Language: UR
نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر ۱۰ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ
نمبر شمار خطبه فرموده فہرست خطبات عنوان 1 له 2 3 4 LO 5 6 7 04 جنوری 1991ء | وقف جدید کے سال نو کا اعلان.بچوں کو اس میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی تحریک 11 / جنوری 1991ء خلیج کا بحران عراق کی تباہی یقینی بنادی گئی ہے.18 جنوری 1991ء خلیج کا بحران.افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کیلئے صدقات کی تحریک.25 جنوری 1991ء یکم فروری 1991ء اسلام کا کوئی وطن نہیں اور ہر وطن اسلام کا ہے.اسرائیل کے قیام کی تاریخ اور وجوہات 1 17 39 56 55 الله 73 08 فروری 1991 ء | اسرائیل کی آبادکاری کا پلان کیوں تیار کیا گیا؟ عرب امن کے قتل کا ذمہ دار امریکہ ہے.93 117 15 فروری 1991 ء فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گئے حضرت مسیح موعود کے الہام کی عظمت 228 فروری 1991ء اسرائیل کے قیام کا پس منظر اور اس کی حیثیت.عراق پر ہونیوالے مظالم کی تاریخ 143 تیم مارچ 1991ء خلیج کا بحران، قیام امن کے لئے عالمی اور مسلمان سیاست کو قیمتی مشورے 10 11 12 13 169 8 مارچ 1991ء تیسری دنیا کے ملکوں کو مشورے.غریب ملکوں کی یونائیٹڈ نیشنز کے قیام کی ضرورت 193 15 / مارچ 1991 ء | عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک ، الحمد میں ۹۹ صفات باری تعالیٰ شامل ہیں.227 22 / مارچ 1991ء - الحمد.ہر قسم کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے.سورۃ فاتحہ میں ڈوب کر نماز ادا کریں.247 265 29 / مارچ 1991 ء رمضان عرفان البہی کے حصول کا مہینہ ہے اس میں اپنے بیوی بچوں کی تربیت پر خاص توجہ 14 / 05 / اپریل 1991ء - اهدنا الصراط المستقیم کی عظیم دعاء رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی برکات 281 15 12 / اپریل 1991ء | اهدنا الصراط المستقیم کی عظیم دعا منعم علیہ گروہ کی دعاؤں کا ایمان افروز تذکرہ | 303 16 | 19 اپریل 1991ء - اهدنا الصراط المستقیم کی روشنی میں انبیاء کی دعائیں اور ان کی عظمت 327 17 26 اپریل 1991 ء حضرت نوح، ابراھیم اور یوسف کی دعاؤں کی عظمت اور ان کی قبولیت کے راز 18 | 03 مئی 1991ء رب ارحمھما کی دعا دونوں نسلوں کیلئے ہے نیز حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر 373 349
عنوان صفحہ نمبر نمبر شمار خطبه جمعه 19 10 مئی 1991 ء حضرت ایوب، حضرت یونس علیہم السلام کی دعائیں اور ان دعاؤں کی قبولیت کے راز 395 20 22 22 17 مئی 1991 ء حضرت ابراہیم اور رسول کریم میں اللہ کی دعاؤں کا تفصیلی ذکر اولاد کے لئے دعا کریں 421 21 24 مئی 1991ء اناللہ وانا الیہ راجعون کا حقیقی مفہوم ، حضرت مریم نوح ، لوط ، موسیٰ اور سلیمان کی دعائیں 439 31 مئی 1991ء سلیمان کی دعا، انعامات پر تشکر ، اپنی نسلوں کو خلیفہ وقت کے خطبات سے جوڑ دیں 457 7 جون 1991ء " بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل اختیار کرو آپس کے اختلافات ختم کریں.475 14 / جون 1991ء حضرت سلیمان، حضرت موسی اور حضرت لوط علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر 21 جون 1991 ء رسول کریم اللہ کی دعائیں اور ان کا عرفان، اولاد کی تربیت دعاؤں سے کریں 28 جون 1991ء نوع کی دعا کی قبولیت کا نشان مسیح موعود کی کشتی نوح آج نجات کی واحد راہ ہے.529 23 24 24 25 26 489 507 27 05 جولائی 1991ء مغضوب اور ضالین کی دعائیں، فرعون کی بدنی نجات سے مراد بے اختیار زندگی ہے.557 28 12 جولائی 1991ء فرعون کے غرق ہونے کی وضاحت اللہ کے بندوں پر شیطان کو کوئی تسلط حاصل نہیں 579 29 19 جولائی 1991ء مغضوب اور ضالین کی دعا ئیں.ایٹمی جنگ کی خبر اور اسلام کے غلبہ کی خوشخبری 599 30 26 جولائی 1991 ء ربی العظیم ربی الاعلیٰ اور التحیات اللہ کا عظیم مفہوم اور عرفان 617 31 02 اگست 1991 ء | التحیات کا پیغام انسان کی زندگی پر حاوی ہے، نماز میں درود شریف کی حکمت 631 32 09 اگست 1991 ء ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتا ہے، انما الاعمال بالنیات کی روشنی میں والدین کو نصائح 645 33 16 اگست 1991 ء دوست اپنی نیتوں کے فتور دور کریں.جلسہ پر تجارت کرنے کی نیت سے نہ آئیں.665 34 | 23 اگست 1991ء غیبت سے معاشرہ میں بڑے فتنے پیدا ہوتے ہیں.35 30 اگست 1991ء امیر کی پشت پناہی وقت کا خلیفہ کرتا ہے اور خلیفہ کی پشت پناہی خدا فرماتا ہے.701 36 06 ستمبر 1991ء جماعت میں کوئی امیر ڈکٹیٹر نہیں, خلیفہ بھی ڈکٹیٹر نہیں وہ مقتدر ہستی کو جواب دہ ہے.721 13 ستمبر 1991ء مجلس عاملہ اور امارت کے فرائض کی تقسیم.جماعت کا مالی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے 739 37 38 20 ستمبر 1991ء مالی قربانی کی روح کو سمجھیں یہ کوئی جبر کا نظام نہیں.683 757
نمبر شمار تاریخ عنوان 39 27 ستمبر 1991ء جب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے پاکستان کے حالات دن بدن بگڑتے گئے 775 04 اکتوبر 1991ء | جماعت مالمو سے اظہار ناراضگی تقوی یا حکمت کی کمی دونوں فتنہ کا سبب بنتی ہیں.787 40 41 42 11 اکتوبر 1991ء جماعت کو جو مال دیا جاتا ہے اس پر دینے والے کا کوئی حق نہیں رہتا.18 اکتوبر 1991ء روس میں دعوت الی اللہ کیلئے واقفین عارضی کی تحریک 805 821 43 25/اکتوبر 1991 ء جماعت کی تعداد کی وضاحت.دعا ہے کہ میری زندگی میں ایک کروڑ نئے احمدی ہو جائیں 839 44 45 46 47 48 49 49 50 50 51 52 52 یکم نومبر 1991ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان جماعتہائے عالمگیر کی بے مثال قربانیوں کا تذکرہ 853 08/نومبر 1991ء تبلیغ میں دعاؤں کی تدبیر کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں.15 نومبر 1991ء امراء اور مجالس عاملہ کو دعوت الی اللہ کے بارہ میں اہم ہدایات 22 نومبر 1991ء موجودہ جماعت اپنی زندگی میں ایک کروڑ نئے احمدی پیدا کرے 29 /نومبر 1991ء دعوت الی اللہ کے گر سیکھیں اور سکھائیں ،حکمت سے دعوت الی اللہ کریں 06 دسمبر 1991ء مجلس عاملہ جرمنی کے اظہار ندامت پر معافی کا اعلان 13 / دسمبر 1991ء ہر ملک میں مرا کز دعوت الی اللہ کے مستقل قیام کیلئے ہدایات 869 887 905 921 941 959 20 دسمبر 1991ء چوالیس سال بعد خلیفہ مسیح کی قادیان آمد درویشان کیلئے بہت بڑی خوشخبری مضمر ہے 981 27 / دسمبر 1991 ء | وقف جدید کے نئے سال کا اعلان.وقف جدید میں مسابقت کی روح پیدا کریں.997 53 7 / جون 1991ء Friday Sermon 1017
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء قف جدید کے سال نو کا اعلان.بچوں کو اس مالی قربانی میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۴ /جنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.۱۹۵۷ء کا سال میری زندگی میں ایک لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سال مجھے دو طرح سے نئی زندگی میں داخل ہونے کا موقعہ ملا.ایک تو میری ازدواجی زندگی کا آغاز ۱۹۵۷ء کے آخر پر دسمبر کے مہینے میں ہوا اور دوسرے اسی سال کے آخر پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف جدید کی تحریک کا آغاز فرمایا اور مجھے وقف جدید کی مجلس کا سب سے پہلا ممبر مقرر فرمایا اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک مجھے وقف جدید میں خدمت کا موقعہ ملا.اس لحاظ سے میری با قاعدہ جماعتی خدمت کا آغاز ۱۹۵۷ء میں ہوا.اس واقعہ کو ۳۳ سال گزر چکے ہیں اور آج میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرنے والا ہوں.یہ نیا سال ۳۴ واں سال ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ اس عرصے میں وقف جدید کو غیر معمولی ترقی کی توفیق عطا فرمائی.شروع شروع میں یہ تحریک بہت معمولی دکھائی دیتی تھی.آغاز بھی غریب نہ تھا اور چال چلن بھی غریبانہ.دیہات کے ساتھ اس کا تعلق تھا اور دیہاتی معلمین جو اس تحریک کے تابع خدمت پر مامور تھے اُن کا ماہانہ گزارا بھی بہت ہی معمولی بلکہ اتنا معمولی کہ ایک عام مزدور سے بھی بہت کم تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قناعت کے ساتھ اور بڑی خوش خلقی کے ساتھ اُنہوں نے ہر گزارے پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 2 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء گزارہ کیا اور خدمت دین میں بہت جلد جلد آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے کے اندر وقف جدید کا سالانہ بیعتوں کا ریکارڈ باقی اس قسم کی دوسری تمام انجمنوں کے اداروں یا تحریکات سے آگے نکل گیا اور لمبے عرصے تک وقف جدید بیعتیں کروانے کے میدان میں اول رہی.اسی طرح وقف جدید کو ایک بہت ہی عظیم الشان خدمت کا تھر کے علاقے میں موقعہ ملا.یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہند و بکثرت آباد ہیں اور یہی ایک وہ علاقہ ہے جہاں آج بھی مسلمانوں کے مقابل پر ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن اکثر ہندوا چھوت کہلانے والے ہیں یعنی ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم کے لحاظ سے سب سے نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں.وقف جدید کا جس سال آغاز ہوا ہے اسی دوران عیسائیوں نے جو امریکہ سے غیر معمولی طور پر مدد حاصل کر رہے تھے گھر کے علاقے پر وہاں کے باشندوں کو عیسائی بنانے کے لئے یلغار کی اور اس لحاظ سے یہ الہی تحریک خاص طور پر اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ اگر وقف جدید کی تحریک جاری نہ ہوئی ہوتی اور جماعت احمدیہ کو شھر کے علاقے میں اس طرح خدمت کا موقعہ نہ ملتا تو بعید نہیں کہ وہاں بہت تیزی کے ساتھ عیسائیت پھیل جاتی لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بر وقت تحریک کے نتیجے میں جب ہم نے معلمین تقسیم کرنے کے لئے مختلف علاقوں کے جائزے لئے تو معلوم ہوا کہ تھر کے علاقے میں بڑی شدید ضرورت ہے.ایک تو ویسے بھی ہندوؤں میں تبلیغ کی خاطر وہی علاقہ موزوں تھا، دوسرے علم ہوا کہ عیسائیوں نے بہت بڑی یلغار کر رکھی ہے اور امریکن غذائی امداد کا ایک بہت بڑا حصہ اس علاقے کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے.چنانچہ جب میں نے وہاں دورہ کیا اور حالات کا جائزہ لیا تو عموماً یہی مشورہ دیا گیا کہ جماعت کی طرف سے بھی کوئی امدادی پروگرام جاری ہونا چاہئے ورنہ یہاں کامیابی مشکل ہے.اس پر میں نے اس تجویز کو نہ صرف سختی سے رڈ کیا بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ اس تجویز کی سوچ کے دروازے بھی سب پر بند کر دیئے اور میرا استدلال یہ تھا کہ جہاں تک دولت کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے کا تعلق ہے نہ ہم اُس میدان کے کھلاڑی ہیں نہ اس بات کے قائل ہیں، نہ ہمیں توفیق ہے کہ ہم دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا اس میدان میں مقابلہ کر سکیں.اگر ہم ایک روپیہ خرچ کریں تو امریکہ دس لاکھ روپیہ خرچ کر سکتا ہے اور اگر روپے کی لالچ میں یا لالچ نہ بھی کہیں، ضرورت مند کی مدد پوری کر کے اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا ہے تو ضرورت بے انتہاء ہے اُسے آپ پورا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 3 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء نہیں کر سکتے.ایک پیاس بھڑ کا دیں گے اور جس قسم کی پیاس بھڑ کا ئیں گے اس قسم کا پانی آپ کے پاس نہیں ہوگا.اس لئے یہ نہایت ہی جاہلانہ حرکت ہوگی اگر ہم مالی امداد کے ذریعے امریکن طاقتوں کا یا مغربی طاقتوں کا مقابلہ کریں.دوسرا پہلو یہ تھا کہ یہ لوگ غریب ہیں اور بہت ہی لمبے عرصے سے خود اپنے ہم مذہب لوگوں کی حقارت کا نشانہ بنے رہے ہیں یعنی ہزار ہا سال سے انسانی طبقات میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھے جانے والےلوگ تھے اُن سے میں نے کہا کہ آپ ان کی ذلتوں میں اضافہ کرنے کا سوچ کس طرح سکتے ہیں.یہ غریب عزت دار ہیں.غربت میں بھی ان کو ابھی ہاتھ پھیلانے کی عادت نہیں.ان میں کوئی بھکاری آپ کو نظر نہیں آئے گا.غریب فاقہ کش مزدور کثرت سے دیکھیں گے لیکن کوئی فقیران میں دکھائی نہیں دے گا.بڑی محنت کش قوم ہے.تو میں نے کہا کہ ایک ایسی باعزت قوم کو جس کا نفس معزز ہے اگر چہ بدن غریب ہے ، اُس کے اندر خدا کی ایک ہی نعمت ہے اور وہ اس کی عزت نفس ہے.آپ اُسے بھکاری بنا کر وہ ایک دولت بھی اس کے ہاتھ سے چھین لیں.چنانچہ اس استدلال کا خدا کے فضل سے اثر پڑا اور وقف جدید کے معلمین بھی پورے عزم کے ساتھ اس علاقے میں یہ سمجھتے ہوئے گئے کہ ہم نے ان کو عزت نفس عطا کرنے کے لئے جانا ہے اور یہی پیغام اُن کو دیا.چنانچہ مقابلہ ایک طرف دولت کا تھا اور ایک طرف اخلاقی عظمت کا اور معلمین وہاں جا کر عیسائیوں کے مقا بل پر یہی پیغام دیتے تھے کہ کچھ لوگ تمہاری بھوک مٹانے کے لئے آئے ہیں.بہت اچھی بات ہے.تمہیں کپڑے پہنانے کے لئے آئے ہیں یہ بھی بہت اچھی بات ہے لیکن ساتھ ہی تمہیں بھکاری بنانے کے لئے بھی آئے ہیں اور پیسہ دیکر تمہارا مذہب تبدیل کرنے کے لئے آئے ہیں اور یہ اچھی بات نہیں.ہم تمہیں مزید عزت نفس عطا کریں گے.ہم تمہیں اسلام بھی دیں گے اور اس کے ساتھ تم سے مالی قربانی کے مطالبے بھی کریں گے اور تمہیں یہ کہیں گے کہ انتہائی غربت کے باوجود کچھ نہ کچھ نیک کاموں میں خرچ کرنے کی عادت ڈالو.یہ پیغام بظاہر کڑوا ہے لیکن درحقیقت تمہیں تحت الثر کی سے اُٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گا اور یہ سادہ پیغام اُن کے دل پر اتنا اثر انداز ہوا اور اتنا اس نے ان کے دلوں کو لبھایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عیسائیت کے مقابل پر احمدیت کو وہاں بڑی کثرت کے ساتھ ہندو غریب اقوام کو اسلام میں داخل کرنے کی توفیق ملی اور اس کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ خطبہ جمعہ ۴ جنوری ۱۹۹۱ء ہی پھر ان کے نچلے طبقے سے اٹھا کر ایک بغیر طبقات کے سوسائٹی میں عزت کا مقام عطا کیا گیا.چنانچہ اس کے خلاف سب سے زیادہ رد عمل دیگر مسلمان تھری لوگوں نے دکھایا.جب ہم اُن کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے تھے یا کھانا کھاتے تھے تو شدید نفرت کا اظہار دوسرے مسلمانوں کی طرف سے کیا جاتا تھا جن کے مذہب میں طبقاتی تقسیم کا تصور ہی کوئی نہیں اور ہندو اس نفرت سے ہمیں نہیں دیکھتے تھے بلکہ وہ حیرت سے دیکھتے تھے کہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی ظاہری عزت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور مذہب کے تبادلے کے نتیجے میں ان کے ساتھ برابر ہو گئے ہیں.بہر حال ایک لمبا عرصہ اس جد و جہد میں گزرا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں کی را میں تبدیل ہو ئیں سوچیں بدلی گئیں اور بہت بڑا انقلاب بر پا ہوا.مشکل صرف یہ در پیش تھی کہ ان کے اندر گہرا اسلام جذب کرانے کے لئے بہت محنت درکار تھی.سادہ محبت کا پیغام تو حید کا پیغام بڑی آسانی سے سمجھ جاتے تھے اور قبول بھی کر لیتے تھے لیکن اس بات کی راہ میں بہت بڑی دقتیں حائل تھیں کہ با قاعدہ نماز سکھائی جائے اور پھر نماز کا عادی بنایا جائے.روزے سکھائے جائیں اور پھر روزے رکھنے کی عادت ڈالی جائے اور اسلام کے پر ہیزوں کے متعلق تلقین کی جائے، پاکیزگی کے متعلق تلقین کی جائے.پھر اس پر عمل پیرا کرنے کے لئے اس پر ان کی مدد ہو، ان کی نگرانی کی جائے وغیرہ وغیرہ.اس عرصے میں یعنی اس گزشتہ تمام عرصے میں مسلسل وقف جدید کے معلمین وہاں یہی کام کر رہے ہیں اور اگر چہ حالات بہت ہی ناسازگار ہیں، اتنے ناسازگار ہیں کہ آپ جب تک وہاں جائیں نہ اُس وقت تک آپ کو تصورہی نہیں ہوسکتا کہ کن مشکلات میں وہاں وقف جدید کے معلمین نے پہلے کام کیا اور اب بھی اگر چہ مشکلات نسبتا کم ہیں لیکن پھر بھی بہت مشکل حالات ہیں.میں جب پہلی دفعہ وہاں گیا تو پہلی تکلیف جو شدت سے محسوس ہوئی وہ پانی کا فقدان تھا.یعنی پانی میسر تو تھا لیکن ایسا خوفناک کہ اُسے پینے سے بجائے اس کے کہ پیاس بجھے الٹی آتی تھی اور طبیعت متلانے لگتی تھی.تیل کی طرح کا پانی مٹھی کے علاقے میں ہوتا ہے اور وہ بھی قیمت دیکر خریدنا پڑتا تھا اور دنیا کی کوئی سہولت وہاں میسر نہیں تھی.وہ تو خیر کوئی ایسی معمولی بات ہے، عام دنیا کی جو موجودہ زمانے کی بڑی سہولتیں ہیں اس کے بغیر بھی انسان بہت اچھی طرح گزارہ کر سکتا ہے.زندگی کے انداز بدلنے پڑتے ہے لیکن پانی اچھا میسر نہ ہو تو زندگی بہت ہی تکلیف میں کٹتی ہے.بہر حال
خطبات طاہر جلد ۱۰ ما 5 خطبہ جمعہ ۴ جنوری ۱۹۹۱ء 66 معلمین وہاں اس حالت میں مستقل رہتے تھے جس حالت میں مجھ سے ایک دودن میں رہنا مشکل تھا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ کس تکلیف میں یہاں گزارہ کرتے ہیں چنانچہ بعد میں یہ کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح اُن کے پانی کے مسائل حل ہوں اور خدا کے فضل سے بعد میں حل بھی ہوئے لیکن اور آگے بڑھ کر ایک اور نئی مصیبت کا سامنا ہوا.وہاں پتا چلا کہ بعض ایسے سانپ ہیں جن کو پین“ کہتے ہیں سندھی تلفظ پین کہے گے.نون اور ڑ کے درمیان کا کوئی ہے.یعنی پی جانے والا سانپ اور وہ سانپ ڈستا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے کہ منہ پر منہ رکھ کر سانس پی جاتا ہے دراصل وہ زہر تھوکتا ہے اور اس کے زہر کا اثر گلے پر پڑتا ہے اور گلوں سے براہ راست آنکھوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کا مریض اگریچ جائے تو اندھا ہو جاتا ہے اور خود اس سانپ کی بھی یہ کیفیت ہے کہ اگر دن کی روشنی میں اس آنکھیں کھل جائیں تو وہ خود اندھا ہو جاتا ہے.اس لئے دن کے وقت بلوں میں، سوراخوں میں، مختلف اندھیری جگہوں میں، اینٹوں کے نیچے سر دے کر یہ سو جاتا ہے اور دن کے وقت بچے اُس سے کھیلتے ہیں جس طرح بٹی ہوئی رسی سے کھیلتے ہیں اُس طرح اس کو اپنے اردگرد لپیٹتے اور ایک دوسرے کو اس سے سانٹے مارتے اور اُس سانپ کا کوئی خوف نہیں لیکن جو نہی اندھیرا ہوتا ہے تو یہ باہر نکل کر مختلف جانداروں کے ساتھ لیٹ کر اُن کے منہ پہ مُنہ رکھ کر اس میں تھوکتا ہے اور اس کو اس میں کیا مزہ ہے، کیا وہ اس سے کیا لذت حاصل کرتا ہے، کوئی نہیں جانتا لیکن یہ عادت بہر حال اسی طرح ہی ہے.چنانچہ مجھے وہاں یہ بتایا گیا کہ یہ سانپ ہیں اور ہم نے دیکھے بھی ، رات کو سفر کر رہے تھے.تو طبیعت میں ایسی کراہت پیدا ہوئی کہ ساری رات نیند نہیں آئی.آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کے ساتھ کوئی سانپ آکر لیٹ جائے اور پھر منہ پر منہ رکھ دے.تو وہ جو مختلف نظارے وہاں دیکھے جس طرح معلم کام کر رہے ہیں تو طبیعت پر بڑا گہرا اثر پڑا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ واپس جا کر ان کی زندگی کونسبتا بہتر بنانے کے لئے وقف جدید میں جو غریبانہ طاقت تھی وہ استعمال کی گئی اور ان کے مسائل کو سمجھ کر پھر اُن سے کام لئے گئے بہر حال ان حالات میں وقف جدید نے وہاں کام کیا اور کر رہی ہے.اور عجیب حسن اتفاق ہے یا خدا کی تقدیر ہے یعنی دونوں چیز میں اکٹھی ہوں گی کہ ہندوستان میں جب وقف جدید کا اجراء ہوا ہے اور خاص طور پر یہاں آنے کے بعد جب میں نے بیرونی دنیا میں بھی وقف جدید کی تحریک کی تا کہ ہندوستان میں وقف جدید کے کام کو پھیلایا جائے تو وہاں بھی سب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 6 خطبہ جمعہ ۴ جنوری ۱۹۹۱ء سے زیادہ کامیابی راجستھان کے علاقے میں ہوئی ہے اور یہ وہی علاقہ ہے جو ہندوستان کا تھر سمجھ لیں یعنی سرحد کے اُس طرف اگر سندھ کا شھر کا علاقہ ہے تو اس کے پر لی طرف راجستھان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے اور وہاں بھی معلمین خدا کے فضل سے بڑی ہمت سے کام کر رہے ہیں بلکہ بعض لحاظ سے نامساعد حالات زیادہ ہیں کیونکہ وہاں خطرات بھی درپیش ہیں.یہاں کام کرتے ہوئے ہندوؤں سے احمدیوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وہاں چونکہ ہندومسلم مناقشتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور بعض دفعہ بہت بڑھ جاتی ہیں یعنی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لئے باقاعدہ منظم کوششیں ہوتی ہیں.ملک میں کہیں فساد ہو اس کا اثر ہر دوسری جگہ پر پڑتا ہے.تو راجستھان کے علاقے میں بھی کیونکہ ہندو اکثریت میں ہیں وہاں مسلمانوں کے لئے یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے کہ ہندوستان میں کسی جگہ فساد ہو راجستھان پر اثر پڑ جاتا ہے اور احمدی مبلغین پر بھی اثر پڑتا ہے نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں ان پر بھی اثر پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی نڈر مبلغین ہیں اور اُن کے حُسنِ خلق کا اثر بھی بہت ہے چنانچہ ابھی تازہ فسادات کے بعد کی جور پوٹیں ملی ہیں اُن سے یہ معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کا بہت ہی شکر ادا کرنے توفیق ملی کہ کسی احمدی کا نقصان نہیں ہوا بلکہ بعض فساد زدہ علاقوں کے ہندوؤں نے احمدیوں کی تائید کی اور علاقے کے مسلمان اس وجہ سے بچ گئے کہ احمدیوں نے اسلام کی جو صورت وہاں پیش کی تھی.اس میں کوئی قابل نفرت بات نہیں تھی بلکہ دل موہ لینے والی باتیں تھیں تو وہاں بھی خدا کے فضل سے اب وقف جدید کو اچھی خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور اس کے علاوہ دیہات میں جو روز مرہ تربیت کا کام ہے وہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور عموماً اس کی طرف نظر نہ رہنے کے نتیجے میں بڑے گہرے نقصان قوم کو پہنچ جایا کرتے ہیں.ہم نے جب ہوش سنبھالی تو یہی دیکھا کہ دیہاتی احمدی جماعتیں بڑی مخلص ہیں.قربانی کے میدانوں میں بھی آگے اور بہت ہی جوش کے ساتھ ہر پروگرام میں حصہ لینے والی اور جلسوں میں سب سے زیادہ بلند آواز میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے والی جماعتیں.اس زمانے میں یہ خیال بھی نہیں ہوا کہ اندورنی لحاظ سے علمی تربیت کی ان لوگوں میں کمی ہوگی اور یہ کمی پھر آئندہ نسلوں پر اثر انداز ہو گی.چنانچہ ایک لمبے عرصے تک یہی تصور تھا کہ شہری جماعتوں کے مقابل پر دیہاتی جماعتیں ہر لحاظ سے زیادہ بہتر اور مخلص ہیں لیکن جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف جدید کی تحریک جاری فرمائی اور یہ نصیحت کی کہ دیہاتی علاقوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 7 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء میں کام کرنا ہے، شہری علاقوں میں نہیں اور وہاں تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے تو اس کے پیچھے کوئی خاص الہی تقدیر کام کر رہی تھی.چنانچہ جب میں نے کام کا آغاز کیا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ منظم جائزہ لیا کہ ہمارے دیہات میں کتنے فیصد نو جوان اسلام کی اس ابتدائی تعلیم سے اچھی طرح واقف ہیں جس کے بغیر انسان مسلمان نہیں بن سکتا اور مسلمان کی تصویر ابھرتی نہیں ہے.معمولی ساخا کہ دکھائی دیدے گا ، ایک ہیولا سا کہ ہاں شاید یہ مسلمان ہیں مگر نقوش بھرنے چاہئیں.بغیر نقوش کے تو کوئی چیزا اپنی مکمل صورت میں ظاہر نہیں ہوا کرتی.چنانچہ جب ہم نے جائزے لئے تو یہ تعجب ہوا کہ بہت سے ایسے نوجوان دیہات میں ہیں جن کو مسیح لا اله الا الله محمد رسول الله بھی نہیں پڑنا آتا اور جب اس پر تعجب ہوا تو پتہ لگا کہ باقی غیر احمدی مسلمانوں میں تو اس سے بہت بڑی تعداد ایسی ہے.کلمہ کا لفظ جانتے ہیں لیکن تلفظ کے ساتھ اور معانی کو سمجھتے ہوئے کلمہ کس طرح ادا کیا جاتا ہے اس سے ناواقف اور جب مزید جائزہ لیا گیا نمازوں سے متعلق تو پتا چلا کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے، معمولی نہیں جس کو ساری نماز با ترجمہ نہیں آتی یعنی نماز تو اکثر احمدی نو جوانوں کو کچھ نہ کچھ آتی تھی مگر تلفظ کی خامیاں آپ نظر انداز بھی کر دیں تو ترجمہ سے ناواقف اور اگر نماز کا ترجمہ ہی نہ آتا ہوتو پھر نماز سے استفادے کا کیا سوال رہتا ہے یعنی حکم کی اطاعت تو ہو جاتی ہے مگر روز مرہ جونماز آپ کے اندر زندگی کی نئی لہریں دوڑاتی ہے، نیا روحانی خون عطا کرتی ہے نشو ونما کرتی ہے اُس سے انسان محروم رہتا ہے.اب ماں کے پیٹ میں جنین تو ہوتا ہی ہے لیکن بعض دفعہ مردہ جنین ہوتا ہے.اس کا بھی تعلق رہتا ہے اُس خون کی نالی کے ذریعہ جو پلیسینتا ( Placenta) سے بچے تک منتقل ہوتی ہے لیکن وہ نالی بند ہو جاتی ہے یا کسی اور نقص کی وجہ سے وہ خون پہنچنا بند ہو جاتا ہے تو ماں کے پیٹ میں جنین تو ہے لیکن مردہ جنین ہے.اس طرح وہ لوگ جو نماز پڑھتے تو ہیں لیکن نماز کے مطالب نہیں سمجھتے اس کے آداب نہیں جانتے ، اس کا فلسفہ نہیں سمجھتے، روز مرہ اس کے ذریعے خدا سے تعلق نہیں پیدا کرتے اُن کی نماز ایسی ہی ہے جیسے ایک جنین ہے جو پڑا ہوا ہے جب تک پیٹ میں ہے اُس وقت تک اُس کی حالت مخفی ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ زندہ ہے یا نہیں ہے لیکن موت کے بعد جب اس نے بچے کی طرح باہر آنا ہے اس وقت پتا چلے گا کہ اس نئی پیدائش میں اس میں جان پڑی تھی کہ نہیں پڑی تھی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 8 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء پس اسی پہلو سے میں گزشتہ کچھ عرصے سے خطبات دے رہا ہوں کہ جب نمازیں پڑھتے ہیں تو زندگی حاصل کرنے کے لئے پڑھیں اور اس کے لئے نماز کا ترجمہ آنا ضروری ہے اس کے مطالب کا سمجھنا ضروری ہے اور مختلف پہلوؤں سے نماز کی دنیا کی سیر کرنی ضروری ہے.ایک بہت بڑا جہان ہے جو روزانہ آپ پر کھلتا ہے جہاں آپ کو لے جایا جاتا ہے اور سیر کرنے کے مواقع دیئے جاتے ہیں اور بار بار یہ مواقع میسر آتے ہیں.بہر حال یہ وہ مصالح ہیں جن کے پیش نظر اس وقت ہم نے یہ جائزہ لیا کہ وقف جدید کے معلم کن دیہات میں پہلے کام کریں اور یہ جائزہ لینے کا مقصد یہ تھا کہ جہاں سب سے زیادہ لوگ نماز کے معنی سے غافل ہونگے ، دیگر روزمرہ کے مسائل سے ناواقف ہوں گے وہاں وقف جدید کے معلمین کو پہلے بھیجا جائے گا تو اُس قت جب سارے ملک کا جائزہ لیا گیا تو بغیر کسی ارادے کے، مجھے پہلے یہ علم نہیں تھا کہ یہ حالات ظاہر ہوں گے، بغیر کسی ارادے کے مزید جستجو کا موقع ملا تو ایسی ایسی باتیں دریافت ہوئیں کہ جن سے توجہ اس طرف منتقل ہوئی کہ دیہات کے علاقے بعض پہلوؤں سے اخلاص میں بہت بہتر ہوتے ہیں لیکن بعض پہلوؤں سے دین کے علم میں اتنا پیچھے رہ جاتے ہیں کہ وہ آئندہ زمانوں میں نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتے ہیں.آپ کی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے ایک نسل آپ کے ہاتھ سے نکلتی چلی جا رہی ہے اور آپ کو پتا نہیں لگ رہا یہاں تک کہ دین کے علم سے بے بہرہ خالی اخلاص اندھی تقلید پیدا کیا کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر ملائیت ابھرتی ہے اور گدھوں کی طرح جس طرف چاہیں ایسے لوگوں کو ہانک کر لے جائیں جو چاہیں ان کا دین بنا کر ان کو بتا دیں کہ یہ تمہارا دین ہے جو مسلک آپ کا ہو آپ ان کے ذمے لگا دیں کہ یہی تمہارا مسلک ہے.بغیر سوال کئے بغیر سوچے، بغیر کسی فکر اور تدبر کے یہ آنکھیں بند کر کے پیچھے لگ جانے والے لوگ بن جاتے ہیں تو اس پہلو سے جب میں نے اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا تو وقف جدید کے ذریعے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے مجھے اسلامی تاریخ کے ایک پہلو سے اس المیہ کو سمجھنے کا موقعہ ملا اور قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو سمجھنے کا موقعہ ملا جس میں اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 9 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء فرماتا ہے کہ تم سے پہلے ایسی قو میں گزری ہیں یعنی یہو جن کا دین بالآخر ایسے ہو گیا تھا جیسے گدھوں پر کتابیں لا دی گئی ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان لوگوں کی طرح نہ بن جانا کہ جن کے علماء کا یہ حال تھا کہ جیسے گدھوں پر کتابیں لا دی گئی ہوں اور اس سے وہ صحیح استفادہ نہ کر سکتے ہوں.اس تمثیل میں بہت ہی گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں اور پہلی بار اس کی گہرائی کا علم مجھے اسی زمانے میں ہوا جب میں وقف جدید کے سلسلہ میں علاقوں کے جائزے لے رہا تھا اور دیہاتی جماعتوں کے حالات کو اعدادوشمار کی صورت میں دیکھ رہا تھا، اس وقت پتا چلا کہ تو میں جب دین سے بے بہرہ ہونے لگتی ہیں تو ایسے علماء کے سپر د دین کا بوجھ کر دیتی ہیں جن کی اپنی حالت گدھوں کی طرح ہوتی ہے اور یہ بہت ہی حسین مثال ہے.انسان گدھے کی پیٹھ پر وہی بوجھ لا دتا ہے جو اُس کو اٹھانا مصیبت لگتا ہے اور محض اٹھانے سے اُس کو کوئی لذت محسوس نہیں ہو رہی ہوتی اور فائدہ نہیں ہوتا.اب کتابیں تو پڑھنے سے فائدہ دیتی ہیں اور پڑھنے سے ہی لذت دیتی ہیں صرف کتابیں اٹھائے پھرنے کا تو کوئی مزہ نہیں.تو جب دین کی باتیں ایسی ہو جائیں کہ وہ بوجھ ہی بن جائیں نہ ان کا ذاتی علم رہے، نہ ان کے پڑھنے کا شوق رہے تو انسان جس طرح کتابوں کا ایک انبار گدھے کی پیٹھ پر لاد دیتا ہے اس طرح تو میں اپنی دینی ذمہ داریاں ان علماء کی پیٹھ پر لاد دیتی ہیں جن کی اپنی حالت اس زمانے تک گدھے جیسی ہی ہو چکی ہوتی ہے یعنی کتابوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجو دان کے علم سے بے بہر ہ اور ان کی معرفت سے عاری ہوتے ہیں.تو قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یہود پر ایسا ہی ایک وقت آیا تھا کہ جب قوم نے اپنے دین کو بوجھ سمجھ لیا تھا اور بوجھ سمجھ کے انہوں نے بوجھ اٹھانے والے مزدور ڈھونڈے اور کثرت سے ایسے علماء موجود تھے جنہوں نے اس بوجھ کو اٹھا لیا لیکن دینی لحاظ سے ان کے راہنما بھی وہ گدھے بن گئے اور جب گدھے قوم کے راہنما بن جائیں تو اس قوم کا ہلاک ہو جانا ایک منطقی نتیجہ ہے.پس قرآن کریم نے یہ بہت ہی گہری مثال بیان فرمائی اور ہمیں نصیحت فرمائی کہ دیکھو پہلے ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے جبکہ ایک مذہبی قوم دین کے علم میں دلچپسی چھوڑنے کے نتیجے میں اس علم کو بوجھ سمجھنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 10 10 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء لگی تھی اور جب قوم کی یہ نفسیاتی حالت ہو جائے تو جن لوگوں پر وہ بوجھ ڈالا جاتا ہے وہ خود بھی اس نفسیاتی حالت کا پھل ہوا کرتے ہیں اور قوم سے الگ نہیں ہوا کرتے چنانچہ بوجھ تو اٹھا لیتے ہیں لیکن علم وہ بھی حاصل نہیں کرتے اور ایسے لوگ گدھوں کی طرح ہوتے ہیں.وہ آیت جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں ہے: مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ) الجمع : ٢) مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّورية اُن لوگوں کی مثال جن کو تو رات عطا کی گئی تھی ، تو رات کی ذمہ داریاں جن پر ڈالی گئی تھیں.ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا پھر وہ ذمہ داریاں ادا کر نے سے کترانے لگے اور اُن ذمہ داریوں سے پیٹھ پھر لی.كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ایک ایسے گدھے کی سی مثال ہے جو کتابوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے.اب اس میں ایک طرف یہ ہے کہ انہوں نے بوجھ اُٹھانا چھوڑ دیا، دوسری طرف ہے کہ گدھے کی سی مثال ہے جس نے بوجھ اُٹھایا ہوا ہے تو کیا مطلب بنتا ہے.وہی مطلب بنتا ہے جو میں پہلے تفصیل سے آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں.کہ قوم کو خدا تعالیٰ ذمہ داریوں کے طور پر شریعت عطا کرتا ہے، وہ بوجھ سمجھے لگتی ہے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکار کرتی ہے تو وہ بوجھ قوم کا ایک حصہ ضرور اٹھاتا ہے لیکن ایسے ہی اُٹھاتا ہے جیسے گدھے کتا بیں اُٹھانے والے ہوں.بہر حال میں بتا رہا ہوں کہ اس زمانے میں جب وقف جدید سے منسلک ہو کر میں نے سارے پاکستان میں اور مشرقی پاکستان بھی جو اس وقت ہمارے ملک کا حصہ تھا جائزے لئے تو اس قسم کے ہولناک کوائف نظر کے سامنے آئے.اس وقت خیال آیا کہ اگر آغاز اسلام سے ہی دیہات کی طرف نظر رکھنے کے کوئی انتظام کئے جاتے تو جس طرح بعد میں اسلام فرقوں میں بٹ گیا ہے کوئی بعید نہیں تھا کہ اس کی اس ہلاکت سے مسلمانوں کو بچایا جاسکتا.شہروں پر عموما لوگوں کی نظر رہتی ہے اور دیہات کو گہری نظر سے نہیں دیکھتے اور دیہات میں ہی پہلے علمی لحاظ سے کمی محسوس ہوتی ہے اور دیہات میں ہی جہالت کے نتیجے میں چند علماء پر اعتماد پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 11 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء جو کچھ یہ ہیں وہی ٹھیک ہے اور قرآن فرماتا ہے کہ اس دور کے علماء جبکہ عموما دین میں دلچسپی کم ہو جائے خود بھی گدھوں کی طرح ہو جایا کرتے ہیں.پس یہ وہ المیہ تھا جس سے بچنے کے لئے وقف جدید کا آغاز ہوا.چنانچہ جب ہم نے دیہات کے جائزے لینے کے بعد مریضوں پر نظر ڈالی ان کی تعداد دیکھی تو اس خیال سے وحشت ہوتی تھی کہ اتنی جائز ضرورتیں اس کثرت کے ساتھ ہیں اور ہم ان کو پورا نہیں کر سکتے ویسی ہی مثال ہے کہ: کو ن ہے جو نہیں ہے حاجت مند کی حاجت روا کرے کوئی (دیوان غالب صفحہ: ۳۳۰) سینکڑوں ہزار و مطالبے تھے.جس گاؤں کا بھی جائزہ لیا گیا.جس علاقے کا جائزہ لیا گیا ہر علاقہ پیاسا تھا.ہر جگہ علم کی بھوک تھی اور ایک طلب تھی کہ ہمارے پاس آدمی بھیجو ہمارے پاس آدمی بھیجو اور گنتی کے کل مبلغ جو پہلی کھیپ تھی وہ ۵۳ تھے پھر وہ ۰ے ہوئے پھر آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھنے لگی.تو وقف جدید نے ایک بہت ہی اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی اور وہ ضرورت ابھی تک باقی ہے اور اس ضرورت کا اُسے احساس ہے جو بعض علاقوں میں نہیں ہے لیکن رفتہ رفتہ ہوتا چلا جائے گا اور یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو دائی ضرورت ہے.اس لئے وقف جدید کی تحریک بھی عارضی تحریک نہیں بلکہ ایک دائمی تحریک ہے.ابھی تک پاکستان میں وقف جدید کے جتنے معلمین کی ضرورت ہے،اس کا دسواں حصہ بھی ہم پورا نہیں کر سکے.مشرقی پاکستان جو پہلے کہلاتا تھا اب بنگلہ دیش ہے وہاں کی بھی ضرورت ہماری طاقت سے اس وقت بہت زیادہ ہے ہندوستان میں تو بہت ہی تکلیف دہ حالت ہے کیونکہ مالی لحاظ سے جماعت نسبتا غریب ہے اور کچھ عرصے عدم تو جہگی کے نتیجے میں وہاں کی مالی قربانی کا معیار بھی گر گیا تھا.اب خدا کے فضل سے پھر بہتر ہورہا ہے تو اس لحاظ سے جتنی ضرورت ہے اس کے مقابل پر ہم ضرورت پورا کرنے کے لئے بہت کم مواد ر کھتے ہیں.مبلغین کے لحاظ سے بھی بہت کم تعداد ہے اور اموال کی ضرورت کے لحاظ سے بھی ایک عرصے تک بہت کمی محسوس ہوتی رہی.افریقہ جا کر آپ دیکھے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا کے فضل سے بعض علاقوں میں بہت تیزی سے جماعتیں پھیل رہی ہے لیکن جماعتوں کے پھیلنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم نے اپنے مقصد کو حاصل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 12 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء کر لیا.مقصد کا آغا ز تو پھیلنے کے بعد ہوتا ہے جب کوئی علاقہ احمدیت کو قبول کر لیتا ہے تو اس علاقے میں روحانی انقلاب بر پا کرنا احمدیت کا کام ہے.اگر قبول نہیں کرتا تو وہ کام ہی شروع نہیں ہوتا اس لئے بیعتیں کروانا آخری مقصود نہیں ہے بلکہ بیعتیں کروانا آخری مقصود کی طرف پہلا قدم اُٹھانے کا ایک ذریعہ ہے.پس یہ سارے افریقہ کے علاقے جہاں کثرت کے ساتھ جماعتیں پھیلی ہیں وہاں اب وقف جدید کی قسم کی تحریکوں کے خاموش مطالبے ہو رہے ہیں یعنی بزبان حال وہ علاقے کہہ رہے ہیں کہ یہاں بھی وقف جدید جاری کی جائے.انشا اللہ وقت آئے گا کہ دنیا کے ہر ملک میں یہ تحریکیں جاری ہوں گی اور وقف جدید کے ذریعے دیہاتی جماعتوں کی علمی ، روحانی ضرورتیں پوری کی جائیں گی.اب میں آپ کے سامنے مختصرا گزشتہ سال کے یا سال رواں کے مالی کوائف رکھتا ہوں.اس ضمن میں میں آپ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ چند سال پہلے غالباً پانچ سال پہلے میں نے باہر کی دنیا کے لئے بھی وقف جدید کے چندے میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی اور یہ گزارش کی تھی کہ اگر چہ اب تک یہ تحریک پاکستان تک محدود رہی ہے اور بعد میں بنگلہ دیش بھی اس میں شامل سمجھا جانا چاہئے کیونکہ پہلے وہ پاکستان ہی تھا اور وہاں ہندوستان میں بھی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جتنی ضرورت ہے اتنار و پیہ ہندوستان نہیں دے سکتا اس لئے باہر کی جماعتیں چندوں میں شامل ہو جائیں اگر چہ اُن کے اپنے اپنے ملکوں میں وقف جدید کا کام بے شک شروع نہ ہومگر چندوں کی برکت میں وہ شامل ہو جائیں اس سعادت میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت نے بہت ہی مثبت جواب دیا اور تقریباً ۵۲ ملک ایسے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے با قاعدہ وقف جدید کا چندہ آنا شروع ہو گیا.اس سال جب ہم نے جائزہ لے کر پہلے دس ممالک کی فہرست تیار کی کہ جو وقف جدید کی قربانی میں اول، دوم، سوم، دس نمبر تک آئے ہیں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جرمنی کی جماعت جو تحریک جدید میں بھی اول تھی، وقف جدید میں بھی اول رہی ہے اور پاکستان کو میں اس میں شامل نہیں کر رہا.پاکستان تو خدا کے فضل سے اپنی اولیت کو ہر پہلو سے برقرار رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو ثبات قدم کے لحاظ سے یا آزمائشوں پر رضا اور صبر کے ساتھ پورا اُترنے کے لحاظ سے، قربانیوں کے لحاظ سے اور کثرت کے ساتھ باخدا انسان پیدا کرنے کے لحاظ سے پاکستان کے مقابل پر ہو.پاکستان کی وہ اوّلیت جو ہندوستان سے ہجرت کے بعد اس کو عطا ہوئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 13 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء بفضلہ تعالیٰ ابھی تک قائم ہے تو آئندہ کے اعداد و شمار میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس میں آر پاکستان کو شامل نہ سمجھیں، اُس کے علاوہ کے اعداد و شمار ہیں.جرمنی اول رہا ہے اور تحریک جدید میں بھی اول تھا اور خوشی والا تعجب اس بات پر ہے کہ ہندوستان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے.گو باقی امور میں مختلف قسم کے جو چندے ہیں ان میں ہندوستان کا نمبر بہت پیچھے ہے لیکن وقف جدید میں خدا کے فضل سے ہندوستان اس وقت دنیا کی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے.تحریک جدید میں ہندوستان کی پوزیشن چھٹے نمبر پر تھی.برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے اور امریکہ چوتھے نمبر پر، برطانیہ تحریک جدید میں دوسرے نمبر پر تھا تو ایک سیڑھی نیچے اترا ہے وقف جدید کے معاملے میں اور اسی طرح امریکہ نے بھی اور کینیڈا نے بھی یہی نمونہ دکھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر اس کا برعکس مضمون دکھاتا ہے.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ: ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (درین صفحہ ۱۷) لیکن یہاں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا برطانیہ کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ تیرے گھٹنے سے قدم آگے گھٹایا ہم نے ، ایک قدم تو اترا ہے تو ہم بھی ایک ہی قدم اترے ہیں تو تحریک جدید کے مقابل پر وقف جدید میں جو مثال برطانیہ نے قائم کی وہی امریکہ نے اختیار کی اور کینیڈا نے بھی اور انڈونیشیا نے بھی.کافی دور دور تک آپ کے نمونے کے اثر پہنچے ہیں اور ماریشس بھی اسی طرح اسی نمونے پر ہے.یعنی سارے ایک ایک سیڑھی نیچے اتر گئے ہیں.لیکن ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ ناروے جو آٹھویں نمبر پر ہے اس کا پہلے تحریک جدید میں کہیں کوئی شمار ہی نہیں تھا، یہ بھی جس طرح Dark Horse ہوتا ہے گھڑ دوڑ میں، ایک نامعلوم Unseen Player کی طرح اچانک وقف جدید میں ایک پوزیشن حاصل کر گیا ہے اور ڈنمارک بھی اسی طرح تحریک جدید کے مقابلے میں شامل نہیں ہو سکا تھا لیکن نویں نمبر پر آ گیا ہے اور ہالینڈ دسویں نمبر پر ہے.پہلے بھی دسویں نمبر پر تھا اس نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے.جہاں تک فی کس چندہ دینے کا تعلق ہے، تحریک جدید میں جاپان خدا کے فضل سے دُنیا کے سب ممالک میں آگے تھا ، اب سوئٹزر لینڈ نے یہ پوزیشن حاصل کر لی ہے یعنی وقف جدید کا فی کس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 14 خطبہ جمعہ ۴ جنوری ۱۹۹۱ء چندہ دینے کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ نمبر ایک ہے پھر امریکہ، پھر ایران، پھر جاپان، پھر ہالینڈ اور فرانس اکٹھے اور پھر نبی ، پھر کینیڈا، پھر جرمنی اور دسویں نمبر پر یو.کے ہے.اس پہلو سے امریکہ نے اور کینیڈا نے یو.کے کی پیروی نہیں کی اور بچ گئے.کل وعدوں کا جہاں تک تعلق ہے یہ بھی میں پاکستان کے وعدے اور وصولیوں کا ذکر چھوڑ کر صرف بیرون کا کر رہا ہو ں.سال ۱۹۸۹ء میں وعدے 63552 پونڈ کے تھے.ان وعدوں میں بہت سے ایسے ممالک شامل نہیں ہیں جن سے رو پی منتقل نہیں ہوسکتا یا جو اپنے اعداد و شمار بہت تاخیر سے بھجواتے ہیں.اس ضمن میں میں آپ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ ہمارا شعبہ مال خدا کے فضل سے بڑی مستعدی سے کام کرتا ہے.اگر چہ یہاں ہمارے شعبہ حال تحریک جدید میں کوئی بھی مستقل تنخواہ دار یا تنخواہ تو ہمارے چلتی نہیں گزارا الا ونس سمجھ لیں ، گزارا الا ونس پانے والا کار کن نہیں ہے اور صرف دو کارکن ایسے ہیں جو طوعی طور پر اور وقف کی طرح ایک خدمت بجالا رہے ہیں مگر طوعی طور پر.ان میں ہمارے وکیل المال یا ایڈیشنل وکیل المال کہنا چاہئے کیونکہ اصل وکیل المال تو ربوہ میں ہیں ایڈیشنل وکیل المال محمد شریف صاحب اشرف ہیں اور ان کے ساتھ چو ہدری محمد رفیق صاحب خدمت سر انجام دیتے ہیں دونوں ہی خدا کے فضل سے رضا کارانہ خدمت کرنے والے والے ہیں لیکن ایسا عمدہ کام سنبھالا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک پورا بڑا دفتر کام کر رہا ہے اور گھڑی کی طرح با قاعدگی کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر جو کام ہونے ا چاہئیں وہ شروع کر دیتے ہیں چنانچہ ان کا طریق یہ ہے کہ دسمبر کے آغاز سے دو ڈیڑھ مہینے پہلے سے با قاعدہ تمام جماعتوں کو یہ خط لکھنے شروع کر دیتے ہیں کہ وقف جدید کا سال اختتام پذیر ہے آپ فوراً رپورٹیں تیار کریں اور دسمبر کے آغاز سے پہلے پہلے اس دفتر تک پہنچ جانی چاہئیں.اس پہلو سے جماعتوں کا جور د عمل ہے وہ کوئی اتنا خوشکن نہیں ہے.لیکن گزشتہ سال کے مقابلے پر پھر بھی کچھ بہتر Response یا جواب ہے.گزشتہ سال ۲۰ جماعتوں نے بر وقت رپورٹ بھجوائی تھی امسال 26 جماعتوں سے بر وقت رپورٹیں موصول ہوئی ہیں اور جہاں تک رپوٹوں کے با قاعدہ آنے کا تعلق ہے خواہ وہ وقت پر آئی ہوں یا بعد میں تو خدا کے فضل سے 52 مختلف ممالک سے گزشتہ سال رپورٹیں آئی تھیں ان 52 کے اعداد وشمار پر انحصار کرتے ہوئے یہ اعداد و شمار جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں بنائے گئے ہیں اس لئے ان کے متعلق ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ کچھ اندازے ان میں شامل ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 15 خطبہ جمعہ ۴ جنوری ۱۹۹۱ء رپورٹیں اب تک 52 میں سے صرف 26 کی ملی ہیں اور باقی جور پورٹیں ہیں وہ ہم نے گزشتہ سال کے اعداد و شمار کو شامل کر لیا ہے.اس پہلو سے جو اعداد و شمار بنیں گے ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہتری تو ہوسکتی ہے کمی نہیں آئے گی یعنی 26 ممالک کے اعداد و شمار من وعن وہی ہیں جو واقعہ ہیں اور باقی کے متعلق اندازہ ہے کہ پچھلے سال جیسی بھی قربانی اگر وہ کریں تو اتنی وصولی ان کی طرف سے ہو جانی چاہئے.اس تمہید اور تعارف کے بعد اب میں اعدادو شمار پھر دوبارہ پڑھتا ہوں سال گزشتہ ، کل وعدے 63552 پونڈ کے تھے اور کل وصولی 69012 پونڈ کی تھی.سال ۹۰ء میں خدا کے فضل سے وعدوں میں بھی ترقی ہوئی اور 86867 کے وعدے ہوئے اور وصولی میں بھی ترقی ہوئی اور 87255 کی وصولی ہوئی.جہاں تک شامل ہونے والوں کا تعلق ہے گزشتہ سال یہ تعداد 23227 تھی یعنی پاکستان سے باہر کے سارے دنیا کے ممالک میں 23227 ایسے خوش نصیب تھے جنہوں نے وقف جدید کی تحریک میں حصہ لیا.امسال 29721 ہیں یعنی کسی قدر اضافہ ہے.پچھلے سال بچگان کی تعداد صرف 6 ممالک سے موصول ہوئی تھی حالانکہ بچوں کے متعلق تو شروع سے ہی یہ وقف جدید بہت زور دے رہی ہے اور حضرت مصلح موعود نے اس طرف بہت توجہ دلائی کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس میں شامل کرنا چاہئے.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث تو خلافت کے اپنے تمام عرصے میں وقف جدید کی تحریک سے متعلق بڑوں کے چندوں کے مقابل پر بچوں کے چندوں میں زیادہ دلچسپی لیا کرتے تھے اور جب میں اعداد وشمار پیش کیا کرتا تھا تو پوچھا کرتے تھے کہ بچوں میں بتاؤ کتنا اضافہ ہوا.اس میں ایک حکمت دی تھی اور بہت بڑی حکمت ہے کہ چندے سے زیادہ ہمیں اگلی نسلوں کے اخلاص میں دلچسپی ہونی چاہئے اگر ہم بچوں کو شروع ہی سے خدا کی راہ میں مالی قربانی کا مزا ڈال دیں اور اس کا چسکا ان کو پڑ جائے تو آئندہ ساری زندگی یہ بات ان کی تربیت کے دوسرے معاملات پر بھی اثر انداز رہے گی اور جس کو مالی قربانی کی عادت ہو وہ خدا کے فضل سے عبادتوں میں بھی بہتر ہو جاتا ہے.جماعت سے عمومی تعلق میں بھی اچھا ہو جاتا ہے اور یہ اس کی روحانی زندگی کی ضمانت کا بہت ہی اہم ذریعہ ہے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث " مجھے ہمیشہ بچوں کے متعلق زیادہ تاکید کیا کرتے تھے اور سوال بھی یہی ہوا کرتا تھا کہ بتاؤ بچوں میں کتنوں نے حصہ لیا ہے.بعض دفعہ ہم اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے بعض دوستوں سے بڑے بڑے وعدے لے لیا کرتے تھے تو حضرت خلیفہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 16 خطبہ جمعہ ۴ / جنوری ۱۹۹۱ء المسیح الثالث کو میں نے کبھی اس پر زیادہ راضی ہوتے نہیں دیکھا.وہ یہی کہا کرتے تھے کہ بجائے اس کے کہ بعض لوگوں سے زیادہ لوزیادہ لوگوں سے کم بیشک لولیکن زیادہ لوگوں سے لو چنا نچہ اسی لئے میں نے بھی ہمیشہ یہی زور دیا ہے کہ زیادہ تعداد میں احمدی شامل ہوں اور خصوصیت سے بچے تو امسال میں یہی توجہ دلاتے ہوئے اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے اگر چہ بیرونی جماعتیں بغیر کسی مرکزی محنت کے از خود وقف جدید کے چندے میں دلچسپی لے رہی ہیں اور دن بدن آگے بڑھ رہی ہیں لیکن اس سال اس بات پر بہت زور دیں کہ شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھائی جائے اور اگلی نسل کے زیادہ سے زیادہ بچے بے شک کم سے کم دیں مگر وقف جدید میں ضرور شامل کر لئے جائیں.اُس سے انشا اللہ تعالی آئندہ نسلوں کے دین کی ، ان کے اخلاص کی بھی حفاظت ہوگی اور ان کی ضمانت ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ تمام دنیا میں پھیلتے ہوئے اور مزید ابھر کر نظر کے سامنے آتے ہوئے دینی تقاضوں کو پورا کریں اور خدا کی رضا کے مطابق ان کو پورا کرسکیں.اس وقت تک وقف جدید کی کل آمد 72 لاکھ روپے یا اس سے کچھ زائد ہو چکی ہے اور یہ 33 واں سال ہے.تحریک جدید کے 33 واں سال میں کل آمد کیا تھی.اس کا ابھی ہمیں علم نہیں لیکن غالب خیال یہی ہے کہ تحریک جدید کے 33 ویں سال میں کل آمد اس سے کم تھی.اس لحاظ سے اگر چہ شروع میں یہ تحریک بہت پیچھے تھی تحریک جدید کے مقابل پر لیکن بعد میں اس کا قدم تیز تر ہو گیا ہے.تو جب اعداد و شمار آئیں گے تو پھر آئندہ میں آپ کو بتا دوں گا کہ وہ موازنہ کیا ہے لیکن بہر حال ایک کروڑ کا ٹارگٹ اب ہمیں اپنے سامنے نظر آرہا ہے.اگر ہم افراد کی تعداد بڑھا کر ایک کروڑ کا ٹارگیٹ حاصل کر لیں تو ایک دل کو بہت مطمئن کرنے والی بات ہوگی اور ایمان افروز بات ہوگی کہ وقف جدید کی تحریک جو بظاہر معمولی سی تحریک کے طور پر جاری ہوئی تھی وہ خدا کے فضل سے اس تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے کہ صرف اسی تحریک کا سالانہ وعدہ ایک کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.دعاؤں کے ذریعے بھی مددکریں کیونکہ دنیا میں کوئی دینی تحریک صحیح معنوں میں پنپ نہیں سکتی اور بارآور نہیں ثابت ہو سکتی جب تک آسمان سے اس کو پھل نہ لگیں اور آسمان سے پھل دعاؤں کے ذریعے ہی حاصل کئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 17 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء خلیج کا بحران ، عراق کی تباہی یقینی بنادی گئی ہے.( خطبه جمعه فرموده اارجنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جب خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو اُس کے بعد حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا نکاح حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا.چنانچہ اس نکاح کے بعد اُس سفر سے واپسی پر حضرت اقدس محمد رسول الله ﷺ جس اونٹنی پر سوار تھے اسی سواری کے پیچھے حضرت صفیہ کو بھی پیچھے بٹھا لیا.جو باتیں اس عرصے میں ہوئیں اُن میں سے ایک خاص موضوع پر جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ احادیث میں محفوظ ہے.آپ نے فرمایا کہ صفیہ! میں تم سے بہت معذرت خواہ ہوں اور دل کی گہرائی سے معذرت کرتا ہوں اس بات پر جو میں نے تمہاری قوم کے ساتھ کی یعنی یہودیوں کا قلعہ خیبر جو فتح کیا اور اس دوران جو یہود کے ساتھ سختی کی گئی اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صفیہ سے آنحضرت ﷺ نے معذرت فرمائی.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس واقعہ سے پہلے تمہاری قوم نے مجھ سے کیا سلوک کیا تا کہ تمہیں یہ غلط فہمی نہ رہے کہ گویا میں نے کسی تعصب کے نتیجے میں نا واجب ظلم کے طور پر قلعہ خیبر پرحملہ کیا اور اس کو تاخت و تاراج کیا.چنانچہ آنحضور ﷺ نے آغاز سے لے کر اس وقت تک کے یہود قبائل کے ان مظالم کا اور ظلم و ستم کا ذکر کرنا شروع فرمایا جو شروع سے ہی وہ کرتے چلے آئے تھے اور پھر اپنی ذات سے متعلق خصوصیت سے حضرت صفیہ کو بتایا کہ کس طرح میرے اوپر یہ لوگ ذاتی حملے کرتے رہے اور میری کردار کشی کرتے رہے اور گالیاں دیتے رہے اور اس ساری گفتگو کا مقصد یہ تھا کہ نکاح کے بعد جو خاتون گھر میں تشریف لا رہی ہیں اُن کے دل پر کسی قسم کی غلط فہمی کا داغ نہ رہے اور آنحضرت ﷺ کی اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 18 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء شخصیت کے متعلق کسی قسم کی کوئی بھی غلط نہی باقی نہ رہے.ނ ان دنوں چونکہ عراق کا معاملہ زیر بحث ہے، عراق اور کویت کا جو جھگڑا چلا ہے اس ضمن میں میں نے کئی خطبات اس موضوع پر دیئے کہ مغربی قو میں ان مسلمان ممالک سے کیا کر رہی ہیں.اس دوران مجھے بھی بار ہا یہ خیال آیا کہ وہ احمدی مسلمان جو مغربی قوموں سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے دل میں کہیں یہ وہم پیدا نہ ہو کہ ہم نسلی اختلافات کی وجہ سے اس طرح مغرب کو تنفید کا نشانہ بنارہے ہیں اور احمدیوں کے اندر بھی گویا دبا ہوا نسلی تعصب موجود ہے.پس سب سے پہلے تو میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمدﷺ کے پیغامات میں سے ایک اہم پیغام یہ تھا جسے آپ نے اپنی زبان سے بھی دیا اور اپنے فعل سے بھی اس کی سچائی ثابت فرمائی کہ مذہب کا نسلی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں اور مذہب اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ تعصب کے نتیجے میں کسی.اختلاف کیا جائے یا کسی سے کسی قسم کا جھگڑا کیا جائے.جماعت احمد یہ بھی حضرت اقدس محمد مصطفی کی سنت کے معدوم حصوں کو زندہ کرنے والی جماعت ہے.ایسی سنت کو اپنے کردار میں از سرنو زندہ کرنے کا عزم لے کر اُٹھی ہے جس سنت کے حسین پہلوؤں کو بالعموم مسلمانوں نے بُھلا رکھا ہے.پس اس پہلو سے دُنیا کے کسی انسان کے ذہن میں یہ وہم نہ رہے کہ جماعت احمدیہ بھی نعوذ بالله من ذلك مشرق اور مغرب کی تقسیموں میں اور اختلافات میں یا سفید اور سیاہ کے اختلافات میں کسی قسم کا نسلی تعصب رکھتی ہے.کیونکہ نسلی تعصب اور اسلام بیک وقت ساتھ نہیں رہ سکتے پس جو بھی تنقید میری طرف سے کی جاتی رہی ہے اور کی جائے گی وہ اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے پیش نظر ہے اور اس پہلو سے جو بھی تنقید کا سزاوار ٹھہرے گا.اس پر تنقید کی جائے گی مگر تکلیف دینے کی خاطر نہیں بلکہ حقائق سامنے رکھنے کے لئے اور معاملات سمجھانے کی خاطر.اس تمہید کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب بھی میں تبصرہ کرتا ہوں اپنے دل کو خوب اچھی طرح ٹول لیتا ہوں اور کبھی بھی کسی قسم کے تعصب کی بناء پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ خدا کے حضور اپنے دل کو پاک صاف کر کے حقائق اور سچائی بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں.یہ سچائی بعض صورتوں میں بعض لوگوں کو کڑوی لگتی ہے ، بعض صورتوں میں بعض دوسرے لوگوں کو کڑوی لگتی ہے.مگر اس میں ہماری بے اختیاری ہے.ہم محض تعصبات کی وجہ سے کسی ایک کا ہمیشہ ساتھ نہیں دے سکتے.ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں گے، ہمیشہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 19 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء کلام اللہ کا ساتھ دیں گے، ہمیشہ سنت نبوی کا ساتھ دیں گے اور جس نے ہمارا ہمیشہ کا دوست بنتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کلام اللہ کا دوست بن جائے، وہ سنت نبوی محمد ﷺ کا دوست بن جائے اور حق کا دوست بن جائے.سچائی کا دوست ہو جائے.ایسی صورت میں وہ ہمیں ہمیشہ اپنے ساتھ پائے گا.پس اس مختصر وضاحت کے بعد اب میں دوبارہ اسی مسئلے کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس پر دو خطبات چھوڑ کر اس سے پہلے کئی خطبات میں میں نے گفتگو کی.یعنی عراق کو یت کے جھگڑے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عالمی صورت حال ، اب صرف چند دن ایسے رہ گئے ہیں جن میں امن کی کوششیں بہت تیز کر دی گئی ہیں اور بالآ خر رخ اسی مشورے کی طرف ہے جو مشورہ میں نے آغاز میں قرآنی تعلیم کی صورت میں پیش کیا تھا.میں نے قوموں کو متوجہ کیا تھا کہ اس کو اسلامی معاملہ رہنے دیں اور عالم اسلام آپس میں نپٹا ئے.عالم عرب بھی نپٹانے کی کوشش کرے مگر فی الحقیقت یہ درست نہیں ہوگا کہ عرب اسے صرف اپنا عرب مسئلہ بنالیں لیکن افسوس ہے کہ اس معاملہ میں جو کوششیں شروع کی گئی ہیں وہ بہت ہی تاخیر سے شروع کی گئی ہیں.اب عالمی مسئلے سے عرب مسئلے کی طرف تو توجہ بڑی بڑی قوموں کی مبذول ہو چکی ہے.لیکن مسلمان مسئلے کے متعلق ابھی چند دن پہلے پاکستان میں بعض وزارئے خارجہ کی ایک کانفرنس ہوئی.اس میں اس مسئلے کو چھیڑا گیا اور پاکستان کی طرف سے ایک کوشش کی گئی کہ تمام دنیا کے مسلمان ممالک مل کر اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کریں.لیکن اتنی تاخیر کے ساتھ اُٹھایا گیا قدم ہے کہ بظاہر اس کے نتیجے میں کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا.موجود صورت یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ ان قوموں کی فہرست میں اولیت رکھتے ہیں جو شدت کے ساتھ عراق کو چل دینے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور ان ہی کی راہنمائی میں ، ان ہی کی سیادت اور قیادت میں جنگ کا طبلہ بجایا جا رہا ہے اور بار بار اس بات کو دُہرایا جارہا ہے کہ عراق کو نیست و نابود کر دینا ضروری ہے تا کہ دُنیا باقی رہے.یعنی عراق اگر اپنی اس طاقت کے ساتھ باقی رہ گیا اور اسے اور موقعہ مل گیا تو دنیا کا امن مفقود ہو جائے گا بلکہ دنیا کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہو گا یہ ایک مؤقف ہے جسے بلند آواز سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اور بار بار جب انٹرویوز ہوتے ہیں یا اخبارات میں ان لوگوں کے سوال و جواب چھپتے ہیں تو ان میں ایک بات کو پیش کیا جا رہا ہے کہ دیکھو عراق نے کویت پر کتنے مظالم کئے ہیں اور اتنے خوفناک مظالم کے بعد جو عالمی رائے عامہ ہے کس طرح اس کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 20 20 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء نظر انداز کر سکتی ہے.ایسے ظالموں کو جنہوں نے قتل و غارت کیا ،جنہوں نے لوٹ مار کی ،گھروں کو جلایا ، ان کوخود زندہ رہنے کا کیا حق رہ جاتا ہے.اگر آج اس ظلم کے خلاف بیک وقت تمام قوموں نے مل کر پیش قدمی نہ کی اور ظالم کو سزا نہ دی تو پھر فلموں کی راہیں کھل جائیں گی اور کوئی بھی کسی کو ظلم کی راہ پر چلنے سے روک نہیں سکے گا.یہ موقف ہے اس کا خلاصہ یہ ہے اور عراق کا مؤقف اس کے برعکس یہ ہے کہ تم بڑے بڑے اصولوں کی اور اعلی اخلاق کی باتیں کر رہے ہو لیکن بھول جاتے ہو کہ مشرق وسطی میں عرب علاقوں میں جو کچھ بھی بے اطمینانی ہے اور بے چینی ہے جس کے نتیجے میں بار بار امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اس کے اصل ذمہ دار تم ہو اور جب بھی ایسے مواقع آئے جب اُن مسائل کو جو مشرق وسطی سے تعلق رکھتے ہیں حل کیا جا سکتا تھا تو تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے روکیں پیدا کیں اور ایسی ہی بات جو ہم نے کی ہے یعنی جسے تم نا جائز قبضہ کہتے ہو، عراق ناجائز تو نہیں کہتا مگر کہتا ہے کہ جس طرح ہم نے کویت پر قبضہ کیا ہے اس طرح اسی قریب کے زمانے میں اسرائیل نے اُردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے اور تم United Nations کی باتیں کرتے ہو حالانکہ United Nations نے بار ہا ریزولیوشنز کے ذریعے اسرائیل کو قبضہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشیش کیں اور ہر بار خصوصیت کے ساتھ امریکہ نے ان کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکائے اور بلکہ اگر Resolutions کو Vito کرنا پڑا تو ویٹو کر دیا.تو عراق ،امریکہ اور برطانیہ کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ تم اخلاق اور پھر اعلی اصولوں کی باتیں ترک کر دو.اگر واقعی تمہارے نزدیک ان اصولوں کی کوئی قدر و قیمت ہے تو پھر مجموعی طور پر ان تمام مسائل کو ایک ہی پیمانے سے ناپنے کی کوشش کرو اور ایک ہی طریق پر حل کرنے کی کوشش کرو، جو مسائل عراق کویت مسئلے سے ملتے جلتے پہلے سے موجود ہیں اگر تم ایسا کرو تو ہم اس بات پر رضامند ہوتے ہیں کہ ہم بھی انہی اصولوں کے مطابق جو بھی انصاف کے فیصلے ہیں ان کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے.ایک پہلو تو ان کے مؤقف کا یہ ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کسی ملک کو کسی ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دی جائے محض اس لئے کہ وہ طاقتور ہے تو پھر دنیا سے امن ہمیشہ کیلئے اُٹھ جائے گا.یعنی ظلم والے حصے کے علاوہ اس کو الگ پیش کیا جاتا ہے اور قبضے والے حصے کو الگ پیش کیا جاتا ہے گویا وہ دو دلائل ہیں.اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جوتو میں یہ باتیں کرتی ہیں اُن کی اپنی تاریخ اُن کے خلاف ایسی سخت گواہی دیتی ہے کہ کبھی دنیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 21 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء کی کسی قوم کے خلاف اس قوم کی تاریخ نے ایسی گواہی نہیں دی.امریکہ کی جو موجودہ حکومت ہے اس کا یورپ سے تعلق ہے اور زمانے کا جو نیا دور شروع ہو چکا ہے اسی زمانے میں یہ لوگ یورپ سے امریکہ گئے.سترہویں صدی کے آغاز کی بات ہے کہ پہلی دفعہ امریکہ دریافت ہوا اور اس کے بعد انہوں نے سارے امریکہ پر ، شمالی امریکہ پر بھی اور جنوبی امریکہ پر بھی قبضہ کر لیا اور جو مظالم اُنہوں نے وہاں تو ڑے ہیں اور جس طرح نسل کشی کی ہے اُس کی پوری کی پوری تاریخ انسانی میں کوئی مثال شاذ ہی ملتی ہوگی.اُن قوموں کو جو اس وسیع براعظم کی باشندہ تھیں وہ ایک قوم تو نہیں تھی مگر Red Indians کے نام پر وہ ساری مختلف تو میں مشہور ہیں ان کا با قاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے قلع قمع کیا گیا یہاں تک کہ وہ گھٹتے گھٹتے اب آثار باقیہ کے طور پر رہ گئی ہیں.یہی وہ قومیں ہیں جو جانوروں کے ساتھ ایسی محبت رکھتی ہیں کہ بار بار آپ ان کے پریس میں یا ان کے ٹیلی ویژن وغیرہ پر ایسے مضامین اور پروگرام دیکھ سکتے ہیں کہ جس میں یہ بتاتے ہیں کہ فلاں نسل کے غائب ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس کو بچاؤ.لیکن وسیع براعظم پر پھیلی ہوئی مختلف ریڈ انڈین قوموں کو خود انہوں نے اس طرح ہلاک کیا ہے اور اس طرح ملیا میٹ کیا ہے کہ ان میں بہت سی ایسی ہیں جن کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور بہت تھوڑی تعداد میں وہ قو میں باقی رہ گئی ہیں جن کا ذکر ان کی تاریخ میں اور ان کے لٹریچر میں ملتا ہے.اب وہ صرف انکی فلموں میں دکھائی دیں گی یا اُن کے لٹریچر میں ورنہ اکثر وہ قبائل صفحہ ہستی سے بالکل نابود ہو چکے ہیں اور جس رنگ میں مظالم کئے گئے ہیں وہ تو ایک بڑی بھاری داستان ہے.پھر افریقہ پر قبضہ کر کے یا افریقہ پر حملے کر کے یورپین قوموں نے جس طرح مظالم کئے ہیں جس طرح ان کو غلام بنا کر کھوکھہا کی تعداد میں بیچا گیا اور ان سے زبر دستی مزدوریاں لی گئیں اور امریکہ میں سب سے زیادہ ان قیدیوں کی مانگ تھی جن کو غلام بنا کر پھر امریکہ میں فروخت کیا گیا اور آج امریکہ کی آبادی بتا رہی ہے کہ وہاں کثرت کے ساتھ یہ سیاہ فام امریکن اسی تاریخ کی یاد زندہ کر نیوالے ہیں جب انسانوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا گیا کہ اس کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جن قلعوں میں انکو پہلے قید رکھا جاتا تھا ان میں سے ایک قلعہ میں نے بھی دیکھا ہے اور اتنی تھوڑی جگہ میں اتنے زیادہ آدمیوں کو بھر دیا جاتا تھا کہ Black Hole کے متعلق جو ہم نے ہندوستان کی تاریخ میں پڑھا ہوا ہے ویسے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 22 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء Black Hole بار بار بنائے گئے اور بہت سے آدمی اُن میں سے دم گھٹ کر مر جایا کرتے تھے اور باقیوں کو پھر گائے اور بھینسوں کی طرح ہانک کر جہازوں پر سوار کر دیا جاتا تھا.جہازوں کی جو حالت ہوتی تھی وہ ایسی خوفناک تھی کہ ان کے اپنے مؤرخین لکھتے ہیں کہ جہاز پر ایک بڑی تعداد میں وہ سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکنے کے نتیجے میں مر جایا کرتے تھے.اور بہت ہی برے حال میں وہاں پہنچا کرتے تھے.پھر وہاں ان کو اِس طرح ہانکا جاتا تھا جس طرح گائے بیل کو ہانکا جاتا ہے.سانٹے مار کران سے با قاعدہ مزدوریاں لی جاتی تھیں یا ان کی سواریاں چلاتے تھے، ان کے ہل چلاتے تھے.ہر قسم کے کام جو بالعموم انسان جانوروں سے لیتا ہے وہ ان سے بھی لیتا تھا.تو جس قوم کی یہ تاریخ ہو آج وہ یہ اعلان کر رہی ہو کہ انسانیت اور اعلی اخلاق کے نام پر ہم مجبور ہو گئے ہیں کہ کو بیت کی سرزمین کو بحال کرنے کیلئے ان کمزوروں کی مدد کریں.ظلم و ستم ہو رہا ہے.اس کے خلاف ہم علم بلند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ ہماری اعلی اخلاقی قدریں ہم سے یہ تقاضا کر رہی ہیں، اگر ہم نے یہ نہ کیا تو دنیا سے انسانیت مٹ جائے گی.اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو دنیا سے ہر غریب اور کمزور ملک کا امن و امان اٹھ جائے گا.اس کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں رہے گی.اگر یہ واقعہ درست ہے اور اگرچہ بہت دیر میں خیال آیا ہے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بہت اچھا اب اس نیک خیال کے نتیجے میں امریکہ خالی کر دو اور جو بیچارے چند بچے کھچے Red Indians رہ گئے ہیں ان کے سپردان کی دولت کر کے واپس اپنے اپنے پرانے آبائی ملک کی طرف لوٹ جاؤ ؟ لیکن جب آپ یہ کہیں گے تو کہیں گے تم پاگل ہو گئے ہو؟ تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ ان دونوں کے درمیان کوئی Link نہیں ہے.وہ اور بات تھی یہ اور بات ہے.اب اگر دو ایک جیسی باتوں کو اور بات اور اور بات کہ کر رد کر دیا جائے تو اس کا کیا جواب ہے.برطانیہ جو امریکہ کے ساتھ عراق کی مخالفت میں سب سے زیادہ جوش دکھا رہا ہے اور بار بار وہی دلائل دے رہا ہے ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب انہوں نے آسٹریلیا پر قبضہ کیا تو وہ بھی ایک براعظم تھا اور اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ بہت گہری مشابہت ہے.آسٹریلیا میں جو مظالم انگریز قابضوں نے توڑے ہیں وہ اتنے زیادہ خوفناک ہیں کہ امریکہ کے مظالم بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ایک نمایاں فرق آسٹریلین Aboriginies یعنی پرانے باشندوں اور امریکن باشندوں میں یہ تھا کہ امریکن باشندے لڑا کا تو میں تھیں.جنگجو تو میں تھیں اور بڑی بہادری کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 23 23 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء لڑ کر اپنے اپنے علاقوں کا دفاع کرنا جانتی تھیں اور بڑی عظیم الشان قربانیاں اس راہ میں دیتی تھیں لیکن آسٹریلیا کے Aboriginies بالکل امن پسند لوگ تھے اور ان بے چاروں کو لڑنا آتا ہی نہیں تھا.ان کو انہوں نے جنگلوں میں اس طرح شکار کیا ہے جس طرح ہرن کا شکار کیا جاتا ہے اور شکار کرنے کے بعد جو بچ جاتے تھے ان کو پکڑ کر باقاعدہ آپریشنز کے ذریعے اس حال تک پہنچا دیتے تھے کہ آئندہ ان سے نسل پیدا ہی نہ ہو سکتی ہو اور بہت ہی وسیع پیمانے پر اور بڑے بھیا نک طریق پر نسل کشی کی گئی ہے یہاں تک کہ ان قوموں میں سے جن میں ایک وقت میں 1600 الگ الگ زبانیں بولی جاتی تھیں ، اب صرف چند زبانیں ہیں جن کا ریکارڈ رہ گیا ہے اور ان قبائل کے بچے کھچے حصوں کے چند ایسے علاقے رہ گئے ہیں جہاں جس طرح چڑیا گھر میں جانور رکھے جاتے ہیں اس طرح ان کی حفاظت کی جارہی ہے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے کہ یہ وہ لوگ تھے جن سے ہم نے یہ ملک لیا ہے.ان کا انتظام کیا جارہا ہے کہ کم سے کم ان کی نسلیں باقی رہ جائیں.اب یہ برطانیہ کی تاریخ ہے.اس کے علاوہ ہندوستان میں جو کچھ کیا گیا جو افریقہ میں کیا گیا، ان سب باتوں کے ذکر کا وقت نہیں ہے مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اصول اور اخلاق کی جب بات کی جائے تو اصول اور اخلاق زمانے سے بالا ہوا کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ بدل نہیں جایا کرتے.اب Sanctions کی باتیں کرتے ہیں تو حال ہی کی بات ہے کہ ابھی جنوبی افریقہ کے خلاف Sanctions کی گئیں اور ان Sanctions میں سالہا سال لگ گئے اور انہوں نے کوئی اثر نہ دکھایا یعنی نمایاں اثر نہ دکھایا.اس کے نتیجے میں یہ آواز بلند نہیں ہوئی کہ Sanctions میں اتنی دیر ہوگئی ہے وہ کام نہیں کر رہیں.اب ضرورت ہے کہ ساری دنیامل کر جنوبی افریقہ پر حملہ کر دے اور خود مغربی ممالک نے خود انگلستان نے ان Sanctions کا بہت سے مواقع پر ساتھ نہیں دیا اور انگلستان کی رائے عامہ نے بھی اپنی حکومت کے خلاف آواز بلند کی مگر پرواہ نہیں کی گئی اور ان کے خلاف بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا.یہ کسی پرانی تاریخ کا حصہ نہیں یہ آج کی تاریخ کی باتیں ہیں اور نہ یہ کسی نے آواز بلند کی کہ جو قو میں Sanctions کے ساتھ تعاون نہیں کر ر ہیں ان کو زبردستی فوجی طاقت کے ساتھ Sanctions کے مطابق کارروائی پر مجبور کر دیا جائے اور نہ یہ آواز بلند کی گئی کہ اتنی دیر ہوگئی ہے Sanctions کام نہیں کر رہیں اب اس کے متعلق کچھ اور کرنا چاہئے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 24 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء عراق کے متعلق یہ دونوں باتیں بڑی شدت کے ساتھ اٹھتی رہیں.ایک تو یہ کہ Sanctions یعنی اقتصادی بائیکاٹ اتنا مکمل ہو کہ کچھ بھی وہاں نہ جا سکے ، خوراک نہ جاسکے، ادویہ نہ جاسکیں، کوئی چیز کسی قسم کی وہاں داخل نہ ہو نہ وہاں سے باہر نکل سکے اور ساتھ ہی اس سختی کے ساتھ اس کو نافذ کیا گیا کہ چاروں طرف سے عراق کی ناکہ بندی کر دی گئی بلکہ اردن کی بھی ناکہ بندی کر دی گئی.جس کے رستے سے یہ امکان تھا کہ یہ Sanctions توڑ دی جائیں گی یا ان کے کسی حصے میں اس کی خلاف ورزی کی جائے گی.اس کے علاوہ ساتھ ہی اسرائیل کا اردن کے دریا کے مغربی کنارے پر قبضہ موجود ہے اس پر کوئی Sanctions نہیں لگائی گئیں اور جس قسم کے مظالم اسرائیل نے فلسطینیوں پر توڑے ہیں.ان کے ذکر میں کوئی آواز اس کے خلاف بلند نہیں کی گئی.اگر وہی دلیل جو آج عراق کے خلاف دی جارہی ہے وہاں بھی چسپاں کی جاتی تو آج سے بہت پہلے یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا.پھر جب آپ امریکہ کی تازہ تاریخ پر غور کرتے ہیں تو خود امریکن مصنفین کی لکھی ہوئی تاریخوں سے اور بعض اعداد وشمار پر مشتمل کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے C.I.A کے ذریعے آج کے زمانے میں تمام دنیا کے مختلف ممالک میں حسب ضرورت دخل دیا ہے اور Terrorism سے باز نہیں رہے.کسی قسم کی ظالمانہ کارروائیوں سے باز نہیں رہے اور وہاں اپنا حق سمجھا ہے کہ ہم جو چاہیں وہ کریں.ابھی حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے President Secret Wars Covert "Secret Wars of President 66 Operation یعنی امریکہ کے پریذیڈنٹ کی خفیہ جنگیں اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ Covert Operation یعنی مخفی کاروائیوں کی اصطلاح کے نیچے ہر قسم کے ظلم وستم کی اجازت تھی.جو چاہو کرو جس کو چاہو قتل کراؤ جہاں چاہو پانیوں میں زہر ملا دو، خوراک کو گندا کر دو، عام بنی نوع انسانی کے قتل عام سے بھی پرہیز نہ کرو.جو چاہو کرو مگر مخفی طریق پر ہو اور Deniability کی طاقت موجود رہے یعنی یہ بھی ایک نئی اصطلاح ہے ، بڑی دلچسپ Deniability کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پریذیڈنٹ صاحب باوجود اس کے کہ عملاً ہر چیز کی اجازت دے رہے ہوں لیکن ان کے لئے یہ گنجائش باقی رکھی جائے کہ جب بعض باتوں کا علم ہواور ان سے سوال کیا جائے کہ بتائیے کیا آپ کے حکم پر ایسا ہوا تھا تو وہ کہیں بالکل نہیں.میرے حکم پر ایسا نہیں ہوا اور میں تحقیق کراؤں گا.اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 25 25 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء کا نام ہے Deniability تو جو Terrorism یہ مسلمان ملکوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ Terrorism اسرائیل تو الگ رہا خود امریکہ نے کیا ہوا ہے اور کر رہا ہے.آج بھی C.I.A اسی طرح مصروف عمل ہے کہیں فوجی انقلابات برپا کئے جارہے ہیں.کہیں ویٹنام اور کوریا میں یا لاؤس میں یا گوئٹے مالا میں یا ایران میں جو ان کی کارروائیاں ہوئی ہیں آپ اس کتاب میں پڑھ کر دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.وہ کتاب کسی مخالف کی نہیں بلکہ خود ایک امریکن مصنف کی ہے جس نے اور بھی اچھی کتابیں اس موضوع پر لکھی ہیں اور مستند کتا بیں ہیں تو اب بتائیے وہ اصول کہاں گئے.فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان ممالک بد قسمتی سے سادگی سے کام لیتے ہیں اور سادگی بھی اتنی جو بے وقوفی کی حد تک سادگی ہے.ڈپلومیسی کی زبان نہیں جانتے.بجائے اس کے کہ وہ بھی کہیں کہ ہم Covert Operations کر رہے ہیں یعنی مخفی آپریشن کر رہے ہیں کھل کر کہتے ہیں ہم تم سے انتقام لیں گے اے رشدی ! ہم تمہیں قتل کر دیں گے.اے فلاں ! اسلام اجازت نہیں دیتا کہ تم سے حسن سلوک کیا جائے.جس طرح چاہیں ہم تمہیں برباد کریں گے.ہاتھ میں کچھ ہوتا نہیں ہتھیار ان لوگوں سے مانگتے ہیں، بناء اپنی ان قوموں پر ہے جن کے خلاف یہ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور اسی بنا کو اکھیڑ نے کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں جس پر بیٹھے ہوئے ہیں.اسی بنیاد کو اکھیڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں جس پر انہوں نے اپنی عمارتیں تعمیر کی ہوئی ہیں محض بے وقوفی ہے ، اور صرف بے وقوفی نہیں بلکہ ظلم یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں اسلام کی طرف منسوب کر کے کرتے ہیں اور اسلام سے سچی محبت کرنے والوں سے ساری دنیا میں مصیبتیں کھڑی کر دیتے ہیں.ایک طرف یہ قومیں مظالم کرتی چلی جاتی ہیں، دنیا کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں جہاں چاہیں اپنی حکومت چلا ئیں.جس ملک کے باشندوں کو جہاں چاہیں ملیا میٹ کر دیں نیست و نابود کردیں، صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں لیکن زبان ایسی ہونی چاہئے ، اصطلاحیں ایسی ہونی چاہئیں جن کے پردے میں ہر قسم کی کارروائی کی اجازت ہے اور وہ جن کو کچھ کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے وہ نہایت احمقانہ زبان استعمال کر کے خود اپنا منہ بھی کالا کرتے ہیں اور اسلام کے اوپر بھی داغ ڈالتے ہیں.تو ایک میرا پیغام تو عالم اسلام کو یہ ہے کہ ہوش کرو عقل سے کام لو جن قوموں سے لڑنا ہے ان سے لڑنے کے انداز ہی سیکھ لو وہ زبان ہی اختیار کر لو جو زبان تمہارے متعلق یا دوسری قوموں کے خلاف وہ استعمال کرتے ہیں.بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات تھی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 26 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء اب میں ایک تیسرے حصے کی طرف آتا ہوں.عراقی موقف اور مغربی موقف میں نے بیان کیا دوسرے مسلمان ممالک نے بھی ایک موقف اختیار کیا ہے اور اکثریت نے سعودی عرب کے اس موقف کا ساتھ دیا ہے کہ اس موقعہ پر ضروری ہے کہ سب مسلمان ممالک مل کر یا زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمان ممالک مل کر عراق کو مٹانے کا تہیہ کریں اور اس کوشش میں اکٹھے ہو جائیں لیکن صرف یہیں تک بات نہیں رہتی.اس سے آگے بڑھ کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ ارض حجاز مقدس زمین ہے اور مکہ اور مدینہ کی مقدس بستیاں یہاں موجود ہیں.آج صرف کویت کا مسئلہ نہیں ہے آج مسئلہ ان بستیوں کی حفاظت کا مسئلہ ہے.ان بستیوں کے تقدس کی حفاظت کا مسئلہ ہے.جن میں کبھی حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺے سانس لیا کرتے تھے.وہاں آپ کے قدم پڑا کرتے تھے.پس اسے بہت ہی نقدس کا رنگ دے کر عام مسلمانوں کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے.چنانچہ پاکستان کی طرف سے بار بار اسی قسم کے اعلان ہوئے ہیں کہ اب ہم نے ارض مقدس کی حفاظت کے لئے دو ہزار سپاہی بھجوادیئے ، تین ہزار سپاہی بھجوا دئیے ، پانچ ہزار سپاہی بھجوا دئیے اور ارض مقدس کے نام پر ہم یہ عظیم قربانی کر رہے ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ارض کی اپنی تاریخ کیا ہے؟ اور وہ لوگ جو ارض مقدس کا نام لے کر اورمحمد مصطفی عملے کے تقدس کے حوالے دے کر مسلمانوں کی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا اپنا کیا کردار رہا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ سعودیوں نے یعنی اس خاندان نے سب سے پہلے خود ارض حجاز پر بزور شمشیر قبضہ کیا تھا اور ا۱۸۰ء میں سب سے پہلے یہ فوجی مہم شروع کی گئی اور اس خاندان کے جو سر براہ تھے ان کا نام عبدالعزیز تھا.لیکن عبدالعزیز کے بیٹے سعود تھے جو دراصل بڑی بڑی فوجی کارروائیوں میں بہت شہرت اختیار کر گئے اور بڑی مہارت رکھتے تھے.چنانچہ ان کی سر براہی میں ان حملوں کا آغاز ہوا.سب سے پہلے انہوں نے عراق میں پیش قدمی کی اور کربلائے معلیٰ پر قبضہ کیا وہاں کے تمام مقدس مزاروں کو ملیا میٹ کر دیا یہ موقف پیش کرتے ہوئے کہ یہ سب شرک کی باتیں ہیں اور ان میں کوئی تقدس نہیں ہے، اینٹ پتھر کی چیزیں ہیں.ان کو مٹادینا چاہئے اور پھر کر بلائے معلیٰ میں بسنے والے مسلمانوں کا جواکثر شیعہ تھے قتل عام کیا اور پھر بصرہ کی طرف پیش قدمی کی اور کربلائے معلیٰ سے لے کر بصرہ تک کے تقریباً تمام علاقے کو تاخت و تاراج کر کے وہاں شہروں کو آگئیں لگادی گئیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 27 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء قتل عام کئے گئے ،لوٹ مار کی گئی.ہر قسم کے مظالم جو آج عراق کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان سے بہت بڑھ کر ، بہت زیادہ وسیع علاقے میں اسی خاندان نے عراق کے علاقے میں کئے لیکن وہاں سے طاقت پکڑنے کے بعد پھر ارض مقدس کی طرف رخ کیا اور طائف پر قبضہ کر لیا ارض حجاز میں اور ۱۹۰۳ء میں یہ مکہ اور مدینہ میں داخل ہو گئے اور مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے کے بعد وہاں قتل عام کیا گیا اور بہت سے مزار گرادیئے گئے اور بہت سی مقدس نشانیاں اور مقامات مثلاً حضرت محمد ﷺ کا مولد ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مولد وغیرہ اس قسم کے بہت سے مقدس حجرے اور مقامات تھے جن کو یا تو منہدم کر دیا گیا یا ان کی شدید گستاخی کی گئی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ اسلام میں ان ظاہری چیزوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے یہ سب شرک ہے اور جو خون خرابہ ہوا ہے اس کا کوئی معین ریکار ڈ نہیں لیکن تاریخیں یکھتی ہیں کہ بالکل نہتے اور بے ضرر اور مقابلے میں نہ آنے والے شہریوں کا بھی قتل عام بڑی بے دردی سے کیا گیا ہے.۱۸۱۳ء میں شریفان مکہ نے پھر اس علاقے کو سعودیوں سے خالی کروالیا اور پھر بیسویں صدی کے آغاز میں دوبارہ سعودیوں نے ارض حجاز پر یلغار کی اور اس دفعہ انگریزوں کی پوری طاقت ان کے ساتھ تھی.انگریزی جرنیل با قاعدہ ان کی پیش قدمی کی سکیمیں بتاتے تھے اور انگریز ہی ان کو اسلحہ اور بندوقیں مہیا کرتے تھے اور انگریز ہی روپیہ پیسہ مہیا کرتے تھے.اور باقاعدہ ان کے ساتھ معاہدے ہو چکے تھے چنانچہ ۱۹۲۴ء میں دوبارہ سعودی خاندان ارض حجاز پر قابض ہوا اور اس قبضے کے دوران بھی بہت زیادہ مقدس مقامات کی بے حرمتی کی گئی اور قتل عام ہوا ہے.۱۹۲۴ء میں انگریزوں کی تائید سے چونکہ یہ داخل ہوئے تھے اس لئے حال ہی میں جو BBCنے Documentry دکھائی اس میں ۲۴ ء سے پہلے کی بھی انگریزی تائید کا ذکر کرتے ہوئے BBC کے پروگرام پیش کرنے والے نے یہ موقف لیا کہ جس ملک پر سعودیوں نے ہماری تائید سے اور ہماری قوت سے قبضہ کیا تھا اب اس ملک کے دفاع کے لئے ہم پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہیں.پس اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو بات بالکل اور شکل میں دکھائی دینے لگتی ہے.جو بھی حکومت اس وقت مقامات مقدسہ پر قابض ہے وہ انگریز کی طاقت سے قابض ہوئی تھی یا مغربی قوموں کی طاقت سے قابض ہوئی تھی.اور اب دفاع کے لئے بھی ان میں یہ استطاعت نہیں ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 28 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء ان مقامات کا دفاع کر سکیں اور مجبور ہیں کہ ان قوموں کو واپس اپنی مدد کے لئے بلائیں.اب انگریز کا تصور اس طرح کا نہیں جو اس سے پہلے کا تھا.تمام دنیا پر انگریز کی ایک قسم کی حکومت تھی.اب انگریز اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو چکے ہیں.ان کے تصورات یکجا ہو چکے ہیں اور عملاً جو امریکہ ہے وہ انگریز ہے اور جو انگریز ہے وہ امریکہ ہے.یعنی جو انگلستان ہے وہ امریکہ ہے اور جو امریکہ ہے وہ انگلستان ہے.تو اس پہلو سے انگریز نے اپنی تاریخ کا ورثہ امریکہ کے سپرد کیا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس دور میں ان کے فیصلے ہمیشہ ایک ہوا کرتے ہیں.یورپ اس سے کچھ مختلف ہے لیکن اس تفصیل میں جانے کی بہر حال ضرورت نہیں ہے.خلاصہ کلام یہ بنتا ہے کہ ارض مقدس اور مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے احترام کی با تیں کرتے ہوئے جو عالم اسلام کو ان مقدس مقامات کے دفاع کے لئے اکٹھا کیا جا رہا ہے یہ سب محض ایک دھوکہ ہے.ان مقدس مقامات کی حفاظت کے ساتھ دوسرے مسلمان ممالک کی فوجی شمولیت کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے.نہ ان کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی تعلق ہے نہ فی الحقیقت کوئی خطرہ لاحق ہے.اگر ان علاقوں کو خطرہ لاحق ہے تو غیر مسلموں سے لاحق ہو سکتا ہے.مسلمانوں سے اگر خطرہ لاحق ہوسکتا تھا تو وہ خطرہ تو خود سعودیوں سے لاحق ہو چکا ہے اور اس خطرے میں جب تک انہوں نے غیر مسلموں کی مدد نہیں لی اس وقت تک ان علاقوں پر قبضہ نہیں کر سکے.پس امر واقعہ یہی ہے کہ اب ان علاقوں کا دفاع بھی غیر مسلموں کے سپر دہی ہوا ہے اور مسلمان ریاستیں شامل ہوں یا نہ ہوں اس دفاع سے اس کا کوئی تعلق نہیں یعنی اس امکانی دفاع سے دفاع کا تو ابھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا.امکان ہے.لیکن اگر آپ دیانتداری سے غور کریں تو اس بات کا کوئی احتمال ہی نہیں ہے کہ عراق سعودی عرب پر حملہ کر دے.عراق کے پاس تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ ان بڑی بڑی طاقتوں کے اجتماعی حملے سے اپنے آپ کو بچا سکے اور سب دنیا تعجب میں ہے کہ یہ غیر متوازن حالت دیکھتے ہوئے صدر صدام حسین کس طرح یہ جرأت کر سکتے ہیں کہ بار بار امن کی ہر کوشش کو رد کرتے چلے جاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس عظیم دباؤ کے نتیجہ میں وہ اس طرح پیسے جائیں گے جس طرح چکی کے اندر دانے پیسے جاتے ہیں اور ناممکن ہے کہ اتنی بڑی قوموں کی اجتماعی طاقت کے مقابل پر عراق کو میت کا یا اپنے ملک کا دفاع کر سکے.جو عالمی فوجی ماہرین ہیں یہ ان کی رائے ہے اور سب متعجب ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے.آخر صدر صدام حسین کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 29 29 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء پاس وہ کیا بات ہے، کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ صلح کی ہر کوشش کو رد کرتا چلا جارہا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ ساری طاقتیں مغربی طاقتیں ہیں جنہوں نے اس علاقے میں کوئی کارروائی یا مؤثر کارروائی کرنی ہے یا کر سکتی ہیں.مسلمان ممالک کو اور وجہ سے ساتھ ملایا گیا ہے اور اس وجہ کا مقامات مقدسہ کے تقدس سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں صرف مسلمان ممالک کو ہی ٹوکن کے طور پر شامل نہیں کیا گیا، یورپ کے دوسرے ممالک کو بھی ٹوکن کے طور پر شامل کیا گیا ہے.جاپان پر بھی بڑا بھاری دباؤ ڈالا گیا کہ تم شامل ہو جاؤ اور اس طرح دنیا کی مشرق و مغرب کی دوسری قوموں کو بھی ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کی ضرورت تھی.اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے سامنے یہ قضیہ اس طرح پیش کیا جائے کہ ساری دنیا کی رائے عامہ اس ظالم کے خلاف ہے.اس لئے ساری دنیا کی اس رائے عامہ کے احترام میں ہم شدید ترین کا روائی بھی کریں اس کے اوپر حرف نہ آسکے.اگر عراق کے خلاف انتہائی ظالمانہ کاروائی کی جائے اور پاکستان بھی اس کارروائی میں حصہ ڈال کر شریک ہوا بیٹھا ہو اور مصر بھی شریک ہوا ہوا اور تر کی بھی شریک ہو چکا ہو اور دیگر مسلمان ممالک بھی شریک ہو چکے ہوں تو وہ پلٹ کر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ تو نے بڑا بھاری ظلم کیا ہے.پس آئندہ ان مظالم پر نکتہ چینی کے دفاع کے طور پر کہ دنیا ان پر نکتہ چینی نہ کر سکے جن کے منصوبے یہ پہلے سے بنائے بیٹھے ہیں اتنا بڑا ہنگامہ برپا کیا گیا ہے اور اس طرح رائے عامہ کو اکٹھا کیا گیا ہے.اور ملکوں کو مجبور کیا گیا ہے کہ تم بھی اس ظلم میں حصہ ڈالو خواہ تم آرام سے ایک طرف بیٹھے رہنا چنانچہ بعض مسلمان ممالک جنہوں نے فوجیں بھیجی ہیں وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ بھئی ہم حملے میں تو شامل نہیں ہوں گے ہم تو صرف مقامات مقدسہ کی حفاظت کی خاطر مکے اور مدینے میں جاکے بیٹھیں گے.چنانچہ پاکستان نے بھی ایسا ہی جاہلانہ سا ایک اعلان کیا ہے یعنی مکے اور مدینے تک جو فوج پہنچ جائے گی اور تمام عالمی طاقتوں کو ملیا میٹ کرتے ہوئے پہنچے گی اس فوج سے بچانے کے لئے تم باقی رہ جاؤ گے.کیسا بچگانہ خیال ہے.دراصل ان کو یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں تم آؤ امن کے ساتھ ہماری گود میں بیٹھو.ہماری حفاظت میں رہو.ہم صرف تمہارا نام چاہتے ہیں اور تمہاری شرکت کا نام چاہتے ہیں.اس لئے تم شریک بن جاؤ اور یہی ہمارے لئے کافی ہے.پس یہ ایک بہت بڑا خوفناک عالمی منصوبہ ہے اور اس منصوبے کو دنیا کے سامنے حسین طریق پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 30 50 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء دھوکے کے ساتھ پیش کرنے کے یہ سارے ذرائع ہیں جو اختیار کئے جارہے ہیں.اب پھر سوال اٹھتا ہے کہ صدر صدام حسین کیوں اس سیدھی سادھی کھلی ہوئی حقیقت کو جان نہیں سکتے ، پہچان نہیں رہے اور کیوں مصر ہیں کہ نہیں ، ان شرائط پر میں کو بیت کو خالی کرنے کیلئے تیار نہیں.میں اور باتوں کے علاوہ یہ سمجھتا ہوں کہ صرف کو یت کو خالی کرنا مقصود نہیں ہے.یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہر حالت میں عراق کو نہتہ کر دیا جائے گا اور بے طاقت بنا دیا جائے گا اور کویت سے نکلنا پہلا قدم ہے.اسی لئے اس کے بعد صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم عراق پر حملہ نہیں کریں گے.یہ ساتھ نہیں کہتے کہ ہم عالمی بائیکاٹ ختم کر دیں گے.اقتصادی بائیکاٹ ختم کر دیں گے.یہ نہیں کہتے کہ ہم مزید دباؤ ڈال کر تمہارے کیمیائی کارخانے جو جنگوں میں ہلاکت خیز کیمیاوی مادے بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کو برباد نہیں کریں گے یا ان میں دخل نہیں دیں گے.یہ نہیں کہتے کہ ہم تمہاری ایٹمی توانائی کے مراکز کو ختم کرنے کے لئے تم سے مزید مطالبے نہیں کریں گے اور مزید دباؤ نہیں ڈالیں گے لیکن یہ نہ کہنے کے باوجود دبی زبان سے یہ اظہار جگہ جگہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کچھ کرنا ضرور ہے اور عراق خوب اچھی طرح سمجھتا ہے.عراق جانتا ہے کہ محض کو یت کا مسئلہ نہیں ہے.اگر میں کو یت خالی بھی کردوں تو جن مقاصد کی خاطر یہ کویت کی حمایت کر رہے ہیں وہ مقاصد پورے نہیں ہو سکتے جب تک مجھے بالکل ناطاقت کر کے نہ چھوڑا جائے.پس عملا صدر صدام کے پاس دورا ہیں نہیں بلکہ ایک ہی راہ ہے اور وہ راہ یہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنے بدا را دے پورے کرنے ہی ہیں تو پھر اس حالت میں مرا جائے کہ مرتے مرتے ان کو بھی اتنا نقصان پہنچا دیا جائے کہ ہمیشہ کے لئے لولوں لنگڑوں کی طرح رہیں اور پھر پہلے جیسی طاقت اور پہلے جیسا تکبر باقی نہ رہے.پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں صدر صدام حسین اس وجہ سے بضد ہیں کہ تمہاری شرائط پر میں کو یت خالی نہیں کروں گا.ہو سکتا ہے کہ اب Perez De Cuellar اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جو وہاں جار ہے ہیں ان کے ساتھ گفت و شنید کے دوران کچھ باتیں کھل کر سامنے آئیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر Perez De Cuellar کی طرف سے ایسی گفت وشنید کا آغاز ہو جائے جس کے نتیجے میں بالآخر عراق کو یہ تحفظ دیا جائے اور یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ اگر تم کو میت کو خالی کر دو تو اول تمام عرب مسئلے کو یکجائی صورت میں دیکھا جائے گا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 31 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء اور United Nations اس کی طرف متوجہ ہوگی اور دوسرے یہ کہ اس کے بعد تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور عالمی بائیکاٹ کو اٹھا دیا جائے گا اور تمہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا.اگر یہ دوشرطیں ان کھلے الفاظ میں عراق کے سامنے رکھی جائیں تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ان شرطوں پر عراق صلح کرنے پر آمادہ ہو گا لیکن خطرہ مجھے یہ ہے کہ یہی دوشرطیں ہیں جو سب سے زیادہ ان ممالک کے مزاج کے خلاف ہیں جن ممالک نے اس قصے پر ساری دنیا میں ایک طوفان اٹھا رکھا ہے.یہی وہ دو باتیں ہیں جو کسی قیمت پر ان کو قبول نہیں ہیں.اگر عراق کی فوجی طاقت کو مٹا دینا ان کے پیش نظر نہ ہوتا ، اگر اسرائیل کا تحفظ ان کے پیش نظر نہ ہوتا تو کویت پر قبضے کے نتیجے میں انہوں نے کبھی بھی شور نہیں ڈالنا تھا.کویت کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.یہ دو بڑے مقاصد ہیں جن کی خاطر یہ سارا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے اور کیسے یہ شرطیں مان جائیں گے جن سے خود یہ اپنے دو مقاصد کے اوپر تبر رکھ دیں اور ان مقاصد کو خائب و خاسر کر دیں اور نامراد کر دیں.پس یہ ہے آخری خلاصہ صورت حال کا.جماعت احمدیہ کو میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے شروع میں بات کھول کر بیان کی ہے ہم قومی اختلافات یا مذہبی اختلافات کے نتیجے میں بھی کسی تعصب کو اپنے دل میں جگہ نہیں دے سکتے اور کسی تعصب کی بناء پر ہم فیصلے نہیں کر سکتے کیونکہ ہم دل و جان سے اس بات کے قائل ہیں کہ ہر وہ شخص جو تعصب کو اپنے دل میں جگہ دے یا تعصبات کے نتیجے میں فیصلے کرے وہ صحیح معنوں میں مومن اور مسلم کہلانے کا مستحق نہیں رہتا.تعصبات اور اسلام کو ایسا ہی بعد ہے جیسے شرق و غرب کو آپس میں بعد ہے اور حقیقی اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ہر فیصلہ خدا کی ذات کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے اور اسی کا نام تقویٰ ہے.تقویٰ ہر چیز کی بنیاد ہے ہر اسلامی قدر تقویٰ پر مبنی ہے اور تقویٰ کا حسن یہ ہے کہ تقویٰ خود اپنی ذات میں کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں بلکہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جو ہر مذہب کا مرکزی نقطہ ہونا چاہئے اور ہر مذہب کی تعلیم کو اس مرکزی نقطے کے گردگھومنا چاہئے.تقویٰ کا مطلب ہے ہر سوچ خدا کی مرضی کے تابع کر دو اور ہر فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھو کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.پس جماعت احمدیہ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اول تو تمام بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو تقویٰ سے عاری فیصلوں کے نتیجے میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 32 32 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء ان عذابوں میں مبتلا نہ فرمائے جو عام طور پر ایسے حالات میں مقدر ہو جایا کرتے ہیں بلکہ غیر معمولی طور پر ان کے دلوں پر تسلط فرمائے اور ان کو تو بہ کرنے کی توفیق بخشے اور اصلاح احوال کی توفیق بخشے اور سچائی کی طرف لوٹ آنے کی توفیق بخشے.کل عالم کے لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو امن عطا کرے اور امن سے مراد صرف ظاہری امن نہیں بلکہ امن سے مراد دل اور دماغ کا امن ہے کیونکہ میں قطعی طور پر اس بات کو ایک ٹھوس حقیقت کی طرح دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کا امن دل اور دماغ کے امن پر منحصر ہے وہ بنی نوع انسان جن کے دل امن میں نہ ہوں ، جن کے دماغ امن میں نہ ہوں ان کا عالمی ماحول امن میں نہیں رہ سکتا.یا ان سے دنیا کو خطرہ ہوگا ی دنیا سے ان کو خطرہ ہوگا.پس دماغ کے خلل اور دل کے خلل کے نتیجے میں بیرونی خلل واقعہ ہوا کرتے ہیں.پس یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سوچوں کی اصلاح فرما دے.ان کے دلوں کی اصلاح فرمادے.ان کے معاشرے کی اصلاح فرمادے اور ان کے دل اور دماغ کو امن عطا کرے.تا کہ بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی امن نصیب ہو.اس موجودہ تعلق میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو اب بھی عقل دے اور وہ اس ظلم میں غیر مسلم قوموں کے شریک نہ بنیں کہ ان کے اعلیٰ مقاصد کی خاطر جوان کے مفادات سے تعلق رکھتے ہیں ایک عظیم مسلمان طاقت کو ملیا میٹ کر دیں اور اپنے اپنے انگوٹھے اس فیصلے پر ثبت کر دیں اور تاریخ عالم میں ہمیشہ کے لئے ایک ایسی قوم کے طور پر لکھے جائیں جنہوں نے اپنی زندگی کے نہایت منحوس فیصلے کئے تھے.ایسے فیصلے کئے تھے جو بدترین سیاہی سے لکھے جانے کے لائق بنتے ہیں.جس کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایسے تغیرات بر پا ہونے ہیں اور آئندہ لکھنے والا لکھے گا کہ ہو چکے کہ ان فیصلوں کے بعد پھر دنیا کا امن ہمیشہ کے لئے اٹھ گیا اور امن کے نام پر جو جنگ لڑی گئی تھی اس نے اور جنگوں کو جنم دیا اورساری دنیا میں بدامنی پھیلتی چلی گئی.مؤرخ نے یہ باتیں جو بعد میں لکھنی ہیں یہ آج ہمیں دکھائی دے رہی ہیں کہ کل ہونے والی ہیں اگر مسلمان ممالک نے ہوش نہ کی اور بر وقت اپنے غلط اقدامات کو واپس نہ لیا اور اپنی سوچوں کی اصلاح نہ کی.بہر حال اگر یہ انہی باتوں پر قائم رہے تو عراق مٹتا ہے یا نہیں مٹتا.یہ تو کل دیکھنے کی بات ہے مگر اس سارے علاقے کا امن ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا.کبھی دوبارہ عرب اس حال کو واپس نہیں لوٹ سکیں گے.اسرائیل پہلے سے بڑھ کر طاقت بن کر ابھرے گا اور اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے متعلق کوئی عرب طاقت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 33 33 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء سوچ بھی نہیں سکے گی.کم سے کم ایک لمبے عرصے تک اور اس کے نتیجے میں تمام دنیا میں شدید مالی بحران پیدا ہوں گے اور چونکہ آج کل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خود مالی بحران کا شکار ہیں اس لئے تیسری دنیا کے مالی بحران کے نتیجے میں ایسے سیاسی اثرات پیدا ہوں گے کہ اور جنگیں چھڑیں گی اور دنیا کا امن دن بدن برباد ہوتا چلا جائے گا.مختصراً یہ کچھ ہے جو آئندہ پیش آنے والا ہے.اگر آج مسلمان ممالک نے اصلاح احوال نہ کی.مغربی مفکرین بار بار یہ بات دہراتے چلے جارہے ہیں کہ اب Ball عراق کی کورٹ میں ہے اور صد رصدام کے ہاتھ میں ہے ، اس بال کو کس طرف ہٹ لگائے جنگ کی طرف یا امن کی طرف حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے صدر صدام کے ہاتھ آپ لوگوں نے اس طرح باندھ رکھے ہیں اور اس معاملے کو اس طرح اٹھایا ہے کہ اس کے لئے اب حقیقت میں کوئی دوراہے پر کھڑے ہونے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی راہ پر کھڑا ہے جس میں آگے بڑھے تو تب بھی ہلاکت ہے پیچھے ہٹے تو تب بھی ہلاکت ہے آگے بڑھے تو ہلاکت اس رنگ میں ہوگی کی اچانک تیز ہلاکت لیکن ساتھ دشمن بھی بہت حد تک شدید نقصان اٹھائے گا.پیچھے ہٹے تو دم گھونٹ کر مارا جائے گا.اس لئے صدر صدام حسین کو تو آپ نے دوراہے پر لا کھڑا نہیں کیا.بلکہ دوسری راہ اس سے منقطع کر دی ہے.اگر با عزت سمجھنے کی کوئی راہ اس کے سامنے کھولی ہوتی تو پھر وہ یہ فیصلہ کر سکتا کہ جنگ کی راہ اختیار کروں یا امن کی راہ اختیار کروں.اب تو فیصلہ یہی ہے کہ ایک دم مر مٹنے کی راہ اختیار کروں اور عزت کے ساتھ مرجانے کی راہ اختیار کروں یا ذلت کے ساتھ دم گھونٹ کر مارا جاؤں.ہاں Ball جو ہے دراصل صدر صدام حسین کی کورٹ میں نہیں ہے.وہ مسلمان ممالک کی کورٹ میں ہے.اگر مسلمان ممالک اس صورت حال کو صحیح سمجھ سکیں اور آج نہ سہی کل کے مورخ کے قلم سے بچنے کے لئے اور تاریخ جو ان پر تعزیر لگائے گی اس سے بچنے کی خاطر ہی سہی اگر وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور یہ اعلان کردیں کہ عراق سے نپٹنا ہوگا تو ہم نیٹیں گے.مغربی طاقتیں ہمارے ممالک کو خالی کر دیں اور اگر کوئی مدد کرنی ہے تو ہتھیاروں کے ذریعہ جس طرح پہلے بھی مدد کی جاتی ہے.عراق کی بھی مدد کرتے رہے ہو اس طرح ہماری مدد کرو اور اس معاملے کو ہمارے حال پر چھوڑ دو ہم اس سے خود پیٹیں گے.اگر آج یہ اعلان کر دیں تو مغربی طاقتوں کے پاس کوئی بھی عذر باقی نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 34 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء رہتا کہ وہ زبر دستی عراق پر حملہ کریں اور اگر پھر بھی وہ کریں تو پھر یہ بات اتنی آسان نہیں رہے گی تمام عرب میں اور تمام عالم اسلام میں مغربی ممالک کے خلاف بغاوت شروع ہو جائے گی.پس یہ اصل صورتحال ہے.دعا یہ کریں کہ مسلمان ممالک کو اللہ تعالیٰ عقل عطا فرمائے صحیح سوچ اختیار کرنے کی توفیق بخشے اور جرات مندانہ ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجے میں غیر قوموں کو عالم اسلام میں دخل اندازی کا بہانہ نہ رہے.لیکن یہ بھی مجھے نظر نہیں آرہا اور جس حد تک یہ لوگ آگے بڑھ چکے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنا بڑی شدید قسم کی خود غرضی ہے جس کی وجہ سے اسلام تو محض دور کی بات ہے عرب تعلقات بھی ان کی سوچ کی راہ میں بالکل حائل نہیں ہورہے اور اپنی ہمسائیگی کا بھی قطعاً کوئی خیال نہیں اور یہ خطرہ بھی نہیں کہ عرب دنیا پر کیا گزرے گی.یہ ساری چیزیں دور کی باتیں ہیں.بنیادی طور پر اپنے ذاتی مفاد کا جو تقاضا ہے وہ ہر دوسری فکر پر غالب آچکا ہے.اگر آپ نے غور کیا ہو تو آپ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ ۱۵ار جنوری کی تاریخ پر آخر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے.۱۵/جنوری کوئی خدا نے تاریخ مقررفرمائی ہے؟ یہ ہو کیا رہا ہے؟ چند مہینے پہلے تم کہہ رہے تھے کہ Sanctions لگائی گئی ہیں ایک سال کے اندراندر Sanctions کام کریں گی اور یقیناً کریں گی چھ مہینے تک ہوسکتا ہے پورے نتیجے ظاہر نہ ہوں.اس قسم کی کھلی کھلی باتیں امریکہ کیا کرتا تھا اور دوسرے مغربی مفکرین بھی ایسے ہی تخمینے پیش کرتے تھے.اب اچانک یہ کیا ہو گیا ہے کہ اگر چہ ان Sanctions نے کام شروع کیا اور اس کی تکلیف بھی عراق کو پہنچی تو بجائے اس کے کہ انتظار کرو اور عراق کو اور کمزور ہونے دو اور اگر حملہ کرنا ہے تو اس وقت کرو.اب اتنی جلدی کس بات کی پڑ گئی ۱۵ار جنوری کی تاریخ کا کیا تعلق ہے.میں نے غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس کا تعلق سعودی عرب اور اس کے ساتھیوں کی خود غرضی سے ہے اس ساری جنگ کا بل تو سعودی عرب نے ادا کرنا ہے اور یہ سعودی عرب بے شمار امیر ہونے کے باوجود اندر سے سخت کنجوس ہے ان کو Billions کے جو بل ادا کرنے پڑرہے ہیں انہوں نے حساب لگایا ہوگا کہ اگر Sanctions کا انتظار کیا جائے تو جب تک عراق کا صفایا ہوتا اس وقت تک ہمارا بھی صفایا ہو چکا ہوگا.ہمارے سارے بینک بیلنس ختم ہو چکے ہوں گے اس لئے ان کو بڑی سخت افراتفری پڑی ہے.اور یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ ہم تو اس عرصے میں کنگال ہو جائیں گے تو انہوں نے دباؤ ڈالا ہے اور امریکہ یہ بات کھل کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتا کہ کون ہم پر دباؤ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 35 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۹۱ء ڈال رہا ہے.صدر بش خود اپنے ملک میں ذلیل ہو رہا ہے کانگریس بار بار اس سے سوال کر رہی ہے کہ تم کل یہ باتیں کر رہے تھے Sanctions یوں چلیں گی اور ؤوں چلیں گی اور ایک سال کا عرصہ گزرے گا اور عراق گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا.اب اچانک تم نے سارے فیصلے بدل دیئے اور لڑائی کے سوابات ہی کوئی نہیں کرتا.اب صدر بش کس طرح کہے کہ بھئی ہم تو Mercenaries بنے ہوئے ہیں.ہم تو کرائے کے فوجی ہیں اور وہ ملک ہمیں حکم دے رہا ہے جس نے ہمیں کرائے پر رکھا ہوا ہے، وہ کہتا ہے کہ جلدی کرو میں اس سے زیادہ بل برداشت نہیں کر سکتا.تو اصل صورت حال یہ ہے.پس جب میں نے کہا کہ Ball اب مسلمان ممالک کی کورٹ میں ہے تو ایک تو عمومی نظرئیے کے طور پر کہا ، وہ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے.دراصل بنیادی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے ہاتھ میں فیصلہ ہے اور اس کے جو Mounting Bills ہیں ،اس کے بڑھے ہوئے جنگی اخراجات ہیں وہ اسے مجبور کر رہے ہیں کہ جلدی یہ فساد بیچ میں سے ختم ہو اور پھر ہم اصل صورت حال کی طرف واپس لوٹیں.مگر یہ بڑی بیوقوفی ہے ان کی جو یہ سوچ رہے ہیں کہ جلد اصل صورت حال کی طرف واپس لوٹیں.اصل صورت حال کا تو نام ونشان مٹ چکا ہوگا.اگر عراق مٹایا گیا تو اس کے ساتھ ماضی کی ساری کی ساری تاریخ ملیا میٹ کر دی جائے گی ، عرب ممالک کے مزاج بدل چکے ہوں گے، عرب قوموں کی سوچیں بدل چکی ہوں گی اور نئے حالات میں نئے زمانے پیدا ہوں گے اور بیوقوفوں والی خوا میں دیکھنے والے یہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ جلد قضیئے سے پیٹیں اور اصل حالات کی طرف واپس لوٹیں کبھی بھی کسی اصل کی طرف واپس نہیں لوٹیں گے بلکہ تاریخ انہیں رگیدتی ہوئی آگے بڑھاتی چلی جائے گی اور آئندہ نہایت خطرناک قسم کے حالات ہیں جو ان کو درپیش ہوں گے اور ان سے یہ بچ نہیں سکیں گے.یہ تو تیز رفتار لہروں پر سوار ہو چکے ہیں.جیسے پہاڑی ندی نالے زیادہ تیز اترائی میں چلتے ہیں تو ان کے منہ سے جھا گیں نکلتی ہیں ، ان کے اوپر مضبوط سے مضبوط کشتی یا جہاز بھی ہوتو تنکوں کی طرح اس سے یہ موجیں کھیلتی ہیں اور خاص طور پر جب یہ ندیاں آبشاروں کی صورت میں چٹانوں سے نیچے اترتی ہیں تو بڑی سے بڑی مضبوط چیزوں کے بھی پر نچے اڑا دیتی ہیں.پرزہ پرزہ کر ڈالتی ہیں.پس یہ زمانے کی طاقتور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 36 لہریں ہیں جن پر یہ سوار ہو چکے ہیں اور ان سے واپسی اب ان کیلئے ممکن نہیں.خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء صرف ایک راہ واپسی کی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں.اپنے فیصلے خدا کو پیش نظر رکھ کر کریں.امت مسلمہ کا عمومی مفاد پیش نظر رکھیں اور اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے پر تیار ہوں.اگر یہ ایسا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ عالم اسلام کے لئے ایک نیا عظیم الشان دور رو نما ہوگا.وہ بھی ایک نیا دور ہو گا جو پہلے جیسا نہیں ہوگا کیونکہ پہلے کی طرف تو اب کبھی واپس نہیں جا سکتے مگر ایک ایسا دور ہوگا جو گزشتہ ادوار سے ہزاروں گنا بہتر ہوگا اور بہتر ہوتا چلا جائے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے گا اور اگر امید نہیں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو غیر معمولی طور پر عقل عطا فرمائے اور احمدیوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ ہم بہت کمزور ہیں لیکن ہم دعا کر سکتے ، دعا کرنا جانتے ہیں، دعاؤں کے پھل ہم نے کھائے ہوئے ہیں اور کھاتے ہیں.پس جب نمازوں میں إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا کیا کریں تو خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ سے یہ عرض کیا کریں کہ مکے اور مدینے کی بستیوں کا تقدس تو عبادت سے وابستہ ہے اور ہمیشہ عبادت سے وابستہ رہے گا.یہ بستیاں اس لئے مقدس ہیں کہ ان بستیوں میں ابراہیم علیہ السلام اور محد مصطفی ﷺ نے عبادتیں کی ہیں.پس آج اس دنیا میں ان عبادتوں کو زندہ کرنے والے ہم تیرے عاجز غلام ہیں، اس شان کے ساتھ نہیں مگر جس حد تک بھی توفیق پاتے ہیں ہم ان عبادتوں کو اسی طرح زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پس اے ہمارے معبود! ہماری عبادتوں کو قبول فرما اور ہماری مدد فرما اور آج اگر تو نے عبادت کرنے والوں کی مدد نہ کی تو دنیا سے عبادت اٹھ جائے گی اور دنیا سے عبادت کا ذوق اٹھ جائے گا.پس تو ہماری التجاؤں کو قبول فرما ايَّاكَ نَعْبُدُ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، دنیا کی قوم کی طرف نہیں دیکھ رہے تیری طرف دیکھ رہے ہیں تیرے حضور جھک رہے ہیں تو مدد فرما.اگر ہماری یہ دعا قبول ہو جائے اور اگر دل کی گہرائیوں سے اٹھے اور تمام دنیا سے احمدی یہ دعائیں کر رہے ہوں تو ہرگز بعید نہیں کہ یہ دعا قبول ہو جائے تو پھر آپ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 37 37 خطبہ جمعہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ Ball کسی کی کورٹ میں نہیں رہے گا Ball تقدیر الہی کی کورٹ کی طرف واپس چلا جائے گا اور آپ کی دعائیں ہیں جن کا ہاتھ تقدیر الہی پر پڑتا ہے یا جن کا ہاتھ تفقد ید الہی کے قدموں کو چھوتا ہے اور پھر تقدیر الہی آپ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتی چلی جاتی ہے.اب دنیا کو یہ بدلتے ہوئے رنگ دکھا دیں اور دنیا کو بتادیں کہ خدا آپ کا ہے اور آپ خدا کے ساتھ ہیں خدا آپ کے ساتھ ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 39 39 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء خلیج کا بحران.عراق کو نیست و نابود کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کیلئے صدقات کی تحریک.(خطبه جمعه فرموده ۱۸ جنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پیر صاحب پگاڑا جو پاکستان کے ایک بزرگ سیاستدان ہیں انہیں خدا تعالیٰ نے ایک خاص ملکہ عطا فرمایا ہے.ان جیسا ملکہ اور کسی پاکستانی سیاستدان میں میں نے نہیں دیکھا.مزاح کی زبان میں اور لطیف مزاح میں لپیٹ کر وہ بعض دفعہ ایسی ٹھوس حقیقتیں بیان کر دیتے ہیں جو اگر ظاہری کھلے کھلے لفظوں میں بیان کی جائیں تو ویسا اثر پیدا نہیں کر سکتیں اور ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو وہ بعض حالات میں کھلم کھلا کہنا مناسب نہ سمجھتے ہوں مگر اشاروں کی اس زبان میں جو خاص طور پر مزاح میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی خاص قدرت رکھتے ہیں.پیچھے کچھ عرصہ ہوا کسی نے ان سے پوچھا کہ بتائیے کہ مشرقی پاکستان جو پہلے ہوا کرتا تھا وہاں کے ان مسائل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.انہوں نے کہا کہ مجھ سے مشرق کی باتیں کیا پوچھتے ہو.ہمارا تو قبلہ مغرب کی طرف ہے اور مغرب ہی کو ہم سجدہ کرتے ہیں اس لئے مغرب کی باتیں پوچھو.کیسی لطیف بات ہے اور کتنی گہری ہے.تو مزاح کے پردے میں لپٹی ہوئی لیکن ایک انتہائی دردناک حقیقت ہے جو روز بروز کھل کر ظاہر ہوتی چلی جارہی ہے.وہ قو میں جو قبلہ یعنی بیت اللہ سے مشرق کی طرف واقع ہیں ان کا ظاہری قبلہ تو بہر حال مغرب ہی کی طرف ہوگا لیکن پیر صاحب کی مراد یہ نہیں تھی بلکہ یہ مراد تھی کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 40 40 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء ظاہری قبلہ مغرب کی طرف ہے اور باطنی قبلہ کسی اور طرف ہے مگر حیرت ہوتی ہے خانہ کعبہ کے محافظین پر کہ جو بیت اللہ میں رہتے ہوئے بھی مغرب کو سجدہ کرتے ہیں.آج عالمی مسائل سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے سب سے اہم ضرورت قبلہ سیدھا کرنے کی ہے.جب تک ہمارا قبلہ سیدھا نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا.ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان قوم دو ایسے حصوں میں بٹی ہوئی تھی کہ ایک کا قبلہ مشرق کی طرف ہو چکا تھا اور ایک کا مغرب کی طرف اور دونوں میں سے کسی کا قبلہ بھی بیت اللہ کی طرف نہیں تھا وہ اپنے تمام مسائل میں یا مغربی قوموں کی طرف دیکھتے تھے یا مشرقی طاقتوں کی طرف.جو سیاسی تبدیلیاں روس میں اور روس اور امریکہ کے تعلقات میں پیدا ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں اب ایک قبلہ تباہ ہو چکا ہے اور ایک ہی قبلہ باقی رہ گیا ہے ان کے لئے لیکن جو حقیقی قبلہ کبھی تباہ نہیں ہو سکتا، جو دائی ہے اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے لئے نجات کا ذریعہ بنایا گیا اس قبلے کی طرف رخ نہیں کرتے.پس آج کے دور میں سب سے اہم ضرورت قبلہ درست کرنے کی ہے.یہ انتہائی دردناک حالات جواس وقت عالم اسلام پر مصیبتیں بن کر اتر رہے ہیں ، اس سے کئی قسم کے ردعمل پیدا ہور ہے ہیں اور میں مختصراً ان سے متعلق جماعت کے سامنے وضاحت کرتا ہوں اور پھر جماعت کو نصیحت کروں گا کہ ان کو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے کیا رد عمل دکھانا چاہئے.ایک بڑا حصہ سعودی عرب کی امامت میں یعنی مسلمان ممالک کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب کی امامت میں کلیہ مغرب پر اپنا انحصار کر بیٹھا ہے اور اس بات میں کوئی بھی عار نہیں اور کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا کہ عالم اسلام پھٹتا جا رہا ہے اور دن بدن ان کے رخنے زیادہ گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں.عراق نے جو کچھ بھی کیا ، جیسا کہ آپ خطبوں میں پہلے سن چکے ہیں.جماعت احمدیہ نے کبھی بھی عراق کے کویت پر اس حملے کی تائید نہیں کی ، جماعت احمدیہ کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق تمہارا بھائی اگر ظالم بھی ہو تو اس کی اس طرح مدد کرو کہ اس کے ہاتھ ظلم سے روکو.چنانچہ اس پہلو سے ہم نے عراق کی بار ہامد دکرنے کی کوشش کی.پیغامات بھجوائے گئے ، خطبات میں بھی ہر طرح سے یہ مضامین بیان کئے کہ دو باتیں ایسی ہیں جو آپ کو ظلم میں شریک کر دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اگر آپ مدد چاہتے ہیں تو ظلم سے ہاتھ کھینچنا ہوگا.پہلی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 41 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء بات یہ کہ کویت سے آپ کو اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہئیں اور عالمی برادری کے سامنے نہیں بلکہ مسلمان برادری کے سامنے کویت کے ساتھ اپنا معاملہ طے کرنے کے لئے پیش کریں اور امن کے ساتھ اور سمجھوتے کے ساتھ آپ کے اختلافات طے ہوں یہی قرآنی تعلیم ہے اور اسی تعلیم کے مطابق ہم نے بغداد کونصیحت کی.دوسری بات ان کے سامنے یہ پیش کی گئی کہ باہر کے ملکوں کے نمائندے جو آپ کے ملک میں مختلف خدمات پر مامور تھے اور اسی طرح مختلف سفارتکار، وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس امانت ہیں اور اس امانت میں آپ نے خیانت نہیں کرنی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ خواہ یہ نصیحت ان تک پہنچی ہویا نہ پہنچی ہو، از خود انہوں نے ایک معقول فیصلہ کیا اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا اور اپنے پہلے مؤقف کو تبدیل کر کے اس منصفانہ موقف پر آگئے کہ ہمیں کسی Human Sheild کی ضرورت نہیں ہے ، جو غیر ملکی باشندے ہیں وہ جہاں چاہیں جب چاہیں واپس جاسکتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اخباری نمائندگان کو بھی انہوں نے آج تک ایسی غیر معمولی سہولتیں دیئے رکھی ہیں کہ جن کے متعلق مغرب میں بھی یہ تصور نہیں ہو سکتا کہ جب یہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ میں اس طرح مصروف ہوں تو اتنی آزادی کے ساتھ غیر ملکی سفارتکاروں کو حالات کا جائزہ لینے اور باہر خبریں بھجوانے کا موقعہ دیں تو ایک پہلو سے تو وہ ظلم سے باز آگئے لیکن کویت کے مسئلے پر اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا حکمتیں تھیں، کیا مجبوریاں تھیں کہ انہوں نے اپنا قدم واپس لینے سے انکار کر دیا اور اس انکار پر مصر رہے اس کے نتیجے میں جو خوفناک جنگ اس وقت وہاں لڑی جارہی ہے وہ ظاہر ہے کہ بالکل یک طرفہ ہے وہ تمام طاقتیں جو بغداد کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں ان میں مسلمانوں کا حصہ یہ ظاہر کرنے کے لئے ڈالا گیا ہے کہ یہ کوئی اسلام اور غیر اسلام کی جنگ نہیں بلکہ ایک ظالم کے خلاف مسلمان ممالک کی مدد کے لئے ہم قربانی کر رہے ہیں.اس قربانی کی حیثیت کیا ہے یہ تو سب دنیا جانتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ قربانی اس نوعیت کی ہے کہ غیر معمولی فوائد مغرب کو پہنچ رہے ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا.جو ریڈی اور ٹیلی ویژن پر پرو پیگنڈا ہورہا ہے اس پروپیگنڈا کے پس پردہ بہت سے امور ہیں جو واقعات ہیں اور ان کو سمجھے بغیر آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس خوفناک جنگ کے نتیجے میں کونسی طاقت فائدے اٹھائے گی اور کونسی طاقت نقصان اٹھائے گی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 42 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء جہاں تک عراق کا تعلق ہے وہ آپ جانتے ہیں کہ نقصان ہی نقصان ہے اور بہت ہی دردناک حالات ہیں.عراق کو میں نے خطبات میں یہ بھی کھلم کھلا مشورہ دیا تھا کہ تمہیں لازم تھا کہ انتظار کرتے.خدا تعالیٰ نے ایک طاقت عطا کی اس طاقت کو آگے بڑھانے کے لئے ابھی کھلا وقت درکار تھا اس لئے جو بھی فیصلے کئے گئے ہیں کچے ہیں، بے وقت ہیں اور نا مناسب ہیں اس لئے اس وقت اس ظلم سے اپنا ہاتھ اٹھا لو اور ترقی کرو.جلسہ سالانہ پر میں نے عالم اسلام کو یہ توجہ دلائی تھی کہ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک صلاح الدین عطا کر دے.کچھ عرصہ ہوا جب میں نے بغداد کے حالات دیکھنے کے لئے ٹیلیویژن چلایا تو اس میں ایک پروگرام دکھایا جارہا تھا جس میں بعض مسلمان علماء بڑے جوش کے ساتھ صدر صدام حسین صاحب کو صلاح الدین قرار دے رہے تھے لیکن جذبات کے نتیجے میں، اندھی وابستگی کے نتیجے میں صلاح الدین پیدا نہیں ہوا کرتے.صلاح الدین سے میری مراد یہ نہیں تھی کہ ایک جذباتی بت کھڑا کر دیا جائے اور اس کا نام صلاح الدین رکھ دیا جائے.صلاح الدین بننے کے لئے بہت سی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور ان صلاحیتوں کے علاوہ لمبے صبر کی ضرورت ہے.سلطان صلاح الدین نے سب سے پہلے عالم اسلام کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی.زندگی کا ایک بڑا حصہ مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی عرب ریاستوں کو یکجا کرنے اور ایک مرکزی حکومت بنانے پر عمر کا ایک بڑا حصہ صرف کر دیا اور جب وہ گھر کے حالات سے پوری طرح مطمئن ہو گئے تب انہوں نے فلسطین کے دفاع کے لئے تمام عالم کی طاقتوں کو چیلنج کیا اور دنیا جانتی ہے کہ جس طرح آج مغربی طاقتیں بغداد کے خلاف اکٹھی ہوئی ہیں اسی طرح اس زمانے میں بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت اور جذ بے کے ساتھ اس روح کے ساتھ کہ گویا ند ہی جنگ ہے، اس روح نے ان کے اندر دیوانگی کی ایک کیفیت بھی پیدا کر دی تھی پس زیادہ شدت اور جذبے اور دیوانگی کے ساتھ صلاح الدین کی طاقت کو توڑنے کے لئے مغرب نے بار بار کوششیں کیں اور باوجود اس کے کہ وہ نسبتا کمزور تھا، باو جود اس کے کہ وہ کوئی غیر معمولی حربی صلاحیتیں یعنی جنگی صلاحیتیں نہیں رکھتا تھا اس کے باوجود ہر بار اللہ تعالیٰ اس کو فتح پر فتح عطا کرتا چلا گیا اس میں بعض اور صفات بھی تھیں ، وہ ایک بہت نیک اور متوکل انسان تھا وہ ایک ایسا شخص ہے جس کے متعلق یورپ کے شدید ترین معاند بھی حرف نہیں رکھ سکے کہ اس نے یہ ظلم کیا اور یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 43 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء بداخلاقی کی.چنانچہ وہ متقین جنہوں نے بہت تلاش کیا ان میں سے بعض نے یہ اعتراف کیا کہ صلاح الدین کے متعلق ہم نے ہر طرح سے کھوج لگایا کہ کوئی ایک بات اس کے متعلق ایسی بیان کر سکیں کہ جس نے بنیادی طور پر انسانیت کی ناقدری کی ہو، انسانی قدروں کو ٹھکرایا ہو، ظلم اور سفا کی سے کام لیا ہو، بداخلاقی سے کام لیا ہو.مگر ایسی کوئی مثال اس کی زندگی میں دکھائی نہیں دی.ایک ہی مثال ان کے سامنے آئی اور یہی مصنف لکھتا ہے کہ اس مثال میں بھی جس کو مغرب نے اچھالا ، دراصل کوئی حقیقت نہیں ہے.وہ مثال یہ تھی کہ وہ یورپین شہزادہ جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے مزار کو اکھیڑنے کے لئے اس نیت کے ساتھ مدینے کی طرف روانہ ہوا تھا اور بہت قریب پہنچ چکا تھا اور اس کے ارادے بہت بد تھے.اس کو صلاح الدین نے بالآخر پکڑ کر اس کی مہم کو ناکام اور نا مراد کیا اور جب وہ شہزادہ صلاح الدین کے سامنے پیش ہوا ہے تو اس وقت اس کا پیاس سے برا حال تھا ، ایک شربت کا گلاس وہاں پڑا ہوا تھا اس نے وہ گلاس اٹھایا اور پینے لگا تھا کہ صلاح الدین نے تلوار کی ایک ضرب سے وہ گلاس توڑ دیا کیونکہ صلاح الدین نے زیادہ حکمت عملی کے ساتھ ایک زیادہ طاقتور فوج کو شکست دی تھی اور ان کو صحراء میں آگے پیچھے کر کے ایسے اقدام پر مجبور کر دیا جس کے نتیجے میں وہ پانی سے محروم رہ گئے اور صلاح الدین کی یہ جنگ تلوار کی طاقت سے نہیں بلکہ اعلیٰ حکمت عملی کے نتیجے میں جیتی گئی تھی.پس وہ پیاس سے تڑپتا ہوا وہاں پہنچا اور اس وقت اس شربت کے گلاس سے اس کو محروم کر دیا گیا.یہ حقین نے ایک داغ نکالا کہ یہ داغ صلاح الدین کے چہرے پر ہے اس کے سوا ہم کچھ تلاش نہیں کر سکے.یہ مؤرخ جس کی کتاب میں نے ایک لمبا عرصہ ہوا پڑھی تھی ، مجھے نام بھی یاد نہیں لمبا عرصہ پہلے پڑھی گئی تھی ، وہ یہ لکھتا ہے کہ جو اعتراض کرنے والے ہیں وہ عرب مزاج کو نہیں سمجھتے اور عرب اعلیٰ اخلاقی روایات کو نہیں سمجھتے.عرب اعلیٰ اخلاقی روایات میں سے ایک یہ ہے کہ مہمان کو جو تمہارا گھر کا پانی پی چکا ہو یا تمہارے گھر کا کھانا چکھ چکا ہو اس کو قتل نہیں کرنا چاہئے اس نے کیسا ہی بھیا نک جرم کیا ہواور اس کا جرم اتنا بھیا تک تھا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے مزار کی تو ہین کہ صلاح الدین جیسا عاشق رسول کسی قیمت پر اس کو معاف نہیں کر سکتا تھا.پس اس کے نزدیک یہ بداخلاقی تھی کہ یہ اس کے میز سے پانی پی لیتا اور پھر وہ اس کو قتل کرتا نہ کہ یہ بداخلاقی کہ مرنے سے پہلے ایک دوسیکنڈ اور اس کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 44 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء پیاس میں تڑپنے رہنے دیتا.پس صلاح الدین ایک بہت بڑی عظیم شخصیت تھی جو اسلامی اخلاق کا ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا.ایسا حیرت انگیز مظاہرہ تھا کہ بعض مغربی مؤرخین نے اس کو عمر بن عبد العزیز ثانی کہنا شروع کر دیا اور وہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز میں جو صلاحیتیں جو روحانیت جو اعلیٰ اخلاق موجود تھے وہ سینکڑوں سال کے بعد صلاح الدین کی صورت میں عرب دنیا میں دوبارہ ظاہر ہوئے.پس صلاح الدین محض جذبات سے نہیں بنا کرتے.صلاح الدین نام بہت سی صلاحیتوں کا تقاضا کرتا ہے.پس احمدی بھی شاید یہ پروگرام دیکھ کر جذباتی طور پر ہیجان پکڑ چکے ہوں ،وہ کہ رہے ہوں کہ دیکھو جی ، ادھر دعا کروائی ادھر صلاح الدین عطا ہو گیا.یہ بچگانہ باتیں ہیں.آپ کی سوچ پختہ ہونی چاہئے کیونکہ آپ تمام دنیا کی راہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں میں آپ کو آپ کا یہ مقام یاد دلاتا ہوں آپ کسی ایک قوم اور کسی ایک مذہب کی راہنمائی کے لئے نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی غلامی سے آپ نے سیادت کی صلاحیتیں حاصل کی ہیں اور حضرت محمد یہ تمام دنیا کی سیادت کے لئے پیدا فرمائے گئے اور تمام دنیا کو صحیح مشورے دینے کیلئے پیدا کئے گئے تھے.ایسی پختگی انسانی عقل میں کبھی واقع نہیں ہوئی جیسی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عقل کی پختگی عطا فرمائی گئی تھی.آپ کا دل بھی کامل تھا، آپ کی عقل بھی کامل تھی اور دل کے جذبات کو عقل میں ناجائز دخل دینے کی اجازت نہیں تھی.آج کل جو انتہائی دردناک حالات گزر رہے ہیں ان میں بعض لوگوں کے لئے تو یہ ایک ایسا ہی تماشہ ہے جیسے کبھی کرکٹ کے میچ ہورہے ہوتے ہیں اور ان میچوں کے دوران بچے بھی اور بڑے بھی دن رات، دن رات تو نہیں یعنی دن کے حصے میں ٹیلی ویژن کے اردگرد بیٹھے تماشے دیکھ رہے ہوتے ہیں.یہ کوئی کرکٹ کا تماشہ نہیں ہے.بہت ہی خوفناک اذیت ناک جنگ ہے Carpet Bombing کا آپ نے بار بار نام سنا ہوگا اس کا مطلب ہے کہ ایک علاقے کو مکمل طور پر اس طرح ملیا میٹ کر دیا جائے کہ کسی چیز کا کوئی نشان باقی نہ رہے اور ایک بم کے گڑھے کا تعلق دوسرے بم کے گڑھے کے کنارے سے ملتا چلا جائے.ایسی بمبارڈ منٹ (Bombard ment) عراق پر کی جارہی ہے کہ پہلی رات میں ہی ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے زیادہ طاقت کے بم وہاں گرائے جاچکے تھے اور اس وقت سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے.ان حالات میں جب تمام عالم اسلام
خطبات طاہر جلد ۱۰ 45 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء کا دل درد سے بھرا ہوا ہے یعنی اس عالم اسلام کا جس کو اسلام سے محبت ہے جس کو انسانیت سے محبت ہے، جس کو بنی نوع انسان کے امن سے محبت ہے، جو انسانی قدروں کی بلندی چاہتا ہے اور کسی ایک قوم کی عصیتی فتح کے نتیجے میں وہ نہیں ہو سکتا اس عالم اسلام کی میں بات کر رہا ہوں.اس عالم اسلام پر انتہائی درد کی کیفیت طاری ہے.دن رات دل دکھے ہوئے ہیں.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ صدر صدام کے ہر فیصلے پر صاد کر رہے ہیں.ہر گز اس کا یہ مطلب نہیں.صدر صدام نے جو یہ فیصلہ کیا کہ اسرائیل پر وہ سکڈ میزائلز پھینکیں اس کے نتیجے میں نقصان تو اتنا معمولی ہوا ہے کہ ایک معمولی بس کے حادثہ میں بھی اس سے بہت زیادہ نقصان ہو جایا کرتا ہے.زلزلے کے نتیجے میں اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے جو Terrorist آئر لینڈ سے آکر یہاں بم کے دھماکے کرتے ہیں ان کا نقصان اس سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے.لیکن تمام دنیا اسرائیل پر اس حملے کے نتیجے میں Appal ہوگئی ہے، یہ الفاظ ہیں پرائم منسٹر آف بریٹن.(Prime Minister of Britain) کے کہ ہم Appal ہو گئے ہیں اس قدر حیرت اور سکتے میں پڑ گئے ہیں اور اس قدر خوفناک تعجب انگیز تکلیف پہنچی ہے کہ لفظ نہیں ہیں اس کو بیان کرنے کے لئے تو یہ ہمدردیاں ہیں عالمی قوتوں کی اسرائیل کے ساتھ.ایسے موقع پر ایک ایسا قدم اٹھانا کہ جس کے نتیجے میں عراقیوں کے لئے اور زیادہ تکلیف ہو اور اگر عراقیوں کو تکلیف پہنچے گی تو چونکہ اکثر مسلمان ہیں اور اکثر عراقی جنگ کے فیصلوں میں ذمہ دار اور شریک نہیں اس لئے دنیا کے ہر شریف انسان کو خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اس تکلیف میں حصہ دار ہونا چاہئے.پس جو تکلیف نہتے ، غریب شہریوں کو پہنچ رہی ہے جو پہلے ہی فاقوں کا شکار ہیں اس پر ان پر ظالمانہ بمباریاں ہو رہی ہیں اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کتنا شدید نقصان اب تک پہنچ چکا ہے ان پر تو کوئی Appal نہیں ہو رہا ہے لیکن اس واقعہ پر اس لئے Appal ہورہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل نے جب جوابی کارروائی کی جو مظالم اب تک عراقیوں پر ہو چکے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مظالم ہوں گے.پس دراصل اس Appal کے لفظ کے پیچھے یہ حکمت ہے اور دوسرا ایسے خطرات ہیں جو خود غرضانہ خطرات ہیں ان کو خطرہ یہ ہے کہ اگر اس کے نتیجے میں اسرائیل نے کوئی جوابی کارروائی کی اور عالم اسلام پھٹ گیا یعنی پھٹا تو پہلے ہوا ہے مزید پھٹ گیا اور کچھ مسلمان ممالک نے عراق کی تائید شروع کر دی تو ہمارے لئے اور مشکلات کھڑی ہو جائیں گی تو بہر حال جو اقدامات ایسے ہیں جن کے نتیجے میں مصیبتوں میں اضافہ ہورہا ہے، دنیا میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 46 46 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء کوئی بھی انسانیت اور اسلام کا سچا ہمدردان اقدامات پر خوش نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر صدر صدام کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں اہل عراق کو دردناک سزائیں دی گئیں تو اس پر خوش ہونا مسلمان تو کیا ایک معمولی ادنی انسان کو بھی زیب نہیں دیتا لیکن ساتھ ہی جب آپ ٹیلی ویژن پر وہ تصویریں دیکھتے ہیں جن میں بے کار بیٹھے ہوئے امیر ، بھری ہوئی تجوریوں کے مالک کو یتی اور سعودی کانوں کے ساتھ ریڈیو لگائے بیٹھے ہوئے عراق کی تباہی کی خبروں پر قہقہے لگاتے ہیں اور ایسے مزے اڑا رہے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے دیکھ کر.جب ان تصویروں کو آپ دیکھتے ہیں تو انسان بیان نہیں کرسکتا کہ دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے.حیرت سے دیکھتے ہیں کہ ایسے انسان بھی ہیں جو اسلام کے نام پر ساری دنیا میں اپنے تقویٰ کے ڈھنڈورے پیٹتے رہے ہیں اور یہ بتاتے رہے ہیں کہ ہم اسلام کے صف اول کے سپاہی ہیں ہم وہ ہیں جن کے سپرد خانہ کعبہ کی چابیاں کی گئی ہیں.جن کے سپرد مقامات مقدسہ کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے.ہم وہ ہیں جنہیں عالم اسلام میں خدا تعالیٰ نے عظیم سیاد تیں بخشی ہیں، یہ دعوے کرتے چلے جارہے ہیں اور انسانی قدروں کی حالت یہ ہے کہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے Next Door یعنی ساتھ کے ہمسایہ مسلمان ملک پر اس قدر خوفناک مظالم توڑے جارہے ہیں کہ ان کے حالات جب جنگ کے بعد سامنے آئیں گے تو مدتوں تاریخ ان کے ذکر پر روئے گی.ہلاکو خان کی باتیں تو قصہ ہوچکی ہیں وہ پرانی باتیں ہیں.ہلاکو خان کو تو جنگ عظیم کی ہلاکت نے خواب بنایا تھا اور اب یہ خود اقرار کر رہے ہیں کہ جنگ عظیم میں جو کچھ ہوا وہ کچھ بھی نہیں تھا، ویتنام میں جو بمباری ہوئی ہے اس کی باتیں چھوڑ دو.اب جو بمباری ہم کر رہے ہیں اس کی کوئی مثال بنی نوع انسان کی فوجی طاقت کے مظاہرے میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.ان باتوں کو دیکھ کر قہقہے لگانے اور ہنسنا اور جہالت کے ساتھ ایسی طرز اختیار کرنا کہ جو کسی شریف انسان کو زیب نہیں دیتی.ایسی گھٹیا حرکتیں ، ایسے گھٹیا انداز میں نے تو پہلی دفعہ دیکھا ہے میں تو حیران رہ گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اتنی دولتوں کا مالک بنایا گیا ہے اور یہ ان کا وقار ہے اور یہ ان کی عقل اور سمجھ بوجھ ہے.کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ استغفار کریں کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ تو بہ کر یں.خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں خدا تعالیٰ کی چوکھٹ پر سجدے کریں اور اس سے دعا مانگیں کہ اے خدا ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں، مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو نیست و نابود کر دیں اور اس کے نتیجے میں صدقات کریں.بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اظہار کریں، اس دولت کا صحیح استعمال کریں جس دولت کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 47 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء ان کو امین بنایا گیا ہے.یہ کرنے کی بجائے یہ صرف اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب کلیہ عراق کی طاقت ہمیشہ ہمیش کے لئے صفحہ ہستی سے مٹا دی جائے اور پھر فاخرانہ انداز میں یہ واپس اپنے چھوٹے سے ملک کویت میں داخل ہوں.اور پھر مغربی طاقتیں دوبارہ آکر ان کے ملک کو از سرنو تعمیر کریں، پھر آباد کریں جب کہ عملاً عراق صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہو.اب سوال یہ ہے کہ اس ساری جدوجہد کا، اس خوفناک بین الاقوامی صورت حال کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے.آج صبح کے انٹرویو میں کسی نے اسرائیل کے نائب وزیر دفاع سے پوچھا کہ دیکھیں اگر آپ نے کوئی رد عمل دکھایا یعنی ان سکڈ میزائل کے نتیجہ میں جو آپ کے بعض شہروں میں گرے لیکن زیادہ نقصان نہیں ہوا اگر آپ نے کوئی رد عمل دکھایا تو اس کے نتیجے میں عالم اسلام کا جو ہمارے ساتھ اتحاد ہے اس کو شدید نقصان پہنچے گا تو اس نے کہا: تم کیا باتیں کرتے ہو کیسی بے عقلی کا سوال ہے.مجھے تو اس سوال میں معمولی عقل کی بات بھی دکھائی نہیں دیتی.اس نے کہا کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ سعودی عرب کا احسان ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہے اور انگلستان کے ساتھ ہے اور یورپین ممالک کے ساتھ ہے.کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ کویت کا احسان ہے یا مصر کا احسان ہے.یہ تو سارے تمہارے ممنون احسان ہیں.ان کو ایک ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہوگی کہ اسرئیل عراق کو تباہ کرے یا کوئی اور تباہ کرے یہ ممالک ہیں جو تمہارے غلام ہیں تمہارے ممنون احسان ہیں تم پر کامل انحصار رکھنے والے ممالک ہیں ان کو توفیق ہی نہیں ہے کہ تم سے ناراض ہوسکیں.یہ جو جواب ہے اس میں بڑی گہری حقیقت ہے.اس سے کوئی انکار نہیں کہ اس وقت یہ صورت حال ہو چکی ہے لیکن ایک بات سے مجھے شدید اختلاف ہے کہ اس نے کہا کہ تم نے ان پر احسان کیا ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے.مغرب نے نہ عالم اسلام پر کوئی احسان کیا ہے اس لڑائی میں حصہ لے کر نہ ان مسلمان ممالک پر احسان کیا ہے جن کے نام پر یہ لڑائی لڑی جارہی ہے بلکہ ہمیشہ کی طرح اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کی ایک بہت ہی خوفناک کوشش ہے جو اس جدید تاریخ میں ہمیشہ سے اسی طرح کارفرمارہی ہے.کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں کہ جب بھی دنیا میں کہیں بدامنی ہو اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ ترقی یافتہ قوموں کو پہنچے.پس اس صورت حال کے پیش نظر اگر آپ مزید تجزیہ کریں تو آپ کو میری بات کی خوب سمجھ آجائے گی کہ فائدے کس کے ہیں.یہ جو بے شمار جنگی ہتھیار اور جدید ترین جنگی ہتھیار میدان جنگ تک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 48 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء پہنچائے جارہے ہیں ان پر بے انتہا خرچ آ رہا ہے.ارب ہا ارب ڈالرز ، آپ تصور ہی نہیں کر سکتے یوں سمجھیں کہ دولتوں کے پہاڑ خرچ ہورہے ہیں اور ایک بات آپ نے سنی تھی کہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ اس میں سے نصف سعودی عرب ادا کرے گا.دوسرے نصف کی کوئی بات نہیں کی گئی.یہ نہیں بتایا گیا کہ دوسرا نصف کس کس مسلمان ملک کے حصے میں آئے گا کس کے ذمے، کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا اور میں آپ کو یقین سے کہ سکتا ہوں کہ دوسرے نصف کا بڑا حصہ کو یت اور بحرین اور اسی طرح شیخڈم کی دوسری ریاستیں ادا کریں گی.اگر پورا نہیں تو لازماً ایک بڑا حصہ ان سے وصول کیا جائے گا.پس اس جنگ کا آخری واضح نقشہ یوں ابھرتا ہے کہ کسی ایسی طاقت کو فائدہ پہنچ رہا ہے جو خود جنگ میں شریک ہی نہیں ہے اور وہ اسرائیل ہے.آج کے ایک انٹرویو میں ایک مغربی مفکر یا سیاستدان نے کھل کر اس بات کو تسلیم کیا کہ ہم جو کہتے تھے کہ عراق کو تباہ کرو.اب تمہیں سمجھ آگئی ہے ناں کہ کیوں کہتے تھے.یہ سکڈ میزائلز جو پوری طرح چل نہیں سکے اگر یہ اسی طرح رہ جاتے اور یہ جنگ نہ ہوتی تو آخر کار ان میزائلز کو زیادہ ہولناک طاقت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جانا تھا تو جہاں تک مقاصد کا تعلق ہے ،مقصد کے لحاظ سے اس نہایت ہی خوفناک جنگ کا فائدہ صرف اور صرف اسرئیل کو ہے.جہاں تک اقتصادی فوائد کا تعلق ہے یہ تمام تر فائدہ مغربی ملکوں کو ہے وجہ یہ ہے کہ جو بھی ہتھیار یہاں استعمال کئے جارہے ہیں روس سے صلح کے نتیجے میں ان ہتھیاروں کی قیمت مٹی ہو چکی تھی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہی تھی اور جو زیادہ تر بل ہے وہ ان ہتھیاروں کی قیمت کے طور پر ہے جہاں تک ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات ہیں وہ تو سارے کلیہ ان کے مفت تیل پر ہیں اور اگر صرف نصف بل بھی بنے تب بھی ان کی بچت کا جو مارجن (Margin) ہے یعنی جتنے فی صد بچت ان کو ہوگی وہ بھی غیر معمولی ہے پس اس جنگ کا اقتصادی فائدہ کلیہ ان مغربی طاقتوں کو حاصل ہے جو اپنے فرسودہ ہتھیار یا نئے ہتھیار ایک ایسی جنگ میں استعمال کر رہے ہیں جس جنگ کی قیمت وہ کسی اور فریق سے وصول کر رہے ہیں.پس جنگ کی محنت کرنے والے مغربی لوگ ، جنگ میں چند نقصانات اٹھانے والے یعنی چند جانی نقصانات اٹھانے والے مغربی لوگ اور اس کے نتیجے میں بے شمار اقتصادی فائدہ حاصل کرنے والے بھی مغربی لوگ.عالم اسلام کو اس کے شدید نقصانات ہیں اگر عراق کلیۂ تباہ ہو جائے تو یہی نقصان ایک بہت بڑا نقصان ہے جس کے بعد بیسیوں سال تک مسلمان روئیں گے لیکن اس کو نظر انداز بھی کر دو تو اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 49 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء جنگ کے بعد جو نقشہ ابھرے گا وہ نہایت ہی خطرناک ہوگا.ایک تو یہ خطرہ فوری طور پر لاحق ہے کہ صدر صدام نے اگر ایک اور ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی کہ اسرائیل کو اس غرض سے ملوث کرنے کی کوشش کی کہ جو مسلمان ممالک مغربی طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ان سے بٹ جائیں تو اسرائیل جب اپنی انتہائی بہیمانہ انتقامی کارروائی کرے گا تو کسی مغربی طاقت نے اس کے ہاتھ نہیں روکنے نہ ان کو اس بات کی پرواہ ہوگی اور اس پر بھی ان ہی مسلمانوں کے دل دکھیں گے جو بالکل بے بس ہیں اور جن کا کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ اسلام اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور خدا سے شدید محبت رکھتے ہیں جو انصاف سے محبت رکھتے ہیں.جو امن عالم سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے میں تمام عالم اسلام میں ایک ہیجان پیدا ہو جائے گا.اگر چہ ظاہری طور پر یہ جنگ جیت جائیں گے مگر بدامنی کے اتنے شدید خوفناک بیج بوڈالیں گے کہ وہ جگہ جگہ اُگیں گے اور اس کے نتیجے میں پھر بدامنیاں پیدا ہوں گی اور بدامنی کی آماجگاہ مسلمان ممالک بنیں گے.کہیں اس کے رد عمل میں مسلمان حکومتوں کا تختہ الٹانے کی کوشش کی جائے گی.کہیں اس کے نتیجے میں وہ خوفناک مولویت ابھرے گی جس کا قرآن سے تعلق نہیں بلکہ وسطی تاریخ سے تعلق ہے.Middle Ages سے تعلق ہے اور وہ قیادت جو مذہبی جنون سے تعلق رکھتی ہو بظاہر خدا کی محبت اور رسول کی محبت اور قرآن کی محبت سے تعلق رکھتی ہو جو سیاسی نتائج کی وجہ سے ظہور پذیر ہو وہ قیادت ہمیشہ مزید ہلاکت پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور اقوام کو مزید پہلے سے بھی بدتر حال کی طرف لے جاتی ہے.پس بے انتہاء مسائل ہیں جو اس خوفناک جنگ کے بعد ظاہر ہونے والے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے اور امن عالم کے لئے ان میں سے ہر خطرہ ایک مزید خطرے کا پیش خیمہ بن جائے گا کیونکہ اس قسم کے دھما کے جو مذہبی جنون کے نتیجے میں ہوں یا سیاسی احساس محرومی کے نتیجے میں ہوں.یہ دھما کے دور دور تک اثر انداز ہوتے ہیں.جن کا نوں تک ان کی گونج پہنچتی ہے کان وہ گونج دل کے ارتعاش میں تبدیل کر دیا کرتے ہیں اور وہ دل کے ارتعاش پھر دماغ تک پہنچتے ہیں اور سکیموں میں بدل جایا کرتے ہیں.دھما کا خواہ کو بیت میں ہو، خواہ مصر میں ہو، خواہ سوڈان میں ہو، دنیا کے کسی ملک میں بھی ہو مسلمانوں کو ہر جگہ اس کی دھمک سے ایک شدید تکلیف پہنچے گی اور ہیجان پیدا ہوں گے اور اس کے نتیجے میں اور کئی قسم کی تحریکیں جنم لیں گی اور یہ دھما کا اگر قومیت سے تعلق رکھے تو اس کے نتیجے میں قوموں میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 50 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء اس سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور ارتعاش پیدا ہوگا بہر حال یہ ایک لمبی تفصیل ہے اس معاملے کو وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.آپ اسے جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بدامنی کے جو موجودہ حالات ہیں یہ ختم ہونے کے بعد بد امنی ختم نہیں ہوگی بلکہ بہت وسیع پیمانے پر جاری ہوگی اور ایک اور خطرہ بھی ہے که یه موجوده بدامنی ایک عالمی بدامنی میں بھی تبدیل ہو جائے اور وہ خوفناک عالمی جنگ لڑی جائے جس کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ممالک جو باہر بیٹھے ایک ملک کو تباہ کر کے اس کے تماشے دیکھ رہے ہیں خود ان حالات میں سے گزریں جن کے نتیجے میں وہ تماش بین نہ رہیں بلکہ تماشہ دکھانے والے بن جائیں اس لئے حالات بہت ہی خوفناک ہیں اور خطرناک ہیں اور گہرے ہیں.میں جماعت احمدیہ کو یہ تلقین نہیں کرتا کہ یہ دعا کریں کہ فلاں فریق فتح مند ہو میں جماعت احمدیہ کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ امن عالم کے لئے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ہم تو حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے پیغام کے بھی عاشق ہیں، آپ کے نام کے بھی عاشق ہیں کیونکہ اے آقا! وہ تیرا عاشق تھا.اے زمین و آسمان کے مالک !! کبھی دنیا میں کوئی تیرا ایسا عاشق پیدا نہیں ہوا جیسے حضرت اقدس اصلى الله م مصطفی ملتے تھے.پس ہمیں تو آپ کے نام سے آپ کے کام سے، آپ کی ذات سے، آپ کے سلسلے سے محبت ہے اور آپ کو تمام بنی نوع انسان سے محبت تھی آپ تمام عالم کے لئے تمام عالمین کے لئے رحمت بنائے گئے تھے.پس ہماری آپ کی ذات سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تمام بنی نوع انسان کے غم میں گھلیں اور ان کے لئے بہتری کے سامان کرنے کی کوشش کریں ہمارے پاس دعا کے سوا کچھ نہیں.ہم ایک کمزور اور نہتی جماعت ہیں ایک مظلوم جماعت ہیں لیکن ہم محمد کے نام پر تیرے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اس آقا کی قوم پر رحم فرما اور تمام بنی نوع انسان پر رحم فرما اور عالمی مصائب سے ان کو بچالے خواہ وہ انسانی غلطیوں کے نتیجے میں ہیں یا بعض ایسی تقدیروں کے نتیجے میں جن کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور جو کچھ بھی ہو اس کے نتیجے میں فتح ہو تو اسلام کی فتح ہو فتح ہو تو انسانیت کو فتح ہو وہ کھوئی ہوئی اخلاقی قدریں جو مشرق سے بھی مٹ چکی ہیں اور مغرب سے بھی مٹ چکی ہیں وہ دوبارہ دنیا میں ابھریں اور دوبارہ دنیا پر غالب آئیں.اے خدا اس وعدہ کو پورا فرما جس کا تو نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے.کہ تو نے اس لئے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا تھا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه (الصف:۱۰) تا کہ اس کو اور اس کے دین کو تمام دنیا کے ادیان پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 51 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء غالب کرے.پس ہم کسی قوم کی فتح کی دعا نہیں مانگتے ہم سچائی کی فتح کی دعا مانگتے ہیں.ہم اسلام کی فتح کی دعا مانگتے ہیں ہم سچ کی فتح کی دعا مانگتے ہیں.ہم انسانی قدروں کی فتح کی دعا مانگتے ہیں.اے خدا آج اگر ہماری دعاؤں کو تو نے نہ سنا تو اس دنیا کی نجات کا کوئی سامان نہیں ہے.پس ہم اپنے کامل خلوص اور کامل عجز کے ساتھ تیرے حضور سجدہ ریز ہیں اور گریہ کناں ہیں.ان غلاموں کی محمد مصطفی امیے کے غلاموں کی التجاؤں کوسن اور دنیا میں وہ پاک انقلاب برپا فرما جس کی خاطر تو نے ہمیں بھی قائم فرمایا ہے.وہ عظیم روحانی اور عالمی انقلاب برپا فرما اور ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھا دے کہ وہ تیرے سارے وعدے بچے نکلے جو وعدے اس انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں کہ جو ” آخرین“ کے ذریعے دنیا میں بر پا ہوگا اور وہ ” آخرین“ ہم ہیں اے ہمارے آقا، تو نے ہمیں مبعوث فرمایا ہے اس لئے اپنے وعدوں کی لاج رکھ اور ہمارے ہاتھوں وہ روحانی انقلاب برپا کر دے یعنی ہماری دعاؤں کے طفیل وہ روحانی انقلاب برپا کر دے، جس انقلاب کے بغیر دنیا بچ نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ ہماری ان عاجزانہ دعاؤں کو سنے اور ہمیں توفیق بخشے.امین.اس سلسلے میں ایک اور ضروری نصیحت ہے کہ دعا کے ساتھ مصیبتوں میں صدقات کا بھی حکم ہے.میں نے جب عالم اسلام کے موجودہ حالات پر غور کیا تو میری توجہ افریقہ کے ان بھوکوں کی طرف مبذول ہوئی جو کئی ملکوں کے وسیع علاقوں میں پھیلے پڑے ہیں.ایسے سینیا میں بھی ،صومالیہ میں بھی ،سوڈان میں بھی ، چاڈ میں بھی، بہت سے ممالک میں کثرت کے ساتھ انسانیت بھوک سے مررہی ہے اور انسان کو بحیثیت انسان ان کی کوئی فکر نہیں.اگر کچھ فکر کی ہے تو اہل مغرب نے کی ہے.ان کے ہاں ایسے پروگرام میں نے دیکھے ہیں جن کے تحت ان بھوکوں ، نگوں ، ان یتیموں ، ان فاقہ کشوں، ان بیماری میں مبتلا سکتے پنجروں کی تصویر میں دکھائی جاتی ہیں تاکہ بنی نوع انسان کا رحم حرکت میں آئے اور ان کی خاطر لوگ کچھ قربانیاں پیش کریں لیکن تیل کی دولت سے مالا مال وہ ممالک جن کے پاس تیل کے نتیجے میں دولتوں کے پہاڑا کٹھے ہو چکے ہیں، وہ محمد مصطفی علی ہے کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آپ کے پیغام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں اور ان کو کبھی خیال نہیں آتا کہ ہمارے ہمسائے میں بعض غریب افریقین ملک کس طرح فاقہ کشی کا شکار ہیں.سعودی عرب ہے یا عراق ہے یا دوسری مسلمان طاقتیں ہیں ، کویت ہو یا بحرین ہو یا شیخڈم کی اور ریاستیں ہوں خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 52 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء نے ایک لمبے عرصہ تک ان کو بڑی بڑی دولتوں کا مالک بنائے رکھا ہے اور تو اور سوڈان ان کا ہمسایہ ملک ہے.وہ مسلمان بھی ہیں لیکن فاقوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن مالدار عرب ملکوں میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہورہی.کسی کو خیال نہیں آیا کہ محمد مصطفی اللہ کے دین کی امتیازی شان کیا ہے.جب آپ کی سیرت کی باتیں کی جائیں تو خدا کی محبت کے بعد سب سے زیادہ ذکر بنی نوع انسان کی محبت اور غریب کی محبت کا آتا ہے جو سیرت محمد مصطفی مے کے روشن ہیولے کی طرح ابھرتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت محمد مصطفی امیہ کا نام انسان کے ذہن میں آئے اور غریبوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی اور ان کے ساتھ تمام عمر شفقت اور رحمت کا سلوک اچانک انسان کی نظر کو خیرہ نہ کر دے.محمد مصطفی ﷺ کی روشنی میں غریب کی ہمدردی کی روشنی شامل ہے.ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نے مجھے تلاش کرنا ہو تو غریبوں میں تلاش کرنا.قیامت کے دن میں درویشوں میں ہوں گا،غریبوں میں ہوں گا اور فرمایا ان کا خیال کرنا کیونکہ تمہاری رونقیں اور تمہاری دولتیں غریبوں کی وجہ سے ہیں.ان ہی کی محنتیں ہیں جو رنگ لاتی ہیں اور پھر وہ تمہاری دولتوں میں تبدیل ہوتی ہیں.کم سے کم الله اتنا تو کرو کہ ان سے شفقت اور محبت اور ہمدردی کا سلوک کرو.پس حضرت محمد بلا شبہ تمام کائنات میں سب سے زیادہ غریبوں کے ہمدرد تھے اور آپ کے نام کے صدقے خدا سے دوستیں پانے کے بعد اور دولتوں کے پہاڑ حاصل کرنے کے بعد اپنے ہمسایہ ملکوں میں غربت کے اتھاہ گڑھوں کی طرف دیکھنا اور دل رحم کے جذبے سے مغلوب نہ ہو جانا یہ کوئی انسانیت نہیں ہے.اگر یہ مسلمان ممالک دعا کی طرف متوجہ رہتے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی طرف متوجہ رہتے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آج اس بڑے خوفناک ابتلاء میں مبتلا نہ کئے جاتے.پس ہم اپنی غربت کے باوجود ہر نیکی کے میدان میں ان کے لئے نمونے دکھاتے ہیں.اس میدان میں بھی ہم نمونے دکھا ئیں گے.پس دعائیں کریں اور ان کو دعاؤں کی تلقین کریں.صدقے دیں اور ان کو صدقوں کی تلقین کریں.صبر کریں اور ان کو صبر کی تلقین کریں کیونکہ قرآن کریم کی سورتوں سے پتا چلتا ہے کہ آخری زمانے میں وہی لوگ فتح یاب ہوں گے کہ جن کے متعلق فرمایا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : ۱۸) کہ وہ صبر کی تلقین صبر کے ساتھ کیا کرتے تھے یا کیا کریں گے اور رحمت کی تلقین رحمت کے ساتھ کرتے تھے.پس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دس ہزار پاؤنڈ جو ایک بہت معمولی قطرہ ہے جماعت کی طرف سے افریقہ کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 53 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء بھوک سے فاقہ کش ممالک کیلئے پیش کروں اور حسب توفیق ذاتی طور پر پیش کروں گا اور ساری جماعت بحیثیت جماعت بھی کچھ نہ کچھ صدقہ نکالے.جماعت کے ایسے فنڈ ہوتے ہیں جن میں صدقات يا زکوۃ وغیرہ کی رقمیں ہوتی ہیں کچھ تو لازماً مقامی غریبوں پر خرچ کرنی پڑتی ہیں ، کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس کے علاوہ بچ جاتی ہیں ، وہ عفو“ کہلاسکتی ہیں.تو قرآن کریم فرماتا ہے: وَيَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ (البقره:۲۲۰) اس عفو کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ان مدات میں سے بیچ سکتا ہے وہ بچاؤ اور غرباء کی خدمت پر خرچ کرو یعنی اور علاقوں والے غرباء کی خدمت پر بھی خرچ کرو اور اسی طرح ذاتی طور پر بھی افراد جماعت خرچ کریں اگر چہ جماعت کی ساری دولت خدا ہی کی دولت ہے اور خدا ہی کی خاطر نیک کام پر خرچ ہوتی ہے لیکن ایک یہ بھی میدان خداہی کی خاطر خرچ کرنے کا میدان ہے.پس میں کوئی معین تحریک نہیں کرتا مگر میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ خالصہ اس نیت کے ساتھ کہ ہمارے ان صدقات کو اللہ تعالی امن عالم کے حق میں قبول فرمائے مسلمانوں کے مصائب دور کرنے کیلئے قبول فرمائے جتنا ممکن ہو صدقات دیں ہماری دعائیں بھی ان دو باتوں کیلئے وقف رہیں اور ہمارے صدقے بھی جس حد تک ہمیں توفیق ہے ان نیک کاموں پر خرچ ہوں اور یہ جو سارے صدقات ہوں گے یہ خالصہ افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک پر خرچ کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی آنکھیں کھولے جن کو قرآن نے کھلی کھلی نیکی کی تعلیم دی تھی لیکن اس سے یہ آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں.آج کا یہ جو خطبہ تھایا ابھی جاری ہے.یہ جاپان میں بھی سنا جا رہا ہے.مغربی جرمنی میں بھی سنا جارہا ہے.ماریشس میں بھی سنا جا رہا ہے ان کے علاوہ یہ خطبہ نیو یارک (امریکہ ) ڈنمارک اور بریڈ فورڈ میں بھی سنا جارہا ہے تو یہ جو مواصلات کے نئے ذرائع ہیں حیرت انگیز ترقی کر چکے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جو خطبے وہاں سنتے ہیں وہ اپنے جمعہ کا اس کو حصہ نہ بنائیں.میں اس بات کو جائز نہیں سمجھتا کہ خطبہ کہیں اور پڑھا جار ہا ہو اور باقی لوگ باقاعدہ اس کو جمعہ کے حصے کے طور پر فریضے کی ادائیگی میں شامل کر لیں اپنا جمعہ آپ کو الگ پڑھنا ہوگا اور پھر جاپان میں تو اس وقت وقت ہی اور ہے.وہاں رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں اس لئے وہاں تو جمعہ کا ویسے ہی سوال نہیں ہے.بہر حال میں آپ کو بتارہا ہوں کہ ان ممالک میں بھی یہ سنا جارہا ہے.یہ سارے بھی اس تحریک میں براہ راست شامل ہو سکیں گے.ان کو بھی دعاؤں میں یادرکھیں.ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 54 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء میں نیکی کی بہت طلب پائی جاتی ہے کوشش کرتے ہیں کہ ہر نیکی کے مقام میں آگے قدم بڑھائیں اللہ تعالیٰ اور بھی ان کو تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 55 خطبہ جمعہ ۲۵ /جنوری ۱۹۹۱ء اسلام کا کوئی وطن نہیں اور ہر وطن اسلام کا ہے.اے مسیح محمدی کے غلامو! اقوام متحدہ کی نئی فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے والے تم ہو.( خطبه جمعه فرموده ۲۵ /جنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اسلام کا کوئی وطن نہیں ہے اور ہر وطن اسلام کا ہے.اس بنیادی اور نہ تبدیل ہونے والے روشن اصول کو بھلا کر بسا اوقات دنیا کے مختلف امتحانوں اور ابتلاؤں کے وقت بعض ملکوں کے مسلمان غلطی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خود بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور اسلام کی بدنامی کا بھی موجب بنتے ہیں.اسی کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تم اپنی وفاداریوں کا تعین کرو اور بہت سے ممالک جہاں بھاری اکثریت غیر مسلموں کی ہے وہ اپنے ملک کی مسلمان اقلیت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم ہمیں واضح طور پر یہ بتا دو کہ تم پہلے اسلام کے وفادار ہو یا پہلے وطن کے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلام کا کوئی وطن نہیں اور ہر وطن اسلام کا ہے.اس حقیقت میں بہت ہی گہرے حکمتوں کے راز پوشیدہ ہیں اور ایک بات جو کھل کر انسان کے سامنے ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ کہیں دنیا میں اسلام اور وطنیت کا تصادم نہیں ہوسکتا یعنی اسلام کے ان بچے اصولوں کا جو عالمی ہیں.ان کا عالم کے کسی حصے سے تصادم ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ عقلاً کل کا جزو سے تصادم قابل فہم نہیں یعنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 56 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء محالات میں سے ہے، ایسی چیز ہے جو ہو سکتی ہی نہیں.اگر اسلام کا خطہ ارض کے بعض بسنے والوں سے تصادم ہو تو اسلام ان کا مذہب نہیں بن سکتا، اسلام ان کیلئے رحمت کا پیغام نہیں ، اسلام یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میری آغوش میں تمہارے لئے بھی امن ہے.اس ملک کے باشندے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں اہل عرب کے لئے تمہاری آغوش میں امن ہو گا یا اہل انڈونیشیا کے لئے یا اہل ملائیشیا کے لئے یا اہل پاکستان کے لئے لیکن ہمارے لئے تمہارے پاس کوئی امن نہیں کیونکہ تم ہماری وطنیت کے مخالف ہو.پس یہ ایک بنیادی واضح حقیقت ہے جسے بدقسمتی سے بعض دفعہ مسلمان بھلا بیٹھتے ہیں اور اسلامی قومیتوں کے تصور کو ابھارتے ہیں اور اس طرح مسلمان اور غیر مسلم کو ایک دوسرے سے برسر پیکار کر دیتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ ہم نے سب دنیا کے دل جیتنے ہیں اور دل متصادم ہونے سے نہیں جیتے جاتے بلکہ پیغام کی لڑائی بالکل اور ماحول میں اور کیفیت سے لڑی جاتی ہے.پیغام کی لڑائی میں تو ایسے اصول کارفرما ہوتے ہیں جن کا دنیا کی لڑائیوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور مختلف انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں مختلف اصول سکھائے جو دنیا کی جنگوں پر اطلاق پاہی نہیں سکتے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام نے عیسائیوں کے ہاتھ میں جو ہتھیار پکڑا یا وہ یہ تھا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارتا ہے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کر دو.وہ جنگ جس جنگ کا یہ اسلوب بیان کیا جارہا تھا.وہ جہاد جس کے لئے یہ ہتھیار عیسائیوں کو عطا کیا جارہا تھا وہ روحانی جنگ تھی اور غلطی سے بعد میں عیسائیوں نے عملاً اس تعلیم کو ایک ظاہری تعلیم کے طور پر سمجھ لیا اور چونکہ وہ ان کے کام نہیں آسکتی تھی ، دنیا کے حالات پر اطلاق نہیں پاسکتی تھی اس لئے عملاً اس کو دھتکار دیا پس آج کوئی ایک عیسائی ملک دنیا میں ایسا نہیں جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عظیم الشان روحانی تعلیم پر عمل پیرا ہو کیونکہ یہ ایک روحانی تعلیم ہے جسے انہوں نے دنیاوی معنوں میں قبول کیا لیکن عملاً ہر اس وقت اس کو رد کر دیا اور پس پشت پھینک دیا جب ان کے امتحان کا وقت آیا.آج بھی یہی کیفیت ہے.پس مذہب کا تعلق روحانی دنیا سے ہے اور اس کی تعلیمات کی جنگ روحانی اصطلاحوں میں لڑی جاتی ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کو اس غرض سے پیدا کیا گیا تا کہ تمام دنیا کے دوسرے ادیان پر یہ غالب آجائے تو اس کا ہر گز یہ مفہوم نہیں کہ تلوار ہاتھ میں پکڑ و یعنی مسلمانوں کو یہ تعلیم ہو کہ تم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 57 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء صلى الله تلوار ہاتھ میں پکڑو اور تمام دنیا میں انکار کرنے والوں کی گردنیں کاٹتے پھرو اور جو تسلیم کرے اور سر جھکادےصرف اسی کو امن کا پیغام دو ، باقی سب کے لئے تم فساد اور جنگ کا پیغام بن جاؤ.یہ نہ عقل کے مطابق بات ہے نہ عملاً دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے نہ کبھی ہوا ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اس اصول کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب ہم مقابلے کی اور جہاد کی اور تمام بنی نوع انسان پر اسلام کو غالب کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو قرآن اور محمد مصطفی ﷺ کی اصطلاحوں میں باتیں کرتے ہیں اور دنیا کی اصطلاحوں سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ آج کے ابتلاء کے وقت وہ مسلمان جوان باتوں کو نہیں سمجھ سکے، نہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے راہنما ان کو غلط تعلیم دیتے ہیں ، وہ جگہ جگہ اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا دیکھ رہے ہیں اور دن بدن ان کی حالت خراب ہو رہی ہے.مختلف ممالک میں کمزور اقلیتیں ہیں اور اسلام کی تعلیم کو غلط پیش کرنے کے نتیجے میں اپنے رد عمل کو صحیح راستے پر گامزن نہیں رکھ سکتے.غلط راہوں پر چلاتے ہیں جہاں چلنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھاتے ہیں اور اسلام کی مزید بد نامی کا موجب بنتے ہیں.ایک یہ سوال ہے جو آج دنیا میں ہر جگہ اٹھایا جا رہا ہے جیسا کہ انگلستان میں بھی اٹھایا جارہا ہے اور اس سوال کا صحیح جواب نہ پانے کے نتیجے میں اور بعض مسلمانوں کی کم فہمی کے نتیجے میں جس رنگ میں وہ اپنے ردعمل کا اظہار انگلستان کی گلیوں میں کرتے ہیں اس رد عمل کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں کے لئے دن بدن زیادہ خطرات پیش آرہے ہیں.مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو جلایا جارہا ہے ، ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، عام گلیوں میں چلتے پھرتے ان کے لئے خطرات پیدا ہور ہے ہیں آج ہی ایک یہ خبر تھی کہ دو ٹیکسی ڈرائیوروں کو پکڑ کر بہت بری طرح مارا گیا کیونکہ وہ صدام حسین کی حمایت میں تھے تو یہ سب جہالت کے قصے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.اسلام کی تعلیم عالمگیر ہے اور عالمگیر صفات اپنے اندر رکھتی ہے اور اپنی اندرونی طاقت کے لحاظ سے غالب آنے والی تعلیم ہے جسے دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکتا اور کوئی اس پر اعتراض کرنے کی مجال نہیں رکھتا اس لئے کہ یہ سچائی پر مبنی ہے.پس جماعت احمدیہ کو ہر ابتلاء کے وقت یا ویسے بھی اپنے طبعی رد عمل کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے رہنا چاہئے.جب بھی ماحول میں ہیجان ہو اس وقت انسان کا دل بھی ہیجان پذیر ہو جاتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 58 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ہے.انسان کے دل میں بھی ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنی جانچ کا اور یہ معلوم کرنے کا وقت ہوتا ہے کہ میں اسلام کے راستے پر ہوں یا کسی اور راستے پر ہوں خواہ انفرادی اختلافات کے وقت دل میں ارتعاش ہو یا کوئی اختلاف کے وقت دل میں ارتعاش پیدا ہو وہ وقت ارتعاش کا ایسا وقت ہے جبکہ مومن اپنے ایمان کی پہچان کر سکتا ہے اپنے دل کے آئینے میں خدا سے اپنے تعلق کو دیکھ سکتا ہے.پس آج تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کو ایسا رد عمل دکھانا چاہئے جس رد عمل میں ایک انگریز احمدی بھی بلاتر در یہ کہتے ہوئے شریک ہو سکتا ہے کہ یہ سچائی کی تعلیم ہے اور میری قومی وفاداری سے اس کے تصادم کا کوئی سوال نہیں اور افریقہ کا احمدی بھی یہ کہتے ہوئے اس رد عمل میں شریک ہوسکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی سچائی کی تعلیم ہے اور میرے ملک سے اس کے تصادم کا کوئی تعلق نہیں.غرضیکہ مشرق اور مغرب کے بسنے والے تمام بنی نوع انسان اگر فی الحقیقت ایک تعلیم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو وہ اسلام ہی کی تعلیم ہے کیونکہ یہ وطنیت سے بالا ہے اور وطنیت سے متصادم نہیں ہے کیونکہ سچائی وطنیت سے متصادم نہیں ہوسکتی اگر وطنیت کا غلط تصور ہے تو سچائی کے آئینہ میں وہ تصور غلط ثابت کیا جاسکتا ہے اس لئے جب میں کہتا ہوں اسلام کی تعریف وطنیت سے متصادم نہیں ہے اس سے ٹکراتی نہیں ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ان کی وطنیت کا تصور اسلام سے متصادم نہیں ہوسکتا.بعض ملکوں کے وطنیت کے تصور ہی ٹیڑھے ہوتے ہیں.ان کی تعریف ہی مختلف ہوتی ہے جیسا کہ آج دنیا کے اکثر ممالک میں انصاف کی تعریف بدل گئی ہے.وفا کی تعریف بدل گئی ہے.وطنیت کے معنی ہیں بیچ ہو یا جھوٹ ہو اپنے ملک کے ساتھ وفا کرو خواہ اس کے نتیجے میں انسان کی اعلیٰ قدروں سے بے وفائی ہو اور خدا کی اس تعلیم سے بے وفائی ہو جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت فرمائی گئی ہے.اگر یہ وطنیت کی تعریف ہے تو پھر اسلام ضرور اس سے متصادم ہے لیکن ان معنوں میں متصادم ہے کہ اس تعلیم کو درست کرے اور خواہ اس درستی کی راہ میں کتنی ہی قربانیاں پیش کرنی پڑیں جب تک بنی نوع انسان فطرت کے مطابق سیدھے اور صاف نہیں ہوجاتے اوران کی فطرت خدا کے حضور لبیک نہیں کہتی اس وقت تک اس دائرے میں اسلام کا ان غلط تعریفوں سے تصادم رہے گا اور یہ ایک ایسا تصادم ہے جس میں اسلام کو اپنی تائید میں ہر وطن سے اٹھتی ہوئی آواز سنائی دے گی.آج بھی دنیا میں جو حالات گزر رہے ہیں ان میں جماعت احمد یہ جو مؤقف اختیار کر رہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 59 59 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ہے اس مؤقف کی تائید میں بعینہ ہر ملک سے تائید کی آواز میں اٹھ رہی ہیں مجھے ابھی دو دن پہلے ایک بڑے مغربی ملک کے ہمارے ایک احمدی نے یہ مطلع کیا بلکہ استفسار کیا، مجھ سے پوچھا کہ یہاں ایک بہت ہی مشہور مبصر اور بڑا ہی با اثر مبصر ہے اس نے موجودہ حالات پر جو تبصرہ کیا ہے یوں لگتا ہے کہ اس نے آپ کا خطبہ پڑھ کر یا خطبات پڑھ کر تمام وہ نکات قبول کر لئے ہیں جو آپ نے پیش کئے تو بتائیں آپ نے ان کے ساتھ کوئی رابطہ کیا تھا یا کسی احمدی نے اس کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور ایک جگہ سے نہیں اور بھی کئی جگہوں سے اس قسم کے خطوط ملے.بظاہر یہ میرے خطبات کو ایک خراج تحسین ہے مگر میں جاہل نہیں ہوں کہ بے وجہ ایسی حمد کو اپنا بیٹھوں جو میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ اسلام سے تعلق رکھتی ہے.تعریف کے لائق خدا ہے اور خدا کا بھیجا ہوا دین ہے اور یہ اس تعلیم کی سچائی اور عظمت کا ثبوت ہے ہاں میرے لئے صداقت کی پہچان کی ایک کسوٹی ضرور بن گئی.یہ بات میرے لئے ان معنوں میں اطمینان کا موجب بنی کہ مجھے مزید یقین ہو گیا کہ ان حالات پر میرے جو بھی تبصرے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ہیں ورنہ فطرت انسانی اس طرح مختلف ممالک سے بیک آواز اس کی تائید میں تبصرے نہ کرتی اور تقریر اور تحریر کے ذریعے اس تعلیم کی تائید نہ کرتی.پس مسلمانوں کے لئے ایک بہت کڑا وقت ہے اس کڑے وقت میں اپنے جذبات اور رد عمل اور خیالات کی حفاظت کریں اور اسلام کے پر امن دائرے سے باہر نہ جانے دیں کیونکہ جہاں بھی آپ نے اسلام کے دائرے سے باہر قدم رکھا وہیں آپ کے لئے خطرات پیش ہوں گے.دوسرا سوال اس دور میں جہاد کے متعلق بار بار اٹھایا جارہا ہے اور مختلف ممالک سے احمدی مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ بتائیں ہم کیا جواب دیں.یہ لڑائی اسلامی تعریف کے مطابق جہاد یعنی Holy war ہے یا نہیں؟ اس کا جواب میں اس خطبے کے ذریعے دیتا ہوں کیونکہ ہر شخص کو خطوط میں تفصیل سے سمجھایا نہیں جاسکتا جہاں تک اسلام کے تصور جہاد کی تعریف کا تعلق ہے ،سب سے کامل تعریف سورہ حج میں پیش فرمائی گئی ہے ، اس آیت میں جس کا میں نے پہلے بھی بارہا ذکر کیا اور اس پر تبصرہ کیا اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج: ۳۹) ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے لڑنے والوں کے خلاف تلوار اٹھائیں ، ان کے خلاف تلوار اٹھا ئیں جنہوں نے تلوار اٹھانے میں پہل کی ہے اور کسی جائز وجہ سے نہیں بلکہ وہ مظلوم ہیں اسی طرح یہ آیت اس مضمون کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 60 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے اور جہاد کی اس سے زیادہ خوبصورت اور کامل تعریف ممکن نہیں ہے.اس تعریف کو اگر ہم موجودہ صورتحال پر اطلاق کر کے دیکھیں تو ہرگز اسلامی معنوں میں یہ جہاد نہیں ہے.ایک سیاسی لڑائی ہے اور ہر سیاسی لڑائی خواہ وہ مسلمان اور مسلمان کے مخالف کے درمیان ہو یا مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہو وہ جہاد نہیں بن جایا کرتی.در حقیقت بعض لوگ حق کی لڑائی کو جہاد سمجھ لیتے ہیں اور چونکہ ہر فریق یہ سمجھتا ہے کہ میں حق پر ہوں اس لئے وہ اعلان کر دیتا ہے کہ یہ لڑائی خدا کے نام پر ہے ، سچائی کی خاطر ہے ، اس لئے جہاد ہے.یہ جہاد کی ایک ثانوی تعریف تو ہوگی مگر اسلامی اصطلاح میں جس کو جہاد کہا جاتا ہے اس کی تعریف اس صورتحال پر صادق نہیں آتی.کیونکہ یہ تعریف بنیادی منطق کے خلاف ہے کہ دونوں فریق میں سے جو حق پر ہو اس کی لڑائی قرآنی اصطلاح میں جہاد بن جائے گی.مشرکوں کی مشرکوں سے لڑائیاں ہوتی ہیں.مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی مختلف مذاہب کے ماننے والوں سے لڑائیاں ہوتی ہیں.ملکوں کی ملکوں سے، کالوں کی گوروں سے ، ہر قسم کی لڑائیاں دنیا میں ہو رہی ہیں ، ہوتی چلی آئی ہیں ، ہوتی رہیں گی اور جب بھی دوفریق متصادم ہوں تو ظاہر بات ہے کہ اگر ایک فریق سو فیصدی حق پر نہیں تو کم سے کم زیادہ تر حق پر ضرور ہوگا اور یہ تو ممکن نہیں ہے، شاید ہی کوئی بعید کی بات ہو کہ کبھی دونوں کا برابر قصور ہو کہ دونوں برابر بچے ہوں.بالعموم ایک فریق مظلوم ہوتا ہے اور ایک ظالم ہوتا ہے.پس ہر مظلوم کی لڑائی کو جہاد نہیں کہا جاتا.اُس مظلوم کی لڑائی کو جہاد کہا جاتا ہے جسے خدا کا نام لینے سے روکا جارہا ہو جس پر مذہبی تشدد کیا جا رہا ہو.قرآن کریم فرماتا ہے.انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا الله (الحج: (۴) سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا رب ہے.پس اگر کوئی لڑائی محض اس وجہ سے کسی پر ٹھونسی جارہی ہو اور فریق مخالف پہل کر چکا ہو اور تلوار اس نے اٹھائی ہو نہ کہ مسلمانوں نے اور مسلمانوں کا جرم اس کے سوا کچھ نہ ہو کہ وہ اللہ کو اپنا رب قرار دیتے ہوں اور غیر اللہ کو رب تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوں تو پھر اس لڑائی کا نام جہاد ہے.پس محض حق کی لڑائی کا نام جہاد نہیں بلکہ ان معنوں میں جن کی لڑائی کا نام جہاد ہے.پس یہ صورتحال تو عراق اور باقی قوموں کی لڑائی پر چسپاں نہیں ہورہی.کویت نے کسی وجہ سے عراق کو ناراض کیا اور عراق نے اس ناراضگی کے نتیجے میں اور اس یقین کے نتیجے میں کہ کبھی یہ چھوٹا سا ملک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 61 خطبہ جمعہ ۲۵/جنوری ۱۹۹۱ء ہمارے وطن کا حصہ تھا اور انگریزوں نے اسے کاٹ کر ہم سے جدا کیا تھا اس لئے بنیادی طور پر ہمارا حق بنتا ہے اور کچھ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اس یقین پر کہ اس چھوٹے سے ملک کویت کی ہمارے سامنے حیثیت کیا ہے جبکہ ہم اتنی مدت تک آٹھ سال تک ایران سے لڑ چکے ہیں اور ایران کو بھی ایسے ایسے چیلنج دے چکے ہیں جن کے نتیجے میں بعض دفعہ ایران کو یہ خطرات محسوس ہورہے تھے کہ شاید ہمارے وطن کا اس دنیا سے صفایا ہو جائے.بہت دور تک گہرے ایران کے اندر عراق کی فوجیں داخل ہو چکی تھیں.بعد میں ان کو دھکیل کر واپس کیا گیا.پھر جس طرح تکڑی کے تول ہوا کرتے ہیں بعض دفعہ ایک طرف سے ڈنڈی ماری جاتی تھی ، بعض دفعہ ویسے ہی ایک فریق کا وزن بڑھ جاتا تھا تو یہ اونچ نیچ ہوتا رہا مگر ایران کے مقابل پر کویت کی کیا حیثیت تھی.پس ہو سکتا ہے یہ خیال بھی عراق کے لئے شہہ دلانے کا موجب بنا ہو کہ یہ کویت ، چھوٹا سا ملک اسے تو ہم آناً فاناً تباہ کر دیں گے.اوراس وجہ سے انہوں نے قبضہ کر لیا ہو، بہر حال قبضے کی کیا وجوہات تھیں؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟ درحقیقت حق کس طرف ہے؟ اور اگر حق تھا بھی تو حق لینے کا یہ طریق جائز بھی ہے یا نہیں؟ یہ سارے سوالات تھے جن پر غور ہونا چاہئے تھا اور عالم اسلام کو مشترکہ طور پر ان پر غور کرنا چاہئے تھا.اس لئے نہ اس لڑائی کو جہاد کہا جاسکتا ہے جو کویت پر حملے کی صورت میں پیدا ہوئی.نہ اس لڑائی کو جہاد کہا جاسکتا ہے جو اس کے ردعمل کے طور پر بعد میں عراق کے خلاف لڑی جارہی ہے.پس خواہ مخواہ جاہلانہ طور پر اسلام کی مقدس اصطلاحوں کو بے محل استعمال کر کے مسلمان اسلام کی مزید بدنامی کا موجب بنتے ہیں.ساری دنیا میں اسلام سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور قومیں تمسخر کرتی ہیں اور یہ اپنی بے وقوفی میں سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں لیکن عوام الناس کے متعلق یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کیوں آخر بار بار اپنے راہنماؤں کے اس دھو کے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور غیر معمولی قربانیاں ان جنگوں میں پیش کرتے ہیں جو در حقیقت جہاد نہیں.لیکن انہیں جہاد قرار دیا جارہا ہے.کوئی گہری اس کی وجہ ہے اس کے اندر در حقیقت کوئی راز ہے جس کو معلوم کرنا چاہئے اور اگر ہم اس راز کو سمجھ جائیں تو یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ مغربی قو میں جہاد کے اس غلط استعمال کی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں اور وہ جو تمسخر کرتی ہیں اور اسلام پر ٹھٹھا کرتی ہیں اگر اس صورتحال کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ خود بہت حد تک جہاد کے اس غلط استعمال کی ذمہ دار ہیں.وجہ اس کی یہ ہے کہ عالم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 62 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء اسلام پر گزشتہ کئی صدیوں سے یہ بالعموم تاثر ہے، یہ ایک ایسا مہم سا تاثر ہے جس کی معین پہچان ہر شخص نہیں کر سکتا بعض دفعہ مبہم خوف ہوا کرتے ہیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ کہاں سے آ رہا ہے کیوں ہے لیکن ایک انسان خوف محسوس کرتا ہے.بعض دفعہ تکلیف محسوس کرتا ہے.لیکن اس کی وجہ نہیں سمجھ رہا ہوتا.تو انسانی تعلقات میں بعض دفعہ بعض تاثرات انسان کی طبیعت میں گہرے رچ جاتے ہیں، گہرے اثر پذیر ہو جاتے ہیں اور ان تاثرات کی وجہ ایک لمبی تاریخ پر پھیلی ہوتی ہے.مغرب نے مسلمانوں سے گزشتہ کئی سوسال میں جو سلوک کیا ہے اس سلوک کی تاریخ مسلمانوں کو یہ یقین دلا چکی ہے کہ ان کی مسلمانوں سے نفرت مذہبی بنا پر ہے اور اسلام کا نام خواہ یہ لیں یا نہ لیں لیکن مسلمان قوموں کی ترقی یہ دیکھ نہیں سکتے اور مسلمان قوموں کے آگے بڑھنے کے خوف سے یہ ہمیشہ ایسے اقدام کرتے ہیں کہ جس سے ان کی طاقت پارہ پارہ ہو جائے.یہ گہرا تا ثر ہے جو مسلمان عوام الناس کے دل میں موجود ہے خواہ انہوں نے کبھی تاریخ پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو.تاریخ کے بعض تأثرات انسانی سوچ اور انسانی جذبات میں اس طرح شامل ہو جاتے ہیں جیسے کسی پانی کی رو میں کوئی چیز ملادی گئی ہو.وہ ہاتھ نہ دیکھا ہو کسی نے جس نے وہ چیز ملائی ہے لیکن پانی کے چکھنے سے اس چیز کا اثر معلوم کیا جا سکتا ہے.پس عامتہ المسلمین دل میں یہ یقین رکھتے ہیں اور اس لمبے تاریخی تجربے کے نتیجے میں یہ یقین ان کے دل میں جاگزیں ہو چکا ہے کہ یہ قومیں ہر مشکل کے وقت ہماری مخالفت کریں گی اور ایسے اقدامات کریں گی جس سے عالم اسلام کو نقصان پہنچے.اس تاثر کو حالیہ اختلاف کے دوران بھی اور اس سے پہلے بھی سب سے زیادہ تقویت امریکہ کے سلوک نے دی ہے یعنی اس تاثر کو تقویت دینے کا بڑا ذ مہ دار امریکہ ہے.مثلاً اسرائیل کا مسلمان علاقے میں قیام.امریکہ کی طاقت استعمال ہوئی ہے اس لئے وہ اس کا بڑا ذمہ دار ہے لیکن یہ شوشہ برطانیہ نے چھوڑا تھا اور برطانیہ کے دماغ کی پیداوار ہے.جب بھی لڑائیاں ہوتی ہیں اس وقت کچھ مخفی معاہدے کر لئے جاتے ہیں بعض لوگوں کے ساتھ اور یہود سے اس زمانے میں برطانیہ نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم تمہیں عربوں کے دل میں جگہ عطا کریں گے جہاں تمہارا ایک آزاد ملک قائم کیا جائے گا اور داؤد کی حکومت کے نام پر پھر تم وہاں بیٹھ کر تمام عرب پر بھی اثر انداز ہو گے اور تمام دنیا پر بھی اثر انداز ہو گے.ان الفاظ میں یہ معاہدہ نہیں ہوا ہوگا یقیناً نہیں ہوا مگر اس معاہدے کے وقت یہود کو یہی پیغام مل رہا تھا کیونکہ یہ ان کی خواب تھی جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 63 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء پوری ہو رہی تھی.United Nations کے نام پر اسے نافذ کیا گیا اور سب سے بڑا کردار اس میں امریکہ نے ادا کیا.ایک چیز جو مجھے آج تک تعجب میں ڈالتی ہے وہ یہ ہے کہ ، کیوں اس بنیادی سوال کو نہیں اٹھایا گیا کہ کیا United Nations کو یہ حق حاصل ہے کہ دنیا میں ایک نیا ملک پیدا کرے.ملکوں کا قیام تو ایک تاریخی ورثہ ہے جو از خود چلا آیا ہے.United Nations کا اختیار تو ان ملکوں تک تھا جو ملک موجود تھے اور اس میں طوعی طور پر شامل ہوئے.نہ کوئی دنیا کا ایسا چارٹر تھا جسے سب دنیا نے قبول کر لیا ہو کہ United Nations میں کوئی شامل ہو یا نہ ہو اس کا اثر اس پر پڑے گا اور نہ یہ کسی نے قبول کیا کہ یونائیٹڈ نیشنز کو ہم تمام دنیا کی برادری کے طور پر اجتماعی طور پر یہ حق دیتے ہیں کہ جب چاہے کسی ملک کو پیدا کر دے، جب چاہے کسی ملک کو مٹادے.تو جو حق ہی United Nations کو نہیں تھا، اس ناحق کو استعمال کرتے ہوئے یعنی حق اگر نہیں تھا تو جو بھی تھا نا حق تھا، انہوں نے ایک ملک کو پیدا کیا اس لئے اس ملک کے پیدا ہونے کا کوئی جواز نہیں اور اس میں سب سے بڑا بھیانک اور جابرانہ کردار امریکہ نے ادا کیا ہے.یہ وہ یاد ہے جس کو دنیا کا مسلمان بھلا ہی نہیں سکتا.اگر چہ عربوں نے اسے مدتوں تک ایک عرب مسئلہ قرار دئیے رکھا اور باقی مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا لیکن باقی مسلمان از خوداس میں شامل رہے ہیں کیونکہ ان کے دل میں یہ بات ہمیشہ سے جاگزیں رہی ہے، گہرے طور پر ان کے دل پر نقش ہے کہ دراصل یہ عرب دشمنی نہیں تھی بلکہ اسلام دشمنی تھی.اس کے بار بار مختلف اظہار ہوئے.مثلاً اسرائیل نے بعض دفعہ فلسطینیوں پر ایسے بھیانک مظالم کئے ہیں کہ ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.دل خون کے آنسو روتا ہے.عورتوں، بچوں، مردوں بوڑھوں کو اس طرح تہ تیغ کیا ہے کہ ایک کیمپ میں ایک بھی زندہ روح نہیں چھوڑی.دودھ پیتے بچے کو بھی ذبح کیا گیا لیکن نہ تمام دنیا کی قوموں کے کانوں پر کوئی جوں رینگی نہ امریکہ کی غیرت بھڑ کی.بلکہ جب بھی United Nations میں اس کے خلاف کوئی سخت ریزولیوشن پاس کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمیشہ امریکہ اس میں مزاحم ہوا اور یہ ایک لمبی تاریخ ہے.اب یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ وہ United Nations یعنی اقوام متحدہ اس نام کی مستحق بھی ہے کہ نہیں جس میں صرف پانچ قوموں کو دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق ہو یعنی وہ مستقل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 64 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ممبر جن کو ویٹو کرنے کا حق ہے اور اگر سارے عالم کی رائے بھی متفق ہو جائے تو اس ایک ملک کو یہ حق ہو کہ اس رائے کو رد کر دے تو عملاً وہ ایک ملک اس وقت دنیا بن جائے گا اور عملاً موجودہ فیصلے کے پیچھے یہی بات کارفرما ہے.جب صدر بش تحدی کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ عراق کی کیا مجال ہے کہ تمام دنیا کی رائے سے ٹکر لے.تو امر واقعہ یہ ہے، ہر آدمی سمجھتا ہے کہ دنیا کی رائے سے مراد امریکہ کی رائے یا صدر بش کی رائے ہے اور اس تحدی میں ایسا تکبر پایا جاتا ہے کہ اس سے طبیعتوں میں منافرت پیدا ہوتی ہے اور جب ان کے یہود کے ساتھ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر مسلمان نظر ڈالتے ہیں تو وہ سوائے اس کے کوئی اور نتیجہ نکال ہی نہیں سکتے کہ عراق نے غلطی کی یا نہیں کی.عراق کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی جارہی ہے یہ صرف اسرائیل کی خاطر ہے، یہ وہ ان کہی باتیں ہیں.یہ تجزیے کے بغیر دل میں جسے ہوئے نقوش ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان عوام یہ سمجھتے ہیں کہ درحقیقت یہ اسلام کی دشمنی کے نتیجے میں سب کچھ ہو رہا ہے.اسرائیل کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ عراق میں جہاز بھجوا کر ان کے نیوکلیئر پلانٹ یعنی وہ کارخانہ جو ایٹم بم کی خاطر بنایا جار ہا تھا اور عام پر امن مقاصد کے لئے نہیں تھا.کس United Nations نے یہ اختیار اسرائیل کو دیا تھا کہ یہ فیصلہ بھی کرے اور پھر اس کو مٹانے کا اقدام بھی خود کرے.اس وقت تو دنیا میں کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ عراق کو یہ حق حاصل ہے کہ جب چاہے اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کرے.یہ فیصلہ کرنا عراق کا کام ہے کہ آج کرے یا کل کرے یا پرسوں کرے مگر اس انتہائی کھلی کھلی جابرانہ بربریت کے بعد اقوام متحدہ عراق کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے.اگر کسی نے یہ آواز سنی ہو کم سے کم میرے کانوں نے نہیں سنی ، اگر کسی نے ایسی خبر پڑھی ہو تو کم سے کم میری آنکھوں نے نہیں پڑھی اور کسی مسلمان نے نہیں پڑھی.پس عالم اسلام کا یہ تصور کہ موجودہ دشمنی بھی اسلام کی گہری نفرتوں پر مبنی ہے ، حقائق پر مبنی تصور ہے، یہ کھلی کھلی دشمنیاں اور کھلی کھلی نا انصافیاں دنیا کو معلوم ہیں ، ان کی نظر میں آتی ہیں اور بھول جاتے ہیں لیکن تاثر قائم رہ جاتا ہے اور وہ تأثر سچا ہوتا ہے.پھر عجیب بات ہے کہ جب عراق اسرائیل پر حملہ کرتا ہے اور راکٹس برساتا ہے اور ان کی شہری آبادیوں میں سے کچھ حصہ منہدم ہوتا ہے تو ساری دنیا اس پر شور مچادیتی ہے.فلسطین یاد نہیں رہتا، اسرائیل کا وہ فضائی حملہ یاد نہیں رہتا جو ایٹمی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 65 59 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء پلانٹ پر کیا گیا تھا اور اس کے بعد آئندہ مظالم کی نہایت خوفناک داغ بیل ڈالی جاتی ہے.یہ وہ باتیں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے جذبات زیادہ سے زیادہ مجروح ہوتے چلے جارہے ہیں اور مسلے جارہے ہیں اور جب وہ ان جذبات کا اظہار کریں تو تو میں ان کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آج فیصلہ کرو کہ تم اسلام کے وفادار ہو گے یا ہمارے وطن کے وفادار رہو گے یہ کونسا انصاف ہے.حقائق کے اظہار پر وطنیت کا سوال اٹھانا ہی ظلم ہے.اگر یہ باتیں جو سچی اور حقیقتیں ہیں ان کا مسلمان اظہار کرتا ہے تو اس کو حق حاصل ہے لیکن جو بھیا نک بات ظاہر ہو چکی ہے اس سے زیادہ بھیا نک باتیں ابھی ظاہر ہونے والی ہیں.اسرائیل کے ساتھ کچھ مخفی گفت و شنید امریکہ نے کی اور اپنے ایک بہت ہی اہم افسر کو، اپنے مرکزی حکومت کے نمائندہ کو ان کے پاس بھجوایا اور باتوں کے علاوہ جو مخفی تھیں اور کچھ عرصے تک مخفی رہیں گی جب تک وہ عملی طور پر دنیا کے سامنے ظاہر نہ ہوں ، ایک یہ بھی تھی کہ اسرائیل کو چھ بلین سے زیادہ ڈالر دیئے گئے اس لئے نہیں کہ تم جوابی انتقامی کارروائی نہ کرو بلکہ اس لئے کہ سر دست نہ کرو اور بعد میں کر لینا جب ہم مار کر فارغ ہو جائیں تو جو کچھ بچے گا اس پر تم اپنا بدلہ اتار لینا.بعض دفعہ پرانے زمانوں میں رواج تھا کہ اگر کوئی ظالم مرجاتا تھا یا کوئی شخص کسی مرے ہوئے کو ظالم سمجھتا تھا اور انتقام لینا چاہتا تھا تو اس کی لاش اُکھیڑ کر اسے پھانسی لگا دیا جاتا تھا تو عملاً جو معاہدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ لاش بنانے تک ہمیں موقعہ دو.ہم تمہاری یہ خدمت کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.جب مار بیٹھیں گے تو پھر تمہارے سپر د کر دیں گے پھر اس لاش کو تم جہاں مرضی لٹکائے پھر نا.اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب انصاف کی باتیں ہیں؟ کیا یہ انسانیت کی باتیں ہیں؟ لیکن ایک اور بات جود نیا کی نظر میں نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ عراق کی سویلین پاپولیشن Civilion Population یعنی پر امن عام آبادی پر جو خطرناک بم گرائے گئے ہیں.یہ اس واقعہ کے بعد گرائے گئے ہیں اور زیادہ تر مغربی عراق کی آبادی اس سے متاثر ہوئی ہے اور اگر یہ ظلم تھا تو عملاً اس سے ہزاروں گنا بڑا ظلم عراق پر کیا جاچکا ہے.اگر ایک اسرائیلی گھر گرا تھا تو عراق کے سینکڑوں گھر گرائے جاچکے ہیں.اگر ایک اسرائیلی زخمی ہوا تھا تو ہزاروں عراقی مارے جاچکے ہیں.وہاں سے آنے والے بتاتے ہیں کہ بعض علاقوں سے لاشوں کی بد بو کی وجہ سے گزرا نہیں جاتا.جلے ہوئے گوشت کی بد بو بھی اٹھتی ہے اور متعفن گوشت کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ صلى الله.66 خطبہ جمعہ ۲۵ /جنوری ۱۹۹۱ء بد بو بھی اٹھ رہی ہے اور علاقوں کے علاقے آبادی سے خالی ہو گئے ہیں.یہ امریکہ کا وہ انتقام ہے جو یہود کی خاطر اس نے لیا ہے اور یقیناً یہ اس معاہدے میں شامل تھا جس کی باتیں ابھی منظر عام پر نہیں آئیں.عملاً وہ منظر عام پر آ گیا ہے اور ابھی یہ انسانیت کے علمبردار ہیں Moral High Grounds سے باتیں کرتے ہیں اور باقی دنیا کو کہتے ہیں تم ذلیل تمہیں اتنا بھی نہیں پتہ کہ انسانیت ہوتی کیا ہے.تم نے نہتے معصوم اسرائیلیوں پر بمباری کی.وہ غلط ہے.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ نہتے پُر امن شہریوں کو کسی رنگ میں بھی تکلیف پہنچائی جائے.حضرت اقدس محمد مصطفی امی ﷺ کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا.جب بھی بعض علاقوں میں جہاد یعنی تلوار کا جہاد ہوا کرتا تھا تو آپ افواج کو بھیجنے سے پہلے ان کو تفصیل سے اور تاکید سے جو ہدایت فرمایا کرتے تھے.اس میں ایک یہ بھی ہدایت تھی کہ شہریوں کو، بوڑھوں کو عورتوں کو اور بچوں کو ہرگز تہ تیغ نہیں کرنا.ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا.(حوالہ......پس فی الحقیقت یہ صحیح اسلامی تعلیم حضرت محمد مصطفی امیہ کی نصیحتوں اور آپ کی سنت سے ملتی ہے.ق عليسة پس میں یہ نہیں کہتا کہ عراق نے درست کیا مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر عراق نے غلط بھی کیا تو دنیا کے ان قواعد و دستور کے مطابق جن کے تم علمبردار بنے ہوئے ہو عراق کی اس کارروائی کو ایک جوابی کارروائی تصور کرنا چاہئے تھا.اسرائیل میں بسنے والے وہ مسلمان جن پر آئے دن گولیاں چلائی جاتی ہیں اور نہتوں کو تہ تیغ کیا جاتا ہے اور گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے.اگر ان کا انتقام لیا جائے تو تم یہ نہیں کہتے کہ یہ انتقام ہے اور جائز ہے.تم یہ کہتے ہو کہ یہ سراسر غیر منصفانہ، بہیمانہ ظلم ہے اور زیادتی ہے جس کا بدلہ لینے کا اسرائیل کو حق ہے اور پھر مخفی معاہدے ان سے یہ کرتے ہو کہ ہم تمہیں روپیہ بھی دیں گے اور تمہاری خاطر ایسے خوفناک مظالم ان پر کریں گے کہ تمہارے دل ٹھنڈے ہوں گے اور جو کچھ بھی ان معصوم لوگوں کا بیچ رہے گا وہ تمہارے سپرد کر دیں گے کہ جاؤ اور جو کچھ ان کا رہ گیا ہے اس کو ملیا میٹ کر دو یا ان کے مردوں کی لاشیں لٹکا کر ان سے اپنا انتقام لو اور اپنے سینے ٹھنڈے کرو اور پھر یہ باتیں ان کے پیش کردہ اخلاق کے اس قدر شدید منافی ہیں، جن اخلاق کا یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں خود ان کے مخالف ہیں، جو پروپیگینڈا دنیا میں کر رہے ہیں خود اس پروپیگنڈے کو جھٹلانے والی باتیں ہیں.پرو پیگنڈا یہ کر رہے ہیں کہ صدر صدام ایک نہایت ہی خوفناک جابر ہے.ہم اس کو سزا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 67 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء اس لئے دے رہے ہیں کہ اس نے خود اپنے ملک کے باشندوں کو زبردستی غلام بنایا ہوا ہے.ہم اس کو سزا اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں پر ظلم اور تشدد کر رہا ہے اور ان کی رہائی کی خاطر ہم صدر صدام کے خلاف ہیں نہ کہ اہل عراق کے خلاف اور سزا کن معصوموں کو دے رہے ہیں جن پر ان کے بیان کے مطابق مسلسل سالہا سال سے صدر صدام تشدد کرتا چلا جارہا ہے اور مظالم توڑتا چلا جارہا ہے ان معصوم عورتوں اور بچوں کا کیا قصور ہے جو تمہارے بیان کے مطابق پہلے ہی مظلوم ہیں جن کی آزادی کے نام پر تم نے جنگ شروع کی ہوئی ہے کہ ان کو اس جرم کی سزا دو جس جرم کا ارتکاب تمہارے نزدیک صدر صدام نے اسرائیل کے خلاف کیا اور ایسی سزا دو کہ یہود کی تاریخ میں بھی ایسے خوفناک انتقام کی مثالیں نہ ملیں.تمہیں یہ کیا حق ہے کہ عیسائیت کی معصوم تعلیم کو داغدار کرو اور عیسائیت کی تعلیم کو اور عیسائیت کی تاریخ کو بھی اسی طرح انتقام کے ظلم سے خون آلود کر دو جس طرح یہود کی تاریخ ہمیشہ خون آلود رہی ہے.پس یہ ساری غیر منصفانہ باتیں ہیں عدل کے خلاف باتیں ہیں.تقویٰ کے خلاف باتیں ہیں جن کے خلاف مسلمان کے دل میں ایک رد عمل ہے اس کے باوجود وہ جن ملکوں میں رہتا ہے اس کا پر امن شہری ہے.اس کے باوجود کہ وہ اس بات پر آمادہ ہے کہ ملک کا قانون توڑے بغیر صرف ظلم کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرے اس کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے.یہ کونسا انصاف ہے.مجھ سے ایک احمدی نے فون پر سوال کیا کہ میراBBC کے ساتھ یا کسی اور ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو ہونے والا ہے وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا کیا رد عمل ہے؟ کیا تبصرہ ہے ان حالات پر ؟ بتائیں میں کیا جواب دوں.میں نے کہا تم یہ جواب دو کہ جو Tony Ben (ممبر برٹش پارلیمنٹ ) کا تبصرہ ہے میرا بعینہ وہی تبصرہ ہے جب میرے دل کی صحیح آواز وہ منصف مزاج انگریز بلند کر رہا ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے اس آواز کو خود بلند کرنے کی کیونکہ جب میں کروں گا تو تم مجھے غدار قرار دو گے.جب Tony Ben کرے گا تو تم اسے غدار قرار دینے کی جرات نہیں کر سکتے.پس جو باتیں ہورہی ہیں انصاف کے خلاف ہورہی ہیں ، تقویٰ کے خلاف ہورہی ہیں.کوئی قانون نہیں ہے، کوئی اصول نہیں ہے، کوئی Higher moral Ground نہیں ہے بلکہ اخلاقی انحطاط میں تحت الثر کی تک پہنچے ہوئے لوگ ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 68 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء پس یہ وہ صورتحال ہے جو درست اور تقویٰ پر مبنی صورتحال ہے مگر اس کے باوجود کسی مسلمان عالم کو اور کسی مسلمان بادشاہ کو یہ حق نہیں ہے کہ ان لڑائیوں کو اسلامی جہاد قرار دے لیکن مسلمان عوام کو جب جہاد کے نام پر بلایا جائے گا تو اس لئے لبیک کہیں گے کہ وہ دل سے جانتے ہیں اور بار بار ان کا کردار یہ ثابت کرتا چلا جا رہا ہے کہ ان لڑائیوں کے پس منظر میں اسلام کی دشمنی ضرور موجود ہے.پس وہ معصوم جہاں مارے جائیں گے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کی رحمت ان سے رحم کا سلوک فرمائے گی اور اگر اسلام کی کامل تعریف کی رو سے وہ شہید قرار نہیں بھی دیئے جاسکتے تو چونکہ اسلام کی دشمنی میں ان سے ظلم ہوئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور مغفرت کا سلوک کرے گا.لیکن پھر بھی میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ نہ مسلمان علماء کا حق ہے اور نہ مسلمان بادشاہوں کا حق ہے کہ وہ اپنی سیاسی لڑائیوں کو خواہ وہ مظلوم کی لڑائیاں ہوں اسلامی جہاد قرار دیں.دراصل آج کل اسلام کی دشمنی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ظاہر و با ہر ہوتی چلی جارہی ہے اور منہ سے کوئی کچھ کہے در حقیقت دل کی آواز مختلف بہانوں کے ساتھ اٹھ ہی جاتی ہے اور زبان پر بھی آہی جاتی ہے اور جہاں تک عمل کا تعلق ہے وہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایسی مکروہ عملی تصویریں بنائی جارہی ہیں کہ جو خون کا رنگ رکھتی ہیں اور نفرت کے برش سے بنائی جارہی ہیں اور اسلام کی نفرت کا برش ان کے خد و خال بناتا چلا جا رہا ہے اور کھل کر دنیا کے سامنے وہ تصویر میں ابھرتی چلی جارہی ہیں اس کے نتیجے میں اور جو کچھ بھی ہو امن بہر حال قائم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بنیادی اصول کبھی کوئی دنیا میں تبدیل نہیں کر سکا کہ نفرتیں نفرتوں کے بچے پیدا کرتی ہیں.اس لئے یہ ابھی سے بیٹھے ہوئے منصوبے بنارہے ہیں کہ کس طرح اس جنگ کے اختتام پر اس خطہ ارض میں جسے مشرق وسطی کا نام دیا جاتا ہے امن کا قیام کریں گے.یہ محض خواب و خیال کی جاہلانہ باتیں ہیں.جہاں نفرتوں کے بیج اتنے گہرے بودیئے گئے ہوں وہاں سے نفرتیں ہی اُگیں گی.جہاں جنگ کے بیج بو دیے گئے ہوں وہاں جنگیں ہی اُگیں گی اور یہ ہو نہیں سکتا کہ نفرتوں کے نتیجہ میں محبتیں پیدا ہونی شروع ہو جا ئیں اور جنگ کے نتیجے میں امن کی فصلیں کاٹنے لگو.پس آج نہیں تو کل یہ دیکھیں گے کہ جو اقدامات یہ آج کر رہے ہیں یہ ہمیشہ کے لئے دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں اور جو مجرم ہے خدا اس کو سزادے گا کیونکہ انسان تو بے اختیار ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 69 خطبہ جمعہ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء جماعت احمدیہ کسی قومی تعصب میں مبتلا ہو کر کسی خیال کا اظہار نہیں کرتی ، نہ تعصب میں مبتلا ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے دل تو حید نے سیدھے کر دیئے ہیں.کوئی کبھی ان میں نہیں چھوڑی.ہماری وفا توحید کے ساتھ ہے اور توحید جس کے دل میں جاگزیں ہو جائے اور گڑ جائے اس کے دل میں عصبیتیں جگہ پاہی نہیں سکتیں.یہ دو چیزیں ایک سینے میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.توحید تو کل عالم کو اکٹھا کرنے والی طاقت ہے.تو حید جس سینے میں سما جائے اس میں کوئی عصبیت جگہ نہیں پاسکتی.یہ ایک بنیادی غیر مبدل قانون ہے.اسی لئے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے تبصروں میں خواہ کیسی ہی تلخی ہو وہ حق پر مبنی تبصرے ہوں گے اور آج نہیں تو کل دنیا ہماری تائید کرے گی کہ ہاں تم نے حق کی صدا بلند کی تھی اور اس میں کوئی تعصب کا شائبہ تک باقی نہیں تھا.لیکن اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کی وجہ سے طبیعتوں پر سخت انقباض بھی ہے اور بے قراری پائی جاتی ہے.وہ ان کا متکبرانہ رویہ ہے.خاص طور پر امریکہ کے صدر جب بات کرتے ہیں عراق کے متعلق یا دوسری ان قوموں کے متعلق جو ان سے تعاون نہ کر رہی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں ایک خدا اتر آیا ہے اور خدا بات کر رہا ہے اور جو موحد ہو وہ تکبر کے سامنے سر جھکا ہی نہیں سکتا.شرک کی مختلف قسمیں ہیں لیکن سب سے زیادہ مکروہ اور قابل نفرت شکل تکبر ہے.پس تکبر کے خلاف آواز بلند کرنا موحد کا اولین فریضہ ہے اور جماعت احمد یہ دنیا کے موحدین میں صف اول کی موحد جماعت ہے بلکہ توحید کی علمبردار جماعت ہے تو حید کا جھنڈا آج جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے اس لئے ہم ہر شرک کے خلاف آواز بلند کریں گے.ہر تکبر کے خلاف آواز بلند کریں گے اور دنیا کا کوئی خوف ہماری اس آواز کا گلا نہیں گھونٹ سکتا کیونکہ وہ مصنوعی خدا جو دنیا کی تقدیر پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان کے سامنے سر جھکانا اور موحد ہونا بیک وقت ممکن ہی نہیں.جب میں ایسے تبصرے کرتا ہوں تو بعض احمدی مجھے لکھتے ہیں، ہیں ہیں! ہمیں آپ کی فکر پیدا ہوتی ہے آپ کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں.میں ان کو یاد دلاتا ہوں کہ میں اس لئے ایسی باتیں کرتا ہوں کہ میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے.جب آپ نے توحید کے حق میں آواز بلند کی تو مکہ کیا تمام دنیا نے آپ کی مخالف تھی.آپ کی منتیں کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 10 70 خطبہ جمعہ ۲۵ /جنوری ۱۹۹۱ء گئیں.آپ کو سمجھایا گیا کہ کیوں اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں.آپ کو علم نہیں کہ کتنی کتنی خوفناک طاقتیں آپ کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں لیکن آپ نے ان کو یہی جواب دیا اور ہمیشہ یہ جواب دیا کہ توحید کی راہ میں میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں یہی میری زندگی کا مقصد ہے.یہی میرے پیغام کی جان ہے.یہی میرے مذہب کی روح ہے اس لئے ہر دوسری چیز سے تم مجھے الگ کر سکتے ہو مگر تو حید اور توحید کا پیغام پہنچانے سے الگ نہیں کر سکتے.آپ نے فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو.خدا کی قسم ! اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دو اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دوتب بھی میں ان کو رد کر دوں گا اور توحید کا دامن کبھی نہیں چھوڑوں گا.پس مجھے کس بات سے ڈراتے ہیں.امریکہ کی طاقت ہو یا یہود کی طاقت ہو یا انگریز کی طاقت ہو یا تمام دنیا کی اجتماعی طاقتیں ہوں اگر تو حید کی آواز بلند کرتے ہوئے پارہ پارہ بھی ہو جاؤں تو خدا کی قسم میرے جسم کا ذرہ ذرہ یہ اعلان کرے گا کہ فزت برب الكعبه.فزت برب الكعبه حوالہ - میں خدائے کعبہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کامیاب ہو گیا اور یہی وہ آواز ہے جو آج تمام دنیا کے احمدیوں کے دلوں سے اور ان کے جسموں کے ذرے ذرے سے اٹھنی چاہئے.کیا پروگرام ہیں؟ اور کن طاقتوں پر یہ بھروسہ کئے ہوئے ہیں.Desert Storm کی باتیں کرتے ہیں یعنی صحراؤں کا ایک طوفان ہے جو دشمن کو ہلاک اور ملیا میٹ کر دے گا.یہ نہیں جانتے کہ طوفانوں کی باگیں بھی خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہیں.میں نہیں جانتا کہ خدا کی تقدیر کیا فیصلہ کرے گی مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ خدا کی تقدیر جو بھی فیصلہ کرے گی وہ بالآخر متکبروں کو ہلاک کرنے کا موجب بنے گا آج نہیں تو کل یہ تکبر ملیا میٹ کئے جائیں گے کیونکہ وہ بادشاہت جو آسمان پر ہے اسی خدا کی بادشاہت زمین پر ضرور قائم ہو کر رہے گی.پس آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں آپ دیکھیں گے کہ یہ تکبر دنیا سے مٹا دیا جائے گا اور طوفان ان پر الٹائے جائیں گے اور ایسے ایسے خوفناک Storms خدا کی تقدیر ان پر چلائے گی کہ جن کے مقابل پر ان کی تمام اجتماعی طاقتیں بھی ناکام اور پارہ پارہ ہو جائیں گی یہ نظام کہنہ مٹایا جائے گا.آپ یا درکھیں اور اس بات پر قائم رہیں اور کبھی محونہ ہونے دیں.یہ اقوام قدیم جن کو آج اقوام متحدہ کہا جاتا ہے ان کے اطوار زندہ رہنے کے نہیں ہیں.یہ قو میں یادگار بن جائیں گی اور عبرتناک یادگار بن جائیں گی اور ان کے کھنڈرات سے، آپ ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 71 خطبہ جمعہ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء اے توحید کے پرستارو!وہ آپ ہیں جو نئی عمارتیں تعمیر کریں گے نئی اقوام متحدہ کی عظیم الشان فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے والے تم ہو.اے مسیح محمدی کے غلامو! جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے تم دیکھو گے.آج نہیں تو کل دیکھو گے، اگر تم نہیں دیکھو گے تو تمہاری نسلیں دیکھیں گی.اگر کل تمہاری نسلیں نہیں دیکھیں گی تو پرسوں ان کی نسلیں دیکھیں گی.مگر یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں اور اس کی تقدیر کی تحریریں ہیں جنہیں دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا.آپ وہ مزدور ہیں جنہوں نے وہ نئی عمارتیں تعمیر کرنی ہیں.نئی اقوام متحدہ کی بنیا دیں تو ڈالی جا چکی ہیں، آسمان پر پڑ چکی ہیں ان کی عمارتوں کو آپ نے بلند کرنا ہے.پس ان دو مقدس مزدوروں کو کبھی دل سے محو نہ کرنا جن کا نام ابراہیم اور اسماعیل تھا اور ہمیشہ یادرکھنا اور اپنی نسلوں کو نصیحتیں کرتے چلے جانا کہ اے خدا کی راہ کے مزدورو! اسی تقویٰ اور سچائی اور خلوص کے ساتھ ، اسی توحید کے ساتھ وابستہ ہو کر اسے اپنے رگ و پے میں سرایت کرتے ہوئے تم اس عظیم الشان تعمیر کے کام کو جاری رکھو گے ایک صدی بھی جاری رکھو گے، اگلی صدی بھی جاری رکھوگے یہانتک کہ یہ عمارت پائیہ تکمیل کو پہنچے گی.اس عمارت کی تکمیل کا سہرا جس کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈالی تھی.جن کے ساتھ ان کے بیٹے اسماعیل نے مزدوری کی تھی خدا کی تقدیر میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سر پر باندھا جا چکا ہے.کوئی نہیں ہے جو اس تقدیر کو بدل سکے.ہم تو مزدور ہیں محمد مصطفیٰ " کے قدموں کے غلام ، آپ کے خاک پاکے غلام ہیں.پس آپ وفا کے ساتھ کام لیں اور نسلاً بعد نسل اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرتے چلے جائیں کہ تم خدا اور رسول کے مزدوروں کی طرح کام کرتے رہو گے ، کرتے رہو گے ، اپنے خون بھی بہاؤ گے اور پسینے بھی بہاؤ گے اور کبھی بھی نیچھکو گے نہ ماندہ ہو گے یہاں تک کہ خدا کی تقدیر اپنے اس وعدے کو پورا کر دے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ۱۰) کہ محمد مصطفی ﷺ کا دین اس لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ تمام ادیان پر غالب آجائے اور ایک ہی جھنڈا ہو جو محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا ہو اور ایک ہی دین ہو جو خدا اور محمد کا دین ہو اور ایک ہی خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو خدا کرے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اگر نہ دیکھ سکیں تو ہماری اولا دیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمیں یا درکھیں اور اگر وہ بھی نہ دیکھ سکیں تو ان کی اولادیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 72 خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ان دنیا کی آنکھوں سے آپ دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں.میری روح کی آنکھیں آج ان واقعات کو دیکھ رہی ہیں.ان عظیم الشان تغیرات کو اس طرح دیکھ رہی ہیں جیسے میرے سامنے واقعہ ہورہے ہیں اور ہمارے مرنے کے بعد ہماری روحوں کو آشنا کیا جائے گا اور خبریں دی جائیں گی کہ اے خدا کے غلام بندو! خدا سے عشق اور محبت کرنے والے بندو ! تمہاری روحیں ابدی سرور پائیں اور ابدی سکنیت حاصل کریں کہ جن راہوں میں تم نے قربانیاں دی تھیں وہ راہیں شاہراہیں بن چکی ہیں اور جن تعمیرات میں تم نے اینٹ اور روڑے اور پتھر رکھے تھے وہ خدا کی توحید کی ایک عظیم الشان عمارت بن کر اپنی پائیہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے.ہوگا اور ایسا ہی ہوگا اللہ کرے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ اس رنگ میں خدمت کی توفیق عطا ہو.آمین.گزشتہ جمعہ پر میں نے اعلان کیا تھا کہ جاپان اور جرمنی اور ماریشس کی جماعتیں براہ راست اس خطبے کو سن رہی ہیں.بعد میں مجھے بتایا گیا کہ نیویارک امریکہ اور بریڈ فورڈیو کے اور ڈنمارک کی جماعتیں بھی مواصلاتی ذریعے سے اس خطبے کو براہ راست سن رہی ہیں.آج بھی مجھے بتایا گیا ہے کہ ماریشس سویڈن.مانچسٹر اور بریڈفورڈ اور جرمنی اور جاپان کی جماعتیں.جرمنی میں ہیمبرگ اور فرینکفرٹ شامل ہیں ان کی جماعتیں براہ راست اس خطبے کو سن رہی ہیں پچھلی دفعہ مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ جب یہ سن رہی ہیں تو ان کو براہ راست ”السلام علیکم کہہ دوں پس اپنی طرف سے بھی اور تمام یو کے کے احمدیوں کی طرف سے میں آپ تمام احمدی بھائیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“ کا تحفہ پیش کرتا ہوں.دعاؤں پر زور دیں.ہماری طاقتوں کی جان دعائیں ہیں اور جو بھی روحانی انقلاب اب دنیا میں برپا ہو گا وہ دعاؤں ہی کے ذریعے ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 73 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل کے قیام کی تاریخ اور وجوہات (خطبه جمعه فرموده یکم فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام کی تاریخ بہت سی خوفناک غداریوں سے داغدار ہے اور اگر آپ حضرت محمد مصطفی میں ہے کے دور کے ابتدائی حصے کو چھوڑ کر جس میں خلفائے راشدین کا دور اور کچھ بعد کا عرصہ شامل ہے ، باقی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں ہی سے کچھ غدار حاصل کئے گئے ہیں اور کبھی بھی اس کے بغیر ملت اسلامیہ کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکا.اس تاریخ پر نظر ڈالیں تو غداریوں کی تعریف میں موجودہ جنگ سیاہ ترین حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے کیونکہ آج تک کبھی اتنی اسلامی مملکتوں نے مل کر ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف ایسی ہولناک سازش نہیں کی یا اس میں شریک نہیں ہوئے.پس یہ جو موجودہ جنگ ہے اس کو اس دور میں آج کے مبصرین ان مسلمان ممالک کو پاگل بنانے کے لئے جوان کے ساتھ شامل ہوئے جو کچھ چاہیں کہیں.لیکن کل مغربی دنیا کے محققین اور مؤرخین بھی یہی بات کہیں گے جو میں آج کہہ رہا ہوں کہ ان مسلمان ممالک نے ان اسلامی مفاد کے ساتھ حد سے زیادہ غداری کی اور اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی ابھرتی ہوئی اسلامی مملکت کو تباہ کیا اور اس طرح ظلم کے ساتھ ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی.ابھی تک تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کوشش کی.اللہ بہتر جانتا ہے کل کو کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اگر خدانخواستہ یہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے تو کل کا مؤرخ یہی بات لکھے گا کہ جب انہوں نے کوشش کی تو یہ مسلمان ممالک پوری طرح اسلام کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ایک عظیم اسلامی مملکت کو تباہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 74 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء کرنے کے لئے شامل ہوئے اور ذرہ بھر بھی عدل یا رحم سے کام نہیں لیا اور ذرہ بھر بھی قومی حمیت کا مظاہرہ نہیں کیا.اس ضمن میں کچھ ممالک تو ایسے تھے جن سے مجھے یہی توقع تھی ، ان کے متعلق یہی احتمال تھا کہ ایسا ہی کریں گے جن میں ایک سعودی عرب ہے اور ایک Egypt اس لئے کہ Egypt پہلے ہی عالمی دباؤ کے نیچے آکر اور کچھ اپنا علاقہ واپس لینے کی خاطر اسرائیل کے ساتھ معاہدوں میں جکڑ ا جا چکا ہے اور اس وقت مغربی طاقتیں مصر کو کلیہ اپنا حصہ بجھتی ہیں.دوسرے Saudi Arabia جس کی عالم اسلام سے غداریاں ایک تاریخی نوعیت رکھتی ہیں.اس کا آغاز ہی غداری کے نتیجے میں ہوا اس کا قیام ہی غداری کے نتیجے میں ہوا.مسلسل انگریزی حکومت کا نمائندہ رہا یا امریکن مفاد کا نمائندہ رہا اور اسلام کے دو مقدس ترین شہروں پر قابض ہونے کی وجہ سے مذہب کا ایک جھوٹا سا دکھاوے کا لبادہ پہنے رکھا جس کے نتیجے میں بہت سی مسلمان مملکتیں اس بد نصیب ملک کے رعب میں آئیں اور محض اس لئے اس سے محبت کرتی رہیں اور پیار کا تعلق رکھتی رہیں کہ وہ اسے سکے اور مدینے کا یا دوسرے لفظوں میں محمد رسول اللہ اور خدا کا نمائندہ مجھتی تھیں.اس ضمن میں میں نے بارہا بعض مسلمان ریاستوں کے نمائندوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم بڑے دھوکے میں مبتلا ہو میں سعودی عرب کی تاریخ کو اچھی طرح جانتا ہوں وہابیت کی تاریخ سے خوب واقف ہوں.تم یہ سمجھتے ہو کہ مکے اور مدینے کے میناروں سے جو آوازیں بلند ہوتی ہیں یہ اللہ اور رسول کی آوازیں ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان میناروں پر صرف لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں اور مائیکروفون واشنگٹن میں ہیں اور ان مائیکرو فونز پر بولنے والا اسرائیل ہے کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کسی لمبی چوڑی دلیل کی ضرورت نہیں کوئی انسان جو موجودہ حالات کا ذرا سا بھی علم رکھتا ہے یہ دوٹوک بات خوب جانتا ہے کہ سعودی عرب کلیۂ امریکہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور امریکہ کلیه اسرائیلی اقتدار میں داخل ہو چکا ہے اور اسرائیلی اقتدار کو عملاً اپنی پالیسیز Policies میں قبول کر چکا ہے.یہ ظاہری صورت ہے جو نظر آتے ہوئے بھی مسلمان ممالک اس صورت سے اندھے رہے.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جماعت احمدیہ کو انتہائی جھوٹے اور غلیظ پرو پیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا کہ جماعت احمد یہ انگریز کی ایجنٹ ہے اس لئے جب مسلمان ممالک کے نمائندے ہم سے یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 75 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء بات سنتے تھے تو وہ سمجھتے تھے شاید اپنے گلے سے بلا ٹال کر سعودی عرب پر پھینکتے ہیں اور اپنے انتقام لے رہے ہیں ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں.اب دنیا کے سامنے یہ بات کھل کر آچکی ہے اور وہ سارے مولوی بھی جو ان سے پیسے لے کر، ان کا کھا کر احمدیوں کو کبھی یہودیوں کے ایجنٹ قرار دیتے تھے.کبھی انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے کھلے بندوں اب ان Saudians کو سعودی حکومت کے سربراہوں اور سارے جوان کے ساتھ شامل ہیں ، وہابی علماء کو، سب کو ملا کر یہودی ایجنٹ اور مغربی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں اور ان کے متعلق ایسی گندی زبان استعمال کر رہے ہیں کہ وہ تو ہمیں زیب نہیں دیتی لیکن جیسا کہ پاکستان کی گلیوں میں اسی قسم کی گفتگو ہوتی ہے، ایسی ہی آوازیں بلند کی جاتی ہیں آپ جانتے ہی ہیں.ایسی ہی آوازیں انگلستان میں بھی سعودیت کے خلاف بلند ہوئیں اور دوسرے ممالک کے متعلق بھی یہی اطلاع آرہی ہے کہ اب تمام عالم اسلام ان کی حقیقت کو سمجھا ہے اس لئے ان سے کسی قسم کی غداری پر تعجب کی کوئی گنجائش نہ تھی.یقین تھا کہ یہی کریں گے یہی ان کا طریق ہے ، یہی ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ موجودہ دور میں بعض ایسے ممالک نے بھی اسلام کے مفاد سے غداری کی ہے جن سے دور کی بھی توقع نہیں تھی اور اس میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ امریکن دباؤ کے علاوہ سعودی دباؤ بھی اور سعودی اثر بھی بہت حد تک شامل ہے اور کچھ غربت کی مجبوریاں ہیں جن کے نتیجے میں بعض ملکوں نے اپنے ایمان نیچے ہیں.جن ممالک سے کوئی دور کی بھی توقع نہیں تھی ان میں ایک پاکستان ہے، ایک ترکی ہے اور ایک شام ہے.پاکستان سے تو اس لئے مجھے توقع نہیں تھی کہ وہاں کی حکومت چاہے کتنی ہی امریکن نواز کیوں نہ ہو میں بحیثیت پاکستانی جانتا ہوں کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج کا مزاج یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر کسی مسلمان ملک پر حملہ کریں یا اس حملے کا جواز ثابت کرنے کے لئے ان میں شامل ہو جائیں.کسی قیمت پر پاکستانی مزاج اس بات کو قبول نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت نے جب پوری طرح اس نہایت ہولناک اقدام کی تائید کی جو عراق کے خلاف اتحاد کے نام پر کیا گیا ہے تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے لیکن الحمد للہ کہ دو تین دن پہلے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے اس غلط فہمی کو تو دور کر دیا کہ فوج کی تائید اس فیصلے میں شامل ہے چنانچہ انہوں نے کھلم کھلا اس سے بریت کا اعلان کیا ہے اور کہا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 76 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء ہے کہ ہم ہر گز اس فیصلے کو پسند نہیں کرتے.یہ غلط فیصلہ ہے اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف ہے.جہاں تک Turkey کا تعلق ہے Turkey تو تمام دنیا میں مسلمان مفادات کے محافظ کے طور پر صدیوں سے اتنا نیک نام پیدا کئے ہوئے ہے کہ اسی نام سے یورپ میں یہ جانا جاتا تھا اور ترکی کی عثمانیہ حکومت سے مغربی طاقتیں بھی کانپتی تھیں اور جب بھی ترکی کا نام آتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ جب تک یہ سلطنت قائم ہے اسلام کی سرزمین میں نفوذ کا ہمارے لئے کوئی موقعہ پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی دور کا بھی امکان نہیں.چنانچہ اتنی لمبی عظمت کی تاریخ کو ایک فیصلے سے اس طرح سیاہ اور بد زیب بنادینا اور ایسے داغدار کر دینا یہ اتنی بڑی خودکشی ہے کہ تاریخ میں شاید اس کی کوئی مثال نظر نہ آئے.ترکی قوم پر ایسا داغ لگا دیا گیا ہے جواب مٹ نہیں سکے گا.سوائے اس کے کہ کوئی عظیم انقلاب بر پا ہو اور پھر وہ اپنے خون سے اس داغ کو دھونے کی کوشش کریں.جہاں تک Syria کا تعلق ہے اس کے لئے بھی کئی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر مجھے Syria یعنی شام سے ایسی توقع نہیں تھی.ایک تو حافظ الاسد کا اپنا گولان ہائیٹ (Height) کا علاقہ اسرائیل نے ہتھیایا ہوا ہے اور بڑی دیر سے ان کی اسرائیل سے مخاصمت اور لڑائی چلی آرہی ہے اور اس تاریخی دور میں جب سے اسرائیل کا قیام ہوا ہے Syria نے اسرائیل کی مخالفت میں بڑی قربانیاں پیش کی ہیں اور اپنے علاقے بھی گنوائے لیکن اپنے مؤقف کو تبدیل نہیں کیا.اس کے علاوہ صدام کی جو تصویر مغربی تو میں آج کھینچ رہی ہیں اس سے بہت زیادہ بھیا نک اور بدصورت تصویر صدر حافظ الاسد کی انہی قوموں نے کھینچ رکھی تھی اور اب تک وہی قائم ہے اس لئے بھی میں نہیں سوچ سکتا تھا کہ جب مغربی قو میں ایک طرف صدر صدام کو گندی گالیاں دیں گی اور اس کی کردار کشی کر رہی ہوں گی تو صدر حافظ الاسد کس طرح یہ سمجھیں گے کہ میں اس سے بچ کر ان کے ساتھ گلے مل سکتا ہوں لیکن ان کو یعنی صدر بش کو اور صدر حافظ الاسد کو میں نے اکٹھے ایک صوفے پر بیٹھے دوستانہ باتیں کرتے ہوئے ٹیلویژن پر دیکھا اور ان کی پالیسی کو یکسر اس طرح بدلتے دیکھا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، کچھ مجھ نہیں آتی.انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ کیا واقعہ ہوا ہے.ایران سے مجھے نہ توقع تھی، نہ ہے نہ ہوگی کیونکہ ایران کے متعلق پہلے بھی میں بارہا کھلم کھلا یہ اقرار کر چکا ہوں کہ مذہبی عقائد سے اختلاف کے باوجود ایرانی قوم اسلام کے معاملے میں منافقت نہیں کرتی.اسلام کی کچی عاشق ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 77 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء ان کا اسلام کا تصور غلط ہو سکتا ہے یہ تو ہو سکتا ہے کہ شیعہ ازم میں بعض ایسے عقائد کے قائل ہوں جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسلام کے تصور میں جہاں تک سیاست کا تصور ہے ان کے خیال میں بہت سی غلطیاں ہوں یعنی اسلام کے سیاسی تصور میں ان کے خیال میں غلطیاں ہوں اور ہیں میرے نزدیک لیکن جان بوجھ کر اسلام سے غداری کریں یہ ایرانی قوم سے ممکن نہیں ہے اور ان کی تاریخ بھی خدمت اسلام کی عظیم کارناموں سے روشن ہے بلکہ جتنی علمی خدمت اسلام کی وسیع تر ایران نے کی ہے جس کا ایک حصہ اب روس کے قبضے میں ہے اس خدمت کو اگر باقی اسلام کی خدمت کے مقابل پر رکھیں تو آپس میں تول کرنا بہت ہی مشکل ہوگا.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایران کی خدمت کسی طرح دوسری سب خدمتوں سے پیچھے رہ گئی ہے.الحمد للہ کہ ایران نے اپنی تو قعات کو پورا کیا اور باوجود اس کے کہ صدر صدام کی حکومت سے ایرانی حکومت کا شدید اختلاف تھا.آٹھ سال تک نہایت خوفناک خونی جنگ میں یہ لوگ مبتلا رہے ہیں اور بہت ہی گہرے شکوے اور صدمے تھے.اگر ایران ، عراق کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا تو دنیا سمجھ سکتی تھی اور مؤرخ اس کو معاف بھی کر سکتا تھا کہ اتنی خوفناک جنگ کے بعد اگر ایران نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تو کوئی حرج نہیں ایسا ہو جایا کرتا ہے.آخر انسانی جذبات ہیں جو بعض باتوں سے مشتعل ہو کر پھر قابو میں نہیں آتے.اس وقت انسان گہری سوچوں میں نہیں پڑسکتا کہ اسلام کے تقاضے کیا ہیں ، ملت کے تقاضے کیا ہیں.جذبات میں بہ جاتا ہے تو یہ باتیں سوچ کر ایک مؤرخ کہہ سکتا ہے کہ اس پہلو سے یہ قابل معافی ہے مگر ایران نے اگر چہ ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ تو نہیں کیا لیکن اس ابتلاء میں پوری طرح نیوٹرل (Neutral) رہتے ہوئے عراق کو عراق کی غلطی یاد کرائی اور مغربی طاقتوں کو ان کی غلطی یاد کروائی گویا کہ انصاف پر قائم رہا.اس پہلو سے ایران کا نام انشاء اللہ اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ عزت سے لیا جائے گا.یہ تو مختصر تبصرہ ہے سیاسی طور پر اسلام سے وفاداری یا عدم وفاداری کا جہاں تک تعلق ہے.میں جب اسلام سے وفاداری یا عدم وفاداری کہہ رہا ہوں تو سیاسی معنوں میں کہہ رہا ہوں یعنی ملت اسلامیہ سے وفاداری یا عدم وفاداری کی بات ہو رہی ہے لیکن اس ضمن میں ایک یہ بات اور بھی بتانی چاہتا ہوں کہ ملت اسلامیہ میں دو ممالک ایسے تھے دو سلطنتیں ایسی تھیں جو مذہب کے لحاظ سے بھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 78 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء غیر معمولی مقام رکھتی تھیں.اسلام کے مقدس مقامات کے محافظ کے طور پر اور اس کے مجاور اور نگران کے طور پر سعودی عرب کو دنیائے اسلام میں ایک عظیم حیثیت حاصل ہے جس سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اتنی بڑی سعادت ، اتنی بڑی امانت اس کے سپرد ہوئی اور دوسری طرف اسلامی علوم کا محافظ اور نگہدار مصر سمجھا جاتا تھا کیونکہ مصر کی جامعہ ازھر نے اسلامی علوم کی جو خدمت کی ہے اس کی کوئی مثال کسی اور اسلامی ملک میں دکھائی نہیں دیتی اور اسلام کے آخری دور میں علمی خدمت کے لحاظ سے جامعہ ازھر مصر کو جو پوزیشن حاصل ہے اس کا کوئی اور دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا پس ان دونوں سے اس پہلو سے کوئی دور کی بھی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ یہ ملت اسلامیہ سے غداری کریں گے.چنانچہ ان کا حال دیکھ کر مجھے وہ ایک شعر یاد آجاتا ہے جو بچپن میں سنا ہوا تھا اور اس زمانے میں زیادہ اچھا لگا کرتا تھا مگر بعد میں درمیانہ سا لگنے لگا وہ یہ تھا کہ: آگ دی صیاد نے جب آشیانے کو میرے جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کہ جب ظالم شکاری نے میرے گھونسلے کو جلایا تو جن پتوں پر میرا ٹھکانہ تھا ، میرا سرہانہ تھا، میرا تکیہ تھا وہی پتے ہل ہل کر اس میرے گھونسلے کی آگ کو ہوا دینے لگے.تو علمی لحاظ سے اور نقدس کے لحاظ سے جن دو ملکوں پر عالم اسلام کا تکیہ تھا جب دشمن نے عالم اسلام کے آشیانے کو آگ دی ہے تو انہوں نے ہی اس آگ کو ہوادی ہے.پس یہ ایسا جرم نہیں ہے جو کبھی بھی تاریخ میں معاف کیا جاسکے گا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا فیصلے کرتی ہے.آج کرتی ہے یا کل کرتی ہے، اس دنیا میں کچھ دکھاتی ہے یا ان کی سزا جزا کا معاملہ آخرت تک ملتوی کر دیتی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ مالک ہے وہی بہتر فیصلے کر سکتا ہے لیکن جہاں تک دنیا کی سمجھ بوجھ کا تعلق ہے اس کے بداثرات کچھ تو ظاہر ہورہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو مدتوں ہوتے رہیں گے اور صرف اس خطہ ارض میں محدود نہیں رہیں گے بلکہ بہت وسیع ہوں گے اور بہت پھیل جائیں گے.دوسرا پہلو اس جنگ کا یہ ہے کہ جس کو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اس جنگ کا مقصد کیا ہے.کیوں ہورہی ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ جب تک ہم اس کو اچھی طرح سمجھ نہ لیں اس وقت تک اس بارے میں ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ عالم اسلام کا صحیح موقف کیا ہونا چاہئے یا دنیا کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 79 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء مؤقف کیا ہونا چاہئے.United Nations کو اس بارہ میں کیا اصلاحی اقدامات کرنے چاہئیں.مرض کا جب تک تجزیہ ہی نہ ہو تشخیص ہی صحیح نہ ہو اس وقت تک صحیح علاج تجویز ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے میں باقی خطبے میں مختصراً اس جنگ کی وجوہات کا اور اصل محرکات کا اور مقاصد کا تجزیہ کرنے کی کوشش کروں گا تا کہ اس کی روشنی میں پھر آئندہ انشاء اللہ ایسی تجاویز پیش کروں گا جوUnited Nations کیلئے بھی ہوں گی اور دنیا کی دوسری قوموں کے لئے بھی اور عالم اسلام کے لئے بھی کہ احمد یہ نقطہ نگاہ سے بھی ان مسائل کا کیا حل ہے اور آئندہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اگر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے تو کس پہلو سے، کس طریق پر غور ہونا چاہئے.اس وقت تو ہم مغرب سے یہی آواز سن رہے ہیں اور صدر بش اس آواز کو سب سے زیادہ زور سے اور شور کے ساتھ دنیا میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ جنگ مذہبی جنگ نہیں ہے.یہ جنگ کسی قسم کے مفادات سے تعلق نہیں رکھتی یہ تیل کی جنگ نہیں ہے.یہ ہمارے مفادات کی جنگ نہیں ، یہ اسلام کی جنگ نہیں ہے یہ یہودیت کی جنگ نہیں ہے یہ عیسائیت کی جنگ نہیں ہے.پھر یہ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں یہ حق اور انصاف کی جنگ ہے، یہ بیچ اور جھوٹ کی جنگ ہے، یہ نیکی اور بدی کی جنگ ہے، یہ تمام دنیا کی جنگ ہے، ایک ظالم اور سفاک شخص صدام کے خلاف.یہ وہ امریکہ نظریہ ہے جس کو اس کثرت کے ساتھ ریڈیو، ٹیلی ویژن ، اخبارات میں مشتہر کیا جارہا ہے کہ اکثر مغربی دنیا اس کو تسلیم کر بیٹھی ہے.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعی یہی جنگ ہے لیکن بہت سے منصف مزاج اور گہری نظر رکھنے والے مبصرین ہیں جو انکار کر رہے ہیں اور مغرب ہی کے مبصرین کی میں بات کر رہا ہوں.ان میں بڑے بڑے ماہر اور تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں اور دانشور صحافی ہر قسم کے طبقے سے کچھ نہ کچھ آوازیں یہ بلند ہورہی ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے.یہ سب پروپیگنڈہ ہے اور ہمیں ہمارے ہی راہنما دھوکے دے رہے ہیں اور کھلے کھلے دھو کے دے رہے ہیں.یہ جنگ کچھ اور ہے.ایڈ ور ڈھیتھ Adward Heith جو انگلستان کے پرائم منسٹر رہ چکے ہیں اور اپنی بصیرت کے لحاظ سے اور بصارت کے لحاظ سے اور سیاسی سوجھ بوجھ کے لحاظ سے اور سیاست کے وسیع تجربے کے لحاظ سے انگلستان کی عظیم ترین زندہ شخصیتوں میں شامل ہوتے ہیں اور مسلسل ان کا یہی موقف رہا ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی لیڈرشپ ہمیں سخت دھوکا دے رہی ہے اور یہ جو نیک مقاصد کا اعلان کیا جارہا ہے ہرگز یہ بات نہیں.یہ جنگ انتہائی خود
خطبات طاہر جلد ۱۰ 80 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء غرضانہ اور ظالمانہ جنگ ہے اور احمقانہ جنگ ہے کیونکہ ان کے نزدیک بھی اس کے نہایت ہی خوفناک بداثرات پیدا ہوں گے اور جنگ کے بعد کے حالات بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے.بہر حال اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ مغربی مفکرین کیا کیا کہہ رہے ہیں.خلاصہ دوسری آواز یہ ہے کہ یہ تیل کی جنگ ہے یہ مفادات کی جنگ ہے یہ اسرائیل کے دفاع کی جنگ ہے اسرائیلی مقاصد کو پورا کرنے کی جنگ ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ صدر بش کی اور صدر صدام کی جنگ ہے اور ان کے نزدیک صدر بش نے اس مسئلے کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنالیا ہے اور اب ان کی عقل اور ان کے جذبات ان کے قابو میں نہیں رہے.جب وہ بات کرتے ہیں تو ایسے بے قابو ہو جاتے ہیں اور اس طرح بچوں کی طرح ایسے غلط محاورے استعمال کرتے ہیں کہ یہ لگتا ہی نہیں کہ کوئی عظیم قومی راہنما بات کر رہا ہے اس لئے وہ بڑے زور کے ساتھ اس مسلک کو پیش کرتے ہیں کہ یہ جنگ در اصل صدر بش کی جنگ ہے جو صدر صدام سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انہوں نے امریکن تسلط کو قبول کرنے سے جو انکار کیا اور اس کے رعب میں آنے سے انکار کیا اس کے نتیجے میں غضب بھڑ کا ہوا ہے جو قا بو میں نہیں آ رہا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کو تو جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں اور چونکہ ہم نے صرف اپنی ہی فکر نہیں کرنی بلکہ سب دنیا کی فکر کرنی ہے.کمزور اور چھوٹے اور بے طاقت ہونے کے باوجود کیونکہ ہم میں سے ہر ایک یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کی سرداری یعنی خدمت کے رنگ میں ہمارے سپرد فرمائی ہے.ہمیں اس دنیا کا قائد بنایا گیا ہے اور قائد کا معنی وہی ہے جو آنحضرت صلی ﷺ نے بیان فرمایا کہ سید القوم خادمهم ( الجہادلا بن المبارک کتاب الجہاد حدیث نمبر: ۲۰۷) کہ قوم کا سردار اس کا خادم ہوا کرتا ہے.یعنی سردار اور خادم دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اگر کوئی خدمت کرنا نہیں جانتا تو وہ سیادت کا حق نہیں رکھتا اور اگر وہ کوئی سیادت پا جاتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ خدمت کرے.پس ان معنوں میں میں قائد ہونے کی بات کرتا ہوں اور کسی معنی میں نہیں.پس ہم نے بنی نوع انسان کی خدمت کرنی ہے.ان کو ان کے صحیح اور غلط کی تمیز سکھانی ہے اور ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی ہے کہ تمام بنی نوع انسان کا مفاد کس بات میں ہے.کس چیز میں ان کی بھلائی ہے کس چیز میں ان کی برائی ہے.اس نقطہ نگاہ سے میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 81 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء خوب کھولوں اور پھر جہاں جہاں احمدی اس مسئلے کو سمجھ لیں وہاں پھر وہ اپنی طاقت کے مطابق آواز اٹھا ئیں اور ماحول کی سوچ اور آراء کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں.اس مسئلے کا آغاز دراصل پچھلی صدی کے آخر پر ہو چکا تھا.جو جنگ آج نظر آ رہی ہے اس کی جڑیں بہت گہری ہیں.1897ء میں ایک صیہونی مقاصد کی کونسل قائم ہوئی جو یہود کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی جو حضرت داؤد کی بادشاہت کے قائل ہیں اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ تمام دنیا پر ایک دن داؤ دی حکومت ضرور قائم ہو کر رہے گی.ان کو صیہونی یا اسرائیلی کہا جاتا ہے.صیہونیوں کی ایک ورلڈ کونسل قائم ہوئی اور اس نے اپنا ایک ڈیکلریشن ظاہر کیا.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اسی سال یا اس سے کم و بیش کچھ آگے پیچھے کے عرصہ میں ایک یہودی Document یعنی مسودہ پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے ظاہر ہوا جس کا نام تھا پروٹو کا لز آف ایلڈرز آف زائن Protocols) (of Elders of Zion یعنی زائن ، وہی زائن (Zion) جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یعنی اسرائیلی حکومت ، زائن ازم کے قیام کا مظہر یہ لفظ زائن ہے.زائن وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر کہتے ہیں حضرت داؤد سے وعدہ کیا گیا تھا.بہر حال جب زائن کہتے ہیں تو مراد اسرائیل ہے تو اسرائیل کے بڑے لوگ جو Zionism کے قائل ہیں ان کے چوٹی کے راہنماؤں کی سکیم کہ ہم کس طرح دنیا پر اپنے تسلط کو قائم کریں گے اور اس کے لئے لائحہ عمل کیا ہو گا کن اصولوں پر ہم کام کریں گے.کیا ہمارے مقاصد ہوں گے.کیا کیا طریق اختیار کئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جو مجھے اب تاریخ تو یاد نہیں لیکن یہ یقینی طور پر یاد ہے کہ انیسویں صدی کے آخر پر 1897ء کے لگ بھگ پہلی مرتبہ یہ Document ایک روسی عورت کے ہاتھ لگا جو دراصل ان Elders of zion ، جن کی یہ سکیم تھی ان کے سیکرٹری کے طور پر کام کر رہی تھی.جرمنی میں یہ واقعہ ہوا ہے اور ان میں سے ایک کی دوست بھی تھی چنانچہ ایک دفعہ وہ رات کو اپنے دوست کے گھر اس کا انتظار کر رہی تھی اور اس کو دیر ہوگئی اس نے اس کی میز پر پڑی ہوئی کتابوں میں سے ایک مسوہ دیکھنے کے لئے ، دل بہلانے کے لئے چن لیا اور یہی وہ مسودہ ہے جس کا نام ہے Protocol Of Eleders Of Zion اس مسودے کو پڑھ کر وہ ایسی دہشت زدہ ہوئی اور اس میں دنیا کو فتح کرنے کا ایسا خوفناک منصوبہ تھا کہ وہ اس کو لے کر بھاگ گئی اور روس چلی گئی اور پہلی مرتبہ اس کتاب کو روس میں شائع کیا گیا پھر 1905ء
خطبات طاہر جلد ۱۰ 82 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء میں پہلی مرتبہ اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا.تو بہر حال یہ وہی دور ہے کہ جب ایک طرف انہوں نے ایک مخفی منصوبہ تیار کیا اور دوسری طرف ایک ظاہری منصوبے کا اعلان کیا اور یہ جو ظاہری منصوبہ ہے اس کے متعلق کوئی Controversy نہیں ہے کوئی اختلاف نہیں ہے.یہود کہتے ہیں کہ ہاں ہمارا منصوبہ تھا اور ہم نے دنیا میں اس کو ظاہر کیا ہے.وہ صرف اتنا تھا کہ حکومتوں کے تعلقات کے لحاظ سے ، دوسرے اثرات کو بڑھانے کے لحاظ سے ہم ایک منظم جد و جہد کریں گے جس کا مقصد یہ ہوگا کہ اسرائیل کو اپنا ایک الگ گھر بطور ریاست کے مل جائے.تو جو دوسرا منصوبہ تھا اس کا مقصد تھا کہ اسرائیل United Nations کے ذریعے اور اس زمانے میں اگر چہ United Nations کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا لیگز آف نیشنز بھی نہیں تھیں، اس کے باوجود اس منصوبے میں یہ سب کچھ ذکر موجود ہے اور اس سکیم کے ذکر کے بعد وہ منصوبہ آخر یہ ارادہ ظاہر کرتا ہے کہ جب یہ ساری باتیں ہو جائیں گی.ہم United Nations قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوں گے تو پھر ہم United Nations پر قبضہ کریں گے اور United Nations پر قبضے کے ذریعے پھر ساری دنیا پر حکومت ہوگی تو یہ United Nations پر قبضہ کرنے کا اور اس کے ذریعے پھر آگے دنیا پر حکومت کرنے کا جو منصوبہ تھا اس میں بہت سالوں کا لگنا ایک طبعی امر تھا لیکن جس مرحلے کا اس میں ذکر ہے کہ ان ان مراحل کو طے کر کے ہم بالآخر اس منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچائیں گے وہ تمام مراحل اسی طرح وقتا فوقتا طے ہوتے رہے.چنانچہ جب یہود نے اس منصوبے سے قطع تعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ ہماری طرف منسوب کیا گیا ہے ہمارا منصوبہ نہیں ہے تو اس پر دنیا کے علماء اور سیاستدانوں اور دانشوروں نے بڑی بڑی بخشیں اٹھا ئیں.کئی عدالتوں میں اس پر مقدمہ بازیاں ہوئیں.انگلستان کے ایک پروٹسٹنٹ نے اس پر بہت تحقیق کی ہے اور اس نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہے Water Flowing Eastwards اس کتاب میں اس کے سارے پہلوؤں پر بحث ہے.مجھے آج تقریباً 20 سال پہلے اس کو پڑھنے کا موقعہ ملا تھا.اس کے بعد کوئی دوست مانگ کر لے گئے اور پھر وہ ہاتھوں ہاتھ بکھر کے پتا نہیں کہاں چلی گئی.انگلستان سے میں نے کوشش کی ہے لیکن وہ دستیاب نہیں ہوتی کیونکہ اس کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس کتاب کو یہود فورا مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں.یہ درست ہے یا غلط کہ یہود کرتے ہیں یا کوئی اور کرتا ہے مگر ہوضرور غائب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 83 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء جاتی ہے یہ تو ہمارا تجربہ ہے.پس معین طور پر الفاظ تو میں بیان نہیں کر سکتا لیکن جو بات میں بیان کرتا ہوں.بنیادی طور پر مضمون کے لحاظ سے درست ہے.چنانچہ اس میں اس نے لکھا ہے جب انگلستان کے پرائم منسٹر، غالبا ڈزرائیلی نام تھا ، ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک یہ مسودہ جو یہود کی طرف منسوب کیا جاتا ہے واقعہ بڑے یہودی آدمیوں کی تحریر ہے اور ان کا منصوبہ ہے یا ان کے خلاف محض ایک سازش ہے اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے تو اس کا جواب ڈزرائیلی نے یہ دیا کہ میرے نزدیک صرف دو صورتیں ممکن ہیں یا تو یہ منصوبہ واقعہ انہی لوگوں کا ہے جن کی طرف منسوب ہو رہا ہے کیونکہ اس کے بعد جتنے واقعات رونما ہوئے ہیں وہ بعینہ اس منصوبے کے مطابق ہوئے ہیں اس لئے از خود کس طرح وہ واقعات رونما ہونے لگے اور اسی ترتیب کے ساتھ ، اسی تفصیل کے ساتھ اور یا پھر یہ کسی نبی کی کتاب ہوگی جس نے خدا سے علم پا کر اتنی زبر دست پیشگوئی کی ہوگی.تو اس نے کہا میرے نزدیک تو دوہی صورتیں ہیں یا تو پرلے درجے کے جھوٹوں کی ہے جنہوں نے منصوبہ بنایا اور اب انکار کر رہے ہیں اور یا پھر ایک بہت بزرگ اور بچے کی کتاب ہے جس کو خدا نے بتایا تھا کہ آئندہ یہ واقعات ہوں گے.آج ہم جس دور میں داخل ہوئے ہیں یہ اس کی تکمیل کے آخری مراحل کا دور ہے.جب روس اور امریکہ کے درمیان مفاہمتیں شروع ہوئیں اور برلن کی دیوار گرنی شروع ہوئی تو مجھے اس وقت یہ منصو بہ یاد آیا.اگر چہ میرے پاس موجود نہیں تھا کہ میں اپنی Memory ، اپنی یادداشت کو تازہ کر سکتا مگر اتنا مجھے یاد ہے کہ اس کے آخر پر یہی لکھا ہوا تھا کہ بالآخر ہم پھر ساری دنیا کو پہلے تقسیم کریں گے اور پھر اکٹھا کر دیں گے اور اس وقت یہ ہو گا جب ہمارا United Nations پر پوری طرح قبضہ ہو چکا ہوگا.تو اس وقت سے میرا دل اس بات پر دھڑک رہا تھا کہ اب وہ خطرناک دن آنے کا زمانہ معلوم ہوتا ہے آگیا ہے لیکن اس خوف کے باوجود جو اتنی بڑی بڑی علامتوں کے ظاہر ہونے کے بعد ایک طبعی امر ہے مجھے ایک یہ بھی کامل یقین ہے کہ بالآخر یہ منصوبہ ضرور ناکام ہوگا اور میرا یہ اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کی بناء پر ہے 1901ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ : فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گئے ( تذکرہ صفحہ ۳۳۶)
خطبات طاہر جلد ۱۰ 84 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء اور 1905ء میں انگریزی میں یہ منصوبہ دنیا کے سامنے آیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ فری میسن مسلط کئے جائیں گے.پس اس زمانے میں جبکہ فری میسنر کا کسی کو تصور بھی نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہونا یعنی ہندوستانی میں تو فری میسنری کا بہت کم لوگوں کو پتا تھا اور پھر قادیان جیسے گاؤں میں اچانک یہ الہام ہو جانا حیرت انگیز بات ہے پس مجھے کامل یقین ہے کہ بالآخر یہ منصوبہ ضرور نا کام ہو گا مگر نا کام ہونے سے پہلے دنیا میں نہایت ہی خطرناک زہر پھیل چکا ہوگا.بہت سے آتش فشاں پھٹ چکے ہوں گے اس کے نتیجے میں بہت سے زلازل واقعہ ہو چکے ہوں گے.بہت سی تباہیاں آئیں گی.بہت سی مصیبتوں میں تو میں مبتلا ہوں گی.بہت بڑے خطرناک دن ہیں جن سے ہمیں گزرنا ہوگا کیونکہ اتنا بڑا منصوبہ اچانک خود بخو دنا کام نہیں ہوا کرتا.پوری کوشش کے بعد یہ منصوبہ اپنے سارے پر پرزے نکالے گا اور اس کی ناکامی کے لئے خدا کی تقدیر جو مدافعانہ کوشش کرے گی وہ بہر حال غالب آئے گی لیکن اس دوران ہمیں ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار ہونا چاہئیے کہ بنی نوع انسان بہت بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے گزریں گے اور انسان کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا ہو گا اور اس میں سے کچھ حصہ لازماً احمدیوں کو بھی ملے گا کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ قومی عذابوں اور ابتلاؤں کے وقت بچوں کی جماعت کلیہ بچ جائے.تکلیف میں کچھ نہ کچھ ضرور حصے دار ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بالآخر اسلام کی ترقی اور فتح اور احمد بیت کے غلبے کے دن آئیں گے یہ وہ آخری تقدیر ہے جو لازماً ظاہر ہوگی اور وہی دراصل دنیا کا ” نظام نو“ ہے وہ نظام نو نہیں ہے جو صدر بش کے دماغ میں ہے جسے وہ New World Order کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں مگر اس مضمون کو سر دست چھوڑتے ہوئے میں وا پس وہاں آتا ہوں کہ سب سے پہلے موجودہ حالات کی بنیاد 1897ء کے لگ بھگ رکھی گئی.ظاہری طور پر تو بہر حال 1897ء میں رکھی گئی جب اسرائیل کی حکومت کے قیام کی کوششوں کا اعلان ہوا.اس کے بعد دوسرا بڑا قدم 1917ء میں ہمیں نظر آتا ہے جبکہ بالفور Balfour نے، بالفور یا بیلفور جو بھی Pronunciation صحیح ہے)، جو انگلستان کے Foreign Secretory تھے ، انہوں نے ایک بہت امیر یہودی انسان کو جو یہودی کمیونٹی کا نمائندہ تھا ، راتشیلڈ Rothschild جو بعد میں لارڈ (Lord) بھی بن گیا یا اس وقت بھی شاید Lord ہی ہو، Lord
خطبات طاہر جلد ۱۰ 85 59 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء Rothschild کو ایک خط لکھا جس میں کیبنٹ کے ایک فیصلے سے اس کو مطلع کیا اور یہ Document کے طور پر چھپا ہوا موجود ہے کہ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ فلسطین میں اسرائیلیوں کو گھر دینے کے مسئلے پر ہر طرح تعاون کریں گے اور ہر طرح آپ کا ساتھ دیں گے اور ہاتھ بٹائیں گے.یہ جو 16 17 1918 تک کے عرصے میں پھیلا ہوا ہے.یہ دور اسلام کے خلاف سازشوں کا ایک نہایت ہی خوفناک اور سنگین دور ہے اور ان سازشوں میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ اس وقت کی برطانوی حکومت نے لیا.میں اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.1897ء میں First World Zionist Congress نے جو ڈیکلریشن دیا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں جس کے اس وقت پریذیڈنٹ DR.Theodor Herzl تھے اور اگست 1897ء میں یہ منصوبہ دنیا میں با قاعدہ شائع ہوا.1917ء کو بالفور Balfour برٹش فارن سیکرٹری نے را تشیلڈ کو جو خط لکھا ہے اس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اس سے ایک سال پہلے 1916ء میں MR.M Mahon جو انگلستان کی حکومت کے نمائندہ تھے انہوں نے مکہ اور مدینہ اور ارض حجاز کے گورنر شریف حسین صاحب کو ایک خط لکھا.یہ شرق اردن کا خاندان تھا جو ترکی کی طرف سے ارض حجاز پر ترکی کی نمائندگی کرتا تھا اور اس خاندان کے افراد کو شریف مکہ کے طور پر یعنی مکہ کے گورنر کے لقب کے ساتھ وہاں گورنر بنایا جاتا تھا تو شریف مکہ کو Mc Mahon نے ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر ہم سے اتفاق کر لو کہ ہم تمہیں ترکی کی ظالمانہ حکومت سے آزادی دلائیں اور آزا د عرب ریاست کے قیام میں تمہاری مدد کریں تو اس کے بدلے تم ہمیں یہ یہ مراعات دو.کچھ علاقے A کے نام سے Mark کر کے نقشے میں ظاہر کئے گئے کچھ B کے نام سے اور کچھ فرانسیسی تسلط کے علاقے بتائے گئے ، کچھ انگریزی تسلط کے.ان ساری شرائط کا خلاصہ یہ تھا کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئے فارن پالیسی بنانے کا پورا اختیار انگلستان کو ہوگا یا فرانس کو ہوگا اور تمہیں اپنے بیرونی معاملات طے کرنے میں ان ان دائروں میں جن جن حکومتوں کا تسلط ہے ان کے مشورے اور اجازت کے بغیر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی یہاں تک کہ کوئی یورپین مبصر اور کوئی یورپین مشیر تم وہاں سے نہیں بلا سکتے جب تک انگریزی تسلط کے علاقے میں انگریز سے اجازت نہ ملے یا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 86 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء فرانسیسی تسلط کے علاقے میں فرانس سے اجازت نہ ملے.ادھر ان سے یہ گفت و شنید ہو رہی تھی یعنی شریف مکہ سے اور ادھر وہابی حکومت کے سربراہ یعنی سعودی خاندان سے ساز باز چل رہی تھی کہ اگر تم ہم سے یہ معاہدہ کرو کہ اس علاقے پر ہمیشہ کے لئے انگریزی تسلط کو قبول کر لو گے اور انگریز کی مرضی کے بغیر کوئی فارن پالیسی طے نہیں ہوگی اور ترکی کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمارا ساتھ دو گے اور بہت سی شرطیں تھیں تو ہم تمہاری مدد کریں گے کہ تم ارض حجاز پر قابض ہو جاؤ اور تمہاری حکومت کی ہمیشہ حفاظت کا تم سے اقرار کریں گے اور تمہیں تحفظ دیں گے کہ کبھی کوئی تمہیں میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے.اور یہ معاہدہ ان کے ساتھ طے پا گیا اور چند سالوں کے بعد باقاعدہ اسی طرح حملہ ہوا اور پھر انہوں نے شریف مکہ کو الگ کر دیا تو 1915ء، 16 ، 17 کے زمانے میں ایک طرف شریف مکہ سے یہ باتیں ہو رہی تھیں دوسری طرف شریف مکہ کے مخالفین سے وہ باتیں ہورہی تھیں اور تیسری طرف روس اور انگلستان اور فرانس، ان تینوں کا 1916ء میں عثمانی حکومت کا آپس میں بانٹنے پر ایک معاہدہ ہوا اور اس میں یہ باتیں طے ہوئیں کہ جب ہم عثمانی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کریں گے تو کون سا حصہ روس اپنے قبضے میں کرے گا کون سا فرانس اپنے قبضے میں کرے گا کون سا انگریز اپنے قبضے میں کریں گے اور اس کے علاوہ ایک Englo French Agrement ہوا جس میں عرب کی بندر باٹ کے متعلق انگریزوں اور فرانسیسوں کا آپس کا معاہدہ تھا.پس اس علاقے پر تین بڑی طاقتوں کا تسلط بطور منصوبے کے اس زمانے میں طے ہو چکا تھا اور جہاں عرب کا تعلق ہے.یہاں روسی عمل دخل کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی.عرب علاقوں پر فرانس اور انگلستان کی اجارہ داری تسلیم کی جاچکی تھی.پس بعد میں جو جنگیں ہوئیں اور بعد میں ان دونوں قوموں نے جو کردار یہاں ادا کیا ہے وہ اس پس منظر میں سمجھنا بڑا آسان ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے جب ہم موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں تو مقاصد کو سمجھنا نسبتاً زیادہ آسان ہو جاتا ہے لیکن اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک ایسی Mystery کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جوان مسائل سے گہرا تعلق رکھتی ہے دو ایسی باتیں ہیں جو عام طور پر انسان توقع نہیں رکھتا کہ ہوں گی لیکن ہوئی ہیں ایک بات یہ ہے کہ مشرق وسطی دنیا کا امیر ترین علاقہ ہے اور دنیا کے سارے تیل کا ۶۰ فیصد اس علاقے میں پیدا ہوتا ہے اس کے باوجود اپنی دفاع کی طاقت کے لحاظ سے دنیا کا کمزور ترین علاقہ ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 87 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء اورانڈسٹریل Growth کے لحاظ سے دنیا کا کمزور ترین علاقہ ہے.پس یہ کیا مسئلہ ہے کیا معمہ ہے کہ جہاں دولتوں کے پہاڑ ہوں وہاں پہریدار کوئی نہ ہوں.یہاں کسی بینک میں سونے کی کچھ ڈلیاں بھی ہوں تو حفاظت کے بڑے پکے انتظام ہوا کرتے ہیں لیکن وہاں تو واقعہ سونوں کے پہاڑ پیدا ہور ہے ہیں اور اس کے باوجود فوجی نقطہ نگاہ سے ایک خلاء کا علاقہ سمجھا جاتا ہے جو طاقت آپ دیکھ رہے ہیں اس کی اس دولت سے در حقیقت کوئی نسبت نہیں ہے جو وہاں موجود ہے تو کیوں ایسا ہورہا ہے کیوں اس علاقے کو کمزور رکھا گیا ہے جبکہ اسرائیل جو اس علاقے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس میں تیل کی دولت نہیں ہے.اس کو غیر معمولی طور پر طاقت ور بنایا گیا ہے.پس جہاں مال پڑا ہے وہ حصہ کمزور ہے.جہاں ڈاکے کا خطرہ ہے اس حصے کو طاقت دے دی گئی ہے.ایک یہ معمہ ہے جوصل ہونے والا ہے.دوسرا معمہ یہ ہے کہ صدر صدام نے جب Linkage کی پیش کش کی تو Linkage کی پیشکش کو کیوں رد کیا گیا جب ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ کیوں اس پیش کش کو رد کیا گیا ہے جب آپ اس کو پوری طرح سمجھ جائیں گے تو پھر آخری حل کیا ہونا چاہیئے ؟ وہ بات بھی آپ کو سمجھ آجائے گی.امریکہ نے اور اس کے اتحادیوں نے مسلسل انکار کیا کہ کویت پر قبضے کا جہاں تک تعلق ہے اس کا کوئی Linkage نہیں ہے.صدر صدام حسین کہتے تھے کہ اس کا Link ہے اور دونوں کو اکٹھا طے کرو.اگر یہ Link تسلیم ہو جاتا تو اس کے نتیجے میں اس مسئلے کا یہ حل بنتا کہ صدر صدام نے کویت کے علاقے میں جو جارحیت کی ہے اس علاقے کو چھوڑ کر اپنی جارحیت کے قدم کو واپس لے لے اور یہود نے ، Zionists نے جو شرق اردن کے مغربی کنارے کو غصب کیا ہے اور وہاں اس کے خلاف جارحانہ پیش قدمی کی ہے وہ اپنے قدموں کو وہاں سے واپس ہٹا لے.ایک جارحیت کو کالعدم کرو، دوسری جارحیت کو کالعدم کرو.دونوں طرفیں برابر ہو جاتی ہیں اور انصاف قائم ہو جاتا ہے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھتا.یہ دراصل مقصد تھا صدر صدام کا جو بار بار Linkageکےاوپر زور دیتے چلے جارہے تھے.دنیا کی بڑی طاقتوں نے جن کا اس مسئلے سے تعلق ہے اس کو کچھ اور رنگ میں ، عمد اغلط رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور دنیا کی رائے عامہ کو دھوکا دینے کی کوشش کی حالانکہ صدر صدام کا موقف وہی تھا جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 88 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء مغربی دنیا نے Linkage کو اس طرح عمد أغلط سمجھا کہ گویا صدر صدام یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اسرائیل نے ہمارے ایک مسلمان بھائی ملک کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اس لئے اس غصے میں میں نے بھی اپنے ایک مسلمان بھائی کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور دونوں ایک ہی جیسے معاملات ہیں.حالانکہ اس میں کوئی منطق نہیں ہے اور انہوں نے اسی وجہ سے اس Linkage کے مؤقف کا مذاق اڑایا اور اس کو بالکل بودا اور بے معنی قرار دیا اور کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے.سب دنیا جانتی ہے کہ تیل کے جھگڑے کے نتیجے میں ، یعنی تیل کا جھگڑا ان معنوں میں کہ کویت کی تیل کی فروخت کی جو پالیسی ہے اس سے عراق کو اختلاف تھا اور کچھ اور ایسے مسائل تھے تو تیل کے جھگڑوں کے نتیجے میں یا کچھ اور جھگڑوں کے نتیجے میں عراق نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں کو یت پر قابض ہو جاؤں گا اور وہ جھگڑے دراصل بہانے تھے.مقصد یہ تھا کہ کویت کی تیل کی دولت پر قبضہ کرے تو کہتے ہیں اس میں Linkage کہاں سے ہو گیا.ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں بڑا گہرا تعلق ہے.وہ کہتے تھے کہ اگر تم جارحیت کے خلاف ہو تو تم اس جارحیت کو کا لعدم کرو جو پہلے اس علاقے پر ہو چکی ہے، میں بھی کا لعدم کر دیتا ہوں.بات ختم ہو جائے گی لیکن اس کی طرف آتے نہیں تھے.تو کیوں نہیں آرہے تھے یہ آخر کیا وجہ ہے؟ اسرائیل سے کیوں اتنا گہرا تعلق ہے؟ کیا رشتے داریاں ہیں؟ کیا اس کے مفادات کی غلامی کی ضرورت ہے؟ اور اس کے بدلے اتنی بڑی بڑی قیمتیں ادا کر رہے ہیں کہ انسان کے تصور میں بھی ان قیمتوں کی کمیت پوری طرح داخل نہیں ہوتی.مثلاً ایک بلین کی کمیت کیا ہے.ہم جیسے عام غرباء تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک بلین کتنی بڑی رقم ہوتی ہے.ایک بلین روپے بھی ہمارے لئے بہت ہیں لیکن ایک بلین ڈالر تو بہت بڑی رقم ہے.اس جنگ میں جو اعدادو شمار ظاہر ہوئے ہیں ،صرف امریکہ کا ایک بلین روزانہ خرچ ہورہا ہے ایک بلین ڈالر کا مطلب ہے ایک ارب ڈالر اور جتنے دن یہ جنگ چلے گی یہ اسی طرح خرچ ہوتا چلا جائے گا اور اس کے علاوہ انگریزوں کا خرچ ہورہا ہے.اس کے علاوہ فرانسیسوں کا خرچ ہورہا ہے.اس سے پہلے ان کے خرچ ہو چکے ہیں اور حالت ابھی سے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا کے سامنے کشکول لے کر نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں.انگریز ڈپلومیسی میں امریکہ سے بہت بہتر ہے اور انگریز کی ڈپلومیسی میں صدیوں کی ٹرینگ کی وجہ سے ایک نفاست پائی جاتی ہے.اس لئے جب ہمارے فارن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 89 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء سیکرٹری صاحب جرمنی گئے تو وہاں سے انہوں نے 7،6 سوملین کی جو Aid انکودی اس کا اعلان کرتے وقت انہوں نے پہلا فقرہ ہی یہ کہا کہ دیکھو بھئی! میں کوئی کشکول لے کر تو نہیں یہاں آیا تھا.میرے ہاتھ میں تو کوئی کشکول نہیں تھا.میرے دماغ میں تو Figure بھی کوئی نہیں تھی.کوئی اعداد نہیں تھے کہ اتنی رقم میں وصول کروں گا.یہ جرمن بھائی ہمارے بڑے مہربان ہیں.بہت اچھے لوگ ہیں.اچھی قوم ہے.انہوں نے دیکھا کہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کی مشکل میں مدد دیں اور War Efforts میں ہم کچھ حصہ ڈالیں تو ہم شکریے سے قبول کرتے ہیں.ایڈور ڈھیتھ نے کل رات کو اسی بحث میں حصہ لیتے وقت کہا کہ تمہارے جھوٹ کی اور مکاریوں کی حد ہوگئی ہے.تم نے قوم کو ساری دنیا میں بے عزت کر دیا ہے.کشکول ہاتھ میں پکڑ کے تم بھاگے پھرتے ہو اس مصیبت میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی جس کو سنبھال نہیں سکتے جس کے لئے انگلستان کی عزت کو اور عظمت کو داغدار کر دیا ہے اور اب تم بھکاری بن گئے ہو.امریکن اس کے مقابل پر کورس(Coarse) یعنی اکھر قسم کے Politicians ہیں.کوئیل صاحب یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں جو امریکہ کے وائس پریذیڈنٹ ہیں اور ان کی جو ذہنی اور سیاسی قابلیتیں ہیں ان کے اوپر امریکہ کا اخبار نویس ہمیشہ ہنستا رہتا ہے اور مذاق اڑاتا رہتا ہے اس حصے کا تو میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ان کے آپس کے معاملات ہیں لیکن ان کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں اور یہ نہیں پتا لگتا کہ میں کس طرح بعض چیزوں پر پردے ڈالوں چنانچہ اپنے امریکہ کے مانگنے کو انہوں نے ایک اور نام دیا ہے.جیسے ہمارے پنجاب میں مشہور ہے کہ بعض ” ڈنڈ افقیر ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ بھٹی خدا کے واسطے کچھ بھیک ڈال دو.بھو کے مررہے ہیں کچھ مدد کرو، رحم کرو، وہ ڈنڈا لے کر جاتے ہیں کہ دیتے ہو تو دو ورنہ ہم لاٹھی سے سر پھاڑ دیں گے.تو انہوں نے اپنا جو طریق کار پیش کیا ہے وہ ڈنڈا فقیر والا ہے.جب ان سے ایک اخباری نمائندے نے یا ٹیلی ویژن کے نمائندے نے سوال کیا کہ بتائیے آپ دنیا سے کیا توقع رکھتے ہیں.انہوں نے کہا تو قع ! ہم نے تو اب فیصلے کر لئے ہیں کہ فلاں سے اتنا وصول کرنا ہے فلاں سے اتنا وصول کرنا ہے فلاں سے اتنا وصول کرنا ہے اور ہم نے مانگنا تو نہیں.ہم ان کو بتا ئیں گے کہ یہ تم نے دینا ہے تو اس نے کہا کہ جناب ! اگر وہ نہ دیں تو پھر کیا کریں گے.انہوں نے کہا نہ دیں گے تو پھر اتنا میں بتا دیتا ہوں کہ پھر امریکی تعلقات پر انحصار نہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 90 ge خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء رکھیں.ایک دبی ہوئی دھمکی تھی تو بہر حال اتنی بڑی قیمت دے رہے ہیں اور تمام عالم اسلام میں جو نام انہوں نے پیدا کیا تھا یکسر اس کو مٹا بیٹھے ہیں.قریب ہی کے زمانے میں ایک وقت تھا جب کہ پاکستان عملاً امریکہ کا سیٹلائیٹ بن چکا تھا اور عوام الناس اس کو قبول کر چکے تھے.ہر سیاست دان اپنے وقار اور عظمت کے لئے امریکہ کی طرف دوڑتا تھا اور عوام میں اس کے خلاف رد عمل ہی ختم ہو چکا تھا.اب چند دنوں کے اندر اندر نفرت کی ایسی آگ بھڑ کی ہے کہ لفظ امریکن وہاں گالی بن گیا ہے اور اسی طرح مسلمان ممالک سے برطانیہ نے اپنے تعلقات کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور بہت ہی لمبے عرصے سے جو نیک نام پیدا کیا تھا وہ نام مٹا دیا ہے تو یہ اتنی بڑی قیمت کیوں دے رہے ہیں کیوں نہ Linkage کو تسلیم کرلیا کہ اسرائیل کو کہتے کہ تم فلاں علاقہ خالی کر دو اور عراق فلاں علاقہ خالی کر دے گا.بات وہیں ختم ہو جائے گی.اس لئے ہمیں ان باتوں کا مزید تفصیل سے جائزہ لینا ہوگا کہ اس موجودہ لڑائی کے پس منظر میں کیا عوامل کام کر رہے ہیں.یہ جو الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ ان کے مشترکہ مفادات ہیں جن کی خاطر یہ اس وقت عراق کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں اور کویت کی بحالی محض ایک بہانہ ہے.اس کی بھی چھان بین کرنی ہوگی کہ کیا پہلے مشترکہ یا غیر مشتر کہ علاقائی مفادات کی خاطر ان قوموں نے اسی قسم کا رد عمل دکھایا کہ نہیں.دوسرا جو الزام ہے کہ یہود کی خاطر ایسا کیا جارہا ہے اس کی چھان بین کرنی ہوگی کہ جب بھی یہود اس علاقے میں مسلمان ریاستوں سے متصادم ہوئے ہیں یا اسرائیل کہنا چاہئے.یہود میں تو بعض ایسے فرقے بھی ہیں جو اسرائیل کے خلاف ہیں بعض بڑے بڑے شریف النفس ایسے لوگ بھی ہیں جو اسرائیلی جارحیت کی کھل کر تنقید کرتے ہیں اور ان کی کارروائیوں کی کسی رنگ میں بھی تائید نہیں کرتے تو یہود نہیں کہنا چاہئے ، اسرائیل کہنا چاہئے کہ اسرائیل کا جب بھی تصادم ہوا ہے ان قوموں نے اس میں کیا کردار ادا کیا ہے اور کیوں اسرائیل کی ہر موقعہ پر تائید کی ہے اگر تائید کی ہے تو مذہبی تعصب اس میں کارفرما ہے یا محض مفادات ہیں.اسرائیل کے قیام کی غرض وغایت کیا ہے کیوں اس کو ہر بڑی سے بڑی قیمت پر قائم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے.یہ سارے سوالات ہیں جن کا جواب انشاء اللہ آئندہ خطبے میں پیش کروں گا اور جہاں سے اس تاریخ کی بحث کو چھوڑ رہا ہوں ، وہیں سے اٹھا کر آج تک کے حالات رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ آپ کی یادداشت تازہ ہو جائے.91 خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۹۱ء اس تجزیے کے بعد پھر اگلے خطبے میں اگر وقت ملایا اس کے بعد کے خطبے میں میں اسلامی نقطہ نگاہ سے ان مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کروں گا.کیونکہ آج وقت زیادہ ہو چکا ہے.اس لئے اس بحث کو، اس خطاب کو سر دست یہاں ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم بحیثیت غلامان محمد مصطفی امیہ کو عالمی مسائل کا ایک ایسا حل پیش کرنے کی توفیق پائیں جس کی اندرونی طاقت ایسی ہو کہ اگر وہ اس کو قبول کریں تو بنی نوع انسان کو امن کی ضمانت ملے اور اگر قبول نہ کریں تو جو چاہیں کریں امن مہیا نہ کرسکیں.صحیح حل کے اندر ایک یہ طاقت ہوا کرتی ہے جو سچائی کی طاقت ہے.اگر کوئی انسان کسی صحیح مشورے کو قبول کرے تو اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اگر رد کر دے تو اس کا نقصان ہوتا ہے.پس میں چونکہ اسلام کی نمائندگی میں بات کروں گا اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ جوصل جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا جائے گا وہ ایسا حل ہے کہ جس کو تخفیف کی نظر سے دیکھا ہی نہیں جاسکتا.اگر قبول کرو گے تو اپنے فائدے کے لئے قبول کرو گے اور بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے بھی اور اگر رد کرو گے تو جو چاہے کوششیں کرو، دنیا سے تم فساد کو رفع دفع نہیں کر سکتے اور ایک کوشش کے بعد دوسری کوشش ناکام ہوتی چلی جائے گی اور ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ سراٹھاتی چلی جائے گی اور ایک بدامنی کے بعد دوسری بدامنی انسانی معاشرے کو خون آلود کرتی رہے گی اور انسان کے دل کے امن اور سکون کو لوٹتی رہے گی.یہ میں یقین رکھتا ہوں کہ چونکہ میں خدا کے فضل کے ساتھ اسلامی حل پیش کروں گا اس لئے یہی صورت ہوگی.ان کو یا قبول کرنا ہوگا اور فائدہ اٹھانا ہوگا یار دکرنا ہوگا اور نقصان کی راہ اختیار کرنی ہوگی.جماعت احمدیہ سے میری درخواست ہے کہ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ میری ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو تقویٰ پر قائم رکھے تاکہ میں تقویٰ کے نور سے دیکھ کر ان مسائل کا کوئی ایسا حل تجویز کرسکوں جن سے بنی نوع انسان کو امن کی ضمانت دی جا سکے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 93 33 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل کی آبادکاری کا پلان کیوں تیار کیا گیا عرب دنیا کے امن کے قتل کا ذمہ دار امریکہ ہے.( خطبه جمعه فرموده ۸ فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: غالباً چھ ماہ پہلے یا کم و بیش اتنا عرصہ پہلے میں نے بغداد پر ہونے والے ہلاکو خاں کے حملے کا ذکر کیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ اس قسم کی ہلاکت آفرینی کی تیاریاں کی جارہی ہیں، فیصلے ہو چکے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر صدر صدام نے احتیاط سے قدم نہ اٹھائے تو ایسی خوفناک ہلاکت خیزی کی جنگ اس پر ٹھونسی جائے گی کہ جس کے نتیجے میں ہلاکو خاں کی باتیں بھی خواب و خیال کی باتیں ہو جائیں گی.اس عرصے میں جو کچھ رونما ہوا ہے وہ اتنا ہولناک ہے اور اتنا دردناک ہے کہ اس کی جتنی خبر میں اب تک دنیا کومل چکی ہیں انہی کے نتیجہ میں تمام عالم اسلام کے دل خون ہور ہے ہیں لیکن جو خبریں اب تک ظاہر ہو چکی ہیں وہ ان خبروں کا کوئی 20 واں 100 واں حصہ بھی نہیں جو رفتہ رفتہ اس جنگ کے بعد ظاہر ہوں گی اور جن سے بعد میں پردے اٹھیں گے.میرے اندازے کے مطابق لکھوکھہا شہری اور فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں اور بہت بڑی تباہی ہے سویلین آبادی کی جو ابھی تک کسی شمار میں نہیں لائی جاسکی لیکن اس کے علاوہ فوجیوں کے خلاف جس قسم کی کارروائی ہے وہ جنگ کی کیفیت نہیں بتاتی بلکہ اس طرح ہی ہے جیسے کسی ایک شخص کو باندھ کر رفتہ رفتہ اس کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 94 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء Dismember کیا جائے.اس کے اعضاء کاٹے جائیں ، پہلے ناخن نوچے جائیں، پھر انگلیاں کائی جائیں ، پھر دانت نکالے جائیں، پھر ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور اس کے بعد کہا جائے کہ اے بہادرو! اور شیر و! اب اس شخص پر حملہ کر دو اور جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ اپنے ٹنڈے ہاتھوں سے ایک چیڑہ بھی نہیں مار سکے گا اس وقت تک بہادروں کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے.یہ خلاصہ ہے میرے الفاظ میں اس موجودہ جنگ کا اور امریکی جرنیل جواس وقت یہ جنگ لڑا ر ہے ہیں وہ عراق کے سکڈ میزائلز وغیرہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اس قسم کے یہ حملے ایسے ہی ہیں جیسے ایک ہاتھی پر چھر بیٹھ جائے اور عملاً یہ ایک ہاتھی ہی کی نمائندگی کرنے والی طاقتیں ہیں اور اس کے مقابل پر جس کو وہ نئے زمانے کا ہٹلر کہتے تھے اس کی حیثیت عملاً یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے مقابل پر ایک مچھر سے زیادہ نہیں.تو جب تک یہ ہاتھی اور مچھر کی لڑائی جاری ہے اس وقت تک جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس صدی کا مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ ہولناک اور خوفناک منصوبہ اپنے پائیہ تکمیل کو پہنچ چکا ہوگا اور اس کے بعد پھر یہ نئی صدی میں داخل ہونے کے منصوبے بنا ئیں گے.لیکن میرا کام جنگ کی خبروں پر تبصرہ کرنا نہیں اور جماعت احمدیہ کو مسلسل یہ بتانا مقصود نہیں کہ اب جنگ میں کیا ہوا اور کل کیا ہوا تھا اور آئندہ کیا ہوگا.میرا مقصد یہ ہے کہ اس جنگ کا پس منظر آپ کے سامنے کھول کر رکھوں اور تاریخی پس منظر کی روشنی میں تمام دنیا کے احمدی اور ان کے ساتھ دوسرے مسلمان بھائی جن تک وہ آواز پہنچا سکتے ہیں.اس صورت حال کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہو کیا رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے اور مغربی قوموں نے اس میں آج تک کیا کردار ادا کیا ہے اور آئندہ کیا کریں گی اور اقوام متحدہ نے یا اس سے پہلے لیگ آف نیشنز League of Nationsنے کیا کردار ادا کیا تھا اور ان کے آپس میں کیا رابطے ہیں؟ اور یہود کے ساتھ ان کے کیا تعلقات اوران ہیں؟ اور کیوں وہ تعلقات ہیں؟ اس میں مسلمانوں کی غلطیوں کا کہاں تک دخل ہے؟ اور اس تجزیے کے بعد میرا اراداہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے مطابق آپ کے سامنے وہ مشورے رکھوں گا جو الگ الگ قوموں کو مخاطب کر کے دوں گا یعنی میرے نزدیک اس سارے مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد پھر وہ Solution یا حل خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے.دراصل یہ مرض کی تشخیص ہے جو سب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 95 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء سے اہم اور بنیادی چیز ہے.اگر تشخیص درست ہو تو علاج تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا.پس یہود کو بھی مشورہ دوں گا ، عیسائی قوموں کو بھی مشورہ دوں گا، مسلمانوں کو بھی مشورہ دوں گا اور تمام بنی نوع انسان کو بھی مشورہ دوں گا کہ آئندہ ان کو دائمی امن کی تلاش کے لئے کس قسم کی منصفانہ کارروائیاں کرنی چاہئیں.بہر حال اب میں مختصراً آپ کے سامنے اس مسئلے کو جس کو فلسطین کا مسئلہ کہا جاتا ہے یا آج کل جسے ہم Gulf War کے نام سے یاد کرتے ہیں.اس کا جو گہرا تاریخی پس منظر ہے اس کا مختصر اذکر میں آپ کے سامنے کرتا ہوں.بالفور Balfour نے ۱۹۱۷ء میں جو یہود سے وعدہ کیا تھا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اس کے بعد ایک حیرت انگیز واقعہ ۱۹۲۲ء میں رونما ہوا جبکہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) نے ایک مینڈیٹ (Mandate) کے ذریعے انگریزوں کو فلسطین کے علاقے کا نگران مقرر کیا اور اس مینڈیٹ میں یہ بات داخل کی کہ بالفور نے جو یہود سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کروانا اس نگران حکومت کا کام ہوگا.اب دنیا کی تاریخ میں ایسا حیرت انگیز نا انصافی کا کوئی واقعہ اس سے پہلے کم ہوا ہوگا جو نا انصافی با قاعدہ قوموں کی ملی بھگت سے ہوتی ہے.لیگ آف نیشنز تو تمام دنیا کی نمائندہ تھی یعنی کہا یہ جاتا تھا کہ سب دنیا کی نمائندہ ہے اس کا یہ کام ہی نہیں تھا کہ انگریزوں کے کسی وزیر نے جو کسی یہودی لارڈ کو خط لکھا، راتھ چائلڈ Rothchaild یا راتھ شیلڈ (Rothchild) نام ہے.اس کا تلفظ مجھے یاد نہیں مگر وہ فرانس کا بہت بڑا بینکر Banker تھا.اس کو خط لکھا کہ ہماری کیبنٹ تم سے یہ وعدہ کرتی ہے، یہ سوچ رہی ہے.اس کو لیگ آف نیشنز کا حصہ بنالے اور لیگ آف نیشنز کو یہ اختیار کس نے دیا تھا کہ وہ دنیا کی قسمت بانٹتی پھرے اور جس قوم نے وہ وعدہ کیا تھا ان کے سپر د ہی اس علاقے کی نگرانی کر دی کہ اب جس طرح چا ہو اس کو نافذ العمل کرو اس پر عمل کرواؤ.ساتھ ہی ایک لاکھ یہود کو باہر سے لا کر آباد کرنے کا مینڈیٹ Mandate بھی دیا چنانچہ اس پر عمل شروع ہوا اور ۷ ارمئی ۱۹۳۹ء کو اگلی جنگ سے پہلے انگریزوں نے ایک وائٹ پیپر White Paper شائع کیا.اس وقت تک ایک لاکھ کی بجائے اس سے بہت زیادہ یہودی اس علاقے میں آباد ہو چکے تھے.۱۹۳۹ء کے وائٹ پیپر White Paper کی رو سے انگریزوں نے اپنی سابقہ پالیسی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 96 96 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء میں ایک تبدیلی پیدا کر لی اور اس وقت چیمبر لین Chember Lane کی حکومت تھی.چیمبرلین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اب جب کہ ہم دوسری جنگ کے کنارے پر کھڑے ہیں اگر ہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ یہود کے خلاف فیصلہ کر کے ان کو دشمن بنا ئیں یا عربوں کے خلاف فیصلہ کر کے ان کو دشمن بنا ئیں تو میری رائے یہ ہے کہ ہمیں یہود کے خلاف فیصلہ کرنا چاہئے، عربوں کے خلاف نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جنگ عظیم ثانی سر پہ کھڑی تھی پہلا فیصلہ پہلی جنگ کے بعد کا ہے.دوسرا فیصلہ دوسری جنگ سے پہلے کا ہے اور یہ فیصلہ سیاست پر مبنی تھا حقیقت پر مبنی نہیں تھا.ہاں اس وائٹ پیپر (White Paper) میں باقاعدہ یہ اعلان کیا کہ انگریزی حکومت فلسطین میں یہودی حکومت قائم کرنے کے حق میں نہیں ہے اور ہم یہود کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت بنائیں.ساتھ ہی پچھتر ہزار (75,000 ) مزید یہودیوں کو باہر سے لا کر وہاں آباد کرنے کی اجازت دی گئی ایک لاکھ پر بات شروع ہوئی تھی جو 75,000 پر رکی.اس وقت اگر یہ دیانتدار تھے اپنے فیصلے میں تو لیگ آف نیشنز League of Nations کو یہ مینڈیٹ واپس کر دینا چاہئے تھا کہ ہمارے فیصلے کے مطابق ۱۹۱۷ ء والے فیصلے کے مطابق اگر تم نے ہمیں مختار بنایا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کروائیں تو اب حکومت اس فیصلے کے خلاف ہے اس لئے خود بخود مینڈیٹ ختم ہو جانا چاہئے.لیکن اس کی بجائے ان کو مزید کوٹہ عطا کیا گیا اور 46ء میں یہ کوٹہ بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا گیا.1948ء میں جب یہ مینڈیٹ ختم ہوا تو یہود کی آبادی (85,000) پچاسی ہزار سے بڑھ کر ، ہاں مینڈیٹ کے آغاز سے بھی پہلے یعنی 1919ء میں ( مینڈیٹ تو 1922 ء کا ہے.) اس وقت کی آبادی 85 ہزار بیان کی جاتی تھی، اس میں بہت سے اختلافات ہیں بہت لمبی چھان بین کرنی پڑی لیکن غالباً پچاسی ہزار کی آبادی درست ہے.اور ۱۹۴۷ء تک جب یونائیٹڈ نیشنز United Nations نے مینڈیٹ کے ختم ہونے کے قریب آکر یہ اعلان کیا کہ فلسطین کی پارٹیشن کر دی جائے ، تقسیم کر دی جائے اور ایک یہودی سٹیٹ State قائم کر دی جائے اور ایک مسلمان عرب سٹیٹ قائم کر دی جائے.اس وقت تک یہ آبادی بڑھ کر سات لاکھ ہو چکی تھی اور بعض اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عربوں کی کل آبادی ہیں لاکھ تھی.پس نسبت ایک اور تین کی تھی.سات لاکھ ہونا نہیں چاہئے تھا اگر مینڈیٹس کو دیکھا جائے تو اتنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 97 40 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء آبادی ہوہی نہیں سکتی.مزید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بہت بھاری تعداد میں یہود وہاں سمگل کئے جاتے تھے اور برٹش حکومت کی بعض موقعوں پر جائز کوششوں کے باوجود کہ یہ سلسلہ بند ہو، یہ سلسلہ جاری رہا اور جب بھی برٹش حکومت نے اس کو روکنے کی کوشش کی ،ان کے خلاف بغاوت ہوئی اور انتقامی کارروائی یہود کی طرف سے کئی گئی بہر حال نسبت سات اور بیس کی بیان کی جاتی ہے.جس پر یونائیٹڈ نیشنز یہ فیصلہ کرنے بیٹھی کہ تقسیم کے نتیجے میں کتنا علاقہ یہود کو دیا جائے اور کتنا مسلمانوں کو.فیصلہ یہ کیا گیا کہ %56 رقبہ فلسطین کا یہود کے سپرد کر دیا جائے باقی %44 میں سے جو علاقہ یروشلم کا ہے وہ بین الاقوامی نگرانی میں رہے کیونکہ مقامات مقدسہ ہیں جن کا تعلق یہود سے بھی ہے، عیسائیوں سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی اور باقی جو بچا کھچار قبہ تھا وہ عرب مسلمانوں کے سپردنہیں کیا گیا.عرب مسلمانوں کو دینا تھا اس فیصلے میں یہ قطعی طور پر اعلان کیا گیا کہ دونوں علاقوں میں دونوں کی با قاعدہ حکومت قائم کروانے کے سلسلے میں برٹش گورنمنٹ یونائیٹڈ نیشنز سے تعاون کرے.اور ان کی قائم کردہ نمائندہ کمیٹی اس کام کو نگریزی حکومت کے تعاون سے پائیہ تکمیل تک پہنچائے.عملاً یہ ہوا کہ انگریزی حکومت نے تعاون کرنے سے کلیہ انکار کر دیا جس کے نتیجے میں جہاں تک مسلمان تھے ان کو منظم کرنے والا کوئی نہیں تھا ان میں بے چینی تھی.افراتفری تھی اور کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جو باقاعدہ ان کی وہاں حکومت بنواتا اور جہاں تک یہود کا تعلق ہے یہاں دو قسم کے ادارے قائم ہوئے ایک تو مینا خم بگین (Menachem Begin) کی قیادت میں 48ء سے پہلے سے ہی بہت مضبوط Terrorist Organisation قائم کر دی گئی تھی جو انگریزوں کے خلاف بھی terror استعمال کر رہی تھی اور عربوں کے خلاف بھی Terror استعمال کر رہی تھی اور دوسرے ڈیوڈ مینگورین(David Ben Gurion) کی قیادت میں امریکہ سے کثرت سے اسلحہ یہود کو مہیا کیا جارہا تھا اور یہاں تین چار قسم کی Organisations قائم کر دی گئی تھیں جو منظم طریق پر نہ صرف اپنے علاقے کا دفاع کریں اور یہاں حکومت قائم کریں بلکہ اور بھی کچھ علاقہ عربوں سے ہتھیا لیں.چنانچہ یہ جو 1948ء سے 1949 ء تک کا ڈیڑھ سال کے قریب کا عرصہ ہے اس عرصے میں عربوں اور یہود کی جھڑپ ہوتی رہی، اس میں ارد گرد کی عرب ریاستوں نے بھی حصہ لیا اور غیر رسمی جنگوں کا آغاز ہوا یعنی با قاعدہ حکومتوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغا ز نہیں ہوا بلکہ وہ.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 98 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء عربوں کی مدد کرتے رہے ہیں.لیکن اس کے بعد جب 1949ء میں سیز فائر ہوا ہے یعنی آپس میں Truce ہوئی اور صلح قائم کروائی گئی تو %56 سے بڑھ کر یہود کے قبضہ میں %75 علاقہ جاچکا تھا.یہ تو ہے یونائیٹڈ نیشنز کا کردار اور انگلستان کا کردار اور امریکہ کا کردار.یہ بہت بڑی تفصیلات ہیں جن کے سب حوالے میرے پاس ہیں لیکن میں اپنے خطبوں کو اسی بحث میں مبتلا نہیں کرنا چا ہتا اور الجھانا نہیں چاہتا.خلاصہ یہی ہے کہ عالمی سازش کے نتیجے میں جس میں لیگ آف نیشنز نے اور یونائیٹڈ نیشنز نے بھر پور حصہ لیا اور سب سے اہم کردار انگلستان نے اور امریکہ نے ادا کیا یہود کی ایک ایسی ریاست فلسطین میں قائم کر دی گئی جو انصاف کی کسوٹی پر کسی پہلو سے بھی قائم نہیں کی جاسکتی تھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے بین الاقوامی یونائیٹڈ نیشنز کی روایات اور چارٹر کے نتیجے میں اس کا پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا جا سکتا تھا مگر اٹھایا گیا اور اس کے بعد پھر جنگوں کا آغا ز شروع ہوتا ہے اس علاقے میں دو قسم کی جنگیں لڑی گئی ہیں.یاد و قسم کی کارروائیاں کی گی ہیں.ایک مغربی مفادات کے تحفظ کی خاطر بین الاقوامی مفادات کے نام پر کارروائیاں کی گئیں.کہا یہ گیا کہ یہ بین الاقوامی مفادات ہیں جن کی خاطر ہم یہ کرتے ہیں اور کھلم کھلا مغربی تحفظات تھے.ان میں سب سے زیادہ اہم کردار انگلستان نے اور فرانس نے ادا کیا اور امریکہ ہمیشہ ان کے ساتھ شامل رہا.مفادات کی پہلی کارروائی ایران کے خلاف ہوئی ہے.1950ء میں ایران کی پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمارے تیل کی دولت سے متعلق جو بیرونی دنیا کی لالچ اور دخل اندازی کے ارادے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک فیصلہ ہم یہ کرتے ہیں کہ ایران کے شمالی حصے کے تیل کے چشموں پر روس کے دخل کی پیشکش کو رد کر دیا جائے یعنی الفاظ پوری طرح شاید بات واضح نہیں کر سکے مراد یہ ہے کہ روس نے ایک پیش کش کی تھی کہ جس طرح (BRITISH IRANIAN OIL COMPANY) برٹش ایرانین آئل کمپنی کو تم نے اپنے جنوبی حصے میں تیل کے چشموں سے استفادے کی اجازت دی ہوئی ہے اور تمہارے ساتھ سمجھوتے کے ساتھ وہ تمہاری خاطر بظاہر تیل نکال رہے ہیں اور اپنے فائدے اٹھا رہے ہیں ہمیں بھی اجازت دو.تو انہوں نے کہا روس کو شمالی حصے میں دخل کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دوسرا یہ فیصلہ کیا کہ برٹش امیر ینین آئل کمپنی سے ہم اپنے معاہدے کو وقتا فوقتاز بر نظر لاتے رہیں گے اور آئندہ اس معاہدے پر نظر ثانی 1951ء میں ہوگی 50 ء کے اس فیصلے پر امریکہ میں فتح
