول نہ کرے گا تو نظام جماعت کو مجبور کریں گے کہ اُس سے زبردستی یہ فیصلہ منوایا جائے اور ہمارے حق میں جو بھی حقوق بنتے ہوں وہ ادا کئے جائیں لیکن اگر قضاء خلاف فیصلہ کر دے تو ہم شور مچائیں گے کہ یہ نا انصافی ہے یہ تقویٰ کے خلاف ہو گیا ہے اور ہم جماعت سے تعاون کرنے سے انکارکر دیں گے.ایسی تمام صورتوں میں میں بھی تو ایک امین ہوں، میں نے بھی خدا کو جواب دینا ہے اور خدا کی یہ امانت ہے میرے سپرد کہ قضاء کے احترام کو قائم کروں اور خدائی فیصلوں کو یکساں ان پر عمل درآمد کرواؤں.سوائے اس کے کہ کوئی اپیل آئے میرے پاس اور وہ فیصلہ بدلا جائے جب تک
خطبات طاہر جلدا 717 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء وہ فیصلہ قائم ہے کسی بھی فرد جماعت کا یہ حق نہیں ہے کہ اس سے روگردانی کرے.پس ایسی صورت میں قطع نظر اس کے کہ کون ہے، کیسا ہے؟ درحقیقت وہ فیصلہ درست بھی تھا کہ نہیں ، قضائی فیصلہ جب ہو چکا اور اپیلوں کے دور گزر گئے اور وہ فیصلہ قائم رہا تو اس کے بعد یہ خدا کا کام ہے دیکھنا کہ فیصلہ درست تھا کہ غلط تھا بندوں کا کام نہیں ہے اور جماعت بہر حال اُس کی تنفیذ کروائے گی.تو ایسے معاملات میں جو سفارشیں کرتے ہیں یا معافی کی درخواستیں کرتے ہیں اُن کو میں صاف بتا تا ہوں.ایسے بعض واقعات گزرے ہیں یہیں یورپ میں کہ قضائی فیصلے کے مطابق حق ادا نہ کیا دوسرے فریق کا حق دبا کے بیٹھے رہے اور خدا کے نام پر اور رسول کے نام پر ، درخواستوں پر درخواستیں آنے لگیں کہ ہمارا اخراج کا فیصلہ ختم کیا جائے اور معافی سے کام لیا جائے.ان کو میں یہی لکھتا ہوں کہ مجھے اختیار ہی کوئی نہیں جس بات کا میں کیسے کر سکتا ہوں؟ میں تو امانتدار ہوں تو تمہاری خیانت کے اوپر میں بھی خائن بن جاؤں؟ یہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح بعض لوگ بڑی خیانتیں کرتے ہیں مثلاً وقف کا عہد کیا ہے اور عہد توڑ دیا اور دنیا کی خاطر دین کو ترک کر دیا اور دنیا کو دین پر مقدم کر دیا.یہ معمولی بات نہیں ہے یہ ان عہدوں میں سے جن کا خود قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے کہ تمہیں ان پر نگران بنایا گیا ہے.( یہ اعلان میں کرنا چاہتا ہوں کہ اس ضمن میں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے جب میں باہر دورے پر جاتا رہا ہوں تو یہ رابطے کٹ جاتے تھے.اب پھر مجھے انشاء اللہ کینیڈا دورے پر جانا ہے تو میں پاکستان اور دیگر مشرقی ممالک کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس دفعہ یہ رابطہ نہیں کئے گا اور جماعت کینیڈا نے یہ پیشکش کی ہے کہ ہمارے دورے کی وجہ سے اہل پاکستان کو خصوصیت کے ساتھ تکلیف نہیں ہونی چاہئے اس لئے جماعت احمدیہ کینیڈا سارا خرچ برداشت کرے گی اور نہ صرف پاکستان کے ساتھ رابطہ بحال ہوگا بلکہ نارتھ امریکہ تمام کا تمام یہ خطبہ براہ راست سن اور دیکھ سکے گا.تو میں ان کو یہ خوشخبری دیتا ہوں جواب یہ آواز سن رہے ہیں کہ وقتی اس قسم کی خرابیاں تو بعض دفعہ ہو جاتی ہیں انشاء اللہ کوشش کریں گے کہ آئندہ نہ ہوں لیکن میرا جو تین ہفتے کا باہر کا دورہ ہے یا تین ہفتے سے کم ہو لیکن تین خطبے باہر ہوں گے ، ایک یورپ میں اور دو کینیڈا میں تو ان سب میں انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا کی جماعتیں شریک ہوں گی ).تو میں بیان کر رہا تھا کہ جہاں تک خائن کی معافی کا ہے، اس میں جو بڑے عہد ہیں اور بڑی خیانتیں ہیں اُن میں خائن کے ساتھ نرمی کی اجازت نہیں ہے ورنہ اُس کے ساتھ اُس کے نتیجہ میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 718 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء بہت بڑے بڑے فساد واقعہ ہو جائیں گے اور ایک معافی کے نتیجہ میں دوسرے لوگوں کو جرم کی جرات ہوگی.اگر واقفین کھلم کھلا اپنے عہد کو توڑتے ہیں مجبوری کی خاطر نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ دنیا ادنیٰ تقاضے ان کو زیادہ پیارے لگ جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے ملکوں میں پہنچے ہیں جہاں دنیا کی نعمتیں موجود ہیں مگر پہنچے وہ جماعت کی وساطت سے اور وقف کے صدقے سے پہنچے ہیں اُن کا کوئی حق نہیں ہے کہ وقف کو ٹھوکر مار کر دنیا کی نعمتوں کو گلے سے لگالیں.یہ وہ خیانت ہے جس پر میں سمجھتا ہوں مجھے معاف کرنے کا کوئی حق نہیں ہے.سوائے اس کے کہ لمبے عرصے کے عذاب میں سے گزرنے کے بعد یعنی روحانی عذاب میں سے گزرنے کے بعد جن لوگوں کا ضمیر زندہ ہو اور ان کو بے چین رکھتا ہو پھر خدا تعالیٰ اُن کی تو بہ کو اس طرح قبول فرمالے کہ میرے دل میں بھی غیر معمولی طور پر اُن کی معافی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے اور جو بھی خلیفہ آئندہ آئے اُس کے دل میں یہ توجہ پیدا ہو تو وہ الگ مسئلہ ہے لیکن ادھر یہ جرم کیا اُدھر معافی کے نام پر ، خدا کے نام پر ، رسول کے نام پر ہمیں معاف کر دیں اور دونوں باتیں اکٹھی ہضم کرنے دیں دنیا بھی رہ جائے اور دین بھی رہے یہ نہیں ہوسکتا پھر.کئی صورتوں میں رہتے ہیں لیکن بعض صورتوں میں یہ دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے.پھر جماعتی اموال کے غصب کرنے والے جن کو ان کا امین بنایا گیا تھا ان کے متعلق کوئی بڑی سزا تو نہیں دی جاتی.یہ کوئی دنیاوی بدنی سزا نہیں ہوتی لیکن ایک ناراضگی کا اظہار ہے جو مختلف یکلیں اختیار کرتا ہے اس ناراضگی کے اظہار میں نرمی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اگر کی جائے گی تو جماعت کا تمام مالی نظام درہم برہم ہو جائے گا، دنیا میں جماعت احمدیہ کے مالی نظام جیسا کوئی نظام نہیں ہے.آپ چراغ لے کر ڈھونڈیں، دن کو ڈھونڈمیں، رات کو ڈھونڈیں، دنیا کے پردے پر سوائے جماعت احمدیہ کے ایسا عظیم الشان عالمی مالی نظام دکھائی نہیں دے گا، جس میں ہر شخص شریک ہے یعنی ہر شخص تو نہیں کہہ سکتے لیکن بھاری تعداد میں چھوٹے بڑے سب شریک ہیں، مرد عورتیں بچے سے شریک ہیں اور پھر اُن کی حفاظت کا سوائے تقویٰ اور دیانت کے کوئی انتظام نہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو سال سے جماعت ان اموال کی محض اللہ حفاظت کر رہی ہے اور اسی حفاظت کے برتے پر ، اس مان پر اس اعتماد پر کہ ہاں ہماری دولت امینوں کے ہاتھ میں ہے لوگ کھل کھل کر اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کر بھی مالی قربانیاں پیش کرتے ہیں.یہ تقاضے اتنے عظیم ہیں کہ ان کو نظر انداز کر کے چھوٹی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 719 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء چھوٹی معافی کی جذباتی چٹھیوں پر میرا معاف کر دینا کوئی آسان بات نہیں ہے بلکہ اکثر صورتوں میں میں بے اختیار ہوں.پس یہ میری مراد تھی یہ نہ سمجھا جائے کہ ہر خیانت پر سختی کرنالازمی ہے.بعض خیانتیں انسان کی اپنی خیانتیں ہوتی ہیں.ذاتی طور پر کوئی خیانت کرتا ہے اُس میں بخشش سے کام لینا ہر گز گناہ نہیں ہے بلکہ بخشش اور عفو مستحب ہیں.پھر بعض اور قومی بد دیانتیاں بھی ہوتی ہیں جو چھوٹی موٹی ہوتی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہے کہ چھوٹی موٹی عام بددیانتیوں میں خیانتوں میں حتی المقدور نرمی سے پیش آؤ.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اہل کتاب ہیں ان پر ہم نے بدعہدی کے نتیجہ میں لعنت ڈالی تھی.فَمَا نَقْضِهِم مِّيْثَاقَهُمْ لَعَثْهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمُ قسِيّة (المائدہ: ۱۴) انہوں نے ہمارے عہدوں میں بددیانتی کی یعنی خیانت سے کام لیا ہم نے ان پر لعنت ڈالی اور اس کے نتیجہ میں ان کے دل سخت ہو گئے.يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه بد دیانتی کی ایک شکل انہوں نے یعنی خیانت کی ایک شکل یہ اختیار کی کہ فرمان الہی کو سمجھتے ہوئے بھی اس کے مواقع اور مواضع سے اُٹھا کر ایسی جگہ استعمال کرنے لگے جو اُس فرمان کا منطوق نہیں تھا، مدعا اور مطلوب نہیں تھا.پس اکثر علماء سے یہ خیانت ہوتی ہے.یعنی دینی علماء جب خیانت میں مبتلا ہوتے ہیں تو ایسی بے باکی اور جرات اختیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے وہ باتیں جو اُن کا دل گواہی دیتا ہے کہ اس مقصد کے لئے نہیں ہیں وہاں استعمال کرتے ہیں جہاں اُن کا ذاتی مقصد پورا ہور ہا ہو اور خدا کا مقصد پورا نہ ہورہا ہو.چنانچہ اس طرح دین میں تحریف کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا.اس کے نتیجہ میں نہایت ہی بگڑی ہوئی فرقوں کی صورتیں اُبھرتی ہیں.تو فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے عہد کو توڑا اور اُس میں خیانت سے کام لیا اُن کے ہم نے دل سخت کر دیئے ہیں اور سخت دل ہونے کے بعد علامت کیا ظاہر ہوئی.يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ موَاضِعا، وہ کھلم کھلا خدا کے کلام سے کھیلنے لگے.دو باتیں الگ الگ ہیں پہلی بات اور اس بات میں فرق یہ ہے کہ پہلے تو وہ اپنی ذات کے متعلق تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تھے.جو عہد خدا سے انہوں نے باندھے تھے ان کو انہوں نے پورا نہیں کیا لیکن دوسروں کو دھوکا دینا اس میں شامل نہیں تھا.جب
خطبات طاہر جلد ۱۱ 720 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء خدا کے تقاضوں کو اور وعدوں کو تو ڑ دیا تو دل سخت ہو گئے اور پھر اُس کا اگلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ بنی نوع انسان کو خدا کے نام پر خدا کے کلام سے دھوکہ دینے لگے.وَنَسُوا حَظَّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ اور بعض باتیں جوان پر ذمہ داریاں ڈالتی تھیں ان کو تو بھول ہی گئے.فرمایا یہ وہ لوگ ہیں خیانت جن کی عادت بن چکی ہے.وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَابِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمُ اور تو روز مرہ ان کی خیانتوں کی خبریں سنے گا، ان کی خیانتوں پر اطلاع پائے گا.کیونکہ سینکڑوں سال سے اس بات میں مصروف ہیں ان کی عادت مستمرہ ہے.جس طرح چور کو چوری کی لت پڑ جاتی ہے جھوٹے کو جھوٹ کی لت پڑ جاتی ہے.تو اُس کی چھوٹی موٹی چوریاں چور کی چھوٹے موٹے جھوٹ نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں.یہی وہ مضمون ہے کہ ان کا تو حال ہی بہت برا ہے.تو ان سے کیا توقع رکھتا ہے شاذ ہی ہیں ان میں سے جو امانت دار ہیں.ان سے کیا سلوک فرما.فرمایا فاتحفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحُ ان سے عفو کا سلوک کر.چھوٹی موٹی باتوں سے یہ مراد نہیں کہ بڑی بے غیرتیاں جو دین میں کرتے ہیں اُس پر خاموشی اختیار کر.مراد یہ ہے عادی جو مجرم ہیں روز مرہ کی باتوں میں کہاں تو ان کو پکڑے گا اس لئے عام غفلتوں میں عام خیانتوں میں ان سے در گزر سے کام لے.واضفَحُ اور نظر انداز کر دیا کر.وَاصْفَحُ کا مضمون ایسا ہے جیسے آپ کسی بچے کو غلطی کرتے دیکھ رہے ہوں اور جان کے نظر چرالیس تا کہ اسکو یہ بھی نہ پتا لگے کہ میں پکڑا گیا ہوں.تو عفو کا ایک بہت ہی پیارا انداز ہے کہ غلطی دیکھنے کے باوجود اس سے آنکھیں بند کر لینا.مگر یہ وہ غلطی نہیں ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ دین کے معاملے میں امانت دار شخص جس کے سپر د خدا کا مال کیا جاتا ہے.وہ اس مال کو کھا رہا ہے اور آپ اس آیت سے استنباط کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہیں کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ علیہ کو بھی تو فرمایا تھا کہ ان کی خیانتوں پر درگزر کیا کر اور آنکھیں پھیر لیا کرتو ہم بھی تو یہی کرتے ہیں.اگر وہ یہ کرتے ہیں تو حقیقت وہ یہ کر رہے ہیں جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اسی آیت میں یعنی يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ موَاضِعِه وہ قرآن کریم کی ایک آیت کا منطوق سمجھتے ہوئے بھی اُس کو بے محل استعمال کرتے ہیں اور اُسے توڑ مروڑ کر اُس سے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ بہت بڑا گناہ ہے اور یہ سخت دلوں کی ادائیں ہیں مومنوں کی ادائیں نہیں ہیں.پس قرآن کریم نے جہاں سختی کا حکم دیا ہے وہاں
خطبات طاہر جلدا 721 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء مضمون کو سمجھ کرختی کرنا ضروری ہے، جہاں نرمی کا حکم دیا ہے وہاں مضمون کو سمجھ کر نرمی کرنا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ کی سختی اور نرمی کے واقعات ہمارے سامنے ہیں.بعض دفعہ ایسی سختی کی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ایک شخص جس نے اموال کے متعلق آنحضور عاللہ سے دعا کروائی کہ یا رسول الله میرے لئے دعا کریں میرے اموال میں برکت ہو، میں بھی پھر دل کھول کر چندے دوں.جب اس کے اموال میں برکت پڑ گئی اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے نمائندے اُس سے چندہ وصول کرنے یا ز کوۃ وصول کرنے گئے تو اس نے کہا آجاتے ہیں زکوۃ وصول کرنے والے، یہ تو دیکھتے ہو کہ کیا کچھ ہے یہ نہیں پتا کہ کتنے خرچ ہیں کتنی مصیبتیں ہیں.سوطرح کی اُس نے باتیں بنائیں.جب آنحضرت ﷺ کو اسکا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس سے کبھی چندہ وصول نہیں کیا جائے گا.اس کے متعلق آتا ہے کہ وہ سال بہ سال پشیمان ہو کر.بھیڑوں کے اور دوسرے مویشیوں کے غلے کے غلے ہانک کر لاتا تھا اور ہر دفعہ رد کر دیا جاتا تھا یہاں تک کہ اتنی تعداد بڑھ گئی کہ چندہ جو اس کے مال میں شامل ہو گیا.کہ کہتے ہیں وادی پوری کی پوری ان مویشیوں سے بھر صلى الله جایا کرتی تھی مگر نہ آنحضرت ﷺ نے قبول فرمایا نہ آپ ﷺ کے بعد آپ کے خلفاء میں سے کسی نے بھی قبول فرمایا.(تفسیر در منثور ،سورة التوبه صفحه ۳) تو مواقع ہیں ، ان مواقع کے مطابق کام کرنا چاہئے اور اس آیت نے دیکھیں کتنی عمدہ تمہید باندھ دی ہے اس بات کی.عضو کی ہدایت فرمائی ، درگزر کی ہدایت فرمائی ، لیکن اس سے پہلے یہ مضمون بیان فرمایا.يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه جو بد بخت لوگ ہیں وہ ہیں جو ایک بات کو اُس کے محل کے خلاف استعمال کرتے ہیں.وہ جو خدا کے پاک بندے ہیں.وہ ہر بات کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرتے ہیں.پس جہاں عفو اور درگزر کا موقع ہے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ وہاں عفو فر مائی اور درگزر سے کام لیا.جہاں خدا کی خاطر سختی کا موقع تھا.وہاں سختی سے رکے نہیں اور ساری زندگی آپ ﷺ کی سنت سے یہی ثابت ہے.پس میں چاہتا تھا کہ غلط فہمی کو اگر یہ پیدا ہوگئی ہو دور کر دوں.عام حالات میں نرمی ،مغفرت ، رحمت سے نہیں روکا گیا کیونکہ دراصل خیانت کا مضمون اتنا وسیع ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں اچھے بھلے نیکوں سے بھی کہیں نہ کہیں خیانتیں ہوتی رہتی ہیں.کہیں نظر لڑکھڑا گئی اور نظر خائن ہوگئی کہیں گفتگو بگڑ گئی اور الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 722 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۹۲ء وہ خائن ہو گئی کہیں کسی ادا سے خیانت ہوگئی ، خیانت کے تو بیشمار مواقع ہیں.اگر ہر خیانت سے اسی طرح سختی کی جائے تو کوئی انسان بخشش کے لائق ہی نہیں ٹھہرے گا اس لئے استغفار کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے.موقع اور محل کے مطابق اعمال بجالائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ان شاء الله اب آئندہ خطبہ آپ کینیڈا سے براہ راست سنیں گے اور دیکھیں گے اور اُس کے بعد پھر اگلا خطبہ بھی انشاء اللہ کینیڈا سے ہوگا اور آخری خطبہ یورپ سے ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ.تو امید ہے یہ سلسلے جاری رہیں گے.خدا کرے ہمیشہ جاری وساری رہیں.(آمین )
خطبات طاہر جلد ۱۱ 723 خطه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۲ء اے غلامان محمد مصطفی ہے اس شان کے ساتھ عبادت کیا کرو کہ آپ کی پیار کی مسکراتی نظریں تم پر پڑیں.( خطبه جمعه فرموده ۱۶ اکتو بر۱۹۹۲ء بمقام بیت السلام کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَاتَى الزَّكوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَيْكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة: ۱۸) پھر فرمایا:.آج کا جمعہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ایک غیر معمولی تاریخی جمعہ ہے اور آج وہ مبارک دن طلوع ہوا ہے جو جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے برکتوں پر برکتیں لے کے آیا ہے.اور نُورٌ عَلَى نُورٍ (النور : ۳۶) کا منظر پیش کرتا ہے.سب سے پہلی بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ آج کینیڈا کی جماعت احمدیہ مسلمہ کے سالانہ جلسے کا افتتاح ایک ایسے روز ہو رہا ہے جب اس مسجد کا بھی افتتاح ہے اور جمعہ کے مبارک دن سے یہ افتتاح ہو رہا ہے اور یہ وہ مسجد ہے جو تمام امریکہ میں ، شمالی اور جنوبی امریکہ دونوں کو ملا کر نمازیوں کی گنجائش کے لحاظ سے سب سے وسیع مسجد ہے.مسلمانوں میں جماعت احمد یہ تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو شاید سب سے چھوٹی جماعت ہو لیکن اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لحاظ سے
خطبات طاہر جلدا 724 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء دیکھا جائے تو کتنا مبارک دن ہے کہ اُسے خدا کی عبادت کرنے والوں کے لئے تمام شمالی اور جنوبی امریکہ میں سب سے بڑا خدا کا گھر بنانے کی توفیق مل رہی ہے.پس یہ بہت ہی مبارک دن ہے اور اس مبارک دن میں تمام دنیا کی جماعتوں کو شامل کرتے ہوئے میں تمام حاضرین کی طرف سے محبت بھرا سلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں.ایک اور تاریخی سعادت اس دن کو یہ ہے جس نے جماعت احمدیہ کے قافلہ کو جو شاہراہ اسلام میں دن بدن آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے ایک اور مبارک خبر دی ہے، ایک اور سنگ میل ہے جو کئی منازل آگے بڑھا کر لگایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ چند خطبات میں میں یہ اعلان کرتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ عالمگیر کو یہ توفیق ملی ہے کہ چار براعظموں میں، دنیا کے چار براعظموں میں بیک وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عاجز غلام کی آواز ہی نہیں بلکہ تصویر بھی پہنچ رہی ہے اور اس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بڑی شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ ( تذکره صفحه: ۲۶۰) آج وہ مبارک دن ہے کہ جب میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ساتھ آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز اس عاجز کے ذریعے چار براعظموں میں نہیں بلکہ دنیا کے تمام براعظموں میں پہنچ رہی ہے اور ایک بھی گوشہ زمین کا ایسا باقی نہیں رہا جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ صوتی لحاظ سے بھی نہ پہنچ رہی ہو اور تصویری زبان سے بھی نہ پہنچ رہی ہو.پس یہ بہت بڑا اور عظیم مبارک دن ہے جو در حقیقت آئندہ دور کے آغاز کی ایک منزل ہے.آگے بہت کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہونے والا ہے.اس کی تفاصیل میں میں اس وقت نہیں جا تا لیکن آنے والا وقت انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے خوشخبریوں پر خوشخبریاں لاتا چلا جائے گا.اس ضمن میں ہمارے معاندین اور مخالفین جنہوں نے جماعت احمدیہ پاکستان پر غیر معمولی مظالم کئے اور دیگر ممالک میں بھی انہی کی تحریکات پر جماعت کے خلاف جھوٹ اور عناد کی تحریکیں چلائی گئیں.اُن کا اعتراف میں آج آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں کہ ان تمام تر کوششوں اور تمام تر ان بیہودہ حرکتوں کے نتیجے میں جو خدا کی ناراضگی کا موجب بنیں ان کو کیا حاصل ہوا اور ہمارے ہاتھ کیا آیا.حقیقت میں جو شہادت عدو کی شہادت ہو وہی شہادت سب سے زیادہ اعتبار کے لائق ہوتی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 725 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء ہے یعنی دنیا کے لحاظ سے.ویسے تو سب سے بڑی شہادت وہی ہے جو اللہ دے اور اس شہادت میں اللہ کی شہادت کا بھی ذکر موجود ہے.چنانچہ ہفت روزہ اہلحدیث لاہور میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے بعنوان ”دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ لکھتے ہیں: روز نامہ جنگ لاہور کے صفحہ آخر پر قادیانی سربراہ مرزا طاہر احمد کی خبر نے چونکا دیا حیران ہوں باطل پرست ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں.“ ایک طرف باطل پرست کہہ رہے ہیں دوسری طرف ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا ذکر ہے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ستاروں پر کمندوں کی بات کی تھی مگر مہدی برحق کے لئے آنے والے نمائندے کے لئے پھر فرمایا تھا کہ جب اسلام کا محض نام باقی رہ جائے گا اور تمام عالم اسلام خرابیوں کا شکار ہو جائے گا یہ مضمون ہے تفصیلی.اُس کے بعد آپ نے خوشخبریاں دیں جو خوشخبریاں دیں اُن میں عظیم تر خوشخبری یہ تھی.لو كان الايــمــان عـنـد الثريا لنا له رجال من هولاء اور رجل من هولاء ( بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر : ۴۸۹۸) کہ ایمان ثریا پر بھی پہنچ گیا.ثریا پر کمندیں ڈالنے والے میری امت میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو ثریا سے ایمان کو واپس کھینچ لائیں گے.بات تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مانی جائے گی آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کو جھٹلانے والوں کی بات تو نہیں مانی جائے گی.پس کمندیں ڈالنے کی حد تک تمہارا اعتراف درست مگر اہل باطل نہیں اہل حق ہیں جو آسمان پر ستاروں پر کمندیں ڈالا کرتے ہیں.پھر وہ کہتے ہیں کہ لیکن دینی جماعتیں باہمی سر پھٹول میں مصروف ہیں یہی تمہارا مقدر ہے.تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى (الحشر: ۱۵) تم اپنے دشمنوں کو بظاہر ایک دیکھتے ہو سی تمہاری مخالفت میں ایک اتحاد قائم کر لیتے ہیں لیکن اُن کا اتحاد مخالفت کے سوا کسی صورت میں نہیں ہوا کرتا.آپس میں محبت کے نتیجے میں نہیں مل بیٹھا کرتے بلکہ تمہاری دشمنی میں مل بیٹھتے ہیں اس لئے تم سمجھتے ہو کہ وہ جَمِیعًا ہیں.وَقُلُوبُهُمْ شَتَّی اُن کے دل پھٹے ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ یہ باطل جتھا ہے اور آسمان سے باتیں کر رہا ہے.دینی جماعتوں کا نعوذ بالله من ذلک یہ حال ہے کہ آپس میں سر پھٹول میں مصروف ہیں.یہاں بھی خدا کا کلام ہی مانا جائے گا.دینی جماعتوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 726 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء ذکر میں یہ تصویر نہیں کھینچتا بلکہ ان کے لئے یہ مقدر بتاتا ہے.قُلُوبُهُمُ شَتَّی اُن کے دل پھٹے ”قادیانی باطل ہونے کے باوجود بہت آگے بڑھ رہے ہیں شور وغل ہوئے ہیں.پھر آگے لکھتے ہیں.اور ہنگامہ آرائی کے بغیر اب یہ بھی صفات حسنہ مومنوں کی ، خدا کے پاک بندوں کی ہیں.یہ جب آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو شور وغل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کتنے اعترافات ہیں چھوٹی سی تحریر میں اکٹھے ہو گئے مگر نہایت ہی خاموشی سے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں شب وروز مصروف ہیں.قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے.تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں.اُن کے مبلغین دُور دراز کے ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں.بیوی بچوں اور گھر بار سے دور ، قوت لایموت پر فانی ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں، یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں.“ قادیانیت کی تبلیغ مت کہو ، دین مصطفی ﷺ کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور ہمیشہ ہم اسی طرح کرتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ خدا کا یہ کلام بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے دین کے متعلق فرمایا گیا.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ وہی خدا ہے جس نے یہ رسول محمد مصطفی ﷺ ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (القف: ۱۰) تاکہ عالم کے تمام دینوں پر اسلام کو غالب کر دے.پس یہ سہرا جماعت احمدیہ کے سر پر باندھا گیا ہے اور تقدیر نے باندھ دیا ہے.کوئی ہاتھ نہیں جو اس سہرے کو ہمارے سر سے اُچک سکے اور تم خود تسلیم کرتے ہو صرف تمہاری اصطلاح قرآن کی اصطلاح سے ہٹ کر مضمون پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے مگر دل سے جو حقیقت، جو سچائی اُچھل رہی ہے وہ تو ہر دیکھنے والے کو دکھائی دے رہی ہے.بیوی بچوں اور گھر بار سے دور صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 727 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء قوت لا یموت پر قانع ہو کر افریقہ کے پتے ہوئے صحراؤں میں، یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت، قادیانیت نہ کہو اسلام کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں.ادھر ہماری کیفیت یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے بجٹ چند لاکھوں سے متجاوز نہیں ہوتے.دینی جماعتیں کیسی ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق ہی نہیں ہے.تم میں ایک ایک آدمی ایسا ہے جو ساری جماعت کے عالمگیر چندے سے بڑھ کر اکیلا چندہ دے سکتا ہے لیکن جسے خدا توفیق نہ بخشے.دنیا کی کوئی طاقت کوئی طعنہ، کوئی چر کہ اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتا کہ خدا کی راہ میں اپنا دل کھولے اور خدا کی راہ پر اپنے پیسے نچھاور کرے.یہ توفیق تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدا کردہ اس آسمانی جماعت ہی کو ہے اور باقی باتیں تو چھوڑ و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے اعلان کے لئے صرف یہی ایک بات کافی ہے کہ آپ نے دنیا میں وہ جماعت دوبارہ پیدا کر کے دکھا دی جو اول دور میں حضرت محمد مصطفی امیہ نے پیدا فرمائی تھی اور جس کے متعلق یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ آخری دور میں محمد مصطفی ﷺ کے ایسے غلام ہوں گے جو ویسی ہی اداؤں کے مالک ہوں گے اُن کو آخر میں پیدا ہونے کے باوجود اولین سے ملا دیا جائے گا.پس خوش نصیب ہیں وہ احمدی ، کینیڈا کے وہ احمدی جن کو اس عظیم مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے اور امریکہ کے وہ احمدی جو دور دراز سے سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں اور یورپ کے وہ احمدی جن کو خدا نے سعادت بخشی ہے کہ آج اس تقریب میں بہت خرچ کر کے ، بہت تکلیف اٹھا کر اس تقریب کی سعادت سے حصہ پانے کے لئے آئے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان اور دیگر جماعتوں کے دُور دُور سے آنے والے سب احمدیوں کو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چنا ہے اُس عظیم کام کے لئے جو حضرت محمد مصطفی عالیہ کا مقصود ٹھہرایا گیا تھا.آپ براہ راست تصویری اور صوتی رابطوں کے ذریعے تمام عالمگیر دنیا کی احمدی جماعتوں کو خوشخبری ہو کہ آج کا دن بہت ہی مبارک دن ہے.آج ایک ایسا جمعہ طلوع ہوا ہے جس کی شان آگے پیچھے دیکھنے میں دُور دُور دکھائی نہیں دیتی ایک یکتا جمعہ ہے جس جمعہ کا نور جماعت احمدیہ کے مقدر میں لکھا گیا ہے.کوئی دنیا کی طاقت مل کر اس جمعہ کی نقل بنا نہیں سکتی.یہ خدا کے کام ہیں اور خدا ہی کی عطا ہیں.پھر وہ لکھتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 728 خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۲ء ”مرزا طاہر احمد کا خطاب سیارے کے ذریعے چار براعظموں میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا ہے.آسٹریلیا، افریقہ، یورپ، ایشیا ء ہمارا عالمی روحانی اجتماع عرفات کے میدان میں حج کے موقع پر ہوتا ہے تو حج کی پوری کیفیات، حرکات وسکنات سیارے کے ذریعے بعض ایشیائی اور افریقی ملکوں تک تو بمشکل پہنچائی جاتی ہیں لیکن تمام دنیا میں نہیں.“ میں ان سے کہتا ہوں کہ حج کا کاروبار ہمارے سپرد کر دو پھر دیکھو خدا کی قسم ! حج کی آوازیں آسمان کی بلندیوں تک اٹھیں گی ، ہم ستاروں تک یہ پیغام پہنچائیں گے.حج بیت اللہ کی عظمت کو پہچاننے والے، اُس عظمت کے لئے قربانیاں کرنے والی یہ جماعت ہے جو جماعت احمد یہ ہے اور جماعت ہی کے مقدر میں وہ دن لکھا گیا ہے جب حج کی برکتیں تمام دنیا میں عام کر دی جائیں گی.ایک آواز ہی نہیں اُس کی برکات برقی رو کی طرح دلوں کو متاثر کریں گی اور تمام عالم ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا جائے گا.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم کا منصب جماعت احمدیہ ہی کا منصب ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں ہمیں عطا فر مایا گیا ہے.پھر کہتے ہیں.و کسی ملک کے سربراہ کی تقریر یا خطاب سیارے کے ذریعے دنیا بھر میں کبھی ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا.مختلف ممالک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور اُن کے قد آور سر براہ موجود ہیں اُن کی تقریریں اور بیانات بھی پریس کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں سیارے کے ذریعے کبھی ٹیلی کاسٹ نہیں کئے گئے.“ یہ اُن کی لاعلمی ہے، ٹیلی کاسٹ کئے جاتے ہیں گو اس وسیع پیمانے پر نہیں.ہمارے ملک میں دو بڑی قومی سیاسی جماعتیں موجود ہیں پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی یہ دونوں جماعتیں باری باری ملک کی حکمران رہتی ہیں.لیکن افسوس کہ ان کا بھی کبھی کوئی خطاب عالمی طور پر ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا.یہ میں اپنے الفاظ میں بتارہا ہوں آخری حصہ.اب کہتے ہیں: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیانیوں کو اتنی خطیر رقم کہاں سے ملتی ہے؟“ پس یہ سوال ہے جو ان سے حل نہیں ہو سکتا.جس چیز کی آنکھیں خدا عطا نہ کرے وہ دیکھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 729 خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۲ء کیسے سکو گے.یہ جو موجودہ پروگرام ہے آج کا ، جو پانچوں براعظموں میں بیک وقت دکھایا جارہا ہے اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کے مخلصین کو ملی ہے اور انہوں نے تنہا یہ بوجھ اٹھایا اور اس بوجھ کو سعادت سمجھ کر ، چومتے ہوئے اٹھایا.بار بار درخواست کی کہ صرف آج کا جمعہ ہی نہیں.ہماری جماعت کو اجازت دی جائے کہ اس کے بعد اگلے دن کا پروگرام بھی اور پھر آخری جمعہ جو کینیڈا میں پڑھا جانا ہے یہ ساری تقریبات جماعت احمدیہ کینیڈا کے خرچ پر تمام عالم میں دکھائی جائیں تو سرسری جواب تو یہی ہے کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کو اللہ تعالیٰ نے یہ تو فیق عطا فرمائی ہے کہ آج ساری دنیا کے براعظموں میں جو پروگرام دکھایا جا رہا ہے اس کا بوجھ اُنہوں نے سعادت سمجھ کے اٹھا لیا لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ دین کی راہ میں قربانی کرنے والوں کو جو دل عطا ہوتے ہیں وہی ان کا خزانہ ہے، جو قربانی کی روح ان کو عطا ہوتی ہے وہی اُن کا خزانہ ہے.اس خزانے میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت ڈالتا ہے کہ کوئی عمر و عیار کی زنبیل کا تصور اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ایسی حیرت انگیز قربانی کی روح جماعت احمدیہ کو نصیب ہوئی ہے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی ایسے انسان پیدا نہیں کر سکتیں جیسے ایک خدا کے بندے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ڈھالنے ، بنانے کی توفیق ملی.ان معنوں میں جن معنوں میں حضرت مسیح مٹی سے پرندے بنایا کرتے تھے.پس اے جماعت احمد یہ عالمگیر تم وہ مٹی کے پرندے ہو جن میں آسمانی روح پھونکی گئی ہے تمہارا مقدر تو اڑنا ہے، ہوا کے دوش پہ بھی اڑنا ہے ، لہروں کے ذریعے بھی پہنچنا ہے اور الحمد للہ کہ آج کا دن کئی لحاظ سے اُن روحانی طیور کی پروازوں کا وہ منظر پیش کر رہا ہے.ایک احمدی نے مجھے پاکستان سے خط لکھا کہ مسیح کے آسمان سے نزول کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ آسمان سے آواز اتر رہی ہے اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.میں نے اُن سے کہا کہ یہ ایک ذوقی نقطہ ہے، دلچسپ بات ہے لیکن نزول مسیح تو ہو چکا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہو چکا اسی کی برکتیں ہیں جو دنیا میں پھیلتی چلی جائیں گی.جہاں تک آسمان سے آوازوں کے اترنے کا تعلق ہے یہ تو اُن مولویوں کو جواب ہے جو خدا کی طرف سے دیا جا رہا ہے، جنہوں نے ہماری آوازوں پر پاکستان میں پابندی لگائی، ہمارے جلسوں پر پاکستان میں پابندی لگائی، ہماری تبلیغ پر پاکستان میں پابندی لگائی، یہ جواب اُن کو جواب ہے کہ تمہاری ساری زنجیریں آسمان کی تدبیریں تو ڑ کر پرزے پرزے کر دیں گی.کوئی
خطبات طاہر جلدا 730 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء زنجیر نہیں ہے جو میرے بندوں کی راہ میں حائل ہو سکے، تم زنجیروں پر زنجیریں پہنا ؤ اللہ تعالیٰ ان کو مزید آزادی کے ساتھ ، تیزی کے ساتھ چہار دانگ عالم میں پھیلنے اور پھولنے اور پھلنے کی پہلے سے بڑھ کر تو فیق فرماتا جائے گا.ان کے سفر کی راہوں میں تمہاری ذلیل گالیاں حائل نہیں ہو سکتیں.یہ وہ قافلہ نہیں جو تمہاری گھٹیا حرکتوں اور ادنی اور ذلیل کوششوں کے نتیجے میں اپنی ترقی کی راہ پر آگے بڑھنا چھوڑ دے تم تو اس قافلے کی خاک کو بھی پا نہیں سکو گے.اب وہ دن آ رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ پہلے سے کئی گنا زیادہ تیزی کے ساتھ اور وہ دن آ رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ پہلے سے دسیوں گنا تیزی کے ساتھ اور میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جو دن آ رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ سینکڑوں گنا سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ کر پھیلنے والی اور دنیا کے قلوب کو فتح کرنے والی ہے.یہ صدی ایک غیر معمولی صدی ہے ابھی تو آغاز ہوا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا.یہ تو ابھی چند سالوں کی بات ہے تصور کریں کہ اس صدی کے اختتام تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دیوانے اسلام کو کہاں کہاں تک پہنچا کر نہیں چھوڑیں گے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ دعاؤں اور کوششوں اور دن بدن بڑھتی ہوئی قربانیوں کے ساتھ اس نیک کام کو آگے بڑھاتی چلی جائے گی اور وہ جھنڈا جو حضرت محمد مصطفی ہے کے ہاتھ میں دنیا کے غلبے کا مقدر کیا جا چکا ہے ہمیں ادنی غلاموں کو توفیق ملے گی کہ یہ جھنڈا حضرت محمد مصطفی امیہ کے ہاتھوں میں تھمائے.اے آقاء اے تمام جہانوں کے رسول ، اے سید ولد آدم، اے تمام انبیاء کے سردار ہے یہ تیرا جھنڈا ہے، تیرے ادنی غلاموں کو تیری دعاؤں کی برکت سے یہ توفیق ملی ہے کہ اس جھنڈے کو آج سارے عالم میں گاڑ دیں.پس تو اور تیرا نام ہمیشہ بلند رہے.آئندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ ہر ملک، ہر براعظم کے قریہ قریہ سے تجھ پر سلام اور درود بھیجتی رہیں.یہ وہ کام ہے جو ہمیں کرنا ہے اور اس راہ میں ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں ، بہت سے سفر طے کرنے ہیں.ایک مسجد کے قیام سے یا ایک خطبہ جمعہ کے دنیا میں نشر ہونے سے یہ نہ سمجھیں کہ ہم اپنے مقصد کو پہنچ گئے ہیں.مقصد تک پہنچنے کے آغاز ہورہے ہیں، پہلے قدم ہیں جو اٹھائے جارہے ہیں.اور اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ حقیقت میں جماعت احمدیہ کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 731 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء ترقی کا راز مساجد میں ہے اور اُن مساجد میں ہے جن مساجد کو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ شرطوں کے ساتھ آباد کیا جائے.بہت سے احمدی دوست، زائرین مجھے مبارک باد دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا کو بہت وسیع نہیں بہت خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے.میں انہیں سمجھا تا ہوں کہ مسجد کی زینت تو عبادت کرنے والوں کے دلوں کی زینت سے تعلق رکھتی ہے.ظاہری زینت کا میں نے تو قرآن کریم میں کہیں ذکر نہیں پڑھا.خانہ کعبہ جو سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ دلآویز اور دلر با مسجد ہے وہ جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے پیارے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کھنڈر سے دوبارہ تعمیر کرتے ہوئے از سر نو اُس کی تعمیر کا کام مکمل کیا تو اُس کا دیکھتے ہی نظریہ کسی نقطہ نگاہ سے بھی، کسی Archtecture View Point یعنی نقشے بنانے والوں کے نقطہ نگاہ سے اس لائق نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اُسے دنیا میں ایک خوبصورت تعمیر کے نمونے کے طور پر پیش کیا جائے لیکن وہ سب سے زیادہ حسین عمارت تھی جس پر خدا کی محبت کی نظریں پڑ رہی تھیں اور اتنے پیار سے اُس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے کہ کسی اور مسجد کا اس پیار سے ذکر نہیں ملتا.حقیقت میں مساجد کی شان عمارت میں نہیں بلکہ اُن دلوں میں ہے جو خدا کے حضور رکوع کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہوئے اُن مساجد میں حاضر ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲) دیکھو مسجدوں سے تم زینت نہیں پاؤ گے، مسجد میں تم سے زینت پائیں گی اس لئے اپنی زینشیں یعنی اپنے تقویٰ اور اپنے خلوص اور خدا کی راہ میں نچھاور ہونے کے جذبے لے کر ، روح کے رکوع اور سجدے کرتے ہوئے مساجد میں جایا کرو اور وہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے.اُس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة: ۱۸) کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی مساجد کو صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں مَنْ آمَنَ بِاللهِ
خطبات طاہر جلدا 732 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء وَالْيَوْمِ الْآخِرِ جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور خدا کے سوا کسی دوسرے سے نہیں ڈرتے.فَعَسَى أُولَيْكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ.پس بعید نہیں کہ یہی وہ لوگ ہوں جو خدا کے حضور مُهْتَدِین میں شمار کئے جائیں.پس جماعت احمدیہ کینیڈا اپر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ نے یہ جو مسجد بنائی ہے اسے سجانا ابھی باقی ہے.اس کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور رنگ وصورت اور شکل جو بنادی گئی ہے بہت دیدہ زیب ہے اس میں شک نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ ابھی تمہیں اپنی زمینیں لے کر اس مسجد میں حاضر ہونا ہوگا تبھی یہ مسجد خوبصورت مسجد بنے گی.پس جماعت احمد یہ کینیڈا کو عبادات کی طرف توجہ کرنی ضروری ہے.یہ وہ ملک ہے جو چاروں طرف سے ایسے اثرات میں گھرا ہوا ہے یعنی مغربی تہذیب کے اثرات اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں جو عبادت سے روگردانی پر آمادہ کرتے ہیں، جو خدا کے سوا دل جھوٹے بتوں کی طرف پھیرنے والے اثرات ہیں.پس جماعت احمدیہ کینیڈا کے لئے ابھی وہ منازل باقی ہیں جنہیں سر کرنے کے بعد حقیقت میں یہ مسجد پایہ تحمیل کو پہنچے گی ، ابھی آغاز ہے.پس میں آپ کو خصوصیت کے ساتھ عبادت کے قیام کی طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں اور آپ کی وساطت سے یعنی آپ کو مخاطب کرتے ہوئے تمام دنیا کی جماعتوں کو بھی بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے سمجھاتا ہوں کہ مسجدیں بنا ئیں اور خوب بنا ئیں.خوبصورت بناسکیں تو بہت بہتر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مساجد کو اپنے تقویٰ سے زینت بخشیں اور عبادات کے ذریعے سجائیں تب مساجد بنانے کا حق ادا ہو گا اس کے بغیر نہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی غلامی کا دعوئی اور آپ کی محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ عبادت کے مضمون پر آپ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور آنحضور ﷺ نے جس شان سے عبادت کو زندہ کیا اور اپنی راتوں کو جگایا اُسی شان سے اپنی عبادات کو زندہ کرنے اور راتوں کو جگانے کی کوشش کریں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نماز پڑھو.ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے اموال کی زکوۃ دو اور جب میں کوئی حکم دوں تو اس کی اطاعت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 733 کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے.“ خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۲ء (ترمذی کتاب الجمعہ حدیث نمبر : ۵۵۹) پھر حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں.کہ آنحضرت ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بارنہائے تو اس کے جسم پر میل رہ جائے گی.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! کوئی میل نہیں رہے گی.آپ نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دور کرتا ہے (مسند احمد حدیث نمبر: ۱۳۷۵۷) مختلف ماحول کے مختلف اثرات ہوا کرتے ہیں.بعض ماحول میں مادی کثافت بہت ہوتی ہے اور کپڑے بار بار گندے ہوتے ہیں.انگلستان میں مجھے یاد ہے ایک زمانے میں Smog ہوا کرتی تھی.دھوئیں ملی ہوئی Smog اور اُس سے کالر اتنی جلدی گندے ہوا کرتے تھے کہ دن میں بار بارلوگوں کو کالر بدلنے پڑتے تھے.قمیض بدلنے کی توفیق نہیں ملتی تھی دوسرے وہ کوٹ کے اندرہی ہوتی تھی تو ایک وقت میں دو دو کالر لے کر لوگ گھر سے نکالا کرتے تھے.جب پہلا گندہ ہو جائے تو دوسرا استعمال کریں گے تو یہاں ان ملکوں میں مادی Pollution بھی پھیل رہی ہے اس کے لئے لازمی جماعت کو کوشش کرنی چاہئے مگر روحانی Pollution اتنی ہے کہ اگر کہیں دن میں پانچ بار نہانے کی ضرورت ہے تو یہاں بہت ضرورت ہے کہ دن میں پانچ پانچ بار نہایا جائے.پس وہ گھر جو نمازوں کو زندہ کرتے ہیں جہاں دن میں پانچ بار نہانے کے لئے چھوٹی چھوٹی اپنی نہریں جاری کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو اس دنیا کی کثافت سے محفوظ رکھے گا.اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو یہ تاریکی اور گند آپ کے گھروں میں داخل ہو گا اور آپ کی روحوں کو نا پاک کر دے گا.پھر اُس وقت مجھے ماں باپ اگر دیکھیں کہ ہمارے بچوں کو کیا ہو گیا ہے، یہ دین کو چھوڑ کر دوسری طرف چل پڑے ہیں تو اُس وقت میں اُن سے کہوں گا کہ بہت دیر ہو چکی.تمہیں پہلے اپنا فرض ادا کرنا چاہئے تھا، پہلے اپنے گھر میں وہ پانی جاری کرنا چاہئے تھا جو نماز اور عبادتوں کا پانی ہے جس میں پانچ وقت نہا کر تمہارے بچے صاف ستھرے رہتے تو دنیا کی کوئی آلودگی اُن کو گندا نہ کر سکتی.یہ ملک وہ ہیں
خطبات طاہر جلدا 734 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء جہاں گھروں گھروں میں تالاب بنائے جاتے ہیں اور بہت خوبصورت تالاب جن کو دیکھ کر انسان کی ظاہری آنکھ مسحور ہو جاتی ہے لیکن مومن کو ایک چیز سے ملتی جلتی چیز کا خیال آنا چاہئے ، اس کو سوچنا چاہئے کہ یہ دنیا والے لوگ دنیا کے لحاظ سے کتنے خوبصورت اور تسکین والے گھر بناتے ہیں اور دنیا کے لحاظ سے روزانہ نہانے اور صاف ستھرا ہونے کا کیسا کیسا انتظام کرتے ہیں.ہم محمد مصطفی ﷺ کی جماعت ہیں کیا ہمیں ان سے نصیحت نہیں پکڑنی چاہئے کہ ہمارے گھروں میں پانچ وقت صفائی کا انتظام نہیں ہونا چاہئے اور وہ جاری و ساری کوثر کے چشمے نہیں بہنے چاہئیں جو روحوں کو دھوتی اور پاک اور صاف کرتی ہیں اور خدا کے حضور حاضر ہونے کے لئے تیار کرتی ہیں.وہ زینت آپ نے خود اپنے لئے اختیار کرنی ہے پھر مسجدوں کوزینت بخش سکیں گے.اگر آپ کو زینت عطا نہ ہوئی تو یہ مسجد بے زینت رہے گی اور کتنے افسوس کا مقام ہوگا کہ ظاہری طور پر آپ اتنا خرچ کر کے، اتنی تکلیفیں اٹھا کر خدا کا ایک گھر بنائیں جو بظاہر نمازیوں سے آباد ہوگر خدا کی نظر میں وہ ویران ہو.خدا نہ کرے کبھی جماعت احمدیہ پر یہ وقت آئے کہ یہ منظر جماعت احمدیہ پر صادق آئے.آنحضرت ﷺ نے تویہ نقشہ کھینچتے ہوئے آخرین کے زمانے کے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کی تصویر کھینچی ہے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے.ان یاتی علی الناس زمان لایبقی من الاسلام الا اسمه ولا يبقى من القرآن الا رسمه مساجد هم عامرة وهي خراب من الهدى (مشكوة كتاب العلم وافضل صفحہ: ۳۸) افسوس کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب اسلام کا صرف نام رہ جائے گا، جب قرآن صرف خوبصورت تحریروں میں ڈھالنے کے لئے رہ جائے گا، مساجد بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی.علماء هم شر من تحت ادیم السماء اُس بدنصیب دور کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ بڑی بھاری نصیحت ہے اگر تقویٰ کے ذریعے سے آپ نے اپنی مسجدوں کو آباد نہ کیا تو ظاہری طور پر اگر مسجد میں آباد ہوئیں تو خدا کی نظر میں وہ خراب من الھدی ہی رہیں گی.خدا کرے کہ ہماری مسجد میں ہمیشہ خدا کی نظر میں آبادر ہیں.آنحضرت نے ایک موقع پر فرمایا: ” قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اُس نے نجات پالی.اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اگر اُس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو میرے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 735 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء بندے کے کچھ نوافل بھی تو ہیں اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی اُن نوافل کے ذریعے پوری کر دی جائے گی.اسی طرح اُس کے باقی اعمال کا معائنہ ہو گا اور اُن کا جائزہ لیا جائے گا.“ (ترمذی کتاب الصلوۃ حدیث نمبر: ۳۷۸) پس قیام نماز کے ساتھ کچھ لوازمات ہیں جو نماز کی مرکزی روح کی حفاظت کرنے والے ہیں.وہ نوافل اور تہجد کی نمازیں ہیں پس اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی آئندہ نسلوں میں نماز قائم رہے اور پوری شان اور حفاظت کے ساتھ قائم رہے تو اس کے ارد گرد وہ فصیلیں بھی کھڑی کریں جو نوافل کی فصیلیں ہیں ان سے نماز پر ضرب نہیں آئے گی.اگر کبھی کمزوری دکھا ئیں گے تو نوافل کی حد تک اثر رہے گا لیکن فرائض قائم رہیں گے.اس لئے ضروری ہے کہ صرف گھروں میں نماز با جماعت کے قیام کی عادت ہی نہ ڈالی جائے بلکہ نوافل کی روح کو ترویج دی جائے اور اپنے بچوں کو نفل پڑھنے سکھائے جائیں.کبھی آدھی رات کو اٹھا کر اُن کو تہجد کے مزے میں شامل ہونے کی بھی توفیق عطا ہو تو رفتہ رفتہ اُن کو چسکے پڑیں گے، رفتہ رفتہ اُن کو عادت ہوگی اور بڑے ہو کر یہی یادیں ہیں جو اُن کی پاکباز زندگی کی شکل میں ڈھل جائیں گی.پس چھوٹے بچوں کی حفاظت کے لئے خصوصیت سے یہ بہت ضروری ہے اور آپ میں سے وہ بڑے بھی جواب تک نماز کے قیام سے محروم ہیں میں اُن کو متنبہ کرتا ہوں کہ نماز کا قیام از بس ضروری ہے.نماز قائم ہو گی تو جماعت احمد یہ قائم رہے گی اگر نماز گری تو جماعت احمد یہ گر جائے گی اور کوئی چیز اسے دوبارہ قائم نہیں کر سکے گی اس لئے نمازوں کی حفاظت کریں.وہ مسجد جو یہاں بنائی گئی ہے اس مسجد تک تو لوگ دور دور سے کبھی کبھی پہنچا کریں گے لیکن گھر کی مسجد میں تو ہر انسان پہنچ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا گھر بنایا تو بیت الدعاء بنائی اور صحابہ میں یہ رواج تھا کہ اپنے گھروں میں چھوٹی سی مسجد بنالیا کرتے تھے تا کہ وہ لوگ جو مسجد تک نہ جا سکیں وہ وہاں نماز پڑھ لیا کریں.مجھے یاد ہے دارالانوار میں ہمارے نانا کا گھر تھا ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کا انہوں نے گھر میں چھوٹی سی مسجد بنائی ہوئی تھی.جب وہ معذور ہو گئے تو مسجد تک نہیں جاسکتے تھے اسی مسجد میں نماز پڑھاتے تھے یا پھر اپنے بچے کے ذریعے اُس کو آگے کھڑا کر کے آپ باجماعت نماز پڑھ لیا کرتے تھے.تو یہ بہت ہی پاکیزہ سنت ہے کہ اپنے گھروں میں کوئی جگہ عبادت کے لئے مخصوص کر دی جائے تو اس سے باجماعت نماز کی Institution یعنی یہ جو نظام ہے یہ زندہ رہے گا اور اس کے علاوہ خدا کے فضل سے نوافل کی بھی تحریک کی جاتی رہے.پیار اور محبت کے ساتھ اس طرح کے دل آمادہ ہوں،
خطبات طاہر جلد ۱۱ 736 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء متنفر نہ ہوں.نفل کے معاملے میں تو کوئی سخی نہیں ہو سکتی.نفل کی تحریک آپ کی خوش اداؤں سے ہوگی.نفل تبھی آپ کے اولاد میں قائم ہوں گے جب آپ کے بچے آپ کو اس رنگ میں نفل پڑھتے دیکھیں گے تو وہ یادیں اُن کے دلوں پر جاگزین ہو جائیں گی.اُن کا دل چاہے گا کہ ہم بھی ایسا کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے بچوں میں یہ فطرت پیدا کی ہے ایک یہ طبعی رجحان رکھا ہے کہ اپنے ماں باپ کو جو چیز خاص انہماک سے اور پیار سے کرتے دیکھتے ہیں تو اسی طرح شروع کر دیتے ہیں.ہم نے اپنے گھروں میں بڑوں کو دیکھا ہے کہ بچے شروع سے ہی ساتھ نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں ، چندے دیتے ہیں اور پیار اور اخلاص کا اظہار اپنے معصومانہ رنگ میں ہمیشہ کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اُن بچوں کو توفیق دی کہ وہ نماز پر قائم ہوئے اور دوسروں کو نماز پر قائم کرنے والے بنے پس اپنے ہر گھر میں نماز کے قیام کے لئے محنت کریں اور دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹادیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے.صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے فرمایا سردی وغیرہ کی وجہ سے، دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کر لو اور مسجد میں دور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا.یہ بھی ایک قسم کا رباط ہے یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنا.(مسلم کتاب الطہارت حدیث نمبر: ۳۶۹) قرآن کریم نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ رابطوا (ال عمران : ۲۰۱) کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو.یہ انتظار نہ کرو کہ تمہارا دشمن دل تک آپہنچے تب تم دفاع کی کوشش شروع کرو جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اُن کی سلطنتیں ، اُن کے ممالک محفوظ رہتے ہیں.پس فرمایا کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے کا مضمون میں تمہیں سمجھاؤں وہ یہ ہے کہ تم ہر حالت میں نماز کو قائم کرو.سخت سردی میں انسان کا دل چاہتا ہے کہ چلو تیم کرلوں گرم پانی میسر نہیں ہے اور اُس زمانے میں تو نہیں ہوا کرتا تھا اکثر.قادیان میں بچپن میں ہم نے دیکھا ہے.یہ آج کل کے Hot Water Tapes یہ کہاں ہوا کرتیں تھیں.سخت ٹھنڈا پانی جو بعض دفعہ کورے جم بھی جایا کرتا تھا.اُسی سے ہم سب وضو کیا کرتے تھے.تو آنحضور ﷺ نے یہ فرمایا کہ جب ایک تکلیف اور امتحان اپنی انتہا کو پہنچا ہو اس وقت اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا.یہ ہے سرحدوں پر گھوڑے باندھنا اور مثال یہ دی کہ سخت ٹھنڈے پانی میں دل نہ چاہتے ہوئے بھی ٹھنڈے پانی سے اللہ تعالیٰ کی خاطر خوب سنوار کر وضو کرو پھر نماز پڑھنے جاؤ پھر ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار شروع کر دو.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 737 خطبہ جمعہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۲ء آنحضور ﷺ کی اپنی نماز کی کیفیت کیا تھی ؟ اس سلسلے میں بھی میں آپ کو چند احادیث سناتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو وہ کون سی نمازیں ہیں جو دوسروں کے دیکھنے والوں میں جاگزین ہو جاتی ہیں.ایسا مستقل نقش بن جاتی ہیں، وہ نقش اُن کی زندگی کی عادات میں بدل جاتا ہے، وہ اُن کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے.ایسی نمازیں پڑھنے کی ضرورت ہے گھروں میں.اگر مائیں ایسی نمازیں پڑھیں جنہیں پنجابی میں ٹرخانہ کہا کرتے تھے اُردو میں بھی شاید ر خانہ کہتے ہوں مجھے علم نہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں مسجد اقصی نماز پڑھنے گیا تو ایک چھوٹا سا لڑ کا اتنی تیز نماز پڑھ رہا تھا کہ جیسے پنکھا چل رہا ہو.وہ ٹکا ٹک ٹکا ٹک ٹکریں لگائیں اور فارغ ہو کر چل پڑا.مجھے نظر آیا بعد میں ، میں نے کہا تم یہ کیا کر رہے تھے.اس نے کہا اللہ میاں نوں ٹرخانہ ای اے.فرض پورا کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے سامنے ظاہری طور پر اپنے آپ کو پیش کر دینا بس.میرا کام ہو گیا خدا کوٹر خا کوئی نہیں سکتا، اپنے آپ کو ٹر خاؤ گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو خدا کے بندوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اُن کا کیا ہوتا ہے وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ (البقره: ۱۰) اگر نمازوں میں تم خدا کو ٹر خاؤ گے تو تم اپنی نسلوں کو ٹرخا ر ہے ہو گے، اپنے مستقبل کو ٹرخا ر ہے ہو گے، اپنی عاقبت کوٹر خار ہے ہو گے، کوئی خدا کوٹر خانہیں سکتا یہ بات الٹتی ہے تم پر الٹتی ہے جو خدا اور خدا والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں.پس نمازیں اس طرح سنوار کر پڑھیں جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی یہ پڑھا کرتے تھے پھر اس مسجد کا حق ادا ہوگا اور گھر گھر میں اس مسجد کا حق ادا ہو گا.پھر خدا آپ کو توفیق بخشے گا کہ آپ بستی بستی میں مساجد بنائیں گے اور خدا کی محبت اور پیار کی نظریں ہر اُس مسجد پر پڑا کریں گی جو احمدی متقی کو بنانے کی توفیق عطا ہو.آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میری آنکھ کھلی تو میں نے حضور ﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا مجھے خیال آیا کہ حضور ﷺے مجھے چھوڑ کرکسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں.پھر میں حضور ﷺ کی تلاش کرنے لگی تو کیا دیکھتی ہوں حضور ﷺ رکوع میں ہیں ایک ویران کی جگہ میں اندھیری رات تھی، اس لئے میں کہتا ہوں اندھیری رات تھی کہ آگے مضمون بتا رہا ہے، حضور نماز میں، رکوع میں یا شائد آپ اُس وقت سجدہ کر رہے تھے یعنی دکھائی نہیں دے رہے تھے.آواز سے پتا چلا کہ کیا ہورہا ہے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! تو اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہر قسم کی بزرگی کا حامل ہے تو ہی میرا رب ہے تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے اللہ جو کچھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 738 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء میں لوگوں سے چھپ کر کرتا ہوں اور جو کچھ میں اُن کے سامنے کرتا ہوں اُن میں سے میرے ہر عمل کو اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ لے.(نسانی کتاب عشرۃ النساءحدیث نمبر ۳۹۰۲) کیسی عجیب دعا ہے.اتنا عظیم عارف باللہ وہ انسان تھا ، وہ تمام نبیوں کا سردار بنایا گیا ، تمام زمانوں کا سردار بنایا گیا.فرماتے ہیں جو میں چھپ کر کرتا ہوں ہو سکتا ہے اُس میں بھی کوئی ریاء کا نعوذ باللہ من ذلک پہلو، کوئی ایسی بات ہو جو تیرے حضور پسند یدہ نہ ہو اس لئے میں تو یہ التجاء کرتا ہوں کہ صرف میرے ظاہر نہیں میری چھپی ہوئی عبادتوں پر بھی اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر ڈال دے اور اُسے اپنی ستاری کے پردے میں چھپالے.آنحضرت دل کی گہرائی تک خلوص ہی خلوص تھا.جھوٹ تو در کنار ، جھوٹ کی کسی دور دراز سے اثر کا بھی کوئی شائبہ آنحضرت ﷺ کی نیتوں کی آماجگاہ پر نہیں پڑا کرتا تھا یا دل پر نہیں پڑتا تھا.انکساری کا عجیب عالم ہے کہ آنحضور نے اپنے رب کے حضور جھکتے ہوئے عرض کر رہے ہیں اے خدا! میری وہ عبادتیں جو میں ظاہر میں لوگوں کے سامنے مجبوراً کرتا ہوں تو نے حکم دیا ہے اور وہ عبادتیں جو میں چھپ کر کرتا ہوں ان دونوں پر یکساں اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر ڈال دے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں.میں نے حضور ہے کو جب نماز میں اس طرح دعا کرتے دیکھا تو اپنی حالت پر افسوس کرتے ہوئے لوٹ آئی.میں کیا مجھی تھی اور کیا ہو رہا ہے.کیسا ظنکیا میں نے اپنے آقا حضرت محمد مصطفی حصے پر کس کی محبت میں نکلے تھے اور میں نے کیا سمجھا کہ کس کی محبت میں نکلے ہوں گے؟ پھر آنحضرت ﷺ کی یہ عادت تھی ہرلحہ نماز کا انتظار رہتا تھا، ہر وقت طبیعت نماز کے لئے بے چین رہتی تھی ، دل مسجد میں ہی پڑا ہوا تھا.حضرت بلال کو فرمایا کرتے تھے.یا بلال ! اقم الصلاة ارحنا (ابوداؤ د کتاب الادب حدیث نمبر : ۴۳۳۳) اے بلال! نماز کے ذریعے ہمیں راحت تو پہنچاؤ کیونکہ وہ اذان دیا کرتے تھے.مراد یہ تھی کہ وقت ہو تو اذان دیا کرو تا کہ ہمیں باجماعت نماز کی توفیق ملے اور اس طرح دل کو راحت پہنچے.آخری بیماری کے دوران حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا نمازوں سے عشق کس شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے اُس کی دو مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی منہ میں لکھا ہے.صلى الله حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اکرم ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ بیماری کے ایام میرے گھر میں گزاریں یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں.اُنہوں نے حضور ﷺ کو اجازت دے دی تو آپ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 739 خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۲ء نے ایک دن دو آدمیوں یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک اور شخص کا سہارا لے کر باہر نکلے، اس حال میں کہ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کیا الله کرتی تھیں کہ رسول کریم ﷺ میرے گھر میں آئے اور بیماری مزید بڑھی تو فرمایا کہ مجھ پر سات مشکیزوں کا 6* پانی بہاؤ جو بھرے ہوئے ہوں.ایسی شدت سے، بخار کی تپش کی ایسی شدت کے ساتھ اُس بخار میں آپ مبتلا تھے کہ فرمایا سات مشکیزوں کا پانی بہاؤ جو بھرے ہوئے ہوں اور اُن کے بندھن کھولے نہ گئے ہوں، کچھ بھی پہلے استعمال نہ ہوا ہوتا کہ مجھے کچھ افاقہ ہو جائے اور لوگوں سے باتیں کر سکوں.تب ہم نے حضرت اقدس ﷺ کو ایک ٹب میں بٹھایا اور آپ پر مشکیزوں سے پانی بہانا شروع کیا.یہاں تک کہ آپ ہاتھ سے اشارہ فرمانے لگے کہ بس بس کافی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں پھر آپ لوگوں کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں نماز پڑھائی اور خطاب فرمایا.یہ نماز کا شوق تھا دراصل جس کی خاطر آپ نے بخار کو اس طرح اتارا اتنی سخت تپش تھی کہ سات مشکیزوں کا پانی آپ پر بہایا گیا اور اس طرح جب بخار کم ہوا تب آنحضور ﷺ اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کر سکے جو بیماری کے دنوں میں پیدا ہوئی تھی.اس لحاظ سے دیر بینہ کہ آپ باہر جا کر سب میں بیٹھ کر عبادت کر سکیں اور انہیں نصیحت فرما سکیں.ابن شہاب سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بتایا کہ پیر کا دن تھا جس دن حضور کی وفات ہوئی تھی.یہ آخری دن ہے مرض الموت کا.مسلمان فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں مصروف تھے اور ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضور نے اُس وقت جب دو صفوں میں نمازی نماز میں کھڑے تھے حضرت عائشہ کے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور کچھ دیکھ کر مسکرائے اور ہنس دیئے اور وہ سب چونک گئے.حضور نے انہیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی نماز مکمل کرو.پھر حضور حجرے کے اندر ہو گئے اور پردہ گرا دیا.اس قدر شدید تکلیف تھی اُس وقت کہ دوسری احادیث سے جس میں آپ کے مرض الموت کے آخری دن کا نقشہ کھینچا گیا ہے پڑھ کر دل سُن ہو جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کی تکلیف کا حال پڑھ کر کہ کس طرح کسی سخت تکلیف سے آپ اس دنیا سے اس وجہ سے رخصت ہورہے تھے صرف بخار کی تکلیف نہیں تھی بلکہ یہ تکلیف تھی کہ میرے پیچھے کیا ہوگا اور لوگ کہیں یہ نہ کر لیں وہ نہ کر لیں.چنانچہ آپ کی آخری وقت کی نصیحتیں اسی مضمون پر مشتمل تھیں اور سب سے زیادہ جو غالب چیز تھی وہ یہ تھی کہ جن
خطبات طاہر جلد ۱۱ 740 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء غلاموں کو میں نے عبادت کے آداب سکھائے ہیں اور عبادت کے ڈھنگ سکھائے ہیں وہ کیا میرے بعد عبادت کو جاری بھی رکھیں گے کہ نہیں.پس آنحضرت ﷺ نے آخری خواہش جو اس دنیا میں پوری کی ہے وہ یہ کہ پردہ اٹھا کر ان نمازیوں کو دیکھا ہے جن کو آپ نے اس دنیا میں نماز کے آداب سکھائے تھے، اُن کے چہروں پر ایسے عزم کے آثار دیکھے، خدا کے لئے ایسی وفا کے جذبے دیکھے، ایسے سجدے کرتے ہوئے اُن کو دیکھا، رکوع کرتے ہوئے اُن کی روحوں کو دیکھا کہ آپ پہلے مسکرائے اور پھر ہنس دیئے.پھر بڑی تسلی کے ساتھ ، پورے اطمینان کے ساتھ خدا کے حضور حاضر ہونے کے لئے تیار ہو گئے.آنحضرت کا آخری کلام جس کے متعلق یہ کہ جب خدا تعالیٰ نے آپ سے پوچھا کہ اے میرے بندے تیرے لئے دو امکانات ہیں.میں تجھے دو قسم کے رستوں پر چلنے کے فیصلے کا اختیار دیتا ہوں، ایک راہ اس دنیا میں کچھ اور دیر رہو اور اپنے فرائض کو ادا کرو اور وہ پایہ تکمیل تک پہنچیں یعنی مزید آگے بڑھیں اور ایک یہ کہ تم میری طرف واپس آ جاؤ.سوال کرنے والے نے یہ سوال کیا تھا.آنحضرت علی نے واپسی کی راہ کیوں اختیار کی ؟ خود تو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ موت کی دعا نہ کرو.میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ موت کی دعا نہیں ہے.موت کی دعا نہ کرنا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پسند نہیں فرما تا کہ اس دنیا کے کاروبار میں رہتے ہوئے جو آخرت کے لئے ہم کمائیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اُن کے متعلق ہم خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا اور کسی وقت بھی موت کا فیصلہ خود کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایسی حالت تک پہنچ چکے ہیں کہ گویا ابرار میں داخل ہو گئے اب کوئی خوف نہیں ، اب خدا کی طرف سے جو قضا آئے ہم ٹھیک ہیں.یہ بندے کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے مگر آنحضرت ﷺ کو جب خدا نے پوچھا تو حقیقت میں یہ گواہی دی کہ اے میرے بندے تو نے اپنے کام کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے.اب کچھ ایسا کرنا باقی نہیں رہا جس کے نتیجے میں تو اپنے مشن کو اُس آخری مقام تک پہنچا سکے جس تک پہنچانے کے لئے ہم نے تجھے مقررفرمایا تھا اس لئے اگر کچھ اور یہاں رہنا ہے اپنے عزیزوں اور قریبیوں اور پیاروں میں تو میں تجھے اجازت دیتا ہوں، شوق سے اجازت دیتا ہوں اور اگر میری طرف لوٹ کر آنا چاہو تو یہ بھی تجھے اجازت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ صبح جو نماز کے لئے پردہ اٹھایا گیا ہے بعید نہیں کہ اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کو یہ اطلاع مل چکی ہو کہ وقت آنے والا ہے اور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میرے غلاموں کا کیا حال ہے؟ اُس وقت آپ نے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 741 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء اپنی جدائی کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن جس کی طرف جارہے تھے وہ زیادہ محبوب تھا اس لئے رونے کی بجائے مسکرائے اور ہنس دیئے اور بڑے شوق اور خوشی کے ساتھ اپنے رب کے حضور یہ عرض کیا کہ فی الرفيق الاعلى في الرفیق الاعلیٰ اے اللہ میں نے عبادت گزار پیدا کر دیئے ہیں جو قیامت تک تیری عبادت کرتے چلے جائیں گے.اب میرا یہ فیصلہ ہے کہ مجھے واپس بلالے میں تیرے قریب تر آ جاؤں.پس اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! پوری شان کے ساتھ عبادت کرو کہ قیامت تک تم پر بھی حضرت محمد مصطفیٰ کی مسکراتی ہوئی نظریں پڑیں.محبت اور پیار کی آنکھیں تمہیں دیکھیں اور ہر بار ماء اعلیٰ پر خدا کی تقدیر یہ گواہی دے محمد مصطفی ﷺ کے دل کی آواز اور آپ کی روح کی آواز یہ گواہی دے کہ ہاں میرے بندے آج بھی زندہ ہیں جو قیامت تک میری بتائی ہوئی عبادت کی رسموں کو زندہ رکھیں گے، اُن کی جانیں بھی جائیں تب بھی وہ زندہ رکھیں گے، اُن کے عزیز اُن کے سامنے ذبح کر دیے جائیں تب بھی وہ زندہ رکھیں گے، اُن کو بڑی سے بڑی قربانی بھی پیش کرنے کی توفیق ملے تو خوشی سے پیش کریں گے لیکن عبادت کی حفاظت کے لئے اپنا جان، مال، آبرو ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے اگر تم ایسے بن جاؤ تو خدا کی قسم تم کامیاب ہو اور دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مٹا نہیں سکتی.آج کے مولوی اُن کے مقدر میں ناکامیاں لکھی جاچکی ہیں جو آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے.میں آخر پر اس اعتراف حقیقت کا دوبارہ ذکر کرتا ہوں جس سے میں نے آغاز کیا تھا.اُس میں ایک عظیم اعتراف کیا گیا ہے جو حقیقت میں جماعت احمدیہ پر اس رنگ میں پورا اترتا ہے کہ گو الفاظ پورے نہیں اترتے مگر وہ مضمون جو ہے وہ بڑی شان کے ساتھ جماعت احمدیہ کے حق میں پورا اترتا ہے وہ آخر پر کہتے ہیں.یہ کیا ہو رہا ہے تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کا پیغام نشر ہو رہا ہے اور اس 66 شان کے ساتھ ہورہا ہے یہ آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.“ یہ مضمون پورا کرنے کے بعد آخر پر کہتے ہیں."خدا کے لئے اسلام کی عظمت کے ذریعے ، دین کی سر بلندی کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے ،صحابہ کے ناموس کی حفاظت کے لئے اکٹھے ہو جائیں.“
خطبات طاہر جلدا 742 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۹۲ء آج تک اکٹھے نہیں ہو سکے.چودہ سو سال ہو گئے ہیں جب سے بکھرنے شروع ہوئے ہیں بکھرتے ہی چلے گئے ہیں.اگر کوئی آج خدائے واحد کے نام پر اکٹھا ہے تو جماعت احمد یہ اکٹھی ہے.اس کے علاوہ سب نکھرتے اور بکھرتے چلے جارہے ہیں.آنحضرت ﷺ کی ناموس اور خدا کی عظمت کے حوالے دے کر یہ کہتے ہیں کہ اکٹھے ہو جائیں.جیسا کہ 1953ء میں اکٹھے ہوئے تھے.1953ء میں اکٹھے ہوئے تھے پھر بکھرنے کے لئے اور پھر بکھرنے کے لئے بکھرتے چلے جانے کے لئے.کیا یہ اکٹھے ہونے کا تمہارا تصور ہے؟ کہتے ہیں ورنہ ہمیں اندیشہ ہے کہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں اور کہتے ہیں اقبال مرحوم کی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں.تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں.“ کتنی سچی بات تمہارے منہ سے نکل گئی ہے.وہ جماعت جس کی آبادیوں کے مشورے آسمانوں پر ہور ہے ہیں انہیں تم کبھی برباد نہیں کر سکو گے اور وہ جماعتیں جن کی بربادیوں کے مشورے آسمان پر ہورہے ہیں تم اُنہیں کبھی آباد نہیں کر سکو گے.آسمان ہی کے مشورے ہیں جو زمین کی تقدیریں اور تدبیریں بنائے جاتے ہیں اور خدائے واحد و یگانہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آج دوبارہ محمد مصطفی علیہ کا یہ غلام جو جماعت احمدیہ کے ممبران ہیں، جماعت احمدیہ سے وابستہ ہیں انہیں یہ توفیق ملے گی کہ از سر نو محمدمصطفی ﷺ کے دین کو زمین کے کناروں تک پہنچائیں گے.خدائے واحد و یگانہ کے گیت گاتے ہوئے نئی سے نئی اور بڑی سے بڑی مساجد تعمیر کرتے چلے جائیں گے اور ہر مسجد کو اپنے تقویٰ سے بھرتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 743 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء آداب مسجد کی اہمیت اور ان کا عرفان آداب مسجد میں اعلیٰ درجہ کے آداب معاشرت پائے جاتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۳/اکتوبر۱۹۹۲ء بمقام بیت الاسلام ٹورانٹو کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَأَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا (الجن : ٢٠) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کینیڈا کو بہت وسیع اور خوبصورت سادہ مگر دلکش مسجد بنانے کی توفیق بخشی ہے اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ مساجد کے آداب سے متعلق بھی خصوصیت سے مغرب میں بسنے والوں کو توجہ دلانی ضروری ہے کیونکہ بہت سے بچے جو یہاں مغربی ماحول میں پیدا ہوئے ہیں انہیں ان اقدار کا فلسفہ معلوم نہیں جو اسلامی آداب کو بناتے ہیں اور اس کی حدود قائم کرتے ہیں اس لئے بعض بچے اپنے والدین سے سوال کرتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے اس کی کیا ضرورت ہے اور بسا اوقات والدین انہیں سمجھا نہیں سکتے ایسے کئی سوال میرے سامنے یورپ میں مختلف جگہ پیش ہوتے رہتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مسجد کے حقوق اور اس کے آداب سے متعلق اور عموما نماز کے آداب سے متعلق میں کچھ ضروری باتیں آپ کے سامنے رکھوں.ابھی یہاں آنے سے پہلے کراچی کے ایک دوست کا خط ملا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ عام طور ننگے سر مسجد میں جانے کا رواج راہ پا گیا ہے اور نئی نسل کے بچے عام طور پر اس امر سے بے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 744 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء پر واہ ہیں کہ مسجد میں سر ڈھانپ کر جانا چاہئے ٹوپی پہن کر جانا چاہئے اسی طرح کی شکایتیں ربوہ سے بھی ملیں اور ربوہ کے ایک دوست نے ایک دفعہ لکھا کہ آپ جلدی آجائیں کیونکہ آپ کے جانے کے بعد بہت سے نقصانات ہو رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اسلامی آداب اور اخلاق جن کے متعلق پہلے بہت ہی پابندی کی جاتی تھی اب ان کا رعب اٹھتا جارہا ہے اور لوگ بے پرواہ ہو گئے ہیں اس خط کے نتیجہ میں مجھے خیال آیا کہ سب سے پہلے تو بنیادی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے.ایک انسان کہاں تک دنیا میں ہر جگہ موجود رہ سکتا ہے اگر میں ربوہ میں بھی ہوتا تو ربوہ کی ساری مساجد پر میری نظر کیسے پڑ سکتی ہے.جس مسجد میں میں نماز پڑھتا تھا اس مسجد میں عام طور پر حاضری دوسری مساجد سے بہتر ہوتی تھی مگر ربوہ کا غالبا سوواں حصہ آبادی ہوگی یا شاید اس سے بھی کم جو اس مسجد سے استفادہ کرتی تھیں.تو کہاں تک انسانی نظر لوگوں کو ان کی حدود میں رکھنے پر آمادہ کر سکتی ہے یا انسانی نظر کا خیال کسی کو اپنے طرز عمل کو بہتر بنانے پر آمادہ کر سکتا ہے.اصل بنیادی حقیقت یہ ہے کہ خدا کا تصور ایک ایسا زندہ تصور جو ہمیشہ تمہارے ساتھ ہو اور ہر آن تم پر نگاہ رکھتا ہوا سے دلوں میں جاگزیں کرنے کی ضرورت ہے اور نماز کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو بہترین نماز یہ ہے کہ تم گویا خدا کو دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہارے سامنے کھڑا ہے اور اگر اس کی توفیق نہیں تو کم سے کم خدا کی نظر میں رہو اور سمجھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.پس لباس خواہ ٹوپی ہو یا کوئی اور لباس اس کا تعلق اس احساس سے ہے کہ میں کیا ہوں اور کس کے سامنے ہوں.بعض لوگ جو ٹوپی کے متعلق کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے لیکن مغرب میں جب ٹوپی کا استعمال مغربی اقدار کے مطابق ہوتا ہے تو اس کی پابندی کرتے ہیں.ایک بج جب کرسی عدالت پر بیٹھتا ہے تو ہمیشہ سر کو ڈھانپ کر بیٹھتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ حج کے سامنے ٹوپی پہن کر بیٹھے.ہمارے بچوں کو یہ کیوں خیال نہیں آتا کہ اسکی کیا ضرورت تھی ؟ ٹوپی اتار کے کیوں نہیں بیٹھتا؟ تو وجہ یہ ہے کہ ٹوپی عزت کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے اور ٹوپی کو سر پر لینے میں خواہ وہ ٹوپی یا کوئی اور لباس انسان کی عزت اور وقار کا مفہوم شامل ہے.حج کے سامنے آپ اس لئے ٹوپی نہیں پہن سکتے کہ گویا اس عدالت عالیہ کی ہتک ہوگی کہ اس کی عزت میں سارے شریک ہیں پس اسے عزت کے مقام پر بٹھایا جاتا ہے اور باقی سب لوگوں کی عزت سروں سے اتاری جاتی ہے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۱ 745 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء بنیادی فلسفہ وہی ہے کہ ٹوپی کا عزت سے تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور حاضر ہونے والوں کو عزت بخشی ہے اور یہ ادب سکھایا ہے کہ تم عزت کے مقام سے میری طرف آیا کرو اور اپنی عزت کا مقام لے کر میری طرف پہنچا کرو اور میرے سامنے بھی عزت پاؤ.اتنا بڑا مرتبہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے جسے بحیثیت مرتبہ دنیا کی تمام تہذیبیں پہچانتی اور جانتی ہیں اور اعتراف کرتی ہیں کہ سر پر کچھ اوڑھنا عزت کا نشان ہے تو کیوں مغربی تہذیب کے پیچھے چل کر اپنے سروں کی عزتیں اتارتے ہیں.خدا نے جس کو عزت دی ہے اس عزت کو قبول کرنا، اس کا احترام کرنا، اسے سر آنکھوں پر لگانا، چوم کر اپنے سر پر رکھنا یہ احترام کا تقاضا ہے.پھر یہی وہ بچے ہیں جن کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ اگر مجھے کبھی ملنے آئیں تو اپنی ٹوپی نہ ہو تو ٹوپی مانگ کر لے آتے ہیں اور مانگی ہوئی ٹوپی نظر آتی ہے کوئی کان پر ٹکی ہوتی ہے تو کوئی سر کی چوٹی پر بیٹھی ہوتی ہے صاف پہچانی جاتی ہے کہ اپنی نہیں مگر دل کی گہرائیوں میں احساس ضرور ہے کہ جس سے ملنے جائیں اس سے ملنے کے آداب پورے کرنے چاہیں.تو بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لئے مساجد میں آیا جاتا ہے اس خیال کو پیش نظر رکھیں تو یہ خیال ساری زندگی پر چھا جاتا ہے.ایک عارف باللہ اور ایک عام آدمی کی زندگی میں یہی فرق ہے کہ ایک عام آدمی جب مسجد سے اللہ تعالیٰ کی حضوری کا سبق لیتا ہے تو اسے وہیں چھوڑ کر باہر نکل جاتا ہے لیکن ایک عارف باللہ اس حضوری کے تصور کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتا ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو نظم آپ کے سامنے بار بار پڑھی جاتی ہے.اس میں یہ مصرع بہت ہی پیارا اور گہرا ہے جو ہر مصرعے کے بعد آتا ہے.سبحان من یرانی، سبحان من یرانی یعنی پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے اس دیکھنے کا مضمون بہت وسیع ہے.اس لئے میں نے اسے گہرا کہا ہے.پہلا حصہ یہ احساس ہے کہ میں خدا کی نظر میں ہوں.یہ احساس انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے.دنیا کا کوئی مجرم اگر یہ معلوم کر لے کہ میں لازماً قانون کی نظر میں آرہا ہوں تو شاید ہی کوئی پاگل ہو گا جو جرم کرے گا.اور جب تک قانون کی آنکھ اسے دیکھتی ہے وہ جرم سے باز رہتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ انسان کیا اور انسان کی آنکھ کیا میرا بھی اس حیثیت سے کوئی ایسا مقام نہیں ہے کہ میری وجہ سے بعض لوگ بعض اخلاق کو اختیار کریں اور بعض بد اخلاقیوں سے بچیں.اصل روح کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 746 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء ہمیشہ قائم رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی حضوری کا خیال دل میں پیدا کریں اور اگر مسجد میں پیدا نہیں ہوگا تو مسجد سے باہر بھی پیدا نہیں ہوگا.عارف باللہ مسجد میں حضوری کے تصور کے ساتھ بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے اس کی نماز میں زندگی پیدا ہو جاتی ہے اس کی نماز اسے بہت سے سبق دیتی ہے اور بالآخر اس کی نماز میں ایسی لذت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ شخص جسے تجربہ نہ ہو وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ نماز میں بھی کوئی لذت ہے.عام طور پر نمازی جونماز با قاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ نیکی کی ایک منزل تو بہر حال طے کر لیتے ہیں کہ انہیں احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اس کا احترام کیا جائے اور جو فرض عائد فرمایا ہے اُسے میں پورا کروں لیکن وہاں نماز ختم نہیں ہوتی وہاں سے نماز شروع ہوتی ہے.نماز کوسمجھنا اس کے ساتھ گہرا ذاتی تعلق قائم کرنا، اس سے فوائد اٹھا نا تمام تر حضوری کے تصور پر منحصر ہے.جب یہ تصور آپ کے ذہن سے اتر او ہیں نماز کھو کھلی ہونی شروع ہو جائے گی و ہیں یوں لگے گا جیسے نماز میں بجلی کی رو دوڑنی بند ہو گئی ہے جس طرح Display کے لفظ پھیکے پڑ جاتے ہیں اس طرح نماز میں آپ کے الفاظ بھی پھیکے پڑ جائیں گے، آپ کا دماغ ان کو سمجھ نہیں سکے گا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں.پس حضوری کا تصور بہت ہی اہم ہے آپ کو جرائم سے بچاتا ہے آپ کو صحیح آداب سکھاتا ہے، آپ کو زندگی کا فلسفہ سمجھاتا ہے اور پھر وہی تصور ایک اور رنگ میں تبدیل ہو کر آپ کے لئے ایک اور جنت پیدا کر دیتا ہے.دوسرا مضمون من یرانی کا یہ ہے کہ مجھے پیار کی نظر سے دیکھ رہا ہے، تیسر امفہوم اس کا یہ ہے کہ میری حفاظت فرما رہا ہے.جہاں میں جاتا ہوں میں نہیں جانتا کہ کون شرپسند ہے اور کون مفسد ایسا ہے جو ہدارادے سے مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے مگر میں ہمیشہ خدا کی نظر کے حصار میں چل رہا ہوں اور خدا کی نظر کے حصار کو کون تو ڑسکتا ہے.پس سبحان من یرانی میں یہ سارے مفاہیم داخل ہیں اور جب آپ اس شعر میں ڈوب کر اس کو پڑھیں یا اس میں ڈوب کر کسی اچھی آواز میں اس کو سنیں تو اچھی آواز بھی نئے مطالب حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے.اسی لئے اچھی آواز میں پڑھنا ضروری ہے.اسی لئے آنحضرت اللہ نے فرمایا کہ قرآن کریم کو بھی ترنم کے ساتھ پڑھا کرو اور سوز کے ساتھ پڑھا کرو ہے تو خدا کا کلام لیکن خدا کے کلام کو بھی پڑھنے میں فرق ہے.اس کو سرسری نظر سے پڑھنا اور بات ہے، بے دلی سے پڑھنا اور بات ہے، جان ڈال کر پڑھنا اور بات ہے اور پھر مترنم آواز
خطبات طاہر جلد ۱۱ 747 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء میں پڑھنا آپ کی اندرونی کیفیات کو جگا دیتا ہے آپ کے اندر تموج پیدا کرتا ہے اور اس تموج کے ساتھ قرآن کریم کے مطالب ہم آہنگ ہو کر پھر آپ کے لئے نئے نئے مضمونوں کے گل کھلاتے ہیں، نئی روشنی عطا کرتے ہیں.تو نماز کا بھی یہی حال ہے.نماز کو اگر دل ڈال کر پڑھیں گے تو نماز کی بھی یہی کیفیت ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو اگر ترنم سے پڑھیں گے تو وہاں بھی یہی کیفیت ہوگی.حضرت مصلح موعود جب نماز پڑھاتے تھے تو آپ کی آواز میں ترنم بھی تھا اور سوز بھی تھا اور پڑھنے والا آپ کے پیچھے جو نماز پڑھا کرتا تھا اسے صرف ظاہری روحانی لذت حاصل نہیں ہوتی تھی بلکہ نئے نئے مطالب اور عرفان اسے حاصل ہوتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب حضور لا ہور تشریف لے گئے تو شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے اور وہیں نمازیں پڑھایا کرتے تھے ان دنوں میں جلسے کے ایام تھے اور غیر مبائعین کا جلسہ ہو رہا تھا تو ایک غیر مبائع دوست جولا ہوری جماعت کے رکن تھے وہ دن کو تو جلسہ وہاں سُنا کرتے تھے لیکن مغرب اور عشاء کی نمازوں اور صبح کی نماز پر یہیں شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچا کرتے تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ یہ کیا حرکت کر رہے ہیں جلسہ وہاں سنتے ہیں کھانا وہاں کھاتے ہیں اور نماز پڑھنے دوسری طرف چلے جاتے ہیں.انہوں نے کہا کچی بات یہ ہے کہ کھانے کا مزہ لاہوریوں کے ہاں اور نماز کا مزہ ان کے ہاں ہے اور نماز کا جومزہ مجھے میاں صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو میاں صاحب کہتے تھے ) کے پیچھے ملتا ہے اس کا عشر عشیر بھی وہاں نہیں ملتا.پس نماز کا مزہ حقیقت میں عرفان سے ملتا ہے اور ترنم اس کی مدد کرتا ہے.چنانچہ نماز میں جو بعض نمازیں اونچی آواز سے پڑھائی جاتی ہیں تو ان میں یہ بھی ایک فلسفہ ہے.اللہ اکبر کہنے میں بھی ترنم ہوتا ہے ویسے تو ہر نماز میں بھی ترنم کا کچھ حصہ پایا جاتا ہے لیکن کئی نمازیں ایسی ہیں جن میں ترنم کا اختیار کرنا ضروری ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی بات ہو رہی تھی وہاں جب ایک آدمی کو ایک اچھی آواز میں کلام پڑھتے اور سنتے ہیں تو محض کانوں تک مزہ نہ رہنے دیا کریں.اسے دل میں اُتارا کریں اسے دماغ میں رچایا بسایا کریں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئے نئے مضمون آپ کے دل سے آپ کے دماغ سے خود بخود پھوٹیں گے.پس ”من یرانی “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ جسے میں دیکھتا ہوں تو وہ پھر مجھے دیکھتا ہے اور میں ہمیشہ اس خیال میں رہتا ہوں کہ مجھ سے کوئی حرکت ایسی نہ ہو جو خدا کے ادب کے خلاف ہو اور اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 748 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء نتیجے میں میں خدا کا پیار پاتا ہوں ، اس کی حفاظت میں آجا تا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ جہاں بھی میں جاتا ہوں وہاں خدا کی نظر مجھ پر پیار سے بھی پڑ رہی ہے اور حفاظت کے لئے بھی پڑ رہی ہے.پس یہ وہ دیکھنے کا تصور ہے جسے نماز کے ساتھ گہرا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا حضرت اقدس محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھنے کا جو یہ راز سمجھایا اس کے ساتھ تمام آداب وابستہ ہیں.تفصیل سے میں ساری باتیں بیان کر سکوں یا نہ کر سکوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس میں ایک مرکزی تصور ہے جو ادب کی جان ہے اس کے گرد ہر چیز گھوم رہی ہے.ایک شخص نماز میں ایک پاؤں پر زیادہ بوجھ ڈالتا ہے ایک پاؤں ڈھیلا رکھتا ہے، ایک پاؤں سخت رکھتا ہے، ایک پاؤں ڈھیلا کر دیتا ہے ، یا یوں کہنا چاہئے کہ گھٹنا اکڑا کر رکھتا ہے اور ایک گھٹنا ڈھیلا کر دیتا ہے کھڑے ہونے کی یہ طرز ایسی ہے کہ جس میں بے پرواہی پائی جاتی ہے.اگر کسی افسر کے سامنے کوئی جائے تو اس طرح کھڑا نہیں ہو سکتا کوئی سپاہی اپنے افسر کے سامنے اس طرح کھڑا ہو تو شاید اس کا کورٹ مارشل ہو جائے.نماز میں جب آپ بعض بچوں کو یا بڑوں کو اس طرح دیکھتے ہیں تو صاف مطلب ہے کہ ان کو خدا کی حضوری کا تصور نہیں چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جو تفصیلی تعلیم دی ہے اس کا تمام تر اس حضوری سے تعلق ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک پاؤں پر بوجھ ڈال کر نہ کھڑے ہوں (بخاری کتاب الازان حدیث نمبر : ۸۱۶) بلکہ سیدھے کھڑے ہوں اور رُشدی جیسے بد بخت ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیسا مذہب ہے؟ چھوٹی چھوٹی تفصیل میں جاتا ہے حالانکہ جب تک یہ آداب سکھائے نہ جائیں آج بھی دنیا کی متمدن قومیں ان آداب کو خود نہیں سیکھ سکتیں جو ادب حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں چودہ سو سال پہلے بتایا اور سکھایا جن قوموں کو وہ نہیں سکھایا گیا وہ آج بھی اسی طرح جاہل ہیں.تہذیب بہت آہستہ رفتار سے ترقی کرتی ہے لیکن الہام دماغوں کو اور دلوں کو اور طرز زندگی کونئی روشنی بخشتا ہے اور اس روشنی سے استفادہ کرنا پھر قوموں کا کام ہے وہ اگر باہوش ہوں گی اور زندہ رہنے کی صلاحیت رکھیں گی تو اس روشنی میں لانا ضروری ہے ورنہ قومیں زندہ نہیں رہ سکتیں.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جنہیں بعض لوگ چھوٹی سمجھتے ہیں ایک بہت ہی گہرے مرکزی خیال سے پیدا ہوتی ہیں اور یہ خیال بہت اہم ہے.وہ صرف نماز پر ہی نہیں زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے.خدا کی حضوری کے تصور کے بغیر کوئی مذہبی قوم زندہ نہیں رہ سکتی لوگوں کو زندگی نہیں بخش سکتی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 749 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء پس جب کہا جاتا ہے کہ سر پر ٹوپی پہنو تو اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ تمہیں یہ خیال رہے کہ تم کسی معزز بزرگ ہستی کے حضور حاضر ہورہے ہو اور ٹوپی ایک ایسا عزت کا نشان ہے جو تمہیں حدیث عطا ہوا ہے خدا کا کرم ہے اور احسان ہے کہ اس نے تمہیں اپنے دربار میں آنے پر تمہیں عزت بخشی ہے.باقی تمام مسائل اس سے تعلق رکھتے ہیں.اب آپ ان کی تفصیل نہیں اور ان کو دیکھتے چلے جائیں تو ہر بار بات کی تان یہیں ٹوٹے گی کہ خدا کی حضوری کا تصور ہے.مثلاً جب نماز کا انتظار ہورہا الله ہوتا ہے تو لوگ مسجد میں بیٹھے آپس میں باتیں شروع کر دیتے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:.نماز کا انتظار بھی عبادت کا حصہ ہے.(مسلم کتاب الطہارۃ حدیث نمبر : ۳۶۹) قرآن کریم کی جو آیت میں نے پڑھی تھی اس میں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے وَاَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ مساجد الله کے لئے ہیں.فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا خدا کے سوا اور کسی کو نہ پکا رو.پس جب آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو نماز سے پہلے ہی خدا کی حضوری میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں اور خدا کی حضوری کا تصور آپ کی حرکات وسکنات پر اثر انداز ہونا چاہئے ورنہ وہ تصور ہے ہی نہیں پس وہاں آپ کو خاموش اور ادب سے بیٹھنا چاہئے اور پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے.پس آنحضرت سے اگر چہ ہمیشہ ذکر میں رہتے تھے مگر مسلمانوں کو ذکر کی تعلیم ہمیشہ یا بسا اوقات مسجد کے حوالے سے دی ہے کہ جب مسجد میں آؤ تو ذکر کیا کرو اللہ تعالیٰ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو.وہاں بے ہودہ حرکتیں کرنا دوڑنا پھرنا ایسی مجالس لگانا جن کا مساجد سے کوئی تعلق نہیں سب منع ہے دینی مجالس کا قیام صلى الله آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے لیکن آپ نے مسجد میں شعروں کی مجالس منعقد کرنے سے منع فرمایا ہے بعض دفعہ لوگ بے احتیاطی میں دینی مشاعرہ کہہ کر مسجد میں مشاعرہ کر لیتے ہیں لیکن مشاعرہ مشاعرہ ہی ہے اور جب آنحضور ﷺ نے منع فرمایا ہے تو وہاں یہ تفریق نہیں کی کہ دینی مشاعرہ نہ کیا جائے بلکہ فرمایا کہ مسجدوں کو شعروں کی مجالس کے لئے استعمال نہ کرو.پس یہ سارے آداب ہیں جن کا اسی روح سے تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی خاطر مساجد قائم کی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی کو مسجد میں بلند کرنا چاہئے.پھر بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ صفیں سیدھی نہیں ہوتیں اور بیچ میں فاصلے ہیں یہ بھی ایک
خطبات طاہر جلد ۱۱ 750 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء بے پرواہی کی علامت ہے خدا تعالیٰ کے حضور صف بندی سے حاضر ہونے کا حکم ہے جس کا مطلب ہے کہ نظم وضبط ہو پتا ہو کہ ایک ایسے عظیم وجود کے حضور حاضر ہوئے ہیں جس کے سامنے نظم وضبط کی ضرورت ہے.یہ بھی اس وجود کی حضوری کا تقاضا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ سپاہی اگر لائن میں کھڑے ہوں اور آپس میں فاصلے ہوں لائن ٹیڑھی ہو تو ایسے سپاہی کبھی کسی فوج میں قبول نہیں ہو سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو سپاہی بنایا ہے تو روحانی سپاہی بنایا ہے دنیا وی سپاہی نہیں لیکن عملاً روحانی سپاہی بننے کے لئے بھی کم و بیش ویسے ہی اخلاق و آداب اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے دنیا وی سپاہی بننے کے لئے ہوتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں مسلمانوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتا ہے صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (القف:۵) کہ یہ صف بندی سے میرے حضور حاضر رہتے ہیں گویا ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے.تو خدا تعالیٰ کے سامنے جب حاضر ہونا ہے تو اپنے نظم وضبط کے ساتھ حاضر ہونا ہے اور اس نظم وضبط کا یہ تقاضا ہے کہ آپ صفیں بنائیں ،سیدھی بنا ئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہوں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ان دونوں امور سے متعلق واضح نصیحت فرمائی اور جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں اس کا تعلق حضوری سے ہے فرمایا کہ اگر تم خدا کے سامنے ٹیڑھی صفیں لے کر کھڑے ہو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.(مسلم کتاب الصلوۃ حدیث نمبر :۶۵۴۰) دلوں کے ٹیڑھے ہونے کا ٹیڑھی صف سے کیا تعلق ہے؟ اس پر اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر دلوں میں کبھی ہوگی تو آپ ٹیڑھی صف بنا کر کھڑے ہونگے.دلوں کی کبھی بے ادبی اور بے پرواہی کی کجی ہے اور قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا - پس آنحضرت ﷺ نے یہی نقشہ کھینچا ہے.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ باہر سے دلوں کو جبر اٹیڑھا کرے گا.مراد یہ ہے کہ تمہارا ٹیڑھی صفیں بنانا دل کی کسی کجی کی علامت ہے اور جیسا کہ خدا کا قانون ہے تمہاری جو چھپی ہوئی کجیاں ہیں اگر تم ان کو سیدھا نہیں کرو گے تو وہ ان کو نمایاں کر کے بڑھا کے تمہارے سامنے لے آئے گا.پس صف بندی اور سیدھی صف بنانا خدا تعالیٰ کی حضوری کی عظمت کے تقاضوں میں داخل ہے.اسی طرح آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپس میں کندھے ملا کر کھڑے ہو ور نہ بیچ میں شیطان آجائے گا.(ابو داؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۵۷۰ ) اب وہ شیطان کیا ہے؟ اس پر لا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 751 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء اگر آپ غور کریں تو کئی قسم کے شیطان ہیں جو آ جاتے ہیں.اول تو یہ کہ قوم میں خلاء پیدا ہو جائے تو قوم کمزور ہو جاتی ہے اور جب آپس میں دوری بڑھے تو فتنہ پرداز ایسے موقع پر وساوس پھونکتے ہیں اور بھائیوں کو بھائیوں سے جُدا کرتے ہیں.پس نماز میں اکٹھے ہو جانا اور اخوت کی ایک ایسی مثال قائم کرنا کہ جس میں درمیان میں کوئی بھی رخنہ نہ ہو، کوئی بھی فاصلہ بیچ میں نہ ہو.اس کا بھی بالآخر دلوں سے تعلق ہے اور اوّل میں بھی دل سے ہی تعلق ہے.جب انسان کسی دوست سے ملتا ہے تو گلے کیوں ملتا ہے اس لئے کہ اس کے بدن کے ساتھ اپنا بدن لگا نا چاہتا ہے.اپنے فاصلے کو کم کرنا چاہتا ہے.جتنا پیار ہو اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے میں جذب ہونے کا تصور پیدا ہوتا ہے جیسا کہ میں نے ایک دفعہ پہلے بھی فارسی کا ایک شعر اسی موقع پر سنایا تھا.من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری کہ میں تو ہو جاؤں تم میں ہو جائے.یعنی دو وجود نہ رہیں ایک ہی وجود بن جائیں.تم میری روح میری جان بن کر میرے دل میں سماجاؤ.میں تو ہو جاؤں اور تم میں ہو جاؤں.تا کہ پھر کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں اور تم اور ہو.تو شاعر کے تصور شاعرانہ ہی ہیں لیکن ان کا گہرا حقیقوں سے بھی تعلق ہوتا ہے.شاعر عشق میں مبتلا ہو کر نفسیات کے گہرے پانیوں میں غوطے مارتا ہے اور جتنا اچھا شاعر ہوگا وہ تبھی اچھا شاعر ہو گا کہ وہ سچائی میں ڈوب کر وہاں سے کوئی نیا موتی لے کر آتا ہے.تو میرا تو ہو جانا اور تیرا میں ہو جانا اور یہ تصور کہ بدن ایک ہو جائے اور تم روح بن کر میرے جسم میں سما جاؤ اور میں روح بن کر تمہارے جسم میں سما جاؤں اس کا انسانی فطرت سے ایک گہرا تعلق ہے.پس اگر بھائی پیارا ہے، اگر مسلمان اخوة ہیں اور آپس میں محبت ہے تو پھر فاصلے پر کیوں کھڑے ہوں گے.انہیں اکٹھے ہو کر کھڑے ہونا چاہئے.اور خدا کی حضوری کا اس کا ساتھ یہ تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ دکھایا جائے کہ جس طرح تو ایک ہے ہم بھی تیری خاطر ایک ہو چکے ہیں.ہمارے درمیان کوئی فاصلے نہیں رہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 752 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء یہ ایک بہت ہی پیارا اظہار محبت ہے جو ایک ادب میں ڈھلتا ہے اور خدا کے حضور ایک بہت ہی حسین تصور پیش کرتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.دلوں میں فاصلے بڑھیں گے اور دشمنیاں پیدا ہونگی اور یہی مراد شیطان کے داخل ہونے سے ہے.پھر تکبر کا شیطان بھی داخل ہوتا ہے.نماز میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ خدا کے حضور ایک دوسرے کے ساتھ اس لئے ملو کہ وہ تم سے اتنا بلند ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے تمہارے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہا.اس مضمون کو اسلامی معاشرے کے قیام میں بہت اہمیت حاصل ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد جو انسانی فاصلے ہیں وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے جتنی دور کوئی چیز ہواتنا ہی نزدیک کے فاصلے بے حقیقت ہوتے جاتے ہیں.اب آپ دیکھیں کہ سمندر کی مدوجزر میں چاند تو اثر انداز ہوتا ہے لیکن سورج نہیں ہوتا حالانکہ سورج بہ نسبت چاند کے سمندر کے اوپر زیادہ اثر پیدا کر رہا ہے.وجہ یہ ہے کہ چاند کو وہ رفعت حاصل نہیں ہے اور چاند اتنا قریب ہے کہ اس کے مقابل پر سمندر کے اوپر کے پانی کا زمین سے فاصلہ سمندر کے نیچے کے پانی زمین کے فاصلے کے مقابل پر ایک ایسا فاصلہ ہے جو ایک اہمیت رکھتا ہے ایک اکائی رکھتا ہے.پس چاند سمندر کی سطح پر اور طرح اثر دکھا رہا ہے اور سمندر کی تہ میں جو پانی لگا ہوا ہے اس پر نسبتا کمزور اثر دکھا رہا ہے اور یہ فاصلے ایک اہمیت اختیار کر جاتے ہیں.مگر سورج اتنا بلند ہے کہ اس کے مقابلے پر یہ تھوڑے سے فاصلے کے فرق بالکل مٹ جاتے ہیں کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی.آپ جتنی بلندی سے نیچے دیکھیں گے اتنا ہی یہ فاصلے مٹتے ہوئے دکھائی دیں گے.تھوڑی بلندی سے دیکھیں تو انسان اور موٹر کے درمیان ، درخت گھوڑے اور انسان کے درمیان فرق.درخت اور انسان کے درمیان نمایاں فرق دکھائی دیتے ہیں.اونچی عمارات اور چھوٹی عمارات اور انسانوں کے قدوں کے درمیان فرق دکھائی دیتے ہیں لیکن تمہیں ۳۰ چالیس ۴۰ ہزار کی بلندی پر چلے جائیں اگر نظر آئے تو سب ہموار دکھائی دیں گے.کوئی فاصلہ کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا.پس یہ بھی حضوری کے ساتھ تعلق رکھنے والا مضمون ہے.اگر آپ خدا کے حضور حاضر ہوکر نماز ادا کر رہے ہیں تو آپس کے فاصلے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے.اس کو ربی الا علی کہ رہے ہیں تو اس کے بعد کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ فلاں مقام پر ہیں اور آپ کا بھائی فلاں مقام پر ہے اور دنیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 753 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء میں جو آپ کا فاصلہ ہے وہ خدا کے حضور بھی اسی طرح دکھائی دینا چاہئے.اس لئے ان فاصلوں کو مٹانا ادب سے گہرا تعلق رکھا ہے ورنہ تکبر کا شیطان داخل ہو گا.ایک غریب آدمی پاس آ کر کھڑا ہوتا ہے اور کوئی اس خیال سے کہ میرے کپڑے صاف ہیں اس کے کپڑے گندے ہیں ایک طرف سمٹ جاتا ہے تو لازماً وہ متکبر ہے اور کسی متکبر کی نماز قبول نہیں ہو سکتی.وہ خدا کے سامنے ایک الگ دربار بنارہا ہے.اگر خدا کی حضوری کا تصور ہو تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی.خواہ کیسا ہی گندہ کوئی شخص کیوں نہ ہوا اگر وہ نماز میں آکر ساتھ کھڑا ہو گیا ہے تو لازماً اس کے ساتھ جڑنا پڑے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آدمی گندی حالت میں بھی نماز میں جایا کرے.یہ اس کا قصور ہے جو اپنی جگہ ہے کیونکہ ادب کا یہ بھی تقاضا ہے کہ جو کچھ صاف ستھرا میسر ہے وہ پہن کر جاؤ.سر پر ٹوپی پہنا یہ بھی ادب کا تقاضا ہے کپڑوں کو صاف رکھنا بھی ادب کا تقاضا ہے اور جن کو نماز میں یا مسجد میں اس ادب کی عادت ہو وہ پھر مسجد سے باہر بھی ایسے ہی رہتے ہیں.حضرت محمد مصطفی میے کے متعلق کثرت سے یہ روایت ملتی ہے کہ سادگی تھی لیکن صفائی بھی بہت تھی، نظافت تھی ، بدن بھی پاک رہتا تھا، کپڑے بھی صاف اور پاک رہتے تھے اور آجکل بزرگی کا جاہلانہ تصور یہ ہے کہ کپڑے میلے ہوں.گویا ہمیں دنیا کی پرواہ ہی نہیں ہم دنیا سے بے نیاز ہو چکے ہیں، خدا میں ڈوبے ہوئے ہیں حالانکہ پاک چیز میں ڈوبنے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے.پس گندگی کا نیکی سے کوئی تعلق نہیں ہے.بعض ایسے معاشرتی پس منظر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بعض عادتیں بگڑ جاتی ہیں وہ الگ مسئلہ ہے لیکن ایک انسان جس کو حضوری کا تصور ہو وہ ہمیشہ صاف ستھرا ہو کر مسجد میں جائے گا اور وضو بھی یہی سکھاتا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِ مَسْجِدٍ (الاعراف :۳۲) کہ مسجدوں میں جایا کرو تو اپنی زینتیں لے کر جایا کرو.زینت کا ایک مطلب تو ہمیشہ میں بیان کرتا ہوں کہ تقویٰ ہے کیونکہ لباس کے تعلق میں بھی خدا تعالیٰ نے تقویٰ کے پہلو سے جواب دیا ہے.فرماتا ہے: لِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: ۲۷) لباس کے متعلق تم سوچتے ہو کہ کونسا اسلامی ، کونسا غیر اسلامی کونسا مناسب ،کونسا غیر مناسب تو ہمیشہ یاد رکھو کہ لِبَاسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ تمہیں تقویٰ کا لباس پہننا چاہئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لباس میں تقویٰ کے خلاف کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے.پس ایسی زینت جو تکبر پر منتج ہو جائے مثلا اس شان کا لباس جونماز میں حائل ہو.یہ بھی تقویٰ کا لباس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 754 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء نہیں کہلائے گا.چنانچہ اس کی روشنی میں آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں اپنے لباس نہ درست کیا کرو.( بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۷۶۷) اگر تم اس خیال سے اپنے لباس ٹھیک کرو گے کہ پتلون کی کریز نہ خراب ہو جائے.یا کسی کروٹ پر بیٹھنے سے شلوار کی کریز خراب نہ ہو جائے تو تمہارا لباس لِبَاسُ التَّقویٰ نہیں رہے گا.تم خدا کے حضور حاضر ہوئے ہو اور خدا کے حضور حاضر ہوکرایسی حرکتیں کرنا جس سے تمہیں اپنے دکھاوے کا خیال رہے یہ لباس کی نظافت کی روح کے خلاف ہے پس دیکھیں بظاہر دو متضاد چیزیں ہیں لیکن متضاد نہیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں.ایک طرف فرمایا اچھا صاف ستھرا لباس لے کر جایا کرو لیکن دوسری طرف تقویٰ کا لباس بھی فرما دیا اور تقویٰ کے لباس میں یہ معنے آگئے کہ تمہارا ظاہری طور پر نفیس اور ستھرے لباس میں ملبوس ہونا اچھی بات ہے مسجد میں جاؤ تو یہ زینت بھی لے کر جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ اگر تمہاری زینت تقوی کے خلاف ہوگی تو ایک بالا اصول پر تم ایک چھوٹے اصول کو قربان کر رہے ہو گے اس خیال سے کہ میرے کپڑے کی کریز خراب نہ ہو، ان میں بل نہ پڑ جائیں اگر تم خدا کی حضوری کو نظر انداز کر دو گے تو تقویٰ پھٹ جائے گا اور تم ایک پھٹے ہوئے کپڑے میں خدا کے سامنے ہو گے.پس لِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ہمیں بتاتا ہے کہ خُذُوا زِينَتَكُمْ پر اس آیت کریمہ کا بھی اثر ہے.اور زینت کے مضمون میں یادرکھیں کہ زینت سے مراد ظاہری طور پر یہ ہوگی کہ ایسالباس ہو جو آپ کے لحاظ سے زینت ہے.ایک غریب آدمی کی زینت بھی تو ہوا کرتی ہے اگر اسے کسی بڑے آدمی کے سامنے حاضر ہونا ہو اور پھٹے ہوئے کپڑے بھی ہوں اور ان کو بھی اگر وہ ٹھیک کر کے یا گھر میں بیٹھ کرسی کریا خود گھر میں ہی دھو کر پہنتا ہے تو اس پر کوئی حرف نہیں، اس کی زینت کامل ہے.چنانچہ صرف زینت نہیں فرمایا.خُذُوا زِينَتَكُمْ فرمایا ہے جو تمہارے پاس اچھی چیز ہے وہ پہنا کرو اور اس لحاظ سے بھی امیر اور غریب کو برابر کر دیا دونوں کے ساتھ یکساں حسن سلوک ہے.ایک آدمی کہہ سکتا ہے میرے پاس یہی زینت ہے میں یہی لے کر جاتا ہوں.اللہ کہے گا ٹھیک ہے تمہاری یہی زینت قبول ہے.ایک امیر آدمی کے پاس زیادہ اچھی زینت کے کپڑے ہیں وہ انہیں پہنے گالیکن اگر اس میں تکبر آجائے گا تو وہ زینت نہیں رہے گی.اگر وہ کپڑے اس کی عبادت میں مخل ہوں گے تو پھر وہ زینت نہیں رہے گی.پس زینت لے کر جانا ضروری ہے اور اپنی توفیق کے مطابق زینت لے