خطبات طاہر جلد ۱۰ 99 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء کے خوب شادیانے بجائے گئے اور امریکی حکومت نے اس کو بڑا سراہا کیونکہ اس کی نظر اس وقت روس کے خلاف فیصلے پر رہی لیکن 1951ء میں جب برٹش امیر ینین آئل کمپنی کے ساتھ معاہدے پر نظر ثانی کا مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہورہا تھا تو برٹش ایرینین آئل کمپنی کی اتنی بڑی طاقت تھی کہ امریکہ یا خود انگریزوں کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہماری مرضی کے خلاف اس معاہدے میں جوار نین آئل کمپنی اور حکومت کے درمیان تھا کوئی ردو بدل کر دیا جائے گا.برٹش امرینین آئل کمپنی کی طاقت کا انداز ہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جو یہ رقم ٹیکس کے طور پر ایرانی حکومت کو دیتے تھے وہ تمام ایرانی بجٹ کا نصف تھا اور جور تم وہ برٹش ارینین آئل کمپنی کے مالک ٹیکس کے طور پر انگریزوں کو دیتے تھے وہ اس سے بہت زیادہ رقم تھی اور جو منافع وہ خود رکھتے تھے وہ اس سے دس گنا زیادہ تھا یعنی کم از کم پانچ گنا ایران کی کل اجتماعی دولت یہ برٹش آئل کمپنی سالانہ کھا رہی تھی اس لئے یہ و ہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کے خلاف کچھ ہو سکتا ہے.چنانچہ جب اسمبلی کے سامنے یہ بحث پیش ہونے لگی تو ایرانی وزیر اعظم کو انہوں نے خریدا ہوا تھا یا جس طرح بھی انہوں نے اس کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا.اس نے ایک رپورٹ پیش کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ برٹش امیر ینین آئل کمپنی کو قومیانے کا فیصلہ ایرانی مفاد کے سخت خلاف ہوگا اس پر ایک دم پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کا شور اٹھا اور دوسرے دن یا تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے نماز پڑھتے ہوئے گولی مار دی گئی اور نئے وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر مصدق کا انتخاب ہوا.ڈاکٹر مصدق چونکہ پوری طرح ایرانی مفادات کے وفادار تھے اس لئے اس وقت سے پھر جنگ کی گھنٹی بجادی گئی سب سے پہلے تو انگریزوں نے امریکہ سے رابطہ پیدا کیا اور اس سے بھی پہلے انہوں نے ماریشس میں مقیم اپنے ہوائی جہازوں کے ذریعے جو فوج منتقل کردی جاتی ہے Air Borne Division اس کو حکم دیا کہ وہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوں.لیکن امریکہ نے سمجھایا کہ یہ طریق نہیں ہے اور طریق سے اس کو طے کریں گے.اس کے بعد امریکہ پر انہوں نے دباؤ ڈالا کہ ایک سازش تیار کی جائے جو برٹش ISI اور امریکہ CIA مل کر کریں جسے مخفی طور پر منظور کر لیا گیا اور انگلستان میں ISI کے نمائندہ مسٹرسن کلیئر Mr.Sun Clare جو انگریزوں کی طرف سے ISI کے سر براہ تھے اور C.I.A کے نمائندہ Kim Rosevelt ان کے درمیان ایک منصوبہ طے ہوا لیکن اس عرصے میں امریکہ نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے تمام دنیا میں امرینین آئل کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 100 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء بائیکاٹ کرا دیا چونکہ بجٹ کی کل آمد کا نصف آئل کمپنی سے ملا کرتا تھا.جب تیل کی فروخت بند ہوگئی تو بڑا شدید مالی بحران ایران میں پیدا ہوا.ڈاکٹر مصدق نے 52ء کے وسط میں امریکہ کے صدر سے درخواست کی کہ عارضی طور پر ہمیں مالی مدد دی جائے تاکہ ہم اس بحران پر قابو پالیں بعد میں معاملہ طے ہو جائے گا تو ہم آپ کو پیسے واپس کردیں گے تو امریکی صدر نے اس کا جواب دیا کہ یہ بات امریکن ٹیکس فیئر Tax Fare کے مفادات کے مخالف ہے کہ ایران جب خود پیسے حاصل کر سکتا ہے تو ہم اپنے ٹیکس کے پیسے ان کی طرف منتقل کریں.آپ کے پاس سیدھی سادی راہ ہے برٹش ایرینین کمپنی کی بات مان جائیں اور ان سے پیسے لے لیں وہ تو پیسے دینے کے لئے تیار ہیں.اس پر ڈاکٹر مصدق سمجھ گئے کہ ان کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے جب امریکی صدر نے ڈاکٹر مصدق کو یہ جواب دیا ہے تو اس سے چار دن پہلے CIA اور ISI کی سکیم مکمل ہو کر امریکن حکومت کی توثیق حاصل کر چکی تھی اور پریذیڈنٹ نے اس پر دستخط کر دیے تھے کہ ایران کے خلاف یہ کارروائی کی جائے.وہ کارروائی تو بہت لمبی چوڑی ہے لیکن خلاصہ اس کا یہ ہے کہ امرینین پولیس اور ایرینین فوج پر انہوں نے قبضہ کیا جو ان کا طریق ہے فوجی انقلاب برپا کرنے کا اور مختلف اداروں کے سر براہوں کو خرید لینا یا جس طرح بھی ہو اپنے ساتھ ملا لینا چنانچہ اس کام کو Kim Rose Velt نے ادا کیا اور اسی کے بعد Kim Rose Velt کوامریکہ میں اتنا بڑا میڈل عطا کیا گیا ہے جو شاذ ہی کسی ہیروکو اس طرح عطا کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ایران کے بادشاہ اور ایران کے وزیر اعظم کے درمیان آپس میں پہلے چپقلش ہوئی اور اختیارات کی کھینچا تانی ہوئی.ایران کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق خود افواج کے سربراہ بن گئے.ایران کے وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ پولیس کا سربراہ بھی میں ہی مقرر کروں گا اور فوج کا کمانڈر انچیف تو خود بن گئے تھے جو چیف آف سٹاف کہنا چاہئے وہ بھی میں ہی مقرر کروں گا اور اس کی نشاندہی بھی انہوں نے کر دی لیکن پولیس کے ہونے والے سربراہ نے فخریہ طور پر یہ ذکر کیا کہ جتنے بھی برٹش ایجنٹس یہاں ایران میں موجود ہیں ان سب کی فہرست یہاں میرے پاس ہے.دل پر ہاتھ مار کے اس نے کہا اور دوسرے دن وہ قتل کر دیا گیا.اور جب ڈاکٹر مصدق کو شاہ آف ایران نے آخر ڈسمس کیا ( جب یہ تیاری مکمل ہو چکی تھی تو اس کے بعد ان کو معزول کیا گیا ) تو جو مظاہرے ان کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 101 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء حق میں ہوئے اس کے مقابل پر ایک باقاعدہ مقابل پر مظاہرہ کرنے والی فوج تیار کی گئی تھی عوام میں سے خرید کر ان کو مسلح بھی کیا گیا تھا غالبا چھ ہزار ان کی تعداد تھی وہ چونکہ با قاعدہ مسلح تھے اور تربیت یافتہ تھے انہوں نے ان مظاہروں پر کسی حد تک قابو پایا لیکن وہ مظاہرے اتنے شدید تھے اور اتنے پھیل گئے کہ جیسا کہ ایسے موقع پر پہلے سے ہی پتا ہوتا ہے کہ فوج پھر دخل دے گی.دولاکھ فوج شاہ کی حمایت میں میدان میں کود گئی اور پہلے سے فیصلے کے مطابق شاہ آف ایران کو جو امریکی اور انگلستانی غلامی کی ایک کامل تصویر تھے ان کو ایران پر ہمیشہ کے لئے یا جب تک وہ بد انجام کو نہیں پہنچ گئے مسلط کر دیا گیا.ایک یہ کارروائی ہے جو ہمیں اس پس منظر میں پیش نظر رکھنی چاہئیے.دوسری کارروائی 1956ء میں ہوئی جب کہ Egypt کے صدر ناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا فیصلہ کیا.اس فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ اسوان ڈیم کے سلسلہ میں امریکہ نے صدر ناصر سے کچھ وعدے کئے تھے کہ ہم اس کے پیسے مہیا کریں گے.صدر ناصر کے رجحانات چونکہ روس کی طرف تھے اور بار بار کے سمجھانے کے باوجود اسرائیل کے خلاف ان کے تشدد میں کمی نہیں آ رہی تھی اس لئے ان کو سبق دینے کے لئے امریکی حکومت نے وہ وعدہ واپس لے لیا.اسوان ڈیم اس وقت تک مصر کی زندگی کے لئے سب سے اہم منصوبہ بن چکا تھا کیونکہ مصر کی اقتصادی زندگی اور زرعی پیداوار کے لئے اسوان ڈیم نے بہت ہی اہم کردار آئندہ ادا کرنا تھا اس کے بغیر مصر خوراک وغیرہ میں اور بہت سی دوسری اقتصادی چیزوں میں خود کفیل نہیں ہوسکتا تھا اور منصوبہ اس حد تک آگے بڑھ چکا تھا کہ اس وقت اس کا روکنا مصر قبول نہیں کر سکتا.تھا تو مصر نے اپنے Finance حاصل کرنے کے لئے یعنی اس کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر نہر سویز کو قومیا لیا.نہر سویز پر اس وقت تک انگریزوں اور فرانس کا تسلط تھا کیونکہ اس کمپنی کے فیصلہ کن Shares ان کے پاس تھے.چنانچہ پھر انگلستان نے اس کے متعلق ایک منصوبہ بنایا تا کہ ناصر کو اور Egypt کو اس بات کی سزا دی جائے کہ وہ ہمارے مفادات پر حملہ کرے اور منصوبہ بڑا بھونڈا سا بچوں والا منصوبہ ہے لیکن تھا بہت خوفناک.اسرائیل کو آمادہ کیا گیا کہ وہ حملہ کرے Egypt پر اور نہر سویز تک پہنچ جائے اور چونکہ یہ اچانک بغیر اطلاع کے حملہ ہو گا اور Egypt کے پاس کوئی ایسی دفاعی فوج نہیں تھی کہ اس حملے کا مقابلہ کر سکتا اس لئے یہ آناً فاناً کامیاب ہونے والا حملہ تھا.اس کے بعد انگریز اور فرانسیسی دونوں اسرائیل کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 102 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اور Egypt کو حکم دیں گے کہ دونوں اپنی اپنی فوجیں نہر سویز سے دور دور تک پیچھے ہٹالیں.امن کی خاطر ہم دخل دینے لگے ہیں.چنانچہ یہی ہوا.آنا فانا اسرائیل کی فوجیں نہر سویز کے کنارے تک پہنچ گئیں اور دوسرے ہی دن انگریزوں اور فرانسیسوں کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا کہ چونکہ تم دونوں قو میں وہاں لڑ رہی ہو اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے اس لئے ہم حکم دیتے ہیں کہ دونوں اپنی اپنی فوجیں نہر سویز سے اتنی اتنی دور ہٹا لو.اسرائیل نے اس پر فورا عمل شروع کر دیا جیسا کہ فیصلہ تھا.Egypt نے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے ہماری نہر ہے.ہم اپنے ملک سے کیوں فو جیں ہٹالیں.یہ کونسی منطق ہے.حملہ آور نے ہٹالیں بس کافی ہے.اس پر پھر ان دونوں قوموں نے مل کر حملہ کیا.یہ 56ء کا واقعہ ہے اور اس جنگ میں جو انگریزوں نے کردار ادا کیا ہے.اس پر Nutting جو اس وقت فارن سیکرٹری تھے انہوں نے ایک کتاب لکھی اس جنگ کے حالات پر.اس کتاب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جو طرز عمل انگلستان نے صدر ناصر کے خلاف اور Egypt کے خلاف اختیار کیا بعینہ وہی طرز عمل آج صدر بش صدر صدام اور عراق کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں.یوں لگتا ہے جس طرح یہ کاربن کاپی ہے ان حالات کی جواب رونما ہورہے ہیں.اسی طرح اصر کے خلاف کردار کشی کی بڑی خطرناک مہم چلائی گئی ، اسی طرح یہ کہا گیا کہ ہم عالمی مفادات کے تحفظ کی خاطر عالمی مفادات کی نمائندگی میں یہ کارروائی کر رہے ہیں.جس طرح کی زبان صدر بش نے صدام کے متعلق استعمال کی ہے کہ میں تو وہ گندے الفاظ پورے استعمال بھی نہیں کر سکتا لیکن یہ تھا کہ لک کر کے اس کو مار کے پیچھے سے لگ کر کے باہر نکالو.جو کتاب میں بیان کر رہا ہوں اس کا حوالہ میرے پاس ہے.مگر اس وقت سامنے نہیں ہے بہر حال اس میں وہ لکھتے ہیں کہ مقصد اس جنگ کا یہ تھا کہ To Kick Nasir out of his Perch یا ملتے جلتے الفاظ تھے کہ ناصر کو ٹھڈا مار کے جس طرح وہ پرندے شاخ پر بیٹھے ہوتے ہیں کسی جگہ پر اس کے بیٹھنے والی جگہ سے اُڑا کر باہر مارو.یہ جنگ کا اصل مقصد تھا، یہ فیصلہ تھا جو فیصلہ ہو چکا تھا.جس طرح اس وقت یہ کہا جا رہا ہے بعض مبصرین کی طرف سے کہ دراصل یہ جنگ جنرل بش کی انا کے کچلنے کے نتیجے میں پیدا ہورہی ہے.اگر چہ یہ درست نہیں ہے.صدر بش کی انا کا دخل ضرور ہے مگر مقصد ہرگز یہ نہیں تھا لیکن اس زمانے میں Anthony Eden کے متعلق بھی ان کے اس وقت کے فارن سیکرٹری نے اپنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 103 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء کتاب میں لکھا کہ Anthony Eden کے متعلق یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ اس نے یہ جنگ ناصر کو اس جرم کی سزا دینے کے لئے شروع کی ہے کہ Egypt کے ایک کرنیل کی مجال کیا ہے کہ دولت عظمیٰ برطانیہ کے وزیر اعظم کو Defy کرے اور اس کے مقابل پر اس طرح سربلندی کا مظاہرہ کرے.بالکل یہی تجزیہ آج بش کے متعلق بعض مبصرین کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے.تو عملاً یہ ایک قسم کا 1956ء کی جنگ کا اعادہ ہے.تیل کے مفادات اب ہیں اس وقت سویز کے مفادات تھے اور یہودی شرکت کی بجائے اب امریکن شرکت ہے.پس اس جنگ میں دراصل وہی تین طاقتیں نمایاں ہیں جو پہلے تھیں.انگلستان، فرانس اور یہود لیکن فرق صرف یہ پڑا ہے کہ یہود کی نمائندگی امریکہ نے کی ہے اور وہ پس منظر میں رہا ہے اسے پس منظر میں رکھا گیا ہے.اب ایک عجیب بات یہ ہے کہ جب مینڈیٹ اختتام کو پہنچا.یہ مینڈیٹ والا حصہ غالبا میں بیان کر چکا ہوں اس لئے اس کو اس حصے کے ساتھ ملا کر سمجھنے کی کوشش کریں.مینڈیٹ جب 48ء کو اختتام کو پہنچا تو انگریزوں نے جس طرح وہاں سے انخلاء کیا اس کی کوئی مثال اور دکھائی نہیں دیتی.جب انہوں نے ہندوستان کو چھوڑا ہے تو اس وقت باقاعدہ اس بات کی تسلی کر لی گئی تھی کہ با قاعدہ Demarkation Line ہو.وہ خطے جو دو ملکوں میں تبدیل ہونے والے ہیں ان کے درمیان واضح تقسیم ہو با قاعدہ حکومتیں قائم ہوں لیکن انگلستان نے اپنے چھوڑنے کے آخری دن تک ایسی کوئی کارروائی نہ خود کی ، نہ یونائیٹڈ نیشنز کو کرنے دی اور ساڑھے گیارہ بجے ان کے جہاز سب کچھ پیک کر کے فلسطین سے رخصت ہونے کے لئے روانہ ہوئے اور مینڈیٹ کے عطا کردہ اختیارات کے نتیجے میں برٹش تسلط کی جو حدود تھیں وہ سمندر میں جہاں تھیں عین بارہ بجے وہاں پہنچ کر انہوں نے رخصت کا بگل بجایا اور اس ملک کو اس طرح چھوڑ کر چلے گئے.یہ بھی ایک بہت ہی ظالمانہ کارروائی تھی.جس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو پہنچا.بہر حال مفادات کی یہ دو جنگیں ہیں جو مفادات کے نام پر لڑی گئیں اور آج کی تیسری جنگ بھی مفادات کی جنگ ہے جس میں یہود بھی ایک کردار کے طور پر کھیل میں شامل ہیں اگر چہ یہود کو پس منظر میں رکھا گیا ہے اور امریکہ نے یہود کی نمائندگی لے لی ہے.دوسری قسم کی جنگیں مشرق وسطی میں یہود کی توسیع پسندی کی جنگیں کہلا سکتی ہیں.1948ء 1949ء میں جو تو سیع پسندی کی لڑائیاں ہوئیں اس میں سارا الزام فلسطینیوں پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 104 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء عائد کیا جاتا ہے اور ارد گرد کی مسلمان حکومتوں پر عائد کیا جاتا ہے کہ وہ حملے کرتی تھیں اس لئے یہود کو جوابی کارروائی کرنی پڑتی تھی اور مجبوراً اپنا علاقہ وسیع تر کرنا پڑا لیکن اس کے بعد 1956ء میں جو یہود نے جارحانہ جنگ لڑی ہے یا اسرائیل نے جارحانہ جنگ لڑی ہے اس کا کسی قسم کا کوئی جواز نہیں.وہ خالصہ توسیع پسندی کی جنگ تھی اور انتہائی ہولناک جنگ تھی چند دن کے اندراندر انہوں نے مصر اور شام اور اردن کی طاقتوں کو کچل کے رکھ دیا اور اپنے علاقے کو اتنا وسیع کرلیا کہ جو علاقہ ان کو مینڈیٹ نے عطا کیا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ بڑھ چکا تھا.خلاصہ میں آپ کے سامنے یہودی علاقے کی توسیع کا معاملہ رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس حد تک یہود نے اپنے علاقے میں توسیع کی ہے اور کرتے چلے جارہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے.1937ء کی غالبا بات ہے کہ انگریزوں نے 18ء کے بالفور ریزولیوشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعداد و شمار میں پہلی دفعہ یہ بات کی کہ یہود کی حکومت کو کتنا علاقہ دینا چاہئے.چنانچہ اس فیصلے کی رو سے پانچ ہزار کلومیٹر کا علاقہ یہود کو دیا جانا چاہئے تھا 1947ء کے آخر میں جو فیصلہ یونائیٹڈ نیشنز نے کیا اس میں 5000 کی بجائے ہیں ہزار کلومیٹر کا رقبہ ان کو دیا گیا تھا.کچھ رقبہ دوسال کے عرصہ میں بڑھ گیا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور 1956 ء کی جنگ کے آخر پر یہود کے قبضے میں اٹھاسی ہزار کلو میٹر کا رقبہ ہو چکا تھا.اس سے آپ اندازہ کریں کہ جو بات پانچ ہزار سے شروع ہوئی تھی کہاں تک پہنچی ہے.آخری جنگ جو اس علاقے میں موجودہ جنگ سے پہلے لڑی گئی و ہ یوم کیبور کی جنگ کہلاتی ہے.یوم کیبور کی جنگ کو یہ مسلمانوں کی طرف سے عرب ممالک کی طرف سے جارحانہ جنگ قرار دیتے ہیں.حالانکہ یہ بات درست نہیں.واقعہ یہ ہے کہ 1967ء کی جنگ شاید میں 57 کی کہہ چکا ہوں اگر کہا ہے تو غلط ہے سڑسٹھ (Sixty Seven) کی جنگ جو چھپن کی جنگ کے گیارہ سال بعد لڑی گئی تھی.یہ یہود کی جارحانہ جنگ تھی جس کے نتیجے میں یہ سارا علاقہ ان کے قبضے میں آیا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اٹھاسی ہزار کلو میٹر سے زیادہ رقبہ.اس کے بعد 1973ء میں يوم كیبور کی جنگ ہوئی یوم کیبور یہود کا ایک مقدس دن ہے.اس دن اچانک اسرائیل پر شام اور اردن کی طرف سے مشترکہ طور پر حملہ کیا گیا بیان کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ خالصہ عربوں کی جارحانہ جنگ تھی جس میں یہود بالکل بے قصور تھے یہ بات درست نہیں.وجہ یہ ہے کہ 1967ء کی جنگ کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 105 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء بعد یونائیٹڈ نیشنز نے اور یونائیٹڈ نیشنز کی سیکیورٹی کونسل نے ایک ریزولیوشن پاس کیا جس کا نمبر ہے 242 اس ریزولیوشن کے نتیجے میں انہوں نے اسرائیل کی جارحانہ جنگ کی مذمت کرتے ہوئے تہ طور پر حکم دیا کہ اسرائیل اپنی فوجوں کو ان تمام علاقوں سے پیچھے ہٹالے جو اس جنگ کے نتیجے میں اس کے ہاتھ میں آئے ہیں اور ساتھ ہی یہ شوشہ بھی اس ریزولیوشن میں چھوڑ دیا گیا جس طرح British اور Western Diplomacy کا طریق ہے کہ جب اس فیصلے پر عملدآمد کا وقت ہو تو کچھ اور بحثیں ساتھ چھڑ جائیں اس میں شوشہ بھی ساتھ رکھا گیا کہ اس علاقے کی سب حکومتوں کا حق ہے کہ ان کے امن کا تحفظ ہو اور ان کی ایسی شکل ہو جغرافیائی طور پر کہ گویا ان کے امن کو خطرہ نہ پیش آئے.مطلب یہ تھا کہ اس بہانے جب بھی اس فیصلے پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو یہ کہا جائے گا کہ یہود ی بقا کا تقاضا ہے یا اسرائیل کی بقا کا تقاضا ہے کہ علاقے میں اتنار دو بدل کرو اور ترمیم کرونگر اس کے کسی پہلو پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یونائیٹڈ نیشنز کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے تمام Alliese کو یہ حق حاصل ہے کہ عراق پر حملہ کر دیں تو جن کا اپنا علاقہ تھا ( یہ کویت تو ان کا اپنا علاقہ نہیں تھا جس کی خاطر یہ حملہ کیا گیا ہے ) جن قوموں کا اپنا علاقہ تھا وہ سالہا سال تک صبر کرتی رہیں ، یونائیٹڈ نیشنز کے فیصلے پر کسی نے عملدرآمد نہیں کروایا.ان کا حق تھا کہ اس علاقے کو لینے کی خاطر وہ فوجی کارروائی کریں.پس اس کو جارحانہ کارروائی کہنا جارحیت ہے بڑا ظلم ہے یہ ایک مظلوم، کمزور قوم کی ایک کوشش تھی کہ یونائیٹڈ نیشنز (United Nations) کے فیصلے پر اگر کوئی اور عملدرآمد نہیں کرواتا تو ہم خود کوشش کر دیکھیں.پس یہ ہے وہاں کی جنگوں کی تاریخ اور اس میں یہ سب قو میں اب تک جو رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے.موجودہ جنگ میں جو باتیں کھل کر سامنے آئی ہیں ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں مگر آپ کی یادداشت میں وہ تازہ ہوں گی.خلاصہ ان سب باتوں کا یہ نکلتا ہے.( مقاصد کے متعلق میں بعد میں بات کروں گا لیکن خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ) اسرائیل کو اس تمام پس منظر کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو میں یہ حق دیتی ہیں کہ وہ جب چاہے ، جس ملک کے خلاف چاہے جارحانہ کا رروائی کرے اور جارحانہ کاروائی کے نتیجے میں جو علاقے وہ ہتھیائے گا اس کے متعلق اگر یونائیٹڈ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 106 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء نیشنز یا سیکیورٹی کونسل فیصلہ بھی کر دیں گی کہ ان علاقوں سے دستبردار ہو جائے تو اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ دستبردار نہ ہو اور کسی دوسرے ملک کو یہ حق حاصل نہیں خواہ وہ مظلوم ملک ہو کہ یونائیٹڈ نیشنز کے اس فیصلے کی تعمیل میں اسرائیل سے وہ علاقہ چھینے کی کوشش کرے.یہ تحفظ حاصل ہے.اس دوران ایک بات کا میں نے ذکر نہیں کیا کہ 1947ء سے لے کر 49ء تک اسرائیل نے جدید دور میں متشددانہ کارروائیاں یعنی Terrorist کارروائیوں کا آغاز کیا اور Menachem Begin اس کے موجود ہیں اور ان Terrorist کارروائیوں کے نتیجے میں ایک برٹش ڈپٹی گورنر تھے غالبا وہ بھی قتل کئے گئے.کنگ ڈیورڈ ہوٹل کو بارود سے اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک سو سے زائد آدمی مرے اور بے شمار تباہی پھیلی.فلسطینیوں پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین ہزار فلسطینی مردعورتیں اور بچے ذبح کئے گئے اور بار بار انگریزی حکومت سے بھی تصادم کیا گیا وجہ یہ تھی کہ اس وقت لیبر Labour حکومت تھی اور لیبر حکومت کے مسٹر بیون (MR.Bavin) جو فارن سیکرٹری تھے وہ اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان مظلوم ہیں اور یہود زیادتی کر رہے ہیں چنانچہ انہوں نے ہر کوشش کی کہ یہود کا ناجائز داخلہ فلسطین میں بند کیا جائے.چنانچہ ایک جہاز جس میں چار ہزار سے زائد یہود مہاجرین خلاف قانون فلسطین میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے ،مسٹر بیون کے حکم پر انگریزی فوج نے اس کا تعاقب کیا ، اور اس جہاز کو پکڑا اور واپس جرمنی پہنچادیا.اس پر تمام جرنلسٹ دنیا نے اتنا شدید احتجاج کیا اور بیون کو گالیاں دیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.ایک حکومت کے سپر دامانت کی گئی ہے کہ اس علاقے کو مانتا اپنے پاس رکھو اور امانت کی شرائط میں یہ بات داخل کی گئی ہے کہ اس سے زیادہ باہر سے یہوداس میں داخل نہیں ہوں گے اور اس پر عمل کروانے کے نتیجے میں جو ردعمل دکھایا جاتا ہے برٹش جرنلزم کی طرف سے وہ حیرت انگیز ہے.ایک صاحب جنہوں نے کتاب لکھی ہے "Making of Israel" (میگنگ آف اسرائیل) ان کا نام James Cameron کچھ ہے وہ یہ لکھتے ہیں کہ اتنا بھیا نک ظلم! آپ سوچیں کہ ان چار ہزار یہودیوں کو جرمنی کی بد بخت اور ظالم زمین میں واپس کیا گیا ہے اور وہ بد بخت اور ظالم زمین میں 1947ء میں واپس کیا گیا ہے جنگ کے خاتمے کے تین سال بعد.اگر وہ ایسی ہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 107 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء ظالم اور بد بخت زمین اس وقت بھی تھی جب کہ نائسی Natsi شکست کھا چکے تھے اور جرمنی کا ملبہ بن چکا تھا جب ان پر انگریز اور امریکن اور فرانسیسی تسلط جما چکے تھے تو پھر اس کے بعد یہود کو وہاں رہنے کا کیا حق ہے.بہر حال اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے جرنلسٹ بھی ان کے ساتھ تھے اور جو ساری مغربی رائے عامہ تھی وہ یہود کا تحفظ کر رہی تھی تو Terrorism ٹیررازم کی ایجاد دراصل یہود سے ہوئی ہے.تو اس تاریخی پس منظر میں گویا کہ ایک حق یہود کا یہ بھی تسلیم کر لیا گیا کہ یہود کو اجازت ہے کہ وہ Terrorist کارروائیاں کریں اور اس کا نام ہم یہودی ٹیررازم نہیں رکھیں گے لیکن مسلمان حکومتوں کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کسی قسم کی Terrorist کارروائی کی اجازت نہیں.اگر کریں گے تو ہم صرف ان کو ہی نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کریں گے اور کہیں گے اسلامک ٹیررازم (Islamic Terrorism) ہے.اور جو حقوق ان کے تسلیم کئے ہوئے نظر آتے ہیں وہ میں آپ کو پوائنٹس کے طور پر بتاتا ہوں.سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو رد کرنے کا حق ہے یہود کو اور یونائیٹڈ نیشنز کے تمام فیصلوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے اور اس طرح رد کرنے کا حق ہے جس طرح ایک پرزے کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے.اور کسی ملک کا حق نہیں ہے کہ یہود کی مذمت کرے اس بارے میں.یہود کو حق حاصل ہے کہ اپنی بقاء کے نام پر دوسرے ملکوں کے جغرافیے تبدیل کرے اور یہود کو حق ہے کہ وہ ایٹم بم بنائے اور ایٹم بموں کا ذخیرہ جمع کرے اور Mass Destruction کے ہتھیار مثلاً کیمیکل وار فیئر کے اور بیالوجیکل وار فیئر کے کیمیاوی ہلاکتوں کے اور جراثیم کی ہلاکتوں کے ہتھیار تیار کرے اور کسی کو حق نہیں کہ اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنائے لیکن کسی مسلمان ملک کو یہ حق حاصل نہیں.یہ خلاصہ ہے اس تاریخی جد و جہد کا جس کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے.یہ بات قطعی ہے کہ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے آج تک نہ آئندہ کی جائے گی.یہود کے یہ حقوق قائم رکھے جائیں گے اور مسلمانوں کی ان معاملات میں حق تلفی ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی.اس کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ صدر بش کا نیو ورلڈ آرڈر New World Order کا خواب کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ جب تک اس خواب کو نہ سمجھیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 108 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء ہم ان کو صحیح مشورہ بھی نہیں دے سکتے.میں نے جہاں تک غور کیا ہے اس جارحانہ تاریخی پس منظر کے نتیجے میں بش کا امن کا خواب دراصل امن کا خواب نہیں بلکہ موت وارد کرنے کا خواب ہے بعض لوگ غلطی سے موت کو امن سمجھ لیتے ہیں.جس طرح میں نے وہ بیمارگھوڑے کی مثال کئی دفعہ بیان کی ہے.ایک گھوڑا بہت بیمار تھا جو بادشاہ کو بہت پیارا تھا بہت تڑپ رہا تھا.بادشاہ نے کہا کہ جو اس کی موت کی خبر مجھے پہنچائے گا اس کو میں قتل کروادوں گا.وہ خدا کی تقدیر چلنی تھی وہ بے چارہ مر گیا.ایک آدمی کو پکڑ کے بادشاہ کو خبر دینے کے لئے بھجوایا اس کو مجبور کیا کہ تم نہیں جاؤ گے تو ہم ماریں گے، بادشاہ کے ہاتھ سے مارا جانا زیادہ بہتر ہے.وہ سمجھدار آدمی تھا اس نے جا کر بادشاہ کو کہا کہ مبارک ہو آپ کا گھوڑا پوری طرح امن میں آ گیا ہے بادشاہ بہت خوش ہوا کہ اچھا بتاؤ کہ کس طرح امن میں آ گیا ہے اس نے کہا اس طرح کہ پہلے تو اس کی چھاتی کی گڑگڑاہٹ کی آواز میل میل تک سنائی دیتی تھی اب تو میں قریب بھی گیا ہوں تو کوئی آواز نہیں آرہی تھی.اس کی دل کی دھڑکن سے لگتا تھا دھرتی دھڑک رہی ہے زمین دھڑک رہی ہے اب میں نے کان لگا کے دیکھا بالکل آواز ہی کوئی نہیں تھی.بڑے امن اور سکون سے لیٹا ہوا ہے تو اس نے کہا کہ پھر یہ کیوں نہیں کہتے بد بخت! کہ مر گیا ہے.اس نے کہا حضور کہہ رہے ہیں میں تو نہیں کہہ سکتا.تو قصہ یہ ہے کہ جو امن کا خواب صدر بش مشرقی وسطی اور مسلمانوں کے ممالک کے لئے دیکھ رہے ہیں اس کی تعبیر موت ہے خواب خواہ امن کے نام پر ہو اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور جہاں تک میں نے سوچا ہے وہ خواب یہ ہے کہ تیل کے امیر ملک سعودی عرب اور شیخ ڈم ریاستوں وغیرہ کو آمادہ کیا جائے گا کہ وہ بھیک کے طور پر اپنی تیل کی آمد کا ایک حصہ ان عرب ممالک میں تقسیم کریں جو تیل کی دولت سے محروم ہیں یا بہت تھوڑا تیل رکھتے ہیں.اور اس کے نتیجے میں جس طرح امریکن ایڈز (American Aids) کے ذریعہ تیسری دنیا کے ملکوں کو غلام بنایا جاتا ہے عرب ملکوں کو بعض عرب ملکوں کا غلام بنادیا جائے.اور اس کے نتیجے میں جو سٹرنگز (Strings) ایڈز (Aids) کے ساتھ وابستہ ہوا کرتی ہیں اسی قسم کی سٹرنگز اس مالی امداد کے ساتھ بھی لگادی جائیں.امریکہ کی مالی امداد جسے American Aids کہا جاتا ہے ہمیشہ بعض سیاسی مصالح کی شرائط رکھتی ہیں جو امریکہ کے مفاد میں ہوتی ہیں اس ایڈ کے ساتھ بھی کچھ شرائط ہیں جو اسرائیل کے مفاد میں ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 109 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء گی اور مغرب کے عمومی مفاد میں.وہ شرائط یہ ہوں گی کہ یونائٹیڈ نیشنز میں جھگڑا نہیں لے کے جانا.بلکہ یونائیٹڈ نیشنز سے باہر امریکن سرپرستی میں یہود کے ساتھ معاملات طے کرو اور یہ ضمانت دو کہ آئندہ کبھی اس علاقے میں تم کسی قسم کی جنگ کی جرات نہیں کرو گے.اس بات کی ضمانت دو کہ جہاں یہود ایٹمی اسلحہ بناتا رہے گا اور Mass Destruction کے دوسرے ہتھیار تیار کرتا رہے گا تم میں سے کبھی کوئی ایٹمی اسلحہ بنانے اور Mass Destruction کے ہتھیار بنانے کے خواب بھی نہیں دیکھے گا.یہ دو بنیادی نقوش ہیں اس امن کی خواب کے جو صدر بش نے دیکھی ہے اور آپ کل دیکھیں گے کہ اسی طرح ہوگا.اس خواب کے بعض اور حصے بھی ہیں.وہ ہوسکتا ہے پورے ہوں یا نہ ہوں.ایک حصہ یہود کو بعض اقدامات پر مجبور کرنے سے تعلق رکھتا ہے.مراد یہ ہے کہ یہود کو یہ کہیں گے، یہود کہنا غلط ہے یہود میں سے بعض بہت شریف النفس آج ایسے یہود بھی ہیں جو اسرائیل کے شدید مخالف ہیں اور ان کی پالیسیوں کو رد کرتے ہیں اور ان کو دنیا کے لئے ہی نہیں بلکہ خود یہود کے لئے بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں.پس جب میں لفظ یہود کہتا ہوں تو ہرگز مراد نہیں کہ یہود قوم کو بحیثیت مجموعی مردود کر رہا ہوں، میری مراد اسرائیل سے ہی ہوتی ہے.بہر حال اسرائیل پر وہ یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے یعنی خیال ہے ان کا یہ گمان ہے ، خواب ہے کہ وہ کلیۂ گولان ہائیٹ کا علاقہ خالی کر دےاور Jordin کے مغربی کنارے کا علاقہ خالی کر دے اس کے نتیجے میں وہ وہاں صلح کروالیں گے.یہ بات قطعی ہے کہ گولان ہائیٹ کا پورا علاقہ اسرائیل کسی قیمت پر خالی نہیں کرے گا اور یہ بات قطعی ہے میرے نزدیک کہ Jordin کے مغربی کنارے پر جو یہود کا تسلط ہے وہ اس کو ختم نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود ان کے تمام Allies یعنی تمام عرب مسلمان Allies ان کی کارروائیوں سے راضی ہوں گے اور جس سمجھوتے کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں شامل ہو جائیں گے ہے وجہ یہ ہے کہ مغربی اردن پر یہود کے تسلط کا نقصان صرف فلسطینیوں کو اور شرق اردن کو اور فلسطینیوں اور شرق اردن کی خاطر امریکہ یہود کو ناراض کر لے یہ ہو ہی نہیں سکتا اور دوسرا اس لئے کہ وہاں باہر سے مزید یہود لا کر آباد کروانے کا منصوبہ ایک بڑا دیرینہ منصوبہ ہے جس پر بہت حد تک عملدرآمد ہو چکا ہے اور مستقل یہودی آبادیاں قائم کر لی گئی ہیں اس لئے بھی اگر امریکہ چاہے تو بھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 110 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اسرائیلی اس علاقے کو خالی کرنے پر آمادہ نہیں ہونگے.اور اب تک جو اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات ظاہر ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ صدر بش کی مجال نہیں ہے کہ اسرائیل کو ناراض کرنے کی جرات کریں.جب اسرائیل پر سکڈ ز کا حملہ ہوا تو صدر بش نے بار بار اسرائیل کے پریذیڈنٹ کو فون کئے اور منت سماجت کی اور اپنے چوٹی کے صاحب اختیار نمائندے وہاں بھجوائے اس بات پر اسرائیل کو آمادہ کرنے کے لئے کہ فوری طور پر اپنا انتقام نہ لو اس واقعہ سے ان کے تعلقات کی نوعیت سب دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے.چند سکڈز کے نتیجے میں دو بوڑھی عورتیں مری ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ دو تین سو سے زیادہ لوگ زخمی نہیں ہوئے اس کو نہایت ہی ہولناک، یک طرفہ جارحانہ کارروائی قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے اسرائیل نے عراق کے ایٹمی توانائی کے پلانٹ کو بغیر کسی نوٹس کے اپنے ہوائی جہازوں کے ذریعے بمبارڈ Bombard کر کے کلیۂ برباد کر دیا اوراس حملے کو کسی نے جارحانہ حملہ قرار نہیں دیا.گویا اسرائیل کو تو یہ حق ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ تم جارحانہ کارروائی کرو اور دوسروں کے ملکوں میں جا کے بمباری کرو، نہ یونائیٹڈ نیشنز کو اعتراض کا اختیار ہے نہ کسی اور ملک کو اور جس پر بمباری کی جاتی ہے اس کو جوابی کاروائی کا بھی اختیار نہیں.پس اگر اور کچھ نہیں تو سکڈ میزائل کے حملے کو عراق کی جوابی کارروائی قرار دیا جا سکتا ہے اور دیا جانا چاہئے کیونکہ یہ بات بھی اب تسلیم کر لی گئی ہے کہ جوابی کارروائی کا فوراً ہونا ضروری نہیں.چنانچہ اس مسئلے پر ذرا تھوڑا سا اور غور کریں تو اسرائیل اور امریکن تعلقات خوب کھل کر نظر کے سامنے آجاتے ہیں.صدر بش نے بار بار فون پر رابطے کئے منتیں کیں بڑے نرم لہجے میں درخواستیں کیں کہ کوئی فوری کارروائی اس کے رد عمل کے نتیجے میں نہ کرنا.بعد میں اپنے نمائندہ بھیجے جن کے ذریعے گفت و شنید ہوئی اور آخری نتیجہ یہ نکلا کہ اگر تم کوئی فوری کاروائی نہ کرو تو ہم تمہاری طرف سے زیادہ سے زیادہ انتقام لینے کی کوشش کریں گے اور جو سویلنز Civilians پر بمباریاں ہوئی ہیں اور لاکھوں معصوم شہید ہوئے ہیں اور جن کے گھر برباد کئے گئے ، یہ دراصل اسرائیل کی انتقامی کارروائی Allieds نے اپنے ذمے قبول کی تھی اور اسی پر عملدرآمد ہوا ہے.دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس کے علاوہ ہم تمہیں نوبلین ڈالر بطور اقتصادی مدد کے دیں گے آپ اندازہ کریں نوبلین ڈالر کی رقم تو ایک دولت کا پہاڑ ہے اور کس چیز کے بدلے اس چیز کے بدلے کہ وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 111 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء انتقامی کارروائی سے باز آجائے؟ نہیں.بار بار اس کو یقین دلایا گیا ہے کہ یہ صرف وقتی طور پر انتقامی کارروائی ٹالنے کی خاطر کیا جا رہا ہے.اس کے بعد تمہیں حق حاصل ہے کہ جب چاہو، جس طرح چا ہو، جس زمانے میں چاہو تم اس جارحیت کا بدلہ لو.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ اسرائیل کا یہ حق تسلیم کیا جاچکا ہے کہ وہ جارحانہ کارروائیاں کرے اور کوئی ملک اس کے خلاف مدافعانہ کارروائی بھی نہ کرے اور اگر وہ مدافعانہ کارروائی کرے گا تو اس کے ساری دنیا کی طاقتیں جارحانہ کارروائی بھی کریں گی اور اسرائیل کا جارحانہ کارروائی کا حق باقی رہے گا اور وہ کب اور کس طرح پورا ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنے والی بات ہے.تو یہ ہے نیوورلڈ آرڈر (New World Order) جس کا خواب صدر بش نے دیکھا ہے اور جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ اس سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے امن کی ضمانت ہو جائے گی.اس خواب کے کچھ اور حصے بھی ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اسرائیل تو کسی قیمت پر بھی مغربی علاقہ خالی نہیں کرے گا لیکن مجھے یہ خطرہ ہے کہ مشرقی علاقے پر قبضہ کرنے کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے.مجبوری کے تحت شاہ حسین ہیں جو نیوٹرل رہے اور انہوں نے صرف یہ قصور کیا ہے کہ دو تین دن پہلے اپنی پریس کانفرنس میں یا تقریر میں اس بات پر سخت اظہار افسوس کیا ہے کہ اتحادیوں نے معصوم عراقی شہریوں کو تباہ و برباد کیا اور بڑا بھاری ظلم کیا.ان کا یہ تبصرہ خود مغربی اتحادیوں کے اعلانات کے نتیجے میں ہے جو انہوں نے فوجی حالات کے متعلق خود خبر نامے جاری کئے ہیں ان سے یہ تصویر قائم ہوتی ہے یعنی اگر ہر ایک منٹ پر ایک جہاز بمباری کرنے کیلئے اٹھ رہا ہو اور یہ تسلیم کرتے ہوں کہ عراق میں اتنی بمباری کی جاچکی ہے جو آج تک دنیا کی تاریخ میں کسی جنگ میں اس طرح نہیں کی گئی اور ویت نام اس کے مقابل پر کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا.اس کے بعد یہ کسی ملک کا نتیجہ نکالنا کہ لاکھوں Civilions یعنی شہری اس سے متاثر ہوئے ہونگے یہ صدر بش کے نزدیک امریکہ کی بھی ہتک ہے اور اسرائیل کی بھی گستاخی ہے اور وہ ان کو متنبہ کرتے ہیں شاہ حسین کو کہ خبر دار منہ سنبھال کر بات کر وہ تمہیں پتا نہیں کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں کس نے حق دیا ہے اس قسم کی تنقید کرنے کا ؟ خواب کے مندز پہلو بھی تو ہوتے ہیں.کچھ تو انہوں نے امن کے خواب کی تعبیر موت دیکھی ہوئی ہے.کچھ خواب کے اندازی پہلو بھی ہیں اور انذاری پہلو میں میرے نزدیک یہ بات داخل ہے کہ شرق اردن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 112 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء کے اوپر حملے کا بہانہ بنایا جائے گا اور یہودی حکومت کو دریا کے اس کنارے پر ہی نہیں دوسرے کنارے کی طرف بھی ممتد کر دیا جائے گا.یہ جو میرا اندازہ ہے اس کے پیچھے بہت سے تاریخی رجحانات ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں شروع دن سے آج تک یہودی مسلسل وسعت پذیر ہیں یعنی توسیع پسندی کی پالیسی محض تعداد بڑھانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ رقبہ بڑھانے کے لحاظ سے بھی ہے اور جو آغاز میں یہود نے اسرائیل کا خواب دیکھا تھا وہ خواب یہ تھا کہ تمام دنیا کے مظلوم علاقوں سے یہود کو اکٹھا کر کے یہود کی ایک آزاد مملکت میں جمع کر دیا جائے.اس وقت آبادی کی نسبت یہ ہے کہ یعنی تفصیل تو میں نہیں بتاؤں گا دو تین ملکوں کی آبادی بتا تا ہوں.اسرائیل میں اس وقت یہودی چھپیس لاکھ ہیں اس کے علاوہ امریکہ میں پچاس لاکھ یہودی ہے اور روس میں چھپیں لاکھ بیان کئے جاتے ہیں اس وقت روسی یہودیوں کو بلا کر اسرائیل میں آباد کرنے کا پروگرام شروع ہے جس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے تک پچیس لاکھ مزید یہودی یعنی موجودہ تعداد سے دگنے اس ملک میں آباد کئے جائیں گے.اس کے لئے زمین بھی پھر اور چاہئے.یہ ظاہری اور طبعی بات ہے تو جتنی زمین اس وقت ان کے پاس ہے اس سے کافی تعداد میں زیادہ زمین ہوتب جا کر یہ خواب پورا ہوسکتا ہے.پھر امریکہ کے یہودیوں کے انتقال کا پروگرام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے اور یورپ کے دوسرے یہودیوں کے انتقال کا پروگرام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے.اس ضمن میں بعض باتیں میں آئندہ خطبے میں آپ کے سامنے رکھوں گا گر مختصر یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے قیام کے مقاصد کی اولین وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ مغربی ملکوں میں یہود محفوظ نہیں ہیں اور انہوں نے ہمیشہ یہود کو یک طرفہ ظلم کا نشانہ بنائے رکھا ہے.اگر یہی مقصد تھا اسرائیل کے قیام کا تو جتنے مغربی ممالک میں یہود ہیں جن تک ان کے لئے فلسطین کے گرد و پیش جگہ نہ بنائی جائے اس وقت تک یہ خواب پورا نہیں ہوتا.اور موجودہ رجحان یہی بتا رہا ہے کہ اس طرح یہ آگے بڑھ رہے ہیں.تو صدر بش کے خواب میں غالباً انذاری پہلو یہ بھی داخل ہے کہ شرق اردن کے دوسرے حصے پر بھی قبضہ کر لیا جائے اور بعد میں یہ خواب کس طرح آگے بڑھے گا اور دنیا کو کس حد تک اپنی لپیٹ میں لے گا وہ لمبی باتیں ہیں مختصر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد باریوں کی بات ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 113 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء جب تک مسلمان طاقتیں ایک کے بعد دوسری تباہ و برباد نہ ہو جائیں اس وقت تک صدر بش کے امن کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکتا.پس اس کے بعد کس کی باری ہے یہ نہیں میں کہہ سکتا.پاکستان کی ہے یا شام کی ہے.پاکستان بھی نیوکلیئر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے.بن چکا ہے یا نہیں.یہ ایک متنازعہ فیہ مسئلہ ہے لیکن پاکستان کو تباہ کروانے کے لئے کئی ذرائع موجود ہیں.کشمیر کا مسئلہ ہے سکھوں کا مسئلہ ہے.ہندوستان کو انگیخت کیا جاسکتا ہے.چھٹی دی جاسکتی ہے دفاعی امداد اور اقتصادی امداد روک کر اس طرح بے کار اور نہتہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی طاقت کے جواب کی پاکستان میں طاقت نہ رہے.کئی قسم کے منصوبے ہو سکتے ہیں لیکن خطرہ ضرور ہے شام کولا زما خطرہ ہے کیونکہ شام ایک بہت بڑی طاقت بنا ہوا ہے.اور شام کی بڑی سخت بے وقوفی اور غلطی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس وقت اتحادیوں کے ساتھ شامل ہونے کے نتیجے میں آئندہ شام محفوظ ہو چکا ہے جب تک اسرائیل موجود ہے شام محفوظ نہیں ہے.اور پھر ایران کو خطرہ ہے اور پھر ترکی Turky کو خطرہ ہے اور ایران اور Turky کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ خواب اس طرح پورا کیا جائے گا کہ ترکی اور ایران کے درمیان آپس میں مخاصمت جو پہلے بھی ہے بڑھائی جائے گی اور اس کے نتیجہ میں کسی وقت آئندہ ان دونوں مسلمان ملکوں کے درمیان اسی طرح لڑائی کروائی جائے گی جس طرح خود امریکنوں نے اور اتحادیوں کی مخفی تائید کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ عراق کو انگیخت کیا گیا تھا کہ وہ ایران پر حملہ کرے اور امریکہ کے اتحادی عرب ممالک نے اس کی ہر طرح مدد کی اور امریکہ کے اتحادی مغربی ممالک نے عراق کو مسلح کرنے میں اور اس کے Mass Destruction کے ہتھیار بنانے کے سلسلہ میں پوری مدد کی.تو خواب کا جو پس منظر ہے وہ یہ ہے کہ خواب جس سمت میں آگے بڑھے گی اور پھیلے گی وہ سمت بھی اس پس منظر کے نتیجے میں ہمیں دکھائی دینے لگی ہے اور خواب آخر پر اس طرح پوری ہوگی کہ پہلے جس طرح ایک مسلمان طاقت کو دوسری مسلمان طاقت کو برباد کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور طاقتور بنایا گیا پھر اس بنائی ہوئی طاقت کو برباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور دوسرے مسلمان ممالک کو اس میں شامل کیا گیا.اس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ اسی طرح جو بچی کچھی مسلمان حکومتیں ہیں ان کو یکے بعد دیگرے برباد کیا جائے گا.یہ وہ موت کا خواب ہے جو صدر بش نے دیکھا ہے اور جسے وہ Peace کا خواب کہتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 114 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء عراقیوں اور دیگر فلسطینیوں وغیرہ مسلمان مظلوموں یعنی عرب مسلمانوں کے خون سے جس طرح یہ ہاتھ رنگے جاچکے ہیں اس پر مجھے میک بیتھ (Mecbetth) کی چند لائنیں یاد آگئیں.لیڈی میکبتھ (Lady Mecbetth) جس نے اپنے خاوند کو بادشاہ کو قتل کرنے پر آمادہ کیا تھا اور اس کے خاوند میک بیتھ نے بادشاہ کو جو غالبا سکاٹ لینڈ کا تھا بہر حال اس وقت کے بادشاہ کو قتل کیا اور سوتے کی حالت میں قتل کیا.اس کے بعد لیڈی میک بیتھ کو نفسیاتی ردعمل ہوا اور وہ بجھتی تھی کہ اصل قاتل میں ہوں تو نفسیاتی بیماری کے نتیجے میں وہ ہر وقت ہاتھ دھوتی رہتی تھی کہ میرے ہاتھ سے خون کی بو آ رہی ہے اس بو کے سلسلے میں وہ کہتی ہے :."Here is the smell of the blood still" میں اتنی دفعہ ہاتھ دھو چکی ہوں اور خون کی بو جاتی ہی نہیں ہے.ابھی بھی آرہی ہے."All the perfumes of the arabia will not sweeten this little hand" عرب کی تمام خوشبوئیں مل کر بھی میرے اس چھوٹے سے ہاتھ کی بوکو مٹھاس میں تبدیل نہیں کر سکیں گی.یہ کڑوی خون کی بو آتی ہی رہے گی.صدر بش کا معاملہ اس سے کچھ بر عکس ہے مسلمان عرب خون سے جو ان کے ہاتھ رنگے گئے ہیں میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کی کڑوی بو کبھی امریکہ اور اس کے ساتھیوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور تمام دنیا کی پر فیومز (Perfumes) بھی عرب خون کی اس بو کو مٹا نہیں سکیں گی اور اس کی کڑوی بوکو مٹھاس میں تبدیل نہیں کر سکیں گی.جہاں تک ان کی پیس کی خواب کا تعلق ہے وہ بھی میں میک بیتھ ہی سے میک بیتھ کی ایک سولیلو کی Soliloquy یعنی وہ اونچی زبان میں اپنے دل کی حالت بیان کر رہا ہے اس کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں جو ان کی صورتحال پر صادق آتی ہے یہ Soliloquy.وہ سونے کی کوشش کرتا ہے اور نیند اڑ گئی ہے اس کے ضمیر پر ایک سوئے ہوئے بادشاہ کے قتل کا بوجھ اتنا زیادہ ہے اور اس کا ضمیر اس قدر بے چین ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا چنانچہ اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:."Me thought i heard a voice cry sleep no more Mecbetth
خطبات طاہر جلد ۱۰ 115 خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۹۱ء Does murther sleep" سکائش زبان میں Murder کو Murther لکھا جاتا تھا تو یہاں لفظ MURTHER ہے یعنی MURDER.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے Me Thought میں سمجھتا ہوں.میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے لگتا ہے.مجھے گمان گزرتا ہے.I heard a voice Cry sleep no more کہ میں نے ایک شیخ سنی ہے جو یہ کہہ رہی تھی کہ اب کبھی نہیں سونا ، اب کبھی نہیں سونا.Mecbetth does murther sleep دیکھو میک بیتھ نے نیند کو قتل کر دیا ہے چونکہ بادشاہ سویا ہوا تھا اس لئے اس حالت میں اس کو مارنا اس کے نفسیاتی دباؤ کے تابع اس سے بہتر رنگ میں ظاہر نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ سوچ رہا ہے کہ میں نے نیند کو مار دیا ہے.جب نیند کو مار دیا ہے تو پھر مجھے نیند کہاں سے آئے گی.تو ایک لفظ کی تبدیلی سے امریکہ اور صدر بش کے خواب پر ان سطور کا اطلاق ہو سکتا ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ."Me thought i heard a voice cry peace no more U.S "Does murther peace مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ایک چلانے والے کی آواز یہ سنائی دے رہی ہے کہ اب اس خطے میں یا دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا اگر یہ خواب پوری ہوگئی اس شرط کے ساتھ میں کہ رہا ہوں تو میں یہ آواز سن رہا ہوں کہ اس خطے میں اب کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا یونائیٹڈ سٹیٹس نے امن کو ہمیشہ کیلئے قتل کر دیا ہے.اس کے نتیجے میں کیا ہوسکتا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ان قوموں کو کیا مشورے دیئے جاسکتے ہیں کہ یہ ہلاکت کے قدم جو آگے بڑھا چکے ہیں ان کو کس طرح واپس کر لیں اس سلسلے میں انشاء اللہ میں آئندہ خطبے میں آپ سے مخاطب ہوں گا.میں چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد اس مضمون کو ختم کروں اور واپس اپنے اصلی اور حقیقی اور دائمی مضمون کی طرف آجاؤں یعنی احمدیوں کو عبادتیں کس طرح کرنی چاہئیں اور عبادتوں میں کس طرح لذت پیدا کرنی چاہئے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 117 خطبه جمعه ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے" حضرت مسیح موعود کے الہام کی عظمت دجال کے دجل اور عراق پر ہونے والے مظالم کا ذکر (خطبه جمعه فرموده ۱۵ / فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پیشتر اس سے کہ خطبے کا اصل مضمون شروع کروں ایک دوا مور کی میں اصلاح کرنی چاہتا ہوں.بعض دفعہ بہت دیر سے پڑھی ہوئی کتب کا مضمون تو ذہن میں یاد رہتا ہے لیکن اس کے سن اشاعت وغیرہ اور اس قسم کے ناموں کی تفاصیل میں بعض دفعہ غلطیاں لگ جاتی ہیں تو خطبے کے بعد بعض دفعہ باہر سے کچھ احمدی دوست تصحیح کروادیتے ہیں اور بعض دفعہ مجھے خود خطبے کے بعد یاد آنا شروع ہو جاتا ہے کہ غالبا یہ بات نہیں تھی، بی تھی.اس پہلو سے دو باتوں میں تصحیح کرنی ضروری ہے.ایک تو بہت ہی اہم ہے کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے سال سے تعلق رکھتی ہے.ہوا کہ: میں نے یہ بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۱۹۰۵ء میں یہ الہام فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے“
خطبات طاہر جلد ۱۰ 118 خطبہ جمعہ ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء لیکن یہ 1901ء کا الہام ہے.میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ انگریزی میں پہلی مرتبہ 1905ء میں Protocols of BF the elders of zion کتاب شائع ہوئی جس میں فری میسن کے تسلط کا ایک منصوبہ ہے یا فری میسن یہود کے تسلط کے اس منصوبے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں تو وہ 1905ء میں رشین زبان میں باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع ہوئی تھی.ابھی انگریزی میں شائع نہیں ہوئی تھی.تو اس سے اور بھی زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کو عظمت ملتی ہے اور عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں.کہ ابھی یہ کتاب روسی زبان میں آئی تھی اور اور روس سے باہر کی دنیا کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ یہ منصوبہ کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس سے چار سال پہلے 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہا ماً بتا دیا کہ دنیا میں یہود کے تسلط کا کوئی منصوبہ ہے جس میں فری میسن نے اہم کردار ادا کرنا ہے اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم پر اور تمہاری جماعت پر فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے.ایک اور غلطی اس میں تھی جو مجھے کسی نے توجہ تو نہیں دلائی نہ وقت ملا ہے کہ پورا وقت تحقیق کر سکوں لیکن مجھے یہ غالب گمان خطبے کے بعد گذرا کہ وہ غلط کہہ گیا ہوں.ایک بیان میں نے ڈزرائیلی کی طرف منسوب کیا تھا، خطبے کے بعد مجھے خیال آیا کہ وہ تو انیسویں صدی کے غالباً تیسرے حصے میں پہلے یہودی وزیر اعظم ہیں جو انگلستان میں وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے تھے.تو ان کا وہ بیان ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ بیان دینے والا بیسویں صدی کے کسی حصے میں بیان دے رہا ہوگا.کیونکہ بیان دینے والا یہ کہتا ہے کہ یہود کہتے ہیں اس کتاب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن کتاب میں جو منصوبہ بیان ہوا ہے وہ منصوبہ اسی طرح کھلتا چلا جا رہا ہے جیسا کہ کتاب میں بیان کیا گیا ہے تو اس لئے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب منصوبہ بنانے والوں کی نہ ہو اور چونکہ وہ منصوبہ یہود کی مرضی کے مطابق بن رہا ہے اس لئے لازما وہی ہوگا تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ اگر وہ نہیں تھے تو غالبا ھیزی فورد Henry Ford تھے Henry Ford امریکہ کے پریذیڈنٹ بھی رہے ہیں اور فورڈ کمپنی کے وہ بانی مبانی ہیں اور ان کی ساری دولت رفاہ عامہ کے کاموں وغیرہ پر خرچ ہوئی اور ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یہودی دجل اور یہودی سازشوں کو بے نقاب کرنے پر گزرا اور غالبا ایک فاؤنڈیشن بھی انہوں نے اس غرض سے قائم کی تھی بہر حال یہ ایک ضمنی بات ہے اصل تبصرہ وہی تھا جو میں نے بیان کیا ہے اور آج اس کے بھی بہت مدت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 119 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء کے بعد یعنی وہ بیان غالبا 1900ء کے پہلے دو دہا کوں میں دیا گیا تھا.1920ء کے قریب اس کے بعد آج قریبا ستر سال گزر چکے ہیں اور وہ منصوبہ بالکل اسی طرح جیسا کہ بیان کیا گیا تھا یا تحریر میں موجود ہے کھلتا چلا جا رہا ہے.اب جنگ کا جہاں تک تعلق ہے میں یہ بیان کر رہا تھا کہ اس جنگ کے پس منظر میں کیا کیا باتیں ہیں ، کیوں ہو رہی ہیں اور جب تک ہم اس کو تفصیل سے نہیں سمجھیں گے اس وقت تک فی الحقیقت نئی دنیا کا نقشہ بنانے کا اہل نہیں بن سکتے.ابھی تازہ صورت یہ ہے کہ امن کے قیام کی کوششیں یک دم تیز کر دی گئی ہیں اور ان سے امریکہ کے دو مفادات وابستہ ہیں جس طرح فضائی حملے کی مہم سے پہلے انہوں نے دنیا پر اثر یہ ڈالا کہ ہم بڑی معقول تجویز صدام حسین کے سامنے بار بار پیش کرتے ہیں امن کے خواہاں ہیں ، جنگ کے خواہاں نہیں لیکن دیکھو یہ رد کرتا چلا جارہا ہے.اسی طرح دوسرے مرحلے میں جنگ داخل ہونے والی ہے جو بعض لحاظ سے اتحادیوں کے لئے بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اگر چہ جس طرح کہ ان کو غیر معمولی مادی غلبہ حاصل ہے یہ عراق کا زیادہ نقصان کر سکتے ہیں مگر ان کا جانی نقصان بہت زیادہ ہوگا پس اس مرحلے پر انہوں نے بعینہ اسی مہم کا دوبارہ آغا ز کیا جس سے دو فوائد حاصل کرنے تھے.اول یہ ہے کہ اگر اس مرحلے پر صدام حسین اپنے نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے خوف کھا جائیں اور عراق کی رائے عامہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور وہ کہیں کہ کافی ہلاکت ہوگئی ہے بس کرو.اب مان جاؤ.اتنی سی بات ہے کہ کو یت خالی کرنا ہے تو اس سے جو عراق کی طاقت کو پارہ پارہ کرنے والا مقصد تھا وہ بھی حل ہو چکا اور کویت بھی خالی کروالیا گیا اور وہ امریکن جانیں بھی بچالی گئیں جن کا سب سے زیادہ ان کو خطرہ ہے اور اس مرحلے پر بار بار بغداد کی طرف پیغامبر بھجوائے گئے خواہ وہ پاکستان کے پیغامبر تھے اور بغداد کی طرف پیغام دینے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف پیغامبر بھجوائے گئے جن کا مقصد یہ تھا کہ مسئلے کو صرف اس شکل میں پیش کریں کہ کو بیت خالی کرنے کی بات ہے ساری جنگ ختم ہو جائے گی اور سارا جھگڑا طے ہو جائے گا اس لئے اتنی سی بات کے او پر ضد نہ کرو کافی نقصان اٹھا بیٹھے ہو.لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ خطبے میں بیان کیا تھا یہ بالکل ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 120 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء جھوٹ اور دجل ہے.صدام حسین نے کبھی بھی کو یت خالی کرنے سے انکار نہیں کیا.صدام حسین ہمیشہ یہ موقف لیتے رہے ہیں کہ کویت پر میرا حملہ جارحانہ ہے لیکن اسی قسم کے جارحانہ حملے پہلے اسرائیل کی طرف سے مسلمان ممالک پر ہو چکے ہیں اور ان کا قبضہ موجود ہے اسی طرح باوجود اس کے کہ یونائیٹڈ نیشنز اور سیکیورٹی کونسل نے بار بار ریزولیوشنز کے ذریعے اسرائیل کا قبضہ ناجائز قرار دیا ہے تو اگر تم واقعی صلح چاہتے ہو تو اس بات پر گفت و شنید ہونی چاہئے صرف کویت کا مسئلہ نہیں ہے.دونوں کو اکٹھا دیکھوتا کہ کویت بھی خالی ہو اور دوسرے مقبوضہ علاقے بھی خالی ہوں اور یہ مسئلہ جو بڑی دیر سے ایک ظلم کا موجب بنا ہوا ہے یہ ایک طرف سے حل ہو.اس کو امریکہ اس شدت سے رد کر تا رہا ہے کہ جتنے بھی پیغامبر عراق کی طرف جاتے رہے یا دوسرے ممالک کی طرف تاکہ وہ عراق پر زور ڈالیں.ان کو ختی سے یہ ہدایت رہی ہے یہاں تک کہ یونائیٹڈ نیشنرز کے سیکرٹری جنرل کو ئیار کو بھی یہی ہدایت تھی کہ تم نے گفت و شنید نہیں کرنی اس مسئلے پر.ان دونوں مسائل کو یعنی فلسطین کے مسئلے کو اور کویت کے مسئلے کو اکٹھا ایک میز پر زیر بحث ہی نہیں لانا کیونکہ اگر وہ زیر بحث لے آئیں تو اس سے امریکہ کا دجل کھل جاتا ہے اور وہ عرب مسلمان ممالک جو اس وقت امریکہ کے ساتھ ہیں ان کے لئے بڑی سخت نفسیاتی مشکل پیدا ہو جاتی ہے.امریکہ انکار کر رہا ہے کہ نہیں وہ خالی نہیں کرے گا اور تم خالی کرو یہ ایک ایسی کھلی کھلی دھاندلی اور زیادتی ہے کہ مسلمان حکومتوں کے لئے بڑی مشکل بن جاتی ہے کہ پھر وہ اپنے ساتھ کو قائم رکھیں.یہ الگ بات ہے کہ جس وجہ سے وہ ساتھ ہے وہ وجہ ابھی رہے گی لیکن اس کے بعد میں بات کروں گا.آج جو تازہ خبر آئی ہے صدر صدام حسین نے جس طرح پہلے عقل اور حکمت عملی میں بار بار ان کو مات دی ہے ایک اور مات دیدی ہے ، اور وہ اس طرح کہ سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کروانے میں اس نے روس سے مدد مانگی اور دوسرے بعض ملکوں سے.چنانچہ یہ وہ مان گئے چنانچہ جو مسئلہ وہ میز پر لانا نہیں چاہتے تھے اب وہ سیکیورٹی کونسل کی میز پر آ گیا ہے اور صدام حسین نے کہا ہے کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم کو یت خالی کرنے کے لئے تیار ہیں سیکیورٹی کونسل ان سب مسائل کو اکٹھا دیکھے اور پہلے یہ سمجھائے ہمیں کہ ریزولیوشن 242 پر کیوں عمل نہیں ہو رہا جو سیکیورٹی کونسل کا ریزولیوشن ہے جس میں کلیۂ سارا الزام سارا اتہام یہود پر ہے اور یہ جرم ثابت کیا گیا ہے کہ انہوں نے جارحانہ جنگ کی تھی اور از راہ ستم وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 121 خطبہ جمعہ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء علاقے ہتھیائے ہیں، تو اس مرحلے پر اس وقت جنگ داخل ہوئی ہے.جہاں تک ذمہ داریوں کی تعیین کا تعلق ہے ہم کسی ایک پارٹی کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے.یہ مضمون چونکہ کافی لمبا ہے مجھے ابھی اور وقت لگے گا اس کو سمجھانے میں.لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ جنگ تو اللہ بہتر جانتا ہے کب کس حالت میں ختم ہو لیکن جنگ کے ساتھ مسائل ختم نہیں ہوں گے، مسائل بڑھیں گے اور اس جنگ کے نتیجے میں پہلی بات جو ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ( الزلزال :۲) کا مضمون دکھائی دے رہا ہے کہ وہ صرف مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے مسائل زمین نے اگل دیئے ہیں بلکہ ساری دنیا میں جو ملتے جلتے مسائل ہیں وہ ظاہر ہور ہے ہیں اور دنیا کی نظر کے سامنے آرہے ہیں.نئی دنیا کا نقشہ کیا ہوگا.اس میں بڑی چھوٹی قوموں کے تعلقات کیا ہوں گے.یونائیٹڈ نیشنز کو کیا کر دار ادا کرنا ہوگا.وہ یہ کردار ادا کر بھی سکتی ہے کہ نہیں؟ یہ سارے مسائل ، اور بھی اس سے متعلق مسائل دنیا کے سامنے آرہے ہیں ، تیل کی دولت پر کس کو تسلط ہے.کس طرح اس کا استعمال ہونا چاہئے تو چاہے جنگ ہو یا نہ ہو، ختم ہو یا جاری رہے میرا مضمون بہر حال جاری رہے گا کیونکہ اس کا تعلق لمبے عالمی مسائل سے ہے.جہاں تک جنگ کی ذمہ داری کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں صدام حسین صاحب پر لا ز ما یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ انہوں نے کویت پر حملہ کیا اور اس حملے میں بہت جلدی کی اور اس کے نتیجے میں اپنی ساکھ کو بھی اور عراق کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا اور سب سے بڑا نقصان یہ کہ دشمن کے جال میں پھنسے کیونکہ اب جبکہ اس مسئلے پر بخشیں اٹھ رہی ہیں کہ کون ذمہ دار ہے؟ تو امریکہ کے، دانشور، اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے صاحب علم لوگوں نے یہ کھل کے اعتراف کیا ہے کہ سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے.پس امریکہ نے جو شرارت کی یہ اس شرارت میں پھنس گئے یہ ایک بہت بڑا جرم ہے، اس لحاظ سے یہ بھی ذمہ دار ہیں.امریکہ کے کردار کا جہاں تک تعلق ہے اس میں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جیمز ایکینز James Akins عراق میں امریکہ کے سابق سفیر کا بیان ہے.An anonymous defence consultant, using the pseudonym of Mils Ignotus ("unkhown, soldier") wrote an article in
خطبه جمعه ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء 122 خطبات طاہر جلد ۱۰ Harper's to this effect.Ignotus even developed a plan to send U.S forces to Saudi Arabia in numbers close to those of early August, less than one week after the invasion of Kuwait.James Akins, former U.S ambassador to Iraq, has gone further.He believes the U.S :suckered" Saddam Hussain into the invasion by instructing the present U.S Ambassador, April Glasple, to Give him the go-agead.A week before the invasion, Glaspie assured Saddam that the U.S would have "no position" on such an act and treat it purely as an Arab to Arab affair.وہ لکھتے ہیں کہ : ”جو موجودہ امریکی سفیر ایک خاتون ہیں اپریل گلاسی (April Glaspie) نام ہے ان کا ”مجھے کامل یقین ہے کہ امریکہ نے گلاسی کے ذریعہ صدام حسین کو کویت پر حملے کرنے کے لئے انگیخت کیا اور یقین دلایا کہ یہ تمہارا اندرونی معاملہ ہوگا ہم اس میں دخل نہیں دیں گے.جنرل مائیکل ڈوگن کا بیان ہے (Gen.Michael Gugan) یہ جنرل مائیکل ڈوگن ان کے چیف آف ایریسٹاف تھے جن کو فارغ کر دیا گیا ہے اور کس جرم میں فارغ کر دیا گیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے بعض جرنلسٹوں سے سوال وجواب کے دوران ان کو بتایا کہ امریکہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ صدام حسین اور ان کے ساتھی ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں سب کے سر قلم کئے جائیں اور ان پر حملہ کر کے اس قصے کو اس قضیے کو نمٹایا جائے اور ایئر فورس اس مقصد کے لئے تیار ہے اور ساتھ ی بھی بیان دیدیا کہ یہ تجویز اسرائیل کی طرف سے آئی تھی، چنانچہ اخبار لکھتا ہے.Defence Secretary Richard B.Cheney dismissed Air Force Chief of Staff Gen.Michael J.Dugan last week for showing "lack of judgement" in discussing contingency
خطبات طاہر جلد ۱۰ 123 خطبه جمعه ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء plans for war against Iraq, including targeting Saddam Hussein and his family and the decapitation of the Iraqi leadership.(Aviation Week & Space Technology / September 24, 1990) But Dugan's biggest sin, in Cheney's eyes, was references to Israel's contribution to the U.S military effort.Dugan said that Isreal had supplied the U.S with its latest high-tech, superaccurate missiles, and that based on Jerusalem's advice that Saddam is a "one-man show, "the U.S had devised a plan to decapitate the Iraqi leadership beginning with Saddam, his family, his personal guard and his mistress.Such targeting, Cheney was quick to point out, not only is political dynamite but also " is potentially a violation" of a 1981 Executive order signed by President Ronald Reagan flatly banning any U.S involment in assassination.( The Time October 1, 1990) اب اتنے بڑے عہدیدار جو چیف آف ائیر سٹاف ہیں ان کا یہ بیان ایک معنے رکھتا ہے کسی غیر متعلق مبصر کا بیان نہیں ہے کہ دراصل صدر صدام حسین پر قاتلانہ حملہ کروانے کا منصوبہ تھا اور ان کے خاندان پر اور دوسرے بڑے لوگوں پر اور اس ذریعے سے وہ مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے.اس کے متعلق امریکہ نے بہت سخت ردعمل دکھایا لیکن کوئی جواز ان کے پاس نہیں ہے اس بیان کے خلاف.واقعہ یہ ہے کہ اس سے پہلے صدر قذافی پر ایسا ہی حملہ کروا چکے تھے اور سب دنیا جانتی ہے.امریکی قانون صدر کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی غیر ملک میں قتل کروائے اگر چہ قتل کرواتے رہتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے کورٹ آپریشنز (Covrt Oprations) رکھا ہوا ہے یعنی مخفی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 124 خطبه جمعه ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء کارروائیاں مگر جب مخفی کا رروائی ظاہر ہو جائے تو یہ ایک بہت بڑا جرم بن جاتا ہے اس لئے یہاں یہ جرم بن چکا ہے اور امریکہ لازماً اس میں سب سے بڑا ذ مہ دار ہے.تیسری بات اقوام متحدہ کے نام پر یہ کارروائی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ملک خریدے گئے ہیں.بہت سے ملکوں پر سیاسی دباؤ ڈالا گیا ہے.بہت سے ممالک کو آئندہ کی لالچیں دی گئی ہیں اور ہے یہ سارا امریکن کھیل.اس بارہ میں صدر صدام ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ اس کا نام یونائیٹڈ نیشنز رکھنا تمسخر ہے یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ.عملاً اقوام متحدہ نہیں ہے بلکہ امریکہ ہے.لیکن حال ہی میں جو واقعہ ہوا ہے وہ یہ کہ یونائیٹڈ نیشنز کے سیکرٹری جنرل جب گفت وشنید کے لئے صدام حسین کے پاس گئے تو انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ تو ساری کارروائی دنیا کو دھوکا دینے کے لئے امریکن کارروائی ہے.اس کا نام یونائیٹڈ نیشنز رکھنا ہی غلط ہے تو ڈی کو ئیار نے کہا کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں بالکل یہی ہوا ہے.لیکن جہاں تک رسمی پوزیشن لینے کا تعلق ہے میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ میں اس کا اقرار کرسکوں ، اس بیان کو امریکہ نے چھپانے کی کوشش کی کیونکہ جب انہوں نے واپس جا کے رپورٹ پیش کی تو اس رپورٹ میں یہ اور ایسی اور باتیں بعض اعترافات شامل تھے ، لیکن صدر صدام حسین نے اس کو Publicize کر دیا ہے، کھول دیا ہے.اور انگلستان کے بعض اخباروں میں چھپ چکی ہے جو میں نے پڑھی ہے.تو اول ذمہ داری اس جنگ کی امریکہ پر عائد ہوتی ہے اگر چہ صدام کو استعمال کیا گیا ہے اور صدام کی جہاں تک ذمہ داری ہے اس میں بعض ایسی وجوہات ہیں جن کے پیش نظر ہم اسے کسی حد تک مجبور بھی قرار دے سکتے ہیں.اتحادیوں کی ذمہ داری ظاہر ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ اتحادیوں نے اپنے مقاصد کی خاطر یہ کام کیا ہے اور تمام اتحادیوں کے کچھ ذاتی مقاصد اور منفعتیں تھیں جو اس کے ساتھ وابستہ تھیں.اسرائیل کی ذمہ داری یہ ہے کہ سارا منصو بہ اسرائیل کا ہے جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں اور اسرائیل کی اس سے بڑی چال دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ ایک بڑھتی ہوئی مسلمان طاقت کو جو اس کے لئے حقیقی خطرہ بن سکتی تھی لڑائی کے دوران اس طرح برباد کرا دے کہ روپیہ مسلمان حکومتوں کا استعمال ہو یا بعض اور اتحادیوں کا اور سپاہی امریکنوں اور انگریزوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 125 خطبه جمعه ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء اور عربوں کے استعمال ہوں.اور مقصد اسرائیل کا حاصل ہو اور ضمناً اس کو کچھ اور علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے بہانہ بھی مل جائے اور نو بلین ڈالر منافع کے بھی ہاتھ آجائیں اور یہ حق بھی رہے کہ جب چاہوں میں مرے مٹے (اگر خدانخواستہ عراق کا یہ حال ہو جائے تو مرے مٹے ) عراق پر اپنی مزید انتقامی کارروائی پوری کروں.تو جرم کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو پہنچا ہے اور سب سے زیادہ اس میں وہ ذمہ دار قرار پاتا ہے.یونائیٹڈ نیشنز بھی ذمہ دار ہے جب پاکستان میں اسمبلیوں میں ممبران کی خرید وفروخت شروع ہوئی تھی تو اس وقت یہ اصطلاح سامنے آئی تھی کہ ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے.ہارس ٹریڈنگ تو تھی لیکن یہ نہیں پتا لگتا تھا کہ یہ ہارس ٹریڈنگ کا نکتہ یعنی ممبران اسمبلی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خرید نا کہاں سے آیا ہے؟ اس کا نقطہ آغاز کیا ہے؟ کہاں سے یہ خیال آیا ؟ اب پتا چلا ہے کہ یہ امریکہ کا ہی خیال ہے کیونکہ یونائیٹڈ نیشنز میں ووٹ خریدنے میں انہوں نے بڑی کھلی کھلی ہارس ٹریڈنگ کی ہے اس لئے یونائیٹڈ نیشنز اگر ایسا ادارہ بن چکا ہے جسے دولت مند قومیں اپنی دولت کے برتے پر خرید سکیں تو نہ صرف یہ ایک بہت بڑا بھیانک جرم ہے بلکہ ایک خود کشی ہے.اور اس ادارے کا اعتماد ہمیشہ کے لئے اٹھ جاتا ہے.اس کے علاوہ کچھ تاریخی پس منظر ہیں ان کو آپ کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیئے حکومت برطانیہ کا کردار اور یہودی سازش جو اسرائیل کے قیام کے لئے کی گئی تھی اس کی تفاصیل میں دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں.Dr.Theodor Herzl نے 1897ء میں یہ منصوبہ بنایا تھا اور اس منصوبے کے تحت بہت سے یہود سائنسدان اور دانشوروں کو مغربی طاقتوں میں نفوذ پیدا کرنے کے لئے مقرر کیا گیا.ان میں ایک کیمسٹ تھے جن کا نام ویزمن ہے.وائز مین بھی میں نے شاید پڑھا تھا لیکن میں نے چیک کیا ہے،Pronunciation جرمن ہے وزڈمنWeizmann یہ کیمسٹری کے بہت بڑے ماہر تھے پولینڈ کے باشندے ہیں جرمنی میں تعلیم حاصل کی اور انگلستان پچھلی جنگ عظیم سے پہلے آگئے اور یہاں کسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہوئے اور با قاعدہ انہوں نے صاحب اثر لوگوں سے رابطے کئے اور سب سے زیادہ ان کا اثر Balfour پر ہوا.اس کا انگریزی میں صحیح Prononciation بھی بیلفور ہے میں پہلے متردد تھا اب میں آپ کو بتارہا ہوں.تو Mr.Balfour جو جارج کی حکومت میں 15، 16، 17، 18، 19 ء اس زمانے میں فارن منسٹرر ہے ہیں ان پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 126 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء انہوں نے سب سے زیادہ نفوذ کیا اور سب سے زیادہ سخت جدوجہد اسرائیل کے قیام کے لئے Mr.Balfour نے کی ہے.پس برطانیہ بھی اس مسئلے میں ، اس موجودہ جنگ میں با قاعدہ ایک ذمہ دار قوم کے طور پر شمار ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ فی ذاتہ بالکل ناجائز اور کچھ مسئلہ بنے کا حق ہی نہیں رکھتا.کسی کے ملک میں جاکر کسی اور قوم کو وہاں ٹھونس دو اور ان کی مرضی کے خلاف اور پھر خود اپنے مینڈیٹیس Mandates کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظلم پر ظلم کرتے چلے جاؤ اس کے لئے تو کوئی جواز کسی قسم کا نہیں ہے.چونکہ سب سے بڑا کردار انگریزی قوم نے اس میں دکھایا اس لئے انگریزی قوم ہمیشہ اس ذمہ داری میں شریک رہے گی لیکن ضمناً میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ انگریزی قوم ساری کی ساری شروع میں اس کارروائی میں شریک نہیں تھی.( یہ جو پیچھے میں نے حوالے اقتباسات وغیرہ کا ذکر کیا ہے ان کے اصل حوالے لکھے ہوئے میرے پاس سب موجود ہیں، یہ میں اس لئے پڑھ کر نہیں سنا رہا تھا کہ وقت بچے، لیکن جب خطبہ چھپے گا تو اس میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ ساتھ دیدوں گا حوالے یا کیسٹ کے ساتھ بھی یہ بعد میں کسی اور کی طرف سے بیان کئے جاسکتے ہیں) تو وہ جو انگلستان میں 1917ء سے لے کر 18، 19، 20 تک کی جدوجہد ہے ، اس جد و جہد کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں نے بھی بہت بڑی غفلت کا ثبوت دیا ہے جبکہ یہود ہر طرف سازشوں کا جال پھیلا رہے تھے.صاحب اثر لوگوں پر اثر انداز ہورہے تھے ، مسلمان اس مسئلے سے غافل تھے.چنانچہ Lord Curzon جو Balfour کے بعد وزیر خارجہ بنے اور جنہوں نے مسلمانوں کی حمایت کی ہے بڑے زور کے ساتھ انہوں نے بہت ہی حیرت انگیز باتوں کا انکشاف کیا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یک طرفہ یہود لگے ہوئے ہیں،سازشوں کا جال پھیلا رہے ہیں، اور پوری کوششیں کر رہے ہیں اور عرب یوں لگتا ہے جیسے چابی کے سوراخ سے Key Hole سے باہر سے صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے اور ان کو اجازت ہی نہیں دی جارہی کہ وہ داخل ہوں یا ان کو خود ہوش نہیں ہے.بہر حال یہ کہنا کہ ساری قوم اس منصوبے میں شامل تھی یہ درست نہیں ہے، Lord Curzon نے بڑی شدت سے مخالفت کی ، وہ اس نکتے کی ،اسرائیل کے قیام کی غرض و غایت کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے.وہ لکھتے ہیں کہ :.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 127 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء بار بار مجھے پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ میں اسرائیل کا تاریخی تعلق فلسطین کی زمین سے قبول کرلوں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ بہت گہری سازش ہے بہت خطرناک سازش ہے بہت لمبا اثر دکھانے والی سازش ہے.ایک دفعہ اگر میں نے اس کو تسلیم کر لیا تو پھر یہود کو روکنے کے لئے اور پابند رکھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی عذر نہیں رہے گا.اپنی ساری پرانی تاریخ دہرا کر کہیں گے ہم نے وہاں یہ کیا تھا اسی لئے آج ہمیں یہ حق ہے.ہم نے فلاں زمانے میں یہ کیا تھا اس لئے آج ہمیں یہ حق ہے.The Origins & Evolution of the palestine Problem) 1917-1989.Pages 21-28).چنانچہ آخر تک وہ Adamant رہے ہیں اس کے خلاف انہوں نے ہرممکن کوشش کی مگر لائیڈ جارج کی کیبنٹ اندراندر یہود کے بعض مخفی منصوبوں کے نتیجے میں ، آہستہ آہستہ یہود کے دائرہ اثر میں منتقل ہوتی رہی اور بالآخر انہوں نے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ پاس کروالیا کہ یہود کو فلسطین میں اس بنا پر دوبارہ قائم کیا جائے کہ ایک Historical Conection ہے وہ پہلا Panrase جس میں بڑی سختی سے لارڈ کرزن نے اعتراض کیا تھا اس کو چالا کی سے بدل کر صرف یہ کر دیا گیا کہ Historical Connection ہے اور اس کے علاوہ جو تحریر ہے وہ اب میں اس وقت پڑھ کر نہیں سنا سکتا لیکن جب آپ پڑھیں گے تو حیران ہوں گے کہ بہت ہی شاطرانہ زبان استعمال کی گئی ہے تا کہ یہود کے سارے مقاصد اس سے پورے ہو جائیں.اگلا حصہ، جب یہ ہاؤس آف لارڈز میں پیش ہوا تو برٹش ہاؤس آف لارڈ ز کو یقیناً ہمیں یہ حق دینا چاہئے کہ انہوں نے پورے انصاف کا مظاہرہ کیا اور انصاف کے علاوہ ایک بہت سخت تنبیہ کی خود اپنی قوم کو کہ تم ایسی حرکت نہ کرو ورنہ یہ بہت ہی خطر ناک ظلم ہوگا جس کے دور دور تک اور بہت دیر تک اثرات جاری رہیں گے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ کبھی یہ بداثر ختم ہو بھی سکیں گے کہ نہیں چنانچہ ہاؤس آف لارڈز نے اس کو Reject کیا اور بعد میں ہاؤس آف کامنز House of Commens میں اس کو دوبارہ پیش کر کے پاس کروا گیا.ہاؤس آف لارڈز میں ایک ممبر تھے لارڈ سٹنم (Sydenham Lord) انہوں نے Balfour کا جواب دیتے ہوئے کہا..the Harm done by dumping down an alien
خطبات طاہر جلد ۱۰ 128 خطبہ جمعہ ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء population upon an Arab country-Arab all around in the hinterland-may never be remedied...what we have done is, by concessions, not to the Jewish people but to a Zionist extreme section, to start a running sore in the East, and no one can tell how far that sore will extend."(The orisins of Evolution of The pales time problem (1917-1988 Page:29) pub.by: United wasons, New york, 1990) " کہتے ہیں کہ ہرگز ایسا نہ کرو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اجنبی لوگوں کو عربوں کے دل میں مسلط کر دیں ، ایسے علاقے میں جہاں اردگرد چاروں طرف عرب آبادیاں ہی ہیں اور اگر ایسا تم کرو گے تو عملاً وہاں ایک ایسا ناسور پیدا کر دو گے جس ناسور کی جڑوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کہاں کہاں پھیلیں گی اور کتنی کتنی دور جائیں گی.“ پس انگریزی قوم میں انصاف اس وقت بھی تھا، اب بھی ہے.چنانچہ آج بھی ان کے بڑے بڑے دانشور اس مسئلے پر بڑی جرات کیسا تھ اپنی دیانتدارانہ رائے کا اظہار بھی کر رہے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سازشیں بہت گہری ہیں اور بہت حد تک یہ یہودی چنگل میں آچکے ہیں آج امریکہ ذمہ دار ہے لیکن اس زمانہ میں امریکہ میں بھی انصاف تھا.چنانچہ صد روڑ وWilson نے 1918ء میں جو اصول پیش کئے اس میں انہوں نے یہ اصول پیش کیا تھا کہ امریکہ اس اصول کو ہمیشہ سر بلند رکھے گا اور اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہونے دے گا کہ جس علاقے کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جا رہا ہے اس علاقے کی اکثریت کا اول حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کے فیصلے میں شامل ہو.اگر وہ نہیں مانتے تو کسی کا دنیا میں حق نہیں ہے کہ وہاں اس پہ فیصلے کو ٹھونسا جائے.اس وقت امریکہ کی یہ حالت تھی چنانچہ ایک King-Crane کمیشن انہوں نے 1919ء میں بھجوایا اس King-Crane کمیشن نے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ ، بہت ہی منصفانہ رپورٹ پیش کی اور اس میں یہ لکھا کہ ہم پ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ بہت بڑی طاقت کے استعمال اور بہت بڑے خون خرابے کے بغیر اسرائیل کو وہاں نافذ نہیں کیا جاسکتا اور کیوں ایسا کیا جائے اس لئے کہ دو ہزار سال پہلے.یہ لوگ
خطبات طاہر جلد ۱۰ یہاں آباد تھے وہ لکھتے ہیں کہ :.129 خطبه جمعه ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء اگر یہ دلیل تسلیم کر لی جائے تو دنیا سے پھر عقل ، انصاف سب کچھ مٹ جائے گا.یہ دلیل ایسی لغو ہے کہ اس کو زیر غور ہی نہیں لانا چاہئے.کجاوہ زمانہ اور کجا یہ زمانہ کہ مکمل امریکی طاقت پوری کی پوری یہود کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح کھیل رہی ہے، نہ کوئی انصاف ، نہ کوئی عقل، نہ کوئی اخلاقی قدریں، کچھ بھی باقی نہیں رہا.تو مسلمانوں کا قصور اس میں یہ ہے کہ ان کو اپنے مفاد کے لئے بیدار مغزی کے ساتھ حالات کا جائزہ لینا چاہئے تھا اور ان حالات میں جس طرح یہود اپنا اثر بڑھا رہے تھے ان کو بھی اپنے اثر نفوذ کو استعمال کرنا چاہئے تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کے بعد ان میں کوئی ایسی لیڈرشپ ہی نہیں رہی جو ساری امت مسلمہ کے مسائل پر غور کرے اور ان کو ایک زندہ جسم کے طور پر، ایک دماغ اور ایک دل سے منسلک رکھ کر آگے چلائے.جہاں تک Reasons کا تعلق ہے کہ مقاصد کیا ہیں؟ کیوں یہ جنگ لڑی جارہی ہے؟ اس کے متعلق سوشلسٹ سٹینڈرڈ Socialist Standard اپنی نومبر 1990ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ:.سنڈے ٹائمنز نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ مقاصد خود غرضانہ ہیں چنانچہ وہ کہتا ہے.The Reason why we well shortly have to go to war with Iraq is not to free Kuwait کہتا ہے، بالکل جھوٹ ہے، کویت شویت کا جو بہانہ ہے کہ اس کی آزادی کی خاطر ہم مرے جارہے ہیں یہ سب بالکل بکواس ہے.Though that is to be Desired ہاں ہو جائے تو بڑا اچھا ہے ، کیوں نہیں Though that is to be Desired,or to Defend Saudi Arabia, Though that is Important نہ ہی ہم اس غرض سے گئے ہیں 66 وہاں یا جارہے ہیں کہ سعودی عرب کی حفاظت کریں اگر چہ یہ بھی ایک اہم بات ہے.“ It is because President Sadam is a meace to vital western interests in the Golf, above all the free flow of oil at market prices.which is essential to wests prosperity.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 130 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء (Socilaist Standard) London, November, 1990.کہ در حقیقت مغرب کے ان تیل کے چشموں پر جو خلیج میں بہتے ہیں حقوق ہیں اور ہم ان حقوق کی حفاظت کی خاطر جارہے ہیں اور یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ صدام حسین ان کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے کھیلئے لیکن در حقیقت یہ پورا اعتراف نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ان مقاصد میں اسرائیل کو عراق کے خطرے سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنا اور اسرائیل پر سے یہ "Threat" یہ دھمکی دور کر دینا ہمیشہ کے لئے کہ کوئی مسلمان ملک اس کو چیلنج کر سکتا ہے ، یہ ایک سب سے بڑا مقصد تھا اور ویسے اس مقصد کا تیل کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے کیونکہ اسرائیل کے قیام کی غرض میں ایک غرض یہ بھی شامل تھی کہ مسلمان ممالک کے اوپر ایک پہریدار بٹھا دیا جائے جو جب بھی ضرورت پڑے ان کی گوشمالی کر سکے.جب وہ مسلمان ممالک بات نہ مانیں تو پھر ان کو سبق سکھانے والا ایک نمائندہ موجود ہے.اب میں آپ کو جنگ کے نفع و نقصان کو بتاتا ہوں 8905 بلین ڈالرخرچ ہو چکا ہے اس میں سے 30 بلین ڈالر فی یوم ایک بلین ڈالر کے حساب سے خرچ ہو رہا ہے آج تمہیں دن ہو چکے ہیں اور و بلین بتایا جاتا ہے کہ جنگ سے پہلے امریکہ کا خرچ ہو چکا تھا ، 2 بلین جنگ سے پہلے انگریزوں کا خرچ ہو چکا تھا ان کا جو روز خرچ ہو رہا ہے اس کا کوئی شمار معین ابھی معلوم نہیں ہوا وہ اس کے علاوہ ہے.اس کے علاوہ دوسرے ممالک کو خریدنے پر جو انہوں نے خرچ کیا ہے وہ بھی جنگ کے اخراجات میں شامل ہے.مصر کے 21 بلین قرضے معاف کئے گئے ہیں اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ملت اسلامیہ کے مفاد بیچنے کے لئے کتنی قیمت وصول کی ہے.اسرائیل کو ۱۳ بلین اب تک اس غیر معمولی صبر دکھانے کے نتیجے میں انعام کے طور پر دیا اور شاباش کے طور پر دیا گیا ہے کہ تمہارے چند سو جو زخمی ہوئے ہیں سکڑ سے ان کے نتیجے میں تم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم فوری انتقام نہیں لیں گے اور جب تم سب کچھ اپنا کر بیٹھو گے.عراق کو پارہ پارہ کر دو گے پھر ہم آئیں گے کسی دن اور اپنی مرضی سے دل کھول کر انتقام لیں گے.یہ اتنا حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہم تمہیں اور باتوں کے علاوہ ( جنگی ہتھیار بھی بہت دیئے گئے ) 13 بلین ڈالر تحفہ دیتے ہیں.روس کے متعلق العریبیہ یا العرب ہے اخبار اس نے بیان دیا ہے (انگلستان سے شائع ہوتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 131 خطبہ جمعہ ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء ہے ) کہ 3 بلین روس کو سعودی عرب نے دیا ہے، ایک بلین کو یت نے دیا ہے، متفرق اس کے علاوہ ہیں ،ترکی اور شام پر کچھ اخراجات انہوں نے کئے ہیں کچھ آئندہ ان کے ساتھ جنگ کے بعد وعدے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہوسکا.اس خرچ کے علاوہ جو ہولناک تباہی ہوئی ہے.کویت اور عراق میں جائیدادوں کی تباہی اس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ، مبصرین نے جو جائزے لئے ہیں، پچاس بلین ڈالر صرف کو یت کو از سر نو تعمیر کرنے پر لگے گا اور یہ اندازہ آج سے پانچ ، سات دن پہلے کا ہے اور اندازہ لگانے والوں نے اندازہ لگایا ہے کہ عراق پر اس سے کم سے کم دس گنا زیادہ خرچ ہوگا اور جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سو بلین ڈالر عراق کو اپنے آپ کو بحال کرنے کے لئے درکار ہوگا.تو جنگ پر جو اخراجات ہورہے ہیں یا رشوت پر ہورہے ہیں ان کے علاوہ یہ اخراجات غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں.اس کے علاوہ جو جانوں کی تلفی ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ بنی نوع انسان کو تکلیف پہنچی ہے وہ سب اس کے سوا ہے.تیسری دنیا کو جو اقتصادی نقصان پہنچا ہے وہ بھی سردست 200 بلین کا اندازہ لگایا گیا ہے جو مبصرین کہتے ہیں کہ آگے زیادہ ہو گا کم نہیں ہوگا یعنی اب تک 200 بلین کا نقصان تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو ہو چکا ہے.اب یہ جو حصہ ہے اس سلسلے میں ایک نقصان فضا میں آلودگی کا نقصان ہے اور سمندر میں آلودگی کا نقصان ہے جو سمندر میں آلودگی شروع ہوئی تو ایک امریکن جرنیل نے اعتراف کیا اور فخر سے اعتراف کیا کہ ہم نے تیل کے چشموں پر کامیابی سے Hit ہٹ کیا ہے اور تیل بہنا شروع ہو گیا ہے.اور دوسرے دن ہی وہ ساری کہانی بدل گئی اور کثرت سے پھر بار بار عراق پر الزام لگا کر عراق کو متہم کیا گیا کہ یہ ایسی ظالم قوم ہے کہ پرندوں تک کو نہیں چھوڑا انہوں نے ظلم میں اور وہ جو Coots اور Cormorant اور کچھ اور مرغابیوں قسم کے جانور، بعض تو ایسے تھے جو بار بار وہی دکھاتے تھے تیل میں ڈوبے ہوئے اور یہ ظاہر کرتے تھے کہ اس سے ان لوگوں کی صدام حسین کی سفا کی ثابت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے چھوٹے چھوٹے جانوروں تک کو بھی اپنے ظلم سے الگ نہیں رہنے دیا، باہر نہیں رکھا.اس نقصان کے مقابل پر جس سے یہ اپنی انسانی ہمدردی اور زندگی سے ہمدردی ثابت کرتے ہیں دنیا پر ان کا دنیا کی تکلیفوں سے متعلق جو رویہ ہے وہ میں آپ پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 132 خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۹۱ء کیونکہ یہ سب دجل ہے.حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لفظ دجال میں اسی زمانے کی ساری تاریخ اپنی تمام تفاصیل سے بیان فرما دی.ایسا خوفناک دجل ہے کہ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ سالہا سال سے افریقہ بھوک کا شکار ہے اور لکھوکھہا کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بچے ،عورتیں ، بوڑھے مرد، جوان ،سب پنجر بن بن کر دکھ اٹھا اٹھا کر مرتے چلے جارہے ہیں اور ان کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.اب جنگی اخراجات کا آپ نے اندازہ سن لیا ہے.ساڑھے پانچ سو اس کی تعمیر نو پر خرچ اور اس سے پہلے سو بلین کے قریب دوسرے اخراجات اور 200 بلین دنیا کے نقصانات، تو یہ ساری بات مل کر بالآخر ہزار بلین کا نسخہ ہے اس کے مقابل پر آج چھپیس ملین افریقن بھوک کے نتیجے میں مرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے.اور یہ یونائیٹڈ نیشنز کا تخمینہ ہے.اگر ایک افریقن کو خوراک مہیا کرنے پر روزانہ دو ڈالرخرچ آئیں تو بچیں ملین افریقن کو ایک سال کے لئے بھوک سے بچانے کے لئے صرف تقریباً ڈیڑھ بلین ڈالر چاہیئے ایک بلین چھیاسٹھ لاکھ کچھ چاہئے.تو آپ اندازہ کریں کہ وہ لوگ جو چھپیں ملین انسانوں پر رحم نہیں کھاتے جو عراق کے سولہ ملین انسانوں پر دولت کے پہاڑ خرچ کر کے موت برسا رہے ہیں.ان کو ہمدردی ہے تو دو مرغابیوں سے ہے اور شور مچایا ہوا ہے کہ یہ چند مرغابیاں مر جائیں گی.محض جھوٹ ، محض فساد انسانی ہمدردی کا کوئی شائبہ بھی ان کے اندر ہوتا تو پہلے انسانی جانوں کی قدر کرتے.دنیا میں بھوک سے مرنے والے غریب افریقنوں کی اور دیگر قوموں کی فکر کرتے.اور اقتصادی عدم توازن کو دور کرنے کی کوشش کرتے اس سے آپ کو پتہ لگے گا کہ ایک بلین ہوتا کیا ہے.پچپیس ملین کا مطلب ہے اڑھائی کروڑ.اڑھائی کروڑ انسان پورا ایک سال عزت کے ساتھ روٹی کھا سکتا ہے تقریباً ڈیڑھ بلین میں اور یہ ایک بلین روزانہ جو یہ موت برسانے پر خرچ کر رہے ہیں اور ایک بلین نو مہینے زندگی بخشنے کے لئے خرچ کر سکتے اور وہ بھی چھپیس ملین آدمیوں کی زندگی.مجھے اس پر یاد آ گیا وہ قصہ.ایک دفعہ چرچل نے جارج لائیڈ کے پاس ایڈورڈ گرے کی سفارش کرتے ہوئے ان کی تائید میں کہا کہ آپ ان کی پوری بات نہیں سمجھ رہے.ان کا کوئی قصور تھا وہ ناراض تھے بڑے سخت گرم تھے ان کے خلاف تو چرچل نے کہا کہ دیکھیں وہ ایسا انسان ہے ایڈورڈ گرے کہ اگر کوئی Natsi اس کے پاس آئے اور سمجھے کہ تم اگر اس پر دستخط کر دو جو میں تجویز پیش کرتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 133 خطبه جمعه ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء ہوں تو اس کے بدلے میں تمہاری سب بات مان لوں گا، یہ کروں گا، وہ کروں گا تمہاری جان بخشی ہوگی.جو کچھ بھی ہے اس نے بیان کیا مجھے Exect یاد نہیں لیکن بہت بڑھا کر بتایا کہ اس کی انگلستان سے وفا اور محبت کا اندازہ کریں کہ اگر وہ NATSI یہ پیشکش کرے تو وہ یہ جواب دے گا کہ میں اصولوں کے سودے نہیں کر سکتا.میں یہاں ان شرطوں پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں.لائیڈ جارج نے فوراً چرچل کو جواب دیا کہ میں ان کو GREY (گرے کو) سمجھتا ہوں اگر Natsi سمجھدار ہواور وہ یہ شرطیں پیش کرنے کی بجائے یہ شرطیں پیش کرے کہ اگر تم یہاں دستخط کر دو.ہماری مرضی کے مطابق تو بہتر ورنہ جو تم نے گلہریاں پالی ہوئی ہیں میں ان کو ماردوں گا تو وہ فوراً دستخط کر دے گا.چنانچہ لکھتا ہے Once during the war when we were rather dissatisfied with the vigour of Sir Edward Grey's policy, I, apologizing for him said to Mr.Lloyd George,who was hot,'Well, anyhow, we know that if the Germans were here and said to Grey, 'If you don't sign that Treaty,we will shoot you at onece," he would certainly reply, "It would be most improper for a British minister to Yield to a threat.That sort of thing is not done." But Lioyd George rejoined, that's not what the Germans would say to him.They would say, If you don't sign this Treaty, we will scrag all your squirrels at Fallodon." that would break him down.Arthur Balfour had no squirrels.Great Contemporaries Page240.By:The Rt.Hon Winston S.Churchill,C.H.,M.P.Thronton.یعنی توازن بگڑے ہوئے ہیں اور بڑی دیر سے بگڑے ہوئے ہیں.کتوں کی خاطر انسانوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 134 خطبہ جمعہ ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء کو ذلیل کیا جاسکتا ہے اور انسانوں کی خاطر اپنے مفادات کو قربان نہیں کیا جاسکتا.پس یہ ذمہ داری اور ارتکاب جرم میں پورے شریک ہیں.اگر آج حساب نہیں لیا جائے گا تو کل لازماً ان کا حساب لیا جائے گا.جو فوائد یا نقصانات ہوئے ہیں.نقصانات تو میں نے بیان کر دیئے ہیں لیکن کچھ اور بھی نقصانات ہیں اور فوائد بھی ہیں بعض عراق کو تو یہ فائدہ پہنچا ہے کہ اس نے ایک بڑی طاقت کا تکبر تو ڑا ہے.اور جنگ میں جانے کی وجوہات میں ایک یہ بھی وجہ بیان کی جاتی ہے بعض قابل مبصرین کی طرف سے کہ دراصل صدر بش اور امریکہ کو ویت نام کمپلیکس کھا گیا ہے.ویت نام میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ گزر چکا تھا.ویت نام میں امریکنوں نے اتنی بمباری کی ہے کہ عراق سے پہلے کہیں اتنی خوفناک بمباری نہیں ہوئی تھی اور دیہات کے دیہات صاف کر دئیے.اس قدر زندگی تلف کی ہے اس قدر اقتصادیات کو برباد کیا گیا ہے کہ یک طرفہ ایسا ظلم انسانی تاریخ میں کم دکھائی دیتا ہے کہ پورے بڑے وسیع ملک پہ ہورہا ہو لیکن اس کے باوجود اس قوم کی عظمت کردار کو تو ڑ نہیں سکے.ان کا سر نہیں جھکا سکے.وہ قوم مرتی چلی گئی ہے اور لڑتی چلی گئی ہے لیکن امریکہ کی خدائی کے سامنے اس نے سجدہ نہیں کیا.نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر ان کا عزم ٹوٹا ہے.ان کا تکبر ٹوٹا اور اپنا مقصد حاصل کئے بغیر ان کو ویت نام خالی کرنا پڑا.وہ جو ویت نام کی باتیں آپ سنتے ہیں ان میں بعض دفعہ اکثر لوگوں کو غلط نہی ہوتی ہے کہ شاید American Public Opinion رائے عامہ انسانی ہمدردی کی وجہ سے اپنی حکومت کے پیچھے پڑی ہے کہ اتنی جانیں تم نے وہاں تلف کر دیں اب دوبارہ نہ کرنا ، ہرگز یہ بات نہیں ہے.ویت نام میں ایک کروڑ آدمی مر جائیں امریکن پبلک او پینٹن Opinion کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی.اتنی بھی نہیں ہوگی جتنی مرغابیاں مرنے سے ان کو ہوتی ہے لیکن امریکن جانوں کی تلفی اور امریکن تکبر کو چیلنج کرنا یہ ان کے لئے ایک ایسا روحانی عذاب بنا ہوا ہے جو یہ ہضم نہیں کر سکتے تھے.پس اس جنگ کی وجوہات میں یہ نفسیاتی پس منظر بھی ہے.امریکہ کو جو اپنا تکبر کچلا ہوا دکھائی دیتا رہا ہے آج تک یہ ان کا زخم ہرا ہے.آج تک یہ جلن سینے میں لئے پھرتے ہیں.تو ویت نام کا انتقام عراق سے لینا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہم عزم توڑ دیں گے اور پھر ہمیں ٹھنڈ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 135 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء پڑے گی لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آج ایک مہینہ گزر چکا ہے آج تک تو یہ عزم نہیں توڑ سکے اور جتنی صدام نے باتیں کی تھیں وہ سچی نکلتی رہی ہیں.جو انہوں نے بدارا دے دکھائے تھے یا تکبر کی باتیں کی تھیں وہ سب جھوٹی نکلتی رہی ہیں.مجھے یاد ہے صدر بش نے یا ان میں سے کسی ان کے ساتھی نے یہ کہا تھا کہ ویت نام کی کیا باتیں کرتے ہو.اس کو ویت نام نہیں بننے دیا جائے گا."It will not be years, it will not be months, it will not be weeks, it will be days." کہ یہ جنگ سالوں جاری نہیں رہے گی مہینوں جاری نہیں رہے گی، ہفتے جاری نہیں رہے گی ، دنوں کی بات ہے اور اس کے بعد ہم نے صدر بش کو یہ کہتے ہوئے سنا.It will not be Days it will be weeks running in to months." تو آج کا دن وہ ہے جس کے بعد Runing in to months والی بات ہو جائے گی لیکن اس اگلی بات نے پہلی بات کو جھٹلایا ہے اور صدر صدام جو باتیں کہتے رہے انہوں نے شروع میں یہ کہا تھا کہ شروع میں تمہارا پلہ غالب ہو گا تم جو مرضی کرو، جتنا مرضی بم برسالینا ہم پر ، آخر پر جب ہم اٹھیں گے تو پھر ہم اپنا انتقام لیں گے اب اس موڑ پر پہنچ کر یہ انتقام سے ڈرے بیٹھے ہیں، کیونکہ سارا عراق بھی نعوذ باللہ ہلاک ہو جائے تو American Public opinion پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.لیکن ہزار لاشیں وہاں سے امریکہ پہنچیں گی تو American Public opinion جو ہے وہ ڈانواں ڈول ہوگی اور اس پہ زلزلہ طاری ہو جائے گا.پس اس لئے یہ امن کی کوششیں ہیں اور اس پہلو سے صدر صدام نے جو حکمت عملی استعمال کی ہے بڑی عمدہ اور غالب حکمت عملی ہے.دعا کرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر جھوٹے خدا نافذ نہ ہونے دے.دنیا میں سب سے بڑا دکھ تو حید کے زخم لگنے کا دکھ ہے.اگر اسی طرح جھوٹے خداؤں کو خدائی کی اجازت ملتی رہی تو خدائے واحد کی عبادت کرنے والے کون آئیں گے اور کہاں رہیں گے اس دنیا میں تو پھر نہیں رہ سکتے پس سب سے بڑا خطرہ تو حید کو ہے، خانہ کعبہ کو ہے.خانہ کعبہ کی عظمت کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 136 خطبه جمعه ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء ہے محمد مصطفیٰ کے خدا کی وحدت کو، تو حید کو خطرہ ہے، خطرہ ان کے نام کو ہے.توحید کو تو انشاء اللہ کوئی خطرہ نہیں ہوگا.لیکن خدا کی غیرت بھڑ کانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اسی قسم کی التجائیں کی تھیں کہ ، اے خدا! آج اس بدر کے میدان میں اگر تو نے ان مٹھی بھر عبادت کرنے والوں کو جو میرے ساتھی اور میرے عاشق ہیں ان کو مرنے دیا تو لن تعبد فی الارض ابداً اے میرے آقا! ان کے بعد پھر اور کوئی تیری کبھی عبادت نہیں کرے گا.پس آج تو حید کی عزت اور عظمت کا سوال ہے اور احمدی اس بات میں سینہ سپر ہیں.اور کامل یقین کے ساتھ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ساری دنیا کے احمدی ایک صف کے طور پر، ایک بدن کے عضو کی طرح ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہوئے تو حید کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے آج بھی تیار ہیں.کل بھی تیار رہیں گے اور آئندہ بھی ہمیشہ تیار رہیں گے.آپ کو یاد ہو گا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالے فرمایا کرتے تھے کہ اگلی صدی توحید کی عظمت اور قیام اور نافذ کرنے کی صدی ہے اور یہ بالکل درست ہے تو حید کو جو خطرے آج لاحق ہوئے ہیں ، در پیش ہیں یہ ہمیں تیار کرنے کے لئے درپیش ہیں، ہمیں بتانے کے لئے کہ تم کتنی بڑی عظیم ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور کھڑے کئے گئے ہو.جو جنگی مقاصد ہیں اور نفسیاتی عوامل اس کے پیچھے ہیں ان کا تاریخ سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے چونکہ میں چاہتا ہوں کہ آئندہ خطبے میں یہ بات ختم کر دوں اس لئے آج کا خطبہ تھوڑ اسا لمبا کرنا پڑے گا ورنہ پھر یہ چوتھے خطبے تک بات چلی جائے گی.ایک پس منظر اس موجودہ لڑائی کا یا اسرائیل کے قیام کا ایسا تاریخی پس منظر ہے جس کا تعلق مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخی جنگوں سے ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ صلیبی جنگیں جو 1095ء کے لگ بھگ شروع ہوئیں اور 1190ء یا 1191ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے اس کے بعد پھر یہ چھڑا نہیں سکے.یہ تقریبا دو سو سال تک جنگیں اسی طرح ہوتی رہی ہیں ان جنگوں میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی بلکہ یورپ کی قوموں نے آٹھ مرتبہ تمام طاقتوں نے مل مل کر عرب مسلمانوں پر حملے کئے ہیں، کئی دفعہ ان کے پہلے بھاری ہوتے رہے کئی دفعہ شکست کھاتے رہے لیکن بالآخر مسلمان فلسطین کو ان کے ہاتھوں سے بچانے میں کامیاب ہو گئے.اور وہ زخم آج تک ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 137 خطبه جمعه ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء کا ہرا ہے اور وہ بھولے نہیں.اور اس کا گہرا صدمہ ہے کہ اتنی بڑی یورپین طاقتیں مل مل کر بار بار حملے کرتی رہیں.Richard the Lion Hearted بھی گیا اور دوسرے فرانس کے بڑے بڑے جابر بادشاہ بھی گئے.جرمنی بھی شامل ہوا تحکیم بھی شریک ہوا لیکن انکی کچھ نہیں بنی ایک تو وہ زخم ہیں جن کے دکھ ابھی تازہ ہیں اور کچھ عثمانی سلطنت کے ہاتھوں جو ان کو بار بار زک اٹھانی پڑی اور یورپ کے بہت سے حصے پر وہ قابض رہے.یہ جو حصہ ہے یہ بھی ان کے لئے ہمیشہ تکلیف کا موجب بنا رہا ہے اور بنار ہے گا.بہر حال خلاصہ یہی ہے کہ ایک لمبا دور ہے ان کی صلیبی جنگوں کا اور سلطنت عثمانیہ کے عروج کا خصوصاً Solomon the Magnificent یعنی سلیمان اعظم کے زمانہ میں جس طرح بار باران یورپین طاقتوں کو زک پہنچی ہے اس کی وجہ سے یہ لوگ مجبور ہوئے کہ اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھیں.اور ان کے نفسیاتی پس منظر میں ہمیشہ یہ بات پر دے کے پیچھے ہراتی رہتی ہے کہ جس طرح پہلے ایک دفعہ مسلمان ہماری جارحانہ کارروائیوں کو ( جارحانہ تو نہیں کہتے لیکن واقعہ یہی تھیں) بڑی شدت سے رد کرتے رہے ہیں آئندہ کبھی ان کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ اس طرح یہ اپنے مفادات کی ہمارے خلاف حفاظت کر سکیں.ایک اور پس منظر بڑا دلچسپ اور گہرا اور بڑا دردناک ہے وہ یہ ہے کہ جب Theodor Herzl نے پہلی دفعہ یہود کی ریاست قائم کرنے کا یعنی اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ پیش کیا تو اس نے جو وجہ پیش کی وہ یہ تھی کہ ہم پر ہزاروں سال سے ظلم ہورہے ہیں اور خاص طور پر یورپ میں جو مظالم ہورہے تھے اور فرانس میں اس سے پہلے ایک واقعہ ظلم کا ہوا تھا جب ایک یہودی کو ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا.روفوس نام تھا غالبا اس کا اسی سلسلے میں ہر زل Herzl فرانس پہنچا آسٹریا سے اور اتنا گہرا اس پر اس ظلم کا اثر ہوا کہ اس نے یہ تحریک شروع کی.تو وجہ یہ بیان کی گئی تھی فلسطین میں اسرائیل حکومت کے قیام کی کہ ہم پر یورپ میں مظالم ہوئے ہیں.اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ظلم کہیں ہورہے ہیں اور انتقام کسی اور سے لیا جارہا ہے یہ کیا حکمت ہے اور فلسطین میں جانے سے ان پر مظالم کا خاتمہ کس طرح ہو جائے گا، لیکن واقعہ یہ ہے اور اس بات میں یہودی یقیناً بچے ہیں کہ عیسائی مغربی دنیا نے یہود پر ایسے ایسے درد ناک اور ایسے ہولناک مظالم کئے ہیں کہ کم ہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 138 خطبه جمعه ۱۵/فروری ۱۹۹۱ء دنیا کی تاریخ میں قوموں کی ایسی مثال ملتی ہو جن کو ہزار سال سے زائد عرصے تک اس طرح بار بار مظالم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہو.اس ضمن میں میں چند امور آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ جو صلیبی جنگیں 1095 ء میں شروع ہوئیں یہ فرانس سے شروع ہوئیں اور فرانس کے ایک بڑے لارڈ (یہ مجھے یاد ہے کہ Bouillon ایک جگہ ہے فرانس میں ،Bouillon سے تعلق رکھنے والے وہ لارڈ تھے ) جنہوں نے آغاز کیا ہے اور جب انہوں نے اپنی مہم شروع کی اور فرانس کے دوسرے بادشاہوں نے مل کر پہلی Crusade کا انتظام کیا تو انہوں نے کہا کہ اتنے عظیم مقصد کے لئے کوئی صدقہ بھی تو دینا چاہئے.چنانچہ Godfrey of Bouillon کو یہ خیال آیا کہ سب سے اچھا صدقہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا انتقام لیا جائے اور تمام یہودیوں کو تہ تیغ کر دیا جائے.پس جس طرح مسلمانوں میں قربانی کا رواج ہے کہ بڑی بڑی مصیبتوں پر یا امور مہمہ میں پیش قدمی کرتے ہوئے پہلے کچھ صدقے دیتے ہیں اسی طرح اس عظیم مہم پر جانے سے پہلے انہوں نے نہ صرف یہ سوچا بلکہ واقعہ فرانس میں اس طرح ظالمانہ قتل عام کروایا ہے یہود کا کہ اس طرح تاریخ میں کم ہی کسی نہتی قوم پر ایسا ظلم ہوا ہوگا اور یہ صلیبی جنگ کا صدقہ تھا.اس کے بعد سے یہ رواج بن گیا اور دوسوسال تک کے صلیبی جنگوں کے عرصے میں ہر جنگ میں جانے سے پہلے یہود صدقہ کئے جاتے تھے.تو جہاں تک ظلم کا تعلق ہے وہ تو ظاہر ہے.پھر رد بلاء کے طور پر بھی صدقہ دیا جاتا ہے اس میں بھی یہود کو ہی صدقہ کیا کرتے تھے.چنانچہ آپ نے Black Death کا نام سنا ہو گا جو 1347 ء سے 1352 ء تک ( یعنی چودھویں صدی کے وسط میں ) یورپ میں پھیلی تھی جو ایک نہایت ہی خوفناک طاعون کی وباتھی چین سے آئی اور رفتہ رفتہ مشرقی یورپ سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچی.اس وبا میں رد بلاء کے طور پر انہوں نے یہود کا صدقہ شروع کیا اور بہت سی جھوٹی کہانیاں بھی ان کے خلاف گھڑی گئیں کہ یہ ان کی نحوست ہے اور ساری بلاء جو ہم پر وارد ہو رہی ہے یہ یہود کی خباثت اور نحوست کی وجہ سے ہے اس لئے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اگر ہم نحوست کو تباہ کریں تو اس سے ہماری بلائیں ٹل جائیں گی.چنانچہ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ ان گنت تعداد ہے بیان نہیں کی جاسکتی معین اعداد و شمار نہیں کہ کتنی تعداد میں یہود کوقتل کیا گیا یا زندہ اپنے گھروں میں آگ میں جلایا گیا جو موٹے اعداد و شمار ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 139 خطبہ جمعہ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء یہ ہیں کہ ساٹھ بڑی بستیوں سے یعنی ساٹھ شہروں سے یہود کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا.اور ایک سو چالیس چھوٹی بستیوں سے یہود کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا.یہ دوسرا انتقام ہے یہود سے عیسائی دنیا کا.اور بہت سے تھے لیکن تیسرا بڑا انتقام Natsi جرمنی میں ان سے لیا گیا جس کے متعلق اگر چه اعداد و شمار کو سب محقق قبول نہیں کرتے لیکن یہود کا یہی اصرار ہے کہ چھ ملین یہود وہاں گیس چیمبرز میں مار دیئے گئے یا اور مظالم کا شکار ہوئے.ساٹھ لاکھ اور یہ دس سال کے عرصے میں ایسا ہوا ہے.تو اتنے بھیا نک اتنے خوفناک مظالم تھے ، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ان کو اپنا گھر دیا جائے یعنی یہ دلیل تھی اور ان مظالم سے دوڑ دوڑ کر یہ مسلمانوں کی پناہ میں فلسطین جایا کرتے تھے.یہ بھی تاریخ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عروج کے دور میں یہود پر مظالم نہیں گئے.دودفعہ صرف فلسطین پر ایسا قبضہ ہوا ہے جہاں جان ، مال کی مکمل حفاظت دی گئی ہے اور کسی یہودی کو یا کسی عیسائی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اور ایک دفعہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب فلسطین پر قبضہ کیا ہے پس اس کے سوا محققین یہ لکھتے ہیں کہ ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ تب فلسطین پر کسی فوج کا جابرانہ قبضہ ہوا ہو اور قتل عام نہ کیا ہو.چنانچہ Richard Lion انگریز بادشاہ نے جب ایک دفعہ اس کا کچھ حصہ ( فتح کیا تو تمام یہود ، مردوں ، عورتوں اور بچوں کو اور مسلمانوں کو ذبح کروادیا گیا کوئی نہیں چھوڑا گیا.یہ اس قوم کی عدل کی ، انصاف کی اور رحم کی اور انسانی قدروں کی تاریخ ہے جس نے یہود کو مجبور کیا اور Herzl کے دل میں خیال آیا کہ ہم امن میں نہیں ہیں.پس اگر امن میں نہیں تھے تو یہاں سے یا تو سارے بھاگتے لیکن یہ کیا علاج ہوا کہ سارا یورپ اسی طرح اپنے قبضے میں بلکہ یہاں قبضہ بڑھا دیا گیا اور اس کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں جا بیٹھے.پس یہ کوئی علاج نہیں ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے گدھے سے دولتی کھا کے کوئی اونٹ کی کونچیں کاٹ دے.تو مارے کوئی اور بدلہ کسی اور سے اتارا جائے.یہ تو بہت بڑا ظلم ہے کوئی منطق اس میں نہیں ہے.عیسائی طاقتوں کے لئے میں سمجھتا ہوں ان فیصلوں میں ایک یہ بھی نفسیاتی پس منظر بن گیا ہے.سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں بار بار یہود پر مظالم ہوئے.معلوم ہوتا ہے ہر ظلم کے نتیجے میں یہود کا چونکہ یہ تاریخی مسلک ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ، وہ ضرور بدلہ لیتے ہیں، اس لئے ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 140 خطبہ جمعہ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء تاریخی سلسلہ چلا آرہا ہے یہ کمزور قوموں کی طرح چھپ کر مخفی تدبیروں کے ذریعے بدلے لیتے ہوں گے ورنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دو ہزار سال تک یہ اپنی تاریخ بھولے رہیں اور اپنا مزاج بالکل فطرت سے نوچ کر نکال دیں یہ ہوہی نہیں سکتا.چنانچہ وہ تاریخ ہمارے پاس محفوظ نہیں کہ کیا کرتے تھے.یہ پتا ہے کچھ الزام ان پر ضرور لگتے تھے اور ان پر ظلم کیا جاتا تھا.پس وہ مظالم جوان پر کئے گئے ہیں وہ مغرب کو خوب یاد ہیں اور مغرب ان کے مزاج سے واقف ہے شیکسپئر کا Sherlock ان کے انتقامی جذبے کی ہمیشہ کے لئے ایک ادبی تصویر بنا بیٹھا ہے.ایسے حالات میں ہوسکتا ہے کہ آغاز میں تو یہ خیال نہ آیا ہو لیکن رفتہ رفتہ ان کی سوچوں میں یہ بات داخل ہوگئی ہو کہ یہود کا خطرہ اپنے سے اسلام کی دنیا کی طرف کیوں نہ منتقل کر دیا جائے.اور اس سے دوہرا فائدہ حاصل ہوگا.ایک وقت میں دو دشمن مارے جائیں گے.ایک لطیفہ، ہے تو بے ہودہ سا مگر اسی قسم کے مزاج کا لطیفہ ہے کہ ایک لڑکی کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے تین دعویدار تھے.تین خواہش مند تھے اس سے شادی کرنے کے.ان میں ایک زیادہ ہوشیار تھاوہ خاموش بیٹھا ہوا تھا اور وہ آپس میں خوب لڑتے مرتے تھے.تو کسی نے اس سے پوچھا تم تو بڑے ہوشیار ہو تم کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اس نے کہا تم فکر نہ کرو.میں ایک کو دوسرے سے لڑا رہا ہوں اور نیت یہ ہے کہ وہ اس کو قتل کر دے تو میں مقتول کے حق میں اس کے خلاف گواہ بن جاؤں تو ایک قتل ہو گا دوسرا پھانسی چڑھے گا میدان میرے ہاتھ رہے گا.یہ لطیفہ ویسے تو لطیفہ ہی ہے لیکن عملی دنیا میں ایک بھیانک جرم کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہورہا ہے، کھیلا جارہا ہے.اور آخری سازش یہی ہے کہ یہود کو ہمیشہ کے لئے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے ان کو دبانے کے لئے استعمال کرتے رہو اور یہود کا غصہ جو ہمارے خلاف ہے وہ مسلمانوں پر اتر تا رہے گا لیکن جیسا کہ میں آئندہ بیان کروں گا یہ بڑی سخت بے وقوفی ہے مغرب کی وہ دھو کے میں ہیں، وہ دھوکا کھائیں گے اور اس وقت ان کو پتہ لگے گا کہ ہم کیا غلطیاں کر بیٹھے ہیں.جب یہود کلیہ ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہوں گے.آئندہ میں بعض مشورے دوں گا مغربی طاقتوں کو ، اس صورت حال میں ، اس گند سے نکلنے کے لئے جس میں مبتلا ہو بیٹھے ہیں اور واقعی دنیا میں قیام امن کے لئے کیا کرنا چاہئے ، اپنے اندر کیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 141 خطبہ جمعہ ۱۵رفروری ۱۹۹۱ء تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں اور پھر یہود کو مشورہ دوں گا کہ تم اگر ان باتوں سے باز نہیں آؤ گے تو قرآن کریم نے تمہارے لئے کونسا مقدر پیش کیا ہے اور اگر تم فائدہ نہیں اٹھاؤ گے ان نصیحتوں سے تو پھر تم اس مقدر سے بچ نہیں سکتے.اور تیسر اعربوں اور مسلمانوں کو مشورہ دوں گا انشاء اللہ کہ اس نئی بدلتی ہوئی دنیا میں تمہیں کیا کردار ادا کرنا چاہئے.کونسی غلطیاں کر بیٹھے ہو جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیئے اور آئندہ کے لئے کیا لائحہ عمل ہو.اور چوتھا دنیا کی مختلف قوموں کو مشورہ دوں گا کہ کس طرح جھوٹے خداؤں سے آزادی کے لئے ایک معقول اور پر امن جدوجہد کے لئے تیار ہو جاؤ.یہ جاہلانہ جذباتی باتیں ہیں کہ انگریز سے نفرت کرو، امریکہ سے نفرت کرو.یہ ہیں ہی پاگلوں والی باتیں.دنیا میں نفرت کبھی کامیاب ہوہی نہیں سکتی.اعلیٰ اقدار کا میاب ہوتی ہیں.محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت کامیاب ہوا کرتی ہے اور وہ خلق عظیم کی سیرت ہے.مسلمان اگر اس سیرت کو اپنا لیں تو سب دنیا کے لئے ایک عظیم الشان نمونہ بنے گا اور وہ ایک ایسی سیرت ہے جو مغلوب ہونے کے لئے پیدا نہیں کی گئی.کوئی دنیا کی طاقت سیرت محمد پر غالب نہیں آسکتی.پس اس انصاف کی سیرت کی طرف لوٹو.اس نمونے کو اختیار کرو.تو پھر انشاء اللہ ساری دنیا کے مسائل طے ہو سکتے ہیں اور وہ حقیقی انقلاب نو آ سکتا ہے جسے ہم اس دنیا میں خدا کی عطا کردہ ایک جنت قرار دے سکتے ہیں.اگر نہیں تو اسی طرح یہ لڑتے مرتے رہیں گے.اسی طرح دنیا ابتلاؤں اور فسادوں میں مبتلا رہے گی.لیکن اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے باقی باتیں آئندہ جمعہ کو.انشاء اللہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 143 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل کے قیام کا پس منظر اور اس کی حیثیت.عراق پر ہونے والے مظالم کی روح فرسا تاریخ ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ آئندہ انشاء اللہ دنیا کو مختلف پہلوؤں سے بعض مشورے دوں گا جن کا آغاز امریکہ سے ہوگا.امریکہ کوسب سے پہلا مشورہ تو میں یہ دیتا ہوں کہ وہ بیرونی نظر سے بھی اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرے.صدر بش اس وقت جس قسم کے ماحول میں گھرے ہوئے ہیں اور جیسی تعریفیں اپنے اقدامات کی سن رہے ہیں ان کو ذہنی طور پر نفسیاتی لحاظ سے یہ ہوش ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اقدامات اور اپنی پالیسیوں کا بیرونی نظر سے بھی جائزہ لے کر دیکھیں کہ دنیا میں ان کی کیا تصویر بن رہی ہے.جہاں تک امریکہ کا اپنا خیال ہے، صدر بش کا اپنا خیال ہے وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے اب سب دنیا کو اپنی ایڑی کے پیچھے لگالیا ہے اور اس سے وہ شکاریوں کا محاورہ Heel کرنا یاد آ جاتا ہے جب بندوق کے شکاری کتوں کی مدد سے شکار کو نکلتے ہیں تو کتے کو ایڑی کے پیچھے لگانے کو Heel کرنا کہتے ہیں.تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے انگلستان کو بھی Heel کرلیا.دوسرے اتحادیوں کو بھی Heel کرلیا اور جس شکار پر نکلتے ہیں ان Heel ہوئے ہوئے ساتھیوں کے بعد اور بھی کچھ جانور ہیں جو اس شوق میں اور اس امید پر ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ جب شکار ہوگا تو بچا کھچا ہمیں بھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 144 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء ملے گا.یہ صدر بش کا تصور ہے ان تمام اقدامات سے متعلق جواب تک کویت کے نام پر عراق اور مسلمان دنیا کے خلاف کئے جاچکے ہیں لیکن ایک اور پہلو سے دیکھیں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے اور یقیناً یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ صدر بش سے زیادہ یا امریکہ سے زیادہ اسرائیل کو یہ حق ہے کہ یہ کہتے کہ ہم نے سب دنیا کو Heel کر لیا ہے اور امریکہ بھی ہمارے پیچھے اسی طرح چل رہا ہے جس طرح شکاری کے ساتھ کتے اس کی ایڑی کے پیچھے چلتے ہیں اور یہ تصویر زیادہ درست ہے اور دنیا اس نظر سے ان سارے حالات کا جائزہ لے رہی ہے.زاویہ نظر بدلنے سے چیز مختلف دکھائی دینے لگتی ہے.ایک زاویہ امریکہ کا ہے، ایک دوسرا زاویہ ہے.میں اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.امریکہ اور روس کے اتحادیوں کا خیال یہ ہے کہ اسرائیل ان کے تیل کے اور دیگر مفادات کا محافظ ہے اس لئے ہر قیمت پر ہمیں اسرائیل کو راضی رکھنا چاہئے خواہ اس کے نتیجے میں ساری دنیا ناراض ہو.اس کے برعکس اسرائیل کا بھی ایک نظریہ ہے اور وہ نظریہ یہ ہے کہ اگر تمام ایشیا کی رائے عامہ ہمارے مخالف ہو جائے تو اس کے باوجود ہمیں ایک مغربی ملک کا ساتھ زیادہ پسند ہو گا.پس امریکہ یہ سمجھ رہا ہے اور امریکہ کے اتحادی بھی کہ ان کو اسرائیل کی ضرورت ہے.واقعہ اسرائیل کے نقطہ نگاہ سے اسرائیل کو مغرب کی ضرورت ہے یہ کھیل کیوں اس طرح جاری ہے ؟ کس مقام تک، کس انتہا تک پہنچے گا ؟ اس سلسلے میں میں آپ کے سامنے بعض باتیں بعد میں رکھوں گا.جہاں تک تیل کے مفادات کا تعلق ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح گہری نظر سے اسرائیل کے مزاج کے مطالعہ کا حق ہے یہ لوگ اس میں ناکام رہے ہیں.اسرائیل کا مزاج ایسا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تیل کے اتنا قریب رہتے ہوئے وہ بالآخر تیل پر حملے کی کوشش نہ کرے.تیل کا محافظ ا اسرائیل کو بنانا ویسا ہی ہے جیسے پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ.دودھ دارا کھا بلا تے چھولیاں دارا کھا بکرا.سادہ سی مثال ہے مگر اس میں بہت گہری حکمت ہے.اگر چنوں کو بکروں کے سپر د کر دیا جائے کہ ان کی حفاظت کریں یا دودھ کو بلوں کے سپرد کر دیا جائے تو اس سے بڑی حماقت نہیں ہوسکتی.پس جن مفادات کی حفاظت اسرائیل کے سپرد کی جارہی ہے ان مفادات کو سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل سے ہے اور آخر بات وہیں تک پہنچے گی اگر اس وقت دنیا نے ہوش نہ کی.لیکن ان امور کا بھی بعد میں نسبتاً
خطبات طاہر جلد ۱۰ 145 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء تفصیل سے ذکر کروں گا.اسرائیل ایک اور بات اپنے مغربی اتحادیوں، خصوصاً امریکہ کے کان میں یہ پھونک رہا ہے کہ اس علاقے میں امن کے قیام کا صرف ایک ذریعہ ہے ، ایک حل ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ناصروں اور صداموں کی پیداوار کوختم کر دیا جائے.جب تک اس علاقے میں ناصر پیدا ہوتے رہیں گے اور صدام پیدا ہوتے رہیں گے کبھی اس علاقے کو امن نصیب نہیں ہوسکتا.اس پیغام کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ عرب کے زندہ رہنے کی اور آزادی کی روح کو کچل دیا جائے اور فلسطین کی حمایت کے تصور کو کچل دیا جائے اور یہ وہ نظریہ ہے جس کو مغرب عمل التسلیم کر چکا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ حقیقت میں یہ مظالم ناصروں اور صداموں کی پیداوار نہیں بلکہ وہ مظالم کی پیداوار ہیں.ایک ناصر کو مٹانے کے لئے جو مظالم انہوں نے مصر پر اور دیگر مسلمان ممالک پر کئے تھے آج صدام اُن کی پیداوار ہے اور نفرت کے نتیجے میں ہمیشہ نفرت اگتی ہے اور کبھی نیم کے درخت کو میٹھے پھل نہیں لگا کرتے.پس بالکل الٹ قصہ ہے جب تک آپ عربوں سے نا انصافی کرتے رہیں گے عربوں پر مظالم توڑتے رہیں گے ایک کے بعد دوسرا ناصر اور ایک کے بعد دوسرا صدام پیدا ہوتا رہے گا اور یہ تقدیر الہی ہے جس کا رخ آپ نہیں بدل سکتے.آپ نے عراق پر اب تک جو بمباری کی ہے وہ اتنی ہولناک اور اتنی خوفناک ہے کہ جنگ عظیم کی بمباریاں اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.جنگ عظیم میں 4 سالوں میں تمام دنیا میں جتنے بم برسائے گئے وہ ۲۷ لاکھ ٹن تھے اور صرف عراق پر ایک مہینے سے کچھ زائد ، پانچ ہفتوں میں جتنے بم گرائے گئے ہیں وہ ۱/۲.( ڈیڑھ لاکھٹن ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی شدت کے ساتھ یہاں مظالم کی بوچھاڑ کی جارہی ہے.انسانی فطرت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.یہ بم صدا میت کو مٹا نہیں رہے بلکہ لاکھوں نوجوانوں کے دل میں خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب مسلمان ہوں مزید صدام پیدا کرنے کی تمنا پیدا کر رہے ہیں.بہت سی ایسی نوجوان نسلیں ہیں جو آج ان حالات کو دیکھ رہی ہیں اور ان کے رد عمل میں ان کے دل فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم نے کل کیا کرنا ہے.پس بموں کی بوچھاڑ سے یہ اگر میٹھے پھلوں کی توقع رکھیں تو اس سے بڑی جہالت ہو نہیں سکتی.نفرتیں ہمیشہ نفرتوں کو پیدا کرتی ہیں.نفرت کی وجہ کیا ہے؟ جب تک وہاں نہیں پہنچیں گے.کون سی نفرتیں ہیں جنہوں نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 146 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء ناصر اور صدام پیدا کئے جب تک ان کا کھوج نہیں لگائیں گے اور ان کی بیخ کنی کی کوشش نہیں کریں گے اس علاقے کو امن نصیب نہیں ہوسکتا.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اور حقائق اس بات کے گواہ ہیں ، دراصل اسرائیل کا قیام ہی تمام نفرتوں کا آغاز ہے، تمام نفرتوں کی جڑ ہے اور اسرائیل کے قیام کے تصور میں جنگیں شامل ہیں اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں یہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ David Ben Gurion جو اسرائیل کے بانی مبانی ہیں، ان کا یہ دعوی ہے میں اس کا اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں.Making of Israel میں صفحہ 55 پر Games Cameron لکھتے ہیں:."For Ben-Gurion the word, state,had now no meaning other than an instrument of war" اسرائیل کے حصول کے بعد Ben-Gurion کے تصور میں اب ریاست کے کوئی اور معنی نہیں رہے سوائے جنگ کے I can think of no other meaning now,he said یعنی Ben-Gorion نے کہا "I feel that the wisdom of isreal now is that to waee war,that_and_nothing else,that and only that" میں یقین رکھتا ہوں کہ اب اسرائیل کی حکمت اور اس کی عقل کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جنگیں کرے اور اس کے سوا اور کوئی خلاصہ نہیں جنگ اور جنگ اور جنگ.اس عبارت کو پڑھ کر مجھے Colerigde کی دوسطریں یاد آ گئیں جو اس نے اپنی مشہور نظم Kubla Khan میں Kubla Khan کے متعلق لکھیں - Kubla Khan کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے.And, mid this tumult kubla heard from far ancestral voices propngsuing war! اس غلغلے میں ، اس شور اور ہنگامے میں Kubla نے دور سے آتی ہوئی اپنے آباؤ اجداد کی آواز سنی جو جنگ کی پیشگوئی کر رہی تھی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 147 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء Kubla نے وہ آواز سنی یا نہیں سنی لیکن David-ben Gurion نے یقیناً Zion Hill سے بلند ہوتی ہوئی یہ آواز سنی ہے کہ اسرائیل! آج کے بعد تمہارے قیام کا مقصد صرف ایک ہے اور صرف ایک ہے اور صرف ایک ہے کہ جنگیں کرتے چلے جاؤ اور تمام دنیا کو جنگ میں جھونکتے چلے جاؤ.اس کے بغیر اسرائیل کا اور کوئی مفہوم نہیں ہے.پس اس اسرائیل کی تائید میں امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے آپ کو خواہ کسی دھوکے میں مبتلا رکھیں اس اسرائیل کی تائید کے بعد کسی امن کا تصور ممکن ہی نہیں ہے.یہ اسرائیل کی سرشت میں داخل ہے ان کی تعریف میں داخل ہے کہ اب ساری دنیا کو ہمیشہ جنگوں میں جھونکنا ہے اور کیوں جھونکنا ہے؟ اس سلسلہ میں میں آخر پر اس راز سے پردہ اٹھاؤں گا اگر چہ یہ کوئی خاص بڑا راز بھی نہیں.اسرائیل کی جنگی تیاریوں کا جہاں تک تعلق ہے،اب تک دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ عراق دنیا کے لئے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ وہ ہٹلر ہے، وہ Natsiism کی ایک نئی نمود ہے نئی شکل میں Natsiism ظاہر ہوا ہے حالانکہ عراق کا یہ حال ہے کہ خود ایک مغربی مبصر نے لکھا کہ اس کو تم ہٹلر کہہ رہے ہو جو آٹھ سال تک ایران جیسے ملک پر قبضہ نہیں کر سکا اور ہٹلر نے آنا فانا سارے یورپ میں تہلکہ مچادیا تھا.اس سے تمہاری روحیں کا نپتی تھیں, وہ برلن سے اٹھا ہے اور لینن گراڈ کے دورازے کھٹکھٹا رہا تھا اور ادھر اس کے راکٹ تمہارے لندن شہر پر برس رہے تھے اور تم کس منہ سے صدام کو ہٹلر کہہ رہے ہو جس کے اوپر تمہارے راکٹ برس رہے ہیں کیسا جاہلانہ تصور ہے.ایک سکڈ میزائیل بھی نہیں بنا سکتا.گن رہے ہیں کہ کتنی باقی رہ گئی ہیں اور جو پیوند اس پر لگایا تھا تا کہ اس کی Range بڑھ جائے وہ ایسا بے ہودہ سا بنا ہوا ہے بیچارہ جس طرح ہمارے لو ہارے تر خانے کام ہوتے ہیں کہ اس پر یہ گرے ہوئے پر مذاق اڑا رہے تھے کہ یہ تو حال ہے عراق کا ، ہم سے جنگ کی باتیں کرتا ہے Scud Missile میں صحیح طریق پر ایک تھوڑے سے ٹکڑے کا اضافہ بھی نہیں کر سکتا یہ ہٹلر ہے اور اسرائیل کے ایک جرنیل نے یہ دعوی کیا بلکہ یہ کہتا ہے کئی جرنیل یہ دعوے کر چکے ہیں."Israel Generals have often boasted that they could take on all the arab armies at the same time and still destroy them, and the chief of staff has even claimed that
خطبات طاہر جلد ۱۰ 148 خطبہ جمعہ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء he could defeat the armed forces of the Soviet Union." (Dispossessed, the ordeal of the palestians, Page:224 by david gilmour) David Gilmour اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اسرائیلی جرنیل بارہا یہ دعوے کر چکے ہیں کہ اگر تمام عرب کی متحدہ قوت سے بھی ہم ٹکرائیں اور بیک وقت ٹکرا ئیں تو ہم ان تمام کو پارہ پارہ کر سکتے ہیں اور عرب متحدہ قوت کی کیا حیثیت ہے.اگر سوویت یونین بھی ہم سے ٹکر لے تو یہ طاقت ہے کہ ہم سوویت یونین کو شکست دے دیں.پس ایک خیالی فرضی ہٹلر کو Destroy کرنے کے لئے تباہ کرنے کے لئے ایک حقیقی ہٹلر کو یہ پال رہے ہیں اور کیسے اندھے ہیں، کیسے بصیرت سے عاری لوگ ہیں کہ ان کو یہ پتہ نہیں کہ ہٹلر کا یہ نام صدام کو اور فلسطین کو خود اسرائیلیوں نے دیا ہوا ہے.ہٹلر کے نام پر یہ ہٹلر پال رہے ہیں اور ابھی آئندہ اگر یہ سمجھے نہیں تو ان کی آنے والی تاریخ بتائے گی کہ اسرائیل کے کیا ارادے ہیں اور ان کے ساتھ خود اسرائیل کیا سلوک کرنے والا ہے.اس پس منظر میں جب مسلمان یہ دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ظلم پر ظلم کرتا چلا جارہا ہے اور اس کی حمایت پر حمایت ہوتی چلی جارہی ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے؟ اسرائیل کی طرف بار بار مسلمانوں کے Terrorist کے ذکر ہوئے ہیں اور ساری مغربی دنیا میں آپ کی آنکھیں یہ پڑھتے پڑھتے پک چکی ہوں گی کہ مسلمان Terrorist اور مسلمان Terrorist اور مسلمان Terrorist اور مسلمان Terrorist اور فلسطینی Terrorist اور فلاں Terrorist اسلام اور Terrorist کو یک جان ، ایک قالب بنا کر دکھایا گیا ہے.ایک ہی جان اور ایک ہی وجود کے دو نام ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل Terrorist کا بانی مبانی ہے اس سلسلے میں گزشتہ خطبے میں میں نے شاید چند مثالیں پیش کی تھیں.اب میں بہت مختصراً آپ کو بتا تا ہوں کہ اسرائیل کی طرف سے Terrorist کے جو خوفناک واقعات ہوچکے ہیں.ان پر آج تک عربوں کی تباہ شدہ بستیاں دیر یاسین، یافہ طیبہ ، مغربی بیروت ، صبرا اور شانتیلا کے کھنڈرات گواہ ہیں.اتنے ہولناک مظالم ان بستیوں پر کئے گئے کہ مردوں ،عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں کو دن دھاڑے آنکھوں میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 149 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء آنکھیں ڈال کر ذبح کیا گیا اور بڑے ظلم اور سفاکی کے ساتھ نیزوں میں پر دیا گیا اور دوسرے طریقوں پر ہلاک کیا گیا اور ایک ذی روح کو وہاں زندہ نہیں چھوڑا گیا.ہزار ہا اگر نہیں تو سینکڑوں ایسی بستیاں ہیں جنہیں کلیۂ خاک سے ملا دیا گیا.کوئی ایک عمارت بھی کھڑی نہیں چھوڑی گئی.صرف 77ء کے ایک حملے کے دوران اڑھائی لاکھ فلسطینی بے گھر کئے گئے اور یہ سارے امورا ایسے ہیں جن کے متعلق مغرب خاموش ہے اور آنکھیں بند کئے ہوئے ہے.پس عرب ہوں یا دوسرے مسلمان ہوں ، وہ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ایک طرف سے ظلموں کے انبار کھڑے کئے جا رہے ہیں ،طوفان مچائے جارہے ہیں اور مقابل پر کوئی حس نہیں ہے.کوئی ایسا انسان نہیں ہے جو انصاف کے ساتھ اسرائیل کو مخاطب کر کے کہے کہ آج تم نے انسانی ظلموں کی تاریخ میں ایسے ابواب کا اضافہ کیا ہے جس سے انسانی ظلموں کی تاریخ کو شرم آتی ہے لیکن ان سب ظلموں سے چشم پوشی ہوتی چلی جارہی ہے.اس کی بہت سی مثالیں ساتھ ہیں لیکن وقت کی رعایت سے میں ان کو پڑھ نہیں سکتا.اگر موقعہ ہوا تو بعد میں چھپ جائیں گی.وحشت و بربریت کی تاریخ میں اسرائیل کی طرف سے جو سیاہ ترین باب ہے اس کا اضافہ 1982ء میں ہوا.انہوں نے لبنان پر حملے کا ایک منصوبہ بنایا، جس کا نام رکھا تھا Opration peace for Galilee یعنی کلیلیلی کی بستی کے لئے امن کے تحفظ کا منصوبہ.اس ضمن میں David Gilmour اپنی کتاب Dispossessed میں جو نقشہ کھینچتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل نے گیلیلی سے متعلق جو یہ منصوبہ بنایا، امرواقعہ یہ ہے کہ یہ اس منصوبے کے لئے یہ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے تحفظ کے لئے لبنان کے جنوب سے فلسطینیوں کے حملے کی روک تھام کی خاطر اور ان کے مسلسل حملوں سے تنگ آکر یہ منصوبہ بنایا.مصنف لکھتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ جولائی 1981 ء میں فلسطینیوں کا اور اسرائیلیوں کا ایک امن کا معاہدہ ہوا Gilmour لکھتا ہے کہ جولائی 1981 ء سے لے کر مئی 1982 ء تک جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا ہے اس وقت تک فلسطینیوں سے اس معاہدے کی ایک بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی.اس تمام عرصہ میں کسی فلسطینی نے اسرائیل پر لبنان سے کوئی حملہ نہیں کیا دوسرے وہ کہتا ہے کہ گلیل کو لبنان کی طرف سے کبھی بھی کوئی خطرہ در پیش نہیں ہوا.تیسرے وہ کہتا ہے کہ 1982 ء سے بہت پہلے وہ ان کے حوالوں سے ثابت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 150 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء کرتا ہے کہ یہ منصوبہ تیار تھا.اس لئے بعد میں جو فرضی بہانے گھڑ رہے ہیں ان کی اس لحاظ سے بھی کوئی حقیقت نہیں کہ ان بہانوں کی جو تاریخیں ہیں ان سے بہت پہلے ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ منصوبہ بنا چکے تھے.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ 1982ء میں جبکہ بیروت پر بمباری شروع کی گئی تو وہ بمباری اتنی خوفناک تھی کہ دن رات ان کی تو ہیں بیروت سے باہر مسلسل ان پر گولے برسا رہی تھیں اور سمندر سے ان کے جہاز جن پر بہت ہی خوفناک تو ہیں تھیں ان تو پوں سے ان پر آگ برسا ر ہے تھے.دن رات مسلسل مکانوں پر مکان منہدم ہوتے چلے جا رہے تھے اور لوگ مرتے چلے جارہے تھے اور کوئی شخص نہیں تھا کوئی آواز نہیں تھی دنیا میں جو مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اٹھتی ہو مغرب بھی خاموش تھا اور بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ خود عرب بھی خاموش تھے اور اس وقت تک اسرائیل کا اس قدر رعب پیدا ہو چکا تھا اور اس کے Terror سے اتنے خوف زدہ تھے کہ کسی عرب ملک نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور بمباری کے نتیجے میں چودہ ہزار آدمی وہاں مرے اور بیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے اور لاتعداد انسان بے گھر ہو گئے.یہ 1982ء کی اس بمباری کا خلاصہ ہے بعض جو اخباروں نے شائع کیا ہے آپ نے شاید سنا ہوگا کہ جنگ عظیم کے آخر پر جب جرمنوں نے انگلینڈ پر اور حکیم پر 2-V راکٹ چھوڑے تھے اور اس کے ذریعے بمباری کی تھی تو اس دور کو اس جنگ کا سب سے زیادہ ہولناک اور دردناک دور بیان کیا جاتا ہے انگلستان کی طرف سے بار بار مختلف وقتوں میں مختلف سالوں میں ٹیلی ویژ نز پر اور دوسرے پروپیگنڈے کے ذریعہ 2-V کی اس بمباری کے تذکرے چلتے رہتے ہیں اور اسے بھولنے نہیں دیا جا تا لیکن آپ حیران ہوں گے کہ اس 2-Y کی بمباری کے نتیجے میں سارے انگلستان اور سارے جسم میں کل ساڑھے سات ہزار اموات ہوئی تھیں اور صرف بیروت میں اس بمباری کے نتیجے میں چودہ ہزار اموات ہو چکی تھیں.یہ سارے Terror کے واقعات ہیں جو کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے اور کوئی مغربی طاقت ان کا نوٹس نہیں لیتی اور اسرائیل کے خلاف اس بارہ میں کوئی آواز بلند نہیں کرتی.جہاں تک اسرائیل کے وعدوں کا تعلق ہے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تم اسرائیل سے صلح کر لو تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 151 خطبہ جمعہ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں یہ سب جھوٹ ہے اور اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اس کی مثال دنیا میں دکھائی نہیں دیتی.میں اعداد و شمار سے یہ بات ثابت کرتا ہوں کہ اسرائیل کے وعدوں کا اتنا اعتبار بھی نہیں جتنا دنیا کے سارے جھوٹوں کے مل کر کئے ہوئے وعدوں کا اعتبار کیا جاسکتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ 1967ء کی جو جنگ عربوں پر ٹھونسی گئی.یعنی وہ جارحانہ جنگ جس کے نتیجے میں عربوں کا ایک بہت وسیع علاقہ اسرائیل نے ہتھیا لیا اس جنگ سے پہلے اسرائیل نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم عربوں کی زمین کا ایک فٹ قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ساری مغربی طاقتوں کو یقین دلا دیا تھا کہ ہماری نیت ہی قبضہ کرنے کی نہیں ہے ہم تو صرف فلسطینیوں کو ذرا مزہ چکھانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں کہ اگر تم ہم پر حملوں سے باز نہ آئے اور تمہارے حمایتی اسی طرح جرات کرتے رہے تو ہم اس قسم کی سزا دیں گے.یہ مقصد ہے صرف چنانچہ Levi Eshkol ہیں جنہوں نے 1967ء کی جنگ سے پہلے اسرائیل کی طرف سے یہ اعلان کیا تھا.یہ پرائم منسٹر تھے.کہتے ہیں.Israel, said the prime minister, had no intenion of annexing even one foot of arab territory.ایک فٹ بھی Arab Territory کا ہم نہیں لینا چاہتے یہ اسرائیل کے پرائم منسٹر کا اعلان تھا اس جنگ کے بعد آج تک جتنا رقبہ عربوں کا انہوں نے اپنے قبضہ میں کیا ہے اگر اس کو فٹوں میں بیان کریں تو وہ ۷۳ ٹریلین فٹ بنتے ہیں.Billions کی باتیں تو آپ سن چکے ہیں.ایک ہزار ملین کا ایک بلین بنتا ہے ، ایک ہزار بلین کا ایک ٹریلین بنتا ہے تو ایک فٹ کے بدلے یہ سے ٹریلین یعنی ۷۳ ہزارٹریلین Feet عرب رقبہ پر قابض ہو چکے ہیں.اس پر مجھے یاد آیا کہ ایک مغربی مصنف نے اسرائیل کی انتقامی کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مجھے یہ بات تو سمجھ آجاتی ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ، ان کی مذہبی تعلیم ہے ایک آنکھ کے بدلے ایک آنکھ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ایک آنکھ کے بدلے 20 آنکھیں یا اس سے زیادہ کی سمجھ مجھے نہیں آتی.امر واقعہ یہ ہے کہ اس مصنف نے اسرائیل کے رد عمل کے اعداد و شمار نہیں نکالے.اس وقت اسرائیل کا مذہب ایک کے بدلے 20 آنکھیں نہیں.بلکہ ایک آنکھ کے بدلے 20 ہزار یا 20 لاکھ آنکھیں ہیں اور جہاں تک وعدوں کا تعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 152 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء ہے وہ منفی صورت میں ایک کے بدلے Trillions کی اعداد وشمار میں وعدہ خلافی کی جاتی ہے.یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ابھی بات سنئے جب انہوں نے لبنان پر 82ء میں حملہ کیا جس کا میں مختصراً ذکر کر چکا ہوں تو اس حملے سے پہلے انہوں نے اسی طرح یہ اعلان کیا کہ ہم لبنان کی ایک انچ زمین بھی قبضے میں نہیں لینا چاہتے اور جب لبنان پر قابض ہو کر انتہائی مظالم کر کے ایک لمبے عرصہ تک اور بھی ایسے مظالم کئے جن کا میں نے ذکر نہیں کیا ، آخر لبنان چھوڑا تو دریائے لتانی Litani River کے جنوب کا وہ سارا حصہ قبضے میں کر لیا جو شروع سے ہی اسرائیل کے منصوبے میں شامل تھا اور اس رقبے کا انچوں میں رقبہ 8 ٹریلین 830 بلین مربع انچ بنتا ہے.تو جب وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک فٹ بھی نہیں لینا چاہتے.تو مراد ہوتی ہے ہم 73 ٹریلین لینا چاہتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں.ہم ایک انچ بھی نہیں لینا چاہتے تو مراد اس سے ہوتی ہے کہ 8 ٹریلین 830 بلین ( مربع انچ ) زمین ہم لینا چاہتے ہیں اس پر مجھے خیال آیا کہ ان کی تاریخ کا حساب لگا کر دیکھیں کہ جب تو رات میں یہ تعلیم نازل ہوتی تھی کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت تو اس وقت سے اب تک کتنا وقت گزر چکا ہے.سیکنڈز میں کر کے دیکھیں تو پھر اندازہ ہوگا ان کی نفسیات کا کہ ہر سیکنڈ یہ اس انتقام کی کارروائی کے جذبے میں کتنا اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تو رات کی تعلیم کے نزول سے لے کر آج تک تقریباً جو میں نے اندازہ لگایا ہے سالوں کو سیکنڈز میں تبدیل کر کے.6 ٹریلین 244 بلین 128 ملین سیکنڈ بنتے ہیں اب آپ اندازہ کریں کہ حضرت موسیٰ کے زمانے سے آج تک 6 ٹریلین 244 بلین اور 128 ملین سیکنڈ کا عرصہ گذرا ہے اس عرصہ میں ان کی وعدہ خلافیوں کی نسبت کتنی بڑھ چکی ہے ایک سیکنڈ کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ رفتار سے یہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اسی نسبت سے ان کی انتقام کی تمنائیں بڑھتی چلی جارہی ہیں.لبنان کے اوپر ظلم و ستم کی جو بارش برسائی گئی اس کے متعلق صرف ایک اقتباس میں ایک مغربی مبصر کا آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہاں اس وقت کینیڈین ایمبیسڈر (Theodore Argand) تھے.انہوں نے اس بمباری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس بمباری کو دیکھ کر 1944ء کی برلن کی بمباری یوں معلوم ہوتا تھا جیسا ایک Tea Party ہورہی ہو یعنی اگر بمباری یہ ہے تو برلن پر جو نہایت خوفناک بمباری 1944ء میں کی گئی تھی وہ اس کے مقابل پر ایک Tea Party کی حیثیت
خطبات طاہر جلد ۱۰ رکھتی تھی.153 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء بعض مبصرین نے بہت عمدہ تجزیہ کیا.وہ لکھتے ہیں کہ یہ محض PLO کے قتل عام کا منصوبہ نہیں تھا بلکہ فلسطین کی خودی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا منصوبہ تھا اور خود Dr.Nanum Goldman جو ZIONISM کے بانی مبانی ہیں اور سالہا سال تک Janish Confres اور World Zoinist organization کے صدر رہے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ :.World The apparent aims is to liquidate, the palestinan people جو بھی ہمارے منصوبے تھے ان کا کھلا کھلا مقصد یہی تھا کہ فلسطینیوں کو تحلیل کر دیا جائے ان کو صفحہ ہستی سے نا پید کر دیا جائے.فلسطین کے خلاف اور فلسطینیوں کے خلاف اس قوم نے جو ظالمانہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے اس میں فلسطینی لیڈرشپ کی کردار کشی نے بھی بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے.چنانچہ ایک مغربی مبصر لکھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ فلسطینیوں کی کردارکشی کرتے چلے جارہے ہیں یہاں تک کہ فلسطینیوں کو مخاطب بھی اس طرح کرتے ہیں کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ فلسطینی کا نام لیا گیا ہواور کوئی تحقیر کا اور تذلیل کا لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ یہ کہنے کی بجائے کہ فلسطینیوں نے ایسا کیا، کہتے ہیں Terrorists یہ کرتے ہیں.Animals یہ کیا کرتے ہیں.Bastards ایک گندی گالی ہے وہ یہ کیا کرتے ہیں اور بیروت میں عرفات کو ہٹلر کے Banker میں بیٹھا ہوا عرفات بیان کرتے ہی.کچھ عرصہ پہلے تک یہ فلسطینیوں سے نفرت کی وجہ یہ بیان کیا کرتے تھے کہ فلسطینی ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تو ہم ان کے وجود کو کیوں تسلیم کریں ہم کس سے بات کریں ان سے بات کریں کہ جو کہتے ہیں کہ تمہیں سمندر میں پھینک دیا جائے.لمبے عرصے کی کوششوں اور نا کا میوں کے بعد آخر یاسر عرفات نے ان کا یہ عذر دور کرنے کی کوشش کی اور یونائیٹڈ نیشنز کے اس اجلاس میں جس میں یاسر عرفات کو بلایا گیا ، انہوں نے کھلم کھلا تمام قوموں کے سامنے یہ اقرار کیا کہ میں تمام فلسطینی آزادی کی تحریک کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں.جب یہ اعلان کر دیا گیا تو اس کے چند دن کے بعد اسرائیل کی طرف سے اس کے جواب میں یہ اعلان ہوا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 154 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء The only useful thing the plo could do, said the spokesman of the israel foreign ministry, was to disappear palestin no longer existed and therefore there was no point in it having a liberation movement.انہوں نے اعلان کیا کہ فلسطین کے وجود کا معنی ہی کوئی نہیں یہ ختم ہو چکا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ان کی وزارت خارجہ نے یہ اعلان کیا کہ یہ جو یاسر عرفات نے ہمیں تسلیم کیا ہے اس کے جواب میں ہمارا رد عمل یہ ہے اور ہمارا فلسطینیوں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ تحلیل ہو جائیں وہ ختم ہو جائیں، کالعدم ہو جائیں ، ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں.یہ وہ قوم ہے جس کے ظلم و استبداد سے آنکھیں بند کر کے کمزور مظلوم فلسطینیوں کو مسلسل نہایت ظالمانہ پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا ہے.ان کی ساری زمینیں چھین لی گئی ہیں، ان کو ملک بدر کر دیا گیا ہے،ان پر آئے دن انتہائی ظالمانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں.قتل عام کیا جاتا ہے.بستیوں کی بستیاں منہدم کر دی جاتی ہیں اور وہ در بدر پھر رہے ہیں ان کا کوئی وطن نہیں رہا.40لاکھ فلسطینی دنیا میں در بدر پھر رہا ہے اور ان کے وطن میں یہود کا پودا لگا کر اور اس کے پاؤں جما کر ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے.ان ساری کوششوں کے باوجود آج بھی فلسطین میں کل 25 لاکھ یہودی ہیں اور ابھی تک 15 لاکھ فلسطینی وہاں موجود ہیں اور اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور آئندہ ان کے منصوبوں میں یہ بات داخل ہے کہ جب مغربی کنارے کو ہم یہودیوں سے بھر لیں گے تو پھر مزید جگہ کے مطالبے شروع کریں گے.پس پہلے یہ مکان بڑھاتے ہیں پھر آبادی بڑھاتے ہیں پھر مکان بڑھاتے ہیں پھر آبادی بڑھاتے ہیں.یہ ان کا طریق ہے اور وہ فلسطینی جو اس سرزمین پر سینکڑوں سال سے قابض تھے.وہیں پیدا ہوئے ، وہیں کی مٹی میں پلے اور بنے اور بڑے ہوئے ان فلسطینیوں کو وہاں رہنے کا کوئی حق نہیں کہتے ہیں تمہارا کوئی ملک نہیں تمہارا کوئی وجود نہیں ہم تمہیں تسلیم نہیں کرتے.سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ کس برتے پر کس خیال سے ، کس حکمت عملی کے نتیجے میں یہودیوں سے اپنے معاشقے کو قائم رکھے ہوئے ہے اور جس طرح ہمارے محاورے میں سانڈ چھوڑ نا کہتے ہیں اس طرح عربوں کے کھیتوں میں ایک سانڈ چھوڑا ہوا ہے.عام
خطبات طاہر جلد ۱۰ 155 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء کھیتوں میں جو سانڈ چھوڑے جاتے ہیں وہ تو سبزیاں کھاتے ہیں ، یہ ایک ایسا سانڈ ہے جو خون پی کر پلتا ہے اور گوشت کھا کر بڑھتا ہے اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں.ایک ریزولیوشن کی باتیں آپ نے بہت سنی ہیں کہ عراق جب تک اس ریزولیوشن پر عمل نہ کرے ہم عراق کو مارتے چلے جائیں گے اور برباد کرتے چلے جائیں گے اور اس کو کویت سے نکالنے کے باوجود بھی اس وقت تک ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ یہ امکان نہ مٹ جائے ، یہ احتمال ہمیشہ کے لئے نہ مٹ جائے کہ بیسیوں سال تک کبھی عراق کی سرزمین سے کوئی شخص سراٹھا سکے.اس کے مقابل پر اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں جب بھی سیکیورٹی کونسلز میں ریزولیوشنز پیش ہوئے کہ ان کا رروائیوں کو روکا جائے یا ان کا رخ موڑا جائے تو ہمیشہ امریکہ نے ان ریزولیوشنز کو ویٹو کیا.27 مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ سیکیورٹی کونسلز میں اسرائیل کو ظالم قرار دیتے ہوئے اس سے مطالبہ کیا گیا کہ تم عرب علاقے خالی کرو اور ظلم سے ہاتھ کھینچو اور 27 مرتبہ United States کے نمائندے نے اس کو ویٹو کر دیا اور United States کی ویٹوا کثر صورتوں میں اکیلی تھی جب کہ دوسری ویٹو کی تاریخ کا میں نے مطالعہ کیا ہے اس میں اکثر صورتوں میں دوتین دوسرے بھی شامل ہوتے ہیں لیکن باقی سب کے مقابل پر United States اکیلا اسرائیل کا حمایتی بن کران ریزولیوشنز کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کرتا رہا.پھر میں نے دیکھا کہ وہ ریزولیوشنز کتنے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کو متوجہ کیا گیا کہ تم ظلم سے باز آؤ تو ان کی تعداد بھی ۲۷ بنتی ہے جو پاس ہوئے اور ان میں سے اکثر میں امریکہ نے Abstain کیا ہے جن ریزولیوشنز کی زبان بہت زیادہ سخت تھی ان کو تو پاس ہی نہیں ہونے دیا جن میں مذمت ہی کی گئی تھی ، زبان بہت سخت نہیں تھی ان میں امریکہ الگ رہا اور ان کی تائید میں ووٹ نہیں ڈالا اور 242 جس کا ذکر آپ نے بہت سنا ہوا ہوگا وہ ریزولیوشن جس میں اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ 67ء کی ہتھیائی ہوئی اپنی زمینیں واپس کرو.اس ریزولیوشن کو پاس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی عبارت داخل کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کے حمایتیوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار آ گیا ہے کہ جس طرح چاہیں اس ریزولیوشن کا مطلب نکال لیں.صرف وہ ایک ریزولیوشن ہے جس پر امریکہ نے اثبات کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے عقل بھنا جاتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 156 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء کہ یہ قابل فہم بات دکھائی نہیں دیتی.کیوں آخر اس طرح ہوتا چلا جا رہا ہے؟ کیا مقصد ہے امریکہ کا اسرائیل کی اس طرح پر زور حمایت کرنے کا ؟ اسرائیل کے خلاف مذمت کے جوریزولیوشنر سیکیو رٹی کونسل میں پاس ہوتے رہے ان کے مطالعہ سے ایک اور دلچسپ بات میرے سامنے یہ آئی کہ ان ریزولیوشنز کے رویے میں اور عراق کے خلاف ریزولیوشنز کے رویے میں زمین آسمان کا ایک فرق ہے.عراق کو سانس نہیں لینے دیا گیا.موقعہ ہی نہیں دیا گیا.ایک طرف یہ ریزولیوشن پاس ہوا کہ Sanctions ہوں.خوراک بند ہو جائے ، دوائیاں تک بند ہو جائیں ، کوئی چیز کوئی پتا بھی داخل نہ ہو سکے اور Sanctions ابھی کچھ عرصہ جاری ہوئی تھیں تو فیصلہ کر لیا گیا کہ اب اس پر حملہ کیا جائے.امر واقعہ یہ ہے کہ Sanctions سے بہت پہلے حملے کا منصوبہ مکمل ہو چکا تھا.Sanctions کا مطلب یہ تھا کہ حملے سے پہلے بھوک سے مارا جائے اور ضرورت کی اشیاء کی نایابی کا عذاب دے کر مارا جائے.یہاں تک کہ بعد میں بچوں کے دودھ پلانٹ پر بھی حملہ ہوا تو یہ اس کا مقصد تھا.اس رویے میں اور اس رویے میں جو اسرائیل کے عدم تعاون کے بعد سیکیورٹی کونسل نے اختیار کیا زمین آسمان کا فرق ہے.ان کے ریزولیوشنز کی زبان یہ بنتی ہے کہ دیکھو اسرائیل! ہم نے تمہیں فلاں فلاں وقت بھی کہا تھا کہ تم عرب علاقہ واپس کر دو اور تم اب تک اس میں جمے ہوئے ہو ہم اس کو نہایت ہی غصے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں.ہم یہ بات پسند نہیں کرتے.پھر ریزولیوشن پاس ہوتا ہے کہ اے اسرائیل ! ہم نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ ہم برا منائیں گے اور ہم برامنا رہے ہیں.پھر ریزولیوشن پاس ہوتا ہے کہ ہم نے پہلے بھی دو دفعہ بتایا تھا کہ ہم بہت برا منا رہے ہیں اور ہم ایسے اقدام کرنے پر مجبور ہو نگے جس سے تم پر ثابت ہو جائے کہ ہم برا منا رہے ہیں اور پھر ریزولیوشن پاس ہوتا ہے کہ جس طرح ہم نے کہا تھا ہم اب مجبور ہو گئے ہیں تمہیں یہ بتانے پر کہ ہم بہت ہی برا منارہے ہیں.اس کے سوا کوئی ریزولیوشن پاس نہیں ہوا.یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں U.P کے متعلق یہ لطیفہ ہے کہ وہاں لوگ ذرا لڑائی سے گھبراتے ہیں تو U.P والے کو جب کوئی مارے اور مارنے والا طاقتور ہو تو وہ اس کو کہتا ہے کہ اب کے ماڑ.اب مار کے دیکھے وہ دوبارہ مارتا ہے تو کہتا ہے ”اب کے مار پھر دبارہ مارتا ہے تو کہتا ہے ”اب کے مار“ چنانچہ یہ لطیفہ تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 157 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء شاید فرضی ہوگا.U.P کے بڑے بڑے بہادر لوگ ہیں، جیالے ہیں ، بڑے بڑے مقابلے انہوں نے دشمنوں سے کئے ہیں مگر یہ لطیفہ United Nations کے حق میں ضرور صادق آتا ہے.ہر دفعہ اسرائیل مار پر مار دیتا چلا گیا ہے اور کھلم کھلا بغاوت کے رنگ میں کہتا رہا ہے تمہارے ریزولیوشنز کی حیثیت کیا ہے.ردی کا کاغذ ہے میں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں گا.میں پاؤں تلے روندھ دوں گا اور ہر دفعہ United Nations کہتی ہے اب کی مار.اب اگر تم نے ایسا کیا تو ہم بہت ہی برا منائیں گے.اب سوال یہ ہے کہ کیوں یہ پاگل پن ہو رہا ہے.کوئی حد ہوتی ہے.یہ نا قابل فہم باتیں ہیں.یقین نہیں آسکتا کہ دنیا میں یہ کچھ ہوسکتا ہے لیکن ہورہا ہے.اس United Nations کا فائدہ کیا ہے؟ میں تو یہ سوچتا ہوں اور عرب اور مسلمان ممالک کو اگر وہ ہوشمند ہیں اور باقی دنیا کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ اس United Nations کا کیا فائدہ ہے جو عملاً صرف ان بڑی قوموں کے مفاد میں فیصلے کرتی ہے جو بڑی قو میں یونائیٹڈ نیشنز پر قابض ہو چکی ہیں اور یونائیٹڈ نیشنز کا دستور جن کو یہ طاقت دیتا ہے کہ جب چاہیں کسی کے خلاف ظلم کریں اور ساری دنیا کی قوموں کو یہ طاقت نہ ہو کہ اس ظلم کے خلاف آواز ہی بلند کر سکیں.اگر وہ آواز بلند کرنے کی کوشش کریں تو اس کو ویٹو کر دیا جائے اور اپنے کسی چیلے سے جس طرح چاہیں کسی پر ظلم کروائیں کسی دنیا کی طاقت نہ ہو کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کرے اور کلیۂ دنیا کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہو.یونائیٹڈ نیشنز کی یہ کیفیت ہے.جب عربوں کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف فیصلے کرنے ہوں تو انتہائی ظالمانہ فیصلے کئے جائیں اور جب ان کے حق کی بات ہو تو سوائے چند آوازیں نکالنے کے اس کی اور کوئی بھی حیثیت نہیں.بچپن میں مجھے مرغیاں پالنے کا شوق تھا میں نے دیکھا ہے کہ بعض مرغیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بیٹھیں پالنے والے کے صحن میں کرتی ہیں اور انڈے دوسرے کے صحن میں جا کر دیتی ہیں.پس United Nations کی مرغی تو ویسی ایک مرغی ہے.بیٹھیں کرنے کے لئے عربوں اور مسلمانوں کے صحن رہ گئے ہیں اور انڈے دینے کے لئے اسرائیل اور مغرب کے صحن ہیں.پس اگر یہی یونائیٹڈ نیشنز کا تصور ہے اور یہی اس کے مقاصد ہیں تو دنیا کو سوچنا چاہئے.چنانچہ اس بارہ میں میں بعد میں انشاء اللہ جب دنیا کو عمومی مشورے دوں گا تو ان کو ایک مشورہ اس سلسلے میں بھی دوں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 158 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء ایک ہی بات بالآخر سمجھ آتی ہے کہ مغربی دنیا در حقیقت اسلام سے گہری دشمنی رکھتی ہے.اور اس دشمنی کے پس منظر میں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا تاریخی رقابتیں بھی ہیں اور اس دشمنی کی وجہ ایک وہ خوف بھی ہے جو جاہل ملاں اسلام کے متعلق مغربی دنیا اور دوسری دنیا کے دلوں میں پیدا کرتا ہے.اپنی جہالت سے اسلام کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جس سے دنیا خوف کھاتی ہے کہ یہ لوگ اگر طاقت پائیں گے تو ہم پر جبر و تشدد کریں گے.اس مسئلے کے متعلق بعد میں جب میں مسلمانوں کو مشورہ دوں گا تو پھر اس ذکر کو چھیڑوں گا.یہ میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو مسلمانوں کے پیچھے ڈال کر اگر ان کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کی مدافعانہ طاقت کو توڑ دیں گے یا اس طرح اسرائیل ان مظالم کو بھول جائے گا جو مغرب نے اسرائیل پر کئے ہوئے ہیں یا ان مظالم کا بدلہ مسلمانوں سے لیتا رہے گا تو یہ ان کی سب سے بڑی حماقت ہے.اسرائیل کے انتقام کی یادداشت بہت قوی ہے اور نہ مٹنے والی ہے اور اسرائیل کے احسان کی یاد داشت اس طرح ہے جس طرح پانی پر تحریر لکھی گئی ہو.آپ کو اگر اسلامی تاریخ سے واقفیت ہو تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ 800 سال تک سپین پر مسلمانوں نے جو حکومت کی ہے اس تاریخ میں ایک واقعہ بھی کسی یہودی پر ظلم کا آپ کو دکھائی نہیں دے گا.مسلمانوں کی طاقت کے ادوار میں جب بھی آپ جس دور پر بھی نظر ڈالیں ، ایک دوسرے پر ظلم تو آپ کو دکھائی دے گا اور وہ بھی اس وقت جب ملاں ایک فرقے کے ماننے والوں کو دوسرے فرقوں کے ماننے والوں کے خلاف بھڑکا تا رہالیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف اسلام کی تاریخ میں آپ کو کوئی مظالم دکھائی نہیں دیں گے.تین ایسے قبائل ہیں جن کا تاریخ اسلام کے آغاز سے تعلق ہے.جنہوں نے بار بار معاہدہ شکنی کی اور آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں سے دھو کے کئے.ان کے خلاف جنگ کے دوران حملہ آوروں سے ملتے رہے ، ان تین قبائل کے خلاف بالآخر مسلمانوں کو کارروائی کرنی پڑی.وہ قبائل ہیں بنو قینقاع، بنو نضیر، بنوقریظہ.جب 1947ء میں یونائیٹڈ نیشنز میں اسرائیل کے قیام پر بحث ہورہی تھی تو وہاں اسرائیلیوں نے مسلمانوں کو طعن دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا حق ہے اور تمہیں تو ہمیں اپنے گھروں سے نکالنے کی عادت ہے.ہم آج تک نہیں بھولے جو تم نے بنو قریظہ اور بنونضیر اور بنو قینقاع سے کیا تھا ، تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 159 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء یہ عجیب یادداشت ہے کہ فرضی مظالم کی یادیں تو 1400 سال سے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور حقیقی احسانات کی یادوں کو بھولتے چلے جارہے ہیں.یہ عجیب قوم ہے کہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ جب ازابیلا اور فرڈینینڈ نے 1490ء میں یہودیوں کے پین سے انخلاء کا حکم دیا تو اس سے پہلے تقریباً 200 سال مسلسل سپین میں یہودیوں پر ظلم ہوتے رہے لیکن وہ ایسے ظلم تھے کہ ان کے نتیجے میں یہود نے پھر بھی وہاں سے نکلنے کا فیصلہ نہیں کیا.بالآخر جبراً ان کو عیسائی بنایا گیا اور جب بڑی تعداد میں یہودی عیسائی بن گئے تو پھر یہ تحریک شروع کی کہ یہ جھوٹے عیسائی ہیں دھوکہ دینے کے لئے عیسائی بنے ہیں.ابھی بھی بہت امیر ہو گئے ہیں اس لئے ان کی دولت چھیننے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کرو.چنانچہ ازابیلا کو اور فرڈینینڈ کو اس وقت کے عیسائی پادریوں نے بار بار یہ تحریص کی اور لالچ دلائی کہ اس قوم کا ایک ہی علاج ہے کہ ان کی عیسائیت پر اعتماد نہ کیا جائے اور ہمیں Inquisition اجازت دی جائے Inquisition سے مراد ہے : وہ ٹارچر کرنے کے ذرائع جو عیسائی دنیا اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کرتی تھی اور ان ذرائع سے نہایت ہی درد ناک مظالم غیر عیسائیوں پر کئے جاتے تھے اور ان عیسائیوں پر کئے جاتے تھے جن کے دین پرشک ہو.چنانچہ ایک لمبے عرصے تک یہ بحث جاری رہی.اذا بیلا چونکہ یورپ سے ناراض تھی SixusIV تھا غالبا اس وقت ،اس سے کسی وجہ سے ناراض تھی.وہ اس کی مرضی کے کارڈینل مقرر نہیں کرتا تھا.اس لئے اس نے اجازت نہیں دی کی پوپ کی مقرر کردہ کوئی کمیٹی Inquisition کے کام چین میں کرے.بالآ خر فر ڈنیڈ کو عیسائی پادریوں نے یہ لالچ دی کہ اگر تم اس کی اجازت دے دو تو یہود کے جتنے اموال چھینے جائیں گے یہ ہم تمہارے قبضے میں دیں گے.ہمیں صرف ظلموں کی اجازت دو، اموال تمہارے.چنانچہ 1980ء سے Inquisition شروع ہوئی.Inquisition کی تاریخ حقیقتاً اتنی دردناک ہے کہ شاید ہی کبھی انسانی تاریخ میں ایسے دردناک مظالم کی مثال آپ کو نظر آتی ہو جیسے اس زمانے میں یہودیوں پر عیسائیوں کی طرف سے کئے گئے.اس کے باوجود دل نہیں بھرا تو 1492ء میں ان کے انخلاء کا حکم جاری کر دیا گیا..آپ کو یاد ہوگا کہ Black Death جو 1347ء سے 1352ء تک یورپ میں ہلاکت خیزی کرتی رہی.Black Death یعنی طاعون کا وہ حملہ یورپ میں 1347ء
خطبات طاہر جلد ۱۰ 160 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء سے 1352 ء تک بکثرت انسانی جانوں کی ہلاکت کا موجب بنا.Black Death کے زمانے میں یورپ میں پہلے ہی یہود پر مظالم کئے جارہے تھے اور فرانس میں سب سے زیادہ مظالم کئے گئے.چنانچہ وہاں کے مظالم کا تصور کریں کہ وہاں سے بھاگ کر انہوں نے پہلے فرانس میں اور پھر یورپ کے دیگر ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی ان کو پناہ نہیں ملی اور ان پر مظالم جاری رہے.پناہ اگر ملی تو فلسطین کی اسلامی حکومت نے دی ہے.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور دوبارہ بھی Natsi مظالم کے زمانے میں پھر یہ فلسطین پناہ لینے گئے ہیں.پس ساری اسلامی تاریخ میں ان کے ساتھ احسان پر احسان کا سلوک کیا جاتا رہا.ان کے علم وفضل نے مسلمانوں کی گودوں میں پرورش پائی ہے اور ظلم ہوئے ہیں یورپینز کی طرف سے اور مغربی عیسائی قوموں کی طرف سے اور ان کا بدلہ یہ مسلمانوں سے لے رہے ہیں.یہ تصور ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذہن میں ہے کہ اس سے بہتر اور کیا سودا ہوگا.یہودیوں کو مسلمانوں کے گلے ڈال دو اور ہمارے ظلموں کا انتقام مسلمانوں سے لیں.ایک ہی تیر سے دونوں مارے جائیں اس سے زیادہ اور کیا حکمت عملی کی پالیسی ہوسکتی ہے.لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ یہودی ظلم بھولنے والی قوم نہیں ہے.ان کی سرشت کے خلاف ہے یہ ناممکن ہے کہ مغرب سے یہ اپنے مظالم کا بدلہ نہ لیں.وقت کی بات ہے آج یہ مسلمانوں کا خون چوس کر طاقت حاصل کریں گے اور یہ طاقت ابھی اتنی بڑھ چکی ہے اور ایسی خوفناک ہو چکی ہے کہ ان کے جرنیل کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ ہم تو سوویٹ یونین سے ٹکر لیکر اس کو بھی شکست دینے کی طاقت رکھتے ہیں جو ٹیکنیکل Know How جنگی ہتھیار بنانے کا ہے اس میں بہت سی شاخوں میں یہ امریکہ سے بہت آگے نکل چکے ہیں.ایٹم بم بنا چکے ہیں دوسرے مہلک ہتھیار بنا چکے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے.کیوں یہ طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بڑی ہی جہالت ہوگی اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان کے حملوں سے ڈر کر یہ ویسا کر رہے ہیں بہت بڑی بے وقوفی ہے مسلمان حملوں سے ڈرنا کیا ، جب بھی مسلمان بے چاروں نے ٹکر لی ہے ان کی طاقت کو تہس نہس کر دیا ہے اور ہر حملہ آور کو ایسی ظالمانہ شکست دی ہے کہ اس سے سارے عالم اسلام کی گردن شرم سے جھک جاتی رہی ہے.ان کو مسلمانوں سے کیا خوف ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی فتح کے منصوبے ہیں پہلے تیل کی طاقت پر قبضہ کیا جائے گا.ہر قدم کے بعد جب اس قدم کی یادداشت پھیکی پڑ جائے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 161 خطبہ جمعہ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء گی پھر اگلا قدم اٹھے گا.پھر اس کے بعد اگلا قدم اٹھے گا.پھر اگلا قدم اٹھے گا.اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ مکے اور مدینے کو خطرہ ہے اور توحید کو خطرہ ہے تو اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے انہوں نے بالآخر لازماً تیل کے چشموں پر قابض ہونا ہے یعنی نیت ان کی یہ ہے.آگے خدا کی تقدیر اور رنگ دکھائے اور ہماری دعائیں بارگاہ الہی میں قبول ہوں تو اور بات ہے ورنہ بظاہر جو منصوبہ ہے وہ یہی ہے.اس کے بعد یہ مغرب سے اپنے بدلے لیں گے اور ایسے ہولناک بدلے لیں گے کہ مغرب ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ جنگ کا بگل بجانے والی قوم ہے اور جنگ کا بگل David Ben-Gurion بجاچکے ہیں.تقریباً 4000 سال پہلے کی آواز ان کے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جنگ اور جنگ اور جنگ اور اس کے سوا تمہارے قیام کا اور کوئی مقصد نہیں ہے.پس اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ یہودیوں کو بھی پاگل بنارہے ہیں اور مسلمانوں کو بھی پاگل بنارہے ہیں اور ایک کو دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں تو یہ ان کی غلط نہی ہے.امریکہ کے متعلق میں نے ایک یہ بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے نفسیاتی عوامل ہیں جو امریکہ کو اپنی بعض پرانی ناکامیوں کے داغ مٹانے کے لئے عراق کو ذلیل ورسوا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں.اس سلسلے میں میں نے ویٹنام کا ذکر کیا تھا اور ویٹنام کے متعلق اب میں خلاصہ آپ کو بتاتا ہوں کہ وہاں امریکہ کی خودی کو کس طرح تو ڑا گیا ہے اور کس طرح دنیا کی سب سے عظیم طاقت کے تکبر کو پارہ پارہ کیا گیا ہے.ویٹنام کی جنگ کا آغاز 4 راگست 1946ء کو ہوا ہے اور عجیب اتفاق ہے یہ تو ارد ہے یا تقدیر کی کوئی بات ہے کہ وہ آغاز بھی ایک Strom سے ہوا تھا اس Strom کا نام امریکن مؤرخین Tropic Storm کہتے ہیں.واقعہ یہ ہوا کہ دو امریکن جہاز جب شمالی ویٹنام اور جنوبی ویتنام کی جنگ جاری تھی اور اشترا کی ویٹنا میز ، جنوبی غیر اشترا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے تھے تو امریکہ کو بہانے کی تلاش تھی کہ کسی طرح اس ملک میں دخل دے کر جنوبی ویٹنام کی حمایت میں شمالی دینام کو شکست دی جائے.چنانچہ ان کا ایک جہاز جس کا نام Maddox تھا Maddox جہاز شمالی ویٹنام کے سمندر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جو درحقیقت ان کی اپنی حدود کا علاقہ تھا، جس پر ان کی بالا دستی ہوتی ہے.اس پر انہوں نے کچھ پڑول Boats بھیجیں تا کہ وہ اس جہاز پر حملہ کریں اور انہوں نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 162 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء حملے کی کوشش بھی کی مگر جہاز ان کو Destroy کر کے ان کے حملے سے نکل کر باہر چلا گیا اور باہر ان کا ایک ساتھی Destroyer جن کا نام Turner Joy تھا، اس کو لے کر دوسرے یا تیسرے دن واپس آگیا ان کا خیال تھا کہ اب جب ہم دوبارہ حملہ کریں گے تو ہمیں بہانہ ہاتھ آجائے گا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ Tropic Strom آگیا اور Tropic Strom بھی جس طرح Desert Strom ہوتے ہیں بہت ہی خطرناک چیز ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی ساری الیکڑانک Equipments Hay'Wire ہو گئیں ، پاگل ہو گئیں ان کو پتہ ہی نہیں لگتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے.چنانچہ وہ کہتے یہ ہیں کہ انہوں نے واقعہ یہ سمجھا کہ ان پر حملہ ہو گیا ہے.اب جاہلوں والی بات ہے.طوفان آرہا ہے.دکھائی دے رہا ہے اور اس سے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ حملہ ہو گیا ہے یعنی ویٹنام نے وہ طوفان چلایا تھا.بہر حال بہانے جب تلاش کرنے ہوں تو اس طرح کے بے وقوفوں والے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے کہا حملہ ہو گیا ہے اور انہوں نے دھڑادھڑ ویٹنام کے علاقے پر بمباری شروع کر دی اور پھر اس بات پر قائم رہ گئے کہ چونکہ انہوں نے حملہ کیا تھا، اس کی جوابی کارروائی کی ہے.اس پر بڑی شدت کے ساتھ ویٹنام پر حملہ کیا گیا.ہوائی حملہ بھی کیا گیا اور ایک سال کے اندراندر یعنی وہ 1946 ء کا جو سال ہے وہ ختم ہونے سے پہلے پہلے دولاکھ امریکی سپاہی وینام کی سرزمین میں پہنچا دیئے گئے تھے اور 1946ء میں یہ تعداد بڑھ کر 5لاکھ 40 ہزار بن چکی تھی.بمباری کا عالم یہ تھا کہ ساڑھے آٹھ سال تک مسلسل دن رات ویٹنام پر بمباری کی گئی ہے اور ویٹنام پر کل بمباری 25 لاکھ ٹن کی گئی ہے یعنی جنگ عظیم کے 6 سال میں تمام دنیا میں ، یورپ اور ایشیا اور افریقہ وغیرہ دوسری دنیا میں جتنی بمباری ہوئی ہے تقریباً اتنی ہی بمباری صرف ایک ویٹینام پر اس ساڑھے آٹھ سال میں کی گئی جو فلوریڈا ریاست کے بمشکل برابر ہے.امریکہ کی ریاستوں میں سے ایک ریاست فلوریڈا ہے اور اپنی دنیاوی طاقت کے لحاظ سے فلوریڈا بہت پیچھے ہے.نہ صنعت کی کوئی حالت ، نہ کوئی دوسری تجارتی طاقت اس کو حاصل ہے.ایک غریب ملک ہے لیکن عظمت کردار دیکھیں کہ ساڑھے آٹھ سال تک سر بلند کر کے امریکہ سے ٹکر لی ہے اس عرصے میں جنوبی ویٹنام میں ان کے مرنے والے سپاہی اور شمالی ویٹنام میں مرنے والے سپاہی اور Civilians کی کل تعداد 25 لاکھ تھی.گویا سارے اسرائیل کا یہودی اگر ہلاک ہو جائے تو اتنی تعداد بنتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 163 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اور انہوں نے سرنہیں جھکایا.امریکن تکبر کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس ذلت اور رسوائی کے ساتھ امریکہ کو پھر شکست تسلیم کرنی پڑی اور شکست تسلیم کرنے کا طریق بھی ایسا دلچسپ ہے کہ فرانس میں جب Peace کا نفرنس ہو رہی تھی تو شمالی ویٹنام نے عارضی طور پر بھی جنگ بندی سے انکار کر دیا.انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہاں ہم صلح کی باتیں بھی کریں گے اور لڑائی بھی جاری رکھیں گے چنانچہ یہ جو سبق آج عراق کو دے رہے ہیں یہ انہوں نے ویٹنام سے سیکھا تھا کہ صلح کی باتیں بھی کریں گے اور لڑائی بھی جاری رکھیں گے.پس وہاں جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا تکبر ٹوٹا ہے وہ اتنی ہولناک نفسیاتی شکست ہے کہ کسی طرح وہ اس کا بدلہ چاہتے ہیں اور اپنی قوم کی خود اعتمادی کو بحال کرنا چاہتے ہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی کمریں جڑا نہیں کرتیں اور باوجود اس کے کہ عراق پر بمباری کی رفتار کے لحاظ سے ویٹنام کے مقابل پر 4 گنا زیادہ شدت کی جارہی ہے.ابھی تک یہ دودنوں کی جنگ کہہ رہے تھے، چھٹا ہفتہ ہو گیا ہے اور ابھی تک عراق کی کمر نہیں توڑ سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا بدل چکی ہے.یہ زمانے وہ نہیں رہے.اب انسان کی خودی کا تصور بلند ہورہا ہے.اس کو ہوش آ رہی ہے.آزادی کی لہریں چل رہی ہیں خدا کی تقدیر دنیا کے رجحانات تبدیل کر رہی ہے.اب جھوٹے خداؤں کے دن نہیں رہے ان کی صفیں لپیٹنے کے دن آچکے ہیں اور ان کو یہ دکھائی نہیں دے رہا.ظلم پر ظلم کرتے چلے جارہے ہیں اور یہ نہیں سوچ رہے کہ ان کی کیا تصویر دنیا میں بن رہی ہے اور آئندہ تاریخ میں کیا بنے گی.آج یہ صدام حسین کو ہٹلر اور ظالم اور سفاک کے طور پر پیش کر رہے ہیں.اگر ساری باتیں بھی تسلیم کر لی جائیں تو ویٹنام میں انہوں نے جو مظالم کئے ہیں وہ سارے مظالم صدام حسین کے مظالم کے مقابل پر اس طرح ہیں جس طرح رائی کے مقابل پر ایک پہاڑ ہو.صدام حسین کے جتنے فرضی مظالم جو بیان کئے جاتے ہیں اگر فرض کریں سارے بیچ ہوں تو ان مظالم کے مقابل پر اُن کو کوئی بھی حیثیت نہیں جو امریکہ نے ساڑھے آٹھ سال تک ویٹنام پر کئے ہیں اور کوئی حق نہیں تھا.تمہارا کام کیا ہے کسی اور ملک پر جا کر بمباریاں شروع کر دینا اور اس ملک کے ایک حصے کی لڑائی میں اس کا شریک بن کر دوسرے ملک کے انسانوں پر بربریت کی انتہا کر دینا.وہ تفصیل اگر آپ پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں.آپ کا سارا وجود کانپنے لگے.اتنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 164 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء خوفناک مظالم ہیں لیکن اس سے بڑا ظلم یہ کہ آج تک یہ ویٹنا میز کی کردار کشی کرتے چلے جارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے جن شہروں پر دوبارہ قبضہ کیا تو وہاں ہماری تائید کرنے والوں کو انہوں نے اسی طرح ہلاک کیا ، اس طرح ظلم کئے.وہاں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی اکٹھی قبریں ہیں.جنگ میں جو غداری کرتا ہے اور اتنی ظالمانہ جنگ اور یک طرفہ جنگ میں ، اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے دنیا کا کونسا قانون ہے جو غدار کی جان کی ضمانت دیتا ہے اور یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے ان کی حمایت کی تھی.پس ان مظالم کے نقشے کھینچتے ہیں اور وہ جو دوسرے مظالم ساڑھے آٹھ سال تک یک طرفہ کرتے چلے گئے ان کا کوئی ذکر نہیں کرتے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو امریکہ کو خوفناک نفسیاتی بیماری لگ چکی ہے یہ آج دنیا کے امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس پر ایک اور بات کا خوفناک اضافہ ہوا ہے.ایک ایسی جنگ کی مثال قائم کی گئی ہے جس کی کوئی نظیر ساری دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی.یعنی کرائے کی جنگوں کی باتیں تو آپ نے سنی ہوں گی مگر اتنی وسیع پیمانے پر ، اتنی خوفناک کرائے کی جنگ کبھی دنیا کی تاریخ میں نہیں لڑی گئی.ویٹنام کی جنگ میں امریکہ کے کردار کا کم سے کم ایک اچھا پہلو یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے کشکول لے کر نہیں گیا تھا کہ ہمیں اس جنگ کے پیسے دو ایک سو بیس بلین ساڑھے آٹھ سال تک ظلم برسانے کا خرچ امریکہ نے خود برداشت کیا ہے.120 بلین بہت بڑی رقم ہے لیکن موجودہ جنگ ساری کی ساری مانگے کے پیسوں سے لڑی جارہی ہے.اب ایسی جنگ کی مثال اگر اس دنیا میں قائم کر دی جائے کہ تم کسی سے پیسے لے کر لڑو.دنیا کے امن کی پھر کیا ضمانت باقی رہے گی.جس کا مطلب یہ ہے کہ غریب قوموں کا امن امیر قوموں کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا اور جب چاہیں جہاں چاہیں دنیا کی امیر قو میں کرائے کے ٹولے کر ، کرائے کے سپاہی لے کر غریب قوموں پر مظالم ڈھاتی رہیں.یہ پیغام ہے جو دنیا کو دیا جارہا ہے اور مزید ایک اور ایسی حرص اس جنگ کے ساتھ شامل ہے کہ اس کے نتیجے جب رفتہ رفتہ ظاہر ہوں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح یورپ کی دوسری قوموں میں بھی اس سے تحریک پیدا ہوگی کہ اگر جنگ کا یہی مطلب ہے تو کیوں نہ ہم بھی ہاتھ رنگ لیں.عراق اور کویت پر اس جنگ میں جو تمام تبا ہی وارد کی گئی ہے اس کے پیسے انہوں نے وصول کئے ہیں اور اس تباہی کے نتیجے میں نقصان پورا کرنے کے اس سے کئی گنا زیادہ پیسے ان سے وصول کریں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 165 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء گے.پس ہلاک کرنے کے بھی پیسے اور دوبارہ زندہ کرنے کے بھی پیسے اور دوبارہ زندہ کرنے کے پیسے ہلاک کرنے کے پیسوں سے بہت زیادہ کرائے کے قاتل کو کم دیا جاتا ہے لیکن سرجن کو زیادہ دیا جاتا ہے تو یہ دونوں کردار انہوں نے اپنی ذات میں اکٹھے کرلئے ہیں یہ ہے دنیا کا سب سے بڑا خطرہ آج کے بعد ایک نیا انداز فکر پیدا ہوا ہے اور بڑھتا چلا جائے گا اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی.کسی غریب قوم کو مروانے کے لئے کسی امیر قوم نے پیسے دیئے تو مروایا جائے گا اور پھر بعد میں اس قوم کی تعمیر نو کے لئے بھی اسی کو جرمانے ڈالے جائیں گے اور دونوں کے فائدے ان کو پہنچیں گے.آخر پر میں آپ کو عراق کی سرزمین سے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بڑی مظلوم سرزمین ہے اور بڑے بڑے سفا کا نہ خوفناک ڈرامے اس سرزمین پر کھیلے گئے ہیں.میں نے سوچا کہ اس سرزمین کو کیا نام دیا جائے تو مجھے خیال آیا کہ اسے موت اور کھوپڑیوں کے میناروں کی سرزمین کہا جاسکتا ہے.تاریخ میں سب سے پہلے اسیر یوں Assyrians نے عراقی علاقے پر قابض ہوکر اتنے مظالم اس علاقے میں بسنے والی قوموں پر کئے تھے کہ 200 سال تک ان مظالم سے یہ سارا علاقہ کا نپتا رہا اور سکتا رہا.879 ( قبل مسیح) میں ، اسیرین کے دور استبداد کے آغاز میں وہاں کے فاتح بادشاہ نے اپنے محل کے سامنے ایک مینار تعمیر کیا ، اس مینار پر یہ عبارت کندہ تھی کہ میں کھالیں کھنچوانے والا بادشاہ ہوں جس شخص نے مجھ سے ٹکر لی ہے میں نے اس کی کھال کھنچوا دی اور یہ مینار جو تم دیکھ رہے ہو اس پر ساری انسانی کھالیں منڈھی ہوئی ہیں اور اس مینار کی چوٹی پر تم جو پنجر دیکھ رہے ہو نیزے پر گڑھا ہوا وہ بھی انسانی پنجر ہے اور اس مینار کے اندر بھی انسان زندہ چنے گئے تھے پس میں وہ بادشاہ ہوں جو کھالیں کھنچوانے والا اور ہلاکت کا بادشاہ ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ تھا کہ میں یہ سب کچھ نیکی کی خاطر کر رہا ہوں اور دراصل اسیر نیز Assyrians کی جنگ نیکی اور بدی کی جنگ ہے ہم نیکیوں کے نمائندہ ہیں اور باقی سب دنیا بدیوں کی نمائندہ ہے.میں نہیں جانتا صدر بش نے اس تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں لیکن عراق میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ویسا ہی ایک تمثیلی مینار بنانے کی باتیں سوچ رہے ہیں جس پر یہی عبارت کندہ ہوگی کہ ہم سر توڑنے والے، خودیوں کو برباد کر دینے والے ، عزت نفس کو مٹا ڈالنے والے اور پاؤں تلے روندنے والے بادشاہ ہیں جس شخص نے ہمارے خلاف کوئی آواز بلند کی اور سراٹھانے کی جرات کی ہم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 166 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اس کی کمر توڑیں گے اور ان کی کھوپڑیوں سے ویسا ہی مینار بلند کریں گے جیسے عراق کی تاریخ میں اس سے پہلے بلند ہوتے رہے ہیں.اس کے بعد دوسرا مینار جو عراق میں بنایا گیا وہ 1258ء میں ہلاکو خان نے کھوپڑیوں سے بنایا اور پھر تیسرا مینار 1451ء میں تیمور لنگ نے بغداد میں کھڑا کیا اور وہ بھی واقعہ انسانی کھوپڑیوں سے بنایا گیا تھا.پس یہ کیسی مظلوم سرزمین ہے جہاں ایک دفعہ نہیں ، دودفعہ نہیں ، اس سے بھی پہلے تین دفعہ انسانی لاشوں اور جلدوں اور کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کئے گئے ہیں تا کہ کسی جابر کے سامنے دنیا کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا جائے.پس آج جو کچھ عراق میں ہورہا ہے یہ انہیں باتوں کا اعادہ ہے میں نہیں جانتا کہ آئندہ کیا ہوگا.میں نہیں جانتا کہ خدا کی تقدیر کب ان کے تکبر کا سر توڑنے کا فیصلہ کرے گی لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ لازماً خدا کی تقدیر اس تکبر کا سر توڑے گی لیکن یہ بات میں امریکہ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ کمر جو تمہاری ویٹنام میں تو ڑ دی گئی تھی ، عراق کے مظالم کے نتیجے میں یہ کمر اب جڑ نہیں سکتی.بظاہر تم نے وہاں بھی کھوپڑیوں کا ایک مینار بلند کرنے کی کوشش کی تھی مگر 25 لاکھ ٹن بارود سے جتنی زمین کھودی جاسکتی ہے.جتنے گہرے کنویں کھودے جا سکتے ہیں اتنے گہرے قعر مذلت میں ہمیشہ کے لئے تمہارا نام دفن ہو چکا.آئندہ تاریخ میں یہ باتیں زیادہ اجاگر ہوتی چلی جائیں گی.یہ مظالم کے داغ جو تمہارے چہرے پر لگے ہیں آج تمہارے رعب کی وجہ سے اور تمہارے ظلم و ستم کے دبدبے کے نتیجے میں یہ نمایاں کر کے دنیا کو دکھانے کے لئے کسی کے پاس طاقت ہو یا نہ ہو مگر تاریخ بالآخر وقت کے ساتھ ساتھ ان کو زیادہ نمایاں کرتی چلی جائیگی.یہ سیاہیاں زیادہ گہری ہوتی چلی جائیں گی.پس دوسری نظر سے بھی تو اپنے آپ کو دیکھو باہر تمہاری کیا تصویر بن رہی ہیں اور آئندہ تمہاری کیا تصویریں بننے والی ہیں اور جن مقاصد کو لیکر تم اُٹھے ہو اُن کے بالکل برعکس کارروائیاں کر رہے ہو.امن کی بجائے ہمیشہ کے لئے دنیا کو جنگ میں جھونکنے کے فیصلے کر چکے ہو.لیکن اگر امریکہ ان باتوں کو سمجھنے پر آمادہ نہیں جیسا کہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے.اس وقت اپنے تکبر کے نشے میں اتنی بلند پروازی ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے فرضی ظلموں کے مینار کی چوٹیوں پر بیٹھے ہوئے دنیا کا ملاحظہ کر رہے ہیں تو پھر آئندہ کیا ہوگا اور خدا کی تقدیر ان کو کیا دکھائے گی.اُس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 167 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء - : کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں کچھ بیان کروں گا اور یہود کو بھی مشورہ دوں گا اور مسلمانوں کو بھی اور باقی دنیا کو بھی.آج کا وقت جدید انسانی تاریخ میں انتہائی نازک وقت ہے.ابھی وقت ہے کہ ہم اس ظلم اور استبداد کے دھارے کا رخ موڑ سکتے ہیں.ابھی معاملہ اتنا زیادہ ہاتھ سے نہیں نکلا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ان مشوروں کو قبول کر لیا گیا جو میں قرآنی تعلیم کے نتیجے میں ، اُس کی مطابقت میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں تو انشاء اللہ اس ظلم کے دھارے کا رخ ہم واپس موڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری حیثیت صرف عاجز دعا گو بندوں کی حیثیت ہے اور ہماری دعائیں لازماً وہ کام کر سکتی ہیں جو ہماری ظاہری کوششیں بظاہر نہیں کرسکتیں.بظاہر کیا؟ فی الحقیقت بھی نہیں کر سکتیں.ہماری کوششوں کی کوئی حیثیت نہیں اتنی بھی نہیں ہے کہ ہم جو امریکہ کو ایسے الفاظ میں مخاطب کر رہے ہیں ، اس سے ان کے وجود کا ایک بال بھی کانپے یا ہلے یا اس میں جنبش محسوس ہو، اس کے باوجود میں جانتا ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ مقدر ہے کہ دنیا کے آخر پر اگر دنیا کی تاریخ کا رخ موڑنا ہے تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی دعاؤں نے موڑنا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عشاق کی دعاؤں نے موڑنا ہے اور خدا کے عاجز بندوں کی پگھلی ہوئی دعاؤں نے موڑنا ہے.خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود على الصلوة والسلام یہ لکھتے ہیں کہ یہ مقدر تھا اور ہے اور ایسا ضرور ہوگا.آپ فرماتے ہیں جب مسیح کی روح آستانہ الوہیت میں پچھلے گی اور راتوں کو اس کے سینے سے درد ناک آواز میں اٹھیں گی تو خدا کی قسم دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس طرح پکھلنے لگیں گی جیسے برف دھوپ میں پگھلتی ہے اور اس طرح ان طاقتوں کے ہلاک ہونے کے دن آئیں گے اور ان کے تکبر کے ٹوٹنے کے دن آئیں گے.(خطبہ الہامیہ: روحانی خزا مکین جلد نمبر 16 صفحہ 318،317) مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو آج نہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح جماعت احمدیہ میں زندہ ہے.پس اے مسیح موعود کی روح کو اپنے سینوں میں لئے ہوئے احمد یو! خدا کے حضور راتوں کو اٹھو اور اس طرح پکھلو اور دردناک کراہ کے ساتھ اور دردناک چیخوں اور سسکیوں کے ساتھ خدا کے حضور گریہ وزاری کرو اور یقین رکھو کہ جب تمہاری روحیں خدا کے آستانے پر پگھلیں گی تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے پگھلنے کے دن آجائیں گے اور یہ وہ تقدیر ہے جسے کوئی دنیا کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.168 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:.حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں عارضہ قلب سے وفات پاگئے.بہت ہی مخلص اور فدائی انسان تھے.ان کا سارا خاندان ہی دین کی خدمت میں قربانی کرنے والا ہے مگر شمس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں.یہ بچہ صلاح الدین جب پیدا ہوا تھا تو اس کے تھوڑے عرصے بعد یا اس سے پہلے ہی مولوی جلال الدین صاحب شمس غیر ملکوں میں فریضہ تبلیغ کے لئے روانہ ہو چکے تھے.انگلستان میں بہت عرصہ رہے جب واپس گئے تو اس بچے کی عمر 11 ، 12 سال کی تھی اور سٹیشن سے جب مولوی صاحب کو گھر لایا جارہا تھا اور ٹانگے میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ صلاح الدین کہاں ہے.میرا دل چاہتا ہے میں اپنے بچے کو دیکھوں ،اس پر کسی نے کہا کہ مولوی صاحب صلاح الدین آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اس کو دیکھیں.یہ قربانی کرنے والے احمدی ہیں جن کی اولا دیں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے پھر دین میں جت رہی ہیں.پھر آگے انشاء اللہ ان کی اولادیں جتی رہیں گی.تو مولوی منیر الدین صاحب شمس نے مجھے توجہ دلائی کہ اگر کسی کا حق ہے جنازہ غائب کا تو پھر میرے بھائی کا تو بدرجہ اولی حق ہے میں نے اسے تسلیم کیا.عام طور پر تو جب کوئی حاضر جنازے آتے ہیں تو ہم دوسرے جنازے ساتھ ملالیا کرتے ہیں مگر جس رنگ میں مجھے تحریک ہوئی ہے.میں نے اس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جمعہ کے بعد اور عصر کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس مرحوم مغفور کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی جائے گی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 169 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء خلیج کا بحران ، عراق کی تباہی پر اظہار افسوس قیام امن کے لئے عالمی اور مسلمان سیاست کو قیمتی مشورے ( خطبه جمعه فرموده یکم مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جب خلیجی جنگوں کا آغاز ہوا تو مغربی پرو پیگنڈے کے اثر کے نیچے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ Natsi جرمنی کا زمانہ لوٹ آیا ہے اور پھر ہٹلر اور گوبلز پیدا ہو چکے ہیں اور ان کو مٹانے کے لئے چرچل اور روز ویلٹ اور سٹالن نے بھی نئے جنم لے لئے ہیں.یہ تصویر اتنی بھیا نک تھی کہ ساری دنیا اس کو دیکھ کر لرزہ براندام تھی.اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے تو منظر تو وہی ہے لیکن اس کی ایک اور تصویرا بھری ہے.حالات تو وہی ہیں حقیقت میں تو تبدیلی نہیں آئی لیکن حقیقت اور طرح سے دکھائی دینے لگی ہے.مجھے تو اس جنگ کے اختتام پر وہ مشہور سپینش طنزیہ ، مزاحیہ کردار یا د آ گیا ہے جسے Don Duixot کہتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ وہ مسخرہ ، نائٹ Knight فرضی جن بھوت اور دیو بنالیتا تھا اور بڑے بڑے نائٹس Knights اپنے تصور میں ہی پیدا کر لیا کرتا تھا اور پھر بہت ڈپٹ کر ان پر حملہ آور ہوتا تھا.اسی قسم کی ایک کہانی اس کی ونڈمل (Windmill) سے لڑائی کی بیان کی گئی ہے.اگر اس کہانی کو موجودہ حالات پر چسپاں کرنے کے لئے کچھ تبدیلی کی جائے تو یوں بنے گی کہ Don Duixot اپنے جرنیل سانچو پنز و کے ساتھ اپنے ٹو اور گدھے پر سوار کہیں جارہے تھے تو رستے میں ایک ونڈ مل نظر آئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 170 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء پون چکی اس پر Don Duixot نے اپنی ساتھی کو بتایا کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور خوفناک دیو ہے اور آؤ ہم دونوں مل کر اس پر حملہ کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ڈپٹ کر اور للکار کر اس پر حملہ کیا اور تبدیل شدہ کہانی پھر یوں بنے گی کہ ونڈمل کو بری طرح شکست دی ،اس کے پر خچے اڑا دیئے اس کو پارہ پارہ کر کے پھر انہوں نے فخر سے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ آج دنیا کے سب سے بڑے نائٹ نے دنیا کے سب سے بڑے دیو کو شکست فاش دے دی ہے.پس دیکھیں حقیقت وہی رہتی ہے.وقت بدلنے سے منظر کیسے تبدیل ہو جاتے ہیں اسی طرح زاویہ بدلنے سے بھی مناظر تبدیل ہو جاتے ہیں.اگر امریکہ کے زاویے سے اس صورتحال کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوگا جیسے شکاری اصطلاح میں Heel کرنا کہا جاتا ہے کہ کتے کو اپنی ایڑی کے پیچھے لگا لینا.امریکہ کے زاویہ نگاہ سے یہ منظر دکھائی دے گا کہ امریکہ نے انگریزوں کو بھی Heel کرلیا اور فرانس کو بھی Heel کرلیا اور روس کو بھی Heel کر لیا غرضیکہ بہت سے اتحادیوں کو Heel کیا اور اس کے پیچھے پیچھے اور غول بیابانی بھی اکٹھا ہوا اور سب ایک شکار کی لالچ میں اس Heel کر نیوالے شکاری کے پیچھے لگ گئے کہ کب وہ شکار مارا جائے اور اپنی اپنی توفیق اور رتبے کے مطابق اس کے حصے بخرے کریں اور اس میں سے کچھ اپنے لئے حاصل کر سکیں.یہ جولشکر روانہ ہوا ہے شکاریوں کا اور اس کے Heel ہوئے ساتھیوں کا،اس کے منہ سے کویت، کویت کویت کویت کی آوازیں آرہی ہیں اور جو پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ اپنے دانت تیز کر رہے ہیں کہ کب ہمیں کو یت کے نام پر عراق کے شکار کا موقع ملے گا بہر حال ایک زاویہ نگاہ یہ ہے اور اگر اسرائیل کے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اسرائیل یہ سمجھتا ہوگا اور حق بجانب ہوگا یہ سمجھنے میں کہ اس نے امریکہ اور اس کے تمام ساتھیوں کو میل کر لیا ہے اور اسرائیل کے پیچھے پیچھے وہ دیگر جنگلی مخلوقات بھی ساتھ چل رہی ہیں جن کو یہ علم نہیں کہ یہ وہ شکاری ہے جو رفتہ رفتہ پلٹ پلٹ کر ایک ایک Heel ہوئے ہوئے جانور کا شکار کرے گا اور پھر سب مل کر اس کا گوشت اڑائیں گے.تو ایک یہ بھی زاویہ نگاہ ہے حالانکہ حقیقت وہی رہتی ہے جس طرح چاہیں اس کی تعبیر کر لیں.یہ فیصلہ تو بہر حال آنے والا وقت کرے گا کہ کس نے کس کو Heel کیا ہے.آوازوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 171 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء لحاظ سے بھی دماغ عجیب عجیب کرشمے دکھاتا ہے.ایک ہی آواز کے مختلف معنی لئے جاتے ہیں.ایک آواز دنیا یہ سن رہی ہے کہ عراق کے جوڑ جوڑ توڑنے کا ارادہ اس لئے ہے کہ کبھی بھی عراق آئندہ کو یت پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے.گویا سارا مقصود کائنات کو یت ہے اور ہر دوسرے ملک پر ہر دوسرے ملک کو حملے کرنے کی کھلی چھٹی ہے لیکن کویت پر کسی کو حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.پس کو بیت کویت کی آوازوں کا ایک یہ مطلب ہے جو دنیا کو سنائی دے رہا ہے اگر اسی آواز کو اسرائیل کے کانوں سے سنا جائے تو وہاں یہ آواز سنائی دے گی کہ عراق کے اسی لئے ٹکڑے ٹکڑے کئے جار ہے ہیں اور اس لئے اسکا جوڑ جوڑ تو ڑا جارہا ہے کہ یہ کبھی اسرائیل پر حملہ کرنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے اور صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں کوئی ملک بھی کبھی اسرائیل کو ٹیڑھی نظر سے دیکھنے کی جرات نہ کرے.تو دیکھئے آواز وہی ہے لیکن مختلف کانوں میں مختلف شکلوں پر پڑ رہی ہے اور مختلف دماغ اس کی مختلف تعبیریں کر رہے ہیں.ایک اور پہلو یہ قابل ذکر ہے کہ شائستگی اور تہذیب اور نرمی اور پیار صرف انسانوں کا حصہ نہیں بلکہ گوشت خور جانور بھی ایک تہذیب رکھتے ہیں.ایک نرمی اور پیار رکھتے ہیں.جب تک وہ شکار پر نہ جھپٹیں یا جب تک کسی دشمن کا مقابلہ نہ کریں ان کے پاؤں کے تلوے گداز اور نرم ہوتے ہیں اور مخمل کی طرح ہوتے ہیں.ان کے جبڑے نرم نرم ہونٹوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے دانت نرم نرم ہونٹوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ آپس میں محبت اور پیار سے رہتے ہیں بلکہ دوسرے جانوروں کو بھی بری نظر سے نہیں دیکھتے لیکن وہ وقت جب شکار کا وقت آتا ہے، وہ وقت جب دشمن پر جھپٹنے کا وقت آتا ہے.انہی نرم نرم مخملیں پاؤں سے خوفناک پنجے نمودار ہو جاتے ہیں اور انہی نرم ہونٹوں کے پیچھے سے وہ ہولناک کچلیاں نکل آتی ہیں جو کسی جانور پر رحم نہیں جانتیں.پس اس صورتحال کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کون سے وقت ہوتے ہیں جب انسان پہچانے جاتے ہیں.ایک اردو شاعر نے بہت اچھی بات کہی جب یہ کہا کہ اک ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے مگر مغربی دنیا کے عرب دوستوں کے متعلق حسرت سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ذراسی بات تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 172 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء در کنار.عالم اسلام پر قیامت بھی ٹوٹ پڑے تو ان کے برسوں کے یارانے نہیں جاتے اور ان سے دوست پہچانے نہیں جاتے.یہ ہے خلاصہ اس پس منظر کا جس کی روشنی میں میں آپ کے سامنے کچھ دوسرے امور رکھنا چاہتا ہوں جن کا زیادہ تر تعلق مختلف قوموں کو مشورے دینے سے ہے.قدیم سے لا مذہب سیاست کے تین اصول رہے ہیں جو مشرق اور مغرب میں برابر ہیں ، مشترک ہیں.یہ نہیں کہہ سکتے یہ مغربی سیاست کے اصول ہیں یا مشرقی سیاست کے اصول ہیں.کل کے ہیں یا آج کے.ہمیشہ سے یہی اصول چلے آرہے ہیں یعنی سیاست اگر لامذہب اور بے دین ہو تو پہلا اصول یہ ہے کہ قوم، وطن یا گروہ کا مفاد جب بھی عدل کے مفاد سے ٹکرائے تو قوم، گروہ اور وطن کے مفاد کو عدل کے مفاد پر لاز ما ترجیح دو اور فوقیت دو.خواہ عدل کو اس کے نتیجے میں پارہ پارہ کرنا پڑے.قرآن کریم کا اصول سیاست اس سے بالکل مختلف ہے اور برعکس ہے جو یہ ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائده:9) کہ اے مسلمانو! تمہاری سیاست اور طرح کی سیاست ہے یہ الہی فرمان کے تابع سیاست ہے اور اس کا بنیادی اہل اصول یہ ہے کہ کسی قوم کی شدید دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اس سے نا انصافی کا سلوک کرو.ہمیشہ عدل پر قائم رہو کیونکہ عدل تقویٰ کے قریب تر ہے.دوسرا اصول سیاست یعنی بے دین سیاست کا اصول یہ ہے کہ اگر طاقت ہوتو مفادات کو طاقت کے زور سے ضرور حاصل کرو.کیونکہ "Might is Right" طاقت ہی صداقت ہے اس کے سواد نیا میں صداقت کی اور کوئی تعریف نہیں.قرآن کریم اس کے برعکس ایک مختلف اصول پیش فرماتا ہے جو یہ ہے لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيْنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةِ (الانفال: ۴۳) یعنی وہی ہلاک کیا جائے جس کی ہلاکت پر کھلی کھلی صداقت گواہ ہو اور وہی زندہ رکھا جائے جس کے حق میں کھلی کھلی صداقت گواہی دے.پس اسلام کا اصول Might is Right کے برعکس Right is might بنتا ہے.تیسرا اصول جو لا دینی سیاست کا بنیادی حصہ ہے وہ یہ ہے کہ مقصد کے حصول کے لئے بے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 173 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء دریغ جھوٹا پروپیگنڈا کرو.یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ جتنا زیادہ فریب اور ملمع کاری سے کام لیا جائے اتنا ہی زیادہ بہتر اور قوم کے مفاد میں ہے.پس دشمن کو صرف میدان جنگ میں شکست نہ دو بلکہ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اس کو نظریات اور اصولوں کی دنیا میں شکست خوردہ بنا کے دکھاؤ.ازل سے جب سے سیاست کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے یہی تینوں اصول ہمیشہ ہر جگہ کارفرما دکھائی دیں گے سوائے ان استثنائی ادوار کے جب سیاست بعض شرفاء کے ہاتھ میں چلی گئی ہو جو دینی اور اخلاقی اقدار کی قدر کرتے ہوں.یا جب مذہب کی دنیا میں خدا تعالیٰ نے دنیاوی طاقت بھی عطا کر دی ہو.قرآن کریم اس اصول کے بالکل بر عکس یہ اصول پیش فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّوْرِ (ال): ۳۱) پھر دوسری جگہ فرمایا: وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَاقُربى (الانعام : ۱۵۳) لفظوں کی لڑائی میں بھی لفظوں کے جہاد میں بھی تمہیں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.سچائی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ نا اور جھوٹ کو قبول کرنا، یہ شرک کی طرح نا پاک اور نجس ہے.فرمایا وَ إِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوابات بھی کرو تو عدل کے ساتھ کرو لَوْ كَانَ ذَا قُرْ بی خواہ تمہاری بات کا نقصان تمہارے قریبی کو پہنچتا ہو اس کی کچھ پرواہ نہ کرو.آج کی اسلامی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خدا اور دین محمد کے نام پر جہاد کا اعلان کرتے ہیں لیکن سیاست کی متینوں شرائط لادینی سیاست سے اخذ کر لی ہیں اور قرآن کریم کی اس غالب سیاست کو چھوڑ دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اب تک جتنی دفعہ مسلمان اپنے اور اسلام کے دشمنوں سے ٹکرائے ہیں الا ماشاء اللہ معمولی اتفاق کے سوا ہر دفعہ نہایت ہی ذلت ناک اور عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے.حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کا یہ کھلا کھلا بلکہ اہل وعدہ تھا کہ اِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج:۴۰) که خبر دار ! میری خاطر ، میرے نام پر جہاد کے لئے نکلنے والوسنو! تم کمزور ہومگر میں کمزور نہیں ہوں.میں تم سے وعدہ کرتا ہوں اور یہ وعدہ اٹل ہے إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ ان کمزور اور دنیا کی نظر میں نہایت حقیر لوگوں کو جو خدا کی خاطر جہاد پر نکلے ہیں ضرور خدا کی نصرت عطا ہوگی اور ان کو اپنے غیروں پر غالب کیا جائے گا.یہ سوال آج مسلمان ذہن کو جھنجوڑ رہا ہے اور اسی لئے میں نے اس کو بہت اہمیت دی تا کہ مشرق سے مغرب تک کے دکھے ہوئے مسلمان دلوں کو سمجھاؤں کہ یہ شکست اسلام کی شکست نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 174 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ہے بلکہ یہ شکست ان مسلمانوں کی ہے جنہوں نے اسلام کے اصولوں کو ترک کر کے شکست خوردہ اصولوں کو اپنا لیا.پس یہ جنگ حق اور باطل کی جنگ نہیں رہی یہ طاقت اور کمزوری کی جنگ بن گئی.نہ خدا اس طرف رہا نہ خدا اس طرف رہا اور جب طاقت اور کمزوری کی جنگ بن جائے تو طاقت لازماً جیتنی ہے اور اسی کا مطلب ہے "Might is Right".پس خلیج کی جنگ کے اس دردناک واقعہ میں ہمارے لئے بہت گہرے سبق ہیں اور سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اعلیٰ پائیدار اور ناقابل تسخیر اصولوں کی طرف لازماً لوٹنا ہوگا.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کے حق میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوگا کہ ارض کے اوپر خدا کے پاک بندوں کی حکومت لکھی جاچکی ہے.الارض یعنی فلسطین کی زمین ہو یا ساری دنیا مراد ہو جب تک عباد الصلحین پیدا نہیں ہوتے اور قرآن کریم کے پاکیزہ ہمیشہ زندہ رہنے والے، ہمیشہ غالب آنے والے اصولوں پر عمل نہیں کرتے اس وقت تک ان کے مقدر میں کوئی دنیاوی فتح بھی نہیں لکھی جائے گی.پس مسلمانوں کے دلوں پر جو ظلم پر ظلم کی آری چلائی جارہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ گویا حق اتحادیوں کے ساتھ تھا اور حق کو جھوٹ اور باطل پر فتح ہوئی ہے یہ ہرگز درست نہیں.اس ضمن میں ایک اور بات آپ کے علم میں آنی چاہئے کہ ایک امریکن جرنیل بار بار یہ کہتے رہے کہ ہم سارے سفید ٹوپیوں والے ہیں اور عراق اور عراق کے ساتھی سارے کالی ٹوپیوں والے.مغربی ناولوں کا ایک جاہلانہ تصور ہے کہ جو ان کے لڑا کا پستول کے اچھے ماہر ہوں وہ سفید ٹوپیاں پہنا کرتے ہیں اور جو بد معاش ان کے مقابل پر ہوں جن پر وہ غالب آتے ہوں وہ کالی ٹوپیاں پہنتے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سفید اور کالے کی جنگ نہیں تھی.اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے یہ کہا جاتا ہے که صدام حسین اتنا ظالم اور سفاک ہے کہ اس نے کردوں کو گیس کا عذاب دے کر مارا اور پھر کر دوں کے گاؤں کے گاؤں بمباری کے ذریعے ملیا میٹ کر دیئے.اگر یہ بات درست ہے اور غالبا درست ہے تو ایک ایسا بھیانک جرم ہے جس کے لئے جو ظلم کرنے والا ہے وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوگا اور تاریخ کے سامنے بھی جواب دہ ہوگا.مگر یہ ساری تصویر نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ جرم صدام حسین کو کن قوموں نے سکھایا تھا اور کیسے سکھایا تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 175 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء 1920ء کی بات ہے کہ انگریزوں کی یہ پالیسی تھی کہ کر دوں کو عراقیوں کا غلام بنا دیا جائے جب کردوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو 1920 ء میں سب سے پہلے برطانیہ کی حکومت نے نہتے اور کمزور کر دوں پر گیس کے بم برسائے اور نہایت دردناک طریق پر ہزار ہا کا قتل عام کیا.اس کے بعد مسلسل انگریزوں نے کردوں کو عراق کا غلام بنانے کی خاطر سالہا سال تک ان غریبوں کے دیہات پر بمباری کی چنانچہ اس بمباری کا ایسا اثر اس زمانے کے ان لڑنے والوں پر بھی پڑا جن کے ذریعے بمباری کی جارہی تھی کہ ایک برطانوی امیر فورس کے بہت بڑے افسر نے احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا (1922ء کی بات ہے ) کہ یہ ظلم میں برداشت نہیں کر سکتا ایسا خوفناک ظلم توڑا جا رہا ہے کر دوں پر کہ میری حد برداشت سے باہر ہے.پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ایران میں بھی صدر صدام نے انہی جرائم کا ارتکاب کیا اور کثرت کے ساتھ ایرانیوں کو گیس کا عذاب دے کر مارا اور ان کی شہری آبادیوں پر بمباری کی.امر واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں بھی گیس بنانے کے سامان مغرب نے ان کو مہیا کئے اور دور مار تو ہیں بھی مغرب نے مہیا کیں اور سب سے زیادہ مالی امداد کرنے والے سعودی عرب اور کویتی تھے اور امریکہ مسلسل ان کی حمایت میں کھڑا رہا ہے.پس یہ درست ہے کہ صدام نے انسانیت کے خلاف جو جرائم کئے ہیں وہ ان کے لئے جواب دہ ہے مگر یہ درست نہیں کہ صرف صدام ہی نے جو جرائم کئے ہیں اور بھی بہت سے جرم کرنے والے ہیں اور وہ اتحادی جو اس وقت پاک باز اور معصوم بنا کر پیش کئے جارہے ہیں ان کے اندر بڑے بڑے ظالم اور سفاک موجود ہیں جنہوں نے ہمیشہ جب ان کو ضرورت پیش آئی جرم کی حمایت کی اور سفا کی کا دل بڑھایا.پس یہ جنگ سچ اور جھوٹ کی جنگ نہیں ہے.مسلمان نوجوان خصوصیت سے سخت دل شکستہ ہیں اور جو اطلاعیں مجھے دنیا سے مل رہی ہیں بعض نوجوان بچوں اور عورتوں ، لڑکیوں وغیرہ کا یہ حال ہے کہ ان ظلموں کو دیکھ دیکھ کر جو عراق پر توڑے جارہے ہیں رو رو کر انہوں نے اپنی زندگی اجیرن بنارکھی ہے.خودانگلستان میں ہی بعض بچے اور بعض بچیاں مجھے ملنے آئے.درد کی شدت سے ان سے بات نہیں ہوتی تھی.بات کرتے کرتے ہچکیاں بندھ گئیں کہ ہمیں بتائیں یہ کیا ہو رہا ہے.کیوں ہمارا خدا ان کی مدد کو نہیں آرہا؟ ان کو میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ سمجھانا چاہتا ہوں کہ.176 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء اول تو یہ کہ جب خود خدا کے بندے تو حید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں اور اسلام کے پاکیزہ اصولوں کو اپنانے کی بجائے دشمنوں کے ناپاک اصولوں کو اپنا لیں تو خدا نہ ادھر رہتا ہے نہ ادھر رہتا ہے اور یہ حق و باطل کی جنگ نہیں رہتی.دوسرے یہ کہ جہاں تک دنیا وی جنگوں کا تعلق بھی ہے اس شکست کے ساتھ وقت ٹھہر تو نہیں گیا.تاریخ تو جاری و ساری ہے ابھی چند دن گزرے ہیں.تاریخ اپنے رخ اولتی بدلتی رہتی ہے.وقت پلٹ جاتے ہیں اور آج کچھ ہے تو کل کچھ ہو جاتا ہے.بعض قوموں نے سینکڑوں سال تک جبر واستبداد کی حالت میں زندگی گزاری اور پھر خدا نے ان کو اپنے دشمنوں پر فتح عطا فرمائی.پس خدا کے وقت کے مطابق سوچ پیدا کریں.اپنے وقت کے مطابق عجلت سے کام نہ لیں.دنیا کی تاریخ ایک جاری و ساری سلسلہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہا کرتا.آپ کے دل کی تسلی کے لئے میں آپ کو تاریخ میں کچھ پیچھے لے جاتا ہوں 1919ء میں جو کچھ یورپ میں ہورہا تھا اس کی یاد آپ کو دلاتا ہوں یہ وہ سال ہے جبکہ جیتی ہوئی اتحادی طاقتیں جرمنوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے ور سائے Versailles میں اکٹھی ہوئی تھیں وہ سال انگلستان کے الیکشن کا سال بھی تھا.لائیڈ جارج وزیر اعظم نے یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے یہ بیان دیا کہ میں جرمن نمبو Lamon کواس سختی سے نچوڑوں گا کہ اس کے بیجوں سے چرچرانے کی آواز آئے اور ہائے ہائے کی صدائیں اٹھنے لگیں.اس ارادے کے ساتھ یہ ورسائے کے لئے روانہ ہوئے.مبصر لکھتا ہے کہ ورسائے پہنچ کر جب انہوں نے فرانسیسی نمائندوں کے انتقامی ارادوں پر اطلاع پائی تو وہ سمجھے کہ میرے ارادے تو ان کے مقابل پر بخشش اور حلم کا نمونہ تھے.فرانسیسی نمائندوں میں ایسی خوفناک انتقامی کارروائیوں کے جذبات تھے کہ گویا ہر جرمن کو ملیا میٹ کرنے کا فیصلہ تھا.بہر حال آپس میں افہام و تفہیم کے ذریعے کچھ ایسے فیصلے کئے گئے جن کے نتیجے میں اس بات کو لازمی بنادیا گیا کہ آئندہ کبھی جرمن قوم کسی اور قوم کے خلاف ہتھیار نہ اٹھا سکے.وہی تصویر ہے جو آج عراق کی صورت میں ان کے ارادوں کی شکل میں آپ کو دکھائی دیتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اس بات کو مزید یقینی بنانے کے لئے 1928ء میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ اور فرانس کے وزیر اعظم نے مل کر ( سیکرٹری آف سٹیٹ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 177 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء کا نام Mr.Frank Kellogg تھا) انہوں نے یورپ میں پندرہ مغربی ممالک کی ایک کانفرنس بلائی جس کا عنوان یہ تھا کہ جنگ کو Outlaw کر دیا جائے یعنی ایسا مفرور مجرم قرار دیدیا جائے جس کے قتل کا سب کو حق ہے.عملاً یہ اعلان تھا کہ ہم اب جنگ کو ہمیشہ کے لئے دفنا دیں گے پندرہ ملکوں کے نمائندے اکٹھے تھے جس ہال میں یہ تقریب منعقد ہوئی وہاں جب سب سے پہلے جرمن نمائندہ اپنا سنہری قلم لے کر دستخط کرنے لگا تو سارا ہال تالیوں کی گونج سے لرزنے لگا کسے خبر تھی کہ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد یعنی 1928ء کو گیارہ سال بمشکل گزریں گے کہ وہی مردہ دوبارہ زندہ ہو جائے گا اور ایک ملک یا ایک وزیر اعظم کو تاخت و تاراج نہیں کرے گا بلکہ اس کی ہیبت سے مشرق و مغرب تک قوموں کے ایوان لرز نے لگیں گے اور بموں کے دھماکوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی.پس دیکھو آنا فانا یعنی تاریخ کے نقطہ نگاہ سے چند سال آنا فانا کی بات ہوا کرتی ہے، آنا فانا کیسے مناظر بدل گئے.خدا زندہ ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے.انسانی نسلیں آتی ہیں اور گزر جایا کرتی ہیں.اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ تم تاریخ کے ان اتفاقات پر بھروسہ رکھو میں یہ کہتا ہوں کہ تاریخ کے اس ادلنے بدلنے کے مضمون کو پیش نظر رکھو اور مایوس نہ ہو لیکن بھروسہ خدا پر رکھو جو دائمی ہے اور جس پر دنیا کی کوئی طاقت غالب نہیں آسکتی.وہ دنیا کی اور کائنات کی ہر طاقت کو مغلوب کر سکتا ہے.اس کے ہاتھ میں ان طاقتوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں.پس اگر تم مظلوم اور مجبور ہو اور درد سے کراہ رہے ہو تو اس در دکو دعاؤں میں خدا کے حضور پیش کرو.میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری ہر شکست اس طریق پر فتح میں تبدیل ہو جائے گی.میں اتحادی فوجوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں اور اتحادی ملکوں کے سربراہوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ کو بنی نوع انسان کی بھلائی مقصود ہے.اگر واقعی آپ دائگی امن چاہتے ہیں تو آپ کی سیاست کے اصول تو بار بار پٹ چکے ہیں اور کبھی بھی دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.اس لئے خدا کے لئے اب تو عبرت حاصل کرو اور اسلام کے سیاست کے ان اصولوں کو اپناؤ جو تقویٰ کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں.جن کی جڑیں تقویٰ میں ہیں جو تقویٰ کے پانی سے پلتے ہیں اور تقویٰ کی طاقت سے نشو نما پاتے ہیں.اگر تم اسلام کے ان تین اصولوں کو اپنا لوجن کا میں ذکر کر چکا ہوں تو یہی ایک ذریعہ ہے کہ جس سے دنیا کو دائمی امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے.اگر ایسا نہ کرو گے تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 178 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء جبر و استبداد کی طاقتیں خواہ مغربی ہوں یا مشرقی ، ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے والا امریکہ ہو یا انڈونیشیا میں بربریت کی نئی حیرت انگیز مثالیں اور نہایت دردناک مثالیں قائم کرنے والا جاپان ہو، میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان کی نیتیں وہی رہیں جو ہمیشہ سے سیاستدانوں کی نیتیں چلی آئی ہیں اور اخلاق کی بجائے خود غرضی پر ان کی بنا ہوئی تو کبھی دنیا کو امن عطا نہیں کر سکتے.دنیا کی طاقتور قوموں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنی نیتوں کے جنگلوں میں چھپے ہوئے بھیڑیوں کو ہلاک کریں.اگر ایسا نہیں کریں گے تو صدام کی ایلیٹ فورس کو تباہ کرنے سے دنیا میں امن کی ضمانت نہیں ہوسکتی ، تمام عراق کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں تب بھی دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی.انسان کو ہلاک کرنے کے لئے اس کی نیتوں میں بھیڑیے چھپے ہوئے ہیں.جب تک نیتوں میں پوشیدہ بھیڑیوں کو انسان ہلاک نہیں کرتا اور عدل پر قائم ہونے کے عہد نہیں کرتا اس وقت تک دنیا کو ہرگز امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.لیکن یہاں ایک بہت ہی اہم سوال اٹھتا ہے کہ جب تک قرآن کا پیش کردہ نظام عدل اسلامی دنیا خود قبول نہ کرے اور اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کا نظام عدل جاری کر کے نہ دکھائے اور اپنے نظریات کو عادلانہ نہ بنائے اس وقت تک وہ دنیا کو کیسے اسلام کے عدل کی طرف بلاسکتی ہے.یہ ناممکن ہے جب تک عالم اسلام خود عدل پر قائم نہیں ہوتا یعنی قرآن کے تصور عدل پر قائم نہیں ہوتا، نہ عالم اسلام دنیا کو عدل عطا کر سکتا ہے نہ دنیا سے عدل کی توقع رکھ سکتا ہے.اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں نہایت ہی خوفناک ایسی باتیں رائج ہیں جو اسلام کے ساتھ بے وفائی کا حکم رکھتی ہیں اور بجائے اس کے کہ اسلام کی عادلانہ تعلیم کو سمجھیں اور قبول کریں، اسلام کو دنیا کے سامنے ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس کا عدل کے ساتھ کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں.اس میں سب سے بڑا قصور ملاں اور سیاستدان کا ہے ان دونوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اسلام کے نظام عدل کو تباہ کیا جارہا ہے تین ایسے نظریات اسلام کی طرف منسوب کر کے پیش کئے جارہے ہیں کہ جن کے نتیجے میں بیرونی دنیا میں اسلام کی تصویر ظالمانہ طور پر مسخ ہو کر پیش ہورہی ہے اور ہر اسلامی ملک سے بھی امن اٹھتا چلا جا رہا ہے.پہلا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تلوار کا استعمال نظریات کی تشہیر میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری
خطبات طاہر جلد ۱۰ 179 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ہے اور تلوار کے زور سے نظریات کو تبدیل کر دینے کا نام اسلامی جہاد ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حق صرف مسلمانوں کو ہے.عیسائیوں یا یہودیا ہندوؤں یا بدھوں کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے نظریے کو بزور تبدیل کریں لیکن خدا نے یہ حق سارے کا سارا مسلمانوں کے سپرد کر رکھا ہے.کیسا غیر عادلانہ، کیسا جاہلانہ تصور ہے لیکن اسے اسلام کے نام پر ساری دنیا میں پھیلا یا جارہا ہے.پھر دوسرا جزو اس کا یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے تو کسی کا حق نہیں کہ اسے موت کی سزا دے.تمام دنیا میں جہاں کوئی چاہے اپنے دین کو چھوڑ چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتا رہے دنیا کے کسی مذہب کے ماننے والوں کو حق نہیں کہ اسے موت کی سزا دیں لیکن اگر کوئی مسلمان دوسرا مذہب اختیار کر لے تو دنیا کے ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس کی گردن اڑا دے.یہ اسلام کا دوسرا منصفانہ اصول ہے جو اسلام کے علمبر دار خدا اور قرآن کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.تیسرا اصول یہ ہے کہ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ شریعت اسلامیہ کو زبردستی ان شہریوں پر بھی نافذ کریں جو اسلام پر ایمان نہیں لاتے لیکن دوسرے مذاہب کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی اپنی شریعت مسلمانوں پر نافذ کریں.چنانچہ اس نظریہ عدل کی رو سے یہود کو بھی یہ حق نہیں کہ مسلمانوں سے طالمود میں بیان کردہ سلوک کریں اور ہنود کو بھی یہ حق نہیں کہ مسلمانوں سے منوسمرتی میں بیان کردہ سلوک کریں.پس یہ تیسرا تصور عدل ہے.یہ صرف تین مثالیں ہیں لیکن حقیقت میں آپ مزید جائزہ لیں تو بہت سے اور امور بھی ایسے ہیں جن میں آج کے مولوی کا پیش کردہ تصور اسلام قرآن کریم کے واضح اور بین اصول عدل سے متصادم ہے اور اسے رد کرنے کے مترادف ہے.آج دنیا میں اسلام کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ہتھیار یہی وہ تین اصول ہیں جن کی فیکٹریاں مسلمان ملکوں میں لگائی گئی ہیں.یہود سب سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ان تین اسلامی اصولوں کو یعنی نعوذ بالله من ذالک اسلامی اصولوں کو مولویوں کے بنائے ہوئے اسلامی اصولوں کو کہنا چاہئے.مغربی دنیا میں اور دوسری دنیا میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے تمہیں کس طرح امن نصیب ہوسکتا ہے ان لوگوں سے ہمیں کس طرح امن نصیب ہو سکتا ہے جن کا انصاف کا تصور اور عدل کا تصور ہی پاگلوں والا تصور ہے جس کے اندر کوئی عقل کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا.مسلمانوں کے لئے اور حقوق غیروں کے لئے اور حقوق ، سارے حقوق دنیا میں راج کرنے کے مسلمانوں کو اور سب غیر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 180 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ہر دوسرے حق سے محروم.اگر نعوذ بالله من ذالک یہ قرآنی اصول ہے تولا ز ما ساری دنیا اس اصول سے متنفر ہوگی اور مسلمانوں کو امن عالم کے لئے شدید خطرہ محسوس کرے گی.پس صرف یہی کافی نہیں کہ غیروں سے ان زیادتیوں کے شکوے کئے جائیں جو مسلمان پر کی جاتی ہیں.اپنے پر بھی نظر ڈالنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ زیا دتیاں کیوں ہورہی ہیں اور شاطر دشمن کس طرح مسلمانوں کے خلاف خود مسلمانوں کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کو استعمال کر رہا ہے پس امر واقعہ یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں اسلام کی طرف منسوب ہونے والے نہایت مہلک ہتھیاروں کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں اور ملاں ان کا رخانوں کو چلا رہے ہیں اور بھاری تعداد میں دشمن ممالک میں یہ دساور کو بھیجے جاتے ہیں اور ان کی برآمد ہوتی ہے اور پھر یہی ہتھیار عالم اسلام کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمان سیاستدانوں کا بھی اس میں بہت بڑا قصور ہے.انہوں نے خود اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی.ملاں کے سپرد کر بیٹھے اور یقین کرلیا کہ ملاں اسلام کی جو بھی تصویر پیش کر رہا ہے وہی درست ہے لیکن ان کے ضمیر نے اور ان کی روشن خیالی نے اس تصویر کو رد کیا ہے لیکن یہ جرات نہیں رکھتے کہ ان نظریات کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے بھی ان کی مخالفت کر سکیں.پس اس نفسیاتی الجھن نے تمام اسلامی ریاست کو مریض بنا رکھا ہے دو گلا اور منافق بنا دیا ہے.اپنے عوام ان ملانوں کے سپر د کر دیئے ہیں جو ازمنہ وسطی کی سوچ رکھتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے روشن زمانے سے روشنی حاصل نہیں کرتے اس لئے جب انہوں نے اپنے عوام کو ہی ان کے ہاتھ میں دے دیا تو ان کی طاقت سے ڈر کر وہ کھلم کھلا یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے کہ یہ اصول غلط ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان کو نعوذ باللہ اسلامی اصول سمجھ رہے ہیں.پس اب وقت ہے کہ حکومتیں ہوش کریں اور عالم اسلام جو دو نیم ہوا پڑا ہے، سیاست کی دنیا الگ ہے اور مذہبی سوچ کی دنیا الگ ہے اور ان دونوں کے درمیان تصادم ہے.یہ دوسرا خطرناک پہلو ہے جس کے نتیجے میں عالم اسلام کو خود اپنی طرف سے بھی خطرہ ہے اور اس خطرے کی بیخ کنی ضروری ہے بلکہ فوری ہے ورنہ ایک نئے جہان کا نظام نو بنانے میں مسلمان کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں گے.پس ضروری ہے کہ مسلمان حکومتیں واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ قرآن کے نظام عدل سے ٹکرانے والا کوئی نظریہ اسلامی نہیں کہلا سکتا اس سے بڑی اور کسی دلیل کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 181 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ضرورت نہیں ہے.بار بار علماء کو چیلنج کریں کہ آؤ اور اس میدان میں ہم سے مقابلہ کر وہم اعلان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کا نظام عدل واضح اور بین اور غیر مبہم ہے اور عالمی ہے قومی نہیں ہے.اگر عالمی نہ ہو تو نظام عدل کہلا ہی نہیں سکتا.بین الاقوامی ہے.Absolute ہے پہلے اس بات پر بحث کرو کہ یہ ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کے نظام عدل سے ٹکر انے والا ہر نظریہ غیر اسلامی ہے.دوسرے اس اعلان کی ضرورت ہے کہ ہر وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف غیر عادلانہ نظریہ منسوب کرے گا وہ کلام الہی کی گستاخی کا مرتکب شمار ہوگا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا جائے کہ ہر وہ شخص جو حدیث رسول کی طرف قرآن کریم کے خلاف نظریات منسوب کرنے کی کوشش کرے، وہ کلام رسول کی گستاخی کا مرتکب شمار کیا جائے گا.یہ ایک ہی لائحہ عمل ہے جو عالم اسلام کے اندرونی تضادات کو دور کر سکتا ہے.اگر آج کسی سیاستدان کے دماغ میں روشنی ہے اور وہ تقویٰ رکھتا ہے اور انصاف کا دامن پکڑے ہوئے ہے.اگر آج اس میں یہ جرات ہے کہ حق بات کر سکے اور حق طریق پر کر سکے، اگر آج وہ اپنی قوم اور عالم اسلام سے محبت رکھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس میدان میں اسلام کے حق میں جہاد کا آغاز کرے ورنہ یہ میدان نہ جیتا گیا تو کوئی اور میدان نہیں جیتا جائے گا.اگر چہ ایک گونہ منافقت کے ذریعے مسائل ٹل رہے ہیں لیکن بلا ہمیشہ کے لئے سر سے اتر نہیں گئی.عالم اسلام میں ہم یہ واقعہ بار بار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جب بھی عالم اسلام کو کہیں سے کوئی خطرہ درپیش ہو و ہیں ملائیت کو فروغ ملنے لگتا ہے اور ملائیت دماغوں میں زیادہ سے زیادہ نفوذ کرنے لگتی ہے اور اس وقت ایک انتہا پسند انقلاب کے خطرات سر پر منڈلانے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے.اگر حکمت کے ساتھ بر وقت اس کا انسداد نہ کیا گیا اور عوام کی سوچ میں اور سیاست کی سوچ میں مذہبی اور سیاسی نقطہ نگاہ سے یک جہتی پیدا نہ کی گئی تو اسلامی ممالک ہمیشہ کمزورر ہیں گے اور ہمیشہ اندرونی خطرات کی وجہ سے یہ زلزلوں میں مبتلا رہیں گے اور کبھی ان کو استحکام نصیب نہیں ہو سکتا.اس لئے دوٹوک فیصلوں کی ضرورت ہے اور آج ان فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم سے مزید رحم کا سلوک نہیں کرے گا.رحم کا سلوک کتنی دفعہ ہمیں سزا دے چکا ہے.کتنی دفعہ ہمیں دنیا میں ذلیل اور رسوا کر چکا ہے اگر آج نہیں اٹھو گے تو پھر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 182 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء کبھی نہیں اٹھ سکو گے اس لئے اٹھو اور یہ فیصلے کرو اور خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ فیصلے کرو کہ حق کے لئے حق نام کی تلوار اٹھاؤ گے اور وہ نظریاتی جہاد شروع کرو گے جس کی قرآن کریم نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ تم پر اس جہاد کو واجب کر رہا ہے.یہی وہ خطرات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ، جن کی وجہ سے کسی اسلامی ملک میں حقیقی جمہوریت آہی نہیں سکتی.اگر جمہور کی بات کریں تو جمہور کی تعلیم و تربیت کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے.نہ سیاسی سوچ میں ان کو شامل کیا جاتا ہے ، نہ مذہبی سوچ میں ان کو شامل کیا جاتا ہے بلکہ حکمران طبقہ ان کے نام پر ووٹ لے کر ، ابھر کر ایک نیا تشخص حاصل کر لیتا ہے.پس ایسے ملک جہاں حکمران طبقے اور عوام الناس میں سوچ اور مذہبی خیالات کی ہم آہنگی نہ ہو وہاں اگر جمہوریت آ بھی جائے تو وہ آمر پیدا کر سکتی ہے جمہوری حکمران پیدا نہیں کر سکتی اور دنیا میں بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے آمر پیدا ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ چونکہ مسلمان حکمرانوں کو ہمیشہ یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ ملائیت ہمارے عوام کو کہیں اس حد تک اسلام کے نام سے ہمارے خلاف نہ کر دے کہ ہمارے خلاف کسی قسم کا انقلاب بر پا ہو جائے.اس خطرے کے پیش نظر وہ ضرور آمر بننا شروع ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جبر کو اختیار کرنے لگتے ہیں اور چونکہ جن پر ظلم کیا جاتا ہے وہ عوام کی نظر میں اسلام کے بچے ہمدرد ہوتے ہیں اس لئے دن بدن علماء کے حق میں اور سیاستدانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس یہ ایک مسئلہ نہیں.اس مسئلے کی کئی شاخیں ہیں اور ان سب مسائل کا ایک ہی علاج ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ قرآن کے عدل کے نظام کو اس طرح مضبوطی سے پکڑ لیں جیسے عروہ وثقی“ پر ہاتھ ڈال دیا جاتا ہے جس کے لئے پھر ٹوٹنا مقدر نہ ہو.یہی وہ خدا کی رسی ہے، عدل کی رسی جسے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقوام عالم میں امن پیدا کرنے کے لئے لٹکایا تھا.اس رسی کا دامن چھوڑ کر آپ کو دنیا میں کہیں امن نصیب نہیں ہو سکتا پس مضبوطی سے اس کڑے پر ہاتھ ڈالیں اور تمام دنیا کو بھی جو امن کی متلاشی ہے اسی کڑے پر ہاتھ ڈالنے کے لئے دعوتیں دیں.پھر ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ جہاد کے دعاوی بھی کئے جاتے ہیں اور اعلان بھی کئے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ملاں کے ان تین اصولوں کو تسلیم بھی کیا جاتا.یہ سیاستدان کا دوسرا جرم ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 183 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء جانتے بوجھتے ہوئے کہ اسلام کا نظام عدل اس قسم کی لڑائیوں کی تلقین نہیں کرتا جس قسم کی لڑائیوں کو ملاں جہاد قرار دیتا ہے.جب بھی کوئی ملکی خطرہ درپیش ہو اور سیاسی جنگ سامنے ہو تو خودملاں سے کہکر اور اس کے ہم آواز ہو کر عوام کو جہاد کے نام پر بلانے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا ان قوموں سے مزید متنفر ہو جاتی ہے اور دل میں یقین کر لیتی ہے کہ ان کے سیاست دان ظاہری طور پر تو یہی کہتے ہیں کہ اسلام کے جہاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تلوار کے زور سے نظریات کو پھیلا دیا ہر لڑائی میں خدا کا نام استعمال کرو مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو ہمیشہ اسی تصور کا سہارا لیتے ہیں بار بار ہر جگہ ایسے ہوتا ہے اور ہوتا چلا آیا ہے.میں نے جہاں تک اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے آنحضرت مہ کے مقدس دور کے بعد اگر مسلمان ملکوں کی لڑائیوں پر نظر ڈالیں تو آپ حیران ہوں گے کہ تمام لڑائیاں جہاد مقدس تھیں.ایک بھی لڑائی مسلمانوں نے نہیں لڑی خواہ وہ غیروں کے ساتھ لڑی ہو یا اپنوں کے ساتھ لڑی ہو.خواہ وہ سنی سنی کے درمیان ہو یا شیعہ شیعہ کے درمیان ہو یا شیعہ سنی کے درمیان ہو جو اس وقت کے علماء اور ان کے سیاستدانوں کے نظریوں کے مطابق جہاد مقدس نہ ہو.عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کے سوا کوئی لڑائی پیش نہیں آتی.ساری دنیا کی قو میں سیاسی لڑائیاں لڑتی ہیں.ان کو ہر قسم کی لڑائیوں کے سامنے کرنے پڑتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے صرف جہاد ہی رہ گیا ہے اور اس جہاد کی تاریخ میں بھاری حصہ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے کا ہے اور ایک دوسرے کو جہاد کے نام پر قتل و غارت کیا گیا ہے.پس یہ تمسخر تو المیہ کی شکل اختیار کر گیا ہے.ایک دردناک المیہ کی شکل اختیار کر گیا ہے.اب اس المیہ کوختم ہونا چاہئے دنیا کی نظر سے دیکھیں تو اس زمانے کا سب سے بڑا تمسخریہ نظریہ ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں جسے اسلام کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے اور اگر اندرونی مسلمان کے دل کی نظر سے دیکھیں تو ایک انتہائی دردناک اور ہولناک المیہ ہے جو 1300 سال سے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا.اس لئے اگر اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو اپنے خیالات اور اپنے رجحانات اور اپنے اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں.جب تک مسلمانوں کی سوچ میں انقلاب برپا نہیں ہوتا اس وقت تک وہ دنیا میں کوئی انقلاب برپا کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے اور پھر ظلم پر ظلم یہ کہ اس جہاد کے نظریے پر یقین رکھتے ہوئے جہاد کی تیاری کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 184 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء نہیں.قرآن کریم نے تو یہ تعلیم دی تھی وَاَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُقَ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَأَخَرِيْنَ مِنْ دُونِهِمْ دج لَا تَعْلَمُونَهُمْ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ (۱) نال (۶۱) کہاے مسلمانوں اپنی خود حفاظتی کے لئے تیار رہو اور خوب تیاری کرو ہر ایسے دشمن کے خلاف جو تم پر کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا ہے.ہر قسم کے میدان میں اپنے سواروں کے ذریعے اور پیدلوں کے ذریعے ان سے مقابلے کے لئے ایسے تیار ہو جاؤ کہ ان پر دور دور تک تمہارا رعب پڑ جائے اور کسی کو جرات نہ ہو کہ ایسی تیار قوم پر حملے کا تصور کر سکے.وہ صرف تمہارے ہی دشمن نہیں بلکہ پہلے اللہ کے دشمن ہیں.عَدُوقَ اللهِ وَعَدُوَّكُم پس تم تو اپنے دشمنوں سے غافل رہ سکتے ہو.لیکن خدا اپنے دشمنوں سے غافل نہیں رہا کرتا لَا تَعْلَمُونَهُمْ اللهُ يَعْلَمُهُمْ ایسے حال میں بھی کہ جب تم ان سے بے خبر ہو گے خدا ان کو جانتا ہوگا.پس اگر تم تیاری کا حکم تسلیم کر لو اور دل و جان سے اس پر عمل کرو تو خدا تمہیں خوشخبری دیتا ہے کہ تمہاری غفلت کی حالت میں بھی پردہ پوشی سے کام لے گا اور تمہیں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.یہ ہیں اسلامی جہاد کو تسلیم کرنے کے بعد اس پر عمل کا فیصلہ کرنے کے بعد مسلمانوں کی ذمہ داریاں جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں ان پر کہاں عمل ہورہا ہے.حالت یہ ہے کہ جتنے مسلمان ممالک ہیں یہ اسلحہ سازی میں ہر اس ملک کے محتاج ہیں جن کے خلاف مسلمان جہاد کا اعلان کرتے ہیں.جن مغربی یا مشرقی قوموں کو مشرک اور خدا سے دور اور خدا کے دشمن اور بت پرست اور ظالم اور سفاک بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ ان سے لڑنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے راکٹ مانگنے کے لئے بھی ان کی طرف ہاتھ بڑھائے جاتے ہیں اور سمندری اور ہوائی جنگی جہاز مانگنے کے لئے بھی ان کی طرف دیکھا جاتا ہے، تو ہیں بھی ان سے مانگی جاتی ہیں.ہر قسم کے راکٹ اور دوسرا اسلحہ بھی ان سے طلب کیا جاتا ہے.سادگی کی حد ہے.کہتے ہیں اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں لیکن یہ سادگی پھر بھی قرین قیاس ہے.سمجھ میں آجاتی ہے، بھولا پن ہے مگر تمہاری سادگی جہالت کی انتہا ہے کہ جن کو دشمن قرار دیتے ہو، جن کو للکارتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارے مذہب کی تلقین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 185 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ہے کہ تمہارے خون کا آخری قطرہ چوس جائیں انہی سے مخاطب ہو کے کہتے ہو کہ ہم نہتے ہیں.ہمیں ہتھیار تو دو کہ تمہاری گردنیں اڑائیں.اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے.پس اب ایک قوم کی قوم نے اپنے مفادات کی خود کشی کا فیصلہ کر لیا ہو تو کون ہے جو ان کی مدد کو آئے گا اور کیسے کوئی ان کی مدد کر سکے گا.ایسی قوموں کی تو پھر خدا بھی مدد نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) ہرگز خدا تعالی کسی قوم کی امداد کا فیصلہ نہیں کرتا.کسی قوم کی امداد کو نہیں آتا.اس کے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں کرتا جتنى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِم اس کے دونوں معنی ہیں یعنی یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل کر لیں.ایک اور آیت میں اس کا یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ وہ تو میں جو اپنی نعمتوں کو خود اپنے ہاتھ سے ضائع نہ کرلیں، ضائع کرنے کا فیصلہ نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں کو تبدیل نہیں کیا کرتا.اس آیت کو کھلا چھوڑا گیا ہے جس کا مطلب ہے دونوں معانی ہو سکتے ہیں کہ وہ قو میں جو اپنی نعمتوں کو تبدیل کرنے میں جو خدا نے ان کو عطا کی تھیں پہل نہ کریں اللہ تعالیٰ بھی ان کی نعمتوں کی حفاظت فرمائے گا اور دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تو میں جو خود اپنی تقدیر بنانے میں کوشش نہ کریں اور اپنے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں اللہ تعالیٰ کبھی ان کو تبدیل نہیں کرے گا.پس عالم اسلام کو میرا مشورہ یہی ہے کہ پہلے اسلام کی طرف لوٹو اور اسلام کے دائمی اور عالمی اصولوں کی طرف لوٹو ، پھر تم دیکھو گے کہ خدا کی برکتیں کس طرح تم پر ہر طرف سے نازل ہوتی ہیں.دوسرا اہم مشورہ یہ ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ کرو.نعرہ بازیوں میں کتنی صدیاں تم نے گزار دیں.تم نعرے لگا کر اور شعر و شاعری کی دنیا میں ممولوں کو شہبازوں سے لڑاتے رہے اور ہمیشہ شہباز تم پر جھپٹتے رہے اور کچھ بھی اپنا نہ بنا سکے.دوسری قومیں علوم وفنون میں ترقی کرتی رہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تم پر ہر پہلو سے فتح یاب ہوتی رہیں اور تم پر ہر پہلو سے فضیلت لے جاتی رہیں.اب ان سے مقابلے کی سوچ رہے ہو اور وہ آزمودہ ہتھیار جوان کے ہاتھ میں تمہارے خلاف کارگر رہے ہیں ان کو اپنانے کی کوئی کوشش نہیں.پس بہت ہی بڑی اہمیت کی بات یہ ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ دو اور مسلمان طالب علموں کے جذبات سے کھیل کر ، ان کو گلیوں میں لڑا کر گالیاں دلوا کر ان کی اخلاقی تباہی کے سامان نہ کرو اور ان کی علمی تباہی کے سامان نہ کرو اور پھر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 186 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء پولیس کے ذریعہ انہیں ڈنڈے پڑوا کر یا گولیاں چلا کر ان کی جسمانی تباہی کے سامان نہ کرو اور ان کی عزتوں کی تباہی کے سامان نہ کرو.اب تک تو تم یہی کھیل کھیل رہے ہو.مسلمان نسلوں کو جوش دلاتے ہو اور پھر وہ بے چارے گلیوں میں نکلتے ہیں اسلام کی محبت کے نام پر، پھر ان کو رسوا اور ذلیل کیا جاتا ہے ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں.ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور ان کو کچھ پتا نہیں کہ ہم سے یہ کیوں ہو رہا ہے اس لئے جذبات سے کھیلنے کی بجائے ان کو حوصلہ دو ان کو سلیقہ دو.ان کو قتل کی تعلیم دو ان کو بتاؤ کہ اگرتم دنیا کی قوموں میں اپنا کوئی مقام بنانا چاہتے ہو تو علم وفضل کی دنیا میں مقام بناؤ اور اس کے بغیر تمہیں دنیا میں تمہارا قابل عزت مقام عطا نہیں ہو سکتا.اقتصادی استحکام کا یہ حال ہے کہ سوائے چند تیل کے ملکوں کے جن کو تیل کی غیر معمولی دولت حاصل ہے تمام مسلمان ممالک اور تمام تیسری دنیا کے ممالک ان امیر ملکوں کے سامنے دست طلب دراز کئے بیٹھے ہیں جن کی زیادتیوں کے شکوے کئے جاتے ہیں.جن کی غلامی کے خلاف اپنے عوام کو نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے آکر ہمیں غلام بنالیا اور ایسی قومیں ہیں کہ ان سے ہمیں بالاخر انتقام لینا ہے.پس وہاں بھی تضادات پیدا کر دیئے جاتے ہیں.انگریز کا نام خود سعودی عرب میں لو یا کویت میں لوتو جو انگریز کی حمایت میں بولے گا وہ واجب القتل سمجھا جائے گا.امریکہ کا نام لینا گالی ہے.لیکن ساری کی ساری قوم امریکنوں اور انگریزوں کے ہاتھ پر بکی ہوئی ہے اور ان کی بیعت کر چکی ہے اور کسی کو کوئی ہوش نہیں.پس جو غریب ممالک ہیں وہ بھکاری بنا دیئے گئے ہیں.جو امیر ممالک ہیں وہ اپنی بقا کے لئے اپنے مخالفوں پر انحصار پر مجبور ہو چکے ہیں.پس کیسی مفلسی کا عالم ہے.کہ امیر ہو یا غریب ہو وہ بھکاری کے طور پر اس دنیا میں زندہ رہ سکتا ہے.اور عزت اور آزادی کے ساتھ سانس نہیں لے سکتا.پس سب سے بڑا خطرہ عالم اسلام کو اور تیسری دنیا کو ان کی نفسیاتی ذلتوں سے ہے وہ کیوں نہیں سمجھتے ، بھکاری کبھی آزاد نہیں ہو سکتا.اگر تم نے اپنے لئے بھکاری کی زندگی قبول کر لی ہے تو ہمیشہ ذلیل ورسوار ہو گے.غیر قوموں کے متعلق تو یہ کہہ سکتے ہو کہ ان کو اس کے خلاف کوئی تعلیم نہیں دی گئی پر تم قیامت کے دن خدا اور محمد مصطفی ﷺ کو کیا جواب دو گے.کیا قرآن کی یہ آیت تمہارے خلاف گواہی نہیں دے گی کہ كُنْتُمْ خَيْرَ افَةِ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 11) اے محمد مصطفی " کے غلامو! تم دنیا کی بہترین امت تھے جو دنیا پر احسان کرنے کے لئے نکالی گئی تھی اور کیا محمد
خطبات طاہر جلد ۱۰ 187 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء مصطفی اصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ نصیحت تمہارے خلاف گواہ بن کر نہیں کھڑی ہوگی کہ الید العلیا خير من اليد السفلی ( بخاری کتاب الزكاة حدیث نمبر : ۱۳۳۸) کہ اوپر کا ہاتھ ، عطا کرنے والا ہاتھ ہمیشہ نیچے کے یعنی بھیک مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے پس اپنی خوبیاں تو تم نے خود غیروں کے سپرد کر دیں.منگتے ، بھکاری بن گئے اور فخر سے اپنی قوم کے سامنے تمہارے سیاستدان یہ اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ نے اتنی بھیک منظور کر لی ہے اور امریکہ نے جو بھیک نہیں دی تھی وہ سعودی عرب نے منظور کر لی ہے.اگر تمہاری رگوں میں بھیک کا خون دوڑ رہا ہے تو کس طرح قوموں کے سامنے سراٹھا کر چلو گے.شعروں کی دنیا میں بسنے کی عادت پڑی ہوئی ہے.اقبال کی پرستش کی جاتی ہے جو یہ کہتا ہے: اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی ( کلیات اقبال:..) ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر معنیاں لہک لہک کر یہ کلام دنیا کو سناتی ہیں اور مسلمان سر دھنتا ہے کہ ہاں اس رزق سے موت اچھی لیکن ہر موت سے ان کے لئے وہ رزق اچھا ہے جو غلامی کی رنجیروں میں جکڑ دیتا ہے.کوئی قربانی کی موت اپنے لئے قبول نہیں کر سکتے.پرواز میں کوتاہی کی باتیں تو دور کی باتیں رہ گئی ہیں اب تو ہر تہہ دام دانے پر لپکنے کا نام پرواز کی بلندی قرار دیا جاتا ہے.اس سیاستدان سے بڑھ کر اور کون اچھا سیاستدان ہو گا جو کشکول ہاتھ میں لے کر امریکہ کی طرف گیا اور وہاں سے بھی مانگ لایا اور چین کی طرف گیا اور وہاں سے بھی مانگ لایا اور روس کی طرف گیا اور وہاں سے بھی مانگ لایا.یہ اعلیٰ سیاست کی کسوٹی ہے.اعلیٰ سیاست کو پر کھنے کے معیار ہیں.یہ دینی سیاست تو نہیں یہ اسلامی سیاست تو نہیں.یہ انسانی سیاست بھی نہیں.یہ بے غیرتی کی سیاست ہے.اور واقعہ اقبال نے سچ کہا ہے کہ اس رزق سے موت اچھی ہے جس رزق سے تمہارے ہاتھ اور پاؤں باندھے جاتے ہوں تم خود بھی ذلیل اور رسوا ہوئے اور جن قوموں نے تمہیں اپنا سر دار چنا ان سب قوموں سے تم نے بے وفائی کی ، اپنے عوام سے بے وفائی کی.ان کو بڑی طاقتوں کا غلام بنانے کے تم ذمہ دار ہو، اے مسلمان سیاستدانوں اور اے لیڈرو! ہوش کرو اور تو بہ کرو ورنہ کل تاریخ کی عدالتوں میں تم مجرموں کے کٹہروں میں پیش کئے جاؤ گے.لیکن اس سے بہت بڑھ کر خدا اور محمد مصطفی کی عدالت میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 188 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء قیامت کے دن تم مجرموں کے کٹہروں میں کھڑے کئے جاؤ گے.اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ جن قوموں کو مانگنے کی عادت پڑ جائے وہ اقتصادی لحاظ سے اپنی حالت بہتر بناہی نہیں سکتیں.جو ایک فرد کی نفسیات ہوتی ہے وہی قوموں کی نفسیات بھی ہوا کرتی ہے.آپ اپنے گرد و پیش خود دیکھ لیں کہ جن لوگوں کو مانگنے کی عادت ہو اور تن آسانی اور تنعم کی عادت ہو وہ ہمیشہ مانگتے ہی دکھائی دیں گے.تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مانگنے والوں کو قیامت کے دن اس حال میں دیکھا کہ چھڑیاں ہڈیوں سے چپکی ہوئی تھیں اور وہ گوشت نہیں تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ مانگ کر تم اپنے گھر بھر نہیں سکتے.منگتا خالی ہاتھ ہی رہتا ہے اور اسے اپنی اقتصادیات کو بنانے کا عزم ہی عطا نہیں ہوتا ، وہ ہمت ہی عطا نہیں ہوتی.پس جب تک اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا قو میں فیصلہ نہیں کرتیں اقتصادی لحاظ سے وہ نہ ترقی کر سکتی ہیں نہ کسی قسم کا استحکام ان کو نصیب ہوسکتا ہے.پس صرف مسلمانوں کے لئے نہیں مشرقی دنیا کے اور افریقہ کے اور دیگر ساؤتھ امریکہ کے ممالک سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ اب جو کچھ آپ دیکھ چکے ہیں اس کے نتیجے میں خدا کے لئے ہوش کریں اور اپنی تقدیر بدلنے کا خود فیصلہ کریں.بہت لمبازمانہ ذلتوں اور رسوائیوں کا ہو گیا ہے.خدا کے لئے اس بھیانک خواب سے باہر آئیں جو آپ کے دشمنوں اور بڑی طاقتوں کے لئے تو نظام نو کا ایک عجیب تصور ہے مگر تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لئے اس سے زیادہ بھیا نک خواب ہو نہیں سکتی.پس اگر آپ نے نظام نو بنانا ہے اگر جہان نو تعمیر کرنا ہے تو اپنی خواہیں خود بنانی شروع کریں اور خود ان کی تعبیریں کریں اور خود ان تعبیروں کو عمل کی دنیا میں ڈھالنے کے سلیقے سیکھیں.کوئی قوم دنیا میں اقتصادی ترقی کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتی اور اقتصادی ترقی کا پہلا قدم خودی کی حفاظت میں ہے اور عزت نفس کی حفاظت میں ہے اور یہ ہرگز ممکن نہیں جب تک تیسری دنیا کے ممالک میں سادہ زندگی کی تلقین نہ کی جائے اور سادہ زندگی کی رو نہ چلائی جائے.مشکل یہ ہے کہ وہاں اونچے اور نیچے طبقے کے درمیان تفریق بڑھتی چلی جارہی ہے جبکہ جن ملکوں کو آپ سر مایہ دار ممالک کہتے ہیں ان میں وہ تفریق کم ہوتی جارہی ہے اور طرز زندگی ایک دوسرے کے قریب آرہا ہے لیکن آپ ایشیا کے غریب ممالک دیکھئے یا افریقہ کے غریب ممالک دیکھئے یا ساؤتھ امریکہ کے غریب ممالک دیکھئے وہاں دن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 189 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء بدن نیچے کے طبقے کے اوپر کے طبقے کے بود و باش کی طرز میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور خلیج زیادہ سے زیادہ بڑی ہو کر حائل ہوتی چلی جارہی ہے.پس ضروری ہے کہ یہ طبقاتی تقسیم سب سے پہلے نصیحت اور تلقین کے ذریعے دور کی جائے اور پھر قوانین کے ذریعے ان فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ تحریک اگر اوپر سے شروع ہوگی تو کامیاب ہوگی ورنہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی.ارباب حل و عقد یعنی جن کے ہاتھ میں اقتدار کی باگیں ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اوپر سے سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک چلائیں اور سادہ زندگی اختیار کر کے عوام کو دکھا ئیں.پس اقتصادی استحکام اور ترقی کے سلسلے میں یہ دوسرا اہم اصول پیش نظر رہنا چاہئے کہ غریب ملکوں میں ایک پالیسی نہیں چلائی جاسکتی کہ معیار زندگی کو بڑھایا جائے بلکہ دو پالیسیاں چلانی پڑیں گی غرباء کے معیار زندگی کو بڑھایا جائے اور زیادہ سے زیادہ دولت کا رخ اس طرف موڑا جائے اور امراء کے معیار زندگی کو کم کیا جائے.یاد رکھیں یہ نکتہ ایک بہت ہی گہرا نکتہ ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہر گز اتنے نقصان نہیں پہنچتے جتنے دولت کے غیر منصفانہ خرچ سے پہنچتے ہیں.وہ امیر لوگ جو اپنے روپے کو فیکٹریاں بنانے اور اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ جتے رہتے ہیں اور خود سادہ زندگی اختیار کرتے ہیں ان کے خلاف نفرت کی تحریکیں نہیں چل سکتیں کیونکہ وہ عملاً ملک کی خدمت کر رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو تھوڑا کما کر بھی زیادہ خرچ کرنے کے عادی ہو جائیں ان کا سارا اخلاقی نظام ہی تباہ ہو جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ دلوں میں وہ آگ بھڑ کانے کا موجب بنتے ہیں.پس کارخانہ دار تو کم ہیں اور بڑے امیر تاجر بھی کم ہیں لیکن بھاری اکثریت ایسے تنعم پسند ملکوں کی ان افسروں پر مشتمل ہوتی ہے جو رشوت لیتے ہیں اور رشوت کو عام کرتے ہیں اور ان سیاستدانوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی سیاست بھی اس طرح کھائی جاتی ہے جس طرح کسی چیز کو کیڑا کھا جاتا ہے.ان کی سیاست بھی پیسہ کمانے کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے.ان کی سیاست بھی دھڑے بندیوں کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے.ان کی سیاست بھی غریبوں پر رعب جمانے کے لئے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے گویا کہ سیاست کا رخ تمام تر ان امور کی طرف پھر جاتا ہے جن کے لئے سیاست بنائی نہیں گئی تھی.نتیجہ ملک کے اہم امور سے وہ غافل ہو جاتے ہیں.ان کے لئے سوچ کا وقت ہی نہیں رہتا.ان کی سوچوں کی لہریں تمام تر مسلسل ایک ہی طرف بہتی رہتی ہیں کہ کس طرح
خطبات طاہر جلد ۱۰ 190 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء اپنا نفوذ قائم کریں، کس طرح اپنے دشمنوں سے بدلے لیں ، کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کریں.یہ سیاست کی زندگی چند دن کی تو ہے.کل پتا نہیں کیا ہونے والا ہے.پھر جو کچھ کمانا ہے آج کمالو.خواہ عزیں بیچ دو، خواہ ووٹ بیچو، خواہ ووٹ خرید و.ہر چیز جب سیاست میں جائز قرار دے دی جائے تو جو سیاستدان پیدا ہوں گے وہ قوم کے مفاد کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں اور اس سارے رجحان میں سب سے زیادہ ظالمانہ کردار مصنوعی معیار زندگی ادا کرتا ہے.جن قوموں میں اپنی اقتصادی توفیق سے بڑھ کر عیاشی کے رجحان پیدا ہو جائیں.وہ قومیں بھکاری بن جاتی ہیں ان کی سیاست بھی داغدار ہو جاتی ہے، ان کی اقتصادیات بھی پارہ پارہ ہوجاتی ہے ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس یہ صیحتیں کن پر عمل کریں گی، کون سے کان ہوں گے جو ان نصیحتوں کو سنیں گے، کون سے دل ہوں گے جو ان نصیحتوں کو سن کر ہیجان پذیر ہوں گے اور ان میں حرکت پیدا ہوگی.اگر تمام تر سیاست اور اخلاق اور اقتصادیات کی بنیاد ہی متزلزل ہو.اگر نظریات بگڑے ہوئے ہوں اگر نیتیں گندی ہو چکی ہوں تو دنیا میں کوئی صحیح نصیحت کسی پر نیک عمل نہیں دکھا سکتی.اس لئے جس طرح میں نے غیر قوموں کو نصیحت کی ہے کہ خدا کے لئے اپنی نیتوں کی حفاظت کرو.تمہاری نیتوں میں شیطان اور بھیڑئیے شامل ہیں اور دنیا کی ہلاکت کا فیصلہ تمہاری نیتیں کرتی ہیں.تمہاری سیاسی چالاکیاں تمہاری نیتوں پر غالب نہیں آسکتیں بلکہ ان کی محمد ہو جایا کرتی ہیں اسی طرح میں مسلمان ملکوں اور تیسری دنیا کے ملکوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنی نیتوں کو ٹولو.اگر تم اس لئے بچپن سے انجنیئر نگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہو کہ رشوت لینے کے بڑے مواقع ہاتھ آئیں گے اور بڑی بڑی کوٹھیاں بناؤ گے اور ویسے محل تعمیر کرو گے جیسے ہمسائے یا کسی اور کے محل تم نے دیکھے تھے تو اس نیست کے ساتھ تم دنیا میں کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتے.اگر اس لئے ڈاکٹر بنا چاہتے ہو کہ زیادہ سے زیادہ روپیہ اکٹھا کر کے اپنے لئے سونے کے انبار بناؤ گے اور رے برے عظیم الشان ہسپتال تعمیر کرو گے اور زیادہ سے زیادہ روپیہ کھینچتے چلے جاؤ گے اور اپنی اولاد کے لئے دولتوں کے خزانے پیچھے چھوڑ جاؤ گے تو پھر تم خود بیمار ہو.Physician Heal Thyself ایسے ڈاکٹر بننے سے بہتر ہے کہ تم خود مر جاؤ کیونکہ جو قوم کی فلاح و بہبود کے لئے علم طب نہیں سیکھتا اس کے علم طب میں کوئی برکت نہیں ہوتی.پس اگر سیاستدان بننے کے وقت تم نے یہ خوا میں دیکھیں یا اس سے پہلے یہ خوا میں دیکھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 191 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء تھیں کہ جس طرح فلاں سیاستدان نے اقتدار حاصل کیا، اس سے پہلے دو کوڑی کا چپڑاسی یا تھانیدار تھا یا کچھ اور محکمے کا افسر تھا، استعفے دیئے اور سیاست میں آیا اور پھر اس طرح کروڑ پتی بن گیا اور اتنی عظمت اور جبروت حاصل کی.آؤ ہم بھی اس کے نمونے پر چلیں.آؤ ہم بھی سیاست کے ذریعے وہ سب کچھ حاصل کریں تو پھر تم نے سیاست کی ہلاکت کا اسی دن فیصلہ کر لیا اور تم اگر کسی قوم کے راہنما ہوئے تو تم پر یہ مثال صادق آئے گی کہ : واذا كان الغراب هاد قوم سيهديهم طريق الهالكين کہ دیکھو جب کبھی بھی کوے قوم کی سرداری کیا کرتے ہیں تو ان کو ہلاکت کے رستوں کی طرف لے جاتے ہیں.پس نیتوں کی اصلاح کرو اور یہ فیصلے کرو کہ جو کچھ گزر چکا گزر چکا ، آئندہ سے تم قوم کی سرداری کے حقوق ادا کرو گے، سرداری کے حقوق اس طرح ادا کرو جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے تمام عالم کی سرداری کے حق ادا کئے تھے.وہی ایک رستہ ہے سرداری کے حق ادا کرنے کا اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں.حضرت عمرؓ جب بستر علالت پر آخری گھڑیوں تک پہنچے اور قریب تھا کہ دم تو ڑ دیں تو بڑی بے چینی اور بے قراری سے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا!! اگر میری کچھ نیکیاں ہیں تو بے شک ان کو چھوڑ دے میں ان کے بدلے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر میری غلطیوں پر پرسش نہ فرمانا.مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ میں اپنی غلطیوں کا حساب دے سکوں.یہ وہ روح ہے جو اسلامی سیاست کی روح ہے.اس روح کی آج مسلمانوں کو بھی ضرورت ہے اور غیر مسلموں کو بھی ضرورت ہے.آج کے تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ سیاست کی اس روح کو زندہ کر دو.مرتی ہوئی انسانیت زندہ ہو جائے.یہ روح زندہ رہی تو جنگوں پر موت آجائے گی لیکن اگر یہ روح مرنے دی گئی تو پھر جنگیں زندہ ہو گئیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت جنگوں کو موت کے گھاٹ اتار نہیں سکتی.میری کوشش تو یہی تھی کہ تمام مضمون آج ہی ختم کر دوں لیکن چونکہ وقت بہت زیادہ ہو چکا ہے اور ابھی بہت سے ایسے مشورے باقی ہیں جن کو مختصر بھی بیان کیا جائے تو وقت لیں گے اس لئے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں میں خدا تعالیٰ سے بھاری امید رکھتا ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 192 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۹۱ء کہ یہ سلسلہ ختم ہوگا اور پھر ہم واپس جہاد کبر کی طرف لوٹیں گے یعنی ذکر الہی کے متعلق باتیں کریں گے.دین کے اعلیٰ مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور دین کی معرفت کی گہرائیوں تک غوطہ زنی کی کوشش کریں گے تاکہ رمضان میں خوب دل اور نفوس کو پاک کر کے اخلاص کے ساتھ داخل ہوں اور زیادہ سے زیادہ رمضان کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھر سکیں.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 193 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء تیسری دنیا کے ملکوں کو مشورے غریب ملکوں کی یونائیٹڈ نیشنز کے قیام کی ضرورت ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خلیج کی جنگ جس کا آغاز 16 / جنوری کو ہوا.26 فروری کو ایک نہایت ہی ہولناک رات کو اختتام پذیر ہوئی.یہ ایک مصائب کی ایسی خوفناک رات تھی کہ جس کی کوئی مثال جدید انسانی جنگوں کی تاریخ میں دکھائی نہیں دیتی.اس قدر بمباری عراق کی واپس اپنے ملک جاتی ہوئی فوجوں پر کی گئی ہے اور اس قدر بمباری رات بھر بغداد شہر پر کی گئی کہ جہاں تک میں نے جنگی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے کسی اور ملک میں کسی اور جنگ میں کبھی ایسی خوفناک ظالمانہ یک طرفہ شدید بمباری نہیں کی گئی جو فوجیں کو یت چھوڑ کر واپس بصرہ کی طرف جارہی تھیں ان کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح انہیں بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ساری سڑک کویت سے بصرہ تک لاشوں سے اٹی پڑی تھی اور ٹوٹے بکھرے ہوئے گاڑیوں کے موٹروں کے ، بکتر بند گاڑیوں کے اور دوسرے کئی قسم کی Transport کے پرزے ہر طرف بکھرے پڑے تھے اور تباہی کا ایسا خوفناک منظر تھا کہ جسے انسان برداشت نہیں کر سکتا.یہ مغربی مبصرین کا تبصرہ ہے اور بمباری کے متعلق یا عراق میں بغداد پر بمباری کے متعلق بھی جو مبصر وہاں تبصرہ کر رہا تھا اس کی اپنی آواز بار بار کانپ جاتی تھی اور وہ کہتا تھا کہ تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ آج رات کیسی ہولناک بمباری ہورہی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 194 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء میں نے اس کے متعلق پہلے بھی کہا تھا کہ اور باتوں کے علاوہ دراصل یہ ویٹنام کی ذلت کا بھوت ہے جو احساس کمتری بن کر امریکہ پر سوار ہے اور کسی طرح اس بھوت کو وہ ہمیشہ کے لئے نکالنا چاہتے ہیں.پس وہ رات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک خاص بدمستی کی رات تھی جس میں عراقیوں کے خون کی شراب پی کر وہ ویتنام کاغم غلط کرنا چاہتے تھے.میرا یہ تاثر اس طرح درست ثابت ہوتا ہے کہ اس جنگ کے بعد صدر بش نے جو تبصرہ کیا وہ بعینہ یہی تبصرہ ہے.انہوں نے اعلان کیا:.By God we have kicked the vietnam syndrome once and for all.(Harrisburg patriot New, Mar.2, 1991, U.S.A) کہ خدا کی قسم ! ہم نے ویٹنام کے احساس کمتری کو جو ایک اندرونی بیماری بن کر ہماری جان کو لگ چکا تھا ہمیشہ کے لئے ٹھڈے مار کر باہر نکال دیا ہے.لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں ، اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک انتہائی ہولناک ظلموں کی داستان کا ھوا تھا جو دراصل ان کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور ویسی ہی ایک اور ظلموں کی داستان کا ھوا انہوں نے پیدا کر دیا ہے پس اب ایک ہوے کا مسئلہ نہیں.اب دوھوؤں کا مسئلہ ہے دو بھوت ہیں جو ہمیشہ امریکہ پر سوار رہیں گے ایک ویٹنام کا بھوت اور ایک عراق پر ظلم و ستم کا بھوت.ان کو یہ اس لئے دکھائی نہیں دے رہا کہ ان کے ہاں اس مسئلہ کا تجزیہ اس سے بالکل مختلف ہے جو تجز یہ دنیا کی نظر میں ہے.دنیا ویٹنام کو اس طرح نہیں دیکھتی کہ وہاں 54 ہزار امریکن ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں واپس اپنے وطن پہنچائی گئیں.دنیا ویٹام کے قصے کو اس طرح دیکھتی ہے کہ 25 لاکھ ویٹ نامی وہاں ہلاک ہوئے اور ہزار ہا شہر اور بستیاں خاک میں مل گئیں.تو زاویے کی نظر سے مختلف صورتیں دکھائی دے رہی ہیں.مختلف مناظر دکھائی دے رہے ہیں.پس جس ویٹنام سے وہ بھاگنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے خیال میں ایسے ویٹنام سے بھاگے جہاں 54 ہزار امریکن موت کے گھاٹ اتارے گئے.اس کے مقابل پر عراق میں ان کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اس نظر سے نہیں دیکھتی.تاریخ نے ویٹنام کو ہمیشہ اس نظر سے دیکھا ہے اور ہمیشہ اسی نظر سے دیکھتی رہے گی کہ امریکن قوم نے اس جدید زمانے میں تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر نا حق ایک نہایت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 195 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء کمزور اور غریب ملک پر حملہ کیا اور ساڑھے آٹھ سال تک ان پر مظالم برساتے رہے.ایسے ایسے خوفناک بم برسائے گئے کہ دیہات کے دیہات، علاقوں کے علاقے بنجر ہو گئے.پس ویٹنام کی یاد کو وہ کبھی بھلا نہیں سکتے.کیونکہ کبھی دنیا ان کو بھلانے نہیں دے گی.اور اب اس پر عراق کے ظلم و ستم کا اضافہ ہو چکا ہے.Mr.Tom King جو برٹش گورنمنٹ کے سیکرٹری آف ڈیفنس ہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں اس بربادی کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ہم نے اس مختصر عرصے میں عراق کے 3000 قصبات کو خاک میں ملا دیا ہے.اب آپ اندازہ کریں کہ جہاں یہ دعوے کئے جاتے تھے کہ عراق کے مظلوموں کو ہم ایک ظالم اور سفاک کے چنگل سے نکالنے کی خاطر یہ جنگ کر رہے ہیں ، وہاں 3000 عراقی قصبوں اور شہروں کو تہ خاک کر دیا ہے اور جو باقی تفصیلات ہیں ان کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں کہ کتنے ان کے سپاہی مارے گئے یا دوسری قسم کے کتنے ہتھیاروں کا نقصان ہوا.لیکن اس تھوڑے سے عرصہ میں تین ہزار شہروں کا مٹی میں مل جانا یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ تاریخ میں کبھی اس تھوڑے سے عرصے میں کسی قوم پر اتنی آفات نہیں توڑی گئیں جتنی عراق پر ان ظالموں نے توڑی ہیں اور اس کے باوجود فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں.حیرت ہے، ذلت اور رسوائی کی حد ہے، یہ ایسی ہی بات ہے جیسے امریکن بچے کی لڑائی جاپان کے انوکی سے کرا دی جائے اور وہ اس کو مار مار کے ہلاک کر دے اور پھر نعرے لگائے کہ دیکھو جاپان کو امریکہ پر فتح حاصل ہوگئی.30 قومیں اکٹھی ہوئیں.دنیا کی تمام طاقتوں نے مل کر عراق کے خلاف ایکا کیا ہو اور ہر قسم کے جدید ہتھیاروں میں ہر میدان میں سبقت تھی، ہر میدان میں بالا دستی تھی اور جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ، دانت نکال کر، پنجے کاٹ کر کہنا چاہئے جس طرح جانور کے پنجے کاٹے جاتے ہیں، پھر ان کو مارا گیا ہے.اس پر اب فخر کیا جارہا ہے کہ کتنی عبرتناک شکست دی ہے.بہر حال یہ باتیں تو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں.اس کے مستقبل میں جو نہایت خوفناک نتائج نکلنے والے ہیں ان سے متعلق جیسا کہ میں مشورہ دے رہا تھا، میں چند اور مشورے عربوں کو بھی دوسرے مسلمانوں کو بھی اور تمام دنیا کی خصوصاً تیسری دنیا کی قوموں کو بھی دینا چاہتا ہوں.عربوں کو فوری طور پر اپنے اندرونی مسائل حل کرنے چاہئیں اور اس اندرونی مسائل کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 196 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء دائرے میں میں ایران کو بھی شامل کرتا ہوں.کیونکہ تین ایسے مسائل ہیں جو کہ اگر فوری طور پر حل نہ کئے گئے تو عربوں کو فلسطین کے مسئلے میں کبھی اتفاق نصیب نہیں ہو سکے گا.ایران کی عربوں کے ساتھ ایک تاریخی رقابت چلی آرہی ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور کویت عراق کی مد پر مجبور ہو گئے تھے اور باوجود اس کے کہ اندرونی طور پر اختلافات تھے لیکن وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے کہ ایران ان کے قریب آکر بیٹھ جائے.دوسرا شیعہ سنی اختلاف کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے میں بھی سعودی عرب حد سے زیادہ الرجک ہے.وہ شیعہ فروغ کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا.تیسرا مسئلہ کردوں کا مسئلہ ہے.جہاں تک دشمن کی حکمت عملی کا تعلق ہے اسرائیل سب سے زیادہ اس بات کا خواہشمند ہے کہ یہ تینوں مسائل بھڑک اٹھیں.چنانچہ جنگ ابھی دم تو ڑ رہی تھی کہ وہاں عراق کے جنوب میں شیعہ بغاوت کروا دی گئی اور شیعہ بغاوت کے نتیجے میں ایران عرب، رقابت کا مسئلہ خود بخود جاگ جانا تھا.چنانچہ شیعہ علماء نے ایران کی طرف رجوع کیا اور ان سے مدد چاہی.غالباً سعودی عرب نے اس موقع پر بہت شدید دباؤ ڈالا ہے ( کوئی خبر تو باہر نہیں نکلی لیکن منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے ) اور امریکہ کو اس یہودی سازش کا آلہ کار بننے سے روک دیا ہے.ورنہ یہ معاملہ یہاں رکنے والا نہیں تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے عقل سے کام لیا ہو ورنہ اسی علاقے میں اگلی خوفناک جنگوں کی بنیاد ڈال دی جاتی.کر دوں کو بھی اسی وقت انگیخت کیا گیا ہے.کردوں کا مسئلہ اس لئے آگے نہیں بڑھا کہ مغربی قو میں بظاہر انصاف کے نام پر بات کرتی ہیں لیکن فی الحقیقت محض اپنے ذاتی مقاصد دیکھتی ہیں.اس موقعہ پر کر دوں کا مسئلہ چھیڑنا ان کے مفاد میں نہیں تھا.اس کی وجہ یہ ہے کہ کر دمسئلے کا تعلق صرف عراق سے نہیں ہے.کرد مسئلے کا تعلق چار قوموں سے ہے.ایرانیوں سے، ترکوں سے اور روسیوں سے.پس اگر انصاف کے نام پر عراق کے خلاف کردوں کو ابھارتے اور ان کی مدد کرتے تو لازما تر کی کے خلاف بھی ابھارنا پڑتا تھا ورنہ ان کا انصاف کا بھرم ٹوٹ جاتا اور یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہو جا تا اور کر دوں کو انگیخت کرنے کے نتیجے میں ویسے بھی تمام کردوں کے اندر آزادی کی نئی رو چلتی اور مسائل صرف عراق کے لئے پیدا نہیں ہونے تھے بلکہ ایران کے لئے ، ترکی کے لئے اور روس کے لئے بھی پیدا ہونے تھے پس اس وقت خدا کی تقدیر نے وقتی طور پر ان مسائل کو ٹال دیا.لیکن نہایت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 197 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء ضروری ہے کہ یہ تمام مسلمان قومیں جن کا ان مسائل سے تعلق ہے ، فوری طور پر آپس میں سر جوڑیں اور ان مسائل کو مستقل طور پر حل کر لیں.ورنہ یہ ایک ایسی تلوار کے طور پر ان کے سروں پر لٹکتے رہیں گے جو ایسی تار سے لٹکی ہوئی ہوگی جس کا ایک کنارہ مغربی طاقتوں کی انگلیوں میں پکڑا ہوا ہے یا الجھا ہوا ہے کہ جب چاہیں اس کو گرا کر سروں کو زخمی کریں ، جب چاہیں اتار کر سر سے لے کر دل تک چیرتے چلے جائیں.ان مسائل کے استعمال کا یہ خوفناک احتمال ہمیشہ ان کے سر پر لٹکا رہے گا یہی حال دیگر دنیا کے مسائل کا ہے مغربی طاقتیں ہمیشہ بعض موجود مسائل کو جب چاہیں چھیڑ تی ہیں اور استعمال کرتی ہیں اور اس طرح تیسری دنیا کی قومیں ایک دوسرے سے لڑ کر ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کا موجب بنتی ہیں.ایک اور اہم مشورہ ان کے لئے یہ ہے کہ بظاہر یہ کہا جارہا ہے کہ امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اردن کا مغربی کنارہ خالی کر دے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ سب قصہ ہے.ایک ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے.اگر امریکہ اس بات میں مخلص ہوتا کہ اسرائیل اردن کا مغربی کنارہ خالی کر دے تو صدام پہلے کی دن کی پیش کش قبول کر لیتا کہ ان دونوں مسائل کو ایک دوسرے سے باندھ لو میں کو یت خالی کرتا ہوں تم اسرائیل سے ان کے مقبوضہ علاقے خالی کرالو.خون کا ایک قطرہ بہے بغیر یہ سارے مسائل حل ہو جانے تھے.پھر اس تیزی سے اسرائیل وہاں آبادیاں کر رہا ہے اور جو روپیہ اسرائیل کو اس وقت مغربی طاقتوں کی طرف سے دیا گیا ہے اس روپے کا اکثر استعمال اردن کے مغربی کنارے میں روس کے یہودی مہاجرین کو آباد کرانا ہے.اس لئے عقلاً کوئی وجہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ایسا واقعہ ہو جائے کہ امریکہ اس دباؤ میں سنجیدہ ہو اور اسرائیل اس بات کو مان جائے.ایک خطرہ ہے کہ اس کو ایک طرف رکھ کر شام کو مجبور کیا جائے کہ مصر کی طرح تم باہمی دو طرفہ سمجھوتے کے ذریعے اسرائیل سے صلح کرلو.اگر یہ ہوا تو فلسطینیوں کا عربوں میں نگہداشت کرنے والا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا سوائے عراق اور اردن کے کوئی نہیں رہے گا.عراق کا جو حال ہو چکا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں.اردن میں یہ طاقت ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل اردن سے ایسی چھیڑ چھاڑ جاری رکھے کہ اس کو بہانہ مل جائے کہ اردن نے چونکہ ہمارے خلاف جارحیت کا نمونہ دکھایا ہے یا ہمارے دشمنوں کی حمایت کی ہے اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 198 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء لئے ہم اس کو بھی اپنے قبضے میں لے لیں تو اس نقطہ نگاہ سے مشرق وسطی کی تین قوموں کا اتحاد نہایت ضروری ہے ایران عراق اور اردن اور اس کے علاوہ دیگر عرب قوموں سے ان کی مفاہمت بہت ضروری ہے تا کہ یہ تین نظر کے ایک طرف نہ رہیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک دیگر عرب قوموں کی حمایت بھی ان کو حاصل ہو.ایک اور مسئلہ جواب اٹھایا جائے گا وہ سعودی عرب کے اور کویت کے تیل سے ان عرب ملکوں کو خیرات دینے کا مسئلہ ہے جو تیل کی دولت سے خالی ہیں.یہ انتہائی خوفناک خود کشی ہوگی اگر ان ملکوں نے اس طریق پر سعودی عرب اور کویت کی امداد کو قبول کر لیا کہ گویا وہ حق دار تو نہیں ہیں لیکن خیرات کے طور پر ان کی جھولی میں بھیک ڈالی جارہی ہے تو اس کے نتیجے میں فلسطین کے مسئلے کے حل ہونے کے جو باقی امکانات رہتے ہیں وہ بھی ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے اس لئے اس مسئلے پر عربوں کو یہ موقف اختیار کرنا چاہئے کہ عربوں کو خدا تعالیٰ نے جو تیل کی دولت دی ہے وہ سب کی مشتر کہ دولت ہے اور ایسا فارمولہ طے کرنا چاہئے کہ اس مشترک دولت کی حفاظت بھی مشترک طور پر ہو اور اس کی تقسیم بھی منصفانہ ہو.البتہ جن ملکوں میں یہ دولت دریافت ہوئی ہے ان کو ۱٫۵ حصہ جیسا کہ اسلامی قانون خزائن کے متعلق ہے 1/5 یا فقہاء کے نزدیک اختلاف ہوں گے، کچھ نہ کچھ حصہ زائد دے دیا جائے.مگر مشتر کہ دولت کے اصول کو منوانا ضروری ہے اور اس پر قائم رہنا ضروری ہے، اس کے بعد ان کو جو کچھ ملے گا وہ عزت نفس قربان کر کے نہیں ملے گا بلکہ اپنا حق سمجھتے ہوئے ملے گا اور امر واقعہ یہی ہے کہ سارا عالم عرب ایک عالم تھا جسے مغربی طاقتوں نے توڑا ہے اور اپنے وعدے توڑتے ہوئے تو ڑا ہے ورنہ پہلی جنگ عظیم کے معا بعد واضح قطعی وعدہ انگریزی حکومت کی طرف سے تھا کہ ہم ایک متحد آزاد عرب کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے اور متحد آزا د عرب کا وعدہ ان کے حق میں ابھی تک پورا نہیں ہوا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت سارے عرب کی دولت مشتر کہ دولت تسلیم کر لی گئی تھی اور اسی اصول کو پکڑ کر اسے مضبوطی سے تھام لینا چاہئے اور اس گفت و شنید کو ان خطوط پر آگے بڑھانا چاہئے.ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس تمام خطے کی ایک اقتصادی دولت مشتر کہ بنی چاہیئے.اس سے پہلے صدر ناصر نے جو ایک عرب کا تصور پیش کیا تھا وہ سیاسی وحدت کا تصور تھا.ضروری نہیں ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 199 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء کرتا کہ سیاسی وحدت کا تصور پہلے ہو اور اقتصادی اور دوسری وحدتوں کا تصور بعد میں آئے جب سیاسی وحدت کے تصور کو پہلے رکھا جاتا ہے تو باقی وحدتوں کو بعض دفعہ شدید نقصان پہنچتا ہے.اس لئے یورپ کی کامن مارکیٹ بناتے ہوئے یہاں کے ذی شعور لیڈروں نے پہلے اقتصادی تعاون کے مقاصد کو حاصل کرنے کے بعد رفتہ رفتہ سیاسی وحدت کی طرف قدم اٹھایا ہے.Pan Arabism کی تحریک جس کا میں نے ذکر کیا ہے دراصل اس کا آغاز صدر جمال ناصر سے بہت پہلے جمال الدین افغانی نے کیا تھا اور یہ انہیں کا فلسفہ ہے جس کو اپنا کر بعد میں یہ تحریکات آگے بڑھیں پس جمال الدین افغانی کا یہ تصور کہ عرب کو متحد ہو جانا چاہئے بلکہ عالم اسلام کو متحد ہو جانا چاہئے ، ایک ایسا تصور ہے جو اس شکل میں مسلمانوں کو قبول ہی نہیں ہوسکتا.نہ قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کے ایک حکومت کے اندر ا کٹھے ہونے کا کہیں کوئی تصور پیش کیا ہے.اس شکل میں تو عرب وحدت بھی حاصل ہونا ناممکن ہے سوائے اس کے کہ مختلف قدموں اور مراحل میں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.پس سب سے اہم قدم اقتصادی وحدت کا ہے جس میں مشترکہ لائحہ عمل ہو، مشترکہ منصوبے بنائے جائیں اور اس سارے خطے کو خصوصیت کے ساتھ خوراک میں خود کفیل بنانے کے منصوبے ہوں اور انڈسٹری میں یعنی صنعت و حرفت میں خود کفیل بنانے کے منصوبے ہوں تب ان ممالک کی آزادی کی کوئی ضمانت دی جاسکے گی.اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اقتصادی آزادی کا تعلق صرف اس خطے سے نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کی تیسری قوموں کے ساتھ ہے اور ان کے لئے ایک شدید خطرہ درپیش ہے جس کو ابھی سے پوری طرح سمجھنا چاہئے اور اس کے لئے انسدادی کا رروائیاں کرنی نہایت ضروری ہیں.New Imperialism یعنی جدید استعماریت کا خطرہ ہے.روس کے ساتھ صلح ہونے کے بعد وہ مشرقی دنیا جو اشترا کی نظریات کی حامل تھی وہ اپنے نظریات کو تج کر کے تیزی کے ساتھ پرانے زمانے کی طرف لوٹ رہی ہے اور اب نئے مقابلے استعماریت کے لحاظ سے ہوں گے.جب روس نے موجودہ مشکلات سے سنبھالا لے لیا اور ان پر جب عبور پالیا تو اس کے بعد روس کے لئے اقتصادی مقابلے کے لئے ان سے منڈیاں چھینے کا مسئلہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 200 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء سب سے اہم بن جائے گا.جرمنی ایک نئی اقتصادی قوت کے طور پر ابھرے گا اور مشرقی یورپ کے اور بہت سے ممالک جرمنی کے ساتھ اس معاملے میں اتحاد کریں گے اور ان سب کی اجتماعی اقتصادی پیداوار نئی منڈیوں کی متقاضی ہوگی.پس تیسری دنیا کے تمام ممالک کے لئے ہولناک خطرات در پیش ہیں.یورپ بھی جاگ رہا ہے اور امریکہ بھی جاگ رہا ہے اور ان سب کے اتحادی مقاصد تیسری دنیا پر اس طریق پر مکمل اقتصادی قبضہ کرنے کے ہیں کہ جس کے بعد صرف سسک سسک کر دم لینے والی زندگی باقی رہ جائے گی.عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کھا کر زندہ رہنے کا تیسری دنیا کی قوموں کے لئے کوئی سوال باقی نہیں رہے گا.افریقہ کے بعض ممالک ہیں جو ابھی اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ان کے لئے سانس لینا بھی دوبھر ہورہا ہے.پس اقتصادی تعاون کی مختلف منڈیاں بنی ضروری ہیں.مثلاً پاکستان اور ہندوستان اور بنگلہ دیش اور سری لنکا ، یہ ایک ایسا خطہ ہے جس میں قدرتی طور پر اقتصادی تعاون کی منڈی بنانے کا امکان موجود ہے اور تبھی ممکن ہے اگر ان کے اندرونی مسائل حل ہوں.اگر اندرونی مسائل حل نہ ہوں تو یہ نہ یہ اقتصادی منڈیاں بن سکتی ہیں نہ موجودہ تکلیف وہ صورتحال کا کوئی دوسرا حل ممکن ہے موجودہ تکلیف دہ صورتحال سے مراد وہ صورتحال ہے جو میرے ذہن میں ہے کہ اس کے نتیجے میں آپ جب اس پر مزید غور کریں گے تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ہمیشہ کے لئے تیسری دنیا کے ان ممالک کا اپنی مصیبتوں سے نجات پانے کا ہر رستہ بند ہوا ہے.ان کے لئے کوئی نجات کی راہ نہیں ہے اور آنکھیں بند کر کے یہ اسی طرز فکر پر قائم ہیں، اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی ان کی کوششیں ہیں جن کے اندر حل ہونے کی کوئی صلاحیت ہی نہیں ہے.ایسے بندر ستے ہیں جن سے آگے گزرا جاہی نہیں سکتا.چنانچہ وہ مسائل یہ ہیں.مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے.کشمیر کے مسئلے کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان میں جو رقابتیں پیدا ہوچکی ہیں ان رقابتوں کے نتیجے میں یہ اتنی بڑی فوج پالنے پر مجبور ہیں کہ جس کے بعد دنیا کا کوئی ملک اقتصادی طور پر آزادی سے زندہ نہیں رہ سکتا.ساٹھ فیصدی سے زائد جس قوم کی اجتماعی دولت فوج پالنے پر خرچ ہورہی ہو اس کے حصے میں دنیا میں وقار کی زندگی ہے ہی نہیں، اس کے لئے مقدر ہی نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اقتصادی لحاظ سے اپنی طاقت سے بڑھ کر دفاع پر خرچ کرتا ہے اسے بھیک مانگنا لازم ہے اس کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقتصادی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 201 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء لحاظ سے بھی دنیا سے بھیک مانگے اور فوجی طاقت کو قائم رکھنے کے لئے بھی دنیا سے بھیک مانگے.پس ہندوستان اور پاکستان کو بھکاری بننے کی جو لعنت ملی ہوئی ہے یا اس لعنت میں وہ مبتلا ہیں کہ مشرق و مغرب جہاں بھی توفیق ملے وہ ہاتھ پھیلا کر پہنچ جاتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھیک دو.تو اس کی بنیادی وجہ آپس کے یہ اختلافات ہیں.آخری قضیئے میں اس کے سوا کوئی صورت نہیں بنتی.پس مسئلہ کشمیر اور اس قسم کے دیگر مسائل کو حل کرنے کے نتیجے میں ان علاقوں میں انقلاب بر پا ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور بھی چیزیں ہیں جن پر عملدرآمد ضروری ہے ، صرف ہندوستان اور پاکستان کے لئے ہی نہیں باقی مشرقی دنیا کے لئے بھی خواہ وہ ایشیا کی ہوایا افریقہ کی ہو، اسی طرح جنوبی امریکہ میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں ، ہر جگہ یہی مصیبت ہے کہ علاقائی اختلافات کے نتیجے میں عدم اطمینان ہے ، عدم اعتماد ہے اور ہر جگہ تیسری دنیا کے غریب ملک اپنی خود حفاظتی کے لئے اتنازیادہ خرچ کر رہے ہیں کہ امیر ملک اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کر رہے.جن کو توفیق ہے وہ تو ۳ فیصد سے ۴ فیصد کی بات کرتے ہیں.4 سے 5 کی اور جب 7 فیصد خرچ پہنچ جائے تو اس پر خوفناک بخشیں شروع ہو جاتی ہیں اتنا زیادہ دفاع پر خرچ ہورہا ہے ، ہم برداشت نہیں کر سکتے اور غریب ملکوں کی عیاشی دیکھیں کہ ساٹھ ساٹھ ستر ستر فیصد خرچ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود یہ کافی نہیں سمجھا جاتا.چنانچہ فوجی امداد مانگی جاتی ہے.اقتصادی امداد نے ان کو بھکاری بنادیا اور بھکاری بننے کے بعد ان کی اقتصادی حالت سدھر سکتی ہی نہیں.ہر ملک کا یہی حال ہے کیونکہ جس شخص کو جھوٹے معیار زندگی کے ساتھ چمٹ جانے کی عادت پڑ گئی ہو، جس شخص کو اپنے جھوٹے معیار زندگی کی بھیک مانگ کر قائم رکھنے کی عادت پڑ چکی ہو، وہ نفسیاتی لحاظ سے اس قابل ہو ہی نہیں سکتا کہ اقتصادی طور پر اس میں خوداعتمادی پیدا ہو اور وہ خود کوشش کر کے اپنے حالات کو بہتر کرے.بالکل یہی حال قوموں کا ہوا کرتا ہے.آپ نے کبھی مانگنے والے انسانوں کو خوشحال نہیں دیکھا ہو گا.مانگنے والے انسان مانگتے ہیں ، کھاتے ہیں پھر بھی برے حال میں رہتے ہیں ہمیشہ ترستے ہی ان کی زندگیاں گزرتی ہیں اور وہ لوگ جو قناعت کرتے ہیں وہ اس کے مقابل پر بعض دفعہ نہایت غریبانہ حالت سے ترقی کرتے کرتے بڑے مالدار بن جاتے ہیں.پس تیسری دنیا کی قومیں بدقسمتی سے ایک اور لعنت کا شکار ہیں اور وہ ہے ، قناعت کا فقدان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 202 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء عزت نفس کا فقدان ہاتھ پھیلانے کی گندی عادت اور اس عادت کے نتیجے میں معیار زندگی کا جھوٹا ہو جانا آپ نے دیکھا ہو گا بعض دفعہ امیر آدمی بھی ہوٹلوں پر اس طرح خرچ نہیں کرتا جس طرح ایک مانگنے والا بھکاری بعض دفعہ خرچ کر دیتا ہے.اس کے نزدیک دولت کی قدر ہی کوئی نہیں ہوتی.پیسے مانگے اچھا کھالیا اور چھٹی ہوئی اور اگلے وقت کے لئے خدا تعالیٰ پھر ہاتھ سلامت رکھے تو مانگنے کے لئے کافی ہیں.بالکل یہی نفسیات ان قوموں کی ہو جایا کرتی ہے.ایک جھوٹا فرضی معیار زندگی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور دیکھنے میں خوشحال دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کی مانگے کی خوشحالی ہے اس خوشحالی کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا رہتے ہیں.غربت کی تنگی ان کو مجبور کر سکتی تھی کہ وہ اقتصادی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اس کے لئے محنت کریں اور کوشش کریں وہ تنگی صرف وہاں محسوس ہوتی ہے جہاں قوم کا طبقہ بے بس ہے اور جہاں صاحب اختیار طبقہ ہے وہاں محسوس نہیں ہوتی یعنی ایسی قومیں دو حصوں میں بٹی ہوئی ہیں ایک بہت ہی محدود طبقہ ہے جو بالائی طبقہ کہلاتا ہے وہ غریب کی زندگی سے بالکل بے حس ہے اور اس کو پتا ہی نہیں کہ غریب ان کی آنکھوں کے نیچے کیسے بدحال ہیں.زندگی گزار رہے ہیں.پس جہاں تکلیف محسوس ہوتی ہے وہاں اختیار کوئی نہیں ، وہاں قوم کی پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں اور جہاں پالیسی بنانے والے دماغ ہیں ، حکمت عملی طے کرنے والے سر ہیں وہاں تکلیف کا احساس نہیں پہنچتا.پس ایک گہری اعصابی بیماری ہے جس طرح ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو نچلے دھڑ کا اوپر کے دھڑ سے واسطہ نہیں رہتا.پاؤں جل بھی جائیں تو دماغ کو پتا نہیں لگتا.پس یہ ہولناک بیماری ہے جو بھیک مانگنے کے نتیجے میں تیسری دنیا کے ملکوں کو لاحق ہو چکی ہے.اس کے بعد فوجی امداد کی بات آپ دیکھ لیجئے.زیادہ مہنگے ہتھیار جب آپ خریدیں گے تو وہ اقتصادی حالت جس کا پہلے ذکر گزرا ہے وہ اور بھی زیادہ بدتر ہوتی چلی جائے گی اور یہی ہو رہا ہے اور چونکہ آپ زیادہ نہیں خرید سکتے اس لئے مانگنے پر مجبور ہیں.جب آپ ہتھیار دوسری قوموں سے مانگتے ہیں تو ہتھیارون کے ساتھ ان کے فوجی تربیت دینے والے بھی آجاتے ہیں یا آپ کے فوجی تربیت حاصل کرنے کے لئے ان کے ملکوں میں بھی جاتے ہیں اور جتنا بھی غیر قوموں کا جاسوسی کا نظام تیسری دنیا میں موجود ہے اس کا سب سے بڑا ذمہ دار یہی فیکٹر (Factor) یہی صورتحال ہے کہ ہتھیار مانگنے کے نتیجہ میں اپنی فوج کو دوسرے ملکوں کے تابع فرمان بنانے کے احتمالات پیدا کر دیتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 203 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء ہیں اور جہاں تک میں نے تفصیل سے فوجی امداد دینے والی قوموں اور فوجی امداد لینے والی قوموں کے حالات کا جائزہ لیا ہے خود ان کے مصنفین کھلم کھلا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جہاں جہاں بھی فوجی امداد دی گئی ہے وہاں وہاں فوجوں میں اپنے غلام بنالئے گئے ہیں اور کثرت کے ساتھ یہ واقعہ دنیا کے ہرا ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں فوجی امداد پہنچ رہی ہے.اب اس حصے میں سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ صرف امریکہ ہی نہیں ہے جو فوجی امداد کے ذریعے دوسرے ملکوں کو غلام بنارہا ہے بلکہ اسرائیل بھی امریکہ کے دست راست کے طور پر یہی کام کر رہا ہے جہاں امریکہ براہ راست نہیں دے سکتا تو اسرائیل کے سپرد کر دیتا ہے اور بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں دونوں مل کر اپنے اپنے دائرے میں غلامی کی دوہری زنجیریں پہنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.یادر ہے کہ مغربی ممالک کے فرسودہ اسلحہ کی مارکیٹ ہمیشہ تیسری دنیا کے ملک بنے رہتے ہیں اور جب بھی ہتھیاروں کی کوئی جدید کھیپ تیار ہوتی ہے تو پرانی کھیپ کو کھپانے کے لئے نئی منڈیاں ڈھونڈنی پڑتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض غریب ملکوں میں سروں کی فصلیں پک کر کاٹے جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں کیونکہ غریب ممالک کے آپس کے اختلافات ان ہتھیاروں کی مارکیٹ پیدا کرتے ہیں.ابھی تو صرف امریکہ کے زائد اسلحہ کی کچھ ڈھیریاں ختم ہوئی ہیں، روس کے اسلحہ کے پہاڑ بھی ابھی فروخت کے لئے باقی ہیں اور دیگر مغربی ممالک کا بھی اس تجارت میں شامل ہو جانا ہرگز بعید از قیاس نہیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ ملٹری ایڈ Aid اور Aids میں مشابہت ہے تو یہ ایک لطیفے کی بات نہیں ایک بڑی گہری حقیقت ہے.Aids کی بیماری جس سے دنیا آج بہت ہی زیادہ خوفزدہ ہے اور جس کے متعلق بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 98-1997 ء تک یہ بڑے پیمانے پر مغربی عیسائی قوموں کو ہلاک کرے گی.اس کی تفصیل میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں لیکن میں الگ طور پر بعض دفعہ ذکر کر چکا ہوں.Aids کی بیماری کا تعارف یہ ہے کہ Aids کی بیماری کے جراثیم انسان کے خون کے اندر نظام دفاعی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور نظام دفاع پر قبضہ کر لیتے ہیں.پس جس نظام دفاع کو خدا تعالیٰ نے بیماریوں پر قابو پانے کے لئے بنایا تھا وہ خود بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور اپنے خلاف وہ حرکت کر نہیں سکتا پس ملٹری ایڈ بالکل اسی Aids کے مشابہ ہے.وہاں غیر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 204 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء قومیں ہمارے غریب ملکوں کے نظام دفاع پر قبضہ کرتی ہیں اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کا پورا احساس نہیں ہے.یعنی صحت مند حصوں کو بھی احساس نہیں ہے.ہمارے ہاں (ہمارے ہاں سے مراد صرف پاکستان نہیں بلکہ تیسری دنیا کے سب ممالک ہیں ) اینٹیلی جنس کی آنکھیں اندرونی انقلابات کے خطروں کی طرف لگی رہتی ہیں.چنانچہ Counter insurgency measures لئے جاتے ہیں.ایسی تنظیمیں بنائی جاتی ہیں جو اندرونی بغاوت کے خلاف ہمیشہ مستعد رہیں گی اور Counter Insurgency کے داؤ سیکھنے کے لئے اکثر صورتوں میں امریکہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور بہت سی صورتوں میں اسرائیل کی طرف بھی رجوع کیا جاتا ہے اب آپ دیکھ لیں کہ سری لنکا میں اسرائیل نے ان کو Counter Insurgency کے طریق سکھائے اور باغیوں کو بھی بغاوت کے طریق اسرائیل نے ہی سکھائے.اسی طرح لائبیریا میں اسرائیل نے ان کو بغاوت کا مقابلہ کرنے کے طریق سکھائے اور اب مبصرین یہ لکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے لائبیریا کے سربراہ کی حفاظت اتنی عمدگی سے کی کہ بغاوت کی اطلاع تک وہاں نہیں پہنچنے دی اور اس طرح مکمل طور پر ان کا گھیراؤ کیا ہوا تھا.ایسے ملکوں کی List بہت لمبی ہے.بہت سے اور افریقن ممالک ہیں اور بعض دوسرے ایشیائی ممالک ہیں جن میں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی ان کو بغاوت کے خلاف طریق کار سکھانے میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے اور خطرہ ان سے ہی ہے جو طریق کا رسکھانے آتے ہیں.ان غریب ملکوں پر ان کی فوجوں کے ذریعے قبضے کئے جاتے ہیں.پس اگر کوئی ضرورت ہے تو ایسے جاسوسی نظام کی ضرورت ہے جو اس بات کا جائزہ لے کہ مغربی طاقتوں سے یا غیر مغربی طاقتوں سے خواہ کوئی بھی ہوں جہاں جہاں فوج کے روابط ہوئے ہیں وہاں کس قسم کا زہر پیچھے چھوڑا گیا ہے، کس قسم کے رابطے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ رابطہ کرنے والے جو فوجی ہیں وہ زیر نظر رہنے چاہئیں اور خطرات باہر سے آنے والے ہیں، اندر سے پیدا ہونے والے خطرات کم ہیں.اگر بیرونی خطرات کا آپ مقابلہ کرلیں تو اندرونی خطرات کم ہیں.اگر بیرونی خطرات کا آپ مقابلہ کرلیں تو اندرونی خطرات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اندرونی خطرات بھی پیدا ہوتے ہیں مگر ہمیشہ ظلم کی صورت میں.ورنہ ناممکن ہے کہ اندرونی طور پر ہماری اپنی فوجوں کو اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 205 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء شہریوں سے کوئی خطرہ لاحق ہو.یا اپنی سیاست کو اپنے شہریوں سے خطرہ لاحق ہو.پس یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے باہر کی قو میں یعنی ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ شور مچاتی ہیں کہ آمریت کا خاتمہ ہونا چاہئے مگر تیسری دنیا کو اپنا غلام بنانے کے لئے وہاں ان کو آمریت ہی موافق آتی ہے کیونکہ جہاں آمریت ہو وہاں اندرونی خطرات پیدا ہو جاتے ہیں اور اندرونی خطرات سے بچنے کے لئے بیرونی سہارے ڈھونڈ نے پڑتے ہیں اور بیرونی سہارے جس طرح میں نے بیان کیا اس طرح ملتے ہیں.پھر جب تک مرضی کے مطابق کام کیا جائے اس وقت تک یہ بیرونی سہارے ساتھ دیتے ہیں ، جب مرضی کے خلاف بات کی جائے تو یہ سہارے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں.یہ وہ لعنت ہے جس کا تیسری دنیا شکار ہے اور اب وقت ہے کہ ہوش سے کام لے.اب جبکہ استعماریت کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے اور شدید خطرے لاحق ہیں.اپنی قومی آزادی کی حفاظت کیلئے عزت نفس کی حفاظت کیلئے اور قوموں کی برادری میں وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے امکانات پیدا کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ ان سب امور پر بڑا گہرا غور کیا جائے اور تیزی کے ساتھ اقدامات کئے جائیں.خلاصہ یہ کہ امیر ملکوں سے موجودہ طرز پر امداد حاصل کرنے کے یہ نقصانات ہیں: اول :- امداد دینے والا ملک ، امداد لینے والے کو ذلیل اور رسوا کر کے امدا دیتا ہے اور متکبرانہ رویہ اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ اگر امداد لینے والا ملک آزادی ضمیر کے حق کو بھی استعمال کرے تو اسے امداد بند کر دیے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے جیسا کہ صدر بش نے حال ہی میں شاہ حسین اور اردن سے سلوک کیا.دوم:.امداد کے ساتھ String یعنی ایسی شرطیں منسلک کر دی جاتی ہیں جس سے قومی آزادی پر حرف آتا ہے.سوم :.امداد کے ساتھ سودی قرضے کا بھی ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے اور بالعموم بہت بڑی بڑی اجرتیں پانے والے غیر ملکی ماہرین بھی اس کھاتے میں بھجوائے جاتے ہیں جو امداد کا ایک بڑا حصہ کھا جاتے ہیں.اکثر افریقہ اور ایشیا میں یہ تلخ تجربہ بھی ہوا ہے کہ امداد کے نام پر پہلی Generation کی مشینری مہنگے داموں فروخت کر دی جاتی ہے اور اکثر ایسے کارخانے جدید ٹیکنالوجی والے کارخانوں کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 206 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء مقابلہ نہیں کر سکتے.علاوہ ازیں اور بھی بہت سے عوارض ہیں جو تیسری دنیا کے ممالک کی انڈسٹری کو لگے رہتے ہیں جس سے قرضے اتارنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے.تقریباً تمام جنوبی امریکہ اس وقت قرضے کی زنجیروں میں جکڑا جا چکا ہے اور امریکہ یا دیگر امیر ملکوں سے امداد پانے والا ایک ملک بھی میں نے نہیں دیکھا جس کا قرضوں کا بوجھ ہلکا ہورہا ہو یہ تو دن بدن بڑھنے والا بوجھ ہے یہاں تک کہ کثیر قومی آمد قرضوں کا سودا تارنے پر ہی صرف ہو جاتی ہے.پس امداد لینے والے اور امداد مانگنے والے ملکوں کو کبھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے دیکھا نہیں گیا.امداددینے کے بعد رسوا کن رویہ اور اختلاف کی صورت میں امداد بند کرنے کے طعنے اقتصادیات کے علاوہ قومی کردار کو بھی تباہ کر دیتے ہیں.پس صرف غیرت ہی کا نہیں بلکہ اور بھی بہت سے دور رس مفادات کا شدید تقاضا ہے کہ بڑے بڑے امداد دینے والے ملکوں کی امداد شکریہ کے ساتھ رد کر دی جائے اور وہ مسلمان ممالک جن کو خدا تعالیٰ نے تیل کی دولت عطا فرمائی ہے ان کو غیر مسلم ممالک کو ساتھ ملا کر جو وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ (المائدہ:۳) پر تیار ہوں.اسلامی اصول کے تابع ایک نیا امدادی نظام جاری کریں جس میں اولیت اس بات کو دی جائے کہ تیسری دنیا کے وہ غریب ممالک جن پر ہر وقت فاقے اور قحط کی تلوار ٹکی رہتی ہے ان کو جلد تر خوراک میں خود کفیل بنایا جائے یا اقتصادی لحاظ سے اتنا مضبوط کیا جائے کہ اپنے لئے باہر سے خوراک خریدنے کی اہلیت پیدا ہو جائے.قحط زدہ افریقن ممالک کی طرف دنیا کا موجودہ رویہ انتہائی ذلیل بھی ہے اور غیر موثر بھی.ملکوں میں قحط اچانک آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کی طرح نمودار نہیں ہوا کرتے کئی سال پہلے سے اقتصادی ماہرین کو علم ہوتا ہے کہ کہاں کب بھوک پڑنے والی ہے پس بڑی بے حسی کے ساتھ انتظار کیا جاتا ہے کہ کب قو میں بھوک سے نڈھال ہو جائیں تو ان کو کچھ خوراک مہیا کرنے کے ساتھ انہیں غلامی کے شکنجوں میں جکڑنے کے لئے سیاسی اور نظریاتی سودے بھی کر لئے جائیں.پس قرآنی شرطوں کے مطابق آزاد کرنے والی امداد کا نظام جاری کرنا چاہئے نہ کہ غلام بنانے والی امداد کا.تیل کے ممالک اگر خدا کی خاطر اور بنی نوع انسان کی خاطر اپنی تیل کی آمد کو زکوۃ یعنی اڑھائی فیصد 2.5 اس مقصد کے لئے الگ کر دیں تو اکثر غریب ممالک سے بھوک کی لعنت مٹائی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 207 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء جاسکتی ہے.اس ضمن میں جاپان کو بھی ساتھ شامل کرنے کی ضرورت ہے.تیسری دنیا کے ملکوں کو کھل کر جاپان سے یہ بات طے کرنی چاہیئے کہ تم تیسری دنیا میں رہنا چاہتے ہو یا اپنے آپ کو ایک مغربی ملک شمار کرنے لگے ہو.اگر تیسری دنیا میں رہتا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تیسری دنیا کے مسائل طے کرنے میں ، خصوصاً اقتصادی مسائل طے کرنے میں بھر پور تعاون کرو بلکہ راہنمائی کرو اور قائدانہ کردار ادا کرو.ورنہ نہ تم ہمارے رہو گے نہ سفید فام قوموں میں شمار کئے جاؤ گے.اگر ہم اندرونی مسائل کے مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے بات شروع کریں تو کشمیر کے سلسلے میں میں سمجھتا ہوں کہ تین حل ایسے ہیں جن پر غور ہونا چاہئے.موجودہ صورتحال تو ہرگز قابل قبول نہیں ہے.اگر یہ صورتحال مزید جاری رہی تو دونوں ملک تباہ ہو جائیں گے.اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور جموں اور کشمیر کو پہلے یہ موقعہ دیا جائے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ تم تینوں مل کر اکٹھا رہنا چاہتے ہو یا آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ مل جائے اور جموں ہندوستان کے ساتھ مل جائے اور وادی کشمیر الگ ہو جائے دوسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ وادی کشمیر الگ آزاد ہوا اور یہ دونوں ملک الگ الگ آزاد ہوں.جس کو ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں الگ آزاد ہو اور تیسری صورت یہ ہے کہ وہ تینوں مل کر ایک ملک بنا ئیں.پس تین امکان ہوئے آزاد کشمیر ا لگ ملک جموں الگ ملک اور وادی کشمیر الگ ملک.دوسری صورت تینوں کا ایک ملک اور تیسری صورت یہ کہ آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ مل جائے.جموں ہندوستان کے ساتھ مل جائے اور کشمیر ایک الگ ریاست کے طور پر نیا وجود حاصل کرے یہ موقع تفصیلی بحث کا تو نہیں ہے.یہ فیصلہ تو ان قوموں نے خود کرنا ہے.ان کا وہی حق ہے لیکن میں جہاں تک سمجھا ہوں، یہ تیسر احل جو ہے یہ زیادہ موزوں رہے گا اور علاقے میں امن کے لئے بہت بہتر ثابت ہوگا.کیونکہ آزاد کشمیر کے لوگ ہم مزاج ہیں اور ایک ہی جیسے مزاج کے لوگ ہیں جن کا وادی کے کشمیریوں سے مختلف مزاج ہے.وادی کے کشمیریوں کا ایک الگ مزاج اور ایک الگ تشخص ہے اور جموں کے لوگوں کا ایک بالکل جدا گانہ تشخص ہے اور مذہبی لحاظ سے بھی وہ ہندوستان کے قریب تر ہیں.پس اگر استحکام چاہئے تو غالبا یہ حمل سب سے اچھا رہے گا لیکن اس شرط کے ساتھ وہاں آزادی ہونی چاہئے کہ آزاد ملک اس بات کی ضمانت دے کہ کسی طاقتور ملک کے ساتھ الگ سمجھوتے کر کے ہندوستان اور پاکستان کے امن کے لئے خطرہ نہیں بن سکے گا.اس کے لئے آپس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 208 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء میں سمجھوتے سے باتیں طے کی جاسکتی ہیں.اگر یہ نہ کیا گیا اور اسی طرح سکھوں کے ساتھ صلح نہ کی گئی اور دیگر اندرونی مسائل طے نہ کئے گئے تو علاقے میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا.اور پاکستان کے اندر جو درست ہونے والے توازن ہیں مثلاً سندھی، پنجابی، پٹھان وغیرہ وغیرہ پھر مذہبی اختلافات ہیں یہ سارے مسائل ہیں جو بارود کی طرح ہیں یا آتش فشاں پہاڑ کی طرح ہیں کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جن سے دیگر قو میں فائدہ اٹھایا کرتی ہیں.پس پیشتر اس کے کہ دیگر قوموں کو فائدے کا موقع ملے آپ اپنے ملک کی اندرونی حالت کو درست کریں.ہمسایوں کے ساتھ بھی تعلقات درست کریں.اور اس کے نتیجے میں آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ توجہ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی طرف ہو جائے گی.آپس میں اشتراک عمل کے ساتھ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی کی روح کے ساتھ مذہب کو بیچ میں لائے بغیر ہر اچھی چیز پر دوسری قوم کے ساتھ تعاون کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور فوج کا خرچ کم ہو جائے گا اور فوج کا خرچ جتنا کم ہوگا اور اقتصادیات جتنا ترقی کرے گی اتنے ہی امکانات پیدا ہوں گے کہ غریب کی حالت بہتر ہو جائے.امر واقعہ یہ ہے کہ میں نے امکانات کہا ہے اس لئے کہ غریب کی حالت بہتر کرنے کے لئے یہ ساری چیزین کافی نہیں جب تک اوپر کے طبقے کی سوچ صحت مند نہ ہو.اگر اوپر کے طبقے کی سوچ بیمار ہے اور بے حسی ہے اور بے حیائی ہے اور عظیم الشان ہوٹل بنتے چلے جارہے ہیں اور ریسٹورنٹ کے بعد ریسٹورنٹ قائم ہورہا ہے اور ایک سوسائٹی ہے جو سرے شام سے شروع ہو کر رات گئے تک ان ریسٹورنٹس کے چکر لگاتی ہے اور ہوٹلوں کے چکر لگاتی ہے اور عیش و عشرت میں مبتلا رہتی ہے اور لاہور چمک رہا ہوتا ہے کراچی جگمگا رہا ہوتا ہے اگر یہی رجحان جاری رہا اور کسی کی نظر اس طرف نہ گئی کہ ان روشنیوں کے نیچے ایسے ظالم اندھیرے ہیں کہ ان اندھیروں میں تھوڑی دیر بھی آپ جھانکیں تو ان کے اندر کلبلاتی ہوئی انسانیت کی ایسی دردناک شکلیں نظر آئیں گی کہ اس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک چھوٹی سی مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.میری بیٹی عزیزہ فائزہ جب قادیان جلسے پر گئی تو واپسی پر اٹاری اسٹیشن پر گاڑی پکڑنے لگی دو بچے بھی ساتھ تھے.کھانے کے لئے چیزیں نکالیں تو وہاں چھوٹے چھوٹے غریب بھو کے بچوں کا ایک ہجوم آگیا اور وہ کہتی تھی کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 209 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء صاف نظر آتا تھا کہ بھوکے ہیں.صرف پیشہ ور بھکاری نہیں ہیں.چنانچہ اس نے وہ کھانا ان میں تقسیم کیا پھر اس کے بعد قادیان سے جو دوستوں نے تحفے دیئے ہوئے تھے ، کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ، وہ نکالیں ، وہ تقسیم کیں اور جو بات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں کہ اس نے تقسیم کیں یہ تو ہر انسان جس کے سینے میں انسانی دل دھڑک رہا ہو وہ یہی کرے گا لیکن جو خاص بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ان غریبوں میں بھی انسانیت کا اعلیٰ معیار پایا جاتا ہے.انسانیت ان غریب ملکوں میں چھوٹی سطح پر زیادہ ملتی ہے بہ نسبت اونچی سطح کے.اس نے بتایا کہ جب سب کچھ تقسیم ہو کے ختم ہو گیا تو میرے پاس ایک کوکا کولا کا ایک ٹن (Tin) تھا ، میں نے کہا وہ بھی ان کو پلاؤں تو ایک بڑی بچی کو دے دیا.اس نے ایک گھونٹ پیا اور پھر ایک ایک بچے کو ایک ایک گھونٹ پلاتی تھی اور گھونٹ پلانے کے بعد اس طرح اس کے چہرے پر طمانیت آتی تھی جس طرح ماں بھو کے بچے کو دودھ پلا کر تسکین حاصل کرتی ہے اور مسکرا کے ان کی طرف دیکھتی تھی کہ دیکھیں کیسا مزا آیا اور بچوں کی قطار لگ گئی ایک کے بعد ایک کوکا کولا کا ایک گھونٹ پیتا تھا اور سمجھتا تھا اس کو آب حیات مل گیا ہے.اس کے بعد جب گاڑی چلنے لگی تو پولیس کے روکنے کے باوجود، دھکے کھانے کے باوجود یہ بچے اتناممنون احسان تھے کہ گاڑی کے ساتھ دوڑتے چلے جاتے تھے اور سلام کرتے چلے جاتے تھے یہاں تک کہ نظر سے اوجھل ہو گئے.جب وہ مجھ سے واقعہ بیان کر رہی تھی ، اس وقت میں نے سوچا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنی اس بچی کو زیادہ پیار سے دیکھ رہا ہوں یا وہ بھوکے بچے جنہوں نے احسان کے بعد اس کو پیار سے دیکھا تھا اور میں نے سوچا کہ زندگی میں بعض ایسے لحات بھی آتے ہیں جب انسانی قدریں خونی رشتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں اور انسانی تاریخ میں انسانی تعلقات کے خونی رشتوں پر غالب آنے کا سب سے بڑا دور حضرت اقدس محمد اللہ کے عہد میں آیا بلا شبہ وہ ایک ایسا دور تھا کہ ہر خونی رشتہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا تھا اور انسانی قدروں کی عظمت کو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا بلند کر دیا تھا کہ مکارم الاخلاق پر آپ کا قدم تھا.وہ دور ہے جسے واپس لانے کی ضرورت ہے یہ انسانی قدریں ہیں جو تیسری دنیا کو بچائیں گی.یہ قدریں تو آپ کے قدموں کے نیچے پامال ہورہی ہیں اور خدا کی تقدیر بڑی قوموں کے قدموں کے نیچے آپ کو پامال کرتی چلی جارہی ہے.کیوں خدا کی تقدیر کے اس اشارے کو آپ نہیں سمجھتے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 210 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء پس تیسری دنیا میں جتنے دوسرے چاہیں حل اختیار کر لیں جب تک عزت نفس کو زندہ نہیں کیا جاتا، جب تک وقار کو زندہ نہیں کیا جاتا جب تک احسان کے جذبوں کو زندہ نہیں کیا جاتا، جب تک تمام انسانی قدروں کا عہد نہیں کیا جاتا اس عہد کو پورا کرنے کے سامان نہیں کئے جاتے ،اس وقت تک تیسری دنیا کی تقدیر بدل نہیں سکتی اور تیسری دنیا آزاد نہیں ہوسکتی.پس ترقی یافتہ قومیں جن کو پہلی دنیا کہا جاتا ہے، نہ صرف آزاد ہیں بلکہ آپ کو غلام بنانے کے لئے پہلے سے زیادہ مستعد اور تیار ہو رہی ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اقتصادی قدم اس رخ پر ہے کہ اس کے بعد یہ چاہیں نہ چاہیں یہ ان قدموں کے ذریعہ تیسری دنیا کی غریب قوموں کو مزید پامال کرنے پر مجبور ہوتی چلی جائیں گی کیونکہ یہ اپنا معیار نہیں گزار ہیں اور ان کی سیاسی طاقتوں میں یہ استطاعت ہی نہیں ہے کہ اپنی قوم کو معیار گرانے کے مشورے دیں.جو پارٹی ایسا کرے گی یہ پارٹی انتخاب ہار جائے گی اس لئے یہ ایسے غلیظ پھندے میں جکڑے جاچکے ہیں کہ ظلم پر ظلم کرنے پر اب مجبور ہو چکے ہیں.اس لئے اپنے دفاع کے لئے تیسری قوموں کو خو داٹھنا ہوگا اس کے بغیر نہ ان کو اپنی فوجوں سے آزادی ہو سکتی ہے نہ اپنی بداخلاقیوں سے آزادی ہو سکتی ہے ، نہ ان سب لعنتوں سے آزادی مل سکتی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور جب قومیں ان بیماریوں کا شکار ہوں تو پھر یہ شکوہ کیا کہ ہم مر رہے ہیں اور گدھیں ہمارے پاس آکر بیٹھی ہماری موت کا انتظار کر رہی ہیں.مارنے کے لئے آپ کے جسم کے اندر بیماری پیدا ہوتی ہے اور وہ بیماری جراثیم کو دعوت دیتی ہے.جراثیم سے بھی بیماری پیدا ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ صحت مند جسم کو جراثیم کچھ نہیں کہہ سکتے.پس بیماری کا آغا ز اندر سے ہوتا ہے نہ کہ باہر سے جب جسموں کی دفاع کی طاقت ختم ہو جائے تو پھر جراثیم وہاں پہنچتے ہیں اور جسموں پر قبضہ پالیتے ہیں اور جب ان کا قبضہ مکمل ہوجاتا ہے تو پھر یہ جسم لا زماموت کے منہ میں جاسوتے ہیں اور پھر گدھوں کا آنا اور ان کی بوٹیاں نوچنا اور ان کی ہڈیاں بھنبھوڑ نا یہ ایک قدرتی عمل ہے جس نے بعد میں لازماً آنا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تقدیر ہے جس سے کوئی دنیا کی طاقت آپ کو بچا نہیں سکتی اگر آج آپ خود فیصلہ نہ کریں.پس پیشتر اس کے کہ اس کنارے تک پہنچ جائیں اور پھر آپ کی لاشیں خواہ کھلے میدان میں عبرت کا نشان بن کر پڑی رہیں یا قبروں میں دفن کی جائیں اور اگر آج آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 211 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بیان فرمودہ اخلاق کو اور بیان فرمودہ تعلیم کو اپنا لائحہ عمل بنالیں گے اور انسانی قدروں کی حفاظت کریں گے اور کھوئی ہوئی قدروں کو دوبارہ نافذ کریں گے تو غیروں کی ذلت آمیز غلامی سے نجات کا صرف یہ طریق ہے اس کے سوا کوئی طریق نہیں ہے.پس ایک اور بڑی اہم بات ہے کہ خلیج کی جنگ اور اس کے دوران ہونے والے واقعات نے تیسری قوموں کو ایک اور سبق بھی دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے یعنی جہاں تک تیسری دنیا کے مفادات کا تعلق ہے اقوام متحدہ کا نظام بالکل بوسیدہ اور ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لائق بن چکا ہے جب تک روس کے ساتھ امریکہ کی مخالفت تھی یا رقابت تھی اس وقت تک اقوام متحدہ کے نظام میں غریب ملکوں کو تباہ کرنے کی ایسی صلاحیت موجود نہیں تھی کیونکہ امریکہ بھی ویٹو کر کے کسی غریب ملک کی حفاظت کر سکتا تھا اور روس بھی ویٹو کر کے کسی غریب ملک کی حفاظت کر سکتا تھا فیصلہ صرف اس بات پر ہوتا تھا کہ امریکہ کا دوست غریب ملک ہے یا روس کا دوست غریب ملک ہے.اب تو ساری دنیا میں کسی غریب ملک کو سہارا دینے کے لئے کوئی باقی نہیں رہا.اتفاق نیکی پر نہیں ہوا اتفاق بدی پر ہو چکا ہے.پس قرآن کریم نے جب یہ فرمایا وَ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى تو اس کا مطلب صرف تعاون نہیں ہے، یہ مطلب ہے کہ صرف نیکی پر اکٹھے ہوا کرو.بدی پر تعاون نہ کیا کرو.لیکن سیاسی دنیا کے تعاون اس بات پر ہوتے ہیں کہ نیکی یا بدی کی بحث ہی نہیں ہے ہمارے مشترکہ مفاد میں جو بات ہوگی ہم اس پہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے.پس یہ فیصلے ہیں جو دنیا میں ہو چکے ہیں.روس اور امریکہ کے درمیان یہ فیصلے ہو چکے ہیں اور چین کو اس وقت ایسی حالت میں ایک طرف پھینکا گیا ہے.کہ اس میں طاقت نہیں ہے کہ وہ دخل دے سکے اور ابھی اس کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کیا جائے گا.یہاں تک کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے.اگر یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا ادارہ اور اس سے منسلک تمام ادارے سیکیورٹی کونسل وغیرہ صرف کمزور ملکوں پر ظلم کے لئے استعمال کئے جائیں گے اور ان کے فائدے کے لئے استعمال ہو ہی نہیں سکتے صرف ان کے فائدے کے لئے استعمال ہوں گے جوان قوموں کی غلامی کو تسلیم کر لیں اور ان کے پاؤں چائیں ، ان کے لئے اقوام متحدہ کا ادارہ دولتیں بھی لائے گا، سہولتیں بھی پیدا کرے گا ان کو عزت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 212 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء کے خطابات بھی دے گا اور ان کی طرف دوستی کے ہاتھ بھی بڑھائے گا.ہر قسم کے فائدے جو ذلت اور رسوائی کے نتیجے میں کمینگی سے حاصل ہو سکتے ہیں وہ تیسری دنیا کے ملکوں کو حاصل ہوسکیں گے لیکن عزت کے ساتھ وقار کے ساتھ سر بلندی کے ساتھ اگر اس دنیا میں اس یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ وابستہ رہ کر کوئی قوم زندہ رہنا چاہئے تو اس کے کوئی امکان نہیں ہیں.nations پس ایک حل اس کا یہ ہے کہ جس طرح پہلی جنگ کے بعد 1919ء میں League of بنی پھر دوسری جنگ کے بعد 1945ء میں United Nations کا قیام عمل میں آیا اس خوفناک یک طرفہ جنگ کے بعد تیسری دنیا کی ایک نئی یونائیٹڈ نیشنز کا قیام کیا جائے اور اس میں صرف غریب اور بے بس ممالک اکھٹے ہوں وہ جو Neutrality کی تحریک چلی تھی کہ نیوٹرل ممالک اکٹھے ہوں وہ بوسیدہ ہو چکی ہے.اس کے اب کوئی معنی نہیں رہے اس میں جان ختم ہو چکی ہے.اب ایک نئی تحریک چلنی چاہئے جس میں ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور عراق وغیرہ ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس میں مذہبی تعصبات کو بیچ میں سے نکالنا ہوگا.اس لئے ایک مشورہ میرا یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک اگر چہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کے تعلق رکھیں خاص بھائی چارے کے نتیجے میں ذمہ داریاں ادا کریں لیکن مسلمان تشخص کو غیر مسلم تشخص سے لڑا ئیں نہیں.اگر (polarization) یعنی یہ تقابل باقی رہا کہ مسلمان ایک طرف اور غیر مسلم ایک طرف تو خواہ غیر مسلم کہتے وقت آپ دماغ میں صرف مغربی طاقتیں رکھتے ہوں لیکن جاپان بھی غیر مسلم ہے، کوریا بھی غیر مسلم ہے، ویت نام بھی غیر مسلم ہے ہندوستان بھی غیر مسلم ہے.غرضیکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیں.وہ بجھتی ہیں کہ پیغام ہمیں بھی پہنچ گیا ہے.اس لئے نہایت ہی جاہلا نہ خودکشی والی پالیسی ہے کہ مسلمان کے تشخص کو غیر مسلم کے تشخص سے لڑاویں اور اس کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہ کریں اور جو کچھ حاصل ہے وہ کھو دیں.پس دنیا میں تیسری دنیا کے اتحاد قائم ہوہی نہیں سکتے جب تک قرآن کریم کی تعلیم وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى پر عمل نہ کیا جائے اور اس تعلیم میں مذہبی اختلاف کا ذکر ہی کوئی موجود نہیں.اس تعلیم کی رو سے مشرک سے بھی اتحاد ہوسکتا ہے یہودی سے بھی ہو سکتا ہے ، عیسائی سے بھی ہوسکتا ہے ، دہریہ سے بھی ہوسکتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 213 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء ہے.مذہب کا کوئی ذکر ہی نہیں البر اور التَّقوی ہونا چاہئے.ہر ا چھی بات پر تعاون کرو.پس تعاون کے اصول کے اوپر ان قوموں کے ساتھ وسیع تر اتحاد پیدا کرنا اور اس کے نتیجے میں ایک نئی United nations of poor nation کا قیام انتہائی ضروری ہے اب ضرورت ہے کہ دنیا کی غریب قوموں کی ایک متوازی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے جس کے منشور میں محض اسی حد تک اختیارات درج ہوں جس حد تک ان کے نفاذ کی اس انجمن کو طاقت ہو اور ہر ممبر ملک کے لئے اس عہد نامہ پر دستخط کرنے ضروری ہوں کہ وہ اس ادارے سے منسلک رہتے ہوئے ہر حالت میں عدل کی بالا دستی کو تسلیم کرے گا.تیسری دنیا کے الجھے ہوئے معاملات اور قضیوں کو حل کرنے کے لئے اسی ادارہ کی سر پرستی میں دو طرفہ گفت و شنید کا منصفانہ اور موثر نظام قائم کیا جائے اور کمزور قوموں میں اس رجحان کو تقویت دی جائے کہ کوئی فریق اپنے قضیوں کو حل کرنے کے لئے ترقی یافتہ قوموں کی طرف رجوع نہیں کرے گا اور انہیں اپنے قضیے نبٹانے میں دخل کی اجازت نہیں دے گا.اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ بعض تیل پیدا کرنے والے ملک بھی ایک نئی او پیک (Opec) کی بنیاد ڈالیں یعنی ایسی او پیک جس میں امریکہ کے وفادار غلاموں کو شامل نہ کیا جائے.امریکہ سے تعاون کرنے والے بے شک شامل کئے جائیں کیونکہ ہمارا اصول یہ ہے ہی نہیں کہ مخالفت کی خاطر کوئی اتحاد قائم کئے جائیں.قرآن نے کہیں اس کا ذکر نہیں فرمایا.اتحاد نیکی پر ہونا چاہئے مگر کسی ملک کا اگر بڑی طاقتوں کے ساتھ بے اصولی پر اتحاد ہو چکا ہو اور ان کا یہ اتحاد قیام عدل کے لئے خطرہ بن جائے تو اس کے نتیجے میں غریب ممالک کے مفادات قربان کر دئیے جاتے ہیں پس لازم ہے کہ تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک اپنے دفاع کی خاطر نیا اتحاد کریں.مثلاً ایران ہے، عراق ہے، نائیجیریا انڈونیشیا، ملائیشیا، سبا وغیرہ ہیں اسی طرح جن دوسرے ملکوں میں جہاں کسی حد تک تیل ملتا ہے وہ آپس میں اکٹھے ہوکر اپنی ایک او پیک بنائیں اور اگر یہ مشترکہ طور اپنی Policies طے کریں گے تو ان کے اوپر اس طرح ظلم کے ساتھ مغربی دنیا کی Policies کو مسلط نہیں کیا جا سکتا جس طرح عراق پر مسلط کر کے اسے غیر منصفانہ طرز عمل پر مجبور کر دیا گیا.سعودی عرب اور کویت وغیرہ کچھ عرصے تک اپنی زیادہ تیل کی قوت کے نتیجے میں اس نئی او پیک کو کچھ مجبور پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 214 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء کر سکتے ہیں مگر اپنی دھن اور اصولوں پر اگر یہ قائم رہیں تو تھوڑی دیر کے بعد دباؤ کا یہ کھیل ختم ہو جائے گا.پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے بہت مفید نتائج ظاہر ہوں گے.تیسری دنیا کے وہ ممالک جن میں تیل نہیں ہے ان کو بھی اپنی ایک متحدہ بے تیل کے ملکوں کی انجمن بنانی چاہئے کیونکہ جب بھی دنیا میں کسی قسم کے فسادات ہوتے ہیں ، ہنگامے ہوتے ہیں.جنگیں ہوتی ہیں تو یہی بیچارے غریب ممالک ہیں جو سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں پس اپنے تحفظات کے لئے ان کو اکٹھے ہو جانا چاہئے اور تیل والے ملکوں سے کچھ لمبے سمجھوتے کرنے چاہئیں تا کہ گذشتہ تجارب کی روشنی میں آئندہ کے احتمالات سے بچنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہو سکے.اس ضمن میں ایک اور چھوٹا سا اتحاد قائم کرنا بھی ضروری ہے وہ ممالک جو تیل پیدا کرنے والے ممالک کو مزدور مہیا کرتے ہیں انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے مزدوروں کو اس طرح ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اور ایسا ظالمانہ سلوک ان سے ہوتا ہے اور ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں قومی غیرت پچلی جاتی ہے اور قوم کے اندر ایک بے حیائی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.مجھے تو جانے کا موقعہ نہیں ملا مگر بعض مسافروں نے گلف میں کام کرنے والے بعض مزدوروں نے اس سلوک کے جو قصے سنائے ہیں جو ہوائی اڈوں پر اترتے ہی ان سے شروع ہو جاتا ہے اس کا سننا ہی ایک با غیرت شخص کے لئے ناقابل برداشت ہے.مثلاً ہوائی اڈوں پر جب پاکستانی جہاز پہنچتے ہیں تو مقامی سپاہی ڈنڈے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ،ہوٹیاں اٹھائی ہوئی ان کے ٹخنوں پر مارتے ہیں کہ یوں سیدھے ہو ، یہاں کھڑے ہو، ایسے قطار بناؤ اور ایسا ذلت آمیز سلوک ان سے ہوتا ہے کہ جس طرح گائے بھینسوں کو ظالم ممالک میں ہانکا جاتا ہے.جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں تو گائے بھینس کی بھی اس سے زیادہ عزت کی جاتی ہے تو یہ کب تک برداشت کریں گے؟ غلاموں کی طرح ان سے سلوک اور پھر ان کی کمائیوں کا کوئی تحفظ نہیں یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ وہ غریب مزدوری کرنے جاتے ہیں اور وہ مزدوری کے نتیجے میں ساری عمر کی کمائیاں لاکھ دو لاکھ جو کماتے ہیں ، اگر ان کا مالک ناراض ہو جائے اور فیصلہ کر لے کہ ان کا حق نہیں دوں گا تو معاہدہ اس قسم کا ہوا ہوتا ہے کہ اس کے اختیار میں ہے کہ نہ دے اگر عدالت میں جائیں بھی تو وہاں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تو نوکر رکھنے والا اگر ظالم اور سفاک ہو اور اس کو یقین ہو کہ میں جو چاہوں کرلوں گا تو نوکر کو تو غلام سے بھی زیادہ ذلت نصیب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 215 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء ہوتی ہے.پس ان ممالک کو ہندوستان، پاکستان فلپائن وغیرہ یا جن جن ممالک سے لوگ آتے ہیں وہاں اکٹھے ہو کر یہ فیصلے کرنے چاہئیں کہ ہم اپنے مزدوروں کو عزت اور وقار کا تحفظ دیں گے اور اگران کی حق تلفی کی گئی یا ان سے بدسلوکی کی گئی تو سب مزدور مہیا کرنے والے ممالک مل کر تا جر ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنے مزدوروں کے حق دلوائیں گے.اسی طرح توازن پیدا ہو جائیں گے اور توازن کے نتیجے میں امن پیدا ہوتا ہے کیونکہ تو ازن ہی عدل کا دوسرا نام ہے جس کو قرآن کریم نے میزان بھی قرار دیا ہے.پس امن بڑی قوموں کے طاقتور بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں یا صدروں کے تحامات سے تو قائم نہیں ہوا کرتا.امن تولا ز ما توازن کے نتیجے میں قائم ہوں گے اور توازن عدل سے پیدا ہوتا ہے بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس تمام عالمی سیاست میں نئے توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس عہد کی ضرورت ہے کہ ہماری ہر انجمن ہمارا ہر اتحاد عدل کی بالا دستی کے اصول پر قائم ہوگا.پس یہ جتنی انجمنوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں یہ بنیادی شرط ہونی چاہئیے کہ ہر شامل ہونے والا ملک یہ عہد کرے کہ میں عدل کی بالا دستی کو تسلیم کرتا ہوں ، اپنے مفادات کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا.اور پھر ایسے انتظام ہونے چاہئیں کہ عدل کی بالا دستی کا واقعی کوئی نہ کوئی ذریعہ پیدا کیا جائے اور عدل کا احترام نہیں کرتا اس کو اس نظام سے الگ کر دیا جائے.جو موجودہ یونائیٹڈ نیشنز (United Nations) ہے اس میں کئی قسم کے اندرونی تضادات بھی ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے تا کہ نئی انجمنوں میں ایسے تضادات پیدا نہ ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ یہ عجیب ظالمان قانون ہے کہ اگر ساری دنیا میں امریکہ روس ، چین وغیرہ پانچ ملکوں میں سے صرف ایک ملک کسی ملک پر ظلم کرنے کا فیصلہ کر لے تو جس پر چاہے اس پر حملہ کروادے.اس کے لئے عالمی طاقتوں کو جوابی کارروائی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوسکتا جب تک سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممالک میں سے ایک ملک اس بات پر قائم رہتا ہے کہ میں کسی کو اس ملک کے خلاف جوابی کارروائی کی اجازت نہیں دوں گا.اس کا نام ویٹو ہے یہ فیصلہ آج تک نہیں ہوا کہ یونائیٹڈ نیشنز یا سیکیورٹی کونسل کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ عدلیہ ہے؟ اگر یہ عدلیہ ہے تو پھر بین الاقوامی عدالت کی کیا ضرورت ہے اگر یہ عدلیہ نہیں ہے تو جھگڑوں میں فیصلہ کرتے وقت یہ کیسا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ اور پھر عدلیہ نہ ہونے کی وجہ سے اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 216 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء فیصلے کو بزور نافذ کرنے کا اختیار بھی ان کو نہیں ہو سکتا اور اگر عدلیہ ہے تو ان کے عدل کا اثر کہاں کہاں تک جائے گا؟ وہ تو میں جو ان کی ممبر نہیں ہیں ان پر بھی پڑے گا کہ نہیں؟ یہ ایک اور سوال ہے جو اس کے نتیجے میں اٹھتا ہے.پھر اگر یہ محض ایک مشاورتی ادارہ ہے تو فیصلوں کو بزور نافذ کرنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں محض اسی حد تک اخلاقی دباؤ کا ضابطہ طے ہونا چاہئے جس کا سب قوموں کے خلاف برابر اطلاق ہو سکے.اور اگر یہ محض تعاون کا ادارہ ہے تو تعاون کس طرح لیا جائے اور کون کون سے ذرائع اختیار کئے جائیں اور اگر تعاون حاصل نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے؟ یہ سب فیصلے ہونے والے ہیں.اسی طرح اگر یہ حض فلاح و بہبود کے کاموں میں غریب قوموں کی مدد کر نے کا ادارہ ہے تو اس پہلو سے بھی یہ حیثیت واضح اور معین ہونی چاہئے اور سیاست اور رنگ ونسل سے بالا رہ کر غریب قوموں یا آفت زدہ علاقوں کی امداد کا ایسا لائحہ عمل تیار ہونا چاہئے جس کی رو سے اقوام متحدہ کی انتظامیہ آزادانہ فیصلے کر سکے اور آزادانہ تنقید کی اہلیت بھی رکھتی ہو.یہ سوال بھی لازماً طے ہونا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلوں کے نفاذ کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے ماننے پر مجبور ہو.جب تک ان سوالات کا تسلی بخش جواب نہ ہو جس سے غریب اور کمزور قوموں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہو یہ ادارہ محض طاقتور قوموں کی اجارہ داری کا ایک پر فریب آلہ کار بنارہے گا.ایک سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ عدلیہ ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ ایک ایسا غریب ملک جس کی حمایت میں نہ امریکہ ہو، نہ روس ہو، نہ چین ہو، نہ فرانس ہو، نہ برطانیہ ہو اور اس کے حق میں اگر اقوام متحدہ کوئی بڑا فیصلہ کر دیتی ہے یعنی دوتہائی کی اکثریت سے فیصلہ کر دیتی ہے کہ یہ مظلوم ملک ہے اس کی حمایت ہونی چاہئے تو اس فیصلے کو نافذ کیسے کریں گے؟ وہ کیسی عدلیہ ہے جسے فیصلوں کو نافذ کرنے والی طاقتوں کا تعاون نصیب نہ ہو ، اور تعاون حاصل کرنے کا قطعی ذریعہ اسے میسر نہ ہو.اس کی مثال تو ویسی ہی ہے کہ جیسے ایک دفعہ جب امریکہ کے ریڈ انڈینز نے امریکہ کی حکومت کے خلاف وہاں کی عدالت عالیہ میں اپیل کی اور یہ مسئلہ وہاں کی سپریم کورٹ کے سامنے رکھا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 217 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء کہ بار بار امریکہ کی حکومت نے ہم سے معاہدے کئے اور بار بار ان کی خلاف ورزی کی.بار بار جھوٹے تحفظات دیئے اور بار بار وہ علاقے جن کے متعلق قطعی طور پر تحریری معاہدے تھے کہ یہ ہمارے ہو چکے اور مزید ان میں دخل نہیں دیا جائے گا، دخل دے کر ہم سے خالی کروائے گئے اور ہمیں دھکیلتے دھکیلتے یہ ایک ایسی حالت میں لے گئے ہیں کہ جہاں ہماری اب بقاممکن نہیں رہی.اب سوال زندہ رہنے یا نہ زندہ رہنے کا ہے.اس پر امریکہ کی سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا.انہوں نے کہا بالکل صحیح شکایت ہے.ان تمام معاملات میں جو ہمارے سامنے رکھے گئے ہیں حکومت نے غیر منصفانہ طریق اختیار کیا ہے اور ریڈ انڈینز کا حق ہے کہ پرانے سب فیصلوں کو منسوخ کر کے ان کے حقوق بحال کئے جائیں.جب یہ فیصلہ ہوا تو امریکہ کے صدر نے کہا کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن اب عدالت عالیہ کو چاہئے کہ اس کو نافذ بھی کر دے.تو بالکل وہی حیثیت آج یونائیٹڈ نیشنز کی ہے ان پانچوں میں سے جن کو Permanent Members کہا جاتا ہے اگر ایک بھی چاہے کہ فیصلہ نافذ نہیں ہوسکتا، تو نہیں ہوسکتا.عجیب انصاف کا ادارہ ہے کہ جس کے خلاف بڑی طاقتیں سر جوڑ لیں اور ظلم پر اکٹھی ہو جائیں تو وہاں ہر چیز نافذ ہو جائے گی لیکن جہاں یہ فیصلہ ہو کہ نافذ نہیں ہونے دینا تو وہاں دنیا کا کوئی ملک الگ الگ یا سارے مل کر بھی کوشش کریں تو اس کے مقابل پر ایک ملک کھڑا ہو سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا اور اگر اتفاق بھی کر جائے جیسا کہ فلسطین کے مسئلہ میں کئی ریزولیوشنز میں پانچوں طاقتوں نے اتفاق بھی کر لیا کہ اسرائیل وہ علاقے خالی کر دے تو اگر وہ پانچوں اتفاق بھی کر جائیں تب بھی فیصلہ نافذ نہیں ہوسکتا.یہ عجیب قسم کا امن عالم کا ادارہ ہے اور عجیب قسم کی یونائیٹڈ نیشنز Unied Nations ہے فیصلے کرنے کا اختیار ہے، فیصلے نافذ کرنے کا اختیار نہیں.فیصلے نافذ کرنے کا اختیار بڑی طاقتوں کو ہے اور بڑی طاقتوں کی مرہون منت تمام دنیا کی قومیں بنی ہوئی ہیں.یہ ادارہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے.یہ غلامی کو جاری رکھنے کا ادارہ ہے.غلامی کے تحفظات کا ادارہ ہے.آزادی کے تحفظات کا ادارہ نہیں ہے.اس لئے اگر آج تیسری دنیا کی قوموں نے اس ادارے کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا یا یہ کہنا چاہئے کہ ان کو انصاف کے نام پر تعاون پر مجبور نہ کیا اور اپنے قوانین بدلنے پر مجبور نہ کیا تو دنیا کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 218 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء قو میں آزاد نہیں ہوسکیں گی اور یہ ادارہ مزید خطرات لے کر دنیا کے سامنے آئے گا اور اسے بار بار بعض خوفناک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا.اس کی تفصیل میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں.اب میں آخری بات آپ کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو بھی آج مخاطب ہو کر میں ایک مشورہ دے رہا ہوں.عام طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسرائیل کا قیام مغرب کی سازش کے نتیجے میں ، اسرائیل کی چالاکیوں کے نتیجے میں ہوا ہے یہ اپنی جگہ درست ہے.لیکن اگر خدا کی تقدیر یہ نہ چاہتی تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتا تھا.اس تقدیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس تقدیر نے آج اسرائیل کا مسئلہ کھڑا کیا ہے اور اسی تقدیر کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے.پس میں قرآن اور حدیث پر بنارکھتے ہوئے اس مسئلے کو آج آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں اور اسرائیل کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ آج امن عالم کا انحصار اسرائیل پر ہے اور اسرائیل کے فیصلوں پر ہے اور یہی ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.قرآن کریم میں سورہ اسراء جسے بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے ، اس میں اس مسئلے پر چند آیات ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.آیت نمبر 5 یعنی اگر بسم اللہ کو شمار کریں تو پانچ ورنہ چار فرماتی ہے.وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ( بنی اسرائیل :(۵) کہ ہم نے بنی اسرائیل کے لئے مقدر کر دیا تھا کتاب میں، یعنی غالباز بور مراد ہے یا تقدیر کی کتاب ہوسکتی ہے، بہر حال ہم نے کتاب میں اسرائیل کے ضمن میں یہ تقدیر بنادی تھی ، یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ ك ت يقينا دو دفعہ زمین میں فساد برپا کرو گے وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا اور بہت بڑی بغاوتیں کرو گے.اگلی چھٹی آیت فرمائی ہے : فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أَو لَهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادً انَّنَا أُولى بَأْسٍ شَدِيدِ فَجَاسُوا خِللَ الدِيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا (بنی اسرائیل :۷ ) کہ جب پہلا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے تم پر ایسے بندے مبعوث فرما دیے جو بہت شدید جنگ کرنے والے بندے تھے.ہمارے بندے ایسے تھے جو نہایت سخت جنگجو تھے وہ تمہارے گھروں کے بیچ میں گھس گئے.وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا اور خدا کا وہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا اس وعدے کو کوئی ٹال نہیں سکتا تھا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 219 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء پہلی بغاوت تم کرو اور تمہیں سزا ملے اور وہ سزا دے دی گئی.ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَكُمْ اَكْثَرَ نَفِيرًا ( بنی اسرائیل: ۷ ) پھر ہم نے تمہیں دوبارہ ان پر ایک طاقت عطا کر دی ، غلبہ عطا فرما دیا اور ہم نے تمہاری مدد کی اسی ذریعے سے، اموال کے ذریعے سے بھی اور اولاد کے ذریعے سے بھی اور پھر ہم نے تمہیں بڑھاتے ہوئے ایک بڑی طاقت بنادیا.إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا (بني اسرائیل: ۸ ) لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر تم اب حسن سلوک کرو گے اور پہلی بدیاں ترک کر دو گے تو دراصل اپنے سے ہی حسن سلوک کرنے والے ہو گے اور اگر تم نے پھر وہی بدی اختیار کی جو پہلے کر چکے تھے تو پھر وہ بدی بھی تمہارے خلاف ہی پڑے گی یعنی عملاً تم اپنے سے وہ بدی کرنے والے ہو گے.فرمایا: فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ (بنی اسرائیل:۸) پھر دوسری دفعہ وعدہ پورا کرنے کا وقت بھی آگیا جیسا کہ دو وعدے کئے گئے تھے.لِيَسُوا وُجُوهَكُمْ کہ یہ تقدیر پوری ہو کہ تم پھر بدی کرو گے اور اس بدی کا مزا چکھو گے اور تمہارے چہرے رسوا اور کالے کر دیے جائیں گے وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيَتَبِرُوا مَا عَلَوْا تَثْبِيرًا (بنی اسرائیل: ۸) تا کہ وہ دوبارہ مسجد میں داخل ہوں جس طرح پہلے داخل ہوئے تھے اور اسے تباہ و برباد کر دیں.( یہاں ہیکل سلیمانی مراد ہے ) یہ دو وعدے تاریخ میں پورے ہو گئے ، ایک تیسرا بھی ہے ، اس کا بھی قرآن کریم کی اسی سورۃ میں ذکر ملتا ہے.(چنانچہ ) اگلی آیت یعنی نویں آیت میں فرمایا: عَسَى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ (بنی اسرائیل: ۹) کہ اس کے بعد پھر جب خدا چاہے گا اوراگر خدا نے چاہا بلکہ عسی کا مطلب ہے.ہوسکتا ہے عین ممکن ہے کہ خدا یہ چاہے.اَنْ يَّرْحَمَكُھ کہ ایک دفعہ پھر تم پر رحم فرمائے لیکن یا درکھنا جب تم پر رحم کیا جائے گا تو اس بات کو نہ بھلا نا وَ اِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا اگر تم نے پھر ان سب بدیوں کا اعادہ کیا اور تکرار کی تو ہم بھی ضرور ان سزاؤں کا اعادہ کریں گے جن کے دو دفعہ تم ماضی میں مزے چکھ چکے ہو.وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِيْنَ حَصِيرًا اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں پھر اور کوئی چوتھی حرکت ان کی طرف سے نہیں ہوگی کیونکہ پھر جہنم کا ذکر ہے.اس کے بعد دنیا کے معاملات طے اور ختم پھر آخری فیصلہ قیامت کے بعد ہوگا اور جہنم کے ذریعے سزادی جائے گی.پہلے دو وعدوں کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 220 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء میں مختصراً بتادوں کہ کس طرح ہوئے ، ایک وعدہ تو شروع ہوا 721 قبل مسیح میں جبکہ Assyrians نے یہود کی دو مملکتوں میں سے شمالی مملکت کو تاخت و تاراج کیا اور اس پر قبضہ کرلیا اور یہ ساریہ بستی سے تعلق رکھنے والی مملکت تھی جسے اسرائیل کہا جاتا تھا.پس 721 قبل مسیح میں یہ واقعہ شروع ہوا، مکمل نہیں ہوا.اس کی تکمیل ۵۹۷ قبل مسیح سے شروع ہوئی اور 587 قبل مسیح میں پھر وہ دور اپنے درجہ کمال کو پہنچا یعنی وہ طاقت جس کو توڑنے کا آغاز اسیر مینز سے ہوا تھا.124 سال کے بعد دوسرا سلسلہ (اس کے توڑنے کا ( شروع ہوا اور اس دفعہ بابلیوں میں سے نبوکد نضیر Nebchadnezzar نے یہودیوں کی بقیہ مملکت پر جسے جو دیا کہا جاتا تھا یا جو داJudah بھی کہتے ہیں اور جس میں پیر و ظلم دارالخلافہ ہے اس پر حملہ کیا.پس یا درکھیں کہ اس وعدے کے مطابق پہلا حملہ اسرائیل کو یعنی یہودیوں کی سلطنت کو ارض کنعان میں توڑنے کے لئے 721 قبل مسیح میں ہوا اور اسیرین نے اس کا آغاز کیا اور اس کی تکمیل کے لئے دوسرا سلسلہ بنو کد نضر 597 قبل مسیح میں شروع کیا اور 587 قبل مسیح میں مکمل کیا.دونوں دفعہ یہود کی طاقت کو شدید ضر میں لگائی گئیں لیکن دوسری دفعہ عملاً اسے بالکل ملیا میٹ اور نیست و نابود کر دیا گیا.بے شمار یہودیوں کو قیدی بنا کر بنو کد نفر ساتھ لے گیا اور اس میں حضرت حز قیل بھی ساتھ تھے اور حضرت حزقیل کی کتاب سے پتا چلتا ہے کہ یہ سزا جو یہود کو ملی تھی یہ اس لئے ملی تھی کہ ان کی کتاب میں جو الہی محاورہ ہے وہ یہ ہے کہ ان دو بستیوں کی مثال دو کسی عورتوں کی طرح ہو گئی تھی جو اپنا جسم بیچتی ہیں اور بے حیائی میں حد سے بڑھتی چلی جاتی ہیں اور غیروں کو اپنا دوست بناتی ہیں اور خدا سے دوستی تو ڑ رہی ہیں.بہت ہی خوفناک نقشہ کھینچا گیا ہے اور فرمایا کہ پھر جیسی سزا مقدر تھی خدا نے ان سے پھر تعلق تو ڑلیا اور کہا اے کسی عور تو ! جس کی تم ہو اسی کی ہور ہو.چنانچہ واقعہ بنو کد نضر نے ان کسبیوں کو اٹھا کر اپنے وطن سے جدا کر دیا اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجادی.اس کے بعد 551 یا 53 میں اس کے لگ بھگ حضرت حز قیل نبی کی کوششوں سے اہل فارس سے تعلقات کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا اور ھاروت ماروت کا جو ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے یہ وہی زمانہ ہے اس کے نتیجے میں ان سے انہوں نے مدد حاصل کی.اگر چہ یہ انقلاب بعد میں آیا لیکن یہ حضرت حزقیل کے زمانے میں ہی شروع ہوا تھا.چنانچہ نبو کد نضر کے دوسرے شدید حملے کے 48
خطبات طاہر جلد ۱۰ 221 خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۹۱ء سال بعد یعنی اس حملے کے 48 سال بعد جس میں اس نے یروشلم کی بستی اور فلسطین کو کلیۂ تباہ برباد کر دیا تھا.اہل فارس کی مدد سے یہود کو دوبارہ ارض مقدس پر غلبہ نصیب ہوا اور یہ واقعہ ۵۳۹ قبل مسیح کا ہے جبکہ سائرس Syrus بادشاہ کی مدد سے یہود کو واپس یروشلم میں لے جا کر آباد کر دیا گیا اور اس کے بعد پھر ان کو کئی سو سال تک وہاں رہنے کی توفیق ملی اور جیسا کہ بعض دوسری کتب میں پیشگوئی کے رنگ میں یہ درج ہے کہ یہ دونوں شہر دوبارہ کسی ہو جائیں گے اور دوبارہ گندگی اختیار کریں گے اور پھر ان کو سزا ملے گی.پس قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے کہ مقدر تھا کہ دو دفعہ تم زمین میں فساد کرو دو دفعہ تم بغاوت کر و بعینہ اسی طرح ہوا ہے پہلے فساد برپا کیا.اس کے بعد دوسری قومیں آئیں پھر انہوں نے ان کے خلاف بغاوت کی اور بغاوت کے بعد کچلے گئے ہیں.چنانچہ دوسری دفعہ کے بعد جب سزا کا سلسلہ شروع ہوا تو رومن بادشاہ Pompey نے 63 قبل مسیح میں جودا Judah پر قبضہ کر لیا اور پھر وہاں سے ان کی تباہی کا آغاز کیا لیکن اس کے باوجود 132 بعد مسیح تک یہ تباہی مکمل نہیں ہوئی 132 بعد مسیح میں Hadrian ( ھینڈرین ) جو ایک بہت بڑا رومن Emperor ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ رومن بادشاہوں کی تاریخ میں غیر معمولی مقام رکھتا ہے.یہ وہی بادشاہ ہے جس کی سلطنت انگلستان سے لے کر افریقہ تک اور پھر دریائے فرات تک پھیلی ہوئی تھی اور انگلستان بھی اس کو آنے کا موقعہ ملا.یہاں شمال میں ایک دیوار ہے جس طرح دیوار چین بنائی گئی ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ کوئی 80 میل بعض کہتے ہیں 74-76 میل ہے.یہ ایک بہت بڑی دیوار ہے جو آج تک قائم ہے یہ اسی Hadrian بادشاہ نے بنائی تھی.پس جب یہودیوں نے وہاں دوبارہ بغاوت کی تو اس بغاوت کو کچلنے کے لئے Hadrian بادشاہ نے اپنے اس جرنیل کو واپس بلا لیا جو انگلستان پر حکومت کرتا تھا اور اس نے غالباً یہاں اپنا تسلط جمائے رکھا تھا.بہت قابل جرنیل تھا اس کو بلا کر بہود کو کچلنے کے لئے بھجوا دیا.یہ واقعہ 132 ء کے لگ بھگ ہوا سو فیصدی تاریخ دان متفق نہیں.132 ء سے لے کر 133-34 تک یہ معاملہ مکمل ہو گیا تھا اس نے ان کو ایسا خوفناک مزا چکھایا ہے بغاوت کا کہ مورخین کہتے ہیں کہ 5لاکھ یہودیوں کو وہاں تہ تیغ کیا.پہلے تو مجھے خیال آیا یہ ہو نہیں سکتا.یہ غلطی ہوگی لیکن جب میں نے قرآن کریم کی پہلی پیشگوئی کو پڑھا کہ ہم تمہیں بہت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 222 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء الله اولا در یں گے اور بہت برکت تمہارے نفوس میں دیں گے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل درست تاریخی واقعہ ہے.واقعہ اس زمانے کے لحاظ سے 5 لاکھ کے قریب یہودی وہاں ہلاک کئے گئے اور مسجد کو دوبارہ نیست و نابود کر دیا گیا.پس دو دفعہ ہیکل سلیمانی تعمیر ہوا اور دو دفعہ برباد ہوا.یہ سب کچھ جب ہو چکا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُرْحَمَكُمْ وَ اِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ حَصِيرًا ابھی بھی خدا تعالیٰ کو ہو سکتا ہے تم پر رحم آجائے یعنی یہ دو ہلاکتیں پوری ہو گئیں.دو پیشگوئیاں اپنے وقت پر پوری ہو کر ختم ہوئیں لیکن عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ یہ کب ہونا ہے اور کس طرح ہونا ہے اس کے متعلق اسی سورۃ کے آخر پر یہ آیت ہے ، جو آنحضرت ﷺ کے زمانے کے مضمون سے تعلق رکھنے والی آیت ہے اور اسی مضمون میں گھری ہوئی یہ آیت ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ رحم کا واقعہ دور آخر میں حضرت محمد مصطفی امیہ کے زمانے میں آپ کی امت کے وقت میں ہونا تھا.چنانچہ فرمایا: وَ قُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ( بنی اسرائیل: آیت (۱۰۵) کہ جب وہ وعدہ آخر آئے گا جب کہ ساری دنیا سے تمہیں اکٹھا کر کے دوبارہ اس زمین پر لے کر آنا ہے تو اس وقت خدا کی تقدیر ایسا انتظام کرے گی اور تم سب لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا.یہ واقعہ پہلی دفعہ ہوا ہے.گزشتہ تاریخوں میں یہود بار بار فلسطین پر بستے رہے لیکن ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ.Diaspora یعنی وہ سارا علاقہ جہاں یہود منتشر ہوئے تھے ، ان تمام علاقوں سے دوبارہ اکٹھے کئے گئے ہوں.یہ تاریخ عالم کا پہلا واقعہ ہے.پس دیکھیں قرآن کریم کی پیشگوئیاں کس صفائی اور کس حیرت انگیز شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں اور آئندہ پوری ہوں گی.پس یہود کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر نے تم پر رحم کھاتے ہوئے اور Natsi نانسی جرمنی میں تم پر مظالم کی جو حد ہوگئی تھی ان کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا کہ بہت ہو چکی ، شاید اب تم نے سبق سیکھ لئے ہوں تمہیں معاف کر دیا گیا اور تمہیں دوبارہ وہاں ایک غلبہ عطا کیا گیا.اس غلبے کو توڑنے کی مسلمان حکومتوں کو طاقت نہیں ہوگی کیونکہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ایک فتنہ اٹھے گا جو عراق اور شام کے درمیان سے اس چھوٹے سے سمندر کے رستے سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 223 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء نکلے گا اور اس کا سارا پانی پی جائے گا جو اسرائیل میں واقع ہے، بحیرہ طبریہ اس کا نام ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے.یہ اسرائیل کے علاقے میں ایک چھوٹا سا سمندر ہے جس میں سے دریائے Jordan ہو کر گزرتا ہے.فرمایا: وہاں بہت بڑا لشکر جمع ہوگا اور وہ نکلے گا اور بہت بڑی طاقت ہے جو یلغار کرے گی.پس اگر اسرائیل نے پچھلی دو تاریخی ہلاکتوں سے سبق حاصل نہ کیا اور تلخ تجربوں سے سبق حاصل نہ کیا تو تمام دنیا کے امن کو درہم برہم کرنے کے لئے اسرائیل سے فتنہ اٹھے گا اور یہ مقدر ہے اس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اسے تباہ کریں گے اور ہم ایسا انتظام کریں گے کہ وہ اور ان کے ساتھ ساری طاقتیں جو ان کی مرد اور مددگار ہیں ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیں اور ان کو عبرت کا نشان بنادیں.آخری پیغام اس حدیث میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے گلوں میں ایسی گٹھلیاں نکالے گا اور ایسی بیماریاں پیدا کرے گا جن کے ساتھ وہ بڑے ہولناک طریق پر، بڑے وسیع پیمانے پر ہلاک ہوں گے اور یہ وہی بیماری ہے Aids جس کا میں نے ذکر کیا تھا.یہ جو میرا اندازہ ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسب ذیل پیشگوئیوں پر مبنی ہے جو کہ حدیث میں تفصیل کے ساتھ ملتی ہیں.حضرت نواس بن سمعان بیان کرتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کا ذکر فر مایا اور تفصیل سے اس کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا.یہ حدیث تو بہت طویل ہے.میں اس میں سے صرف چند فقرے یہاں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا: انــه خـارج خلة بين الشام والعراق کہ وہ شام اور عراق کے درمیان کے علاقے سے ظاہر ہوگا.دائیں بائیں جدھر رخ کرے گا قتل و غارت کا بازار گرم کرتا چلا جائے گا.پھر فرمایا :.اس میں ایسے ابر باراں کی سی تیزی ہوگی جسے پیچھے سے تیز ہوادھکیل رہی ہو.“ (جیسے آج کل کے جیٹ Jet ہوائی جہاز اڑتے ہیں ) پھر فرمایا:.کہ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو مبعوث فرمائے گا اور انہیں بذریعہ وحی یہ خبر دے گا کہ انـی قــد اخرجت عبادًا لى لا يدان لاحد بقتالهم (حوالہ) کہ میں نے اب کچھ ایسے لوگ بھی بر پاگئے ہیں جن سے جنگ کی کسی میں طاقت نہیں.“ 66 پھر مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو برپا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 224 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء ساتھ پھلانگتے ہوئے گزر جائیں گے.فرمایا:.دو یا جوج ماجوج کی اس ٹڈی دل فوج کے اگلے حصے ، فيمروا لهم على بحيرة طبرية فيشربون ما فيها ، بحیرہ طبریہ کے پاس سے گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور جب اس فوج کا آخری حصہ وہاں پہنچے گا تو کہے گا کہ یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا وہ اب کہاں گیا.ان روح فرسا حالات میں نبی اللہ مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رضی اللہ عنہم اللہ کے حضور دعائیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول فرمائے گا.فيرسل الله تعالى عليهم النغف في رقابهم اور یا جوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پیدا کر دے گا.( صحیح مسلم.کتاب الفتن ، باب الذکر الدجال ) جو بڑے پیمانے پر تیزی سے ان کی ہلاکت کا موجب بنیں گے.پھر ایک دوسری حدیث میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں.لم تظهر الفاحشة في قوم قط حتى يعلنوا بها الا فشافيهم الطاعون ولا وجاع التي لم تكن مفت فى الاسلا فهم الذين مضوا ( سنن ابن ماجہ.کتاب الفتن.باب العقوبات ) یعنی اگر کوئی قوم جنسی بے حیائی میں مبتلا ہو جائے اور اس کی نمائش کرے تو اس میں ایک قسم کی طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے جو ان سے پہلوں میں کبھی نہیں پھیلی.یہ وہ حدیث ہے خصوصیت کے ساتھ Aids کی بیماری کی طرف کھلے کھلے لفظوں میں اشارہ کر رہی ہے اور یہ Aids وہ بیماری ہے جسے ایک قسم کی طاعون کہا جاتا ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں نہیں پھیلی.دلچسپ بات ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے ایک نئی قسم کی طاعون پھیلنے کی خبر دی تھی.یہ 18 مارچ 1907ء کا الہام ہے.فرماتے ہیں.یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت ہی سخت ہوگی، ( تذکرہ صفحہ ۷۰۵ ) پس ایک یہ ہلاکت ہے جو آج نہیں تو کل مقدر ہے.اگر ان قوموں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ان کی بداعمالیوں کے نہایت خوفناک نتائج نکلیں گے.اس موقعہ پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ انذاری یعنی ڈرانے والی پیشگوئیاں ہمیشہ مشروط
خطبات طاہر جلد ۱۰ 225 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء ہوتی ہیں خواہ ظاہری لفظوں میں شرط کا ذکر ہو یا نہ ہو.اس کی واضح مثال حضرت یونس کے واقعہ میں ملتی ہے کہ ایک قطعی پیشگوئی ان کی قوم کی تو بہ اور گریہ وزاری سے ٹل گئی.پس اسرائیل کی تباہی یا بقا کا فیصلہ اگر چہ آسمان پر ہوگا لیکن اگر یہود کے معتدل مزاج اور امن پسند عناصر، انتہاء پسند صیہونیوں پر غلبہ حاصل کرلیں اور ان کی سرشت میں داخل بہیمانہ انتقام پسندی کے پنجے کاٹ دیں اور بحیثیت قوم یہود یہ انقلابی فیصلہ کرلیں کہ مسلمان ہوں یا عیسائی ہر دوسری قوم سے انصاف بلکہ احسان کا معاملہ کریں گے تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ جیسا کہ قرآن کریم میں وعدہ ہے اللہ تعالیٰ ان سے احسان کا سلوک فرمائے گا اور مسلمان بھی ان کے ساتھ عدل واحسان کا سلوک کریں گے انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ملاں کی سرشت اسلام کی سرشت نہیں.قرآن اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سرشت مسلمان کو بخشی ہے اس میں انتقام نہیں بلکہ عفو اور بخشش اور رحم کا جذبہ غالب ہے.عیسائی مغربی قوموں کو بھی میں خلوص دل سے یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ قرآن اور احادیث میں مندرج پیشگوئیوں میں آپ کے لئے جن عبرتناک سزاؤں کا ذکر ملتا ہے انہیں حقارت اور استہزاء کی نظر سے نہ دیکھیں آسمانی نوشتے کبھی زمینی چالاکیوں سے ٹالے نہیں جاسکتے اگر ٹالے جاسکتے ہیں تو کچی تو بہ اور استغفار اور پاک تبدیلی سے اگر ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت جواس کے غضب پر حاوی ہے ہر مقدر سزا کو ٹالنے یا کالعدم کرنے پر قادر ہے.پس ضروری ہے کہ اپنی سیاسی اور اقتصادی اور اخلاقی اور معاشرتی طرز فکر میں بنیادی تبدیلی پیدا کریں.ہر میدان میں بلا استثناء عدل کے تقاضوں کو قومی اور نسلی مفادات کے تقاضوں پر غالب کریں.غریب اور کمزور قوموں سے حسن سلوک کریں.اگر اسلام قبول نہیں کر سکتے تو کم سے کم تو رات اور انجیل کی پاکیزہ تعلیم ہی کی طرف لوٹیں اور اپنی تہذیب کو ہر لحظہ بڑھتی ہوئی بے حیائی سے پاک کریں.اگر آپ ایسا کریں تو آپ کی تقدیر شر، تقدیر خیر میں بدل جائے گی اور اہل اسلام اور دوسرے بنی نوع انسان کے ساتھ مل کر آپ کو ایک نظام نو کی تعمیر کی تو فیق ملے گی اور انسان کا امن عالم کا خواب حقیقت میں ڈھل جائیگا.اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو نظام کہنہ تو بہر حال مٹایا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سی قوموں کی عظمتیں بھی مٹادی جائیں گی اور ہمیشہ کیلئے ان کی جاہ وحشمت خاک میں مل جائے گی مگر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 226 خطبہ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء میری تو یہی تمنا اور یہی دعا ہے کہ نظام جہان نو ، تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات پر نہیں بلکہ تبدیل شدہ اور اصلاح پذیر قوموں کی آب و گل سے تعمیر کیا جائے.جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہمیں تو ہمارے خدا نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ تم کمزور ہو.چودہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ نصیحت فرما دی تھی کہ خدا نے اتنی بڑی بڑی تو میں آئندہ نکالنی ہیں کہ دنیا میں کسی انسان کو ان کے مقابلے کی طاقت نہیں ہوگی اس لئے دنیاوی ہتھیاروں سے ان کے مقابلے کی کوشش کا خیال بھی دل میں نہ لانا.یہ مسلم کی کتاب الفتن کی حدیث ہے ہر شخص اس میں مطالعہ کر سکتا ہے.فرمایا ! دعا کے ذریعے ہو گا جو کچھ ہو گا.خدا کی نقدید ان کو مارے گی اور خدا کی تقدیر یہ فیصلہ اس وقت کرے گی جب یہ طاقتور قو میں دنیا سے بدی کا فیصلہ کریں گی.چونکہ خدا نے دنیا کو نہتا کر رکھا ہے مجبور کر رکھا ہے اور ایک طرف طاقتوں کو بدی کا موقع عطا کر دیا ہے اس لئے لازماً اپنے کمزور بندوں کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر ہوگی.پس اس کی آسمانی تائید کو حاصل کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ خدا سے تعلق جوڑا جائے اور جس حد تک ممکن ہوا اپنے نفوس کی اصلاح کی جائے.اسلام کے نام پر آئندہ کبھی کوئی بدی اختیار نہ کی جاۓ.Terrorism کا تصور ہی مسلمانوں کی لغت سے نکل جانا چاہئے.شرارتیں کرنا اور دوسروں کو دیکھ دے کر بعض مسائل کو زندہ رکھنا یہ جاہلانہ باتیں ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.خود امن میں آجاؤ،خود اپنے تعلقات کو درست کر لو.غیر قوموں سے اپنے تعلقات کو درست کرو اور صبر کے ساتھ انتظار کرو پھر دیکھو کہ کس طرح خدا کی تقدیر دنیا کی ہر دوسری قوم کی تدبیر پر غالب آجائے گی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا! آج خطبہ گزشتہ دو خطبوں سے بھی زیادہ لمبا ہو گیا ہے کیونکہ میں اس کو ختم کرنا چاہتا تھا.یہ ایک مجبوری تھی جو اس مضمون کو زیر بحث لایا گیا ہے ورنہ دل یہی چاہتا ہے کہ واپس اپنے پہلے مضمون کی طرف جلد لوٹیں یعنی یہ کہ عبادت کیا ہے اور اس کی کیا لذتیں ہیں، یہ لذت کس طرح حاصل کی جاتی ہے.سورہ فاتحہ کیا سبق دیتی ہے.تو میں یہ فیصلہ کر کے آج آیا تھا کہ چاہے جتنی دیر ہو جائے اس مضمون سے آج پیچھا چھڑا لینا ہے اور دوبارہ اپنے دائمی مضمون کی طرف یعنی جہاد اکبر کی طرف لوٹنا ہے تو انشاء اللہ آئندہ خطبے سے پھر وہی نماز کا مضمون شروع ہو گا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 227 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک الحمد کے مضمون میں 99 صفات باری تعالیٰ شامل ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ابھی دوروز تک رمضان مبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے.جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کو بھٹی کی طرح قرار دیا جس میں زنگ آلود لوہا جب لوٹایا جاتا ہے تو اس کا زنگ، اس کی آلودگیاں جل کر خاک ہو جاتی ہیں اور وہ صاف شفاف ہو کر دوبارہ باہر نکلتا ہے، اسی طرح وقت کے لحاظ سے رمضان کا ظرف بھی بھٹی کا حکم رکھتا ہے اور رمضان کے لفظ میں بھی گرمی اور شعلوں کی تیزی اور بھسم کر دینے والے معنی پائے جاتے ہیں.پس ان معنوں میں رمضان کا مہینہ ہمارے گناہوں ، ہماری آلودگیوں ، ہماری گزشتہ غفلتوں کو جلانے کا کام دے گا اگر ہم اپنے آپ کو اس مہینے کے حضور پیش کر دیں.اور مہینے کے حضور پیش کرنے میں ایک یہ بھی مضمون شامل ہے کہ اپنے مختلف پہلوؤں کو بدل بدل کر اس مہینے کے سامنے رکھیں.جس طرح ایک انسان جب آگ پر کوئی چیز بھونتا ہے تو اس کے پہلو بدلتا رہتا ہے ورنہ ایک پہلو جو آگ کے دوسری طرف ہو وہ ٹھنڈا رہ جاتا ہے.پس رمضان مبارک میں بھی انسان کو اپنی بدیاں تلاش کر کے مختلف پہلوؤں سے رمضان کے حضور پیش کرنی چاہئیں اور اس پہلو سے اگر آپ غور کریں تو آپ کو یوں لگے گا کہ جیسے انسان اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 228 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء مہینے میں ہمیشہ کروٹیں بدلتا ہوا مختلف پہلوؤں سے خدا سے التجائیں کرتا ہوا، مختلف زاویہ ہائے نظر سے اپنی کمزوریوں کا مطالعہ کرتا ہوا مسلسل ایک نئی کیفیت کے ساتھ گزرتا چلا جائے گا یعنی رمضان مبارک میں یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی کیفیت سے داخل ہوں اور اسی کیفیت سے باہر آئیں بلکہ ہر روز ایک نیا مضمون آپ پر ظاہر ہوتا چلا جائے گا.ہر روز رمضان مبارک کی نئی برکتیں آپ کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر اس طرح آپ جستجو اور محنت سے اس مہینے سے گزریں گے تو ایک نیا وجود پا کر نکلیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.جب اس مہینہ سے نکل جاتے ہیں تو پھر واپسی کا دور بھی شروع ہو جایا کرتا ہے اور اسی رمضان مبارک میں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ جس مقام سے چلے تھے اگلے رمضان مبارک میں داخل ہوتے وقت اس مقام پر نہ پہنچ چکے ہوں اور بلکہ خطرہ ہے کہ اس سے نیچے نہ گر چکے ہوں.بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان رمضان مبارک میں سے نیک نیت کے ساتھ گزرتا ہے.جدوجہد کے ارادے لے کر داخل ہوتا ہے.پھر اسے اپنے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی توفیق بھی ملتی ہے اور وہ رمضان سے بہت کچھ پاتا ہے اور بہت بدیاں چھوڑ کر اس مہینے سے باہر آتا ہے لیکن جب وہ باہر آتا ہے تو پھر از سرنو وہی غفلتوں کا دور شروع ہو جاتا ہے اور وہی سستیاں جن کے نتیجے میں جگہ جگہ گندگی جمع ہونی شروع ہو جاتی ہے ، عود کر آتی ہیں.ایسی صورت میں بعض دفعہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ آئندہ رمضان کے وقت انسان اپنے آپ کو اس سے بدتر حالت میں پائے جس حالت میں گزشتہ رمضان میں داخل ہوا تھا.پس رمضان کے یہ جو دو کنارے ہیں ان کے مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.داخل ہونے والا جو کنارہ ہے اس میں ہم گناہوں اور بداعمالیوں سے بوجھل ہوکر داخل ہوتے ہیں.بہت سے داغ ہمارے چہرے پر لگے ہوئے ہوتے ہیں.بہت سی کثافتیں ہمارے جسم کو گندا کئے ہوئے ہوتی ہیں.ہم صفائی کی نیت سے اور پاک نیت سے رمضان مبارک میں داخل ہوتے ہیں، نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر باہر نکلتے ہیں اور پھر اچانک یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب محنتوں کا دور ختم ہوا.عید کے ساتھ ہی یہ دھو کہ لگ جاتا ہے کہ یہ عید نیکیوں کی عید نہیں بلکہ گناہوں کی زندگی کی طرف لوٹنے کی عید ہے.شعوری طور پر انسان یہ نہیں کرتا لیکن لاشعوری طور پر دنیا کے اکثر انسانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے اور وہ معلوم بھی نہیں کر سکتے کہ ہم کیوں خوش ہیں اور یہ خوشی کہیں خیر کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ پردے میں چھپا ہوا شر تو نہیں.229 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء پس جو باتیں میں آپ کے سامنے کھول کر رکھ رہا ہوں، ان کے مضمون پر جب آپ غور کریں گے تو زیادہ محتاط ہو جائیں گے.پھر دوسری شکل یہ ہے کہ جو شخص ہر سال اپنے آپ کو پہلے سے بدتر حالت میں پائے یا ویسی ہی حالت میں پائے وہ خطرے سے باہر نہیں ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت احدیت جل شانہ نے جو یہ فرمایا کہ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ نَّكَ مِنَ الْأولى (اضحی : ۵) کہ تیری آخرت پہلے سے بہتر ہے تو یہ بہت وسیع مضمون ہے اس کا میں بارہا ذکر کر چکا ہوں لیکن یہ ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے.ہراچھی صورتحال پر اس کا اطلاق ہوتا ہے پس اس نظر سے اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ ہمارا بعد کا آنے والا رمضان گزرے ہوئے رمضان سے بہتر رہا کہ نہیں اور ہمیں اس سے بہتر حالت میں پانے والا بنا کہ نہیں اور اس سے بہتر حالت میں چھوڑنے والا بنا کہ نہیں.یہ تین نقطہ ہائے نگاہ ہیں جن سے اپنے حالات پر غور کرنا چاہئے اور رمضان سے اپنے تعلقات کو سمجھنا چاہئے.اس رمضان میں خصوصیت سے عالم اسلام کے لئے دعا کی ضرورت ہے.بہت سے امور میں گزشتہ خطبات میں آپ کے سامنے کھول کر رکھ چکا ہوں.بہت سے ایسے خطرات ہیں جو مجھے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں تھا بلکہ بعض کا تو میں ذکر بھی نہیں کر سکا لیکن بعض اشاروں میں ان کے متعلق باتیں ہو چکی ہیں.چونکہ میں اب اس مضمون کو ختم کر چکا ہوں اس لئے دوبارہ اس مضمون کو چھیڑ نا نہیں چاہتا لیکن یہ میں آپ کو مختصر ابتا دیتا ہوں کہ آئندہ چند ماہ کے اندر مسلمانوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ دنیا کی تقدیر کے متعلق بعض ایسے خوفناک فیصلے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں ساری صدی دکھوں سے چور ہو جائے گی اور نہایت ہی درد ناک زمانے کا منہ انسان دیکھے گا اور کچھ ایسے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں شیطان کی اجتماعی قوت کے ساتھ جو آخری بھر پور حملہ ہونے والا ہے اس کا دفاع کرنے کی انسان کو اور خصوصیت سے مسلمانوں کو تو فیق مل جائے کیونکہ اگر مسلمانوں نے اس کا دفاع کر لیا تو تمام بنی نوع انسان مسلمانوں کے دفاع کے پیچھے حفاظت میں آجائیں گے اور مسلمانوں کے دفاع کی سب سے بڑی ذمہ داری احمدیوں پر عائد ہوتی ہے اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کی بناء حضرت اقدس محمد مصطفی رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 230 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آخری دور میں جب بلائیں اپنی انتہا کو پہنچ جائیں گی تو اس وقت مسیح موعود کی دعائیں ہی ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے اسلام کو اور دنیا کو بچائیں گی.پس اس پہلو سے یہ رمضان عین وقت پر آیا ہے یعنی جب بلا ئیں کھل کر سامنے آچکی ہیں اور کچھ ان کے پس پردہ مخفی ارادے ہیں جو ظاہری ارادوں سے بھی بدتر ہیں لیکن ہمیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اس بلا کے پیچھے پیچھے اور بھی بہت سی بلائیں آنے والی ہیں.اس وقت ہم رمضان مبارک میں داخل ہور ہے ہیں اور دعاؤں کا خاص موقع ہمیں میسر ہوگا.پس اس رمضان مبارک کو خصوصیت کے ساتھ بنی نوع انسان کے دفاع کا رمضان بنادیں.مسلمانوں کے دفاع کا رمضان بنادیں.انسانیت کے دفاع کا رمضان بنادیں اور اسلام کے دفاع کا رمضان بنادیں اور دعا یہ کریں کہ اے خدا! ہم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اتنی بڑی بڑی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو خود تو نے پیدا کی ہیں اور جن کی خبر تو نے اصدق الصادقین حضرت اقدس محمد اللہ کے ذریعے ہمیں 1400 سال پہلے عطا فرما دی تھی.پس ہم کمزور ہیں، نہتے ہیں، بے طاقت ہیں اور ہمارے مقابل پر جو طاقتیں ہیں ان کو تو نے ہی اتنی دنیاوی عظمت بخش دی ہے کہ ہم ان کے سامنے بالکل بے بس ہیں ، پس تیری ہی طرف ہم جھکتے ہیں، تجھ سے ہی رجوع کرتے ہیں، تجھ سے ہی عاجزانہ دعائیں کرتے ہیں کہ ان پیشگوئیوں کے دوسرے حصوں کو بھی سچا کر دکھا، یعنی مسیح موعود اور آپ کی دعاؤں کی برکتوں سے دنیا کی یہ عظیم طاقتیں اپنے ایسے دنیا وی خزائن کے ذریعے جن کے مقابل پر ہمیں ایک دمٹری کی بھی حیثیت حاصل نہیں دنیا کے ایمان خرید رہی ہیں.تو ہی ہے جو اس دنیاوی دولت کے شر سے لوگوں کو بچا.یہ اپنے ایسے عظیم ہتھیاروں کے ذریعے جو پہاڑوں کی طرح بلند ہیں اور جن کی ڈھیریاں پہاڑوں کے برابر ہیں اور جن کے اندر ہلاکت کی ایسی طاقتیں ہیں کہ صرف اگر ایٹم بم کو ہی استعمال کیا جائے یعنی ایٹم بم کے ان ذخائر کو استعمال کیا جائے جو امریکہ اور روس میں ہیں تو سائنسدان بتاتے ہیں کہ یہ ساری دنیا بیسیوں مرتبہ ہلاک کی جاسکتی ہے اور ان میں اتنی ہلاکت کی طاقت ہے کہ صرف دنیا میں بسنے والے انسان ہلاک نہیں ہوں گے بلکہ اس دنیا سے زندگی کا نشان تک مٹ سکتا ہے.پس یہ دعا کرنی چاہئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 231 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء کہ اے خدا! تو نے ان بد بختوں کو دولتیں بھی اتنی دے دیں کہ ان کے مقابل پر سارے عالم اسلام کی مجموعی دولت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور پھر ہتھیار بھی ان کو ایسے عطا فرما دیئے کہ جن میں سے صرف ایک ہتھیار کے ایک حصے کو استعمال کر کے یہ دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور مقابل پر ہمیں احمدیوں کو کھڑا کر دیا ہے جن کے پاس کچھ بھی نہیں جو ایک بہت ہی غریب جماعت ہیں.لیکن ساتھ ہی ہمیں خوش خبری بھی دی اور یہ خوش خبری دی کہ تمہاری دعاؤں کو میں سنوں گا اور ان دعاؤں کی برکت سے میں بالآخر ان عظیم قوموں کو پارہ پارہ کردوں گا.اور آنحضرت ﷺ نے نقشہ یہ کھینچا ہے کہ جس طرح نمک سے برف پگھلتی ہے اس طرح تمام دجالی طاقتیں جو انسانیت اور حق کی دشمن ہیں وہ برف کی طرح پگھل کر غائب ہو جائیں گی جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا تو دعاؤں کی طاقت آپ کے پاس ہے.اس عظمت کو پہچانیں اور یا درکھیں کہ یہ عظمت انکساری میں ہے.اس بات کو کبھی نہ بھولیں.دنیا کی طاقتوں اور مذہبی طاقتوں میں یہ بنیادی فرق ہے کہ دنیا کی طاقتیں تکبر پر منحصر ہوتی ہیں اور مذہبی طاقتیں عجز پر منحصر ہوتی ہیں.پس دعا میں اتنی زیادہ رفعت پیدا ہوگی جتنا آپ خدا کے حضور جھکیں گے.دعا میں اتنی ہی زیادہ طاقت پیدا ہوگی جتنا آپ بے طاقتی محسوس کریں گے.آپ کی بے بسی کے نتیجے میں دعاؤں کو قو تیں عطا ہوں گی.پس اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس رمضان سے حتی المقدور فائدہ اٹھائیں اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ بے بسی کے عالم میں خدا کے حضور بچھ جائیں کہ اے خدا! ان بڑی بڑی طاقتوں کے شر کے ارادوں کو باطل کر دے اور جوان کی خیر ہے وہ باقی رکھ.ہمیں کسی قوم سے من حیث القوم نفرت کی اجازت نہیں ہے.نہ نفرت ہمارے خمیر میں داخل فرمائی گئی ہے اس لئے ہم دنیا کی جاہل قوموں کی طرح مغربی طاقتوں کے خلاف نہ دعائیں کر سکتے ہیں نہ نفرت کے جذبے رکھ سکتے ہیں.ہم شر سے متنفر ہیں اور اپنی دعاؤں کو خصوصیت کے ساتھ شر کے خلاف رکھیں.قومی اور عصبیتی رنگ میں بعض قوموں کی ہلاکت کی دعائیں نہ کریں.یہ دعا کریں کہ اے خدا! جو مشرق میں تیرے عاجز بندے ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ شر وابستہ ہیں ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 232 خطبہ جمعہ ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء کے شر کو بھی مٹادے اور جو مغرب کی عظیم طاقتیں ہیں جو ساری دنیا پر غالب ہیں ان کے شر کو بھی مٹادے.ان کا شر اس لئے زیادہ خطرناک ہے کہ طاقتور کا شر ہمیشہ زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے، طاقت ور کا شر زیادہ پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے.طاقت ور کا شردنیا کی خیر کو مٹا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ تیسری دنیا کی قوموں میں شر نہیں ہے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ مشرق معزز ہے اور مغرب ذلیل ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ اس وقت مغرب میں جو شر پھیلانے کی طاقت ہے ویسی طاقت تاریخ میں کسی قوم کو کبھی عطا نہیں ہوئی اور یہ بات حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے بیان فرمائی ہے کہ آخری زمانے میں جب دجال ظاہر ہو گا تو اس کا اتناثر دنیا میں پھیلے گا اور اسے شر پھیلانے کی اتنی طاقت نصیب ہوگی کہ جب سے دنیا بنی ہے خدا کے تمام انبیاء کو دجال کے شر سے ڈرایا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ آئندہ زمانے میں ایک شر پھیلانے والی اتنی بڑی قوم بھی دنیا میں ظاہر ہوگی.پس کسی عصبیت کے جذبے کی بنا پر نہیں کسی قومی یا نسلی تفریق کی بناپر نہیں بلکہ خالصہ ان پیشگوئیوں کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے صحیح نشانے کی دعا کریں ورنہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعاؤں میں آپ کی نیتوں کا شر شامل ہو چکا ہو.قومی عصبیتوں کا شر شامل ہو چکا ہو.نسلی تفاوت کا شر شامل ہو چکا ہو اور کئی قسم کے ایسے شر ہیں جو مخفی طور پر انسان کی دعاؤں میں لگ جاتے ہیں اور ان کے اندر زہر گھول دیتے ہیں وہ مقبول دعا ئیں نہیں رہتیں.پس اس تفصیل سے آپ کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ محض رونے اور گریہ وزاری سے دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں.دعاؤں کو اپنی مقبولیت کے لئے ایک خاص پاکیزگی اور صحت چاہئے اور جس رنگ میں آنحضرت نے دعائیں مانگیں اور دعائیں سکھائیں وہی رنگ اختیار کریں اور اپنے نفس کو اپنے شر سے بھی صاف رکھیں اور ہر قسم کے دوسرے شرور سے بھی پاک کریں اور خالصہ اللہ دعا کریں نہ کہ قومی نفرتوں کی بنا پر تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی اور یہ عظیم تاریخی دور جس میں ہم داخل ہوئے ہیں اس کا پلہ بالآخر انشاء اللہ اسلام کے حق میں ہوگا اور اسلام کے غالب آنے کی تقدیر تو بہر حال مقدر ہے یعنی نہ مٹنے والی اٹل تقدیر ہے مگر ہماری دعا اور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اس تقدیر کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ لیں.اس کے بعد اب میں واپس اسی مضمون کی طرف آتا ہوں جس کا میں نے ذکر کیا تھا یعنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 233 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء سورۃ فاتحہ کے ذریعے نماز میں لذت حاصل کرنا اور سورہ فاتحہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی صفات کی سیر کرنا اور خدا تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنا.یہ مضمون تو لا متناہی مضمون ہے لیکن ایک دو اور خطبات اس مضمون پر اس لئے دوں گا تا کہ ہر انسان اپنے اپنے ذوق کے مطابق استفادہ کرتے ہوئے پہلے سے بہتر صحت مند نمازیں پڑھ سکے.پہلے سے بہتر لذت والی نمازیں پڑھ سکے اور اپنی نمازوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے.میں نے یہ بیان کیا تھا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتح:۲) کے ساتھ جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ چار بنیادی صفات ہیں اور تمام صفات باری تعالیٰ کے لئے یہ ماں کا حکم رکھتی ہیں اور ہر صفت ان میں سے کسی نہ کسی سے پھوٹی ہے یا خاص تعلق رکھتی ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے ایک مرتبہ میں نے دعا کے ذریعے مدد چاہی کہ اللہ تعالیٰ اس کو مجھ پر اور کھول دے تاکہ کوئی ایسا نکتہ میں جماعت کو سمجھا سکوں جس سے ہر شخص بڑی آسانی کے ساتھ فائدہ اٹھا سکے ، ورنہ رحمانیت ، رحیمیت ، مالکیت وغیرہ کے اوپر انفرادی طور پر غور کر کے دیگر صفات باری تعالیٰ سے ان کا تعلق تلاش کرنا ایک مشکل اور دقیق مضمون ہے جس پر ہر کسی کو دسترس نہیں، ہر شخص جس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بات سمجھادی جو آج میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ تمام صفات باری تعالیٰ کا تعلق صرف ربوبیت سے نہیں.صرف رحیمیت سے نہیں، رحمانیت سے نہیں ، مالکیت سے نہیں بلکہ سورہ فاتحہ کے اس پہلے بیان سے ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ یعنی ربوبیت سے نہیں بلکہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ سے ہے اور اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے ساتھ ہے اور الرحیم کے ساتھ اور ملت کے ساتھ ہے.گویا اسی حمد کے جوڑ کے ساتھ.چنانچہ جب میں نے اس پر غور کیا تو میں حیران رہ گیا کہ صرف الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے مضمون میں وہ تمام صفات بھی بیان ہوگئی ہیں جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ تمام صفات بھی اس کے اندر شامل ہوگئی ہیں جو ہمیں معلوم نہیں مگر ہم سے زیادہ عالم لوگوں کو معلوم ہیں یا اس زمانے کو معلوم نہیں آئندہ زمانے کو معلوم ہوں گی.اس مضمون کو میں مزید کچھ کھول کر بیان کرتا ہوں تا کہ پھر آپ غور کے ذریعے اس سے مزید استفادہ کر سکیں.رب کے بہت سے معانی ہیں.اگر پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا اور ترقی دینے والا اور محبت سے خیال رکھنے والا اور روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے والا اور کمزوریوں کو دور کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 234 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء والا اور غیروں کے شر سے بچانے والا اور حفاظت کرنے والا ، یہ معنی سامنے رکھیں تو انسانوں میں سے بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں اور بہت سے ایسے وجود جانوروں میں سے بھی ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں رب کہلا سکتے ہیں.مائیں ہیں جو اپنے بچوں کے لئے رب بن جاتی ہیں خواہ وہ انسانی مائیں ہوں یا جانوروں کی دنیا کی مائیں ہوں.خواہ وہ ادنی زندگی سے تعلق رکھنے والی مائیں ہوں یا اعلیٰ زندگی سے تعلق رکھنے والی مائیں ہوں ان سب میں ربوبیت کا مضمون پایا جاتا ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ تمام صفات کی حامل ہیں.پس محض ربوبیت کے نتیجے میں تمام صفات پر حاوی ہونے کا مضمون پیدا نہیں ہوتا اور زبردستی کر کے کوئی انسان کہنا چاہے کہ رب کا معنی ہے : ہر صفت کی ماں ، ہر صفت سے ماں والا تعلق رکھنے والا تو یہ درست نہیں ہوگا لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو یہ تمام جہانوں کا ایسا رب ہے جس کی ربوبیت میں تمام حمد شامل ہے اور حمد کے سوا کچھ بھی نہیں.یعنی ربوبیت کے جتنے بھی جلوے ظاہر ہوئے ہیں ہر جلوے پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس جلوہ افروز ہونے والے رب میں تمام صفات حسنہ پائی جاتی ہیں اور حمد پائی جاتی ہے.پس ایسی ربوبیت جس میں کوئی نقص نہ رہا ہو اور ایسی ربوبیت جو اپنی حمد کی وجہ سے بعض اور صفات کی متقاضی ہو جائے اس کی بے شمار مثالیں ہیں، ایک مثال دیتا ہوں.آپ ایک ٹیلی ویژن کا سیٹ دیکھ لیں.اس ٹیلی ویژن کے سیٹ میں آپ مختلف ممالک سے آنے والی تصویر میں بھی دیکھ سکتے ہیں اور ایک ملک میں دکھائی دینے والی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں ، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ سیٹ کس طاقت کا ہے اور کس قسم کا ہے.پھر اچھی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں ، بری بھی ،شور والی بھی ، کم شور والی بھی ،شور کے ساتھ بھی اور رنگ بھی مختلف دیکھ سکتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے جب چاہیں اس ٹیلی ویژن کا تعلق جس ملک سے چاہیں فوراً کرلیں اور پھر بعض دفعہ یہ کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے جو چاہیں اس سے کروالیں تو ٹیلی ویژن کا ایک سیٹ ہے جس کی یہ عام صفات آپ کو معلوم ہیں کہ بڑی اچھی صفات ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ غور کرتے ہیں کہ ٹیلی ویژن بنانے کے لئے کتنے علم کی ضرورت ہے اور کتنے مختلف قسم کے علوم کی ضرورت ہے اور صنعت و حرفت میں کس کس چیز پر کمال کی ضرورت ہے اور اس کے ہر پرزے کے لئے انسانی علم کے کتنے وسیع
خطبات طاہر جلد ۱۰ 235 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء ذخیرے کی ضرورت ہے.یعنی انسانی علم تو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا چلا جاتا ہے لیکن محض ایک وقت کا علم کافی نہیں ہوا کرتا.ترقی کرنے کے بعد اس علم کی ساری تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے اور اس کا جو مجموعہ ہے وہ یہ ہے جو باقی گزشتہ علوم کے مراحل پر فضیلت رکھتا ہے.پس ایک ٹیلی ویژن میں اگر کوئی سلیکان چپ Silicon Chip استعمال ہوا ہے جس کے اندر بہت سے پیغامات بھر دیئے گئے ہیں تاکہ ٹیلی ویژن اس کے ذریعہ سے زیادہ اچھا کام کرے تو سلیکان چپ کو پیدا کرنے کے لئے جتنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور جتنے علوم کی ضرورت ہے وہ سینکڑوں سال کے علوم کا مجموعہ ہے اور صنعت و حرفت کے لحاظ سے جتنی مہارت کی ضرورت ہے وہ بھی ایک لمبے دور کے مجموعے کا نام ہے اور پھر ایک وقت میں ایک انسان کے بس کی بات نہیں.ایک وقت کے مختلف انسانوں اور مختلف قوموں کے انسانوں کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے پس ایک ٹیلی ویژن بنانے والا ایک شخص تو ہو نہیں سکتا لیکن انسانوں کا وہ مجموعہ جس نے ٹیلی ویژن بنایا اس کے پیچھے اور بہت سے انسانوں کے مجموعے قطار در قطار آپ کو دکھائی دیں گے اور ان سب کے علوم کا اور ان سب کی مہارتوں کا آخری خلاصہ اس ٹیلی ویژن کی شکل میں آپ دیکھ رہے ہیں جس کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس وقت موجود ٹیلی ویژنز میں سے دنیا کا بہترین ٹیلی ویژن ہے.جتنا اچھا ٹیلی ویژن ہوگا اتنا ہی زیادہ صاحب علم لوگوں کی ضرورت ہوگی.اتنا ہی زیادہ صاحب فن لوگوں کی ضرورت ہوگی.اتناہی زیادہ وسائل پر اختیار رکھنے کی ضرورت ہوگی.اتنا ہی زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوگی.غرضیکہ یہ کہ ایک ٹیلی ویژن کے ساتھ متعلق انسانوں کا ایک ہجوم دکھائی دے گا بلکہ لاکھوں کروڑوں انسان ہیں جنہوں نے مختلف وقتوں میں کچھ نہ کچھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے خواہ وہ مرچکے ہیں اور اتنے علوم اس کے لئے درکار ہیں کہ عام انسان ان کی فہرست بھی پیش نہیں کر سکتا.اگر فہرست اس کے سامنے پڑھی جائے تو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کیا باتیں ہورہی ہیں.اب شرط یہ ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کامل ہوا اور اس کو دیکھ کر حمد کا یہ مضمون انسان کے ذہن میں ابھرے.پس اس ٹیلی ویژن کے اوپر آپ جتنا زیادہ کہہ سکتے ہوں کہ کیا کہنے ہیں اس ٹیلی ویژن کے؟ تمام حمد اس کے لئے ہے تو اتنا ہی زیادہ اس کے خالق کے لئے یا وہ تمام وجود جنہوں نے اس کی خلق میں حصہ لیا ہے ان سب کے لئے حمد کا مضمون ثابت آئے گا لیکن ٹیلی ویژن میں جوحمد جمع ہوئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 236 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء ہے وہ کسی ایک شخص کے لئے نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مختلف زمانوں میں پھیلے ہوئے علوم میں محنتیں کرنے والے بے شمار انسان ہیں جنہوں نے اس کو بنانے میں حصہ لیا ہے اور اس وقت اس دنیا میں بھی جس کا رخانے میں وہ بنا، ٹیلی ویژن کی ساری ضرورتیں اس کارخانے میں پوری نہیں ہوئیں بلکہ دنیا کے مختلف کارخانوں سے کچھ پرزے حاصل کئے گئے ، کچھ ٹیکنالوجی عاریۂ لی گئی ، کوئی اور مدد حاصل کی گئی تو اس کی تعریف ٹیلی ویژن میں تو مجتمع ہوئی لیکن بنانے والوں کے لحاظ سے منتشر ہوگئی اور بے شمار انسانوں کے حصے میں آئی اور مختلف زمانوں کے حصے میں آئی.خدا تعالیٰ کے متعلق جب ہم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہیں تو اس کی تخلیق کی ہر صنعت کی ہر خوبی بہت سے علوم کا تقاضا کر رہی ہے، بہت سی صفات کا تقاضا کر رہی ہے اور خدا کی صنعت پر واقعہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ واقعہ ہر تعریف کے لائق وہ ذات ہے جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے.پس صرف اس وقت کی تعریف نہیں بلکہ ان تمام زمانوں کی تعریف ہے جن زمانوں کی طرف العلَمِینَ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے اور اس تمام کائنات کے ہر ذرے میں موجود صفات کی تعریف جن کی طرف لفظ العلمین اشارے کر رہا ہے، یہ مجتمع ہو کر پھر بکھرتی نہیں بلکہ ایک ذات میں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور وہ ذات اللہ ہے تو اگر آپ صرف ایک جانور کو اپنے پیش نظر رکھ لیں اور اس کی تخلیق کے مختلف مراحل میں مختلف قسم کے جتنے علوم کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور جتنی مختلف صفات کی ضرورت پیش آسکتی ہے کہ جن صفات کے بغیر وہ چیز بن نہیں سکتی.اور اسی طرح ہر وہ چیز جس پر آپ نظر ڈالیں اور گہری نظر ڈالیں وہ قابل تعریف دکھائی دے تو اس کے بنانے والے کی ہر صفت قابل تعریف ہو جائے گی کیونکہ وہ وجود ان تمام صفات کی جلوہ گری کا ایک آخری مظہر ہے یعنی آخری صورت میں ظاہر ہونے والا منظر ہے جو آپ کو دکھائی دے رہا ہے.پس خدا تعالیٰ کے لئے جب ہم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہتے ہیں تو دنیا کے ہر مشاہدے میں آپ کو خدا تعالیٰ کی ایک صفت کی بجائے بیسیوں بلکہ سینکڑوں بلکہ جتنا آپ کا علم بڑھتا چلا جائے گا اتنی ہی زیادہ صفات دکھائی دینے لگیں گی اور ہر صفت کا منع الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ نظر آئے گا.اس مضمون پر جب میں نے غور کیا تو یوں کہنا چاہئے کہ عقل بالکل حیران و ششدر رہ گئی.یوں لگتا تھا کہ انسان عالم حیرت میں غرق ہو گیا ہے.کائنات کے کسی ذرے میں آپ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 237 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء ڈوب کر دیکھیں تو پہلے ایک خدا دکھائی دے گا ، پھر اس ایک خدا کے مختلف جلوے دکھائی دیں گے اور اس کی صفات بڑھتی رہیں گی مگر مرکز ہمیشہ وہی ایک ذات رہے گی.انتشار صفات کا ہے ذات کا نہیں اور اس ذات سے تعلق رکھنے والی ساری صفات ہیں.اس مضمون کو سمجھنے والی چابی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میں ہے یعنی اس رب کو ہر صفت لائق اور زیب ہے جس نے تمام جہانوں کو پیدا کیا اور تمام جہانوں کی پرورش کی.پس العلمین کا ہر وہ ذرہ خدا کی طرف اشارے کر رہا ہے اور ایک ذات کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود اس کی تمام صفات کی طرف بھی اشارے کر رہا ہے.یہ وہ پہلو ہے جس پہلو سے خدا تعالیٰ کا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کا جملہ یا بیان واقعہ بغیر کسی تردد کے بغیر کسی تصنع کے خدا تعالیٰ کی تمام صفات کی طرف انگلیاں اٹھارہا ہے لیکن اس ضمن میں ایک احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں جس رنگ میں حمد کا مضمون بیان ہوا ہے اس کا مطالعہ کریں اور غور سے یہ بات دیکھیں کہ جہاں جہاں بھی قرآن کریم نے حمد کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں خدا کی صفات کو سمجھنے کی کھڑکیاں کھولی گئی ہیں اور ہر کھڑ کی ذات کے الگ جلوے دکھا رہی ہے اور اس مضمون کو کھولتی چلی جاتی ہے.پس بجائے اس کے کہ اپنے ذوقی نکتوں کے ذریعے آپ اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کریں قرآن کریم نے خود جو کھڑکیاں کھولی ہیں ، جو روزن ہمارے سامنے رکھ دیئے ہیں ان سے خدا تعالیٰ کی صفات کا معائنہ کریں تو کسی قسم کی غلطی نہیں کریں گے.میں نے کہا تھا کہ خدا ظالم نہیں ہے اس کے باوجود سزا کا مضمون ملتا ہے.رب العالمین ، رحمان، رحیم ، مالک کا ذکر ہے.غضب ناک خدا کا کوئی ذکر نہیں، اس کے باوجو دسورۂ فاتحہ ختم ہونے سے پیشتر ہی ہمیں الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا مضمون نظر آجاتا ہے تو پھر ان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ان سب کا تعلق الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ سے ہے اور یہ مضمون آپ کو قرآن کریم کی مدد سے سمجھ آئے گا اس لئے جب قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور خصوصیت کے ساتھ جہاں تسبیح کا مضمون ہو اور حمد کا مضمون بیان ہو وہاں غور کریں اور ٹھہریں اور پھر آپ دیکھیں کہ اس کھڑکی سے آپ کو اور کیا دکھائی دیتا ہے تو وہاں آپ کو بہت سی صفات باری تعالیٰ دکھائی دینے لگیں گی.اس کی ایک دو مثالیں میں نے مضمون کھولنے کی خاطر چنی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 238 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام:۴۶) وہ قومیں جنہوں نے ظلم کئے ان کو جڑوں سے اکھیڑ پھینک دیا گیا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - رَبِّ الْعَلَمِينَ خدا کو ہر حد زیبا ہے.ہر حمد اسی کی ہے.اسی کا حق ہے کہ اس کی تعریف کی جائے.اگر ظلم کرنے والے کی جڑیں نہ کاٹ دی جائیں تو خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کے ہر جلوے کی جڑیں کاٹی جائیں اور دنیا سے حسن نا پید ہو جائے تو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اس کے ساتھ بیان کر کے یہ فرما دیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ رب العلمین کو ہر حمد واجب ہے.ہر حمد اسی کا حق ہے اس کو زیبا ہے ، اسی کی شان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی چیزوں کا نگران بھی ہے اور ایسی چیزوں کو جو بعض خوبیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ایسی چیزوں کو جوحسن کو نا پید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جو بدی کو پھیلانے کی طاقت رکھتی ہیں ان کو ناپید کرنے کا کام بھی رَبِّ الْعَلَمِینَ کا ہے اور اسی کو زیبا ہے اور اس کے لئے واجب ہے کہ ایسا کرے.پس صفات باری تعالیٰ خواہ وہ غضب کی صفات ہوں یا نا راضگی کی صفات ہوں یا ظاہراً بھی رحم و شفقت کی صفات ہوں ، وہ در حقیقت رحمت اور شفقت کی ہی صفات ہیں اور ربوبیت کی ہی صفات ہیں.اس کی ایک اور مثال یہ ہے: وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَيْكَةُ مِنْ خِيْفتم (الرعد: ۱۴) کہ 'رعد' اس کی حمد کر رہی ہے یعنی بجلی کے کڑ کے جو آپ بادلوں میں دیکھتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی حمد بیان کر رہے ہیں.وَالْمَلكَةُ مِنْ خِيفَتِ، اور ملائکہ بھی حمد کر رہے ہیں مگر اس کے خوف سے ، اس کے ڈر سے.اب اگر آپ بجلی کو دیکھیں تو ایک سادہ انسان جس کو دنیا کا کوئی بھی علم نہیں ہے وہ بھی اس سے مرعوب ضرور ہو جاتا ہے.بعض دفعہ بجلی کے کڑکے کا ایک ایسا ہیبت ناک جلوہ ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے انسان کا پتہ پانی ہو جاتا اور دل لرزنے لگتا ہے.اگر انسان واقعی ایسے طوفان میں گھر جائے جس کے سائنسی اصطلاح میں بعض خاص نام رکھے گئے ہیں مگر اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں.بعض طوفان ایسی خوف ناک برقی طاقتوں پر مشتمل ہوتے ہیں کہ آنا فانا وہ بڑے بڑے شہروں کو بھسم کر سکتے ہیں اور ایک ایٹم بم کی طاقت سے بھی کئی گنا زیادہ طاقتیں ان کے اندر ہوتی ہیں.اس لئے اس کا تعلق خوف سے بھی ہے.چنانچہ جب آپ پہلی سادہ نظر میں ایک طوفان کو بجلی کو اور خصوصاً بجلی کے کڑکوں کو دیکھتے ہیں تو آپ کا دل خائف ہو جاتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 239 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء اور آپ خوف کی وجہ سے خدا کی حمد شروع کر دیتے ہیں.یہ مضمون تو سمجھ آ گیا.خوف اس بات کا کہ بجلی خیر چھوڑ جائے اور اس کے شر سے ہم محفوظ رہیں.جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے نیک وجود ہیں ان کو بھی ملائکہ کے نام سے موسوم فرمایا گیا اور ملائکہ کے طور پر ان کا بھی ذکر کیا گیا ، وہ بجلی کو دیکھ کر اس بات کی حمد کرتے ہیں کہ اے خدا! سب طاقتیں تجھ کو ہیں.بدی سے شر بھی نکال سکتا ہے ،شر سے بدی بھی پیدا کر سکتا ہے.بادل جو رحمت کا پانی لیکر آئے ہیں اور ان کے ساتھ بجلی کے کڑ کے بھی لگے ہوئے ہیں لیکن ان بجلی کے لڑکوں سے بھی تو خیر پیدا کر سکتا ہے.پس ہم تیرے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے ، تیرے حضور تذلل اختیار کرتے ہوئے تیری حمد کے گیت گاتے ہیں.ہمیں ہر چیز میں تیراحسن دکھائی دے رہا ہے.یہاں خیفی کے ساتھ حسن کے مضمون کو باندھ دیا گیا یعنی صرف بجلی کا خوف نہیں ہے.بجلی کے خوف پر جب غور ہوا تو پتہ لگا کہ اس کے اندر بہت سےحسن چھپے ہوئے ہیں.بہت سی خوبیاں چھپی ہوئی ہیں.یہ مضمون غور کرنے کے بعد اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کی تخلیق میں ، ہر چیز میں حمد ہی حمد ہے تو بجلی سے پہلے خوف پیدا ہوا اور انسان ڈر گیا اورلرز نے لگا.پھر مزید غور کیا تو اس کو پتا چلا کہ خدا محض ڈرانے والی باتیں تو نہیں کیا کرتا محض ہلاکت پیدا کرنے والی چیزیں تو نہیں پیدا کیا کرتا، اگر کوئی ایسی چیز ہمیں دکھائی دیتی ہے تو اس کے اندر ضرور کوئی چھپی ہوئی خیر ہے اور اس کی خیر اس کے ظاہری شر پر یقیناً غالب ہے.اس مضمون کو وہ تفصیل سے خواہ نہ بھی سمجھ رہا ہو لیکن اگر الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے مضمون کو سمجھتا ہے تو لازماً اس کے دل میں بجلی کے کڑکوں کو دیکھ کر بھی خوف کے بعد حمد کا مضمون پیدا ہو گا اور وہ من جملہ اس حقیقت کا اعتراف کرے گا کہ خدا کے ہر جلوے میں حسن ہے خواہ وہ جلوہ بظاہر ایک نہایت ہی خوفناک منظر پیدا کر رہا ہو.ایک دل ڈرانے والا اور ہول پیدا کرنے والا جلوہ دکھائی دیتا ہو اس کے اندر حمد ضرور ہے.اب آپ مزید غور کریں کہ وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے علم عطا فرمایا ہے وہ بجلی کے مضمون پر غور کریں تو ان کی حمد نسبتاً زیادہ حمد کی مستحق حمد ہوگی.یہ مضمون بیان کرنا ذرا مشکل تھا.اس لئے مجھے سمجھانے میں وقت لگا.حمد تو ہر حالت میں خدا ہی کو واجب ہے ،اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن کس حد تک ہمیں علم ہے کہ وہ حمد کا مستحق ہے.یہ مضمون اس کی حمد میں مزید وسعت پیدا کر دیتا ہے پس بجلی کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 240 خطبہ جمعہ ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء دیکھنے والا ایک سادہ لوح زمین دار یا ایک بچہ بھی کچھ نہ کچھ اس سے مرعوب ہوکر خدا کی حمد کے گیت گا سکتا ہے اور ان ہی معنوں میں گا سکتا ہے کہ اچھا اور کچھ نہیں تو اے خدا! تو ہی اس بجلی کا مالک ہے مجھے بچالے اور یہی میری حمد ہے.لیکن جتنا زیادہ علم بڑھے گا.اتنازیادہ زیادہ بجلی سے تعلق رکھنے والا حمد کا مضمون بھی پھیلتا چلا جائے گا.اب دنیا کے سائنس دانوں نے بجلی پر جو غور کیا ہے تو ایک بات اس میں بڑی قطعی ہے جو عام لوگوں کو معلوم نہیں کہ بجلی کے بغیر پانی برس ہی نہیں سکتا.پس ایک سادہ لوح بے علم آدمی کی حمد بھی اپنی توفیق کے مطابق چونکہ حمد کے جذبے سے بیان کی گئی ہے اس لئے خدا کو مقبول ہوگی لیکن اس کی حمد میں وہ لذت نہیں پیدا ہو سکتی جو لذت اس مضمون کا علم رکھنے والے کی حمد میں ہوگی اگر اس کو خدا سے تعلق ہو.یہ پانی جو بخارات بن کر آسمان پر چلا جاتا ہے، اگر بجلی نہ ہوتی تو یہ کبھی پانی بن کر دوبارہ زمین پر واپس نہ آتا.یہ بجلی کے کڑکے ہیں جو پانی کے باریک ذرات کو مجتمع کر دیتے ہیں اور بھاری بنا دیتے ہیں اور پھر وہ پانی و دق“ کی طرح نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے.یہ ویسا ہی ہے جیسے بجلی سے انسان مر جاتے ہیں.اس لئے وہ مرتے ہیں کہ ان کے خون میں جو لٹکے ہوئے ذرات ہیں وہ بجلی کے گزرنے سے مجتمع ہو کر Clots بن جاتے ہیں اور بھی بجلی لگے ہوئے انسان کا رنگ کالا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خون جم کر سیاہ ہو جاتا ہے تو پانی جمانے کے لئے بھی بجلی چاہئے اور وہ بار یک ذرے جو ہمیشہ ہوا میں معلق رہ جاتے ہیں یہ بجلی کے کڑکے ہی ہیں جو انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور پھر وہ بھاری ہوکر زمین پر گرنا شروع ہو جاتے ہیں تو ان غد کی پھر یہ تعریف ہے.فرشتوں نے تو اپنے طور پر تعریف کی لیکن مضمون کی گہرائی میں نہیں اتر سکے.الرَّعْدُ خود جانتی ہے کہ میں کیا چیز ہوں فرمایا:.وَيُسِحُ الرَّعْدُ بِحَمدِہ بجلی کا ہر کڑ کا اپنے رب کی حمد کر رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی طرح اچھے کاموں پر مامور ہے.اور اس کے نتیجے میں بہت سے بنی نوع انسان کو فوائد حاصل دست ہور ہے ہیں.پھر اس مضمون پر آپ مزید غور کریں تو یہ معلوم کر کے آپ حیران ہوں گے کہ دنیا کی زرخیزی کا براہ راست بجلی سے تعلق ہے.پس ایک سادہ لوح انسان، کم علم انسان تعریف تو کرتا ہے لیکن اس کی تعریف میں ڈر زیادہ شامل ہوتا ہے، بجلی کا رعب زیادہ شامل ہوتا ہے.حقیقت کا علم اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 241 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء کو نہیں ہوتا لیکن بجلی خود اپنی حقیقت کو ان معنوں میں جانتی ہے کہ جس طرح انسان خود اپنے نفس کو جانتا ہے، اسی طرح کا رخانہ قدرت بھی خود اپنے آپ کو جانتا ہے لیکن اس میں ایک اور بات داخل ہے کہ ہوا میں جو نائیٹروجن پائی جاتی ہے، یہ نائیٹروجن روئیدگی کے لئے بڑی ضروری ہے اور جتنے بھی کھیتوں میں مختلف قسم کے کیمیاء زرخیزی بڑھانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں.Artificial Fertilizers یا مختلف قسم کے گلنے سڑنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کھادیں ہوں ان سب میں جزو اعظم نائیٹروجن ہوتی ہے.اب فضا میں جو نائیٹروجن تحلیل ہو کر ہمارے ہاتھوں سے یا نباتات کے ہاتھوں سے نکل چکی ہوتی ہے اسے دوبارہ زمین میں لانے کے لئے بجلی کے کڑ کے ضروری ہیں چنانچہ وہ پانی جو آسمان سے برستا ہے.بجلی صرف اس پانی کو بنانے کا کام نہیں دے رہی ہوتی بلکہ اس میں نائیٹروجن تحلیل کرنے کا کام بھی دے رہی ہوتی ہے.آسمان پر یہ کارخانہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے کہ اگر غذا ساتھ نہ ہو تو خالی پانی کا کیا فائدہ؟ تو آسمان سے جو پانی برستا ہے وہ اپنی غذا بھی ساتھ لے کے آتا ہے تبھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ دس پانی کنویں کے دیں مگر آسمان سے برسنے والا ایک پانی کھیت کی جو حالتیں بدلتا ہے اور اس میں جو ایک نئی تازگی پیدا کر دیتا ہے اس پر دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں ہو سکتا.یعنی زمینی پانی اس میں کوئی شک نہیں ، کہ فائدہ ضرور دیتا ہے.بعض جگہوں کے پانی زرخیز بھی ہوتے ہیں لیکن بارش کے ذریعے اگر نائیٹروجن دوبارہ زمین کو نہ ملتی تو یہ زمین اب تک ویرانہ ہو چکی ہوتی.بجلی کے لڑکوں کے ذریعہ اتنی زیادہ نائیٹروجن بنتی ہے کہ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ساری دنیا میں جو کارخانے نائیٹروجن بنارہے ہوتے ہیں ان سے کہیں زیادہ نائیٹروجن بجلی کے لڑکوں کے ذریعے ایک دن میں بنتی ہے اور پھر پانی میں تحلیل ہو کر دور باہ مٹی کوملتی ہے، تو اب دیکھ لیں وَيُسِحُ الرَّعْدُ بِحَمدِہ میں کیسا عجیب ایک اور مضمون داخل ہو گیا.عام آدمی سمجھتا ہے کہ یہ جلانے کیلئے یا ہلاک کرنے کے لئے ہے.غور کیا تو پتا چلا کہ یہ جلانے اور ہلاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ روئیدگی پیدا کرنے کے لئے اور بڑھانے کے لئے اور نشو ونما کی خاطر ہے.پس اس کی ہلاکت بھی معنی رکھتی ہے اور وہ بھی فائدے ہی کے لئے ہے مگر یہ ایک Ecosystem کا مضمون ہے جس کو تفصیل سے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں.لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا جو حصہ جلانے کے کام آتا ہے وہ بھی عظیم تر فوائد کی خاطر ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 242 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء یہ تو زندگی کو سہارا دینے کا مضمون ہے یعنی ربوبیت کا وہ مضمون جو زندگی پیدا ہونے کے بعد جاری ہوتا ہے.پس يُسَبِّحُ الرَّعْد میں دیکھیں خدا تعالیٰ نے کیا کیا با تیں ہمیں دکھائیں لیکن اس کا تعلق زندگی کے آغاز سے بھی ہے.وہ تمام سائنس دان جنہوں نے زندگی کی پیدائش پر غور کیا ہے اور دنیا میں لاکھوں سائنس دان ہیں جن کے دن رات اس بات پر وقف ہیں وہ معمہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں کہ زندگی کا آغاز کیسے ہوا تھا.اس بات پر وہ سب بہر حال متفق ہو چکے ہیں کہ اگر غیر معمولی طور پر طاقت ور آسمانی بجلیاں سمندری پانیوں پر نہ گرتیں تو زندگی کا وہ مادہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا تھا جس سے آگے زندگی نے وجود پکڑنا تھا.وہ اینٹیں نہیں بن سکتی تھیں جن سے زندگی نے تعمیر ہونا تھا.پس يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمدِہ کا مضمون صرف موجودہ زمانے سے نہیں آئندہ زمانوں سے نہیں بلکہ ابتدائے آفرینش سے بھی ہے یعنی ابھی زندگی وجود میں ہی نہیں آئی تھی تو بجلی گویا ہم پر ہنس رہی تھی کہ بے وقوفوا تم مجھے سمجھا کرو گے کہ میں تو جلانے اور ہلاک کرنے والی چیز ہوں حالانکہ میری وجہ سے زندگی کا آغاز ہوا ہے.مجھے خدا نے تمہیں پیدا کرنے کے لئے اور کائنات میں ہر قسم کی زندگی کی صورتیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے.تو دیکھیں ، اللہ تعالیٰ کی کیا شان ہے.صرف ایک آیت کے ایک حصے پر کچھ غور کریں تو آپ کو خدا تعالیٰ کی کتنی صفات دکھائی دیں گی اور پھر انسان بعض دفعہ یہ سوچتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ کی ننانوے صفات کا ذکر ہو حالانکہ يُسبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمدِہ میں جن علوم کی طرف اشارہ ہے، جن صفات حسنہ کی طرف اشارہ ہے، جن کے بغیر يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمدِم کا مضمون پیدا ہی نہیں ہوتا وہی ننانوے سے زیادہ ہیں بلکہ اگر آپ غور کریں تو ننانوے ہزار 99000 سے بھی زیادہ دکھائی دیں گی.پس یہ سورۃ فاتحہ ہے جس کو آپ غور سے سمجھنے کی کوشش کریں اور اس مضمون کو اپنے دل پر جاری کریں، اس میں ڈوبنے کی کوشش کریں، اسے کشتی بنا ئیں اور اس میں ذات باری تعالیٰ کی سیر کریں تو یہ وہ سفینہ ہے جو ایک بے کنار سمندر میں ہمیشہ ہمیش کے لئے سفر کرتا رہے گا اور کبھی آپ کو کوئی کنارہ دکھائی نہیں دے گا.پس اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ جیسی نعمت جس قوم کو عطا فرما دی ہو وہ بہر حال یہ نہیں کہہ سکتی کہ اے خدا ! عبادت تو تو نے فرض کر دی اور کم سے کم پانچ وقت روزانہ کے لئے فرض کر دی لیکن ہمیں یہ نہ بتایا کہ اس عبادت کو کس طرح لذت سے بھریں، کیونکہ سورہ فاتحہ نے سب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 243 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء کچھ سکھایا ہوا ہے اور یہ تو بہت محدود سا ذکر ہے.بے شمار ایسے راز ہیں جو سورہ فاتحہ میں خزانوں کی طرح دفن ہیں.آپ ان کو پاتے چلے جائیں ، ان پر غور کرتے چلے جائیں خدا ان کو ظاہر فرما تا چلا جائے گا.ہم اپنے غور سے نہیں پاسکتے مگر دل کو جتنا پاک کرتے چلے جائیں گے اللہ تعالیٰ خود آپ پر یہ مضامین ظاہر فرماتا چلا جائے گا.لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقع : ۸۰) کے مضمون کو پیش نظر رکھیں کہ سوائے ان لوگوں کے جن کو خدا پاک کر دیتا ہے کوئی قرآن کریم کے مضامین کو چھو نہیں سکتا.پس کسی چالا کی کی ضرورت نہیں ہے.انسانی ذہن مختلف قسم کے ہیں.کوئی زیادہ قابل، کوئی کم قابل کوئی زیادہ عالم کوئی کم عالم لیکن سورہ فاتحہ کے مضمون کو سمجھنے کے لئے دل کے پاک ہونے کی ضرورت ہے اور دل کلیاً پاک ہو نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ پاک کرے اور جتنا پاک کرے وہی کرے.تو قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ که صرف پاک لوگ اس کتاب کے مضمون کو چھو سکتے ہیں بلکہ فرمایا لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ وہی لوگ اس کے مضمون کو چھو سکتے ہیں جنہیں پاک کیا جاتا ہے اور پاک کرنے والا خود خدا ہے.پس جتنا آپ سورہ فاتحہ کے مضمون پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے ، تان اس بات پر ٹوٹے گی کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے خدا! ہم نے خوب سیر کی ، خوب لطف اٹھائے لیکن بہت کچھ دیکھنا باقی ہے اور جو کچھ دیکھا اس سے فائدہ اٹھانا باقی ہے.اسے مستقلم اپنے وجود کا حصہ بنالینا باقی ہے.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں.إيَّاكَ نَسْتَعِین اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.پھر مختلف نظاروں کے ساتھ ہی نہیں، مختلف اوقات کے ساتھ بھی سورہ فاتحہ کا مضمون بدلتا چلا جاتا ہے اور خدا کی حمد مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہے.فرمایا: وَسَبِّحْ بِحَمدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا (طہ: ۱۳۱) کہ اللہ کی حمد ، اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کیا کرو.قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمس سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے.یہ دو مختلف بدلتی ہوئی حالتیں ہیں، ان سب کا تعلق ربوبیت کے ساتھ ہے کہ وَسَبِّحْ بِحَمد ربك فرمایا.اس مضمون کو بھی سائنس دانوں نے جتنا کھنگالا ہے اتنا ہی اس کے پیچھے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 244 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء ان کو عظیم معرفتوں کے خزانے دکھائی دیتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ سورج کا نکلنا اور سورج کا غروب ہونا اور وہ نظام جس کے ساتھ سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا تعلق ہے، یہ زندگی کی Support کے لئے اور زندگی کو یہاں قائم رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.اگر سورج کا یہ نکلنا اور غروب ہونا نہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر زندگی پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھی.زندگی پیدا ہو بھی جاتی تو مر جاتی اور اس کے باقی رہنے کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا.اب یہ جوفر مایا کہ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا تو اس میں غور کرنے کی کھڑکیاں ہمارے سامنے کھول دیں.فرمایا کہ موسموں کے بدلنے پر غور کرو.دن اور رات کے بدلنے پر غور کرو.ان کی بدلتی ہوئی نسبتوں پر غور کرو اور یہ معلوم کرو کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے وہ کیا تغیرات بر پا ہور ہے ہوتے ہیں جور بوبیت کے جلوے تم تک پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں یا جن کے ذریعے ربوبیت اس دنیا میں جلوہ گر ہوتی ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کون سے تغیرات لازم ہوتے ہیں جو سورج کو غروب کرنے پر مجبور کرتے ہیں ورنہ زندگی اس دنیا میں باقی نہ رہ سکتی اور ربوبیت کا نظام درہم برہم ہو جاتا.پس سورج کے طلوع سے بھی ربوبیت کا تعلق ہے اور سورج کے غروب سے بھی ربوبیت کا تعلق ہے اور وقت کے بدلنے کے ساتھ ربوبیت مختلف رنگ میں جلوہ گر ہے.اب جیسا کہ میں نے اشارہ آپ کو بتا دیا ہے کہ سائنس دانوں نے اس مسئلے پر بھی غور کیا ہے اور تمام دنیا کے سائنس دان جو اس مضمون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس بات پر متفق ہیں کہ موسموں کے ادلنے بدلنے اور دن کے ادلنے بدلنے کا زندگی کے ساتھ اتنا گہرا رابطہ ہے اور زندگی کے قائم رہنے اور اس کی ترقی کے ساتھ اتنا گہرا رابطہ ہے کہ اس میں اگر آپ تھوڑ اسا تغیر و تبدل بھی کر دیں تو یہ رابطے ٹوٹ جائیں اور یہ کرہ ارض جس پر ہم بستے ہیں یہ زندگی کے بسانے کے لائق نہ رہے.پس NAKANDALANGUAGE DATA NANGANAKANET میں ان تمام صفات حسنہ کا بھی ذکر آگیا جن کا موسموں کے تغیر و تبدل سے تعلق ہے اور موسموں کے تغیر و تبدل کے ساتھ بہت گہرے مضامین وابستہ ہیں.بے شمار صفات کا اس سے تعلق ہے تو اپنے علم کے مطابق ہم ربوبیت کے نئے مضامین پر اطلاع پاسکتے ہیں اور جتنا ہم علم بڑھائیں گے اتنا ہی زیادہ ہم دنیا میں خدا تعالیٰ کی سیر کریں گے.سیر فی اللہ جو صوفیوں کی اصطلاح ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی ذات میں سیر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 245 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء کرو.باہر کی سیر تو ایک سیر ہوتی ہی ہے لیکن اس سیر کا فائدہ کوئی نہیں.سِيرُوا فِي الْأَرْضِ (الانعام:۱۲) کا کوئی فائدہ نہیں اگر انسان سیر فی اللہ کے لائق نہ بن سکے.پس دنیا کی سیر کریں لیکن مزے خدا کے اٹھائیں.اگر دنیا کی سیر کر کے دنیا ہی کے مزے اٹھا کر رہ جائیں گے تو آپ کی ساری زندگی بے کار جائے گی.یہ وہ مضمون ہے جو سورۂ فاتحہ ہمیں سکھاتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنی نماز میں آپ سورہ فاتحہ کے اس پہلے جزو پر ہی غور کرنا شروع کریں تو ساری زندگی کی نمازیں لذت سے بھر سکتی ہیں اور آپ اس مضمون پر عبور نہیں حاصل کر سکتے.یہ مضمون ہمیشہ آپ پر غالب رہے گا.چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اس کا دوسرا حصہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کرونگا.ہاں خطبہ ختم کرتے ہوئے میں بتادوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک کو براہ راست خطبہ سننے کا شوق پیدا ہورہا ہے اور اس سے کافی استفادہ بھی کر رہے ہیں.پہلے بھی میں نے بعض دفعہ ان ممالک کے نام بیان کئے ہیں درمیان میں وہ فہرست میرے سامنے نہیں رکھی گئی اس لئے میں ذکر نہیں کر سکا.جن لوگوں نے کافی محنت کر کے اور خرچ کر کے براہ راست خطبے میں شامل ہونے کا انتظام کیا ہے وہ اگر میری زبان سے یہ سنیں کہ میں جانتا ہوں آپ خطبہ سن رہے ہیں تو ان کو بہت خوشی ہوتی ہے.پھر وہ خوش ہو کر خط بھی لکھتے ہیں کہ جب آپ نے ہمارا نام لیا تو بڑا مزا آیا.پس یہ ان کا حق ہے.اس لئے میں ان کے نام لے دیتا ہوں لیکن ہمیشہ نہیں لے سکوں گا.اب رمضان کا مہینہ آرہا ہے تو ان کو بھی آپ دعاؤں میں یاد رکھیں جنہوں نے آج کے زمانے سے اس طرح استفادہ کیا کہ دنیا تو گندی فلمیں دیکھنے کیلئے ہوائی یعنی آسمانی ذرائع سے ٹیلی وژن اور ریڈیو کے رابطے پیدا کرتی ہے اور احمدی دنیا میں ایک نئی رسم ڈال رہے ہیں کہ نیک باتیں سنے کیلئے اور بنی نوع انسان میں ایک روحانی وحدت پیدا کرنے کی خاطر وہ خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.پچھلے یکم اور 8 مارچ کے خطبات جن جن ممالک نے سنے ہیں ان میں فرانس ہے، جاپان ہے،ناروے ہے، ماریشس ہے، ڈنمارک ہے اور U.K کے اندر بہت سے ایسے شہر ہیں جنہوں نے براہ راست یہ خطبات سنے اور جرمنی میں بھی ایسے بہت سے شہر ہیں جنہوں نے خطبات براہ راست سنے.یکم مارچ میں غالباً جر منی شامل نہیں ہو سکا لیکن 8 مارچ میں فرانس، ماریشس ، ڈنمارک، ناروے، جاپان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 246 خطبہ جمعہ ۱۵/ مارچ ۱۹۹۱ء اور جرمنی اور U.K کے بہت سارے شہر شامل تھے.پس آپ سے جو میری آواز کو سن رہے ہیں میں آپ کو اپنی طرف سے بھی اور ساری U.K کی جماعت کی طرف سے بھی محبت بھر اسلام کہتا ہوں.ہم بھی آپ کو دعاؤں میں یا درکھیں گے.آپ بھی ہم سب کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور عالم اسلام کے لئے اور بنی نوع انسان کیلئے ان دعاؤں کو نہ بھولیں جن کا میں نے ابتداء میں ذکر کیا تھا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 247 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء الحمد.ہر قسم کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے سورۃ فاتحہ میں ڈوب کر نماز ادا کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ فاتحہ سے متعلق گزشتہ چند خطبوں میں ذکر چلتا رہا ہے کہ کس طرح یہ نماز کا سلیقہ سکھاتی ہے.عبادت کے گر بتاتی ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق کا ذریعہ بنتی ہے اور پھر بنی نوع انسان سے تعلق کا بھی ذریعہ بنتی ہے.اس لئے اس سورۃ پر محض سرسری نظر نہیں ڈالنی چاہئے بلکہ ہر نماز میں پڑھتے وقت بڑے غور سے اس کے مضامین سے گزرنا چاہئے اور انہیں اپنے نفس پر ساتھ ساتھ اطلاق کرتے چلے جانا چاہئے اور سورہ فاتحہ کے آئینے میں اگر انسان اپنی تصویر دیکھنے کی عادت ڈال لے تو اس سے بہتر آرائش کا اور کوئی ذریعہ سوچانہیں جاسکتا کیونکہ یہ سب سے سچا آئینہ ہے.اس سے بہتر حق کے ساتھ آپ کو آپ کی تصویر دکھانے والا اور کوئی آئینہ نہیں.اس ضمن میں الحمد کا جو مضمون پہلے بیان ہوتا رہا ہے اس میں میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ جماعت کو یہ سمجھایا تھا کہ ہم کہتے تو یہ ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ یعنی تمام ترحم ، کلیہ ہر قسم کی کامل حمد صرف اللہ ہی کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں اور جو حمد کسی کو نصیب ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے.اس ضمن میں میں نے دنیا کے روز مرہ کے مشاہدات آپ کے سامنے رکھے اور سمجھایا کہ کہتے تو ہم یہی ہیں لیکن بالعموم روز مرہ کی زندگی میں خدا کی تخلیق کی حمد میں تو ڈوب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 248 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء جاتے ہیں لیکن خالق کی حمد کا ہمیں خیال نہیں رہتا.پھول سے محبت کریں گے.گلشن سے محبت کریں گے.اچھے مکانوں سے محبت کریں گے.حسن سے محبت کریں گے خواہ وہ بے جان حسن ہو یا جاندار حسن ہو.رعب اور طاقت سے محبت کریں گے مگر ان کے پیچھے جو ذات جلوہ فرما ہے اس کا دھیان روز مرہ کی زندگی میں انسان کو نہیں آتا تو ایسا انسان جب پانچ وقت یا اس سے بہت زیادہ مرتبہ ہر نماز میں کئی رکعتوں میں اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا اقرار کرتا ہے اور اثبات کرتا ہے تو اس اثبات اور اقرار میں کوئی خاص حقیقت نہیں ہوتی.باوجود اس کے کہ وہ یہ کہنے میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوتا لیکن یہ آواز اس کی روز مرہ کی زندگی کا مظہر نہیں.اس کی روز مرہ کی زندگی کی تصویر نہیں کھینچ رہی.اس ضمن میں میں خصوصیت کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.( مجھے یا دنہیں کہ پہلے اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی کہ نہیں ) کہ خدا تعالیٰ کی حمد کی راہ میں سب سے بڑی روک نفس انسانی کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑا بت ہر انسان کے اندر موجود ہے کیونکہ باہر کی دنیا کی حد میں انسان غفلت کے نتیجے میں بسا اوقات خالق کی حمد سے غافل ہو جاتا ہے لیکن نفس کا بت ایسا ہے جو باقاعدہ شرک کے خیالات پیدا کرنے والا ہے اور اس سے بڑا اور کوئی بت نہیں جو خدا کے مقابل پر الوہیت کا دعوی کرے اور اگر آپ روز مرہ کی زندگی میں اپنے نفوس کا ، اپنی نیتوں کا تجزیہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ موحد ہوتے ہوئے بھی بسا اوقات جب آپ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہیں کہ تمام تر حمد صرف اللہ ہی کے لئے ہے تو دل کے گوشے سے ایک آواز اٹھتی ہے الحمدلی الحمدلی.سب حمد تو میرے لئے ہے اور میرے لئے ہے چنانچہ یہ آواز اگر چہ ہر انسان کو اس طرح سنائی نہیں دیتی کہ وہ اسے محسوس کرے اور اسی لئے وہ اس آواز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیکن فی الحقیقت یہ آواز ہے جو روزمرہ کے تجارب میں انسان اگر توجہ سے کوشش کرے تو سن سکتا ہے.مثلا ایک اچھی آواز والا گویا ہے جب وہ مجمع کے سامنے بہت خوبصورت آواز میں خوش الحانی کے ساتھ نظم پڑھتا ہے تو وہ داد جو اس کو ہر طرف سے ملتی ہے اس کو اپنے نفس میں اس قدر مطمئن کر رہی ہوتی ہے، اس قدر اس کو لذت عطا کر رہی ہوتی ہے کہ اس وقت اس کا خدا خود اس کا نفس بن چکا ہوتا ہے اور اس کا ذہن کبھی اس طرف نہیں جاتا یا یہ کہنا چاہئے کہ اکثر نہیں جاتا کہ یہ آواز کیسے پیدا ہوئی؟ کس نے اس کو عطا کی؟ اس کی ذاتی کوشش کا اس میں کتنا دخل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 249 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عطا کا کتنا دخل ہے؟ اگر اس مضمون کی طرف توجہ مبذول ہو تو ہر گویے کی خود اپنی نظر میں کوئی بھی حقیقت باقی نہ رہے.ایک ایسے خاندان میں پیدا ہونا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اچھا گلا عطا کیا گیا ہو، ایسے ماحول میں پیدا ہونا جہاں آواز کو مزید مانجھ کر اور صیقل کر کے زیادہ خوبصورت اور دلکش بنایا جاسکتا ہو یعنی ایسے ذرائع مہیا ہونا.ان بیماریوں سے پاک رہنا جو گلے کو خراب کرتی ہیں اور آواز کو تباہ کر دیتی ہیں.یہ ساری باتیں بھی قابل غور ہیں مگر سطحی ہیں.ان سے اور نیچے اتر کر جب آپ صوتی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کس طرح ہر انسان کے گلے میں خدا تعالیٰ نے ایک صوتی نظام قائم فرمایا ہوا ہے جوار بوں سال کے عرصے میں ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے اور اسے مانجھنے اور صیقل کرنے اور اسے چمکانے اور اس کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے میں زندگی کی ہزار ہانسلیں اس سے پہلے اپنے اپنے دور طے کرنے کے بعد ماضی کا حصہ بن گئیں اور کسی کو علم نہیں کہ ان تجارب میں جو قدرت نے ان کے ساتھ کئے.کیا کیا کارروائیاں آواز کے نظام کو مکمل کرنے کے لئے کی گئیں.جو جاندار ہمیں آج دکھائی دیتے ہیں ان کی زندگی کے آغاز سے لے کر اب تک کا مطالعہ بھی ہمیں بہت کچھ سبق دیتا ہے اور انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح آواز کا آغاز ہوا حالانکہ اس سے پہلے یہ کائنات بالکل خاموش تھی.زندگی موجود تھی لیکن زندگی کا ایک جزو زندگی کے دوسرے جز و تک آواز کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا تھا.یہ مضمون پہلے بھی میں نے اس حد تک بیان کیا ہے لیکن اب میں اس تعلق میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کو خدا نے اچھی آواز عطا کی ہے اگر اس کا ذہن ان چیزوں کی طرف کبھی منتقل نہ ہو اور ہمیشہ اپنی ہی تعریف میں ڈوب جایا کرے تو اس کے دل سے ایک بت پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جو مزید طاقتور ہوتا چلا جائے گا اور اس کے باقی وجود پر بھی قابض ہو جائے گا کیونکہ شرک کا بت اپنے دائرے تک محدود نہیں رہا کرتا بلکہ پھیلتا ہے اور بڑھتا ہے اور زیادہ طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے.اسی طرح ایک اچھا مقرر ہے جب وہ بہت اچھی تقریر کرتا ہے اور داد پاتا ہے یا ایک اچھا شاعر ہے جسے خدا توفیق دیتا ہے کہ اپنے خیالات کو نہایت لطافت کے ساتھ شعروں کے خوبصورت کوزوں میں بند کر کے دنیا کے سامنے پیش کرے تو عموماً یہی مضمون دو ہرایا جاتا ہے جس کا میں پہلے آواز کے سلسلے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 250 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء میں ذکر کر چکا ہوں.ایک اچھا مصور ہے، ایک اچھا معلم ہے، ایک اچھا صناع ہے غرضیکہ انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے جتنی صلاحیتیں پیدا فرمائی ہیں خواہ وہ جسمانی ہوں علمی عقلی ہوں یا قلب سے تعلق رکھنے والی ہوں ان سب پر یہی مضمون صادق آتا ہے کہ ہر انسان بالآخر اپنی مدح میں ڈوب جاتا ہے اور ایسا شخص جب بار بار خدا کے حضور یہ اقرار کرتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو اس کی روز مرہ کی زندگی کا اس اقرار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.پس جب نماز پڑھتے ہوئے آپ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین کہتے ہیں تو اس آئینے میں اپنی صورت دیکھا کریں اور غور کیا کریں کہ آپ روز مرہ کے زندگی کے تجارب میں کتنی مرتبہ عملاً آپ نے واقعی حمد خدا ہی کے حضور پیش کر دی جوحمد بنی نوع انسان نے آپ کے حضور پیش کی آپ نے اسے اپنا نہیں سمجھا بلکہ کامل عاجزی اور انکسار کے ساتھ التحيات لله والصلوات والطیبات کہتے ہوئے اس حمد کو خدا ہی کے حضور پیش کر دیا کیونکہ سب تحفے اسی کے حضور پیش کرنے کے لائق ہیں اور خود اس حمد سے خالی ہو گئے.اگر آپ ایسا کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیں تو آپ کا دل حمد سے خالی نہیں رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس حمد کو ہمیشہ بڑھا کر واپس کرتا ہے جو اس کے حضور پیش کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان واقعی لائق حمد بننا شروع ہو جاتا ہے پھر جو اس کی حمد کی جاتی ہے وہ خدا کی آواز کے ساتھ حمد کی جاتی ہے.خدا کی آواز دلوں میں حرکت پیدا کرتی ہے.خدا کی آواز ذہنوں پر قابض ہوتی ہے اور بنی نوع انسان سے ایسے شخص کی حمد کے جو گیت اٹھتے ہیں وہ اسے محموداور محمد بنادیتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ وعلی آلہ وسلم کا نام محمد رکھنے میں ایک بہت بڑی حکمت تھی کہ آپ نے اپنی تمام حمد ساری زندگی ہمیشہ کلیۂ خدا کے حضور پیش کی اور آپ ہمیشہ حمد سے خالی ہوتے چلے گئے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو محمد بنا دیا.پس احمد ، محمد میں تبدیل ہوتے ہیں اگر وہ خالص ہوں اور بچے ہوں اور مخلص ہوں اور احمد کے طور پر خدا کی حمد کریں اور اپنا بت بیچ میں حائل نہ ہونے دیں اس نقطہ نگاہ سے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا مضمون انسانی تربیت کا ایک بہت ہی لمبا سلسلہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ ساری زندگی ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ مضمون ایسا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 251 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء باریک ہے اور اس کے بعض پہلو انسانی نظر سے ایسے مخفی رہتے ہیں کہ ساری زندگی کی محنت اپنے آپ کو اپنی حمد سے پاک کرنے کے لئے درکار ہے اور اس کے باوجود بھی انسان اس مقام محمود کو حاصل نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو عطاء ہوتا ہے اس لئے دعا کے ساتھ مدد مانگتے ہوئے انسان کونفس کا یہ جہاد ہمیشہ جاری رکھنا چاہئے.جو انسان اپنی حمد کا عادی ہو وہ اکثر اوقات نَفَرِح فَخُورٌ بھی ہو جایا کرتا ہے.اس کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے حد خوش ہونے کی عادت پڑ جاتی ہے اور تعلمی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے نفَرِح کے مضمون کو حمد کے ساتھ یعنی انسان کی جھوٹی حمد کے ساتھ باندھ کر پیش فرمایا ہے اس کا میں آگے جا کر ذکر کروں گا لیکن اس کے نظارے آپ نے بسا اوقات کھیلوں کے میدانوں میں بھی دیکھے ہوں گے کہ کبڈی کا ایک کھلاڑی ہے وہ کسی اچھے مضبوط کھلاڑی کو.( پنجابی میں جس کو دھول“ کہتے ہیں اردو میں پتا نہیں.دھول دھپا تو خیر اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ) ایک دھول لگا کر گراتا ہے اور اس کے شکنجے سے نکل کر واپس بھاگتا ہے تو عجیب وغریب حرکتیں کر رہا ہوتا ہے.بعض دفعہ وہ ہاتھ اونچے کر کے دونوں انگلیاں کھڑی کر دیتا ہے بعض دفعہ منہ سے آوازیں نکالتا ہے کہ میں نے کمال کر دیا ہے بعض دفعہ وہ چھاتی پر ہاتھ مارتا ہے.اسی طرح فٹ بال کے میدان میں جب بھی کوئی شخص گول کرتا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ کس طرح عجیب و غریب حرکتیں کرتا اور اچھلتا کودتا اور فخر و مباہات کے اظہار کے لئے اپنے جسم کو مختلف شکلیں دیتا ہے، بعض آوازیں نکالتے ہیں، بعض خاموش اظہار کرتے ہیں.یہ جو مناظر ہیں یہ نمایاں طور پر آپ کی نظر کے سامنے رہتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس حد تک حمد کا پیاسا ہے اور یہ پیاس اس کو مجبور کر دیتی ہے کہ جہاں حمد کے چند قطرے ملیں ان کو نہ صرف پیئے بلکہ فخر سے اظہار کرے کہ ہاں آج میری پیاس بجھ گئی.یہ واقعات روزمرہ کی زندگی میں ہم سے ہورہے ہوتے ہیں جب ہم دوسروں کو دیکھتے ہیں تو دکھائی دیتے ہیں.جب اپنے او پر نظر ڈالتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے.پس اس لئے اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر حمد چاہنے کا جذبہ اس طرح دکھائی نہیں دے گا جیسے دوسرے کا حمد چاہنے کا جذ بہ آپ کو دکھائی دیتا ہے.دوسرے کی تعلی پر آپ کو بعض دفعہ بنسی بھی آجاتی ہے مگر یہ بھول جاتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 252 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء ہیں کہ یہ تعلی آپ کا نفس روزانہ کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور کوئی آنکھ اس کو دیکھتی نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ جذبہ جب آگے بڑھتا ہے تو پھر ایسی حمد کا بھی انسان طالب ہو جاتا ہے جو ظاہری طور پر اس کو نہیں ملنی چاہئے یعنی حمد کے بعض قصے تو یہ ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں انسان نے ایک اچھا کام ضرور کیا ہے لیکن وہ اچھا کام خود اس کی ذاتی توفیق سے ایسا متعلق نہیں جتنا اللہ تعالیٰ کی بے انتہاء عنایات سے تعلق رکھتا تھا اس کا اس موقعہ پر اس بات کو بھلا دینا یا یہ اہلیت نہ رکھنا کہ اپنے اچھے فعل کے پیچھے خدا کا ہاتھ دیکھے اور خدا کی تخلیق کے ان گنت کرشموں کا نظارہ کرے تو یہ چیز جو ہے یہ ایک حد تک سمجھنے کے لائق ہے اور سمجھانے کے لائق ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ انسان صرف اسی بات پر راضی نہیں ہوتا.یہیں ٹھہر نہیں جا تا فرمایا لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوْا وَ يُحِبُّونَ ان يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَاب الیم ( آل عمران : ۱۸۹) کہ ہر گز یہ گمان نہ کر کہ وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتراتے ہیں جو کچھ گل وہ کھلاتے ہیں ان پر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں.جو کوئی اچھا کام کیا یا کسی قسم کا بھی ایسا کام جو کم سے کم اس کی نظر میں قابل تعریف ہو تو اس پر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اترانے لگ جاتے ہیں.يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا اس کے ساتھ وہ اس بیماری میں بھی ضرور مبتلا ہوتے ہیں کہ جو کام وہ نہیں کرتے ان کے لئے بھی تعرف کے خواہاں ہو جاتے ہیں اور جب یہ بیماری بڑھ کر اس مقام تک پہنچ جاتی ہے تو تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ پھر یقین رکھ کر یہ لوگ عذاب سے محفوظ نہیں ہیں.وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیم اور ان کو درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا.اس مضمون کا تعلق یقیناً آخرت سے ہے لیکن یہ غلط ہے کہ اس دنیا سے نہیں کیونکہ تعریف کی پیاس جب اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ انسان ان چیزوں پر بھی تعریف کی تمنار کھنے لگ جاتا ہے ، تعریف کروانے کے لئے اس کے دل میں پیاس لگ جاتی ہے جن چیزوں میں اس کا کوئی بھی حصہ نہیں ہوتا یعنی کام کسی اور نے کیا اور تعریف اس نے اپنی کرنی شروع کروادی.یہ بات بھی آپ روزمرہ کی زندگی میں ہر گھر میں مشاہدہ کر سکتے ہیں ہر انتظام میں مشاہدہ کر سکتے ہیں اور انسانی تعلقات میں اور قوموں کے تعلقات میں بھی یہ بات اگر آپ باریک نظر سے دیکھیں تو آپ کو دکھائی دے گی.اگر کسی نے کوئی اچھا کام کیا ہواور بتایا نہ جائے مثلا گھر میں بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 253 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء ہوئے کہ ہمیں علم ہے کہ کس نے اچھا کام کیا ہے اور آپ اچانک پوچھیں کہ کس نے کیا ہے تو بے اختیار کئی بچے ہاتھ اونچا کریں گے کہ ہاں ! ہم نے کیا ہے.اگر ان کو یہ یقین ہو جائے کہ پتہ نہیں لگے گا کہ کس نے کیا تھا تو پھر اکثر بچوں کے اندر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اس بات میں اپنی تعریف کروائیں جو بات انہوں نے نہیں کی.ان کے بھائی یا کسی بہن نے کی تھی لیکن چونکہ تعریف ہورہی ہے اس لئے وہ کہتے ہیں ہم نے کیا ہے.اور اگر کوئی یہ نہ کر سکے تو تعریف میں حصہ ڈالنے کی عادت تو اتنی پختہ ہے کہ اس سے تو شاید ہی کوئی انسان بری ہو.اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ بہت اچھا کھانا پکا ہے.کس نے پکایا ہے؟ تو اگر گھر کی مالکہ نے پکایا ہوگا تو وہ کہے گی میں نے پکایا ہے کوئی دوسرا ساتھ بولے گا کہ مصالحہ تو میں نے بتایا تھا.ایک تیسر ا بتائے گا کہ ترکیب میری تھی.ایک چوتھا کہے گا کہ ڈوئی تو میں پھیرتا رہا ہوں غرضیکہ ہر شخص بیچ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے.یہ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا مشاہدہ ہے لیکن یہ آگے جا کر بہت گہری بیماری میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایسے اشخاص کو بعد ازاں احتمال ہے کہ گہری روحانی بیماریاں نہ لاحق ہو جائیں.اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں.ہر انسان اپنی زندگی کے واقعات پر غور کر کے یہ جائزہ لے سکتا ہے کہ کس حد تک اس نے اس معاملے میں ٹھو کر کھائی یعنی تعریف کی ایک خواہش تو طبعی ہے اسے اپنے مقام پر رکھنا اور لگام ڈال کر رکھنا یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر جو واقعہ ہو ہی نہیں اس ضمن میں جھوٹی تعریف کی تمنا یہ بہت بڑی بیماری ہے اور یہ شرک کی بدترین قسم بن جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر سب سے زیادہ خدا کی تعریف اس سے چھینتے ہیں اور عمد ہر چیز میں بات اپنے ذمے لگاتے ہیں کہ ہماری وجہ سے یہ ہوا ہے اور یہ بیماری جب زیادہ باریک ہو جاتی ہے تو عجیب و غریب شکلیں اختیار کرتی ہے.میں اس کا ایک نمونہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ نیک انسان بھی اس قسم کی بعض بیماریوں سے محفوظ نہیں رہتے.عام طور پر موحد ہیں لیکن بہت سی باتوں میں غلطی کر جاتے ہیں.یہ بھی رجحان پایا جاتا ہے کہ اگر خدا کا کوئی فضل ہو تو انسان اپنے اندر وہ نیکی تلاش کرتا ہے کہ کس وجہ سے فضل ہوا ہے خدا نے کوئی خاص احسان کیا تو انسان کہتا ہے یہ اس لئے ہے کہ میں نے غریبوں کی ہمدردی کی تھی.خدا نے بہت احسان کیا اور شفاء بخشی تو انسان سوچتا ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ میں نے فلاں انسان کے ساتھ نیکی کا سلوک کیا تھا اور یہاں تک کہ جب کسی شخص پر خدا کا خاص
خطبات طاہر جلد ۱۰ 254 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء فضل نازل ہو تو لوگ بھی جو تبصرے کرتے ہیں ان میں اس شخص کی خوبیاں تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس پر یہ فضل کیا ہے تو اس کی یہ بات سنی گئی.اس کی یہ نیکی کام آئی اور ہمارے ہاں روز مرہ کے محاورے میں یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ اس کی فلاں نیکی کام آگئی حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی نیکیاں کیا؟ ان کی حیثیت کیا ؟ خدا تعالیٰ اگر انسان کی نیکیوں کے مقابل پر اس کی بداعمالیوں کا حساب کرے تو کسی کے پہلے کوئی نیکی باقی نہ رہے.اپنی نیکی کی طرف خیال آجاتا ہے اور بدیاں انسان بھول جاتا ہے اور خدا کے وہ احسانات جو خالصہ فضل کے نتیجے میں ہیں ان احسانات کو اپنی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے کہ میری کسی خوبی کے نتیجے میں ایسا ہوا لیکن ایک عارف باللہ اس معاملے میں کبھی دھوکا نہیں کھاتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مناجات میں عرض کرتے ہیں کہ سب کچھ تیری تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے کیسا سادہ لیکن کتنا عظیم اور قوی اظہار ہے کتنی گہری اور دائی حکمت ( در بین صفحہ :..اس میں بیان فرما دی گئی ہے.کچھ تیری عطا ہے سے تو کچھ نہ لائے پس الحمد للہ کہتے ہوئے جب تک یہ رجحان پیدا نہ ہو کہ سب کچھ تیری عطا ہے.گھر سے ہم کچھ نہیں لائے تو اس وقت تک الحمد کا مضمون کامل نہیں ہو سکتا اور اس وقت تک اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا میں طاقت پیدا نہیں ہوسکتی پس جب آپ کلیتہ محمد سے اپنے آپ کو خالی کر لیتے ہیں.اللہ کے جتنے احسانات ہیں ان کو خدا کے احسانات کے طور پر گنتے ہیں اور ان پر حمد کے گیت گاتے ہیں تو پھر جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہتے ہیں تو دل پوری سچائی کے ساتھ یہ عرض کرتا ہے خدا کے حضور یہ اقرار کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ ہم نے تو اپنی حد مجھی کچھ نہیں اس لئے ہم اپنی عبادت نہیں کرتے.ہم نے تو کسی غیر کی کوئی حمد سمجھی ہی نہیں اس لئے ہم کسی غیر کی عبادت نہیں کرتے اور تو جانتا ہے اور تو دیکھ رہا ہے کہ جب تمام تر حمد ہم تیرے حضور پیش کر بیٹھے تو اب سوائے تیری
خطبات طاہر جلد ۱۰ 255 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء عبادت کے ہمارے پاس کچھ نہیں رہا.ایسی صورت میں ”عبد“ عابد بن جاتا ہے اور ایک عام انسان نہیں رہتا.یوں تو ہر انسان خدا کا بندہ ہے لیکن سورۃ فاتحہ ایک عبد کو عابد میں تبدیل کرتی ہے.تب اس کا یہ حق ہے کہ وہ یہ عرض کرے ايَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہ سب کچھ تیرے خزانے میں جمع ہو گیا ہمارے پاس تو رہا ہی کچھ نہیں اس لئے ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور تیری مدد کے بغیر ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے.اس نَسْتَعِيْنُ میں بہت کچھ شامل ہے اس نَسْتَعِينُ کی دعا میں ہر دعا مانگی جاسکتی ہے اور اس دعا میں از خود حمد کی طلب بھی شامل ہو جاتی ہے.چنانچہ جب انسان ان تمام مراحل سے گزرتا ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے گزرتا ہے احتیاط کے ساتھ گزرتا ہے،شرک سے اپنے آپ کو کلیۂ پاک کر لیتا ہے اور حقیقت میں خدا کے حضور اپنا مقام سمجھنے لگ جاتا ہے تو اس وقت جب إيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اس کی کہی اور ان کہی ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کے بعد پھر جب اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّانِيْنَ کہتا ہے تو پھر دعا ئیں ایک نئے مضمون میں داخل ہو جاتی ہیں.انعام والے مضامین ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں جن کی کوئی حد نہیں ہے اور ایک جاری سلسلہ ہے.اس ضمن میں یہ یاد رکھیں کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مضمون میں ایک پوری تاریخ ہمارے سامنے رکھ دی گئی ہے چونکہ اس سے پہلے میں اس بات پر گفتگو کر چکا ہوں اس لئے مزید ا سے نہیں چھیڑتا لیکن اَنْعَمْتَ کے چار مراتب ہیں اور سورۃ فاتحہ کی ابتداء میں خدا کی چار صفات پیش فرمائی گئی ہیں.ان چاروں صفات سے جس انسان کا تعلق کامل ہو جائے گا وہ انعمت میں آخری مقام تک پہنچے گا اور جس حد تک اس کا صفات باری تعالیٰ سے تعلق کمزور ہوگا اسی حد تک أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے گروہ میں اسے نسبتا ادنی امقام نصیب ہوگا.پس یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی مقام ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے.ہر مقام جاری ہے لیکن سورۃ فاتحہ میں صفات باری تعالیٰ کو جس رنگ میں پیش فرمایا گیا ہے ان صفات کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے جس کامل عبودیت کے ساتھ جس کامل انکسار کے ساتھ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے نفس کو حمد سے خالی کر کے ربوبیت سے تعلق جوڑ ارحمانیت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 256 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء سے تعلق جوڑ ، رحیمیت سے تعلق جوڑ ، مالکیت سے تعلق جوڑ اس کے بعد یہ تعلقات کا معیار بہت بلند ہو چکا ہے.اس لئے آئندہ کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ فرض کر دیا کہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم (النساء:۷۰) اب ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت سے عام تعلق کام نہیں دے گا جو اللہ اوراس رسول کی اطاعت کرے گا اوران اداؤں کے ساتھ خدا سے تعلق باندھے گا جن اداؤں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے رب سے تعلق جوڑا ہے اس کے لئے انعامات کے سب دروازے کھلے ہیں اور چونکہ یہ مضمون مشکل ہو گیا ہے اور بلند تر ہو گیا ہے اور ڈیمنسٹریٹر Demonstrator نے ، جس نے اس مضمون کو اپنی زندگی پر جاری کر کے دکھایا تھا اس مضمون کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے اس لئے آخری مقام تک پہنچنا مشکل تر ہو گیا ہے لیکن اس اطاعت کے ادنی مقام بھی ایسے ہیں جو گزشتہ زمانے کے اعلیٰ صلى الله مقامات کے برابر درجہ پانے والے ہیں چنانچہ آنحضرت مہ نے اس مضمون کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا کہ علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل علماء تو نبی نہیں ہیں اور مری امت کے معیار کے لحاظ سے نبی نہیں ہیں لیکن جہاں تک گزشتہ امتوں کا تعلق ہے ان کے نبیوں کے برابر تو میری امت میں تمہیں بہت سے علماء اور ولی اور بزرگ ملیں گے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم نے ایک ایسا وسیع دروازہ کھولا ہے اور ہمیں ایک ایسے راستے پر قدم بڑھانے کی دعوت دی ہے جو لا متناہی ہے اور تمام انبیاء کی گزشتہ تاریخ ہمارے سامنے اکٹھی صورت میں پیش کر دیتا ہے کہ گویا اس راستے پر دور تک مختلف جھنڈے لگے ہوئے ہیں اور سب سے آخر پر مقام محمدیت کا جھنڈا ہے اور مسلسل یہ صلائے عام دے رہا ہے کہ آنا ہے تو یہاں تک آؤ اور اس سے پہلے رکنے کی کوشش نہ کرو.اس سے پہلے کی تھکن تمہیں مغلوب نہ کر دے.پس اس سفر میں جس مقام پر بھی انسان دم دے وہی مقام اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا مقام ہے اور بہت ہی بڑا خوش نصیب ہے وہ جسے محمد رسول ﷺ کے قدموں تک پہنچنے کی سعادت نصیب ہو جائے.اس کے بعد مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین کا مضمون شروع ہوتا ہے اور وہاں بھی یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی تشریح میں اگر چہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہود مراد ہیں اور ضالین کی تشریح میں اگر چہ ہم کہتے ہیں کہ عیسائی مراد ہیں مگراللہ کی یہ شان ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 257 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء اور سورۂ فاتحہ کی فصاحت و بلاغت ہے کہ کسی قوم کسی مذہب کا نام نہیں لیا.مضمون صرف یہ بیان فرمایا گیا کہ خدا کی مذکورہ چار بنیادی صفات سے جو شخص کلیہ تعلق کاٹ لے گا یا اس حد تک کاٹ لے گا کہ خدا کی رحمت سے وہ کاٹا جائے تو اسے مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ شمار کیا جائے گا اور جو شخص کچھ تعلق برقرار رکھے گا لیکن ٹیڑھے رنگ میں اور کجی کے ساتھ تو اس کو دا لین کے زمرے میں شمار کیا جائے گا.اس مضمون پر آپ غور کریں تو بہت ہی وسیع تاریخی مطالعہ ہے جو آپ کے سامنے کھلتا ہے وہ قو میں جو مغضوب ہوئیں.قرآن کریم نے خود بیان فرمایا ہے کہ کیوں مغضوب ہوئیں.کس کس طرح، کس کس جگہ انہوں نے خدا کی بنیادی صفات سے اپنا تعلق توڑا اور ایک دفعہ نہیں بار بار تو ڑا اور کتنے لمبے عضو کے بعد، کتنے لمبے علم کے بعد بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں مغضوب قرار دیا تو اس کے مطالعہ سے آپ کو معلوم ہوگا کہ کن چیزوں سے بچنا ہے اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے.کوشش فرض ہے.اگر ایک ٹھو کر کھاتے ہیں تو تب بھی ، اگر چہ خطرے کا مقام ہے لیکن آخری طور پر آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کے لئے مردود نہیں قرار دیدیا گیا.خدا تعالیٰ نے قوموں کو ایک لمبے عرصے کے بعد جو ہزار سال سے زائد عرصے پر پھیلا پڑا ہے ان کو ان کی بار بار کی غلطیوں کے نتیجے میں اور غلطیوں پر اصرار کے نتیجے میں مغضوب قرار دیا.پس اس سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ آخری سانس تک جینے کی امید تو ہے لیکن اگر غلطیاں کرتے ہوئے ہم مارے گئے تو ہم مغضوب کی حالت میں مارے جائیں گے.پس ایک طرف تو یہ امید کا پیغام بھی ہے اور دوسری طرف ایک عبرت کا پیغام بھی ہے اور یا در کھنے کے لائق بات یہ ہے کہ یہود کا نام سورۂ فاتحہ میں کیوں نہیں لیا گیا.اس لئے کہ قرآن کریم یہ اعلان کرتا ہے کہ من حیث القوم مغضوب ہونے کے باوجود ان کے اندر آج بھی نیک لوگ موجود ہیں.آج بھی حق پرست لوگ موجود ہیں آج بھی موحد موجود ہیں.آج بھی خدا سے محبت کرنے والے موجود ہیں.اگر انہیں اسلام کا صحیح پیغام پہنچتا یا محمد رسول اللہ ﷺ کے حسن سے ان کی شناسائی ہو جاتی تو وہ ضرور اسلام قبول کر لیتے اور محمد رسول اللہ اللہ کے غلاموں میں شامل ہو جاتے مگر اپنے اپنے ماحول میں کٹے ہوئے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں.اس پر یقین رکھتے ہیں اس کے لئے قربانیاں دیتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 258 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء ہیں پس دیکھئے سورہ فاتحہ نے کس حد تک عدل کا حق ادا فرمایا ہے.مغضوب کی تاریخ بھی ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی لیکن ساتھ یہ بھی متنبہ کر دیا کہ کسی ایک قوم کو ان معنوں میں مغضوب سمجھنا کہ ان میں پھر کوئی نیک آدمی پیدا نہیں ہوسکتا یہ غلط ہے اس لئے جہاں قومی طور پر مغضوب فرمایا وہاں نام کسی کا نہیں لیا اور جہاں قرآن کریم نے نام لے کر یہود کو مغضوب قرار دیا وہاں ساتھ ساتھ استثناء کرتا چلا گیا اور بار بار ہمیں متنبہ کیا که خبر دار من حیث القوم یهود کو مغضوب قرار دے کر تمام کے تمام کو رد نہ کر دینا اور تمام کے تمام کو جہنمی قرار نہ دے دینا.اسی طرح من حیث القوم عیسائیوں کو ضال قرار دیتے ہوئے یعنی گمراہ قرار دیتے ہوئے پوری طرح رد کر کے نعوذ بالله من ذالك يہ دعویٰ کر بیٹھنا کہ یہ سارے کے سارے جہنمی ، گندے اور خدا سے دور لوگ ہیں.بار بار قرآن کریم نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ ان میں بھی بہت اچھے لوگ ہیں ان میں بھی نیک ہیں اخلاص سے ایمان لانے والے ہیں اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ جب تک یہ اپنے سچائی کے تصور کے مطابق اپنی تعلیمات پر عمل کرتے رہیں گے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ان کے اجر خدا کے ذمہ ہیں.پس سورۂ فاتحہ نے جہاں مغضوب اور ضالین کا ذکر قوموں کے نام لئے بغیر فرمایا وہاں ہماری توجہ اس طرف بھی مبذول فرما دی اور اس میں بھی ہمارے لئے ایک امید کا پیغام ہے کہ اگر ایسی قو میں جو ہزار سال دو ہزار سال ، چار ہزار سال تک بار بار خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتی رہیں اور اس کی نافرمانی کرتی رہیں اور اس کے بندوں پر ظلم بھی کرتی رہیں ان میں بھی نیکیوں کی گنجائش موجود ہے اور نیکی کی گنجائش موجود ہے تو محمد مصطفی ﷺ کا لایا ہوا دین جو آخری اور کامل دین ہے اس سے وابستہ لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ نعوذ باللہ وہ سارے جہنمی ہو گئے.سارے کا فر اور بے دین ہو گئے یہ بہت ہی بڑا ظلم ہوگا.پس جماعت احمدیہ کے لئے خصوصیت سے اس میں سبق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جہاں ایسے لوگوں پر سختی فرمائی ہے جنہوں نے ظلم اور تعدی اور عناد میں ہر حد پھلانگ دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہایت ہی ناپاک اور ظالمانہ رویہ اختیار کیا ، وہ زبان اس گروہ کے محض چند لوگوں سے تعلق رکھتی ہے جو فساد اور فتنے اور ظلم میں حد سے زیادہ بڑھے ہوئے لوگ تھے.عامۃ المسلمین سے اس کا تعلق نہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو دوسری جگہ خود کھول کر بیان فرمایا ہے اور فرمایا.جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 259 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء سے بے حد محبت رکھتا ہوں.ان میں صلحاء بھی ہیں.ان میں خدا کے بزرگ بھی ہیں اور خدا تعالیٰ کی عطاء کردہ خبر کے مطابق ان میں بڑے بڑے مرتبہ رکھنے والے لوگ ہیں.صلحاء عرب بھی ہیں اور ابدال شام بھی ہیں.پس جماعت احمدیہ کو سورہ فاتحہ سے یہ انکسار بھی سیکھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ ہم میں سے ہر شخص کی نجات کی کوئی ضمانت نہیں کیونکہ ہر قوم میں ایسے استثناء ہوتے ہیں کہ اچھوں میں سے برے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں.اور بروں سے اچھے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے أَنْعَمْت کے مضمون میں کسی قوم کا ذکر فرمایا، نہ مَغضُوبِ اور الضَّالِّينَ کے مضمون میں کسی قوم کا ذکر فرمایا اور اس مضمون کو کھلا رہنے دیا.اس کی بنیاد یہی ہے اور فیصلے کی کسوٹی یہی ہے کہ ہر وہ شخص اور ہر وہ قوم جو خدا تعالیٰ کی ان چار صفات سے گہرا تعلق جوڑتی ہے اور اپنے آپ کو دوئی کی ملونی سے پاک کرتی ہے جن صفات کا سورہ فاتحہ میں تعارف فرمایا گیا ہے تو وہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو اور واقعہ وہ اپنے تعلق میں مخلص ہو تو آنْعَمْتَ عَلَيْهِہ میں شمار ہوگی لیکن ان کے اندر بھی استثناء ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہیں گے.اس لئے ہمیشہ ہمیں نگر ان رہنا چاہئے اور اپنے نفس پر بھی نگران رہنا چاہئے اور بحیثیت جماعت اپنے بھائیوں اپنی بہنوں ، اپنے بچوں ، اپنے مردوں ، عورتوں اور بوڑھوں سب پر نگران رہنا چاہئے تو رمضان المبارک میں آپ جہاں دوسری دعائیں کریں گے وہاں سورۃ فاتحہ کو پڑھتے ہوئے ان مضامین کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی کوشش کریں.اپنے اندر ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں.اپنے شعور کو ہمیشہ بیدار رکھنے کی کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کے لئے کمزوروں کے لئے اور غافلوں کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کے اندر سے ایک باشعور انسان پیدا فرمادے جو خلق آخر کا آغاز ہوگا.قرآن کریم نے جہاں خلق آخر کا ذکر فرمایا ہے جو خلق آخر انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک غافل انسان سے ایک باشعور انسان جنم لینے لگتا ہے وہ رفتہ رفتہ آنکھیں کھولتا ہے کروٹ بدلتا ہے، اپنے اندرونی ماحول کو دیکھنے لگ جاتا ہے اس کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں.آنکھیں ملتا ہے تو اور زیادہ روشنی دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنے نفس کا شعور ہے جو رفتہ رفتہ عرفان باللہ میں منتقل ہو جاتا ہے اور انسان کے اندر سے ایک خلق آخر ظاہر ہوتی ہے پس اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 260 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء رمضان میں خصوصیت کے ساتھ اپنے لئے یہ دعائیں کریں اور بنی نوع انسان کے لئے بھی یہ دعائیں کریں کہ وہ دعوے تو بہت کرتے ہیں اللہ ان کو بھی کوئی شعور عطا کرے.میں نے گلف سے متعلق جو پچھلے خطبات تھے ان میں بڑے درد کے ساتھ بعض آنے والے خطرات کی نشاندہی کی تھی ان میں ایک یہ تھا کہ مشرق وسطی سے امن ہمیشہ کے لئے اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور جن خطرات کا اظہار کیا تھا وہ ابھی جیسے کہتے ہیں ناں کہ سیاہی ابھی گیلی ہی ہو سوکھی بھی نہ ہو تو بات ظاہر ہونے لگ جائے ویسی ہی کیفیت ہوئی ہے.شام کے اوپر اسرائیل نے جنگ ختم ہوتے ہی یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ اب عراق سے خطرہ تو نہیں رہا مگر ہمیں شام سے خطرہ شروع ہو گیا ہے اور وہی باتیں جو پہلے عراق کے متعلق کہی جاتی تھیں اب شام کے متعلق کہی جانے لگیں.پھر وہ خطرے جو میں نے پیش کئے تھے.یہ تو نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک میں نے کوئی غیب کی خبریں بنائی تھیں مگر ہر انسان حالات کا جائزہ لے کر اندازے لگاتا ہے پس میں نے بھی جہاں تک ان قوموں کے مزاج کو سمجھا کچھ اندازے لگائے اور میرا اندازہ یہ تھا کہ عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا.اور بعض دوسری قوموں سے اندر کھاتے مخفی طور پر ہو سکتا ہے سمجھوتے ہو گئے ہیں کہ تم فلاں حصے پر قبضہ کر لینا تم فلاں حصے پر قبضہ کر لینا.پس عراق میں جو بغاوت ہورہی ہے ، یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا دوسری قوموں سے کوئی تعلق نہیں مگر جو لوگ بھی اس صدی کی تاریخ سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں جہاں بغاوتیں ہوئی ہیں وہاں ضرور دوسری قوموں کا تعلق ہوتا ہے.آج کے زمانے میں طاقتور منتظم فوجوں سے لڑنے کی عوام الناس میں طاقت ہی نہیں ہے جب تک باہر سے امداد نہ ہو.جب تک باہر سے شہ نہ ملے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی ملک میں واقعہ منظم بغاوت ہو جائے چنانچہ افغانستان میں جو کچھ ہوا آپ جانتے ہیں.اگر امریکہ مجاہدین کی مدد سے اپنے ہاتھ کھینچ لیتا تو وہاں جو کچھ آپ نے دیکھا ہے ہو ہی نہیں سکتا تھا ممکن ہی نہیں تھا.اگر ویٹنام میں روس و بینا میوں کی امداد سے ہاتھ پھینچ لیتا تو امریکہ کو جو بالآخر عبرتناک شکست ہوئی وہ ممکن نہیں تھی.غالبا ساڑھے آٹھ سال کا عرصہ ہے جو انہوں نے وہاں بہت ہی درد ناک جنگ کی حالت میں گزارا ہے.وہ جنگ چند مہینوں کے اندر ختم ہو سکتی تھی اگر امریکہ کے مقابل پر روس انکامددگار نہ ہورہا ہوتا تو اس لئے بیرونی خطرات پہلے بھی تھے آج بھی ہیں اور کل بھی ہوں گے لیکن پہلے دوسمتوں سے ہوتے تھے اب ایک ہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 261 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء سمت سے ہیں اس لئے اس رمضان میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اب جب کہ ایک ہی طاقت ہے جو دنیا پر غالب آچکی ہے اور وہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت ہے تو اللہ تعالیٰ اس عظیم طاقت کو جیسی طاقت آج تک کبھی دنیا کی تاریخ میں پہلے نہیں ابھری کہ وہ ساری دنیا پر اس طرح غالب آچکی ہو کہ مقابل کی ہر طاقت اس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے ، یہ توفیق نہ دے کہ خدا کے روں سے ظلم کا سلوک کرے.اس دعا کی بڑی شدید ضرورت ہے.دعا کی یہ ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ امریکہ کو یہ ہوش دے.یہ عقل دے کہ وہ خدا بننے کی بجائے خدا کا نمائندہ بنے کی کوشش کرے.اور اگر واقعی امریکہ اس طاقت سے سچے دل کے ساتھ استفادہ کرنا چاہتا ہے اور دنیا میں امن پیدا کرنا چاہتا ہے تو سوائے اس کے اور کوئی حل نہیں کہ امریکہ انصاف پر قائم ہو جائے کیونکہ عدل کے بغیر دنیا میں کوئی امن قائم نہیں ہوسکتا.اور جو شخص عدل پر قائم ہو وہ خدا کا نمائندہ ہوسکتا ہے خدا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک گہرا راز ہے کہ عدل کے فقدان سے شرک پیدا ہوتا ہے خدا کے عادل بندے مشرک نہیں ہو سکتے.اس لئے خدا کے عادل بندے خدائی کے دعوے بھی نہیں کر سکتے.پس امریکہ کے لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ تاریخ میں کبھی کسی قوم کو ایسا موقعہ نصیب نہیں ہوا جیسا کہ امریکہ کونصیب ہوا ہے کہ تمام دنیا کو اپنی طاقت کے زور سے عدل سے بھر دے اور عدل کے نتیجے میں دنیا کو انصاف عطا کرے اور خدا اس کو یہ توفیق نہ دے کہ اس کے برعکس خود خدائی کا دعویدار بن جائے اور زور اور طاقت کے ساتھ اور جنبہ داریوں کے نتیجے میں اور سیاسی چالبازیوں کے نتیجے میں دنیا سے اپنی طاقت کا لوہا منوانے کی کوشش کرے اگر امریکہ نے ایسا کیا تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اللہ تعالیٰ ایسی قوموں کو کچھ مہلت تو دیتا ہے لیکن لمبی مہلت نہیں دیا کرتا اور پھر خدا کی تقدیران کو پکڑا کرتی ہے.اس کے مقابل پر تیسری دنیا کی قوموں کے لئے بہت بڑے ہولناک دن آنے والے ہیں وہ نہتے ہو چکے ہیں ان کے سروں کی چھت اڑ گئی ہے.کوئی انکا اس دنیا کا سہارا نہیں رہا.اس لئے ان کے لئے دعا کریں کہ وہ نیلی چھت والے سے تعلق پیدا کریں اس خدا سے تعلق پیدا کریں جس کی چھت ساری کائنات پر محیط ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انہیں ابتلاؤں سے بچائے گا اور یہ بھی ممکن نہیں جب تک وہ خود عدل پر قائم نہ ہوں کیونکہ غیر عادل کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا.یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 262 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء خیال غلط ہے کہ صرف امیر اور طاقت ور ظالم ہوا کرتا ہے یہ راز سمجھنے والا راز ہے اور اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ غریب اور کمزور بھی ظالم ہو جایا کرتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اسے اپنے ظلم کی توفیق نہیں ملتی یا کم ملتی ہے.پس ظالم ہونا یا نہ ظالم ہونا انسان کے اندرونی رحجانات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.میں نے تو جہاں تک نظر ڈالی ہے تیسری دنیا میں بھی اکثر ممالک ایسے ہیں جب بھی انہیں توفیق ملی ہے انہوں نے ظلم سے کام لیا ہے.وہی صدام حسین جن کے عراق پر یکطرفہ ظالمانہ بمباری کے نتیجے میں تمام مسلمانوں کے دل خون ہو رہے تھے اور سخت اذیت میں مبتلا تھے.اب اندرونی طور پر ان کو چھٹی ملی ہے کہ جبر کے ساتھ بغاوتوں کو نا کام کر دیں اور ملیا میٹ کر دیں تو اس جبر سے آگے بڑھ رہے ہیں جس جبر کی انسان کو خدا تعالیٰ کا خوف اجازت دیتا ہے ایک جبر کے مقابل پر جبر ہے جس کی قرآن کریم نے اجازت دی ہے اور خدا کے خوف کی راہ میں یہ بات مانع نہیں ہے لیکن وَلَا تَعْتَدُوا کی شرط کے ساتھ کہ ہر گز تم نے مقابل پر زیادتی نہیں کرنی انتقام اس رنگ میں نہیں لینا کہ جتناتم پر ظلم ہو رہا ہے اس سے زیادہ ظلم کر دیا انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے ظلم شروع کرد و پس کردوں کے مقابل پر یہ ظلم ہورہا ہو یا شیعوں کے مقابل پر ظلم ہورہا ہو.جو بھی شکل ہے ہر قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ باغیوں کا سر کچلے لیکن یہ حق نہیں کہ ان کو آگ کا عذاب دے کر مارے جیسا کہ امریکہ نے نیپام بم کے ذریعے عراقی فوجیوں پر ظلم کئے تھے یا گیس سے مارے یا تیزاب برسا کے مارے.اگر یہ باتیں جو بیان کی جارہی ہیں بچی ہیں تو پتہ یہ لگا کہ ادھر بھی ظلم تھا اور ادھر بھی ظلم ہے پھر ہماری یہ دعا جس کی میں نے تلقین کی تھی کہ اے اللہ ! حق کو فتح دے یہ کس کھاتے میں جائے گی حق تو پھر صرف اتنا سا باقی رہ گیا تھا کہ کویت پر ان کا حملہ نا جائز تھا.اور ان کو کویت خالی کر دینا چاہئے تو کو یت سے انخلاء کی حد تک تو ہماری حق والی دعا قبول ہوگئی.اس کے بعد اگر حق ایک طرف ہو ہی نہ اور دونوں طرف ظلم شامل ہو جائے تو یہ دعا کسی کے بھی حق میں مقبول نہیں ہوسکتی.پس یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو حق نصیب کرے.اس وقت تو یہ زمانہ آ گیا ہے کہ انسان کنگال ہوا بیٹھا ہے.اخلاق سے عاری ہو گیا ہے.حق سے عاری ہو گیا ہے غریب تو میں اگر دوسری ہمسایہ قوموں پر ظلم نہیں کرتیں تو اپنے ملک کے غریب باشندوں پر ظلم کرتی ہیں ہر طاقتور کمزور پر ظلم کر رہا ہے.ایسی افراتفری کے زمانے میں جبکہ طاقت کو گویا یہ اختیار ہے کہ ہر قسم کے ظلم وستم بجالائے اور کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 263 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء اس کو روکنے والا نہ ہو.ایسے دور میں قوموں کے تعلقات اسی ظلم کے رشتے پر ہی قائم ہوتے ہیں.آج امریکہ کو خدا نے جہاں یہ توفیق بخشی ہے کہ اب اس کے مقابل پر اس کا کوئی رقیب نہیں رہا.پہلے اگر مجبوریاں بھی تھیں تو اب مجبوریاں نہیں رہیں.اس وجہ سے خدا نے اسے توفیق بخشی ہے کہ وہ بے دھڑک ہو کر دنیا میں انصاف قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ موقعہ پھر شاید کبھی ہاتھ نہ آئے.آج اگر پہلے قدم غلط اٹھ گئے تو پھر دوبارہ ان غلط فیصلوں کی درستی ممکن نہیں رہے گی اس لئے میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ اس دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو امریکہ کی قوم کو اس عظیم تاریخی سعادت حاصل کرنے کے بعد کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتور قوم بن کے ابھری ہے ، یہ سعادت عطا کرے کہ اس طاقت کو بنی نوع انسان اور خود اپنی عاقبت کے خلاف استعمال نہ کرے بلکہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں اس طاقت (کے زمانے) کولمبا کر دے گا اور سینکڑوں سال تک دنیا کو امن نصیب رہے گا لیکن آثار ایسے ظاہر ہور ہے ہیں جن سے مجھے خطرہ ہے کہ شاید یہ نہ ہو سکے تو دوسری صورت میں تیسری دنیا کے لئے دعا کریں.کمزور ملکوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل میں انصاف پیدا کرے ان کے دل میں رحم پیدا کرے.ان کو اپنی اخلاقی تعمیر نو کی توفیق بخشے کیونکہ طاقت ور قوم کا طاقت سے مقابلہ نہیں ہوسکتا لیکن طاقتور قوموں کا اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ضرور مقابلہ ہو سکتا ہے.یہ راز ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا ہے پس اگر کوئی قوم اخلاقی لحاظ سے مضبوط ہو جائے اور اپنے نوک پلک درست کر لے اور اپنے اندر توازن پیدا کرلے اور حرص و ہوا سے باز آجائے اور قناعت کی زندگی بسر کرنا سیکھ جائے اور غربت میں ہی اپنی غریبانہ جنت بنانے کی اہلیت پیدا کر لے تو ایسی قوم پر دنیا کی کوئی طاقت حکومت نہیں کر سکتی.اعلیٰ اخلاق سے بڑھ کر انسان کا کوئی دفاع نہیں ہے.پس تیسری دنیا کے ملکوں کو میں بار بار یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی اندرونی اصلاح کریں.اپنے اخلاق درست کریں.اپنے اندرونی تعلقات کو درست کریں.انکسار پیدا کریں اور فی الحال غیر قوموں پر انحصار کو اگر فوری طور پر ترک نہیں کر سکتے تو کم سے کم یہ منصوبہ بنا ئیں کہ جتنی جلد ہو سکے گا آپ غیر قوموں پر انحصار سے تو بہ کریں گے اور خود داری کی زندگی بسر کریں گے خواہ غریبانہ ہو.اگر یہ نصیحت تیسری دنیا نے مان لی اور جماعت نے دعائیں کیں اور وہ مقبول ہوئیں اور اگر سب نے نہیں تو آہستہ آہستہ بعض ملکوں نے ان پر عمل کرنا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 264 خطبہ جمعہ ۲۲ / مارچ ۱۹۹۱ء شروع کر دیا تو پھر ہم یہ یقین کر سکیں گے کہ اگر طاقتوروں نے غلطی کی تو پھر بھی اس کا اتنا بڑا نقصان بنی نوع انسان کو نہیں پہنچے گا کیونکہ کمزور اپنی اصلاح کے ذریعے ان غلطیوں کی زد سے بچتے چلے جائیں گے اور اپنا دفاع وہ خود تیار کر لیں گے.اگر یہ نہ ہو تو آپ دیکھیں گے کہ جگہ جگہ جنگیں ہوں گی غریب قو میں غریب قوموں سے لڑیں گی.امیر قوموں سے ہتھیار خریدیں گی اور اپنے غرباء کا خون چوس کر اپنے ساتھی غرباء کا خون بہانے کے انتظامات کریں گی.یہ اس دنیا کا خلاصہ ہے بڑا مکر وہ خلاصہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب اخلاق سے عاری ہوکر سیاست پر نظر کی جاتی ہے تو اس کے سوا اور کوئی خلاصہ نہیں نکل سکتا.پس اس رمضان میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو عقل اور تقویٰ اور انصاف عطا کرے اور جماعت احمدیہ کو یہ توفیق بخشے کہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود اپنی دعاؤں کے ذریعہ اس دور میں سب سے زیادہ اہم تاریخی کردار ادا کرے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 265 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء رمضان المبارک عرفان الہی کے حصول کا مہینہ ہے ان ایام میں اپنے بیوی بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں (خطبه جمعه فرموده ۲۹/ مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مواصلات کا نظام چونکہ دن بدن بہتر ہو رہا ہے اور بین الاقوامی تعلقات مواصلاتی ذرائع سے مضبوط تر ہوتے چلے جارہے ہیں اس لئے جماعتوں میں بھی خطبہ براہ راست سننے کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے خصوصیت کے ساتھ ایسے مواقع جن میں جماعت کا خیال ہے کہ خاص مضامین پر مشتمل خطبے ہوں گے ان میں جماعتیں یہ پسند کرتی ہیں کہ کیسٹ کا انتظار کئے بغیر براہ راست خطبے سنیں.آج کے خطبے میں بھی حسب سابق ماریشس جو اس رجحان میں اولیت رکھتا ہے شامل ہے.ناروے، سویڈن ، ڈنمارک جرمنی اور جاپان بھی شامل ہیں اور اسی طرح انگلستان میں برمنگھم ، ہنسلو ، ساؤتھ ہال، مانچسٹر، ایسٹ لندن ، گلاسکو اور جنھم کی جماعتیں شامل ہیں.ان سب کو میں السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتا ہوں اور یاد دلاتا ہوں کہ اس قسم کے رجحان نیکی کی باتوں تک جلد پہنچنے کی حد تک تو درست اور قابل تعریف ہیں لیکن اس قسم کے خطبوں کو جو مواصلاتی ذرائع سے سنے جاتے ہیں براہ راست خطبوں یا جمعوں کا قائم مقام نہیں بنایا جاسکتا اس لئے اگر آپ کہیں جمعہ کے وقت میں شریک بھی ہیں تو جمعہ کی کارروائی الگ ہونی چاہئے.اس کا رروائی کو جمعہ کا حصہ نہ بنایا جائے ورنہ اس سے اسلام میں بدعات پیدا ہوں گی اور بدرسوم داخل ہو جائیں گی.پس اس نصیحت کے ساتھ اب میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 266 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء اپنے اس مضمون کی طرف واپس لوٹتا ہوں جو کچھ عرصے سے عبادات کے سلسلے میں شروع کر رکھا ہے.گزشتہ خطبے میں میں نے یہ متوجہ کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی حمد کے وقت اپنی ذات سے حمد کی نفی ضروری ہے ورنہ حقیقت میں خدا کی حمد کا اثبات نہیں ہو سکتا.اس مضمون کا تعلق دراصل لا اله الا اللہ سے ہے اللہ میں جس اللہ کی نفی ہے اور الا اللہ میں جس وجود کا بطور معبود اثبات ہے اس کے دونوں تقاضے ہیں کہ پہلے غیر اللہ سے ہر قسم کی تعریف اور ذاتی تعلق کی نفی ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ کا وجود ابھرتا ہے اور اگر کسی کپڑے پر ذاتی محبتوں کے رنگ بھی چڑھے ہوں اور خدا کے مقابل پر وہ رنگ قائم رہیں تو پھر خدا کا رنگ اس کپڑے پر نہیں چڑھتا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان اپنی تعریف سے بالکل مستغنی ہو جائے کیونکہ اپنی تعریف چاہنا انسانی فطرت کا حصہ ہے بلکہ اسے شعلہ حیات کہنا چاہئے کیونکہ دنیا میں انسان جو بھی کام کرتا ہے اس میں بڑے محرکوں میں سے ایک اپنی تعریف چاہنا اور ایک اپنے متعلق بدگوئی سے بچنا ہیں اور یہ زندگی کے بہت ہی بڑے محرکات ہیں جیسے موٹروں میں پڑول چلتا ہے اسی طرح یہ دو طاقتیں ہیں جو انسانی زندگی کے عمل کو آگے بڑھاتی ہیں اس لئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ اپنی تعریف چاہنا یا کسی دوسرے دوست کی تعریف کرنا جو اپنے محدود دائرے میں تعریف کا مستحق ہو، یہ شرک ہے.یہ ہر گز شرک نہیں لیکن شرک وہ بات ہے کہ انسان اپنی یا اپنے دوستوں یا عزیزوں کی تعریف پر جا کر ٹھہر جائے اور پردے پر راضی ہو جائے ، نقاب پر راضی ہو جائے اور اس کی نگاہیں نقاب سے پار سرایت کر کے پیچھے اصل حسن کی تلاش نہ کریں.اگر یہ کیفیت ہو تو یہ بھی ابھی شرک نہیں بنے گی لیکن غفلت ہوگی اور دنیا میں اکثر لوگ غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے عظیم علم کلام میں ایسے دنیا داروں کو غافل کے طور پر بیان فرمایا ہے اور بڑی باریکی سے ان کی غفلتوں کا تجزیہ فرمایا ہے.پس غفلت یہ ہے کہ انسان اپنی تعریف کو اپنا کر اس پر اس طرح راضی ہو جائے گویا واقعی وہ اس کا مستحق تھا اور اس سے پرے کوئی اور قابل تعریف ذات نہیں رہی اور وہیں تعریف کا گویا رستہ بند کر کے اسے اپنے برتن میں ہی سمٹنے لگ جائے.یہ چیز غفلت کی کیفیت ہے جو بالآخر شرک پر منتج ہو جاتی ہے اور کئی قسم کی اور بھی برائیاں پیدا کرتی ہے.پس جب خدا کی ذات کے تعلق میں اپنی ذات کا سوچا جائے اور اپنی تعریف ہوتے دیکھ کر خدا کی طرف دھیان نہ جائے تو یہ خطرناک بات ہے جس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 267 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء سے جماعت کو بچنا چاہئے.خصوصا عبادت کے وقت یہ ایک بہت اچھی ذہنی اور روحانی ورزش ہے کہ انسان جب الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کا عاشقانہ نعرہ بلند کرتا ہے تو تلاش کر کر کے اپنی حمد سے اپنے وجود کو خالی کرے اور یہ کوئی مصنوعی کوشش نہیں ہے.یہ حقیقی کوشش ہے کیونکہ جب آپ زیادہ گہری نظر سے ہر تعریف کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے پہلے بھی جیسا کہ میں تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈال چکا ہوں، انسان کو ہر تعریف خواہ وہ غیر کی کرتا ہو یا اپنی ہو سطح دکھائی دینے لگتی ہے اور اس تعریف کے پیچھے عوامل کا بے انتہاء لمبا دور ہے جو بالآخر اس تعریف پر منتج ہوئے جن کے نتیجے میں وہ تعریف پیدا ہوئی جس پر انسان کا کوئی بھی بس نہیں.کوئی بھی اختیار نہیں اور وہ خالصہ اللہ کے فضل سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں.حسن خواہ جسمانی ہو یا روحانی یا اخلاقی ہو.بدصورتی خواہ ذاتی جسمانی ہو یا اخلاقی یا روحانی ہو.ہر چیز کے پیچھے عوامل کارفرما ہیں اور ان عوامل میں جہاں تک تعریف کا تعلق ہے محض اللہ کا فضل ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں ہم قابل تعریف بنتے ہیں یا ہمارا کوئی دوست یا کوئی منظر قابل تعریف دکھائی دیتا ہے.اس پہلو سے اس مضمون پر غور ہونا چاہئیے اور اس ضمن میں ایک مزید بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس حد کا تعلق جب ہم خدا کے پیاروں سے جوڑتے ہیں اور أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مضمون سے باندھتے ہیں تو اس وقت ایک اور رستہ ہمارے سامنے کھلتا ہے اور ہم یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اصل تعریف وہی ہے جو خدا کی طرف سے لوٹ کر آتی ہے.اس مضمون پر بھی میں نے کسی حد تک روشنی ڈالی تھی لیکن اب أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مضمون سے اس تعلق کو جوڑ کر کچھ مزید روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کی حمد سے بیان کے بعد باقی آیات سے گزرتے ہوئے جب ہم یہاں پہنچتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لَه اے خدا! ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام فرمایا تو انعام جن لوگوں پر فرمایا گیا ہے ان کے ذکر کی تفصیل کا ہمیں علم ہونا چاہئے.وہ کیا کیا باتیں کیا کرتے تھے.کون کون سی نعمتیں اور کون کون سے فضل اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل فرمائے تھے جن کے نتیجے میں ان میں ایک ایسا حسن پیدا ہوا کہ جو خدا کا پسند آنے لگا اور خدا کی آنکھ سے وہ لوگ محمود ہو گئے اور قابل تعریف کہلائے.اس پہلو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 268 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء سے آپ کو گہری نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا ہوگا اور خدا کے پیاروں ، انعام یافتہ لوگوں کا جہاں جہاں ذکر ملتا ہے خواہ وہ نبی ہوں یا اس سے ادنیٰ درجے کے انعام یافتہ لوگ ہوں ان کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا کہ کن کن آزمائشوں سے وہ گزرے اور کن کن ٹھوکروں سے بچے.کون سے ایسے دوراہوں پر وہ کھڑے ہوئے جہاں ایک طرف اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا راستہ تھا اور دوسری طرف مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا راستہ تھا.ایک قدم کی لغزش ان کو یا اس راہ پر چلا سکتی تھی جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کی راہ ہے اور ایک ہی قدم کی لغزش ان کو اس راہ پر بھی ڈال سکتی تھی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے غضب کی راہ اور ناراضگی کی راہ ہے وہاں انہوں نے کچھ فیصلے کئے اور ان فیصلوں کے نتیجے میں ان پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوئیں بعض دفعہ بڑی تلخی کی زندگیاں انہوں نے گزار ہیں.پس ان مواقع پر ان راہوں پر جہاں خدا کی خاطر تلخی برداشت کرنی پڑی وہ تمام تلخیاں نعمتیں ہیں.اس کو آزمائش کہا جاتا ہے اور اگر وہ نعوذ بالله من ذالك غلط راہ پر قدم اٹھاتے تو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں داخل ہوتے لیکن بظاہر وہ راہ آسان دکھائی دیتی اور نعمتوں والی راہ دکھائی دیتی لیکن اس راہ کی سب نعمتیں قرآنی بیان کے مطابق خدا کے غضب کا مظہر ہیں اور ان کی ضلالت اور گمراہی کا مظہر ہیں تو اس مضمون پر غور کرنے سے نعمتوں اور فضلوں کا نیا مفہوم ذہن میں ابھرتا ہے اور انسان خدا کے ان بندوں پر جو آزمائش کے دور سے گزارے جاتے ہیں، رحم نہیں کرتا بلکہ ان پر رشک کرنے لگتا ہے.یہ عرفان کا وہ مقام ہے جس کے بغیر مومن صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا.اب پاکستان میں ہمارے مظلوم احمدی ہیں جن پر کئی قسم کے مظالم توڑے جارہے ہیں ان کیلئے ہمدردی پیدا ہو نا غلط نہیں یہ ایک طبعی اور فطری بات ہے لیکن ان کو اپنے سے ادنی سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ وہ بے چارے تو مارے گئے.یہ جہالت ہے اور یہ عرفان کی کمی ہے ایک وقت ایسا آئے گا جب کہ ہم سب خدا کے حضور پیش ہوں گے، اس وقت آج جو نسبتا آسانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور خدا کی راہ میں آزمائشوں میں نہیں ڈالے گئے وہ ایک اور زاویے سے ان حالات کا جائزہ لیں گے اور وہ حسرت سے یہ کہیں گے کاش ہم ان کی جگہ ہوتے کیونکہ وہ نہیں مارے گئے جو ان مشکل کی راہوں پر خدا کے فضل نے انہیں ثبات قدم عطا فر مایا.پس یہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی ایک سیر ہے جس کو حمد کے مضمون کے ساتھ جب آپ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 269 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء جوڑ کر اس دنیا کی سیر کرتے ہیں تو عجیب عجیب حسین نظارے دکھائی دیتے ہیں اور ایسے عجیب مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ایک زاویے سے مکروہ دکھائی دیتے ہیں ، دوسرے زاویے سے حسین دکھائی دینے لگتے ہیں.اگر آپ کو وہ مکروہ دکھائی دیتے ہیں یعنی وہ واقعات جو أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ پر گزر رہے ہیں ، وہ واردات جو وہاں ہو رہی ہے اگر وہ باتیں آپ کو مکر وہ دکھائی دیتی ہیں تو پھر آپ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ پر چلنے کے لائق نہیں.یہ سبق ہے جو آپ کو اس جائزے سے ملتا ہے آپ کو لازماً اپنے زاویہ نظر کی اصلاح کرنی پڑے گی.اس حد تک اپنے نفس کی اصلاح کرنی پڑے گی کہ حضرت محمد مصطفی میے اور آپ کے غلاموں پر جو مصیبتیں ٹوٹیں ان کے ذکر کے ساتھ آپ کا دل خون بھی ہورہا ہو تو ان پر رشک کر رہا ہو اور دل یقین کرتا ہو کہ یہ تکلیفیں تو خدا کے محبوب بندوں کی تکلیفیں ہیں اور یہ وہ ایسی تکلیفیں ہیں جو ہزار زندگیاں دے کر بھی میسر آجائیں تو غلط سودا نہ ہوگا.یہ بظاہر تضاد کی بات ہے لیکن حقیقت میں یہی عرفان ہے جو سچا عرفان ہے.پس جب آپ اس پہلو سے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کا ایک نیا تصور دل میں باندھیں گے تو خدا کی راہ میں مشکل کی زندگی بسر کرنا مشکل دکھائی نہیں دے گا.مشکل ہوگا بھی تو اللہ کا فضل اس کو آسان کرتا چلا جائے گا کیونکہ وہ چیز مکر وہ دکھائی دیتے ہوئے بھی آپ کو اپنے پس منظر میں حسین دکھائی دے گی.آپ یہ سمجھیں گے کہ کراہت کا ایک ظاہری پر دہ ہے جو سامنے ہے، یہ دھوکا ہے اس کے پیچھے جنت ہے اور اس جنت کی خاطر اس تکلیف کے پردے سے آپ اپنے لئے گزرنا گوارا کرلیں گے پس حمد کا مضمون جب سورۂ فاتحہ کے باقی مضامین سے باندھ کر مطالعہ کیا جاتا ہے تو نئے نئے مطالب انسان کے سامنے ابھرتے رہتے ہیں اوکھلتے رہتے ہیں اور نئی نئی راہیں عرفان کے سفر کی انسان کے سامنے دراز ہوتی رہتی ہیں جن پر قدم مارنے کی توفیق محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے عطا ہوتی ہے.اس ضمن میں میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رمضان مبارک ہے اور خاص طور پر دعاؤں کے دن اور دعاؤں کی راتیں ہیں اس لئے جن لوگوں پر خدا نے انعام فرمائے ان کی زبان میں دعائیں یاد کریں اور قرآن کریم نے وہ دعا ئیں سب تو نہیں مگر ان میں سے اہم ترین دعائیں ہمارے لئے محفوظ فرما دی ہیں.پس مختلف انبیاء کی جو دعائیں آپ کو قرآن کریم میں ملتی ہیں ان کے علاوہ احادیث نبویہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی امے کی وہ دعا ئیں بھی ملتی ہیں.جو قرآن میں گزشتہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 270 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء انبیاء سے تعلق میں نظر نہیں آتیں مگر حضرت محمد مصطفی عملے نے گزشتہ انبیاء کی دعاؤں کی فہرست میں عظیم الشان اضافے فرمائے ہیں.بعض دفعہ دوسروں کو نصیحت کی شکل میں اور بعض دفعہ خود دعائیں کرتے ہوئے ایسی دعائیں کیں جو قرآن کریم میں موجود نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کیں اور آپ کے صحابہ نے انہیں ہمارے لئے محفوظ کر لیا اور اس طرح ہمارے لئے ایک عظیم خزانہ پیچھے چھوڑ دیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اردو زبان میں ایسی دعائیں کی ہیں جو مختلف شکلوں اور مصیبتوں کے وقت دعا کرنے والے دل کو اتنا گداز کر دیتی ہیں کہ اس گداز دل کی کیفیت کے ساتھ انسان یہ یقین ہی نہیں کر سکتا کہ یہ دعا مقبول نہیں ہوگی.دعا کی قبولیت کے لئے دل کی زمین کا نرم ہونا ضروری ہے اور اسی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے زمیندار بونے سے پہلے زمین کو ہل چلا تا اور اس پر گوڈی کرتا اور اس پر اور منتیں کرتا کبھی سوہاگے پھیرتا اور پھر ہل چلاتا.یہاں تک کہ اس کو ایسا نرم اور مزیدار بنادیتا ہے کہ جانوروں کا دل چاہتا ہے کہ وہ زمین پر لیٹیں اور لوٹیں اور بچوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس پر خوب دوڑیں اور کھیلیں خواہ ان کے جسم مٹی سے بھر جائیں مگر اس زمین پر دوڑنے کا ایک عجیب اور الگ لطف ہوتا ہے وہ زمین ہے جو بتا رہی ہوتی ہے کہ یہاں بیج ڈالو تو بیچ اگے گا.میری چھاتی تمہارے بیجوں کے لئے نرم ہو چکی ہے اور وہاں وہ پیج ضرور اگتا ہے.پس دعا کا بیچ بھی اپنے اگنے کے لئے دل کی ایسی ہی زمین چاہتا ہے جسے نرم اور گداز کر دیا گیا ہو جو ایسی کیفیت میں ہو کہ اگر کوئی دوسرا اس دل کو دیکھے تو اس پر پیار آئے اور اس دل پر لوٹنے کو دل چاہے ایسی کیفیت میں جو دعائیں دل سے اٹھتی ہیں وہ ضرور مقبول ہوتی ہیں اور بسا اوقات ایسے دل سے اٹھنے والی دعا اٹھتے وقت انسان کو یہ خبر دے جاتی ہے کہ میں عرش الہی پر پہنچنے سے پہلے نہیں رکوں گی اور لازماً بارگاہ الہی میں مقبول ہوں گی.وہ ایک عجیب کیفیت ہے جو صاحب تجربہ کو معلوم ہوتی ہے جس کی کیفیت کو دوسرے تک جسے تجربہ نہ ہو بیان کے ذریعہ پہنچایا نہیں جاسکتا لیکن میں جانتا ہوں کہ اکثر احمدی کسی نہ کسی وقت ضرور ان تجارب سے گزرتے ہیں.پس انبیاء کے الفاظ میں دعا کرنا دل کے اندر وہ نرمی اور گداز کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے کہ جس میں پھر دعا کا بیج بویا جاتا ہے اور ایک شجرہ طیبہ بن کر اگتا ہے.جس کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں اور ان شاخوں کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ ضرور پھل لگتا ہے اور ہر موسم میں پھل لگتا ہے.یہ دعا کا شجر ایسا ہے جو کلمہ طیبہ کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 271 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء صورت میں دل میں پیوست ہو اور پھر آسمان تک اس کی شاخیں بلند ہوں تو اسے کسی بہار کی انتظار نہیں ہوتی وہ خود اپنی ذات میں بہار کا منظر پیش کرنے والا ایک دائم ایک سدا بہار ایسا درخت بن جاتا ہے جسے پھل لگتے ہی رہتے ہیں.پس قرآن کریم نے ایسے درخت کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہی فرمایا کہ كُلَّ حِینِ ہر حالت ، ہر موقعہ پر ، ہر کیفیت میں اس کو خدا تعالیٰ کے فضل سے پھل عطا ہوتے رہتے ہیں اور وہ کبھی بھی پھلوں سے محروم نہیں رہتا.پس یہ انبیاء کی وہ دعائیں ہیں جو ایسے دلوں سے نکلی تھیں جو دل دعاؤں کو قبول کرنے کے لئے انتہائی درجے پر تیار ہو چکے تھے اور جس کیفیت میں دعائیں دل سے اٹھی تھیں ان کیفیتوں کا ایک اثر پیچھے چھوڑ گئی ہیں اور وہ الفاظ ایسے ہیں جو زمانے کے ساتھ کبھی مر نہیں سکتے.وہ کیفیتیں ایسی ہیں جو ان الفاظ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو چکی ہیں.پس اگر آپ غور کر کے انبیاء کے الفاظ میں دعائیں کریں تو آپ کی دعاؤں کو بہت بڑی عظمت ملے گی اور پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کون لوگ ہیں؟ کیوں ان لوگوں پر انعام کیا گیا ؟ اور یہ تعریف کا کلمہ ہے ان کے حق میں خدا نے کیوں فرمایا؟ کیسے کیسے یہ لوگ تھے ؟ تو اگر چہ آپ خدا کے حضور اپنے وجود کو کلیۂ خالی کر چکے ہوں گے لیکن ایک اور حمد آپ کو عطا ہوگی جو آسمان سے عطا ہوگی اور ان آسمانی وجودوں کی معرفت آپ کو عطا ہوگی.اس ضمن میں ایک اور غلط فہمی بھی دور ہونی چاہئے.میں نے گزشتہ خطبے میں یہ کہا تھا کہ دعا کرتے وقت اپنی کسی تعریف کے حوالے سے دعا نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے آپ کو خالی کر کے ایسے فقیر بنا کے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، جس کو دیکھ کر سخت دل کو بھی رحم آجائے ایسی کیفیت کے ساتھ دعا کرنی چاہئے.بعد میں مجھے خیال آیا کہ بعض لوگوں کو ایک حدیث کے نتیجے میں غلط فہمی نہ پیدا ہو کہ گویا یہ مضمون آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے نعوذ بالله من ذالك مخالف ہے.وہ حدیث ہمیں تین ایسے آدمیوں کا پتا بتاتی ہے جو ایک غار میں کسی کام کی غرض سے گئے.پیچھے زلزلے کے نتیجے میں ایک بہت بھاری چٹان لڑھک کر اس غار کے منہ پر آپڑی اور غار کا منہ بند ہو گیا اور ان کے لئے اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی اور بالکل بے طاقت تھے کہ وہ اس پتھر کو سر کا سکیں.تب ان میں سے ایک نے یہ سوچا کہ میں نے اپنی زندگی میں نیکی کا وہ کونسا ایسا کام کیا ہے کہ جس کے حوالے سے میں دعا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 272 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء مانگوں تو اللہ تعالیٰ کو رحم آجائے گا اور اس نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنی ایک ایسی نیکی ڈھونڈی اور پھر اس نیکی کے حوالے سے دعا کی تو وہ پتھر کچھ سرک گیا.پھر دوسرے شخص نے بھی اسی کی مثال پکڑی اور اپنی نیکیوں پر نظر ڈال کر، اپنی زندگی پر نظر ڈال کر ایک ایسی نیکی تلاش کی جس کے متعلق وہ سمجھتا تھا کہ خاص مقام رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند آئے گی.چنانچہ اس نے اپنی عرضداشت پیش کی اور وہ مقبول ہوئی اور وہ پتھر کچھ اور سرک گیا لیکن ابھی ان کے نکلنے کی راہ کافی نہیں تھی.پھر تیسرے کو بھی یہی خیال آیا اور اس نے بھی اپنی ایک نیکی تلاش کی اور بالآخر وہ پتھر مزید ہٹ گیا اور ان تینوں کے نجات کی راہ نکل آئی.یہ مضمون تو یہ بتاتا ہے کہ اپنی نیکیوں کے حوالے سے تعریف کرنا نہ صرف جائز بلکہ ایک اعلیٰ درجے کی گویا خوبی ہے لیکن جو لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں وہ اس حدیث کے مفہوم کو نہیں سمجھتے کیونکہ اگر اس حدیث کا یہ مفہوم ہوتا تو انبیاء کی دعاؤں میں ہمیں کہیں تو ایک جگہ ایسی دعائیں جس میں خدا کے کسی نبی نے اپنی نیکی کے حوالے سے دعا کی ہو.میں نے تو گہری نظر سے قرآن کریم کی دعاؤں کا مطالعہ کیا ہے، احادیث کی دعاؤں کا مطالعہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا مطالعہ کیا ہے.مجھے کہیں اشارہ بھی کوئی ایسی دعا دکھائی نہیں دی جس میں کسی نبی نے بھی یہ عرض کیا ہو کہ اے خدا! میں یہ ہوں اور میری اس نیکی پر نگاہ ڈال اور میری خاطر یہ کام کر دے کہیں کوئی ذکر نہیں.اپنے آپ کو بالکل تہی دامن کر دیا ہے.خالی ہاتھ دکھایا ہے ایسا کشکول ہے جس میں کچھ دکھائی نہیں دیتا.روحانی لباس میں وہ لوگ اس طرح خدا کے حضور ظاہر ہوئے ہیں کہ تقویٰ کے لباس سے مزین ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کر رہے تھے جیسے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کوئی فقیر ہو اور فقیر بن کر اس کی راہ میں بیٹھے تھے اور فقیر بن کر دعائیں کرتے تھے.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ دعا دیکھیں رَبّ اِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص: ۲۵)اے میرے رب ! لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير جو بھی خیرات تو میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا فقیر بنا بیٹھا ہوں.میرے پاس کچھی بھی نہیں.پس انبیاء کی دعاؤں پر غور کرنے سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کبھی دعا کی قبولیت کی خاطر اپنی خوبی یا نیکی کا حوالہ نہیں دیا.پھر یہ حدیث اگران معنوں میں لی جائے جو میں نے بیان کئے ہیں تو اس تمام تاریخ انبیاء سے ٹکرا جائے گی جو درست نہیں ہے.اس حدیث کا اور معنی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 273 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء اس حدیث کو میں اس نظر سے دیکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ ان بندوں کی خوبی یا ان کی چالا کی نہیں بتار ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عظمت کا بیان فرمارہے ہیں.یہ بتارہے ہیں کہ ایسے تہی دامن لوگ جن کو ساری زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد وہ نیکی دکھائی دی جو عام معیار سے کوئی خاص نیکی بھی نہیں کسی معصوم عورت کی عزت نہ لوٹنا بھلا کونسی نیکی ہے اور فاقہ کشی کے وقت میں، ایسے وقت میں جب کہ انسان کا دل نرم ہو چکا ہوتا ہے اور نرم ہونے کے بعد بجائے کسی اجرت کی طلب کے ویسے ہی انسان جو کچھ گھر میں ہے وہ غریبوں کے لئے خرچ کرنا چاہتا ہے.ایسے سخت تکلیف کے دور میں کسی کی عزت کا سودا نہ کرنا یہ کون سی نیکی ہے.صلى الله پس آنحضرت ﷺ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسے تہی دامن اور گنہ گار لوگ جن کی ساری زندگی میں کوئی نیکی نہیں تھی اور ایک بدی سے بچنا ہی گویا ان کی نیکی تھی.جب اس کا حوالہ دیا گیا تو اللہ اتنا رحمان ہے اور اتنا رحیم اور اتنا بخش کرنے والا ہے کہ اس نے کہا.ہاں میرے بندے! اگر یہ نیکی ہے تو یہ بھی قبول ہے ، اگر یہ ہے تو یہ بھی مقبول ہے گویا وہ مضمون یہ ہے کہ خدا تو کھوٹے پیسوں سے بھی بعض دفعہ آنکھیں بند کر لیتا ہے.اتنا بخشش کرنے والا.اتنا التجاؤں کو قبول کرنے والا ہے کہ اس سے اگر تم ہمیشہ دعا کے تعلق سے اپنے محبت کے رشتے مضبوط نہ کرتے رہو تو تمہاری محرومی ہے.وہ تو ہر وقت قریب ہے.ہر وقت سننے کے لئے تیار بیٹھا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو بعض لوگ غلط سمجھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی نیکیوں کے حوالے سے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں وہ پتھر تو ان کی زندگی میں ایک دفعہ گرا لیکن میں جانتا ہوں کہ ہماری زندگی میں مصیبتوں کے پتھر روز گرتے رہتے ہیں.کون انسان ہے جو اس تجربے سے نہیں گزرتا.کوئی دن ایسا نہیں آتا جو کسی نہ کسی پہلو سے تلخیاں لے کر نہیں آتا.کبھی اپنا غم کبھی کسی دوست کا غم کبھی رشتے دار کی تکلیف ،کبھی دشمن کی طرف سے ڈراوے اور کئی قسم کے خوف کبھی عالمی خوف کبھی علاقائی خوف، انسان کی ساری زندگی تو مصیبت کے پتھروں میں گری پڑی ہے اپنی کتنی نیکیاں آپ ڈھونڈ نکالیں گے کہ وہ پتھر سر کنے شروع کریں.ایک ہی علاج ہے اور وہ علاج وہ ہے جو انبیاء نے ہمیں سکھایا ہے کہ خدا کے حضور کامل بجز اور انکسار کے ساتھ حاضر ہوں.اپنی نیکیوں پر انحصار کر کے دعائیں نہ مانگو.خدا کے فضلوں پر انحصار کر کے دعائیں مانگو اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ ہم تہی دامن ہیں.سب تعریف تیرے لئے ہے جو کچھ ہمیں اچھا دکھائی دیتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 274 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء ہے وہ بھی تیری وجہ سے ہے اور تو نے بنایا ہے تو اچھا ہے.جو کچھ ہم نے کمایا اس کمانے کی توفیق بھی تو نے ہی دی اور اس پہلو سے انسان جب اپنی ساری زندگی پر نظر ڈالتا ہے تو اس کو اتنے مواقع دکھائی دیں گے کہ جب وہ ہلاک ہو سکتا تھا اور اپنی کمزوریوں اور بدیوں کی وجہ سے ہلاک ہوسکتا تھا.اگر خدا اس کی پردہ پوشی نہ کرتا تو ایسے مواقع بھی ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں کہ ایک دفعہ پر دے کا چاک ہونا اس کی ہلاکت کا سامان پیدا کر سکتا تھا، کچھ بھی اس کا باقی نہ رہتا.پس جہاں یہ کیفیت ہو وہاں کوئی فَرِح فَخُود بے وقوف ہی ہوگا جو اپنی نیکی کے حوالے دے دے کر خدا سے مانگنے کا عادی بنے.کہاں سے اتنی نیکیاں لائے گا جب کہ بدیوں کا پلہ اتنا بھاری ہے اور کہاں سے ایسی نیکیاں لائے گا جس کی جزاء خدا نے نہیں دی کیونکہ خدا کا تو سارا زندگی کا تعلق ان باتوں کی جزاء دکھائی دیتا ہے جو ہم نے کبھی کی نہیں.یکطرفہ رحم کا سلوک ہے.یکطرفہ احسان کا سلوک ہے اور لامتناہی ہے.ہر ہر سانس خدا کے احسان کا ممنون ہے تو ایسی کیفیت میں حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی کلیہ ہتھیار ڈال دے.خالی ہاتھ اور نہتہ ہو جائے اور خدا کے حضور عجز اور انکسار سے دعائیں مانگے.پس یہ وہ مفہوم تھا جو میں کھولنا چاہتا تھا یہ مراد نہیں.نعوذ بالله من ذالك کہ حدیث نبوی کے کسی مضمون کے کوئی مخالف بات سمجھا رہا تھا بلکہ حدیث نبوی کے مضمون کے عین مطابق بات سمجھا رہا تھا اور یہی میں اب بھی سمجھاتا ہوں کہ جب دعائیں کریں تو اس کا آغاز حمد سے ہونا چاہئے اور حمد وہ جو آپ کے دامن کو بالکل خالی کر دے.جو کچھ ہے وہ خدا کے حضور پیش کردیں لیکن دنیا کے کاروبار میں ہمیں بالعموم اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ بعض انسان غفلت میں بلکہ میں سمجھتا ہوں بہت بڑی تعداد ہے جو خدا کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے برتن میں ڈالتے ہیں گویا چھلنی ہے نیچے ان کا اپنا برتن ہوتا ہے خدا کی تعریف چھلنی میں سے نکل نکل کر ان کے برتن کو بھرتی رہتی ہے اور خدا کی جو چھلنی ہے وہ خالی رہتی ہے.اس کے برعکس خدا کے بعض مومن بندے ایسے ہیں جن کی تعریف کی جائے تو یوں لگتا ہے کہ وہ تعریف چھلنی پر گری ہے اور اس کے نیچے خدا کی حمد کا برتن پڑا ہے جو تعریف ان کی ہو خواہ ان کا اپنا نفس کسی وقت کرے یا غیر اس کی تعریف کرے وہ ان کے دل کی چھلنی سے نکل کر خدا کے دائمی برتن کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے.یہ تعریف کا وہ تعلق ہے جسے سمجھنا چاہئے.اگر ایک انسان صحیح معنوں میں خدا تعالیٰ کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 275 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء عرفان حاصل کر چکا ہو.(عرفان تو کوئی انسان صحیح معنوں میں مکمل طور پر کر ہی نہیں سکتا) میری مراد یہ ہے کہ عرفان کے حصول کا نکتہ سمجھ جائے تو وہ ہمیشہ محسوس کرے گا کہ جب وہ کسی کی تعریف کرے یا جب کوئی اس کی تعریف کرے تو وہ آخری مقام نہیں ہے بلکہ اس سے پرے ایک مقام ہے اور جو بھی تعریف کا مستحق نظر آتا ہے اس کے پیچھے ایک سمندر ہے جس کا وہ ایک معمولی حصہ ہے.ویسا ہی ہے جیسا کہ غالب نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے ا قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا (دیوان غالب صفحہ:۵۹) کہ اگر تمہیں قطرے میں سمندر دکھائی نہیں دیتا یعنی کسی قابل تعریف بات میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قابل حمد ذات دکھائی نہیں دے رہی اور یہ پتا نہیں لگتا کہ یہ قطرہ خدا کے سمندر کا ایک حصہ ہے تو یہ پھر دیدہ بینا نہیں ہے.یہ تو بچوں کا ایک کھیل ہے.میں امید کرتا ہوں کہ غالب نے انہی معنوں میں یہ شعر کہا ہوگا لیکن مجھے تو صرف انہی معنوں میں یہ شعر اچھا لگتا ہے اور انہی معنوں میں تعریف کے لائق بھی ہے کیونکہ یہ شعر خدا کی تعریف سے منسلک ہو جاتا ہے.پس یہ وہ معنی ہیں جس کو محوظ رکھتے ہوئے حمد کرنی چاہئے اور خوبصورت چیزوں پر نگاہ کرنی چاہئے اور خوبصورت چیزوں سے محبت کرنی چاہئے یعنی وہ محبت ان تک ٹھہر نہ جائے بلکہ ان کے وجود سے پار نکل جائے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم ہے کس قدر ظاہر ہے نور اس مبداء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا کہ دیکھو عالم میں کیسا خوبصورت نور پھیلا پڑا ہے.جیسے چاندنی راتوں میں ہمیں مشرق میں تجربہ ہے، ویسی چاندنی راتیں مغرب میں نہیں دیکھی جاتیں.وہ منظر ہی اور ہوتا ہے جو مشرق میں چاند ابھرتا ہے یا کسی ٹھنڈے دن خوبصورت دھوپ مغرب میں نکلتی ہے تو اس وقت دن کی روشنی کا جو لطف آتا ہے وہ مشرق میں کم دکھائی دیتا ہے.کسی کو خدا نے راتیں خوبصورت دی ہیں کسی کو دن خوبصورت دیدیئے ہیں.اگر نظر وہیں ٹھہر جائے اور ایک روز مرہ کے انگریز کی طرح آپ یہ کہیں What a beautiful morning اور وہیں بات کھڑی ہو جائے تو یہ غفلت ہے لیکن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 276 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء اگر آپ اس دل سے پیچھے چلے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھ سے اس نور کا لطف اٹھا رہے ہوں تو بے اختیار دل سے یہی کلام جاری ہو گا.کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا تمام نوروں کا جو سر چشمہ ہے اس کے نور کا ایک معمولی حصہ اس خوبصورت دن یا اس حسین رات کی شکل میں ظاہر ہوا ہے: بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا تمام جہان ، ساری کائنات یوں لگتا ہے ایک شیشہ بن گئی ہے جس میں ہمیں خدا کا حسن دکھائی دینے لگا ہے پس حمد کی نفی اور حمد کا اثبات یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود رہتی ہیں.غیر اللہ میں حمد ہوتی ہے کیونکہ اسی نے پیدا کی ہے لیکن اگر اس کی پیدا کردہ چیزوں تک حد ٹھہر جائے تو وہ غفلت کی زندگی ہے جو بعض دفعہ شرک میں تبدیل ہو جاتی ہے.ایسی غفلت کی زندگی ہے جو بعض دفعہ نہیں بسا اوقات شرک میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر خالق کے حسن کی طرف نگاہ آگے چل پڑے اور انسانی محبتوں کا جلوس آگے قدم بڑھائے اور خدا کی طرف حرکت کرنے لگے تو پھر یہ ایک عارفانہ زندگی ہے.پس سورۃ فاتحہ پڑھتے وقت جب آپ ان راہوں میں چلیں تو میں جیسا کہ بیان کر چکا ہوں انبیاء کی راہوں کی تلاش کریں اور انبیاء کی دعائیں خود بھی سیکھیں اور ان پر غور کریں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں.پھر اسی طرح غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم کی آیت ہے.جن لوگوں کی راہ آپ نہیں دیکھنا چاہتے ان کی تاریخ قرآن کریم میں لکھی ہوئی ہے.کن کن راہوں سے وہ گزرتے تھے.بظاہر کتنے عظیم الشان فتح یاب دکھائی دیتے تھے.جن کے بڑے بڑے قلعے تھے اور بڑی بڑی حکومتیں اور ان کے بڑے بڑے دبدبے تھے جن سے انسان دور دور تک لرزے کھاتا تھا اور انہوں نے بڑی جنتیں بنارکھی تھیں لیکن وہ ساری رفتہ رفتہ مٹ گئیں.تہہ خاک ہوگئیں اور سوائے تاریخ کے ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا.ان کی قبروں سے پھر کچھ اور ناداں قومیں اسی طرح اٹھیں اور پھر انہوں نے دنیا کی بڑی بڑی عظمتیں حاصل کیں مگر خدا سے تعلق نہیں جوڑا پھر وہ بھی صفحہ ہستی سے غائب ہوئے لیکن تاریخ میں نیکیوں کا ذکر پیار اور محبت اور دعاؤں کے ساتھ جاری رہا اور آخر تک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 277 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء ان پر سلام بھیجے گئے لیکن یہ جو پہلی قومیں تھیں جن کی بڑائی اور عظمت وقتی طور پر تھی اور خدا سے تعلق کے نتیجے میں نہیں بلکہ دنیا سے محبت کے نتیجے میں تھی ان کے مٹنے کے ساتھ ان کی حمد بھی مٹ گئی اور ان کی برائیاں باقی رہ گئیں اور مورخین نے پھر ان پر لعنتیں ڈالنی شروع کیں کہ وہ ایسے ظالم ، ایسے سفاک تھے.ان کی عظمتوں میں ہمیشہ کوئی بدی دکھائی دے گی.پس خدا تعالیٰ نے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ بھی خوب کھول دی ہے اور الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم کی راہ بھی خوب کھول دی ہے قرآن کریم میں اس کی وضاحت سے ذکر موجود ہے.پس آج کل رمضان میں خصوصیت کے ساتھ اپنے گھروں میں اس مضمون کو جاری کرنا چاہئے اور اس دلچسپ مضمون کے ذریعے اپنے بچوں کی علمی اور اخلاقی اور عملی تربیت کرنی چاہئے.قرآن کریم ایک موقعہ پر فرماتا ہے.وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُوْلُ يُلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيلًا يُوَيْلَتى لَيْتَنِي لَمْ اتَّخِذْ فُلَانَّا خَلِيْلًا لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِلْإِنْسَانِ خَدُولًا وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: ۲۸ تا ۳۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا دن آئے گا جب ظالم اپنے انگلیوں کے پورے تکلیف اور بے چین اور بے قراری اور حسرت کے ساتھ چہائے گا.یقول يُلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سبیلا کہ اے کاش میں اپنے رسول کے ساتھ راہ اختیار کرتا.اس راہ پر پڑتا جس راہ پر رسول چلا تھا اس لئے یہ جو ذکر میں کر رہا ہوں یہ صرف تاریخی ذکر نہیں ہے بلکہ آنحضرت ﷺ جس راہ پر چلے ہیں وہ راہ آج ہمارے لئے محفوظ کر دی گئی ہے اور اسی کو ہم صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہتے ہیں.پس صرف دعاؤں کی حد تک نہیں بلکہ روزمرہ کی عملی زندگی میں آج بھی ہمیں اس رسول کے ساتھ سفر اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے.اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو قرآن کریم فرماتا ہے وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کاٹے گا اور کہے گا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 278 خطبه جمعه ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء کاش مجھے رسول کی معیت نصیب ہوتی اور میں اس راہ پر چلتا جس راہ پر رسول نے مجھے ڈال دیا تھا.پھر فرمایا وہ کہے گا يُوَيْلَتى لَيْتَنِيْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانَّا خَلِيْلًا - صرف أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا مضمون نہیں ہے بلکہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا مضمون بھی بیان ہوا ہے وہ کہے گا وائے حسرت اے کاش ! میں فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بناتا اور اس کے طریق اختیار نہ کرتا.لَقَدْ ضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَ تي اس نے مجھے ذکر ملنے کے بعد پھر اس ذکر سے گمراہ کر دیا وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولا اور شیطان کی تو یہ فطرت ہے کہ وہ موقعہ پر ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور گمراہ کرنے کے بعد پھر آپ غائب ہو جاتا ہے اور انسان کومصیبتوں میں مبتلا چھوڑ کر اس سے دغا بازی کر جاتا ہے.وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا اور رسول خدا کے حضور یہ شکایت عرض کرے گا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو مَهْجُورًا کی طرح چھوڑ دیا.پس ذکر سے مراد قرآن کریم ہے گویا یہ مضمون ہمیں صرف ماضی میں نہیں بلکہ حال کی دنیا اور ہمیشہ مستقبل کی دنیا میں لے جاتا ہے.آنے والی نسلوں کو مستقبل کی دنیا میں لے جاتا ہے اور موجودہ نسلوں کو حال کی دنیا میں اور یہ بتاتا ہے کہ وہ راہیں ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں جن کو تم اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ کہتے ہو اور وہ راہیں بھی صرف ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں جن کو تم مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی راہیں کہتے ہو بلکہ قرآن کریم اور سنت محمد مصطفی حملے کی شکل میں آج تمہارے سامنے پڑی ہیں پس تم کیسی دعائیں مانگتے ہو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اے خدا! ہمیں صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دکھا اور ان راہوں پر چلا جو ان لوگوں کی راہیں تھیں جن پر تو نے انعام فرمایا اور وہ را ہیں تمہارے سامنے کشادہ اور کھلی پڑی ہیں اور تم ایک قدم آگے نہیں بڑھاتے اور پھر یہ دعا مانگتے ہو کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ جو لوگ ہیں ان کی اور ضالین کے گروہ کی راہوں سے ہمیں بچا.ان راہوں پر ہم قدم نہ ماریں جن پر مغضوب چلتے رہے اور جن پر گمراہ لوگ چلتے رہے اور جب ان دورا ہوں میں سے ایک اختیار کرنے کا وقت آتا ہے تو روز مرہ کی زندگی میں تم الْمَغْضُوبِ اور الضَّالِّينَ کی راہ میں چل پڑتے ہو لیکن قیامت کے دن تم حسرت سے یاد کرو گے اور کہو گے ،اے کاش ! ایسا نہ ہوتا.کاش! ہم اس سے پہلے مر چکے ہوتے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی راہ کو چھوڑ کر ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 279 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء ایسے بد بخت کی راہ اختیار کر لیتے جس نے ہمیں ذکر سے یعنی قرآن کریم سے پرے ہٹا دیا پس ہر ایسا دوست جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قدم بڑھانے سے مانع ہو.ہر ایسا تعلق جس کے نتیجے میں انسان رفتہ رفتہ نیکیوں سے محروم ہوتا چلا جائے اور پیچھے ہٹتا چلا جائے اور بدیوں کی طرف بڑھنا شروع کر دے تو وہی خلیل ہے، وہی الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی راہ دکھانے والا ہے ، وہی مالین کی راہ دکھانے والا ہے.پس ایسے تعلقات سے پر ہیز کریں اور صحبت صالحین اختیار کریں یعنی ایسے لوگوں سے تعلق بڑھائیں جن کے نتیجے میں آپ کو قرآن کے ساتھ محبت بڑھتی ہو اور رسول کے ساتھ محبت بڑھتی ہو.اس ذکر کو اپنے گھروں میں عام کریں.آج کل بہت ہی اچھا موقعہ ہے.نمازوں کی طرف توجہ ہے.بچے بھی اٹھتے ہیں.اگر وہ روزے نہیں رکھ سکتے تو سحری کھانے کے لئے اٹھ جاتے ہیں اگر ایک روزہ نہیں رکھ سکتے تو بعض بچے ایک دن میں دو دو تین تین روزے رکھتے ہیں.ایک بچے سے میں نے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ کتنے روزے رکھے تو اس نے کہا: آج میں نے پانچ روزے رکھے تو بڑوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن روزے کا احترام ہے.مجھے یہ جواب سن کر بڑی خوشی ہوئی اس کے دل میں روزے کا پیار ہے.وہ اسے قابل فخر سمجھتا ہے اس لئے اس نے دن میں پانچ دفعہ کھانا کھایا تو اس نے کہا میں نے پانچ روزے رکھے ہیں.ان پانچ روزے رکھنے والوں کو پانچ نمازوں کی بھی عادت ڈالیں.ان کو بتائیں کہ یہ نمازیں تو تم پڑھ سکتے ہو اور نماز کے طریق سمجھائیں حمد کی جو باتیں آپ سنتے ہیں وہ آگے ان کو ذہن نشین کروائیں اور گھر میں پیار کی مجلسیں لگا ئیں عورتوں بچوں کی مجالس اور ان کو سمجھائیں کہ اس طرح عبادت کی جاتی ہے.یہ یہ مقاصد ہیں.پھر جن کو یہ توفیق ملتی ہے کہ وہ روزہ رکھ سکیں ان کو ساتھ ساتھ یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ روزہ محض صبح کچھ کھانے سے نہیں رکھا جاتا کیونکہ محض کھانے سے تو جسم کو غذاملتی ہے اور یہ مہینہ روح کی غذا کا ہے.اس لئے تم صبح نفلی عبادت بھی کیا کرو پس یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جسم کی غذا کو خدا نے کم کیا ہے اور روح کی غذا کا ایک تعلق روح سے ہے جس میں اس کی غذا کو بڑھایا گیا ہے.پس اگر تم روح کی غذا بڑھاؤ گے نہیں اور محض جسم کی غذا گھٹاتے چلے جاؤ گے تو یہ فاقہ کشی ہے، روزہ نہیں.اس مضمون کو آرام سے نرم لفظوں میں بچوں کی زبان میں ان کو سمجھائیں اور ان کو نوافل پڑھوانا شروع کریں.اس چھوٹی عمر میں اگر نفلوں کی عادت پڑ جائے اور احساس ہو کہ میں نے وقت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 280 خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۹۱ء کے اوپر اٹھنا ہے اور نفل پڑھنے ہیں تو وہ عادت بعض دفعہ ہمیشہ کے لئے دل پر نقش ہو جاتی ہے اور انسانی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے، میں نے جو تہجد پڑھنے والے اکثر لوگ دیکھے ہیں وہ وہی جن کو بچپن میں عادت پڑی ہے یا جن کے گھروں میں بعض بزرگ تہجد پڑھا کرتے تھے اور بچپن میں انہوں نے دیکھا.دل پر اس کی عظمت بیٹھ گئی.خواہ وقتی طور پر وہ نہ بھی پڑھ سکے ہوں بعد میں ان کو عادت پڑ گئی مگر جو گھر ذکر سے خالی ہوں وہ یکتنی والی بات ہے کہ کاش ان کی دوستی ہمیں نصیب نہ ہوتی جہاں تہجد تو در کنار نمازوں کا بھی اہتمام نہ ہو وہ زندگی سے خالی گھر ہیں وہاں جو بچے پلتے ہیں ان کی حالت سخت قابل رحم ہے لیکن بہت سے ایسے گھر ہیں جو رمضان کے مہینے میں جاگ اٹھتے ہیں.رمضان کے مہینے میں ان میں زندگی کی چہل پہل دکھائی دیتی ہے.اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان گھروں کو خود بھی عبادت پر ہمیشہ قائم رہنے کے عزم کرنے چاہئیں اور رمضان مبارک میں بچوں کو عبادت کی عادت ڈالنی چاہئے.بعض دفعہ جو عادت بچے اختیار کرتے ہیں اس پر وہ قائم رہتے ہیں اور بڑے پیچھے ہٹ جاتے ہیں.پھر بچے ان کو یاد کراتے ہیں اور کہتے ہیں: بھئی ! آپ تو ہمیں کل کہہ رہے تھے کہ نماز پڑھا کرو اور تہجد پڑھا کرو.آپ تو اب مزے سے رات کو دیر تک باتیں کرتے ہیں اور صبح دیر سے اٹھتے ہیں تو یہ کیا بات ہوئی ؟ بچہ بعض دفعہ بے تکلفی سے اپنے ماں باپ کو ایسی باتیں سنادیتا ہے کہ اگر کوئی باہر سے سنائے تو اس سے لڑائی ہو جائے.تو یہ دن ہیں ان سے زیادہ استفادہ کریں.اللہ ہم سب کو ذکر کی توفیق عطا فرمائے اور سب سے زیادہ لذت ہمیں عبادت کے ذریعے خدا سے تعلق میں پیدا ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کوئی اور لذت ایسی نہیں جیسی خدا کی محبت میں ملتی ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 281 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی عظیم دعا، رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی برکات ( خطبه جمعه فرموده ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.رمضان المبارک اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے اور آج رات سے وہ عشرہ شروع ہوگا جس عشرہ میں ایسی مبارک گھڑیاں بھی آتی ہیں جب خدا تعالیٰ کے فضل سے قبولیت خود آسمان سے نیچے اترتی ہے اور دعاؤں کو دلوں سے اٹھاتی ہے اور ایک ایسی رات بھی آنے والی ہے جسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے جس کے متعلق فرمایا کہ وہ ساری عمر کی تمام راتوں سے بہتر رات ہے اگر اس کی برکتیں نصیب ہو جائیں تو انسان کی زندگی بن جائے.پس یہ وہ دن ہیں جو خاص دعاؤں کے دن ہیں صلى الله خاص محنت کے دن ہیں.یہ وہ راتیں ہیں جن راتوں کو حضرت اقدس محمد مصطفی ہے اس طرح زندہ کر دیا کرتے تھے.اس طرح روشن کر دیا کرتے تھے کہ دنوں کی روشنی سے ان کی روشنی بڑھ جاتی صلى الله تھی.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بتاتی ہیں کہ آنحضور ﷺ جو ہمیشہ عبادت پر مستعد رہتے ہیں ان راتوں میں تو یوں لگتا تھا کہ کمر کس لی ہے اور ایسے مستعد ہو گئے گویا آرام کو بھول گئے.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ بعض مواقع پر اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو سہولت کی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ اتنی محنت نہ کر ، اسے کچھ کم کر دے.پس یہ وہ عشرہ ہے جو بہت سی برکتیں لے کر آنے والا ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے زیادہ سے زیادہ بندوں کو اس عشرے کی برکتوں سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 282 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء نوازے اور ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی نظر میں ان برکتوں کے مستحق ٹھہریں.بہت سے کمزور ہیں جو اس عشرے میں جاگ اٹھتے ہیں جو سارا سال غفلت میں پڑے سوئے رہتے ہیں ان کے لئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ان کی آنکھ ایسی روشنی میں کھلے کہ پھر انہیں ہمیشہ کے لئے روشنی سے محبت ہو جائے اور سوائے مجبوری کے پھر وہ آنکھیں بند کرنے والے نہ ہوں ایسے بھی لوگ ہیں جو اس عشرے سے ڈرتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں کہ شاید ہم اس کا حق نہ ادا کر سکے ہوں.ایسے بھی ہیں جو روزے نہیں رکھ سکتے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی سب خلقت اس کی رحمتیں ٹوٹ رہی ہے اور ہم محروم ہوئے بیٹھے ہیں.اگر چہ قرآن کریم میں ان کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ تم پر کوئی حرج نہیں.تمہارا کوئی جرم نہیں اور خدا تعالیٰ تم سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.مگر دلوں کا کیا علاج کہ وہ اپنے آپ کو محروم سمجھتے اور اس محرومی میں جلتے ہیں ان کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سکینت کے سامان فرمائے اور ان کی محرومیوں کو عنایات میں تبدیل فرمادے اور ان کی دعاؤں کو جس حال میں بھی وہ ہیں اس حال میں سنے.ایسے بھی ہوں گے جو اٹھ نہیں سکتے.جو کھڑے ہو کر عبادت ادا نہیں کر سکتے.ایسے بھی ہیں اور ہوں گے جو بیٹھ بھی نہیں سکتے اور مجبور بستروں پر پڑے رہتے ہیں ایسے بھی ہوں گے جو کروٹ تک نہیں بدل سکتے ایسے بھی ہوں گے جولب تک نہیں ہلا سکتے.پس ان سب مجبوروں کو بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مجبوریوں اور بے بسیوں پر رحمت کی نظر فرمائے اور ان کے دلوں.دعائیں اٹھائے جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ بسا اوقات اس عشرے میں خدا کی قبولیت آسمان سے زمین پر اترتی ہے اور دلوں سے دعاؤں کو اٹھا کر عرش تک پہنچا دیتی ہے.سے وہ اس خاص عشرے کے دوران یہ حسن اتفاق ہے یا اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ وہ مضمون بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے جو میں گزشتہ کچھ عرصے سے سورہ فاتحہ سے متعلق بیان کر رہا ہوں اور ان دونوں باتوں کا انطباق ہو چکا ہے.پس آج کے مضمون میں میں اس حصے کی طرف احباب جماعت کو متوجہ کروں گا.پہلے بھی میں مختصر اذکر کر چکا ہوں لیکن اب زیادہ تفصیل سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب هم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کہتے ہیں تو ہم کیا دعا مانگتے ہیں اور ہمیں کیا دعامانگنی چاہئے.یہ ہے تو ایک دعا لیکن ایک ایسے برتن کی طرح ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 283 خطبہ جمعہ ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء جسے ہم نے اپنے جذبات اور اپنی امنگوں سے بھرنا ہے اور اپنے خیالات اس میں ڈال کر ان خیالات کو دعاؤں میں تبدیل کرنا ہے.اس ضمن میں یا درکھنا چاہئے کہ جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اس دعا کے دورخ ہیں.ایک پہلے کی طرف اور ایک بعد کی طرف.پہلے رخ کے لحاظ سے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا جس کا حسن سورۂ فاتحہ نے ہم پر ظاہر فرمایا ہے جس نے ہم کو چکا چوند کر دیا ہے ، ہماری نظروں کو چکا چوند کر دیا ہے اور ہمارے دل میں عشق کا شعلہ بھڑکا دیا ہے ہم تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں اور صرف تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن تیری مدد کے بغیر یہ مکن نہیں ہے پر وَايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں کہ عبادت کا حق ادا کریں اور عبادت کے سب فیض پانے کے لئے بھی تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.یہ رخ تو پہلے کی طرف ہے.سورۃ فاتحہ کا اعجاز ہے کہ اس نے اس دعا کو ایسے مرکز میں رکھا کہ دونوں طرف برابر چسپاں ہوتی ہے.آئندہ کے لئے اس دعا کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے خدا! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اس معاملے میں تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہمیں سیدھے راستے پر چلا کیونکہ اس راستے پر چلنا تیری مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے.اس پہلو سے جب ہم اس مضمون کا مزید مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت ہم پر اور زیادہ واضح ہو جائے گا کہ اس دعا کی مدد کے بغیر الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم پر چلنا ہرگز انسان کے بس کی بات نہیں.پس ہم کیا دعا کرتے ہیں؟ اس پہلو سے میں آپ کو کچھ مزید باتیں قرآن کریم کے مطالعہ کی روشنی میں سمجھانا چاہتا ہوں.یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ نعمتیں مانگی جارہی ہیں اور اس میں کونسی مشکل بات ہے لیکن جو مشکل بات ہے وہ یہ ہے کہ نعمتیں نہیں مانگی جار ہیں بلکہ نعمتیں حاصل کرنے والوں کا راستہ مانگا جارہا ہے اس لئے یہ غلط نہی دل سے نکال دیں کہ گویا یہ دعا ہے کہ اے اللہ ! ہماری جھولی میں ساری نعمتیں ڈال دے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی دعا کرے کہ اے خدا! میں تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہوں گا تو میری جھولی میں ہر قسم کے پھل ڈال دے.یہ تو بہت آسان دعا ہے مگر جو دعا سکھائی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! میں پھل چاہتا ہوں لیکن اس طرح جس طرح تیرے محنت کرنے والے بندوں نے پھل حاصل کئے اس طرح پھل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 284 خطبه جمعه ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء چاہتا ہوں جس طرح باغبان نے لمبے عرصے تک محنتیں کیں ، گٹھلیاں زمین میں گاڑھیں ، ان کے اردگر دزمین کی فلائی کی، اسے نرم کیا اور ہر قسم کی ضرورت پوری کی.جب راتوں کو اٹھنا پڑا تو راتوں کو اٹھا، جب چلچلاتی دھوپ میں پودوں کی حفاظت کے لئے جانا پڑا تو چلچلاتی دھوپ میں ان کی حفاظت کے لئے گیا ، جب پانی کی ضرورت پڑی تو پانی سے ان کو سیراب کیا غرضیکہ لمبا عرصہ محنت کرتا چلا گیا.ہر قسم کے جانوروں سے حفاظت کی ، ہر قسم کے چوروں اچکوں سے ان کی حفاظت کی.اپنے بچوں کی طرح انہیں پالا پوسا یہاں تک کہ وہ درخت تیری رحمت کے سائے تلے بڑے ہوئے اور پھر اس تمام عرصہ میں وہ تجھ سے دعائیں کرتا رہا کہ اے خدا! اس درخت کو آسمانی آفات سے بھی بچا.محنت تو میں نے کی لیکن پھل لانا تیرا کام ہے، تو اب ان درختوں کو شمر دارفرما دے.پھر اس کی دعائیں مقبول ہوئیں اور پھر کثرت سے ان درختوں کو پھل لگے اے خدا! مجھے ان زمینداروں کا رستہ دکھا اور ان زمینداروں کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما.اب اس دعا کو آپ سارے زمیندارے کے مضمون پر پھیلا کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ بہت ہی مشقتوں کی دعا مانگ رہے ہیں.آپ یہ سوچ کر حیران ہوں گے کہ آپ نرم سے منہ سے مانگ بیٹھے ہیں.اس صورتحال پر تو وہی شعر صادق آتا ہے کہ الا يا ايها الساقي ادركاسًا وناولها که عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکل ہا کہ اے ساقی ! پیالے کو چکر میں لا.پیالے کا دور چلا اور مے گساروں کے ہاتھوں تک پہنچا دے.کیوں اس کی ضرورت پیش آئی ؟ اس لئے کہ ہم شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ عشق آسان ہے، ہم عشق کو عیش سمجھتے تھے، ہم سمجھتے تھے کہ عشق لڑائیں گے اور مزے اڑائیں گے.ولے افتاد مشکل ہا، اب عشق آن پڑا ہے تو مصیبت آپڑی ہے.اب سمجھ آئی ہے کہ عشق ہوتا کیا ہے اور اس کے لوازمات کیا ہیں.پس یہ دعا مانگنا تو آسان ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ لیکن جب ان رستوں پر چلنے کی کوشش کریں گے اور اس دعا کے مفہوم کو پوری طرح سمجھیں گے تب سمجھ آئے گی کہ خدا سے کیا مانگ بیٹھے ہیں لیکن دنیا کے معشوقوں کی طرح کا یہ معشوق نہیں یہ حقیقی معشوق، مجازی معشوقوں سے بالکل مختلف ہے.وہ تو اپنے عشاق کی مدد نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 285 خطبہ جمعہ ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء کرتے لیکن یہ معشوق ہر آن اپنے عشاق کی مدد کے لئے مستعد کھڑارہتا ہے.وہ ان کے دل کی پکار پر کان دھرتا ہے اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کب میرا عاشق مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں دوڑتا ہوا اس کی طرف بڑھوں.جب وہ سوال کرتا ہے تو اس کو جواب دیتا ہے کہ فَإِنِّي قَرِيبٌ (البقرہ:۱۸۷)اے میرے بے قرار، بے چین بندے، اے میرے متلاشی ! میں تو تیرے پاس ہی ہوں.یہ ایسا معشوق ہے جو ماں سے بہت بڑھ کر اپنے طلبگار بچے سے حسن واحسان کا سلوک کرتا ہے.پس جہاں یہ راہ مشکل ہے وہاں آسان بھی ہو جاتی ہے اگر دعاؤں کی مدد سے اس کو آسان کیا جائے اور خدا سے وہ تعلق باندھا جائے جو محبت اور پیار اور عشق کا تعلق ہے.اس وضاحت کے بعد میں چند نمونے آپ کے سامنے قرآن کریم کے بیان کے پیش کرتا ہوں.قرآن کریم میں مختلف جگہ منعم علیہم کا ذکر بھی فرمایا گیا اور ان لوگوں کا ذکر بھی فرمایا گیا جو الْمَغْضُوبِ ہیں یا الضالین ہیں.عام طور پر معاملے کو آسانی سے سمجھانے کی خاطر یہ کہا جاتا ہے کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے متعلق جب آپ سوچیں تو یہ سوچیں کہ گویا یہود کا ذکر چل رہا ہے اور الضالین کی بات کریں تو ذہن میں عیسائیوں کی تاریخ کو لے آئیں لیکن یہ بات اتنی سادہ اور ایسی آسان نہیں اور اس طرح یک لخت اور یک دفعہ کسی ساری کی ساری قوم کو الضَّالِّينَ قراردینا بھی درست نہیں ورنہ یہ بات قرآن کریم کے بعض بیانات سے متصادم ہو جائے گی ،ان بیانات سے ٹکرا جائے گی کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جس میں بہت سے یہود کی بہت بڑی بڑی تعریفیں فرمائی گئی ہیں اور ان کو خدا کے نیک بندے قرار دیا گیا ہے یہی وہ کتاب ہے جس نے بہت سے عیسائیوں کی بہت تعریفیں فرمائی ہیں اور انہیں خدا کا عابد وزاہد بندہ قرار دیا ، ایسے بندے جو خدا کی خاطر دنیا حج کے ایک طرف چلے گئے اور عمر بھر عبادات میں صرف کر دی.پس ایسی کتاب کے مضمون کو اس رنگ میں سمجھنا کہ اس کتاب کے دوسرے مضمون سے ٹکرانے لگے درست نہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے رستوں سے ہمیں بچا تو یہود کی بات ان معنوں میں سوچتے ہیں کہ یہود قوم میں بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے شروع تاریخ سے ہی ایسی غلطیاں کیں جو خدا کے غضب کا نشانہ بنانے والی بھی تھیں اور دنیا کے غضب کا نشانہ بنانے والی بھی تھیں.پس یہود سے نہیں بلکہ ان بار بار ٹھوکر کھانے والوں اور غلطیاں کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 286 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء والوں کی راہ سے بچانے کی دعا ہے جو خدا کے غضب کا اور بنی نوع انسان کے غضب کا نشانہ بنے ہیں.پس ان مکروہات سے بچنے کی دعا ہے جو مکروہات خدا کے غضب پر منتج ہو جاتی ہیں اور اسی طرح ان غلطیوں اور ٹھوکروں سے بچنے کی دعا کی ہے جن میں عیسائی قوم بحیثیت قوم مبتلا ہوئی اور خدا کے ایک عاجز بندے کو خدا کا بیٹا بنا بیٹھی لیکن خودان میں بہت سے نیک لوگ بھی ہیں جب وہ خدا کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں، ان کے دل نرم پڑ جاتے ہیں.وہ خدا کے حضور اٹھ کر گریہ وزاری میں اور جھک کر اس کے حضور عبادت کرتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں.ایسے گروہ یہود میں سے بھی ہیں اور نصاریٰ میں سے بھی ہیں.پس کسی قوم سے نفرت کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ بعض برائیوں سے نفرت کی تعلیم دی گئی ہے اور ان کی مثالیں آپ کے سامنے معاملے کو آسان بنانے کے لئے رکھی گئیں.ایک اور وجہ اس دعا کو زیادہ وسیع معنوں میں لینے کی یہ ہے کہ قرآن کریم سے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ خدا تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے پیغام بھیجے ، رسول مبعوث فرمائے، خوشخبریاں دینے والے بھیجے، ڈرانے والے بھیجے اور ان کی قوموں نے بھی ان سے ایسے سلوک کئے کہ بعض انعام پانے والی بن گئیں اور بعض مغضوب ہو گئیں اور بعض ضالین ٹھہریں تو اگر اس دعا کو یہود اور عیسائیوں کے ذکر پر ہی محدود کردیں گے تو ان مشرکین کا کیا بنے گا جنہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سب سے زیادہ مخالفت کی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شرک نجس ہے اور ہر دوسری چیز کو خدا معاف فرما دے گا مگر شرک کو معاف نہیں فرمائے گا اور ان قوموں کا کیا بنے گا جو ہندوستان یا چین یا جاپان یا دوسری دنیا میں شرک میں مبتلا ہیں اور مبتلا رہی ہیں یا دوسرے کئی قسم کے ایسے گناہوں میں ملوث ہوئیں جو خدا کے اور بنی نوع انسان کے غضب کا نشانہ بنانے والے گناہ تھے اور پھر ان قوموں کا کیا بنے گا جو دنیا کے مختلف خطوں میں نئی دنیا میں یا پرانی دنیا میں پیدا ہوئیں اور خدا کے حضور ضالین ٹھہریں.پس اس مضمون کو اتنے محدود تصور کے ساتھ اپنے ذہن میں نہ جمائیں بلکہ اس وسیع تصور کے ساتھ ذہن میں جمائیں اور ساری دنیا میں ہر وہ قوم جو بعض غلطیوں کی وجہ سے خدا کی نظر میں مغضوب ٹھہری اس سے بچنے کی دعا کریں اور ہر وہ قوم جو گمراہ ہو گئی اور اپنی بعض نیکیاں بھی قائم رکھیں لیکن بعض بدیوں میں بھی مبتلاء ہوئی.اچھے بُرے کو ملا دیا اور اس طرح خدا نے انہیں گمراہ قرار دیا خواہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 287 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء وہ مشرق کی قوم ہو یا مغرب کی قوم ہو.خواہ وہ اسلام سے باہر ہو یا مسلمانوں کے اندر ہو، ہرایسی قوم سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے.پس مسلمانوں میں بھی اگر کچھ ایسے لوگ ہوں جو وہ عمل کریں جو الْمَغْضُوبِ بنانے والے ہوں تو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا ان پر بھی صادق آتی ہے اور ان کو بھی اپنے دائرے میں لیتی ہے اور ان سے بچنے کے لئے بھی ہمیں متوجہ کرتی ہے.اسی طرحہ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا دائرہ بھی بہت ہی وسیع ہے.پس جیسا کہ میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے انعمت کی تعریف معلوم کریں کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ والے لوگ ہیں کیا؟ اور ان کا مزید مطالعہ کریں.پھر جب آپ دعا مانگیں گے تو پتا ہوگا کہ کیا مانگ رہے ہیں آنکھیں بند کر کے نہیں مانگیں گے بلکہ ہوش سے مانگیں گے اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھ کر دعا مانگیں گے اور پھر ان کا دل ان کو بتائے گا کہ وہ اپنی دعا میں سچے ہیں یا جھوٹے ہیں واقعی صمیم قلب سے دل کی گہرائیوں سے دعا کر رہے ہیں یا پو پلے منہ کی باتیں ہیں.اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں.اب بتائیے کہ یہ دعا کوئی آسان دعا ہے کہ اے خدا! ہمیں ان راستوں پر چلا جہاں گندی گالیاں دی جاتی ہیں اے خدا!! ہمیں ان رستوں پر چلا جہاں بغیر قصور کے لوگ گھروں سے نکالے جاتے ہوں اور قتل کئے جاتے ہوں ،ایسے رستوں پر چلا جن رستوں پر پتھر پڑے ہوں اے خدا! ہمیں ان رستوں پر چلا جہاں چلنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے ذبح کئے جاتے ہوں، ان کی مائیں ذبح کی جاتی ہوں، ان کی عزتیں لوٹی جاتی ہوں ان کو ہر قسم کے الزام کا نشانہ اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہو.جہاں زندگی عذاب بنادی جاتی ہواب بھلا یہ دعا کوئی ہوش مند آنکھیں کھول کر کر سکتا ہے مگر جب أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو اس راہ سے گزرنے والوں کی جو راہ ہم مانگ رہے ہیں اسی قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کئے گئے.اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی قصور کے ان کو قتل کیا گیا، ان کو گھروں سے نکالا گیا، ان کے اموال لوٹے گئے، انہیں طرح طرح کے سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا.ساری زندگی ان سے نفرتیں کی گئیں، ان کو حقیر قرار دیا گیا ، ان کو گمراہ قرار دیا گیا ، ذلیل ادنی ادنیٰ لوگ جب ان راہوں سے گزرتے تھے جہاں سے خدا کے یہ نیک انعام پانے والے بندے گزر رہے ہوتے تھے تو بڑی بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 288 خطبه جمعه ۵ر اپریل ۱۹۹۱ء باتیں ان پر بناتے تھے اور ان کو حقارت سے دیکھتے تھے.ایک دوسرے کو آنکھیں مارتے تھے اور ہنستے ہوئے کہتے تھے کہ یہ گمراہ ہیں جس نے دیکھنے ہیں دیکھ لے.یہ بد بخت لوگ ہیں جن کے پاس کوئی ہدایت نہیں.ایسے ایسے مظالم کا ان کو نشانہ بنایا گیا اور جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس مطالعہ میں ساتھ ہی خدا یہ بتاتا ہے کہ میرے یہ پیارے بندے ہیں.میرے یہ انعام یافتہ لوگ ہیں.پس جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلا تو یہ سب دعا ئیں اس میں شامل ہیں.یہ سب مرادیں ہیں جو ہم مانگ رہے ہیں اسی طرح اس راستے پر چلنے کے نتیجے میں ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں.ہم خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ آرِنَا مَنَاسِكَنَا (البقرہ: ۱۲۹) ہمیں ہماری قربان گا ہیں دکھا وہ جگہیں دکھا جہاں ہم تیرے حضورا اپنی قربانیاں پیش کریں گے.ہم خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا! ہم سے ہمارے سارے اموال لے لے اور ہماری جانیں لے لے اور ہم سے یہ سودا کر لے کہ ہمارا کچھ بھی نہیں رہا.سب تیرا ہو گیا ہے اور اس کے بدلے ہمیں ایک آئندہ آنے والی جنت کی خوشخبری دے دے.یہ وعدہ کر لے کہ جب ہم اس دنیا کو چھوڑ دیں گے تو تیری دائی جنت میں داخل کئے جائیں گے.پس جو ہاتھ میں ہے اسے چھوڑنے کی دعا مانگ رہے ہیں اور جو ہاتھ میں نہیں اور عام دنیا کی نگاہ میں ایک موہوم وعدہ ہے اسے حاصل کرنے کی دعا مانگ رہے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو پھر لوگ بے وقوف کہتے ہیں، کہتے ہیں پاگل ہیں.ان کو پتا ہی نہیں کہ یہی دنیا ہے جو آج کی زندگی ہے بس یہی سب کچھ ہے آنکھیں بند تو سب کچھ ختم اور وہ بنتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ پاگل لوگ خدا کے بندے بنتے ہیں، ہوش والے بنتے ہیں یہ تو بے وقوف ہیں.السُّفَهَاء ہیں لیکن خدا کے ان بندوں کے کانوں میں خدا کی یہ آواز پڑتی ہے - أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَ لكِنْ لَّا يَعْلَمُونَ (البقره: ۱۴) خبردار! ان کے طعنوں سے تم مضمحل نہ ہو جانا.ان کے طعنوں سے تم کہیں امید میں نہ چھوڑ بیٹھنا.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءِ خبردار ! یہی وہ لوگ ہیں جو بے وقوف ہیں تم بے وقوف نہیں ہو.تم عقل والے ہو.تم نے صحیح سودے کئے ہیں تو یہ دعائیں ہیں جو ہم مانگتے ہیں اور پھر زنجیریں مانگتے ہیں.قید کی دعا مانگتے ہیں.یہ دعا مانگتے ہیں کہ ہماری ساری عمر پابندیوں میں صرف ہو جائے.یہ دعا مانگتے ہیں کہ اس قید خانے میں ہمیں ڈال جس کا ذکر تیرے سچے رسول محمد مصطفیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ صلى الله 289 خطبه جمعه ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء نے ان الفاظ میں فرمایا کہ الدنيا سجن المومن وجنة الكافر (مسلم كتاب الزهد حديث نمبر: ۵۲۵۶) دنیا تو مومن کے لئے ایک قید خانہ ہے، مصیبت خانہ ہے جس میں وہ پڑ جاتا ہے.کسی چیز کی آزادی نہیں رہتی ، یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا.سونے لگتا ہے تو پابندیوں کے ساتھ سوتا ہے ، اٹھتا ہے تو پابندیوں میں آنکھیں کھولتا ہے جو قدم اٹھاتا ہے یہ سوچتا ہے کہ یہ خدا کی ناراضگی کا قدم تو نہیں اور کونسا قدم اٹھاؤں کہ خدا کی پابندی کی زنجیروں میں جکڑا رہتے ہوئے دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ ان ہی راہوں پر قدم اٹھاؤں جن راہوں پر جانے کی یہ زنجیریں مجھے اجازت دیتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ نے تو قصے کومختصر فرما دیا اور کہا کہ ہاں! اب دعا مانگو کہ اے خدا! ہمیں عمر بھر کا قیدی بنادے ایسا قیدی بنادے جس کی گویا ساری آزادیاں چھین لی گئیں.پس یہ دعا ہے جو آپ مانگ رہے ہیں اور پانچ وقت بھولے پن سے اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہیں اور پھر خدا کے جو اور بھی زیادہ سادہ لوح اس سے محبت کرنے والے، پیار کرنے والے بندے ہیں وہ نفلوں کے اضافے کرتے ہیں.راتوں کو اٹھتے ہیں دنوں کی دعا سے مطمئن نہیں ہوتے کہتے ہیں ابھی ہم نے پوری مصیبتیں نہیں مانگیں.اے خدا! اب باقی وقت ہم پر مزید مصیبتیں مانگتے ہیں.جو کچھ رہ گیا ہے وہ ہم پر نازل فرما.یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ فرما جو قرآن کے بیان کے مطابق یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان لانا کافی ہے اور اس کے بعد کوئی ابتلاء نہیں آئیں گے.ہمیں ان لوگوں میں داخل فرما جو ایمان لائے یہ جانتے ہوئے کہ یہ ابتلاؤں کا رستہ ہے اور یہ دعا کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ اے خدا! اب وہ ابتلا ہم پر ڈال لیکن یہ رحم فرما کہ ان ابتلاؤں میں ثابت قدم فرما.ان ابتلاؤں سے زندہ سلامت گزار دے اور پھر ہم تیرے فضلوں کا وارث بنتے ہوئے ان ابتلاؤں کے دور سے نکلر پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دیکھیں کتنی ضرورت تھی.شروع میں ہی خدا سے یہ التجا کرنے کی ضرورت تھی کہ عبادت تو تیری ہی کرتے ہیں اور کسی اور کی نہیں کرتے تیری کرنا چاہتے ہیں کسی اور کی نہیں کرنا چاہتے مگر اے خدا! بہت مشکل رستہ ہے تیری مدد کے بغیر ہم وہ دعا بھی نہیں کر سکتے جو دعا تو ہمیں سکھا رہا ہے اور ابھی آنے والی ہے.پس اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا یہ پہلو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اے خدا!