خطبات طاہر جلد ۱۱ جانا ضروری ہے.755 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء کپڑوں کی باتیں ہو رہی ہیں.مجھے یاد ہے جب ہم جامعہ احمدیہ میں پڑھا کرتے تھے تو اس وقت اندازہ ہوا کہ بعض غرباء کی کیا حالت ہے اور ان کے لئے ایک معمولی چھوٹا سا کپڑا بھی کتنی اہمیت رکھتا ہے.میرے ایک بھائی نے مجھے اپنی طرف سے ایک لطیفہ سنایا مگر ویسے بڑی دردناک بات ہے.انہوں نے بتایا کہ سخت سردی میں ایک لڑکا بالکل بنگا باہر کھڑا تھا.چھوٹا سا بچہ تھا.سر پر ٹوپی پہنی ہوئی تھی.میں نے اس سے کہا کہ اتنی سردی میں تم بغیر لباس کے باہر آگئے ہو تو ہنس کر کہنے لگا.اے ٹوپی جو پائی ہوئی اے.کہ دیکھ نہیں رہے میں نے ٹوپی پہنی ہوئی ہے.اب اُس بیچارے کی یہی زینت تھی اور لباس بھی وہی تھا اور اس کو اہمیت دے رہا تھا اور اس پر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا اور پوچھنے والے پر ہنس رہا تھا کہ تمہیں نظر نہیں آتا کہ میں ننگا نہیں ہوں میرے سر پر ٹوپی ہے تو خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ جو کچھ میسر ہے وہ لے کر خدا کے حضور حاضر ہوا کرو.لیکن اچھی چیز صاف ستھری چیز لے کر جایا کرو اور تقویٰ کے لباس سے تمہارے لباس کا ٹکراؤ نہ ہو ورنہ تم نگے ہو جاؤ گے اور تقویٰ کے لباس کے بغیر خواہ کچھ بھی اوڑھا ہو گا تم خدا کے سامنے گویا ننگے بدن ہو گے.حضرت آدم کے متعلق جو پتوں سے تن ڈھانپنے کا ذکر ملتا ہے وہ یہی مضمون ہے.دراصل استغفار سے وہ اپنے بدن کو ڈھانپ رہے تھے.جاہل سمجھتے ہیں کہ ننگے ہو رہے تھے اور پتوں سے ڈھانپ رہے تھے.خدا کو پتوں کے پیچھے نظر نہیں آتا تھا؟ کیسی جاہلانہ بات ہے.اپنے دل کی جہالت حضرت آدم کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ وہ استغفار تھا اور اس کی کوشش کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس سے حسن سلوک کیا.اسے معاف فرما دیا.یہ تو نہیں کہا کہ ہم نے اسے جوڑا دے دیا کہ اچھا یہ پہن لو.کوئی بات نہیں پتوں میں کیوں چھپتے ہوتو یہ مضمون روحانی کلام کی اصطلاحوں میں ہیں اور روحانی اصطلاحوں کو سمجھ کر ہی ان کے مضامین سمجھ آتے ہیں پس جو بھی مسجد میں آئے بچہ ہو یا بڑا ہو اس کو صاف ستھر الباس لے کر آنا چاہئے.اسی طرح میں نے ذکر کیا تھا کہ نظافت کے ساتھ نماز کا تعلق ہے.آپ کو یہ حکم ضرور ہے کہ خواہ کوئی بُرے ڈکار لے رہا ہو ، خواہ وہ اچھے ڈکار لے رہا ہو یا نہ لے رہا ہو اس سے الگ کھڑے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 756 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء صلى الله نہیں ہونا اور آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم ہم پر گندے ڈکار نہ پھینکا کر ولیکن اس کے باوجو د ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اپنی جگہ قائم رہا.تو یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے اندر صفائی کا جذ بہ نہ رہے.اس جذبے کے باوجود خدا کے احترام کا جذبہ اتنا غالب ہو کہ اپنی طبعی نفاستوں اور نظافتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خدا کے ادب کے تقاضوں کو اپنے سر پہ ہمیشہ قائم رکھیں اور انہی کے حقوق اس وقت ادا کیا کریں.پس خدا کی خاطر بعض دفعہ بد بو بھی سوکھنی پڑتی ہے.بعض اور بے ہودہ حرکتیں مسجد میں ہو جاتی ہیں وہ بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں یعنی ایسی حرکتیں ہوتی ہیں کہ غصہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باوجو دل جل کر بیٹھنا جس کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ مجزا کر کھڑے ہونا.اس ضمن میں ایک اور بات آپ کے سامنے رکھنی ضروری ہے مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ قادیان میں بھی اور ر بوہ میں بھی اس خیال سے کہ اگر اکیلا ہو تو جماعت نہیں ہوتی ایسا شخص جو نماز میں دیر سے آتا تھا اور اگلی صف مکمل ہو جاتی تھی وہ آگے سے ایک آدمی کو گھسیٹ کر پیچھے کر لیتا تھا اور اپنی نماز با جماعت بنانے کی خاطر اس کو اپنے ساتھ کھڑا کرتا تھا اور کئی بزرگوں کو بھی میں نے دیکھا کہ ان کی تائید اس کو حاصل تھی.میں نے جہاں تک غور کیا ہے میرے علم میں نہیں کہ آنحضرت یے نے اس بات کا حکم دیا ہو.میں سمجھتا ہو کہ یہ استنباط کیا گیا ہے لیکن میں نے بہر حال علماء کو متوجہ کیا ہے اور ربوہ میں تو ہمارے بزرگ علماء اس وقت براہ راست میری یہ بات سُن رہے ہیں وہ یہ نوٹ کر لیں اور تلاش کریں کہ کیا واقعہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ تم اپنی نماز با جماعت بنانے کی خاطر باجماعت نماز میں خلل پیدا کر دیا کرو.میں نہیں مان سکتا اگر مل گئی تو سر تسلیم خم کرنا ہو گا پھر میری سوچ یقینا غلط ہے لیکن مجھے یہ خیال ہے کہ غالباً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ایک شخص کی باجماعت نماز بنانے کی خاطر پوری صف پر اثر پڑتا ہے اور خلل واقع ہو جاتا ہے اور یہ حکم یقیناً بہت زیادہ واضح اور غالب اور قوی ہے کہ درمیان میں فاصلے نہ ہوں.اگر آپ آگے سے گھسیٹ کر کسی کو پیچھے کرتے ہیں تو ایک فاصلہ پیدا کرتے ہیں پس اگر دو باتوں میں تضاد دکھائی دے تو یقیناً ایک حدیث ضعیف ہوگی سوائے اس کے کہ کوئی دلوں کو اور عقلوں کو بھی مطمئن کرنے والا حل بھی ساتھ تجویز کیا جائے.پس اور باتوں کو چھوڑیئے.صرف میرے نفس کی بات نہیں کوئی حدیث یہ پیغام دیتی ہے اگر حدیث پر مبنی بات ہے تو اس میں ممکن ہے کوئی فرق ہو کوئی ضعیف بات ہو، کسی نے اپنے خیال کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 757 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کر دیا ہو لیکن دل نہیں مانتا کہ ایک انسان اپنی نماز کو با جماعت بنانے کی خاطر صف میں خلل پیدا کر دے.جب ایسا واقعہ ہوتا تھا تو ہرشخص کو پھر سرکنا پڑتا تھا اور تھوڑا تھوڑ اقدم کر کے آپس میں سمٹتے تھے اور ایک شخص کے متحرک ہونے سے ساری صف اس طرح متحرک ہو جاتی تھی جس طرح اینٹوں کی قطاروں کی کھیل ہوتی ہے.بچے اینٹیں کھڑی کر دیا کرتے تھے اور ایک اینٹ پھینکو تو دوسری پر گرتی ، دوسری تیسری پر گرتی اور اس طرح وہ گرتی چلی جاتی تھیں حالانکہ ایک اور حدیث میں حضرت اقدس محمدرسول اللہ ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ نمازی کے آگے سے بھی نہیں گزرنا.(بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۴۸۰ ) وہ اپنی جگہ کھڑا ہے اور آپ کا بدن اس سے مس نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود سامنے سے گزرنے کی اجازت نہیں بعض حدیثوں میں تو یہاں تک آیا ہے کہ اگر اتنے دن بھی کھڑا ہونا پڑے یعنی اس بات کی اہمیت کو واضح کرنے کی خاطر فرمایا کہ اگر اتنے دن بھی کھڑا ہونا پڑے تب بھی تم نے آگے سے نہیں گزرنا.مراد یہ ہے کہ ایک سجدہ کا جو فاصلہ ہے وہ نمازی کا اپنا حق ہے اس کی سرزمین ہے اس کے اور خدا کے درمیان اس زمین میں کسی کو حائل ہونے کا حق نہیں ہے.بہت ہی پیارا اور بڑا گہراپر معانی حکم ہے.اب ایک طرف تو نمازی کی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ قائم رکھنے کے لئے یہ ارشاد ہوا اور دوسری طرف ہر آنے والا جب صفوں کو مکمل دیکھے تو ساری صفوں میں خلل پیدا کر دے اور توجہ کو بکھرا دے.میرا دل تو یہ نہیں مانتا مگر میرے دل کی بات کیا ہے اگر آنحضرت ﷺ کا قطعی حکم ایسا مل جائے جو حدیثوں کے اس ظاہری تضاد کو بھی دور کر دے تو لازماً سر تسلیم خم ہوگا لیکن جب تک یہ ثبوت نہ مل جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں احتیاط کرنی چاہئے اور نمازی کی خدا کی طرف توجہ میں کسی صورت میں بھی خلل پیدا نہیں کرنا چاہئے تبھی مسجد میں سرگوشیاں بھی منع ہیں اور کئی قسم کی حرکات جیسے بچے کرتے ہیں کہ دوڑنے پھرنے لگ گئے کھیلنے کودنے لگ گئے یہ تمام آداب مساجد کے خلاف ہیں.آداب مساجد کے سلسلہ میں یہ بات آپ اچھی طرح یا درکھیں کہ ہمارا سارا نظام زندگی آداب مساجد سے متاثر ہوتا ہے.باجماعت نماز میں جو زور ہے اس میں یہ بہت بڑی حکمت ہے.کیونکہ تمام اسلامی معاشرے اور نظم و ضبط کی تصویر ہے جو باجماعت نماز میں کھینچی جاتی ہے.پس آداب مساجد کے ساتھ باجماعت نماز کے بھی کچھ آداب ہیں ان کو بھی آپ کو پیش نظر رکھنا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 758 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء چاہیے.اُن میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جب امام تلاوت کر رہا ہو تو جو نمازی پیچھے کھڑے ہوں وہ پیچھے پیچھے ایسی آواز میں تلاوت نہ کیا کریں (ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر :۷۰۲) کہ جس کے نتیجہ میں امام کے اوپر بھی اثر پڑتا ہے اور اس کی تلاوت اور توجہ میں خلل واقع ہوتا ہو چنانچہ اسی پر فقہا نے یہ مسئلہ بنایا ہے کہ جن نمازوں میں اونچی قرآت ہے وہاں نمازیوں کو خاموشی سے سننا چاہئے لیکن اس کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں جن کا اجتماعی زندگی سے تعلق ہے ، اجتماعیت سے تعلق ہے مثلاً اگر نماز میں امام غلطی کرتا ہے تو نمازی کا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی نماز میں اس غلطی کی اصلاح خود کر لے بہت ہی اہم اور گہرا حکم ہے اس میں امام کی اطاعت کا ایک بہت گہرا اور قوموں کو زندہ رکھنے والا راز بیان فرمایا گیا ہے.امام تمہارا لیڈر بنایا گیا ہے اس کے پیچھے تم نے چلنا ہے.وہ خدا کے حضور حاضر ہے، خدا کے ادب کے تقاضے پورے کر رہا ہے اور اس سے کوئی بشری غلطی ہو جاتی ہے تو اگر کوئی انسان اس بشری غلطی پر اس سے اپنا تعلق تو ڑلیتا ہے تو امام سے ہی نہیں خدا سے بھی اپنا تعلق تو ڑتا ہے کیونکہ جس کو امام بنا لیا جائے وہ خدا کے حضور تمہاری نمائندگی کر رہا ہے، اس لئے بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ غلطی کا پتا ہے پھر بھی کر رہے ہیں لیکن یہی حکم ہے اور اتنا واضح ہے کہ تمام عالم اسلام میں فقہی اختلافات کے باوجود اس بارے میں ایک ذرہ بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جا تاسنی ، شیعہ سارے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر امام سے غلطی ہو جائے اور امام غلطی درست نہ کرے تو تمام مقتدیوں کا کام ہے کہ بلا چوں و چرا اس غلطی میں اس کی متابعت کریں.اس موقع پر اس کو کیا کہنا چاہئے کس طرح کہنا چاہئے ، اس کے متعلق فرمایا سبحان اللہ پڑھواب یہ سبحان اللہ پڑھنا خود ایک بہت ہی گہر اعارفانہ حکم ہے.جس پر غور کریں تو طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے.سبحان اللہ کا مطلب ہے صرف اللہ غلطی سے پاک ہے.ایک طرف امام کو یہ پیغام مل گیا کہ اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے.یہ بتایا گیا کہ ہم تمہاری غلطی تو سمجھ گئے ہیں لیکن تمہیں نیچی نظر سے نہیں دیکھ رہے.ہم تمہیں کسی لحاظ سے بھی تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھ رہے.ہمیں یہ تربیت دی گئی ہے کہ صرف خدا ہے جو غلطی سے پاک ہے.پس کتنے ادب اور احترام کے ساتھ ایک غلطی کرنے والے امام کی غلطی کی طرف اُسے متوجہ فرمایا گیا ہے اور دوسرا پیغام سبحان اللہ خود اس انسان کو دیتا ہے جس نے غلطی پکڑی ہے اور اس میں دو پیغام ہیں.ایک یہ کہ تم سمجھتے ہو کہ اس نے غلطی کی ہے.ہو سکتا ہے کہ تم غلطی پر ہو.اس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 759 خطبه جمعه ۱/۲۳ اکتوبر ۱۹۹۲ء احتمال کو نظر انداز نہ کرنا کیونکہ صرف اللہ غلطی سے پاک ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ میں بھی بعض دفعہ نماز میں بھولتا ہوں تو بعض مجھ سے زیادہ بھولنے والے مجھے غلط یاد کرا دیتے ہیں اور اس جگہ سبحان اللہ کہتے ہیں جہاں سبحان اللہ تو ہے ہی لیکن میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہوتی پھر بعد میں میں ان کو سمجھا تا ہوں کہ دیکھیں.سبحان اللہ کیسا پیارا کلام ہے.غلطی کی اصلاح کا کیسا پیارا انداز ہے پڑھنے والے انسان کو بھی اس سبحان اللہ سے یہ پیغام ملتا ہے کہ تم اصرار نہ کرنا کہ تم ضرور درست ہو.تم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ تم بھی تو غلطی کے پتلے ہو.اگر اس سے ہو گئی تو کیا فرق پڑتا ہے یعنی سچ سچ کی غلطی ہو تب بھی انکساری کا پیغام ہے اور پہلی بات کا ثبوت یہ ہے کہ ہو سکتا ہے تم غلط ہو کہ جب امام درستی نہ کرے تو اس وقت الگ ہونے کا حکم نہیں ہے.ایسے شخص کا فرض ہے کہ بغیر مزید شور مچائے وہ اس کی متابعت کرے.چنانچہ بعض دفعہ نماز میں جو عجیب سی حرکتیں ہوتی ہیں ان کی اصلاح کے لئے میں یہ تفصیل بیان کر رہا ہوں کسی امام سے غلطی ہوئی ہے تو ایک صاحب سبحان الله ، سبحان الله کہے جاتے ہیں حالانکہ صرف اشارہ کافی ہے وہ بھی نرم زبان میں.جو قریب ہے پہلے اس کا فرض ہے اور اگر اس کے دور کے آدمی نے غلطی پکڑی ہے تو وہ وہاں سے سبحان اللہ کہے لیکن تشدد کے معنی میں نہیں جیسے چوٹ مارکر کوئی کہتا ہے بلکہ بجز کے ساتھ انکسار کے ساتھ، اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے سبحان اللہ سے اُسے یاد کر وائے کہ آپ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے.اگر غلطی ہو جائے تو بعد میں کیا ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں مجھ سے لندن میں ایک سوال کیا گیا تھا.ایک بچی نے سوال کیا تھا.میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب آپ کے سامنے بھی آنا چاہئے انہوں نے کہا کہ ایک امام سے غلطی ہو جاتی ہے تو وہ سجدہ سہو کرے گا.اس میں دو باتیں ہیں کہ اس کے سجدہ سہو میں کچھ لوگ تو ہیں جو اس کے ساتھ شروع میں شامل تھے وہ تو سجدہ سہو میں شامل ہو جائیں گے لیکن جو بعد میں آئے اور انہوں نے اپنی نماز جاری رکھی ہے اُن کے لئے کیا حکم ہے؟ ان کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اس وقت بھی امام کی متابعت سے نہیں نکلے اور جب امام سجدہ میں جاتا ہے تو وہ نماز کی کسی بھی حالت میں ہوں خواہ وہ قیام کی حالت میں ہوں خواہ وہ رکوع کی حالت میں ہوں اپنی الگ نماز پڑھ رہے ہیں لیکن امام کی متابعت میں وہ سجدہ ضرور کریں گے.ایک تو یہ بات یاد رکھئے.دوسرا یہ کہ انہوں نے کہا کہ اگر مقتدی سے کوئی غلطی ہو جائے تو میں اپنے دو سجدے کروں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 760 خطبه جمعه ۱/۲۳ اکتوبر ۱۹۹۲ء گی؟ اس کا جواب ہے ہرگز نہیں.تمہاری غلطیاں امام کے تابع خدا کی حفاظت میں آجاتی ہیں.جب جماعت کے طور پر نماز پڑھ رہے ہو تو وہاں جماعت کا حکم لگے گا اور انفرادیت غائب ہو جاتی ہے جہاں امام کے فارغ ہو جانے کے بعد جو باقی رکعتیں ہیں ان میں اگر کوئی غلطی ہے تو اس میں سجدہ سہو کرنا چاہئے کیونکہ وہ ایسی نماز ہے جو ایک لحاظ سے امام کے تابع ہے اور ایک حصہ اُس کا امام کے بعد شروع ہوتا ہے.پس اس حصے پر جہاں امام اثر انداز ہو گا وہاں مقتدی ضرور اثر انداز ہو گا یعنی سجدہ سہو وہ کرتا ہے تو آپ کو بھی کرنا پڑے گا لیکن جس حصے پر امام اثر انداز نہیں ہورہا اور آپ غلطی کر رہے ہیں وہاں آپ کو اس غلطی کا سجدہ سہو الگ کرنا چاہئے.عورتوں کے لئے جو حکم ہے کہ وہ سبحان اللہ نہیں کہیں گی بلکہ تالی بجائیں گی.میں اس سلسلے میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ عبادت میں خلل واقع نہ ہو.خدا کی حضوری کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جائے.پس عورتوں کے لئے اور مردوں کے لئے نمازوں میں علیحدگی کا جو حکم ہے اس پر بھی حضوری اثر انداز ہوتی ہے.اگر خدا کے حضور حاضر ہو رہے ہیں تو کوئی دنیاوی رشتے اور دنیاوی کششیں اس خدا کے حضور حاضر ہونے کے احترام میں دخل انداز نہیں ہونی چاہئیں.اگر ایک عورت آپ کے ساتھ کھڑی ہے یعنی عموماً نمازوں میں ایک طرف عورت کھڑی ہے اور دوسری طرف مرد ساتھ کھڑا ہے تو عورتوں کے اپنے انداز ہیں.ان میں کششوں کی بھی مختلف کیفیتیں ہیں.ہر انسان تو ایک جیسا نہیں ہوتا اس لئے بالکل بعید نہیں کہ وہ لوگ جن کے نفسوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں.کوئی آزمائش میں مبتلا ہو جائے اور ساتھ کھڑی ہوئی عورت کا احساس اس کی عبادت میں مخل ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی حضوری کا تصور چھوڑ کر اس عورت کی حضوری کے تصور میں نماز پڑھتا چلا جائے اس لئے عورت آواز دیتی ہے تو اس کی آواز میں بھی ایک خاص کشش ہوتی ہے اور بعض دفعہ پہچانی بھی جاتی ہے کہ کون ہے.پس اس لئے تالی کی آواز تو ایک ایسی آواز ہے کہ جس میں کوئی انفرادیت نہیں.ہر تالی تالی ہی ہے.پس امام کو صرف یہ پتا لگ جائے کہ کچھ ہوا ہے اور پھر وہ سوچے اور اس کے نتیجہ میں جو کوئی باقی احکامات ہیں وہ جاری ہوں.پس آنحضرت علیہ نے ہر موقع کے لئے بڑی تفصیلی نصیحتیں فرمائی ہیں.ان نصیحتوں پر عمل کرنے سے ہماری عبادتیں سج جائیں گی.ان میں خلا نہیں رہے گا ان میں خدا تعالیٰ کے تصور کی اہمیت دن بدن نمایاں ہوتی چلی صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 761 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۹۲ء جائے گی اور وہ تصور ہماری زندگی پر غالب آتا چلا جائے گا.بعض اور احکامات اسی سے تعلق رکھنے والے ہیں ( میں کچھ حدیثیں نقل کر کے ساتھ لایا تھا اگر کوئی بات میرے بیان سے رہ گئی ہو تو میں دیکھتا ہوں شاید ان میں ذکر مل جائے ) ہاں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مسجدوں میں خرید و فروخت کی بات کوئی نہیں کرنی ( ترندی کتاب الصلوۃ حدیث نمبر: ۲۹۶) صرف خدا سے سودے ہیں انسانوں سے سودے یہاں بند ہو جانے چاہئیں.مسجد کو ہر قسم کی گندگی سے پاک اور صاف رکھنا چاہئے اسی لئے حکم ہے کہ عورتیں جب اُن کے ایام ہوں احتیاط کریں کیونکہ یہ احتمال ہے کہ کوئی قطرہ خون مسجد پر لگ جائے یا گندگی گر جائے اس لئے ان کو فر مایا گیا ان دنوں میں مسجد نہ آئیں.مسجد کی صفائی کے متعلق اتنی اہمیت ہے کہ حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل دونوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنْ طَهِّرَا بَيْتِي (البقرہ:۱۲۶) میرے گھر کو تم دونوں مل کر صاف رکھا کرو اس طرح مسجد کی صفائی کو اتنی اہمیت دی کہ وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمام دنیا اور آئندہ نسلوں کے لئے امام بنائے گئے تھے ان کو اور حضرت اسماعیل جو نبی اللہ تھے فرمایا کہ آنے والوں کے خیال سے ، عبادت کرنے والے، اعتکاف بیٹھنے والے اور مسجد کا طواف کی غرض سے آنے والوں کے لئے تم دونوں اس مسجد کو صاف کیا کرو.آنحضرت ﷺ کو بھی مسجد کی صفائی سے بہت پیار تھا اور بڑی محبت کی نظر سے ان لوگوں کو دیکھتے تھے جو مسجد کی صفائی کیا کرتے تھے.ایک واقعہ ہے آپ کو اندازہ ہو گا.ایک ایسی خاتون جس کی سوسائٹی میں کوئی قدر نہ ہو.وہ عام لونڈی ہو اور اپنی ظاہری شکل وصورت میں یا مالی لحاظ سے ایسی غربت میں ہو کہ اُس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو اس کے لئے مسجد کی صفائی میں ہی عزت ہے.اگر اور کچھ نہیں کر سکتی تو مسجدیں ہی صاف کرے اور اس سے اُس کو کتنی عزت مل سکتی ہے اس کا خیال میں آپ کو بتاتا ہوں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے زمانہ میں ایک ایسی عورت جو دنیا کی نظر میں قابل قدر نہیں تھی وہ مسجد صاف کیا کرتی تھی دو تین دن نظر نہ آئی تو آنحضرت ﷺ نے پوچھا وہ عورت کہاں گئی ، دکھائی نہیں دی.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! وہ تو فوت ہو گئی ہے اس پر حضور اکرم حتی سخت بے چین ہوئے کہ فوت ہو گئی تھی تو مجھے کیوں نہ بتایا.اسی وقت اس کی قبر پر تشریف لے گئے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس پر دُعا کی (مسلم کتاب الجنائز) تو دیکھیں کہ عام خاتون جس کو دنیا کی نظر میں بھی کوئی مقام الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 762 خطبه جمعه ۱/۲۳ کتوبر ۱۹۹۲ء حاصل نہیں تھا وہ مسجد کی صفائی سے اتنا بلند مقام حاصل کر گئی کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی نظروں میں مقام بنایا ہے اور یقیناً خدا کی نظروں میں بھی مقام بنایا ہے، تو صفائی کو معمولی نہ سمجھیں.حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی مثال کو بھی پیش نظر رکھیں اور پھر اس واقعہ کو پیش نظر رکھیں جو آپ کے سامنے رکھا ہے.مسجد کو صاف کرنا چاہئے.اگر کوئی خاندان مل کر مسجد کی صفائی کا پروگرام بنا ئیں تو اس سے خدا والوں کی نظر میں ان کی عزت اور ان کا احترام بڑھے گا اور خدا کی نظر میں بڑھے گا.پھر مسجد میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس سے مسجد میں گندگی پیدا ہوتی ہو.جوتوں کو جواُتارنے کا حکم ہے اس کا اسی سے تعلق ہے لیکن یہ تو نہیں کہ جو تے باہر رکھ دیئے جائیں اور کپڑے اتنے غلیظ ہوں یا کوئی ایسی بیماری ہو جس سے مسجد گندی ہوتی ہو.مثلاً بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ ماتھے پر ایگزیما ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ ان کے ہاتھوں پر یا چہرے پر ناسور ہوتے ہیں لیکن وہ اس بات کا ذرہ خیال نہیں کرتے کہ وہ دوسرے نمازیوں کے لئے تکلیف کا موجب ہی نہیں بنیں گے بلکہ بنیادی طور پر ان میں بیماریاں پھیلانے کا موجب بھی بنیں گے یعنی نفسیاتی تکلیف ہی نہیں بلکہ عملاً بیماریاں پھیلانے کا موجب بنیں گے اور مسجد کو گندا کرنا اپنی ذات میں ایک گناہ ہے.ایسے لوگوں کو فرض ہے کہ اگر انہوں نے مسجد آنا ہے تو اپنا کپڑا لے کر آیا کریں موٹی تہہ والی اپنی ایسی جائے نماز ساتھ لایا کریں جس کے نتیجہ میں مسجد کے فرش کے گندے ہونے کا کوئی احتمال نہ ہو.ایسے لوگوں کو یہ بھی تاکید ہے (جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ مسجد سے جو سبق سیکھیں اپنی زندگی میں جاری کیا کریں) کہ اگر ہاتھوں میں کوئی ایسی بیماری ہے تو پھر وہ مصافحہ نہ کیا کریں.بہت مدتیں ہو گئیں میرے پاس لوگ علاج کے لئے آتے ہیں اور ایسے مریضوں کو تو خاص طور پر شوق ہوتا ہے کہ پہلے مصافحہ کریں بعد میں بتائیں کہ ہمارے ہاتھ میں یہ گندی بیماری ہے اور بعض دفعہ وہ پہلے اپنے زخم دکھاتے ، ہاتھ لگاتے ، ان کو چھیڑتے اور پھر ایک دم السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں.آدمی مجبور ہوتا ہے ورنہ ان کی دل شکنی ہوگی لیکن وہی مضمون ہے جو مسجد میں آپ نے سیکھا کہ اپنے انکسار کی خاطر ایک گندے آدمی کو بھی برداشت کرو.تکبر سے اس کا ہاتھ نہ جھٹکو لیکن اس گندے آدمی کا یا بیمار آدمی کا اپنا بھی تو فرض ہے.اس کا بھی تو سوسائٹی پر کوئی حق ہے اسے چاہئے کہ وہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 763 خطبه جمعه ۱/۲۳ اکتوبر ۱۹۹۲ء ان چیزوں سے احتراز کرے اور مسجد کی پاکیزگی کی خاطر اگر مسجد میں آنا فرض ہے تو پھر وہ ضرور اپنا کپڑا اور اپنی حفاظت کا سامان ساتھ لایا کرے.جو شائستہ مہذب قو میں ہیں ان میں یہ رواج ہے کہ وہ اپنی بیماری کو دوسروں تک نہیں پھیلا تیں.آپ جاپان میں جائیں تو وہاں ہر آدمی نے جب اُس کو نزلہ ہوا ہو اپنے اوپر سفید کپڑا باندھا ہوتا ہے.میں جب جاپان گیا تھا تو بعض لوگوں کو سفید کپڑا باندھے ہوئے دیکھ کر تعجب ہوتا تھا یعنی اتنے حصے پر سفید کپڑا باندھا ہوا تھا تو پتا لگا کہ وہ نزلے کے مریض ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کا نزلہ دوسروں کو لگے.لیکن یہ ادب مسجد نے سکھایا ہے کہ اپنی بد بو دوسروں تک نہ پہنچاؤ جیسے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں پیاز کھا کر نہ آیا کرو.گندے ڈکار نہ لیا کرو.نمازیوں کو اپنی تکلیف سے محفوظ رکھو.( بخاری کتاب الاطعمہ حدیث نمبر ۵۰۳۲) اس سبق کو مسلمانوں کو اپنی ساری زندگی پر جاری کرنا چاہئے تھا جیسے کہ میں نے دیکھنے کا مضمون بتایا اور نماز میں سیکھا اور عارف باللہ نے اس کو اپنی ساری زندگی جاری کر دیا لیکن مسلمان نہیں کرتے اور غیر کرتے ہیں اور خاص طور پر ہماری عورتوں میں تو یہ بیماری بہت ہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بیماریاں دوسروں تک پھیلاتی چلی جاتی ہیں.کوئی پرواہ نہیں کرتیں.جلسے کے دنوں میں ایک خاتون اپنا بچہ لے کر آئیں جس کو سخت کالی کھانسی تھی اور عام کھانے کی میز پر اس کو بٹھایا ہوا تھا.وہیں سے وہ علاج کے لئے لے کر آئیں اُن سے میں نے کہا کہ آپ کے بچے کو کالی کھانسی ہے تو کہنے لگیں کوئی بات نہیں جلسہ تو سنتا ہی ہے.میں نے کہا جلسہ سُنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کو سننے کے لائق نہ رہنے دیں.کالی کھانسی پھیلانے کا آپ کو کیا حق ہے.بعض عورتیں ہیں جن کے بچوں کو لا کٹر کا کٹڑ نکلا ہوا ہواور منہ پر چھالے ابھی ہرے ہی ہوتے ہیں ان کو لے کر پھرتی ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کرتیں کہ دوسرے بچوں کو لگے گی.پس مسجد نے جو آداب سکھائے ہیں وہ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا آپ کی ساری زندگی پر حاوی ہیں ان آداب کو مسجد میں قائم کر دیں اور ان کے فلسفے سے اپنی نسلوں کو خوب اچھی طرح آگاہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد سے تعلق رکھنے والی قوم دنیا کی سب سے عظیم اور متمدن قوم ہوگی کیونکہ اس قوم کو خدا اور اس کے رسول نے آداب سکھائے ہیں.کوئی دنیا کی قوم آپ کے پاسنگ کو نہیں پہنچ سکتی.اعلیٰ درجے کے اخلاق اور اعلیٰ درجے کے اصول معاشرت میں اور نظام جماعت کے حقوق کے تعلق میں جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں مسجد میں سکھا دیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 764 خطبه جمعه ۲۳ /اکتوبر ۱۹۹۲ء ہے وہ آپ کی ساری زندگی پر حاوی ہو گا.اور دنیا کی بہترین قوم تو آپ ہی ہیں اور ہمیشہ دنیا کی بہترین قوم رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا.انشاء اللہ آج شام کو میں قافلے سمیت واپسی کے سفر پر روانہ ہوں گا.ساری جماعت سے درخواست ہے کہ دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہر حال میں شامل رہے اور اللہ کی حفاظت اور ہم سب دوست خدا کی نظر میں رہتے ہوئے واپس گھروں کو لوٹیں اور سب احمدی مسافر جو جلسے سے واپس جائیں گے ان کے حق میں بھی دعا کریں اللہ ان کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے.جماعت احمدیہ کینیڈا کو میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ کہتا ہوں.اب اس کے بعد ملاقات کا موقع نہیں مل سکے گا اور تمام دنیا سے جو تہنیت کے پیغام آ رہے ہیں.فیکسز کی شکل میں بھی اور ٹیلیفون وغیرہ بھی وہ سارے جماعت احمدیہ کینیڈا کو محبت بھر اسلام پہنچاتے ہیں اور آپ کو جو خدا تعالیٰ نے سعادت بخشی ہے اس میں دل کی گہرائیوں کے ساتھ مبارکباد پیش کرتے ہیں.امید ہے آپ ان نیکیوں کو نسلاً بعد نسل قائم رکھیں گے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 765 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء تحریک جدید کے ۵۹ ویں سال کا اعلان اپنی مالی وسعت کے مطابق قربانی کریں.( خطبه جمعه فرموده ۳۰ اکتو بر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تحریک جدید کو جاری ہوئے 58 سال گزر چکے ہیں اور 59 سال میں اب ہم داخل ہو رہے ہیں.اس لحاظ سے دفتر اول کے 58 سال پورے ہوئے ہیں کیونکہ تحریک جدید کے آغاز پر جو مالی تحریک کی گئی تھی اُس میں شامل ہونے والوں کو دفتر اول کے شامل ہونے والوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے.کچھ عرصے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دوسرے دفتر کا آغاز فرمایا یعنی دس سال کے بعد ، دوسرے دفتر کا نام دفتر دوم رکھا گیا.اُس کو بھی اب 48 سال گزر چکے ہیں.دفتر سوم کا آغاز حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اُس کو 27 سال پورے ہوئے.پھر میں نے انگلستان میں دفتر چہارم کا آغاز کیا اور اسے 7 سال پورے ہوئے ہیں اور ہم اب آٹھویں سال میں داخل ہورہے ہیں.دفاتر سے مراد یہ ہے کہ ایک نسل جو چندوں میں شامل ہوتی ہے اُس کے کچھ عرصے کے بعد نئے بچے بھی جوان ہو جاتے ہیں ، کمانے لگ جاتے ہیں اور نئے احمدیت میں داخل ہونے والے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کے رنگ سیکھ لیتے ہیں.تو نئی نسل گویا کہ چندہ دینے والوں کی ایسی پیدا ہو جاتی ہے جنہیں خصوصیت کے ساتھ اپیل کرنا ضروری ہوتا ہے اور تجربہ یہی ہے کہ ہر دفتر کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 766 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء اضافے کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید میں چندہ دینے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا اور انہوں نے مالی قربانی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا.تحریک جدید کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم کامیابیاں عطا فرمائی ہیں.اُن کی داستانیں تو اب دنیا کے چاروں براعظموں تک پھیلی پڑی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس وقت ایک سو چھبیس ممالک سے زائد ایسے ممالک ہیں جن میں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی ہے اور جہاں قائم ہوئی وہاں کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور ترقی کر رہی ہے.تو وہ پودا جو آج سے 58 سال پہلے لگایا گیا تھا اب ایک ایسا تناور درخت بن گیا ہے کہ جس کی شاخیں سب دنیا پر پھیلی پڑی ہیں.جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر مالی تحریک میں بہت غیر معمولی جوش سے حصہ لیا ہے اور تحریک کے آغاز پر جو ولولہ دکھایا گیا اصل قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ اُس ولولے میں آگے کمی نہیں آنے دی اور جتنے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی میں شامل ہونے والے تحریک جدید کے دفتر اول میں تھے کوئی دن مجھ پر ایسا نہیں آیا، کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں وہ مالی قربانی میں ترقی نہیں کرتے چلے گئے.پھر ایک تحریک نہیں اس کے بعد اور تحریکیں بھی جاری ہوئی اور پھر اور تحریکیں بھی جاری ہو ئیں اور کبھی کسی قربانی کرنے والے نے یہ شکوہ نہیں کیا کہ پہلے ہی بہت سی تحریکیں ہیں اب اور تحریکیں بھی جاری کر رہے ہیں.ہم کہاں سے اتنے چندے لا سکتے ہیں.بلکہ ہرتحریک پر مسابقت کرنے والوں میں مسابقت کی روح دکھائی اور اُسی جذبے سے ہر تحریک میں شامل ہوئے جس جذبے سے پہلی تحریکوں میں شامل ہوتے رہے اور اب تو تحریکات کی فہرست بہت لمبی ہو چکی ہے.اور میرے لئے اُس کو یاد رکھنا بھی مشکل ہے لیکن ایک بات یقینی اور قطعی ہے کہ احمدی احباب کو اللہ تعالیٰ نے ایسے خمیر سے پیدا فرمایا ہے جس کی فطرت میں ہارنا اور کمزوری دکھانا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ہر ایک تحریک پر جماعت نے ایک دوسرے سے بڑھ کر لبیک کہا اور حیرت انگیز طور پر قربانیوں میں ترقی کرتی چلی گئی.اس لئے آج ہم تمام دنیا میں یہ اعلان خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ اس جماعت جیسی کوئی جماعت دنیا میں موجود نہیں.اس جماعت کے پائنگ کو بھی دوسری جماعتیں نہیں آتیں.وہ دشمن جو آج حیرت سے جماعت کی ترقیات کو دیکھ رہے ہیں اور ان وسوسوں میں مبتلا ہیں کہ خدا جانے ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں.ان کو پتا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 767 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء جن لوگوں کو غنی دل عطا کر دے، خدا تعالیٰ جن لوگوں کو اپنی راہ میں قربانی کے جسکے عطا فرما دے، قربانی کے مزے عطا کر دے، اُن کے لئے یہ سوال نہیں ہوا کرتا پیسے کہاں سے آئیں گے.رازق اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی راہ میں خرچ کی توفیق عطا فرماتا ہے.وہ توفیق بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے اور جماعت کے اموال میں عموماً ہمیشہ ترقی ہی ہوتی رہی ہے.تحریکات کے نتیجے میں جماعت کسی غربت میں مبتلا نہیں ہوئی.پس یہی سلوک جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جاری وساری ہے.ہماری دعا ہے کہ ہمیشہ یہ سلوک جاری وساری رہے اور جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں جماعت اب مالی قربانیوں کے لئے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اور بعض ایسی ایسی عظیم قربانیوں کے لئے تیار ہے کہ جن کے متعلق چند سال پہلے بھی میں سوچ نہیں سکتا تھا.اب جب ہم نے عالمی پیمانے پر مواصلاتی سیارے کے ذریعہ ٹیلی ویژن کے صوتی اور تصویری نظام سے فائدہ اٹھایا اور خطبات کے Televise کرنے کا سلسلہ جاری ہوا تو شروع میں جو خرچ اتنا بڑا دکھائی دیتا تھا کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیسے پورا ہوگا مگر جرمنی کی ایک ہی جماعت نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہا کہ آپ خرچ کی پرواہ نہ کریں یہ جتنا خرچ ہے وہ اکیلے جرمنی کی جماعت ادا کرے گی اور پھر فوراً اُس وعدے کو پورا کیا اور کبھی یاد بھی کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئی.کینیڈا میں جب مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور موقع میسر آیا جس سے استفادے کے لئے پروگرام بنایا جارہا ہے تو وہ موقع بہت ہی اعلیٰ اور قیمتی موقع ہے اس سے انشاء اللہ تعالیٰ ہم ضرور فائدہ اٹھائیں گے مگر اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ اُن کے تصور سے ہی آدمی پریشان ہوتا تھا کہ اتنی بڑی رقمیں آئیں گی کہاں سے.تو کینیڈا کے اور امریکہ کے امیر صاحبان سے میں نے ذکر کیا تو کینیڈا کے امیر صاحب نے فوری طور پر جماعت کینیڈا کی طرف سے پانچ لاکھ ڈالرسالانہ کا وعدہ کر دیا اور بڑے اطمینان سے کہا کہ میں مشورہ کرنے کے بعد بتا رہا ہوں.ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس وعدے پر قائم رہیں گے اور اسی طرح امریکہ کے امیر صاحب نے بھی فرمایا کہ جب میں واپس جاؤں گا تو جماعت کے سامنے یہ بات رکھوں گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ کینیڈا سے ہم پیچھے نہیں رہیں گے تو وہ بڑی رقم جو بہت ہی بڑی دکھائی دیتی تھی.اُس کا ایک حصہ ان دو وعدوں نے پورا کر دیا میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ جب یہ تحریک تمام امراء تک پہنچائی جائے گی، تمام ملکوں کو پہنچائی جائے گی تو جتنی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 768 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء ضرورت ہے اُس سے کم نہیں بلکہ زیادہ روپیہ ہی میسر آئے گا.اُس کی تفصیل میں اس وقت بیان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ پہلے ہی دشمن یعنی احمدیت کا دشمن ایک شدید عذاب میں مبتلا ہے اور ہر طرف ہاتھ پاؤں مار رہا ہے کہ کسی طرح جماعت کی دن دوگنی رات چوگنی ترقیات کی راہ میں حائل ہو سکے اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ جو خطبات کے نشر کرنے کا سلسلہ ہے اس نے تو اُن کی امیدوں پر ایسی چوٹ ماری ہے کہ تلملا اٹھے ہیں اور کچھ پیش نہیں جاتی.حکومتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کی کوششوں کی راہ میں حائل ہو جائیں کسی طرح اس آفاقی پیغام رسانی سلسلے کو بند کر دیں مگر حکومتیں کچھ نہیں کر سکتی جو فیصلے آسمان سے اترتے ہیں اُن کو روکا نہیں جاسکتا.تو جس بات کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جب انشاء اللہ تعالیٰ آپ پر کھل جائے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ غالباً اُس کے آغاز کا بہترین دن 23 / مارچ ہو گا یعنی جماعت احمدیہ کے آغاز کا دن.اُس کے بعد آپ دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کیسے ساری دنیا میں حیرت انگیز طور پر جماعت کا پیغام گھر گھر پہنچے گا اور مسلسل پہنچے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.تو تحریک جدید کا آغا ز تو بہت ہی چھوٹا سا ہوا تھا چند ہزار سے لیکن اب جس مرتبے اور مقام پرتحریک جدید پہنچ چکی ہے اُسی کی برکتیں ہیں دراصل یہ جو ہم کھا رہے ہیں لیکن جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں تو میری نظر اُس سے پیچھے کی طرف جاتی ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آ کر ٹھہرتی ہے.دراصل تحریک جدید ہو یا انجمن ہو یا کوئی تحریک ہو اُس کا آغاز اُس جری اللہ نے کیا ہے جسے ہم مسیح موعود اور مہدی معہود جانتے اور یقین کرتے ہیں.حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں ہی کی برکتیں ہیں اور آپ کے صحابہ کی قربانیاں ہیں جو اس اخلاص کے ساتھ ، گہرے خلوص کے ساتھ خدا کے حضور پیش کی گئیں.اُن قربانیوں نے لازماً بڑھنا اور پنپنا تھا اور اُن کے لئے ساری دنیا پر پھیلتے چلے جانا مقدر ہو چکا تھا.پس وہاں نظر جاتی ہے تو پھر حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے قدموں پر نظر پڑتی ہے، ان کے قدموں کی برکت ہے.آپ نے چودہ سوسال پہلے جو مسیح موعود کی پیشگوئیاں فرما ئیں اور مسیح موعود سے جو عظیم عالمی ترقیات وابستہ فرما ئیں یہ کہ کر کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ (توبه: ۳۳) محمد رسول اللہ کا پیغام ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے بنایا گیا ہے اور مفسرین نے یہ لکھا کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے دور میں شروع ہوگا، انجام تک پہنچے گا یعنی اپنے کمال کو پہنچے گا
خطبات طاہر جلدا 769 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء اور لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِم کا اطلاق اپنے تمام کمال کے ساتھ مسیح موعود کے زمانے میں پورا ہوگا پس اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ آغاز اسی وقت کے آغاز ہیں اور ہم تو پھل کھانے والے ہیں لیکن خدا کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں پھل کھانے کی بھی توفیق عطا فرمائی اور اس مقدس درخت کی آبیاری کی بھی توفیق عطا فرمائی.پس جب تک جماعت احمدیہ اسی احترام کے جذبے کے ساتھ اسی خلوص کے ساتھ اسلام کی خدمت پر کمر بستہ رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں اسلام کے پھیلانے اور غالب کرنے کے سہرا جماعت احمد یہ ہی کے سر رہے گا اور کوئی نہیں جو ہمارے سر سے یہ سہرا چھین سکے.یہ سہرا حضرت محمد مصطفی امیہ کے ہاتھوں نے ہمارے سروں پر رکھا ہے، یہ سہرا مسیح موعود کے سر پر باندھا گیا اور آپ کی ہی برکت سے آج یہ احمدیوں کے سر پر ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت احمد یہ ہمیشہ انشاء اللہ اس قربانیوں میں بیش و پیش آگے بڑھتی رہے گی.یا درکھیں کہ قربانیوں کے نتیجے میں جماعت کے اموال میں کمی نہیں آتی ، افراد کے اموال میں کمی نہیں آتی ، خاندانوں کے اموال میں کمی نہیں آتی بلکہ غیر معمولی برکتیں ملتی ہیں.صرف وقتی طور پر ایک خوف ہوتا ہے کہ یہ روپیہ میں نے فلاں کام کے لئے رکھا ہے، فلاں چیز کے لئے ہے یہ اگر میں نے دے دیا تو میرا کیا بنے گا.لیکن حواس خوف کو خرچ کر دیتے ہیں، ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور خدا پر توکل کر کے خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں.اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ویسے ہی سلوک فرماتا ہے جیسے ایک زمیندار اپنے کھانے کے دانے بچائے ہوئے رکھے ہوں وہ مٹی میں رول دیتا ہے.خدا کی رحمت پر امید رکھتے ہوئے کہ خدا ضرور ان دانوں میں برکت دے گا اور پھر وہ برکت دیتا ہے.روحانی طور پر قربانی کرنے والوں کے لئے ان برکتوں سے زیادہ برکتیں مقدر ہیں جود نیاوی نظام میں رحمت سے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے ہیں.زیادہ سے زیادہ دنیاوی نظام رحمت سے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ایک دانہ سات سو دانوں تک ترقی کر جائے گا یعنی برکت پا جائے گا اور اگر ایک دانہ سات سو دانے بن جائیں تو اتنی بڑی پیداوار ہے کہ زمیندار اب تک اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.آج تک جو سائنس نے ترقی کی ہے اُس کے پیش نظر گندم کی پیداوار جو میرے علم میں ہے زیادہ سے زیادہ 80، 90، 100 من تک پہنچ جاتی ہے ایک من بیج اگر کھیت میں
خطبات طاہر جلدا 770 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء ڈالا جائے تو سومن پیداوار ہو تو بہت ہی غیر معمولی پیدا وار ہوگی.لیکن قرآن کریم نے وعدہ فرمایا ہے ایک دانہ سات سو دانوں میں تبدیل ہو سکتا ہے.ہو سکتا ہے آئندہ جب سائنس ترقی کرے تو زمینداروں کو ایک من کے بدلے سات سومن ہونا شروع ہو جائیں.لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے جس کے لئے چاہے اس سے زیادہ بڑھا دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں یہاں روحانی قربانی کرنے والوں کا ذکر ہے یعنی روحانی قربانی سے مراد ہے خدا کی خاطر دین کے لئے قربانی کرنے والوں کا ذکر ہے.اُن کو خدا تعالیٰ واقعہ ایک سے سات سو نہیں بلکہ سات سو سے بعض دفعہ مزید سات سو گنا بڑھا دیتا ہے.قربانیوں کے مقابل پر پھل اس کثرت سے عطا ہوتا ہے اُس کا کوئی حساب باقی نہیں رہتا.وہ بے حساب دیتا ہے.جماعت احمدیہ کے ساتھ اب تک جو سلوک ہے وہ ایسے ہی چلا آ رہا ہے.ہر قربانی کے بعد خدا تعالیٰ نے توفیق بڑھائی، ہر توفیق دہرانے کے بعد نئی قربانیوں کی توفیق ملی.نئی قربانیوں کے بعد پھر خدا نے توفیق بڑھا دی.گویا کہ ایک جاری وساری سلسلہ ہے جس کی کوئی مثال دنیا کے پردے پر کہیں اور دکھائی نہیں دیتی.تحریک جدید کے ضمن میں میرا دستور رہا ہے کہ میں موازنے کے طور پر مختلف جماعتوں کی قربانی کا ذکر کرتا ہوں تا کہ مسابقت کی روح بڑھے ایک دوسرے کو دیکھ کر جماعتوں میں آگے بڑھنے کی تحریک پیدا ہو اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان ہمیشہ صف اول میں رہا اور صف اول میں بھی پہلے درجے پر رہا ہے امسال بھی پاکستان نے یہ پوزیشن برقرار رکھی ہے اور تمام دنیا کی جماعتوں میں تحریک جدید کے چندوں میں بھی پاکستان سب سے زیادہ ہے اور تحریک جدید کے مجاہدین کی تعداد کے لحاظ سے بھی پاکستان کی جماعتیں دنیا کی جماعتوں سے آگے ہیں.دوسرے درجے پر جرمنی آگے بڑھ رہا ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے گزشتہ چند سال سے بعض دوسری جماعتوں نے بہت کوشش کی کہ جرمنی کو پیچھے چھوڑ جائیں لیکن اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنا یہ اعزاز برقرار رکھا.جرمنی نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے 1,50,945 پاؤنڈ اسٹرلنگ کے مقابل پر امسال 1,96,561 پاؤنڈ اسٹرلنگ وصولی ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی وصولی ہے اور بہت سے ایسے ملکوں کا بوجھ جماعت جرمنی نے اٹھا لیا ہے جو جرمنی کی مدد کے محتاج ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جماعت جرمنی کو بڑا اعزاز بخشا ہے، خدا یہ اعزاز برقرار رکھے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 771 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء امریکہ بھی پہلے کی نسبت کافی آگے آیا ہے دن بدن امریکہ کا مالی نظام مضبوط تر ہورہا ہے لیکن ابھی جرمنی سے بہت پیچھے ہے وہاں بھی گزشتہ کے مقابل پر تو اضافہ ہوا ہے لیکن غیر معمولی اضافہ نہیں.امسال وعدے 91,912 پاؤنڈ تھے جس کے مقابل پر وصولی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 194,803 پاؤنڈ ہوئی ہے یعنی وعدوں سے وہ آگے بڑھ گئے ہیں اس سے پہلے سال 78,947 کے وعدے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کی مالی قربانی کا معیار بڑھ رہا ہے پچھلے سال 78,947 کے مقابل پر وصولی بھی بعینہ 78,947 ہی تھی تو امسال نہ صرف یہ کہ وعدے بڑھائے گئے بلکہ وعدوں سے بڑھ کر ادا ئیگی ہوئی.UK نے بہت زور مارا کہ کسی طرح امریکہ سے آگے نکل جائے لیکن ابھی تک وصولی 80,923 پاؤنڈ سے آگے نہیں بڑھ سکی.آنے سے پہلے مجھے ان کا پیغام ملا کہ کچھ اور انتظار کریں ہم کوشش کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ جو وعدے وصول ہونے والے ہیں وہ وصول ہو گئے تو پھر ہم امریکہ سے آگے نکل جائیں گے.میں نے اُن کو جواب دیا کہ امتحان کا وقت تو آ گیا ہے اب جو پر چہ لے رہے ہیں آپ.اب یہ انتظار نہیں ہو سکتا کہ آپ زیادہ تیاری کر کے آئے مضمون اور زیادہ اچھی طرح یاد کریں گے امتحان دے سکیں گے جو پہلے کرنا تھا پہلے کر لیتے.اللہ تعالیٰ نے جو سعادت امریکہ کو بخشی تھی بخش دی.۱۴ ہزار کے فرق کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے امریکہ انگلستان سے آگے بڑھ گیا ہے.انڈونیشیا میں بھی خدا کے فضل سے دن بدن بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب انڈونیشیا امسال 54789 فنڈز کی قربانی پیش کرنے کی توفیق پاچکا ہے.کینیڈا کے اوپر کیونکہ دوسرے Load بہت زیادہ تھے مسجد بنانے کے اس قسم کے اور بعض اخراجات تھے.ابھی وہ امریکہ سے کافی پیچھے ہے.اُن کا نمبر چھٹا ہے.54,765 پاؤنڈ کی وصولی ہوئی ہے.جاپان ساتویں نمبر پر ہے اور جاپان کا چندہ 20,588 پاؤنڈ ہے پھر ماریشس کا نمبر آتا ہے پھر انگلستان کا پھر سوئٹرز لینڈ کا لیکن ان اعداد و شمار کو اگر مختلف زاویوں سے پلٹ کر دیکھا جائے.اول دوم سوم وغیرہ کی ترتیب بدل جاتی ہے.اس سلسلے میں میں بعض مختلف زاویوں سے آپ کے سامنے پوزیشن رکھتا ہوں.فیصد اضافے کے اعتبار سے سوئٹزر لینڈ کی پوزیشن دنیا میں پہلے نمبر پر آ جاتی ہے.جاپان دوسرے نمبر پر، جرمنی تیسرے نمبر پر، پاکستان چوتھے نمبر اور امریکہ پانچویں نمبر اور یو کے چھٹے نمبر پر چلا جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 772 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء جہاں تک فی کس قربانی کا تعلق ہے اس پہلو سے اگر دیکھیں تو حسب سابق جاپان نے جو خدا تعالیٰ سے غیر معمولی توفیق پائی ہے یہ جھنڈا ابھی تک اُنہی کے ہاتھ میں ہے باقی دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں.چنانچہ امریکہ میں فی کس چندہ کی اوسط 60 پاؤنڈ بنتی ہے جبکہ جاپان میں 134 پاؤنڈ فی کس اوسط بن رہی ہے.امریکہ خدا کے فضل سے امیر ملکوں میں سے اور جماعت احمد یہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے امیر آدمی موجود ہیں کہ اگر وہ چاہیں اُن کے لئے جاپان کو پیچھے چھوڑ نا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن تو فیق محض دولت سے نہیں ملا کرتی.دل کی وسعت سے ملتی ہے اور خدا کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے دل کو وسعت رفتہ رفتہ عطا ہوا کرتی ہے.بہت کم ایسے ہیں جن میں اچانک انقلاب بر پا ہو.میرا تجربہ یہی ہے کہ جولوگ خدا کی راہ میں دل کھولتے ہیں کچھ قدم مشکل سے اٹھانے پڑتے ہیں پھر وہ قدم آسان ہو جاتے ہیں پھر اگلے قدم ، پھر اگلے قدم.رفتہ رفتہ انسان ترقی کرتا رہتا ہے اور استطاعت بڑھتی رہتی ہے.تو امریکہ میں اگر چہ خدا کے فضل سے مالی استطاعت ہے لیکن چندوں کے لحاظ سے ابھی ویسی استطاعت پیدا نہیں ہوئی لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموما ترقی کی طرف قدم ہے اور اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا تو انشاء اللہ ضرور بہت آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.بہر حال جاپان اس وقت ساری دنیا کی جماعتوں کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اس چیلنج کو قبول کرنے کی کوشش کریں گی.اس دفعہ جب کینیڈا کی مسجد میں امریکہ سے احمدی تشریف لائے ہیں تو ایک یہ خوشی کی بات تھی اتنی بڑی تعداد میں وہ شامل ہوئے ہیں اس کا ہمیں کوئی تصور نہیں ملتا.سترہ سو سے زائد احمدی خدا کے فضل سے امریکہ کے مختلف حصوں سے تشریف لائے.بعض حصے اتنے دور ہیں جتنا انگلستان سے امریکہ دور ہے.بڑے جوش اور ولولے سے انہوں نے حصہ لیا اور سب کا عمومی تاثر یہ تھا کہ اس مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت سے جہاں خوشی بہت ہوئی ہے وہاں شرمندگی بھی بہت ہوئی ہے کیونکہ وہ امریکہ کو ایک قسم کا مان کہتے ہیں جسے.مان ہے کہ ہم بہت بڑا ملک ہیں امیر ملک ہیں جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص ہے تو اب تک امریکہ کو مسجد بنانے کی توفیق نہیں مل سکی.مگر کینیڈا جو نسبتاً دوسرے نمبر کا ملک ہے.اُس کو توفیق مل گئی ہے اور بڑی شاندار اور بڑی خوبصورت مسجد
خطبات طاہر جلد ۱۱ 773 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء بنانے کی توفیق ملی اور بہت بڑی مالی قربانی کی توفیق ملی ہے.امریکہ کا تو حال یہ تھا کہ میں نے گھر میں ذکر کیا تو امریکہ کے احمدیوں پر رحم بھی آتا تھا.اُن کے اوپر اُس لطیفے کا کچھ نہ کچھ اطلاق ہوتا تھا.کہتے ہیں کہ ایک گجر کا جس کو چوری کرنے کی عادت تھی.وہ ایک دفعہ ایک ایسے گھر چلا گیا جہاں اُس کی لڑکی بیاہی ہوئی تھی تو بچارے سے اندھیرے میں غلطی ہوئی اس کو پتا نہیں لگا کہ میں کس گھر میں چوری کر رہا ہوں.وہ اپنی لڑکی کے گھر چوری کر رہا تھا اور اُسی وقت پکڑا گیا.پہلے تو لوگوں نے اندھیرے میں پکڑ کے خوب مارا.بعد میں کسی کو خیال آیا کہ مارا ہم نے کافی ہے لیکن پتا تو کریں کہ ہے کون؟ روشنی لا و تو روشنی لا کے جو دیکھا تو وہ بیٹی کا باپ نکلا.خیر انہوں نے چھوڑ دینا تھا چھوڑ دیا.واپس آ کر جو اُس نے قصہ اپنی بچوں میں بیان کیا.وہ یہ تھا کہ اس طرح ہوا اور اس طرح ہوا اور جب میں پکڑا گیا اندھیرے میں تو اُن کو پتا نہیں تھا کہ میں کون ہوں، مجھے بہت مارا لیکن جب روشنی میں دیکھا کہ میں کون ہوں، تو آتے جائیں اور شرمندہ ہوتے جائیں، آتے گئے اور شرمندہ ہوتے گئے وہ سارا واقعہ تو چسپاں نہیں ہوتا بہر حال لیکن آتے جائیں اور شرمندے ہوتے جائیں والا واقعہ ضرور چسپاں ہو رہا تھا.جتنے بھی امریکن احمدی تشریف لائے ہیں سب نے مجھ سے مل کر یہی کہا کہ ہم خوش بھی بڑے ہوئے ہیں اور شرمندہ بھی بڑے ہوئے ہیں.اُمید رکھتا ہوں کہ یہ شرمندگی جو خدا کی خاطر ہے یہ نیک پھل لائے گی انشاء اللہ تعالیٰ امریکہ کو بھی نہ صرف ایک بلکہ کئی مسجدیں بنانے کی توفیق ملے گی اور نیک کاموں میں مسابقت کی روح پیدا ہوگی اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.امریکہ کے بعد جرمنی کی باری ہے فی کس چندے کے اعتبار سے اور یہ چندہ 28.29 پاؤنڈ فی کس ہے جرمنی کی جماعت کے جو حالات ہیں اُن کے پیش نظر بہت بڑی قربانی ہیں، کیونکہ بھاری تعداد ایسی ہے جن کی بہت ہی معمولی آمد ہے اور جرمنی میں نے یہ پڑھا تو میں حیران رہ گیا کہ کس طرح اس جماعت کو عظیم قربانی کی توفیق ملی.اُس کے علاوہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام عالمی نظام جو مواصلاتی سیارے کے ذریعے ٹیلی ویژن کا پیغام پہنچانے کا نظام ہے.اس میں بھی انہوں نے بڑی قربانی کی ہے اور بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر چندے میں پیش پیش ہیں تو اس لحاظ سے یہ جماعت بھی خصوصیت سے دعا کی مستحق ہے.UK کا نمبر چارلکھا ہوا ہے جو غلطی سے غالبا کیونکہ یو کے کی اوسط 33 پاؤنڈ بنتی ہے، جرمنی
خطبات طاہر جلدا 774 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء سے اوپر نام ہونا چاہئے تھا.کینیڈا کی 22 ہے، ماریشس کی 15 ،سوئٹرز لینڈ کی 12، انڈونیشیا کی 6، غرضیکہ اسی طرح ملکی اقتصادی کے حالات کے پیش نظر اور کچھ قربانی کے معیار کے پیش نظر یہ اوسطیں بدلتی رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کو سب نیک کاموں میں ایک دوسرے سے مسابقت کی روح عطا کرے اور اموال اور وسعتوں میں برکت عطا فرماتا رہے.مجاہدین کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان ہمیشہ کی طرح صف اول میں ہے اور پہلا سال ہے غالبا کہ ایک لاکھ سے تعداد آگے گزر چکی ہے.گزشتہ چند سال سے میں پاکستان کے دفتر تحریک جدید کو تاکید کر رہا تھا کہ کوشش کر کے جلد از جلد تعداد کو ایک لاکھ تک پہنچائیں ، اس سے آگے بڑھائیں الحمد للہ کہ خدا کے فضل سے یہ سال اس لحاظ سے بھی ہماری ترقیوں کی راہ میں ایک عظیم سنگ میل کا اضافہ کر رہا ہے کہ جماعت احمدیہ میں تحریک جدید کے چندے دینے والے ایک لاکھ سے اوپر ہو چکے ہیں اور حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کل احمدیوں کی تعداد ۸۷ ہزار یا اس کے لگ بھگ بنتی ہے یہ سمجھ نہیں آتی کہ باقی کون ہیں چندہ دینے کرنے والے اور ظاہر ہے کہ ساری جماعت تو ان چندوں میں شامل نہیں ہوا کرتی ایک حصہ ہے جماعت کا جو شامل ہے باقی تو بہت سی ذیلی جماعتیں ہیں جہاں چند گنتی کے آدمی ہوں گے جو تحریک جدید کے چندے میں شامل ہو سکتے ہوں.اس کے بعد امریکہ کا نمبر ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.امریکہ میں چندہ دینے والوں کی تعداد میں بڑا نمایاں اضافہ ہوا ہے اور 1169 کے مقابل پر امسال ان کے چندہ دہندگان تحریک جدید کی تعداد 1577 ہو گئی ہے.جرمنی کا نمبر 2 ہے دراصل جلدی میں جولسٹ انہوں نے تیار کی ہے اس میں ترتیب سے نہیں لکھا کیونکہ ہندوستان کے 12993 لکھے ہیں مجھے نہیں یقین کہ تعداد درست ہو.لیکن ان کے چندے کے مقابل پر یہ تعداد صیح دکھائی نہیں دیتی مگر ممکن ٹھیک ہو اگر ہے تو بہت بڑی کامیابی ہے اللہ تعالیٰ ہندوستان کے لئے بھی مبارک کرے.وہاں تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد 12993 ہوگئی ہے.اس کے بعد پھر نمبر آتا ہے انڈونیشیا کا.انڈونیشیا میں 9691 تحریک جدید کے مجاہدین ہیں اور پھر جرمنی کا نمبر ہے جس میں 6806 افراد کو تو فیق ملی ہے.جرمنی کی تعداد کے لحاظ سے جہاں کل احمدیوں کی تعداد ہے خدا کے فضل سے بہت بڑی تعداد ہے جنہوں نے حصہ لیا ہے.UK کا نمبر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 775 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء پھر اس کے بعد ہے جو 3503 ہے اور پھر آتا ہے کینیڈا 2500 اور باقی پھر درجہ بدرجہ اس سے کم ہیں.یہ تو ہیں اعداد و شمار اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان اعداد و شمار کوسن کر مختلف جماعتوں میں تحریک پیدا ہوئی ہوگی.تفصیل سے ساری جماعتوں کے اعداد و شمار بیان کرنے کا تو یہاں موقع نہیں ہے.یہ چند نمونے ہیں آپ کو بتانے کے لئے مختلف زاویوں سے جب ہم دیکھتے ہیں تو کسی پہلو سے کوئی جماعت ترقی کر کے آگے نکل جاتی ہے اور کسی پہلو سے کوئی دوسری جماعت آگے بڑھنے کی توفیق پاتی ہے.دراصل تو دلوں پر نگاہ رہنی چاہئے ، دلوں میں اگر اخلاص بڑھ رہا ہو تو قربانی کے ظاہری پیمانے در حقیقت اُسی کا منظر پیش کرتے ہیں.ہمیں روپے کے اعداد وشمار میں بذات خود در چپی نہیں ہے.میں تو کبھی ان اعداد و شمار کو روپوں کی گنتی کے طور پر نہیں پڑھتا بلکہ پیمانہ سمجھ کر پڑھتا ہوں کیونکہ جس جماعت نے محض اللہ خدا کی خاطر قربانیاں کرنی ہے اُن کو اگر زیادہ قربانی کی توفیق ملتی ہے تو صاف پتا چلتا ہے کہ دلوں میں اخلاص کا معیار بڑھ رہا ہے ورنہ اس دنیا میں مال کی ایسی محبت پائی جاتی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتیں جو انکم ٹیکس وصول کرنے کے لئے بہت ہی مضبوط نظام رکھتی ہیں وہ بھی ہار جاتی ہیں.ائم ٹیکس چوری کرنے والے اور روپیہ بچانے والے لوگ بڑی بھاری تعداد میں ہر ملک میں پائے جاتے ہیں جو قا بو نہیں آتے ، بہت کم ہیں جو قابو آتے ہیں سزا پاتے ہیں.لیکن جماعت احمدیہ میں تو کوئی جبری نظام نہیں ہے.یہاں تو جو بھی خدا کی راہ میں قربانی کرتا ہے اپنے دل کے جذبے کے نسبت سے کرتا ہے.پس کوئی غلط فہمی سے یہ نہ سمجھے کہ میں یہ اعداد و شمار، اعداد وشمار کرنے کی خاطر پیش کر رہا ہے ہرگز یہ مراد نہیں.میرے نزدیک تو مالی اعداد و شمار کی کوئی حیثیت نہیں ہے.محض اُس وقت یہ عزت پاتے ہیں جب ان کی جڑیں خدا تعالیٰ کی محبت میں ہوں اور خدا تعالیٰ کی محبت میں جڑیں ہوں تو ایک پیسہ بھی باعث عزت اور قابل قدر ہو جاتا ہے.اور ایسے پیسے ضرور ہیں انسانی قربانیوں کی تاریخ میں جن کی قدر خدا کے نزدیک کروڑوں اربوں سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ قربانی پیش کرنے والے نے یہ پیسہ بڑی محبت سے پیش کیا ہے.پس دلوں پر نظر رکھیں ، اپنے اخلاص کی حفاظت کریں.اس روپے کے پیچھے تقویٰ کی پرورش کریں اگر تقوی ترقی کرتا رہے اللہ کی محبت پرورش پاتی رہے تو پھر خدا کے فضل کے ساتھ چندوں کے معاملے میں جماعت ہمیشہ بے فکر رہے گی اور خدا ہمیشہ ہماری ضرورتیں خود پوری کرتا رہے گا پس مقابلے کی جو تحریکات ہیں یہ اپنی جگہ درست
خطبات طاہر جلد ۱۱ 776 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء ہیں لیکن حقیقت میں مقابلے سے مراد اخلاص میں مقابلہ ہے، تقویٰ میں مقابلہ ہے، خدا کو راضی کرنے کی کوشش میں مقابلہ ہے.اس ضمن میں میں دو تین اور بھی تحریکات جماعت کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.سب سے پہلے بوسنیا کی یتیم بچوں کے متعلق میں نے تحریک کی تھی پھر بچوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ وہاں کے جو بڑے بالغ افراد بھی چھوٹے، بڑے ، مرد ، عورتیں سب اُجڑ کے آئے ہیں ان کی حالت انتہائی دردناک ہیں اور جماعت احمد یہ عالمگیر کا فرض ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق ضرور ان کی کچھ خدمت کرے.اس سلسلے میں میں نے اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے جو بہت معمولی ہے لیکن اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ حسب توفیق باقی جماعت کو بھی توفیق ملے اور پہلے میرا دستور تھا کہ جو تحریک کرتا تھا اُس کا ایک فیصد اپنی طرف سے وعدہ کیا کرتا تھا اور اُس کا اعلان بھی کر دیتا تھا تاکہ جماعت میں تحریک پیدا ہو.پھر میں نے یہ روک دیا اس وجہ سے کہ انسان کا نفس کا پتا کوئی نہیں کس وقت آدمی کو ڈس لے تو اگر چہ اعلانیہ قربانی کا بھی حکم ہے لیکن مخفی قربانی کا بھی حکم ہے.اس لئے کچھ عرصہ میں اس سے رکا رہا لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ اس سے کچھ نقصان ہوا ہے.جب میں اپنا چندہ ظاہر کیا کرتا تھا تو بعض ایسے خاندان تھے جو میرے ذہن میں ہیں وہ ضرور کوشش کرتے تھے کہ اُس سے زیادہ چندہ دیں جب میں نے ظاہر کرنا بند کر دیا تو اُن کا چندہ میرے چندوں سے کم ہونا شروع ہو گیا اس لئے آج میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جو تحریکات آپ کے سامنے رکھتا ہوں اُن میں انشاء اللہ حسب سابق کوشش کروں گا کہ کم از کم ایک فیصد ضرور اپنی طرف سے پیش کروں.صومالیہ کے لئے بھی یہ تحریک ہے وہاں بھی میں اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کرتا ہوں اسی طرح مسی ساگا کینیڈا کی مسجد کے لئے میں نے 12000 ڈالر اپنی طرف سے پیش کئے ہیں اور اگر چہ یہ تحریک کینیڈا کے لئے ہے لیکن اس کا اعلان اس لئے کر رہا ہوں تا کہ باہر کی دنیا میں جہاں بہت سارے حیثیت کے آدمی موجود ہیں.ان میں سے بعضوں کے دل میں خصوصیت سے مسجد میں بنانے کا بڑا شوق ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ دوسرے چندوں میں کافی کمزور ہوتے ہیں لیکن مسجد بنانے کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے.بہت سے امیر ایسے خاندان بلکہ قومیں ہیں جن کو مسجد بنانے کے لئے توفیق مل جاتی ہے.عام چندے دینے میں ان کا دل سکڑ جاتا ہے تو اگر
خطبات طاہر جلدا 777 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء ایسے کچھ خاندان ہیں جو امیر ہیں، صاحب توفیق ہیں اور ذوق وشوق سے کینیڈا کی دوسری مسجد میں شامل ہونے کے لئے جذبہ رکھتے ہوں.اُن کو بھی موقع ہے یعنی کینیڈا کے علاوہ جو چاہے اس میں اپنی طرف سے مالی قربانی کرے مسی سا گا ٹورانٹو کا ہی ایک حصہ ہے.ٹورانٹو مختلف شہروں پر مشتمل ہے اور اُن شہروں کا اجتماعی نام ٹورانٹو ہے.ان میں وہ جگہ ہے یہاں ہم نے پہلی مسجد بنائی جیسا کہ آپ نے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو گا.مسی ساگا کی میئر نے بڑے زور سے یہ مجھے یاد دلایا کہ تم نے وعدہ کیا تھا کہ میں انگلی مسجد مس ساگا میں بناؤں گا انشاء اللہ.تو اب اُس وعدے کو پورا کرو یہ مسجد بن گئی ہے اب ہماری طرف توجہ کرو.تقریب کے بعد یہ مجھے ملیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھیں یہ صرف لفظی بات نہیں تھی میں دل کی گہرائی سے یہ بات کہ رہی تھی.اب جذ بے گرم ہیں اس وقت فوری طور پر توجہ دیں میں ہر قسم کا تعاون کرنے کے لئے تیار ہوں.آپ اپنے نمائندے بھیجیں، بہترین جگہ کی تلاش کریں اور ہر قسم کی سہولتیں ہماری میونسپلٹی آپ کو دے گی.چنانچہ ان کے اس جذبے سے متاثر ہوکر میں نے اُسی وقت امیر صاحب کو ہدایت کی کہ بلا تاخیر اب آپ اس مسجد کا کام شروع کر دیں.جہاں تک روپے کا تعلق ہے اگر چہ جماعت کینیڈا نے اتنی بڑی قربانیاں دی ہیں اس مسجد کے سلسلے میں کہ بظاہر معلوم نہیں ہوتا کہ اتنی جلدی دوسری مسجد بنا سکیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک پر یقین ہے جو اب تک جماعت کے ساتھ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس نئی مسجد کے لئے بھی جماعت کینیڈا کو خدا کے فضل سے بہت بڑی توفیق ملے گی.کینیڈا کی مسجد کے نظارے آپ نے ٹیلی ویژن پر دیکھے ہیں اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ سب دنیا سے مجھے خط مل رہے ہیں.بعض Faxes کے ذریعے پیغام مل رہے ہیں.دور دور دنیا کے کونے سے لوگ لکھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں کے ساتھ جو نظارہ دیکھا یہی لگتا تھا کہ جیسے ہم اُس تقریب میں شامل ہیں اور چودہ ہزار، پندرہ ہزار میل دور سے بھی اسی قسم کی اطلاعات ملیں کہ بالکل صاف تصویر تھی بالکل صاف آواز تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ گویا ہم بھی اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں.ایک خط مجھے ناصر آبادسندھ سے بھی ملا وہاں میں کسی زمانے میں جایا کرتا تھا اپنی زمینوں پر وہاں ہماری کوٹھی کے ساتھ ایک بڑا صحن ہے جسے چمن کہتے ہیں حضرت مصلح موعودؓ نے بڑے شوق سے چمن کے رنگ میں باغ لگوایا تھا.وہاں بچوں کے ساتھ بیٹھ کے مجلسیں لگا تا تھا اور ان کو گولیاں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 778 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء وغیرہ تقسیم کیا کرتا تھا.وہاں سے خط ملا ہے کہ ہم جو تر سے ہوئے تھے دیکھنے کے لئے.اللہ نے ہماری یہ امید حیرت انگیز طریق پر پوری کی ، کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ناصر آباد گاؤں میں بھی آپ کی تصویر پہنچے گی اور ٹیلی ویژن کے ذریعے آپ سے رابطہ قائم ہوگا، سارا گاؤں اُس چمن میں گیا اور اتنی صاف تصویر، ایسی صاف آواز تھی کہ یوں احساس ہوتا تھا کہ گویا ہم اس تقریب میں شامل ہیں.بعض غیروں نے بھی حیرت انگیز طور پر اس تقریب پر اپنے مثبت جذبات کا اظہار کیا اور بعض ایسے پروفیسر ہیں جو اپنے اپنے ملک میں بڑی شہرت رکھتے ہیں مثلاً ایک ہنگری کے پروفیسر ہیں جو وہاں کی یونیورسٹی میں مذہب کے معاملے میں ایک سند مانے جاتے ہیں اور بین الاقوامی مذاہب کے مطالعہ میں اُن کا ایک بڑا مقام ہے.مجھے امید نہیں تھی کہ وہ وہاں شامل ہوئے ہیں جب ہالینڈ پہنچا ہوں تو اُن کی طرف سے مجھے ٹیکس ملی.اُس فیکس میں یہ تھا کہ میں فلاں ہوں اور مجھے بھی موقع ملا اُس تقریب میں شامل ہونے کا اور میں اتنا متاثر ہوں کہ اُس کا نشہ اترتا ہی نہیں.میں گھر واپس آیا ہوں اُسی طرح مزا جاری ہے اور مجھے چین نہیں آ رہا جب تک میں آپ کو اطلاع نہ کر دوں کہ حیرت انگیز طور پر وہ کامیاب تقریب تھی اور بہت ہی خوبصورت مسجد بنانے کی آپ کو توفیق ملی اور جو نظارے ہم نے وہاں دیکھے ہیں وہ یاد گار نظارے ہیں جو ذہنوں سے تلف نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اور غیر سبھی جماعت کی کوششوں کو سراہنے لگے ہیں اور جماعت احمدیہ کواللہ تعالیٰ جو کامیابیاں عطا کر رہا ہے.یہی جماعت کی صداقت کا ثبوت بن کر دنیا کے افق پر چمک رہا ہے.یہ کامیابیاں چمک رہی ہیں اور یہ افق دن بدن روشن تر ہوتا چلا جائے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ سب احمدی دنیا میں جو احمدی بھی میری آواز سن رہے ہیں وہ ان تحریکات میں حسب توفیق حصہ لیں گے.ہر شخص کی توفیق مختلف ہے دل کی بھی اور اموال کی بھی لیکن اگر آپ حسب توفیق حصہ لیں گے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے اموال کی توفیق بھی بڑھائی جائے گی اور آپ کے دلوں کی توفیق بھی بڑھائی جائے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: ۲۸۷) کہ خدا تعالیٰ کسی بندے پر اُس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا.اس کا مفہوم عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جب وسعت ختم ہوئی وہاں بوجھ ختم ہو گئے.میں اس کا مفہوم اور جانتا ہوں اور میری زندگی کا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ جو میں سمجھتا ہوں وہ سچ ہے.خدا تعالیٰ جس کی خاطر جب
خطبات طاہر جلد ۱۱ 779 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء آپ اپنی توفیق تک قربانی کرتے ہیں وہاں خدا ٹھہر نہیں جایا کرتا بلکہ آپ کی وسعت بڑھا تا چلا جاتا ہے اور اُس وسعت کے مطابق جب آپ کو توفیق ملتی ہے تو آپ وسعت کے کناروں تک پہنچتے ہیں وہ خدا جس نے وعدہ کیا لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ایک بار پھر آپ کی وسعتوں کی حدیں چوڑی کر دیتا ہے، وسیع کر دیتا ہے.پھر آپ کو اگر توفیق ملے اُن حدوں کو چھونے کی تو وہ حدیں آپ سے آگے بھاگتی ہوئی دکھائی دیں گی.پس نیکی کے معاملے میں میر امذ ہب یہی ہے کہ انسان کی توفیق کی کوئی حد نہیں ہے.اپنی توفیق کے مطابق آپ کوشش کریں اللہ تعالیٰ اُس توفیق کو بڑھاتا چلا جائے گا.غالب نے بھی تو کہا ہے.ء میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے مگر خدا نے جو جنتیں ہمارے لئے قائم فرمائی ہیں ان کی حدیں ہم سے آگے آگے بھاگتی ہیں تا کہ ہمیں خدا کی جنتوں میں بھی تنگی کا احساس نہ ہو.پس اللہ تعالیٰ ہماری برکتوں کی حدیں ہمیشہ وسیع تر کرتا چلا جائے ، ہماری وسعتوں کی توفیق بڑھاتا چلا جائے پھر ہم اُس کی راہ میں اپنی وسعتوں کی حد تک قربانیاں پیش کریں پھر وہ ہماری وسعتوں کی حدیں آگے بڑھا دے تا کہ ہم کبھی یہ نہ کہ سکیں کہ آج ہماری وسعتیں ختم ہو رہی ہیں اس لئے ہم خدا کی خاطر قربانی پیش نہیں کر سکتے.بعض احمدی مجھے اپنے تجربات سے مطلع کرتے رہتے ہیں اور یہ تجربہ صرف میرا ہی نہیں، اس تجربے میں تمام دنیا کی جماعت کے بعض مخلصین کا تجربہ شامل ہے.بسا اوقات مجھے بعض دوستوں نے خط لکھا ہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں فلاں قربانی کی توفیق نہیں ہے.دل ڈرتا تھا لیکن آخر جیسے چھلانگ لگادی جاتی ہے خطرے میں ہم اپنے جذبے پر قابو نہ پاسکے اور ہم نے کہا ٹھیک ہے جو کچھ ہونا ہے ہو جائے.ہم ضرور اس قربانی میں حصہ لیں گے.حیرت انگیز طور پر خدا نے توفیق بڑھائی اور بعض تو ایسے عظیم واقعات ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.خاص خدا تعالیٰ کا غیب کا ہاتھ حاضر میں ظاہر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.غیب کو وہ شہود میں بدلتا ہے چنانچہ بکثرت ایسی مثالیں ہیں کہ ایک احمدی نے تنگی کے باوجود ایک ایسا وعدہ کر دیا جو اُس کی توفیق سے بہت بڑا تھا اور وہ یہ سمجھتا رہا کہ میں نے توفیق سے بڑھ کر یہ وعدہ کیا ہے شاید میں پورا نہ کرسکوں لیکن چونکہ غیر معمولی اخلاص کے ساتھ کیا تھا اس لئے اُس کو تنگ دستی کے بعد بعینہ اتنی رقم ملی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 780 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء جتنا اُس نے وعدہ کیا تھا اور بعینہ اتنی رقم ملنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنا ہی دیتا ہے.یہ محض ایمان بڑھانے کی خاطر کیا جاتا ہے.یہ بتانے کی خاطر کہ یہ رقم ہم نے تمہاری قربانی کو قبول کرتے ہوئے مہیا کی ہے.اس وہم میں نہ مبتلا ہو جانا کہ اتفاقاً ملی ہے اور یہ واقعات اس کثرت سے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.کینیڈا کے ایک دوست نے لکھا کہ میں نے فلاں وعدہ کر دیا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیسے پورا ہوگا ؟ میرا دل رکتا نہیں تھا مگر میں مجبور تھا اور اُس کے چند دن کے بعد مجھے ایک جگہ سے چٹھی ملی کہ تمہاری اتنی رقم ہمارے ذمے بنتی ہے جو غلطی سے ہم پیشگی میں کاٹتے رہے ہیں اس لئے وہ تمہیں بھجوا رہے ہیں وہ رقم بعینہ اتنی تھی جتنی اُس چندے کی رقم تھی جتنا اُس نے وعدہ کیا تھا تو ہم ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اس لئے کہ زندہ خدا کو روزمرہ اپنے اندر ظاہر ہوتا ہوا دیکھتے ہیں کسی فرضی خدا پر یقین نہیں رکھتے ، وہ غیب سے شہود میں آتا ہے، غیب کو حاضر کرتا چلا جاتا ہے.جو جماعت ایسے خدا کے ساتھ زندہ ہو اس جماعت کو کبھی کوئی نہیں مار سکتا جب تک خدا کی معیت اسے حاصل ہے.پس آخری بات تو یہی ہے کہ اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں، ہماری ساری دولت ہمارے تقویٰ میں ہے ہماری ساری دولت ہمارے دل کی سچائی میں ہے، ہمارے اخلاص میں ہے، اس محبت میں ہے جو اللہ اور اس کے پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، ان نیکیوں کی حفاظت کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کا ہر قدم ترقی پر پڑے گا.ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا آپ ہی وہ جماعت ہوں گے جن کے قدم کہکشاں پر پڑیں گے اور دنیا سراٹھا کر دیکھے گی کہ کیسی یہ جماعت تحت الثریٰ سے اتنی بلندیوں پر جا پہنچی ہے، ایک ہی نسخہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کی خاطر اپنے نفس کو مٹائیں اور تقویٰ اختیار کریں ہٹی میں مل جائیں تا کہ آپ کو ثریا تک بلند کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی سچ فرمایا کہ ے میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا (در مشین : ۱۱۷) جس خدا نے مسیح موعود کو خاک سے ثریا بنایا ہے.خدا کی قسم وہی خدا آج بھی زندہ ہے.ہر قربانی کرنے والے کو خاک سے ثریا بنا تا چلا جائے گا اور وہ خدا کبھی نہیں تھک سکتا، اُس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی رحمتوں کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، ایسی اداؤں کی توفیق بخشے جن پر خدا کے پیار کی نظریں پڑتی رہیں.یہی ہماری دولت اور یہی ہما را مدعا ہے زندگی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 781 خطبه جمعه ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۲ء کا.اللہ ہمیں اس کو حاصل کرنے کی توفیق بخشے.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا.آج چونکہ ابھی میں نے دوبارہ ایک مختصر سے سفر پر روانہ ہونا ہے اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ نماز عصر بھی جمع کروں گا.بعض دفعہ امام کی ضرورت کے ساتھ مقتدی کی بھی ضرورتیں بھی اس کے تابع ہونے کی وجہ سے پوری کی جاتی ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ امام کی ضرورتوں میں مقتدیوں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے.اس لئے آپ میرے ساتھ نماز بھی جمع کریں گے اور امید رکھتا ہوں کہ سفر چونکہ لیلی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کی برکتوں میں بھی آپ کو شامل فرمائے گا.
خطبات طاہر جلد 783 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء بنگلہ دیش میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش پاکستان کے حالات کا ذکر اور بنگلہ دیش کے حکمرانوں کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۶ نومبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی.قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا الله وَرَسُولَهُ لَا يَلتَكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ پھر فرمایا:.رحِيم (الحجرات : ۱۵) ۱۹۷۴ء میں پاکستان میں جو خونی ڈرامہ کھیلا گیا اور بہت ہی گھناؤنی سازش کے نتیجہ میں بالآخر پاکستان کی بدنصیب اسمبلی نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو جمہوریت کی تاریخ کا بدترین فیصلہ ہے اور جس نے پاکستان سے ہمیشہ کے لئے پاکستانی سیاست کی جڑیں اکھیڑ دیں اور سیاست کو ہمیشہ کیلئے ملاں کا غلام بنا دیا ویسی ہی سازشیں ان دنوں بنگلہ دیش میں پل رہی ہیں اور وہی کردار ہیں اُس ڈرامے کے ، وہی اُس ڈرامے کی فکریں اور سوچیں کرنے والے لوگ ہیں اور اُسی قسم کے ہتھیار دوبارہ استعمال کئے جارہے ہیں ، بالکل صاف وہی ہاتھ دکھائی دیتے ہیں.وہی طرز فکر ہے ، وہی سازشیں اور ویسی ہی ظالمانہ کارروائیاں آج کل بنگلہ دیش میں جاری ہیں.ان کا آغاز دراصل چند سال پہلے ہوا تھا یعنی جب جنرل ارشاد برسر اقتدار تھے.ان دنوں
خطبات طاہر جلدا 784 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء میں ہمیں مصدقہ اطلاعات اس بات کی بھی ملیں کہ کویت میں رابطہ عالم اسلامی کا اڈہ ہے اور وہاں مختلف اسلامی ممالک سے ان کے مذہبی وزراء کو دعوت دے کر بعض معاملات پر جو مخفی رکھے گئے غور کرنے کے لئے بلایا گیا اُنہی معاملات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بنگلہ دیش میں بھی احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی کوششیں کی جائیں.اُس کی اطلاعیں جب ہمیں ملیں تو میں نے جماعت بنگلہ دیش کو متنبہ کیا کہ ابھی سے تیاری کریں یہ گہری سازش ہے اور یہاں ختم ہونے والی نہیں کیونکہ اس کے پیچھے سعودی عرب کے تیل کی دولت کار فرما ہے اور دولت انسانوں کی عقلوں پر پردے ڈال دیتی ہے، دولت کی حرص انسان کو اندھا کر دیتی ہے.بنگلہ دیش ایک غریب ملک ہے اور خطرہ ہے کہ وہاں کے صدر اس حرص میں آکر ویسی ہی کارروائیاں شروع نہ کر دیں جیسے پاکستان میں کی گئی تھیں.کچھ معاملہ آگے بڑھا کہ وہ صدر اپنے منصب سے ہٹا دیئے گئے اور دوسری حکومت برسر اقتدار آئی.موجودہ حکومت میں بھی وہی کارروائیاں از سر نو شروع کی گئی ہیں لیکن اس دفعہ مرکز سے کویت نہیں بلکہ قرائن بتاتے ہیں کہ ایوانِ صدر پاکستان میں یہ سازشیں منتقل ہوئی ہیں اور وہاں کے وزیر مذہبی امور اس میں پوری طرح ملوث ہیں.چنانچہ وزیر اعظم بنگلہ دیش نے جو گزشتہ پاکستان کا دورہ کیا اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کچھ فیصلے ایسے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں با قاعدہ اسی طرز پر ، اسی نہج پر ایک مہم چلائی گئی جس کا آغاز چند روز پہلے جماعت احمدیہ کے مرکز جو 4- بخشی بازار ڈھا کہ میں ہے یعنی ہیڈ کوارٹرز جس کو ہم کہتے ہیں وہاں علماء کے ایک گروہ نے اپنے چیلوں چانٹوں کے ساتھ اچانک حملہ کیا اور جتنے احمدی وہاں اس وقت موجود تھے ان کو بُری طرح زد و کوب کیا اور بعضوں کی حالت کافی دیر تک خطرے میں معلق رہی اور جان کنی کی حالت میں رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب بڑے حو صلے میں رہے اور خدا نے فضل فرمایا کہ کوئی جان ضائع نہیں گئی.ایسی جانیں ضائع تو نہیں جایا کرتیں، جان دینے والے ہمیشہ کی زندگی پا جاتے ہیں مگر اردو محاورے کے مطابق میں کہہ رہا ہوں کہ کوئی جان ضائع نہیں گئی اور خدا کے فضل سے ان سب کو نیکیاں کمانے کے لئے ایک اور زندگی کا دور عطا کر دیا گیا ہے.اس وحشیانہ حملے میں تمام عمارت کو ، عمارتوں کا ایک مجموعہ ہے ان کو آگ لگا دی گئی ، فرنیچر وغیرہ قیمتی چیزیں ساری اکٹھی ڈھیریاں کر کے ان کو آگئیں لگائی گئیں اور قرآن کریم کی بے حد بے حرمتی کی گئی.ایسی تصاویر وہاں کی اخباروں میں شائع ہوئی ہیں کہ ہر قسم کے تراجم قرآن کریم کے یا بغیر تر جموں کے قرآن وہ باہر خاک
خطبات طاہر جلدا 785 خطبه جمعه ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء میں پھینکے ہوئے یا آدھے جلے ہوئے یا پورے جلے ہوئے اور ان کے عنوانات کے ساتھ پتا چلتا ہے یا جو تحریر میں اس کی پڑھی جاتی ہیں کہ یہ قرآن کریم ہیں.یہ وحشیانہ حرکت جیسی پاکستان میں کی گئی تھی ویسی ہی بنگلہ دیش میں کی گئی لیکن ایک فرق کے ساتھ پاکستان میں جو ڈرامہ کھیلا گیا اس کا آغاز ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ سے ہوا.یہ ایک گہری سازش کے مطابق اس رنگ میں ترتیب دیا گیا کہ ان کو امید تھی کہ ایسی بیہودہ حرکتوں کے نتیجہ میں ربوہ کے نو جوان مشتعل ہوں گے اور وہ ضرور جوابی کارروائی کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے نتیجے میں ملاں کو اور حکومت کو ایک بہانہ ہاتھ آ گیا فوری طور پر تمام پاکستان کے ذرائع مواصلات نے ٹیلی ویژن ، اخبارات کے ذریعہ جھوٹی خبریں سارے ملک میں مشتہر کی گئیں جو انتہائی اشتعال انگیز تھیں.یہاں تک کہا گیا کہ اہلِ ربوہ نے معصوم نوجوان مسلمانوں کی آنکھیں نکال دی ہیں ان کے جگر چبا گئے وغیرہ وغیرہ.عجیب و غریب قسم کی بیہودہ اشتعال انگیز باتیں سارے ملک میں مشہور ہوئیں بلکہ مجھے یاد ہے کہ ہزارہ میں تو ایک مولوی بالٹی میں بکروں کی آنکھیں لئے پھرتا تھا اور بتا رہا تھا ساتھ ساتھ کہ یہ وہ آنکھیں ہیں جو مسلمان معصوموں کی آنکھیں ہیں جو اہلِ ربوہ نے نکالی ہیں.بالٹی بھری ہوئی آنکھوں کی وہاں پہنچ گئی تھی.اس قسم کی جاہلانہ حرکتوں میں حکومت پوری طرح ملوث تھی اور تمام ذرائع ابلاغ اس جھوٹ کی تشہیر کر رہے تھے اور عوام الناس کو یقین دلایا جا رہا تھا کہ ربوہ میں بہت ہی بڑا ظالمانہ حملہ مسلمان طلباء پر کیا گیا ہے اور بڑی شدید قسم کی ظالمانہ کارروائی کے نتیجہ میں بہت سی جانیں خطرے میں ہیں وغیرہ وغیرہ.اس کا لازمی اثر جو پڑنا تھا وہ یہ تھا کہ سارے ملک میں فسادات کی آگ پھیل گئی اور کثرت کے ساتھ یعنی ہزاروں کی تعداد میں احمدی دکانیں جلائی گئیں، مکانات جلائے گئے، بہت سے احمدی شہید ہوئے ، بہت ہی ظالمانہ طریق پر اس انتقامی کارروائی کو آگے بڑھایا گیا جس کو حکومت کی سر پرستی حاصل تھی اور ایسی تصاویر ہمارے پاس موجود ہیں کہ حملہ ہو رہا ہے، شہید کیا جا رہا ہے احمدیوں کو ان کے گھروں کو آگ لگائی جارہی ہے اور پولیس ساتھ کھڑی ہے، مجسٹریٹ ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی نگرانی میں کارروائی ہورہی ہے.تو غالباً ان کا یہ خیال تھا کہ اس حملے کے نتیجہ میں جگہ جگہ اشتعال پیدا ہوگا اور احمدی جوابی کارروائی کریں گے لیکن اس واقعہ سے پہلے ہی ان کو میں بار بار نصیحت کر چکا تھا کہ آپ نے صبر سے کام لینا ہے اور ان کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا.چنانچہ ڈھا کہ میں جو واقعہ ہوا اس میں کوئی جوابی
خطبات طاہر جلدا 786 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۹۲ء کارروائی مقامی احمدیوں نے نہیں کی اور خالصہ یکطرفہ ظلم کا نشانہ بنایا گیا مگر بڑے صبر اور حو صلے کے ساتھ انہوں نے تکلیفیں اٹھا ئیں.یہ سازش اس طرح بے نقاب ہوتی ہے ویسی تھی جیسے پہلے تھی کہ یکطرفہ ظالمانہ کارروائی کے باوجود جبکہ مقابل پر کوئی اشتعال انگیز کارروائی کسی قسم کی بھی نہیں ہوئی اچانک سارے ملک میں جہاں جہاں احمدی جماعتیں ہیں ان کے اوپر علماء چڑھ دوڑے اور برسر عام حکومت کو دھمکی دی کہ ہم ان کا قتل عام کریں گے ورنہ تم ہمارا مطالبہ تسلیم کرو اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو.بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایک فرق ہے کہ وہاں کی سیاست نسبتاً زیادہ با ہوش ہے اور وہاں کے دانشور بھی نسبتاً زیادہ عقل رکھتے ہیں چنانچہ سوائے ایک آدھ ملاں کے اخبار کے تمام اخبارات نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی.بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نے بھی اس کی بڑی سخت مذمت کی اور یہ جو ان کا خیال تھا کہ ایک ہوا چل پڑے گی یہ نہیں چل سکی اور حکومت اگر اس میں ملوث ہے جیسا کہ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ ملوث ہے تو حکومت کو بھی ایسا موقع ہاتھ نہیں آیا کہ وہ اشتعال انگیزی کی تحریک میں شامل ہو جائے لیکن ایک حرکت حکومت نے یہ کی کہ اس واقعہ کے معاً بعد پاکستان کے بد ترین علماء جو شر پسندی میں شہرت رکھتے ہیں اور غلیظ گندی زبان بولنے میں ان کا شاید دنیا میں ثانی نہ ہو ان کو وہاں بلوایا گیا اور مکہ معظمہ سے بھی علماء کو بلایا گیا آخر اچانک تو یہ اکٹھے نہیں ہوئے یعنی ایک طرف ظلم کی کارروائی ہو رہی ہو دوسری طرف اس کی تائید میں مزید علماء کو باہر سے دعوت دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت اس میں لازماً ملوث ہے ورنہ دنیا کی کوئی شریف حکومت اپنے شہریوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے لئے باہر سے شر پسندوں کو دعوت نہیں دیا کرتی.چنانچہ انہوں نے کھلم کھلا پھر اشتعال انگیزی کی اور عام تحریک کی اور جیسا کہ اس ڈرامے میں بالآخرتان اس بات پر ٹو ٹا کرتی ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو ورنہ یہاں خون کی نہریں بہہ جائیں گی.جہاں تک خون کی نہروں کا تعلق ہے جماعت احمد یہ بنگلہ دیش خدا کے فضل سے بڑی بہادر جماعت ہے، کمزور ہے لیکن دل کی کمزور نہیں اور ایمان بہت قوی ہیں چنانچہ مجھے بنگلہ دیش کے امیر صاحب کی طرف سے یہ یقین دہانی بار بار ملی ہے کہ آپ فکرمند ہیں، فکر کریں دعائیں بے شک کریں اور خطرات بھی بہت ہیں لیکن ہر ایک احمدی ایک چٹان کی طرح ثابت قدم ہے اور ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہے.وہ مضروب جن کو شدید تکلیف پہنچائی گئی اور بہت بری طرح زد و کوب کیا گیا ان میں سے ایک
خطبات طاہر جلدا 787 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء بھی نہیں ہے جس نے اُف کی ہو یا شکایت کی ہو کہ میرے ساتھ یہ ہو گیا.اس لئے انہوں نے یقین دلایا ہے کہ آپ مطمئن رہیں ساری دنیا کی جماعتوں کو بے شک یہ اطلاع ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش میں پیٹھ دکھانے والا کوئی احمدی نہیں ہے اگر کوئی واقعہ مزید ہوا تو ہر احمدی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قربانیوں کے لئے اکٹھا ایک جان کی طرح اپنے آپ کو پیش کرے گا.یہ وہ حالات ہیں مختصر جو بالا رادہ شرارت کے طور پر سازش کے نتیجہ میں وہاں پیدا کئے گئے اور پیدا کئے جارہے ہیں اور آج کی اطلاع یہ ہے کہ علماء کی طرف سے جیسا کہ پہلے بھی ہوا کرتا تھا ایک جلوس پہلے 4.بخشی بازارڈھا کہ میں جہاں جماعت کا ہیڈ کوارٹر ہے اس کی طرف پہنچا.وہاں پہ عمارت تو کوئی باقی بچی نہیں تھی جس کو مزید جلایا جاتا لیکن اردگرد کے بہت سے مخلصین وہاں پہنچے ہوئے تھے.اس عہد کے ساتھ کہ اگر اب کچھ ہوا تو ہم ہر قسم کی قربانی پیش کریں گے اس لئے اندر تو وہ نہیں گئے لیکن شدید گند بکتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے غیر مسلم قرار دیئے جانے کے مطالبوں کا اعلان کرتے ہوئے وہ آگے بڑھے اور اسمبلی کی طرف گئے اور اسمبلی میں با قاعدہ یہ مطالبہ پیش کیا گیا اور سپیکر نے اس کو قبول کیا بلکہ ایک اطلاع کے مطابق یہ پہلے ہی پیش کیا جاچکا تھا اور ڈپٹی سپیکر نے سپیکر کی نمائندگی میں اس کو قبول کر لیا تھا.اب یہ عوامی کاروائی کے طور پر غالباً دوبارہ پیش کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو.جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے الہی جماعت ہے اور آج تک جتنے بھی ابتلاء جماعت پر آئے ہیں یہ قطعی حقیقت ہے تکلیفیں پہنچی ہیں جذباتی عزتوں کی ، اموال کی ، انفس کی ہر طرح کی قربانیاں جماعت نے پیش کی ہیں لیکن جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا.زیادہ سے زیادہ یہ ہوا ہے کہ چند سوکھے ہوئے پتے جھڑے ہیں لیکن ان سے زیادہ شاداب اور سرسبز اور نشو ونما پانے والے پتے ایسے ظاہر ہوئے جو بار و ر بھی بنے ، آگے انہوں نے پھر پھل پیدا کئے.جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہ جماعت نہیں ہے کہ جسے چکی میں پیسا جائے تو چھوٹی ہو کر نکلے.یہ وہ جماعت ہے جو تمام الہی جماعتوں کی طرح چکی سے پس کر نہیں نکلتی بلکہ بڑی ہو کر اور مزید طاقور ہوکر باہر آتی ہے اس لئے اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہاں آئندہ کیا ہو گا.چنانچہ اس سلسلے میں کچھ مشورے وہاں کی حکومت اور وہاں کی عوام اور سیاستدانوں کو دینا چاہتا ہوں لیکن جو بھی ہو گا میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو دنیا کی کوئی طاقت ذلیل اور رسوا اور چھوٹا نہیں کر سکتی.پہلے سے بہت بڑی ہوکر نکلے
خطبات طاہر جلدا 788 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء گی.ہر ابتلا ء نے جماعت کو طاقت بخشی ہے کمزور نہیں کیا.پس یہ ابتلاء کوئی نئی نوعیت کا ابتلاء نہیں سو سال سے ہمارے آزمودہ ابتلاؤں میں سے ایک ابتلاء ہے.اس کے نتیجے کے متعلق جماعت احمدیہ کو ادنی سا بھی شک نہیں ہے.ابھی پچھلے دنوں کینیڈا میں جو مسجد کے افتتاح کی تقریب تھی اس سے متعلق دنیا سے جو اطلاعات مل رہی ہیں ان سے تو پتا چلتا ہے کہ بہت سے غیر احمدیوں نے جو وہ نظارے دیکھے ہیں تو حیران ہو گئے ہیں کہ جماعت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.پاکستان کے ایک احمدی صحافی نے مجھے خط لکھا جو کل ہی ملا ہے وہ لکھتے ہیں کہ وہاں کے نامور صحافی ہیں جو مذہبی امور میں لکھنے کی شہرت رکھتے ہیں اور ان کا معروف نام ہے سارے پاکستان میں وہ مجھے ملنے آئے اور سر پھینکا ہوا اور ایسی عجیب کیفیت تھی جیسے تکلیف کی حالت میں ہوں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ رات میں نے ایک احمدی کے گھر کینیڈا میں منعقد ہونے والی مسجد کی کارروائی دیکھی اور ساری رات میں اس بات پر پچھتاتا رہا کہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں اور کیا ہماری عقلوں پر گزری، ہم نے کیا کر دیا کہ جماعت احمدیہ کو جس کے نتیجے میں جماعت کو خود اتنی بڑی ترقیات نصیب ہو گئیں ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ باتیں نہیں تھیں.یہ الفاظ بعینہ وہ نہیں ہیں لیکن جو مضمون مجھے لکھا گیا اس کا ماحصل یہ ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں.تو یہ جو خیال ہے یہ دن بدن بڑھ رہا ہے.اخبار اہلحدیث کی ایک تحریر بھی میں نے پڑھ کے سنائی تھی اور اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ بالآخر وہ وقت آن پہنچا ہے کہ یہ شدید ترین مخالفین بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہماری کوششیں حقیقت میں ناکام رہی ہیں ، نامراد ر ہی ہیں، برعکس نتیجے پیدا کرنے والی ہیں اور جماعت احمدیہ کو کمزور کرنے کی بجائے ہم اپنی کارروائیوں کے نتیجے میں ان کے لئے مزید طاقت کا سامان پیدا کر چکے ہیں.دراصل ملاں نے کیا طاقت بخشنی ہے کسی کو.ہوتا یہ ہے کہ ملاں کی ہر ذلیل کارروائی کے نتیجے میں اللہ تعالی طاقت بخشتا ہے اور یہ بات ان کو دکھائی نہیں دے رہی.اگر یہ بات عوام الناس کو سمجھ آ جائے یا دانشوروں کو سمجھ آ جائے تو آئندہ ان کے جو لائحہ عمل ہیں وہ اس کی روشنی میں بالکل بدل جائیں گے لیکن مشکل ان کے لئے یہ ہے کہ اگر ہمیں چھوڑ دیں تب ہم ترقی کرتے ہیں، ہمارے پیچھے پڑیں تب ہم ترقی کرتے ہیں یعنی جائیں تو کہاں جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اوپر حضرت مسیح کا ہی یہ مشہور مقولہ صادق آتا ہے کہ میں کونے کا پتھر ہوں جو مجھ پر گرے گاوہ پاش پاش ہو جائے
خطبات طاہر جلدا 789 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء گا، میں جس پر گروں گا وہ پاش پاش ہو جائے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت تو وہ کونے کے پتھر کی جماعت ہے جو چن کر ایسا پتھر وہاں نصب کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ شدید ہو یعنی أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (الفتح: ۳۰) کے معنوں میں، یہ لفظ اس لئے میں استعمال کر رہا ہوں.سب سے زیادہ طاقتور ہو اور اس پر کوئی چیز گرتی ہے تو اپنا سر توڑتی ہے اور وہ جس پر گرتا ہے اس کا سر تو ڑتا ہے.تو ہمیں چھوڑیں تو تب مارے جائیں نہ چھوڑیں تو تب مارے جائیں یہ کریں کیا؟ ایک ہی راہ ہے کہ ایمان لے آئیں.اللہ تعالیٰ نے نشانات ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں ایک سال دو سال نہیں سوسال متواتر اتنی تائیدات کے نشان دکھائے ہیں کہ ایک اندھے کو بھی محسوس ہو جانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی طاقتیں ان کے ساتھ ہیں ہمارے ساتھ نہیں ہیں.ورنہ ہر بار ہر مخالفانہ کارروائی کا اُلٹ نتیجہ نکلنا کیا معنی رکھتا ہے.بہر حال یہ تو اب جن لوگوں کو خدا تعالی گمراہ قرار دے دے ان کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ان کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا.نہ وہ دیکھ سکتے ہیں، نہ وہ سن سکتے ہیں، نہ وہ سچائی کے اظہار کی طاقت رکھتے ہیں لیکن ان میں بھاری اکثریت ایسی ہے جن پر اس صورتِ حال کا اطلاق نہیں ہوتا.بھاری اکثریت ایسی ہے جو لاعلمی میں یہ حرکتیں کر رہی ہے.یہ صرف چند ہیں گنتی کے راہنما ان کو کہہ لیں یا بد نصیب لیڈر کہہ لیں جو بھی ان کو نام دیں راہنمائی کی صلاحیتوں سے محروم ہیں اور غلط صلاحیتوں کے استعمال کے نتیجے میں ہر دفعہ قوم کو ہلاکت کی طرف لے کے جاتے ہیں.یہ وہ بدنصیب واقعات ہیں جنہوں نے پاکستان کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے.جب سے پاکستان قائم ہوا ہے مسلسل مولوی کے مظالم اور غلط راہنمائی کے نتیجہ میں قوم کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے.میں بنگلہ دیش کے رہنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان میں یہ طاقت نہیں کہ مذہب کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور قدیم تاریخ تک نگاہ دوڑائیں تو مذہب کی تاریخ حاضرہ پر نظر ڈالیں جماعت احمدیہ کے سو سال کس بات کی شہادت دے رہے ہیں ؟ کیا حقیقتیں ان کے سامنے کھول رہے ہیں؟ تو یہ کوئی دور کی بات نہیں.یہ تو آج کی زندہ تاریخ ہے جو ان امور کو کھول کھول کر ان کے سامنے رکھ رہی ہے تو اس سے نصیحت پکڑیں.ان کو حقیقت میں پاکستان کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ وہاں کیا ہوا؟ موجودہ وزیر اعظم اگر اس میں ملوث ہیں
خطبات طاہر جلد اا 790 خطبه جمعه ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں کہ شواہد بتاتے ہیں کہ ملوث ہیں تو ان کو اتنا سوچنا چاہئے کہ اس سے پہلے جنہوں نے یہ کارنامے سر انجام دیئے تھے ان سے خدا کی تقدیر نے کیا سلوک کیا ؟ اور یہ ملاں لوگ جو ان کو یہ آفر کرتے رہے ہیں کہ اگر تم ہمارے ساتھ ہو جاؤ تو ہمیشہ کے لئے تمہارا نام زندہ رہے گا، تمہارے مخالف ختم ہو جائیں گے تمہارے مد مقابل سیاست دانوں کی سیاست ختم ہو جائے گی اور تمہیں دوام بخشا جائے گا اور علاوہ ازیں یہ روحانی سہرا بھی ہم تمہارے سر پہ باندھیں گے.کیا یہ موجودہ وزیر اعظم یہ دیکھ نہیں سکتیں کہ یہی سہرا باندھنے والے ہاتھ پھر پھانسی کا پھندہ بھی پہنایا کرتے ہیں اور ان ہاتھوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے.یہ تاریخ تو پرانی نہیں ہے.جن لوگوں نے مولویوں کے سہروں کی لالچ میں غلط اقدام کئے ہیں ان کا انجام آپ کے سامنے ہے اور یہ وہ انجام ہے جو الہی سنت کے مطابق ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا (فاطر ۴۴۰) ہر طرف نظر دوڑا کے دیکھ لو تم خدا کی سنت میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے نہ کوئی ہیر پھیر پاؤ گے یہ سنت ہے جو بار بار اسی طرح جاری ہوتی ہے.پس آنکھیں کھولیں ہوشیار ہوں، اگر کوئی غلطیاں کی جاچکی ہیں تو اب وقت ہے کہ ان سے تو بہ کی جائے ،استغفار کیا جائے اور خواہ مخواہ ظلم کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس انجام کو نہ پہنچیں جو ظالموں کا انجام خدا تعالیٰ نے مقدر کر رکھا ہے.جہاں تک قوم کا تعلق ہے قوم بھی پیسی جائے گی.غلط فیصلوں کے نتیجے میں جو اس وقت کے سر براہ کیا کرتے ہیں ساری قوم پر بد اثرات مترتب ہوتے ہیں اور ایسے مصائب کی چکی میں پھر قوم پیسی جاتی ہے اور بار بار ایسے ہولناک ابتلاؤں میں ڈالی جاتی ہے کہ پھر نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتی.پاکستان سے عبرت حاصل کریں.یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس دور میں اسلام کی ایک ایسی خدمت کی جارہی ہے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر جس کی کوئی مثال اسلامی تاریخ میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.اتنا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں کارنامہ سرانجام دینے والے ہمیشہ کے لئے خدا کی خوشنودی حاصل کر لیں گے اور عرش معلی پر ان کی حمد کے گیت گائے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی پا جائیں گے اور اسلام ترقی کرے گا اور نشو ونما پائے گا اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گا.یہ وہ نقشے ہیں اس جنت کے جو انہوں نے کھینچے اور یہ نقشے عملاً کس طرح حقائق
خطبات طاہر جلد ۱۱ 791 خطبه جمعه ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء میں ڈھل کر سامنے آئے اس کی تصویر بڑی بھیانک ہے.میں صرف ایک دو نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ بنگلہ دیش والے جو یہ سُن رہے ہوں یا ان کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ ان باتوں کو لحوظ رکھیں.جو کچھ ۱۹۷۴ء میں ہوایا جو اس کے نتیجے میں منطقی نتیجے کے طور پر بعد میں ۸۴ء میں رونما ہوا اور پھر مسلسل ظلم و ستم کی داستان جاری و ساری ہوئی اس کے نتائج کیا نکلے.سابق وزیر قانون پاکستان لکھتے ہیں: درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.دنیا ہماری بداعمالیوں کو دیکھ کر اسلام کے بارے میں رائے قائم کرتی ہے.میرا خیال یہ ہے کہ اگر آج ہم اسلام سے علیحدگی کا اعلان کر دیں تو یورپ کا بڑا حصہ حلقہ بگوش اسلام ہوسکتا ہے.“ الله که اگر خدمت اسلام کرنی ہے تو یہ رستہ ہے اس کا.اس اسلام میں داخل ہوں جسے آپ نے الگ کر رکھا ہے.اس کو دیکھ کر یورپ حلقہ بگوش اسلام ہورہا ہے تو اس اسلام سے تو بہ کریں جوظلم وستم کا اسلام ہے جو ہر گز محمد رسول اللہ ﷺ کا اسلام نہیں ہے اس لئے ناممکن ہے کہ اسلام حضرت محمد رسول اللہ کا ہو اور دنیا اسے دیکھ کر تو بہ کرے.پس جب اس اسلام کو چھوڑا جائے تو مرغوب ہو جائے اور شہرت پا جائے اور دنیا بڑے شوق سے اس کی طرف ولولے کے ساتھ اس کی طرف آگے بڑھے اور اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگے.تو یہ منطقی نتائج ہیں ان پر غور کریں.بروہی صاحب جماعت کے مداحوں میں سے نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے زیر اثر پرورش پانے والے انسان ہیں انہوں نے کھل کر ہمیشہ جماعت اسلامی کی تائید کی ہے.اس کے باوجو دان تمام اسلام کو نافذ کرنے کی کوششوں کا جو نتیجہ انہوں نے ایک مشہور قانون دان کے طور پر بڑی معقول زبان استعمال کرتے ہوئے نکالا ہے.وہ لکھتے ہیں:.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.آج ہم اسلام سے علیحدگی کا اعلان کر دیں تو یورپ کا بڑا حصہ حلقہ بگوش اسلام ہوسکتا ہے.جب وہ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جن پر اسلامی ممالک کا لیبل لگا ہوا ہے تو ان کے قدم اسلام کی طرف بڑھنے سے رک جاتے ہیں.اشاعت اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود ہیں.“ سید کوثر شیرازی صاحب کا جائزہ یہ ہے جو 9 جولائی ۱۹۹۱ء میں چھپنے والے ایک مقالے میں سے لیا گیا ہے.