خطبات طاہر جلد ۱۰ 290 خطبه جمعه ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء ہمیں اس کچی دعا کی توفیق عطا فرمادے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب آپ اس سارے مضمون کو قرآن کے بیان کی روشنی میں پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو یہ دعا بہت مشکل اور مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے.بہت سے ایسے مقام آتے ہیں کہ جب انسان کا دل کانپ جاتا ہے، ڈر جاتا ہے اور اسے اس دعا کی تفصیل کے ساتھ ہمت نہیں پڑتی.ان دعا کرنے والوں کی وہ تفصیل جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے ایک تاریخ کی صورت میں کھول کر رکھ دی ہے اس تفصیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ دعا مانگنے کی ہمت نہیں پڑتی.پس ايَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی شدید ضرورت ہے کہ مدد مانگی جائے کہ اتنی اتنی ہمیں دعا سکھا اتنی اتنی دعا مانگنے کی توفیق عطا فرما جو تیری مدد سے آسان ہوتی چلی جائے اور طبعا سچائی کے ساتھ دل سے اٹھے نہ کہ بناوٹ کے ساتھ ہونٹوں سے نکلے.اس ضمن میں میں نے قرآن کریم کے آغاز سے لے کر آخر تک چند قر آنی بیانات کو اس دعا کے ساتھ منسلک کر کے آپ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا لیکن جب میں نے سورہ بقرہ سے بات شروع کی تو یہ مضمون اتنا بڑھ گیا کہ ناممکن تھا کہ ایک، دو، تین ، چار، پانچ ، دس جمعوں میں بھی اس کا حق ادا کیا جائے.پس میں نے کچھ نمونے سورۃ بقرہ سے لئے ہیں آپ کو سمجھانے کے لئے کہ جب آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں گے تو اس دعا کے ساتھ منسلک کر کے مطالعہ کریں اور پھر ہر دفعہ یہ سوچیں کہ میں یہ دعا مانگا کرتا ہوں اور آئندہ بھی یہ دعا مانگا کروں گا اور پھر میں نے کچھ ٹکڑے کہیں سے، کچھ ٹکڑے کہیں سے غرضیکہ چند نمونے قرآن کریم کی مختلف جگہوں سے اکٹھے کئے تا کہ آپ کو اس دعا کا مطلب سمجھاؤں جو ہم سب روزانہ بار بار مانگتے ہیں اور اکثر ہم میں سے جانتے ہی نہیں کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں.پس جو کچھ آپ مانگیں ہوش سے مانگیں سمجھ کر مانگیں کہ کیا مانگا جار ہاہے پھر اللہ تعالیٰ سے فضل کی امید رکھیں اور اس سے رحم کے طلب گار ہوں کہ وہ ان مشکلوں کو ہمارے لئے آسان کر دے جو ہم ہوشمندی کے ساتھ خود خدا سے طلب کر رہے ہیں.دیکھیں! ایک چھوٹے سے معاہدے کے لئے جو دنیا کے سودوں میں کیا جاتا ہے آپ ایک قابل وکیل سے مدد چاہتے ہیں.اس سے مدد چاہتے ہیں کہ کہیں دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائیں.کوئی ایسی بات معاہدے میں نہ لکھی جائے جس کو ہم نبھا نہ سکیں تو وہ معاہدہ جو قرآن کریم کا معاہدہ ہے جسے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 291 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء خدا میثاق قرار دیتا ہے اس پر عمل کرنے سے پہلے، اس پر دستخط کرنے سے پہلے معلوم تو ہونا چاہئے کہ کس بات پر دستخط کئے جارہے ہیں لیکن چونکہ دنیا والے غلطیوں کو معاف نہیں کیا کرتے اور ایک ایک قطرہ خون کا حساب مانگتے ہیں اس لئے دنیا کے معاہدوں میں تو انسان غلطی کرے تو ساری عمر اس کا خمیازہ بھگتا رہتا ہے لیکن یہ معاہدہ ایک ایسی ذات سے کیا جا رہا ہے جو بے حد غفور و رحیم ہے جو قدم قدم پر بخشش کے وعدے بھی کرتی ہے.وہ عجیب طرح سے حساب کرتی ہے.اچھا! یہ بھی میں معاف کر دیتا ہوں یہ بھی میں معاف کر دیتا ہوں.یہ بھی معاف کر دیتا ہوں اور یہ بھی معاف کر دیتا ہوں یہاں تک کہ اس کی معافیوں کا سلسلہ اس کے حساب طلب کرنے والے سلسلے پر غالب آجاتا ہے اور اس کی رحمت ہر انسان کی لغزش کو ڈھانپ لیتی ہے پس اگر اور نہیں تو یہ مضمون ہی انسان کے دل کے لئے تسلی کا موجب بن جاتا ہے کہ ہمارا خدا ایسا خدا ہے جوا گر چاہے تو ان کو بھی معاف فرما دیتا ہے جن کے اعمال تمام تر اچھے نہیں تھے.انہوں نے بدیاں بھی کیں اور اچھے اعمال بھی کیئے.اچھوں اور بروں کو ساری عمر ملائے رکھا اور کبھی ان کو تو بہ کی یہ توفیق نہیں ملی کہ زندگی کے کسی موقعہ پر وہ یہ کہ سکیں کہ اب ہم اپنی بدیاں جھاڑ کر نیکیوں میں داخل ہو چکے ہیں.عمر بھر وہ نیکیوں اور بدیوں کے ساتھ ملے جلے رہے اور اسی طرح گھسٹتے گھسٹتے خدا کے قرب کی راہوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے فرمایا: میں چاہوں تو انہیں پکڑ لوں اور ان کی بدیوں کی سزا دوں اور اگر چاہوں تو ان کو معاف کر دوں اور بہت ایسے ہیں جن کو میں معاف بھی کر دیتا ہوں تو پھر انسان اس بات سے سہارا لیتا ہے کہ میثاق پر ہم دستخط تو کر بیٹھے ہیں لیکن اب اس میثاق کی شرائط پر پورا اتر نیوالے جو اولین لوگ ہیں جو سابقون کا گروہ ہے ان جیسے نہ بھی بن سکتے ہوں تو ہم یہ التجائیں کریں گے کہ اے خدا! ان ادفی لوگوں میں ہی شامل فرمادے جنہوں نے عمر بھر دیانتداری سے میثاق پر عمل نہیں کیا تو میثاق پر عمل کرنے کی تمنا تو رکھتے تھے.کوئی خواہش تو ان کے دل میں تھی.بے چینی تو ہوا کرتی تھی جب وہ گناہ کرتے تھے تو بے قرار ضرور ہو جایا کرتے تھے.گناہوں کے بعد مطمئن نہیں رہتے تھے بلکہ تڑپ کر زندگی گزارتے تھے.پس اے خدا! ہمیں ان لوگوں میں ہی شامل فرمادے اور اگر قافلے کے سر پر چلنے والوں میں شامل نہیں تو اس قافلے کے آخر پر اس کی دم میں گھسٹتے ہوئے لوگوں میں ہی شامل فرما دے لیکن رستہ وہ ہو.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ جن پر تو نے انعام کیا الْمَغْضُوبِ کے رستے پر ہمیں نہ ڈالنا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 292 خطبہ جمعہ ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء پس اب میں آپ کو لکھے ہوئے مضمون میں قرآن کریم کے واقعات کو دعاؤں کی شکل میں ڈھال کر پیش کرتا ہوں.قرآنی آیات میں یہ مضمون دعاؤں کی صورت میں ظاہر نہیں فرمایا گیا مگر قرآن سے واقعات لے کر اور قرآن کی نصیحتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے او امر اور نــواهــی کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ جب ہم اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ! کہتے ہیں تو وہ کون سے انعام یافتہ لوگ ہیں جن کے رستے پر چلنے کی ہم دعا کرتے ہیں.گویا ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان انعام یافتہ لوگوں کے رستے پر چلا جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ بھی تو نے ان کو عطا کیا ہے اسے تیری راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اتاری ہوئی تعلیم پر اور سب گزشتہ تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں اور آئندہ ہونے والی موعود خبروں پر بھی یقین رکھتے ہیں اور اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا جو اپنی مرادوں کو پالیتے ہیں.اور اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستوں پر چلا جنہوں نے تجھے اپنا بھی رب تسلیم کیا اور ان کا رب بھی تسلیم کیا جو پہلے گزر چکے تھے اور تقویٰ کی راہوں پر چلے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جن کو تو نے سدا بہار جنتوں کی بشارت دی ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.اور اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جو ہر اس درخت کے پھل سے احتراز کرتے ہیں جس کا کھانا تو نے منع فرما دیا ہے اور اس پھل کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے جسے تو نے ممنوع قرار دیا.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کا رستہ دکھا جو ہمیشہ تیری نعمتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور جو عہد تجھ سے باندھا ہے اس پر پختگی سے قائم رہتے ہیں.ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جو ہر اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اس تعلیم کی تصدیق کرتی ہے جو قرآن میں اتاری گئی اور تیری آیات کو ادنی اغراض کی خاطر بیچ نہیں ڈالتے اور صرف تیرا ہی تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جھوٹ کی ملونی سے پاک اور خالص دل رکھتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ کو ادا کرتے ہیں اور تیرے حضور جھکنے والوں کے ساتھ ہر مقام اطاعت پر جھک جاتے ہیں.ان لوگوں کا رستہ دکھا جو صبر اور دعاؤں کے ذریعہ سے تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے حضور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 293 خطبہ جمعہ ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء عاجزی اور تذلل اختیار کرتے ہیں اور تیرے حضور عاجزی اور تذلل اختیار کرنا ان پر بار نہیں ہوتا ، ان پر گراں نہیں گزرتا.وہ جو یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ضرور ملاقات کریں گے اور بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.اے خدا! ہمیں وہ نعمتیں بھی عطا کر جو پہلی امتوں کو عطا کی گئیں اور اپنے ان فضلوں سے بھی نواز جن کے ذریعے تو نے پہلی امتوں کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی اور ان خوش نصیبوں میں سے نہا جو ان کی مثالیں زندہ کرنے والے ہیں جنہوں نے تیری نعمتوں کے گیت گائے اور تیرے ذکر کو بلند کیا.ہمیں ان انعام یافتہ لوگوں کے رستے پر چلا جو مواخذہ کے اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جبکہ کوئی جان کسی دوسری جان کے کام نہیں آئے گی اور اس کی کوئی شفاعت کسی کے حق میں قبول نہ کی جائے گی اور کسی جرم کے بدلے اسے کوئی مددمیسر نہ آئے گی.ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جن کی لغزشوں کو تو نے معاف فرما دیا اور تیرے عفو کے نیچے وہ تیرے بے انتہا شکر گزار بندے بن گئے اور ان لوگوں کی راہ پر چلا جن کو جب کتاب اور فرقان عطا کئے گئے تو ان کی ہدایت سے انہوں نے خوب استفادہ کیا.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جن کی خطاؤں کو تو نے معاف فرما دیا اور ان محسنوں کی راہ پر چلا جنہیں تو نے احسان کی توفیق بخشی اور ان کے حسن واحسان کو اور بڑھا دیا.اور ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جو تجھ پر اور جزاوسزا کے دن پر حقیقی ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور جن کو تو نے محفوظ اجر کی ضمانت دی اور سلامتی کا یہ پیغام دیا کہ کوئی خوف تم پر غلبہ نہ پاسکے گا اور لمبے غموں میں مبتلا نہیں کئے جاؤ گے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا جنہوں نے تجھ سے یہ عہد باندھا کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور والدین سے اور اقرباء سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں گے اور تیرے بندوں سے نرم گفتاری سے کام لیں گے اور انہیں اچھی باتیں کہیں گے اور اسی طرح انہوں نے تیری عبادت کو قائم کرنے اور تیری راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا اور پھر وفا کے ساتھ ان عہدوں پر قائم رہے.اب دیکھیں! بہت سی ان صفات میں سے یہ چند صفات ہیں جو خدا کے ان بندوں کی بیان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 294 خطبه جمعه ۵ را پریل ۱۹۹۱ء فرمائی گئی ہیں جو خدا سے باندھے ہوئے عہدوں کو پورا کرتے ہیں اور الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پر چلتے ہیں اور انعام یافتہ میں شمار ہوتے ہیں ، اور روز مرہ کی زندگی کی عام باتیں ہیں جن میں ہم میں سے اکثر ٹھوکر کھاتے اور ان معمولی معمولی عام معروف باتوں پر بھی عمل کرنے کی اہلیت نہیں پاتے.پس اگر ہم ہر نماز میں دعا کرتے ہوئے سوچا کریں کہ دعا ہم یہ کر رہے ہیں اور کام کون سے کر رہے ہیں؟ دعاؤں کا رستہ اور ہے اور ہمارا چلنے کا رستہ اور ہے؟ تو اسی وقت انسان کے دل پر لرزہ طاری ہو جائے گا.عام انسان سے اگر کچھ مانگے اور دل میں کوئی اور بات ہوتو یہ بھی منافقت ہے اور ایک مکروہ بات ہے مگر خدا سے اور مانگے اور کچھ اور کرنے کے ارادے ہوں تو یہ ایک بہت ہی بڑے خوف کا مقام ہے.ہم میں سے کتنے ہیں جو عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین سے اور اقربا ء سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں.بہت سے ایسی شکایتیں روز مرہ مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض مرد ہیں جو اپنے گھر میں بھی اپنے بیوی بچوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتے ان سے کرخت رویہ ہے.ان سے ظلم وستم کا سلوک ہے ان سے کنجوسیاں کرتے اور ان کو مصیبت میں مبتلا ء ر کھتے ہیں.ایسی بیویاں ہیں جو بے چاری روتی پیٹتی مجھے خط لھتی ہیں کہ ہمیں تو پیسے کا منہ نہیں دکھاتے گھر میں کچھ ڈال دیا تو ڈال دیا اور وہ بھی ایسا کہ ایک ایک چیز کا حساب رکھتے ہیں زندگی اجیرن ہے.بچوں سے حسن سلوک نہیں ہے.بچوں کو اس طرح پھینکا ہوا ہے جس طرح وہ بے جان چیزیں ہیں، ان کو حس ہی کوئی نہیں.ان باتوں میں مبالغہ بھی ہو گا لیکن جولوگ دنیا کے معاشروں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر معاشرے میں اس قسم کے ظلم موجود ہیں.ہوسکتا ہے وہ لکھنے والی غلط لکھ رہی ہولیکن اور بہت سی ایسی ہیں جو نہ لکھنے والیاں ہیں لیکن ان پر یہ حالات گزرتے ہیں.پس کئی قسم کی مصیبتیں ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں ہماری بداخلاقیوں کے نتیجے میں انسانوں پر ڈالی جاتی ہیں اور انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیتی ہیں.مردوں کی طرف سے بھی عورتوں کی طرف سے بھی بہوؤں کی طرف سے بھی ساسوں کی طرف سے بھی، باپوں کی طرف سے بھی اور بچوں کی طرف سے بھی تو دیکھیں یہ دعا جو ہمیں خدا نے سکھائی.ان معنوں میں یہ دعا سکھائی کہ اپنے بندوں کا ذکر فر مایا اور کہا کہ انعام یافتہ راہ پر چلنے والے لوگ اس اس قسم کے ہوتے ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 295 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء رستوں پر چلنے والوں میں سے بنادے تو دراصل یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ایسا بنادے کہ والدین کے حقوق ادا کرنے والے ہوں ان کی دعائیں لینے والے ہوں اور سب اقراباء سے حسن سلوک کرنے والے ہوں اور یتیموں کا خیال رکھنے والے ہوں.مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آنے والے ہوں اور تیرے سب بندوں سے نرمی کی گفتگو کرنے والے ہوں.ہماری گفتگو میں حسن ہو.کراہت کی بات نہ ہو.وہ لوگ جو گھر میں ایک دوسرے سے نرمی کی بات نہیں کرتے ان سے عام دنیا میں کم توقع کی جاتی ہے.کہ وہ نرمی کی گفتگو کرتے ہوں گے لیکن بعض ایسے ظالم بھی ہیں کہ دوستوں سے نرم اور اپنے گھر والوں سے سخت حالانکہ مضمون والدین اور اقرباء اور نزدیک کے رشتے داروں کے ذکر سے شروع ہوتا ہے.پس ایسی نرمی جو دوستوں کے لئے ہو اور گھر والوں کے لئے نہ ہو اس نرمی کا ان لوگوں کے ذکر میں کہیں شمار نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے مراتب کے لحاظ سے نیکیوں کا ذکر فرمایا.پس جب ہم کہتے ہیں اهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ا تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تو نگاہ رکھیں.اگر ان پر نگاہ نہیں رکھیں گے تو بڑی باتوں کا نہ حق ادا کر سکتے ہیں نہ بڑی باتیں مانگنے کی جرات کر سکتے ہیں اور جب بھی آپ بڑے بڑے مضامین کو سوچ کر اپنے دل کو ٹولیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی دعا میں طاقت نہیں ہے کہ ان مضامین کی متحمل ہو سکے.روح کانپ جاتی ہے جیسے کوئی بڑا بھاری وزن کوئی کمزور انسان اٹھانے کی کوشش کرے تو یہ دعا ہی بہت بھاری ہے لیکن اگر ہم غور کرنے والے ہوں اور اگر یہ دعا اٹھا لیں تو اس دعا کے نتیجے میں جتنی ذمہ داریاں ہیں اگر سچے دل سے اس دعا کو اٹھا لیں تو وہ خدا خود اٹھالیتا ہے یہ یقین ہے جو ایک مومن کے دل میں ہونا چاہئے اور اس یقین کے بغیر اس دعا کی ہمت بھی نصیب نہیں ہو سکتی.چنانچہ ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اسی طرح جن لوگوں نے تیری عبادت کو قائم کرنے اور تیری راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا اور پھر وفا کے ساتھ ان عہدوں کو نبھایا ، ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا.اے خدا ! ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جو اس بات سے بے خبر نہیں کہ تو ہی زمین و آسمان کا مالک ہے اور تیرے سوا کوئی دوست اور مددگار ان کے کام نہیں آ سکتا.ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جن کا قبلہ ہمیشہ تو رہا ہے، تیری حضوری سے وہ اپنے وجود کو ہمیشہ نیا حسن عطا کرتے رہے یعنی وہ لوگ جن کا ا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 296 خطبه جمعه ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء اجر تیرے پاس ہے اور تیرے تعلق کے فیض سے وہ ہر دوسرے خوف اور غم سے آزاد ہو گئے.ہمیں ان غم لوگوں کی راہ دکھا جو جس راہ پر بھی چلے ہمیشہ تجھے پیش نظر رکھا.اے خدا تجھے پیش نظر رکھا جو تمام وسعتوں کا مالک خدا ہے، ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے، جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اسی کا ہے اور ہر چیز اسی کی اطاعت کا دم بھرتی ہے.وہ جو زمین و آسمان کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے اور جب کسی تخلیق کا ارادہ باندھتا ہے تو فرماتا ہے کہ ہو جا اور لازماًوہ ہو کر رہتی ہے.پس اے خدا! ہمیں اس یقین کے ساتھ ان راہوں پر چلا کہ ہم ایسی قدرتوں کے مالک خدا سے مدد مانگنے والے ہیں.پھر ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو تیری کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا حق ادا کرتے ہیں یعنی دن رات تلاوت کے لئے وقت نکالتے پھر غور اور سمجھ کے ساتھ تیری کتاب کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے مضامین کو اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے مضامین میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کتاب کی کسوٹی پر پر کھتے رہتے ہیں.یہ مضمون ہے جو حق تلاوت کا مضمون ہے ہم اس کی بھی دعا مانگتے ہیں.اور پھر یہ دعا مانگتے ہیں کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح ہمیں ہماری قربان گاہیں دکھا ہمیں آزمائشوں میں ڈال لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان آزمائشوں پر پورا اترنے کی بھی توفیق عطا فرما اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو مرتے دم تک تیرے حضور سپردگی کے عالم میں رہتے ہیں تسلیم ورضا کی حالت میں رہتے ہیں، اپنے آپ کو تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں اور پھر اپنے وجود کو تجھ سے واپس نہیں لیتے اور مرتے وقت اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ توحید پر قائم رہنا اور خدا سے تعلق باندھے رکھنا اور کبھی اس تعلق کو نہ توڑنا کیونکہ اس تعلق کے توڑنے پر تم ہمیشہ کے لئے ہلاک کر دیئے جاؤ گے.پس وفا کے ساتھ تو حید پر قائم رہنا اور ایک خدا سے اپنے تعلق کی حفاظت کرنا.ایسے لوگوں کی راہ پر چلا جو تیرے حضور یہ اقرار کرتے ہیں کہ تو نے جتنے بھی دنیا میں رسول بھیجے ہم ان سب پر ایمان لے آئے ہیں.ہمیں توفیق بخش کہ ہم ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان ایسی تفریق نہ کریں کہ جس کے نتیجے میں کسی کی وحی کو واجب العمل سمجھیں اور کسی کی وحی کو اس طرح واجب العمل نہ سمجھیں بلکہ یقین کریں کہ تیرا کلام خواہ اعلیٰ پر نازل ہو خواہ ادنی پر نازل ہو وہ کلام تیرا کلام ہے اور اس حیثیت سے ہر کلام خواہ دنیا کے کسی بندے پر نازل ہوا ہو وہ عزت اور احترام کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 297 خطبہ جمعہ ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء لائق ہے.پھر ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اُمَّةً وَسَطًا (البقرہ:۱۴۴) بنادے.یعنی وہ امت بنادے جس کی تو نے محمد مصطفی ﷺ کو خوشخبری دی تھی کہ وہ میانہ روی اختیار کرنے والی امت ہے ، افراط اور تفریط سے پاک ہے.وہ درمیانی راہوں پر چلنے والی امت ہے اور ہمیں تمام دنیا پر نگران بنادے.ہم تمام دنیا کے اخلاق کی نگرانی اور حفاظت کرنے والے ہوں اور اپنے رسول محمد مصطفی ﷺ کو ہم پر نگران بنائے رکھتا کہ گویا ہم اس کی آنکھوں کے سامنے ان فرائض کو ادا کرنے والے ہوں جو تو نے عائد فرمائے ہیں اور اس سند کے ساتھ کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدر سے سے ہم نے تعلیم حاصل کی اور سند پائی.ہم باقی دنیا کے اعمال کی بھی نگرانی کرنے والے ہوں اور انہیں علم سکھانے والے بنیں اور نیک اعمال سکھانے والے بنیں.اے خدا! ہمیں استباق فی الخیرات کی توفیق عطا فرما.صرف نیکیوں کی توفیق نہ عطا فرما بلکہ ہم ہر وقت جد و جہد میں مبتلا رہنے والے ہوں ہمیں ان لوگوں کی راہوں پر چلا جو ہمیشہ آگے بڑھنے کی نیت سے ورزشیں کرتے رہتے ہیں اور منتیں کرتے رہتے ہیں.آپ میں سے کسی کو اگر صبح کی سیر کی عادت ہو یا توفیق ملی ہو تو دیکھا ہوگا کہ بہت سے ایسے اتھلیٹ یعنی کھلاڑی اور جو مختلف جسمانی مقابلوں میں حصہ لینے والے ہیں صبح صبح اٹھ کر دوڑ رہے ہوتے ہیں اور ایسے وقت میں بھی جب کہ شدید سردی ہو یا پاکستان وغیرہ میں شدید گرمی ہو تو وہ ان باتوں سے بے نیاز بڑی محنت کر رہے ہوتے ہیں.پہلوان ہیں جو اکھاڑوں میں محنت کر رہے ہیں غرضیکہ ایسے لوگ کسی امید پر کہ شاید کبھی ہم اپنے ملک میں نام پیدا کرنے والے بنیں اور اس امید پر کہ شاید کبھی ہم بین الاقوامی مقابلوں میں نام پیدا کرنے والے بنیں ، ساری زندگی محنت میں صرف کرتے ہیں.پس جب ہم استباق في الخيرات کی دعا مانگتے ہیں.تو یہ بات ہے جس کی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں محنت کی توفیق عطا فرما جس کے نتیجے میں ہم اپنے بھائیوں سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے بنیں.اگر یہ محنت نہیں کریں گے تو یہ تو فیق مانگنے کی دعا کا کیا مطلب ہے؟ پس جب استباق في الخیرات کی دعا مانگیں تو ان سارے نظاروں کو پیش نظر رکھ لیا کریں، جہاں مقابلوں میں حصہ لینے والے مختلف رنگ میں مختلف مقامات پر دن اور رات یا کسی اور حصے میں محنتیں کر رہے ہوتے ہیں اور زندگیاں ان محنتوں میں صرف کر دیتے ہیں اور اکثر ہیں جن کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں.بہت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 298 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۹۱ء ہی کم ہیں جن کی امیدیں پوری ہوتی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ شاید ہی ہزاروں میں سے ایک ہم بن سکیں جو اپنی آرزوؤں کو پورا ہوتے دیکھ سکیں گے پھر بھی وہ محنت کرتے ہیں.تو یہ دعا سکھائی کہ اے خدا! ہمیں ایسی منتیں کرنے کی بھی توفیق عطا فرما جن کا پھل ہر شخص کو نصیب ہو ہی نہیں سکتا مگران نعمتوں کا کچھ نہ کچھ فیض ہر شخص پاہی لیتا ہے.عام دنیا کے انسان کے مقابل پر وہ بہتر ہوتا چلا جاتا ہے پس استباق فی الخیرات کرنے والوں کی راہ پر ہمیں ڈال دے.صبر وصلوۃ اور شہادت پر تسلیم ورضا کا رد عمل دکھانے والوں کی راہ پر ڈال ایسے لوگوں کی راہ پر ڈال جو ابتلاؤں اور نقصانات پر صبر سے کام لیتے ہیں اور تیرے حضور ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ انا للہ وانا اليه راجعون کہ سب کچھ گیا لیکن ہم بھی تو خدا ہی کے ہیں.ہم بھی چلے جائیں تو کچھ ہاتھ سے دینے والے نہیں ہوں گے.اناللہ ہم خدا کے تھے اور خدا کے ہیں اور ہم نے بھی تو آخر اسی کے پاس جانا ہے جہاں ہمارا سب کچھ جارہا ہے.پھر ہمیں ایسے لوگوں کی راہ پر چلا جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں لیل و نہار کے ادلنے بدلنے کو دیکھتے ہیں، کشتیوں کا سمندروں میں چلنا دیکھتے ہیں ، آسمان سے پانی کے نزول کا نظارہ کرتے ہیں ، زمین پر جانوروں کے وجود کو چلتے پھرتے اور نرم نرم گھاس کھاتے یا ویسے رزق کی تلاش میں اڑتے یا دوڑتے پھرتے ہوئے یا سمندر میں تیرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر زمین و آسمان کے درمیان مسخر بادلوں پر غور کرتے ہیں اور ان سب باتوں پر غور کے نتیجے میں وہ ہر چیز کو تیری طرف اشارہ کرتے ہوئے پاتے ہیں اور ہر چیز سے یہ پیغام لیتے ہیں کہ ان کا ایک خالق ہے.ان کا ایک مالک ہے اور وہی راہ ہے جس کی طرف ہر چیز انگلی اٹھا رہی ہے.پس اب ان سب نظاروں سے اپنے قرب کی راہیں دیکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرما.ہمیں اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرہ:۱۲۶) بنادے ہماری ہر دوسری محبت پر تیری محبت غالب آجائے.نہ ماں کی ایسی محبت رہے نہ باپ کی ایسی محبت رہے نہ اولاد کی ایسی محبت رہے نہ بیوی کی نہ عزیزوں اور رشتے داروں کی نہ کسی حسین انسان کی ، نہ کسی حسین نظارے کی ، نہ کسی دنیا کی نعمت کی ، نہ کسی علمی فضیلت کی ہر دوسری محبت سے تیری محبت بڑھ جائے.اے خدا ہمیں حلال طیب رزق عطا فرما، اور ان لوگوں کے رستوں پر چلا جو غیر حلال رزق حاصل کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا اور تجھ سے دعا مانگتے ہوئے حلال رزق کی وسعت کی دعا مانگی اور حلال
خطبات طاہر جلد ۱۰ 299 خطبه جمعه ٫۵اپریل ۱۹۹۱ء رزق پر ہی قانع رہے اور ان لوگوں کے رستے پر چلا جنہوں نے شیطان کی پیروی سے انکار کر دیا اور پھر ان لوگوں کے رستے پر چلا جنہوں نے جب مجھے آواز دی کہ اے خدا تو کہاں ہے تو نے تو ہر آواز کے مقابل پر یہ جواب دیا اِنّي قَرِيب ، اِنّي قَرِيب اے میرے پکارنے والے بندے میں تیرے قریب ہوں.میں تیرے قریب ہوں.اے خدا ! ہمیں مناسک حج اور عمرہ ادا کرنے والوں کی راہ پر چلا اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جنہوں نے اپنی زندگی کا راز راہ تقویٰ بنالیا اور خواہ ان کے پاس کچھ اور نہیں تھا.انہوں نے ہمیشہ اس یقین کے ساتھ تیری راہ میں قدم آگے بڑھائے کہ سب سے زیادہ جس زاد راہ کی ضرورت پیش آسکتی تھی وہ تقویٰ ہے.چنانچہ تقویٰ سے انہوں نے دامن بھر لیا اور خالی ہاتھ تیری راہ میں سفر اختیار نہیں کیا.اے خدا!! ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا کہ جب وہ تیری راہ میں لوگوں کو جانیں دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کو مردہ نہیں کہتے بلکہ وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ زندہ جاوید ہو گئے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستہ پر چلا جنہیں تیری خاطر دیکھ دیئے جاتے ہیں ان کے اموال چھینے جاتے ہیں.ان کی جانیں تلف کی جاتی ہیں خوف اور بھوک ان پر مسلط کی جاتی ہے لیکن وہ تیری راہوں کے مسافر صبر کے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون کہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں.تو ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے اور انہیں ہی بچے اور ہدایت یافتہ قرار دیتا ہے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جنہوں نے زخم پر زخم کھائے لیکن اس کے باوجود تیری اور تیرے رسول کی ہر آواز پر لبیک کہا.زخموں سے چور ہونے کے باوجود جب ان کے کانوں میں تیری یا تیرے رسول کی آواز پڑی تو لبیک کہتے ہوئے وہ اس کی طرف لیکے اور ان میں سے وہ خوش نصیب جنہوں نے اپنے اعمال کو کئی طرح سے زینت دی اور تیرا تقویٰ اختیار کیا اور تیری بارگاہ میں عظیم اجر کے لائق ٹھہرے.یہ واقعات ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.یہ کوئی افسانے اور قصے نہیں ہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا تو یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح ہمارے ذہن میں گھومنے چاہئیں اور وہ شخص جو قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 300 خطبه جمعه ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء الله اس کے ذہن میں گھومتے ہیں یہ نہیں کہ ہر دفعہ جب ہم اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتے ہیں تو سارے واقعات اچانک گھوم جاتے ہیں لیکن مختلف کیفیات میں مختلف حالتوں میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ہے جو ان حالتوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان پر چسپاں ہوتا ہے اس وقت کی دعا کے وقت وہ واقعۂ نظر کے سامنے ابھرنا چاہئے اور ہر چیز کے پیچھے ایک تاریخ ہے پس جب یہ فرمایا گیا کہ وہ لوگ زخمی ہونے کے باوجود تیری آواز پر لبیک کہتے ہیں تو ایک ایسا ہی واقعہ جنگ احد کے وقت گزرا ہے وہ ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں شاید کوئی مثال دکھائی نہ دے.آنحضرت ﷺ کے ایک عاشق صحابی (حضرت سعد بن ربیع ) جب ایک عرصے تک دکھائی نہیں دیئے اور آپ ان کے دل کی کیفیت سے باخبر تھے تو آپ نے کسی سے کہا کہ تلاش کرو اور دیکھو کہ کہاں ہے؟ اس نے آواز میں دیں، اس نے تلاش کیا لیکن کوئی جواب نہیں پایا آخر جب اس نے یہ آواز دی کہ خدا کا رسول تجھے بلا رہا ہے تو زخمیوں اور لاشوں کے ڈھیر کے نیچے سے ایک کراہتی ہوئی آواز اٹھی.میں حاضر ہوں، میں یہاں ہوں ، وہ جو پہلے اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ جواب دے سکتا جب اس کے کان میں یہ آواز پڑی کہ محمد رسول اللہ ﷺ مجھے تلاش کر رہے ہیں اور ان کے کہنے پر میں آیا ہوں تو خدا جانے کہاں سے اس نے وہ طاقت اکٹھی کر لی اور لبیک لبیک کی آواز اٹھی.تب اس نے یہ عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آخری سانس آنحضرت ﷺ کے قدموں میں لوں.مجھے وہاں تک پہنچا دو.پس اس حالت میں اس نے جان دی کہ اس کا سر محمد رسول اللہ اللہ کے مقدس قدموں میں پڑا ہوا تھا.پس قرآن کریم جن راہوں کو انعام پانے والوں کی راہیں قرار دیتا ہے یہ کوئی افسانوی را ہیں نہیں ہیں.یہ تاریخی حقیقوں سے تعلق رکھنے والی راہیں ہیں.ان راہوں پر خدا کے پاک بندے چلے ہیں اور ان کے ذکر سے قرآن کریم منور ہے.پس جب ہم یہ دعا مانگتے ہیں تو ذہن میں ایسے وجودوں اور ایسی قربانی کرنے والوں کے تصورات بھی زندہ ہونے چاہئیں.یہ قربانی کرنے والوں کے تصورات ہیں جو ہماری دعاؤں کو زندہ کریں گے ان سے خالی دعا ئیں خالی رہیں گی.ذکر کے ساتھ ذکر میں جان پڑتی ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کے ساتھ ان تمام پاک بندوں کا ذکر ہمارے ذہن میں گردش کرنا چاہئے ہمارے قلوب میں اس ذکر کے ساتھ ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 301 خطبہ جمعہ ۵/ اپریل ۱۹۹۱ء تازگی پیدا ہونی چاہئے ایک جان پڑنی چاہئے.پہلچل بر پا ہونی چاہئے اور ان تصورات کے ساتھ انچی دعاؤں کو باندھ کر ہم خدا کے حضور پیش کریں گے تو یہ دعائیں قبولیت کا مقام حاصل کریں گی اور بعض ایسی کیفیات ان میں شامل ہو جائیں گی جن کو خدا کبھی رد نہیں کر سکتا.اس کی رحمت سے بعید ہے کہ ان کیفیات والی دعاؤں کو وہ رد فرما دے.یہ مضمون تو بہت وسیع ہے اور اگر چہ میں نے چند آیات پر بناء کرتے ہوئے اس مضمون کو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سے باندھ کر نمونہ آپ کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ابھی چند صفحے ہی گزرے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں وقت بہت آگے گزر چکا ہے.اس لئے انشاء اللہ اب آئندہ خطبے میں بعض ایسی دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا جوان راہوں پر چلنے والوں نے مانگیں اور مشکل کے وقت میں مانگیں یا خاص کیفیات کے ساتھ مانگیں اور وہ چونکہ جمعتہ الوداع ہوگا اس لئے اس وقت ان دعاؤں کا اس جمعہ کے ساتھ ایک خاص گہرا تعلق ہوگا تو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ جمعہ میں بھی یہی مضمون جاری رہے گا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام پانے والے لوگوں کی راہ پر چلا تو خدا سے کیا مانگتے ہیں اور یہ مانگتے ہوئے ہمیں کس کیفیت سے مانگنا چاہئے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان سے بھر پور استفادے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے کمزوروں کو بھی اور ہمارے طاقتوروں کو بھی ہم میں سے ہر ایک شخص کو اس مقام سے آگے بڑھا دے جس مقام پر وہ اس رمضان سے پہلے تھا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 303 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ منعم علیہ گروہ کی دعاؤں کا ایمان افروز تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ را پریل ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) ۱۲/ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مسافر گاڑیاں جب مختلف سٹیشنوں پر رکتے رکتے اپنا لمبا سفر طے کرتی ہیں تو ہر سٹیشن پر الگ الگ نظارہ ہوتا ہے کہیں تھوڑے مسافر چڑھتے ہیں، کہیں زیادہ مسافر چڑھتے ہیں.کہیں تھوڑے لوگ چھوڑنے کے لئے آئے ہوئے ہوتے ہیں کہیں زیادہ لوگ.جو بڑے بڑے سٹیشن ہیں ان پر بہت رونق ہوتی ہے اور جب تک گاڑی چلتی نہیں سارا سٹیشن مختلف لوگوں کی گہما گہمی سے پر رونق ہوا ہوتا ہے ، چہل پہل ہوتی ہے، باتیں ہو رہی ہوتی ہیں پھر گاڑی چلی جاتی ہے تو سٹیشن سونا سارہ جاتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہیں جو مسافر نہیں ہوتے صرف مسافروں سے ملنے کے لئے آئے ہوتے ہیں.جمعۃ الوداع کی بھی کچھ ایسی ہی صورت ہے.عبادت کرنے والوں کی گاڑی جو جمعہ بہ جمعہ ٹھہرتی ٹھہرتی آخر رمضان المبارک کے جمعوں میں داخل ہوتی ہے تو اچانک جمعوں پر رونق بڑھنے لگتی ہے اور پھر ایک ایسا جمعہ بھی آتا ہے جیسا آج ہے جسے جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے اس جمعہ پر تو اتنی رونق ہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے مسافر ہیں جو اس گاڑی پر چڑھنے کے لئے آئے ہیں لیکن جب یہ گاڑی یہاں سے گزر کر اگلے جمعہ پر پہنچتی ہے جو رمضان مبارک کے بعد آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسافر تو وہی چند ایک ہی تھے جو سارا سال سفر کرتے رہے باقی تو چھوڑنے کے لئے آئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 304 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء ہوئے تھے.پس بہت سے ایسے بھی ایمان لانے والے اور مسلمان ہیں جو آج عبادت کرنے والوں کو چھوڑنے کے لئے آئے ہوئے ہیں ، الوداع کہنے کے لئے آئے ہوئے ہیں ، خود بھی عبادت میں شریک ہیں لیکن یہ وقتی شرکت ہے ، چند لمحوں کی شرکت ہے.جب تک اس جمعہ پر یہ گاڑی ٹھہری رہے گی وہ بھی شریک رہیں گے.جب یہ گزر جائے گی تو پھر وہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوں گے.خدا کی راہ کے مسافروہی ہیں جو عبادت کی گاڑی پر سوار ہو کر پھر اس کو چھوڑتے نہیں سٹیشنوں پر اتر تے ہیں تو عارضی طور پر لیکن دائم کے سوار ہیں، ہمیشہ ہمیش کے مسافر ہیں اور کبھی بھی وہ عبادت سے تعلق قائم کر کے پھر تعلق تو ڑا نہیں کرتے.ایسے لوگوں کے مختلف احوال ہیں جو وقتی طور پر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جنہیں پھر خدا یہ تو فیق بخشتا ہے کہ ان کے دل میں بھی سفر کا شوق پیدا ہو جاتا ہے.وہ وداع کرنے آتے ہیں، پھر آتے ہیں، پھر آتے ہیں، پھر خیال آتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی اسی گاڑی کے مسافر بن جائیں.تو وہ لوگ جو بچے ایمان لانے والے ہیں ان میں کمزور بھی ہیں لیکن رفتہ رفتہ کمزور طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی بدیاں جھڑتی چلی جاتی ہیں اور بدیوں کی بجائے نیکیاں عطا ہوتی چلی جاتی ہیں.پس سچے مومنوں کی گاڑی ہمیشہ پہلے سے زیادہ بھرتی رہتی ہے.وہ لوگ جو پیچھے رہ جانے کے عادی ہیں اور ہمیشہ پیچھے رہ جانے کے عادی ہیں ان کے متعلق بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو عذاب دے گا یا ان سے ناراضگی کا اظہار فرمائے گا.بعض خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موت کی گھڑی سعادت کی گھڑی ہوتی ہے.ایسی حالت میں اللہ ان کو بلاتا ہے کہ وہ نیکی کی حالت میں ہوتے ہیں،ایسے خوش نصیب وہ ہیں کہ جو توقع رکھ سکتے ہیں کہ اگر چہ ہم کبھی کبھی آئے لیکن خدا نے اس وقت بلایا جبکہ ہم نیکوں میں شمار ہورہے تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں یہ دعا خصوصیت سے سکھائی کہ اے خدا! ہمیں اس وقت بلانا، اس وقت ہمیں مارنا جب ہم تیرے حضور نیکوں میں شمار ہورہے ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ان چھوڑنے کے لئے آنے والوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور خصوصیت سے یہ دعا کریں کہ ان سب کے انجام نیک ہوں اور رفتہ رفتہ ان کو بھی عبادت کے دائمی سفر کی توفیق عطا ہو.میں نے گزشتہ چند خطبات میں سورہ فاتحہ کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح سورۂ فاتحہ عبادت کے راز سکھاتی ہے اور عبادت میں لذت پیدا کرتی ہے اور اس مضمون کے آخری حصے میں ہم داخل ہو چکے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 305 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء تھے جس میں ہم اس دعا پر غور کر رہے تھے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّانِيْنَ اور میں نے آپ کو بتایا تھا کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جن لوگوں کا ذکر ہے اگر چہ وہ سب انعام یافتہ ہیں لیکن ان کی زندگیاں بڑی مشقتوں اور تلخیوں میں گزریں اور خدا کی راہ میں انہوں نے بڑے بڑے ابتلاء دیکھے اور ایسے بھی تھے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ جنہوں نے خود ابتلاؤں کے تقاضے کئے کہ اے خدا! ہمیں ہماری قربان گاہیں دکھا.ہمیں ان رستوں پر چلا جن رستوں پر چل کر ہم تیری راہ میں دکھ اٹھا ئیں اور پھر ثابت قدم ٹھہریں اور تجھ سے نئے اعزاز پائیں لیکن ان تمام باتوں کا ذکر کرنے کے بعد جن میں سے ایک حصہ میں پچھلے جمعہ میں بیان کر چکا ہوں اور ایک وہ حصہ تھا جسے بیان نہیں کر سکا لیکن ان کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے.ان سب تاریخی واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے جب غور کرتے ہوئے ایک مومن آگے بڑھتا ہے تو دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میں کیا دعا کر رہا ہوں.ایسی مشکل اور ایسی مصیبت کی دعا اور ایسی دعا جس پر ہو سکتا ہے میں ثابت قدم نہ ٹھہر سکوں.مشکلات کو اپنے منہ سے دعوت دینا اور امتحان کو بلانا بڑے حوصلے کا کام ہے لیکن اس کے باوجود ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرنے پر مجبور ہے کہ مجھے انعام پانے والوں کا رستہ دکھا اور اس کی تفصیل قرآن کریم نے جو بیان کی ہے وہ بہت ہی دل ہلا دینے والی تفصیل ہے، ایسی تفصیل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی مشکل جان جوکھوں کا راستہ ہے.سوال یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے یہ رستہ کیسے طے کیا تھا.وہ رستہ انہوں نے ایسے طے کیا کہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خود سکھایا کہ کیا کرو؟ کس طرح یہ مشکلیں تم پر آسان ہو جائیں گی؟ اور یہ آگ تمہارے لئے گلزار بنادی جائے گی.فرمایا: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصلوۃ (البقرہ: ۴۶) اے میرے بندوصبر کے ساتھ اور عبادتوں کے ساتھ اور دعا مانگتے ہوئے مجھ سے مدد چاہو.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں جس استعانت کی دعا ہمیں سکھائی گئی اس کا تفصیل کے ساتھ اعادہ کیا گیا اور پھر خدا نے وہ دعائیں بھی اکثر خود سکھائیں.پس اب میں ان دعاؤں کے اس مضمون میں داخل ہوتا ہوں جس سے پتا چلے گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے خود مومنوں کی یہ راہ آسان فرما دی، انہیں دعاؤں کے طریق سکھائے یا ان کی دل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 306 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء کی گہرائیوں سے اٹھی ہوئی بے ساختہ دعاؤں کو قبول فرمایا اور ان کے ذکر کو بڑے پیار کے ساتھ قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا.دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں اور میں پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے تمام انبیاء کی دعاؤں کا خلاصہ اس شان کے ساتھ ، اس حفاظت کے ساتھ پیش کیا ہو جس طرح قرآن کریم نے پیش کیا ہے.ہر قسم کی ضرورت کی دعا کے بہترین نمونے محفوظ کر دیے.پس وہ لوگ جو یہ دعا مانگتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ان کے لئے ضروری ہے کہ اس دعا کی اگلی شاخوں سے بھی واقف ہوں.یہ دعا جو آگے دعائیں پیدا کرتی ہے اور جن کے بغیر یہ سفر طے ہونا ممکن نہیں ہے ان دعاؤں پر نظر رکھیں، ان کے پس منظر سے واقف ہوں.ان کیفیتوں سے آشنا ہوں جن کیفیتوں میں وہ دعائیں مانگی گئی تھیں.جوں جوں ہم اس مضمون میں آگے بڑھیں گے یہ مضمون جو بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے آسان ہوتا چلا جائے گا اور ان مشکلات میں سے لذت پھوٹنے لگے گی.پس اس لحاظ سے میں قرآن کریم کی دعائیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اسی ترتیب سے ہیں جس ترتیب سے قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.میں نے ان کو مضمون وارا لگ الگ نہیں کیا لیکن اس سے پہلے میں یہ بتادوں کہ ان دعاؤں کے متعلق خدا کا جو وعدہ ہے کہ میں قبول کرتا ہوں وہ وعدہ در حقیقت ایسی ہی دعاؤں کے متعلق ہے جن کا ذکر آنے والا ہے ورنہ بسا اوقات انسان اس مخمصے میں پھنس جاتا ہے کہ خدا نے تو وعدہ کیا ہے کہ میں دعائیں قبول کرتا ہوں اور میں بڑی دیر سے دعا کر رہا ہوں کہ یہ کر دے وہ کر دے.یہ دے دے وہ دے دے اور مجھے جواب نہیں ملتا تو اس آیت کو جو میں آپ کے سامنے پڑھتا ہوں ان دعاؤں کے مضمون کے ساتھ ملا کر سمجھیں تو پھر آپ کو پتا چلے گا کہ کون سی دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور کون سی مقبول نہیں ہوتیں.فرمایا: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَتَجِوالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۷) که اے محمود ہے جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو اِنِّي قَرِيبٌ.میں قریب ہوں.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ہر پکارنے والے کی پکار کوسنتا ہوں جب وہ مجھے بلاتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ فَلْيَسْتَجِوانی میری باتوں کا بھی تو جواب دیا کریں صد الله ط
خطبات طاہر جلد ۱۰ 307 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء میری آواز پر بھی تو کان دھرا کریں.یہ نہ ہو کہ یک طرفہ مجھے بلاوے بھیجتے رہیں اور جب میں ان کو بلاؤں تو وہ پیچھے ہٹ جائیں وَلْيُؤْمِنُوا لی اور وہ مجھ پر سچا ایمان رکھیں لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ ہدایت پائیں اور کامیاب ہوں.یہ رشد کا رستہ قبولیت دعا کا رستہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں تفصیل.ނ سمجھایا کہ وہ کونسا رستہ ہے اور کیسے لوگ ہیں جو اس رستے پر چلتے ہیں تو ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.قرآن کریم کی سورتیں اگر چہ اس ترتیب سے نہیں ہیں جس ترتیب سے یہ نازل ہوئیں لیکن جو تر تیب وحی الہی کے مطابق مقرر ہوئی اور جس ترتیب کے ساتھ ہم قرآن کریم کو آج پاتے ہیں اس ترتیب میں گہری حکمتیں ہیں اور مضمون کا تسلسل ہے.پس دعاؤں کے تسلسل میں بھی خدا تعالیٰ نے بعض گہری حکمتوں کو پیش نظر رکھا ہے اس لئے میں ترتیب کو مضامین کے لحاظ سے بدلنے کی بجائے بعینہ اسی طرح آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس طرح قرآن کریم نے پیش فرمائی ہے.سب سے پہلی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیان ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی کیا اہمیت ہے.آپ ابوالانبیاء کہلاتے ہیں یعنی وہ عظیم الشان نبیوں کا سلسلہ جس پر حضرت محمدمصطفی امی ہے پیدا ہوئے اس کے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام تھے.فرمایا.وَإِذْ قَالَ إِبْرُ هِمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا مِنَّا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِقَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيْلًا ثُمَّ أَضْطَرَةَ إِلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمُ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْاعَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقره: ۱۲۷ تا ۱۳۰) اصلى الله وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا مِنَّا یہ اس وقت کی دعا ہے جبکہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 308 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء خانہ کعبہ کے کھنڈرات موجود تھے یعنی بعض بہت پرانے اور تقریباً معدوم مٹے ہوئے آثار موجود تھے لیکن خانہ کعبہ کی کوئی عمارت نہیں تھی.وحی الہی کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ پہنچے.اسے تلاش کیا اور وہیں آپ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو چھوڑا اور بعد میں جب حضرت اسماعیل بڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ مدد کرنے کے قابل ہوئے تب اس کی تعمیر نو شروع کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل کا حصہ اس میں ڈالنا ضروری تھا اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسماعیل کی نسل سے پیدا ہونا تھا اس لئے آپ نے انتظار کیا کہ یہ بچہ جو دنیا کے عظیم ترین نبی کا جدا مسجد بننے والا ہے جس کی خاطر خانہ کعبہ کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا جس نے خدا کے اس گھر کی تعمیر کے مقاصد کو اپنی انتہا تک پہنچانا تھا اس کا ہاتھ بھی اس تعمیر میں ساتھ لگ جائے اور شامل ہو جائے.پس قرآن کریم میں جہاں بھی تعمیر نو کا ذکر ہے وہاں حضرت ابراہیم کے ساتھ حضرت اسماعیل کو ضرور شامل فرمایا گیا ہے اور دعاؤں میں بھی دونوں مل کر دعائیں کرتے ہیں.اس وقت تک صرف دو ہیں لیکن آگے جا کر جو دعا ئیں آئیں گی ان میں تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے فرمایا هذَا بَلَدًا مِنَّا اس جگہ کو امن کی جگہ بنا.وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اور جو بھی یہاں رہیں ان کے لئے ہر قسم کے پھل مہیا فرما.مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وہ لوگ جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہیں.خدا نے فرمایا وَ مَنْ كَفَرَ فَأَ مَتِّعَهُ قَلِيلًا جوانکار بھی کر دے گا اسے بھی ان دنیاوی فوائد میں سے کچھ نہ کچھ میں ضرور پہنچاؤں گا.یہ نہیں کہ ادھر کسی نے انکار کیا وہیں میں نے نعمت کا ہاتھ کھینچ لیا تو جہاں تک ثمرات دنیا کا تعلق ہے وہ میں انکار کرنے والوں کو بھی دیتا رہوں گا لیکن کچھ عرصے تک ہمیشہ کے لئے نہیں ثُمَّ اَضْطَرَةَ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ کچھ عرصے سے مراد نیا کی زندگی ہے یعنی دنیا کی زندگی میں میں پھلوں سے محروم نہیں کروں گا لیکن جب وہ مرکز میرے حضور پیش ہوگا تو اس لئے میں اس کو عذاب سے متبر اقرار نہیں دوں گا کیونکہ اس کو میں نے دنیا میں نعمتیں دی تھیں.پس خانہ کعبہ کی نعمتوں سے وہ فائدہ اٹھانے والا تو ہو گا لیکن اپنے کفر یا نا شکری یا انکار کی وجہ سے مرنے کے بعد پھر اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور یہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے جس کی طرف وہ لوٹ کے جانے والا ہے.وَاذْ يَرْفَعُ اِبْرهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ اسمعیل اس وقت کو یاد کرو جب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 309 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء ابراہیم نے قواعد بیت کو اللہ کے گھر کی بنیادوں کو استوار کرنا شروع کیا.واسمعیل اور اسماعیل اس کے ساتھ تھا تو اس وقت پہلی دعا ان کی یہ تھی رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا کہ اے خدا ! ہم سے اس کو قبول فرمالے.حضرت ابراہیم کی جو یہ دعا ہے اور حضرت اسماعیل کی یہ دعا ہے اس دعا میں بہت گہری حکمتیں ہیں پہلی بات تو یہ سمجھائی گئی ہے کہ خدا کی خاطر اتنی مشقت اٹھا کر ، اتنی مصیبتیں برداشت کر کے ایک ویرانے میں ابراہیم اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آیا.پھر لمبی مصیبتوں میں انتظار کیا بھوک دیکھی پیاس دیکھی ہر قسم کی تکلیفیں اٹھا ئیں.بار بار آتا رہا یہانتک کہ وہ بچہ بڑا ہو گیا اور خدا کی خاطر، محض خدا کی خاطر گھر تعمیر کیا جارہا ہے لیکن انکسار کا یہ عالم ہے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا سے دعا شروع کی.اے اللہ ! قبول فرما لینا گھر تو تیری خاطر بنا رہے ہیں خالصہ نیکی کی خاطر لیکن انسان خود اپنی نیتوں کی کنہوں سے واقف نہیں ہوتا انسان اپنے اندرون حال سے خود واقف نہیں ہوتا ، اس لئے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں اسے اپنی رحمت سے قبول فرمالینا.إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تو سنے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے.صرف دعا ئیں سنتا ہی نہیں ان کے احوال سے واقف ہے.ان کے رازوں سے واقف ہے.ان نیتوں سے واقف ہے جو دعاؤں سے پہلے ہوتی ہیں اور جن کے نتیجے میں دعائیں اٹھتی ہیں.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ اے خدا! اس عبادت کے گھر کا کیا فائدہ؟ اگر ہم بنانے والے خود تیرے حضور مسلمان نہ ٹھہریں.پس ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنا.مُسْلِمَيْنِ لَكَ ہمیشہ کے لئے اپنا فرمانبردار بنائے رکھنا وَارِنَا مَنَاسِكَنَا اور فرمانبرداری کی حالت میں ہمیں عبادت کے راز بھی سکھانا اور قربان گاہیں بھی دکھانا.منسک سے دونوں مراد ہو سکتے ہیں عبادت کا طریق بھی اور قربانی کا طریق اور وہ جگہیں جہاں انسان قربانی پیش کرتا ہے وَتُبْ عَلَینا لیکن پھر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم سے بخشش کا سلوک فرمانا ہماری تو بہ کو قبول کرنا اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ تو تو بے انتہا تو بہ قبول کرنے والا ہے اور بے حد رحم کرنے والا ہے.پس نیکی کی دعاؤں کے ساتھ یہ عاجزی اور انکساری کی گریہ وزاری بھی جاری ہے اور اعتراف ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں ہم گنہ گار ہیں ہم نیکی کے جو کام بھی کرتے ہیں ان پر بھی ہمیں پورا یقین نہیں ہو سکتا جب تک تیری طرف سے رضا مندی حاصل نہ ہو جائے کہ یہ نیکیاں قبول بھی ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 310 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء گی کہ نہیں رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ اے خدا ان لوگوں میں سے جو یہاں پیدا ہوں گے وہ عظیم الشان رسول بر پا فرما يَتْلُوا عَلَيْهِم ايتك جو تیری آیات ان پر تلاوت کرے گا وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ اور انہیں کتاب بھی پڑھائے گا اور اس کی حکمت بھی.وَيُزَكِّيهِمْ اور ان کو پاک فرمائے گا اِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یقیناً تو غالب قدرتوں والا اور بڑی حکمتوں والا ہے.یہ دعا کی وہ تان ہے جہاں جا کر یہ دعائوئی ہے، جہاں جا کر یہ دعا اپنے عروج تک پہنچی ہے اور اب سمجھ آئی کہ پہلی دعاؤں میں اس قدر تقویٰ کی باریک راہوں کی پیروی کیوں ہو رہی تھی ؟ اتنا انکسار کیوں تھا ؟ اتنی بار بار کی احتیاط کیوں تھی کہ اے خدا ہماری دعاؤں کو قبول فرمانا.ہمیں پاک وصاف رکھنا.ہم میں ذرا بھی غیر کا کوئی شائبہ تک باقی نہ رہے خالص تیرے لئے ہم یہ کام کر رہے ہوں اور تو ان کاموں کو قبول کر رہا ہو کیونکہ یہ دعا حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے سلسلے کی بنیاد ڈالنے والی دعا تھی اور اس عظیم الشان رسول کے بر پا کرنے کی دعا تھی جس کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا گیا تھا.اس لئے غیر معمولی تقویٰ کی ضرورت تھی اور غیر معمولی انکسار کی ضرورت تھی.یہ وہ مقام تھا جہاں تکبر داخل ہوسکتا تھا بعض تکبر نیکی میں بھی داخل ہو جاتے ہیں اور شیطان بہکا سکتا تھا کہ تم دونوں؟ تم تو اتنے عظیم الشان وجود ہو کہ وہ عظیم وجود جس کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا گیا تھا وہ تمہاری نسل سے پیدا ہونے والا ہے.تو جتنا بڑا مقام عطا ہونے والا تھا اتنی ہی عاجزی بھی سکھائی گئی اور اس طرح انہوں نے عاجزانہ طور پر خدا کے حضور یہ دعائیں مانگیں جو بعینہ اسی طرح قبول ہوئیں.حیرت انگیز طریق پر ان ہی لفظوں میں یہ دعا قبول ہوئی ہے جن لفظوں میں ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے مانگی تھی لیکن ترتیب انسانی سوچ کی تھی اگر چہ نبی تھا مگر بہر حال انسان تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ترتیب بدل دی چنانچہ فرمایا: هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ ایه لَفِی ضَللٍ مُّبِينٍ (الجمعہ: ۳) ابراہیم علیہ السلام نے تو یہ عرض کیا تھا کہ جب وہ تلاوت آیات کر دے، پھر ان کی تعلیم دے دے، پھر ان کی حکمت سکھا دے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر پاک کرنے کی صفات پیدا ہو جائیں گی ، پاک کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی پھر وہ ان کو پاک کرے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 311 خطبہ جمعہ ۱۲ راپریل ۱۹۹۱ء کیونکہ جب آیات پڑھی جائیں گی ، ان کی تعلیم دی جائے گی ، ان کی حکمت سکھائی جائے گی تو یہ سارا پاک کرنے والا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کے نتیجے میں جو بھی لوگ اس کارخانے سے گزریں گے آخر تک پہنچتے پہنچتے پاک ہونے کے لئے تیار ہوں گے ویز بهم پھر وہ ان کو پاک بھی کرے گا.خدا تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ کا اصل مقام قبولیت دعا کے وقت ظاہر فرمایا اور فرمایا کہ ابراہیم کی سوچ تو یہ تھی کہ وہ کتاب اور حکمت سکھانے کے بعد پھر ان کو پاک کرے گا.مگر میں یہ کہتا ہوں کہ محمد مصطفی اس میں دو ایسی خوبیاں ہیں جن میں وہ سب دوسرے نبیوں سے ممتاز ہے اور پہلے نبی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.ایک یہ کہ وہ ذاتی طور پر ایسی قوت قدسیہ رکھتا ہے کہ کتاب سکھانے سے پہلے اور اس کی حکمتیں بتانے سے پہلے محض اپنے وجود کی برکتوں سے لوگوں کو پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.پس تلاوت آیات تو بہر حال اول ہے کیونکہ خدا کے پیغام کو سنائے بغیر کوئی طاقت بھی حاصل نہیں ہوتی لیکن ساتھ ہی فرمایا وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وه پہلے الله پاک کرتا ہے اور پاک کرنے کے لئے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ محمدرسول اللہ ﷺ کا وجود خود پاک کرنے والا ہے اور دوسرا امتیاز یہ ہے کہ پہلے لوگ تو ایسے مدرسوں میں داخل ہوتے تھے کہ داخل ہونے سے پہلے پاک نہیں ہوتے تھے داخل ہونے کے بعد پاک کئے جاتے تھے اور گویا پاک ہو جانا ان مدارس کا منتہی اور مقصود تھا.فرمایا یہ اتنا اونچا مدرسہ بنایا گیا ہے کہ یہاں داخل ہونے کے لئے پاک کی ضرورت ہے.جب تک پاک دل لے کر تم محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں حاضر نہیں ہو گے تم اس درس گاہ سے کچھ حاصل نہیں کر سکو گے.پس یہ دونوں مفاہیم بیک وقت صادق آتے ہیں اور اس دعا کی اہمیت بھی ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح بعینہ ان چار صفات کا ذکر فرماتے ہوئے جن کا بڑی عاجزی کے ساتھ حضرت ابراہیم نے خدا سے مانگا تھا، محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ذکر فر ما دیا کہ وہ بعینہ وہی صفات لے کر پیدا ہوا ہے جو ابراہیم نے اس آنے والے کے لئے مانگی تھیں.اب دیکھیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس دعا نے کتنا عظیم الشان کام کیا ہے.وہ لوگ جو اپنے لئے دعائیں کرتے کرتے مرجاتے ہیں وہ اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرتے کرتے جان دے دیتے ہیں ، فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن تھوڑے ماحول میں چند دن کے فائدے پہنچتے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا دیکھیں کتنی نافع الناس تھی کتنی عظیم الشان تھی ، تمام دنیا نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 312 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء قیامت تک اس سے فائدے اٹھانے تھے اسی لئے اس دعا کو بھی عظمت ہوئی اور اس دعا مانگنے والے کو بھی ایسی عظمت نصیب ہوئی جیسے محمد رسول ﷺ کے سوا کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوئی دوسری دعا میں قرآن کریم ہمیں سورۃ البقرہ آیت ۲۰۲ میں یہ سکھاتا ہے : رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یہ دعا در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ان بندوں کے متعلق بیان فرمائی گئی ہے جو مناسک حج ادا کرنے کے بعد پھر خدا سے خیر مانگتے ہوئے واپس لوٹتے ہیں.وہ کیا کہتے ہوئے واپس آتے ہیں: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے خدا ہمیں دنیا کی حسنات بھی عطا فرما اور آخرت کی حسنات بھی عطا فرما اور عَذَابَ النَّارِ سے بچانا.یہاں حَسَنَةً اور فضل میں ایک فرق ہے جو آپ کو یاد درکھنا چاہئے ورنہ آپ کی دعا مکمل نہیں ہوگی.فضل عموماً دنیاوی فوائد کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر چہ دوسرے فوائد کے لئے بھی لیکن حَسَنَةً کا زیادہ تر تعلق نیکیوں سے ہے اور کوئی ایسی خیر حَسَنَةٌ میں داخل نہیں ہوتی جو نیکی سے خالی ہو.اس لئے حَسَنَةٌ میں جو حسن ہے وہ دوسری دعاؤں میں ویسا پیدا نہیں ہوتا کیونکہ مراد یہ ہے کہ ہمیں ہر اچھی چیز دے.دنیا میں سے بھی اچھی چیزیں دیں یعنی دنیاوی لحاظ سے بھی اچھی ہوں اور تیرے حضور بھی وہ اچھی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے کے لائق ہوں اور پھر آخرت میں سے بھی بہترین چیزیں عطا فرما اور دین میں سے بھی اس حصے پر عمل کرنے کی توفیق بخش جو سب سے زیادہ حسین ہے یعنی تعلیم کا وہ حصہ جو چوٹی کا حصہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دعا کے متعلق فرمایا:.”ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے“.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھی حَسَنَةٌ عطا فرما اور آخرت کی بھی حَسَنَةٌ عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پس وہ احمدی جو اس فرمان سے واقف نہیں ہیں وہ شاید دعا سے تو واقف ہوں گے لیکن یہ علم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں یہ دعا کتنی اہمیت رکھتی تھی.ایک موقعہ پر حضرت انس کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 313 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء تشریف لے گئے جو بیماری سے اس طرح کھوکھلا ہو چکا تھا جیسے کسی چوزے کے پر نوچ لئے گئے ہوں اور وہ بالکل نڈھال ہو چکا ہو، آپ نے اس سے پوچھا کیا تم خدا سے کوئی خاص دعا کرتے ہو، اس نے عرض کی : ہاں ! میں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ ! تو نے جو عذاب مجھے قیامت کے روز دینا ہے وہ مجھے اس دنیا میں دیدے.آپ نے فرمایا.سبحان اللہ ! تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے.کیسا پیارا کلام ہے.کیسا دل کی گہرائیوں تک اتر جانے والا کلام ہے سبحان اللہ ! تم اس کی طاقت نہیں رکھتے.خدا سے ایسی دعا نہ مانگا کرو کہ جس کی تم میں طاقت نہ ہو ، تم برداشت نہ کر سکو.فرمایا: یہ دعا کیوں نہ کی.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ سارى باتیں اس میں آگئیں.جس عذاب آخرت سے ڈرتے ہوئے تم دعا مانگ رہے تھے اس کا تو اس دعا میں ذکر موجود ہے.یہ دعا مقبول ہو جائے تو عذاب آخرت کہاں ؟ لیکن اس کے ساتھ یہ دنیا کی حسنات بھی دیتی ہے اور آخرت کی حسنات بھی دیتی ہے.پس یہ دعائیں ہیں.ان کا ایک پس منظر ہے.کس طرح خدا کے پاک بندوں نے ان کی حکمتوں کو سمجھا، کس طرح ان کے متعلق تلقین فرمائی.جب بھی آپ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہنے کے بعد یہ مشکل دعا مانگتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم تو پھر ان لوگوں کی دعائیں بھی تو ساتھ مانگا کریں اور بعینہ سورہ فاتحہ کے بعد ان دعاؤں کے لئے قرآن کریم کی آیات پڑھنے کا وقت آجاتا ہے تو ایسی آیات کا انتخاب کریں جن آیات میں ایسی دعائیں ہوں اور دعاؤں کے مضمون کو اگر آپ سمجھ جائیں تو ہر ضرورت کے لئے ہر مشکل کے لئے ہر خواہش جو نیک خواہش ہے اس کو پورا کرنے کے لئے آپ کو قرآن کریم میں کوئی نہ کوئی مناسب حال دعا مل جائے گی.اگر اس کے پس منظر کو سمجھ جائیں تو پھر دل میں درد پیدا ہوگا.سوز پیدا ہوگا اور آپ کی دعاؤں میں ایک نئی زندگی پیدا ہو جائے گی.وہ ایسے چوزے کی طرح کی دعائیں نہیں ہوں گی جس کے پر نوچے جاچکے ہوں ،ایسے پرندے کی طرح دعائیں ہوں گی جو اڑنے کی سکت رکھتا ہو اور بلند پروازی جانتا ہو اور بلند پروازی کی طاقت رکھتا ہو.پھر ایک دعا ہے جو حضرت طالوت جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جدعون تھے ، ان کی دعا قرآن کریم نے محفوظ فرمائی ہے.جب وہ جالوت کی فوجوں کے ساتھ مقابلے کے لئے نکلے تو جالوت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 314 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء کی فوجیں بہت زیادہ تھیں اور بہت طاقتور تھیں اور اس کے مقابلے پر حضرت طالوت کی فوج بہت مختصر تھی اور اس میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جو ابتلاء پر پورا نہیں اتر سکے اور آخر وقت تک ساتھ نہ دے سکے.اس لئے جو باقی بچے وہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے.اس وقت انہوں نے ایک دعا کی ربنا أفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقره: ۳۵۱) کہ اے خدا ! ہم پر مبر نازل فرما، ہمیں صبر عطا فرما، وثبّتْ أَقْدَامَنَا اور ہمارے قدموں کو متحکم اور مضبوط کر دے.وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور ہمیں انکار کرنے والوں کی قوم پر فتح نصیب فرما.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دعا ایسی تھی جسے میں نے فوراً قبول کرلیا فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللهِ ( البقرہ:۲۵۲) پس وہ جوعظیم شکست انہوں نے دشمن کو دی وہ محض اللہ کے اذن سے تھی ورنہ ان میں یہ طاقت نہیں تھی کہ اتنے بھاری دشمن پر فتحیاب ہو سکتے.پھر قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کا بھی نقشہ کھینچا ہے.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم میں باقی انبیاء کی دعائیں ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی دعائیں نہیں حالانکہ بہت سی دعا ئیں جن میں نام نہیں لیا گیا اور بعض ایمان والوں کی دعا ئیں بتائی گئی ہیں وہ دعائیں وہ ہیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی دعائیں تھیں اور بہت سی ایسی دعائیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے خود آپ کو مخاطب کر کے سمجھائیں کہ یہ دعا مجھ سے کیا کرو.یہ ساری دعائیں قرآن میں محفوظ ہیں.اس کے علاوہ اور بھی دعائیں ہیں جن کا قرآن میں تفصیل سے ذکر نہیں ملتا لیکن مضمون موجود ہے ان دعاؤں کا انشاء اللہ بعد میں ذکر کروں گا.ایک دعا یہ بتائی: أَمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ مَن بِاللهِ وَمَلَكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ (البقرة: ٢٨٦) قت دیکھو! محمد رسول اللہ خدا تعالیٰ کی ہر اس چیز پر ایمان لے آئے ، ہر اس بات پر ایمان لے آئے.ہر اس حکم پر ایمان لے آئے جو ان کی طرف نازل کی گئی اور ان کے ساتھ ہی ان پر ایمان صلى الله لانے والے بھی خدا کی کامل وحی پر ہر طرح سے ایمان لے آئے.یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چل چل کر جن جن باتوں پر وہ ایمان لاتے گئے آپ کے صحابہ آپ کے غلام بھی ان باتوں پر ایمان لاتے چلے گئے.كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَبِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِہ یہ سب کے سب وہ ہیں جو اللہ پر قت بھی ایمان لائے ملائکہ پر بھی ایمان لائے اور کتابوں پر بھی ایمان لائے اور خدا تعالیٰ کے رسولوں پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 315 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء بھی ایمان لائے اور یہ اقرار کیا لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْ رُّسُلِہ کہ جہاں تک وحی کی عظمت کا تعلق ہے جہاں تک تیرے فرمان کے احترام کا تعلق ہے ہم کسی بڑے چھوٹے رسول کی وحی میں فرق نہیں کریں گے.جو حکم تیری طرف سے آئے گا وہ کسی طرح ہم تک پہنچے، خواہ بڑے رسول کے ذریعہ پہنچے یا چھوٹے رسول کے ذریعے پہنچے ہم تو تیرے حکم پر نگاہ کرنے والے ہیں اس لئے جہاں تک وحی کے احترام کا تعلق ہے اس میں ہم کوئی فرق نہیں کریں گے کہ کوئی رسول زیادہ قابل احترام ہے اور کوئی رسول کم قابل احترام ہے اس بحث میں نہیں پڑیں گے اور پھر وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ اے خدا! ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کر دی یعنی جو کچھ ہم نے سنا اس سب پر ہم ایمان بھی لائے اور ہم اطاعت کے لئے حاضر ہوگئے اور عمل کرنا شروع کر دیا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ اس لئے اب ہم تجھ سے بخشش کا حق مانگتے ہیں، بخشش کی تو قع رکھتے ہیں تو ہم سے بخشش کا سلوک فرما.دیکھئے اس میں بھی کتنا انکسار ہے.محمد رسول اللہ ﷺ اور آر کے ساتھی جس کیفیت کے ساتھ خدا کی وحی پر ایمان لائے کبھی دنیا میں کوئی قوم ایسی پیدا نہیں ہوئی جس نے اس شان کے ساتھ اس خلوص کے ساتھ اس طرح مضمون کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے خدا کے کسی نبی کی وحی پر ایمان لایا ہومگر یہ لوگ محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھی اس وحی پر اس کامل شان کے ساتھ ایمان لے آئے اور پھر خدا کے سب رسولوں پر فرشتوں پر کتابوں پر سب پر ایمان لانے کے بعد پھر اپنا یہ دستور بنالیا کہ سنا اور اطاعت شروع کر دی اور مقابل پر خدا سے کیا مانگا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا اس کے باوجود ہم کسی چیز کے مستحق نہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ سب تو فیق تیری دی ہوئی ہے.ہاں بخشش کی توقع رکھتے ہیں کہ ہم سے جو کمزوریاں ہو جائیں ،غفلتیں ہوں تو ہم سے بخشش کا سلوک فرما.وَالَيْكَ الْمَصِيرُ اور ہم نے آخر تیرے پاس پہنچنا ہے.کوئی مفر نہیں ہے.لازما ہم سب آخر تیرے حضور پہنچیں گے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا فرمایا ہاں میں جانتا ہوں کہ تم میں سے مختلف لوگوں کو میں نے مختلف توفیق عطا فرمائی ہے.کسی کو زیادہ طاقتیں دی ہیں کسی کو کم طاقتیں دی ہیں چونکہ میں نے طاقتیں دی ہیں میں تم سے تمہاری طاقتوں کے مطابق سلوک کروں گا.محمد مصطفی ماہ سے ان کی طاقتوں کے مطابق اور ان کے غلاموں سے درجہ بدرجہ ،صدیقوں سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 316 خطبہ جمعہ ۲ اس اپریل ۱۹۹۱ء صدیقوں کے مطابق، شہداء سے شہداء کے مطابق اور صالحین سے صالحین کے مطابق.لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ قانون یہ ہے کہ جو کچھ بھی نیکی تم سے سرزد ہو گی یا ان لوگوں سے ہوگی اس نیکی کی میں جزاء ضرور دوں گا مگر بدی کے متعلق احتیاط کرلوں گا کہ نیت اور پختہ نیت کا دخل ہو.جان بوجھ کر عمداً کی گئی ہو.اکتبت میں واضح نیت اور ارادے کا معنی پایا جاتا ہے تو دیکھئے یہ بھی کتنا احسان اور مغفرت کا سلوک ہے.دراصل غُفْرَانَكَ کا جواب ہے فرمایا.ہاں غفران کا سلوک کروں گا اس طرح کہ نیکی تم سے راہ چلتے اتفاقاً بھی ہو جائے تو میں کہوں گا کہ تمہارے حساب میں لکھ لی جائے اور فرشتے تمہارے حساب میں لکھ لیا کریں گے لیکن بدی کے متعلق احتیاط کا حکم دوں گا کہ دیکھنا اس کی نیت تھی کہ نہیں.ارادہ تھا کہ نہیں.چنانچہ حضرت آدم کے ذکر میں فرمایا: وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (ط (۱۱۲) ہم نے جو اس سے مغفرت کا سلوک فرمایا تو وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً ہم نے خوب ٹول کر دیکھا ، اس کی نیت میں عزم نہیں پایا جاتا تھا.ٹھوکر کھائی تھی ، غفلت ہوگئی تھی.پس غُفْرَانَكَ کا جواب بھی ہمیں مل گیا.پھر وہ دعا بتائی اورتفصیل کے ساتھ اس دعا کا ذکر فرمایا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے شاگرد آپ کے غلام آپ کے صحابہ ہمیشہ خدا کے حضور گریہ وزاری سے کیا کرتے تھے.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا (البقره: ۲۸۷) اے خدا ! لَا تُؤَاخِذْنَا ہرگز ہمار مؤاخذہ نہ فرمانا.اِنْ نَّسِينَا أو أخطأنا اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے اور غلطی کر دیں تو اس کا تو کوئی کھاتا ہی نہ رکھنا.اسے تو شروع سے ہی صاف کر دینا کہ ٹھیک ہے ، یہ کسی شمار میں نہیں ہوگی.پھر رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا اور اے خدا ! جہاں تک اس امر کا تعلق ہے جو تو نے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا وہ ہم پر ڈالنا ہی نہ.اصر اور حمل دو مضمون ہیں جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں.اصر سے مت اصر الشئ کسی چیز کو تو را مروڑ ا روکا.کوئی چیز اتنا بڑھ گئی مثلاً درخت کی شاخیں کہ تحقیق میمی آپس میں جھلیں پڑ گئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کو خراب کرنے لگ گئیں.انتصرا القوم : لوگ زیادہ ہو گئے.مأصر : اس رسی کو بھی کہتے ہیں جو سڑک پر ٹول (Toll) وصول کرنے کے لئے لگائی جاتی تھی.آج کل بھی گیٹ Gate لگتے ہیں.یعنی وہ رسی جو گاڑیوں کو متعلق لغوى
خطبات طاہر جلد ۱۰ 317 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء موٹروں کو گدھے گاڑیوں کو ، اس زمانے میں تو گھوڑے اور خچر وغیرہ ہوا کرتے تھے تو ان کو روکنے کے لئے ہوتی تھی کہ اپنا ٹیکس دے کر جاؤ تو یہ سارے مفاہیم ہمیں بتاتے ہیں کہ اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پر کوئی ایسی شریعت نہ نازل فرمانا بوجھ سے مراد بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے پابندیاں ہیں ، ہرگز یہ مراد نہیں مراد یہ ہے کہ ہم پر ایسی پابندیاں نہ لگانا جن پابندیوں کو برداشت نہ کر کے پرانے لوگوں کی کمریں ٹوٹ گئیں اور وہ منہدم ہو گئے اور ایسی پابندیاں نہ لگانا جوتو نے کم لگائی تھیں لیکن رفتہ رفتہ لوگوں نے بڑھانی شروع کر دیں اور سیدھے سادے دین کو منجھل بنادیا.چنانچہ وہ جو قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے کہ محمد رسول اللہ ہے لوگوں سے ان کے اصر دور فرماتا ہے.جن بوجھوں میں وہ مبتلا ہوئے ہیں ، جو زائد رسم ورواج ان کے گلوں کے طوق بن گئے ہیں وہ ان سے ان کو رہائی دلاتا ہے.تو یہ وہ مضمون ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کے رستے پر نہ چلانا جن کی تعلیمات ان کے لئے رفتہ رفتہ اِصر بن گئیں.اس میں اضافے ہونے شروع ہو گئے، رسم و رواج پیدا ہو گئے.ایسی مشکل بنادی گئیں کہ پھر ان پر عمل نہیں ہوسکتا تھا اور پھر ایسے بھی لوگ تھے جن کی تعلیمات رفتہ رفتہ ٹیکس کی وصولی کی طرح بو جھل اور قابل نفرت بن گئیں.جب ان سے ان تعلیمات پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا تو سننے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ کیا مصیبت ہے.یہ ویسی ہی کیفیت ہے جیسے گزشتہ کچھ عرصہ پہلے ضیاء الحق صاحب نے نماز فرض کردی تھی.ایک تو خدا نے فرض کر رکھی تھی 1400 سال پہلے سے ایک ضیاء صاحب نے اس کے اوپر پھر فرض فرما دی اور اس وقت کی جو کیفیت لوگ مجھے لکھا کرتے تھے وہ بالکل وہی تھی ، جو میں بیان کر رہا ہوں کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تو ٹیکس پڑ گیا ہے اس کی ادائیگی سے جس طرح ہو سکے بھا گو.جو خدا کی فرض کردہ نمازیں پہلے پڑھتے تھے وہ تو اسی طرح پڑھتے رہے ان کو تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ایک بڑی تعداد وہ تھی جو صر سمجھ کر نمازوں کو پڑھتے تھے اور ان کا رجحان یہ تھا کہ گویا ان پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے تو دیکھیں کتنی اچھی دعا سکھا دی.فرمایا: اے خدا تیری تعلیم کو تو ہم قبول کریں گے لیکن ہم تجھ سے کچھ گزارشات کرتے ہیں ہم ہر چیز پر ایمان لے آئے یہ عہد کر بیٹھے ہیں جو سنیں گے اس کی اطاعت کریں گے لیکن اب ہمارے ساتھ ذرا ایک Code of conduct طے ہو جائے ایک ایسا طریق کار وضع ہو جائے جس پر ہم سے تیر امعاملہ ہوگا.ایک یہ کہ خطا تو شمار میں ہی نہیں آئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 318 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء گی.بھول چوک معاف پرانے لوگوں کی غلطیاں دوہرانے کی تو ہمیں توفیق ہی نہیں بخشے گا.ہم تیری تعلیم کو ہرگز اپنے لئے بوجھ نہیں بنے دیں گے اور نہ تیری تعلیم کو بوجھ شمار کریں گے اور نہ ٹیکس شمار کریں گے.پھر اس کے بعد کیا ہے رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہ اس کے باوجود ہمیں پتا نہیں کہ پھر بھی کیا کیا ہونے والا ہے جہاں تک گزشتہ تاریخ کے سبق ہیں وہ تو ہم حاصل کئے لیکن اپنی کمزوریوں سے ہم پھر بھی واقف نہیں ہیں.وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ تو نے وعدہ فرمایا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا پس اس وعدے کو یاد دلاتے ہیں اور پھر یہ تاکید اعر ض ہے.کہ ہم میں جتنی طاقت ہے اس سے زیادہ ہم پر بوجھ نہیں ڈالنا.طاقت دیکھ کر بوجھ ڈالنا اور اس کے بعد پھر بعد میں کیا سلوک ہو.وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اے خدا ! عفوكا سلوک فرمانا.پھر بھی گناہ ہوں گے تو دیکھنا ہی نہ گویا گناہ ایک طرف ہورہے ہیں اور تیری نظریں دوسری طرف ہیں.وَاغْفِرْ لَنَا اور جو گناہ تیری نظر کے سامنے آجائیں ویسے تو ہر چیز پر خدا کی نظر ہے لیکن ایک اسلوب بیان ہے.جس طرح بعض لوگ حلم کا سلوک کرنے والے ، مغفرت کا سلوک کرنے والے عفو سے آغاز کرتے ہیں اور کوشش کرتے رہتے ہیں کہ برائی نظر کے سامنے ہی نہ آئے.برائی کو اس وقت دیکھتے ہیں جب پکڑنے کا ارادہ کرتے ہیں حضرت مصلح موعودؓ کا بھی یہی طریق تھا مجھے یاد ہے بچپن میں آپ جب گھروں میں آیا کرتے تھے تو ہم بچپن کی کئی قسم کی بیہودہ حرکتیں کیا کرتے تھے تو آپ اس طرح غفلت کی نظر سے دیکھتے ہوئے گزرتے تھے جیسے پتا ہی نہیں لگا اور اس وقت دیکھتے تھے جب پکڑنے کا ارادہ ہو.جب سمجھیں کہ اب معاملہ کچھ ہاتھ سے بڑھتا چلا گیا ہے لیکن خدا سے یہ دعا نہیں ہے کہ ہمیں اس وقت گناہوں میں دیکھنا جب پکڑنے کا ارادہ ہو.فرمایا جب دیکھنا تو بخشش کے ارادے سے دیکھنا.جب پکڑے جائیں ، بات کھل جائے تو وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اور رحم فرمانا.استحقاق کوئی نہیں.بار بار کی غلطیاں ہوں گی.تیرے حضور حاضر ہوں گے کچھ لے کر نہیں حاضر ہوں گے.ایسے اقرار بار بار توڑ چکے ہوں گے جو تیرے حضور مضبوطی سے باندھے ہوئے ہوں گے.کئی دفعہ تو بہ کی ہوگی.ایسی صورت میں رحم کا سلوک فرمانا.کہنا: بڑے کمزور عاجز انسان ہیں ان کا کام ہی یہی ہے غلطیاں کرنا.جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ایک فارسی کا الہام بھی بیان کیا جاتا ہے کہ:.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 319 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء ایس مشت خاک را گر به بخشم چه کنم کہ اس خاک کی مٹھی کو میں بخشوں نہ تو کروں کیا.اس انسان کی حیثیت کیا ہے؟ اتنا کمزور اتنا ناقص ، بار بار گناہوں میں مبتلا ہونے والا.چلو دفعہ کرو اس کو ، بخش ہی دو.خاک کی مٹھی ہی تو ہے تو یہ معنی وَارْحَمْنَا کے ہیں کہ اے خدا! پھر یہ کہہ دینا کہ چلو رحم ہی کر لیتے ہیں.کچھ نہیں.انتَ مولنا یہ بات یاد رکھنا کہ ہمارا مولا تو ہے.اس لفظ میں ساری دعا کے درد کو سمو دیا گیا ہے اور دعا کی قبولیت کا راز بیان فرما دیا گیا ہے.ان حالتوں کے باوجود سوائے تیرے ہم نے کسی اور طرف نہیں دیکھا.اپنی تمام کمزوریوں اور گناہوں کے باوجود تجھ سے اس معنوں میں وفا کی ہے کہ اپنا مولا صرف تجھے سمجھا ہے اور کسی اور کو نہیں سمجھا.پس جب مولا تو ہے تو جائیں کہاں؟ دیکھئے ! وہی دعا ہے ناں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہ اے خدا جب تیری عبادت کرتے ہیں ، کسی اور کی کرتے ہی نہیں تو مد دکس سے مانگیں؟ اور ہے کون؟ ہم تیرا در چھوڑ کر جائیں کہاں چین دل آرام جاں پائیں کہاں ( کلام محمود:..) اور کچھ بھی نہیں ہے پس مولنا نے وہ راز کھول دیا کہ کیوں ایسی عجیب و غریب سی دعائیں مانگو ، جن میں کوئی منطق نظر نہیں آتی.کیوں خدا تم سے یہ سلوک کرتا چلا جائے یہ عرض کرنا کہ اے خدا! ہمارا مولا تو ہے.اگر ہم نے کسی اور کو مولا بنالیا تو پھر ان دعاؤں کا ہمیں استحقاق نہیں رہے گا.پس یہ دعا مقبول تب ہوگی اگر آپ کا مولا خدا ہی ہو.اگر ضرورت اور مصیبت کے وقت دوسروں کی طرف نہ بھاگیں اگر شرک میں مبتلا نہ ہوں.اگر مولا دنیا والے بنائے ہوئے اور دعا محمد رسول اللہ والی کریں کہ جن کا مولا خدا کے سوا کوئی بھی نہیں تھا تو ایک بے محل دعا ہو گی.اس کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.پس انکار کرنے والوں اور ناشکری کرنے والوں پر تو ہمیں نصرت عطا فرما کیونکہ ہمارا مولا تو ہے اور تیرے سوا اور کوئی مولا نہیں.پھر یہ دعا سکھائی رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ( آل عمران : ۹) یہ دعا راسخون فی العلم کی دعا کے طور پر سکھائی گئی ہے جو محکمات اور متشابہات دونوں پر ایمان لاتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں.کل من
خطبات طاہر جلد ۱۰ 320 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء عنداللہ.یہ سب کچھ خدا ہی کی طرف سے ہے.اس لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ بغیر اس مضمون کو سمجھے اگر یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا جیسا کہ بعض کتب میں قرآنی دعائیں لکھی ہوئی ہیں اور پس منظر بیان نہیں ہوا تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعا کا تیر خالی چلا جائے اور آپ کو علم نہ ہو کہ کیوں خطا ہوا.کیوں نشانے پر نہیں بیٹھا.فرمایا یہ دعا ان لوگوں کی طرف سے مقبول ہوتی ہے جو متشابہات پر بھی ایمان لاتے ہیں اور محکمات پر بھی ایمان لاتے ہیں قرآن کریم کی آیات ہوں یا محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام ہو یا دوسرے اولوالامر کی اطاعت کا مسئلہ ہو یہ سلوک نہ کرنے والے ہوں کہ جو بات کھلی کھلی دلیل کے ساتھ سمجھ آجائے اس پر تو شرح صدر کے ساتھ ایمان لے آئیں اور جہاں ذرا بھی شک کا کوئی پہلو دیکھیں وہاں شکوک میں مبتلا ہوجائیں ، تو ہمات میں مبتلا ہو جائیں.شاید یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی، شاید یہ بات پوری نہیں ہوئی یہاں زیادہ سختی ہوگئی ہے.یہاں ہمارے مزاج کے خلاف بات ہوگئی ہے.یہ متشابہات ہیں تو فرمایا اگر تم متشابہات پر ایمان نہیں لائے اور یہ متشابہات کو شرح صدر کے ساتھ قبول نہیں کرتے.اگر میٹھا میٹھا کھانے کی عادت ہے اور ہلکا سا مزا بدلے تو تھوک دینے کے عادی ہو تو پھر یہ دعا کرتے ہوئے ہمارے حضور حاضر نہ ہونا.ہم تو یہ دعا تمہیں ایسے لوگوں کی دعا کے طور پر بتا رہے ہیں جو ر اســخــون فـــي العلم تھے.جو محکمات پر بھی کامل ایمان لاتے تھے اور متشابہات پر بھی کامل ایمان لاتے تھے.پھر وہ کیا کہتے تھے.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا اب دیکھیں کتنی موزوں اور برحل دعا ہے اور اس کا پس منظر جاننا کیوں ضروری ہے.دعا یہ ہے کہ اے خدا! ہمارے دلوں کو ایک دفعہ ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کرنا یا ٹیڑھا نہ ہونے دینا وَ هَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً اپنے حضور سے ہمیں رحمت عطا فرمانا.ہم سے رحمت کا سلوک کرنا إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ یقینا تو بہت ہی زیادہ رحمت کا اور موہبت کا بخشش اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے.اب یہ دعا ان لوگوں کے حق میں قبول نہیں ہوسکتی جو ہر اس مقام پر جہاں دل ٹیڑھے ہونے کے احتمالات پیدا ہوتے ہیں.ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور خود اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے دیتے ہیں.فرمایا جو راسخون فی العلم ہیں وہ ایسا نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود جانتے ہیں کہ خدا سے طاقت پائے بغیر وہ ان ابتلاؤں سے صحیح سالم گزرنہیں سکتے.ان کو دعاؤں کی پھر بھی ضرورت ہے.پس متشابہات سے ٹھو کر نہیں کھاتے لیکن جانتے ہیں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 321 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء دعا کے سہارے کے بغیر ہر وقت خطرے میں ہیں.پس اگر تم متشابہات سے ثابت قدمی سے گزرنے کی اہلیت رکھتے ہو اور بار بار شکوں کے ذریعہ ، اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرتے تو پھر یہ دعا کرو، پھر تمہارے ایمان کو نئی طاقت نصیب ہوگی پھر تمہیں مشکل مقامات پر،لڑکھڑانے کی جگہوں پر خدا کی طرف سے سہارے دیئے جائیں گے اور ٹی طاقتیں عطا کی جائیں گی.پھر تمہیں ہر خطرے کے مقام سے گرنے سے بچالیا جائے گا.رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران : ۱۰) اے خدا! تو ایک ایسے دن کے وقت ہم سب کو اکٹھا کرنے والا ہے.جس میں کوئی شک نہیں.اب دیکھیں کتنی پر حکمت بات ہے.اس مضمون سے اس فقرے کا کتنا گہرا تعلق ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے.فرمایا: ریب کی بات چل رہی تھی کہ اے خدا! وہ لوگ جو متشابہات کے وقت شک نہیں کرتے ان کے ساتھ شامل ہوکر یہ دعا کیا کرو کیونکہ بالآخر ایک ایسا دن آنے والا ہے جس میں کوئی شک باقی نہیں رہے گا.جن باتوں کو تم آج نہیں سمجھ سکے وہ کل تمہارے سامنے کھول دی جائیں گی اور جب وہ کھول دی جائیں گی تو پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ تم کتنی غلطی پر تھے.اس لئے استغفار سے کام لیتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ ان ٹھوکروں سے بچنے کی کوشش کرو جن کا حال ایک ایسے دن پر کھول دیا جائے گا جس کے متعلق وہ دعا کرنے والے خود عرض کرتے ہیں کہ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ اس دن ہمارے ساتھ ربوبیت کا سلوک فرمانا جس دن سب دنیا اکٹھی ہوگی اور اس دن میں کوئی شک والی بات نہیں ہوگی.یہاں دو معنی ہیں.وہ دن شک سے بالا ہے یعنی لازماً ایسا ایک دور آنے والا ہے جس میں یہ باتیں ہوں گی اور اس دن کوئی شک والی بات نہیں ہوگی.سب پردے اٹھا دئیے جائیں گے.پھر سورۃ آل عمران آیت ۱۷ میں متقیوں کی دعا کے طور پر یہ دعا سکھائی : رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے خدا! ہم ایمان لے آئے.پس ہمارے گناہ بخش دے.وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پھر آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خود یہ دعا سکھائی: قُلِ اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 322 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء فِي الَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَقِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ( آل عمران: ۲۷، ۲۸) اے محمد ! تو مجھ سے یوں مخاطب ہوا کر مجھ سے یہ دعا کیا کر کہ اے ہمارے اللہ ! تو ملک کا مالک ہے.یعنی ہر قسم کی ملکیت جس کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ تیرے قبضہ قدرت میں ہے.تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاء اور دنیا کی بادشاہتیں بھی اور آخرت کی بادشاہتیں بھی تیری طرف سے عطا ہوتی ہیں جس کو جو چاہے جس طرح چاہے تو عطا فرمادے خواہ وہ اس دنیا کا ملک ہو یا آخرت کا ملک ہو.وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ لیکن تو چھینے کی بھی طاقت رکھتا ہے جب چاہے کسی کو نا اہل قرار دے کر اس سے اپنا عطا کردہ ملک واپس لے لے.وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ تو جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اسے ذلیل ہونے دیتا ہے لیکن بِيَدِكَ الْخَيْرُ تیرے ہاتھ میں خیر ہے.بھلائی ہے.تیری طرف سے کسی کو ذلت نہیں پہنچتی.تو ذلیل ہونے دیتا ہے.یعنی اگر وہ خود ذلیل ہونا چاہتا ہے تو بعض دفعہ تو فیصلہ فرمالیتا ہے کہ اچھا پھر ہم تجھے ذلیل ہونے دیں گے اور پھر وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے لیکن جہاں تک تیرے ہاتھ کا تعلق ہے یہ ہاتھ خیر کا ہاتھ ہے یہ برائی کا ہاتھ نہیں ہے.اِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اور تو ہر چیز پر قادر ہے جو تو چاہتا ہے اور چونکہ تو بھلائی چاہتا ہے اس لئے ہم تجھ سے بھلائی ہی کی توقع رکھتے ہیں.تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ زمانے ادلتے بدلتے رہتے ہیں راتیں دنوں میں داخل ہو جاتی ہیں اور دنوں کو تو راتوں میں داخل فرما دیتا ہے جب چاہے راتوں کو دنوں میں داخل فرماتا ہے.دنوں کو راتوں میں داخل فرما دیتا ہے.وَتُخْرِجُ الْحَى مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَقِّ اور اسی طرح تو زندوں کو مردوں میں داخل کر دیتا ہے اور مردوں کو زندوں میں داخل فرما دیتا ہے.پس ہر آن تیر افضل ہی ہے جو ہمیں ہمیشہ صحیح رستے پر قائم رکھے اور مردوں سے زندوں میں داخل ہونے والے ہوں نہ کہ زندوں سے مردوں میں داخل ہونے والے.اسی طرح ہمارے زمانے راتوں سے روشنیوں میں تبدیل ہونے والے ہوں ، روشنیوں سے راتوں میں تبدیل ہونے والے نہ ہوں.وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ اور تو جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے اسے رزق عطا فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 323 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء آنحضرت ﷺ نے اس دعا کے متعلق فرمایا کہ جو شخص سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے ، پھر آیت الکرسی کی تلاوت کرتا ہے ، پھر ال عمران کی اس آیت کی تلاوت کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَبِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَابِمَا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( آل عمران (۱۹): شَهِدَ اللہ اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا ھو کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وَالْمَلَيْكَةُ اور فرشتے بھی اس بات کے گواہ ہیں اور اُولُوا الْعِلْمِ اور جتنے صاحب علم لوگ جتنے ہیں وہ بھی اس بات کے گواہ ہیں.قَابِما بِالْقِسْطِ خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے سارے ہمیشہ انصاف پر قائم رہتے ہیں اور وہ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ہے.اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر یہ دعا پڑھتے ہیں جو ابھی میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے فرمایا: جو شخص بھی ہر فرض نماز کے بعد یہ دعائیں کرے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنت بطور ماوی مقدر کر دی ہے اور اسے جنت الفردوس میں سکونت عطا کروں گا اور ہر روز ستر مرتبہ اسے اپنے دیدار سے مشرف کروں گا.یہاں لفظ ستر جو ہے اس کے متعلق بتانا ضروری ہے کہ عربوں میں یہ ایک عدد ہے جو کثرت کی علامت ہے یعنی بکثرت میں اسے دیدار نصیب کروں گا.تو عرب اسے یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ ستر مرتبہ.تو اس سے مراد ظاہری طور پر ہ ے نہیں ہے.بعض تو ان جنتوں میں ایسے بھی ہوں گے جیسے حضرت محمد مصطفی عمل ہے جو ہمیشہ دیدار کی حالت میں ہی رہیں گے اور ساتھ ہی یہ جو نسخہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کو آنحضور ﷺ نے فراخی رزق کا نسخہ بھی بیان فرمایا ہے.پس وہ لوگ جو مختلف قسم کی تنگیوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو اسی ترتیب سے یہ دعا کرنی چاہئے جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے.وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ تو ان سب دعاؤں سے گزرنے کے بعد جب آپ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ تک پہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس دعا کو باقی سب دعاؤں کی برکت سے بھی قبول فرمالے گا اور آپ کے رزق میں فراخی عطا فرمائے گا.اب چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے ایک دو دعاؤں کے بعد میں پھر اس مضمون کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 324 خطبہ جمعہ ۲ اراپریل ۱۹۹۱ ء سر دست ختم کرتا ہوں لیکن یہ ایسا مضمون ہے جسے بہر حال قسطوں میں جاری رکھنا پڑے گا کیونکہ جب اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کی گفتگو چل پڑی ہے اور صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی باتیں شروع ہو گئیں تو جماعت کو جب تک یہ نہ پتہ چلے کہ وہ رستہ کیا تھا ؟ کس طرح اس رستے پر چلنے کی ان کو توفیق ملے گی؟ کس طرح اس رستے پر چل کر وہ صاحب انعام لوگ بنیں گے؟ اس وقت تک خالی منہ سے یہ باتیں کہ دینا بے معنی بات ہے، بے معنی نہ سہی، برکتیں کچھ نہ کچھ تو ملتی ہوں گی لیکن جتنی برکتوں کی توقع کی جاسکتی ہے وہ برکتیں اس طرح نصیب نہیں ہوسکتیں جب تک اس دعا کی ذیل میں وہ دعائیں ہی معلوم نہ ہوں جو دعائیں کرتے ہوئے خدا کی راہ میں چلنے والے قافلے عمر بھر اپنا سفر طے کرتے رہے اور ہمیشہ کامیابی کے ساتھ سفر طے کیا.ان دعاؤں کے سہارے ان کو ہر ٹھوکر سے بچایا گیا.ہر ابتلاء سے وہ سرخرو ہوکر نکلے اور خدا کے حضور مکرم اور محترم ٹھہرے.خدا نے خود ان کی حمد بیان فرمائی اور خدا کے فرشتوں نے بھی ان پر درود بھیجے.یہ وہ رستہ ہے جس کا تفصیل سے جماعت کو علم ہونا چاہئے لیکن آخر پر میں حضرت زکریا کی یہ دعا آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ آج کل خاص طور پر مجھے بہت سی خواتین کے اور بعض مردوں کے بھی خط مل رہے ہیں کہ اس رمضان میں خاص طور پر ہمارے لئے بیٹے کی دعا کرنا.ان خطوں کا حضرت زکریا کی دعا سے ایک گہرا تعلق اس لئے بھی ہے کہ یہ وقف نو میں شمولیت کے شوق رکھنے کے نتیجے میں دعاؤں کے خط لکھ رہے ہیں.اکثر خط یہ ہیں کہ ہماری شدید تمنا ہے کہ ہم بھی وقف نو کی تحریک میں شامل ہو جا ئیں اگر چہ وقت گزر چکا ہے لیکن خدا کے لئے ہمیں شامل کر لیں اور دعائیں کر کر کے شامل کروائیں.ایک صرف شامل کرنے کی درخواست نہیں ہے بلکہ اونٹ بھی دیں ،سامان بھی دیں اور پھر اس کو لا د بھی دیں تو یہ اکیلے میرے بس کی بات نہیں ہے ساری جماعت اس دعا میں ساتھ شامل ہو، مدد کرے تو پھر اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے اس پر رحم ہوگا اور خدا ان مخلصین کی جھولیاں پھر اپنی رحمتوں سے بھر دے گا اور پھر وہ ان جھولیوں کو بھر بھر کر دوبارہ خدا کے حضور پیش کریں گے.حضرت زکریا کی دعا کا آغاز اس طرح ہوا کہ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ وہ جب بھی حضرت مریم کے حجرے میں آپ کا حال پوچھنے جایا کرتے تھے.حضرت مریم نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی.ان کی والدہ نے ان کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کو وقف کر دیا گیا تھا اور بعد میں حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 325 خطبہ جمعہ ۱۲ اراپریل ۱۹۹۱ء زکریا کی تحویل میں ان کی تربیت کے لئے دیا تھا تو حضرت زکریا وقتا فوقتا حجرے میں ان کا حال پوچھنے جایا کرتے تھے اور وہاں مختلف قسم کے رزق دیکھتے تھے.عام طور پر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ غیب سے بغیر کسی انسانی واسطے کے وہاں کئی قسم کے تھے پہنچے ہوتے تھے لیکن حضرت زکریا کی دعا سے پتا چلتا ہے کہ یہ بات نہیں تھی کچھ اور بات تھی.حضرت مریم“ کو نیکی کی وجہ سے کچھ لوگ تو جیسا کہ دنیا میں رواج ہے دعائیں لینے کے لئے محبت کے اظہار کے لئے تحائف پیش کیا کرتے تھے اور چونکہ حضرت مریم اسے اپنی ذاتی خوبی نہیں سمجھا کرتی تھیں ہمیشہ پوچھنے پر یہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ہے میرا تو اس میں کچھ نہیں ہے.نہ میں نے مانگا نہ توقع کی.لوگوں کے دلوں میں خدا نے خود محبت پیدا فرما دی.اور پھر وہ مجھے جو پیش کرتے رہتے ہیں تم دیکھ رہے ہو اور دوسری مراد یہ تھی کہ اس رزق سے کہ روحانی رزق پاتے تھے.خدا ان سے رحمت اور مغفرت کا بھی سلوک فرماتا تھا اور ان پر کشوف کے ذریعے یا الہامات کے ذریعے یا کچی رؤیا کے ذریعے رجوع برحمت ہوتا تھا.اپنی رحمت کا بار بار ا ظہار فرماتا تھا تو جس طرح عام طور پر بعض نیک گھروں میں مشاہدے میں بات آتی ہے کہ بعض بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ کیا خواب دیکھی؟ کیا خدا کی طرف سے رحمت کا نشان ملا ؟ تو وہ نئی نئی باتیں بتاتے ہیں تو حضرت مریم بھی اپنی معصومیت اور بھول پن میں اس وقت جو بھی گزشتہ رات کے واقعات ہوا کرتے تھے وہ بتایا کرتی تھیں کہ خدا نے مجھ سے یہ فرمایا.مجھ سے یہ فرمایا.اس طرح رحمت کا سلوک فرمایا.اس طرح پیار کا اظہار فرمایا تو حضرت زکریا جو خود نبی تھے وہ رشک کرتے تھے.رشک اس بات پر نہیں کرتے تھے کہ مجھے مریم کی طرح کچھ عطا نہیں ہوا.رشک اس بات پر کرتے تھے کہ مریم" ایک ماں کی دعا کا نتیجہ ہے اور اس دعا کے نتیجے میں پاک اولاد ہے.میں پاک اولاد سے محرو م ہوں کاش! میں بھی یہ فخر کر سکوں کہ میری اولا د بھی اس طرح نیک ہو اور اس طرح خدا سے رزق پانے والی ہو.اگر یہ مضمون درست نہ ہو تو اگلی دعا کا اس سے تعلق ہی کچھ نہیں بنتا تو در حقیقت یہی وہ بات تھی جس نے حضرت زکریا کو خدا سے یہ دعا کرنے کی طرف متوجہ کیا.هنالك دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاء ( آل عمران : ۳۹) اس وقت جب حضرت زکریا نے یہ کیفیت دیکھی تو دل سے اک ہوک اٹھی اور اپنے رب سے اس نے عرض کیا : رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً اے خدا! مجھے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 326 خطبہ جمعہ ۱۲ ار ا پریل ۱۹۹۱ء بھی خالص اپنی جناب سے پاک ذریت عطا فرما اِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے.اس کے بعد پھر اس دعا کی مختلف الفاظ میں تکرار ہوگی جو ایک عجیب پر در دمضمون رکھتی ہے چونکہ میں نمبر کے لحاظ سے چل رہا ہوں اس لئے یہاں بیان کرنے کی بجائے جب وہ موقعہ آئے گا تو پھر میں آپ کے سامنے بیان کروں گا.پہلے تو میرا خیال تھا کہ یہ مضمون ایک ہی خطبہ میں ختم ہو جائے گا مگر یہ جاری رہے گا.پس وہ عبادت کرنے والے جو مسافر گاڑی میں مستقل سوار ہیں ، ان کے لئے تو کوئی مشکل نہیں.وہ تو ساتھ چلتے رہیں گے اور یہ باتیں سنتے رہیں گے اور ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور عبادت کے نئے نئے گر سیکھتے رہیں گے اور ان کی مشکل کشائی ہوتی چلی جائے گی لیکن جو لوگ اتر گئے ہیں یا اتر جائیں گے جہاں تک آپ کو توفیق ہے اگر آپ ان کے واقف ہیں.کبھی ان سے ملتے ہوں تو ان کو بھی بتاتے رہیں ہو سکتا ہے یہ باتیں سن سن کر جس طرح حضرت زکریا کے دل میں نیک بات دیکھ کر ، خدا کے خاص فضل کو دیکھ کر ویسا ہی فضل طلب کرنے کی تمنا پیدا ہوئی تھی.میری دعا ہے اور میری تمنا ہے کہ اسی طرح جب آپ ان لوگوں تک یہ باتیں پہنچا ئیں جو آج کے سٹیشن سے آپ کو رخصت کر کے واپس ہونے والے ہیں تو ان کے دل میں یہ تحریک پیدا ہو کہ وہ مستقل آپ کے سفر کے ساتھی بن جائیں اور اس طرح یہ جمعہ ایک ایسی خیر پیچھے چھوڑ کر جائے جو وداع ہونے والی خیر نہ ہو جو رخصت ہونے والی خیر نہ ہو بلکہ ہمیشہ زندگی کا جزو بن جانے والی خیر ، زندگی کے ساتھ وفا کرنے والی خیر ، ایسی خیر بن جائے جس سے انسان کبھی پھر وداع نہیں ہوا کرتا، وہ ہمیشہ ساتھ رہا کرتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 327 خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۹۱ء اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی روشنی میں انبیاء کی دعائیں اور ان کی عظ (خطبه جمعه فرموده ۱۹ اپریل ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ خطبے میں یہ مضمون چل رہا تھا کہ سورہ فاتحہ کی آخری دعا یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ایک بہت ہی مشکل دعا ہے کیونکہ وہ لوگ جن پر خدا نے انعام فرمایا ان کی راہیں بہت مشکل راہیں تھیں اور ان پر چلنے کی دعا مانگنا بھی بڑے حوصلے کا تقاضا کرتا ہے.ساتھ ہی میں نے یہ بیان کیا کہ جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان انعام یافتہ لوگوں کی زندگی کے حالات کو قرآن کریم کے شیشے میں دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی راہوں کو دعاؤں کے زور سے آسان کیا اور دعاؤں کے سہارے ان کا یہ سفر جو بہت ہی مشکل تھا آسانی سے طے ہوا یہاں تک کہ وہ اپنے نیک انجام کو پہنچے.پس نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں بھی جب ہم سورہ فاتحہ میں مذکور دعا کرتے ہیں تو ان دعاؤں کا سہارا لینا چاہئے جن دعاؤں کا سہارا ہم سے پہلے انعام یافتہ لوگوں نے لیا تھا ورنہ اس راہ پر سفر کرنا تو درکنار یہ دعا مانگنے کی بھی ہمت نہیں پیدا ہوسکتی.کچھ دعا ئیں جو قرآن میں مذکور ہیں ان کا بیان گزر چکا.اب میں جہاں سے مضمون ختم ہوا تھا وہاں سے دوبارہ شروع کرتا ہوں.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 328 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۹۱ء نے آپ کو مامور فرمایا اور بہت ہی مشکل کام تھا جو آپ کے سپر د ہوا یہاں تک کہ آپ نے محسوس کیا کہ ساری قوم انکار کر بیٹھے گی اور آپ کو رد کر دیا جائے گا تو اس وقت کیا ہوا.فرمایا: فَلَمَّا أَحَش عیسی مِنْهُمُ الْكُفْرَ (آل عمران : ۵۳) کہ جب عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کفر کو محسوس کیا تب کہا: قَالَ مَنْ أَنْصَارِی اِلَى اللهِ تو انہوں نے یہ دردناک صدا بلند کی مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ کون ہے جو خدا کی راہ میں میری مدد کے لئے آگے آئے.اس وقت وہ چند حواری جو آپ پر ایمان لائے تھےانہوں نے کہا: قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ کہ ہم تیری مدد کے لئے خدا کی خاطر تیار ہیں.آمَنَّا بِاللہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے.وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ اور اے عیسی ! تو گواہ بن جا کہ ہم اسلام لانے والوں میں سے ہیں.تب انہوں نے یہ دعا کی: رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ ( آل عمران :۵۴) کہ اے ہمارے رب ! ہم جو تو نے اتارا ہے اس پر ایمان لے آئے ہیں واتَّبَعْنَا الرَّسُول اور ہم نے اس رسول کی پیروی شروع کر دی ہے جس رسول کو تو نے بھیجا تھا.فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِین تو ہمیں بھی شاہدوں میں لکھ لے.اس دعا کی حکمت کو سمجھنا چاہئے.اس کے دو حصے ہیں پہلے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے مومن مخاطب ہوتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہم پر گواہ بن جائیں اور اس کے بعد خدا سے مخاطب ہوتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہم پر گواہ بن جائیں اور اس کے بعد خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ تو ہمیں گواہوں میں شمار کر لے.یہ نہیں کہا کہ تو ہمارا گواہ بن جا عرض کرتے ہیں فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِینَ کہ تو ہمیں بھی شاہدوں میں لکھ لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انبیاء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں اور خدا پر ایمان لانے والوں کی نگرانی کریں اور ان کے اعمال کا ہمیشہ باریک نظر سے جائزہ لیتے رہیں کیونکہ قیامت کے دن ان کو ان لوگوں پر گواہ بنایا جائے گا اور گواہ بننے کے لئے جو شرائط ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں.یعنی اس معاملے میں گواہ بننے کے لئے ضروری شرط یہ ہے کہ جس نیکی کی وہ تعلیم دیتے ہیں اس نیکی پر عمل بھی کرتے ہیں.اگر انبیاء میں یہ بنیادی شرط نہ پائی جاتی تو وہ ہرگز قوموں پر گواہ نہیں بنائے جاسکتے تھے.پس نیکی کا گواہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود نیک ہو.پس حواریوں نے دیکھئے کیسی پر حکمت دعا کی ہے.پہلے حضرت عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا کہ تو ہمار گواہ بن جا کیونکہ توہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 329 خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۹۱ء یہ اہلیت رکھتا ہے کہ جو بات کہتا ہے وہی کرتا ہے.جس نیکی کی تعلیم دیتا ہے اس پر عمل پیرا ہے، ہمارا گواہ بن جا کہ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور پھر خدا سے عرض کی کہ اے خدا!! ہمیں بھی گواہوں میں لکھ لے.ہم تیرے حضور اس قابل بنیں کہ لوگوں کو نہ صرف نیکی کی تعلیم دیں بلکہ اس تعلیم پر خود عمل کرنے والے ہوں یہاں تک کہ تیرے نزدیک ہم شاہدین میں لکھے جائیں.بہت بڑا مرتبہ ہے جو طلب کیا گیا ہے یعنی تیرے حضور انبیاء کے ان ساتھیوں میں لکھے جائیں جن کو قوموں کی نگرانی پر مامور کیا جاتا ہے.پس نیک اعمال کی اور اخلاص کی دعا اس دعا کے اندر شامل ہوگئی اور بہت ہی جامع و مانع دعا ہے.پھر بہت سے انبیاء کی دعا قرآن کریم نے یوں بیان فرمائی کہ مختلف انبیاء مختلف مصائب میں مبتلا ہوکر یہ دعا کیا کرتے تھے جن کا ذکر یوں فرمایا: و گايْنَ مِّنْ نَّبِيَّ قَتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرُ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللهُ يُحِبُّ الصُّبِرِينَ (آل عمران: ۱۴۷) وَكَأَيِّنْ مِّنْ نَّبِي قُتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرُ آگے دعا شروع ہوگی.وَكَأَيِّنْ مِنْ نَّبِي کتنے ہی خدا کے نبی ایسے ہیں.قَتَلَ مَعَهُ رَبِّيُّونَ كَثِيرٌ جن کے ساتھ بہت سے خدا والوں نے مل کر جہاد کیا فَمَا وَ هَنُوا وہ کمزور نہیں پڑے لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِیلِ اللهِ.اس وجہ سے کہ ان کو اس راہ میں یعنی اللہ کی راہ میں مصیبتیں پڑیں.وَمَا ضَعُفُوا اور یہ بھی کمزوری کے اظہار کا ایک مزید لفظ ہے.ضَعُفُوا کمزور پڑ جانا.بوڑھے ہو جانا تھک جانا وهَا اسْتَكَانُوا اور ایسے حال میں نہیں پہنچے کہ وہ ذلیل اور رسوا ہو چکے ہوں اور ہمت ہار بیٹھے ہوں.تو با وجود شدید مشکلات کے لمبی مشکلوں کی راہ پر چلنے کے ان میں کوئی کمزوری نہیں آئی کوئی بیزاری پیدا نہیں ہوئی کوئی تھکن پیدا نہیں ہوئی اور مشکلات نے اعصاب کو مضمحل نہیں کر دیا اور دنیا کی نظر میں ان لوگوں میں وہ شمار نہیں ہوئے جو تھک ہار کر ذلیل ہوکر بیٹھ جاتے ہیں.یہ کیسے ہوا؟ اس لئے ہوا کہ وہ ایک دعا کیا کرتے تھے وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا اس کے سوا ان کی دعا اور کچھ نہ تھی کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے.وَ اِسْرَافَنَا فِی اَمْرِنَا اور اپنے نفس پر ہم جو زیا دتیاں کرتے رہتے ہیں ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 330 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ء سے صرف نظر فرما.وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا اور ہمارے اقدام میں استحکام بخش اور ہمیں متزلزل نہ ہونے دے.وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (آل عمران: ۱۴۸) اور ہمیں کافروں کی قوم نصرت عطا فرما.پر پس یہ جو دعائیں بتائی گئیں کہ یہ دعا ئیں کیا کرتے تھے ان دعاؤں کو اس مضمون پر چسپاں کر کے دیکھیں جو پہلے گزر گیا کہ ان میں یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی ، یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی، یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی ، یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی تو در حقیقت ان سب باتوں کا جواب اس دعا میں ہے.اس دعا کے جتنے ٹکڑے ہیں ان کا ان باتوں سے تعلق ہے جن باتوں سے وہ بچے رہے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات بخشی اور وہ اس دعا ہی کا نتیجہ تھا.پس اگر آج بھی مومن اس راہ کو طلب کر رہے ہیں تو اس راہ کی صفات کو اختیار کرنا پڑے گا اور دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم کی التجائیں کرنی ہوں گی.پھر قرآن کریم میں لِأُولِي الْأَلْبَابِ کی دعا بتائی گئی ہے یعنی عقل والوں کی دعا.جن کا دماغ روشن ہوتا ہے جن کا نور بصیرت تیز ہوتا ہے.فرمایا: اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَةٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ( آل عمران : ۱۹۱) دیکھو! آسمان اور زمین کی پیدائش میں رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں یقیناً لأولى الْأَلْبَابِ کے لئے صاحب عقل لوگوں کے لئے نشانات ہیں.صاحب عقل لوگ کیا کرتے ہیں ؟ صاحب عقل وہ لوگ ہیں.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا جو اللہ کو کھڑے ہو کر بھی ، بیٹھ کر بھی یاد کرتے ہیں.وَعَلَى جُنُو بِھم اور رات کو لیٹے ہوئے یا دن کو لیے ہوئے بھی.وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ اور ہمیشہ زمین و آسمان کی پیدائش پر فکر کرتے رہتے ہیں اور غور کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ کیا پیدا کیا؟ اس میں کیا حکمتیں ہیں؟ اس کی تخلیق میں کیا لطائف پوشیدہ ہیں؟ یہ غور کرنے کے بعد ان کے دل سے بے ساختہ یہ دعا نکلتی ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے ہمارے رب ! جو کچھ بھی تو نے پیدا کیا ہے حکمتوں سے بھرا ہوا ہے باطل نہیں ہے.بے مقصد نہیں ہے کیونکہ اتنا اعلیٰ انتظام جو ایسا مربوط ہو اور ایسا گہری حکمتوں پر مبنی ہو وہ عبث نہیں ہو سکتا ، بے کار نہیں بنایا جا سکتا ضرور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 331 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۹۱ء اس کا کوئی مقصد ہے اور اگر ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے نہ بنیں تو جس طرح بے کار چیزیں آگ میں پھینک دی جاتی ہیں ہمیں ڈر ہے کہ ہم بھی آگ کا ایندھن نہ بن جائیں تو ان سب باتوں پر مشتمل یہ دعا ہے اگر چہ الفاظ تھوڑے ہیں.عرض کرتے ہیں رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تیری شان بلند ہے، تو سبحان ہے، تو پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پس سوال یہ ہے کہ اچانک زمین و آسمان پر غور کرنے کے بعد آگ کے عذاب کا کیا ذکر چل پڑا.وہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ وہ ذکر اس مضمون میں مخفی ہے ، اس کے اندر یہ ذکر موجود ہے اگر چہ ظاہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا.مراد یہی ہے کہ جب وہ یہ مضمون پا جاتے ہیں کہ اتنی عظیم الشان کائنات جو اتنی لطافتوں اور حکمتوں کے ساتھ بنائی گئی ہے اور ارب ہا ارب سال جس کی تخلیق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں لگے یہ بے معنی اور بے کار نہیں ہوسکتی.ایک انسان ایک گلی ڈنڈا بھی بنائے تو اس کا ایک مقصد ہوتا ہے.بچے کوئی معمولی سا کھلونا بھی گھڑ لیں یا مٹی سے بنا لیں تو اس کا بھی ایک مقصد ہوا کرتا ہے.جب وہ مقصد پورا نہ ہو تو پھر ا سے یا تو ردی میں پھینک دیا جاتا ہے یا آگ میں جلا دیا جاتا ہے.ہر پرزہ جس مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے اس مقصد کو جب وہ پورا کرنا چھوڑ دے تو Junk میں چلا جاتا ہے.پرانی کارمیں آپ نے دیکھی ہوں گی کہ وہ ایسی جگہوں پر بھجوادی جاتی ہیں جہاں بڑی بڑی مشینیں ان کو چڑ مڑ کر کے محض لوہے کا ڈھیر بنادینے پرلگی رہتی ہیں اور آنا فانا ان کاروں کے حلیے بگڑ جاتے ہیں اور وہ محض لوہے کے ٹکڑے باقی رہ جاتے ہیں.مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ ہر وہ چیز باقی رہے جو مفید ہے جو ان مقاصد کے مطابق ہے جن مقاصد کے لئے اسے پیدا کیا گیا اور ہر وہ چیز رد کر دی جائے اور اسے کالعدم کر دیا جائے جو مقاصد کو ادا کرنے سے عاری ہوگئی ہو کیونکہ اس کے رہنے کا اب کوئی جواز نہیں رہا.ان کے لئے آگ بنائی گئی ہے.آگ ان لوگوں کو ختم کرنے کے لئے بنائی گئی ہے جو مقصد کو پورا نہیں کر سکے.اس لئے یہ بڑی پر حکمت دعا ہے دیکھئے ان لوگوں کو لِأُولِي الألْبَابِ کہنا یہاں کیسا بجتا ہے کہ غور وفکر کے بعد لمبی باتوں کی بجائے سیدھی سکتے کی بات کہی.آخری مقصد کی بات بیان کر گئے کہ اے خدا! ہم نے بہت غور کر لیا ہے.اب ہمیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کیا تو ہم آگ کا ایندھن بنائے جانے کے لائق ہوں گے.پس ہم تجھ سے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 332 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهُ اے خدا! جسے تو آگ میں داخل کر دے یا داخل کر دے گا تو اسے تو ذلیل ورسوا کر دے گا وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں.یہ بھی کیسی پر حکمت دعا ہے اور دیکھیں ان کے لئے لِأُولى الْأَلْبَابِ کہلانا کیسا زیب دیتا ہے کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ جسے تو آگ میں داخل کرے یہ شبہہ پیدا ہوسکتا تھا کہ اللہ گویا نعوذ باللہ لوگوں کو زبر دستی آگ میں داخل کرتا پھرتا ہے.اس شبے کا ازالہ اس دعا کے آخری ٹکڑے نے کر دیا اور وَمَا لِلظَّلِمِینَ مِنْ أَنصَارٍ اے خدا!! جن کو تو آگ میں داخل کرے گا وہ ظالم ہوں گے.خوداپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوں گے اور جو ظلم کرنے والے ہیں ان کی مدد نہیں کی جاتی.اس لئے تو ان کی مدد نہیں کرے گا.وَمَا لِلظَّلِمِینَ مِنْ أَنصَارٍ پھر یہ دعا آئی: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا تُنَادِى لِلْإِيْمَانِ کہ اے خدا! ہم نے اس منادی کی آواز کو سنا جو یہ پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ.پس ہم نے اس پکار کو سنا اور ایمان لے آئے اس ایمان لانے کے نتیجے میں کیا طلب کیا جاتا ہے.لِأُولى الالباب یہ عرض کرتے ہیں : رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے خدا! پہلا مطالبہ تو ہمارا یہ ہے کہ اب جب ہمیں نئی زندگی عطا کی گئی نئے دور میں ہم داخل ہور ہے ہیں تو ہمارے پرانے گناہوں کا شمار نہ کیا جائے.Clean slate یعنی بالکل صاف سختی کے ساتھ ہم دوبارہ زندگی کا ایک نیا سفر شروع کریں لیکن یہ کہنا بھی کافی نہیں کیونکہ زندگی کے اندر بہت سی برائیاں اس طرح داخل ہو جاتی ہیں جیسے فطرت ثانیہ بن گئی ہوں اور محض ایمان لانے کے نتیجے میں وہ بیماریاں - از خود جھڑ نہیں جایا کرتیں.پرانے گناہ تو بخشے گئے لیکن بد عادتیں جو زندگی کا حصہ بن چکی ہیں وہ کیسے چھٹیں گی اور ان کے نتیجے میں جو نئے گناہ پیدا ہوتے رہیں گے ان کا کیا بنے گا تو دیکھئے صاحب عقل لوگ کیسی اچھی دعا کر رہے ہیں.کہتے ہیں : وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا پہلے کی بخشش اور آئندہ ہم سے ہماری وہ برائیاں دور کرنا شروع فرما دے جو برائیاں ہمارے ساتھ لاحق ہوچکی ہیں ، بیماریوں کی طرح ہمیں چمٹ گئی ہیں.جن کو دور کرنا ہماری طاقت میں نہیں ہے.پس ایمان لانے کے ساتھ ہی سب برائیاں دور نہیں ہو جایا کرتیں اور یہ خصوصاً ان مسلمانوں کو یا درکھنا چاہئے جو دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.محض تبلیغ کے ذریعے کسی کو مسلمان بنالینا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 333 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء اور یہ سمجھ لینا کہ فرض ادا ہو گیا ہرگز کافی نہیں کیونکہ بہت سے ایسے ایمان لانے والے ہوں گے جو سچے دل سے تو بہ بھی کر چکے ہوں گے لیکن اپنی بہت سی بدیاں ساتھ لے کر آئیں گے جن سے چھٹکارا پانا ان کے بس میں نہیں.اگر ان کی طرف توجہ نہ کی گئی ، اگر تبلیغ کرنے والا ان سے مستقل تعلق رکھ کے ان کی برائیاں دور کرنے میں ان کی مدد نہیں کرتا تو ایسے ہی ہوگا جیسے بعض بچے وبائی امراض کا شکار ہوتے ہیں اور مائیں ان کو جگہ جگہ لئے پھرتی ہیں، اتنا نہیں سوچتیں کہ مجالس میں لے کے جائیں گی تو اور بھی بیماریاں پھیلائیں گی ، کئی مائیں میرے پاس بھی لے آتی ہیں جب میں پیار کر چکتا ہوں تو بتاتی ہیں کہ اس کو تو فلاں وبائی بیماری ہے.اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا ہے وہ الگ بات ہے لیکن جو مضمون ہے اس کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے.قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ لِأُولِي الْأَلْبَابِ اقرار کرتے ہیں کہ محض ایمان لانے کے نتیجے میں ہم پاک وصاف نہیں ہو گئے ، ہمارے گناہ بخشے بھی جاچکے ہوں تب بھی ہمارے اندر برائیاں موجود رہیں گی اور تیری مدد کے سوا وہ برائیاں دور نہیں ہوسکتیں.پس مومنوں کو نو مبایعین کی فکر کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ لگ کر ان کی کمزوریاں دور کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہئے ورنہ اسی طرح کھلے چھوڑ دیئے گئے تو باقی جماعت میں بھی وہ اپنی بیماریاں پھیلاتے رہیں گے.دعا کا اگلا حصہ اسے مکمل کر دیتا ہے پھر وہ عرض کرتے ہیں وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اگر ہماری دعا قبول ہو گئی تو اب برائیاں تو تو دور کر دے گا لیکن پتا نہیں کتنا وقت لگتا ہے.بعض بیماریاں عمر کا ساتھ دیئے ہوئے ہوتی ہیں، لمبے عرصے سے چھٹی ہوئی ہوتی ہیں اور پتا نہیں کتنی عمر باقی ہے.اتنے عرصے میں وہ مٹ بھی سکیں گی کہ نہیں.موت کا کوئی وقت معین نہیں.تو دیکھیں لِأُولى الْأَلْبَابِ نے کیسی عقل والی دعا کی وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اے خدا ! مارنا نہ جب تک نیکوں میں شمار نہ ہو چکے ہوں.تیری مرضی ہے جلد صحت دے یا دیر سے صحت دے.مقصد یہ ہے کہ جب تک صحت نہ پاچکے ہوں ہمیں واپس نہ بلانا.آخری سانس اس حالت میں لے رہے ہوں کہ تو کہ رہا ہو کہ تم ابرار میں داخل ہو گئے ہو کیسی پیاری دعا ہے اور لِأُولِي الْأَلْبَابِ واقعی ایسی دعائیں کیا کرتے ہیں اور ایسی دعاؤں کی درخواستیں بھی کیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لاہور میں ایک صحابیہ ہیں جو یہاں ہماری جماعت کی بڑی مخلص رکن آمنہ صدیقہ کی والدہ ہیں بہت بڑی عمر ہو چکی ہے.غالباً 90 اور 100 کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 334 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء درمیان ہے لیکن ما شاء اللہ ہوش و حواس خوب قائم ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی باتیں یاد ان کا ابھی رمضان میں مجھے پیغام ملا ، اس پر مجھے یہ آیت یاد آئی.میں نے کہا دیکھیں خدا نے کس طرح اپنے پیارے بندوں کی باتیں قرآن کریم میں محفوظ کر دی ہیں.ان کی بھی جو پہلے گزر چکے تھے ان کی بھی جو بعد میں آنے والے تھے ،انہوں نے کہا کہ میرے لئے صرف یہ دعا کیا کریں کہ خدا مجھے اس حالت میں واپس بلائے جب مجھ سے راضی ہو چکا ہو.پس وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ کی دعا صاحب عقل لوگوں کی دعا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ برائیوں کا زندگی کا ساتھ ہوتا ہے بعض دفعہ گر بھی جائیں تو دوبارہ بھی آجاتی ہیں.آخری فیصلہ اس وقت ہوگا جب انسان واپس جارہا ہوگا.اس وقت اگر خدا کی رضا کی نگاہیں پڑ رہی ہوں.اگر اس کے نزدیک اس وقت انسان نیکوں میں شمار ہو چکا ہو تو زندگی کا مقصد پورا ہو گیا اور پھر انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں باطل میں نہیں ہوں.ان لوگوں میں نہیں ہوں جو باطل میں شمار کئے جاتے ہیں.پھر اس کے بعد بھی ایک دعا جاری ہے ابھی اپنی ذات کے لئے سب کچھ مانگا گیا مگر اس دین کے لئے ابھی کچھ نہیں مانگا جس دین کے نتیجے میں ان کی اصلاح کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے تصور کے ساتھ ہی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اے خدا! ہم نے یہ پیغام دوسروں کو بھی تو پہنچانا ہے اور تیرے جو وعدے ہمارے متعلق پہلے نبیوں سے کئے گئے ہیں کہ ہم دنیا میں اس طرح اصلاح احوال کریں گے اور لوگوں کے حالات میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے.وہ وعدے اگر پورے نہ ہوئے تو قیامت کے دن پھر بھی ہمارے لئے شرمندگی ہے یعنی ایک انسان اپنی ذات میں اگر نیک بھی بن چکا ہو اور اس کا بظاہر نیک انجام بھی ہو، وہ اگر دوسرے بنی نوع انسان کے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ کو کامیاب نہیں سمجھتا.یہ لِأُولى الألْبَابِ کی تعریف کی جارہی ہے.چنانچہ یہ دعا بھی ساتھ بتادی کہ رَبَّنَا وَ اتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ اے خدا! وہ سارے وعدے ہمارے حق میں پورے فرمادے جو تو نے پہلے رسولوں کو دیئے تھے کہ ہم آنیوالوں کے ساتھ یہ یہ سلوک فرمائیں گے.اب یہ کیا مطلب ہے کہ وَعَدْتَنَا عَلی رُسُلك دراصل یہاں یہ بات کھل گئی کہ یہ ساری دعا جو لِأُولى الالباب کی دعا ہے یہ محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کی دعا ہے اور یہ جو باتیں ہورہی ہیں یہ محمد رسول اللہ اللہ کے غلاموں کی ہی باتیں ہورہی ہیں کیونکہ یہ آپ کی ہی ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 335 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء امت ہے.جس کے متعلق گزشتہ تمام انبیاء نے خوشخبریاں دی تھیں کہاللہ تعالیٰ انہیں تمام دنیا میں ہر دوسرے دین پر غالب فرمائے گا.تو وہ عرض کرتے ہیں کہ: ربنا واتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ تو نے گزشتہ تمام ابنیاء کے ہاتھوں ہمیں جو خو شخبریاں بھیجی تھیں اور وعدے کئے تھے کہ میں امت محمدیہ سے یہ یہ سلوک کروں گا وہ ہمارے حق میں پورے فرما دے.وَلَا تُخْرِ نَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ قِیامت کے دن ہمیں ذلیل ورسوا نہ ہونے دینا کہ وہ وعدے جو ہمارے ساتھ وابستہ تھے وہ پورے نہیں ہوئے.اب اگر وعدے پورے نہیں ہوئے تو بظاہر یہ خیال جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدے پورے نہیں کئے حالانکہ خدا تو وعدے پورا کرتا ہے.پس اس دعا کا آخری حصہ یہ ہے کہ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ( آل عمران : ۱۹۵) جہاں تک وعدوں کا تعلق ہے.تو یقیناً وعدہ خلافی کر نیوالوں میں سے نہیں ، تو لازماً اپنے وعدے پورے کرتا ہے.پس جب ہم یہ التجا کرتے ہیں کہ یہ وعدے ہمارے حق میں پورے فرما تو مطلب ہے کہ ہمیں ان وعدوں کا مستحق بنا دے کیونکہ اگر ہم مستحق نہ رہے تو پھر یہ وعدے پورے نہیں ہوں گے لیکن قصور تیرا نہیں ہوگا، قصور ہمارا ہوگا.تو اس طرح قرآن کریم ان لوگوں کی راہوں کو ہم پر آسان بنادیتا ہے جن کی راہیں ان کی دعاؤں کے نتیجے میں ان پر آسان بنائی گئیں اور ہمیں نصیحت فرماتا ہے کہ اس طرح یہ دعائیں کرتے کرتے اس سفر میں آگے بڑھو.پھر اللہ تعالیٰ کمزور عورتوں ، مردوں اور بچوں کی دعا کو بھی قرآن میں محفوظ فرماتا ہے.ایسی عجیب کتاب ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو خالی نہیں چھوڑتی.مختلف حالتوں کی دعائیں اس میں محفوظ ہیں.اگر آپ غور سے ان کا مطالعہ کریں تو زندگی کے ہر امکان پر یہ دعائیں حاوی ہیں اور زندگی کے ہر احتمال پر بھی یہ دعا ئیں حاوی ہیں.چنانچہ فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ہو جو یہ کہتے ہیں.( یہ آیت کے پہلے حصے کا ترجمہ ہے ) کہ ان لوگوں کی خاطر تم کیوں جہاد نہیں کر رہے جو مظلوم ہیں اور جو مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ دعائیں کر رہے ہیں کہ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا کہ اے اللہ ! ہمیں اس بستی سے نجات بخش جس بستی کے رہنے والے ظالم ہوچکے ہیں وَاجْعَلْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ وَلِيًّا ہمارے لئے اپنی جناب سے کوئی دوست بنا کر بھیج دے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 336 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا ( النساء: ۷۶) اور اپنی ہی جناب سے ہمارے لئے کوئی مددگار بھیج دے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا ہے جبکہ ان کی قوم نے ان کے ساتھ بے وفائی کی اور اللہ تعالیٰ کے واضح ارشاد کو سننے کے باوجود اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا.ایسے وقت میں جبکہ خدا تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایک شہر میں داخل ہو جائیں جس کی فتح ان کے لئے مقدر کی گئی تھی تو اس موقع پر انہوں نے کہا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّاهُهُنَا فَعِدُونَ (المائده: ۳۵) کہ اے موسیٰ ! جا تو اور تیرا رب دونوں لڑتے پھر وہم تو یہاں بیٹھ رہنے والے ہیں.جب تم دونوں ہم اور تمہارا رب لڑکے شہر فتح کر لو گے تو پھر ہمیں بتادینا ہم بھی داخل ہو جائیں گے.اس وقت حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ عرض کیا: رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي (المائده: ۲۶) اے میرے رب ! میرا کمزوری کا یہ حال ہے کہ میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا کسی کو اپنے ساتھ نہیں پاتا.سب میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں.اس دعا میں بھی بڑی گہری حکمت ہے.جواب دینے والوں نے موسیٰ سے یہ کہا تھا کہ تو اور تیرا خدا لڑتے پھرو.دو کا ذکر کیا تھا.خدا تو ساری کائنات کا خدا ہے اور مالک ہے.اس نے کسی سے کیا لڑنا ہے جب وہ کسی کی ہلاکت کا فیصلہ کرے گا تو وہ ان کو ہلاک کر دے گا لیکن دولڑنے والے ضرور تھے ایک موسی" تھے اور ایک ان کے بھائی تھے.ان کے اس جواب سے یہ شبہہ پڑ سکتا تھا کہ موسیٰ ہی صرف وفادار رہا اور موسیٰ" کا بھائی بھی ان لوگوں میں شامل ہو چکا ہے.اس شبہہ کے ازالے کی خاطر حضرت موسیٰ کی دعا من وعن ہمارے سامنے رکھ دی گئی کہ دیکھو موسی اکیلا ہی وفادار نہیں تھا اس کا بھائی بھی وفادار تھا.اگر چہ قوم نے اس کا ذکر نہیں کیا تو دعا یہ بتائی کہ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي اے خدا ! میں اکیلا ہی تیری راہ میں چلنے والا وفادار نہیں ہوں بلکہ میرا بھائی بھی میرے ساتھ شامل ہے لیکن ہم صرف دو ہی ہیں.فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفسِقِينَ (المائدہ: ۲۶) ہمارے اور فاسقوں کی قوم کے درمیان تفریق کر دے.ایسا سلوک فرما کہ ظاہر ہو جائے کہ ہم تیرے پسندیدہ لوگ ہیں، تیری رضا کو حاصل کرنے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ نہیں جن سے تو ناراض ہوتا ہے.قرآن کریم میں ایک دعا یہ سکھائی گئی رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 337 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ ( آل عمران:۵۴) اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے.فَاكْتُبْنَا مَعَ الدین پس ہمیں بھی شہداء میں شمار کر لے، شاہدین میں شمار کر لے.اس سے وہ پہلی دعا یاد آجاتی ہے جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے جواب میں ان لوگوں نے کی تھی جو اپنے آپ کو انصارالی اللہ کہتے تھے اس میں یہ ذکر تھا اے خدا! ہمیں شاہدوں میں شمار کر لے اور قرآن کی فصاحت و بلاغت کا عجیب کرشمہ ہے کہ یہ دعا وہاں سکھائی گئی جہاں پہلے عیسائیوں کی تعریف کی گئی ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ نصاریٰ میں سے آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جب وہ خدا کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی محبت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.پس چونکہ ان کی خوبیوں کا ذکر چل رہا تھا اس لئے ان کی وہ بہترین دعا یہاں مومنوں کو یاد کرادی گئی جس کے نتیجے میں ان کی نیکیوں کو اتنا دوام ہوا کہ بعض ان میں سے آنحضرت ﷺ کے ظہور کے بعد بھی اپنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے بھی نیک ہوئے اور خدا کے نزدیک نیک ٹھہرے.پس فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِین کی دعا ان عیسائیوں کے ساتھ جنہوں نے ابتداء میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا ایک گہرا تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کو یہ دعا منظور ہے تبھی امت محمدیہ کے سلسلے میں بھی اس دعا کو دہرایا گیا اور یہ بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام الله بھی یہی دعا کرتے ہیں.ایک دعا مائدہ سے متعلق ہے وہ بھی تشریح طلب ہے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دنیا کی محبت اپنے حواریوں کے دلوں پر سرد کر دی اور وہ یوں لگتا تھا کہ کشکول ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تبلیغ کے لئے نکل گئے ہیں.سارے کام چھوڑ دیئے اور کوئی ذریعہ معاش باقی نہیں رہا تو اس وقت انہوں نے دنیا کی مشکلات سے گھبرا کر حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ عرض کیا کہ آپ خدا کے حضور یہ دعا کریں کہ وہ آسمان سے ہم پر مائدہ اتارے کیونکہ ہم اب ”کمائی جو گئے رہے نہیں ہم تو خالصہ اس دین کے لئے وقف ہو گئے ہیں اس لئے ہمارے رزق کا وہی انتظام کرے اور آسمان سے مائدہ اتارے چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دعا کی وہ اولین کے لئے بھی اور آخرین کے لئے بھی کی.وہ دعا یہ ہے : قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدَ الَّا وَلِنَا وَاخِرِنَا وَايَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرُّزِقِينَ (المائده: ۱۱۵) کہ اے ہمارے خدا! ہم پر آسمان سے نعمتوں کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 338 خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۹۱ء دستر خوان نازل فرما نعمتیں نازل فرما، ایسی نعمتیں جو ہمارے اولین کے لئے بھی عید ہو جائیں اور آخرین کے لئے بھی عید ہو جائیں یعنی دونوں کے لئے خوشیوں کے سامان لا ئیں.وَايَةً مِنْكَ اور وہ تیری طرف سے ایک نشان بن جائیں وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرُّزِقِينَ تو ہمارے رزق کا انتظام فرما اور تو بہترین رزق عطا کر نیوالا ہے.اس دعا کے ساتھ یہ احتیاط ضروری ہے کہ اس دعا کے بعد خدا تعالیٰ نے جو تنبیہ فرمائی ہے اس کو بھی پیش نظر رکھا جائے.یہ دعا سننے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیری یہ دعا قبول کروں گا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان لوگوں نے اگر ناشکری کی تو ان کو عذاب بھی ایسا دوں گا جو دنیا میں کبھی کسی کونہ دیا گیا ہو اور دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنادوں گا.اب اس شرط کے ساتھ رزق عطا کرنا یہ عجیب سا لگتا ہے آخر اس کا کیا مطلب ہے؟ غور طلب بات ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ، رزاق ، دیالو ، بے انتہاء سخی اور رحم کرنے والا اور اپنے نبی کی یہ دعا سنتا ہے کہ ہاں! میں ان کے لئے آسمان سے رزق اتاروں گا اور ساتھ ہی اتنی بڑی تنبیہ کر دیتا ہے کہ اگر یہ ناشکرے ہوئے تو ایسا عذاب دوں گا کہ دنیا میں کبھی کسی کو نہ دیا گیا ہو.اس میں کیا حکمت ہے ؟ اس کو جب آپ سمجھ لیں گے تو پھر اس دعا کو متوازن طور پر خدا کے حضور عرض کرنے کی توفیق پائیں گے ورنہ اس کا غلط مطلب سمجھ کر آپ دعا مانگتے رہیں گے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے مائدہ سے دراصل روحانی مائدہ مراد لیا تھا اور رزق کی دعا بھی مانگی ہے لیکن ضمنی طور پر چنانچہ آپ دوبارہ اس دعا کو پڑھیں.فرمایا ہمارے لئے آسمان سے مائدہ اتار جو ہمارے اولین اور آخرین کے لئے عید ہو وارزقنا اور ہمیں رزق دے.پس دعا کی درخواست کرنے والے جولوگ تھے ان کے ذہن میں روحانی مائدہ نہیں تھا بلکہ دنیاوی مائدہ تھا.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کرتے ہوئے متوجہ کیا کہ اصل روحانی مائدہ ہے.اگر تم نے روحانی مائدہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور دنیاوی رزق میں پڑ گئے تو لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنو گے.دنیا تمہاری مادی ترقی دیکھے گی اور یہ سمجھے گی کہ حضرت عیسی نے جو دعا مانگی تھی اس کے نتیجے میں تمہیں سب کچھ حاصل ہو گیا اور تمہاری پیروی کو فخر سمجھے گی اور اسی کو ذریعہ نجات سمجھے گی ، دنیا یہ سمجھے گی کہ ایسی قو میں جن پر خدا نے اتنی نعمتیں کی ہوں کہ ساری دنیا سے زیادہ ان پر رزق فراخ کر دیا ہو.وہ تمام دنیا کی دولتوں کے مالک بن بیٹھے ہوں وہ اچھے لوگ ہیں تبھی تو خدا تعالیٰ ان کو عطا کر رہا ہے تو یہ فرمایا کہ ضروری نہیں ہے کہ یہ ظاہری رزق پانے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 339 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ء کے بعد بھی خدا کی نظر میں وہ اچھے لکھے جائیں.تیری دعا کی خاطر ہم ان کو رزق تو دے دیں گے لیکن اگر روحانی مائدہ کے بغیر انہوں نے رزق پر قناعت کی اور رزق کے عاشق ہو گئے اور اسی کے ساتھ دل لگا بیٹھے تو چونکہ دنیا کے لئے ٹھوکر کا ذریعہ بن سکتے ہیں اس لئے ہم پر فرض ہوگا کہ ہم آخر ان کو ہلاک کر دیں تا کہ دنیا یہ سمجھ لے کہ محض ظاہری رزق عطا کرنا انعام نہیں ہے.انعام اور چیز ہے اور ظاہری رزق میں فراخی دینا اور چیز ہے.یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنا عظیم الشان رزق یعنی مادی رزق بھی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا اتنی ہی بڑی تنبیہ کر دی کہ اس رزق کا حق ادا کرنا ورنہ تم صفحہ ہستی سے مٹادیئے جاؤ گے اور ایک عبرتناک عذاب کے ذریعے مٹائے جاؤ گے یہ دعا حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا تھی جو اولین کے علاوہ آخرین کے متعلق خصوصیت سے مانگی گئی تھی.آخرین میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے آج کے دور کے عیسائی ہیں اور آپ دیکھ لیجئے کہ خدا نے کس شان سے اس دعا کے ظاہر کو پورا فرمایا ہوا ہے.اتنا رزق وسیع کیا ہے کہ باقی ساری دنیا ان کے مقابل پر بھکاری بنی ہوئی ہے کچھ بھی ان کے پلے نہیں.ساری دنیا کے یہ رازق بنے ہوئے ہیں جس کو چاہیں اس کو رزق دیتے ہیں جس سے چاہیں اس سے چھین لیتے ہیں لیکن چونکہ اس شرط کو پورا نہیں کیا جو روحانی مائدہ سے تعلق رکھتی تھی اس لئے دنیا کے لئے ٹھوکر کا موجب بھی بن گئے ہیں.بہت سے غریب ممالک، مسلمان بھی اور ہندو بھی اور بدھسٹ بھی اس لئے عیسائی ہورہے ہیں کہ وہ کہتے ہیں دیکھو خدا نے ان سے حسن سلوک فرمایا، ان پر فضل فرمائے ، یہ ٹھیک ہی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ایسا کر رہا ہے پس قرآن کریم کی دوسری آیت میں جو تنبیہ مضمر تھی وہ تنبیہ ہم اپنے سامنے ظاہراً پوری ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں.پس اس لئے یہ لازم ہے کہ یہ تو میں اگر اصلاح نہیں کریں گی اور خدا تعالیٰ کے روحانی رزق کی طرف متوجہ نہیں ہوں گی اور دین کی طرف ، بچے دین کی طرف واپس نہیں لوٹیں گی تو یہ عبرت کا نشان بن جائیں گی اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا.انگلستان کے دل میں لندن میں کھڑے ہو کر میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ یہ سو فیصدی کچی باتیں ہیں.کوئی دنیا کی طاقت ان کو ٹال نہیں سکتی.دو ہزار سال پہلے کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس طرح عیسی کے ماننے والوں کو اتنا بڑا رزق عطا کیا جائے گا اور اتنا وسیع دستر خوان ان کے لئے اتارا جائے گا.چودہ سو سال پہلے جب قرآن کریم میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کوئی وہم و گمان بھی نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 340 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ ء کر سکتا تھا کہ عیسائی آخر دنیا میں کس طرح حاوی ہو جائیں گے اور رزق کے تمام ذرائع پر کس طرح وہ قابض ہو کر بیٹھ جائیں گے کیونکہ اس آیت میں موجود ہے کہ جب عیسی نے آخر ان کے لئے یہ دعا مانگی تو خدا نے فرمایا ہاں! میں قبول کروں گا لیکن جو لوگ دنیاوی رزق پر راضی ہو جائیں گے اور روحانیت کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں گے ان کو پھر میں عذاب کا نشانہ بناؤں گا.پس یہ جو دوسرا حصہ ہے اس نے لازماً پورا ہونا ہے صرف ایک شرط ہے کہ یہ تو میں تو بہ کریں اور ان آخرین میں شامل ہو جائیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے آخرین ہیں کیونکہ ایک وہ آخرین ہیں جن کا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر کیا ہے اور ان کے متعلق یہ مضمون بیان ہوا جو اس آیت میں ہے.ایک وہ آخرین ہیں جن کا محمد مصطفی ﷺ نے ذکر فرمایا ہے اور وہ ذکر بالکل مختلف رنگ میں ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس طرح آج غریب ہے یعنی غربت سے شروع ہوا اور دولت سے شروع نہیں ہوا، ایسے آخرین آنے والے ہیں کہ وہ بھی اس تاریخ کو دھرائیں گے اور اسلام دوبارہ غریبانہ حالت سے شروع ہوگا.پس جن آخرین کا ذکر ہے وہ دولتمند نہیں ہیں بلکہ غریب جماعت ہیں لیکن خدا کی محبت میں اور خدا کی خاطر اپنے رزق کو قربان کرتے چلے جاتے ہیں اور نیکی کی راہوں میں چندے دیتے چلے جاتے ہیں.پس ان امیر قوموں کے لئے اب یہی بچنے کی راہ ہے کہ مسیح موسوی کے آخرین سے نکل کر مسیح محمدی کے آخرین میں داخل ہو جائیں اور وہیں ان کے لئے نجات ہے.اب حضرت آدم اور ان کے ساتھی کی دعا جو کہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوئی ہے جب کہ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور انہیں دھوکہ دیا تو ان دونوں نے عرض کیا ر بنا ظلمنا انفسنا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ (الاعراف (۲۴) اگر تو نے ہم سے بخشش کا سلوک نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم یقینا گھاٹا پانے والوں میں ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں.انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے.آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 341 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ ء رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ ( ملفوظات: جلدم، صفحه ۲۷۵) چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو روحانی طبیب بنا کر بھجوایا گیا تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے اس دعا کا اس دور کے ساتھ گہرا تعلق ہے جب میں نے غور کیا تو مجھےسمجھ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک نئے دور کا آدم قرار دیا گیا اور یہ وہ دور خسروی ہے جبکہ اسلام کو دنیا میں از سرنو زندہ بھی کیا جائے گا اور غالب بھی کیا جائے گا.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعر میں اپنے آپ کو آدم قرار دیتے ہیں.پس اس دعا کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ ایک نئے آدم کے دور کے ساتھ اس دعا کا تعلق ہے.اس نئے دور میں اس دعا کی مدد سے داخل ہوں اور یہ دعا پڑھتے ہوئے داخل ہوں کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا اگر تو نے مغفرت نہ فرمائی وَتَرْحَمْنَا اور ہم پر رحم نہ فرمایا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ تو یقیناً گھاٹا پانے والوں میں سے ہوں گے اس دعا میں لفظ الخُسِرِینَ کا بھی دور آخر سے گہرا تعلق ہے کیونکہ قرآن کریم میں سورہ عصر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَصْرِفُ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِفْ اس زمانے سے خبر دار ہو جاؤ.اس زمانے کا خیال کرو جبکہ انسان بحیثیت مجموعی گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا انسان گھانا کھائے گا یعنی تمام عالم کا یہ حال ہوگا.تمام دنیا گھاٹا کھانے والی دنیا ہو جائے گی.پس ان دعاؤں کا مضمون ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتا ہے اور بڑے گہرے آپس کے تعلقات ہیں جو سرسری نظر سے دکھائی نہیں دیتے لیکن جب آپ ذرا ڈوب کر ان کا مطالعہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ روحانی نظام بھی بہت گہرا مر بوط نظام ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تعلق چل رہا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اپنی جماعت کو اس دعا کی طرف متوجہ فرمایا تو یونہی نہیں کہ دل میں یہ خیال آگیا کہ چلو یہ بھی دعا کر لیا کرو بلکہ اپنے آدم ہونے کے اعتبار سے اور قرآن کریم کی اس خبر کے اعتبار سے کہ یہ زمانہ گھاٹا کھانے والوں کا زمانہ ہے، یہ دعا جماعت احمدیہ کے لئے نہایت ہی اہم ہے اور ہماری بقا کے لئے بہت ہی ضروری ہے.ایک اور دعا سے پتا چلتا ہے کہ دعاؤں کا سلسلہ صرف اس زندگی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 342 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا.چنانچہ سورہ اعراف میں یہ دلچسپ دعا موجود ہے جو مرنے کے بعد اعراف پر موجود جنتی خدا سے مانگیں گے اور اس وقت وہ یہ دعا کریں گے.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِینَ (اعراف : ۴۸) کہ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں میں نہ شمار کرنا اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ تو ظالموں کی دنیا سے نکل کر اپنے خدا کے حضور حاضر بھی ہو گئے.اور اس مقام پر فائز کئے گئے جسے قرآن کریم اعراف کا مقام بتاتا ہے.یعنی خدا کے منتخب چند بندے جس طرح کوئی پہاڑ کی بلند چوٹی پر کھڑا ہو اس طرح ان کو رفعتیں عطا کی جائیں گی اور وہ دور سے دکھائی دیں گے.نمایاں طور پر معلوم ہوگا کہ یہ خدا کے پیارے بندے ہیں.اس مقام پر فائز ہونے کے باوجود یہ حال ہوگا کہ عرض کریں گے.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی قوم میں داخل نہ کرنا.دراصل ابھی اعراف پر فائز لوگوں کے ساتھ حساب کتاب ہونا باقی ہے.یہ اس دور کی بات ہو رہی ہے جبکہ حشر نشر ہو چکا ہے لیکن ابھی آخری فیصلے کا وقت آنے والا ہے مگر نیکوں کی علامتیں بھی ظاہر ہوگئی ہیں.بدوں اور جہنم والوں کی علامتیں بھی ظاہر ہورہی ہیں وہ دو گروہوں میں بانٹے جارہے ہیں تو انکسار کا تقاضا یہ ہے اور بجز کا تقاضا یہ ہے کہ اس حالت میں بھی جبکہ سامنے جنت دکھائی دے رہی ہو خدا سے یہ عرض کریں کہ جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے اگر تو ہمارے ظالم ہونے کا فیصلہ کرلے تو تیرا فیصلہ برحق ہوگا.ہم اپنے گناہوں اور کمزوریوں سے واقف ہیں.اعراف پر فائز ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی دھوکا نہیں لگا.ہم یہ نہیں سمجھ رہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کوئی ظلم نہیں کیا.اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ تو مراد یہ ہے کہ تیرے حضور ہم ظالموں میں شمار نہ ہوں.ہماری تو یہ التجا ہے کہ ظلموں کے باوجود تو ہمیں نیک لوگوں میں لکھنا اور اگر ہم بخشے جائیں تو ہم اس دھو کے میں مبتلا نہیں ہوں گے کہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے بخشے گئے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ ظالم ہوتے ہوئے بھی تو نے ہمیں ظالموں میں شمار نہیں فرمایا.حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا جبکہ قوم کے متکبروں نے آپ کو دھمکی دی اور وہ دھمکی دیتی کہ تم واپس سواد اعظم میں لوٹ آؤ.اکثریت قوم کی تمہیں واپس بلا رہی ہے.تم نے اقلیت کی ایک عجب سی نئی راہ اختیار کرلی ہے اور بہت معمولی تعداد میں ہو.تمہاری حیثیت کوئی نہیں.جب چاہیں ہم تمہیں مٹا سکتے ہیں اس لئے اب دو ہی باتیں ہیں.جھگڑے ختم کرو اور بخشیں ختم کرو ، یا تو تم ہمارے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 343 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ء متوجه مذہب میں واپس لوٹ آؤ یا پھر ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے اور تمہیں اپنے وطن میں بھی رہنے کا حق نہیں رہے گا.اس پر حضرت شعیب علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ایک دعا تھی جو اپنے رب سے مخاطب ہوکر کی.قوم یہ دھمکی دے رہی تھی اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ قوم کی بات کو بھلا کر وہ اپنے کی طرف ہوئے اور عرض کیا کہ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللهِ تَوَكَلْنَا (الاعراف: ۹۰) اللہ کا علم ہر چیز پر وسیع ہے.عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا ہمارا تو کل تو اللہ پر ہے نہ کہ کسی قوم کے سہارے پر ، نہ اکثریت پر نہ دنیا وی طاقت پر، رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِيْنَ (الاعراف :۹۰) اے خدا اب اس قوم اور ہمارے درمیان تو فیصلہ فرما کیونکہ ہمیں تو اب فیصلے کی کوئی طاقت نہیں اور تو حق کے ساتھ فیصلہ فرما.وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَرِحِينَ اور سب فیصلہ کرنے والوں سے تیرا فیصلہ بہتر ہوا کرتا ہے.پس وہ قوم جو دین کی راہ میں ستائی جائے اور اسے دھمکی دی جائے کہ یا تم ہمارے اندر واپس لوٹ آؤ ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے، ان کے لئے یہ بہت ہی موزوں دعا ہے اور ان کے حالات پر اطلاق پاتی ہے.ملک بدر کرنے کا جو مضمون ہے اس کے متعلق یہ ذہن نشین کریں کہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ کسی کو وطن سے نکال کر ملک بدر کیا جائے اس کے شہری حقوق چھین کر بھی اس کو ملک بدر کیا جاسکتا ہے پس مختلف ادوار کے مختلف انداز ہوا کرتے ہیں اس جدید دور میں ملک بدر کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ ملک میں رکھتے ہوئے شہری حقوق سے محروم کر دیا جائے اور یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ، اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی فرعون نے اس طرح موسیٰ کی قوم کو ملک بدر کیا تھا کہ جسمانی طور پر باہر نکلنے نہیں دیتا تھا اور شہری حقوق سارے چھین لئے تھے.پس یہ ملک بدر کرنے کی ذلیل ترین صورت ہے کہ نجات حاصل کرنے کے لئے جو باہر بھاگنا چاہے اس کی راہ میں روکیں ڈالو، اس کو سزائیں دو.قید کرو کہ تم نکلنے کی کوشش کیوں کرتے ہو اور ملک میں رکھتے ہوئے اس کے سارے حقوق چھین لو.پس یہ جو فرعونی دور ہے اس کا ملک بدر کرنا سب سے زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اور اپنے تمام مظلوم بندوں کو اس قسم کے ظلموں سے نجات بخشے.اس وقت جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم کو فرعون نے نکلنے نہ دیا اور حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 344 خطبہ جمعہ ۱۹ ار اپریل ۱۹۹۱ء موسیٰ علیہ السلام نے اصرار کیا کہ میری قوم کو نکلنے دو، ان فلموں سے نجات بخشو ، اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ اس ملک کے برابر کے شہری نہیں تو ان کو ملک چھوڑ نے دو تو فرعون نے کہا میں یہ بھی نہیں کروں گا.جوز ور لگا سکتے ہو گا ؤ اس پر بالآخر مقابلہ روحانی مقابلے تک پہنچا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون نے یہ کہا کہ تم جو الہی نشانات دکھاتے پھرتے ہو میرے نزدیک تو یہ محض دھوکا اور جادوگری ہے اس لئے کیوں نہ تمہارا تمہارے جیسوں سے مقابلہ کرا دیا جائے اور دنیا دیکھ لے کہ اصل حقیقت کیا ہے.چنانچہ فرعون نے یہ منادی کرائی کہ جو اس ملک کی چوٹی کے جادو گر ہیں وہ اکٹھے ہو جائیں اور لوگ بھی فلاں دن جو کہ خوشیاں منانے کا ایک دن تھا، اس دن اکٹھے ہوں کیونکہ اس دن ایک جادوگر کا دوسرے جادوگروں سے مقابلہ ہونا ہے.اس کی ساری تفاصیل قرآن کریم میں موجود ہیں مختصر آ یہ بتا تا ہوں کہ جادو گر جب حضرت موسیٰ" کے مقابلے کے لئے حاضر ہوئے تو فرعون نے ان سے مخاطب ہو کے کہا کہ بتاؤ کیا چاہتے ہو؟ اس کے مقابل پر ہم سے کیا لو گے ؟ تو انہوں نے فرعون کا قرب نہیں مانگا.انہوں نے فرعون سے دنیاوی انعام مانگے.یہ بڑی دلچسپ بات ہے.خدا کے نیک بندے جب خدا سے انعام مانگتے ہیں تو قرب الہی مانگتے ہیں.انبیاء سے کوئی چیز مانگتے ہیں تو ان کا قرب مانگتے ہیں.فرعون نے معلوم ہوتا ہے اس میں سبکی محسوس کی.اس نے کہا اچھا یہ انعام تو میں دوں گا ہی اور تمہیں مقرب بھی بنالوں گا حالانکہ مقرب بنے کی کوئی التجا ہی انہوں نے نہیں کی تھی.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں فرعون کی کوئی محبت نہیں تھی ، فرعون کی کوئی عظمت نہیں تھی اور غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ پھر ہدایت یافتہ بھی ہو گئے اگر فرعون یا اس کے دین سے گہری محبت ہوتی اور اس کی عظمت دلوں میں بیٹھی ہوتی تو شاید اتنی آسانی سے ہدایت نہ پاتے.بہر حال جب انہوں نے خدا تعالیٰ کا نشان دیکھا اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے شعبدوں پر ایک عظیم الشان فتح عطا ہوئی.تو فرعون کی طرف متوجہ ہوئے بغیر وہ ایمان لے آئے اور اسی وقت انہوں نے یہ دعا کی رَبَّنا افرغ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ کہ اے خدا! اے ہمارے رب! ہم پر مبر نازل فرما.وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ اور ہمیں مسلمین میں وفات دینا.اس دعا کی وجہ یہ بنی کہ ان کے ایمان پر فرعون بہت بگڑا اور ان کو بہت دھمکیاں دیں اور یہ کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر کس طرح ایمان لے آئے ہو.اس پر انہوں نے کہا کہ اجازت کا کیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 345 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ء سوال ہے.ہم نے سچائی دیکھی اور ایمان لے آئے اس پر فرعون نے کہا اچھا! اگر یہ بات ہے تو میں تمہیں اس قدر درد ناک عذاب دوں گا کہ ایک طرف سے تمہارے بازو کاٹوں گا اور دوسری طرف سے ٹانگیں کاٹوں گا اور تمہیں ہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کر کے اور بے کار کر کے پھینکوا دوں گا اور دنیا میں جو تکلیف دی جاسکتی ہے وہ تمہیں دوں گا.اس پر انہوں نے فرعون سے کہا.فَاقْضِ مَا انْتَ قَاضِ (طه :۷۳) جو کچھ تو دنیا میں فیصلے کر سکتا ہے کر گزر.جو عذاب دے سکتا ہے دے.ہم تو سچائی کو دیکھ کر ایمان لے آئے ہیں اور ان مشکل حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو ان کو نظر آ رہے تھے انہوں نے یہ دعا رَ بَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ کہ اے خدا! ہم پر مبر نازل فرما، تیری طرف سے جب تک صبر کی توفیق نہ ملے ہم اپنی کوشش سے صبر نہیں کرسکیں گے اور اگر ہمیں مارنا ہی ہے تو مسلمان ہونے کی حالت میں مارنا.موت کے ڈر سے کافر ہونے کی حالت میں زندہ نہ رکھنا.حضرت ہارون کو جب حضرت موسی نے جانشین بنایا اور ان کی قوم کا اکثر حصہ بگڑ گیا اور بچھڑا بنالیا تو حضرت موسیٰ واپس لوٹے.یہ واقعہ آپ نے قرآن کریم میں بار ہا پڑھا ہوگا کہ کس قدر غضب کی حالت میں تھے اور یہاں تک کہ حضرت ہارون کو ذمہ دار گردانا اور ان سے سختی سے جواب طلبی کی.اس پر حضرت ہارون نے اپنے بزرگ تر بھائی کو سمجھایا کہ میں تو بالکل بے قصور ہوں.مجھ میں تو طاقت ہی نہیں تھی کہ ان جاہلوں کو روک سکتا میں نے کوشش کی مگر انہوں نے اپنی ضد کی اور توحید سے دوبارہ شرک کی طرف مائل ہو گئے.تب حضرت موسی نے یہ دعا کی: رَبِّ اغْفِرْلِی وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِینَ (الاعراف :۱۵۲) اے میرے رب ! مجھے بھی بخش دے اور میرے بھائی کو بھی بخش دے.وَادْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما.حضرت موسی کی اس دعا میں اور پہلی دعا میں یہ فرق ہے کہ یہاں اپنا رب کہہ کر دعا کی یہ درخواست پیش کی ہے.پہلے ہم دونوں کے رب یا ہمارے رب کے طور پر خدا سے التجا مانگی تھی.یہاں چونکہ حضرت موسی خدا کی طرف سے لوٹے تھے یعنی خدا کے ساتھ خاص لقاء کے بعد لوٹے تھے اور حضرت ہارون کا معاملہ وہاں مشکوک بنا ہوا تھا کہ آپ کس حد تک ذمہ دار ہیں ، کس حد تک نہیں تو آپ نے اپنے حوالے سے دعا مانگی کہ مجھے تو تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے لوٹ کے آیا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 346 خطبه جمعه ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء میں کلیہ بری الذمہ ہوں اس لئے اے میرے رب ! مجھے بھی بخش دے اور میرے بھائی کو بھی بخش دے اور ہم سے ان لوگوں سے الگ معاملہ فرما.وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.حضرت موسی کی دعا ئیں اپنا ایک خاص انداز رکھتی ہیں.جب آخر حضرت موسی“ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو ایک مقررہ مقام پر جو خدا نے مقرر فرمایا تھا ساتھ لے جانے لگے تو وہاں طبعی طور پر زلزلہ آ گیا اور وہ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ڈرتھا کہ سب ہلاک نہ ہو جائیں.خدا تعالیٰ کی لقاء کے لئے (یعنی جس حد تک بھی ان کو لقاء نصیب ہو سکتی تھی ) حضرت موسیٰ“ چنیدہ ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر جا رہے تھے اور آگے سے زلزلہ آ گیا اور وہ بھی بڑا خطرناک تو ایسے موقعہ پر حضرت موسی نے کیا دعا کی.وہ دعا یہ ہے.رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِيَّايَ (الاعراف: ۱۵۲) که اے خدا! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے بھی تو ان کو ہلاک کر سکتا تھا.اس وقت جبکہ ایک خاص مہم پر جارہے ہیں یہ تو ہلاکت کا وقت نہیں ہے.یہ نہیں کہ یہ گنہگار نہیں ہیں، یہ نہیں کہ ان کو ہلاک کرنا درست نہیں ہے، پر مجھے موقعہ اچھا نہیں لگ رہا اور جہاں تک تیری قدرت کا تعلق ہے.وَايَّايَ تو چاہتا تو مجھے بھی ہلاک کر دیتا.اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا کیا تو ہمیں اب اس وجہ سے ہلاک کرے گا کہ ہمارے بعض بے وقوفوں نے شرک اختیار کیا ؟ إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ یہ نہیں میں مان سکتا.إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ کا یہ مطلب ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ صرف آزمائش ہے.ڈراواہی ڈراوا ہے اور کچھ نہیں ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تو ایسی بات کرے تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے تو جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے.مراد ہدایت عطا کرنا ہے اور جن کمزوروں کو چاہتا ہے ان کو ننگا کر دیتا ہے اور ان سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے.اَنتَ وَلِتُنا لیکن اے خدا! یا درکھنا کہ ہمارا ولی تو ہی ہے.تیرے سوا اور کوئی نہیں.تیرے سوا ہم کسی سے مد نہیں مانگ سکتے نہ کسی اور دروازے کوکھٹکھٹا ئیں گے.فَاغْفِرْ لَنَا پس ہمیں بخش دے.وَارْحَمْنَا اور ہم پر رحم فرما وَ اَنْتَ خَيْرُ الْغُفِرِيْنَ (الاعراف: ۱۵۲) تو سب بخشنے والوں سے بڑھ کر اور سب سے بہتر بخشنے والا ہے.وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ (الاعراف: ۱۵۷) اے خدا! اس دنیا میں بھی ہمارے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 347 خطبہ جمعہ ۱۹ راپریل ۱۹۹۱ء لئے حسنات لکھ لے.اچھی چیزیں لکھ لے.حَسَنَةً اس دنیا میں بھی ہمارا مقدر بنا دے.و فِي الْآخِرَةِ اور آخرت میں بھی.اِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ کیسی پیاری دعا ہے.کہتے ہیں ہم تو اب تیری طرف آہی گئے ہیں، لمبا سفر کر کے تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں اب تو واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہا ، اب تو خیر لے کر ہی واپس لوٹیں گے.اِنَّاهُدُنَا اِلَیک ہم تیرے پاس آگئے اب ہم سے یہ سلوک نہ کرنا کہ دشمنوں میں ہماری ہزیمت ہو اور جگ ہنسائی بنے.پس انبیاء کی دعاؤں پر غور کریں اور دیکھیں یہ انعام یافتہ لوگ تھے.کیسے موقعہ اور محل کے مطابق کتنی حکمت کے ساتھ اور درد کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ انہوں نے ایسی دعائیں مانگیں جو معلوم ہوتا ہے کہ مانگتے وقت ہی خدا کے حضور مقبول لکھی گئی تھیں اور ان کے رد کر نے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ دعا ئیں اپنی سچائی اور اپنے خلوص کے ساتھ خودا پنی مقبولیت کی گواہ بن کر دلوں سے اٹھ رہی تھیں.چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے اس ایک دعا کے بعد جواب میں آپ کو بتاؤں گا پھر یہ سلسلہ انشاء اللہ اگلے جمعہ میں جاری رہے گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا آخرت میں بھی دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے اس میں اور بھی مزید ترقیات عطا ہونی ہیں اور روحانی دنیا میں کوئی ترقی دعا کی مدد کے بغیر عطا نہیں ہو سکتی اس مضمون کو خوب ذہن نشین کر لیں.پس اگر مرنے کے بعد بھی ترقیات کا سلسلہ جاری ہے تو دعاؤں کا سلسلہ لازم ہے.چنانچہ فرمایا.دَعُونَهُمْ فِيهَا جنت میں ان جنتوں کی کیا دعا ہو گی.سُبحَنَكَ اللهُمَّ اے اللہ! تو ہر برائی سے پاک ہے.وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلو اور وہ ایک دوسرے کو سلام بھیجیں گے.سلام دعا ہے.ایک دوسرے کے لئے خدا ہے سلامتی مانگیں گے.وَاخِرُ دَعُو بَهُمْ آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ (یونس :11) اور آخری دعوئی ان کا یہ ہوگا.آخری دعا ان کی یہ ہوگی کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے یہاں رب کے اوپر دعا کی جو تان ٹوٹی ہے اور قرآن کریم کی پہلی آیت الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ پر جو دعا کی تان ٹوٹی ہے تو اس میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہو گیا جس سے ہم نے سورہ فاتحہ کا آغاز کیا تھا.وہ مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ رب ہے یعنی کسی چیز کو ایک حالت میں نہیں رہنے دیتا.جس چیز کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اسے ترقی دیتا رہتا ہے.اسے آگے بڑھاتا رہتا ہے.اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 348 خطبہ جمعہ ۱۹ سراپریل ۱۹۹۱ء کی تکمیل فرماتا رہتا ہے، خدا کے ساتھ ایک دائمی ارتقاء کا تعلق ہے.جو اس کی ربوبیت کی صفت سے ظاہر ہوتا ہے اور ربوبیت کی صفت سے تعلق رکھتا ہے.پس الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شکر ہے ہم نے سب کچھ حاصل کر لیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو رب ہے اور ہمیشہ ترقی دیتا رہتا ہے.پس ان مقامات پر فائز ہونے کے باوجود ہم مزید ترقیات کے خواہاں ہیں.پس اے خدا! اپنی ربوبیت کا جیسا سلوک تو نے دنیا میں ہم سے فرمایا آخرت میں بھی ربوبیت کا یہی سلوک ہم سے جاری رکھنا.اس دعا کے بعد اب میں آج کے خطبے کو ختم کرتا ہوں.باقی انشاء اللہ جیسا کہ میں نے گزارش کی ہے اگلے خطبے میں اسی مضمون کو جاری رکھیں گے.وَاخِرُ دَعُوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اس کے بعد حضور انور نے سٹیلائیٹ کمیونیکیشن کے ذریعہ براہ راست خطبہ سننے والی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.یہ فہرست انہوں نے مجھے دی ہے.آج بھی بعض جماعتیں بڑی ہمت کر رہی ہیں.بہت خرچ اٹھتا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ کس طرح اس مستقل مزاجی سے یہ خرچ وہ برداشت کر رہی ہیں ان ممالک میں سے جاپان غالباً سب سے زیادہ دور ہے ، زیادہ خرچ آتا ہوگا اور جماعت چھوٹی سی ہے اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں بہت برکت دے.ان سب جماعتوں کو جو نیکی کی خاطر اتنا خرچ کر رہی ہیں ، فورا نیکی کی بات سننے کی حرص لئے ہوئے یہ محنت کر رہی ہیں ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو آخرت کے رزق بھی عطا فرمائے اور دنیا کے بھی.( آج خطبہ سننے والی جماعتوں میں ) جاپان ہے، ماریشس ہے اور جرمنی ہے، یہ تین تو ماشاء اللہ مستقل حصہ بنے ہوئے ہیں.ان کے علاوہ اب U.K میں بھی جماعتیں پھیل رہی ہیں.مانچسٹر، ساؤتھ آل، ایسٹ لندن کرائیڈن جل گھم اور ھنسلو ہیں جو اس خطبے میں ہمارے ساتھ براہ راست شریک ہیں.“ جلنگھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 349 خطبه جمعه ۲۶ رابریل ۱۹۹۱ء حضرت نوح ، حضرت ابراھیم اور حضرت یوسف علیہم السلا کی دعاؤں کی عظمت اور ان کی قبولیت کے راز ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ دو جمعوں سے یہ مضمون چل رہا ہے کہ خدا کی راہوں پر قدم مارنے والے اللہ تعالیٰ کی راہ کے مسافر رستے کی صعوبتوں اور مشکلات کو کیسے برداشت کرتے ہیں اور کس طرح ان تکالیف پر غالب آتے ہیں جو خدا کی راہ میں چلنے والوں کو پہنچتی ہیں.قرآن کریم اس کا جواب ہمیں یہ سمجھا تا ہے کہ یہ مجزہ دعا کے ذریعہ ظہور پذیر ہوتا ہے ورنہ انسان کے اپنے بس میں نہیں کہ خدا کی راہ پر چلتے ہوئے اس کی تکالیف کو صبر اور رضا کے ساتھ کلیۂ برداشت کر سکے اور پھر بجائے مشکلات سے مغلوب ہونے کے غالب بن کر ابھرے پس یہ دو اکٹھی باتیں ہیں جو دعاؤں کا پھل ہیں.صرف انبیاء ہی کی نہیں بلکہ دیگر انعام یافتہ لوگوں کی دعاؤں میں سے ان دعاؤں کو قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور جن کو امت محمدیہ کے لئے بطور نمونہ محفوظ رکھا گیا.ایسی ایسی پرانی قدیم دعائیں ہیں اور ایسے ایسے وقت میں ہوئی ہیں جبکہ کوئی ان کا گواہ موجود نہیں تھا.ایک ابراہیم علیہ السلام تھے اور ایک ان کا بیٹا اور ایسی بھی دعا ئیں تھیں جبکہ بیٹا بھی نہیں تھا.اکیلے ابراہیم جنگل بیابان میں دعائیں کر رہے ہیں.وہ دعا ئیں بظاہر ہمیشہ کے لئے فضاؤں میں کھوئی گئیں اور ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا.کتنی مدت کے بعد ؟ ہزاروں سال بعد حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے دل پر وہ دعائیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 350 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء الہام کی گئیں اور آپ کو بتایا گیا کہ میرے بندے ابراہیم علیہ السلام نے اسی طرح لق و دق صحرا میں یہ دعائیں کی تھیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دعا ئیں بہت ہی قیمتی خزانہ ہیں اور جن لوگوں کے لئے ان دعاؤں کو محفوظ کیا گیا اگر وہ ان سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو کتنی بدنصیبی ہوگی.پس دنیا کے خزانوں کے پیچھے تو لوگ بہت محنت کرتے ہیں مگر وہ خزا نے جو قرآن میں مدفون ہیں ان پر سے سرسری نظر سے گزر جاتے ہیں حالانکہ اگر ان میں ڈوب کر دیکھیں تو جو چیزیں بظاہر دلچسپی کا موجب نہ بھی دکھائی دیتی ہوں غور کرنے کے بعد ان میں سے نئی نئی لذت کے مضامین نکلتے ہیں اور انسان کے دل پر قبضہ کر لیتے ہیں.اب اس سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والوں کی یہ دعا میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو قرآن کریم نے سورہ یونس آیت ۸۶-۸۷ میں بیان فرمائی ہے.فَقَالُوا عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَنَحْنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الكفرين حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ خدا پر ایمان لے آؤ تو ان میں سے جوایمان لے آئے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا اس موسیٰ پر ایمان لانا تو بہت مشکل ہے اور تھا بھی وہ فرعون کا زمانہ اور ایسا جابر فرعون کہ جس کا ذکر بحیثیت ایک جابر فرعون کے تاریخ میں محفوظ ہے اور خود وہ اپنے جبر کا احساس رکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ میرے سوا عبادت کے لائق کوئی چیز ہی نہیں ہے.اس وقت حضرت موسیٰ کی آواز پر یہ کہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں بہت بڑا دعویٰ ہوتا اور یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ ہم اس دنیا سے کلیہ مر مٹنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں.پس اس لئے انہوں نے آغا ز ہی میں یہ کہا فَقَالُوا عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا مشکل کام ہے لیکن جس خدا پر توکل کر کے ہم آگے بڑھ رہے ہیں وہ بچانے والا بھی ہے وہ ہر ظالم کے اوپر غالب آسکتا ہے، ہر جابر سے بڑھ کر طاقتور ہے.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اے خدا ہمیں ظالموں کی قوم کے لئے فتنہ نہ بنانا.یہاں فتنہ کا مضمون بہت دلچسپ رنگ میں دہرے معنوں میں استعمال ہوا ہے.قرآن کریم میں فتنہ، دین کے زبر دستی بدلنے کو بھی کہتے ہیں.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اگر جبر کے ذریعے تکلیفیں دے کر کسی کو اس کا دین بدلنے پر مجبور کیا جائے تو اس کو فتنہ کہا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 351 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ (البقرہ:۱۹۴۰) اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ جب دنیا سے فتنہ اٹھ جائے.وَيَكُونَ الدِّينُ لِلهِ اور دین بالآخر اللہ ہی کے لئے ہو جائے کسی چیز اور زور احتاج مندر ہے دین آزاد ہو جائے تو رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ میں ایک مطلب یہ ہے کہ اے خدا! ہمیں ان کا تختہ مشق نہ بنا.وہ جبر اور ظلم اور تعدی کے ذریعے دنیا میں اپنادین پھیلا نا چاہتے ہیں اور دین حق کو مٹانا چاہتے ہیں.پس ان معنوں میں ہمیں فتنہ نہ بنا کہ ہم ان کے تختہ مشق بن جائیں اور وہ ہم پر آزمائشیں کرتے پھریں.فتنہ کا دوسرا مطلب ہے.ٹھوکر کا موجب نہ بنا کیونکہ فتنہ کا ایک مطلب ٹھوکر ہے.پس اے خدا! جب ہم نے دین کو قبول کر لیا ہے تو ایسی کمزوریاں ہم میں نہ ہوں جن کو دیکھ کر وہ کہیں جی ! یہ مومنین ہیں یہ یہ غلطیاں ان سے سرزد ہوتی ہیں، لوگوں کو پاک کرنے والے ہیں آپ اتنے گنا ہوں میں ملوث ہیں پس ہر قسم کی غلطیوں سے پاک کرنے کی دعا بھی اسی کے اندر داخل ہوگئی.پھر فتنہ کے دونوں معنوں کا ایک ملاپ بھی اس کے اندر شامل ہے مطلب یہ ہے کہ اے خدا! اگر تو نے ہمیں ان کے ظلم کا نشانہ بننے دیا تو ظالم لوگ یہ سمجھیں گے کہ ان کا خدا نہیں ہے.ان کا کوئی بھی نہیں ہے.ٹھو کر کا مضمون اور ظلم وستم کا مضمون یہاں اکٹھا ہو گیا.پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ دعا بہت ہی موزوں اور برحل دعا ہے اور خاص طور پر یہ جو ابتلاؤں کا دور ہے اس میں اس دعا کو اس تمام وسعت کے ساتھ پیش نظر رکھتے ہوئے خدا کے حضور مانگنا چاہئے اور اس مضمون میں اگر آپ اپنے مظلوم احمدی بھائیوں کے حالات کو پیش نظر رکھ لیں یا ان تکالیف کو جن میں سے آپ گزرے ہیں، مختلف جگہ پر مختلف نوعیت کے جو روز مرہ ظلم ہورہے ہیں ان کو ذہن میں دہرالیا کریں تو اس دعا میں بہت درد پیدا ہو جائے گا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کے متعلق جب آپ یہ سوچیں کہ کتنے عظیم لوگ تھے، کتنے کمزور تھے، کتنے خطرناک جابر سے ان کا مقابلہ تھا لیکن بات ہی اس سے شروع کی.عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے اب آگے بڑھ رہے ہیں ، تو تو کل کے مضمون کو کبھی نہ بھلا ئیں تو دیکھیں اس دعا میں کیسی زندگی پیدا ہو جاتی ہے.ہزار ہا سال کی یہ دعا مر نہیں سکتی ، زندہ دعا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی.پھر عرض کرتے ہیں.وَنَحْنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور ہمیں کافروں کی قوم سے اپنی رحمت کے ذریعے نجات بخش.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 352 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء یہاں نجات بخشنے کا جو مضمون ہے یہ غالباً ہجرت کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو ہجرت کا حکم ہو چکا تھا اور فرعون ہجرت میں مانع تھا.پس.بجنا سے مراد یہاں ہجرت ہے کیونکہ جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام آخرمدین کے بزرگ حضرت شعیب کے پاس پہنچے اور وہاں پناہ لی تو انہوں نے اسی لفظ کے ساتھ آپ کو خوشخبری دی کہ تو ظالموں کی قوم سے نجات پاچکا ہے.پس کامیاب ہجرت یہاں مراد ہے تو یہ کہا اے خدا! ان میں ہوتے ہوئے بھی ہمیں ان کے ظلم و ستم سے بیچا اور پھر اپنے فضل سے ہمیں ان لوگوں سے کامیاب ہجرت کرنے کی توفیق عطا فرما.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعا بھی ریکارڈ کی گئی کہ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيْمَ (يونس: ۸۹) بالعموم انبیاء کی طرف بددعا ئیں منسوب نہیں ہوتیں لیکن اگر آپ دو یا تین جگہ جہاں بددعا ئیں مذکور ہیں ان کا بغور مطالعہ کریں تو بددعا کرنے کی حکمت اور اس کا جواز بھی وہیں موجود ہو گا اور مضمون بہت اچھی طرح کھل جاتا ہے.قرآن کریم ایک ایسی کامل کتاب ہے کہ شبہ کا کوئی پہلو باقی نہیں رہنے دیتی.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دیکھا کہ قوم بار بارا نکار کر رہی ہے اور ہر عذاب کے بعد وقتی طور پر توبہ کرتی ہے اور پھر دوبارہ انکار کردیتی ہے تو یہ دعا کی: رَبَّنَا اطمس عَلَى أَمْوَالِهِمْ اے خدا! جو قوم اموال کے تکبر میں مبتلا ہو وہ تو ایمان لا ہی نہیں سکتی.مالداروں کا اپنا ایک نفسیاتی رنگ ہوا کرتا ہے اور اپنے سے غریب لوگوں کو ہمیشہ وہ تذلیل اور تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا نفسیاتی مطالعہ کیا ہے اور یہ نتیجہ نکالا کہ عذاب تو آئے ہیں جیسا کہ خدا نے فرمایا.بار بار نشان دکھائے گئے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوئیں لیکن پھر آخر یہ کیوں پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور بظاہر ایمان لا کر پھر قدم پیچھے کی طرف ہٹا لیتے ہیں تو یہ سوچتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سوچا کہ اموال کا تکبران کو برباد کر رہا ہے.ربَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ ان کے اموال پر حملہ کر، ان کے اموال کو برباد کر دے.وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ اور دلوں میں جوانا نیت پیدا ہوگئی ہے.اس کی وجہ سے ان کے دلوں پرختی کر، ایسا عذاب ڈال جس سے دل نرم پڑ جائیں.فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ یہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب کا منہ نہ دیکھیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 353 خطبہ جمعہ ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء اب یہ باتیں اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھیں حضرت موسی نے کوئی نئی بات تو نہیں نکالی.اس کے باوجود خدا تعالیٰ کیوں ان لوگوں کو توفیق نہیں عطا فرما رہا تھا اس لئے کہ وہ ایمان لانے کے اہل نہیں رہے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ جب دعاؤں کو قبول کرتا ہے تو دعا اور قبولیت دعا کے دوران ایک بہت ہی گہر ا لطیف رشتہ ہوتا ہے جو سطحی مطالعہ سے نظر نہیں آتا مگر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے ایسے لطائف کرتا رہتا ہے اور یہ مضمون قرآن کریم کی دعاؤں اور استجابت دعا کے مضمون میں بہت ہی دلچسپ رنگ میں محفوظ فرمایا گیا ہے.حضرت موسیٰ نے یہ کہا کہ جب الْعَذَابَ الْأَلِيمَ دیکھ لیں گے پھر یہ تو بہ کریں گے.خدا نے کہا.ہاں ہمیں علم ہے کہ کس حد تک الْعَذَابَ الْأَلِیم دیکھیں گے تو تو بہ کریں گے لیکن دعا قبول کر لی اور بعد میں فرمایا کہ جب ہم فرعون کو غرق کرنے لگے تو اس وقت اس نے کہا : امَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُو ا اِسْرَاءِ يْلَ (یونس: (۹) اس فرعون نے اس وقت پکارا کہ اب میں ایمان لایا ہوں.لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے جس پر بنو اسرائیل ایمان لے آئے ہیں.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا.آلن وَقَدْ عَصَيْتَ قَبلُ اب ایمان لاتا ہے جبکہ اس سے پہلے تو انکار کر چکا ہے.تو مراد یہ ہے کہ انبیاء کی فراست بھی درست.وہ یہ صحیح نتیجہ نکالتے ہیں کہ ابھی اور شدت عذاب میں چاہئے اس کے بغیر یہ مانیں گے نہیں.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ گناہ میں اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ جس قسم کا عذاب ان کو منواتا ہے وہ عذاب اس وقت آتا ہے جبکہ حجت تمام ہو چکی ہوتی ہے اور پھر ایمان لانا بے کار ہوجاتا ہے اب دیکھ لو تمہاری دعائیں سن کر ہم نے فرعون کو اس حد تک عذاب دے دیا کہ جس کے نتیجے میں بالآخر اس کا سر جھکا لیکن خدا نے یہ کہا کہ اب تو تیری روح کے بچنے کا کوئی وقت نہیں رہا، چونکہ جب تیری روح خطرے میں تھی تو نے اس وقت تک تو موسی“ اور موسی“ کے رب کو قبول نہیں کیا.اب بدن کا خطرہ ہے تو اب تو کہتا ہے کہ مجھے بچالے تو فرماتا ہے کہ.نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ ٹھیک ہے اب روح کے بچنے کا تو وقت نہیں رہا لیکن تیرے بدن کے بچانے کا وقت ہے ہم تیرے بدن کو بچالیں گے اور وہ اس لئے بچائیں گے تا کہ آئندہ نسلوں کے لئے یہ عبرت کا نشان بن جائے.حضرت موسی کی دعا کے نتیجے میں پیش آنے والے اس واقعہ سے متعلق تاریخ میں بہت سا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 354 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء ابہام موجود ہے.بالعموم تمام مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ فرعون و ہیں اسی وقت غرق ہو گیا تھا اور بیچا نہیں بلکہ صرف اس کا جسم بچا تھا اور تاریخ سے جہاں تک میں نے چھان بین کی ہے ایسی کوئی قطعی شہادت نہیں مل سکی کہ یہ فرعون جس کا ذکر چل رہا ہے یہ فرق ہو گیا تھا کیونکہ جومی (Mummy) ملی ہے وہ ہے تو اس فرعون کی.اس کے ساتھ ایسا واقعہ تو ضرور پیش آیا ہے مگر یہ قطعی شہادت نہیں ہے کہ وہ غرق ہوکر مرا تھا اس لئے آئندہ مزید تحقیق ہمیں بتائے گی کہ اصل واقعہ کیا ہوا.پھر اس آیت کی صحیح تفسیر ہمارے سامنے آئے گی کہ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ سے کیا خدا تعالیٰ کی یہ مراد تھی کہ ہم تیرے بدن کو آج بچائیں گے، تیری روح پھر بھی نہیں بچے گی تو پھر واپس لوٹے گا اور تیرا یہ بدن دنیا کے لئے آئندہ عبرت کے لئے محفوظ کیا جائے گا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم تجھے غرق تو کر دیں گے لیکن تیری لاش کو بچائیں گے اور تیری لاش بعد میں دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنے گی تو دونوں صورتوں میں یہ بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابھی اس کا ایک پہلو تشنہ تحقیق ہے.پس دعائیں کرتے وقت یہ احتیاط ضرور کرنی چاہئے کہ اپنی طرف سے دعاؤں میں ایسی ہوشیاریاں یا چالاکیاں نہ کریں کہ بعد میں جب دعا قبول ہو تو پتا لگے کہ اوہو! یہ تو ہماری دعا کے نتیجے میں ایسی بات ہوگئی.ایسے دلچسپ واقعات ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو دراصل بڑے پیارے اور لطیف انداز میں اپنے قرب کے نشان دیتا ہے.بعض دفعہ تھوڑی تھوڑی سزائیں بھی ساتھ چل رہی ہوتی ہیں ، بعض لوگ بڑے معجزے دیکھنا چاہتے ہیں جو ظاہری اور عددی معجزے ہوں کہ جی فلاں شخص نے خواب میں دیکھا ہے کہ فلاں تاریخ کو یہ واقعہ ہو جائے گا اور یہ ہو گیا یہ طی چیزیں ہیں اصل جوزندہ معجزہ ہے وہ خدا کا بندے کے ساتھ ایسا باریک سلوک ہے جو زندگی میں اس کے ساتھ ہوتا رہتا ہے ایسے لطیف اشارے اسے ملتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں دل کی گہرائیوں میں یہ بات جاگزیں ہو جاتی ہے کہ میرا اور اللہ کا ایک معاملہ ہے جو چل رہا ہے.حضرت منشی اروڑے خان والا واقعہ آپ نے بار ہاسنا ہے وہ اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت منشی اروڑے خان حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے ایک دفعہ رخصت ہورہے تھے جب واپس جانے کی اجازت لی تو شدید گرمی تھی اور بہت دیر سے بارش نہیں ہوئی تھی تو حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے بے تکلفی سے، پیار سے عرض کیا کہ حضور! دعا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 355 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء کریں بہت ہی گرمی ہے.واپسی کا سفر بھی سخت ہے اللہ تعالیٰ بارش عطا فرمائے تو منشی اروڑے خان نے کہا کہ میرے لئے تو یہ دعا کریں کہ اوپر سے بھی پانی ، نیچے سے بھی پانی، پانی ہی پانی ہو جائے.چنانچہ وہ یکے میں بیٹھے اور بٹالے کی طرف روانہ ہوئے.راستے میں وڈالے کے قریب ایک جگہ جہاں ایک چھوٹی سی پلی آیا کرتی تھی.(ہم بھی جب گزرتے تھے تو وہاں ایک چھوٹی سی پلی آیا کرتی تھی) اس سے پہلے کہ وہ پکی آتی اچانک بادل امڈ کر آئے اور اس قدر موسلا دھار بارش شروع ہوئی کہ اس سے جل تھل ہو گئے اور وہ گھوڑا اسی طرح سرپٹ دوڑا جار ہا تھا.چنانچہ جب وہ پلی آئی تو اس پر وہ یکہ جو اچھلا تو منشی ظفر احمد صاحب تو ٹانگے میں ہی رہے اور منشی اروڑے خان صاحب اچھل کر باہر پانی میں جاگرے اور اوپر سے بھی پانی تھا اور نیچے سے بھی پانی.یہ جو چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں یہ بیرونی دنیا کے لئے شاید کوئی حقیقت نہ رکھتے ہوں لیکن مومن کی تقویت ایمان کے لئے بیرونی نشانات سے بہت زیادہ دلنشیں اور روح میں اتر جانے والے نشانات اس قسم کے ہوا کرتے ہیں اور روزمرہ کی زندگیوں میں احمدیوں کے ساتھ یہ معاملات ہوتے رہتے ہیں.بعض دفعہ کوئی ایسا آدمی جس سے خدا تعالیٰ اچھی توقع رکھتا ہے کوئی چھوٹی سی غلطی کر بیٹھتا ہے تو اسی وقت اس کو سزا ملتی ہے، بعض ایسے ہیں جن کو بڑی بڑی غلطیوں پر بھی سزا نہیں ملتی اور وہاں سزا نہ ملنا خدا تعالیٰ کے غضب کی نشانی ہوتی ہے.بعض دفعہ اپنے پیاروں کو انسان جلدی پکڑتا ہے جن سے اچھی توقعات ہوں ان کو جلدی ٹوکتا ہے.جن سے اچھی تو قعات نہ ہوں ان کی بڑی بڑی چیزوں سے بھی درگزر کر جاتا ہے کہ ان سے توقع ہی یہی تھی اس لئے دعاؤں کے مضمون میں آپ کو قرآن کریم میں بھی ایسے بڑے دلچسپ واقعات ملیں گے جہاں دعا کرنے والے نے ذرا کہیں کوئی غلطی کی تو اللہ تعالیٰ نے بڑے پیارے اور لطیف انداز میں قبولیت کے وقت اس کی طرف اشارہ فرما دیا.پس فرعون کے ڈوبنے کی دعا کا حضرت موسی کی اس دعا سے گہرا تعلق ہے جس کے نتیجے میں بالآخر اس کو ایمان لانے کی بھی توفیق ملی لیکن بے کار اور اس کا کوئی بھی فائدہ اس کو نہ پہنچا لیکن یاد رکھیں انبیاء کی دعائیں تو بے کار نہیں جایا کرتیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک نیا اور لطیف مضمون داخل فرما دیا.لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ہم تیرے بدن کو محض ایک فضول لطیفہ گوئی کے طور پر نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 356 خطبہ جمعہ ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء بچار ہے خدا تو کوئی عبث کام نہیں کیا کرتا اور پھر میرے بندے موسی“ کی دعا تھی اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو پہنچنا چاہئے، تو جو فائدہ تجھے نہیں پہنچاوہ تیری وجہ سے آئندہ نسلوں کو پہنچے گا اور آنے والے لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں گے.تو دیکھیں بظاہر سرسری طور پر ان دعاؤں سے گزریں تو معمولی سا مضمون سمجھ میں آتا ہے لیکن جب ڈوب کر چلیں اور ان کے اندر جو مضامین کی نہیں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے سیر کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو بڑے بڑے لطیف مضامین ہیں جو ان دعاؤں میں اور ان کی قبولیت کے نشانات میں پوشیدہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا عرفان عطا فرما تا رہے.یہ آیت پوری یوں ہے: آلَن وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ ابْتِنَا لَغْفِلُونَ (يونس: ٩٢-٩٣) کہ اب تو کہتا ہے میں ایمان لے آیا حالانکہ اس سے پہلے عمر تم نے عصیان میں گزاردی اور تو صرف گنہگار ہی نہیں بلکہ فساد کرنے والا گنہ گار تھا.فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ پر آج کے دن ہم تیرے بدن کو نجات بخشیں گے تاکہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے.وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ ابْتِنَا نَعْقِلُونَ اور دنیا میں اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں.اس موقعہ پر جبکہ یہ آیت نازل ہوئی، یہ کہنا کہ دنیا کے اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ، دوہرے معنے رکھتا ہے.ایک تو عمومی بیان ہے کہ لوگ اکثر خدا کی آیات سے غافل ہی ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ فرعون کی لاش کے متعلق اس وقت ساری دنیا غفلت میں تھی اور یہ ایک ایسا نشان تھا جس پر دنیا کے کسی عالم کی بھی نظر نہیں تھی، کسی تاریخ دان کی بھی نظر نہیں تھی کیونکہ اس وقت کی معروف تاریخ کے مطابق فرعون کے دریا میں غرق ہونے کا واقعہ اور پھر خدا کا اس سے وعدہ کرنا ، یہ دنیا کے کسی تاریخی ریکارڈ میں درج نہیں تھا.قرآن نے پہلی دفعہ بیان فرمایا اور مصر کی تہذیب تہہ در تہ ریت میں دفن ہو چکی تھی اور وہ بڑے بڑے مقبرے جن میں بعد میں فراعین کی لاشیں مدفون پائی گئیں اور بعد میں دریافت ہوئیں وہ اس وقت کی دنیا کی نظر میں نہیں تھے.پس اس ذکر کا کیا پیارا انجام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ ابْتِنَا تَغْفِلُونَ کہ دنیا میں اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل ہوتے ہیں ہم اتنے مستغنی ہیں کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں، کوئی گھبراہٹ نہیں.جانتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 357 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء ہیں کہ ایک وقت ضرور ایسا آئے گا کہ یہ مدفون خزانے پھر ا بھر آئیں گے اور زمین ان خزانوں کو یعنی خدا تعالیٰ کے نشانات کے خزانے باہر پھینک دے گی.اب میں آپ کو حضرت نوح کی دعا بتا تا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے: وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِهِ اللهِ مَجْرَبَهَا وَ مُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِیم (صور: ۴۲) نوح کی جو یہ دعا ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائی ہوئی دعا ہے فرمایا: وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا اس کشتی میں سوار ہو جاؤ بِسمِ اللهِ مَجْرَتهَا وَ مُرْسُھا اور یہ پڑھتے چلے جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ، اس کی ذات بابرکات کے ساتھ ہم اس سفر کا آغاز کرتے ہیں ، مَجْرَتَهَا وَ مُرْسَهَا اس کشتی کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی اسی کے نام سے ہے.اِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّ حِيدُ یقیناً میرا رب بہت ہی بخشنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے.پس یہ الہامی دعا ہے اور جتنے بھی سمندر کے یا دریاؤں وغیرہ کے سفر اختیار کئے جاتے ہیں ان میں عام طور پر وہ مسلمان جو اس دعا سے واقف ہیں یہی دعا کرتے ہیں اور ہمیں بھی سب احمد یوں کو یہ دعا کرنی چاہئے.قادیان میں تو سب کو اس دعا سے بہت ہی واقفیت تھی اور بچے بچے کو سکھائی جاتی تھی لیکن اب جو موجودہ نسلیں ہیں اس سے کچھ غافل ہوتی جارہی ہیں.اس لئے میں یہ دعا ئیں دوبارہ پڑھ کر ان کا پس منظر آپ کو بتارہا ہوں کہ اپنے بچوں کو ، اپنے ماحول میں سب عزیزوں کو یاد بھی کرائیں اور ان کا مضمون سمجھائیں ان دعاؤں سے ایک ذاتی تعلق پیدا کر دیں تا کہ جب بچے یہ دعائیں مانگیں یا آئندہ جو بڑے بھی ہوں گے وہ مانگیں تو ان کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعائیں اٹھیں اور اس مضمون کو سمجھ کر وہ یہ دعائیں کرنے والے ہوں.حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی میں سوار ہونے کے بعد اللہ کے نام پر جوسفر اختیار کیا اس سفر میں ان کا ایک بیٹا ساتھ نہیں تھا اور جب وہ طوفان بہت بڑھا تو آپ نے دیکھا کہ وہ بیٹا ایک پہاڑی کے دامن میں کھڑا ہے.آپ نے اس کو آواز دی اور کہا کہ تم آجاؤ ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.اس نے کہا کہ میں تو اس پہاڑ میں پناہ لے لوں گا مجھے تمہاری کشتی کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اس کے بعد اگلا منظر خدا تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ بات ہورہی تھی کہ ایک موج ان دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ ہمیشہ کے لئے نظر سے غائب ہو گیا.اس پر حضرت نوح نے بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 358 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء بے چینی سے یہ عرض کی کہ اے خدا! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے اہل کو بچاؤں گا اور میں تیرے مقاصد کو ، تیرے طریق کار کو نہیں سمجھ سکتا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اہل کو غرق ہوتے دیکھ لیا ہے.تو بہتر جانتا ہے کہ یہ کیوں ہوا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک خلش سی پیدا ہوگئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو یہ جواب دیا.اِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ (هود: ۴۷ ) کہ اے نوح ! یہ تیرا اہل نہیں تھا.اِنَّهُ عَمَل غَيْرُ صَالِحٍ یہ بد اعمال بچہ تھا اور بداعمال اولا دنبیوں کی اولاد نہیں ہوا کرتی.یعنی نبیوں کی طرف منسوب ہونے کی اہلیت نہیں رکھتی تو اصل بمعنی اہلیت کے ہے محض خونی رشتے کے لحاظ سے اولاد ہونا مراد نہیں.تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ یہ تو غیر صالح لڑکا ہے اس کے اعمال اچھے نہیں یہ کیسے تیرا اہل ہو گیا.فَلَا تَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ اني أعظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ (هود: ۴۷) فَلَا تَن پس مجھ سے مت سوال کر ایسی باتوں کے متعلق جن کا تجھے علم نہیں ہے.إني أعظُكَ أنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے نہ ہو جائے یعنی اگر تو نے احتیاط نہ کی تو خطرہ ہے کہ اسی نہج پر اگر آگے بڑھتا رہا تو ظالموں میں شامل ہو جائے گا اس پر حضرت نوح نے پھر بڑی بے قراری سے یہ عرض کیا رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ اسْتَلَكَ مَا لَيْسَ لِی بِهِ عِلم اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی تجھ سے ایسا سوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو.وَ إِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الْخَسِرِينَ (هود: ۴۸) اور اگر تو نے مجھ سے بخشش کا سلوک نہ فرمایا اكُنْ مِنَ الْخَسِرِينَ اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں یقینا گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا.یہاں جو مشکل مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا انسان کو علم ہو اس کے متعلق تو وہ سوال ہی نہیں کرتا اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو یہاں پھر یہ کیا گفتگو ہورہی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو نے آئندہ ایسی باتوں کا سوال کیا جس کا تجھے علم نہیں تو تو ظالموں میں سے ہو جائے گا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا اور حضرت نوح کہتے ہیں کہ میں تو بہ کرتا ہوں.میں تیری پناہ میں آتا ہوں اے خدا! آئندہ کبھی میں ایسا سوال نہ کروں جس کا مجھے علم نہ ہو.تو یہ عجیب سا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 359 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء معمہ ہے کہ اگر علم ہو تو سوال کرنے کی ضرورت کیا ہے اور اگر علم نہ ہوتو سوال کرنا گناہ کیسے ہو گیا.دراصل یہاں سوال کی پردہ داری فرمائی گئی ہے ،ستاری کا سلوک ہوا ہے.ایک خفیف سا اعتراض دل میں پیدا ہوا ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا گیا اور چونکہ حضرت نوح ایک بڑے بلند پایہ نبی تھے اور اس اعتراض پر خود آپ نے بھی معلوم ہوتا ہے پردہ رکھا ہوا تھا.آپ نے جو دعا کی ہے اور سوال کیا ہے وہ بتارہا ہے کہ ادب اپنی جگہ ہے لیکن ساتھ ہی بے قراری بھی ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کیا کروں.میرا دل بے چین ہو گیا ہے خدا کے اولوالعزم انبیاء ہوتے ہیں ان کا دل ایسی باتوں پر بے چین نہیں ہونا چاہئے.ان سے خدا یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ سمجھ جائیں کہ کچھ ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں جن کا مجھے علم نہیں لیکن خدا کے علم میں ہیں اور خدا کا فیصلہ سچا ہے اس لئے فیصلے سے متعلق سوال اٹھانے کا مجھے کوئی حق نہیں.یہ جو مضمون ہے یہ بہت ہی لطیف اور بہت گہرا مضمون ہے اور اس کو بھلا دینے کے نتیجے میں میں نے دیکھا ہے بہت سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے احمدی بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں.خلفائے وقت کے کئی ایسے فیصلے ہوتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بارہا ایسے واقعات ہوئے ہیں جو کسی بار یک حکمت کے پیش نظر کئے جاتے ہیں اور ان کا دنیا کو علم دیا بھی نہیں جاسکتا.یہ دوسرا مضمون بھی اس میں مخفی ہے اور بہت ہی اہمیت والا مضمون ہے.بعض دفعہ انسان ایک سوال کر کے مزید دکھ میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا جواب اس کو اور تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے.ایک بیٹا ہے جس کی بدکاری کے متعلق کسی کو علم نہیں ، باپ کو علم نہیں ، خدا تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈالا ہوا تھا اور نوح نے جب شک کا اظہار کیا، ایسے شک کا اظہار جو اتنا خفی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شک کے طور پر پیش کرنا بھی پسند نہ فرمایا لیکن آپس میں جو مکالمہ ہوا ہے اس کی طرز بتا رہی ہے کہ اندر کیا بات تھی ، ادب بہر حال قائم تھا اور اس وقت شک کے دوران بھی اتنا گہرا ادب تھا کہ اس ادب کے نتیجے میں اس وقت خدا نے آپ کو جاہل قرار نہیں دیا بلکہ یہ بتایا کہ آغاز اسی طرح ہوا کرتا ہے.ایک انسان اگر اپنے سے بالا ایسے لوگوں کے فیصلے جن کا احترام لازم ہے باریک نظر سے نہ دیکھے اور شک کی گنجائش ہو تو اس کا پہلا تقاضا تو یہی ہے کہ ادب اور احترام کی وجہ سے زبان نہ کھولے اور استغفار سے کام لے اور دعا سے کام لے لیکن اگر اس سے ایسا ہو بھی جائے اور بار بار ایسا ہو تو پھر خطرہ ہے کہ انسان مزید ٹھو کر کھا جائے گا.پس ایسے مختلف فیصلوں میں جہاں ایک مومن ایمان بھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 360 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء رکھتا ہے اور ادب بھی رکھتا ہے وہاں بھی بعض دبی ہوئی آزمائشیں بہت ہی خطرات کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں اور اس سلسلے میں نہایت اعلی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے.استغفار سے کام لینا چاہئے اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہئے اور اللہ پر تو کل کرنا چاہئے اور خدا سے یہ دعا کرنی چاہیئے.وَإِلَّا تَغْفِرُ لِي وَتَرْحَمْنِى اَكُنْ مِنَ الْخَسِرِينَ کہ اے خدا! اگر تو نے بخشش کا سلوک نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو اس صورتحال میں میں یقیناً گھانا پانے والوں میں شامل ہو جاؤں گا اور اگر سوال اٹھتے ہی ہیں.تو پھر یہ دعا بہت اچھی ہے.یعنی اس کا پہلا حصہ کہ قَالَ رَبِّ إِنِّي أعُوذُ بِكَ اَنْ اَسْتَلَكَ مَا لَيْسَ لِى بِهِ عِلْمٌ اے خدا! میں تیری حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.میں نہیں جانتا کہ اس دنیا میں بہت سی باتیں کیوں ہورہی ہیں.تیری تقدیر کیا کیا مخفی مصلحتیں لئے ہوئے ہے.تیرے فیصلے کو ہم دیکھ لیتے ہیں.تیری تقدیر پر نظر نہیں جاتی.اس لئے ہم تجھ سے ان شکوک کے بارہ میں پناہ مانگتے ہیں جو ایسے موقعوں پر دلوں میں پیدا ہو جایا کرتے ہیں.ایک دعا حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہے جو اسی سورۃ کا ایک اور مضمون بھی ہمیں سمجھا رہی ہے.سورہ یوسف کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ہم بیان کرنے لگے ہیں یہ أَحْسَنَ الْقَصَصِ ہے اتنا حسین واقعہ ہے کہ ایسا دلچسپ واقعہ، اس سے زیادہ پیارا اور دلکش قصہ تم نے کبھی نہیں سنا ہوگا ، نہ سن سکتے ہو کیونکہ یہ اَحْسَنَ الْقَصَصِ ہے.اب قرآن کریم میں انبیاء کے بہت سے فقص بیان ہوئے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر بڑے دلچسپ واقعات بیان ہوئے ہیں لیکن صرف سورۃ یوسف کو أَحْسَنَ الْقَصَصِ کہا گیا ہے.میں اس پر غور کرتا رہا تو میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ دعا جو حضرت یوسف نے کی ہے یہ حسن کی انتہاء ہے اتنی حسین دعا ہے اور حضرت یوسف کے حسن کا ایک عجیب منظر پیش کرتی ہے کہ انسانی دنیا میں آپ کو ایسی مثالیں دکھائی نہیں دیں گی.آپ کو زلیخا نے جب ابتلاء میں ڈالا اور دعوت دی اور اپنے ساتھ اس شہر کی یا اس قصبے کی دوسری خوبصورت عورتوں کو بھی شامل کر لیا کہ اگر یہ اکیلا میرے سے پوری طرح قابو نہیں آسکتا تو ہوسکتا ہے ہم سب مل کر اس پر اپنا جادو چلائیں تو یہ اس جادو کے اثر کے تابع ہماری بات مان جائے.یہ سکیم تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اس پر حضرت یوسف یہ دعا کرتے ہیں: قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إلَى مِمَّا يَدْعُونَنِي اِلَيْهِ (یوسف) (۳۴) یہ مجھے لذتوں کی طرف اور عیش وعشرت کی طرف