خطبات طاہر جلد 792 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء میں سالِ رواں کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک پل کو شمار کر رہا ہوں مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میرے چاروں طرف آگ بھڑک رہی ہے.بارود کا دھواں پھیلا ہوا ہے ، بموں کے دھما کے ہورہے ہیں، انسانی چیخ و پکار کا شور بر پا ہے ، گولیاں چل رہی ہیں ، مار دھاڑ ہورہی ہے ، لوٹ مار کا بازارگرم ہے سائے ناچ رہے ہیں پہلے مچل رہے ہیں وحشت اور درندگی کی فضا میں شہری سہمے سہمے خوفزدہ اور حیران بیٹھے ہیں یا اللہ یہ سب کیا ہے؟ قیامت اور کیا ہوگی؟ عذاب الہی نازل ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی.“ سوال یہ ہے کہ جو کچھ پاکستان میں ہوا اگر یہ اسلام کی خدمت تھی تو کیسا خدا ہے جس کے دین کی آپ نے خدمت کی.محمد مصطفی اللہ کا خدا تو ایسا نہیں تھا، وہ تو ادنی ادنی خدمتوں کو حیرت انگیز احسانات سے نوازتا تھا.کسی نے ایک روٹی کی قربانی پیش کی ہے تو ایسے اموال میں برکتیں دی گئیں که نسلاً بعد نسل برکتوں سے ان کی اولادوں نے کھایا اور پھر بھی وہ ختم نہیں ہوئیں، کسی نے معمولی عزت کی قربانی دی تو عزتوں میں ایسی برکت دی گئی کہ معمولی معمولی تاج و تخت کے مالک بنا دئیے گئے.یہ وہ خدا ہے جو اپنی راہ میں قربانی کرنے والوں کو نوازتا ہے ان سے محبت اور پیار کے سلوک کرتا ہے.یہ کیسا خدا ہے تم لوگوں کا خدا؟ اگر تم بچے اور یقیناً تم جھوٹے ہوچے نہیں کیونکہ اگر تم سچے ہوتے تو خدا کا سلوک تم سے ایسا نہ ہوتا.پس میں تمہارے محاورے میں کہہ رہا ہوں یہ تمہارا خدا کیسا ہے کہ جتنی خدمت کرتے ہو اتنی ہی جوتیاں مارتا ہے اور ایسا ذلیل اور رسوا کرتا ہے ناراضگی اور عذاب کے ایسے کوڑے برساتا ہے کہ ساری قوم اس سے بلبلا اٹھی ہے اور چیخ رہی ہے اور کوئی چارہ نہیں پارہی ، کوئی نجات کی راہ نہیں دیکھتی.یہ اسلامی مملکت ڈاکوؤں کی مملکت بن گئی ، یہ اسلامی مملک بچے چرانے والوں کی مملکت بن گئی ہمعصوم عورتوں کی عزت لوٹنے والوں کی مملکت بن گئی ، ایسی مملکت بن گئی جہاں قانون کے رکھوالے سب سے زیادہ قانون کی حدود میں رہنے والوں کے امن پر ڈا کے مارتے ہیں اور سب سے زیادہ ان کی حمایت کرتے ہیں جو قانون شکن ہیں.پاکستان کے حالات تو اب ایسے کھلے کھلے واضح حالات ہیں کہ کبھی دنیا میں کسی رات کی سیاہی ایسی واضح نہیں ہوئی جیسے پاکستان کے دنوں کی سیاہیاں واضح ہیں اور اندھیر نگری کا ایسا عالم ہے کہ کوئی پاکستان کا باشندہ ایسا
خطبات طاہر جلدا 793 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء نہیں رہا جو اس پر شور نہ ڈال رہا ہو، پکار نہ کر رہا ہو کہ کیا ہو گیا ہے.کیا خدمت تم نے کی ہے خدا تعالیٰ کی اور دین کی جس کے نتیجے میں یہ سزائیں مل رہی ہیں؟ وہ واضح خدمت ہے.۱۹۷۴ء کے بعد سے آج تک پورے ملک کو امن نصیب نہیں ہوا.تو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ کو اور وہاں کے دانشوروں کو میں سمجھا تا ہوں ، ایک غریبانہ، عاجزانہ نصیحت ہے کہ ان جہالتوں کا اعادہ نہ کریں جو ظلمات بن کر آپ کو ایسا گھیر لیں گے کہ ان ظلمات سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پائیں گے آپ.پہلے ہی غریب ملک ہے، کئی قسم کے حوادث کا شکار ہے، غربت اتنی ہے کہ کم ہی کسی ملک میں اتنی غربت ہوگی اور پہننے کے لئے کپڑے میسر نہیں بچوں کو.بھاری تعداد ایسی ہے جو لنگوٹوں میں یا معمولی ایک ایک چادر میں گزارے کرتی ہے.ایک وقت کی روٹی مل جائے تو غنیمت سمجھی جاتی ہے.اس کے اوپر خدا کا غضب سہیڑ بیٹھیں اور خدا کو ناراض کرنے کے لئے کوئی اقدام کر بیٹھیں ، بہت بڑی جہالت ہوگی اور تاریخ کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گی اگر آپ نے ایسی بیہودہ حرکت کی.صلى الله ملاں آپ کو اسلام کے نام پر یہ کہتے ہیں یہ عظیم الشان خدمت ہے کیونکہ نعوذ بالله من ذالک ایک شخص نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ ڈال دیا ہے آپ کی خاتمیت پر ڈاکہ ڈال دیا ہے.یہ ایسا بیہودہ محاورہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہے.کون ہے؟ کس ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت پر ڈاکہ ڈال سکے آپ کی نبوت پر ڈاکہ ڈال سکے.کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ایسا شخص اور پیدا ہو تو خدا کی تقدیر اس کا نام ونشان اس دنیا سے مٹادے گی.پس یہ محض بیہودہ محاورے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے سوائے جھوٹ کے ،سوائے فساد کے یہ زبان اور کوئی پیغام نہیں دیتی لیکن عوام الناس بلکہ سیاستدان بھی جہالت میں مبتلا ہو کر بعض دفعہ ان جھوٹے کھوکھلے نعروں سے متاثر ہو جاتے ہیں.ڈاکہ ڈالا کیسے ڈاکہ ڈالا؟ ان سے پوچھیں اور پھر اگر تمہیں کوئی غیرت ہے تو پھر رسول کی غیرت رہ گئی ہے اور خدا کی غیرت کوئی نہیں.آج دنیا میں بھاری اکثریت انسانوں کی ایسی ہے جنہوں نے خدا کی خدائی پہ تمہارے محاورے کے مطابق ڈاکے ڈال رکھے ہیں.جو بُت پرست ہیں آج ان کی اکثریت ہے دنیا میں.جنہوں نے خدا کے رسولوں کو خدا کا بیٹا بنا لیا ان کی بھاری اکثریت ہے اور وہ تمہارے محاورے کے مطابق خدا کی خدائی لوٹ بیٹھے، خدا کی عزتوں پر
خطبات طاہر جلدا 794 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء ہاتھ ڈال بیٹھے اور اس کے باوجود تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی.ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر تمہیں کوئی توجہ نہیں ہے.جہاد کرنا ہے تو پھر ان ممالک میں جہاد کرو جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم توڑے جارہے ہیں اور وہاں مولویوں کو سب سے آگے بھیجنا چاہئے کیونکہ کہتے ہیں کہ ہمیں شوقِ شہادت سب سے زیادہ ہے.یہ جو کنٹرول زمین تھی کشمیر کی اس سے بیچاروں کو روکا کیوں گیا ؟ مولویوں کو چاہئے تھا کہ کھیپ کی کھیپ وہاں بھجوا دیتے تا کہ ایک دفعہ یہ شوق شہادت تو پورا کرتے لیکن سے پیچھے رہتے ہیں.جہاں واقعہ موت کا خطرہ سامنے دکھائی دے وہاں یوں لگتا ہے ان کو کوئی سانپ سونگھ گیا ہے اور جہاں کوئی کمزور، نہتے بے بس لوگوں پر ظلم کا معاملہ ہو وہاں شیروں کی طرح دندناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.مجھے ۱۹۷۴ء کے دوران کی باتیں یاد ہیں.ایک گوجرانوالہ کے ایک گاؤں پر کچھ مولوی بہت بڑا جلوس لے کر حملہ آور ہوئے اور قریب تھا کہ وہ سارے بیچارے معصوم کمز ور احمدی گاؤں تل پڑتے کسی نے اطلاع دی کہ وہ بھی آگے سے تیار بیٹھے ہیں.آگے بڑھنا ہے تو ہوش سے آگے جانا کیونکہ وہ ہیں تھوڑے لیکن مرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایک کے مرنے میں دس مار کے مریں گے.اس خبر پر سارا جلوس مبہوت ہو گیا اور آپس میں باتیں شروع ہوئیں کہ کون آگے بڑھے تو کسی نے مولویوں کو پکڑا کہ آپ آگے چلیں کیونکہ آپ ہی ہمیں شوق شہادت دلا کر یہاں تک لائے ہیں تو مولویوں کے لئے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا.کسی نے کہا ہمیں بندوق نہیں چلانی آتی کسی نے کہا مجھ میں یہ کمزوری پیدا ہو گئی ہے اور جب انہوں نے مولویوں کا یہ رویہ دیکھا تو جلوس والوں نے کہا کہ آپ کا یہ حال ہے تو ہماری جانیں کیوں ضائع کرواتے ہیں ہم بھی واپس چلتے ہیں.چنانچہ گاؤں کے دروازے سے یہ سارا جلوس واپس پلٹ گیا.تو حکومتوں کو چاہئے کہ اگر مولویوں کی صداقت آزمانی ہے تو آزمائشوں کی بھٹی میں سب سے آگے جھونکیں.جہاں جہاں مظالم ہورہے ہیں مسلمانوں پر وہاں ان کو دھکیلا جائے.میں نے گزشتہ کچھ عرصہ پہلے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ بوسنیا کی زمین واقعۂ شہادت کے لئے بلا رہی ہے اور میں نے اعلان کیا تھا کہ جن ممالک میں مسلمان حکومتیں ہیں وہ صاحب اختیار ہیں.وہاں جہاد ہو سکتا ہے جو غیر مسلم ممالک میں غیر مسلم حکومتوں میں رہتے ہیں ان کے لئے جہاد کی صورت نہیں ہے لیکن ترکی میں جہاد ہو سکتا ہے پاکستان
خطبات طاہر جلدا 795 خطبه جمعه ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء میں جہاد ہوسکتا ہے.ان ممالک کی حکومتیں اعلان کریں تو میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے احمدی پیش پیش ہوں گے لیکن آپ کے لئے مشکل یہ ہے کہ آپ احمد یوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور جہاد کے لئے استعمال کرنا شاید پسند نہ فرمائیں.تو میرا مشورہ یہ ہے کہ مولویوں کو کیوں نہیں پکڑتے سارے مولویوں کو پکڑ کے پاکستان کے ہوں، بنگلہ دیش کے ہوں ان کی فوجیں بنائیں اور بوسنیا میں بھجوا کے ان کو جام شہادت نوش کرنے دیں.اتنا بیچارے مسلمان عوام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جامِ شہادت نوش کرو.خود کیوں نہیں نوش فرماتے ، اپنی دفعہ وہ جام تلخ ہو جاتا ہے.یہ دھو کے باز ہیں.بنگلہ دیش میں بھی ان کا یہی حال ہے.بار بار وہاں سے اطلاعیں آتی ہیں کہ بعض علاقوں پر مظالم ہوئے ہیں مسلمانوں کے خلاف.برما کے بڑے بھاری تعداد میں مہاجر آئے ہیں تو برما کا فرنٹ کیوں نہیں کھول دیتے ان کے لئے.ضرور بیچارے مظلوم احمد یوں پر حملے کروانے ہیں جو اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے ، جن کو تعداد کے لحاظ سے اور طاقت کے لحاظ سے یہ توفیق ہی نہیں ہے اور ان کے لئے سر دست جو دور ہے وہ مظلومیت کا دور ہے.وہ اپنی مظلومیت سے بھی نہیں ڈرتے ، وہ اپنا نہتا ہونے سے بھی نہیں ڈرتے ، ان کو اس کمزوری کے باوجود خوف نہیں ہے کہ آپ آئیں اور ان کے بڑوں اور چھوٹوں اور بچوں کو قتل کریں ، ان کے گھروں کو آگ لگا ئیں.پہلے بھی آپ ان سے یہ کرتے رہے ہیں اور دیکھ چکے ہیں کہ اس کے باوجود وہ خوف کھانے والے نہیں ہیں.تو تم جو سمجھتے ہو کہ واقعہ تم جام شہادت نوش کرنے کی خواہش رکھتے ہو بہترین علاج تمہارے لئے یہ ہے کہ برما کی فوج کھولو، اور بنگلہ دیش کی حکومت کو چاہئے کہ اچھی بھلی فوج ملی ہوئی ہے لاکھوں کی تعداد میں ملاں اور ان کے چیلے چانٹے ہیں ان کو بھجوا میں ایک دفعہ جھگڑ اختم ہو ، سیاست گندگی سے پاک ہو اور امن کی زندگی بسر کریں.تو جاہلانہ حرکتیں نہ کریں حقیقت کو دیکھیں حال کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ کی نبوت پر نہ کوئی ڈاکہ ڈال سکتا ہے نہ قیامت تک کوئی ایسا پیدا ہو گا جو ڈاکہ ڈال سکے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو غلامی کا دعویٰ کیا ہے اور عاشقانہ غلامی کا دعوی کیا ہے.آپ نے تو یہ کہا ہے وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے“ سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
خطبات طاہر جلد 796 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے (در مشین : صفحه ۸۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام تو پڑھ کے دیکھیں کہ وہ کیسا عاشق صادق ہے.عربی ،اردو، فارسی میں جو حضرت محمد مصطفی اللہ کی محبت میں آپ کا کلام ہے اس کی نظیر سارے عالم اسلام میں آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.تو ہوش کریں دیکھیں تو سہی کہ کس کے اوپر آپ کفر کے فتوے لگاتے ہیں.آپ کا دعویٰ صرف یہ ہے کہ آپ وہ مہدی ہیں جن کے آنے کی خوشخبری محمد رسول اللہ نے دی اور جن کے حق میں آسمان سے چاند سورج نے گواہی دی.آپ کا دعوی یہ ہے کہ آپ وہ مسیح موعود ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں عیسائیت کے خلاف ایک عالمگیر جہاد کی بنیاد ڈالی تھی اور مہم شروع کرنی تھی.جہاں تک نبوت کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ مہدی اور مسیح کا مقام غلامی نبوت کا یعنی مطبع نبوت کا ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.وہ حقیقی نبوت جو آزاد ہو، جو کسی دوسرے نبی کی غلام نہ ہو ، وہ حقیقی نبوت جو صاحب شریعت ہو اس کا نہ کبھی حضرت مسیح موعود نے دعویٰ فرمایا نہ کبھی ایسا ادعا کیا بلکہ ایسے شخص پر لعنت ڈالی اور فرمایا کہ اس کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تو مسیحیت اور مہدویت کا ہے اور ہم عقلاً اور نقل) ثابت کرتے ہیں کہ مسیح موعود جو امت محمدیہ میں پیدا ہونا ہے اور مہدی موعود جس نے امت محمد یہ میں ظاہر ہونا ہے یہ آنحضرت ﷺ کے تابع نبی ہیں آزاد اور حقیقی نبی ان معنوں میں کہ گویا وہ کسی دوسرے نبی کی غلامی سے آزاد ہوں اور اپنی ذات میں فی ذاتہ نبوت کے کمالات حاصل کر چکے ہوں.ایسا نبی نہ آسکتا ہے نہ کبھی کسی نے دعویٰ کیا ہے اور امتی نبوت کے متعلق قرآن کریم گواہ کھڑا ہے.اس آیت کو جب تک تم نوچ کر قرآن سے باہر نہ نکال دو تمہارا کوئی حق نہیں ہے کسی پہلو سے بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کسی قسم کا حملہ کرو اور یہ الزام لگاؤ کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ ایسی نبوت کا دعویٰ کیا ہے جس کو قرآن رڈ کرتا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقَالُ ( النِّسَاءِ:۷۰) کیسا کھلا کھلا اعلان عام ہے.آیت خاتم النبین برحق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات طاہر جلدا 797 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء والسلام اللہ کی قسمیں کھا کر اعلان کرتے ہیں کہ اس آیت پر بدرجہ کمال ہمیں ایمان حاصل ہے بلکہ اس کی معرفت کو جیسا ہم سمجھتے ہیں ہمارے مخالف اس کا ادنی سا بھی نہیں سمجھتے لیکن اس آیت کے مضمون کی قرآن کریم کی کوئی دوسری آیت مخالف اور معاند ہوہی نہیں سکتی.اس آیت کو اس آیت کی روشنی میں پڑھیں جس میں یہ اعلان ہے کہ ہر نبوت بند مگر غلامی کی نبوت، اطاعت محمدیہ کی نبوت وہ جاری وساری رہے گی اور صرف محمد مصطفیٰ کے غلاموں کو عطا ہو گی مَن يطع اللهَ وَالرَّسُولَ اعلان عام ہے کہ جو شخص اللہ اور اس رسول یعنی محمد مصطفیٰ کی اطاعت کرے گا فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم اب بس یہی لوگ ہیں جو انعام پانے والے ہوں گے ان کے سوا کوئی نہیں ہو گا.تم نبوت کہتے ہو قرآن کہتا ہے کہ ہر انعام محمد رسول اللہ کی غلامی سے وابستہ کر دیا گیا ہے منَ النَّبِيِّنَ کون ہیں یہ انعام پانے والے ؟ مِنَ النَّبِین نبیوں میں سے ہوں گے وَالصَّدِّيقِينَ صدیقوں میں سے ہوں گے وَالشُّهَدَاء شہداء میں سے ہوں گے وَالصَّلِحِین اور صالحین میں سے ہونگے وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا کیے اچھے ساتھی مل گئے تمہیں.نبیوں میں سے ہو گئے، نبیوں کا ساتھ عطا ہو گیا.صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین میں سے ہو گئے لیکن ایک شرط ہے ، اطاعت محمد ی اور کامل اطاعت.جتنا اطاعت میں درجہ کمال کو پہنچو گے اتنا ہی بڑا درجہ نصیب ہو جائے گا.بس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ دعوی کیا ہے کہ جو کچھ میں نے پایا ہے محمد مصطفی کی غلامی اور اطاعت سے پایا ہے اور اسے تم وہ حقیقی نبوت قرار نہیں دے سکتے جس کی راہیں بند ہیں.یعنی وہ نبی جو ہمیشہ کے لئے اولوالامر ہوگا، قیامت تک اس کے لفظ کو کوئی بدل نہیں سکتا.وہی حاکم ہے، حکمران ہے، نہ صرف اپنے زمانے کا بلکہ ہمیشہ آئندہ آنے والے زمانوں کا.اس پر تم نے یہ فساد برپا کر رکھا ہے، اس پر شور ڈالا ہوا ہے.تم کل خدا کو کیا جواب دو گے لیکن خدا کل پر ادھار نہیں رکھا کرتا.ایسے بدبختوں کو جو کلام الہی کو تروڑ مروڑ کے اپنے وحشیانہ مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، دنیا میں بھی سزائیں دی جاتی ہیں اور وہ تاریخ جس کا میں نے مختصر ذکر کیا ہے حال کی تاریخ وہ اس بات پر گواہ کھڑی ہے کہ بعد کے زمانے کی باتیں تو مرنے کے بعد دیکھی جائیں گی.اس دنیا میں بھی خدا انہیں بخشے گا اور سزا پر سزا دیئے چلے جائے گا.بنگلہ دیش کے راہنماؤں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ عقل سے کام لیں ، ہوش کے ناخن لیں
خطبات طاہر جلد 798 خطبه جمعه ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء اور اپنی قوم کو اس قعر مذلت میں نہ دھکیل دیں جس میں جاتے ہوئے تو دیکھا جاتا ہے وہاں سے نکلتے ہوئے کبھی کسی کو نہیں دیکھا گیا.جہاں تک سیاست کا معاملہ ہے، سیاست کو تو یہ حق ہی نہیں ہے کہ وہ مذہبی امور کے متعلق فیصلے کرے اور یہ کہے کہ فلاں کے ادعاء کے خلاف اس کا مذہب یہ ہے.یہ تو حد سے زیادہ جاہلانہ بات ہے کہ کسی مذہب کی طرف منسوب ہونے کا حق اس ملک کی سیاست چھین لے اور یہ دھمکیاں دی جائیں کہ اگر یہ حق نہیں چھینا جائے گا تو یہاں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی.بنگلہ دیش میں اگر خون کی ندیاں بہائی جائیں اور حکومت اس میں ذمہ دار ہو گی تو جو بھی خون بہے گا وہ ایک بنگالی کا خون ہو گا اور بنگال کے راہنماؤں کے اوپر اس خون کا ایک ایک قطرہ قرض ہو گا.جوخون ملک میں ملک کے باشندوں کا بہتا ہے ملک کے باشندوں کا حق ہوتا ہے.مذہب اور ملت اور رنگ کی تفریق کے بغیر ہر شہری کا حق ہے کہ اس کی حکومت اس سے انصاف اور عدل کا معاملہ کرے.اس کے خون کا ایک ایک قطرہ تمہاری گردن پر ہوگا.پس بنگال میں اگر خون بہے گا تو بنگالی کا بہہ رہا ہوگانہ مسلمان کا نہ ہند و کا.مظلوم کا خون تو نہ مذہب رکھتا ہے نہ رنگ رکھتا ہے وہ مظلوم ہی کا خون ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے جہاں تک سیاست کا تعلق ہے سیاست کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ ایسے مذہبی امور میں دخل دے جس کے لئے سیاست بنائی نہیں گئی.سیاست کی دنیا ایک الگ دنیا ہے اور پھر ایسے امور میں دخل دے جہاں دخل دینے کی خدا نے کسی کو بھی اجازت نہ دی ہو.یہ ملاں دعوے کرتے ہیں کہ فلاں وجہ سے یہ غیر مسلم ہیں فلاں وجہ سے غیر مسلم ہیں.اپنی ان کی عمریں کٹ گئیں چودہ سو سال گواہ ایک دوسرے کو غیر مسلم اور کافر قرار دیتے ہوئے اور اتنے اتنے بھیانک الزام لگائے ہیں ایک دوسرے پر اور اتنی شدت کے ساتھ کفر کے فتوے لگائے ہیں اور اس اقرار کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ فلاں فرقہ اور اس کے تمام افراد نہ صرف غیر مسلم بلکہ جہنمی ہیں.پھر یہاں تک بھی لکھا ہے کہ جو شخص اس فتوے میں شک کرے گا وہ بھی غیر مسلم اور جہنمی ہے.یہ سارے فتوے کھلے کھلے چھپے ہوئے موجود ہیں.بنگلہ دیش کی جماعت کو میں نے نصیحت کی ہے کہ فوراً ان کو شائع کریں اور سارے اہلِ بنگالہ کو بتائیں کہ یہ کون ملاں ہے جو آج تم سے مخاطب ہو رہا ہے کل یہ کیا کیا کرتا تھا ؟ جب احمدیت ابھی وجود میں ہی نہیں آئی تھی اس وقت یہ مولوی ایک دوسرے کے خلاف کیا فتوے دیا کرتے تھے.ان کی باتوں پر چل کر تم کیوں اپنی سیاست کو تباہ کرتے ہو.یہ دراصل ایک سازش ہے
خطبات طاہر جلدا 799 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء جیسا کہ پاکستان کے خلاف کی گئی تھی.احمدیوں کا تو خدا محافظ ہے اور مظلوم ہونے کے لحاظ سے بھی اللہ کی حفاظت میں ہیں لیکن سیاستوں کا تو خدا محافظ نہیں ہے.پس سیاست دان غلطیاں کرتے ہیں تو اس کے تلخ نتائج ان کی زندگیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، یہ گھونٹ ان کو بھرنے ہی پڑتے ہیں.پس آج پاکستان کی سیاست اُکھڑی ہوئی ہے اور دن بدن بے بس اور نہتی ہوتی چلی جارہی ہے.اس کا ایک ہی علاج ہے کہ تو بہ کرو اور غلط فیصلوں کو کالعدم قرار دو.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سیاست کو تو کیا کسی مذہبی راہنما کو بھی خدا تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ کسی کو غیر مسلم قرار دے دے.سب سے بڑا حق اگر کسی کو نصیب ہو سکتا تھا تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کونصیب ہو سکتا تھا.تمام تاریخ میں آنحضرت ﷺ کی زندگی کی تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہے.میں تمام دنیا کے مولویوں کو چیلنج دے کے کہتا ہوں ایڑی چوٹی کا زور لگاؤ ایک بھی تمہیں ایسا واقعہ نہیں ملے گا کہ کسی نے کہا ہو کہ میں مسلمان اور محمد رسول اللہ اللہ نے کہا ہو نہیں تم مسلمان نہیں ہو.درخشندہ تاریخ میں جس وقت اسلام بن رہا تھا، منصہ شہود پر ابھر رہا تھا خدا کا جمال اور خدا کا جلال ایک زندہ محمد کی شکل میں دنیا میں رونما تھا اس وقت ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا وہ شخص جو خدا سے علم پاتا تھا اور خدا کے علم سے کلام کرتا تھا جس کی دلوں پر نظر تھی اس نے بھی کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں کیا کہ کسی مسلمان ہونے کے دعوے دار کو غیر مسلم قرار دے دیا ہو.کیوں نہیں کیا؟ ایک تو فراست طبعی فراست ایسی روشن تھی کہ وہ دنیا کے روشن ترین عالم کے چاند ستاروں کو بھی شرماتی تھی اس میں کوئی شبہ نہیں ہے.سورج کی روشنی کی آنحضرت نے کی فراست کے سامنے کوئی حیثیت نہیں کیونکہ انسانی فراست کی روشنی مادی روشنیوں کے او پر غالب ہوتی ہے اور جونہی یہ فراست ترقی کرتی ہے اس روشنی کو دوسری روشنیوں پر غلبہ عطا ہوتا ہے.یہ مبالغہ آمیزی کی باتیں نہیں ہیں یہ حقیقت ہے کہ محمد رسول اللہ کی فراست سے بڑھ کر روشن فراست نہ کبھی پہلے ہوئی نہ کبھی آئندہ ہوگی اور تمام روشن وجودوں میں سب سے زیادہ روشن وجود آپ کا ہے.اس لئے روشنی کے ساتھ اندھیروں کا کوئی جوڑ نہیں ہوا کرتا.ایک فیصلہ بھی آپ غلط نہیں کر سکتے تھے نہ کبھی کیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اس بارے میں واضح ہدایت فرمائی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا اعراب یعنی بدوی لوگ کہتے تھے ہم ایمان لے آئے ہیں قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا اے محمد ! ان کو بتا دے.یعنی خدا خبر دے رہا ہے کہ تم ایمان نہیں لائے وَلكِنْ قُولُوا ا
خطبات طاہر جلدا 800 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۹۲ء أَسْلَمْنَا پھر بھی ہم تمہیں حق دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہو.ایسی حالت میں بھی اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق ہے تمہیں کہ وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ایمان نے تمہارے دلوں میں جھانکا تک نہیں، داخل ہی نہیں ہوا.لیکن تم کہتے ہو کہ ہم ایمان لائے خدا کہتا ہے کہ ایمان نہیں لائے واضح بات ہے لیکن تمہیں مسلمان کہلانے کا حق پھر بھی رہتا ہے.محمد مصطفی سے بھی تمہیں اسلام کی طرف منسوب ہونے کے حق سے محروم نہیں کرتے.یہ وہ آیت کریمہ ہے جس نے ساری بات کھول دی نُورٌ عَلَى نُورٍ (النور: ۳۶) کا منظر دکھائی دیتا ہے.اس آیت کریمہ کے نزول سے پہلے بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کبھی کسی کو اس کے دعوے کے خلاف مسلمان کہلانے کے حق سے محروم نہیں فرمایا.اس آیت کے بعد تو ناممکن ہو جاتا ہے.آج کے ملاں اگر یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے تو اپنی بدبختی اور بدنصیبی کا دعوی کرتے ہیں.محمد رسول اللہ سے بڑھ کر دعوی کرتے ہیں اور کوئی دنیا میں ایسا شخص نہیں ہے جو محمد مصطفی ہے.بڑھ کر روحانی طاقتیں رکھنے کا یا عالمانہ طاقتیں رکھنے کا دعوی کرے اور خدا کے ہاں مردود نہ ٹھہرے.پس ان مردودوں کے پیچھے چل کر تم اپنے نصیب کیوں اُجاڑتے ہو بگاڑتے ہو.خدا حق نہیں دے رہا اور یہ حق لے رہے ہیں اور تمہیں بھی کہتے ہیں کہ آؤ اس چوری کے حق سے تم بھی استفادہ کرو.تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.اس لئے جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرو اور تو بہ کرو، جہاں تک مسلمان کہلانے کے حق کا تعلق ہے آنحضرت ﷺ نے اس بات کی بھی اجازت نہیں دی کہ کسی کو یہ کہو کہ تمہارے دل میں نہیں ہے کیونکہ دل میں نہیں کا دعویٰ خدا کر سکتا ہے.محمد مصطفی " نے بھی ایمان کی نفی تب کی جب خدا نے خود بتایا کہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے اس کے باوجود مسلمان ہونے کا دعوے کا حق ان کو دیا اور اس حق کو سب نے استعمال کیا.جہاں تک یہ بات کہنے کا تعلق ہے ایک عام آدمی کے لئے کہ تمہارے دل میں نہ ایمان ہے نہ اسلام اس صورت حال پر روشنی ڈالنے کے لئے یہ عظیم واقعہ میں آپ کے سامنے رکھ کر میں اس خطبے کوختم کرتا ہوں.احمدیوں کے سامنے تو بار بار یہ واقعہ پیش کیا جارہا ہے مگر میں امید رکھتا ہوں کہ بنگال تک بھی یہ آواز پہنچ رہی ہوگی اور بنگال کے غیر احمدی مسلمانوں اور دیگر دانشوروں کے سامنے یہ صورت حال خوب کھول کر پیش کرنی چاہئے کہ آنحضرت میہ کا کیا فیصلہ ہے اس کے مقابل پر مولوی
خطبات طاہر جلدا 801 خطبه جمعه ۶ نومبر ۱۹۹۲ء تم سے کیا مطالبے کر رہا ہے.اپنی راہ چن لوتم نے محمد مصطفی " کے ساتھ رہنا ہے یا ملاں کے پیچھے چلنا ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک جہاد کے دوران ایک نامی پہلوان سے ایک مسلمان مجاہد کا مقابلہ ہوا اور بڑی مشکل کے ساتھ بالآخر اس نے اس پہلوان کو زیر کیا اور زیر کر کے جب وہ قتل کرنے لگا تو اس نے اعلان کیا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ بھی نہیں کہا.صرف لا إِلهَ إِلَّا الله یعنی یہ جو کہتے ہیں نبوت کی شرط ہے ، نبوت میں فوقیت شامل ہے یہ سب اوٹ پٹانگ دلیلیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو میں واقعہ بیان کر رہا ہوں اس واقعہ میں حدیث سے ثابت ہے کہ اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے.الله اس مسلمان مجاہد نے پھر بھی اسے قتل کر دیا.واپس آکر بڑے فخر کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے حضور یہ واقعہ پیش کیا کہ یا رسول اللہ ! آج یہ واقعہ پیش ہوا ہے.میں جانتا تھا کہ جھوٹ بول رہا ہے جان بچانے اصلى الله کے لئے ایسا کر رہا ہے میں نے اسے قتل کر دیا.ان کی اپنی روایت ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سے اتنے ناراض ہوئے کہ میں نے ساری زندگی میں کبھی آپ کو اتنا ناراض نہیں دیکھا.بار بار یہ کہتے تھے افلا شققت عن قلبه افلا شققت عن قلبه - (مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر : ۱۴۰) او بد نصیب تو نے دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھ لیا کہ اس کے دل میں اسلام تھا کہ نہیں تھا.اتنا کہا کہ میں نے حسرت کی کاش اب یہ کہنا بند کر دیں.ایک اور روایت میں ہے کہ میں نے حسرت سے اس بات کی خواہش کی کاش میں آج سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا کہ محمد رسول اللہ کی ایسی شدید ناراضگی مجھے نہ دیکھنی پڑتی اور پھر ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس روایت کو سن کر یہ فرمایا کہ تو قیامت کے دن کیا جواب دے گا جب اس شخص کا لَا اِلهَ إِلَّا اللہ جسے تو نے قتل کیا ہے قیامت کے دن تیرے سامنے گواہ بن کر کھڑا ہو جائے گا کہ تو نے ایک ایسے بندے کو قتل کیا ہے جو لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ رہا تھا اور تو نے اسے تسلیم نہیں کیا.تو احمدی تولا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کا ورد کرتے ہیں اور ور دجان ہے یہ کلمہ اُن کا.اس کلمہ کی خاطر جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں.سالہا سال سے پاکستان کی گلیوں نے یہ گواہیاں دی ہیں کہ اس کلمہ کی حفاظت اور عزت کی خاطر احمدی اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے.جیلوں میں ٹھونسے گئے مارے گئے گلیوں میں گھسیٹے گئے ، ان کی عزتیں لوٹی گئیں ان کے
خطبات طاہر جلد 802 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۹۲ء اموال چھینے گئے ، ان کے گھروں کو جلایا گیا لیکن کلمہ کی حفاظت سے ایک قدم بھی یہ پیچھے نہیں ہے.تو ان کے خلاف تم دعوی کرتے ہو کہ یہ غیر مسلم ہیں ؟ تمہیں تو عقل نہیں ہے، تم تو عقل سے کلیۂ عاری ہو چکے ہولیکن بنگلہ دیش کے سیاست دان پر مجھے توقع ہے کہ وہ بہتر دانشوری کے نمونے دکھائے گا.انہیں عقل اور فہم عام دوسرے پاکستانی سیاستدانوں کی نسبت بہت زیادہ ہے.میرا تجربہ ہے میں بنگال میں بہت پھر چکا ہوں.ان لوگوں میں عقل نسبتاً زیادہ ہے اور منطق کی بات کی جائے تو ضد نہیں کرتے اور سمجھ جاتے ہیں اس لئے وقت ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ ان کو سمجھایا جائے کہ عقل اور ہوش کے ناخن لو.خوفناک سازش کا نہ صرف شکار ہو اور نہ قوم کو شکار ہونے دو.تمہاری نہ دنیار ہے گی نہ تمہارا دین رہے گا.ایک لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے.گلی گلی سے احمدیوں کی روحیں قیامت کے دن تمہارے خلاف شہادت دیں گی لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھیں گی.اس وقت کس منہ سے خدا کو جواب دو گے کہ ہم نے ان لوگوں پر ظلم کیا ان پر ستم کیا ان کی جانیں لیں اور ان کی عزتیں لوٹیں اور ان کو غیر مسلم قرار دے دیا.اللہ تعالیٰ تمہیں عقل دے اور ہوش دے اور تم اس بد نصیب کہانی کو دہرانے والے نہ بنو جو پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے دہرائی گئی تھی اس کی پاداش آج تک اسی طرح جاری وساری ہے.وہ واقعہ تو تاریخ کا حصہ بن گیا ہے لیکن سزا ایک زندہ حقیقت کے طور پر قوم سے چمٹ بیٹھی ہے اور چھوڑنے کا نام نہیں لیتی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا.کیونکہ سردیوں کے چھوٹے دن آگئے ہیں اور اتنے چھوٹے ہو گئے ہیں کہ جمعہ کا خطبہ ختم ہونے سے پہلے پہلے عصر کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے اس لئے حسبِ سابق جب تک یہ صورتِ حال کی مجبوری رہے گی ہم جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز جمع کیا کریں گے اور جب یہ دن اتنے لمبے ہو جائیں کہ جمعہ کا وقت اور عصر کا الگ الگ ہو جائیں تو انشاء اللہ پھر حسب سابق جمعہ اور عصر کی نمازیں الگ الگ پڑھی جایا کریں گی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 803 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء اللہ تعالی آنکھوں اور دل کی خیانت کو بھی خوب جانتا ہے.پھر فرمایا:.اپنے روزمرہ تعلقات میں خیانت سے بچیں.(خطبه جمعه فرموده ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی.وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْازِفَةِ إِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُظِمِينَ مَا لِلظَّلِمِيْنَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعِ يُطَاعُ يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِى الصُّدُورَ وَاللهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (المومن : ۱۹ تا ۲۱) کینیڈ اسفر اور روانگی سے پہلے خیانت کا مضمون چل رہا تھا کہ کس طرح خیانت نے بھی مختلف بتوں کی صورت میں انسان کے دل میں اپنے اڈے جمائے ہوتے ہیں اور جب تک یہ بت نہ ٹوٹیں ان کی جگہ خدا نہیں آسکتا.اس سلسلے میں ابھی گفتگو جاری تھی کہ وقت ختم ہو گیا اور میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ انشاء اللہ آئندہ خطبے سے اسی مضمون کو شروع کیا جائے گا.یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں خیانت ہی کے مضمون پرتا پہلوؤں سے روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس سے پہلے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قرآن کے ذکر سے پہلے کہ مختلف
خطبات طاہر جلد ۱۱ 804 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء اے محماً وَاَنْذِرُهُمْ يَوْمَ الْازِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُظِمِينَ اس دن سے ان کو ڈرا جو قریب تر آتا چلا جا رہا ہے وہ دن جب خوف سے دل ہنسلیوں تک جا پہنچیں گے.مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعِ يُطَاعُ اس دن ظالموں کے کوئی ان کا گہرا جگری دوست کام نہیں آسکے گا.وَلَا شفیع نہ کوئی ایسا شفیع ان کو میسر ہوگا کہ خدا تعالیٰ جس کی شفاعت کو مان لے جس کی اطاعت کی جائے يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے.وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ اور ان باتوں سے باخبر ہے جن کو دل چھپائے رکھتے ہیں وَاللهُ يَقْضِی بِالْحَقِّ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے اور وہ لوگ جن کو خدا کے سوا پکارتے ہیں لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ان کے پاس تو فیصلے کی کوئی بھی طاقت نہیں، کوئی اختیار نہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کر سکتے.اِنَّ اللهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ یقینا اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت دیکھنے والا ہے.یہاں پہلے تو متنبہ فرمایا گیا کہ تمہاری خیانتیں ایسی نہیں ہوں گی کہ ان کو نظر انداز کر دیا جائے اور تم انہیں چھپا سکو.ایک دن ایسا آنا ہے جب ان خیانتوں کا تمہیں حساب دینا ہوگا اور وہ دن اتنا سخت ہے کہ محاورے کے مطابق جیسے خوف سے دل بعض دفعہ اس طرح دھڑکتے ہیں یوں لگتا ہے کہ گردن سے ٹکرا رہے ہوں ، ہنسلیوں کی ہڈیوں سے ٹکرا رہے ہیں تو ایسی کیفیت دل کی ہوگی کہ جب خوف اور اضطراب سے دل آپے سے باہر ہورہے ہوں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب دوستیاں کام نہیں آئیں گی ، جب کوئی شفاعتیں کام نہیں آئیں گی.اللہ ہی فیصلہ فرمائے گا اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا.يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وہ آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے.یہ بہت ہی اہم مضمون ہے جس پر اگر ہم نظر رکھیں تو ہماری آنکھیں بہت سی بدیوں سے بچ جائیں اور ہمارے دل بہت سی چیزوں کو چھپانے کے جھنجٹ سے نجات پا جائیں اور معاشرے کی صفائی اور معاشرے کو جرائم سے پاک رکھنے کے لئے اس آیت کا مضمون ایک بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے.عام طور پر بدی نظر سے پیدا ہوتی ہے.چنانچہ قرآن میں دوسرے موقعوں پر فرمایا وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ طله ۱۳۲۰) تم اپنی نظر کو یونہی آزاد، آوارہ نہ دوڑایا کرو.جس کے پاس اچھی چیز دیکھی جو ہم نے اسے عطا کی ہے اسے لینے کا فیصلہ کر لو، اس کو لینے کی حرص تمہارے اندر پیدا ہو جائے.پس للچائی ہوئی آنکھ سے دوسری چیزوں کو دیکھنا ، یہ گہری اور سنگین بدیوں کی بنیاد ڈالنے والی بات ہے اور یہ بنیاد دل میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 805 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء پڑتی ہے.پس انسان جب کسی کی اچھی چیز کو دیکھتا ہے خواہ انسانی چیز ہو، رشتے میں اس کے تعلق والی ہو یا کسی کی ملکیت کو دیکھتا ہے تو آنکھ کی حرص در اصل دل کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اس کو اپنانے کا فیصلہ کرلو اور جب یہ فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر ساری سکیمیں اندر اندر تیار ہوتی ہیں اور دل آماجگاہ بن جاتا ہے اس خیانت کی جس کا آغاز آنکھ سے ہوا تھا.تو خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ فرمایا کہ آنکھوں کی خیانت، اس کی حفاظت کرو.یہ ایسا ہی مضمون ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا کہ سرحدوں پر گھوڑے باندھ لو.اس بات کا انتظار نہ کرو کہ دشمن تمہارے گھر تک پہنچ جائے پھر دفاع کی کارروائی شروع کرو.تو آنکھ وہ سرحد ہے جہاں خیانت کا دفاع ہونا چاہئے.اگر آنکھ سے خیانت کا دفاع ہو جائے تو دل کا حال صاف ہی رہتا ہے دل پاکیزہ رہتا ہے اور اس کو پھر کسی قسم کا خطرہ در پیش نہیں ہوتا.تو کتنی لطافت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو بیان فرمایا کہ آنکھوں کی حفاظت کرو.آنکھوں سے خیانت شروع ہوتی ہے وہ دل میں اترتی ہے، وہاں پناہ لے لیتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ میرے دل کا حال تو کسی پر روشن نہیں ہے.کیسے کوئی سمجھے گا کہ میں نے کیا سوچا اور کیا نیت باندھی؟.ہے فرمایا اللہ جانتا ہے، وہ خیانت کے آغاز سے لے کر اس کے انجام تک تمام مراحل سے واقف.اور پوری طرح ان تمام منازل سے واقف ہے جن سے نیتیں گزرکر بدی کا روپ ڈھالتی ہیں اور پھر دنیا میں مصیبتیں اور دکھ پھیلا دیتی ہیں.چنانچہ يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصدور میں یہ تمام بدنیتی کا سفر یہ ایک گندی سکیم پر منتج ہوا ایک بدارادے پر منتج ہوا جس کے ذریعے چوریاں ہوئیں ، ڈاکے ہوئے قبل ہوئے لوگوں کی عزتوں پر حملے ہوئے.یہ سارا مضمون قرآن کریم کی اس چھوٹی سی آیت میں درجہ بہ درجہ تمام تفصیل سے بیان فرما دیا ہے وَاللهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ کہ جس کی نظر ہر چیز پر ہو، باریک سے باریک چیز پر ہواس کا فیصلہ تو لازماً حق کے ساتھ ہوگا.وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَیءٍ وہ لوگ جن کو یہ خدا کے سوا معبود بناتے ہیں ان کے ہاتھوں میں تو کوئی فیصلے نہیں چنانچہ شرک کا مضمون بھی اس کے ساتھ باندھ دیا.دراصل خائن لوگ اپنی خیانت اول تو چھپاتے ہیں جب پکڑی جاتی ہے تو پھر دنیا وی خداؤں کی طرف رخ کرتے ہیں اور ان سے سہارے ڈھونڈتے ہیں اور ان کے فیصلے اپنے حق میں کروانے کے لئے پھر خیانت سے کام لیتے ہیں تو اسی لئے خدا تعالیٰ نے شروع میں فرما دیا کہ وہ دن جس کا ہم ذکر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 806 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء کرنے والے ہیں وہاں کسی جھوٹے کی شفاعت منظور نہیں ہوگی کسی جھوٹے کی خاطر شفاعت منظور نہیں ہوگی کسی کی دوستی کام نہیں آئے گی لیکن دنیا میں جب تم خیانتیں کرتے ہو تو ایک سہارا تمہارا یہ جھوٹے معبود ہیں جو تم نے اپنے دلوں میں نصب کر رکھے ہیں.خیانت خودجھوٹ ،خیانت خود ایک جھوٹا خدا ہے لیکن جب خیانت مصیبت ڈالتی ہے تو پھر مزید جھوٹے خداؤں کی طرف انسان رخ کرتا ہے ، ان کی طرف دوڑتا ہے.تو فرمایا کہ ان کے ہاتھ میں اس دن کوئی فیصلہ نہیں ہوگا اور دنیا میں ان کے فیصلے تمہارے کسی کام آنہیں سکتے کیونکہ تم خدا کی پکڑ کے نیچے ہو.پس اس پہلو سے خیانت کا مضمون بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے.اس کی بہت سی شاخیں ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے غدر کے لفظ کے تابع خیانت کو بیان فرمایا ہے کیونکہ لغت والے بتاتے ہیں کہ غدر اور خیانت، دھوکہ اور خیانت ملتے جلتے مضامین ہیں.صلى الله چنانچہ عہد شکنی کو قرآن کریم نے خیانت قرار دیا اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے لفظ غدر کے تابع عہد شکنی کا ذکر فرمایا.فرمایا عن ابی هریره رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال قال الله تعالى ثلاثة انا خصمهم يوم القيامة رجل اعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فاکل ثمنه و رجل استاجر اجیرا فاستوفى منه ولم يعطه اجره ( بخاری کتاب الاجاره حدیث نمبر : ۲۱۰۹) بخاری کی یہ حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ صلى الله حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں جھگڑا کروں گا.ایک وہ شخص جس نے میرے ساتھ عہد کر کے دھو کہ کیا کہ یہ میرے عہد بیعت میں داخل ہوا اور پھر اس کی کوئی پرواہ نہ کی یہ بھی ایک خیانت کی قسم بلکہ سب سے زیادہ سنگین قسم ہے.دوسرے وہ شخص جس نے آزاد شخص کو غلام بنایا اور بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گیا یہ بھی براہ راست خدا تعالیٰ کی خیانت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو آزادی بخشی ہے انسان کو اس کا آزادی کا حق چھینے کا کسی دوسرے کو حق نہیں.پس غلامی کے مضمون پر یہ حدیث حرف آخر ہے.اس میں غلامی کے متعلق تمام ضروری ہدایات عطا فرما دی گئیں جنہیں آج بدقسمتی سے عالم اسلام نظر انداز کر رہا ہے وہ مقدس سرزمین جہاں یہ ہدایت جاری فرمائی گئی.یعنی مکہ اور مدینہ یعنی ارض حجاز جہاں یہ دونوں آباد مقدس بستیاں واقع ہیں وہاں آج تک بھی لونڈیوں کا رواج ہے اور غلام پالے جارہے ہیں اور مشرق وسطی میں غلاموں کی
خطبات طاہر جلدا 807 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء تجارت ہورہی ہے غریب ملکوں سے عورتیں بھی خریدی جاتی ہیں، معصوم بچے بھی خریدے جاتے ہیں اور ہر طرح کے مظالم اس فرضی حق پر کئے جارہے ہیں کہ ہم نے پیسے دیئے اور اس کو خرید لیا.اللہ تعالیٰ کا رسول فرماتا ہے یعنی خدا فرماتا ہے کہ انسان کی آزادی خدا کی عطا ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ اسے غلام بنا کر دوسروں کے پاس بیچے یہ سودا فاسد ہے جس نے اس کے پیسے کھائے اس نے بھی خیانت کی اور جس نے وہ خرید کر اپنی طرف سے غلام سمجھا اس نے بھی خیانت کی کیونکہ چوری کا مال آگے چاہے ہزار دفعہ بکے وہ چوری کا مال ہی رہے گا اور جس کے ہاں سے دستیاب ہوگا وہ بھی چور سمجھا جاتا ہے.پس اس پہلو سے بہت ہی اہم مضمون ہے کہ تمام دنیا میں کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کو غلام بنانے کا حق نہیں ہے یہ خدا کی طرف سے آزادی امانت ہے اور اس امانت میں خیانت کرنے کا کسی کو اختیار نہیں پھر فرمایا تیسری قسم کی بددیانتی یہ کرے کہ کسی مزدور کو اجرت پر رکھے اور پھر اس کا پورا حق ادانہ کرے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ جتنی اجرت طے ہو وہ نہ دے.فرمایا استاجر اجیرا فاستوفى منه ولم يعطه اجره اس سے تو پورا پورا فائدہ اٹھا لیا اور اس کا جو حق ہے وہ ادا نہیں کیا.اس دھو کے میں لوگ مبتلا نہ رہیں کہ جتنی اُجرت طے کر لی جائے اگر وہ دے دی جائے تو حق ادا ہو جاتا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جب فاقے پڑتے ہیں، غریب ملکوں میں مصیبتیں حائل ہوتی ہیں تو وہاں حق اجرت کم ہو جایا کرتی ہے اور اس کو Exploitation کہا جاتا ہے، یعنی استحصال ہورہا ہے کسی کا تو اگر آپ کسی مزدور کواتنے پیسے دیں کہ جتنا اس نے آپ کا کام کیا ہے اس کا مناسب بدلہ نہ ہو تو قطع نظر اس کے کہ اگر آپ نے اس کو اپنے معاہدے کے مطابق پیسے دیئے ہیں یا نہیں آپ نے اس کا حق رکھ لیا ہے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ولم يعطه اجرہ ان معنوں میں کہ لیا تو اس سے پورا کام لیکن جو اس کو دیا اس کا حق نہیں بنتا تھا اور یہ فیصلہ انسانی فطرت کرتی ہے اور کرسکتی ہے ہر شریف النفس انسان جب کسی سے کام لیتا ہے تو اس کی فطرت کے اندر خدا تعالیٰ نے ایک پیمانہ رکھ دیا ہے جو ان باتوں کو جانچ لیتا ہے کہ جس قسم کی نیت کوئی شخص کر رہا ہے میں اس کا حق ادا کر بھی رہا ہوں کہ نہیں.پاکستان میں مجھے یاد ہے سخت گرمیوں میں جب مزدور عمارتیں بناتے دیکھے جاتے تھے تو انتہائی تکلیف میں وقت گزار کر کڑکتی دھوپ میں وہ کام کیا کرتے تھے اگر رات، شام کو ان کو ڈھائی روپے دے دیئے جائیں جو اس زمانے میں مزدوری ہوتی تھی اور انسان سمجھے کہ حق ادا ہو گیا بالکل
خطبات طاہر جلد ۱۱ 808 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء جھوٹ ہے ،ایک نفس کا دھوکہ ہے ان کیلئے اس بنیادی عہد سے ا عہد سے بڑھ کر خدمت کرنا ضروری ہے.ایسے موقعوں پر ان کے لئے شربت کا انتظام کرنا ، کھانا پیش کرنا اور سہولتیں مہیا کرنا اور اجرت سے بڑھ کر جو طے شدہ اجرت ہے اس سے بڑھ کر ادا کرنا یہ ہے جو امانت کا حق ادا کرنے والی بات ہے.اس سے ورے ورے جتنی چیزیں ہیں اس میں کچھ نہ کچھ خیانت شامل ہو جاتی ہے اور خصوصاً اس معاملے میں احتیاط اس لئے ضرورت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ یہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایسے شخص کے ساتھ میں چلوں گا.میں اس غریب کا وکیل بنوں گا جس سے محنت کروائی گئی ، جس سے پورا کام لیا گیا اور اس کا حق ادا نہیں کیا گیا.تو جماعت احمدیہ کو اس حدیث کو ہمیشہ حرز جان بنا کر رکھنا چاہئے.اس میں بہت گہرائی اور تفصیل کے ساتھ کئی بنیادی باتوں کا ذکر ہے اور دراصل اسی آیت کریمہ کی ایک تفسیر ہے.يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ) (المومن :۲۰) کہ لوگ کئی قسم کی خیانتیں کرتے ہیں ان کی آنکھیں چیزیں دیکھتی ہیں اور خیانت کر جاتی ہیں.اب اس مضمون کا یعنی مزدوری کے مضمون کا بھی آنکھوں سے ایک تعلق ہے.اب مالک دیکھ رہا ہے کہ کس قسم کا کام کر رہے ہیں، وہ جانتا ہے کہ اسے اگر اس سے دس گنا بھی زیادہ پیسے دیئے جائیں تو اس کام پر آمادہ نہیں ہوگا اور اس کی آنکھ ضرور دل کو ایک پیغام پہنچاتی ہے لیکن اگر وہ دل پیغام قبول نہ کرے تب بھی خیانت لیکن خائن کی آنکھ جھوٹی ہو چکی ہوتی ہے یہ مضمون ہے.عام صحیح فطرت والے کی آنکھ جو پیغام پہنچاتی ہے یہ اس پیغام کو قبول ہی نہیں کرتی اور رخنے ڈھونڈتی پھرتی ہے یہ خیانت کی آنکھ ہے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے واقعہ ایسی صورت میں کہ سخت گرمی میں بڑی مصیبت میں خون پسینہ ایک کر کے مزدور محنت کرتا ہے ایک اینٹ ٹیڑھی کہیں رکھی جائے یا کوئی چیز گر کے ٹوٹ جائے، اس پر مالک یا دوسرے جو اس کو نوکر رکھتے ہیں ایسے ظالمانہ طور پر برستے ہیں کہ جیسے وہ خدا ہوں اور پوری طرح ہر چیز پر قدرت رکھتے ہوں لیکن خدا کی صفات حسنہ سے عاری ہوں.جھوٹے خدا کی یہی تعریف ہے.اپنے آپ کو مقتدر تو سمجھتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ میرا قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے مگر خدا کی تمام صفات حسنہ سے عاری.اس طرح سے سلوک کر رہے ہوتے ہیں.اسی کا دوسرا نام فرعونیت ہے.تو دیکھیں آنکھ نے ایک اور خیانت کی.اچھی چیز کو نہیں دیکھا اور بری چیز پر نظر ڈالی اور وہیں نظر کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 809 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء محدود کر لیا.پس آنکھ کی خیانت کا بہت وسیع انسانی برائیوں سے تعلق ہے اس مضمون پر آپ جتنا غور کریں گے اتنا ہی زیادہ آپ کو امانت کا عرفان ہو گا اور خیانت کے مضمون سے آپ خبر دار ہوتے چلے جائیں گے.آگے اسی مضمون کی بہت سی مثالیں ہیں جو مثلا قرآن کریم میں خود بیان فرمائیں ہیں.میں ان مثالوں کا ذکر کرتا ہوں ایک بڑی اہم مثال ہے ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ خدا تعالیٰ مثال کے طور پر یعنی ایک عبرت ناک مثال کے طور پر کافروں کے سامنے ، وہ لوگ جو کافر ہوئے ان کے سامنے ، دو عورتوں کو پیش کرتا ہے ایک نوح کی بیوی اور ایک لوط کی بیوی یہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کہ ایک دوسرے موقع پر مومنوں کے لئے بھی دو عورتوں کی مثال پیش فرمائی.ایک حضرت مریم کی اور ایک آسیہ فرعون کے گھر کی عورت کا ذکر فر مایا اور یہاں کافروں کے لئے دو عورتوں کی مثال پیش فرمائی اور وہ دو عورتیں ہیں حضرت نوح کی بیوی اور حضرت لوط کی بیوی فرمایا كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صالِحَيْنِ وہ دونوں ہمارے ایسے بندوں کے گھروں میں تھیں ان کے وقت میں آئیں تھیں جو صالح تھے ، پاکباز تھے اور نیک تھے اور امانتوں کا حق ادا کرنے والے تھے.فَخَانَتَهُمَا انہوں نے ان کا حق ادا نہیں کیا اور ان کے حقوق میں خیانت کی فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا کہ اللہ کے مقابل پر کوئی چیز ان کے کام نہ آسکی.وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدُّخِلِينَ (الحريم : ۱۱) اور قیامت کے دن ان کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا کہ انہیں کہا جائے گا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں ہی جہنم میں داخل ہو جاؤ.اب دیکھ لیجئے اس آیت کا مضمون کتنا گہرا تعلق اس آیت کریمہ سے ہے جس سے میں نے خطبے کا آغاز کیا.وہاں بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خائن کو قیامت کے دن کوئی پناہ نہیں ہوگی، کوئی دوستی کام نہیں آئے گی کسی کی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی.زیادہ سے زیادہ انسان یہ سوچ سکتا تھا کہ انبیاء سے خدا کا اتنا گہرا تعلق ہوتا ہے وہ تو جھوٹے شفیع نہیں ہیں خیانت کرنے والوں کے حق میں ان کی شفاعت مان لی جائے گی لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایسے امین ہوتے ہیں خدا کے نبی کہ خائن کی شفاعت کرتے ہی نہیں.اس لئے عملاً بات وہی رہتی ہے کہ ان کو کوئی شفیع نصیب نہیں ہو سکتا جس کی بات خدا مانے.پس اگر انبیاء کی بیویوں کے متعلق خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلدا 810 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء صلى الله کی یہ تقدیر جاری ہو جائے اور یہ فیصلہ سنا دیا جائے کہ وہ بھی اگر خیانت کریں گی تو اس خیانت کی جزا ان کو ضرور ملے گی اور قیامت کے دن نبی کے ساتھ رشتہ ان کے کام نہیں آئے گا تو تمام دنیا کی عورتوں کیلئے اور تمام دنیا کے مردوں کے لئے اس میں بڑا پیغام ہے.مسلمانوں کو اور مومنوں کو مخاطب یہاں نہیں فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور احسان ہے اور ایک طرز بیان ہے کہ مومنوں سے تو میں ایسی توقع نہیں رکھتا اس لئے کافروں کے لئے یہ میں مثال دیتا ہوں گویا کہ ایمان اور اس قسم کی خیانتیں ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتی.دوسرے لفظوں میں ایسا شخص جو اس قسم کی خیانت میں مبتلا ہو، اس حالت میں مومن نہیں رہتا اور کافروں پر ہی اس کا اطلاق ہوتا ہے.اب دیکھیں قرآن کریم کی آیات کا احادیث سے کتنا گہراتعلق ہے.ایک دوسرے موقع پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ گناہ کرتا ہے اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا ( ترمذی کتاب الفتن حدیث نمبر : ۲۱۰۵) اس کی سنداسی آیت کریمہ میں ہے.یہ خیانت ایسی خیانت ہے جس کے متعلق فرمایا گیا کہ یہ مومنوں پر صادق ہی نہیں آتی.یہ کافروں پر مثال صادق آئے گی.مومنوں کیلئے جو مثال چنی اس کے بالکل برعکس ایک ایسی عورت کی چنی جو پاکبازی میں ایک تمثیل بن گئی.یعنی حضرت مریم علیہ الصلوۃ والسلام.حضرت مریم کو پاکبازی کا ایک سب سے اعلیٰ وارفع نمونہ عورتوں میں بنا کر پیش فرمایا اور مومنوں کو کہا کہ تمہارے لئے یہ ایک تمثیل ہے، یہ نمونہ ہے اس کو اختیار کرو.اس مضمون میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں آسیہ کو کیوں چنا گیا اس کی کیا وجوہات ہیں.یہ صاحب عرفان کے لئے غور کی بہت سی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس میں عظیم الشان پیغامات ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک پاکستان کا ملاں سوال وجواب کی مجلس میں آیا اس نے بڑے طنز کے ساتھ یہ سوال اٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ میری مریمی حالت ہوگئی اور اس مریمی حالت میں بہت تکلیف میں سے میں گزرا اور پھر میرے روحانی بچہ ہوا اور وہ مسیح ہے جو میں ہوں تو بہت اس نے نمک مرچ لگایا اور بڑے نخروں کے ساتھ یہ اعتراض اٹھایا.بڑی بھاری مجلس تھی سینکڑوں آدمی اس میں شامل تھے اور اس نے مجلس کے مزاج کو بگاڑنے کے لئے بہت ہی طنز کے ساتھ کام لیا.تو اس نے کہا کیا کیا گزری ان کے اوپر ،مرزا صاحب کے کس طرح بچہ ہوا اور کس طرح حمل ٹھہرا، کس کا حمل تھا وغیرہ وغیرہ.میں نے اس سے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے بات ختم کر لی اب مجھ سے میری بات سن لیجئے.قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ مومنوں کیلئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 811 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء دو عورتوں کی مثالیں ہیں.ایک مریم کی اور ایک امرَأَتَ نُوچ کی.تو آپ نے اپنے لئے اعلیٰ مثال تو نہیں اپنی اس پر تو آپ نے مذاق شروع کر دئے ہیں.مریم کی مثال تو آپ نے مسیح موعود علیہ السلام کے لئے رہنے دی ہے تو اگر آپ مومن ہیں تو آپ کیلئے مفر نہیں ہیں اس بات سے کہ اعلیٰ مثال نہیں چنتے تو کم سے کم ادنیٰ مثال ہی اپنے اوپر صادق کر کے دکھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو مریمی حالت میں سے گزر کر اس روحانی پاکبازی کا نمونہ دکھا دیا جس میں شیطان کے مس کے بغیر روحانی اولا د نصیب ہوتی ہے اور کوئی ذاتی تمنا کوئی ذاتی خواہش، کوئی گندا جذ بہ جو شیطان سے نکلتا ہے اس روحانی ولادت میں اپنے کارفرما نہیں ہوتا.ورنہ ہزار ہالوگ ایسے ہیں جن کو تمنا ہوتی ہے که روحانی ترقی کریں نفس ان کو دھو کے دیتا کئی قسم کے تو ہمات الہامات بن جاتے ، کئی قسم کے پیغامات کا غلط مطلب نکالتے اور اپنے مراتب بڑھاتے رہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی مثال مریم کی ہے.مریم نے کسی ناپاکی کے خیال کو دل میں نہیں آنے دیا اور اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے اس کو ایک روحانی بچہ عطا فرمایا.تو مومن کی ہر ترقی دل کی پاکیزگی سے وابستہ ہوتی ہے.اس میں غیر اللہ کا اور شیطان کا کوئی دخل نہیں ہوتا میں نے کہا ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو وہ کامل مومن ثابت کر دکھایا جس کی اعلیٰ مثال مریم کی سی ہے.آپ اس کو قبول نہیں کرتے.اب میں آپ کے الفاظ میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ فرعون کی بیوی بنتے ہیں تو فرعون نے آپ سے کیا کیا؟ اور کیسی کیسی گزری آپ پر واردات جس طرح آپ نخروں سے مسیح موعود پر اعتراض کرتے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے اب اسی مجلس میں آپ اپنی داستانیں سنائیے.اچانک مجلس کا مزاج الٹ گیا اس کے او پر.وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بنے کی تیاری کر رہے تھے وہ مولوی صاحب کی طرف دیکھتے تھے اور ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ بھاگ جاؤاب یہاں سے.امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو گہرائی کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں بہت گہرے مطالب ہیں اور تمام احادیث نبویہ اور تمام پاکبازوں کے فرمودات قرآن کریم میں جڑ رکھتے ہیں اس لئے بد بخت اور بدنصیب ہے جو پاک لوگوں کے کلام پر ہنسی اور ٹھٹھے میں جلدی کرتا ہے.بعض دفعہ وہ کلام سمجھ نہیں آتا اور عجیب محسوس ہوتا ہے لیکن اگر انسان کو یہ بنیادی حقیقت معلوم ہو کہ خدا کے بندوں کی باتیں خدا کے کلام میں اپنی جڑیں رکھتی ہے وہیں سے پھوٹتی ہے تو انسان تلاش کرے تو اس جڑ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 812 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء تک پہنچ جاتا ہے.پس ان معنوں میں جب آپ دیکھیں تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تمام فرمودات قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت میں پیوست ہیں اور کسی ایک خاص دعا کے متعلق آپ کا یہ فرمانا کہ گناہ کرتے وقت وہ انسان مومن نہیں رہتا یا اس قسم کی دوسری خیانتوں کے متعلق یہ فرمانا قرآن کریم میں مثلاً یہ آیت ہے اس سے استنباط ہوتا ہے اور بھی آیت میں استنباط ہوتا ہوگا.پس.بنیادی بات یہ ہے کہ خیانت کرنے والا حقیقت میں مومن نہیں رہتا جب وہ خیانت کرتا ہے وہ ایمان کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے.یہ جو اس دنیا میں آج کل معاشرہ ہے یہ ایسا خطرناک ہوتا چلا جارہا ہے کہ اس آیت کے مضمون کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور دوسروں میں اس کی تشریح کی ضرورت ہے.اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی مثال رکھی اور اس کا بھی خیانت کی اصطلاح میں ذکر فرمایا.حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو جب بالآخر قید سے رہائی نصیب ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں اس جیل خانے سے باہر نہیں آؤں گا جب تک اس عورت سے پہلے پوچھا نہ جائے جس نے مجھ پر الزام رکھا تھا.میں کیسا تھا؟ جب اس تک یہ پیغام پہنچایا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ پاک بندہ تھا خدا کا.اس پر حضرت یوسف نے فرمایا ذلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ (یوسف:۵۳) یہ میں نے اس لئے کیا تھا کہ مہینوں تک قید کولمبا کرلیا مگر باہر آنا پسند نہیں کیا اس وجہ سے تا کہ میرا مالک سابق مالک خوب جان لے کہ میں نے اس کی غیر حاضری میں اس سے کوئی خیانت نہیں کی.کتنا عظیم الشان مضمون ہے اور جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک عارضی مالک کی خیانت کا ذکر فرمایا جو مزدور سے خیانت کرتا ہے یہاں دراصل اس کا الٹ مضمون ہے ایک مزدور پر الزام لگایا گیا کہ اس نے خیانت کی لیکن مزدور ہونے کے باوجود بے حس، بے طاقت اور مجبور ہونے کے باوجود جبکہ خیانت کرنے کے زیادہ نفسیاتی محرکات موجود ہوتے ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام نے اس حالت میں خیانت نہیں کی.فرمایا ذلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَاَنَّ اللهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَابِنِيْنَ دو باتیں ثابت کرنے کے لئے میں نے یہ موقف اختیار کیا تھا.اول یہ کہ میں خائنوں میں سے نہیں ہوں اور جس نے مجھے خریدا تھا اس زمانہ میں جو دستور تھا اس کے مطابق آپ واقعہ ایک اجیر کی حیثیت سے ایک ظاہری غلامی کی زندگی میں جکڑے ہوئے ایک مالک کے گھر کام کر رہے تھے.فرمایا اس کو علم ہو جائے کہ میں نے کبھی خیانت
خطبات طاہر جلدا 813 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء نہیں کی وَانَّ اللهَ لَا يَهْدِى كَيْدَ الْخَاسِنِينَ اور تا کہ یہ بھی پتا چل جائے کہ وہ لوگ جو کسی سے خیانت کیا کرتے ہیں ان کی تدبیروں کو خدا تعالیٰ کامیاب نہیں ہونے دیتا اور الٹ نتائج نکالتا ہے.پس قید خانے سے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام بادشاہت تک جاپہنچے اور اس وقت کے بادشاہ عزیز مصر کے تابع اس کے اقتدار میں شامل ہو گئے.بہت بڑا مر تبہ آپ کو عطا ہوا.سارے خزائن آپ کے سپر د کر دیئے گئے اور امور دفاع کی بھی بڑی طاقت ہوتی ہے مگر آخری تان جو ٹوٹتی ہے وہ اقتصادیات میں ہی ٹوٹا کرتی ہے جس کے ہاتھ میں ملک کی اقتصادیات ہو دراصل وہی بادشاہ ہے.پس حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو عملاً قید خانے سے مصر کی بادشاہی نصیب ہو گئی اور یہ معنی ہیں کہ دیکھو اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کی تدبیروں کو کامیاب نہیں ہونے دیتا.الٹ نتیجہ نکالتا ہے خیانت اس نے کی تھی جس نے مجھ پر الزام لگایا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا دیکھو آج میں کس حال، کس شان تک پہنچ گیا ہوں.پس خیانت سے بچنا بہت ہی ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بعض حفاظتوں کے وعدے فرماتا ہے.اگر خیانت سے بچنے والا خدا کی خاطر خیانت سے بچے تو اللہ تعالی کی حفاظت اور تعریف کے اس کے ساتھ وعدے ہیں مثلاً حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کے متعلق فرمایا وَإِن تُرِيدُوا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيْمٌ حَكِيمُ (الانفال :۸۲) که دیکھو اگر تجھ سے یہ جھوٹی باتیں کرتے ہیں ، جھوٹے وعدے کرتے ہیں ، جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور دل میں بدارادے رکھتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم تجھے مطلع کرتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ خدا سے بھی تو بد دیانتی کی ہے، خدا سے بھی یہ خیانت کا معاملہ کرتے ہیں اور خدا اپنی خیانت، اپنے سے خیانت اور تیرے سے خیانت میں فرق نہیں کرے گا.تو خدا کا بندہ ہے خدا کی خاطر تو نے اپنا ایک اخلاقی ضابطہ قبول فرمایا ہے، اپنے لئے ایک اخلاقی ضابطہ مقرر کیا ہے.ان حدود میں رہتے ہوئے ہم تجھے کسی خائن کی چالا کی کا شکار نہیں ہونے دیں گے.فرمایا فَقَدْ خَانُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ اللہ سے بھی تو خیانت کرتے تھے.کب خدا نے ان کی خیانت چلنے دی ہے فَأَمْكَنَ مِنْهُم اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ان کو عاجز کر دیا ہے اور تجھ سے یہی وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ تیرے سامنے ان کو عاجز کر دے گا اور ان کی کوئی پیش نہیں جائے گی تیرے خلاف
خطبات طاہر جلد ۱۱ 814 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء وَاللهُ عَلِيمٌ حَکیم تجھے ان کی خیانتوں کا علم ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ بہت ہی علم رکھنے والا اور بہت ہی حکمتوں والا ہے.یہ وعدہ صرف حضور اکرم یہ کیلئے نہیں بلکہ تمام مومنوں سے یہ وعدہ فرمایا انَّ اللهَ يُدْفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَانِ كَفُورٍ (الج: ۳۹) کہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان سب مومن بندوں کی حفاظت فرمائے گا اور ان کو دشمنوں کے شر سے محفوظ فرمائے گا جو امانت کا حق ادا کرتے ہیں.یہ مضمون امانت کا حق ادا کرتے ہیں اس آیت کے آخری حصے میں مضمر ہے یہاں فرمایا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورِ اللہ تعالی خیانت کرنے والوں اور ناشکروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا اگر مومنوں سے تعلق رکھتا ہے اس آخری بات کا برعکس مومنوں میں پایا جانا ضروری ہے.اس طرح خدا نے ان دونوں باتوں کو جوڑ دیا شروع میں فرمایا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ مومنوں کا ہر قسم کا دفاع کروں گا ان کو کوئی خطرہ نہیں اور آخر پر فرمایا کہ یادرکھو کہ خدا تعالی خیانت کرنے والوں اور ناشکروں سے تعلق نہیں رکھا کرتا تو ان مومنوں کی وہ بنیادی صفات بیان فرما دیں جن کی وجہ سے خدا ان سے اتنا تعلق رکھتا ہے کسی کے دفاع کی حفاظت لینا اس کی محبت کی دلیل ہے تو لَا يُحِبُّ کے تابع مومن نہیں آتے کیونکہ نہ وہ خائن ہیں اور نہ وہ ناشکرے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو خیانت کرتے ہیں مومنوں کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ادنیٰ خیانتیں کرتے ہیں.یہ بھی ان کو سوچنا چاہئے کہا ئر خیانتیں کریں گے تو مومن وہ نہیں رہیں گے لیکن اگر چھوٹی چھوٹی خیانتیں ہوتی رہیں جیسا کہ مومنوں سے بھی ہو جاتی ہیں تو ان کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ چھوٹی خیانتیں اور چھوٹی ناشکریاں ان کو خدا تعالیٰ کے اس وعدے کے فیض سے محروم کر دیں گی.جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم مومنوں کے دفاع کا وعدہ کرتے ہیں اور وہ مومن یعنی وہ مومنین جو نہ خائن ہیں نہ ناشکرے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ خائنوں اور ناشکروں سے محبت نہیں کرتا.اس ضمن میں میں ایک خصوصی پیغام اہل پاکستان کو دینا چاہتا ہوں کیونکہ وہ بدیاں جو مغرب سے پیدا ہوتی ہیں آج کل بڑی تیزی سے مشرقی ممالک میں جا کر گھر بنا لیتی ہیں ان میں ایک بدی جنسی بے راہ روی ہے اور فحاشی اس کثرت سے مغرب سے مشرق میں جا کے جاگزین ہوئی ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہی ان کا وطن تھا اور پاکستان جس کو اسلامی مملکت کے نام پر بڑے بلند بانگ دعوے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے وہاں اس کثرت سے یہ رجحان پیدا ہور ہے ہیں کہ جو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 815 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء اطلا ئیں ملتی ہیں اس سے عقل بھنا جاتی ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیوں کسی ملاں یا حکومت کو یہ فکر نہیں کہ اپنے معاشرے کو اس قسم کی فحاشی سے بچائیں.جو اطلاعات مجھے ملتی ہیں مختلف شہروں سے ان سے پتا چلتا ہے.مثلا کہ گندی فلموں کا کاروبار، بے حیائی کی تصویروں کا کاروباروہاں اتنا زیادہ ہے کہ یورپ کے بے حیا شہروں میں اتنا نہیں ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بے حیا شہروں میں جہاں تک حکومت کا تعلق ہے بڑی نیک نیتی کے ساتھ ان باتوں کی نگرانی کرتی ہے اور پولیس بڑی دیانتداری کے ساتھ ان لوگوں کے پیچھے پڑی رہتی ہے اس لئے کاروبار تو یہاں بھی چلتا ہے لیکن اس کاروبار کو کوئی تحفظات حاصل نہیں ہیں لیکن پاکستان جیسے وسیع ملک میں جہاں پولیس بددیانت ہو جہاں کے وزراء یہ اعلان کریں خود بر سر عام کہ ہماری پولیس کلی بددیانت اور بے اعتماد ہو چکی ہے جہاں حکومت کو حقیقت کی اس بات میں کوئی پرواہ نہ رہے کہ عوام کے کیسے اخلاق ہیں اور کیا کیا چیز میں ان اخلاق کو تباہ کر رہی ہیں ، جہاں ملاں کو کوئی شعور ہی نہ ہو کہ اس اعلیٰ اسلامی قدریں ہیں کیا ؟ اور ان پر اس ملک پر کیا بن رہی ہیں.وہاں یہ چیزیں کھل بندوں عام فروخت ہوتی اور اس کثرت سے نشو ونما پاتی ہیں کہ جیسے کوئی بیماری کسی جسم کے اوپر مکمل قبضہ کرلے اور دفاع کی ساری صلاحیتیں خوابدیدہ ہو جائیں، سوجائیں ان میں ، احساس ہی باقی نہ رہے کہ ہم پر کیا ہورہا ہے.اس سلسلے میں میں خاص طور پر احمدی نوجوانوں کو اور نظام جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس بات کی نگرانی رکھیں.جب ایک بدی عام پھیل جاتی ہے تو اس کے اثرات ضرور ہر جگہ پہنچتے ہیں یہ ہو نہیں سکتا کہ احمدی معاشرہ ان چیزوں سے کلیہ پاک رہے کیونکہ سمندر میں جب ایک کپڑے کو پھینکا جاتا ہے تو بالآخر اس میں پانی سرایت کرتا ہے بعض چیزوں میں کم کرتا ہے اور آہستہ کرتا ہے بعض چیزوں میں زیادہ تیزی سے کرتا ہے اور مکمل سرایت کر جاتا ہے لیکن جماعت کے معاشرے کو بیدار مغزی ہونے کے ساتھ اور مسلسل محنت اور توجہ کے ساتھ اپنی حفاظت کرنی ہوگی ورنہ یہ چیزیں ان میں راہ پا جائیں گی اور ہوسکتا ہے کسی حد تک پاگئی ہوں اور ایسی صورت میں پھر اس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکلیں گے وہ جو دو مثالیں میں نے بیان کیں ہیں وہ امرَأَتَ نُوح اور وَ امْرَأَتَ لُوطٍ یہ مثالیں پھر معاشرے پر صادق آنے لگتی ہیں اور پھر ان کو کوئی روک نہیں سکتا.میں نے اس صورت حال کا جہاں تک تجزیہ کیا ہے اس کی کچھ تفصیل آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ جن لوگوں کو میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 816 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء نصیحت کرتا ہوں وہ یہ مضمون سمجھیں کہ کیوں ان کے لئے مضر ہے.واقعہ یہ ہے کہ بے حیائی وقتی طور پر انسان کے اندر ایک تحریک پیدا کرتی ہے.جذبات میں توجہ پیدا کرتی ہے.بے حیائی کے نظارے جب یہ تموج پیدا کرتے ہیں تو انسان سمجھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہمیں بہت لطف آیا اور بہت زیادہ بہتر رنگ میں ہم اپنے تعلقات سے لطف حاصل کر سکیں گے لیکن اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہر گناہ فطرت کے خلاف ہے اور اس کا ہمیشہ الٹ نتیجہ نکلا کرتا ہے.مجھے یاد ہے جب میں گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتا تھا ابتدائی سالوں میں فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا.ایک سینئر طالب علم کے ساتھ میری گفتگو ہوئی اور وہ بڑی شدت کے ساتھ مغربیت کا قائل اور پردے کے خلاف تھا، وہ نفسیات کا طالب علم تھا اس کو میں نے سمجھایا میں نے کہا تم نفسیات کا ایک چھوٹا سا نکتہ کیوں نہیں سمجھتے.خدا تعالیٰ انسان کے لطف کی راہ میں حائل نہیں ہے بلکہ الہی احکامات اس کے لطف کی حفاظت کر رہے ہیں اور اسے لمبی زندگی عطا کرتے ہیں.جہاں پر دہ رائج ہو وہاں یہ تو نہیں کہ انسان کو کسی قسم کا زبانی لطف ہی نہیں ملتا.ایک جھلک تم شاعری میں دیکھ لو محبوب کی ایک جھلک اس کو ایسی کیفیات عطا کر جاتی ہے دیکھنے والوں کو جو بے حیاء سوسائٹی میں ہر روز ہر وقت دیکھنے سے نصیب نہیں ہوسکتی کیونکہ انسان بڑی جلدی اس چیز کا عادی ہو جاتا ہے اور جب بے پردگی کا عادی ہو جائے تو اس کا اگلا مطالبہ وہی ہو گا کہ اور زیادہ بے پردگی ہو اور وہ لازما بے حیائی تک پہنچے گا.کچھ دیر کے بعد وہ چیز بھی نہیں رہے گی.اس سے وہ لطف دینا بند کر دے گی.پھر انسان بالآخر جانوروں تک پہنچے گا اور جانوروں میں جو قدرتی طور پر ایک بے حیائی تو ہوتی ہے جس کا تعلق حیاء والوں سے ان لوگوں سے جن میں حیاء کا مادہ ہو وہ یہ فیصلہ کرسکیں مگر جانوروں کے تعلق میں جب ہم بے حیائی کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ گناہ گار ہیں ان کے ہاں یہی صورت حال ہے.پس جانوروں میں جو تعلقات میں ایک بے جھجک اور بے تکلف رسوم پائی جاتی ہیں وہ انسانوں میں آتی ہیں تو بے حیائی بن جاتی ہیں.بالآخر انسان وہاں تک ضرور پہنچ جاتا ہے اور اس سے آگے کچھ ہو ہی نہیں سکتا پھر کسی کی Madness ہوگی.بڑی تفصیل سے ان سے میں نے اس بات پر گفتگو کی، بعد میں مجھے بہت مدت کے بعد یورپ میں آنے کا موقع ملا تو ان دنوں میں میں نے دیکھا بریلوی ازم، ہندوازم کی تحریکات چل رہی تھیں اور بعض عورتیں پوری طرح ننگی ہو کر، پوری طرح برہنہ ہو کر بازاروں میں نکل آتی تھیں.یہ بتانے کیلئے کہ ہم ابھی مطمئن
خطبات طاہر جلد ۱۱ 817 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء نہیں ہیں، کچھ ہونا چاہئے اور ، اور پھر معلوم ہوا کہ یہاں تعلقات کے ساتھ ساتھ ظلم کو بھی شامل کرلیا گیا ہے اور Sadism جو بھی کہلاتا ہے.Sadistic پیدا ہو گئے ہیں جومزہ نہیں اٹھا سکتے جب تک ساتھ ظلم نہ کریں ، ماریں کوٹیں نا بعض زنجیر میں برسا کر عورتوں پر اس سے Excitement حاصل کرتے ہیں.تو وہی جنون ہیں جن کی خبر قرآن کریم میں دی تھی کہ تم سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہو جو چیزیں ہم نے تمہاری پیاس بجھانے کے مقدر کر رکھی ہیں وہیں تک رہو اس سے آگے محض دھو کہ ہے کہ تمہاری پیاس بجھے گی.وہ لذتیں جن کی تم پیروی کرنا چاہتے ہو یہ سراب کی طرح تم سے آگے آگے بھاگیں گی اور پھر ایک ایسا مقام آئے گا کہ آگ تو بھڑک چکی ہوگی لیکن پیاس نہیں بجھے گی.پس وہ لوگ جو اس قسم کی گندی فلموں اور تصویروں کے ذریعے اپنے نفس کو تحریک دینا چاہتے ہیں ان کے نفس پاکباز لوگوں کے مقابل پر بہت جلدی مرجاتے ہیں.اس بات کا ایک قطعی ثبوت یہ ہے کہ آج امریکہ میں سب سے زیادہ نا اہل مرد ہیں.ان کی نسبت جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے، شاید ہی کسی اور ملک میں پائی جاتی ہو کیونکہ بے حیائی نے بالآخر ان کو بے حس کر دیا ہے کوئی چیز تموج نہیں پیدا کر سکتی.یہاں تک کہ روز مرہ کے تعلقات میں وہ لذت ہی باقی نہیں رہتی.گھر اجڑ جاتے ہیں لیکن انسان جو پاکباز ہو اپنی بیوی سے پیار کی بات کرتا ہے ان لوگوں کے پاس اگر کوئی پیما نہ ہو تو جان سکیں کہ ان کی حد سے زیادہ بے حیائی میں جو مزہ ہے اس سے زیادہ مزہ اس پیار اور محبت میں ہے جو خدا تعالیٰ کے فرمان کے تابع انسان بے تکلف اور اجازت کے تابع کرتا ہے پس یہ دھو کہ ہے جس کی پیروی کی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں پھر وفا اٹھ جاتی ہے.جو شخص ایسی فلمیں دیکھتا ہے ضروری تو نہیں کہ وہ لازماً اکیلا ہی دیکھے بلکہ مجھے جو اطلاعیں ملتی ہیں مجھے اس سے پتا چلتا ہے کہ خاندان ایسے ہیں جہاں خاوند گھروں میں لے کے آتے ہیں اپنی بیویوں کو دکھاتے ہیں بعض اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اور ان کی بیویوں کو ساتھ مل کے یہ تصویریں دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس کا نتیجہ لا ز ما یہ ہو گا کہ تم بھی بے حیا اور بے وفا بنتے چلے جاؤ گے اور تمہاری بیویاں بھی بے حیا اور بے وفا بنتی چلی جائیں گی.اس سارے معاشرے سے وفا کی قدریں اٹھ جائیں گی اور وہ لذتیں جو خدا نے عام تعلقات میں رکھی ہیں وہ وہاں نہیں ملیں گی.پھر تمہیں بہائم بننا پڑے گا.پھر تمہیں ان جانوروں جیسی حرکات کرنی پڑیں گی جن کو تم شوق سے پیسے خرچ کر کے دیکھتے ہو.دوسری بیوقوفی بھی بڑی ہے ان
خطبات طاہر جلدا 818 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء فلموں میں زیادہ سے زیادہ جو چیزیں ملتی ہیں وہ وہی ہیں جو تمہاری گلی میں عام ہیں.کتوں کو دیکھ لو مویشیوں کو دیکھ لو.انسان بے حیائی میں اُن سے بڑھ نہیں سکا.کوئی ایسی چیز ایسی ایجاد نہیں کر سکا جو قدرت نے تمہارے لئے نمونے کے طور پر وہاں موجود نہیں.جو حقیقت میں وہ جو سالہا سال پہلے اس گفتگو کے دوران میں نے اس مضمون کو آگے بڑھایا تھا کہ مستقبل میں یہ ہوگا اور میں حیران ہوتا ہوں که بعینہ اسی طرح آج کی دنیا میں ہو چکا ہے.یعنی مغربی دنیا میں یہ باتیں اپنے کمال کو پہنچ چکی ہیں.بے حیائی کرتے کرتے جانوروں کی نقل اتارنا ، جانوروں جیسے ہو جانا، اسی طرح کی اپنے لطیف مزاج کو ناقص کرتے کرتے جانوروں کی حد تک پہنچادینا.یہ سب کچھ ہو گیا لیکن وہ لذت حاصل نہیں ہوتی جس کی پیروی کی جارہی ہو وہ پھر آگے بھاگ جاتی ہے.یہاں تک کہ انسان ایک ایسے خطر ناک مقام پر پہنچتا ہے جس کے بعد ہر قسم کی بدیاں پھوٹتی ہیں.گھروں میں بچوں سے مظالم اور کئی قسم کی بے حیائیاں پھر Drug Addiction لیکن Excitement آگے آگے بھاگتی ہے اور چاہتی ہے اور چاہتی ہے اور قرآن نے جیسے جہنم کا نقشہ کھینچا ہے کہ وہ آخر یہی کہتی رہے گی.هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ ، هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ ، هَلْ مِنْ مَّزِید اور بھی کچھ ہے تو ڈال دوخدا اور بھی کچھ ہے تو ڈال دے، تو یہ نفس کی جہنم تو بھرنے والی نہیں ہے.اپنے معاشرے کو تباہ نہ کرو اور اپنے سکون اور طمانیت کو برباد نہ کرو تمہارے گھر ٹوٹ جائیں گے تمہارے گھروں سے سکون اُٹھ جائے گا.امیر ملکوں کے نخرے ہیں ان کی بے حیائیاں ان تک ہی رہنے دو.غریبوں میں جب یہ بے حیائیاں منتقل ہوں تو اس کے ساتھ اور بھی زیادہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.جرائم بہت شدت کے ساتھ سر اٹھاتے ہیں.جرائم کا ان بے حیائیوں سے گہرا تعلق ہے یہاں بھی ہے وہاں بھی ہوگا لیکن غریب ملکوں میں امیر ملکوں کی عیاشیاں تو کسی صورت میں جیسے کہتے ہیں کہ پگ نہیں سکتیں، یہ ان پر پورا نہیں اتر سکتی ہضم نہیں ہوں گی.پس اپنے معاشرے کی حفاظت کرو اور جماعت احمدیہ پاکستان اور ہندوستان اور اسی طرح یورپ کی جماعتوں میں بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ خیانت کا جو انسانی معاشرے سے تعلق ہے اس مضمون کو اس آیت میں مختصر بیان فرما دیا ہے اور اس کا آخری انجام دکھا دیا ہے کہ یا درکھو کہ کافروں کے لئے ہم نے لوط کی بیوی اور نوح کی بیوی کی مثال رکھی ہے.یہ تفصیل بیان نہیں فرمائی اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 819 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء مومن کا کام نہیں کہ تفصیل میں جائے.یہ سوچنا میرے نزدیک مناسب نہیں انبیاء کی عزت اور احترام کے پیش نظر کہ ان کی بیویوں نے کیا خیانت کی ہوگی مگر ان کے ساتھ جو خدا تعالیٰ نے عقوبت کا سلوک فرمایا اس کے پیش نظر یہ سوچنا ہمارے لئے لازم ہے کہ عورت جس قسم کی بھی خیانتیں کر سکتی ہے، جہاں تک وہ خیانتیں کر سکتی ہے اس آیت کا مضمون ان سب باتوں پر حاوی ہوگا اور اگر انبیاء کی بیویوں کو کسی خیانت کے نتیجے میں ایسی سخت سزا دلوا سکتی ہے جیسا کہ بیان فرمایا گیا.تو جو بھی وہ خیانت تھی ہمیں اس سے غرض نہیں.عورتیں جو خیانت کرتی ہیں اس کے ساتھ ضرور کوئی تعلق ہے.پس عورتوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ اس میں نصیحت ہے کہ ہر اس خیانت سے باز آجائیں جو ان کے خاوندوں کے خلاف خیانت ہے یا ان کے دوسرے تعلق والوں کے خلاف خیانت ہے کیونکہ خدا کے نزدیک ایک بہت بڑا ظلم ہے جس کی سزادی جاتی ہے اور ان مردوں کو میری نصیحت ہے جو اپنی بے حیائیوں کے لئے اپنی بیویوں کو خائن بناتے ہیں تو وہ ان گناہوں میں ساتھ ملوث ہوں گے اور ان کو اس کی شدید ترین سزادی جائے گی.انبیاء کی مثالیں اس لئے دی گئی کہ ان کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا اور خالصہ قصور ان عورتوں کا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں بنتا کہ اگر مردوں کا قصور ہو تو ان کو خدا چھوڑ دے گا.جو مرد خود اپنے ہاتھوں سے اپنے عمل اور سکون کی قبریں کھودتے ہیں، اپنے گھروں کو بے حیائیوں کے اڈے بناتے ہیں ان کے لئے اس میں نصیحت ہے ،سبق ہے.ان کا سکون ان کی آگے نسلوں کا سکون اٹھ جائے گا اور پاکستان میں جو بے پردگی کی روچل رہی ہے اس کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے.اگر بے پردگی اس Behalf پر ہو کہ عورتیں کام پر جاتی ہیں اور معاشرے میں اس حد تک بے پردگی بے حیائی کا موجب نہیں تو اس قسم کے رہن سہن کو ہم ضروری نہیں کہ بے پردگی میں داخل کریں اسی لئے بعض ملکوں میں عورتوں کا رہن سہن اور ہے اور میں اس کو دیکھتا ہوں اور ان کی طرف سے سمجھتا ہوں کہ اس رہن سہن میں بے حیائی کا کوئی عنصر شامل نہیں اور میں ان کو نہیں پکڑتا تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے آنکھیں بند کر لی ہیں ان باتوں سے ابھی اس لئے کہ کھلی چھٹی ہے جو چاہے کرے، ہر گز نہیں.جہاں مجھے نظر آتا ہے کہ خطرہ ہے وہاں میں ضرور ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کبھی فوری طور پر کبھی ٹھہر کر کبھی کسی دوسرے ذریعے سے ،کبھی خطبات میں بیان کر کے لیکن بے پردگی کا ایک تعلق ضرور بے حیائی سے ہے اور جن معاشروں میں بے حیائی اصل محرک ہو اور
خطبات طاہر جلدا 820 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۹۲ء اصل وجہ بے پردگی کی نمائش یہ ہو کہ عورت اپنے آپ کو زیادہ خوبصورت بنا کر غیروں کو دکھائے اور ان سے تعلقات بنائے یا کم سے کم رمزے کنائے ہوں اور بے تکلف اپنی نمائش کر سکے اور اپنی جانب ان کو کھینچ سکے.وہاں وہ عورتیں بھی ہزار بہانے پیش کر سکتی ہیں.کہ ہم نے تو کالجوں میں جانا ہے ہم نے تو فلاں جگہ جانا ہے، ہم نے فلاں کام کرنے ہیں اس لئے ہم اس قسم کے پردے نہیں کر سکیں گی جو آپ سمجھتے ہیں ہم مان ہی نہیں سکتیں کہ قرآن کریم عورت کو اس طرح جکڑتا ہو.اب ان کا ظاہری عذر ہمیں قبول کرنا پڑے گا بظاہر اگر وہ اپنے اندر کچھ طاقت رکھتا ہو.اللہ تعالیٰ نے اور بات کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت سے واقف ہے.جب آنکھوں میں خیانت پیدا ہوتی ہے اور اس خیانت سے بھی واقف ہیں جو دلوں میں پناہ لیتی ہے، دلوں کے ہزار پردوں میں چھپی ہوئی ہیں تو ایسے خاندانوں سے جو عذر رکھ کر خود اپنے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں اور اپنی اولادوں کے امن اور سکون کو لوٹنے کے سامان کر رہے ہیں ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ نہ میں تم سے کوئی بحث کرسکتا ہوں نہ جماعت کے وہ مخلص بندے جو تمہیں نصیحت کے رنگ میں اچھی باتیں کہتے ہیں اور تم سے بری باتیں سنتے ہیں وہ تم سے کوئی بحث کر سکتے ہیں لیکن خدا تم سے بحث کر سکتا ہے اور ایک بحث کرنے والا ایسا ہے جس نے تمہیں تم سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن میں ضرور بحث کروں گا.میں ضرور حجت کروں گا تم سے اور وہ محمد مصطفی اسی لیے ہیں ان کی بحث کا مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت تک تم اپنے نتائج کی بدی کو پاچکے ہو گے تم پر روشن ہو چکی ہوگی بات کہ تم غلط تھے.پس پردے کا مضمون ہو یا کوئی اور مضمون ہو خیانت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اگر آپ اپنے معاشرے کی اصلاح کی کوشش کریں گے تو اسی میں آپ کیلئے خیر ، اسی میں آپ کے لئے برکت ہے.خدا کرے کہ جماعت کے خلاف حضرت محمد مصطفی یہ قیامت کے دن کوئی حجت نہ کریں اور جماعت کے عمل سے پوری طرح مطمئن اور راضی ہوں اور اس کے ساتھ محمد رسول اللہ راضی ہوں گے.خدا گواہ ہے کہ خدا اس سے ضرور راضی ہو گا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 821 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء عالم الغیب خدا آنکھوں کی خیانت کو بھی خوب جانتا ہے.امراء قوم کی بددیانتی قوم کو ہلاک کر دیتی ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲۰ نومبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَايُّهَا الَّذِينَ أَمَنُوْا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا اَهْتِكُمُ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) (الانفال: ۲۸) پھر فرمایا:.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی امانت میں خیانت نہ کیا کرو.وَتَخُونُوا اَمنتِكُم اور تمہارا یہ حال ہے کہ اپنی امانتوں میں خیانت کرتے ہو اور تم جانتے ہو کہ کیا کر رہے ہو.اس آیت کریمہ سے متعلق کچھ گفتگو کرنے سے پہلے میں اس آیت سے متعلق ایک دو اور باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ جمعہ میں زیر غور تھیں.اس کا ایک مرکزی پہلو یہ تھا کہ يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (مومن : ۲۰) کہ اللہ تعالی آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے اور اس کو بھی جانتا ہے جو سینوں میں ہے یا دلوں میں ہے.اس سلسلہ میں میں نے بیان کیا تھا کہ آنکھ میں خیانت کی چمک دکھائی دیتی ہے اور دل جو کچھ چھپاتے ہیں ان سے بھی خدا تعالیٰ اسی طرح واقف ہے جیسے ظاہری آنکھ کی علامتوں سے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ بدی حقیقت میں دل ہی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 822 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء میں پلتی ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ نے جو فرمایا کہ نیتوں پر تمام اعمال کا دارومدار ہے ( بخاری کتاب الوحی حدیث نمبر :1) اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بدی کا آغاز دل سے ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ نے یوں کیوں فرمایا کہ يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے.اس مضمون کو سمجھنے کے لئے قرآن کے ایک دوسرے محاورے پر نگاہ ڈالیں تو بات واضح ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (التغابن : ۱۹) وہ غیب کو بھی جاننے والا خدا ہے اور الشَّهَادَةِ کو جاننے والا بھی ہے.اس مضمون پر اگر آپ گہرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر چیز جو پردہ شہود پر ظاہر ہوتی ہے وہ دراصل پر وہ غیب سے باہر آتی ہے اور اصل غیب ہے.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقره: ۴) فرمایایومنون بالشهاده نہیں فرمایا کیونکہ انسان اگر اپنی سائنسی معلومات پر بھی غور کرے جو ہزاروں سال کی محنت کے بعد اس نے حاصل کیں تو یہ عمل اس کو یہ بتائے گا کہ دراصل وہ غیب سے کچھ چیزوں کو شھود میں یعنی ظاہر میں لا رہا ہے اور ہر چیز غیب میں ہے اور غیب سے ظاہر میں یا شھود کی حالت میں لانے کے لئے خدا تعالیٰ نے خود انسان کو وہ فراست عطا فرمائی، وہ عقل بخشی جس نے کروڑ ہا سالوں میں رفتہ رفتہ ترقی کر کے غیب کو ظاہر کی علامتوں سے پہچاننے کی طاقت حاصل کر لی اور صلاحیت حاصل کی.یہ یادرکھیں کہ ہر چیز غیب ہے جب تک خدا نے عقل کو یہ جو ہر عطا نہیں فرمایا اس وقت تک ساری کائنات غائب تھی.کچھ بھی نہیں تھا.اگر عقل کو یعنی صلاحیتوں کو کائنات کے وجود سے نکال دیا جائے جوان چیزوں کو دیکھتی ہیں اور سمجھ آ جاتی ہیں اور اُن چیزوں کو نہیں دیکھتی جو بھی دکھائی نہیں دے رہیں لیکن ممکن ہے کبھی دکھائی دینے لگیں گے.پھر انسان کو سمجھ آتی ہے کہ رفتہ رفتہ ہمارا سفر غیب سے حاضر کا سفر ہے جیسے نلکا چلا کر مخفی پانی کو یا تیل کے خزانوں کو باہر لایا جاتا ہے.یہ وہ امر ہے جو خدا تعالیٰ کی طرز کلام ہے اور قرآن کریم میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے.تو آنکھ پر جو خائنہ کی علامت ظاہر ہوئی اس نے دل میں پرورش پائی تھی غیب میں تھی لیکن جب نیتیں گندی ہوگئیں تو آنکھوں میں دکھائی دینے لگی.اس مضمون کو کھول کر بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ اس میں ہمارے لئے تربیت کے بہت سے سبق ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی انسان بھٹکنے لگتا ہے اُس کی آنکھوں سے ضرور پتا چل جاتا ہے.ایک پاک باز نیک انسان کی سیر ہوئی ہوئی آنکھیں بالکل اور پیغام دیتی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 823 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء ہیں اور ایک بدنیت کی آنکھیں بالکل اور پیغام دیتی ہیں اور آنکھ کا پیغام تو اتنا لطیف ہے کہ بظاہر انسان کو بھی بعض دفعہ سمجھ نہیں آتا لیکن لطیف ہونے کے باوجود ظاہر بھی ہے اور اگر انسان غور کرے اور فکر کرے تو یہ پیغام اس کو دکھائی دینا چاہئے.ان دو باتوں میں بظاہر تضاد ہے لیکن حقیقت میں تضاد نہیں ہے.انسان کی دیکھنے والی آنکھ اگر لطیف نہ رہے تو وہ دوسرے کی آنکھ کی لطافت کو پڑھ نہیں سکتی اور آنکھ کی لطافت حقیقت میں سچی اور ظاہر بھی ہے کیونکہ جانور انسان کی آنکھ کو پہچان جاتے ہیں.ان میں چونکہ جھوٹ نہیں ہے کوئی بدی نہیں ہے ، ان کی فطرتیں مسخ نہیں ہوئی ہوئی ہیں.اس لئے جانور فوراً آنکھ کو پہچان جاتے ہیں.کسی کی آنکھ میں خوف ہو تو کتا اس پر حملہ کرتا ہے، کسی کی آنکھ میں پوری طمانیت ہو تو اس کو کچھ نہیں کہے گا.ایک پرندہ اگر آنکھ پر نظر ڈالتا ہے تو اس کو پتا چل جاتا ہے کہ اس کی آنکھ شکاری کی آنکھ ہے یا کھانا دینے والے کی آنکھ ہے.چنانچہ ہم سیر پر جایا کرتے تھے تو بعض دفعہ مگ اور مرغابیاں آجایا کرتی تھیں ان کو ہم روٹی ڈالا کرتے تھے.ہمارے ایک ساتھی تھے ان سے میں نے کہا کہ آپ کی آنکھ میں مگوں کو دیکھ کر لالچ آتی ہے اس لئے یہ آپ سے گھبراتے ہیں اور جانور واقعہ پہچانتا ہے.جو لوگ کتوں سے ڈرتے ہیں کتے ضرور ان پر حملہ کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ نے کیسی عظیم الشان بات اور کتنا گہرا فطرت کا راز ہمیں بتایا ہے.دوہی چیزیں ہیں جن پر تمہیں نظر رکھنی ہوگی.دل اور آنکھیں.دل میں بدی کو نہ پلنے دو.اصل راز نیکی اور تقویٰ کا یہ ہے کہ دل میں بدی کو داخل ہی نہ ہونے دو یا وہاں پلنے نہ دو اگر وہ پل کر باہر آئے گی تو پھر اس کو آنکھوں سے پہچانو.اپنی آنکھوں سے بھی اور غیر کی آنکھوں سے بھی.میں نے دیکھا ہے کہ اس حکمت پر گھر کی تربیت کا انحصار ہے.بچوں کی تربیت پر اس کا بہت زیادہ انحصار ہے.ابھی جب میں کینیڈا کے سفر پر گیا تھا تو وہاں بھی بعض باتیں سامنے آئیں بعض خاندانوں نے ملاقات کے وقت اپنے بچوں کے متعلق شکایت کی اور کہا کہ کیا کریں ہم فلاں بچیاں ہیں وہ قابو میں نہیں، فلاں بیٹا ہے وہ قابو میں نہیں اور بھی روزمرہ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں.ابھی ایک دو دن کی ملاقات میں یہاں بھی ایک خاندان کے ایسے سر براہ آئے تھے جنہوں نے اپنی مظلومیت کا ذکر کیا کہ میں کیا کروں ؟ اولاد کے ہاتھوں بے بس ہو رہا ہوں تو ان کو میں نے یہی بات سمجھائی.شروع میں ان کو یہ ماننے میں تھوڑا سا تر ڈ دکھا کہ میرا قصور ہے لیکن جب بات واضح
خطبات طاہر جلد ۱۱ 824 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء ہوئی تو بلا تر دو پوری طرح تسلیم کر لیا.میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں آپ لوگوں کو اپنے بچوں کی علامتیں دکھائی دینی چاہئیں.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ایک بیٹی اچانک ہاتھ سے نکل جائے، یہ ناممکن ہے کہ کوئی بیٹا اچانک باغی ہو جائے.خدا کا کلام گواہ ہے کہ دلوں میں جو کچھ پلتا ہے وہ آنکھوں سے ضرور ظاہر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ نے آنکھ سے دل کی طرف سفر ہمیں اس لئے دکھایا.خدا تو غیب سے ظاہر کی طرف سفر کرتا ہے لیکن یہاں اس مضمون میں تقدیم و تاخیر کی حکمت مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ میں تو غیب بھی جانتا ہوں حاضر بھی جانتا ہوں لیکن اگر تم نے اپنی اولا دا پنی نسلوں کی تربیت کرنی ہے اور اپنی قوم پر نظر رکھنی ہے تو یاد رکھو کہ آنکھوں سے پہچاننا.یاد رکھو کہ اگر تم آنکھوں میں مخفی بدیاں، بدنیتیاں پہچان لو گے تو بروقت اپنی اولاد کی یا ان کی تم تربیت کر سکو گے جو تمہارے تابع ہیں ورنہ تم اس موقع کو ہاتھ سے گنوا بیٹھو گے.پس آنکھ میں شرارت پکنے سے پہلے جب وہ مستقل اس کا حصہ بن جاتی ہے اس سے پہلے کا روائی کی ضرورت ہے.چنانچہ ان پودوں کی طرح جن کی جڑیں ابھی مضبوط نہ ہوئی ہوں لیکن ان کی علامتیں باہر ظاہر ہو جائیں تو اس وقت اس روئیدگی کو بڑی آسانی کے ساتھ پاؤں تلے کچل کر پامال کیا جاسکتا ہے لیکن جب وہ درخت بن جائیں جب ان کی علامتیں خوب کھل کر ظاہر ہو جائیں تو پھر ان کو مٹانا اور ان کو اکھیڑ نا بڑا مشکل کام ہے.پس اپنی تربیت کے امور میں آپ اس آیت کریمہ کے مضمون کو پیش نظر رکھیں تو خصوصیت سے وہ لوگ جو مغرب میں اپنی اولاد کی تربیت کے متعلق پریشان ہیں ان کے مسائل حل ہو جائیں گے جب بچے میں پہلی دفعہ کوئی ٹیڑھا پن دیکھتے ہیں، اس کی آنکھ میں کوئی شرارت، کوئی فتنہ دیکھتے ہیں تو اس وقت ضرورت ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ کر دیں اور اپنی محبت سے، پیار سے سمجھا کر جیسا بھی ہو اس کے دل سے وہ بدی نوچ لیں جس کی علامتیں آنکھوں میں ظاہر ہونی شروع ہوئی ہیں.اب میں اس آیت کی طرف واپس آتا ہوں جس کی تلاوت میں نے ابھی کی تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنَتِكُم وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کیا کرو.وَتَخُونُوا آمنتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ حال یہ ہے کہ تم اپنی امانتوں کی خیانت کرتے ہو اور تمہیں علم نہیں.اس کے معانی میں سے دو معانی ہیں جو میں اس وقت آپ کے سامنے زیادہ وضاحت سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 825 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء رکھنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی امانت میں خیانت حقیقت میں ہماری اپنی امانتوں میں خیانت ہے اور یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ایک تو اس کا معنی یہ ہے یعنی جب ہم اپنے بھائی سے بد دیانتی کرتے ہیں، اپنی قوم سے بد دیانتی کرتے ہیں، اپنے مالک سے، اپنے نوکر سے اپنے بہن بھائی سے لین دین میں یا تقویٰ کی آزمائشوں میں ہم ناکام رہتے ہیں اور خیانت کرتے ہیں تو ان میں سے ہر خیانت دراصل اللہ اور اس کے رسول کی خیانت ہے یہ طرز بیان ہم پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ دیکھو تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری خیانتیں تمہاری اپنی خیانتیں ہیں.کون پوچھے گا.گھر کی بات ہے.تم نے اپنی بیوی سے خیانت کی بیوی نے تم سے کی ، بھائی نے بہن سے کی وغیرہ وغیرہ تو یہ سمجھ لو کہ ہم آپس میں ہی کر رہے ہیں.ہمارا معاملہ ہے.فرمایا نہیں ، در حقیقت ہر خیانت اللہ اور اس کے رسول کی خیانت ہے.کوئی خیانت بھی ایسی نہیں ہے جو تم کرتے ہو اور جو خدا اور اس کے رسول کی خیانت نہ بنتی ہو.دوسرا ایک اور بہت لطیف مضمون ہے.وہ قوموں کے حالات بگڑنے کا راز ہے.وہ لوگ جو اپنے معاملات میں خائن ہو جاتے ہیں پھر وہ خدا اور رسول کی خیانت بھی ان معنوں میں کرنے لگتے ہیں کہ پیغام کے باغی ہو جاتے ہیں.پیغام کے رنگ بدلنے لگتے ہیں اور فتنہ و فساد کی مستقل بنیادیں ڈال دیتے ہیں.چنانچہ جب مذاہب بگڑتے ہیں تو پہلے انسانی معاملات کی خیانت ظاہر ہوتی ہے، پھر وہی خائن لوگ خدا پر بھی ہاتھ ڈالنے لگتے ہیں، اس کے رسول کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں اس کی باتوں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور خدا اور رسول کی باتوں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں.یہاں اس خیانت کی طرف اشارہ ہے اور مرکزی اصول وہی کارفرما ہے.وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ جب تم اپنی روز مرہ کی بددیانتیوں کے متعلق جانتے ہو کہ حقیقت میں تم بد دیانت ہو خیانت کر رہے ہو، تم سے چھپی ہوئی نہیں.یاد رکھنا کہ جب اللہ اور رسول کی خیانت کرو گے تو وہ بھی تم سے چھپی ہوئی نہیں.دنیا سے چھپی ہوئی ہو سکتی ہے مگر وہ ظالم جو خدا کے کلام کو اپنی مرضی کے تابع توڑتے مروڑتے اور اپنی مرضی کے مطالب اس کی طرف منسوب کرتے ہیں.جو رسول کے کلام کی بے حرمتی کرتے ہیں ان کو بہت بڑی تنبیہ ہے کہ تم جانتے ہو تمہارا یہ کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ تم نے نادانی میں غلط ترجمے کر لئے تھے.خائن آدمی اگر روزمرہ کے معاملات میں خائن ہے تو خدا اور رسول کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 826 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۲ء معاملے میں بھی خائن ہو جاتا ہے اور جو روز مرہ کے معاملات میں خائن نہیں ہے اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے اور پھر وہ خدا اور رسول کے معاملے میں غلطی تو کر سکتا ہے مگر خائن نہیں بنتا تو خیانت دیکھیں انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے اور کیسے قعر مذلت میں گرا دیتی ہے.خیانت کے خلاف جماعت کو ایک بڑی جدوجہد کے ساتھ ایک مہم چلانی ہوگی ، جہاد کرنا ہو گا، پوری کوشش کرنی ہوگی.جس سے جماعت کے بچے بچے کے ذہن میں اور دل میں یہ بات ثبت کر دی جائے کہ خیانت ایک ایسا جرم ہے جو قوموں کے کردار کو کھا جاتا ہے، جو ان کے ایمان کو کھا جاتا ہے جو ان کے اعمال صالح کو تباہ کر دیتا ہے اور ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ ہمیش کے لئے قعر مذلت میں گر جاتی ہیں اس لئے خیانت سے خبر دار رہو.پس قرآن کریم نے آیات میں جگہ جگہ خیانتوں کے عنوان لگائے ہیں اور ان عنوانات کے تابع بڑی گہری باتیں بیان فرمائی ہیں.ان کے اوپر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے مزید روشنی ڈالی تا کہ وہ شخص جو اپنی فہم سے ان باتوں کو پانہ سکے اس کا خیال ان باتوں کی تہ تک پہنچے.اس سلسلہ میں ایک حدیث میں نے چھنی ہے.عن ابي سعيد الخدرى رضى الله عنه ان النبي صلى الله عليه وعلى اله وسلم قال لكل غادر لواء عند استه يوم القيامة..يرفع له بقدر غدره الا ولا غادر اعظم غدرا من امير عامة (مسلم کتاب الجہاد حدیث نمبر : ۳۲۷۱-۳۲۷۲) حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر دھوکہ دہی کرنے والے کا جھنڈا اس کی پیٹھ کے پاس قیامت کے دن نصب ہوگا.دو باتیں بیان فرمائی ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ ہر دھوکہ دینے والے کا، ہر خیانت کرنے والے کا جھنڈا اس کی پیٹھ کے پاس اس کے پیچھے قیامت کے دن نصب ہوگا.پیٹھ کے پیچھے کا ایک مضمون تو دوسری جگہ کھولا گیا ہے کہ جہاں ہلاکت کی خبر ہو وہاں سامنے سے پیش کرنے کی بجائے حساب کتاب پیچھے سے لیا جائے گا.ایک تو یہ مضمون ہے جس کی طرف انسان کا ذہن اس حدیث کو سُن کر جاتا ہے کہ بہت ہی بڑے عذاب کی خبر ہے کہ اس کی خیانت کا جھنڈا اس کی پیٹھ کے پیچھے گاڑا جائے گا دوسری یہ بات کہ خیانت کا اس سے زیادہ خوبصورت انتقام نہیں لیا جا سکتا.انسان دوسرے سے اس کی پیٹھ پیچھے خیانت کرتا ہے.فرمایا اس کی پیٹھ کے پیچھے وہ