خطبات طاہر جلد ۱۰ 361 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء بلا رہے ہیں اے خدا! میں زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں قید ہو جاؤں اور قید خانے میں زندگی بسر کروں.مجھے یہ آزادی پسند نہیں ہے جو لذتوں کی آزادی ہے مگر تیری رضا کی آزادی نہیں ہے.کتنی عظیم الشان دعا ہے.وہ یہ بھی دعا کر سکتا تھا کہ اے خدا! مجھے بچالے لیکن دوسری طرف قید خانے کو دیکھا.اس مضمون کو ذہن میں رکھا اور یہ دعا کی کہ اے خدا! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے.اب دیکھیں دعا اور قبولیت میں کیسے لطیف رشتے ہیں.پس یہ سمجھ نہیں سکتا تھا کہ حضرت یوسف بے چارے کو اللہ تعالیٰ نے اتنی لمبی قید میں کیوں مبتلا کر دیا.اپنی منہ مانگی دعا ہے جو ان کے سامنے آئی.پس جہاں ایک طرف دعاؤں میں احتیاط بتانے والا یہ مضمون ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ اپنے لئے مشکل دعا مانگا ہی نہ کرو.اللہ تعالیٰ تو تمہیں مشکل میں ڈالے بغیر بھی معاملے حل کر سکتا ہے اس لئے خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہو.آپ نے یہ کہہ کر ہم پر بڑا احسان فرمایا لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ میرے بندے جب بعض دعائیں مانگتے ہیں تو میں ان کے دل کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں.اس دعا نے اور اس کی قبولیت نے مل کر اس معاملے کو اتنا حسین بنا دیا ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے ایسا عجیب واقعہ کبھی دنیا میں پیش نہیں آیا کہ وہ خدا جو اپنے بندے سے اتنا پیار کرتا ہے اور پھر ایسے پاکباز بندے سے یعنی یوسف جیسے بندے سے، اس کی دعا بھی سنتا ہے اور اس کو بچا بھی لیتا ہے اور پھر قید خانے میں ڈال دیتا ہے.تو قید خانے میں کیوں ڈال دیا؟ میرے نزدیک اس لئے کہ حضرت یوسف کے دل کی سچائی ثابت ہو اور عام دعا کرنے والوں سے الگ اور ممتاز کر کے آپ کو دکھایا جائے ورنہ دعا کرنے والے بڑی بڑی دعائیں کر جاتے ہیں اور باتوں باتوں میں اپنی جان فدا کرتے رہتے ہیں لیکن جب ابتلاء کا وقت آتا ہے تو جانیں لے کر بھاگ جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے اور مجھے کئی خط بھی آتے ہیں کہ جی آپ کہیں تو مال جان سب کچھ حاضر اور چھوٹا سا ابتلاء اولاد کی طرف سے آجائے یا قضاء کے فیصلے کی طرف سے آجائے تو نہ جان حاضر ہوتی ہے، نہ مال حاضر ہوتا ہے.وہی لوگ باتیں بنانی شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں.یہ خلیفہ ہے؟ اس میں تو انصاف ہی کوئی نہیں.تو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ منہ کی اکثر باتیں جھوٹی اور بے معنی ہوا کرتی ہیں.خدا کے حضور سجدوں میں لوگ بڑی بڑی پیاری دعائیں کرتے ہیں.روتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 362 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء ہوئے بھی کرتے ہیں کہ اے خدا ! یہ ہو جائے تو ہم سب کچھ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں مگر جب مشکل پڑتی ہے تو اس وقت وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا کہ تم لوگ تو قتال مانگا کرتے تھے کہتے تھے کہ اے خدا! ہمیں جہاد کے وہ میدان دیکھا جہاں ہم اپنی قربانیاں پیش کریں اور اب وہ آگیا ہے تو تم کھڑے دیکھ رہے ہو.تمہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں.تو دعا سے کوئی چیز مانگنا اور بات ہے اور جب وہ ابتلاء سامنے آکھڑا ہو تو اس میں پڑنا اور حوصلے کے ساتھ صبر کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کرنا اور بات ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس حسین قصے میں جو سب سے زیادہ حسین ہے ہمیں یہ بتایا کہ یوسف نے دعا مانگی اور ہم نے اس کی دعا کو قبول کیا تو محض اس کو تکلیف دینے کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کو بتانے کے لئے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے بتانے کے لئے کہ وہ دعا میں انتہائی سچا اور مخلص تھا.واقعہ اس کو قید خانہ اور اس کی صعوبتیں دکھائی دے رہی تھیں اور وہ ان کی پناہ مانگ رہا تھا کہ اے خدا! اس عیش کی زندگی سے مجھے وہاں ڈال دے چنانچہ پھر انہوں نے خوشی سے قبول کیا ، وہاں رہے، وہاں تبلیغیں کرتے رہے.وہاں خدا کی یاد میں مزے کی زندگی گزاری اور ایک ذرہ بھی دل میں شکوہ پیدا نہیں ہوا کہ مجھ معصوم کو جو آج ساری دنیا میں سب سے زیادہ معصوم انسان ہے بے جرم کیوں مارا جارہا ہے اور پھر آخر پر جب آپ کو وہاں سے نجات ملتی ہے تو پھر اس وقت بہت ہی عجیب حیرت انگیز انکسار کا اظہار کرتے ہیں.پیغا مبر کو کہتے ہیں پہلے اپنے آقا، بادشاہ سے کہو کہ وہ جوعورتیں تھیں جنہوں نے الزام لگایا تھا ان کا حال تو پوچھو.کیا حال ہے ان کا ؟ اب کیا کہتی ہیں؟ اور مجھے نکالو تو معصوم حالت میں نکالو.دیکھیں کتنا عجیب دلچسپ اور گہرا امضمون ہے.فرمایا.میں الزام کی حالت میں گیا ہوں.میں الزام کی حالت میں کیسے باہر آجاؤں.یہ الزام تو مجھے پسند نہیں ہے.اس کی خاطر تو ساری تکلیفیں برداشت کی تھیں اس لئے میں جب تک معصوم ہو کر نہیں نکالا جاتا مجھے ابھی بھی آزادی نہیں چاہئے.حالانکہ بادشاہ مہربان ہو چکا ہے اور پھر جب بادشاہ نے ان سے پتا کروایا تو انہوں نے کہا وہ تو بالکل ہم ہے، فرشتہ ہے.اس کا کوئی قصور نہیں ، ہم نے شرارت کی تھی ، ہم نے فتنہ پیدا کیا تھا.اس کے بعد وہ یہ کہتے ہیں میں اپنے نفس کو اب بھی بری نہیں کرتا.اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ (الیوسف:۵۴) کہ انسان کا نفس تو گناہوں کی تعلیم دینے والا ہے.اللہ ہی کا فضل تھا جو میں بچ گیا ہوں.معصوم.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 363 خطبه جمعه ۲۶ رامیریل ۱۹۹۱ء پس دیکھیں کہ قرآنی دعائیں جو گہرے مضامین سمیٹے ہوئے ہیں جب آپ ان میں غوطہ مارتے ہیں.ان میں اتر کر ان دعاؤں کو اور ان کی مقبولیت کے حالات کو دیکھتے ہیں تو کیسے کیسے حسین دلکش نظارے ان پردوں کے پیچھے دکھائی دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ پردوں کے پیچھے اور پردے ہوتے ہیں.آپ اور بیچ میں داخل ہوتے چلے جائیں.اپنے نفس پر ان مضامین کو وارد کرتے رہیں تو آپ کو اور زیادہ لطیف اور دلکش نظارے ان کے پیچھے سے دکھائی دیتے چلے جائیں گے.پھر ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری دعا جو اُس سے ملتی جلتی ہے جو پہلے گزر چکی ہے.وہ یہ بیان فرمائی گئی: وَ اِذْ قَالَ ابْرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَا مِنَّا وَ اجْنُبْنِي وَبَنِي أن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (ابراہیم : ۳۶) یہ جو دعا ہے یہ اس دعا سے ملتی جلتی لیکن اس سے مختلف ہے جوسورہ بقرہ کی ۱۲۵ اور آگے پیچھے کی آیات میں درج تھی وہاں بھی یہ ذکر ہے کہ وَإِذْ قَالَ ابْرُ هِیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَا مِنَّا سرسری نظر سے پڑھیں تو ایک ہی دعا لگتی ہے.دونوں جگہ اس شہر کے امن کی دعامانگی گئی ہے.اس کے امین ہونے کی دعا مانگی گئی ہے.لیکن حقیقت میں جو پہلی دُعا تھی اس میں شہر کیلئے دُعا نہیں مانگی تھی، جگہ کے لئے دعامانگی تھی کیونکہ وہاں یہ دُعا ہے: رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَا مِنَّا یہ جگہ چٹیل میدان جہاں کچھ بھی نہیں ہے.اسے ایک رستے بستے شہر میں تبدیل فرما دے.پس یہ دُعا جواب کی گئی ہے اس میں یہ نہیں فرمایا کہ اس جگہ کو امن کی جگہ بنادے بلکہ فرمایا ہے: هُذَا الْبَلَدَا مِنَّا کہ اے خدا! تو نے میری دُعاؤں کو سُن لیا.اور اس جگہ کو شہر بنا چکا ہے.اب یہاں با قاعدہ آبادی ہے.اب میں اس شہر کے لئے تجھ سے امن کی دعا مانگتا ہوں اس کے بعد اس دُعا میں بعض ایسی باتوں کا ذکر ہے جو دراصل پہلی دُعا کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو خطاب فرمایا اُس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی دُعا میں ترمیم کی گئی ہے.پہلی دُعا آپ کو یاد دلانے کے لئے پڑھتا ہوں.وہ یہ تھی : وَاِذْ قَالَ ابْرُ هِمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنَّا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَا مَتِّعَهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرَةٌ إِلى عَذَابِ النَّارِ وَ بِسَ الْمَصِيرُ (البقره: ۱۳۷) جب ابراہیم نے خدا سے یہ عرض کیا کہ اے خدا! اس جگہ کو تو ایک شہر میں تبدیل فرما جو امن کا شہر ہواور اس میں بسنے والوں کو تو ہر قسم کے رزق عطا فرما، ہر قسم کے پھل عطا فرما.مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 364 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ یعنی ان سب کو جو اللہ پر ایمان لے آئیں اور آخرت پر ایمان لے آئیں.قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَا مَتَّعُهُ قَلِيلًا اے ابراہیم ! میں تیری دعا کو اس سے زیادہ قبول کرتا ہوں جتنا تو مانگ رہا ہے جو ان میں سے ایمان نہیں بھی لائے میں دنیا کی زندگی میں ان کو بھی فائدہ پہنچاؤں گا ہاں آخرت میں ان کو میں عذاب دوں گا.یہ جو آخرت کے عذاب کا جواب تھا اس نے حضرت ابراہیم کو بڑا ڈرا دیا ہے اور اگلی دعا میں پھر آپ نے ترمیم کرلی ہے.اس ترمیم کی طرف میں آپ کو لے کر جاؤں گا تو پھر آپ سمجھیں گے کہ اس دعا میں اور اس دعا میں کیوں فرق ہے ؟ اور کیسے پیارے انداز میں پھر آپ نے وہ ترمیم کر کے دعا کی ہے.کہتے ہیں : هَذَا الْبَلَدَا مِنَّا وَ اجْنُبْنِي وَبَنِى اَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ پتا لگ گیا ہے کہ کوئی ظالم ضرور پیدا ہوں گے، کچھ مشرک پیدا ہوں گے، شہر تو حید کی خاطر بنایا گیا لیکن یہیں شرک کرنے والے بھی داخل ہو جائیں گے.تو یہ دعا کی کہ اے خدا ! مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچائے رکھ کہ ہم کبھی بھی بتوں کی پرستش کریں.رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ (ابراهیم :۳۷) کہ ان بتوں اور جھوٹے خداؤں نے تیرے اکثر بندوں کو گمراہ کردیا.فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّى جوان میں سے میری پیروی کرے گا وہ میرا ہوگا اور جو میرا ہوگا وہ موحد ہی رہے گا.اس لئے میروں پر تو ناراض ہو گا ہی نہیں ، کس طرح ان کا دامن بچالیا.پہلے خدا نے اس دعا کے نتیجے میں ایک استثناء کیا تھا اور کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ دنیا میں تو حسن سلوک کرتا رہوں گالیکن آخرت میں ان کو پکڑوں گا اس کے بعد یہ کہا کہ جو میرا ہوگا اس کو تو لاز مسز انہیں دے گا کیونکہ مجھ سے تو اتنا پیار کرتا ہے اور مجھ سے تو ایسا حسن سلوک فرماتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میرا ہواس کے ساتھ بھی تو کسی قسم کا غضب کا معاملہ فرمائے گا.رہا ان لوگوں کا معاملہ جو میرے خلاف ہوں گے، جو گنہگار ہوں گے ، جن کے متعلق تو نے کہا ہے کہ میں انہیں عَذَابٌ أَلِیم میں مبتلا کروں گا حضرت ابراہیم بے حد رحم کرنے والے تھے بڑے نرم دل تھے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے تو وہاں بھی دل نہیں چاہتا کہ ان سے سختی کا سلوک ہو تو کہتے ہیں کہ وَمَنْ عَصَانِي جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو میرے نافرمان ہیں فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِیم مجھے تو اتنا پتا ہے کہ تو بڑا بخشنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 365 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء والا بڑا رحم کرنے والا ہے.بس یہ کہہ کر بات چھوڑ دی.تو چاہے تو سزا دے سکتا ہے اور میری پہلی دعا کے جواب میں تو نے مجھے بتا دیا ہے کہ ایسے بدنصیبوں کو بالآخر سزا ملے گی تو میں اب نئی ترمیم شدہ دعا یہ عرض کر رہا ہوں کہ جو میرا ہے وہ تو امن میں آہی گیا اور جو میرا نہیں رہے گا میں اس کے لئے بھی صرف یہ کہتا ہوں کہ اس کو نہ دیکھنا.اپنی ذات کو دیکھنا.وہ گنہگار ہے لیکن تو غفور رحیم ہے.دعا کا کتنا پیارا انداز ہے.اور دعا کا کتنا دردناک انداز ہے.اگر اس گہرے درد کو سمجھ کر اسی درد میں ڈوب کر آپ دعائیں کریں تو دیکھیں آپ کی دعاؤں کو کیسے کیسے پھل لگتے ہیں.پھر عرض کیا: رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْبِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ وَارْزُقُهُمُ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَّعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ) (ابراهیم: ۳۸) کہ اے خدا ! میں نے اپنی اولاد کو اپنی اس پیاری اولا د اسماعیل کو اس بے آب و گیاہ وادی میں ایک ایسے لق و دق صحرا میں جہاں کچھ بھی نہیں اُگتا.تیرے مقدس گھر کے قریب اس لئے چھوڑا لِيُقِيمُوا الصَّلوة کہ یہ لوگ تیری عبادت کریں.اس لئے جو دعا مانگی تھی کہ ان کو پھل دینا، ان پر رحمتیں کرنا ( پہلی دعا میں یہ ذکر تھا) وہ ثانوی باتیں ہیں.میرا اصل مقصد یہ تھا کہ تیرے گھر کے قریب میں ان کو چھوڑوں تا کہ اس گھر کے مقاصد کو یہ پورے کرنے والے ہوں.لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفَبِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِم پس اس وجہ سے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر کہ یہ تیرے عبادت گزار بندے ہیں ورنہ اگر تیرے عبادت گزار بندے نہ ہوں تو ان کو پھل کھلوانے میں مجھے کوئی دلچپسی نہیں.مجھے تو یہ دلچسپی تھی کہ قیامت کے دن تو بخشش کر سکتا ہے تو ضرور بخش دے.جہاں تک دنیاوی پھلوں کا تعلق ہے تو نے وعدہ تو کر دیا ہے مگر میں عرض کر دوں کہ ابھی بھی مجھے اس میں کوئی دلچپسی نہیں.دنیا میں ان کو کچھ دے نہ دے لیکن جو نیک بندے ہیں ، جو عبادت کرنے والے ہیں ، ان کی طرف دلوں کو ضرور مائل فرمانا اور ان کے لئے لوگ دور دور سے طرح طرح کے تحائف لے کر آئیں ہر قسم کے پھل ان تک پہنچیں لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ تا کہ وہ تیرے شکر گزار بنیں.ان نعمتوں کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 366 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء دیکھیں اور بار بار شکر ادا کریں کہ اے خدا! محض تیرے پیار کا اظہار ہے کہ لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہورہے ہیں ورنہ ہماری کیا حیثیت تھی.رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ (ابراهیم : ۳۹) حضرت ابراہیم کا مقام آپ کی دعاؤں پر غور کرنے سے مزید ابھرتا چلا جاتا ہے.یہ عرض کیا کہ اے خدا! میری نیت پاک ہے مجھے تو یہ دلچسپی تھی کہ عبادت کرنے والے ہوں.ظاہری رزق میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی.ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ بعض دفعہ انسان اپنی مخفی نیتوں سے خود بھی واقف نہیں ہوا کرتا.خدا کے حضور تو یہ دعویٰ کرنا بہت بڑی بات ہے کہ میں اس نیت سے کر رہا ہوں اور فلاں نیت سے نہیں کر رہا.تو فوراً عرض کیا : رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ اے خدا! تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جن باتوں کا ہم اظہار کر رہے ہیں.مطلب ہے ہم اچھی نیتیں کہہ بھی دیں، اچھی باتیں تیرے حضور عرض کر رہے ہوں کہ ہم یہ یہ نیکیاں پیش نظر رکھتے ہوئے دعائیں کر رہے ہیں پھر بھی احتمال موجود ہے کہ بعض مخفی ارادے برے ہوں.بعض مخفی نیتیں گندی ہوں یا نفسانی ہوں اس لئے میں تیرے حضور یہ عرض کرتا ہوں کہ میں اپنے متعلق کسی بھی براءت کا اقرار نہیں کرتا.میں جانتا ہوں کہ مجھے جو نیت صاف دکھائی دے رہی ہے اس کے پیچھے پھر بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا مخفی بدا رادہ موجود ہو اس کے لئے تو مجھ سے رحمت کا سلوک فرمانا.یعنی اپنی عاجزی کا اظہار ہے اور احتمالی گناہوں کا اقرار ہے.وَمَا يَخْفَى عَلَى اللهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ میں کیا چیز ہوں.اے خدا! تو تو وہ ہے جس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَهَبَ لِيْ عَلَى الْكِبَرِ اسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ( ابراهیم : ۴۰) ہرحمہ اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اس بڑھاپے کی عمر میں اسماعیل اور الحق جیسی اولاد عطا فرمائی اور یہ وہ اولاد ہے.جو نیک اولاد کی طلب کے نتیجے میں عطا ہوئی اور جس نے ثابت کر دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نیت اندر تک پاک تھی.پس بظاہر یہ نہیں فرمایا گیا لیکن جب اس مضمون کو آپ اکٹھ ملا کر پڑھیں تو خدا کی طرف سے یہ گواہی بھی ساتھ دے دی گئی ہے کہ ابراہیم تو اپنے بجز میں کہہ رہا تھا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں میری نیت صاف ہے لیکن تو بہتر جانتا ہے.ساتھ ہی اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا تھا اور اس کی نیت کی پاکی کے مطابق اس سے سلوک فرمایا کیونکہ جس نیک اولاد کے متعلق اس نے کہا کہ میں تجھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 367 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء سے نیک اولا د مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ نے وہ نیک اولا د عطا فرما کر بتا دیا کہ تیری نیت پاک تھی چنانچہ اس کو اسماعیل دیا پھر اس کو اسحاق دیا.اِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ چنانچہ ابراہیم خود اقرار کر جاتے ہیں.معلوم ہوتا ہے دماغ وہاں پہنچا ہے تو خود ہی بات بھی سمجھ آگئی ہے عاجزی کے معا بعد اللہ تعالیٰ نے سمجھا بھی دیا ہے کہ ابراہیم تو کیوں اپنی نیتوں کے متعلق ڈر رہا ہے.اپنی اولاد کے منہ تو دیکھ ، کتنے پاک چہرے ہیں.ان کے وجودوں پر نظر کر کیا یہ تیری دعاؤں کا ثمر نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر الـحـمـد پڑھ اور خدا کا شکر ادا کر اور اس کی حمد کے گیت گا اور یہ کہ اِن رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ.کہ دیکھو دیکھو میر ارب بہت ہی دعا سننے والا ہے اور اس دعا کی مقبولیت کے نشان کے طور پر اس نے مجھے ایسی پاک اولا د عطا فرمائی.ید ویسی ہی دعا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے شعروں میں کہا کہ بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فسجان الذي اخرى الاعادی (در مشین:...) پس بار بار اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی دعاؤں کے مطابق پھل لگا تا ہے اور جب وہ پھل نکلتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ ہاں وہ دعا ئیں بھی بچی تھیں اور یہ پھل بھی سچے نکلے.اب میں آخر پر ( گو مضمون کا ابھی آخر نہیں آیا ابھی کافی ہے لیکن باقی آئندہ انشاء اللہ ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی ایک دعا پڑھتا ہوں.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی: رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ (ابراہیم: ۴۱ ۴۲) کہ اے خدا! مجھے اور میری اولا د کونماز پر قائم رکھ.رَبَّنَاوَ تَقَبَّلْ دُعَاء اور اے ہمارے رب ضرور ہماری دعا قبول کر لے.ربنا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ اے خدا مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے.وَلِلْمُؤْمِنِينَ اور مومنوں کو بھی بخش دے.يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ جس دن حساب كته
خطبات طاہر جلد ۱۰ جائے گا.368 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء یہاں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ پیدائش سے پہلے حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعامانگی تھی کہ نیک اولا د چاہتا ہوں.نماز پڑھنے والی اولا دچاہتا ہوں.اسی لئے تیرے گھر کے پاس جہاں نہ پانی تھا نہ خوراک کا کوئی انتظام تھا، اپنے نوزائیدہ بچے کو چھوڑ دیا کہ وہ تیری عبادت کرے اگر غذا کی اور دنیاوی لذتوں کی خواہش ہوتی تو ان آباد جگہوں سے لے کر اس ویران جگہ میں کیوں آتا.یعنی اس میں نیت کی صداقت کتنی گہری اور کتنی صفائی کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہے اور اس دعا کو خدا نے قبول بھی فرمالیا اس کے باوجود جب تک زندگی کا سانس ہے یہ دعا جاری رہنی چاہئے کیونکہ عبادت پر قائم ہونے کے باوجود عابدوں کے لئے بھی امتحانات آیا کرتے ہیں اور ٹھوکر کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں.بعض ایسے عبادت کرنے والوں کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے کہ عمر بھر عبادت کی مگر کسی موقعہ پر کسی وجہ سے ٹھوکر کھا کر ہمیشہ کے لئے خدا سے دور جا پڑے.پس عبادت کرنے والے کو تکبر سے باز رکھنے کے لئے اور خدا کی خوشخبریاں پانے کے باوجود انکسار کے ساتھ خدا کے حضور یہ عرض کرتے رہنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے عبادت میں حاصل کیا ہے جب تک زندگی کا سانس ہے اسے خطرہ ہے.یہ تیری طرف سے ایک دولت اور نعمت ہے تو سہی لیکن نعمتیں بھی تو ضائع ہو جایا کرتی ہیں اس لئے ابراہیم علیہ السلام خود پہلے اپنے لئے دعا کرتے ہیں.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوۃ اے خدا مجھے بھی نماز قائم کرنے والا بنا.اب بتا ئیں آج کل کوئی شخص اگر بظا ہر نماز پر قائم ہو چکا ہو تو اس کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نماز پر قائم ہونے سے بھلا کیا مقابلہ؟ کوئی نسبت ہی نہیں ہے لیکن بعض نمازی آج کل کی اس دنیا میں بڑا تکبر کر جاتے ہیں.ہمیں اور کیا چاہئے ہم نماز پڑھتے ہیں اور خوب سختی سے نماز پر قائم ہیں حالانکہ سختی سے قائم ہونا اور چیز ہے اور دل کی نرمی کے ساتھ نماز پر قائم ہونا اور چیز ہے لیکن ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا نمونہ ہمیں بتاتا ہے کہ نماز پر قائم ہونا محفوظ مقام نہیں ہے جب تک انسان آخری سانس نہ لے اور خدا اپنی طرف نہ بلالے.پس اس دعا کو اس مضمون کو سمجھنے کے بعد ادا کیا کریں اور خدا کے حضور اپنی عبادتوں کو فخر کے ساتھ پیش نہ کریں بلکہ عاجزی اور انکسار کے ساتھ ڈرتے ڈرتے پیش کریں اور دنیا کی طرف نگاہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 369 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء ڈالیں کہ اس دنیا میں بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے اور آج بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بڑے بڑے امیر، بڑے بڑے دولت مند اچانک ایسے مصائب کا اور حوادث کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا.ساری دولتیں مٹ جاتی ہیں جو کچھ کمائی تھی وہ سب ختم ہوگئی.تو اگر دنیا کی دولتیں محفوظ نہیں ہیں تو روحانی دولت بھی ان معنوں میں محفوظ نہیں ہے.اگر کوئی بلا پڑے گی تو بلا ان نعمتوں کو تباہ بھی کر سکتی ہے اس لئے دعا ہی کے ذریعے ان نعمتوں کی حفاظت کی مدد مانگنی چاہئے.رَبَّنَا اغْفِرْلِی وَلِوَالِدَى اے خدا! مجھے بھی بخش دے، میرے والدین کو بھی.یہاں توازن پیدا کیا گیا ہے اور اولاد کے لئے جو دعا مانگی گئی تو اس کے مقابل پر فرمایا والدین کو بھی یاد رکھا کرو، والدین کے لئے بھی دعا کیا کرو.وَلِوَالِدَی میں نماز کے قیام کی دعا نہیں کیونکہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور اکثر صورتوں میں ہو چکے ہوتے ہیں یا بعض صورتوں میں فوت ہو چکے ہوتے ہیں اس لئے والدین کے لئے قیام نماز کی دعا نہیں ملے گی بلکہ بخشش کی دعا ملے گی.وَلِلْمُؤْمِنِينَ اور مومنوں کے لئے بھی.يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ جس دن کے حساب کتاب کیا جائے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کے متعلق آئندہ کبھی گفتگو کی ضرورت پیش آئے گی کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے والد کے لئے جو دعا کی تھی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو خصوصی اجازت دی گئی تھی تو اس کے بعد پھر اس دعا کا کیا مطلب ہے کہ وَلِوَالِدَی میرے والدین کے لئے بھی.کیا یہ وہی دعا ہے اور اس کے بعد خدا نے منع فرمایا یا یہ دعا کوئی اور مفہوم رکھتی ہے اور اسی طرح حضرت نوح کی دعا بھی ہمیں انہیں لفظوں میں ملتی ہے کہ وَلِوَالِدَى مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے اور ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس نبی یعنی محمد رسول الله ﷺ اور ان کے ماننے والوں کے لئے یہ جائز قرار نہیں دیا کہ اَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُربى (التو به (۱۱۳) کہ خواہ وہ اقرباء ہی کیوں نہ ہوں یعنی صرف والدین کا ذکر نہیں دوسرے اقرباء بھی شامل ہیں کہ اگر وہ مشرک ہوں تو ان کے لئے استغفار نہیں کرنا.تو یہ ایک ایسا مضمون ہے جو بعض دفعہ بعض دوست پوچھتے بھی ہیں کہ اب نماز میں ہم یہ دعا پڑھتے ہیں.ہندوؤں سے اگر کوئی مسلمان ہوا ہو اور اس کے والدین مشرک ہوں تو کیا وہ نماز میں وہ دعا نہیں پڑھے گا اور پھر سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ یہ دعا نہیں پڑھا کرتے تھے جن میں سے اکثر کے الله
خطبات طاہر جلد ۱۰ 370 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء والدین مشرکین تھے تو یہ ایک مزید تحقیق طلب مضمون ہے.اس کے کچھ حصوں پر تو میں نے نظر ڈالی ہے اور کچھ مفہوم سمجھ آیا ہے لیکن ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے.آئندہ کسی وقت انشاء اللہ آپ کے سامنے یہ مضمون پیش کروں گا.باقی انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کیونکہ اب وقت زیادہ ہو چکا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا : یہ خطبہ حسب سابق ماریشس اور جاپان کی جماعت بھی براہ راست سن رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو ہمت بھی عطا فرمائے.بہترین جزاء دے اور توفیق بخشے.بے حد خرچ ہوتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ بے چارے کس طرح مسلسل برداشت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں بہت برکت دے اور خدا کی خاطر جو یہ قربانی کر رہے ہیں اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے.اس کے علاوہ انگلستان کی جماعتیں ساؤتھ ہال، کرائیڈن، ہنسلو ایسٹ لندن، مانچسٹر جنٹلھم بھی ساتھ شامل ہو چکی ہیں.اب ایک مختصری اپیل کرنی ہے.افریقہ میں جو غربت ہے اور جو فاقہ کشی ہے اس پر بعض دفعہ حوادث کے ذریعے تکالیف میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے پچھلی تحریک پر جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام حالات میں جو توقع تھی اس سے بہت بڑھ کر قربانی کا مظاہرہ فرمایا اور ان کو جو روپیہ ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ بہترین رنگ میں بھوکوں کو کھانا کھلانے میں استعمال ہوگا.کچھ ہو رہا ہے اور آئندہ ہم تجویز کر رہے ہیں کہ کس طرح بہتر نتائج حاصل کئے جائیں.لائبریا سے چونکہ بہت سے مہاجرین غانا، نائیجریا اور سیرالیون پہنچے تھے اور وہاں کیمپوں میں ان کی حالت بہت بری ہے اس لئے وہاں میں نے ہدایت کی تھی کہ خدام الاحمدیہ وغیرہ دوسری تنظیمیں امیر کے ماتحت منظم پروگرام بنا کر ان کی خدمت کریں ان کی طرف سے اب مطالبے آئے ہیں کہ ہمیں یہ یہ چیزیں چاہئیں یعنی محض روپیہ کافی نہیں ہے بلکہ بعض اجناس چاہئیں.کچھ ادویہ کی ضرورت ہے وہ ہم انشاء اللہ مہیا کر رہے ہیں.جہاں جہاں احمدی میڈیکل ایسوسی ایشنز پہلے بھی ایسے کارخیر میں حصہ لیتی ہیں ان کو میں مطلع کرتا ہوں کہ جب دوائیوں کی فہرستیں آئیں گی تو ہم ان کو بھجوائیں گے تو وہ کوشش کریں اور اپنے طور پر بھی اندازہ لگا کر کہ اس علاقے میں کیسی کیسی بیماریاں ہوتی ہیں ، جو دوائیں بھی مہیا کر سکتے ہیں وہ مہیا کریں.دوسرا وہ کہتے ہیں کپڑوں کی بہت تکلیف ہے، چھوٹے بچے عورتیں وغیرہ بہت برے حال میں ہیں بہت گرم کپڑے نہیں چاہئیں بلکہ ٹھنڈے یا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 371 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء درمیانے کپڑے چاہئیں تو آپ کے گھروں میں یعنی یورپ اور امریکہ، کینیڈا وغیرہ کی جماعتوں میں جہاں ایسے زائد کپڑے ہوں وہ ضرور پیش کریں کیونکہ یہاں سے ہم آسانی سے بھجوا سکتے ہیں اور یہ انتظام انصار اور خدام اور لجنہ مل کر کر سکتے ہیں باہر ملک کے امیر کا کام ہے وہ دیکھ لے.اگر کسی ایک مجلس کے سپرد کرنا چاہے تو اس کے سپرد کر دے.بحیثیت جماعت کرنا چاہے تو بحیثیت جماعت کرنے والے ہیں وہ اس بات کا خیال کریں کہ یہ ہیں تو بہت غریب اور بہت ضرورت مند لوگ لیکن چونکہ ہم اصل میں ان کو پیش نہیں کر رہے بلکہ خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں اس لئے گندے کپڑے جس طرح وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناں کجی سے نکلے ہوئے ان میں بل پڑے ہوئے برے حال، اس طرح نہ دیں کہ بد بوئیں چھٹی ہوئی ہوں، دھو کر صاف ستھرے کر کے جس طرح آپ اپنے بچوں کو پہنائیں اور شرم محسوس نہ کریں.اس طرح کپڑوں کی حالت کر کے پھر پیش کریں.اللہ تعالیٰ جماعت کی اس قربانی کو قبول فرمائے اور ہمیں بنی نوع انسان کے دکھ بانٹنے اور ان میں سکھ پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے:.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 373 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَ بَيْنِي صَغِيرًا کی دعا دونوں نسلوں کیلئے ہے نیز حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۳ رمئی ۱۹۹۱ء بمقام Nunspeet ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا یہ خطبہ میں ہالینڈ کی جماعت Nunspeet سے دے رہا ہوں.جہاں مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لئے حاضر ہوا ہوں.یہ خطبہ بھی حسب سابق مواصلاتی نظام کے ذریعے مختلف ممالک میں سنا جا رہا ہے.جاپان میں بھی حسب سابق تو قع ہے کہ رابطہ مکمل ہو جائے گا لیکن سر دست یہ رابطہ قائم نہیں ہوسکا.انگلستان کی ایسٹ لنڈن، ساؤتھ آل بنسلو کرائیڈن ،لنڈن Mosque اور مانچسٹر اور بینھم کی جماعتیں یہ خطبہ سن رہی ہیں.اسی طرح جرمنی سے بھی اور ماریشس سے بھی جماعتیں یہ خطبہ سن رہی ہیں.یہ نظام جو مواصلاتی رابطوں کے ذریعے قائم ہوا ہے اس میں ہمارے لنڈن کے ایک مخلص دوست سعید جسوال صاحب اور ان کے بھائیوں اور ایک بہنوئی کی محنت کا بہت دخل ہے اور یہ اپنی ٹیم لے کر آج یہاں بھی پہنچے ہیں تا کہ جن جماعتوں کو براہ راست خطبہ سننے کی عادت پڑ چکی ہے وہ ان خطبوں سے محروم نہ رہ جائیں جو اس سفر کے دوران دیئے جائیں گے.اس تمہید کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو ایک سلسلے کی صورت میں جاری ہوا ہے اور جس کا تعلق سورۃ الفاتحہ کی اس دعا سے ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 374 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اے ہمارے اللہ ! ہمیں صراط مستقیم پر چلا.اس صراط مستقیم پر جس پر وہ لوگ چلتے رہے جن پر تو نے انعام نازل فرمائے.میں نے بتایا تھا کہ جن پر انعام نازل فرمائے گئے وہ دعاؤں کی بدولت اپنی مراد کو پہنچے ہیں محض انسانی کوششوں سے کامیاب نہیں ہوئے اور ہمارے لئے بھی سورہ فاتحہ کی اس دعا نے قرآنی دعاؤں کا ایک سلسلہ کھول دیا ہے اور اس سلسلے کا قرآن کریم میں مکمل طور پر ذکر محفوظ ہے.صرف انبیاء ہی کی دعا ئیں درج نہیں بلکہ دیگر صالحین اور خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں ، مردوں اور عورتوں کی دعا ئیں بھی قرآن کریم میں ہمارے لئے محفوظ فرما دی گئی ہیں.آج کے لئے پہلی دعا اولاد کی دعا ہے جو اسے اپنے والدین کے لئے کرنی چاہئے اور یہ دعا جو الہامی دعا ہے ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی امت کو سکھائی ،دعا تو یہ ہے : رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَ بَّيْنِي صَغِيرًا ( بنی اسرائیل :۲۵) اے میرے رب ! ان دونوں پر ، میرے والد اور میری والدہ پر اس طرح رحم فرما جس طرح بچپن سے یہ میری تربیت کرتے چلے آئے ہیں.لیکن اس دعا کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے اس کا وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو یہی آیت کریمہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ رہی ہے.پس پوری آیت کو پڑھنے کے بعد اس دعا کی اہمیت بھی سمجھ آتی ہے کہ اور کن کن باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا کرنی چاہئے ، یہ مضمون بھی ہم پر روشن ہو جاتا ہے.آیت یہ ہے وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (بی اسرائیل:۲۴) که اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر فرما دیا ہے، یہ فیصلہ کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی بجائے ربك لفظ ہے یعنی اے محمد تیرے رب نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.والدین کے ساتھ نیکی کے برتاؤ کی اتنی بڑی اہمیت ہے کہ توحید کی تعلیم کے بعد دوسرے درجے پر خدا نے جس بات کا فیصلہ فرمایا وہ یہ تھا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو.احسان کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اس کے متعلق میں پھر دوبارہ آپ سے بات کروں گا.إمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَفْ وَلَا تَنْهَرْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 375 خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۹۱ء هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا - إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اگر ان میں سے کوئی تیرے ہوتے ہوئے تیری زندگی میں بڑھاپے تک پہنچ جائے.ان میں سے خواہ ایک پہنچے یا دونوں پہنچیں فَلَا تَقُل لَّهُمَا اُف ان کو اف تک نہیں کہنی.اف نہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے بڑھاپے میں ایسی حرکتیں ہو سکتی ہیں جو ان کے بچپن کے سلوک سے مختلف ہوں.بچپن میں تو وہ بڑی رحمت کے ساتھ تمہاری تربیت کرتے رہے لیکن بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر انسان کو اپنے جذبات پر اختیار نہیں رہتا.زیادہ زود رنج ہو جاتا ہے اور بہت سی صحت کی کمزوریاں اس کے مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا کر دیتی ہیں پھر کئی قسم کے احساسات محرومی ہیں.اولاد بڑی ہوگئی، اپنے گھروں میں آباد ہوگئی اور جس طرح والدین توقع رکھتے ہیں کہ یہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی ویسا ہی معاملہ کرے گا اس میں کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے یا والدین کو وہ ہم گزرتا ہے کہ ہم سے ویسا پیار نہیں جیسا اپنی بیوی اور اولاد سے ہے تو ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم نے بڑی حکمت کے ساتھ فرمایا.فَلَا تَقُل لَّهُمَا اُف ایسی باتیں ہونگی جن کے نتیجے میں ہو سکتا ہے تمہیں جائز یا نا جائز شکایت پیدا ہواور والدین تم سے بظا ہر سختی کا سلوک کرنا شروع کر دیں.تم جو بچپن کی نرمی کے عادی ہو اس سلوک سے گھبرا کر اف نہ کہ بیٹھنا.اف کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے، کوئی سخت کلامی نہیں ہے.ایک اظہار افسوس ہے.فرمایا کہ اظہار افسوس تک نہیں کرنا.وَلَا تَنْهَرْهُمَا اور جھڑ کنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اپنے والدین کے ساتھ ہر گز سخت کلامی نہیں کرنی قُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا اوران کے ساتھ عزت کا کلام کیا کرو.ہمیشہ احترام کے ساتھ ان سے مخاطب ہوا کرو وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ اور اپنی نرمی کے پر ان کے اوپر پھیلا دو مِنَ الرَّحْمَةِ رحمت کے اور نرمی کے یا رحمت کے نتیجے میں جو نرمی پیدا ہوتی ہے.اس کے پر ان پر پھیلا دو اور پھر یہ دعا کرو: وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا جس طرح انہوں نے بچپن میں بڑے رحم کے ساتھ میری تربیت فرمائی ہے.یہ بہت ہی پیاری اور کامل دعا ہے اور بہت سی ذمہ داریوں کی طرف جو اولاد کے ذمہ اپنے والدین کے لئے ہیں، ہمیں توجہ دلاتی ہے لیکن اس دعا میں اور بھی بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں.اب میں نسبتا تفصیل سے اس آیت کے بعض مضامین کھول کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 376 خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۹۱ء پہلی بات تو یہ ہے کہ احسان کا حکم دیا گیا ہے.ادا ئیگی فرض کا نہیں اور احسان بظا ہر ضروری نہیں ہوا کرتا.احسان تو ایسا معاملہ نہیں ہے کہ ہر انسان پر فرض ہو.کیا یا نہ کیا کوئی فرق نہیں پڑتا.یعنی اگر فرق پڑتا بھی ہے تو احسان ایک ایسی بات نہیں ہے جو اگر انسان نہ کرے تو خدا کے نزدیک معتوب ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ نے ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم کیوں نہ دیا اور احسان کا حکم کیوں دیا؟ اس میں اور بھی حکمتیں پوشیدہ ہوں گی لیکن دو ایسی حکمتیں ہیں جن کو میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی پہلے ہوا کرتی ہے اور احسان بعد میں آتا ہے اگر فرض ادا نہ ہو تو احسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے قرآن کریم جو بڑی فصیح و بلیغ کتاب ہے ، خدا کا کلام ہے اس نے ایک لفظ میں اس سے پہلے ہو نیوالی ذمہ داریوں کا بھی ذکر فر ما دیا اور مومن سے گویا یہ توقع رکھی کہ جہاں تک اس کی روزمرہ کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے فرائض کا تعلق ہے وہ تو لا زماوہ پورے کر رہا ہے ان کو نہ پورے کرنے کا تو سوال ہی نہیں لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے محض ذمہ داریاں پورا کرنا کافی نہیں ہے.ان کے ساتھ احسان کا سلوک ہونا ضروری ہے.ایک یہ حکمت ہے.دوسری حکمت یہ ہے کہ یہاں لفظ احسان کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی ایک اور آیت کا سہارا لینا ہو گا جو اس مضمون کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْاِحْسَانُ ( الرحمن :۶۱ ) کہ احسان کی جزاء احسان کے سوا کیا ہوسکتی ہے ؟ پس یہ احسان ان کے اوپر ان معنوں میں احسان نہیں ہے جن معنوں میں ہم ایک دوسرے پر احسان کرتے ہیں.یہ احسان والدین کے اوپر اولاد کی طرف سے کوئی یک طرفہ نعمت نہیں ہے جوان کو ادا کی جارہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ یہ بیان فرما رہا ہے کہ والدین نے تم سے احسان کا معاملہ کیا تھا اس لئے صرف فرض کی ادائیگی کافی نہیں ہوگی جب تک تم ان سے احسان کا معاملہ نہیں کرو گے تم اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے والے نہیں بنو گے.چنانچہ فرمایا هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ لَه احسان کی جزاء تو احسان کے سوا ہے ہی کوئی نہیں.کوئی شخص تم پر احسان کرتا چلا جارہا ہو اور تم اپنی روزمرہ کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہو تو یہ کافی نہیں ہے.چنانچہ اس مضمون کو آیت کے آخری حصے نے کھول دیا یہ جہاں دعا سکھائی گئی: رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَ بَّيْنِي صَغِيرًا اے اللہ ان سے اس طرح رحم کا سلوک فرما جس طرح یہ بچپن میں مجھ سے رحم کا سلوک فرماتے تھے.صرف اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 377 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء حقوق ادا نہیں کرتے تھے.محض مجھے زندہ رکھنے کے لئے اور روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے محنت نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر مجھ سے شفقت اور رحمت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.میری معمولی سی تکلیف پر یہ بے چین ہو جایا کرتے تھے.میری ادنی سی بیماری پر ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جایا کرتی تھیں اور انہوں نے جو مجھ سے سلوک فرمایا وہ رحمت کا سلوک ہے.پس مجھے جو احسان کا حکم ہے کہ میں بھی احسان کا سلوک کروں تو اے خدا! میں اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا اس لئے میں دعا کے ذریعے تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور جب تک تو اس بارہ میں میری مدد نہ فرمائے حقیقت میں میرے والدین کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں جو بھی کوشش کروں اس کے باوجود ان احسانات کو چکا نہیں سکتا.پس تو میری مدد فرما اور رب ارْحَمْهُمَا اے خدا تو ان کے اوپر رحم فرما اور میرے سلوک میں جو کمیاں رہ جائیں گی وہ تو اپنے رحم سے پوری فرمادے.كَمَارَ بَّيْنِي صَغِيرًا جس طرح بچپن میں یہ میری تربیت کرتے رہے تو ان کے ساتھ وہ سلوک فرما.اس دعا نے ایک اور حیرت انگیز مضمون کو ہمارے سامنے کھول دیا کہ والدین بھی جہاں تک خدا کا تعلق ہے اس کی تربیت کے محتاج ہیں لَّهُمَا اُف کہنے کے ساتھ ان کی بشری کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو وہاں بھی خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی بہت ضرورت ہے اور انسان تو مرتے دم تک خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا محتاج رہتا ہے اس لئے یہ دعا بہت ہی کامل دعا ہے اور اس کے معنی یہ بنیں گے کہ اے خدا! اگر چہ بظاہر ان کے اعضاء مضمحل ہوچکے ہیں یہ کمزوری کی طرف لوٹ رہے ہیں، طاقت کے بعد ضعف شروع ہو چکا ہے لیکن ضعف کے وقت زیادہ رحم کے ساتھ تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے.جب میں بچہ تھا تو میرے والدین نے مجھ سے میرے ضعف کی وجہ سے رحم کا سلوک کیا اور صغیرا کے لفظ نے بتادیا کہ بڑے ہو کر رحم کا معاملہ اتنا نہیں رہا کرتا جتنا بچپن میں ہوتا ہے.بچپن کی کمزوری ہے جو رحم کا تقاضا کرتی ہے.بچے کو آپ ایک بات سکھاتے ہیں.چلانا سکھائیں تو بار بار وہ گرتا ہے، بولنا سکھائیں تو بار بار غلطیاں کرتا ہے تلا تا ہے سبق پڑھائیں تو اس کو پڑھا ہوا سبق بار بار بھولتا جاتا ہے لفظ آپ رٹا بھی دیں تو پھر اگلی دفعہ جب سنتے ہیں تو اس لفظ میں پھر وہی غلطیاں کرنے لگ جاتا ہے.بعض دفعہ بچے کو پڑھانا اعصاب شکن ہوتا ہے اور حقیقت میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 378 خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۹۱ء جب تک رحم کا معاملہ نہ کیا جائے اس وقت تک بچے کی صحیح تعلیم نہیں ہوسکتی.چنانچہ بعض والدین جو جہالت سے حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں وہ بچپن سے بجائے رحم کے سختی کا معاملہ شروع کر دیتے ہیں اور سختی کے ساتھ بچے کی تربیت ہو نہیں سکتی.اس میں بغاوت پیدا ہو جاتی ہے، اس میں سخت رد عمل پیدا ہوتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس کی تربیت ہو اس کے اندر بچپن سے نقائص بیٹھ جاتے ہیں.پس اس آیت کریمہ نے اس حکمت کو بھی ہمارے سامنے روشن کر دیا کہ وہ والدین جو اچھی تربیت کرنے والے ہوں وہ بچپن میں رحم کے ساتھ تربیت کیا کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کو یہ دعا سکھائی گئی ہے وہ کیونکہ دراصل حضرت محمد مصطفی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں، آپ کے غلام ہیں اس لئے ان کے والدین سے بہترین توقعات بھی پیش فرمائی گئیں اور یہ بیان کیا گیا کہ جس طرح ہمارے والدین بچپن میں ہماری کمزوریوں کے پیش نظر ہم سے سختی کرنے کی بجائے رحمت کا معاملہ کیا کرتے تھے اور تربیت میں بار بار بخشش کا سلوک فرماتے تھے اسی طرح اے خدا! اب میرے والدین کمزور ہو چکے ہیں تو ان کی غفلتوں اور کمزوریوں سے درگزر فرما اور ان کے ساتھ بخشش اور رحمت کا سلوک فرما.اس ضمن میں ایک یہ بات بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ گما کے لفظ نے ہمیں ہماری بہت سی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا دی جو صرف والدین کی طرف سے نہیں بلکہ اپنی اولا داور آئندہ نسلوں کی طرف سے ہمیں پیش آتی ہیں اور ہمیں انہیں کس طرح ادا کرنا چاہئے.اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا.كَمَا کے لفظ نے یہ بتایا کہ اگر والدین بچوں کی تربیت رحمت کے ساتھ نہیں کرتے تو یہ دعا ان کے حق میں نہیں سنی جائے گی کیونکہ گما کا مطلب ہے جیسے انہوں نے بچپن میں رحمت کے ساتھ میری تربیت کی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو بھلا کر یورپ اپنے معاشرے میں کئی قسم کے عذاب پیدا کر چکا ہے.اولاد کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت کے ساتھ تربیت کرنا اس لئے بھی نہایت ضروری ہے تا کہ بعد میں بڑے ہوکر اس اولاد کا اپنے والدین سے اسی طرح رحمت اور نرمی اور مغفرت کا تعلق ہو.اگر بچپن ہی سے والدین اپنی زندگی کی لذتوں میں منہمک ہوں اور اولادکو سکولوں کے سپر د کر دیں یا معاشرے کے سپرد کر دیں اور ان کی تربیت میں جو ذاتی تعلق پیدا کرنا چاہئے وہ تعلق پیدا نہ کریں تو یہ دعا ان کے حق میں نہیں سنی جائیگی یاد رکھیں یہاں بچوں کے ساتھ پیار کا ذکر نہیں ہے.بچوں کے ساتھ پیار تو ہر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 379 خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۹۱ء معاشرے میں والدین کو ہوتا ہی ہے.فرمایا ایسا پیار ہو جو تربیت میں استعمال ہوا ہو اور ایسا پیار نہ ہو جو تربیت خراب کرنے والا پیار ہو.پس پیار کے متوازن ہونے کا بھی اس آیت میں ذکر فرما دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ پیار ہی کام کا پیار ہے جس کے نتیجے میں اولا د اعلیٰ تربیت پائے.پس وہ والدین جو اس بات سے غافل رہتے ہیں ان کی سوسائیٹیوں میں کئی قسم کی خرابیاں جگہ پکڑ جاتی ہیں اور ان کی اولادیں جب بڑی ہوتی ہیں تو وہ اپنے والدین کے لئے نہ خدا تعالیٰ سے احسان کی دعائیں مانگتے ہیں نہ خود احسان کا سلوک کرتے ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بوڑھے آدمیوں کے گھر ایسے والدین سے بھر جاتے ہیں جن کی اولادیں ان سے غافل ہو چکی ہوتی ہیں.ان کے ساتھ حسن سلوک تو در کنار ان کی معمولی سی غفلت پر ان کو ڈانٹتے ہیں، ان سے قطع تعلقی کرتے ہیں ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور جن جن معاشروں میں یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے وہاں حکومت کے اخراجات بوڑھے لوگوں کے گھروں پر زیادہ سے زیادہ بڑھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ بعض امیر ممالک بھی عاجز آ جاتے ہیں اور ان کے پاس اتنا روپیہ مہیا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سوسائٹی کے سب بوڑھوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں.جو ضرورتیں دراصل ان کی اولاد کو پوری کرنی چاہئے تھیں.لیکن جیسا کہ غالباً مولاناروم کا شعر ہے از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بر دید جو ز جو کہ اعمال کے جو اثرات مترتب ہوتے ہیں ان سے غافل نہ رہنا گندم از گندم بروید جوز جو گندم کا بیج ڈالو گے تو گندم ہی اگے گی اور جو بوؤ گے تو جوہی اگیں گے.اس لئے پہلی نسلوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کا تعلق دراصل اس تعلق کا آئینہ دار ہے جو پہلی نسلوں نے اپنی چھوٹی نسلوں سے رکھا تھا اگر اس میں شفقت تھی اور اس میں صرف شفقت ہی نہیں تھی بلکہ تربیت کے لئے استعمال ہونیوالی شفقت تھی ، اگر رحمت کا سلوک تھا اور اس رحمت کے نتیجہ میں اولاد کے ساتھ بہت ہی حکمت کے ساتھ برتاؤ کیا گیا تا کہ ان کے اخلاق بگڑیں نہیں بلکہ سنورتے چلے جائیں اور اس رنگ میں ان کی تربیت کی گئی اور رحم کے نتیجے میں تربیت کی طرف زیادہ توجہ دی گئی تو ایسے لوگوں کی اولادیں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس احسان کو یادر کھتے ہوئے فطری طور پر اپنے والدین کے لئے آخر وقت تک نرم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 380 خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۹۱ء رہتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کے تعلق کٹ نہیں سکتے.ایسی سوسائٹی میں کوئی Generation Gap پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ Generation Gap ایک بہت خطرناک اصطلاح ہے اور آج کی ترقی یافتہ دنیا کی ایجاد ہے ور نہ قدیم سوسائیٹیوں میں آج تک Generation Gap کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا.یہ ایک تعلیم اور ترقی کی نشانی نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نے جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے کہ ایک Generation اپنی چھوٹی Generation کے ساتھ محبت کا تعلق چھوڑ دیتی ہے اور تربیت سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ نسل جب بڑی ہوتی ہے اپنی پہلی نسل سے بہت دور ہٹ چکی ہوتی ہے ان کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ فاصلے پھر نسلاً بعد نسل بڑھتے چلے جاتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ کم ہونے لگیں.اس لئے یہ دعا جو سکھائی گئی اس کا پس منظر بھی خوب کھول کر بیان فرما دیا گیا اور اس کا جو بیچ کا حصہ ہے وہ ہے وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الدُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ (بنی اسرائیل : ۲۵) کہ اے بچو ! تم اپنے والدین کے لئے اس طرح نرمی کے پر پھیلا دو جیسے پرندے اپنے چوزوں کے اوپر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں.یہاں پر کا استعمال اس لئے کیا گیا تاکہ پرندوں کا اپنے بچوں کے ساتھ سلوک ایک تصویر کی صورت میں ہماری نظروں کے سامنے ابھر آئے اور فرمایا کہ اس طرح اپنے والدین کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک کرو جس طرح پرندے اپنے بچوں کو پالتے ہیں، ان کی نگہداشت کرتے ہیں جو کلیۂ ان کے محتاج ہوتے ہیں.یہاں دراصل انسانوں سے ہٹ کر پرندوں کی مثال دی گئی ہے.جناح کا لفظ محاورہ ہے ضروری نہیں کہ پر کے لئے استعمال ہو.ایک صفت کے بیان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.لیکن کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پرندوں کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے کیونکہ پرندوں کے پر ہوتے ہیں اور پرندے اپنے بچوں کی بعض دفعہ اس طرح لمبے عرصے تک تربیت کرتے ہیں کہ نہ وہ بچے دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں ، نہ کھا سکتے ہیں.ان کی چونچوں کو ٹھونگے مار مار کے وہ خوراک کے لئے کھلواتے ہیں اور جب تک وہ اس لائق نہیں ہو جاتے کہ خود آزاد زندگی بسر کر سکیں.اس وقت تک پرندوں کے والدین مسلسل محنت کرتے چلے جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 381 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء پھر اس میں ایک اور بھی حکمت ہے کہ دونوں پرندے اپنے بچوں کے لئے محنت کرتے ہیں اور صرف ماں پر نہیں چھوڑا جاتا.اور قرآن کریم نے جو ہمیں دعا سکھائی اس میں بھی اس مضمون کو کھول دیا گیا ہے.آج کل کے جدید معاشروں میں ایک یہ بھی خرابی ہے اور ہمارے قدیم معاشروں میں بھی یہ خرابی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تیسری دنیا کے ممالک میں یہ خرابی ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ماں کا کام ہے تربیت کرے اور والد اس میں دخل نہیں دیتے.والد ساتھ مل کر محنت نہیں کرتے اور ماں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جس طرح چاہے ان کو پالے، ان کا خیال رکھے نہ رکھے والد تو صرف کمانے میں مصروف رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم نے تو اپنا فرض ادا کر دیا.قرآن کریم نے جو دعا سکھائی اس میں یہ بتایا رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَ بَّيْنِي صَغِيرًا کہ اے میرے اللہ ان دونوں پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے رحم کے ساتھ میری تربیت کی.یعنی ماں اور باپ دونوں اولاد کے لئے محنت کرنے میں برابر کے شریک ہونے چاہئیں اور دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں مگر ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ رحم کے نتیجے میں اور شفقت کے نتیجے میں پس اس دعا کو اب دوبارہ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ وہاں پرندوں کی ہی مثال دی گئی ہے کیونکہ جانوروں کی دنیا میں سب سے زیادہ مل کر اولاد کی خدمت کرنے میں پرندے ہیں.ان کے مقابل پر کسی اور جانور کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی.جس طرح پرندے دونوں مسلسل محنت کرتے ہیں اپنی اولاد کے لئے اس طرح دوسرے جانوروں میں اتنی مکمل مشترکہ محنت کی مثال نہیں ملتی.گھونسلہ بنانے میں بھی وہ اسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں ، خوراک مہیا کرنے میں بھی اسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات آدھا وقت Male یعنی نر پرندہ بیٹھتا ہے اور آدھا وقت انڈوں پر مادہ پرندہ بیٹھتی ہے اور پھر جہاں تک خوراک مہیا کرنے کا تعلق ہے اس میں بھی دونوں محنت کرتے ہیں مگرنز پرندے کو بعض دفعہ زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے خوراک مہیا کرنے میں.تو فرمایا یہ بھی ہمیں اس دعا سے حکمت سمجھ آگئی کہ صحیح تربیت کرنے میں ماں کے علاوہ باپ کو برابر کا شریک رہنا چاہئے اور جہاں ماں اور باپ مل کر اولاد سے حسن سلوک کر رہے ہوں وہاں طلاقیں شاذ کے طور پر واقع ہوں گی.وہ گھر نہیں ٹوٹا کرتے اکثر وہی گھر ٹوٹتے ہیں جہاں اولا د کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 382 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء تربیت میں دونوں میں سے کسی ایک کا زیادہ دخل ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات اس حد تک خراب ہوتے ہیں کہ دونوں بیک وقت اپنی اولاد کی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے.اسی وجہ سے ایسی اولادیں پھر بڑی ہو کر زیادہ خراب ہو جایا کرتی ہیں.بعض دفعہ وہ ماں کی سائڈ لیتی ہیں کیونکہ ماں نے تربیت اور پیار میں زیادہ حصہ لیا.بعض دفعہ باپ کے ساتھ تعلق قائم رکھتی ہیں اور ماں کے خلاف ہو جاتی ہیں کیونکہ جانتی ہیں کہ ماں نے تو ہماری ذمہ داریاں ادا نہیں کیں باپ قربانی کرتا رہا ہے تو اس طرح گھروں کے ٹوٹنے کے احتمالات بھی بڑھ جاتے ہیں.یہ صورت حال پھر بعض دفعہ ایسے خطرناک نتائج پر منتج ہو جاتی ہے جس کے آثار اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں کہ اولاد کو اپنے والدین سے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.یورپ کے بعض علاقوں میں پولیس کی تحقیق کے مطابق تمیں فیصد گھر ایسے ہیں جہاں بچے اپنے ماں باپ سے محفوظ نہیں ہیں یہاں تک کہ جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں.پس جہاں یہ صورت حال ہو وہاں یہ دعا کیسے کام کر سکتی ہے کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَ بَّيْنِي صَغِيرًا یہ ایک ایسے صالح معاشرے کی دعا ہے جہاں والدین نے اپنی اولاد سے محض عام سلوک نہیں کیا، ذمہ داریاں ہی ادا نہیں کیں بلکہ بے حد رحمت کا سلوک کیا اور ان کی تربیت شفقت سے کی کسی غصے کے ساتھ نہیں کی اور تربیت کے لئے رحمت ضروری ہے.یادرکھیں جہاں جلد بازی میں انسان غصے میں مبتلا ہو جاتا ہے اولادکو مارنے لگ جاتا ہے اس کو گالیاں دینے لگ جاتا ہے وہاں تربیت کا مضمون غائب ہو چکا ہوتا ہے وہاں نفسانی جوش کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے اور نفسانی جوش سے تربیت نہیں ہوا کرتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی لئے ایک صحابی پر بہت ہی خفگی کا اظہار فرمایا.جن کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ وہ اپنی اولا د سے سختی کرتے ہیں اور مار کے ان کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں.اتنی سختی کا اظہار فرمایا کہ بہت کم میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے صحابہ پر اس طرح ناراض ہوتے دیکھا ہے اور بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ تم دعا کیوں نہیں کرتے اس سے پتہ چلا کہ خدا کے پاک بندے جو سچا ایمان رکھتے ہیں وہ تمام کوششوں میں سب سے زیادہ اہمیت دعا کو دیتے ہیں.پس ربِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَ بَّيْنِي صَغِيرًا میں ایک یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آ گیا کہ وہ رستہ جس پر خدا کے انعام یافتہ لوگ چلا کرتے تھے ، وہ اپنی اولاد کیلئے صرف رحمت کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 383 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء سلوک نہیں کیا کرتے تھے، ان کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے اور ان کی دعائیں ان کے رحم کے نتیجہ میں ہوتی تھیں کیونکہ رحم کے نتیجے میں وہ خود بعض سختیاں اختیار نہیں کر سکتے تھے بعض جگہ وہ تجاوز نہیں کر سکتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں ہے کہ میں یہاں زبردستی اس کو ٹھیک کر دوں.اس کے نتیجہ میں ان کے دل میں درد پیدا ہوتا تھا اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوتی تھی.پس وہ لوگ جو منعم علیھم ہیں جن کو خدا نے اس راستہ پر کامیابی سے چلنے کی توفیق بخشی جو انعام یافتہ لوگوں کا رستہ تھا انہوں نے اپنی اولاد کے لئے دعائیں بھی بہت کیں.پس اس کے نتیجہ میں خدا نے بھی جب جواباً حسن سلوک سکھایا تو اس مضمون کو دعا پر ختم کیا.فرمایا وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اس میں دعا ئیں بھی شامل تھیں.گما کے لفظ نے بتادیا کہ دعائیں ضرور شامل تھیں اگر دعا ئیں شامل نہ ہوتیں تو خداد عا سکھاتا کیوں؟ پس اس مضمون کود عا پر ختم کرنا اس آیت کو بہت ہی زیادہ دلکشی عطا کرتا ہے بہت ہی حسین بنادیتا ہے کیسا کامل کلام ہے تربیت کے سارے امور بھی اس میں بیان ہو گئے.دونوں نسلوں کے تعلقات اس میں بیان ہو گئے وہ خطرات بیان ہو گئے جو ہمیں پیش آسکتے ہیں جن سے ہمیں متنبہ کیا گیا اور پھر یہ بتایا گیا کہ تربیت کا بہترین طریق دعا ہی ہے.پس جس طرح تمہارے والدین بچپن میں دعاؤں کے ذریعہ تم سے اپنی رحمت کا اظہار کرتے تھے تم بھی آخر پر خدا سے یہ دعا کیا کرنا اور اس دعا کو حسن سلوک کے بعد رکھا ہے دیکھیں ! وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ ان پر اپنی رحمت کے پر پھیلا دو ، ان کو اپنے پروں کے نیچے لے لو.ساری بات بظاہر مکمل ہوگئی پھر فرمایا نہیں مکمل ہوئی جب تک یہ دعا ساتھ نہیں کرو گے اس وقت تک تم حقیقت میں احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے نہیں دے سکو گے.پس اس دعا نے اس مضمون کو مکمل کیا.اس دعا کے وقت ان سب باتوں کو اگر ہم پیش نظر رکھیں تو اس دعا میں بہت گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور بہت عظمت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ دعا اگلوں کے لئے بھی مفید ہے اور گزرے ہوؤں کے لئے بھی مفید ہے اور ہر طرف برابر اثر دکھاتی ہے.تو حید باری تعالیٰ کے ساتھ اس مضمون کا بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ سوسائٹی میں وحدت توحید کے اعلیٰ قیام کے لئے ضروری ہے.اور سوسائٹی میں وحدت تبھی ممکن ہے اگر والدین کا اولاد
خطبات طاہر جلد ۱۰ 384 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء کے ساتھ اور اولاد کا والدین کے ساتھ گہرا اٹوٹ تعلق قائم ہو چکا ہو.اسی کے نتیجہ میں خاندان استوار ہوتے ہیں، اسی کے نتیجہ میں سوسائٹی میں یکجہتی پیدا ہوتی ہے جہاں خاندانی رشتے ٹوٹ جائیں جہاں والدین اپنی اولاد سے الگ ہونے شروع ہو جائیں وہاں سوسائٹی پارہ پارہ ہوکر بکھر جاتی ہے اور ایک بکھری ہوئی منتشر سوسائٹی تو حید پر قائم نہیں ہوا کرتی.پس وحدت کے ساتھ اس مضمون کا ایک اور بھی گہراتعلق ہے یعنی ایک تعلق تو یہ ہے کہ خدا کو اپنی توحید کے بعد سب سے زیادہ یہ چیز پیاری ہے کہ مومن احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینے والا ہو اور دوسرا تعلق یہ ہے کہ جو میں نے بیان کیا ہے.اب ایک اور دعا میں آپ کو بتاتا ہوں قرآن کریم میں سورۃ الکہف آیت ۱۱ میں یہ دعا بیان ہوئی ہے ربَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا اے ہمارے رب ہمیں اپنی جناب سے اپنے حضور سے رحمت عطا فر ما و هَى لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا اور ہمارے لئے اپنی جناب سے ہدایت اور رشد کے سامان پیدا فرمادے ہمیں ہدایت اور رشد عطا فرما.اس دعا کا بھی ایک پس منظر ہے یہ دعا ان اصحاب کہف کی دعا ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان پر جب دنیا تنگ ہوگئی جب سطح زمین پر بسنا ان کے لئے ممکن نہ رہا تو بجائے اس کے کہ وہ توحید سے تعلق توڑتے انہوں نے یہ زیادہ پسند کیا کہ سطح زمین پر بسنے کی بجائے غاروں میں اتر جائیں اور بنی نوع انسان سے چھپ کر اپنی زندگی بسر کریں تا کہ تو حید پر قائم رہ سکیں.پس اس دعا کا بھی تو حید کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا أُتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِ نَارَ شَدًا اور یاد کرو اس وقت کو کہ جب نوجوانوں کی ایک جماعت فرماتا ہے الْفِتْيَةُ سے مراد نوجوانوں کی جماعت ہے، غار میں داخل ہونے لگے ، غاروں کی طرف مائل ہو گئے اور یہ غاروں کی زندگی بسر کرتے ہوئے انہوں نے دعا کی کہ اے خدا ! دنیا سے تو ہمیں اب رحمت کی کوئی امید نہیں رہی رَبَّنَا أُتِنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةً مِیں مِن لَّدُنكَ پر بہت زور ہے.مِن لَّدُنكَ کا مطلب ہے کہ اب اپنی جناب سے تو نے جو کچھ دینا ہے عطا کرنا ہے اگر دنیا میں کوئی رحمت کا دودھ باقی ہوتا تو ہمیں کیا ضرورت تھی کہ انسانوں کی طرح سطح زمین پر بسنے کی بجائے ہم جانوروں کی طرح غاروں میں اتر جاتے.یہ عیسائیت کی پہلی صدی اور پھر دوسری اور تیسری صدی کے ان موحدین کا ذکر ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 385 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء جنہوں نے توحید کی خاطر عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اور یہ قربانیاں ان کو رومن حکومت کے مظالم کے مقابل پر بھی دینی پڑیں اور بعض عیسائی متعصب فرقوں کے مقابل پر بھی دینی پڑیں جو رفتہ رفتہ توحید سے تثلیث کی طرف گمراہ ہو چکے تھے.پس ان کا یہ ذکر تاریخی لحاظ سے ہراس قوم کے لئے اہمیت رکھتا ہے جس کو خدا کی راہ میں تکلیفیں پہنچائی جائیں گی اور بڑی بڑی آزمائشوں میں ڈالا جائے گا.اس سے پہلے میں نے حضرت یوسف کی ایک دعا آپ کے سامنے رکھی تھی اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بہت ہی حسین قصہ ہے کہ یوسف نے یہ دعا کی کہ اے خدا ! یہ عورتیں جن لذتوں کی طرف مجھے بلاتی ہیں رب الجُنُ أَحَبُّ اِلَى مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ (یوسف:۳۴) میرے اللہ مجھے قید خانہ زیادہ پیارا ہے بجائے اس کے کہ میں ان کی دعوت کے نتیجہ میں دنیاوی لذتوں کو اختیار کرلوں اور تیری رضا کو تج کر دوں.یہ اس سے ملتی جلتی دعا ہے.عیسائی قوم نے بھی آغاز میں خدا کی خاطر بہت ہی عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اور ان کی قربانیوں کی یا دزندہ رکھنے کے لئے قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے دنیا کی سطح کے مقابل پر غاروں میں بسنا پسند کر لیا.تہذیب کو چھوڑ کر پرانے زمانوں کی طرف لوٹ گئے جبکہ انسان ابھی متمدن نہیں ہوا تھا اور یہ عرض کیا اے خدا! اب ہمیں دنیا والوں سے رحمت کی کوئی امید نہیں رہی.اتنا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً اب تیرے سوا کوئی عطا کرنے والا نہیں ہے تو اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرم، وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا اور محض اپنے فضل اور رحمت کے نتیجہ میں ہمیں ہدایت پر قائم رکھنا کیونکہ ہدایت کی خاطر ہم یہ قربانی دے رہے ہیں اگر غاروں میں بسنے کے باوجود ہم ہدایت سے خالی ہو گئے یا دوبارہ گمراہ ہو گئے تو ہماری یہ قربانیاں ضائع جائیں گی.جماعت احمدیہ کے حالات پر یہ دعا بہت صادق آتی ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ پہلے مسیح کے ماننے والوں کی قربانیوں کو یا درکھتے ہوئے اب اپنے لئے وہی تر جیحات قائم رکھیں جو پہلے مسیح کے ماننے والوں نے اپنے لئے قائم رکھی تھیں کہ دنیا کی خاطر ہدایت کو قربان نہیں ہونے دیں گے اور مظالم سے گھبرا کر وہ ہدایت کی راہ نہیں چھوڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اگر تمام انسانی حقوق سے محروم بھی کر دئیے جائیں گے تب بھی وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اس زندگی کو خوشی کے ساتھ قبول کرلیں گے اس لئے مجھے اس کا خیال آیا کہ بعض دفعہ پاکستان میں تکلیفیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 386 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء اٹھانے والے بعض احمدی مجھے شکایت کے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہماری ترقیات رک گئیں.بچے لکھ دیتے ہیں کہ تعلیم کے معاملے میں ہم سے برا سلوک ہو رہا ہے.ہمارے حقوق ادا نہیں کئے جار ہے اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو مسیح محمدی کو ماننے والے ہیں اور مسیح موسوی کی قوم نے کتنی عظیم الشان قربانیان دی تھیں اور کتنے ثبات قدم کے ساتھ ان قربانیوں پر قائم رہے تھے اور کچھ بھی پرواہ نہیں کی تھی کہ ان کو انسانی حقوق سے کس حد تک محروم کیا جاتا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے اس حد تک محروم کر دیا گیا کہ سطح زمین پر بسنا ان کے لئے ممکن نہیں رہا، انسانوں والی زندگی بسر کرنا ان کیلئے ممکن نہیں رہا.پس اگر مسیح موسوی کے غلاموں نے ایسا عظیم الشان قربانی کا مظاہرہ کیا تو محمد مصطفی میے کے مسیح کی طرف منسوب ہو کر یہ ادنی چھوٹی چھوٹی باتیں اس جماعت کو زیب نہیں دیتیں.دشمن جو چاہتا ہے کر گزرے جب تک چاہتا ہے اپنے مظالم پر اصرار کرتا چلا جائے مگر یہ دعامانگتے ہوئے اگر جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ سے صبر مانگے گی اور رحم مانگے گی تو انشاء اللہ ان کے حوصلے کبھی ناکام نہیں ہوں گے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ ان کے حوصلوں کے سر بلند رکھے گا.اب ایک دعا حضرت زکریا کی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اولاد کی تمنا میں کی گئی ہے مگر کس قسم کی اولاد کی تمنا ہے کیوں ایسی تمنا کی گئی تھی ، اس کا پس منظر میں پہلے حضرت زکریا کی ایک دعا میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں یہ دعا اپنی ایک الگ شان رکھتی ہے بڑا گہرا اس میں درد ہے اور بہت ہی زیادہ خدا تعالیٰ سے وفا کا اظہار ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں استقلال کا اظہار ہے میخص اس سے یہ آیت شروع ہوتی ہے سورہ مریم کی یہ پہلی آیت ہے گھیعص (مریم:۲) ایہ وہ حروف ہیں جو حروف مقطعات کہلاتے ہیں اور ان میں خدا تعالیٰ کی بعض صفات بیان کی گئی ہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّان ( مریم :).اے محمد ہے اب ہم اپنے ایک خاص بندے زکریا کے ساتھ تیرے رب کی رحمت کا ذکر کرنے لگے ہیں.جب کوئی خاص اہم بات ہو تو تمہیدا اس سے پہلے متوجہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو دیکھو اب بہت عظیم الشان ذکر ہونے والا ہے، تو اس طرح قرآن کریم نے اس مضمون کا عنوان باندھا ہے پہلے اپنی وہ صفات بیان فرمائیں جن کے متعلق آنحضرت ﷺ کی تشریح فتح البیان میں یہ مذکور ہے کہ ام ہانی صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۰ 387 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء 66 سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ک سے مراد کاف ہے یعنی خدا اپنے بندے کے لئے کافی ہے الیس الله بکاف عبدہ میں یہی لفظ کاف پایا جاتا ہے کیا خدا اپنے بندے کیلئے کافی نہیں جس کی انگوٹھیاں احمدی اکثر پہنے پھرتے ہیں.تو پہلی بات تو کی ہے پھر خدا سے مایوس ہونے کا کیا سوال.کیا وہ اپنے کیلئے کافی نہیں پھر ”ھ“ سے مرادھاد ہے یعنی ہدایت دینے والا وہی ہے جو اپنے بندے کو ہدایت پر قائم رکھے تو رکھے ورنہ انسان اپنی طاقت سے ہدایت پر قائم رہ نہیں سکتا.”ی“ کا لفظ مخاطب کا ہے کہ اے خدا جو کافی ہے اور ھادی ہے اور ”ع“ سے مراد عالم یا علیم اور ص “ سے مراد صادق ہے.عالم ان معنوں میں یعنی اس لئے اس موقع پر اس کا استعمال ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کسی کے لئے کوئی اولا دمفید ہے یا نہیں ہے.کیوں اولا دعطا فرماتا ہے؟ کیوں نہیں اولا د عطا فرما تا اور صادق ان معنوں میں کہ اگر وہ وعدہ کر لے تو ضرور پورا ہوتا ہے.خواہ بظاہر اولاد کے پیدا ہونے کا کوئی امکان بھی باقی نہ ہو.پس ان صفات الہی کے ذکر کے بعد فرمایا اب ہم تجھ سے اپنے ایک بہت ہی پیارے بندے زکریا کے ساتھ اپنے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہیں.اِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاء خَفِيًّا اس نے ہلکی ہلکی آواز میں جس طرح ایک آدمی کراہتا ہے اور گلے اور منہ سے درد ناک سی آواز میں نکلتی ہیں گو بظاہر دوسرے آدمی کو وہ پوری طرح سمجھ بھی نہیں آتیں لیکن یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ بہت ہی کوئی دردناک بات ہورہی ہے تو اس حالت میں حضرت زکریا نے اپنے رب سے ایک دعا مانگی.وہ یہ تھی قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظمُ مِنْيَ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَ لَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم: ۵) اے میرے اللہ ! میری ہڈیاں نرم پڑ چکی ہیں اور بڑھاپا میرے سر پر غالب آگیا ہے اور اس طرح وہ بھڑک اٹھا ہے جس طرح آگ روشن ہو جاتی ہے.اس طرح سفیدی سے میرا سر روشن ہو گیا ہے وَلَمْ اَكُنُ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا اے اللہ میری وفا کو دیکھ کہ اب تک میں اپنی دعا سے جو میں تیرے حضور کر رہا ہوں مایوس نہیں ہوا کتنی عظیم الشان دعا ہے ایک بوڑھا آدمی جس کی ہڈیاں گل گئی ہوں، جس میں پوری طرح کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی ہو، اس کے بال سفید ہو چکے ہوں اور صرف یہی نہیں بلکہ یہیں آگے جا کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وانی خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَاءِى وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 388 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء لدُنكَ وَلِيًّا ( مريم : 4) اے خدا! صرف میں ہی کمزور نہیں ہوں.میری بیوی بھی بانجھ ہے.اس میں بھی بچہ دینے کی کوئی جان نہیں ہے.کتنا عظیم تو کل ہے کہ اس کی کوئی مثال دنیا میں کہیں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.ایسی ایسی عظیم دعا ئیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے لئے محفوظ کی ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا مانگنے کے لئے تو موجیں ہوگئی ہیں جتنا مشکل رستہ ہے اتناہی آسان ہو جاتا ہے.جب ہم انعام پانے والوں کی دعاؤں کا ذکر قرآن کریم میں پڑھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ رستے آسان ہوئے کیسے تھے؟ تو اب سنئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس بندے نے مجھ سے یہ دعا کی.میری ہڈیاں نرم پڑ چکی ہیں.میرا سر سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے وَلَمْ أكُن بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم: ۵) اے اللہ آج تک میں تجھ سے، تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوا.وَانّى خِفْتُ الْمَوَانِيَ مِنْ وَرَاءِنی میں اپنے بعد اپنے شریکے سے ڈر رہا ہوں کہ وہ پتہ نہیں ہم لوگوں سے کیا سلوک کریں گے وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا اور میری بیوی بانجھ ہے اس کا کوئی بچہ نہیں جو اس کی نگہداشت کر سکے.اس کے لئے کھڑا ہو سکے ، اس کی حمایت کر سکے.یہ تنہا اس دنیا میں رہ جائے گی فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا مجھے اپنی جناب سے کوئی ولی کوئی دوست عطا فرما اور ولی کی دعانے اس کی نیکی کی دعا بھی ساتھ ہی مانگ لی کیونکہ بد اولا د نیک لوگوں کی ولی نہیں ہوا کرتی.کیسی فصاحت و بلاغت ہے.حضرت ذکریا کی دعا؟ واقعی یہ تو کہتے ہیں سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہے مگر سنہری حرف کیا چیز ہیں جس دعا کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں محفوظ کر لیا اس سے زیادہ روشن اور کوئی چیز کوئی روشنائی اس کو ہمیشہ کے لئے قائم نہیں رکھ سکتی پھر کہا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ (مریم: ) کہ میں ایسی اولا دچاہتا ہوں جو میرا اور آل یعقوب کا ورثہ پائے اور یہ ورثہ نیکیوں کا ورثہ تھا کوئی دنیاوی دولتوں کا ورثہ نہیں تھا وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا اور ایسا اس کو بنا جس سے تو راضی ہو جائے.اب جیسا کہ یہ دعا ہے ظاہر ہے کہ یہ دعا یوں لگتا ہے کہ نا مقبول ہو ہی نہیں سکتی.جس طرح اس کا مضمون اٹھایا گیا ہے جس طرح اس کا آغاز کیا گیا ہے.پڑھتے پڑھتے انسان کا دل یقین میں ڈوب جاتا ہے، یہ انسان کا دل بے اختیار گواہی دینے لگتا ہے کہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس دعا کو نا منظور فرما دے.چنانچہ اس کے معا بعد یہ نہیں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا سن لی، بلکہ بے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 389 خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۹۱ء ساختہ جواب دیا ہے کہ يُزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلِمٍ (مریم:۸) اے میرے بندے ذکر یا ہم تجھے ایک غلام کی خوشخبری دے رہے ہیں اسمہ یحیی اس کا نام یہی ہوگا لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا اس نام کی کوئی مثال اس سے پہلے دکھائی نہیں دیتی.دنیا میں کبھی کسی نے اپنے بیٹے کا یہ نام نہیں رکھا جو آج ہم تمہیں دے رہے ہیں.پس یہ ایک غیر معمولی بیٹا ہوگا اور بے مثال جیسا کہ خود ہوگا ویسا ہی اس کا نام ہوگا.اسمہ یحیی اور اس کا نام يَحْيى ہے اب يَحْيى نام کا تو مطلب ہے زندہ رہنے والا.تحيا نام کیوں رکھا گیا حقیقت یہ ہے کہ اس میں ان کی شہادت کی بھی خوشخبری تھی.حضرت سیجی شہید ہوئے ہیں اور شہداء کے متعلق اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ وہ زندہ ہیں اور لفظ حی ان پر اطلاق پاتا ہے تم ان کو بے وقوفی سے مردہ سمجھ رہے ہو لیکن وہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے بعض حکمتوں کے پیش نظر حضرت زکریا کو جو اولاد سے محروم رکھا تھا ان حکمتوں کے پیش نظر ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی اولاد سے محروم رکھا گیا اور ان حکمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ یہ سلسلہ آگے نہ چلے کیونکہ یہ سلسلہ تبدیل ہونے والا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان حکمتوں کو تو تبدیل نہیں فرمایا لیکن دعا کو پھر بھی قبول فرمالیا اور حضرت سجی کے متعلق فرمایا کہ وہ زندہ رہے گا.یہاں زندگی کی یہ خوشخبری ہے کہ جب تک تو رہے گا تو اسے زندہ دیکھے گا جب تک تیری بیوی زندہ رہے گی وہ اس کو زندہ دیکھے گی اور تم دونوں کو اس بچے کی طرف سے کوئی دکھ نہیں پہنچے گا.تم دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی.بعد میں ہم اسے وہ ہمیشگی کی زندگی عطا کریں گے جو شہادت کے ذریعہ عطا ہوتی ہے.پس دعاؤں پر اگر آپ غور کریں جو قرآن کریم میں محفوظ کی گئی ہیں تو عظیم الشان حکمتوں کے سمندر ہیں جو کوزوں میں بند کئے گئے ہیں اور دعائیں قبول کیوں ہوتی ہیں؟ اور کس وجہ سے ہوتی ہیں؟ وہ تمام باتیں وہ مصلحتیں بھی ان دعاؤں کے اندر مضمر ہیں ، بظاہر نظر سے چھپی ہوئی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو سمجھ آسکتی ہے.پس وہ والدین جو اپنے لئے ایسی اولاد کی دعا کرتے ہیں کہ جو محض ایک طبعی تقاضے کی دعا ہوا کرتا ہے کہ ہمیں بیٹا دے، ہمیں بیٹا دے، ہمیں بیٹا دے.کیوں دے؟ اس سے کوئی بحث ان کو نہیں ہوتی.نیک ہو یا بد ہو.اس سے ان کو کوئی بحث نہیں ہوتی وہ تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 390 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء اپنے طبعی تقاضے کی وجہ سے بس اس تمنا میں مررہے ہوتے ہیں کہ ہم بے اولا دمرے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کی دعائیں ہمارے لئے محفوظ رکھی ہیں.جن بزرگ خواتین کی دعائیں ہمارے لئے محفوظ فرما ئیں وہاں ہمیشہ ایسی اولاد کی تمنا کی گئی ہے جو نیک ہو، جو خدا اوالی ہو، جو بزرگوں کے ولی بننے کی اہلیت رکھتی ہو، اور جو اپنے بزرگ والدین کی نیکیاں ورثے میں پانے والی ہو.پس احمدیوں کو بھی جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اس جذبہ کے پیش نظر اسی سنت کے مطابق دعائیں کرنی چاہئیں، اور ہمیشہ نیک اولاد کی دعا کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس کے سوا اولاد کی جو دعائیں ہیں سب مردود اور دنیا کے قصے ہیں ان کی کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اب ایک دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیان کر کے پھر میں سر دست اس مضمون کو یہاں ختم کروں گا، کیونکہ آج خدام کا اجتماع ہے اور ، اور بھی یہاں بہت سے پروگرام ہونے والے ہیں.باقی مضمون انشاء اللہ بعد میں جاری رہے گا.حضرت موسیٰ کی یہ دعا قرآن کریم میں مذکور ہے.قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى (طہ: ۲۶) اے میرے اللہ میرا سینہ کھول دے.اے میرے رب میرا سینہ کھول دے.وَيَسر لی امری (طہ:۲۷) اور جو فریضہ تو نے مجھ پر عائد فرمایا ہے اسے آسان کر دے.داعیین الی اللہ جو خدا تعالیٰ کی راہ کی طرف بلانے کیلئے نکلتے ہیں ان کیلئے یہ دعا ایک نعمت غیر مترقبہ ہے.ایک عظیم الشان نعمت ہے.اس دعا کو ذہن میں رکھ کر اور اسی طرح یہ دعا کرتے ہوئے جس روح اور جذبے کے ساتھ حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی تھی، اگر کوئی داعی الی اللہ وقت کے بڑے بڑے جابر کو بھی دعوت دینے کیلئے نکلےگا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کو شرح صدر عطا ہوگا.اس کی زبان کھول دی جائے گی اس کی مشکلات آسان کی جائیں گی اور اس جابر کے خوف سے اس کو بچایا جائے گا.وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (ط:۲۸) کہ مجھے سے تو صحیح گفتگو نہیں ہوتی.میں تو تتلاتا ہوں اور اٹک کر بولتا ہوں اور وقت کے ، اس زمانے کے سب سے بڑے جابر کے پاس تیرا پیغام لے کر جارہا ہوں تو تو ہی ہے جو میری زبان کی گرہ کشائی فرما اور اس گرہ کو کھول دے يَفْقَهُوا قَوْلِي (طہ: ۲۹ ) اور ایسی فصاحت کلام عطا کر کہ جو میں کہوں اس کو خوب اچھی طرح وہ لوگ سمجھنے لگیں.صرف میں بات ہی نہ کرنے والا ہوں بلکہ وہ بات ذہنوں سے دلوں تک اتر جانے والی ہو اور وہ خوب اچھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 391 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء طرح سمجھ رہے ہوں.پھر عرض کیا وَ اجْعَلْ لِي وَزِيْرًا مِنْ أَهْلِی (طه:۳۰) لیکن میرے اہل میں سے ایک وزیر بھی میرا مقرر فرمادے.طرُونَ آخی (طہ : ۳۱) یہ میرا بھائی ہارون ہے میں اس کی تجھ سے التجا کرتا ہوں اسدُدُ بِ ازْرِی (طہ:۳۲) اس کے ذریعہ میرا باز ومیری طاقت کو مضبوط فرما وَ اَشْرِكْهُ فِی اَمرِنی (طہ:۳۳) اور میرے ساتھ جو تو نے نیکی کا معاملہ کیا ہے اس میں اس کو بھی شریک کر دے.پس دنیا میں تو انسان شریک نہیں چاہتا لیکن نیکیوں میں شریک چاہنے کی دعا ہمیں بتائی گئی ہے کہ یہ ایک ایسی دولت نہیں ہے جس کو تم اپنے تک محدود رکھو اور دوسروں تک پہنچانے سے بخل سے کام لو.اس میں خدا تعالیٰ سے خود شریک مانگا کرو.كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا ( ط :۳۴) اے خدا یہ اس لئے ہو کہ ہم سب مل کر پھر تیری خوب تسبیح کریں.وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا (ط:۳۵) اور خوب تیرا ذ کر بلند کریں.اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا (طہ:۳۶) اے خدا تو ہمیں دیکھ رہا ہے.اس دعا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو وزیر مانگا اس کی دلیل یہ دی کہ میں بول نہیں سکتا.اگر چہ یہ دعا بھی ساتھ کی کہ اے خدا میری زبان کی گرہ کھول دے، مجھے بولنے کی طاقت عطا فرما اور صحیح بولنے کی طاقت عطا فرما میرا پیغام مخاطب خوب اچھی طرح سمجھ سکے اس کے باوجود اپنا ایک وزیر مانگا کیونکہ دل میں پوری طرح اطمینان نہیں تھا کہ میں اس حق کو ادا کر سکوں گا کہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے دونوں دعائیں قبول کر لیں.وزیر تو بنا دیا لیکن اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضرورت اس کی کوئی نہیں اور بڑا دلچسپ مضمون پیدا ہوا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے حکم دیا تو موسیٰ کی دعا کے نتیجہ میں دونوں کو حکم دیا.کہا : اِذْهَبَا إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (طہ:۴۴) اے موسیٰ اور اے موسیٰ کے بھائی ! تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ اس نے بہت ہی سرکشی سے کام لیا ہے فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّينا (طہ: ۴۵) اور تم دونوں اس سے بات کرتے ہوئے نرمی کی بات کرنا کیونکہ وہ دنیا کا ایک بہت بڑا انسان ہے اور سخت کلامی سے وہ بات سمجھ نہیں سکے گا.یہاں قول لین کہنے کی کیا ضرورت تھی حقیقت میں یہ حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا تھا يَفْقَهُوا قَوْلِی اے خدا! ایسی بات کہنے کی توفیق عطا فرما کہ وہ سمجھ جائیں پس قول لین کسی فرعون کے رعب کی وجہ سے نہیں ہے، اس کے خوف کی وجہ نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا یہ راز کھولا جارہا ہے کہ جب تم بڑے آدمیوں سے بات کرو تو اگر تم اکثر کر بات کرو گے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 392 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء اور یہ سمجھتے ہوئے کہ تم خدا کے نمائندہ ہو تمہیں نرمی کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو بات تو تم کرلو کے، اللہ تمہیں بچا بھی سکتا ہے لیکن پھر وہ بات سمجھیں گے نہیں.ایسے دنیا دارلوگ جو دنیا کی بڑائیوں کے نتیجہ میں اپنے آپ کو بہت اونچا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ نرم بات سننے کے عادی ہوتے ہیں ،نرمی کی بات ان پر اثر کر سکتی ہے بخت بات اور اونچی بات سے وہ اور زیادہ بھڑک اٹھتے ہیں اور بدک جاتے ہیں.پس قولا لينا کی یہ نصیحت دراصل يَفْقَهُوا قَوْنِی کی دعا کی استجابت کا ایک نشان ہے اسی کے نتیجہ میں یہ ہدایت فرمائی گئی ہے.لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشُی اس طرح ایک صورت پیدا ہوسکتی ہے کہ شاید وہ نصیحت پکڑے یا شاید خدا کا خوف اختیار کرے تو جب یہ دونوں پہنچے.دیکھیں یہاں ہر جگہ دونوں کو حکم دیا گیا ہے تثنیہ کے صیغے سے.فرعون دونوں کی طرف متوجہ نہیں ہوا.موسیٰ سے مخاطب ہو کر اس نے کہا قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا مُوسٰی اے موسیٰ تو بتا کہ تم دونوں کا رب کون ہے؟ فرعون بھی سمجھ گیا تھا کہ ہیں دونوں ہی نمائندہ.مگر بڑا نمائندہ یہ ہے اسلئے میں اسی کو مخاطب ہوں گا اس کے بعد ساری گفتگو حضرت موسی نے کی ہے.حضرت ہارون ایک لفظ نہیں بولے.قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدی موسیٰ نے جواب دیا دونوں نے جواب نہیں دیا.قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلِّ شَيْ خَلْقَهُ وہی ہمارا رب ہے جس نے ہر چیز کو خلقت عطا فرمائی.ثُمَّ هَدی پھر اسے ہدایت کے رستہ پر ڈال دیا پس دیکھیں کس لطافت اور باریکی کے ساتھ دعا قبول ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ موسیٰ کو طاقت عطا کی جائے گی اسے کسی وزیر کی ضرورت نہیں ہوگی مگر چونکہ اپنے اس عاجز بندے سے خدا کو بہت پیار تھا اور اس نے نیکی میں ایک شریک مانگا تھا اس لئے خدا نے وہ دعا بھی قبول کر لی اور وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي والى دعا بھی قبول کر لی شرح صدر بھی عطا فرما دیا اور سارے قرآن کریم میں جہاں بھی فرعون کے ساتھ مکالمے کا ذکر ہے وہاں ہر جگہ آپ صرف حضرت موسیٰ کو بات کرتے ہوئے سنیں گے اور کہیں بھی حضرت ہارون کا کوئی ذکر فرعون سے گفتگو کرنے میں موجود نہیں ہے.پس دامین الی اللہ کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے لئے مددگار مائیں اپنے بھائیوں کو اپنا شریک بنائیں ان روحانی نعمتوں میں ان کو اپنا ساتھی بنائیں جو وہ خدا تعالیٰ سے پاتے ہیں اس میں کنجوسی نہ کریں لیکن دعا یہ کریں کہ اللہ تعالی انہیں خود کفیل بنادے اور وہ اس لائق ٹھہریں کہ ان کی باتیں ہر مخاطب غور اور تدبر سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 393 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء سے ذکر الہی کا اس کے دل پر اثر پڑے.خدا کا خوف کرے اور بات کو سمجھنے لگے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.آئندہ جمعہ میں انشاء اللہ یہ مضمون جاری رہے گا.لیکن خطبہ ختم کرنے سے پہلے میں ایک اور دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں جاپان کی جماعت ماشاء اللہ باوجود بہت چھوٹی جماعت ہونے کے اور مالی لحاظ سے درمیانے درجہ کے ہونے کے باوجود قربانیوں میں بہت نمایاں ہو چکی ہے.ایک تو یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کی استطاعت بڑھائے اور استقامت عطا فرمائے اور یہ وقتی قربانیاں نہ ہوں بلکہ دن بدن آگے بڑھنے والی ہوں اور جس طرح وہ قربانیاں کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ان کی استطاعت بڑھاتا چلا جائے خصوصیت کے ساتھ اس لئے یہ توجہ پیدا ہوئی کہ جب میں جاپان گیا تو وہاں ہمارے دومشن ہیں لیکن با قاعدہ مسجد نہیں ہے اور مسجد کے لئے زمین خریدنا ہی بہت مشکل کام ہے.ایک تو جگہ نہیں ملتی آسانی سے.دوسرے بہت مہنگی زمینیں ہیں اور جماعت چھوٹی سی ہے اس میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اتنی بڑی جگہ خرید سکے.چنانچہ ابھی آنے سے پہلے مجھے جماعت جاپان کی مجلس شوری کے فیصلے پہنچے ہیں ان میں انہوں نے بڑی ہمت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم خالصتاً اپنی طاقت سے کام لیتے ہوئے خود کفیل ہوتے ہوئے آئندہ تین سال کے اندر جاپان میں پہلی احمد یہ مسجد بنائیں گے اور پہلے سال کے لئے انہوں نے تین لاکھ پاؤنڈز کا وعدہ کیا ہے، اگلے سال کے لئے تین لاکھ پاؤنڈ ز کا.اس سے اگلے سال تین لاکھ پاؤنڈ ز کا اور جو حساب کیا گیا ہے اس کی رو سے فی احمدی دوسو پاؤنڈز مہینہ بنتا ہے اور آپ میں سے جن لوگوں نے سوسائیٹی وغیرہ سے مکان خریدے ہوئے ہیں، وہ سالانہ پانچ سو، چھ سو پاؤنڈ ز کچھ سود میں ، کچھ قیمت میں ادا کرتے ہیں.ان کو پتا ہے کتنا مشکل کام ہے لیکن چونکہ ذاتی گھر ہے اس لئے لوگ بڑی بڑی دقتیں برداشت کرتے ہیں اور سخت حالات میں بھی وہ قسطیں ادا کرتے چلے جاتے ہیں جاپان کی چھوٹی سی جماعت نے یہ عجیب مثال قائم کی ہے کہ خدا کے گھر کے لئے ساری جماعت نے اوسطاً دوسو پاؤنڈز مہینہ کے چندہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ جس طرح بھی ہو ہم انشاء اللہ آئندہ تین سال میں پہلی با قاعدہ مسجد جاپان میں بنا کر چھوڑیں گے.تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو اس عزم کو پورا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.ان کی استطاعت بڑھائے.ان کے حوصلے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 394 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۹۱ء بلند رکھے ان کو اپنی نیکیوں پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق بخشے اور جتنا وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ غیب سے ان کو عطا کرتا چلا جائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 395 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء حضرت ایوب، حضرت یونس علیہم السلام کی دعائیں اور ان دعاؤں کی قبولیت کے راز ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ارمئی ۱۹۹۱ء بمقام ناصر باغ ( گروسن گیراؤ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا خطبہ میں ناصر باغ فرینکفرٹ جرمنی سے دے رہا ہوں جہان مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لئے آیا ہوں چونکہ یہ خطبہ براہ راست مختلف ممالک میں سنا جانے لگا ہے اس لئے ان کی اطلاع کی خاطر یہ وضاحت کر رہا ہوں، اس وقت ٹوکیو ،سویڈن، ناروے، ماریشس اور یو کے کے علاوہ جرمنی میں بھی دو اور جگہوں پر یہ خطبہ سنا جا رہا ہے.U.K کی مجالس یا جماعتیں جواب خطبہ سنتی ہیں ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.اس وقت سات U.K کے ایسے شہر ہیں جہاں براہ راست اس خطبہ کی آواز پہنچ رہی ہے.پیشر اس کے کہ سلسلہ مضمون جاری رکھتے ہوئے قرآن کریم کی دعاؤں کا ذکر کروں ایک اعلان اس اجتماع کی نسبت سے میں آپ کے سامنے کرنا چاہتا ہوں.مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جرمنی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی ضروریات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ان کو ایک ایوان خدمت کی تعمیر کی ضرورت ہے اس غرض سے انہوں نے اجازت بھی چاہی اور ایک سرسری سا منصوبہ بھی سامنے رکھا.اصولاً اس کی میں نے منظوری دیدی ہے اور امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تین سال تک وہ ایوان خدمت تیار ہو جائے گا لیکن سب سے پہلا مرحلہ اس کے لئے مناسب زمین کی تلاش
خطبات طاہر جلد ۱۰ 396 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء ہے.جہاں تک چندوں کا تعلق ہے اس سلسلہ میں مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو اس شرط کے ساتھ چندہ اکٹھا کرنے کی منظوری دی ہے کہ کسی خادم کو اس چندہ کے نتیجے میں یہ عذر نہ ہو کہ میرے دوسرے جماعتی چندے متاثر ہو گئے ہیں اس لئے تمام وہ خدام جو شوق کے ساتھ اس چندہ میں حصہ لینا چاہیں اس شرط کے ساتھ حصہ لیں گے کہ خدام الاحمدیہ کے ہال کی تعمیر کے سلسلہ میں جو بھی مالی قربانی وہ پیش کریں اسے جماعت کے دوسرے چندوں میں کمی کرنے کا عذر نہ بنائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.یہ اعلان اس لئے ضروری تھا کہ خلیفہ مسیح کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا کوئی چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور خدام الاحمدیہ بھی اور دیگر ذیلی تنظیمیں بھی اس بات کی پابند ہیں اور پابند رہنی چاہئیں کہ جماعت سے جو بھی استثنائی چندے طلب کرنا چاہیں ان کی پہلے با قاعدہ اجازت حاصل کریں.اب میں سلسلہ مضمون کی طرف لوٹتا ہوں ، سورۂ فاتحہ میں جو ہمیں یہ دعا سکھائی کہ اے خدا ہمیں سیدھے راستہ پر ڈال ، وہ راستہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا.اس ضمن میں انعام کی راہ پر چلنے والے یا خدا کی راہ کے وہ مسافر جو انعام یافتہ شمار ہوئے ان کا ذکر قرآن کریم میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے اور ان کی دعائیں بھی محفوظ کر دی گئی ہیں.ان دعاؤں کے سلسلہ میں ایک دعا نظر سے رہ گئی تھی جس کا بیان پہلے ہونا چاہئے تھا اس لئے میں اس دعا سے آج کا مضمون شروع کروں گا.پھر چونکہ بعد کی چند دعائیں پہلے خطبہ میں بیان ہو چکی ہیں ان کی ضرورت نہیں ہوگی اور پھر اس پہلی بھولی ہوئی دعا کے بعد حضرت ایوب کی دعا سے سلسلہ مضمون شروع ہو جائے گا.وہ دعا حضرت اقدس محمد مصطفی علی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائی گئی اور دعا یہ ہے: ربّ ادْخِلْنِى مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا ( بنی اسرائیل: ۸۱) اے میرے رب! مجھے صدق کے ساتھ داخل فرما یعنی میرا قدم سچائی پر پڑتا ہو اور سچائی کے ساتھ میں داخل ہوں.وأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ اور ای طرح سچائی پر قدم رکھتے ہوئے یا سچائی کے قدم کے ساتھ میں اس منزل سے باہر نکلوں واجْعَلْ لِي مِن لَّدُنكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا اور میرے لئے اپنی جناب سے ایک ایسا مددگار عطا فرما جو غالب اور قوت والا ہے.یہ وہ سورۃ ہے جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی.اگر چہ اس بارہ میں اختلاف ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 397 خطبہ جمعہ ۰ ارمئی ۱۹۹۱ء لیکن جو مستشرقین متقین باقی مسلمان علماء سے اختلاف بھی رکھتے ہیں ان کے نزدیک بھی سن ۱۲ھ تک کا زمانہ ہے اس عرصہ کے اندراندر یہ سورۃ نازل ہو چکی تھی اور بعض مفسرین تو اس سے بہت پہلے کا زمانہ بتاتے ہیں بہر حال ہجرت سے پہلے کی یہ سورۃ ہے اور اس آیت کے متعلق بھی یہ تحقیق شدہ بات ہے کہ اس دعا میں دراصل ہجرت کی بھی پیشگوئی فرمائی گئی تھی.لیکن صرف ہجرت تک اس دعا کا مضمون محدود نہیں جیسا کہ میں بیان کروں گا اس سے زیادہ وسیع تر معانی اس میں پائے جاتے ہیں.آنحضور ﷺ نے ۱۳ سال نبوت کے مکہ میں بسر فرمائے.تیرہ سال تک دکھ جھیلے اور پھر تیرہویں سال کے آخر پر کم و بیش اس عرصہ میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی.پس یہ دعا آپ کو یہ بتارہی تھی کہ اے محمد ﷺے تجھے اس شہر سے نکلنا بھی ہے اور دوبارہ اس شہر میں داخل بھی ہونا ہے.تیرا نکلنا بھی سچائی کے ساتھ ہوگا اور تیرا دوبارہ اس شہر میں داخل ہونا بھی سچائی کے ساتھ ہوگا لیکن اس میں نکلنے اور داخل ہونے کی ترتیب کو بدل دیا گیا ہے اور داخل ہونے کا ذکر پہلے ہے اور نکلنے کا بعد میں فرمایا.اے محمد ے گو یا کہ آپ کو دعا سکھائی جارہی ہے کہ تو یہ دعا کیا کر.رَّبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ اے میرے رب مجھے صدق کے ساتھ داخل فرما و أَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ اور صدق کے ساتھ مجھے نکلنے کی توفیق عطا فرما.تو مکہ سے تو پہلے نکلنا تھا پھر ادخال کا ذکر کیوں پہلے فرمایا.اس میں حکمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی عملے کو ایک لحظہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ اس دکھ میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا کہ گویا میں مکہ سے نکلوں گا اور پھر شاید واپس آؤں یا نہ آؤں.پس واپسی کو زیادہ قطعی اور یقینی بنا کر پہلے پیش کر دیا گیا اور جس وقت یہ وحی نازل ہوئی ہے اس وقت اخراج سے پہلے آپ کو یہ خبر دیدی گئی کہ آپ نے ضرور اس شہر میں داخل ہونا ہے اس لئے جہاں تک نکلنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں کسی قسم کے تفکر اور غم کی ضرورت نہیں.دوسرا اس میں حکمت یہ تھی کہ مکہ سے جس حالت میں نکالے جارہے تھے اس حالت کے متعلق دشمن یہ کہتا تھا کہ یہ صدق کی حالت نہیں ہے، آپ سچائی کی حالت میں نہیں نکالے جار ہے.دشمن آپ کو جھوٹا ، کذاب ہمفتری اور طرح طرح کے اور بد نام دیتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ جھوٹا ہے،اس نے خدا پر اپنی طرف سے بات گھڑ لی ہے ، مگر مدینہ جس نے آپ کا استقبال کیا اس نے صدق کے ساتھ آپ کا استقبال کیا ، صدق کی گواہی دیتے ہوئے استقبال کیا.پس ربِّ اَدْخِلُنِی کا مضمون
خطبات طاہر جلد ۱۰ 398 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء مدینہ کی نسبت سے یہ ہوگا کہ اے محمد اب تو اس شہر میں داخل ہو نیوالا ہے جو تیرے صدق پر گواہ ہوگا اور صدق کے ساتھ تجھے قبول کرے گا اور پھر جب تو نکلے گا تو صدق کے ساتھ ہی نکلے گا اور دوبارہ اس شہر میں داخل ہوگا اور دوبارہ داخلے کا مضمون چونکہ پہلے بیان ہو چکا ہے اس لئے فتح مکہ کے اوپر أدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ کا مضمون صادق آئے گا اور یہ بات بن جائے گی کہ جب تو دوبارہ اس شہر میں داخل ہو گا اس وقت شہر کا ذرہ ذرہ اس کی اینٹ اینٹ اس کی ساری فضا گواہی دے رہی ہوگی کہ یہ مرد صادق ہے جو واپس اپنے شہر کو لوٹ کر آیا ہے اور چونکہ یہ ایک پیشگوئی تھی اس لئے اس کے پورا ہونے کے نتیجہ میں از خود ہی آپ کا صدق مکہ میں داخل ہوتے ہوئے ظاہر و باہر ہو جانا تھا.وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا کا مطلب ہے اور میرے لئے اپنی جناب سے کوئی ایسے مددگار انصار عطا فرمادے جن کو تو طاقت عطا کرے، غلبہ عطا کرے اور ان کی مد د معنی خیز ہو، کوئی کمزور مددگار نہ ہو بلکہ غالب اور طاقتور مددگار ہو چنانچہ یہ دعا بھی انصار مدینہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے بعینہ اسی طرح قبول فرمائی جیسا کہ سکھائی تھی اور انصارمدینہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کی غالب نصرت کرنے کی توفیق ملی اور انصار نے جو مدد کی ہے وہ اگر چہ بظاہر انصار کی طرف سے ہے مگر مِن لَّدُنكَ کے لفظ نے یہ بتادیا کہ انصار کی مدد اللہ کے ایماء پر ہے اور اللہ کی طرف سے ہے.اس کے بغیر اس مدد کی کوئی حیثیت نہیں ہے.پس بظاہر آنحضرت ﷺ اور آپ کے مہاجر ساتھی انصار کے ممنون احسان ہونے والے تھے مگر خدا تعالیٰ نے دعا میں مِن لَّدُنكَ کا لفظ رکھ کر یہ خوشخبری بھی ساتھ دیدی کہ تیری اس دعا کے نتیجہ میں وہ مدد کریں گے ان کے دل تبدیل کئے جائیں گے ان کو توفیق عطا کی جائے گی اس لئے تو یہ نہ سمجھنا کہ کسی انسان کے زیراحسان آرہا ہے بلکہ دعا کے نتیجہ میں یہ مدد خالصہ اللہ ہی کی طرف سے ہوگی.دوسرا اس دعا کا ایک تعلق عام روزمرہ کے سفروں سے بھی ہے اور قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ قرآنی دعائیں وسیع معانی رکھتی ہیں اور مختلف حالات پر چسپاں ہوسکتی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں اس لئے قرآن کریم کی جو دعا ئیں خاص مواقع سے بھی تعلق رکھتی تھیں حضرت اقدس محمد مصطفی امت ہے اور آپ کے صحابہ ان کو مختلف ملتے جلتے مواقع پر بھی استعمال کیا کرتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے.پس روزمرہ کے سفروں میں یہ دعا بہت ہی مفید ہے اور میں نے خود اس کا تجربہ کر کے دیکھا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 399 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء اور حیرت انگیز طور پر اس دعا کے نیک اثرات کا مشاہدہ کیا ہے.ایک دفعہ میرا خیال تھا کہ اس موضوع پر جماعت سے الگ خطاب کروں کہ دعا کے نتیجہ میں سفروں میں جو حیرت انگیز سہولتیں میسر آتی ہیں وہ اتفاقی حادثات کے نتیجہ میں نہیں ہوتیں بلکہ ایسا مسلسل نصرت الہی کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے کہ کوئی معمولی عقل کا انسان بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں غیبی ہاتھ ہے لیکن چونکہ اس سلسلہ مضامین میں اتنے لمبے عرصے کے لئے ایک دوسرے مضمون کے ذکر کی گنجائش نہیں ہے اس لئے آئندہ کسی وقت انشاء اللہ اس حصہ کو آپ کے سامنے رکھوں گا.اس دعا کا ایک اور بہت ہی اہم مفہوم انسان کے مراتب سے تعلق رکھتا ہے.انسان ہمیشہ حالتیں بدلتارہتا ہے.ایک حالت سے نکل کر دوسری حالت میں داخل ہوتا ہے.یہ حالت بدی سے اچھائی کی طرف بھی حرکت کر سکتی ہے اور اچھائی سے بدی کی طرف بھی حرکت کر سکتی ہے.یعنی اس حالت کا بدلنا بدی سے اچھائی کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور اچھائی سے بدی کی طرف بھی ہوسکتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے جہاں یہ دعا سکھائی وہاں صدق کا لفظ ساتھ سمجھا دیا کہ یہ دعا کرنا کہ اے خدا! جب بھی میری حالت تبدیل ہو سچائی کے ساتھ تبدیل ہو.اس آیت سے پہلے جو مضمون چل رہا ہے ، وہ آنحضرت کے بلند مراتب کا مضمون ہے اور پہلی آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے صلى الله آنحضرت ﷺ کو یہ نصیحت فرمائی کہ وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَلَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ( بنی اسرائیل :۸۰) کہ اے میرے بندے ! راتوں کو اٹھ کر تہجد کے نوافل ادا کیا کر اور خدا کی راہ میں جدوجہد کیا کر.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا اس کے نتیجہ میں ہرگز بعید نہیں بلکہ قریب ہے کہ تجھے مقام محمود عطا کیا جائے.یہاں مَقَامًا مَّحْمُودًا کو نکرہ رکھ کر اس مقام کے بہت ہی عظیم الشان ہونے کی طرف اشارہ فرما دیا گیا.پس اس دعا کے معا بعد یہ دعا رکھی یعنی اس خوشخبری کے بعد کہ خدا تعالیٰ تجھے بہت ہی عظیم مقام اور مرتبہ عطا فرمانیوالا ہے، یہ دعا سکھائی ربِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ کہ اے خدا جس مقام پر تو مجھے فائز فرمانا چاہتا ہے یا جس پر فائز فرمانے کا تو نے فیصلہ فرمالیا ہے اَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ مجھے صدق کے ساتھ اس میں داخل فرمانا و أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ اور اس مقام پر ٹھہرائے نہ رکھنا بلکہ اس سے آگے بلند تر مقامات کی طرف بھی ہاتھ پکڑ کر لے جانا اور صدق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 400 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء کے ساتھ لے جانا.یہاں صدق کے لفظ نے تنزل کی نفی فرما دی.چونکہ بعض دفعہ ایک انسان ایک اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کے باوجود اس مرتبہ پر اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں قائم نہیں رہ سکتا جیسا کہ قرآن کریم نے بلعم باعور کی مثال دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی صلاحیتیں عطا کی تھیں کہ اگر وہ چاہتا یعنی اگر وہ نیک اعمال پر استقامت اختیار کرتا اور خدا کی طرف رفعتیں حاصل کرنا چاہتا تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان صلاحیتوں کے نتیجہ میں جو اسے عطا کی گئی تھیں اسے بلند مقام عطا فرما سکتا تھاوَلكِنَّةً أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ لیکن وہ بدبخت ایسا نکلا کہ وہ دوبارہ زمین کی طرف جھک گیا پس اس کا بلند مرتبہ سے نکلنا مُخْرَجَ صِدْقٍ نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ سچائی کی بجائے جھوٹ کے قدم کے ساتھ باہر الله نکلا.پس آنحضرت ﷺ کو یہ کامل دعا سکھائی گئی کہ تیرا داخل ہونا بھی صدق کے ساتھ ہو اور تیرا نکلنا بھی صدق کے ساتھ ہو یعنی تنزل کی طرف تو نہ جائے بلکہ ہمیشہ مراتب کی طرف تیرا قدم آگے بڑھتا رہے.دوسر ا صدق کا معنی یہاں ایسا ہے جسے تمام مومنین کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.بسا اوقات انسان کو اعلیٰ مراتب کی تمنا ہوتی ہے اور اس تمنا میں خود غرضی بھی داخل ہو جاتی ہے ، ریا کاری بھی داخل ہو جاتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ میں بھی نیک شمار کیا جاؤں اور دنیا کی نظر میں میرا مرتبہ بلند ہو اور مجھے مقام محمود حاصل ہو، یعنی دنیا کی نگاہ میں مقام محمود حاصل ہوایسے لوگوں کو بعض دفعہ ایسے روحانی تجارب سے ملتے جلتے تجارب ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کے مقرب بن گئے ہیں حالانکہ وہ روحانی تجارب نہیں ہوتے وہ شیطانی تجارب ہوتے ہیں.پس ہر وہ شخص جو بلند پردازی کا خواہشمند ہے، جو خدا تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے اس کو یہ دعا بہت ہی با قاعدگی کے ساتھ اور اس کے مضامین میں ڈوب کر کرنی چاہئے ورنہ اس کا قدم قدم صدق نہیں رہے گا.پس ربِّ اَدْخِلْنِى مُدْخَلَ صِدْقٍ کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا مجھے جو بھی بلند مرتبہ عطا فرماوہ سچائی کے ساتھ ہو.اس میں میرے دل کی نفسانی خواہشات کا کوئی بھی دخل نہ ہو اس میں میرے جھوٹ کا کوئی دخل نہ ہو.وہ خالصہ سچائی کا قدم ہو جو ترقیوں کی طرف اٹھنے والا ہو اور تیری رضا اسے حاصل رہے اور اسی طرح جب میں اس مقام سے نکال کر ایک بلند تر مقام کی طرف لے جایا جاؤں تو تب بھی میری ادنی تمناؤں کا اس میں کوئی دخل نہ ہو بلکہ ارفع و اعلیٰ مقاصد کے لئے تجھ سے ہی مدد مانگتے ہوئے میں آگے بڑھنے والا بنوں.پس یہ دعا بہت ہی کامل جامع اور مانع دعا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 401 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء زندگی کے مختلف مراحل پر مختلف حالات پر چسپاں ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے روزمرہ کے سفروں کے سوا دنیا کے ہر سفر پر جو ظاہری ہو یا روحانی ہواس کا اطلاق ہوتا ہے.پس دنیا کے کاروبار میں جہاں مثلاً انسان بعض ملازمتیں مثلاً کرتا ہے اور ترقیاں پاتا ہے اس وقت بھی یہ دعا کام آسکتی ہے ورنہ بعض لوگ ترقی پاتے ہیں اور پھر ذلت کے ساتھ نکالے جاتے ہیں.تو پیشتر اس سے کہ وہ ترقی حاصل کریں اگر اس دعا کو وہ اپنی حرز جان بنا چکے ہوں اور ہمیشہ اس دعا کی طرف ان کی توجہ رہے تو زندگی کا جو بھی مرحلہ پیش آئے گا جس میں ایک حالت دوسری حالت میں تبدیل ہوتی ہے یہ دعا ان کے کام آئے گی.اب وہ چند دعائیں جو اس کے بعد قرآن میں بیان ہوئی ہیں وہ میں بیان کر چکا ہوں.اب حضرت ایوب کی اس دعا کی طرف آتا ہوں سورۃ انبیاء آیت ۸۴ میں اس کا ذکر ہے.وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّةَ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ اور یاد کرو ایوب کو کہ جب اس نے بڑے درد سے اپنے رب کو پکارا کہ اے خدا مجھے تو بہت ہی دکھ پہنچ چکا ہے وَأَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ اور میں جانتا ہوں کہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر تو رحم کرنے والا ہے.اس سلسلے میں حضرت ایوب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا مختصراً ذکر کرتا ہوں اور آپ کا تعارف بھی کرواتا ہوں کیونکہ بہت سے لوگ حضرت ایوب کے متعلق بہت کم جانتے ہیں.حضرت ایوب حضرت عیسی علیہ السلام سے پندرہ سو سال کے لگ بھگ پہلے پیدا ہوئے.۱۵۵۰ء کے قریب بیان کیا جاتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے دوسو سال پہلے.آپ کی شخصیت کے متعلق اختلافات پائے جاتے ہیں.بعضوں کے نزدیک آپ بنی اسرائیلی نبی تھے اور بعضوں کے نزدیک آپ باہر کے کوئی نبی تھے جن کا ذکر وہاں ملتا ہے.مسلمان مفسرین نے آپ کو شام کے علاقے میں پیدا ہو نیوالا بتایا ہے اور بائیل میں مقام کا ذکر ہے لیکن اس کا مجھے صحیح پتا نہیں چل سکا کہ وہ کس علاقے کا شہر ہے جس کی طرف آپ کو نسبت دی گئی ہے.غالباً موز ولفظ ہے جس کے متعلق میں ابھی تحقیق نہیں کر سکا کہ وہ کونسا علاقہ بتایا جاتا ہے.بہر حال جہاں تک بائیل کی روایات کا تعلق ہے ان کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ حضرت ایوب کو خدا تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں، دنیاوی اموال بھی ، ریوڑ گلے ، ہر قسم کے جانور، بیوی بچے ، بہت ہی خوشحالی عطا فرمائی اور اس وقت علاقہ کے امیر ترین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 402 خطبہ جمعہ ۰ ارمئی ۱۹۹۱ء انسانوں میں سے تھے اور بہت ہی فیاض اور خدمت کرنے والے انسان تھے.شیطان کو آپ پر حسد ہوا اور شیطان نے خدا تعالیٰ سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ ایوب جو تیرا بندہ ہے تو اس پر نازاں ہے کہ بڑی عبادت کرنے والا اور ان سب نعمتوں کے باوجود مجھے نہ بھلانے والا ہے لیکن اسے آزمائش میں ڈال کر دیکھ پھر پتا چلے گا.چنانچہ اس کے اموال تباہ کر دے پھر میں دیکھوں گا کہ وہ کیسے تیرا بندہ رہتا ہے.اس پر خدا تعالیٰ نے اسے کہا کہ ہاں اموال پر تجھے تصرف دیا جاتا ہے اور حضرت ایوب کے تمام اموال تباہ ہو گئے.پھر اس نے اولاد کا طعنہ دیا کہ اولاد تو اچھی ہے.دنیا کے جانور اور دولتوں کی بعضوں کو پرواہ نہیں ہوتی اولاد کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو پہلے جلا وطن کروایا پھر مر نے دیا اور اولا دضائع ہوگئی.پھر شیطان نے کہا کہ اس کے بدن کے اوپر مجھے تصرف دیا جائے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ اگر بدن کی آزمائش بھی چاہتے ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لو چنانچہ آپ کے بدن کو ایسی بیماری لگ گئی کہ بائیبل کے بیان کے مطابق جس میں ناسور ہو گئے اور نہایت ہی مکروہ قسم کی بیماری تھی جس سے لوگ بھی کراہت کر کے پناہ مانگتے تھے اور دوڑتے تھے اور جسم میں کیڑے پڑ گئے اور لوگوں نے آپ کو نکال کر بستی سے باہر کر دیا.تب بھی حضرت ایوب صابر و شاکر رہے اورخدا کے ساتھ وفامیں کوئی کمی نہ آئی.تب شیطان نے خدا سے کہا کہ بیوی تو ابھی تک ساتھ ہے اور وہ وفادار ہے، بیوی کی طرف سے بھی اس کو کچھ صدمہ پہنچے تو بیوی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے شیطان کی چال میں آکر یا کہانی یوں بیان کی گئی ہے کہ شیطان نے خود ہی سوچا کہ جس طرح میں نے حوا کو گمراہ کیا تھا میں اس کی بیوی کو بھی گمراہ کروں تا کہ یہ بھی ساتھ نہ رہے پھر میں دیکھوں گا کہ اس کا صبر ٹوٹتا ہے کہ نہیں.چنانچہ اس نے بیوی کو یہ کہا کہ یہ بچھڑا یا کوئی جانور میرے نام پر ذبح کرو تو تمہارا خاوند اچھا ہو جائے گا گویا شرک کی تعلیم دی اور بیوی اس پر اس حد تک آمادہ ہوگئی کہ اس نے حضرت ایوب سے اس کا ذکر کیا اور یہاں تک کہا کہ تو اب خدا کو چھوڑ.کہاں تک صبر کرے گا.اس سے موت مانگ اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر.حضرت ایوب اس پر ناراض ہوئے اور عہد کیا کہ اگر میں اچھا ہو جاؤں گا تو اس کو سو کوڑے ماروں گا.اس شرک میں مبتلا ہونے کے نتیجہ میں یعنی بطور سزا اس کو میں سو کوڑے ماروں گا.اس پر بیوی چھوڑ کر چلی گئی اور اکیلے رہے.تب بھی حضرت ایوب ثابت قدم رہے.تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ یہ تیری آزمائش کا دور تھا، تو اس پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 403 خطبہ جمعہ " ارمئی ۱۹۹۱ء پورا اترا ہے اور جو کچھ تیرے نقصانات تھے وہ سب پورے ہو جائیں گے اور اب تو پہلی حالتوں کی طرف بلکہ ان سے بھی بہتر حالتوں کی طرف لوٹایا جائے گا.پھر بیوی بھی ملتی ہے.پھر اولا د بھی آتی ہے پھر اور جو شہر کے لوگ نکالنے والے تھے ان کے اندر بھی ندامت پیدا ہوتی ہے گویا کہ انجام اس واقعہ کا یہ ہے کہ حضرت ایوب دوبارہ اپنی صحت کی طرف بھی لوٹ آتے ہیں.پرانی شان اور آن بان کی طرف بھی لوٹ آتے ہیں.سب چھوٹے ہوئے ، روٹھے ہوئے ساتھی واپس آجاتے ہیں، یہ ہے خلاصہ اور مفسرین نے بھی کم و بیش یہی مضمون بیان کیا ہے لیکن بعض تبدیلیوں کے ساتھ اور بائیل نے یہ لکھا ہے کہ شیطان فرشتوں کے گروہ میں شامل ہو کر خدا کے حضور میں پیش ہوا اور اس طرح خدا سے اس نے گویا فرشتہ بن کر باتیں کیں اور یہ سارا قصہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہوا.مفسرین نے اس کو قبول نہیں کیا اور اس کو نیا رنگ یہ دیدیا ہے کہ اس زمانے میں یعنی کہ حضرت ایوب کے زمانے میں شیطان بعض دفعہ فرشتوں اور نبیوں کے درمیان باتیں سن لیا کرتا تھا مچان لگا کر بیٹھا رہتا تھا اور وہ باتیں سن لیا کرتا تھا.تو ایک دفعہ فرشتوں کی اور حضرت ایوب کی باتیں ہورہی تھیں اور بڑی ان کی تعریف ہورہی تھی اور انہوں نے خدا سے عرض کیا کہ دیکھو کیسا نعمتوں والا بندہ ہے اور پھر اس کے باوجود عبادت کرتا ہے تو اس پر شیطان کو پتا چل گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے.چنانچہ اس نے پھر یہ شرارت شروع کی.حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں ذکر کیا ہے کہ اس سے ملتا جلتا ایک دفعہ ہریش چندر ایک ہندو بزرگ کا بھی بیان کیا جاتا ہے جن کے متعلق یہ آتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی طرح انعام یافتہ تھے جس طرح حضرت ایوب کے ذکر میں ملتا ہے مگر وہاں شیطان کی بجائے بعض دیوتاؤں کو حسد پیدا ہوا حضرت مصلح موعودؓ نے تو تفصیل سے ذکر نہیں کیا مگر میں نے پھر ان روایات کو مختلف تاریخی حوالوں سے دیکھا ہے.ہریش چندر کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں لیکن خلاصہ مختصراً یہی ہے کہ وہاں دیوتاؤں کو اس پر رشک آیا اور انہوں نے ہند و میتھالوجی کے مطابق سب سے بڑے خدا سے یہ کہا کہ ہمیں موقع دیں ہم اس کو آزمائش میں ڈالتے ہیں.چنانچہ ایک دیوتا انسان کے روپ میں گیا، اس نے ہرلیش چندر سے کہا سنا ہے کہ تو بڑا سخی داتا ہے.کیا میری استدعا کو قبول کرے گا؟ اس نے کہاہاں جو مانگے گا میں دوں گا اور ہریش چندر کے متعلق بھی یہ مشہور تھا کہ وہ حد سے زیادہ وعدے کا پختہ ہے اور جو ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 404 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء دفعہ قول و قرار دے بیٹھے اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، تو اس طرح پختہ قول لینے کے بعد اس نے کہا کہ اپنا سب کچھ مجھے دیدو.تمام جائیداد ، دولتیں ، اموال ، گھر جو کچھ تیرا ہے سب کچھ دیدے اور ہریش چندر نے دیدیا اس کے بعد اس نے کہا کہ تو نے سب کچھ نہ دیا.ابھی تیرے بچے، بیوی ، تو خود ہے اور تیرا جسم ہے، اس کا کیا ہوگا.چنانچہ یہ طے پایا کہ ان سب کو وہ بیچ دیں اور ایک شودر نے جو ہندو Cast System کے مطابق سب سے ذلیل قسم کی ذات ہے آپ کو خرید لیا اور پھر وہ مشقتوں کا دور ہوا اور بہت تکلیفیں ہوئیں.مصائب در پیش ہوئے.تو ملتی جلتی کہانی ہے.حضرت مصلح موعود کا یہ رجحان ہے کہ چونکہ زمانہ بھی کم و بیش ایک ہی ہے اس لئے بعید نہیں کہ حضرت ایوب ایک ہندی نبی ہوں اور (جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے کہ بعض محققین کے نزدیک وہ اسرائیلی نہیں تھے ) اس ہندی نبی کی روایات وہاں پہنچی ہوں اور ان کو بائیبل کا حصہ بنادیا گیا ہو.اس پس منظر میں اب میں قرآن کریم کی وہ دعا آپ کے سامنے رکھتا ہوں جواللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کو سکھائی اور وہ تھی.وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّةَ أَنِي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ یہاں اَرحَمُ الرّحِمِینَ پر دعا کو ختم کیا گیا ہے کہ تو سب رحم کر نیوالوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.حضرت ایوب کی حالت کے متعلق جو تفاصیل ہیں وہ ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتیں لیکن جتنے بھی اشارے ملتے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو بہت ہی تکلیفیں پہنچیں اور جسمانی عوارض بھی بہت لاحق ہوئے اور یہاں تک کہ آپ کو اپنا ملک چھوڑ کر بھی جانا پڑا چنانچہ منجملہ تفصیل کے ساتھ تو ذکر نہیں مگر یہ ضرور ملتا ہے کہ کچھ نہ کچھ واقعات جیسا کہ بیان کئے گئے ہیں ویسے آپ کے ساتھ ضرور پیش آئے یہاں تک کہ سب نے آپ کو چھوڑ دیا.اَرْحَمُ الرّحِمِینَ کا مطلب ہے کہ اے خدا میری تو یہ حالت پہنچ گئی کہ دنیا کے جتنے رحم کرنے والے ہو سکتے ہیں وہ تو منہ موڑ کر چلے گئے.میری بیوی نہ رہی ، میرے بچے نہ رہے، میرے شہر والے نہ رہے ، جو ایمان لائے تھے انہوں نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی.اب میں اکیلا اپنے وطن سے نکلتا ہوں ، تو مجھے بتا کہ میں اکیلا کیا کروں.لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں مایوس نہیں ،تو أَرْحَمُ الرَّحِمین ہے.جس پر کوئی اور رحم کر نیوالا نہ ہو اس پر تو رحم فرماتا ہے.اس دعا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاسْتَجَبْنَالَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرِّ وَأَتَيْنَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 405 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء (الانبیاء :۸۵) کہ ہم نے اس دردناک پکار کو سنا اور قبول کیا.فَكَشَفْنَا مَابِ، مِنْ ضُرٍ اور ان سب تکلیفوں کو کھول دیا اور تبدیل کر دیا جو ا سے لاحق تھیں وَآتَيْنَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ ہم نے اس کے اہل بھی اسے واپس لوٹا دیئے اور اسے اس جیسے اور بھی بہت سے گھر عطا کئے جو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے خاندان کی طرح ہی ہو گئے ، یعنی ایسے ان سے محبت کر نیوالے خاندان عطا کئے جواپنوں سے الگ شمار نہیں کئے جاسکتے تھے جس طرح بعض دفعہ انسانی تعلقات میں بعض خاندانوں میں ایسی محبت ہو جاتی ہے ایسا ملنا جلنا اور قرب کا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی گھر کے افراد دکھائی دیتے ہیں.پس مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ میں یہ بھی خوشخبری دی گئی کہ ایک گھر تجھ سے چھٹا تھا، تجھے اور بھی بہت سے گھر ہم عطا کریں گے.رَحْمَةً مِنْ عِندِنَا یہ خالصہ ہماری طرف سے رحمت کے طور پر ہوگا وَ ذِکرای للعبدِينَ اور جو عبادت کر نیوالے ہیں ان کے لئے یہ ہمیشہ کے لئے نصیحت ہوگی کہ جس قسم کے بھی ابتلاء در پیش ہوں مایوس نہیں ہونا چاہئے اگر صبر کے ساتھ عبادت پر قائم رہتے ہوئے صرف خدا کی ہی طرف جھکو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ تمہارے دکھوں کو دور فرمادے گا اور ہر تکلیف کو راحت میں تبدیل فرما دے گا.ایک اور دعا جو اس کے بعد مذکور ہے.حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہے وہ یہ ہے که وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنّى كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانبیاء: ۸۸) اور صاحب نون کی اس حالت کو یاد کرو اذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا جبکہ وہ بہت سخت خفا ہوئے ہوئے دل کے ساتھ جب اس کا دل بہت ناراض اور تنگی محسوس کر رہا تھا ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ کی طرف گیا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ اور اس نے یہ گمان کیا کہ گویا ہم اس پر غالب نہیں آئیں گے یا اس کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کریں گے.نَّقْدِرَ عَلَيْهِ کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کے خلاف فیصلہ کرنا اور ایک یہ مطلب بھی ہے کہ کسی پر غلبہ پالینا تو دونوں مفہوم کچھ نہ کچھ اس صورتحال پر اطلاق پاتے ہیں فَنَادَى فِي الظُّلُمتِ تب اس نے اندھیروں میں یہ دعا کی أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا انْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِيْنَ ال میرے خدا! تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے سُبحنك تو بہت پاک ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 406 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء إنِّي كُنْتُ مِن DOWNLOADNAN میں بہت ہی ظلم کرنے والوں سے تھا ، میں اپنی خطاؤں کا اقرار کرتا ہوں اس لئے تو ہی ہے تو مجھے اس ظلم کی حالت سے نجات بخش.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ فرماتا بے فَاسْتَجَبْنَالَهُ وَنَجَّيْنَهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُبِي الْمُؤْمِنِينَ (الانبياء :٨٩ ) ہم نے پھر اس کی اس دعا کو سن لیا اور شدید غم سے اس کو رہائی بخشی وَكَذَلِكَ نُجِی الْمُؤْمِنِيْنَ اور اسی طرح ہم مومنوں کو جزا دیا کرتے ہیں.حضرت یونس کے متعلق بھی تاریخ میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ان کے پس منظر سے متعلق بھی چند الفاظ بیان کئے جائیں حضرت یونس کے متعلق جو بائبل نے واقعات بیان کئے ہیں وہ قرآن کریم سے مختلف ہیں اور ان کی ترتیب بھی بدلی ہوئی ہے اور بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت یونس کا جو واقعہ ہے وہ ایک ایسی جگہ پیش آیا یعنی یا فامیں.یا فافلسطین کے مغربی ساحل پر ایک بندرگاہ ہے بیان کیا جاتا ہے کہ یافا سے آپ نے وہ جہاز پکڑا تھا یا سمندری کشتی پکڑی تھی جس میں سے بالآخر آپ کو پھینکا گیا.یہ یا فا اس مقام سے جو نینوا کا مقام ہے جسے حضرت یونس کی بستی بھی قرار دیا جاتا ہے اگر سیدھا کوے کی اڑان اڑا جائے تو پانچ سو سے زائد میل دور ہے.نینوا جس کے متعلق عام طور پر مفسرین کا خیال ہے کہ نینوا وہ بستی تھی جہاں حضرت یونس کو بھجوایا گیا تھا وہ موصل میں واقع ہے جو عراق کے شمال میں آج کل کردوں کا علاقہ ہے.اس زمانے میں جس زمانے کی یہ بات ہے وہاں (Asyrians) اسیر مینز کی حکومت تھی.حضرت یونس کا زمانہ آٹھ سو سال قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے لیکن مختصراً اب میں بائبیل کے متعلق بتا تا ہوں کہ بائیبل کیا کہتی ہے.پھر میں قرآن کریم کی طرف آؤں گا کہ قرآن کریم کیا بیان فرماتا ہے.بائیبل کے نزدیک حضرت یونس جن کو جونا یا یونا کہا جاتا ہے اور ان کے نام کی ایک کتاب بھی بائیل میں ہے.ان کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ تو نینوا بستی کو جا کر ڈرا کہ اگر وہ تو بہ نہیں کرے گی تو ہلاک کر دی جائے گی حضرت یونس نینوا جانے کی بجائے یا فا چلے گئے اور یافا جا کر آپ نے وہ کشتی پکڑ لی جس میں سے بالآخر آپ کو قرعہ اندازی کے بعد باہر پھینک دیا گیا اور مچھلی نے آپ کو نگل لیا.اول تو یہ بات قرین قیاس نہیں یعنی ایک مومن جس نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہوا اور انبیاء کی عظمت کا تعارف قرآن کریم سے حاصل ہوا ہو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سوچ نہیں سکتا کہ خدا ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 407 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء نبی کو مشرقی علاقے میں کسی شہر میں جانے کا حکم دے اور وہ اس طرف پیٹھ کر کے مغرب کی طرف روانہ ہو جائے اور خدا کے حکم کا انکار کر کے کسی اور جگہ کا رخت سفر باندھے کسی اور جگہ کی تیاری کر لے.یہ تو شان نبوت کے بالکل خلاف بات ہے، ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی نبی ایسی کھلی کھلی خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرے.دوسرے وہ زمانہ وہ ہے جبکہ اسیریا کی عراق کے شمالی علاقہ میں بہت ہی زبر دست حکومت تھی اور یہ وہی زمانہ ہے جس میں اسیر مینز نے سب سے پہلے حملہ کر کے بنی اسرائیل کی حکومت کو پارہ پارہ کیا تھا.پس تاریخی نقطہ نگاہ سے ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ اس زمانے میں فلسطین کے کسی باشندے کو خدا تعالیٰ یہ حکم دے کہ (پانچسو میل تو سیدھا رستہ ہے ویسے زمینی سفر کر کے جو رستہ ہے وہ بہت لمبا بنتا ہے ) اتنا لمبا رستہ طے کر کے تم نینوا جاؤ اور وہاں جا کر ان کو دھمکاؤ.پس یہ قرین قیاس بات دکھائی نہیں دیتی.دوسرے یہ کہ نینوا بستی کے متعلق اس زمانے میں ایسی کوئی شہادت نہیں ہے کہ وہاں کسی نبی نے بھی کسی قسم کی منادی کی ہو اور اس کے نتیجے میں ساری بستی ایمان لے آئی ہو.پس بائیبل کا قصہ کئی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے.دوسرے بائیبل نے جو واقعات کی ترتیب بیان کی ہے وہ بھی عجیب و غریب ہے.بائیبل کے مطابق حضرت یونس نے خدا کا انکار کرتے ہوئے نینوا کی طرف جانے کی بجائے یا فا سے کشتی پکڑی اور کسی اور جگہ کا رخ اختیار کیا.سمندر میں طوفان آ گیا اور جب کشتی ڈوبنے کے قریب ہوئی تو لوگوں نے کہا کہ ہم میں کوئی گنہ گا رایسا ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے لگا ہے.اس وقت حضرت یونس نے اقرار کر لیا اور کہا کہ میں ہی وہ ہوں جس کی وجہ سے تم سب کی شامت آگئی ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ تم مجھے کشتی سے باہر پھینک دو.چنانچہ ان کو کشتی سے باہر پھینک دیا گیا، وہاں ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور بائیبل کے بیان کے مطابق تین دن اور تین رات مسلسل آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے.پھر مچھلی نے آپ کو کسی جگہ اگلا.وہاں سے پھر آپ واپس نینوا گئے اور اس طرح بالآخر خدا کی بات پوری کی.نینوا جانے کے بعد بھی آپ نے حقیقت میں بچی تو بہ نہیں کی بلکہ نینوا والوں کو پیغام دیتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے کہ مجھے پتا ہے کہ ان لوگوں نے تو بہ کر لینی ہے اور خدا نے معاف کر دینا ہے اور خواہ مخواہ میں بے عزت ہو جاؤں گا.چنانچہ جب نینوا کو اللہ تعالیٰ نے تباہ نہیں فرمایا اور نینوا کے باشندوں نے توبہ کر لی تو حضرت یونس خدا تعالیٰ سے روٹھ کر وہاں سے پھر جنگل کی طرف چلے گئے.وہاں بائیبل کے بیان کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 408 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء مطابق خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے ایک بیل دار درخت اگایا، جس کی چھاؤں میں آپ نے امان حاصل کی لیکن پھر ایک کیڑا بھیج دیا جس نے اس کی جڑیں کھا لیں اور وہ درخت کھوکھلا ہو کر زمین پر جا پڑا.تب حضرت یونس نے ایک اور شکوہ کیا کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا کہ ایک چھاؤں تھوڑی سی تھی اس سے بھی محروم رہ گیا اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو کہا کہ یہ درخت تو نے نہیں لگایا تھا اور اس ایک درخت کے مرنے پر تجھے اتنا افسوس ہے جس کے لگانے میں تیری محنت کا کوئی دخل نہیں اور مجھ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ لاکھ سے زائد بندے جو میں نے پیدا کئے ان کو آنا فانا تباہ کر دوں.تب حضرت یونس کو یا یونا کو نصیحت حاصل ہوئی.قرآن کریم اس سے بالکل مختلف روایت بیان فرماتا ہے سب سے پہلے یہ کہ قرآن کریم میں نینوا بستی کا کوئی ذکر نہیں اور مفسرین نے بائیبل کو پڑھ کر اندازہ لگایا کہ بستی نینوا ہی ہوگی بعضوں کا خیال ہے ذوالنون یعنی نون والا جو کہا گیا ہے اس سے نینوا بستی والا مراد ہے حالانکہ نون، مچھلی کو کہتے ہیں اور صاحب الحوت بھی آپ کو قرار دیا گیا ہے اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ نینوا کا کوئی ذکر نہیں.دوسرے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر نینوا سے ناراض ہو کر آپ واپس جائیں تو سات آٹھ سو میل ر جا کر یافا کی بندرگاہ سے کیوں جہاز پکڑیں.آپ کے ساتھ ہی دریائے دجلہ تھا نینوا کی بستی دریائے دجلہ کے ایک کنارے پر واقع ہے.وہاں سے کشتی لے کر آپ جو بھی سفر اختیار کرنا چاہتے اختیار کر سکتے تھے اس لئے یہ بات بھی قرین قیاس نہیں ہے.پس بائیل کے بیان کے برعکس قرآن کریم نے اول تو اس بستی کا ذکر نہیں فرمایا دوسرے جو واقعہ بیان فرمایا ہے وہ بہت ہی معقول اور مربوط ہے اور اس میں کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں.خصوصیت کے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم نے آپ کے تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.یہ فرمایا ہے کہ مچھلی نے آپ کو نگلا اور یہ بھی فرمایا ہے کہ آپ نے اس تکلیف اور دکھ کی حالت میں یہ دعا کی ہے اور ساتھ ہی یہ بتادیا کہ مچھلی نے اگل دیا، لیکن یہ کہیں ذکر نہیں کہ تین دن اور تین رات آپ مچھلی کے دور پیٹ میں رہے تھے.پس یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ آپ کچھ عرصہ کے لئے وہاں رہے ہوں.اس بات کی وضاحت کی اس لئے خصوصیت سے ضرورت پیش آئی ہے کہ عموماً احمدی ، عیسائیوں کے ساتھ گفت وشنید کرتے وقت اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ جیسا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 409 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء حضرت یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے اور زندہ رہے اور زندہ حالت ہی میں باہر نکالے گئے اسی طرح حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام تین دن کی آزمائش کے بعد جس میں چند گھنٹے صلیب پر لٹکنا اور بقیہ عرصہ ایک قبر نما جگہ میں رہنا ہے آپ زندہ وہاں سے باہر نکلے تو میں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے جس بات کا ذکر نہیں کیا وہ حکمت سے خالی نہیں ، تین دن جو بائیل نے ذکر کیا ہے وہ یقیناً غلط ہے تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں کوئی چیز خدا کے قانون کے مطابق زندہ نہیں رہ سکتی اور اس عرصے میں ہڈیاں گل سٹر کے ختم ہو چکی ہوتی ہیں.یعنی ہر قسم کا گوشت گل سٹر کے ختم ہو جاتا ہے صرف ہڈیوں کا پنجر باقی رہ جاتا ہے اور اس کے علاوہ دم گھٹنا اور تیز ابی حالتیں یہ تو سوچنے والی بات ہی نہیں ہے.پس قرآن کریم نے تین دن کا جو ذ کر نہیں کیا وہ حکمت سے خالی بات نہیں ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی نے نگلا ہے اور اس کیفیت میں حضرت یونس نے بے اختیار یہ درد ناک دعا کی ہے کہ اے خدا میں کن ظلمات میں پھنس گیا ہوں.یہ میری اپنی ہی ظلمات ہیں.اپنے گناہوں کی ظلمتیں ہیں اور میں اب تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ مجھے معاف کر دے.میں اپنے جرم کا اقرار کرتا ہوں تو اسی وقت قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی نے ابکائی لی ہے اور حضرت یونس کو اگل دیا ہے اور یہ اتنی سی دیر ہوگی کہ سمندر کے اتنے پانی میں جہاں وہ بڑی مچھلی آجاتی ہے صرف اس سے ساحل تک پہنچتے پہنچتے کا عرصہ ہے.کیونکہ آپ کو ساحل کے اوپر ا گلا گیا ہے پھر آپ نے وہاں چند دن ایک بیل کے سائے میں گزارے.اسی بیل کا پھل کھایا جس نے آپ کو شفا بھی بخشی اور کچھ توانائی بھی دی اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ نے ہجرت کے بعد نبوت کا عرصہ شروع کیا.پس خلاصہ جو قرآن کریم کی رو سے بنتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یونس نبی نینو یا کسی ایک بستی میں جس کی طرف آپ مبعوث ہوئے تھے خدا کا پیغام لے کر گئے اور بستی والوں نے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ اگر اس بستی نے توبہ نہ کی اور استغفار سے کام نہ لیا تو اس عرصے کے اندر اندر یہ ہلاک ہو جائیگی جیسا کہ دیگر انبیاء کی تاریخ سے پتا چلتا ہے اس اطلاع کے بعد حضرت یونس علیہ الصلواۃ والسلام وہاں سے ہجرت کر کے کچھ فاصلے پر جا کر ٹھہر گئے اور آنے والوں سے اس بستی کا حال پوچھتے رہے، یہاں تک کہ مقررہ وقت گزر گیا.حضرت یونس کو یہ علم نہیں تھا کہ اس عرصے میں اس بستی نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 410 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء نہ صرف توبہ کی بلکہ ایسے درد ناک طریق پر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی کہ أَرْحَمُ الرَّحِمِینَ خدا ایسی التجاؤں کو رد نہیں فرمایا کرتا.چنانچہ بیان کیا جاتا ہے، لیکن یہ قرآن کریم کا بیان نہیں یہ روایات کا اور بائیبل کا بیان ہے کہ بستی کے لوگوں نے حضرت یونس کے نکل جانے کے بعد یہ خیال کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے.یہ خدا کا نیک بندہ تھا اس کی باتیں ضرور پوری ہوں گی.اس لئے نجات کی صرف یہ راہ ہے کہ ہم سارے اس شہر کو چھوڑ کر باہر میدان میں نکل جائیں اور خدا کے حضور سخت گریہ وزاری کریں اور گریہ وزاری کا اثر بڑھانے کے لئے اور لوگوں کے دلوں میں درد پیدا کرنے کے لئے انہوں نے یہ ترکیب کی کہ ماؤں نے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلایا اور بکریوں کے بچوں کو بھی تھنوں سے جدا رکھا گیا اور باہر میدان میں جب اس حالت میں گئے تو بچوں کے رونے اور چلانے اور جانوروں کے، جو بھو کے تھے اور پیاسے تھے، شور مچانے کے نتیجے میں ایک کہرام مچ گیا اور ایسی درد ناک حالت ہوئی کہ وہ سارا بڑا میدان جس میں ایک لاکھ کے لگ بھگ شہر کے لوگ بڑے چھوٹے موجود تھے ، وہ قیامت کا نمونہ بن گیا اور اس طرح وہ روئے اور چلائے کہ جیسے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے اور وہ تڑپتے ہیں تو چنانچہ خدا تعالیٰ کو اس حالت پر رحم آگیا اور خدا نے اپنے وعدے کو ٹال دیا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ کاش باقی لوگ بھی جن کو خدا کے انبیاء نے ڈرایا یونس کی قوم کی طرح ہوتے وہ گریہ وزاری کرتے.وہ تو بہ واستغفار کرتے ، ہم ان کو بھی بخش دیتے اور ان کا دنیا میں نفع کی حالت میں رہنا لمبا کر دیا جاتا، یعنی اچھی حالتیں ان کی لمبی کر دی جاتیں اور ان کو خدا کا عذاب نہ پکڑ لیتا تو یہ وہ واقعہ ہے، حضرت یونس چونکہ اس بات سے بے خبر تھے جب وقت معینہ گزر گیا اور ایک دیہاتی جو اس شہر سے آرہا تھا اس سے حضرت یونس نے پوچھا کہ کیوں جی بتاؤ اس بستی کا کیا حال ہے؟ تو اس نے کہا وہ ٹھیک ٹھاک ہے ، بس رہے ہیں.اس پر حضرت یونس اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ وہ سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میرے ذریعے ان کو یہ وعید دیا تھا کہ تم ہلاک کئے جاؤ گے اور ہلاک نہیں کیا.تو شرم کے مارے وہ ہستی کو نہیں لوٹے.قرآن کریم اس کے بعد کے واقعات کو بہت ہی لطیف انداز میں بیان فرماتا ہے.فرماتا ہے وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ الطفت :۱۴۰) یا درکھو یونس مرسلین میں سے تھا.اس گواہی کے ساتھ اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق ایسی بات نہ کہہ دینا جو مرسلین کی شان کے خلاف ہے.اس کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 411 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء یہ نہ خیال کر لینا کہ خدا نے اس کو حکم دیا کہ تو فلاں جگہ جا اور وہ نافرمانی کرتے ہوئے کسی اور جگہ کی طرف چل پڑا تو مرسل وہ بہر حال تھا.مرسلین سے بھی بعض دفعہ کچھ غفلتیں ہو جاتی ہیں.عام انسان اس سے سینکڑوں گنا بڑی غفلتیں کرتا ہے اور پکڑا نہیں جاتا.کیونکہ اس کے معیار کے مطابق وہ گناہ نہیں بنتا لیکن جتنا بلند مقام ہو اتنا ہی داغ نمایاں ہوتا جاتا ہے اور معمولی داغ بھی سفید کپڑوں پر بڑا ہوکر دکھائی دیتا ہے.پس یہ مضمون ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ فرما رہا ہے.وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ کہ یونس بہر حال مرسلین میں سے تھا.خدا کے برگزیدہ بندوں میں سے تھا.جس کو خدا نے اپنا پیغامبر بنا کر بھیجا تھا.اس لئے جو کچھ بھی اس سے غلطی ہوئی وہ مرسلین میں پھر بھی رہے گا اور سننے والوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ادب کے تقاضوں کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں.إِذْ اَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (الصفت : ۱۴۱) جب وہ بھاگتا ہوا ایک بھرے ہوئے جہاز میں داخل ہوا ابق کا مطلب ہے جیسے گاڑی چھوٹتی ہوئی آپ دیکھتے ہیں تو ڈر کے پکڑتے ہیں گاڑی یا جہاز کی سیٹیاں بج چکی ہیں.رخصت ہونے والا ہے تو آپ تیزی سے آگے جاتے ہیں کہ میں رہ نہ جاؤں تو فرمایا کہ وہ جہاز پہلے ہی بھرا ہوا تھا اور چل رہا تھا.حضرت یونس نے دیکھا تو دوڑ کر اس کو پکڑا فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ (الصفت : ۱۴۲) قرعہ حضرت یونس نے ڈالا.اقرار وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اپنے گناہوں کا ان کے سامنے اقرار کیا.معلوم ہوتا ہے جہاز ڈولا ہے.پہلے ہی بھرا ہوا تھا،طوفان آگیا ہے ، لوگ ڈر گئے تو فیصلہ ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے اور جہاز کا لفظ تو اس پر اطلاق ہی نہیں کرتا، اس زمانے کے لحاظ سے جہاز کہلاتا ہوگا لیکن ایک عام کشتی تھی ورنہ جہاز سے ایک آدمی کے پھینک دینے سے کوئی فرق نہیں پڑا کرتا.اتنی بڑی کشتی تھی.اس سے بڑی نہیں تھی کہ اگر اس میں سے ایک آدمی بھی باہر پھینک دیا جائے تو اس کے نہ ڈوبنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں.بچ جانے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں.چنانچہ خدا کی شان ہے کہ یونس سے قرعہ ڈلوایا گیا اور اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ پہلے ہی چونکہ بہت سے مسافر بھرے ہوئے تھے، حضرت یونس چونکہ بعد میں آئے تھے، اگر کوئی اور قرعہ ڈالتا تو حضرت یونس کو یہ شک پڑ سکتا تھا کہ مجھے انہوں نے نکالنا ہی تھا بہانہ بنالیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت یونس کو بتانے کے لئے کہ میری تقدیر کام کر رہی ہے اس میں کسی بندے کی سازش کا دخل نہیں ہے ایسا انتظام کیا کہ کشتی والوں نے آپ ہی کو کہا کہ آپ قرعہ ڈالیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 412 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء چنانچہ جب قرعہ نکالا تو آپ کا اپنا نام نکلا اور الْمُدْ حَضِینَ یعنی سمندر میں پھینکے ہوؤں میں سے وہ ہو گیا.فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِيْمٌ (الصفت : ۱۴۳) اس حالت میں مچھلی نے اسے نگلا کہ وَهُوَ مُلِيم کہ وہ ملامت کرنے والا تھا.یعنی اپنے نفس پر ملامت کرنے والا تھا ملامت زدہ تھا.فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (الصفت : ۱۴۴) پس اگر ایسا ہوتا کہ اس سے پہلے وہ خدا کی تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا لَبِثَ فِي بَطْنِعَ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (الطفت : ۱۳۵) تو یونس مچھلی کے پیٹ میں اس وقت تک رہتا کہ جس وقت دوبارہ انسانوں کو حشر کے دن اٹھایا جائے گا.ان آیات میں اگر آپ ذرا سا مزید غور کریں تو حضرت یونس کے ساتھ جو واقعات پہلے گزرے تھے ان کا بڑے لطیف رنگ میں ذکر موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں بتایا کہ خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں کو سبق دیتا ہے تو نہایت ہی لطیف رنگ میں ان غلطیوں سے مناسبت رکھتے ہوئے سبق دیتا ہے جو ان سے پہلے ہو چکی ہوئی ہوتی ہیں.اب یاد کریں کہ حضرت یونس نے ایک بھرے ہوئے شہر کو چھوڑا تھا.وہ بھرا ہوا شہر ایسا تھا کہ جو اپنے گناہوں کے باعث ہلاک ہونے کے لائق تھا اور خدا کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ صرف یونس علیہ السلام ایک ایسا انسان ہے جو بچائے جانے کے لائق ہے اور بھرے ہوئے شہر کو ہلاکت کا نشانہ بنتے ہوئے چھوڑ کر خدا کی وحی کے مطابق حضرت یونس اس شہر سے الگ ہوئے.چونکہ اس کے بعد ان سے ایک غلطی سرزد ہوئی اور دل میں یہ خیال گزرا که شاید دخدا میرے خلاف کوئی فیصلہ نہ کرے چونکہ آپ مرسلین میں سے تھے اس لئے ہم یہ بدظنی نہیں کریں گے کہ یہ خیال انہوں نے کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر نہیں ہوسکتا.میں نے غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجمہ کرنا یہاں درست نہیں ہے بلکہ بہت ہی لطیف بات ہے جو بیان ہوئی ہے.وہ یہ ہے کہ حضرت یونس نے یہ سوچا ہوگا کہ وہ خدا جو ایک لاکھ گنہگاروں کو سخت گناہوں کے باوجوداس فیصلے کے باوجود کہ میں ان کو ہلاک کر دوں گا ، پھر معاف کر دیتا ہے تو مجھے کہاں پکڑے گا پھر؟ میں تو نیک بندوں میں شمار ہوتا ہوں، میں تو اس کے مرسلین میں سے ہوں ، مجھ سے تو زیادہ رحمت کا سلوک کرے گا.پس اس آیت یعنی مجھ پر قدرت نہیں پاسکے گا کا یہ مطلب ہے کہ اللہ میرے خلاف فیصلہ نہیں دے گا.جو انت رحم کرنے والا خدا ہے اس نے مجھے کہاں کچھ کہنا ہے؟ لیکن یہ بات وہ بھول گئے کہ ہر شخص سے اس کے حالات اور اس کی توفیق کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے.خدا کے نیک بندوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 413 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء سے بہت زیادہ اونچی تو قعات ہوتی ہیں پس خدا تعالیٰ نے حضرت یونس کو یہ سبق دینا تھا کہ جب خدا تعالیٰ چاہے اس صورتحال کو بالکل الٹ سکتا ہے پس.اب آپ کشتی کی طرف آئیں، ایک بھری ہوئی کشتی تھی ، وہاں حضرت یونس کے سوا سارے گنہگار تھے لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب گنہ گاروں کو بچالیا یعنی بظاہر اور جو سب سے معصوم انسان تھا اس کو ہلاکت کی طرف با ہر پھینکوادیا اور جو بھی اس پہلے شہر میں واقعہ گزرا تھا اس سے بالکل الٹ مضمون ہو گیا وہاں حضرت یونس ایک بھرے ہوئے شہر کو چھوڑ کر جارہے تھے ، جس سارے شہر کو خدا کی تقدیر نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور صرف یہ ایک معصوم انسان تھا جسے نجات کی خبر دی گئی تھی اور کشتی کی حالت یہ تھی کہ وہ گنہگاروں سے بھری ہوئی تھی اور خدا کی تقدیر یہ کہہ رہی تھی کہ ان سب کو میں معاف کرتا ہوں اس نیک بندے کو یہاں سے نکالا جائے جس نے مجھ پر بدظنی کی ہے اور اسے ہلاکت کے منہ میں ڈال دیا جائے.چنانچہ مچھلی نے آپ کو نگل بھی لیا، وہاں ظلمات کا لفظ استعمال کرنا ، اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھائی ہوئی دعا تھی.بہت ہی فصیح و بلیغ کلام ہے.فَنَادَى فِي الظُّلُمَتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ ایک ظلمت کا کام اس سے سرزد ہوا تھا ، ساری زندگی نور میں کئی اور ہلکا سا ظلمت کا سایہ آیا جو اس نے خدا تعالیٰ پر بدظنی کر لی.اس کے نتیجے میں وہ ظلمات میں گھر گیا.فَنَادَى فِي الظُّلُمتِ کئی قسم کے اندھیروں میں اس نے بے اختیار یہ دعا کی.لَا إِلَهَ إِلَّا انت اے خدا تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے سبحنك تو ہی پاک ہے.اِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِینَ میں ہی ظالم انسانوں میں سے تھا اور ظلمت اور ظلم یہ دونوں ایک ہی منبع سے نکلے ہیں اور دونوں ہم معنی ہیں.ظلم کا مطلب گناہ بھی ہے اوراندھیرا بھی ہے.پس اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ نجات بخشی اور یہ فرمایا.فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ میں نے جو یونس کو معاف کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ساری زندگی تسبیح وتحمید میں گزری تھی.پس خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی سابقہ نیکیوں کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے اگر چہ غلطی بہت بڑی ہی کیوں نہ ہوئی ہو جو خدا توقع رکھتا ہے اس کے خلاف انسان سے بعض دفعہ کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے جس سے گویا اس کا پچھلا سا را اعمال نامہ سیاہ شمار کر لیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نیک بندوں کی نیکیوں کو اس طرح بھلا نہیں دیا کرتے ، وہ ہمیشہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ تسبیح وتحمید میں وقت گزارا کرتا تھا.414 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء اس میں ہمارے لئے یہ نصیحت ہے کہ ہم عین وقت کے اوپر جو دعا کریں کہ اے خدا ہم سے غلطی ہو گئی ہمیں ظلم سے نجات بخش ہمیں ظلمات سے نکال دے اور اس سے پہلے خدا کی تسبیح وتحمید نہ کریں تو ہماری دعا میں قبولیت کی وہ طاقت نہیں ہوگی اس لئے ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کی حالت میں رہنا چاہئے.اس وقت خدا کی تسبیح کرنی چاہئے جبکہ خدا سے کوئی مطالبہ نہیں ہورہا.کوئی بھیک مانگنے کے لئے اس کے در پر نہیں گئے بلکہ اس کی محبت میں ، اس کی یاد میں ، اس کے پیار میں ہم اس کی مدح کے گیت گا رہے ہوں اس کی تسبیح بلند کر رہے ہوں.ایسی حالت میں ہمیں جب بھی مشکل پیش آئے گی تب خدا تعالیٰ اس پرانی تسبیح کو یاد کرتے ہوئے اگر چہ گناہ بڑا بھی ہو گیا ہو تب بھی مغفرت کا سلوک فرمائے گا.پس وہ لوگ جو بعض دفعہ مجھے یہ لکھتے ہیں کہ ہم مصیبت میں گھر گئے ، ہم نے تو بڑی التجائیں کیں ، بڑا شور مچایا بہت روئے پیٹے ، ہماری دعا قبول نہیں ہوئی ان کے لئے اس میں نصیحت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ پہلی زندگی میں وہ خدا سے غافل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے نعمتیں عطا کیں لیکن انہیں خدا کو یاد رکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی.اسی وقت یاد آیا جبکہ ضرورت پیش آئی تو جب ضرورت پیش آئی اس وقت کی یاد کی کوئی حقیقت نہیں ہوا کرتی ، کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی.پس ضمناً یاد کرا دوں وہ تین دن والی جو بحث ہے اس کو اس طرح نہیں کرنا چاہئے کہ آپ اصرار کریں کہ ضرور تین دن ہی مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے.تین دن کی خطر ناک حالت ہم کہہ سکتے ہیں.معلوم ہوتا ہے بائیبل میں جو واقعہ ہے وہ لکھنے والوں کو پوری طرح واضح نہیں تھا.خدا تعالیٰ نے ممکن ہے کسی نیک بندے پر وحی کی ہو یا ایک باہر کے نبی کا قصہ وہاں پہنچا ہو اور اس میں غلطی رہ گئی ہو.تین دن کی انتہائی نازک حالت کا ذکر ہوگا جس کو یہ سمجھ لیا گیا کہ گویا تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دل کا حملہ ہوتا ہے تو تین دن تک بعض دفعہ ایک شخص Intensive care میں رکھا جاتا ہے یعنی ایسی حالت میں جہاں زندگی اور موت کے درمیان کشمکش جاری ہوتی ہے پس وہ حالت جس میں بظاہر موت غالب آنے والی ہوا سے ہم خطر ناک حالت قرار دیتے ہیں، بیماری تو بعد میں بھی کچھ چلتی ہے لیکن اس بعد کی حالت میں صحت کے غلبے کے امکان بڑھ جاتے ہیں.پس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 415 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی صلیب پر چند گھنٹے رہنے کے بعد دواڑھائی دن ایسی ہی حالت رہی کہ گویا جانکنی کی حالت تھی ، شدید گہرے زخموں میں آپ مبتلا تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ دم آیا کہ نہ آیا، کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا، تو تین دن کی مشابہت اس رنگ میں حضرت یونس سے ہوئی کہ حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی مچھلی نے خواہ چند ثانیوں کے لئے یا ایک دومنٹ کے لئے ہی پیٹ میں رکھا ہو، جب اگلا ہے تو اس کے زخم بھی اتنی کاری تھے اور اتنا گہرا نقصان ہو چکا تھا کہ تین دن اس کے بعد جان کنی کی حالت میں رہے ہیں.اگر خدا تعالیٰ بیل اگا کر اس کا سایہ نہ کر دیتا اور اس بیل میں شفانہ رکھتا تو آپ کے بچنے کے بظاہر کوئی امکان نہیں تھے اور ایسی حالت سے بھی اللہ تعالیٰ نجات بخش دیتا ہے.پس جہاں بعض احتیاطوں کے سبق ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بے انتہاء ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.ایسی خطر ناک حالت میں بھی خدا تعالیٰ بچا سکتا ہے جس سے بظاہر بیچنے کی کوئی صورت نہ ہو.اب میں آخر میں حضرت ذکریا کی دعا کے بعد اس خطبہ کو ختم کروں گا حضرت ذکریا کی ایک دعا پہلے بھی گزر چکی ہے.اب جو دعا قرآن کریم نے دوسرے لفظوں میں ہمارے سامنے رکھی ہے وہ یہ ہے.وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَ أَنْتَ خَيْرُ الْوَرِثِينَ (انبیاء:۹۰) که زکریا کو بھی یاد کرو اِذْ نَادی ربَّہ جب اس نے اپنے رب کو پکارا اور یہ عرض کیا رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا اے میرے خدا! مجھے اکیلا نہ چھوڑ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوِرِثِينَ اور سب وارثوں میں بہتر تو ہی وارث ہے.پہلی دعا سے متعلق اگر کسی کو غلط نہی پیدا ہوئی ہو تو اس دعا میں اس کا ازالہ فرما دیا گیا ہے.پہلی دعا میں یہ ذکر تھا کہ آپ نے یہ عرض کی کہ اے خدا! میرا کوئی والی نہیں ہے، مجھے شریکوں کا ڈر ہے، میری بیوی بانجھ ہے اور بوڑھی ہے، میرے مرنے کے بعد وہ اکیلی رہ جائے گی تو کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نہیں ہوگا.اس سے کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ حضرت زکریا کے نزدیک ظاہری اولاد کی ظاہری حکمتوں کے پیش نظر اہمیت ہے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر میرا وارث نہ ہوا تو میرے پیچھے میری بیوی گویالا وارث رہ جائے گی تو حضرت زکریا چونکہ خدا تعالیٰ سے بے انتہاء پیار کرنے والے اور اس پر بے حد تو کل کرنے والے انسان تھے اس لئے اس غلط نہی کے ازالہ کے لئے ان کی ایک اور دعا بھی قرآن کریم میں بیان فرما دی.اس میں وہ کہتے ہیں کہ اے خدا! میری خواہش تو یہی ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 416 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء میں اکیلا نہ رہوں ، میرے بعد میری اولاد آئے لیکن یہ معنے نہیں ہیں کہ اولاد نہ ہوئی تو میرے پیچھے میری بیوی اور باقی جو بھی سلسلہ ہے وہ لاوارث ہو جائے گا.وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوِرِثِينَ ہر شخص کے بعد تو ہی اصل وارث ہوا کرتا ہے اور اس کی ہر جائیداد، ہر عزت، ہر دولت اور ہر ذمہ داری تیری طرف لوٹ جاتی ہے.یہاں وارث کے دو معنے ہیں ان دونوں معنوں میں آپ کو دعا کرنی چاہئے.یعنی ان دونوں معنوں کوملحوظ رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے.ایک وارث وہ ہے جو جائیداد پالیتا ہے اور ایک وارث وہ ہے جو ذمہ داریاں ورثے میں پاتا ہے اور سچا وارث وہ ہوتا ہے جو ان کو ادا کرتا ہے تو انْتَ خَيْرُ الْوِرِثِينَ میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں.مطلب یہ ہے کہ اے خدا! جو کچھ میرا ہے میرا تو ہے ہی کوئی نہیں.کسی کا بھی کچھ نہیں ہم تو مر کر یہاں سے چلے جانے والے ہیں جو کچھ تو نے ہمیں عطا کیا ہے وہ سب تیری طرف واپس لوٹتا ہے اور تو ہی ہے جو باقی رہے گا اور ہر چیز آخر تیری ہی ہوگی.دوسرا معنی یہ ہے کہ دنیا والے وارث تو اپنی ذمہ داریاں ادا کریں نہ کریں.جو تجھ پر توکل رکھتے ہیں ان کا صحیح وارث تو ہی ہوا کرتا ہے اور ان کے سارے بوجھ تو اٹھا لیتا ہے ان کے قرضے اتارنے کا بھی تو ہی انتظام کرتا ہے.ان کی دیگر ذمہ داریوں کا بھی تو ہی ذمہ دار بن جاتا ہے پس وارث ان دونوں معنوں میں ہے.پس وہ لوگ جو اولاد کی تمنا رکھتے ہیں ان کو یہ دعا ان معنوں میں کرنی چاہئے کہ ہم تمنا تو رکھتے ہیں مگر یہ مطلب نہیں ہے کہ اولاد نہیں ہوگی تو ہم برباد ہو جائیں گے ہمارا تو ہی تو ہے اور تو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جس کا تو ہو جائے اس کے نام مٹا نہیں کرتے اس کی ذمہ داریاں اس کے بعد بھی ادا ہوا کرتی ہیں.پس اگر تو اولاد نہ دے تو ہم ناراض نہیں ہم جنگی محسوس نہیں کرتے ،تمنا ہے اگر عطا کر دے تو بہتر ہے ورنہ تو بہترین وارث ہے.تیرے ہوتے ہوئے ہم کسی قسم کے شکوے کا حق نہیں رکھتے چنانچہ فرمایا.فَاسْتَجَبْنَالَهُ وَوَهَبْنَالَهُ يَحْيِي وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ (الانبیاء: 9) پس ہم نے اس کی دعا کو قبول فرمالیا اور اسے ہم نے سجی بطور تحفہ عطا کیا وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ اور اس کی بوڑھی بانجھ زوجہ کی اصلاح فرما دی.اِنَّهُمْ كَانُوا يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا یہاں بھی قبولیت دعا کی حکمت واضح فرما دی کہ کیوں بعض لوگوں کی دعا ئیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.فرمایا إِنَّهُمْ كَانُوا يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ یہ وہ لوگ تھے جو محض ضرورت کے وقت میرے پاس نہیں آیا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ میری محبت کے نتیجہ میں نیک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 417 خطبہ جمعہ ۰ ارمئی ۱۹۹۱ء کاموں میں سبقت لے جایا کرتے تھے.بنی نوع انسان کی خدمت کیا کرتے تھے جو بھی بھلائی کا موقع آتا تھا اس سے چوکتے نہیں تھے بلکہ آگے بڑھ بڑھ کر نیک کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے.وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا اور ہمیشہ مجھے یاد کیا کرتے تھے اور میرے سے دعا ئیں کیا کرتے تھے، رغبت رکھتے ہوئے بھی اور خوف رکھتے ہوئے بھی بعض دفعہ میری رضا کی تمنا میں اور لالچ میں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور بعض دفعہ اس خوف میں دعا کیا کرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے کہ خدا ناراض ہو جائے اور پھر فرمایا وَ كَانُوا لَنَا خَشِعِينَ اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ عاجزی کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے.بہت ہی خشوع وخضوع کرنے والے تھے.پس جن کا یہ دستور ہوان کی دعائیں جو غیر معمولی حالات میں قبول ہوئی ہیں تو اس کا یہ پس منظر ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت زکریا کے حق میں خدا تعالیٰ نے ایسا اعجازی نشان دکھا دیا، ہم دعا مانگتے ہیں ، ہماری بوڑھی بیوی تو کچھ بھی نہیں جنتی ، ہماری بانجھ عورت کو تو کچھ نہیں ہوتا.ہماری کمزوریاں تو دور نہیں ہوتیں ، ان کے لئے نصیحت ہے کہ خدا سے غیر معمولی طلب کرنے والے اپنے اندر بھی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کیا کرتے ہیں.وہ اپنی زندگی کو خدا کی خاطر بدل دیتے ہیں اور محض اپنی ضرورت کے وقت خدا کے حضور حاضر نہیں ہوتے بلکہ ساری زندگی حاضر رہتے ہیں.اور اس کی رضا پر بھی راضی رہتے ہیں ، اس کے ابتلاء پر بھی راضی رہتے ہیں اور ہمیشہ یہ خوف ان کو دامنگیر ہوتا ہے کہ کہیں خدا ہماری کسی کو تاہی کی وجہ سے ہم سے ناراض نہ ہو اور ہم اس کی رضا سے محروم نہ رہ جائیں.پس ایسے لوگوں کی دعائیں غیر معمولی طور پر اعجازی رنگ میں قبول کی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے بندوں میں شامل فرمائے کہ ہم اس سے بہت کچھ مانگیں اور التجاؤں کے ساتھ مانگیں لیکن اس فیصلے کے ساتھ مانگیں کہ اگر وہ رد کر دے گا تب بھی ہم راضی رہیں گے.حضرت مصلح موعود کا یہ شعر جو میں پہلے بھی بارہا پڑھ چکا ہوں مجھے بہت ہی پیارا ، آپ کے سب شعروں میں زیادہ پیارا لگتا ہے.وہ یہ ہے کہ ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاء ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو ( کلام محمود صفحہ ۲۷۳) اے ہمارے اللہ ! چاہتے تو فضل ہیں لیکن فضل ہو یا ابتلاء آجائے ، تیری طرف سے اگر ابتلا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 418 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء آجائے اور رضا والا ابتلاء ہونا راضگی والا ابتلاء نہ ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو اس روح کے ساتھ آپ دعا ئیں کیا کریں تو آپ نے سب کچھ پالیا وہی لوگ دنیا میں کامیاب ہوں گے جو مالک کی ہر ادا سے راضی ہوں جن کو خیرات سے پیار نہ ہو خیرات دینے والے ہاتھ سے پیار ہو.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:.ابھی نماز جمعہ ہونے کے بعد نماز جنازہ ہوگی.جرمنی کی یہ خاتون امتہ العزیز جو فیصل آباد کے نائب امیر چوہدری غلام دستگیر صاحب کی بہو تھیں.بہت ہی نیک خاتون سلسلے سے بے حد محبت اور خلوص رکھنے والی اور خلافت احمدیہ سے تو ان کو ایسا عشق تھا کہ ایک مثالی عشق تھا بلکہ حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح ان کو محبت بھی ہے، یقین اور اعتماد بھی ہے.کئی دفعہ پہلے فیصل آباد میں اس حد تک بیمار ہو گئیں کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ خلیفہ وقت دعا کریں گے تو میں ٹھیک ہو جاؤں گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اخلاص کو قبول کیا اور حیرت انگیز طریق پر شفایاب ہوئیں.پھر خواہش کے مطابق لنڈن بھی آئیں.مجھ سے ملیں بعد میں واپس جا کر پھر دوبارہ جرمنی آئیں.اب چند مہینے پہلے سے ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہوئی اور ایک اور بیماری ہوئی یعنی لنگر (Lungs) کا کینسر تھا تو اس وقت بھی ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہیں آئی.تو کل میں کوئی فرق نہیں پڑا اور ہسپتال میں ایک دفعہ لاعلاج کر کے گویا پھینک دیا گیا تھا تو ان کی طرف سے پھر مجھے پیغام ملا.پھر خدا تعالیٰ نے دعا کی توفیق دی اور اس حالت سے نکل کر پھر خدا کے فضل سے باہر آگئیں لیکن تقدیر جو ہے وہ تو لازماً آنی ہے یعنی موت تو ٹل ہی نہیں سکتی.یہ وہم تو دلوں سے نکل جانا چاہئے کہ کوئی شخص تقدیر سے متمنی ہوسکتا ہے.دعا سے خدا تعالیٰ اپنے پیار اور محبت کے اظہار کے لئے تھوڑی سی مہلتیں بڑھادیا کرتا ہے.آخر ان کا وقت آنا ہی تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھوں.چنانچہ جب ہم یہاں جرمنی آ رہے تھے تو میری اہلیہ نے مجھے یاد کرایا.انہوں نے کہا کہ دیکھو، اس کی یہ جو تمنا تھی خدا نے یہ بھی پوری کر دی اور اس وقت تک نہیں مری جب تک آپ کے جرمنی آنے کا انتظام نہیں ہوا.ورنہ جنازہ غائب ہی ہوسکتا تھا.سامنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 419 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۱ء رکھ کر تو جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا تھا.اللہ تعالیٰ ہمارے احمدیوں ، بڑوں چھوٹوں ، مردوں عورتوں کے دل میں اسی طرح اخلاص پیدا کرے.اسی طرح ان کے اخلاص کو نوازتا رہے.اپنے قرب کے نشان دکھاتا رہے.ان کے بچے چھوٹے ہیں.ان کے لئے بھی خصوصیت سے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اسی رنگ میں رنگین فرمائے اور ان کا حامی و ناصر ہو.وہی خَيْرُ الْوَرِثِينَ ہے جو یہ دعا تھی اسی پر تان ٹوٹتی ہے.باقی وارث تو آنے جانے والے ہیں.ذمہ داریاں ادا کریں نہ کریں.اگر خدا کسی کا وارث بن جائے تو پھر اسے کوئی غم اور کوئی فکر نہیں رہتا.اس کے علاوہ دو جنازہ غائب ہیں.ایک مسماۃ امتة الرشيد زوجہ چو ہدی محمد سعید صاحب کلیم اور دوسرا ڈاکٹر رفیق بخاری صاحب کی ہمشیرہ ہیں.ان کو بھی اس دعا میں شامل کر لیں.نماز جمعہ کے معاً بعد آپ سب اسی طرح صفوں کی حالت میں کھڑے ہو جائیں.میں چند ساتھیوں کے ساتھ باہر لغش کے سامنے حسب سنت نماز جنازہ پڑھوں گا.یہاں آپ کو آواز آئے گی اور اس طرح آپ یہیں کھڑے کھڑے اس جنازہ میں شامل ہو جائیں گے.اس کے علاوہ جرمنی کے بعض دوستوں نے مجھے خط لکھے تھے.مجھے اب یاد نہیں رہاوہ وہاں انگلستان میں ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون کون تھے.تو ہم سب کو غائبانہ طور پر دعا میں شامل کر لیتے ہیں.خدا کے علم میں ہے.وہ خواہشمند کون تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اس مغفرت کی دعا میں حصہ دار بنادے.( آمین )
خطبات طاہر جلد ۱۰ 421 خطبہ جمعہ ۷ ارمنی ۱۹۹۱ء حضرت ابراھیم اور رسول کریم ﷺ کی دعاؤں کا تفصیلی ذکر اولاد کے لئے دعا کریں کہ وہ آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں.خطبه جمعه فرموده ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ان دعاؤں کا ذکر چل رہا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام یافتہ بندوں نے کیں اور جن کا ذکر بطور خاص قرآن کریم میں محفوظ فرمایا گیا ہے.ایک دعا سورۃ انبیاء کی آیت ۱۱۳ میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کے طور پر محفوظ ہے.قُل رَبِّ احْكُمُ بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (الانبیاء: ۱۱۳) کہ اس نے کہا یعنی محمد رسول الله الا اللہ نے کہا : رَبِّ احْكُمُ بِالْحَقِّ کہ اے میرے رب !حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ اور ہمارا رب بہت رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا ہے.الْمُسْتَعَابُ اور ان باتوں میں ہمارا مددگار ہے عَلَى مَا تَصِفُونَ جو تم ہمارے خلاف بناتے ہو.اس دعا کا پس منظر اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ اس میں پہلے زبور کی اس پیشگوئی کا ذکر ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الْاَرْضَ یعنی فلسطین کی زمین خدا تعالیٰ کے عبادت گزار، صالح بندوں کو عطا کی جائے گی.اَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ (الانبياء: ۱۰۲) یہ (اس پیشگوئی کے ( الفاظ ہیں اس سے کچھ آیات کے بعد پھر یہ آیت آتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 422 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء وَإِنْ أَدْرِكْ لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ إِلى حنين (الانبیاء: ۱۱۲) یعنی محمد رسول اللہ ہے یہ بیان فرمارہے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا یا میں نہیں جانتا کہ یہ جو وعدہ ہے شاید تمہارے لئے آزمائش کا ایک ذریعہ بنے اور مَتَاعٌ إِلى حِينِ اور کچھ عرصے کے لئے تمہیں اس سے فائدہ پہنچے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کواللہ تعالیٰ نے اس بات سے مطلع فرما دیا تھا کہ اگر چہ خدا تعالیٰ کے صالح عبادت گزار بندے بہر حال اس سرزمین کے وارث بنائے جائیں گے مگر وقتی طور پر اس پر غیروں کا قبضہ ہوگا کیونکہ یہ آیت بہر حال مسلمانوں سے متعلق آنحضرت ﷺ کا بیان شمار نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ وعدہ کہ جو خدا کے پاک بندوں کو اور عبادت گزار بندوں کو زمین دی جائے گی ایک مستقل وعدہ ہے اور جس قوم کو مخاطب کر کے آنحضور ﷺ یہ فرمارہے ہیں کہ وَإِنْ أَدْرِى لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ اس سے کوئی مخالف گروہ مراد ہے مسلمان مراد نہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہارے لئے یہ کیا آزمائش لے کر آئے گی یعنی یہ زمین جس پر تم قابض ہو گئے تمہارے لئے کیا آزمائش کا موجب بنے گی.وَمَتَاعُ إِلى حِینِ ہاں کچھ مدت کے لئے تمہیں ضرور اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے.اس صلى الله کے معاً بعد یہ دعا ہے: قُل رَبِّ احْكُمُ بِالْحَقِّ اے میرے رب !حق سے فیصلہ فرمادے.مجھے یاد ہے جب یہ Gulf خلیج کا تنازعہ چل رہا تھا تو اس وقت بھی میں نے بہت سوچ کر یہی دعا کرنے کی احباب جماعت کو تلقین کی تھی کہ کسی ایک طرف کی بجائے حق کے جیتنے کی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حق کو صلى الله فتح عطا فرمائے.پس چونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی دعا کے ساتھ یہ دعا منطبق ہو جاتی ہے اور بعینہ اسی مضمون کی دعا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس دور کے ساتھ اس دعا کا خاص تعلق ہے اور یہ فیصلے ابھی ہونے باقی ہیں، کسی ایک فریق کے جیتنے یا نہ جیتنے کی بحث نہیں ہے بلکہ اس تنازعہ کے نتیجے میں جو کچھ بھی آگے جدو جہد کا ایک سلسلہ جاری ہونے والا ہے ، جو حالات بھی پیدا ہوں گے بالآخر ہماری دعا یہی ہے کہ اے خدا! حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور جن لوگوں کے مقدر میں یہ سرزمین لکھی گئی ہے بالآخران تک پہنچے.چنانچہ اس کے بعد آنحضور ﷺ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں.وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ کہ ہمارا رب بہت ہی رحمت کرنے والا، بے انتہاء دینے والا ، بن مانگے دینے والا ہے اور جو کچھ یہ لوگ ہم پر باتیں بناتے ہیں یا تم لوگ ہم پر باتیں بناتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 423 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء ہوان کے خلاف بھی ہمارا رب مددگار ہوگا اور مددگار ہے.پس اس وسیع تر معنے میں یہ دعا کرنی چاہئے.اس کے بعد دوسری دعا سورۃ المومنون کی آیت ۲۷ میں ہے.یہ حضرت نوح کی دعا ہے اس سے پہلے کی آیات میں یہ ذکر ہے کہ حضرت نوح کی قوم کے سرداروں نے آپ کے متعلق طرح طرح کی باتیں بنائیں اور کہا کہ تم محض اپنی فضیلت چاہتے ہو اور خدا کا پیغام ہم تک پہنچانا محض ایک بہانہ ہے اور پھر یہ کہا کہ اگر خدا چاہتا تو اپنی طرف سے فرشتے نازل فرماتا.کجا یہ کہ تمہیں ہم پر پیغمبر بنا کر بھجوا تا جو محض ایک انسان ہو، اس سے زیادہ تمہیں کوئی حیثیت (حاصل ) نہیں اور پھر یہ بھی کہا کہ انسان ہی نہیں ایک مجنون انسان ہو.تمہیں تو جنون ہو چکا ہے، دیوانے ہو گئے ہو.پس ہم اس بدانجام کا انتظار کر رہے ہیں جو تمہیں پہنچے گا اس پر حضرت نوح نے یہ دعا کی کہ.قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (المومنون: ۲۷) اے میرے رب ! میری نصرت فرما، بِمَا كَذَّبُونِ بِمَا كَذَّبُونِ کا ایک ترجمہ یہ ہے اور یہی حضرت مصلح موعودؓ نے بھی کیا ہے کہ بسبب اس کے جو انہوں نے مجھے جھٹلا دیا اور ایک اور ترجمہ جو اس سیاق و سباق میں برمحل بیٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ بِمَا كَذَّبُونِ میری جن باتوں میں یہ تکذیب کر رہے ہیں ویسی ہی مقابل کی نصرت عطا فرما یعنی جن جن باتوں میں یہ میری تکذیب کرتے ہیں ایسی نصرت فرما کہ ان سب باتوں میں یہ خود جھوٹے ثابت ہو جائیں.اس دعا کی قبولیت کا ذ کر اگلی آیت میں ملتا ہے اور وہ انہی معنوں میں ہے جن معنوں میں میں یہ ترجمہ کر رہا ہوں.فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا (المومنون: ۲۸) پس اس دعا کے بعد ہم نے نوح پر وحی نازل فرمائی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ، ہمارے دیکھتے میں ایک کشتی بنا اور اس طرح کشتی بنا جس طرح ہم تم پر وحی نازل فرماتے ہیں.فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا اور جب ہمارا حکم آگیا وَفَارَ التَّنُّورُ اور چشموں نے خوب جوش مارنا شروع کیا فَاسْلُكُ فِيهَا مِن مِن كُل زَوْجَيْنِ تو اس وقت ہر قسم کے جاندار جو ضروری ہیں ان کے جوڑے لے لینا اور اپنے اہل کو ساتھ لے لینا سوائے اس کے جن کے خلاف ہمارا فیصلہ گزر چکا ہو.وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارہ میں مجھے خطاب نہ کرنا یعنی میرے سامنے دعا نہ کرنا.إِنَّهُمْ مُّغْرَقُونَ وہ یقینا غرق کئے جائیں گے.پس دراصل انہوں نے حضرت نوح کو نہ صرف جھوٹا اور ریاء کار بتایا بلکہ قوم کا حضرت نوح
خطبات طاہر جلد ۱۰ 424 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء کو جو خطاب ہے وہ اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ ہم انتظار کر رہے ہیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ عرصے تک تم اپنے بد انجام کو پہنچنے والے ہو.تو یہ تھا ان کا تکذیب کا ذریعہ اور تکذیب کا جو مدعا تھا وہ یہ تھا کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے یہ جھوٹا ثابت ہواور ہلاک ہو جائے.پس چونکہ حضرت نوح نے یہ دعا کی کہ رَبِّ انْصُرْنِی بِمَا كَذَّبُونِ اے میرے خدا! میری ویسی ہی نصرت فرما جیسی یہ میری تکذیب کرتے ہیں تو بعینہ اس کی قبولیت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی آنکھوں کے سامنے ان کی ہلاکت کی خبر دیدی اور ایسا ہی ہوا.پس یہ دعا ئیں اگر اسی پس منظر کو پیش نظر رکھ کر کی جائیں جس پس منظر میں قرآن کریم نے ان کا ذکر فرمایا ہے تو ان کے اندر قوت بھی بہت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا مضمون بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے اور حالات کے ساتھ مربوط ہو جاتا ہے.پس جماعت احمدیہ پر بھی جہاں جہاں ایسے حالات گزرتے ہیں یا آئندہ گزریں گے ، جماعت احمدیہ کو بھی ان دعاؤں سے اسی طرح استفادہ کرنا چاہئے سورۃ المومنون کی آیت ۲۹ اور ۳۰ میں ایک اور دعا کا ذکر ہے جو اسی سلسلے میں ہے فَإِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ (المومنون:۲۹) پس جب تو اور جو بھی تیرے ساتھ ہوگا کشتی پر سوار ہو جاؤ گے اور اطمینان کے ساتھ محفوظ ہو جاؤ گے فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجْنَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ تو پھر یہ کہنا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِئ تمام حمد ، سب تعریف، کامل تعریف محض اللہ ہی کے لئے ہے.الَّذِي نَجْنَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِینَ جس خدا نے ہمیں ظالموں کی قوم سے نجات بخشی.وَقُل رَّبِّ انْزِلَنِي مُنْزَلًا مبرا اور پھر یہ دعا کرنا کہ اے میرے رب مجھے مبارک منزل پر اتارنا.وَاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (المومنون : ۳۰) اور تو سب مہمان نوازوں سے اور اتارنے والوں سے بہتر مہمان نواز اور بہتر اتارنے والا ہے.یہ دعا ہجرت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے.اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کی اس دعا کا ذکر گزر چکا ہے جو آپ کو ہجرت کے متعلق سکھائی گئی تھی.یہ دعا حضرت نوح کی دعا ہے کہ مُنزَلا مبر گا ہو.جہاں میں جاؤں دنیاوی اغراض سے نہ جاؤں بلکہ جو کچھ بھی مجھے ملے تیری طرف سے ملے اور برکتیں عطا ہوں.وہ مہاجرین جو آج مختلف ظلم کی جگہوں سے ہجرت کر رہے ہیں یا کل کریں گے یا آئندہ زمانوں میں کریں گے ان کو ہمیشہ یہ دعا پیش نظر رکھنی چاہئے.آنحضرت ﷺے والی دعا تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 425 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء بہت ہی جامع و مانع دعا ہے اس کے علاوہ یہ دعا بھی خاص حالات پر اطلاق پاتی ہے اور جو مہاجرین یہ دعا نہیں بھی کر سکے ان کو اب یہ دعا اپنی دعاؤں میں شامل کر لینی چاہئے تاکہ ان کی منزل مبارک ہواور خدا ہی ہے جو ان کی دیکھ بھال کرنے والا ہو اور ان کی مہمانی کرنے والا ہو.اس دعا کے بغیر کسی قوم کوحقیقی میزبانی کا حق عطا نہیں ہوسکتا اور دنیا والے جو میز بانی یا مہمانی کرتے ہیں وہ ایک عارضی سی حیثیت رکھتی ہے اس میں برکت نہیں ہوتی.پس مختلف علاقوں میں جانے والے احمدی مہاجرین کو ان ہی مسائل کا سامنا ہے.بعض قو میں بعض دوسری قوموں کے مقابلے پر زیادہ فراخ دل ہیں لیکن ہر جگہ اس معاملے میں کئی قسم کی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اور ویسے بھی بہت سے غیور احمدی ایسے ہیں جن کے دلوں پر بوجھ ہے کہ ہم جو غیر قوموں کی مدد پر بیٹھے ہوئے ہیں.جب تک ہمیں کام کی اجازت نہ ملے گویا ان کی خیرات پر پل رہے ہیں ان کے لئے یہ دعا بہت ہی اہمیت رکھتی ہے.اگر یہ دعا کر کے چلتے تو ان کے دل میں ہمیشہ پر یقین رہتا کہ میری آؤ بھگت کرنے والا دراصل خدا ہی ہے اور میری دعا کی قبولیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرمائے ہیں اور اس طرح وہ کسی قسم کی نفسیاتی الجھن کا شکار نہ ہوتے اور پھر اس مدد کے باوجود بھی جو مشکلات ہیں اور معاملات ہیں بعض دفعہ کئی قسم کی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں بے برکتی بھی ہوتی ہے.ان سب کا علاج یہ دعا ہے کہ رَّبِّ انْزِلْنِي مُنَزَلًا مُبَرَكَا اے میرے رب مجھے ایسی جگہ اتار اور اس طرح مجھ سے سلوک فرما کہ میں برکتوں والی جگہ پر اترنے والا ہوں.ایسی برکتیں پانے والا ہوں جو تیرے حضور سے عطا ہوتی ہیں.آنحضرت ﷺ کو جو عا ئیں سکھائی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی دعا ہے قُلْ رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِي مَا يُوعَدُونَ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (المومنون :۹۵،۹۴) کہ تو کہہ دے اے میرے رب ! کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تو مجھے اپنی زندگی میں ہی دکھا دے جو تو میرے مخالفوں سے وعدے کرتا ہے یعنی ان سے جو وعید کرتا ہے، ان کو جو انذار فرماتا ہے.کیا ہو نہیں سکتا ؟ کیا ممکن نہیں.التجا کا ایک رنگ ہے.کہ میں بھی اپنی آنکھوں سے وہ دیکھ لوں.رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اور میرے رب ! مجھے ظالموں میں شمار نہ فرمانا.اس کے معا بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ہے وَإِنَّا عَلَى أَنْ تُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَدِرُونَ (المومنون: ۹۲) که یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان سے وعید کرتے ہیں تجھے بھی اس میں سے کچھ دکھا دیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 426 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء اس موقعہ پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی قبول کرنی ہیں.پھر خود ہی دعائیں کیوں سکھاتا ہے.اس میں کیا حکمت ہے؟ اور یہ جو طر ز مسلسل چل رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو ایک طرف دعا سکھاتا ہے اور دوسری طرف اس کی قبولیت کا اعلان فرما دیتا ہے.اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے دراصل اپنے بچوں سے اپنے تعلقات پر نظر ڈالنی چاہئے.وہ پیارے پیارے بچے جن کو ابھی پوری طرح خود شعور نہیں ہوتا ، بہت سی باتیں کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا.والدین جو پہلے سے ہی کچھ دینے پر تیار بیٹھے ہوتے ہیں.انہیں پہلے مانگنے کے طریقے بتاتے ہیں اور کئی طرح سے پیار کے رنگ میں ان کو کہتے ہیں کہ تم ہم سے یہ مانگو، اس طرح مانگو اور پھر جیب پہلے ہی بھری ہوتی ہے.ہاتھ مچل رہے ہوتے ہیں کہ ادھر سے وہ مانگے اور ادھر ہم اس کو عطا کر دیں تو یہ پیار کے خاص انداز ہیں.پس انبیاء کو جو دعائیں سکھائی جاتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے محبت کے اظہار کے رنگ ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے کلیۂ خدا ہی کے ہاتھوں میں پلتے ہیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار پس ایک طفل شیر خوار کی طرح انبیاء کی کیفیت ہوتی ہے.ماں باپ کی گود میں اور ہاتھوں میں کھیلتے اور انہیں سے باتیں سیکھتے ہیں اور وہی باتیں ان (در نشین صفحہ ۱۲۶) کو سکھائی جاتی ہیں جو سکھانے والے کو مقبول نظر ہوں، اس کو پیاری لگتی ہوں پس اس رنگ میں ہماری تربیت کے بھی سامان ہو گئے جن سے براہ راست خدا کا تکلم نہیں ہوتا اور بعد میں آنیوالی نسلوں پر اللہ تعالی کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ باتیں جن کے ہم حقدار نہیں کہ خدا ہمیں براہ راست سکھائے ، اپنے پیارے انبیاء کو سکھا کر ، ان کا ذکر محفوظ کر کے ہمیں بھی وہ طریقے بتا دیئے.پس آنحضور ﷺ کو آپ کے دشمنوں کا جو انجام دکھانا تھا وہ تو مقدر تھا اس کے فیصلے ہو چکے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس رنگ میں یہ دعا سکھائی کہ گویا آپ کی طلب پر عطا ہو رہا ہے اور طلب پر عطا ہونے میں اپنی ایک لذت ہے فرما دی که اور پھر معاً بعد بلا توقف اطلاع وَإِنَّا عَلَى أَنْ تُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَدِرُونَ کیوں نہیں میرے بندے ہم ضرور اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 427 خطبہ جمعہ ۱۷ارمئی ۱۹۹۱ء بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان کو ڈرا رہے ہیں تجھے بھی وہ دکھا دیں.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ کی زندگی میں جو دشمن پر کامل غلبہ عطا ہوا اور طرح طرح کے معاند آنحضور ﷺ کے غلاموں کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھا کر اس دنیا سے اپنے انجام کو سدھارے.یہ ساری باتیں اسی دعا کے نتیجے میں تھیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مقدر تو تھا مگر دعا کے تعلق کے ساتھ تقدیر کو باندھ دیا گیا.اس سے ہمیں یہ حکمت بھی سمجھ آتی ہے کہ تقدیر اعلیٰ کا دعاؤں سے گہرا رابطہ ہے.اور تقدیر کے بنانے میں دعا کام کرتی ہے.پس ایک پہلو جب تک تشنہ تکمیل ہو اس وقت تک تقدیر جاری نہیں ہوتی.پس اس خوش فہمی میں بیٹھے رہنا کہ فتح بہر حال ہمارے مقدر میں ہے اس لئے ہمیں کچھ کرنے یا کہنے کی ضرورت نہیں یہ غلط ہے.یہ مضمون بھی اس طرز کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقدیر اپنی جگہ درست لیکن تقدیر کی طلب اپنی جگہ ضروری ہے جیسا کہ گرمی ہوتی ہے تو مون سون پہنچ جاتی ہے.مون سون کا اٹھنا اپنی جگہ اپنے قانون کے مطابق ہے لیکن اس کو طلب کرنے کے لئے کسی خاص علاقے کی خاص گرمی کی بھی ضرورت ہے.چنانچہ وہ گر می اگر پوری طرح میسر نہ آئے تو مون سون تو اپنی جگہ اٹھتی ہی ہے لیکن اس علاقے پر بعض دفعہ نہیں برستی.پس اس لحاظ سے یعنی یہ مضمون تو بعینہ صادق نہیں آتا مگر یہ ایک ملتی جلتی مثال ہے ہمیں اپنی فتح کی دعاؤں سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے.اور یہ سمجھ کر چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ سے وعدے فرمائے ہیں کہ آخرین کے دور میں اسلام کو تمام دیگر ادیان پر غلبہ فرماؤں گا اس لئے ہمیں کیا ضرورت ہے اس کے لئے گریہ وزاری کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر اس مضمون پر سب سے زیادہ گہری تھی ، اس کے باوجود آپ نے اس قدر بے قراری سے غلبہ اسلام کی دعائیں کی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دعائیں کرتے کرتے آپ کی جان نکل جائے گی.چنانچہ آپ کا بہت ہی دردناک اظہار ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنت قائم کر کے ہمیں بتادیا کہ انبیاء اور صلحاء اور اخیار کا یہی مقام ہے اور یہی ان کو زیب دیتا ہے کہ خدا کے وعدوں کے باوجود اس کی طلب میں اپنی جان کھونے کی کوشش کریں اور بہت ہی گریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے فضل مانگتے رہیں.پھر یہاں جو فرمایا گیا کہ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (المومنون:۹۵) یہاں الظلمین کا کیا معنی ہے اور فِي الْقَوْمِ الظَّلِمِینَ سے کیا مراد ہو سکتی ہے یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا کر رہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 428 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء ہوں کہ جن ظالموں کو تو نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے.جن کے متعلق میں عرض کر رہا ہوں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے دکھا دے کہ تیرے وعدے پورے ہوئے ہمیں ان میں نہ شامل فرمادے.یہ تو ایک بالکل بے تکی اور بے جوڑ بات بن جائے گی.پس ظالمین کے استعمال کے متعلق قرآن کریم پر نظر ڈالنی چاہئے کہ کن کن معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.ایک دعا اس سے پہلے گزری ہے جس میں حضرت یونس نے یہ عرض کی تھی کہ اے خدا! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو مجھ پر حم نہ فرمائے گا اور میری بخشش نہ فرمائے گا تو میں ظالمین میں سے ہو جاؤں گا.وہاں ظالمین کے معنی یہ ہیں کہ تیری بخشش اور اعتراض کرنے والا ، تیری بخشش پر تلخی محسوس کرنے والا ، تو نے گنہگاروں سے جوحسن سلوک فرمایا اور نرمی فرمائی اور عفو سے کام لیا اس پر میرے دل میں ایک ہلکا سا میل آ گیا.یہ ظلم ہے تو اس دعا کے تعلق میں جب آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اے میرے رب ہمیں ظالموں میں نہ داخل فرما دینا تو اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں بن سکتا کہ ہمیں ان لوگوں میں نہ داخل فرما دینا جن کے بدانجام دیکھنے کی ہم تمنا کر رہے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر تیری تقدیر یہ ہو کہ ہم آنکھوں سے نہ دیکھیں اگر تیرا یہی فیصلہ ہو کہ ہماری زندگیاں ختم ہو جائیں اور یہ قوم اسی طرح دندناتی پھرتی رہے اور ظلم کرتی رہے اور ان کا بدانجام اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں تو ہمارے دلوں پر سکینت نازل فرمانا ہمارے دلوں پر صبر نازل فرمانا اور ہم تیری رضا پر راضی رہنے والے ہوں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہوں نے اس سے پہلے جب تو نے اس کے دشمنوں سے بخشش کا سلوک فرمایا تو دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس کی.پھر سورۃ المومنوں ہی میں آیات ۹۸ اور ۹۹ میں آنحضور ﷺ کو ایک دعا سکھائی گئی.یہ ہے: وَقُل رَّبِّ اَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَتِ الشَّيْطِيْنِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ اَنْ تَحْضُرُونِ (المومنون: ۹۹٬۹۸) کہ اے میرے بندے ! تو مجھ سے یہ کر مجھ سے یہ دعا کر کہ وَقُل رَّبِّ اَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَتِ الشَّيطین اے میرے رب ! میں تیرے سرکش بندوں کے وساوس اور ان کے فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں.وَاَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ تَحْضُرُونِ اور میں تجھ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھ تک پہنچ سکیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے اور تو کہہ دےاے میرے رب ! میں سرکش لوگوں کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 429 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء هَمَزْتِ کا اول ترجمہ وساوس ہیں اور کئی قسم کے برے خیالات ہیں: اور دراصل شیاطین کی شرارتوں سے ان کا گہرا تعلق ہے اسی لئے حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقعہ پر اس کا ترجمہ شرارتیں کر دیا.ایسے دور جن میں مخالفین کو خاص طور پر غلبہ نصیب ہواور وہ مومنوں سے جس طرح چاہیں سلوک کریں ، اسی دور میں ان شرارتوں کے نتیجے میں وساوس پیدا کئے جاتے ہیں اور اپنے موقف سے مومنین کو ہٹانے کے لئے طرح طرح کے وسوسے پھیلائے جاتے ہیں کہ دیکھوا گر تمہارا خدا ہوتا ، اگر تم سچے ہوتے جس پر تم ایمان لائے ہوا گر وہ واقعی خدا نے بھیجا ہوتا تو آج تم کیوں بے سہارا چھوڑے جاتے ، کیوں تم آج ہمارے رحم و کرم پر ڈالے گئے.پس شرارتوں کے ساتھ وساوس کا گہراتعلق ہے اور ہم نے گزشتہ ابتلاء کے دور میں پاکستان میں (جو ابھی بھی جاری ہے ) خاص طور پر یہ دیکھا ہے کہ پہلے احمدیوں کو ظلموں کا نشانہ بتایا جاتا ہے، طرح طرح کی شرارتیں کی جاتی ہیں اور پھر خود ظلم کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو ہم تو تم پر ظلم کر رہے ہیں اور ہمارا کچھ نہیں ہو رہا اس لئے ہم بچے ہیں تم جھوٹے ہو اور بعض نادان اور جاہل کچھ ظلموں سے تنگ آکر کچھ اپنی کم نہی کی وجہ سے اس دلیل کو مان جاتے ہیں حالانکہ شیطان اور ظلم کرنے والا سچا ہو ہی نہیں سکتا.جو شخص ظلم سے کام لے رہا ہے اس ظلم کے نتیجے میں اس کی سچائی کیسے ثابت ہوگئی.ظالم تو بہر حال جھوٹا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اس کا ذکر شیاطین کے طور پر فرمایا ہے کہ یہ عجیب باغی اور شیطان لوگ ہیں.ایک طرف مومنوں کو دکھ دیتے ہیں اور پھر انہی دکھوں کو ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ دعا کر کہ ربِّ اَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَرْتِ الشَّيْطِيْنِ مِیں شیاطین کے ہر قسم کے شر اور ان شرور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وساوس سے تیری پناہ مانگتا ہوں.وَاَعُوذُ بِكَ رَبِّ اَنْ تَحْضُرُونِ بلکہ میں تو یہ پناہ مانگتا ہوں کہ ہم تک ان کی رسائی ہی نہ ہو.نہ وہ ہم تک پہنچ سکیں نہ ان کے وساوس اور ان کے نشر ہمیں چھوئیں.ایک دعا سورۃ المومنون آیت ۱۱۰ میں درج ہے.یہ خدا کے ان نیک بندوں کی دعا ہے جو دوزخیوں کے مقابل پر جب وہ ان سے تمسخر کیا کرتے تھے تو وہ دعا مانگا کرتے تھے.اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ (المومنون : ۱۱۰) میرے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا کہ جب ان پر ظلم ہوئے ان سے تمسخر کا سلوک ہوا تو وہ یہ کہا کرتے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 430 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا اے ہمارے رب! ہم تو ایمان لے آئے ہیں اس لئے ہم سے بخشش کا سلوک فرما وَارْحَمْنَا اور ہم پر رحم فرما.وَاَنْتَ خَيْرُ الرحِمِينَ (المومنون : ۱۱۰) اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.اس کے معاً بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا (المومنون : 1) وہ یہ دعائیں کرتے تھے.یہ التجائیں کرتے تھے اور اس کے باوجود تم انہیں مذاق کا نشانہ بنا لیتے تھے حَتَّی اَنسَوْكُمْ ذِكْرِى (المومنون : 11) یہاں تک کہ تم میرے ذکر کو بھلا بیٹھے وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ اور تم ان سے مسلسل مذاق کرتے رہے.اِنِّى جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَابِزُونَ (المومنون :۱۱۲) که آج کے دن جو جزاء سزا کا دن ہے میں اپنے ان مومن بندوں کو جو تمہارے ظلموں کے مقابل پر صبر کیا کرتے تھے جزاء کی خوشخبری دیتا ہوں اور یہ بتاتا ہوں کہ اَنَّهُمْ هُمُ الْفَابِزُونَ کہ یہی وہ لوگ ہیں جو نجات یافتہ ہیں اور نیک انجام کو پہنچنے والے ہیں.پھر سورۃ المومنون کی 119 ویں آیت میں ایک اور دعا آنحضور ﷺ کو سکھائی گئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ (المومنون : ۱۱۹) کہ اے میرے رب! تو مجھ سے مغفرت کا سلوک فرما، وارحم اور رحم کا سلوک فرما.وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ تجھ سے بڑھ کر اور کوئی رحم کرنے والا نہیں.سورۃ الفرقان آیات ۶۶-۶۷ میں اللہ تعالیٰ عِبَادُ الرَّحْمن کی دعا بیان فرماتا ہے عِبَادُ الرَّحْمٰن کا تذکرہ چل رہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ بندے ہیں جو زمین پر نرمی اور عاجزی سے چلتے ہیں.جب جاہل ان کو مخاطب ہوتے ہیں اور ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں تو وہ جواباً یہ کہتے ہیں وإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلمًا (الفرقان :۶۴) اور پھر اپنے رب کے حضور راتیں سجدوں اور قیام میں گزار دیتے ہیں.ان کے متعلق فرمایا کہ وہ کیا دعائیں کرتے ہیں.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامَانَ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ) (الفرقان: ۲۶، ۶۷) وه یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے اس وجہ سے وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک طرف دشمن کا عذاب ہے اور اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے.فرعون کے وقت میں جن ساحروں کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی.انہوں نے بھی یہی ذکر کیا تھا کہ ہم تو خدا سے زیادہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 431 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء ڈرتے ہیں کسی سے نہیں ڈرتے تو ہم پر جو چاہے عذاب نازل کر ہم نے تو صداقت کو دیکھ لیا اور پہچان لیا اس لئے اب ہم اس صداقت سے پھرنے والے نہیں ہیں.پس دنیا کے عذاب اور دنیا کی طعن و تشنیع اور دنیا کے تمسخر کے نتیجے میں ایک طرف انسانوں کا خوف پیدا ہوتا ہے اس خوف سے صرف خدا کا خوف انسان کو بچا سکتا ہے اگر وہ دل پر غالب ہو.پس ان دوخوفوں کے درمیان عباد الرحمن کیا فیصلہ کرتے ہیں.ان کا ذکر چل رہا ہے، فرمایا ان کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ راتوں کو اٹھتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں.خدا کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اے اللہ ہمیں عذاب جہنم کا زیادہ خوف ہے اس لئے اس عذاب کو ہم سے ٹال سے.اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًان کیونکہ جہنم کا عذاب جو ہے وہ تو بہت بڑی تباہی ہے دنیا کے عذاب تو اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.نَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقَامًا کہ وہ عارضی طور پر بھی بہت برا ہے اور مستقل ٹھکانے کے طور پر تو بدتر ہے.عارضی طور پر کہہ کر دراصل دنیا کے عذاب کی طرف اشارہ فرما دیا اور بتایا کہ جس عذاب سے تم بھاگتے ہو وہ تو عارضی ہے اور جس عذاب کی طرف تم اس کے نتیجے میں جاسکتے ہو وہ ایک مستقل عذاب ہے لیکن عارضی حیثیت سے بھی دنیا کے عذاب کے مقابل پر آخرت کا عذاب بہت زیادہ سخت ہوگا یعنی اگر محض عارضی بھی ہو تب بھی دنیا کیعا رضی عذاب کو وہ آخرت کے عذاب پر ترجیح دے دیتے ہیں یعنی ( آخرت) کے اس عذاب کو قبول نہیں کرتے اور دنیا کے عذاب کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں.پس إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقَامًا اس کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا! ہمیں تو تیرے عذاب سے اتنا ڈرلگتا ہے کہ ہم تجھ سے ہی پناہ مانگتے ہیں وہ عذاب جو تیری طرف سے آئے اگر تھوڑا بھی ہو تو وہ بہت زیادہ تباہ کن ہوتا ہے اور نا قابل برداشت ہوتا ہے.پھر یہی عِبَادُ الرَّحْمٰن اپنی اولاد کے لئے اور اپنے اہل وعیال کے لئے دعائیں کرتے ہیں.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی جناب سے اپنے ازواج کی طرف سے وَذُرِّيَّتِنَا اور اپنی اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا اور ہمیں متقیوں کا امام بنانا.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض لوگ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 432 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء ازواج سے مراد صرف بیویوں کو لیتے ہیں اور تفسیر صغیر میں بھی یہی ترجمہ ہے کہ ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.یہ ترجمہ کرنے کی وجہ غالبا یہ بنی کہ شروع میں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مردوں سے متعلق بات ہورہی ہے.عبادالرحمن خدا کے بندے اور وَالَّذِينَ يَقُولُونَ میں بھی مردوں کا ذکر ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں لیکن درحقیقت خدا تعالیٰ نے جہاں مردوں کے صیغے میں بات کی ہے وہاں مومن عورتیں شامل ہیں اور ان کو اس خطاب سے نکالنے کا ہمیں کوئی حق نہیں کیونکہ یہ نہ صرف عربی طرز کلام ہے بلکہ دنیا کی دوسری قوموں میں بھی جب ہم بنی نوع انسان کا ذکر کرتے ہیں تو بسا اوقات مردوں کے صیغے میں بات ہو رہی ہوتی ہے اور مردوں میں عورتیں بھی ہوتی ہیں.بڑے اور چھوٹے سب اس میں شامل ہوتے ہیں تو طرز کلام یہ ہے جو آسان ہے کہ ایک ہی صیغے کا ذکر ہو جائے اور اس میں جنس کی ہر قسم کے ہر نوع کے افراد اس جنس میں شامل ہو جائیں.پس وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا میں مردوں ہی کو صرف دعا نہیں سکھائی گئی ، عورتوں کو بھی دعا سکھائی گئی ہے اور ان کو اسی طرح دعا کرنی چاہئے کہ هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنا کیونکہ زوج کا مطلب بیوی نہیں ہے.زوج کا لفظ میاں اور بیوی دونوں پر برابر اطلاق پاتا ہے اس لئے عورتوں کو اس دعا کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں وہ اس مضمون میں شامل ہیں اور دعا کے اندر ایسے بھی زوج کے تحت ان کے خاوند شامل ہو جاتے ہیں.پس اب اس دعا کا معنی یہ ہوگا کہ اے خدا! ہمیں زندگیوں کے ساتھیوں سے خواہ وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں، آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا اور ہمیں متقیوں کا امام بنانا.ایسی نسل پیچھے چھوڑنے کی ہمیں توفیق عطا فرما جو تیری نظر میں متقی ہوں.یہ دعا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے گھروں کے ماحول سدھر سکتے ہیں.جو خطوط مجھے ملتے ہیں، بلا استثناء ان میں روزانہ کچھ خطوط ضرور ایسے ہوتے ہیں جن میں گھریلو زندگی کی ناچاقیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عذاب کا ذکر ہوتا ہے اور ایسے خطوط بعض دفعہ بچوں کی طرف سے بھی ملتے ہیں.بچے لکھتے ہیں ہمارے ماں باپ کی آپس میں ناچاقیاں ہیں.آپس میں ایک دوسرے کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 433 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں.گھر جہنم بنا ہوا ہے اور ہم جو بہن بھائی ہیں یوں لگتا ہے کہ بے سہارا ہیں اور ہمارے سر پر کوئی چھت نہیں ہے.اس صورتحال سے ہم بہت ہی تنگ ہیں اور مشکل یہ ہے کہ ہم کسی کی طرفداری کر نہیں سکتے.اگر کس کو سچا سمجھیں بھی تب بھی ہم کسی ایک کی طرف داری نہیں کر سکتے.پھر بیویوں کے خط آتے ہیں.خاوندوں کے خط آتے ہیں.اس کے برعکس بعض خط بہت ہی پیارے ملتے ہیں جس میں ایک بہو اپنی ساس کی ، اپنے خسر ، اپنے خاوند کی ، اپنے سارے ماحول کی تعریف کر رہی ہوتی ہے.ان کے لئے دعاؤں کے لئے لکھ رہی ہوتی ہے.کہتی ہے میں تو ایک جنت نشان گھر میں آگئی ہوں.اس طرح یہ لوگ میرا خیال کرتے ہیں، اس طرح مجھے پیار دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جن کو اعلیٰ خلق عطا ہوں امر واقعہ یہ ہے کہ ان کے گھر جنت نشان ہی بنتے ہیں.اخلاق کی کمی کے نتیجے میں یہ دنیا ہمارے لئے جہنم بن سکتی ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اخلاق گھروں کو جہنم بنا سکتے ہیں تو یہی اخلاق قوموں کو بھی جہنم میں دھکیل دیتے ہیں یہی اخلاق بنی نوع انسان کے لئے جہنم پیدا کر دیتے ہیں.پس اخلاق کی بہت بڑی اہمیت ہے اور اعلیٰ خلق کے نتیجے میں صرف ہمارے گھر ہی جنت نشان نہیں بن سکتے بلکہ ہماری گلیاں ، ہمارے شہر ، ہمارے وطن اور اس کے بعد پھر ساری دنیا کے لئے تمام سطح ارض جنت بن سکتی ہے لیکن اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.میں نے پہلے بھی بارہا احباب جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اس دعا سے غیر معمولی استفادہ کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ پھر آگے اولاد پر بھی ممتد ہو جاتی ہے اور اولاد پر بھی اس کا فیض جاری ہوتا ہے کیونکہ اس دعا میں یہ سکھایا گیا ہے مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِيتِنَا اور ذریت میں صرف پہلی نسل مراد نہیں ہے بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کا سلسلہ اس کے اندر آ جاتا ہے.قیامت تک کے لئے انسان اپنی اولاد کے لئے جو دعائیں کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اس سے بہتر دعا نہیں ہو سکتی کہ اے خدا ! ہماری اولاد کو ، اولاد در اولاد کو سلسلہ اولاد کو ہماری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک بنانا اور وہ ٹھنڈک ان معنوں میں ہو کہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ ( ماما کہ ہمیں متقیوں کا امام بنانا.غیر متقی کا امام نہ بنانا ، یہ بہت ہی کامل ہے دعا اور قیامت تک اثر پیدا کرنے والی ہے اور پھر یہ بھی ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ اگر تم نے اپنے لئے اس دنیا میں جنت پیدا کر لی اور تمہاری اولاد کو یہ توفیق نہ ملے کہ وہ متقی ہو تو تم نے جو کچھ حاصل کیا تھا عملاً اس کو کھو بیٹھو گے تمہارا سارا سرمایہ ضائع ہو جائے گا.تمہاری ساری
خطبات طاہر جلد ۱۰ 434 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء محنتوں کا پھل جاتا رہے گا اس لئے صرف اپنے لئے فکر نہ کیا کرو، اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی فکر کیا کرو.اس مضمون پر غور کر کے اگر آپ یہ دعا کریں تو آپ کے گھر کے ماحول کا ایک بہت ہی دلکش نقشہ آنکھوں کے سامنے اُبھرتا ہے.بعض میاں بیوی ایک دوسرے سے راضی ہوتے ہیں مگر اُن کے آپس میں راضی ہونے کی بناء تقویٰ نہیں ہوتی.ایسے میاں بیوی بھی تو ایک دوسرے سے راضی ہوتے ہیں جن کے گھر میں Disco چل رہا ہے.گانے بجانے ہورہے ہیں کئی قسم کی بیہودگیاں ہو رہی ہیں.بظاہر وہ گھر جنت ہے لیکن اس دعا کے آخری حصے نے بتادیا کہ وہ جنت محض ایک فرضی اور خیالی جنت ہے اور عارضی حیثیت کی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کی اولادیں پھر متقی نہیں بن سکتیں ایسے لوگوں کی آنے والی نسلیں ان کے لئے حقیقی معنوں میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان مہیا نہیں کر سکتیں.تو وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما نے صرف مستقبل کی بات نہیں کی بلکہ اس زمانے میں جو ہمیں نصیب ہوا ہے ہمارے گھروں کا ایسا نقشہ بھی کھینچ دیا جسمیں تقویٰ کی باتیں ہوں اگر تقویٰ کی باتیں نہ ہوں تو اگلی نسل کو تقوی کہاں سے نصیب ہو جائے گا.پس آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جس کا تقویٰ سے گہرا تعلق ہو اس کے لئے دعا سکھائی گئی ہے اور اس دعا سے غفلت کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں بہت سے گھر بے وجہ مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں.سنجیدگی سے ہر وہ خاوند اور ہر وہ بیوی جو اپنے لئے یہ دعا کرتی ہے ان کو میں یقین دلاتا ہوں کہ اس دعا کے نتیجے میں ان کے گھر کے نقشے بدل جائیں گے اور ساری جماعت کا معاشرہ اتنا پاکیزہ ہو جائے گا اور اتنا بلند ہو جائے گا کہ واقعی اس بات کا مستحق ہوگا کہ بنی نوع انسان کی راہنمائی کر سکے اور ہم ساری دنیا کو جنت دینے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو اس کی توفیق عطا فرمائے.پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سورۃ الشعراء آیات ۸۴ تا ۹۰ میں بیان فرمائی گئی ہے.وہ دعا یہ ہے کہ رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَ الْحِقْنِي بِالصُّلِحِينَ اور مجھے صالحین میں شامل فرما دے.یہاں حکم کا معنی حکومت نہیں.حکومت بھی ہوسکتا ہے مگر صیح تعلیم مراد ہے.فیصلہ کن صحیح تعلیم.ایسی صحیح تعلیم جو بین ہو، جو روشن ہو، جس میں بد تعلیم سے نمایاں فرق شامل ہو.ہر ایسی تعلیم کو ہم حکم کہہ سکتے ہیں.پس اپنے رب سے یہ عرض کرتے ہیں.رَبِّ هَبْ لِي حُكْما اے خدا!