827 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۲ء خطبات طاہر جلدا جھنڈا گاڑا جائے گا جو دنیا کو دکھائے گا کہ یہ خائن تھا.جو خیانتیں اس نے اپنی طرف سے دنیا سے چھپانے کی کوشش کی تھی وہ ایک جھنڈے کی صورت میں طنزاً اس کی پیٹھ کے پیچھے نصب کی جائے گی اور وہ جھنڈا دور سے دکھائی دے گا.فرمایا جتنا بڑا خائن ہو گا اتنا ہی بلند وہ جھنڈا ہو گا.یہ ایک Irony ہے ،تصویری زبان میں خائن سے انتقام کا حیرت انگیز نقشہ کھینچا گیا ہے کہ تم خیانتیں کرلو، چھپالو ، لوگوں کی پیٹھ پیچھے جو کچھ منصوبے بنانے ہیں بناؤ قیامت کے دن تمہارے یہ بے تمہاری پیٹھوں کے پیچھے گاڑے جائیں گے جتنی تم نے بددیانتیاں کی ہوں گی اتنا ہی یہ منصو.راز کھولا جائے گا.دوسری بات حضور نے یہ فرمائی کہ ولا غـادر اعـظـم غدرا من امير عامه.عوام الناس پر جو امیر مقرر کیا جاتا ہے وہ اگر خیانت کرے تو اس کی خیانت سے بڑھ کر اور کوئی خیانت نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کو معاملات سونپے جاتے ہیں وہ ان معاملات میں جو اس کو سونپے گئے ہیں اگر خیانت کرے تو جتنا وسیع ان کا اثر ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی خیانت اپنے آپ سے ضرب کھاتی چلی جائے گی.ایک شخص ایک شخص سے خیانت کرتا ہے، خیانت تو خیانت ہی ہے لیکن اس کا نقصان ایک شخص کو پہنچ رہا ہے.ایک شخص ایک خاندان سے خیانت کرتا ہے اس کا نقصان ایک خاندان کو پہنچتا ہے لیکن وہ شخص جو امیر ہو اس کی خیانت کا نقصان اس کے تابع تمام افراد کو پہنچتا ہے چنانچہ خیانت کا گناہ اس کے نقصان سے ماپا جائے گا.یہ مراد ہے خیانت کا جتنا وسیع نقصان پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اس شخص سے جواب طلبی ہوگی اتنا ہی زیادہ وہ خدا کی ناراضگی کا سزاوار ٹھہرایا جائے گا.اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے تو حکومتوں کی امارات کے مضمون کو سامنے رکھتے ہیں.امارتیں دو قسم کی ہیں.ایک مذہبی ذمہ داریاں ہیں جن کو یہ سونپی جاتی ہیں ان کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے اور دل ہلا دینے والا پیغام ہے اور ایک وہ جو دنیا کی امارتیں ہیں.یہ لفظ امیر دونوں پر یکساں چسپاں ہوتا ہے اس کی تو تاریخ میں بھی بڑی کثرت سے مثالیں بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور میں بھی کہ جہاں حکومتوں کے سربراہ خائن ہوئے وہاں حکومتیں اس طرح برباد ہوئی ہیں کہ نہ ان کی اقتصادیات باقی رہیں، نہ ان کی سیاسیات باقی رہیں ، نہ اخلاق رہے، نہ مذہب رہا سب کچھ مٹ گیا اور آج تیسری دنیا کے لئے اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھلم کھلا پیغام ہے.اگر وہ اس پیغام کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 828 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء سمجھیں تو بڑی بڑی ہلاکتوں سے بچ سکتے ہیں ورنہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو بچا نہیں سکتی کیونکہ امیر کی خیانت سے بڑھ کر اور کوئی خیانت اثر نہیں دکھاتی دوسروں کو بے بس کر دیتی ہے.یہ ایسی خیانت ہے کہ اس کے مقابل پر ایمان داروں کی ایمان داریاں بھی کچھ کر نہیں سکتیں بے بس اور بہتی ہو جاتی ہیں.تیسری دنیا میں جب میں سفر کرتا ہوں اور میری ملاقاتیں جب ان کے سر براہوں سے ہوتی ہیں مثلاً جب میں نے افریقہ میں دورہ کیا تو میں نے ہر صاحب امر کو یہ بات پہنچائی میں نے کہا ایک زمانہ ایسا تھا کہ آپ شکوہ کیا کرتے تھے کہ آپ کو سفید ہاتھوں نے لوٹا ہے بڑا ظلم تھا.باہر سے سفید ہاتھ آئے اور انہوں نے آپ کو لوٹا لیکن اب آپ کو کالے ہاتھ لوٹ رہے ہیں ، وہ آپ کے اپنے ہاتھ ہیں.اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں.جب تک آپ دیانت کے معیار کو بلند نہیں کرتے آپ کسی پہلو سے کسی رُخ سے ترقی نہیں کر سکتے.نہ آپ کی اقتصادیات سنبھل سکتی ہے، نہ آپ کی سیاسیات درست ہو سکتی ہے ، نہ کسی شعبہ زندگی میں کسی اصلاح کی صورت ممکن ہے کیونکہ ایک بددیانت آدمی ایک ایسے گندے پودے کی طرح ہو جاتا ہے جس کو کڑوے پھل لگتے ہیں.ایک خاندان کے ایک شخص کے متعلق کسی نے ایک بزرگ عورت سے عرض کیا کہ اس ماں کی جو فلاں بیٹی ہے وہ تو اچھی ہے نا تو اس نے اپنی بزرگی اور سادگی اور گہری فراست کے ساتھ صرف یہ کہا کہ کڑیے کوڑی دل نوں مٹھے پھل نہیں لگ دے.اگر بیل کڑوی ہو جائے تو اس کا ہر پھل کڑوا ہوتا ہے تم نہیں سمجھتی یہ بیل کڑوی ہے.صلى الله بہت گہری حکمت کی بات ہے.تو امیر کی امارت کے متعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جو توجہ دلائی تو دراصل اس کو ہم دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خبردار! بیل نہ کڑوی ہو.اگر کسی قوم کا امیر گندہ ہو جائے ، اس کی نیتیں خراب ہو جائیں، وہ خائن بن جائے تو ساری قوم اس بیل کی طرح ہو جاتی ہے جسے پھر لا زما کڑوے پھل لگیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو بچا نہیں سکتی.آج تیسری دنیا کے مسائل کا حل صرف اس حدیث میں ہے.جتنی مرضی کا نفرنسیں کر لیں.بڑے ممالک ایک طرف آجائیں، چھوٹے ممالک ایک طرف اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں یا سیاسی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں سب فرضی باتیں ہیں.ایک کوڑی کا نتیجہ بھی نہ آج تک کبھی نکلا ہے نہ آج نکل سکتا ہے اور نہ کل نکلے گا.بیماری ہے ہی اور ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی بات کرتے ہیں اگر گھٹنے پر چوٹ پڑی ہے تو آنکھ کیوں پھوٹے گی.گھٹنا پھوٹے گا تو آپ کا دل پھوٹ گیا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 829 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء.وہ مرکز جہاں نیتیں پلتی ہیں وہ گندہ ہو چکا ہے اور امارتیں گندی ہوگئی ہیں.یہ ناممکن ہے کہ کسی ذلیل سے ذلیل ترین ملک کی امارت یعنی سیاست اور اس کے جوسر براہ ہیں وہ پاک اور صاف ہو جائیں اور قوم بہتر نہ ہو جائے یہ ہو ہی نہیں سکتا.جہاں ملکوں کے حال گندے اور بد ہیں جان لیں کہ وہاں کی سیاست گندی ہے، وہاں کے سربراہ جن کے ہاتھ میں معاملات کی کلید تھمائی جاتی ہے، چابی پکڑائی جاتی ہے وہ بدنیت اور گندے ہو چکے ہیں اس لئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ ضرور وہاں چلے گی اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کی جواب طلبی ہونی ہے.جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ دیکھو تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بد دیانتیاں کرتے ہو اور یہ بھول جاتے ہو کہ تمہاری ہر بد دیانتی در حقیقت خدا سے بد دیانتی ہے اور اس کے رسول سے بد دیانتی ہے اور جب خدا اور اس کے رسول سے بد دیانتی کرو گے تو بغیر حساب کے چھوڑے نہیں جاؤ گے.خدا کی مخلوق جس کے بھی سپرد کی جائے خواہ وہ سیاسی سر براہ ہو یا کسی اور حیثیت سے سر براہ ہو ، جن معاملات میں خدا کے بندے اُس کے سپر د کئے جاتے ہیں ان معاملات میں اگر وہ بد دیانتی کرتا ہے تو اس کا اثر ساری قوم پر پھیلے گا.دو قسم کی کمزوریاں ہو سکتی ہیں.ایک ذاتی اور ایک عامتہ الناس سے تعلق رکھنے والی.یہاں اس کمزوری کا ذکر ہے جس کا تعلق قوم سے ہے یعنی قومی معاملات میں خیانت نہ کرنا تمہاری اپنی خیانت بھی پوچھی جائے گی اپنے متعلق اپنی ذمہ داریوں میں اس ناکامی پر بھی پوچھے جاؤ گے جن کا تمہاری ذات سے صرف تعلق ہے اور تمہارے خاندان سے ہے لیکن اتنی بڑی جرات نہ کر بیٹھنا ان معاملات میں خیانت کرو جن کا ساری قوم سے تعلق ہے ان کا جھنڈا پھر اندازہ کریں کہ کتنا بلند ہو گا وہ تو انسان کے تصور میں بھی نہیں آسکتا ہے، امریکہ کا سر براہ ہے، روس کا سر براہ ہے، یورپ کی حکومتوں کے سر براہ ہیں.ان کے اپنے طور کی خیانتیں ہیں اور خدا تعالیٰ یہ خبر دیتا ہے کہ یہ سارے پوچھے جائیں گے.ان کے بداثرات قوم پر ضرور پڑتے ہیں لیکن میں اس وقت تیسری دنیا کی حکومتوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے درست ہونا ہے تو کسی طرح دُعائیں کر کے یا جیسا بھی بس چلے اپنا سر براہ دیانت دار چن لیں ، ایسا جو پاک نیت ہو، جو با اصول ہو اور اصولوں سے نہ ملے اور اصولوں کا سودا نہ کرے.اب دیکھیں پاکستان کی درد ناک تاریخ میں دراصل یہی ایک بنیادی کمزوری دکھائی دیتی ہے.ایک ہی رخنہ ہے جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ پاکستان پھٹا، ساری قوم پھٹنے لگی ہٹکڑے ٹکڑے ہوگئی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 830 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء اور پھر اس وقت سے سنبھل ہی نہیں رہی.آج کل مثلاً جو ہو رہا ہے یہ کوئی ایسی بیماری نہیں جو آج پیدا ہوئی ہے.یا چند سالوں میں پیدا ہوئی ہے.اپوزیشن کہتی ہے کہ نواز شریف صاحب نے یہ بیماریاں پیدا کی ہیں.یہ الزام لگانے والے جب خود او پر آئے تھے تو اس وقت کہتے تھے فلاں نے پیدا کیں ہیں.اس وقت نواز شریف صاحب موجود ہی نہیں تھے ان سے پہلے اور تھے.بیماریاں پہلے سے شروع ہوئی ہیں اور ان کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں.بیماری اس وقت تک نہیں تھی جب تک قائد اعظم زندہ تھے.قائد اعظم بہت صاحب فراست انسان تھے.باتوں کی چالا کی ان کو نہیں آتی تھی لیکن عقل میں تقویٰ تھا.یہ ملاں اُن پر اعتراض کرتے ہیں اور حملے کرتے ہیں کہ یہ غیر مسلموں کی طرح تھا.تقویٰ ایسی چیز ہے کہ اگر غیر مسلم میں بھی ہو تو اس عقل کو بھی جلا بخش دیتا ہے اور اگر نہ ہو تو کتنا بڑا پکا مسلمان ہو اُس کے اندر اندھیرے ہی پلیں گے اس سے زیادہ اور کچھ اس سے توقع نہیں رکھ سکتے.تو قائد اعظم نے ملاں سے صلح نہیں کی ، ملاں کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوئے یعنی اس حد تک کہ اصولوں کے سودے کر لیں.قائد اعظم نے اپنی زندگی میں جتنے فیصلے کئے ہیں ان کا تنقیدی نظر سے مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر نہ ہو.ایک سربراہ کا تقویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے جو اُس کے نزدیک قوم کے لئے جائز اور درست ہے اور اخلاق کے اعلیٰ اصولوں کے منافی نہیں ہے.اس پہلو سے قائد اعظم کا فیصلہ ہر شک سے بالا تھا اور ہر قسم کی تنقید سے بالا تھا.مولویوں سے دیکھ لیجئے کہ انہوں نے اس بات پر ٹکر لی کہ مولوی کہتے تھے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دو ہم تمہاری جوتیاں چاہیں گے قائد اعظم کو اپنی جوتیاں چٹوانے کا کوئی شوق نہیں تھا.یہ بھی تقوی کی ایک علامت ہے.ان کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی ان کی تعریف کرتا ہے یا نہیں کرتا لیکن انہوں نے کہا کہ میں اس اصول کو تسلیم نہیں کر سکتا.قوم پھٹ جائے گی جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے گا ملی تعریف کی رو سے مسلمان کہلائے گا.میں ایک سیاست دان ہوں ، مجھے مذہبی تعریف کی باریکیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، نہ میرا کام ہے.اللہ جس کو چاہے مسلم قرار دے اور جس کو چاہے غیر مسلم قرار دے دے مگر میرے نزدیک ملت کے لئے مسلمان کی ایک ہی تعریف قابل قبول ہو سکتی ہے جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے گا وہ مسلمان ہے.جو نہیں کہتا وہ نہیں ہے.چھٹی کرے.ہر شخص آزاد ہے جو چاہے کرے جو چاہے کہے اتنی سی بات پر وہ اڑ گئے.انہوں نے کہا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 831 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ میں اس پر کوئی سودا کروں.مولویوں نے لالچیں دیں طرح طرح کی دھمکیاں دیں، یہ کہا کہ ساری قوم آپ کے قدموں میں لا ڈالیں گے، آپ کے خادم بن جائیں گے آپ کے گن گائیں گے ، قیامت تک آپ کا جھنڈا بلند رکھیں گے لیکن قائد اعظم نے ایک ذرہ بھی ان لوگوں کی طرف توجہ نہیں کی ثابت قدم رہے اور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ کیسا شان کا سلوک تھا کہ ان سب مولویوں کے پاؤں تلے سے زمین نکال دی سارے مولوی جھوٹے کر دئیے.جب یوم حساب آیا ہے تو ان کے پیچھے چلنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا ساری قوم قائد اعظم کے پیچھے چل پڑی.اب بھی پاکستان کے مسائل کا دراصل یہی حل ہے.ان کو اتا ترک تو میسر نہیں آسکتا.اتا ترک سے زیادہ عظیم قائد اعظم ہے.اتاترک نے تو ایک بدنی سزا دے کر اور انتقام لے کر اپنے مخالفوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی اور بزور شمشیر ملاں کو دیر تک سیاست سے باہر رکھا لیکن قائد اعظم نے تو نہایت ہی اخلاق کا نمونہ دکھاتے ہوئے اپنی قربانی پیش کی لیکن اصول سے پیچھے نہیں ہے.جب سے ملاں پاکستان کی سیاست میں داخل ہوا ہے پاکستان کی سیاست گندی سے گندی ہوتی چلی گئی اور سیاست دان آزا در ہا ہی نہیں.جب ملاں سے بد دیانتی کے سودے ہو گئے ، بداخلاقی کے سودے ہو گئے ، ایک کمزور جماعت کے حقوق کو جانتے بوجھتے ہوئے کچلا گیا ہے، کون پاکستان کا سیاست دان ہے جو کہے کہ ہمیں علم نہیں تھا.آپس کی پرائیویٹ باتوں میں سب کہتے ہیں کہ ظلم ہو گیا لیکن کسی ایک میں بھی جرات نہیں ہے کہ وہ احمدی کے خون کا سودا مولوی سے کرنے کے لئے تیار نہ ہو.جہاں اس کو اپنا دو کوڑی کو بھی فائدہ نظر آئے گا وہ یہ خون بیچے گا اور جس طرح حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ہمیں تنبیہ کی تھی کہ دیکھو آزاد کو پکڑ کرکسی اور کے پاس بیچنے کا تمہیں کوئی حق نہیں.کوئی ایک آزاد انسان کی آزادی کو اگر کسی دوسرے کے پاس اپنے تھوڑے سے کمینے مفاد کی خاطر بیچ ڈالے تو اس کے لئے کیسی سخت تنبیہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے فرمائی لیکن پاکستان کے سیاست دان چونکہ خائن ہو چکے ہیں اس لئے ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے.یہ بحث اُٹھاتے ہیں کہ یہ تھوڑے ہیں یا زیادہ حالانکہ خیانت میں تھوڑے زیادہ کی بحث ہی نہیں ہوا کرتی.ایک آنے کی خیانت بھی خیانت ہے اور اموال کی ایک عظیم ڈھیری کی خیانت بھی خیانت ہے.چنانچہ قرآن کریم نے خیانت کے اسی مضمون کو یہودیوں کے حوالے سے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ دیکھو
خطبات طاہر جلدا 832 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء یہودیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کے پاس دولتوں کے پہاڑ لگا دئے جائیں تو تب بھی وہ خیانت نہیں کریں گے.جب وہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس مال کی حفاظت کریں گے تو ضرور حفاظت کریں گے.کیسی شان ہے قرآن کریم کی.وہ قوم جس نے قرآن اور صاحب قرآن سے سب سے زیادہ دشمنی کی ہے اس قوم کے پاک لوگوں کو کیسا خراج دیا جا رہا ہے.کیسا ان کا حق تسلیم کیا جارہا ہے کہ بعض ان میں شریف ہیں اور ایسے ایسے شریف ہیں کہ اگر دولتوں کے پہاڑ بھی ان کے سپردکر دیئے جائیں تو بد دیانتی نہیں کریں گے لیکن افسوس کہ ان بدنصیبوں کی اکثریت ہے جن کے پاس ایک آنہ بھی رکھو، ایک پیسہ بھی رکھو.تھوڑا سا بھی دے دو تو وہ خیانت کر جائیں گے خیانت خیانت ہی رہے گی.تو یہ کیا سودا ہوا کہ تھوڑے لوگوں کے حقوق مارے جاتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے.مارے ہی تھوڑوں کے جایا کرتے ہیں.بڑوں کے حقوق مارنے کی تمہیں جرات کہاں ہے.جب جرات کرتے ہو تو آگے سے مار بھی پڑتی ہے.اگر بڑوں کے حقوق مارنے کی کوشش کرو گے تو وہ سیاسی غلطی ہے.طاقتور پر ہاتھ ڈالو گے تو وہ بے وقوفی ہے لیکن جب غریب کے حقوق پر ہاتھ ڈالو گے، کمزور کے حقوق پر ہاتھ ڈالو گے تو یہ خیانت ہے اور اس خیانت کو آنحضرت ﷺ نے اس رنگ میں پیش فرمایا کہ ایک آزاد شخص کی آزادی چھینے کا تمہیں کیا حق ہے.خدا نے اپنے بندوں کو جو حقوق دیئے ہیں فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ اگر ایمان تمہارے پاس ہی ہے تب بھی خدا کہتا ہے کہ میرے بندے ہیں تمہیں زبر دستی کسی کو مومن بنانے کا کیا حق ہے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنُ (الکہف: ۳۰) جو چاہے ایمان لاتا پھرے اور جو چاہے کا فر ہوتا پھرے.میرا اور میرے بندوں کا معاملہ ہے.تم بیچ میں دخل دینے والے کون ہوتے ہو لیکن انہوں نے کئی کئی نیک بہانے بنائے اور جانتے بوجھتے ہوئے احمدیوں کے سودے کئے اور مولویوں کے پاس عملاً احمدیوں کے تمام حقوق بیچ ڈالے.اس خیانت کو خدا تعالیٰ معاف نہیں کر سکتا.اب سیاست دان گلیوں میں نکلے ہیں.نہایت بھیا نک اور بڑے تکلیف دہ مناظر ہیں جو ساری دنیا میں دکھائے جارہے ہیں اور اس قوم کی پولیس کا حال دیکھیں کہ اس وقت چونکہ ہر آدمی حکومت کا پچھو بن جاتا ہے اس لئے انتہائی خوفناک مظالم کرتی ہے حالانکہ دنیا میں کہیں بھی پولیس ایسی ناجائز بختی ان لوگوں پر نہیں کیا کرتی جو آگے سے ہاتھ نہ اُٹھائیں، جو شرارت نہ کریں.محض اکٹھے ہونے سے منع کرنے پر اگر کوئی اکٹھا ہو جائے تو اس پر دنیا
خطبات طاہر جلدا 833 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء کی آزاد ممالک کی پولیس زیادتی نہیں کیا کرتی ، ان کو دھکیلتی ہے اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے.پہل اگر مجمع کی طرف سے ہو ، اگر پولیس کو مار پڑے، ان کے اوپر بم پھینکے جائیں، ان پر گولیاں چلائی جائیں، ان پر بوتلیں پھینکی جائیں اور کئی قسم کے فساد ہوں تو پھر اس فساد سے بچنے کے لئے اسی حد تک جوابی کارروائی کیا کرتی ہے اور آزاد اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ بعض فسادات کے موقع پر پولیس والے زیادہ زخمی ہوتے ہیں اور دوسرے کم اور پولیس اس وقت اپنے قابو سے نکلتی ہے جب چارہ نہیں رہتا.جب ہر طرف سے اس کو پڑنی شروع ہوتی ہیں تو پھر وہ بھی زیادتیاں کر جاتے ہیں مگر ان کی تصویریں دیکھنے والا پہچان لیتا ہے کہ زیادتی کدھر سے شروع ہوئی تھی.مجھے تو زیادہ وقت نہیں مانتا مگر ایک جھلکی میں نے دیکھی تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کیسی تکلیف دہ وہ چیز تھی جو مجھے دکھائی دی اور میں سوچ رہا تھا کہ ساری دنیا میں یہ بد نامی ہو رہی ہے.معزز سیاست دان ہیں اور احتجاج کرنے کے لئے نکلے ہوئے ہیں ان کے ساتھ خواتین ہیں.ان کو ایک پولیس والا پکڑتا ہے اور ڈنڈے مارتا ہوا کھینچ کر وہاں لے آتا ہے جہاں پولیس والے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور پھر سارے پولیس والے اس نہتے آدمی پر جس نے آگے سے ہاتھ نہیں اُٹھایا ہوتا ، پھر نہیں مارا کوئی ہتھیار استعمال نہیں کیا ، ڈنڈے برسانے شروع کر دیتے ہیں.یہ کیسی سیاست ہے لیکن تمہاری اپنی پیدا کردہ ہے تم خائن ہوئے صرف جماعت احمدیہ کے معاملہ میں نہیں ہر معاملہ میں خائن ہو گئے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف اپوزیشن دیانت دار ہے اور حکومت خائن ہے.کبھی اپوزیشن حکومت بن جاتی ہے تو کبھی حکومت اپوزیشن بن جاتی ہے یہ تو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں.کبھی یہ باہر آگیا تو کبھی وہ باہر آ گیا ادائیں ایک ہیں یہ مجھے تکلیف ہے.جب تک ادا ئیں نہیں بدلیں گی جب تک خیانت سے باز نہیں آئیں گے اس وقت تک قوم بچ نہیں سکتی اتنی خیانت ہے کہ یوں لگتا ہے کہ سیاست میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ جب ہم بھی جائیں گے تو ہم بھی ایسا ایسا کیا کریں گے.تو وہ خیانت جو ان کی آنکھوں میں ظاہر ہو چکی ہے اب تو گلیوں میں جھانک رہی ہے.گھر گھر پر اس کی نحوست کا سایہ ہے وہ دراصل دلوں میں پلی تھی اللہ ان آنکھوں کی غیب خیانت کو بھی جانتا ہے جب ابھی وہ باہر نہیں آئی تھی.اس صورت حال پر جب نظر ڈالیں تو پاکستان، ہندوستان اور دوسرے تیسرے درجے کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 834 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء ملک جن میں عام روز مرہ کی بد دیانتی زیادہ پائی جاتی ہے، بددیانتی مغربی ممالک میں بھی ہے مگر بڑے پیمانے کی ہے، اونچے پیمانے کی، جب اپنی قوم کے مفاد غیروں سے ٹکرائیں تو پھر دل کھول کر بد دیانتیاں کرتے ہیں مگر روز مرہ اپنی قوم سے بد دیانتی کر نہیں سکتے.اس کی جرات نہیں ہوتی کیونکہ قوم اس معاملے میں سخت گیر ہے مگر جہاں قوم بیچاری غیر تعلیم یافتہ اور کمزور ہو ان کو ہدایت دینے والا کوئی راہنما نہ ہو اور جو راہنما ہوں وہ خائن ہو چکے ہوں تو ایسی قوموں کا تو پھر کوئی نیک انجام نہیں ہوا کرتا.ان کے حالات پر آپ غور کر کے دیکھیں تو آپ کو خیانت کی تاریخ پہلے دلوں میں پلتی ہوئی پھر باہر آتی ہوئی نظر آئے گی.بعض زمیندار بلکہ اکثر نے اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں اس لئے ڈالا کہ کوئی اس زمانے میں (پرانے زمانے کی باتیں ہیں ) کوئی سوچتا تھا کہ اسے پٹواری لگواؤں گا اور پٹواری لگوا کر پھر جس طرح ہم نے پٹواری کی شانیں دیکھی ہیں کہ جس کا چاہا کھاتہ بدل کے کسی اور کے نام لگا دیا اس طرح میرا یہ بیٹا کیا کرے گا.پھر ہمارے خاندان کی شان دیکھنا اور یہ آغاز ہی میں شاید اس وقت سے ہی جب بچہ پیدا ہوا تھا اُس وقت سے ہی اس پر ایسے خاندان کے پٹواری کی نظر پڑ رہی تھی اور جنہوں نے بڑا تیر مارا انہوں نے نائب تحصیل دار کے خواب سوچے.بہت اونچے جو خاندان تھے انہوں نے کہا کہ جی! ہم تو ڈپٹی کمشنر بنوائیں گے.سی ایس پی بنوائیں گے پھر پورے ضلع پر راج ہو گا پھر ہم جس کو چاہیں گے مروائیں گے جس کو چاہیں گے زندہ کروائیں گے یہ سارے خواب دکھائی دینے والے خواب ہیں.ان لوگوں کی آنکھوں سے ان کی خیانت جھانکتی ہے.جو بڑے بڑے بدنیت زمیندار یا دوسرے صاحب اثر لوگ ہیں آپ اُن سے مل کر دیکھیں.ذراسی بھی فراست ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ آنکھ کی خیانت معلوم نہ کر لیں.ان کی طرز بیان ہی ایسی کھو کھلی سی ہوتی ہے کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایک چھوٹی بات ہے بے معنی بات ہے.تو اُس زمانے میں بچپن میں پھر یہی خواب ان کے سامنے دہرائے گئے ان کے سامنے معزز لوگوں کے جو نقشہ کھینچے گئے وہ سارے معزز لوگ بد دیانتی سے معزز بنے تھے ان کو جن صاحب اقتدار خاندانوں سے متعارف کرایا گیا وہ صاحب اقتدار خاندان صاحب اقتدار ہی بد دیانتی کے نتیجہ میں ہوئے اور رفتہ رفتہ ساری قوم اس مضمون کو سمجھ گئی کہ اس ملک میں اگر عزت حاصل کرنی ہے تو خیانت سے حاصل ہو گی ورنہ نہیں ہوسکتی.اعلیٰ اخلاقی قدریں ایک دن میں پامال نہیں ہوا کرتیں، کم از کم سو سال لگے ہوں گے کہ قوم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 835 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء رفتہ رفتہ ان قدروں سے دور ہٹتی چلی گئی.دلوں سے نیکی کی سب جڑیں اکھیڑی گئیں اور ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں ہوا جس نے مہم چلا کر قوم کو دوبارہ با اخلاق بنانے کی کوشش کی ہو.بداخلاقی کی قیمت جب پڑنے لگ جائے تو پھر اس سوسائٹی میں اخلاق والارہ کیسے سکتا ہے.قیمتیں ہی بد اخلاقی کی پڑتی تھیں، قیمتیں ہی بد دیانتی کی پڑا کرتی تھیں.اس کے بعد یہ سوچنا کہ اقتصادیات صاف رہ جائیں گی یا قومی معاملات صاف رہ جائیں گے یا سیاست پاک صاف ہو گی یہ بالکل باطل، جھوٹے تصور ہیں.یہ عقل کے خلاف بات ہے ایسا ممکن ہی نہیں رہتا.آپ آج جو حال دیکھ رہے ہیں یہ کم از کم سوسال کی یا شاید اس سے بھی پہلے کی پالی ہوئی بیماری ہے جواب جسم کے ہر حصے سے ظاہر ہونے لگی ہے شعراء جب اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہیں تو بعض دفعہ کہتے ہیں کہ تم دو آنکھوں کو کہتے ہو میرا تو رواں روواں آنکھیں بن گیا ہے.میرے ایک ایک روئیں کی آنکھ میں تم میرے دل کا غم پڑھ سکتے ہو.کیسا دردناک منظر ہے کہ آج پاکستان کا رواں روواں آنکھ بن چکا ہے اور ہر آنکھ بدیانت اور خائن ہے.ہر آنکھ میں آپ اس خیانت کی کہانی پڑھ سکتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے جو نصیحتیں ہمیں فرمائیں، قرآن نے جو عنوان باندھے اور بتایا کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اپنی اعلیٰ قدروں کی حفاظت کرنا چاہتے ہو تو خیانت سے بچ کر رہنا خیانت کی ایک ایک قسم گنوا کر دکھائی لیکن قوم ان سب سے غافل اسی حال پر چلی جارہی ہے.اب ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ آج یہ ہیں تو کل کون آئے گا.جس طرح کسی شاعر نے کہا تھا:.ہمارے لئے سارے ولی ابن ولی آئے جب تک رسول اللہ ﷺ کا کوئی غلام او پرنہیں آتا جوتقویٰ اور امانت کے ساتھ اپنی امارت کے حق ادا کرنے نہیں جانتا اس وقت تک نہ ہمیں دلچسپی ہے نہ قوم کوکوئی دلچسپی ہوگی.آج کچھ لوگ آئیں گے اور تماشا دکھا کر چلے جائیں گے.کل گلیوں میں اور تما شا ہوگا.جو کل کتا کہا کرتے تھے وہ کل کہتے کہلائیں گے.یہ بد نصیب تاریخ ہے جو بیسوں سال سے اسی طرح جاری و ساری ہے اور قوم کا ضمیر جاگ نہیں رہا اس لئے کہ صاحب ضمیر لوگوں کی آواز میں بند ہیں اور جو ان کے ضمیر جگانے کے لئے مقرر کئے گئے تھے اُن کو سب سے زیادہ جھوٹا کر کے دکھایا گیا ہے.پس خیانت نے تو پوری طرح چھاؤنی بنا رکھی ہے ہر جگہ، ہر روئے بدن میں خیانت داخل ہو چکی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 836 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء پس میں اپنی قوم کو یہ اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لئے غور کریں، سمجھیں آپ نے بچنا ہے تو ان اقدار سے بچیں گے جو زندگی کی اقدار ہیں.ان اقدار کو آپ قرآن کریم سے حاصل کر سکتے ہیں حضرت محمد مصطفی میں اللہ سے حاصل کر سکتے ہیں.اس کے سوا وہ اقدار آپ کو کہیں دکھائی نہیں دیں گی.اب اسی مضمون کو آپ عالم اسلام پر چسپاں کر کے دیکھیں.میں اس طرح تفصیل میں نہیں جانا چاہتا جیسے میں نے پاکستان کا ذکر کیا مگر بوسنیا کے حوالے سے مثلاً میں آپ کو بتا تا ہوں.میں نے چھلی دفعہ بھی بیان کیا تھا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کی اتنی دردناک حالت ہے کہ اب تو غیر رونے لگے ہیں، اب تو عیسائی قوموں کے وہ سربراہ یعنی وہ صاحب اقتدار لوگ جو بہت حد تک ان باتوں کے ذمہ دار ہیں، اس غفلت کے مجرم ہیں کہ ایک قوم کو انہوں نے آنکھوں کے سامنے مٹاتے ہوئے دیکھا ، ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی نہایت بھیانک کوشش اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھی، روک سکتے تھے اور نہیں روکا لیکن اب حالت وہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود وہ بھی ان باتوں کا نوحہ کرنے لگے ہیں کہ بہت ظلم ہو رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر رہے.مغربی سیاستدان اب جگہ جگہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بلند آواز سے وہ باتیں کر رہے ہیں جس پر اس شعر کا مضمون صادق آتا ہے کہ رخصت نالہ مجھے دے، کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم پنہاں میرا (دیوان غالب صفحہ: ۹۱) اے ظالم ! مجھے اجازت دے کہ میں اپنے غم بیان کروں ورنہ وقت آئے گا کہ تیرے چہرے سے میراثم ظاہر ہونے لگے گا.عالم اسلام کی زبان تو انہوں نے بھینچ رکھی ہے یا عالم اسلام کے سر براہوں نے اپنی زبان ان کے ہاتھوں فروخت کر رکھی ہے، بیچ رکھی ہے.کسی کی کھینچی گئی.کسی کی بیچی گئی.عالم اسلام میں تو ان مظلوم بھائیوں کا نوحہ کرنے والا کوئی رہا نہ تھا لیکن حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے چہرے سے ہمارے مظلوم بھائیوں کا غم ظاہر ہونے لگ گیا ہے.ایسے ایسے درد ناک واقعات سننے میں آرہے ہیں.جو مظلوم وہاں سے لٹ کر اور بعض اس طرح بیچ کر نکلے ہیں کہ خاندان کے سارے افراد کاٹے گئے ایسے ایسے بھیانک نقشے انہوں نے دکھائے ہیں کہ جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.بھٹیاں روشن کی گئیں اور ان کے سامنے ان کے بچے ان بھٹیوں میں جھونکے گئے اور کہا گیا یہ تمہاری آئندہ نسل ہے، دیکھ لو یہ کہاں جارہی ہے.صاحب دانش
خطبات طاہر جلد ۱۱ 837 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء لوگوں کو ان کے سامنے پہلے بھوکا رکھا گیا.پھر ایک آدمی جو تعلیم یافتہ اور سر براہ بنے کی کسی پہلو سے بھی حیثیت رکھتا تھا.یعنی قوم کا لیڈر بننے کی حیثیت رکھتا تھا اس کو بڑے دردناک طریقوں پر عذاب دے دے کر سب کے سامنے مارا گیا کہ ہم نے تمہارا سر بھی کاٹ دیا ہے، تمہارا مستقبل بھی برباد کر دیا ہے تم واپس آ کیسے سکو گے.اتنی درد ناک حالت ہے لیکن عالم اسلام کو کچھ ذرہ بھی پتا نہیں لگا کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا ہے.کتنی حسرت اور شرم کا مقام ہے کہ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو کیسے رکھیں، ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں، ہمارے اپنے آدمی بغیر ایمپلائمنٹ کے ہیں پھر بھی یورپ نے اتنا کر دیا مگر کبھی آپ سعودی عرب سے یہ بات نہیں سنیں گے، لیبیا سے یہ بات نہیں سنیں گے، دوسرے اسلامی ممالک جو تیل سے اتنے دولتمند ہو چکے ہیں کہ دولتوں کے پہاڑ لگ گئے ہیں ان کو ادنی بھی حیا نہیں آئی ، ادنی بھی اس بات کا خیال نہیں آیا کہ ان غریب بھائیوں کے اوپر وہ خرچ کریں اور عیسائی ملکوں کو کہیں کہ تم اپنے ہاتھ کھینچ لو ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے تم اس ظلم میں شامل اور شریک ہو ہم اپنے بھائیوں کی خبر گیری کرنا جانتے ہیں.ان کے لئے کوئی ایک آواز آپ نے ان سے نہیں سنی ہوگی، کسی حکومت نے اپنے خزانے ان کے لئے نہیں کھولے،خزانے کیا اپنے سود کے اموال کا ایک ہزارواں لا کھواں حصہ بھی ان پر خرچ کرنے کی توفیق نہیں پائی.نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مجھے چونکہ جماعت کی طرف سے مختلف ممالک سے رپورٹیں آرہی ہیں کہ ہم نے بوسنیا کے مظلوموں سے رابطے کئے وہاں یہ دیکھا، ان کی ہمدردی کی.ان میں سے ایک خط ہے جس نے مجھے شدید تکلیف پہنچائی اور وہی خط اس بات کا موجب بنا ہے کہ میں آپ کے سامنے اسلامی ممالک کی اس بے حسی کا رونا روؤں.یہ بھی خیانت کی ایک قسم ہے اور بہت بڑی خیانت کی قسم ہے کہ خدا اموال دے اور جن پر خرچ کرنے کا حکم ہو اور ان کا خرچ روکنے کے لئے کوئی محرک موجود نہ ہو.ایک غریب آدمی تو کسی کا حق مار بھی لے تو سمجھا جاتا ہے کہ چلو مجبور مار لیا لیکن ایک صاحب دولت جس کے اموال میں اس کے غریب بھائیوں کا حق موجود ہو جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات :۲۰) قوموں کی زندگی پر ایسے مواقع آتے ہیں کہ ان کے غرباء کے ان امیروں پر حق بن جایا کرتے ہیں صدقے کی بات نہیں رہتی ، خیرات کا معاملہ ختم ہو چکا ہوتا ہے.سائل اور محروم ایسے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 838 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء ہوتے ہیں جن کا حق تمہارے اموال میں آجاتا ہے اگر تم ادانہیں کرو گے تو حق مارنے والے اور خائن کہلاؤ گے.میں خیانت کا مضمون ان پر زبردستی چسپاں نہیں کر رہا.قرآن کریم نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں انہی کی روشنی میں یہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.ان کے اموال میں تو خدا جانے خدا کے کتنے بندوں کے حق شامل ہو چکے ہیں لیکن آج انہوں نے بوسنیا والوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کا رد عمل آپ دیکھیں.ایک مغربی ملک میں جب ہمارے نمائندے میری اس ہدایت کی وجہ سے پہنچے کہ بوسنیا کے مظلوموں کو تلاش کر کے ان سے ہمدردی کی جائے ، ان کی خدمت کی جائے ، ان کو کپڑے دیئے جائیں اور ان کو زندگی میں بحال کرنے کے لئے اور جو بھی کوشش ہے وہ کی جائے.اس گروہ کی سر براہ ایک عورت تھی اس نے ان سے ملنے سے صاف انکار کر دیا.اس نے کہا تم مسلمان ہو؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں کسی مسلمان سے خود ملوں گی نہ کسی کو ملنے دوں گی.اس پر انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے ہم مسلمان ہیں ہمدردی سے آئیں ہیں.اس نے کہا اپنی ہمدردیاں اپنے گھر رہنے دو ہم نے مسلمان ملکوں کی ہمدردیاں خوب دیکھ لی ہیں، بڑی بے غیرت قوم ہے.اپنے مفاد کے لئے تھوڑی سی بات پر بھی بپھر جاتے ہیں اور سب دنیا میں شور مچاتے ہیں لیکن آج ہمارا کوئی پرسان حال نہیں.پوری قوم کی قوم ہلاک کی جارہی ہے ، برباد کی جارہی ہے،صفحہ ہستی سے مٹائی جارہی ہے لیکن ان کو کوئی فکر نہیں ہے تو تم مسلمان ہو تو ہم تم سے نہیں ملیں گے.عیسائی ہماری نگہداشت کر رہے ہیں یہی ہمارے لئے کافی ہے.چرچوں میں بیٹھے ہوئے ہیں عیسائی منادان تک پہنچتے ہیں، عیسائی خدمت کرنے والے رضا کار ان کو سنبھال رہے ہیں لیکن وہ خود مسلمانوں سے ملنے سے گریزاں ہیں.تب ہمارے وفد نے ان کے نمائندہ کو سمجھایا.منت کی کہا کہ دیکھو ! ہم وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو ہم تو خود ان کے مارے ہوئے ہیں.تم بات تو سن لو ہم کیوں آئے ہیں.چنانچہ پھر ان کا غصہ آخر کچھ ٹھنڈا ہوا.انہوں نے جب جا کر ان کو سمجھایا کہ یہ ہماری عالمگیر جماعت ہے ، ہم یہ کر رہے ہیں.ہم تمہاری خدمت کرنا چاہتے ہیں تم سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے، صرف یہ مفاد وابستہ ہے کہ اگر ہم تمہاری خدمت کریں گے تو ہمارے دلوں کی بے چینی کم ہوگی ، ہم جس عذاب میں مبتلا ہیں وہ عذاب تھوڑا سا ٹھنڈا ہوگا ،ہم تو تمہارے غموں میں مر رہے ہیں اس لئے ہمیں خدمت کا موقعہ دو.پھر ان کی کیفیات بدلیں اور وہ کہتے ہیں کہ پھر یکسر پلٹ گئی، اچھا یہ مسلمان بھی دنیا میں ہوتے ہیں.تو امانت میں خیانت جب بڑے بڑے لوگ کرتے ہیں جن کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 839 خطبه جمعه ۲۰ رنومبر ۱۹۹۲ء خدا امیر بناتا ہے تو ان کی امارت کے دائرے بھی وسیع ہو جاتے ہیں.ان کو مخلوق خدا کے زیادہ حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں.اگر وہ اُن سے غفلت کریں گے تو جیسا کہ قرآن اور حدیث نے خبر دی ہے وہ لازماً پکڑے جائیں گے اور بہت بڑے عذاب کے سزاوار ٹھہریں گے.احمدیوں کو میں اس سلسلہ میں دوبارہ یہ توجہ دلاتا ہوں کہ جو اطلاعیں مجھے مل رہی ہیں ان کے مطابق ابھی تک اس قدر بے چینی کا پورا اظہار ہر جگہ نہیں ہوا جو میں سمجھتا ہوں کہ ہونا چاہئے.جتنی زیادہ تکلیف ہے اس کا عشر عشیر بھی ابھی ہمارے احمدیوں کو نہیں پتا کہ کیا ہو گیا ہے.اس لئے سارے یورپ کی جماعتیں اور مغرب کی جماعتیں جن تک میری آواز پہنچتی ہے ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ خدا کے حضور آپ بری الزمہ تب ٹھہریں گے جب حضرت محمد مصطفی ﷺ کا دل لے کر پھر بنی نوع انسان کی خدمت کریں.ایسا دل لے کر جائیں جس کے اوپر خدا کے پیار کی نظریں پڑیں.یہ نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ تم کیوں غم نہیں محسوس کر رہے تم کیوں فکر نہیں کر رہے.خدا کہے کہ تم کیوں اتنا فکر کر رہے ہو.اقبال نے کہا تھا.مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا (کلیات اقبال) پتا نہیں یہ کس اسلام کی آواز تھی.مجھے تو اس شعر کے مقابل پر قرآن کی وہ آواز سُنائی دیتی ہے کہ محد مصطفی ﷺے خدا کے جہان کا اتنا فکر کرتے ہیں خدا عملاً یہ کہتا ہے کہ تجھے فکر جہاں کیوں ہے جہاں تیرا ہے یا میر الیکن محمدمصطفی ہے اس کے تھے جس کا جہاں تھا اس لئے تیرے میرے کے فرق اُٹھ چکے تھے.اسی مضمون کو خدا تعالیٰ نے ان لفظوں میں بیان فرمایا.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۲) اے میرے محمد ﷺ ! کیا تو ان کی خاطر اپنے پاک نفس کو ہلاک کر لے گا جو تیرا انکار کر کے ہلاکت کی طرف جا رہے ہیں.پس آج مسلمانوں کو محمد مصطفی امیہ کے دل کی ضرورت ہے.اسی دل سے حقیقی سچی ہمدردی کے سرچشمے پھوٹتے ہیں.ہر احمدی کو وہ دل اپنے سینے میں داخل کرنا چاہئے اور اس دل کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کرنی چاہئے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 841 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۹۲ء خلیفہ وقت پر اعتماد رکھنا چاہئے وہ خدا کی حفاظت میں ہے.سیکرٹریان اشاعت کو تفصیلی ہدایات ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُونُوا آمَنَتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الانفال: ۲۸) پھر فرمایا:.خیانت سے متعلق جو خطبات کا سلسلہ چل رہا ہے اُس میں گزشتہ جمعہ سے میں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنائی تھی کہ سب سے زیادہ بدنصیب اور سب سے زیادہ قابلِ گرفت خیانت کرنے والا وہ ہے جس کو امین بنایا جائے اور وہ اپنی امارت کے معاملات میں خیانت کرے.یہ بہت ہی بڑا وعید ہے، بہت بڑی تنبیہ ہے.اس کے متعلق میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر کیا تھا کہ دنیا کے حکمران بھی دنیا کے معاملات میں امین بنائے جاتے ہیں اور قطعاً اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ مالک نہیں ہیں بلکہ امین ہیں اور مالک صرف خدا ہے اور اُس کے سوا اور کوئی ذات مالک نہیں.دنیا میں جتنی بھی ذمہ داریاں ہم پر سونپی جاتی ہیں بحیثیت امین کے سونپی جاتی ہیں خواہ وہ دنیا وی ہوں یا دینی ہوں اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یعنی روز جزا سزا کو ان سب امانتوں کا حساب لے گا.یہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے بار بار کھول کر پیش فرمایا اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے
خطبات طاہر جلدا 842 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۹۲ء بھی مختلف رنگ میں اس کی اہمیت ذہنوں میں اور دلوں میں اجاگر فرمائی.امین سے متعلق جہاں تک دنیا کے معاملات کا تعلق ہے میں گزشتہ خطبوں میں کچھ گفتگو کر چکا ہوں.اگر چہ مضمون وسیع ہے اور تھوڑے وقت میں اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا لیکن اور بھی بہت سی باتیں مجھے کہنی ہیں اس لئے اب میں اس کے دوسرے حصے کی طرف توجہ مبذول کرتا ہوں یعنی دینی معاملات میں امانت.دینی معاملات میں سب سے زیادہ ذمہ داری تو انبیاء کی ہوتی ہے کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ خود منتخب فرماتا ہے اور براہ راست منتخب فرماتا ہے اس لحاظ سے انبیاء کی ساری زندگی ڈرتے ڈرتے گزرتی ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ نبی سب سے زیادہ متقی ہے تو اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ سب سے زیادہ ہر وقت خدا کے خوف میں زندگی بسر کرنے والے ہوتے ہیں چنانچہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتُفسكُم (الحجرات : ۱۴) اس آیت کے روشنی میں جب ہم اس مضمون کو دیکھتے ہیں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ عزت اُسی کو بخشی ہے جو خدا کے نزدیک سب سے زیادہ متقی تھا.پس تقویٰ کی ایک حالت عہدے سے پہلے پائی جاتی ہے اور اس حالت کو مد نظر رکھ کر عہدہ دیا جاتا ہے اور ایک حالت عہدے کے بعد پیدا ہوتی ہے اور وہ حالت خوف کی حالت ہے کہ جس عہدے کو میرے سپر دفرمایا گیا ہے کیا میں اُس کا حق ادا کر سکتا ہوں یا نہیں؟ دوسرے حصے پر خلفاء کی ذمہ داری ہے جو انبیاء کے بعد اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ جو کام انبیاء نے کرنے تھے اُن کو جاری رکھیں اور اُن پر نظر رکھیں.اُن کا انتخاب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا مگر اُس جماعت کے وسیلے سے ہوتا ہے جس جماعت کو خدا تعالیٰ کے نبی تیار کرتے ہیں اور اُن کو امانت دار بنا کر اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں.پس امانت کی بہت ہی بڑی اہمیت ہے جب تک وہ جماعت امین رہے گی جس کو خدا کے قائم کردہ خلیفہ نے خود تربیت دے کر امین بنایا تھا اُس وقت تک اُن کا انتخاب بھی بہترین ہوتا چلا جائے گا اور آنقكُم کا مضمون خلافت پر جاری و ساری رہے گا لیکن اگر اس جماعت کے تقویٰ میں فرق پڑ جائے تو لازماً اُس کا اثر اُن کے انتخاب پر بھی اثر انداز ہوگا اور دراصل خلیفہ اور جماعت ایک دوسرے کا آئینہ بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کی تقویٰ کی تصویر ہوتے ہیں اور یہ ایک ایسا مسلسل جاری وساری رابطہ ہے کہ اس میں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 843 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء کسی وقت بھی کوئی رخنہ نہیں ہوتا.اس پہلو سے جماعت کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کے لئے دعائیں کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے ہمیشہ امانت دار ر کھے اور امانتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے اور ہمیشہ خلیفہ کا یہ کام رہے گا کہ جماعت کو امانت کی طرف متوجہ کرتا رہے اور ایسا نظام قائم کرے اور ایسے نظام کی حفاظت کرے جس نظام میں صرف امین ہی پنپ سکتا ہے اور غیر امین کو اس میں جا کوئی نہ دے.پس یہی کوشش ہے جو ہمیشہ خلفائے جماعت احمد یہ کرتے رہے اور اسی کوشش کا یہ ایک سلسلہ ہے جو خیانت اور اُس کے مقابل پر امانت سے متعلق جماعت کو مختلف پہلو سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں.تیسرے درجے پر وہ امراء ہیں جن کی سپر د جماعتوں کی ذمہ داری کی جاتی ہے.جہاں تک امراء کا تعلق ہے اُن کی حیثیت دو طرح سے ہے.ایک حیثیت وہ ہے جس میں اُس علاقے کے عوام نے اس خیال سے اُن کومنتخب کیا کہ وہ امین ہیں اور ایک اس لحاظ سے کہ اُس انتخاب پر خلیفہ وقت نے صادکر دیا.پس اگر چہ خدا تعالیٰ کے تقرر کے لحاظ سے واسطہ در واسطہ پڑ چکا لیکن جس خلیفہ کوخدا نے عملاً منتخب فرمایا اُس کا بھی صاد ہو گیا اور پوری عوام کا صاد بھی ہو گیا جن کی نمائندگی نے پہلے خلیفہ چنا تھا اس لئے امارت کو بھی ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور امین پر جو امانت کا بوجھ ڈالا جاتا ہے بڑا مقدس بوجھ ہے اور اسی تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ امراء کو اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.بعض دفعہ بعض جاہل علاقوں میں عہدوں کو براہ راست عزت کا ذریعہ سمجھا جانے لگتا ہے اور جس طرح سیاست میں کسی منصب کو عزت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اُن جماعتی اور دینی عہدوں کو بھی بعض لوگ عزت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور عزت کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور عزت کے حصول کی خاطر عہدے سنبھالتے ہیں اور ان کے پیچھے بعض دفعہ اُن کے خاندان کے، اُن کے تعلق والوں کے جتھے بن جاتے ہیں.اگر چہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلسل اس بات پر نگاہ رہتی ہے کہ کسی قسم کا کوئی پروپیگنڈا عہدوں کے انتخاب کے وقت نہ ہولیکن بعض دفعہ بغیر پروپیگنڈے کے بھی یعنی ایسے پروپیگنڈے کے بغیر بھی جو ذمہ دار عہدیداران کو سنائی دے عملاً پرو پیگنڈے کا رنگ ہوتا ہے.بعض برادریاں بعض عہدوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، بعض
خطبات طاہر جلد ۱۱ 844 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء دوستوں کے جتھے بعض عہدوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بظاہر ایک ایسے شخص کو امین بنایا جاتا ہے جس کو خدا کی جماعت نے منتخب کیا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں نیتیں بھی بگڑ جائیں وہاں خواہ وہ انتخاب جماعت کا ہو یا خواہ اُس پر خلیفہ وقت صاد کر دے،اسے خدا کی تائید حاصل نہیں رہتی.پس یہاں پہنچ کر مضمون ایک اور فضاء میں داخل ہو جاتا ہے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر عہدے دار جس کو جماعت نے چنا اور جس پر خلیفہ وقت نے صاد کیا، وہ عہدے دار ضرور تائید یافتہ ہے اور ضرور امین ہوگا.جہاں تک خلیفہ وقت کا تعلق ہے اس مضمون پر حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت عمدہ روشنی ڈالی ہے.جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ ایک خلیفہ بھی تو غلطی کر سکتا ہے اور بھی کچھ باتیں اُس زمانے میں کی گئیں جو در اصل اہل پیغام کی طرف سے ایک مخفی پروپیگنڈے کی صورت میں جاری و ساری تھیں اور سوسائٹی میں پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اس مضمون پر جو خطبات دیئے اُن میں اس حصے پر روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا دیکھو میں خدا کو جواب دہ ہوں اور تم لوگ مجھے جواب دہ ہو.جب میرے علم میں تمہاری غلطی آتی ہے تو میں پکڑوں گا اور یہ نہ سمجھو کہ میں کسی پکڑ سے بالا ہوں.جب خدا نے یہ سمجھا کہ میں اس لائق نہیں رہا تو وہ مجھے اٹھا سکتا ہے.پس خدا کا عدل دنیا سے واپس بلا لینا ہے نا کہ اس دنیا میں کسی کو اختیار دینا کہ وہ خلیفہ وقت کو منصب سے ہٹا دے.پس جہاں خدا تعالیٰ کی پکڑ ہے وہاں اور بھی امور ہیں جو کارفرما ہیں.خدا تعالیٰ ضروری نہیں کہ ہر غلطی پر ایسی پکڑ کرے تو اُس کے نزدیک ایسے شخص کا بلانا ضروری ہو جائے.نہ یہ مطلب ہے کہ ہر خلیفہ وقت جس کی موت واقع ہو اُس نے کوئی غلطی کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے واپس بلا لیا اس لئے یہاں غلطی سے اس مضمون میں اپنے دماغ میں الجھنیں نہ پیدا کر دیں.ہر شخص نے مرنا ہے.موت غلطی کی علامت نہیں ہے مگر یہ مضمون حضرت خلیفہ المسیح الاوّل بیان فرما ر ہے ہیں.وہ یہ ہے کہ تم کسی خلیفہ کو معزول نہیں کر سکتے صرف خدا ہے جو معزول کر سکتا ہے اور خدا کا عدل یہ ہے کہ وہ اُس کو واپس بلانے کا فیصلہ کر لے گا.پھر یہ معاملہ اُس کے ہاتھ میں ہے کیوں بلایا گیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی نظر صرف کمزوریوں پر نہیں ہوتی بعض دوسرے پہلوؤں پر بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ مہلت بھی دیتا ہے ،بخشش کا بھی سلوک فرماتا ہے اس لئے نہ بلانے کا بھی یہ مطلب نہیں بنتا کہ وہ شخص غلطی سے پاک ہے.غلطیاں ہوسکتی ہیں اور استغفار کا
خطبات طاہر جلدا 845 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء مضمون بھی جاری رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر جہاں کمزوریوں پر پڑتی ہے وہاں بعض خوبیوں پر بھی پڑتی ہے.اُن کے امتزاج کے نتیجے میں کچھ فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں اور کچھ بخشش اور کچی تو بہ کے نتیجے میں بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر بن رہی ہوتی ہے یا کسی کے خلاف بگڑ رہی ہوتی ہے.یہ مضامین وہ ہیں جن کا ملاء اعلیٰ سے تعلق ہے.بندے اور اللہ کے درمیان جو قصے چلتے ہیں، جو رشتے بنتے ہیں یا بگڑتے ہیں اُن پر انسان کی نظر نہیں پڑ سکتی اس لئے اس کو خدا تعالیٰ پر ہی رہنے دینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر تو کل رکھنا چاہئے.جو بھی فیصلہ ہوگا وہ درست ہو گا لیکن جہاں بندوں کے رشتے آپس میں بن جائیں وہاں بہت سی باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں.بعض دفعہ ایک بخشش کا معاملہ سامنے آتا ہے لیکن انسان کو یہ اختیار ہوتا ہے کیونکہ جس سے بخشش کی توقع ہے وہ امین ہے وہ مالک نہیں ہے.پس اس پہلو سے میرا تعلق جو جماعت میں عہد یداروں سے ہے اس میں بعض دفعہ جب مجھے حتی کرنی پڑاتی ہے تو اس مفتی سے بھی درگزر کرنی چاہئے کیونکہ وہ میری بے اختیاری کی علامت ہے.میرے دل کی سختی کی علامت نہیں وہ بے اختیاری یہ ہے کہ میں مالک نہیں ہوں امین ہوں.اللہ تعالیٰ نے کچھ ذمہ داریاں ڈالی ہیں اُن کو جس حد تک میں سمجھتا ہوں جس طرح ادا ہونی چاہیئے اسی طرح ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں.غلطیاں ہیں تو خدا کی پکڑ کے نیچے ہوں اور اُسی سے معافی کا طلب گار ہوں.درست فیصلے ہیں تو خدا ہی کی خاطر ہیں اس لئے جہاں تک جماعت کے زاویے سے دیکھنے کا تعلق ہے اُس کو خلیفہ وقت پر اعتماد رکھنا چاہئے اور تو کل رکھنا چاہئے کہ وہ خدا کی طرف سے اس حد تک ضرور حفاظت یافتہ ہے کہ کوئی ایسی بڑی غلطیاں نہیں کرے گا جنہیں خدا درست نہ فرما دے جن کا جماعت کو نقصان پہنچے کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر خدا تعالیٰ پر بھی اُس کا حرف آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مہلت دی ہوئی ہے اور اپنی حفاظت کے تابع رکھتے ہوئے خدمت کا موقع دیا اُس سے ایسی غلطیاں نہیں ہونے دیتا جو اس کے نظام کو بگاڑ مریں.ہے پس ایسے وہ وقت ہیں جن کے متعلق حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روشنی ڈالی کہ اگر خدانخواستہ ایسا خطرہ ہو تو خدا تعالیٰ جب چاہے واپس بلا سکتا ہے مگر جماعت کو خلافت کی چھتری کے نیچے یہ حفاظت ضرور ہے کہ ایسی غلطیاں جو عارضی یا معمولی نوعیت کی ہوں جن سے نظام کے بگڑنے کا خدشہ نہ ہو ایسی غلطیوں سے اللہ تعالیٰ چاہے تو درگز رفر مائے لیکن ایسی غلطیاں جو نظام کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 846 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۹۲ء بگاڑنے کے خطرہ رکھتی ہوں اُن کو یا تو خدا تعالیٰ ضرور اُن کی اصلاح فرما دے گا اور خود سمجھا دے گا اُس شخص کو جس سے غلطی ہوئی اور وہ اپنے غلط فعل کو کالعدم کر دے گا.یا پھر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے متعلق یہ فیصلہ فرمائے کہ مزید اس امانت کا اہل نہیں رہا تو اسے واپس بلا سکتا ہے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا امارتوں اور دیگر امین داروں کی نگرانی میں میں چونکہ مالک نہیں ہوں یا کوئی بھی خلیفہ مالک نہیں ہے اس لئے اُس کے اختیارات محدود ہیں انہی محدود اختیارات کے تابع وہ فیصلے کرتا ہے لیکن اُس کے سامنے جواب دہ نہیں.جس طرح وہ ہرلمحہ خدا کے سامنے جواب دہ رہتا ہے جو اُن کی جواب طلبی کرتا ہے یعنی خلیفہ وقت.ہر وقت خدا کے سامنے جوابدہ ہے.جماعت خلیفہ وقت کےسامنے جوابدہ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے جو امانت خلیفہ وقت کے سپرد فرمائی ہے وہ آگے مختلف دائروں میں جماعت کے مختلف عہدیداروں کے سپرد کی جاتی ہے اور اُن سے جو جواب طلبی ہے وہ دو انسانوں کے درمیان ہے اور اُس میں محدود علم کی بنا پر کئی لوگ بچ جاتے ہیں اور محدود علم کی بنا پرکئی لوگ سزا پاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ سزاوار نہ ہوں.انسانی معاملات میں اس قسم کی غلطیوں کی گنجائشیں رہتی ہے مگر نگرانی ضروری ہے اور اُسی نگرانی کی طرف میں آج آپ کو اس لئے متوجہ کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ امین اگر خیانت کرے تو اُس کی خیانت سب سے زیادہ خطرناک خیانت ہے اور اُس سے سب سے زیادہ باز پرس ہوگی.پس جتنے جماعت میں امیر ہیں وہ بھی اس حدیث کے تابع ہیں اور جتنے دوسرے عہدے دار ہیں جو امراء کے تابع ہیں وہ بھی اس حدیث کے تابع ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کے دوسرے فرمودات سے پتا چلتا ہے کہ اس مضمون کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے کوئی ایک بھی ایسا پہلو نہیں جو اس سے بچ گیا ہو.چھوٹے سے چھوٹا عہدیدار بھی دراصل آنحضرت ﷺ کے فرمان کے تابع اپنی زندگی گزارتا ہے جو امین بنایا گیا ہے اور اس لحاظ سے امانت کا حق ادا کرنا ضروری ہے.جماعت کو جب میں بعض ہدا یتیں دیتا ہوں، نصیحتیں کرتا ہوں تو اُن نصیحتوں کو سن کر اُن پر کیسے عمل کیا جاتا ہے یہ عمل کا انداز ہر شخص کی امانت کا آئینہ بن جاتا ہے.بہت سے امراء ہیں جب وہ اس نصیحت کو سنتے ہیں وہ اُس کو اپنی جماعت میں جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.نصیحت سے مراد
خطبات طاہر جلدا 847 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء نظام جماعت سے تعلق میں جو نصیحتیں ہیں جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پوری دیانت داری سے وہ چاہتے ہیں کہ اُس ہدایت کا حق ادا ہو جائے بعض ایسے ہیں جو سنتے ہیں اور غفلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پوری توجہ نہیں کرتے اور بعض ایسے ہیں جو کچھ دیر کے وقت توجہ کرتے ہیں اُس کے بعد چھوڑ دیتے ہیں مختلف حالتوں میں جماعت پائی جاتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ساری جماعت کے تمام عہدیداران اس حد تک امین بن جائیں جس حد تک اللہ تعالیٰ امانت کا تصور ہمارے سامنے پیش فرماتا ہے اور امانت کے مضمون کو قرآن اور احادیث کھول رہے ہیں.اس حد تک امین بن جائیں جس حد تک آنحضرت ﷺ کے پاک نمونے سے ہمیں امانت کا مضمون سمجھ آتا ہے تو دنیا میں اس دور میں جماعت احمدیہ کی ترقی سینکڑوں گنا تیز رفتار سے چل سکتی ہے.وہ انقلاب جو صدیوں دور دکھائی دیتے ہیں وہ ہمیں دروازے پر کھڑے دکھائی دینے لگیں گے.ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عہد یدار امین بنیں.اس پہلو سے امانت کی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور اس پہلو سے ہماری امانت در اصل تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.اگر ہم جماعت کے عہدیداران جن پر کسی پہلو سے بھی کوئی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اگر حقیقی امین بن جائیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ انقلاب جو دوسوسال کے بعد دکھائی دے رہا ہے وہ دیکھتے دیکھتے ہماری زندگیوں کے محدود دائروں میں ہی آسکتا ہے.پس تمام بنی نوع انسان جو اُس روحانی انقلاب سے پہلے مرجاتے ہیں وہ ساری نسلیں جو دنیا میں ضائع ہو جاتی ہیں اُن کی امانت کا گویا ہم نے حق ادا نہ کیا.پس یہ وہ اہم پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں بعض ایسی باتوں کا اعادہ کرتا ہوں جن کو میں بار بار بیان کر چکا ہوں اور میں دوبارہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ آپ امانت کا حق ادا کریں.سفروں کے دوران بہت سے ایسے نمونے دکھائی دیتے ہیں.میں جماعتوں سے ملتا ہوں دوست وہاں بعض اپنے مہمانوں کو بھی لے کر آتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں، تبلیغ کی باتیں ہوتی ہیں دیگر دنیا کے مسائل پر گفتگو ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ جماعت کا نقشہ بھی سامنے اُبھرتا رہتا ہے.ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلتا چلا جاتا ہے کہ کس جماعت میں کون امیر کتنا ذمہ دار ہے؟ کون سے عہد یدار اپنے کام کی طرف توجہ کر رہے ہیں، کون سے غافل ہیں اور یہ مضمون کسی کوشش کے بغیر خود بخو دنظروں کے سامنے اس طرح اُبھرتا ہے جیسے کوئی منظر آنکھوں کے سامنے آجائے اور بغیر کسی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 848 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء خاص کوشش کے اس منظر کے پہلو، اُن حصوں میں نمایاں ہوتے ہیں جہاں اُن کو ہونا چاہئے.جب آپ کسی جگہ سیر کرتے ہوئے کسی منظر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دوہی چیزیں ہیں جو آپ کی نظر کو پکڑتی ہیں ور نہ بعض اتنے وسیع مناظر ہیں کہ ممکن نہیں ہے کہ اُس کے ہر حصے پر آپ نظر کو ٹکائیں اور پھر غور کریں کہ یہاں کیا ہے اور وہاں کیا ہے اور وہاں کیا ہے؟ لیکن دو حصے فورا آنکھ پر از خود روشن ہو جاتے ہیں.ایک حسن کا حصہ ہے اور ایک بدزیبی کا ، بدصورتی کا حصہ ہے.منظر میں جہاں کوئی بدصورتی ہوگی یاوہ ایک دم آنکھوں کے سامنے آئے گی ، جہاں کوئی غیر معمولی حسن پایا جائے گا وہ ایک دم آنکھوں کے سامنے آئے گا.پس جماعتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اسی قسم کے تجربے ہوتے ہیں کہ خود بخود جماعت کے حسن بھی کھل کر آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور خود بخود جماعت کی کمزوریاں بھی بڑی واضح طور پر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں.جن کمزوریوں کی طرف میں توجہ دلانے لگا ہوں.یہ اکثر جماعتوں میں موجود ہیں اور بہت کم ایسی جماعتیں ہیں جو ان کمزوریوں سے صاف پاک ہیں اور ان کمزوریوں کا تعلق عہدیداروں کی امانت سے ہے.مثلاً جب میں سفر کرتا ہوں یا کرتا رہا ہوں تو ایک چیز میرے سامنے آتی ہے خصوصیت کے ساتھ کہ جماعت نے اشاعت کے سلسلے میں جو خدمات سرانجام دی ہیں اُن خدمات کو نہ جماعت کے سامنے لانے کی بچی کوشش کی گئی ہے ، نہ غیروں کے سامنے لانے کی سچی کوشش کی گئی ہے.دنیا کی جماعتوں کو شاید یہ علم نہیں کہ گزشتہ آٹھ سال میں جو ہجرت کے آٹھ سال یہاں گزرے ہیں اتنا اس کثرت سے ، اتنی زبانوں میں لٹریچر شائع ہوا ہے کہ جماعت کے گزشتہ سوسال میں اس کثرت سے دنیا کی زبانوں میں لٹریچر شائع نہیں ہوا.یہ کوئی نعوذ باللہ گزشتہ سو سال پر فضیلت کے رنگ میں بیان نہیں کر رہا.لٹریچر کی بنیاد تو وہی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے اور بعد میں آپ کے خلفاء نے رکھی سلسلے کے بزرگوں نے کام کئے لیکن وہ ذرائع مہیا نہیں تھے جن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں احمدیت کا پیغام اور قرآن وسنت کا پیغام پہنچایا جا سکتا ہو.خدا تعالیٰ نے ہجرت کے انعام کے طور پر ہمیں وہ ذرائع مہیا فرمائے اور اس کثرت سے جماعت کا لٹریچر دنیا کی مختلف زبانوں میں طبع ہوا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی بلکہ گزشتہ سو سال میں سارے عالم اسلام کی کوششوں سے اتنا
خطبات طاہر جلدا 849 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع نہیں ہوا جتنا خدا کے فضل سے چند سالوں میں جماعت احمدیہ کو شائع کرنے کی توفیق ملی ہے مگر اس لٹریچر کی اشاعت کا کیا فائدہ اگر آج بھی جس دور میں لٹریچر تیار ہورہا ہے آج کے احمدیوں کو بھی پورا علم نہ ہو کہ کیا ہے؟ اور جہاں تک غیروں کا تعلق ہے جن سے اُس لٹریچر کا تعلق ہے اُن تک وہ نہ پہنچے.اس سلسلے میں سب سے بڑی غفلت اُس سیکرٹری کی ہے جس کے سپرد اشاعت کا کام ہے.جب بھی مجھے موقع ملا ہے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ سیکرٹریوں کو پتاہی نہیں کہ اُن کا کام کیا ہے؟ ایک ٹیسٹ ہے جو میں آپ سب امراء کے سامنے رکھتا ہوں جو دنیا میں میری آواز سن رہے ہیں، بعد میں سنیں گے یا پڑھیں گے کہ وہ کسی وقت اپنے سیکرٹری اشاعت کو بلا کر اس سے پہلے کہ وہ تیاری کرلے موجودہ حالت کا اندازہ کرنے کی کوشش کرے تو اُن پر بات کھل جائے گی.ان سے وہ پوچھیں کہ بتاؤ کہ جماعت کا کون کون سا لٹریچر، کن کن زبانوں میں شائع ہوا ہے، تمہارے پاس کچھ فہرست ہے اُس کی.تمہارے علم میں ہے کہ کیا ہے اور تمہارے پاس وہ کہاں ہے اور کتنا ہے، کتنے رسائل شائع ہوتے ہیں، کتنا لٹریچر ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور نظام سلسلہ کی کتب سے تعلق رکھتا ہے، اُس کے تراجم کس زبان میں ہے اور اُن کو جماعت میں اور غیروں میں رائج کرنے کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے.کیا تمہیں پتا ہے کہ یہاں ہمارے ملک میں کتنی زبانیں بولنے والے موجود ہیں؟ کبھی تم نے سوچا ہے کہ آج میرے پاس کوئی احمدی آئے اور کہے کہ مجھے بوسنیا کا ایک نمائندہ ملا ہے میں اُس کو کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں تو میں کیا پیش کروں گا.کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی آکر یہ کہے کہ اٹلی کا باشندہ میرا دوست بنا ہے مجھے بتاؤ کہ میں اُس کو کیا دوں.تم نے غور کیا ہے کوئی شخص تمہارے پاس آئے کہ میں کوریا کے دوست کو لے کر آیا ہوں اُس کو پیش کرنے کے لئے بتائیے آپ کے پاس کیا ہے غرضیکہ دنیا کی بڑی بڑی قو میں اور بڑی بڑی مختلف زبانیں ایسی ہیں جن کو تبلیغ کے سلسلے میں استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ زبانوں کے بغیر کس طرح آپ پیغام پہنچا سکتے ہیں.اور ان زبانوں میں اگر بول چال کی اہمیت نہیں ہے تو کم سے کم تحریر ہی پیش کر سکیں.اگر گفتگو نہیں ہے تو تحریر بہت سی باتیں ہو جاتی ہیں کئی گونگے ہیں جو بیچارے بول نہیں سکتے لیکن لکھنا سیکھ لیتے ہیں.تو زبان نہیں تو تحریر ہی سہی لیکن تبلیغ کا بہر حال کام ہونا ضروری ہے، پیغام پہنچانا ضروری ہے مگر اکثر لٹریچر ایسا ہے جن کے متعلق سیکرٹری اشاعت کو پتا ہی نہیں ہے.وہ ہے کیا
خطبات طاہر جلدا 850 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء اور کہاں پڑا ہوا ہے اور کب سے آیا ہوا ہے، کس نے چھوایا تھا؟ اس کی جو قیمت ہم نے دینی ہے یا دے دی ہے کہ نہیں.جب چھ مہینے سال کے بعد دو تین دفعہ امراء کولکھا جاتا ہے تو پھر اطلاع ملتی ہے کہ یہ اتنا لٹریچر ہمیں ملا تھا، فروخت اتنا ہوا ہے اور باقی اتنا پڑا ہوا ہے.یہ بھی نہیں پتا کہ کہاں پڑا ہوتا ہے.جب ایک چیز کسی کے سپرد کی جاتی ہے تو اُس کے مختلف پہلو ہیں جو اس کے ذہن میں فوراً ابھر نے چاہئیں.مثلاً ایک اشاعت کا سیکرٹری جس کو بنایا جاتا ہے اُس کو فوری طور پر یہ پتا کرنا چاہئے کہ کتنی کتابیں ہیں جن کا میں ذمہ دار ہوں، کتنے رسائل ہیں جن کا میں ذمہ دار ہوں، وہ جگہ میرے پاس کون سی ہیں جہاں میں ان کو رکھوں گا کس سلیقے سے مجھے اُن کو ترتیب دینا چاہئے.یہ سوچ آتے ہی سب سے پہلے وہ ان کاموں میں مصروف ہو جائے گا.ایک شخص کو سیکرٹری اشاعت بنایا ہے اس کے بعد ہوسکتا ہے اس کے بعد مہینہ بھر ان محنتوں میں لگ جائے.یہ معلوم کرے کہ نہ کوئی ہمارا کمرہ ہے جہاں اسٹاک رکھا جا سکتا ہے، نہ کتابوں کو خوبصورتی کے ساتھ دکھانے کا کوئی انتظام موجود ہے،نہ کوئی اسٹاک رجسٹر ہے جس میں درج ہو یہ کتا بیں کب ، کہاں سے آئی تھیں اور ہم نے اُس کی قیمت کسی کو ادا کرنی بھی ہے کہ نہیں، نہ اُس کو یہ پتا ہو کہ ان کتابوں کو آگے پھر شائع کرنے کا طریق کیا ہے؟ بہت وسیع کام ہے لیکن اکثر سیکرٹری اشاعت بالکل غافل ہیں اُن کو علم ہی کوئی نہیں اور نہ امراء اُن کو اس طرح بلا کر جواب طلبی کرتے ہیں، نہ اُن سے وہ پوچھتے ہیں ، اس لحاظ سے امیر بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کرتے.میں نے ایک مثال جو رکھی ہے اس کو اور زیادہ آگے بڑھا کر دکھاتا ہوں پھر آپ کو پتا چلے گا کہ کتنے کام ہیں جو جماعت میں ہونے والے ہیں اور ایک ایک کام کو جب آپ نظر کے سامنے رکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے دنیا میں ایسی جماعت سے تعلق رکھنا جسے قرآن کریم میں أُخَرِینَ (الجمعہ ۴) قرار دیا جسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے پیغام کو تمام دنیا میں دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے.یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے.یہی وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر خدا تعالیٰ نے سارے مسلمانوں کو بحیثیت ایک جماعت کے خلیفہ قرار دیا ہوا ہے.قرآن کریم میں جو آیت استخلاف ہے اُس میں مضمون اسی طرح شروع فرمایا گیا.گویا وہ تمام محمد مصطفی اللہ کے ساتھی جن کو آپ پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں وہ سارے ہی خلیفہ ہیں کیونکہ جب تک ہر شخص خلیفہ نہ بنے وہ جو خلیفہ کے طور پر چنا جاتا ہے اُس کی تائید ہونہیں سکتی ناممکن ہے کہ وہ
خطبات طاہر جلدا 851 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء اپنی ذمہ داریاں بحیثیت خلیفہ ادا کر سکے جب تک ہر فرد بشر جو اُس کے ساتھ کام کرنے والا ہے وہ اپنی ذات میں ، اپنے محدود دائرے میں ایک خلیفہ کی طرح اُس کا مؤید اور معاون نہ بنے اور اُس کی نصرت کرنے والا ہو.جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک کوئی خلیفہ کامیاب نہیں ہو سکتا اسی لئے قرآن کریم نے کیسی پیاری دعا ہمیں سکھائی ہے کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( الفرقان: ۷۵) یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا ہمیں متقیوں کا امام بنا.جب تک متقی جماعت میں داخل نہ ہو یا جماعت متقیوں کی جماعت نہ بن جائے.اُس وقت تک امامت کا معیار بلند نہیں ہو سکتا امامت کا گہرا تعلق متقیوں سے ہے اور اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کے متعلق جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺہ تمام نبیوں کے سردار اور سب سے افضل ہیں تو لازماً یہ بات تبھی سچی لگتی ہے اگر آپ کے ساتھی وہ صحابہ جن کی آپ نے تربیت کی ہے وہ تمام دنیا میں انبیاء کی تربیت یافتہ دوسرے لوگوں سے زیادہ معیار ہو اور ان سے افضل ہیں.پس آنحضرت ﷺ نے سب سے زیادہ متقی اپنے پیچھے چھوڑے تھے.اگر اسی بات پر آپ غور کر لیں تو شیعہ مسلک کا فساد آپ کے سامنے کھل جاتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت ﷺ کو تمام دنیا کے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہولیکن آپ متقیوں کے امام نہ ہوں بلکہ نعوذ باللہ من ذلک منافقین کی اکثریت کے امام ہوں جو منافقین کا امام ہے متقیوں کے اماموں کا امام کیسے بن سکتا ہے.پس اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں اگر شیعہ اس بات پر ہی غور کر لیں کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ متقیوں کے آئمہ میں سے سب سے بلند مرتبہ رکھنے والے امام تھے اور جب تک تقویٰ کے لحاظ سے آپ کے متبعین کا معیار تمام دنیا کے انبیاء کے متبعین کے معیار سے بلند نہ مانا جائے.محمد مصطفی ﷺ کا معیار امامت بلند نہیں ہو سکتا.پس یہی مضمون ہے جو آگے خلافت میں جاری ہے اور جاری رہے گا.متقیوں کی جماعت کی ضرورت ہے ایسی جماعت کی ضرورت ہے جن میں ہر فرد بشر ایک خلیفہ کی طرح اپنی ذمہ داریاں اپنے دائرہ کار میں ادا کرنے کا شعور رکھتا ہو.یہ احساس رکھے کہ میں نے بہر حال یہ ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.اس معیار کو جتنا بلند کرتے چلے جائیں گے اُتنا اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں گے اور وہ مقاصد یہی ہیں کہ اسلام کو دنیا میں نافذ کیا جائے اور اسلام کی تمام خوبیوں کو اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ انسانوں کی زندگیوں میں ڈھال دیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 852 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء جائے.جب ہم کہتے ہیں غلبہ تو مراد یہ نہیں ہے کہ کسی جگہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ہے.اس غلبے کے تو کوئی بھی معنی نہیں ہیں.غلبے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی حکومت دلوں پر قائم ہو.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حکومت ہمارے اعمال اور ہمارے کردار پر قائم ہو جائے ہم عرش الہی بن جائیں ہم پر خدا حکومت کرے، ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب آپ اپنی ذمہ داریوں پر غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ کتنا بڑا کام ہے جو کر نے والا ہے اور ابھی باقی ہے.اب میں واپس اُس اشاعت کے مضمون کی طرف آتا ہوں.اگر سیکرٹری اشاعت نے کام کرنا ہے تو اُسے آغاز ہی سے اپنی ذمہ داریوں کی ہر تفصیل کو سمجھنا ہوگا اور اگر وہ سمجھیں تو اُس کے نتیجے میں ، اُس سوسائٹی میں جس سوسائٹی میں وہ جماعت ہے یا جہاں کے سیکرٹری مال کو ہم بطور مثال سامنے رکھتے ہیں، اُس سوسائٹی میں لٹریچر کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی اُسی کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ بھی جائزہ لے گا کہ فلاں فلاں سوسائٹی تک ہمیں پہنچنا ہے اور ہمارے پاس اُس کے لئے کچھ بھی نہیں.پس مرکز کو یہ لکھتے رہنا کہ ہماری یہ ضرورتیں اب تک ہمیں نہیں پہنچیں.یہ بھی سیکر ٹری اشاعت کا کام ہے ، اُس کا یہ بھی کام ہے کہ دنیا کے ذرائع کو استعمال کر کے جہاں جہاں کتابیں بیچنے کے نظام قائم ہیں اُن کی ایک باقاعدہ جس طرح نہریں بہتی ہیں اس طرح بعض ایسے بڑے بڑے نظام ہیں جن میں آپ ایک طرف کتابیں ڈالیں تو وہ آخر اُن کھیتوں تک پہنچتی ہیں جو پڑھنے والوں کے کھیت ہیں اور بڑی حفاظت کے ساتھ یہ نظام چلتا ہے کوئی قطرہ ضائع نہیں ہوتا.تو جماعت کی کتابوں کو ایسی نہروں میں ڈال دینا جو بالآخر پڑھنے والوں تک اُس نظام کے تابع خود بخود پہنچیں گی.یہ بھی سیکرٹری اشاعت کا کام ہے.اُس کے لئے اُس کو بڑی محنت کرنی چاہئے ، دروازے کھٹکھٹانے چاہئیں.چھوٹے سے کام کے لئے لوگ اپنی ذات کے لئے ایجنسیاں لیتے ہیں.اُن کو پتا ہے کہ ایجنسی کو شائع یا مشتہر کرنے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے.ایک صاحب سے میری دو تین دنوں میں ملاقات ہوئی میں نے کہا فلاں ایک کام ہوسکتا ہے اُس نے کہا ہاں جی ! میں کروں گا.میں نے کہا کس طرح کروں گا بتائیے.انہوں نے کہا جی ! میں سب کے فون نمبر لوں گا جہاں جہاں بھی اس چیز کی ضرورت پیش ہو سکتی ہے فونوں پر اُن سے بات کروں گا اُن سے پتے لوں گا اُن کو اطلاع کروں گا.میرے پاس یہ چیز آگئی ہے، آپ کو ضرورت ہے، آپ بتائیے.کون سی
خطبات طاہر جلدا 853 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء سہولت کا وقت ہے جب میں آپ کے پاس حاضر ہو سکتا ہوں؟ اگر پھر جواب نہ آئے ، گھر گھر جاکے دروازے کھٹکھٹاؤں گا، اُن کو بتاؤں گا اب وہ شخص نظام جماعت کے لحاظ سے میں نہیں جانتا کہ کس حد تک باشعور ہے اور بیدار مغز ہے لیکن جہاں اپنائیت پائی جائے وہاں انسان کی بہترین صلاحیتیں خود بخود جاگ اٹھتی ہیں اور ہر وہ طریقہ جو انسان کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اختیار کر سکتا ہے وہ نظر کے سامنے آجاتا ہے تو یہ طریقے بغیر کسی نوٹس کے اچانک اُن کے سامنے آگئے اور میں بہت خوش تھا میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے.آپ یہ کریں گے تو انشاء اللہ آپ نا کام نہیں ہوگا.ہم نے تو اتنے دروازے کھٹکھٹانے ہیں وہ دروازے جو انہوں نے سوچے تھے سوچا تھا کہ میں کھٹکھٹاؤں گا.وہ تو چند تھے.ہم نے تو لاکھوں کروڑوں دروازے کھٹکھٹانے ہیں اور صرف دروازے کھٹکھٹا کر وہیں پیغام کو ختم نہیں کر دینا اُن دلوں تک پہنچنا ہے جن دلوں کو جگانے کے لئے ہم دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں.جب تک دروازوں کے کھٹکنے کی آواز اُن کے دلوں کو بے چین نہ کر دے اُس وقت تک ہمارے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے.اس پہلو سے جب ہم صرف سیکرٹری اشاعت کے کام کی طرف آتے ہیں تو وہ سوچے گا کہ میں نے کتنے لوگوں کو پیغام پہنچانا ہے اُن کی زبانوں میں میرے پاس کیا کچھ ہے.جو ہے وہ میں ایسے ذرائع اختیار کر کے اُن تک پہنچانے کی کوشش بھی کر رہا ہوں کہ نہیں، جن ذرائع سے نسبتاً جلدی بات اُن تک پہنچ سکتی ہے.جماعت کے وسائل کم ہیں اگر ہم اپنے وسیلوں پر ہی بیٹھے رہیں اگر میں صرف اُن احمدیوں پر انحصار کروں جو مجھ سے آ کر لٹریچر لے جاتے ہیں تو کتنوں تک پہنچے گا.بعض ملک ایسے ہیں کہ کروڑوں کی آبادی میں سینکڑوں سے زیادہ احمدی ہیں.جتنا ذمہ داری بڑھتی جائے اتنا بے چینی بڑھتی جاتی ہے.اسی بے چینی کے نتیجے میں پھر دماغ بیدار ہوتا ہے اور انسان سوچتا ہے ترکیبیں سوچتا ہے ، سوچتے سوچتے سوتا ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ سوچنے والے کو خوابوں میں پھر اُس کے مسائل کا حل بتا دیتا ہے اور ان باتوں میں مگن وہ پھر اٹھتا بھی ہے.ساری زندگی کا ایک قسم کا جنون سا بن جاتا ہے اور حقیقت میں جنون کے بغیر کوئی کام نہیں ہوا کرتا.تمام انبیاء کو مجنون کہا گیا ہے.آخر یہ اتفاق کیسے ہو گیا کہ اگر محض گالی ہوتی تو کسی کو دے دی جاتی اور کسی کو نہ دی جاتی.سب انبیاء میں تو قدرے مشترک ہے جس کے نتیجے میں اُن کو دشمن انہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 854 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء مجنون کہتے ہیں.وہ کام کا جنون ہے لگن ہے، پاگل کر دینے والی لگن ہے.دن رات انسان اُس میں مصروف ہو جاتا ہے.یہ وہ مگن ہے جو انبیاء سے ہمیں ورثے میں پالی ہوئی ہے.جس کے بغیر ہم اپنے فرائض سرانجام نہیں دے سکتے.پس جماعتی عہدے تو یہ ہیں.اب سوچئے کہ بیوقوف اور بیچارے بدنصیب وہ لوگ ہیں جو جماعتی عہدوں کو اپنی عزتوں کے لئے لیبل سمجھتے ہیں اور اس کے لئے کوشش کرتے ہیں وہ بہت بڑے خائن ہیں، وہ نظام جماعت کو برباد کرنے والے لوگ ہیں.اُس نیت سے جو ووٹ دیتا ہے وہ بھی مارا گیا اور اس نیت والے ووٹ جس کو ملتے ہیں وہ بھی بیچارا بدنصیب ہے کیونکہ غیر متقیوں کا امام بنایا گیا ہے.صلى الله پس امانت کے حق ادا کریں ہر پہلو سے نظر رکھتے ہوئے ، ہر قطرے پر نظر رکھنی ہوگی ، ایک قطرہ بھی کڑوا ہماری جماعت میں باقی نہ رہے.اگر اُس کی کرواہٹ دور نہیں ہوتی تو بہتر ہے کہ وہ ہم سے الگ ہو جائے مگر اسے تو جماعت کو حوض کوثر بنانا ہو گا.آنحضرت ﷺ کو قیامت کے بعد یعنی آخرت میں جو حوض کوثر عطا ہونا ہے وہ حوض کوثر اس دنیا میں بن رہا ہے.وہ حوض کوثر آپ کے غلاموں نے بنایا ہے، غلام بناتے چلے جا رہے ہیں.وہ تقویٰ جو دلوں سے نچوڑا جائے گا، محمد مصطفی کے عاشق اور غلاموں کے دلوں سے نچوڑا جائے گا وہی تقویٰ ہے جو حوضِ کوثر کا پانی ہے.وہی ہے جو آئندہ ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان کو سیراب کرتا رہے گا یعنی آپ کے غلاموں کو سیراب کرتا رہے گا.پس اس پہلو سے اپنی ذات، اپنے وجود کا شعور حاصل کریں آپ کون ہیں ، کیا ہیں آپ پر کیا ذمہ داریاں ہیں اور جتنی ذمہ داریاں ڈالی جاتی ہیں اُن کے امین بننے کی کوشش کریں اور تقویٰ کی روح پیدا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بہت ہی عمدہ بڑی وسعت کے ساتھ اور گہرائی اور لطافت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے.عليسة آپ کا جو اقتباس آج میں اس سلسلے میں لایا ہوں.اب تو پڑھنے کا وقت نہیں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں وہ آپ کے سامنے رکھوں گا.سردست میں اسی مضمون کے دوسرے پہلو آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پس ایک سیکرٹری اشاعت ہے تب سیکرٹری اشاعت بننے کا اہل ہو گا حقیقت میں جب وہ اپنے کام کو آغاز سے لے کر انجام تک اس طرح اٹھائے گا جیسے سب سے زیادہ اہم ذاتی ذمہ داری
خطبات طاہر جلدا 855 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء کوئی انسان اٹھاتا ہے.اُس کو چاہئے کہ وہ فوراً جائزہ لے لٹریچر کا مرکز سے معلوم کرے، کہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو وہاں موجود ہو ہمارے پاس نہ آئی ہو.جائزہ لے کہ کون کون سی زبانیں ہیں ، جن میں خلا ہے؟ یہ جائزہ لے کہ جن کو کتابیں دی جاتی ہیں اُن کا رد عمل کیا ہوتا ہے.معلوم کریں کہ اُن کی مزید ضرورتیں کیا ہیں ؟ ایسا تو نہیں کہ جماعت لٹریچر کسی اور خیال میں شائع کر رہی ہے پڑھنے والوں کے خیالات اور ہیں ، جماعت کچھ اور دے رہی ہے اور طلب کچھ اور ہے.غرض کہ بہت تفصیل اور گہرائی کے ساتھ لٹریچر کو شائع بھی کرنا چاہئے اور پھر اُس کے رد عمل کو معلوم کرنا چاہئے اور پھر اُس کو جماعت میں رائج کرنا چاہئے.ایک رسالہ التقویٰ ہے جو عربی زبان میں شائع کیا جاتا ہے جماعت کی طرف سے.ایک وقت تھا جب اسے دو تین ہزار کی تعداد میں شائع کیا جاتا تھا لیکن چونکہ سیکرٹری اشاعت نے کبھی دلچسپی نہیں اکثر سیکر ٹریان اشاعت نے کہ کن کے پاس گیا اور کیا نتیجہ نکلا ، کوئی فائدہ ہو یا نہیں ہوا ؟ اُن کو پتا ہی نہیں اس بات کا.نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے ایسے وسائل تھے جن کے متعلق ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی، کیا فائدہ ہوا اور کیا نہیں ہوا.کبھی اُن کی طرف سے رقم موصول نہیں ہوئی.جب جماعت سے پوچھا گیا کہ بتائیے کہ آپ نے کہنے پر دوسو، پانچ سو، ہزار رسالے جاری کئے تھے ،تو کیا بنا؟ تو پھر امیر صاحب کو فکر پیدا ہوتی ہے پھر مجلس عاملہ میں معاملہ پیش ہوتا ہے پھر بتایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس تو دینے کے لئے پیسے کوئی نہیں.بہتر ہے آپ رسالے بند ہی کر دیں.رسالے تو بند کر دیئے جاتے ہیں لیکن اس چشمے کے اوپر کون بیٹھا ہے، کس نے اس پانی کو آگے جاری رہنے سے روک دیا ہے؟ اس طرف خیال نہیں آتا.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر سیکرٹری اشاعت ذمہ دار ہوتا اور امیر اُس کی نگرانی رکھتا تو ہفتہ دس دن میں ایک دفعہ تو اُس سے ملاقات رکھتا.اُسے معلوم کرتا کہ بتاؤ کون کون سے مرکزی رسائل یا مقامی رسائل کتنے ہیں جو لوگوں کو بھجوائے جار ہے ہیں.کبھی تم نے اُن سے رابطہ کیا ہے.وہ پسند بھی کرتے ہیں ان رسائل کو کہ نہیں.کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ کون ہیں جو محض مفت وصول کرنے کی حد تک تو خریدار نہیں بنے ہوئے بلکہ پیسے بھی ادا کرنے کی حد تک خریدار بننے کے لئے تیار ہیں اور اُن کو پھر لکھ کر معلوم کر کے اُن سے رقم وصول کی جائے.کبھی تم نے خیال کیا کہ ایک سال گزرنے کو ہے جماعت نے ابھی تک مرکزی شعبے کو رقم ادا نہیں کی جس کو رسالے جاری کرنے کی ہدایت کی جاچکی ہے.یہ تمام امور ایک رسالے سے تعلق میں اگر پیش نظر رکھے جائیں تو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 856 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۹۲ء چند دن کی محنت کے بعد خدا کے فضل سے بہت عمدہ خطوط پر یہ رسالوں کا نظام جاری ہو سکتا ہے.اب التقویٰ ہے، ریویو آف ریلیجنز ہے، اسی طرح مقامی ہر ملک کے اپنے رسائل ہیں.جن سے دنیا بھر کے بنی نوع انسان کو یا کم از کم اُن ملکوں کے رہنے والوں کو خصوصیت کے فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے لیکن اُن کی اشاعت کے لئے کوئی فکرمند نہیں، کوئی سمجھتا نہیں کہ یہ میری ذمہ داری ہے.پس جس کو سیکرٹری اشاعت بنایا جاتا ہے اُس کا تو دل لرزنا چاہئے.مجھ پر تو مصیبت ، مصیبت تو خیر میں اور معنوں میں کہہ رہا ہوں جہاں تک اس کی ذات کا احساس ہے اُس کو بھی لگے گا کہ کیا مصیبت آپڑی ہے؟ پہاڑ ٹوٹ گیا ہے سر پر اور پھر اُس پہاڑ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اُس کو دعائیں کرنی ہوں گی ؟ اُس کو توجہ کرنی ہوگی حتی المقدور کوشش کرنی ہوگی.بوجھ ہلکا ہوتا ہے دوطریق پر اوّل یہ کہ حوصلے کے ساتھ ،صبر کے ساتھ انسان اس کوشش میں لگ جائے کہ کام خواہ کتنا بڑا ہو میں نے کرنا ہے.اور وہ تھوڑا تھوڑا لے کر حسب توفیق اُس کام کو کرنا شروع کر دے.ہر روز اگر انسان کچھ کام کر کے سوئے ، کچھ ذمہ داریاں ادا کر کے سوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طمانیت نصیب ہوتی ہے.جو نیند ایک تھکے ہوئے مزدور کو آتی ہے وہ ایک عیاش امین کو نہیں آ سکتی.اُس کو پتا ہی نہیں کہ بدن تھکتا کیسے ہے، کیسے محنت کی جاتی ہے، جو روٹی کا مزا ایک بھو کے کو آتا ہے وہ ایک ایسے عیاش کو کیسے آ سکتا ہے جس نے اپنے معدے کا ٹھونس ٹھونس کر ستیا ناس کیا ہوا ہے.کوئی طلب نہیں اُس کو چورن کھانی پڑتی ہیں تا کہ بھوک کا مزا پیدا ہو.جو قدرتی مزا بھوک کا ہے وہ چیز ہی اور ہے.بھوک کی حالت میں جن لوگوں نے تجربہ کیا ہے ، مجھے تو کئی دفعہ تجربے ہوئے ہیں ، سفر کی حالت میں شکار کی حالت میں ، شدید بھوک کے وقت روٹی کا ایک ٹکڑا، پیاز اور نمک مرچ جو مزا دے جاتے ہیں کہ بڑی سی بڑی دعوت بھی وہ مزا نہیں دیتی.تو نیند کا مزا بھی وہی ہے جو کمائی جائے.وہی نیند اصلی ہوتی ہے.خواہ وہ تھوڑی ہو بڑا دل کو سکون ملتا ہے.پس ہر عہد یدار کو اس خیال سے محنت کرنی چاہئے کہ میری ذمہ داری ہے اور کوئی دن مجھ پر ایسا نہ گزرے کہ میں اس ذمہ داری کے کسی ایک حصے کو ادا نہ کر رہا ہوں.اس لگن سے جب عہد یدار کام شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام آسان ہو جاتے ہیں.ایک دن کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا پھر دوسرے دن کا بوجھ ہلکا ہوگا، پھر تیسرے دن کا بوجھ ہلکا ہو گا رات کو جب وہ تہجد کے لئے اٹھے گا تو
خطبات طاہر جلد ۱۱ وقفة 857 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۹۲ء وقفة وقنة یہ دعا کرے گا کہ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقره: ۲۸۷) اے خدا! ہم نے تیرے لئے بوجھ اٹھائے ہیں ہم پر جو تو بوجھ ڈالتا ہے ایسے بوجھ نہ ہوں جن کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو.اس مضمون کی دعا کو دل کی گہرائی سے کرنے کے نتیجہ میں انسان سمجھ سکتا ہے اُس کے بغیر نہیں سمجھ سکتا.وہ شخص جس نے دن بھر محنت کی ہو اور پھر رات کو یہ دعا کرتا ہے اُس پر دعا کا حقیقی مضمون روشن ہوتا ہے.وہ یہ نہیں سمجھ رہا ہوتا کہ خدا مجھ پر ایسی ذمہ داری ڈال دے گا جس کی مجھ میں طاقت ہی نہیں ہے.وہ اس رنگ میں اس دعا کا مفہوم سمجھتا ہے کہ اے خدا میرے بوجھ تو نے ہلکے کرنے ہیں مجھ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے.جو تو نے بوجھ ڈالے ہیں اُس کی طاقت بھی عطا کر.یہ مراد ہے اس دعا سے.رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو میں کام نہیں کرتا وہ میرے سر سے ٹالتا چلا جا.اگر یہ مطلب ہو تو ہر انسان دنیا کا سب سے نکما انسان بن کر مرے گا کیونکہ انسان کو عادت ہے کام کو ٹالنے کی.مراد یہ ہے کہ اے خدا میں نے کر کے دیکھا ہے یعنی جان ماری ہے اور میں جانتا ہوں کہ مجھ میں طاقت نہیں ہے پس تو تو طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے والا نہیں ہے، میری طاقت بڑھا، یہ اس دعا کا مفہوم ہے اللہ تعالیٰ پھر طاقت بڑھاتا چلا جاتا ہے اور میرا تجربہ ہے ساری زندگی کا کہ کبھی یہ دعا نا مقبول نہیں ہوتی ، رد نہیں کی جاتی ہے.اگر اس کے مضمون کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو سمجھتے ہوئے آپ یہ دعا کرتے ہیں تو خدا دعا ضرور سنتا ہے، ضرور آپ کو طاقت عطا فرماتا ہے آپ کے مددگار مہیا کرتا ہے.دنیا کے حالات میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، آپ کی وہ دلی خواہشات جو اُس کی خاطر دل میں پیدا ہوئی ہیں اُن کو پورا کرنے کی کوشش فرماتا ہے.پس ایک عہد یدار جب اپنی امانت کا حق ادا کرنا چاہے تو دو ہی رستے ہیں.ایک یہ کہ وہ اپنی امانت کو سمجھے کہ ہے کیا ؟ اُس کا احاطہ کرے.اُس کی تفاصیل کا اُس کو علم ہونا چاہئے اور پھر وہ ہر اُس چیز پر ہاتھ ڈالے جس کی اُس میں طاقت ہے.خواہ تدریجاً ڈالے مگر چھوڑے نہ رکھے.ایک بھی پہلو اس کی امانت کا ایسا نہ ہو جسے وہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے.ایک دم میں نہیں اٹھتی تو رفتہ رفتہ اٹھائے لیکن اٹھائے ضرور.جب کوئی امانت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے اُس کا بوجھ محسوس ہوتا ہو اُس وقت یہ دعا کرے کیونکہ بغیر بوجھ محسوس کئے جو دعا کی جاتی ہے اے خدا ہمارے بوجھ ٹال دے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 858 خطبه جمعه ۲۷ نومبر ۱۹۹۳ء ہم میں طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہے، یہ فرضی اور خیالی باتیں ہیں اس دعا کا حقیقت سے ، خدا کی قبولیت سے تعلق قائم نہیں ہوتا.جب بھوکا روٹی مانگتا ہے تو اُس کی آواز اور ہوتی ہے اور بغیر بھوک کے آپ روٹی کی طلب کریں آواز میں فرق ہو گا زمین آسمان کا فرق ہو گا تبھی خدا تعالیٰ نے دعا کے ساتھ مضطر کی شرط لگادی ہے کہ جب میں مضطر کی آواز سنتا ہوں تو اُس کی آواز کو قبول کرتا ہوں.ایک عہدے کا اضطراب یہ ہے کہ وہ کام پر ہاتھ ڈالے اُس کا بوجھ محسوس کرے جانتا ہو کہ اکیلا اُس سے یہ کام ہونا نہیں ہے اور کوشش ضرور کرے تب وہ خدا کے حضور عاجزانہ گرے اور کہے کہ اے خدا تو طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے والا نہیں ہے اور مجھ پر بھی وہ بوجھ ڈال جس کی طاقت عطا فرما تا چلا جائے.جب اس طرح محسوس کر کے دعا کی جائے گی تو غائب سے ایسے ہاتھ تو دیکھے گا جو غائب کا ہاتھ نہیں رہے گا بلکہ ظاہر ہو گا اور اُس کے بوجھ اٹھائے گا اور اُس کے بوجھوں کو ہلکا کر دے گا اور وہ اپنے کاموں کو پہلے سے زیادہ بڑھ کر روانی اور عمدگی کے ساتھ اور سلاست کے ساتھ ادا کرنے کی اہلیت اختیار کرتا چلا جائے گا.ابھی اس کی اور بھی مثالیں دینے والی ہیں ، اور بھی بعض عہدے ہیں جن کے متعلق میں کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں تو انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں یہ مضمون جاری رکھوں گا.اس عرصے میں جس حد تک آواز عہد یداروں تک پہنچی ہے اور اُس کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں.وہ ابھی سے اس کی طرف توجہ شروع کر دیں تا کہ مجھے یہاں بیٹھے دکھائی دینے لگے کہ خدا کے فضل سے کاموں کے انداز میں پاکیزہ تبدیلی پیدا ہوئی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 859 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء خدا اپنی امانتیں امینوں کے سپرد کیا کرتا ہے.اپنی دینی و دنیاوی امانتوں کے حق ادا کریں.( خطبه جمعه فرموده ۱۴ دسمبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :- وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ ) يُحَافِظُوْنَ أُولَيكَ هُمُ الْوَرِثُونَ ) الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَ وسَ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (المؤمنون: ۱۲۹) پھر فرمایا : - گزشتہ کچھ عرصے سے خیانت کا مضمون چل رہا ہے اور گزشتہ جمعہ میں میں نے یہ توجہ دلائی تھی کہ امانتوں کا حق ادا کرنا بہت ضروری ہے.کسی امانت کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو خیانت کہلاتی ہے مگر تمام خیانتوں سے بڑھ کر خیانت اُس حق کی خیانت ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت انسان کے سپرد کیا جاتا ہے.پس عہدیداروں کی مثالیں دے کر ، عہدوں کے حقوق کے ادا کرنے کی طرف جو توجہ دلائی گئی تھی یہ امانت کے معانی کو کھینچ کر لمبا نہیں کیا گیا تھا بلکہ در حقیقت امانت کا بنیادی معنی یہی ہے کہ اللہ کا حق جو بندوں پر ہو اُس میں خیانت نہ کی جائے اُس کو تمام تر توجہ سے، تمام باریکیوں کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کی جائے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوا تو نزول قرآن کو اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 860 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء آنحضور ﷺ کو شریعت کا نگران مقرر کرنے کو خدا تعالیٰ نے امانت فرمایا ہے اور ایسی امانت فرمایا ہے جس کے متعلق فرمایا إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَا بَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا ( الاحزاب: (۷۳) کہ دیکھو کیسی امانت تھی جس کو زمین اور آسمان اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا اتنی بڑی ذمہ داری اُس کے ساتھ وابستہ تھی لیکن دیکھو اس بندے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ نے جو انسان کامل ہے اس نے آگے بڑھ کر امانت کا بوجھ اٹھالیا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں آپ کے کاموں کی ادائیگی امت محمدیہ پر فرض ہے اور اس امانت کو اٹھانے میں تمام امت حضرت محمد مصطفی امیہ کی مددگار اور معاون ہے اور جس حصے پر جتنی امانت ڈالی جائے یا امانت کا بوجھ ڈالا جائے اُس حصے پر یہ امانت گویا خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے کیونکہ امانت کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس پہلو سے جب ہم احادیث نبویہ پر غور کرتے ہیں تو سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امانت کے حق کی ادائیگی پر اتنازور دیا ہے اور اُسے قرآن کریم نے بھی خدا تعالیٰ کی امانت ہی قرار دیا ہے جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں آیت کی تلاوت کی تھی.اس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگ آپس میں جب خیانتیں کرتے ہو تو پھر تم خدا کی خیانت بھی کرنے لگتے ہو اور رسول کی خیانت بھی کرنے لگتے ہو یعنی وہ خیانت جو سب سے ذلیل اور سب سے زیادہ خطر ناک ہے وہ اللہ اور رسول کی خیانت ہے.پس ظاہر ہوا کہ اول درجے پر امانت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول اور اُس کے غلاموں پر عائد فرمائی گئی ہے یا اُن کے سپر دفرمائی گئی ہے اور اُس کی ادائیگی میں ہمیں حد سے زیادہ محنت کے ساتھ ، باریک نظر کے ساتھ توجہ دینا ہوگی اور مستقلاً اُس کی حفاظت کرنا ہوگی.بات یہ ہے کہ جماعت کے عہدیداروں سے متعلق تو میں گزشتہ اس سلسلے میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.ان تمام باتوں کو دہرانا مقصود نہیں ہے مگر مثالیں دیتا ہوں کہ کس طرح انسان اپنی امانت سے غافل ہو جاتا ہے اور کتنی جلدی امانت کو بھولنے کا عادی ہے.جو باتیں تفصیل سے بیان کی جاتی ہیں اُن کو بھی بار بار دہرانا پڑتا ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے یہ ہمیشہ سے ایسا ہی سلسلہ چلا آ رہا ہے.چند دن ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عبارت پڑھی.اُس میں آپ فرماتے ہیں کہ مجھے جو بار بار ایک بات کو دہرانا پڑتا ہے بعض دفعہ لوگ سمجھتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 861 خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۹۲ء کہ ایک ہی بات کی تکرار ہے.فرماتے ہیں میں مجبور ہوں کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ بات سنتی ہے اور بھول جاتی ہے اور جب تک بار بار تکرار کے ساتھ ایک چیز کو سمجھایا نہ جائے پوری طرح اس کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ قائم نہیں ہوتی.پس ضمناً ان باتوں کو بھی دہراتا ہوں جو پہلے کہہ چکا ہوں لیکن بطور مثال کے اور بطور یاد دہانی کے.اس سلسلے میں میں شعبہ اشاعت کی مثال پیش کر رہا تھا.شعبہ اشاعت سے متعلق ایک دو اور باتیں کہہ کر پھر بعض دوسرے شعبوں کا بھی محض مثال کے طور پر ذکر کروں گا.دنیا بھر میں جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے نمائشوں میں حصہ لے رہی ہے یعنی ایسی نمائشیں جو کتب کی نمائشیں ہیں اور الا ماشاء الله بعض دفعہ تو دوسری چیزیں بھی ساتھ ہو جاتی ہیں لیکن آج کل دنیا میں یہ رواج زیادہ زور پکڑ رہا ہے کہ کتب کی نمائش مختلف ممالک میں لگائی جاتی ہیں اور اُس میں جماعت احمد یہ خصوصیت کے ساتھ حصہ لیتی ہے.اسی طرح بڑی نمائشوں میں بھی بعض حصے کتب کی نمائشوں کے لئے مخصوص کئے جاتے ہیں.میرا گزشتہ کئی سال سے تجربہ یہ ہے کہ دور دور سے ممالک نمائش کے قریب آنے پر یہ اطلاع بھیجتے ہیں کہ اب نمائش میں اتنے دن رہ گئے ہیں ہمیں فلاں فلاں کتب کی ضرورت ہے، فلاں لٹریچر کی ضرورت ہے، فلاں سونیئر ز کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اگر جماعت احمدیہ کے وقار کی خاطر ہمیں ہوائی جہاز پر زیادہ خرچ کر کے بھی کتب بھجوائی جائیں تو مناسب ہوگا.لیکن سوال یہ ہے کہ جماعت کے وقار کا اُن کو نمائش کے قریب آنے کے وقت کیوں خیال آیا.اب پھر سوال یہ ہے کہ اُس ملک کا نظام کیا کرتا رہا ہے.وہ ملک بہر حال کسی امیر کے سپرد ہے، اُس ملک کے تابع مختلف شعبوں کے سیکرٹری موجود ہیں، اُن میں ایک اشاعت کا سیکرٹری بھی موجود ہے، کیوں اُسے پہلے خیال نہیں آیا کہ ہمارے ملک میں کب اور کس نوعیت کی نمائش ، کہاں کہاں لگے گی.ایک ملک جتنا وسیع ہواُتنی ہی زیادہ وہاں سالانہ نمائشیں لگنے کے امکانات ہوتے ہیں.اب ہندوستان ہے مثلاً وہاں مختلف صوبوں میں مختلف وقتوں میں ایسی نمائشیں لگتی ہیں اور جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو اُن نمائشوں میں حصہ لینے کی توفیق ملی ہے، وہاں آنے والوں پر بہت گہرے اثرات مترتب ہوئے ہیں.بعض مخالف علماء بھی ایسے تھے جو نمائش پر آئے اور سلسلے کی خدمت کے کام دیکھ کر اُن کی کایا پلٹ گئی.بعض متعصب ہندو لیڈر تھے جو اسلام کا نام برداشت نہیں کر سکتے تھے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 862 خطبه جمعه ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء لیکن وسیع نمائش تھی اس میں کسی اور دلچسپی کی خاطر آئے اتفاقاً جماعت احمدیہ کے سٹال پر نظر پڑی اور جب انہوں نے کھڑے ہو کر وہاں جماعت کے لٹریچر کا سرسری نظر سے مطالعہ کیا تو نہ صرف حیران رہ گئے بلکہ ایک متاثر لیڈر نے یہاں تک لکھا کہ میں تو اسلام کو کچھ اور سمجھا کرتا تھا.اگر یہ اسلام ہے تو محبت کے لائق ہے.چنانچہ یہ نمائشیں بہت اہمیت رکھتی ہیں لیکن یہ جو روز مرہ کا رواج بن گیا ہے کہ چند دن پہلے کبھی ہندوستان کے کسی علاقے سے چٹھی آ جائے، کبھی کینیڈایا امریکہ کے کسی علاقے سے چٹھی آ جائے، کبھی جرمنی سے، کبھی فرانس سے کہ اتنی دیر رہ گئی ہے اور ابھی تک ہمارے پاس نمائش کے لئے پورا مواد اکٹھا نہیں ہوا.یہ بہت ہی نامناسب بات ہے ، یہ بات جماعت کے وقار کے خلاف ہے.جو امانتیں جس کے سپرد کی جاتی ہیں اُس کا فرض ہے کہ وہ امانتوں کا حق ادا کرے.پہلے اس سے میں شعبہ اشاعت کو ہدایت کیا کرتا تھا کہ جو بھی خرچ ہو مجبوراً جلدی کتابیں بھجواؤ.اب میں نے فیصلہ کیا ہے اور یہی جواب لکھوانے شروع کئے ہیں کہ کافی لمبا عرصہ آپ کو ڈھیل دی جا چکی ہے، اب اگر کوئی محرومی ہوگی تو اُس کا گناہ آپ کے سر ہے.یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر دنیا کی جماعت کی ساری ضرورتیں تفصیلاً یہاں سے براہ راست پوری کی جائیں.ہر ملک کی مرکزی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں اور کی جاتی ہیں.وہ لوگ کہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور کہاں سوئے ہوئے ہیں کہ جن کے سپرد شعبہ اشاعت ہے.انہوں نے کیوں اپنے ملک کا جائزہ نہیں لیا، کیوں نہیں دیکھا کہ کون کون سی جگہ سلسلے کی کتب کے تعارف کا اچھا موقع ہے؟ صرف ملکی وسیع پیمانے کی نمائش کا سوال نہیں ہے بعض لائبریریاں نمائشیں کرتی ہیں.بہت سی ایسی تقریبات ہوتی ہیں جن میں حصہ لینے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلے کے لٹریچر کا بہت اچھا تعارف ہو سکتا ہے یہ بھی ایک مثال ہے.تمام سیکرٹریان اشاعت کا فرض ہے کہ اشاعت کے ہر موقع پر نظر رکھیں اور دور کی نظر بھی رکھیں کہ فلاں سن میں فلاں بات ہونی ہے اور اس کے لئے پہلے سے تیاری کریں جو بھی ضرورت ہوگی وہ ضرور پوری کی جائے گی انشاء اللہ.یہاں لٹریچر اسی لئے شائع ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں تقسیم ہو ، کہیں صندوقوں میں بند کرنے کے لئے تو نہیں شائع ہوتا لیکن اب انفرادی طور پر الگ الگ بھجوانے کا سلسلہ بند ہوگا کیونکہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کام ہو رہے ہیں اکثر رضا کارانہ ہیں.بہت کم ایسے لوگ ہیں جو سلسلے کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 863 خطبه جمعه ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء با قاعدہ خدمت گزار ہیں یعنی واقفین زندگی کے طور پر کام کر رہے ہیں، ایسے جو ہیں اُن کے ساتھ بھی مددگار مستقل نہیں ہیں.اب شعبہ اشاعت مثلاً مولوی منیر الدین صاحب شمس کے سپرد ہے، سالها سال بغیر کسی کلرک، بغیر کسی معاون کے، سارا کام وہ خود کرتے ہیں، مجھ سے شکایت کرتے رہے شروع میں ، اُن کو میں نے سمجھایا کہ یہاں کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا مادہ رکھتی ہے، اس میں صلاحیت موجود ہیں، اپنی ٹیم خود بنائیں چنانچہ ٹیمیں بنانی شروع کیں خدا کے فضل سے اتنی اچھی ٹیمیں اُن کے ساتھ بنی شروع ہو گئیں کہ بڑے بڑے کام آسان ہو گئے اور یہی حال باقی دوسری چیزوں میں بھی ہے لیکن ان رضا کارانہ کام کرنے والوں پر ایک حد تک بوجھ ڈالا جاسکتا ہے اور یہی کام دوسرے ملکوں میں بھی اگر اسی طرح سب کریں تو بہت بڑی تعداد میں خدا کے فضل.جماعت کے اچھے رضا کار تربیت پاسکتے ہیں اور آئندہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت رکھ سکتے ہیں.اس ضمن میں میں تصنیف کا بھی ذکر کرتا ہوں.شعبہ اشاعت اور شعبہ تصنیف کا گہرا رابطہ ނ ہے.اشاعت کا تو مطلب ہے کہ جو بھی لٹریچر تیار ہو اُس کی مناسب تقسیم اور اُس پر نظر رکھنا کہ کون سی چیز کی ضرورت کہاں کہاں ہے اور وہ ضرورت بر وقت پوری کرتے رہنا.اپنا سٹاک ختم ہونے سے پہلے اُس کے متعلق متعلقہ شعبوں سے رابطہ پیدا کرنا ، اُن سے مطالبہ کرنا کہ فلاں وقت کے اندراندر ہمارا سٹاک ختم ہونے والا ہے.یہ بھی ضروری ہے کہ کافی دیر پہلے اندازہ لگا کر یہ اطلاع دی جائے.بعض ملکوں کی طرف سے ایسی اطلاع ملتی ہے کہ قرآن کریم مثلاً فرانسیسی سٹاک میں بالکل نہیں رہا اور مطالبہ ہے.سوال یہ ہے کہ ایک دن میں تو نہیں اچانک غائب ہوا تھا.ختم ہوتے ہوتے وقت لگتا ہے اندازہ ہو جاتا ہے رفتار کا کہ اس رفتار سے نکل رہا ہے تو اتنے مہینے کا سامان باقی ہے، چند مہینے پہلے لکھنا پا ہئے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی ختم کے قریب ہو اور اتنے زیادہ مطالبے اکٹھے آ جائیں تو پھر نیا چھپوانے کی ضرورت پیش آ جائے.یہاں بھی میں نے متعلقہ عہد یداروں کو ہدایت کی ہے کہ اپنی ضرورت کا اندازہ چند مہینے پہلے رکھ کر مجھے بر وقت مطلع کیا کریں تا کہ کبھی بھی ایسا نہ ہو کہ اچانک مطالبہ آئے اور ہم اُسے پورا نہ کر سکیں مگر یہ ایسا کام ہے کہ ساری دنیا کے وسیع رابطے اور مسلسل رابطے رہنے ضروری ہیں.دوسرا شعبہ ہے تصنیف.تصنیف کا کام صرف یہ ہے کہ سلسلے کی لٹریچر کی ضرورتوں پر نظر رکھیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 864 خطبه جمعه ۴/ دسمبر ۱۹۹۲ء مرکزی نظر تو ساری عالمی ضروریات پر رہتی ہی ہے لیکن مختلف ممالک کی بعض فوری مقامی سطح کی ضرورتیں ہوا کرتی ہے اور اُن پر نظر رکھنا اُس ملک کے سیکرٹری تصنیف کا کام ہے.مثلاً ایک ملک میں کسی خاص قسم کا فتنہ جماعت کے خلاف پھلایا جا رہا ہے، خاص قسم کا ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے جس کا بعض ملکوں سے تعلق ہوتا ہے مثلاً انگلستان میں ایک دفعہ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر گستاخی کا الزام لگا کر تمام سکول کے بچوں کو مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے ہوں یا بڑے ہوں اُن کو جماعت سے بدظن کیا جائے اور مسلمان ملانوں نے لٹریچر تیار کیا اور انگریزی میں ترجمہ کروا کر عیسائیوں میں تقسیم ہوا.اس قسم کے حربے مختلف ممالک میں استعمال ہوتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے فور جوابی کارروائی ہوئی اور دیکھتے دیکھتے مخالفانہ لٹریچر بند اور پھر غائب ہو گیا کیونکہ اُس جواب کے بعد جو سلسلے نے شائع کیا ہے اعتراض کرنے والے کو کھڑے ہونے کی جگہ باقی نہیں رہتی اُسے خود بھاگنا پڑا اور ہر شعبے میں جماعت کو خدا تعالیٰ نے رعب عطا فرمایا ہے.نصرت بالرعب ( تذکرہ صفحہ: ۵۳) کا یہی مطلب ہے کہ ایسے دلائل عطا فرمائے ہیں، ایسی ترجیحی سلطان عطا کی ہے یعنی غالب آنے والی دلیل کہ اُس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں اور یہ چونکہ ہمیشہ ہوتا چلا جا رہا ہے اس لئے رعب بنتا ہے.رعب کی ایک تاریخ ہوا کرتی ہے.رعب آنا فانا خود بخود نہیں بن جاتا فرضی طور پر.جو رعب دار لوگ ہیں گھروں میں بھی ایسے والدین ہوتے ہیں جو رعب دار ہوتے ہیں، گھروں میں بھی ایسے والدین ہوتے ہیں بالکل بے رعب اُن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.یہ باتیں اچانک ایک دودن میں نہیں ہوا کرتیں.رعب دار والدین کا ایک کردار ہے ، ایک لمبا عرصہ تک بچوں نے اُن کو دیکھا ہے، بعض حالتوں میں بعض رد عمل کرتے ہوئے اس کے بعد رعب قائم ہو جاتا ہے، کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ اُس رعب کی مخالفت میں کوئی کام کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو جو الہام ہوا نصرت بالرعب اس کے پیچھے ایک لمبا کر دار اور اس کردار کی ہمیں حفاظت کرنی ہوگی ورنہ رعب جاتا رہے گا.قرآن کریم نے بھی مسلمانوں کو بالعموم اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھو یہ بات نہ کرنا ور نہ تمہاری ہوا نکل جائے گی.وہ ہوا جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے اُسی کو ہم رعب کہتے ہیں.اپنے رعب کی حفاظت کریں جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے اور وہ حفاظت اسی طرح ہوگی جب دشمن
خطبات طاہر جلد ۱۱ 865 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء حملہ کرتا ہے اور جہاں سے کرتا ہے ایسی شدید فوری جوابی کارروائی ہو کہ لازما دشمن کے پاؤں اکھر جائیں یہاں تک کہ وہ رعب قائم ہو اور بڑھتا رہے.جس کے بعد کسی شریر کو جرات نہ ہو کہ آتے جاتے خواہ مخواہ چھیڑ خانی شروع کرے اور خواہ مخواہ جماعت کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے.اس ضمن میں سیکرٹریان اشاعت کی بات ہو رہی ہے تو مرکزی علماء کو بھی اس وقت ربوہ میں بیٹھے میری بات سن رہے ہیں اُن کو ایک نصیحت کرنی چاہتا ہوں.جماعت کے خلاف جو آج کل کارروائیاں ہو رہی ہیں اُن کا لب لباب یہ ہے کہ ہر جگہ سے جماعت کے پاؤں اکھیڑنے کی خاطر سعودی عرب کے پیسے سے پاکستان کے ملانے اور بعض دوسرے کارندے مل کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ عام مسلمان پر مختلف ممالک میں یہ تاثر دیں عام مسلمانوں کو کہ آپ میں اور ان میں بڑا فرق ہے.ہم جو ان سے غیر معمولی سلوک کر رہے ہیں اُس کی وجوہات ہیں.آپ کے عقیدے سے اختلاف بھی رکھتے ہوں پھر بھی ہم سب سے ملتے جلتے ہیں ہم بالعموم اقدار مشتر کہ رکھتے ہیں ، مشترک قدریں رکھتے ہیں لیکن ان کا مزاج الگ، ان کے خیالات اور عقائد الگ اور اتنا فرق ہے کہ ہم میں مل کر ہمو کر، اکٹھے ہو کر بیٹھ ہی نہیں سکتے.پس یہ فرق انہوں نے خود اپنے اندر قائم کئے ہیں، ہمارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ، ہمارے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے ، فلاں بات نہیں کرتے ،ظفر اللہ خان نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا وغیرہ وغیرہ اور بار بار یہ تاثر زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے سارا قصور جماعت احمدیہ کا ہے خود الگ ہو بیٹھی ہے، اپنے عقائد مختلف بنا بیٹھی ہم کیا کر سکتے ہیں.اس کی جوابی کارروائی اس رنگ میں تو ہوتی ہے کہ اُن کے ہر اعتراض کا مؤثر جواب دیا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ کہاں جھوٹ بول رہے ہیں جو سچی بات ہے اس کی توجیہہ کیا ہے؟ کیوں ہم ایسا کرتے ہیں؟ اس کا شرعی جواز کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ.لیکن اب وقت ہے کہ جوابی حملہ کیا جائے ورنہ سنجیدہ جوابی کارروائی کا عوام الناس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے.اول تو ان تک یہ کتا بیں پہنچتی نہیں، پہنچے بھی تو عوام الناس میں یہ شعور نہیں ہوتا کہ اعتراض اور اس کے جواب کا صحیح موازنہ کرسکیں اس لئے بڑی مشکل پیش آتی ہے اور پھر یوں لگتا ہے کہ ہم سب باقی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہی ہیں جو محل نظر ہیں.ہمارے اسلام پر تو شک نہیں ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے ان کا جواب پڑھیں اور یہ فیصلے کریں کہ واقعتا سچے الزام ہیں یا جھوٹے الزام ہیں ساری امت نے مل کر نکال باہر مارا ہے، ہم بھی سمجھ لیتے ہیں کہ چلو باہر
خطبات طاہر جلدا 866 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء کے ہیں تو باہر کے ہی رہیں.جو شرفاء ہیں ان پر بھی یہ اثر ہے.اس سلسلے میں میں نے جہاں تک مطالعہ کیا ہے، اس نظر سے گہرا مطالعہ کیا ہے.واقعہ یہ ہے کہ جتنے مسلمانوں کے بڑے بڑے فرقے ہیں اگر اسی طرز پر اُن کے خلاف غیر مسلم قرار دیئے جانے کے مطالبے کئے جائیں تو اُن کے خلاف مطالبات بہت زیادہ وزن رکھیں گے اور بہت زیادہ قوی دلائل ہیں یہ بتانے کی کہ انہوں نے اپنے آپ کو امت سے کاٹا ہے ، امت سے الگ ہوئے، اُن کے عقائد اتنے خطرناک بن گئے ، دوسرے مسلمانوں کے مقابل پر کہ وہ اکٹھے رہ ہی نہیں سکتے.پس مَكَرُوا وَمَكَرَ الله (ال عمران : ۵۵) کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جیسے مکروہ کرتے ہیں اُس حد تک مکر کی اجازت ہے اور اللہ تعالیٰ نے مکر اور خدعہ وغیرہ کے سلسلے میں پہل کا ذکر کہیں نہیں فرمایا.جہاں جہاں قرآن کریم میں ہدایت ہے وہاں ابتداء دشمن کی طرف دکھائی گئی اور جوابی کارروائی اللہ تعالیٰ کی طرف.تو بعض ایسی باتیں جہاں ابتداء نہیں کرنی چاہئے ، خواہ مخواہ امت کے مزاج کو کیوں منتشر کیا جائے ، خواہ مخواہ ایسی باتوں کو کیوں اچھالا جائے جس کے نتیجے میں بعض لوگ بعض دوسروں سے بدظن ہوں لیکن جب کوئی آپ کے خلاف ایسا مکر کرے تو سنت اللہ یہ ہے کہ جوابی مکر کرنا ضروری ہے اور اُسی حد تک کیا جائے جس حد تک یہ کرتے ہیں ابتداء کی اجازت نہیں.پس علماء کو چاہئے کہ اب یہ کتابیں لکھیں کہ کیوں بریلویوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے ، کیوں وہابیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے ، کیوں شیعوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے، کیوں فلاں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے، کیوں فلاں کو اور کیوں اسماعیلیوں کو ، کیوں دوسرے شیعہ اور سنی فرقوں کو باری باری اسلام سے نکال کے باہر مارا جائے.اس نہج پر الگ الگ مطالبے کی کتابیں بننی چاہئیں جماعت کوئی مطالبہ نہیں کرے گی.جماعت بتائے گی کہ اس طرح مطالبے ہوتے ہیں.جماعت امت مسلمہ کو سمجھائے گی کہ جس طریقے پر تم نے ہمارے خلاف مطالبے سنے اور اُن کو اپنے ذہنوں میں جگہ دی اور اسی طریق پر دوسرے مطالبے بھی دیکھو.اب ہماری باری ہے کہ ہم تمہیں کر کے بتائیں کہ کیا ہوتا رہا ہے ہم سے.جب ہم سے ہوتا تھا تو تمہارے کان پر جوں بھی نہ رینگی اگر رینگی تو فساد کی جوں رینگی ہے.ہم فساد کی خاطر نہیں مگر تمہیں سمجھانے کی خاطر کہ یہ چوٹ جب تم پر پڑے گی تمہارے دلوں کو مجروح کرے گی.اُس
خطبات طاہر جلد ۱۱ 867 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء وقت تم کیا سوچو گے اور تم کیسے اپنے دفاع کی کوشش کرو گے.اس سلسلے میں بہت محنت کی ضرورت نہیں ہے.دوسرے فرقوں کے مسلمان علماء نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہوئی ہیں، کوئی دیوبندی مذہب ہے، کوئی بریلوی مذہب ہے، کوئی فلاں مذہب ہے، کوئی فلاں مذہب ہے اور جتنا آپ کھو دیں گے یعنی تاریخ کے ورقوں کو کھود کھود کے نکالیں گے، بہت زبر دست لٹریچر اس معاملے میں تیار ہے.کوئی زمانہ تھا جب وہابیوں کو دنیا کی بدترین مخلوق سمجھا جاتا تھا ہندوستان میں.ایسی نفرت تھی کہ ایک دفعہ ایک سکھ کی دوکان بہت چل پڑی گاؤں میں اور دوسرے مسلمان دکاندار تھے اُن کی کوئی پیش نہیں جاتی تھی.بہتوں نے کہا دیکھو جی یہ سکھ ہیں، ہم مسلمان ہیں اور تم ہمیں چھوڑ کر مسلمانوں کی اکثریت کا گاؤں تھا، ہمیں چھوڑ کر سکھوں سے سودا لیتے ہو.وہ صاف ستھرے لوگ تھے ، دیانتدار تھے، اچھا سودا بیچتے تھے لوگ لیتے رہے اُن سے ، تو آخر ایک آدمی کو ایک ترکیب سوجھی.اُس نے کہا کہ تم یہ پرو پیگنڈہ کرو کہ یہ سکھ وہابی ہو گیا ہے اپنے آپ لوگ سودا لینا چھوڑ دیں گے.چنانچہ جب یہ اعلان ہوا کہ سکھ وہابی ہو گیا سارے گاؤں میں بائیکاٹ ہو گیا.آج جب یہ کہتے ہیں احمدی ہو گیا ہے اس کا بائیکاٹ کرو کل یہی ملا تھا جو وہابی ہو گیا کہہ کہہ کر بائیکاٹ کروایا کرتا تھا، بریلوی ہو گیا کہہ کے بائیکاٹ کروایا کرتا تھا، شیعہ ہو گیا کہہ کر بائیکاٹ کروایا کرتا تھا سنی ہو گیا کہہ کے بائیکاٹ کروایا کرتا تھا، ان کو ان کی تاریخ تو یاد کر وائیں.ابھی بنگلہ دیش سے مثلاً یہ اطلاع ملی کہ راج شاہی میں جماعت کونئی تعمیر شدہ مسجد جو ابھی اپنی تکمیل کو پہنچ رہی تھی اُس پر ملانوں نے اور اُن کے چیلے چانٹوں نے پندرہ سو کی تعداد میں حملہ کیا اور نہ صرف منہدم کیا بلکہ ایک ایک اینٹ بنیادوں کی بھی اٹھا کر لے گئے.اب آپ اندازہ کریں کہ یہ بد بخت لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کو سنبھالے ہوئے ہیں، اُس کے امین بنائے گئے ہیں، ایسی چوری کو ، ایسی ذلیل حرکت کو کہ خدا کے گھر کی اینٹیں بھی چرا کے لے جائیں.اس کو اُنہوں نے امانت قرار دے رکھا ہے، ان سے تو اللہ بیٹے گا لیکن اعلان وہ یہ کر رہے ہیں کہ اس لئے ہم پر فرض ہے کہ قرآن کریم نے مسجد ضرار کا ذکر کر کے ہم پر فرض عائد کر دیا ہے کہ ہر وہ مسجد جہاں ہم سمجھیں کہ فساد ہو رہا ہے.یعنی ہمارے نقطہ نگاہ سے اُس مسجد کی تعمیر فساد پر مبنی ہے اُسے برباد کر دیں، اُسے گرادیں.یہ مسجد ضرار کی مثال بیان کر کے اخباروں میں یہ اعلان شائع کر کے کھلے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 868 خطبہ جمعہ ۱۴ دسمبر ۱۹۹۲ء عام مسلمانوں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ احمدیوں کی مسجدیں منہدم کرو اور لوٹو مارو اور جو چاہو کر وعین جائز بلکہ باعث ثواب ہے.سوال یہ ہے کہ مسجد ضرار کیا تھی ، کس حد تک قرآن کریم نے عبادت گاہوں کو جلانے یا منہدم کرنے کی اجازت دی ہے یہ الگ بخشیں ہیں اس سلسلے میں میں ایک دفعہ تفصیلی خطبہ بھی دے چکا ہوں.بنگلہ دیش کو ہدایت دی جا چکی ہے کہ آپ کو کسی قسم کی جوابی کارروائی کرنی چاہئے لیکن میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب ہمیں ان معاملات میں بھی جس حد تک قرآن کریم نے اجازت دی ہے کچھ جارحانہ کاروائی کرنی چاہئے.اگر ان کی اس دلیل کو توڑنا ہے تو محض دلائل سے نہیں تو ڑا جائے گا.اب کھوج سے ان کی گندی تاریخ کو نکال کر عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہو گیا ہے.بتانا پڑے گا کہ جب سے اسلام قائم ہوا ہے ان ملانوں نے مسجد ضرار کہہ کر یا فتنے کی مسجد کہہ کر آج تک کس کس ملک میں کتنی مسجدیں جلائی ہیں اور کتنی مسجدیں برباد کیں.کوئی فرقہ ایسا نہیں ہے جس کی پہلے مسجد میں توڑی یا منہدم نہ کی گئی ہوں ، اُن کو گرا کر خاکستر نہ کیا گیا ہو.ایک بھاری تاریخ بھری ہے اگر مسجد ضرار کا یہی معانی ہے تو پھر ان ملانوں کے تعامل سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ہر دوسرے فرقے کی مسجد کو جلا دے ، برباد کرے اور منہدم کر دے.ایسی ظالم قوم ہو چکی ہے کہ ان کے اوپر تو بعض دفعہ غصہ آتا ہے تو سخت لفظ استعمال کرنے کو دل چاہتا ہے مگر ہمیں متحمل کی تعلیم ہے.صرف ایک بات ہے جو ہم سب کر سکتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجیں جنہوں نے اس زمانے کے ملانوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا.شـر مــن تــحــت اديم السمـاء (مشكوة كتاب العلم والفضل صفحہ: ۳۸) یہ بھی نہیں فرمایا کہ انسانوں میں سے وہ بدتر ہوں گے فرمایا اُس زمانے میں آسمان کے نیچے ذلیل ترین مخلوق ہو گی ، ہمیں کیا ضرورت ہے خود کسی کو گالی دینے کی ، امت کے مالک ، امت کے بادشاہ نے ان کا نقشہ کھینچ دیا ہے.یہی حدیث ہے جو عوام الناس کے سامنے لانی چاہئے کہ تم کدھر جا رہے ہو.یہ وہ لوگ ہیں جن کی قیادت میں تم ہر ظالمانہ کارروائی کرنے کے لئے شیر ہوتے چلے جاتے ہو، ہر بُری بات کے لئے آگے بڑھتے ہو، شر من تحت ادیم السماء کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ جب شر کی طرف بلاتے ہیں تو اُس وقت لوگ ان کی آواز پر لبیک
خطبات طاہر جلدا 869 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء کہتے ہیں یعنی شرکرنے کی طاقت ہے، نیکی کی طاقت نہیں ہے، جب نیکی کی طرف بلاتے ہیں تو سارے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں.کوئی آواز ان کی نیکی کی دعوت پر لبیک نہیں کہتی.میں نے پہلے بھی بارہا توجہ دلائی ہے صرف پاکستان کو چھوڑئیے ، پاکستان کے کسی چھوٹے سے قصبے کے علما مل کر اور باقی علماء کی مدد لے کر وہاں سے گندگی ، فساد، فتنه، بد دیانتی ، رشوت، چوری، ڈا کہ ظلم و ستم ، جھوٹ ان کے قلع قمع کرنے کے لئے جہاد شروع کر کے دکھا ئیں.مجال ہے کہ کوئی ان کی بات مان لے لیکن کسی دوسرے کے اوپر ظلم کی تعلیم دے کر دیکھ لیں ، اس کا مال لوٹنے کی تعلیم دے کر دیکھ لیں ، اُس کے گھر جلانے کی تعلیم دے کر دیکھ لیں کس طرح مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے.کس طرح لوگ آگے بڑھ بڑھ کر اس عظیم قربانی میں حصہ لینے کے لئے پیش پیش آتے ہیں.یہ مطلب ہے شر من تحت اديم السماء آسمان کے نیچے واقعہ اگر جانوروں کو بھی دیکھا جائے تو کوئی جانور شر کی اتنی صلاحیت نہیں رکھتا اور جانور کے ساتھ اگر شر وابستہ ہے تو خیر بھی وابستہ ہے.مگر اس زمانے کے ملاؤں کا کیسا دردناک حال ہے، کیسا عجیب نقشہ ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے چودہ سو برس پہلے کھینچ کر رکھ دیا.شر من تحت ادیم السماء میں ان کو کوئی انسان بھی قرار نہیں دیتا.میں یہ کہتا ہوں کہ آسمان کے پردے کے نیچے وہ شریر ترین مخلوق ہیں.یعنی اُن میں شر کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں نیکی پیدا کرنے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں.پس یہ صلائے عام ہے تمام دنیا کے علماء اس میں مخاطب ہیں، بعض ملکوں کے زیادہ شریر ہیں، بعضوں کے کم ہیں، بعض ملکوں میں شرفاء علماء کی نسبت بہت زیادہ ہیں لیکن اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جہاں بھی یہ اطلاق پاتی ہے، آسمان کے جس حصے کے نیچے ایسے بدترین لوگ ہیں ان کی تعریف یہ ہے کہ ان کی شر کی آواز پر تو لبیک کہا جائے گا، ان کی خیر کی آواز میں کوئی طاقت نہیں ہوگی.پس پاکستان اور بنگلہ دیش کے علماء ہمارے سامنے ننگے ہو کر آچکے ہیں.اُن سے ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث کے اثر سے نکلنا ہے تو نکل کے دکھاؤ.ثابت کریں دنیا پر کہ نیکیوں کی تعلیم پر بھی لوگ لبیک کہہ رہے ہیں.کوئی پیش نہیں جائے گی آپ کی کوئی ایک بدی بھی آپ عالم اسلام کو دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ آپ کو اس پر مامور نہیں فرمایا گیا کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی اس پیشگوئی کو جھٹلانے کی آپ کو استطاعت نہیں ملی.شر آپ سے وابستہ ہے اور شر ہی کرتے چلے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 870 خطبه جمعه ۴/ دسمبر ۱۹۹۲ء جائیں گے اسی حالت میں آپ نے جانیں دینی ہیں.پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ امانت کیا ہوتی ہے، پھر امانت کے نام پر آپ کو بلایا جائے گا اور اُس وقت جھنڈے لگیں گے آپ کی پیٹھوں کے پیچھے جو خائنوں کے جھنڈے ہیں، جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو دکھایا گیا آسمان کی طرف ، خدا تعالیٰ کی طرف، ہر بدترین خائن کے پیچھے ایک جھنڈا لگے گا اور بتایا جائے گا کہ اُس نے کس کس امانت میں خیانت کی ہے.عبادت گاہوں کی حرمت کو قائم کرنا، اُن کا احترام کرنا تو اسلام کی امتیازی شان تھی.آنحضرت ﷺ کو تو قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ اس جگہ تو نماز نہ پڑھ تیری شان کے لائق نہیں.بعد میں جو کارروائی حدیثوں میں درج ہے اُس سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ وہ کارروائی واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے اشارے پر ہوئی.آج جبکہ ان ملانوں کے نزدیک وحی کے رستے ہی بند ہو چکے ہیں ان کو کون اشارے کر رہا ہے.ان کا تو عقیدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اب کوئی وحی کے ذریعے پیغام نہیں ملے گا لیکن ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ شیطانی وحیاں جاری ہیں، شیطانی القاء کا سلسلہ بند نہیں ہوا.اب بتائیں کہ مسجدوں کو کس القاء پر منہدم کرتے ہیں ، کون ہے جو ان کو اشارے کر رہا ہے اور ان کو دکھا رہا ہے کہ اس مسجد کو بھی برباد کر دو، اس مسجد کو بھی برباد کر دو.اندھیر نگری ہے ان لوگوں کو حیا نہیں.یہ نہیں سوچتے کہ اسلام کو اس طرح کتنا بدنام کرتے ہیں اور اسلام کے دفاع کے لئے کوئی دلیل باقی نہیں رہنے دیتے.بابری مسجد کا سلسلہ ہے دیکھ لیجئے ، ایک مشر کا نہ حکومت وہاں قائم ہے، اُس حکومت کی ساکھ داؤ پر لگ گئی، اس حکومت کو مشرک اکثریت کی طرف سے پھیلنج دیا جارہا ہے کہ ہمیں یہ مسجد منہدم کرنے دو ورنہ ہم ملک میں بغاوت کی آگ بھڑکا دیں گے، تمہاری حکومت کو پارہ پارہ کر دیں گے لیکن آج تک تو وہ حکومت اس بات پر قائم ہے، اس اصول پر قائم ہے کہ خدا کے نام پر بننے والی عبادت گاہوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے یہ مشرکوں کا حال ہے.پاکستان میں کتنی مسجد میں ہیں جو منہدم کی گئیں، کتنے خدا کے گھر ہیں جو مسمار کئے گئے، کتنے ہیں جن کو واپس کیا گیا اُن لوگوں کو اور اُن کے نقصانات کی ذمہ داری قبول کی گئی، انہیں دوبارہ آباد کر کے دکھایا گیا.حال یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا بنگلہ دیش میں یہی پاکستانی ملاں ہے جس نے پہنچ کر فساد برپا کروایا ہے اور بڑے ہی قابل اعتماد ذرائع
خطبات طاہر جلد ۱۱ 871 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ آئی ایس آئی کے Trained فتنے پیدا کرنے والے ڈھا کہ میں اس وقت کام کر رہے ہیں اُن کی مدد سے باقاعدہ آپریشن Plan ہو رہے ہیں.اب ڈھاکے کی مسجد، راج شاہی کی ، فلاں جگہ کی اور حکومت اس میں ملوث ہے.حکومت کا ملوث ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ حملے کے وقت اچانک ہو سکتا ہے کہ دفاع کی طاقت پیدا نہ ہوئی ہو اور اتنے ذرائع نہ ہوں کہ اس حملوں کو روکا جا سکتا ہو لیکن ساری مسجد کو منہدم کرنا ، ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر دوسری جگہ پہنچانا، بنیادیں کھودنا، بنیاد کی ساری اینٹیں چرانا، یہ کام ایک دو گھنٹے کی بات تو نہیں تھی.ایک دن لگا ہے یا چوبیں یا اڑتالیس گھنٹے لگے ہیں.ٹرک کرایوں پر لئے گئے ہیں اتنا بڑا ملبہ ایک جگہ سے ڈھوکر دوسری جگہ پہنچانا یا گھروں میں تقسیم ہونا بڑا وقت چاہتا ہے.تو ایک خیانت ہوتی ہے خاموش خیانت کہ تم کرتے چلے جاؤ ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں.آنکھیں بند کرنے والوں کو بھی بتا تا ہوں کہ ان شریروں نے جنہوں نے یہ فساد برپا کئے ہیں خدا کے گھروں پر حملے کروائے ہیں انہوں نے تو اپنی آخرت کو ہمیشہ کے لئے برباد کر دیا ہے.ان کا انجام تو اُن کو قیامت کے دن معلوم ہوگا کہ کیا ہے؟ کیسے خائنوں میں ان کا شمار ہو گا لیکن آنکھیں بند کرنے والے بھی قیامت کے دن اندھے اٹھائے جائیں گے.اُن سے بھی خدا کے فضل آنکھیں بند کر لیں گے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق کہ قیامت کے دن اُن سے منہ پھیر لوں گا.خدا کی آنکھیں تو بند نہیں ہوتیں خدا اعراض فرماتا ہے.پس ایسے لوگوں سے اعراض کیا جائے گا یہ جواب دہ ہیں کیونکہ قرآن کریم نے جہاں شریعت کو امانت قرار دیا ہے، مذہب کو امانت قرار دیا ہے، وہاں دنیا کی حکومتوں کو بھی تو امانت ہی قرار دیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمُ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ( النساء:۵۹) کہ امانت کا تعلق صرف مذہب سے نہیں ہے.دنیاوی امور میں بھی ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ جب تم حکومت بنانے پر آؤ اور ووٹ مانگے جائیں تو امانت کا حق اُس کے اہل کو دیا کرو.اور جب حکومت بن جائے فرمایا وَ إِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کروتو عدل سے حکومت کرو، انصاف سے حکومت کرو.یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جو طر ز حکومت بیان کی گئی ہے، وہ عدل پر مبنی حکومت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 872 خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۹۲ء بیان کی گئی ہے، شریعت پر مبنی حکومت بیان نہیں فرمائی.جہاں دنیاوی حکومت کا مضمون آئے گا وہاں ہمیشہ آپ عدل کے مضمون کو ساتھ دیکھیں گے اور عدل کی حکومت ہی دراصل مثالی سیکولر حکومت کو کہتے ہیں.اگر عدل سے حکومت کی جائے تو مذہب کی تفریق کو دخل اندازی کی اجازت ہی نہیں مل سکتی.پس جس جس نے بھی عدل کی خیانت کی اُس نے قرآن کی خیانت کی ، اُس امانت کی خیانت کی ہے جو خدا نے ہر حاکم کے اوپر ڈال دی ہے.کچھ معاملے تو اس دنیا میں طے ہوں گے تو کچھ اس دنیا میں طے ہوں گی مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی ناانصافیوں کے بدلے دنیا میں بھی ضرور دیئے جاتے ہیں.دنیا اور آخرت دونوں میں سزا دی جاتی ہے.بہر حال یہ مضمون سمجھا کر واپس اُسی مضمون کی طرف آتا ہوں کہ ہم نے امانتوں کے حق ادا کرنے ہیں ، خائن لوگوں کی تقدیر کے فیصلے خدا فرمائے گا اور قرآن کریم نے وہ فیصلے آج ہی لکھ چھوڑے ہیں.قرآن کی تحریر کو دنیا میں کوئی بدل نہیں سکتا لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں لازماً امانت کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے.امانت ہی میں جماعت احمدیہ کی بقا ہے.امانت ہی کے نتیجے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس دنیا میں بھی سرخروی نصیب ہونی ہے اور آخرت میں سرخروی نصیب ہونی ہے.امانت کے بغیر نظام جماعت کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہتا.پس پہلے تو اپنی ذاتی امانتوں کی روزمرہ کے معاملات میں حفاظت کریں.آپ کو امین بنایا گیا ہے دنیا کے معاملات میں بھی اور دین کے معاملات میں بھی.دنیا کے معاملات میں بچوں کی امانت ہے، بیوی کی امانت ہے، دوستوں کی امانت ہے، تجارت کے معاملات میں ایک دوسرے کی امانتیں ہے ان ساری باتوں میں امانت کا حق ادا کریں امین بن جائیں.جب امین بنتے ہیں تو پھر خدا کی امانت کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں.جب تک آپ دنیا میں امین نہیں بنیں گے، اللہ کی امانت کو اٹھانے کی اہلیت ہی آپ میں پیدا نہیں ہو سکتی ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کو بچپن سے جو امین کہا جاتا تھا دراصل اُسی وقت اعلان ہو گیا تھا.دنیا میں لوگوں کے منہ سے جو باتیں نکل رہی تھیں، یہ امین ہے، یہ امین ہے، جس گلی سے گزرتے تھے امین امین کی آواز میں اٹھتی تھیں.مستقبل میں ہونے والے عظیم واقعہ کی طرف اشارہ تھا یہ بتایا جا رہا تھا کہ خدا اپنی امانت امینوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 873 خطبہ جمعہ ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء سپرد کیا کرتا ہے اور آج اگر کوئی امانت کا اہل ہے تو یہ شخص ہے.لوگوں کے متعلق مرنے کے بعد، اپنے مراتب کو حاصل کرنے کے بعد امین ہونے کے دعاوی تو آپ سنتے ہی ہیں بعض دفعہ کسی بڑے عہدیدار کے متعلق اُس کے کام ختم کرنے کے بعد ، اُس کے گزر جانے کے بعد تاریخ گواہی دیتی ہے کہ وہ امین تھا.بعضوں کے متعلق اللہ تعالی گواہی دیتا ہے کہ وہ امین تھا.جیسا کہ حضرت موسیٰ کے متعلق تقوی آمین (النمل: ۴۰) فرما کر آپ کی بہت عزت افزائی فرمائی گئی ہمیشہ کے لئے دنیا کو موسی" کا مقام بتا دیا گیا کہ وہ لقوی بھی تھا اور امین بھی تھا.لقوی اس لئے ساتھ جوڑا گیا ہے کہ امانت کی حفاظت کے لئے ایک قوت کی بھی ضرورت ہے اور جو کمزور لوگ ہوں وہ امانت کی حفاظت نہیں کیا کرتے ، نہ کر سکتے ہیں.یہ وہ گواہی ہے جو بعد میں دی گئی.جہاں تک میں نے نبوت کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے.میرے علم میں ایک بھی ایسا نبی نہیں آیا جس کی قوم نے یہ دعوی کیا ہو کہ اُس کے نبی بننے سے پہلے لوگ اُس کو امین کہا کرتے تھے.سارے مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں کچھ نبی ہیں جو خدا بنا لئے گئے، کچھ خدا کے بیٹے بنالئے گئے مگر سارے عالم میں چراغ لے کر ڈھونڈیں میرے آقا محمد یے جیسا تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا.وہ ایک ہی نبی ہے اور ایک ہی نبی ہے جس کے متعلق بچپن ہی سے ساری قوم گواہیاں دیتی تھی کہ یہ امین ہے، یہ امین ہے، یہ امین ہے، یہ امین ہے.پس آپ کو اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا میں آپ امین بنتے ہیں تو خدا کی امانت اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں اُس کے بغیر آپ امانت کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتے.پس روز مرہ کی امانت کا ذکر چلا کرا کر اب میں دینی امانتوں کی طرف اس لئے آرہا ہوں کہ پہلے اپنے اندر امانت کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت پیدا کریں، روزمرہ کے معاملات میں امین بنیں ، تب اس لائق بنائے جائیں گے کہ محمدمصطفی ﷺ کی امانت میں آپ کے مددگار بن سکیں اُس کے بغیر نہیں.پس اگلی امانتیں جو ہیں ان کا سفر شروع ہوتا ہے یا دینی امانتیں ووٹ دینے کے ساتھ سے، جماعتوں میں جہاں بھی عہدیدار چنے جاتے ہیں وہاں امانت کے ساتھ فیصلہ کرنا کون اہلیت رکھتا ہے.بہت ہی بنیادی اہمیت کی حامل ہے.آنحضرت ﷺ نے جو فرمایا کہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے ( ترمذی کتاب الادب حدیث نمبر : ۲۷۴۷)
خطبات طاہر جلد ۱۱ 874 خطبه جمعه ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء تو دیکھیں کس لطافت کے ساتھ اس مضمون پر مزید روشنی ڈالی ہے.ووٹ دینا دراصل مشورے کا ہی ایک رنگ ہے.عوامی مشورے ووٹ کے ذریعے ہی حاصل کئے جاتے ہیں ، آپ نے ووٹ کے ذکر کے ساتھ تو امانت کا ذکر نہیں فرمایا لیکن ہر مشورے میں امانت کو لازم قرار دے دیا اور ہر مشورہ دینے والے کو امین ٹھہرایا یعنی یہ بتایا کہ تمہیں امین ہونا پڑے گا اور یہ مضمون بہت زیادہ وسیع ہے ووٹ والے مضمون سے.پس ووٹ بھی مشورے کی امانت کا ایک اظہار ہے.دینی معاملات میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو امین ہو کر ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہئے اور تمام دوستیاں ، تمام تعلقات ، تمام دشمنیاں، تمام عداوتیں اُس وقت بھول جایا کریں گے.یہ دیکھا کریں کہ آپ کے نزدیک یہ شخص اہلیت رکھتا ہے کہ نہیں.یعنی آپ کے نزدیک ان معنوں میں کہ خدا کی امانت کا حق ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، آپ کے تعلقات کا حق ادا کرنے کی اہلیت کا سوال نہیں ہے، یہ امانت ہے.پھر جب عہد یدار بنائے جاتے ہیں تو وہ امین ہیں.اُن کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کی تفصیل میں جائیں ،معلوم کریں، کھوج لگائیں کہ کیا کیا ذمہ داریاں ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے جس تفصیل سے ہمیں ہدایتیں دی ہیں آپ اس معاملے میں بھی تمام دنیا کے مؤرخوں کو ، تمام دنیا کے مذاہب کی پیرا کاروں کو چیلنج دے سکتے ہیں، ایک نبی یا دس یا ہیں نبی یا سونبی ملا کر دکھا دو جس نے اپنی امت کو اس تفصیل سے نیکیوں کی ہدایت کی ہو اور برائیوں سے روکا ہو.بعض جاہل اسی بات پر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اتنی تفصیل سے حکم دے دیئے حالانکہ یہ دراصل حضرت اقدس محمد مصطفی امی کے امین ہونے کی عظمت کا نشان ہے.ایسا امین دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا جس نے اس گہرائی سے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور تفصیل سے کھوج لگائے.خدا نے مجھے جو امین بنایا تو کن کن اخلاق کا امین بنایا ہے، کن کن برائیوں سے روکنے پر مجھے امین مقرر فرمایا گیا ہے.تفصیل سے جا کر ایک ایک پہلو پر نظر ڈالی ہے، یہاں تک کہ زندگی کا کوئی پہلو بھی باقی نہیں رہا جس پر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی امانت کا حق ادا نہ کیا ہو.اب جس سیکرٹری یعنی جماعت کے سیکرٹری کو اپنے شعبے کا ہی پتا نہ ہو.یہ ہے کس بلا کا نام ہے مجھے کیا کیا کرنا چاہئے ، وہ کیسے امین بن سکتا ہے، کیسے امانت کا حق ادا کر سکتا ہے، تصنیف کی بات ہو رہی تھی تو تصنیف کے سلسلے میں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس ملک میں کیا کیا علمی تحریکات ایسی چل رہی ہیں، کیا کیا ایسے علمی رجحانات ہیں جن کا اسلام کی سچائی سے منفی یا مثبت تعلق باندھا جا سکتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 875 خطبه جمعه ۴/ دسمبر ۱۹۹۲ء ہے.بعض اسلام کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، بعض ایسی نئی ایجادات ہیں، بعض ایسے نئے علمی رجحانات ہیں ، بعض ایسے انکشافات ہیں جو اسلام کی تائید میں پیش کئے جا سکتے ہیں، اُس وقت سیکرٹری کا کام ہے، وہ کمیٹیاں مقرر کرے، نوجوانوں کو اکٹھا کرے، اُن کے سپر د کرے کہ دیکھو فلاں اخبار میں یہ بات آئی تھی ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہئے ، کھوج لگا کر آخر تک پہنچنا چاہئے ،اس کے تمام پہلوؤں کے اوپر ہمیں حاوی ہو جانا چاہئے.اس سلسلے میں بھی میں انگلستان کی مثال پیش کرتا ہوں.خدا کے فضل سے اس جماعت نے ہر پہلو سے نہ صرف بڑی بڑی ظاہر باتوں میں ترقی کی ہے بلکہ باریک پہلوؤں میں ترقی کی ہے.اب تصنیف کا معاملہ ہے مثلاً اس سلسلے میں میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کو بلا کر سمجھایا کہ دیکھیں آپ نو جوانوں کی ٹیمیں بنائیں میں آپ کو کام دیتا ہوں اُن کے سپرد کریں مثلاً Dead Sea Scrolls ہیں.اُن کے متعلق بہت تحقیق ہونے والی ہے اور ہم عموماً غیروں کی تحقیقات کا ماحصل سن کر اُسی پر بس کر جاتے ہیں.حالانکہ اکثر غیر جن مشاہدات پر اپنے نظریات کی بنیاد رکھتے ہیں ان مشاہدات کے تمام اشاروں کو قبول نہیں کرتے بعض ایسے ہیں جو خدا کے حق میں اشارے ہو رہے ہیں مگر وہ اُن کو نظر انداز کر دیتے ہیں.جہاں خدا کے خلاف کوئی اشارہ ہوتا ہوا دکھائی دے اُس کو اچھالتے ہیں.بعض اسلام کے حق میں ہونے والے اشاروں سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اسلام کے خلاف کوئی دور کا اشارہ بھی دکھائی دے تو اُس کو نکالتے اور اچھالتے ہیں.اُن کو میں نے سمجھایا کہ احمدی نوجوانوں کو یہ عادت ڈالیں ، ٹیمیں بنائیں کہ وہ ہل جل کران تمام علمی رجحانات پر نظر رکھیں جہاں کوئی خبر آئے وہاں ایک ٹیم بن جائے اور وہ اُس خبر کو کھوج نکالے آخر تک پہنچے ہیں.وہ حقائق معلوم کریں اگر وہ زبان مختلف ہے تو وہ زبان سیکھنے کے لئے بعض لوگوں کو لگائیں، اسی طرح بہت سے پروگرام ان کے سپرد کئے اور میں پورے اطمینان کے ساتھ بتاتا ہوں کہ صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے بھی امانت کا خوب حق ادا کیا اور جتنے نو جوان اُن کے ساتھ اس معاملے میں شریک ہوئے اُنہوں نے بھی خوب حق ادا کیا دل کی گہرائیوں تک میں اُن کے کاموں سے راضی ہو اوہ آتے ہیں ٹیمیں بنا کر مجھ سے ملتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا کھوج نکالے، کیا کیا کن کن کتب کا مطالعہ کیا ، اب ہم مزید کیا کام کر رہے ہیں ، کن کن پروفیسروں سے رابطے کئے ہیں، کن کن ماہرین آثار قدیمہ سے تعلق بڑھائے ہیں ،غرضیکہ پورا علم کا جہان ہے جو نیا جہان کھلتا چلا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 876 خطبه جمعه ۴ / دسمبر ۱۹۹۲ء جا رہا ہے آئندہ جماعت کے استعمال کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ بہت عمدہ مواد ہاتھ آئے گا.اب تک ہم یہی کرتے رہے ہیں کہ جہاں کسی نے اتفاق سے ہماری تائید میں کوئی بات لکھ دی تو اُسے قبول کر لیا اور اُن رستوں میں داخل ہو کر یہ دیکھا ہی نہیں کہ جن رستوں میں اُن کو ہماری تائید کا کوئی ہیرا ہاتھ آیا تھا.بہت سے ایسے مضامین ہیں یعنی تائیدی شواہد جو مختلف جگہوں پر دفن ہوئے پڑے ہیں.ہمیں کھوج لگانا ہو گا.پس سیکرٹری تصنیف کا یہ کام ہے اس طرح کھوج لگائے.اسی ضمن میں میں نے امریکہ کو بھی ہدایت دی کہ آپ وہاں کچھ رابطہ قائم کریں.امیر صاحب نے جن لوگوں کے سپرد کئے اُن کی رپورٹیں ملی ہیں اللہ کے فضل سے اُنہوں نے بھی اچھا کام کیا ہے مگر ساری دنیا میں مقامی ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور بین الاقوامی اسلامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کی ٹیمیں بنانی ہوں گی.اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے.مضمون لمبا ہے میں انشاء اللہ باقی با تیں آئندہ جمعہ میں پیش کروں گا.پاکستان سے مجھے ایک خط ملا تھا کہ خطبات کا سلسلہ جاری ہو گیا ہے اور بڑی عمدہ آواز اور عمدہ تصویر یں پہنچ رہی ہیں لیکن آپ جب وقت ختم ہونے کے بعد یعنی اڑھائی بجے کے بعد کچھ دیر باتیں کرتے ہیں ہمارا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور محرومی کا احساس ہوتا ہے اس لئے آپ وقت کا بھی خیال رکھیں پہلے شروع کر دیا کریں اگر مضمون لمبا ہو.بات یہ ہے کہ مضمون سارے بڑے لمبے ہیں اس لئے پہلے شروع کروں گا تو پھر بھی یہی مشکل پیش آئے گی.وقت پر شروع کرنے دیں اور وقت پر ختم کرنے دیں.اللہ ہمارا حامی وناصر ہو.السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 877 خطبہ جمعہ ۱۱ار دسمبر ۱۹۹۲ء اجودھیا اور بابری مسجد کے مسمار کرنے پر مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہئے تھا ؟ احمد یہ مساجد کو مسمار کرنے سے خدا کی تائید اٹھ گئی ہے ( خطبه جمعه فرموده اار دسمبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) ۱۱ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللهِ اَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَيكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَابِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌّ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) وَلِلهِ المَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ط فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ إِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقره: ۱۱۲ ۱۱۵) پھر فرمایا:.ق یہ دور عالم اسلام کے لئے بہت ہی دردناک دور ہے اور مسلمانوں پر بہت کڑے دن گزر رہے ہیں.لمبا عرصہ ہو گیا کہ مصیبتوں اور ابتلاؤں کا جو ایک سلسلہ جاری ہوا ہے وہ ختم ہونے میں نہیں آتا.ایک ابتلاء کے بعد دوسرا ابتلاء سر اُٹھا لیتا ہے ان تمام ابتلاؤں میں اور ان آزمائشوں میں یقیناً خدا تعالیٰ کا کوئی پیغام ہے جسے سُننے سے بعض کان بہرے ہیں اور جسے پڑھنے سے بعض آنکھیں اندھی ہیں اور اس لائق نہیں کہ تقدیر کی تحریریں پڑھ سکیں کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 878 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء ایسے ابتلاء میں ڈالے جس ابتلاء کے نتیجہ میں دنیا سے ان کی ساکھ اٹھتی چلی جائے دن بدن مظالم کا نشانہ بنتے چلے جائیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہ ہو.قرآن کریم نے دو قسم کے ابتلاؤں کا ذکر فرمایا ہے.ایک وہ ابتلاء ہے جو ابتلا ء حسنہ ہے احسن ابتلاء یعنی اچھا ابتلاء.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اچھے ابتلاؤں میں ڈالتا ہے.اچھے ابتلاء کی تعریف یہ ہے کہ جب مومن اچھے ابتلاؤں سے گزرتا ہے تو پہلے سے زیادہ صحت مند ہو کر گزرتا ہے اس کے بہت سے بوجھ اتر چکے ہوتے ہیں ، اس میں تو انائی کی نئی قو تیں پیدا ہو چکی ہیں.وہ اس پہلو سے بھی نشو و نما دکھاتا ہے جس پہلو سے وہ پہلے نشو ونما سے عاری ہو چکا تھا.غرضیکہ نئی نامیاتی طاقتیں اس کے اندر پیدا ہوتی ہیں وہ بڑھنے کی نئی قوتوں سے آشنا ہو جاتا ہے تو ہر اس ابتلا کے بعد جو احسن ابتلا کہلا سکتا ہے آپ دیکھیں گے کہ ہمیشہ الہی جماعتیں پہلے سے بہت زیادہ بڑھتی اور بڑھنے کی نئی نئی صلاحیتیں حاصل کرتی ہیں.صرف پہلی صلاحیتوں کو ہی نمونہیں ملتی بلکہ نئے نئے مواقع ان کو میسر آتے ہیں نئی صلاحیتیں پیدا ہوتی چلی جاتی اور ایک ابتلاء ہے جس میں کا فر کو مبتلا کیا جاتا ہے.اس ابتلا کے نقشے قرآن کریم نے جابجا کھینچے ہیں اور ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ ابتلا ان لوگوں کے چہروں کی رونقیں چھین لیتے ہیں جن پر یہ ابتلا وارد ہوتے ہیں.بعض اوقات اُن کو بھوک کے اور تنگی کے اور فلاکت کے لباس پہنائے جاتے ہیں بعض دفعہ وہ اپنے مظالم کی چکی میں پیسے جاتے ہیں اور کوئی ان کا مددگار نہیں ہوتا.دن بدن اُن کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اُن کا رعب باطل ہوتا چلا جاتا ہے.یہ ابتلا ضروری نہیں کہ صرف کافروں کے لئے ہوں بلکہ بعض دفعہ یہ تنبیہ کے ابتلاء بھی ہوتے ہیں.ایک انتباہ ہے اور خدا کی انگلی کا ایک اشارہ ہے کہ دیکھو تمہاری آخری منزل یہ ہے اگر تم سنبھلو گے اپنے اخلاق درست نہیں کرو گے ان ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوگے جو میں نے تمہیں دی ہیں تو اس بد انجام کے لئے تیار ہو جاؤ.اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے مجھے سمجھ آئی کہ قرآن کریم کا ہرا بتلا دراصل ان معنوں میں فائدے کا ہی ابتلا ہے کہ اس ابتلاء میں تنبیہ پائی جاتی ہے.مومن کے ابتلا میں دوسرے مومن کے لئے ایک نصیحت ہے کہ خدا کی خاطر تنگ ہونے والے وقتیں اُٹھانے والے کبھی ضائع نہیں جاتے نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۱ 879 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء وہ ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر ترقی کرتے ہیں.ہر دکھ کے پیچھے خوشیاں ان کا انتظار کرتی ہیں اور باقی مومن جب اس ابتلاء کو دیکھتے ہیں تو ان کے حوصلے بڑھتے ہیں ، وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے آپ کو ابتلاء کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ آمادہ پاتے ہیں اور کافروں کو بھی جو ابتلاء ملتے ہیں اور جو بعض دفعہ ان کو بالآخر صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں بعض دفعہ بہت بد حال میں چھوڑ دیتے ہیں.ان کے اندر بھی خیر کا پہلو ضرور ہے اور قرآن کریم نے اس خیر کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم بار بار یہ اس لئے کرتے ہیں کہ شاید ان میں سے کوئی صاحب عقل ایسے ہوں جن کو بات سمجھ آ جائے ،شاید کچھ خوابیدہ لوگ بیدار ہو جائیں اور ساری قوم کو نہ ہی کچھ کو تو یہ ابتلاء فائدہ پہنچادیں اور بھٹکے ہوؤں کو خدا کے رستے پر واپس لے آئیں اور واقعہ یہ ہے کہ ایسے ابتلاؤں میں محض شر ہی نہیں جو کافروں کے لئے مقدر ہو، خیر کے پہلو بھی ہیں اور بہت سے ہیں (اگر چہ بہت زیادہ نہیں ) جوان ابتلاؤں سے فائدہ اُٹھا کر نصیحت پکڑتے ہیں اور سچائی کی طرف لوٹ آتے ہیں.تو یہ دراصل درجے ہیں اگر ان الہی جماعتوں کو ابتلا ء پیش ہوں جو بنیادی طور پر سچی ہیں لیکن فاسق ہو چکی ہیں اور خدا کے رستے سے ہٹ چکی ہیں تو ان ابتلاؤں میں سزا کا پہلو زیادہ دکھائی دیتا ہے اور نشو ونما کا کم دکھائی دیتا ہے لیکن تنبیہ کا پہلو بہر حال موجود ہے،نصیحت کا پہلو موجود ہے وہ لوگ جو خدا سے تعلق کاٹ لیتے ہیں ان کے ابتلاء میں سزا کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اور نصیحت کا پہلو کم دکھائی دیتا ہے اور وہ لوگ جو خدا کے خاص بندے ہیں خدا کی پیاری قو میں ہیں ان پر جب ابتلاء آتے ہیں تو ان میں خیر کا پہلو نمایاں ہوتا ہے لیکن کچھ شر کا پہلو بھی موجود رہتا ہے.چنانچہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے غلاموں پر جب ابتلاء کے دور آئے تو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی تھی جو ثابت قدم رہے اور پہلے سے بڑھ کر بہتر حال میں وہ ابتلاؤں سے باہر نکلے اور سرتا پا خدا کی رضا پر ابتلاؤں کے دوران بھی راضی رہے لیکن کچھ کمزور ایسے تھے جو اس ابتلاء کو برداشت نہ کر کے سوکھے ہوئے پتوں کی طرح جھڑ گئے اور وہ ہمیشہ کے لئے ایمان بھی کھو بیٹھے، دنیا بھی جاتی رہی اور آخرت بھی جاتی رہی.جب آپ ابتلاء کے مضمون پر اس طرح غور کریں تو درحقیقت معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی چیز ہے جو مختلف رستوں سے گزرتے ہوئے مختلف کیفیت اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور درجے قائم ہوتے چلے جاتے ہیں.پس ابتلاء کی بنیاد وہی ہے کہ خدا کی رحمت ہے جو ابتلاء لے کر آتی ہے اس رحمت
خطبات طاہر جلدا 880 خطبہ جمعہ ۱۱ار دسمبر ۱۹۹۲ء سے فائدہ اٹھانے والے اولین بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کم ہیں جو نقصان اٹھاتے ہیں پھر وہ لوگ آ جاتے ہیں ان لوگوں کی منزل آتی ہے کہ جب ابتلاء ان کے دور سے گزرتا ہے تو وہ نیم دروں نیم بروں والی کیفیت کے لوگ ہیں.دین سے تعلق بھی ہے اور پھر دوری بھی ہے.خدا کو مانتے بھی ہیں اور فسق و فجور بھی ہے ایسے لوگوں کے لئے یہ ابتلاء بہت بڑی نصیحت کا پیغام لاتے ہیں اور بسا اوقات یہ سوئے ہوئے بیدار ہو جاتے ہیں پھر سچائی کی طرف لوٹ آتے ہیں اور ابتلاء کا تیسرا درجہ وہ ہے جو مقاصد تو یہی رکھتا ہے لیکن ایسے بدنصیبوں پر آتا ہے جن کو ابتلاؤں سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت نہیں رہتی.اتنے ٹیڑھے ہو چکے ہیں اتنے بد ہو جاتے ہیں اپنے دلوں میں اپنے دماغوں میں کہ پھر ابتلا ء اکثر اوقات اُن کے لئے ہلاکت کے مناظر پیچھے چھوڑ جاتا ہے.شاذ ہی ہیں وہ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے جو نصیحت پکڑتے ہیں.اس اصولی تعلیم کو اور خدا کی اس تقدیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم مسلمانوں کے ابتلاؤں کی موجودہ حالت پر غور کرتے ہیں تو یقیناً خدا کی کسی ناراضگی کا ہاتھ تو صاف دکھائی دینے لگتا ہے.یہ ویسا ابتلاء تو بہر حال نہیں یا ویسے ابتلاؤں کا دور تو بہر حال نہیں جو اولین کی تاریخ میں ہم نے دیکھا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں پر ابتلاؤں کے جو دور آئے تھے ان کی صورتیں تو ان ابتلاؤں سے بالکل مختلف تھیں.سرسری نظر سے دیکھو تو کوئی بھی قدر مشترک دکھائی نہیں دیتی ، غور سے دیکھو تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی خیر کا ہاتھ ان ابتلاؤں میں بھی کارفرما ہے لیکن فائدہ اُٹھانے والے کم ہیں انہوں نے خیر کے پہلو کو ڈھانپ لیا ہے اور وہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ بدوں نے اپنی بدی کے نتیجہ میں خیر کے پہلو کو دھندلا دیا ہے اور گدلا کر دیا ہے.یہ وہ صورت ہے جو آج ظاہر صلى الله ہورہی ہے ورنہ ناممکن ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم ایسے مصائب کا شکار ہوتی.اب اجودھیا کی مسجد سے متعلق کچھ عرصے سے جو خبریں آرہی ہیں اُن کے نتیجہ میں دنیا کے کسی کونے میں کسی فرقے سے تعلق رکھنے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو ہر ایک کا دل خون ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی مدد کیوں نہیں آرہی.کیوں اللہ تعالیٰ اس ابتلاء کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ساکھ کمزور ہونے دے رہا ہے اور دنیا کے سامنے ان کو بالکل بے بس اور نہتا کر کے دکھا رہا ہے.اس بات پر غور کرتے ہوئے آپ کو سچائی کے ساتھ ، تقویٰ کے ساتھ صورت حال کا تجزیہ کرنا ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 881 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء جہاں تک بابری مسجد کے منہدم کرنے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کے گھر کو منہدم کر کے شرک کی آماجگاہ بنا دینا ایک بہت بڑا ظلم ہے لیکن خدا کی تقدیر بعض دفع اس ظلم کو اس لئے ہونے دیتی ہے اور برداشت کرتی ہے کہ اس دور کے لوگ اس بات کے اہل نہیں کہ خدا کی تقدیران کے حق میں اُٹھ کھڑی ہو اور ان کے حق میں غیر معمولی کرشمے دکھائے خدا کی عبادت کا سب سے معزز گھر وہ ہے جس کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل نے از سر نو اپنے ہاتھوں سے کھڑا کیا اور دوبارہ اس کو ایک عبادت گاہ کی صورت میں اپنی محنت سے از سرنو مکمل کیا یعنی تھا تو پہلے ہی لیکن منہدم ہو چکا تھا، گر گیا تھا تعمیر نو چاہتا تھا.پس وہ تعمیر نو خدا کے ایک برگزیدہ نبی اور اس کے ایک برگزیدہ نبی و بیٹے نے مل کر کی تھی.وہ توحید کا مرکز تھا اور اس غرض سے قائم کیا گیا کہ تمام دنیا کو توحید کا پیغام پہنچائے لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنے سو سال تک وہ شرک کی آماجگاہ بنا رہا، کتنے بت تھے جو اس میں رکھے گئے.بیان کیا جاتا ہے کہ ہر دن کے لئے ایک الگ بُت وہاں نصب کیا گیا تھا یعنی سال میں جتنے دن ہیں اتنے ہی انواع واقسام کے بت وہاں گاڑ دیئے گئے تھے اور توحید کا مرکز شرک کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا گیا تھا اور اس بات پر سینکڑوں سال گزر گئے اور بظاہر خدا کی غیرت جوش میں نہیں آئی اور بظاہر کوئی ایسی چیز دکھائی نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں ہم سمجھتے ہوں کہ خدا تعالیٰ نے دوبارہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے اس گھر کو عبادت کرنے والوں کے سپر د کر دیا ہو اور بتوں کو باہر نکال پھینکا ہو.آگے بڑھتے ہیں تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا انقلاب آفریں دور آتا ہے جو قرآن کی اصطلاح میں ساعۃ تھی ، ایک قیامت تھی جو بر پا ہوگئی صدیوں کے مردے زندہ کئے گئے ، بہت تھے جوموت کے چنگل میں تھے ان کو موت کے چنگل سے رہائی بخشی گئی ایک عظیم روحانی انقلاب بر پا ہوا.جب موحد پیدا ہوئے تو باوجود اس کے کہ مشرکین کو غیر معمولی طاقت حاصل تھی اور غیر معمولی غلبہ نصیب تھا ان کی طاقت اور غلبوں کے جال تو ڑ دئیے گئے ان کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا گیا اور اس گھر کو جو خدا کی وحدت کا، خدا کی توحید کا گھر تھا تو حید کا عالمی نشان تھا خدا کی عبادت کی خاطر قائم کیا گیا تھا ان بندوں کے سپرد کیا گیا جو موحد بندے تھے، جو تو حید کا حق ادا کرنا جانتے تھے ، جو عبادت کی خاطر پیدا کئے گئے تھے اور عبادت کی خاطر محمد رسول اللہ اللہ نے خود ان کی پرورش فرمائی ، خود ان کو تربیت دی.پس جب وہ موحدین دنیا میں آگئے جو اس گھر کے لائق تھے تو اس گھر کو غیر اللہ سے آزاد کرا دیا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 882 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء گیا.اس میں بہت گہرا سبق ہے.سبق اس میں یہ ہے کہ ظاہری چیزوں کا ایک مرتبہ اور مقام اس لئے بنتا ہے کہ کچھ نیک لوگ ان سے وابستہ ہوتے ہیں، کچھ پاک بندے ان سے وابستہ ہوتے ہیں تو وہ جگہیں مقدس کہلاتی ہیں، کچھ بد اور گندے لوگ ان سے وابستہ ہوتے ہیں تو وہ چیزیں پلید کہلاتی ہیں.تو ظاہری اینٹ پتھر اور مقام میں کوئی حقیقت نہ کوئی تقدس ہے، نہ کوئی اس میں ذلت ہے نہ کوئی تذلیل ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکیزگی اور خبائث یہ دو چیزیں انسانوں کے ساتھ وابستہ ہیں.انہی کے دلوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جب تک پاک دل پیدا نہ ہوں ان ظاہری مقامات کا تقدس ان کو لوٹا یا نہیں جاتا اور اس عرصے میں ان مقامات پر جو کچھ بھی ہو خدا غیور ہے اور مستغنی ہے.غیور اور مستغنی دو صفات مل کر جو جلوہ دکھاتی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ خدا ان باتوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا وہ توحید کی غیرت رکھتا ہے لیکن تو حید کی غیرت رکھنے والے جب تک دنیا میں پیدا نہ ہوں اس وقت تک مقام تو حید ان کی طرف واپس نہیں لوٹایا جاتا.پس خدا صبر کرنے والا بھی ہے، خدا نے اپنے سب سے مقدس گھر کو کتنا عرصہ شیطان کے ہاتھ میں رسوا ہوتے ہوئے دیکھا لیکن کوئی پرواہ نہیں کی لیکن جب محمد رسول اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھی پیدا ہوئے تو کس شان کے ساتھ غیر اللہ کو اٹھا کر باہر پھینک دیا اور شیطان اور اس کے ساتھیوں کا کچھ بھی وہاں نہیں چھوڑا.یہی مضمون ہے جو دوسرے بیت المقدس کے متعلق بھی اسی طرح صادق آتا ہے.وہ بیت المقدس جو فلسطین میں واقع ہے اور جو خانہ کعبہ کے بعد دوسرا ایسا مقام ہے جو عبادت کرنے والوں کی نگاہ میں سب سے زیادہ عزیز ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم کی یہی پیشگوئی ہے کہ ہم نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ ہم یہ گھر اپنے عبادت کرنے والوں کو واپس کریں گے.جب تک عباد الله المخلصین پیدا نہیں ہوں گے اس وقت تک خدا کو کچھ پر واہ بھی نہیں ہے کہ یہ کن لوگوں کے ہاتھوں میں رہتا ہے تو دیکھئے ایک ہی خدا ہے، اس کا ایک ہی کلام یعنی قرآن کریم ہے، اس کی مختلف آیات مختلف مواقع پر نازل ہوتی ہیں اور بظاہر مختلف مضامین سے تعلق رکھتی ہیں لیکن بنیادی طور پر بظاہر کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ایک ہی اصول پر مبنی ہیں اور ایک ہی اصول کے متعلق بنی نوع انسان کو پیغام دے رہی ہیں، مختلف جہتوں سے وہ پیغام آرہے ہیں مگر پیغام فی ذاتہ ایک ہی ہیں، عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے تو ممکن نہیں ہے کہ غیر اللہ کا مساجد پر قبضہ رہے ، عبادتگاہوں پر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 883 خطبہ جمعہ ۱۱ار دسمبر ۱۹۹۲ء قبضہ رہے اگر سچی عبادت کرنے والے نہیں ہونگے یا خدا سے تعلق بگڑ چکے ہوں گے تو پھر خدا کی غیرت کوئی جوش نہیں دکھائے گی.اس کی طرف عالم اسلام کو توجہ کرنی چاہیئے اور فکر کرنی چاہئے اپنے ردعمل کا جائزہ لینا چاہئے.معلوم کرنا چاہئے کہ کس حد تک انہوں نے خدا کی خاطر ایسا کیا، کس حد تک قومی دشمنیوں اور دیرینہ عداوتوں کے نتیجہ میں ایسا کیا گیا اگر خدا کے گھر کی محبت کے نتیجہ میں کوئی رد عمل دکھایا جائے اور رد عمل دکھانے والا مخلص ہو اور واقعہ خدا کی محبت میں سرشار ہو تو خدا کی تقدیر اس کی حمایت میں ضرور کھڑی ہوگی ناممکن ہے کہ اسے پشت پناہی کے بغیر خالی چھوڑ دیا جائے.اس وقت جو نظارہ دکھائی دے رہا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمانوں کا کوئی یار و مددگار نہیں رہا حالانکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیروں کا کوئی مولی نہیں ہے لیکن مومنین کا مولیٰ ہے.جو خدا کے ہیں ان کا ایک والی ، ان کا ایک مددگار، ان کا ایک نصیر موجود ہے.بے سہارا لوگوں کے حالات اور ہوا کرتے ہیں.سہارے والوں کے اور ہوا کرتے ہیں اور جن کی پشت پر خدا کھڑا ہو کیسے ممکن ہے کہ ان کے حالات بے سہاروں والے ہو جائیں.پس بنیادی فکر کا پیغام یہ ہے کہ کیا ہماری پشت پر خدا نہیں رہا یعنی عالم اسلام کو اس بات پر غور کرنا چاہئے اگر نہیں رہا تو کیوں نہیں رہا وہ تو بے وفائی کرنے والا خدا نہیں ہے.یقیناً ہم نے بے وفائی کی ہے.پس مرض کو پکڑے بغیر ہرگز آپ کو فائدہ نہیں پہنچے گا.مرض کہیں اور واقع ہے علاج کہیں اور ہورہا ہے.رد عمل خالصہ خدا کی خاطر نہیں ہے.اگر رد عمل خدا کی خاطر ہوتے تو ہندوستان میں اگر مسلمانوں کو آگ میں زندہ جلایا گیا تو پاکستان میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ کسی ہند و کو زندہ آگ میں جلایا جاتا.جو بدنمو نے ان لوگوں نے دکھائے اسلام کی تعلیم مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ بد نمونے تم اپنی جگہ دکھاؤ.قرآن کریم کی تعلیم بالکل واضح اور کھلی کھلی ہے اور انصاف پر مبنی ایسی عظیم الشان تعلیم ہے کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی کسی اور کتاب میں دکھائی نہیں دیتی.انتقام کی اجازت ہے مگر ان لوگوں سے جن لوگوں نے وہ جرم کیا ہو.وہ لوگ جو اس جرم میں ملوث نہیں ہیں ان سے ظالموں کے ظلم کا انتقام لینا ایک نیا ظلم ہے، اسے انتقامی کارروائی نہیں کہا جاتا.پس اگر کوئی کسی مسلمان کو آگ میں ڈالتا ہے یا ہندو یا سکھ یا عیسائی کو آگ میں ڈالتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 884 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء تو اس حد تک اس سے انتقام لینا جائز ہے کہ اس ظالم کو پکڑ کر آگ میں پھینکا جائے اور اسی طرح اس کو موت کی سزادی جائے جس طرح اس نے ایک مظلوم انسان کو ناحق موت کے منہ میں جھونکا تھا لیکن اس کی جگہ کسی اور مقام پر کسی اور معصوم کو پکڑ کر اس سے وہی سلوک کیا جائے یہ تو کسی قیمت پر کسی پہلو سے بھی جائز فعل قرار نہیں دیا جا سکتا.قرآن اس کی مذمت فرماتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ اس کی مذمت فرماتا ہے.کبھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک ظالم اور خبیث کا بدلہ کسی اور معصوم سے نہیں لیا.پھر عالم اسلام تو عبادت گاہوں کے تقدس کی حفاظت کرتا ہے ظلم کی حد ہے کہ ایک جگہ اگر بعض مساجد جلائی گئیں تو دوسری جگہ ان کی عبادتگاہیں مسمار کر دی گئیں اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن پر ایک یا دو مسجد میں منہدم ہوئی تھیں ہندوستان میں جب مسلمانوں نے مندر جلانے کا رد عمل دکھایا تو بیسیوں اور مساجد اس کے نتیجہ میں منہدم کر دی گئیں.یہ ایک موٹی عقل سے تعلق رکھنے والی بات ہے.عقل کا تقاضا ہے کہ انسان صورت حال کا جائزہ لے کر ایسا انتقام نہ لے جس سے اس کے مظلوم بھائی اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جائیں.جس گھر کے تقدس کی خاطر یعنی خدا کے گھر کے تقدس کی خاطر وہ کوئی اقدام کرتا ہے تو ایسی جوابی کاروائی تو نہیں ہونی چاہئے کہ اور بھی کثرت سے خدا کے گھر منہدم کر وائے جائیں.پس یہ ایک جاہلانہ فعل ہے اگر عالم اسلام یہ رد عمل دیکھا تا کہ ان کو کہتا کہ اگر تم انسان نہیں ہو تو ہم تو انسان ہیں.تمہاری تربیت بتوں نے کی ہے (اگر کوئی بت ہیں) لیکن ہماری خدائے واحد لاشریک نے تربیت کی ہے، ہماری محمد رسول اللہ ﷺ نے تربیت کی ہے ، ہم ان بدبختیوں میں مبتلا نہیں ہو سکتے جن میں تم ہو رہے ہو.اگر خدا ہمیں طاقت دے تو ہم ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں لیکن جاہلانہ طور پر جرم کوئی اور کرے اور اس کی سزا کسی اور کو دی جائے اس کی ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا.اگر یہ اقدام کرتے اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرتے ، خواہ وہ کسی قسم کی عبادتگاہیں ہوں تو یقینا اللہ کی نصرت ان کی تائید میں ظاہر ہوتی آج جو مظالم ہوئے ہیں ان کا عشر عشیر بھی ظاہر نہ ہوتا.امر واقعہ یہ ہے کہ جو ہندو انتہا پسند ہے اس نے عمداً اس نیت سے یہ شرارت کی تھی کہ سارے ملک میں اس طرح آگ لگ جائے مسلمانوں کا ردعمل ہو پھر ہم ہندوؤں کو اور بھڑ کا ئیں اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 885 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء پھر وہ حالات پیدا کردیں کہ جس طرح ہما را دعوی ہے ہندوستان صرف ہندؤوں کے لئے ہے مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں.یہ نعرہ لے کر ہم اس آگ کو پھیلاتے رہیں اور بھڑکاتے رہیں اور مسلمان مظلوموں کو اس میں جھونکتے رہیں.یہ ان کا کھلا کھلا دعوی تھا آج بھی ہے اور خدا کی تقدیر جب تک اس کو سزا نہیں دیتی کل بھی یہی رہے گا.اس دعوئی کی تائید میں باہر بعض ایسی ظالمانہ کارروائیاں کی گئی ہیں جو انتقامی کارروائیاں نہیں بلکہ ہندوستان کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر مزید ظلم کرنے کے مترادف ہیں پس ان کارروائیوں میں نہ ایمان کا نور ہے نہ عقل کی روشنی ہے محض جاہلانہ کارروائیاں ہیں جنہوں نے ویسے بھی اسلام اور اسلام کی مخالفانہ طاقتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مہم کر کے دکھا دیا ہے.اب خبروں والے کہتے ہیں کہ وہاں بمبئی میں اتنے بچے جلائے گئے اور کوئٹہ میں اتنے بچے جلائے گئے، ہندوستان میں اتنی مساجد منہدم کی گئیں اور پاکستان میں اتنے مندر منہدم کئے گئے.تعداد کا فرق رہا لیکن جرم کی نوعیت میں تو کوئی فرق نہیں غیر انسانی حرکتوں میں تو کوئی فرق نہیں رہا.پس وہ لوگ جنہوں نے محمد مصطفی اللہ کے دین کو غیر اللہ کے دین سے اس طرح متشابہ کر کے دکھایا ہے انہوں نے بڑا بھاری ظلم کیا ہے.اگر وہ بچے استغفار سے کام نہ لیں اور تو بہ نہ کریں تو خدا کی تائید تو در کنار ان کو یہ خوف دامن گیر ہونا چاہئے کہ خدا کی مزید پکڑ کے نیچے نہ آجائیں.اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی تائید کرتا ہے اور ضرور کرتا ہے حضرت محمد رسول الله تعالی علیہ عرب کے مشرکین کے مقابل پر عددی لحاظ سے اس سے کم حیثیت تھی جتنی آج ہندوستان کے مسلمانوں کو وہاں کے مشرکین کے مقابل پر حیثیت ہے.نسبتی لحاظ سے آپ دیکھیں گنتی کے جتنے چند مسلمان مدینہ میں تھے یا چند بستیوں میں اتحاد کا موجود تھے ان کے مقابل پر سارا مشرک عرب کتنی بھاری طاقت تھی یہ اتنی بھاری طاقت تھی کہ حقیقت میں اس کی ایک اور سو کی جتنی نسبت نہیں تھی یعنی اگر مسلمان کی ایک طاقت تھی تو اس کے مقابل پر سویا اس سے زیادہ کی طاقت عرب مشرکین کے پاس تھی لیکن دیکھیں خدا کی تقدیر نے نتائج کیا ظاہر کئے ہیں اس ایک کوسو کے برابر طاقتور کر دیا اور ان سو کی طاقت چھین کر ایک کے برابر بھی نہ رہنے دی.یہ نصرت الہی کا ہاتھ ہے.یہ اگر اسلام کی تائید میں عرب میں اُٹھ سکتا تھا اور چل سکتا تھا تو کیوں ہندوستان میں نہیں اُٹھ سکتا اور نہیں چل سکتا.کون ہے جو خدا کے ہاتھ کو روک سکے ؟ لیکن اپنی ادائیں ان لوگوں والی بنائیں جو محمد رسول اللہ ہے اور
خطبات طاہر جلد ۱۱ 886 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء کے ساتھی ہیں ، ویسے دل پیدا کریں، ویسے حوصلے پیدا کریں، ویسے دماغ پیدا کریں پھر دیکھیں کہ خدا کی تائید آپ کے لئے کیسے کیسے کرشمے دکھاتی ہے.پس ظلم کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک بہت اچھا موقع تھا جو ان کے بدنصیب راہنماؤں نے ہاتھ سے جانے دیا اور اس ابتلاء سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اُمت کو مزید نقصان میں جھونک دیا ہے.ہندوستان میں اب مظالم کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سلسلے کی باہر کے رد عمل کی وجہ سے تائید کی گئی ہے لیکن عرب علماء نسبت زیادہ ہوشمند ہیں.عرب حکومتیں نسبتا زیادہ عقل رکھتی ہیں.گلف کے علاقے میں اور دوسرے عرب علاقوں میں بکثرت ہندو تاجر اور مزدور موجود ہیں وہاں کی حکومتوں نے سختی سے اس بات کی نگرانی کی ہے کہ نہ کوئی مندر جلایا جائے نہ ان میں سے کسی کو مارا جائے اور جہاں تک پاکستانی ملاؤں نے جوش دلانے کی کوشش کی ہے وہاں حکومت نے سختی سے ان کو پیغام دیا ہے کہ خبردار جو تم نے انگلی اٹھائی.ہم یہ بیہودہ حرکتیں اپنے ملک میں نہیں ہونے دیں گے.یہ بھی خدا ہی جانتا ہے کہ نیتیں کیا تھیں.کیوں ایسا کیا گیا؟ کیا ان کو اپنے اقتصادی تعلقات پیارے تھے؟ کیاستی مزدوری کے علاقے سے جو تعلق قائم ہو چکا تھا اس کو خراب نہیں کرنا چاہتے تھے یا کوئی اور وجہ تھی لیکن فیصلہ بہر حال عقل پر مبنی ہے اگر دل پاکیزہ تھے اگر اسلامی تعلیم کی خاطر ایسا کیا گیا ہے تو پھر یہ فیصلہ نہ صرف عقل کی روشنی رکھتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی روشنی بھی رکھتا ہے اور خدا کرے کہ ایسا ہو لیکن پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ عقل نہیں آئی.یہ وہ بدنصیب قیادت ہے جس نے عالم اسلام کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے.میں نے دیانت اور خیانت کا جو مضمون شروع کیا تھا.اس میں بتایا تھا کہ دیکھیں آنحضرت نے سب سے زیادہ بدنصیب خیانت کرنے والا وہ قرار دیا ہے جو قوم کا امیر بنایا جائے سردار مقرر کیا جائے اور پھر خیانت کرے.یہ اس کی مثال ہے اور کتنی فتیح اور کتنی دردناک مثال ہے.مسلمان راہنماؤں نے اگر ہندوستان اور پاکستان میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے روشنی حاصل کر کے اقدام کئے ہوتے تو بالکل مختلف اقدام ہوتے اور ان اقدامات کی روشنی میں اگر یہ دردناک حالات پیدا ہوتے بھی تو آگے نہ بڑھ سکتے لیکن اب یہ سلسلے آگے بڑھنے والے نظر آتے ہیں اور آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مسلمانوں پر اتنے درد ناک مظالم ہورہے ہیں کہ مجھے وہاں کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 887 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء جماعتوں کے احباب کی طرف سے جو خطوط ملتے ہیں ان کو پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ اخبارات میں تو کچھ بھی نہیں جن لوگوں نے آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے، بہت ہی دردناک حالات لکھے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ رکنے والے نہیں ہیں.یہ آگے بڑھیں گے اور اس میں گہری سازشیں ہیں لیکن باوجود اس کے کہ یہ لوگ مشرک ہیں، باوجود اس کے کہ فی الحقیقت اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان سے ایک روائتی دشمنی چلی آرہی ہے جو اس مذہبی دشمنی پر مستزاد ہے لیکن پھر بھی ان کی حکومتوں کوان کے سربراہوں کو اتنی عقل ضرور ہے کہ دنیا کو منہ دکھانے کے لئے کچھ نہ کچھ کوشش کریں وہ اپنے عیوب کو، اپنی غلطیوں کو اس طرح ڈھانپ کر آگے بڑھتے ہیں کہ دیکھنے والے کو بتاسکیں کہ ہاں یہ بدیاں تو ہیں لیکن ہمارے اختیار سے باہر تھیں.ہم اس کی تائید میں نہیں چنانچہ مبصرین نے اس وقت تک جو بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجودھیا کی مسجد کے سلسلہ میں مرکزی حکومت نے آنکھیں بند کیں اور یہ واقعہ ہونے دیا اور یوپی کی حکومت پوری طرح اس میں ملوث تھی لیکن مرکزی حکومت نے اس کی مذمت ضرور کی ہے اور واقعہ ہونے کے معا بعد اس حکومت کو برطرف کر دیا یہ بھی کوئی مذہبی کارروائی نہیں تھی، کسی نیکی پر مبنی نہیں تھی مگر کم سے کم عقل پر مبنی ضرور تھی انہوں نے ایک قانونی سہارا لیا کہ جس صوبے میں ہمارا براہ راست عمل دخل نہیں ہے اس میں ہونے والے واقعات سے متعلق ہم متنبہ کرتے رہے ہیں اس صوبے کو اور بتاتے رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور جب ہوا تو اسی وقت ہم نے اس حکومت کو معطل کر دیا اور اسی وقت دوسری کا رروائی شروع کر دی یعنی دنیا کو دکھانے کیلئے ایک معقول طرز عمل خواہ وہ گہرا تھا یا سطحی تھا ایسا ضرور پیش کیا گیا ہے جس سے دنیا کی جو رائے عامہ ہے اس پر اچھا اثر پڑ سکتا ہے.گود نیا کسی حد تک یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ نے عمداً ایسا ہونے دیا آپ اس شرارت میں دراصل شریک ہیں اس صوبے کی حکومت سے سیاسی انتقام لینا چاہتے تھے.اس سیاسی انتقام لینے کی خاطر آپ نے خود اس واقعہ سے آنکھیں بند رکھیں پتا تھا کہ ہو گا لیکن جان کر ہونے دیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے لیکن کچھ کوشش تو ضرور کی ہے.وہاں کے اخبارات نے جو تبصرے کئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ساری قوم میں ندامت کا ایک احساس بھی موجود ہے ایک حیا بھی ہے جس کا ذکر کیا جارہا ہے اور بعض اخبار نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ایسے داغ اب ہمارے کردار پر لگ گئے ہیں وہ خون جو اجودھیا میں اور باہر بہایا گیا اس خون نے ہمارے کردار پر ایسے دھبے لگا دیئے ہیں جو
خطبات طاہر جلد ۱۱ 888 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء کبھی ڈھل نہیں سکتے اور وہ عمارتیں جو منہدم کی گئی ہیں ان عمارتوں نے منہدم ہو کر ہمارے قومی کردار کی تعمیر کو منہدم کر دیا ہے اور اب مشکل سے یہ تعمیر نو ہوگی.بڑے بڑے زبر دست اور صحیح اور سچے تبصرے ان اخبارات میں آرہے ہیں اور سوائے چند ایک اخبارات کے جو انتہا پرستوں کے ہاتھ میں ہیں اکثر ہندوستانی اخبار میں ان واقعات کے خلاف بہت سخت تبصرے کئے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ایسے مواقع پر مسلمان راہنماؤں کو عقل نہیں آتی اور کھلے بندوں مساجد سے اعلان کئے جارہے ہیں کہ اُٹھو جہاد کا وقت آگیا ہے برباد کر دو مٹا دو اور ان پر چڑھ دوڑو اور جوابی کارروائی کے لئے تیار ہو.دہلی کی مسجد میں جو امام لیکچر دیتا ہے یا دوسری مسجدوں میں دیتا ہے اس کو پھر یہ لوگ عالمی مواصلاتی ذرائع سے ساری دنیا کو دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں طرف کی بات ہے صرف طاقتور اور کمزور کا جھگڑا ہے ورنہ تو کردار ایک ہے، نظریات ایک ہیں ایک دوسرے کے معاملات میں رد عمل ایک جیسے ہی ہیں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں صرف یہ دیکھ لو کوئی طاقت ور ہے اور اس کا زیادہ داؤ چل گیا کچھ کمزور ہیں ان کا کم داؤ چلا ہے.پاکستان میں کم مندر تھے اس لئے کم جلائے گئے ، کم ہندو تھے اس لئے کم زندہ آگ میں پھینکے گئے.ہندوستان میں چونکہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے زیادہ تعداد میں سب کچھ ظاہر ہوالیکن افسوس، کچھ پاکستان کے اخبارات کو اس شدت کے ساتھ اور اس جلی قلم کے ساتھ ان خوفناک مظالم کی جو پاکستان میں بھی ہندوؤں پر توڑے گئے مذمت کرنے کی ان کو توفیق نہیں ملی.بڑی شدت سے رد عمل ہونا چاہئے تھا.مسلمان راہنماؤں کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ تم نے عالم اسلام کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے تم نے قرآن کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے ، ہم اپنے ملک میں ایسا نہیں ہونے دیں گے اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا میں اسلام کا تاثر بالکل اور رنگ کا ہوتا اور اسلام دشمن طاقتوں کا تاثر بالکل اور رنگ کا ہوتا لیکن اب سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح اپنے کردار کو گندہ کر دیا ہے اور یہ سب نحوست دراصل اس بات کی ہے کہ راہنماؤں میں نہ عقل کی روشنی ہے اور نہ تقویٰ کی روشنی ہے اور وہ اپنی قوم سے خیانت کر رہے ہیں، غلط مشورے دیتے ہیں، غلط راہنمائی کرتے ہیں اور جب کوئی مسئلہ ایسا پیدا ہوتا ہے کہ جب قوم کو صحیح راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تو غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں مسلمان پے در پے ٹھوکر کھا رہا ہے.اگر یہ بات غلط ہو اور وہ بچے مشورے دے رہے ہوں اور صحیح سمت پر قوم کو ڈال رہے
خطبات طاہر جلدا 889 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء ہوں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید آسمان سے ظاہر نہ ہو.پس جب تم غیروں کی طرف جاؤ گے تو خدا کو کیا ضرورت ہے کہ تمہاری تائید میں اعجاز دکھائے.آسمان سے معجزے نازل ہوں.یہ تو ان لوگوں کے لئے ہوتے ہیں جو اپنے کردار میں اعجاز دکھایا کرتے ہیں خارق عادت تعلق اللہ سے باندھا کرتے ہیں.قرآن کریم نے دیکھیں کیسا پیارا اور ہمیشہ کی سچائی کا یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) کہ سنو خدا بھی کسی قوم کی حالت کو تبدیل نہیں کیا کرتا جب تک وہ قوم پہلے اپنی حالت کو تبدیل نہ کر لے.اس مضمون کا زیادہ تعلق نعمت اور نعمت کے جاتے رہنے سے ہے کیونکہ ایک اور آیت میں اسی مضمون کو اس طرح تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو جو نعمتیں عطا کر دی ہیں، ہدایت کا نور بخشا ہے اس نور کے نتیجہ میں ان کے ذہن بھی روشن ہو گئے ، ان کے قلوب بھی روشن ہو گئے ان کا ماحول اللہ تعالیٰ کے نور کی رحمت اور برکت سے روشنی کے ہر پہلو میں ترقی کرتا چلا گیا یعنی دنیا وی پہلو سے بھی وہ روشن ہو گئے اور دینی پہلو سے بھی روشن کئے گئے اور روحانی پہلو سے بھی روشن کئے گئے.یہ وہ نعمت ہے جو آسمان سے نازل ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک اس نعمت کے قدردان لوگ رہتے ہیں اس وقت تک خدا کبھی اس نعمت کو واپس نہیں کھینچتا اور ان عزتوں کو ذلتوں میں تبدیل نہیں کیا کرتا ہاں جب قوم اپنے کردار بدلتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اپنا اسلوب بدل لیتی ہے، ان سے اپنے تعلق کاٹ لیتی ہے ان سے اور قسم کے معاملات شروع کرتی ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کی وہ تنبیہ ہے جس کو پیش نظر رکھ کر آج بھی مسلمانوں کو اپنے حالات پر غور کرنا چاہئے جب تک وہ بچے عبادت کرنے والے نہ بنیں گے، جب تک خدا کے گھروں سے ان کا تعلق حقیقی اور اخلاص کا نہیں ہو گا، جب تک مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ (الاعراف: ۳۰) بن کر نہیں دکھا ئیں گے اللہ کی تائید ان کے لئے ظاہر نہیں ہوگی.میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا دیکھنا یہ ہے کہ رد عمل سیاسی ہے یا ند ہی ہے اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب میں نے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے حالات پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ عبادت کی غیرت تو محض نام کے قصے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.خدا کے گھر کی محبت
خطبات طاہر جلد ۱۱ 890 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء کے نتیجہ میں یہ رد عمل نہیں دکھایا جارہا.یہ حض سیاسی اور قومی دشمنیوں کے نتیجہ میں ہے اس پہلو سے عالم اسلام کو اکٹھا ہو کر یقیناً قومی غیرت کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہئیں لیکن اس کو اسلام اور دین کے ساتھ باہم اختلاط کر کے نہیں دکھانا چاہئے اگر اعلیٰ درجے کا تقویٰ نہیں تو کم از کم سیدھی سادی کچی بات کرنے کی عادت ڈالو مسجدوں کی محبت کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہی مسلمان ایک دوسرے کی مسجدیں بھی جلاتے ہیں اور ان کو منہدم کرتے ہیں.شیعوں کے مقدس مقامات برباد کئے جاتے ہیں اور جلائے جاتے ہیں ،سُنیوں کے جلائے جاتے ہیں، پاکستان میں لاہور میں بھی ایسے واقعات ہوئے ، پشاور میں بھی ایسے واقعات ہوئے، کراچی میں ایسے واقعات ہوئے سندھ میں بکثرت ایسے واقعات بار بار ہوتے رہے.یہ کوئی آج اور کل کی بات نہیں تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب مسلمانوں نے ایک دوسرے مسلمان فرقے کے خلاف اپنی طرف سے علم جہاد بلند کیا اور ان کے راہنماؤں نے ان بے چارے سادہ لوح مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ یہ مساجد ضرار مساجد ہیں.یہ خدا کی نہیں ہیں بلکہ غیر اللہ کی مساجد ہیں اُٹھو ان کو منہدم کر دو خدا اس سے تم سے خوش ہوگا.پس اگر خدا کے نام پر خدا کے گھروں کو برباد کرنے کی تعلیم کو قوم برداشت کر لے اور یہ عادت اس کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہو تو پھر جب غیر ایسی حرکتیں کریں تو اس کو کس منہ سے تم طعنہ دے سکتے ہو اس کو کس منہ سے کہہ سکتے ہو کہ تم بڑا ظلم کر رہے ہو کہ اللہ کی عبادت کرنے والے گھروں پر تم نے ظلم کا ہاتھ اُٹھایا ہے اور عبادت کرنے والے گھروں کو منہدم کیا ہے.جماعت احمدیہ کی حالیہ تاریخ میں سے چند حقائق میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جہاں تک خدا کے گھر کی عزت واحترام کا تعلق ہے کس حد تک وہ عزت آج پاکستان کے علماء کے ذہن پر روشن ہے یا ان کے دلوں میں جاگزیں ہے یا ان کے رُخ معین کرتی ہے خدا کی خاطر اگر مسجدوں سے محبت ہو تو رُخ ایک ہی معین ہوگا یعنی وہ رُخ جو قبلے کا رخ ہے جو خدا کی طرف لے کر جاتا ہے.خدا کی تعلیم پر مبنی ہے ایک ہی طرح کے رد عمل ظاہر ہوں گے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ محبت خدا کی ہو اور آپس کی دشمنیوں کے نتیجہ میں خدا کے گھر کی بربادی کے رد عمل مختلف ہو جائیں.خدا قد رمشترک ہے وہ ہم سب کا خالق و مالک ہے جب اس کے گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالا جائے تو اس سے محبت کرنے والے کا رد عمل لازماً ایک ہو گا خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھنے والی مسجد
خطبات طاہر جلد ۱۱ ہو یا خدا کا گھر ہو.891 خطبہ جمعہ اار دسمبر ۱۹۹۲ء اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو آئیے میں آپ کو شکوے کے طور پر نہیں سمجھانے کی خاطر بتا تا ہوں کہ دیکھو کل تک تم جو حرکتیں کیا کرتے تھے آج اللہ کی تقدیر نے تمہیں آئینہ دکھایا ہے اور تمہیں بتایا ہے کہ خدا کے حضور یہ حرکتیں پسندیدہ نہیں ہیں اور پکڑے بغیر نہیں چھوڑی جائیں گی تقوی سے کام لو.خدا کی انگلی کے اشاروں کو دیکھو اور سمجھو.پاکستان میں جو احمدی مساجد شہید کی گئی ہیں ان میں سے ایک احمدیہ مسجد را ہوالی ، ایک باگڑ سرگانہ ، ایک مردان ، ایک گلار چی، ایک علی پور چٹھہ ، ایک مری، ایک بچیانہ ، ایک ننکانہ صاحب، ایک چک MB /۱۳ تحصیل وضلع وہاڑی چک نمبر ۶۳ ۵گ ب ہے.مختلف وقتوں میں یہ مسجدیں منہدم کی گئیں اور بعض جگہ ایسا ہوا کہ اس کا ملبہ بھی لوگ اُٹھا کر لے بھاگے.مسجد مردان جب منہدم کی گئی ہے تو سارے دن کی کارروائی تھی بہت بڑی مضبوط مسجد تھی.اسے پلید کہہ کر شہید کروایا گیا اور ساری پلید چیزیں چور لے کر بھاگ گئے.بنگلہ دیش میں راج شاہی کی مسجد جب شہید کی گئی تو اسی طرح کی گئی پلید پلید کہہ کر اس کو شہید کر دیا گیا اور ساری پلید چیزیں اپنے گھروں کی امارتوں کی زینت بنادی گئیں.پس یہ سوال ہے کہ یہ واقعہ ہونے میں کتنی دیر لگی تھی.کیا اس وقت پاکستان میں کوئی حکومت موجود نہیں تھی ؟ کیا ان علماء کو جنہوں نے ان مسجدوں کو شہید کرنے کی تعلیم دی تھی ان کو علم نہیں تھا کہ خدا کی عبادت کے گھر ہیں اور خدا کی عبادت کے لئے لوگ یہاں اکٹھے ہوتے ہیں؟ کیا یہ مساجد نہیں تھیں؟ جانتے ہیں کہ مساجد تھیں کیونکہ دوسرے کوائف سے ثابت ہے کہ احمدیوں کی بکثرت مساجد چھین لی گئیں اور ان میں اب غیر احمدی علماء نمازیں پڑھاتے اور غیر احمدی نمازیں پڑھنے والے نمازیں پڑھتے ہیں.اگر وہ مسجد میں نہیں تھیں تو مندروں میں تو عبادت کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے.کثرت سے ایسی مساجد ہیں جن پر قبضہ کیا گیا اور وہاں با قاعدہ ان کو اپنایا گیا.قبلہ بھی وہی ہے چونکہ پہلے بھی وہی قبلہ تھا، وہی گنبد ہیں جو پہلے تھے، وہی مینار ہیں جن میناروں سے پہلے اذانیں دی جاتی تھیں، کوئی بھی فرق نہیں گویا کہ ان کا فعل اقرار کر رہا ہے اور کھلم کھلا اقرار کر رہا ہے کہ احمدیوں کی مساجد بھی مساجد ہیں خواہ منہ سے ہم ان کا جو مرضی نام رکھ دیں اور ان مساجد میں نماز نہ صرف جائز بلکہ خدا تعالیٰ نے گویا ہمارے لئے یہ حق مقرر کر دیا ہے کہ ان مساجد کو اپنا ئیں چھینیں اور ان پر قبضہ کر کے ان میں خدا کی عبادت کیا کریں.یہ کسی کو خیال نہیں آتا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 892 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء کہ چوری کے مال پر کیسے عبادت ہو سکتی ہے ،ڈاکے کے مال پر کیسے عبادت ہوسکتی ہے لیکن یہ تو الگ باتیں ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں کہ دس مساجد اس وقت میرے علم میں ہیں جن کے نام میں نے پڑھ کر سُنائے ہیں.ان کو منہدم کیا گیا اور ان میں سے بعض ایسی ہیں جن میں چوبیس چوبیس گھنٹے تک کارروائی جاری رہی ہے اور کوئی حکومت وہاں دکھائی نہیں دیتی تھی.تو مسجد میں مسمار کرنے والوں کی تائید میں دکھائی دیتی تھی چنانچہ ہمارے پاس تصویریں ہیں، مردان کی مسجد شہید ہورہی ہے لوگ چوری کا مال اُٹھا اُٹھا کر لے جا رہے ہیں اور پولیس ساتھ کھڑی حفاظت کر رہی ہے کہ کہیں کوئی آکر ان پر حملہ آور نہ ہو جائے حالانکہ جو نمازی تھے ان ساروں کو قید کر لیا گیا تھا بچوں کو بھی بڑوں کو بھی سب کو اکٹھا سمیٹ سماٹ کر ٹرکوں میں بھر کر حوالات میں بھیجا جا چکا تھا اور جب تک مسجد کی یہ کارروائی مکمل نہیں ہوئی ان کو چھوڑا نہیں گیا.اتنے احتیاط کے ساتھ یہ سارے کام ہوئے اور آج پاکستان کے اخبار یہ لکھ رہے ہیں کہ اجودھیا میں جو واقعہ گزرا ہے یہ اچانک تو نہیں ہو گیا.حکومت اس وقت کہاں تھی جو مسجد منہدم کی گئی ہے یہ کوئی ایک گھنٹے آدھے گھنٹے کی کارروائی تو نہیں تھی اس پر تو پورا دن لگ گیا ہوگا اور دن لگ گئے ہوں گے کیا ہندوستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں تھی اور پھر اخبارات نے یہ لکھا ہے کہ حکومت تو تھی لیکن لوٹنے والوں اور منہدم کرنے والوں کی تائید میں کھڑی تھی پولیس ان کے ساتھ شامل تھی فوج اُن کے ساتھ شامل تھی اور ان سب سے مل کر یہ کارروائی ہوئی ہے اس لئے ہر عبادت کرنے والے کے لئے ایک چیلنج ہے.خدائے واحد و یگانہ کی وحدانیت پر ڈاکے مارے جارہے ہیں، اُٹھ کھڑے ہو اور اپنے انتقام لو.اگر خدا کی محبت اور اس کی وحدانیت کی محبت کے یہ تقاضے تھے تو کل ان تقاضوں کو کیوں موت آگئی تھی اگر کل یہ تقاضے مر چکے ہیں تو آج بھی زندہ نہیں ہوئے اور ان مردہ تقاضوں کی خدا کی تقدیر کو کچھ بھی پرواہ نہیں.جب تم خدا کے گھر کا تقدس لوٹنے والوں سے ایک جگہ محبت اور پیار کا سلوک کرتے ہو ان کو اپنی تائید مہیا کرتے ہو، ان کی پشت پناہی کرتے ہو تو کل جب تمہارے ساتھ یہ ہوگا تو کس طرح خدا سے توقع رکھتے ہو کہ خدا کی تقدیر تمہاری پشت پر آکھڑی ہوگی.یہ تقدیریں وہی ہیں جو ہمیشہ سے اسی طرح چلی آرہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار متنبہ کیا کہ دیکھو تم جو حرکتیں کر رہے ہو یہ ضائع نہیں جائیں گی خدا کی تقدیر ضرور تمہیں پکڑے گی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 893 خطبہ جمعہ اار دسمبر ۱۹۹۲ء قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار (در مشین صفحه: ۱۵۱) تم اپنی مستقبل کی تقدیر بنا رہے ہو.حقیقت یہ ہے کہ آج کا خائن عالم ہے جو کل کے مسلمانوں کی بربادی کا ذمہ دار ہے اور کل کا خائن عالم تھا جو آج کے مسلمانوں کی بربادی کا ذمہ دار ہے.اس خائن کو پکڑو، اگر تم اس خائن سے حساب لو گے تو خدا تعالی کی تقدیر تمہاری تائید میں اٹھ کھڑی ہو گی اور تمہارے مخالفوں سے حساب لیا جائے گا ورنہ تم تو خود حساب دینے کے مقام پر آکھڑے ہوئے ہو.ایک واقعہ نہیں دو واقعہ نہیں بار بار مساجد کی بے حرمتی کی گئی ان کو ظلموں کا نشانہ بنایا گیا ، عبادت کرنے والوں کو رستوں میں گھسیٹا گیا ، ان کو مارا گیا، ان کو اس بات کی سزادی گئی کہ کیوں تم خدا کی عبادت کر رہے تھے اور اب جب یہ سب کچھ ہورہا ہے تو اچانک غیرت دینی اٹھ کھڑی ہوئی اور ساری دنیا میں شور برپا کر دیا گیا ہے کہ ہم مسجدوں کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے.اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے ہو اور کرتے ہو.کیا اس کا نتیجہ نکالا جائے گا کہ خدا تعالے نے یہ فرمان جاری فرما دیا ہے کہ میری عبادتگاہوں کی بے حرمتی کا حق صرف مسلمانوں کو ہے؟ ساری دنیا میں ان کو کھلی چھٹی ہے جب چاہیں میری عبادت کے گھر کو مسمار کریں، بر بادکریں ، قرآن کریم کو جلائیں گلیوں میں پھینکیں.کسی اسلامی حکومت کا حق نہیں ہے کہ اس پر ان کو سرزنش کرے لیکن ہاں غیروں کو حق نہیں ہے کہ وہ خدا کا کوئی معبد تباہ کریں وہ جب کریں گے تو تمہیں جوابی کارروائی کا حق ہے تم کرو گے تو تمہاری اپنی چیز ہے کیوں نہ کرو؟ خدا کا گھر اور کس کا ہے تمہارا ہی ہے جو چاہو اس پر گر گز رو جیسے کہا گیا ہے کہ ہے تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر.گویا خدا ان کو یہ کہتا ہے کہ میرے تقدس کو برباد کرتے رہو اس کا خون میں اپنی گردن پر لیتا ہوں میں تمہیں کہتا ہوں کہ جاؤ اٹھو اور جو مرضی کرو تم مالک ہو تمہاری چیز ہے جو چاہو کرتے پھرو.ہاں غیروں کو نہ کرنے دینا غیر کریں گے تو غیرت دکھانا.یہ اسلامی تعلیم ہے؟ یہ اللہ کی محبت پر مبنی تعلیم ہے؟ ہو ہی نہیں سکتا جاہلانہ باتیں ہیں اور ان جاہلانہ باتوں کو تم نے برداشت کیا ہے اور قبول کیا ہے اور اپنا لیا ہے اپنی سنت کا حصہ بنالیا ہے بنگلہ دیش میں ایک انگلی نہیں اُٹھی جس نے ان بد کرداروں اور ظالموں کو روکنے کی کوشش کی ہو.پاکستان میں ایک انگلی نہیں اٹھی جس نے اتنی مسجدوں کی شہادت کے وقت ان ظالموں اور بد کرداروں کو روکنے کی کوشش کی ہو لیکن بنگلہ دیش میں ایک شرافت ضرور ہے کہ بنگلہ دیش کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 894 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۹۲ء اخباروں اور دانشوروں اور سیاستدانوں نے ان واقعات کی مذمت ضرور کی ہے آگے بڑھ کر روکنے کی صلى الله توفیق نہیں تھی تو مذمت تو ضرور کر دی گویا ایمان کے ادنی تقاضے تو ضرور پورے کر دیئے.آنحضرت لے نے یہ تصویر کھینچی ہے کہ اعلیٰ ایمان تو یہ ہے کہ آگے بڑھو اور بدی کو روک دو اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو کم از کم زبان سے روکو اگر زبان سے نہیں روک سکتے تو برا تو مناؤ.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر : ۸۵) پاکستان میں کتنے ہیں جنہوں نے زبان سے روکا ہو جنہوں نے آواز اُٹھائی ہو.اب کہیں کہیں یہ آواز اُٹھنے لگی ہے مگر اس سے پہلے تو مکمل خاموشی تھی.پس یہ بھی تو باتیں ہیں کہ جن کی طرف دھیان جاتا ہے اور اس وجہ سے میں ان حقائق کو جو بہت تلخ ہیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ حقیقت میں مسلمانوں کی اس بدقسمتی کے دور کا علاج یہ ہے کہ راہنماؤں کو ان غلطیوں کی طرف متوجہ کیا جائے اور مشورہ دیا جائے کہ بیماری یہاں واقع ہے اس بیماری کو دور کرنے کی طرف توجہ دو پھر خدا کا فضل ضرور نازل ہوگا.وہ مساجد جو ہندوستان میں منہدم کی گئی ہیں وہ ظلم ہمارے دل پر اس سے زیادہ گراں گزرا ہے جو تمہارے دلوں پر گزرتے ہیں کیونکہ ہمیں خدا کی عبادت سے محبت ہے، عبادت گاہوں سے تعلق ہے.دنیا میں کہیں بھی کوئی عبادتگاہ مسمار کی جائے گی تو احمدی کے دل پر اس کا ملبہ اس طرح گرے گا جس طرح اس کے دل پر چوٹ لگانے کی خاطر ایک ایک اینٹ اوپر گر رہی ہو لیکن تمہیں تو عادت ہے تمہیں تو اس بات کا ایک تجربہ ہے کہ کس طرح گھر برباد کئے جاتے ہیں تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے.پس احمدی کو تکلیف ہے تکلیف کی وجہ سے میں یہ بات بیان کر رہا ہوں میں جانتا ہوں اس کے سواحل ہی کوئی نہیں اگر تم باز نہیں آؤ گے، اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور خدا کے تعلق کی بنا پر اپنی سوچ کی اپنی قدروں کی اصلاح نہیں کرو گے اگر اپنے قبلے درست نہیں کرو گے تو اسی طرح بھٹکتے رہو گے ، اسی طرح ظلم کا شکار رہو گے.تقویٰ سے کام لو اور تقویٰ کی حکومت کو قائم کرو آج سارے پاکستان کے اخبار ہندوستان کو طعنہ دے رہے ہیں کہ کیا ہوئی تمہاری سیکولر حکومت، کیا ہوا تمہارا سیکولر فلسفہ اس ملبہ کے ڈھیر کے نیچے تمہارا سیکولر ازم بھی دب کر مرگیا.لیکن کل جو احمدی مساجد مسمار ہو رہی تھیں تو ان کے ملبے کے نیچے کیا چیز دب کر مری تھی.کبھی تم نے سوچا ہے؟ وہ اسلام جس کا تم دعوی کر رہے تھے وہ فرضی اسلام ان ملبوں کے ڈھیر کی نظر ہو گیا وہ اعلیٰ قدریں جن کا تم دعوی کرتے ہو وہ سب قدرمیں ان ڈھیروں کے نیچے دم تو ڑگئی تھیں.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 895 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۹۲ء پس بیماری کو پکڑو اس کی فکر کرو کہ کہاں واقع ہے اور کیوں واقع ہے اس کا علاج تبھی ہوگا جب تم بیماری سمجھو گے اور اس کا ایک ہی علاج ہے کہ تقویٰ سے کام لو خدا کی محبت سے کام لو وہ لوگ جو خدا کی عبادت کرتے ہیں جس طرح بھی کرتے ہیں ان کی راہ میں روک نہ بنو کیونکہ اگر روک بنو گے تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر تمہاری ہر ترقی کی راہ میں حائل ہو کر کھڑی ہو جائے گی.کسی میدان میں تمہیں آگے نہیں بڑھنے دے گی.یہی علاج ہے ، یہی ایک طریق ہے ہم بھی دعا کر رہے ہیں اور دن بدن ہمارے دل زیادہ اُداس اور غمگین ہوتے چلے جاتے ہیں.جماعت اس وقت بہت تکلیف میں ہے.ساری دنیا سے جماعت کے جو خطوط امل رہے ہیں ان میں نہایت بے بسی کا عالم ہے.عجیب مصیبت ہے کہ دونوں طرف کے دکھ ہمیں سہیڑ نے پڑ رہے ہیں جب ہم پر مظالم ہوتے ہیں تو وہ بھی ہمارے دل پر ٹوٹتے ہیں ہمارے ظلم کرنے والے بھائیوں پر جب مظالم ہوتے ہیں تو وہ بھی ہمارے دل پر ٹوٹتے ہیں، بلکہ امر واقعہ تو یہ ہے کہ سچا مسلمان وہی ہے جو رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی غلام ہے جو صرف مسلمانوں کے دُکھ سے دکھی نہیں ہوا کرتے تھے ایک یہودی کے دکھ سے بھی دکھی ہو جایا کرتے تھے ، ایک عیسائی کے دکھ سے بھی دکھی ہو جایا کرے تھے ، ایک مشرک کا دکھ بھی محمد رسول اللہ علے کے دل کو تکلیف دیا کرتا تھا.اس رحمۃ للعالمین سے اپنا تعلق باندھو اسی میں تمہاری نجات ہے اور اس کے ساتھ اسلام کی تمام ترقی کے راز وابستہ ہیں ان رازں کو سمجھو اس پیغام کو سمجھو اللہ تعالیٰ تمہیں ہر میدان میں ترقی عطا فرماتا چلا جائے گا.خدا کرے کہ جلد اہل اسلام کو ہوش آئے ہم تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ باتیں کہتے کہتے تھک گئے ہیں کوئی اثر نہیں دکھا تھیں.شاید خدا کے حضور ہماری دُعا ئیں کام کر جائیں، شاید خدا کی تقدیر ان کو ایسا جھٹکا دے جس سے آنکھیں کھلیں اور اس جھٹکے کے نتیجہ میں خوابیدگی کی حالت تبدیل ہو اور آنکھیں کھول کر یہ گردو پیش میں ہونے والے واقعات کو دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں اور ان پیغامات سے استفادہ کی توفیق پائیں.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۱ 897 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء دعوت الی اللہ کے کام کو منظم طور پر کریں.بنگلہ دیش کی سر براہ کو تنبیہ اور نصیحت خطبه جمعه فرموده ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ( النساء:۵۹) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانات ان کے اصل کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں پر ان کے انصاف کے لئے مقرر کئے جاؤ.یہ مقرر کرنے کا معنی میں نے مفہوم کے طور پر بیان کیا ہے.آیت کا ترجمہ صرف اتنا ہے کہ وَإِذَا حَكَمْتُمُ بَيْنَ النَّاسِ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، مقرر کئے جانے کا معنی میں نے اس لئے بیچ میں بیان کیا ہے کہ آیت کے پہلے حصے کا اس سے تعلق ہے ، اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَنتِ إِلَى أَهْلِهَا اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے اپنے حاکموں کا انتخاب کرنے والو! جب تم اپنے حاکم چنا کرو، امیر چنا کرو تو یا درکھو کہ اسی کو چنو جو اس کا اصل ہو.اب آیت کروٹ بدلتی ہے اور جو چنا جاتا ہے اس کو مخاطب ہوتی ہے تو ان معنوں میں مقرر ہونے کا مضمون اس میں داخل ہے.پس معنی یہ ہوئے کہ وہ جو چنے جاتے ہیں جن پر
خطبات طاہر جلد ۱۱ 898 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء اعتماد کیا جاتا ہے، جن کو اصل سمجھا جاتا ہے جب وہ کسی عہدہ پر فائز کر دیئے جائیں تو ان کو خدا تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ وہ پھر انصاف سے فیصلہ کریں اِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہ اللہ بہت ہی اچھی نصیحت کرنے والا ہے کیسی پیاری نصیحت فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا اللہ بہت سننے والا اور دیکھنے والا ہے.اس مضمون سے متعلق کچھ اور کہنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ خطبہ میں جب میں نے یہ بیان کیا کہ حضرت اقدس محمدمصطفی ہونے کےسوا مجھے تمام نبیوں کی تاریخ میں ایک بھی اور نبی دکھائی نہیں دیا جس کو خلق خدا امین کہتی ہو جس کی امانت اور دیانت کی شہرت ایسی عام ہو گئی ہو کہ قوم اسے دیکھ کر امین، امین پکار اٹھے اس پر کسی نے مجھے توجہ دلائی کہ حضرت موسیٰ" کے متعلق بھی ایک عورت کی گواہی ہے کہ وہ قومی اور امین ہیں حالانکہ ان دو باتوں میں بہت نمایاں فرق ہے.کہاں یہ کہ پوری قوم جس کے ساتھ ایک شخص کا واسطہ پڑتا ہو بچپن سے لے کر جوانی تک اس نے اس کو ہر حال میں دیکھا ہو وہ بے اختیار یک زبان ہو کر کسی کو امین کہتی رہے اور کہاں یہ قصہ جس کی اس کے ساتھ کوئی نسبت نہیں کہ حضرت موسیٰ نے جب دو بیچاری بچیوں کے ریوڑ کو پانی پلایا تو انہوں نے گھر جا کر اپنے باپ سے یہ حکایت بیان کی اور بتایا کہ ہم سے ایک نیک دل آدمی نے کیا سلوک کیا اور ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا کہ ان کو اپنے پاس رکھ لو، کام آئے گا اور اس ضمن میں کہا کہ قوی بھی ہیں اور امین بھی ہیں تو حضرت موسیٰ اسے جو واسطہ تھا وہ محض چند لمحوں کا سرسری واسطہ تھا اور پھر ایک لڑکی کی گواہی تھی اور اس گواہی میں دراصل ایک دفاع تھا، ایک نفسیاتی کیفیت تھی جس کا اظہار کیا گیا ہے.ایک لڑکی اپنے باپ سے جب کسی مرد کو ملازم رکھنے کی بات کرتی ہے تو اس کے شعور کے پس منظر میں ضرور یہ سوال پیدا ہو گا کہ میرا باپ کیا سوچے گا کہ کس قسم کا آدمی ہے ، کس کی سفارش کر رہی ہے تو ان چندلمحوں میں اس بچی نے حضرت موسی کے کردار کا جو اندازہ لگایا تھا اس اندازے کو اس طرح پیش کیا کہ اسے گھر میں رکھنے سے کوئی خطرہ نہیں ہے.ہم نے تو جہاں تک دیکھا ہے وہ قوی ہے اور امین ہے قومی سے مراد ہے کہ اپنی امانت کی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے، کوئی ایسا کمزور انسان نہیں جو آج کچھ ہو اور کل کچھ.متلون مزاج آدمی اگر امین بھی ہو تو اس کی امانت کا اعتبار نہیں رہتا.ایک بات تو یقیناً ہے کہ حضرت موسیٰ کے کردار میں ایسی عظمت پائی جاتی تھی کہ اسے دیکھ کر ایک بچی نے موقع کے
خطبات طاہر جلدا 899 خطبه جمعه ۱۸ ردسمبر ۱۹۹۲ء مطابق بہت عمدہ فیصلہ کیا اور اس کا بہت عمدہ تعارف کرایا لیکن اسے یہ کہنا کہ گویا ساری قوم نے حضرت موسیٰ کی امانت کی گواہی دی ہو یہ درست نہیں ہے.جہاں تک انبیاء کا تعلق ہے، انبیاء پر اس کے برعکس الزام تو لگے ہیں مگر قومی گواہی حضرت محمد مصطفی اللہ کے سوا کسی کے حق میں نہیں دی گئی.مثلاً حضرت یوسف پر کہ جس کے گھر میں تھے اس گھر کی امانت پر خیانت کا الزام لگا تو خدا تعالیٰ نے اس الزام کو سراسر جھوٹا ثابت کر دیا لیکن یہ بعد کی بات ہے.حضرت یوسف پر اپنے بھائیوں کی طرف سے چوری کا الزام بھی لگا.حضرت کرشن پر ان کے اپنے ماننے والوں کی طرف سے چوری کا الزام ہے.ان کا نام ہی مکھن چور رکھا ہوا ہے تو انبیاء بے چاروں کے اوپر ناجائز غلط الزام ، دل آزاری کے الزام لگتے رہے ہیں.خود موسی“ پر بھی لگتے تھے.چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ أَذَوْا مُوسَى فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا ( الاحزاب : ۷۰) فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا اے ایمان والو ! دیکھو موسٹی کے لوگوں کی طرح نہ ہو جانا.ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو غلط باتیں کہہ کر موسیٰ کو کھ پہنچایا کرتے تھے، غلط الزام اس پر لگایا کرتے تھے پس فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا اللہ نے اس کو بری فرمایا.تو قوموں نے اپنے اپنے انبیاء سے نبوت سے پہلے بھی ظلم کے بڑے سلوک کئے ہوئے ہیں، کئی قسم کے الزام لگائے ہیں لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی اس لیے کا کردار واضح طور پر اتنا نمایاں، صاف اور واضح روشن تھا کہ تبھی قرآن کریم نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کو کہ دے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرً ا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس: ۱۷) میں اس سے پہلے تم میں ایک پوری عمر گزار چکا ہوں تم سارے گواہ ہوا ایک ادنی سا ایک ذرہ بھی کردار کے داغ کا تم نے مجھ پر لگانے کی بھی کوشش نہیں کی.پس حضرت محمد مصطفی امت ہے کی امانت اور دیانت اتنی صاف اور نمایاں اور روشن ہو کر چکی ہے کہ اگر چہ تمام انبیاء امین تھے ، تمام انبیاء دیانتدار تھے اس میں ذرہ بھی شک نہیں لیکن جب محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان انبیاء کو رکھا جاتا ہے تو ویسی ہی کیفیت دکھائی دیتی ہے جیسے کسی نے کہا.رات محفل میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 900 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء تو اتنا حسین ، اتنا روشن چہرے والا انسان ہے کہ تیرے مقابل پر جب ہم نے شمع کو دیکھا تو نور کا کوئی نشان دکھائی نہ دیا.پس یہ موازنہ کی باتیں ہیں شمع تو روشن ہی ہوتی ہے لیکن جب ایک روشن تر وجود شمع کے سامنے آجائے تو شمع کی روشنی مدھم اور پھیکی پڑ جایا کرتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سچی تعریف میں کسی اور بزرگ نبی کی برائی (نعوذ باللہ من ذالک ) ہرگز مقصود نہیں سب اپنی اپنی جگہ اچھے تھے.سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے (درین صفحہ ۸۳۰) دیانت کی جوشان محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں چپکی ہے ویسی شان آپ ساری دنیا میں ڈھونڈ کر دیکھیں آپ کو کہیں اور دکھائی نہیں دے گی.دوسرا امر جس کی طرف مجھے متوجہ کیا گیا ہے وہ ایک معمولی نقطہ ہے میں نے مثال دیتے ہوئے یہ بیان کیا تھا کہ تصنیف کا شعبہ بھی ایک اہم شعبہ ہے اور اس کا حق ادا کرنے کے کیا طریق ہیں وہ بھی تو ایک امانت ہے.مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ باہر کی دنیا میں تصنیف کا شعبہ الگ نہیں ہے بلکہ اشاعت کے ساتھ ہی اس کا تعلق ہے.عملاً تو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا اشاعت میں تصنیف داخل ہویا تصنیف کا شعبہ الگ ہو جہاں تک ذمہ داریوں کا تعلق ہے وہ تو اسی طرح رہتی ہیں پس جماعتی امانتوں کے سلسلہ میں اب میں ایک دو اور مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اصلاح وارشاد یعنی تبلیغ اور دوسروں تک حق بات پہنچانا اور دعوت الی اللہ تمام بنی نوع انسان کو اللہ کی طرف دعوت دینا ایک بہت ہی اہم شعبہ ہے اور دنیا کے ہر ملک میں جہاں نظام جماعت قائم ہے وہاں خدا کے فضل سے یہ شعبہ بھی رائج ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے دعوت الی اللہ کے یا اصلاح وارشاد کے بہت کم سیکرٹری ایسے ہیں جنہیں اس بات کا شعور ہے کہ وہ ہیں کیا ؟ اور اپنے منصب کا یہ پتا نہیں، یہ علم نہیں کہ ان پر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں اور کس طرح وہ ادا کرنی ہیں؟ اگر تمام سیکرٹری اپنی پوری ذمہ داری سمجھتے ہوئے بیدار ہو جائیں اور فعال ہو جائیں تو ساری دنیا کی جماعتوں میں ایک شور برپا ہو جائے.سیکرٹری مال کی مثال دیکھیں وہ ایک ایسا سیکرٹری ہے جو روایتہ مسلسل سالہا سال سے جماعت میں بڑی محنت اور خلوص سے اور مستقل مزاجی سے کام
خطبات طاہر جلدا 901 خطبه جمعه ۱۸ ردسمبر ۱۹۹۲ء کرتا چلا آتا ہے اور سیکرٹری مال کے تصور کے ساتھ ہی ایک محنتی ، پر خلوص ،امانت کا حق ادا کرنے والا ، دن رات اس فکر میں غلطاں کہ میرا بجٹ کیسے پورا ہو گا ایسے وجود کا ایک تصور ابھرتا ہے.بالکل ایسا ہی تصور ہر ایک دوسرے شعبے کے سیکرٹری کے متعلق جماعت میں قائم ہونا چاہئے اور یہ تصور تبھی قائم ہو گا جب وہ ایسے کام کریں گے.جہاں تک میں نے نظر دوڑا کر دیکھا ہے سیکرٹری مال الا ماشاء الله خدا کے فضل سے بہت محنت کرتے ہیں.کراچی کے سیکرٹری مال مجھے یاد ہے کہ بہت بچپن کے زمانہ سے اب تک جو بھی رہے ان کا یہ حال رہا کہ وہ صبح دفتر جاتے تھے دفتر سے جماعت کے دفتر چلے جایا کرتے تھے، جماعت کے دفتر سے رات گیارہ بارہ بجے اس وقت گھر لوٹا کرتے تھے کہ جب بیوی بچے سب سو چکے ہوں اور یہ ایک دو دن ، ایک دو مہینے کی بات نہیں انہوں نے سالہا سال اسی طرح عمریں گزار دیں.تو جو شخص امانت کی اہمیت سمجھتا ہو وہ امانت کا حق ادا کر نے لگے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی بھی اس میں صرف ہو جائے تب بھی اس کے دل کو امانت کا حق ادا کرنے کا چین نصیب نہیں ہوسکتا.وہ اپنی ذات میں یہ سمجھتا رہتا ہے کہ ابھی یہ کوتا ہی ہوگئی ابھی وہ کوتا ہی ہوگئی اور ابھی تک میں ویسا کام نہیں کر سکا جیسا کہ حق تھا.اس جذبہ کے ساتھ جماعت کے عہدہ داروں کو پہلے اپنے منصب کو پہچاننا چاہئے ، اپنی ذمہ داریوں کا شعور حاصل کرنا چاہئے اس شعور کے مطابق پھر ان کا دل جاگ اُٹھے گا ان کا احساس زندہ ہو جائے گا.انہیں اپنی ذات سے تکلیف ہونی شروع ہو جائے گی وہ محسوس کریں گے کہ ان پر قرض کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے اور یہ بوجھ ہے احساس کی شدت ہے جو ان کو کام کے لئے آگے بڑھاتی چلی جائے گی لیکن وہ احساس ہی بیدار نہ ہو، وہ شعور ہی بیدار نہ ہو، پتانہ ہو کہ ہم کیوں بنائے گئے کس مقصد کے لئے کیا ذمہ داریاں ہم پر ڈالی گئی ہیں تو جماعت کے کام اسی طرح پڑے رہیں گے.پس دعوت الی اللہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ انفرادی طور پر ان احمد یوں کی وجہ سے ہو رہا ہے جو مختلف تحریکوں کے نتیجہ میں خود اپنے دلوں میں ایک ولولہ پیدا کر لیتے ہیں.بعض ایسے ہیں جن کو پھر تبلیغ کا جنون ہو جاتا ہے وہ دن رات اس میں لگے رہتے ہیں اور سیکرٹری اصلاح وارشاد کا زیادہ تر کام یہ ہے کہ ان کے پھل سمیٹ کر اپنی طشتری میں سجا کر جماعت کو پیش کر دے.طشتری تو طشتری ہی رہے گی اصل تو اس درخت کی قدر و قیمت اور اسی کی شان ہے جس درخت نے وہ پھل پیدا کیا.