خطبات طاہر جلد ۱۰ 435 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء مجھے کھلی کھلی روشن ، امتیازی ہدایت عطا فرما.وَ اَلْحِقْنِی بِالصّلِحِينَ اور مجھے صالحین میں شمار فرمالے صالحین کے ساتھ میرا تعلق قائم فرمادے.وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِيْنَ اور بعد میں آنے والوں کی زبان پر میرا ذ کر سچائی کے ساتھ چلے.یہ دعا بہت ہی معنی خیز ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جتنی گہری اور جتنی بلند صفات سے نوازا تھا اور جس طرح آپ کے ذہن میں باریک در بار یک مضامین نازل فرمائے جاتے تھے ان کا اظہار آپ کی دعاؤں سے ہوتا ہے.اپنی دعاؤں کے آئینے میں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا دل دکھائی دینے لگتا ہے، آپ کی طرز فکر دکھائی دینے لگتی ہے.عام طور پر لوگ آئندہ زمانوں میں اپنی شہرت چاہتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے جتنے ہیرو Hero ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان کا ذکر چلتا ہے اور بلند ہوتا رہتا ہے اور اس میں کئی قسم کے فرضی قصے بھی داخل ہونے لگ جاتے ہیں.پس جس کو ہم Legendary Figures کہتے ہیں وہ انسان جو اپنے اپنے وقتوں میں ہیرو شمار ہوئے بہت بلند مقام تک پہنچے وہ بالآخر Legend بن جاتے ہیں اور ان کے متعلق قصے کہانیاں، افسانے مشہور ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے حقیقی وجود سے بہت بڑھ کر ان کی طرف اعلیٰ صلاحیتیں منسوب ہونے لگتی ہیں اسی کے نتیجے میں بہت سے انبیاء کو خدا یا خدا کا بیٹا یا اس کا قریبی بتا دیا گیا اور یہ وہ طبعی رجحان ہے جس نے سلسلہ ہائے مذاہب کو شدید نقصان پہنچایا ہے.دیکھیں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کی قوم نے کیا سلوک کیا ہے.اسی طرح حضرت کرشن کے ساتھ حضرت رامچند رجی کے ساتھ اور بہت سے بزرگ انبیاء ایسے گزرے ہیں جن کو وقت کے گزرنے کے ساتھ بہت بڑے مقامات اور مرتبے عطا کئے گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام بلند مرتبہ نہیں مانگ رہے.آنے والی نسلوں سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ آپ کی حمد وثناء میں مصروف رہیں اور آپ کی تعریف میں بڑے بڑے قصیدے کہیں کیسی عمدہ دعا ہے: وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ اے میرے رب میرے متعلق تو آئندہ جو بات بھی ہو سچی ہو.اس میں جھوٹ کی ادنی سی ملونی بھی نہ ہو.اب آپ دیکھیں کہ کس شان کے ساتھ حضرت ابراہیم کے حق میں خدا تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا ہے.کتنا بلند مرتبہ آپ کو عطا کیا گیا.ابوالانبیاء کہلائے اور آج
خطبات طاہر جلد ۱۰ 436 خطبہ جمعہ کے ارمئی ۱۹۹۱ء کی دنیا کے مذاہب کے سلسلوں میں سے تین سب سے قوی سلسلے آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.یہود بھی آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں، عیسائی بھی آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور مسلمان بھی آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.یہ وہ تین قومیں ہیں جو درحقیقت اپنی طاقت کے لحاظ سے تمام دنیا پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے بارے میں کبھی کوئی مبالغہ نہیں کیا گیا.ہزاروں سال گزر گئے ہیں.کسی نے آپ کے متعلق فرضی قصے نہیں بنائے.کوئی ایک بھی فرضی خیالی قصہ آپ کی طرف منسوب نہیں ہوا.اس سے آپ اندازہ کریں کہ کچی دعاؤں میں جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہیں کتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.دل سے سچ کی یہ پکار تھی کہ اے خدا ہمیشہ میری تعریف بچی رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو سچا کر دکھایا.اسی دعا کے مطالعہ سے مجھے درود شریف میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کی حکمت سمجھ آئی اور بھی بہت سے انبیاء گزرے ہیں ان کا بھی ذکر خیر درود میں چل سکتا تھا لیکن صرف حضرت ابراہیم کو یہ اعزاز دیا گیا کہ آنحضرت ﷺ اپنی امت کو یہ درودسکھائیں: اللهم صلی علی محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم وعلى آل ابراهيم انك حميد مجيد اللهم بارك على محمد وعلى ال محمد كما باركت على ابراهيم وعلى ال ابراهيم انك حميد مجید.اس درود سے یہ بھی سمجھ آگئی کہ لسان صدق کا اس درود کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے.اس دعا کو اس درود کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آنحضرت کو کما کی دعا سکھا کر حضرت ابرھیم کی دعاؤں کے ساتھ اپنی امت کو باندھ دیا اور گویا اپنے متعلق بھی یہ دعا کر دی کہ اے خدا جس طرح ابراہیم پر تو نے سلامتی بھیجی اور اس زمانے میں بھی آپ کو سلامتی عطا ہوئی اور آئندہ آنے والی نسلوں میں، آئندہ آنیوالے زمانوں میں بھی ہمیشہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو مس شیطان سے پاک رکھا اور لغو اور جھوٹے قصوں سے آپ کو بچایا.اے خدا اسی طرح میری بھی حفاظت فرما اور میری امت کی بھی حفاظت فرما.بہر حال ایک مضمون نہیں یہ تو بہت ہی وسیع مضامین ہیں کما کے تعلق میں یہ باتیں پھر انشاء اللہ بھی توفیق ملی تو میں آپ کے سامنے رکھوں گا.بہت سے احمدی یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ کم جو کہ دیا گیا تو اس میں کیا برابری مقصود ہے؟
خطبات طاہر جلد ۱۰ 437 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء لیکن برابری مقصود نہیں ، کچھ اور مضامین بھی ہیں.ایک تعلق بہر حال درود شریف کا اس آیت میں من مذکور دعا سے ہے.وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ ) (الشعراء:۸۵) کہ اے خدا! الله علية آخرین میں میرا ذکر خیر ، سچائی کا ذکر جاری ہے اور چونکہ آخرین کا زمانہ آنحضرت علی کو عطا ہونا تھا کیونکہ قیامت تک کے لئے آخرین کا دور آپ کا دور تھا اس لئے اگر آپ کی امت میں آپ کا ذکر خیر سچائی کے ساتھ جاری نہ رہتا تو یہ دعا قبولیت کا سب سے بڑا ثبوت وہ وہ درود ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا وَ اجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (الشعر ہ ۸۶) اور اے اللہ! مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا.جنت تو خود ہی نعمت ہے.پھر یہ کیا مطلب کہ مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ تو حقیقت یہ ہے کہ جنت کے بھی مختلف درجے ہیں.ایک جنت نعیم ہے.جَنَّةِ النَّعِيمِ کے معنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں انبیاء شامل ہوتے ہیں کیونکہ ویسے تو سب نعمتوں والے خواہ وہ صالح ہوں.خواہ شہید ہوں ، خواہ صدیق ہوں یا نبی ہوں جنت میں جائیں گے اور ان معنوں میں ہر جنت جَنَّةِ النَّعِيمِ کہلا سکتی ہے مگر النعیم کے اندر ایک اور معنی پیدا کر دیتا ہے یعنی وہ جنت جوان لوگوں کی جنت ہے جن کو کامل نعمت عطا ہوئی اور کامل نعمت انبیاء کو عطا ہوتی ہے پس ہر گز بعید نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام نے ان معنوں میں یہ دعا کی ہو کہ مجھے جنت میں بھی انبیاء کے زمرے میں رکھنا اور وہ جنت عطا کرنا جس میں کامل طور پر تجھ سے انعام یافتہ لوگ شامل ہوں.پس آپ دیکھیں کہ اس دعا کا سورۃ فاتحہ کی اس دعا سے کتنا گہرا رابطہ ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ پس منعم علیہ میں شامل ہونا ہے تو منعم علیہ گروہ کی وہ ساری دعائیں پیش نظر رہنی چاہئیں جو ہماری زندگی کے مختلف حالات پر اطلاق پاتی چلی جاتی ہیں.پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام عرض کرتے ہیں.وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ (اشعره: ۸۷) کہ اے میرے رب ! میرے باپ کو بھی بخش دینا.میں جانتا ہوں کہ وہ گمراہ تھا اس کے باوجود تجھ سے یہ عرض کر رہا ہوں.اس کے متعلق یہ ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے چونکہ ازر سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ میں تیرے لئے ضرور دعا کروں گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور خاص یہ اجازت فرمائی کہ وہ اپنے اس وعدے کو پورا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 438 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۹۱ء کریں لیکن آخر پر خدا نے ایک وقت پر آپ پر یہ ظاہر فرما دیا کہ وہ صرف گمراہ نہیں تھا بلکہ میرا دشمن تھا اور یہ بتانا ہی کافی تھا.اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لئے کبھی دعانہ کی.وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ (الشعره: ۸۸) اور جس دن لوگوں کو اٹھایا جائے گا اس دن مجھے رسوا نہ کرنا.يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (الشعره: ۸۹) جب کہ انسان کے کام نہ اس کے مال آئیں گے نہ اس کے بچے إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبِ سلیم (الشعر : ۹۰) ایک ہی بات کام آئے گی کہ خدا کے حضور کوئی صاف دل لے کر حاضر ہو.پاک دل لے کر حاضر ہو.ایسا دل لے کر حاضر ہو جو خدا کے حضور جھکا رہنے والا ہو اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر بیٹھا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی حالت میں اس دنیا سے بلائے کہ جب حضرت ابراہیم کی یہ دعا ہمارے حق میں بھی یہ گواہی دے کہ إِلَّا مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبِ سَلِيمٍ ہم ان لوگوں میں شمار ہوں جو ایک سلیم دل لے کر اپنے خدا کے حضور واپس لوٹنے والے ہوں.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 439 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کا حقیقی مفہوم حضرت مریم ، حضرت نوح، حضرت لوط ، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان علیہم السلام کی دعاؤں کا تفصیلی ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انعام یافتہ خدا کے پاک بندوں کی وہ دعائیں جو قرآن کریم میں محفوظ ہیں ان کے ذکر میں کچھ ایسی دعائیں نظر سے رہ گئی تھیں جو اس سے پہلے گزر چکی ہیں جہاں تک میں پہنچا ہوں ،اور اب جب دوبارہ تحقیق کرائی گئی کہ کہیں کوئی ایسی دعا نظر سے رہ تو نہیں گئی تو چند دعائیں سامنے آئی ہیں اس لئے اب میں وہ دعائیں پہلے آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے بعد جہاں سلسلہ مضمون چھوڑا تھا وہاں سے شروع کروں گا.سب سے پہلی دعا جو روز مرہ عام طور پر مسلمانوں کے استعمال میں رہتی ہے خواہ وہ اس کا مطلب سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں وہ اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرہ:۱۵۷) ہے غالباً یہ اس لئے نظر سے رہ گئی تھی کہ اس میں بظاہر دعا کا رنگ نہیں ہے.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں.مگر جو موقعہ ہے جہاں یہ استعمال ہوتی ہے وہ نقصان کا موقعہ ہے اور اس دعا کے نتیجہ میں بسا اوقات انسان کی گمشدہ چیزیں مل جاتی ہیں اور بہت سے نقصان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 440 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء پورے ہو جاتے ہیں.قرآن کریم نے یہ دعا نقصانات کے ذکر ہی میں بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے مومن بندے ایسے ہیں جب ان کو کئی قسم کے مالی ، جانی، پھلوں وغیرہ کے نقصانات پہنچتے ہیں.مصیبتوں میں وہ آزمائے جاتے ہیں تو ان کا یہ قول ہوتا ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں.یہ ایک بہت ہی مؤثر دعا ہے.میں نے ایک دفعہ خطبہ میں اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ بعض بچوں پر میں نے اس کو آزما کر دیکھا اور انہوں نے جب توجہ سے بہت چھوٹی عمر میں بطور دعا اس کو پڑھنا شروع کیا تو بسا اوقات ان کی گمشدہ چیزیں حیرت انگیز طور پر ملتی تھیں اور ان تجارب کا بہت گہرا نقش ان کے دل و دماغ پر جم گیا اور ہمیشہ کے لئے ان کی دعا کی طرف توجہ ہوگئی.لیکن یہ ایک ایسی دعا ہے جس میں کوئی چیز ملے یا نہ ملے دعا اپنی ظاہری صورت میں مقبول ہو یا نہ ہو دعا وہ فائدہ پہنچا جاتی ہے جو نقصان کو پورا کرنے والا فائدہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اس میں توجہ یہ دلائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے کھویا ہے درحقیقت یہ ہمارا نہیں تھا تقدیر کا تھا.ہر چیز جو کائنات میں پیدا ہوئی ہے وہ خدا ہی نے پیدا فرمائی ہے.اصل میں ملکیت اس کی ہے یہاں تک کہ ہم بھی تو اس کے ہیں.وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور ہم نے بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.پس تھوڑی سی چیز کے گم جانے کا کیا غم کرنا.اس عارضی نقصان پر رونے دھونے کا کیا فائدہ.ہم بھی تو ہمیشہ یہاں نہیں رہیں گے.یہ دوسرا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور یہ غم بھی عارضی ہے کیونکہ بالآخر ہر چیز خدا ہی کی طرف لوٹائی جائے گی اور ہم اس دار فانی سے عالم بقا کی طرف واپس لوٹ آئیں گے.یہ دعا بہت ہی گہری ہے اور دعا کا رنگ اس میں اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ خدا مالک ہے اور چونکہ وہ مالک ہے اس لئے ہر چیز بالآخر اس کی طرف لوٹے گی.تو ایک قسم کی خاموش دعا کا رنگ یہ بنتا ہے کہ اے خدا! تو نے ہمیں عارضی ملکیت دی تھی تو جو مستقل مالک ہے.سب چیزیں تیری طرف لوٹتی ہیں.تو ہماری عارضی ملکیت بھی ہماری طرف لوٹا دے.یہ ایک خاموش دعا کا وہ رنگ ہے جو اس مضمون میں داخل ہے.چنانچہ اگر آپ اس کو سمجھ کر اور غور سے اور عاجزی سے یہ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بسا اوقات اس دعا کے نتیجہ میں حیرت انگیز طور پر نہ صرف نقصان پورے ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے بہت بڑھ کر عطا کیا جاتا ہے.وہ جماعت کے مخلصین جنہوں نے مختلف
خطبات طاہر جلد ۱۰ 441 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء ابتلاؤں میں بسا اوقات اپنا سب کچھ کھو دیا.جو کچھ تھا ان کے ہاتھ سے جاتا رہا.گھر لوٹ لئے گئے.دکانیں جلادی گئیں اور جو کچھ سرمایہ تھا وہ لوگ جنہوں نے قرضے دینے تھے لے بھاگے.تجارتوں میں اکثر ایسے قرضے ہوتے ہیں جن کے آنے جانے کے ساتھ تجارت چلتی ہے اور انہوں نے صبر کانمونہ دکھایا اور یہی کہا کہ اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور اس کے نتیجہ میں ایک ایک کی جگہ دس دس دکانیں بنیں.جہاں چند دکانیں احمدیوں کی جلائی گئی تھیں ، وہاں بازار احمد یوں کے ہو گئے.ایک مکان تھا تو پھر مختلف بچوں کے لئے الگ الگ مکان بنانے کی توفیق ملی.پس یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس کے پیچھے جماعت احمدیہ کی سوسالہ تاریخ آج کے زمانہ میں گواہ کھڑی ہے اور اس سے پہلے امت محمدیہ کی تمام تاریخ مختلف ممالک میں اس بات پر گواہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی مؤثر دعا ہے.پھر بجز سکھاتی ہے اور بظاہر کچھ بھی نہ ملے تو ایک عظیم الشان چیز ملنے کی بشارت دیتی ہے.وہ لوگ جو بجز کے ساتھ دنیا سے تعلق رکھنے کی بجائے خدا سے تعلق رکھتے ہیں دنیا سے راضی ہونے کی بجائے خدا سے راضی رہتے ہیں ان کے لئے اس میں یہ خوشخبری ہے کہ تم خدا کی کھوئی ہوئی چیز خدا کومل جاؤ گے.سب سے بڑی دولت جو دنیا میں ممکن ہے اور سوچی جاسکتی ہے یا دنیا میں کیا دنیا ما فیہا اور آخرت ، ہر لحاظ سے انسان کے ادراک میں جو چیز سب سے زیادہ قیمتی آسکتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تو فرمایا تم تھوڑا سا کھونے کے نتیجہ میں کیوں غم کر رہے ہو.تم اپنے رب کو پالو گے.اور یہ جو مضمون ہے اس میں مومنوں کے لئے خصوصیت سے اس لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اگر چہ ہر چیز لوٹے گی لیکن قرآن کریم فرق کر کے دکھاتا ہے.قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے بندے ہیں جن کی روح خدا کی طرف ہمیشہ لوٹتی رہتی ہے، جن کا تصور خدا کی طرف لوٹنا رہتا ہے اصل رجوع ان کا ہوگا اور جو دنیا کے بندے ہیں.وہ خدا کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے.یہ مضمون قرآن کریم کی ایک الگ آیت میں واضح طور پر بیان فرما دیا گیا.بظاہران دو باتوں میں تضاد ہے بظاہر ایک آیت یہ کہتی ہے کہ ہر چیز کا ئنات کی بالآخر خدا کی طرف لوٹائی جائے گی اور قرآن کریم کی بعض دوسری جگہوں پر اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ بالآخر ساری کائنات کی صف لپیٹ دی جائے گی اور کچھ بھی نہیں رہے گا.جو کچھ تھا وہ پھر عدم ہو جائے گا صرف خدا کی ذات باقی رہے گی.تو زندگی ہو یا بے جان چیزیں ، ہر چیز اس کی طرف لوٹنے والی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 442 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء دوسری جگہ فرمایا کہ خدا کے وہ بندے جو متکبر ہیں، جو دنیا میں کھوئے جاتے ہیں ان کا رجوع نہیں ہوگا.وہ خدا کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے.ان دو باتوں میں تضاد نہیں ہے.معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کو پائیں گے نہیں.اندھے لوٹائے جائیں گے، لوٹیں گے مگر دیکھیں گے کچھ نہیں.ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا پس یہاں ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو کچھ کھوتے ہیں اور صبر کرتے ہیں اور دل کو تسلی دیتے ہیں کہ سب کچھ خدا کا تھا.اس کی طرف چلا گیا تو کیا ہے ہم نے بھی تو اسی کی طرف جانا ہے ان کے لئے خوشخبری یہ بن جاتی ہے کہ تم نے کچھ کھویا ہے اس سے بہت زیادہ پا لو گے اور مخلوق کھوئی ہے تو خالق کو پالو گے اس لئے اس دعا کی گہرائی میں اتر کر اس کے سارے پہلوؤں پر غور کر کے خود بھی اس دعا سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی شروع ہی سے یہ دعا سکھانی چاہئے.یہ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۷ ہے.ا اس کے بعد ایک دعا آل عمران کی رہ گئی تھی.یہ آیات ۳۶ تا ۳۸ ہیں.اس میں یہ ذکر ہے کہ اِذْقَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَنَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ ( آل عمران : ۳۶) که یاد کرو وہ وقت جبکہ آل عمران يدج کی ایک عورت نے اپنے رب سے یہ التجا کی کہ اے میرے رب ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اسے آزاد کر کے میں نے تیری نذر کر دیا.پس تو میری طرف سے جس طرح ہوا سے قبول فرمالے.یقینا تو ہی بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.یہ دعا وہ دعا ہے جس کی روشنی میں میں نے وقف نو کی تحریک کی تھی اور یہ تحریک کی تھی کہ عورتیں جو امید رکھتی ہیں یا آئندہ توقع رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی گود بھرے گا.وہ بچے کی پیدائش سے پہلے اسے وقف کریں.میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ عام طور پر اس سے پہلے جتنی وقف کی تحریکیں ہوئی ہیں ان میں عورتوں کے وقف کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی اور یہ ہماری خواتین پر بہت زیادتی ہے کہ ان کے لئے وقف کا کوئی نظام ہی نہ ہو گویا یہ نعمت صرف مردوں ہی کے لئے رہ گئی ہے.پس اس آیت سے مجھے یہ روشنی ملی کہ اگر مائیں یہ عہد کریں کہ میرے پیٹ میں جو کچھ ہے اے خدا ! میں تیرے حضور پیش کرتی ہوں.پھر جو لڑکی ہوگی وہ بھی وقف ہوگی اور بعض دفعہ ایسی وقف لڑکی لڑکوں سے بہت بہتر اور مقدر والی ثابت ہوتی ہے.جیسا کہ حضرت مریم کے معاملہ میں ہوا جو آل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 443 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء عمران کی اس دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں: اِذْقَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَنَ رَبِّ إِنِّى نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى مُحَرَّرً ا فَتَقَبَّلُ مِنِى إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ اے میرے خدا جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، میں نے تیرے حضور پیش کر دیا.مُحَرَّرًا آزاد کرتے ہوئے.یہاں لفظ حَررًا بہت قابل غور ہے اور جو یہ دعا کرتے ہیں ان کو اس کا مضمون پیش نظر رکھنا چاہئے.جب ہم زندگی وقف کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آزادی سے قید کی طرف جارہے ہیں.اپنی ساری آزادیاں کھودیں اور ہمیشہ کے لئے وقف کی زنجیروں میں باندھے گئے اور بہت سے واقفین بچے ہیں جن کو ان کے والدین یہی بتاتے ہیں کہ دیکھو سوچ سمجھ کر وقف کرو.عمر بھر کی قید ہے تمہارا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.اپنی مرضی قربان ہو جائے گی.کوئی اپنا وطن نہیں رہے گا جماعت جہاں چاہے گی تمہیں اٹھا کر بھیج دے گی اور پھر جتنی دیر چاہے گی وہاں رکھے گی.جس حال میں چاہے گی وہاں رکھے گی.تو بہت ہی مشکل زندگی ہوگی.یعنی دنیا کے لحاظ سے معمولی گزارا تو اور بات ہے لیکن اپنی مرضی کی ایسی قربانی کہ اپنی مرضی نہ رہے یہ ایک زبر دست قربانی ہے.اس کے برعکس قرآن کریم وقف زندگی کو ایک بالکل اور رنگ میں پیش فرماتا ہے.فرماتا ہے اس صاحب حکمت عورت نے یہ دعا کی کہ اے میرے خدا جو کچھ میرے پیٹ میں ہے.میں تیرے حضور پیش کر کے اس کو آزاد کرتی ہوں.آزاد کس سے؟ دنیا کے بھیجوں سے شیطان کی غلامی سے ہر اس چیز سے جو غیر اللہ ہے.جو غیر اللہ کی طرف سے آتی ہے اس سے میں اسے آزاد کرتی ہوں.یعنی آزادی کی ایک نئی تعریف فرما دی گئی.یہ بتایا گیا کہ حقیقی آزادی وقف میں ہے جو خالصۂ خدا کی خاطر ہوا کرتا ہے اور جو خدا کا غلام ہو جائے وہ ہر غیر اللہ کی غلامی سے نجات پا جاتا ہے اور یہ وہ تجربہ ہے جو حقیقی واقفین کو ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اور جو وقف کی روح کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایک اللہ کی غلامی قبول کر کے ہزار غلامیوں سے نجات پالی ہے.پس یہ بھی ایک رنگ سمجھانے کا ہے.اس دعا کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنے واقف بچوں کی تربیت کرنی چاہئے اور اس رنگ میں جب تربیت کریں گے تو کوئی شخص اپنی وقف زندگی کو بوجھ محسوس نہیں کرے گا.اس میں کسی پابندی پر تلخی محسوس نہیں کرے گا.بلکہ حقیقی آزادی یہی سمجھے گا کہ خدا کے سوا ہر دوسری چیز سے ہر دوسری قید سے وہ آزاد ہو چکا ہے.إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اے خدا! تو بہت ہی سننے والا اور بہت ہی جاننے والا ہے.اب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 444 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء - دیکھیں کتنی پر حکمت دعا ہے.کتنی گہری دعا ہے اور ایک عورت کو سمجھائی گئی جو نبی نہیں تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ قرآن کریم میں اس دعا کو ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا اور واقفین کے لئے اس دعا کو ایک ماڈل بنا کر پیش فرمایا.پس وقف نو کے سب بچے اسی دعا کی حکمت کا فیض ہیں جو میرے دل میں ڈالی گئی اور اسی کے نتیجہ میں یہ وقف نو کی تحریک ہوئی.فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا اُنتی کہ تو یہ بیٹھی تھیں کہ جو کچھ ہے تیرے حضور ہے اور دماغ میں یہ تھا کہ لڑکا ہوگا.یہ بھی خدا کے عجیب رنگ ہیں.قرآن کریم میں جب آپ یہ دعائیں پڑھتے ہیں اور ان کی قبولیت کا حال دیکھتے ہیں تو بہت ہی لطیف مذاق خدا کی طرف سے چلتا ہے.ایک بہت ہی گہرا رابطہ ہے دعا میں اور قبولیت میں.اللہ تعالیٰ نے کہا اچھا جب تو نے یہ کہا کہ جو کچھ ہے تو پھر میری مرضی جو کچھ پیدا کروں.ضروری نہیں کہ بیٹا ہی ہو چنانچہ جب بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے کہا رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثی میری تو بیٹی پیدا ہوگئی وَ اللهُ أَعْلَمُ ! وَضَعَتْ حالانکه خدا از یادہ جانتا ہے کہ اس نے کیا پیدا کیا تھا.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کو بتارہی تھی کہ بیٹی ہے حالانکہ وہ جانتا ہے.یہ تو عام سادہ معنی ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ گہرے معنی یہ ہیں کہ اس کو کیا خبر تھی کہ جو بیٹی پیدا کر رہی ہے وہ بیٹوں سے بہت افضل ہوگی.وہ تو ظاہر کو دیکھ رہی ہے وہ بیٹوں سے بہت افضل ہوگی لیکن میں نے اس کی آزمائش بھی کرلی اور اس کی دعا کو اعلیٰ رنگ میں قبول کیا ہے.پس خدا کے لطائف میں کوئی انسانی لطائف کا رنگ نہیں ہوتا کہ جس کے نتیجہ میں دوسرے کو تکلیف پہنچے اور بھونڈا مذاق ہو.خدا کے مذاق میں بھی ایک نعمت چھپی ہوئی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قبولیت کے بہت ہی لطیف رنگ ہیں.کس رنگ میں وہ قبول کرتا ہے.بظاہر دعا کے نقائص کی طرف انسان کو متوجہ بھی کر دیتا ہے اور پھر پردہ پوشی بھی فرما دیتا ہے.بہر حال فرمایا وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثی مرد جو بھی ہو وہ اس عورت جیسا نہیں ہوسکتا.اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ عام بچوں کی کیا بات ہے.عام لڑکوں کا کیا ذکر وہ اس لڑکی کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان لڑکی ہے.دوسرا فرمایا وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثى اس الأنثى جیسا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کوئی لڑکا نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کے اندر وہ صفات بھی رکھ دی گئی ہیں جن کے نتیجہ میں عورت مرد کی محتاج ہوتی ہے اور بچہ پیدا کرتی ہے اور پیدائش کی صفات بھی رکھ دی گئی ہیں یا کیلی کافی ہے اس کو کسی مرد کی ضرورت نہیں.تو اس لحاظ سے عورتوں میں تو افضل تھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 445 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء ہی ، مردوں پر بھی سبقت لے گئی.پس قرآن کریم کی دعاؤں پر جب آپ غور کیا کریں تو اس کے پس منظر کو غور سے پڑھا کریں.بعد میں آنے والے مضمون کو غور سے دیکھا کریں تو آپ کی دعاؤں میں معت پیدا ہوگی ، آپ دعاؤں میں گہرائی پیدا ہوگی.الفاظ وہی ہوں گے لیکن ان کے معانی پھیلتے چلے جائیں گے اور ایک دفعہ کا مضمون کافی نہیں ہوگا بلکہ جتنا آپ غور کریں گے یہ میرا تجربہ ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو اور مضامین انہی دعاؤں میں ملتے چلے جائیں گے.چنانچہ فرمایا فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتَا حَسَنا" پس اللہ تعالیٰ نے اس کے رب نے اس بچی کو قبول فرمالیا بِقَبُولِ حَسَنٍ بہت حسین قبولیت تھی.وَأَنْبَتَهَا نَبَاتَا حَسَنًا اور اس کی پرورش کی اور اس کو بڑھایا بہت ہی خوبصورت اور حسین رنگ میں.پس واقفین نو پیش کرنے والوں کے لئے یہ نمونہ ہے کہ وہ بھی اپنے واقفین نو بچوں کی اس رنگ میں تربیت کریں.کہ عام بچوں سے مختلف دکھائی دیں.بہت ہی حسین اور دلکش انداز میں ان کو پالا پوسا جائے اور پروان چڑھایا جائے لیکن دعا کے نتیجہ میں یہ توفیق مل سکتی ہے.ایک دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانیوالے ساحروں کی دعا ہے جو رہ گئی تھی.یہ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۲۷ ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ اے ہمارے رب ہمیں صبر عطا فرما وَتَوَفَّنَا مُسْلِمینَ اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دینا.پہلے یہ مضمون دوسرے رنگ میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ چونکہ وہ فرعون کو مخاطب ہو کر چیلنج دے بیٹھے تھے کہ جو عذاب تو دے سکتا ہے ہم کو دے.جو ہم سے کرنا چاہتا ہے کر گزرلیکن ہم کسی قیمت پر بھی مرتد نہیں ہوں گے اور جو ایمان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس سے بہر حالت میں چمٹے رہیں گے.یدان کا چیلنج تھا فرعون کو لیکن معاً ان کا ذہن اس طرف گیا کہ یہ خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں.خواہش ہے، ارادے ہیں لیکن انسان کمزور ہے اس لئے اس معاملہ میں لازماً ہمیں خدا سے طاقت مانگنی چاہئے پس ہر وہ مومن جو نیک ارادے باندھتا ہے اور وقتی طور پر خلوص سے باندھتا ہے، جانتا ہے کہ وہ تقویٰ کے ساتھ یہ فیصلے کر رہا ہے اس کے لئے بھی نصیحت ہے کہ دعا سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے ورنہ نیک باتوں کے نیک ارادے جو خلوص کے ساتھ بھی کئے گئے ہوں ضروری نہیں کہ انسان کو ان کے پورا کرنے کی توفیق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 446 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء مل سکے.پس آخری بات یہ کہہ دی کہ وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ہمیں بلانا اسی وقت جبکہ ہم تیری نظر میں فرمانبردار ہوں.ایک حضرت موسیٰ“ کی مشہور دعا جو دیدار الہی کے لئے انہوں نے کی تھی ، حالانکہ دیدار تو روز ہوتا تھا.کچھ اور معنوں میں وہ دیدار چاہتے تھے یہ سورۃ الاعراف ۱۴۴ ہے:.وہ وَلَمَا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّہ اور جب وقت مقررہ اور مقررہ جگہ پر موسیٰ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے وَكَلَّمَهُ رَبُّہ اور خدا نے ان سے کلام کیا قَالَ رَبِّ اَرِنی انظُرْ إِلَيْكَ اے میرے خدا ایسا کر کہ میں تجھے دیکھوں اور بہت ہی خوبصورت محاورہ ہے.آرتی اکا مطلب ہے مجھے دکھا.انظر کہ میں دیکھوں.تو عام بول چال میں ہم یہ کہہ سکیں گے اے اللہ مجھے دیکھا تو سہی کہ تو کیسا ہے تا کہ میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ تو لوں.اَرِنِی أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرينى اے موسیٰ تو ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکے گا.وَلكِنِ انظُرُ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَہ فَسَوْفَ تَرائِی ہاں تو اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ اپنے مقام پر ٹھہرا رہا پس پھر ممکن ہے تو بھی مجھے دیکھ سکے.فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا وَ خَرَّمُوْسٰی صَعِقًا.پس جب خدا تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی جَعَلَهُ دَکا اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.وخَرَّمُوْسٰی صَعِقًا اور موسی غش کھا کر پچھاڑ کھا کر جاپڑے.فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ پس جب آپ کو ہوش آئی تو کہا سبحنك اے رب تو ہر کمزوری سے پاک ہے.تُبْتُ إِلَيْكَ یعنی ایک دعا سے بات شروع ہوئی تھی دعا پر ختم ہو رہی تھی اس لئے پوری آیت پڑھنی پڑی ہے آپ کو بتانے کے لئے کہ بیچ کا مضمون کیا تھا اور آخر پر پھر ایک دعا ہے تُبت اليك میں تو بہ کرتا ہوں تیری طرف وَاَنَا اوَلُ الْمُؤْمِنِينَ اور میں پہلا مومن ہوں.اس آیت کے ساتھ ایک روایت وابستہ ہے جس نے بعض اشکال بھی پیدا کئے ہیں اور کافی اس پر مفسرین نے اور احادیث کے ماہرین نے بخشیں کی ہیں.روایت یہ ہے کہ قیامت کے دن جب حشر نشر ہوگا اور جب خدا تعالیٰ تجلی فرمائے گا تو سب بے ہوش ہو کر جاپڑیں گے اس وقت سوال یہ ہے کہ پہلے کس کو ہوش آئے گی.ایک حدیث ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے اور جب آنحضرت تم دیکھیں گے موسیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 447 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء پہلے ہی ہوش میں کھڑے ہوں گے (حوالہ اس کی تو جہیہ اس حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ موسیٰ کو اس سے پہلے اس کا تجربہ ہوچکا ہے وہ بجلی جس کے نتیجہ میں آنا فانا انسان ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے اس کا جلوہ اتنا سخت ہے کہ طبیعتیں برداشت نہیں کر سکتیں.اس دنیا میں موسیٰ نے مانگ لی تھی اور اس کا تھوڑا سا نمونہ موسیٰ دیکھ چکا ہے.پس چونکہ اس میدان کا کھلاڑی رہ چکا ہے اس راہ سے گزر چکا ہے اس لئے جب واقعہ قیامت کے دن یہ تجلی ہوگی تو نسبتاً جلدی افاقہ ہوگا.یہ حدیث اس آیت کی روشنی میں اور دوسری متعلقہ آیت کی روشنی میں جس کا میں نے ذکر کیا ہے قابل غور ہے لیکن عموماً آپ کو مفسرین اور ماہرین حدیث کی کتب میں یہی تشریح ملے گی.بہر حال یہ جو دعا ہے اس میں ہے وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ یہ لفظ اول ہے اس سے مراد وقت کے لحاظ سے اول نہیں ہے کیونکہ حضرت موسیٰ سے بہت پہلے اول آچکے ہیں اور آنحضرت یہ معنوی لحاظ سے مومنوں میں سے سب سے اول ہیں پس اول اور آخر یہ دونوں لفظ جو ہمیں قرآن کریم یا احادیث میں ملتے ہیں یہ مرتبے کے لحاظ سے ہیں نہ کہ ظاہری وقت کے لحاظ سے.اول جب کہا جاتا ہے تو مراد ہے نمبر میں پہلا ہے.جس طرح کوئی امتحان میں فرسٹ آتا ہے اسے اول کہتے ہیں ویسا ہی مضمون ہے.ایک دعا قوم میں بچھڑے کو معبود بنانے والوں میں سے ان لوگوں نے کی جو شرمندہ ہوئے تھے اور انہوں نے توبہ کی تھی.وہ دعا یہ تھی وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوالَينْ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ (الاعراف: ۱۵۰).کہ جب وہ شرمندہ ہو گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ گمراہ ہو گئے تھے تب انہوں نے یہ دعا کی لَبِنْ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا اگر ہمارا رب ہم پر ہم نہ فرمائے گا اور ہماری بخشش نہ فرمائے گا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ یقینا ہم بہت گھانا پانے والوں میں سے ہوں گے.پس دیکھیں ہر موقعے کے لئے ، ہر ایسی صورتحال کے لئے جس سے انسان دو چار ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کوئی نہ کوئی اس پر اطلاق پانے والی دعا ہمیں سکھا دی ہے اور اس لحاظ سے بھی اگر آپ قرآن کریم کی دعاؤں کو از بر کریں یا پوری یاد نہیں کر سکتے تو کچھ حصہ کبھی کبھی یا د کرتے رہا کریں اور قرآنی دعاؤں کو ہر مشکل کے وقت دیکھ لیا کریں.آپ کو ضرور کوئی نہ کوئی دعا اپنی صورتحال پر اطلاق پاتی ہوئی ایسی ملے گی جس کو جس طرح وہ دعا کی گئی تھی اسی جذبہ کے ساتھ آپ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 448 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء جب دعا کریں گے تو انشاء اللہ قبولیت دعا کے عظیم الشان نظارے دیکھیں گے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اتنی دعا ئیں خدا تعالیٰ نے خود سکھائی ہیں کہ اور کسی نبی کے ذکر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھائی ہوئی دعا ئیں اس کثرت سے نہیں ملتیں.ایک موقعہ پر فرمایا وَ لَا تَعْجَلُ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُه وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( ط : ۱۱۵) اے میرے بندے تو جب وحی نازل ہوا کرے تو جلدی جلدی اسے دہرانے کی کوشش نہ کیا کر کہ کہیں بھول نہ جائے.وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا اور یہ کہا کہ اے میرے رب میر اعلم بڑھاتا چلا جا.اس سے آنحضرت اللہ کی معصومیت کا بھی پتہ چلتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام کو کس طرح دیکھتے تھے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے.وحی نازل کرنا بھی خدا کا کام ہے اور وحی کو محفوظ کرنا بھی خدا کا کام ہے.مگر جس کو کسی چیز سے بے انتہاء محبت ہو اور اسے وہ سنبھالنا چاہے.اسے یقین بھی ہو کہ یہ چیز سنبھل جائے گی تب بھی وہ اپنی طرف سے بہت کوشش کرتا ہے اور جلدی جلدی ہاتھ پاؤں مار کر اسے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے.پس یہ وہ نقشہ ہے جو آنحضرت ﷺ کا کھینچا گیا.جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی آپ تیزی کے ساتھ زبان چلاتے تھے اور اس وحی کو دہراتے چلے جاتے تھے تاکہ کوئی بھی لفظ کوئی نقطہ بھی ادھر سے ادھر نہ ہو.تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ فرمایا کہ تجھے یہ محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.ہاں اس عرصہ میں تو یہ دعا کیا کر و قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا اے میرے الله میراعلم بڑھا.اب یہ جو دعا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا جو نظام حفظ تھا ، وہ عام نظام حفظ جیسا نہیں تھا بلکہ جہاں تک وحی کا تعلق ہے ہو سکتا ہے باقی انبیاء کو بھی یہی امتیاز حاصل ہو کہ وحی اس رنگ میں نازل ہوتی ہے کہ وہ ازخود ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور اسے توجہ سے سن کر یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دعا وہ سکھائی گئی ہے جو بالکل اور ہے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھادے.آپ کسی کی بات سن رہے ہوں اور کوئی اور بات منہ سے کر رہے ہوں.تو جو آپ سن رہے ہیں نہ وہ سمجھ سکتے ہیں نہ اسے یاد کر سکتے ہیں.تو وحی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا سکھایا جانا کہ یہ دعا کیا کر، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذہنی کوشش کا وحی کو محفوظ کرنے سے کوئی علاقہ نہیں تھاوہ از خود اترتی تھی اور نقش بن کر ، دائمی نقش بن کر جمتی چلی جاتی تھی اور توجہ اس طرف
خطبات طاہر جلد ۱۰ 449 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء دیتے یا نہ دیتے خدا کی تقدیر نے اس کو بہر حال محفوظ کرنا تھا.پس فرمایا کہ فارغ وقت میں یہ کیا کر کہ مجھ سے اور دعائیں مانگا کر اور یہ کہا کر کہ اور بھی علم نازل فرما.اور جو علم ہے بجائے اس کے کہ میں اسے کھو دوں میر اعلم بڑھا دے کیونکہ جو بات بھول جائے وہ حاصل کیا ہوا علم انسان کھو دیتا ہے.تو زدنی علما میں یہ بتایا کہ تیرے علم کو کھونے کا تو سوال ہی کوئی نہیں ہم جو ذمہ دار ہو گئے ہیں.ہاں تو مزید مانگا کر.اس دعا کے ضمن میں ایک اور دعا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام سکھائی گئی وہ بھی میں آپ کو بتا تا ہوں.وہ یہ ہے کہ رَبِّ اَرِنِی حَقَائِقَ الْأَشْيَاء ( تذکرہ صفحہ: ۶۱۳)اے میرے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقتیں بتا.یعنی ان کے اندر جو گہرے راز ہیں وہ سمجھا.میں بالعموم قرآن کریم کی اس دعا کے ساتھ اس دعا کو ملا کر کرتا ہوں اور خصوصاً اس وقت جبکہ کسی قسم کی رہنمائی کی خاص ضرورت ہو اور میرا تجربہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بہت سے ایسے مطالب پر آگاہی فرماتا ہے جس کی طرف انسان کا اپنا ذ ہن اپنی کوشش سے جانہیں سکتا.الہام تو نہیں ہوتا لیکن اس طرح خدا تعالیٰ نکتے اچانک دماغ میں ڈال دیتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.پس جماعت کو بھی اس قرآنی دعا سے استفادہ کرنا چاہئے اور ہمارے طالب علموں کو خاص طور پر اس دعا کو جو چھوٹی سی دعا ہے ، ایک چھوٹا سا فقرہ ہے وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا اس کو پڑھتے رہنا چاہئے.اس کے نتیجہ میں ان کی توجہ اس امر کی طرف بھی مبذول ہوتی رہنی چاہئے کہ اصل علم کلام الہی ہے.دوسرادنیا کا جو علم ہے وہ ثانوی علم ہے.یہاں قرآن کریم کی وحی سے متعلق علم کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ طالب علم جب یہ دعا مانگیں قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا تو یہ نہ کیا کریں کہ اعلیٰ مضمون کو چھوڑ دیا کریں اور ادنی مضمون کو ذہن میں رکھ کر دعا کیا کریں.دعا یہ کیا کریں کہ اے خدا ہم دنیا کے عارضی علوم کی طرف متوجہ ہیں.یہ مجبوریاں ہیں.ہمیں وہ علم بھی عطا فرما جو تو نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا تھا اور اس کے صدقہ میں ہمیں یہ دنیاوی علم بھی عطا فرمادے جو اس کی ذیل میں آتا ہے.صلى الله وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُه وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۱۱۵:۴) اس کے ساتھ ساتھ میں نے وہ جگہیں بھی درج کروالی ہیں جہاں ان کو اپنی ترتیب کے لحاظ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 450 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء سے بیٹھنا چاہئے تھا، مگر اس وقت میں چھوڑتا گیا ہوں لیکن جب یہ خطبہ ضبط تحریر میں آئے گا تو کاتب وہ ذکر بھی کر دے گایا ان کو اٹھا کر وہیں لے جائے گا جہاں ان کو ہونا چاہئے.یعنی جب یہ سلسلہ خطبات اکٹھا شائع ہو گا تو آج جو ان آیات سے متعلق گفتگو ہوئی ہے ان کو ہم اصل مقام پر لے جائیں گے تو جو لوگ سن رہے ہیں وہ بعد میں خیال نہ کریں کہ غلطی ہوگئی ہے.بالا ارادہ ایسا کیا جائے گا.اب جہاں سے مضمون چھوڑا تھا وہاں سے پھر بات شروع کرتا ہوں سورۃ الشعراء آیات ااتا ۱۸ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا گیا ہے.وَإِذْ نَادَى رَبِّكَ مُوسَى أَنِ انْتِ الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ قَوْمَ فِرْعَوْنَ الَا يَتَّقُونَ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ وَيَضِيقُ صَدْرِى وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إلى هُرُونَ وَلَهُمْ عَلَى ذَنْبُ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُوْنِ (الشعراء: ۱-۱۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جب خدا تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور ان کو حکم فرمایا کہ تو فرعون کی ظالم قوم کی طرف جا.اَلا يَتَّقُونَ کیوں وہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے.کیوں وہ خدا خوفی کی راہ اختیار نہیں کرتے.قَالَ رَبِّ اِنّى اَخَافُ اَنْ تُكَذِّبُونِ اے خدا میں ڈرتا ہوں کہ مجھے جھٹلا نہ دیں اب یہ جو لفظ ہے جھٹلانے کا اس میں حضرت موسیٰ کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ انبیاء کو ہمیشہ جھٹلایا جاتا ہے بلکہ خاص دلیل آپ کے ذہن میں ہے جس کو قرآن کریم کھول کر بیان فرماتا ہے وہ کہتے ہیں وہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے ٹھیک ہے پر میں بھی تو ایک بات سے ڈرتا ہوں اور وہ خوف میرا یہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے اور کیوں جھٹلائیں گے.وَيَضِيقُ صَدْرِی وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي میرا سینہ باتیں بیان کرتے وقت کھلتا نہیں ہے.میں کوئی مضمون سوچ کر بیان کرنا چاہتا ہوں تو اپنے سینے میں تنگی محسوس کرتا ہوں اور یہ انسانی تجربہ کی بات ہے.بسا اوقات ایک انسان بات ٹھیک بیان نہیں کر سکتا.طالب علم امتحان میں بعض باتیں جانتے ہوئے بھی پیش نہیں کر سکتے.یہ ضروری نہیں کہ جو طالب علم نا کام رہے یا کم نمبر لے وہ ضرور ہی نالائق ہو گا.بعض دفعہ اس بے چارے کو بات پیش کرنے کا سلیقہ نہیں آتا.تو حضرت موسیٰ نے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے عرض کیا.وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي
خطبات طاہر جلد ۱۰ 451 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء اور میری زبان بھی نہیں کھلتی.کہا جاتا ہے حضرت موسیٰ ہکلا کر بولتے تھے فَأَرْسِلُ إِلى هُرُونَ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ ہاروں کی طرف وحی بھیج دے اب یہ عجیب دلچسپ دعا ہے.عاجزی بھی ہے، سادگی بھی کیسی ہے پیاری کہ اللہ تعالیٰ کو بتارہے ہیں کہ ان باتوں کو سوچ کر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ہارون کو نبی بنایا جائے اور مزید اصل بات آخر پر نکلی ہے.وَلَهُمْ عَلَى ذَنْبٌ فَأَخَافُ اَنْ يَقْتُلُونِ مشکل یہ ہے کہ مجھ پر ایک گناہ ہے جس کے لئے اس قوم کو میں جوابدہ ہوں اور غلطی سے مجھ سے ان کا ایک آدمی مر گیا تھا اب اگر عام حالات میں نبی کو جھٹلا ئیں تو وہ تو ہے ہی جھٹلا نا لیکن اگر جرم بھی ہو اور پتہ ہو کہ نبی نہیں ہے یہ جھوٹا ہے.پھر تو بڑھ چڑھ کر زیادہ غصے کے ساتھ پہلے نقصان کا بدلہ اتاریں گے اور پہلے گناہ کی جزا دیں گے.تو یہ تھا اصل قصہ جس کی وجہ سے اپنے آپ کو بیچ میں سے نکال ہی دیا کہ اے اللہ ان سب حالات میں بہتر یہی ہے کہ تو موسیٰ کی بجائے ہارون کو نبی بنادے قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِايْتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُونَ (الشعراء:۱۲) که خبر دار موسیٰ ضرور جاؤ لیکن تم دونوں جاؤ.اب دعا قبول بھی فرمانی اور وہ جو خوف تھا وہ بھی دور کر دیا.گلا میں ہلاکت کا ڈرانا نہیں بلکہ امید کو زیادہ یقینی طور پر پیش کرنا ہے.گلا سے مراد یہ ہے کہ جو باتیں تو سوچ رہا ہے.تیرے تو ہمات ہیں ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.ہو کیسے سکتا ہے کہ خدا کے تم نمائندہ ہو اور خدا کی مرضی کے سوا تم پر ہاتھ ڈال بیٹھے.فَاذْهَبَا تم دونوں جاؤ بِايْتِنَا ہمارے نشانات لے کر انا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُونَ میں تمہارے ساتھ سننے والا ہوں.اس آیت سے اور اس دعا کے جواب سے پتا چلتا ہے کہ ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو کچھ قبولیت کی خوشخبری بھی دیدی گئی تھی.کیونکہ تثنیہ سے خطاب معا جمع میں تبدیل ہو جاتا ہے.فرمایا تم دونوں جاؤ ہمارے نشان لے کر.إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ میں تمہارے ساتھ کھڑا تمہاری التجاؤں کوسن رہا ہوں گا.پس وہ جو ساحروں کی دعا تھی اس کے سنے کی خوشخبری بھی اس آیت میں پہلے کلام میں حضرت موسیٰ کو دیدی گئی تھی کہ تم ڈرتے کس بات سے ہو تم آگے بڑھو گے.ایک سے دو میں نے تمہیں بنایا ہے.تم دو بھی نہیں رہو گے.دو سے تین چار، ایک قوم بنتے چلے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کھڑا تمہاری التجاؤں کوسن رہا ہوگا.وہ کون ہو سکتا ہے جو تم پر ہاتھ ڈالے.فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الشعراء: ۱۷) اور فرعون کے پاس جاؤ اور دونوں اس سے یہ کہو کہ ہم خدا کا رسول
خطبات طاہر جلد ۱۰ 452 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء ہیں.خدا کا ایلچی ہیں.یہاں جمع کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا بلکہ واحد کا صیغہ استعمال فرمایا ہے.رَسُولُ نہیں فرمایا.بلکہ رَسُولُ رَبِّ الْعَلَمِینَ یعنی ان دو میں کوئی فرق نہیں تھا کہ دوا لگ الگ رسول ہوں.ایک ہی مشن پر ان دونوں کو فائز فرمایا گیا تھا اور اپنی مجموعی حیثیت میں وہ ایک ہی رسول کے مقام پر فائز تھے.اب سوال یہ ہے کہ یہ دعا ہم عام حالات میں کیسے مانگیں گے.کسی کو خدا ایسے مقام پر فائز کرے یا ایسے حالات ہوں تو پھر دعا اس سے مانگی جائے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان دعاؤں کے اندر بعض مخفی التجا کی کیفیات ہیں جو ایک عاجز بندے کے کام آجاتی ہیں جب وہ موسیٰ کے رنگ میں ڈوب کر یا کسی اور گزشتہ نبی کی دعا کو یاد کرتے ہوئے اس کے رنگ میں ڈوب کر یہ دعائیں کرتا ہے.اپنے بجز اور بے بسی کی کیفیت کے لئے ایسی حالت میں جب کسی سے کوئی گناہ کسی کا سرزد ہو گیا ہو، کسی سے خوف کھاتا ہو ، تو حضرت موسیٰ کی یہ دعا حضرت موسیٰ کے رنگ میں ڈوب کر اگر کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انسان کی دوسری ضروریات میں بھی کام آسکتی ہے.حضرت لوط کی ایک دعا بیان فرمائی گئی ہے سورۃ الشعراء میں ( یہ جو دعا تھی یہ بھی سورۃ الشعراء آیات ۱۱ تا ۸ تھی ) اب سورۃ الشعراء کی آیت ۱۷۰ میں حضرت لوط کی یہ دعا بیان ہوئی ہے.رَبِّ نَجْنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ ) (الشعراء:۱۷۰)اے میرے رب ! مجھے اور میرے اہل کو نجات بخش ان باتوں سے جو میری قوم کرتی ہے.یہاں جسمانی نجات کی دعا نہیں ہے جو اس کے ذیل میں آئی تھی.دراصل یہ ایک ایسے گناہ سے نجات کی دعا ہے جو ساری قوم میں وبا کی طرح پھیل چکا تھا اور ساری قوم میں سرایت کر گیا تھا.ایسے موقعہ پر دعا کے بغیر انسان صحیح معنوں میں ایسی قومی بدیوں سے بچ نہیں سکتا.پس جب مثلاً انگلستان میں رہنے والے یہ دیکھتے ہیں کہ بعض بدیاں وہاں امریکہ میں بسنے والے دیکھتے ہیں کہ بعض بدیاں پھیلی ہوئی ہیں تو ان کے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئے.ورنہ یہ بدیاں اس طرح فضا میں سرایت کر چکی ہوتی ہیں کہ ہر سانس میں انسان ان کو لے رہا ہوتا ہے.ٹیلیویژن آن کرے، ریڈیو آن کرے، بازاروں میں چلے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان بدیوں سے کلیہ بچ کر نکل سکے.پس یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ نجات صرف ظاہری نجات کی دعا نہیں ہوتی بلکہ بدیوں سے روحانی نجات بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور جو روحانی نجات حاصل کرتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 453 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء اس کے لئے بدنی نجات خود بخود عطا ہو جاتی ہے.پس حضرت لوظ اگر صرف بدنی نجات مانگتے تو اس کے اندر روحانی نجات شامل نہیں تھی مگر جب روحانی نجات مانگی تو اس میں بدنی نجات شامل ہوگئی پس وہ لوگ جو مثلاً امریکہ میں رہتے ہیں، مجھے ایک طالب علم کی والدہ کا خط ملا.انہوں نے یہ لکھا کہ میرے دو بچے ہیں ان میں سے ایک نے جو فلاں یونیورسٹی میں امریکہ میں پڑھتا ہے.مجھے لکھا ہے کہ یہاں طالب علموں کی بھاری اکثریت نشہ کرتی ہے اور یو نیورسٹی میں یہ فیشن ہے اور اس کے علاوہ دوسری بدیوں کا ذکر تھا کہ یہ بھی کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہم میں رہنے کا حق نہیں رکھتے.ہم سے الگ ایک مخلوق ہے اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ وہ نتیں ان کو بھی ڈال دیں.تو اس نے اپنی والدہ کو دعا کے لئے لکھا تھا کہ دعا کے ذریعے میری مددکریں ورنہ یہ بڑا مشکل کام ہے.پس جو طالب علم امریکہ جاتے ہیں میں ان کو ہمیشہ یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہاں تم کوشش تو ضرور کرو گے بچنے کی لیکن یہ دعا ضرور کرتے رہنا.چنانچہ والدہ نے جب مجھے دعا کے لئے لکھا تو اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ میرے جو خطرات تھے وہ درست تھے.یورپ میں بھی خرابیاں ہیں لیکن جتنی بدیاں اس وقت امریکن یو نیورسٹیز میں اخلاقی لحاظ سے پھیلی ہوئی ہیں میرا خیال ہے دنیا کے پردے پر اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.پاکستان میں کثرت سے پھیل رہی ہیں نشہ بہت عام ہو رہا ہے تو وہاں سے جو لوگ ہجرت کرتے ہیں.ہجرت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قوم کی بداعمالیوں سے نجات کی دعا مانگا کریں اور اس کے لئے حضرت لوط کی یہ دعا ہمارے لئے ایک نمونہ ہے رَبِّ نَجِنِى وَاَهْلِى مِمَّا يَعْمَلُونَ اے مرے رب! مجھے بھی اور میرے اہل کو بھی ہر اس بدی سے نجات بخش جو یہ کرتے ہیں.حضر نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے.قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ (الشعراء: ۱۱۸) اے مرے اللہ !میری قوم مجھے بھلا بیٹھی ہے فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ (اشعرا : ۱۹) اب میرے اوران کے درمیان فرق کر کے دکھادے و نَجِنِی وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اور مجھے اور مومنوں کو نجات بخش اب یہ بظاہر محض بدن کی نجات کا ذکر چل رہا ہے لیکن اس دعا کو آپ غور سے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مضمون اس کی نسبت زیادہ گہرا ہے جو دکھائی دیتا ہے آپ نے پہلے یہ دعا کی ہے کہ قوم مجھے جھلا بیٹھی ہے.اب ہمارے درمیان تمیز کر دے کہ کون پاک ہے کون ناپاک ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 454 خطبہ جمعہ ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء اور تمیز اس طرح کہ پاکوں کو بچالے اور ناپاکوں کو ہلاک کر دے.پس یہاں بدنی نجات کی دعا نہیں تھی.روحانی نجات کی دعا تھی بدنی نجات کو اس کا نشان بنا کر مانگا گیا تھا.اب دعا غور سے سنیں.رَبِّ إِنَّ قَوْمِی كَذَّبُونِ حضرت نوح نے عرض کیا اے مرے رب ! میری قوم مجھے جھلا بیٹھی ہے.یعنی اب اس سے کوئی امید باقی نہیں رہی.فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ اب میرے اور ان کے درمیان فتحا نمایاں فرق کر کے دکھا دے کہ دنیا دیکھ لے کہ کون پاک تھا اور کون مجھے پیارا تھا اور کون ناپاک اور کون تیری نظر میں مغضوب تھا اور نشان کیا ہو اس فتح کا وہ یہ ہے کہ وَنَجِّنِي وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.مجھے اور وہ لوگ جو مجھ پر ایمان لائے ہیں ان سب کو اس ہلاکت سے بچالے جو اس قوم کا مقدر ہو چکی ہے.فَانْجَيْنَهُ وَمَنْ مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (الشعراء:۱۲۰) اور ہم نے اسے اور جو کچھ اس کے ساتھ تھا.ایک بھری ہوئی کشتی میں نجات دی.اس سے پہلے ایک بھری ہوئی کشتی کا ذکر گزر چکا ہے جس میں سوائے خدا کے ایک نبی کے ساری قوم کے لئے جگہ تھی وہ اس بھری کشتی میں نہ صرف یہ کہ خود نجات نہیں پاسکا بلکہ وہ باقی قوم کے لئے بھی خطرہ بن گیا کہ اگر یہ ہوا تو کشتی ڈوبے گی اگر یہ نکلے گا تو کشتی بچے گی.تو وقتی طور پر جب خدا کی رحمت کا سایہ آزمائش کے لئے بھی اٹھتا ہے تو کتنا ہولناک منظر پیدا ہو جاتا ہے.یہاں اب بالکل برعکس منظر ہے.فرمایا، جاشوق سے جتنے مومن ہیں وہ بھی کشتی میں بھر لے اور ہر قسم کے ضرورت کے جانوروں کے نمونے بھی بھر لے.ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ بھری ہوئی کشتی میں تمہیں ان طوفان خیز موجوں سے نجات بخشیں گے اور فرمایا کہ ہم نے ایسا ہی کیا ثُمَّ اغْرَقْنَابَعْدُ الْبَقِيْنَ (الشعراء:۱۲۱) پس اس کے بعد ہم نے باقی سب کو غرق فرما دیا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِينَ (الشعراء:۱۲۲) اس میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے.حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے جس کے ساتھ ایک گہرا مضمون وابستہ ہے لیکن وہ بعد میں بیان کروں گا.اب وقت نہیں ہے.پہلی دعا جو ہے اس کا مختصر ذکر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.(بعد میں جو ایک ایسی دعا ہے جس کے ساتھ قرآن کریم کی صداقت کا ایک نشان وابستہ ہے اس کا ذکر بعد میں تفصیل کے ساتھ کروں گا.اس دعا کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے لیکن دو تین دعا ئیں اکٹھی ہیں جن کا انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں ذکر کیا جائے گا) رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 455 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۹۱ء نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى (النمل: ۲۰) انہوں نے یہ دعا کی کہ اے خدا مجھے تو فیق عطا فرما أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَی میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر فرمائی وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا اور میں نیک اعمال بجالاؤں ترضيه جن سے تو راضی ہو.وَاَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے صالح بندوں کے گروہ میں داخل فرمالے.حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بیان ہوئی ہے جب وہ اپنے لشکر سمیت وادی نملہ میں داخل ہوئے اور عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک چیونٹی تھی جس نے حضرت سلیمان کو دیکھ کر اپنی باقی چیونٹی بہنوں کو متنبہ کیا کہ یہ ایک بہت بڑا جابر بادشاہ آ گیا ہے اور بہت بڑی فوج لے کر آیا ہے.اگر اس سے بچنا ہے تو بھاگ کر اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ورنہ اس لشکر کے پاؤں تلے تم روندی جاؤ گی.یہ بات حضرت سلیمان نے سمجھ لی جن کو علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ ظاہری طور پر مَنْطِقَ الطَّيْرِ عطا ہوئی تھی یعنی پرندوں کی بولی ظاہر میں بھی عطا ہوئی تھی اور دنیا کے ہر قسم کے پرندوں کی زبان وہ سمجھتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ یہ تو چیونٹی تھی مَنْطِقَ الطَّيْرِ میں چیونٹی بے چاری کہاں سے داخل ہوگئی.اس لئے الشَّمْلِ سے مراد چیونٹی لینا یہ درست نہیں ہے.نَمْلَةٌ سے اصل میں جو ایک قوم کا نام تھا اور حضرت سلیمان جب لشکر کشی کر رہے تھے تو ایک ایسی قوم پر سے گزرے جس قوم کے ایک فرد نے اپنی قوم کو متنبہ کیا کہ اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپ جاؤ اور غائب ہو جاؤ.معلوم ہوتا ہے وہ پہاڑی علاقہ تھا یا ایسی جگہیں تھیں جہاں غاروں میں چھپا جاسکتا تھا.چنانچہ بجائے اس کے کہ وہ قوم ایک لشکر کے سامنے آتی اور اس کے نتیجہ میں اس کو خطرات درپیش ہوتے تو مشورہ دینے والے نے یہ مشورہ دیا.حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی کہ اس طرح یہ تجھ سے خوف کھارہے ہیں اس پر انہوں نے عرض کی.ربِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ کہ اے خدا میں دنیا کے بادشاہوں جیسا تو بادشاہ نہیں ہوں تو نے مجھ پر ایک عظیم الشان نعمت کی اور میرے والدین پر بھی ویسی ہی نعمت فرمائی.مجھے توفیق عطا فرما کہ میں نیک اعمال کروں ایسے نیک اعمال جن سے تو راضی ہو.اگر عام بادشاہوں کی طرح میں نے اپنی فتوحات کے نتیجے میں یا لشکر کشی کے دوران کمزوروں کو کچلا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 456 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۹۱ء اور مسلا اور بے بسوں پر ظلم کیا تو پھر میں اس نعمت کی خلاف ورزی کر رہا ہوں گا یہ معنی ہیں اس کے.وَادْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ اور اپنی رحمت کے صدقے ، اپنی رحمت کی عطا کے طور پر مجھے نیک بندوں میں شامل فرمالے.یہ دعا اس وقت کے کام کی دعا ہے جب انسان کو خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کے کسی ایک حصے پر کسی قسم کی فضیلت بخشے کسی قسم کا ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی طاقت بخشے اور اس کے نیچے کئی قسم کے خدمتگار ہوں کئی لوگوں کے معاملات اس کے قبضہ قدرت میں ہوں ایسے وقت میں بھی انسان کو محض اپنی عقل پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ جس طرح حضرت سلیمان جو بہت ہی صاحب عقل تھے اور سب سے بہتر مقام پر فائز تھے کہ فیصلہ کرتے کہ کون مجرم ہے کون نہیں ہے.کس کو سزا دینی ہے، کس کو نہیں دینی ہے لیکن اعلیٰ عقل کا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ وہ عاجزی کے ساتھ خدا سے دعا کرتے کہ اگر تو نے مجھے توفیق دی تو میں اس طاقت کا صحیح استعمال کر سکوں گا.اگر تو نے توفیق نہ دی تو میں اپنی عقل کے باوجود اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں کر سکوں گا.خطرہ ہے کہ ایسے اعمال سرزد ہوں جن سے تو ناراض ہو اس لئے میری التجاء یہ ہے کہ خواہ کتنی ہی مجھے حکومت کیسا ہی غلبہ کیوں نہ عطا کر مجھے تو فیق عطا فرما کہ ہر حالت میں میرے اعمال تیری رضا کے مطابق ہوں اور طاقت کے نشے میں میں کوئی غلطی نہ کر بیٹھوں.پس ہر موقع ہر محل کے مطابق ان لوگوں کی دعائیں قرآن کریم میں محفوظ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمائے اور جن کی راہوں پر چلنے کی ہم سورۃ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان راہوں پر خدا کی رضا کے مطابق ہمیشہ قدم مارتے رہیں خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا.اس جمعہ کے بعد آئندہ جمعہ سے پہلے میں انشاء اللہ ایک لمبے سفر پر روانہ ہونے والا ہوں اور غالباً ڈیڑھ مہینہ یا اس کے لگ بھگ سفر پر رہوں گا.تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خیر وعافیت کے ساتھ ان اعلیٰ مقاصد کو پورا کرنے والا سفر ہو جن کی خاطر یہ سفر کیا جارہا ہے.واپس آکر جلسہ بھی ہے اور میری واپسی اور جلسہ کے درمیان وقت بہت تھوڑا ہوگا تو اللہ تعالیٰ یہ بھی توفیق عطا فرمائے کہ جلسے کی ساری ذمہ داریاں بھی باحسن سرانجام دے سکوں.( آمین )
خطبات طاہر جلد ۱۰ 457 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء حضرت سلیمان کی دعا میں الہی انعامات پر اظہار تشکر آئندہ نسلوں کو خلیفہ وقت کے خطبات سے جوڑ دیں خطبه جمعه فرموده ۳۱ مئی ۱۹۹۱ء بمقام بیت الناصر.پیرا مار بیبو ( سرینام ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ چند جمعوں سے قرآن کریم میں مذکور دعاؤں کا بیان چل رہا ہے اور میں جماعت کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ سورۃ فاتحہ میں جب ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو وہ رستہ جو نیک لوگوں کا رستہ ہے ، وہ رستہ جس پر وہ لوگ چلے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا اس رستے کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے اس رستے کے خطرات سے بچنے کے لئے اور اس رستے پر چلتے ہوئے خدا کی رضا پانے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ وہ دعائیں زندگی بھر مانگتے رہیں جو دعائیں خدا کے وہ پاک بندے مانگا کرتے تھے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ انعام یافتہ لوگ تھے.اللہ نے ان پر انعام فرمائے تو جن کا رستہ مانگا ہے ان کی ادائیں بھی تو لینی پڑیں گی ان کے طریق بھی تو اختیار کرنے پڑیں گے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم رستہ انعام والوں کا مانگیں اور ادائیں الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی اختیار کر لیں.اس لئے سب سے اہم بات جو مـنـعـم علیہ گروہ یعنی انعام یافتہ لوگوں کی ہمیں نظر آتی ہے.وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ دعا کے سہارے گزرتا تھا.ہر مشکل کے وقت، ہر آسانی کے وقت، ہر خوشی اور ہر غم میں وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 458 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء یہ سفر جو میں نے اللہ اختیار کیا اس سے پہلے میں نے بھی وہ دعائیں کیں جو سفر کے موقعہ کے مناسب حال قرآن کریم میں مذکور ہیں.آج میں آپ سے سرینام کے دارالخلافہ پیرامار یبو (Paramarib) میں مخاطب ہوں اور بعض باتیں آپ کو دوبارہ سمجھانی پڑ رہی ہیں جو اس سے پہلے میں بیان کر چکا ہوں کیونکہ آپ ایک ایسی جماعت ہیں جن کو پوری طرح اردو نہیں آتی اگر چہ آہستہ سمجھا کر بات کروں تو اردو سمجھتے ہیں.بعض آپ میں سے اچھی بھی جانتے ہیں.بعض ذرا کمزور جانتے ہیں اس لئے میں یہ وضاحت کر رہا ہوں کہ یہ خطبہ جب باہر جائے گا اور دنیا کی اکثر جماعتوں میں پہنچتا ہے تو وہ متعجب ہوں گے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے.میں کیوں بار بار وہ باتیں سمجھا رہا ہوں جو وہ سمجھ چکے ہیں.تو ان کو علم ہونا چاہئے کہ میں اس وقت یہ خطبہ سرینام کے دارالخلافہ پیرامار بیو(Paramarib) سے دے رہا ہوں اور وہاں کی جماعت اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے ان میں بچے بھی ہیں ، بڑے بھی ہیں اور پردے کے پیچھے خواتین بھی ہیں اور ان کو ان کے فہم اور طاقت کے مطابق بات سمجھا کر آگے چلنا ہوگا تو پس منظر میں نے دوبارہ بتا دیا کہ ہم روزانہ ہر نماز میں انعام یافتہ لوگوں کا رستہ سورہ فاتحہ کی ہر دعا میں مانگتے ہیں اور دن رات خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ لوگوں کا رستہ دکھا ، ان کا رستہ دکھا جن پر تو نے انعام فرمایا.ان کے رستے سے بچا جن لوگوں کے رستے پر تیرا غضب نازل ہوا تو پھر ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی ادائیں لازماً اختیار کرنی ہوں گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو دعائیں وہ کیا کرتے تھے ایسی دعائیں جو خدا نے قبول فرمالیں.ایسی دعا ئیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری لگیں اور اتنی پیاری لگیں کہ اپنے سب سے پیارے رسول حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو وہ دعا ئیں الہاما بتا ئیں اور وہ دعائیں بھی قرآن کریم میں محفوظ کیں جو خود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو پہلی بار سکھائی گئیں اور اس سے پہلے دوسرے انبیاء کو بعض ایسی دعا ئیں تھیں جو نہیں سکھائی گئیں تو یہ سارا ہمارا خزانہ ہے اس خزانے سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے.اب میں حضرت سلیمان کی ایک دعا آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ دعا سورۃ النمل آیت ۲۰ سے لی گئی ہے.آپ عرض کرتے ہیں:
خطبات طاہر جلد ۱۰ 459 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصّلِحِينَ کہ اے میرے رب ! اور غنی مجھے توفیق عطا فرما.مجھے اس بات کی طاقت بخش أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ کہ میں تیری نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں.یہ سادہ سی دعا ہے اس کا پہلا حصہ یہ ہے کہ مجھے تو فیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر یہ ادا کرسکوں.سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم تو ہر چھوٹی سی نعمت ہو یا بڑی نعمت ہو اس پر شکریہ کہہ کر سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا تو پھر حضرت سلیمان کو کیا ضرورت تھی کہ خدا سے شکریے کا طریقہ بھی مانگیں اور توفیق بھی مانگیں.امر واقعہ یہ ہے کہ شکر یہ ادا کرنا صرف زبان سے شکر یہ ادا کرنا نہیں ہوا کرتا کوئی شخص آپ پر اتنا بڑا احسان کرے.آپ کا کام کرنے کے لئے اتنی مشکل اٹھائے.کوئی شخص ڈوب رہا ہے اس کی جان بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالے اور دریا میں چھلانگ لگا دے اور بڑی مشکل سے ہاتھ پاؤں مار کے خود ڈوبتے ابھرتے اس شخص کی جان بچالے اور وہ باہر آ کے کہہ دے شکریہ! تو کیا شکر یہ ادا ہو جائے گا؟ یہ سوال ہے.اس لئے یہ دعا ہمیں سکھا رہی ہے کہ تم یہ بیوقوفی نہ کیا کرو کہ زبانی خدا کو کہہ دیا اچھا شکریہ ! بہت آپ نے احسان فرمایا بس کافی ہوگئی.شکریہ اگر ادا کرنا ہے تو خدا سے اس کی توفیق مانگو تو فیق اس چیز کی مانگی جاتی ہے جو مشکل ہو.جس کے لئے جان کو جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہو.پس انبیاء چونکہ شکریہ کا حق ادا کرنا چاہتے تھے ، ہر چند کہ اللہ کے شکریہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور غالب والی بات ہی درست ہے کہ : جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا (دیوان غالب صفحه: ۶۵) کہ ہم خدا کو زیادہ سے زیادہ جو چیز پیش کر سکتے ہیں، اپنی جان دے سکتے ہیں نا.اس سے بڑھ کر ہم کیا کر سکتے ہیں لیکن جان بھی خدا کو دے دیں تو وہ بھی تو اسی نے دی تھی.اسی کی عطا کو اس کو واپس کریں گے نئی چیز کیا اپنے پاس سے گھر سے لائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ مصرعہ جو مجھے بہت پیارا لگتا ہے بار بار میں اسے پہلے بیان کر چکا ہوں.بہت ہی اعلیٰ پائے کا ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 460 شعری قلبی مضمون بیان ہوا ہے.عرض کرتے ہیں کہ :.کچھ تیری عطا ہے خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء گھر سے تو کچھ نہ لائے ( در ثمین صفحہ:..) جو کچھ نعمتیں تو نے ہمیں بخشی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو ہم نے خود بنائی ہو.سب تیری عطا ہے اگر تیرے حضور واپس کر دیں تو اس کے نتیجے میں ہم تو تجھے کچھ دینے والے نہیں بنیں گے.پس شکریہ ادا کرنا زبان سے اور بات ہے اور دل سے شکر یہ ادا کرنا اور بات ہے.جب دل سے شکریہ ادا ہو تو پھر انسان کے اندر تڑپ پیدا ہو جاتی ہے کہ میں شکریے کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں.آپ دیکھیں کہ اللہ ہمیں جو توفیق بخشتا ہے ہم اس کے حضور چندے دیتے ہیں اور اس معاملے میں ساری دنیا میں سب سے نمایاں جماعت احمد یہ ہے.ساری دنیا کے پردے پر تلاش کر کے دیکھ لیجئے آپ کو احمد یہ جماعت سے بڑھ کر خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والی کوئی جماعت نہیں ملے گی.بڑے، چھوٹے ، جوان ، سارے توفیق کے مطابق کچھ نہ کچھ دیتے ہیں لیکن بعض لوگ جو کچھ زیادہ دینے کی توفیق پاتے ہیں ان کے دماغ میں بعض دفعہ یہ کیڑا پڑ جاتا ہے کہ اچھا جماعت تو ہم پر منحصر ہے.ہماری قربانیاں ہیں جن کے نتیجے میں جماعت چل رہی ہے اور بعض ایسے لوگوں کا انجام پھر برا ہوتا ہے.خدا انہیں باہر نکال پھینکتا ہے لیکن وہ لوگ جو بجز کے ساتھ قربانی کرتے ہیں جن کے دل میں شکر یہ پیدا ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ سب کچھ خدا کی عطا ہے ہم نے جو کچھ واپس کیا اس کا بہت تھوڑا واپس کیا جو اس نے ہمیں دیا تھا اس لئے ہمارا احسان نہیں ہے خدا کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں دیا اور یہ بھی احسان ہے کہ اس میں سے کچھ اس کے حضور پیش کیا.پس انبیاء اسی لئے شکریے کا حق ادا کرنے کی توفیق مانگتے ہیں.وہ جانتے ہیں ، وہ عارف باللہ ہوتے ہیں ان کو پتا ہے کہ خدا کے احسان بہت زیادہ ہیں.ان کو پتا ہے کہ خالی زبان سے الحمد للہ کہنا کافی نہیں ہے.بدن کو بھی شکریے کے ساتھ خدا کے حضور جھکنا ہوگا.جذبات کو بھی جھکنا ہوگا.خدا نے جو کچھ ہمیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا ہو گا.اب اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں ہر نعمت کا شکریہ اس کے رنگ میں ادا ہوا کرتا ہے.ایک شخص کو اللہ نے علم عطا کیا ہے وہ اپنے علم سے پیسے کما بھی سکتا ہے اور پیسے لگا کر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچا بھی سکتا ہے.علم تو وہی ہے جو خدا نے دیا ہے بعض
خطبات طاہر جلد ۱۰ 461 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء لوگ اس کو صرف تجارت کے لئے استعمال کرتے ہیں.بعض اس علم کو خدا کی خاطر اس کے بندوں پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ تکلیف بھی اٹھاتے ہیں اور خود اپنی جان پر ان کو خرچ کرنا پڑتا ہے تو ان دونوں چیزوں میں دیکھیں کتنا فرق ہے.پس قرآن کریم نے جو ہمیں سکھایا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ:۴) کہ جو کچھ ہم ان کو عطا کرتے ہیں.یا جو کچھ ہم نے ان کو دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان نے یہ دعا کی تو آپ کی دعا کے پیچھے بہت بڑا مضمون تھا.کیونکہ حضرت سلیمان کو خدا نے بہت کچھ دیا تھا.اتنی حکمت دی تھی کہ دنیا کے پردے پر کبھی کسی انسان کو اس زمانے میں وہ حکمت نہ ملی اور ساری دنیا میں آپ کی حکمت کی باتیں اس وقت بھی شہرت پاگئیں اور آج تک حضرت سلیمان علیہ السلام کو دنیا عظیم الشان فلسفی حکیم، ایک دانشور ایک دانا انسان کے طور پر جانتی ہے.پس حکمتوں کا شکریہ کیسے ادا کریں جب تک حکمتوں کے موتی نہ بکھیریں، جب تک ساری دنیا کو اپنی حکمتوں سے فائدہ نہ پہنچانے کی کوشش نہ کریں.پھر بادشاہت وہ عطا کی جس کی کوئی مثال یہودی تاریخ میں نہیں ملتی، نہ پہلے نہ بعد میں اس زمانے سے آج تک کبھی کسی کو ایسی شاندار دنیا وی بادشاہت نہیں ملی جیسی خدا کے اس پاک نبی کو دنیاوی بادشاہت ملی اور پھر روحانی بادشاہت بھی عطا ہو گئی ، نبی بنائے گئے.اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے تو یہ ساری باتیں حضرت سلیمان کے ذہن میں تھیں اگر چہ اس سے پہلے آپ کے باپ حضرت داؤد کو بھی نعمتیں ملی تھیں مگر جو شان و شوکت یہود کی سلطنت کو حضرت سلیمان کے زمانے میں عطا ہوئی ویسی اور کبھی کسی کو عطا نہیں ہوئی.اب اس کو دوبارہ پڑھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیوں عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور گر کرمنت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اے خدا تیری نعمتیں تو میری حد سے بڑھ گئی ہیں.کس طرف دیکھوں جہاں تیری نعمت نہیں.کس بات پر غور کروں جہاں مجھے تیرے احسان نہ دکھائی دیتے ہوں.پس تو ہی ہے جو مجھے اپنی اس چھوٹی سی زندگی میں اپنے شکریے کا حق ادا کرنے کی توفیق بخش سکتا ہے.ان باتوں کو سوچتے ہوئے اس سارے پس منظر کو دماغ میں رکھتے ہوئے اگر ہم میں سے ہر ایک چھوٹا بڑا خدا کی نعمتوں پر غور کرے اور عاجزانہ طور پر یہ عرض کرے کہ اے خدا ! جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے تو فیق بھی دے کہ میں تیر اسچا شکر یہ ادا کروں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اگر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 462 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء کوئی ڈوبتے کو بچاتا ہے اور بعد میں اس شخص کا کوئی بچہ ڈوب رہا ہو یا اس کا کوئی پیار مشکل میں ہوتو اس کو دیکھ کر وہ شخص جس کو بچایا گیا ہے وہ آنکھیں پھیر کر چلا جائے تو یہ ناشکری ہوگی.یہ ظلم ہوگا.اس کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ جب اس کو بچایا گیا تھا تو اس نے بچانے والے کو شکر یہ کہہ دیا.پس اللہ کو تو ہم نعوذ باللہ کسی شکل میں احسان کا بدلہ براہ راست نہیں دے سکتے.وہ تو ساری کائنات کا پیدا کرنے والا ہر چیز کا مالک وہ ہمیں زندگی عطا کرنے والا، ہمیں سب نعمتیں عطا کرنے والا ، ہم اس کا شکریہ کس طرح ادا کریں.ایک ہی رستہ ہے کہ اس کے رستے پر خرچ کریں.ان بندوں پر احسان کریں جو خدا کے بندے ہوں اور ہمیں خدا اس احسان کا موقعہ عطا فرئے.پس اس دعا نے ہمیں حکمت کی بہت کچھ باتیں سکھائی ہیں.اب آپ دیکھ لیجئے خدا کے بہت سے بندے تکلیف میں کئی قسم کی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں.ہم یہاں ایک سکول دیکھنے گئے تھے جو ایک ڈچ نیک دل انسان نے قائم کیا تھا اور اب بڑھتے بڑھتے کافی ترقی کر گیا ہے.اس میں معذور و مجبور بچے ہیں جن کی دیکھ بھال کی جاتی ہے.جن کو اس قابل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ زندگی میں ایک عزت والا مقام حاصل کر سکیں اور کسی کی محتاجی کے بغیر اپنا گزارا کر سکیں.یہ بہت نیکی کا کام ہے.جو احمدی ہے اس کے اوپر تو ہر دوسرے سے بڑھ کر یہ فرض ہے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے ایسے لوگوں پر احسان کرے.جب ہم میں سے کسی کے ہاں کوئی معذور بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو ایسا شخص اگر بد قسمت ہو تو بعض دفعہ خدا پر باتیں بنانے لگ جاتا ہے.وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ہی ظلم کرنا تھا اور ساری دنیا رستی بستی ہے اس کو تکلیف نہیں پہنچتی اور مجھے خدا نے چن لیا.یہ اس کی جہالت ہے جو کچھ خدا نے دیا ہے اس میں سے تھوڑا سا نہ دینے پر اتنی تکلیف ہو، اتنا جزع فزع اور خدا پر اتنی باتیں بنانا اور یہ نہ دیکھنا کہ اس نے جو دیا ہے وہ بہت زیادہ ہے اور مالک ہے وہ اگر وہ بھی واپس لے لے جو دے چکا ہے تو کسی کا کوئی بس نہیں.دوسرے ان باتوں پر غور کرنے سے ، اگر وہ سچے دل سے غور کرتا تو اس کو بہت بڑی حکمت سمجھ آ جاتی.اللہ تعالیٰ جن کو دیتا ہے ان کی آزمائش بھی کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ جن کو میں نے عطا کیا ہے وہ میرے شکریے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہیں.خدا تو نعوذ باللہ لوں لنگڑا نہیں ہوسکتا خدا بے نور نہیں ہو سکتا.آپ کو آنکھیں عطا ہوئیں تو اگر بے آنکھوں والوں کی خدمت نہ کریں گے تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 463 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء خدا کا شکریہ کیسے ادا کریں گے.اگر ہاتھ پاؤں عطا ہوئے اور دنیا میں اگر کوئی لولا لنگڑا نہ ہو اور اس کی خدمت کا آپ کو موقعہ نہ ملے تو کیسے خدا کا شکر یہ ادا کریں گے.پس دنیا میں آزمائشوں کا جو نظام چل رہا ہے، اگر غور کیا جائے تو دراصل ایک ہی رستہ ہے جس رستے سے خدا کے شکر گزار بندے اپنے رب کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں اور یہ جو مضمون ہے یہ ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے سکھایا.آپ نے ہمیں معرفت کی یہ بات سمجھائی ہے کیونکہ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا.یہ ایک حدیث قدسی ہے یعنی ایک حکایت کے رنگ میں ایک بیان ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی بندہ پیش ہوگا تو وہ اسے کہے گا کہ دیکھو میں بھوکا تھا اور بہت تکلیف میں تھا تو نے مجھے روٹی نہ کھلائی اور پھر کہے گا کہ میں بغیر کپڑوں کے تھا، میرے بدن پر گرمی سے بچنے کے لئے اور سردی سے بچنے کے لئے کچھ نہیں تھا تجھے تو فیق تھی تو نے میری کچھ خدمت نہ کی ،تو نے مجھے کپڑے نہ پہنائے.میں بے چھت کے تھا میرا کوئی گھر نہیں تھا اور تجھ سے امید تھی کہ تو مجھے گھر دے گا، مجھے آرام پہنچائے گا لیکن تو نے میری کوئی خدمت نہ کی.اس طرح خدا باتیں کر رہا ہوگا اور وہ بار بار احتجاج کرے گا کہ اے میرے مالک اے میرے خدا! تو تو سب کو دینے والا ہے تو نے ہی تو تن ڈھانکے ہیں تو کب بغیر کپڑے کا تھا، تو تو سب کو رزق دینے والا ہے، تو کب بھوکا تھا تو اللہ فرمائے گا دیکھ جب میرا بندہ نگا تھا اور نہ سردی سے بچ سکتا تھا نہ گرمی سے اس وقت میں ہی ننگا تھا تو اس وقت تو میری مدد کر سکتا تھا یعنی میرے بندے کی مدد کر سکتا تھا جب میرا کوئی غریب بندہ بھوکا تھا اور تو کھانا کھلا سکتا تھا مگر نہیں کھلایا تو گویا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا.جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں آپ دیکھ لیں اس کے ساتھ یہ بالکل مطابقت کھا رہا ہے آنحضرت ﷺ اس تمثیل کے ذریعے ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ تم اگر خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہو تو براہ راست تو ادا کر ہی نہیں سکتے.جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے اس کے غریب بندوں پر احسان کرتے ہوئے اس میں سے کچھ ان کو دو تو اس رنگ میں تم گویا خدا کا شکر یہ ادا کر سکتے ہو.جتنی زیادہ کسی کو نعمتیں عطا ہوں اتنی ہی زیادہ شکر یہ ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر بڑھ جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ اس کو دعا کرنی پڑے گی اور انبیاء کی دعاؤں نے ہمیں سکھا دیا کہ انبیاء جیسے بڑے مقام پر فائز لوگ بھی اپنی طاقت سے شکریہ ادا نہیں کر سکتے تھے.اگر انبیاء کو خود یہ طاقت ہوتی کہ اللہ کا شکر یہ ادا کرسکیں تو خدا
464 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء خطبات طاہر جلد ۱۰ سے رو رو کر دعائیں مانگنے کی اور گریہ وزاری کیا ضرورت تھی کہ اے اللہ ! ہمیں شکریہ کا طریقہ سکھا صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء عارف تھے، خدا کی حکمت کے راز سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر خدا نے توفیق نہ دی تو ہم شکر کا حق بھی نہیں ادا کر سکیں گے.پس حضرت سلیمان کے منہ سے یہ دعا بہت زیب دیتی ہے کیونکہ آپ پر خدا کے بے انتہاء احسانات تھے.پس نہایت عاجزی کے ساتھ جھکتے ہوئے خدا کا خوف کھاتے ہوئے انہوں نے عرض کیا.رَبِّ أَوْزِعْنِى أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَی اے میرے رب مجھے توفیق عطا فرما أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَک کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَی اس شکریہ نعمت کا جو تو نے مجھ پر کی اور صرف اسی کا نہیں.وَعَلَى وَالِدَيَّ اور اس نعمت کا بھی مجھ پر واجب ہے جو تو نے میرے والدین پر کی.اب یادرکھیں اس دعا نے ہمیں ایک اور بہت گہرا حکمت کا موتی پکڑا دیا.بچوں پر فرض ہے کہ اپنے والدین کا شکریہ بھی ادا کریں اور والدین پر جو خدا نے نعمتیں عطا کیں، والدین کی زندگی تھوڑی ہوئی اور وہ ان سب نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کر سکے تو یہ اولا د پر قرض ہو گیا اور وہ والدین بھی جو خدا کے نیک بندے تھے اور انہوں نے خدا کا شکر کرتے ہوئے زندگی گزاری ان کی اولا د کو بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم پر ہمارے ماں باپ کا احسان ہے ہم اس احسان کا صرف اس رنگ میں بدلہ اتار سکتے ہیں کہ جو نیک کام وہ کیا کرتے تھے ان نیک کاموں کو ہم ہیں.جو خدا نے ان پر احسان کئے تھے ان احسانات کا شکریہ ہم ان کی طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں.تو کتنا عظیم الشان نبی تھا حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام،کتنی گہری معرفت اور حکمت کی باتیں کرنے والے تھے.آپ کی دعا ئیں بھی گہری حکمت پر مبنی تھیں.پس شکر یہ اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے والدین کا بھی ادا کرنے کا خیال آ گیا اور کہا وَ عَلَى وَالِدَيَّ اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کروں اور کس طرح شکریہ ادا کروں؟ زبان سے نہیں نہیں عرض کرتے ہیں وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَہ ایک ہی طریق ہے تیرا شکر یہ ادا کرنے کا کہ نیک اعمال بجالاؤں.ایسے اعمال بجالا ؤں جو تجھے پسند آ جا ئیں.پس شکر یہ ادا کرنے کا ایک اور طریق ہمیں سمجھا دیا کہ شکر یہ ادا اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسرا خوش ہوا اور اللہ تعالیٰ تو زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ تو نیک اعمال سے خوش ہوتا ہے.پس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 465 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء خدا سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا مجھے ایسے نیک اعمال ادا کرنے کی توفیق بخش کہ جن پر تیری نگاہیں پڑیں تو تو خوش ہو جائے کہ دیکھو میرا بندہ سلیمان کیسے اچھے کام کر رہا ہے.کیسے نیک کاموں میں مصروف ہے اور مجھے خوش کرنا چاہتا ہے حضرت سلیمان عرض کرتے ہیں کہ اس رنگ میں تو مجھے دیکھے کہ تیری رضا کی نظریں مجھ پر پڑ رہی ہوں.آپ کا کوئی بچہ آپ کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہو اور آپ کی مرضی کا کام کرے اور پھر بار بار دیکھے کہ آپ خوش ہوئے ہیں کہ نہیں اور آپ کے چہرے پر مسرت کے آثار دیکھے، خوشی کے آثار دیکھے،مسکراہٹ دیکھے، آنکھ میں پیار دیکھے تو اس کو کیسا مزا آئے گا پس حضرت سلیمان یہی عرض کر رہے ہیں.کہتے ہیں کہ اے خدا تو فیق بخش کہ میں نیک کام کروں اور ایسے کام جن کو تو پسند کرتا ہو اور تیرے پیار کی نگاہیں مجھ پر پڑ رہی ہوں.اور پھر میں کہوں کہ ہاں اب میں نے تیرا شکریہ ادا کیا ہے.جس طرح تو نے مجھے راضی کیا میں نے بھی تجھے راضی کر دیا.وَادْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ اور مجھے اپنی خاص رحمت سے اپنے صالح بندوں میں داخل فرمالے.ایسے بندوں میں جن کے متعلق تو یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ صالح زندگی گزار نے والے تھے.عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں اور قرآن کریم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبی سب سے اونچی نعمت اس کے بعد صدیق، اس کے بعد شہید.اس کے بعد صالح ، اور وہ سمجھتے ہیں صالح سب سے ادنی درجہ ہے اس لئے نبیوں سے نیچے کا مقام ہے لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صالح نہیں ہوتا.یا نبی شہید نہیں ہوتا ، یا نبی صدیق نہیں ہوتا.بلکہ نبی کے اندر بیک وقت یہ سارے عہدے شامل ہوتے ہیں، یہ سارے مرتبے اس کو اکٹھے نصیب ہوتے ہیں.جوصرف صالح ہو وہ اوپر کا درجہ نہیں رکھتا جو اوپر کا درجہ رکھتا ہو یعنی شہید ہو، وہ صالح بھی ہوتا ہے.پس انبیاء جانتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ صالح رہنا پڑے گا اور اس لئے وہ عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہم تیری نظر میں صالح رہیں اور نہ ہم سے ایسے اعمال سرزد ہوں کہ تیرے ہاں ہم غیر صالح لکھے جائیں.حضرت سلیمان ایک ایسے نبی ہیں جن پر یہود نے یعنی اس قوم نے جس پر حضرت سلیمان کے سب سے زیادہ احسان ہیں سب سے زیادہ ظلم کئے ہیں آج تک کسی احسان مند نے اپنے محسن کے خلاف ایسی ناشکری کا مظاہرہ نہیں کیا.جتنا یہود نے حضرت سلیمان کے متعلق ناشکری کا مظاہرہ کیا ہے.آپ بائبل میں یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ نہ صرف یہ کہ حضرت سلیمان کو نبی تسلیم نہیں کیا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 466 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء جاتا اور صرف بادشاہ مانا جاتا ہے بلکہ ایسے گندے کردار کا بادشاہ مانا جاتا ہے کہ اس کو پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے.اگر نعوذ باللہ من ذالک یہ خدا کا شکر گزار بندہ ہے تو پھر دنیا سے امن و امان اٹھ جائے.دنیا میں کوئی نیکی باقی نہ رہے.یہ قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے بائیبل کے گزشتہ انبیاء کے تقدس کو دنیا کے سامنے دوبارہ قائم کیا ہے.یہ قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے حضرت داؤ د اور حضرت سلیمان کو ایسے پاکباز خدا ترس بزرگ انسانوں کے طور پر پیش کیا ہے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ ترین نعمت عطا فرمائی.ورنہ بائبل کی رو سے اور یہود کے قصوں کی رو سے تو حضرت سلیمان علیہ السلام ایک نہایت ہی خوفناک قسم کے بد کردار انسان (نعوذ بالله من ذلك) بنتے ہیں.اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ عیسائی عام طور پر قرآن کریم پر جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو بائبل کی نقل اتاری ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ، جو پرانی بائبل کی باتیں ہیں وہ آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے سنی ہیں اور انہی قصوں کو قرآن کریم میں لے لیا ہے.اگر یہ بات درست ہوتی تو قرآن کریم میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا ذکر نبی کے طور پر نہ ملتا اور حضرت داؤ د اور حضرت سلیمان کا ذکر اتنے پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ نہ ملتا.ایسے مقدس اور بزرگ انسانوں کے طور پر نہ ملتا بلکہ بائبل کی نقل ماری ہوتی تو قرآن کریم ان کے ذکر سے بھی گھن کرتا، اور کہتا دیکھو نعوذ باللہ من ذالك کیسے گندے لوگ تھے.پس قرآن کریم نے حضرت سلیمان کو جو ہمارے سامنے پیش کیا ہے تو ایک بہت ہی عظیم الشان اور بزرگ نبی کے طور پر پیش کیا ہے جو احسان مند اور ہر لمحہ خدا کا شکر یہ ادا کرنے والا تھا اور بنی نوع انسان کو ان نعمتوں سے حصہ دینے والا تھا جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی تھیں.اس کے مقابل پر آپ جب بائبل پر غور کرتے ہیں اور بائبل کے جو محققین ہیں ان کی رائے دیکھتے ہیں تو آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ کس طرح بعض قو میں ظالم ہو کر اپنے پاک انبیاء پر کیسے کیسے بہتان تراشنے لگتی ہیں.ایک یہودی تاریخ کا مصنف حضرت سلیمان کے متعلق لکھتا ہے کہ یہود حضرت سلیمان کی بادشاہت سے سخت بیزار تھے کیونکہ وہ نہایت گندے کردار کے انسان تھے، نہ صرف گندے کردار کے بلکہ مشرک تھے اور خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد کو توڑ بیٹھے تھے اور غیر قوموں کی عورتوں کو بیاہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 467 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء کر کے لاتے تھے اور پھر ان کے معبودوں کی پرستش کرنے لگ جاتے تھے.یہ جو کچھ لکھا ہے یہ بائبل کی نقل کی ہے.بائبل میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں.لیکن آخر پر وہ لکھتا ہے کہ ہاں ایک بات ہے کہ وہ عقلمند ضرور تھے.لیکن اس عقل کا کیا فائدہ جوان کے کام نہ آسکے.چنانچہ وہ کہتا ہے یہود میں یہ حکایت مشہور تھی اور یہ بات بار بار کہی جاتی تھی کہ :.Soloman was the wisest man on earth yet see how.foolishly he lived کہ سلیمان دنیا کا سب سے زیادہ عقل والا انسان تھا لیکن دیکھو دیکھو وہ خود کتنی بیوقوفی کی زندگی گزار کر چلا گیا.تو ایسی ظالم قوم ہے کہ حضرت سلیمان کے اوپر ایسے ایسے بہتان باندھے ہیں جو ایک عام انسان پر بھی باندھتے ہوئے خدا کا خوف کھانا چاہئے اور آپ کے کردار کو ہر طرح سے داغدار بنانے کی کوشش کی گئی ہے.میں نے اس پر تحقیق کی غور کیا، کچھ بائبل کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ راز سمجھ آیا ہے کہ کیوں انہوں نے ایسا کیا ہے.حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام غیر معمولی انصاف کرنے والے انسان تھے.ایسا منصف نبی اور بادشاہ یہود کی تاریخ میں آپ کو شاید ہی کوئی اور دکھائی دے بلکہ بے مثل ہیں اس معاملہ میں چنانچہ آپ نے غیر قوموں کو یہ حق عطا کیا کہ مذہبی اختلاف رکھتے ہوئے اپنے خدا کی اس طرح پرستش کریں جس طرح یہود کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے خدا کی پرستش کریں.یعنی جس کو خدا سمجھتے ہیں اس کی پرستش کریں.چنانچہ حضرت سلیمان کے زمانہ میں ان غیر قوموں کو مذہبی آزادی کا حق ملا ہے.جو اس سے پہلے اس حق سے محروم تھیں اور بہت وسیع حکومت تھی آپ کی ، وہاں حقیقت میں اکثریت تو غیر قوموں کی تھی اور اسرائیل کو خدا نے اگر چہ بادشاہت عطا کی تھی مگر اسرائیلی ایک اقلیت میں تھے.Minority میں تھے تو کتنا ظلم ہوتا کہ ایک اقلیت کے مذہب کو تو کھلی چھٹی ہوتی کہ جو چاہے کرے لیکن ملک کی اکثریت کو اس خدا کی پرستش کا حق نہ ہوتا جس کو وہ خدا سمجھ رہے ہیں تو حضرت سلیمان کا انصاف تھا جو یہودیوں کو چھتا تھا اور تکلیف دیتا تھا.حضرت سلیمان وہ نبی ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے تصور کو یہود تک محدود نہیں رہنے دیا اور تمام بنی نوع انسان کے لئے خدا کے تصور کو عام کر کے پیش کیا جس طرح کہ ہم سورہ فاتحہ میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ پڑھتے ہیں اگر آپ سلاطین نمبر (۱)، باب (۸) کا مطالعہ کریں (جس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 468 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء کو انگریزی میں 2:king کہا جاتا ہے.یعنی سلاطین ) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب ہیکل سلیمانی تعمیر فرمایا اور اس کی تکمیل کی آخری تقریبات ہورہی تھیں اور جشن منایا جار ہا تھا تو اس وقت آپ نے ایک عظیم الشان تقریر.ہیکل سلیمانی کے مقاصد کے اوپر کی اور وہ تقریر اپنے مضمون کے لحاظ سے اس سے ملتی جلتی ہے جو خانہ کعبہ کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی.اگر چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تقریر یعنی ان کی دعائیں بہت جامع مانع ہیں اور اس سلسلے میں آپ کے ملفوظات بہت جامع مانع ہیں لیکن حضرت سلیمان کی اس تقریر میں اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں یہود کے ایک نبی کیلئے کیسی عجیب بات ہے کہ وہ وہاں اعلان کر رہے ہیں کہ اے خدا یہ ہیکل سلیمانی صرف یہود کے لئے محدود نہ رہے اے خدا! اس ہیکل میں جو دعائیں مانگی جائیں وہ اس صورت میں بھی قبول فرما کہ یہود وہ دعائیں مانگ رہے ہوں ،اسرائیلی وہ دعائیں مانگ رہے ہوں اور اس صورت میں بھی قبول فرما کہ دنیا کے دور کے کناروں سے آنے والے وہ لوگ جن کا ہمارے مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے وہ بھی یہاں آکر دعائیں مانگیں تو تو ان کو بھی قبول فرمالے.حضرت سلیمان یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا جو اسرائیل کا خدا ہے وہی کل عالم کا خدا ہے“.گویا وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہی خدا ہے جو صرف اس عالم کا نہیں بلکہ تمام جہانوں کا رب ہے.دیکھیں سورہ فاتحہ کے مضمون کا ایک حصہ حضرت سلیمان کو بھی عطا ہوا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا گویا یہ ترجمہ ہے.کہتے ہیں تمام جہانوں کا وہ رب ہے.وہ یہود کے لئے کس طرح محدود ہو جائے گا.پس وہ خدا سے دعائیں کرتے چلے جارہے ہیں اور سارے یہود بڑے بڑے بزرگ، نیک ، بد، چھوٹے بڑے اکٹھے ہوئے تھے اور سارے ان کے ساتھ آمین کہتے تھے اور اس دعا میں شامل تھے کہ اے خدا تو اس گھر کو عام کر دے اس کے فیض کو عام کر دے.سارے بنی نوع انسان جو بھی یہاں حاضر ہوں وہ تیری رحمتوں کا فیض پائیں اور واپس جا کر اپنی اپنی قوموں میں اعلان کریں کہ ہم نے ایک ایسے خدا کے گھر کا پتا پایا ہے جس کا فیض ساری دنیا پر عام ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.جو سب سے زیادہ طاقتور ہے تو یہ حضرت سلیمان کی پیاری باتیں تھیں جو یہودی علماء کو تکلیف دیتی تھیں.وہ متعصب علماء جنہوں نے خدا کو اپنے گھر کی ملکیت بنالیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ نیکی سوائے اسرائیل کے باہر ہو ہی نہیں سکتی وہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو برداشت کرتے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 469 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک اور چیز جو یہود کو تکلیف دیتی تھی وہ بھی انصاف کا ایک اور پہلو ہے حضرت سلیمان نے بہت عظیم الشان تعمیرات کرائیں.آپ کو علم ہے کہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ آپ کو خدا نے ہواؤں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشی اور وہ سفر جو آپ سے پہلے ایک مہینے کی مشقت سے کیا جاتا تھا وہ صبح اور شام میں طے ہو جایا کرتا تھا تو حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے بہت علم عطا کیا ، بہت ہی عظیم الشان ایجادات کی توفیق بخشی اور بہت سی اصلاحات کی توفیق بخشی.اس ضمن میں قوم کی تعمیر کا جو پروگرام تھا اس میں آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ساری آبادی جو بالغ مرد ہیں ، جن میں کام کرنے کی طاقت ہے وہ بلا امتیاز اپنے وقت کا تیسرا حصہ الہی کا موں پر یا قومی کاموں پر خرچ کرے گویا کہ ایک قسم کا قومی وقف کا اعلان تھا اور تیسرے حصے سے پتا چلتا ہے کہ یہ روایت یا رسم ہمارے ہاں چلی آتی ہے کہ تیسرے حصے سے زیادہ خدا کو نہیں دینا یعنی خدا خود پسند نہیں فرما تا کہ تم اپنے بال بچوں کا حق مارلو بلکہ یہ اجازت دیتا ہے کہ تیسرے حصے تک اپنے مال کو خدا کی راہ میں قربان کرو تو یہ رسم کوئی نئی نہیں.بہت پرانی چلی آرہی ہے.حضرت سلیمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت کی بات سمجھائی کہ اسی طرح خدمتیں لو کہ جن لوگوں کو خدمت پر مقرر کروان کے وقت کے تین حصوں میں سے دو حصے ان کے ہوں گے اور ایک حصہ قوم کا ہوگا.حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ یہود کو اس خدمت سے مستغنی سمجھا جاتا تھا.وہ سمجھتے تھے ہم حاکم قوم ہیں جس طرح ڈچ یہاں حکومت کرتے تھے تو خو د ویسے محنت کے کام نہیں کرتے تھے.جیسے آپ لوگوں سے لیتے تھے یا افریقہ کے ان لوگوں سے لیتے تھے جن کو وہ پکڑ کر یہاں لانے والے تھے.وہ آپ بادشاہ بن کر پھرتے تھے انگریز یہی سلوک ہندوستانیوں سے کیا کرتے تھے.افریقنوں سے کیا کرتے تھے تو ابتداء سے یہی رواج چلا آرہا تھا کہ یہود چونکہ ایک فاتح قوم ہے اس لئے یہود خود محنت کے کام نہیں کریں گے اور جو قو میں مغلوب ہو چکی ہیں صرف ان سے ان کے وقت کا ۳ را حصہ لیا جائے گا.لیکن حضرت سلیمان کا یہ عظیم الشان انصاف ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ اس قانون کو تبدیل کیا اور کہا کہ یہود بھی اسی طرح وقت پیش کریں گے جس طرح غیر تو میں پیش کریں گی اور اس ملک میں اپنے اور غیر کا کوئی فرق نہیں رہے گا.انصاف چلے گا اور کامل انصاف چلے گا.کتنا عظیم الشان نبی تھا.کیسے انقلابی فیصلے کرنے والا تھا ایسا محسن اعظم! اور اس کا بدلہ یہود نے اس نا پاک طریق پر دیا کہ ان باتوں سے چڑ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 470 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء کر آپ پر گندے حملے کئے.آپ نے کیونکہ غیروں کو عبادت کا حق دے دیا اس لئے یہ کہنے لگ گئے کہ یہ مشرک تھا اور یہ خود غیر قوموں کی عبادت کیا کرتا تھا.وجہ یہ بیان کی کہ بے شمار غیر قوموں کی عورتوں سے اس نے بیاہ کئے اور بیان یہ کیا جاتا ہے کہ ۷۰۰ بیویاں کیں اور وہ بھی کافی نہ سمجھیں ،اس کے علاوہ ۳۰۰ لونڈیاں بھی گھر میں رکھ لیں تو گویا ایک ہزار بیویاں حضرت سلیمان کی بیان کی جارہی ہیں حالانکہ یہ ایک ایسی جاہلانہ بات ہے جسے انسان قبول ہی نہیں کر سکتا.نہایت نا پاک قصے بنا بنا کر ان کی طرف منسوب کئے اور پھر یہ کہا کہ یہ ساری بیویاں غیر قوموں کی تھیں یا بھاری اکثریت ان کی تھی اس لئے ان بیویوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے خداؤں کی عبادت کرنے لگ گیا اور ان کے حضور سجدے کرنے لگ گیا اور ان کے معبد بنانے لگ گیا.پس قو میں جب وقت کے نبی کی مخالفت کرتی ہیں تو اس طرح ان پر ناپاک حملے کرتی ہیں.ہم بھی ایک ایسے زمانے سے گزررہے ہیں جہاں ہمارے سامنے ثبوت کی تاریخ بن رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کے تابع فرمان نبی ہیں.آزاد نبی نہیں ہیں مگر امتی نبی ضرور ہیں.آپ تحریرات پڑھ کر دیکھیں کہیں بھی آپ نے امتی نبوت کا انکار نہیں کیا.امام مہدی ہونا اور امتی نبی ہونا ایک ہی چیز کے دونام ہیں.پس آپ پر بھی اسی طرح ناپاک حملے کئے جارہے ہیں.آپ غیر احمدی مخالفین کا لڑیچر پڑھ کر دیکھ لیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے گندے ناپاک حملے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اور آپ کے خلفاء پر آپ کے صحابہ پر یہ لوگ کرتے چلے جارہے ہیں گویا ہم اس تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا دیکھ رہے ہیں جس تاریخ کا ذکر قرآن کریم میں محفوظ ہے اور جس کے تفصیلی تذکرے ہمیں بائبل میں ملتے ہیں.پس حضرت سلیمان کی اس ایک دعا پر ہی آپ غور کر کے دیکھ لیں آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ موحد ہی نہیں بلکہ ایک بہت پائے کے عارف باللہ موحد تھے.آپ کو شرک سے دور کا بھی علاقہ نہیں تھا.آپ احسان فراموش نہیں تھے بلکہ احسان کو بے انتہا محسوس کرنے والے تھے اور خود لوگوں کے محسن تھے اور اس کے باوجود بجز اتنا تھا کہ سمجھتے تھے کہ میں احسان کا حق ادا نہیں کر سکا اور اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ پوچھتے تھے کہ مجھے شکر یہ ادا کرنے کی راہیں سکھلا.پس آج کے اس خطبہ میں چونکہ دیر ہو چکی ہے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور آئندہ انشاء اللہ باقی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 471 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء دعاؤں کا تذکرہ جس ملک میں بھی وہ خطبہ ہوگا وہاں سے پیش کروں گا.آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نسلوں کو خطبات با قاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جا رہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہور ہے ہیں اس لئے خواہ وہ نجی کے احمدی ہوں یا سرینام کے احمدی ہوں، ماریشس کے ہوں یا چین جاپان کے ہوں، روس کے ہوں یا امریکہ کے ، سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی.وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے خواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کا فرق ہی کیوں نہ ہو.ان کے رنگ چہروں کے لحاظ سے جلدوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے مگر دل کا ایک ہی رنگ ہوگا.ان کے حلیے اپنے ناک نقشے کے لحاظ سے تو الگ الگ ہوں گے لیکن روح کا حلیہ ایک ہی ہوگا.وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے.آپ کے ہاں سرینام میں مجھے تربیت کے لحاظ سے بہت سے خطرات دکھائی دیتے ہیں یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں افریقن مزاج جو ناچ گانے اور کھلے معاشقے اور شراب نوشی کا مزاج ہے.کثرت کے ساتھ پھیل رہا ہے اور یہ معاشرہ غالب آ رہا ہے.یہاں بے پردگی صرف بے پردگی نہیں بلکہ اس سے زیادہ بے حیائی میں بھی تبدیل ہو چکی ہے.یہاں فیشن ایسے ہیں جو کھلم کھلا عورت کی ایسی نمائش کرنے والے ہیں جن سے انسان کی طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے اور طبیعت میں کدورت پیدا ہوتی ہے.ایسی جگہ پر رہتے ہوئے احمدی ماں باپ کو اپنی بچیوں کی فکر کرنی چاہئے.اپنی نوجوان نسلوں کی فکر کرنی چاہئے اور ایسے آزاد معاشرے میں جب تک شروع سے ان کی صحیح تربیت نہیں کریں گے اس وقت تک ان کے اخلاق کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.کچھ دیر تک یہ آپ کے بچے رہیں گے پھر یہ معاشرے کے بچے بن جائیں گے.پھر یہ اس قوم کے بچے ہو جائیں گے.آپ کا سرمایہ دوسرے کے ہاتھوں میں چلا جائے گا.جبکہ یہ وہ دولت ہے جو خدا نے آپ کو عطا کی ہے.سب سے بڑی دولت اولاد کی دولت ہے.اگر ساری عمر کی کمائی آپ ایک ہی دن گنوا بیٹھیں تو کتنا دکھ محسوس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 472 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء کرتے ہیں لیکن یا درکھیں اولاد کی دولت سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی دولت نہیں ہے.اگر اولا د ہاتھ سے نکل جائے تو گویا ساری عمر کی کمائی ہاتھ سے گئی.پس اس کی فکر کریں اور اس ضمن میں آپ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ خطبات کو خود بھی سنیں اور اپنے بچوں کو بھی سمجھا ئیں تو چونکہ ان میں قرآن کریم کا ذکر چلتا ہے.آنحضرت ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ذکر چلتا ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے نصیحتیں پیش کی جاتی ہیں اس لئے تربیت کا ایک بہت ہی اچھا ذریعہ ہے اور آپ کی نئی نسل کو قرآن اور دین اور محمد رسول اللہ ﷺ اور مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے ان خطبات کے وسیلے سے انشاء اللہ ایک گہرا ذاتی تعلق پیدا ہو جائے گا اور جب اسے تعلق پیدا ہو جائے تو پھر دنیا والے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.کیسا ہی گندا معاشرہ ہو لیکن جس کا اللہ سے تعلق ہو جائے وہ محفوظ ہوجاتا ہے.پس اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور آج خدا نے آپ کو توفیق بخشی ہے کہ سرینام کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کسی بندے کا خلیفہ براہ راست آج آپ سے جمعہ کے دن مخاطب ہے اور یہ جو تاریخی واقعہ ہے یہ ایک ہی دفعہ ہونا تھا اور ایک ہی دفعہ ہو چکا.اب یہ دھرایا نہیں جاسکتا.خلفاء انشاء اللہ آئندہ بھی آئیں گے.تقریریں بھی کریں گے خطبے بھی دیں گے مگر پہلی دفعہ پہلی دفعہ ہی رہتی ہے دہرانے سے وہ دوسری پہلی مرتبہ تو نہیں ہوسکتی.تو آپ خوش نصیب ہیں کہ اس تاریخی موقعہ کے گواہ بن گئے ہیں.اس کا شکر ادا کرنا بھی تو ضروری ہے.پس حضرت سلیمان کی طرح خدا سے دعا مانگیں اور اس بات کا شکر آپ اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ اپنی اولا دکو خطبات سنانے کا انتظام کریں اور انہی الفاظ میں سنائیں خلاصوں پر راضی نہ ہوں.عام طور پر یہ رواج مربیوں مبلغوں میں دیکھا جاتا ہے کہ محنت سے جی چراتے ہوئے بجائے اس کے کہ وہ سارے خطبہ کا ترجمہ کر کے پیش کریں ، اپنی طرف سے وہ اپنے کام کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور اردو میں ایک محاورہ ہے ٹرخانہ تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح جماعت کو بھی ٹرخا دیا.خلیفہ وقت کو بھی ٹرخا دیا اور یہ لکھ دیا کہ ہم نے آپ کے خطبہ کا مضمون عمدگی سے پیش کر دیا.یہ کافی نہیں ہے.ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے بات کرنے کا اپنا ایک طریق سکھایا ہے ہر شخص خواہ وہ وہی مضمون بیان کر رہا ہوا لگ اثر رکھتا ہے اس لئے اصل طریق یہ ہے کہ اگر آپ میں سے کسی کو اردو سمجھ نہ آئے تو مربی سلسلہ پورے خطبہ کا ترجمہ اس زبان میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 473 خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۹۱ء کرے جو زبان آپ کو سمجھ آتی ہے اور وہ ایک ہفتے کے اندر اندر بآسانی ایسا کر سکتا ہے جہاں تک انگریزی ، فرینچ، جرمن کا تعلق ہے اس کا پہلے ہی انتظام ہے.دنیا کی بہت تھوڑی جگہیں ایسی ہیں جہاں یہ زبانیں نہ سمجھ آرہی ہوں.ہاں عربی کا بھی انتظام ہے تو عربی ، انگریزی ، جرمن، فریج ، اردو تو ہے ہی ان سب میں سے پہلے سے انتظام ہے.صرف وہاں مربیوں کو یا آپ کو محنت کرنی پڑے گی جہاں چند علاقوں میں یہ زبانیں نہیں سمجھی جاتیں تو اس پر توجہ کریں اور اس رنگ میں آپ شکریہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے کہ اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑ دیں اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے.اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے ان کو غیروں کے حملوں سے بچانے والے ہوں گے ان کے اخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے اور خدا تعالیٰ آپ کی جماعت کو بہت ترقی دے میں نے یہاں آکر دیکھا ہے کہ سرینام کی جماعت میں اللہ کے فضل سے بہت اخلاص کا مادہ ہے یہاں اخلاص کی کان ہے لیکن اگر کانوں کو کھودا نہ جائے ان سے قیمتی جواہر نکالے نہ جائیں تو کیا فائدہ؟ وہ مٹی میں ملی رہتی ہیں آپ لوگوں کے اندر خدا نے اخلاص کا وہ مادہ عطا کیا ہے کہ اگر مبلغ یا مربی اور آپ کے عہد یدار اس اخلاص کی کان سے فائدہ اٹھائیں اور ان جواہر کو باہر نکالیں تو آپ کے فیض سے سارا علاقہ اللہ کے فضل کے ساتھ اسلام اور احمدیت کے نور سے بھر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس تو فیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 475 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء وو آپس کے اختلافات ختم کریں سچے ہو کر جھوٹے کی تذلل اختیار کرو صلح کے لئے عظیم نسخہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عطا فرمایا (خطبہ جمعہ فرموده ۷ جون ۱۹۹۱ء بمقام ٹرینیڈاڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج مجھے ایک مشکل در پیش ہے کیونکہ آپ میں سے بہت سے احباب اردو نہیں جانتے.مشکل یہ ہے کہ جب سے میں نے پاکستان چھوڑا ہے تقریباً سات سال اور کچھ ماہ قبل میں تمام خطبات ہمیشہ اردو میں دیتا رہا ہوں کیونکہ جواحمدی پاکستان میں ہیں ان سے میرا رابطہ اسی توسط سے قائم ہے اور وہ براہ راست میرے خطبات جمعہ سننے کے عادی ہیں.اس کے علاوہ اور بھی احمدی ہیں خصوصاً ہندوستان میں کشمیر میں جو صرف اردو ہی بول اور سمجھ سکتے ہیں اور بھی بہت سے احمدی جو کہ یورپ میں تعداد میں تقریباً تمیں سے چالیس ہزار تک ہیں وہ اردو ہی سمجھتے ہیں اور انگلش نہیں سمجھتے.اسی وجہ سے میرے خطبات ہمیشہ اردو میں ہی ہوتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے انگلستان اور امریکہ اور کینیڈا والوں کیلئے ان خطبات کے براہ راست انگلش ترجمہ کے انتظامات بھی موجود ہیں لیکن یہاں ایسی سہولت میسر نہیں اس وجہ سے باامر مجبوری مجھے یہ خطبہ انگلش
خطبات طاہر جلد ۱۰ 476 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء میں دینا ہوگا.اس وجہ سے میرا خیال ہے کہ جو خطبات کا ایک سلسلہ نماز اور ان قرآنی دعاؤں کے موضوع پر جاری ہے جو ہمیشہ کیلئے انسان کی بھلائی کیلئے قرآن میں محفوظ کر دی گئی ہیں اس سلسلہ کو روک کر آج کا خطبہ انگلش میں دیا جائے.دراصل میں نے گزشتہ کافی عرصہ سے خطبات کا ایک سلسلہ قرآنی دعاؤں کے موضوع پر شروع کر رکھا تھا.ان دعاؤں کی افادیت، ان کا پس منظر اور ہم کیسے آج کے دور میں ان دعاؤں سے بہترین فائدہ اٹھا سکتے ہیں.لیکن آج مجھے اس موضوع کو وہیں چھوڑ نا ہوگا دوبارہ جب میں اردو زبان میں خطبات دوں گا تو پھر اس سلسلے کو دوبارہ جاری کریں گے تا کہ پھر وہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے.جمعہ کی نماز دین اسلام کا ایک خاص امتیاز ہے.یہ روزانہ کی پانچ نمازوں کی نسبت ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے.پنجوقتہ نماز میں تو ایک محدود علاقہ کے لوگ اپنے علاقہ کی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں لیکن جمعہ کی نماز کیلئے ہفتہ میں ایک بار تمام شہر یا قصبہ کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور اگر شہر بہت بڑا ہو تو ایک سے زیادہ جگہ پر اجتماع ہوتا ہے اور اس مقصد کیلئے بڑی مساجد بنائی جاتی ہیں اور ایسی مساجد کو جامع مسجد کہتے ہیں.اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام تمام بنی نوع انسان کو آپس میں متحد کرنا چاہتا ہے اور یکجہتی اور اتحاد ہی اسلام کی اصل شناخت ہے.اسی وجہ سے اجتماعات کا حجم مواقع کے لحاظ سے بڑھتا جاتا ہے یعنی ہر ہفتہ میں جمعہ کی نماز اور سال میں پھر عیدین پر اور عید کے موقع پر صرف ایک شہر اور قصبہ کے رہنے والے ہی نہیں جو ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں بلکہ تمام علاقے کے مسلمان ایک ہی جگہ پر اکٹھے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور یہ تمام لوگ جامع مسجد میں بھی اکثر اوقات سمانہیں سکتے اور عموماً عید کے اجتماع کھلی اور کشادہ جگہ پر ہوتے ہیں.یہ تمام اجتماعات اس بات کا اظہار ہے اور مسلمانوں کیلئے اس میں یہ پیغام ہے کہ انہوں نے ہمیشہ متحد رہنا ہے اور پھر زندگی میں کم از کم ایک بار حج کیلئے ملکہ مکرمہ میں اکٹھے ہونا کل عالم اسلام کے ایک ہونے کا اظہار ہے.وحدانیت اور یکجہتی صرف چھوٹے پیمانے پر ہی نہیں اور صرف محدود علاقوں میں ہی نہیں بلکہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 477 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء بہت بڑے پیمانے پر جہاں تمام بنی نوع انسان کی نمائندگی ہوتی ہے اور تمام لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں یعنی مکرمہ مکرمہ میں تا دنیا جان لے کہ ہم ایک ہیں.تمام بنی نوع انسان ایک ہی ہیں نہ رنگ و نسل میں تفریق ہے اور نہ ہی جغرافیائی اعتبار سے، تمام انسان اللہ ہی کے بندے ہیں خواہ وہ کہیں بھی پیدا ہوئے ہوں.جس رنگ کے ہوں، جو بھی زبان بولتے ہوں تو تمثیلی رنگ میں ایک پیغام ہے جو بار بار آپ کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ تم سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہو اور تو حید کا یہی مطلب ہے.اس موضوع پر میں دنیا جہان میں مختلف اجتماعات اور جلسوں میں خطاب کرتا رہا ہوں اور اس کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہوں اور نہ صرف احمدیوں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی.جب بھی مجھے ان سے مخاطب ہونے کا موقعہ ملا.لوگ عموماً اپنی سادگی اور لاعلمی میں یہ خیال کرتے ہیں کہ تو حید وحدانیت صرف ایک عقیدہ ہے اور اس کا تعلق صرف ہماری سوچ سے ہے اور عملی زندگی میں اپنا نا ضروری نہیں.ایسا ہر گز نہیں.اگر یہ صرف عقیدہ یا مسلک کے معنوں میں ہوتا تو لا اله الا اللہ پانچ ارکان اسلام میں شامل نہ ہوتا.لوگ یہ جانتے ہوئے بھی سمجھتے نہیں.حیرت کی بات ہے کہ تمام مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ کلمہ طیبہ یقینی طور پر پانچ ارکان اسلام کا حصہ ہے نہ کہ پانچ ارکان ایمان کا.پانچ ارکان ایمان تو ہیں اللہ پر ایمان ،فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان لیکن پانچ ارکان اسلام میں سب سے پہلے کلمہ طیبہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ ہے.اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ صرف ایک پیغام ہی نہیں ، نہ ہی یہ صرف ایک نظریہ ہے بلکہ یہ تو ایک فرض ہے اور یہ فرض کیا ہے؟ یہی میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں.روزانہ پانچ مرتبہ چھوٹے پیمانے پر اس فرض کی یاد دہانی ہر مسلمان کو کرائی جاتی ہے اور ہر جمعہ کو نسبت بڑے پیمانے پر اس کی پھر یاد دہانی کروائی جاتی ہے.پھر اور بھی بڑے پیمانے پر عیدین کے موقعہ پر اور پھر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج کے موقعہ پر تمام مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے.یہ اجتماعات انسانوں کی وحدانیت اور باہمی اشتراک کا اتنا کامل اور واضح نمونہ پیش کرتے ہیں تا کہ کسی بھی ذہن میں یہ شک نہ رہ جائے کہ اسلام صرف اللہ ہی کو ایک مانے کا نام نہیں بلکہ تمام
خطبات طاہر جلد ۱۰ 478 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء انسانوں کو بھی ایک ماننا شرط ہے.خدا ایک ہی ہے اور تمام انسانوں کا اس پر متفق ہونا ضروری ہے اور یہی اسلام کا مقصد ہے.اب دیکھ لیں کہ صرف ایک نظریہ ہی نہیں جیسا کہ میں نے واضح کیا ہے اس کے ساتھ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے.اگر تمام انسانوں کا متحد ہونا اسلام کا ایک بنیادی پیغام ہے تو پھر ہر وہ چیز جو اس اتحاد کو توڑتی ہے وہ یقیناً غیر اسلامی ہوگی.اگر آپ اس نقطے پر مزید غور کریں اور گہرائی میں جا کر سوچیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک بھی تلخ کلمہ یا لفظ اگر کسی دوست کو کہا جائے.یا اپنے بھائی یا بہن یا ہمسائے یا کسی کے بارے میں بھی بولا جائے جس کی وجہ سے آپ میں اور اس میں اختلاف ہو جائے اور ماحول میں تلخی پیدا ہو جائے اور پھر اس وجہ سے اختلافات شروع ہو جائیں اور لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جائیں تو یہ سب تو حید کےخلاف ہے ہر تلخ بات پر تلخ عمل.کوئی بھی نا انصافی یہ سب تفرقہ ڈالنے والی چیزیں ہیں اور توحید سے بعید تر.آپ ایک خدا یا ایک کلمہ کو ماننے کا دعوی کیسے کر سکتے ہوا گر آپ کا عمل ہی اس کے برعکس ہو.یہ ایک نہایت ہی گہرا اور حکیمانہ پیغام ہے جو کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ کو فرمایا.من قال لا اله الا الله فدخل الجنۃ آپ نے اس کے ساتھ محمد رسول اللہ نہیں فرمایا.یعنی جو بھی لا اله الا اللہ کہے گا وہ جنت میں داخل ہوگا.حضرت ابو ہریرۃ اس پیغام کی گہرائی اور حکمت کو نہ سمجھ سکے اور مدینہ کی گلیوں میں بآواز بلند یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ لوگو سنو تمہارے کیلئے ایک بڑی عظیم الشان خوشخبری ہے.حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کیلئے تمہیں صرف لا الہ الا اللہ کہنا کافی ہے.اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے سے آ رہے تھے جہاں حضرت ابو ہریرہ یہ اعلان کر رہے تھے.آپ نے ان کو پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے واپس آنحضرت ﷺ کے پاس لے گئے اور شکایت کی کہ ابو ہریرہ یہ اعلان کر رہے تھے.اب لوگوں کا کیا ہوگا اور جس نے بھی یہ اعلان سنا ہے وہ کیا کرے گا.حضور نے حضرت عمر سے فرمایا کہ ابو ہریرہ کو چھوڑ دو میں نے ہی اس کو یہ بتایا تھا لیکن تمہاری بات بھی ٹھیک ہے.میں جانتا ہوں کہ لوگ اس بات کی حکمت نہ سمجھ پائیں گے اور اس بات کو یہیں روک دینا چاہئے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 479 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء وہ کیا پیغام تھا یہی میں آپ کو آج بتانا چاہتا ہوں.یہ پیغام اتنا گہرا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ اس کو نہ سمجھ سکے.آنحضرت ﷺ نے آپ ہی اپنے متعدد خطبات میں اور روایات میں اس کی تشریح فرمائی ہے اور اس تمام پیغام کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ لا الہ الا اللہ صرف ایک عقیدہ نہیں ہے بلکہ تمام زندگی کا طرز عمل ہے کوئی بھی جو اس کے خلاف کرے گا یا اس کا عمل رشتوں اور تعلقات میں تفریق کرنے والا ہو گا جو رحمی رشتوں کو نقصان پہنچائے گا یا ہمسایوں کو تکلیف دے گا یا تمام انسانوں میں سے کسی کیلئے بھی تکلیف کا موجب بنے گا یا اس کا کوئی بھی عمل باہمی اتحاد کو نقصان پہنچائے گا تو ایسا شخص ہر گز لا الہ الا اللہ کو ماننے والا نہیں ہوسکتا.یہ ہے وہ پیغام.اسی طرح آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن اور رحیم کی تشریح اس طرح فرمائی.رحم کے مادہ حروف ہیں.رح.م اس کا مطلب رحم بھی ہے اور رحیم بھی.اور رحم تو اللہ تعالیٰ کے رحم کو کہتے ہیں جو کہ صفت رحمانیت اور رحیمیت کا ماخذ ہے اور رحم عورت کی بچہ دانی کو کہتے ہیں اس کا مادہ بھی یہی تین حروف ہے.رحیم لیکن رحم کا مطلب بالکل اور ہے یعنی عورت کی بچہ دانی یعنی ماں کا پیٹ جہاں بچہ نشو ونما پاتا ہے.یعنی عورت کا وہ عضو جہاں بچ نشو ونما پاتا ہے اس کو بھی رحم کہتے ہیں اور اس کا ماخذ بھی یہی تین حروف مادہ ہیں یعنی رح.م.تو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لفظ رحمن اور رحم کا ماخذ ایک ہی ہے اور ایک عظیم الشان پیغام ہمیں دیا کہ جو کوئی بھی ماں سے تعلق رکھنے والے تعلقات کو توڑے گا تو وہ رحمن سے یعنی اپنے خدا سے تعلق توڑے گا.بنیادی طور پر اگر آپ درخت کو اس کی جڑ سے کاٹ دیں تو آپ نے تمام درخت کاٹ دیا اگر رحم کے تعلق کوتو ڑا تو رحمن سے تعلق از خود ہی ٹوٹ جائے گا.اب دیکھیں یہ تو حید ہی کا پیغام ہے اور واضح کرتا ہے کہ توحید کا آغاز گھر ہی سے ہوتا ہے.خاندانوں میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ایسا رویہ اپنا ئیں جس سے خاندانی تعلقات مضبوط ہوں اور گھر ایک صحت مند اور مکمل خاندان کی شکل اختیار کریں جس سے بنی نوع انسان میں امن وسلامتی قائم ہوگی.جب تک گھروں کو مضبوط نہ کیا جائے اور خاندانی اقدار کی حفاظت نہ کی جائے یہ ناممکن ہے کہ ٹوٹے ہوئے گھروں کے لوگ انسانیت کو وحدانیت کے حصار میں لے آئیں.چنانچہ یہ ہمارے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 480 خطبہ جمعہ ۷ / جون ۱۹۹۱ء عقیدے کا حصہ ہے اور اس عقیدہ کو عملی شکل دینا ہمارا کام ہے.اب دیکھیں کہ کتنا گہرائی میں آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھا اور ہمارے لئے بیان فرمایا.رحمن اللہ تعالیٰ کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی تنزیہی صفت ہے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ صفت دوسری تمام صفات پر بھی حاوی ہے.اس میں بھی بنی نوع انسان کیلئے ایک خوبصورت پیغام ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں ہمیشہ رحمانیت پر زور دینا چاہئے.ہمیں ایسا طرز زندگی اپنانا ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کیلئے منفعت بخش وجود بنیں اور تمام مخلوقات سے نرمی اور حلم سے پیش آئیں.اس طرح ہم انسانوں کو وحدانیت کی طرف لاسکیں گے.بطور مسلمان ہمیں رحمانیت پر زور دینا چاہئے.ہمیں ایسے رویہ پر زور دنیا چاہئے جس میں ہم دوسروں سے نرمی کا اظہار کریں اور انسانوں سے محبت کریں.انسانیت کو وحدانیت کی طرف لانے کے یہ معنی ہیں.یہ صرف ایک نظریہ نہیں ہے.یہ ایک خیالی بات نہیں ہے.اگر ہم آنحضور ﷺ کی صلى الله تعلیمات کا مزید مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح آنحضور ﷺ کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ ایک ہی ہے اور آپ نے جو بھی بیان فرمایا وہ بالآخر ایک بنیادی تعلیم پر مرکوز ہو جاتا ہے.مثلاً ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا ، جو خدا کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا، جواللہ تعالیٰ کے بندوں پر رحم نہیں کرتا جو اس کے تخلیق کردہ ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا.چنانچہ وہی تعلیم جو پہلے ایک ماں کے بچوں کے حوالہ سے بیان فرمائی تھی اب انسانیت کے حوالہ سے بیان فرمائی ہے.رحم کا لفظ دونوں میں مشترک ہے.پس سمجھنے کی کوشش کریں.جب آپ رحمی رشتوں کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایک گہرا پیغام مضمر ہے.یہ ایک محدود تعلیم نہیں ہے جس کا تعلق محض گھروں کی حد تک ہو، یا ایک ماں کی اولاد کے حسن سلوک سے ہو.بظاہر اتناہی نظر آتا ہے مگر اگر آپ صلى الله آنحضور ﷺ کی تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کریں، احادیث پر نظر ڈالیں تو آپ آنحضور ﷺ کی حکمت کی گہرائی اور وسعت سے حیران رہ جائیں گے.کس قدر عدگی اور گہرائی سے آپ نے خدا کا عرفان حاصل کیا تھا اور کس طرح خدائی صفات کو انسانی معاملات سے جوڑا ہے.چنانچہ آغاز میں آپ نے فرمایا کہ ماں کی طرف سے اپنے قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو پھر اسی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 481 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء مضمون کو وسعت دیتے ہوئے.خدا تعالیٰ کی اسی صفت کے حوالہ سے، یعنی رحمانیت کے حوالہ سے کسی اور حوالہ سے نہیں اسے پوری انسانیت تک پھیلا دیا.فرمایا ! جو دیگر انسانوں پر رحمت نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرے گا.نہایت عظیم الشان اور اہم تعلیم ہے.یہ مطلب ہے کہ من قال لا اله الله دخل الجنة اگر کوئی یہ اعلان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.جو کوئی خدا کی وحدانیت کے ہر پہلو پر یقین رکھے.وہ توحید کا ادراک حاصل کرتا ہے اور اس پر عامل ہو جاتا ہے.یہ پیغام ہے کہ تب وہ یقیناً جنتی ہے.پس جنتی ہونا اور اعمال پر ہی منحصر نہیں.یہ اسلام کے پیغام کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا معاملہ ہے اور پھر اسے عملی زندگی میں جاری کرنے سے تعلق رکھتا ہے.جنت کی وضاحت کرتے ہوئے آنحضور ﷺ نے اسے پھر ماؤں کے حوالہ سے ایک دوسرے پہلو سے واضح فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.جنت کا راستہ ماؤں کے قدموں تلے گزر کر جاتا ہے.چنانچہ تمام تعلیم ایک دوسرے سے منسلک ہے،ایک ہی چیز کے مختلف حصے ہیں.پس احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود امام مہدی علیہ السلام کو اس زمانے میں مبعوث فرمایا اور اسلام کی حکمتیں آپ پر اس طرح کھولی گئیں کہ گویا اسلام نے دوبارہ جنم لیا ہے، اسے ایک نئی زندگی عطا ہوئی ہے.وہی ملاں جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں وہ قرآن مجید بھی پڑھتے ہیں، احادیث بھی پڑھتے ہیں مگر سطحی طور پر.انہیں علم نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں.وہ پیغام سمجھتے ہی نہیں یہ حضرت مسیح موعود کیلئے ہی مقدر تھا جنہیں خدا کی راہنمائی حاصل تھی کہ آپ اسلام کی گہرائیوں میں ڈوب کر اس کی خوبیاں ہمارے لئے کھینچ نکال لائے.چنانچہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے جس نے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا کہ ہم نے سچائی کے پیغام کو قبول کرنے کی توفیق پائی اور اس نے آنحضور ﷺ کے غلام صادق کو موجودہ دور میں مبعوث فرمایا.ایسا غلام جس کی اپنی ذات کامل طور پر اپنے آقا کی ذات میں مدغم ہوگئی.یہی وجہ تھی کہ آپ کو دنیا کی راہنمائی کیلئے چنا گیا.المہدی کا یہی مطلب ہے.تو جب ہم یہ گفتگو کرتے ہیں تو یقین رکھیں کہ یہ ہم نے حضرت مسیح موعود سے سیکھا ہے.اگر آپ حضور کی تحریرات پڑھیں تو صحیح اسلام جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 482 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء آنحضور ﷺ پر نازل ہوا، کو سمجھنے کا یہی ایک راستہ ہے.تو جب ہمیں دوبارہ سمجھایا گیا، دوبارہ وضاحت کی گئی تو اب ہم پر ڈہری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اس پیغام پر عمل کریں.جب میں یہ کہتا ہوں تو میری نظر میں بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں جو آپ میں وقتا فوقتاً پیدا ہوتے رہتے ہیں.جن پر بعض دفعہ مجھے اطلاع ہو جاتی ہے اور میں بہت بے چین ہو جاتا ہوں.بعض اوقات مجھے گہرا دکھ پہنچتا ہے، میں درد محسوس کرتا ہوں، پریشان ہوتا ہوں کہ کیا ہورہا ہے.میں آپ کے پاس آکر سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ رویہ نہیں ہے جو آپ سے اپنانے کی خواہش کی جاتی ہے.چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کو علیحدہ نہ کریں.آپ تو دنیا کو متحد کرنے کیلئے تخلیق کئے گئے ہیں مختلف انسانوں کو آپس میں جوڑنے کیلئے انہیں تقویت دینے کیلئے.آپ تو جوڑنے کیلئے آئے ہیں نہ کہ توڑنے کیے لئے تو اگر آپ چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے جھگڑیں گے.اگر ایک دوسرے پر بدظنی کریں گے تو بکھر جائیں گے.آپ خدا کے نام پر اپنے لئے چھوٹی چھوٹی علیحدہ مساجد تعمیر کرنے لگیں اور انہیں ایک مخصوص خاندان یا گروپ کیلئے خاص کریں تو یہ تو اسلام نہیں.قرآن مجید اس کے حوالہ سے بڑی شدت سے اس کی نفی کرتا ہے.مسجد ضرار کیا تھی ؟ مسجد ضرار ایک مسجد تھی جو بظاہر خدا کے نام پر بنائی گئی تھی مگر دراصل یہ مسلمانوں کے ایک حصہ میں اختلافات پیدا کرنے کیلئے تعمیر کی گئی تھی.زندگی میں اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے سے زیادہ مقدس کیا کام ہوسکتا ہے.بیوت اللہ.مگر اگر نیتیں خراب ہوں اگر نیت میں جوڑنے کی بجائے توڑنے کا فتور پایا جاتا ہو تو پھر یہ مقدس ترین مقصد بھی گھناؤنا ہو جاتا ہے.پس میں آپ سے درخواست کرتا ہوں.میں دل کی گہرائیوں سے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو میں نے بیان کیا ہے اس کی روشنی میں وحدت کو قائم رکھیں ، اس کی تو قیر کریں، اس بات کو سمجھیں کہ خدا کی وحدانیت کا اظہار خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا ، جب تک آپ آپس میں متحد نہ ہوں.اگر آپ پہلے اپنے بھائیوں سے اور پھر تمام انسانیت کے ساتھ اتحاد نہیں کرتے.پس یہ پیغام بہت گہرا اور اہم ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس حوالہ سے ایک دفعہ ایک نظم لکھی.انہوں نے لکھا کہ:
خطبات طاہر جلد ۱۰ وہ وه چھوٹے درجہ 483 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء نیچی رہے میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی راضی ہوں اور ان کی نگاہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شیروں کی طرح غراتے ہوں سا قصور اگر دیکھیں تو منہ میں گف بھر لاتے ہوں ادفی وہ وه اور ہوں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر امید لگائے بیٹھے ہوں ادنی ادنی خواہش کو مقصود بنائے بیٹھے شمشیر زباں گھر بیٹھے دشمن کو مارے جاتے ہوں میدانِ عمل کا نام بھی لوتو جھینپتے ہوں گھبراتے ہوں گیدڑ کی طرح وہ تاک میں ہوں شیروں کے شکار پہ جانے کی بیٹھے خواہیں دیکھتے ہوں وہ ان کا جو ٹھا کھانے کی اے میری الفت کے طالب ! یہ میرے دل کا نقشہ ہے اب اپنے نفس کو دیکھ لے تو وہ ان باتوں میں کیسا ہے تیری ہمت چھوٹی ہے گر تیرے ارادے مردہ ہیں تیری اُمنگیں کو تہ ہیں گر تیرے خیال افسردہ ہیں کیا تیرے ساتھ لگا کر دل میں خود بھی کمینہ بن جاؤں ہوں جنت کا مینار ، مگر دوزخ کا زینہ بن ہے خواہش میری الفت کی تو اپنی نگاہیں اونچی کر تدبیر کے جالوں میں مت پھنس کر قبضہ جا کے مقدر پر میں واحد کا ہوں دل دادہ اور واحد میرا پیارا ہے گر تو بھی واحد بن جائے تو میری آنکھ کا تارا ہے تو ایک ہو ساری دنیا میں کوئی ساجھی اور شریک نہ ہو لیکن خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو نیا کو دے جاؤں ( کلام محمود صفحه :۱۴۲)
خطبات طاہر جلد ۱۰ 484 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء مجھے ان سے پیار ہے جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ہیں.جن کا افق وسیع ہے، جن کے پاس درگزر کرنے کی صلاحیت ہے.جو لوگوں میں گھل مل کر رہتے ہیں اس کے باوجود کہ انہیں تنگ کیا جائے.وہ معاف کرنا جانتے ہیں.وہ درگزر کرنا جانتے ہیں اور باوجود اس کے کہ ان پر ظلم ہو وہ اپنے دشمنوں سے معافی طلب کرتے ہیں، بجائے اس بات کا انتظار کرنے کے کہ ظلم کرنے والے ان کے وازے کھٹکھٹا کے معافی طلب کریں.جن پر ظلم ہوتا ہے وہ فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جا کر ظالموں سے معافی مانگ لیتے ہیں.یہ ایک عجیب تعلیم ہے مگر حضرت مسیح موعود نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ: وو سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۳) اگر تم درست بھی ہو، خدا کی خاطر ان لوگوں سے معافی مانگنا سیکھو، جنہوں نے تم پر ظلم کیا ہے جیسے تم نے ان پر زیادتی کی ہو، جیسے تم غلطی پر ہو.میں نے حضرت مسیح موعود کی اس نصیحت پر برسوں غور کیا ہے اور میرے خیال میں انسانی معاشرے کے دو متحارب گروہوں کو آپس میں ملانے کا اس سے بہتر کوئی فارمولا نہیں.ان بھائیوں کو متحد کرنے کیلئے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے ہفتوں ناراض رہتے ہیں.بات بھی نہیں کرتے.جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر علیحدہ ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے خاندان علیحدہ ہو جاتے ہیں.بعض اوقات تو وہ جماعت سے بھی الگ ہو جاتے ہیں.صرف اس بات پر کہ ان کے خیال میں مشنری انچارج نے یا کسی اور عہدیدار نے ان سے زیادتی کی ہے.بعض دفعہ وہ کسی حقیقی یا خیالی زیادتی پر مسجد میں جانا چھوڑ دیتے ہیں.ایسے لوگوں سے لمبے عرصہ سے میرا واسطہ رہا ہے.میں پاکستان میں بہت پھر اہوں.بہت سے دیہاتوں میں جاتا رہا ہوں دور ونزدیک سفر کیا ہے اور ہر جگہ اس قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے.جو اپنے بارہ میں بہت حساس ہوتے ہیں اور بعض گفتنی یا نا گفتنی باتوں پر ایک دوسرے سے جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ جب بھی میرا ان سے واسطہ پڑا.میرے پاس حل موجود تھا.ان کا اصرار ہوتا تھا کہ ہم صحیح ہیں اور دوسرا غلط.ہم اس سے معافی کیوں مانگیں؟ اور جب دوسرے فریق کے پاس جاؤ تو تو وہ خود کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 485 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتے ہیں.ہم اس شخص سے کیوں معافی مانگیں جس نے ہمارے حقوق پر قبضہ کر لیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کی یہ تحریر ہمیشہ میرے کام آئی.میں ان سے بار بار پوچھتا تھا کہ تمہیں یقین ہے کہ تم درست ہوا اور تمہار بھائی غلط.وہ جواب دیتے یقیناً.ہمیں یقین ہے.تو میں ان سے کہتا کہ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم پہلے جا کر اس سے رابطہ کرو کیونکہ جو امام تم نے چنا ہے.جسے اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ تم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اگر تم درست ہو تو اپنے غلطی خوردہ بھائی کے پاس جاؤ اور اس سے معافی طلب کرو.اس کے بعد حضرت مسیح موعود سے منسوب شخص کیلئے اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا.سوائے اپنے ان بھائیوں سے صلح کرلے سے جن سے وہ دور چلا گیا تھا.اس سے بہتر اور کیا فارمولا ہو سکتا ہے؟ تو جب کبھی آپ کا ایسے احمدی سے واسطہ پڑے جو کسی بات پر اپنے بھائی سے ناراض ہو.خواہ وہ درست ہو یا غلطی پر ، یہ ایک علیحدہ سوال ہے.اس پر یہی فارمولا استعمال کریں.اس سے دریافت کریں کہ کیا تم صحیح ہو؟ اور اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو اسے بتا ئیں کہ حضرت مسیح موعود کیا فرماتے ہیں.خود کو درست ثابت کرنے کیلئے تمہیں خود سے آگے بڑھنا ہے اور اپنے بھائی سے معافی مانگتی ہے.یہ نہایت خوبصورت تعلیم ہے.یہ ایک متحارب معاشرے کو جوڑ سکتی ہے اور ایک دفعہ اگر کوئی صحیح راستے پر ہونے کے باوجود اپنے بھائی سے معافی مانگے تو ناراض بھائیوں کو منانا بہت آسان ہو جاتا ہے.میرا مشاہدہ ہے کہ ناراضگی کے بعد صلح بعض اوقات زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جاتی ہے.ایسے لوگ گزشتہ ناراضگیوں کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوش کرنے کیلئے اور زیادہ محبت سے پیش آنے لگتے ہیں.آپس میں متحد ہونے کے حوالہ سے یہ ایک نصیحت میں آپ کو کرنی چاہتا ہوں اور جیسا کہ میں نے کئی بار وضاحت کی ہے.اتحاد نہایت اہم چیز ہے.یہ محض ایک نظریہ نہیں ہے.یہ محض عقیدہ بھی نہیں ہے.یہ تو زندگی کا حصہ ہے.عملی قدم ہے.اتحاد پر عملدرآمد کئے بغیر آپ خدا کی توحید پر ایمان نہیں لا سکتے.پس آپس میں متحد ہوجائیں، اپنے بھائیوں اور بہنوں سے کوئی ایسی بات نہ کریں جو ان کی ناراضگی کا باعث ہو، اگر کوئی آپ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 486 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء کو تکلیف بھی دے تو حوصلہ مندی کے ساتھ اس سے معافی مانگ لیں خواہ آپ درست بھی ہوں.اپنے اس بھائی کے گھر جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے پہلے چل کر جائیں اور اس سے معافی طلب کر لیں.یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے.یہ اسی زمین پر جنت ہے.اس پر عمل کریں.پھر آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ کی زندگی امن اور آشتی اور محبت کی عظیم الشان صورت میں بدل جائے گی.یہ بہر حال ہمیں پہلے اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی تب ہی ہم باقی معاشرہ جنت نظیر بنا سکتے ہیں.دنیا میں ہر جگہ گھر ٹوٹ رہے ہیں، معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں.آپ نے اقوام متحدہ کا نام سنا تو ہوگا مگر اگر آپ گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ اقوام غیر متحدہ کا ادارہ ہے.نہ زیادہ ، نہ کم.آپ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اقوام متحدہ کے قیام کیلئے اس رنگ میں چنا ہے جس رنگ میں قرآن کریم دنیا میں اس کا قیام چاہتا ہے اس لئے آپس میں اکٹھے ہوں ، ایک دوسرے سے محبت کریں پھر آپ دنیا کو کہہ سکیں گے محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں اسکے بغیر نہیں.یہ محض نعرے نہیں ہیں جو دنیا کو دکھانے کیلئے ہیں.جو اپنے مہمانوں کو دکھانے کیلئے ہیں کہ ہم یہ ہیں اگر ہم اندرونی طور پر اپنے بھائیوں سے بغض رکھیں.اگر ہم بعض لوگوں سے نفرت کریں.بعض خاندانوں سے.تو ہمارے دلوں میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کیلئے محبت نہ ہو تو پھر یہ منافقت ہے یہ اسلام تو نہیں ، یہ خدا تعالیٰ کی توحید پر یقین تو نہیں.خدا تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور نہ صرف یہ کہ آپ کو یہ پیغام سمجھنے والا بنائے بلکہ اس پر عملدرآمد کرنے والا بھی بنائے.دنیا کو اس کی ضرورت ہے ، احمدیت کو اس کی ضرورت ہے.اگر آپ دس قدم آگے بڑھ رہے ہیں تو متحد ہو کر آپ سو قدم یا ہزار قدم سالانہ ترقی کر سکتے ہیں.یہ اتحاد کا پھل ہے.جو منتشر ہوں وہ ترقی نہیں کر سکتے.ان کی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف ضائع ہو جاتی ہیں، وہ صحیح رنگ میں دنیا میں ترقی کر ہی نہیں سکتے ، وہ اپنے ماحول میں کوئی دیر پا اثر نہیں ڈالتے.پس متحد ہو کر آگے بڑھیں اور ترقی کرتے چلے جائیں.خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کونسلاً بعد نسلاً متحد رکھے اور پھر انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی ترقی کی رفتار پہلے سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گنا بڑھ جائے گی.اللہ آپ پر رحم فرمائے.آمین ان الفاظ کے ساتھ میں خطبہ اس امید پر ختم کرتا ہوں کہ آپ یہ پیغام سمجھ گئے ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 487 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۹۱ء گے.میں نے اسے بار بار دھرایا ہے.مختلف رنگ میں روشنی ڈالی ہے.میرا خیال نہیں کہ آپ میں سے کوئی ایسا بھی ہو جسے جو میں کہنا چاہتا ہوں سمجھ نہیں آئی.خدا کی تو حید پر ایمان اور اسکے مطابق عمل جنت کا راستہ ہے.یہ جنت کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں.خدا آپ پر فضل فرمائے.آمین.ہم جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کریں گے کیونکہ میں سفر میں ہوں اور اسی طرح بہت سے دوسرے لوگ بھی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 489 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء قرآنی دعاؤں کے سلسلہ میں حضرت سلیمان، حضرت موسی اور حضرت لوط علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ جون ۱۹۹۱ء بیت الا ول.گوئٹے مالا ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا یہ خطبہ میں مسجد بیت الاول گوئٹے مالا سے دے رہا ہوں.جیسا کہ احباب جماعت ومعلوم ہے کہ ایک لمبے عرصہ سے قرآنی دعاؤں کے مضمون پر خطبات کا سلسلہ جاری ہے.صرف گزشتہ خطبہ میں استثناء کرنا پڑا کیونکہ یہ خطبہ ٹرینیڈاڈ Trinidad میں آیا اورٹرینیڈاڈ کی جماعت میں کوئی بھی اردو نہیں جانتا اس لئے جماعت کی خواہش یہ تھی کہ چونکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہمیں موقعہ ملا ہے کہ ہم آپ سے براہ راست بات سن سکیں اس لئے ہماری خاطر اس دفعہ استثناء کر دیں اور ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ہمارے مسائل کو پیش نظر رکھ کر خطبہ دیں.چنانچہ ان کی اس خواہش کے احترام میں میں نے ایسا ہی کیا.پس اس سلسلہ مضمون کا یہ خطبہ اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے تھا اور پیچ کا جو خطبہ تھا وہ وقفہ شمار ہونا چاہئے.یہ دعا جو میں اب پڑھ کر سنانے لگا ہوں سورہ نمل کی آیت ۴۵ سے لی ہے.اس میں ملکہ سبا جس کا نام بلقیس بیان کیا جاتا ہے اس نے یہ دعا کی کہ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ اللهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آج سلیمان کے ساتھ اس کے رب پر ایمان لاتی ہوں.اس سے پہلے جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 490 خطبہ جمعہ ۱۴ جون ۱۹۹۱ء پاس حاضر ہوئی تھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ ہم نے تو جب پیغام سنا تھا اسی وقت ہی مسلمان ہو گئے تھے.تعجب یہ ہے کہ پھر دوبارہ اسلام لانے کا کیا مطلب ہے.اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان سمجھتے تھے کہ منہ کی ایک بات ہے.حقیقت میں ان کو ابھی اسلام کا علم نہیں.اسلام لانے اور اسلام میں ترقی کرنے میں ایک فرق ہے.پس حضرت سلیمان نے اس کا ایک امتحان لیا اور امتحان ہی نہیں بلکہ اس امتحان کے ذریعہ ایک پیغام دیا.آپ نے اسے ایک ایسے کمرے میں ملاقات کا وقت دیا جس کا فرش شیشے سے جڑا ہوا تھا اور دیکھنے والے کو دھوکا لگتا تھا کے یہ پانی ہے،شیشہ نہیں ہے.چنانچہ ملکہ جب اس میں داخل ہوئی تو اس نے اپنے کپڑے بے اختیار اس طرح سمیٹ لئے جس طرح پانی میں داخل ہوتے وقت ہر انسان طبعاً اپنے کپڑے سمیٹتا ہے.اس پر جب اس کو احساس ہوا کہ یہ غلطی ہوئی ہے تو پھر وہ سمجھی کہ دراصل مجھے یہ پیغام ہے کہ یہ جو ظاہری چمک ہے یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اس کے پیچھے ایک اور پیغام ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے.پس صنعت کی چمک دمک سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے.جب یہ پیغام اس کو ملا تو در حقیقت وہ توحید کی دوبارہ قائل ہوئی ہے اور دل کی گہرائی سے قائل ہوئی ہے.چنانچہ اس واقعہ کے معاً بعد اس نے یہ اظہار کیا ہے.اس سے پہلے آیت میں یہ ہے کہ.فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحُ مُمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَة (النمل: ۴۵) جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ مجھی کہ یہ ایک چمکتا ہوا شفاف پانی ہے.وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا اس نے اپنے لباس کو اٹھایا یہاں تک کہ اس کی پنڈلیاں ننگی ہوگئیں.قَالَ إِنَّهُ صَرْح مُمَرَّد اس پر حضرت سلیمان نے فرمایا کہ یہ تو جڑاؤ شیشہ ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.من قواریر شیشے کے جڑاؤ ٹکڑوں سے بنا ہوا ہے.تب اس نے دعا کی قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِی اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.یہاں ظلم کے معنی دو طرح ہیں.ایک تو ظلم اور شرک کو قرآن کریم نے ہم معنی قرار دیا ہے اور چونکہ وہ مشرک قوم سے تعلق رکھتی تھی اور حقیقت میں اب اس کو تو حید کا سچا علم ہوا تھا اس لئے ظلمت کے معنی یہ ہیں کہ اس سے پہلے میں ایک مشرکانہ زندگی بسر کرتی تھی.میں اس سے تو بہ کرتی ہوں.دوسرے ظاہر داری کی باتوں میں یا محض دوسرے کو خوش کرنے کے لئے یہ کہنا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں یہ بھی ایک ظلم ہوا کرتا ہے.تو وہ سمجھ گئی کہ حضرت سلیمان کو اب میری حقیقت کا علم ہو چکا ہے.آپ جانتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 491 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء ہیں کہ ابھی میں نے تسلیم ورضا کی راہیں طے کرنی ہیں اس لئے اس سے پہلے جو میں نے حضرت سلیمان پر یہ اثر ڈالا تھا کہ گویا میں تو پیغام سنتے ہی مسلمان ہوگئی تھی یہ مجھ سے غلطی ہوئی اور میں اس سے تو بہ کرتی ہوں.وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ اور اس دفعہ اس نے بہت ہی عمدہ الفاظ میں اپنے ایمان کو بہت اعلیٰ رنگ میں پیش کیا ہے کہ اب جو میرا ایمان ہے وہ وہی ہے جو سلیمان کا ہے اور جیسا کہ سلیمان کے ایمان میں کوئی رخنہ نہیں ہے کوئی گدلا پن نہیں ہے، اسی طرح اب اے میرے خدا تو میرے ایمان کو بھی اسی طرح قبول فرما لے.رَبِّ الْعَلَمِينَ جو تمام جہانوں کا رب ہے.پس یہ دعا بھی انسان کو بعض مواقع پر کام دیتی ہے.کئی قسم کے ظلم انسان کرتا ہے.اگر چہ آج کل ویسا شرک تو نہیں جیسے پرانے زمانوں میں پایا جاتا تھا یا اب بھی بعض جگہوں میں پایا جاتا ہے لیکن بسا اوقات انسان اپنے نفس کو معبود بنالیتا ہے.اپنی خواہشوں کو معبود بنالیتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا تو ہر ایسے موقعہ پر جب کہ سہوا بھی غلطی ہو انسان کو ایسی دعا کرنی چاہئے جس کا تعلق شرک سے سچی توبہ اور حقیقت اسلام کو پالینے سے ہے.ایک دعا حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے یہ سورۃ القصص آیت ۱۷ سے لی گئی ہے.وہ عرض کرتے ہیں.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِی اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا پس مجھے بخش دے.یہاں ظلم کا معنی وہ نہیں ہے جو اس سے پہلے گزر چکا ہے.یہاں ظلم سے مراد ایک ایسا واقعہ ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام معصومانہ ملوث ہو گئے تھے.پس جب ایک عام انسان ظلم کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کے معانی زیادہ گہرے ہوتے ہیں.بعض دفعہ واقعی اس سے بڑا ظلم سرزد ہوا ہوتا ہے لیکن اگر ایک نبی یا ولی خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے یہ کہتا ہے کہ میں نے ظلم کیا تو اس کو ان معنوں میں نہیں لینا چاہئے.مثلاً ملکہ سبا کا ظلم ابھی گزرا ہے.وہ واقعی ایک مشترکہ تھی.اس نے شرک سے توبہ کی تھی.اس سے جو پہلا فعل سرزد ہوا تھا وہ بھی اس کے نزدیک ایک فلم تھا اور واقعہ ظلم تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام جس ظلم سے تو بہ کر رہے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے ایک ہم قوم کو ایک ظالم قوم کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے دیکھا.تو اس کی مدد کے لئے آگے بڑھے.آپ یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص مظلوم ہے اور طاقتور قوم کا فرد اس پر ظلم کر رہا ہے کیونکہ آپ بہت طاقتور تھے.آپ نے جب اس کو مکہ مارا تو ایسی جگہ لگ گیا مثلاً بعض دفعہ کنپٹی پر لگ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 492 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء جاتا ہے یا کسی اور نازک جگہ پر کہ اس سے انسان کی جان بھی نکل جاتی ہے تو قرآن کریم کے بیان کے مطابق حضرت موسی نے جب مکہ مارا تو اس کا وقت آ گیا تھا.اس نے دم توڑ دیا اور اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ڈرتے رہے اور توبہ کرتے رہے.چنانچہ آپ نے عرض کیا.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِی اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.پس مجھے بخش دے.فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (القصص: ۱۷ ) اللہ تعالیٰ نے یقیناً اس کو بخش دیا اور وہ بہت ہی بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.اس کے بعد حضرت موسی نے ایک عرض کی.قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَى فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرَ الِلْمُجْرِمِينَ (القصص:۱۸) اے میرے رب! تو نے چونکہ مجھ پر انعام فرمایا ہے.بخشش کا سلوک فرمایا ہے.پس مجھ پر شکر واجب ہے اور میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ آج کے بعد کبھی مجرموں کی مدد نہیں کروں گا.اس میں ہر دعا کرنے والے کے لئے ایک پیغام ہے.ہم جب دعا کرتے ہیں تو بسا اوقات یہ سوچتے ہیں کہ فلاں کی دعا قبول ہو گئی ہماری نہیں ہوئی حالانکہ دعا کی قبولیت میں بھی ایک بہت ہی لطیف نظام عدل جاری ہے.وہ لوگ جو قبولیت دعا کے بعد اس کا شکر ادا کرنا جانتے ہیں دعا کی قبولیت کے بعد جوان پر تقاضے عائد ہوتے ہیں ان کا حق ادا کرنا جانتے ہیں، ان کی دعائیں اللہ تعالیٰ زیادہ سنتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ صرف انہی کی دعائیں سنی جائیں.بعض دفعہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک شخص جس گناہ میں ملوث ہے پھر ہوگا، پھر ہوگا اور پھر ہوگا پھر بھی بخشتا چلا جاتا ہے.یہ تو اس کی مغفرت کے ساتھ تعلق رکھنے والی بات ہے لیکن اگر آپ دعا کی قبولیت کا راز سمجھنا چاہیں.یعنی وہ معاملہ جو خدا اور انبیاء کے درمیان ہوتا ہے تو وہاں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ خاص رحمت کا سلوک اس لئے فرماتا ہے ان کی دعائیں بہت زیادہ قبول کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ناشکرے نہیں ہیں.میری طرف سے ہر احسان کے بعد یہ پہلے کی نسبت احسان کا بہت زیادہ بخشش مانگنے کے ذریعے بدلہ اتارنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ کے احسان کے مقابل پر تو احسان نہیں ہوسکتا لیکن اس کے سامنے زیادہ جھک کر اور اس کے احسانات میں ڈوب کر اور بار بار اس کی حمد کے گیت گا کر ایک رنگ میں انسان احسان کا اعتراف کرتا ہے.پس ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مغفرت کا زیادہ سلوک ہوتا ہے اور ان کی دعائیں بھی عام لوگوں کی نسبت زیادہ مقبول ہوتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 493 خطبہ جمعہ ۱۴ جون ۱۹۹۱ء پس مغفرت پر بھی سہارا ہو سکتا ہے لیکن بسا اوقات محض مغفرت پر سہارا نہیں لیا جاسکتا اور عادت کو ایسا درست کرنا ضروری ہے کہ جس کے نتیجہ میں دعائیں قبول ہوں اور اسی مضمون کو قرآن کریم نے ہمارے انسانی تعلقات کے سلسلہ میں ایک اور رنگ میں بیان فرمایا.فرمایا جب کوئی تمہارا گناہ کرتا ہے.جب کوئی تم پر زیادتی کرتا ہے تو تمہارا حق ہے کہ تم بدلہ لو جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ ہمیں گناہوں کی سزا دے لیکن فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: ۴۱) جو مغفرت کرے بشرطیکہ اس کی مغفرت اصلاح کا موجب بنے جرم کی حوصلہ افزائی کا موجب نہ بنے اس کا اجر خدا کے ہاں ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون میں قبولیت دعا کا بہت گہرا راز بھی بیان فرما دیا.جب خدا نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی کہ تمہیں کھلی بخشش کی اجازت نہیں ہے.اگر تمہاری بخشش کے نتیجہ میں گناہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو نہیں بخشنا لیکن اگر اصلاح پیدا ہوتی ہے اور انسان اس بخشش کے شکر کے نتیجہ میں اپنی حالت تبدیل کرتا ہے تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر ایسے شخص کی بخشش باعث اجر ہے اور یقیناً خدا کے پاس اس کا اجر محفوظ ہے.پس وہی بات ہے جو یہاں کی جارہی ہے.انسان کے تعلق میں بھی وہی اصول بیان ہوا ہے.قرآن کریم کی آیات میں بہت گہرے رشتے ہیں.ایک منضبط نظام ہے.اندراندر تعلقات قائم ہیں اور کوئی بھی ایسی آیت نہیں جو دوسری آیات کے ساتھ گہرے تعلقات نہ رکھتی ہو.پس اس ضمن میں مغفرت کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے جس کے نتیجہ میں جب بھی بخشش کی دعا کی جائے تو دل میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ اگر اللہ بخشش کا سلوک فرمائے گا تو اس کے بعد میں بھی انبیاء کی سنت پر چلتے ہوئے اس کے شکریہ کا اظہار اس رنگ میں کروں گا جس رنگ میں پاک لوگوں کی سنت چلی آئی ہے.اب یہ سوال ہے کہ پھر خدا بار بارایسے لوگوں کو کیوں بخشتا ہے جو بار بار جرم کرتے ہیں.باوجود اس کے کہ ہمیں منع کرتا ہے کہ جرم کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی.اگر بخشش کے نتیجہ میں جرم سرزد ہو تو پھر نہیں بخشا.میں نے اس مضمون پر گہرائی سے غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اس مسئلے کو صحیح حل کر سکا ہوں.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے خدا تعالیٰ کی مغفرت ایسے گنہگاروں سے بار بار ہوتی ہے جن کے دل میں شرم یقیناً پیدا ہوتی ہے، بخشش کے نتیجہ میں جرم کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 494 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء حوصلہ افزائی نہیں ہوتی.واقعی تائب ہوتے ہیں، بہت شرمندہ ہوتے ہیں، علیحدگی میں خدا کے حضور روتے ہیں، گریہ وزاری کرتے ہیں، اے خدا ہمیں بخش دے ہم سے غلطی ہوئی ، بہت گنہ گار ہیں کمزور ہیں اور پھر اس کے بعد کمزوری غالب آجاتی ہے.ایسے لوگوں کا معاملہ ہرگز وہ نہیں ہے جن کے ساتھ آپ حسن سلوک کریں اور وہ گناہوں پر شیر ہوتے چلے جائیں.ہر گھر میں ایسے بچے دیکھے گئے ہیں بعض مائیں ان کو بگاڑ دیتی ہیں اور وہ اتنے بدتمیز ہو جاتے ہیں کہ آنے والے مہمانوں کا بھی ناک میں دم کر دیتے ہیں.ان گھروں میں جانا ایک مصیبت بن جاتی ہے کیونکہ وہ ہر جرم کے بعد اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں.کوئی بات نہیں.کوئی حرج نہیں.ٹھیک ہے سب کچھ.یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے کہ اگر مغفرت کرنی ہے تو ایسے شریف النفس لوگوں کی مغفرت کرو جن کے اوپر نیک اثر پڑے.یہ لازم نہیں ہے کہ اسی وقت وہ تو بہ کر لیں لیکن اصلاح کی طرف میلان ضرور رکھتے ہوں.پس اللہ تعالیٰ چونکہ عالم الغیب ہے اور دل کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ میرے کون سے بندے نیک فطرت اور سعید ہیں اور گنا ہوں میں ملوث ہونے کے باوجود کچی شرمندگی کا احساس رکھتے ہیں وہ اس علم کے باوجود ان کو بخش دیتا ہے کہ پھر بھی گناہ کریں گے اور پھر بھی گناہ کریں گے لیکن بالآخر وہ نیک انجام ہوتے ہیں.ان میں اور دوسرے لوگوں میں فرق یہ ہے کہ جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور ضد کرتے ہیں اور بدتمیزی سے گناہ پر جرات کرتے ہیں وہ ہمیشہ بد انجام کو پہنچتے ہیں لیکن کچی تو بہ کرنے والے یا تو بہ کرتے رہنے والوں کا انجام ہمیشہ نیک ہوتا ہے.پس یہاں خدا تعالیٰ نے حضرت موسی کے متعلق فرمایا کہ وہ بہت ہی نفیس طبیعت کا انسان تھا.میں نے بغیر شرط کے اس کو بخشا لیکن اس کے دل میں بہت ہی جذبات تشکر پیدا ہوئے اس نے کہا قَالَ رَبِّ بِمَا اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرَ اللْمُجْرِمِينَ (القصص: ۱۸) اے خدا! تو نے بڑا احسان کیا ہے جو مجھے بخش دیا ہے اب میں اس کے بدلے تو بہ کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی مجرموں کی پشت پناہی نہیں کروں گا.حضرت موسٹی کی ایک اور دعا ہے قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (القصص: ۲۲) جب اس حادثاتی قتل کی اطلاع جس کا ذکر ا بھی گزر چکا ہے قوم کے بڑے لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے مل کر مشورے کئے کہ اس شخص کو ضرور سزا دینی چاہئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 495 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء غالب قوم تھی اور قوم کے وقار کا سوال تھا.یہ بحث نہیں تھی کہ غلطی سے قتل ہوا ہے یا عمد ہوا ہے.یہ بحث تھی کہ ایک غالب قوم کے فرد پر اگر ایک مغلوب قوم کا فرد جرأت کرنے لگے تو اس سے ان کا جو سارا رعب تھا وہ جاتا رہے گا اس غرض سے ان لوگوں نے آپس میں مشورے کئے اور حضرت موسی کے قتل کا فیصلہ کیا.اس وقت جب آپ ڈرتے ہوئے چھپتے ہوئے ملک چھوڑ رہے تھے کیونکہ ان میں سے ہی ایک ہمدرد انسان نے جو آپ کی سچائی کا قائل تھا اور آپ کی عزت کرتا تھا اس نے آپ کو اطلاع دی کہ میں وہاں سے آ رہا ہوں جہاں تمہارے قتل کے مشورے ہور ہے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ ابھی یہاں سے نکل جاؤ.چنانچہ اس کے مشورے پر جب آپ روانہ ہوئے ہیں تو یہ دعا کی.رب نجنی مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اے میرے رب مجھے ظالموں کی قوم سے نجات بخش.اس میں بھی حکمت کی بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں اپنے اس گناہ سے تو بہ نہیں کی گئی کیونکہ پہلے ہی خدا بخش چکا تھا.جس کو خدا بخش دے اس پر ظالم قوم ہی حملے کی جرات کر سکتی ہے تو فرمایا تو نے مجھے بخش دیا ہے مگر دنیا کے ظالم تو مجھے نہیں بخش رہے اس لئے ان ظالموں سے بھی اب مجھے نجات بخش.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نجات بخشی اور اس سے اگلی دعا اسی تسلسل کی ہے.اس سے آگے تین آیات بعد یعنی سورۃ القصص کی بائیسویں آیت میں یہ دعا ہے.رَبِّ نَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اور آیت پچیسویں میں یہ دعا ہے رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: ۲۵) اے میرے رب ! تو میری جھولی میں جو بھی خیرات ڈال دے میں اس کا فقیر ہوں.یہ بہت دلچسپ موقعہ ہے.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ہجرت کر کے مدین کی قوم کی طرف گئے جہاں حضرت شعیب کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اس وقت خدا تعالیٰ کے اس قوم کے لئے نبی تھے اور دونوں ہم عصر ہیں.حضرت شعیب کی دو بیٹیاں تھیں ان کا بیٹا کوئی نہیں تھا.حضرت شعیب کی بیٹیاں قوم کی پنگھٹ پر پانی بھرنے کے لئے آئی ہوئی تھیں اور چونکہ بہت سے مرد تھے اس لئے وہ شرما کر ایک طرف کھڑی رہیں اور انتظار کرتی رہیں کہ کب ان کی باری آئے تو وہ اپنے گھڑے بھریں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ایک دیوار یا درخت کے سائے تلے بیٹھے دیکھ رہے تھے.آپ چونکہ بہت مضبوط ، قوی هیکل انسان تھے اور دل میں گہری ہمدردی بھی تھی.آپ اٹھے اور ان سے ان کے برتن لئے اور مردوں کو ہٹاتے ہوئے جا کر ان کا پانی بھرا اور گھڑے ان کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 496 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء سپرد کر دئیے.واپس آکر وہیں بیٹھ گئے اور چونکہ آپ کی عادت نہیں تھی کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں کسی سے مدد مانگیں.یہ احسان کا سلوک کرنے کے بعد ان کی طبیعت دعا کی طرف مائل ہوئی اور معلوم ہوتا ہے اس احسان کے نتیجہ میں دل سے یہ دعا اٹھی ہے کیونکہ آپ اس دعا کے مضمون کو غور سے سنیں تو اس کے پیدا کرنے کے لئے کوئی محرک ہوا ہے.چنانچہ وہ محرک یہ تھا کہ آپ نے بے یارو مددگار بچیوں پر ایک احسان کیا اور پھر خیال آیا کہ میں بھی تو خدا کے حضور بے یار و مددگار پڑا ہوں کیوں نہ خدا سے عرض کروں کہ میری مدد کرے.چنانچہ یہ دعا بہت ہی درد ناک ہے اور بہت ہی دل پر اثر کرنے والی ہے.ایک دفعہ انگلستان میں ایک بڑی تقریب میں جب میری تقریر ختم ہوئی تو اس کے بعد مجھ سے بعض ملنے والے آئے.ان میں کسی ملک کی ایک شہزادی بھی تھی.اس نے قرآن کریم کی بعض آیات سنیں تو دل پر بہت اثر ہوا تو مجھ سے اس نے کہا کہ سارے قرآن کریم میں سے کوئی ایک دعا جو آپ کو بہت پسند ہے وہ مجھے لکھ دیں میں اسے آئندہ اپنی زندگی کا وظیفہ بناؤں گی.چنانچہ میں نے اس کو یہ دعا لکھ کر دی اور سمجھایا کہ کیوں مجھے یہ دعا پسند ہے.اس دعا میں ہر چیز خدا پر چھوڑ دی گئی ہے.کچھ نہیں مانگا گیا.صرف یہ کہا گیا ہے کہ رَبِّ إِنِي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرًا خدا! میں محتاج ہوں.تجھے پتہ ہے کہ میں کس کس چیز کا محتاج ہوں.میں کیا کیا بتاؤں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دعا کو ایک اور بہت ہی پیارے رنگ میں یوں عرض کیا :.وہ دے مجھ کو جواس دل میں بھرا ہے زبان چلتی نہیں شرم وحیا ہے ( در ثمین صفحہ :..) زبان چلتی نہیں شرم وحیا ہے، میں کیا کیا بیان کروں ، میں تجھ سے کیا کیا مانگوں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! جو کچھ تو میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا فقیر ہوں.میں نہیں بتاتا کیا مجھے چاہئے نہ مجھے حقیقت میں علم ہے.چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد جو بھی احسانات کا سلسلہ ہے وہ اسی دعا کے نتیجہ میں ہے اور اس کی جڑیں اسی دعا میں ہیں.معابعد اس گھر میں ایک واقعہ ہوا جس گھر کی وہ بچیاں تھیں ان دونوں بیٹیوں نے اپنے باپ کو یہ واقعہ سنایا کہ ایک بہت ہی نیک مرد اور اچھا تو انا مرد اس طرح بیٹھا ہوا اجنبی ہے.اس نے نہ ہم سے کچھ پوچھا، نہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 497 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء مانگا، صرف ہمارا کام کیا اور جا کر پھر بیٹھ گیا لیکن ضرورت مند معلوم ہوتا ہے اس پر ان کے والد جو نبی تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نور یافتہ تھے انہوں نے بھیج کر بلوایا اور بلانے کے بعد ان کو کیا کیا دیا.ایک امان دی اور کہا کہ اب تم یا درکھو تم امن میں آچکے ہو، تمہیں اب کوئی خطرہ نہیں کسی قوم سے.دوسرے گھر دیا اور ان کو کہا میرے گھر میں رہو.تیسرے یہ کہا کہ ان دونوں بچیوں میں سے جس کو انتخاب کرتے ہو وہی تمہاری ہے.چوتھے اس خیال سے کہ یہ ممنون احسان نہ ہو.یہ نہ سمجھے کہ میں کسی کے احسان کے نیچے آ گیا ہوں کہا کہ اس میں کوئی شرمانے کی بات نہیں.میرا اور تمہارا نوکری کا معاہدہ ہے.میں ۸ سال یا ۱۰ سال تم سے خدمت لوں گا.اس لئے کوئی احسان نہیں.چار باتیں اس طرح حضرت موسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے پیدا فرما ئیں اور اس کے بعد پھراسی شادی کے بعد حضرت شعیب کی صحبت میں رہنے کے نتیجہ میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے دل میں جو نیکی کے بیج تھے وہ بہت ترقی کر گئے اور بعد میں واپسی کے سفر میں آپ کو نبوت بھی عطا ہوگئی.پس اس لئے مجھے یہ دعا پیاری ہے کہ اس میں بہت ہی وسیع مضامین میں تعین نہیں کی گئی اپنی چالاکیوں سے کہ یہ بھی دے، وہ بھی دے اور وہ بھی دے.کھلا خدا پر معاملہ چھوڑ دیا گیا ہے جو کچھ تو جانتا ہے کہ ہمیں ضرورت ہے وہ ہمیں مہیا فرما دے.اب حضرت لوط کی ایک دعا ہے قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (العنكبوت: ۳۱) اے میرے خدا! اے میرے رب !! مفسد قوم کے مقابل پر میری نصرت فرما.اس دعا کا پس منظر معلوم کرنا بھی ضروری ہے.حضرت لوط کی قوم میں جو بدیاں پائی جاتی تھیں.آپ سب جانتے ہیں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بھی حضرت لوظ نے نصیحت فرمائی کہ ان بدیوں سے باز آؤ.فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا انُ قَالُوا اتَّتِنَا بِعَذَابِ اللهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصُّدِقِينَ (العنکبوت :۳۰) ہر دفعہ وہ تان میں یہی کہتے تھے کہ اچھا پھر جو عذاب تیرا خدا ہم پر وارد کر سکتا ہے جاؤ اپنے خدا سے وہ عذاب مانگ لاؤ.یعنی اب گفت و شنید کی راہیں بند ہو چکی ہیں.اب نصیحت کے ان قصوں کو چھوڑو.ہم تمہاری باتیں سنتے سنتے تنگ آگئے ہیں.نہیں باز آئیں گے.ہزار دفعہ کہانہیں باز آئیں گے.اب تم جاؤ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 498 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء اور اپنے خدا کو کہو کہ وہ عذاب لے آئے جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو.یہ ہے پس منظر.نہایت بے ہودہ طریق پر متکبر رنگ میں خدا کے عذاب کو چیلنج کیا گیا ہے اور حضرت لوط کے ساتھ بڑا تحقیر کا معاملہ کیا گیا ہے لیکن اس کے جواب میں آپ یہ دیکھیں کہ حضرت لوط نے عذاب کی دعا نہیں کی یہ عرض کیا.رَبِّ انْصُرْنِى عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ اے میرے رب میں تو اب بھی صرف نصرت چاہتا ہوں.مفسد قوم کے خلاف میری نصرت فرما کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ان کا فساد اصلاح کی حد سے بڑھ چکا ہے.اس لئے ان پر عذاب آیا مگر حضرت لوط نے براہ راست قوم کے خلاف عذاب طلب نہیں کیا.حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا سورۃ صفت آیت نمبر ۰ میں ہے اس میں عرض کرتے ہیں رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصّلِحِينَ اس سے پہلے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کو قوم نے جب آگ کا عذاب دینے کی کوشش کی.بعض مفسرین کا خیال ہے کہ با قاعدہ آگ میں ڈال دیا گیا اور وہ آگ گلزار بن گئی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے روحانی محاوروں کے طور پر بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دراصل ہر نبی کے لئے مخالفت کی ایک آگ بھڑکائی جاتی ہے.اس آگ ہی میں سے وہ گلزار ظاہر ہوتا ہے جو ان کی مقبولیت کی صورت میں اور ان کی آخری فتح کی صورت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو انعام ملتا ہے.تو حضرت ابراہیم کے ساتھ جس آگ کا ذکر ہے یہ تمثیلی زبان ہے اس کو ظاہر پر نہیں قبول کرنا چاہئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے اور بڑی تحدی کے ساتھ لکھا ہے کہ اگر وہ ظاہری آگ بھی ہے تو ہمیں کامل یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاص سنت نے اس آگ سے حضرت ابراہیم کو بچالیا تھا.گلزار بنے والی یہ باتیں تو مفسرین کے قصے ہیں.قرآن کریم نے جہاں تک فرمایا ہے وہ بس اتنا ہی ہے اور اتنا ہی ہمارے لئے کافی ہے کہ وہ آگ تھی.خواہ وہ ظاہر کی آگ تھی خواہ و مخفی آگ تھی.معنوی طور پر آگ تھی.اللہ تعالیٰ نے اس آگ سے آپ کو بچالیا اور آگ جلانے والوں کو نا کام کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کو بھی ایک الہام ہوا.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.( تذکرہ صفحہ ۳۲۴) ظاہری طور پر بھی کیا یہ درست ہے؟ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کی بار بار کی ان کوششوں کو نا کام کر دیا کہ احمدیوں کو زندہ آگ میں جلائیں.ابھی حال ہی میں پیچھے پاکستان میں الصلوة
خطبات طاہر جلد ۱۰ 499 خطبہ جمعہ ۱۴ جون ۱۹۹۱ء دو احمدی بستیوں کو جلا کر خاک کر دیا گیا لیکن غیر معمولی طور پر اور حیرت انگیز اعجازی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اس آگ سے بچالیا.ایک دفعہ مولانا رحمت علی صاحب مرحوم و مغفور جوانڈونیشیا میں مبلغ تھے.وہ جن دنوں میں وہاں مبلغ تھے ان دنوں میں بہت مخالفت تھی.مجھے اب جگہ کا نام یاد نہیں مگر وہ جس جگہ بھی تھے شدید مخالفت تھی اور وہاں بڑے بڑے مناظرے ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی کی شرارت سے نہیں بلکہ حادثہ اس بلاک کو آگ لگ گئی.( لکڑی کے اکثر مکان وہاں ہوتے ہیں ) جس کے ایک طرف حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا مکان تھا اور ساتھ ہی بہت تیز آندھی چلی اور اس رخ پر چلی جس رخ پر آپ کا مکان تھا.اس وقت سب لوگ اکٹھے ہو گئے.باقاعدہ ایک جمگھٹ ہو گیا.لوگ اپنے اپنے گھروں سے چھلانگیں مار مار کر نکل رہے تھے.سامان نکال رہے تھے.احمدی بھی وہاں آئے اور مولوی صاحب کو کہا کہ نکلیں اس گھر سے ختم کریں.آگ آپ کے پاس آرہی ہے تو اس وقت مولوی صاحب نے اس الہام کا حوالہ دے کر خدا سے دعا کی کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے آقا! میں مسیح موعود کا غلام ہوں آپ کی غلامی میں یہاں پیغام دینے آیا ہوں.اس لئے آج اس الہام کو میرے حق میں سچا کر دے.آج تک انڈونیشیا کے وہ لوگ عش عش کرتے ہوئے لہکتے ہوئے اور روحانی وجد کے ساتھ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں آگ بڑھتی رہی.بڑھتی رہی ہم لوگ ڈولتے رہے.ایک لرزہ طاری ہو گیا کہ کیا ہونے والا ہے جس وقت آگ وہاں پہنچی ہے جہاں سے ان کا مکان شروع ہوتا تھا تو ایسی موسلا دھار بارش شروع ہوئی.اس قدر تیز کہ آگ کو اس اگلے ساتھ کے گھر تک پہنچنے کی توفیق نہیں ملی.ساری آگ ٹھنڈی پڑ گئی.پس خدا تعالیٰ ظاہری طور پر بھی ان باتوں کو پورا کر دکھایا کرتا ہے.یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر جگہ معنوی سہارے تلاش کریں.وہ صاحب مقدرت ہے.جب چاہے جس طرح چاہے وہ اپنی کا ئنات کو جو اس کی غلام ہے جیسا حکم دے وہ اس کے تابع ہے اور ویسا ہی کرتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے یہ معنی تو بہر حال ثابت ہوئے کہ ظاہری آگ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچے غلاموں پر غلبہ نہیں پاسکے گی.پس اس وقت جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کا یہ معجزہ دیکھا تو وہاں سے ہجرت کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 500 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء اور ہجرت کرتے ہوئے یہ کہا.وَقَالَ إِنِّي ذَاهِب إلى رَبِّي سَيَهْدِينِ (الصافات:١٠٠) میں تو اپنے رب کی طرف چلا ہوں.سَيَهْدِينِ اور وہ میری ہدایت کرے گا.میری راہنمائی فرمائے گا.رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصُّلِحِينَ (الصافات :۱۰۱) اے میرے رب مجھے صالح اولا د عطا فرما.اب ان باتوں کا جوڑ کیا ہے.دیکھنے والی یہ بات ہے آگ سے ہلاکت سے بچ کر باہر نکل رہے ہیں ،ہجرت فرمارہے ہیں اور کہتے ہیں مجھے صالح اولاد عطا فرما.اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اس وقت تک اس قوم سے رخصت نہیں ہوئے جس وقت تک کامل طور پر یقین نہیں ہو گیا کہ کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا.جو ظلم انہوں نے کرنا تھا وہ انتہا تک پہنچادیا اور جب دیکھا کہ ان کے آباء واجداد میں سے سب تباہ ہونے والے ہیں کچھ بھی نہیں.تو اکیلے نکلے اور اس وقت خدا سے عرض کی کہ اب میری نسل کو تو چلا.میں تو تیرے ان بندوں میں سے ہوں جو عاجز ہیں.تیرے حضور کامل طور پر جھکنے والے سب کچھ تیرے سپرد کرنے والے.پہلوں کی نسلیں اگر ہلاک ہو جائیں تو وہ ان کی ذمہ داری.میں تو تیری خاطر اس قوم کو چھوڑ کر ہجرت کر رہا ہوں.اس لئے مجھ سے پاک نسل جاری فرما.یہ جو معنی ہے اس کو قرآن کریم کی دوسری بہت سے آیات تقویت دیتی ہیں اور خود بائبل بھی اس بات کو تقویت دیتی ہے.وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی اس دعا کے نتیجہ میں محض ایک بچے کی خوشخبری نہیں دی گئی بلکہ آپ کو یہ خوشخبری دی گئی کہ میں تیری نسل کو تمام دنیا میں اتنا پھیلا ؤں گا کہ جس طرح آسمان کے ستارے نہیں گنے جاسکتے اور ریت کے ذرے نہیں گنے جاسکتے اس طرح تیری نسل بے شمار ہوگی.پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اتنے کامل اخلاص کے ساتھ اپنی قوم کو اپنے آباء واجداد کو چھوڑا تھا.ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا تھا کہ آپ سے پھر آگے ایک نیا جہان پیدا ہونا تھا.نئی نسلیں جاری ہوئی تھیں.چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم نے اکیلے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو امت قرار دیا ہے.پس وہ لوگ جو اپنے رشتے داروں کو ، اپنے جتھوں کو خدا کی خاطر چھوڑتے ہیں.وہ جو اپنی برادریوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور اکیلے ہو جاتے ہیں بعض دفعہ وہ اپنے آپ پر رحم کرنے لگ جاتے ہیں اور مجھے ان پر رحم آتا ہے.اس قدر بے وقوفی ہے کس بات پر رحم کر رہے ہو.تم نے سنت انبیاء کوزندہ کیا ہے اگر خدا کی خاطر کیا ہے تو وہ تمہیں ایک قوم بنادے گا اور تمہاری قوم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 501 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہو جائے گی.وہ جتھے چھوٹے ہو جاتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں اور تاریخ کے صفحوں میں ملتے ہیں لیکن مستقبل میں پاک لوگوں کی نسلیں جاری رہتی ہیں.یہ سنت انبیاء ہے لیکن سب سے زیادہ شان کے ساتھ یہ سنت حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں پوری ہوئی.پس رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّلِحِينَ کی دعا ایک بہت شاندار پس منظر رکھتی ہے اور ایک بہت عظیم الشان مستقبل رکھتی ہے.ان معنوں میں اپنی اولاد کے لئے دعا کرنی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ابراہیم فرمایا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آگ ہی کے معاملہ میں نہیں بلکہ برادری کے قطع تعلقی کے معاملہ میں بھی خدا نے ایسا ہی سلوک فرمایا.چنانچہ جب ساری برادری نے آپ کو چھوڑ دیا تو اس وقت آپ کو الہام ہوا.ینقطع ابـآئـك ويبدء منك ( تذکره: ۳۹۷) کہ اے غلام احمد ! تیرے آباء واجداد کی نسل کاٹی گئی.ويبدء منك اب تجھ سے یہ نسل جاری ہوگی.یہ ایسا عظیم الشان الہام ہے اور ایسی عظیم الشان قوت کے ساتھ یہ سچا ثابت ہوا ہے کہ اس کی روشنی کے سامنے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں.وہ ظالم اور احمق لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا کوئی ایک نشان دکھاؤ اگر ان کے اندر ذرا بھی انصاف کا مادہ ہو تو صرف یہی بہت کافی ہے.ان پر ثابت کرنے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوے میں بچے تھے.خدان سے ہم کلام ہوتا تھا اور آپ کی تائید میں نشان ظاہر فرماتا تھا.جب یہ الہام ہوا ہے جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے اس زمانے میں کم وبیش ۷۰ افراد خاندان آپ کے آباء واجداد کے تھے جو قادیان میں بستے تھے اور ان میں سے کوئی ایمان نہیں لایا اور یکے بعد دیگرے وہ مرتے چلے گئے اور ان کی نسلیں ختم ہوتی چلی گئیں.قریبی رشتے دار بھی ، دور کے رشتے دار بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ایک پرانے خادم تھے بابا سندھی.وہ ایک دفعہ خدمت کے لئے ہمارے ساتھ ڈلہوزی بھی گئے.بڑی عمر تھی لیکن پھر بھی جسم میں توانائی تھی.ان سے بعض دفعہ ہم پرانی باتیں سنا کرتے تھے تو بڑے مزے سے وہ قصے سناتے تھے.کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کے مخالفین کی جو حویلی تھی وہاں یکے بعد دیگرے تالے ہی پڑتے چلے گئے.پہلے وہ گھر بیواؤں سے بھر گیا پھر ان کے بچے مرنے شروع ہوئے.رفتہ رفتہ وہ خالی ہو گئی.کہتے ہیں مرزا گل محمد کے والد مرزا نظام دین صاحب آخری عمر میں بہت کمزور ہو گئے تھے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 502 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء صدموں کا دماغ پر بھی اثر تھا تو میں (یعنی بابا سندھی) ان کو دبایا کرتا تھا.کہتے ہیں! وہ مجھ سے بھی کہتے تھے فلاں بی بی کو بلا کر لاؤ.فلاں بی بی کو بلا کر لاؤ.ہر دفعہ میں جواب دیتا تھا کہ میں کس کو بلا کر لاؤں اس کے کمرے میں بھی تالا پڑ گیا ہے.میں کس کو بلا کے لاؤں اس کے کمرے میں بھی تالا پڑ گیا ہے.بہت ہی دردناک منظر ہے لیکن خدا کی یہ شان خود ان کی بدنصیبی کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسا گوہر اپنے اندر پا کر اس کی قدر نہیں کی اور آپ کو مٹانے کی کوشش کی.پس جو خدا کے پاک بندوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے بالآخر ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی وقت لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان کو مٹا دیا جائے اور پھر ان کو کوئی بچا نہیں سکتا.مرزا نظام دین کا ایک بیٹا زندہ رہا جن کا نام مرزا گل محمد ہے اور ان کی نسل میں اب تک احمدیت ہے اور خدا کی یہ شان ہے کہ ان کو اس لئے زندہ رکھا گیا کہ انہوں نے احمدی ہو جانا تھا.کوئی شخص ایسا زندہ نہیں رہا جس نے احمدی نہیں ہونا تھا.اسی کو زندہ رکھا گیا جس نے احمدی ہونا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے بیٹوں میں سے دو تھے.ایک مرزا سلطان احمد.ایک مرز افضل احمد.اس وقت دونوں میں سے کوئی بھی آپ پر ایمان نہیں لایا تھا اسی کو زندہ رکھا گیا اور اسی کی نسل جاری رکھی گئی جس نے ایمان لانا تھا یعنی مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد اسی طرح بے اولاد لا ولد اس دنیا سے رخصت ہو گئے.بہت ہی تفصیل کے ساتھ میں نے جائزہ لیا ہے.ہر ہر واقعہ میں ایک عظیم نشان پوشیدہ ہے.ایک صاحب اولاد ہونے کی طاقت رکھتے تھے.شادی کرنا چاہتے تھے لیکن دماغ میں ایسا دورہ پڑا کہ فقیر بن گئے اور فقیر بننے کے بعد خود اپنے آپ کو اولاد کی اہلیت سے ہمیشہ کے لئے محروم کر لیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسا اوقات یہ واقعہ سنایا کرتے تھے.کہتے تھے کہ ان کی حالت دیکھ کر رحم آتا تھا.یوں لگتا تھا جیسے وہ دیواروں سے سر ٹکرا ئیں گے.کہا کرتے تھے میں نے اپنے اوپر کیا کر لیا ہے کیا ظلم کر بیٹھا ہوں.کاش مجھ میں طاقت ہوتی اور میں شادی کرتا اور میری اولاد ہوتی لیکن خدا کی تقدیر کے نیچے تھے.پس اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے آباء واجداد کی نسل کائی جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا.معلوم ہوتا ہے حضرت ابراہیم کو پتا تھا مجھے تو یقین ہے کہ خدا نے الہاما خبر دی تھی کہ یہ واقعہ ہے تم جس جگہ سے رخصت ہورہے ہواب یہاں کوئی باقی نہیں بچے گا.یہ ساری نسلیں ختم ہونے والی ہیں.اس وقت حضرت ابراہیم نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 503 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء دعا کی رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ اے خدا مجھے نسل دے مگر نیک نسل دے.بدنسل کا میں متمنی اصل الله نہیں ہوں.مجھ سے آئندہ نیک نسلیں جاری ہوں اور دیکھیں کتنی گہری دعا تھی کہ حضرت محمد مصطفی ملے بھی آپ ہی کی نسل میں پیدا ہوئے.پس محض دعا کے لفظوں کی بات نہیں ہوا کرتی.خدا کی نظر دعا کی گہرائی پر پڑتی ہے.دل میں کتنی گہرائی سے اٹھی ہے.کسی جذبے کے ساتھ اٹھی ہے.کس درد کے ساتھ اٹھی ہے.کس اخلاص اور ایثار کی روح کے ساتھ اٹھی ہے.یہ ساری باتیں ہیں جود عا کو طاقت بخشتی ہیں اور پھر نیک اعمال دعا کو طاقت بخشتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلمہ طیبہ خدا ہی کی طرف رفع کرتا ہے مگر نیک اعمال اس کو طاقت مہیا کرتے ہیں.پمپ کر کر کے نیک اعمال اس کلمہ کو اوپر اٹھاتے ہیں تو اسی طرح دعاؤں کا حال ہے.یہ ساری باتیں دل کے نیک اور نیک اعمال مل کر دعاؤں میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دیتے ہیں اور قوموں کے مستقبل ان دعاؤں سے بنتے ہیں.ہے.پھر ایک دعا حضرت سلیمان کی ہے سورۃ ص آیت ۳۶ میں بیان ہوئی وَهَبْ لِي مُلْگا اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما ایک ایسا عظیم ملک عطا فرما، لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ منْ بَعْدِی کہ میرے بعد پھر کبھی کسی کو نصیب نہ ہو.اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ یقینا تو ہی.مہربانی کرنے والا ہے.بہت ہی زیادہ پیار کا سلوک فرمانے والا ہے.قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي اس دعا کے متعلق کئی علماء بخشیں اٹھاتے ہیں کہ ایسی دعا مناسب بھی ہے کہ نہیں.درست ہے کہ نہیں کہ میرے بعد کسی کو ویسی سلطنت نہ ملے.یہ تو بظاہر ایک خود غرضی کی دعا ہے.لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہماری اولاد میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھ اور بڑھا چڑھا اور اس شان کو بڑھاتارہ.حضرت سلیمان نے یہ کیسی دعا کی اور پھر دعا بھی ایسی جو بدعا بن کر بعد میں ظاہر ہوتی ہے چنانچہ حضرت سلیمان کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ آپ کے بعد نہ نسل میں نبوت رہی ، نہ اس رنگ میں بادشاہت رہی.حضرت سلیمان کا دور بنی اسرائیل کی حکومت کا سب سے شاندار دور تھا.آپ نے آنکھیں بند کیں تو فتنے شروع ہوئے اور سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی اور آپ کی نسل کے حصے میں چھوٹی سلطنت آئی لیکن فلسطین اسی کا حصہ تھا.اسی کو جوڈا کہا جاتا ہے.ایک شمالی سلطنت تھی جس میں بنی اسرائیل کے دس قبائل آباد تھے اور ایک جنوبی جس میں دو تھے.ان میں حضرت سلیمان کا اپنا قبیلہ بھی تھا.چنانچہ آپ کے بیٹے کے پاس بالآخر صرف وہی بادشاہت رہ گئی جو دو قبیلوں کی راجدھانی پر مشتمل تھی اور وہ دس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 504 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء قبیلے وہ ہیں جن کے متعلق بعد میں حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ کہا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی طرف جانے والا ہوں.اصل مضمون تو دعا کا ہے مگر ضمنا ساتھ ساتھ میں آپ کو یہ باتیں بھی سمجھاتا جاتا ہوں کیونکہ ہمارے جماعتی محاورے میں اکثر گمشدہ بھیٹروں کا ذکر ملتا ہے تو وہ کیا تھیں اور کیسے بنیں.وہ دس قبائل جو شمال کے قبائل تھے ان کی ایک الگ سلطنت قائم ہوئی اور انہی کی طرف حضرت مسیح کا اشارہ ہے.گمشدہ ان کو اس لئے کہا گیا کہ ۶۰۰ سال کی حکومت کے بعد یعنی حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جب بنی اسرائیل کو حکومت ملی تو اس کے پورے ۶۰۰ سال کے بعد بابلیوں نے ان پر حملہ کیا (اور آج کل کے گرد بھی اکثر بابلی علاقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں.اس زمانے میں بابلیوں کی ایک شاندار سلطنت تھی ) اور ان کو بالکل نہیں نہیں کر دیا.کلیہ ملیا میٹ کر کے ان کو ملک بدر کر دیا اور یہ ساری دنیا میں بکھر گئے.بعض روایات کے مطابق مارا تو بہت بری طرح لیکن پوری طرح نکالا نہیں بلکہ ایک سو سال بعد جبکہ جنوبی عراق کی طرف سے حملہ ہوا ہے اس وقت ان کو آخری دفعہ کلیہ نکال دیا گیا.مگر بہر حال حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کی آمد سے کئی سو سال پہلے یہ لوگ دنیا میں بکھر چکے تھے اور ان کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا.حضرت موسی سے حضرت عیسی کا فاصلہ ۳۰۰ سال کا ہے.یہ بات احمدیوں کو خصوصا یا درکھنی چاہئے.پس حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام گمشدہ بھیڑوں کے بکھرنے کے ۶۰۰ سال کے بعد ظاہر ہوئے ہیں.یہ اس لئے یا درکھنے کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت کے مسیح تھے.آپ بھی پوری ۱۳ صدیوں کے بعد ظاہر ہوئے ہیں اور مماثلت مسیح کی لوگ بات کرتے ہیں تو فیتے سے آپ زمانے کو ناپ کر دیکھ لیں بعینہ اتنا زمانہ بنتا ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بارہ مجد دگزرے تھے اسی طرح حضرت موسی کی امت پر حضرت عیسی سے پہلے بارہ مجددین گزر چکے تھے.بہر حال یہ قوم کا ایک حصہ اس زمانے میں بکھرا تھا.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حضرت سلیمان نے خود اپنے بچوں کے لئے اور اپنی قوم کے لئے بددعا کی تھی.اس کے متعلق قرآن کریم اشارہ کر رہا ہے اس سے پہلے آیت میں کہ اصل واقعہ کیا تھا پہلی آیت یہ ہے کہ.وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَنَ وَالْقَيْنَا عَلَى كُرْسِهِ جَسَدًا ثُمَّ آنَابَ (ص: ۳۵) کہ ہم نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 505 خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۹۱ء سلیمان کو آزمائش میں ڈالا ، فتنے میں ڈالا.وَالْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيَّهِ جَسَدًا اور اس کے تخت پر ایک لاشے کو لا بٹھایا.تقر آناب اس کے نتیجہ میں وہ بار بار خدا کے حضور جھکا اور مغفرت مانگی اور توبہ کی.بہت ہی افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سے غیر احمدی مفسرین اس کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان سے گناہ سرزد ہوا اور آپ نے اپنے بستر پر ایک عورت ڈال دی.نعوذ بالله من ذالک بہت ہی جاہلانہ تفسیریں ہیں.یہ تفسیریں دیکھ کر تو بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ کس طرح ہمیں اندھیروں سے روشنی میں نکالا ہے اور اگر یہ بات تھی تو اچانک اس کے بعد اپنی قوم پر بد دعا کرنے کی کیا ضرورت تھی.اگر نعوذ بالله من ذالك کوئی گناہ ہی سرزد ہوا تھا تو اس گناہ کا بدلہ اپنی قوم کو ، اپنے بچوں کو دینا تھا کہ یہ دعا کرتے کہ اچھا چونکہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اس لئے میری اولا داور میری نسلوں کو اس کی سزائیں دے اور سارے بنی اسرائیل کو اس کی سزادے اور میرے بعد یہ ملک تباہ کر دے.ہرگز یہ بات نہیں ہے.آپ کو جب خدا نے خبر دے دی کہ تیری اولا داس لائق نہیں ہے کہ وہ تیری تخت نشین ہو.نالائق اولاد آنے والی ہے تو اس وقت آپ نے یہ کہا کہ اے خدا میں تو نبی ہوں اور نبوت کے ساتھ ملوکیت کرتا رہا ہوں اور پورے انصاف اور تقویٰ کے ساتھ حکومت کے حقوق ادا کرتا رہا ہوں.اگر ایک نالائق کے سپرد یہ ساری قو میں کر دی گئیں تو وہ تو بہت ظلم کرے گا.ہرگز وہ اس لائق نہیں ہے کہ ایسی شاندار حکومت اس کے سپر د کی جائے.پس اس عاجزانہ دعا کے نتیجہ میں جو تقویٰ پر مبنی تھی خدا تعالیٰ نے آپ کے بعد پھر اس حکومت کو اس طرح جاری نہیں رہنے دیا.یہ آخری حکومت ہے جس میں نبوت اور دنیاوی حکومت اکٹھے تھے.ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے تھے.پس ہرگز نعوذ بالله من ذالك نہ نبیوں کو بددعائیں دینے کی عادت ہوتی ہے نہ وہ ایسی جاہلانہ خود کشی کرنے والی بددعائیں کرتے ہیں.یہ دعا تقویٰ پر مبنی ہے.یہ سمجھتے ہوئے کہ جس کے ہاتھ میں قوم کی لگام ہوگی اگر خدا کے نزدیک وہ بد ہے تو خدا پھر اس کے سپرد یہ حکومت نہ کرے اس سے بنی نوع انسان کو دُ کھ پہنچے گا.اب چونکہ وقت زیادہ ہورہا ہے اور ترجمہ بھی ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ باقی دعاؤں کے مضمون کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے آئندہ خطبہ میں میں جہاں سے چھوڑا ہے وہاں سے شروع کرونگا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 507 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء رسول کریم کی دعائیں اور ان کا عرفان اولاد کی تربیت دعاؤں سے کریں (خطبه جمعه فرموده ۲۱ جون ۱۹۹۱ ء واشنگٹن ڈی سی.امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا یہ خطبہ میں واشنگٹن ڈی سی امریکہ سے دے رہا ہوں اور اس اعلان کی ضرورت اس لئے ہے کہ بہت سی جماعتوں میں اب براہ راست خطبے کی آواز پہنچنے لگی ہے.چونکہ میں سفر پر ہوں اس لئے جہاں بھی کوئی خطبہ پڑھا جاتا ہے وہاں خطبہ کا آغاز اسی فقرے سے کرتا ہوں کہ اس وقت کہاں سے بول رہا ہوں.پر سلسلہ مضامین جو جاری ہے اس کا تعلق قرآنی دعاؤں سے ہے.یعنی ان لوگوں کی دعاؤں سے جن کے متعلق ہم روزانہ سورہ فاتحہ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں ان انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلا.چونکہ یہ ایک بہت مشکل راہ ہے اس لئے میں نے پہلے سے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اس راہ پر چلنا دعاؤں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور قرآن کریم نے خود ہی وہ سب دعائیں ہمیں سکھا دی ہیں جن دعاؤں کی مدد سے پہلے انعام یافتہ لوگوں نے یہ مشکل را ہیں طے کیں.پس ان دعاؤں سے غافل رہ کر ہر نماز میں یہ دعا کرتے رہنا کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلا کوئی معقول طریق نہیں ہے.ایک طرف تو ایک بہت ہی مشکل راہ پر چلنے کی دعا مانگی جارہی ہے.دوسری طرف ان لوگوں کی اداؤں سے پوری طرح ناواقف جن لوگوں نے اس سے پہلے ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 508 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء راہوں پر چل کر خدا سے انعام پائے تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کا ذکر تفصیل سے قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا کہ یہ وہ انعام یافتہ لوگ تھے.یہ یہ کیا کرتے تھے اور اس اس طرح مجھ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور پھر میں اس طرح قبول فرماتا تھا اور ان پر مزید انعامات کی بارش نازل فرمایا کرتا تھا.حضرت ایوب علیہ السلام کی ایک دعا پہلے بھی گزر چکی ہے.اب ایک اور دعا ہے جس کی ادا اس پہلی دعا سے کچھ مختلف ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّةَ انِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَنُ بِنُصْبٍ وَعَذَابِ (ص:۴۲) فرمایا کہ میرے بندے ایوب کو بھی تو یاد کرو.اِذْ نَادَی رَبَّةَ جب اس نے اپنے رب کو بڑے درد سے پکارا اور یہ کہا کہ مجھے شیطان نے بہت ہی تکلیف اور عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے.اس دعا کی ادا کچھ مختلف اس رنگ میں ہے کہ یہ دعا سے بڑھ کر شکایت کا رنگ رکھتی ہے.یہ نہیں کہا کہ اس لئے تو میری مددفرمایا یہ کر اور وہ کر بلکہ بے ساختہ درد کا اظہار ہے جیسے بسا اوقات کوئی بچہ اپنی بیماری کا بتاتا ہے کہ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور آگے کچھ نہیں کہتا.تو بعض دفعہ ان مانگی دعائیں جو محض درد کا اظہار ہوتی ہیں بہت گہرا اثر رکھتی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے معا بعد فرمایا اُرُكُضُ بِرِجُلِك ( ص : ۴۳) یہ بھی نہیں کہا کہ ہم نے دعا قبول کر لی کیونکہ دعا تو ایک بین بین سارنگ رکھتی تھی.شکایت تھی یا بے ساختہ درد کا اظہار تھا.فوراً معاً مخاطب ہوکر فرماتا ہے.تو سوار ہو، ایک سواری پکڑ اور اپنی ایڑی سے اسے تیز بھگا.هذَا مُخْتَسَلُ بَارِدٌ وَ شَرَابٌ اور دیکھو یہ جگہ کیسی اچھے پانیوں پر مشتمل جگہ ہے ،ٹھنڈی ہے اور بہت عمدہ نہانے کا پانی بھی اور پینے کا بھی میسر ہے.دراصل اس میں ہجرت کی طرف اشارہ تھا اور بعد کے واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کو جس شیطان نے تنگ کر رکھا تھا وہ اس زمانے کا کوئی بہت ہی بڑا غاصب اور ظالم انسان تھا.حضرت ایوب کے متعلق کہانیاں تو بہت مشہور ہیں لیکن قرآنی بیان سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اگر چہ جسمانی بیماری بھی تھی مگر محض کوئی ایک تکلیف نہیں تھی بلکہ آپ کے دشمنوں نے ہر طرح سے آپ کی زندگی آپ پر اجیرن کر رکھی تھی.آپ کے اموال لوٹ لئے گئے تھے، آپ کے جانوروں میں طرح طرح کی بیماریاں پھیلا دی گئی تھیں، آپ کے خاندان میں سے بعض لوگوں کو آپ سے منحرف اور بدظن کر دیا گیا تھا اور اتنے درد ناک حالات پیدا کئے گئے کہ روایات میں آتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 509 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء آپ کی بیوی بھی آپ کو چھوڑ کر الگ ہوگئی تھی.ان تمام واقعات کا تو قرآن نے ذکر نہیں فرمایا لیکن جس رنگ میں اس دعا کے بعد خدا تعالیٰ حضرت ایوب سے مخاطب ہوا اس سے پہلی بات تو یہ پسینگتی ہے کہ ہجرت کا حکم تھا.ان حالات میں مزید ایسی جگہ میں ٹھہر نا مناسب نہیں ہے.دوسرا وعدہ یہ تھا کہ تمہیں ہم ایک ٹھنڈی چشموں والی جگہ میں پہنچا دیں گے اور وہ ایسے چشمے ہیں جن سے تم اپنے جسم کو دھولو تو شفاء نصیب ہوگی.یہاں بارد سے مراد ٹھنڈ پیدا کرنے والا پانی ہے.ٹھنڈا پانی نہیں کیونکہ تحقیق کرنے سے جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے حضرت ایوب کو چونکہ خارش کی جسمانی بیماری تھی اور جسم پر ناسور پیدا ہو گئے تھے اس لئے گندھک کے چشموں والے علاقے کی طرف آپ کی ہجرت ہوئی ہے جو گرم ہوتا ہے لیکن جب ایک انسان کا جسم سوزش سے جل رہا ہو اور سخت بے قرار ہو تو گرم پانی جو ا سے شفا دیتا ہے تو انسان ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ مجھے ٹھنڈ پر گئی.چین نصیب ہوا.تو یہاں بارڈ سے مراد ٹھنڈا پانی نہیں بلکہ تسکین بخش پانی ہے.صحت عطا کرنے والا پانی ہے.تبھی میں نے اس کا ترجمہ ٹھنڈا پانی نہیں کیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ صحت بخش پانی.چنانچہ پینے کے لئے بھی اچھا تھا لیکن پینے کے لئے ضروری نہیں کہ وہی پانی استعمال ہوا ہو کیونکہ ہم نے ایسے علاقوں میں دیکھا ہے جہاں بہت ہی گرم پانی کے اہلتے ہوئے چشمے ہوتے ہیں ان میں جلد کے مریض جا کر نہاتے ہیں اور صحت یاب ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت ہی ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی ہوتے ہیں اتنا ٹھنڈا پانی کہ بعض دفعہ اس میں ہاتھ رکھا نہیں جاتا.کلوا مناھلی میں اس قسم کے بہت چشمے ہیں.بچپن میں مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہمیں وہاں لے کر گئے اور وہاں اتنا گرم پانی تھا کہ اس میں ہاتھ ڈالنا ناممکن تھا اور ساتھ ہی ٹھنڈے پانی کا چشمہ اتنا ٹھنڈا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے انعام مقرر کیا کہ جو بچہ ایک منٹ ہاتھ رکھے گا میں اسے اتنا انعام دوں گا لیکن کوئی نہیں رکھ سکا.تو وہ ایسی جگہ تھی جہاں معنوی طور پر بھی بارڈ پانی تھا اور ظاہری طور پر بھی ساتھ بارڈ پانی موجود تھا.ایک پانی شفاء کے لئے بارِ د تھا اور ایک پینے کے لئے ٹھنڈ پیدا کرتا تھا اور اچھا پانی تھا.پھر فرمایا: وَوَهَبْنَالَةَ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (ص: (۴۴) اور ہم نے اس کے گھر والے بھی اس کو واپس کر دیئے.معلوم ہوتا ہے ہجرت کے وقت وہ ساتھ نہیں گئے.جب ان کے حالات بہتر ہوئے تو پھر رفتہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 510 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء رفتہ وہ ملنے شروع ہوئے لیکن محض اہل و عیال ہی نہیں ملے.مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ اور بہت سے ایسے خاندان مل گئے جو اپنے خاندان ہی کی طرح تھے اور یہ امر واقع ہے حضرت رسول اکرم ﷺ نے جب ہجرت فرمائی تو جتنے خاندان رشتہ دار پیچھے چھوڑے ان سے بہت بڑھ کر محبت کرنے والے خاندان اور رشتہ دار نصیب ہوئے اور روحانی طور پر اہل مدینہ نے اخوت کا حق ادا کر دیا.کبھی ہجرت کرنے والوں کو اپنے خاندانوں میں وہ سکون نہیں ملا، ایسی محبت ان سے نہیں کی گئی جیسے مدینہ کے انصار نے ان سے محبت کی یہاں تک کہ بہت سے ان میں سے ایسے تھے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد آنے والے مہاجرین کو بانٹ دی اور اتنا جذبہ تھا اپنا سب کچھ فدا کرنے کا کہ ایک دفعہ ایک صحابی حضرت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں نے مال جائیداد ہر چیز تو تقسیم کر دی ہے مگر بیویاں میری ایک سے زائد ہیں.میں چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو آدھیوں کو طلاق دے دوں اور یہ جو مہاجر آئے ہیں بعض ان میں سے اپنی بیویوں کو پیچھے چھوڑ آئے تھے میں ان کے ساتھ ان کی شادی کروادوں والی حیرت انگیز جذبہ تھا.پس حضرت ایوب کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے جہاں ہجرت کی گئی وہاں کے لوگوں نے اسی طرح احسان کا سلوک کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ایسا ہو اور نہ یہ فقرہ عجیب سا لگتا ہے.وَوَهَبْنَالَةَ أَهْلَلہ یہ تو ٹھیک ہے ہم نے اس کے اہل اس کو واپس کر دئیے.دوبارہ عطا فرما دے.مِثْلَهُم مَّعَهُم اس جیسے اور بھی بہت سے.تو یہ ہجرت کا انعام تھا اور میں نے بھی دیکھا ہے پاکستان سے جب انگلستان آیا ہوں تو کثرت سے ایسے خاندان ہیں جو اس قدرمحبت کا گہرا تعلق رکھتے ہیں کہ بالکل یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خاندان میں آگئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ فرق نہیں لگتا بلکہ کئی پہلوؤں سے زیادہ محبت اور شفقت کا اظہار کرنے والے خاندان ہیں.تو جب میں یہ آیت پڑھتا ہوں ہمیشہ مجھے مدینہ کی بات بھی یاد آتی ہے اور اپنے سفر کے بعد اللہ کی رحمت بھی یاد آتی ہے.لیکن جو خاص نکتہ غور کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ دعا بعض دفعہ بن مانگے محض درد کے اظہار کے نتیجہ میں قبول ہوتی ہے.اس سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر گزرا ہے جس میں انہوں نے عرض کیا کہ رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: ۲۵) اے میرے خدا میں مانگتا کچھ نہیں تو بہتر جانتا ہے کہ مجھے کس چیز کی حاجت ہے.پس جو تو چاہے میں اسی کا فقیر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 511 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ہر ضرورت کو پورا کر دیا.گزشتہ خطبہ میں میں نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی.اب یہ بھی ایک ملتی جلتی دعا کی ادا ہے کہ اظہار درد تو ہے لیکن طلب کوئی نہیں ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ہاں ہم نے سن لیا ہے.تو بہت دکھ میں ہے.بہت تو نے صبر کیا.اب تو یہ یہ کام کر تو نے صبر کیا کے لفظ یہاں تو نہیں آئے لیکن اس دعا کے بعد خدا کے سلوک کا ذکر چلتے ہوئے اس بات پر بات ختم ہوئی ہے.اِنَّا وَجَدْنَهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّةَ أَوَّابٌ (ص: ۴۵) کہ ہم نے اسے یعنی حضرت ایوب کو بہت ہی صبر کرنے والا پایا، کیا ہی اچھا بندہ تھا.الْعَبْدُ ہو تو ایسا ہو.نِعْمَ الْعَبْدُ کا محاورہ اس رنگ کا مضمون ہے جسے ہم اردو میں کہتے ہیں کیا خوب انسان تھا.انسان ہو تو ایسا ہو.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے بہت ہیں مگر ایسا بندہ ہو تب مزے کی بات ہے جیسے ایوب تھا.بہت ہی صبر کرنے والا تھا.اِنَّةَ أَوَّاب اور کثرت سے میری طرف جھکنے والا تھا.پس دعا کی قبولیت کے پیچھے یہ مزاج بھی تو ہیں جنہیں اپنا نا ہوگا.محض درد کا اظہار کافی نہیں ہے.خصوصیت کے ساتھ درد کا اظہار اگر ایسے بندہ کی طرف سے ہو جو صابر ہوتو دل پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور عام انسانی معاملات میں میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ بعض لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر درد کا اظہار کرتے ہیں وہ مانگیں بھی تو ان کو دینے پر دل نہیں کرتا.جس طرح بعض بندے جن کو مانگنے کی عادت نہیں ہے وہ خاموش رہتے ہیں اور صبر پر صبر کرتے چلے جاتے ہیں.جب ان کا صبر ٹوٹتا ہے تو بے اختیار ان کے لئے دل پھٹنے لگتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ بہت ہی تکلیف میں ہوگا.جب اس نے یوں ہاتھ پھیلایا ہے.تو ایک تو اس دعا سے پہلے حضرت ایوب کا صبر ہے جس نے ایک پس منظر بنایا اور پھر آواب کا مطلب ہے ہر بات میں خدا کی طرف دوڑتا تھا.غیر کی طرف نہیں جاتا تھا.جب بھی کوئی ضرورت پڑتی تھی.جب بھی کوئی تکلیف ہوتی تھی اگر دوڑتا تھا تو خدا کی طرف دوڑتا تھا.یہ دو عادتیں ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو اس شان کے ساتھ قبول کیا ہے.پس جب بھی آپ قرآنی دعائیں مانگا کریں تو ان اداؤں کے ساتھ مانگا کریں جن اداؤں کے ساتھ پھر دعا ئیں مقبول ہوتی ہیں.بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ جی ہمیں آپ دعا لکھ دیجئے جو ہم کرتے رہیں.بعض کہتے ہیں ہم یہ ورد کرتے چلے جارہے ہیں.گھنٹوں مصلے پر بیٹھ کر یہ ورد کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 512 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء چلے جاتے ہیں.ہماری دعا تو ابھی تک قبول نہیں ہوئی لیکن بغیر اداؤں کے کیسے قبول ہوگی.پیار تو اداؤں پر آتا ہے کلمات پر نہیں آیا کرتا.ایک ہی بات ایک عام آدمی کہتا ہے بعض دفعہ اس پر غصہ آجاتا ہے ایک ایسا شخص جس سے پیار پیدا ہو جائے جب وہ بات کہتا ہے تو اس پر پیار آتا ہے.پیار آنا ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے اور قبولیت دعا کا پیار سے تعلق ہے.جس طرح شاعر نے کہا ہے کہ :.ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ہم کو غصہ پر پیار آتا ہے اب دونوں کا آپس کا تعلق اس قسم کا ہے کہ ایک شخص کو نفرت ہے ایک کو محبت ہے.جس کو نفرت ہے کہنے والا کہتا ہے ہم اس سے پیار کرتے ہیں تو اسے ہم پر غصہ آجاتا ہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ جب اسے غصہ آتا ہے تو ہمیں پیار آ جاتا ہے.تو یہاں دعاؤں کے معاملہ میں محض لفظوں کی بات نہیں ہے کہ کسی نبی کے الفاظ آپ دہرانے لگ جائیں.قرآن کریم نے ان کیفیات کا ذکر فرمایا ہے.ان حالات کا ذکر فرمایا ہے.ان نبیوں کے اخلاق کا ذکر فرمایا ہے.ان نبیوں کے اپنے ساتھ تعلقات کا ذکر فرمایا ہے.وہ ایک پس منظر بنا کر پھر وہ دعا سکھائی گئی ہے.اس پس منظر کے پیدا کرنے کے لئے اگر انسان کوشش کرے اگر چہ ویسانہ بھی بن سکے لیکن کچھ تو ہو پھر دعا کر کے دیکھے کبھی خطا نہیں جائے گی.میرا تو ایمان ہے کہ وہ دعا جو انبیاء نے کی اور خطا نہ گئی اگر اسی در داور اسی جذبے کے ساتھ کی جائے تو کبھی خطا نہیں جائے گی.ہم نے تو دیکھا ہے کہ وہ اچھے ڈاکٹر جو نسخے بیان کرتے ہیں اور ساتھ اس کے متعلق تفصیل سے بتاتے ہیں کہ یہ یہ باتیں ہوں تو نسخہ کارگر ہوگا.ان کا نسخہ واقعی کارگر ہوتا ہے میں ہومیو پیتھک کا شوق رکھتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے بعض ڈاکٹر جو نسخہ بتاتے ہیں شاذ ہی کبھی کامیاب ہوتا لیکن بعض جو تفصیل سے بتاتے ہیں یہ یہ باتیں ہوں تو کامیاب ہوگا وہ ضرور کامیاب ہوگا.پس اللہ تعالیٰ سے بہتر کون ڈاکٹر ہوسکتا ہے جو انسان کی ہر اصلاح کے لئے ہمیں قرآن کریم جیسا نسخہ عطا کرتا ہے.آپ غور سے دیکھیں تو قرآن کریم کی ہر دعا سے پہلے اس کا پس منظر بیان ہوا ہے.وہ ساری ادا ئیں تفصیل سے زیر بحث لائی گئی ہیں جن پر نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول فرمایا.اب ایک دلچسپ دعا ایسی ہے جو بندے نہیں کر رہے بلکہ فرشتے کرتے ہیں.فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 513 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا (المومن (۸) کہ ہمارے بعض ایسے ملائک ہیں جو ہم نے پیدا کئے جو عرش کو سنبھالے ہوئے ہیں.وَمَنْ حَوْلَهُ اور جو کچھ بھی اس کے اردگرد ہے.يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِم وہ خدا کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ کرتے ہیں وَيُؤْمِنُوْنَ بِه اور وہ اس پر پوری طرح ایمان لاتے ہیں.وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا اور جو لوگ بھی ایمان لاتے ہیں ان کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں.اس آیت کا اکثر مفسرین یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ گویا نعوذ بالله من ذالك آسمان پر کہیں عرش کوئی ایسا تخت ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے اور اس کو کچھ فرشتے کندھوں پر اٹھائے ہوتے ہیں اور یہ ان فرشتوں کی دعا ہے.یہ ایک بالکل جاہلانہ تصور ہے.اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تو ساری کائنات کو اٹھائے ہوئے ہے.اس کو اٹھانے والا کون ہے.اس لئے عرش سے مراد ہرگز کسی قسم کا کوئی جسمانی عرش نہیں.عرش کے مختلف معانی ہیں.قرآن کریم میں عرش کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے اور عرش سے نظام کا ئنات ہی مراد ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ہم نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اس کے بعد فرمایا.ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف: ۵۵) پھر اللہ تعالیٰ نے عرش پر استویٰ کیا.تو عرش سے مراد وہ ساری کائنات تھی اور اس کا نظام تھا جس کو خدا نے پیدا کیا اور پھر اس کو سنبھال لیا، اس کا انتظام چلایا.پس وہ طاقتیں جو نظام کائنات کو چلانے والی طاقتیں ہیں اور نظام کائنات کی جب ہم بات کرتے ہیں تو صرف ظاہری نظام کا ئنات نہیں بلکہ روحانی نظام کا ئنات بھی ہے اور یہاں غالباً اسی کا ذکر ہے کہ وہ خدا کے پیدا کردہ فرشتے یا وہ طاقتیں جو روحانی نظام عالم کو چلانے کی ذمہ دار ہیں وہ خدا کی حمد کرتی ہیں، اس کی تسبیح کرتی ہیں اور پھر یہ عرض کرتی ہیں کہ اے خدا! مومنوں سے مغفرت کا سلوک فرما.فرشتوں کی طرف زیادہ دھیان اس لئے جاتا ہے کہ یہاں اپنے لئے انہوں نے استغفار نہیں مانگی.یہ بھی ممکن تھا اس آیت کا ترجمہ کہ خدا کے فرشتہ صفت انسان یہ دعا کرتے ہیں لیکن فرشتہ صفت انسانوں میں سب سے بڑھ کر تو محمد رسول اللہ تھے وہ پہلے اپنے لئے استغفار فرماتے تھے پھر مومنوں کے لئے استغفار فرماتے تھے.چونکہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 514 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء ملائکہ کو بدی کی طاقت نہیں ہے.ان کو اختیار ہی نہیں ہے.اس لئے وہ اپنے لئے استغفار کر ہی نہیں سکتے.ان کے لئے بے اختیاری کی بات ہے.پس اس لئے یہاں ترجمہ یہی کرنا پڑے گا کہ ایسے فرشتے جو روحانی نظام کو چلانے والے ہیں ان کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ ہم بھی استغفار کریں اور چونکہ ان پر استغفار اطلاق نہیں پاتا اس لئے وہ خدا کے مومن بندوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور استغفار اس طرح کرتے ہیں.رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا اے ہمارے رب ! وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَ عِلْمًا تو نے اپنے علم اور رحمت کے ذریعے ہر چیز پر احاطہ کرلیا ہے.تیرا علم بھی ہر چیز پر حاوی ہے اور تیری رحمت بھی ہر چیز پر حاوی ہے فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا پس ان لوگوں سے مغفرت کا سلوک فرما جو تو بہ کرتے ہیں.وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ اور جو تیرے رستے پر چلتے ہیں.وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ اور ان کو آگ کے عذاب سے بچا.رَبَّنَا وَ اَدْخِلْهُمْ جَنَّتِ عَدْنٍ الَّتِى وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ أَبَا بِهِمْ وَازْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اے ہمارے رب ان کو ہمیشگی کی جنتوں میں داخل فرما دے.وہ جنتیں جن کا تو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے اور ان کو بھی جوان کے آباواجداد میں سے اچھے لوگ تھے.وَذُریتھے اور ان کی اولادوں کو بھی اِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الحكيم يقینا تو غالب علم رکھنے والا اور صاحب حکمت ہے.وَقِهِمُ السَّيَّاتِ (المومن : ۱۰) ان کو بدیوں سے بچا.وَمَنْ تَقِ السَّيَّاتِ يَوْمَذِ فَقَدْ رَحِمْتَهُ آج اگر تو کسی کو بدیوں سے بچاوے تو تو نے اس پر بہت رحم فرمایا.وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ اور یہ خدا ہی ہے جو بہت مغفرت کرنے والا اور یہ بہت ہی عظیم کامیابی ہے.ان آیات میں دو باتیں ایسی ہیں جو میں خاص طور پر آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.اگر چہ ملائک کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان اور مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے لیکن حضرت اقدس محمد نے بھی تمام بنی نوع انسان خصوصاً مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے اور چونکہ آپ بھی رحمتہ العالمین تھے اس لئے جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ ربنا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا اے ہمارے رب تو ہر چیز پر اپنی رحمت کے ذریعے عام ہو گیا ہے تو وہ پہلا نبی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رحمت تمام بنی نوع انسان کے لئے عام کی گئی وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 515 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء حضرت محمد مصطفی عملے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے استغفار کا بھی اس میں ذکر ہے اور آپ کی رحمت جو تمام بنی نوع انسان پر پہنچی ہے زیادہ تر آپ کی دعاؤں کے ذریعہ پہنچی ہے کیونکہ براہ راست آپ کی تعلیم کے ذریعہ آپ کا فیض عام نہیں ہوا.و عِلْمًا میں تعلیم کا ذکر ہے اور رَّحْمَةً میں آپ کی برکتوں کا ذکر ہے.پس ایک ہی نبی جس کی تعلیم بھی تمام بنی نوع انسان کے لئے عام تھی اور جس کی رحمت بھی عام تھی وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تھے اگرچہ تعلیم تو سب جگہ نہیں پہنچ سکی اور آج بھی نہیں پہنچ سکی.آج بھی جس ملک میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں اس ملک کے اکثر باشندے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم سے غافل ہیں جو تمام بنی نوع انسان کے لئے تھی لیکن آپ کی رحمت ضرور پہنچی ہے اور رحمت اگلوں کو بھی پہنچی ہے اور پچھلوں کو بھی پہنچی ہے اور تمام عالم کو پہنچی ہے.اس مضمون کو سمجھنے کے لئے آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری طرف سے یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.آنحضور ﷺ کو مقصود کائنات بتایا گیا ہے اور چونکہ شریعت نے ترقی کرتے ہوئے بالاخر جس طرح ارتقا انسان تک پہنچا.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم تک پہنچنا تھا.گویا اسلام میں شریعت کا ارتقاء ہے.اس پہلو سے جو پہلے لوگ تھے ان سب کو جو تربیت دی گئی وہ اسی طرف قدم بڑھانے کی غرض سے تربیت دی گئی اور تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت نازل ہوئی اور رحمت کے نزول ہوئے ان سب کو بالاخر آنحضرت ﷺ کی طرف سے پیدا کی جانے والی عالمی برادری کا جز بننے کے لئے تیار کیا جارہا تھا.پھر جس طرح درخت کو پھل لگتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اپنی مراد کو پہنچ گیا لیکن پھل لگنے کے بعد تو اس کی خدمت نہیں کی جاتی.درخت کی خدمت کو بیج ڈالتے وقت بلکہ بیج ڈالنے سے پہلے شروع کر دی جاتی ہے جب آپ مٹی کھودتے ہیں اس کو نرم کرتے ہیں، جب آپ کھاد کا انتظام کرتے ہیں اور پانی کا انتظام کرتے ہیں.ابھی بیج بویا بھی نہیں تو یہ سب انتظام شروع ہیں.پھر بیج بوتے ہیں، پھر وہ درخت بنتا ہے اور مسلسل اس کی نگہداشت جاری رہتی ہے.یہاں تک کہ بالاخر وہ پھل پیدا کرنے لگ جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا فیض اگر زمانے میں بھی پہلوں کو پہنچا اور کائنات میں بھی ہر جگہ عام تھا تو یہ کوئی فرضی دعوی نہیں ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرما یالُوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك (والد) کہ اے میرے بندے اگر تجھے پیدا کرنا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 516 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء مقصود نہ ہوتا تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا کیونکہ اس کائنات کا پھل تو ہے.اس کا مقصود تو ہے.تجھ جیسا میں نے پیدا کرنا تھا بیچ میں دوسرے بھی پیدا ہو گئے اور درخت کے پھل کے لئے لکڑی بھی تو پیدا ہوتی ہے.پتے بھی تو پیدا ہوتے ہیں اور ان کے مختلف فوائد بھی دنیا کو پہنچتے ہیں.تو یہ وہ معنی ہے جن معنی میں میں سمجھتا ہوں کہ فرشتے خدا سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! تیری رحمت اور علم تو سب دنیا میں اب عام ہوچکے ہیں.فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ اس لئے ہر اس شخص پر رحم فرما اس کی توبہ قبول فرما جو تیری طرف تو بہ سے جھکتا ہے اور اس کو آگ کے عذاب سے بچا.وكنة یہاں يَوْمَذ کا معنی بھی سمجھ آجاتا ہے.اس دعا میں فرشتے یہ عرض کرتے ہیں وَقِهِمُ السَّيَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيَاتِ يَوْمَبِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ یہاں یوم سے مراد زمانہ ہے.عام طور پر تو عقل میں یہی بات آنی چاہئے کہ جس زمانے میں بھی خدا کسی پر رحم کرے کسی کو بخش دے، وہ اس نے بہت رحم کیا.یومئذ سے کیا مراد ہے؟ فرشتے یہی کہتے ہیں کہ آج تو جس کو بخش دے وہ مراد کو پہنچ گیا.مراد یہ ہے کہ جو زمانہ محد مصطفی عملے میں بخشا جائے اس کی کیا ہی شان ہے؟ یہ وہ زمانہ ہے جو خدا سے رحمت طلب کرنے والا اور خدا کی طرف تو بہ کے ساتھ رجوع کرنے کا زمانہ ہے.دوسرے اس آیت کے ذریعہ ہمیں رحمتہ یعنی تو نے رحم کیا ، کی ایک ایسی تشریح معلوم ہوئی جو اس سے پہلے معلوم نہیں تھی.ہم دعا کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا (البقره: ۲۸۷) قرآن کریم کی یہ دعا ہے جو ہمیں سکھائی گئی وَاعْفُ عَنَّا ہم سے درگزر فرما وَ اغْفِرْ لَنَا اور ہمیں بخش دے وَارْحَمْنَا اور ہم پر رحم فرما عام دعا کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ رحم سے مراد یہ ہے کہ جس طرح فقیر کہتا ہے ہماری حالت زار ہے، بھوکے ہیں، ننگے ہیں، کوئی دے دے رحم فرمائے لیکن یہاں رحم کا معنی اس سے بہت زیادہ گہرا ہے.چنانچہ ملائکہ اللہ نے اپنی دعا کے دوران آخر پر جا کر اس مضمون کو کھولا.وہ عرض کرتے وَمَنْ تَقِ السَّيَاتِ يَوْمَيذِ فَقَدْ رَحِمْتَہ کہ اس زمانہ میں یعنی شریعت محمدیہ کے زمانہ میں جس کو تو بدیوں سے بچاوے اس پر تو رحم فرماتا ہے یعنی ترے رحم کا مطلب ہے کسی کو بدیوں سے بچانا اور خصوصاً زمانہ نبوی میں جو شخص بدیوں سے بچارہے کیونکہ سب سے بڑی آزمائشیں بدیوں کے لئے زمانہ نبوی میں مقدر تھیں.وہی ہے جس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ تو نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 517 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء اس پر رحم فرمایا.اب دوبارہ اس دعا کو پڑھیں تو اس کا زیادہ واضح مضمون سمجھ میں آجاتا ہے.ہم کہتے ہیں ہم سے عفو کا سلوک فرما.جو غلطیاں ہم کر جاتے ہیں ان سے صرف نظر فرمالے.گویا تو نے دیکھا ہی نہیں.وَاغْفِرْ لَنا جو گناہ کر بیٹھے ہیں وہ بخش دے اس لئے تا کہ ہم اور گناہ کرتے چلے جائیں؟ نہیں و ارحمنا اور ہم پر رحم فرما ان معنوں میں کہ ہمیں بدیوں سے بچالے.ہم آئندہ بدیاں کریں ہی نہ.پس یہ مضمون ملائکہ کی اس دعا سے واضح ہوا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یو منذ اس لئے کہا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود پیشگوئی فرمائی ہے کہ جیسی بدیوں کی آزمائش میری امت میں آنے والی ہے ویسی آزمائش کبھی کائنات میں نہیں آئی.فرمایا کہ میرے زمانہ میں دجال نے پیدا ہونا ہے اور فرمایا کہ دجال سے تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو ڈراتے آئے ہیں کہ خبردار! ایک ایسا زمانہ ظاہر ہونے والا ہے کہ دجال ظاہر ہوگا والا اور کبھی ایسی بدیاں انسان کے سامنے امتحان بن کر اٹھ کھڑی نہیں ہوں گی جیسے اس زمانہ میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور اکثر انسانوں کو مغلوب کرلیں گی بدیاں پیدا کرنے والے کا نقشہ بھی ایک بہت بڑے دیوہیکل وجود کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو مذہب سے کلیۂ عاری اور دنیا میں بے انتہا ترقی یافتہ ہے اور جہاں تک بدیوں کی تفاصیل کا تعلق ہے تو احادیث میں بھی اور قرآن کریم میں بھی مختلف جگہ پر ان کا ذکر ملتا ہے کہ آئندہ ایسے ایسے دن آنے والے ہیں اور یہ وہ دن ہیں جن میں سے ہم گزر رہے ہیں.پس یو مہذ کا سب سے زیادہ تعلق اس زمانہ سے ہے.اب دیکھیں کہ اس دور میں مغرب سے جیسی بدیوں کے سیلاب نکلے ہیں اور دنیا کو ڈبوتے چلے گئے ہیں ویسے اس سے پہلے کسی زمانے میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.جس ملک میں آپ بیٹھے ہیں یہ بعینہ اس نقشے کا تصور ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے دجال کی اداؤں کے متعلق کھینچا تھا.چودہ سو سال پہلے آپ نے فرمایا کہ اس کی دینی آنکھ نہیں ہوگی یعنی روحانیت سے اور تقویٰ سے اور اللہ کی محبت سے وہ عاری ہو گا لیکن بائیں آنکھ بہت بڑی اور روشن ہوگی اور اتنی بصیرت والی ہوگی کہ وہ پاتال تک نظر ڈالے گی.زمین کے راز دیکھ لیا کرے گی.(حوالہ) پس آج کی دنیا میں کوئی طاقت امریکہ سے بڑھ کر سائنس پر عبور حاصل کرنے والی پیدا نہیں ہوئی.بدیاں بھی یہیں سے نکل کر سب دنیا میں پھیل رہی ہیں اور دنیاوی ترقیات کے لحاظ سے بھی یہی ملک ہے جو سب سے آگے ہے.پس جب یہ دعا آپ پڑھیں تو سوچیں کہ یہاں یومئذ سے کون سا دور مراد ہے.حضرت محمد رسول الله الا اللہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 518 خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۹۱ء کی امت کا وہ دور جس میں بدیاں پھیلنا مقدر تھیں.آپ آئے تھے رحمت اور علم پھیلانے کے لئے مگر اسی امت میں ایک ایسا دور بھی آنا تھا جبکہ ہر طرف سیئات نے پھیل جانا تھا تو کیسی اچھی دعا ہمارے لئے کی گئی ہے.ابھی ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ عرش پر خدا کے فرشتے اس زمانہ کو یاد کر کے ہمارے لئے دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! اس دور میں دعاؤں کی مدد کے بغیر وہ بچ نہیں سکیں گے.بہت بڑی ذمہ داریاں ان پر ہوں گی اور کمزور لوگ ہوں گے.ان کے مقابل پر اتنی بڑی طاقتیں ظاہر ہوں گی کہ تو خود فرماتا ہے کہ ایسی طاقتیں کبھی دنیا میں جاری نہیں کی گئیں.اس لئے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ رحم کا سلوک فرما ان کو بدیوں سے بچانا.پس یہاں جو ماں باپ اپنے بچوں کے متعلق اپنی بچیوں کے متعلق فکر مند رہتے ہیں اور مجھے سے پوچھتے ہیں کہ بتائیں کیا نسخہ ہم استعمال کریں وہاں اور نسخوں سے پہلے سب سے بڑ نسخہ میں دعا کا بتا تا ہوں.اور دعا کس رنگ میں کرنی چاہئے یہ آپ کو قرآن کریم کی اس آیت نے بتا دیا.اللہ تعالیٰ کے وہ فرشتے جن کے ذریعہ نظام روحانی جاری ہے.جن کے کندھوں پر روحانی نظام چلانے کا بوجھ ہے ان کی دعا ایک بہت ہی معنی خیز دعا ہے گہری نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ دعا کی ہے.پس ہمیں بھی اس دعا میں شامل ہو جانا چاہئے اور جس طرح کہ میں نے اس کی تفصیل بتائی ہے اس کا پس منظر سکھایا ہے ان معنوں میں یہ دعا اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے کیا کریں.ایک اور دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو سکھائی.یہ سواری کی دعا ہے.اِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحْنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّالَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (الزخرف :۱۵،۱۴) کہ وہ لوگ جب سوار ہوتے ہیں تو سوار ہونے پر خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں فرمایا جب تم سواریوں پر چڑھ جایا کرو اور قرار پکڑ لیا کرو تب یہ کہا کرو شبحْنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هذا پاک ہے وہ ذات جس نے سواری کو ہمارے لئے مسخر فر ما دیا وَمَا كُنَّالَهُ مُقْرِنِينَ ہم تو اس لائق نہیں تھے کہ سواری کو اپنے تابع کرسکیں.مُقْرِنین کا مطلب ہے لگام ڈال سکیں.مسخر کرنا جیسے کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دائمی طور پر اپنا غلام بنالیا جائے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور وہ چیز مجال نہ رکھتی ہو کہ مالک کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر سکے.یہ مضمون ہے جو تسخیر کے تابع ہے اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا وھا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 519 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء كُنَّالَهُ مُقْرِنِينَ ہم ہر گز طاقت نہیں رکھتے تھے کہ اسے اپنے تابع فرمان کر سکتے وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اور یقیناً ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہ دعا بھی اس زمانے کے ساتھ خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے.کیونکہ پہلی سواریاں جو انسان کے لئے بنائی گئی تھیں یعنی جانوران میں اور موجودہ سواریوں میں بہت بڑا فرق پڑ چکا ہے.یہ سواریاں غیر معمولی طور پر طاقتور ہیں اور ان کا تعلق بھی اسی دجال سے ہے جس کے متعلق میں ابھی دعا پڑھ چکا ہوں.اس لئے گو یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آگے پیچھے بھی دعا ئیں اسی لئے رکھی گئیں کہ یہ اسی زمانہ کی دعائیں ہیں کیونکہ صورت الگ الگ ہے لیکن خواہ کوئی اسے حسن اتفاق سمجھے خواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تقدیر سمجھے.امر واقعہ یہی ہے کہ جہاں پہلی دعا کا ذکر ہے اور آخری زمانے کی بدیوں کا ذکر ہے وہاں اس کے معا بعد جو دوسری دعا ہمیں قرآن کریم میں ملتی ہے وہ یہی دعا ہے اس لئے میرا رجحان اسی طرف ہے کہ یہاں موجودہ زمانے کی سواریاں خصوصیت سے پیش نظر ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب ان سواریوں پر بیٹھا کرو تو یہ دعا کیا کرو کہ بظاہر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے قابو کر لی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تیرے ہی قابو میں ہیں.اگر تیرا قانون قدرت ساتھ نہ دے تو یہ سواریاں ہرگز ہمارے قابو نہیں آسکتیں اور واقعہ یہی ہے کہ موجودہ دور میں جب بھی سائنسدانوں نے تکبر کئے ہیں خصوصاً سواریوں کے معاملہ میں تو ہمیشہ ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے.انگلستان میں ایک بہت بڑا جہاز بنایا گیا.اتنا شاندار کہ کہتے تھے کہ کبھی ایسا جہاز نہ بنا.اور شاید نہ آئندہ بن سکے اور بہت ہی فخر تھا انگلستان کو کہ ایسا مسافر جہاز جو انگلستان سے امریکہ تک سفر کرے گا پہلے کبھی اس کا تصور نہیں تھا.ہر قسم کی سہولت تھی ، ہر قسم کے خطرات سے بچنے کا انتظام تھا اور بڑی شان اور تکبر کے ساتھ انہوں نے روانہ کیا اور وہ اپنے پہلے تجرباتی سفر میں ہی سمندر میں غرق ہو گیا اور بے شمار لوگ اس کے ساتھ غرق ہو گئے جو بڑی شان کے ساتھ اس پہلے تاریخی سفر میں شامل ہو رہے تھے.جہازوں کا بھی اعتبار نہیں ہے.اعتبار ہو بھی تو قانون قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جب طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو انسان کی بنائی ہوئی مشین ان کے سامنے بالکل ایک پر گاہ کی حیثیت رکھتی ہے.جس طرح ایک چھوٹا سا خاک کا ذرہ ہو یا ایک تنکا ہواور وہ اڑتا پھرے ایسی حیثیت ہو جایا کرتی ہے اس لئے احمدیوں کو خصوصیت سے یادرکھنا چاہئے کہ ہر سواری پر سوار ہونے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 520 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء کے بعد یہ دعا کیا کریں لیکن اس کے ساتھ ایک اور بھی کلمہ زائد فرما دیا گیا جو بہت ہی پر لطف کلمہ ہے وہ یہ ہے کہ وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ کہ ہم نے آخر خدا ہی کی طرف جانا ہے بہت گہرا مضمون ہے جو اس کلمے میں بیان فرمایا گیا ہے.ایک یہ کہ سواریوں پر بیٹھتے ہوئے خصوصاً خطرناک سواریوں پر بیٹھتے ہوئے خدا کے مومن بندے دعا ئیں تو کرتے ہیں لیکن ڈرتے نہیں ہیں.وہ دعا کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے خدا ! یہ تو عارضی سفر ہے.اصل سفر تو ہمارا تیری طرف ہونا ہے.ہم نے بالآ خر تجھ تک پہنچنا ہے اس لئے اگر تیری مرضی یہ ہو کہ یہ جہاز غرق ہو جائے ہم اپنے وطن واپس نہ بھی جاسکیں تو اصل وطن تو وہ ہے جہاں تو ہے.جہاں تجھ سے جا کر ملنا ہے اس لئے ہم یقین رکھتے ہیں وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ہم تو یقینا اپنے رب کی طرف لوٹائے جائیں گے.اس کا ایک دلچسپ تجربہ مجھے بھی ہوا.۱۹۶۵ء میں جب میں سری لنکا گیا تو جس جہاز پر میں سوار تھا میرے ساتھ سری لنکا کے ایک کیبنٹ منسٹر بھی تھے.ہم سری لنکا پہنچنے لگے تو اس سے چند منٹ پہلے ایسا خوفناک طوفان آیا کہ میں نے اس سے پہلے جہاز میں کبھی ایسا خوفناک منظر نہیں دیکھا.کہرام مچ گیا.سارے جہاز میں چیخ و پکار اور دعائیں، کوئی بیوی بچوں کو یاد کر رہا تھا کوئی خدا کو یاد کر رہا تھا اور جہاز بے حد اونچا نیچا ہورہا تھا اور میں اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا.مجھے یہ دعا یا تھی اور میں بالکل ایک ذرا بھی فکر میں مبتلا نہیں ہوا.خیر خدا نے فضل کیا.کچھ دیر کے بعد ہم اس طوفان سے گزر گئے.جب نیچے اترنے لگے تو اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو.میں نے کہا میں مسلمان ہوں.کہتا ہے کہ اس جہاز میں اور بھی تو بہت سے مسلمان سفر کر رہے ہیں تم کون سے مسلمان ہو.خیر میں اس کی بات سمجھ گیا.میں نے اس کو بتایا.کہتا ہے میں حیران ہوں کہ سارا جہاز ایک قیامت کا نمونہ دکھا رہا تھا اور تم آرام سے بیٹھے ہوئے تھے تمہیں کچھ بھی پتا نہیں.میں نے کہا اس لئے کہ وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ نے ہمیں پیغام دیا ہے کہ ہم یہ چھوٹے چھوٹے سفر کرتے ہیں.بعض منازل کو پیش نظر رکھ کر.اللہ تعالیٰ ہمیں یاد کراتا ہے کہ اپنی آخری منزل نہ بھول جانا.وہ اصل منزل ہے اور دائگی مقام ہے.ہم نے لوٹ کر وہیں آنا ہے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج چلے جائیں، کل جائیں، جانا تو وہیں ہے.فرق کیا پڑتا ہے.پس مومن کو ایسی دعا کے بعد کا یہ جملہ غیر معمولی تقویت دیتا ہے.اول تو یہ کہ اس دعا کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 521 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء برکت سے میرا ایمان ہے کہ بہت سے حادثات سے مومن بچایا جاتا ہے اور جہاں مقدر ہو بھی وہاں بڑی شان اور طمانیت کے ساتھ خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے.پس دعا ئیں وہی کیا کریں جو انعام یافتہ لوگوں کی دعائیں ہیں مگر انعام یافتہ لوگوں کی اداؤں کے ساتھ ان کے مضامین میں ڈوب کر دعائیں کیا کریں.یہ دعا چونکہ حضرت محمد رسول اللہ یہ کو سکھائی گئی تھی اس لئے ساتھ ہی اس کے گہرے مطالب بھی بتا دیئے گئے جن کو آپ سے بہتر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ تو اور تیرے ساتھی یہ دعا ئیں تو کیا کرو گے لیکن ہمیشہ یہ یادر کھتے ہوئے کہ بالآخر خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے.اب ایک دعا ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ الانسان کی دعا ہے الانسان سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل کی دعا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسی طرح اس دعا کو پیش فرمایا ہے اور اس سے میں سمجھتا ہوں کہ یقینا یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی دعا ہے.اس میں الانسان کے لفظ کے سوا اور بھی اشارے ہیں جو اس دعا کو آنحضرت ﷺ کی دعا بتاتے ہیں فرمایا :.اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاحقاف :۱۴) یقیناً وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے ثم استقاموا پھر وہ استقامت اختیار کرتے ہیں.فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ان پر کوئی خوف نہیں آتا اور کبھی وہ اپنی ضائع شدہ چیزوں پر غم نہیں کرتے.يَحْزَنُونَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غم کے موقعے ان کو پیش نہیں آتے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب خوف آتے ہیں تو آتے ضرور ہیں لیکن وہ ان سے ڈرتے نہیں.مرعوب نہیں ہوتے بلکہ ہر خوف کے وقت خدا کا خوف ان پر غالب رہتا ہے اور دنیا کے خوفوں سے ان کو بچاتا ہے پھر کچھ نہ کچھ نقصان بھی پہنچتا ہے جیسے کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان فرمایا گیا.لیکن ان نقصانوں کے نتیجہ میں تم میں مبتلا نہیں ہوتے.جاتا ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے چلا گیا اور احمد یہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ایسے غلام پیدا ہوئے جن کا سب کچھ لوٹ لیا گیا لیکن وہ مسکراتے رہے.غم میں مبتلا نہیں ہوئے.میں نے پہلے بھی خطبہ میں ایک نوجوان کا ذکر کیا تھا جو۱۹۷۴ء کے فسادات میں مجھے ملنے آیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ملنے آیا تھا تو میں ان دنوں وقف جدید میں کام کیا کرتا تھا وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 522 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء میرے پاس بھی آ گیا اور کمرے میں داخل ہوا تو باچھیں کھلی ہوئی مسکراتا ہوا ہنستا ہوا بہت خاص خوشی کے مزاج کے ساتھ داخل ہوا اس کا نام نصیر تھا.اس کو اس حال میں دیکھ کر میں نے کہا.نصیر ! کیا بات رہے آج تم نے بہت کچھ پالیا ہے کہ تم اس طرح خوش ہو رہے ہو.اس نے کہا یہی سوال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بھی مجھ سے کیا تھا اور ان کو بھی میں نے یہی جواب دیا تھا کہ آج ہم نے خدا کی راہ میں سب کچھ کھو دیا ہے.یہ خوشی ہے.چاولوں کی ملیں اور کار خانے تھے.خدا کے فضل سے بڑا کھاتا پیا گھر تھا.انہوں نے بتایا کہ سارا دن ٹرک لدلد کے بوریاں ڈھوتے رہے ( ڈھونا پنجابی میں سامان لا دکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کو کہتے ہیں ) اور کسی نے بھی پوچھا نہیں اور نہ پولیس آئی اور نہ کسی کو پرواہ ہوئی یہاں تک کہ سب کچھ صاف ہو گیا.کارخانہ بھی بر باد یوار میں منہدم کر دی گئیں اور میں اب اس لئے خوش ہوں کہ بہت مزے میں ہوں کہ اب سب کچھ اللہ نے پھر دوبارہ دینا ہے.ہم نے تو جو کچھ تھا وہ سب اللہ کے سپر د کر دیا ہے.پس وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا یہ مطلب ہے.اس کے برعکس وہ لوگ جن میں ایمان کی کمی ہوتی ہے ان کو آپ دیکھیں چھوٹا سا نقصان پہنچے تو جان کا زیاں کر بیٹھتے ہیں.وہ اس غم میں گھل گھل کر اپنی جان ضائع کر دیتے ہیں تو کتنا فرق کتنے عظیم الشان بندے ہیں جو محمدرسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں اور آپ ہی کے تربیت یافتہ ہیں.خدا تعالیٰ ان کے متعلق فرمارہا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْارَ بنَا اللهُ دیکھو کیسے شاندار بندے ہیں میرے جب وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے تو پھر کسی اور کورب نہیں مانتے.یہاں ربنا اللہ میں یہ مضمون ہے.رب کا مطلب ہے پرورش کرنے والا ،سب کچھ عطا کرنے والا ، زندگی کے گزارے دینے والا ، ادنیٰ حالتوں سے ترقی دے کر اعلیٰ حالتوں کی طرف لے جانے والا.رب تو خدا کو کہیں مگر دنیا کی طاقتوں سے ڈر جائیں اور ان کو رب سمجھ لیں خدا فرماتا ہے ایسا نہیں ہوتا.میرے بندے وہی ہیں جو میرے رب کہنے کے بعد پھر میرے ہو رہتے ہیں اور ان کی نشانی کیا ہے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ دنیا کا کوئی خوف ان پر غالب نہیں آسکتا.بے خوف ہو جاتے ہیں اور جو بھی نقصان پہنچ جائے ان کو غم نہیں ہوتا.ہمیشہ سکنیت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں.کتنا عظیم الشان انسان ہے جو قرآن کریم پیدا کرنا چاہتا ہے.اسی لئے اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے الانسان کی دعا کے طور پر پیش فرمایا کہ ابھی ان کی صفات بیان ہورہی ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 523 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء دعا ابھی آگے آنی ہے فرمایا.أُولَبِكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ خُلِدِينَ فِيهَا (الزخرف: ۱۵) یہی وہ لوگ ہیں جو جنتوں میں داخل کئے جائیں گے اور پھر ہمیشہ رہیں گے.ان جنتوں سے ان کو کبھی نکالا نہیں جائے گا.جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ یہ ان کے اعمال کی جزاء ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ کے لئے خدا کے ہو گئے تھے.خدا ہمیشہ کے لئے ان کا ہو جائے گا.وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَنًا (الزخرف :١٦) ہم نے الانسان یعنی محمد رسول اللہ کو، انسان کامل کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے والدین سے احسان کا سلوک کرو.یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تو اپنے والدین کا منہ نہیں دیکھا.والدہ کو دیکھا لیکن تھوڑے عرصہ کے لئے اور والد تو بعض روایات کے مطابق آپ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.پس بِوَالِدَيْهِ اِحْسنًا کا کیا مطلب ہے.یہاں دراصل آنحضرت ﷺ کو جو نصیحت ہے وہ تمام بنی نوع انسان کو نصیحت ہے کیونکہ انسان کامل کو جو نصیحت کی جائے اس میں تمام ادنی انسان شامل ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مزید کسی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں پڑتی.فرمایا ہم نے انسان کامل سے یہ کہا تھا کہ یا درکھو کہ اپنے والدین سے ہمیشہ احسان کا سلوک کرنا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْھا یہ مضمون بھی دیکھ لیجئے عام ہے.تمام بنی نوع انسان پر یہ مضمون مشتمل ہے.آگے جا کر یہ مضمون اور رنگ اختیار کر جائے گا.تم دیکھو تمہاری ماؤں کا تم پر احسان ہے یا اگر لفظی ترجمہ کریں تو غائب میں مضمون بیان ہورہا ہے تو حَمَلَتْهُ اُمہ گڑھا ترجمہ ہوگا ہر انسان کی ماں اسے بہت تکلیفوں سے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے.وَوَضَعَتْهُ كُرھا اور بہت تکلیف کے ساتھ جنم دیتی ہے.نو مہینے تک اپنے پیٹ میں پالتی ہے.ایسی حالت میں کہ وہ بہت ہی ادنیٰ حالت سے ترقی کرتے کرتے انسان کی حالت تک پہنچتا ہے.اب آپ دیکھیں جس نے ربنا اللہ کا دعوی کیا تھا اسی کی مزید صفت بیان ہوئی ہے.رب کا مطلب ہی یہ ہے ادنی سے ترقی دے کر اعلیٰ حالت تک پہنچانے والا.انسانی رشتوں میں اس کی بہترین مثال ماں بنتی ہے فرمایا اپنی ماں کی طرف دیکھو کہ ہر انسان کی ماں نے اسے بڑی مصیبتوں سے پیٹ میں پالا اور پھر بڑے خطرات کے ساتھ اس کو جنم دیا.وَحَمْلُهُ وَفِضْلُهُ غَلْثُونَ شَهْرًا اور یہ عرصہ پیٹ میں اٹھائے پھرنے کا اور پھر وضع حمل کا اور پھر دودھ پلانا یہ تمیں مہینوں تک پھیلا ہوا ہے حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ گیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 524 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء الله اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا.قَالَ رَبِّ اَوْ زِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَی تو اس نے دعا کی جو میں بیان کروں گا.یہاں میں نے کہا تھا کہ آگے جا کر مضمون بدل جائے گا.ایک مضمون ہے عام جو سارے بنی نوع انسان میں مشترک ہے.ہر ایک کی ماں اسی طرح اسے جنم دیتی ہے لیکن ہر شخص احسان مند نہیں ہوا کرتا.اب واپس حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف مضمون لوٹ گیا ہے.ایک عام واقعہ بیان کر کے جو سب بنی نوع انسان میں مشترک ہے پھر الانسان بمعنی محمد رسول اللہ اس مضمون کو دوبارہ اٹھا لیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جب وہ بلوغت کو پہنچا اور ۴۰ سال کی عمر کو پہنچا اور ۴۰ سال کی عمر آپ کی نبوت کی عمر تھی اس لئے ۴۰ سال کا لفظ استعمال ہوا ہے ورنہ ہر انسان تو ۴۰ سال کی عمر کو پہنچنے پر یہ بات نہیں کہا کرتا.پس یقینا قطعی طور پر یہاں حضرت اقدس محمد رسول الله علی مراد ہیں اور آپ کا نقشہ بیان فرمایا ہے کہ آپ نبوت پانے کے بعد کیا دعائیں کیا کرتے تھے.فرمایا قَالَ رَبِّ اَوْ زِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى وَعَلَى وَالِدَى اے میرے رب! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اس نعمت کا شکر یہ ادا کرسکوں جو تو نے مجھ پر کی اور اس نعمت کو تمام کر دیا.( تمام کا مضمون لفظا ظا ہر نہیں لیکن نبوت میں تمام کا لفظ شامل ہوتا ہے اس لئے تمام کا لفظ داخل کیا) آیت کریمہ فرماتی ہے رَبِّ اَوْ زِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي انْعَمْتَ عَلَی اے میرے رب! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اس نعمت کا شکر یہ ادا کرتار ہوں.شکریہ ادا کر سکوں اس کی تو فیق پاؤں جو تو نے مجھ پر فرمائی.وَعَلَى وَالِدَيَّ اور میرے والدین پر تو نے جو نعمت کی ہے اس کا بھی میں شکر ادا کروں.اب دیکھیں یہاں والدین سے آنحضرت میہ کے احسان کا یہاں ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ آپ کے والدین پہلے گزر چکے تھے.یہ مضمون لگتا ہے دو دھاگوں سے بنا ہوا ہے کبھی عام ہو جاتا ہے کبھی خاص ہو جاتا ہے.عام ہو جاتا ہے تو تمام بنی نوع انسان پر پھیل جاتا ہے جب سمٹتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں سمٹ آتا ہے.آپ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے خدا ! مجھ پر تو نے جو اتنا بڑا احسان فرمایا یہ تو فیق عطا فرما کر اس پر شکر کا حق ادا کرسکوں اور صرف اسی کا نہیں بلکہ اپنے والدین کی طرف سے بھی تیرا شکر ادا کروں.صاف ظاہر ہے کہ والدین گزر چکے ہیں اور ان کو پتا نہیں کہ کیا نعمت ان کو ملی ہے اور واقعہ آنحضرت ﷺ کے والدین گزر چکے تھے ان کو کیا پتا تھا کہ ان کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 525 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء صلب سے دنیا کا سب سے بڑا انسان پیدا ہونے والا ہے اور وہ ایسے اعلیٰ مدارج تک پہنچے گا کہ کبھی کسی انسان کے تصور میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ کوئی شخص خدا کے اتنا قریب ہو جائے اور چونکہ والدین ایسی حالت میں گزرے تھے کہ ابھی وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور نہ مسلمان ہو سکتے تھے اور انبیاء کو حکم نہیں ہے کہ وہ اپنے ان والدین کے لئے دعا کریں جن کے متعلق احتمال ہو کہ وہ مشرک ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے دعا نہیں کی بلکہ یہ عرض کیا ہے کہ اے خدا! ان پر بھی تو نے بہت بڑا انعام کیا ہے.اتنا بڑا انعام کہ مجھے ان کے گھر پیدا کر دیا اور وہ شکر ادا نہیں کر سکتے.ان کو علم نہیں ہے کہ کیا احسان تو نے ان پر کیا ہے.مجھے توفیق عطا فرما کہ میں ان کی طرف سے تیرا شکر ادا کروں.میں سمجھتا ہوں کہ ان کی مغفرت کی دعا کرنے کا اس سے اعلیٰ طریق اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور ان معنوں میں احسان کا بدلہ بھی اتار گئے.مضمون دیکھیں کس طرح اٹھایا گیا ہے کہ والدین کے احسان کو یاد کرو.والدین کے احسان کو یاد کر کے آنحضرت فرماتے ہیں اے خدا! ان کی طرف سے مجھے شکر کی تو فیق عطا فرما.پس جن کی طرف سے محمد رسول اللہ شکر ادا کر رہے ہوں کیسے ممکن ہے میں تو یقین نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک نہ فرمائے وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ اور شکر کی تعریف فرما دی.ہم جو زبانی شکر ادا کرتے رہتے ہیں یہ تو کوئی شکر نہیں.فرمایا شکر کس طرح ادا کروں فرمایا وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَہ میں ہمیشہ ایسا عمل کروں کہ جن کے نتیجہ میں تو راضی ہوتا رہے.اس میں شکر کا فلسفہ بھی بیان ہو گیا.ایک انسان شکر اس لئے کرتا ہے کہ کوئی شخص اس پر احسان کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اس احسان کا بدلہ چکا سکے.خدا کو آپ احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے لیکن احسان کا بدلہ چکانے کی روح یہ ہے کہ جب آپ احسان اتارتے ہیں تو اگلا راضی ہوتا ہے.جب آپ کو کوئی تحفہ دے اور آپ اس کو اس سے بڑھ کر تحفہ دیں تو تحفے تو عارضی چیزیں ہیں بعض دفعہ وہ خود استعمال بھی نہیں کرتا کسی اور کو دے دیتا ہے یا پھینک دیتا ہے یا اس کے کام کی چیز نہیں ہوتی لیکن وہ راضی ہو جاتا ہے اگر محبت سے ایک ذرہ بھی کسی کو تحفہ دیا جائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے تو کیسا عمدہ گہرا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا.فرمایا کہ میں تو تجھ پر احسان کر نہیں سکتا لیکن تجھے راضی تو کرسکتا ہوں اور احسان کا بدلہ تو اسی لئے چکایا جاتا ہے کہ کوئی راضی ہو جائے پس اب تو ایسا فیصلہ فرما کہ ایسے عمل کی تو مجھے خود توفیق عطا فرما، مجھے معلوم نہیں تو کس عمل سے راضی ہوگا جن سے بھی تو راضی ہوتا ہے وہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 526 خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۹۱ء عمل میں کرتا چلا جاؤں اور ساری زندگی میں تیری رضا حاصل کرتا رہوں.تجھے خوش کرتا رہوں.وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِی اور یہی نہیں میری ذریت کو بھی صالح بنادے اور اس ذریت میں آپ سب شامل ہیں.صرف آنحضرت ﷺ کی جسمانی اولاد ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان جنہوں نے آپ سے تعلق جوڑنا تھا یا آئندہ جوڑیں گے وہ سارے اس دعا میں شامل ہو جاتے ہیں اِنِّي تُبت إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الاحقاف (1) دیکھیں اب بات کس طرح کھل گئی ہے.آنحضرت ﷺ عرض کرتے ہیں تو تو جانتا ہے میں تیری طرف لوٹ آیا ہوں میں تو ایسی تو بہ کر چکا ہوں کہ کبھی کسی نے ایسی تو بہ نہیں کی ہوگی اور مجھے کچھ نہیں چاہئے میں یہ دعوی کر سکتا ہوں کہ ہاں میں مسلمان ہوں.پس اس کے نتیجہ میں میرے بعد میں آنے والے تعلق رکھنے والوں سے بھی احسان کا سلوک فرما اور ان کو بھی ایسے اعمال کی توفیق بخش جن کے ذریعے تو راضی ہو جائے.پس اسی دعا پر میں آج کا خطبہ ختم کرتا ہوں لیکن میں آپ کو ایک دفعہ پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس دعا کی دنیا میں ہر جگہ پر ہر دور کے انسان کو ضرورت پڑتی ہے لیکن جیسی آج کے دور میں اس دنیا میں اس جگہ جہاں سے میں یہ خطبہ دے رہا ہوں اس دعا کی ضرورت ہے شاید کبھی کسی اور جگہ ایسی دعا کی ضرورت نہ پڑی ہو.ایسے ظالم ماحول میں آپ بس رہے ہیں جس کی فضا زہریلی ہے.جب بچے سانس لیتے ہیں تو دو قسم کی پولوشن میں مبتلا ہوتے ہیں ایک پولوشن (polution) تو بنی نوع انسان کو نظر آ رہی ہے اور اس کے خلاف ان کے دماغ روشن ہو گئے ہیں وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کسی طرح اس پولوشن (Polution) کو کم کریں.اس فضاء کی وہ آلودگی جو جرائم کے ذریعہ خاک کے ذروں کے ذریعہ دھوئیں کے ذریعہ زہریلی گیسوں کے ذریعہ دنیا کو نظر آتی ہے اس سے وہ بڑے سخت متنبہ ہو چکے ہیں اور کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن ایک آلودگی ایسی ہے جو اس سے بہت زیادہ ہلاک کرنے والی ہے اور وہ روح کو ہلاک کرنے والی آلودگی ہے وہ اس فضا میں اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان کو پتا چلے کہ کس فضا میں دم لے رہے ہیں تو اس خوف سے ان کے دم نکل جائیں کہ کیا ہوا ہے جو ہم اپنی سانسوں میں لے رہے ہیں.اس کی طرف کوئی توجہ نہیں.پس جب آپ یہ دعا کیا کریں تو اس رنگ میں دعا کیا کریں کہ آپ نے بھی اس آلودگی سے بچنا ہے اور اپنے ساتھیوں کیلئے بھی دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس آلودگی سے ان کو بھی بچائے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 527 خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۹۱ء کیونکہ یہ فضا واقعی بہت گندی ہے.میں نے بہت سے احمدی ماں باپ کو روتے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں اس طرح ہماری بچی ہاتھ سے نکل گئی ، اس طرح ہمارا بچہ ہاتھ سے نکلا جارہا ہے.اس کے نظریات تبدیل ہو جاتے ہیں زندگی کے متعلق اس کا تصور بدل جاتا ہے اور کوئی نصیحت اس پر کام نہیں کر سکتی.وہ اور رنگ میں دیکھ رہا ہوتا ہے ماں باپ اور رنگ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں.پس ایسی حالت میں دعاؤں ہی کا سہارا ہے اور دعا کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں جو میں بعض دوسری جگہ بیان کرتا چلا آیا ہوں اور آئندہ بھی بیان کروں گا.مگر ہمارا سب سے طاقتور سہارا دعا ہے اور دعاؤں سے میں سمجھتا ہوں یہ دعا جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے یہ امریکہ کے حالات میں اور باقی دنیا کے حالات میں بھی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.اس دعا کا حق ادا کرتے ہوئے اس میں ڈوبتے ہوئے خاص سوز کے ساتھ اپنے لئے اپنی آئندہ نسلوں کے لئے دعا کیا کریں.اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 529 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کی قبولیت اور طوفان نوح کازبردست نشان، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بنائی گئی کشتی نوح آج نجات کی واحد راہ ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء بمقام ایسٹرن مشی گنی یونیورسٹی ڈیٹرائیٹ ، امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج جمعہ کا دن ہے اور میں یہ خطبہ ڈیٹرائیٹ سے دے رہا ہوں.جہاں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کثیر تعداد میں امریکہ کی جماعتیں اپنے سالانہ کنونشن میں یعنی جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے تشریف لائی ہوئی ہیں.گزشتہ کچھ عرصہ سے قرآن کریم میں مندرج ان دعاؤں کا ذکر چل رہا ہے جو خدا تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کرتے رہے اور ان سے انعام پاتے رہے لیکن اس ذکر کو دوبارہ چھیڑنے سے پہلے میں مختصرا آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جمعہ کے دن کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی ایک بہت گہرا اور دائمی رشتہ ہے اور اس رشتے کا ذکر سورۃ جمعہ میں فرمایا گیا ہے.جمعہ کا دن جمع ہونے کا دن ہے اور اسی پہلو سے عربی میں اس دن کو جمعہ قرار دیا گیا لیکن قرآن کریم میں سورۃ جمعہ میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب آئندہ آنے والے لوگ پہلے آنے والے لوگوں کے ساتھ جمع کر دیے جائیں گے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمد (۴) بعد میں آنے والے ایسے بھی ہیں جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 530 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں اور آپ کی غلامی کرنے والوں میں بعد میں آنے کے باوجود اس طرح شامل کر دئیے جائیں گے کہ گویا وہ انہی میں سے ہیں.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جمعہ کے دن سے ایک گہرا اور دائمی رشتہ ہے.جو مضمون میں دعاؤں کا بیان کر رہا ہوں اس کا بھی اس سے ایک اور رشتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآنی دعائیں جو انعام یافتہ لوگوں نے مانگیں جماعت احمد یہ اگر ان دعاؤں میں خاص توجہ اور انہماک سے گریہ وزاری کے ساتھ خدا تعالیٰ سے فضل مانگتی رہے تو گزشتہ تمام زمانے اس زمانے میں جمع ہو جائیں گے اور وہ سارے انعام جو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ تمام زمانوں میں اپنے مختلف عاجز بندوں پر نازل فرمائے ان دعاؤں کے طفیل وہ سارے انعام اس زمانے میں جماعت احمد یہ میں جمع ہو سکتے ہیں.( مجھے افسوس ہے کہ ابھی لاؤڈ اسپیکر کا انتظام درست نہیں ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ میری بات آپ سب کو سمجھ آجائے گی.) دعاؤں کے ذکر میں حضرت نوح علیہ الصلواۃ والسلام کی دعا سے میں آج کے مضمون کا آغاز کرتا ہوں.یہ دعا قرآن کریم میں سورۃ القمر میں محفوظ فرمائی گئی دعا تو اتنی ہے.فَدَعَا رَبَّةَ اني مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ (القمر (1) حضرت نوح نے اپنے خدا کو پکارا اور عرض کیا کہ میں مغلوب ہو چکا ہوں اور میری مخالف قوم مجھ پر غالب آگئی ہے.پس تو میری نصرت فرما.اس دعا کا پس منظر یہ بیان فرمایا گیا ہے كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجنُونَ وَازْدَجِرَ ( القمر : ۱۰) کہ اس سے پہلے نوح کی قوم نے نوح کو جھٹلا دیا فَكَذَّبُوْا عَبدَنَا اس قوم نے ہمارے بندے کو جھٹلا دیا.اس طرز بیان میں بہت ہی پیار کا اظہار ہے اور حضرت نوح سے غیر معمولی اپنائیت کا اظہار ہے یہ نہیں فرمایا کہ نوح کو جھٹلا دیا بلکہ فرمایا فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلا دیا.وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُ جِرَ اور کہا یہ تو پاگل ہے اسے جنون کے دورے پڑتے ہیں.واز دجر اور ہمارے خداؤں کی طرف سے پھٹکارا گیا ہے.ہمارے خداؤں نے اس پر پھٹکار ڈالی ہے چنانچہ حضرت نوح نے اس موقعہ پر یہ عرض کیا انِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ اے میرے خدا میں مغلوب ہو گیا.پس تو میری نصرت فرما.اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 531 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء (القمر:۱۲) ہم نے اس کے جواب میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جن سے مسلسل برسنے والا پانی نازل ہوا.وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونَا ( القمر :۱۳) اور ہم نے زمین سے بھی چشمے پھوڑ دیئے.فَالْتَقَى الْمَاءِ پس یہ دونوں پانی یعنی آسمان کا پانی اور زمین کا پانی اکٹھے ہو گئے عَلَى أَمْرِ قَدْ قُدِرَ ایک ایسی بات پر جس کا فیصلہ کیا جاچکا تھا وَحَمَلْنَهُ عَلَى ذَاتِ الْوَاجِ وَدُسُرٍ اور ہم نے اسے ایک ایسی چیز پر اٹھالیا یعنی سیلاب میں ایک ایسی چیز کے ذریعہ اسے بچایا جو پھٹیوں اور میخوں سے بنائی گئی تھی تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا (القمر: ۱۵) وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی.جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفر یہ جزا ہے اس شخص کی جس کا انکار کیا گیا ہے.اس دعا کا جماعت احمدیہ کے ساتھ خصوصیت سے اس لئے رشتہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بھی نوح کے زمانے کی باتیں کی گئیں اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہاما ایک سے زائد مرتبہ فرمایا کہ تجھ پر بھی نوح جیسا زمانہ آئے گا اور ہم ویسے ہی تیری مدد فرمائیں گے چنانچہ انہی الہامات کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی نوح لکھی ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب کوئی احمدی بچہ ایسا نہیں مل سکتا تھا جس نے کشتی نوح کا مطالعہ نہ کیا ہولیکن آج میں سمجھتا ہوں کہ ہماری بہت سی نسلیں ایسی ہیں بہت سے ممالک میں احمدی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے شاید نام تو سن رکھا ہو لیکن انہیں اس اہم کتاب کے مطالعہ کی توفیق نہ ملی ہو.یہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ کشتی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا کی گئی ہے یہ پھٹوں اور میخوں سے نہیں بنائی گئی ہے بلکہ ایک تعلیم سے بنائی گئی ہے.پس آج کے زمانہ میں جو ہلاکتوں کا زمانہ ہے اور طرح طرح کے عذاب امڈ آنے پر تیار بیٹھے ہیں اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ کشتی نوح کے مضمون سے خوب اچھی طرح واقف ہو اور معلوم کرے کہ کس کشتی کے سہارے اس نے بچنا ہے ورنہ جو بھی اس کشتی میں سوار نہیں ہو گا اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی.دوستم کی ہلاکتیں انسان کو درپیش ہیں ایک روحانی ہلاکت اور ایک مادی ہلاکت اور جیسا کہ ظاہر ہورہا ہے اس زمانہ میں یہ مضمون لفظاً لفظاً ظاہری طور پر نہیں دہرایا جائے گا لیکن معنوی طور پر دہرایا جائے گا.پس آسمان سے بارش کا برسنا اور زمین کا پانی اگلنا یہ دو معنی اس طرح آج کے زمانے پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 532 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء اطلاق پاتے ہیں کہ روحانی ہلاکت ہے جو آسمان سے انسان کو کاٹ رہی ہے اور دنیاوی ہلاکت ہے جو طرح طرح کے عذابوں کے ذریعے جو دنیا کی بدکاریوں کے نتیجے میں نازل ہورہے ہیں انسان کے جسمانی خاتمہ کا بھی سامان پیدا کیا جارہا ہے.پس دونوں طرح کی ہلاکتیں دنیا کو درپیش ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم کشتی نوح میں دی ہے اگر چہ اس پر سو فیصد عمل کرنا بہت مشکل کام ہے اور شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہو جو یہ کہہ سکے کہ میں نے اس ساری تعلیم کو اچھی طرح سمجھ لیا اور میں کامل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں اس پر عمل پیرا ہوں لیکن اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہی درحقیقت نجات کا موجب ہے.بعض احمدی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم جب کشتی نوح کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو اس کشتی میں نہیں پاتے ہم کیا کریں؟ ہمیں تو اس کتاب کے مطالعہ سے خوف آتا ہے کیونکہ بعض ایسی ایسی بار یک باتیں ہیں اس میں بیان فرمائی گئی ہیں کہ اگر تم ایسا کرو گے تب بھی میری جماعت میں سے نہیں.اگر تم ویسا کرو گے تب بھی میری جماعت میں سے نہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں امن کے پیغام کے بجائے ہمارے دل سے ایک خوف کی آواز اٹھتی ہے اور ہمیں ڈراتی ہے کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو اس کشتی میں سوار ہیں.یہ واقعہ ہے کہ ایسے خیالات صرف ایک دو کے دل میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ شخص جو ضمیر کی آواز پر کان دھرتا ہے اس کے دل میں ایسے ہی خیالات پیدا ہوں گے.میں اپنے تجربے سے بھی اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بعض دفعہ انسان کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ ابھی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا اہل نہیں ہوا لیکن دوسری طرف ایک اور پہلو بھی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنا خدا کی رضا کے بغیر ممکن نہیں ہے اور دعا ہی سے سہارا ملتا ہے اور جو شخص دعا کے ذریعہ کشتی نوح میں داخل ہونے کی التجا کرتار ہے اس کا ہر قدم اس امن کی کشتی کی طرف اٹھتار ہے گا اور اس دوران جس قدم پر بھی اس کو موت آئے وہ امن کی حالت میں مرے گا.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے خوب اچھی طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے.ایک تمثیل میں آپ نے یہ بیان فرمایا کہ ایک شخص جس نے بہت گناہ کئے تھے اتنے گناہ کئے تھے اتنے گناہ کئے تھے کہ کوئی دنیا کا ایسا گناہ تصور میں نہیں آسکتا تھا جو اس سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 533 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء سرزد نہ ہوا ہو.وہ مختلف بزرگوں اور مختلف علماء کے دربار میں حاضر ہوتا رہا اور ان کے سامنے اپنی حالت زار بیان کر کے یہ کہتا رہا کہ اب میرا دل چاہتا ہے کہ میں تو بہ کرلوں کیا میرے لئے بھی کوئی تو بہ کا دروازہ کھلا ہے.ہر عالم ، ہر ظاہری بزرگ نے اس کو یہی جواب دیا کہ تمہارے لئے تو بہ کا کوئی دروازہ نہیں کھلا تم نے اپنے اوپر تو بہ کا ہر دروازہ بند کر لیا ہے اس لئے تمہاری بخشش کا کوئی امکان باقی نہیں رہا.لیکن بالآخر اس کو کسی ایک بزرگ نے یہ مشورہ دیا کہ تم فلاں شہر کی طرف چلے جاؤ وہ نیک لوگوں کا شہر ہے.صالحین کا شہر ہے اس شہر میں جابسو اور بد شہروں کو چھوڑ دو تو ممکن ہے تمہاری نجات کا کوئی سامان ہو.اس نیت کے ساتھ وہ اس شہر کی طرف چل پڑا لیکن راستے میں بیماری نے آلیا اور ایسی حالت ہوگئی کہ اس کے لئے چلنا ناممکن ہو گیا.چنانچہ اس حالت میں وہ لیٹے ہوئے کہنیوں کے بل گھٹتا ہوا اس شہر کی طرف آگے بڑھنے لگا اور اسی حالت میں اس کو موت آگئی.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے خدا کے حضور حاضر ہوئے اور اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ ہم اسے کن لوگوں میں شمار کریں.اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ یہ بندہ تو بہ کی نیت کر چکا تھا اور توبہ کا ایسا سماں تھا کہ جب اس کے بدن نے جواب دے دیا اور کوئی طاقت باقی نہ رہی تب بھی آخر دم تک گھسٹتے ہوئے نیکوں کے شہر کی طرف حرکت کرتا رہا.پس اس کے ساتھ یہ معاملہ کرو.فاصلہ ناپواگر نیکوں کی شہر کی طرف فاصلہ کم نکلے تو اسے بخشے ہوئے لوگوں میں شمار کرو اگر بدلوگوں کے شہر کا فاصلہ کم نکلے یہ سمجھو کہ اس کی بخشش کا سامان نہیں ہوا تمثیل میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ فرشتے جب فاصلے ناپنے لگے تو اللہ تعالیٰ بد شہروں کی طرف کا فاصلہ لمبا کرتا چلا گیا اور نیک شہر کی طرف زمین کو سکیڑ تا رہا یہاں تک کہ آخری نتیجہ یہ نکلا کہ فرشتوں نے دیکھا کہ وہ شہر اس کے نزدیک تر ہے جس شہر میں یہ تو بہ کی نیت سے جا رہا تھا.(حوالہ حدیث.......پس ہمارے خدا کا اپنے بندوں سے ایسا معاملہ ہے.وہ غَفُورٌ رَّحِیم ہے اس سے مایوسی کفر اور گناہ ہے.پس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارا قدم ہجرت میں نیکوں کی طرف ہو دراصل اس تمثیل کا تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی اس مشہور حدیث سے ہے کہ انما الاعمال بالنیات ہر شخص کا عمل اس کی نیتوں کے مطابق طے پائے گا اگر اس کی ہجرت خدا کی طرف ہوگی تو ایسا شخص خدا سے اجر پانے والا ہوگا اگر اس کی ہجرت کسی عورت کی طرف یا مال کی طرف یا کسی دنیاوی غرض کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 534 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء طرف ہو گی خواہ کہنے میں وہ کچھ کہتا ر ہے اس کو وہی اجر ملے گا جو اس کی نیت ہے.پس نیتوں کا بہت گہرا تعلق سچی تو بہ اور آخری نجات سے ہے.اس پہلو سے جب آپ وہ دعائیں کریں جو حضرت نوح کی دعا ئیں تھیں تو نوح کی کشتی میں بیٹھنے کا تصور بھی تو ساتھ پیدا ہونا چاہئے ورنہ یہ دعا ئیں غیر مقبول ہوں گی اور بے معنی ہو جائیں گی.آپ دعا تو کریں گے کہ اے خدا! نوح نے جس طرح تجھے پکارا تھا ہم تجھے پکارتے ہیں ہم بھی مغلوب ہوگئے ہیں، ہم بھی بے بس ہو چکے ہیں ، ہماری قوم بھی اپنے ظلموں سے ہم پر غلبہ پاچکی ہے.ہماری نصرت فرما اور اس کے باوجود ہمارا قدم اس دور کے نوح کی بستی کی طرف اٹھنے والا نہ ہو یعنی نیک لوگوں کی طرف ہجرت کا نہ ہو بلکہ بد شہروں کی طرف ہجرت کا قدم ہو تو یہ دعائیں بالکل بے کار جائیں گی.ان کے اندر کوئی اثر اور کوئی قوت نہیں ہوگی.پس دعاؤں کے مضمون کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان جیسا بننے کی کوشش کریں جن کی وہ دعائیں ہیں.حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی گریہ وزاری کے ساتھ پیغام پہنچانے میں حد کر دی تھی کوئی ایک معمولی سا پہلو بھی باقی نہ چھوڑا جس کے ذریعے آپ قوم تک نجات کا پیغام پہنچا سکتے تھے اور آپ نے نہ پہنچایا ہو اس کا ذکر بعد میں ایک دعا میں آئے گا.سر دست میں آپ کو اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ کشتی نوح کا مطالعہ کیا کریں اور آج کا نوح وہی نوح ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے کو عطا ہوا ہے.آج کے نوح کی کشتی وہ کشتی ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیمات میں ملتا ہے.پس اس کشتی میں بیٹھنے کی کوشش کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی غفلتوں کی بخشش مانگتے رہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہمارا قدم اس طرف بڑھتارہا تو خواہ ہم اس تک پہنچ سکیں یا نہ پہنچ سکیں خدا کی مغفرت ہمیں اپنی جھولی میں اٹھالے گی اور خود اس کشتی تک پہنچا دے گی.قرآن کریم میں ایک اور دعا کا ذکر ہے.جس کا تعلق مومنوں کے باہمی تعلقات سے ہے.انصار کی تعریف بیان فرمائی گئی کہ وہ کیسے اچھے لوگ تھے کس طرح انہوں نے اپنے گھر مہاجرین کے لئے کھول دیئے اور اس کے بعد مومنوں کی ایک دعا یہ سکھائی گئی.وَالَّذِينَ جَاءُ وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ (الحشر (1) کہ وہ لوگ جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 535 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء مہاجرین اور انصار کے بعد آئے وہ ان کے ذکر خیر سے متاثر ہونے کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے وَالَّذِينَ جَاءُ وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِإِخْوَانِنَا کہ اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وہ لوگ جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے.وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوْبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا اور ہمارے دل میں کسی مومن کے لئے کبھی اور نفرت نہ پیدا ہونے دے.رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمُ اے ہمارے رب تو تو بہت ہی مہربان اور بہت ہی رحم سے پیش آنے والا ہے.اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین جو خدا کی نظر میں بہت بڑے بڑے مرتبے پاگئے آخری دور میں کچھ ایسے اختلافات میں ملوث ہوئے کہ جن کے نتیجہ میں مؤرخ کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہو گیا کہ کسی نے کیا غلطی کی تھی اور کون کس حد تک حق پر تھا.ان عبث بحثوں میں مبتلا ہوکر مسلمان دوحصوں میں بٹ گئے.ایک وہ جو شیعان علی کہلاتے ہیں ایک وہ جو اہل سنت اور چودہ سوسال ہونے کو آئے آج تک یہ ان بحثوں سے باز نہیں آرہے کہ کون کس سے بہتر تھا کس نے کیا گناہ کیا؟ کس سے کیا غفلتیں سرزد ہوئیں.مجھ سے ایک مرتبہ ایک شیعہ دوست نے سوال کیا کہ بتائیے حضرت علی درست تھے یا حضرت عائشہ درست تھیں.میں نے کہا جس نے بتانا ہے وہ تو اس کے دربار میں حاضر ہو چکے.میں کون ہوں بتانے والا اور آپ کون ہیں پوچھنے والے جس خدا نے فیصلے فرمانے ہیں اس کے دربار میں خدا کے یہ نیک بندے حاضر ہو چکے ہیں.اپنا سب کچھ اس کو پیش کر بیٹھے ہیں اس لئے ان لغو بحثوں میں مبتلا نہ ہوں.اس آیت کریمہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام باقر کے سامنے جو ایک بہت بزرگ شیعہ امام تھے، اولین ائمہ میں سے تھے کسی شیعہ نے آنحضرت ﷺ کے بعض خلفاء اور صحابہ کے متعلق زبان طعن دراز کی.غیرت سے آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت ہی جلال کے ساتھ اس آیت کی تلاوت فرمائی.وَالَّذِينَ جَاءُ وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ کہ وہ لوگ جو ان بزرگوں کے بعد آنے والے ہیں.وہ تو صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا ہمیں بھی بخش دے اور ان کو بھی بخش دے.اگر ان سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تو ہماری التجا یہ ہے کہ ان کو معاف فرمادے اور ہم تو ہیں ہی گناہ گار بندے ہمیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 536 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء بھی ضرور معاف فرما.یہ وہ بھائی ہیں جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے تھے.اور ان کے پہلے ایمان لانے کے نتیجہ میں ہم نے یہ فیض پایا ہے اس لئے ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ان کے متعلق کسی قسم کا اور کوئی کلمہ کہیں سوائے اس کے کہ تجھ سے ان کے لئے بخشش کے طالب ہوں.وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا اور ہمارے دل ایسے بنا دے کہ ان میں کسی ایمان لانے والے کے لئے بھی کسی قسم کی کوئی کبھی نہ رہے، کوئی بیہودہ خیالات پیدا نہ ہوں.رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ اے خدا تو تو بہت ہی مہربان ہے، ہمیں بھی مہربان بنا دے تو تو بار بار رحم کرنے والا ہے ہمیں بھی بار بار رحم کرنے والا بنادے.پس مسلمان سوسائٹی کے لئے یہ دعا بہت ہی قیمتی دعا ہے ایسی جماعتیں جہاں بعض دفعہ اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ نفرتوں میں بدل جاتے ہیں اور وہ جماعتیں پھٹ جاتی ہیں.خصوصیت کے ساتھ ان کے لئے یہ دعا بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اور شیعوں اور سنیوں سے گفتگو کے دوران بھی آپ کے پیش نظر یہ دعا رہنی چاہئے اور یہی مسلک ہے جو سب سے اچھا مسلک ہے اس میں عاجزی اور انکسار پایا جاتا ہے اور معاملات کو خَيْرُ الفتِحِينَ خدا کے سپرد کر دیا جاتا ہے یہ دعا سورۃ الحشر آیت اامیں ہے.ایک دعا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اور ان لوگوں کی دعا ہے جو آپ کے ساتھ تھے اور آپ کے اسوہ سے فیض پانے والے تھے قرآن کریم فرماتا ہے.وہ لوگ مشرک نہیں تھے اور ہر قسم کے شرک سے بیزار تھے اور خالصہ للہ وقف ہو چکے تھے.وہ خدا کے حضور یہ عرض کیا کرتے تھے.رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَ إِلَيْكَ أَنَبْنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ (الممتحنہ:۵) اے خدا ہمارا تمام تر توکل تجھ پر ہے وَإِلَيْكَ اَنَبْنَا اور ہم تیری ہی طرف جھکنے والے ہیں وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ اور تیری ہی طرف ہر راستہ جاتا ہے.تیری طرف جانے کے سوا ہم اور کوئی راہ نہیں پاتے.اِلَيْكَ الْمَصِيرُ ایک بہت ہی خوبصورت بیان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اور کسی طرف جا نہیں سکتے لازماً بالآخر وہاں پہنچنا ہے.جیسے کہا جاتا ہے.All Roads lead to Rome یہ تو ایک فرضی محاورہ ہے کہاں ساری سڑکیں روم کی طرف جاتی ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کی طرف ساری سڑکیں جاتی ہیں.مومن کی بھی اور کافر کی بھی بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو وہ یہ عرض کرتے ہیں عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَ إِلَيْكَ أَنَبْنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ اس دعا میں ایک بہت ہی گہرا پیغام ہے وہ یہ ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 537 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء کہ خدا کی طرف تو تم نے بہر حال لوٹ کر آنا ہے خواہ کافر بنو یا مومن بنو، نیک ہو یا بد ہو آخر وہاں جائے بغیر چارہ نہیں ہے.لیکن وہ لوگ جو از خود پہلے خدا کی طرف حرکت کرتے ہیں وہی ہیں جو مقبول ہوتے ہیں وہی ہیں جو اس کو پالیتے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے غلاموں نے یہ دعا کی اے خدا ہمارا تجھ پر تو کل ہے اور ہم تیری ہی طرف آرہے ہیں اور جانتے ہیں کہ بالآخر تیری ہی طرف جانا ہے اسلئے جو لوگ طوعی طور پر خدا کیلئے سفر اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور طاقت بخشتا ہے کہ بالآخر وہ اس کو پالیں.پھر یہ دعا ہے رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (المتن: 1) اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کے لئے فتنہ نہ بنا جنہوں نے انکار کر دیا.فتنہ سے دو باتیں مراد ہیں.ایک یہ کہ ہم کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنیں ہم ایمان لے آئے ہم تجھ پر تو کل کرتے ہیں ہم تیری طرف آتے ہیں لیکن راہ میں ایسی ٹھوکریں نہ کھائیں کہ کوئی اور دیکھنے والا بھی ٹھوکر کھا جائے اور ہماری وجہ سے کسی ابتلا میں پڑ کر وہ راہ راست کو کھودے.یہ ایک بہت ہی اہم دعا ہے ہر انسان کو اپنے اعمال کی اس طرح نگرانی بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے کہ میری وجہ سے کوئی انسان ٹھوکر میں مبتلا نہ ہو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مرتبہ اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ ایک ایسا شخص جو کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے بہتر تھا کہ اس کی ماں نے اسے جنم نہ دیا ہوتا کیونکہ وہ شخص بھی پکڑا جاتا ہے اس لئے دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہنا چاہئے.امریکہ کے اس سفر کے دوران بارہا مجھ سے بعض دوستوں نے یہ ذکر کیا کہ پاکستان سے آنے والے اس طرح کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں اور ہمارے لئے وہ ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.ان کو تو میں یہ سمجھاتا ہوں کہ اسلام کسی ایک ملک کا اسلام نہیں ہے.اسلام تو تمام دنیا کا اسلام ہے.آپ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو اس لئے نہیں مانا کہ آپ کا تعلق ہندوستان سے تھا آپ نے تو اس لئے ان کو مانا ہے کہ آپ کا تعلق حضرت محمد ﷺ سے تھا.ایک ایسے رسول سے تعلق تھا جس کے متعلق قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ.لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ ( النور : ۳۶) ایسا نور ہے جو نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا ہے دونوں میں سانجھا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 538 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء ہے.(الانبیاء: ۱۰۸) وہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے تو میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ آپ تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کو پانے کے دعویدار ہیں.پھر یہ جغرافیائی تفریقیں کیسی ؟ پھر یہ خیال کیسا کہ فلاں شخص کو ہم سے بہتر ہونا چاہئے تھا کیوں کسی کو ہم سے بہتر ہونا چاہیئے ؟ وہی بہتر ہے جو خدا کے نزدیک بہتر ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات : ۱۴) رنگ ونسل کی تمیز ہمیشہ کے لئے مٹادی گئی ہے.تم میں سے وہی معزز ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے.اس لئے میں ان کو یہی کہتا رہا کہ آپ ان لوگوں پر رحم کریں جو پاکستان سے آتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سفیر بن کر آئے ہیں لیکن وہ احمدیت کی بجائے بعض اور بدیوں کے سفیر بن کر جاتے ہیں.آپ محمد مصطفی ﷺ کے سفیر بن کر ان کو بچانے کی کوشش کریں نہ کہ ان کی وجہ سے خود ٹھوکر کھا جائیں.پس جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ٹھو کر کھاتے ہیں ان کا یہ عذر قبول نہیں ہوگا اور قرآن کریم یہ بات کھول کر بیان فرما چکا ہے کہ جب قیامت کے دن بعض لوگ جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے تو وہ یہ عذر پیش کریں گے کہ اے خدا ان بڑے لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا ان کی وجہ سے ہم نے ٹھو کر کھائی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم دونوں کیلئے جہنم ہے ٹھوکر میں مبتلا کرنے والوں کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جنہوں نے بعض لوگوں کے بدنمونے سے اثر قبول کر کے خود اپنی گمراہی کے سامان کئے.پس قرآن کریم کی تعلیم دوطرفہ ہے اور مکمل ہے اور متوازن ہے لیکن یہ بیان کرنے کے باوجود ان احمدیوں کی ذمہ داری کو میں کم نہیں سمجھتا جنہوں نے لمبے عرصے تک پاکستان یا ہندوستان میں تربیت پائی.بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو صحابہ کی اولاد ہیں ، بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے صحابہ کو خود دیکھا ہوا ہے اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے صحابہ کو دیکھے ہوئے لوگوں سے تربیت پائی ہے.وہ جب باقی دنیا میں جاتے ہیں تو طبعا انسانی فطرت ہے خواہ یہ دلیل مضبوط ہو یا نہ ہو کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ احمدیت کے سفیر آرہے ہیں اور ان کے نمونے پر چل کر ہمیں نجات ملے گی جب وہ غلط نمونے دیکھتے ہیں تو لازماً ان کو صدمہ پہنچتا ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انعام یافتہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو تقویت دی جاتی ہے وہ ٹھو کر نہیں کھاتے لیکن کمزور پھر بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں اس لئے یہ دعا بہت ہی ضروری ہے.جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے صحابہ نے کی کہ ربنا لا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 539 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء تَجْعَلُنَا فِتْنَةٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا اے خدا ہمیں ان لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنا جنہوں نے کفر کیا یہاں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا کہہ کر اس بات کو کھول دیا کہ وہ لوگ بری الذمہ نہیں ہیں جو ٹھو کر کھا جاتے ہیں کیونکہ انکار ان کی فطرت میں ہے تبھی وہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں.پہلے کفر کی حالت ان کے اندر موجود ہے اگر وہ نہ ہوتی تو وہ ٹھو کر نہ کھاتے لیکن اس کے باوجود ہم اس بات میں ملوث نہیں ہونا چاہتے.ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری وجہ سے کوئی ظالم ٹھوکر کھا جائے.دوسرا مضمون فتنہ کا یہ ہے کہ دشمن کو ہمیں عذاب میں مبتلا کرنے کا موقعہ عطانہ فرما.قرآن کریم ان معنوں میں بھی لفظ فتنہ استعمال فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا (البروج: 11) وہ لوگ جنہوں نے مومنوں کو فتنے میں ڈالا اور پھر تو بہ نہیں کی.پس فتنہ دوطرفہ ہے مومن کی طرف سے فتنہ یہ ہے کہ کوئی شخص ٹھو کر کھا جائے اور خدا کی راہ سے ہٹ جائے.کا فرکا فتنہ یہ ہے کہ زبر دستی عذاب میں مبتلا کر کے کسی کو خدا کی راہ سے ہٹائے.نتیجہ فتنے کا ایک ہی ہے اگر چہ مختلف سمتوں سے مختلف شکلوں میں فتنہ ظاہر ہوتا ہے.مومن ظلم اور تعدی کر کے فتنے کا موجب نہیں بنتا بلکہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے یا غلطیوں کی وجہ سے فتنے کا موجب بن جاتا ہے.نتیجہ یہی ہے کہ کوئی دیکھنے والا خدا کی راہ سے دور ہو جاتا ہے.کافر اس قسم کے فتنے میں مومن کو مبتلا کرتا ہے کہ جسمانی عذاب دے کر اس کو خدا کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے.پس آج کے دور میں یہ دعا دنیا کے ہر حصے میں برابر اطلاق پارہی ہے کچھ ایسی جگہیں ہیں جہاں غیروں کو احمدیوں کی طرف سے فتنہ در پیش ہے ان کی بد اعمالیوں یا کمزوریوں کی وجہ سے غیر فتنے میں مبتلا ہو سکتے ہیں.بعض ایسے ملک ہیں جہاں احمدیوں کو غیروں کی طرف سے اذیت اور عذاب کا فتنہ در پیش ہے پس دونوں لحاظ سے یہ دعا ایک عالمگیر دعا ہے اور ہر جگہ اپنے اپنے مضمون کے مطابق اثر دکھائے گی پس میں چاہتا ہوں کہ احمدی خصوصیت کے ساتھ اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں.پھر یہ عرض کی گئی.وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا اے خدا ہمیں بخش دے إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یقینا تو بہت ہی عزت والی طاقت رکھتا ہے.لفظ الْعَزِیزُ سمجھنے کے لائق ہے اس میں طاقت بھی ہے اور عزت بھی ہے جبر نہیں ہے بلکہ ایسی طاقت ہے جس کے نتیجے میں طاقتور معزز ہوتا ہے اور طاقت کا بے محل استعمال نہیں کرتا اور لازما غالب آتا ہے پس الْعَزِيزُ کا ترجمہ محض غالب یا طاقت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 540 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء والا کرنا درست نہیں بلکہ یہ معنی ہے کہ اے وہ طاقت ور ہستی جس کی طاقت میں عزت واحترام شامل ہے اور الْحَكِيمُ تو حکمتوں والا خدا ہے ہمیں بھی عزت والی طاقت عطا فرما اور ہمیں بھی حکمتیں عطا فرما.ایک دعا ہے جس کا ذکر توبۃ النصوح کرنے والوں کے ذکر کے بعد آتا ہے.یہ فرمایا گیا کہ وہ لوگ جو خدا کے حضور سچی توبہ کرتے ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ ایک نور عطا فرماتا ہے اور وہ نور ان کے آگے بھی بھاگتا ہے ان کے پیچھے بھی ہوتا ہے اور ان کو ہر طرف سے گھیر لیتا ہے فرمایا: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ يَوْمَ لَا يُخْزِى اللهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُوْرُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو سچی توبہ کرو اور کامل تو بہ کر ممکن ہے کہ خدا اس کے نتیجہ میں تمہاری بدیاں تم سے دور فرمادے وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ اور تمہیں (التحریم:9) ایسے باغات میں داخل فرمائے جن میں دائگی نہریں بہتی ہیں.يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِی یا درکھو ایک ایسا دن آنے والا ہے جبکہ خدا کا نبی ذلیل نہیں کیا جائے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر عزت بخشی جائے گی کیونکہ دنیا اس نبی کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ذلیل نہیں کیا جائے گا.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر کوشش کو ناکام و نا مراد بنادیا جائے گا اور ہر عزت اس مقدس نبی کے حصے میں آئے گی فرمایا لَا يُخْزِى الله النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوْا مَعَهُ اور یہی سلوک ان لوگوں سے بھی کیا جائے گا جو اس کے ساتھ ایمان لانے والے ہیں نُورُهُم يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِیهِمُ ان کا نور ان کے سامنے ان کے آگے آگے دوڑے گا.وَبِأَيْمَانِهِمْ اور ان کے داہنے ہاتھ بھی يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا وہ یہ عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لئے کامل فرمادے اور ہمیں بخش دے إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے.یہاں نور کے سامنے بھاگنے کا اور دائیں طرف بھاگنے کا ذکر ہے.تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 541 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء کہ کیا ان کے بائیں طرف نور نہیں ہوگا اور ان کے پیچھے نور نہیں ہوگا یہ اس محاورے کا مطلب نہیں.سامنے بھاگنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے رستے روشن ہوں گے.انہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور دائیں طرف کے نور کا مطلب یہ ہے کہ ان کا دین روشن ہوگا اور دین کے معاملات میں غلطیوں سے مبرا ہوں گے کیونکہ سامنے تو انسان رستہ دیکھنے کے لئے نور کا محتاج ہوا کرتا ہے.آپ ٹارچ لے کر جب اندھیرے میں چلتے ہیں تو ٹارچ کا منہ پیچھے کی طرف کر کے تو آگے نہیں بڑھتے.پس اس میں کیفیت بیان ہو گئی جس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ترقی کرنے والے لوگ ہوں گے اور جو محاورہ ہے نُورُهُمْ يَسْعَی بَيْنَ أَيْدِيهِمْ اس نے ایک بہت ہی خوبصورت منظر کھینچا ہے حضرت محمد مصطفے ملے اور آپ کے غلاموں کی تیز رفتاری کا.جتنا تیز یہ آگے قدم بڑھائیں گے اتنا ہی نور تیزی سے آگے آگے بڑھے گا جس طرح بعض دفعہ ایک پائلٹ اس لئے زیادہ تیز آگے بڑھتا ہے کہ پیچھے آنے والا تیز رفتار ہے ویسا ہی نقشہ نور کا کھینچا گیا ہے کہ وہ ایسی تیزی کے ساتھ خدا کی جانب قدم بڑھانے والے ہیں کہ نور کو جلدی ہوگی کہ میں کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں اور وہ ان کے رستے روشن کرتا چلا جائے گا اور بِايْمَانِهِمْ کا مطلب ہے کہ ان کا دایاں پہلو یعنی دین پوری طرح روشن ہوگا یعنی دنیا میں اگر وہ غلطیاں بھی کر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں بعض باتوں میں دنیا کے لحاظ سے وہ لاعلم بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس سے ان کی روحانی شخصیت پر کوئی بداثر نہیں پڑے گا اور پھر وہ یہ دعا کریں گے رَبِّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا اے خدا ہمارا نور کامل فرما دے.جس کا مطلب یہ ہے کہ نور کسی ایسی حالت کا نام نہیں ہے جہاں روشنی مکمل ہو جائے.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا روشنی درجہ بدرجہ بڑھتی رہتی ہے اور درجہ بدرجہ کم بھی ہوتی رہتی ہے یہ روشنی جس میں ہم اب بیٹھے ہوئے ہیں ہم سمجھ رہے ہیں کہ بہت ہی اچھی روشنی ہے دور تک ہر چیز ہمیں صاف دکھائی دے رہی ہے لیکن باہر کی دھوپ میں نکل کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ روشنی کچھ اور ہی روشنی ہے اور اسی زمانے میں اسی دن آپ کسی سخت گرم ملک کی دھوپ میں جا کر نکل کر دیکھیں تو اتنی تیز روشنی ہوگی کہ آنکھیں نہیں کھلیں گی تو روشنی اپنی کیفیت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے.رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا کا مطلب یہ ہے کہ ہمار انور بڑھاتا چلا جادوسرے نُورَنا میں ایک اور اشارہ فرما دیا گیا کہ ہر شخص کے اندر اللہ تعالیٰ نے اندرونی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں اور دراصل وہی ہیں جن سے وہ نور پاتا ہے.آنکھوں کا تعلق نور سے ہے جس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 542 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء کی آنکھیں زیادہ روشن ہوں اتنا ہی زیادہ وہ بیرونی نور سے استفادہ کرسکتی ہیں اگر آنکھوں میں روشنائی نہ ہو تو خواہ ہزار سورج چمک رہے ہوں ایسے شخص کو کچھ دکھائی نہیں دے گا.پس اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھا کر بہت عظیم احسان ہم پر فرماتا ہے اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ تم میرے نور کے اگر محتاج ہو اور واقعی مجھ سے مزید نور چاہتے ہو تو اپنے باطن کا نور بڑھاؤ اور خدا سے یہ دعا کرو کہ اے خدا ہمارا نور کامل فرما دے.ہمارے اندر بہت سی ایسی کمزوریاں ہیں کہ ہم تیرے نور سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتے.ان کمزوریوں کو دور فرما تارہ تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ نور کے اہل بن سکیں.وَاغْفِرْ لَنَا کا مضمون ان معنوں میں اس مضمون سے تعلق رکھتا ہے کہ ہماری صلاحیتیں جو تو نے ہمیں بخشی ہیں ہو سکتا ہے ہم نے ان کا غلط استعمال کیا ہو اور اس وجہ سے ان کے اندر پوری طرح دیکھنے کی طاقت نہ رہی ہو، اس لئے ہم بخشش کے طالب ہیں.اگر کچھ گناہ سرزد ہوئے ہیں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو تو درگزر فرما اور بخش دے تا کہ ہماری خوابیدہ صلاحیتیں جاگ اٹھیں ہماری مرتی ہوئی صلاحیتوں میں نئی زندگی پیدا ہو جائے اِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو ہر چیز پر قادر ہے جب چاہے یہ فیصلہ کرے کہ کس کی مرتی ہوئی صلاحیتیں زندہ ہوں تو اس بات پر قادر ہے کہ انہیں زندہ کر سکے لیکن دنیا میں ہم ہر چیز پر قادر نہیں ہیں.اب نور کی بات ہورہی ہے.ڈاکٹر کے پاس اگر کوئی شخص آنکھیں دکھانے کے لئے جائے اور ڈاکٹر یہ معلوم کرے کہ اس کا اندرونی نور مر چکا ہے یعنی وہ رگ یا Nurve جسے آپٹیکل Nurve کہا جاتا ہے اس میں نور نہیں رہا تو ڈاکٹر ہمیشہ عاجزی سے یہ کہے گا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا ، ہمارے بس کی بات نہیں اور یہ بتائے گا کہ جو رگیں مر جائیں ، جو Nurve مرچکی ہوں ان کو کوئی انسان دو بار زندہ نہیں کر سکتا تو اِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ نے ایک نئی امید پیدا کر دی.ہمیں یہ بتایا کہ دنیا کے تجربے میں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ اندرونی صلاحیتیں مرچکی ہوں تو دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتیں مگر اے خدا تو تو قادر ہے تو چاہے تو مرے ہوؤں کو بھی زندہ کر سکتا ہے.پس ہم تجھ سے ہر چیز مانگتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ تو ہر چیز عطا کرنے کی قدرت رکھتا ہے.ایک دعا فرعون کی بیوی کی دعا قرآن کریم نے محفوظ فرمائی ہے، وہ یہ ہے: ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي
خطبات طاہر جلد ۱۰ 543 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء الْجَنَّةِ وَنَجِّنِى مِنْ فِرْعَوْنَ وَنَجِّنِى مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ ) (التحريم : ۱۲) وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا اور اللہ تعالیٰ نے مومن بندوں کے لئے ایک یہ بھی مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ بعض پہلوؤں سے فرعون کی بیوی کی طرح ہوتے ہیں.کس پہلو سے؟ اس پہلو سے کہ جب اس نے اپنے آپ کو مجبور اور مغلوب دیکھ کر اور ایک فاسق و فاجر بادشاہ کے ہاتھوں بے بس پاتے ہوئے یہ عرض کیا کہ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا اے خدا مجھے تو اپنے پاس گھر عطا کر.یہاں فرعون کے گھر میں بسنے والی ایک مجبور عورت ہے اس کا اور کوئی اپنا گھر نہیں.کتنی دردناک دعا ہے.اس نے اپنے سارے دکھوں کا تصور کر کے کہ میں خدا کی عبادت کرنا چاہتی ہوں میں نیک بنا چاہتی ہوں مگر ایک ظالم کے گھر میں ڈالی گئی ہوں جو ایسا ظالم ہے جو بڑی عظیم الشان سلطنت پر حکومت کر رہا ہے اور ساری قوم اس سے ڈر رہی ہے اس کے گھر سے نکل کر جاؤں بھی تو کہاں جاؤں اس لئے دنیا کا کوئی گھر مجھے پناہ نہیں دے سکتا یہ مضمون ہے.عرض کرتی ہے.رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ اے خدا مجھے تو اپنے پاس جنت میں گھر بنادے.وَنَجِنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ مجھے فرعون سے بھی نجات بخش اور اس کی بداعمالیوں سے بھی نجات بخش.مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات عطا فرما.پس مومنوں پر بھی ایسی کیفیت آتی ہے کہ وہ بے بس ہو جاتے ہیں ایک ایسے ملک میں بستے ہیں جہاں کا بادشاہ ظالم ہے جہاں کی قوم ظالم ہے وہ وہاں سے نکل کر کہیں جا نہیں سکتے جو نکل کر جاسکتے ہیں وہ تو ہجرت کر جاتے ہیں مگر ایسے بھی کمزور ہیں جیسے فرعون کی بیوی ہے وہ نہ گھر سے نکل سکتی ہے نہ ملک سے نکل سکتی ہے.ایسے بے بس بھی ہیں ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے دیکھیں کیسے نجات کے سامان مہیا فرما دئیے.قرآن کریم میں ایک ایسی دردناک دعا لکھ دی جس کے نتیجہ میں ایسے بے بس لوگ بھی فیض پا جاتے ہیں اور براہ راست خدا سے نجات کی راہیں مانگتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ اس دنیا کے گھر کی کیا بات ہے ہمیں جنت میں اپنے حضور گھر عطا فرما.حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک اور دعا ہے جو بہت ہی دردناک ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ نقشہ کھینچے گئے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے کیا کیا کچھ کیا بعض لوگ پیغام پہنچانے کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ پیغام کو قبول نہیں کیا گیا یا ان سے حقارت کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 544 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء سلوک کیا گیا تو بددعا میں بے حد بے صبری کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اچھا اس نے ہماری بات نہیں مانی رد کر دی ہے اب دیکھو خدا کا عذاب اسے پکڑے گا.یہ بالکل جاہلانہ اور بچگانہ باتیں ہیں اور غیر مومنانہ باتیں ہیں خدا کے انبیاء کی طرز اس سے بالکل مختلف ہے.وہ پیغام رسانی کی حد کر دیتے ہیں اس طرح پیغام پہنچاتے ہیں کہ عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور پھر بظاہر نا کام ونامراد ہونے کے باوجود وہ خدا سے عذاب نہیں چاہتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خودان کو بتائے کہ کسی قوم کا کیا انجام ہونے والا ہے.اب دیکھئے حضرت نوح علیہ السلام نے کس طرح دعوت الی اللہ کا حق ادا کیا تھا.امریکہ میں بار بار مجھ سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے تو دعوت الی اللہ کا حق ادا کیا، لوگ سنتے ہی نہیں مگر کیا آپ نے اس طرح کیا جس طرح حضرت نوح علیہ السلام بیان کر رہے ہیں.قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَا را (نوح:۶) عرض کیا اے میرے رب میں نے تو اپنی قوم کو دن کو بھی پکارا اور رات کو بھی پکارا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَا عِثَ إِلَّا فِرَارًا (نوح: ۷) اور میری پکار نے ان کو مجھ سے متنفر ہونے کے سوا اور کچھ نہ دیا مجھ سے اور زیادہ بھاگنے لگے.وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ( نوح: ۸) کہ اے میرے خدا جب بھی میں نے ان کو بلایا تا کہ تو انہیں بخش دے اپنی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ تیری بخشش حاصل کریں.جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دیں وَاسْتَغْشَواثِيَابَهُمْ اور اپنے سروں پر اور اپنے کانوں پر کپڑے لپیٹ لئے وَاَصَرُّ وَاوَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا اور انہوں نے ضد کی کہ ہم ہرگز نہیں مانیں گے اور بہت بڑے تکبر سے کام لیا ہے لیکن اس کے باوجود میں ان سے مایوس نہیں ہوا.میں انہیں تیری راہوں کی طرف بلاتا رہا جس جس طرح مجھے خیال گزرا کہ شاید اس طرح یہ لوگ مان جائیں میں ویسے ہی طریق اختیار کرتا چلا گیا.یہ سننے کے بعد انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اب اس کے بعد کوئی دعوت کی راہ باقی رہی ہوگی آپ کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرے کہ کانوں میں انگلیاں ڈالے سر اور منہ پر کپڑے لیٹے اور بار بارضد اور تکبر سے کہے کہ جاؤ جو کرنا ہے کر لو میں ہرگز تمہاری بات نہیں سنوں گا.تو آپ کہیں گے ہر راہ ختم ہوگئی ہے مگر حضرت نوح اس ذکر کو جاری رکھتے ہیں کہتے ہیں ثُمَّ اِنّى دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ( نوح:۹) پھر مجھے خیال آیا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 545 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء بعض دفعہ کھلے کھلے اعلانوں سے بعض لوگ سن لیتے ہیں مخفی باتوں سے نہیں سنتے تو میں نے بازاروں میں نکل کر بلند آواز سے لوگوں کو بلانا شروع کیا ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا ( نوح:۱۰) اور میں نے مخفی طور پر اشاروں کنایوں سے بھی ان کو پکارا کہ آؤ خدا کی طرف آجاؤ.فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ( نوح (1) اور میں ان کو بتاتا چلا گیا کہ تمہارا رب بہت ہی مہربان ہے بہت ہی بخشش کرنے والا ہے اس سے بخشش مانگوتا کہ تم بخشے جاوَيُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا ( نوح:۱۲) وہ تم پر نعمتوں کی بارش برسائے گا.ويُمْدِدْ كُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ أَنْهَرًا (نوح:۱۳) اور وہ تمہارے لئے تمہارے اموال میں برکت دے گا اور تمہاری اولادوں میں برکت دے گا اور تمہیں وہ ہمیشگی کے باغات عطا فرمائے گا وَيَجْعَل لَّكُمْ اَتھرا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمائے گا.مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ( نوح: ۱۴) تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کی طرف حکمت کی باتیں منسوب نہیں کر رہے وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا (نوح: ۱۵) اور میں نے ان کو ان کا ماضی یاد دلایا اور ان کو بتایا کہ دیکھو خدا نے تمہیں اس مقام تک پہنچانے سے پہلے کن کن ادوار سے گزارا کیسے کیسے طبقات سے گزرتے ہوئے تم ترقی کرتے آخر انسان کے مقام تک پہنچے ہو.اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا ( نوح:۱۲) پھر انسانی زندگی سے پہلے کی طرف نگاہ ڈالو کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے زمین و آسمان کو کس طرح طبقه به طبقہ دور به دور پیدا فرمایا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورٌ أَو جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ( نوح : ۱۷ ) اور اس نے آسمانوں میں چاند کے لئے نور رکھ دیا جو ٹھنڈی چاندنی تمہارے لئے لے کر آتا ہے وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا اور تمہارے لئے چمکتا ہوا سورج بنایا وَ اللهُ أَنْبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا (نوح: ۱۸) اور اللہ تعالیٰ نے نباتات کی طرح تمہیں زمین سے اٹھایا ہے اور تمہاری رفتہ رفتہ پرورش فرمائی ہے.ثُمَّ يُعِيدُكُمُ فِيهَا وَ يُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا (نوح:۱۹) لیکن یا درکھو کہ بالآخر تم اس مٹی میں ملا دئیے جاؤ گے اور اسی مٹی سے ایک دن نکالے جاؤ گے.وَاللهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا ( نوح: ۲۰) اور تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونے کی طرح بچھا دیا ہے.لِتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا ( نوح (۲) اگر تم اس زمین پر کھلے کھلے رستوں پر قدم آگے بڑھا وَ قَالَ نُوْحُ رَّبِّ إِنَّهُمْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 546 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء عَصَونِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدَةٌ إِلَّا خَسَارًا (نوح:۲۲) اے میرے خدا یہ سب کچھ کرنے کے باوجود إِنَّهُمْ عَصَوتی یہ پھر بھی میرا انکار کرتے چلے جارہے ہیں وَاتَّبَعُوا اور اس کی پیروی کرتے ہیں مَنْ لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدَہ ایسے ظالموں کی پیروی انہوں نے کی ہے جن کو ان کے مال نے اور ان کی اولا د نے گھاٹے کے سوا کچھ نہیں دیا.یعنی ایسے دنیا والے امیروں کی پیروی کرتے ہیں.ایسی طاقتور قوموں کے پیچھے لگ گئے ہیں جن کے متعلق یہ دیکھ رہے ہیں کہ آخر ان کا قدم گھاٹے کی طرف اور نقصان کی طرف ہے وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا (نوح:۲۳) اور میری نیکیوں کے جواب میں یہ اپنے مکر میں بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ بہت بڑے مکر میرے خلاف استعمال کئے وَقَالُوالَا تَذَرُنَّ الهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدَّاوَ لَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا ( نوح :۲۴) اور ان کے لیڈروں نے ان میں بار بار اعلان کئے کہ ہر گز تم نے اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑنا نہ تم وڈ کو چھوڑو گے نہ سُوَاعًا کو چھوڑو گے نہ يَغُوْثَ کو چھوڑو گے نہ نَسْرًا کو چھوڑو گے.وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا ( نوح:۲۵) اور انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِينَ إِلَّاصللا اور تو نہیں بڑھاتا ان لوگوں کو جو گمراہ ہو گئے ہیں مگر گمراہی میں ہی.یعنی تیری تقدیر اسی طرح کار فرما ہوتی ہے کہ جو لوگ گمراہی میں بڑھنے پر ضد کرتے ہیں تو ان کو پھر موقع دیتا ہے کہ وہ گمراہی میں آگے بڑھتے چلے جائیں.مِمَّا خَطِيئَتِهُم أُغْرِقُوْا فَادْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا ( نوح: ۲۶) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پس ان کی خطیبات کی وجہ سے بے شمار گناہوں کی وجہ سے وہ آگ میں داخل کئے گئے فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ انصارا اور خدا کے سوا ان کو کوئی مددگار پھر نظر نہ آیا یعنی کوئی مددگار ان کے کام نہیں آسکتا تھا.وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا ( نوح:۲۷) تب نوح نے کہا اے خدا اب کافروں میں سے اس زمین پر کوئی باقی نہ چھوڑ.یہ جو دعا ہے یہ سب کچھ کرنے کے بعد کی دعا ہے اس سے پہلے کی نہیں ہے اور اس کی وجہ بیان کی گئی ہے.اِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ( نوح: ۲۸) کہ اب اس قوم کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر ان کو زمین پر تو باقی چھوڑے گا تو یہ سوائے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 547 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء گمراہی پھیلانے کے سوائے بدیاں پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کریں گے، اور ایسے بچے جنیں گے جو گمراہی میں بڑھتے چلے جائیں گے رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ ( نوح:۲۹) اے میرے رب میری بھی بخشش فرما میرے والدین سے بھی بخشش کا سلوک فرما وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا اور ہر اس شخص کو بھی بخش دے جو میرے گھر میں ایمان لاتے ہوئے داخل ہو.وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ سب مومنوں کو بخش اور سب مومنات کو بخش وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِينَ إِلَّا تَبَارا اور دشمنوں کو سوائے ہلاکت کے اور کچھ نصیب نہ ہو.یہ وہ دعا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے پھر وہ مشہور بارش برسائی اور زمین نے اپنے چشمے اگلے یہاں تک کہ طوفان نوح آیا.وہ عظیم سیلاب جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا مگر میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ قرآن سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ سیلاب ساری دنیا میں نہیں آیا بلکہ صرف نوح کی قوم پر آیا ہے جو کہ ایک محدود علاقہ میں بستی تھی اور صرف وہی لوگ ہلاک کئے گئے جن کا ذکر ان آیات میں ملتا ہے جن کو حضرت نوح علیہ السلام نے کامل طور پر پیغام پہنچا دیا تھا اور اس پیغام کو ہر طرح سے ہر پہلو سے سننے اور سمجھنے کے باوجود انہوں نے حضرت نوح کا انکار کیا.یہاں ایک خاص مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ قانون قدرت بارشیں برسا تا ہے اور قانون قدرت ہی ہے جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ زمین سے چشمے ابلنے لگتے ہیں تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عذاب الہی ہے اور کیا خدا تعالیٰ اپنے قانون کو تبدیل کر کے خصوصیت کے ساتھ نئے قانون جاری فرماتا ہے.حضرت نوح علیہ السلام کی اس تبلیغ میں اس مسئلہ کا حل ملتا ہے.حضرت نوح علیہ السلام نے کہا تُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا ( نوح:۱۲) کہ تم پر خدا کثرت سے بارشیں نازل فرمائے گا یعنی بارشوں کا نازل ہونا معلوم ہوتا ہے مقدر تھا اور غیر معمولی طور پر بارشوں کا اس علاقہ میں برسنا پہلے سے ہی مقدر ہو چکا تھا اور اس کی تیاریاں ہو چکی تھیں لیکن ساتھ ہی بتایا کہ بارشیں ہلاکت کی نہیں ہوں گی.قانون قدرت تو ہے مر اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے قانون قدرت کو استعمال فرماتا ہے.وہ بارشیں نازل فرمائے گا کس لئے ؟ وَ يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ ( نوح:۱۳) وه بارشیں تمہارے لئے کثرت اموال کا موجب بنیں گی اور کثرت اولا دکا موجب بنیں گی اور تمہارے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 548 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء لئے ہمیشہ کی جاری رہنے والی نہریں پیچھے چھوڑ جائیں گی.پس قانون قدرت کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے یہ سوال ہے بارشوں نے تو آنا تھا وہ تو پہلے سے ہی بخارات کی صورت میں اٹھ کر کہیں اکٹھی ہو چکی تھیں لیکن کس طرح برسیں گی.اکٹھی برسیں گی یا ٹھہر ٹھہر کر برسیں گی فائدہ پیچھے چھوڑ کر جائیں گی یا نقصان پیچھے چھوڑ کر جائیں گی یہ فیصلے انسان کے اعمال نے کرنے تھے پس ایسا ہی ہوا.دیکھیں بارشیں آئیں لیکن اور رنگ میں آئیں بجائے فائدہ پہنچانے کے ہمیشہ کے لئے اس قوم کا نشان مٹا گئیں.یہ دعا سورۃ نوح آیات ۶ تا ۲۹ سے لی گئی ہے یعنی ان آیات میں وہ سارا مضمون بھی بیان ہے اور دعا بھی اس میں شامل ہے.اب میں آخری دو دعاؤں کا ذکر کرتا ہوں جو معوذتین کے نام سے مشہور ہیں اور جن میں قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ کہہ کر ہمیں بعض دعا ئیں سکھائی گئی ہیں فرما یا قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ( الفلق :۲) اے محمد لے تو یہ کہ اور کہتا چلا جا اور جو سنے وہ بھی آگے یہ پیغام دیتا چلا جائے کہ تم اپنے رب سے یہ کہا کرو.اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کہ ہم اس رب کی پناہ میں آتے ہیں جو تخلیق کا رب ہے.جو راتوں کو صبح میں تبدیل کرتا ہے اور صبحوں کو راتوں میں بدلتا ہے جس کی طاقت سے یا جس کی تقدیر سے نئی نئی چیزیں پھوٹتی ہیں.گٹھلیاں پھٹتی ہیں اور ان سے کونپلیں نکلتی ہیں جو درخت بن جاتی ہیں.بیج پھوٹتے ہیں اور طرح طرح کی سبزیاں اور پودے پیدا کرتے ہیں.اس سارے نظام کو فلق کا نظام کہا جاتا ہے ایک عورت حاملہ ہوتی ہے اور ایک بچے کو پیدا کرتی ہے پس کائنات میں جہاں بھی ایک چیز اپنی کیفیت بدل کر ایک دوسرے روپ میں تبدیل ہوتی ہے اس نظام کو نظام فلق کہا جاتا ہے.تو یہ دعا سکھائی گئی کہ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ تو کہ خود بھی کہہ اور لوگوں سے بھی کہہ اور وہ لوگ آگے لوگوں سے کہتے چلے جائیں کہ وہ خدا سے یہ عرض کیا کریں کہ اے خدا! ہم رب فلق کی پناہ چاہتے ہیں.یعنی تیری پناہ چاہتے ہیں جس نے یہ نظام پیدا فرمایا ہے مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (الفلق :۳) ہر تخلیق کے ساتھ شروابستہ ہیں ہمیں ہر تخلیق کی خیر تو عطا فرما.لیکن ہر تخلیق کے شر سے بچالے.اب آپ دیکھیں بعض عورتیں بے چاری حاملہ ہوتی ہیں 9 مہینے تکلیف اٹھاتی ہیں لیکن بچہ پیدا کرتی ہیں اور اسی حالت میں وفات پا جاتی ہیں اور اپنے بچے کا منہ دیکھنا بھی ان کو نصیب نہیں ہوتا، بعض ایسے بچے پیدا کرتی ہیں جو ساری عمران کے لئے سوہان روح بن جاتے ہیں ، عذاب کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 549 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء موجب بن جاتے ہیں.ان کو سنبھالنے میں بہت دکھ اٹھاتی ہیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ از خود نہ وہ کھا سکتے ہیں، نہ چل سکتے ہیں نہ سنبھل سکتے ہیں.پس تخلیق کے ساتھ جہاں بہت سی خیر وابستہ ہے اور یاد رکھیں کہ خیر غالب ہے وہاں کچھ طبعی شہر بھی ہیں.پس یہ ایک بہت ہی اہم دعا ہے جسے ہمیں ہرایسی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے خدا کے حضور مانگتے رہنا چاہئے جس میں ایک کیفیت دوسری کیفیت میں بدلتی ہے وَ مِنْ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (الفلق ۴) اندھیروں کے اس شر سے ہمیں بچا جبکہ ہر طرف فتنے اور شرارتیں پھیل جاتی ہیں وَ مِنْ شَرِّ النَّقْتُتِ فِي الْعُقَدِ (الفلق : ۵) اور ان پھونکنے والوں کے شر سے بچا جو رشتوں میں پھونکتے ہیں.تعلقات میں پھونکتے ہیں اور بدنیتوں کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ انسانی تعلقات کو خراب کر دیں اور ان میں دشمنیاں اور نفرتیں پیدا کریں.اس دعا کی گھر یلو حالات کو سدھارنے کے لئے بھی بہت شدید ضرورت ہے.آج تک بارہا میں نے توجہ دلائی ہے کہ اپنے گھروں میں رحمی رشتوں کا خیال کریں اور اپنے تعلقات کو سدھاریں لیکن اس کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ ایسی تکلیف دہ خبریں یاساسوں کی طرف سے یا بہوؤں کی طرف سے یا ماؤں کی طرف سے یا بیٹیوں کی طرف سے یا بیٹوں کی طرف سے نہ آتی ہوں جہاں ایک دوسرے سے شکوے کئے گئے ہیں.بعض بیویاں اپنے خاوندوں کے شکوے کرتی ہیں، بعض بچے اپنے باپوں کے شکوے کرتے ہیں کہ سخت کلام ہیں.بدتمیز ہیں ہر وقت گھر میں ایک عذاب بنا ہوا ہے، تعلقات کو توڑنے والے ہیں بجائے جوڑنے کے اور اس کے نتیجہ میں شر پیدا ہوتا ہے، اس کے نتیجہ میں گھر جنتوں کی بجائے جہنم میں تبدیل ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ ہر ایسے پھونکنے والے کے شر سے ہمیں بچا جس کے نتیجہ میں تعلقات خراب ہوتے ہیں اور یہاں پھونکنے والوں سے مراد جادوٹونے ٹو ٹکے کرنے والے بھی ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دم سے ان کے بدنفس سے دوسرے کے حالات بگڑ جائیں افریقہ میں آج تک یہ رواج پایا جاتا ہے اور بہت سے احمدی مجھے افریقہ سے لکھتے ہیں کہ ہم کس طرح بچیں ان کا جواب ۱۴۰۰ سال پہلے قرآن کریم نے دے دیا تھا.یہ مراد نہیں ہے کہ ضرور ان کے بدنفوس میں اثر ہے اصل بات یہ ہے کہ ان بد نفوس کے ساتھ وہ شرارتیں بھی کرتے ہیں اور دھو کے بازیوں سے بھی کام لیتے ہیں بعض مخفی طریقوں پر زہر بھی دے دیتے ہیں بعض دشمنوں سے نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں اور بظاہر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 550 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء اپنا ایک رعب بھی قائم رکھتے ہیں کہ ہمارے دم پھونکنے کے نتیجہ میں تمہیں یہ نقصان پہنچا ہے پس ہر قسم کے اس فتنہ سے بچایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں تاریکی پھیلے، روشنی کم ہو ایک نئی تخلیق ہو لیکن بدیاں لے کر آئے یا خود بد ہو جائے یا جہاں سے نکلی ہے اس کو بد بنادے.ہر اس قسم کے احتمالات کے لئے یہ کامل دعا ہمیں سکھائی گئی اور پھر فرمایا وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ( الفلق :4) ہمیں حاسد کے شر سے بچا جب وہ حسد کرے.یہ مضمون کچھ الجھا ہوا سا نظر آتا ہے کیونکہ حاسد کے شر سے بچا نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حاسد کے شر سے بچا جب وہ حسد کرے.اس کا مطلب یہ ہے کہ محض حسد کسی کو نقصان نہیں پہنچا تا.جب وہ حسد کے نتیجہ میں بدعمل کی ٹھانتا ہے.جب وہ نقصان پہنچانے کی کوئی تدبیر کرتا ہے تو وہ وقت ہے جب یہ کہا گیا اِذَا حَسَدَ ور نہ لوگ خالی حسد کرتے پھرتے رہتے ہیں، جلتے رہتے ہیں.انکا اپنا نقصان ہوتا ہے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تو حاسد کہہ کر یہ تو بتا دیا کہ وہ ہر وقت حسد کی حالت میں ہے پھر اِذَا حَسَدَ کا کیا مطلب ہے وہ شخص جو ہے ہی حاسد.ہمیشہ ہی حسد کرنے والا ہو.وہ جب حسد کرے گا، کیا مطلب ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ جب وہ اپنے حسد کو ایک بدعمل میں تبدیل کر دے، شرارت میں تبدیل کر دے، جب فتنہ پیدا کرے، جب سازش کرے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے.میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے ایسی صورت میں تو مجھے اس کے شر سے بچا.پھر آخری دعا یہ ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ (الناس : ۲ تا ۴ ) کہہ دے اور کہتا چلا جا کہ تم سب اپنے رب کے حضور یہ عرض کیا کرو.اعُوذُ بِرَبِّ النَّاس کہ میں پناہ چاہتا ہوں اس ذات کی جو تمام بنی نوع انسان کے رزق کا ذمہ دار ہے ان کی پرورش کا ذمہ دار ہے.ان کو ادنیٰ حالتوں سے اعلیٰ حالتوں کی طرف ترقی دیتے ہوئے لے جانے کا ذمہ دار ہے ، وہ ہر حال میں ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو حقیقی رب ہے.مَلِكِ الناس وہی ہے جو تمام بنی نوع انسان کا بادشاہ بھی ہے.الهِ الناس اور وہی ہے جو تمام بنی نوع انسان کا معبود بھی ہے یہ تین باتیں کہہ کر انسان کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھ لیا گیا.کوئی بھی ایسا دائرہ نہیں جس میں انسان کوشش کرتا ہے جس پر یہ دعا حاوی نہ ہوگئی ہو اس پر میں بہت تفصیل سے اپنے رمضان کے درسوں میں روشنی ڈال چکا ہوں اور کئی گھنٹے اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 551 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء مضمون کو بیان کرتا رہا ہوں.اس وقت میں دہرانے کی نیت سے کھڑا نہیں ہوا.میں مختصراً آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں یا رزق ہے، اقتصادیات کا مضمون ہے جس نے انسانوں کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے یا بادشاہتیں ہیں یعنی سیاست ہے اور یا پھر عبادت ہے، مذہب کی دنیا ہے.ان تین مضامین میں انسان کی تمام دلچسپیاں بیان کر دی گئی ہیں.اور یہی تین ہیں جو انسانی زندگی پر ہر لحاظ سے حاوی ہیں تو فرمایا کہ تم یہ دعا کیا کرو کہ اے رب ہمیں لوگوں کا محتاج نہ بنا.یہ مراد ہے اپنا محتاج رکھنا.ہم غیروں کی محتاجی سے تیری طرف بھاگتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اصل رزق تیرے ہاتھ میں ہے.اس لئے دنیا کے بس میں نہ ڈالنا، اپنی طرف سے رزق عطا فرمانا.دنیا کے بادشاہ ظالم ہوتے ہیں.ہم ان کے مقابل پر بے بس ہوں گے.لیکن ہم جانتے ہیں کہ تو اصلی بادشاہ ہے تیرے ہاتھ میں ان بادشاہوں کی بھی گردنیں ہیں.اس لئے ان کے ظلم سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو جب کسری کے نمائندے نے یہ اطلاع دی کہ تم تین دن کے اندراندر میری طرف آؤ اور اپنی حرکتوں سے تو بہ کرو ورنہ میں تمہیں قتل کروادوں گا.تو آنحضرت ﷺ نے اس پیغام دینے والے سے کہا کہ مجھے تھوڑی سی مہلت دو.میں دعا کر کے معلوم کروں کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے.دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کو خبر دی اور اس خبر کو آپ نے یوں بیان فرمایا کہ جاؤ واپس چلے جاؤ.تمہارے بادشاہ کو میرے بادشاہ نے رات ہلاک کر دیا ہے (حوالہ جو میرا مالک ہے اور میرا رب ہے اور میرا بادشاہ ہے اس نے تمہارے بادشاہ کو رات ختم کر دیا ہے.وہ واپس آگیا اور معلوم ہوا یعنی دیر کے بعد یہ خبر وہاں پہنچی کیونکہ ایران سے چلتی ہوئی یمن کی طرف پہنچتے پہنچتے دریگتی تھی کہ عین اسی رات جس رات آنحضرت ﷺ کو یہ نظارہ دکھایا گیا خود کسری کے اپنے بیٹے نے اپنے باپ کو اس کے ظلموں کی وجہ سے قتل کر دیا.تو یہ معنے ہیں.مَلِكِ النَّاسِ آپ اگر یقین کریں کہ وہ ملک ہے تو وہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ سے آپ کو بچائے لیکن یقین کی بھی ضرورت ہے اور اس کی ملکیت کے اندر رہنے کی بھی ضرورت ہے آپ اس کی ملکیت سے نکل کر دنیا کی ملکیت میں زندگی بسر کریں اور جب تکلیف اٹھا ئیں تو اس کی طرف دوڑیں اس وقت یہ دعا صادق نہیں آئے گی.حضرت محمد مصطفی ماہ کے لئے سوائے خدا کے کوئی ملک نہیں تھا.اس لئے آپ کی یہ التجا سنی گئی اور اللہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 552 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء تعالیٰ نے اپنے جلوے کو کس شان کے ساتھ ظاہر فرمایا.پس اگر خدا کی ملکیت کے جلوے دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی ملکیت کے دائرے میں رہیں.پھر دیکھیں کہ خدا کس طرح آپ کی نصرت فرماتا ہے اور اللهِ النَّاسِ ہر قسم کی خواہشات سے نجات کے لئے یہ دعا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں خود فرماتا ہے کہ کئی دفعہ انسان اپنی تمناؤں کو اپنا معبود بنالیتا ہے.اور وہ نہیں جانتا کہ وہ مشرک ہورہا ہے.بظاہر یہی کہتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کوئی خدا نہیں ہے سوائے اللہ کے.لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنا خدا بنائے پھرتا ہے.چھوٹے چھوٹے طاقتور لوگوں کو اپنا خدا بنائے پھرتا ہے اور اپنی تمناؤں کو ہر دوسری چیز پر غالب رکھتا ہے.ایسا شخص جب یہ دعا کرے گا تو اس کی دعا میں کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ خدا کہے گا تم کہتے ہو کہ مجھے تم نے اللہ بنایا اور روزمرہ کی زندگی میں تم نے سینکڑوں اور بت بنائے ہوئے ہیں.اس لئے دعاؤں میں اثر کے لئے نیک اعمال کی بھی ضرورت ہے اور اگر کامل نیک اعمال نہ بھی ہوں تو نیک نیتی کے ساتھ نیک اعمال کی کوشش کرنے کا دعاؤں میں بہت بڑا دخل ہے.انسان عاجزی کے ساتھ یہ تو کہ سکتا ہے کہ اے خدا میں گنہگار ہوں مجھ سے بہت ہی بدیاں سرزد ہوتی ہیں، میں بار بار گناہوں میں مبتلا ہوتا ہوں لیکن مرا دل تیرا احترام کرتا ہے، میرا دل تجھ سے محبت کرتا ہے، میں جانتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی نہیں جو مجھے بچا سکے.یہ التجا اگر درد سے کی جائے تو اللہ تعالیٰ بہت غفور الرحیم ہے وہ گناہوں سے پردہ پوشی بھی فرماتا ہے.ان کی بخشش بھی فرماتا ہے.لیکن دل کی آخری تمنا خدا ہونا چاہئے.اس کا معنی ہے اللہ آخری تمنا ،آخری مدعا، آخری مقصود خدا ہونا چاہئے.اگر یہ ہو جائے تو پھر آپ کی یہ دعا غیر معمولی طاقت کے مظاہرے دکھائے گی.الهِ النَّاسِ میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا ایک ہی معبود ہے اور کوئی معبود نہیں ہے.مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ کس چیز سے پناہ مانگ رہا ہوں.ہر قسم کے وسوسوں سے.الْوَسْوَاسِ کہتے ہیں وسوسے پھیلانے والوں کو.عام طور پر وسوسوں سے نجات پانے کے لئے دعا مانگی جاتی ہے.مگر لفظی ترجمہ اس کا یہ ہے مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ایسے وسوسے پیدا کرنے والے کے شر سے جو الخناس بھی ہے، یعنی خاموشی سے شرارت سے وسوسے پیدا کر دیتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے اور بسا اوقات آپ کو پتا بھی نہیں لگتا کہ کس بدنیتی کے ساتھ آپ کے دل میں ایک شک کا بیج بو گیا ہے.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ایک ایسا دور آنے والا ہے جب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 553 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء کہ یہ خناس تمام دنیا میں خدا کے خلاف اس کی ربوبیت کے خلاف اس کی الہیت اور ملکیت کے خلاف وسو سے پھیلا نا شروع کرے گا اور آج کا یہ وہ دور ہے جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں کیونکہ آج کی دنیا میں ایسے فلسفے پیدا ہو چکے ہیں جو خدا کو رب نہیں بناتے بلکہ دنیا کے طاقتور ملکوں کو رب بناتے ہیں اور ان سے احتیاج کا تصور اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ ہر حاجت کے وقت سب سے پہلے بڑی طاقتیں ذہن میں آتی ہیں کہ فلاں سے مدد مانگیں گے، فلاں سے مدد مانگیں گے.مسلمان ممالک کو دیکھیں جب ضرورت پڑتی ہے وہ کشکول اٹھاتے ہیں، کبھی امریکہ کی طرف بھاگتے ہیں کبھی روس کی طرف بھاگتے ہیں.کبھی چین کی طرف چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا خدا ہے.پس عملی دنیا میں آج وہ زمانہ ہے جب کہ ہمارے اللہ بکھر چکے ہیں اور بہت سے بن چکے ہیں اور رب بھی بہت سے اور ہو چکے ہیں.تو فرمایا کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے، جبکہ تمہارے ایمان کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی طاقتیں پیدا ہوں گی.وہ تمہارے دل میں وسو سے پیدا کریں گی.اور تم ان وسوسوں کے نتیجہ میں نہ خدا کو اپنارب سمجھو گے نہ اپنا بادشاہ سمجھو گے.دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو بادشاہ سمجھنے لگ جاؤ گے اور نہ ان کو معبود سمجھو گے کیونکہ فی الحقیقت تمہارے دل میں تمہاری آرزوؤں کی عبادت ہورہی ہوگی.فرمایا.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس : ۶ تا ۷ ) یہ وہ شر پیدا کرنے والی طاقتیں ہیں جن سے ہم پناہ مانگتے ہیں ، جو بڑے لوگوں میں سے بھی ہیں اور چھوٹے لوگوں میں سے بھی ہیں.بوژوا بھی ہیں اور Proletariat بھی ہیں Capitalist بھی ہیں اور سائنٹفک سوشلسٹ بھی ہیں الجن سے یہاں مراد بڑی بڑی طاقتیں اور عظیم الشان طاقتیں ہیں اور الناس سے مراد عوامی طاقتیں ہیں.تو یہ دعا اس زمانہ کے اوپر ہر پہلو سے اطلاق پارہی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے سونے سے پہلے ان دعاؤں کو پڑھتے تھے اور اپنے ہاتھوں پر پھونکتے تھے اور اپنے جسم پر ملتے تھے والے.اس میں کوئی Superstition نہیں ہے.دعا تو خداسنتا ہے جسم پر ملتے کیوں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ محبت کا اظہار ہے.بعض دفعہ کسی پیارے کا کپڑا انسان کو مل جائے.اسے انسان اپنے جسم پر ملتا ہے.اپنے منہ سے لگاتا ہے اسے چومتا ہے.پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جسم پر ملنا اس غرض سے نہیں تھا کہ آپ سمجھتے تھے کہ اگر جسم پر مل لی گئی تو میں بلاؤں سے بچ جاؤں گا آپ تو محفوظ مقام پر تھے.آپ کو تو ہمیشہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 554 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء سے خدا کی حفاظت حاصل تھی اور دعا ئیں خدا سے کیا کرتے تھے اور جانتے تھے کہ حفاظت خدا کی طرف سے آئے گی پس جسم پر دعاؤں کو پھونک کر ملنا سوائے عشق اور محبت کے اظہار کے اور کچھ نہیں.خدا کے کلام کو پڑھتے تھے.دل اس میں ڈوب جا تا تھا.محبت اچھلنے لگتی تھی.بڑے پیار کے ساتھ ہاتھوں پر پھونکتے تھے.اپنے جسم پر اس پیارے کلام کو ملتے تھے.اس جذبے اور ولولے کے ساتھ اگر جماعت دعائیں کرے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ انعام پانے والوں کی جس راہ کی ہم تمنا کرتے ہوئے روزانہ پانچ وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اے ہمارے رب ہمیں صراط مستقیم پر چلا اس صراط مستقیم پر جس پر ہم سے پہلے وہ لوگ چلتے رہے جن کو تو نے انعاموں کے لئے چن لیا ، جن پر تو نے انعاموں کی بارشیں نازل فرمائیں.پس یہ وہ لوگ ہیں جو یہ دعائیں کرتے ہوئے صراط مستقیم پر چلا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی تو فیق عطا فرمائے ہم ان دعاؤں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں ہم ان راہوں پر چلیں جہاں ہمیشہ اللہ کی طرف سے انعام کی بارشیں برستی رہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:.میں نے اس جمعہ کا آغاز جمعہ کے معنی کے بیان سے کیا تھا اور میں نے آپ کو یہ خوشخبری دی تھی کہ ہم آج جماعت احمد یہ وہ جماعت ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ جمعہ میں ملتا ہے اور آخری زمانہ کے لوگ جو پہلے زمانے کے لوگوں سے ملائے جائیں گے وہ اللہ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں حضرت محمد مصطفے ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے والے لوگ ہوں گے.اس سے آپ ان پہلوں سے ملیں گے ، اس کے بغیر نہیں لیکن یہ زمانہ اور لحاظ سے بھی جمع کا زمانہ ہے.اتنی دور دور کے ممالک ایک جگہ مختلف رنگ میں جمع ہو جاتے ہیں کہ انسان کی عقل حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس بات کا ہمیں مزید یقین دلانے کے لئے کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کا سورۂ جمعہ سے گہرا تعلق ہے ایسی نئی ایجادات فرما دی ہیں جن کے نتیجہ میں یہاں بیٹھے ہم دور دور کے احمدیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ا کٹھے ایک جگہ جمع ہو چکے ہیں.عید کا جو خطبہ میں نے دیا تھا اس کے متعلق ابھی مجھے رپورٹ ملی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی وقت دنیا کے چو ہمیں ممالک میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 555 خطبہ جمعہ ۲۸ / جون ۱۹۹۱ء سنا جار ہا تھا اور دنیا کی تریسٹھ جماعتیں اس کو براہ راست سن رہی تھیں اب یہ سلسلہ انشاءاللہ پھیلتا چلا جائے گا اور ظاہری طور پر بھی صرف جماعت احمد یہ ہے اور صرف جماعت احمد یہ ہے جس کو خدا نے یہ توفیق بخشی ہے کہ اس طرح ایک زمانے کے مختلف لوگوں کو بھی ایک ہاتھ پر جمع کر دے.پس ان معنوں میں یہ ہمارے لئے خوشخبری بھی ہے اور ذمہ داریوں کو بڑھانے والی بات بھی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 557 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء مغضوب اور ضالین کی دعا ئیں اور ان کی حقیقت فرعون کی بدنی نجات سے مراد ایک بے اختیار زندگی ہے.(خطبه جمعه فرموده ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء بمقام ٹورنٹو.کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا یہ خطبہ جمعہ جو میں ٹورانٹو انٹاریو کینیڈا سے دے رہا ہوں ٹورانٹو کے علاوہ کینیڈا کے تین اور شہروں میں بھی سنا جا رہا ہے.یعنی وینکور، ایڈمنٹن اور کیلگری اسی طرح یونائیڈ سٹیٹس کے پانچ شہروں میں یہ خطبہ براہ راست سنا جارہا ہے یعنی نیو یارک ، واشنگٹن ، شکاگو، ولنگبر و اور نیوجرسی.اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں سے حسب سابق ماریشس اور جاپان کے علاوہ پیرس (فرانس) میں بھی اور ڈنمارک اور فرنکفرٹ (جرمنی) میں بھی پیرس کی طرف سے یہ اطلاع مجھے ملی ہے کہ چونکہ آج وہاں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ہورہا ہے اور یہ فرانس کی تاریخ میں غالباً پہلا سالانہ اجتماع ہے اس لئے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس خطبے میں ان خدام کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے لئے بھی حوصلہ افزائی کے کچھ الفاظ کہہ دوں.میں اپنی طرف سے بھی اور آپ سب کی طرف سے بھی جو یہاں اس خطبے میں شریک ہیں مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کے ہونے والے اجتماع پیرس میں جتنے احباب شامل ہیں خواہ وہ خدام ہیں، انصار ہیں خواتین ہیں یا بچے ہیں سب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر لحاظ سے کامیاب بنائے اور یہ اجتماع تو دو تین دن میں ختم ہو جائے گا مگر اس کی برکتیں اور فوائد ہمیشہ جاری رکھے.( آمین ) اب میں اصل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 558 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۹۱ء مضمون کی طرف آتا ہوں.ایک لمبے عرصے سے نماز سے متعلق خطبات کا ایک سلسلہ جاری ہے جس میں سورہ فاتحہ سے نماز میں استفادہ کرنے سے متعلق مختلف خطبات دیئے ہیں.آخری خطبہ اس مضمون پر تھا کہ نماز میں جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتے ہیں تو وہ خدا کے پاک بندے جن پر خدا نے انعام فرمایا ان کے رستے پر چلنے کی دعا مانگتے ہیں اس لحاظ سے ہم پر ضروری ہے کہ اس سفر کو آسان کرنے کے لئے ان ہی لوگوں کی دعائیں مانگیں جن کی قبولیت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمائے.پس آخری خطبہ جو امریکہ میں اس موضوع پر تھا اس میں منعم علیہ گروہ کی دعاؤں میں سے آخری دعاؤں پر میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا.اس دعا کا اگلا حصہ ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اے ہمارے رب ہمیں اس رستے پر نہ چلانا جس پر وہ انسان چلتے رہے جو تیرے غضب کا نشانہ بنے یا وہ لوگ چلے جنہوں نے کچھ عرصہ صراط مستقیم پر چل کر صراط مستقیم کو چھوڑ دیا اور بھٹک گئے.قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ بھی بعض دعائیں کیا کرتے تھے اور جیسے منعم علیہ گروہ کی دعائیں قرآن کریم میں درج ہیں الْمَغْضُوبِ اور الضَّالِینَ کی دعائیں بھی درج ہیں پس ضروری ہے کہ ہم ان دعاؤں سے بچیں اور ان دعاؤں کی روح سے بچیں جو قرآن کریم میں عبرت کے طور پر ہمارے لئے محفوظ کی گئی ہیں اور اس پہلو سے آج کا خطبہ اسی موضوع پر ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (البقره: ۲۰۱) کہ بعض انسانوں میں سے ایسے بھی ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اس دنیا کی حسنہ عطا فرماید وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا.اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ حج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا کہ جب تم حج کے مناسک ادا کر چکو یعنی عبادت پوری کر چکو تو پھر اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا ؤ اجداد کو یا دکیا کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر اس کے بعد فرماتا ہے کہ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی اچھی چیزیں عطا فرما.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 559 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء سوال یہ ہے کہ اس کا حج کے مضمون سے کیا تعلق ہے.وہ تعلق یہ ہے کہ وہ انسان جو اس دنیا کا ہو چکا ہو اور دنیا ہی کے لئے جیتا ہو دنیا ہی کے لئے مرتا ہو وہ جب عبادت کے معراج پر بھی پہنچتا ہے تو اس کی دعا دنیا طلبی کی دعا ہی ہوتی ہے.پس فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ حج میں جولوگ میرے قریب آئے جو اپنی عبادت کے معراج کو پہنچے وہ سب کے سب ایسے ہیں جو میری تمنا لے کر آئے تھے.کچھ بدنصیب ان میں سے ایسے بھی ہیں جو دنیا کی آرزوئیں لے کر یہ جان جوکھوں کا سفر اختیار کرنے والے تھے اور آخر پر جب وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے رہے تو مجھ سے دنیا ہی مانگتے رہے.فرمایا میں ان کو دنیا دوں گا لیکن پھر آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوگا.یہاں جو سزا کا پہلو ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ عبادت میں جب ایک انسان معراج کو پہنچتا ہے تو خدا قریب آچکا ہوتا ہے.اس وقت خدا کو نہ مانگنا اور دنیا کی طرف جھک جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالآ خر دنیا ہی کی عبادت کرتے ہیں.پس دنیا مانگنا منع نہیں ہے مگر جس پس منظر میں دنیا مانگنے کا نقشہ بیان ہوا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں جا کر وہ لوگ اپنے اندر ونے کو ننگا کر دیتے ہیں.پس خدا بہتر جانتا ہے کہ کتنے لکھوکھا حج کرنے والے ہیں جو دنیا طلبی کی تمنا لئے ہوئے حج کرتے ہیں لیکن یہاں اس مضمون کا تعلق صرف حج ہی سے نہیں بلکہ ہر عبادت سے ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے وَمِنْهُم مَّنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ:۲۰۲) لیکن کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں دنیا کی اچھی چیزیں بھی عطا فرما اور آخرت کی اچھی چیزیں بھی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی چیزیں ہمیں اپنی طرف اس طرح مائل نہ کر لیں کہ ہم ان کے نتیجے میں تجھے بھول جائیں اور بالآخر آگ کے عذاب کا سزاوار ٹھہر ہیں.پس دنیا کی اچھی باتیں طلب کرتے ہوئے ساتھ احتیاط یہ دعا بھی سکھا دی گئی کہ وہ باتیں بھی تمہیں ملیں گی اور آخرت کی اچھی چیزیں بھی ملیں گی مگر یا درکھنا کہ دنیا کی اچھی چیزوں میں گم نہ ہو جانا کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر بھی یہ خطرہ رہے گا کہ تم خدا کے عذاب کے سزا وار ٹھہرو.یہ دعا سورۃ البقرہ آیت ۲۰۲ سے لی گئی تھی.ایک دوسری مغضوب اور ضالین کی دعا یہ ہے جو سورہ نساء کی آیت ۷۸ اور ۷۹ سے لی گئی ہے اس میں وہ یہ دعا کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 560 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء وَقَالُوا رَبَّنَالِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخْرَتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيلًا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے کیوں ہم پر قتال اتنا جلدی فرض کر دیا کاش تو نے اسے کچھ مدت کے لئے ٹال دیا ہوتا ان سے کہہ دے کہ دنیا کی زندگی تو ایک عارضی فائدے کی جگہ ہے اور باقی رہنے والی بھلائی آخرت ہی میں ہے.اور تم پر کوئی اتنا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا جتنا کھجور کی گٹھلی کے اندر لکیر ہوتی ہے.اس دعا کا پس منظر یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّکوة کہ کیا تو نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جن کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا تھا کہ تم لوگوں سے اپنے ہاتھ کو رو کے رکھو.وَاقِیمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكُوةَ اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو.یہاں ایسے لوگوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے.جن پر یکطرفہ ظلم ہور ہے ہیں اور اس ظلم کے دور میں وہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کیوں اجازت نہیں دی جاتی کہ ہم اپنا دفاع کریں.ہمیں کیوں اجازت نہیں دی جاتی کہ ہم بھی جوابی حملے کریں اور اس مزاج کے لوگ جیسے پہلے زمانوں میں پائے جاتے تھے اس زمانے میں بھی پائے جاتے ہیں.پاکستان میں جو احمدیوں پر ایک لمبا ابتلاء کا دور گزرا ہے.اس میں مجھ سے بھی ایسے مطالبے ہوئے ہیں اور بعض خطوط کے ذریعے بھی بڑے بڑے احتجاج ملتے ہیں کہ ہمیں بھی موقع دیں.ہم بھی جوابی کارروائی کریں جس طرح وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں ہم اس کا بدلہ ان سے اتاریں لیکن ان کو میں ہمیشہ صبر کی تلقین کرتا ہوں.پس قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ مومنوں کو جوابی حملے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ نصیحت فرماتا ہے کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور صبر سے کام لو.دعا کے ذریعے اور زکوۃ کے ذریعے نیک کاموں میں خرچ کر کے تسکین قلب حاصل کر ولیکن وہ لوگ جب بالآخران پر جہاد فرض کر دیا جاتا ہے تو اس وقت ان کا مزاج بالکل الٹ جاتا ہے.وہ جو پہلے بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں موقع دیا جائے ہم جوابی کارروائی کریں گے ان کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ کہتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 561 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء ہیں ربَّالِم كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَرَتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ اے خدا اتنی جلدی تو نے جہاد فرض کر دیا ابھی تو ہمیں طاقت ہی کوئی نہیں آئی.کاش کچھ اور مدت کے لئے اس فرضیت جہاد کو ٹال دیا ہوتا قُل مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِیل ان سے کہہ دے کہ تم دنیا میں چند دن اور بھی رہ جاؤ گے تو بالآخر یہ دنیا عارضی ہے اور اس دنیا کے فائدے بھی چند دنوں کے فائدے ہیں.جو باقی رہنے والی حسنات ہیں وہ تو آخرت ہے.پس چند دن کے جہاد کو ٹالنے سے تمہیں کیا فرق پڑے گا.بہر حال یہ جو دعا ہے یہ اس سے پہلے کی ایک کیفیت سے تعلق رکھتی ہے جو کھوکھلی کیفیت ہے اور وہ مومنوں کو دھوکا دینے والی بات ہوتی ہے.عام طور پر ایسے لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں وقت آنے پر ہمیشہ بزدلی دکھایا کرتے ہیں.پھر سورہ انعام ۲۸ تا ۳۱ میں الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی یہ دعا ہے وَلَوْتَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا لَيْتَنَا نُرَةٌ وَلَا نُكَذِبَ بِايْتِ رَبَّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ کاش تو دیکھتا ان لوگوں کو جو آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے یعنی مرنے کے بعد ان کا عذاب ان کو دکھائی دینے لگے گا.فَقَالُوا لَيْتَنَا نُرَةٌ وَلَا نُكَذِّبَ بِايْتِ رَبَّنَا کاش ایسا ہو کہ ہمیں واپس لوٹا دیا جائے.تب ہم ہرگز اپنے خدا کی اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہیں کریں گے وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اور ہم یقیناً مومنوں میں سے ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بل بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّ والعَادُ وَالِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ بَلْ بَدَ الَهُمْ مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ ان کی وہ صورت حال وہ حقیقت ظاہر ہو چکی ہے جو اس سے پہلے وہ چھپایا کرتے تھے.لیکن اگر وہ دوبارہ لوٹا دئیے جائیں تو پھر بھی وہی کریں گے جس سے ان کو منع کیا جاتا تھا یا منع کیا جاتا ہے اور اس دعوے میں وہ جھوٹے ہیں کہ اگر ہمیں ایک اور مہلت دی جائے تو اس مہلت سے استفادہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی آیات کی تصدیق کریں گے اور خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق کریں گے.یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے اور اس کا فیصلہ دراصل اس دنیا میں ہو چکا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ اگر ان کو دوبارہ لوٹایا جائے تو وہی کریں گے می محض ایک دعوی نہیں بلکہ اس کا ثبوت ان لوگوں کی زندگیوں سے بار ہا ملتا ہے ہر وہ شخص جو اپنے گناہ کے نتیجے میں اپنی پاداش عمل کا منہ دیکھنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی سزا قریب آگئی ہے.ہمیشہ یہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 562 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء کہتا ہے کہ اگر اس دفعہ میں نہ پکڑا جاؤں تو میں تو بہ کرلوں گا اور جب مشکل مل جاتی ہے.جب ابتلاء دور ہو جاتا ہے تو پھر دوبارہ وہی حرکتیں کرتا ہے.ایسے طالب علم آپ نے دیکھے ہوں گے اور میں ذاتی تجربے کے طور پر بھی جانتا ہوں کہ جب امتحان سر پر آجایا کرتا تھا تو وہ بہت تو یہ کیا کرتے تھے کہ اگلی دفعہ جب نئے سال ترقی کریں گے تو پھر شروع سے ہی کتا ہیں اچھی طرح سنبھال کر رکھیں گے.خوب پڑھیں گے محنت کے ساتھ اس دفعہ کسی طرح یہ بلاٹل جائے اور ایسے طلباء جو یہ باتیں کرتے ہیں جب بھی بلا ملتی ہے دوبارہ پھر بالکل ویسے ہی ہو جاتے ہیں.دنیا کے امتحانوں میں تو کوئی ایسی بات نہیں مگر جب خدا کے حضور ایسے وعدے کئے جائیں اور بار بار پہلی حالت کی طرف رجوع کیا جائے تو پھر قیامت کے دن خدا تعالیٰ کا یہ جواب دیکھیں کیسا بر حق ہے کہ تم وہی تو ہو جو پہلے اسی قسم کی باتیں کیا کرتے تھے.آج اگر ہم یہ عذاب ٹال دیں اور تمہیں واپس لوٹادیں تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم پھر دوبارہ وہی حرکتیں کرو گے جو اس سے پہلے کرتے چلے آئے ہو.پس ایسی باتیں کرنا جب پکڑ کا وقت آجائے اور امتحان کا وقت ختم ہو جائے بالکل بے معنی اور لغو باتیں ہیں ایسی دعا سے استغفار اور اس کے مواقع سے استغفار کرنا چاہئے.سورۃ الانعام کی ایک دعا ہے ۱۲۹ اور ۱۳۰ آیات میں.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَقَالَ أَوْ لِيَؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَلُكُمْ خُلِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ فرماتا ہے وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا جب اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا کرے گا.يُمَعْشَرَ الْجِنِ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ اے جنوں میں سے سردار اور بڑے لوگو تم نے عوام الناس کا خوب استحصال کیا ہے.وقال أَو لِيَؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ عوام الناس میں سے جو بڑے لوگ ہیں وہ خدا کے حضور یہ عرض کریں گے.رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ اے خدا ہم میں سے بعض نے بعض کا استحصال کیا ہے وَ بَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَلْتَ لَنَا یہاں تک کہ وہ مدت جو تو نے ہمارے لئے مقررفرما رکھی تھی وہ پوری ہوئی.قَالَ النَّارُ مَثُونَكُمْ خَلِدِينَ فِيهَا اللہ تعالیٰ فرمائے گا آگ تمہارا ٹھکانا ہے تم اس میں لمبے عرصے تک رہو گے.إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 563 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء سوائے اس کے کہ اللہ اس بلا کو ٹالنے کا فیصلہ فرمالے.اِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ بہت حکمتوں والا اور بہت جاننے والا ہے.ان آیات میں بظاہر دعا پیش نہیں کی گئی مگر ایک ایسی حالت بیان کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اپنی حالت خدا کے حضور پیش کرنے والے رحم کی تمنا کرتے ہیں.یہ دعا جو عذاب کے سامنے حاضر ہونے کے بعد بعض لوگ کریں گے نسبتا زیادہ مطالعہ کی محتاج ہے تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ یہاں جن سے کیا مراد ہے انس سے کیا مراد ہے اور کیا بات پیش کی جارہی ہے.پہلی بات تو یہ ہے فرمایا مَعْشَرَ الْجِنِ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ اے جنو تم نے لوگوں میں سے، عوام الناس میں سے اکثر سے ناجائز فائدے اٹھائے ہیں.سوال یہ ہے کہ اگر جن وہ مخلوق ہے جس کے متعلق عوام الناس میں مشہور ہے اور خاص طور پر ملاں لوگ مشہور کرتے رہتے ہیں کہ یہ انسانوں سے ہٹ کر ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی.اس کے متعلق کب انسان کے سامنے یہ بات آئی ہے، کب انسانی تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ ان فرضی جنوں نے بھاری تعداد میں انسانوں سے فائدہ اٹھایا ہو اور ان کو اپنا غلام بنالیا ہو.کوئی اتفاق سے کہیں کوئی ایسا مریض ملتا ہے جس کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کو جن چڑھ گیا اور اس نے اس کو قابو کر لیا.پس یہاں لازماً جن سے مراد کچھ اور ہے اور وہی معنی ہیں جو جماعت احمدیہ کی تفاسیر میں ہمیں ملتے ہیں یعنی جن سے مراد بڑے لوگ ہیں اور جب خدا جن اور انس کا ذکر ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر فرماتا ہے تو اس سے ہمیشہ مراد Capitalist اور Proletarlat یعنی عوام الناس اور بورثر دالوگ ہیں ایک دوسرے کے مقابل پر یعنی بوژوا کے مقابل پرProletarlat جو بڑی بڑی استحصالی طاقتیں ہیں مثلاً مغربی طاقتیں Proletariat ان کے مقابل پر اشترا کی طاقتیں اور بڑے آدمیوں کے مقابل پر چھوٹے غریب بے کس عوام.یہ مقابلہ ہمیشہ کیا جاتا ہے جن اور انس کے ذریعہ اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ لفظ استحصال کا ذکر یہاں خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.ہمیشہ اشتراکیت کی طرف سے یہی آواز اٹھائی گئی ہے کہ مغربی Capitalist طاقتیں استحصالی طاقتیں ہیں اور سائنٹفک سوشلزم کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ بعض لوگ بعض غرباء کا استحصال کرتے ہیں اور اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 564 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۹۱ء کے ردعمل کے طور پر ایک اشترا کی نظام وجود میں آیا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ ہم بڑے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے قدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ تم نے عوامی طاقتوں کو زیر کر لیا ہے اور ان سے بہت سے استفادے کئے ہیں.ایسے استفادے جو استحصال کہلاتے ہیں جو جائز نہیں ہیں.یہ ایک دور تو وہ تھا جو جنگ عظیم سے پہلے کا دور تھا جبکہ اشترا کی نظام مقابل پر ابھرا نہیں تھا اور اس وقت ایک ہی Capitalist نظام تھا جو ساری دنیا کو زیر کئے ہوئے تھا.ایک اب وہ دور ہے جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں اس میں پھر Capitalistic نظام اکیلا رہ گیا ہے اور اکثر عوامی نظام کو اس نے زیر منقار کرلیا ہے، اپنی لگام کے نیچے لے لیا ہے وَقَالَ أَوْ لِيَؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بَعْض.یہ ذکر چل رہا ہے قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کو سزا دی جائے گی یہ پس منظر ہے اس آیت کا.اس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عوام الناس ہیں وہ یہ عرض کریں گے کہ اے خدا یہ لوگ غالب تھے اور طاقتور تھے.انہوں نے ہمارا استحصال کیا اور اس استحصال کے نتیجے میں ہم سے بدیاں سرزد ہوئیں.ہم ان کے پیچھے چل پڑے اور اس معاملے میں ہم مجبور تھے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَالَ النَّارُ مَثُوبِكُمْ خَلِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاء الله کہ یہ کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے جس کے نتیجے میں انسان خدا کو چھوڑ دے اور راہ راست سے ہٹ جائے اس لئے اگر دنیا میں انہوں نے تمہارا استحصال کیا تو اس کا یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ تم گناہوں پر مجبور ہو گئے اور الصّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.اس لئے یہ عذر قبول نہیں ہوگا.گمراہوں کی یہ دعا ہمارے لئے ایک عبرت ہے.بہت سے ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ بڑے لوگوں کے تابع ہیں ان کے ہاتھوں مجبور ہیں اس لئے ہم اپنے گناہوں کی پاداش نہیں دیکھیں گے، ہم اپنے گناہوں کی سزا نہیں پائیں گے کیونکہ ہم تو مجبور تھے.اللہ تعالیٰ اس عذر کو رد فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنا خود ذمہ دار ہے.اگر کسی بڑے آدمی کے پیچھے لگ کر تم بدی کرو گے تو یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ ہم بڑے آدمی کے اثر کے نیچے مجبور تھے.ایک دعا سورۃ اعراف کی آیت ۱۲ تا ۱۹ میں ہے یعنی دعا تو آیت ۱۵، ۱۶، ۷ میں اور ۱۸ میں درج ہے لیکن آیات جو درج ہیں یہاں یہ ۱۲ تا ۱۹ ہیں.دعا یہ ہے قَالَ أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 565 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء (الاعراف: ۱۵) یہ شیطان کی دعا ہے اب اندازہ کریں کہ دعاؤں کا مضمون کتنا پھیلا ہوا ہے نعمتوں کی دعائیں کرنے والوں میں سر فہرست حضرت اقدس محمد مصطفی ملتے ہیں ، پھر فرشتے ہیں ، پھر خدا کے دیگر انبیاء اور ہر قسم کے نیک لوگ اور الْمَغْضُوبِ اور الائین کی دعا کرنے والوں میں سرفہرست شیطان ہے اس کی دعا بھی محفوظ فرمالی گئی اور بتایا گیا کہ تمہیں کس شیطان سے واسطہ ہے کونسی دعا تمہیں نہیں مانگنی چاہئے اور جس قسم کے شر سے تمہیں واسطہ پڑے گا اس کی کیفیت کیا ہے.وہ اپنے لئے خدا سے کیا مانگ بیٹھا ہے اور اللہ تعالیٰ ایک مدت کے لئے اس کی یہ دعا قبول فرما چکا ہے اس لئے ہمیں بہت ہی کھلے لفظوں میں متنبہ فرما دیا گیا ہے.فرمایا شیطان نے کہا انظر إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ اے خدا مجھے اس دن تک مہلت دے دے جس دن سب لوگ اٹھا کر تیرے حضور حاضر کئے جائیں گے.قَالَ إِنَّكَ مِنَ المُنظرِينَ (اعراف (۱۲) فرمایا! ہاں تجھے مہلت دی جاتی ہے تو بعض دفعہ بددعا بھی قبول ہو جاتی ہے اور یہ کہنا کہ ہم نے فلاں دعا مانگی اور قبول ہوگئی صرف یہی کافی نہیں ہے اگر بددعا قبول ہو تو بہت بڑی لعنت ہے.اگر نیک دعائیں قبول ہوں تو پھر قربت کا نشان ہے نہ کہ بددعاؤں کا قبول ہو جانا اور بد دعاؤں کے قبول ہونے کی بھی بعض حکمتیں ہیں.بہر حال خدا نے وہیں فرما دیا کہ ہاں تجھے چھٹی ہے.قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا قْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (الاعراف:۱۷) اس نے کہا اچھا اگر مجھے اجازت ہے تو میں بتاتا ہوں کہ میں کیا کروں گا چونکہ تو نے مجھے گمراہ قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی اجازت دیدی ہے کہ میں تیرے بندوں کو بھٹکاؤں اس لئے لَا قُعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ میں صراط مستقیم پر بیٹھ جاؤں گا اور ہر وہ شخص جو صراط مستقیم سے گزر رہا ہوگا اس کو بھٹکانے کی کوشش کروں گا.تو دیکھیں جب ہم دعا کرتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تو یہ کافی نہیں ہے بھی اس کے بعد یہ تشریح آتی ہے.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ راستہ تو سیدھا ہے مگر اس سیدھے راستے پر بھٹکانے والے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، وسو سے پیدا کرنے والے بھی بیٹھے ہوئے ہیں طرح طرح کے عذر تراش کر یہ سمجھانے والے بھی بیٹھے ہیں کہ یہ کر لو تو کوئی حرج نہیں وہ کر لو تو کوئی حرج نہیں.اتنی سی بات سے کیا ہوتا ہے.تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 566 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم پر جگہ جگہ اسی طرح یہ شیطان بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح بعض دفعہ عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے رستے میں بیٹھے ہوئے فقیر ملتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے بنا کر یہ انسان کو بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ راز ہم پر کھول دیا ہے اگر یہ چھپارہتا تو ہمارا دھوکا کھانا شاید کوئی عذر رکھتا.لیکن یہ سب کچھ بیان ہونے کے بعد ہمارا پھر آنکھیں کھول کر دھوکا کھانا یہ ہمارے گناہوں کی شدت کو بڑھا دیتا ہے.کہتا ہے پھر میں کیا کروں گا.ثُمَّ لَا تِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمُ (الاعراف: ۱۸) میں پھر ان کے آگے سے بھی آؤں گا اور پیچھے سے بھی آؤں گا یعنی پیچھا ہی نہیں چھوڑوں گا صرف رستے پر بیٹھا نہیں رہوں گا بلکہ ساتھ ساتھ بھاگوں گا اور میں نے دیکھا ہے بچپن میں ایسے فقیر بڑا تنگ کیا کرتے تھے جن کو اگر کچھ نہ دو تو وہ آگے بھی ہوتے تھے پیچھے بھی ہوتے تھے.رستے روکتے تھے پیچھے سے دامن پکڑتے تھے اور لوگوں کا پیچھا چھوڑتے نہیں تھے جب تک ان کو کچھ پل نہ جائے.تو خدا نے شیطان کا بھی ویسا ہی نقشہ کھینچا ہے کہ الصّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صراط مستقیم پر بیٹھا نہیں رہے گا ساتھ ساتھ دوڑے گا اور بھی سامنے سے آکر کوئی بات کرے گا کبھی پیچھے سے آکر کان میں کچھ پھونکے گا اور مجبور کرے گا کہ تم اس کی بات مان کر الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے ہٹ جاؤ اور ٹھوکر کھا جاؤ.وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَا بِلِهِمْ پھر کبھی وہ دائیں طرف سے بھی آئے گا اور کبھی بائیں طرف سے بھی آئے گا.دائیں طرف سے مراد یہ ہے کہ دین پر کھلے کھلے حملے کرے گا.اور بائیں طرف سے مراد یہ ہے کہ لالچیں دے گا کیونکہ بائیں طرف دنیا کا نشان ہے اور دائیں طرف دین کا نشان ہے غرضیکہ ہر طرح سے وہ مشکلوں میں مبتلا کردے گا.وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شُکرِین یعنی شیطان یہ بتائے گا کہ میں یوں کروں گا اور یوں بھی کروں گا اور پیچھا نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ میں تجھے بتا دیتا ہوں کہ تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہیں پائے گا.قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْهُ وَمَا مَّدْ حُوْرًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَا مُلَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ (الاعراف:(۱۹) خدا نے فرمایا کہ اے شیطان تو میرے دربار سے باہر نکل جا.تیری ہمیشہ مذمت کی جائے گی اور تو درگاہ سے راندہ ہوا ہے پس جو بھی تیری پیروی کرے گا اس کا بھی ویسا ہی حال ہو گا اور میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 567 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء یہاں ایک پتے کی بات شیطان نے بیان کر دی جس سے مومن کو فائدہ اٹھانا چاہئے جس طرح لقمان سے کسی نے پوچھا تھا کہ تو نے حکمت کی باتیں کس سے سیکھیں.اس نے جواب دیا کہ بے وقوفوں سے تو بعض دفعہ شیطان سے بھی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس سے مومن فائدہ اٹھالیتا ہے.اول تو اس کا سارا بیان خدا نے ریکارڈ کر دیا اور ہمارے سامنے رکھ دیا کہ یہ باتیں ہیں جن کے متعلق میں اس کو اجازت دے بیٹھا ہوں.دوسری بات یہ ہے اس نے آخری نتیجہ یہ نکالا ہے وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شُکرِین کہ اے خدا تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں دیکھے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ شکر گزار انسان ٹھو کر نہیں کھا سکتا کوئی ایسا شخص جو احسان مند ہواور اس کے اندر احسان مندی کا جذبہ پایا جاتا ہو اور اس کے دل میں کسی محسن کے احسانات کا احساس رہے وہ شخص اس طرح حد سے نہیں گزر سکتا کہ محسن کے خلاف کارروائی کرے.بعض انسان ایسے ہیں جو احسان فراموش ہوتے ہیں ان سے آپ ساری عمر احسان کا سلوک کریں ذرا سا منہ موڑیں تو وہ اس کے نتیجے میں آپ کے مخالف ہو جاتے ہیں اور بعض آپ کو گزند بھی پہنچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ایک فارسی کا شعر اس مضمون کا بہت ہی اچھا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دیکھو کتا ایک ایسا جانور ہے کہ تم اس کو ایک دفعہ روٹی کا ٹکڑا ڈال دو پھر اس کو سو دفعہ مارو لیکن وہ تم پر حملہ نہیں کرے گا لیکن بعض انسان ایسے بدنصیب ہیں کہ ان کو سود فعہ روٹی ڈالو ایک دفعہ ان سے منہ موڑ لو تو وہ تم پر بھونکنے لگتے ہیں اور تمہارے خلاف ہو جاتے ہیں اور تم سے بدلے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں.تو شیطان نے بہت پتے کی بات کہی ہے تبھی خدا نے اس کو محفوظ کر لیا اور ہمیں شیطان سے بچنے کی راہ سکھادی.وہ شخص جو احسانات کے نتیجے میں زیر بار ہو جاتا ہے اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اپنے محسن کے خلاف کوئی کارروائی کرے.پس وہ انسان جو چاروں طرف سے آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں سے اللہ تعالیٰ کے احسانات سے گھرا ہوا ہے اس کے اوپر بھی احسانات ہیں اور اس کے نیچے بھی احسانات ہیں اللہ تعالیٰ یہ توجہ دلا رہا ہے کہ شیطان ایسے شخص پر حملہ نہیں کر سکتا جو ان احسانات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والا ہے کیونکہ شیطان کہتا ہے کہ میں دائیں طرف سے بھی حملہ آور ہوں گا.دائیں طرف سے بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس اس کا دفاع کر رہا ہو گا.وہ کہتا ہے میں سامنے سے آؤں گا.سامنے سے بھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 568 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس اس کا دفاع کر رہا ہو گا.اسی طرح آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف اللہ تعالیٰ کے احسانات انسان کو گھیرے ہوئے ہیں اور ایک احسان مند ہونے والا دل کبھی بھی اس کے نتیجے میں شیطان کے حملے کا نشانہ نہیں بن سکتا.تو شیطان نے پتے کی بات یہ کہی کہ میں ناشکروں پر حملے کروں گا اور جتنے ناشکرے ہیں وہ میرے غلام بن جائیں گے اور یہ بات درست ہے.گناہ کا آغاز ناشکری سے ہوتا ہے اور اس کا انجام وہی ہے جس طرح قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا کہ تم سب سے پھر میں جہنم کو بھر دوں گا.ایک دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو میرے عبد ہیں ان پر تو غالب نہیں آسکے گا جو چاہے کر لے.اور عبد سے مراد وہی ہے کہ جو احسان مند لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے احسانات کو یا درکھ کے اس کے غلام ہو جاتے ہیں.ایک اور دعا ہے سورہ اعراف آیات ۳۸ تا ۴۰ میں ان میں دعا والا حصہ یہ ہے.قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةً لَعَنَتْ أَخْتَهَا حَتَّى إِذَا اذَارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَبُهُمْ لِأُ وَلَهُمْ رَبَّنَا هَؤُلَاء أَضَلُّوْنَافَاتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ قَالَ لِكُلِّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لَّا تَعْلَمُونَ فرمایا کہ جب ایک امت ایک قوم، بعض گروہ جب نئے داخل ہوں گے جہنم میں تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا.قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَرِ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ کہ اے لوگو تم اپنے ہی جیسی ایک اور امت کے مقام میں داخل ہو جاؤ تم سے پہلے بھی کچھ لوگ ایسے گزرے تھے جو تمہارے جیسے اعمال کیا کرتے تھے ان کا جو ٹھکانا ہے وہی تمہارا ٹھکانا ہے یعنی خدا دنیا میں مختلف زمانوں میں آنے والے انسانوں سے نا انصافی نہیں کرے گا جن اعمال کے نتیجے میں پرانے زمانوں میں بعض لوگ کسی خاص انجام کو پہنچے ویسے اعمال کرنے والے خواہ جب آئیں بالآخر ان کا بھی وہی مقام ہوگا.فرمایا كُلَّمَادَ خَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَهَا اور اس حال میں وہ لوگ داخل ہوا کریں گے کہ جب بھی کوئی لوگ داخل ہوں گے تو اپنے جیسوں پر لعنت بھیجیں گے جس طرح مومن جب جنت میں داخل ہوں گے تو سلام کہا کریں گے اسی طرح جہنم میں جانے والے اپنے ساتھیوں پر لعنت بھیجیں گے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 569 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء حَتَّى إِذَا اذَارَكُوْا فِيْهَا جَمِيعًا یہاں تک کہ جب وہ سب اکٹھے ہوجائیں گے.قَالَتْ أُخْرَبهُمْ لا ولهم اس وقت بعد میں آنے والے اپنے پہلے آنے والوں کے متعلق اپنے رب سے یہ عرض کریں گے کہ اے خدا یہ وہ شیطان لوگ ہیں جن کے پیچھے چل کر ہم نے اپنا دین بھی گنوایا اور اپنی دنیا بھی گنوائی.یہ وہ بد بخت ہیں جن کو ہم نے اپنا امام بنالیا تھا پس ان کو دوہرا عذاب دے اور یہ بھی ایک خاص گناہ گار کی فطرت کا اظہار ہے ایک مومن تو یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا بخش دے.معاف کر دے.اور جو شیطان صفت لوگ ہیں ان کو مزا اور ہی طرح آتا ہے ان کو اگر اپنی بخشش میں مزا نہیں تو دوسرے کے زیادہ عذاب میں مزا ہے.اپنی دنیا کی زندگیوں میں بھی ان کا یہی طریقہ ہوا کرتا تھا کہ کسی کے دکھ کو دیکھ کر ان کو سکون ملتا تھا.تو جہنم میں جا کر بھی ان کا مزاج نہیں بدلے گا وہ یہ نہیں کہیں گے کہ اے خدا ان بدبختوں نے ہمیں گمراہ کیا اور اس لئے ہمیں معاف کر ہم سے رحم کا سلوک فرما.وہ کہیں گے اچھا پھر ان کے دہرے عذاب کا مزا ہمیں چکھا.اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرمائے گا لِكُلِّ ضعف دیکھو دونوں کے لئے دوہرا ہی عذاب ہے.ولكِنْ لا تَعْلَمُونَ لیکن تم اس بات کو سمجھتے نہیں.دونوں کے لئے دوہرا عذاب کیوں ہے ایک دوسرے کے لئے گمراہی کا موجب بنا اور ایک نے گمراہی اختیار کی.سوال یہ ہے کہ اس کا یہ جواب کیوں دیا گیا کہ دونوں کے لئے دو ہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی کی پیروی کرتے ہوئے ایک برانمونہ پیش کرتا ہے وہ محض کسی برے نمونے کے پیچھے چلنے والا نہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے خود بھی وہ ٹھوکر کا سامان بن جاتا ہے.تو کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ ہم نے ان کی پیروی کی اسلئے ان کو دو ہر اعذاب دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تو پیروی کر کے اب میرے حضور حاضر ہو گئے لیکن تم نہیں جانتے کہ تم نے کتنے بد نمونے پیچھے چھوڑے ہیں اور کتنی آنے والی نسلوں کی گمراہی کے سامان پیدا کئے ہیں اس لئے جس دلیل سے تم کہتے ہو کہ ان کو دوہرے عذاب میں مبتلا فرما وہی دلیل تمہارے دوہرے عذاب کا بھی مطالبہ کرتی ہے.پس اللہ تعالیٰ ہرگز ظلم کرنے والا نہیں اور خدا تعالیٰ جب گمراہوں اور مغضوبوں سے باتیں کرتا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوٹوک جواب دے دیا کوئی دلیل نہیں لیکن جب آپ گہری نظر سے دیکھیں تو خدا کے دوٹوک جواب میں گہری حکمت کار فرما ہوتی ہے اور بہت ہی پر شوکت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 570 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء اور پر حکمت کلام ہے چنانچہ یہ بات سن کر پھر خدا فرماتا ہے وَقَالَتْ أُوْلَهُمْ لِأُخْرَبهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ (الاعراف: ۴۰) کہ دیکھ لیا نے تمہیں ہم پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی.تم سے کوئی غیر معمولی سلوک نہیں کیا جائے گا اب آؤ مل کر ہم اس عذاب کو چکھیں جو ہم نے بھی کمایا تھا اور جو تم نے بھی کمایا ہے.سورۃ الانفال آیت ۳۱ تا ۳۴ میں سے ایک آیت میں یہ دعا ہے:.وَإِذْ قَالُوا اللَّهُم إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقِّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ انْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ کہ بعض ایسے بد بخت لوگ ہیں حضرت محمد مصطفی ماہ کے مخالفین میں سے کیونکہ ان کا ذکر ہورہا ہے جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ اگر واقعی محمد مصطفی و حق پر ہیں اور تو نے ان کو حق عطا کیا ہے.یہ حق تیری طرف سے ہے فَأمطر عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ تو ہم پر پھر آسمان سے پتھروں کی بارش نازل فرمایا او انتِنَا بِعَذَابِ اکیچ یا ہمیں بہت ہی درد ناک عذاب دے.یہ دعا کفار مکہ کی دعا ہے اور روایات سے پتا چلتا ہے کہ ابو جہل نے یہ دعا کی تھی اور یہ کہا تھا کہ جس بندے کا میں انکار کر بیٹھا ہوں مجھے اتنا یقین ہے کہ یہ جھوٹا ہے کہ میں بڑی دلیری کے ساتھ تجھے مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اے خدا اگر تو نے اس کو سچ عطا کیا ہے تو پھر آسمان سے بے شک مجھ پر پتھروں کی بارش نازل فرما اور جو بھی دردناک عذاب ہو سکتا ہے ہمیں پہنچے.ایک دفعہ ایک بدوی نے بنو عباس کے ایک خلیفہ کو یہ طعنہ دیا کہ تم لوگ جو قریش مکہ بن کر اپنی فضیلتوں کے قصے سناتے رہتے ہو.خدا نے ہم پر تمہارا حال کھول دیا ہے.تم بڑے ہی بے وقوف لوگ ہو اور قرآن کریم نے تمہاری بے وقوفی پر ہمیشہ کے لئے گواہی دیدی ہے.اس نے تعجب سے پوچھا کہ کون سی گواہی.اس نے کہا تم میں سے سب سے بڑا صاحب حکمت ابوالحکم ہی تھا نہ.جس کو خدا نے بعد میں ابو جہل قرار دیا اور ابوالحکم کا حال یہ تھا کہ خدا سے اس نے یہ دعا کی کہ اے خدا اگر محمد مصطفی کو تو نے حق عطا فرمایا ہے تو پھر ہم پر پتھروں کی بارش نازل فرما.وہ بڑا پاگل آدمی تھا اس کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اے خدا اگر حق ہے تو ہمیں توفیق عطا فرما کر ہم اس حق کو قبول کر لیں.یہ کہنا چاہئے تھا کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو نہ مانیں لیکن اگر حق ہے تو پھر ہم پر رحمتیں نازل فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما.یہ دعا مانگ بیٹھا کہ اگر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش نازل فرما.لیکن یہ جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 571 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء ابوجہل کی فطرت ہے یہ ہر زمانے میں دہرائی جاتی ہے.بعض لوگ ہم نے دیکھے ہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق خدا آسمان سے اتر کر ہمیں کہے کہ یہ سچا ہے تب بھی ہم نہیں مانیں گے.تو یہ جو فطرت ہے بغاوت کی یہ شیطانی فطرت ہے اور خدا آسمان سے خود اتر کر کہے کہ یہ سچا ہے تو ہم نہیں مانیں گے.یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے جو شیطان کا مکالمہ گزر چکا ہے اس میں یہ بات کھل کر ثابت ہو چکی ہے.شیطان جانتا تھا کہ خدا حق ہے اور شیطان جانتا تھا کہ خدا نے آدم کو حق قرار دیا ہے اور اس کے باوجود وہ دیکھو کیسی بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے اے خدا میں پھر بھی نہیں مانوں گا اور تو مجھے مہلت دے تاکہ قیامت تک میں ان لوگوں کے رستے پر بیٹھوں.اس دعا سے یہ معاملہ بھی سمجھ آ گیا کہ شیطان کن لوگوں کے بھیس میں ان رستوں پر بیٹھا کرتا ہے.ہر نبی کے دور میں جیسے آدم کے دور میں ایک شیطان نے خدا سے یہ مکالمہ کیا.عملاً ایسے ابلیس پیدا ہوتے رہتے ہیں جو بعینہ یہی بات کہتے ہیں کہ اے خدا تو نے ہمیں بتا دیا تب بھی ہم نہیں مانیں گے اور آدم کی کہانی ہر دور میں دہرائی جاتی ہے.پس ان مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعاؤں سے اور جو مکالمہ انہوں نے خدا سے کیا ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے گہری نصیحتیں ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادے کی توفیق بخشے.سورۃ یونس آیت ۲۲ تا ۲۴ کی ایک دعا ہے جو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی طرف منسوب ہے.مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا مضمون تو ہے لیکن یہ ذرا مضمون میں چھپا ہوا لیٹا ہوا مضمون ہے.فرماتا ہے هُوَ الَّذِى يُسَيَّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (نس۱۳۰) وہی خدا ہے جو تمہیں خشکیوں اور سمندروں میں سفروں پر لے جاتا ہے اور سفر کی سہولتیں تمہیں عطا فرماتا ہے.حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو.وَجَرَيْنَ بهم رح طيبة اور وہ کشتیاں ٹھنڈی خوشگوار ہواؤں کے ساتھ ان کو لے کر سفر پر روانہ ہوتی ہیں وفَرِحُوا بِهَا اور وہ اس سے بہت خوش ہو جاتے ہیں جَاءَ تُهَارِيعٌ عَاصِفُ تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ہوا میں تیزی آجاتی ہے اور خنک ہوائیں چلنے لگتی ہیں.وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ اور ہر طرف سے موج درموج طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.ہر طرف سے موجیں ان کو گھیر لیتی ہیں.وَظَنُّوا أَنَّهُمُ أحيط بِهِ اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم ان موجوں کے گھیرے میں آچکے ہیں.دَعَوُا اللهَ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 572 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین وہ اس وقت پورے اخلاص کے ساتھ اپنے دین کو سچا قرار دیتے ہوئے خدا سے یہ عرض کرتے ہیں لَبِنْ اَغْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ اے خدا اگر اس بار اس مصیبت سے تو ہمیں نجات بخش دے تو ہم یقیناً تیرے شکر گزار بندے بن جائیں گے فَلَمَّا أَنجُهُمُ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ (یونس :۲۴) پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو نجات بخش دیتا ہے تو وہ دنیا میں اسی طرح ناحق بغاوت کرتے پھرتے ہیں جس طرح پہلے کیا کرتے تھے اور خدا کے معصوم بندوں کو ستاتے ہیں.يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ مَّتَاعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرُ جِعُكُمْ فَتُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ کے اے لوگو سن لو کہ تمہاری بغاوت بالآخر تمہارے ہی خلاف ہوگی مَتَاعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اور یہ جو نفع کی باتیں کرتے ہو یہ تو عارضی دنیا کا نفع ہے بالآخر تم ہماری طرف لوٹ کر آنے والے ہواور فَنُنَبِئُكُم تب ہم تمہیں بتائیں گے کہ تمہارے اعمال کی کیا حقیقت تھی.اس دعا کو الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا میں نے اس لئے کہا ہے کہ بالآخر یہ لوگ اپنے وعدوں سے مل جاتے ہیں اور ہٹ جاتے ہیں.مگر مصیبت کے وقت کی یہ دعا بذات خود الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا نہیں اسی لئے میں نے کہا کہ یہ لپٹی ہوئی سی دعا ہے.ہر وہ شخص جو نیک ہو یا بد ہو جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اسی قسم کی دعائیں کیا کرتا ہے لیکن بعض ان میں ایسے ہیں جو مغضوب بھی ہیں.جو جھوٹے ہیں دھوکا دینے والے ہیں.خدا سے وعدے کرتے ہیں اور پھر ان وعدوں سے ہٹ جاتے ہیں.ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی بھی دعائیں قبول کر لیا کرتے ہیں.پس یہاں یہ مضمون سمجھانے کی خاطر میں یہ دعا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ ایسی دعا جو مصیبت کے وقت کی جائے بعض دفعہ وہ اس شدت کے ساتھ دل سے اٹھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر گواہی دیتا ہے کہ دین کے خلوص کے ساتھ وہ دعا کی گئی تھی.واقعہ دل کی کیفیت یہی ہوتی ہے اور چونکہ وہ کیفیت ایسی ہے جس کو خدا تعالیٰ رد نہیں فرمایا کرتا اس لئے اس علم کے باوجود کہ یہ کیفیت بدل جائے گی اس وقتی کیفیت پر احسان فرماتے ہوئے اس دعا کو قبول کر لیتا ہے.پس بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بد بھی ہیں تب بھی ہماری دعائیں تو قبول ہو ہی جاتی ہیں ان کو دھو کے میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ اتاریم فرمانے والا ہے کہ جب ایک انسان ایک اضطرار کی حالت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 573 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء میں دعا کرتا ہے اور وقتی طور پر مخلص ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو رد نہیں کر سکتی.یہ مضمون آپ نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی دیکھا ہوگا.بعض لوگ بار بار شرارت کرتے ہیں لیکن جب پکڑے جائیں تو واقعی ایسی عاجزی کی کیفیت اختیار کر لیتے ہیں.ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں وہ تھر تھر کانپتے ہیں، پاؤں کو جھک جھک کر ہاتھ لگاتے ہیں کہ خدا کے لئے اس دفعہ معاف کر دو.آئندہ ہم نہیں ایسا کریں گے اگر پتا بھی ہو آپ کو کہ آئندہ پھر بھی کریں گے وہ عاجزی اور انکساری کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ ایک شریف انسان اس کو رد نہیں کرسکتا.پس اگر ایک عام انسان بھی اس الحاح سے متاثر ہو جاتا ہے اس عاجزی سے متاثر ہو جاتا ہے تو خدا تو بہت زیادہ غفور و رحیم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کو علم نہیں.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ پھر یہی حرکتیں کریں گے لیکن ساتھ ہی بیان فرما دیا کہ آخر ہمارے پاس آنا ہے.ہمیں پتا ہے کہ بھاگ کے تو کہیں جائیں گے نہیں.چونکہ انجام بالآخر میرے پاس ہونا ہے اس لئے مجھے اس سے فرق ہی کوئی نہیں پڑتا چاہے میں دس دفعہ معاف کروں ہزار دفعہ معاف کروں.چونکہ مجھ تک پہنچنے والے ہیں اس لئے آخری فیصلہ میں قیامت کے دن کروں گا.جب سب کے اعمال میرے حضور پیش کئے جائیں گے چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے ایک دعا کے ذکر کے بعد میں آج کا خطبہ ختم کروں گا.فرمایا ہے: وَجُوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَاءِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وعَدُوًّا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ أَمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أُمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاعِيْلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (يونس: ٩١) فرماتا ہے کہ جب ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پارا تار دیا اور فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ اس کی پیروی کی اور بغاوت کی باتیں کرتے ہوئے اور دشمنی کے ارادے لے کر ان کے پیچھے چل پڑا.یہاں تک کہ جب اس کے غرق ہونے کا وقت آ پہنچا.اس وقت اس نے یہ دعا کی.لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاعِیلَ میں گواہی دیتا ہوں کہ بنو اسرائیل جس خدا پر ایمان لائے ہیں اس خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں.وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور میں مسلمان ہوتا ہوں.تب خدا نے فرمایا آنتن (یونس :۹۲).کیا اب جب کہ تیرے غرق ہونے کا وقت آ پہنچا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 574 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء وَقَدْ عَصَيْتَ اور تو اس سے پہلے ساری عمرنا فرمانی میں گزار چکا ہے.وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ اور تو ہمیشہ فساد کر نے والوں میں سے رہا.اس دعا کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے اس دعا کو بھی مشروط رنگ میں قبول کرلیا.یہ جانتے ہوئے کہ اس وقت آخری لمحے میں اس دعا کا کوئی حق نہیں تھا.اس کی ساری عمر بدیوں میں گزری.ساری عمر بغاوت میں کئی.اب جبکہ موت سر پر آکھڑی ہوئی بلکہ ڈوب رہا ہے ان لمحوں میں جو وہ دعا کرتا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں لیکن اس کے باوجود بعض دفعہ اس دعا میں ایک شدت ایسی اضطرار کی پیدا ہو جاتی ہے کہ خدا اس کو بھی قبول فرمالیتا ہے.لیکن کسی حکمت کے تابع فرمایا ہم نے اس کو یہ جواب دیا آنان کیا اب اس وقت پھر فرماتا ہے.فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ ببدنك (يونس:۹۳) چلیں ہم تیرے بدن کو نجات بخش دیں گے کیونکہ روح کے خوف سے تو تو نے تو بہ نہیں کی تھی.بدن کا خوف در پیش ہے تو تو بہ کر رہا ہے اس لئے اس آخری تو بہ میں روح کو تو نہیں بچاؤں گا لیکن تیرے بدن کو ضرور بچالوں گا.کس لئے ؟ اس لئے لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً تا کہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے.وَاِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عن ابتِنَا لَغَفِلُونَ اور دنیا میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو ہمارے نشانات سے غافل ہیں.اس آیت سے مختلف مفسرین نے مختلف نتائج نکالے ہیں.اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ کے مضمون میں وہ یہ سمجھتے ہیں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا نے جب وہ غرق ہورہا تھا تو اس وقت کی یہ دعا تھی اس لئے خدا نے صرف بدن کو بچایا یعنی لاش کو بچایا اور فرعون کو نہیں بچایا.وہ سمجھتے ہیں روح کے مقابل پر لاش سے مراد یہ ہے کہ زندہ نہ رکھا گیا اور اس کی دعا اس رنگ میں قبول ہوئی کہ اس کا بدن بعد میں باقی رہے گا.میرے دل میں ہمیشہ اس تفسیر کے بارے میں تردد رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فراعین مصر کی لاشیں تو ویسے ہی محفوظ کی جاتی تھیں اس لئے خدا نے اس کی کیا دعاسنی.وہ تو دستور تھا اہل مصر کا.اپنے فرعون کی لاش کو ڈھونڈھ کر جب وہ پانی اترا ہوگا تو انہوں نے ضرور اس کی محی بنالی ہوگی.اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ ہم تیرے بدن کو محفوظ رکھیں گے اس سے مراد اس کی زندگی سمیت بدن ہے اور یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ روح نہیں بچے گی.یعنی جب وہ قیامت کے دن پیش ہوگا تو اس وقت گناہگاروں اور مجرموں کے طور پر ہی پیش ہو گا لیکن چونکہ اس نے عارضی زندگی کی خاطر دعا مانگی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 575 خطبہ جمعہ ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء ہے اور روحانی زندگی کی خاطر نہیں مانگی اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھے ہم عارضی زندگی عطا کردیں گے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پچاس سال ٹھہر وسوسال ٹھہر ولیکن بالآخر اس کے نتیجے میں تجھے معاف نہیں کریں گے کیونکہ جو گناہ تجھ سے سرزد ہو چکے ہیں آخری دم تک تو نے ان سے توبہ نہ کی تھی.اس مضمون کی روشنی میں میرے ذہن پر ہمیشہ ہی اثر رہا کہ فرعون کے متعلق جستجو کروں کہ واقعہ اس سے کیا ہوا؟ چنانچہ کچھ عرصہ پہلے انگلستان میں ایک انسائیکلو پیڈیا ایسا میرے ہاتھ آیا جس میں تفصیل سے اس فرعون کا ذکر تھا یعنی Rameses the second ( رمسیس ثانی) اور مجھے یہ معلوم کر کے بڑا تعجب ہوا کہ وہ اس واقعہ کے بعد پچاس ساٹھ سال زندہ رہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ نوے سال کی عمر اس نے پائی اور بہت چھوٹی عمر میں اس کا باپ فوت ہو گیا.حضرت موسیٰ" کی زندگی کا اکثر حصہ اس کے باپ کے زمانے میں کٹا ہے جو اور مزاج کا تھا.اس کی موت کے بعد یہ نوجوان تھا جب یہ بادشاہ بنا ہے اور چونکہ یہ حضرت موسیٰ سے پہلے سے ہی حسد کرتا تھا اور جانتا تھا کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک لڑکا ہمارے دربار میں ہمارے بادشاہ کے گھر میں پل رہا ہے.اس کی وجہ سے اس کے دل میں حسد تھا.تو ذاتی انتقام کی خاطر بھی اس نے بہت زیادہ شدت اختیار کی.جب یہ واقعہ ہوا ہوگا.جس وقت بھی ہوا ہے اس وقت حضرت موسیٰ اپنی بڑی شر کو پہنچ چکے تھے اور یہ شخص ابھی بالکل نوجوان تھا.اگر یہ اس وقت غرق ہو جاتا.واقعہ ڈوب کر مر چکا ہوتا تو اس کی جو لاش ممی کی ہوئی ملتی وہ نو جوانی کی لاش ہونی چاہئے تھی.اس کی جو لاش دریافت ہوئی ہے وہ ایک نوے سالہ انسان کی لاش ہے.جس سے پتا چلتا ہے کہ لازماً اللہ تعالیٰ نے اس کو جب بدن کی نجات کا وعدہ فرمایا تو مراد تھا دنیاوی زندگی کی نجات کا وعدہ ہے.خالی بدن کے رکھنے کا تو کوئی مطلب نہیں اور فرمایا کہ یہ اس لئے ہوگا کہ اس کے بعد تو جب بھی مرے گا تیری لاش ہمیشہ کے لئے عبرت کے نشان کے طور پر محفوظ رہے گی اور پھر ہم دنیا کو بتا ئیں گے کہ یہ وہ ظالم انسان تھا جس نے خدا سے ٹکر لی تھی.ایک اور وجہ بھی اس کی لاش کو بچانے کی یہ نظر آتی ہے کہ اگر یہ ڈوب جاتا تو ممکن ہے پانی اترنے کے بعد اس کی لاش ڈھونڈھنے کی کوشش کی جاتی لیکن اس کا بہت کم امکان تھا کیونکہ سمندر میں ڈیلٹا کے پاس ایسی مچھلیاں ہوتی ہیں جو لاشوں کو کھا جاتی ہیں بڑی جلدی اور پھر لہریں بھی بہا کے کہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ سے کہیں لے جاتی ہیں.576 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۹۱ء معلوم ہوتا ہے جب فرعون ڈوبنے لگا ہے جب اس نے دعا کی ہے تو اس کے حوالی موالی اس کے ساتھی زور مارتے رہے ہیں کہ کسی طرح اس کو بچالیں اور بالآخر اس کو دنیا کی زندگی کی نجات مل گئی تھی.دعا کے مضمون کے لحاظ سے آخری نتیجہ یہ نکالنا چاہئے کہ آخری سانس کی دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں اس لئے تو بہ کے لئے وہ وقت ہوا کرتا ہے جب تو بہ کے بعد بھی ایک زندگی گزارنی ہو.اگر تو بہ ایسے وقت میں ہو جبکہ انسان اپنے آخری وقت کو پہنچ چکا ہو تو ایسی تو بہ قبول نہیں ہوا کرتی اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی طرح اس وقت تو بہ کی توفیق نہ بخشے جبکہ تو بہ کے دروازے بند ہو چکے ہوں بلکہ زندگی میں تو بہ کی توفیق بخشے اور تو بہ کی دعا کرتے وقت ان سب بدنصیبوں کے انجام کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ دعا کیا کریں کہ اے خدا ہم اس وقت مخلص ہیں لیکن تو نے ہمیں بتایا ہے کہ بعض الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم بھی تو مخلص تھے.تو نے ہمیں بتایا ہے کہ بعض گمراہ بھی تو دعا کرتے وقت مخلص تھے اس لئے ہم نہیں جانتے کہ ہمارا کیا انجام ہوگا اس لئے ہم تیرے حضور جھکتے ہوئے عاجزانہ یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے اس اخلاص کو عارضی نہ بنادینا.ان بدنصیبوں میں ہمیں شامل نہ کرنا جن کے وقتی اخلاص کے پیش نظر تو نے ان کی التجاؤں کو قبول فرمالیا لیکن جب مہلت دی تو وہ دوبارہ ویسے ہی کاموں میں پڑ گئے.اس لئے ہمیں ایسی بچی تو بہ کی توفیق عطا فرما جو تیرے حضور دائمی ٹھہرے اور جب بھی ہم سے دوبارہ غلطی سرزد ہو مجرموں کی طرح ہم سے صرف نظر نہ کرنا بلکہ اس طرح صرف نظر فرمانا جس طرح اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے کوئی صرف نظر کیا کرتا ہے.پس امید ہے کہ ہم جب اس مضمون کو ختم کریں گے تو ہماری أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعاؤں میں ایک نئی جلا پیدا ہو جائے گی.ہمیں معلوم ہو چکا ہوگا کہ انعام یافتہ لوگوں کی دعا ئیں کیا رنگ رکھتی ہیں اور الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعائیں رکھتی ہیں.یہ دعا قبول ہوتی ہے تو کیوں ہوتی ہے؟ وہ دعا قبول ہوتی ہے تو کیوں ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ایسی الصّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ جس پر ہر چند کہ شیطان بیٹھا ہوا ہے مگر ہم اس کے شکر گزار بندوں کی طرح اس پر قدم ماریں اور کبھی بھی شیطان ہمارے شکر پرحملہ نہ کر سکے کیونکہ وہی ہمارا دفاع
خطبات طاہر جلد ۱۰ 577 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۹۱ء ہے.اگر ہم شکر سے عاری ہوگئے تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی امید نہیں.ایسی الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.جس پر انعام یافتہ بندے دعائیں کرتے ہوئے چلتے رہے اور بالآخر اپنی مراد کو پہنچے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 579 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء فرعون کے غرق ہونے کی وضاحت اللہ کے بندوں پر شیطان کو کوئی تسلط حاصل نہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ جولائی ۱۹۹۱ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں میں نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی تفسیر کے دوران الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم گروہ کی بعض دعا ئیں نمونہ آپ کے سامنے رکھی تھیں وہی مضمون آج بھی جاری رہے گا.لیکن دوسری آیت جو گزشتہ تسلسل میں پیش کرنی تھی اس سے پہلے میں فرعون کے غرق ہونے سے متعلق کچھ مزید کہنا چاہتا ہوں.میں نے یہ استنباط کیا تھا کہ قرآن کریم نے جب یہ فرمایا کہ جب فرعون غرق ہونے کے قریب پہنچا تو اس نے ایک دعا کی اور اس دعا کے نتیجے میں ہم نے اس کو یہ جواب دیا کہ آلَن وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (یونس:۹۲) اب تو دعا کا وقت نہیں رہا کیونکہ اس سے پہلے تو مسلسل نافرمانی کرتا رہا اور فساد پھیلاتا رہا فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ (یونس:۹۳) لیکن آج کے دن ہم تیرے بدن کو ضرور نجات دے دیں گے لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً تا کہ وہ جو تیرے بعد آنے والے ہیں ان کے لئے تو عبرت کا نشان بن جائے.اس بحث میں میں نے یہ امکان پیش نظر رکھا تھا اور میں اب بھی یہی یقین رکھتا ہوں کہ بدن کی نجات کا جو وعدہ فرعون کو دیا گیا تھا اس سے مراد محض لاش کی نجات نہیں کیونکہ لاشیں تو بہتوں کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 580 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء کنارے پر پہنچ گئی ہونگی بہت سے ایسے ہیں بلکہ اکثر فرعون وہی ہیں جن کی لاشیں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دی گئی تھیں تو خصوصیت کے ساتھ اس فرعون کی دعا کے نتیجے میں جب بدن کی نجات کا ذکر ہے تو اس سے میں نے یہ استنباط کیا کہ ایسی زندگی مراد ہے جو روح سے عاری ہو جیسے انگریزی میں Zombie کہا جاتا ہے بعض ایسے لاش نما انسان ہوتے ہیں جن کی زندگی روحانیت سے کلیۂ عاری اور روح سے عاری ہوتی ہے انگریزی میں لفظ Zombie تو ظاہری روح کے بغیر زندگی کا تصور پیش کرنا ہے لیکن نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ میں جو مضمون ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہم تجھے زندگی تو دے دیں گے مگر نجات نہیں دیں گے اور روحانیت سے عاری زندگی ہوگی.اس ضمن میں باقی آیات جن میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے غرق کا ذکر ہے کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ سوائے ایک موقع کے ہر دوسری جگہ بنو اسرائیل کو نجات دینے اور ان کی پیروی کرنے والے ان کے پیچھے آنے والے فرعون کے لشکر کے غرق کا ذکر ہے لیکن ایک جگہ خود فرعون کے غرق کا بھی ذکر ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس موقع کے ساتھ اس مضمون کا کہیں تضاد تو نہیں جو میں بیان کر رہا ہوں.سورۃ بقرہ میں ہے کہ:.وَاذْفَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَكُمْ وَاغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (بقرہ: ۵۱) یعنی ہم نے آل فرعون کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے پھر سورہ انفال میں بھی وَاغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ کا ذکر ہے پھر سورۃ الشعراء میں.وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَّعَةً أَجْمَعِينَ ثُمَّ اغْرَقْنَا الْآخَرِينَ ) ( الشعراء : ۶۶ : ۶۷) ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا کا ذکر فرمایا.اسی طرح الشعراء الزخرف میں یہی مضمون ہے مختلف جگہ جہاں بھی فرعون اور اس کے ساتھیوں کے غرق کا ذکر ملتا ہے سوائے ایک سورۃ الاسراء کے باقی جگہ صرف فرعون کے ساتھیوں یا فرعون کی قوم کے غرق کا ذکر ہے.سورۃ الاسراء میں یہ ذکر ہے فَاغْرَقْنَهُ وَمَنْ مَّعَهُ جَمِيعًا ( بی اسرائیل : ۱۰۴) اور ہم نے فرعون کو اور اس کے ساتھ جو بھی تھے سب کو غرق کر دیا.اب سوال یہ ہے کہ ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو غرق کر دیا دوسری جگہ فرماتا ہے جب غرق قریب آیا اور اس نے دعا کی تو ہم نے اس سے بدنی نجات کا وعدہ کر لیا تو کیا ان دونوں کے درمیان تضاد ہے یا کوئی مفاہمت کی صورت ممکن ہے غرق کا لفظ جب میں نے ڈکشنری میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر جگہ جس کو ہم اردو میں ڈوبنا کہتے ہیں بالکل وہی مفہوم عربی میں غرق کا پایا جاتا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 581 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء کوئی شخص تیرنے کی کوشش کرتا ہو، بیچنے کوشش کرتا ہولیکن ہار جائے اور پانی کے اندر ڈوب جائے ڈوب مرنے کا معنی غرق کا میں نے کہیں نہیں دیکھا اس لئے ان دونوں میں میرے نزدیک تضاد کوئی نہیں جس طرح خدا تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں سے بھی ایک نبی کو زندہ بچالیا تھا جہاں اس کے بچنے کے امکان ایک عام ڈوبے ہوئے آدمی کے بچنے کے مقابل پر بہت کم تھے.بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص ڈوب جاتا ہے اور ڈوبے ہوئے کو ایسی حالت میں نکال لیا جاتا ہے کہ ابھی اس نے دم نہیں توڑا اور پھر کوشش کر کے اس کو بچالیا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ جہاں غرق کا لفظ استعمال فرماتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ فرعون ضرور ڈوبا ہے اور اپنے لشکر کے ساتھ ڈوبا ہے اور جہاں فرماتا ہے کہ ہم تیرے بدن کو نجات بخشیں گے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈوبے ہوئے کے لئے ظاہری زندگی کے بچانے کا انتظام ممکن ہے اور خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام ضرور کیا ہوگا کیونکہ اس وعدے کا خصوصیت کے ساتھ یہاں ذکر کرنا ایک گہرا پیغام رکھتا ہے اور وہ پیغام اس وقت تو لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا اب کی دنیا میں ہمیں سمجھ آیا جبکہ ہم نے فرعون کی لاش کو بچاہوا اور میں ہوئی ہوئی حالت میں دیکھا لیکن جب میں نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ فرعون جس نے موسیٰ سے ٹکر لی تھی اور جس کے متعلق یہ آتا ہے کہ ہم نے اس کو غرق کیا وہ فرعون ۹۰ سال کی عمر میں طبعی موت مرا ہے اور اس کی ممی اور اس کے سارے کاغذات جو ساتھ ہیں اور تمام تحریریں یہ بتا رہی ہیں کہ وہ نو عمری میں غرق ہونے کی حالت میں نہیں مرا تھا بلکہ مبی عمر پا کر اس کے بعد اس نے کئی لڑائیاں بھی کی ہیں ان لڑائیوں کے بعد ایک جگہ فلسطینیوں کے ہاتھوں بڑی بھاری شکست بھی کھانے لگا تھا جس کو بعد میں دوبارہ ایک قسم کی فتح میں تبدیل کیا گیا لیکن ایک موقع پر تو بہر حال بہت ذلت ناک شکست بھی اس نے کھائی.سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید کا ایسا ترجمہ کیا جائے گا جس کے مقابل پر تاریخی گواہی کھڑی ہو اور بجائے اس کے کہ وہ لاش عبرت کا نشان بنے نعوذ بالله من ذلك قرآن کریم پر ایک شک ڈالنے کا نشان بن جائے.ایک یہ پہلو ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم کے معانی پر غور کر کے اس کی خاص طرز کلام کو سمجھتے ہوئے ایسے معنی کئے جائیں جو بجائے اس کے کہ حقائق سے متضاد دکھائی دیں.حقائق کو اس رنگ میں پیش کریں کہ غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ کی شان ان سے ظاہر ہو اور وہ لاش واقعہ عبرت کا نشان بن جائے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 582 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء میرا رجحان لازماً اس طرف ہے اور میرے نزدیک غرق ہونے اور غرق ہونے کے بعد بچائے جانے میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ عام انسانی تجربہ ہمیں بتا تا ہے کہ بار ہا ڈوبے ہوؤں کو بچالیا گیا ہے.خاص طور پر فرعون کے ارد گرد جو اس کا محافظ عملہ تھا اور خاص طور پر اس لئے کہ وہ دریائے نیل کے کنارے بسنے والے لوگ تھے اور ان میں بڑے بڑے تیراک تھے بہت ماہر غوطہ خور موجود تھے ان لوگوں کا اپنے بادشاہ کو بچانے کی کوشش نہ کرنا بعید از فہم ہے اس لئے ہرگز بعید نہیں بلکہ میرے نزدیک واقعہ یہی ہوا کہ فرعون کے ڈوبنے کے بعد اس کے ساتھیوں نے غوطہ خوری کے ذریعے جو بھی انہوں نے کوشش کی اس کی لاش کو نکالا اور چونکہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ میں تیرے بدن کو نجات بخش دوں گا اس لئے وہ بدن زندہ رہا اور ایک لمبے عرصے تک اس بدن کے ساتھ وہ چلتا پھرتا حکومت کرتا ہوا دکھائی دیا لیکن اس کی روح کو نجات نہیں بخشی گئی گویا زندگی میں ہی اس کی موت کا فیصلہ کر دیا گیا تھا اور یہ ایک ایسا قطعی فیصلہ تھا جو باقی سب سے اس کو جدا کرتا ہے باقی لوگوں کے لئے آخر دم تک تو بہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے اس سے زیادہ اور کوئی کیا عبرت کا نشان ہو سکتا ہے کہ ایک لمبی زندگی اور بادشاہت کی اور فخر کی زندگی اس کے سامنے پڑی ہو اور اس کو معین طور پر خبر دی گئی ہو کہ تم پر ہر قسم کی تو بہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے اب تم ایک ظاہری زندگی بسر کرو گے لیکن اس میں کوئی روحانیت نہیں ہوگی.تو یہ ساری باتیں میرے ذہن میں تھیں اور ہیں اس کے باوجود میرا رجحان اسی طرف ہے کہ قرآن کریم نے جو وعدہ کیا تھا وہ بدنی زندگی کا وعدہ تھا محض فرعون کو عبرت کا نشان بنانے کا وعدہ نہیں تھا.اب ہم بقیہ آیات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ایک دعا یہ بتائی گئی ہے کہ:.وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوْا رَبَّنَا (ابراہیم: ۴۵) أَخْرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نَّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعَ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَالَكُمْ مِنْ زَوَالٍ اور تو لوگوں کو اس دن سے ڈرا جس دن عذاب ان کو آلے کا فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخْرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ خدا سے یہ استدعا کریں گے کہ اے خدا ہمیں کچھ اور مہلت دے دے.تجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُل ہم تیری دعوت کو قبول کریں گے اور تیرے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 583 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء بھیجے ہوؤں کی پیروی کریں گے اَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَالَكُمْ مِنْ زَوَالٍ کیا اس پہلے تم یہ قسمیں نہیں کھایا کرتے تھے کہ تمہیں کبھی کوئی زوال نہیں ہوگا.وَسَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَ بْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ (ابراہیم : ۴۶) اور تم ان لوگوں کے گھروں میں بسے رہے جنہوں نے تم سے پہلے اپنی جان پر ظلم کئے تھے وتبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ اور تم پر خوب روشن ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا تھا وَ ضَرَ بْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ اور ہم نے تمہارے سامنے کھول کھول کر مثالیں بیان کی تھیں وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُم اور جو مکر وہ کر سکے انہوں نے وہ سارے مکر کئے اور اللہ کے پاس ان کے مکروں کا مکمل ریکارڈ موجود ہے وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ (ابراہیم : ۴۷) خواہ ان کے مکر ایسے بھی تھے جس سے پہاڑٹل جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے مکروں کو نا کام کر دیا.یہ جو دعا ہے یہ ویسی ہی دعا ہے جیسی کئی دعا ئیں اس سے پہلے بھی آپ کے سامنے پیش کی جا چکی ہیں کہ عین اس وقت جبکہ خدا کا فیصلہ آجائے اس وقت کی دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں اس سے پہلے فرعون کی دعا کی مثال بھی گزری ہے لیکن اس میں خدا تعالیٰ نے خود استثناء فرمایا ہے کہ جزوی طور پر میں تیری بات مانوں گا لیکن مکمل طور پر نہیں مانی جائے گی.اکثر دعا ئیں تو وہ بیان کی گئی ہیں جو قیامت کے دن جہنم کے سامنے پیش کرتے ہوئے یا جہنم کے اندر ظالموں کی التجائیں ہیں اور ان سب کے رد ہونے کا ذکر ہے.کچھ دعائیں وہ ہیں جو موت کا منہ دیکھ کر یا عذاب کا منہ دیکھ کر کی جاتی ہیں ان کے بھی اکثر رد ہونے کا ذکر ہے.سوال یہ ہے کہ ان کی دعائیں صرف دو تین مضامین پر کیوں مشتمل ہیں.وجہ یہ ہے کہ مومن کو تو ایسے دور میں ابتلاؤں کی ایک لمبی زندگی ملتی ہے جبکہ دعائیں قبول ہوسکتی ہیں وہ دعائیں کرتا ہے اور دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور اس کے بے شمار نمونے ہیں جو اس کی زندگی کے مختلف حالات پر چسپاں ہوتے ہیں لیکن کا فر کی دعائیں ہوتی اس وقت کی ہیں جبکہ آخری وقت آپہنچا ہو اس لئے صرف نجات کی چند دعائیں یا عذاب سے بچنے کی دعا کے سوا آپ کو کوئی دعا نظر نہیں آئے گی.ان کو دعا کا شعور نہیں ہوتا اس لئے دعا کے بہت تھوڑے نمونے ہیں جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھے ہیں لیکن ان پر بھی جب غور کریں تو ان سے ہمیں بہت سی نصیحتیں ملتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 584 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ ذکر فرمایا کہ جب وہ عذاب کا منہ دیکھیں گے تو بچنے کے لئے دعا کریں گے لیکن جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کا بظاہر اس دعا سے تعلق نہیں ہے فرمایا: أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَالَكُمْ مِنْ زَوَالِ تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے کہ تم پر کبھی زوال نہیں آئے گا.وہ تو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے خدا! ہمیں بچالے.ہم تو بہ کریں گے، ہم سے عذاب ٹال دے تا کہ ہم دوبارہ موقع پائیں کہ تیرے رسولوں کی پیروی کریں اور تجھ پر ایمان لائیں لیکن جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ کیا اس سے پہلے تم ہی لوگ یہ قسمیں نہیں کھایا کرتے تھے کہ ہمیں کوئی زوال نہیں آئے گا.اصل بات یہ ہے کہ یہاں ان کا فروں کا ذکر ہے جو زمین میں تکبر کرتے ہوئے خدا کی جگہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوؤں کو ایسے چیلنج کرتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں گویا خدائی کے اختیارات ان کو مل چکے ہیں اور کھلے کھلے چیلنج کرتے ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے کر لو، جو عذاب لا سکتے ہو لے آؤ ہم پر کبھی کوئی زوال نہیں آئے گا.ہمیں ہمیشگی کی بادشاہت عطا ہوئی ہے، ہماری طاقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.تو یہ ساری کہانی ہے جو اس قسم کے اندر بیان فرما دی گئی.تم یہ کہا کرتے تھے اور قسمیں کھایا کرتے تھے کہ تمہیں زوال نہیں آئے گا، کن معنوں میں زوال نہیں آئے گا.جب وہ انبیاء سے ٹکر لیتے تھے تو ان کو وہ کہا کرتے تھے کہ جو کرنا ہے کر گزرو.جو دعائیں کرنی ہیں کرو کوئی دنیا میں ایسی طاقت نہیں.کوئی آسمان پر ایسی طاقت نہیں جو ہماری ترقیوں کو تنزل میں بدل دے.فرمایا! کہ جن کے تکبر کا یہ حال ہے وہ جب عذاب کو سامنے دیکھتے ہیں اور اس زوال کو دیکھتے ہیں جس کے متعلق وہ انکار کیا کرتے تھے تو اس وقت ان کی دعا کے قبول ہونے کا کوئی وقت نہیں رہتا ؤ سَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ یہاں ہر جگہ جہاں کا فریا ظالم کی دعا بیان ہوئی ہے اس کے رد ہونے کے دلائل بھی بیان فرما دیئے گئے ہیں فرمایا: تم تو ایسے لوگ ہو جو تم نے کبھی نصیحت پکڑی ہی نہیں.اب عذاب کو دیکھ کر کیسے نصیحت حاصل کرو گے.کیا اس سے پہلے تم جیسے لوگوں پر عذاب نہیں آئے تھے؟ کیا انہی کے گھروں میں تم سے نہیں رہے؟ کیا تم نے تاریخ سے یہ سبق نہیں سیکھے کہ تم جیسے کام کرنے والے تم سے پہلے ہلاک کر دئے گئے.پس اگر عذاب سے تم نے نصیحت پکڑنی ہے تو پہلوں کے عذاب سے کیوں نصیحت نہ پکڑی وہ بھی تو تم جیسے ہی تھے تمہارے جیسے کاموں کے نتیجے میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 585 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء وہ اپنے بد انجام کو پہنچے.پس تمہارے سامنے ان کا ماضی ہے اور اب تم اس ماضی کو بھلا کر نظر انداز کرنے کے بعد جب اس کو مستقبل کے طور پر اپنے سامنے دیکھ رہے ہو تو ہمیں کہتے ہیں کہ ہمیں واپس کر دو.ہم نصیحت پکڑیں گے.یہ فطرت کے خلاف بات ہے جسے نصیحت پکڑنی ہو وہ دوسرے کے بدحال کو دیکھ کر اپنے لئے نصیحت کا رستہ اختیار کرتا ہے اور نیکی کارستہ اختیار کرتا ہے.جب اپنے اوپر آپڑے تو پھر بچنے کا کوئی سوال نہیں رہا کرتا.وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ اور پھر وہ بھی تمہاری طرح بہت مکر کرنے والے تھے اور خدا کے پاس ان کا مگر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے کہ ان کو جس طرح چاہے ذلیل اور رسوا کر کے نامراد کر دے عِندَ اللهِ مَكْرُهُم ان کے مکر خدا کی مٹھی میں ہیں ان کے مکر خدا والوں کو کیا کہہ سکتے ہیں دوسرا یہ کہ مکر خدا کے پاس ان کے مکروں کا مکمل ریکارڈ موجود ہے وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ اگر ایسے ایسے مکر بھی ان کے پاس ہوتے جن سے پہاڑٹل جاتے تب بھی خدا کے قبضہ قدرت میں تھے.خدا کی اجازت کے بغیر وہ سارے مکر بے اثر رہتے اور بے اثر رہے تو جو دعا آخر پر نا منظور کی جاتی ہے اس کا فیصلہ بھی خدا تعالیٰ ساتھ ساتھ بیان فرماتا چلا جارہا ہے.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّى خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَا مَّسْنُونٍ ( الحجر : ۲۹) اس ذکر کے بعد کہ کس طرح ہم نے انسان کو ایک گلی سٹری مٹی سے پیدا کیا اور پھر فرشتوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا فرماتا ہے.سب نے اطاعت کی سوائے ابلیس کے جب خدا نے پوچھا کہ کیوں تو نے اطاعت نہیں کی تو اس نے کہا کے قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرِ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونِ ( الحجر : ۳۴) کہ میں ان میں سے نہیں ہوں جو ایک ایسی ذلیل چیز کی اطاعت کریں جسے تو نے گندی مٹی سے پیدا کیا ہے.ایسی گھٹیا اور رسوا چیز کی اطاعت کرنے والوں میں میں نہیں ہوں.قَالَ فَاخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّكَ رجيم (الحجر:۳۵) فرمایا کہ تو اپنی موجودہ کیفیت سے باہر نکل جا یعنی ہم تجھے ایسی حالت میں نہیں رہنے دیں گے جس حالت میں ہم نے تجھے بنایا تھا.تجھے ذلیل ورسوا کریں گے.وانٌ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلى يَوْمِ الدِّينِ (الحجر: ۳۶) اور قیامت کے دن تک کے لئے تجھ پر لعنت ہے یہ سننے کے بعد تب شیطان نے دعا کی لیکن یہاں لفظ شیطان نہیں ہے بلکہ ابلیس ہے یابلیس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 586 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء مَالَكَ الَّا تَكُونَ مَعَ السُّجِدِينَ (الحجر:۳۳) یہاں لفظ ابلیس خاص طور پر قابل توجہ ہے.میں آگے جا کر بیان کروں گا کہ کیوں یہ یہاں خاص اہمیت رکھتا ہے.قَالَ رَبِّ فَانْظُرْنِى إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (الحجر: ۳۷) اے خدا مجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دے کہ لوگوں کو تو دوبارہ نئی زندگی عطا کرے گا.قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ( الحجر: ۳۸) فرمایا: ہاں ہم تجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دیتے ہیں إِلى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (الحجر:۳۹) اس معین وقت تک کے لئے جس کا ذکر گزر چکا ہے قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا زَيْنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَتَهُمْ أَجْمَعِينَ ( الحجر :۴۰) اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ قرار دے دیا ہے میں ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے وہ بہت ہی حسین اور خوبصورت بنا کر دکھاؤں گا.وَلَا غُوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ اور میں تیرے سب کے سب بندوں کو گمراہ کروں گا إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (الحجر ۴۱) وہاں شیطان نے خود یہ استثناء کیا کہ سوائے ان بندوں کے جو تیرے مخلص بندے ہیں.یہاں مخلص کا لفظ نہیں بلکہ مخلص کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مراد یہ ہے کہ جن کو تو خالص کر دے.پس شیطان نے جو بات کی ہے وہ بھی حکمت کی بات ہے اور شیطان کی طرف بھی قرآن کریم نے جو باتیں منسوب کی ہیں ان میں سے بعض عقل اور سمجھ کی باتیں ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے شیطان دنیا میں صاحب عقل بھی ہوتے ہیں مگر انکار کی صورتیں میں ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں.جس طرح ابو جہل پہلے ابوالحکم کہلاتا تھا.حکمت کا باپ، وہ جہالت کا باپ بن گیا اور یہاں ابلیس سے مراد میں سمجھتا ہوں ہر دور کا ابلیس ہے اور مہلت دینے سے مراد یہ ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو بھیجتا ہے تا کہ اس کے خالص بندوں کا اور ظاہری بندوں سے بچے اور مخلص بندوں کو الگ کر کے دکھایا جائے تو ان کو نبی کے ذریعے مخلص بنایا جاتا ہے.وہ لوگ جو نبی کی اطاعت کرتے ہیں وہ خدا کی طرف سے خالص بنائے جاتے ہیں اپنے طور پر کوئی خالص نہیں بن سکتا.تو یہ نبوت کا مضمون ہے جس کو شیطان نے یہاں بیان کیا ہے وہ کہتا ہے.ہاں وہ لوگ جن کو نبوت کے ذریعے تیری طرف سے خلوص عطا ہوگا اور وہ نبوت کی پیروی کے ذریعے مخلص بنائے جائیں گے وہ یقیناً میری پیروی نہیں کریں گے.قال هَذَا صِرَاطٌ عَلَى مُسْتَقِيمُ (الحجر:۴۲) خدا تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا یہ وہ سیدھا رستہ ہے جو میری طرف آتا ہے.یعنی شیطان بھی وہیں بیٹھا ہوا بہکا رہا ہے اور خدا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 587 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء کے انبیاء بھی اسی رستے پر نیک نمونے دکھا رہے ہیں اور جن کو خدا کے ان نیک بندوں پر ایمان لانے کی توفیق ملتی ہے وہ مخلص بنا دیئے جاتے ہیں اور ان پر شیطان کا کوئی دخل نہیں رہتا فر مایا: اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَوِيْنَ ( الحجر :٤٣ ) میرے بندوں پر تجھے کوئی تسلط نہیں سوائے ان کے جو پہلے سے گمراہ ہوں اور ٹیڑھی طبیعت رکھتے ہوں.وَاِن جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ ( الحجر : ۴۴) اور جہنم تم سب کے لئے وعدہ ہے أَجْمَعِينَ سب کے سب اس جہنم میں داخل ہوں گے.لَهَا سَبْحَةُ أَبْوَابِ اس کے سات دروازے ہیں لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٍ مَقْسُوم (الحجر: ۴۵) اور ان کے ہر دروازے کے لئے ایک حصہ مقرر ہو چکا ہے ایک ایسا جز ہے جو پہلے سے تقسیم شدہ ہے وہ ان دروازوں کے ذریعے داخل ہوگا.ان سادہ سی آیات میں بہت سی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر ضروری ہے.شیطان نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا میں سب کو گمراہ کر دوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو تو گمراہ کرے گا ان پر بھی تیرا تسلط اس وجہ سے ہوگا کہ ان کے اندر کبھی موجود ہوگی ورنہ تیرا کچھ بھی اختیار نہیں ہے.یہ ایک بہت گہرے فلسفے کی اور حکمت کی بات ہے جسے مومن کو سمجھ لینا چاہئے کہ شیطان کا کسی پر بھی کوئی تسلط نہیں ہے جن کو خدا مخلص کر دے ان پر تو اس کے تسلط کا سوال ہی نہیں، دوسرے جو بندے ہیں ان میں سے وہ جو ٹیڑھے ہوں وہی شیطان کو دعوت دیتے ہیں جن کے نفس میں کبھی نہ ہوان پر شیطان کو غلبہ نہیں مل سکتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ میرے بندوں پر تو تیرے غلبے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغُوِيْنَ سوائے اس کے کہ کوئی ٹیڑھے لوگ خود تیری پیروی کریں.پس گناہ کا فلسفہ ہے جو بہت کھول کر بیان فرما دیا گیا.اگر اب اپنی غلطیوں پر کوئی انسان گہری نظر سے نگاہ ڈالے اور اپنے ماضی کے حالات کا مطالعہ کر لے تو اس پر یہ خوب کھل جائے گا کہ اندر کی کبھی ہے جو باہر سے گناہ کو بلاتی ہے جب تک وہ کبھی انسانی فطرت میں پیدا نہ ہوانسان گناہ کی طرف نہ راغب ہوسکتا ہے نہ گناہ اسے مغلوب کر سکتا ہے اس لئے پہلے اندر ایک فیصلہ ہو جاتا ہے اور وہی فیصلہ ہے جو آگے پھر گناہ کے رستوں کی پیروی کرنے کی توفیق دیتا ہے.پس کیسا خوبصورت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 588 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء اور واضح انسانی فطرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے.پس اندر کی جو کجی ہے اس کا نام شیطان ہے اور باہر سے بلانے والے جو ہیں وہ ابلیس ہیں اور آنحضرت ﷺ کے دور میں بھی ابو جہل ایک ابلیس تھا اور اسی طرح ہر دور میں بہت سے ابلیس پیدا ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ صرف ایک ہی ہو وہ بدیوں کی طرف بلاتے ہیں اور ہر انسان کے اندر ایک شیطان ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص کی رگوں میں شیطان دوڑ رہا ہے اور ہر شخص کا اپنا شیطان ہے.جب پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ! آپ کا بھی شیطان ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہاں لیکن وہ مسلمان ہو گیا ہے واللہ یعنی میرے اندر کوئی کبھی رہی نہیں.یہ فطرت کا بہت گہرا راز ہے ہر انسان کی رگوں میں کچھ نہ کچھ بھی موجود ہوتی ہے جو اسے باہر کی بدآواز کے سامنے جھکانے پر آمادہ کر دیتی ہے اور اصل خطر ناک شیطان اندر کا شیطان ہے اور وہ شیطان اگر مسلمان ہو جائے تو پھر دنیا میں کسی کو اس شخص کے او پر غلبہ نہیں نصیب ہوسکتا یعنی خدا کے سوا کسی کو اس شخص پر غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا.اس گہری انسانی فطرت کے راز کو سمجھنے کے بعد ایک انسان شیطانی اثرات سے یا ابلیسی اثرات سے بہتر رنگ میں بچ سکتا ہے اور پھر مزید اس بات کو واضح فرما دیا کہ یہاں فطرت انسانی کی بات ہورہی ہے فرمایا: جہنم جس میں یہ لوگ داخل کئے جائیں گے لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابِ اس کے سات دروازے ہیں جنت کے بھی سات دروازے بتائے گئے ہیں اور جہنم کے بھی سات دروازے بتائے گئے ہیں.اس ضمن میں ربوہ میں آغاز کے سالوں میں میں نے ایک مرتبہ ایک خطبہ دیا تھا جس میں سمجھایا تھا کہ ان دروازوں سے کیا مراد ہے پانچ تو حواس خمسہ ہیں کان کا دروازہ آنکھ کا دروازہ ، قوت شامہ کا دروازہ ، مزے کا دروازہ پلس کا دروازہ ، وغیرہ وغیرہ یہ پانچ سوراخ ایسے ہیں جن کے ذریعے انسان بیرونی دنیا سے رابطہ کرتا ہے.اگر ان دروازوں پر پہرے نہ بٹھائے گئے ہوں تو جہاں بھی کمزوری ہوگی وہاں سے کوئی اچکا داخل ہو سکتا ہے، کوئی چور آ سکتا ہے پس جو لوگ ان دروازوں کی حفاظت کریں وہ خدا کے فضل کے ساتھ امن میں رہتے ہیں لیکن دو دروازے اندر بھی ہیں ان میں سے ایک دماغ کا دروازہ ہے اور ایک دل کا دروازہ ہے اور یہ دونوں دروازے ایسے ہیں جو تمام پانچوں اثرات کو قبول کرتے یا رد کرتے ہیں اور ان اثرات کے نتیجہ میں ان کی اپنی ایک شخصیت پیدا ہوتی ہے، ایک شخصیت ذہنی قابلیتوں کی شخصیت ہے ایک شخصیت جذباتی قابلیتوں کی شخصیت ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 589 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء اور یہ دونوں چیزیں بیرونی اثرات سے رفتہ رفتہ بنتی ہیں اور اندرونی قابلیتوں کے اوپر جب بیرونی اثرات اپنی روشنی ڈالتے ہیں تو ان کے نتیجہ میں اندر سے ایک روشنی پیدا ہوتی ہے.اسی طرح جب بیرونی اندھیرے اندر کے اندھیروں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں تو اندر سے ایک اور تاریکی پیدا ہوتی ہے.پس ذہنی تاریکیاں ہوں یا قلبی تاریکیاں ہوں، ذہنی روشنیاں ہوں یا قلبی روشنیاں ہوں یہ دو دروازے ہر انسان کے اندر کھلے رہتے ہیں.پس قرآن کریم نے جب فرمایا کہ سات دروازوں سے تم لوگ جہنم میں داخل کئے جاؤ گے تو مراد یہ ہے کہ اندر کے شیطان انسانی نفس کے ساتھ لگے ہوئے جو شیطان ہیں یہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ان میں سے زبان ، آنکھ ، ناک وغیرہ یہ جتنے بھی حواس خمسہ کے دروازے ہیں ان پر اگر انسان قابو پالے اور ان کو خدا کے سپر د کر دے تو پھر اندر کے دو دروازے بھی واقعہ خدا کے سپرد ہو جاتے ہیں یعنی ذہن کا دروازہ اور دل کا دروازہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ وہ ہیں جو خلصین ہیں.جن کو اللہ کے لئے خالص کر دیا گیا ہے ان پر کسی ابلیس کو کوئی تسلط نہیں ہوسکتا.یہ مضمون سمجھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے اور خدا تعالیٰ نے صراط مستقیم کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ یہ صراط مستقیم ہے جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور روز پانچ وقت پانچ نمازوں میں ہر رکعت میں ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلا.کیسی صراط مستقیم ہے جہاں نیک بھی چلتے ہیں، بد بھی چلتے ہیں ٹھوکریں کھانے والے لوگ بھی ہیں، بچ کر نکل جانے والے لوگ بھی ہیں.اکثر وہ ہیں جو رستہ کھو دیں گے.کم وہ ہیں جو خوش نصیب ہیں اور جو آخر منزل تک پہنچیں گے ان سب کے مضامین قرآن کریم نے تفصیل سے کھول کر ہمارے سامنے رکھے.تمام دعائیں ہمیں سکھائیں اور ان بدعاؤں سے ہمیں متنبہ کیا جو الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور الضَّالِّينَ کی دعائیں ہیں لیکن وہ بھی صراط مستقیم پر ہی آپ کو ملتی ہیں لیکن وہ صراط جو سیدھی خدا تک پہنچا دیتی ہے وہ عبداللہ اخلصین کی راہ ہے اور ان ہی کی دعائیں کرتے ہوئے ہمیں ان رستوں پر آگے بڑھنا چاہئے اور جو جو ٹھوکر میں خدا تعالیٰ نے ہم پر کھول دی ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ اپنی کوشش سے کوئی انسان نیک نہیں ہو سکتا جب تک دعا کے ذریعے اسے توفیق نہ ملے اور دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ دل سے ایک خالص آواز اس دعا کی قبولیت کے لئے اٹھے عام دعاؤں کے لئے تو دل سے خالص
خطبات طاہر جلد ۱۰ 590 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء آوازیں آسانی سے اٹھ جاتی ہیں مگر نیکی کی دعا کے لئے دل کی خالص آواز کو بلند کرنا بہت مشکل کام ہے.یہ بات میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دینا چاہتا ہوں.آپ اگر یہ دعا کریں کہ ہمار بچہ ٹھیک ہو جائے تو دل سے نکلے گی.یہ دعا کریں کہ اے خدا ہمیں اس بلا سے نجات بخش دے، ہمیں اس طوفان سے بچالے تو دل سے اٹھی گی.چنانچہ قرآن کریم نے جیسا کہ میں نے پہلی دعاؤں میں ذکر کیا تھا.ان دعاؤں کی قبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں پتا تھا کہ بعد میں یہ لوگ مکر جائیں گے لیکن اس وقت دل سے دعا کر رہے تھے.ایک مضطر کی دعا تھی اور ہم نے اس کو قبول کر لیا لیکن نیکی کی دعا مانگنا سب سے مشکل دعا ہے کیونکہ وہ بہاؤ کے خلاف دعا ہے.انسانی فطرت گناہوں کی پیروی کرتی ہے اس کی طرف دھکیل کر لے جانا چاہتی ہے.طبیعت کا طبعی بہاؤ مزے کی طرف ہے، لذتوں کی طرف ہے ، آرام طلبی کی طرف ہے.بہاؤ کے خلاف دعا کرنا سب سے مشکل دعا ہے.واقعہ نیکی کی دعامانگتے ہوئے ہر انسان اگر اپنے نفس کو کرید کر دیکھے اور یہ غور کرے کہ واقعہ وہ خدا سے ان سب چیزوں سے بچنے کی دعا مانگ رہا ہے تب اس کو پتہ چلے گا کہ وہ دعا کچھ نیم جان سی دعا تھی.انسان کہتا ہے کہ مجھے نیکی عطا کر لیکن ساتھ ڈرتا بھی ہے اور پوری طرح نیت بھی نہیں رکھتا.ایک شخص مثلاً رزق حلال کی دعا مانگتا ہے.اب اس کے لئے روزانہ رزق حرام کئی طرح سے بہت خوبصورت بن کر ظاہر ہوتا ہے اگر ان سب امکانات کو پیش نظر ر کھے اور پھر یہ دعا کرے کہ اے خدا مجھے رزق حلال عطا کر تب اس کو سمجھ آئے گی کہ مخلص دعا ہوتی کیا ہے.وہ دعا مخلص نہیں ہوگی جب تک کہ وہ پہلے رزق حرام کے سارے دروازے اپنے اوپر بند نہیں کر لیتا اور خدا سے یہ کہہ نہیں دیتا کہ میں نے بند کر دیئے ہیں اب میں التجا کرتا ہوں کہ وقت کے اوپر آ کر ٹھو کر نہ کھا جاؤں.اس وقت تک یہ دعا مخلص نہیں ہوسکتی تو مخلص دعا یعنی نیکیوں کے معاملے میں مخلص دعا سب سے مشکل دعا ہے.اپنے بچوں لئے آپ کر سکتے ہیں.اپنے مرے ہوئے بزرگوں کے لئے کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی خاطر آپ کو اپنے اندر تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے آسانی سے کر سکتے ہیں.مائیں بچوں کو جتنی مرضی دعائیں دے لیں اے خدا! ان کو نیک بنا.سب ٹھیک ہے لیکن اپنے لئے نیکی مانگیں ، اپنی کجیاں درست کرنے کی دعا ئیں مانگیں ، اپنے جھوٹ سے بچنے کے لئے دعامانگیں، اپنی نمازیں پڑھنے کی توفیق کی دعائیں مانگیں اور بہت سی ایسی دعائیں مانگیں تب ان کو سمجھ آئے گی کہ بچوں کیلئے تو پو پلے منہ سے آسانی سے دعا ئیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 591 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء کر لیں.مرے ہوئے بزرگوں کے لئے بھی کر لیں لیکن وہ دعا ئیں بھی تب زیادہ مقبول ہوں گی اگر اپنے لئے بھی اسی جان کے ساتھ دعائیں کی جائیں.اس لئے اپنے لئے دعا ئیں یہ بھی فیصلہ کر دیتی ہیں کہ مستقبل کے لئے مقبول ہوں گی یا نہیں اور ماضی کے لئے مقبول ہوں گی کہ نہیں.انبیاء کی نیکیوں کی دعائیں کیوں ان کی اولاد کے حق میں مانی جاتی ہیں.عام انسان کے لئے کیوں نہیں مانی جاتیں.یہ بھی تو ایک مسئلہ ہے.پس مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعاؤں پر جب آپ غور کرتے ہیں تو بہت سی نیک لوگوں کی دعاؤں کی حکمتیں بھی سمجھ آنے لگ جاتی ہیں.اسی لئے یہ مضمون ضروری ہے اور اسی لئے میں آپ کے سامنے اسے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.جو مغضوب لوگوں کی دعائیں ہیں یا سج لوگوں کی دعائیں ہیں وہ جب نیکی کی دعائیں بھی کرتے ہیں تو ان کے اندر ایک بھی ہو جاتی ہے اور اس کھی کی وجہ سے وہ دعا ئیں رد ہو جاتی ہیں اور غیروں کے لئے خواہ بھی نہ بھی ہو چونکہ اپنے لئے کبھی ہوتی ہے اس لئے دوسروں کی دعاؤں میں بھی کمزوری واقع ہو جاتی ہے.قیامت کے دن ایک سوال ہے پوری دعا نہیں بنتی اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ جب کسی کو اندھا بنا کر اٹھائے گا یعنی دوسری دنیا میں نور سے عاری کر دے گا.بصیرت سے عاری فرما دے گا تو وہ یہ کہے گا.قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِى أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ( طه (۱۲۲) کہ اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھا دیا.میں تو دعا میں دیکھا کرتا تھا.قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ ايتنا فنسيتها (ط : ۱۲۷) اللہ فرمائے گا کہ اسی لئے یعنی دلیل یہ ہے کہ تیرے پاس میرے نشانات آیا کرتے تھے یا آتے رہے اور تو نے انہیں نظر انداز کر دیا فنسيتها کا معنی یہاں بھلا دیتا‘ ان معنوں میں نہیں کہ ایک چیز یا تھی اور بھلا دی گئی نسیت کا معنی ہے : انہیں اس طرح نظر انداز کر دیا کہ گویاوہ بھول چکے تھے.ان کو فراموش کر دیا.ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی.وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسى اور آج تجھے اسی طرح بھلا دیا جائے گا.دیکھتے ہوئے نہ دیکھنے کا مضمون ہے جو بیان ہوا ہے فَنَسِيتَهَا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تو نے کوئی یاد چیز کو بھلا دیا بلکہ مراد یہ ہے کہ تیرے سامنے تھی اور تو نے دیکھا ہی نہیں.نظر انداز کر دیا تو جو چیز اپنی مرضی سے تو نے نہیں دیکھی آج تجھے نظر ہی نہیں آئے گی اور آج تو بھی اسی طرح خدا کے سامنے بھلا دیا جائے گا اور تیری ضرورتوں کی پروانہیں کی جائے گی.یہ بہت ہی دردناک سزا ہے اور یہ سزا ہم دنیا میں اپنے لئے بناتے چلے جاتے ہیں.جب خدا کی طرف سے کوئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 592 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء بات ظاہر ہو جائے اسے دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کر لی جائیں تو اس پر یہ مضمون صادق آتا ہے.میں نے تبلیغ کے دوران بہت سے مولویوں سے باتیں کی ہیں اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ لوگ اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے نظر آتے تھے.جب ان کے سامنے کھلی کھلی بات رکھی گئی تو ان کے چہروں پر آپ خوف کے آثار دیکھ سکتے تھے آپ جانتے تھے کہ ان کو نظر آگیا ہے لیکن بڑی پریشانی کے ساتھ انہوں نے اس رخ کو موڑا ہے اور کوشش کر کے مضمون کو بدلتے تھے.یہ ان لوگوں کا ذکر ہے اور روزمرہ کی زندگی میں بعض دفعہ انسان مومن ہوتے ہوئے بھی ایسی غلطیاں کر جاتا ہے.اس لئے اس سوال کا جواب خدا نے ہمیشہ کے لئے دے دیا کہ تم آئندہ کی زندگی کے لئے اپنی بصارت اور بصیرت خود بناؤ گے یا خود بگاڑو گے.اگر اس دنیا میں تم اندھے بن کر رہو گے تو قیامت کے دن بھی اندھے ہی اٹھائے جاؤ گے اور اگر اس دنیا میں روشنی پاؤ گے تو پھر قیامت کے دن بھی روشنی عطا ہوگی.اس کا تعلق صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ حواس خمسہ سے ہے تمام حواس کا تعلق خدا تعالیٰ کی بعض فرماں برداریوں اور بعض نشانات سے ہے اور جہاں جہاں انسان ان کو بھلاتا ہے وہاں اگر کلیاً ان پر فالج نہیں گرا دیتا تو کم سے کم ان حصوں کو بیمار کر دیتا ہے اور قیامت کے دن ان حصوں سے اس نے جنت کی لذیتیں پانی ہیں یا اس جنت سے محرومی کے نتیجے میں عذاب دیکھنا ہے اس لئے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس دنیا میں ہم اپنے حواس خمسہ کو اس طرح استعمال کریں کہ ان سے ملتے جلتے ، ان سے تعلق رکھنے والے حواس خمسہ آئندہ کی دنیا میں پیدا ہوتے رہیں.چنانچہ جب میں نے کہا کہ اس کا تعلق صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ دوسرے حواس سے بھی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم اس کے بعد فرماتا ہے کہ وَكَذَلِكَ نَجْزِى مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِايْتِ رَبِّهِ (طه : ۱۲۸) ہم اس قسم کا سلوک ہر اس شخص سے کرتے ہیں جو اسراف سے کام لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نشانات پر ایمان نہیں لاتا اور ان کا انکار کرتا ہے.وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَابْقَى اس ضمن میں جو بعد میں آنے والا عذاب ہے وہ زیادہ سخت ہوگا اور باقی رہنے والا ہوگا.یہ دعا سورہ طہ ۱۲۵ تا ۱۲۸ سے ہے سورۃ مومنون کی ۱۰۰ تا ۱۰۲ آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (المومنون : ۱۰۰) یہاں تک کہ جب ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 593 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء میں سے کسی ایک کو موت آجائے تو وہ کہے گا کہ اے خدا! مجھے لوٹادے.لَعَلَّى اَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا (المومنون:۱۰۱) تا کہ میں جو جگہ چھوڑ کر آیا ہوں اس جگہ واپس جا کر نیک اعمال بجالاؤں یعنی اپنی زندگی کو نئے اعمال سے زینت دوں.كلا خبر دار ایسا نہیں ہوگا.اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَابِلُهَا یہ تو محض منہ کی بات ہے جو یہ شخص کہہ رہا ہے.وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ اور ایک پردہ ایسے لوگوں کے پیچھے ہے جو قیامت کے دن تک ان کے درمیان اور حقیقت کے درمیان لٹکا رہے گا.فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (المومنون:۱۰۳) جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان کوئی قرابتین باقی نہیں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کا حال پوچھ سکیں گے.ایک بات تو بارہا پہلے گزر چکی ہے کہ جب پکڑ کا وقت آجائے جب موت آجائے تو اس وقت بچنے کی کوئی دعا کار آمد نہیں ہوتی.ان مضامین کو جب دہرایا جاتا ہے تو بے وجہ نہیں دہرایا جا تا بلکہ ان کے ساتھ مزید کچھ اور مضامین بیان کر دئیے جاتے ہیں.قرآن کریم میں درحقیقت ایک بھی Repitation نہیں ہے.آپ کو بہت سی جگہ بعض مضامین دہرائے ہوئے دکھائی دیں گے اور انسان سمجھتا ہے کہ وہی مضمون دوبارہ ہے اس کے دو فائدے ہیں.ایک فائدہ تو یہ ہے کہ بعض مضامین بار بار نظر کے سامنے آئیں تو انسانی فطرت پر زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے لیکن اور فائدہ یہ ہے کہ ان دہرائے ہوئے مضامین کو مختلف شکلوں میں پیش کیا جاتا ہے اور قرآن کریم میں ایک بھی ایسی دہرائی نہیں جس کا پس منظر یا بعد میں آنے والی آیات اس مضمون پر کوئی نئی روشنی نہ ڈالتی ہوں اس لئے کہیں بھی محض تکرار نہیں ہے بلکہ ہر تکرار کے ساتھ کچھ حکمتیں ایسی پوشیدہ ہیں جو پہلے موقعہ پر بیان نہیں ہوئی تھیں یا ان کے بعض پہلو بیان نہیں ہوئے تھے.چنانچہ یہاں بھی یہی بات ہے.لَعَلَّى اَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا کہہ کر بظاہر وہی باتیں پیش کی گئی ہے جو پہلے بھی کئی دفعہ پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ اور ان کے درمیان ایک پردہ ہوگا جو قیامت کے دن تک لڑکا رہے گا.کن کے درمیان پردہ ہے؟ یہ بحث
خطبات طاہر جلد ۱۰ 594 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء ایک مضمون تو یہ ہے کہ مستقبل میں جو کچھ ان کے لئے ظاہر ہونا ہے وہ پوری طرح ان کو دکھائی نہیں دے گا اور ایک پردہ ہو گا لیکن مزید غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ کے درمیان اور ان کے درمیان ایک پردہ ہے جو کبھی بھی نہیں اٹھایا جائے گا اور ان کو اعمال صالحہ کی توفیق مل ہی نہیں سکتی.جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں اگر کوئی شخص بدی کی حالت میں اٹھایا جاتا ہے تو جس حد تک اس کے بچنے کا امکان تھا وہ امکان اس کو مہیا کیا جا چکا ہے.اور جس شخص کو ابھی اور بھی آزمائش میں ڈالنا ہو اور ابھی اس کی صلاحیتیں پوری طرح استعمال نہ ہوئی ہوں اور یہ امکان ہو کہ ابھی کچھ اور امتحان باقی ہیں تو ایسے شخص کو اگر وہ بد ہے بدیوں میں لمبی زندگی ملتی ہے اور اگر وہ نیک ہے تو نیکی میں اور لمبی زندگی ملتی ہے لیکن کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ اپنی نیکی یا بدی کی کیفیتوں میں اس حد تک آزمایا نہ جا چکا ہو کہ جس کے بعد یقین سے یہ کہا جا سکتا ہو کہ اب اس کے بعد اگر اس کو لاکھ سال کی زندگی بھی ملے تو اس کے اندر تبدیلی پیدا نہیں ہوگی.یہی مضمون ہے جو اللہ تعالیٰ نے وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ میں فرمایا ہے کہ زندگی کی حد تک ہم نے ان کو دیکھ لیا.یہ جو کہتے ہیں ہمیں دوبارہ موقعہ ملے گا تو ہم نیک اعمال کریں گے.یہ سب بکواس ، جھوٹ ہے ، منہ کی باتیں ہیں.قیامت تک یہ لوگ اب نیکی کی توفیق نہ پانے والے ہیں تب ہم نے ان کو ایسی حالت میں اٹھایا ہے اور پھر اس مضمون کو آگے بڑھا کر فرمایا.فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَبِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ ان کے اور ان کے نیک ساتھیوں کے درمیان کوئی رشتہ بھی باقی نہیں رہے گا جس طرح ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان کوئی رشتہ نہیں اسی طرح ان کے وہ رشتے دار جو نیک تھے ان کے درمیان کوئی رشتہ اب دوبارہ قائم نہیں ہوگا بلکہ ان کے بدوں کے ساتھ رشتے رہیں گے اور جس طرح یہاں انسان اپنے نیک ساتھیوں کے بھی حال پوچھ لیا کرتا ہے اولاد ہو یا ماں باپ ہوں یا اور عزیز ہوں ،اقرباء ہوں نیک اور بدا کٹھے رہتے ہیں لیکن یہاں مرنے کے بعد فرمایا کہ بدوں اور نیکوں کی دنیا الگ کر دی جائے گی اور وہ ایک دوسرے کے حال پوچھنے کی بھی توفیق نہیں پائیں گے سوائے اس کے قرآن کریم میں بعض جگہ نمون خدا تعالیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ ہمیں ان لوگوں کا حال بتا اور خدا تعالیٰ ان کو توفیق دے گا کہ نمونڈو سرا حال دیکھ لیں.وہ ایک الگ مضمون ہے جو استثناء کے طور پر ہے اور اس آیت میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 595 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء عمومی مضمون ہے جو بیان ہوا ہے.اب میں اس مضمون کو سر دست یہاں چھوڑتا ہوں کیونکہ مختصراً ایک اور بات بھی آپ کے سامنے رکھنی ہے کہ ہمارا مالی سال ۳۰ / جون کو اختتام کو پہنچا ہے.میں چونکہ دورے پر تھا اس لئے میں اس کے متعلق پہلے کوئی گفتگو نہیں کر سکا.واپس آنے کے بعد مجھے بعض اطلاعیں ملی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن ممالک سے بھی اطلاع ملی ہے ان میں یہ خوشخبری ہے کہ بجٹ سے توقع سے زیادہ آمد ہو چکی ہے.پاکستان میں بھی انتہائی مشکل حالات کے باوجود مسلسل یہ مضمون ہمیشہ دہرایا جاتا ہے کہ سال ختم ہونے سے پہلے ناظر صاحب بیت المال ڈرانے کے خط لکھتے ہیں اور ایسی اطلاعیں بھیجتے ہیں کہ گویا اس دفعہ تو ہم بالکل رہ جائیں گے اور معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح آمد پوری ہوگی لیکن میرا خیال ہے وہ دعا کی خاطر جان کے ڈراتے ہیں تا کہ دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو.اب میں سفر میں تھا تو مجھے ان کا خط ملا اور بہت سخت ڈرانے والا خط تھا کہ اس دفعہ تو حالت حد سے خراب ہو چکی ہے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ہم اپنا بجٹ اس دفعہ پورا کر سکیں گے لیکن واپس آیا ہوں تو چٹھی بالکل برعکس مضمون کی موجود ہے یعنی اللہ کے فضل سے دو ہفتے کے اندراندر ایسی کایا پلٹی ہے کہ جتنی متوقع آمد تھی اس سے بھی کئی لاکھ اوپر آمد ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ باقی دنیا میں بھی یہی سلوک چلتا ہے جہاں کمزوری ہے وہاں انتظامیہ کی کمزوری ہے اور انتظامیہ کی کمزوریاں دوطرح سے ہیں ایک تو یہ کہ ان کو سارا سال بیدار مغزی سے احمدیوں تک پہنچنے ، ان کو ان کے فرائض یاد دلانے کی توفیق نہیں ملتی.بعض سیکرٹریان مال سست ہو جاتے ہیں کئی کئی مہینے کے بعد ، بعض دفعہ سال کے بعد بتاتے ہیں کہ تمہارا سب کچھ بقایا پڑا ہے اور ہر قسم کے انسان دنیا میں ہیں.اخلاص کے باوجود بعض طبعا کمزور ہوتے ہیں.بعض طبعا ست ہوتے ہیں ان تک اگر آپ وقت کے اوپر پہنچ جائیں تو جو کچھ ہے حاضر کر دیں گے لیکن جب وقت پر نہ پہنچیں تو دنیا کی دوسری ضروریات پہلے آجاتی ہیں پھر ان پر خرچ کر دیتے ہیں.آخر پر ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے.جہاں بھی انتظامیہ مستعد ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بھی وہاں اسی طرح مستعدی کے ردعمل دکھاتی ہے اور جہاں انتظامیہ دعا کرنے والی ہے وہاں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حیرت انگیز نشان ظاہر ہوتے ہیں.دیکھتے دیکھتے مالی امور کی کایا پلٹ جاتی ہے.تو اس لئے میں اعلان کرتا ہوں اور اب جہاں جہاں بھی خطبے کی یہ آواز
خطبات طاہر جلد ۱۰ 596 خطبہ جمعہ ۱۲ار جولائی ۱۹۹۱ء پہنچے گی کہ ایک مہینے کے اندر اندر اپنی مجالس عاملہ کی میٹنگز بلائیں اور اپنے سابقہ رویے کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ سارا سال کیا مستعدی کے ساتھ نادہندوں کی فکر کی گئی؟ کم شرح سے چندہ دینے والوں کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی گئی یا نہ کی گئی ؟ اس ضمن میں United States میں میں نے مجلس عاملہ کو جو خصوصیت سے ہدایت دی تھی اس کی ریکارڈنگ باقی دنیا میں بھی بھجوا دی جائے گی اس پر بھی غور کر لیں اور اپنے مالی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں.دوسری بات یہ ہے کہ اکثر ممالک رپورٹ بھجوانے میں ستی کر دیتے ہیں.مثلاً اب ایک مالی سال کا جو عرصہ ہے وہ تو گزر چکا لیکن ابھی تک بھاری اکثریت ایسے ممالک کی ہے جنہوں نے یہاں رپورٹ بھیجنے کا خیال بھی نہیں کیا حالانکہ ہر سال اس سال کی مکمل رپورٹ آنی چاہئے.پس ایک مہینے کے اندر اندر اب جماعتیں اپنی مکمل رپورٹ بھی بھجوائیں اور اس رپورٹ کے ساتھ معین اطلاع کریں کہ اس وقت تک ان کے پاس کتنا حصہ مرکز زائد پڑا ہوا ہے اور اس حصہ مرکز کے متعلق ہدایت طلب کریں کہ اس کو کیا کرنا ہے.ایک زمانہ تھا جب کہ حصہ مرکز زائد کے طور پر اکثر باہر پڑا رہ جاتا تھا کیونکہ مرکز براہ راست بہت سے جماعتی کاموں میں اس طرح ملوث نہیں تھا کہ ساری دنیا میں مرکز کی طرف سے تفصیل سے خرچ ہورہا ہو بلکہ جو جماعتیں تھیں وہی خرچ کرتی تھیں اور وہی مرکزی خرچ کے مترادف سمجھا جاتا تھا اب بہت سے ایسے غیر معمولی انقلابی کام ہورہے ہیں جن کے نتیجے میں مرکز کا خرچ بہت بڑھ چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک اس خرچ میں کمی نہیں آئی لیکن بعض دفعہ یہ الجھن ضرور پیدا ہوتی ہے کہ فلاں ملک میں پتا نہیں ہمارے کتنے پیسے پڑے ہوئے ہیں، فلاں ملک میں کتنے پڑے ہوئے ہیں بعض دفعہ چھ چھ مہینے تک اطلاع نہیں ملتی اور یہاں جو ہمارے اس وقت ایڈیشنل وکیل المال شریف احمد صاحب اشرف ہیں ان کے سپرد میں نے کیا ہے ان کو بے وجہ ضرورت سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے.میں تمام دنیا کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج سے ایک مہینہ ختم ہونے سے پہلے مجلس عاملہ میں بھی اس صورتحال پر غور کریں اور مجھے براہ راست وہاں سے رپورٹ بھجوائیں.ایڈیشنل وکیل المال کو نہ بھجوائیں کیونکہ مجھے بھجوائیں گے تو مجھے پتا لگ جائے گا کہ کس نے بھیجی ہے اور کس نے نہیں بھیجی اور ان کے ذہن میں بھی یہ دباؤ ر ہے گا کہ میرے سامنے بات آتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 597 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۱ء اس لئے ممکن ہے تھوڑا سا مزید ذمہ داری کا احساس پیدا ہو تو میں امید رکھتا ہوں کہ جلد یہ رپورٹیں آجائیں گی.جہاں تک مرکزی اخراجات کا تعلق ہے مجھے اللہ کے فضل سے اسبارہ میں کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اب تک جتنی بھی نئی سکیمیں بنی ہیں، جتنے بھی نئے اخراجات سامنے آئے ہیں خدا تعالیٰ از خود پورا کرتا چلا جا رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہمیشہ یہی اس کا سلوک جاری رہے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.ہماری نیتیں پاک ہونی چاہئیں.مخلص ہونی چاہئیں.ہماری کوششیں مخلص ہونی چاہئیں اور پاک ہونی چاہئیں باقی سب برکتیں اللہ اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے اور وہی عطا فرما تا رہے گا.اس کے بعد میں باقی مضمون انشاء اللہ آئندہ ہفتے پیش کروں گا.ہاں ایک چھوٹا سا اعلان یہ کرنا تھا کہ اس جمعہ میں دو نئے ممالک کا اضافہ ہوا ہے جو براہ راست مواصلاتی ذرائع سے یہ خطبہ سن رہے ہیں.ایک تنزانیہ ہے اور ایک نیوزی لینڈ.تو یہ سلسلہ خدا کے فضل سے پھیلتا چلا جارہا ہے.اللہ کرے آئندہ ایسے انتظام بھی ہوں کہ آڈیو ویڈیو دونوں طرح سے جماعت بیک وقت ساری دنیا میں خطبے اور بعض اہم تقاریر سے مستفید ہو سکے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 599 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء مغضوب اور ضالین کی دعاؤں میں بڑے سبق ہیں.ایٹمی جنگ کی خبر اور اسلام کے غلبہ کی خوشخبری (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹ جولائی ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ فاتحہ کے مضامین پر خطبات کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس میں سے غالبا آج کا یہ خطبہ آخری ہوگا کیونکہ اب ہم الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے ذکر میں داخل ہو چکے ہیں اور اس ذکر سے انشاء اللہ آج نکل کر پھر نماز کی بقیہ دعاؤں اور حمد و ثنا سے متعلق میں کچھ بات کروں گا وہ دعائیں جو قرآن کریم نے الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم اور الضَّالِّينَ کی دعاؤں کے طور پر محفوظ کی ہیں ان میں ہمارے لئے بہت بڑے سبق ہیں.کچھ دعاؤں کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے آج سورہ مومنون کی آیات ۱۰۴ تا ۱۰۹ اسے مضمون شروع کرتے ہیں.دعا تو ان میں سے ۱۰۷ اور ۱۰۸ آیات پر مشتمل ہے لیکن یہ آیات اس دعا کے تعلق میں ہیں اس لئے یہ ساری آیات درج کر دی گئی ہیں دعا یہ ہے کہ قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِينَ (المومنون : ۱۰۷) وہ خدا سے یہ عرض کریں گے کراے ہمارے رب ! غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا ہم پر ہماری بدھیبی نے غلبہ پالیا تھا.وَكُنَّا قَوْمًا ضالين اور ہم گمراہ قوم بن چکے تھے رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظُلِمُوْنَ (المومنون : ۱۰۸) اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم کی حالت سے نکال دے پھر اگر ہم دوبارہ وہی حرکتیں کریں تو پھر یقیناً ہم ظالموں میں سے ہوں گے.قَالَ اخْسَنُوافِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ (المومنون : ١٠٩)
خطبات طاہر جلد ۱۰ 600 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ تم اس میں دور ہٹ جاؤ اور مجھ سے کلام نہ کرو.جتنی بھی دعا ئیں محفوظ کی گئی ہیں ان میں سے غالبا یہ اپنے مضمون کے لحاظ سے سب سے زیادہ دردناک دعا ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ ذکر تو ملتا ہے کہ خدا نے دعا کی اجازت دی اور لوگ دعا کرتے رہے اور پکارتے رہے لیکن دعا رد ہوتی رہی لیکن یہ ایک ایسی دعا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ سے کلام نہ کرو اور اپنی اس حالت میں اور دور تک پیچھے ہٹ جاؤ.اس مضمون کا ان کے اس اقرار سے تعلق ہے قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا انہوں نے کہا کہ اے خدا اس دنیا میں بدنصیبی ہم پر غالب آگئی تھی اور بدنصیبی کے غلبے کی یہ تفسیر ہے کہ سب سے زیادہ بد نصیب وہ قوم ہوا کرتی ہے جو خدا سے اس طرح تعلق تو ڑلے کہ اس کو پکارنا اور دعا میں اس کو یا درکھنا ہی بھول جائے گویا خدا کا کوئی وجود ہی نہیں رہا.پس درحقیقت خدا کے جواب نے غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنا کی تغییر فرما دی ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ دنیا میں سب بدنصیبوں سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہوا کرتی ہے.دنیا میں ایسی قومیں بھی ہیں جن پر مصیبتوں کے وقت بھی آتے ہیں تب بھی وہ خدا کو نہیں پکارتے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مصیبتوں کے وقت خدا کو یاد کرنے لگ جاتے ہیں.ان کا ذکر خدا تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر فرمایا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ دوبارہ اس پہلی حالت کو لوٹ جائیں گے پھر بھی ہم بعض دفعہ ان کی دعائیں سنتے رہے کیونکہ ان کو دعا کی طرف توجہ تھی، یہ خیال تو آتا تھا کہ ہمارا ایک رب ہے اس کی طرف ہمیں جھکنا چاہئے اور اس سے مدد مانگنی چاہئے لیکن وہ بد نصیب جن پر بدنصیبی غلبہ پا جائے وہ دعا کے مضمون کو ہی بھول جاتے ہیں.اس پہلو سے آج کی دنیا پر اگر آپ نظر ڈالیں تو یقیناً انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ وَالْعَصْرِفُ اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ کہ زمانے کی قسم زمانہ بہت بڑے گھاٹے میں جارہا ہے کیونکہ آج دنیا کی بھاری اکثریت وہ ہے جو دعا کا مضمون ہی بھلا چکی ہے.جتنی دعا جماعت احمدیہ میں کی جاتی ہے اور جتنا دعا کا ذکر جماعت احمدیہ میں چلتا ہے بعض ایسے بڑے بڑے خطے ہیں جہاں ساری آبادی مل کر بھی ساری زندگیوں میں دعا کا اتنا ذکر نہیں کرتی جتنا جماعت احمد یہ ایک سال بلکہ ایک مہینہ میں کرتی ہے بلکہ جماعت احمدیہ کی دعاؤں کے بعض دن بعض براعظموں کی دعاؤں پر غالب آجاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 601 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۹۱ء پس دعا ہی حقیقت میں روحانی زندگی ہے اور جو قوم دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے تعلق کاٹ لیتی ہے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا پس دعا ئیں نا مقبول بھی ہوں تب بھی دعا میں لگے رہنا چاہئے کیونکہ ایک وسیلہ تو ہے ایک واسطہ تو ہے خدا سے جس سے زندگی کی رمق قائم رہتی ہے اور ایک امید باقی رہتی ہے پس ایسی دعائیں بھی جو نا مقبول ہوں اور نا مقبول رہیں بسا اوقات ان کو بھی بالآخر پھل لگ جاتے ہیں.اس دعا سے جو ایک بدنصیب قوم کی بد دعا ہے اس سے ہم نے یہ راز سمجھ لیا کہ سب سے اہم چیز خدا سے دعا کا تعلق قائم رکھنا ہے خواہ وہ قبول ہو یا نہ ہو.پس وہ لوگ جو بسا اوقات اپنی اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم دعا ئیں تو کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں.ہم نمازیں تو پڑھتے ہیں مگر مزہ نہیں آتا کیوں نہ چھوڑ دیں ان کے لئے اس آیت میں بہت ہی بڑا انذار ہے اگر اس دنیا میں چھوڑ دو گے تو آئندہ تمہیں بھی یہی جواب ملے گا قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ پہلے بھی تم نے مجھ سے رابطہ تو ڑ لیا تھا تم مجھ سے کلام نہیں کیا کرتے تھے اب میری باری ہے میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ آج میں تم سے کلام نہیں کروں گا.دعا کے مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ بظاہر دعا قبول نہیں ہوتی لیکن متقی کی ہر دعا ضرور قبول ہوتی ہے فرمایا بسا اوقات وہ دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ انسان کو اس وقت معلوم نہیں ہوتا لیکن بعد میں اس کو علم دیا جاتا ہے کہ کس رنگ میں تمہاری دعا قبول ہوئی.یہ مضمون ایک گہرا مضمون ہے، اس کے ذکر کے بغیر میں آگے چلتا ہوں کیونکہ میری خواہش ہے کہ آج ہی الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور الضَّالِّينَ کی دعاؤں کے اس مضمون کو ختم کر دوں.اسلامی لڑ یچر میں ایک ایسی دعا کا ذکر ملتا ہے یا ایسے دعا کرنے والے کا ذکر اسلامی لڑ پچر میں ملتا ہے جو ایک لمبے عرصہ تک دعائیں کرتا رہا اور دعائیں نا مقبول ہوتی رہیں اور نا مقبول ہونے کی اطلاع اس کو دی جاتی رہی لیکن پھر بھی وہ تھکا نہیں.بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بزرگ کوئی خاص دعا کیا کرتے تھے اور ان کے بہت سے مرید تھے کیونکہ وہ بہت ہی تقویٰ شعار انسان تھے اور دور دور تک ان کی نیکی کی شہرت پھیل چکی تھی.بہت سے مرید آتے تھے اور کچھ عرصہ صحبت پا کر چلے جایا کرتے تھے لیکن ایک ایسا مرید تھا جس نے کبھی ان کا دامن نہیں چھوڑا.اس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے ایک دفعہ اپنے پیر سے ، اس بزرگ سے کہا کہ ۱۲ سال سے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک دعا روزانہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 602 خطبہ جمعہ ۹ار جولائی ۱۹۹۱ء کرتے چلے جاتے ہیں اور روزانہ آپ کو خدا تعالیٰ یہ اطلاع دیتا ہے کہ میں نے تیری یہ دعا نا مقبول کر دی ہے، رد کر دی ہے اور پھر آپ رات کو اٹھتے اور پھر وہی دعا کرتے ہیں اور پھر اٹھتے ہیں اور پھر وہی دعا کرتے ہیں اور آپ کا اصرار ختم ہونے میں ہی نہیں آتا جبکہ ہر دفعہ خدا آپ کو مطلع فرما دیتا ہے کہ میں نے تیری دعا رد کر دی ہے.انہوں نے جواب دیا کہ دیکھو میں ایک بھکاری اور فقیر انسان ہوں فقیروں کا کام مانگنا ہے اور خدا مالک ہے اس کا کام ماننا یا نہ ماننا ہے وہ اپنا کام کرتا چلا جارہا ہے میں اپنا کام کرتا رہوں گا.یہ بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس بزرگ کو الہام ہوا کہ جاہم نے تیری تمام عمر کی دعائیں قبول کر لی ہیں.تو بعض دعاؤں کا وفا سے تعلق ہوتا ہے بندے کا کام نہیں ہے کہ خدا سے کلام کا تعلق توڑلے یہ سب سے بڑی گستاخی ہے اگر ماں باپ بھی اپنے بچے کی کوئی بات نہ مانیں اور وہ روٹھ کر مانگنا چھوڑ دیں تو ماں باپ کو سخت تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اسے ذاتی طور پر اپنی بے ادبی اور گستاخی سمجھتے ہیں ماں باپ کے مقابل پر بچے کا جو رشتہ ہے وہ ایک معمولی رشتہ ہے لیکن خدا کے مقابل پر بندے کا رشتہ تو بہت ہی عاجزی کا رشتہ ہے اس لئے ان باتوں کو سمجھیں اور خدا سے کلام کا تعلق تورنے کا تصور بھی دل میں نہیں آنا چاہئے.پس وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں یا نمازوں میں لطف نہیں آتا ان کو یہی نصیحت ہے کہ وہ بندگی کرتے چلے جائیں یقیناً خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو کسی نہ کسی رنگ میں قبول فرمائے گا اور ہرگز بعید نہیں کہ ایک وفا شعار بندے کو آخر وہی جواب ملے جو اس بزرگ کو ملا تھا کہ ہم نے تیری ساری عمر کی دعائیں قبول کرلیں.ایک دعا سورہ قصص آیت ۴۹ میں بیان ہوئی ہے فرمایا: فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسى أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ قَالُوا سِحْرُنِ تَظْهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلِّ كَفِرُونَ اس میں بدنصیب منکر قوموں کی نفسیات بیان ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب ان کے پاس حق آ گیا جو ہماری طرف سے تھا تو انہوں نے کہا کیوں نہ اس شخص کو وہ کچھ دیا گیا جو کچھ موسیٰ کو دیا گیا یعنی انبیاء کے انکار کرنے والے ہمیشہ اس قسم کے بہانے تراشتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے یہ مطالبے کرتے ہیں کہ جو اس سے پہلے دیا گیا جس رنگ میں اس سے تو نے کلام کیا ، جس رنگ میں اس سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 603 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۹۱ء تو نے سلوک فرمایا اگر بعینہ ویسا ہی کلام اس بندے سے کرے اور ویسا ہی سلوک اس بندے سے فرمائے تو پھر ہم ایمان لے آئیں گے مگر یہ پہلوں سے ملتا نہیں.چنانچہ ہر نبی کو ہمیشہ یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ جو تجھ سے پہلے نبی نشان لائے تھے وہ نشان لا کر دکھا اور جب اس کے نشانات اس پر نازل ہوئے تو انہیں نظر انداز کر دیا گیا.جب بعد میں ایک نبی آیا تو اس سے بھی یہی مطالبہ ہوا کہ تجھ سے پہلے جو نبی گزرا ہے ویسا نشان دکھا.چنانچہ اس کا جواب دیکھئے کہ کتنا عظیم الشان جواب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا موسی" کو اس سے پہلے تم لوگ رد نہیں کر چکے مراد یہ ہے کہ یہ ذہنیت ایسی ہے جو ہر آنے والے کو رد کرتی ہے.جب موسیٰ کے وقت میں تمہارے جیسی سرشت کے لوگ تھے تو انہوں نے بعینہ یہی سوال موسیٰ سے بھی تو کیا تھا کہ تیرے نشانات کو ہم نہیں مانتے.تجھ سے پہلے جو نشانات آئے تھے ویسے نشان لا کر دکھا اور یہ سلسلہ ہمیشہ اسی طرح سے جاری ہے.پس تم اس سرشت کے لوگ ہو جو قبول کر ہی نہیں سکتے.خدا تعالیٰ کی طرف سے صدق کی بعض نشانیاں ہوتی ہیں ، اہل اللہ کی بعض علامتیں ہوتی ہیں وہ علامتیں تو ہمیشہ دہرائی جاتی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا وہی علامتیں ہیں جنہیں دیکھ کر بچے لوگ پہچانے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ یہ کہنا کہ موسیٰ نے جس طرح عصا سے جھوٹے بنے ہوئے سانپوں کو دوبارہ رسی بنا دیا تھا اسی طرح کا عصا د کھا.یہ کہنا کہ جس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نے مردے زندہ کئے تھے اسی طرح مردے زندہ کر کے دکھا.یہ سارے انکار کے بہانے ہیں اور جو بھی ایسے بہانے کرے گا اللہ تعالیٰ ان بہانوں کو رد فرمادے گا.یہ دعا سورہ قصص ۶۳ تا ۶۵ میں درج ہے.میں جب آیات کا نمبر لیتا ہوں تو اس دعا سے پہلے اور بعد کی آیات کا نمبر بھی بیچ میں دے دیتا ہوں.وہ پس منظر کے طور پر اور بعد میں آنے والے جواب کے طور پر لکھی گئی ہیں.لیکن میں صرف دعا پڑھ کر سناؤں گا فرمایا : قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا ۚ أَغْوَيْنُهُمْ كَمَا غَوَيْنَا تَبَرَّ أَنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ وہ یہ کہیں گے وہ لوگ جن پر خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو جائے گا حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ وہ وعید جو ان کو دئے گئے تھے جس عذاب سے ڈرایا گیا تھا اس عذاب میں داخل ہونے کا وقت ان کے سامنے آجائے گا تو اس وقت وہ یہ کہیں گے ربَّنا و لا الَّذِينَ أَغْوَيْنَا اے ہمارے رب! یہ وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا تھا.604 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء اس سے پہلے ایک ایسی دعا گزری ہے جس میں گمراہ ہونے والے لوگ خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ایہ وہ بد بخت ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ اقرار کریں گے کہ ہم نے فلاں کو اور فلاں کو اور فلاں کو گمراہ کر دیا تھا كَمَا غَوَيْنَا جیسا کہ ہم خود بھی گمراہ ہو گئے تھے تبر انا اليك آج ہم تیری طرف اپنے گزشتہ اعمال سے الگ ہوکر لوٹتے ہیں یعنی پچھلے اعمال سے بریت کرتے ہیں تو تیری طرف آرہے ہیں مَا كَانُوا اِيَّانَا يَعْبُدُونَ یہاں دراصل ایک اور مضمون شروع ہو گیا ہے.مَا كَانُوا اِيَّانَا يَعْبُدُونَ کا تعلق پھر انہی لوگوں سے ہے جن کے متعلق کہا گیا کہ ہم نے ان کو گمراہ کیا تھا اور اقرار کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے.اس آیت کو سمجھنے کے لئے یہ آخری ٹکڑا اس کی چابی ہے کہ وہ لوگ کیوں خود کہیں گے کہ ہم نے ان کو گمراہ کیا تھا.لوگ تو ایسے موقع پر کہا کرتے ہیں کہ ہماری تو بہ !ہم نے تو کچھ نہیں کیا لیکن عذاب کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ کیوں کہیں گے کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم بھی گمراہ تھے اور ہم نے ان کو گمراہ کیا تھا آخر پر یہ کہا گیا ہے کہ مَا كَانُوا اِيَّانَا يَعْبُدُونَ کہ یہ ہماری عبادت نہیں کیا کرتے تھے.اصل بات یہ ہے کہ سب سے بڑی سزا ان لوگوں کے لئے جو دنیا میں جھوٹے معبود بن جائیں اور ان کے لئے سب سے خوفناک جہنم ہے جو خدا سے ہٹا کر اپنی عبادت کی تعلیم دینے لگیں.یہ مضمون ایسے فرضی خداؤں کے اوپر چسپاں ہو رہا ہے جو بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے جن کو ان چھوٹے لوگوں نے خدا بنا لیا تھا جن کو ان چھوٹے لوگوں نے معبود کی صفات دے دی تھیں اس لئے وہ بڑے عذاب سے ڈر کر چھوٹے گناہ کا اقرار کر رہے ہیں ورنہ کوئی اتنی بڑی بہادری نہیں ہے کہ خدا کے حضور حاضر ہو کر بڑی تعلی سے کہیں کہ ہاں ہم گناہگار ہیں ہم نے ایسا کیا تو آیت کا آخری ٹکڑا یہ بتا رہا ہے کہ اے خدا! ہم نے خود ان کو گمراہ کیا ہے ہمیں پتا ہے ہم خود بھی تو گمراہ تھے مگر ہم نے کبھی ان کو یہ نہیں کہا کہ ہماری عبادت کرو.یہ ان کی جہالت ہے اور اس لحاظ سے ہم بریت کا اعلان کرتے ہیں ہمیں اس بات کی سزا نہ دینا.گمراہ تھے گمراہی کی سزا دے دینا.گمراہ کرنے کی سزا دے دینا مگر جھوٹے خدا بننے کی سزا نہ دینا کیونکہ ہم نے ان کو نہیں کہا یہ جو ہماری عبادت کرتے تھے یہ دراصل خود اپنے نفسوں کی عبادت کرتے تھے اس میں دوسرا گہرا حکمت کا راز یہ سمجھایا گیا کہ جھوٹے خداؤں کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 605 خطبہ جمعہ ۹ار جولائی ۱۹۹۱ء عبادت کرنے والے کسی اور کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اپنے نفس کی عبادت کرتے ہیں ، اپنے فرضی قصوں کی عبادت کرتے ہیں اپنے مفادات کی عبادت کرتے ہیں اور حقیقت میں ان جھوٹے خداؤں سے ان کا کوئی ذاتی تعلق نہیں ہوتا نہ کوئی مشاہدہ ہوتا ہے.جس کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق نہ ہو جس کو مشاہدہ نہ کیا گیا ہو حقیقت میں ان کی عبادت نہیں کی جاتی بلکہ اپنی اغراض اور اپنے نفوس کی عبادت کی جاتی ہے، اپنے تو ہمات کی عبادت کی جاتی ہے.پس اس آیت نے بہت سے فطری رازوں سے پردہ اٹھایا اور یہ سمجھایا کہ انسان جب کسی بڑے گناہ میں ملوث پایا جاتا ہے یا اس پر الزام لگتا ہے تو وہ چھوٹے گناہ کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کا فائدہ کوئی نہیں کیونکہ فرمایا:.وَقِيلَ ادْعُوا شُرَكَاءَ كُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْالَهُمْ وَرَاوُا الْعَذَابَ لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ (القصص:۶۵) کہ قیامت کے دن ان سے یہ کہا جائے گا کہ تم ان شرکاء کو اپنی مدد کے لئے بلاؤ جن کو تم دنیا میں پکارا کرتے تھے فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا پھر وہ ان کو بلائیں گے اور ان کو پکاریں گے.آوازیں دیں گے لیکن کوئی جواب نہیں پائیں گے وَرَاوُا الْعَذَاب اور عذاب کو دیکھیں گے لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ کاش ایسا ہوتا کہ وہ دنیا کی زندگی میں ہی ہدایت پاچکے ہوتے.سورۃ سبا کی آیت بیسویں میں یہ دعا درج ہے: فَقَالُوْارَ بَّنَا بِعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْتُهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَقْنَهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لايتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (سبا:۲۰) حضرت سلیمان نے جب بہت ترقی کی اور بہت عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی اور عظیم الشان سلطنوں میں شہری آبادیاں ہمیشہ بڑھ جایا کرتی ہیں اور نتیجہ بعض دفعہ شہروں سے شہرمل جاتے ہیں.چنانچہ Civilization کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ جتنی بڑی Civilization ہوگی اتنا شہری آبادیاں پھیلتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ بعض شہر دوسرے شہروں سے مل جاتے ہیں تو ایسا ہی نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایسی حالت میں یہود نے یہ دعا کی رَبَّنا لِحِد بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْتُهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَقْنَهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شگورِ انہوں نے کہا اے خدا ! ہمارے درمیان سفر بڑھا دے مطلب یہ تھا کہ ہماری بستیوں کے درمیان فاصلے زیادہ کر دے وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمُ اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا فَجَعَلْتُهُم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 606 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۹۱ء احادیث اور ہم نے ان کو ماضی کے قصے بنا دیا وَمَزَقْنَهُمْ كُلَّ هُمَزَقٍ اور ہم نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ بکھیر دیا اِنَّ فِي ذلِكَ لايت لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ان باتوں میں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے تو دعا کی کہ اے خدا ہمارے فاصلے بڑھا دے لیکن اس پر اتنی خطرناک سزا کا کیا مطلب تھا کہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا، ان کو بکھیر دیا گیا ، ان سے برکتیں چھین لی گئیں اگر ایک انسان کھلی جگہ رہنا چاہے اور یہ پسند نہ کرے کہ شہر سے شہر ملے ہوں تو اس کے نتیجہ میں تو یہ سزا نہیں ملنی چاہئے.عام طور پر قرآنی تراجم میں یہی لکھا ہوا ہے کہ انہوں نے یہ دعا کی تھی تا کہ ہمارے رہن سہن آسان ہو جا ئیں ہمارے شہر ایک دوسرے سے ہٹیں کچھ کھلی ہوا میں ہم بھی دم لیں.شہر کی تنگیوں سے گھبرا گئے تھے اور یہ دعا کی حالانکہ یہ بات درست نہیں قرآن کریم نے اس دعا کے معاً بعد یہ فرما کر وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ اس کی بنیادی خرابی کا ذکر فرما دیا ہے.وہ اس لئے ایک دوسرے سے دور نہیں ہونا چاہتے تھے کہ ان کو کھلی فضا میں سانس لینے کی خواہش تھی بلکہ اس لئے کہ ان کے دل ایک دوسرے سے دور ہو چکے تھے ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے تھے اور وہ سوسائیٹی جس میں محبت نہ رہے اس میں تو انسان یہ بھی چاہتا ہے کہ میرا ہمسایہ بھی مجھ سے دور ہٹ جائے.پس نفرتیں جب فاصلے بڑھانے کے مطالبے کریں تو یہ دعا ایسی ہے جس کے نتیجہ میں چین کی دوریاں نصیب نہیں ہوں گی بلکہ عذاب کی دوریاں نصیب ہوں گی.بعض دوریاں ایسی ہیں جیسے کھلی فضا میں دیہات دیہات سے الگ ہوتے ہیں ایک گاؤں سے سفر کر کے دوسرے گاؤں میں جائیں بڑا خوشگوار ماحول نظر آتا ہے بڑی خوشگوار فضا ہوتی ہے سبز سبز لہکتے ہوئے کھیت ہیں یہ وہ منظر نہیں ہے.جس کا تصور قرآن کریم پیش فرما رہا ہے.فرماتا ہے وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وہ بظاہر تو یہ دعا کرتے تھے لیکن حقیقت میں اپنی جانوں پر ظلم کر چکے تھے ایک دوسرے سے شدید نفرت کرنے لگے تھے ایک دوسرے کا قرب ان کو گوارا نہیں رہا تھا.اس کے جواب میں اب دیکھیں خدا تعالیٰ نے جو سلوک فرمایا وہ بعینہ ان کے دل کی حالت کے مطابق ہے.وہ پھٹے ہوئے تھے تو فرمایا اب ہم تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں.جو دل کی اصل دعا ہے وہ قبول ہوئی ہے زبان کی دعا قبول نہیں ہوئی اور وہ قوم جو بظاہر ایک تھی ان کے چونکہ دل پھٹ چکے تھے اس لئے وہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 607 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء بٹ گئے اور اس کے نتیجہ میں افتراق کا عمل شروع ہو گیا.پس روحانی جماعتوں کو ہمیشہ یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ اگر دل میں ایک دوسرے سے دوری کی تمنا پیدا ہو جائے ،اگر ایک دوسرے سے محبت میں کمی آجائے.ایک دوسرے سے مل کر لطف اندوز ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے قرب سے طبیعت میں وحشت پیدا ہوتی ہو تو یہاں بالآخر پھٹنے کا آغاز ہو چکا ہے اور آئندہ تفریق کی بنیا د اسی دوری کی تمنا میں ہوتی ہے اور پھر آخر کا رایسی قومیں ایک دوسرے سے جدا ہو جایا کرتی ہیں اور تفریق کا عمل ایک دفعہ جاری ہو تو پھر رکا نہیں کرتا.اس لئے جماعت احمدیہ کو اخوۃ بن کر رہنا ضروری ہے.ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کی محبت میں منسلک رہنا چاہئے اور جہاں بھی یہ خطرہ دیکھیں کہ احمدی کو احمدی سے دوری ہورہی ہے وہاں ان کے دلوں میں خطرے کے الارم بج جانے چاہئیں اور یہ دعا نہیں کرنی چاہئے کہ بُعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے جس کا پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا (الحشر: 11) اے ہمارے خدا ہمارے دلوں میں ٹیڑھا پن اور اپنے بھائیوں سے بھی پیدا ہو رہی ہے اب بھائیوں کے خلاف نفرتیں جنم لینے لگی ہیں پس اے خدا تو فضل فرما اور ہمارے دلوں میں اپنے مومن بھائیوں کے لئے کسی قسم کی نفرت پیدا نہ ہونے دے.ایک دعا سورہ فاطر آیت ۳۸ میں سے لی گئی ہے اور وہ ہے: وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِى كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرُكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُفِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَ كُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ نَّصِيرٍ (فاطر: ۳۸) که وه شی چیخ کر خدا کو پکاریں گے یعنی جب ان کو سزادی جائے گی تو ایک شور پڑ جائے گا ایک کہرام اٹھ کھڑا ہوگا وہ کہیں گے رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اے خدا ہمیں اس عذاب سے نكال نَعْمَلْ صَالِحًا ہم یقینا اچھے عمل کریں گے غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ان اعمال کے سوا جو ہم کیا کرتے تھے جب کہہ دیا کہ ہم اچھے عمل کریں گے تو اس تکرار کی کیا ضرورت ہے کہ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ یعنی وہ اعمال نہیں کریں گے جو ہم کیا کرتے تھے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں بداعمال لوگ ہمیشہ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اچھے عمل کر رہے ہیں چنا نچہ قرآن کریم نے شروع ہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 608 خطبہ جمعہ ۹ار جولائی ۱۹۹۱ء میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْ افِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ( البقرہ:۱۲) کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے اچھے اچھے کام کرنے والے لوگ ہیں.ہم اصلاح کر رہے ہیں تو فرمایا:..قیامت کے دن جب سزا کا وقت آئے گا تو اس وقت وہ خوب سمجھ چکے ہوں گے کہ ہم اچھے اعمال کا نام لے کر بدیاں کیا کرتے تھے وہ خدا سے یہ نہیں کہیں گے کہ ہمیں بھیج دے ہم اچھے اعمال کریں ان کو فوراً خیال آئے گا کہ ایک قسم کے اچھے اعمال تو پہلے ہی ہم کیا کرتے تھے اسی کی تو سزامل رہی ہے تو وہ دعا میں وضاحت کریں گے کہ اے خدا ہم اچھے اعمال کریں گے یعنی وہ اعمال نہیں کریں گے جو ہم اس سے پہلے کیا کرتے تھے.خدا فرماتا ہے.اَوَلَمْ نُعَمِّرُكُمْ ہم نے کیا تمہیں لبی عمریں نہیں دیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی توفیق کے مطابق اس دنیا میں مہلت دی جاتی ہے تب وہ پکڑا جاتا ہے اور کوئی شخص جس کو سزا ملنی مقدر ہے وہ اتنی عمرضرور پاتا ہے جتنی عمر میں اس کی بدیوں کی پختگی ثابت ہو جائے.جس کے متعلق خدا تعالیٰ یہ حکم صادر فرما سکے کہ تجھے اتنی لمبی مہلت ملی تھی، اتنی اصلاح کے مواقع ملے تو اپنے بد حال پر قائم رہا راسخ رہا، مستحکم ہو گیا اس کے بعد اب تجھے یہ کہنے کا حق نہیں کہ مجھے لوٹا دے تاکہ میں نیک اعمال کروں.پھر فرمایا کہ ایسی عمر نہیں ملی تھی کہ مَّايَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ کہ جس کے نتیجہ میں وہ شخص جو نصیحت پکڑنا چاہے وہ نصیحت پکڑ سکتا تھا یعنی انسان کو اتنی مہلت ضرور ملتی ہے کہ اسے اگر اتنی ہوش ہو کہ نصیحت پکڑ سکے تو ضرور پکڑے گا وَجَاءَ كُمُ النَّذیر اور اس کے علاوہ تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ نَصِيرِ پس اب اپنے اعمال کا مزہ چکھو کیونکہ ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں.سورہ ص میں ۷ اویں آیت ہے: وَقَالُوا رَ بَّنَا عَجِلُ لَنَا قِظَنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ یہ مرنے کے بعد کی نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی کی دعا ہے بعض ایسے لوگ تھے جو یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رَبَّنَا عَجِلُ أَنَا قِطَنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ کہ اے خدا! ہمیں یوم حساب سے پہلے ہی جو کچھ چکھانا ہے یہاں چکھا دے.اس دعا کے دو مطلب ہیں.ایک تو یہ معنی ہو سکتا ہے کہ اے خدا! اس دنیا میں جو کچھ ہمیں دینا ہے دے دے ہمیں آخرت کی کوئی پرواہ نہیں.یعنی ایک قسم کا تمسخر ہے جو وہ دعائیں کرتے ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 609 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۹۱ء یہ کہتے ہیں قیامت کے دن جو ہو گا دیکھا جائے گا.اپنے مومنوں کو دے دینا جو کچھ دینا ہے ہمیں تو اس دنیا میں جو کچھ میسر آتا ہے وہ دے دے تا کہ ہمارا حساب یہیں صاف ہو جائے.قیامت میں ہمیں کچھ نہیں چاہئے یہ دعا وہی کر سکتا ہے جس کو قیامت کا یقین نہ ہو.جس کو اعتماد ہی نہ ہو کہ مرنے کے بعد کی کوئی زندگی ہے اور کوئی جزا سزا ہے اس لئے یہ دعا ان معنوں میں تمسخر کا رنگ رکھتی ہے اور یہی دعا بغاوت کا رنگ بھی اختیار کر جاتی ہے.جبکہ بعض ظالم لوگ خدا سے یا خدا والوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس عذاب کی تم باتیں کرتے ہو کہ مرنے کے بعد آئے گا مرنے کے بعد وہ عذاب کس نے دیکھنا ہے.اب لاؤ وہ عذاب اگر اب کچھ دکھا سکتے ہوتو لا کر دکھا دو.چنانچہ ابوجہل کی جس دعا کا اس سے پہلے ذکر گزرا ہے وہ بھی اسی مضمون کی دعا تھی تو یہ دونوں طریق نہایت ہی خطرناک اور مہلک ہیں انسان پر قرآن کریم کی دعاؤں کے مطالعہ سے ایک بات خوب کھل جاتی ہے.کہ جہاں الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعائیں ہیں وہاں ان کی دعاؤں کی عاجزی ان کی دعاؤں کی قبولیت میں مددگار ثابت نہیں ہوتی بلکہ بڑی عاجزی سے بھی جب وہ دعائیں کرتے ہیں تب بھی وہ نامراد دعائیں ہوتی ہیں، نا مقبول دعا ئیں ہوتی ہیں.تعجب کی بات یہ ہے کہ جب وہ دعا میں باغیانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور چینج کرتے ہیں تو اس وقت ان کی وہ دعا قبول ہو جاتی ہے مومنوں کے ساتھ تو برعکس اصول ہے مومن جتنا عاجزی اختیار کرتا ہے اتنی ہی اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور جہاں اس کے ذہن میں کوئی باغیانہ تصور سائے کی طرح بھی آئے وہاں اس کی دعا رد ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھیں سب سے خوفناک باغیانہ دعا شیطان نے کی تھی اور خدا نے ساری کی ساری دعا قبول کر لی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں خدا کی عظمت اور جبروت کو چیلنج ہے اور چیلنج اگر قبول نہ ہو تو اس میں سبکی ہوتی ہے اور انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہم نے دھمکی بھی دی.ہم نے چیلنج بھی دیا اور اس کے باوجود بھی قبول نہیں ہوئی کیونکہ خدا گویا نعوذ باللہ بھاگ گیا.پس ظالم کی دعا جب بغاوت کا رنگ اختیار کرتی ہے تو وہ مقبول ہو جایا کرتی ہے.ایسے بہت سے چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب دیئے گئے تو وہ قبول ہوئے اور عاجزانہ دعا ئیں ان کی نامقبول ہوتی ہیں کیونکہ وہ بجز کا جو وقت ہے وہ کھو چکے ہوتے ہیں تو مومن چونکہ عاجزی اختیار کرتا ہے اور یہی اس کو زیب دیتی ہے اس لئے عجز کے ساتھ مومن کی دعاؤں کی قبولیت کا گہرا تعلق ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 610 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء ایک دعا فصلت حم السجدہ آیت ۳۰ میں درج ہے.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوْارَ بَّنَا آرِنَا الذَيْنِ أَضَلَّنَا مِنَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ کہ جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ دعا کریں گے کہ رَبَّنَا آرِنَا الذَيْنِ أَضَلَّنَا اے خدا! وہ لوگ ہمیں دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ان کو ہمارے سامنے لا خواہ وہ بڑے لوگوں میں سے تھے خواہ وہ چھوٹے لوگوں میں سے تھے.جن تھے یا انس تھے نَجْعَلُهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا آج ہم ان کو اپنے پاؤں کے نیچے کچلیں گے لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلين تا کہ وہ سب سے نیچے اور ذلیل لوگ دکھائی دیں.مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں جب گندے اور ظالم بڑے لوگوں کی پیروی کی جاتی ہے تو قیامت کے دن کا عذاب انسان پر یہ کھول دے گا کہ دراصل وہ ذلیل ترین لوگ تھے جن کے پیچھے تم چلا کرتے تھے اور ذلیل ترین لوگوں کے پیچھے چلنے کے نتیجہ میں تمہیں یہ عذاب ملا ہے.پس صرف انتقامی کارروائی کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک طبعی تمنا کے طور پر وہ خدا سے یہ التجا کریں گے کہ اے خدا! تو نے جو ایسے ظالموں کو ضرور ہم سے بڑھ کر عذاب دینا ہے تو ان کو ہمارے سامنے پیش کر ، ہمارے پاؤں تلے وہ کچلے جائیں تا کہ ان کو پتا چلے کہ وہ اس دنیا میں کس قسم کے بڑے لوگ تھے اور حقیقت میں وہ سب سے رسوا اور سب سے ذلیل انسان تھے مگر ان کی لذتیں بھی انتظامی لذتیں ہی ہیں اور جہنم میں کوئی حقیقی خوشی اور تسکین کی بات ان کے لئے نہیں ہوگی.پھر سورۃ الدخان آیت ۹ تا ۷ ا میں یہ ایک دعا بتائی گئی ہے: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُوْنَ أَثْى لَهُمُ الذِّكْرُى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّم مجْنُونٌ (الدخان : ۱۳ تا ۱۵) یہ دعا اک ایسے زمانے سے تعلق رکھتی ہے جو ابھی آنے والا ہے.جو گزرا ہوا زمانہ نہیں ہے بلکہ سورۂ دخان سے یہ دعالی گئی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ ایک خاص قسم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 611 خطبہ جمعہ ۹ار جولائی ۱۹۹۱ء کا مہلک دھواں دنیا کے بڑے خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا.وہ ایسا مہلک دھواں ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں نہ انسان زندہ رہ سکے گا نہ مر سکے گا.انتہائی مہلک حالت ہوگی.انتہائی پر عذاب حالت ہوگی.فرمایا ایسی حالت میں کیا ہوگا.فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءِ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ يَخْشَى النَّاسَ (الدخان :۱۲) اے محمد ﷺ ! آج جو یہ تیری باتوں کا انکار کر رہے ہیں اور تیری پیشگوئیوں سے تمسخر کر رہے ہیں انتظار کرو اس دن کا ، مراد یہ ہے کہ تو اور تیری امت انتظار کرے.یہاں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے آپ کے بعد آنے والے آخری زمانے تک پیدا ہونے والے مسلمانوں کو مخاطب فرما دیا گیا ہے.اہل اسلام کو مخاطب کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ بعض ایسی پیشگوئیاں ہیں جو لازماً پوری ہونے والی ہیں.ان میں سے ایک دھوئیں کی پیشگوئی ہے اب آپ سوچئے کہ آج سے ۱۴۰۰ برس پہلے دھوئیں کے عذاب کا کوئی تصور ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا.کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کوئی ایسا دھواں ہو گا جوز مین کے بڑے بڑے خطوں کو ڈھانپ لے گا اور اس کے نیچے نہایت دردناک عذاب ہے.یہ ایٹمی دور کی بات ہے اور ایٹمی دور سے پہلے کے انسان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی.پس اس دعا میں ہمارے لئے قرآن کریم کی صداقت کا بھی ایک عظیم الشان نشان ہے.فرمایا ! اے محمد ! ہم تجھ سے یہ کہتے ہیں کہ تو انتظار کر، ایک ایسا زمانہ لازماً آئے گا جبکہ ایک بہت بڑا دھواں دنیا کے عظیم خطوں کو ڈھانپ لے گا.یخْشَی الناس یہاں خطوں کی بجائے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ دراصل وہ دھواں ظالم انسانوں کو سزا دینے کے لئے ان پر مسلط کیا جائے گا.هَذَا عَذَاب الیم یہ تو بہت ہی درد ناک عذاب ہے.اب بتائیے ! اس زمانے کا انسان تو در کنار ، آج سے ۱۰۰ سال پہلے کا انسان بھی کیا یہ تصور کر سکتا تھا کہ کوئی ایسا دھواں دنیا پر پھیلے گا جس کے نیچے بہت ہی درد ناک عذاب ہے.سوائے ایٹمی دھوئیں کے اور کوئی دلیل اس دھوئیں کے تصور کی موجود ہی نہیں.جس کو یہ علم ہو کہ ایک ایٹم بم کے نتیجہ میں بہت خوفناک قسم کے بادل اٹھیں گے اور وہ دنیا کو ڈھانکیں گے اور جہاں جائیں گے وہاں عذاب پھیلاتے چلے جائیں گے جب تک کسی کو یہ علم نہ ہو یہ بات نہیں کہہ سکتا.پس یقینا یہ خدا کا کلام ہے.عالم الغیب خدا کا کلام ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا کلام نہیں.آگے فرمایا کہ وہ اس وقت کیا دعا کریں گے.رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ وہ یہ کہیں گے کہ اے خدا! اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 612 خطبہ جمعہ ۱۹ار جولائی ۱۹۹۱ء عذاب کو ہم سے ٹال دے، ہم ایمان لے آئیں گے.پس معلوم ہوتا ہے کہ جب تک یہ واقعہ نہ ہو اسلام کی طرف بنی نوع انسان کا رجوع نہیں ہوگا کیونکہ یہ دھوئیں کا عذاب بنی نوع انسان پر اس وقت آئے گا جبکہ بنی نوع انسان اکثریت کے لحاظ سے شریر ہونگے ورنہ تو خدا کی طرف سے اتنا خوفناک عذاب نیک بندوں پر نہیں آیا کرتا.اگر وہ ایمان لے آتے تو اس عذاب کے آنے کا سوال ہی باقی نہ رہتا.پس یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے قبول عام کے وقت سے پہلے لازماً نیوکلیئر بمبز Nuclear Bombs دنیا میں چلیں گے اور دنیا کی ترقی یافتہ قو میں جو چاہیں کر لیں اس قسم کی نیوکلیئر جنگ سے ہمیشہ کے لئے بچ نہیں سکیں گی.بالآخر ان کی غلطیاں ضرور ان کو نیوکلیئر وار فیئر Warfare پر مجبور کر دیں گی اور اس کے نتیجہ میں دو باتیں پیدا ہونگی.بہت ہی خوفناک زہر یلے دھوئیں کے بادل دنیا پر پھیلیں گے اور انسانوں کو شدید عذاب میں اور دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے.دوسری بات یہ کہ اس کے نتیجہ میں وہ ایمان لانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.اس سے پہلے بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی میں دو بم پھٹ چکے ہیں لیکن ان کے نتیجہ میں اِنَّا مُؤْمِنُونَ کی آواز وہاں بلند نہیں ہوئی تھی اور نہ دنیا نے اسلام کی طرف توجہ کی.پس اس لئے میں قطعی طور پر یقین رکھتا ہوں کہ اس آیت کا اور اس دعا کا تعلق آئندہ زمانے سے ہے اور جب تک بنی نوع انسان کو اس قسم کی خوفناک سزا کے ذریعہ جنجھوڑا نہیں جائے گا اس وقت تک وہ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے.فرمایا: أَلَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ (الدخان : ۱۴) اب وہ نصیحت کیسے مانگ رہے ہیں.کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نصیحت پکڑیں گے وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ ان میں ایک کھلا کھلا رسول ظاہر ہو چکا ہے.پس یہ اسی زمانے کے کسی رسول کی بات ہو رہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں ایک ایسے رسول کا ذکر ہے جس نے ان کو تنبیہ کرنی تھی اور تنبیہ کر دی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا گزشتہ ۱۴۰۰ سال میں ایک بھی انسان ایسا نہیں گزرا جس نے ایٹمی ال ہلاکت سے دنیا کو متنبہ کیا ہو.پس اس آیت کا تعلق احمدیت سے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے ہے.آپ تمام بزرگوں کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں.۱۴۰۰ سال میں ایک بھی بزرگ ایسا نہیں ملے گا جس نے ایٹمی ہلاکت کا تصور خدا سے علم پا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہو.یا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 613 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۹۱ء قرآن کریم کی اس آیت میں یہ ذکر موجود ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا کہ ایسی خوفناک جنگیں آنے والی ہیں یا ایسے خوفناک زلازل دنیا میں ظاہر ہونے والے ہیں جن کے نتیجہ میں بڑے وسیع خطہ ہائے ارض زندگی کی ہر قسم سے محروم رہ جائیں گے.اب یہ بات بہت ہی گہری قابل غور بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جبکہ الہاماً آپ کو یہ خبر دی گئی تھی اس وقت تک ایٹم بم کے تصور کا تو کیا سوال ابھی ہوائی جہاز بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے.۱۹۰۵ء میں پہلی مرتبہ وہ معمولی سا جہاز ایجاد ہوا ہے جس کا امریکہ میں تجربہ کیا گیا تھا لیکن اس کو بھی دنیا نے مذاق کے طور پر لیا تھا.وہ کونسی ہستی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بارہ میں متنبہ فرما رہی تھی کہ زمین کے علاقے کے علاقے زندگی کی ہر قسم سے محروم رہ جائیں گے.جو کنونیشنل وارفیئر Conventional Warfare ہے اس کے نتیجہ میں انسان ہلاک ہو سکتے ہیں، جانور ہلاک ہو سکتے ہیں مگر جراثیم تو ہلاک نہیں ہو سکتے.حشرات الارض تو ہلاک نہیں ہوا کرتے زندگی کی ہزاروں قسمیں ہیں جن پر دنیا کی خوفناک ترین جنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ ایٹمی جنگ ہو.ایٹم بم کے نتیجہ میں زمین کی گہرائی تک زمین زندگی کی ہر قسم سے عاری ہو جاتی ہے اور یہ وہی دخان مبین ہے جس کی بات ہورہی ہے.پس اس لئے میں نے یہ بات کھولی کہ اس دعا کا تعلق آنے والے وقت سے ہے اور اس عذاب کے نتیجہ میں دنیا کو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوگی.پس ہم پر یہ مضمون کھل چکا ہے اس لئے ہمیں آج ان لوگوں کے لئے دعا کرنی چاہئے کیونکہ عذاب کے وقت کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی.جب ہم پر بات خوب روشن ہوگئی تو امن کی حالت میں اگر بے قراری سے بے چین لوگوں کے لئے دعا کی جائے تو وہ ضرور مقبول ہو جایا کرتی ہے.پس آج جماعت احمدیہ کو یقین کے ساتھ کہ یہ آنے والا وقت ضرور ہے اور اس وقت کو احمدیت کی دعاؤں کے سوا کوئی چیز ٹال نہیں سکتی بڑی ہمدردی اور بہت ہی گہرے فکر کے ساتھ ایسے وقت سے بنی نوع انسان کے بچنے کے لئے دعا کرنی چاہئے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پھر ایمان نصیب فرما دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے بعد پھر انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کے دن آئیں گے.آخری دعا جو اس ضمن میں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس میں وہی مضامین ہیں جو پہلے دہرائے جاچکے ہیں ، صرف ایک نتیجہ خدا نے اس کے بعد ایسا نکالا ہے جس کو ہمیشہ ہمیں پیش نظر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 614 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء رکھنا چاہئے وہ دعا یہ ہے اور یہ دعا بھی ایک امکانی دعا ہے یعنی کسی قوم کا ذکر نہیں فرمایا گیا کہ وہ یہ دعا کرتی ہے بلکہ فرمایا کہ ایک ایسا وقت آ سکتا ہے جبکہ ہر انسان اس قسم کی دعا کرے.فرمایا.وَأَنْفِقُوا مِنْ مَّا رَزَقْنَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِي أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخْرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَاكُنْ مِّنَ الصَّلِحِينَ (المنافقون: ۱۱) فرمایا اس دن سے پہلے پہلے ہر اس چیز میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے.کون سے دن سے پہلے؟ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِي اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اس سے پہلے کہ تم سے کسی کو موت آ جاۓ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا اَخْرَتَيْنِى إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ پھر وہ کہے : اے خدا! کاش تو نے مجھے کچھ تھوڑی سی اور مہلت دے دی ہوتی.فَأَصَّدَّقَ وَا كُنْ مِنَ الصَّلِحِينَ تو میں تیرے نشانات کی تصدیق کرتا اور صالحین میں سے نیک عمل کرنے والوں میں سے ہو جاتا.فرمایا: ولن يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المنافقون :۱۲) یا درکھو جب کسی کی تقدیر آجائے ، جب وقت مقررہ آجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کسی جان کو مزید مہلت نہیں دیا کرتا وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو.اس میں دو تین باتیں احمدیوں کے لئے قابل غور ہیں اور ان کے لئے خوشخبری بھی ہے.انفاق فی سبیل اللہ کا قبولیت دعا سے تعلق پیدا کیا گیا ہے فرمایا: اگر تم موت سے پہلے پہلے خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں سے ہو جاؤ تو پھر تمہاری آخری دعائیں بھی قبول ہوسکتی ہیں.لیکن اگر تم موت سے پہلے پہلے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا سلیقہ نہ سیکھو یا اس سے لطف اندوز ہونا نہ سیکھو تو پھر تمہاری موت کے وقت کی کوئی دعا قبول نہیں ہوگی.پس اس دنیا میں جماعت احمد یہ خدا کی راہ میں جو خرچ کرتی ہے، ان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے اور حقیقت میں اس دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جو اس رنگ میں پورے انہماک اور جذبے اور ولولے کے ساتھ اور ایسے ولولے کے ساتھ جس سے وہ خود لطف اندوز ہوتی ہے خدا کی راہ میں اور نیک کاموں پر خرچ کر رہی ہے.میرے علم میں دنیا میں اور کوئی ایسی جماعت نہیں ہے.پس آپ کے لئے اس میں بڑی خوشخبری ہے لیکن وہ احمدی جو احمدی ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی لذت سے نا آشنا ہیں ان کے لئے اندار بھی ہے کیونکہ فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 615 خطبہ جمعہ ۱۹ار جولائی ۱۹۹۱ء کہ تم لوگ اس وقت سے پہلے پہلے خرچ کرو جبکہ تمہارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ اے خدا!! ہمیں مہلت دے دے کہ کچھ اور نیک کام کر لیں.فرمایا وہ لوگ جنہوں نے نیک راہوں پر خرچ کیا ہوگا وہ متقی ہیں ان کے اوپر یہ وقت نہیں آئے گا.پس اگر آپ آج کی زندگی میں جو کچھ خدا نے آپ کو صلاحیتیں عطا کی ہیں یا جو کچھ مال اور دولت دیئے ہیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو آپ کو پُر امن موت کی بشارت ہے آپ کو وہ موت نصیب نہیں ہوگی جس میں حسرت کے ساتھ انسان یہ کہے گا کاش مجھے اور مہلت ملتی تو میں خدا کے لئے کچھ کر لیتا.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ اسی حال پر قائم رکھے اور ایسی موت نصیب فرمائے جس موت کے متعلق اللہ تعالیٰ خود رضا کی نظریں ڈال رہا ہو.وہ نفس مطمئنہ ہمیں عطا کرے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب اس کا میری طرف لوٹ آنے کا وقت آئے گا تو میں اسے کہوں گا کہ يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارجِعَى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (انج: ۲۹،۲۸) اے نفس مطمئنہ ، اے میرے بندے اپنے رب کی طرف لوٹ آ.رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً ایسی حالت میں کہ تو بھی راضی ہے اور میں بھی تجھ سے راضی ہوں، دونوں راضی ہیں.تو راضی بھی ہے اور مرضیہ بھی ہے یعنی میری رضا کو پانے والا ہے.فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي پس آ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا.وَادْخُلِي جَنَّتِی اور میری جنت میں داخل ہو جا.یعنی وہ جنت جو خاص میرے بندوں کیلئے بنائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں داخل فرمائے جن کے ایسے پیارے اور نیک انجام کی خبر دی گئی ہے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 617 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء سبحان ربی العظيم، سبحان ربی الاعلی اور التحیات اللہ کا عظیم مفہوم اور عرفان ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ / جولائی ۱۹۹۱ء بمقام اسلام آباد یو کے ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کچھ عرصہ سے نماز سے متعلق خطبات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس غرض سے شروع ہوا تھا کہ وہ احباب جماعت جو نماز سے محبت تو رکھتے ہیں لیکن استفادے کی طاقت نہیں رکھتے ان کی مدد کی جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ پانچ وقت نماز سے کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور کس طرح نماز سے محبت میں مزا حاصل کیا جا سکتا ہے.حقیقی محبت وہی ہے جس میں مزا ہو ورنہ محبت کی دو قسمیں ہیں.ایک عقیدے کی محبت ہوا کرتی ہے.اس محبت کے نتیجہ میں انسان اپنے آپ کو بعض اعمال پر مجبور کر لیتا ہے لیکن ان اعمال میں لذت حقیقی محبت سے پیدا ہوتی ہے.اس سلسلہ میں ایک عرصہ تک سورہ فاتحہ کے مضامین پر خطبات ہوتے رہے.اب میں بقیہ نماز سے متعلق کچھ عرض کروں گا.پہلی قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ حرکت کے وقت ہمیں سکھایا گیا ہے کہ اللہ اکبر کا اقرار کریں.سوائے دو حرکات کے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت اور سلام پھیر تے وقت.ان کا جب موقعہ آئے گا تو ان پر وہاں گفتگو ہوگی.اللہ اکبر حرکت کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے.دراصل انسان زندگی میں ذہنی اور جسمانی جتنی بھی حرکات ایک پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف، ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف کرتا ہے، اس کے ہمیشہ دو محرکات ہوا کرتے ہیں.ایک خوف اور ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 618 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء حرص.خوف کے نتیجے میں انسان ایک پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف منتقل ہوتا ہے یہاں تک کہ سوتے میں جب آپ کروٹ بدلتے ہیں تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کیونکہ جس پہلو پر آپ لیٹے رہتے ہیں کچھ عرصے کے بعد وہاں تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور تکلیف سے بھاگنے کے لئے آپ حرکت کرتے ہیں.وہ لوگ جن کو انتہائی پر سکون نیند آتی ہے وہ ایک ہی کروٹ پر پڑے رہتے ہیں کیونکہ نیند کے غلبے کی وجہ سے ان کو یہ احساس نہیں رہتا کہ ایک پہلو پر لیٹے لیٹے ان کو تکلیف شروع ہو چکی ہے.بہر حال انسان کی زندگی کے جس پہلو پر خواہ وہ ادنی ہو یا اعلیٰ ، آپ غور کر کے دیکھیں آپ کو یہی معلوم ہوگا کہ جب آپ جگہ بدلتے ہیں یا حالت بدلتے ہیں تو ہمیشہ یا خوف اور تکلیف سے بچنے کے لئے یا کسی خواہش اور تمنا کو پورا کرنے کے لئے اللہ اکبر کا اعلان ہر حرکت کے وقت آپ کو یہ بتاتا ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے.اس سے بھاگ کر تم کہیں نہیں جاسکتے اور اگر تم نے کسی حالت سے کسی اور حالت کی طرف منتقل ہونا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف منتقل ہونا چاہئے.جو چھوٹا ہے اس سے بڑے کی طرف جانا چاہئے اور زندگی کی ہر حرکت اس غرض سے ہو کہ تم اس ذات کے قریب تر ہوتے چلے جاؤ جوا کبر ہے.یہ بہت ہی گہرا اور وسیع مضمون ہے.اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اشارہ کافی ہے.اس مضمون پر جب نماز پڑھنے والا غور کرے گا تو اس کے لئے اور بھی مضامین کی کھڑکیاں کھلتی چلی جائیں گی اور نماز کی باہر کی حالت بھی عبادت بنتی چلی جائے گی کیونکہ اللہ اکبر کا پیغام نمازی کے لئے صرف نماز کی حالت میں پیغام نہیں بلکہ ساری زندگی کا پیغام ہے اور حرکت و سکون کا تمام فلسفہ اس میں بیان ہو گیا ہے.پس نماز کی حالت میں اس پہلو سے اس مضمون پر غور کرنے کے نتیجے میں زندگی کے دیگر مسائل بھی خدا کے فضل کے ساتھ احسن رنگ میں حل ہوتے چلے جائیں گے.اس کے بعد رکوع کی حالت ہے اس میں ہم سبحان ربی العظیم پڑھتے ہیں.اکثر لوگ غفلت کی حالت میں یہ پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں ان کو علم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں.اس مضمون پر دو تین پہلو خاص طور پر توجہ کے لائق ہیں اول یہ کہ عظیم کے کیا معنی ہیں.عظیم کے معنی بڑا ہے.کن معنوں میں بڑا؟ اکبر میں بڑائی کے جو معنی ہیں وہ مقابلہ بڑائی کے معنی ہیں اور اکبر کا مضمون عظیم سے مختلف ہے.عظیم اپنی ذات میں ایک ہیبت اور ایک جلوہ رکھتا ہے.ہیبت کا ایسا جلوہ جو قریب سے دکھائی دے.جب بھی آپ کسی کو عظیم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 619 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء سمجھتے ہیں اس کو عظیم سمجھنے کے لئے ایک تو دور کا نظارہ ہے وہ کانوں کے ذریعے آپ کو بتایا جاتا ہے یا دور سے آنکھوں کے ذریعے دکھایا جاتا ہے کہ فلاں چیز عظیم ہے لیکن اس کی عظمت کا احساس اس کے قریب آئے بغیر نہیں ہوا کرتا.جب تک آپ کسی پہاڑ کے دامن میں نہ پہنچیں آپ کو یہ علم نہیں ہوسکتا کہ پہاڑ کن معنوں میں عظیم ہے.ہمالہ کی باتیں ہم نے بھی سن رکھی تھیں مگر جب ہم ہمالہ کی طرف روانہ ہوئے اور ہمالہ کے دامن میں پہنچے اور بلند و بالا چوٹیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا تب ہمیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی عظمت کیا ہوا کرتی ہے.اسی طرح وہ انسان جو عظیم کہلاتے ہیں دور کے نظارے میں وہ عظیم مانے تو جاتے ہیں لیکن ان کی عظمت کا احساس نہیں ہوا کرتا.عظمت کا احساس ہمیشہ قرب سے ہوا کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی عظمت در حقیقت ان لوگوں پر روشن ہوئی جو آپ کے قریب تھے اور وہ جو دور کے زمانوں میں پیدا ہوئے ان پر بھی آپ کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے روحانی قرب کا نظام جاری فرمایا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی آپ کو قریب سے دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے قرب کی وجہ سے ہمیں بھی قرب نصیب ہوا اور ہم نے بھی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی عظمتوں کا قریب سے نظارہ کیا.یہی مضمون ہے جس کو سورہ جمعہ میں یوں بیان فرمایا گیا.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعه (۴) کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو محمد مصطفی ﷺ کی قربت عطا کی جائے گی.زمانے کے لحاظ سے وہ دور ہیں لیکن خدا کی تقدیر کے تابع قریب کئے جائیں گے.وہ اخرین میں پیدا ہونے والے اولین سے ملا دیئے جائیں گے.پس یہاں بھی عظمت کا مضمون ہے.جب تک کسی کی عظمت اس کے قرب سے ظاہر نہ ہو اس وقت تک اس عظمت کے نتیجہ میں عظمت کے احساس کے نتیجے میں انسان کے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں ہوا کرتیں.پس سبحان ربی العظیم کا مضمون سمجھنے کے بعد انسان کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم نے سورہ فاتحہ میں جس خدا کی عظمت کا نظارہ کیا تھا اس خدا کے قریب تر ہو گئے ہیں اور اتنا قریب ہوئے ہیں کہ اس کے حضور جھک گئے اور اس کی اطاعت کو قبول کر لیا ور نہ دور کا خدا اطاعت کروانے کے لئے کافی نہیں.خدا کی اطاعت حقیقی معنوں میں تبھی ہوسکتی ہے جب اس کی عظمت کا احساس ہو اور عظمت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرب کو چاہتی ہے.پس رکوع نے اس مضمون کو مکمل کر دیا.یہ اطاعت کی حالت ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بھی بیان فرمایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 620 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء وَارْكَعُوا مَعَ الرکعِینَ (البقرہ:۲۴) یہ مطلب نہیں ہے کہ جہاں تم لوگوں کو رکوع کرتے دیکھو تم بھی ساتھ اسی طرح بدن جھکا کر رکوع کر لو.مراد یہ ہے کہ جہاں بھی تم خدا کے بندوں کو اطاعت کرتے ہوئے دیکھوتم بھی اسی طرح اطاعت میں ساتھ شامل ہو جایا کرو کیونکہ خدا کی اطاعت کا مضمون زندگی کے ہر شعبہ پر ، ہر حال پر حاوی ہے.اس پہلو سے جب آپ سبحان ربی العظیم سبحان ربی العظيم سبحان ربی العظیم کہتے ہیں تو عظمتوں کا مضمون بھی بدلتا چلا جاتا ہے.عظمتیں ہر صورت حال پر مختلف رنگ میں اطلاق پاتی ہیں.پہاڑ کی عظمت اور ہے، ایک جانور کی عظمت اور ہے.ایک انسان کی عظمت اور ہے اور خدائے ذو الـمـجـد والعلیٰ کی عظمت اور ہے.وہ خدا جس کی عظمت کو سورہ فاتحہ نے ہمیں سمجھایا اس کی عظمت کو قریب سے دیکھنے کے نتیجہ میں روح بے اختیار رکوع میں جاتی ہے اور جسم کا رکوع اس کے تابع ہوتا ہے، اس سے پہل نہیں کرتا.پس جب آپ قیام کے وقت کے مضامین کو خوب اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لیں تو اس وقت آپ کے دل پر ایک ایسی کیفیت طاری ہونی چاہئے جس کے نتیجہ میں روح جھکتی ہو اور بدن بھی ساتھ جھکنے کے لئے بے اختیار ہو جائے.ایسی حالت کا نام رکوع ہے اور اس کے بعد جب آپ عظمت کے مضمون پر رکوع کی حالت میں غور کریں گے تو تین دفعہ کا یہ اعتراف کہ سبحان ربی العظیم آپ کو بہت ہی مختصر سا دکھائی دے گا اس لئے ساری زندگی کے رکوعوں میں آپ کے لئے مختلف سوچوں کا انتظام فرما دیا گیا ہے.لفظ ” العظیم‘اور سبحان ربی العظیم میں ایک ایسا خوبصورت مضمون ہے جو ختم نہ ہونے والا ہے اور ہر انسان اپنی کیفیت کے مطابق، اپنے رب سے اس وقت کے حالات کے مطابق اس کی عظمتوں کے مختلف تصورات سے سبحان ربی العظیم میں نئے رنگ بھر سکتا ہے علاوہ ازیں یہ قابل غور بات ہے کہ سورۃ فاتحہ نے تو ایک خدا سے غائبانہ تعارف کروایا اور اس خدا کو آپ نے نصف سورۃ کے بعد مخاطب کرنا شروع کیا لیکن وہ تخاطب جمع کی حالت میں ہے.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرہ:۲) تمام کائنات پر حاوی خدا ہے.کوئی ایک وجود بھی اس کی ربوبیت سے باہر نہیں ہے اور اس کی حمد کا ترانہ خواہ انسان باشعور ہو،خواہ زندگی کی دوسری شکلیں ہوں، خواہ جمادات ہوں وہ سارے اپنے اپنے رنگ میں ہمیشہ گاتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ ایک عام
خطبات طاہر جلد ۱۰ 621 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء حالت ہے اس میں ذاتی تعلق کا پیدا ہونا ابھی انتظار چاہتا ہے اس انتظار کی حالت کو خدا نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (البقرہ:۵) کے ذریعہ ختم فرما دیا اور ایک ذاتی تعلق قائم فرما دیا اس رب سے جو سب کا سانجھا رب ہے لیکن یہاں بھی اجتماعی رنگ ہے.ہم اے خدا! تیری عبادت کرتے ہیں یا تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں یا تیری عبادت کریں گے اور تیری ہی عبادت کریں گے لیکن مدد بھی تجھ سے چاہیں گے لیکن یہاں ابھی تک ایسا تعلق قائم نہیں ہوا کہ آپ یہ کہہ سکیں کہ میرا رب ہے.یہ تعلق ایک ادنیٰ قدم تعلق کا ہے اور یہ تعلق اطاعت کے بغیر قائم نہیں ہوا کرتا.زبانی تعریف کے ذریعہ کوئی چیز آپ کی نہیں ہو سکتی.جب آپ عمل کی شکل میں اس کا بننے کی کوشش کرتے ہیں تب وہ آپ کی ہو جاتی ہے.تو رکوع نے بتایا کہ وہ رب جو آپ سب کا ہے وہ آپ کا بھی تو ہونا چاہئے یعنی آپ کی ذات کا بھی تو ہونا چاہئے اور اگر آپ واقعی سچے دل سے اس کی تعریف کر رہے ہیں اور اسی سے دعائیں کر رہے ہیں تو اس کو اپنانے کے لئے آپ کو خود ذاتی طور پر اس کے سامنے سر جھکانا ہوگا اور اطاعت کرنی ہوگی.جب آپ اطاعت کے ذریعہ اس کے ہوں گے تب آپ کو یہ حق دیا جائے گا کہ یہ اعلان کریں.سبحان ربی العظیم - سبحان ربی العظیم پاک ہے میرا رب ، پاک ہے میرا رب.پاک ہے میرا رب اور بڑی عظمتوں والا ہے.بڑی عظمتوں والا ہے.بڑی عظمتوں والا ہے.پاک کن معنوں میں ہے آپ کا رب پاک کن معنوں میں ہے.عظمتوں والا کن معنوں میں ہے اور آپ کا رب کن معنوں میں عظمتوں والا ہے.اس میں آپ کے ساتھ نسبتیں قائم ہو گئیں اور ایک اور مضمون نفس کے تجزیہ اور تزکیہ کا شروع ہو گیا.آپ کن باتوں سے پاک ہیں، کن باتوں سے پاک ہونے کی کوشش کرتے ہیں.اگر بعض باتوں میں آپ پاک ہیں یعنی اپنی توفیق کے مطابق اور بعض باتوں میں پاک ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو حق ہے کہ کہیں سبحان ربی میرا رب پاک ہے تا کہ یہ کہہ کر خدا سے مدد مانگیں.اگر آپ میں عظمت کے نشان پائے جاتے ہیں یا کچی عظمت کے خواہاں ہیں اور اس کی طرف حرکت کر رہے ہیں تو آپ کو یہ حق ہے کہ کہیں سبحان ربی العظیم ہاں میرا رب عظیم ہے.اس نے مجھے عظمتیں عطا کی ہیں.وہ مجھے عظمتوں کی طرف لیکر روانہ ہوا ہے.پس دیکھیں کہ مضمون کو ذرا سا بدل کر دیکھنے سے زاویہ بدلنے سے نئے مضامین کے کیسے جہان آپ کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 622 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء اس کے بعد پھر وہ حرکت ہے جہاں اللہ اکبر کی بجائے ایک اور مضمون شروع ہوتا ہے وہ سمع الله لمن حمدہ اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی حمد کی.اگر کہیں استثناء کرنا تھا تو عام انسانی عقل یہ سوچتی ہے کہ یہاں سورہ فاتحہ کا مضمون جوحمد میں کمال درجے کا مضمون ہے جو درجہ کمال کو پہنچا ہوا مضمون ہے.جہاں وہ مضمون ختم ہوا تھا اس کے بعد آنا چاہئے تھا.سمع اللہ لمن حمدہ اللہ نے اس کی سن لی جس نے اسکی حمد کی لیکن اس کو بعد میں کیوں ٹال دیا گیا یعنی رکوع کے بعد کیوں رکھا گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ حمد سننے کے لئے صرف زبان کی حمد کافی نہیں.زبان کی حمد کو خدا نہیں سنتا جب تک اس حمد کے نتیجہ میں اطاعت کی روح پیدا نہیں ہوتی اور وہ اطاعت اعمال میں نہیں ڈھلتی اس لئے وہ جو خدا کی تعریفوں کے زبانی جمع خرچ کرتے ہیں ان کی حمد گویا خدا نے سنی ان سنی کر دی.انسان کی زندگی میں روز مرہ بعض ایسے تجارب ہوتے رہتے ہیں.بعض علاقے ہیں جہاں جھوٹی تعریفیں کرنے کی عادتیں ہیں وہ جب آپ سے ملتے ہیں تو ہمیشہ آپ کی بڑی تعریفیں کرتے ہیں.بعض دفعہ ایسی تعریفیں کرتے ہیں کہ مبالغے کی حد کر دیتے ہیں لیکن اگر آپ خود جھوٹے نہیں ہیں تو آپ کی طبیعت میں بجائے اس سے کہ ان کے لئے محبت پیدا ہو نفر پیدا ہوتا رہتا ہے.اگر آپ جھوٹے ہیں تو جھوٹی تعریفوں سے ہمیشہ خوش ہو جایا کرتے ہیں لیکن آپ کا صدق آپ کو بتائے گا کہ کس حد تک آپ بچے ہیں کیونکہ سچا انسان کبھی جھوٹی تعریف سے راضی نہیں ہوسکتا اور سنتا ہی نہیں.سنی ان سنی کر دیتا ہے بلکہ نفرت کرتا ہے اور گھبراتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ جلد یہ ملاقات ختم ہو.پس ایسی حمد جو دل سے نہ اٹھے اور جو اپنے اندر گہری سچائی نہ رکھتی ہو وہ خدا نہیں سنتا لیکن جب حمد کے نتیجہ میں اطاعت شروع ہوگئی ، جب انسان نے قربانیاں پیش کرنی شروع کر دیں جب اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیں تو حمد سننے کے لائق ہے اور اسی مضمون کو قرآن کریم نے دوسری جگہ یوں بیان فرمایا کہ کلمہ طیبہ کو، پاک کلمے کو نیک اعمال بلند کرتے ہیں.جب تک نیک اعمال اچھے کلمات کے ساتھ شامل نہ ہوں اس وقت تک ان کو رفعت پرواز عطا نہیں کی جاتی اور وہ اوپر پہنچتے ہی نہیں.پس وہ ایسی آوازیں ہیں جو عرش سے ورے ورے گر جاتی ہیں اور اپنے مقصود اور مقام تک نہیں پہنچتیں.پس رکوع نے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ اگر تم ایسی حمد چاہتے ہو جسے خدا سنے تو پھر اطاعت کرو اور خدا کے حضور جھک جاؤ.ایسی صورت میں تمہیں یہ آواز سنائی دے گی کہ اللہ اس حمد