902 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء خطبات طاہر جلد ۱۱ پس آپ بھی وہ درخت بن سکتے ہیں ہر سیکرٹری وہ درخت بن سکتا ہے جو بار آور ثابت ہو جسے شیر میں دائمی پھل لگیں.ایک فرد کو تو تھوڑے پھل لگ سکتے ہیں کیونکہ اس کا دائرہ کا ر محدود ہوتا ہے لیکن جب ایک عہدہ دار فعال ہو جائے ایک ثمر دار درخت کی شکل اختیار کر جائے تو پھر اس کی کوششوں سے ساری جماعت کو جو پھل لگتے ہیں وہ اس کے پھل بن جاتے ہیں.یہ ایسا درخت ہوتا ہے جس کے سائے تلے ساری جماعت آجاتی ہے اس کی شاخیں دور دور تک جماعت میں پھیل جاتی ہیں اور جماعت کا فیض پہنچاتی ہیں اسی لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مثال ایک ایسے درخت کی سی دی ہے جس کی شاخیں پوری دنیا میں دور دور تک پھیلتی گئیں اور ان شاخوں کے سائے تلے لوگ آرام کریں گے اور اس کی ٹہنیوں پر پرندے بیٹھیں گے، اس کے پھل سے لوگ فائدہ اُٹھا ئیں گے تو سیکرٹریوں کو اس ذمہ داری کے ساتھ اپنے منصب کو سمجھنا چاہئے اور یہ سوچتے ہوئے کام کرنا چاہئے کہ جوابدہ تو وہ بہر حال ہوں گے امیر نے جواب طلبی نہ کی تو خدا تعالیٰ جواب طلبی کرے گا اور ایک اور مشکل یہ ہے کہ جواب طلبی کے خوف سے بھاگنے کی بھی جگہ کوئی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی خدمت سے بھاگنے والوں کو نا پسند کرتا ہے.خود عہدے کی تلاش میں ،عہدے کی طلب میں آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا کر عہدہ لینا یہ نہایت مکر وہ حرکت ہے لیکن یہ بھی مکر وہ حرکت ہے کہ کام کے بوجھ سے ڈر کر انسان پیچھے قدم اُٹھائے اور پیٹھ دکھا کر خدا کے کام دوسروں کے سپر د کر کے آپ بھاگ جائے.پس یہ ایسی امانت نہیں ہے جس میں آپ کو اختیار ہے یہ امانت وہ ہے جسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے عواقب سے بے خبر ہو کر خود قبول کر لیا تھا، اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے اور جانتے ہوئے کہ اس سے مجھے بہت تکلیف پہنچے گی پھر بھی اس امانت کو جو ساری دنیا کی ہدایت کا بوجھ تھا اُٹھانے کے لئے آپ یہ تیار ہوئے اور جھولا (الاحزاب : ۷۲ ) ان معنوں میں کہ اس کے عواقب سے بالکل بے پرواہ ہو گئے ہم تو اب اس امین کے غلام بن کر اس دنیا میں آئے ہیں.اس غلامی کا تعلق توڑے بغیر ہم اس امانت کا بوجھ اُٹھانے سے الگ نہیں ہو سکتے.یہ وہ مضمون ہے جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ میں عہدوں سے استعفیٰ ایک نہایت مکروہ اور بیہودہ حرکت سمجھی جاتی ہے.کئی لوگ لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں معاف کیا جائے ہم اس قابل نہیں ہیں.قابل تو ایک ہی تھا یعنی محمد مصطف دیتا ہے، آپ ہی کی غلامی آپ ہی کے صدقے ساری دنیا قابل بنائی جارہی ہے اور آپ کے سب غلاموں -
خطبات طاہر جلد ۱۱ 903 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو کچھ نہ کچھ صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں.پس قابلیت کا فیصلہ تو خدا نے کرنا ہے.یہاں قابلیت کا مضمون صرف اتنا ہے کہ جو کچھ ہے وہ لے کر حاضر ہو جاؤ جتنی بھی قابلیت ہے وہ پیش کر دو پس جب آپ اس کو امانت کے مضمون کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ امانت کیا ہے.امانت سے وہ مراد نہیں ہے کہ جو تم میں طاقت نہیں ہے وہ بھی پیش کرو ورنہ خدا تمہیں پکڑے گا.انسان کی استعداد یں بھی امانت ہیں، اس کی تمام صلاحیتیں امانت ہیں، اللہ کی امانت کا بوجھ اس پر اتنا ہی ڈالا جائے گا جتنی خدا نے اس کو صلاحیتوں کی امانت ودیعت فرمائی ہے.پس اس امانت کے ساتھ بیرونی امانت کا ایک تعلق اور رشتہ ہے ایک تو ازن قائم ہے.اس کے درمیان عدل قائم ہے، اللہ تعالیٰ عدل سے فیصلے فرماتا ہے.پس کسی کے لئے موقع نہیں کہ اس کا ضمیر اسے کچوکے دے کہ تم پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ منصب تمہاری طاقت سے بڑھ کر ہے اس لئے اگر تم نے حق ادا نہ کیا تو مجرم بنو گے اس لئے اس کو چھوڑ دو.چھوڑنے کی بھی اجازت نہیں ہے.صلى الله خدا نے جو سعادت بخشی ہے اسے قبول کرنا ہوگا کیونکہ یہ چھوڑ نا محمد رسول اللہ ﷺ سے رشتہ توڑنے کے مترادف ہے اور کوئی سچا مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.ہاں امانت طاقت کے مطابق ہوگی جس قد ر خدا نے توفیق بخشی ہے اس کے مطابق آپ کام کریں.اتنا ضرور کریں اور کوشش کریں کہ توفیق کی آخری حدود تک آپ کا کام پہنچ جائے اور آپ امانت کی ذمہ داریوں سے پورے کے پورے بھر جائیں ، آپ کا وجود اس پہلو سے مکمل ہو جائے کہ جو کچھ بھی خلا تھے وہ سارے بھر دیئے گئے ہیں جو آپ میں طاقت تھی اس کے مطابق آپ نے خدا کے حضور سب کچھ امانت کا حق ادا کرتے ہوئے پیش کر دیا پھر اللہ کے سپرد معاملہ ہے اللہ تعالیٰ احسان فرمانے والا ہے ،عفو کرنے والا ہے، مغفرت فرمانے والا ہے جانتا ہے کہ انسان کمزور ہے پھر جہاں جہاں کمزوریاں ہوں گی خلا ہوں گے ، جہاں بعض دفعہ ہم سمجھیں گے کہ ہم نے خدا کی خاطر کام کیا تھا مگر اپنی انا بیچ میں داخل ہو گئی ، اپنے دکھاوے کی سرشت نے اس امانت کے حق کو گندہ کر دیا اور کئی قسم کے رخنے ہمارے کاموں میں پیدا کر دئیے.یہ تمام باتیں ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں.قیامت کے دن خدا جس کے سامنے کھولے گا اسی کو معلوم ہوگا.پس یہ جود وسر امضمون ہے اس میں انکساری کے ساتھ دُعا کرنے کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلدا 904 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء فرماتا ہے کہ ہر شخص کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ اس کے اعمال اس کو زینت دکھائی دیتے ہیں، اپنے اعمال کو بہت خوبصورت سمجھتا ہے پھر ایک دن خدا کے حضور پیش ہونا ہے وہ بتائے گا کہ تمہارے اعمال کی حیثیت کیا تھی.پس جب آپ سب کچھ کر بیٹھیں تو اس وقت بھی محفوظ مقام تک نہیں پہنچتے.ہاں محفوظ مقام تک پہنچنے کی ایک کوشش ہے جو اپنی طرف سے بھر پور کر دی گئی.محفوظ مقام پر وہی ہے جسے خدا محفوظ قرار دے دے.انبیاء بھی بے حد بے چینی میں زندگی بسر کرتے ہیں.امین ہوتے ہیں اس کے باوجود کہ وہ امانت کا حق ادا کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ساری جان اس میں ہلکان کر دیتے ہیں پھر بھی بے چین رہتے ہیں کہ کوئی کمی نہ رہ گئی ہو ، کوئی کمزوری نہ ظاہر ہوگئی ہو.جماعت کے عہدے داران اگر اس روح کے ساتھ کام کریں گے تو مجھے ادنیٰ بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا ان کی پاک نیتوں کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھے گا اور ان کے اعمال میں ان کی کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالے گا.جہاں بھی جماعت کے کچھ خدمت کرنے والے اس طرح پیار اور اخلاص سے خدمت کرتے ہیں ان کو ضرور برکت ملتی ہے.یہی انگلستان کی جماعت کی ایک بچی کا میں نے ذکر کیا کہ اس کو خدا تعالیٰ پھل پر پھل دے رہا ہے اور جو انگریز بچیاں اس نے مسلمان بنا ئیں ہیں ان کے اوپر اس کی چھاپ دکھائی دیتی ہے.وہی اخلاص وہی انکساری ، وہی دین میں بشاشت اور پھر آگے پیغام پہنچانے کا جذبہ.ابھی دو دن ہوئے ہیں یہاں انگلستان کی جماعت کا ایک نوجوان مجھے ملا اس کے ساتھ ایک نیا احمدی تھاوہ بھی چہرے سے ہی نظر آتا تھا کہ بے حد فدائی اور سلسلے کا عاشق ہے اور ایمان کی پوری بشاشت اس کے چہرہ پر دکھائی دیتی تھی مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ یہ اس کا بنایا ہوا احمدی ہے.اس کی دعوت سے احمدی ہوا ہے حالانکہ وہ لڑ کا خود بالکل نوجوان ہے، چھوٹی عمر کا ہے اور پھر اس نے بتایا کہ یہ ایک تو نہیں ہے آپ جب برمنگھم آئے تھے تو وہاں بھی میں نے ایک پیش کیا تھا وہ بھی اللہ کے فضل سے ایسا ہی ہے.اور پھر مجھے مزید تحقیق سے پتا چلا کہ اس کے والد بد قسمتی سے احمدی ہونے کے باوجود بہت دور جاچکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے یا اس کے بزرگ دادا کی دُعائیں ہوں گی یا ماں کی دعائیں ہیں جو ان کے حق میں قبول ہوئیں کہ سارے ہی بچے اللہ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں مگر یہ نو جوان تو بے حد عاشق اور دعوت الی اللہ میں ایسا فدا ہے کہ سب کچھ اس کا
خطبات طاہر جلدا 905 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء دعوت الی اللہ بن چکا ہے.اس چھوٹی عمر میں نو جوانی کی عمر میں یہ فدائیت جس کو نصیب ہو اللہ کا بڑا احسان ہے اور باقی جن کو نصیب نہیں ان کے لئےلمحہ فکر یہ ہے کہ کیوں نصیب نہیں.تمہیں بھی خدا نے ایسے ہی اعضاء دیئے ہیں تمہیں بھی خدا نے وہ طاقتیں عطا کی ہیں جن طاقتوں کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے سے ایسے پھل لگ سکتے ہیں.اس لحاظ سے ہر احمدی کے لئے اپنے منصب کو کم سے کم اس لحاظ سے پہچاننا ضروری ہے کہ ہمیں توفیق ہے یہ تو اعتراف کرنا ہو گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی احمدی کہے کہ ہمیں توفیق نہیں ہے اس لئے ہم مجبور ہیں، توفیق سب کو ہے اس لئے آپ سے توفیق کے مطابق پوچھا جائے گا.اگر سو کی توفیق نہیں تو دس کی ہوگی دس کی توفیق نہیں تو ایک کی ہوگی.ایک سال میں ایک کی نہیں تو چند سالوں میں ایک کی ہوگی توفیق تو بہر حال ہے میں مان ہی نہیں سکتا کہ محمد ﷺ کے باغ کا کوئی پودا ہو اور وہ بانجھ ہو.خود بانجھ بننا چاہے تو وہ اور بات ہے مگر صلاحیتوں کے لحاظ سے آپ کو ان صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے جومحمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کی صلاحیتیں تھیں جن کو خدا تعالیٰ نے رِجَالی نام سے یاد کیا ہے.رِجَال کا لفظ آپ کے غلاموں کے متعلق استعمال ہوا ہے کہ یہ وہ ہے جس کے الله ساتھ رِجَالی ہیں.وہ آیت یہ ہے کہ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ (النور:۳۸) رِجَالی کا مطلب ہے جس میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہو.محض مرد مراد نہیں، عام انسان مراد نہیں اور محض نہ اس میں جنس کی کوئی بحث ہے.آنحضرت ﷺ کے تمام غلام خواہ وہ مرد تھے خواہ وہ عورتیں تھیں روحانی لحاظ سے سب رِجائی تھے ان میں مریمی صفات تھیں، کسی اور کی احتیاج کے بغیر ان کو بڑھنا آتا تھا.اس لحاظ سے رِجانی کا لفظ جو مریمی صفات کا مظہر ہے وہ ان معنوں میں مومنوں پر بھی عائد ہوتا ہے مومنات پر بھی عائد ہوتا ہے تبھی قرآن کریم نے تمام مومنوں کی مثال خواہ وہ عورتیں ہوں یا مومن مرد ہوں مریم سے دی ہے.پس اگر آپ محمد ﷺ کے غلام ہیں تو خدا کہتا ہے کہ آپ کے اندر یہ صلاحیتیں موجود ہیں ، آپ کو بڑھنا آتا ہے، بڑھنا سکھایا گیا ہے، آپ کے اندر بڑھنا ودیعت فرمایا گیا ہے.کیوں نہیں بڑھتے ؟ اس نظر سے اگر سیکرٹری اصلاح وارشاد اپنی جماعت کا جائزہ لے اور خدا کے ان شیروں کو بیدار کرنے کی کوشش نہ کرے اور ہر مہینے اس فکر میں غلطاں نہ رہے کہ اس مہینے میں میں نے کتنے نئے احمدی ایسے پیدا کئے ہیں جن کے اندر اپنی صلاحیتوں کا شعور پیدا ہو گیا ہے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کے اندر کا مرد جاگ اُٹھا ہے، وہ رجال صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۱ 906 خطبه جمعه ۱۸ ردسمبر ۱۹۹۲ء میں شامل ہو گئے ہیں اور اب خدا کے فضل سے وہ کام شروع کر چکے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں لازماً انہوں نے بڑھنا ہے ، پھولنا ہے پھلنا ہے، یہ وہ بنیادی کام ہے جو سیکرٹری اصلاح وارشاد کو کرنا چاہئے.یہ کام نہیں ہے کہ جو تبلیغ کرنے والے ہیں وہ ان کے پھل اکٹھے کرے اور اپنی رپورٹ کی طشتری میں سجا کر کسی کو بھجوا دے اور سمجھے کہ میرا کام بہت عمدگی سے پورا ہو گیا.یہ تو صرف ڈاکیے کا کام ہے سیکرٹری اصلاح وارشاد کا کام تو وہی ہے جو میں بتا رہا ہوں.پھر اس کو جائزہ لینا چاہئے کہ سارے معاشرے میں کس قسم کے لوگ ہیں، کتنے مذاہب ہیں، کتنی کتنی قوموں کے لوگ بستے ہیں.جب سے میں نے چارج لیا ہے میں نے ان پر نظر رکھتے ہوئے دن رات کام کیا ہے ایسا جس سے پہلے کی نسبت زیادہ قوموں تک احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہو یا قوموں کے علاوہ زیادہ مذہبوں کی طرف جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہو؟ مختلف طبقات ہیں ان تک پیغام پہنچانے کے لئے میں نے کیا کوشش کی؟ اب طبقات کی بات ہے تو دیکھیں کہ صرف اساتذہ کا طبقہ تعلیم یافتہ ترقی یافتہ ممالک میں اتنا بڑا ہے کہ اگر کوئی سیکرٹری اصلاح وارشاد صرف اس طبقہ کو پیش نظر رکھ کر اپنا جائزہ لے کہ کیا کوششیں میں نے کی ہیں؟ کتنے خلا باقی ہیں، کیا چیزیں ہونے والی ہیں ؟ تو وہ کانپ اُٹھے کہ ہزار ہا کی تعداد میں سکول کے اساتذہ ہیں.انگلستان میں بھی جہاں تک میرا خیال ہے پچاس ہزار سے تو لازماً زیادہ ہوں گے.بہت بڑی تعداد ہے مجھے کوئی اندازہ نہیں اس لئے پچاس ہزار والی جو گنتی ہے اس پر بنا نہیں ہے یہ میں جانتا ہوں کہ بہت بڑی تعداد ہے.اتنی بڑی تعداد ہے کہ ایک ایک احمدی کو تقسیم کریں تو کئی کئی استاد ہاتھ میں آئیں گے.تو کام تو اتنا زیادہ پڑا ہے کہ سیکرٹری اصلاح وارشاد اس کام کا جائزہ لے کر پھر خدا سے دُعا کرتے ہوئے عاجزانہ کوششیں شروع کرے اور طبقے کو جماعت کی طرف متوجہ کرنے کے کوئی طریقے ڈھونڈے، ان کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ اشتہار بنائے یا بنوائے اور ان کو بتائے کہ ہمارے پاس یعنی جماعت کے پاس اُن کے لئے کیا ہے.نصیحت کا کوئی پیغام بھیجے.ضروری نہیں ہوتا کہ تبلیغ براہ راست کھینچ کر بلانے والے کو کہتے ہوں تبلیغ پہنچانے کو کہتے ہیں اور پہنچانے کا مطلب ہر نیک بات پہنچانا ہے تبھی انبیاء صرف یہ دعوت نہیں دیا کرتے تھے کہ آؤ اور ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ بلکہ نیکیوں کے پیغام دیا کرتے تھے اور نیکیاں بانٹتے پھرتے تھے.آجکل سکولوں میں جو بدیاں رواج پا گئی ہیں.کئی قسم کے خوفناک جرائم وہاں راہ پکڑ گئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 907 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء ہیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اُن سے متعلق ایک احمدی ایک دردمندانہ اپیل کرتا ہے.سیکرٹری اشاعت اس اپیل کو پسند کر کے علماء کو دکھا کر جائزہ لینے کے بعد تسلی سے اس کو شائع کروا کر اساتذہ میں تقسیم کرتا ہے تو کم سے کم ان تک پیغام پہنچے گا کہ ہمارے ہمدرد کچھ لوگ ایسے ہیں جو خالصہ ہماری ہمدردی سے کچھ نیک نصیحتیں کرتے ہیں.سوسائٹی کی اصلاح ہونا بھی آپ کی کامیابی ہے.سوسائٹی کی اصلاح کا لازماً مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ضرور احمدی مسلمان ہو جائے.اسلامی قدروں کے قریب آنے کا نام اسلام ہے جب یہ قدریں زیادہ بڑھ جائیں تو ان کا اندرونی طور پر دباؤ انسان کو اس مذہب کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے جس مذہب سے وہ اس کی قدریں لے کر استفادہ کرتا رہا ہے.پس انبیاء کی تاریخ جہاں تک میں نے قرآن کریم میں پڑھی ہے ان کا رجحان یہی تھا ، یہی ان کا دستور تھا ، یہی ان کی سنت تھی کہ نیکیاں پھیلاتے تھے اور جہاں نیکیاں قائم ہو جائیں وہاں نیکوں سے محبت پیدا ہونالازم ہے.بغیر نیکیاں پھیلائے کسی چیز کی طرف دعوت دینا محض بھرتی کرنے کا نام ہے اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.پس اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف طبقات کو ایسی باتیں کہیں جن کی ان کو ضرورت ہے.یہ تبلیغ کی ایک طرز ہے اور بھی بہت سے کام ہیں لٹریچر کے شعبے نے جو لٹریچر تیار کیا ہے اسے مختلف جگہوں تک پہنچانا جہاں شعبہ اشاعت کا کام ہے وہاں اصلاح وارشاد کے سیکرٹری کا یہ کام ہے کہ اپنے مبلغین کے اوپر نظر رکھے کہ کس کس ہتھیار کی ان کو ضرورت ہے.اور وہ ہتھیار ان تک پہنچتا بھی ہے کہ نہیں اور کس کس سوال کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا جواب ان کو آتا بھی ہے کہ نہیں.کہاں کہاں اسلام اور احمدیت کے خلاف منظم طور پر ایک سازش پنپ رہی ہے اور کس طرح احمدی مخلصین کے ایمان پر ڈاکے ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اس پر نظر رکھنا اس کے جوابات کی طرف کوشش کرنا مختلف دائمیین الی اللہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ ان کے لئے دُعا کرتے رہنا اور پھر یہ عمومی نظر رکھنا کہ میرے شعبہ میں گزشتہ سال کے مقابل پر اس سال میں کتنا اضافہ ہوا ہے.اگر سو احمدی ہوئے تھے تو اس سال کتنے احمدی ہوئے ہیں اور آئندہ سال میں کتنے احمدی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہوں.اس میں بھی غیر معمولی دیانت داری کی ضرورت ہے کیونکہ بعض لوگ یہ دعوی کر دیتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک مرتبہ مثال دی تھی کہ دُعا کریں کہ میرے سو
خطبات طاہر جلدا 908 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء احمدی ہو جائیں اور پھر تاریں دینے لگ جاتے ہیں کہ سو احمدی کے لئے دعائیں شروع کر دیں اور سارا سال خود تبلیغ کے لئے اُنگلی بھی نہیں ہلائی ہوتی.چپ کر کے بیٹھے رہتے ہیں اور جب وقت گزرنے کے قریب آجائے تو کہتے ہیں جی! ابھی تک سو احمدی نہیں ہوئے اور ان سے اگر پوچھا جائے کہ آپ نے دس سال ہوئے ارادہ کیا تھا.ہر سال سال کے آخر پر آپ دُعا کے لئے خط بھی لکھتے رہے اور تاریں بھی دیتے رہے لیکن دس سال میں ایک بھی نہیں بنا تو سو کا دعوی کرنے کا آپ کو کیا حق ہے.سو کا بلند ارادہ قائم کرنے کا آپ کو کیا حق ہے.صداقت سے کام لیں.انصاف سے کام لیں جتنی توفیق ہے اس کے مطابق کوشش کریں بڑے بڑے وعدوں سے تو کام نہیں بنے گا.پس صلاحیت کا صحیح تخمینہ کرنا بھی تو ایک بڑا کام ہے.دعوت الی اللہ کے جو سیکرٹری ہیں ان کا اور اصلاح وارشاد کے جو سیکرٹری ہیں اگر الگ الگ ہیں تو آپس میں مشورہ کے ذریعے اور اگر ایک ہی ہے تو اپنے دوسرے ساتھیوں سے مشورے کے ذریعہ صلاحیتیوں کا تخمینہ کرنا چاہئے اور صلاحیتوں کا تخمینہ محض اعداد سے نہیں ہو سکتا کہ اتنے احمدی ہیں اس لئے اتنے ضرور بن جائیں گے.صلاحیتوں کا تخمینہ اس بات سے بھی نہیں ہوسکتا کہ کس نے کتنا وعدہ کیا ہے؟ صلاحیتوں کا تخمینہ اس بات سے ہوگا کہ سیکرٹری اصلاح وارشاد یا سیکرٹری دعوت الی اللہ ان احمدیوں کا جائزہ لے اور ان کا تخمینہ لگائے کہ کس میں کتنی صلاحیت ہے جس نے گزشتہ دو چار سال میں ایک دو پیدا کیے ہیں ان کی صلاحیت بڑھانے کی طرف کوشش کرے وہ قطعی صلاحیت ہے جو نئے شامل ہورہے ہیں ان کا جائزہ لینا ، ان سے قریب کا تعلق قائم کرنا اور ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہی نہیں لگانا بلکہ ان کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ، ان کی صلاحیت کو مزید مستقل کرنا یہاں تک کہ تسلی ہو جائے کہ ہاں یہ اب ایک یا دو یا چار یا پانچ احمدی بنانے کا اہل ہو چکا ہے اس کو صلاحیت کا تخمینہ کہتے ہیں.محض رپورٹ میں لکھ دینا کہ جی ہم نے دس ہزار کا وعدہ کر لیا ہے.دس ہزار بنا کر چھوڑیں گے اور آخر پر پانچ یا دس نکلتے ہیں اور وہ بھی وہی جو پہلے ہی کام کر رہے ہیں.انہی کے کاموں کے نتیجہ میں نکلتے ہیں.تو یہ صورت حال جو ہے اس کو پیش نظر رکھ کر امراء کو چاہئے کہ وہ اپنے سیکرٹری اصلاح وارشاد سے بھی ایک میٹنگ کریں.جائزہ لیں کہ جب سے وہ بنائے گئے ہیں انہوں نے کیا سوچا ہے؟ کیا کچھ کیا ہے؟ اس کے نتیجہ میں جماعت میں کیا ولولہ پیدا ہوا ہے؟ کیا بیداری پیدا ہوئی ہے؟ پھر ولولے
خطبات طاہر جلدا 909 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء اور بیداری پیدا کرنے کے لئے بہت سے طریقے ہیں جو اچھے اچھے کام کرنے والے لوگ ہیں ان کی مثالیں دی جائیں جیسا کہ میں نے ایک دو مثالیں انگلستان کی جماعت کی رکھی ہیں ایسی بے شمار مثالیں ہیں جو دنیا میں پھیلی پڑی ہیں.بہت اخلاص کے ساتھ افریقہ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور یورپ اور ایشیاء کے ممالک میں بھی ایسے احمدی موجود ہیں جنہوں نے نہایت اعلیٰ نمونے دکھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خدا نے جماعت کو صلاحیت عطا کی ہے.یہ ثابت کر دیا ہے کہ پیغام میں طاقت موجود ہے، پیغام میں جذب اور کشش موجود ہے اگر کوئی انسان کرنا چاہے تو ضرور کر کے دکھا سکتا ہے.امریکہ میں نیو یارک کے احمدی بچے ہیں ان کے متعلق بھی میں نے شاید پہلے ذکر کیا ہے کہ نہیں مگر ان کی تبلیغ سے دن بدن ان کے ساتھی طلباء احمدی ہوتے چلے جارہے ہیں ایسے ایسے مخلص احمدی بن رہے ہیں کہ ان کے ماں باپ کے دباؤ ان کی سوسائٹی کے دباؤ لیکن انہوں نے کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کی.اس ضمن میں آج ایک داعی الی اللہ کا ذکر آپ کے سامنے کرتا ہوں جن کی شہادت کی آج اطلاع ملی ہے.گوجرنوالہ کے ہمارے ایک داعی الی اللہ تھے.ان کا نام محمد اشرف صاحب مہر آف جلہن ضلع گوجرانوالہ ہے ۱۹۸۴ء میں یہ خود احمدی ہوئے نو جوانی کے عالم میں یعنی زیادہ عمر نہیں تھی اور بہت جلد احمدیت میں ترقی کی.دعوت الی اللہ کا جنون تھا جو ان کے سر پر سوار تھا.مجھ سے بہت گہرا ذاتی محبت کا تعلق تھا.ہماری آپس میں خط و کتابت تھی اور بڑی دیر سے مجھے لکھ رہے تھے کہ میں تو جان ہتھیلی پر لئے پھرتا ہوں.سارا علاقہ جان کا دشمن ہے اور خون کا پیاسا بنا ہوا ہے.سوائے اپنے گھر کے یعنی میری بیوی اور بچوں کے برادری میں کوئی بھی میرا نہیں رہا مگر مجھے تو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہے میں تو اس کام میں مگن ہوں اور دن رات ان کا یہی پیشہ تھا.ان کے اوپر کل رات نہایت ہی بزدلانہ اور کمینہ حملہ ہوا.پیرا میڈیکل کوئی تنظیم ہے وہ چونکہ اس میں نائب قاصد تھے، ڈاکٹری کا کسی حد تک علم رکھتے تھے تو ایک نوجوان مریض بن کر آیا اور اس نے کہا کہ میں پھر دوبارہ آپ کے پاس آؤں گا.وہ پھر اپنے ساتھ ایک آدمی کو لے کر ان کے گھر آ گیا اور ایک آدمی کا جھوٹا پتا دیا اور ان کی حالت یہ تھی کہ کوئی ان کی بات سنے تو اس پر فدا ہو جایا کرتے تھے.اس شخص نے اتنا کہا کہ میں بھی یعنی ایک قسم کا چھپا ہوا سا احمدی ہوں.اسی پر وہ اس پر واری ہونے لگے ایک اور احمدی دوست سے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 910 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء ملانے کے لئے دوسرے گاؤں گئے.اس کو علم تھا کہ جس جگہ کا یہ بتاتا ہے وہاں اس نام کا کوئی احمدی نہیں اس نے جب اس کو پکڑا تو اس نے کہا نہیں میں ساتھ کی ایک جگہ کا ہوں.بہر حال اپنی معصومیت میں اور تبلیغ کے جوش میں اس سے کہا کہ ہاں پھر بھی آنا تو وہ دوبارہ اپنے ساتھ ایک اور شخص کو لے کر آیا.رات کو انہوں نے بڑے خلوص اور محبت سے ان کے لئے چار پائیاں بچھائیں کھانے کا کہا انہوں نے کہا نہیں ابھی ٹھہر کر.پھر ان دونوں نے ان کے ہاں پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور رات سوتے میں یعنی ایک دو گھنٹے کے بعد ہی سر پر اور چہرے پر پستول سے فائر کئے اور ان کے بچے پر بھی اور جب تک خون گرم تھا یہ اس کے پیچھے دروازے تک بھی بھاگے لیکن وہاں جاتے ہی گرے اور دم توڑ دیا لیکن جو زخمی بچہ تھاوہ بچ گیا ان کی اہلیہ بھی بڑی بہادر اور خدا کے فضل سے بالکل نڈر داعی الی اللہ ہیں ان کے بچوں کا بھی یہی حال ہے اس وقت والدہ نے بچے کو دوڑایا کہ ساتھ کے گاؤں میں جہاں ان بدبختوں میں سے ایک کو ساتھ لے کر گئے تھے جا کر اطلاع کرو.جب اس بچے نے اطلاع دی تو وہ سارے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے.تو شہید کا بیٹا انکو تسلی دلا رہا تھا کہتا ہے آپ کو کیا ہو گیا ہے میرا باپ تو نیک انجام کو پہنچا ہے بڑا بہادر آدمی تھا ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے خدا ہمارا والی ہے اور میری والدہ بھی اس معاملے میں بڑی خوش ہے کہ خدا کی چیز خدا کی امانت خدا کو پہنچی اور بہادری کے ساتھ وفا کے ساتھ اس نے سچائی پر جان دی ہے.تو ایسے ایسے داعی الی اللہ بھی ہیں جو جان پر کھیل جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا جماعت میں تو انشاء اللہ شہیدوں کا کوئی بچہ یتیم نہیں رہ سکتا یتیمی کی تو فکر نہیں کیونکہ ساری جماعت اللہ تعالیٰ کی جماعت جس کی سر پرستی کر رہی ہو وہ یتیم کیسے ہوسکتا ہے لیکن اس بہادری کے باوجود پیاروں کی جدائی اور ایسے اچھے پیاروں کی جدائی کا جودُ کھ ہے وہ ایک دم تو نہیں مٹ سکتا بلکہ یسے دُکھ ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بڑھ جایا کرتے ہیں ابھی چوٹ گرم ہے ابھی پتا نہیں لگ رہا وقت کے ساتھ ان کی جدائی کا احساس ان کی کمی کا احساس بڑھتار ہے گا.وہ بھی اس وقت شاید براہ راست میرا خطبہ سُن رہے ہوں گے ربوہ والوں کی طرف سے اور دوسری جگہوں سے جو خط مل رہے ہیں ان خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بڑے شوق سے خطبوں میں حاضر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ
خطبات طاہر جلد ۱۱ 911 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء ہماری دیکھنے کی پیاس بجھ رہی ہے کچھ تو قرب کا احساس ہورہا ہے اس لئے اللہ کے فضل سے جماعت کی تربیت پر بھی بڑا فرق پڑ رہا ہے.گھر گھر میں جہاں پہلے دوسرے پروگرام دیکھنے کے اڈے ہوا کرتے تھے اب پتا لگا ہے کہ لوگ شوق سے Antennas لگا رہے ہیں اور خاص ڈش لگا کر خطبوں میں خود بھی شامل ہوتے ہیں اور ساتھ کے ہمسایوں کو بھی دعوت دیتے ہیں.بعض خاندانوں نے اپنے بعض گھروں میں خود Antennas لگائے ہوئے ہیں اور یہ رواج ساری دنیا میں چل پڑا ہے.تو مجھے یقین ہے کہ وہ سامنے بیٹھے ہو نگے آج شاید ان کا جنازہ بھی ہو چکا ہو تو ان کو میں بہت ہی محبت بھر اسلام پہنچاتا ہوں اپنی طرف سے بھی اور ساری دنیا کی جماعت کی طرف سے بھی مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ نے بڑی سعادت بخشی ہے اور ایسی سعادت بخشی ہے کہ جس کے نتیجہ میں جدائی کا غم ہونے کے باوجود ایک خوشی اور تشکر کا احساس لازماً دل میں پیدا ہونا چاہئے بڑا خوش نصیب ہے انسان جواس شان کے ساتھ سر اُٹھاتے ہوئے خدا کی راہ میں اپنا سر دے دے اور اس کی بیوی بچے مبارک کے کتنے مستحق ہیں، کتنے حسین اخلاق کے مالک ہیں اس غم کے موقع پر صدمے کے موقع پر سعادت پر نظر رکھی ہے اور نقصان پر نہیں رکھی اور جو کچھ پایا ہے اس کے زیادہ ہونے کا احساس ہے جس نے ان کو اس وقت سہارا دیا ہے.جو کھویا ہے اس کو معمولی سمجھنے لگے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے سارے کام خود بنائے ان کے سب بوجھ خود اُٹھائے ان کا والی اور ان کا حامی و ناصر ہو اور اس شہادت کو خدا تعالیٰ بہت پھول اور پھل لگائے.چوہدری محمد علی صاحب کا ایک شعر ایسا ہے جو خدا کہ نیک بندوں کو پھول پھل لگنے سے تعلق رکھتا ہے.وہ برگزیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے کہ پھولنا تھا اُسے برگ و بار دینا تھا (اشکوں کے چراغ صفحہ : ۱۴) تو احمدیت کا برگزیدہ شجر تو موسم سے لڑتا رہے گا.ایک شاخ تراش لو گے ایک پھول تو ڈلو گے تو کیا اس شجر کو مار دو گے.بہت جاہل ہو یہ تو وہ شجر ہے جو خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.یہ موسم سے اسی طرح لڑتا رہے گا.یہ برگزیدہ شجر ہے اسے پھولنا ہے پھلنا ہے اسے برگ و بار دینا ہے اور دیتا چلا جائے گا.پس امانت کا حق ادا کرنے والوں کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہماری جان بھی امانت ہے
خطبات طاہر جلدا 912 امانت کا حق ادا کرتے ہوئے جان بھی جائے تو وہی مضمون اس پر صادق آتا ہے کہ تی آتا ہے کہ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا (دیوان غالب صفحہ :۶۵) پس اس جذبہ سے احمدی اپنے حقوق ادا کرنے شروع کریں تو دیکھیں دنیا پر خدا تعالیٰ کے فضل سے کتنی جلدی جلدی اللہ تعالیٰ ان کا رعب قائم کرتا ہے ان کو نشو و نما عطا فرماتا ہے ان کو بڑھاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جب کسی کام کرنے والے پر پیار کی نظریں پڑنے لگ جائیں تو و ہیں اس نے اپنے مقصد کو پالیا اور جب خدا کے پیار کی نظر کسی شجر پر پڑتی ہے تو وہ ضرور پھولتا پھلتا ہے ایسا شجر بانجھ رہ ہی نہیں سکتا تو جو عہدیدار ہیں وہ اس طرح کام کریں اس نیت سے کام کریں کہ اللہ کی رضا کی پیار کی نظریں ان پر پڑنے لگیں اور کام کرنے والے خود اپنے اپنے دائرہ کار میں اسی طرح کام کریں کہ مقصود یہی ہو کہ میرے مولیٰ کی محبت اور تحسین کی نظر مجھ پر پڑنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتنے پیار اور کتنے ناز سے بار بار فرمایا ہے.سبحان من يــرانــی سبحان من یرانی مجھے کیا فکر ہے وہ ذات میرا محبوب پیارا اور بہت پاک ہے اور بہت بلند ہے جو ہر حال میں مجھے دیکھ رہا ہے ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے اس کی محبت کی نگاہ چھوڑتی نہیں ہے.ایسے شخص کے کام کیسے بے پھل کے رہ سکتے ہیں وہی ایک ہے جو آج کروڑ بن گیا ہے.تمام دنیا میں جس کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے جس کی شہرت زمین کے کناروں تک جا پہنچی ہے آج آپ میں سے ہر ایک میں وہ صلاحیت موجود ہے جو اگر خدا کے پیار کا مورد بن جائے ، اس صلاحیت پر خدا کے پیار کی نظر پڑنی شروع ہو جائے تو ضرور چمکے گی ضرور نشو و نما پائے گی ،ضرور پھول پھل لائے گی.امانت کا حق اس طرح ادا کرنے کی کوشش کریں تو دیکھیں خدا تعالیٰ پھر کس طرح آپ سے محبت اور پیار کا سلوک.فرماتا ہے.اور تمام دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ احمدیت کا پیغام پھیلنا شروع ہو جاتا ہے.ایک دوسرے شہید کا ذکر بھی میں کرنا چاہتا ہوں.مبشر احمد صاحب چوہدری مبلغ سلسلہ کا نو نائیجیریا میں مبلغ سلسلہ ہیں اور نائیجیریا میں کا نوسٹیٹ میں تبلیغی فرائض سرانجام دے رہے تھے.ان کے متعلق آج ہی اطلاع ملی ہے کہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ تبلیغی سفر پر ایک کار میں کہیں جارہے تھے تو راستے میں کار ایک کھائی میں گرگئی اور وہاں ہمارے عزیز بھائی مبشر احمد نے تو
خطبات طاہر جلدا 913 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء موقع پر ہی دم تو ڑ دیا اور دوسرے دو ساتھی زخمی ہوئے لیکن اللہ کے فضل سے ان کی حالت خطرے سے باہر ہے.یہ شہید ہیں اول اس معنی میں کہ جو بھی مبلغ خدمت دین کے لئے باہر نکلتا ہے اور خدمت دین کی حالت میں جان دیتا ہے بلا شبہ وہ شہادت کا اعلیٰ درجہ حاصل کرتا ہے.محض تلوار سے لڑنے والا شہید نہیں ہوا کرتا جو خدا کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر نہایت مصیبت کی حالت میں تنگی اور تکلیف کی حالت میں خدمت دین کے لئے مختلف میدانوں میں نکلتا ہے جس میدان میں اس پر موت آئے وہ یقیناً شہید شمار ہوگا لیکن پھر اس میدان کے اندر وہ وقت اور وہ سفر جس حالت میں انہوں نے جان دی ہے وہ خاص طور پر تبلیغ پر جانے والا سفر تھا.ایک اور تیسری بات جو اس معاملہ میں ان کے مقام اور مرتبہ کو شہادتوں میں ایک نمایاں حیثیت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ امیر صاحب نے گواہی لکھی ہے کہ ایک سال پہلے مجھے مبشر شہید نے یہ بات بتائی تھی کہ ان کی اہلیہ نے لکھا ہے کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ مبشر صاحب کو کفن میں لپیٹ کر پاکستان لایا گیا ہے.پس جو کچھ بھی تھا مقدر تھا.ہم اس پر راضی ہیں ہمارا بہت پیارا محبت کرنے والا وجود بہت خدمت کرنے والا بھائی ہم سے جدا ہوا ہے بلکہ ایک نہیں دو بھائی آج جد اہوئے ہیں.ان کی جدائی کا صدمہ تو ضرور ہے.لیکن بات وہی کچی ہے جو ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر (در نشین صفحه: ۱۰۰) ان دو شہادتوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی ذمہ داریوں کو پھر سمجھیں کہ جو شہید ہورہے ہیں وہ اپنے پیچھے ایک پیغام چھوڑ کر جارہے ہیں اور وہ پیغام یہ ہے کہ جب تک ہماری پیش گئی جب تک بس چلا ہم نے اپنی تمام طاقتیں اس راہ میں جھونک دی ہیں.اب خدا نے ہمیں بلا لیا ہے تو ہم میں طاقت نہیں ہے کہ ہم مزید کچھ کر سکیں اے وہ جو پیچھے رہ جانے والے ہو! تم اپنے وقت کی قدر کرو.دیکھو خدا نے تمہیں مزید خدمت کی توفیق بخشی ہے اپنی ہر طاقت کو اس میں جھونک دو تا کہ جس طرح میں مرتے وقت خدا سے راضی اور خدا مجھ سے راضی ہے تم بھی اس حالت میں جانیں دو کہ تم خدا سے راضی ہو اور خدا تم سے راضی ہو.پس اس جذبہ کے ساتھ اگر جماعت دنیا میں کام کرے گی تو دیکھیں کہ کتنی جلدی
خطبات طاہر جلدا 914 خطبه جمعه ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ء جلدی دنیا کی تقدیر بدلے گی.دنیا کے حالات تو بہت ہی گندے ہیں لیکن افسوس ہے کہ لوگ نصیحتوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.امانتوں میں خیانت کرتے ہیں اور سوچتے نہیں کہ خدا کے حضور جوابدہ ہوں گے اور کیسے جواب دیں گے.بنگلہ دیش کے حالات آپ کے سامنے ہیں ان کے متعلق میں نے ایک خطبہ میں کھلم کھلا یہ اظہار کیا تھا کہ حکومت اس میں لازماً شامل ہے اور پوری ذمہ دار ہے اور یہ با قاعدہ ایک سازش کے نتیجہ میں ایسا ہوا ہے وہاں جب بعض لوگوں تک یہ بات پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے.ہم نے کہا ہم جو آپ کو بتا رہے ہیں کہ آئندہ کیا ہورہا ہے اور کس طرح ہونا ہے وہ خود ثبوت ہے، حکومت کا رد عمل ثبوت ہے لیکن اب ہمیں ایک ایسا ثبوت ملا ہے جو بالکل کھلم کھلا قطعیت کے ساتھ حکومت کے ملوث ہونے کو ثبوت کرتا ہے.جماعت نے مختلف ممالک سے مختلف حکومتوں سے جو احتجاج کئے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ایک ملک سیاست کے دائرہ سے باہر جا کر وہاں ظلم کر رہا ہے جہاں سیاست کا کام ہی کوئی نہیں ہے اپنے دائرہ کار سے باہر ہو کر ظلم کر رہا ہے.یونائٹڈ نیشنز کا کام ہے، تم لوگوں کا کام ہے کہ ان پر دباؤ ڈالو اور ان کو بتاؤ کہ اپنے دائرہ کار کے اندر رہیں اور وہاں بھی انصاف کا معاملہ کریں.تو ایک بڑے ملک کے جو طاقتور ملک ہے اس کے وزیر اعظم نے اپنے ایک ممبر پارلیمنٹ کو ہمارے معاملہ میں جب اس نے ان کو توجہ دلائی تو جواباً لکھا کہ جو جو باتیں آپ نے بیان کی ہیں وہ درست ہیں اس کے علاوہ بھی انہوں نے بعض باتیں بیان کیں.جماعت کو جو نقصان کی اور حملے کے طریق کی خبر تھی اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ ان کے اپنے ایمبیسیڈر وغیرہ یا جو بھی اس کام پر مقرر ہیں کی طرف سے ان کو اطلاع مل چکی تھی اور انہوں نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ وزیر مذہبی امور (جس کو مذہبی امور کا وزیر کہا جاتا ہے) لیکن دراصل وہ مذہبی فتنہ کا وزیر ہوتا ہے.جہاں جہاں بھی مذہبی امور کے وزیر ہیں آپ بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی فتنہ پھیلانے کا وزیر ہے.جہاں مذہبی فتنہ پھیلانے کی ضرورت نہ ہو وہاں مذہبی وزیر کی ہی ضرورت نہیں ہوا کرتی اور بڑا بد نصیب وہ شخص ہوتا ہے جس کو مذہبی وزیر کے طور پر مقرر کیا جائے اس کے سوا اس کی کوئی قیمت ہی نہیں کہ وہ فتنہ پھیلائے گا.پس وہاں بھی فتنوں کے اس وزیر نے اس بیرونی حکومت کے وزیر اعظم کے بیان اور اقرار کے مطابق یہ اعتراف کیا ہے کہ ہاں حکومت نہ صرف ملوث ہے بلکہ حکومت ہی یہ فیصلے کر بیٹھی ہے کہ یوں ہم نے کرنا ہی کرنا
خطبات طاہر جلد ۱۱ 915 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء ہے.یعنی شروع سے تمام چال حکومت کی چلائی ہوئی ہے.میں ان کو نصیحت کر سکتا ہوں کمزور انسان ہوں ایک ایسی جماعت کا سر براہ ہوں جس کا سر براہ سے بڑھ کر ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اسی میں میری عزت ہے کہ میں جماعت کا خادم بن سکوں اس لئے میں جانتا ہوں کہ میری بات کا ان پر کسی قسم کا ایسا اثر نہیں پڑ سکتا کہ وہ جھک کر اُسے سنیں لیکن جو سچی اور نیکی کی بات ہوا سے جھک کر سننا خود سننے والے کے مفاد میں ہوتا ہے.میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس کے زور سے میں یہ بات آپ کے دل میں جاگزیں کر سکوں مگر بنگلہ دیش کی موجودہ سربراہ کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ دور کی تاریخ نہیں قریب کی تاریخ پر نظر ڈال کر تو دیکھیں.جن جن لوگوں نے احمدیت سے یہ سلوک کیا تھا ان کا کیا حشر ہوا اور کیا انجام ہوا اور کیا کہیں بھی احمدیت کا ادنی سا دخل بھی اس انجام میں تھا یعنی ظاہری طور پر احمدیت کی کوششوں سے کیا وہ اس بد انجام کو پہنچے ہیں جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں، ہر گز نہیں.احمدیوں کا اتنا دخل ضرور تھا کہ احمدیوں پر ظلم کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے خود اس کا انتقام لیا ہے اور آنے والوں کے لئے ایک نصیحت، ایک عبرت کا پیغام چھوڑ دیا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تم سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا.سب سے پہلے امیر فیصل کے ساتھ جو واقعہ ۱۹۷۳ء میں گزرا ہے وہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی لاہور میں جب Summit کا نفرنس منعقد ہوئی ہے تو انہوں نے وہاں پوری طرح اس سازش میں شریک ہو کر جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کی پوری حامی بھری اور پھر اس کے نتیجہ میں بھٹو صاحب کو یہ حوصلہ ہوا.ان کا کیا انجام ہوا؟ کیا اس سے پہلے کبھی کسی سعودی سربراہ کا یہ انجام ہوا تھا ؟ ایک غیر معمولی انجام ہے.کوئی عام انجام نہیں ہے.پھر بھٹو صاحب کی باری آئی.ان کو بھی میں نے ایک دفعہ ذاتی طور پر سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر نہیں سمجھے پتا نہیں کیسے دباؤ میں آگئے تھے اور وہ جس انجام کو پہنچے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے.کیا حکومت پاکستان کے کسی سربراہ کا ایسا انجام ہوا ہے.پھر ضیاء صاحب کی باری آئی.ان کو میں نے اس طرح ذاتی تنبیہ نہ کی لیکن خطبہ کے ذریعے کھلے عام ساری دنیا کو سنا کر تنبیہ کی کہ دیکھو تاریخ اپنے آپ کو اس طرح ضرور ڈ ہرائے گی کہ خدا کے بندوں کے ساتھ جس نے ظلم کا سلوک کیا ہے خدا کی تقدیر اس کو خالی نہیں چھوڑے گی.ضرور اسے عبرت کا نشان بنائے گی.پس میں نے ان کو بتایا کہ رات مجھے اللہ تعالیٰ نے پھر یہ بتایا کہ یہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرانے والی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 916 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ تم سے کچھ ہو جائے گا.اگلا خطبہ آنے سے پہلے پہلے آسمان میں ان کا جہاز پھٹ گیا اور اس کے ساتھ ان کا سارا تکبر تر بتر ہو گیا اور ذرہ ذرہ ہو کر بکھر گیا.تین واقعات گزر چکے ہیں.ایک بھی ان میں استثناء نہیں ہوا.یہ تین ہی ہیں جنہوں نے اس تمام تاریخ میں جماعت کو غیر مسلم قرار دینے میں مرکزی حیثیت مرکزی کردار ادا کیا تھا اگر یہ مجاہد اول تھے ، اگر خدا کی خاطر اور خدا کے دین کی خاطر اور محمد مصطفیٰ رسول اللہ ﷺ کے عشق میں ایسا کیا گیا تھا تو کیسا ظالم خدا ہے جو ہر ایسا کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دیتا ہے، اس کا سر پاش پاش کر چھوڑتا ہے اور اس سے ایسا سلوک ہوتا ہے جو اس جیسوں سے پہلے کبھی نہیں ہوا.یہ تمام خدا کے غیر معمولی تقدیر کے مظہر بن چکے ہیں.کبھی پاکستان کے کسی سربراہ کو پھانسی نہیں دی گئی، کبھی پاکستان کے کسی سربراہ کا جہاز اس طرح آسمان میں پھٹ کر ریزہ ریزہ نہیں ہوا.کبھی سعودی عرب کا کوئی بادشاہ اپنے عزیزوں کے ہاتھوں اس طرح ذلت کے ساتھ قتل نہیں ہوا تو اگر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والی ہوں گی یعنی ان معنوں میں تو ان کی مرضی ہے.کوئی ان کو روک نہیں سکتا.مگر خدا کی تقدیر کو بھی کوئی روک نہیں سکتا.آپ جو چاہیں کریں خدا کی تقدیر ضرور آپ کا تعاقب کرے گی اور آپ کو چھوڑے گی نہیں.یہ ایک عاجزانہ نصیحت ہے.یہ ان معنوں میں پیشگوئی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے معین آپ کے متعلق بتایا ہے مگر میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میں نے ان تین واقعات سے ایک ایسا قطعی نتیجہ نکالا ہے جس پر بنا کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو استغفار سے کام لینا چاہئے تو بہ کرنی چاہئے.اپنے ملک کو ان مصائب میں نہ دھکیلیں جو مصائب ایسے ظلم کے بعد ضرور پیچھا کیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے اور بنگلہ دیش کے غریب مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو.آمین جنازہ ہوگی.خطبہ ثانیہ سے پہلے حضور انور نے فرمایا کہ آج نماز جمعہ وعصر کے بعد ان دونوں شہداء کی نماز
خطبات طاہر جلد ۱۱ 917 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء وقف جدید کے ۳۷ ویں سال کے آغاز کا بابرکت اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.گزشتہ سال ان دنوں جمعہ کے روز قادیان میں وقف جدید کے سالِ نو کا اعلان کرنے کی توفیق عطا ہوئی تھی اور آج بھی وہاں جمعہ کا دن جلسہ کی طرح منایا جارہا ہوگا اور خدا کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مخلصین اس وقت قادیان میں جمع ہو چکے ہیں اور اگر چہ جلسہ کل سے شروع ہو گا لیکن آج کا جمعہ بھی عملاً جلسہ کا ہی حصہ بن جائے گا اس لئے سب سے پہلے تو میں اپنی طرف سے، جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اور تمام دنیا کی جماعتوں کی طرف سے حاضرین جلسہ قادیان کو محبت بھر اسلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں اور پھر اہلِ پاکستان کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ.ہزار ہا احمدی پاکستان سے بھی اس جلسہ میں شریک ہورہے ہیں.اس جلسہ کی افتتاحی تقریر کی متبادل تقریر کل صبح انشاء اللہ یہاں کے وقت کے مطابق دس بجے شروع ہوگی بلکہ دس بجے سے کچھ پہلے ہی یہ کارروائی شروع ہو جائے گی اسے باقاعدہ افتتاحی کارروائی تو نہیں کہنا چاہئے کیونکہ غالبًا جس وقت میں یہاں خطاب کروں گا اس سے پہلے وہاں افتتاح ہو چکا ہو گا.بہر حال جو احباب یہاں پہنچ سکتے ہوں وہ انتظام سے یہ پوچھ کر کہ اگر اتنی گنجائش ہو کہ لنڈن کے سب لوگ یہاں سما سکیں تو وہ یہاں آجائیں ورنہ پھر اپنی اپنی جگہ ٹیلی ویژن پر دیکھیں اور اس طرح کل کا جلسہ در حقیقت ایک بہت ہی وسیع عالمگیر جلسہ بن جائے گا.قادیان سے جلسوں کا آغاز ہوا اور قادیان ہی کی طرف واپسی کے آثار نظر آرہے ہیں.ایک سوسال کے لمبے چکر کے بعد لمبے سفر کے بعد اب قادیان ہی مجمع اقوامِ عالم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 918 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء بنتا جا رہا ہے اور کل انشاء اللہ تعالیٰ جو جلسہ وہاں شروع ہو گا اس کا ایک حصہ یعنی میری تقریر تمام دنیا کی جماعتیں سن بھی رہی ہوگی اور دیکھ بھی رہی ہوگی اور کچھ جماعتیں اس طرح شریک ہونگی کہ ان کے کوئی نہ کوئی نمائندے وہاں پہنچے ہوئے ہونگے تو ایک بہت ہی عظیم الشان اور خوشیوں کا دن ہے جو کل طلوع ہو گا لیکن آج کا جمعہ بھی درحقیقت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس وقت بھی خدا کے فضل سے تمام دنیا کی جماعتیں اس جمعہ میں ان معنوں میں شامل ہیں کہ دیکھ رہی ہیں اور سن رہی ہیں اور ہر ایسے موقع پر جو اطلاعیں ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بالکل نئے اور تازہ ولولے پیدا ہوتے ہیں.سب سے زیادہ خوشی تو اس بات کی پہنچتی ہے کہ جماعت خدا کے فضل سے بہت ہی زرخیز مٹی ہے جو بات کہی جائے وہ اس زرخیز مٹی پر پڑتی ہے جو اسے قبول کرتی ہے اور پھر بڑی تیزی سے نیکی کے پیچ نشو ونما پاتے ہیں.اب تو روزانہ ڈاک میں بکثرت ایسے خط ملنے لگے ہیں کہ ہم فلاں معاملے میں کمزور تھے ، فلاں معاملے میں کمزور تھے.دیانتدار اپنے آپ کو سمجھتے تھے لیکن حقیقت میں دیانت کا تصور نہیں تھا.خیانت سے پاک سمجھتے تھے مگر اب پتا چلا ہے کہ خیانت ہوتی کیا ہے اور ہم یہ یہ عہد کر چکے ہیں اور خدا کے فضل سے نئی زندگیوں کا آغاز کر رہے ہیں.اس طرح عبادات کے سلسلہ میں بھی جو خطوط ملتے ہیں ان سے روح تازہ ہو جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی عالمی تربیت کے ایسے عمدہ انتظام فرما دیئے ورنہ ایک خلیفہ کے لئے ناممکن تھا کہ ساری دنیا کی جماعتوں پر نظر رکھتا، ان تک پہنچ سکتا اور براہ راست ان سے مخاطب ہو کر ان کے دلوں میں نئے ولولے پیدا کر سکتا لیکن اب خدا نے یہ ایسے عجیب انتظام فرما دیئے ہیں کہ جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اب میں وقف جدید کے سالِ نو کے اعلان کی طرف آتا ہوں.اس وقت تک وقف جدید پر چھتیں سال گزر چکے ہیں اور آج سینتیسویں سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے گا سب سے پہلے جب ۱۹۵۷ء کے آخر پر وقف جدید جاری ہوئی تو حضرت اقدس مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود اپنے ہاتھ سے وقف جدید کی مجلس میں پہلا نام میرا لکھا.اگر چہ حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کو ہر لحاظ سے مجھ پر فوقیت حاصل تھی عمر کے لحاظ سے بھی بزرگ تھے صحابی بھی تھے اس لئے میری حیاء کا تقاضا تو یہ تھا کہ میں کبھی بھی اس بات پر اصرار نہ کرتا کہ میرا نام پہلے لکھا گیا ہے لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 919 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء ہاتھ کے لکھے ہوئے کی ایسی حرص تھی ، ایسی لالچ تھی کہ ایک موقع پر جبکہ وہ صدرمقرر ہوئے تھے ان کا لسٹ میں پہلے نام آنے لگا تو میں نے عاجزانہ طور پر درخواست کی کہ کیونکہ یہ حضرت مصلح موعودؓ کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اس لئے اگر چہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا مگر مجھے اسی نمبر پر رہنے دیا جائے.اس میں ایک پیشگوئی بھی تھی کہ خدا مجھے وقف جدید کے سلسلہ میں غیر معمولی خدمت کی توفیق بخشے گا اور اب وقف جدید کا نیا دور شروع ہوا ہے تو اب مجھے سمجھ آرہی ہے کہ کیوں حضرت مصلح موعود نے میرا نام پہلے لکھا تھا کیونکہ اس وقت تو تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے خلافت کے منصب پر فائز فرمائے گا اور وقف جدید کی تحریک کو عالمی بنانے کا خیال دل میں پیدا فرمائے گا اور پھر اس کی توفیق بخشے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ہمیں خوشیوں کے یہ دن دکھائے کہ وہ تحریک جوصرف پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش تک محدود تھی اسے عالمی تحریک بنانے کی توفیق ملی اور جماعت احمدیہ کو بڑی ہی محبت اور خلوص کے ساتھ اس آواز پر لبیک کہنے کی تو فیق ملی.جماعت احمدیہ کا جو یہ پہلو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک ایسا عظیم الشان ثبوت ہے کہ ساری دنیا زور مارلے، گالیاں دے یا کوششیں کرے اور منصوبے بنائے تو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی یہ نمایاں اور عظیم الشان اور امتیازی خوبی ان سے چھین نہیں سکتی.اس پیغام کو سو سال ہو چکے ہیں سو سال میں کتنی ہی نسلیں ایک دوسرے کے بعد آتی ہیں اور تھک ہار کر بیٹھ رہا کرتی ہیں اور مالی نظام تو خصوصیت کے ساتھ بہت ہی زیادہ ابتلاء میں ڈالے جاتے ہیں.ابتلاء ان معنوں میں کہ مالی لحاظ سے ۱۰۰ سال کے اندر کام کرنے والوں کی دیانتیں بدل جاتی ہیں ان کے اخلاص بدل جاتے ہیں، قربانی کرنے والوں کا معیار بدل جایا کرتا ہے اور اس پہلو سے وہ مالی نظام جو خالصۂ طوعی تحریک پر مبنی ہو اس کے لئے ایک سوسال تک کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا اس جماعت کے بانی کی صداقت کی ایک بہت ہی عظیم الشان دلیل ہے.خاص طور پر جبکہ دنیا کے رجحان اس کے برعکس چل رہے ہوں جبکہ مالی قربانی کا تصور عملاً مٹتا چلا جارہا ہو جبکہ حکومتوں کی دولت پر کام چلائے جاتے ہوں اور انفرادی کوشش اور محنت اور اخلاص کے ساتھ اعلیٰ مقاصد کے لئے روپے پیش کرنے کا تصور اگر پہلے بعض قوموں میں تھا بھی تو کم ہوتا چلا جائے.دنیا میں جتنی بھی قومیں نیکی کے نام پر خرچ کرتی ہیں ان کے متعلق بلا خوف اختلاف یہ کہا جا
خطبات طاہر جلدا 920 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء سکتا ہے کہ ہر آنے والے سال میں لوگوں کے جذبے میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ نیک کاموں پر از خود خرچ کرنے کا رجحان کم ہوتا چلا جارہا ہے.جماعت احمدیہ کا گراف اس سے بالکل مختلف ہے اور حیرت انگیز وفا کے ساتھ اپنے اس اسلوب کو قائم رکھے ہوئے ہے کہ ہر آنے والا سال جماعت کی مالی قربانی کی روح کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے.یہ اعجاز خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ایک سچے فرستادہ کے سوا کوئی دنیا میں دکھا نہیں سکتا.ساری دنیا کی طاقتوں کو میں کہتا ہوں کہ مل کر زور لگا کر دیکھ لیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسی کوئی مالی قربانی کرنے والی جماعت کہیں ہو تو لا کر دکھائیں.دنیا کے سامنے وہ چہرے تو پیش کریں وہ کون لوگ ہیں جو اس طرح اخلاص اور وفا کے ساتھ اور بڑھتی ہوئی قربانی کی روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے اموال پیش کرتے چلے جاتے ہیں.یہ چونکہ اموال کی باتیں ہیں اس لئے میں اموال کی بات کر رہا ہوں ورنہ خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ نیکیوں کے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہے.کسی میدان میں بھی پیچھے نہیں رہ رہی.وقتی طور پر جہاں بعض دفعه اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں جب بھی توجہ دلائی جائے تو فوری طور پر اس کا رد عمل پیدا ہوتا ہے اور غلط راہوں پر جانے والے لوٹ آتے ہیں اور پھر صحیح راستے پر قافلے کے ساتھ مل کر چلنے لگتے ہیں.پاکستان میں بھی بعض خرابیاں مثلاً ویڈیو کیسٹ کے غلط استعمال سے متعلق شروع ہوئیں.میں نے ایک خطبے میں اعلان کیا تھا کہ بعض گندی رسمیں راہ پا رہی ہیں اس سے قومی اخلاق تباہ ہو جائیں گے اور گھروں کے امن اٹھ جائیں گے اور میاں بیوی کے وفا کے سلسلے ٹوٹ جائیں گے اور ان کے تعلقات میں رخنے پڑ جائیں گے دراڑیں پڑ جائیں گی ہر گز اس رجحان کو پنپنے نہ دیں چنانچہ مجھے پاکستان سے جو خطوط ملے ان سے میرا دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہوا اور بار بار ہوا کہ وہ لوگ جو بعض بدیوں میں مبتلا تھے انھوں نے صاف لکھا کہ ہم ان غلط کاموں میں پڑ گئے تھے.اللہ کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے وابستہ ہیں اور براہ راست جب آپ کی آواز ہم تک پہنچی ہے تو یہ سارے جھوٹے بت تو ڑ کر ہم نے اپنے دلوں سے باہر پھینک دیئے تو جماعت میں نیکی کی آواز پر لبیک کہنے کا جو مادہ ہے یہ صداقت کی اصل روح ہے اور یہ صداقت کی روح کبھی کوئی جھوٹا دنیا میں نہیں بنا سکتا.جن لوگوں کو عقل ہے، جن کو ہوش ہے، جن کو نفسیات کا کچھ ادنی سا بھی علم
خطبات طاہر جلد ۱۱ 921 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء ہے وہ یقینا جانتے ہیں کہ یہ چیز بنانی کسی جھوٹے کا کام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے تزکیہ عطا ہوتا ہے تو تزکیہ نصیب ہوتا ہے ورنہ اپنی طاقت سے تزکیہ حاصل نہیں ہوسکتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کرنے والی ، پیار کرنے والی، آپ کی عاشق یہ جماعت اللہ کے فضل کے ساتھ نیکی کے ہر میدان میں آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اس عاشق نے اپنا سب صلى الله کچھ اور اپنی اولاد کا سب کچھ اور اپنی جماعت کا سب کچھ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا ڈالا تھا اس میں برکت پڑ رہی ہے وہ مال بڑھتا چلا جا رہا ہے ان قربانیوں کے معیار اونچے ہو رہے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں پہاڑوں میں تبدیل ہو رہی ہیں.یہ سلسلہ ہائے کوہ بننے والے ہیں اس لئے نیکی کے ان رجحانات کو ہمیشہ زندہ رکھیں قائم رکھیں اور آگے بڑھاتے چلے جائیں.وقف جدید کے سلسلہ میں جب پہلے سال اعلان ہوا تھا تو مجھے یاد ہے کہ ساٹھ یا ستر ہزار روپے کا وعدہ تھا اور پھر ہم کوشش کرتے رہے زور لگاتے رہے اور خدا کے فضل سے ہر سال تحریک آگے بڑھتی رہی پھر جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلافت کے منصب پر فائز فرمایا تو اللہ بخش صادق صاحب کو وقف جدید کا ناظم مقرر کیا گیا اور ان کے دور میں بھی نہ صرف تحریک آگے بڑھی بلکہ جس وقت تک میں تھا اس کی نسبت مالی قربانی میں پہلے سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آگے بڑھی اور اللہ کا بڑا احسان ہے کہ کسی پہلو سے بھی مجھے یہ شکوہ نہیں ہوا کہ اس میں یہ کمزوری آگئی ہے اور یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی ہے، کوئی غم نہیں ہے ، اگر میری کمزوریوں کی وجہ سے پہلے کوئی کمزوری تھی تو اللہ نے احسان فرمایا کہ ان کمزوریوں کو دور کر دیا اور اب جب باہر آ کر عالمی تحریک کی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے یکدم انقلاب برپا ہو گیا ہو.مثلاً جو مواز نے میرے سامنے ہیں وہ بھی بہت خوشکن ہیں اور بہت ہی عمدہ تصویر پیش کرتے ہیں مجھے یاد ہے کہ میں نے کسی جگہ بعض کوائف پڑھے تھے اس میں گزشتہ سالوں کے مقابل پر کچھ موجودہ کوائف بھی پیش ہوں گے.سر دست میں ۱۹۹۲.۱۹۹۱ء کا موازنہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.۱۹۹۱ء میں ایک لاکھ اکانوے ہزار چھہتر (۱۹۱۰۷۶) پاؤنڈز کے وعدہ جات تھے جو ۱۹۹۲ء میں بڑھ کر دو لاکھ ستاون ہزار دوسو (۲۵۷۲۰۰) پاؤنڈ بن گئے.یہ خدا کے فضل سے ایک بہت بڑا اضافہ ہے جو ۶۴ ۳۴۶ فیصد بنتا ہے.وقف جدیدا بھی بھی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے یہ حیرت
خطبات طاہر جلدا 922 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء انگیز ہے ورنہ اتنے لمبے عرصے کے بعد عموماً تحریکوں کے قدم آگے بڑھنے کی رفتار کے لحاظ سے یا موازنے کی رفتار کے لحاظ سے مدھم پڑ جایا کرتے ہیں لیکن جب آپ وصولی کی بات سنیں گے تو مزید حیران رہ جائیں گے.۱۹۹۱ء میں وعدہ ۶ ۱۹۱۰۷ تھا اور وصولی ۶۹۵ ۲۲۰ پاؤنڈ تھی جبکہ ۱۹۹۲ء میں وعده ۲٫۵۷٫۲۵۹ پاؤنڈ ز تھا اور یہ وہم سا ہوتا تھا کہ اتنے بڑے اضافے کی وجہ سے شاید پوری وصولی نہ ہو سکے لیکن وصولی اس کے مقابل پر ۳۳۲۶۸۸ پاؤنڈز ہے.تو آپ دیکھیں کہ وقف جدید کی تحریک اب کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.کروڑوں میں داخل ہوگئی ہے یعنی اس کو پاکستانی روپوؤں میں تبدیل کر کے دیکھیں تو چند ہزار سے جو تحریک شروع ہوئی تھی اس کو خدا نے اس نئی صدی میں کروڑوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ سلسلہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے امید ہے کہ انشاء اللہ اس کے بہت ہی عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں گے.پاکستان اور بنگلہ دیش اور ہندوستان کے علاوہ بیرونی دنیا میں کام کے لحاظ سے دراصل وقف جدید کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی چندے کے لحاظ سے ضرورت تھی کیونکہ وقف جدید کا زیادہ تر کام پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ایک نہج پر چل پڑا ہے اس لئے میں نے یہ تحریک کی کہ باہر کے ممالک چندے میں شامل ہوں تا کہ ان کاموں کو آگے بڑھایا جائے لیکن افریقہ کے لئے یہ استثناء رکھا گیا ہے کہ افریقہ کا وقف جدید کا چندہ و ہیں خرچ ہوگا کیونکہ افریقہ کے متعلق پالیسی یہی ہے کہ اس غریب خطہ ارض کو دنیا کی امیر قوموں نے بہت لوٹا ہے ان کا خون چوسا گیا ہے اور اب تو اکثر ممالک خوفناک اینیمیا (Anaemia) خون کی کمی کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے میں نے چند سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ جماعت احمد یہ اس رخ کو پلٹائے گی یعنی آئندہ کبھی افریقہ کا پیسہ باہر نہیں جائے گا بلکہ باہر سے پیسہ افریقہ بھیجا جائے گا.چندوں کے سلسلہ میں بھی یہی پالیسی ہے اور اسی لئے وقف جدید افریقہ کی جو بھی رقم ہے وہ افریقہ پر ہی خرچ ہوتی ہے بلکہ باہر کی بھی انشاء اللہ افریقہ پر خرچ کی جائے گی.پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان کے علاوہ جو درمیانی حصہ ہے اس میں زیادہ تر یورپین اور مغربی ممالک ہیں اور پھر انڈونیشیا اور جاپان وغیرہ بھی ہیں جن کے چندے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اب خاص طور پر ہندوستان میں اور پھر بعض دوسری جگہوں پر بھی کام کو آگے بڑھایا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 923 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء سب سے زیادہ نمایاں آگے قدم بڑھانے والے ملکوں میں سے اس وقت امریکہ قابلِ ذکر ہے.امریکہ کے امیر صاحب نے گذشتہ سال مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہم نے اپنی مجلس عاملہ میں غور کرتے ہوئے یہ سوچا ہے کہ کم سے کم کسی نیکی کے میدان میں تو امریکہ سب دنیا سے آگے بڑھ جائے.جرمنی کا نام بار بار سنتے ہیں وہ ہر میدان میں آگے چلا جاتا ہے تو اس سے بھی رشک پیدا ہوتا ہے پس ہم نے اپنے لئے چھوٹی سی تحریک وقف جدید چن لی کیونکہ باقی جگہ تو وہ صاف ہتھیار ڈال چکے تھے.صاف نظر آرہا تھا کہ خدمت کے دوسرے وسیع میدانوں میں تو ہم سے آگے نہیں نکلا جائے گا اس لئے کم سے کم وقف جدید کو ہی چن لیں چنانچہ وقف جدید کو چن کر انھوں نے محنت کی اور دو دن ہوئے مجھے فون پر ان کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ ہم نے خدا کے فضل سے غیر معمولی محنت سے کام لیا.( ان کی اس رپورٹ کا کچھ حصہ میں پڑھ کر بھی سناؤں گا ) اور اب ہمیں یقین ہے کہ ہم جرمنی سے بہت آگے نکل چکے ہیں میں نے کہا کس طرح یقین ہے.انھوں نے بتایا کہ ان کا اتنا وعدہ تھا جو ۳۵-۳۰ ہزار پاؤنڈ کے قریب بنتا تھا اور ہم نے جو وصولی اب تک کر لی ہے وہ ۵۰ ہزار سے اوپر ہے اس لئے جرمنی کے قریب آنے کا بھی کوئی سوال نہیں رہا.ہم تقریبا د گنے سے آگے بڑھ گئے ہیں لیکن جرمنی کی جب رپورٹ ملی تو جرمنی کی وصولی ۵۲ ہزار ۴۶۰ پاؤنڈ تھی.یعنی وعدے سے دو گنے سے بھی زیادہ وصولی ہو چکی تھی.مجھے اس وقت کسی نے کہا کہ صرف تین ہزار کا فرق رہ گیا ہے اگر آپ جرمنی کو بتا دیں تو جرمنی آسانی سے اس کو پورا کر کے پھر آگے بڑھ جائے گا.میں نے کہا دونوں میرے ہی گھوڑے ہیں ایک گھوڑے بیچارے نے زور مارا ہے، کوشش کی ہے آگے بڑھنے والا ہے میں کیوں خواہ مخواہ اس کو اس نیکی سے محروم کر دوں.بڑی تمنا کے ساتھ انھوں نے کام کیا ہے اور واقعی بڑی محنت کی ہے انور خاں صاحب ان کے سیکریٹری وقف جدید تھے انھوں نے سارے ملک میں دورے کئے یا خطوط لکھے اور کوششیں کیں.آگے جب اعدادو شمار آئیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ خدا کے فضل سے تعداد کے لحاظ سے بھی بہت اچھا کام کیا گیا ہے.ساری دنیا میں چند چھوٹے ممالک کو چھوڑ کر جن میں گنتی کی تعداد ہے غالباً امریکہ نے تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے.پاکستان کو ہم مقابلے میں شامل نہیں کرتے وہ تو خدا کے فضل سے بہر حال نمبر ایک ہی ہے اور باہر بھی جو قربانی کرنے والے ہیں ان میں بھی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 924 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء بھاری تعداد ماشاء اللہ ان لوگوں کی ہے جن کا پہلے پاکستان سے تعلق تھا تو اس لحاظ سے بھی پاکستانی، پاکستانیوں کا غیر پاکستانی ، پاکستانیوں کے ساتھ مقابلہ ہو رہا ہے لیکن بہر حال دوسرے بھی خدا کے فضل سے بڑھ رہے ہیں.میری تو اب کوشش یہ ہے اور میں بار بار دوسرے ممالک کو توجہ بھی دلا رہا ہوں کہ پاکستان یا ہندوستان والوں نے پیغام کا ابتدائی حق ادا کیا ہے.آپ کے ملک تک پیغام پہنچائے.نیکیاں رائج کیں ، کام کرنے کے اسلوب سکھائے اور اب کب تک آپ اسی طرح انکے پیچھے پیچھے چلیں گے.اب وقت آ رہا ہے کہ غیر پاکستانی احمدی بھی دنیا کے ہر ملک میں چیلنج کو قبول کریں اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کریں تو انشاء اللہ وہ وقت بھی آئیں گے اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ کرے ہماری اس نسل کی زندگی میں یہ وقت آئیں کہ بڑی بڑی عظیم الشان قو میں خدمتِ دین میں آگے بڑھیں اور پاکستان کے احمدیوں سے یا ہندوستان کے احمدیوں سے کسی ملک میں بھی بستے ہوں نیکیوں میں آگے بڑھنے کا مقابلہ کریں اور پھر بعض میدانوں میں آگے بڑھ کر دکھا ئیں.جرمنی کے بعد کینیڈ انمبر ہے اور کینیڈا نے بھی اس دفعہ خدا کے فضل سے بہت محنت کی ہے، بہت اچھا کام کیا ہے.اس کے کام کے چند نمونے میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا.برطانیہ کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ ثابت قدم ہے جہاں تھا اس سے نیچے نہیں گرا اور جیسا کہ ۱۸ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تھا وہ انھوں نے پورا کر دیا ہے.ہندوستان میں اس دفعہ کچھ کمی آئی ہے اور اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ آخری دنوں یعنی نومبر دسمبر کے ہی دو مہینے خصوصیت کے ساتھ ہیں جن میں وصولی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن وہاں کے حالات بہت بگڑ گئے اور وقف جدید قادیان کے لئے دورے کا تو سوال نہیں تھا خط و کتابت کے ذریعے بھی جماعتوں تک پہنچنا مشکل ہو گیا اور بہت ہی بگڑے ہوئے حالات تھے.کچھ مزاج بگڑے.نقصانات میں جماعت کے بھی بعض نقصانات ہوئے ہیں لیکن خدا کے فضل سے نسبتاً بہت کم ہیں تو میں امید رکھتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتیں بھی جہاں یہ آواز پہنچ رہی ہو اپنے طور پر کوشش کریں.نیکی تو وہی ہوتی ہے جو اپنی ذات میں قائم ہو جائے اور جڑیں قائم کر لے اس پہلو سے ہمیں بڑ کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے.درخت بعض دفعہ بڑے بڑے تناور ہو جاتے ہیں اور بہت دور دور تک پھیلتے ہیں لیکن وہ درخت جو ہمیشہ ایک ہی جڑ سے تعلق رکھ کر اس سے خوراک حاصل کرتے ہیں انکے
خطبات طاہر جلدا 925 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء پھیلاؤ کے دائرے محدود رہتے ہیں اور ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن بڑ کے درخت میں یہ خوبی ہے کہ جوں جوں پھیلتا ہے نئی شاخیں زمین کی طرف جھکاتا ہے جو زمین تک پہنچ کر جڑیں بن جاتی ہیں اور پھر ان جڑوں سے گویا اسی درخت کے نئے بچے پیدا ہوتے ہیں جو نئے درخت کے طور پر نہیں بلکہ پہلے درخت کے مددگار بن کر تعلق کاٹے بغیر اس کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے.ہندوستان میں میں نے بڑ کا ایک ایسا درخت دیکھا تھا جو غالباً ہزار سال سے بھی زائد کا تھا.کہا جاتا ہے کہ حضرت بدھ کے زمانے کا ہے بہر حال جو بھی اس کا زمانہ تھا لیکن یہ میں نے دیکھا کہ اتنا پھیل چکا تھا کہ ہمارا بڑے سے بڑا جلسہ سالانہ یعنی اڑھائی لاکھ والا جو جلسہ سالا نہ تھا وہ اس کے اندر سما سکتا تھا.پارکنگ Lots بھی بن سکتی تھیں.پھر بھی جگہ باقی رہ جاتی تھی.تو جماعت احمدیہ کو جو درخت کے مشابہ قرار دیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ”میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو تو میں سمجھتا ہوں کہ ان شاخوں میں بھی از سر نو درخت بننے کی صلاحیت رکھی گئی ہے اس لئے جہاں جہاں بھی جماعتیں پھیلتیں ہیں وہ وہاں زمین میں اپنی جڑیں پیوست کریں اور خود نشو و نما حاصل کرنا شروع کریں محض پرانی جڑوں پر انحصار نہ کریں.اس پہلو سے ہر ملک کے باشندوں کو چاہئے کہ وہ پاکستانی یا ہندوستانی نسل کے لوگوں سے جن پر سب سے پہلے احمدیت کی ذمہ داری ڈالی گئی ان پر اپنا انحصار ان معنوں میں نہ رکھیں کہ وہی جڑیں بنی رہیں اور یہ شاخیں بن کر ان سے رس چوستے رہیں بلکہ خود اپنے اپنے ملک میں جڑیں قائم کریں لیکن بڑ کی شان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ اپنی جڑیں قائم کر کے اصل درخت سے الگ نہ ہوں بلکہ اس کا وجود بنے رہیں تب ان پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ توقع صادق ہوگی کہ ”اے میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو اگر اُنہوں نے جڑیں الگ کر لیں اور اپنے درخت بھی الگ کر لئے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کی سرسبز شاخیں نہیں رہیں گی بلکہ کسی اور شیطانی وجود کی شاخیں بن جائیں گی یعنی سابق تعلق کٹ جائے گا اور ایک الگ شخصیت ابھر کر باہر نکلے گی جس کا اللہ کے قائم کردہ مامور سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.پس اسی وجہ سے میں نے با قاعدہ سوچ کر انتخاب کر کے بڑ کے درخت کی مثال آپ کے سامنے رکھی ہے جڑیں ضرور بنائیں مگر اصل کے ساتھ ہمیشہ وابستہ اور پیوستہ رہیں اسی میں آپ کی امید بہار ہے اسی سے
خطبات طاہر جلدا 926 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء آپ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیش کے لئے نیکی کے کاموں میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے.جاپان کا نمبر ساتواں ہے اور ناروے کا آٹھواں اور ماریشس کا نواں اور سوئٹزرلینڈ کا دسواں یعنی چندہ کی ادائیگی کے لحاظ سے خدا کے فضل سے یہ پہلی دس جماعتیں ہیں جنھوں نے نمایاں طور پر وقف جدید کا چندہ ادا کیا ہے.جن جماعتوں نے وعدہ کے مقابل پر غیر معمولی طور پر زائد وصولی کی ہے ان میں امریکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا سب سے اول ہے.ان کا وعدہ ۲۹۸۲۹ پاؤنڈ تھا اور وصولی ۵۵۸۰۱ ہوئی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کو اپنے وعدے پر ۸۷.۰۶ فیصد زائد ادا کرنے کی توفیق ملی یہ ایک بہت بڑی بات ہے.مالی قربانی کا وعدہ کر ناعموما اس کی نسبت آسان ہوا کرتا ہے کہ پھر ادائیگی بھی کی جائے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب سال ختم ہونے کا وقت آتا ہے تو جماعتوں کو اور کارکنوں کو یہی خطرہ ہوتا ہے کہ ہم وعدہ پورا کر سکیں گے کہ نہیں.اس پہلو سے امریکہ دنیا کی ساری جماعتوں سے آگے بڑھا ہے.اور پاکستان اس میں شامل ہے پاکستان بھی اپنے وعدے کے مطابق اس طرح وصولی نہیں کر سکا جس طرح امریکہ نے کی ہے اور غیر معمولی طور پر زیادہ کی ہے.دوسرے نمبر پر کینیڈا کی باری ہے.ان کا وعدہ پندرہ ہزار تھا اور ۲۴۲۳۸ وصولی ہوئی گویا کہ ۵۸ ۶۱ فیصد اضافہ وعدے کے مقابل پر وصولی میں ہوا اور پھر جرمنی کی باری نمبر تین پر ہے ۳۲۶۵۳ وعدہ تھا یہ وہی وعدہ ہے جس پر نظر کر کے امیر صاحب امریکہ سمجھتے تھے کہ اب تو جرمنی کو ہم نے وہ مارا اور وہ مارا، بہت پیچھے رہ جائے گا لیکن ان کو بھی خدا نے اپنے فضل سے توفیق بخشی اور ۳۲ ہزار کے وعدے کے مقابل پر ۵۲۴۶۰ کی وصولی ہوئی.اس طرح انھوں نے وعدے میں ۶۵.۶۰ فیصد اضافے کے ساتھ چندہ ادا کیا.جہاں تک چندہ دہندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کا تعلق ہے اس میں اول، دوم، سوم، چہارم وغیرہ آنے والے ممالک کے نام پڑھ کر میں سناتا ہوں مگر یہ یاد رکھیں کہ جو بہت چھوٹے ممالک ہیں جن میں تعداد بہت تھوڑی ہے ان کا نام اگر چہ پہلے آجائے گا لیکن خدمت کا جو معیار ہے یہ اس سے ظاہر نہیں ہو گا خدمت کا معیار ان جماعتوں میں ظاہر ہوگا جن جماعتوں میں نسبتاً بہت بڑی تعداد ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اضافے کئے گئے ہیں یا کم از کم سینکڑوں کی تعداد میں اضافے کئے
خطبات طاہر جلد ۱۱ 927 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء گئے ہیں.پس چھوٹی جماعت ہونے کے لحاظ سے ان کو یہ فائدہ تو پہنچ گیا ہے کہ تھوڑی سی کوشش سے وہ اول دوم سوم میں شمار ہونے لگے ہیں لیکن فی الحقیقت کام کی نوعیت اور بوجھ اٹھا کر چلنے کے اعتبار سے بعض بعد میں آنے والے خدمت کے میدان میں ان سے آگے سمجھے جانے چاہئیں.بہر حال اس لحاظ سے سہرا سوئٹزر لینڈ کے سر ہے.گزشتہ سال ۲۶ تعداد تھی.اس سال ۸۳ ہو گئی ہے جبکہ ۲۱۹ فیصد اضافہ ہے اس کے بعد ریجیم کی باری آتی ہے تعدادے اسے بڑھ کر ۵۴ ہوگئی ہے اور ۲۱۷ فیصد اضافہ.پھر گی آنا (Guyana) کی باری ہے ۱۳ تعداد تھی جو ۲۸ ہوگئی اب دیکھ لیں کہ اعداد وشمار بعض دفعہ سچ بولنے کے باوجود جھوٹ بول جاتے ہیں یعنی بظاہر ایک کچی بات ہے لیکن جو تا ثر ہے وہ جھوٹا ہے.گی آنا میں جماعت احمدیہ کی تعداد خدا کے فضل سے کافی ہے اور ان کے لئے ۱۳ ہونا بھی قابل شرم ہے اور ۲۸ ہونا بھی قابل شرم ہے.اس لئے محض اعداد و شمار کافی نہیں ہوا کرتے.اعداد و شمار کے ساتھ اس کے ماحول کی کچھ باتیں ہیں.ان کو دیکھنے کے بعد اعدادوشمار کا پیغام صحیح پہنچا کرتا ہے ورنہ Juggling with figures محاورہ ہے.یہ کر کے حکومتیں بعض دفعہ اپنے بجٹ کے بالکل مختلف حالات پیش کر دیتی ہیں حالانکہ اعداد و شمار درست ہوتے ہیں اپنی مرضی کی بات ہے کہ کس قسم کے اعداد و شمار کو کس طرح پیش کیا جائے.اب دیکھیں نا ! جب ہم بھی مختلف زاویوں سے پہلو بدل بدل کر اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھتے ہیں جیسا کہ گوئٹے مالا کی تعداد ے تھی ۱۳ ہوگئی لیکن یہاں واقعی گوئٹے مالا نسبتاً زیادہ قابلِ داد ہے کیونکہ گی آنا کے مقابل پر گوئٹے مالا کے احمدیوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے کیونکہ ابھی نیا مشن قائم ہوا ہے اس پہلو سے سے کا ۳ ہونا اللہ کے فضل کے ساتھ یقینا معنی رکھتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس میں اور بھی اضافے ہونگے.اب ہم امریکہ اور جرمنی کی طرف آتے ہیں.امریکہ کے چندہ دہندگان کی تعداد گزشتہ سال ۶۲۳ تھی امسال یہ بڑھ کر خدا کے فضل سے ۲۵۴۸ ہوئی ہے.۱۶۲۳ کو ۲۵۴۸ میں بدلنا یقیناً محنت طلب کام ہے کافی وسیع پیمانے پر لمبے عرصہ تک محنت کی گئی ہوگی.جرمنی میں ۳۵۷۰ تعداد تھی جو بڑھ کر ۶۰ ۵۵ ہوئی ہے تقریبا دو ہزار نئے چندہ دہندگان شامل کئے گئے ہیں یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے.بہت عظیم اور مسلسل محنت کی مظہر کامیابی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ آگے سے آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے.کینیڈا نے بھی تعداد بڑھانے میں غیر معمولی ترقی کی ہے.ان کی
خطبات طاہر جلد ۱۱ 928 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء رپورٹ جب میں آپ کے سامنے رکھوں گا تو اس میں اس کا ذکر ملتا ہے.جماعت احمد یہ عالمگیر کی پہلی دس جماعتیں جو فی کس چندے کے لحاظ سے سب سے آگے ہیں اب میں انکی فہرست آپکے سامنے پیش کرتا ہوں.جن جماعتوں کو بہت اعلیٰ کارکردگی دکھانے کی توفیق ملی ہے ان کے نام صرف فخریہ طور پر نہیں پڑھے جاتے بلکہ ایک تو مسابقت کی روح آگے بڑھانے کے لئے پڑھے جاتے ہیں تا کہ جن جماعتوں میں یہ روح کچھ مدھم ہے وہ جاگ اٹھے، کچھ چمک اٹھے، نئے ولولے پیدا ہوں.دوسرا بڑا مقصد ان جماعتوں کے لئے دعا کی تحریک کرنا ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی ہر بات کی تان بالآخر دعا پر ٹوٹتی ہے.پس جب ان جماعتوں کے لئے آپ دعا کریں تو ان کمزور جماعتوں کے لئے بھی دعا کریں جن کو ابھی تک قربانی کے میدان میں آگے آنے کی توفیق نہیں ملی تا کہ ہمارے مقابلے صرف دو یا تین گھوڑوں میں نہ رہیں بلکہ چالیس پچاس ساٹھ گھوڑے گردن کے ساتھ گردن ملا کر دوڑ رہے ہوں اور کچھ پتا نہ ہو کہ کون آگے نکلے گا.یہ وہ جذبہ ہے جو قرآنِ کریم کی اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ لِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقره: ۱۴۹) که خدا تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے ایک نصب العین مقرر فرما دیا ہے اور اے محمد مصطفی علیہ کے غلامو ! تمہارے لئے نصب العین یہ ہے کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے مسابقت کرو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو مسلسل دوڑتے ہوئے نیکیوں کے میدان میں دوسرے بھائیوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرو.جس ملک میں ہم رہتے ہیں یہاں لوگ گھوڑ دوڑ کے بہت شوقین ہوتے ہیں ان کے ذہن میں یہ بات خوب اچھی طرح جاگزیں ہو چکی ہے کہ جب ایک سے زیادہ صلاحیت والے گھوڑے اکٹھا دوڑتے ہیں تو کیسا خوبصورت منظر سامنے آتا ہے اور کس طرح جوئے باز جو ہیں وہ اپنے آپ کو بے بس اور بے طاقت محسوس کرتے ہیں.نہیں کہہ سکتے کہ کون سا گھوڑا آگے نکل آئے گا بعض دفعہ پانچ پانچ ، چھ چھ ، سات سات گھوڑوں میں یہ مقابلہ ہورہا ہوتا ہے لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کے گھوڑے اور شان کے گھوڑے ہیں یہ نیکیوں کے میدان میں دوڑنے والے ہیں.یہاں شیطانی شرطیں نہیں پڑھی جاتیں لیکن نیک تو قعات رکھی جاتی ہیں اور دعاؤں کے مقابلے ساتھ ساتھ ہو رہے ہوتے ہیں.پس یہ جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کے مضمون کو دعاؤں کے ساتھ باندھنا ضروری
خطبات طاہر جلد ۱۱ 929 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ساری جماعت یہ دعا کرے کہ اللہ کرے کہ نیکیوں کے میدان میں حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے گھوڑے کثرت کے ساتھ اس تیزی سے ایک دوسرے کے شریک ہو جائیں کہ آخر وقت تک دل دھڑکتے رہیں پتا نہ چلے کہ کون آگے بڑھ جائے گا.پھر خدا کی عطا کردہ توفیق سے کچھ گھوڑے باہر نکلیں اور آگے بڑھیں تو ایک بہت ہی عظیم روحانی لطف پیدا کرنے والا منظر ہو گا جو اپنی شان میں نرالا ہوگا.ایسی کوئی اور چیز دنیا میں دکھائی نہیں دے گی.یہ منظر یکتا ہوگا اور یہ منظر پیدا ہو رہا ہے اللہ کے فضل سے جماعتیں اس طرف آگے قدم بڑھا رہی ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اگر جماعت یہ دعائیں کرے کہ اے خدا! کثرت سے ساری جماعتیں نیکی کے میدان میں قدم سے قدم ملا کر دوڑیں اور خوب آگے نکلنے کی کوشش کریں تو اللہ کے فضل سے دعاؤں کے ذریعہ ساری دنیا کی دوسری قومیں ہم سے بہت پیچھے رہ جائیں گی.ساری جماعت اگر نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے لگے تو انقلاب بہت تیزی سے برپا ہوسکتا ہے.دعوت الی اللہ کے سلسلے میں میں بارہا آپ کو بتا چکا ہوں کہ جماعت کا سواں حصہ بھی نہیں ہے جو فی الحقیقت دعاؤں اور حکمت کے ساتھ ارادے باندھ کر ، اپنے کام پر نظر رکھتے ہوئے ، اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھتے ہوئے ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں.اگر ننانوے باقی حصے بھی ساتھ شامل ہو جائیں تو رفتار سو گنا ہو جائے گی ، کیفیت ہی بدل جائے گی ، جماعت چند سالوں میں دیکھتے دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی.ابھی بھی جو ہمارا تعاقب کر رہے ہیں وہ ہماری گرد کو بھی نہیں پاسکتے پھر تو ان کو گر د بھی دکھائی نہیں دے گی.اندھوں کی طرح تلاش کریں گے کہ گئے کہاں.ابھی یہ بجلی کا کوندا یہاں سے گذرا ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا.تو تیز رفتاری میں اس طرح آپ آگے بڑھ سکتے ہیں آپ کو خدا تعالیٰ نے صلاحیت بخشی ہے، نیکی کے میدانوں میں آگے بڑھنے کے لئے آپ کو اس زمانے میں بنایا گیا ہے، اس وجہ سے آپ کی تعمیر کی گئی ہے کہ آپ قرآنِ کریم میں پیش کردہ نقشوں کو اپنی ذات میں پورا کر کے دکھا ئیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ صرف چندوں کی بات میں نہیں ہر نیکی میں انشاء اللہ تعالیٰ جماعت انفرادی طور پر بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی اور جماعتی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی.
خطبات طاہر جلد ۱۱ 930 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء فی کس قربانی میں جاپان حسب سابق نمبر ایک ہے.یہ وہ میدان ہے جس میں وہ ماشاء اللہ کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتے.اس وقت وہ میری بات سن رہے ہونگے اور ضرور ہنس رہے ہونگے کہ الحمد للہ پھر بھی ہمارا نام آیا ہے.اللہ کرے کہ آپ کا نام آگے رہے مگر دوسروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ جاپان کو ہرانے کی کوشش تو کریں.اس کے ہارنے سے مجھے خوشی نہیں ہوگی ، آپ کے جیتنے سے خوشی ہوگی، خوشی تو پھر بھی خوشی رہے گی.اس پہلو سے گوئٹے مالا دیکھیں ماشاء اللہ نمبر دو گیا ہے.جاپان میں وقف جدید کافی کس چندہ ۳۶.۲۰ پاؤنڈ ہے اور گوئٹے مالا میں ۲۰.۳۴ پاؤنڈ ہے.یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے کیونکہ گوئٹے مالا نسبتا ایک بہت غریب ملک ہے اور وہاں فی کس احمدی کی آمد دنیا کی دوسری جماعتوں سے بہت کم ہے لیکن اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ان کو اس میدان میں بہت آگے بڑھنے کی توفیق عطا ہوئی.حکیم نمبر تین - بیلجئیم بھی ان جماعتوں میں سے ہے جو خدا کے فضل سے تیزی سے ترقی کر رہی ہیں.جماعت پنجم آگے بڑھ رہی ہے.تبلیغ میں بھی بیدار ہو رہی ہے چندوں میں بھی آگے نکل رہی ہے.کیپٹن شیم خالد صاحب جو پہلے نیوی میں ہوا کرتے تھے، وقف کر کے بڑے ولولے اور بڑی قربانی کی روح کے ساتھ انہوں نے اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا.کافی لمبا عرصہ فرانسیسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اور مرکزی دفتروں میں تجر بے حاصل کرنے کے بعد اب بیلجیئم میں امیر جماعت ہیں اور مبلغ انچارج بھی.تو جب سے یہ تشریف لائے ہیں خدا کے فضل سے جماعت بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے.ان کی فی کس اوسط ۸۸.۳۲ پاؤنڈ ہے.اور تحکیم کے احمدیوں کے حالات میں جانتا ہوں معمولی آمد کے لوگ ہیں کوئی غیر معمولی کمائی والے میں نے وہاں نہیں دیکھے اس لحاظ سے خدا کے فضل سے بہت اعلیٰ پائے کی قربانی ہے.سوئٹزر لینڈ ۲۳ پاؤنڈ فی کس کے حساب سے نمبر چار بنتا ہے.سوئٹزر لینڈ کے سلسلہ میں ایک تصحیح بھی ضروری ہے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے وقت فی کس نمایاں قربانی کرنے والی جماعتوں میں سوئٹزر لینڈ کا نام شامل ہونے سے رہ گیا تھا.انکا معیار قربانی دراصل ۱۲۱ پاؤنڈ فی چندہ دہندہ تھا جبکہ غلطی سے ۱۲ پاؤنڈ لکھا گیا یعنی ۱۲۱ میں سے آخری ایک لکھنے سے رہ گیا تو میں نے جب ۱۲ پاؤنڈ اعلان کیا تو وہاں سے بہت دردناک احتجاج کا خط آیا کہ ہم تو چندے اکٹھے کرتے کرتے رہ گئے
خطبات طاہر جلدا 931 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء اور اس طرح لوگوں نے قربانیاں دیں اور آپ نے ۱۲۱ کو بنا دیا تو اب میں بڑی معذرت کے ساتھ اور شرمندگی کے ساتھ اس غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ان کا چندہ تحریک جدید ۲۱ فی کس تھا لیکن جاپان کو پھر بھی پیچھے نہیں چھوڑ سکے وہ پھر بھی آگے ہی رہتا ہے الحمد للہ بہر حال یہ اب بھی چوتھے نمبر پر ہیں امریکہ ۲۱.۸۹ فی کس تک پہنچ گیا ہے ساؤتھ افریقہ ۱۸.۹۰ اور کوریا ۱۳ پاؤنڈ اور ڈنمارک ۱۰۳ پاؤنڈ اور فرانس ۴۷ ۱۰ پاؤنڈ اور جرمنی ۹.۴۳ پاؤنڈ.جرمنی بظاہر بہت پیچھے دکھائی دے رہا ہے لیکن جرمنی میں احمدی کی فی کس آمد اتنی زیادہ نہیں ہے جتنا ان کے چندوں سے معلوم ہوتا ہے.بچوں وغیرہ کی بہت بڑی تعداد ہے جو بغیر کسی آمد کے ہیں اور جرمنی میں باقی سب تحریکوں میں بھی چونکہ بہت محنت کے ساتھ ہر احمدی کو شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے جرمنی کو اتنا پیچھے نہ سمجھیں.یہ اعداد وشمار کے قصے ہیں یہ ان کے کرشمے ہیں.بعض اچھے کام کرنے والوں کو پیچھے دکھاتے ہیں بعض کمزور کام کرنے والوں کو آگے دکھا دیتے ہیں اصل دعا تو یہ کرنی چاہئے کہ اعداد و شمار کی زبان میں نہیں بلکہ خدا کے ہاں ہم آگے لکھے جائیں اللہ کی نظر میں ہمارا مقام بلند ہو.اگر یہ نصیب ہو جائے تو اعداد و شمار کی زبان کچھ بھی کہتی رہے اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی مگر انسانی کمزوریاں ہیں ، مجبوریاں ہیں.بات سمجھانے کے لئے اعداد و شمار کی زبان بھی ضرور استعمال کرنی پڑتی ہے.اسکے فائدے بھی پہنچتے ہیں.بیرونِ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش کی جو مجموعی شکل ہے وہ یہ بنتی ہے ( یہ وہ تین ملک ہیں جہاں آغاز ہی سے یہ تحریک جاری تھی) نئے دور میں جوتحریک ان کے علاوہ باقی ممالک میں جاری ہوئی ہے ان کی مجموعی وصولی ۱۹۲۳۱۱ پاؤنڈ بنتی ہے اور تعداد مجاہدین ۲۲۶۸۲ ہے سالِ گذشتہ سے موازنہ کے لحاظ سے آپ دیکھیں کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش کے علاوہ جماعتوں نے واقعہ بہت ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ فرمایا ہے.۱۹۹۱ء میں وعدہ جات ۹۶۵۹۸ تھے ، وصولی ۱۰۵۹۶۳ تھی.۱۹۹۲ء میں وعدہ جات ۳۱۶۷۴ اتھے جبکہ وصولی ۱۹۲۴۱۱ ہے.گویا کہ وعدوں کے مقابل پر وصولی میں بھی نہ صرف اضافہ ہے بلکہ اضافے کی رفتار میں بھی اضافہ ہے یعنی پچھلے سال ۳۸.۳۸ فیصد اضافہ تھا.امسال ۸۱.۵۸ فیصد اضافہ ہے تو اللہ کرے کہ یہ رفتار اسی طرح آگے بڑھتی رہے تو تعداد مجاہدین کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں فرق ہے ۱۸۰۰۰ کے مقابل پر
خطبات طاہر جلدا 932 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء ۲۲۶۸۲ تعداد بنی ہے.جو ۴۴۹۹ کے اضافے کی مظہر ہے.گزشتہ سال۱۹۹۰ء کے آخر پر جب یہ رپورٹ مجھے پیش کی گئی تو میں نے مال والوں سے اس توقع کا اظہار کیا یا شاید خطبہ میں کہا ہوگا کہ بیرونِ پاکستان عنقریب چندہ وقف جدید میں انشاء اللہ ایک کروڑ تک پہنچ سکتا ہے.اب تک جو وصولیاں ہوئی ہیں اس کو اگر ہم پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو تین ممالک کو چھوڑ کر باقی ممالک کی کل وصولی ۷۶ لاکھ 94 ہزار روپے ہوگئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب اگلے سال یا اس سے اگلے سال انشاء اللہ یہ کروڑ سے اوپر نکل جائے گی.افریقہ کے ممالک میں بہت ہی زیادہ غربت ہے اور جب میں ان کے اعدادو شمار پڑھ کر سناتا ہوں تو ان کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں ، رحم کی نظر سے بھی دیکھیں اور دعا کی نظر سے دیکھیں کہ اللہ تعالی انکی تو فیق بڑھائے ورنہ مجھے علم ہے کہ افریقہ کے ممالک میں خدا کے فضل سے اخلاص کے لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہے لیکن صرف ایک وجہ نہیں ہے کہ وہ وقف جدید کی تحریک میں اتنا پیچھے رہ گئے ہیں ایک اور وجہ یہ ہے کہ وقف جدید کے سیکریٹریان کا قصور معلوم ہوتا ہے ورنہ بعض دوسری مالی تحریکات میں وہ تصویر جو وقف جدید نے پیش کی ہے اس سے بہت بہتر تصویر ابھرتی ہے تو یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ انتظامیہ کا قصور ہے وقف جدید کو اہمیت نہیں دی گئی حالانکہ وقف جدید کا نظام وہاں واقعہ جاری ہو چکا ہے.دیہاتی معلمین جگہ جگہ کام کر رہے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ ہمارے مرکزی مبلغین جو ہیں وہ دیہاتی معلمین کے محتاج رہتے ہیں کیونکہ افریقہ کے دیہاتی معلمین میں تقریر کا ایک ایسا ملکہ ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ ان کا کوئی روایتی فن ہے جو ان کے خون میں چلا آرہا ہے اس لئے معمولی تعلیم والے بھی جب کسی صاحب علم کا ساتھ دیتے ہیں تو اس کی ہر بات کو ایسی عمدگی سے پیش کرتے ہیں کہ ایک تموج سننے والوں میں پیدا ہو جاتا ہے.بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے آواز کی لہریں آپ دیکھنے لگ گئے ہیں.ان کے اندر عجیب قسم کی سنسناہٹ سی دوڑ نے لگتی ہے.میں جب دورے پر وہاں گیا تھا تو بڑے بڑے عالم میری تقریر کے ترجمے ایسے نہیں کرتے تھے جتنا یہ دیہاتی معلم کرتے تھے.بہت غریبانہ حالت میں یہ بیچارے کام کر رہے ہیں.اگر افریقہ کے ممالک وقف جدید کی طرف توجہ کریں تو یہ سارا روپیہ انھیں
خطبات طاہر جلدا 933 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء معلمین کی فلاح و بہبود پر استعمال ہوگا اور اب ہم باہر کی جگہوں سے جو روپیہ لا کر ان پر خرچ کرتے ہیں پھر انشاء اللہ تعالیٰ مقامی طور پر افریقہ خود اس کام کو سنبھال لے گا.بہر حال ماریشس صف اوّل پر ہے وہ ظاہر بات ہے کیونکہ ماریشس کا معیار زندگی باقی افریقہ سے بہت اونچا ہے.نائیجیریا کی وصولی صرف ۵۳۶ پاؤنڈ ہے اور یہ ماننے والی بات نظر نہیں آتی جتنا مرضی غربت کو آپ اسکا ذمہ دار قرار دیں اول تو نایجیر یا اتنا غریب ہے ہی نہیں جتنا باقی افریقہ کے دوسرے ممالک ہو چکے ہیں اور دوسرے وہاں کی جماعت کو میں جانتا ہوں بڑے بڑے مخلص قربانی کرنے والے ایسے بھی ہیں جنھوں نے بڑی بڑی جائیداد میں جماعت کے سامنے پیش کی ہیں کافی صاحب حیثیت لوگ ہیں.تو یہ تصور جو بھی ہے یا امارت کا قصور ہے یا سیکریٹری وقف جدید کا قصور ہے اور الگ الگ بھی نہیں کہنا چاہئے ، دونوں کا مل کر ہے.بہر حال امیر بھی ذمہ دار ہے اور سیکرٹری بھی ذمہ دار ہے.بینن صرف ۴۷۸ پاؤنڈ ہے.ساؤتھ افریقہ صرف ۴۱۶ پاؤنڈ ہے، گیمبیا صرف ۳۷۰ پاؤنڈ ہے مگر گیمبیا کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں واقعہ بہت غربت ہے اور جو روز مرہ کے چندے ہیں ان میں وہ اللہ کے فضل سے ذمہ داری سے ادا ئیگی کرتے ہیں اور جتنی مجھے توقع تھی اس سے زیادہ ذمہ داری سے وہ ماہانہ چندے ادا کرنے والے ہیں اور یہ رجحان اب خدا کے فضل سے بڑھتا چلا جارہا ہے.سیرالیون ۳۱۷ پاؤنڈ ہے.کینیا ۲۴۸ ہے یہ تو کسی طرح بھی قابلِ فہم نہیں ہے.کینیا میں ایک بڑی تعداد ایسے متمول پاکستانی دوستوں کی بھی ہے اور درمیانی طبقے کی بھی ہے کہ اگر وہی وقف جدید میں مسابقت کی روح سے حصہ لیں تو سینکڑوں کی بجائے ہزاروں تک تو آسانی سے پہنچ سکتے ہیں اور اب تو کینیا میں تیزی سے افریقن لوگوں میں بھی خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ پھیل رہی ہے.اس سے پہلے یہ کمزوری تھی کہ افریقن قوموں میں جماعت کا نفوذ کم تھا لیکن اب یہ کمزوری ختم ہو چکی ہے اور بڑی تیزی سے افریقن قوموں میں نفوذ ہو رہا ہے اور وہ بھی خدا کے فضل سے چندے کے معاملے میں پیچھے رہنے والے لوگ نہیں ہیں ، غریب ہیں مگر دل کے امیر ہیں.پس یہ جو تصویر ہے یہ بھی جماعت کے انتظام کی کمزوری کی تصویر ہے نہ کہ ان لوگوں کی اقتصادی یا دینی حالت کی تصویر تنزانیہ بھی اسی پہلو سے قابلِ توجہ ہے.اس کی وصولی صرف ۲۳۱ پاؤنڈ ہے آئیوری کوسٹ ۱۷۴ پاؤنڈ اور یوگنڈ ۸۳۱ پاؤنڈ ،
خطبات طاہر جلدا 934 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء حالانکہ یوگنڈا میں میں خود جانتا ہوں کہ بعض یوگنڈن احمدی ایسے ہیں کہ وہ اکیلے بھی باقی چندوں کے علاوہ سینکڑوں پاؤنڈ دے سکتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ جنھوں نے تحریک کرنی تھی جنھوں نے اہمیت سمجھانی تھی وہ افسوس ہے کہ اس معاملے میں ناکام رہے ہیں.مشرق بعید کے ممالک میں کل ادا ئیگی کے لحاظ سے انڈونیشیا نمبر ہے، جاپان نمبر ۲ ، آسٹریلیا نمبر ۳ ، سنگا پور نمبر ۴ نجی نمبر ۵ ، اور پہلی تین پوزیشنوں میں فی کس قربانی کے لحاظ سے جاپان کو ریا اور سنگا پور آتے ہیں.پاکستان میں کراچی نمبرا ہے ، ربوہ نمبر ۲ ، لاہور نمبر ۳ ، فیصل آباد نمبر ۴ ، سیالکوٹ نمبر ۵ ، راولپنڈی ۶ ، گجرات نمبرے، سرگودھا نمبر ۸، اسلام آباد نمبر 9 اور گوجرانوالہ نمبر پر ہے.اب میں خلاصہ رپورٹ مکرم امیر صاحب USA پڑھ کر سناتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کے سلسلہ میں جو خصوصی مسائی کی گئی ہیں ان میں ۳۰۰ فیملیز کو دسمبر ۱۹۹۱ء کے خطبہ کی کیسیٹس بھجوائی گئیں اس تاکید کے ساتھ کے سارے مل کر سنیں اور پھر بتائیں کہ کیا ارادے ہیں.بہت عمدہ تجویز تھی اور یقینا بڑی محنت سے یہ کام کیا گیا ہے وقف جدید کے سلسلہ میں ۶ سال کے خطبات جمعہ کے متن تمام مربیان کو بھجوائے گئے تا کہ وہ اس کی روشنی میں احباب کو توجہ دلائیں.۱۴ جماعتوں نے ہفتہ وقف جدید منایا.مکرم انور محمود خاں صاحب جو نیشنل سیکریٹری ہیں انہوں نے ایسٹ اور ویسٹ کوسٹ کی جماعتوں کا دورہ کر کے احباب کو تقاریر کے ذریعے خصوصی توجہ دلائی.۲۰ افراد جماعت نے کم از کم ایک ہزار ڈالر پیش کرنے کا وعدہ کیا اور ادا کر دئے اور لجنہ نے بھی غیر معمولی تعاون کیا اور بارہ سال سے کم عمر کے ۵۶۱ بچوں کو لجنہ کی کوششوں سے داخل کیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے وصولی ۷۸ ہزار ا ۵ (۷۸۰۵۱ ) ڈالر ہوئی جو ۱۹۹۱ء کے وصولی کے مقابل پر ۲۱۶ فیصد اضافے کے ساتھ ہوئی ہے.اب آخر پہ کینیڈا کی رپورٹ کا خلاصہ سنا دیتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا نے وقف جدید میں مجموعی وصولی ۲۵ ہزار ۶۶۶ کے مقابل پر امسال ۴۸ ہزار ۲۳۴ ڈالر کی وصولی پیش کی ہے.گزشتہ سال ۲۵۰۰ افراد شامل تھے امسال ۳۴۸۰ شامل ہوئے ہیں اور بعض جماعتوں کے ۱۰۰ فیصد افراد اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں اور یہ بہت بڑی چیز ہے ، ۱۰۰ فیصد افراد کے شامل ہونے کے لحاظ سے
خطبات طاہر جلدا 935 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۹۲ء میرا خیال ہے دنیا بھر میں کینیڈا کے مقابل پر اور کوئی ملک نہیں ہے.۱۰۰ فیصد افراد شامل کرنے والی جماعتوں میں کیلگری ، وینکوور ، رجائنہ ، لنڈن ( اونٹاریو ) ، مارکھم ، سکار برو ، مالٹن ، ایڈمنٹن ، سکاٹون سنٹرل ٹورانٹو ، مس ساگا اور وان کی جماعتیں شامل ہیں.ہمارے مبارک احمد صاحب نذیر جو نذیر احمد علی صاحب کے صاحبزادے ہیں اور وقف کیا ہوا ہے.باقاعدہ جامعہ احمدیہ میں تعلیم تو نہیں حاصل کی لیکن دینی علم چونکہ کافی تھا اس لئے ان کو جامعہ کی تعلیم کے بغیر ہی میدان میں بھیج دیا گیا انہوں نے بہت محنت کی ہے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بعض جگہ منفی ۳۰ درجے ٹمپریچر تھا اور یہ اپنی ایک ٹیم بنا کر ایک ایک گھر پہنچے اور دروازے کھٹکھٹائے اور ان کو بیدار کیا اور وصولیاں لے کر آئے اس وجہ سے اس سارے علاقہ میں خدا کے فضل سے اکثر جماعتیں اب یہ کہہ سکتی ہیں کہ ہمارے 10 فیصد افراد وقف جدید میں شامل ہو گئے ہیں.تو یہ ایک بہت ہی بڑی کامیابی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی.اب چونکہ وقت ختم ہو چکا ہے اس لئے باقی باتیں میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ جمعہ میں پیش کروں گا.یا درکھیں کل صبح یہاں کے وقت کے مطابق ۱۰ بجے قادیان کے جلسہ میں ہماری شمولیت ہو گی اور پرسوں ناغہ ہے.پھر آخری دن انشاء اللہ پیر کے روز دس بجے قادیان کے جلسے میں شمولیت ہو گی.ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس وقت وہاں جلسہ کے ۵ ہزار شر کا ء ہمارے ساتھ اللہ کے فضل کے ساتھ جمعہ میں شامل ہیں اور کل انشاء اللہ یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی اب میں اجازت چاہتا ہوں پھر انشاء اللہ کل دوبارہ حاضر ہوں گا.پرسوں ناغہ، پیر کو پھر انشاء اللہ اسی وقت ، ایک گھنٹے کے لئے اختتامی خطاب ہوگا اور آئندہ جمعہ یکم کو آئے گا یعنی اگلے سال کا آغاز جمعہ کے روز ہورہا ہوگا تو ساری دنیا کو نئے سال کی مبارک بادانشاء اللہ اگلے جمعہ میں پیش کی جائے گی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 آخرین در ویشان قادیان آخرین کے اصحاب الصفہ ہیں 51 آسٹریلیا آسیہ 573,574,575,721,726,934 809 قرآن میں مومنوں کے لئے بطور مثال کیوں چنا گیا آنحضرت کے فیوض میں سے ایک یہ ہے کہ آخرین کو اولین سے ملانے والے ہیں 52 اس کی حکمت 810,811 642 232 سیده آصفہ بیگم (حرم حضرت خلیفہ مسیح الرابع) آخرین اپنے اخلاق، کردار صفات کے ذریعہ اولین سے مل سکتے ہیں 89 جمعۃ الوداع کے آغاز میں انتقال آخرین کے لئے سورۃ الجمعہ میں اولین سے ملنے کی پیشگوئی 94 وفات سے قبل جماعت کو پہلے نہ بتانے کی تین وجوہات 232,233 آپ کی سیرۃ وسوانح کا تذکرہ حضرت آدم علیہ السلام 482,484,487.435,441,444 233 وفات سے دو تین ہفتے قبل پتے کے کینسر کا آغاز 234 وہ درخت جس سے آدم کو منع کیا گیا اپنی بیوی حوا سے محبت پتوں سے تن ڈھانپنے سے مراد.استغفار آپ کی قرآن میں مذکور دعا آڈیو ویڈ یو شعبہ انگلستان کے نوجوانوں کا اس شعبہ میں کام کرنا اس شعبہ کی طرف جماعت کو توجہ دینے کی تلقین آزاد کشمیر آزر آزر کے لئے حضرت ابراہیم کی دعا آزمائش آزمائش کی وضاحت 447 488 755 340 913 913 207 437 قادیان میں ان کے متعلق حضور کی ایک رؤیا 235 دعا کے نتیجہ میں اعجازی طور پر گردے کی نالیوں کا کھلنا 236 ایک بچی کے متعلق آپ کی رویا 238 آخری وقت میں آپ کے سکون اور اطمینان کا سبب 240,241 بچیوں کو صبر کی تلقین اور ان کا صبر کا اظہار حضور کے کاموں کا بہت بوجھ اٹھایا 242 242 تاریخ پیدائش اور شادی کی تاریخ کے حوالہ سے تھی 287,288 آفتاب احمد صاحب، چوہدری ان کی اہلیہ کی وفات پر اُن کا ذکر خیر 44 آفتاب احمد خان صاحب جلسہ سالانہ قادیان کے سوئیں جلسہ کے انعقاد کے سلسلہ میں ان کی قربانی اور ان کی خوبیوں کا ذکر 268 اللہ جن کو مال دیتا ہے ان کی آزمائش بھی کرتا ہے 462 آل عمران دنیا میں آزمائشوں کے نظام پر غور اور اس کا شکر کے آمنہ صدیقہ صاحبہ 463 آندھرا پردیش 500 | آنکھ مضمون سے تعلق آسام آسٹریا 137 آنکھ کی خیانت اور اس کا بداثر 24 442,443 333 6,26 804
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 آنکھ سے خیانت کا آغاز بھٹکتے وقت انسان کی آنکھ سے ضرور پتا چل جاتا ہے، 2 805 فاينما تولوا فثم وجه الله ( 149 ) لكل وجهة (149) انا لله وانا اليه راجعون (157) نیک انسان کی آنکھیں اور پیغام دیتی ہیں 822,823 جانوروں کا آنکھ سے فوراً پہنچانا، حضور کامر غابیوں کو دوران سیر کھانا کھلانا آنکھوں میں مخفی بدیوں کی پہچان سے بچوں کے تربیتی 823 388 928 260 يا ايها الذين أمنوا كتب عليكم الصيام (184 تا 187) 159 329 117 108 534 182 66 47 20,778,857 129 147 13,866 361 18,19,264 736 134,256 871,897 796 701 702 703 704 719 475 مسائل کا حل ہونا 823,824 دوران سیر دو قسم کے منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں هل ينظرون الا ان يأتيهم الله (211) ربنا افرغ علينا صبرا (251) ولا يحيطون بشئ من علمه (256) لا انفصام لها (257) حسین اور بدزیب 846 رب ارنی کیف تحى الموتى (261) وما تنفقوا من خير يوف اليكم (273) آواز للفقراء الذين احصر في سبيل الله (274) آواز کے ربط کا موسیقی کے اچھا ہونے سے تعلق آئرلینڈ 641 34 لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (287) آل عمران بل مارک کا ہالینڈ کے حوالہ سے آئر لینڈ پر چھیتی کرنا 681 ويغفر لكم ذنوبكم (32) آئرلینڈ کے لوگوں کے مزاج کی خوبیاں آئفل ٹاور آیات قرآنیہ الفاتحة 682 624,746 قال ایتک الا تكلم الناس (42) مكروا ومكر الله (55) ان اول بيت وضع للناس (97) وتوفنا مع الابرار (194) رابطوا (201) ایاک نعبد و ایاک نستعین (5) 95,113,114,117,453 صراط الذین انعمت عليهم (6) النساء 113 الرجال قوامون على النساء (35) البقرة هدى للمتقين (3) يؤمنون بالغيب (4) وما يخدعون الا انفسهم (10) في قلوبهم مرض (11) قالوا انما نحن مصلحون (1213) وقودها الناس والحجارة(25) ومن اظلم ممن منع مساجد الله (115,116) لاينال عهدي الظالمين (125) ان طهرا بيتي (126) ان الله يأمركم أن تؤدوا الامانات (59) 128 822 248,737 750 313 184 877 319 761 ومن يطع الله والرسول (70) انا انزلنا الیک الکتاب بالحق (106) واستغفر الله (107) ولا تجادل عن الذين يختانون انفسهم (108) وهو معهم اذ يبيتون (109) المائدة فيما نقضهم ميثاقهم لعناهم (14) يا ايها الذين أمنوا اتقوا الله (36)
105 889 593 576 360 482 239 247 609 698 646 289 95 371 658 678 832 221 114 804 595 312,436 الله الذي رفع السموات بغير عمد (3) ان الله لا يغير ما بقوم (12) افمن هو قائم على كل نفس (34) ابراهيم لئن شكرتم لازيدنكم (8) الحجر انک لمجنون (7) فاذا سويته و نفخت فيه (30) ان المتقين في جنت وعيون (46) ادخلوها بسلام امنين (47) النحل افامن الذي مكروا السيئات (46تا 48) لباس الجوع (113) بنی اسرائیل ومن كان في هذه اعمى (73) فتهجد به نافلة لک (80) رب ادخلني مدخل صدق (81) واذا انعمنا على الانسان (84) الكهف الحمد لله الذي انزل (3-2) فلعلک باخع نفسک (7) فمن شاء فليؤمن (30) يحسنون صنعا (105) طه 3 320 615 753 889 731,753 211,343 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 عالم الغيب (74) الانعام او من كان ميتا فاحييناه (123تا 125) الاعراف لباس التقوى ذالک خیر (27) مخلصين له الدين (30) خذوا زينتكم عند كل مسجد (32) الانفال اذا دعاكم لما يحييكم (25) يا ايها الذين أمنوا لا تخونوا الله (28) 700,821,841 يايها الذين امنوا ان تتقوا الله(31-30) واذكروا الله كثيرا (46) يا ايها النبى حرض المؤمنين على القتال (67-66) وان يريدوا خیانتک فقد خانوا الله (82) التوبة انما يعمر مساجد الله (18) 123 81 197 813 731 768 701 899 ليظهره على الدين كله (33) رءوف رحيم (128) يونس فقد لبثت فيكم (17) هود وان استغفروا ربكم (4) فاستقم كما امرت (113 تا 124) واقم الصلوة طرفي النهار (115 تا 117) 453 269,270 287 وما كان ربک لیهلک القری 118 تا 121) 305,337 رب اشرح لی صدری (26 تا 29) و كلا نقص عليك من انباء الرسل (121 تا 124 323 ولا تمدن عینیک (131) الانبياء بل فعله (64) ما ارسلناک الا رحمة للعلمين (108) 812 يوسف ذالک لیعلم اني لم اخنه بالغيب (53) الرعد
366 341 375 215 69 344,789 842 783 231 523 725 750 626 69,726 70,88,850 809 423 439 203 583 ومن احسن قولا (34) ومن احسن قولا (34 تا 36) فاذا الذي بينك وبينه عداوة (35) الدخان حم والكتب المبين (2 تا 7) الفتح هو الذي ارسل رسوله بالهدی (29) محمد رسول الله والذين أمنوا (30) الحجرات ان اكرمكم عند الله اتقكم (14) قالت الاعراب أمنا (15) الرحمن كل من عليها فان (27تا29) الحشر ويؤثرون على انفسهم (10) تحسبهم جميعا وقلوبهم شتى (15) الصف في سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص (5) يريدون ليطفئوا نور الله (9) هو الذي ارسل رسوله بالهدى (10) الجمعة و آخرين منهم لما يلحقوا بهم (4) التحريم ضرب الله مثلا للذين كفروا (11) المزمل يايها المزمل (2تا 10) واذكر اسم ربک و تبتل اليه (10-9) المدثر ولا تمنن تستكثر (7) عبس عبس وتولى ان جاءه الاعمى (3-2) الطارق 590 553 638 814 706 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 الحج فاجتنبوا الرجس من الاوثان (31) ذالك ومن يعظم حرمات الله (32-31) حنفاء لله (32) ان الله يدافع عن الذين أمنوا (39) اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا (41-40) النور نور على نور (36) 227,278,529,800 905 604 605 790 395 535 851 رجال لا تلهيهم تجارة (38) من كان يريد العزة (11) فاطر والذين يمكرون السيئات (16) ولن تجد لسنت الله تحويلا (44) الفرقان الا من تاب وعمل عملا صالحا (71 تا 78) ومن تاب وعمل صالحا (73-72) واجعلنا للمتقين اماما (75) الشعراء لعلک باخع نفسک (4) 491,678,839-154,490 السجدة يدعون ربهم خوفا وطعما (17) الاحزاب ما كان محمد ابا احد من رجالكم (41) ياايها الذين امنوا اذكروا الله كثيرا (42 تا 49) ياايها الذين امنوا لا تكونوا (70) جهولا (72) انا عرضنا الامانة على السموات (73) المؤمن وانذرهم يوم الأزفة (19تا 21) يعلم خائنة الأعين (20) حم السجدة ان الذين قالوا ربنا الله (31) 539 146 141 899 902 860 803 808,821 446,539
475,476 546 596,618,628 598 623,868 629 666 725 734 738 801 ات محمدن الوسيلة والفضيلة التائب من الذنب كمن لا ذنب له الحرب خدعة ان رسول الله مر على صبرة طعام علماء هم شر من تحت اديم السماء اللهم ان اهلكت هذه العصابة فلن تعبد تجمع له الصلوة لو كان الايمان عند الثريا ان يأتي على الناس زمان یا بلال اقم الصلاة ارحنا افلا شققت عن قلبه عن ابي هريرة عن النبى قال قال الله تعالى ثلاثة انا خصمهم 806 عن ابي سعيد الخدرى ان النبى قال لكل غادر لواء 826 احادیث بالمعنى ایک شخص نے حضرت محمد سے قیامت کے بارہ میں سوال کیا 29,30 مسکین وہ نہیں جس کو دو تین کھجوریں یا لقمے میسر آجائیں بلکہ وہ ہے جو خدا کی راہ میں صبر کر کے ہاتھ نہیں پھیلاتا 49 جو ہاتھ دینے والا ہے وہ بہتر ہے بعض دفعہ خدا بعضوں کی وجہ سے دوسروں کو رزق عطا کرتا ہے تمہیں کیا پتا کہ کن لوگوں کی وجہ سے تمہارے اعمال میں برکت پڑ رہی ہے جو شخص مسلسل تین جمعے اپنی سستی یا اسے حقیر سمجھتے ہوئے ترک کرتا ہے اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا 50 52 64 76 امام مہدی کی طرف جاؤ خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل جانا پڑے 82 لوگوں کے جمعہ ترک کرنے کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچ 5 13 326 267 638 693 108 172 2,222,558 351 91 16-17 5 26 76 79 134,135,488 166 168 229 273 413 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 انهم يكيدون كيدا (17-16) الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى (10) الفجر البينة راضية مرضية (29) و ما امروا الا ليعبدوا الله (6) الضحى واما بنعمة ربك فحدث (16) اذا زلزلت الارض (2تا6) الزلزال الم نشرح فان مع العسر يسرا (6تا9) العصر والعصر ان الانسان لفي خسر (3-2) الكوثر ان شانئک هو الابتر (4) النصر اذا جاء نصر الله (2تا3) اذا جاء نصر الله (2 تا 4) احادیث | حدیث الغنى غنى النفس سيد القوم خادمهم من ترك الجمعة ثلاث مرات تهاونا بها احضروا الجمعة تيركم خيركم لاهله قال رسول الله لكل شيء زكواة فانه لي وانا اجزی به من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون لو كان الايمان معلقا عند الثريا
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 6 86 جائیں گے کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا کے اوپر خشک گندم رکھ دیتا ہو اور اندر سے گیلی ہو 547 بعض الجھے ہوئے پراگندہ بالوں والے انسان جن کے میری یہ ساری امت قابل بخشش ہے سوائے ان کے سر پر خاک پڑی ہو جب وہ کہتے ہیں کہ خدا ایسا ضرور جو مجاہر ہے کرے تو خدا ایسا ضرور کر دیتا ہے اللہ فرماتا ہے کہ انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے 110 166 تمہیں بی اختیار کرنا چاہیئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے آنحضرت کا ایک موقع پر ایک شخص کو جھوٹ نہ روزہ دار کے منہ کی بو بھی مجھے ایسے پسند ہے کہ مشک کی بولنے کی نصیحت 547 559 560,561 بو بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی 170 214 221 ایک موقع پر آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں رزق میں برکت سچ سے ہوتی ہے مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے آنحضرت کا دجال سے ڈرانا ایک موقع پر کسی بیوی کی طرف سے کوئی تحفہ آیا جس سے انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت عائشہ کو تکلیف پہنچی مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا ہے 258 271,325 ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے 562 563 564 چار باتیں اگر کسی میں پائی جائیں تو وہ منافق ہے 567 ایک بد، بد شہر سے ہجرت کر کے نیکیوں کے شہر کی طرف آنحضرت ایک دن ہمارے گھر میں موجود تھے کہ میری اس نیت سے روانہ ہوا.......میرے بال سورۃ ہود نے سفید کر دیے ہیں 318 325 امی نے مجھے یہ کہا کہ آؤ تمہیں کچھ دیتی ہوں 567,568 بدترین آدمی تم اس کو پاؤ گے جو ذ والو جہین ہے 569 ایک عورت کا بیٹا فوت ہو گیا ، وہ اس کی قبر پر کھڑی گریہ کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان حاصل نہیں کر سکتا زاری کر رہی تھی کہ آنحضرت نے اسے صبر کا فرمایا 351 جب تک وہ مزاج میں جھوٹ ترک نہیں کر دیتا والدین سے نیک سلوک عمر کو بڑھاتا ہے،جھوٹ رزق آپ مکارم اخلاق پر فائز تھے ایمان کے ستر درجے ہیں ان میں سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان رستے میں گری چیز کو اٹھائے 355 522 کو کم کرتا ہے بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے حضرت ابو ہریرہ کا کا بھوک کی شدت سے نڈھال ہونا 523 اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو نماز عشاء کے بعد اپنے گھروں کو لوٹا کر اور ذکر الہی کیا ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ مسلمان کرو اور مجلس سے اجتناب کیا کرو مومن کی فراست سے ڈرو 531 533 بھائی کی تحقیر کرے 569 579 580 584 585 بڑے گناہ یہ ہیں ، اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی 587 جب آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی نیند سے مغلوب میری امت کے لئے اللہ نے ساری زمین مسجد بنادی 663 ہو تو نرم ہاتھوں سے پانی کے چھینٹے دیا کرتے سات سال کی عمر میں بچے کونماز پڑھنے کے لئے تختی سے ہدایت نہیں 534 543 نماز کے وقت حضرت امام حسن اور حسین کا آنحضرت مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا دوسری برائیاں ہو کے کندھوں پر سوار ہونا آنحضرت نے اس شخص پر لعنت ڈالی جو گندم کی ڈھیری سکتی ہیں 665 697
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 7 اے میرے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک، ننگ خیانت سے 698 مسجد میں پیاز کھا کر نہ آیا کرو، گندے ڈکار نہ لیا کرو 763 آنحضرت کے زمانہ میں جہاد کے دوران ایک مجاہد کا اگر خدا اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نگاہ رکھتا تو کسی سے پہلوان کو زیر کرنا اور اس کا کلمہ پڑھنے کے باوجود صحابی کا اسے قتل کرنا اور حضور کی شدید ناراضگی 703 اس کا تعلق نہ رہتا ایک شخص جس نے اموال میں برکت کے لئے دعا کروائی جو شخص یہ گناہ کرتا ہے اس وقت وہ مومن نہیں اور پھر اس کا زکوۃ ادا کرنے سے انکار 721 نیتوں پر تمام اعمال کا دارو مدار ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نماز پڑھو 732,733 مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے 801 810 822 873 اعلیٰ ایمان تو یہ ہے کہ آگے بڑھو اور بدی کو روک دو 894 آنحضرت کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازہ کے پاس نہر گزر رہی ہو 733 آئیوری کوسٹ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا ابتلا 734,735 جائے گا وہ نماز ہے میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ گناہ مٹادیتا ہے 736 رہنا تو حید اور تقتل کی ایک قسم ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات میری آنکھ کھلی تو قرآن میں دو قسم کے ابتلاؤں کا ذکر ہر ابتلا جس میں سچ کی آزمائش ہے اس میں ثابت قدم 737,738 میں نے حضور کو اپنے بستر پر نہ پایا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اکرم کی بیماری پر ثابت قدم رہنا شدت اختیار کر گئی قرآن کریم کو بھی ترنم کے ساتھ پڑھا کرو 738,739 746 ابتلا میں سزا، تنبیہ کا پہلو اور صحابہ نبی کریم کا ابتلاؤں خدا کی رحمت کا ابتلا لے کر آنا اور اس سے فائدہ اٹھانے والے لوگ ایک پاؤں پر بوجھ ڈال کر نماز میں نہ کھڑے ہوں 748 حضرت ابراہیم علیہ السلام نماز کا انتظار بھی عبادت ہے 749 خدا سے دعوت الی اللہ کے فن جہاد کا گر سیکھنا اگر تم خدا کے سامنے ٹیڑھی صفیں لے کر کھڑے ہو گے پرندوں کو سدھانے کی تعلیم اور اس میں حکمت تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے تم ہم پر گندے ڈکار نہ پھینکا کرو نماز میں اپنا لباس درست نہ کیا کرو نمازی کے آگے سے بھی نہیں گزرنا 750 756 757 757 933 541 878 879 879,880 183 182 202 210 آپ کو تبلیغ کا شکار سکھایا گیا قوم لوط کو ہلاکت سے بچانے کے لئے فرشتوں سے گفتگو 306,307 خدا کے لئے تنبل اور بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہونا 430 امام تلاوت کر رہا ہو تو نمازی ایسی آواز میں تلاوت نہ کریں جس کے نتیجہ میں امام پر اثر پڑے 758 حضرت ابراہیم کا بتوں کو توڑنا اور بل فعلہ کی انبیاء کی شایان شان تفسیر مسجدوں میں خرید و فروخت کی بات نہیں ہونی چاہئے 761 آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر مسجد کی صفائی کرنے والی ایک غریب لونڈی کی وفات اور ابن شهاب اس کی قبر پر جا کر آپ کا نماز جنازہ پڑھنا، دعا کرنی 761 حضرت ابن عباس 595,596 731 739,740 739
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 ∞ حضرت ابن عمر سنن ابن ماجه مولانا ابوالحسنات محمد عبدالغفور 76 76,166,546 72,73 اس کے انہدام پر ہندوستانی اخبارات کے تبصرے 887,888 اس کے انہدام پر مسلمانوں کا غلط ردعمل اور اسلام کے وقار کو ٹھیس پہنچنا 888 اس کے انہدام پر پاکستانی اخبارات میں تبصرے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 562,739 حضور” کی پاکستانیوں کو نصیحت احساس کمتری 162 گھر کے سارے مال کی قربانی میدان بدر میں نبی کریم کی دعا کے وقت کی کیفیت 629 حضرت ابو جعد ضمری ابو جہل 76 892,893 احساس کمتری کا کردار پر بھیانک اثر اور اس کا نتیجہ 350 احمدیت فوز کے وہ معانی جو ہمیشہ جماعت کے مدنظر رہنے چاہئیں 4 نبی کریم کا اس کے پاس جانا اور جس شخص کا اونٹوں کے جماعت احمد یہ اس دنیا کے خادم اور مخدوم ہیں پیسوں کا مطالبہ تھا وہ ابو جہل سے واپس دلوانا 353,354 خدا کا جماعت کے ساتھ زندہ تعلق ابو جہل کا کشف 355 27 54,55 غریب اور چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود مواصلاتی اس کا نام عمر تھا، نبی کریم کا ایک عمر کے لئے دعا مانگنا 644 رابطوں کے ذریعہ جماعت کا انقلابی قدم سنن ابوداؤد حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب 76,258,567,588,738 528 201 49,72,86,165,166 533,547,567,569,579,580,733 ابوالکلام آزاد حضرت ابو ہریرة ورم فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہونا اور لوگوں کا مرگی کا دورہ سمجھ کر جوتیاں سنگھانا 73 جماعت احمدیہ کے دوسری صدی میں داخل ہونے پر نئے نئے اعجازی نشانات کا احمدیت کے حق میں ظہور 75 سورۃ الصف میں مسیح موعود کی جماعت کی صفات کا بیان 88 بعض احمدیوں کا پاکستان سے لکھنا کہ اب تو تکلیفوں کی حد ہوگئی ہے، خدا کیوں مدد نہیں کرتا ؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بہت کم نصرت کرنے تھے مگر آج ان کی نسلیں دنیا میں پھیلی ہیں 98 100 نبی کریم کی محبت کی وجہ سے مسجد نبوی سے نہ جانا آپ کا بھوک کا واقعہ اجودھیا کی مسجد ( نیز دیکھئے "بابری مسجد) 50 51 523 جس کثرت سے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں تبلیغ ہوئی اور جماعت پھیلی اس کا عشر عشیر بھی کبھی بعد میں نہیں ہوا 100 دوسری صدی سے نصرتوں اور فتوحات کے نئے دور کا آغاز 102 احمدیت کی فتح کے لئے ضروری اسباب 102 اجودھیا کی مسجد کا معاملہ کہ کیوں خدا کی مدد نہیں آ رہی؟ بھٹو کا آخری دور حکومت میں جماعت کے خلاف جھوٹا اس سوال کا جواب مبصرین کے بیانات کہ مرکزی اور یوپی کی حکومت 880 پرو پیگنڈا اور بعض پولیس افسروں کا طرز عمل 126 جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کو دشمن کے منصوبوں پوری طرح اس میں ملوث تھی ، مرکزی حکومت کا مذمت پر اطلاع ہوئی تو جھوٹ کے مقابل کبھی جھوٹ نہیں بولا 126 کرنا اور صوبائی حکومت کو معطل کرنا 887 جماعت کے اکثر معاندین کا جماعت کے خلاف جھوٹ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 اور اخو بات کو بھی جائز سمجھنا ، اس کی وجہ 126 غیر احمدیوں کی احمدیوں سے اعلیٰ اخلاق کی توقعات 519,520 جماعت کے خلاف حکومت پاکستان کا 1974 ء اور پھر یورپ میں احمدیوں کے داخلہ پر پابندیاں اور اس کے نتیجہ 1984ء میں کیا جانے والا پروپیگنڈا ایک احمدی کے کافر نہ ہونے کی وجہ 130 151 میں ایجنٹوں کا بزنس اور اس کے نتیجہ میں مسائل 616 قرآنی حکم کے مطابق سچائی وہ قلعہ ہے جس میں جماعت احمدی ہونے کی وجہ سے سکولوں میں احمدی بچوں کا ممتاز کے لئے امن ہے ہونا ، اس کی وجہ 156 جماعت احمدیہ نے آج تک ایسا عقیدہ کسی ایسے فرقہ کی یہ جماعت کا مزاج ہے کہ اس نے خدمت کرنی ہے اور طرف منسوب نہیں کیا جو اس میں پایا نہ جاتا ہو پاکستان سے ہجرت کرنے والے احمدیوں کی شکایت کہ 187 اس مزاج کو دنیا میں روشناس کروایا جاتا ہے ڈوبتے ہوئے زمانہ کو بچانے کے لئے آج صرف جماعت کھلم کھلا عبادت کی اجازت نہیں احمدیہ کی کشتی ہے 270 جس ملک میں ترقی کرے گی وہاں مخالفت ہوگی 274 جماعت کا ہر قسم کی مخالفت میں ترقی کرنا جماعت احمدیہ کے غالب آنے کا راز وہ بڑی مصیبت جس کے نتیجہ میں جماعت کی رفتار پر نہایت مضر اثر پڑ سکتا ہے 283 284 295 631 631 648 احمدیت دنیا کی نگرانی کی غرض سے پیدا کی گئی ہے اس لئے امۂ وسطاً بننا ضروری ہے جماعت کو ہر معاملہ میں امیۃ وسطاً بنے کی تلقین دور ہونا 659 672 685 709 مغرب میں رہنے والے احمدیوں کو معاشرتی اقدار اور دنیا طلبی کے حوالہ سے صبر کی تعلیم جماعت کو صبر پر قائم ہونے کی تلقین 298 299 احمدیت کی وجہ سے مغرب میں اسلام کی غلط فہمیوں کا بوسنیا کی عوام کے لئے جہاد کی تلقین پاکستان کے ایک اخبار کی گواہی ، احمد یوں پر پاکستان اور دیگر ممالک میں مظالم کا اعتراف 724,725 اس زمانہ کے لوگوں کی اصلاح اور معاشرتی برائیوں سے جماعت احمدیہ کے لئے ایک مبارک اور پر نور جمعہ 727 300 جماعت کے مقدر میں وہ دن لکھا گیا ہے جب حج کی بچانے کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام جس ملک میں کوئی احمدی ہے اس کا ملک سے وفا کا تقاضا برکتیں تمام دنیا میں عام کر دی جائیں گی ہے کہ وہاں اصلاح کی کوشش کر دے اگر جماعت کی اندرونی اصلاح کا معیار بلند ہوگا تو جماعت بیرونی اصلاح کے لائق ہوگی ایک سوسال میں 126 ممالک میں پھیلاؤ احمدی racialism کا شکار نہیں ہو سکتا 309 310 317 312 728 جماعت احمدیہ کے انقلابی فتح کی طرف تیز قدم 730 جماعت احمدیہ کی ترقی کا راز مساجد ہیں 730,731 126 سے زائد ممالک میں قیام اللہ نے احمدیوں کو ایسے خمیر سے پیدا کیا ہے جس کی فطرت میں ہارنا اور کمزوری دکھانا نہیں ہے 766 766 آئندہ دنیا کے وارث حضرت محمد کے بیچے غلام ہیں 322 جماعت کی کامیابیاں ، اس کی صداقت کا ثبوت احمدیت کے آغاز کی اسلام کے آغاز سے مماثلت 363 1974ء کی گھناؤنی سازش اور پاکستانی سیاست کا غیروں کا احمدیوں کی برائیوں کی اطلاع دینا اور اس میں ملاں کا غلام بننا جماعت کے لئے ایک عظیم خراج تحسین 519 ہر ابتلا میں جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا، جماعتی تاریخ 778 783
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 اس کی گواہ ہے یہ کونے کے پتھر کی جماعت ہے 10 787,788 788,789 حضور کارد عمل 513 اسالکم کی خاطر احمدی نوجوانوں کو جھوٹ سے بچنے کی ہدایت 539 کلمہ طیبہ کی خاطر احمدیوں کی جان و مال اور عزتوں کی سیاسی پناہ کے مقدمات میں احمدیوں کا جھوٹ سے کام قربانیاں دینا اور ان کا استقلال 801,802 650 جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار سینکڑوں گنا کرنے کا طریق.زیادہ سے زیادہ عہدیدارا مین بنیں اسلام اور جماعت کے تمام دنیا پر غلبہ سے مراد 847 851 لینا شرک ہے استغفار استغفار کا مطلب استغفار میں گوڈی کا مضمون 228 452,453 یہ ممکن نہیں کہ ہر دنیا کی جماعت کی ساری ضرورتیں تفصیلاً استغفار کے بغیر گناہ سے نجات ناممکن ہے 862 استغفار کے نتیجہ میں دو باتوں کا حصول مرکز سے براہِ راست پوری کی جائیں مولویوں کا انگلستان کے سکولوں میں بچوں کو جماعت سے استقاء بدظن کرنے کے لئے الزامات اور جماعت کی جوابی کارروائی رب کہنے کا استقامت سے تعلق سے فوراً مخالفانہ لٹریچر کا غائب ہونا 864 استقامت سے مراد 454 455 446 540 70 جماعت کے دور قریب کے مخالفین کا عبرتناک انجام 915 | اسلام جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے بہت ہی زرخیز مٹی ہے 18 اسلام کے غلبہ کے متعلق وہ پیشگوئی جس کا تعلق حضرت پاکستان اور ہندوستان والوں نے جماعت کے پیغام کا مسیح موعود سے ہے حق ادا کر دیا ہے، اب وقت آ رہا ہے کہ غیر پاکستانی بھی مفسرین کے حوالہ جات جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں چیلنج قبول کریں مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کا غلبہ ہوگا 71 تا 73 جماعت احمدیہ کو درخت سے مشابہ قرار دینے میں حکمت 925 امام سے ہی دنیا میں اسلام کی جمعیت قائم ہو سکتی ہے 80 آخری زمانہ میں اسلام کا دیگر ادیان پر غلبہ مقدر ہے 88 اذان 924 وہ عالمی اذان جس کو امام مہدی نے آنحضرت کے دین ابتداء میں مومن اور کافر میں ایک اور دس اور پھر بعد میں کی طرف بلاتے ہوئے دینا ہے اذان کے بعد کی دعا 88 475 ایک اور دو کی نسبت کا ذکر.حضور کا خطبہ میں اس کے برعکس بیان فرمانا.ایک شخص کا سوال اور حضور کا تفصیلی جواب 197 جنرل ارشاد 783 وہ اسلام اور سلامتی جو ہر مسلمان سے وابستہ ہے 526 مغرب کا اسلام کے خلاف بغض 556,557 ارض حجاز آج بھی وہاں لونڈیوں اور غلام پالنے کا رواج ہے 806 یہ جماعت کا مزاج ہے کہ اس نے خدمت کرنی ہے اور اڑیسہ 6,39 اس مزاج کو دنیا میں روشناس کروایا جاتا ہے مغرب میں اسلام کے خلاف بدظنیاں اور مذہب سے جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں کا اسائکم کا کہنا اور عدم دلچسپی 187 676 اسلامی ممالک کو بوسنیا کے مہاجرین قبول کرنے کی تحریک 709
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 اسلام میں بچہ adopt کرنے کا طریق اسلام کے آخری زمانہ کے ابتر ہونے کے متعلق آنحضرت کی پیشگوئی 711 724 تربیت اور اصلاح کے حوالہ سے ترقی یافتہ ممالک میں مسائل اور ان کا قرآن کریم کی رو سے حل اصلاحی کمیٹیوں کا قیام اور ان کا مقصد 65 309 اسلامی تاریخ کا آپس میں کفر کے فتووں سے بھرا ہونا 798 اصلاحی کمیٹیوں کو ساری دنیا میں رائج کرنے کا پروگرام 310 کسی مذہبی رہنما کوکسی کو غیر مسلم کہنے کا حق نہیں 799 مرکزی اصلاحی کمیٹی کے کام کرنے کا طریق 311,312 آنحضرت نے کسی کو نہیں فرمایا کہ تم مسلمان نہیں 799 وہ مفسدین جو اصلاح کے نام پر نا انصافیاں کرتے ہیں 313 مسلمانوں کے بڑے بڑے فرقوں کو غیر مسلم قرار دیئے ہر احمدی یقینا مصلح ہے 866 314 316 جانے کے مطالبات میں بہت زیادہ وزن اور ان کے احمدیوں کو اندرونی اور بیرونی اصلاح کرنے کی تلقین 314 حق میں قوی دلائل ہوں گے وارث بننے کے لئے مصلح بننا ضروری ہے اسلامی فرقوں کے ایک دوسرے کے خلاف فتاوی 867 جو قو میں اصلاح کی حالت میں مریں خدا انہیں بخش دیتا عالم اسلام کے لئے بہت ہی درد ناک دور.ابتلاؤں کا ہے.اس میں حکمت نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اس میں خدائی پیغام زبر دستی اصلاح نہیں ہوتی اعداد و شمار 318 319 عالم اسلام کی پشت پر خدا کا نہ رہنا بد نصیب قیادت جو خیانت کرنے والی ہے، اس کا عالم اسلام کو مصیبت میں مبتلا کر رکھنا اسلام کی تمام ترقی کا وابستہ راز 877 883 درست اعداد و شمار کی اہمیت 886 افتخار ایاز صاحب 927 244 895 افریقہ 13,348,386,527,530,689,712 اسلامی قدروں کے قریب آنے کا نام اسلام ہے 907 افریقہ کے بعض ممالک میں حیرت انگیز جماعتی ترقی 9 اسلام آباد یو کے حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر مولانا اسماعیل شہید اشکوں کے چراغ اصحاب الصفہ ان کی تعداد اور ان کا پس منظر 245,515 731 72 575 48 699 افریقہ میں بھوک کی وجہ سے ان لوگوں کا بُرا حال براہ راست خطبہ سننے والوں کو حضور کا محبت بھر اسلام 704 امیر ممالک کا افریقہ کو لوٹنا اور وہاں خون کی شدید کمی 922 وقف جدید کے حوالہ سے افریقی ممالک میں پالیسی 922 افریقہ کے دیہاتی معلمین میں تقریر کا بہترین ملکہ 932 افغانستان 675 جہاد کے حوالہ بوسنیا اور افغانستان کے حالات میں فرق 706 باوجود غربت کے جنگلوں میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر خدا کی پاکستان کا دعویٰ کہ افغانستان کے جہاد میں شمولیت کی مگر راہ میں خرچ کرنا پاکستان میں اسیر بھی اصحاب الصفہ کی ایک قسم ہیں اصلاح / اصلاحی کمیٹی 50 دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی خاطر کی 53 اقبال، علامہ اکبر (شاعر) الترغيب والتره 709,710 839 151 563,579
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 التقویٰ (عربی رسالہ ) اشاعت میں کمی کا سبب الجهاد لابن المبارک الحكم الخضراء الفضل القصائد الاحمدیہ اللہ تعالیٰ اللہ کے مکر سے مراد اللہ کی نصرت کے لئے نصیر بننے کی ضرورت ہے خدا کے اول و آخر ہونے سے مراد خدا ہر کام منصوبہ بندی سے کرتا ہے خدا کے خیر الماکرین ہونے سے مراد 12 855 26 440,452 387 287,288 456,457 13 95 96 123 126 انبیاء کی ذات خدا کی ہستی کا سب سے بڑا ثبوت ہے 151 جرم خدا سے دوری کے نتیجہ میں بڑھتا ہے 152,153 تسکین قلب اللہ کی محبت اور اس کے ذکر میں ہے 153 خدا پر ایمان کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی سکینت 153 اللہ دل سے مخفی در مخفی خیالات سے بھی واقف خدا کے پاک بندوں کا اللہ سے معاملہ.ایک بادشاہ اور وزیر کے قصہ کی روشنی میں دنیا پرستی کا تقاضا کہ خدا کو زیادہ یاد کیا جائے جس شخص سے خدا محبت نہیں رکھتا.اس سے مراد اللہ بخش صادق صاحب النجم الثاقب الہامات عربی جرى الله في حلل الانبياء اليس الله بکاف عبده دنا فتدلى فكان قاب قوسين خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس نصرت بالرعب اردو الہامات زندگی کے فیشن سے دور جاپڑے ہیں 594 661 662 703 921 72,73 8 238 417 552 864 211 خدا کی رخصت سے فائدہ نہ اٹھانا بھی ناشکری ہے 162 بہت دور سے کثرت سے لوگ تیرے پاس آئیں گے 496 خدا کے قریب ہونے والوں کو ملنے والے انعامات 167 اللہ کے قرب کے اظہار کے کئی طریق ہیں 174 231 میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا576,724 خدا کے چہرہ سے مراد جس چیز کی اللہ کی ذات کے ساتھ وابستگی ہو جائے گی امارت اسے نئی زندگی اور بقا نصیب ہو گا خدا کی طرف لوٹنے سے مراد 232 266 حضرت ام سلمہ سیدہ ام متین صاحبہ ( چھوٹی آپا ) دو قسم کی امارتیں.مذہبی اور حکومتی امامت خدا کے حضور اپنا مقام بنانے کے متعلق حضرت مسیح موعود امامت کا متقیوں سے گہرا تعلق 588 287,288 827 851 کا ایک قیمتی نسخہ خدا کے ساتھ پیوند سے مراد عبادت اور لا الہ الا اللہ کا تعلق اللہ کی حرمات سے مراد اللہ کی دو طرح کی حرمات 380 443 535 553 555 امانت دنیاوی ودینی ہرقسم کی ذمہ داریاں ہمیں بحیثیت امین کے سونپی جاتی ہیں 841 امانت کا بنیادی مطلب.اللہ کا حق جو بندوں پر ہو
440 915 13 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 اس میں خیانت نہ کی جائے 859 سید امیر علی شاہ ملہم سیالکوٹی خدا کا نزول قرآن اور آنحضرت کو شریعت کا نگران صاحب الهام بزرگ جنہیں خدا نے الہاماً فرمایا کہ تبل مقرر کرنے کو امانت کہنا 860 کے معانی حضرت مسیح موعود سے دریافت کرو امانت سے غافل ہونا اور بھولنا.مثالوں کی روشنی میں ذکر 860 امیر فیصل امانت ہی میں جماعت احمدیت کی بقا ہے، اس کے بغیر جماعت کی مخالفت کرنا اور اس کا انجام نظام جماعت کا کوئی تصور بھی باقی نہیں امانت کے ساتھ بیرونی امانت کا تعلق اور رشتہ 872 امریکہ امية الجمیل صاحبه امتہ الحمید صاحبہ 903 244 246 9,13,212,236,310,382,399,468,469 603,607,771,774,862,876,926,927 931 امة السلام صاحبہ (والدہ حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ ) 235 اکثر برائیوں کا وہاں سے آغاز پھر ساری دنیا میں پھیلنا 299 468 606 امریکہ کی جماعت کی مالی قربانی امریکہ کا مسلمان ممالک کے ساتھ دجل 244 244 امة القدوس ایاز صاحبہ امتہ القیوم صاحبہ امت محمدیہ امریکہ میں خوفناک طوفان.نقصان اور وجوہات 609 امت محمدیہ کی بھاری تعداد ایسے انسانوں کی ہے جو مقام امریکہ کے امیر صاحب کا وقف جدید میں اول مقام خوف پر موجود ہیں با وجود گرنے کے امت مسلمہ میں شقاوت دوسری اقوام کی نسبت کم ہے 219 308 309 حاصل کرنے کے حوالہ سے جرمنی سے مقابلہ امن 923 امن عالم کی سرسری اور سطحی با تیں کرنا فیشن بن گیا ہے 2 3 518 امت محمدیہ میں بڑی خوبیاں ہیں جو ہر بڑے ابتلا کے وقت امن عالم کے قیام کے لئے قرآن کریم کا نسخہ چمک کر باہر نکلتی ہیں مومن کا سلام ہر ایک کو امن کی ضمانت دیتا ہے امت محمدیہ میں حضرت مسیح موعود اور امام مہدی کی آمد امن کے ماحول میں خُدعہ اختیار کرنا جھوٹ بن جاتا ہے 620 امن کی حالت میں بعض جگہیں جہاں مکر کی اجازت ہے میں حکمت اور فلسفہ امت محمد ید امه وسطاً 319 663,664 انتخاب 620,621 انتخاب کے وقت بعض عہد یداران کا پورے سال کا چندہ 602 پورا کرنا اور اس میں ایک شرارت اور ظلم انتخاب کے وقت بعض منفی پروپیگنڈے 843,844 ووٹ دینا مشورے کا ہی ایک رنگ ہے 874 حاکموں کے انتخاب کے وقت اہل کو چننے کی اسلامی تعلیم 897 387 328 56 837,838 امر امر کے خدا کی طرف لوٹائے جانے سے مراد امرتسر امیر غرباء کا امیروں کے اموال پر حق امراء کی دو طرح کی حیثیت اور انہیں امانت کی تلقین 842 اندلس
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 انتقام انتقام کے متعلق انصاف پر مبنی قرآنی تعلیم 883 14 رہا ہے.اس کا جواب انگلستان کی الگ ہی بُرائیاں ہیں 152 302 نبی کریم نے کبھی ظالم کا بدلہ کسی اور معصوم سے نہیں لیا 884 جماعت احمدیہ کے تعلق میں انگلستان کی خوش نصیبی 515 انڈونیشیا 245,469,704,771,774,922 انگلستان میں صفائی کا معیار انڈونیشیا میں ایک چیف کا احمدیوں کی شدید مخالفت کرنا ایک زمانہ میں دھواں کی smog کا کثرت سے ہونا اور ملی مگر احمدی ہونے پر ان میں نمایاں تبدیلی حضرت انس میاں انس احمد صاحب 348 739,740 لوگوں کے کالرز کا بہت جلد گندا ہونا انگلستان کی جماعت کی بڑی باتوں کے ساتھ باریک پہلوؤں میں بھی ترقی کرنا حضور کی خدمت میں حدیث کے ایک حوالہ کی سند بھجوانا 214 انگلستان کی ایک بچی اور نو جوان کا ذکر جن کی خصوصیات 520 733 875 انسان انسان کی اللہ کی فطرت پر پیدائش سے مراد ہزار مہینہ انسان کی اوسط عمر کو ظاہر کرتا ہے انسان دو انسوں سے بنا ہوا ہے 92 216 486 ان کے پھلوں میں بھی نظر آتی ہیں 904 انور محمود خان (نیشنل سیکرٹری وقف جدید امریکہ) ان کا ذکر خیر 923,924 اولاد اپنائیت کے وقت انسان کی صلاحیتوں کا خود بخود جا گنا 853 بچوں کو کسی کے گھر جا کر شور سے نہ روکنا صرف میزبان انصار/ انصار الله کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے کا مہدی کے انصار اور انصار اللہ بننے میں کوئی فرق نہیں 93 باعث بنتا ہے انصاف بعض والدین کی جھوٹی نسلیں چھوڑنے کی وجہ عالمی انصاف کے بغیر کوئی شخص کسی کے لئے رحمت نہیں چھوٹی عمر میں سختی کا بُرا اثر 509 543 543 743 بچوں میں نفل پڑھنے کی تحریک کے پیدا کرنے کا طریق 735 بنایا جا سکتا انصاف کا رحم کے ساتھ گہرا تعلق 313 319 مغرب میں رہنے والے بچوں کا اسلامی اقدار کی بابت والدین سے پوچھنا انقلاب روحانی انقلاب بر پا کرنے کی تلقین اور اس کا طریق 19,20 اہل پیغام انگلستان کہ خلیفہ بھی تو غلطی کر سکتا ہے 13,25,26,43,44,78,84,181,183,212 243,298,310,400,495,508,529,539 695,771,906,909,917 حضرت خلیفہ اول کا اہل پیغام کے اس سوال کا جواب 844 اہلحدیث لاہور ( ہفت روزہ اخبار ) 725,788 اہل کتاب خلیفہ کی ہجرت کے باعث انگلستان کے مقدر میں برکتیں 83 اہل کتاب پر بد دیانتی کی وجہ سے لعنت انگلستان کے دانشوروں میں یہ بحث گرم کہ جرم کیوں بڑھ ایاز 719 6 ایڈمنٹن 935
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 ایران ایف سی کالج ایم ٹی اے 15 675,709,710 60 انسانی فطرت ہے کہ بچپن میں جو چیزیں انسان دیکھتا اور سنتا ہے ان کا گہرا اور انمٹ اثر دل پر ہوتا ہے 85 بچپن سے ہی خدا کی محبت کو دلوں میں ڈالنا چاہئے ، وجہ 174 غریب اور چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود مواصلاتی آجکل کی مغربی دنیا میں بچوں سے سلوک 297,298 حیح بخاری 5,48,86,166,168,216,351,413,476 73 562,566,588,597,618,725,738,757,806 رابطوں کے ذریعہ جماعت کا انقلابی قدم یورپ، پاکستان کی طرف سے ٹرانسمشن کے لئے رقم کا انتظام مگر جرمنی کی مجلس شوری کا تمام خرچ ادا کر نے کا اعلان 691 بخشش تمام براعظموں میں خلیفہ وقت کی آواز اور تصویر کا پہنچنا بخشش سے انسان اپنے اعمال کے بدنتائج سے بچایا جاتا ہے 129 724 بد دیانتی اور حضرت مسیح موعود کے الہام کا پورا ہونا جرمنی ،کینیڈا اور امریکہ کی جماعتوں کا اس کا سارا خرچہ روزمرہ کی معاشرتی بددیانتیاں 767 825 برداشت کرنا اور لبیک کہنا خطبات کے نشر ہونے پر دشمن کا عذاب میں مبتلا ہونا 768 مغربی ممالک میں اونچے درجہ کی بد دیانتیاں بد دیانتی اور تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے مسائل کاحل 827 مواصلاتی سیارے کے ذریعہ پیغام پہنچانے میں جرمنی بدظنی کی جماعت کی بڑی مالی قربانی ڈش انٹینا لگانے کے رواج کا بڑھنا 773 911 بدظنی سے بچنے کی اسلامی تعلیم بدظنی ایک بہت بڑا جھوٹ ہے مواصلاتی نظام کے ذریعہ عالمی تربیت کا عمدہ انتظام حضرت بدھ ابدھا علیہ السلام اور خدا کا شکر ایمان 918 ایمان کے ثریا پر پہنچنے کے وقت مہدی کے نزول کی پیشگوئی 725 306 834 580 581 9 925 ہندوستان میں بدھ کے زمانہ کا بیڈ کا ایک درخت بدی بدی سے بچنے کے لئے اس کا علم ہونا ضروری ہے 132 غربت کا بدیوں سے تعلق بدی کا آغا ز دل سے ہوتا ہے 520,521 821,822 417 469 330,334 795 بپ بائبل بابری مسجد ( نیز دیکھئے اجودھیا مسجد) ایک مشرک حکومت کا عوام کے چیلنج کو قبول کر کے اپنے براہین احمدیہ برطانیہ نظریہ پر قائم رہنا اور مسجد کو منہدم نہ کرنا 870 بركات الدعا بابری مسجد کا انہدام اور اس ابتلا میں مسلمانوں کے لئے ایک مخفی پیغام بالاکوٹ بٹالہ 881 72 برما برمنگھم بروہی 56 صدر بش 904 791 608 بچپن
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 16 کیپٹن بشری صاحبہ ، نرس 2243,245,246 احمدیوں پر مظالم اور بنگلہ دیش کے رہنے والوں کو نصیحت 789 شیخ بشیر احمد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے 747 پاکستان کے حوالہ سے بنگلہ دیش کی حکومت کو نصیحت 793 رہنماؤں کو جماعت پر مظالم کے حوالہ سے نصیحت 797,798 گورنمنٹ کالج میں آپ کی تصویر، ان طلباء میں جنہوں نے بنگلہ دیش میں راج شاہی جماعت کی نئی مسجد پر مولویوں غیر معمولی اعزازی نشانات حاصل کئے 61 انگریزی زبان پر عبور اور فٹبال کے بہترین کھلاڑی 61 بشیر اول کاحملہ اور اشیاء اٹھا کر لے جانا 867,891 پاکستان اور بنگلہ دیش میں ملانوں کے شر کی طرف بلانے پر لوگوں کا باہر نکلنا 869 بشیر اول کی وفات پر حضرت مسیح موعود کا صبر اور صحابہ کی پاکستانی ملاں کا وہاں پہنچ کر فساد کروانا ، آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ ڈھاکہ کی راج شاہی مسجد میں ملوث ہیں 870 حالت 350,351 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی بنگلہ دیش کے اخباروں، دانشوروں اور سیاستدانوں کا آپ نے اپنی اولا دکو tough بنانے کی کوشش کی 233 ان واقعات کی مذمت کرنا 234 893,894 اپنے بچوں کی شادیوں کے متعلق آپ کا انداز ان حالات میں حکومت ملوث ہے، باقاعدہ سازش 914 آپ کا بتانا کہ احمدیوں کے لئے نیا آسمان اور نئی زمین بنگلہ دیش کی موجودہ سربراہ کو حضور کی نصیحت کہ احمدیت کی نزدیک کی تاریخ پر نظر ڈالیں کہ احمدیت کی مخالفت 327,328 کرنے والوں کے ساتھ کیسا کیسا سلوک ہوا 915 کب بنیں گی ، اس کی علامات آپ کی نماز پڑھانے کی کیفیت ، ترنم سوز اور ایک غیر مبائع بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو جماعتی مخالفت کے حوالہ سے کا آپ کے پیچھے نمازیں پڑھنا اور جلسہ غیر مانعین کاسنا747 حضرت بلال عبرتناک انجام کی تنبیہ 916 بلغاریہ بمبئی بنگال 738 210 885 242,798,800,802 بنگال میں کھانے کے متعلق ایک رواج بنگالیوں کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ بنگلہ دیش 528 528 587,919,922,931 بنگلہ دیش میں جماعت کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں 783 کویت میں مختلف ممالک کے مذہبی وزراء کا خفیہ مشورہ کہ بنگلہ دیش میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے 784,786 پاکستان اور بنگلہ دیش کی سیاست میں فرق 786 بوریت بوریت دور کرنے کے طریق بوسنیا 667,668 557 بوسنیا کے معاملہ میں مغربی دنیا کا رد عمل اور مسلمانوں کے خلاف سازش 556 بوسنیا پر مظالم اور مسلمانوں کی نسل کشی اور مغرب کا دجل 606 بوسنیا کے مسلمان مہاجروں کے ایک گروہ کی حضور سے ملاقات اور جمعہ میں شرکت اسلامی جہاد بالسیف بوسنیا کے حالات پر منطبق ہوتا ہے 706 بوسنیا اور افغانستان کے حالات میں فرق 705 706 بنگلہ دیش میں احمدیوں پر ظلم اور ان کا صبر 786,787 بوسنیا میں اسلام کی وجہ سے مسلمانوں پر سر بوں کے مظالم 707 مسلمان حکومتوں کو بوسنیا کے حوالہ سے جہاد کی تلقین 707
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 17 اسلامی ممالک کو بوسنیا کے مہاجرین قبول کرنے کی تحریک 709 بیت الفضل لندن (نیز دیکھئے "مسجد فضل) احمدیوں کوسرب بچوں کو اپنانے کی تلقین 711 بوسنیا کے لوگوں کے لئے جماعت کو قربانی کی تحریک 776 بوسنیا کی سرزمین جہاد کے لئے بلا رہی ہے، ملاں وہاں کیوں نہیں جار ہے 23,47,69,87,105,123,141,159,177,197 215,231,251,269,287,305,323,377 395,407,423,439,459,475,495,535 794,795 553,573,593,615,633,635,655,675 689,705,783,803,821,841,859,877 897,917 497 بیت مبارک بیعت 836 836,837 بوسنیا کی حالت پر عیسائیوں کا رونا مگر عالم اسلام کا زبانوں کو کھینچ کر رکھنا بوسنیا میں مسلمانوں پر بھیانک مظالم مظالم پر اسلامی ممالک کی بے حسی ، جماعت کے رابطے ایک خاتون کا واقعہ جس نے مسلمان سمجھ کر بات کرنے سے انکار کر دیا بہادرشاہ ظفر بہشتی مقبره ربوه / قادیان بھوک 836,837 670 44,100 دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بیعت بیلجئیم 442 690,926,930 930 بیلجئیم کے امیر و مبلغ انچارج کا ذکر خیر بے حیائی بھوک سے پناہ کی آنحضرت کی دعا اور اس کا فلسفہ 698 جنسی بے راہ روی ، فحاشی ، گندی فلموں کے کاروبار اور قرآن میں بھوک کے فتنہ کا ذکر بیت اقصیٰ بیت الاقصیٰ قادیان بیت الاسلام ٹورانٹو کینیڈا بيت الدعا 698,699 1,15 743 بُری حالت کے حوالہ سے اہل پاکستان کو خصوصی پیغام 815 یورپ میں جنگی عورتوں اور Sadism کی تحریک 816,817 امریکہ میں سب سے زیادہ نا اہل مرد، بے حیائی کا اثر 817 جرائم کا بے حیائیوں کے ساتھ گہرا تعلق حضرت مسیح موعود کا گھر میں بیت الدعا بنوانا 735 بے رخی بیوت الحمد سکیم ( قادیان) ہیں مکانات کی سکیم مگر 23 کی تکمیل ، ان کے فوائد 56 بیت الله بے رخی سے بچنے کی تعلیم بے رخی سے جنم لینے والی برائیاں 818 582,584 586 پاکستان 22,29,53,54,62,204,265,274 حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی خدا کے گھر کی تعمیر نو جو تو حید کا مرکز تھا لیکن اسے شرک کا مرکز بنا دیا گیا 881 بیت المقدس 294,539,557603,633,635,636,675 717,771,883,894,913,916,917,919 922,931 10,11 خانہ کعبہ کے بعد عبادت کرنے والوں کی نگاہ میں دوسر ا عزیز پاکستان میں بدامنی تر مقام، اس کے عباد الصالحین کو ملنے کی پیشگوئی 862 پاکستان میں سارے مسائل فوج کے چھوڑے ہوئے ہیں 11
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 18 احمدیوں کی بری حالت اور ان کے ساتھ ناروا سلوک 11 ہزارہ کے ایک مولوی کا بکرے کی آنکھیں بالٹی میں ڈال پاکستانی علماء کی زندگیوں میں تقضاد پاکستانی مظلوم احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 11 12 کر پھرنا کہ ربوہ میں انہیں قتل کیا گیا پاکستان کے ایک نامور صحافی کی کینیڈا کی مسجد کی کارروائی اہل پاکستان کو ملائیت کے جراثیم ختم کرنے کا مشورہ 13,140 دیکھنا اور حضور کے سامنے اس کا رد عمل پاکستانی احمدیوں کو خدائی نصرت کے طلبگار بنے کی تلقین 17 وہ بدنصیب واقعات جنہوں نے پاکستان کا حلیہ بگاڑ دیا پاکستان کی جماعتوں کو جھر جھری لے کر بیدار ہونے کی تلقین 18 اور ملاں کی وجہ سے بدتر حال کا تذکرہ ہندو پاک کی جماعتوں کا بلند مقام مادہ پرستی کے ابتلاء میں مبتلا 18,19 294 1974ء اور 84ء کے بعد مسلسل ظلم و ستم کی داستان اور 785 788 789 اس کا نتیجہ اور ایک سابق وزیر قانون کی رائے 791,792 اسلامی اقدار کی حفاظت کے حوالہ سے پاکستانی علماء کونصیحت 301 1974ء میں گوجرانوالہ کے ایک گاؤں پر جلوس کا حملہ پاکستانی معاشرہ میں آنحضرت کے اسوہ پر چلنے والوں کا ارادہ ، احمدیوں کی تیاری سن کر مولویوں کا بھاگنا 794 کی شدید کمی پاکستان کی اکھڑی ہوئی سیاست اور اس کا علاج 799 پاکستانی احمدیوں کو جو مظالم پر دکھی ہیں دعا اور صبر کے ساتھ جنسی بے راہ روی ، فحاشی، گندی فلموں کے کاروبار اور بُری حالت کے حوالہ سے اہل پاکستان کو خصوصی پیغام 815 301 308 815 اس قوم کی اصلاح کی نصیحت پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات دن بدن پولیس کا محکمہ کلیہ بددیانت اور بے اعتماد بگڑ رہے ہیں پاکستان کی بنیادی کمزوری، دیانتداری کا نہ ہونا 829 تا 831 مولویوں کا کہنا کہ پاکستان میں ساری تباہی شریعت نافذ پاکستانی سیاست میں ملاں کی شمولیت اور سیاست کا گندے 336 337 سے گندا ہونا نہ کرنے کی وجہ سے ہے، اس کا رو پاکستانی جماعتوں کا براہ راست خطبہ جمعہ سے محرومی کی پاکستان اور بنگلہ دیش میں ملانوں کے شر کی طرف بلانے شکایت اور خدا کا اس گریہ وزاری کوسننا 573 پر لوگوں کا باہر نکلنا 831 869 870 پاکستانی مولویوں کو احمدیوں کے رستے نہ روکنے کی نصیحت 574 پاکستان میں احمدیوں کی مساجد کو منہدم کیا جانا پاکستان میں روز مرہ کی زندگی میں قتل کا عام رواج اور مسلمان فرقوں کا ایک دوسرے کے مقدس مقامات کو جلانا آنحضرت کی تعلیم بوسنیا کی عوام کے لئے جہاد کی تلقین 585,586 اور جہاد کا اعلان کرنا 709 پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کا دعویٰ کہ افغانستان کے جہاد میں شمولیت کی مگر پاکستان مسلم لیگ دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی خاطر کی 709,710 پرده احمدیوں کی تبلیغ اور جلسوں پر پابندی مگر اب خدا کا ہوا کے بے پردگی کے معاشرہ پر بُرے اثرات دوش پر لہروں کے ذریعہ ساری دنیا میں آواز پہنچانا 729,730 گورنمنٹ کالج میں نفسیات کے طالب علم کی حضور کے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف سازش کا آغاز ربوہ سے ساتھ بے پردگی کے متعلق گفتگو ہوا جس کے نتیجہ میں ملک میں فسادات کی آگ پھیلی 785 پاکستان میں بے پردگی کی رو اور بے سکونی 890 728 728 816 816 819
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 بے پردگی کا بے حیائی سے تعلق پشاور پنجاب 19 819,820 890 56,58,59,60,370,495 آنحضرت کی ذات میں تقتل کا عملی نمونہ پنجاب میں سکھوں کا تو ہم پرستی کی بنیاد پر پنجابی زبان پر تجبل اور تو کل توام ہیں زیادہ زور دینا اور اس کا نقصان پنجاب میں تجارت کے دوران جنس کے اندر ہاتھ ڈال کر چیک کرنے کی عادت 59 547 تنبل اور تو کل کا تعلق آنحضرت کامل متقبل اور کامل متوکل 448,449 449 451 452 تقبل کے بعد بنی نوع انسان کی طرف جھکنا ضروری 455 تقبل کا توحید کے ساتھ تعلق 535 تبتل الی اللہ کا مطلب 537 وزیر اعلیٰ پنجاب کا علماء کی کانفرنس میں انہیں جماعت کا پیچھا تقبل اختیار کرنے اور اللہ کی طرف دوڑنے سے مراد 541 کرنے اور USSR جانے کا کہنا پیرس ت،ٹ ،ت تاریخ 692 339 مذہبی یا غیر مذہبی قوموں کی تاریخ میں ہمیشہ ایسے صبر آزما وقت آتے ہیں جن میں مقصد پر یقین سب سے نمایاں کردار ادا کرتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے،اس سے مراد دنیا میں تاریخ دو طرح سے بن رہی ہے قرآن کی سچی اور قطعی تاریخ 199 272 314 316 558 تبتل الی اللہ اور جھوٹ سے اجتناب کا تعلق جماعت پر خدا کا فضل اور تل کا مضمون 576,577 تقبل کے مضمون پر خطبات کا سلسلہ جماعت سے دور جانے والوں کے لئے بہت مفید ہوگا ، ملاقاتی کا واقعہ 690 تبلیغ ( نیز دیکھئے ”دعوت الی اللہ ) ہر فرد کو قرآن کے مطابق تبلیغ کی تلقین حضرت مسیح موعود کا انداز تبلیغ 96 115 تبلیغ کے میدان میں فصاحت و بلاغت مانگنے کی دعا 116 حضرت مسیح موعود نے تبلیغی ہتھیاروں میں سب سے زیادہ فوقیت دعا کودی تبلیغ کی وجہ سے پاکستانی احمد یوں پر ظلم 119 130 نتباہی دنیا میں اکثر تباہیوں کی وجہ تبتل الی اللہ 188 تبلیغ کے لئے شاہد ، بشیر اور نذیر ہونا.اس کی تفصیل 150 تبلیغ کے لئے زندہ خدا کا آئینہ اپنی صفات میں دکھانا ضروری ہے تبتل کا مضمون اگر انسان سمجھ لے تو خوف سے لرزنے لگے 430 تبلیغ کی کامیابی کے لئے ضروری اسباب تقبل کی حقیقت دنیا سے کٹنے سے مراد تنبتل کے معانی 430,431 440 440,689 ایک صحابی کا واقعہ جو ہر سال سو بیعتیں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے 152 187 185,186 ہم تبلیغ کی غرض سے لوگوں کے دل جیتنے کے لئے لالچ حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں تبتل کی تشریح تقبل اور توکل کے درمیان ایک امتحان کا مقام تقبل کے بغیر دنیا پر انحصار شرک ہے 440 446 447 نہیں دے رہے ہوتے تبلیغ کرتے وقت تبشیر کا صحیح انداز 187 188 تبلیغ کے حوالہ سے جماعت کو بے برکتی، جماعت کے رخ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 کی تبدیلی اور مولویا نہ رنگ سے بچنے کی نصیحت تبلیغ کا صحیح رنگ اور انداز 189 192 20 جو لوگ آپ کی تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوئے ان کو ایسا احمدی بنانا ہے کہ وہ خود آگے مبلغ بن جائیں 374 وہ مذہبی تو میں جو آہستہ آہستہ پھیلتی ہیں ان کے غلبہ کا طریق 202 احمدی بنانے کے بعد انہیں سنبھالنا ضروری ہے،اس سلسلہ تبلیغ کے سلسلہ میں مانوس کرنے کا سب سے نمایاں طریق میں دو طرح کے ضروری کام احسان کا ہے 203 حضرت مولوی عبداللہ صاحب کی تبلیغ کا انداز 374 669 726 849 تبلیغ میں خشکی کی بجائے محبت اور تعلق کے جذبات کا اثر 203 تمام عالم کو تبلیغ کا سہرا قر آنی ارشاد کے مطابق جماعت ایک واقعہ کی شکل میں تبلیغ کے نتیجہ میں احسان کے اثر کا اظہار احمدیہ کے سر پر باندھا گیا ہے ایک ہندو کی قید سے آزادی اور اس کا احمدی ہونا 204 تبلیغ کے لئے زبانوں کا علم ضروری ہے تبلیغ کے ساتھ حکمت کا تعلق انبیاء کی دعوت اور تبلیغ کاطریق تبلیغ کے دوران حکمت عملی کے ساتھ جماعتی لٹریچر دینے بعض لوگوں کا خطوط لکھنا کہ دعا کریں سواحمدی ہو جائیں مگر سارا سال تبلیغ کے لئے انگلی تک نہیں ہلاتے 907,908 204,205 کی تلقین ، واقعاتی رنگ میں اس کا بیان 205 تا210 کا ایک پاکستانی دوست کا ان دانشوروں، پروفیسروں سے تجارت تبلیغ کا انداز جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں اور فرشتوں وغیرہ آنحضرت کی ملاوٹ کرنے والے پر لعنت کے مضمون پر مذاق اڑاتے ہیں تربیت اور تبلیغ کے جہاد کا آپس میں ربط تبلیغ کی کامیابی کاراز 206 284 310 عرب اور پنجاب میں جنس کے اندر ہاتھ ڈال کر چیک 906 547 کرنے کی عادت 547 دو معاملات میں لوگوں کا کمزوری دکھانا اور پیسہ پھنسانا 617 مسلسل تبلیغ کی تلقین تبلیغ اور صبر کا آپس میں تعلق 326,327 تحریک / تحریکات 342 پاکستانی مظلوم احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک تبلیغ کی نیت سے جو تعلق دوسروں سے رکھا جاتا ہے،اس صومالیہ کے بھوک زدہ لوگوں کے لئے امریکہ اور انگلستان حوالہ سے ضروری امور دشمنوں کو بھی تبلیغ کرنے کا حکم تبلیغ کے حوالہ سے حضرت ابراہیم کو خدا کا حکم 342,343 344 345 کی جماعتوں کو تحریک اور اس راہ میں مشکلات اسلامی ممالک کو بوسنیا کے مہاجرین کو قبول کرنے کی تحریک 12 611 709 تبلیغ کے حوالہ سے آنحضرت کو خدائی حکم اور آپ کا طریق 345 بچوں میں نفل پڑھنے کی تحریک پیدا کرنے کا طریق 735 353 بوسنیا کے لوگوں کے لئے جماعت کو قربانی کی تحریک 776 تبلیغ کے لئے اچھی باتیں اور دلائل منتخب کریں تبلیغ کے حوالہ سے نظام جماعت کو نصائح 356,357 | تحریک جدید ہر ملک کی جماعت کا اولین فرض کہ ملک کے باشندوں یہ صرف مالی قربانی نہیں بلکہ دنیا کی لذتوں اور آسائشوں کی طرف بھر پور توجہ کریں ، لیڈ ر صفات لوگ چنیں 358 میں غرق ہونے سے بچنے کا پروگرام ہے تبلیغ کا جنون اسی کو ہوسکتا ہے جو اپنے رب کا عاشق ہے 360 حضرت مصلح موعودؓ کا کل عالم کی تبلیغ کے منصوبہ کے تبلیغ کے بعد تربیت کی ضرورت 373 ساتھ تحریک جدید کا اعلان 294 294
633 921 253 641 749 58 58 2,3 3,4 66 70 تزکیہ سے مراد تزکیہ اپنی طاقت سے حاصل نہیں ہو سکتا صرف اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے تصوف پردہ اٹھنے سے مراد جذب کی حالت لا ہوت اور ناصوت کی وضاحت تعلیم الاسلام سکول قادیان تعلیم الاسلام کالج قادیان 21 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 تحریک جدید کے 59 ویں سال کا آغاز اور اس کے چار دفاتر سے مراد تحریک جدید کی عظیم کامیابیاں 765 766 تحریک جدید کے اعداد و شمار اور نمایاں مقام حاصل کرنے 770 775 106,109 107 107 والی جماعتوں کا ذکر مالی اعداد و شمار کی اصل عزت تدبیر تدبیر اور تقدیر کا تعلق تدبیر سے مراد، اس کا قرآن میں ذکر خدا کی تدبیروں کا لامتناہی سلسلہ خدا کی مخفی تدبیریں ، ان کے مخفی ہونے کی وجوہات 108,109 سورۃ العصر میں جماعت احمدیہ کا ذکر دعوت الی اللہ اور تدبیر بندے کی وہ تد بیر جو اللہ کی تقدیر بن جائے تذکره تذلل 109 110 8,211,552,576,724,864 فوز عظیم کے حصول کا مقام لا تظلمون سے مراد جمع کے مضمون کا سورہ جمعہ کے ساتھ گہرا تعلق آخری زمانہ میں تمام دنیا کو آنحضرت کے جھنڈے تلے بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل اختیار کرنے کا حکم 379 تذلل اختیار کرنے کی وجہ تربیت 380 88 جمع کیے جانے کا ذکر سورۃ جمعہ میں ہے سورۃ الصف اور الجمعۃ کے مضامین کا آپس میں گہرا ربط 88 من انصاری الی اللہ میں ایک دائمی حالت کا ذکر 83 سب سے اچھی تربیت وہی ہے جو انسان خود کرے 367 آخرین کے لئے سورۃ الجمعۃ میں اولین سے ملنے کی پیشگوئی 94 باہر کامربی ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک انسان کے سلطان نصیر سے مراد اپنے دل میں ایک مربی پیدا نہ ہو جائے ساری دنیا کی جماعتوں کو پیغام کہ احباب جماعت کو اپنی تربیت کرنے کی طرف کوشش کرنی چاہئے 368 372 557,675,710,794 ترکی ترندی جامع ترمذی تر وہ (بنگال میں ایک جگہ ) 76,229,488,732,733,734,735,810 528 تزکیہ سورۃ الصف میں ان قربانیوں کا ذکر ہے جن کی خدا ہم سے توقع رکھتا ہے كن فيكون کی تفسیر 95 99 106 نہ نظر آنے والے ستونوں کے بغیر کائنات کے چلنے سے مراد 107 واحلل عقدة من لسانی میں صرف ظاہری لکنت مراد نہیں 116 فرقان سے مراد ذی القربیٰ سے مراد قوام کا مطلب وعلى الذين يطيقونه کے دو معانی 128,163 136 137 161
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 22 فمن تطوع خيرًا میں نفلی روزوں کا بھی ذکر ہے 161 | تفسیر کبیر آنحضرت کے اسوہ کی روشنی میں قوام کی حقیقت 259 خاتم کا مطلب 143,145 سورۃ الاحزاب میں عظیم الشان روحانی ولادت کی خوشخبری 146 تقدیر لیل اور لیلۃ میں فرق نہار اور یوم میں فرق قرآن کریم میں لفظ یوم کا استعمال 217 217 217 72 تقدس ظاہری مقامات کا تقدس 882 تدبیر اور تقدیر کا تعلق بندے کی وہ تدبیر جو اللہ کی تقدیر بن جائے 106,109 110 مومن خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر کی طرف بھاگتا ہے 648 سورۃ الدخان میں لیلۃ القدر کی آیات رکھنے میں حکمت 221 طاعون کے وقت حضرت عمر کا اسلامی لشکر کو جگہ تبدیل 221 کرنے کا حکم اور تقدیر خیر کی طرف بھاگنے کا علم 648,649 سورۃ الدخان میں آنحضرت کی بعثت ثانیہ کا ذکر سورۃ العصر میں خوشخبری کہ قیامت تک کوئی ایسا دور تقدیر الہی نہیں آئے گا جس میں کچھ مومن اور صالحین نہ ہوں 222 تقوی سورۃ الرحمن میں خدا کی توحید کا بیان 231,232 سورۃ ھود کے مضامین جن کی وجہ سے آنحضرت کے بال سفید ہو گئے ذکری کے مختلف معانی 271 284,285,326,327 تقویٰ کے متعلق منصوبہ بندی کی ضرورت خدا کے نزدیک متقی کی تعریف دعوت الی اللہ اور تقویٰ 206 127 127 128,131,132,188 زُلفی اور زُلفا میں فرق اور قرآنی استعمال 288,289 قرآن کے آغاز میں ان متقیوں کا ذکر جو اعلیٰ درجہ کے حفاظ عظیم سے مراد 349 تربیت یافتہ ہیں سورۃ النجم کے آغاز میں ثریا ستارے کے زمین کی طرف تقوی آنحضرت کی طرف بڑھنے کا نام ہے 409,413 128 130 زندگی کے ہر دائرے پر حاوی ایک عظیم الشان مضمون 188 جھکنے کی پیشگوئی دنا فتدلی کا عام مضمون اور حضرت مسیح موعود کا ایک نیا تقویٰ کا مطلب مضمون بیان فرمانا 416,417 تقویٰ کے انداز محمد سے سیکھنے ہوں گے سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات کا نزول گرمیوں میں ہوا 424 نیکی اور تقویٰ کا اصل راز یہ ہے کہ دل میں بدی کو داخل المزمل کی عام تشریح اور اس میں ایک مستقل مضمون 425 ہی نہ ہونے دو وسیلہ کے معانی 475 حضرت ابراہیم کا بتوں کو توڑنا اور بل فعلہ کی جماعتی تفسیر تزکیہ سے مراد یختانون انفسھم کے دومعانی رجال سے مراد تفسیر قرطبی 595,596 633 703 905 72 غیر مسلم مسلم اور تقویٰ 255 584 823 830 دینی معاملات میں نبی سب سے زیادہ متقی ہوتا ہے 842 تلوار تلوارتب اٹھتی ہے جب دشمن دلائل کی دنیا میں کلیہ نامراد ہو چکا ہو 125
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 تلاوت 23 قرآن میں توحید کے قیام کے بعد سب سے زیادہ تینوں تنظیموں کو اس طرف توجہ دلانا کہ کم از کم اس نسل کو زور عبادت کے قیام پر ہے صحیح تلاوت قرآن ہی سکھا دو تنظیم 175 633 651 توحید کے قیام کے لئے قربانی بیت اللہ کی تعمیر نو جو تو حید کا مرکز تھا لیکن اسے شرک کا مرکز بنا دیا گیا تینوں تنظیموں کو اس طرف توجہ دلا نا کہ کم از کم اس نسل کو صحیح تلاوت قرآن ہی سکھا دو 175 توکل جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی خدمت خلق کے ادراہ خدا پر توکل کا طریق کے قیام کی تجویز تنقید 611 غیروں کی بجائے اپنی ذات کو تنقید کا نشانہ بنا ئیں 267 توازن رات کے وقت خدا کی خاطر علیحدگی اختیار کرنا فطرتی لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے ٹوپی متوازن آدمی کی خوبی کہ اس پر اندھیرے غالب نہیں کرتے 670 اس سوال کا جواب کہ نماز کے وقت ٹوپی سر پر لینے 881 429 428 توبہ سچی توبہ سے مراد توحید 402 کی کیا ضرورت ہے ٹوپی کا عزت سے تعلق ثبات 744 745 تو حید پر قائم ہونے سے دعاؤں کو برکت ملتی ہے 120 سورۃ الرحمن میں خدا کی توحید کا بیان خدا کی توحید کے قبلے بڑے پھیلے ہوئے ہیں 231,232 388 ثبات سے مراد شمینہ صاحبہ ج، چ، ح، خ 460,461 246 مسلمانوں کا اخلاق خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں ایک جاپان 45,181,382,689,704,771,926,931 ہی رہے گا، اسی کا نام توحید خالص ہے 528,529 ایک بڑی قوم کے طور پر ابھرنا اور ترقی کرنا 279 تجمل کا توحید کے ساتھ تعلق ایک جگہ جھوٹا سجدہ کرنے سے ساری زندگی کے لئے توحید سے محروم ہونا 535 540 سب سے زیادہ سچ بولنا اور اس کا اقتصادی ترقی سے تعلق 563 سب سے زیادہ سجاوٹ کے ساتھ کھانا پیش کرنا چند و دہندگان کی قربانی کا معیار سب سے اونچا 643 656 ہر ابتلا جس میں سچ کی آزمائش ہے اس میں ثابت قدم نزلہ کے وقت سفید کپڑا باندھنا کہ دوسروں کو نہ لگے 763 رہنا تو حید اور تجمل کی ایک قسم ہے جھوٹ سے کلیہ پر ہیز تو حید کامل سے تعلق جوڑنے کی 541 فی کس قربانی کے لحاظ سے سب سے آگے فی کس قربانی میں وقف جدید میں نمبر 1 550 | جالندھر اہمیت عطا کرتا ہے آج دنیا کی نجات صرف توحید سے وابستہ ہے 552 جامعہ احمدیہ 772 930 56 755
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 جانور 24 جلسہ سالانہ قادیان کے آغاز سے قبل گلے کی تکلیف اور یہ کہیں دوسرے جانوروں کو دھوکہ دیتے نہیں دکھائی دیتے 408 اعجازی رنگ میں اس کا دور ہونا اور جلسہ کے بعد عود کرنا1,2 زندگی کی بقا کے متعلق جانوروں پر بنائی جانے والی فلمیں اور جانوروں کی سمجھ کا ذکر کوئی جانور جھوٹ نہیں بولتا، اس سے مراد جانوروں کی دنیا جھوٹ سے پاک 410 540 619 جلسہ سالانہ قادیان کے متعلق حضور کے تاثرات جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کرنے والے مختلف قسم کے لوگ قادیان کے جلسہ میں شامل پاکستانیوں کے جذبات، 4 5 جانوروں کی دنیا میں کیموفلاج کی ترکیبوں کا ابھی تک حضور سے ملاقات کے وقت کیفیت مکمل طور پر انسان کو علم نہیں ہوا 619 816 78,181,298,357,400,539 جانوروں میں حیا کا مادہ جرمنی مالی قربانی میں ترقی جرمنی کی جماعت میں نمازوں میں ستی 556,612,653,687,771,774,862,931 468 636 6,7 7 اس جلسہ سے ہندوستان کی جماعتوں میں بیداری جلسہ سالانہ قادیان میں حضور کی آمد پر ہندوستانی مولویوں کا پاکستانی علماء کے پاس جانا اور مخالفت کرنا جلسہ سالانہ کے قیام کا مقصد اور اس کا پھیلاؤ 10 15 جلسہ سالانہ کے سوسال مکمل ہونے پر جماعت کو پیغام 16 جلسہ سالانہ کی برکات 16 234,235 جرمنی اور یورپ کے اکثر ممالک ایسے مقام پر کھڑے قادیان کے جلسہ کو تاریخی بنانے کے حوالہ سے ہیں کہ جہاں کوئی روک نہیں ،خدا کے خلاف باتیں کرنا 647 سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی قربانی ساڑھے سات ایکٹر جگہ ہونے کے باوجود جگہ کم ہونا ، قرضہ لے کر جلسہ سالانہ انگلستان میں احمدیوں کی شمولیت 495 جماعت کو مناسب علاقہ میں بڑی جگہ کی خرید کی تلقین 653 نظام جلسہ سالانہ کا اخلاق پر گہرا اثر 675 496 جرمنی کی مجلس سوال و جواب میں بہت بہتری جلسہ سالانہ یو کے میں شاملین کی مہمان نوازی کی تلقین 496 جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر 16 ممالک کے 20 افراد جلسہ میں شاملین کو میز بانوں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین 507 جلسہ میں شاملین کو قرض لینے سے پر ہیز کی تلقین کا بیعت کرنا 676 مواصلاتی سیارے کے ذریعہ پیغام پہنچانے میں جرمنی جلسہ میں شاملین کو واپس جانے کی تلقین اور اس ضمن میں کی جماعت کی بڑی مالی قربانی جزائر غرب الہند اس نئے ملک میں احمدیت کا پودا لگنا جسوال برادران جلسہ سالانہ قادیان کے حوالہ سے ان کی خدمات جلسه سالانه 773 378 45 ایک عرب شاعر کا واقعہ 510 511,512 جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں کا اسائکم کا کہنا اور حضور کارد عمل جلسہ سالانہ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ جلسہ سالانہ کے موقع پر کمزور طبائع کوٹھوکر کا ڈر 513 516 516 516 جلسہ سالانہ یو کے کا ایک خصوصی امتیاز جلسہ میں شامل بعض غیروں کے شکوے جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کے صد سالہ جلسہ کے بخیر وخوبی گزرنے پر حضور کی مبارکباد 1 518 جلسہ کے ایام میں صفائی کا معیار بہتر بنانے کی تلقین 521
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 جلسہ کے حوالہ سے کھانے کے آداب کا ذکر 25 522 امام مہدی کے ذریعہ جمعہ کے ہر معنی میں جمعہ سے تعلق جلسہ کے ایام میں کھانے کے حوالہ سے ایثار کی تلقین 525 رکھنے والی برکتیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی ہیں ان اجتماعات کے مواقع پر اسلامی اخلاق پوری شان کے حدیث کی رو سے جمعہ کے تقرب سے مراد 525,526 79 81 83 ساتھ جلوہ گر ہونے چاہئیں جمعہ اور جماعت احمدیہ کا ایک عظیم تعلق مختلف قسم کے کھانوں کا مطالبہ اور اس کا نقصان 526 جماعت کو با قاعدہ مراکز اور امام مقرر کرنے کی تلقین 84 جلسہ کے ایام میں پانی ضائع کرنے سے پر ہیز کی تلقین 529 خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے سننے کے وقت اپنے اپنے جلسہ کے ایام میں غلط پارکنگ سے بچنے کی تلقین 530 علاقوں میں جمعہ ادا کرنے کا طریق جلسہ کے ایام میں نماز عشاء کے بعد نا واجب شور نہ کریں 531 جمعہ کا ایک تقاضا یہ ہے کہ سارے عالم کو ایک ہاتھ پر جلسہ کے دوران چوری سے بچنے اور حفاظت کی تلقین 532 اکٹھا کیا جائے جلسہ کے ایام میں نمازوں کی طرف توجہ کی تلقین جماعت اسلامی 533 557,791 جمعہ کا تبلیغ کے ساتھ تعلق 84 86 86 ان کا مصلحین ہونے کا دعویٰ اور پاکستان میں احمد یوں جنت کیخلاف فیصلہ کے وقت تقوی ترک کرنا جمعه 313,314 چار براعظموں میں دیکھا اور سنا جانے والا پہلا جمعہ 573 قرآن میں جنت کے بیان کا انداز 404 جنگ جمعہ کے دن اتمام نعمت ہوئی اور جمعہ کا سیح موعود سے تعلق 71 جنگ بدر یوم الفرقان تھی جماعت کی دوسری صدی کے آغاز کا مبارک جمعہ، یورپ جنگ عظیم ثانی میں جرمن قوم کا حربہ کے علاوہ دنیا کے بعد سے براعظموں میں دیکھا اور سنا جانا 73 ابتدائی اسلامی جنگوں میں ہمیشہ مسلمانوں کو صبر اور صداقت حضرت مسیح موعود کا عظیم الشان نشان، خطبہ جمعہ دشمنوں کو بے صبری ملی کا کئی براعظموں میں سنا اور دیکھا جانا جمعہ کے ساتھ ہماری ساری بقا وابستہ ہے 74 75 آنحضرت کے زمانہ میں ہونے والے غزوات وسرایا میں ایک اور تین کی نسبت رہی کم سے کم تین میں سے ایک جمعہ وہ افرادضرور پڑھ لیں جنگ موتہ کے موقع پر مسلمانوں اور رومیوں کے لشکر 75 124 199 199 200 200 جو ہر جمعہ میں حاضر نہیں ہو سکتے کی نسبت اور حضرت خالد بن ولید کی حکمت عملی ستی اور غفلت کی وجہ سے تین جمعے ترک کرنے والے اسلامی جنگوں میں فرشتوں کے نزول سے مراد 200,201 شخص کے متعلق آنحضرت کا فرمان دنیا میں بعض بڑی جنگوں کی قرآن کی روشنی میں وجوہات 624 تین میں سے ایک جمعہ پڑھنے کی طرف جماعت کو تلقین نظریاتی جنگ پر الحرب خدعہ کا مقولہ صادق نہیں آتا 628 آنحضرت کا جنگ بدر میں ایک مشرک سے مدد نہ لینا 629 اور افراد جماعت کا رد عمل 76 77 ہر گھر میں ڈش پر خطبہ جمعہ دیکھنے سے جمعہ نہیں ہوگا، اس روزنامه جنگ لاہور کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے 78 روز نامہ جنگ لندن جمعہ کا امام سے تعلق اور اس ضمن میں حدیث کا ذکر 78 جنوبی افریقہ 725 160 931
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 26 46 ایک عدالت میں ایک احمدی گواہ اور جماعت پر منافق ایک جگہ جھوٹا سجدہ کرنے سے ساری زندگی کے لئے ہونے کا الزام اور اس کا جواب جنیوا جہاد 567 657 توحید سے محروم ہونا جھوٹ کی عبادت بہت ہی خطرناک شر ہے 540 540 لغو باتوں میں جھوٹ کا عصر اور ذاتی منفعت کا جذبہ 542 روحانی جہاد اور مذہبی جہاد کے مقاصد اور دونوں میں فرق 182 بہانے بنانا جھوٹ کی ایک قسم جھوٹ کا خواب کے ساتھ تعلق پاکستانی مولویوں کی کثرت کا بظاہر اسلامی جہاد میں مصروف 542 544 جھوٹ سے کلیہ پر ہیز تو حید کامل سے تعلق جوڑنے کی ہونا لیکن پاکستانیوں کی اخلاقی حالت زوال پذیر 189,190 اہلیت عطا کرتا ہے آنحضرت اور آپ کے متبعین کی برکت سے بعد میں آنے والوں کا ایک اور دس کی نسبت سے غلبہ 198 ہر احمدی کی ذات پر اگر کوئی اعتراض کیا جائے تو اسے 550 مولویوں اور احمدیوں کے جہاد میں فرق جہاد ظلم کے خلاف ہونا چاہئے تمام دنیا کے معاشرہ کو بدیوں سے پاک کرنے کے لئے اعلاج جنگ 301 301 302 نصیحت کہ رد عمل دکھانے سے پہلے نفس کا جائزہ لے 550 روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ کے بُت مہمان نوازی میں جھوٹ کا بُت جھوٹ اور شرک ایک ہی چیز کے دو نام ہیں خدا کے انکار کے بعد سب سے بڑابت جھوٹ 551 551 555 555 559 560 جماعت احمدیہ پر الزام کہ یہ جہاد کی قائل نہیں ، رڈ 706 دنیا میں شاذ کوئی ایسا جرم ہو گا جس کا جھوٹ سے تعلق نہ ہو 559 اسلامی جہاد انفرادی طور پر شرائط کے بغیر نہیں ہوسکتا 708 احادیث کے حوالہ سے جھوٹ کا ذکر آنحضرت نے مکہ میں رہتے ہوئے جہاد کی اجازت نہیں دی 708 نیت کے اندر داخل ہو کر حملہ کرنے والی ایک چیز جب بھی جہاد کی تحریک اسلامی تقاضوں کے مطابق ہوتی جھوٹ بولنے والا ایک مقام پر کھڑ انہیں رہتا 561,562 اس زمانہ میں مسلمان ممالک میں جھوٹ کی کثرت 562 710 793,794 ہے جماعت نے ہمیشہ قربانیاں پیش کی ہیں ملاں کا شوق جہاداور اس کی حقیقت ایک طرف خدا کہتا ہے کہ اس نے رحم کے لئے زمین جھوٹ کا ملک کی اقتصادی ترقی پر اثر 563 جھوٹ کے نتیجہ میں جنم لینے والی معاشرتی برائیاں 564 جھوٹ پر غلبہ پانے کا طریق آسمان اور انسان کو پیدا کیا، پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ ہم جہنم کو اولاد کی تربیت کے حوالہ سے ماں باپ کو جھوٹ سے 566 چھوٹوں بڑوں سے بھر دیں گے، اس سے مراد جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ اور شرک کا درجہ دنیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا گناہ جھوٹ کی مختلف قسمیں 320 536 536 537 اجتناب کی تلقین جھوٹ ترک کرنے کا ایک طریق 568 569 حضرت مصلح موعودؓ کی جھوٹ سے شدید نفرت اور کسی کی اس کی بابت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے شکایت 570 الہام کی بنیاد پر قائم اقوام میں جھوٹ کے بے شمار بُت 577 کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے ضرورت کے وقت جھوٹ 509 جھوٹ اور اقتصادیات میں برکت نہ ہونا 578
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 27 عبادت کے خالص ہونے کی راہ میں سب سے بڑاہت 578 جلسه سالانه قادیان کے سلسلہ میں ان کی مساعی جھوٹ کے بُت کے متعلق قرآنی حکم جھوٹ کی مختلف سطحیں 593 حیات قدسی 697 اس کو جماعت میں عام کرنا چاہئے ، اس کی وجہ 787 حضرت خالد بن ولید وہ مومن نہیں کہلا سکتا جس میں جھوٹ اور خیانت ہو 698 ماہنامہ خالد چارکشی بازار ڈھا کہ اس میں موجود احمدیوں کے مرکز پر حملہ ، زدوکوب کے علاوہ جنگ موتہ کے موقع پر مسلمانوں اور رومیوں کے لشکر دفاتر کو آگ لگانا اور قرآن کریم کی بے حرمتی 784,785 کی نسبت حضرت خالد بن ولید کی حکمت عملی چشمه معرفت چندہ ( نیز دیکھئے مالی قربانی) 622 احد میں اچانک حملہ، اسلام لانے کے بعد نمایاں تبدیلی اور وفات کے وقت حالت چندہ طلب کرنے کے نظام کو متحکم کرنے کی ضرورت 471 خالصہ کالج قادیان چندے بڑھانے کے لئے سب سے اہم چیز ، اخلاص کا خانہ کعبہ معیار بڑھائیں 471 24 24 193 497 200 346 58 388 اس کے دنیا میں سب سے خوبصورت عمارت ہونے کی وجہ 731 نظام کا بر وقت واسطہ ساری جماعت سے قائم رہنا چاہیئے 471 خدام الاحمدیہ 602,603 صدر مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان کو ٹیمیں بنا کر Dead Sea 2 Scrolls پر تحقیق کی تلقین اور ان کا حق ادا کرنا کی اور 875 چندہ کے حوالہ سے بعض انتباہ اگر نماز میں بستی ہے تو چندے دینا بے معنی ہے 639 تقویٰ اور اللہ کی محبت کی پرورش کے نتیجہ میں چندوں خدمت خلق کے معاملہ میں جماعت ہمیشہ بے فکر رہے گی خدمت خلق کے متعلق قرآن کریم کا اعلیٰ تصور باوجود غربت کے احمدیوں کو چندہ دینے کی توفیق ، دیگر دینی جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی خدمت خلق کے ادارہ جماعتوں میں مالی استطاعت کے باوجود ایسا نہ ہونا 727 کے قیام کی تجویز چین حقیقة الوحی حکومت 775 316,382,386,556 خطبہ اخطبات جمعہ ( نیز دیکھئے ”جمعہ) 119 32 611 خطبات کا اثر اور ایک پٹھان کا اس وجہ سے احمد کی ہونا 209 خطبات تاریخ کا حصہ ہیں اس لئے ان میں غلطی چھوٹی ہو قرآن نے شریعت ، مذہب کے ساتھ دنیا کی حکومتوں کو یا بڑی اس کی ساتھ کے ساتھ صحیح ہوتی رہنی چاہئے 288 بھی امانت قرار دیا ہے 871 براه راست خطبہ سننے والوں کو حضور کا سلام قرآن میں عدل پر مبنی طرز حکومت کا بیان ہے، شریعت نیکی کے کاموں پر لبیک کہنے کے لئے خلیفہ وقت کے پر مبنی نہیں حضرت حمزه چوہدری حمید اللہ صاحب 871,872 275 خطبات کی اہمیت 575 694 کینیڈا کے دورہ پر جانے کا پروگرام اور ساری دنیا کے احمدیوں کے ساتھ خطبات میں رابطہ بحال رہنے کا ذکر 717
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 28 ربوہ اور دیگر شہروں سے احمدیوں کے خطوط سے معلوم ہونا خلق کہ لوگ بڑے شوق سے خطبوں میں حاضر ہورہے ہیں 910 آخرین اپنے اخلاق، کردار، صفات کے ذریعہ اولین سے مل سکتے ہیں خلافت / خلیفہ وقت برکت اسی میں ہوگی جو خلیفہ کی مرضی، اس کی خوشنودی گھر میں اچھے اخلاق اپنانے کی تلقین 33 89 134 اخلاق حسنہ کے ساتھ گھر کی اصلاح کرنا.قوام کا معنی 137 کے ماتحت کام ہو خلیفہ کی ہجرت کی وجہ سے انگلستان کے مقدر میں برکتیں بچوں کے اخلاق کی درستگی کے متعلق منصوبہ بندی 138 اور سعادتیں حضرت مسیح موعود کے ایک خلیفہ کی مشرق سے مغرب کی طرف ہجرت کی پیشگوئی خلیفہ وقت ایک قبلہ نما کی حیثیت رکھتا ہے خلیفہ وقت اور جماعت کا تعلق خلافت اور امانت 83 84 388 388,842,843 842 جب تک جماعت امین رہے گی ان کی خلافت کا انتخاب بھی بہترین ہوتا چلا جائے گا 842 اخلاق حسنہ کے نتیجہ میں داعی الی اللہ کو ملنے والا عرفان 138 احمدی طالبعلموں کے اخلاق کی وجہ سے دوسروں کا متاثر ہونا ، ایک احمدی لڑکی کا واقعہ 157 آج کا زمانہ اخلاقی انحطاط کی طرف تیزی سے مائل 270 اس شبہ کا جواب کہ بعض اخلاق آنحضرت نے لے لئے اور بعض چھوڑ دیئے آنحضرت مکارم اخلاق پر فائز تھے نظام جلسہ سالانہ کا اخلاق پر گہرا اثر 355 355 496 حضرت خلیفہ اول کا اہل پیغام کے اس سوال کا جواب کہ خلیفہ بھی تو غلطی کرسکتا ہے کوئی خلیفہ کو معزول نہیں کر سکتا 844 844 اعلیٰ اخلاق کا نمونہ اور اس میں لذت بچوں کو کسی کے گھر جا کر شور سے نہ روکنا اخلاق کو بگاڑنے کا باعث بنتا ہے خلیفہ وقت کا عہد یداروں سے تعلق اور بحیثیت امین کے 845 جلسہ سالانہ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ 503,506 509 516 ان پر بعض اوقات سختی کرنا خلیفہ کوئی ایسی بڑی غلطی نہیں کرے گا جس سے جماعت غیر احمدیوں کی احمدیوں سے اعلیٰ اخلاق کی توقعات 519,520 اجتماعات کے مواقع پر اسلامی اخلاق پوری شان کے کو نقصان پہنچے 845 نظام جماعت کے بگڑنے پر خلیفہ کی سر زنش اور اس کا ساتھ جلوہ گر ہونے چاہئیں درگزر 845,846 525,526 امریکہ میں کھانے کا ضیاع اور اس کا اخلاق پر بُرا اثر 527 528,529 خلیفہ وقت اور عہدیداروں کے تعلق کی وجہ سے بعض اوقات مسلمانوں کا اخلاق خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں ایک کسی ایسے شخص کو بھی سزامل سکتی ہے جو سزاوار نہ ہو 846 ہی رہے گا ، اسی کا نام توحید خالص ہے خلیفہ کی نصیحت کو سن کر امراء کا اس جماعتی نصیحت کو سن کر خواب رویا جماعت میں جاری کرنا ، ان کی امانت کا آئینہ دار ہے 846 گری کے ایک شخص کا سکھر کے اسیروں کو آزاد یکھنا اور قرآن میں دیگر ادیان پر غلبہ کے پیش نظر سارے مسلمانوں اس خواب کا پورا ہونا کو بحیثیت ایک جماعت کے خلیفہ قرار دیا گیا ہے 850 خوابوں کی تعبیر کے حوالہ سے ایک وضاحت 28 22 29
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 جھوٹ کا خواب کے ساتھ تعلق 29 544 اللہ اور اس کے رسول کی امانت میں خیانت اصل میں ہندوستان اور باہر کی دنیا کے احمدی صنعت کاروں کو قادیان اپنی امانتوں میں خیانت ہے میں صنعت کاری کی تلقین اور اس سلسلہ میں حضور کی ایک رؤیا 33 قوم کے حالات کے بگڑنے کا راز حضور کا خواب میں چوہدری شاہنواز صاحب کو دیکھنا تعبیر 33 قوموں کے کردار کو کھا جانے والا جرم حضور کی اپنی اہلیہ کے متعلق قادیان کی ایک رؤیا حدیث کی رو سے خائن سے انتقام کا نقشہ ایک شخص اور ایک امیر کی خیانت میں نقصان کے 235 237 بی بی فائزہ کی اپنی والدہ کے متعلق ایک رؤیا حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کے متعلق ان کی بیٹی کی رؤیا 238 لحاظ سے فرق حضرت سیدہ آپا طاہرہ صاحبہ کی ایک رؤیا 245 825 825 826 827 827 بڑی حکومتوں کے سر براہوں کی اپنے طور کی خیانتیں 829 ایک مبلغ سلسلہ کی وفات کے متعلق ان کی اہلیہ کا خواب 913 قرآن میں یہود کے حوالہ سے خیانت کا ذکر خوارق خوارق سے مراد خیانت 332 حدیث کی رو سے وہ امین جو اپنی امارت میں خیانت 832 جھوٹ کے بعد سب سے ہولناک چیز قرآن نے خیانت کے ہر پہلو کو بیان فرمایا ہے قرآن میں خائن کی سفارش سے آنحضرت اور جبریل کو منع فرمایا جاتا خدا اور اس کے رسول کی خیانت کرنے والے خائن کی مغفرت کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے قرآن کی رو سے خیانت کا آخری مقام 696 699 701 700 702 704 کرے سب سے زیادہ قابل گرفت ہے 841 سب سے بڑی خیانت 859 و، و، ز دار الانوار 735 دجال آنحضرت کا اس سے ڈرانا سورۃ الدخان کے مضمون کا دجال کے ساتھ تعلق دجال کے دوفتنوں سے بچنے کا اشارہ 221 221,222 237,238,264,307,334,335 421,422,493,780,795,893,900,913 193,362,584 وہ خائنین جن کو میں سفارش کے باوجود معاف نہیں کرتا 715 در مین دینی علماء کے خیانت میں مبتلا ہونے پر دین کی حالت 719 روز مرہ کی زندگی میں ہونے والی خیانتیں 721,722 در نمین فارسی خیانت کے ساتھ شرک کا مضمون 805,806 در عدن غدر اور عہد شکنی حدیث کی رو سے خیانت کی قسم ہے 806 درویشان قادیان مزدور کی مزدوری کے حوالہ سے وہ اشیاء جو خیانت کے ہم ان کے دل کی گہرائیوں سے ممنون ہیں، جہاں کہیں زمرہ میں آتی ہیں انبیاء کا خائن کی شفاعت نہ کرنا 808 809 احمدی بستا ہے وہ ان کی قدر کرتا ہے درویشان کے احوال کی بہتری کے لئے حضور کا خیانت سے بچنے کے نتیجہ میں اللہ کی حفاظت اور تعریف کے وعدے احمدیوں کو خیانت کے حوالہ سے نصیحت 813 819,820 237 21 منصوبہ اور تجویز 21,22,31 جلسہ سالانہ قادیان کا درویشوں کے لئے روحانی اور جسمانی برکتیں لے کر آنا 32
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 30 50 درویشان کی اقتصادی بحالی کے وقت نصیحت کہ جماعتی وقار دعا کے نتیجہ میں ضدی اقوام کی حالت میں تبدیلی 329 کے ساتھ ان کے دنیاوی احساس وابستہ ہیں کاروبار کے حوالہ سے درویشان کو نصیحت اور مشورہ یہ آخرین کے اصحاب الصفہ ہیں 34 36 51 دعا کے اسباب پر غالب آنے سے مراد آنحضرت کی دعاؤں کی قبولیت کا راز دعاؤں کو مقبول بنانے کا طریقہ 330 334 335,365 دنیا کے جماعتی اموال میں ان کی برکت شامل ہو چکی ہے 52 عائلی خرابیوں اور موجودہ زمانہ کی ہر قسم کی خرابیوں دعا نصیر بننے کے لئے مانگی جانے والی دعا 96 کو دور کرنے سے متعلق قرآنی دعا دعا سکھانے کے حوالہ سے قرآن کا اسلوب دعوت الی اللہ میں مشکلات کی آسانی کی دعا ان کی برکت 115 عمل کے بغیر دعا رفعت نہیں پاتی عبادت کے قیام ، نیک اعمال کے بغیر دعاؤں کو رفعت عطا نہیں ہوتی سب سے بڑی دلیل مقبول دعا کی ہے لڑکوں کے لئے دعا مانگنے کی درخواست کرنے والے (غیر مسلم ) افراد کے لئے دعا اور انہیں نصیحت 118 119 دعاؤں میں ثبات سے مراد دعا قضاء وقد رکو بدل سکتی ہے، اس حوالہ سے حضرت مصلح موعود کا شعر 397 397 399 460 579 دعا قبول کروانے کے لئے نیک اعمال ضروری ہیں 644 119 دعوت الی اللہ (نیز دیکھئے تبلیغ ) 96 مختلف مذاہب کے لوگوں کا حضور کو دعا کے لئے لکھنا 119 منصوبہ بندی کے ساتھ دعوت الی اللہ بجالانے کی تلقین 94 دعا کے نتیجہ میں ایک بنگالی دوست کی مرادیں پوری ہونا 120 دعوت الی اللہ کے کام کی عشق سے تشبیہ دعا کا معجزہ زندہ معجزہ ہے ، صرف خلیفہ وقت سے نہیں بلکہ تمام احمد یوں کو مسن انصاری الی اللہ کہہ کر دعوت الی اللہ ہر اس شخص سے ہے جو خلافت سے خلوص کا تعلق رکھتا ہے 120 کے کام کی تلقین وہ تو حید جس پر قائم ہونے کے نتیجہ میں دعاؤں کو برکت دعوت الی اللہ اور منصوبہ بندی ، تدبیر انفرادی منصوبہ بندی اور دعوت الی اللہ ملتی ہے 120 103 110 111 111,112 دعا ایسا زندہ درخت ہے جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے 120 دعوت الی اللہ کیسے کریں؟ وضاحت حضرت مصلح موعود کا بے موسم میں پھل مانگنا اور دعا کے دعوت الی اللہ اور دعا ساتھ حضرت اقدس کا پھل اتار دینا دعوت الی اللہ اور سورۃ فاتحہ کی بنیادی دعا کسی غیر مسلم کے لئے دعا کرنے سے اس پر اثر 121,122 عزم کی مضبوطی اور دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کرنے والے اور جس کو کی جائے ان میں 120,121 خدا سے سوال و جواب اور دعاؤں کی قبولیت کا نشان بے ایمان لوگوں کو عطا نہیں ہوتا 167 ایک فرق ہونا چاہئے 112 113,114 118 دعا کے متعلق آنحضرت کو ہدایت کہ خدا سے کھلا مانگو خدا کا ایک داعی الی اللہ کو دعوت الی اللہ کی مخالفت کے 129 تھوڑا نہ مانگو دعا کرنے کا طریق مظلوم کی دعار نہیں جاتی 178 240 251 حوالہ سے تنبیہ دینا دعوت الی الخیر کوئی جرم نہیں ہر داعی الی اللہ کواپنی اندرونی اور بیرونی کمزوریاں لکھنی 131 131
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 31 چاہئیں اور دور کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرے 132 اس کے نتیجہ میں خدا کی قربت داعی الی اللہ اور گھر والوں سے حسن سلوک 131 اس کی برکت سے جماعت میں کثرت سے اولیاء اللہ مغربی دنیا میں دعوت الی اللہ کی راہ میں ایک مشکل 136 پیدا ہوں گے اخلاق حسنہ کے نتیجہ میں داعی الی اللہ کو ملنے والا عرفان 138 یہ بات بھی منصوبہ میں شامل ہو کہ کن لوگوں میں عمدگی گھر میں بچوں اور بیوی کو بھی دعوت الی اللہ کی سکیم اور منصوبہ بندی میں شامل کریں اس دور میں دعوت الی اللہ اہمیت اور ضرورت 139 139 سے تبلیغ کر سکتا ہے وہ مقصد جو ہر داعی کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے دعوت الی اللہ اور تمام دنیا کے مسائل کے حل میں دنیا ہر نبی کا متبع داعی الی اللہ ہوتا ہے مگر داعیا الی اللہ کا محاورہ کی مدد صرف آنحضرت کو عطا کیا گیا داعی الی اللہ کا کام نتیجہ کے لحاظ سے بہت مشکل 144 145 دعوت الی اللہ اور انبیاء کی سنت 193 194 210 211 271 271 دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق 271 ہر داعی الی اللہ کو مبارک کہ یہ وہ لقب ہے جو محمد کو خدا نے احمدی بچیوں کے ماحول کی وجہ سے ایک لڑکی کی بیعت 299 خود عطا فرمایا 148 ضد کر کے بیٹھ جانے والی اقوام کے حوالہ سے داعیان ہر داعی کو پہلے اپنے گھر اور ماحول کے لئے گواہ بننا ہوگا 149 کو نصیحت روزمرہ کے اعمال کو سنوارنے اور بدیاں دور کرنے کا دعوت الی اللہ کے ساتھ گہراتعلق داعیا الی اللہ کا سراجاً منیر ا سے تعلق 149 155 جو داعی الی اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے کوشش بھی کی اور دعا بھی مگر نتیجہ نہیں نکلا ، اس کا جواب 328 334 قوم کی ہلاکت کے حوالہ سے داعیان کو دعا کی تلقین 335 احمدی طالب علموں کے اخلاق کی وجہ سے دوسروں کا متاثر باتوں کو حسین اور بامعنی بنانے میں دعوت الی اللہ معاون 352 157 احمدیت ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جب ہر احمدی ہونا ،ایک احمدی لڑکی کا واقعہ دعوت الی اللہ میں اجتماعی سے قبل انفرادی منصوبہ بندی 177 داعی الی اللہ بن جائے گا ہر شخص کو اپنی حیثیت ، صلاحیتوں کے مطابق دعوت الی اللہ کے مضمون کو نیک عمل کے ساتھ باندھنا 359 منصوبہ بندی کرنی ہوگی دعوت الی اللہ روحانی جہاد ہے روحانی مُردوں کے زندہ کرنے کا طریق 180,181 182 182 قرآنی اعجاز ہے 368 پھل پکنے کے وقت پھلوں کو سنبھالنا بھی ضروری ہے 390 دعوت الی اللہ اور اعلیٰ افق تک رسائی 421 433 اگر سو پھلوں کا وعدہ کیا ہے تو کم از کم ہزار پر کام کرنا چاہئے 185 دعوت الی اللہ کرنے والے کا تنبل سے تعلق خدا کے فضل سے اس سال چالیس ہزار احمدی ہوئے 185 حقیقی داعی الی اللہ بننے کے ذرائع دعوت الی اللہ دعوت الی الاحمدیہ اور دعوت الی الاسلام 190 دعوت الی اللہ پر زور کی وجہ 437 676,677 آنحضرت کے دل میں دعوت الی اللہ کی تڑپ 678,679 نہیں بلکہ دعوت الی اللہ ہے پھل حاصل کرنے کے بعد اس کا مربی بنا ضروری ہے 191 دعوت الی اللہ اندرونی بیداری اور دل کی بھڑکی کا نام ہے 687 صحیح احمدی بننے کا اصل راز 192 دعوت الی اللہ میں جو کچھ ہورہا ہے انفرادی طور پر ہورہا ہے 901
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 32 نیو یارک میں احمدی بچوں کی تبلیغ سے ساتھی طلباء کی بیعت 909 بھٹو کا آخری دور حکومت میں جماعت کے خلاف جھوٹا دعوت الی اللہ اور جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار 929 دل پروپیگینڈا اور بعض پولیس افسروں کا طرز عمل جماعت کی مخالفت اور اس کا انجام دنیا جس دور سے گزر رہی ہے اس میں سب فتور خیالات ر،ز اور دلوں کا ہے 2 حضرت رامچند رعلیہ السلام 126 915 دنیا بچپن کے کسی واقعہ کادل پر نقش اور انسانی زندگی میں انقلاب 369 ربوه 316 54,496,910 فرشتوں کی طرف سے نیکی کی تحریک اور دو قسم کے دل 370 صبح کی نماز پر صل علی پڑھنے پر بچوں کے خلاف مقدمے 11,12 دنیا جس دور سے گزر رہی ہے اس میں سب فتور خیالات رجائنہ 935 اور دلوں کا ہے دوست محمد صاحب دھوکہ بعض لوگوں کا بالا رادہ دھوکہ دینا دہلی / دلی دیانت 2 245 408 ایک طرف خدا کہتا ہے کہ اس نے رحم کے لئے زمین آسمان اور انسان کو پیدا کیا، پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ ہم جہنم کو چھوٹوں بڑوں سے بھر دیں گے ، اس سے مراد ہر شخص رحم ہی سے بچایا جائے گا 2,60,236 رحمة للعالمین (کتاب) ހ 320 324 201 افریقہ کے دورہ میں ہر صاحب امر کو دیانت کے معیار رستوں کے حقوق کے متعلق اسلامی تعلیم 521,522 کو بلند کرنے کی تلقین دین آخری زمانہ میں دین اسلام کے غلبہ کے ہتھیار آنحضرت کا دین نہایت متوازن ہے 828 93 549 رسول رحمت (کتاب) رشتہ ناطہ ( نیز دیکھئے ”شادی بیاہ و عائلی معاملات) 201 رشتہ ناطہ کے حوالہ سے جماعت کی ذمہ داری بیرونی ممالک کے لوگوں کے فریب دیوان غالب 209,214,495,668,672,836,912 ہندوستان کی جماعتوں میں رشتہ ناطہ کے مسائل ڈاکٹرز بیرونی ڈاکٹر ز کو قادیان کے ہسپتال میں وقف کی تحریک 57 خدا کے فضل سے ہر مرض کے علاج میں اس وقت احمدی ماہرین موجود ہیں ڈنمارک ڈھاکہ ذوالفقار علی بھٹو 57 931 787,870 رشیا اروس 37,38 38 39 210,214,467,829 احمدیت کے حوالہ سے روس میں تبدیلی روس میں وقف عارضی کی تحریک اس وقت خطر ناک اقتصادی بدحالی کا شکار احمدی تاجروں کو وقف عارضی کے ذریعہ تجارتی رابطے قائم کرنے کی تلقین ویٹ نام کی جنگ میں انہیں اسلحہ فراہم کرنا 391 391 393 393 556
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 33 حضرت مسیح موعود کی وہاں جماعت کے ریت کے ذروں روزہ کا عشق سے گہرا تعلق کی طرح پھیلنے کی پیشگوئی 696 171 روزہ زکوۃ کا معراج اور روزے کا معراج رمضان ہے 171 ٹیکنالوجی اور صنعتی لحاظ سے مغرب سے مقابلہ مگر بعض حدیث کی رو سے افطاری کے وقت دو مرے شعبوں میں بہت پیچھے رہنا رعب رعب کی ایک تاریخ ہوا کرتی ہے رمضان کب بے معنی اور بے حقیقت گزرتا ہے 171 171 713 864 روزے کی تنگی کے نتیجہ میں خدا کا ایک آسائش پیدا کرنا مقصود 173 رمضان کا لقائے باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق رعب کے متعلق حضرت مسیح موعود کا الہام، اسکی تفصیل 864 جماعت کو اس رمضان میں ملفوظات سے متعلقہ مضامین سردار رفیق صاحب رؤیا (نیز دیکھئے خواب) 243 کو عام کرنے کی تلقین رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا عشرہ ہے رویا میں جو پیغامات ملتے ہیں وہ تصویری زبان میں ہوتے آخری عشرہ کی اہمیت ہیں ، ان کی پہچان رمضان روزه روزہ رکھنے کا مقصد تقویٰ میں ترقی ہے یورپ میں رمضان کا پہلا دن مگر بعض مسلمان فرقوں کا ایک روز قبل رمضان کا آغاز کرنا وعلى الذين يطيقونہ کے دومعانی 237 آخری عشرہ میں آنحضرت کا کمر کس لینا ریویو آف ریلیجنز 160 ریڈ کراس 161 161 زبان 173 173 215 215,220 216 856 611 قادیان میں مختلف زبانوں کی تعلیم کے حوالہ سے سکیم 59 اہل پاکستان کو زبان پاک رکھنے اور بھائی کو اپنی زبان کے فمن تطوع خيرًا میں نفلی روزوں کا بھی ذکر ہے 161 شر سے بچانے کی نصیحت 586 علم فلکیات کی رو سے چاند کی رؤیت اور رمضان کا آغاز 161 زبانیں کلچر کی حفاظت کرتی ہیں، دوسری زبانوں کے ساتھ آنحضرت ہر ماہ تین نفلی روزے رکھتے تھے سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں 162 162 اپنی مادری زبان بھی بچوں کو سکھائیں وہ اقوام جو اپنی مادری زبان نہیں چھوڑتیں 670 670 مریض کو روزہ نہ رکھنے دینے میں ایک بڑی حکمت 164 پاکستان سے باہر آنے والوں کو اردوزبان محفوظ کرنے روزوں کا مالی قربانی کے ساتھ تعلق روزہ زکوۃ کا معراج ہے حدیث کی رو سے روزہ نصف صبر ہے روزہ اور عام عبادتوں میں فرق 165 165 166 168 کی تلقین بچوں کو اردوزبان سکھانے کا طریق چوتھے پانچویں سال بنیا دی کورس میں تبدیلی سے دو نسلوں کے درمیان رابطہ کا ختم ہونا رمضان میں سکون کا حصول ،صحت اور جوانی کی شرط 169 تبلیغ کے لئے زبانوں کا علم ضروری ہے روزہ کی نیکی مستقلاً ایک حالت پر نہیں رکھی جاسکتی 169,170 حضرت زرتشت علیہ السلام 170 حضرت زکریا علیہ السلام روزہ کی نیکی کا اطاعت کے ساتھ گہرا تعلق خدا کی خاطر روزہ میں بعض جسمانی کمزوریاں 170 671 671 671 849 316 آخری عمر میں اولاد کے مانگنے پر خدا کا نشان 146,147
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 زمانہ 34 اپنے اندر بیداری پیدا کرو 369,372 اس زمانہ میں دہریت اور مادہ پرستی کا اپنی طرف کھینچنا 151,152 ایک دو سالوں میں سپین میں سائنسی طریق پر احمدیت زندگی زندگی کی بقا، جانوروں پر بنائیوالی جانے فلمیں حضرت زید بن حارثة زیورچ سائنس 410 200 665,656 کا پیغام پہنچانے کا منصوبہ 373 جماعت میں بیداری اور دعوت الی اللہ کی طرف توجہ 377 پہلے کئی امراض تھے لیکن اب نظام کا احترام کر رہے ہیں 379 سپین میںExpo کا انعقاد اور جماعت کا سٹال ،لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے حضور کی تجاویز 381 تا 383 حضور کے پین کے دورہ کی فوری وجہ نہ نظر آنے والے ستونوں کے بغیر کائنات کے چلنے سے مراد 107 الہی تقدیر کے مطابق آج کے سائنسدانوں کو خدائی نظام سپین میں تبلیغی منصوبوں کے متعلق سوچ بچار اور تمام امراء 107 کو وہ کیسٹ بھجوانے کی ہدایت کے مخفی رازوں کا معلوم ہونا بعض سائنسدانوں کا تحقیق پر مغرور ہونا مگر قرآن نے وہ سپین میں وقف عارضی کی تحریک 108 سیر کے وقت عظیم الشان پرانی عمارتوں کو دیکھتے ہوئے 381 383 383 راز چودہ سو سال پہلے بتا دیے تھے بعض باتوں کا تعداد سے گہراتعلق ، Large Numbers بڑی حسرت سے اسلام کی ترقی کے اس دور کا مشاہدہ 385 سائنس کا ایجاد ہونا چاند اور سورج کا سمندر پر اثر 178 752 سات آٹھ سو سال سپین میں اسلام کے رہنے کے باوجود اس کے وہاں سے غائب ہونے کی وجوہات 386,387 آج تک 80 سے سومن گندم فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ سپین کے محلات میں لکھوکھہا بار قرآنی آیت لا غالب 769,770 ہے مگر قرآن کا سات سو تک کا ذکر کرنا سائنسی علوم غیب سے کچھ چیزوں کو شہود میں لانے سے حاصل ہوتے ہیں س پش ساقی صاحب ( مبارک احمد ) سال 822 120 الا اللہ کو کندہ کیا جانا 1492ء میں آخری دفعہ مسلمانوں کا اخراج مگر اس کے بعد دوسوسال تک کچھ آثار باقی رہے 387 387 اہل یورپ کو خصوصیت سے چین میں وقف عارضی کی تحریک 389 سین کے نو مبائعین میں غیر معمولی انقلاب ستاری 389,390 کسی پر گناہ کا الزام لگانا اور خدا کی ستاری کا پردہ 549 نئے سال کی آمد پر جماعت کو حضور کی طرف سے مبارکباد 1 سٹیفنسن (انگریز پروفیسر ) سپین 9,359,376,690 61 نوجوانوں ، مردوں اور عورتوں کو تبلیغ کی تلقین 364,365 آئندہ دنیا کے وارث حضرت محمد کے بچے غلام ہیں 322 سپین کے احمدیوں کو آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا نہ کرنے کی تلقین سپین کی جماعت کو احساس دلانے کی ضرورت کہ 366 سچائی فطرت کا حصہ ہے ہر ابتلا جس میں بیچ کی آزمائش ہے اس میں ثابت قدم رہنا تو حید اور تجمل کی ایک قسم ہے 540 541
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 35 تمہیں سچ اختیار کرنا چاہیئے کیونکہ بیچ نیکی کی طرف سلمان رشدی رہنمائی کرتا ہے سچ کے نیکی کی طرف رہنمائی کرنے سے مراد 559 559 اسلام پر پھبتیاں کسنا اسلام پر اعتراض کہ یہ کیسا مذ ہب ہے کہ چھوٹی چھوٹی انسان کو ساری زندگی سچ کے معاملہ میں جہاد کرنا پڑتا ہے 561 تفصیل میں جاتا ہے جاپانی قوم سب سے زیادہ بچی اور اسکا اقتصادی ترقی پر اثر 563 قاضی سلیمان منصور پوری صاحب 563 حضرت سمرہ رزق میں برکت سچ سے ہوتی ہے جماعتی عہد یدار سچائی اور پاکیزگی کی وجہ سے ہر دلعزیز 604 سنٹرل ٹورانٹو سچ کو فریب کاری کی ضرورت نہیں ہوتی 630 سندھ قرآنی حکم کے مطابق سچائی وہ قلعہ ہے جس میں جماعت سندھ کی معاشرتی برائیوں کا ذکر کے لئے امن ہے شدی سربیا سکاٹون سعودی عرب 631 سنن الکبری بیہقی 72 711 935 837,916 شیعہ سنی فسادات کے لئے ملکوں کو پیسے دینا 607,608 سعودی عرب سے پیسے لے کر پاکستان کے مولویوں کی احمدیت کے خلاف کوششیں سعید جسوال (نیز دیکھئے "جسوال برادران) خطبات کی ٹرانسمیشن کے حوالہ سے ذکر خیر سکاٹ لینڈ سکار برو 865 691 530 935 526 748 201 79 935 495,890 301 355 سوئٹزر لینڈ 690,771,774,926,927,930 زیورچ میں مسجد کی جگہ کی تلاش اور ٹوکیو سے بھی مہنگی جگہ 655 مسجد کے لئے مناسب جگہ خریدنے کی تلقین 567,568 مذہب کی حالت 664 حضور کی پہاڑوں کے نیچےد بی غاروں کی سیر جہاں پانی کے قطروں نے کئی قسم کی نقش نگاری کی ہوئی ہے 686,687 سوليداء سپین کی مشہور شاعرہ کا احمدیت قبول کر کے لٹریچر کا ترجمہ کرنا 384 پنجابی زبان پر زیادہ زور دینا، اس کا نقصان سلام سلام کو رواج دینے کی تلقین جماعت احمدیہ میں سلام کا رواج بہت ہے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہنے کا مطلب مومن کا سلام ہر ایک کو امن کی ضمانت دیتا ہے 59 27,28 517 518 518 518 سیاست مغرب کی اسلام کے خلاف چالبازیاں اور مسلمان سیاستدانوں کا لغویانہ طرز عمل مغرب کا سیاست میں دجل و فریب جدید سیاست دجل کا دوسرا نام ہے شیعه سنی فسادات اور اس کے پیچھے دجل پاک و ہند کے سیاستدانوں کے مکر 557 606 606 607,608 608 ترقی پذیر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک کے سیاستدانوں کے مکروں میں فرق 608 سیاست میں شر کے باعث سیاسی رہنما سب سے زیادہ شریر 623
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 36 سیاست کوحق نہیں یہ کہ وہ مذہبی امور کے فیصلے کرے 798 | شاہدہ نسیم صاحبہ حکومتوں کے سر براہوں کے خائن ہونے کے وقت حکومتوں کی حالت 827 شرک کی حقیقی اور آخری تعریف 244 447 تیسری دنیا کے ممالک کود یا نتدار سر براہ چننے کی نصیحت 829 جماعت احمد یہ جو تو حید کی دعویدار ہے اسے شرک کا قلع قمع سیالکوٹ سیرۃ ابن ہشام سیرت المہدی سیرت خام امین سیکرٹریان ( نیز دیکھئے عہد یداران) سیکرٹری تصنیف کی ذمہ داریاں 440 کرنے کے لئے انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے 558 354 شعائر الله 501 206 875,876 وہ لوگ جو شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں ان کی برکتیں پھیلتی ہیں شعبہ اشاعت آجکل دنیا میں کتب کی نمائش کے رواج کا زور پکڑنا 52 861 862 اگر تمام سیکرٹری ذمہ داری سمجھتے ہوئے بیدار ہو جائیں تو اور اس سلسلہ میں ہونے والی غفلتیں ساری دنیا کی جماعتوں میں ایک شور برپا ہو جائے 900 لٹریچر کی اشاعت اور سیکرٹریان اشاعت کا فرض تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے شعبہ کی اہمیت اور سیکر ٹریان انگلستان میں مولوی منیر الدین صاحب شمس کے سپرد سالہاسال اکیلے کام کرنا اور بعد میں ٹیمیں بنائیں 863 900,901 کی غفلتیں سیکرٹری مال کی مسلسل محنت کے نتیجہ میں اچھے وجود کا تصور کراچی کے سیکرٹری مال کا ذکر خیر سیکرٹری اصلاح وارشاد کا بنیادی کام 900,901 901 شعبہ اشاعت اور تصنیف کا گہرا ربط اور شعبہ تصنیف میں ستیاں اور ان کی ذمہ داریاں شعبہ اشاعت اور تصنیف کا تعلق 906 شعر / اشعار را امراء کو سیکرٹری اصلاح وارشاد کے ساتھ میٹنگ کی تلقین 908 اس سادگی یہ کون نہ مر جائے اے خدا 863,864 شادی بیاہ ( نیز دیکھئے رشتہ ناطہ و عائلی معاملات) لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار نہیں اے آنکہ سوئے من بد دیدی بصد تبر شادی بیاہ کے معاملات میں جھوٹ بیاہ شادی کے معاملہ میں قول سدید سے کام لینے سے مراد بیاہ شادی کے جھگڑے اور جھوٹ شادی بیاہ کے معاملات میں بعض کمزوریاں جن کا مخفی رکھنا تقویٰ کے عین مطابق ہے بیاہ شادی کے معاملات میں مکر چوہدری شاہ نواز صاحب حضور کا خواب میں انہیں دیکھنا ، اس کی تعبیر 544 545 545-546 548 597 33 از باغباں بنترس که من شاخ مثمرم میں بلاتا ہوں اس کو مگر اے جذبہ دل اس پر بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے 900 116 193 209 214 237 264
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اس پہ آساں ہے 238 شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا 334 ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے مولی اس طرف دریا کی دھار اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی 335 تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چراں احسان کردی 362 421 آنکھ اس کی دور میں ہے دل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے 493 پردے جو تھے ہٹائے اندر کی راہ دکھائے دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے ـاء ارفون به رأه اشي لکھنو آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی ہوش سیر و تماشہ سو وہ کم ہے ہم کو نا ان عدتنا لوجدتنا الضيوف وانت رب المنزل نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تب ہے گرتوں کو تھام لے ساقی غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو اے مرے ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے نه خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم 493 456 495 512 534 579 584 638 37 ہے آدمی بجائے خود ایک محشر خیال ہم انجمن سیکھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو جب چمن سے گزرے تو اے صبایہ کہنا بلبل زار سے کہ خزاں کے دن بھی قریب ہیں نہ لگانا دل کو بہار سے یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے رخصت نامہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہوئی ہر غم پنہاں میرا مجھے فکر جہاں کیوں جہاں ہو تیرا ہے یا میرا رات محفل میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور 668 670 672 795 836 839 شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا 899 سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے جان دی دی ہوئی اسی کی تھی 900 912 913 حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا بلانے والا ہے سے پیارا شفاعت آنحضرت بطور وسیلہ اور شفیع شفاعت کا وہ مفہوم جو عوام میں پایا جاتا ہے 475,476 476 حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں شفاعت کے مقام کی تشریح و تفسیر شفیع میں دو قسم کے تعلق کا ہونا ضروری ہے ہر نبی اپنی اپنی قوم کے لئے شفیع مگر آنحضرت سب سے بلند مقام پر ہیں 476 481 482,483
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 38 شفاعت کا ایک پہلو جو انسان نے وراثت حاصل کیا 483 حقیقی صبر خدا اور آخرت پر ایمان کے نتیجہ میں نصیب آنحضرت کے شفاعت کے فیض سے حصہ پانے کی تلقین 484 292 ہوتا ہے شفاعت اور دعوت الی اللہ کا تعلق 492 تبلیغ اور صبر کا تعلق شهد آنحضور سب سے بڑھ کر صابر تھے جانوروں میں سب سے زیادہ غیر معمولی روحانی صلاحیتیں آنحضرت کا گیارہ بیٹوں کی وفات پر صبر رکھنے والی چیز وحی کے حوالہ سے شہد کی مکھی کی مثال 410 410 نصیحت اور صبر کا تعلق مظلومیت کے نتیجہ میں صبر اور عفو کی تعلیم اور اس کا اجر 379 394 349,350 350 357 شہد کی مکھیوں کا ایک قسم کا ناچ جس پر ابھی بھی سائنسدان عائلی معاملات اور صبر تحقیق کر رہے ہیں شہد کی مکھیوں کی خصوصیات شہادت / شہید 411 صبیحہ صاحبہ 404 244 411 صبیحہ لون صاحبه 244 صحاب جماعت میں شہیدوں کا کوئی بچہ یتیم نہیں رہ سکتا 910 امانت کا حق ادا کرتے ہوئے جان جانا اور شہادت کا جذبہ جو مبلغ خدمت دین کے لئے باہر نکلتا ہے اور خدمت دین بن چکے تھے میں جان دیتا ہے وہ شہادت کا درجہ پاتا ہے شہید کی مختلف اقسام ایک صحابی کا قتل کے وقت کا آخری جملہ کہ فزت برب الكعبة 911,912 حضرت مسیح موعود کے تمام صحابہ ثمر دار تھے جو شجرہ طیبہ 100,101 حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب 913 913 919 صحابہ حضرت مسیح موعود کا قرآن میں انصار کی جماعت کے طور پر ذکر 101 قادیان کے ان صحابہ کی یاد جو بچپن میں گلیوں میں پھرتے اور سلام میں پہل کرتے تھے شیطان 85 شیطان کا ایسی جگہوں سے حملہ کرنا جہاں سے تم اسے دیکھ سب سے زیادہ طاقتور اور ایمان میں مضبوط تر مومن 179 نہیں سکتے.اس سے مراد نماز تکبر کے شیطان کو دور کرنے کا ذریعہ ص، ض، ط، ظ مبر سے بر کے متعلق قرآن کریم کی ایک دعا 566 752 117 صبر کا کسی کام کے مقصد کے فہم سے گہرا تعلق ہے 199 صبر کے مختلف معانی نیکی اور صبر کا تعلق صبر کا یقین سے تعلق صحابہ کی آنحضرت سے محبت اور عشق کا اظہار.ایک صحابی کا واقعہ 345 آنحضرت پر ایمان لانے کے بعد صحابہ میں پاک تبدیلی 345 ایک غزوہ کے دوران صحابہ کے ایثار کا واقعہ آنحضرت کے ساتھیوں کی خصوصیات کی وجہ سے خدا 525 نے انہیں رجال کے نام سے یاد کیا.اس سے مراد 905 290 | صفائی 290,291 292 صفائی کے متعلق آنحضرت کی اعلیٰ ترین تعلیم حدیث کی رو سے صفائی کی تعلیم 521 521,522
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 صفائی کے جو طریق آنحضور نے ہمیں بتائے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام ان سے نا آشنا ہیں حضرت صفیہ صومالیہ صومالیہ کی عوام کے لئے قربانی کی تحریک ضحاک ضیاءالحق اس کا بدنام زمانہ آرڈینینس اس دور کا لیکھر ام رام 527 258 776 72 338 625 685 39 260 اہلیہ کی وفات پر تعزیت کے لئے آنے والوں کے حوالہ سے امیر صاحب یوکے کو ایک ہدایت مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں خدا کے حضور پیشی کا ڈر ہے 265 فرانس اور سپین کے دورہ کا اعلان 339 حضرت مسیح موعود کے ساتھ خونی رشتہ کی برکت سے اختلافات دور کرنے میں مددملنا 1978ء میں حضور کا امریکہ کا دورہ اور انہیں مالی قربانی کے حوالہ سے تلقین پانی کے استعمال میں آپ کا طریق 380 468 529 جماعت کی مخالفت ، حضور کی خاص تنبیہ اور عبرتناک انجام 915,916 نظام جماعت سے پیار کی شدت اور اس کا ایک انداز 612 حضور کے پاکستان سے ہجرت کے بعد جماعت پر فضل 627 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع ہجرت کے وقت پاسپورٹ کے اجرا پر پاسپورٹ افسر کے خلاف ایجنسیوں کا کھڑا ہونا 626,627 انگلستان میں پڑھائی کے وقت نماز ادا کرنے کا طریق 667 امن عالم کے موضوع پر دہلی میں بین الاقوامی مجلس سے خطاب آپ کی تبلیغ سے کنٹری کے ایک گاؤں کا احمدی ہونا 2 28 بہشتی مقبرہ قادیان میں صحابہ کے کتبات پڑھنے پر ولی کیفیت 100,101 عبادات میں جان ڈالنے کے لئے حضور کے خطبات کا سلسلہ 113 ایک خطبہ میں پیش کردہ تحریکات پر اپنی طرف سے کم از کم ایک فیصد ادا ئیگی کا اعلان ایک مختصر سفر پر روانگی سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ آپ کی ایک رؤیا طب / طلب قادیان کے ایک سکھ کا حضور کو ہدایت کی دعا کے لئے جنہیں بھوک نہیں لگتی اور کھانے کی طلب نہیں ہوتی یہ عرض کرنا جماعت سے تعلق اور محبت کا انداز اور اظہار شادی سے قبل استخارہ اور حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کے متعلق الہام حضرت مصلح موعودؓ بیماری کے باعث حضور کی شادی میں شرکت نہ فرما سکے 122 232 234 288 گہرے مرض کی علامتیں ہیں کہ مریض دن بدن موت کی طرف حرکت کر رہا ہے 776 781 245 172 طلب کا زندگی کے گہرے سرچشموں سے گہرا تعلق 172 طیبہ چیمه صاحبه حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی 246 500 حضرت سیدہ آصفہ بیگم کی بیماری کی حالت میں حضور حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان کا صبر کا نمونہ ، اہلیہ اور جماعت سے محبت کا انداز 241 قائد اعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کے حوالہ سے جماعت پر
40 40 اسلام میں بیویوں کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کی تعلیم 136 اخلاق حسنہ کے ساتھ گھر کی اصلاح کرنا.قوام کا معنی 137 بچوں کے اخلاق کی درستی کے متعلق منصوبہ بندی عورتوں کا اپنے خاوندوں کی اصلاح کے لئے خطوط لکھنے 138 پر جماعتی نظام کا متحرک ہونا، جماعت پر اللہ کا احسان ہے 138 865 66 253 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 اعتراض اللہ کے ظلم نہ کرنے سے مراد ظلم کے مختلف معیار ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ اقوام کا ظالم ہونا قوموں کو ظلم سے روکنے کا علاج ظلم کی وجہ مذہب کے معاملہ میں ظلم قرآن کریم میں ظلم کی اصطلاح ہر قسم کی تاریکی پر اطلاق پاتی ہے دنیا کی آسائشوں اور لذتوں میں کھو نا ظلم ہے ظلم کی تعریف ناممکن ہے کہ اللہ کی طرف ظلم منسوب کیا جائے حضرت عائشہ ع ، غ 275 275 276 276 278 294 306 306 549,737,738,739 258 آنحضرت کی ناراضگی کا ساری عمر دکھ رہنا آنحضرت نے باوجود پیار کے کبھی انہیں اصولوں کو قربان کرنے کی اجازت نہیں دی آنحضور کے وصال کے بعد عمدہ آٹے کے آنے پر آنحضور کی محبت میں آنسو نکل آنا 259 581,582 عائلی معاملات (نیز دیکھئے' 'رشتہ ناطہ و شادی بیاہ) گھر میں اچھے اخلاق اپنانے کی تلقین عائلی مسائل کے حل کی طرف جماعت کو تلقین 134 134 عید کے خطبہ میں مردوں کو اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی پرزور تلقین وہ بیویاں جن پر ظلم ہوتا ہے ان کی دردناک کیفیت ظالموں کو عذاب میں مبتلا کر سکتی ہے ظلم کرنے والے مردوں نے ان ماؤں سے تربیت پائی ہوتی ہے جو خود ظالم ہوتی ہے زندگی کے سفر میں سب سے زیادہ لطافت پیدا کرنے والی چیز تقوی ہے خاوندوں اور سسرالیوں کا بہوؤں پر ظلم شادی کے موقع پر نکاح کی آیات میں پانچ مرتبہ تقویٰ کے لفظ کے لانے میں حکمت مرد کے قوام ہونے سے مراد نبی کریم کا بہت سی باتوں میں بیگمات کی زیادتیاں 251 251 251 254 254 255 256 257 257 برداشت فرمانا اصلاح کی کوشش نرمی کیسا تھ جاری رہنی چاہئے مردوں کو آنحضرت کا اسوہ اپنانے کی تلقین 257,258 باوجود تبدیلی اور اصلاح کے ابھی بھی بعض گھر جہنم ہیں 396 عائلی زندگی کی خرابیاں ساری قوم اور کئی نسلوں تک اثر انداز ہوتی ہیں 397,398 بچوں کے حوالہ سے میاں بیوی میں اختلافات اور بعض مردوں کا نصیحت پر کہنا کہ اللہ کہتا ہے کہ عورتوں کو سیدھا قرآنی دعا رکھنا ہے خواہ ڈنڈے کے ساتھ رکھنا پڑے.اس کارد 134 عائلی جھگڑوں کا مثالوں کی روشنی میں ذکر اور انہیں دور آنحضرت کا ازواج کے ساتھ سلوک میں تحمل اور حوصلہ 135 کرنے کا طریق وہ احمدی مرد جو نمازوں میں پکے ، جماعتی کاموں میں آگے اسالکم اور نیشنلٹی کی خاطر شادی ہیں مگر گھروں میں ظلم کرنا.انہیں نصیحت 135 398 399 400,401 عائلی معاملات کی درستگی کے حوالہ سے تقویٰ کی نصیحت 403
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 عائلی معاملات کی بہتری اور تقتل کا مضمون 41 444 پوری شان کے ساتھ عبادت کرو کہ قیامت تک تم پر انسانوں میں اُنس کا منبع خاوند اور بیوی کا تعلق ہے 486 تمام خرابیوں اور بیماریوں کاحل ویڈیوکیسٹوں کے ذریعہ پاکستان میں گھروں کا تباہ ہونا حضرت محمد مصطفے " کی مسکراتی ہوئی نظریں پڑیں اور احمدیوں کے خطوط سے حضور کا خدا کا شکر بجالانا 920 نماز کا انتظار بھی عبادت ہے عادت عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے تو ممکن نہیں کہ بعض عادتیں جو انسان کی اپنی نظر سے اوجھل ہوتی ہیں 538 غیر اللہ کا مساجد پر قبضہ رہے عبد الرحمن ثالث عبادت 649 741 749 882,883 عبادت کے قیام ، نیک اعمال کے بغیر دعاؤں کو رفعت اس کا قرآنی آیات کے کندہ کرنے کے فن کو فروغ دینا 387 118 عبدالرحیم اشرف صاحب عطا نہیں ہوتی مومن کی ہر قسم کی عبادت خدا کی خاطر ہوتی ہے پھر روزہ جماعت کی مالی قربانی کا اعتراف کرنا 168 عبدالرشید ، چوہدری ، آرکیٹیکٹ میں کیا فرق ہے کہ وہ صرف خدا کے لئے ہے سچے عبادت گزار اور ولایت کے نصیب ہونے کی علامت 282 قادیان کے تعمیری منصوبوں میں ان کی خدمت 290 حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب رات کو اللہ کی عبادت سے قرب الہی کا حصول عبادت کے حوالہ سے محسن کی تعریف 290 حافظ عبدالسلام صاحب مرشد کامل کے بغیر انسان کی عبادت کا حال 452,453 ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب 466 56 25 735 613 استغفار عبادت کے لئے ایک روحانی مگدر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی 500,501 453 535 | عبداللطیف ستکو ہی صاحب 613 عبادت اور لا الہ الا اللہ کا تعلق جھوٹ کی عبادت بہت ہی خطر ناک شہر ہے 540 حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب 497 | عبادت کے خالص ہونے کی راہ میں سب سے بڑائت 578 حضرت عبد اللہ بن عمر قرآن میں توحید کے قیام کے بعد سب سے زیادہ عبداللہ سیالکوٹی صاحب 6,559,567,587 زور عبادت کے قیام پر ہے انقلاب پیدا کرنے والی حقیقی عبادت 633 636 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ہر سال سو بیعتیں پیش کرنا 185,186 عبادت میں جماعت احمدیہ کا نمایاں مقام 636,637 منشی عبداللہ صاحب آف سیالکوٹ عبادت کا قیام زندگی کا اہم فریضہ اور تمام مذاہب کی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ہر سال سو بیعتیں پہلی تعلیم آنحضرت کی عبادت کی کیفیت 638 640,732 پیش کرنا عرب پاکستان سے ہجرت کرنے والے احمدیوں کی شکایت کہ کھلم کھلا عبادت کی اجازت نہیں عرفان 648 عرفان کے مقام کی وضاحت 185,186 333,512,675 127
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 خالق اور مخلوق کے تعلق میں عارف کا مقام عزت عزت کے حصول کے لئے خدا کے رنگ اختیار کرنے ہوں گے عزت کے حصول کا طریق عزت بیگ 42 456 285 604 بوسنیا کا صدر، اسلام کے نام پر اس کی الیکشن میں فتح 708 عزیز مصر عشق حقیقی عشق عقل و دانش کو کامل اور پختہ کرتا ہے عصمت انبیاء 813 363 492 اپنا عمل چھوڑ بیٹھے محض دینی علم کچھ چیز نہیں جب تک اس کے ساتھ حسین عمل شامل نہ ہو اعمال کی اصل درستگی عورت 326 379 517 خدا نے جب نبی کو حکم دیا تو اس کا پہلا اثر عورت پر پڑا 444 عورت کو دبانے اور مرد کو کھلی چھٹی دینے سے معاشرہ میں عدم توازن کا پیدا ہونا اسلام کا عورت کے حقوق کی حفاظت کرنا 658 658 عهده / عہدیداران نیز دیکھئے امارت و سیکرٹریان) عہد یداران کو دعوت الی اللہ کے حوالہ سے نصائح عہد یداران کو نصیحت کہ بحیثیت احمدی ہر شخص نصرت کے لئے تیار ہو 94 95 محض دینی علم کچھ چیز نہیں جب تک اس کے ساتھ حسین مانگ کر یا چالاکی سے عہدے لینے میں کوئی عظمت نہیں 601 عمل شامل نہ ہو علماء 379 مذہب کے بگاڑ کے وقت علماء بدترین ہوتے ہیں 623 حضرت علی آپ کی بہادری کے قصے حضرت امام علی تقی علی گڑھ حضرت عمر 557 182 73 60 آپ کے زمانہ میں غیر معمولی فتوحات کا راز اور حکمت 179 آنحضرت کی آپ کیلئے ہدایت کی دعا 644 جماعتی عہدے خوف کا مقام ہیں 601 جماعتی عہدیدار سچائی اور پاکیزگی کی وجہ سے ہر دلعزیز 604 عہد یداروں پر بعض احمدیوں کی تنقید اور حضور کی نصیحت 651 عہد یداروں کی اصلاح کا درست طریق 651,652 بعض مربیوں کے خلاف شکایتیں کہ ان کا رہن سہن بہت اونچا ہے.اس کا جواب مجلسوں میں عہد یداروں اور مربیان کے خلاف باتیں کرنے اور غیبت سے اجتناب کی تلقین 652 653 مجلس عاملہ کو ساری جماعت کے لئے نمونہ بنے کی تلقین 679 تقویٰ کے پیش نظر عہدہ کا ملنا اور عہدے کے بعد ایک دوسری حالت کا پیدا ہونا طاعون کے وقت حضرت عمر کا اسلامی لشکر کو جگہ تبدیل بعض علاقوں میں جماعتی عہدوں کو براہ راست عزت کا کرنے کا حکم اور تقدیر خیر کی طرف بھاگنے کا حکم 648,649 ذریعہ سمجھنا.ایسے لوگوں کو تنبیہ عمل بوجھ ہلکا کرنے کے دو طریق 842 843 856 عہد یدار کے امانت کے حق ادا کرنے کے دور سے 857 اگر دشمن اپنا عمل نہیں چھوڑتا تو مومن کو ہرگز زیبا نہیں کہ وہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 مانگ کر عہدہ لینا ایک مکروہ حرکت ہے 43 902 قادیان واپسی ، آپ کے الہامات کی روشنی میں 28,29 جماعت میں عہدہ سے استعفیٰ ایک مکروہ اور بے ہودہ اسلام کے غلبہ کے متعلق وہ پیشگوئی جس کا تعلق آپ سے ہے 70 جمعہ کے دن اتمام نعمت ہوئی اور جمعہ کا آپ سے تعلق 71 902,903 حرکت سمجھی جاتی ہے، اس کا سبب عہدہ کی سپردگی پر استطاعت کی توفیق اور انکساری کے مفسرین کے حوالہ جات جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ساتھ دعا کی ضرورت 903 مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کا غلبہ ہو گا 73071 حضرت عیسی علیہ السلام (نیز دیکھئے مسیح ناصری 317 آپ کے ناموں میں سے ایک نام جمعہ بھی ہے 72,83 مردوں کو زندہ کرتے وقت اقرار کہ یہ اللہ کے حکم سے ہے 144 آپ کی صداقت کا عظیم الشان نشان، خطبہ جمعہ کا کئی براعظموں میں سنا اور دیکھا جانا عیسائیت کی تاریخ میں حضرت عیسی کی صلیب سے پہلے کی حدیث میں آپ کو سلام پہنچانے کا ذکر اور لدھیانہ میں زندگی کا معمولی سا ذکر عیسائیت 316 ایک مولوی کے سلام پہنچانے کا واقعہ 74 82,83 کشفی طور پر آدھا نام عربی اور آدھا انگریزی میں دیکھنا اور مسیح کے انصار کی تین سو سال کے عرصہ پر پھیلی ہوئی قربانیاں 97 آپ کے ایک خلیفہ کی مغرب کی طرف ہجرت کی پیشگوئی 84 عیسائیت کا ساری دنیا میں وسیع علاقوں میں وارث بننا 316 سورۃ الصف میں مسیح موعود کی جماعت کی صفات کا بیان 88 عیسائیت کی تاریخ میں حضرت عیسی کی صلیب سے پہلے کی زندگی کا معمولی سا ذکر پہلے سو سالوں میں رومن بادشاہوں کے مظالم 316 317 سورة الصف میں امام مہدی کا ذکر ہے مجھے مسیح ناصری سے تشبیہ دی گئی ہے مگر محمد کی برکت سے تکلیفیں بھی کم کی گئی ہیں 88 99 ابتدائی تین صدیوں کے عیسائیوں پر مظالم اور چوتھی صدی آپ کے زمانہ میں بہت کم نصرت کرنے والے تھے میں رومن ایمپائر کا عیسائی ہونا غالب (شاعر) غانا 684 209,214,668,672 471 مگر آج ان کی نسلیں دنیا میں پھیلی ہیں جس کثرت سے آپ کے زمانہ میں تبلیغ ہوئی اور جماعت 100 پھیلی اس کا عشر عشیر بھی کبھی بعد میں نہیں ہوا ان کی مالی قربانی اور ملک میں فاقہ کشی اور مغربی ممالک کی تمام دنیا کے علماء کے مخالفت میں فتاوی لوٹ مار اور ان کے لئے دعا کی تحریک غرناطه امام غزائی غزوہ ( نیز دیکھئے ”جنگ“ و”جہاد“) غزوہ کی تعریف 469 387 360 200 حضرت مسیح موعود کا انداز تبلیغ 100 101 115 تبلیغی ہتھیاروں میں سب سے زیادہ فوقیت دعا کو دی 119 آپ کی مقبول دعائیں سب سے بڑا صداقت کا نشان 119 جوانی میں مسلسل چھ ماہ ایک مرتبہ روزے رکھے حضور کا فرمانا کہ ایک وقت پیدل چل کر بٹالہ چلا جاتا 169 مگر اب پانچ چھ میل چلتا ہوں تو تھکاوٹ ہو جاتی ہے 169 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومهدی آپ کی تحریرات اور ملفوظات کا اثر معہود علیہ السلام والد کی وفات کے وقت الہام 173 238
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 44 آپ کی صداقت کہ پٹواریوں میں سے ولی پیدا کئے 247 آپ کی صداقت کی ایک دلیل.حضرت اماں جان 570 امت محمدیہ میں حضرت مسیح موعود اور امام مہدی کی آمد مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کروائی جانے میں حکمت 666 میں حکمت اور فلسفہ نئی زمین اور نئے آسمان کے قیام کی خوشخبری بشیر اول کی وفات پر آپ کا صبر آپ کے طفیل ان پڑھوں کو بھی ایسا علم عطا ہوا کہ بڑوں بڑوں کے منہ بند کر دیئے 319 327 350,351 363 اس زمانہ میں آپ نے آنحضرت کی سنت کو زندہ کیا 666 آپ کی تحریرات میں علم و معرفت کے راز اور آپ کی تحریرات پڑھنے والے کی کیفیت روس میں آپ کی جماعت کے پھیلنے کی پیشگوئی 679,680 696 تمام بر اعظموں میں خلیفہ وقت کی آواز اور تصویر کا پہنچنا آنحضرت کی غلامی میں عشق اور جنون کا عطا ہونا 363 اور حضرت مسیح موعود کے الہام کا پورا ہونا خدا کے حضور اپنا مقام بنانے کے متعلق آپ کا قیمتی نسخہ 380 آپ کی صداقت کی یہی دلیل کافی ہے کہ آپ نے دور آپ کے ظہور کی قرآن وحدیث کی رو سے پیشگوئی شریا ستارے کا جھکنا 413,414 اول جیسی جماعت پیدا فرما دی آپ کا گھر میں بیت الدعا بنوانا 724 727 735 747 دنا فتدلی کا عام تصور اور آپ کا بیان فرمودہ نیا مضمون 416,417 آپ کے کلام کو ترنم سے پڑھنے پر کیفیت آپ کو اللہ اور آنحضرت کا جیسا عرفان عطا ہوا اس کی آپ کے دور میں اسلام کا کل ادیان پر غلبہ کی پیشگوئی 768,769 مثال کہیں اور نہیں 419,420 420 آپ کی مخلوق کے لئے بے قراری اور تڑپ بعض غیر احمد یوں کا علیحدگی میں حضرت مسیح موعود کی صداقت کا اقرار مگر بیعت نہ کرنا آنحضرت کی پیروی میں آپ کا تجل 444 433 آپ کا نبی کریم کی غلامی کا دعویٰ 795 796 آنحضرت کے عشق میں آپ کا عربی، اردو، فارسی کلام سارے عالم میں اس کی نظیر نہیں آپ آنحضرت کے تابع نبی ہیں آپ پر اعتراض کہ ایک وقت آیا کہ میری مریمی حالت ہو 796 صاحب الهام بزرگ جنہیں خدا نے الہاماً فرمایا کہ تبتل گئی...پاکستان میں مجلس سوال وجواب کا واقعہ 810,811 440 کے معانی حضرت مسیح موعود سے دریافت کرو بار بار تکرار سے ایک مضمون کو بیان کرنے کا سبب 860,861 آنحضرت کی غلامی میں آپ نے تدلی کا نظارہ دکھایا 458 اپنے آپ کو ایک قد آور درخت کے طور پر بطور مثال ذکر فرمانا 902 آپ کے زمانہ کی مالی قربانی اور جماعت کی آج کی مجموعی قربانی جماعت احمد یہ کامالی نظام آپ کی صداقت کی دلیل 919 464 صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب آنحضرت اور اللہ کے عشق میں فنا، آپ کا عرفان 476 جلسه سالانه قادیان کے سلسلہ میں ان کی مساعی آنحضرت کے ساتھ عشق میں آپ کا مقام وحدانیت 486 حضرت مولوی غلام رسول را جیلی را مسیح ناصری کے بیان کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کا دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں قرب الہی کے غیر معمولی نشانات طرز کلام اور تحریر کا انداز 489 کا عطا ہونا آپ کی مہمان نوازی کے واقعات 497 506 حضرت سیٹھی غلام نبی آپ کی مہمان نوازی میں حضرت اماں جان کا ساتھ 498 24 193
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 45 غلامی حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی کی روایت کے راوی 505 فسادات میں مغربی ممالک اور تیسری دنیا کی پولیس کارد عمل 832,833 غلامی سے متعلق نبی کریم کی تعلیم اور عالم اسلام کا اسے فقہ نظر انداز کرنا 806,807 فقہی مسائل میں اختلافات کی وجہ 160 غیبت غیبت کے متعلق قرآنی تعلیم 651 بعض لوگوں کا بیوی بچوں کو ساتھ لے کر گندی فلمیں ف،ق دیکھنا.ایسے افراد کو تنبیہ 817,818 فائزہ صاحبہ (دختر حضرت خلیفہ مسح الرابع) 238, 236 اپنی والدہ کے متعلق ایک رؤیا فارس فاطمہ بیگم صاحبہ 237 316,552 یہ صاحبہ فہیم بھٹی صاحب 244 ساری دنیا میں خطبات کی ٹیسٹس کے انتظام کو پھیلانا 714 فیملی سمیت USSR میں وقف کے لئے پیش کرنا 714 ان کے متعلق طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ کی رؤیا فال 245 حضور گا اپنی بیگم صاحبہ کی بیماری پر قرآن کریم سے فال نکالنا236 فتح کا اسلامی تصور فتوى 16,17 درست مزاج والے کو فتوی کی ضرورت ہی نہیں رہتی 660 امام فخر الدین رازی فراست مومن کی فراست کا حال 138 72 533 فرانس41,357,358,365,378,690,862,931 فیصل آباد قائد اعظم صاحب فراست انسان ، ملاں کا اعتراض کہ غیر مسلموں کی طرح تھا، اس کی تردید 466 اس بات پر مولویوں سے ٹکر لینا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دو ہم تمہاری جوتیاں جائیں گے قائد اعظم اتا ترک سے زیادہ عظیم ہے 830 830,831 831 جنازہ نہ پڑھنے کے حوالہ سے جماعت پر اعتراض 865 قادیان 3,5,6,9,15,23,24,25,45,53 122,139,140,234,235,236,400,470 499,500,504,506,568 روشنی میں پاکستانیوں کا قادیان سے واپسی کا منظر.ایک واقعہ کی عالمگیر جماعت احمد یہ ہمیشہ قادیان اور اس کے درویشوں 7 چھوٹی سی جماعت تبلیغ کے حوالہ سے اسے نصائح فرانس کی جماعتوں میں بیداری فرعون فساد 348 377 315 کی ممنون احسان رہے گی قادیان میں واپسی کے حوالہ سے جماعت کو پیغام 8 17 حضور کی قادیان آمد پر اہل قادیان کی وسعت حوصلگی 21 جلسه سالانه قادیان کی کامیابی پر کارکنان کا شکر یہ اور
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 ان کی قربانیوں کا تذکرہ 46 23 قادیان کے ہسپتال میں مریضوں کا یہ کہہ کر آنا کہ یہاں جو جلسہ قادیان کے کامیاب انعقاد پر حکومتی مشینری کا تذکرہ 25 شفا میسر ہے وہ کہیں اور نہیں سکھر کے دو اسیرانِ راہ مولیٰ کی رہائی جلسہ سالانہ قادیان جماعتی اداروں کی تحویل اور ہندوستانی عدلیہ کے انصاف کی ایک برکت ہے 27 27 کی تعریف 56 58 60 قادیان کا یہ جلسہ تاریخ ساز ہے.حضرت مسیح موعود کی قادیان میں تعلیمی اداروں کی بحالی کے لئے دعا کی تحریک 58 پیشگوئیوں کے موافق خدافضلوں کی ہوا چلائے گا قادیان میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے حضور کا نقشہ 59 قادیان کا ایک بڑا مسئلہ وہاں کی تھوڑی آبادی ہے 28 تعلیمی لحاظ سے قادیان کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے قادیان واپسی، مسیح موعود کے الہامات کی روشنی میں 28,29 لئے دعا کی تحریک قادیان کی عزت، عظمت کو بحال کرنے کے لئے ساری قادیان کو ساری دنیا میں علم کا مرکز بننا ہے اور خدا نے اس دنیا کی جماعتوں کو محنت کرنی ہوگی کام کے لئے اسے چن رکھا ہے قادیان کو Industrialize کرنے کی ضرورت ہے 31 پارٹیشن سے قبل قادیان کے تعلیمی اداروں اور طلباء کا معیار ہندوستان اور باہر کی دنیا کے احمدی صنعت کاروں کو قادیان میں صنعت کاری کی تلقین اور اس سلسلہ میں حضور کی ایک رؤیا 33 عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ سپورٹس کمپلیکس جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر قادیان میں غیر معمولی کی تجویز 31 34,35 اور احترام 60 60 60 62 خرید وفروخت کا اقتصادی لحاظ سے ذکر قادیان کے سفر سے آنے والوں کے قصے سننے پر بعض کا سکھوں کی حضور سے ملاقات اور ان کے تاثرات 35,36 حسرت کا اظہار اور ان کی قادیان کے لئے منصوبہ بندی 383 قادیان کی بچیوں سے شادی کی تحریک قادیان میں گزشتہ سال وقف جدید کے سال نو کا اعلان باہر کے احمدیوں کو قادیان میں ملکی قوانین کو پیش نظر رکھتے کرنے کی توفیق ، قادیان کے جلسہ کے شاملین کو سلام 917 37 39 قادیان سے جلسوں کا آغاز ہوا اور قادیان واپسی کے ہوئے جائیدادیں بنانے کی اجازت باہر کے لوگوں کو ہدایت کہ قادیان میں جائیداد خریدنے آثار نظر آرہے ہیں کے حوالہ سے کوئی سود اوہ براہ راست نہ کریں قادیان کے پھیلاؤ کی جماعتی منصوبہ بندی 40 قادیان کے جلسہ کا آغاز 41 قرآن کریم 917 935 3 32 جلسہ کے ایام میں قادیان کی سکھ آبادی کا اچھا برتاؤ 41,42 امن عالم کے قیام کے لئے قرآن کا نسخہ جلسہ کے موقع پر مہمان نوازی اور سکھوں کی فراخ دلی 42 خدمت خلق کے متعلق قرآن کریم کا اعلیٰ تصور جلسہ کے کامیاب انعقاد پر حکومت پاکستان اور ہندوستان ہر آیت کو شان نزول کے ساتھ محدود کرنا درست نہیں 49 قرآن سے ترقی یافتہ ممالک کے تربیتی مسائل کاحل 65 کا شکریہ آئندہ صدی میں بیداری کے حوالہ سے قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کے لئے منصوبہ بندی 43 55 ہر فرد کو قرآن کے مطابق تبلیغ کی تلقین تدبیر سے مراد ، اس کا قرآن میں ذکر 96 107 قادیان میں جدید ہسپتال کے قیام کا منصوبہ اور تکمیل 55,56 بعض سائنسدانوں کا تحقیق پر مغرور ہونا مگر قرآن نے وہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 راز چودہ سو سال پہلے بتا دیے تھے مبر کے متعلق قرآن کریم کی ایک دعا قرآن کے آغاز میں اعلیٰ درجہ کے متقیوں کا ذکر قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ہدایات اور فرقان 47 108 117 128 163 164 آج تک 80 سے سومن گندم فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ ہے مگر قرآن کا سات سو تک کا ذکر کرنا قرآن سے امتی نبی کی گواہی 769,770 796 قرآن میں مومنوں کے لئے بطور مثال آسیہ کو کیوں چنا گیا، اس کی حکمت 810,811 قرآن کریم میں تکرار بے وجہ نہیں تینوں تنظیموں کو اس طرف توجہ دلا نا کہ کم از کم اس نسل کو قرآن میں دیگر ادیان پر غلبہ کے پیش نظر سارے مسلمانوں صحیح تلاوت قرآن ہی سکھا دو سورۃ الدخان کا مضمون 175 221 کو بحیثیت ایک جماعت کے خلیفہ قرار دیا گیا ہے 850 خدا کا نزول قرآن اور آنحضرت کو شریعت کا نگران قرآن نے انسان کی ساری ضرورتیں پوری کر دی ہیں 225,226 مقرر کرنے کو امانت کہنا قرآن میں ظلم کی اصطلاح کا ہر قسم کی تاریکی پر اطلاق 278 قرآن کا شریعت ، مذہب کے ساتھ دنیاوی حکومت کو 860 سارے قرآن میں ایک بھی تضاد نہیں قرآن کی آیت پر غور کرنے کا صحیح طریقہ قرآن کی سچی اور قطعی تاریخ لطیف ضمائر کی تبدیلی سے مضمون میں تبدیلی حضرت آدم کی قرآن میں مذکور دعا 284 306 316 324 بھی امانت قرار دینا 871 قرآن میں عدل پر مبنی طرز حکومت کا بیان ہے 871,872 قرآن میں دو قسم کے ابتلاؤں کا ذکر انتقام کے متعلق انصاف پر مبنی قرآنی تعلیم 878 883 50 340 قرطبی سپین کے محلات میں لکھوکھہا بار قرآنی آیت لا غالب حضرت قریشی محمد عثمان صاحب الا اللہ کو کندہ کیا جانا عائلی خرابیوں کو دور کرنے سے متعلق قرآنی دعا دعا سکھانے کے حوالہ سے قرآن کا اسلوب 387 397 397 404 قرآن میں جنت کے بیان کا انداز قرآن کریم کے مضامین ہر چھوٹے بڑے کے لئے ہیں 536 جھوٹ کے بُت کے متعلق قرآنی حکم 593 دنیا میں بعض بڑی جنگوں کی قرآن کی روشنی میں وجوہات 624 قرآن میں توحید کے بعد سب سے زیادہ زور عبادت پر ہے 633 غیبت کے متعلق قرآنی تعلیم قرآن نے خیانت کے ہر پہلو کو بیان فرمایا ہے قرآن میں بھوک کے فتنہ کا ذکر 651 698,699 699 حضرت مسیح موعود کا انہیں زادِ راہ دینا قضاء 498 قضائی معاملات میں چرب زبانی سے اجتناب کی نصیحت 588,589 قضاء کے فیصلوں کا احترام 716,717 فیصلوں کو نہ ماننے پر سزا اور پھر معافیوں کی درخواستوں کا آنا قلعہ صوبہ سنگھ سیالکوٹ قوم 716,717 247 وہ تو میں جو با مقصد ، صبر کرنے والی منتظم اور اعلیٰ مقصد کے لئے قربانی کرنے والی ہوں اگر کسی ملک میں دس فیصد تک قرآن میں خائن کی سفارش سے آنحضرت اور جبریل ان کی تعداد ہو جائے تو ضرور غالب آ جاتی ہیں 201,202 701 کو منع فرمایا جانا قرآن کریم کو ترنم کے ساتھ پڑھا کرو (حدیث) 746 خود غرضی کی سارے عالم میں لہر کا اٹھنا 270 اقوام کی ترقی کا عقل اور حکمت کے ساتھ تعلق 279,280
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 48 قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کے مطالعہ کی تلقین 284 قوموں کی ہلاکت کے فیصلہ کی وجوہات جن اقوام میں کثرت سے خرابیاں پھیل رہی ہوں تو 306 نیکوں اور بدوں کے کشف اور ان میں فرق 355 36,39,794 خدا مصلحین اور قوم کو پاک تبدیلی کا موقع دیتا ہے 307 جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی قلبی کیفیت اور قوم کے بچانے کے لئے محض دعا نہیں ، تدبیر کو بھی انتہا اور ان کی تعداد کا تذکرہ تک پہنچا نا ضروری ہے 308 14 وہاں جماعتی سکولوں کا اعلیٰ روایات کے ساتھ چلنا 63,64 قوموں کی ہلاکت اور مصلحین کا کردار 311,312 | کفاره وہ قوم جو ہلاکت کے قریب دکھائی دے رہی ہوں اس میں عیسائیوں کا کفارہ کا عقیدہ داعیان الی اللہ کے لئے نصیحت اور پیغام قوموں کی ہلاکت اور ان کے بچائے جانے کے حوالہ سے قضاء وقد ر کا مضمون 326 کلام طاہر کلام محمود 328,329 کلکتہ قوموں کی ہلاکت سے بچائے جانے کا قرآنی نسخہ 336 کلیات اقبال قومیت کے تصور سے بچنے کی تلقین 386 کلیات ظفر 483 685 579,612 500 839 مکر و فریب کرنے والی قوم کو تین ذرائع سے سزا ملتی ہے 610 قوم کے کردار کو بدلنے پر اللہ کا اپنی رحمت کا اسلوب بدلنا 889 کنری ضلع تھر پارکر حضرت کنفیوشس قیامت تین شخص جن سے خدا قیامت کے روز جھگڑے گا 806 سید کوثر شیرازی صاحب قیدی کوریا کویت کھانا قیدیوں کے ساتھ رابطہ کا اثر.واقعات کی روشنی میں 213 گ مگ کائنات 670 27,28 316 885 791 931 784 نظر نہ آنے والے ستونوں کے بغیر کائنات کے چلنے سے مراد 107 کھانے کے آداب، اسلام میں ایثار کی اعلیٰ تعلیم 522,523 کرائیڈن کراچی حضرت کرشن علیہ السلام 243 27,495,510,890,901 8,316 899 379,420,421,591 آپ پر مکھن چوری کرنے کا الزام کھانے کے ضیاع کو ختم کرنے کے متعلق اسلامی تعلیم 527 امریکہ میں کھانے کا ضیاع اور اس کا اخلاق پر برا اثر 527 کھیل قادیان کے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا معیار قادیان میں اس وقت کھیلوں کی طرف کوئی توجہ نہیں ستی نوح عبادت کا ایک انداز جو آپ نے آنحضرت سے سیکھا 599 کیرالہ کیلگری 61 61 6 935
927 497 247 497 208,495,890 243 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 کینیڈا 49 82,469,717,722,935 گھٹیالیاں (سیالکوٹ) 723 گی آنا کینیڈا کے جلسہ اور نئی مسجد کا افتتاح کینیڈا کے خرچ پر جمعہ کی عالمی نشریات اور جماعت کی خواہش 729 جماعت کینیڈا کو عبادات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے 732 کینیڈا میں شاندار مسجد کی تعمیر اور امریکی احمدیوں کا لاله شرمیت اظہار شرمندگی گالی لالہ ملا وامل 771,772 لاہور لم عادتا گالیاں دینے والے کا حضرت مصلح موعودؓ کے سامنے لیقه احمد 537,538 لڑ پچر بے خیالی میں گالیاں دینا جلسہ کے ایام میں گیہوں کی مجالس سے پر ہیز کی نصیحت 509 سیکرٹریان اشاعت کولٹریچر کے حوالہ سے تفصیلی نصائح 856852-8500848 قرآن میں گپ شپ کی مجلس لگانے سے ممانعت 510 پاکستان سے ہجرت کے بعد آٹھ سالوں میں لٹریچر کی رستوں میں گپیں لگانے سے ممانعت گپ شپ اور جھوٹ کا تعلق 522 541 556 848,849 اشاعت میں غیر معمولی اضافہ جماعتی لٹریچر کی بکثرت اشاعت اور سیکرٹریان اشاعت کی طرف سے غفلت 849,850 863 865 537 537 541 بعض ملکوں سے اطلاعیں ملنا کہ قرآن کریم فرانسیسی سٹاک میں بالکل نہیں رہا ربوہ کے مرکزی علماء کو مخالفین کے لٹریچر کا جواب دینے 645 495 496,520,530,532 935 454 536 گلف گناه استغفار کے بغیر گناہ سے نجات ناممکن ہے دنیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا گناہ گناہ کر کے خود گناہ سے پردہ اٹھانے پر نبی کریم کی لعنت 547 کے حوالہ سے نصیحت کسی پر گناہ کا الزام لگانا اور خدا کی ستاری کا پردہ 549 ایک موقع پر آنحضرت نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں بڑے گناہ یہ ہیں، اللہ کا شریک ٹھہرانا 562 587 لغويات لغو باتیں جھوٹ کی ایک قسم ہے لغویات سے بچنے کی تعلیم لغو مجالس اور گپ شپ لقاء باری تعالیٰ سے مراد لکھنو حدیث کی رو سے وہ بات جس سے اللہ گناہ مٹادیتا ہے 736 حدیث کی رو سے گناہ کرتے وقت مومن کا مومن نہ رہنا 810 لقاء گوئٹے مالا گوٹھ علم دین سندھ گوجرانوالہ 927,930 27 794,909 | لندن گورنمنٹ کالج لاہور 60,61,816 | لنڈن (اونٹاریو )
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 حضرت لوط علیہ السلام لوط کی قوم کو ہلاکت سے بچانے کے لئے فرشتوں کی حضرت ابراہیم سے گفتگو 306,307 50 50 دنیا کی لذتوں سے روگردانی کی قرآنی تعلیم 296,297 دنیا طلبی کے پیچھے پڑنے والوں کی زندگی سے سکون کا اٹھنا،معاشرہ کا دکھوں میں مبتلا ہونا کافروں کے لئے ان کی بیوی کی مثال اور اس کی تفصیلات مار کھم نہ بتانے میں حکمت لیلة القدر 818,819 837 | ماسکو 298 935 470,771,774,926 وہاں وقف عارضی کے لئے کرایہ پر ایک فلیٹ اور دیگر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اسے تلاش انتظامات کا تذکرہ 391,932 کرنے کا حکم لیلۃ القدر کی پہچان کی علامات لیلۃ القدر کے مختلف معانی 216 217 722t217 مالی قربانی / مالی نظام خدا کی رضا کی خاطر نیک کاموں میں خدا کی طرف سے اموال کی ہر ضرورت کو پورا کیا جانا اور برکت پڑنا سورۃ العصر میں لیلتہ القدر کا ایک اور انداز سے ذکر 222 جو غریب احمدی خدا کی خاطر قربانیاں پیش کرتے ہیں خدا سورۃ الدخان میں لیلۃ القدر کے مضمون کی حکمت 224 لیلۃ القدر کی پہچان کے حوالہ سے قادیان میں صحابہ اور عارف باللہ لوگوں کے بیانات لیلۃ القدر کا ساری زندگی سے تعلق 226 227 ان کے اموال میں برکت دے گا آنحضرت 1/3 سے زیادہ مالی یا جانی قربانی کی اجازت اجازت نہیں دیتے تھے 54 64 162 خدا کے فیض کے جلووں کو دیکھنے پر احمدیوں کی مالی قربانیوں لیلتہ القدر کے ذریعہ حاصل کردہ نور کو سنبھالنے کے لئے استغفار کی ضرورت آنحضرت کالیلۃ القدر کے وقت ظہور لین دین لین دین میں بددیانتی کا اثر 228 281 اور بنی نوع کی ہمدردی میں پہلے سے زیادہ کشادگی 451 مالی سال کا اختتام اللہ کی رضا کی خاطر مالی قربانی مومنوں کے خرچ کے دو مقاصد 459 460,463 460,461 مالی قربانی کے لئے قرآن میں لفظ ربوہ کا پُر حکمت استعمال 461 مالی لین دین میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت 511 511 لین دین کے معاملات میں بکثرت حضور کو خطوط کا آنا 600 مالی قربانی اور ثبات کا مضمون احمدیوں کا ایجنٹوں سے دھوکا کھانا اور حضور کا دکھ 618 حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی مالی قربانی اور جماعت ماکسن ماده پرستی 935 کی آج کی مجموعی قربانی غریب صحابہ کی مالی قربانیاں اور آج ان کی نسلوں اس زمانہ میں دہر بیت اور مادہ پرستی کا اپنی طرف کھینچنا 151,152 کی حالت ساری دنیا پر مادہ پرستی کا غلبہ مادہ پرستی کے ابتلا کی وجہ سے احمدیوں کا جماعت سے 294 462 464 464,465 غریب صحابہ نے جو دو پیسے دیئے آج دو کروڑ بھی اس مقام کو نہیں پہنچ سکتے کٹنا اور نیکی کے کاموں سے دور ہوتے چلے جانا 295,296 مالی سال کے اختتام پر اعداد و شمار کا ذکر 465 465,466
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 51 ایک معاند احمدیت کا جماعت کی مالی قربانی کا اعتراف 466 مبشر احمد چوہدری صاحب مبلغ سلسلہ کا نو ، نائیجیریا شدید مخالفت میں جماعتی چندوں میں غیر معمولی اضافہ 466,467 ان کی شہادت پر ان کا ذکر خیر قادیان کے غریب لوگوں کی قربانیاں اور ان کی روح 468 ان کی وفات کے متعلق ان کی اہلیہ کا خواب بیرونی جماعتوں کی مالی قربانی میں ترقی 468 مجلس 912 913 قربانی پیش کرتے وقت روح کا ہونا ضروری ہے 468,469 قرآن میں گپ شپ کی مجلس لگانے سے ممانعت 510 ہندوستان کی جماعتوں کو مالی قربانی میں اپنا کھویا ہوا مقام وہ مجالس جن سے نبی کریم نے منع فرمایا ہے حاصل کرنے کی تلقین مالی قربانی کے حوالہ سے جماعت کی کامیابی اور نظام جماعت کی استقامت کا راز مالی قربانی اور دیانت کا تعلق آڈٹ کے نظام کو مستعد ہونا چاہئے 470 472 472 473 531 جلسہ کے ایام میں گپوں کی مجالس سے پر ہیز کی نصیحت 509 لغو مجالس اور گپ شپ مجلسوں میں عہد یداروں اور مربیان کے خلاف باتیں 541 دنیا میں جماعت کے مالی نظام جیسا کوئی نظام نہیں 718 جماعتی اموال غصب کرنے والوں کی سزا 718 کرنے اور غیبت سے اجتناب کی تلقین مجالس سوال و جواب کا فائدہ عبادت کے حوالہ سے محسن کی تعریف 653 677 290 ہر مالی تحریک پر جماعت کا غیر معمولی جوش سے حصہ لینا 766 حدیث کی رو سے محسن کی تعریف اور مختلف معانی 290,291 مالی قربانی کے نتیجہ میں غیر معمولی برکتوں کا ملنا ہر مالی قربانی کے بعد خدا کا جماعت سے سلوک 769 حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم 770 آپ کے فیوض میں سے ایک یہ ہے کہ آخرین کو اولین مالی قربانی کرنے میں وسعت رفتہ رفتہ عطا ہوتی ہے 772 سے ملانے والے ہیں غیر معمولی تنگی کے باوجود مالی قربانیوں میں شمولیت اور آپ کو خوشخبری کہ ابتدا میں تم ایک ہو گے تو دو پر غالب خدا کا غیر معمولی توفیق عطا فرمانا کینیڈا کے ایک احمدی کا واقعہ جسے چندہ کے لئے غیر معمولی طور سے رقم ملی 779,780 جماعت احمدیہ کا مالی نظام حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل مالی قربانی میں جماعت احمدیہ کے گراف کا اوپر کو جانا جبکہ دیگر اقوام کا نیچے کو جانا مبارک احمد صاحب، شیخ مبارک احمد نذیر صاحب ان کا ذکر خیر مبشر احمد صاحب، ڈاکٹر 780 919 919,920 715 935 240,241 52 78 آؤ گے پھر اس میں تدریجی ترقی ، اس میں حکمت سورۃ الصف میں سب سے اول اور سب سے آخر میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کا ذکر ہے، احمد کی پیشگوئی 89 سب سے بڑھ کر معصوم مگر ہر لمحہ استغفار میں گزرا آپ کے مخالفین کے تین طرح کے منصوبے 125 124 تقومی آنحضرت کی طرف بڑھنے کا نام ہے آنحضرت کا ازواج کے ساتھ سلوک میں تحمل اور حوصلہ 135 آپ نے کبھی بد خلقی کا مظاہر ہ نہیں کیا آپ کے اعجاز سے امہات المؤمنین سب دنیا کے لئے نمونہ بن گئیں آپ گبطور شاہد 90 130 135 137 142,143
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 52 آپ پہلوں اور بعد والوں کے لئے بطور مبشر ونذیر 143,144 آپ کو سورج قرار دینے جانے میں حکمت داعیا الی اللہ کا محاورہ صرف آنحضرت کو عطا کیا گیا 144 آپ کا فجر بن کر دنیا پر طلوع آپ کا دعوت الی اللہ کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرنا 145 آپ کی زندگی کا مقصود و مطلوب آپ کے خاتم النبین ہونے سے مراد خاتم النبیین کی روحانی نسل سے ایک عظیم الشان نبی کے پیدا ہونے کی خوشخبری خاتم اور کوثر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 145 147 147,148 218 218,219 220 سورۃ الدخان میں آنحضرت کی بعثت ثانیہ کا ذکر 221 آنحضرت کا دجال سے ڈرانا آپ کے نور نے لازماً غالب آنا ہے 221 223 آپ کا اور کلام الہی کا نور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 226 فیض مصطفے نا پیدا کنار ہے اس کی حد بندی ممکن نہیں 148 آپ کا نور لوگوں کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا 228 خدا کی طرف بلانے کے تمام ذرائع آپ کو بڑی 148 آپ کا ہر لمحہ استغفار میں گزرتا آپ کا بکثرت استغفار کرنا اور اس میں حکمت 228 253 شان وقوت کے ساتھ عطا فرمائے گئے آپ کے فیض کو بنی نوع انسان تک پہنچانے اور وسعت حضرت عائشہ کو آنحضرت کی ناراضگی کا ساری عمر دکھ رہنا 258 148 آنحضرت نے باوجود پیار کے کبھی انہیں اصولوں کو پذیر کرنے کے لئے مومن کی ذمہ داریاں آپ کی مہر کے تین نقوش جن کا ہر داعی الی اللہ میں قربان کرنے کی اجازت نہیں دی ہونا ضروری ہے آپ کے انذار کا انداز 149,150 153,154 259 آنحضرت کے اسوہ کی روشنی میں قوام کی حقیقت 259 آپ نے کبھی محبت پر اصول کو قربان نہیں کیا 259 آپ کی خاتمیت کے بے مثل ہونے کے دو معانی 155 آپ کا فرمانا کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا ہے 271,325 155 162 سفر طائف کے دوران آپ سے ظالمانہ سلوک اور آپ کا عفو کا سلوک اور آپ کی دعا نبی کریم بطور سراج منیر ، اس سے مراد آنحضرت ہر ماہ تین نفلی روزے رکھتے تھے آنحضرت 1/3 سے زیادہ مالی یا جانی قربانی کی اجازت قوم کی ہلاکت اور آپ کا اسوہ حسنہ، حضرت یونس کے 162 اسوہ سے فرق اجازت نہیں دیتے تھے آپ کی ادنی سی حرکت و سکون خدا کی خاطر ہوتا تھا، یہاں فتح مکہ کے موقع پر آپ کی شان یوسفی تک کہ بیوی کے منہ میں لقمہ بھی خدا کی خاطر ڈالتے 168 آنحضرت کالیلۃ القدر کے وقت ظہور 273 273,274 275 281 دعا کے متعلق آنحضرت کو ہدایت کہ خدا سے کھلا مانگو ساری دنیا کی اصلاح کے لئے آپ کا مبعوث ہونا 285 آپ کی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں مردہ بستیوں تھوڑا نہ مانگو 178 کا زندہ ہونا آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں کامیابی کا تناسب اور بعد کے زمانوں میں غیر معمولی کامیابی وسعت اور گہرائی میں رحمۃ للعالمین سے بڑا لقب کسی کی مماثلت 201 دوسرے نبی کو عطا نہیں ہوا رمضان کے آخری عشرہ میں آنحضرت کا کمر کس لینا 216 جس کثرت سے آنحضرت کے ذریعہ بنی نوع کو بچایا آپ کی ذات اور لیلۃ القدر 218 جا نا مقدر ہے اس سے پہلے کوئی ایسی مثال نہیں 308 312 321
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 53 آپ کی قوم کے بچائے جانے کی قرآنی پیشگوئی 325 آنحضرت کی دعاؤں کی قبولیت کا راز 334 رحمة للعالمین بننا تبلیغ کے حوالہ سے آنحضرت کو خدائی حکم اور آپ کا طریق 345 آپ کے دنو کی کیفیت صحابہ کی آنحضرت سے محبت اور عشق کا اظہار.آپ کی رفیق اعلیٰ تک رسائی اور پھر اس کے نتیجہ میں 424 425 آپ کے سامنے اونچی آواز سے بولنے سے ایمان ضائع ایک صحابی کا واقعہ اپنی ذات میں اسوہ محمدی کو زندہ کر کے دکھائیں آپ کی وہ زندگہ جس کا ہر غلام محمد سے تعلق ہے آنحضرت کی زندگی دو طریق پر 345 347 347 348 ہونے کا خطرہ 429 آپ کے اوپر استغفار کی چادر جس کے نتیجہ میں افق اعلیٰ کا مقام نصیب ہوا 432 قرآن میں صرف آپ کے لئے نزول کے لفظ کا استعمال 435 باوجودعُسر اور یتیمی کے آپ کے سپر د دنیا کا عظیم ترین آنحضرت کی ذات میں تقتل کا عملی نمونہ 448,449 کام کیا جانا آنحضرت کا گیارہ بیٹوں کی وفات پر صبر 350 350 آنحضرت کامل متبل اور کامل متوکل اس اعتراض کارڈ کہ آپ اسی لئے اتنا استغفار کرتے کیونکہ آپ بہت گنہگار تھے 451 ایک عورت کا بیٹا فوت ہو گیا، وہ اس کی قبر پر کھڑی 454 457 475,476 گریہ وزاری کر رہی تھی کہ آنحضرت نے اسے صبر کا فرمایا 351 آپ کا بنی نوع انسان کی طرف تدلی آپ نے ابو جہل جیسے دشمن کو بھی حق بات کہی 353,354 آنحضرت بطور وسیلہ اور شفیع اس شبہ کا جواب کہ بعض اخلاق آنحضرت نے لے لئے ہر نبی اپنی اپنی قوم کے لئے شفیع مگر آنحضرت نسب اور بعض چھوڑ دیئے آپ مکارم اخلاق پر فائز تھے آنحضرت کولوگوں کا عشق محمد ربہ کہنا آپ بچپن سے ہی صدیق، امین اور صائب الرائے مشہور تھے 355 355 360 360 سے بلند مقام پر ہیں 482,483 آنحضرت کے شفاعت کے فیض سے حصہ پانے کی تلقین 484 آپ کے دل میں بنی نوع کے لئے ہمدردی اور آپ کا کل عالم کے لئے شفیع ٹھہرنا 491 آنحضرت کا نماز کے لئے گھر والوں کو اٹھانے کا انداز 534 ہجر اسود نسب کرتے وقت آنحضرت کا فیصلہ اور اس میں آپ قرآن کی طرح کھلی اور چھپی کتاب چھپا ہوا مضمون 360,361 آپ مقصد کو پانے کے بعد دوسروں کو اس کی طرف بلانے میں سب سے سر فہرست 536 آنحضرت کی گندم میں ملاوٹ کر نیوالے پر لعنت 547 آپ کے فرمان کی رو سے منافق کی پہچان 567 نبی کریم کا بلند ترین افق آپ کا بلند ترین افق اور معراج آپ کا دو اور تدلی 408 409 415,416 418,419 ایک غیر مسلم سردار سے گفتگو کے دوران ایک نابینا کا آنا اور سورۃ عبس کا نزول تقومی کے انداز محمد سے سیکھنے ہوں گے آزمائشوں کے وقت سیرت کے مطالعہ کی نصیحت 582,583 584 585 حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں آپ کے دنو اور تدلی پاکستان میں روز مرہ کی زندگی میں قتل کا عام رواج اور کی تفصیل 434 آنحضرت کی تعلیم 585,586
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 54 جو امانت آپ کے سپرد ہوئی اسے آپ نے مانگا نہیں 601 آنحضرت کے سب سے افضل اور نبیوں کے سردار مذہبی مکر سب سے زیادہ آپ کے خلاف استعمال ہوا 625 ہونے کا تقاضا آپ کا جمال اور جلال 628 خدا کا نزول قرآن اور آنحضرت کو شریعت کا نگران آنحضرت کا جنگ بدر میں ایک مشرک سے مدد نہ لینا 629 مقرر کرنے کو امانت کہنا 851 860 آپ کے خلاف جھوٹی باتیں مشہور کیا جانا اور بڑھیا خدا کا آپ کو مسجد ضرار میں نماز پڑھنے سے روکنا 870 عورت کا واقعہ جس پر آپ کا جادو چل گیا ہر وقت نماز میں دل کا انکا ہونا آپ کی عبادت کی کیفیت آپ کا دو عمروں میں سے ایک عمر خدا سے مانگنا کا متوازن مزاج 630 640 640,732 644 658 آپ کو بچپن سے امین کہا گیا ، اس میں حکمت آپ کی نبوت پر نہ کوئی ڈاکہ ڈال سکتا ہے اور نہ قیامت تک کوئی ایسا پیدا ہوگا دنیا میں کوئی نہیں جس کی قوم نے اسے نبوت سے قبل امین کہا ہو سوائے محمد کے 872 795 873 بیت المقدس کو چھوڑ کر خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم اور بعض لوگوں کی طرف سے فتنہ اور امیۂ وسطاً کے مضمون کے ساتھ اس کے ذکر کا سبب آپ قبلہ نما ہیں 664,665 665 خدا کے پاک بندوں کو نصرت الہی ملتی ہے.آنحضرت کی مثال آپ کا انقلاب آفریں دور قرآنی اصطلاح میں ساعتہ تھی ، اس میں توحید کا قیام 885 881 نماز کے وقت حضرت امام حسن اور حسین کا آنحضرت تمام انبیاء کے بالمقابل آپ کے امین ہونے کی کیفیت 899 کے کندھوں پر سوار ہونا 665 عواقب سے بے پرواہ ہوتے ہوئے امانت قبول کرنا 902 آنحضرت کے دل میں دعوت الی اللہ کی تڑپ 678,679 محمد اشرف مہر صاحب آف جلہن ضلع گوجرانوالہ بھوک سے پناہ کی آنحضرت کی دعا اور اس کا فلسفہ 698 ان کی شہادت پر ان کا ذکر خیر قرآن میں خائن کی سفارش سے آنحضرت اور جبریل محمد حسین چیمہ صاحب، کیپٹن کو منع فرمایا جانا 701 آنحضرت نے مکہ میں رہتے ہوئے جہاد کی اجازت نہیں دی 708 آپ کی سختی اور نرمی میں توازن اور حکمت آپ کی نمازوں کی کیفیت 721 737 ان کا گورکھی زبان سیکھنا قادیان میں ان کی وفات اور ان کا ذکر خیر چوہدری محمد عبد اللہ چوہدری محمد علی صاحب حضور کی یاد میں آپ کا ایک شعر آپ کا ایک شعر آخری بیماری کے دوران آپ کا نمازوں سے عشق 738 پیر کا دن تھا جب آپ کی وفات ہوئی 739,740 آپ کی آخری خواہش، پردہ اٹھا کر نمازیوں کو دیکھنا 740 مولوی محمد صاحب مرحوم آنحضرت کا سادگی کے باوجود صفائی کا اعلیٰ معیار 753 آنحضرت نے کسی کو نہیں فرمایا کہ تم مسلمان نہیں محمد کے دل میں سچی ہمدردی کے سرچشمے پھوٹے محمود 799 محمود احمد چیمہ صاحب، چوہدری 839 مدینہ 909 43 43,44 247 575 911 528 6 245 48,50,51,806
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 مڈل ایسٹ مذہب ہندوستان میں مذہبی آزادی 55 37 | مزاج 9 یہ جماعت کا مزاج ہے کہ اس نے خدمت کرنی ہے اور اس مزاج کود نیا میں روشناس کروایا جاتا ہے ہندوستان میں مذہب کو دوسروں پر ٹھونسنے کی شدیدرو 63 کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان حاصل نہیں کر سکتا روحانی جہاد اور مذہبی جہاد کے مقاصد اور دونوں میں فرق 182 مذہبی یا غیر مذہبی قوموں کی تاریخ میں صبر آزماوقت یا جب تک وہ مزاج میں جھوٹ ترک نہیں کر دیتا اسلام کا مزاج ہر پہلو سے متوازن ہے جب مقصد پر یقین سب سے نمایاں کردار ادا کرتا ہے 199 آنحضرت کا متوازن مزاج وہ مذہبی قو میں جو آہستہ آہستہ پھیلتی ہیں ان کے غلبہ کاطریق 202 مزاج اگر درست کر لیں تو بہت سے معاملات میں فتویٰ 276 مذہب کے معاملہ میں ظلم مذہب کے بگاڑ کے وقت علماء بدترین ہوتے ہیں 623 مذہبی مکر سب سے زیادہ آنحضرت کے خلاف استعمال ہوا 625 سوئٹزر لینڈ میں مذہب کی حالت 664 کی ضرورت ہی نہیں رہتی آئرلینڈ کے لوگوں کے مزاج کی خوبیاں مزدور کو اجرت پوری نہ دینے والے کے بارہ میں نبی مزدور مغرب میں اسلام کے خلاف بدظنیاں اور مذہب سے کریم کی تنبیہ عدم دلچسپی اسلام پر اعتراض کہ یہ کیسا مذہب ہے کہ چھوٹی چھوٹی تفصیل میں جاتا ہے 676 748 سیاست کو حق نہیں یہ کہ وہ مذہبی امور کے فیصلے کرے 798 کسی مذہبی رہنما کو کسی کو غیر مسلم کہنے کا حق نہیں 799 مذاہب کے بگڑنے پر پہلے انسانی معاملات کی خیانت ظاہر ہوتی ہے دو قسم کی امار تیں.مذہبی اور حکومتی 825 827 حضرت مریم عورتوں میں سے یا کبازی کا اعلیٰ نمونہ مومن مرد اور عورت کی مثال حضرت مریم سے مثال حضرت متدرک مسجد مساجد میں زینت اختیار کرنے کا حکم 187 569 658 658 660 682 807 810 905 82 731 مساجد کو آباد کرنے والوں کی خصوصیات 731,732 قرآن نے شریعت ، مذہب کے ساتھ دنیا کی حکومتوں کو مسجد میں خوب بنا ئیں مگر ان کے بنانے کا حق بھی ادا کریں 732 بھی امانت قرار دیا ہے مرا کو مرتبہ بلند مراتب یا مقامات کی طرف رہنمائی کرنے والے تین 871 348 صحابہ میں گھروں میں مسجدیں بنانے کا رواج احادیث کی رو سے مساجد کی اہمیت 735 734 عبادت گاہوں کی حرمت اسلام کی امتیازی شان 870 قسم کے لوگ مرزوقی مرشد مرشد کامل کی ضرورت 407,408 217 452 عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے تو ممکن نہیں کہ غیر اللہ کا مساجد پر قبضہ رہے اسلام عبادت گاہوں کے تقدس کا محافظ 882,883 884 مساجد کے انہدام کے حوالہ سے عالم اسلام کو تنبیہ 889,890
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 56 پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مساجد کے شہید کئے مسجد فضل لندن (نیز دیکھئے "بیت الفضل لندن) 243 جانے کی مختصر تاریخ اور غیروں کا قبضہ کرنا 891 مسجد کے ہمسائیوں کی کار پارکنگ کے حوالہ سے شکایت 530 مردان کی مسجد کی شہادت اور لوگوں کا مال چوری کرنا891,892 مسجد میں شور نہ کرنے کی تلقین اور ہمسائیوں کے حقوق دنیا میں مساجد کی ضرورت تیزی سے بڑھ رہی ہے 658 کا ذکر نبی کریم کا مسجد کی تعمیر کے لئے زمین طلب کرنا اور چوہدری فتح محمد سیال صاحب کا حضرت مصلح موعودؓ کی بعض صحابہ کا عذر کہ نہیں دے سکتے 442 خدمت میں لکھنا کہ مسجد لندن سے دور ہے تو آپ نے کراچی اور ربوہ سے دو دوستوں کا خط لکھنا کہ نئی نسل میں لکھا کہ لندن خود قریب آجائے گا مسجد میں ننگے سر جانے کا رواج پا گیا ہے 744 مسجد قرطبه دل میں اللہ کی حضوری کا خیال اگر مسجد میں پیدا نہیں ہو مسجد نبوی گا تو مسجد سے باہر بھی نہیں ہوگا مسجدوں میں مشاعرہ کرنے کی ممانعت 746 749 آنحضرت کا سادگی کے باوجود صفائی کا اعلیٰ معیار 753 مسجد میں زینت اختیار کرنے کا حکم 753,754 مسجد میں جاتے وقت لباس اور دورانِ نما ز لباس درست کرنے سے ممانعت 753,754 خود جہلمی صاحب 531 657 387 48,739,740 وفات پر ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب حضور کی ان کے کتبہ پر حضرت مصلح موعودؓ کے ایک مصرعہ کے لکھنے کی تجویز مسکراہٹ 612 612 ہمارا سارا نظام زندگی آداب مساجد سے متاثر ہے 757 چھوٹی سی مسکراہٹ کے اندر بڑے مفاہیم 682,683 مسجد کی صفائی کی اہمیت حیض کے ایام میں مسجد نہ جانے کا حکم 761 761 مونالیزا کی مسکراہٹ ایک معمہ مسكين حدیث کی رو سے مسکین کی تعریف مسجد میں کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے مسجد میں گندگی پیدا ہو، مثالوں کی روشنی میں ذکر 762 مسی ساگا کی مسجد کے لئے قربانی کی تحریک 776,777 مسجد اقصیٰ مسجد بشارت پید رو آباد 737 372 صحیح مسلم مسلمان 683 49 318,559,564,569,580 584,585,598,736,801,826,894 مسلمان اور غیر مسلم میں بنیادی فرق 883 مسلمانوں کی اس بد قسمتی کے دور کا علاج یہ ہے کہ رہنماؤں اس کے احاطہ میں ایک بنگلہ کی تعمیر جس کا ایک حصہ وقف کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کیا جائے عارضی کرنے والوں کے لے مقرر کیا جانا مسجد ضرار 384 سچا مسلمان وہ ہے جو رحمتہ للعالمین کا غلام ہے جو صرف مسلمانوں کے دکھ سے دیکھ نہیں ہوتا اس کی حقیقت یہ کیا تھی اور کیا قرآن نے عبادتگاہوں مسند احمد بن حنبل 867,868 مسی ساگا کینیڈا کو جلانے کا حکم دیا ہے 894 895 79,273,666,733 آنحضرت کو اس میں نماز پڑھنے سے خدا کا روکنا 870 اس شہر کی مسجد کے لئے قربانی کی تحریک 935 776,777
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 57 حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نیز دیکھئے حضرت عیسی جماعت احمدیہ کا معاشرہ کلیہ مکر سے پاک ہو 9,93,788 97 آپ کی قربانی اور انصاریوں کی دیوانگی کی کیفیت 597 597,598 مکر اور معاشرہ پر اس کے بداثرات آنحضرت کی بہت باریک نظر کہ سوسائٹی میں کسی قسم کا مسیح کے انصاریوں کے ساتھ ظلم کا سلوک مسیح کو تین سو سال بعد غلبہ عطا ہوا آپ کے نزول کی حقیقت 97,98 99 435 عیسائیوں کا عقیدہ کہ مسیح نے شادی نہیں کی اس لئے وہ معصوم ہیں.اس کا رد 488,489 فریب نظر نہ آئے معاشرہ میں مکر اور ان کا اثر معاشرہ کے بد ہونے پر بڑے لوگوں کے مکر معاشرہ میں مکر کے بہت سے پیدا کردہ دکھ مسیح ناصری کے بیان کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کا مکر اور جھوٹ میں فرق جنگ کے وقت مکر کی اجازت طر نہ کلام اور تحریر کا انداز 489 598 605 623 595 595 596 597 جماعت احمدیہ کا معاشرہ کلیۂ مکر سے پاک ہو صلیب کے وقت کل تمہیں آدمی ایمان لائے اور ان میں سے ایک نے توبہ کی اور ایک نے لعنت ڈالی 683,684 مسیح ہندوستان میں مکر اور معاشرہ پر اس کے بداثرات بعض لوگوں کا نظام جماعت سے مکر کرنا نیکی کے نام پر بعض مکر اس کتاب کا مشرقی یورپ اور روس کی سوسائٹی پر ایک دم معاشرہ میں مکر اور ان کا اثر گہرا اثر مشرق وسطی 209,210 806 623,734,868 مشكلوة مصر کی تاریخ کا محفوظ کیا جانا قرآنی پیشگوئی کے مطابق یہود کا مصر کے علاقوں پر 315 597,598 601 603,604 605 مکر کرنے والوں کے لئے عذاب شدید کی اس دنیا میں خبر اور پاکستان کے حالات پر ان کا چسپاں کیا جانا 606 مکر خیر اور مکرشر 615 روز مردہ کی زندگی میں مومن کو مکر کی ضرورت نہیں 616 الحرب خدعة كى تشریح 619 حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں مکر کی اقسام اور تشریح 620 قبضہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحہ معاشرہ مشرق اور مغرب میں بسنے والے احمدیوں کو معاشرتی مسائل سے بچنے کی نصائح 315 244 2800277 سب سے بد مکروہ ہے جو دین کے خلاف استعمال کیا جائے 622 معاشرہ کے بد ہونے پر بڑے لوگوں کے مکر مذہبی مکر سب سے زیادہ آنحضرت کے خلاف استعمال ہوا اور آج احمدیت کو یہ در پیش ہے 623 625 کسی نبی نے باطل کے خلاف مکر سے کام نہیں لیا 628 اللہ نے مکر اور خدعہ میں پہل کا ذکر نہیں فرمایا دو طرح کے معاشرے اور ایک احمدی کی ذمہ داری 278 معاشرتی حسن سے روگردانی کی قرآنی تعلیم 296,297 ملائکہ 866 4,48,806 ایک حدیث میں دنیا کے مسلم معاشروں کی اصلاح کا سامان 587 ملائکہ کا سچا تصور حضرت مسیح موعود نے ہمیں اللہ سے معاشرہ میں مکر کے بُت سے پیدا کر وہ دکھ 595 ہدایت پا کر عطا فرمایا 206
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 ملاں / مولوی ملائیت کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں 659 58 مومن منصو بہ بندی کے بغیر اپنی زندگی کو بہتر رنگ میں نہیں ڈھال سکتا ملاً جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی تقویٰ کے متعلق منصوبہ بندی کی ضرورت ہر داعی الی اللہ کو اپنی اندرونی اور بیرونی کمزوریاں بھی 692,693 124 127 ترقی روک سکتے ہیں ملا کی طرف سے جماعت پر آنحضرت کی خاتمیت پر چاہئیں اور دور کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرے 132 بچوں کے اخلاق کی درستگی کے متعلق منصوبہ بندی 138 ڈاکہ ڈالنے کا الزام اور اس کی تردید اس زمانے کے ملانوں کا حدیث میں نقشہ ملفوظات 793 868 71,434,437,590 گھر میں بچوں اور بیوی کو بھی دعوت الی اللہ کی سکیم اور منصوبہ بندی میں شامل کریں 139 ملفوظات میں جو بے ساختگی پائی جاتی ہے اور جو گہرا اثر دعوت الی اللہ میں اجتماعی سے قبل انفرادی منصوبہ بندی 177 ہے وہ اپنا الگ مزاج رکھتا ہے اور عام تربیت کے لئے مومن کی منصوبہ بندی کا دعا کے ساتھ اختلاط 179,180 ہر شخص کو اپنی حیثیت ، صلاحیتوں کے مطابق 173 زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جماعت کو اس رمضان میں ملفوظات سے متعلقہ مضامین منصوبہ بندی کرنی ہوگی کو عام کرنے کی تلقین ملک ملک کے باشندوں کا حق ہے کہ وہ غیر قوموں کو 173 180,181 یہ بات بھی منصوبہ میں شامل ہو کہ کن لوگوں میں عمدگی سے تبلیغ کر سکتا ہے حضرت مصلح موعودؓ کا کل عالم کی تبلیغ کے منصوبہ کے ساتھ تحریک جدید کا اعلان 210 294 باہر نکال دیں منذری منصب امامت منصوبہ بندی 386 563,579 72 قادیان کے سفر سے آنے والوں کے قصے سننے پر بعض کا حسرت کا اظہار اور ان کی قادیان کے لئے منصوبہ بندی 383 منوسمرتی منی پور آسام درویشان کے احوال کی بہتری کے لئے حضور کا 21,22,31 - منیر الدین تمس صاحب منصوبہ اور تجویز قادیان کے پھیلاؤ کی جماعتی منصوبہ بندی آئندہ صدی میں بیداری کے حوالہ سے قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کے لئے منصوبہ بندی 41 55 موت 63 500 391 موت سے زندگی طلب کرنے کی خواہش کا رجحان قوموں کی ترقی کی راہ میں بہت آگے بڑھا دیتا ہے 260 قادیان میں جدید ہسپتال کے قیام کا منصو بہ اور تکمیل 55,56 انا للہ مرنے والے کے لئے نہیں بلکہ زندہ رہنے والے منصوبہ بندی کے ساتھ دعوت الی اللہ بجالانے کی تلقین 94 کے لئے پڑھا جاتا ہے 262 ہر موت انسان کو زندگی کا پیغام دیتی ہے 262,263 دعوت الی اللہ اور منصوبہ بندی، تدبیر انفرادی منصوبہ بندی اور دعوت الی اللہ خدا ہر کام منصوبہ بندی سے کرتا ہے 110 111 123 موت سے باخبر رہنے والے کو زندگی میں ہی ایک نئی زندگی مل جاتی ہے 264
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 انا للہ کا پیغام موت سے ڈراتا نہیں بلکہ موت کے خوف کو ماردیتا ہے بدترین موت 264 613 ابتلا کے وقت ثابت قدمی کی حالت میں موت کی دعا 613 حضرت موسیٰ علیہ السلام 59 ناروے ناصر آبادسندھ ن، و، ه ، ی 470,926 وہاں حضرت مصلح موعودی کوٹھی ،اس کا نام چن ہے حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث حضرت موسی کی دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں دعا 114 آپ کو لکنت تھی آپ کے بچے پیرؤوں کے مصر کی سرزمین کے وارث بننے کی پیشگوئی 116 315 حضرت موسیٰ کو ایک عورت کا امین کہنا اور نبی کریم نبی کو قوم کا امین کہنا، اس میں فرق حضرت موسیٰ پر الزام اور ان کی دلآزاری مومن ایک مؤمن کو اپنی زندگی کے اوقات کی بڑی تفصیل سے نگرانی کرنی ہوتی ہے مومنوں کی مختلف قسمیں مومن کی ہر ترقی دل کی پاکیزگی سے وابستہ ہے مومن مرد اور عورت کی مثال حضرت مریم سے مهمان نوازی 898 899 343 697 811 905 777 624,625 1983ء میں ضیاء الحق سے خدا کا حکم جاری کروانا کہ مرزا ناصر احمد ملک نہیں چھوڑ سکتا ، اس کی غلطی اور خدا کا مکر 626 انبیاء کی ذات خدا کی ہستی کا سب سے بڑا ثبوت ہے 151 انبیاء کے رستہ میں سب سے بڑی روک دعوت الی اللہ اور انبیاء کی سنت 188,189 271 435 تمام نبیوں کا صعود اور نزول مخالفت کی وجہ سے ہرنبی کا مستقبل ہونے کا عظیم نمونہ 445,446 تمام انبیاء بہت نفیس لطیف مزاج کے مالک ہیں 652 انبیاء کا خائن کی شفاعت نہ کرنا 809 خدا کے بندوں کی باتیں خدا کے کلام میں جڑر رکھتی ہیں 811 دینی معاملات میں نبی سب سے زیادہ متقی ہوتا ہے 842 تمام انبیاءکو مجنون کہنے کا سبب 853,854 قادیان کے جلسہ کے موقع پر سکھوں کی مہمان نوازی 42 مختلف انبیاء پر ان کی اقوام کے الزامات مگر صرف آنحضرت کے امین ہونے کی گواہی جلسہ سالانہ یو کے میں شاملین کی مہمان نوازی کی تلقین 496 جماعت احمدیہ میں مہمان نوازی کی عادت کی کثرت 496 انبیاء کی دعوت اور تبلیغ کا طریق نیکیاں پھیلانا انبیاء کا دستور تھا حضرت اقدس کی مہمان نوازی کے واقعات 497 506 حضرت مولانانذیر احمد علی صاحب مہمان نوازی کے حوالہ سے میاں بیوی کا تعلق پنجابیوں کو مہمان نوازی آتی ہے، آداب گفتگو نہیں آتے 500 بنگالیوں کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ مہمان نوازی میں جھوٹ کا بت 899 906 907 935 76,258,738 499 سنن نسائی 528 551 آئندہ آنے والی نسل کے لئے ایسے نیک نمونہ بنیں جیسے حضرت اقدس کے وقت کی نسل ہمارے لئے نمونہ ہے 296
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 60 کلچرل کھیلیں دو نسلوں کے درمیان رابطہ مضبوط کرنے وہ افراد جو چندہ بھی دیتے ، وقار عمل میں بھی شامل ہوتے میں معاون نسیم صاحب حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ 672 244 بے نمازی نہ رہے آپ کے کردار کی سچائی کا اثر اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کی زندہ گواہ نشان آسمانی 569,570 119 زندہ نمازوں کی علامتیں 639 639,643 ہیں مگر نماز میں غافل ، انہیں نصیحت نماز میں لطف حاصل کرنے کا طریق جرمنی کی جماعت اور ذیلی تنظیمیں توجہ دیں کہ کوئی ممبر 641 641 نماز میں نغمہ کی لہروں کی پیدائش اور خدا کے ساتھ تعلق نصرت جہاں سکیم کا لطف USSR میں وقف عارضی کی تحریک، پاکستان سے نماز اور لقاء باری تعالی 641,642 645 نصرت جہاں کے ذریعہ اور دیگر ممالک سے امراء کی تصدیق کے ساتھ براہ راست مجھے بھجوائیں نصیحت نصیحت میں سخت الفاظ کا استعمال، وضاحت نماز کا برائیوں اور فحشاء سے روکنا 646 696 نمازیں جمع کرنے کے حوالہ سے اسلام کی متوازن تعلیم 660 ضرورت کے وقت نمازیں جمع کرنے کی اجازت اور آنحضرت کا ایسے عمل فرمانا 660 259 نصیحت کرنا بڑا مشکل کام ہے، اس کے لئے غیر معمولی صلوۃ وسطی سے کیا مراد ہے، غیروں اور جماعت کا موقف 662 طاقتوں کی ضرورت ہوتی ہے 349 نیتوں کو درست کریں تو زبان سے کہی بات اثر کریگی 632 یو نیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء کے اس اعتراض کا جواب کہ وقت نہیں ہوتا اس لئے نمازیں جمع کر کے پڑھتے ہیں 663 نعیمہ کھوکھر صاحبہ نفاق نفاق جماعتوں کے لئے ایک زہر ہے نفخ روح نفخ روح سے مراد نماز 237,244 379 782 مولویانہ مزاج رکھنے والوں کا اجتماعی ضرورت کے وقت نمازیں جمع کرنے پر اعتراض 666 مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کروائی جانے میں حکمت 666 اسمائکم والے نوجوانوں کو باجماعت نماز ادا کرنے کی تلقین 667 گھروں میں نمازیں جمع کرنے کا اگلی نسل پر برا اثر 667 گھروں میں باجماعت نماز کی عادت ڈالیں حضرت مسیح موعود نے نماز کوروزہ سے الگ فرمایا ہے اور وہ گھر جو نمازوں کو زندہ کرتے ہیں اللہ انہیں اس دنیا 165 بعض پہلوؤں سے روزوں پر فضیلت دی ہے کی کثافت سے محفوظ ر کھے گا ایک آیت میں پانچوں وقت کی نمازوں کے اوقات 289 قیام نماز کی تلقین آنحضرت کا نماز کے لئے گھر والوں کو اٹھانے کا انداز 534 اگر تم نمازوں میں خدا کوٹر خاؤ گے تو تم اپنی نسلوں کو نماز کی اصل کیفیت 636,637 ٹر خار ہے ہو گے، ایک بچہ کا واقعہ جماعت کے نوجوانوں کا نماز سے غافل ایک طبقہ 637 خدا کے زندہ تصور کا نماز سے تعلق 667 713 735 744 744
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 61 جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو بہترین نماز یہ ہے کہ بدیوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے کا معجزہ ہر نبی کے وقت ہوا تم گویا خدا کو دیکھ رہے ہو نماز کامزہ عرفان سے ملتا ہے اور ترنم مدد کرتا ہے نماز میں ایک پاؤں پر کھڑا ہونے کی ممانعت نماز تکبر کے شیطان کو دور کرنے کا ذریعہ نماز کے آداب اور اس کے تقاضے نظافت کا نماز سے تعلق 744 747 748 752 753 755,756 مگر سب سے شان کے ساتھ آنحضرت کے وقت ہوا 281 نیکیاں مغلوب نہیں ہوا کرتیں 282 تین صدیوں تک آنحضرت کی عطا کردہ نیکیاں دنیا پر غالب آتی چلی گئیں انفرادی اور قومی طور پر نیک ہونا قرآن میں نیکی کی تعریف قادیان اور ر بوہ میں رواج کہ اگر کوئی نمازی پیچھے اکیلا نیکی کے دو کنارے ہو تو آگے سے کھینچ لیتا ہے، میرے نزدیک ایسا درست انسانی فطرت میں نیکی کی سرشت نہیں.علماء کو تحقیق کی تحریک نماز میں امام کی غلطی اور اطاعت کا سبق سبحان اللہ کہنے کی وضاحت 756 محض موروثی نیکی کافی نہیں دکھاوے کی خاطر نیکی شرک کی حد میں داخل ہے امام سے غلطی ہونے پر اصلاح کا درست طریق امام سے غلطی اور سجدہ سہو 758 759 759,760 تکلف سے نیکی کرنے سے مراد دنیا دار اور دیندار کی نیکی میں فرق گندگی کا نیکی سے کوئی تعلق نہیں عورتوں کے لئے امام کو غلطی سے آگاہ کرنے کا طریق 760 اصل نیکی نماز میں صفیں سیدھی نہ ہونا ، بیچ میں فاصلہ بے پرواہی کی علامت سردیوں کے دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے جمعہ کے 775 نیکیوں میں مسابقت کی قرآنی تعلیم 282 283 283,284 290 482 484 516 516 517 753 924 928 ساری جماعت اگر نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے لگے تو انقلاب بہت تیزی سے برپا ہوسکتا ہے 929 ساتھ عصر کی نماز جمع کر کے ادا کرنا نواز شریف حضرت نوح علیہ السلام آپ کے تبلیغ کے انداز 802 واٹر گیٹ 830 270 187 واقعات پاکستانیوں کا قادیان سے واپسی کا منظر.ایک واقعہ کی روشنی میں 608 7 حضرت مولوی حکیم نورالدین خلیفہ مسیح الاول 538 حضرت مصلح موعودؓ کا بے موسم میں پھل مانگنا اور دعا کے حضرت خلیفہ اول کا اہل پیغام کے اس سوال کا جواب ساتھ حضرت اقدس کا پھل اتار دینا 120,121 کہ خلیفہ بھی تو غلطی کر سکتا ہے خالی نیت کے عمل سے بہتر ہونے میں حکمت 844 214 احمدی طالب علموں کے اخلاق کی وجہ سے دوسروں کا متاثر ہونا، ایک احمدی لڑکی کا واقعہ حدیث میں مہدی کو سلام پہنچانے کا ذکر اور لدھیانہ میں 157 نیکی ایک مولوی کے سلام پہنچانے کا واقعہ 82,83 نیکی اور بدی کے مقابلہ کی تاریخ کا قرآن میں ذکر 280 ایک صحابی کا واقعہ جو ہر سال سو بیعتیں حضرت مصلح موعود
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 62 کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے 185,186 غیر معمولی طور سے رقم ملی ایک واقعہ کی شکل میں تبلیغ کے نتیجہ میں احسان کے اثر کا اظہار وہ بدنصیب واقعات جنہوں نے پاکستان کا حلیہ بگاڑ دیا 204 2100205 اور ملاں کی وجہ سے بدتر حال کا تذکرہ 780 789 ایک ہندو کی قید سے آزادی اور اس کا احمدی ہونا تبلیغ کے دوران حکمت عملی کے ساتھ جماعتی لٹریچر دینے حضرت اقدس پر اعتراض کہ ایک وقت آیا کہ میری مریمی کی تلقین ، واقعاتی رنگ میں اس کا بیان حالت ہوگئی مجلس سوال و جواب کا واقعہ 810,811 ایک پاکستانی دوست کا ان دانشوروں، پروفیسروں سے ایک بوسنین خاتون کا واقعہ جس نے مسلمان سمجھ کر بات تبلیغ کا انداز جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں اور فرشتوں وغیرہ کرنے سے انکار کر دیا کے مضمون پر مذاق اڑاتے ہیں 206 والدین قیدیوں کے ساتھ رابطہ کا اثر.واقعات کی روشنی میں 213 والدین سے نیک سلوک عمر کو بڑھاتا ہے صحابہ کی آنحضرت سے محبت اور عشق کا اظہار.ایک صحابی کا واقعہ وان 345 صاحبزادہ مرزا او سیم احمد صاحب نبی کریم کا اس کے پاس جانا اور جس شخص کا اونٹوں کے و سیم جسوال ( نیز دیکھئے ” جسوال برادران) پیسوں کا مطالبہ تھا وہ ابو جہل سے واپس دلوانا 353,354 خطبات کی ٹرانسمیشن کا جنون اور ذکر خیر بچپن کے کسی واقعہ کادل پر نقش اور انسانی زندگی میں انقلاب 369 وضو حضرت اقدس کی مہمان نوازی کے واقعات 497 تا506 دل نہ چاہنے کے باوجود وضو کرنے کی اہمیت وقف وقف عارضی جلسہ میں شاملین کو واپس جانے کی تلقین اور اس ضمن میں ایک عرب شاعر کا واقعہ حضرت ابو ہریرۃ کی بھوک کا واقعہ ایک غزوہ کے دوران صحابہ کے ایثار کا واقعہ بنگالیوں کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ 511,512 523 525 528 836,837 579 935 25,140 وہ لوگ جوشعائر اللہ کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں ان کی برکتیں پھیلتی ہیں 692 736 52 بیرونی ڈاکٹر ز کو قادیان کے ہسپتال میں وقف کی تحریک 57 واقفین کو وقف کی اہمیت سے آگاہ کرنا اصل اور حقیقی وقف 247 247,248 383 ایک غیر مسلم سردار سے گفتگو کے دوران ایک نابینا کا آنا اور سورۃ عبس کا نزول 582,583 سپین میں وقف عارضی کی تحریک وقف عارضی کے لئے ضروری شرط کہ وہ اپنے خرچ پر آنحضرت کے خلاف جھوٹی باتیں مشہور کیا جانا اور بُڑھیا ٹھہرے، رہائش کا انتظام کرے، خود کھانا بنائے عورت کا واقعہ جس پر آپ کا جادو چل گیا تقبل کے مضمون پر خطبات کا سلسلہ جماعت سے دور 630 384 اہل یورپ کو خصوصیت سے پین میں وقف عارضی کی تحریک 389 روس میں وقف عارضی کی تحریک جانے والوں کے لئے بہت مفید ہوگا ، ملاقاتی کا واقعہ 690 احمدی تاجروں کو روس میں وقف عارضی کے ذریعہ اگر تم نمازوں میں خدا کوٹر خاؤ گے تو تم اپنی نسلوں کو ٹرخار ہے ہوگے ،ایک بچہ کا واقعہ کینیڈا کے ایک احمدی کا واقعہ جسے چندہ کے لئے 744 تجارتی رابطے قائم کرنے کی تلقین USSR میں وقف عارضی کی تحریک، پاکستان سے نصرت جہاں کے ذریعہ اور دیگر ممالک سے امراء کی 391 393
اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 63 تصدیق کے ساتھ بر اوراست مجھے بھجوائیں 696 ڈاکٹر مس ہار پر فیملی کاUSSR میں وقف کے لئے پیش کرنا 714 ہالینڈ وقف کا عہد تو ڑ نا خیانت ہے، معمولی بات نہیں 717 239,241 357,675,690,778 ایک عظیم قوم جو مسلسل سمندر سے زمین کھینچ رہی ہے 681 وقف کے عہد کو ختم کرنے کی سزا ، آئندہ آنے والے ہالینڈ کی جماعت کو دعوت الی اللہ کی تلقین 685 خلیفہ کے دل میں توجہ پیدا ہو تو الگ مسئلہ ہے 718 ہٹلر وقف جدید ہجرت 53 مذاہب کی تاریخ میں ہجرت سے واپسی سے مراد ہندو ولی باہر کی جماعتوں میں عام کرنے میں خدائی تقدیر حضرت مصلح موعود اور حضور کے قادیان میں 27 دسمبر کو وقف جدید کے اعلان میں تو ار د اور حکمت وقف جدید کی مالی قربانی پر نظر ثانی کی تلقین 54 64 ہندوستان میں اپنے مذہب کو دوسروں پر ٹھونسنے کی شدید رو کا چلنا وقف جدید کے 37 ویں سال کے آغاز کا اعلان 918 ایک ہندو کا بلا وجہ قید میں ہونا ، جماعتی احسان کے نتیجہ وقف جدید کی مجلس میں حضرت مصلح موعودؓ نے سب سے میں اس کی بریت اور اس کا احمدی ہونا پہلے میرا نام لکھا، اس میں مضمر پیشگوئی 918,919 ترقی کے حوالہ سے 1991 ءاور 92 کا موازنہ 921,922 حضور کا وقف جدید کو پوری دنیا تک وسیع کرنا وقف جدید کے اعداد و شمار اور نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی جماعتوں کے کوائف 922 923 افریقی ممالک کے وقف جدید کے حوالہ سے اعداد و شمار 932 وقف جدید کے حوالہ سے امیر جماعت امریکہ کی رپورٹ 934 وقف جدید کے حوالہ سے کینیڈا کی جماعت کی رپورٹ 934 سب سے بڑ اولی نبی ہوا کرتا ہے حضرت مسیح موعود کی صداقت کہ پٹواریوں میں سے ولی پیدا کئے ولایت کا مطلب 174 247 280 606 16 63 204 ہندوستان 32,47,53,54,,4,6,11,22,30 100,101,212,299,316,386,633,635 774,822,919,931 ہندوستان کی جماعت کے تمام منصوبوں کی تکمیل کے لئے عالمگیر جماعتیں مدد کریں گی جماعت کی تاریخ میں ہندوستان کا مقام ہندوستان کی جماعتوں کو نظر انداز کیا جانا ہندوستان میں مذہبی آزادی 8 8,9 8,9 9 ہندوستانی مسلمانوں کی بُری لیڈرشپ کا تذکرہ 9,10 ہندوستان میں حضور کے قیام کے دوران جماعت کا خدمت کا نرالا انداز 26 تعلیم کے حوالہ سے ہندوستان میں صوبوں کی پالیسی 60 بچے عبادت گزار اور ولایت کے نصیب ہونے کی علامت 282 قادیان کے علاوہ باقی ہندوستان کی جماعتیں بھی محصور ولی بننے کا طریق ویٹینام و نیکوور 283 556 935 کی سی کیفیت میں ہیں تمام ہندوستانی احمدی اصحاب الصفہ میں شامل ہیں 62 63 ہندوستان میں کتب کی نمائشوں کا مثبت اثر 861,862
64 اشاریہ خطبات طاہر جلد 11 ہندوستان میں مساجد کے انہدام پر مسلمانوں کا ہندوؤں یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک 391 کا مندر جلانا، اس کے رد عمل میں مساجد کا انہدام 884 جماعت کے روابط میں تیزی اور دشمنوں کے کیمپ ہندوؤں کا دعویٰ کہ ہندوستان صرف ان کے لئے ہے مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم اور مسلمانوں کا غلط رد عمل اور اس کا نقصان 885 885 میں کھلبلی اقتصادی ، بینکنگ ، فنانس اور اکا ؤنٹنگ کے ماہرین کا جماعت سے مطالبہ 692 694,695 جماعت کے اقتصادی ماہرین کو وقف عارضی کی تحریک 695 وہاں جماعت کو اپنے رابطے بڑھانے کی تلقین 712 ہندوستانی مسلمانوں پر مظالم اور عرب حکومتوں کا ہوشمندانہ رویہ ہنگری 886 وہاں کی یو نیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی تحریک جہاں مغرب کی نسبت کم خرچہ آتا ہے احمدی تاجروں کو وہاں تجارت کی تحریک ہنگری کے پروفیسر کی کینیڈا کے جلسہ میں شرکت 778 ہومیو پیتھی 712 713 Bella Russia 713 یہاں احمدی وفد بھجوایا جانا جس کی خوشکن رپورٹ جب مریض کسی چیز کی طلب کرتا ہے جس سے پہلے وہ Dr.Ms.Harper Hitler Dr.Evans Guyana 239,241 707 236 927 نفرت کرتا تھا تو مرض میں افاقہ کے آثار ظاہر ہوتے ہیں 172 یتامی کے لئے سب سے بڑا امتحان احساس کمتری ہے 350 جماعت میں شہیدوں کا کوئی بچہ یتیم نہیں رہ سکتا یورپ 910 9,13,69,310,607 Cherries کے پکنے کے وقت زمینداروں کا بورڈ لگانا کہ جتنے چاہو آ کر کھاؤ باقی پیسے دو 396 یور بین جماعتوں میں تربیتی اور تبلیغی لحاظ سے بیداری 675 حضرت یوسف علیہ السلام آپ کا اپنے بھائیوں سے عفو کا سلوک Introduction to the Study of the Holy Quran ایک امریکن سفیر کی حضرت مصلح موعودؓ سے اس کتاب کے حوالہ سے شکایت ایک ہندو پرائم منسٹر کی خلیفہ رابع سے اس کتاب کے حوالہ سے شکایت 206 275 391 قرآن میں آپ کے ذکر کے ساتھ لفظ خیانت کا ذکر 812 بھائیوں کی طرف سے آپ پر چوری کا الزام یوکے حضرت یونس علیہ السلام 899 45,260 استغفار کے نتیجہ میں آپ کی قوم کا ہلاکت سے بچنا 272,273 یونائیٹڈ نیشنز 207 207 Life of Mohamad Russia Suray County یہاں انگلستان کے دوسرے حصوں کی نسبت صفائی کا معیار زیادہ ہے 24,771,773,774 710 391,467 611,914 520 United Kingdom United Nations USSR