خطبات طاہر جلد ۱۰ 623 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء کو قبول فرماتا ہے جو کچی حمد ہے.سمع اللہ لمن حمدہ اب خدا یہ کہتا ہے کہ ہاں میں اس حد کوسنتا ہوں اس حمد کرنے والے کی پکار کوسنتا ہوں جو سچے دل سے میری حمد کرتا ہے.اس کے نتیجہ میں جب آپ ربنا ولك الحمد کہتے ہیں تو یہ تشکر کی حمد ہے.یہ شکرانے کی حمد ہے.پہلی حمد جو سورہ فاتحہ کی تھی اس کے قبول ہونے کی خوشخبری رکوع کے بعد آپ کو عطا کی گئی اور اس خوشخبری کے نتیجہ میں اظہار تشکر کے طور پر آپ پھر جھک جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ربنا ولك الحمد حمد اكثيراً طيباً مباركاً فيه ایسی حمد جو نہ ختم ہونے والی ہے بہت بڑی وسیع ہے.طیباً پاک ہے اس میں کوئی نفس کی ملونی شامل نہیں وہ تیری خاطر ہے اپنی خاطر نہیں مبارکاً فیہ اس میں بہت سی برکتیں ہیں.سوال یہ ہے کہ حمد میں برکتوں سے کیا مراد ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو حد واقعی سچی ہو اس میں سے نئی حمد پھوٹتی رہتی ہے اور وہ ہمیشہ بڑھتی چلی جاتی ہے.ایک ایسا محبوب جس کی خوبیاں آپ کے ابتدائی تعارف سے زیادہ گہری ہوں جب آپ اس کے قریب جاتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں تو اس کے اندر مزید حسن پاتے ہیں.اس کے اندر مزید گہرئی پاتے ہیں یہاں تک کہ آپ ہر دفعہ جب اس کے حضور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر محبت لیکر لوٹتے ہیں.تھک کر واپس نہیں آتے.وہ لوگ جن کے محبوب کھو کھلے ہوں اور سطحی ہوں ان کی محبتیں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں.زیادہ لمبا عرصہ نہیں چلا کرتیں کیونکہ ان کے محبوبوں میں گہرائی نہیں پائی جاتی.ان کے حسن میں گہرائی نہیں پائی جاتی اس لئے وہ حمد برکت سے خالی رہتی ہے.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ مضمون سمجھایا کہ تمہاری بچی حمد وہی ہے جو برکتوں والی حمد ہو جس میں ہمیشہ نشو ونما ہوتی رہے جو بڑھتی چلی جائے اور تمہیں نئے سے نئے حمد کے مضمون سوجھتے چلے جائیں اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی ایسا وجود نہیں جس کی حمدان معنوں میں برکتوں والی حمد ہو کہ اس کی برکتیں نہ ختم ہونے والی ہوں.خدا تعالیٰ کی ہستی پر جتنا آپ غور کریں گے.اس کے حال کے احسانات پر جتنا غور کریں گے، مستقبل میں اس سے جو کچھ چاہیں گے، ان سب مضامین کا عرصہ بہت ہی دراز ہے اور بہت ہی وسیع ہے اور حمد جس حصے سے تعلق رکھنے والی بھی ہوگی اگر آپ سچے غور کی عادت ڈالیں اور دل ڈال کر حمد کرنے والے ہوں تو اس حصے میں وہ برکتوں والی حمد ہوگی.اس کے بعد پھر اللہ اکبر ہے اور وہاں آپ سجدے میں ـان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 624 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء الاعلى، سبحان ربی الاعلیٰ ، سبحان ربی الاعلیٰ کی تکرار کرتے ہیں.عظیم اور اعلیٰ میں کیا فرق ہے.عظیم تو ساری کائنات پر محیط ہے اور عظیم میں آپ سے دوری نہیں آپ سے قرب کا مضمون ہے.قرب ان معنوں میں کہ آپ اس کی عظمت کے قریب آگئے ہیں.قریب سے آپ نے جلوہ دیکھا ہے اور اس جلوے سے مرعوب ہو گئے ہیں لیکن علو کے مضمون میں ایسی بلندی ہے کہ آپ محسوس کرتے ہیں کہ قریب آنے کے باوجود آپ اس کے ہمسر نہیں بن سکتے.وہ بہت بلند تر ہے اور جتنا آپ اس کے قریب جاتے ہیں اتنا ہی اس کی بلندی کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے.یہ مضمون بھی حقیقت میں کوہ ہمالیہ کے قرب سے بھی معلوم ہو جاتا ہے اور بلند عمارتوں کے تعلق میں بھی معلوم ہو جاتا ہے.آپ نے سنا ہوا ہے کہ آئفل ٹاور اتنا اونچا ہے.ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ اتنی اونچی ہے.ٹورنٹو کا CN ٹاور اتنا اونچا ہے دور سے دیکھیں تو اونچے تو ہیں مگر کوئی خاص اثر دل پر نہیں پڑتا لیکن جب آپ قریب جاتے ہیں.ان کے دامن میں کھڑے ہو جاتے ہیں تب آپ کو ان کی بلندی کا احساس ہوتا ہے لیکن بعض ایسی بلندیاں ہیں.وہ آپ کی پہنچ سے بالا ہیں.فرعون نے ایک دفعہ یہ کوشش کی اور قرآن کریم نے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ ایسی بلند عمارت بناؤں جس پر چڑھ کر میں خدا کی بلندی کا خود نظارہ تو کروں کہ اگر خدا ہے تو کتنا اونچا ہے اور کہاں ہے.یہ اس کی ذہنی پستی کا معراج ہے لیکن اس نے ہمیں ایک سبق دیا اور وہ سبق یہ دیا کہ علو کا مضمون ایسا ہے جس کی بنیاد میں آپ کے پاس نہیں ہیں.وہ بلند تر مقام پر ہے.جس طرح غالب نے کہا ہے.منزل ایک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا (حوالہ..) پس خدا کی بلندی کیلئے عرش سے پرے کے تصورات کی ضرورت ہے اور اس بلندی تک پہنچنے کیلئے فرعونیت نہیں جو جسمانی بلندی کا تقاضا کرتی ہے بلکہ عبودیت چاہئے جو گر نے اور اپنے نفس کومٹادینے کا تقاضا کرتی ہے.چنانچہ انتہائی انکسار کی حالت میں سب سے اعلیٰ ہے اس کے سامنے سب سے زیادہ بلند مضمون سکھایا گیا.وہ انسان جو اپنا سر خدا کے حضور زمین سے رگڑ دیتا ہے ، اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دیتا ہے، ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ بعض دفعہ مغربی دنیا کے لوگ جو ان باتوں کو نہیں سمجھتے جب مسلمانوں کو سجدے کی حالت میں دیکھتے ہیں تو وہ تمسخر اڑاتے ہیں کہتے ہیں کیسے بے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 625 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء وقوف لوگ ہیں خدا نے اشرف المخلوقات بنایا اور سیدھا چلنے والا جانور بنایا لیکن اب یہ زمین پر ماتھے رگڑ رہے ہیں.ان بے وقوفوں کو علم نہیں ہے کہ ساری بلندیوں کا راز اس بات میں ہے کہ جو سب سے اعلیٰ ہے اس کے سامنے سب سے زیادہ نیچے ہو جاؤ اس تک پہنچنے کا زینہ سب سے زیادہ نیچے جھکنے سے ملتا ہے.اوپر بلند ہونے سے نہیں ملا کرتا.پس سبحان ربی الاعلیٰ اس حالت میں کہتے ہیں جب آپ نے اپنے آپ کو کلی خدا کے سامنے عاجز اور نابود کر دیا، انتہائی ذلتیں قبول کر لیں، کچھ بھی اپنا باقی نہ چھوڑا.جس خدا نے آپ کو سیدھا چلنے والا بنایا تھا آپ اس کے سامنے اس طرح ہو گئے جس طرح دنیا کا ایک عام کیڑا ہوتا ہے.جس کو اٹھنا نہیں آتا.ایسی حالت میں آپ یہ دعا کرتے ہیں سبحان ربی الاعلیٰ پاک ہے میرا رب جو بلند تر ہے جو ہر چیز سے بلند تر ہے.وہ خدا ہے جو پھر آپ کو علو عطا کرتا ہے اور آپ یہ حق رکھتے ہیں کہ میرا رب اعلیٰ ہے کہ سکیں اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میرا رب سب سے بلند ہے.میرا رب اعلیٰ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر بھی وہ علو پیدا ہوگی جو آپ کے رب میں ہے ورنہ وہ آپ کا رب کیسے ہو گیا.جو آپ کا ہو اس کی کچھ باتیں آپ میں پائی جاتی ہیں اس کا کچھ فیض آپ کے وجود میں نظر آنا چاہئے.پس ہر وہ شخص جو ربی العظیم کی تکرار سے گزرتا ہے اور سچے دل سے گزرتا ہے اس میں عظمتوں کے نشان پیدا ہونے چاہیں.ہر وہ شخص جو بار بار خدا کے حضور انتہائی تضرع کے ساتھ سبحان ربی الاعلیٰ کہتا ہے اگر وہ رب واقعی اس کا ہے تو اس کے اندرعلومرتبت کے نشان پیدا ہونے چاہئیں تب وہ خدا کا سفیر بنکر دنیا میں نکل سکتا ہے، تب اس کو دیکھ کر دنیا خدا کی عظمتوں کو محسوس کرتی ہے.تب اس کو دیکھ کر دنیا خدا کے علو کومحسوس کرتی ہے تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار ہا حضرت رسول اکرم ﷺ کے عشق میں نثر میں بھی اور نظم میں بھی یہ مضمون بیان فرمایا کہ تو خدا تو نہیں ہے لیکن خدا نما ایسا ہے کہ کبھی ایسا خدا نما نہیں دیکھا گیا.تجھے دیکھا تو خدا کو دیکھ لی یہ شرک کا جملہ نہیں ہے بلکہ عدم شرک کا جملہ ہے.اس کی گہرائی کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض دفعہ لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں محمد مصطفی سے خدا نما اس لئے بنے کہ اپنے وجود کو مٹا دیا.لا اللہ کے مضمون کو اپنی ذات میں مکمل کر دیا یہ نہیں کہا کہ اے خدا! تیرے سوا اور میرے سوا دنیا میں جتنے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 626 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء اور بالعموم لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ لا الہ الا الله و در حقیقت یہی اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اے خدا تیری ذات ہے اور میری ذات ہے باقی سب کچھ نہیں لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی کے ذریعہ یہ مضمون ظاہر فرمایا کہ میں بھی نہیں ہوں.سوائے خدا کے کچھ بھی نہیں ہے.جب آپ نے اپنی ذات کو مٹادیا تو اس برتن میں پھر خدا ظاہر ہوا ہے اور محمد مصطفی میت ہے کی ہر حرکت میں اور ہر سکون میں اللہ جلوہ گر ہوا.پس یہ شرک کا مضمون نہیں ہے بلکہ تو حید کامل کا مضمون ہے اور سبحان ربی الاعلیٰ ہمیں اس مضمون کی یاد دلاتا ہے کہ اگر تم اعلیٰ ہو اور تم کہتے ہو کہ میرا رب اعلیٰ ہے تو اپنے اندر سے سفلی صفات دور کرو کیونکہ جو سفلی صفات کا بندہ ہے وہ رب اعلیٰ کا بندہ تو نہیں بن سکتا اس لئے ایک دن کے سجدے کی بات نہیں ، ساری زندگی کی جدو جہد کا معاملہ ہے.کیا ایک دن میں ، کیا ایک سال میں کیا دس یا بیس یا سو سال میں بھی انسان ہر قسم کی سفلی صفات سے مبرا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس یہ ایک ایسا جاری مضمون ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن یہ حرکت ہمیشہ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف جاری رہے گی اور یہ حرکت تب جاری ہوگی جب آپ کے اندر بجز پیدا ہوگا اور بجز کا ایک نیا مقام آپ کو عطا ہوگا.پس ہر سجدے میں آپ کو بجز بڑھانا چاہئے.ہر سجدے کے نتیجہ میں آپ کو اپنی بے بضاعتی اور بے بسی کا مزید ا حساس ہونا چاہئے.اس احساس اور خلاء کو خدا کا علو بھرتا چلا جائے گا اور آپ کے اندر سے ایک نیا وجود پیدا ہوتا چلا جائے گا.یہ ہے سجدوں کا مضمون اور اب آپ دیکھیں کہ وہ لوگ جو جہالت سے یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی عبادتیں عجیب بور کرنے والی عبادتیں ہیں.ایک ہی مضمون ، تکرار کرتے چلے جاؤ ، ہر روز کم سے کم پانچ دفعہ اس کے حضور حاضر ہو، ہر رکعت میں اس کے سامنے وہی دعائیں کرتے چلے جاؤ.اگر آپ کا تصور سرسری اور ظاہری ہے تو یہ خالی برتن ہے.ان برتنوں سے آپ یقیناً کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے لیکن برتنوں کو تو بھرا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں برتن عطا کئے ہیں اور بھرنے والے وہ مضامین بخشے ہیں کہ جو ہر دفعہ برتنوں میں نیا مضمون بھرتے ہیں، نیا رنگ بھرتے ہیں ، نیا حسن بھرتے ہیں، نئی لذتیں بھرتے ہیں اور یہ سلسلہ ابد تک جاری رہنے والا سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ موت کے بعد بھی جاری رہے گا کیونکہ خدا کی عظمتوں کا کامل تصویر کسی انسان کے بس کی بات نہیں.یہ ایک لامتناہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 627 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء ارتقاء کا سلسلہ ہے جو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے.اس کے بعد ہم التحیات کی طرف آتے ہیں.التحیات میں ہم خدا کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ التحيات لله والصلوات والطیبات سب تحفے خدا ہی کے لئے ہیں.والصلوات والطیبات اور سب بدنی عبادتیں بھی خدا ہی کے لئے ہیں اور وہ پاکیزہ چیزیں جو اموال سے یا زندگی کی صلاحیتوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی سب خدا ہی کے لئے اور خدا کے حضور تحفہ ہیں.اب سوال یہ ہے کہ تحفہ کیا ہوا کرتا ہے اور کیسا تحفہ ہے اور کیا روز ایک ہی تحفہ آپ بار بار پیش کرتے چلے جائیں گے.اس مضمون پر جب آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ تحفہ نہ ٹیکس ہے، نہ تجارت ہے بلکہ تھے میں ایک خاص مضمون پایا جاتا ہے جس کو سمجھے بغیر آپ التحیات کا حق ادا نہیں کر سکتے تحفہ میں مضمون یہ پایا جاتا ہے کہ مادے کو روحانی کیفیات میں تبدیل کرنا.یہ ایک بارٹر Barter System ہے جس کا مادیت Materialism سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور Materialism میں جہاں انسانی مجبوریوں کے تحت دل اعلیٰ لذات کی تمنا کرتا ہے وہاں تحفے کا مضمون ضرور داخل ہو جاتا ہے.پس ڈائیلٹیکل میٹریل ازم Dialectical Materialias ہو یا اور مٹیرٹیسٹ Materialist فلاسفی ہو جیسا کہ مغربی کیپیٹل ازم Capitalism کی فلاسفی بھی مادیت پسند Materialist ہے ان میں تحفے کا مضمون سجتا نہیں ہے اور ایک بے تعلق سی چیز ہے.اگر انسانی فطرت کی مجبوری نہ ہوتی تو ان دونوں نظاموں سے تھے کا تصور مٹ جانا چاہئے تھا.تحفہ یہ ہے کہ Matter جو ایک ٹھوس چیز ہے وہ دے کر اس کے بدلے ایک ایسی کیفیت حاصل کریں جس کا کوئی وجود نہیں ہے.جو آپ کے دل کے حالات سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے.جو آپ کے تصورات کی دنیا سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے اور اگر کامل عقل کے ساتھ ، اگر مارکس Marx کی عقل کے ساتھ آپ اس سودے کا معائنہ کریں گے تو آپ کہیں گے یہ پاگل پن ہے، جنون ہے، حد سے زیادہ بے وقوفی ہے.کسی دوست سے محبت ہے تو اس کے وجود کو حاصل کرو.اس سے جو کچھ لے سکتے ہو لو لیکن اس کو کچھ دینے کی کیا ضرورت ہے.اور ایسے دوست کو جس سے ظاہری طور پر کچھ ملنے کی بھی تو قعات نہ ہوں اس کے اوپر اپنے مال نچھاور کرنا ، اپنی زندگی کی محنتیں قربان کرنا نہایت درجے کی بیوقوفی ہے.اس کے بدلہ کیا ملتا ہے؟ اس کے بدلے محبت ملتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 628 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء جو ایک ایسی کیفیت ہے جس کو کوئی انسان انگی لگا کر دکھا نہیں سکتا کہ یہ محبت ہے.نہ اس کا رنگ ہے نہ اس کا روپ ہے نہ اس کا مزا ہے نہ اس کی خوشبو ہے.ایک کیفیت ہے اس کے سوا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.پس مادی حالت کو روحانی حالت میں تبدیل کرنے کا نام تحفہ ہے جو کسی اور Transaction میں کسی اور تبادلے میں نہیں ملتا.پس آپ نے اب تک خدا تعالیٰ سے جو تعلقات قائم کئے اس کے حضور رکوع کیا ، اس کے حضور سجود کئے تو آپ نے قربانیاں تو دیں اور اطاعت بھی کی لیکن کیا یہ ایک مکینیکل سی اطاعت ہے.ایسی اطاعت ہے جیسے کسی بادشاہ کی عظمت کو قبول کر کے اس کے خوف سے اطاعت کی جاتی ہے.خوف اطاعت کے لئے لازم ہے لیکن کافی نہیں حقیقی اطاعت محبت کی اطاعت ہوا کرتی ہے اور جب آپ سبـحـــان ربــی،سبحان ربی کہتے ہیں تو یہاں محبت کے تعلق کا اقرار کر لیا گیا ہے ورنہ میرا رب نہیں کہہ سکتے.دنیا کا رب ہے ٹھیک ہے کائنات کا رب اور جابر ہے اور طاقتور ہے اس کے سامنے جھکنا ضروری ہو گیا عقل نے سمجھا دیا یہ بھی ٹھیک ہے لیکن میرے رب کے مضمون میں تو ایک پیار کا مضمون داخل ہو گیا.پس اس کے بعد کچھ تحفے اور تحائف کا سلسلہ بھی تو جاری ہونا چاہئے.چنانچہ انسان رب کو اپنا بنا کر پھر بڑی عاجزی سے اس کے حضور یہ عرض کرتا ہے کہ التَّحِيَاتُ لِلهِ سب تحائف اللہ کے لئے ہیں.والـصـلـوت والطیبات اور تحائف کیا ہیں؟ بدنی قربانیاں.والصلوت اور مالی قربانیاں.یہ ضمون ان دو لفظوں سے بیان تو نہیں ہوتا لیکن مجبور وقت کی رعایت کے مطابق میں نے خلاصہ یہ کہ دیا ہے.بدنی قربانیاں انسان محبوب کے لئے دیکھیں کتنی کرتا ہے.اس کی خاطر انسان ہر تکلیف اٹھانے کی کوشش کرتا ہے.یہاں تک کہ محبت کے ادنی درجے میں بھی یہ کیفیتیں روز ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں.ایک سردی کا موسم ہے، دروازہ کھلا رہ گیا ہے،ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا ہے.آپ کا کوئی دوست اٹھ کر بند کرنے کے لئے جارہا ہے، آپ جلدی سے اٹھتے ہیں کہ نہیں تم بیٹھو میں کرتا ہوں.کیا مصیبت ہے، کیوں اس کو نہیں کرنے دیتے.وہ کام کر رہا ہے.ٹھنڈی ہوا سے آپ بھی بچ جائیں گے وہ بھی بچ جائے گا، آپ نے کیوں پہل کی.یہ فطرت کی گہری آواز ہے جو آپ کو بتا رہی ہے کہ جب آپ کسی اعلیٰ مقصد کے لئے بدنی تکلیف اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں لذت پاتے ہیں.دینے کے نتیجہ میں جو لذتیں ہیں وہ مضمون ہمیں تحائف کا مضمون سمجھاتا ہے لینے کے نتیجہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 629 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء میں جو لذتیں ہیں وہ ادنیٰ حالتیں ہیں.اصل اعلیٰ لذتیں جو دائمی لذتیں ہیں جو لطیف تر لذتیں ہیں وہ ہمیشہ دینے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں.آپ اپنے محبوب کو کچھ پیش کریں وہ واپس کر دے تو دیکھیں کیسی تکلیف میں آپ مبتلا ہوں گے اور کچھ دیر کے بعد اگر وہ آپ کو کچھ دیتا ہے تو بعض دفعہ لینے کا مزہ تو ہے لیکن تھوڑا سا دل بجھ جاتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں اس کو کچھ اور دوں تا کہ دینے کے لحاظ سے میں بالا رہوں.حالانکہ یہ دینا ادنیٰ حالت کا دینا ہے لیکن اس میں بھی انسان ایک قسم کی بالائی حالت چاہتا ہے.وہ چاہتا ہے میں زیادہ دوں اس سے کم لوں.میں زیادہ تکلیف اٹھاؤں اس کو کم تکلیف پہنچاؤں یہ جولز تیں ہیں یہ انسان کے اندر ایک نیا وجود پیدا کرتی ہیں جس کا خدا سے تعلق قائم ہوسکتا ہے کیونکہ خدا مادی نہیں ہے اور انسانی تعلقات میں اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے اسی لئے رکھا ہے.میں نے جہاں تک ارتقاء Evolution کا مطالعہ کیا ہے میرے نزدیک Evolution ادنی کیفیت سے اعلیٰ کیفیت کی طرف حرکت کا نام ہے اور یہ جو Evolution میں ہم بدنی تبدیلیاں دیکھتے ہیں یہ ثانوی حیثیت کی تبدیلیاں ہیں.یہ مضمون بہت وسیع ہے اس کے ایک حصہ پر میں نے ماریشس کی ایک تقریب میں روشنی ڈالی تھی مگر بہت مختصر لیکن سر دست میں اس سے گزرتا ہوں کیونکہ اب وقت بھی کم ہورہا ہے.باقی مضمون انشاء اللہ پھر بعد میں بیان ہوگا.بہر حال التحیات کے مضمون میں ہم داخل ہوئے ہیں اور چونکہ آج جلسے کا بھی دن ہے اور بہت سے کام کرنے ہیں اس لئے انشاء اللہ حسب توفیق اگلے جمعہ میں یہ بقیہ مضمون بیان ہو جائے گا اور اس جلسے کے آخر پر سورہ فاتحہ کے بعد جو طبعی اور منطقی نتیجہ نکلتا ہے اس کے تعلق میں میں خطاب کروں گا یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (البقرہ:۷،۶ ) کی دعا اگر قبول ہو جائے تو انعام یافتہ لوگوں میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور کیا ظاہری علامتیں ان میں دکھائی دینے لگتی ہیں.اسی طرح مغضوب جب انعام یافتہ لوگوں سے ٹکراتے ہیں تو ان سے خدا کیا سلوک کیا کرتا ہے.یہ چونکہ بہت ہی وسیع مضمون ہے.ایک خطبہ میں یہ بیان ہونے والا نہیں.کچھ حصہ میں نے گزشتہ عید میں بیان کیا تھا.بقیہ حصہ اگر پورا نہیں تو اس کا ایک حصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں بیان کروں گا اور اس کے بعد اب میں نے گھڑی دیکھی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں آج کے خطاب کو ختم کرتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 631 خطبه جمعه ۲ راگست ۱۹۹۱ء التحیات کا پیغام انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہے نماز میں درود شریف پڑھنے کی حکمت اور عارفانہ تشریح (خطبه جمعه فرموده ۲ را گست ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نمازوں کے سلسلے میں جو خطبات دیئے جا رہے ہیں.آج یہ غالبا اس سلسلے کا آخری خطبہ ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں التحیات پر گفتگو ختم کی تھی لیکن التحیات کا مضمون ابھی جاری تھا.اس لیے التحیات ہی سے میں اس مضمون کو دوبارہ اُٹھاتا ہوں.التحیات کا مطلب ہے: تحفے اور تحفوں کا تعلق عام دیگر انسانی لین دین کے معاملات سے بالکل الگ اور ممتاز ہوتا ہے.اس میں انسان ایک چیز کسی دوست یا کسی بڑے کے حضور اس خاطر پیش کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اسے ویسی کوئی چیز نہ ملے بلکہ اس کی محبت اور رضا حاصل ہو اور یہی تحفے کا مفہوم ہے.اس نقطہ نگاہ سے جو بھی مالی قربانیاں خدا کی راہ میں ہم پیش کرتے ہیں ان کے اندر بڑھا کر واپس لینے کا مضمون قربانی کرنے والے کے ذہن میں نہیں آنا چاہئے.اسی مضمون کو قرآن کریم یوں پیش فرماتا ہے کہ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدثر:۷) کہ تو یہ سوچ کر احسان نہ کیا کر کہ تو بڑھا کر واپس لے گا اس لئے اگر چہ آپ کو بار بار یہ سمجھایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ بڑھا چڑھا کر دیتا ہے لیکن اگر اس نیت سے خدا کے حضور پیش کیا جائے کہ زیادہ ملے گا تو یہ بہت ہی ادنی سودا ہے اور اپنی قربانی کو تھنے کی بجائے ایک عام تجارت بنا دینے والی بات ہے.خدا سے تجارت کا معاملہ چلتا تو ہے مگر وہاں تجارت کا مفہوم اور ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 632 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء بس التحیات نے ہمیں بتا دیا کہ جو کچھ تم خدا کے حضور پیش کرتے ہو اس نیت سے پیش کیا کرو کہ اس کے بدلے جزاء ملے اور جزاء رضا کی جزاء ہو نہ کہ دنیاوی جزاء.اس نیت سے تحفے کا مضمون سمجھنے کے بعد ہماری تمام قربانیوں پر ایک غیر معمولی اثر پڑے گا چنانچہ نماز نے ہمیں صرف مالی قربانیوں سے متعلق ہی نہیں سمجھایا بلکہ بدنی قربانیوں سے متعلق بھی یہی سمجھایا ہے.فرمایا التحيات لله والصلوات والطیبات - الصلوات سے بدنی قربانی مراد ہے اور الطیبات سے وہ پاکیزہ چیزیں مراد ہیں جو قولی ہوں یا فعلی ہوں یا جنس سے تعلق رکھتی ہوں اور جو ہم خدا کے حضور پیش کرتے ہیں.پس اس پہلو سے انسان کے خدا سے تمام تعلقات تحفہ پیش کرنے کے تعلقات ہو جاتے ہیں.جو شخص تحفہ قبول کرتا ہے اس کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو انسان کسی بڑے انسان سے تحفہ لیتا ہے جبکہ اس کے مقابل پر وہ مالی لحاظ سے بھی اور دوسرے لحاظ سے بھی ادنیٰ ہوتا ہے.ایسا شخص دل میں خواہش تو بہت رکھتا ہے کہ میں کسی طرح بڑھا چڑھا کر پیش کروں لیکن اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ شخص جس کے حضور وہ تحفہ پیش کرنا چاہے حقیقتا معزز ہو اور دل کا کریم ہو تو وہ اس کے ادنی کو بھی بہت بڑھا کر قبول کرتا ہے.اس کے سوا اس غریب کے دل کی تمنا پوری ہونے کی کوئی صورت باقی نہیں ہوتی گویا اس کے دل کی تمنا بھی کسی بڑے انسان کے کرم پر منحصر ہے.پس اس پہلو سے جہاں تک خدا کو تحفہ دینے کا تعلق ہے وہ تو یہی رشتہ بنتا ہے.ایک ایسے وجود کو تحفہ پیش کیا جارہا ہے جو ہر لحاظ سے بالا ہے اور اسے ضرورت نہیں ہے.ہم اُس کو تحفہ پیش کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے لیکن جب وہ قبول کرتا ہے تو کرم کے نتیجے میں اس رنگ میں قبول کرتا ہے جیسے تم نے بہت بڑا کام کیا ہے اور چونکہ وہ زیادہ دینے کی استطاعت رکھتا ہے اس لئے وہ از خود زیادہ دیتا ہے ورنہ پیش کرنے والے کوتو اپنی غربت اور کم مائیگی کا احساس تھا.وہ تو اس شرم سے پیش کر رہا ہے کہ میں جو پیش کر رہا ہوں اس لائق نہیں کہ میں یہ پیش کر سکوں کیونکہ میرا محبوب اتنا بڑا ہے کہ میری طرف سے کچھ بھی پیش کیا جائے تو وہ چیز اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ اس کے حضور پیش کی جائے.پس اس کے بعد اس کے دماغ میں یہ خیال آنا کہ جتنا میں دوں گا اس سے بڑھا کر وہ مجھے دے دے گا کتنی کمینی بات ہوگی کتنی گھٹیا بات ہو جائے گی اور تھنے کے مزاج بگاڑنے والی بات ہوگی.پس خدا تعالیٰ سے تعلقات کے وقت یہ سودا پیش نظر نہ رکھا کریں کہ ابھی میں نے دیا اور کل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 633 خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۹۱ء مجھے زیادہ مل جائے گا بلکہ یہ خیال کہ خدا کی راہ میں جو دینا چاہئے اس کی استطاعت نہیں رکھتے اور تحفہ پیش کرنے کو دل چاہتا ہے اور تحفے کے مقابل پر اگر کوئی واپسی کی بات کرے تو اس سے بھی انسان شرم سے کٹ جاتا ہے تو اس نیت سے خدا کے حضور میں پیش کرنا چاہیے کہ میں دے رہا ہوں اور شرم کے ساتھ دے رہا ہوں کہ جتنی توفیق ہے اس کے مطابق دے رہا ہوں ورنہ حق یہ تھا کہ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے قبول کرلے اور دنیا میں فورا واپس نہ کرے تو یہ خیال دماغ میں پیدا ہو جانا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ چندے میں بڑی برکت پڑتی ہے لیکن ہمیں تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا، بہت ہی گھٹیا اور کمینی بات ہوگی اور یہ تحفہ نہیں رہے گا اور چونکہ تحفہ نہیں رہے گا اس لئے قبول بھی نہیں ہوگا کیونکہ التحیات نے ہمیں بتایا ہے کہ تحفے ہی ہیں جو قبول ہوں گے، باقی چیزیں نہیں ہوں گی.اگر تحفہ پیش کرتے ہو تو منظور ہے.تحفہ نہیں تو پھر تم اپنے کام سے کام رکھو خدا اپنے کام.ނ کام رکھتا ہے.تمہارے ساتھ ان قربانیوں کے نتیجے میں خدا سے تمہارا تعلق قائم نہیں ہوگا.دوسری بات التحیات ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ روزانہ ہم خدا کے حضور پانچ وقت جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ التحيات لله والصلواتُ والطَّيِّبات تو کوئی انسان پہلے تھے تو دوبارہ نہیں دیا کرتا.آخر ہم پانچ وقت کی ہر نماز میں بعض دفعہ ایک سے زیادہ دفعہ جب خدا کے حضور یہی بات پیش کرتے ہیں کہ التحيات لله والصلوات والطيبات تو اس کا یہ مطلب تو بہر حال نہیں ہوسکتا کہ ہم نے ایک دفعہ جو نیکیاں کردیں، ایک دفعہ جو قربانیاں خدا کے حضور پیش کیں انہی کو بار بار تحفہ بنا کر دے رہے ہیں کیونکہ دنیاوی تعلقات میں تو انسان ایسا نہیں کرتا.اگر ایسا کرے تو بہت ہی پاگل اور احمق دکھائی دے گا.پس نماز پانچ وقت یہ پیغام دیتی ہے کہ دو نمازوں کے دوران تم نے کوئی نیکی کی ہے کہ نہیں.اگر دو نمازوں کے دوران کوئی اچھا نیک قول بھی تم نے کہا ہے تو آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق اور قرآن کے ارشاد کے مطابق وہ بھی ایک ہدیہ ہے ، ایک تحفہ ہے، ایک اچھا نیک عمل ہے.خواہ قول بھی اچھا ہوتو وہ بھی نیک اعمال میں شمار ہو جاتا ہے.پس اگر اس عرصے میں کوئی اور نیک عمل کرنے کی توفیق نہیں ملی تو ذکر الہی کی توفیق ملی ہوگی کسی کو نیک نصیحت کرنے کی توفیق ملی ہوگی غیر کونہیں تو اپنی بیوی کو، اپنے بچوں کو، اپنے ساتھیوں کو کوئی اچھی بات کہنے کی توفیق ملی ہوگی اس تمام عرصے میں جو دو نمازوں کے درمیان آپ پر گزرتا ہے کچھ نہ کچھ تحفہ آپ نے ضرور بنانا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 634 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء اور وہی تحفہ ہے جو خدا کے حضور پیش کیا جائے گا.پس اگر اس پہلو سے سوچتے ہوئے جب آپ نماز میں التحيات لله والصلوات والطیبات کہتے ہیں تو بسا اوقات دل کانپ جائے گا کہ ہم خالی ہاتھ آئے ہیں اور بات یہ کر رہے ہیں کہ اے خدا! ہم تیرے حضور تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور تھنے بھی ایسے ہیں جو جمع کی صورت میں ہیں یعنی تحائف پیش کر رہے ہیں.والصلوات نیک اعمال کے ذریعے ، بدنی قربانیوں کے ذریعے بھی والطیبات اور اچھی چیزیں پیش کر کے بھی پس اس مضمون کو سمجھنے کے بعد التحیات کا پیغام بہت ہی وسیع ہو جاتا ہے اور زندگی کے ہر دائرے پر حاوی ہو جاتا ہے.روز مرہ کی نمازوں میں نیکیاں بھرنے کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اللہ کے حضور وہی نیکیاں قبول ہوگی جو تحائف کا رنگ رکھتی ہوں گی اُس کے بغیر نہیں.چنانچہ لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران :۹۳) میں دراصل یہی پیغام ہے جو دیا گیا ہے کہ نیکی کی تعریف ہی تم نہیں سمجھتے اگر تمہیں یہ پتا نہ ہو کہ جو کچھ خدا کے حضور پیش کرتے ہو، وہ کرو جو سب سے اعلیٰ ہوا اگر تمہیں سب سے اچھا پیش کرنے کا مزاج نہیں ہے اگر تمہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ خدا کے حضور سب سے اچھا پیش کرنا چاہئے تو تمہیں نیکی کی تعریف کا علم نہیں ہے.پس نیکی کی تعریف اور تحفے کی تعریف ایک ہی ہوگئی کیونکہ تھے میں بھی انسان اچھی چیز چن کر پیش کیا کرتا ہے جبکہ Tax میں بری چیز چن کر پیش کیا کرتا ہے.اگر مالیہ وصول کرنے والے گندم کی شکل میں مالیہ وصول کرنے آئیں تو کبھی زمیندار یہ نہیں کرتا کہ بہترین گندم چن کر وہ مالیہ والوں کے سپر د کر دے بلکہ جو سب سے ذلیل ، پانی میں ڈوبی ہوئی یا کالی ہوئی ہوئی گندم ہے وہ مالیہ میں دے گا لیکن تھے میں برعکس مضمون ہے.پس حقیقت میں لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا میں تھے ہی کی تعریف کی جارہی ہے چنانچہ فرمایا حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کہ جب تک تمہیں محبت نہ ہو.پس محبت ہی کے نتیجہ میں تحفہ پیدا ہوتا ہے اور چونکہ تحفہ محبوب کے لئے پیش کیا جاتا ہے اس لئے محبوب کے لئے محبوب چیز پیش کی جاتی ہے.پس وہ اعمال قبول ہوں گے جو آپ کو محبوب ہوں جن کو فخر کے ساتھ آپ پیش کر سکیں اور وہ اچھی چیزیں مالی قربانی ہو یا کوئی اور کلمات کے ذریعے خدا تعالیٰ کی حمد کا بیان ہو، وہ ساری اچھی چیزیں جو آپ پیش کرتے ہیں.ایسے رنگ میں ہوں کہ بھی ہوئی ہوں ، آپ کو اچھی لگ رہی ہوں.آپ کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 635 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء نظر میں بھی محبوب ہوں.اس کے بعد یعنی التحيات لله والصلوات والطیبات کے بعد انسان کہتا ہے کہ السَّلامُ عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته ـ الســلام عـلـيـنـا وعلى عباد الله الصالحین کہ اے نبی ہم تجھ پر سلام بھیجتے ہیں.یہ سلام در حقیقت تحفے ہی کے رنگ ہیں پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ خدا کو تحفے دینے کے بعد جو سب سے زیادہ محبوب ہستی ہمیں دکھائی دیتی ہے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ہستی ہے اور اللہ کو تحائف پیش کرنے کے بعد سب سے زیادہ تھنے کا حق اگر کوئی وجود رکھتا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ ہی کا وجود ہے.اس سلسلہ میں بعض لوگ نا سمجھی سے یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نعوذ باللہ حاضر ناظر ہیں اور حاضر ناظر کو مخاطب کیا جاتا ہے.اگر یہ دلیل درست ہو تو پھر خدا حاضر ناظر نہیں رہے گا کیونکہ اسی تخاطب میں التحیات علیك یا اللہ نہیں کہا گیا بلکہ التحیات الله والصلوات والطيبات فرمایا گیا ہے، تو خدا غا ئب ہو گیا اور محمد رسول اللہ حاضر ہو گئے.یہ مضمون تو بالکل ہی اکھڑ جائے گا، بے معنی ہو جائے گا اس لئے یہاں جو تخاطب ہے وہ اور معنی رکھتا ہے.بعض دفعہ حاضر کو عزت اور احترام کے نتیجے میں غائب کیا جاتا ہے اور غائب کو بھی عزت اور احترام کے نتیجے میں حاضر کیا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ جو ہم کہتے ہیں تو اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ غائب بھی ہیں مگر معزز بھی ہیں کیونکہ آں" کا لفظ اعزاز کے لئے پایا جاتا ہے لیکن یو.پی میں جب خطاب کرتے ہیں تو بعض دفعہ حاضر کو غائب کے طور پر یہ بتانے کے لئے خطاب کرتے ہیں کہ ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں اور بعض دفعہ غائب کو عزت کی خاطر مخاطب کر دیا جاتا ہے.چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ آپ نے یہ فرمایا.رسول اللہ ﷺ کو آپ کہہ رہے ہیں حالانکہ آپ غائب ہیں تو یہ جوطر زتخاطب ہے یہ اسی معنی میں ہے کہ آنحضرت ملالہ کو عزت اور احترام کی خاطر آپ کہا جا رہا ہے حالانکہ آپ غائب ہیں اور خدا حاضر ہے لیکن اُسے عزت اور احترام کی خاطر غائب کیا جا رہا ہے اور کلام کا یہ محاورہ دنیا کے ہر کلام میں ملتا ہے.پس خدا کے ساتھ اس کی عظمت اور شان کے پیش نظر حاضر ہوتے ہوئے بھی غائب کا خطاب ہے اور آنحضرت ﷺ کا خدا کے مرتبہ کے بعد دوسرے مرتبہ پر ذکر ہے لیکن غائب ہوتے ہوئے بھی مخاطب کا خطاب ہے اور اس سے زیادہ اس کے اور کوئی معنی نہیں ہیں نعوذ باللہ یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 636 خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۹۱ء مطلب نہیں ہے کہ جب ہم سلام بھیجتے ہیں تو جیسا کہ بعض مسلمان یقین کرتے ہیں آنحضرت مے ہمارے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں گویا ہر نماز پڑھنے والے کی نماز کے سامنے اس موقعہ پر وہ آکھڑے ہوں گے.یہ محض ایک جاہلانہ بات ہے.اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ خیال بھی شرک ہے.پس جب بھی آپ السلام عليك ايها البنی کہتے ہیں تو عزت اور احترام کے لئے خطاب کر رہے ہیں ورنہ حقیقت میں سامنے رکھ کر خطاب نہیں کر رہے.دوسری بات السلام علينا و علی عبادالله الصالحین ہے.یعنی ہم سب پر بھی سلام ہو اور مخاطب کے متعلق متکلم کا صیغہ آیا کرتا ہے.پس اس پہلو سے بھی التحیات کے اندر ایک حُسن بلاغت پایا جاتا ہے.غائب میں خدا کی بات ہوئی ، پھر مخاطب میں حضرت محمد رسول اللہ کی بات ہوئی.اس کے بعد ہم متکلم میں داخل ہو گئے اور اپنے ساتھ تمام مومنین کو شامل کر لیا خواہ وہ موجود ہوں یا نہ ہوں اس لئے اس مضمون میں موجودگی کی کوئی بحث نہیں ہے.صرف ایک درجہ بدرجہ مرتبے کی گفتگو ہورہی ہے اور ایک حسن کلام ہے جو اس شان کے ساتھ اپنے پہلو بدل رہا ہے.وعلی عباد الله الصالحین پھر تمام صالح بندوں پر سلامتی بھیجی گئی.اس مضمون پر جا کر سورۃ فاتحہ سے ہم نے جو مضامین سیکھے تھے وہ اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدح کی اور اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے ہر قسم کی دعائیں ہم نے اس میں مانگیں.اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلقات قائم کئے اب اس کے بعد یہ سوال ہے کہ اشهد ان لا اله الا اللہ کا کیا موقعہ ہے اور اس مقام پر اسے کیوں سجایا گیا ہے؟ میں نے جہاں تک غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ کلمه لا اله الالله در حقیقت سورہ فاتحہ میں موجود ہے اور محمد رسول اللہ بھی سورہ فاتحہ میں موجود ہے اور یہ مضمون سورۂ فاتحہ ہی کا ہے جو یہاں آکر کامل ہوتا ہے اور ہمیں ایک نئی طرز پر بتایا جارہا ہے.جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہتے ہیں تو یہاں صرف معبود کے طور پر خدا کا اقرار ہی نہیں کرتے بلکہ ایاک کہہ کر ساتھ غیب کی نفی بھی کر رہے ہیں تو حقیقت میں لا الہ الا اللہ کا مضمون إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بہت شان کے ساتھ گویا مختلف لفظوں میں بیان ہو جاتا ہے.اس کے بعد جب ہم اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مضمون میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے بڑا نبی جس پر سب سے زیادہ انعاموں کی بارش کی گئی وہ حضرت محمد مصطفی امی یہ ہی تھے.اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 637 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء نماز میں جب ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اُن لوگوں کے رستوں پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا تو سب سے زیادہ واضح طور پر جو بنی انسان کے ذہن پر چھا جاتا ہے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہیں.آپ ہی ہیں جو ذہن پر چھا جاتے ہیں.آپ ہی ہیں جو دل میں سما جاتے ہیں اور حقیقت میں آپ کے نام کے ساتھ باقی سب نبیوں کا نام شامل ہو جاتا ہے پس انعام یافتہ لوگوں میں سب سے اہم ذکر حضرت محمد طفی امی کا ہے اور اسی کا دوسرے لفظوں میں بیان یوں ہوا کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله تو نماز نے چونکہ درجہ بدرجہ ہماری تربیت کی اور سورہ فاتحہ کا مضمون ہم پر مزید کھلتا چلا گیا.اس مضمون کا معراج یہ کلمہ ہے، اشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له واشهدان محمداً عبده ورسولہ لیکن یہاں یہ کلمہ تجربے کے بعد بیان ہوا ہے نظریاتی طور پر نہیں.سورۃ فاتحہ نے ہمیں خدا سے تعلقات کے ایسے تجارب سے گزارا ہے اور آنحضرت ﷺ کا مقام ہم پر اس طرح ظاہر فرما دیا کہ تحفہ دیتے وقت سب سے پہلے خدا کی ذات کا تصور ذہن میں آیا اس کے معأبعد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا تصور ذہن میں آیا.پس اسی مضمون نے ہمیں یاد کرایا کہ لا الہ الا الله محمدرسول الله حقیقت میں دو ہی چیزیں ہیں.اللہ کی ذات اور محمد رسول اللہ.باقی سب افسانے ہیں.باقی وہ ہیں جو اُن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اُن کے ساتھ تعلق کی بناء پر اُن الله کا وجود بنتا ہے.یہاں تک سورہ فاتحہ کا سفر حاضر اور مستقبل کا سفر تھا.اس میں حاضر کے طور پر مخاطب کیا جا رہا ہے اور حاضر یا مستقبل کے طور پر دعائیں مانگی جارہی ہیں.اب نماز آپ کو دوسرے زمانوں کا سفر بھی کرائے گی اور پہلوں کی یادیں بھی آپ کے لئے لے کر آئے گی.چنانچہ آپ دیکھیں شروع سے آخر تک جب تک ہم کلمہ لا الہ الا اللہ نہیں پڑھتے اور یہ شہادت نہیں دیتے اس وقت تک ہماری ساری دعائیں حاضر اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی دعائیں ہیں.ان معنوں میں آنحضرت ملے پر درود بھیجتے وقت بھی آپ کو ماضی کے وجود کے طور پر مخاطب نہیں کیا گیا بلکہ ایک حاضر وجود کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے اور اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ آپ کا زمانہ زندہ ہے.آپ ایک ایسے زندہ نبی ہیں جوز مانی لحاظ سے ماضی میں نہیں رہے بلکہ حال کے بھی نبی ہیں اور مستقبل کے بھی نبی ہیں.اس ابتک کا جو مضمون تھا وہ چونکہ حاضر اور مستقبل کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا اس لئے آپ کا ذکر اُن لوگوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 638 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء میں کیا گیا.اب ماضی کی طرف بھی نماز ہمیں لے کر جاتی ہے.چنانچہ اس کے معابعد جب ہم کما صليت على ابراهيم وعلى ال ابراهيم انك حميد مجيد کہہ کر درود بھیجتے ہیں تو ماضی کے نیک لوگوں کے لئے بھی دعائیں مانگتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے بعد جس کا سب سے زیادہ حق ہے کہ اسپر سلام بھیجا ہے تو وہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ابوالا نبیاء بھی کہلاتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام وہی بزرگ نبی ہیں جن کی اولاد میں حضرت اقدس محمد مصطفی عملہ پیدا ہوئے.آپ وہی بزرگ نبی ہیں جن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ نے قبولیت کا شرف بخشا اور آنحضرت ﷺ آپ کی دعاؤں کا بہترین ثمر ہیں.پس اس تعلق کو ظاہر کرنے کیلئے اور یہ بتانے کے لئے کہ تم اگر اپنے محسنوں کے لئے دعا کرتے ہو اور ان کو تحائف پیش کرتے ہو تو ایک بڑے عظیم سابق محسن کو بھی یاد رکھنا اور وہ ابراہیم ہیں اور ان کے حوالے سے صلى الله پھر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر سلامتی بھیجو.سلامتی تو ہم دراصل آنحضرت ﷺ پر بھیج رہے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وجود آنحضرت ﷺ کے وجود کے ساتھ منسلک کر کے حضرت ابراہیم کو بھی بہت ہی عظیم خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور کما صلیت میں جاری سلامتی ہے.کوئی ماضی کی سلامتی نہیں ہے.یہ مضمون بھی لوگ غلط سمجھتے ہیں.واقعہ یہ ہے کہ یہ مراد نہیں ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم پر سلامتی بھیجی گئی تھی اور ختم ہوگئی اسی طرح رسل الله ﷺ پر سلامتی بھیج.اگر ایسی محدود سلامتی رسول اللہ اللہ کے لئے مانگنی ہے تو اس سے نہ مانگنا بہتر ہے.کماصلیت میں دراصل ماضی کا واقعہ ہے ماضی میں سلامتی شروع ہوئی تھی اس لئے ماضی کا صیغہ بولا گیا ہے ورنہ ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہ سلامتی رسول اللہ ﷺ کے وقت پر آکر ختم ہوگئی بلکہ قرآن خود بتارہا ہے کہ حضرت ابراہیم کا نام سلامتی کے ساتھ قیامت تک لیا جائیگا.آخرین میں بھی سلامتی کے ساتھ آپ کو یاد کیا جائے گا.پس اس طرح اس درود کا مطلب یہ بنے گا کہ اے خدا! تو حضرت محمد مصطفی عملے پر اسی طرح ہمیشہ جاری رہنے والی سلامتیاں بھیج جس طرح تو نے ابراہیم پر ہمیشہ جاری رہنے والی سلامتی بھیجی تھیں.جس طرح ابرا ہیم کی نسل میں تو نے بہت عظیم الشان پھل لگائے اسی طرح محمد مصطفی امیہ کی نسل میں بھی بہت ہی عظیم الشان پھل لگا.جس طرح ابراہیم اور ابراہیم کی اولاد سے تو نے محبت کی اور اُن سب سے محبت کی جو ابراہیم کے پیچھے چلنے والے تھے.اسی طرح محمد مصطفی یہی ہے اور آپ کی اولا د اور اُن سب سے محبت فرما صلى الله
خطبات طاہر جلد ۱۰ 639 خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۹۱ء جو آپ کے پیچھے چلنے والے ہیں.پس ان معنوں میں درود شریف میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ایک اور رنگ بھی اختیار کر لیتا ہے اور کیونکہ ایک ماضی کے محسن کا ذکر ہے اس لئے نماز کی دعا زمانے میں وسیع تر ہو جاتی ہے اور اس کا تعلق ماضی سے بھی شروع ہو جاتا ہے.اس تعلق کی بناء پر آگے چل کر آپ کو اپنے والدین کے لئے بھی دعا سکھا دی گئی رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِى (ابراہیم (۴۱) میں پہلے اولاد کا بتایا لیکن سارے زمانے اکٹھے کر دیئے ہیں.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوۃ اے خدا مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنادے ومن ذریتی اور میری اولاد کو بھی نماز پر قائم کر.رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ اے ہمارے رب ! ہماری دعا کو قبول فرما.رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ اے خدا! مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے تو جس طرح روحانی طور پر آنحضرت ﷺ کے والدین کا ذکر کیا گیا اسی طرح دعا کرنے والے نے اپنے والدین کا بھی ذکر کیا کہ مجھے بھی بخش ، میری اولاد کو بھی بخش اور میرے والدین کو بھی تو حضرت ابراہیم اور آنحضرت ﷺ اور آئندہ نسلوں کا جو تعلق روحانی طور پر ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے اس دعا میں ویسا ہی اپنی اولاد کے ساتھ ، اپنے ساتھ اور اپنے والدین کے ساتھ ایک تعلق دکھا کر اس کی دعا سکھا دی گئی.پس نماز کو اگر آپ غور سے پڑھیں تو ایک لا متناہی مضمون ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور یہ ناممکن ہے کہ ہر نماز میں نماز کا ہر پہلو سے حق ادا ہو اس لئے کہیں نہ کہیں آپ کو کسی جگہ ٹھہر کر نماز کی لذت حاصل کرنی ہوگی اور یہ آپ کے مزاج اور حالات کے مطابق ہے.ہر لفظ پر اگر آپ ٹھہریں اور اس طرح غور کر کے نماز پڑھیں تو ایک ہی نماز 24 گھنٹے چلتی رہے گی اور یہ ممکن نہیں ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مزاج کو ایسا بنایا ہے کہ وہ بدلتے رہتے ہیں.کبھی کسی خاص مزاج میں انسان نماز پڑھ رہا ہے اور کبھی کسی خاص مزاج میں نماز پڑھ رہا ہے.کبھی سورۃ فاتحہ کا پہلا حصہ ہے اس نے ہی دل تھام لیا ہے اور آگے نہیں بڑھنے دیتا، کبھی درمیان میں آکر دل انکتا ہے کبھی آخر پر بھی رکوع میں کبھی سجود میں گویا کہ مختلف حالات میں مختلف انسان اپنے مزاج کے مطابق مختلف رنگ میں نماز سے لذت پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں.اس لئے جو شخص متلاشی ہو گا جب اس کو اپنے مزاج کی چیز کہیں ملے گی توہ وہیں ٹھہر جائے گا اور وہاں وہ زیادہ لطف اٹھائے گا اور اسی طرح کوئی نماز بھی انسان کی ایسی نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 640 خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۹۱ء جولذتوں اور پھلوں سے خالی رہ جائے لیکن اگر غفلت کی حالت میں نمازیں ادا کرنی ہیں تو ساری عمر کی نمازیں بھی خالی ہوں گی، خالی برتن ہوں گے، ایسے برتن کہ جب آپ یہ خدا کے حضور پیش کریں گے اور کہیں گے التحیات الله والصلوات والطيبات تو خالى التحیات کے کھوکھلے برتن ہوں گے جن میں نہ الصلوات ہوں گی نہ الطیبات ہوں گی.یہ ایک تمسخر ہے.اپنے ساتھ بھی دھوکا ہے اور خدا سے بھی دھوکا کرنے کی کوشش ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا بنائے کہ ہماری عبادات کو اپنے ذکر سے بھر دے اور ایسے ذکر سے بھر دے کہ جس سے ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہمیشہ معطر رہیں.ہمارے وجود خدا کی ذات سے لذت پانے والے ہوں، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور خدا کی ذات کے رنگ اور اس کی صفات ہماری ذات میں جاری ہونے والی ہوں.یہ وہ نماز ہے جو بالآخر انسان کو خدا انما بنادیتی ہے.یہ وہ نماز ہے جس کے بعد انسان جتنی دفعہ بھی نماز میں جاتا ہے ہر دفعہ کوئی نیا موتی لیکر نکلتا ہے.نیا گوہر لے کر واپس لوٹتا ہے.کبھی انسان ایسی نمازوں سے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا ، اور جتنا ترقی کرتا ہے اتنا ہی خدا کے رنگ اس پر پہلے سے بڑھ کر چڑھتے چلے جاتے ہیں.اتنا ہی زیادہ اس میں انکسار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.اتنا ہی زیادہ وہ رکوع اور سجود کا اہل ہوتا چلا جاتا ہے اور تکبر کی بجائے اس میں انکساری بڑھنے لگتی ہے.خدا کرے کہ ہمیں ، ہمارے بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی ، موجودہ نسلوں کو بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی ایسی ہی نماز میں نصیب ہوں.اس کے بعد اب میں اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے آج ایک اور واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں آج ہمارا ایک بہت ہی پیارا وجود جو جماعت یو.کے (U.K) کا ایک بہت ہی محبوب وجود تھا یعنی چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی، وہ آج صبح اچانک ہم سے جُدا ہوئے اور اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.ان کو میں بہت دیر سے جانتا ہوں، جب میں طالب علم تھا اس وقت بھی ان سے مختصر سا تعلق بنا تھا.۱۹۱۶ء میں آپ پیدا ہوئے تھے اور تعلیم کے دوران بھی اور بعد میں بھی جس حالت میں رہے ہمیشہ سلسلہ کے بہترین خادم رہے، کسی نہ کسی شکل میں جماعت کی خدمت کی توفیق ملتی رہی.تقسیم سے پہلے دہلی کے قائد مجلس خدام الاحمدیہ بھی رہے تقسیم کے بعد جب جماعت کراچی کی نئے رنگ میں تنظیم قائم ہوئی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو براہ راست خود مجلس عاملہ کراچی کا ممبر مقرر فرمایا.بہر حال سلسلہ کے مختلف خدام ہیں جنہیں مختلف رنگ میں خدمت کی توفیق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 641 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء ملتی ہے اور ایک نہیں، دو نہیں، آج کل تو خدا کے فضل سے ہزاروں ہیں جو اسی قسم کی زندگی گزارتے ہیں.بنگوی صاحب کے متعلق جو چند کلمات میں خصوصیت سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ آپ طبعاً خدمت کرنے والے انسان تھے.صرف جماعت کی ہی خدمت نہیں بلکہ اپنی سروس کے دوران جو اکثر فارن آفس میں رہی اور اس کے تعلق میں دنیا کی مختلف Embassies ایمبیسیز میں آپ مقرر ہوتے رہے.آپ نے اس طرح بے لوث ہر ایک کی خدمت کی ہے کہ وہ غیر احمدی ، افسر ہوں یا ما تحت یا ساتھی جنہوں نے آپ کے ساتھ کسی جگہ وقت گزارا ہے ہمیشہ آپ کو بڑی محبت سے یاد کرتے ہیں اور مجھے امریکہ سے کچھ عرصہ پہلے بنگوی صاحب کے ایک دوست کا خط ملا تھا اس میں اس نے بتایا کہ یہ ایسا وجود ہے جو بھلانے کے لائق نہیں ہے.بہت ہی خدمت کرنے والا اور بہت ہی احسان کرنے والا وجود ہے.پس اس دور میں جور بوہ سے آنے کے بعد کا دور ہے اور جسے میں ہجرت کا دور کہہ رہا ہوں ، جبکہ میں پاکستان سے آکر انگلستان میں عارضی طور پر آباد ہوا تو آتے ہی میں نے سب سے پہلے یہ صدائے عام دی کہ مَنْ اَنْصَارِی اِلی الله (الصف: ۱۵) کون ہے جو اللہ کی خاطر، اللہ کے نام پر میری نصرت کرنے والا بنے گا تو وہ اولین آوازیں جنہوں نے لبیک کہا ان میں ہدایت اللہ صاحب بنگوی کی آواز بھی تھی اور اس آواز میں ایسا خلوص تھا، ایسی سچائی تھی کہ اس کے بعد میں نے ان کو ہمہ وقت خدمت دین میں مگن دیکھا اور سخت بیماری کی حالت میں بھی اس بیماری کو چھپا کر کہ مجھے خدمت سے روک نہ دیا جائے آپ خدمت میں ہمیشہ مگن رہے اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ ان آوازوں میں سے یہ آواز یقینا کچی آواز تھی صدق دل سے اٹھائی گئی آواز تھی.چنانچہ ساری زندگی جو آپ نے بعد میں میرے ساتھ گزاری وہ زندگی اس بات کا نمونہ تھی کہ آپ واقعی اللہ کے انصار میں داخل ہو گئے تھے.فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب :۲۴) ان لوگوں میں سے اور بھی بہت سے ہیں جنہوں نے اپنی نیتوں کو پورا کر دیا اور بعض ایسے ہیں جو نیتیں پوری کر کے خدا کے حضور حاضر ہو گئے اور بعض ایسے ہیں جو ا بھی انتظار کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس وجود کو غریق رحمت فرمائے.آخر سانس تک خدمت میں وقت گزارا.ہر جلسہ کے بعد جب میں اُن کو مبارک باد دیتا رہا کہ آپ نے بہت ہی عمدہ خدمت کی ہے، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے تو ہمیشہ جذبات سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 642 خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۹۱ء مغلوب ہو جایا کرتے تھے اور دو باتیں ہمیشہ کہا کرتے تھے ایک تو یہ کہ میری خدمت کوئی چیز نہیں ، یہ آپ کی دعاؤں کا پھل ہے اور پھر تکرار سے کہا کرتے تھے کہ میں تکلفاً نہیں کہہ رہا میں دل کے پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ یہ محض دعاؤں کا پھل ہے، میری کوئی حیثیت نہیں ہے دوسرے یہ دُعا یاد کرایا کرتے تھے کہ میرے لئے ہمیشہ یہ دعا کریں کہ چلتے پھرتے آخری سانس تک خدمت میں میری جان جائے.ایسا ہی ہوا اور یہ جلسہ جو بہت ہی کامیاب گزرا ہے، آپ نے دیکھا کہ کس طرح ان کو سخت بیماری کی حالت میں بھی چلتے پھرتے خدمت دین کی توفیق ملتی رہی.صبح جب میری بیگم کو پتہ چلا کہ بنگوی صاحب وفات پاگئے ہیں تو کہتی ہیں کہ رات بڑی دیر تک نیچے سے میں ان کی آواز میں سنتی رہی.یہ آکر مہمانوں کے لئے ہدائتیں دے رہے تھے اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی کراری اور بلند آواز والا شخص جو اس طرح رات گئے بہت دیر تک مہمانوں کی خدمت میں مصروف ہے، صبح اچانک رخصت ہو جائے گا مگر بہر حال یہ بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ۱۹۸۵ء سے لے کر اب تک ، جب میں نے انہیں افسر جلسہ مقرر کیا تھا، یہ نہایت ہی عمدگی اور کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض کو سرانجام دیتے رہے اور یہ ساری زندگی گویا Lease پر تھی یعنی ڈاکٹروں نے تو جواب دیا ہوا تھا لیکن خدمت دین کا جذبہ انہیں لئے پھرتا تھا اور اللہ نے اس جذ بے کو قبول فرمایا اور زندگی کا ایک نیا دور عطا فر مایا.پس اگر چہ جدائی انسان کو ضرور دکھ پہنچاتی ہے لیکن بعض جدائیاں دُکھ کے ساتھ بعض خوشی کے جذبات بھی رکھتی ہیں.ان کی جدائی کی بھی یہی کیفیت ہے.جیسے کوئی شخص کامیاب دورے کے بعد رخصت ہو رہا ہو تو لوگ دل کے بڑے گہرے غم کے ساتھ اس کو رخصت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی صمیم قلب کے ساتھ مبارکبادیں بھی پیش کرتے ہیں.پس میں اس جانے والے کو اسی جذبے کے ساتھ رخصت کرتا ہوں کہ اے جانے والے! ہم بہت مغموم ہیں.ہمارا دل تیرے صدمے سے گھائل ہو گیا ہے لیکن ہم صمیم قلب کے ساتھ تجھے مبارکباد پیش کرتے ہیں تو نے ایک کامیاب بندے کی زندگی گزاری اور ایک کامیاب احمدی کی حالت میں آخری سانس تک زندہ رہا اور اسی حالت میں جان جان آفریں کے سپرد کی.اللہ بے شمار رحمتیں ان پر نازل فرمائے اور اس ٹیم کو انہی نیکیوں پر قائم رکھے جس ٹیم کو انہوں نے بڑی محنت اور خلوص اور دعاؤں کے ساتھ تیار کیا ہے.ان کا نعم البدل ہمیں عطا کرے.ان کی اولاد کو تو فیق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 643 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۹۱ء بخشے کہ وہ ان کی خوبیوں کو اپنی ذات میں زندہ کر کے انہیں نئی زندگی عطا کریں.آمین.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس کی تاریخ میں وہ انشاء اللہ ہمیشہ زندہ رہیں گے.اللہ تعالیٰ ان کو ان کی اولاد کو ہمیشہ اپنے فضلوں کا وارث بنا تار ہے اور ان کی روح کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے.آمین.اس کے بعد میں یہ مختصر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جمعہ کے معا بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ ہوگا.اس کے ساتھ کچھ جنازہ ہائے غائب بھی ہوں گے جن کا اعلان غالبا پہلے کیا جا چکا ہے اور میری خواہش تھی کہ اسی جلسہ کے اختتام پر اسلام آباد ہی میں ان کا جنازہ ہو چنانچہ اس خواہش کے پیش نظر ان کے عزیزوں نے بہت محنت کر کے بہت جلدی جلدی ان کو غسل دیا اور تیار کیا.پس آپ سب لوگ جمعہ کے بعد اسی جگہ کھڑے رہیں سوائے ان چند ساتھیوں کے جو میرے ساتھ باہر جا کر ان کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں جنازہ پڑھیں گے.باقی آپ اسی طرح صفوں میں کھڑے ہو جائیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 645 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء ہر ایک نیکی کی جڑ یہ انتقا ہے قولو قولا سدید اور انما الاعمال بالنیات کی روشنی میں والدین کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۹ را گست ۱۹۹۱ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ ایک لمبے عرصہ سے جو تقریباً چھ ماہ پر پھیلا پڑا ہے نماز کے موضوع پر خطبات کا سلسلہ جاری تھا.یہ سلسلہ بند ہونے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اب کس موضوع پر کل کا خطبہ دوں تو اس قسم کا کچھ خلا محسوس ہوا کہ جیسے اچانک چلتے چلتے رہٹ کھڑا ہو جائے تو ایسی خاموشی ہوتی ہے جس میں خیالات بھی خاموش ہو جاتے ہیں تو رات دعا کر کے سویا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی جس موضوع پر چاہے وہ خطبہ دلا دے.میرے ذہن میں تو کچھ بھی نہیں تھا.صبح آنکھ اس حالت میں کھلی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تقویٰ سے متعلق ایک شعر بڑے زور سے زبان پر جاری تھا اس پر مجھے یہ سمجھ آئی کہ یہ للہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام ہے کہ تقویٰ کا مضمون کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا.اس کا کبھی بھی حق ادا نہیں ہوسکتا اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر جماعت احمدیہ کی آئندہ ایک سوسال کی نہیں بلکہ ہزاروں سال کی عمارت تعمیر ہونی ہے اس لئے اس موضوع پر مزید خطبات کی ضرورت ہے.اس پہلو سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر سے روشنی پاتے ہوئے کہ:
خطبات طاہر جلد ۱۰ 646 ہراک نیکی کی جڑیہ اتقاء ہے خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء اگر یہ جڑرہی سب کچھ رہا ہے (دین) میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ تقویٰ کی جڑانیوں پر ہوتی ہے اور اس پر میرا ذ ہن حضرت اقدس محمد مصطفی ملے کی اس حدیث کی طرف چلا گیا جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ انما الاعمال بالنيات.(بخاری کتاب الایمان حدیث (۱) تمام اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے.یہ در حقیقت ایک ہی مضمون ہے لیکن طرز بیان مختلف ہے، اظہار مختلف لفظوں میں ہوا ہے لیکن بعینہ ایک ہی مضمون ہے جو بیان ہو رہا ہے.ہر انسان کے ہر عمل کی جڑ اس کی نیت میں ہوتی ہے پس اگر وہ جڑ تقویٰ ہو تو اس کے اعمال کی تمام تر عمارت خواہ وہ ثریا تک جا پہنچے وہ خدا کے حضور مقبول اور حسین ہوگی.ایک خوبصورت اور دلکش اور پائیدار عمارت تعمیر ہوگی اور اگر نیوں کی جڑ میں نقص پیدا ہو جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اگر عمارت کے تصور کو چھوڑ کر جڑ کے تصور سے درخت کی مثال آپ اپنی نظر کے سامنے لائیں تو جو جڑ بیمار ہوتی ہے اس کا تنا بھی بیمار ہوتا ہے،اس کے پتے بھی بیمار ہوتے ہیں، اس کے پھل بھی بیمار ہوتے ہیں اور بیمار جڑ والے درخت کو آپ جو چاہیں کر لیں اس کا علاج ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اُسے جڑوں سے اکھیڑ پھینکا جائے یا ایسی دوا دی جائے جو جڑوں میں اتر کر جڑوں کی بیماری کا کچھ علاج کر دے.مجھے زمیندارے میں بارہا ایسا تجربہ ہوا ہے کہ پودوں کی ، درختوں کی بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو پتوں پر پھلوں پر ، شاخوں پر حملہ کرتی ہیں اور ان کا علاج ممکن ہے لیکن ایسا درخت جو کونپلوں سے سوکھنا شروع ہوتا ہے اور نیچے کی طرف اس کی بیماری کا عمل حرکت کرتا ہے یعنی کناروں سے شروع ہو کر نیچے کی طرف تو ایسے درخت ہمیشہ جڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب تک جڑ کی فکر نہ کی جائے اس درخت کا کوئی علاج ممکن نہیں.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے کی فرمودہ نصیحت جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ انما الاعمال عليسة بالنیات ، اس کو پیش نظر رکھ کر میں آپ سے آج کچھ خطاب کروں گا.یہ حدیث مختلف کتب میں مروی ہے، کہیں چھوٹی ، کہیں کچھ بڑی، میں نے جو حدیث لی ہے وہ بخاری باب كيف كان بدء الوحی الى رسول الله الا اللہ سے اخذ کی ہے.اور یہ پوری حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حدثنا الحميدى قال حدثنا سفيان قال حدثنا يحي بن سعيد الانصاري
خطبات طاہر جلد ۱۰ 647 خطبه جمعه ۹/اگست ۱۹۹۱ء قال اخبرني محمد بن ابراهيم التميى انه سبع علقمة على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول انما الاعمال بالنيات ، وانما لكل امرى مانوی ، فمن كانت هجرته الى الله ورسوله فهجرته الى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها ، او امراة ينكحها فهجرته الــى مـاهـاجـر الـيـه (بخارى باب كيف كان بدء الوحى رسول الله اس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں یعنی تمام روایت کا سلسلہ چھوڑتے ہوئے آخری راوی سے اصل مضمون کا ترجمہ بیان کر رہا ہوں، چونکہ یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر عام خطاب میں بیان فرمائی.پس آپ کی روایت یہ ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: سب اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے.اور ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی بدلہ دیا جاتا ہے.پس جس شخص نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی اور ان کی خوشنودی کے لئے اپنے وطن اور خواہشات کو ترک کر دیا اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہوگی لیکن جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت کی غرض اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی وہی قرار پائے گی جو اس کی اپنی نیت ہے یعنی اپنی نیت کا پھل جیسی بھی وہ نیت ہے اس کے مطابق اس کو ملے گا.اس حدیث کا اطلاق انسان کی ساری زندگی پر ،اس کے تمام خیالات پر اور اس کے تمام اعمال پر ہوتا ہے.بہت ہی وسیع مضمون سے تعلق رکھنے والی حدیث ہے اور انسانی نفسیات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ انسانی نفسیات کی وہ جڑ ہے جس کو اگر پکڑ لیں تو ہر انسان کی نفسیات کی الجھن اس سے حل ہو سکتی ہے اور در حقیقت Psychiatrist اسی جڑ کی تلاش میں Psychiatry سے متعلق محنت اور جد و جہد کرتے ہیں اور مختلف مریضوں سے سوالات کرتے کرتے بالآخر ان کی تلاش جڑ کی تلاش ہوتی ہے کہ یہ شخص کیسے بیمار ہوا تھا آغاز کیسے ہوا تھا، دماغ میں وہ پہلافتور کیسے پڑا تھا جس کے نتیجے میں یہ اتنی پیچیدہ بیماری لاحق ہوئی اور بیماری کے آغاز کا جو آخری نقطہ ہے وہ نیت کے آغاز کا نقطہ ہوا کرتا ہے اس سے آگے پھر سارا سلسلہ شروع ہوتا ہے.پس انسانی زندگی بہت ہی Complex زندگی ہے، بہت ہی الجھی ہوئی اور پیچیدہ زندگی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 648 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء ہے اور اگر آپ بیرون سے انسانی خیالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو بہت ہی مشکل کام ہے.اور باہر سے کسی شخص کی نیت تک پہنچنا اگر ممکن بھی ہو تو اس کا حد تک جواز نہیں ہے کہ کوئی انسان اپنے تجزیے کوکسی دوسرے پر ٹھونس سکے.پس اس مضمون پر غور کرتے ہوئے یہ نقطہ سمجھ آتا ہے کہ یہ سفر ہر شخص کو خود اختیار کرنا ہوگا.اپنی نیتوں کا خدا کے بعد سب سے زیادہ انسان خود واقف ہوتا ہے.جب وہ غیروں کے سامنے اپنے ارادے بیان کرتا ہے تو ہمیشہ پیچ و خم کے ساتھ بیان کرتا ہے.ہمیشہ ان کو خوبصورت لباس میں ڈھانپ کر پیش کرتا ہے.شاذ ہی کوئی ایسا انسان ہو جواپنے ارادوں کو مسن وعن اسی طرح کسی کے سامنے رکھ دے ورنہ یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنی نیت کو چھپاتا ہے.جس طرح جڑ کو مٹی سے ڈھانپا جاتا ہے اسی طرح انسان بھی اپنی نیتوں کو جو پہلے ہی اندر چھپی ہوئی ہوتی ہیں مزید مٹی سے ڈھانپنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کے نتیجے میں دنیا کے تعلقات میں اکثر فتور واقع ہوتے ہیں بلکہ تمام تر فتور کہنا چاہئے ایک بھی انسانی تعلقات میں خلل ایسا نہیں ، ایک بھی انسانی تعلقات کا فساد ایسا نہیں جس کی بنیاد نیت پر نہ ہو اور نیت میں اگر تقویٰ شامل نہ رہے تو پھر جو بھی درخت اس سے پیدا ہوگا جو بھی نشو و نما پائے گا، جو درخت بھی پھل دے گا وہ سارے پھل کڑوے اور گندے ہوں گے.اس مضمون کو عمومی رنگ میں بیان کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اب انسانی تعلقات کے مختلف چھوٹے چھوٹے دائروں میں اس مضمون کا اطلاق کر کے آپ کو دکھاؤں اور آپ کو بتاؤں کہ کس طرح تقویٰ کے فقدان کے نتیجے میں انسانی تعلقات فسادات کی نظر ہو جاتے ہیں.آنحضرت نے اس ارشاد میں ایک مثال نکاح کی دی ہے کہ ایک مرد ایک عورت کی نیت لے کر سفر کرتا ہے.یعنی نیتوں کے سفر میں ایک عورت کی طرف روانہ ہوتا ہے.وہی عورت اس کا مقصود ہے لیکن یہ مضمون چونکہ بہت ہی گہرا اور وسیع ہے اس لئے اس مثال کو سطحی نہ سمجھیں.اس مثال کے اندر انسانی تعلقات کے دائرے کا ایک بہت ہی وسیع حصہ زیر بحث لایا گیا ہے.عورت کی طرف انسانی سفر کیسے ہوتا ہے؟ اور کیا وہ ایک ایسی نیت ہے جو ہر شخص میں مشترک ہوتی ہے یا نیتوں میں فرق ہوتا ہے.اس مضمون پر اگر آپ غور کریں تو آنحضرت ﷺ کا ایک اور ارشادذہن میں آتا ہے.جس میں آپ نے فرمایا کہ جب تم شادی کی نیت کرتے ہو تو وہ شادی دنیاوی مناصب اور مرتبوں کی خاطر بھی ہوسکتی ہے، خاندانی منصب اور خاندانی وقار اور وجاہت کی خاطر بھی ہوسکتی ہے، اموال کی خاطر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 649 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء بھی ہو سکتی ہے اور وہ شادی حسن کی خاطر بھی ہوسکتی ہے لیکن وہ شادی دین کی خاطر بھی ہوسکتی ہے اس لئے تمہیں میری نصیحت یہ ہے کہ اپنی شادی دین کی خاطر کیا کرو.اب اس مضمون میں جو چار باتیں بیان فرمائی گئی ہیں.ان پر اگر آپ مزید غور کریں تو اور پھیل جاتی ہیں اور یہ مضمون بہت زیادہ وسیع ہو جاتا ہے.کیونکہ شادی کے معاملے میں نیتوں کا سفر صرف لڑکا یا لڑکی نہیں کرتے بلکہ ان کے ماں باپ بھی کرتے ہیں ان کی بہنیں بھی کرتی ہیں.ان کا معاشرہ بھی کرتا ہے اور یہ سفر بظاہر ایک لڑکی کی طرف ہوگا یا ایک لڑکے کی طرف ہوگا لیکن اس میں ایک قافلہ شریک ہو جاتا ہے اور ہر ایک اپنے رخ کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے گویا ایک قسم کی رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے.والدہ چاہے گی کہ میرے مزاج اور میری مرضی کے مطابق بہو گھر میں آئے.والد اپنی سوچ کے مطابق یہ کہے گا کہ مجھے تو اس قسم کی بہو چاہئے.بہنیں بھائی کے لئے اپنا ایک تصور جمائے ہوئے ہوں گی اور بھائی ( کم سے کم ہمارے معاشرے میں ) بیچارا سب سے آخر پر آتا ہے، جس کی خواہشات جس کی تمنائیں خاندان کی چوکھٹ پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتی ہیں اور والدین اکثر اپنی مرضی کو بیٹوں پر بھی ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں، بہنیں بھی ایسا کرتی ہیں لیکن لڑکیوں کے معاملہ میں تو حد سے زیادہ یہ زبردستی کی جاتی ہے اور ناحق بچی کے حق میں مداخلت کی جاتی ہے لیکن آگے پھر لڑکے کی اور لڑکی کی اپنی تمنائیں اور آرزوئیں ہیں وہ بھی مختلف ہوسکتی ہیں تو بیماریاں ایک سے زائد ہیں اور ایک سے زیادہ جگہ جڑ پکڑتی ہیں.اب اس ساری صورتحال کو پیش نظر رکھ کر اس مثال کو میں بعض جگہ مزید واضح کرتا ہوں.اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ بعد ازاں جب رشتوں میں خلل واقع ہوتے ہیں تو ان کا آغاز کیسے ہوا تھا.بعض عورتیں اپنی جہالت میں یہ بجھتی ہیں کہ بہو ایسی آنی چاہئے جس کو ہم جوتی کے نیچے رکھیں اور ہمیشہ اسکوز بر دستی تابع فرمان رکھیں اور وہ صرف خاوند کی خدمت نہ کرے بلکہ خاوند کے باپ کی بھی خدمت کرے، اس کی ماں کی بھی خدمت کرے، اس کی بہنوں کی بھی خدمت کرے اور پھر اس سے آگے قدم بڑھا کر وہ کہتی ہیں کہ بہو کے سارے خاندان کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ نیچے رہیں ، ان کو معلوم رہنا چاہئے اور یہ احساس ہمیشہ ان کے دل میں جاگزیں رہنا چاہئے کہ انہوں نے گر کر ہمیں بیٹی دی ہے اگر ہم نہ چاہتے تو ان کی بیٹی کو قبول نہ کرتے.ہم نہ پوچھتے تو اور کس نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 650 خطبه جمعه ۹/اگست ۱۹۹۱ء پوچھنا تھا.رشتے کے انتظار میں اتنی دیر سے بیٹھے ہوئے تھے.اس لئے ان ساری باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ بیٹی ہی نہیں بلکہ بیٹی کا سارا خاندان بیٹے والے کے خاندان کے سامنے جھک جائے اور اس کے ساتھ پھر دماغ میں مزید مطالبے بھی آجاتے ہیں.بعض مائیں کہتی ہیں کہ ہمارا بیٹا ہے، ماشاء اللہ اچھا تعلیم یافتہ ہے، ڈاکٹر ہے، اس کو ایسی بیٹی ملنی چاہئے جو اس کی ڈاکٹری تعلیم کا کچھ مزید انتظام کرے.یورپ کے سفر کا انتظام کرے.امریکہ کے سفر کا انتظام کرے اور خواہ اس کے ماں باپ اپنی جائیداد بیچیں ، اپنے زیور بیچیں اپنے داماد کے مستقبل کو روشن تر کرنے کے لئے وہ اپنے گھروں کے دیے بجھا دیں لیکن ان کا فرض ہے کہ وہ ایسا ضرور کریں پھر بعض ساسیں یہ تصور جمائے رکھتی ہیں کہ ان کی بہو ایسی آئے جو دولت سے گھر بھر دے.ایک کار بھی لے کر آئے ، فریج بھی لے کر آئے ، جوڑے لائے ، اپنی ساس کے لئے بھی ، اپنی نندوں کے لئے بھی ، ان کے رشتہ داروں کے لئے بھی اور ہم کسی کو بتا تو سکیں کہ کس قسم کی بہو ہمارے گھر آ رہی ہے.اس قسم کی جاہل عورتیں ہیں جو اس دنیا میں بھی نہ صرف اپنی نسل کے لئے بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے جہنم پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور یہی وہ جاہل عورتیں ہیں جو اپنی نسل کو خود جہنم میں جھونکتی ہیں.وہ مائیں جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اُن کے پاؤں تلے جنت ہے وہ یہ مائیں نہیں.یہ وہ مائیں ہیں جو ایسی بدنصیب ہیں کہ جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے جنت کی خوشخبری یا جنت کی تمنا کی لیکن اس کے باوجود ان کی بدبختی ان کے پاؤں تلے سے ان کی اولاد کیلئے جہنم پیدا کرنے کا موجب بن گئی اور سارے معاشرے کو دکھوں سے بھر دیا.ایسے تصور والی عورتیں شاذ کے طور پر نہیں ملتیں بلکہ بڑی بھاری تعداد میں آج دنیا میں موجود ہیں.پاکستان کے اخباروں میں ہندوستان کی بعض مظلوم لڑکیوں کا تو ذکر ملتا ہے جو جہیز نہ ملنے کے نتیجے میں زندہ جلا دی گئیں لیکن پاکستان میں لاکھوں کروڑوں ایسی بدنصیب لڑکیاں ہیں جو زندہ جلا نہیں دی جاتیں تو زندہ درگور کر دی جاتی ہیں.ان کی ساری زندگی جہنم بن جاتی ہے اور ان کے والدین کی بھی تو نیتوں سے دیکھیں کس قدر بڑے فساد واقع ہوتے ہیں اور یہ فسادات پھر آگے بہت سے فسادات پر منتج ہوتے ہیں بعض دفعہ ایسی بچیوں کی طلاقیں ہو جاتی ہیں اور پھر اُن کے بچوں کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر مقدمہ بازیاں شروع ہو جاتی ہیں ،احمدی معاشرے میں تو نہیں مگر غیر احمدی معاشرے میں قتل و غارت تک بات پہنچتی ہے اور مسلسل گھر برباد
خطبات طاہر جلد ۱۰ 651 خطبه جمعه ۹/اگست ۱۹۹۱ء ہورہے ہیں اور مسلسل گھر اس بربادی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں.اس جہنم کا سفر نیت سے شروع ہوا تھا اور نیتوں کی اینٹوں سے یہ سٹرک تعمیر ہوئی اور اسی پر چلتے ہوئے خاندان کے خاندان اور ان کی نسلیں جہنم وارد ہونے کا سفر اختیار کرتی ہیں اور کسی کو ہوش نہیں آتی.پس نیت کا فتور ہے جو سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے.اس نیت کو آپ تقویٰ سے بھر دیں تو یہی زندگی جنت بن جاتی ہے اس کے برعکس بعض مائیں ایسی ہوتی ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، وہ اپنی بہو کے لئے نیک گن چاہتی ہیں.نیک گن سے مراد ہے نیک اخلاق ، دیندار شریف الطبع اور میں جانتا ہوں بہت سی ایسی مائیں ہیں جو پیغام بھیجتی ہیں کہ ہمیں آپ کی کوئی چیز نہیں چاہئے.ہمیں آپ کی بیٹی سے پیار ہے، بہت نیک فطرت ہے ،سعید فطرت ہے ، اچھی ہے ہمارے بیٹے کیلئے بھی اچھی ہوگی ، اپنی اولاد کے لئے بھی اچھی ہوگی.اس لئے آپ جس طرح چاہیں اس بیٹی کو رخصت کر دیں ہمیں اور کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں اور پھر اس بیٹی کو بڑی چاہت کے ساتھ گھر میں لاتے ہیں، چاہت کے ساتھ رکھتے ہیں اس سے ایسا حسن سلوک کرتے ہیں کہ وہ بیٹی ان پر فدا ہونے لگتی ہے.بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں.ایسی ساسیں جن کی بہوئیں ان کو دعائیں دیتی ہیں اور ان کا گھر خدا کے فضل سے جنت نشان بن جاتا ہے.ایسی ہی ایک نیک خاتون ابھی کچھ عرصہ پہلے لاہور میں فوت ہوئیں.ہمارے منیر جاوید صاحب جو جلسہ سالانہ میں بڑی اچھی آواز میں نظم پڑھا کرتے تھے ان کی والدہ ہیں.ان کی بہو مجھے ملنے آئی تو ذکر کرتے ہی اس قدر روئی ، اس قدر اس کی آواز گلو گیر ہوئی کہ منہ سے بات نہیں نکلتی تھی میں حیران تھا کہ ساس فوت ہوئی ہے اور اتنا عرصہ بھی گزر گیا دو یا تین مہینے جتنے بھی تھے.یہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی وہ کیسی ساس تھی.اس نے مجھے ماؤں سے زیادہ پیار دیا ہے اور میری کمزوریوں کو اس طرح نظر انداز کرتی تھی جیسے مجھ میں کوئی کمزوری کبھی تھی ہی نہیں اور اس کی وجہ سے میری ساری زندگی اس کے لئے دعا بن گئی ہے اور میں ہمیشہ اس کو دعاؤں میں یاد رکھوں گی.آپ بھی اس کیلئے دعا کریں.ایسی ساسیں خدا کے فضل سے دنیا میں اور بھی ہیں اور مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے.جب کوئی بہوملاقات کے دوران اپنی ساس کا ذکر کرتی ہے تو محبت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں.ایسے بہت سے واقعات ہیں.جرمنی میں ملاقاتوں کے درمیان بھی ایک بہو لی تو اس سے میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 652 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء نے پوچھا کہ تمہاری ساس کا کیا حال ہے؟ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے.ساس زندہ ہے،اس کی وفات کا صدمہ نہیں تھا بلکہ محبت کی وجہ سے، اس نے کہا آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کیسی احسان کرنے والی ساس ہے.کس طرح اس نے مجھے پیار دیا ہے اس کی برکت ہے کہ ہمارا گھر جنت بن گیا ہے.ایسی ساسیں یقین وہ مائیں ہیں جن کے متعلق حضرت محمد مصطفی اللہ نے خبر دی کہ ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.پس ایک عورت کی نیتوں کا سفر آپ دیکھیں.اس کا پہلا قدم فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے اور میری اولا د نے جہنم کی طرف جانا ہے یا جنت کی طرف جانا ہے.کتنا گہرا ارشاد نبوی ہے.حکمتوں کے سمندر کو ایک کوزے میں بند فرما دیا ہے ساری انسانی زندگی کے تمام نفسیاتی مسائل کو حل فرما دیا جب فرمایا: انما الاعمال بالنیات یا درکھنا تمہارے اعمال تمہاری نیتوں سے تشکیل پائیں گے.اگر تمہاری نیتیں جنت نشان ہوں گی تو تمہارے اعمال جنت نشان بنیں گے، اگر تمہاری نیتوں میں جہنم کی آگ ہوگی تو تمہارے اعمال بھی آگ کی وہ بھٹی بن جائیں گے جوان میں پڑے گا وہ بھی جہنم میں مبتلا ہوگا اور جن کے وہ اعمال ہوں گے وہ بھی اس بھٹی میں جلیں گے.پس نیتوں میں فتور نہ ہونے دیں اور اسی سے ہمارے معاشرے کو جنت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے.پھر اسی طرح والد ہے اُس کی نیتوں کا بھی بہت حد تک دخل ہوتا ہے.بعض والد چاہتے ہیں کہ ایسا رشتہ ملے جس کے نتیجے میں بیٹے کو نوکریاں اچھی مل جائیں، حسب نسب کے خاندانی تعلقات ایسے ہوں کہ اس کے نتیجے میں عزت اور مرتبہ بلند ہو.ایسا رشتہ ملے جس کے نتیجے میں اس کو جرمنی ، انگلستان یا امریکہ میں رہائش نصیب ہو جائے.غرضیکہ کئی قسموں کے نیتوں کے فتور ہیں جو لے کر وہ اپنے خاندان پر اثر انداز ہوتے ہیں.اسی طرح خاوند کی بہنیں یعنی نندیں ہیں وہ بھی اپنا ایک الگ تصور جمائے رکھتی ہیں اور عموماً عورتوں کے تصور میں آنے والی پر حکومت کا تصور شامل رہتا ہے.پھر اس کے برعکس بھی صورت ہے.بعض بیٹیوں کو رخصت کرنے سے پہلے ان کی مائیں ان کی بہنیں ان کے عزیز اُن کے کان میں کئی قسم کی باتیں پھونکتے ہیں.ان کو کہتے ہیں خبر دار ، دب کر نہیں رہنا کوئی ایک بات کرے تو دس جواب دو، ایسی تیسی کوئی تمہارے دوپٹے پر ہاتھ ڈالے تو اس کی چوٹی پر ہاتھ ڈال دو اس طرح دبکے سے رہو کہ شروع سے ہی سارا خاندان تمہارے نیچے لگ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 653 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء جائے اور پھر مسلسل بیٹیوں کو سمجھانے کیلئے کانفرنسز ہوتی ہیں.بیٹیوں کو گھر بلایا جاتا ہے اور ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھو تمہاری ساس نے یہ بات کی تمہاری نند نے یہ بات کی.ایسا فساد ڈالو کہ خاوند ان کی گنتیں پکڑ پکڑ کر اُن کو گھروں سے نکالے اور یا یہ دیکھو کہ خاوند کہیں اپنے ماں باپ پر اپنے بھائیوں پر اپنے عزیزوں پر خرچ تو نہیں کر رہا.اگر وہ کر رہا ہے تو اس کے ہاتھ روکو.یہ تمہاری اولا دکا حق ہے جو وہ دوسروں کو دے رہا ہے.غرضیکہ کئی قسم کی کانفرنسیں ہو رہی ہوتی ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ وہ بیٹی کے لئے جنت نہیں بلکہ جہنم بنارہے ہیں.پس قصور محض ایک طرف کا نہیں.قصور بعض دفعہ دونوں طرف کا اور بعض دفعہ ایک طرف کا ہوتا ہے لیکن ہر دفعہ قصور نیت کا قصور ہوتا ہے اور نیتوں کا جو فتور ہے وہ دنیا میں یا جنت بن کر نکلتا ہے یا جہنم بن کر نکلتا پس اپنے بیاہ شادی کے معاملات کو طے کرنے میں سب سے پہلے اپنی نیتوں کا محاسبہ کرنا چاہئے تبھی قرآن کریم کی ایک آیت جس میں اس مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ع نے نکاح کے موقعہ پر تلاوت کے لئے چنی اور وہ تین آیات جونکاح کے موقعہ پر تلاوت فرمایا کرتے تھے ان میں ایک یہ آیت بھی داخل ہے کہ : يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب: استا۷۲) ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ اے وہ لوگو! جوایمان لائے ہواللہ کا تقویٰ اختیار کرو.وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا اور سیدھی بات کہو.یہاں سچی بات کا محاورہ استعمال نہیں ہوا بلکہ سیدھی بات کا محاورہ استعمال ہوا ہے اور اس پر جہاں تک میں نے غور کیا ہے سوائے اس کے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ جو نیت میں ہے وہ بات بتایا کرو.اس پر پردے ڈھانپ کر بات نہ کیا کرو.دو قسم کے قول ہوتے ہیں.ایک بیچ والا قول ہے.اس میں بعض دفعہ جھوٹ نہ بھی بولا جائے تو بیچ ڈال کر بات کی جاتی ہے اور اگلے کو کچھ مجھ نہیں آتی تو یہ نہیں فرمایا کہ سچ بولو کیونکہ بعض دفعہ سچ بھی ایسا بولا جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں مخاطب صحیح بات کو سمجھ نہیں سکتا اور جنگ کے موقعہ پر اسی قسم کا سچ ہے جسے آنحضرت ﷺ نے خدعہ قرار دیا یعنی اگر وہ جھوٹ ہوتا تو ہرگز انبیاء اس طرز عمل سے کام نہ لیتے.رہتا سچ ہے مگر جنگ کے دوران جائز ہو جاتا ہے اور اس تھوڑے سے بھیس بدلے ہوئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 654 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء سچ کا نام خدعہ ہے یعنی ہے تو سچ مگر اس نے لباس ایسا اوڑھ لیا ہے کہ جس کے نتیجہ میں دوسرے شخص کو غلط خبر ملتی ہے اور اس میں کہنے والے کا قصور نہیں بلکہ اس کی ذہانت کو داد ملتی ہے.ایک موقعہ پر حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے جب غزوہ کی حالت میں تھے یعنی ایک غزوہ کے لئے دشمن سے مٹھ بھیڑ کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو رستے میں ایک ایسا شخص آپ کو ملا جو ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جس کے متعلق خطرہ تھا کہ اگر وہ آپ کی منزل کا رخ بھانپ گیا تو دشمن کو مطلع کر دے گا اور اس کے نتیجہ میں جنگ میں Surprise کا جو Element ہوتا ہے یعنی تعجب کے نتیجہ میں دشمن کو زیر کرنا وہ ہاتھ سے جاتا رہے گا تو اس پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جو سب بچوں سے بڑھ کر سچ بولنے والے اور سب بچوں کے سردار تھے ، آپ نے اس شخص کو مخاطب کر کے ایک جگہ کا راستہ پوچھا اس جگہ جانا نہیں تھا.نہ یہ فرمایا کہ ہم وہاں جانا چاہتے ہیں بلکہ انسان کسی جگہ کا راستہ پوچھ لے.اس میں کوئی جھوٹ نہیں.اس جگہ کا راستہ پوچھا اور آگے گزر گئے ، بعد میں جب صحابہ نے پتہ کیا کہ یہ کیا بات تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو ایک جگہ کا راستہ پوچھا ہے اب اسکا اندازہ ہے وہ چاہے تو یہ اندازہ لگالے والے کہ ہم ادھر جانا چاہتے ہیں اور پھرفتنہ پیدا کرنے کی خاطر دشمن کو بے شک اس کی اطلاع کر دے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تو ذھانت بعض دفعہ سچائی پر ایک لباس اور اوڑھا دیتی ہے اور جنگ کے دوران یہ نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے اور اسے خدعه کہا جاتا ہے مگر بیاہ شادی کے عام تعلقات میں خدا تعالیٰ اس کو بھی پسند نہیں فرما تا بلکہ سختی سے اس سے منع فرماتا ہے اور یہ وہ آیت ہے جس نے اس موضوع کو آپ کے سامنے کھول کر رکھا کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا اے مومنو! تم بیاہ شادی کے لیے ایک دوسرے کی طرف روانہ ہورہے ہو ، رشتے ڈھونڈ رہے ہو، رشتے طے کر رہے ہو، ایک بات یادرکھنا کہ سیدھی بات ( سچی بات نہیں سیدھی بات ) کرنا سیدھی بات جو دل سے اٹھی ہے اور دل تک پہنچے ، اس میں کوئی خم نہ ہو ، کوئی فریب نہ ہو، دل کی بات ہے وہ بعینہ ویسی بیان کر دو.جس قسم کی تمہاری لڑکی ہے اسی قسم کی لڑکی بیان کرو تا کہ دیکھنے والے کو کسی قسم کا دھوکا نہ لگے کہ اس لڑکی میں ایک یہ بھی نقص رہ گیا تھا جو ہمارے سامنے پیش نہیں کیا گیا ، یہی حال لڑکوں کا ہوتا ہے.اس ضمن میں نیتوں کے فتور کا ایک اور بھی تماشہ ہے جوا کثر دیکھنے میں آتا ہے.دونوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 655 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء طرف کے لوگ اس نیت سے جاتے ہیں کہ دوسرے کی کرید کریں اور دونوں طرف کے لوگ اس نیت سے جاتے ہیں کہ وہ اپنی کرید نہ ہونے دیں.اب یہ قول سدید تو در کنار ٹیٹر ھے چلنے کی بد تیرین صورت ہے.لڑکے والے کی رشتہ دار مائیں بہنیں وغیرہ اس نیت سے سفر کرتی ہیں کہ لڑکی کے اندر کوئی پرانی مرض بھی کبھی پیدا ہوئی ہو، کبھی بچپن میں آنکھوں کا میر ہوا ہو یا کوئی ایسی بات ہو تو وہ بھی ہمارے علم میں آجائے تو ہم سنبھال کر رکھیں اور جب چاہیں ان کو طعنہ دے سکیں اور جہاں تک اپنی طرف کا تعلق ہے اس میں ہر بات پر پردہ ڈالا ہوا ہوتا ہے اور اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کئے جاتے ہیں.نہ ادھر قول سدید نہ اُدھر قول سدید اس کے نتیجہ میں کیا ہو گا قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں کھولا.وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ل يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ تم سیدھی بات کروگے تو اعمال کی اصلاح ہوگی ورنہ اعمال کی اصلاح نہیں ہوسکتی ورنہ فساد بڑھتا چلا جائے گا.پس اگر دونوں طرف کچھ کمزوریاں بھی ہوں لیکن اگر بات سیدھی کہی جائے اور صاف اور کھلی کھلی بات کہی جائے تو ان کمزوریوں کے دور ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اور اصلاح کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اگر کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا جائے اور قول سدید سے کام نہ لیا جائے تو اصلاح کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح تو اعتراف کے ساتھ شروع ہوتی ہے.ایک انسان اپنے کسی نقص کا اعتراف کرتا ہے.دیکھتا ہے کہ اس میں وہ کمزوری ہے.اس کے نتیجہ میں اس کے نقص کے اندر شرمندگی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے اگر وہ اس کمزوری کو دوسروں کے سامنے بھی رکھ دیتا ہے تو نہ صرف مزید شرمندگی کا احساس بلکہ یہ ایک ارادہ دل میں پیدا ہو جاتا ہے کہ میں اس کو دور کرنے کی کوشش کروں اب تو غیر بھی اس کے واقف ہو گئے ہیں.پس کچھ لوگ اپنے نقائص کچھ عرصے تک چھپائے پھرتے ہیں، کچھ عرصے کے بعد وہ دکھائی دینے لگتے ہیں تو زیادہ سنجیدگی سے ان کو توجہ پیدا ہو جاتی ہے.میرے پاس کئی قسم کے جلدی مریض آتے ہیں.ایک دفعہ ایک برص کا مریض تھا اس نے مجھے کہا کہ جی ! برص تو ہے لیکن کوئی ایسی بات نہیں کپڑوں کے اندر ہی ہے ناں ، چہرے پر نہیں آئی اور اس کے برعکس ایک مریض کے چہرے پر بالکل چھوٹا سا داغ واقع ہوا ہے اور کوئی مرض کا نشان نہیں تھا لیکن اس بیچارے کی زندگی اس فکر میں اجیرن ہو رہی تھی کہ یہ داغ میرے چہرے پر پڑ گیا ہے تو انسان بنیادی طور پر بہت ہی زیادہ نمائش والا جانور ہے اور بہت زیادہ اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 656 خطبه جمعه ۹/اگست ۱۹۹۱ء نقائص پر پردے ڈالنے والا جانور ہے.اس پہلو سے اگر وہ اپنی کمزوریوں کو چھپالیتا ہے یا سمجھتا ہے کہ چھپی ہوئی ہیں تو اُسے اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوگی جیسا کہ میں نے مریض کا بتایا ہے میں اس کے لئے دوائی تجویز کر رہاتھا لیکن اس نے کہا کہ جی ! کوئی فرق نہیں پڑتا یہ کپڑوں کے نیچے ہی ہے کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں اگر چہرے پر ایک چھوٹا سا داغ بھی آجاتا تو وہ کئی ڈاکٹروں کے گھر پھرتا اور دیکھتا کہ شاید کہیں سے کوئی علاج مل جائے.تو اس لئے اصلاح کے لئے اپنی بیماری کا احساس بھی ضروری ہے کہ اب اس بیماری کا دوسروں کو بھی پتہ لگ رہا ہے یا پتہ لگنے والا ہے اور یہ واقعہ بیاہ شادی کے وقت ضرور ہوتا ہے.اگر کوئی انسان تقویٰ سے کام لینے والا ہو اور اس کی نیت میں یہ بات داخل ہو کہ وہ تین آیات جو اس نکاح کے موقع پر پڑھی گئی تھیں میں ان کا حق ادا کروں گا ورنہ وہ گویا میرے نکاح پر پڑھی ہی نہیں گئیں.اگر ان آیات کو سننے کے بعد ان کا حق ہی ادا نہیں کیا تو کسی کی بلا سے چاہے اس کے نکاح پر پڑھی ہوں یا کسی اور کے نکاح پر پڑھی گئی ہوں اس کے نکاح سے تو ان آیات کا تعلق باقی نہیں رہے گا اور بیروہ مرکزی آیت ہے جس کا ہر شخص کے نکاح سے گہرا تعلق ہے اور اس کی آئندہ زندگی سے گہرا تعلق ہے.پس قول سدید سے کام لینے والوں کے لئے پہلی منزل بہت مشکل ہے.بیاہ میں دلچسپی رکھنے والے ماں باپ جن کی بیٹیاں بڑی ہو رہی ہوں وہ جانتے ہیں کہ کتنا مشکل کام ہے.جب دیکھنے والا آتا ہے اور مختلف حالات کا جائزہ لیتا ہے تو اس وقت ساتھ یہ بتا دینا کہ جی ! میری بیٹی کو یہ بیماری بھی ہے کتنے ماں باپ ہیں جن میں یہ ہمت ہے.پس یہ بہت ہی تلخ قدم ہے جو ان کو اٹھانا پڑتا ہے لیکن متقی ضرور اٹھائے گا اور جو تقویٰ کی بنا پر یہ قدم اٹھاتا ہے خدا اس کا خود کفیل ہو جایا کرتا ہے.اس بات کو لوگ بھلا دیتے ہیں.نصیحۂ پہلا قدم تو تلخ نہیں اٹھاتے لیکن اس کے بعد زندگی کے ہر قدم کو تلخ بنا دیتے ہیں.اس بیٹی کا پھر ہر سفر مصیبتوں اور اذیتوں کا سفر بن جاتا ہے.بار بار ہر طرف سے اس کو طعنے ملتے ہیں کہ تم وہی ہو جس کو یہ دورے پڑتے ہیں تمہیں اس قسم کی بیماریاں ہیں تم تو دھوکے کے ساتھ ہمارے گھر پر پھینک دی گئی ہو.ہم تو کبھی تمہارے منہ کی طرف بھی نہ دیکھتے اگر ہمیں یہ پتہ ہوتا کہ تم اس بیاری میں مبتلا ہو لیکن جو شخص خدا پر تو کل کرتے ہوئے ، یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر خصوصیت کے ساتھ قول سدید سے کام لینا ہے.قول سدید سے کام لینے کی نیت کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 657 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ میں میں بیماریوں کو بھی داخل کرتا ہوں کیونکہ خدا کی خاطر جہاں نیک نیتی کے ساتھ قول سدید سے کام لیا گیا ہے وہاں ایک مریضہ کی بیماری بھی اس میں داخل ہوگئی ہے، ایک مریض کی بیماری بھی اس میں داخل ہوگئی ہے تو میرے نزدیک اصلاح کا یہ وعدہ تو صرف ظاہری اعمال سے نہیں بلکہ بیماریوں اور ہر قسم کے اور عوارض سے بھی ہے.پس میں سب احمدی گھرانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ شادی کے وقت وہ ہر گز اس لالچ میں کہ کہیں یہ دیکھنے والا بھاگ نہ جائے اپنی بیٹی یا اپنے بیٹے کے عیوب کو چھپائیں نہیں بلکہ خود بتائیں کہ یہ کمزوریاں ہیں.اس کے بعد اگر کوئی قبول کرتا ہے تو بسم اللہ اور اسکے بعد قبول کرنے والا پھر خود کم سے کم اتنی عقل تو رکھتا ہوگا کہ اس چیز پر کسی کو طعنے نہ دے.عام طور پر بیماریاں اور تکلیفیں جاننے کے بعد پھر جو قبول کرتے ہیں وہ بڑے حو صلے والے لوگ ہوتے ہیں اور خدا کے فضل کے ساتھ ان کو حسن سلوک کی بھی توفیق ملتی ہے.چنانچہ میرے علم میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے بیماریاں دیکھیں، ان کو پتہ تھا کہ جو بہو گھر میں آنے والی ہے وہ کس کس عارضے میں مبتلا رہی ہے یا مبتلا ہے.اس کے باوجود بعضوں نے خود مجھ سے ذکر کیا کہ ہماری بیٹیاں نہیں بیمار ہوتیں.یہ اللہ کی مرضی ہے جس کو چاہے بیمار بنادے جس کو چاہے شفا عطا کرے تو بچی اچھی ہے.نیک فطرت ہے.ہمیں منظور ہے اور آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ خدا کے فضل سے خدا تعالیٰ کے ایسے نیک اور پارسا بندے بھی موجود ہیں جو تقویٰ کی بناء پر بیاہ شادی کے فیصلے کرتے ہیں.پھر جہاں تک دولہا اور دلہن کی نیتوں کا تعلق ہے اس میں بہت سے فتور واقع ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سی ایسی نیتیں بھی ہیں جو پاک اور شفاف رہتی ہیں.بعض دولہا شکلوں کے پیچھے مرتے پھرتے ہیں کہ شکل ہوئی تو ٹھیک ہے.پھر ہماری زندگی جنت بنے گی حالانکہ ان کو پتہ نہیں کہ شکلیں تو صرف لباس ہیں.بعض لباسوں میں نہایت منحوس لوگ قید ہوئے ہوتے ہیں.بعض خوبصورت شکلوں کے اندر ڈائنیں بستی ہیں اور اس کے برعکس بعض بدزیب پنجروں میں بند بڑے بڑے خوبصورت پرندے دیکھے گئے ہیں تو حقیقت میں دین ہی ہے جس کو فیصلے میں سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے اور حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ نے لفظ دین رکھا ہے جو ایک بہت ہی وسیع لفظ ہے.دین میں صرف مذہب شامل نہیں بلکہ مزاج ، عادات ، طرز زندگی وغیرہ سب کچھ دین کے اندر داخل ہو جاتا ہے.پس ایسا کفوڈ ھونڈنا چاہئے جس میں ایک اچھے مزاج کی نیک فطرت ، پاک فطرت عورت ہو یا اسی طرح
خطبات طاہر جلد ۱۰ 658 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء خاوند میں بجائے اس کے کہ دنیا کی وجاہتیں تلاش کی جائیں اگر یہ دیکھا جائے کہ نیک مزاج ہو، حلیم طبع ہو، شریف النفس ہو، پیار کرنے والا ہو، دوسرے کی خوبیوں کی قدر کرنے والا ہو، دوسرے کی بدیوں سے صرف نظر کرنے والا ہو حو صلے والا انسان ہو تو خواہ وہ نسبتا غریب بھی ہو یا آغاز میں غریب بھی ہو تو ایسے شخص کے ساتھ لڑکی کو رخصت کرنا لڑکی کو جنت کے سپر د کر نے والی بات ہوا کرتی ہے اور اگر اس وقت نہیں تو کچھ عرصے کے بعد خدا تعالیٰ ان کے مالی حالات بھی درست فرما دیا کرتا ہے اور بہت سی برکتوں سے ایسے گھروں کو بھر دیتا ہے جہاں تک ظاہری شکل کے پیچھے چلنے والے یا ظاہری شکلوں کو معیار بنانے والے نو جوانوں کا تعلق ہے ان کا شکل کو اتنی اہمیت دینا اُن کے لئے بعد میں مزید اور مسائل پیدا کر دیتا ہے کیونکہ لڑکی کی شکل ہمیشہ ویسی نہیں رہا کرتی اور کچھ دیر کے بعد ایک شکل کو دیکھ دیکھ کر اس سے دل بھی بھر نے لگ جاتا ہے.بیاہ سے پہلے کی دکھائی ہوئی شکل اور چیز ہے اور بیاہ کے چند مہینے کے بعد یا حمل کی حالت میں اسی بیوی کو ، اسی شکل کو دیکھنا یہ بالکل اور نظارہ ہے اور شکل کی تمنا اُن کے اوپر ایسی غالب ہوتی ہے کہ وہ باہر شکلیں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ان کے گھر برباد ہو جاتے ہیں.یہ ناممکن ہے کہ شکل کے ساتھ وفا پیدا ہو سکے.وفا ہمیشہ گنوں سے ہوتی ہے.وفا ہمیشہ حسن اخلاق سے پیدا ہوتی ہے خالی صورت سے کوئی وفا نہیں پیدا ہوتی.ایک بزرگ کے متعلق قصہ آپ نے بھی سنا ہے.میں آپ کو سنا چکا ہوں لیکن شاید بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو نہ سُن سکے ہوں.وہ قصہ اس صورتحال پر خوب اطلاق پاتا ہے.ایک بزرگ کی بیٹی سے کسی کو محبت ہو گئی اور وہ شخص ایسا تھا جس کے متعلق ان کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ اچھا نہیں ہے اس لئے وہ کسی قیمت پر بھی اپنی بیٹی کو اس کے ساتھ رخصت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور وہ پیچھا نہیں چھوڑتا تھا.بار بار خط لکھتا تھا، پیغام بھیجتا تھا.کہتا تھا میں تو ایسا آپ کی بیٹی پر عاشق ہوں کہ اس کے بغیر میری زندگی نہیں گزر سکتی، میں تو ختم ہو جاؤں گا اس لئے مجھ پر رحم کریں لیکن وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک صاحب حکمت بزرگ تھے.وہ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے.اس کو شکل سے پیار ہے اس کو عادتوں یا مزاج سے کوئی تعلق نہیں ہے.چنانچہ انہوں نے آخر تنگ آکر اس کو دو یا تین ہفتے کا کہا کہ اچھا تم اس عرصے میں آکر اپنی بیوی کو ساتھ لے جانا، میں تیار ہوں.خیر وہ بہت خوش ہوا اور دو تین ہفتے کے بعد جب وہ آیا تو اس نے دیکھا کہ وہی لڑکی سوکھ کر کانٹا ہوئی ہوئی اور اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 659 خطبه جمعه ۹ راگست ۱۹۹۱ء بال جھڑے ہوئے ، اس کے ہوش و حواس غائب ہوئے ہوئے ، اپنی پرانی شکل وصورت کا ایک پنجر بنی ہوئی تھی تو اس نے حیرت سے کہا کہ یہ لڑکی؟ اس کے ساتھ تو میں نے شادی کرنی نہیں چاہی تھی.انہوں نے کہا بالکل وہی چیز ہے صرف یہ ہے کہ اس کے بال میں نے Shave کر دیئے ہیں اور اتر وادیئے ہیں اس لئے گنجا سر تمہیں نظر آ رہا ہے اور اس کو میں نے اتنے لمبے عرصے تک جلاب دیئے ہیں تا کہ اس کا بدن گھل جائے لیکن بال بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں اور جلاب میں جو کچھ نکلا وہ بھی محفوظ رکھا ہوا ہے اس کی بالٹیاں بھی تیار ہیں.یہی سب کچھ ہے جس سے تمہیں محبت تھی.اس میں کوئی چیز میں نے کم نہیں کی.پس یہ بالٹیاں اٹھاؤ، یہ بال اٹھاؤ اور یہ لڑکی لو اور اپنے گھر روانہ ہو جاؤ تب اس کی آنکھیں کھلیں کہ دنیا کے عارضی حسن کی محبت کیا حقیقت رکھتی ہے.اس بزرگ نے تو عملاً اس پر یہ ثابت کرنے کا یہ ذریعہ اختیار کیا کہ ظاہری حسن سے اگر تمہیں محبت ہے تو تم اگر قسمیں کھا کر بھی کہو کہ تم وفا کرو گے تو ہم جانتے ہیں کہ تم کر بھی تو حسن وفا نہیں کرے گا.جس سے تمہیں پیار ہے اگر اس میں ہی وفا نہ ہو تو تمہارا تعلق کیسے ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کئی رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہے کئی حادثے ہو جاتے ہیں.کئی طرح سے شکلیں ضائع ہو جاتی ہیں یا بعض شکلیں ایسی ہوتی ہیں جو جوانی میں خوبصورت لگتی ہیں لیکن عمر کے ساتھ ساتھ زیادہ بھیانک ہونے لگ جاتی ہیں بعض جسم ایسے ہوتے ہیں جو کنوار پن میں خوبصورت دکھائی دیتے ہیں مگر شادی کے بعد وہ بگڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور بعض خاندانی مزاج ہیں جو ان باتوں کو طے کرتے ہیں تو شکل اور جسم کو بیاہ شادی کے موقعہ پر خدا بنالیتا اور یہ سمجھنا کہ اس کے بغیر گزارا نہیں یہ بالکل جھوٹ ہے.ایسے خدا ہمیشہ ان عبادت کرنے والوں سے بے وفائی کرتے ہیں لیکن جو لوگ دین کو اپناتے ہیں خدا کی خاطر حسن خلق کی تلاش میں رہتے ہیں، نیکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں.نیکیوں کے متعلق قرآن کریم نے وَالْبقِيتُ الصّلِحُتُ (الکہف:۴۷) فرمایا کہ نیکی کی تعریف میں ہمیشہ رہنا شامل ہے وہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے اور حسن خلق اگر وہ سچا ہواور خدا تعالیٰ کی محبت میں اس کی بنیاد ہو تو ایسا حسن خلق جامد نہیں ہوا کرتا بلکہ ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأولی (اضحی : آیت ۵) تیرا کوئی دن بھی ایسا نہیں جو تجھے حسین تر نہ بنارہا ہو.لوگ بڑھاپے کی طرف حرکت کرتے ہیں تو جسم بالآخر اپنے سارے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 660 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء حسن کھو بیٹھتا ہے یہاں تک کہ دماغی نشو ونما بھی چلتے چلتے رک جاتی ہے اور پھر رو بہ انحطاط ہو جایا کرتی ہے.ارذل العمر تک بھی لوگ پہنچ جاتے ہیں لیکن حسن خلق اور نیکی کا حسن ایسا ہے جو نہ صرف جوان رہتا ہے بلکہ اس کی جوانی میں ہمیشہ نئے رنگ بھرتے رہتے ہیں.پہلے سے زیادہ دلکش ہوتا چلا جاتا ہے تو اس لئے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ ساری باتیں تمہارے سامنے خوبصورت لباس اوڑھ کر آئیں گی کہ ہمیں چن لو کبھی تمہیں حسب نسب دکھائی دے گا کہ ہاں حسب نسب ہو تو رشتے اچھے ہوں گے اور کبھی تمہیں مال دکھائی دے گا کہ ہاں مال ہو تو پھر رشتے اچھے ہوں گے.کبھی بڑے مرتبے اور نوکریاں دکھائی دیں گی.کبھی حسن تمہارے سامنے اپنا جلوہ دکھائے گا اور تمہاری آنکھوں کو خیرہ کرے گا مگر یہ ساری چیزیں عارضی اور فانی اور بے حقیقت ہیں.جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ دین ہے حسن خلق ہے.حسن سیرت ہے اگر اس کو تم اپناؤ گے تو تمہاری شادیاں کبھی نا کام نہیں ہونگی لیکن جوان کو بہتر سمجھتے ہیں اُن کی ناکام نہیں ہوتیں اور اس کا تعلق نیت سے ہے.ایک ہی شخص اگر اپنی نیت میں دین کو داخل کرتا ہو اور دین کو اہمیت دیتا ہو تو اس کا رشتہ ہمیشہ بہتر ہوتا چلا جائے گا.یعنی نکاح کے بعد، رخصتانے کے بعد، بچوں کے بعد جسم انحطاط بھی کر رہے ہوں گے لیکن جس کی نیت میں یہ بات داخل ہو کہ مجھے حسن فطرت چاہئے اس کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت میں بڑھتارہے گا اور بیوی اس کی محبت میں بڑھتی رہے گی کیونکہ حسن فطرت ترقی کیا کرتا ہے، حسن خلق ترقی کیا کرتا ہے وہ حسن فطرت اور وہ حسن خلق جس کی بنیاد خدا کی محبت میں ہو وہ ہمیشہ ترقی پذیر رہتے ہیں لیکن جس کی نیت میں شروع سے ہی مال ہو یا اور باتیں ہوں اس کیلئے یہ دین بجائے خوشی پیدا کر نے کے مصیبت بن جائے گا.اس کے لئے ایک سوہان روح ہو جائے گا اور اس کو دین کوئی فائدہ نہیں دے گا اس لئے دین فی ذاتہ خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جب تک چاہنے والے کی نیت میں دین نہ ہواس وقت تک باہر سے ملا ہوا دین اس کو کوئی فائدہ نہیں دیا کرتا.پس آخری تان پھر اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ انما الاعمال بالنیات جو باہر سے چیز نظر آرہی ہے اس کی خواہ کوئی بھی اہمیت ہو عقلاً آپ ثابت کر دیں کہ فلاں چیز بہتر ہے جب تک سفر کرنے والے کی نیت میں وہ چیز داخل نہ ہو اس کا مطلوب نہ بنی ہو اس وقت تک اس کو کوئی فائدہ نہیں دے گی چنانچہ بعض عورتیں بیچاریاں ایسی ہیں جو بہت ہی خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں لیکن ساری زندگی یوں محسوس کرتی ہیں کہ وہ ایک لالہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 661 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء صحرا ہیں.صحرا میں کھلنے والا لالے کا پھول ہیں جس کو کسی نے دیکھا ہی نہیں.خاوند موجود ہے ساس موجود ہے دوسرا گھر بھرا پڑا ہے لیکن اس کی خوبیوں پر نظر ہی کوئی نہیں گویاوہ موجود ہی نہیں ہیں اور سخت محرومی کا شکار رہتی ہے.اسی طرح بیچارے وہ مرد ہیں جو بڑی خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں لیکن جس گھر میں شادی کرتے ہیں وہ دنیا دار ہے.اُن کے نزدیک ان چیزوں کی اہمیت ہی کوئی نہیں ہے کہ کوئی دیندار ہے، کوئی نیک فطرت ہے، کوئی قدر شناس ہے.وہ یہ دیکھتے ہیں کہ دنیاوی لحاظ سے یہ چالاک ہے کہ نہیں سمارٹ نظر آنے والا ہے کہ نہیں ، فیشن پرست ہے کہ نہیں ،سوسائٹی میں جاتا ہے کہ نہیں سیاستدان ہے کہ نہیں.اس قسم کی چیزوں میں ان کو دلچپسی ہوتی ہے چنانچہ ایسا مرد بیچارا یوں لگتا ہے جیسے نہ صرف یہ کہ صحرا میں کھلا ہوا لالہ ہے بلکہ بھینسوں میں گھرا ہوالالہ بن جاتا ہے.کوئی قدر نہیں وہ اپنی بد بو سے لالے کی خوشبو پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہیں.چنانچہ آپ کی زندگی کی کامیابی کا آخری فیصلہ نیت پر ہی ہوگا اور پہلا فیصلہ ہے جس نے آخری فیصلہ بننا ہے.بہت سے خطوط میں میرے سامنے یہ واقعات پیش ہوتے رہتے ہیں.ایک ایسا خاندان ہے جس کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں.ماں نے بھی مجھے خط لکھا اُس کے بیٹے نے خود بھی خط لکھا کہ ہماری زندگی عجیب اجیرن بن گئی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیا کریں.بڑی چاہت سے ایک لڑکی کو گھر لائے تھے اس خیال سے کہ بزرگوں کی اولاد ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی اولاد ہے اور ایسا خاندان ہے جو جماعت میں معروف ہے لیکن لڑکی ایسی دنیا پرست ہے کہ جب بھی میں دین کی خاطر قربانی کرنے کی کوشش کرتا ہوں.کوئی چندہ دینے کی کوشش کرتا ہوں تو گھر میں ایک جہنم بن جاتی ہے یوں لگتا ہے کہ گھر میں سکون کو آگ لگا دی گئی ہے بچوں کے سامنے بولتی ، گند بکواس کرتی.ہر وقت یہ طعنے دیتی کہ مولویوں کے پلے میں کہاں پڑ گئی.نہ عقل نہ سمجھ.اپنے بچوں کی بھلائی اپنے ہاتھوں سے جماعت کے نام پر پھینکتے چلے جارہے ہو اور پتہ ہی کوئی نہیں کہ اپنا بھی کوئی حق ہے وہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جو کچھ خدا نے دنیا کی نعمتیں مجھے دی تھیں وہ ساری میں نے اپنی اولادکو بھی دیں.اپنی بیوی کو بھی دیں ان کے لئے کبھی کوئی کمی نہیں رکھی ، اس کے باوجود دل کی خساست کا یہ حال ہے اور دنیا داری کا یہ حال ہے کہ دین کی خاطر معمولی قربانی بھی گوارا نہیں تو چونکہ یہاں دھوکا ہوا ہے.اس بیچارے کا نیت کا سفر درست تھا لیکن اس کے باوجود چونکہ ایک انسانی فیصلہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 662 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء غلط بھی ہو سکتا ہے.کچھ چھپانے والے چھپالیتے ہیں اس لئے دوسرے کی نیت کا فتوران بیچاروں کے لئے جہنم بن گیا.تبھی قرآن کریم کی وہ آیات جو نکاح کے موقعہ پر تلاوت کی جاتی ہیں وہاں تقویٰ کی تکرار پائی جاتی ہے ایک کا تقویٰ کافی نہیں ہو گا تم دونوں کے لئے ضروری ہے کہ تقویٰ اختیار کرو ورنہ ممکن ہے کہ ایک طرف کا تقویٰ ضائع چلا جائے کیونکہ دوسرا فریق تقوی اختیار نہیں کرتا اور ایک کے ظلم کے نتیجے میں دوسرا فریق بھی مظلوم ہو جائے گا.پس ایسے واقعات بھی دنیا میں ہوتے ہیں لیکن ان کا ایک ہی حل ہے اور وہ حل حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی اور آپ نے ہمیں اس مسئلے اور اس کے حل سے مطلع فرمایا.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ سنت تھی کہ آپ جب خانہ کعبہ آباد ہو گیا اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کا گھر آباد ہوا اور وہاں بڑی رونق ہوئی تو آپ اس عرصہ میں کئی بار دوبارہ وہاں تشریف لائے اور وہاں جا کر آپ حالات کا جائزہ لیا کرتے تھے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب آپ وہاں تشریف لائے تو حضرت اسماعیل موجود نہیں تھے.آپ نے ان کی بیوی سے گفتگو کی اور یہ معلوم کیا کہ بیوی نہ مہمان نواز ہے نہ اور اخلاق سے آراستہ ہے بلکہ ایک ایسی قسم کی چیز ہے جو اسماعیل کی شایان شان نہیں.چنانچہ انہوں نے چونکہ جلدی جانا تھا اور حضرت اسماعیل کسی لمبے سفر پر گئے ہوئے تھے اس لئے بیوی کو یہ کہا کہ جب تمہارا میاں واپس لوٹے تو اس کو کہنا کہ تمہارا باپ آیا تھا اور یہ نصیحت کر گیا ہے کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دو.چنانچہ حضرت اسماعیل نے جب یہ بات سنی تو فوراً اس بیوی کو طلاق دی اور کہا کہ میرے باپ نے جو نصیحت کی ہے وہ برحق ہے اور اس کے بعد پھر دوسری شادی کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسی نیک اور پارسا خاتون تھیں کہ اس کے نتیجہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی اعے بھی بعد ازاں اسی کی صلب سے پیدا ہوئے تو دیکھیں کہ اچھی اور نیک بیوی کو کتنی اہمیت حاصل ہے.اگر اس وقت کوئی یہ اعتراض کرتا کہ دیکھیں حضرت ابراہیم کو کیا حق تھا کہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے اور بیٹے کے گھر کو برباد کر کے وہاں طلاق واقع کروا دیتے تو اس جاہل کو یہ پتا نہیں کہ جو اصل اللہ ہوتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کے نور سے روشن ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے فراست پاتے ہیں.ان کو پتا ہے کہ کس چیز کو اہمیت دینی ہے اور کونسی دوسری چیزیں بے معنی اور حقیر ہیں.آپ جانتے تھے کہ حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 663 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء اسماعیل کو ایک بہت بڑا مرتبہ عطا ہوا ہے، ان کی نسل سے آئندہ زمانے کے سارے انسانوں کی نجات وابستہ ہے اور یہ وہ ماں نہیں ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.پس اگر وہ فیصلہ نہ کرتے تو گویا دنیا کے لئے جہنم کا فیصلہ کر رہے ہوتے لیکن آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بیٹے کو ویسی بیوی ملنی چاہئے جو آئندہ نسلوں کے لئے وہ ماں بنے جن کے پاؤں کے نیچے سے جنت کے چشمے پھوٹ پڑیں چنانچہ آنحضرت کی صورت میں جو واقعہ رونما ہوا اور آپ کے فیض سے دنیا پر جنت کے جو سیلاب آگئے یہاں تک کہ قلزم بھر گئے ، جولق دوق صحرا تھے وہ روحانی لحاظ سے سمندروں میں تبدیل ہو گئے تو دراصل اس فیصلے کو اس فیض میں ایک دخل حاصل ہے.کتنا گہرا فیصلہ تھا ایک چھوٹا سا پیغام تھا کہ چوکھٹ بدل دو.تو جو خاوند پر نظر رکھتے ہیں جو خاوند یہ بھی جانتے ہیں کہ ان ہی آیات میں جو نکاح کے موقعہ پر تلاوت کی جاتی ہیں ایک یہ بھی ہے کہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (سورة الحشر : ۱۹) خبردار! جو کچھ تم آگے بھیجو گے اس کے بارہ میں جوابدہ ہو گے.اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ اگر میں نے اس آیت کے مضمون کو بھلا دیا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے آگے جہنم بھیج رہا ہوں تو میں خدا کو کیسے جواب دوں گا؟ تو یقیناً حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے فیصلے کی اہمیت اس پر خوب روشن ہو کر ابھرے گی.ایسے موقع پر اگر وہ کامل سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایک بے دین بیوی کو اپنے گھر رکھ کر اپنی اولادوں کے لئے میں جہنم پیدا نہیں کر سکتا اور اس کو صاف کہنے پر تیار ہو جاتا ہے اور یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرے گی میں اب بے دینی برداشت نہیں کروں گا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اکثر بیویوں کی اصلاح بھی ہو جائے گی کیونکہ ایسی ہی بیویاں شوخیاں دکھاتی ہیں جو یہ سمجھتیں ہیں کہ خاوند کمزور ہے.وہ مجھتی ہیں کہ خاوند دین کی باتیں تو کر رہا ہے مگر دین کو اتنی اہمیت نہیں دیتا کہ مجھ سے جدا ہو جائے اور اپنے لئے دوبارہ تنہائی کی ایک زندگی اختیار کرلے لیکن عزم کی بات ہے.اہمیت کی بات ہے.اگر خاوند کی نیت جیسا کہ اُس نے لکھا واقعہ دین کی تھی تو اتنے عرصہ سے وہ دیکھ رہا ہے کہ دین نصیب نہیں ہورہا بلکہ دین کے برعکس صورت حال ہے تو پھر وہ خود قصور وار ہے.اس کا مطلب ہے کہ اس کی نیت میں اگر چہ دین کا ایک خیال شامل تو تھا مگر وہ محض ایک سرسری خیال تھا.اُسے بنیادی حیثیت حاصل نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انما الاعمال بالنیات یہاں نیت کو بنیاد کے طور پر پیش فرمایا ہے، ایک سرسری خیال
خطبات طاہر جلد ۱۰ 664 خطبه جمعه ۹ /اگست ۱۹۹۱ء کے طور پر نہیں.پس ان سب باتوں پر غور کرتے ہوئے آپ جب تقوی کے مضمون کو اپنی روزمرہ کی زندگی پر جاری کر کے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک سادہ سے بیان میں کتنی پر پیچ با تیں بھی بیان ہو چکی ہیں اور تان اسی بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ انما الاعمال بالنیات اور اس کی بہترین تصویر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمائی کہ ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے اور جب آپ نے یہ کہا تو الہامی مصرعہ اس کے بعد یہ ہوا جو اس شعر کا دوسرا مصرعہ بن گیا کہ اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس جڑ کی حفاظت کرو.اس کی خاطر ہر دوسری چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور یقین رکھو کہ تمہیں سب کچھ پل گیا.خدا کرے کہ ان ہی بنیادوں پر ہم اپنے آئندہ معاشرے کی تعمیر کریں اور آئندہ آنے والی نسلیں صرف سو سال نہیں ہزاروں سال تک ان نعمتوں سے حصہ پائیں اور ہماری شکر گزار رہیں اور ہمیں دعائیں دیں اور اللہ تعالیٰ اس فیض کو ہمیشہ ہمارے لئے اور ہماری اولادوں کے حق میں جاری رکھے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(آمین) خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے ارشادفرمایا: جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہوگا کہ جلسہ کے مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے یہاں چونکہ ظہر کے وقت بہت زیادہ لوگ باہر سے آتے تھے اور ان میں سے بہتوں کے لئے عصر تک ٹھہر ناممکن نہیں تھا اس لئے نمازیں جمع کی جاتی رہیں لیکن اب چونکہ مہمانوں کی تعداد میں کمی آچکی ہے اور دوسرے لمبے عرصہ تک ظہر وعصر کی نمازیں جمع کرنے پر دل میں ویسے بھی بوجھ پڑتا ہے کیونکہ دن لمبے ہیں اس لئے کل سے انشاء اللہ تعالیٰ ظہر وعصر کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا ہوں گی.ظہر کی نماز دو بجے اور عصر کی نماز پانچ بجے ادا ہو گی لیکن رات چونکہ ابھی نسبتاً چھوٹی ہے اور مہمانوں کو دور دور جگہوں پر واپس جانے میں بہت تکلیف ہوتی ہے اور بعض دفعہ سواریاں بھی میسر نہیں آتیں اس لئے رات کے وقت مغرب و عشاء کی نمازیں سر دست کچھ عرصہ تک جمع ہوتی رہیں گی.اور جب میں حالات کا جائزہ لے کر مناسب سمجھوں گا اس وقت دوبارہ اعلان کر دوں گا کہ وہ بھی پھر اپنے اپنے وقت پر الگ الگ ادا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 665 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء نعوذ بالله من شرور انفسنا کی دعانفس کی برائیوں سے بچاتی ہے.دوست اپنی نیتوں کے فتور دور کریں.جلسہ سالانہ پر تجارت کرنے کی نیت سے شامل نہ ہوں.خطبه جمعه فرموده ۶اراگست ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: جس طرح تقویٰ کی جڑ نظر سے پوشیدہ رہتی ہے اسی طرح ہر بدی کی جڑ بھی نظر سے پوشیدہ رہتی ہے لیکن ایک فرق ہے جڑیں تو سب پوشیدہ ہی رہا کرتی ہیں یہ درخت اور تنے ہیں اور پھول، پھل اور پتے ہیں ٹہنیاں ہیں جو دکھائی دیتے ہیں لیکن ان دونوں میں ایک فرق ہے تقویٰ کی جڑ غیروں سے پوشیدہ رہتی ہے اور انسان اس جڑ سے آگاہ ہوتا ہے اور اسی پر اس کی بناء ہوتی ہے اور بدیوں کی جڑ خود اپنے نفس سے پوشیدہ رہتی ہے اور غیر اس پر اطلاع پاتے رہتے ہیں.پس یہ ایک نمایاں فرق ہے جسے سمجھنے کے بعد انسان اپنے اعمال کو مختلف بدیوں سے پاک کرسکتا ہے اور مختلف خوبیوں سے زینت بھی بخش سکتا ہے.اس سے پہلے میں نے اسی موضوع پر ایک خطبہ دیا تھا.اب میں اس مضمون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اکثر انسان خواہ وہ نیکی کے کسی مقام پر بھی ہوں ضرور اپنی کچھ بد حالتوں سے ناواقف رہتے ہیں اور سب سے بڑا فتور نیتوں کا فتور ہے.نیتیں ہی وہ جڑیں ہیں جن پر نیکی کے پھل بھی لگتے ہیں اور بدیوں کے پھل بھی لگتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 666 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء اور انسان اپنی نیتوں پر طرح طرح کے پر دے ڈالتا ہے اور ان کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ بسا اوقات خود اپنی نیتوں سے غافل ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے جہاں شیطان کے حملوں کا ذکر فرمایا وہاں ہمیں متنبہ فرمایا کہ: إِنَّهُ يَريكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيْطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف: (۲۸) کہ دیکھو! شیطان اور اس کے قبیلے تمہیں ایسی جگہوں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھتے.امر واقعہ یہ ہے کہ انسانی نیتوں پر اس آیت کا بہترین اطلاق ہوتا ہے انسان اگر اپنی نیتوں کو دیکھنے لگ جائے تو گویا بد نیتوں کو دیکھنے سے وہ شیطان کو دیکھنے لگ گیا.درحقیقت ہر انسان میں چھپے ہوئے شیاطین کا ذکر ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا جارہا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کے شیطان سے غافل ہوتا ہے اور دوسروں کے شیطان کو دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات دوسرے کی نیتوں پر بھی حملے کی جسارت کرتا ہے اس لئے وہ شیطان جو پوشیدہ ہے وہ اپنے نفس کا ہی شیطان ہے دوسروں کے نفس کے شیطان تو نہ صرف یہ کہ دوسروں پر پوشیدہ نہیں رہتے بلکہ انسان فرضی شیطان گھر کر بھی ان کی طرف منسوب کرتا رہتا ہے اسی لئے غیروں کے معاملہ میں بدظنی سے بچنے کا حکم آیا ہے کیونکہ وہاں انسانی فطرت کا رجحان یہ ہے کہ شیطان کہیں ہو یا نہ ہوشیطان بنا کرکسی کے سپر د کر دیا جائے اور اس کے سر پر تھوپ دیا جائے.پس وہ شیطان تو بہر حال خطرناک نہیں ہے جو دکھائی دے رہا ہے یا دکھائی دے نہیں سکتا کیونکہ موجود ہی نہیں.پس قرآن کریم نے جہاں ان شیاطین کا ذکر کیا ہے کہ إِنَّهُ يُريكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ کہ دیکھو وہ تمہیں ایسی جگہوں سے دیکھ رہا ہے جہاں سے تم اس کو نہیں دیکھ رہے.وہ اور اس کے قبیلے اس سے ملتی جلتی چیزیں ، اس کے ہمنوا، اس کے ساتھ چلنے والے اس کے موید یہ بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتے.پس اگر آپ اپنے نفس میں ڈوب کر غور کریں تو اگر انسان کو نیکی سے ذرا بھی محبت ہو تو بے اختیار دل سے یہ دعا اٹھے گی کہ نعوذ بالله من شرور انفسنا کہ اللہ سے ، اپنے رب سے ہم اپنے نفس کے شرور سے پناہ مانگتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو اس دعا کی طرف توجہ کرتے ہیں.ہمیشہ غیروں کے شر سے بچنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 667 خطبہ جمعہ ۶اراگست ۱۹۹۱ء اور لکھتے بھی یہی ہیں کہ دشمنوں کے شر سے بچانے کیلئے ہماری مدد کریں د، عاکریں اللہ شریکے کے شر سے بچائے ،فلاں کے شر سے بچائے اور فلاں کے شر سے بچائے لیکن جس شر سے بچنے کے لئے خدا نے سب سے زیادہ متنبہ فرمایا ہے اس کے شر سے بچنے کی طرف توجہ ہی پیدا نہیں ہوتی.اس مضمون کا آپ زندگی کے ہر شعبے پر اطلاق کر کے دیکھیں تو اس قدر اس مضمون میں وسعت ہے اور اس تفصیل کے ساتھ انسانی نیتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ اگر انسان یہ سفر شروع کرے اور یہ تلاش شروع کرے تو ساری زندگی کا سفر ہوگا اور پھر بھی مکمل طور پر طے نہیں ہوسکتا لیکن یہ سفر اندرونی سفر ہے بیرونی سفر کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے غیروں کی شیطانیوں اور شرارتوں کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو آپ نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں.ہاں بعض حالتوں میں وہ مخفی بھی رہتی ہیں لیکن ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے الگ دعائیں سکھا رکھی ہیں لیکن جس حصے سے اکثر غفلت برتی جاتی ہے وہ اپنا نفس ہے اب اس میں آپ نیتوں کی مثالیں ایک ایک کر کے چنیں اور پھر اس پر غور کریں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ کسی حد تک انسانی نیتوں کے فتور اس کی ساری زندگی پر اثر انداز ہو جاتے ہیں.میں نے آپ کو ایک مثال شادی بیاہ کے تعلق میں دی تھی کہ بیاہ شادی کے وقت بھی انسان ایسی نیتوں کے فتور لے کر چلتا ہے جس کا میاں بیوی کی زندگی پر ، دونوں خاندانوں کے تعلقات پر، آئندہ نسلوں پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے.انگلستان میں ہمیں بارہا اس کا اس طرح تجربہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات باہر سے رشتوں کی تلاش والے آتے ہیں یا مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کے لئے انگلستان میں یا امریکہ میں یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں رشتہ ڈھونڈ دیں جب میں انہیں اچھا رشتہ بتا تا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ ہمارے بیٹے کو نیشنلٹی Nationality نہیں مل سکے گی کیونکہ آپ نے جس لڑکی کا ذکر کیا ہے وہ اگر چہ انگلستان میں رہتی ہے لیکن پاکستانی نیشنلٹی کی ہے یا فلاں نیشنلٹی کی ہے.ہمیں تو وہ چاہئے جس کے ذریعہ ہمارے بیٹے کو وہاں کی نیشنلٹی مل سکے تو رشتے کا خیال دل میں پیدا ہوا ہے اور تلاش کرنے نکلے ہیں مگر دل کی گہرائی میں نیت میں فتور آ چکا ہے اچھی لڑکی پیش نظر نہیں ہے، اچھے خاندان پیش نظر نہیں ہیں ، نیک عادات پیش نظر نہیں ہیں، یہ خیال نہیں کہ اچھی نسلیں پیدا ہوں اور میاں بیوی کو گھروں کے سکون ملیں.خیال یہ ہے کہ کسی طرح ہمارے لڑکے کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 668 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء باہر کی دنیا میں نیشنلٹی مل جائے اب ایسی شادیاں لاز منافقتوں پر منتج ہوتی ہیں اور بہت سے ایسے رشتے جو ٹوٹتے ہیں وہ اسی وجہ سے ٹوٹتے ہیں.ان باتوں کا یہاں تک بداثر ہے کہ انگلستان میں اگر کسی اچھی بچی کو پاکستان کے کسی اچھے لڑکے کا پیغام پہنچ تو وہ گھرا کر انکار کرتی ہے کہ اس کی نیت کہیں نیشنلٹی لینے کی نہ ہو.کئی دفعہ مجھے سمجھانا پڑتا ہے کہ دیکھو وہ لڑکا بڑا نیک اور سعید فطرت ہے اس کی نیت نیشنلٹی کی نہیں لیکن اگر اسے مل جائے تو بڑی اچھی بات ہے یہاں کی جماعت کو بھی تقویت ملے گی لیکن لڑکا فی ذاتہ اچھا نہ ہوتا تو میں تمہیں رشتے کے لئے نہ کہتا لیکن طبیعتیں بہت گھبراتی ہیں کیونکہ ایک لمبا تلخ تجربہ اس بات کا ہو چکا ہے.چنانچہ ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے پاکستان سے ایک خط آیا کہ میرے بیٹے کے لئے امریکہ میں کوئی رشتہ ڈھونڈ دیں.میں نے ان کو کہا کہ امریکہ میں تو نہیں مگر بعض اور جگہ بڑے اچھے رشتے ہیں وہ میں آپ کو بتاتا ہوں.اس کا جواب آیا کہ جی رشتے تو بتا دیں گے مگر نیشنلٹی کیسے ملے گی میں نے کہا کہ پھر نیشنلٹی آپ تلاش کریں.میرا کام نہیں ہے کہ میں آپ کو نیشنیلٹیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوں.میں تو تقویٰ کی بناء پر اچھے رشتے تجویز کر سکتا ہوں جو میرے نزدیک ایسے ہوں کہ دونوں خاندانوں کے لئے دین اور دنیا میں برکتوں کا موجب بنیں.نیشنلٹیاں ڈھونڈنی ہیں تو آپ ڈھونڈیں.پھر اسی قسم کے بعض خطوط ملتے ہیں کہ فلاں لڑکی ہو جو کمانے والی ہو.ہمارا بیٹا ڈاکٹر ہے لیڈی ڈاکٹر چاہئے اور لیڈی ڈاکٹر بھی ایسی جو ساتھ مل کر کمائی کرے.بعض استانیاں ڈھونڈتے ہیں حالانکہ ان غریبوں کی ساری عمر اپنے غریب بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لئے ایک مصیبت اور مشقت کی زندگی میں صرف ہو رہی ہوتی ہے.وہ بے چاریاں محنتیں کرتی ہیں، پڑھاتی ہیں لیکن میدان کو تا کتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے گھر آکر اپنی محنتوں کی کمائی ہمیں کھلائیں.ایسے بدنیت لوگ کبھی دنیا میں چین نہیں پاسکتے.جو ایسی شادیاں ہو چکی ہیں وہ اکثر گھروں کو جہنم بنادیتی ہیں.بعض بیچاری بیٹیوں کے مجھے خط آتے ہیں کہ ہمیں کمانے سے کوئی عار نہیں ہے لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ ہماری کمائی کی خاطر ہم سے شادی کی گئی ہے اور اب جب ہم کماتی ہیں تو دل چاہتا ہے کہ اپنے غریب بہن بھائیوں کو بھی کچھ کھلائیں اور حصہ رسدی دونوں کو فائدہ پہنچائیں مگر ہر وقت ساس کی طرف سے یا خاوند کی طرف سے یا نندوں کی طرف سے طعنے ملتے ہیں کہ یہ تو کما کما کر اپنے گھر بھیج رہی ہے.اگر کمانے والی چیز چاہئے تھی تو کسی کمانے والے جانور سے شادی کر لیں.انسانوں کی زندگیان کیوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 669 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء برباد کرتے ہیں لیکن یہ نیتوں کے فتور ہیں جنہوں نے نہ صرف بعض خاندانوں کے لئے اس دنیا میں جہنم پیدا کی بلکہ آگے نسلیں تباہ کر دیتے ہیں.ایسے تعلقات جو اس طرح بگڑے رہیں ان کے ہاں پاکیزہ نسلیں نہیں پیدا ہوسکتیں.جہاں خاوند اور بیوی کے درمیان ہر روز کی بک بک جھک جھک رہے، لڑائیاں ہو رہی ہوں اور ایک دوسرے کو طعنے دیئے جارہے ہوں، جہاں ساسیں اور نندیں وغیرہ بھی اس لڑائی کی آگ میں پتے جھونک رہی ہوں وہاں اولا دکس طرح امن کی زندگی کا منہ دیکھ سکتی ہے.وہاں کی اولاد کس طرح شر سے بچ سکتی ہے.لازماً ان کی طبیعتوں پر بہت گہرے اثر مترتب ہوتے ہیں اور خواہ وہ ایک طرف کے ہوں یا دوسری طرف کے ہوں دین کی طرف کے بہر حال نہیں رہتے اور ایک نسل کی نسل کے لئے آئندہ جہنم کے سامان کئے جاتے ہیں.ایسے لوگوں میں سے جن تک میری یہ آواز پہنچے ان کو چاہئے کہ وہ آئندہ مجھے لکھنے کی بھی جرات نہ کریں کہ ہمیں فلاں نیت سے رشتہ ڈھونڈ دیں جہاں چاہیں جائیں ، سراٹھا کر پھریں میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جماعت کے نظام کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اپنی بدنیتوں کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں پھریں جہاں چاہیں جو چاہیں تلاش کریں لیکن اگر جماعت سے فائدہ اٹھانا ہے تو جماعت تقویٰ کی بناء پر آپ سے تعاون کرے گی اور تقویٰ کی حد تک آپ سے تعاون کرے گی اس سے زیادہ نہیں.نیتوں کے فتور کی بہت سی مثالیں ہیں.میں سوچ رہا ہوں کہ روز مرہ کی انسانی زندگی پر جس طرح رشتوں کے متعلق میں نے بعض مثالیں دی ہیں ان مثالوں کو چسپاں کر کے اس مضمون کو زیادہ کھولتا رہوں آئندہ ایک یا دو خطبات میں انشاء اللہ اسی موضوع پر آپ سے خطاب کروں گا.اب میں جلسے سے تعلق رکھنے والی بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جلسہ سالانہ یو.کے ایک مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک سے بکثرت لوگ اس لئے یہاں حاضر ہوتے ہیں کہ یہ وہ جلسہ ہے جس میں خلیفہ وقت شریک ہوتا ہے اور اس پہلو سے اسے ایک مرکزیت مل گئی ہے.باوجود اس کے کہ یہ جلسہ یو.کے کا جلسہ کہلاتا ہے اور یو.کے کی جماعت ہی زیادہ تر اس کا بوجھ اٹھاتی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس کی دوسری حیثیت نظر انداز نہیں ہو سکتی.عارضی طور پر بھی جب میں کسی جگہ جا تا ہوں ،امریکہ ہو یا کینیڈایا جرمنی یا کوئی اور ملک تو وہاں اچانک جمعوں کی حاضری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے.عام اجلاسوں کی حاضری بڑھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 670 خطبہ جمعہ ۶اراگست ۱۹۹۱ء جاتی ہے دور دور سے احمدی اپنی محبت اور جوش اور ولولے کے ساتھ وہاں حاضر ہوتے ہیں لیکن ان سب جگہوں میں مجھے سب آنے والے صاف نیت دکھائی دیتے ہیں.ان میں کوئی فتور نظر نہیں آتا کیونکہ جو شخص مصیبت اٹھا کر بہت سے خرچ کر کے بہت دور دور سے آتا ہے اور دنیا کا کوئی فائدہ اس کے پیش نظر نہیں ہوتا تو اس کی نیت پر حملہ کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں اور ایسے لوگ ہیں جو دین و دنیا میں ہرلحاظ سے خدا کی نظر میں مقبول ٹھہرتے ہیں اور اپنی نیتوں کا فیض پاتے ہیں لیکن یو کے (U.K) کے جلسے کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے جو مشاہدہ کیا ہے اس کی رو سے کئی قسم کے لوگ یہاں آتے دیکھتے ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم آپ کا منہ دیکھنے آئے ہیں یا جلسہ دیکھنے کے لئے آئے ہیں اور بڑے جوش اور شوق سے آئے ہیں لیکن جب بات کو مز ید کریدا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی اصل نیست کسی اور ملک میں ہجرت کی ہوتی ہے.جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے اس سلسلہ میں میں ہرگز کسی کو متہم نہیں کرتا وہاں اتنے درد ناک حالات ہیں کہ اگر سارے پاکستانی احمدی بھی اپنے دین کی حمیت کی خاطر روزمرہ کی زندگی میں ظلم و ستم سے بچنے کے لئے اور دین کے معاملے میں ہر روز طعن و تشنیع کا نشانہ بننے سے بچنے کی خاطر اگر ملک چھوڑ دیں تو ان پر کوئی حرف نہیں.کسی پہلو سے بھی ان کو مطعون نہیں کیا جا سکتا لیکن نیتوں کو آپس میں ملا دینا یہ قول سدید کے خلاف ہے اور اگر قول سدید نہ رہے تو اصلاح نہیں ہوسکتی.اس لئے مجھے فکر لاحق ہوتی ہے وہ لوگ جو یہ نیت لے کر چلتے ہیں کہ ہم نے کہیں Asylum حاصل کرنا ہے ان کو اپنے آپ کو صاف صاف دیکھنا چاہئے.وہ خود اپنی نظر سے اپنی نیت کی جڑ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اس پر مٹی ڈال دیتے ہیں اور اس دھو کے میں مجھے بھی مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تو صرف آپ کا چہرہ دیکھنے کو ترسے ہوئے تھے اس لئے آگئے ہیں اور اس کے بعد جلد از جلد اس چہرے کی طرف پیٹھ کر کے کسی اور ملک کی طرف بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کا آنا اپنی جگہ در حقیقت درست ہے لیکن نیت صاف ہونی چاہئے بات کچی ہونی چاہئے اگر وہ یہ کہیں کہ ہم تنگ آگئے تھے ہمیں نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے سوچا جہاں تک پیش چلے ہم پاکستان سے ہجرت کر کے کسی ایسے ملک میں پناہ لیں جہاں مذہبی آزادی ہو، جہاں امن کے سانس لے سکیں تو اس پر کوئی اعتراض کی بات نہیں.ساتھ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ساتھ ہی ہمیں یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 671 خطبه جمعه ۶ ار اگست ۱۹۹۱ء بھی شوق پیدا ہوا کہ اس جلسے میں بھی شامل ہو جائیں گے یہ ایک سچائی کی بات ہے اس کے نتیجے میں ان کوئی نقصان نہیں ہے.اس کے نتیجے میں میری ان سے محبت کم ہونے کی بجائے بڑھے گی لیکن جب بات الٹ کر کے پیش کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم آپ کا منہ دیکھنے آئے.جلسے کے ترسے ہوئے آئے ہیں اور دل میں ان کی نیت ان کو بتا رہی ہوتی ہے خواہ وہ اس آواز کو سنیں یا نہ سنیں کہ نہیں تم دراصل کسی اور غرض سے آئے ہو تو اس طرح وہ اپنا ثواب بھی گنوا دیتے ہیں.ایک ہی بات کو مختلف طریق سے بیان کرنے کے نتیجے میں بھی ثواب یا اس کی بجائے بعض دفعہ سزا مترتب ہو جاتی ہے.اصل تقویٰ ہے جو نیکی کی جڑ ہے اور تقویٰ کی بات کو ہمیشہ میٹھے پھل لگتے ہیں تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے صاف گور ہے.اپنے اندر کی روشنی سے اپنی نیتوں کے آخری کناروں تک نظر رکھتا ہو، اپنی نیتوں کی جڑوں کو پہچانتا ہو، یہی تقویٰ ہے اور اس کے نتیجے میں جب وہ سچ بولے گا، صاف بات کرے گا تو اس سے تعلق بڑھے گا نہ کہ کم ہوگا.اس کے برعکس بہت سے ایسے احمدی وہاں سے تشریف لاتے ہیں جن کی نیت خالص جلسے میں شرکت کی ہے یا ایک مدت سے خلیفہ وقت کو نہیں دیکھا ہوتا اور یہ تڑپ لے کر آتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نظر ڈال لیں.ان کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے، ان کے چہرے کی آن بان ہی مختلف ہوتی ہے ، ان کی آنکھوں کے پیغام مختلف ہوتے ہیں.بعض دفعہ انسان ایسے انسانوں سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ دل کے اندر ایک قیامت برپا ہو جاتی ہے ایسی کئی عورتیں ہر جلسے پر آتی ہیں جنہوں نے کبھی اپنے گاؤں سے کسی دوسرے شہر کا بھی سفر نہیں کیا ہوتا ، نہ ان کو شوق ہوتا ہے.ساری عمر کراچی نہیں دیکھا، لاہور نہیں دیکھا اور بڑے بڑے بعض شہر ہیں کبھی خیال ہی نہیں آیا بلکہ اپنے گاؤں کو چھوڑنے کو مصیبت سمجھتی ہیں لیکن پیسے جوڑ جوڑ کر دور دراز کے علاقوں سے وہ آتی ہیں.بعض دفعہ وہ ایک سال نہیں کئی کئی سال تک پیسے جوڑتی رہتی ہیں تا کہ کسی طرح جلسے پر چلی جائیں اور خود بالمشافہ اپنے امام کو دیکھیں اور اس کی گفتگو سنیں اور جب ان سے پوچھتا ہوں کہ بی بی اب کیا خیال ہے؟ تو کہتی ہیں کہ جی ! اب واپسی ، جو ہم نے کرنا تھا کر لیا، جو تمنا تھی وہ پوری ہوگئی.اب ہم واپس جارہی ہیں.ایک ایسی ہی خاتون آئیں جن کے چہرے سے نور برستا تھا اور وہ سچائی کا نور تھا.غریب سادہ طبیعت کی خاتون اور دیکھ کر یوں جس طرح پھول کھل جاتا ہے اس طرح ان کی فطرت کھل اٹھی اور چہرے بھرے سے وہ خوشی ظاہر ہو رہی تھی جو امیدیں پوری ہونے پر پیدا ہوتی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 672 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء ہیں، ایسی خوشی پھوٹتی تھی اور مجھ سے انہوں نے کچھ دیر باتیں کیں میں نے کہا کہ کس طرح تشریف لائیں تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح کہ گو حالات اچھے ہیں، گزارا چلتا ہے لیکن سفر کے لئے پیسے جوڑنے پڑے ہیں اور سارا سال میں اس طرح بچت کرتی رہی اور خدا کے فضل سے مجھے پھر تو فیق ملی ہے اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اجازت ہو تو میں بیگم صاحبہ کو بھی ایک نظر دیکھ لوں.حالانکہ دل کے اپریشن کی وجہ سے ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے کہ زیادہ ملاقاتیں نہیں کروا ئیں سوائے اس کے کہ گھر والے یا بہت بے تکلف دوست ہوں جن سے طبیعت پر بوجھ نہ پڑے لیکن ان کے لئے میرے دل میں اتنا احترام تھا کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا.میں خود ان کو ساتھ لے کر اوپر گیا اور اوپر جا کر ان کا تعارف کروایا تو تقویٰ اپنے الگ رنگ رکھتا ہے.اس کے اندر ایک ایسی قوت ہے کہ جو دلوں کو مغلوب کر لیتی ہے اس میں خدا کی سچائی بول رہی ہوتی ہے.پس تقویٰ وہی ہے جو انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دے اور اس کا آغاز نیتوں سے ہوتا ہے نیت صاف ہوگی تو جو پودا بھی اس سے نکلے گا صحت مند نکلے گا.جتنا وہ نشو ونما پائے گا اتنا خدا کے قریب تر ہوتا چلا جائے گا اس کی شاخیں زمین کی طرف بدنیت سے نہیں جھکا کرتیں بلکہ آسمان کی طرف اٹھتی ہیں اور جب الہی پھلوں سے لد جاتی ہیں تب زمین کے فائدے کے لئے اس کی طرف جھکتی ہیں.جو بد نیتوں کے پودے ہیں ان کی شاخیں بھی بعض دفعہ زمین کی طرف جھکتی ہیں مگر پھل دینے کے لئے نہیں بلکہ زمین کا رس چوسنے کے لئے اور وہ بار بار جھکتی ہیں اور بار بارنٹی جڑیں پیدا کرتی ہیں.پس نیتوں کا معاملہ ایک بہت ہی گہرا معاملہ ہے.اس زندگی سے ہی اس کا تعلق نہیں آئندہ زندگی سے بھی تعلق ہے.آج کی نسلوں کی زندگی سے ہی نہیں کثیر تعداد میں آئندہ پیدا ہونے والی نسلوں کے ساتھ بھی آپ کے تقویٰ کا تعلق ہے، آپ کی نیتوں کا تعلق ہے پس اپنی نیتوں کو جس حد تک بھی سیدھا کریں اتناہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کے حالات درست ہوتے چلے جائیں گے اور آپ کی اصلاح کے امکانات پیدا ہوتے چلے جائیں گے.قول سدید کے بغیر اصلاح ممکن نہیں ہے اور قول سدید جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اس چیز کا نام ہے کہ انسان اپنے دل کے حالات سے واقف ہو کر وہی بات کرے جو واقعہ دل میں ہے اس سے زائد بات نہ کرے اور کچی بات کرے خواہ اس کا نقصان پہنچتا ہو.بل دے کر اور فریب کے ساتھ بات نہ کرے.ایسی عورتیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 673 خطبہ جمعہ ۶ اراگست ۱۹۹۱ء جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دیکھیں کہ جو بڑی غربت میں اس طرح جلسے کے شوق میں آئیں کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دین اور دنیا دونوں سنوار دے گا ان کی نسلوں پر رحمتیں نازل فرمائے گا.ایسے مرد بھی دیکھے جو غریب محنت کش ہیں، جن کے متعلق خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ضرور کہیں باہر نکلنے کے لئے آئے ہوں گے لیکن جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جی بس ! ہماری نیت پوری ہوگئی.ہمیں کہاں یہاں آنے کی توفیق ملی تھی، حسرتیں پال رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اچانک یہ انتظام فرما دیا اور ہم خدا کے فضل کے ساتھ اب دیکھ چکے.اب واپس اپنے اپنے کاموں پر جائیں گے.دل بے اختیار ان کی محبت میں اچھلنے لگتا ہے.نظر ان پر دعا بن کے نچھاور ہوتی ہے اور حیرت سے آدمی دیکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیسے کیسے متقی اور پاکباز لوگ پیدا کر دیئے ہیں ،جن کی دنیا میں اور کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.اور اس کے برعکس بعض اچھے بھلے کھاتے پیتے گھروں کی عورتیں ہیں جو کپڑوں کی گٹھریاں اٹھا کے لے کر آتی ہیں اور نام جلسے کا اور نیت کپڑے بیچنے کی وہ انگلستان کی بے چاری عورتوں کی مہمان ٹھہرتی ہیں جو کہ بڑے اخلاص کے ساتھ ان کی آؤ بھگت کرتی ہیں.جلسے کے چند ایام میں ٹھہرنا تو ہر ایک کا حق ہے اور یہاں کی جماعت اس کو سعادت سمجھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نہایت ہی انکسار اور ایثار کے ساتھ یہ حقوق ادا کر رہی ہے اور بشاشت کے ساتھ یہ حقوق ادا کر رہی ہے مگر آپ اندازہ کریں کہ جب جلسہ پر آنے والے کچھ مہمان آکر اپنی گٹھریاں کھولتے ہیں تو ان سے بے شمار پاکستانی کپڑے نکلتے ہیں جو بیچنے کی نیت کے ساتھ آئی ہوتی ہیں.مجھے جب کچھ عرصہ پہلے یہ علم ہوا کہ ہمارے لجنہ کے جو مختلف فنکشنز (Functions) ہیں، لجنہ کی مختلف تقاریب ہیں ان میں بھی کپڑوں کی دکانیں لگ گئی ہیں تو مجھے اس کی بہت تکلیف ہوئی میں نے کہا کہ یہ کیا قصہ ہے تو انہوں نے کہا جی ! ہم کیا کریں.پاکستان سے فلاں فلاں خواتین نے یہ کپڑے بھیجے ہیں کہ ہمارے کپڑے بکوا دو اور ان کے ساتھ ہماری بعض خواتین کے منہ ملاحظے ہیں چنانچہ وہ بے چاریاں دکانیں لگا کر بیٹھ جاتی ہیں.پھر جب مزید اس بات کو کریدا تو پتہ لگا کہ جلسہ سالانہ پر بھی یہی قصہ چل رہا تھا.اور کئی سال سے یہ ہو رہا ہے اور بہت سی خواتین جو پاکستان سے آتی ہیں وہ جلسہ سننے کی بجائے میری تقریر کے دوران بھی کپڑے بیچ رہی ہوتی ہیں اور دوسرے سننے والوں کا بھی جلسہ خراب کرتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 674 خطبہ جمعہ ۶ اراگست ۱۹۹۱ء بہت سی خواتین ہیں جو اس وقت کہ رش کم ہوتا ہے وقت نکال کر وہاں جا کر سودے کر رہی ہوتی ہیں.میں نے پھر مزید اس بات کی چھان بین کی تو پتہ لگا کہ بے انتہاء منافع بازی ہوتی ہے اتنی کہ ہوش اڑانے والی.اب یہ یہاں کی خواتین پر بڑا ظلم ہے ، لجنہ یو کے (U.K) پر اور انفرادی طور پر لجنہ کی ممبرات پر بھی بے حد ظلم ہے کہ وہ بیچاریاں تو دین خدا کی خاطر قربانیاں کریں اور اپنے بھی کام کریں بچوں کے بھی کام کریں، کھانے پکائیں، برتن دھوئیں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں اس خاطر آپ کی مہمان نوازیاں کریں کہ آپ خدا کے مہمان ہیں اور کچھ دنوں کے بعد پتہ لگے کہ خدا کے مہمان نہیں تھے.یہ تو اپنے پیٹ کے مہمان ہیں اور گٹھریاں اٹھائے پھرنے والی تاجرات ہیں اور جب میں نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اچھے بھلے کھاتے پیتے گھروں سے ان کا تعلق ہے.بہت امیر گھروں سے کہ جن کو ہرگز اس قسم کی مصیبت کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے.چنانچہ ابھی حال ہی میں ایک واقعہ ہوا ہے جس سے مجھے بڑی سخت تکلیف پہنچی ہے اور اسی وجہ سے اب میں لجنہ اماء اللہ انگلستان کے لئے خصوصیت کے ساتھ ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں.ایک خاتوں ہیں جو دل کی مریضہ ہیں ، ان کے میاں مریض ہیں ان کے پاکستان کے کسی خاندان سے تعلقات تھے ، ان تعلقات کے خاطر وہ اپنے گھر میں ان کی اولاد کو بھی رکھتے ہیں لیکن مجھے کسی نے بتایا کہ چونکہ میں نے لجنہ کو منع کر دیا کہ نہ جلسہ پر کوئی کپڑا بکے گا ، نہ تمہاری تقریبات پر کوئی کپڑا بکے گا جو چاہے آپ پر دباؤ ڈالے آپ نے ہر گز کسی کی بات نہیں ماننی اور صاف کہہ دیں کہ ہمیں حکم ہے کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا اور اگر آپ کو ڈر ہے کہ ان کو تکلیف پہنچے گی تو آپ ان کو خط لکھیں.جن جن سے تلخ تجربات ہو چکے ہیں ان سب کو خطوط کے ذریعے پہلے متنبہ کریں کہ خدا کے لئے اس دفعہ کپڑے لے کر نہ آنا کیونکہ ہم اجازت نہیں دیں گے.اس کے باوجود وہی لوگ لائے جو پہلے بھی لاتے تھے اور جس گھر میں ٹھہرے ہیں اس گھر کے متعلق جس ذریعے سے بھی ہوسکا اشتہار دے دیا کہ آئندہ کپڑے خرید نے ہوں تو اس گھر میں تشریف لائیں.نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بے چاری کمز ور عورت دل کی مریضہ اور کئی قسم کے امراض میں مبتلا ، ایک نہایت خطرناک آپریشن سے اعجازی طور پر شفا پانے والی مگر ابھی کمزوری باقی ہے ان کے دروازے کھٹکنے شروع ہوئے.کنڈی کھٹکتی تھی تو اٹھ کر پوچھتی تھیں کہ جی کیا بات ہے؟ اس پر پتا چلا کہ جی آپ کے ہاں فلاں خاتون ٹھہری ہوئی ہیں،
خطبات طاہر جلد ۱۰ 675 خطبہ جمعہ ۶اراگست ۱۹۹۱ء وہ سنا ہے کپڑے بہت اچھے لے کر آئی ہیں تو میں کپڑے خرید نے آئی ہوں.اب اس بے چاری مخلص عورت کو اپنی تجارت کا نوکر بنادینا یہ کہاں کی شرافت ہے.اس لئے سارے یو کے (U.K) کی لجنہ کے لئے اور باقی جگہ جہاں بھی دین کی خاطر جلسے ہوتے ہیں میں اعلان کرتا ہوں کہ ان جلسوں پر اگر کوئی اس قسم کی تجارتی مال لے کر دین کے نام پر سفر کرے اور دنیا کمانے کی نیت ہو جو اس طرح کھل کر ظاہر ہو جائے تو ان کے ساتھ ہر گز کوئی تعاون نہیں کرنا.کوئی احمدی عورت ایسی عورتوں سے کپڑے نہ خریدے.تجارت ہر ایک کا حق ہے ضرورت ہو یا نہ ہو کسی کو یہ کہنا ہمارا کام نہیں ہے کہ تم بہت امیر ہو، خدا نے تمہیں اتنا کچھ دیا ہے خدا کے واسطے ان چھوٹی چھوٹی حرکتوں سے باز آؤ.ہم نہیں کسی کو کہہ سکتے مگر جہاں دین کو Exploit کیا جائے گادین کے نام پر بعض لوگوں کی شرافت کا استحصال کیا جائے گا تو وہاں ہمارا فرض ہے کہ ان کوششوں کو ہم رد کر دیں اور نا مراد کر دیں اس لئے تمام وہ جماعتیں جہاں میں جاتا ہوں جہاں جلسے ہوتے ہیں وہاں اگر اس قسم کے تاجر پہنچیں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں تو ان کی ان کوششوں کو نا کام کریں، ان کو کہہ دیں کہ ہم نے ہر گز تم سے تعاون نہیں کرنا اور یہی ان کے ساتھ نیکی کرنا ہے تا کہ اگر وہ اگلی دفعہ آئیں تو صاف نیت سے آئیں اور اس ے کا ثواب تو حاصل کریں.پھر ایک لمبے عرصے تک انگلستان کی جماعت پر بوجھ بن جانا جبکہ نہ کوئی رشتے داریاں ہوں ، نہ کوئی لین دین کے پرانے خاندانی تعلقات ہوں یہ بھی ظلم کی بات ہے.وہاں سے جس نیت کے ساتھ آتے ہیں وہ نیت پوری ہوئی اب اپنے گھروں کو جائیں اور اگر سیر و تفریح کرنی ہے تو پھر اپنے خرچ پر ٹھہریں.اگر توفیق نہیں ہے تو واپس چلے جائیں.رشتے داریاں ہیں تو ٹھیک ہیر شتے داروں کے ساتھ جیسے جیسے ملاحظے ہوا کرتے ہیں فریقین آپس میں ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھتے ہیں ان میں جماعت کو کسی قسم کے دخل کی ضرورت نہیں ہے.کوئی شوق سے اپنے کام آئے ، اپنے ذاتی اغراض کی خاطر اپنے کسی بے تکلف رشتے دار کے گھر ٹھہر جائے لیکن نظر ر کھے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچ رہی ہو.کہیں حیاء کی وجہ سے وہ اپنی تکلیف کا اظہار نہ کر رہا ہو.یہ وہ چیز ہے جو میرے موضوع گفتگو سے مستقلی ہے لیکن جماعتی تعلقات ہوں، کوئی خاندانی رشتے نہ ہوں تو وہاں کسی حیاء دار کے گھر آکر ٹھہر جانا جس کو یہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہو کہ میاں اتنی دیر ہوگئی ہے اب آپ واپسی کا سامان کریں.وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 676 خطبہ جمعہ ۶ ۱اراگست ۱۹۹۱ء شرم کے مارے یہ بھی نہ کہہ سکے کہ فونوں کے بل ہی بہت بڑھ گئے ہیں اگر فون کرنا ہے تو خدا کے واسطے باہر جا کر کریں.وہ حیاء دار لوگ جو خدمت دین کی خاطر اتنی قربانی کرتے ہیں ان پر ایک اور مصیبت اور ایک اور بوجھ بن جاتا ہے.پس جو آنے والے ہیں ان کو حیاء چاہئے لیکن جو ٹھہرانے والے ہیں وہ کم سے کم اس بات کے مجاز ہیں بلکہ میں ان سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ یہ بات میری طرف منسوب کر کے کہیں گے کہ اگر آپ نے تجارتیں کرنی ہیں تو ہمارا گھر آپ کے لئے بند ہے اپنا سامان اٹھائیں ، ہوٹلوں میں جائیں آپ کو کون تجارتوں سے روکتا ہے مگر تجارتوں کے جو طریقے ہیں ان کو اپنا ئیں.فرضی تجارتی خرچ ڈال ڈال کر قیمتیں تو بڑھالیتے ہیں کہ پاکستان سے کپڑا آئے تو اتنا اس پر کرایہ لگے گا.اتنا آنے والے کا کرایہ ہو گا اتنا اس پر ٹیکس لگنا چاہئے جن میں سے کچھ بھی نہیں لگا ہوا ہوتا ، آنے والے بعض دفعہ جلسے کے دوسرے مہمانوں پر بوجھ ڈال دیتے ہیں.ایک گھڑی اس کو پکڑا دی اور ایک گھڑی اس کو پکڑا دی اور رستے ایسے ایسے ڈھونڈتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.میں کینیڈا گیا تو وہاں جلسہ کے بعد میں تو فارغ ہو گیا لیکن میری بیگم نے چونکہ دل کا علاج کروانا تھا یہ امریکہ چلی گئیں اور امریکہ میں قیام کے دوران ان کو ایک ہومیو پیتھی دوائی کی سخت ضرورت پڑی اور میں سمجھا کہ یہ ایلو پیتھی علاج کے بس کی بات نہیں ، اس لئے یہ دوا ضرور ملنی چاہئے تو میں نے ان کو بتایا کہ میری کچھ دوائیں کینیڈا میں پڑی ہوئی ہیں وہاں سے منگوالیں.ایک عزیز آنے والے تھے ان کے سپر دانہوں نے یہ کام کر دیا.اس وقت مجھے پتہ لگا کہ یہ کپڑے بیچنے والے کیسے کیسے رستے اختیار کرتے ہیں.اس بے چارے کی کار میں ایک گھڑی کپڑوں کی ڈال دی گئی اور دوا پہنچ نہیں رہی تھی ، دیر ہورہی تھی میں نے فون کر کے پتہ کیا کہ یہ کیا ہو گیا ہے تو پتہ چلا کہ کسی نے کپڑے بھیجے تھے وہ اس بیچارے کی کار میں ڈال دیئے گئے اور اب کٹم والے اس کو نہیں چھوڑ رہے تھے کیونکہ اس بے چارے نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ میرے پاس کوئی تجارتی چیز نہیں.اس نے تو جھوٹ نہیں بولا لیکن واقعہ وہ جھوٹ تھا.انہوں نے کہا کہ یہ تجارتی چیز نہیں تو یہ ایک ہی طرز کے نئے سلے ہوئے خاص قسم کے اتنے کپڑے کیوں لے کر جارہے ہو.اس نے کہا یہ تو مجھے کسی نے سپرد کئے تھے چنانچہ چند گھنٹے اس کو قید میں رکھا اور اور باتوں کی تحقیق ہوئی تو شک پڑ گیا اور ہومیو پیتھی کی دواؤں کو پر یہ نہیں انہوں نے کس کس طرح آزمایا کہ اس میں کوئی Drug تو شامل نہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس حد تک اثر باقی رہایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 677 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء نہیں مگر ہم یہاں پریشان کہ وہ دوا پہنچ نہیں رہی.آخر ساری رات سفر کر کے بمشکل دوسرے دن وہ پہنچا ، پھر وہ نیند سے مغلوب ہو گیا تو پھر کہیں رات کو جا کر وہ دوا ملی.اب ایک شخص کی نیت کہیں سے چلی تھی.میں یہ بتا رہا ہوں کہ منتیں کس طرح اپنے بداثرات پھیلاتی رہتی ہیں.وہ نیت یہ تھی کہ براہ راست کپڑا امریکہ نہیں جاسکتا تو جو لوگ کینیڈا جارہے ہیں ان کے ذریعہ ہم تجارتی کپڑے بھیج دیں اور اس نیت نے آگے یہ فتور پیدا کر دیا ہے کہ کسی اور نیت سے بے چارا ایک نوجوان اخلاص کے ساتھ اس خاطر چلا ہے کہ کوئی مریض ہے اس کو جلد دوا پہنچے لیکن اس کا سارا سفر برباد کر دیا گیا اور یہ اس بد نیتی کا پھل تھا.جہاں تک تجارتوں کا تعلق ہے میں تو خود احمدیوں کو کہتا ہوں کہ تجارتیں کریں لیکن ایک نصیحت کرتا ہوں کہ جو خاوند اچھے بھلے کھاتے پیتے اور امیر ہوں وہ اپنی بیویوں کو اگر تجارتوں میں ڈالیں گے تو اس کا نقصان پہنچے گا.ان کی مرضی ہے جو چاہیں فیصلے کریں لیکن ایسی بیویوں کو جن کو تجارتوں کی چھٹیاں دے دی گئی ہوں ان کو اور بھی بہت سی ایسی عادتیں پڑ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں گھر کی طرف پوری توجہ نہیں رہتی ، اولاد کی طرف پوری توجہ نہیں رہتی.کچھ نقصانات فوری نظر آتے ہیں کچھ دیر کے بعد نظر آتے ہیں، کچھ دکھائی نہیں دیتے لیکن اگلی نسلوں میں ظاہر ہوتے ہیں.میں تو ایک پاک نصیحت کر سکتا ہوں کہ آپ لوگوں کا حق ہے.دونوں نے تجارتیں کرنی ہیں تو بے شک کریں لیکن جن کو خدا نے کھلی توفیق دی ہو ان کو اپنی بیویوں کو اس بات پر شتہ نہیں دینی چاہئے یا ان کی عادت سے آنکھیں نہیں بند کرنی چاہئیں یا بعض اوقات اگر رو کنا ضروری ہو تو روک دینا چاہئے کہ وہ بے وجہ زائد روپے کی حرص میں ایسے کام کرتی پھریں جس سے گھر کا امن برباد ہوتا ہولیکن یہ تو ایک نفلی مشورہ ہے.دوسرا مشورہ جو ہے وہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جماعت کو اس میں ملوث نہ کریں.اس قسم کے نفلی کام یعنی آپ کے نفل ہیں خدا کے ہاں تو وہ نفل نہیں ہیں لیکن آپ نے نفلی روپیہ کمانا ہے ، حرص پوری ہی نہیں ہو رہی تو نہ ہو بے شک لیکن پھر تجارت کے اصولوں پر کام.کریں کپڑا ایکسپورٹ Export کرنے کے جو باقاعدہ طریقے ہوتے ہیں وہ اختیار کریں.دکانوں تک سامان پہنچا ئیں ، ان سے آرڈرز لیں، ان دکانوں سے کوئی احمدی خریدتا ہے تو شوق سے خریدے لیکن یہ کوئی حق نہیں ہے کہ جماعت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی حرصیں پوری کرتے پھریں.اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 678 خطبه جمعه ۶ اراگست ۱۹۹۱ء میں جماعت کو متنبہ کرتا ہوں اس قسم کی عادتوں کو روکنے میں مدد کریں اور محبت اور پیار اور ادب سے بے شک کہیں لیکن سچی بات کہنے سے شرم نہیں کرنی چاہئے.ان کو کہنا چاہئے کہ دیکھو تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے تم ایسی حرکتیں نہ کرو.تجارت کرنی ہے تو تاجروں کے پاس جاؤ بڑے بڑے سٹوروں کے پاس جاؤ اور ان سے سودے کرو.گورنمنٹ کے بل دو اور اس کے بعد جو منافع ہے وہ خیر و برکت سے کماؤ.اس میں سے پھر تمہیں چندوں کی بھی توفیق ملے گی لیکن ایسے کمانے والوں کی تو چندوں کی توفیق بھی میں نے کبھی نہیں دیکھی.بہر حال مجھے تو جماعت یو کے (U.K) کی اس بزرگ خاتون کی کہانی سن کر اتنی تکلیف ہوئی کہ دل اس وقت سے بے چین ہے.اتنا ظلم ہے کہ ایک بزرگ خاتون جو اس قدر محبت اور ایثار سے خدمت کرتی ہے اور کوئی حیا نہیں ہے اور ان کے لئے ایک عذاب بن گئے ہیں ان کو تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو وہ آرام سے رہیں کوئی بوجھ نہ پڑے کوئی تکلیف نہ ہولیکن بار بار دروازے کھٹک رہے ہیں اور وہ اٹھ کر پوچھتی ہیں کہ کیا بات ہے؟ پتہ نہیں کیا پیغام آیا ہے؟ تو پتہ چلتا ہے کہ جی آپ کے ہاں ایک کپڑے بیچنے والی خاتون رہتی ہیں.تو میری نصیحت یہی ہے کہ آپ نے آئندہ اگر تجارتیں کرنی ہوں تو تجارت کے اصولوں پر کریں اور اس طرح ملا جلا کر اپنے اور خاندانوں کی بدنامیوں کا موجب نہ بنیں اور اپنی اولاد کے لئے گندے بیج نہ بوئیں کیونکہ اس سے آپ لوگ آئندہ بہت نقصان اٹھائیں گے.آپ کو دل کا سکون نہیں ملے گا.میں جانتا ہوں کہ وہ تو ابھی بھی کم ہوتا جارہا ہے لیکن یہ سکون اور بھاگے گا.اس قسم کی دولتیں کبھی بھی دل کا سکون نہیں بخشا کرتیں.دل کا سکون تقویٰ سے ملتا ہے.اپنی نیتوں کو پاک صاف کریں کبھی صاف نیت لے کر جلسہ پر آنے کی کوشش تو کریں پھر دیکھیں خدا کیسے کیسے فضل نازل فرماتا ہے.اس نیت سے آئیں اور اخلاق کا مظاہرہ کریں.نیک نیتیں لے کر آئیں اور نیک اثر پیچھے چھوڑ کر جائیں اور نیک دعائیں لیں جو ساری عمر آپ کی زندگی کا خزانہ بنی رہیں گی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ ان قباحتوں سے احتراز کیا جائے گا اور جماعت نے چونکہ اب میری بات سن لی ہے اس لئے اس بات پر نگران ہو جائے گی.ان سے ویسے جتنے چاہیں تعلقات رکھیں ان لوگوں کا جو ادب کرنا ہے کریں لیکن ان کاموں میں اب ان سے تعاون نہیں کرنا کیونکہ یہ ان کے لئے بھی مضر ہے اور ان کے لئے بھی نقصان دہ ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 679 خطبہ جمعہ ۶اراگست ۱۹۹۱ء جہاں تک دوسرے معاملات میں نیتوں کے فتور اور ان کے بداثرات کا تعلق ہے ان کے متعلق چونکہ مضمون بدلنا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے خطبہ کی بجائے آئندہ خطبہ یا پھر اس کے بعد آئندہ کسی خطبہ میں میں اس کا ذکر کروں گا میرا خیال یہی ہے کہ جس طرح آج ایک موضوع کو لیا ہے اور اس کے بعض حصوں پر یہ امر چسپاں کر کے آپ کو دکھایا ہے کہ کس طرح نیت کا فتور معاشرے کو گندا کر دیتا ہے اور مصیبتیں دنیا پر ڈال دیتا ہے اسی طرح زندگی کے ہر شعبے کا نیتوں کے ساتھ گہراتعلق ہے.پس دو ہی چیزیں ہیں.ایک وہ جڑ جو تقویٰ پر بنی ہوتی ہے وہ بھی نیت سے اٹھتی ہے اور ایک وہ شجرہ خبیثہ جس کی جڑ برائی میں پیوستہ ہوتی ہے اگر چہ وہ اکھڑی پھرتی ہے اور اڑتی پھرتی ہے اور کئی قسم کے نئے نئے پودے اس کی جگہ آ لگتے ہیں اور وہ بھی اکھڑ جاتے ہیں لیکن اس مضمون کو اس پہلو سے دیکھنا ضروری ہے کہ جڑ بہر حال فساد کے اندر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں گندے پودے گندے پھل لے کر آتے ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے.آخر پر میں یہ ایک اصولی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس مضمون کا استغفار سے بہت گہرا تعلق ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استغفار کے مضمون پر بہت ہی عظیم الشان مضامین بیان فرمائے ہیں اور بہت ہی گہری نظر سے استغفار کے ہر پہلو کا تجزیہ فرمایا ہے.استغفار کا مطلب ہے مٹی سے ڈھانپنا غفر کا مطلب ہوتا ہے ڈھانپ دیا.خدا تعالیٰ مغفرت فرماتا ہے اورانسان مغفرت طلب کرتا ہے استغفار کا معنی ہے : کوشش کرنا کہ میں ڈھانپا جاؤں.ننگا وجود ہو تو اس کو کپڑے سے ڈھانپا یہ استغفار ہے جڑننگی ہو رہی ہو تو اس کو مٹی سے ڈھانپنا یہ استغفار ہے.جس مضمون سے میں نے آج کے خطبہ کا آغاز کیا تھا اس پر واپس آتے ہوئے میں آپ کو بتا تا ہوں کہ استغفار دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ استغفار ہے جو جڑوں کو ڈھانپنے والا ہے لیکن ایک استغفار ہے جو جڑوں کو چھپانے والا ہے.میں نے دو لفظ ڈھانپنا اور چھپانا عمداً استعمال کئے ہیں چھپانے سے مراد یہ ہے کہ بد جڑیں ہیں، گندی جڑیں ہیں اور آپ ان کو چھپاتے ہیں.یہ استغفار کے منفی معنی ہیں.اور ایک استغفار ڈھانپنے والا ہے جو شخص متقی ہو وہ بسا اوقات اپنی نیک نیتوں کو ڈھانپتا ہے اور دنیا کی نظر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.ہیں تو یہ دونوں قسم کے استغفار لیکن ان کے نتائج میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 680 خطبہ جمعہ ۶اراگست ۱۹۹۱ء زمین و آسمان کا فرق ہے.پس وہ لوگ جو اپنی بدیوں کو اور بد نیتوں کو چھپاتے ہیں وہ عادتا انہیں اپنے آپ سے بھی چھپانے لگ جاتے ہیں.ان کو سمجھانے کی خاطر میں یہ مثال ان کے سامنے رکھتا ہوں کہ بعض دفعہ اگر جڑوں کی بیماریاں ہوں تو سارے درخت کی جڑیں تو یکدم نگی نہیں کی جاتیں مگر اچھا سمجھدار زمیندار کھود کر پہلے ایک ایک جڑنگی کرتا ہے، اس کا علاج کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو ڈھانپتا ہے یعنی چھپانے کی بجائے خود کھودتا ہے اور اپنے درخت کی جڑوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرتا ہے.ان کی بیماریوں کو پہچانتا ہے اور پھر گندی مٹی کو اس سے ہٹا دیتا ہے اور پھر پاک مٹی سے اس جڑ کو ڈھانپ دیتا ہے، پھر دوسری جڑ کی باری آتی ہے پھر تیسری جڑ کی باری آتی ہے.وہ لوگ جو باغوں کے ماہر ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں بسا اوقات نہایت خطر ناک بیماریوں میں مبتلا پودا بھی صحت مند ہو جاتا ہے.تو ایک دفعہ نگا کرنا ضروری ہے اس کے بعد پھر حقیقی استغفار نصیب ہوگا اور نیتوں کی جڑوں کا علاج تو بہ سے ہوتا ہے، تو بہ اور استغفار، پہلے تو بہ ہے اور پھر استغفار ہے تو بہ کے بغیر استغفار کی کوئی حقیقت نہیں.تو جس مضمون کو تو بہ کہا جاتا ہے اس کا نقشہ یہ ہے کہ آپ اپنی جڑوں کو باری باری ایک ایک کر کے نگا کریں.لوگوں کے سامنے نہیں بلکہ اپنے سامنے آپ کے اندر اپنے حالات کے متعلق جو روشنی پیدا ہوگی وہی روشنی ہے جو بعد میں نور بن جایا کرتی ہے اور یہ روشنی ضروری ہے اس کے بغیر نور نہیں بن سکتا.ہم جنس چیز سے اسی جنس کی چیز بنتی ہے خواہ ان کے اخلاق میں زمین و آسمان کا فرق ہو.نور کے لئے ایک نور کی ضرورت ہے اور اندر کی روشنی وہ پہلا نور ہے جو سچائی کے ساتھ آپ کو اپنے حالات سے آگاہ کرے.ہر سفر اختیار کرنے سے پہلے، ہر حرکت سے پہلے ، ہر قدم اٹھانے سے پہلے عادت ڈالیں کہ اپنی نیت کا جائزہ لے لیں اس کو اچھی طرح کھنگال کر دیکھیں.معلوم کر لیں کہ اصل کیا ہے اس کے بعد نہ آپ اپنے نفس کو دھوکا دے سکتے ہیں نہ کسی اور کو دھوکا دینے کے لئے رجحان پیدا ہوگا کیونکہ یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کے نتیجے میں سچائی سے پہلے سے زیادہ وابستگی ہو جاتی ہے.جو شخص اپنے دل کے چھپے ہوئے حالات کو اپنے اوپر کھولتا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بدیوں کو دیکھ لیتا ہے اس کے اندر تقویٰ کا سفر شروع ہو جاتا ہے.اس کے اندر ایک ایسی روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کے دل کی روشنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 681 خطبہ جمعہ ۶اراگست ۱۹۹۱ء کو الہی نور میں تبدیل کر دیتی ہے.پس اس طرح اپنی نیتوں کو ٹولنا شروع کریں اور جہاں بدی دیکھیں وہاں ٹھہر کر اس کے علاج کے متعلق غور کریں تو بہ سے کام لیں اور تو بہ اکیلی کافی نہیں ہوا کرتی جب تک کہ دوبارہ اس جڑ کو ڈھانپا نہ جائے اور اس دفعہ کا جوڈھانپنا ہے اس کا نام استغفار ہے.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.اس سے کہیں کہ میری جڑ تو ننگی ہوگئی، اس کے حال سے میں خوب مطلع ہو گیا اب دوبارہ میں اسے ڈھانپتا ہوں لیکن اسے زندگی بخشا اور صحت بخشا اب تیرا کام ہے اس لئے تو اپنے فضل کی مٹی سے اسے ڈھانپ دے تا کہ یہ صحت مند نشو و نما پاسکے.اس طرح اگر آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے حالات اور اپنی نیتوں کی اصل اور کنہہ سے واقف ہونے کی کوشش شروع کر دیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ روزانہ آپ ایک نیا سفر کریں گے.روزانہ اپنے نفس کا ایک نیا مشاہدہ آپ کو نصیب ہوگا اور یہ ایک لامتناہی سفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا انبیاء کو چھوڑ کر کیونکہ انبیاء کے استغفار کا مضمون بالکل الگ ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بڑی شان کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور وہ ایک ایسا اچھوتا مضمون ہے کہ جس کو تقویٰ کی روشنی کے بغیر کوئی شخص بیان کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھ سکتا.تو انبیاء کا حال چھوڑ کر کوئی نیک میری نظر میں ایسا نہیں جو یہ سفر مکمل کر سکے کیونکہ جتنا وہ کھوج لگائے گا جتنا اپنے اندر ڈوبے گا اسے ضرور کچھ نہ کچھ ایسا گند دکھائی دے گا جسے صاف کرنا ضروری ہے، کچھ نہ کچھ جڑیں ضرور بیماریوں میں مبتلا نظر آئیں گی جن کی صفائی ضروری ہے اور دوبارہ پھر استغفار سے ان کا ڈھانپنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 683 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۹۱ء غیبت سے معاشرہ میں بڑے فتنے پیدا ہوتے ہیں.جماعت کو اپنے معاملات اس برائی سے پاک رکھنے چاہئیں فرموده ۲۳ / اگست ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مضمون چل رہا ہے تقویٰ کی کمی کی وجہ سے یا تقویٰ کے معاملات میں گہری نظر نہ ہونے کی وجہ سے جو نقصانات ہمارے معاشرے میں پہنچتے ہیں اس سلسلے میں دو تین مثالیں خاندانی معاملات کی میں نے دی تھیں.ایسی بہت سی مثالیں ہیں ان سب کو یہاں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے لیکن وقتاً فوقتا جہاں ضرورت محسوس ہوئی میں دوبارہ اس مضمون کو پھر اٹھاؤں گا.چنانچہ آج میں اس مضمون کو جماعتی حالات پر چسپاں کر کے آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ جماعتی معاملات میں تقویٰ کی کمی یا تقویٰ کے معاملات میں لاعلمی.یہ دونوں باتیں جماعت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں.بعض ایسے لوگ ہیں جو فی ذاتہ جہاں تک فرائض کا اور عام نوافل کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے متقی ہوتے ہیں.جماعت کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے، پابند صوم وصلوۃ اور نہ صرف فرضی چندوں میں بلکہ طوعی چندوں میں بھی بڑے تقویٰ کے ساتھ شرائط کے مطابق خدمت دین کرنے والے ہیں لیکن بعض معاملات میں جبکہ امیر اور عاملہ کے معاملات ہوں یا بعض لوگوں کے جو کوئی عہد یدار نہیں ہیں امیر یا عاملہ سے واسطے پڑتے ہوں ایسے تعلقات کے دائرے میں بعض دفعہ وہ بے حد غیر متقیانہ باتیں شروع کر دیتے ہیں اور آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ ان سے یہ توقع نہیں تھی اس لئے اس مضمون کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 684 خطبه جمعه ۲۳ /اگست ۱۹۹۱ء مختلف جہتوں سے کھول کر آپ کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت ہے.اس سے پہلے بارہا گزشتہ چند سال میں مجھے بعض ملکوں سے ان معاملات میں فتنوں کی بُو آئی جس طرح جلنے کی بُو آئی تھی.خدا کے فضل سے میری قوت شامہ بھی تیز ہے اور اندرونی حس جس سے فتنوں کی بُو آجاتی ہے وہ بھی بہت تیز ہے.چنانچہ جب میں نے تحقیقات کیں تو رفتہ رفتہ بہت سے فتنوں کے عوامل عمل پیرا دکھائی دیئے جو اندر اندر کام کر رہے تھے اور تحقیقات کے دوران بہت ہی افسوسناک تعجب ہوا کہ ہمارے سلسلہ کے تجربہ کار مربی اور بعض صورتوں میں بعض امراء بھی ان چیزوں میں با قاعدہ ملوث تھے.جہاں تک ان کی وقف زندگی کا تعلق ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ بڑے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ انہوں نے زندگی وقف کی ، جہاں تک ان کی ان نیتوں کا تعلق ہے جو انہوں نے اپنی نظر کے سامنے رکھی ہوئی تھیں تو اس کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نیتیں صاف تھیں لیکن وہ نیتیں وہ تھیں جو انہوں نے عمد أخود سجا کر اپنی نظر کے سامنے رکھیں اور یہ وہ سب سے بڑا انسانی فطرت کا خطرہ ہے جو انسان کو دھوکے میں مبتلا کر دیتا ہے اور قرآن کریم نے جوفر مایا کہ شیطان وہاں سے حملہ کرتا ہے جہاں سے تمہیں دکھائی ہی نہیں دیتا.تو یہ وہ حکمت ہے کلام الہی کی جسے اگر ہم سامنے رکھیں تو بعض دفعہ ایسے الجھے ہوئے معمے بھی حل ہو جاتے ہیں کہ ایک شخص متقی ہے اس سے ان باتوں کی توقع نہیں لیکن پھر بھی وہ باتیں کر رہا ہے.ہم قرآن کریم کی پیش کردہ اس حکمت کی رو سے اس معاملے کو یوں حل کریں گے کہ وہ وہاں سے ڈسا گیا ہے جہاں سے سانپ اس کو دکھائی ہی نہیں دیا تھا.حملہ اس پر ایسی جگہ سے ہوا ہے جہاں اس کی نظر نہیں تھی لیکن صرف یہ کہنا اس کے دفاع میں کافی نہیں کیونکہ قرآن کریم دوسری جگہ اس مضمون کو یوں بیان کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کے حالات کو سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے.وہ اگر کوشش کرے تو یقیناً جان سکتا ہے کہ اس کے نفس کے پردوں کے پیچھے کیا کیا فتنے چھے بیٹھے ہیں.وَلَوْ اَلْقَی مَعَاذِيرَة (القیامہ: ۱۶) خواہ وہ بعد میں بے شمار عذر بھی پیش کرے اور کوشش کرے یہ ثابت کرنے کی کہ جو کچھ اس نے کیا تھا اس کا جواز موجود تھا.پس ایک پہلو سے ہمیں یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ انسان بعض دفعہ عمد أبالا رادہ یعنی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فتنے کو قبول نہیں کرتا لیکن اس کی فطرت ان فتنوں پر پردے ڈالتی ہے اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر وہ اپنی دانست میں بڑی نیکی کی باتیں کر رہا ہوتا ہے.جہاں تک روز مرہ کی زندگی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 685 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء میں دوستوں سے تعلقات کا معاملہ ہے یا خاندان میں رشتہ داروں کے رشتہ داروں سے معاملات کا تعلق ہے یہ بھی ان چیزوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں.ان کے متعلق میں بارہا خطبات دے چکا ہوں لیکن ان سے بہت زیادہ اہمیت یہ باتیں اس وقت اختیار کر جاتی ہیں جبکہ جماعت کے عہد یداران ان باتوں میں ملوث ہو جائیں کیونکہ پھر یہ ان کے نفس کی برائی نہیں رہتی بلکہ پوری جماعت کو ایک خطرہ لاحق ہو جاتا ہے.میں نے پہلے بھی بارہا اس طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ایک انسان کے ذاتی گناہ ہیں وہ چاہے کسی مقام پر ہو اگر وہ دیانتداری سے کوشش کر رہا ہے، دعا کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے حالات پر پردہ ڈالے ہوئے ہے تو کسی دوسرے کو حق نہیں نہ نظام جماعت کو نہ کسی فرد کو کہ وہ کر بیدے اور تجسس کرے اور کوشش کرے کہ اس کی چھپی ہوئی بدیاں باہر نکل آئیں اور پھر وہ اس کو طعنہ دے سکے کہ تم یہ ہواور یہ کرتے ہو لیکن جہاں وہ بدیاں باہر آجائیں وہاں نظام جماعت کو اختیار نہیں ہے کہ ان سے آنکھیں بند کرے کیونکہ اب یہ معاملہ اس کا اور خدا کا نہیں رہا نظام جماعت کا بن گیا ہے.خدا مالک ہے، وہ بخشش چاہے تو ہر گناہ کو بخش سکتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کی بخشش کا ہاتھ روک سکے مگر نظام جماعت غلام ہے اور ایک ادنیٰ غلام ہے اس مالک کا جس نے نظام جماعت کو بعض اختیارات دیئے ہیں اور بعض اختیارات نہیں دیئے.وہاں بخشش اور رحم وکرم کا سوال ہی نہیں اٹھتا.وہاں تقویٰ اور انصاف کے ساتھ اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے وہ کارروائی کرنے کا سوال اٹھتا ہے جو قرآن کریم اور سنت اس سے تقاضا کرتی ہے.بعض دفعہ میں نے بعض معاملات میں جماعت کے عہدیداران کو پکڑا یا بعض افراد جماعت کو تو انہوں نے ہمیشہ مجھے کہا کہ آپ تو بخشش کی تعلیم دیتے ہیں، آپ تو کہتے ہیں خدا اتنا مہربان ہے، خدا ایسا ہے جو تمام عمر کے گناہوں میں ملوث انسان کو جس کے متعلق دنیا فتویٰ دے دے کہ یہ کبھی معاف نہیں ہوگا اس کو بھی معاف کر سکتا ہے اور آپ ہماری چھوٹی سی غفلت کو معاف نہیں کرتے.اس کے جواب میں میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ میں نے یہ جو صفات بیان کی تھیں اپنی نہیں بلکہ خدا کی بیان کی تھیں اور بحیثیت مالک خدا کو یہ اختیار ہے.جو جو اختیار خدا نے مجھے دیئے ہیں بحیثیت مالک ان میں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ میں خدا کی صفات کا نمونہ بنوں اور ان کے مطابق جہاں تک مجھ سے ممکن ہے بخشش سے کام لوں لیکن جہاں خدا تعالیٰ کی بخشش اپنی جگہ مگر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 686 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء جہاں اس کی مالکیت اپنے جلال سے جلوہ گر ہو اور مجھے اختیار نہ دے کہ ان معاملات میں میں اپنے ذاتی رحم سے کام لیتے ہوئے کسی کو معاف کروں وہاں میں بے اختیار ہوں.آنحضرت ﷺ کی بعض مثالیں ہمارے سامنے ہیں.حد سے زیادہ یعنی حد سے زیادہ تو نہیں کیونکہ حد سے زیادہ جو چیز بڑھ جائے وہ خلق کے مقام سے آگے نکل جاتی ہے یا گر جاتی ہے.آنحضرت اللہ بخشش کی آخری حدوں کو چھورہے تھے جس کے بعد بخشش کی کوئی حد نہیں ہے.خدا کے بعد کبھی کوئی انسان انتارحم کرنے والا ، اتنا بخشنے والا دنیا میں نہ پیدا ہوا نہ آئندہ ہو گا جیسا کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ملے تھے مگر جہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو نگران بنایا تھا، جہاں بعض اصولوں کی حفاظت کا سوال تھا وہاں بعض دفعہ آپ نے ناراضگی کا ایسا اظہار کیا کہ کسی صورت معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے جب تک خدا نے الہاما آپ کو اس بات پر پابند نہیں فرمایا کہ اس معاملے میں میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ معاف کر دو، درگزر سے کام لو.مثلاً وہ تین صحابہ جو پیچھے چھوڑے گئے تھے جو جہاد میں شریک نہیں ہو سکے تھے ان کے متعلق آتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ ان سے ناراض ہوئے تو ان کی گریہ وزاری، ان کی ایسی حالت کہ گویا وہ اس غم سے ہلاک ہو جائیں گے آپ کے دل پر اثر نہیں کر سکتی تھی.آپ نے معاف نہیں فرمایا جب تک خدا تعالیٰ نے معاف نہیں فرما دیا اور اس دوران آپ خود بھی غم میں مبتلا تھے.یہ وہ مضمون ہے جو بعض لوگ اپنی نادانی میں نہیں سمجھتے.بعض دفعہ ایک امیر، بعض دفعہ ایک خلیفہ کسی شخص کے خلاف ایک سخت کارروائی کرتا ہے مگر دل کی سختی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی مجبوری کی وجہ سے اور اس کا دل بعض دفعہ اس شخص سے بھی زیادہ سزا پاتا ہے جس کو وہ سزا دے رہا ہے.چنانچہ ان تین صحابہ کے متعلق جن کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آیا ہے روایت ہے وہ خود بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں جبکہ ہم پر ہماری زندگی ، ہمارا جینا، ہمارا کھانا پینا سب کچھ حرام ہو چکا تھا ایک ہی چیز تھی جو ہمیں زندہ رکھے ہوئے تھی وہ یہ تھی کہ کبھی کبھی اچانک آنحضرت ﷺ کو ہم اپنی طرف اس طرح دیکھتے ہوئے ، اچکتی ہوئی نظر سے دیکھتے ہوئے پکڑ لیتے تھے کہ جو رسول اللہ ﷺ کو خیال نہیں تھا کہ ہم ان کو دیکھ لیں گے.اس نظر میں شفقت تھی ، اس نظر صلى میں رحم تھا.یہ وہ مختصری غذا تھی جو کبھی کبھی ان کو ملتی رہتی تھی جو ان کی زندگی کا باعث بنی ہوئی تھی.تو یہ بحث نظام جماعت سے نہیں اٹھائی جائے گی کہ یہ معاملہ بخشش سے تعلق رکھتا ہے،
خطبات طاہر جلد ۱۰ 687 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء رسول الله اللہ بے انتہاء بخشش کرنے والے تھے، اللہ تعالیٰ بے انتہاء بخشش کرنے والا ہے اس لئے نظام جماعت کے اوپر جو چاہے جس طرح چاہے ہاتھ ڈال دے، جس طرح چاہے اپنے بڑوں کی بے عزتیاں کرے، نظام جماعت سے لا پروائی سے پیش آئے اور گستاخی سے پیش آئے ، عدم تعاون کرے اور ان باتوں پر اصرار کرے اور پھر اس کا تقاضا ہو کہ مجھے ضرور معاف کیا جائے.ایسی صورتوں میں بھی بعض دفعہ انفرادی طور پر معافی کی گنجائش ہوتی ہے مگر جب یہ باتیں فتنوں پر منتج ہوں تو ایسے موقع پر لازما سختی کرنی پڑتی ہے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے.اس کی بہت سی مثالیں ہیں جو میرے سامنے ہیں کیونکہ میں نے جیسا کہ بتایا ہے مختلف وقتوں میں مختلف ممالک میں مختلف فتنے اٹھنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ بروقت ان کا صحیح تجزیہ کیا جائے ، ان کو وقت پر پکڑا جائے اور دبا دیا جائے ، سمجھا کر منتیں کر کے بھی لیکن خدا نے فضل فرمایا جماعت کے وقار کو قائم رکھتے ہوئے جس طرح پیش گئی ان فتنوں سے نمٹا گیا اور خدا کے فضل سے ایک آدھ کے سوا کوئی شخص ضائع نہیں ہوا.جبکہ یہ خطرہ تھا کہ جماعتوں کی جماعتیں پھسل سکتی تھیں.اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے معاملات کو ساری جماعت کے سامنے رکھوں گا کیونکہ ان باتوں پر پردہ پوشی جہاں تک ذاتیات کا تعلق ہے وہ تو جائز ہے اور مناسب بھی ہے لیکن جہاں تک مثالوں کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں ان باتوں سے متعلق مزید پردہ پوشی سے کام لینا جماعت کے لئے نقصان دہ ہو گا کیونکہ بہت سے لوگ آج عہدوں پر فائز نہیں ہیں کل عہدوں پر فائز ہوں گے.بہت سے ہیں جو آج ایک غلطی نہیں کر رہے کل ایک غلطی کر سکتے ہیں اور ان بیچاروں کو پتا ہی نہیں کہ ان معاملات میں اس سے پہلے میں کیا اقدام کر چکا ہوں اور میں نے ان معاملات کو کس طرح سمجھا اور کیا کیا غلط فہمیاں تھیں فتنہ پیدا کرنے والوں کو جن کی غلط فہمیاں دور کی گئیں اور خدا کے فضل سے وہ مزید ٹھوکر سے بچ گئے اس لئے چند مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا بغیر نام کے چھوٹی چھوٹی باتوں سے کس طرح فتنے شروع ہوتے ہیں یہ مضمون آئندہ بھی شاید ایک دو خطبات میں اسی طرح جاری رہے.اور یہ یہ تو تمہید ہے اس میں بھی کافی وقت لگ گیا ہے اس لئے آج تو مختصر 1 چند چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کروں گا.سب سے پہلے میں چغلی یعنی غیبت کے متعلق آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق قرآن کریم نے بہت ہی سخت الفاظ میں مومنوں کو متنبہ فرمایا ہے.حالانکہ غیبت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 688 خطبه جمعه ۲۳ /اگست ۱۹۹۱ء بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے عام زبانوں کا چسکا ہے یا کانوں کا چسکا ہے جو مردوں ،عورتوں میں ہر جگہ پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ساری دنیا کی سب قوموں میں عام ہے.مشرق میں بھی ہے اور مغرب میں بھی سب میں یہ بات پائی جاتی ہے.قرآن کریم نے کیوں اس پر اتنی سختی فرمائی.یہاں تک فرمایا جو غیبت کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.بہت ہی مکر وہ مثال ہے یعنی مکروہ ان معنوں میں کہ اس کے فعل کی کراہت کو بہت کھول کر بیان فرمایا گیا ہے.مردہ بھائی کا گوشت کھانا ، اول تو بھائی کا گوشت کھانا بہت ہی خوفناک بات ہے پھر مردے کا گوشت کھانا.یہ مثال کیوں دی گئی اس میں کئی حکمتیں ہیں؟ ایک حکمت تو ظاہر ہے کہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا.دوسرے اگر دفاع نہ بھی کر سکتا ہو تو یہ حرکت بہت مکروہ ہے اور کسی کا گوشت کھانے والی بات ہے.تیسرے کسی کی بوٹی نوچی جائے تو اس کا نقصان پہنچتا ہے، اس کا خون بھی کم ہوتا ہے ،اس کا گوشت کا ٹکڑا بھی اس کے جسم سے اترتا ہے اور اگر کسی کو علم نہ ہو کہ میرے ساتھ یہ کیا جا رہا ہے تو اس کو یکطرفہ نقصان پہنچتا رہتا ہے اور عملی دنیا میں غیبت یہی سب کام کرتی ہے.اس سلسلے میں اگر مزید غور کیا جائے تو غیبت کی ایک تعریف بھی سمجھ میں آجاتی ہے.ایک ایسی تعریف جس پر عموماً لوگوں کی نگاہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی ایسی بات کرے جس کے نتیجے میں سننے والے لوگوں کے اندر کسی اور شخص کا یکطرفہ طور پر احترام کم ہو جائے اور نیت یہ ہو کہ اس کو نقصان پہنچانا ہے لیکن اگر بغیر نیت کے بھی ایسا فعل کیا جائے اور نقصان پہنچ جائے تو وہ بھی غیبت ہے.جہاں تک نیتوں کا معاملہ ہے یہ للہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ نیت کیا تھی کیونکہ انسان نیت پر نظر نہیں رکھ سکتا اس لئے اگر چہ اعلیٰ تعریف غیبت کی یہی ہے کہ کوئی انسان اس نیت سے کسی کے غیو بیت میں اس کی غیر حاضری میں، اس کا ایسا ذ کر کرے جس کے نتیجے میں سننے والوں کے دلوں میں اس کا احترام کم ہو جائے اور اس کو موقع نہ ہود فاع کا.اس کو نقصان پہنچ جائے لیکن اس کوعلم نہ ہو کہ مجھے نقصان پہنچ گیا ہے یہ غیبت ہے.اسی لئے ایک موقع پر جب آنحضرت ﷺ نے کسی شخص کی غیر حاضری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایسی بات کی جو اس کے متعلق اس کی کمزوری سے متعلق ایک امر واقعہ کا بیان تھا تو اس حکمت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں محدثین مشکل میں پڑ گئے.وہ حیران تھے کہ رسول اکرم ﷺ نے نعوذ باللہ غیبت کر دی اور اس کی بڑی بڑی تشر یکیں کرنے لگے حالانکہ امر واقعہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 689 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء یہ ہے کہ اس موقع پر جو بات ہوئی اس کا تعلق اس شخص کی عزت کو یکطرفہ نقصان پہنچانے سے نہیں تھا.نہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ نیت تھی، نہ حضرت عائشہ کا اس سے کوئی ایسا تعلق تھا کہ اس کا مقام حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دل میں گرنے کے نتیجے میں کوئی نقصان پہنچے.ایک پہلو اس حدیث کا ایسا ہے جو لوگوں کے زیر بحث نہیں آیا اور میرے نزدیک وہ سب سے اہم پہلو ہے.وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان ایک ایسی بات کسی شخص کے متعلق کسی کو بتاتا ہے کہ وہ بات حقیقت پر بھی بنی ہوتی ہے اس کی نیت نقصان پہنچانے کی نہیں ہوتی بلکہ مخاطب کو نقصان سے بچانے کی نیت ہوتی ہے.اس کو متنبہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک شخص ہے جس میں یہ بات ہے اس لئے اس سے بچو.اگر وہ حقیقت پر مبنی ہو اور اس نیت سے ہو اور مزید براں اگر ساتھ یہ نیت بھی شامل ہو کہ وہ شخص اگر اس بات کو سنے گا تو مانے گا تو نہیں لیکن اس کو تکلیف پہنچے گی تو اس تجزئیے میں یہ ہرگز غیبت نہیں بلکہ نہایت ہی پر حکمت فعل ہے.وہ جو حدیث زیر بحث ہے اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں یہی اس کی سچی تشریح ہے کہ بسا اوقات جیسا کہ ہم عام روز مرہ معاملات میں دیکھتے ہیں ایک شخص کے متعلق بعض باتیں ہیں جو ایک مجلس کے محدود افراد جانتے ہیں اور ان کے علم میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہو رہا ہوتا وہ اس شخص کے متعلق بات چلتی ہے جب وہ اچانک اندر داخل ہوتا ہے تو سب خاموش ہو جاتے ہیں.کیوں خاموش ہو جاتے ہیں؟ اس لئے نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے، اس لئے نہیں کہ وہ اس کے علم کے بغیر اس کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے بلکہ اس لئے خاموش ہو جاتے ہیں کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے ، اس کو اذیت نہ ہو اور غیبت کے مضمون میں اذیت نہ پہنچانے کا مضمون داخل ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو مزید اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جو کسی کی غیبت کرتا ہے جس سے وہ غیبت کرتا ہے اگر وہ بات اپنے تک رکھے اور آگے نہ پہنچائے تو اس غیبت کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی کسی کی طرف تیر پھینکے اور وہ تیر اس کو نہ لگے اور لگنے سے پہلے پہلے اس کے قدموں میں گر جائے.فرمایا وہ شخص جو غیبت کو سن کر آگے اس شخص تک پہنچاتا ہے جس کے متعلق بات کی گئی تھی اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے وہ پاس کھڑا ہو جب وہ تیر قدموں میں گرا ہو.قدموں سے اُٹھا کر اس کے سینے میں گھونپ دے والی) تو دیکھیں کتنی عظیم الشان پر حکمت تعریف ہے غیبت کی اور غیبت سے مناہی کا فلسفہ بیان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 690 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء فرما دیا.اصل مراد یہ ہے کہ بھائی سے کسی بھائی کو تکلیف نہ پہنچے.اگر انسان غائبانہ تکلیف اس طرح پہنچانا چاہے کہ اس کے خلاف کسی کے کان بھرے تو یہ بات اس تک پہنچے نہ پہنچے یہ غیبت بن جائے گی.اگر اس نیت سے نہ بھی کی ہو اور بات کسی کے خلاف کہی ہو تو جس نے سنا ہے اس کے پاس یہ امانت ہے اس کا فرض ہے کہ اس میں خیانت نہ کرے.یا تو اس کو ٹوک دے اور سمجھائے کہ تم نے ایک شخص کے متعلق غائبانہ بات کر دی، تمہارے لئے مناسب نہیں تھا یا پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بات آگے پہنچانے سے احتراز کرے کیونکہ جب اس نے بات سنی اور خاموشی اختیار کی تو وہ لازماً اس کا موید بن گیا.اس صورت میں یہ غیبت ان معنوں میں نہ رہی جن معنوں میں میں ایک حصے کی تعریف کر چکا ہوں.یعنی ایک شخص نے ایک ایسے شخص سے بات کی کسی شخص غائب کے متعلق جس کی اس برائی میں دونوں متفق ہیں تو کیا نقصان ہوا اس شخص کو جب دونوں متفق ہیں تو بات کہنے والے نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے کسی کو غائبانہ نقصان پہنچا لیکن جب وہ سننے والا وہاں اتفاق کرنے کے بعد پھر تکلیف اٹھا کر دوسرے شخص تک پہنچتا ہے اور اسے وہ بات بتا تا ہے تو اس کی مثال وہی ہے جیسا کہ آنحضرت ہو نے واضح فرمایا جیسے تیر کسی کی طرف چلایا گیا ہو، لگا نہ ہو، اس کے سامنے قدموں میں جا پڑے اور کوئی شخص اٹھا کر اس کے سینے میں گھونپ دے.وہ زیادہ ظالمانہ فعل ہے کیونکہ پہلے شخص نے تو کم سے کم کچھ احتیاط کی تھی کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے لیکن دوسرے شخص نے سفا کی سے کام لیا ہے اس لئے غیبت کی اس تعریف کو پیش نظر رکھنا چاہئے لیکن بعض دفعہ یہ معاملہ الجھ جاتا ہے جبکہ جماعتی معاملات ہوں اور نظام جماعت کے متعلق باتیں ہوں اور کوئی شخص کوئی بات کہیں کرتا ہے تو کیا اس بات کو متعلقہ عہدیدار تک نہ پہنچانا یہ مناسب ہے یا پہنچادینا غیبت ہوگا؟ یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر مزید روشنی ڈالنی ضروری ہے.پہلے حصے کے متعلق میں جتنی روشنی ڈال چکا ہوں ، جن لوگوں سے اس واقعہ کا تعلق ہے وہ بھی خطبہ سنیں گے اور وہ سمجھ چکے ہوں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن ایک دوسرا حصہ ہے جس کو مزید وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت ہے.میرے پاس بسا اوقات کئی دوست تشریف لاتے ہیں اور وہ بعض لوگوں کے خلاف بات کرتے ہیں عموماً میں ان کو روک دیتا ہوں.اگر ایسی بیوی آئی ہے جو خاوند سے ناراض ہے، خاوند آیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 691 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء ہے جو بیوی سے ناراض ہے، رشتے داروں کے جھگڑے ہیں تو میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ جہاں تک تکلیف کے اظہار کا تعلق ہے اور دعا کے لئے تحریک کرنے کا تعلق ہے میرا دل کھلا ہے تم مجھ سے اپنے سب آزار بیان کرو لیکن میاں بیوی کے اور رشتے داروں کے ایسے اختلافات جو شرعی تنازعہ بن سکتے ہیں ان کے متعلق میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا کہ کوئی بات کرو کیونکہ آخری صورت میں ان کا تنازعات کی اپیل مجھ تک پہنچتی ہے اصولاً اور میرے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ میں ایسے تنازعے میں یکطرفہ باتیں سن لوں جن کا یکطرفہ اثر میرے دل پر قائم ہو جائے اور بعد میں اس بات کا احتمال موجود ہو کہ کسی وقت میں فیصلے کی کرسی پر بیٹھا ہوں اور وہی باتیں مجھ تک پہنچ رہی ہوں.ان پرانے اثرات کو مٹانا پھر آسان نہیں ہوتا اور اگر میں یہ باتیں سنوں اور دوسرے فریق کو پھر موقع دوں تو میری ساری عمر انہی جھگڑوں کو طے کرنے میں گزر جائے گی یعنی خلافت کا کام ہی اور کوئی نہیں رہا سوائے اس کے کہ ساس کی باتیں سنے اور پھر بہو سے گفتگو کرے اور پھر بہو کے جوابات سنے اور ساس تک پہنچائے یا اختلاف کرنے والے میاں بیوی کے درمیان ایک Go Between بنا ر ہے یعنی ادھر سے ادھر بیڈ منٹن کی چڑیا کی طرح.یہ تو خلافت کا کام نہیں ہے.بعض لوگ احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن میں بھی جواباً ان کو کہتا رہتا ہوں کہ نہیں بس میں نے نہیں سنی.دعا کی حد تک کہو اس سے آگے نہ بڑھو.یہی طریق تمام امراء کو اختیار کرنا چاہئے جن کے پاس قضاء کے آخری جھگڑے پہنچنے والے ہوں.اگر ان کے پاس وقت ہے اور وہ معاملہ سلجھانے کی خاطر نہ کہ قضاء کے نمائندے کی حیثیت سے وہ ایک فریق کی بات سننا چاہتے ہیں تو اگر انہوں نے دوسرے فریق کو بعینہ موقع نہ دیا تو یہ نا انصافی ہوگی.پھر چغلی میں شریک ہونے والی بات ہوگی اور دوسرے فریق کو بات پہنچانا یہ چغلی نہیں ہے.یہ معاملہ ہے جو میں وضاحت سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جن لفظوں میں کسی نے شکایت کی ہے انہی لفظوں میں وہ بات پہنچائی جائے.صرف یہی ایک صورت نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ جماعتی شکایات بھی مجھے بعض امراء کے خلاف بڑے بڑے سخت لفظوں میں ملتی ہیں.بعض عہدیداران دوسرے عہد یداران کے خلاف بڑے بڑے سخت لفظوں میں لکھ دیتے ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی مناسب نہیں ہوتا کہ اس شخص کا نام بھی لکھا جائے لیکن جس کے خلاف شکایت ہے اس کا حق ہو گیا مجھ پر کہ میں اس کو بتاؤں کہ تمہارے خلاف
خطبات طاہر جلد ۱۰ 692 خطبه جمعه ۲۳ /اگست ۱۹۹۱ء یہ شکایت ہے.چنانچہ میں پوری احتیاط کے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کو سمجھاتا ہوں کہ یہ کلے تم نے نہیں لکھنے یہ اس کے دل کی تلخی ہے اور اگر یہ کلے ہم اس تک پہنچائیں گے جس شخص کے متعلق اس نے بات کی ہے تو وہ فتنہ شروع ہو جائے گا جس سے روکنے کے لئے قرآن کریم نے غیبت سے رکنے کی تعلیم دی ہے لیکن انصاف کے تقاضے کی حد تک جو شکایات کی روح ہے، جو شکایات کا حقیقی مضمون ہے وہ اس شخص تک پہنچانا ضروری ہے جس کے خلاف یکطرفہ شکایت کی گئی ہے ورنہ یہ بھی غیبت بن جائے گی.پس یہ دو انتہا ئیں ہیں جن کے درمیان قائم رہ کر قدم اٹھانا ہی پل صراط پر سے کامیابی سے گزرنا ہے.جہاں ان باتوں سے لاعلمی کی وجہ سے یا تقوی کی کمی کی وجہ سے لوگ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ٹھوکریں کھا جاتے ہیں وہاں ان سے بعض دفعہ جماعت میں بہت بڑے بڑے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں.اب میں آپ کو اس مثال کو مزید واضح کر کے بتاتا ہوں.ایک شخص ہے جس نے جماعت کے معاملے میں غیرت کا اظہار نہیں کیا.ایک شخص ایک غیر ہے مثال کے طور پر ایک مجلس میں وہ سلسلے کے متعلق بیہودہ باتیں کرتا ہے، ایک احمدی وہاں بیٹھا ہوا ہے ایک اور غیر احمدی بھی بیٹھا ہوا ہے.ایک غیر احمدی اٹھ کر سلسلے کا دفاع کرتا ہے لیکن احمدی و توفیق نہیں ملتی.یہ ایک قسم کی منافقت ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس لفظ منافقت کو استعمال کئے بغیر اگر اس شخص کی اصلاح ممکن ہو تو کیوں نہ کی جائے ، اسے کیوں نہ سمجھایا جائے؟ اس کی بجائے اگر یہ معاملہ انسان امیر تک پہنچا دے تو اس کو اس ذمہ داری کے ساتھ پہنچانا چاہئے کہ میں اس نیت سے اس وجہ سے آپ کو بتا رہا ہوں اس معاملے میں اقدام کریں اور اس سے پوچھیں یا اس کو سمجھا ئیں تو یہ بھی غیبت نہیں ہے.یہ ایک فرض ہے جو پورا کرنا ضروری تھا لیکن اگر امیر وہاں ہاں میں ہاں ملا کر بیٹھ جائے اور دونوں اپنی طرف سے یہ فتویٰ صادر کر کے مطمئن ہو جائیں کہ ہاں یہ منافقت ہے تو یہ غیبت بن جائے گی اور اس غیبت میں دونوں شریک ہوں گے.امیر بھی شریک ہوگا اور پہنچانے والا بھی شریک ہو گا.یہ ایک بہت تکلیف دہ چیز ہے جو آئندہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے.دیکھنا یہ ہے کہ کہنے والے کی نیت کیا تھی اور یہاں وہ نیتوں کا گہرا مضمون ہے جس کے متعلق میں روشنی ڈال رہا ہوں کہ نیتوں کی جڑیں بعض دفعہ اتنی گہری ہوتی ہیں کہ انسان خود واقف نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ بڑی مشقت اور محنت سے اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 693 خطبه جمعه ۲۳ /اگست ۱۹۹۱ء بات کی عادت ڈالے کہ سب سے زیادہ تنقید اپنے نفس پر کیا کرے اور سب سے زیادہ تنقید اپنے دل کی گہرائی سے اٹھنے والے خیالات پر کیا کرے.پہچان تو لیا کرے کہ وہ ہیں کیا ؟ بعد میں ان سے بیچ سکے نہ بچ سکے یہ ثانوی معاملہ ہے.اگر بعد میں ان سے نہ بھی بیچ سکے تو اس کا کم نقصان دوسروں کو پہنچے گا اگر وہ پہچانتا ہو کہ یہ ہے کیا چیز ، یہ چیز کیا تھی اور یہ جو بات میں بیان کر رہا ہوں میرے سامنے بہت سے ایسے معاملات ہیں ان پر میں چسپاں کر کے آپ کو بتارہا ہوں یہ بالکل حقیقت ہے کہ ایک ایسا شخص جو اپنے نفس کی کمزوریوں سے آگاہ ہوا گر وہ کمزوریوں سے بعض کمزوریوں سے نہ بھی بیچ سکے اس کا جماعتوں کو نقصان نہیں ہوا کرتا الا ماشاء اللہ.سوائے اس کے کہ وہ شریر النفس ہو.اس کی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور کیونکہ وہ بچنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ بسا اوقات اس کو معاف بھی فرما دیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کی اصلاح بھی فرما دیتا ہے لیکن جو شخص واقف ہی نہیں ہے کہ میرے دل میں یہ بات کیوں اٹھی اور یہ اقدام میں نے کیوں کیا وہ بعض دفعہ اپنی ہلاکت کا بھی موجب بن جاتا ہے اور بعض دفعہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب بھی بن جاتا ہے.اب یہ چھوٹی سی مثال ہے بظاہر کتنی معصوم سی بات ہے کہ ایک شخص نے ایک احمدی کی دینی بے غیرتی کا علم پا کر امیر سے اس کے متعلق بات کی اور شکوہ کیا اور دونوں اس بات میں شریک ہو کر خاموش ہو گئے.اب وہ کیوں ایسا ہوا؟ اصل بات یہ ہے اگر وہ اپنے دلوں کو ٹول کر دیکھیں تو ان دونوں نے کچھ نہ کچھ اطف اس بات کا اٹھایا کہ وہ تو کمزور ہے لیکن ہم نہیں ہیں، وہ دینی لحاظ سے بے غیرت ہے لیکن ہم نہیں ہیں.ہم اس چیز کو نفرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور بتانے والے نے بھی اگر اس نیت سے بتایا ہوتا کہ اس کی اصلاح ہو تو ساتھ درخواست کرنی چاہئے تھی کہ امیر صاحب میری آپ سے درخواست ہے کہ حکمت کے ساتھ ، معاملہ نہی کے ساتھ اس شخص کی اصلاح فرما ئیں لیکن یہ نہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے نفس کا چسکا پورا کیا ہے اور اپنے دل میں مطمئن ہو گیا کہ الحمدللہ میں نے اپنی اعلیٰ غیرت کا اظہار کر دیا.اب ایسا شخص عام دنیا کے حالات میں متقی بھی ہو سکتا ہے اور ہوتے ہیں اور قربانیوں کے اعلیٰ معیار پر بھی قائم ہوتے ہیں.صاف گو سچائی پر قائم لیکن یہ بہت سی بار یک راہیں ہیں جن را ہوں کے اوپر پوری روشنی نہیں پڑ رہی ہوتی.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ ربنا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 694 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير (التحریم: ۹) یہ دعا کرتے رہو ہمیشہ کہ اے خدا ہمارا نور مکمل کرتا چلا جا کیونکہ تقویٰ کی عام راہیں تو روشن ہیں ان پر غلط قدم وہی اٹھاتا ہے جو غیر متقی اور شریر اور عمداً گناہ کرنے والا ہو لیکن جو باریک راہیں ہیں وہاں بعض دفعہ روشنی کی کمی کی وجہ سے، لاعلمی کے نتیجہ میں انسان غیر متقیانہ بات کر جاتا ہے اور اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ میں نے کی ہے.چنانچہ جو مثال میں دے رہا ہوں اس میں بعینہ یہی بات ہے.میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جہاں یہ واقعہ پیش آیا.خدا کے فضل سے دین کے معاملے میں بڑی غیرت دکھانے والے، تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ، یعنی کھلے کھلے تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز، نمازی، پرہیز گار، دعا گو، سلسلے کی خاطر مالی قربانی کرنے والے اور اپنا وقت دینے والے لیکن ایک چھوٹی سی بات میں اپنی لاعلمی میں یا روشنی کی کمی کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے.اب یہ بات ایک ٹائم بم کے طور پر وہاں پڑی رہ گئی یعنی ایسے آتش فشاں مادے کے طور پر جس کی آتش فشانی کیفیت موجود ہے اگر چہ وہ پھٹا نہیں.بعد ازاں ان دونوں کا کسی معاملے میں اختلاف ہو جاتا ہے.امیر کا اور اُس کا کسی معاملے میں خواہ وہ جماعتی ہو یا ذاتی ہو اختلاف ہو سکتا ہے اور وہ جو پرانا ٹائم بم امیر صاحب کے دل میں محفوظ تھا اس کی یاد میں محفوظ تھا وہ اس شخص تک پہنچادیتے ہیں جس شخص کے متعلق یہ بات ہوئی تھی.اب ایسے موقع پر اس امیر کی صلى الله مثال بعینہ وہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی کہ تیر چلایا تھا جس پر چلایا تھا اس کے قدموں میں آ گرا اور اس کو نقصان نہیں پہنچا اور کسی پاس کھڑے ہوئے آدمی نے وہ تیرا ٹھایا اور اس کے سینے میں گھونپ دیا اور اس کے نتیجے میں ایک بہت بڑا فتنہ پیدا ہو گیا.بہت سخت اشتعال پیدا ہوا.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آغاز کس بات سے ہوا تھا ؟ جس بات کا آغاز تقویٰ سے ہوا ہو اس کے نتیجے میں یہ بدیاں نہیں پیدا ہوا کرتیں اس لئے یہ بحث فضول ہے کہ کس کا قصور ہے اور کس کا نہیں ہے؟ ایسے معاملات میں دونوں کا قصور ہے.جس نے بات کی اور اس وقت کھول کر انہیں بیان نہیں کیا کہ میری نیت یہ ہے اور یا اس بات کو بیان کرنے سے پہلے خود اس صاحب تک پہنچ کر یہ بیان نہیں کیا کہ مجھ تک بات پہنچی ہے، مجھے صدمہ پہنچا ہے، مجھے آپ سے توقع نہیں تھی تو ان دونوں صورتوں میں وہ اپنے فرض کو صحیح ادا نہیں کر سکا اور اس نے ایک فتنے کا خطرہ مول لے لیا اور چونکہ امیر نے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا اور جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا واضح ارشاد تھا اس کی واضح خلاف ورزی کی اس کے نتیجے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 695 خطبه جمعه ۲۳ /اگست ۱۹۹۱ء میں یہ زخم ضرور پہنچنا تھا اور ایک فتنہ پیدا ہونا تھا جو مقدر تھا ان حالات میں اس کو پھر ٹالا نہیں جاسکتا لیکن جب یہ باتیں ہو جائیں پھر کیا کرنا چاہئے؟ یہ بھی ایسا مضمون ہے جس کے متعلق جماعت کو خوب کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ تو فرمایا ہے کہ یکطرفہ بات سن کر کسی وقت اس کو دوسرے تک پہنچانے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے تیرا ٹھا کر سینے میں گھونپ دینے والے کی ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ اس کے نتیجے میں اس شخص کو کیا کرنا چاہئے جس کو تیر مارا گیا ہو اس لئے یہ وہ پہلو ہے جس پر آنحضرت ﷺ کی سنت سے جہاں روشنی پڑتی ہے ان معاملات کو پیش نظر رکھ کر آپ کو نصیحت کروں.ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جس کو اپنے متعلق کسی کی مخالفانہ بات پہنچے وہ بھڑک اٹھے اور جوابی کارروائی اس طرح کرے کہ وہ بات جو ابھی تک یکطرفہ ایذارسانی کی حد تک ہے وہ دوطرفہ جنگ میں تبدیل ہو جائے.عفوکس بلا کا نام ہے.عفو اسی کو کہتے ہیں کہ ایک انسان اپنے بھائی سے دکھ اٹھائے اور خاموش رہے اور صبر کرے اور اگر انسان ایک خلق میں نقصان اٹھا بیٹھا ہے اور اس خلق کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا نہیں کر سکا تو خدا تعالیٰ نے مومن کو اور بھی صفات عطا فرمائی ہیں.دوسری صفات اس کی حفاظت فرما دیتی ہیں اور کئی قسم کی مشکلات اور مصیبتوں سے وہ بچ سکتا ہے اس لئے مومن ایک طرف سے حفاظت نہیں دیا گیا ہر طرف سے حفاظت دیا گیا ہے.جب تک ساری دیوار میں نہ ٹوٹیں اس وقت تک مومنوں کی جماعت میں فتنہ نہیں پیدا ہوسکتا.پس میری یہ نصیحت ہے اس شخص کو اور ساری جماعت کو جو اس قسم کے معاملات میں خدانخواستہ کبھی ملوث ہو کہ ایسے موقع پر سب سے پہلا رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ انسان درگزر سے کام لے اور بجائے اس کے کہ بھڑک اٹھے اور اس شخص کو گالیاں دے اور پھر وہ امیر سے باتیں کرے اور امیر اور اس کے درمیان پھر توں توں میں میں ہو اور اچھی بھلی سنجیدہ جماعت جو عام دنیا کے حالات میں متقی، پر ہیز گاروں کی جماعت ہے، خدا کی راہ میں خدمت کرنے والوں کی جماعت ہے.وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح یا گھٹیا عورتوں کی طرح آپس میں لڑنے لگے اس کی بجائے اور بھی راہیں ہیں جو اگر اختیار کی جاتیں تو معاملہ سلجھ سکتا تھا.جس شخص نے یہ بات سنی تھی اس کا اول تو یہ فرض تھا اگر وہ خود متقی تھا کہ امیر کو کہے کہ جناب آپ مجھے یہ بات کیوں پہنچارہے ہیں ، کب آپ نے سنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 696 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء تھی؟ چھ مہینے ہو چکے ہیں.اس وقت تک آپ اس کو دل میں پالتے رہے ہیں اب مجھے یہ بتائیں کہ کیوں مجھے بتایا جارہا ہے.اگر الٹ کر امیر کو وہ یہ بات کہتا تو یہ فتنہ امیر پر الٹتا اور وہ اپنی غلطی کا ذمہ دار ہوتا اور اس کو اپنا د فاع انصاف کرنا پڑتا لیکن سننے والے نے اس بات کو اس طرح سنا کہ اب موجودہ حالات میں یہ امیر مجھ سے زیادہ تعلق رکھتا ہے بہ نسبت اس شخص کے اور اب ایک تعلقات کے نئے دائرے یہاں پیدا ہوں گے.وہ شخص جو پہلے امیر کے قریب تھا اب امیر سے دور ہو جائے گا.اب میں امیر کے دائیں طرف آ گیا ہوں اور اس وجہ سے میں روشنی میں ہوں اور فلاں وہ اندھیرے میں ہے اب ہم دونوں مل کر اس کو سیدھا کریں گے اور اس کو اپنے ٹکانے لگائیں گے.یہ باتیں ان الفاظ میں اس کے دل میں پیدا ہوں یا نہ ہوں جب وہ یہ یکطرفہ بات سن کر مشتعل ہو کر اس دوست کے گھر پہنچتا ہے جس کے ساتھ اس کے جس کی بیوی کے اس کی بیوی کے ساتھ تعلقات ، جن کے بچے آپس میں پیار محبت کے رشتے رکھنے والے اور جا کر ان پر برس پڑتا ہے اور کہتا ہے تم کون خبیث ہو جو ایسی باتیں کرو تم منافق ہو گے، تمہارے فلاں فلاں منافق ہوں گے.میں کہاں سے منافق آ گیا اور یہ بات بھی نہیں سمجھتا کہ اس نے جو حرکت کی تھی وہ تھی تو منافقانہ.منافقت کو منافقت اس طرح قرار دینا جس کے نتیجے میں تکلیف پہنچے یہ جائز نہیں ہے.لیکن جس سے حرکت ہو اس کو کچھ شرمندگی تو ضرور ہونی چاہئے.ایک دوسرا رد عمل اس کے اندر یہ پیدا ہونا چاہئے تھا کہ اس نے جو بات بیان کی ہے اگر چہ اس کا طریق درست نہیں ہے اس طرح کرنی نہیں چاہئے تھی مگر غلطی مجھ سے ہو گئی ہے اور مجھے دینی غیرت دکھانی چاہئے تھی.اس کو چاہئے تھا کہ وہ ان تک پہنچتا اور اگر کوئی جواز تھا تو یہ بیان کرتا.اگر کوئی جواز نہیں تھا تو تسلیم کرتا مجھ سے غلطی ضرور ہوئی ہے مگر مجھے آپ سے بھی توقع نہیں تھی کہ مجھ پر تو منافقت کا الزام لگا رہے ہیں اور آپ خود آنحضرت کی نصیحت کو پس پشت پھینک رہے ہیں اور کوئی پرواہ نہیں کہ کیا حرکت کر رہے ہیں.ایک ایسے بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں جو آپ کے لئے مردہ تھا ، دفاع نہیں کر سکتا تھا اور لطف کی یا تکلیف کی بات یہ ہے کہ اب یہ سہ طرفہ لڑائی شروع ہوئی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کو یہ طعنہ دے رہے ہیں تم مردہ بھائی کا گوشت کھانے والے ہو.حالانکہ کچھ نہ کچھ سب نے چکھا ہے.جس نے احمدیت کے متعلق الزام تراشی سنی اور خاموش رہا اور بے غیرتی کا نمونہ دکھایا وہ بھی تو احمدیت کا گوشت کھانے والا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 697 خطبه جمعه ۲۳ /اگست ۱۹۹۱ء تھا.اس کا فرض تھا کہ وہ مجلس سے اٹھ جاتا یا اٹھ کر دفاع کرتا.ایک غیر احمدی کو تو توفیق مل گئی دفاع کرنے کی مگر اس کو نہیں ملی.اس لئے اسے نرم لفظوں میں کہا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہو جہاں اس کو ان باتوں کی سمجھ نہ ہو اور امر واقعہ یہی ہے کہ وہ شخص جس کے متعلق بات کی جاتی ہے وہ ایسے ماحول کا پرورش یافتہ ہے جہاں اس کی تربیت گہری ہو نہیں سکتی تھی.اس کی یہ سعادت ہے کہ وہ اس ماحول کے باوجود احمدیت سے تعلق رکھتا ہے.اس میں اور بھی کمزوریاں ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض اور بھی اعتراض کرتا ہے.بعض چندوں پر اعتراض کر دیتا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے شخص کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے.اس سے حسن سلوک کیا جائے، اس کی پردہ پوشی کی جائے ، اس کی دل آزاریوں کو بھی برداشت کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ وہ سنبھل جائے اور دن بدن بہتر احمدی ہوتا چلا جائے اس لئے اس پس منظر میں اس پر یہ سخت الفاظ تو صادق نہیں آتے کہ وہ منافق ہے اور وہ بے غیرت ہے مگر میں نے جو الفاظ کہے ہیں یہ ان معنوں میں کہ وہ لوگ جو تربیت یافتہ ہیں، جن کو بچپن سے احمدیت کی روایات کا علم ہے، جن کو آنحضرت ﷺ کی سنت اور کردار کا علم ہے وہ اگر ایسی بات کریں تو ان کے لئے یقیناً یہ منافقت یا بعض دفعہ غداری بھی کہا جاسکتا ہے اور دین سے بے غیرتی بھی کہا جاسکتا ہے یقیناً ان تینوں میں سے کسی چیز کے مرتکب ہوئے ہیں.تو بہر حال وہاں ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھنا ایک کمزور آدمی کی کمزوری کو سمجھتے ہوئے ، اس کی اصلاح کی کوشش نہ کرنا اور اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کوفتوں کا موجب بنالینا ایک جماعتی خود کشی کے مترادف ہے اور ایک دوسرے کے روحانی قتل کے مترادف ہے.چھوٹی سی جماعت ہواس میں ایسی ناپاک فضا پیدا ہو جائے اور چھوٹے چھوٹے معاملات اس قسم کے جھگڑوں تک پہنچ جائیں جہاں انفرادی طور پر ہر شخص خدا کے فضل سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے شریعت کے تمام تقاضے پورے کرنے والا ہو.یہ بات ہمیں بتاتی ہے کہ انسان ہر وقت خطرے میں ہے.کوئی امن کی حالت میں نہیں ہے صرف خدا کا فضل ہے جو انسان کے اوپر امن کا سایہ کئے رکھے تو انسان بیچ سکتا ہے اور جیسا کہ قران کریم نے ہمیں متنبہ فرمایا تھا وہاں یہ نہیں فرمایا کہ شیطان چھپ کر کمزوروں کی گھات میں بیٹھتا ہے اور مومنو تم اس سے بالکل بری ہو بلکہ تمام ابناء آدم کو مخاطب کیا ہے اور متنبہ فرمایا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 698 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء دیکھو شیطان پہلے بھی تمہارے معاملات پر چھپ کر حملے کر چکا ہے، تم پر پھر بھی چھپ کر حملے کر سکتا ہے اور ضرور کرے گا.اس لئے شیطان کا چھپ کر حملہ کرنا سب پر عام ہے اور اس میں نیک و بد ، چھوٹا بڑا سب برابر کے شریک ہیں.ایک وعدہ ہے قرآن کریم کا اور وہ یہ ہے کہ جو میرے بندے ہوں گے ان پر شیطان جو چاہے کرے غلبہ نہیں پاسکے گا.میں جماعت سے توقع رکھتا ہوں کہ ان بندوں میں شامل ہوں.عہد یدار ہوں یا غیر عہد یدار ہوں وہ شیطان کے حملوں سے تو نہیں بچ سکتے لیکن فراست سے، اگر مومن کی فراست سے کام لیں تو شیطان کو اس کی کمین گاہوں میں دیکھ ضرور سکتے ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے مومن کے متعلق اس توقع کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے،اس کی فراست سے ڈرو.تو وہی لوگ ہیں جو خدا کے نور سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر کوئی پہلو دنیا کے معاملات کا اوجھل نہیں رہتا.کوئی جگہ ان کی اندھیرے میں نہیں رہتی اور اس پر روشنی پڑتی رہتی ہے.قرآن کریم نے اسی لئے ہمیں نصیحت فرمائی کہ اس معاملے میں خدا سے مدد چاہا کرو.مومن ہوتے ہوئے بھی خطرہ ہے کہ تم بعض اندھیروں میں ٹھوکر کھا جاؤ.لاعلمی اور جہالت کے اندھیرے بھی ہیں، تمہارے اپنے نفس کی جہالت کے اندھیرے بھی ہیں ، عدم تربیت کے اندھیرے بھی ہیں، تقویٰ میں کمی کے اندھیرے بھی ہیں، کئی قسم کے اندھیرے ہیں جن میں ہم نے اپنی زندگی کا سفر کرنا ہے اور خدا ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ ان سب اندھیروں میں کہیں نہ کہیں کوئی شیطان چھپا بیٹھا ہوگا اور وہ تم پر حملہ کرے گا اور تمہیں اور تمہاری جماعت کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا.تم خدا کے نور سے دیکھنا اور اگر تمہیں وہ نور پوری طرح میسر نہیں اور کسی شخص کو پوری طرح میسر نہیں آ سکتا تو ضرور دعا سے اپنے لئے مدد چاہنا.اگر تم یہ دعا کرتے رہوگے اللہ تعالیٰ تمہارے نور کو بڑھائے گا اور تمہارے ہر اندھیرے کو روشنی میں تبدیل فرما دے گا.یہ وہ دعا ہے جس کے متعلق پہلے بھی میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی.اس معاملے کے بقیہ پہلوؤں کو اگر ضرورت ہوئی تو میں آئندہ زیر بحث لاؤں گا ورنہ سر دست اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے.ہاں ایک بات ہے میں اس کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان سب باتوں کے باوجود پھر بھی ان لوگوں کو آپس میں لڑنے کا کوئی حق نہیں ہے اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 699 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۹۱ء الصلوۃ والسلام کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.اگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے سچی محبت ہے، اگر وہ اس کے خلیفہ سے تعلق قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نصیحت پہنچاتا ہوں کہ بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو.اگر تم اپنے سچے ہونے کی تعلیاں لے کر ایک دوسرے کو جھوٹے قرار دیتے رہو گے تو انسانی نفس اتنا دھوکا دینے والا ہے کہ بچے بھی ویسے ہی نظر آئیں گے جیسے جھوٹے نظر آئیں گے اور جھوٹے اور بچے میں تفریق ان جھگڑوں کے ذریعہ ہو ہی نہیں سکتی.پھر تم توقع رکھو گے کہ نظام جماعت تمہاری آنکھوں سے تمہارے معاملات کو دیکھے اور اگر امیر اس نظر سے نہ دیکھے تو تمہیں امیر جھوٹا نظر آئے گا.یہ ایک لامتناہی فتنوں کا سلسلہ ہے جو کبھی بند ہونے میں نہیں آئے گا.اس لئے ایک ہی نسخہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو تم میں سے وہ جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ سچا اور بری الذمہ سمجھتا ہے اس کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس آواز کوسن کر وہ پہل کرے اور اپنے بھائی کا جاکے دروازہ کھٹکھٹائے اور اس سے معافی مانگے اور اس سے کہے کہ میرے نفس نے جو کچھ بھی سمجھا ہے میں اس کو نظر انداز کرتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز کو اپنے نفس کی آواز بنا رہا ہوں اس لئے اس آواز کی پیروی میں تم سے اس طرح معافی مانگتا ہوں گویا سارا قصور میرا تھا.اگر وہ یہ طریق اختیار کریں تو یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے مٹ سکتا ہے اور جو اس کے بداثرات ہیں خدا تعالیٰ کی تقدیر ان کو اس طرح مٹادے گی جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.ایک نئی جماعت اور ایک نئی زندہ رہنے والی اور ہمیشہ زندہ رہنے والی جماعت اس جماعت سے نکلے گی لیکن اگر وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں اسی طرح الجھے رہے اور اپنی سچائی کی تعلیاں بیان کرتے رہے تو نہ صرف وہ تباہ ہوں گے بلکہ ان کے اردگر دسا را اما حول تباہ ہو جائے گا.کچھ لوگ جو ابھی ملوث نہیں ہوئے کوئی ایک کے ساتھ ملوث ہو جائے گا کوئی دوسرے کے ساتھ ملوث ہو جائے گا اور پھر وہ امیر کو بھی ملوث کریں گے ملک کے امیر کو اور پھر مجھے شکایتیں لکھیں گے کہ اس ملک کے امیر نے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا.یہ دلائل ہمارے تھے، وہ دلائل ان کے تھے اس نے ان کی باتیں سن لیں اور ہماری نہیں سنیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 700 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۹۱ء میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے احمدی ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ جیسا کہ میں نے بیان کیا عام حالات میں متقی ہیں اور ان کی میرے دل میں بہت جگہ ہے اور بعض متقی نہ بھی ہوں تو میں ان سے آہستہ آہستہ تقویٰ کی توقع رکھتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ رفتہ رفتہ روبہ اصلاح ہیں اور ان کی بعض خوبیوں کی وجہ سے بھی ان سے گہراتعلق رکھتا ہوں.اس قسم کے یہ لوگ جب آپس میں لڑ پڑیں تو ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ میرے دل میں تینوں بیٹھے ہوئے ہیں.وہ عملاً میرے دل کو پھاڑتے ہیں.کیسی میری بے اختیاری کی حالت ہوتی ہے، کیسی میری تکلیف کی حالت ہوتی ہے کہ دل کا ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے نفرت کرتا ہے اس کو دھکیل رہا ہوتا ہے.سوائے اس کے میں کچھ نہیں کر سکتا کہ بالآخر تینوں کو اس دل سے باہر نکال پھینکوں.اگر وہ اس وقت اس پر آمادہ ہیں تو پھر جو چاہے کرتے پھریں لیکن اگر وہ میرے دل میں اپنی جگہ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کو کوئی حق نہیں ہے کہ مجھ سے محبت رکھتے ہوئے میرے دل کے ٹکڑے کریں اور اس کو پھاڑنے کی کوشش کریں اس لئے نہ صرف یہ کہ آپ نصیحت پکڑیں اپنے ماحول کو سنبھالیں ورنہ لازماً اچھی جماعت ہونے کے باوجود یہ جماعت ہمیشہ کے لئے تنزل کا شکار ہو جائے گی اور یہ فتنہ اردگرد پھیل کر مزید جماعت کے ٹکڑے کر دے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان فتنوں سے بچیں.اب یہ چھوٹی سی مثال غیبت کی تھی.دیکھیں کہاں سے بات نکلی کہاں تک پہنچی.اب آپ کو علم ہو گا کہ قرآن کریم نے کیوں اس جلال اور شان کے ساتھ آپ کو متنبہ فرمایا تھا کہ ہر گز غیبت میں مبتلا نہ ہونا یہ مردہ بھائی کے گوشت کھانے والی بات ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 701 خطبه جمعه۳۰/اگست ۱۹۹۱ء امیر کی پشت پناہی وقت کا خلیفہ کرتا ہے اور خلیفہ کی پشت پناہی خدا فرماتا ہے.نظام جماعت کی حفاظت خلیفہ کا کام ہے.( خطبه جمعه فرموده ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء بمقام ناصر باغ گروس گیراؤ.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ میں میں نے ایک نیا سلسلہ مضامین شروع کیا ہے جس کا تعلق تقویٰ سے ہے.میں یہ بیان کر رہا تھا کہ تقویٰ کی کمی کے نتیجہ میں یا خود اپنی حالت سے غفلت کے نتیجہ میں اور آخری تجزیہ کے طور پر دراصل یہ ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں.انسان بسا اوقات ایسی غلطی کرتا ہے اور اس غلطی پر اصرار کرتا چلا جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں خود بھی ٹھوکر کھاتا ہے اور اگر وہ معاملہ جماعت کے نظام سے تعلق رکھتا ہو تو کثرت سے دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بن جاتا ہے اور اسی طرح دنیا میں آئے دن فتنے پلتے اور سر اٹھاتے ہیں.جہاں تک انفرادی غلطیوں کا تعلق ہے انسان کا اپنے خدا سے معاملہ ہے اور انفرادی غلطی خواہ کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو اس کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو جماعتی غلطی کو ہے کیونکہ جماعتی غلطی کے نتیجہ میں نظام برباد ہوتا ہے اور آئندہ کے لئے نسل در نسل لوگوں کے لئے ٹھوکر کھانے کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں ایک آدمی نہیں ڈوبتا بلکہ ہزاروں لاکھوں بعض دفعہ کروڑوں کو لے ڈوبتا ہے.گزشتہ کچھ عرصہ سے میرا طریق یہ رہا ہے کہ جماعتوں میں جب بھی اس قسم کے فتنوں نے سراٹھایا پیشتر اس کے کہ وہ سر اٹھتا ان فتنوں کی خوب اچھی طرح بیخ کنی کرنے کی توفیق ملی لیکن یہ معاملہ میرے اور ان جماعتوں کے درمیان خط و کتابت کی حد تک ہی محدود رہا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 702 خطبه جمعه ۳۰/اگست ۱۹۹۱ء اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسے معاملات ہیں کہ ساری جماعت کے علم میں آنے چاہئیں اور ساری جماعت کو معلوم ہونا چاہئے کہ فتنہ کیا ہے؟ کس طرح پلتا ہے کس طرح سراٹھاتا ہے اور کس طرح بعض دفعہ بڑے بڑے متقی نظر آنے والے انسان خود اپنے نفس کے دھوکوں میں مبتلا ہوکر ساری جماعت کے لئے ایک ابتلا بن جاتے ہیں اور شیطان کے لئے ایک آلہ کار بن جاتے ہیں.بعض ایسے شخص عمد أبالا رادہ بھی ایسی شرارت کرتے ہیں مگر وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں شاذ کے طور پر کہیں ہوں گے لیکن بہت سے ایسے ہیں جو اپنی بے وقوفی کے نتیجہ میں آنکھیں بند کرنے کے نتیجہ میں ، تقویٰ کی کمی کے نتیجہ میں ایسی غلطیوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور مستقلاً میرے لئے جماعت کی خاطر ایک پریشانی پیدا کرتے رہتے ہیں.آج کے خطبہ میں جماعت احمدیہ جرمنی سے متعلق میں بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اکثر آپ احباب کے علم میں نہیں ہیں.ایک لمبے عرصہ سے میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ آپ کی مجلس عاملہ اپنے امیر کا پوری طرح احترام نہیں کرتی اور اس میں ایسے عناصر موجود ہیں جو ایک دوسرے کو حقارت سے دیکھتے اور ایک دوسرے کی تذلیل کرنے کی کوشش کرتے اور امیر کی عزت اور احترام کا خیال رکھے بغیر مجلس میں اس قسم کی آزادانہ باتیں کرتے ہیں جو یقینا بد تمیزی پر منتج ہو جاتی ہیں.ایک ایسی ہستی موجود ہو جس کے دل میں ادب اور احترام ہو جو نظام جماعت کی نمائندہ ہواس کے سامنے اونچی آواز کرنا ہی بد تمیزی ہے کجا یہ کہ بغیر اس کی اجازت کے آپس میں گفتگو شروع کر دیں.ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں، ایک دوسرے پر بدظنیاں کریں اور مجالس عاملہ کے وقار کو مجروح کر دیں.اس قسم کی شکایات معین طور پر مجھے نہیں پہنچیں مگر بسا اوقات جب میں نے امیر صاحب سے حال پوچھا تو وہ چونکہ بہت ہی نیک مزاج، سادہ ، شریف النفس انسان ہیں ، شکایت کے عادی نہیں مگر بڑے درد کے ساتھ انہوں نے کہا کہ شاید مجھے تجر بہ نہیں شاید میں لاعلمی کی وجہ سے مجلس عاملہ کو سنبھال نہیں سکتا اور ایسے ایسے واقعات ہو جاتے ہیں.چنانچہ گزشتہ چند سال کے عرصہ میں کم از کم دو مرتبہ میں اس مجلس عاملہ کے ساتھ بیٹھا اور بڑی تفصیل کے ساتھ ان کو سمجھایا کہ کیا بات غلط ہے کیا درست ہے؟ کیا آپ نے نہیں کرنی اور کیا بات کرنی چاہئے اور اس معاملہ میں امیر کے وقار کو جماعت میں قائم کرنے کے لئے آپ کو مددگار ہونا چاہئے.کن چھوٹی چھوٹی کمینی باتوں سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 703 خطبه جمعه ۳۰/اگست ۱۹۹۱ء احتراز ضروری ہے اس کے نتیجہ میں جماعت میں فتنے پیدا ہو سکتے ہیں اگر مجلس عاملہ بھٹی رہے اور افتراق کا نمونہ بنی رہے تو باقی جماعتوں کی تربیت کیسے کرے گی؟ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں کا کوئی خاص اثر مجلس عاملہ کے بعض ممبروں پر نہیں پڑا.اس وقت تک میں نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ پوری سختی کے ساتھ اب اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے کچلا جائے گا کیونکہ ان میں سے ہر ممبر اپنی ذات میں اچھا دکھائی دیتا تھا ، بہت خدمتیں کر نیوالا ، بہت ہی بظاہر جماعت کے ساتھ اخلاص اور قربانی کا تعلق رکھنے والا اور ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ میرا قصور نہیں دوسرے کا قصور ہے لیکن جب میں نے خوب کھول کر سارے معاملات ان پر روشن کر دئیے اس کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اگر پھر کوئی ایسی حرکت ہوئی تو محض نصیحت سے کام نہیں لیا جائے گا.جو میری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے میں اس کو ہر قیمت پر ادا کروں گا.اب نئے فتنہ کا آغاز اس طرح ہوا کہ جلسہ سالانہ پر مکرم امیر صاحب جب مجھے ملنے کے لئے آئے تو ان سے میں نے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ کیسی آپ کی امارت چل رہی ہے؟ تو شدت جذبات سے بے قابو ہو گئے اور بہت مشکل سے ضبط کرنے کے بعد مجھے یہ بتا سکے کہ کچھ عرصہ سے حالات ایسے ہوتے چلے آرہے تھے کہ جس کے نتیجہ میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک گروہ میرے مقابل پر کھڑا ہے لیکن گزشتہ مجلس عاملہ میں جو مجلس شوری کے بعد ہوئی اس میں میرے نائب امیر نے اور مربی انچارج نے میری نہایت خطرناک بے عزتی کی ہے اور کھلے کھلے لفظوں میں باغیانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے میرے ساتھ بدتمیزی کا سلوک کیا گیا ہے.اس کا تعلق چونکہ مجلس شوری کی ایک کارروائی سے تھا اس لئے میں نے امیر صاحب سے گزارش کی کہ آپ اس معاملہ کو بالکل دل سے نکال دیں اب یہ میرا کام ہے کہ میں فیصلہ کروں گا.آپ مجلس عاملہ کی کارروائی کی جو کیسٹ ہے وہ مجھے بھجوائیں تاکہ کسی ایک آدمی کی رپورٹ سے میں کوئی نتیجہ اخذ نہ کروں.میں اس کارروائی کے متعلقہ حصوں کوسنوں گا اور پھر براہ راست نتیجہ نکالوں گا.اس کے علاوہ میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ چونکہ مجلس عاملہ کی کارروائی ریکارڈ نہیں ہوئی یعنی Audio ریکارڈ نہیں ہوئی ، آواز کو محفوظ نہیں کیا گیا اس لئے آپ اس کے متعلق مجھے اپنی تفصیلی رپورٹ لکھ کر دیں.ان کی رپورٹ آنے کے بعد میں نے مربی انچارج کو اس رپورٹ کی نقل بھجوائی اور ان سے پوچھا کہ مجھے یہ بتائیے کہ اس رپورٹ میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 704 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء آپ کی طرف جو باتیں منسوب کی گئی ہیں ان میں سے کون کونسی غلط ہیں؟ ان کا جواب آیا کہ وہ باتیں تو غلط نہیں لیکن پوری تصویر واضح نہیں کی گئی اس لئے مجھے اجازت دیں کہ میں تصویر کا وہ حصہ بھی اجاگر کر دوں جو اس رپورٹ میں درج نہیں.میں نے کہا آپ کو اجازت ہے آپ تفصیل سے مجھے لکھیں کہ کہاں کہاں امیر صاحب نے ایسی بات نہیں لکھی جو لکھنی چاہئے تھی.چنانچہ وہ رپورٹ بھی میرے سامنے آگئی.یہ آغاز ہوا ہے اس فتنہ کا جس کے نتیجہ میں پھر مجھے سخت کارروائی کرنی پڑی اور جماعت کے بعض پرانے کارکنوں کو سلسلہ کے کاموں سے کلیہ علیحدہ کر دینا پڑا.لیکن اس سے پہلے کچھ اور پس منظر ہے وہ بھی میں آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں.جب سابقہ مبلغ انچارج جن کے ساتھ یہ معاملہ ہوا یا جو اس جھگڑے کے بانی مبانی بنے ان کا تبادلہ میں نے جرمنی میں کیا تو مجھے ان کی طرف سے ایک بہت ہی عجیب و غریب چٹھی موصول ہوئی جس سے مجھے بہت دھکا لگا.اس چٹھی کا لب لباب یہ تھا کہ عملاً مجھے ہر قسم کے اختیارات ہونے چاہئیں.امیر اپنی جگہ پر لیکن مجھے ہر قسم کے اختیارات ہونے چاہئیں اور اس چٹھی کا مضمون میں پورا تو نہیں بیان کر سکتا مختصر چند فقرے میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.صرف جرمنی کی جماعت کی خاطر نہیں بلکہ تمام دنیا کی جماعتوں کے سامنے تا کہ ان کو معلوم ہو کہ کس طرح انانیت ایک بھیس بدل کر سر اٹھاتی ہے اور کیسے کیسے مطالبوں میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ سلسلہ کے نئے دستور کے مطابق جو اس وقت نافذ العمل اور جس سے دنیا بھر کی جماعتوں کے امراء اور نائب امراء اور مجالس عاملہ کے ممبران اور خصوصیت سے مربی واقف ہیں.اگر امیر مربی سلسلہ نہ ہو تو مربی سلسلہ کو نائب امیر بنادیا جاتا ہے ضروری نہیں مگر بنایا جا سکتا ہے اور یہی میرا فیصلہ تھا کہ ان صاحب کو بھی نائب امیر بنادیا جائے.ان کے مشورے یہ تھے کہ تبلیغ کے کام کی نگرانی خاکسار کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہوگا اس کو سرانجام دینے کی غرض سے تمام جماعتوں کے سیکرٹریان تبلیغ کا خاکسار سے براہ راست رابطہ ہوگا، تربیت کا شعبہ بھی براہ راست خاکسار کی زیر نگرانی ہونا چاہئے ہمجالس عاملہ میں خاکسار کوکوئی عہدہ مثلاً نائب امیر وغیرہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ مجلس عاملہ میں خاکسار کی حیثیت مبلغ انچارج کی ہوا اور بطور مرکزی نمائندہ کے خاکسار مجلس عاملہ کے فیصلوں اور ان کے کام کی عمومی نگرانی کرے.یعنی امیر سے بالا مجلس کا حصہ بنتے ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 705 خطبه جمعه ۳۰/اگست ۱۹۹۱ء ہوئے یہ ان پر گویا میری طرف سے براہ راست امیر سے اوپر ایک نگران بن کر وہاں بیٹھے رہیں.ذیلی تنظیموں کے صدر ان کا مبلغ انچارج کے ساتھ گہرا رابطہ ہونا چاہئے ،صدر صاحبان حضور انور کی خدمت میں جور پورٹیں بھجوائیں ان کی نقول خاکسار کو بھی بھجوائیں.خاکسار کو جماعت میں تبلیغی اور تربیتی کاموں کو تیز کرنے کے سلسلہ میں جو معلومات درکار ہونگی محترم امیر صاحب اور مجلس عاملہ کے متعلقہ شعبہ کا فرض ہوگا کہ خاکسار کو مہیا کرے.یعنی عملاً مطالبہ یہ ہے کہ میرا نام امیر نہ رکھا جائے مگر امیر اور مجلس عاملہ سے بالا ایک حیثیت مجھے وہاں دی جائے اس کے بغیر میں صحیح کام نہیں کر سکوں گا.میں نے ان کو جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ نائب امیر جماعت مغربی جرمنی ہیں اور مجلس عاملہ میں آپ کو یہی حیثیت حاصل ہو گی آپ کی ذمہ داری ہے کہ محترم امیر صاحب کو ہر معاملہ میں مناسب مشورہ دیا کریں اور امارت کے وقار کو جماعت میں بڑھانے کے لئے مد ومعاون ثابت ہوں اگر وہ آپ کا مشورہ قبول نہ کریں تو شرح صدر کے ساتھ امیر کے سامنے سرتسلیم خم کریں لیکن اگر آپ امیر کے فیصلہ کو جماعتی مفاد کے خلاف سمجھیں تو امیر کی معرفت اپنا اختلافی نوٹ مجھے بھجوائیں.اس کے علاوہ جتنے اختیارات امیر آپ کو دینا چاہے دستور کی حدود کے اندر رہتے ہوئے یہ اس کا کام ہے.امیر اگر آپ پر اعتما در کھتا ہے تو جتنا چاہے آپ کو اختیار دے.میں خود کوئی اختیار معین نہیں کروں گا ورنہ نظام جماعت چلانے میں دو غلا پن اور تضاد پیدا ہو جائے گا.اس کے بعد اور بہت سی باتیں ان کو سمجھا ئیں اور آخر پر لکھا کہ مندرجہ بالا تمام وہ باتیں ہیں جن کے متعلق مجھے آپ پر حسن ظن تھا کہ پہلے اس کا شعور رکھتے ہوں گے مگر آپ کے لمبے سلسلہ سوالات نے میرے حسن ظن کو ٹھوکر لگائی ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ میں نے ایک اور موقعہ پران سے کہا کہ مجھے فتنے کی بو آرہی ہے.آپ تقویٰ سے کام لیں اور امیر کے سامنے پوری طرح سرا طاعت خم کریں ورنہ آپ خدمت سے محروم ہو جائیں گے.اور ایک موقع پر ایک انگریزی خط میں ان کولکھا کہ میرے پاس دعا کے سوا چارہ نہیں رہا کہ یہ دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو Total disintegration سے بچائے.اس پر ان کی طرف سے مجھے اطمینان کا خط ملا.یعنی اپنی طرف سے مطمئن رہیں کہ میں بات سمجھ گیا ہوں.میری طرف سے آئندہ اس معاملہ میں کبھی آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 706 خطبه جمعه ۳۰/اگست ۱۹۹۱ء یہ ہے پس منظر اس نئے جھگڑے کا یعنی آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو سختی کی گئی ہے.اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حد سے زیادہ کی گئی ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے کرنی چاہئے تھی اور تاخیر ہوگئی.اگر یہ غلطی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے.اب جو واقعہ ہوا ہے اس کا آغاز مجلس شوریٰ میں کئی طریق پر ہوا.میں اگر کیسٹ منگوا کر نہ سنتا تو میری توجہ صرف اس بات کی طرف مبذول کرائی گئی تھی کہ صدر لجنہ نے وہاں کچھ ایسی باتیں کہیں جن کے نتیجہ میں مربی صاحب نے اپنے اختیارات سے بہت بڑھ کر ان سے سختی کی یہاں تک کہ ان کا نروس بریک ڈاؤن Nervous break down ہو گیا اور گویا یہی بات تھی لیکن جب میں نے وہ کیسٹ سنی اور جب میں نے امیر صاحب سے تفصیلی رپورٹ منگوائی اور خود مربی انچارج سے رپورٹ منگوائی تو جو باتیں سامنے آئیں وہ یہ ہیں جو میں بیان کرتا ہوں اور آپ کے علم میں آنی چاہئیں.سب دنیا کی جماعتوں کے علم میں آنی چاہئیں کہ مجلس شوری کیا ہوتی ہے؟ کس کو کیا اختیار ہے؟ کون کس طرح سے تجاوز کرتا ہے جو جماعت کے لئے نا قابل برداشت ہونا چاہئے.سب سے پہلی بات یہ کہ جب رد شدہ تجاویز پڑھی جارہی تھیں آپ کے علم میں آنا چاہئے جن کو شوری کا تجربہ نہیں کہ رد شده تجاویز ، وہ تجاویز جن کو خلیفہ وقت کی منظوری کے ساتھ مجلس میں پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اس بات کا اعلان کیا جارہا ہوتا ہے کہ ان تجاویز کو نہ پیش کرنے کی اجازت ہے نہ ان پر کسی کو تبصرہ کرنے کی اجازت ہے.جب یہ تجاویز پڑھی جارہی تھیں بار بار اس مربی انچارج نے اٹھ کر سیکرٹری کوٹو کا اور بیچ میں آکر اپنے تبصرے شروع کئے کہ میرے نزدیک اس میں یہ پہلو ہونا چاہئے تھا یہ مختصر تبصرے کئے اور کئی دفعہ ایسا کیا اور اس کے بعد یہ کہا کہ میں اپنی اختتامی تقریر میں ان امور پر مزید کچھ بیان کروں گا.امیر صاحب چونکہ اردو نہیں جانتے تھے یا ٹرانسلیشن اگر تھی اور انتظام درست نہیں تھا وہ شاید اس وجہ سے یا اپنی حد سے زیادہ انکساری اور شرافت کی وجہ سے خاموش رہے اور وہاں کچھ نہیں کہا لیکن بعد میں ان کو منع کیا کہ آپ کو کوئی حق نہیں تھا کہ آپ سلسلہ کی معروف روایات کے خلاف جن کی حفاظت کرنا آپ کا فرض ہے نہ کہ ان کا توڑنا آپ کا فرض ہے آپ ایسی حرکت نہ کرتے اس لئے آپ کو اجازت نہیں.اس پر بجائے اس کے کہ خاموشی اختیار کرتے سیکرٹری مجلس شوری سے فون پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 707 خطبه جمعه ۳۰/اگست ۱۹۹۱ء رابطہ کیا اور اس کو کہا کہ وہ امیر صاحب کو یہ کہے کہ آپ کی طرف سے اجازت تو نہیں ملی لیکن میں ضرور اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اب سیکرٹری مجلس شوری کو شوری کا کوئی ممبر براہ راست کہہ ہی نہیں سکتا اس کا تعلق ہی کوئی نہیں صدر مجلس جو ہے اس کے ساتھ ہر شخص کا تعلق ہوتا ہے.سیکرٹری مجلس شوری تو صدر مجلس کے ماتحت ایک کارکن ہے اس سے زیادہ اس کی وہاں کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن بہر حال فون کے ذریعہ جبکہ خود نائب امیر تھے اگر کوئی اصرار کرنا تھا تو اصرار نہیں کرنا چاہئے تھا.بالکل نا جائز تھا تو براہ راست بات کر سکتے تھے.امیر صاحب نے اس کے باوجود اجازت نہیں دی جو بہت اچھا کیا اور درست کیا لیکن اس عرصہ میں یہ کافی ایسی نامناسب باتیں کہہ چکے تھے جو روایات سلسلہ کے سراسر منافی تھا.پھر دوسری تعجب انگیز بات میرے سامنے یہ آئی کہ اختتامی خطاب بجائے امیر کے نائب امیر کا ہورہا ہے اور میری واضح ہدایات کے خلاف مجلس شوری کی کارروائی اردو میں ہو رہی ہے حالانکہ میں نے بارہا تاکید کی ہے.مجلس شوریٰ تو ایک بہت ہی اہم Institution ہے.نظام جماعت کا ایک ایسا اہم حصہ ہے، جس کے اوپر میری ہدایات پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے.میری ہدایت ہے کہ جس ملک کی جو زبان ہے، جو ہمارے رسمی اجلاسات ہیں ان میں اسی ملک کی زبان بولی جائے گی اگر کسی کو سمجھ نہیں آتی تو اس کا ترجمہ اس صورت میں ہوگا کہ وہ ایک اہم ممبر ہو اس کی ضرورت ہے اس کا مشورہ درکار ہے مگر وہ مجبور ہے.ایسا استثناء ہوسکتا ہے اور یہ بھی استثناء ہوسکتا ہے کہ اگر جرمن شوری ہے اور جرمن زبان میں کاروائی ہو رہی ہے تو اس کا اردو ترجمہ کر دیا جائے ان لوگوں کی خاطر جو جرمن پوری طرح نہیں سمجھتے لیکن سمجھنی چاہئے اس ہدایت کوسراسر نظر انداز کرتے ہوئے پوری کارروائی اردو میں ہو رہی تھی.پھر سلسلہ کی قدیم اور معزز روایات کو ٹھوکر مارتے ہوئے امیر کے آخری خطاب کی بجائے نائب امیر صاحب کا آخری خطاب تھا اور وہ آخری خطاب تو ایسا تھا جس نے رونگٹے کھڑے کر دیئے سب سے پہلے تو مجھے یوں لگا جیسے بعض لوگ تو خلیفہ بنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی انداز بناتے ہیں جو خلافت کا ایک خصوصی حق ہے اور جماعت اس انداز کے ساتھ ایک محبت رکھتی ہے اور اس کو اسی تعلق کی وجہ سے برداشت کرتی ہے اور یہ جماعت اور خلافت کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جسے کوئی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 708 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء اور شخص نہ سمجھ سکتا ہے نہ اس میں دخل دینے کا اس کو حق ہے لیکن اس سے الگ ایک، حضرت مصلح موعودؓ کا بھی انداز تھا اور وہ آپ کی ذات پر ہی پھبتا تھا.مجھے تو آج تک یاد نہیں کبھی میں نے اس رنگ میں اپنا خطاب اپنی صحت کے ذکر سے شروع کیا ہو کہ احباب جماعت کو فکر ہوگی کہ میری حالت کیسی ہے اس لئے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ چند دنوں سے طبیعت علیل رہی ہے اور پھر یہ یہ کچھ واقعات ہوئے اور پھر یہ ہوا.یہ خاص انداز تھا حضرت مصلح موعود کا جس کو جماعت بہت پسند بھی کیا کرتی تھی اور شوق سے سنا کرتی تھی لیکن اس کے بعد نہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے کبھی ایسا کیا نہ میں نے کیا بلکہ ہمیشہ شرم محسوس کی کہ جماعت کے وقت میں سے اپنی ذاتی گفتگو کے لئے وقت نکالوں لیکن مجلس شوریٰ میں تو اس کا سوال ہی کوئی نہیں.اگر صحت کے لئے کوئی اعلان کروانا ہو تو ہر احمدی کا حق ہے.اعلان کروائے جاتے ہیں لیکن وہ جلسوں میں کروائے جاتے ہیں.شوریٰ میں بھی اگر کروانا ہو تو محض ایک درخواست ہے جو کوئی شخص امیر کی نمائندگی میں پڑھ کر سنادے گالیکن اس کا ایک پہلا حصہ اس بات پر ہی مشتمل تھا اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں صدر لجنہ کے متعلق کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں اور اس بات کو میں نے اپنے اختتامی خطاب کے لئے اٹھارکھا تھا.اس بات سے قطع نظر کہ صدر لجنہ نے کوئی غلط بات کہی تھی یا نہیں کہی تھی اس حصہ کو میں الگ لوں گا.آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ مجلس شوری میں جب کوئی شخص ناجائز بات کہتا ہے.اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے بات کہتا ہے تو ہر ممبر مجلس شوریٰ کا حق ہے بلکہ فرض ہے کہ وہ ادب سے اٹھ کر ، امیر اجازت دے تو اس کو متوجہ کرے، ہاتھ اٹھائے ،امیر کے سامنے آئے اس سے عرض کرے کہ میرے نزدیک یہ نظام سلسلہ کی خلاف ورزی ہے اور ایسی نا پسندیدہ باتیں مجلس شوریٰ میں نہیں ہونی چاہئیں یہاں ان کا تعلق نہیں.یہ حق ہے لیکن اگر امیر نہیں سنتا یا انکار کر دیتا ہے تو پھر ہرگز کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس بارہ میں زبان کھولے.ہاں بعد ازاں وہ امیر کی معرفت خلیفتہ اسیح کو متوجہ کر اسکتا ہے کہ ہماری شوری میں یہ بات ہوئی ہے.میرے نزدیک روایات سلسلہ کے منافی ہے.اگر میں درست ہوں تو پھر امیر کو ہدایت کی جائے کہ آئندہ اس کا خیال رکھے.اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح کی جائے.یہ ایک مود بانه درست، متقیانہ طریق ہے لیکن اس موقع پر جن صاحب کا میں ذکر کر رہا ہوں انہوں نے بجائے اس کے کہ امیر صاحب سے مؤدبانہ درخواست کرتے کہ یہ غلط باتیں ہورہی ہیں آپ ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 709 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء کو روک دیجئے اپنا ایک حق محفوظ رکھا گویا خلیفہ وقت اس پر بعد میں تبصرہ کرے گا اور تبصرہ کا انداز بھی بلا شبہ صرف یہ کہ امیر سے بالا ہے بلکہ بعض باتوں میں خلیفہ وقت سے بھی ممتاز ہے اور اس تبصرے کے دوران آپ فرماتے ہیں کہ فلاں نام کی خاتون قادیان کی پرورش یافتہ ہیں ان کی تقریر تو بہت عمدہ تھی اور میں یہ مشورہ دیتا ہوں صدر صاحبہ لجنہ کو ایسی عمدہ تربیت یافتہ خواتین سے ہدایتیں لیا کریں اور ان کی ہدایت اور ان کے ارشادات اور ان کے تابع اور ان کے تجارب سے فائدہ اٹھا کر لجنہ کے کام چلائیں _ انا لله وانا اليه راجعون.خلیفہ وقت کسی کو صدر مقرر کرتا ہے اور نائب امیر اٹھ کر اپنی مربیانہ حیثیت کو بالکل غلط استعمال کرتے ہوئے یہ مشورے دے رہا ہے اور ایک خاتون کا نام لے کر اس طرح تعریف کرتا ہے جس طرح خلیفہ وقت بعض اچھے کارکنوں کی نمایاں طور پر تعریف کر دیا کرتا ہے لیکن کبھی ناممکن ہے کہ کوئی خلیفہ وقت یہ کہے کہ میں نے جس کو صدر مقرر کیا ہے کوئی فرد جماعت اس سے بالا ہے اور صدر کا فرض ہے کہ عہد یداران سے ہٹ کر میری ہدایت سے الگ ہوکر فلاں کی متابعت کرے اور اس سے سبق سیکھے.گویا میری مقرر کردہ صدارت کو بھی کینسل کر دیا اور اپنی طرف سے جس طرح آپ امیر بالائے امیر بن گئے تھے ایک صدر بالائے صدر مقرر فرما دیا.نہایت ہی بے ہودہ حرکت تھی مگر وہی بات ہوئی جو ایک ہدایت کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں ہونی چاہئے تھی.اردو میں باتیں ہورہی تھیں.ترجمہ اگر ہو بھی رہا تھا تو پتا نہیں کس قسم کا تھا.مگر امیر صاحب کو اس وقت پتا نہیں لگا کہ کیا ہوا ہے بعد میں امیر صاحب کو جب رپورٹیں ملیں اس پر مجلس عاملہ پر گفتگو شروع ہوئی.مجلس عاملہ میں جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس سے بھی زیادہ نا پسندیدہ اور نا پاک رویہ تھا.ایک اور بات بھی ایسی تھی جو انہوں نے کی جس پر امیر صاحب نے ان کی باز پرس کی.وہ ی تھی کہ اپنی طرف سے یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ جماعت جرمنی ہر جمعرات کو اس غرض سے روزہ رکھے کہ سوسالہ مساجد کی تعمیر میں ان روزوں میں خاص دعائیں مانگی جائیں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ایک تحریک فرمائی تھی کہ مہینے میں ایک دفعہ آخری جمعرات کو روزے رکھے جائیں اور وہ صد سالہ جو بلی کی کامیابی کے سلسلہ میں تھی اس کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ کبھی کسی امیر نے اپنے طور پر ایسی تحریک کی ہو.میں نے کبھی نہیں کی کیونکہ بعض دفعہ ان چیزوں کو بھی رفتہ رفتہ ایک دکھاوا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 710 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء سا بنالیا جاتا ہے کہ سب نے فلاں دن کا روزہ رکھنا ہے وہ پتا نہیں کہ کس حال میں رکھتے ہیں.جب تک دل میں درد پیدا نہ ہو.ایک خاص توجہ نہ ہو دعا کو بھی کھیل نہیں بنانا چاہئے اور اگراس قسم کا فیصلہ کسی خاص اہمیت کے پیش نظر کسی نے کرنا ہے تو خلیفہ مسیح کا کام ہے.باقی ہر شخص اٹھ کر روزوں کی تحریک شروع کر دے.اپنی طرف سے فلاں قسم کے نوافل کی تحریک شروع کر دے بالکل غلط ہے اور یہ روایات سلسلہ کے منافی ہے.جب امیر نے مجلس عاملہ میں یہ بات کہی تو ان صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر جماعت جرمنی میرے جیسے انسان سے استفادہ نہیں کرسکتی.یہ پڑے ہیں آپ کے کاغذات گویا منہ پر کاغذات مارے کہ اب جو چاہیں کریں میں اس معاملہ میں بری الذمہ ہوتا ہوں اگر میری ہدایات کے تابع کام کرنا ہے امیر نے اور عاملہ نے تو ٹھیک ہے.ورنہ یہ پڑی ہیں آپ کی عہد یداریاں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں.جب میں نے یہ پڑھا تو میں نے اس پر نوٹ لکھا کہ دراصل آپ میز پر یہ کاغذ ماررہے تھے کہ یہ رہا میرا وقف اور یہ رہی میری ساری عمر کی خدمات جائیں جہنم میں میرا اب ان سے کوئی تعلق نہیں.امیر کو اس دوران جو گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ ایک یہ تھا کہ امیر صاحب : آپ نے میرے مشورہ کا انتظار کئے بغیر مجھ پر کمیشن کیوں مقرر کر دیا ہے آپ ہوتے کون ہیں کمیشن مقرر کرنے والے اور میں آپ کے کسی کمیشن کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گا.کھلی کھلی واضح بغاوت تھی.امیر صاحب کو اگر تجربہ ہوتا تو وہ کہتے کہ اٹھ کر باہر نکل جاؤ.میں تمہیں معطل کرتا ہوں اور میں خلیفہ اسیح کی خدمت میں یہ سفارش کروں گا کہ ایسے شخص کو جماعت میں نہیں رہنا چاہئے لیکن وہ بھولے شریف انسان ہیں.ان پر لوگ ظلم کرتے رہے ہیں اور وہ چپ کر کے برداشت کرتے رہے ہیں اور بدنصیبی ہے جماعت جرمنی کی کہ ایسے اعلیٰ متقی شریف النفس اور منکسر المزاج امیر کی ، ان کی عاملہ کے ممبران بے عزتی کرتے چلے آرہے ہیں.میرا تو دل کھول اٹھا ہے یہ باتیں سن کر.میں نے ایک دفعہ یہاں تک ان کو لکھا تھا اسی مربی انچارج کو ، کہ دیکھیں میں یہ مانتا ہوں کہ ان میں تجربہ کی کمی ہے لیکن خدا کے فضل سے وہ نہایت متقی انسان ہیں اور صاف گو اور سچے ہیں اس لحاظ سے میں خلیفہ ہونے کے باوجود ان کا ادب کرتا ہوں میں آپ سے بحیثیت مربی یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی ان کا ادب کریں.یہ چٹھی ان کو اس سے پہلے ملی ہوئی ہے.میرے پاس ساری تاریخیں موجود ہیں ان کا ریکارڈ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 711 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء محفوظ ہے اس کے بعد ادب کا یہ حال تھا کہ دو باتوں میں کھلی کھلی بغاوت اور ایک موقعہ پر کہا میں جانتا ہوں کہ آپ عورتوں کے تابع آچکے ہیں.صدر لجنہ کے حق میں بات کر رہے ہیں.عورتوں کے نیچے لگ گئے ہیں اور پھر کہا میں جانتا ہوں یہ ایک ٹولہ جو آپ کے ساتھ لگا ہوا ہے اور پھر مجھے یہ لکھا اپنی عقل اور سمجھ کا نمونہ دکھانے کے لئے کہ دیکھیں کہ میں تو اس حد تک گیا کہ میں نے امیر صاحب کو ایک موقعہ پر علیحدگی میں یہ سمجھایا کہ آپ اور میں الگ الگ نہیں ہونے چاہئیں.ورنہ اگر آپ نے جب اس طرح ہی گویا کہ مجھے الگ رکھا اور میرے مشوروں پر عمل نہ کیا تو جو لوگ آپ کے مشیروں اور آپ سے ناراض ہیں وہ میرے پاس آیا کریں گے اور اسی طرح جماعت میں دو دھڑے بن جائیں گے گویا خودمخالفانہ دھڑے کی سرداری قبول کر لی یہ نہیں کہا کہ امیر صاحب! آپ مطمئن رہیں کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی اگر آپ کے خلاف بولتا ہوا میرے پاس آئے گا تو میں اس کو کہوں گا کہ تو دھتکارا ہوا شیطان ہے یہاں سے رخصت ہو.امیر کے خلاف میں کسی قسم کی بکواس برداشت نہیں کروں گا.امیر کو خلیفہ وقت نے مقرر کیا ہے اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی نیابت میں مقرر کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ من عصا امیری فقد عصانی فقد عصى الله ( بخاری کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر : ۲۷۳۷) جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے فقـد عصنی اللہ میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے.ساری عمر یہ باتیں رہتے ہوئے مربیان کو یہ بھی نہیں پتہ لگا آخری عمر میں جا کر کہ اطاعت ہوتی کیا ہے اور اخلاص کس چیز کا نام ہے چنانچہ مسلسل میری ہدایت کے باوجود میرے یہ لکھنے کے باوجود کہ میں اس شخص کا ادب کرتا ہوں حالانکہ میں نے امیر مقر رکیا ہے میرے ماتحت ہے آپ بھی ادب کریں.ادب کا یہ طریق اختیار کیا اور ان کے بعض ساتھیوں نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا جو نہایت نا پسندیدہ تھا.اب میں تفصیل سے وہ نام نہیں لینا چاہتا لیکن یہ بد بو تھی جو مجھے بڑی دیر سے آرہی تھی.میں چاہتا تھا کہ سمجھ جائیں جیسا کہ میں نے کہا کہ میں دعا کر تا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ٹھوکروں سے بچائے.اچھے اچھے کام کرنے والے بھی تھے لیکن جہاں جماعت کے مفاد کا سوال پیدا ہوتا ہو وہاں میں کسی ذاتی تعلق کو خاطر میں نہیں لاسکتا.کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک مجھے نہایت ہی اخلاص اور محبت کے خط لکھتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ان میں سے بعض یہ لکھتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 712 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء رہے کہ ہم آپ کے پاؤں کو چومنا چاہتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ آپ اپنی انکساری کی وجہ سے اور طبعی شرم کی وجہ سے اجازت نہیں دیں گے.لیکن میرے نزدیک ایسے فقروں کی اور پاؤں چوموانے کی نہ کوئی خواہش نہ اس کی ذرہ بھر قدر ہے خلیفہ وقت ایک نظام کا نمائندہ ہے خلیفہ وقت آپ سب مل کر ہیں اور آپ کی اجتماعی شکل میں ایک خلیفہ ہے جو آپ سب کی یعنی نظام جماعت کی عزت نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اگر وہ یہ کہے کہ میں خلیفہ وقت کی عزت کرتا ہوں.یہ ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے خوب کھل کر روشنی ڈالی تھی اور خوب اس معاملہ کو واضح فرما دیا اور بار بار واضح فرمایا قرآن کریم نے ایک موقع پر یہ مضمون بیان فرمایا کہ جو اللہ اور رسول کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور بار بار یہ مضمون بیان فرمایا ان کے سارے اعمال ان کی ساری کوششیں رد اور ذلیل ہیں.کوئی ان کی حیثیت نہیں رہتی.شروع میں مجھے یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اللہ اور رسول کے درمیان تفریق سے کیا مراد ہے لیکن بعد کے تجربہ سے پتہ چلا کہ ایسے لوگ یہ کرتے ہیں.کہتے یہ ہیں کہ دیکھیں زندگیاں قربان کر دیں گے لیکن امیر، یہ اور بات ہے.صدر خدام الاحمدیہ، یہ اور بات ہے، فلاں شخص کی اور بات ہے اس سے ہماری لڑائی اس سے ہماری دشمنی ، مگر خلیفہ وقت کے مقابل پر ہم بھلا کس کو خاطر میں لا سکتے ہیں تو خدا اور رسول کی تفریق بھی اسی قسم کے لوگ کرتے ہوں گے کہ رسول کی کسی بات پر نعوذ بالله من ذلك ناراض ہو کر کہہ دیا کہ خدا کی بات تو الگ ہوئی لیکن یہ کہ ہر بات میں رسول کی پیروی کریں یہ نہیں ہو سکتا.یہی وہ شیطانی وساوس ہیں جو نچلے درجہ پرمنتقل ہوتے ہیں پھر اور نچلے درجوں پر پر منتقل ہوتے ہیں بعض دفعہ امیر کے نیچے.پھر یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ امیر ہماری سر آنکھوں پر مگر اس کا فلاں عہد یدار ٹھیک نہیں اور یہ فتنہ پیدا کس طرح ہوتا ہے.اس کا آغاز خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے آغاز میں تمثیل کی صورت میں بیان فرما دیا جو میں بار بار بیان کر چکا ہوں لیکن جنہوں نے نصیحت نہیں پکڑنی ہوتی جو کان بہرے ہو چکے ہوں ان کو آواز آتی ہی نہیں.وہ سمجھتے ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ بہت گہرا راز فتنوں کا ہمیں سمجھا دیا کہ جب ابلیس نے ابی سے کام لیا تو اس کا ابی اس کا انکار دراصل اس کی انانیت کی گود میں پلا تھا.پہلے اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا مگر خدا سے بڑا نہیں.خدا کے مقرر کردہ امیر سے بڑا سمجھا اس سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور اس نے یہ نہیں کہا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 713 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء کہ اے خدا میں تجھے تسلیم نہیں کرتا یا میں تیری عظمت کو دھتکارتا ہوں اور اس کا انکار کرتا ہوں.یہ کہا کہ جس کو تو نے امیر بنایا ہے یہ تو مجھ سے چھوٹا اور بے معنی ہے.میرے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہیں آنا خَيْرٌ مِّنْهُ (ص:۷۷) کتنی گہری حکمت کی بات ہے ہزار ہا سال گزر چکے آغاز مذہب کی یہی حکایت ہمیشہ دہرائی جاتی ہے اور جو جاہل انسان ہے اس کو سمجھ نہیں آتی جس کی آنکھوں میں بصیرت نہیں ہے وہ باہر کے نور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور ہمیشہ جماعت میں جب فتنے پیدا ہوئے وہ اسی طرح ہوئے ہیں.کہا یہ جاتا ہے کہ بالا افسر وہ تو ٹھیک ہے.ہماری سر آنکھوں پر مگر یہ جو جھوٹا ہے نا ! شیطان.اس کی ہم بات نہیں مانیں گے.اگر وہ واقعہ شیطان ہے نا اہل ہے تو تمہارا فرض ہے کہ ادب کے ساتھ بالا ہستی جو بھی ہے.امیر ہے یا اس سے او پر خلیفہ ایسے ہیں ان کی خدمت میں لکھو کہ جس وقت تک آپ اس امیر کو بنائے رکھیں گے ہم ضرور اس کی اطاعت کریں گے لیکن ہماری درخواست یہ ہے کہ یہ بحیثیت امیر آپ کے شایان شان نہیں ہے.نظام جماعت کے اوپر دھبہ ڈال رہا ہے فلاں غلطی کر رہا ہے.یہاں تک لکھنا ہرگز نہ گستاخی ہے نہ ابلیسیت ہے لیکن یہ بات کہے بغیر یہ کوشش کئے بغیر انکار کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لینا اور یہ کہہ دینا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے.یہ ہے ابلیسیت جس کا ذکر قرآن کریم کے آغاز میں ہوا اور بار بار اس کہانی کو دہرا کر ہمیں نصیحت فرمائی گئی کہ دیکھو فتنے اس طرح اٹھا کرتے ہیں.جب بھی آئندہ فتنے اٹھیں گے اسی طرح اٹھیں گے اور جہاں تک میں نے وسیع نظر ڈالی ہے.اپنی زندگی کے سارے تجربہ پر میں نظر ڈال کر آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کا بیان کردہ فتنوں کا اسلوب اسی طرح دہرایا جاتا ہے، اسی طرح نفس دھوکا دیتا ہے، اسی کا نام تقویٰ کی کمی ہے.یہ انا نیت ہے جو ابی بن کر پھر اٹھتی ہے اور بغاوت بن جاتی ہے.پھر ایک اور بات جو ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اطاعت کے ساتھ ادب ضروری ہے صرف اطاعت کافی نہیں ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا گیا کہ آواز بھی نہ اونچی کرو وہ لوگ جو اونچی آواز میں کرتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ ایمان کیا ہے وہ اپنے ایمان کھو دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سچی اطاعت ادب کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ کھو کھلی رسمی اطاعت کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو ہمیشہ اطاعت کرنے والے کے لئے خطرہ بنی رہتی ہے.پس جب امیر مقرر کیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 714 خطبه جمعه۳۰/اگست ۱۹۹۱ء جاتا ہے تو اس کے ساتھ محبت اور ادب کا تعلق قائم کرنا ضروری ہے ورنہ اگر آپ اس کو اپنے سے حقیر سمجھتے رہیں بظاہر اطاعت بھی کریں گے تب بھی آپ کے لئے ہمیشہ کے لئے خطرہ موجود رہے گا.آپ ٹھو کر کھا سکتے ہیں.آنحضرت مہ نے اس مضمون کو اتنی وضاحت کے ساتھ کھول کر بار بار پیش فرمایا کہ ایک موقعہ پر فرمایا کہ دیکھو تمہارے اوپر اگر ایک ایسا امیر بھی مقرر کیا جائے جو حبشی ہو یعنی عربوں کو اپنی قومیت پر ناز تھا اور ایک حبشی شخص کے متعلق کہ وہ آکر ان کا امیر بن جائے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے مثال کیسی عمدہ دی ہے کہ ان کے لئے کراہت کا سب سے بڑا سامان رکھتی تھی فرمایا.حبشی ہو اور غلام ہو اور عربوں کے لئے غلام کی اطاعت کرنا تو ایک نا قابل تصور بات تھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور سخت اس سے تنافر پایا جاتا تھا پھر ان کو اپنی سرداریوں اور عقلوں پر بڑا ناز تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا سر منقے کے برابر ہو.یعنی خشک کئے ہوئے کشمش کے دانے جتنا سر ہو اتنا بے وقوف پاگل ہو.( بخاری کتاب الاحکام حدیث نمبر :۶۶۰۹) اگر ایسا امیر بھی تم پر مقرر کیا جائے تو ہم پر فرض کہ اس کی اطاعت کرو.یہ ہے اسلام کی امارت کی روح اور اطاعت کی روح جس کو حضرت اقدس محمد مصطف مع الله نے خوب کھول کھول کر بیان فرما دیا اور قرآن کریم نے بھی آپ کے ان حقوق کی خوب حفاظت فرمائی ہے جو باتیں مختلف وقتوں میں شیطان آنحضرت ﷺ کے غلاموں کو بددل کرنے کے لئے پھیلاتے رہتے تھے قرآن نے ان سب کی تاریخ محفوظ کر دی ہے اور فتنہ کے ہر پہلو بیان فرمائے ہیں ایک بھی ایسا دنیا میں فتنہ نہیں جوان پہلؤوں سے باہر ہو.پس مسلمانوں کے لئے ہر قسم کی خبر داری کے باوجود، تنبیہ کے باوجود دوبارہ ٹھوکر کھانا حد سے زیادہ جہالت اور خود کشی کے مترادف ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ اس طرح فتنہ پیدا کرتے ہیں.ہے تو وہی بات کہ نچلے آدمی کے خلاف اوپر کے خلاف براہ راست نہیں کرتے قرآن کریم کے مطابق اوپر کو اس طرح ملوث کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ دیکھو رسول اللہ نے خود تو بڑے زیرک بڑے باشعور بڑے صاحب فہم انسان ہیں مگر یہ بد بخت جو مشورے دینے والے ہیں.یہ مصیبت ہیں اور آپ کی کمزوری یہ ہے کہ اُذُنُ ہیں.لوگوں کی باتیں سنتے رہتے ہیں اور جو کسی نے کہا اس کو مان لیا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہدے کہ أُذُنَ خَيْرٍ لَّكُمْ (التوبہ (۶۲) کہ یہ وجود ایسا ہے جو ہر ایک کی بات سنتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 715 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء ہے مگر خیر کی بات کو قبول کرتا ہے.بھلائی کی بات کو قبول کرتا ہے بدی کی بات کو رد کر دیتا ہے اور اس کا اذن ہونا تمہارے لئے بہتر ہے.اگر یہ تم لوگوں کی باتیں نہ سنتا اور اپنے بالا خانوں میں چھپا رہتا تو تم ہمیشہ روتے رہتے کہ ہماری بات حضرت محمد مصطفی ﷺ تک نہیں پہنچتی.یہ تو خدا کا ایسا عاجز بندہ ہے کہ اس کے عاجز ترین بندوں کے لئے بھی جھک جاتا ہے اور ان کی باتیں بڑے پیار اور محبت سے سنتا ہے تم ایسے ظالم اور ناشکرے ہو کہ اس کے خلاف شکایت کر رہے ہو اور یہ نہیں جانتے کہ اس کا ان معنوں میں اذن ہونا کہ کامل انکساری کے ساتھ ہر ایک کے سامنے جھک جانا اور ان کی باتوں کو سننا ނ اور پھر یہ فیصلہ کرنا کہ اچھی کون سی ہے اور بری کون سی ہے تمہارے لئے فیض ہی فیض ہے.اب اس دور میں بھی جماعت میں جو فتنے اٹھتے رہے ہیں ان کا آغا ز تو اسی طرح ہوا جیسے کہ ابلیسیت کا ہوا.اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ پہلے کسی ایک شخص سے ٹکر لی گئی ہے اور کہا کہ ہم اس.بہتر ہیں.چاہے خلیفہ وقت نے مقرر کیا ہے یا جو بھی اس کی حیثیت ہے ہم اس سے بہتر ہیں اور پوری طرح اس کے تابع نہیں ہو سکتے.پھر خلیفہ وقت پر حملہ کرنے کے لئے یہ بہانے بنائے گئے کہ یہ فلاں کی باتیں سنتا ہے چنانچہ میں نام نہیں لینا چاہتا مگر جماعت احمدیہ میں میرے دیکھتے دیکھتے بارہا ایسی باتیں ہوئیں.ایک شخص ہے کسی نے کسی کو اپنا ہدف بنالیا.کسی نے کسی کو ہدف بنالیا.بعض کہا کرتے تھے کہ خلیفہ اسیح الثالث ، مولوی ابوالعطاء صاحب کی باتیں سن کر ہمارے خلاف ہو گئے.یہ فلاں شخص کی باتیں سن کر ہمارے خلاف ہو گیا، یہ فلاں امیر کی باتیں سن کر ہمارے خلاف ہو گیا ہے.یہ بالکل وہی فتنہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جس کو رد فرما دیا گیا ہے.لیکن سادہ لوگ جن کو ان باتوں کا علم نہ ہو وہ ٹھو کر کھاتے رہتے ہیں اور جماعت جرمنی میں بھی اسی فتنے نے نیا سر اٹھایا اور امیر کے متعلق یہ کہا جانے لگا اور مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ جن کے دل میں امیر کے لئے یا نظام کے لئے کوئی غیرت تھی ان باتوں کو کیوں برداشت کرتے رہے؟ کیوں انہوں نے مقابل پر اٹھ کر یہ نہیں کہا کہ یہ تمہارے شیطانی خیالات ہیں، ان سے باز آؤ ورنہ میں تمہاری خلیفہ اسیح کے سامنے رپورٹ کروں گا لیکن سنتے رہے ہیں اندر اندر ایک دوسرے کے کان پکاتے رہے ہیں.اور وہ یہ باتیں تھیں مثلا کہ جی امیر صاحب ! یہ تو مبشر باجوہ کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں جو بات سنتے ہیں مبشر باجوہ کی سنتے ہیں اور اس معاملہ میں جو فتنے کی کھچڑی پک کر ابلی ہے تو مجلس عاملہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 716 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء میں مربی انچارج نے یہ کہا کہ امیر صاحب، جو جو آپ کے مشیر ہیں ان سے باز آجائیں ورنہ یہ ہوگا.یا مجلس عاملہ کے معأبعد کہا اور مجلس عاملہ میں ایک ممبر صاحب اٹھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں امیر صاحب! ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں.الفاظ متنبہ ہوں یا نہ ہوں لیکن اس کی جو طرز ہے اور سختی ہے وہ یہی ہے.آپ کو خلیفہ اسیح نے مشوروں کے دو فورم دیئے ہیں یعنی آپ کو دو مشیروں تک محدود کر دیا ہے.ایک نائب امیر اور ایک مجلس عاملہ آپ اس فورم سے قدم باہر رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے آپ کو اجازت نہیں ہے کہ اس سے باہر نکلیں اور چونکہ آپ سن نہیں رہے اور ان باتوں سے باز نہیں آرہے کسی اور کی باتیں سنتے ہیں اس لئے یہ فتنہ پیدا ہوگا جب تک آپ تو بہ نہیں کرتے اور اپنے ان دو شیروں کو گو یا عملاً تابع نہیں کر لیتے اس وقت تک آپ امارت نہیں کر سکتے.میں نے امیر صاحب کو کہا کہ بلا تاخیر فوراً ان صاحب کو مجلس سے باہر نکالیں اور عملاً آپ کی ساری مجلس عاملہ معزول ہے.سوائے ایک شخص کے جس نے اس کے خلاف آواز اٹھائی.ان کی غیرت کہاں گئی تھی ؟ انہوں نے کیوں نہیں مڑ کر پوچھا کہ تم ہوتے کون ہو اس فورم کے مقرر کرنے والے.کہاں امیر المومنین نے یہ ہدایت کی ہے کہ کوئی امیر سوائے مجلس عاملہ یا نائب امیر کے کسی سے مشورہ نہیں کر سکتا.(اور سارے فتنے کے دوران ) اندر اندر کئی سال کا یہ فتنہ پک رہا ہے.ایک دفعہ، ایک دفعہ بھی میرے سامنے یہ بات کسی نے نہیں رکھی کہ مبشر باجوہ نے یا کسی اور باجوہ نے امیر صاحب کو یہ غلط مشورہ دیا اور یک طرفہ بات سن کر اس غلط مشورے پر انہوں نے عمل کیا.اگر یہ بات ہوتی تو اور بات تھی میں اس معاملہ کی تحقیق کرتا اور پتہ کرتا کہ کیوں امیر صاحب اتنا متاثر ہیں ایک شخص سے کہ غلط صحیح کی پہچان کے بغیر فیصلے کئے چلے جاتے ہیں.بعض لوگوں کو مشوروں کی بیماری ہوتی ہے.یہ مبشر باجوہ صاحب کو بھی ہے وہ مجھے بھی بڑے لمبے لمبے خط لکھتے ہیں اور بیس بیس بائیس بائیس صفحے کے مشوروں کے خط مجھے ملتے ہیں.میں نے تو کبھی حوصلہ نہیں ہارا اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ کہے کہ دیکھیں آپ کو خدا نے مجلس شوری تک محدود کیا ہے.یا اپنے ناظروں تک محدود کیا ہے، خبر دار جو مبشر باجوہ کے مشورے آپ نے سنے.اور میرا تجربہ ہے کہ آج تک انہوں نے کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا جو جماعت کے مفاد کے خلاف ہو.اللہ تعالیٰ نے ان کو مشوروں کا شوق تو ضرورت سے زیادہ دے دیا ہے لیکن عقل بھی اچھی بھلی ہے.خدا کے فضل سے جو مشورے ہیں وہ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بے وجہ بہت ہی زیادہ
خطبه جمعه۳۰/اگست ۱۹۹۱ء خطبات طاہر جلد ۱۰ 717 مشورے ہیں لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ان کے مشورے کسی ناپاک ارادہ سے ہوتے ہیں.یا ان کے مشوروں کے نتیجہ میں جماعت کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے ایک واقعہ بھی میرے علم میں آج تک نہیں آیا.ان کا میں شکریہ ادا کر دیا کرتا ہوں کہ جزاك اللہ آپ کے مشورے مل گئے جس حد تک ضرورت ہوئی میں فائدہ اٹھاؤں گا.یا یہ کہ دیتا ہوں کہ اکثر باتیں تو پہلے ہی اسی طرح ہو رہی ہیں.مشورے پر مشورہ آ گیا ہے بس جزاک اللہ.تو کیا حرج ہے اس میں اس بے چارے کی عادت ہے.دلداری کر لی ختم ہو گیا معاملہ اس پر اتنا طیش کھانا ؟ اس طرح جل جل جانا اور بغض و عناد پیدا کر لینا اور جماعت میں پرو پیگنڈے شروع کر دینا کہ ایک شریف النفس امیر چونکہ صرف یہی نہیں کہ اس کی بات سنتا ہے بلکہ اس کا رشتہ دار بھی ہے اور اس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے یہ ایک لعنتی پرو پیگنڈا ہے.اگر ان لوگوں نے تو بہ نہ کی تو خدا کی نظر میں یہ مغضوب ہوں گے اور پکڑے جائیں گے.عملاً ایسے لوگوں نے مجھ سے اپنا عہد بیعت خود فسخ کر لیا ہے مجھ سے ان لوگوں کا کوئی تعلق نہیں رہا.کیونکہ ایسی بدبختی بار بار کی نصیحتوں کے باوجود بار بار گھنٹوں بیٹھ کر سمجھانے کے باوجو دان کو عقل نہیں آئی.یہ کہنا چاہئے تھا یہ طریق اختیار کر سکتے تھے کہ فلاں صاحب مشیر ہیں اور ان کے مشورے بار بار غلط ہورہے ہیں.یہ اسی طرح بار بار جماعت کے لئے سیکی ہورہی ہے میں لازماً فوری طور پر تحقیق کرتا مگر کبھی ایساواقعہ نہیں ہوا.یہ درست ہے کہ امیر سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں ، ہو جاتی ہیں لیکن ان غلطیوں کو درست کرنے کا ایک طریق کا رہے.خلیفہ وقت موجود ہے، اس سے نیچے اور بھی عہدیداران ہیں جن کا امیر کی غلطیوں سے تعلق ہوسکتا ہے.ناظر اعلیٰ ہے، وکیل اعلیٰ ہے، صدران مجالس ہیں لیکن کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ خود امیر پر نگران بن کر بیٹھ جائے اور اس کی غلطیوں کو پکڑے.صرف ایک معاملہ ایسا ہے جہاں اگر خدانخواستہ بھی ہو تو وہاں جماعت کو امیر کی متابعت میں رہنے کا حق نہیں رہتا کہ وہ خلیفہ وقت کے کھلے کھلے فیصلہ کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے.اس صورت میں وہ عملاً اپنی امارت سے انحراف کر رہا ہے کیونکہ جس نے اس کو امیر مقرر کیا ہے اس کے دیئے ہوئے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے.ایک امیر کے سوا آج تک میرے علم میں نہیں آیا کہ کسی نے خلیفہ المسح کی واضح ہدایت کی طورة
خطبات طاہر جلد ۱۰ 718 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہو اور وہ اس کی بدنصیبی تھی اور اس کے بعد ہمیشہ کے لئے اس کو نظام جماعت میں خدمت سے محروم کر دیا گیا ورنہ امراء تو فدائیت کے پتلے ہوتے ہیں اور امیر کے وقار کی حفاظت کرنا خلیفہ وقت کا فرض ہے.وہ آپ نے نہیں سنا کہ کس طرح خدا انبیاء کی حفاظت کرتا ہے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس مان کے ساتھ کس شان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میری پشت پر دیکھتے نہیں کون کھڑا ہے وہ کبھی مجھے نہیں چھوڑے گا اس لئے خلفاء کو بھی اسی سنت پر عمل کرنا ہے.انبیاء خدا سے رنگ سیکھتے ہیں اور خلفاء انبیاء سے رنگ سیکھتے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک خلیفہ وقت نے کسی کو امیر مقرر کیا ہے وہ ہمیشہ اس کی پشت پر کھڑا رہے گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ امیر کو زخم پہنچائیں اور خلیفہ وقت اس کا جواب نہ دے.کوئی شخص اگر یہ منافقانہ، جاہلانہ خیال دل میں پالتا ہے کہ میں خلیفہ وقت کے مقرر کردہ امیر سے ٹکرارہا ہوں اور خلیفہ وقت کے پاؤں چومتا ہوں تو وہ جھوٹا ہے.یہ شیطانی خیالات ہیں.خلیفہ وقت ایسے پاؤں چومنے والے کے چومنے پر ٹھو کر بھی نہیں مارتا.وہ ہر قیمت پر اپنے مقرر کردہ امیر کی پشت پر کھڑا رہے گا سوائے اس کے کہ اس پر یہ ثابت کر دیا جائے کہ وقت آگیا ہے کہ اس امیر کو بدل دو.پھر یہ کہا گیا کہ امیر کی ایک پارٹی ہے گویا کہ اور اس کے مقابل پر ایک اور پارٹی ہے کہ اگر آپ اس طرح چلیں گے تو پھر یہ پارٹیاں قائم ہوں گی.میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ جماعت میں صرف ایک پارٹی ہے اور صرف ایک پارٹی ہے اور وہ خدا کی پارٹی ہے اور اسی پارٹی کی نمائندگی امیر کرتا ہے اس کے سوا جتنی پارٹیاں ہیں وہ شیطانی پارٹیاں ہیں.ان پارٹیوں کے زندہ رہنے کا حق ہی کوئی نہیں اس لئے سراٹھا کر امیر سے یہ باتیں کرنا کہ ہم جانتے ہیں کہ کن عورتوں کی تم باتیں سن رہے ہو.کون سے تمہارے ٹولے ہیں جو تمہاری مدد کر رہے ہیں؟ یہ کھلی کھلی بغاوت اور شیطانی خیالات ہیں ان کو کسی قیمت پر جماعت میں پہنے نہیں دیا جائے گا.اس لئے میں امیر صاحب کو بھی خوب اچھی طرح اس بات سے آگاہ کرتا ہوں کہ آپ شیروں کی طرح ڈٹ جائیں.خلیفہ وقت آپ کے ساتھ ہے اور ساری جماعت احمدیہ آپ کے ساتھ ہے.جرمنی کی جماعت بھی آپ کے ساتھ ہے اور کل عالم کی ۱۲۶ جماعتیں آپ کے ساتھ ہیں اور خدا کی قسم جس کی پشت پناہی آج کا خلیفہ کر رہا ہوگا یا اپنے وقت کا خلیفہ کر رہا ہوگا اس کی پشت پناہی خدا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 719 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء کرے گا اور ہمیشہ خدا اس کی پشت پناہی کرے گا.وہ لوگ جو جہالت سے بغاوت کے سراٹھاتے ہیں ان کے سر کچلے جائیں گے بڑے بڑے پہلے بھی لوگ پیدا ہوئے تھے انہوں نے یہ آوازیں بلند کیں تھیں کہ ہمارے جتنے زیادہ ہیں کہاں گئے ان کے جھتے ؟ ٹکڑے بکھر گئے ان کے.کہاں گئیں ان کی عزتیں؟ ساری خلافت سے وابستگی کے نتیجہ میں تھیں.وہ لاہوری جماعتوں کے حال کیا ہوئے وہ بڑے بڑے جو انجمن کے سر براہ بنے پھرتے تھے ان کے حال کیا ہوئے؟ کس طرح خلیفہ اسح الاول نے ان کو للکارا جو عجز کا پتلا تھے.میں بھی خدا کے فضل سے بجز کا پتلا ہوں مگر جہاں خدا کے نظام کے وقار کا سوال ہے وہاں کسی قیمت پر میں اپنے سر کو جھکا نہیں سکتا.بعض لوگوں نے مجھے کہا آپ تو محبت کے سمندر ہیں.میں ان کو بتا تا ہوں کہ سمندروں میں بھی تلاطم پیدا ہوا کرتے ہیں اور اس محبت کے سمندر میں اگر خدا کی غیرت کے خاطر تلاطم پیدا ہوا تو جتنے شیطانی جہاز ہیں وہ سارے غرق ہو جائیں گے اور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ اس طوفان کا مقابلہ کر سکے اس لئے امیر صاحب کو میں نے ہدایت دی ہے اور میں تمام جماعت جرمنی سے اس کی توقع رکھتا ہوں کہ وہ کلیہ ان کے ساتھ وفاداری کا اقرار کریں اور مجھے بعد میں ریزولیوشن کے ذریعہ آپ یہ یقین دلائیں کہ ہم میں سے ہر ایک جو آپ کی بیعت میں داخل ہے وہ اپنے امیر کی نہ صرف اطاعت کرے گا بلکہ پوری طرح اس کا احترام کرے گا اس کا ادب کرے گا اس سے ٹکرانے والوں کے ٹکڑے اڑا دے گا.یعنی ان کی حیثیت کسی شمار میں نہیں آئے گی جسمانی طور پر نہیں بلکہ ان کی انانیت کے ٹکڑے اڑادے گا.ان کے تکبر کو پارہ پارہ کر دے گا اور مجھے یقین ہے، میں جماعت کو ہر دوسرے انسان سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں آپ میرے دل میں دھڑک رہے ہیں میں آپ کے دل میں دھڑک رہا ہوں ہم ایک دوسرے کی رمزوں سے واقف ہیں ہم ایک دوسرے کی نبضوں کو جانتے ہیں اس لئے میں آپ کی طرف سے کامل یقین کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ یہی جذبات جو میرے دل کے جذبات ہیں آج ساری دنیا ، جرمنی کی جماعت کے جذبات ہیں، آج ساری دنیا کی جماعتوں کے جذبات ہیں.پس کیا خوف ہے آپ کو ان فتنے گروں سے جو بار بار سراٹھاتے ہیں تکبر اورانا نیت سے نہ یہ پہلے کبھی جماعت کا کچھ بگار سکے تھے نہ آئندہ کچھ بگاڑ سکیں گے.آپ کو میں نے تفصیل سے یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 720 خطبه جمعه ۳۰ راگست ۱۹۹۱ء باتیں اس لئے بتائی ہیں کہ بعض سادہ لوح آخری مقام پر پہنچنے سے پہلے پہلے ٹھوکریں کھا جایا کرتے ہیں.جب اس قسم کا مقابلہ کھل کر ہوتا ہے تو پھر وہ تو بہ بھی کرتے ہیں.واپس بھی آتے ہیں لیکن زخمی ہونے کے بعد اور چند ایک گنتی کے بدنصیبوں کے سوا ان فتنہ گروں کے ساتھ کوئی بھی نہیں رہا کرتا.خود ان کے ساتھی ان کو چھوڑ دیا کرتے ہیں اور اس مضمون کو بھی قرآن کریم نے بہت کھول کر جنگ بدر کے حالات بیان کرتے ہوئے بیان فرما دیا ہے.کوئی فتنے کا پہلو ایسا نہیں جو قرآن کریم نے خالی چھوڑا ہو جس کے متعلق ہمیں تنبیہہ نہ کر دی گئی ہو.پس اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں جو عام حالات کی ذمہ داریوں سے بہت بڑھ کر ہیں.یادرکھیں ہم صدی کے سر پر کھڑے ہیں ہم بحیثیت مجموعی اس صدی کے امام بنائے گئے ہیں.آج کی غفلتیں اور آج کی ٹھوکریں آنے والے سو سالوں پر اثر انداز ہوں گی اس لئے سوچ کر مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائیں.سلسلہ کی روایات کی حفاظت کریں اور ہر ایسے شخص کو جس کی انانیت سراٹھاتی ہے اس کو رد کر دیں اور اسے نا مراد کر کے دکھا دیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.اور ہمیشہ ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی علی ہے کے سکھائے ہوئے اعلیٰ اسلوب کے مطابق اطاعت اور ادب کے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 721 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء نظام جماعت میں کوئی امیر ڈکٹیٹر نہیں.خلیفہ بھی ڈکٹیٹر نہیں کیونکہ وہ مقتدرہستی کو جواب دہ ہے.(خطبہ جمعہ فرموده ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء بمقام مسجد نور اوسلو (ناروے) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کا یہ خطبہ میں ناروے کے دارالسلطنت اوسلو سے دے رہا ہوں.ناروے کی جماعت بھی ان جماعتوں میں سے ایک ہے جن میں گزشتہ چند سالوں سے بارہا کئی قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہے اور کئی قسم کی سرکشیوں نے سر اٹھایا.ایسے لوگ چند گنتی کے ہوں گے کیونکہ میرا حسن ظن اس جماعت پر یہی ہے کہ جماعت کی بھاری اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ کے ساتھ جماعت سے وابستہ ہے اور پوری وفا کے ساتھ نظام جماعت کے ساتھ منسلک ہے لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بعض دفعہ ایک مچھلی بھی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے.عملاً الہی جماعتوں میں جب فتنے پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے خواہ وہ عمداً کی جائے یا بغیر معلوم ہوئے ایک فتنہ پردازا اپنی شخصیت کو پہنچانے بغیر فتنے پھیلا رہا ہوتا ہے اور اس کو علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے جو بھی صورت ہو ہر مچھلی خواہ ایک ہو یا دو یا تین ہوں ان مچھلیوں کا پھیلایا ہوا گند چاروں طرف پھیلتا ہے اور تالاب کا پانی ضرور گدلا دکھائی دینے لگتا ہے اس لئے جہاں بھی اس قسم کے لوگ پہنچیں اور ان کی شرارت اور ان کے فساد کو بر وقت دبایا نہ جائے اس کا نقصان لازماً جماعت کو پہنچتا ہے اور یہ جماعت کی بدنصیبی ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوٹی چھوٹی بدتمیزیوں کو دیکھتی ہے اور انہیں برداشت کرتی چلی جاتی ہے اور بر وقت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 722 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء اقدام نہیں کرتی ، جس کے نتیجے میں بعض دفعہ بہت گہرے نقصان پہنچ جاتے ہیں.جماعت ناروے میں بھی ایسے لوگ تھے جنہوں نے نظم وضبط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے وقار کو مجروح کرنے والی حرکتیں کیں اور نیچے مسلسل یہی سمجھتے رہے کہ وہ متقی اور پر ہیز گار ہیں اور باقی سب لوگ گندے ہیں اور رفتہ رفتہ سرکشی پیدا ہونے لگی اور امیر کی موجودگی میں بھی اور مجلس عاملہ میں بھی مسجد میں ، مجالس میں بلند آواز سے بدتمیزی کی باتیں ہوتی رہیں.تو سب سے پہلے جس فتنے سے مجھے تکلیف پہنچی وہ یہ فتنہ تھا لیکن افسوس ہے کہ جن لوگوں کے سپر دذمہ داری کی جاتی ہے اگر وہ بر وقت مناسب اقدام کی اہلیت نہیں رکھتے تو مجھے وقت پر مطلع کیوں نہیں کرتے فتنے جماعت میں پل ہی نہیں سکتے.اگر جماعت کو یہ معلوم ہو جائے کہ خلیفہ وقت کا یہ منشا ہے تو ناممکن ہے کہ یہ جماعت کسی فتنہ پرداز کو اپنے اندر جگہ دے لیکن لاعلمی میں بہت سے لوگ دھوکا کھاتے اور کسی نہ کسی طرح ملوث ہوتے چلے جاتے ہیں.ایک طرف کی باتیں سنتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ہاں یہ سچی بات کر رہا ہے اور بعض دفعہ بات بچی بھی ہوتی ہے مگر کہنے کا انداز جھوٹا ہے، کہنے کا انداز فتنہ ہے.چنانچہ وہ منافقین جو آنحضرت ﷺ کو سچا کہتے تھے، قرآن کریم نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا بات تو سچی کرتے ہیں لیکن ہیں جھوٹے لوگ، تو بعض دفعہ باتیں بچی ہوتی ہیں لیکن باتیں کرنے کا مقصود فتنہ ہوتا ہے.چنانچہ ایسے لوگ جب ایسے بعض دوستوں سے سنتے ہیں کہ فلاں دوست میں یہ نقص ہے ، فلاں میں یہ نقص ہے اور امیر صاحب اس کو برداشت کر رہے ہیں اس کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا جاتا ، تو بعض نقائص واقعہ ہوتے ہیں اس لئے بعض سادہ لوح انسان اس کے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن مومن کے متعلق آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی سادگی ان معنوں میں سادگی نہیں کہ وہ بے وقوف ہو.وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے، ہر ایسا شخص جس کو تقویٰ کی روشنی نصیب ہو وہ کبھی ایسے دھوکے میں مبتلا نہیں ہو سکتا.تقویٰ کے معیار میں کچھ کمی ہے جس کے نتیجے میں ایسا واقع ہوتا ہے.یک طرفہ باتیں سننے کا چسکا پڑ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ محسوس کئے بغیر کہ اس سے کتنا بڑا نقصان جماعت کو پہنچ سکتا ہے.کچھ لوگ ایک طرف ایک گروہ میں بٹنے لگتے ہیں.کچھ دوسری طرف دوسرے گروہ میں بٹنے لگتے ہیں.پھر ایک اور بے ہودہ فتنے نے اس رنگ میں سر اٹھایا کہ ایک صاحب جن کے سپر د جماعت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 723 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء کا ایک عہدہ تھا اور بڑا اہم عہدہ تھا، وہ جماعت کے پریذیڈنٹ کے گریبان پر ہاتھ ڈالتے تھے بدتمیزی کرتے تھے اور بعض دفعہ جسمانی طور پر زدوکوب بھی کیا.یہ وہ زمانہ ہے جبکہ ہمارے ناروے کے امیر مکرم نور بولستاد صاحب تھے اور ان کو تو چونکہ لمبا انتظامی تجربہ نہیں تھاوہ اس قسم کی بے ہودہ حرکتوں اور بدتمیزیوں سے ایسے دل برداشتہ ہوئے کہ ایک دفعہ انہوں نے مجھے لکھ بھیجا کہ مجھ سے اب مزید کام نہیں ہوسکتا یہ لوگ اس سرشت کے لوگ ہیں، اس مزاج کے لوگ ہیں کہ میں ان سے نپٹ نہیں سکتا، میں نے اصلاح کی بہت کوشش کی مگر یہ باز نہیں آئے.وہ تو لاعلم تھے اگر ان کو پہلے پتہ ہوتا کہ ایسی صورت میں فوری طور پر آپریشن کرنا پڑتا ہے.جہاں دواؤں سے مرض نہ سنبھالتا ہو وہاں جراحی کے سوا کوئی علاج نہیں اور فوری جراحی ہمیشہ بہتر نتیجہ دکھاتی ہے.ان کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ایسے معاملات کو فوری طور پر میرے علم میں لانا چاہئے لیکن جو مربی وہاں موجود تھے اور اس وقت ان کے نائب امیر تھے انہوں نے آنکھیں بند رکھیں.پہلے فتنہ سے بھی آنکھیں بند رکھیں اور بعد کے فتنہ سے بھی آنکھیں بند رکھیں اور اس کو شاید وہ اپنی شفقت سمجھتے ہوں اور یہاں کے لوگ بھی یہی سمجھتے تھے کہ بڑے ہی نرم مزاج حلیم طبع اور شفیق مربی ہیں.جب امیر نے اس وقت فتنوں سے آنکھیں بند رکھیں کہ لوگوں کو کہیں تکلیف نہ پہنچے اور جب نائب امیر ہوئے تب بھی فتنوں سے آنکھیں بند رکھیں.اس کا نام علم نہیں ہے اس کا نام انتہائی سادہ لوحی ہے جس کے لئے اصل لفظ میں کہہ نہیں سکتا کیونکہ اس سے دل مجروح ہوں گے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت کا جو عہدے دار ایسی باتوں سے صرف نظر کرتا ہے وہ خواہ کیسا ہی نیک اور بزرگ اور سلسلے کا وفادار کیوں نہ ہواس سے ضرور سلسلے کو نقصان پہنچتا ہے.ایسے موقعوں پر تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ وفا کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا کیا جائے.ذاتی تعلقات اور ذاتی دشمنیوں کو سراسر بھلا دیا جائے.ہرایسے شخص کا جس کے علم میں ایسی بداخلاقیاں آتی ہیں.فرض ہے کہ وہ اول تو فوری طور پر بیمار لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرے اگر وہ نہیں سمجھتے تو افسر بالا کو بتا ئیں.اگر وہ اقدام نہیں کرتے تو پھر او پر بات پہنچائیں.لیکن ایسا ہونے کی بجائے جماعت میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں اور اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ پہنچا کہ ناروے کے ایک نہایت متقی اور بزرگ انسان جو نارویجن قوم سے تعلق رکھتے تھے، جن کو میں نے عمدا اس قوم کی تربیت کی خاطر امیر مقرر کیا تھاوہ ان جیسے نیک اور پارسا امیر سے محروم رہ گئے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 724 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء جرمنی میں بھی ایسے فسادات ہوئے لیکن جرمنی میں فسادات کی کچھ مختلف نوعیت بھی تھی اور دوسری بات یہ ہے کہ امیر صاحب جرمنی کو اللہ تعالیٰ نے بے حد حوصلہ عطا فرمایا ہے اور ہر شخص میں وہ حوصلہ نہیں ہوتا ان کے اندر خدا تعالیٰ نے جو خوبیاں رکھی ہیں ان میں سے ایک صبر کی خوبی ہے.لمبے عرصے تک وہ صبر کے ساتھ تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے اور دو تین دفعہ میرے علم میں بھی لائے میں نے بھی کوشش کی.جب وہ بیماری ٹھیک نہ ہوئی تو بالآخر گزشتہ خطبہ میں میں نے جو حالات بیان کئے ہیں وہ حالات رونما ہوئے اور معاملہ یہاں تک پہنچا.ناروے میں بعد میں فتنے نے ایک اور رنگ اختیار کر لیا.بعض لوگ امیر سے جو موجودہ امیر ہیں ان سے دل برداشتہ تھے، خواہ خانگی جھگڑوں کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے ان کو نائب امیر صاحب ایسے مل گئے جوان کی باتیں سنتے تھے.ایسے اور عہدیدار مل گئے جو ذیلی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے عہدیدار تھے جن کا ہر گز کام نہیں ہے کہ وہ جماعتی نظام میں دخل دیں اور جماعت کے خلاف باتیں کرنے والوں کی دلجوئی کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ہمدردیوں کے اظہار کریں اور فتنہ جب بھی اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ بڑے عہدیدار ہمدردی اور شفقت سے فتنہ پردازوں سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو پھر ساری جماعت کو سخت خطرہ درپیش ہو جاتا ہے.اور پھر پہلی دفعہ میں نے وہاں با قاعدہ ایسے آثار دیکھے کہ فتنہ پرداز با قاعدہ ایک پارٹی بنتے چلے جارہے تھے اور دونوں طرف کے خطوط مجھے ملتے تھے.صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک الہی جماعت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتیں.اگر ایک الہی ہے تو دوسری ضرور شیطانی ہے کیونکہ اس قسم کے پھٹے ہوئے گروہ توحید میں نہیں سما سکتے اور خلافت اسلام میں تو حید کی نگرانی کرنا سب سے بڑا فریضہ ہے آیت استخلاف کا جو آخری نتیجہ خدا تعالیٰ نے نکالا ہے وہ تو حید پر مومنوں کی جماعت کو قائم رکھنا ہے.جو خلافت سے کاٹے جاتے ہیں وہ توحید سے کاٹے جاتے ہیں یعنی خود منتشر ہو جاتے ہیں بکھر جاتے ہیں ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتے ہیں ، نام کے بہتر فرقے ہیں لیکن ہر فرقے میں بہتر در بہتر فرقے ہوتے چلے جاتے ہیں.پس یہ میرے اولین فرائض میں سے ہے.اگر میں اس فریضہ کو ادا نہ کروں تو میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے.جماعت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا رکھنا میرے فرائض میں سے ہے جس سے میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 725 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء ہرگز کسی قیمت پر روگردانی نہیں کر سکتا.اس معاملہ میں میں سوائے خدا کے اور کسی کا دوست نہیں ہوں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہو کہ مجھ سے اچھے تعلقات ہیں مجھ سے محبت کے دیرینہ مراسم چلے آرہے ہیں میں اس سے پیار کرتا ہوں تو یہ واہمہ دل سے نکال دے.میرا پیار اس حد پر جا کر رک جاتا ہے جہاں وہ خدا کی مقرر کردہ حدوں کو پھلانگ کر باہر نکلتا ہے اور مجھ میں یہ گنجائش اور توفیق ہی نہیں ہے کہ ایسے شخص سے پیار کا کوئی تعلق رکھ سکوں.تو ایسے موقع پر وہ بعض دفعہ مجھے واسطے دیتا ہے کہ آپ تو بڑے شفقت کرنے والے، آپ تو بڑے مہربان ہیں، آپ ہمیشہ مجھ سے اس طرح کیا کرتے تھے ،اب کیوں آنکھیں پھیری ہیں؟ تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ آنکھیں پھیر نے والا وہ ہوتا ہے جو خدا اور اس کے دین سے آنکھیں پھیر لے جو دین کے اعلیٰ مفادات سے آنکھیں پھیر لے ، جو دین کے اعلیٰ تقاضوں سے آنکھیں پھیر لے اور اگر خلیفہ وقت اس سے آنکھیں نہ پھیرے تو اس کی آنکھیں دیکھنے کے لائق نہیں ہیں.وہ نور بصیرت سے عاری آنکھیں ہیں اور خدا مجھے ایسی توفیق نہ دے کہ میری آنکھیں بھی اس طرح اندھی ہو جائیں کہ جن کی آنکھیں نظام جماعت سے پھر رہی ہوں میری آنکھیں ان کو محبت سے دیکھیں یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس فتنے نے جب یہاں تک سراٹھایا تو مجھے کچھ اقدامات کرنے پڑے اور عجیب بات ہے کہ جو لوگ ملوث ہوتے ہیں اور آخر وقت تک اپنے آپ کو معصوم ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی بہانہ پیش نظر رکھتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے کہ ان کی ان حرکتوں کے نتیجے میں جماعت ضرور بٹ رہی ہے اور نظام جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے.آخری فیصلہ اس بات سے ہونا چاہئے کہ جو باتیں میرے علم میں آئی ہیں اگر وہ غلط ہیں تو ان کا صحیح علاج کیا ہے؟ ہر وہ علاج غلط اور جھوٹا ہے جس سے نظام جماعت کو کسی طرح کی آنچ آئے اور بعض لوگ نظام سے دل برداشتہ ہوں اور مومنوں کی جماعت میں تفریق پیدا ہو.سوال یہ ہے کہ کیا امیر کبھی غلطی نہیں کرتا ؟ یقینا کرتا ہے.کئی امیر ہیں جو نہ صرف اپنے فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں بلکہ احباب جماعت سے ویسا شفقت اور محبت کا تعلق نہیں رکھتے جیسا کہ ان کے منصب کا تقاضا ہے.ایسے بھی امیر ہیں جو بعض دفعہ بعض لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ محبت کا تعلق رکھنے لگ جاتے ہیں اور وہ لوگ ان امیروں سے کھیلتے ہیں اور ان کو یہ بتاتے ہیں کہ فلاں شخص تو تمہارے خلاف ہے، اگر تم نے ان کے ساتھ کسی قسم کا نظام جماعت میں سختی کا برتاؤ کیا تو وہ فساد برپا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 726 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء کر دیں گے اور تمہارے سامنے تو کہنے کی جرات نہیں لیکن تمہارے پیچھے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض امیر اپنی بے وقوفی میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے اور بے وجہ بجائے فتنے کو دبانے کے فتنے کو ہواد ینے کا موجب بن جاتے ہیں اس لئے اس بات سے میں انکار نہیں کر رہا کہ امیر غلطی نہیں کر سکتا.امیر غلطی کر سکتا ہے.بہت سے امراء ہیں جن کو اپنے عہدوں سے معزول کیا گیا ہے ان کے او پر کمیشن بٹھائے گئے ان کی نگرانی کی گئی، کئی قسم کی غلطیاں انسان کو لاحق ہیں.امارت کے نظام کا طریق یہ ہے کہ جماعت اپنے طور پر حسب توفیق جس کو سب سے اچھا متقی اور پرہیز گار سمجھے اسی کو امیر چنتی ہے لیکن جہاں جماعت میں انتخاب کی صلاحیت پوری نہ ہو جہان جماعت میں خود تقویٰ کا معیار بعض جگہوں پر گرا ہوا ہو، جہاں جتھے بن رہے ہوں ،خاندانی پارٹیاں بنی ہوئی ہوں وہاں اکثر اوقات امیر کے انتخاب میں غلطی ہو جاتی ہے اور جب ایک دفعہ غلطی ہو تو پھر جماعت کو اس کے نقصانات پہنچتے رہتے ہیں.اسی لئے نظام جماعت میں خلیفہ وقت کو آخری اختیار ہے کہ جس انتخاب کو چاہے رد کر دے لیکن بعض دفعہ اس امیر کی غلطیاں یا جماعت کی غلطیاں فوری طور پر سامنے نہیں آتیں کچھ وقت لگتا ہے اور ایسے موقعوں پر اقدام کیا جاتا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ امیر غلطی نہیں کر سکتا.اس لئے میں امارت کا ساتھ دے رہا ہوں.اس مضمون کو سمجھانے کی ضرورت ہے میں ان معنوں میں امارت کا ساتھ دیتا ہوں کہ جب تک کوئی امیر مقرر ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے فرمان کے مطابق لازما اس کے ساتھ اطاعت کا تعلق رکھنا ہو گا.لازماً ہر اس شخص سے بیزاری کا اظہار کرنا ہوگا جو امیر کی اطاعت کے خلاف باتیں کرتا ہے یا اس کے خلاف دل بھرتا ہے.رہا یہ معاملہ کہ امیر سے غلطیاں ہوتی ہیں.ان کا علاج اور ہے ان کا علاج یہ نہیں ہے کہ ایک بیماری کو دور کرنے کے لئے سو بیماریاں پھیلا دی جائیں.بعض لوگ امیر کے متعلق جب یہ سنتے ہیں کہ اطاعت کرو اور جب بھی کہے جو کچھ کہے اگر وہ نظام جماعت کے اندر ہے، معروف کے خلاف بات نہیں تو اپنی نفرتوں کو بھلا کر بھی اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو.تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پھر ڈکٹیٹر شپ ہوئی.اور بعض جماعتوں میں جب امیر کے ساتھ اختلاف ہوئے خواہ وہ غلطی امیر کی بھی ہو.بعض لوگوں نے امراء سے بڑی سختی کی اور ان کو بار بار دکثیر ، ڈکٹیٹر ، ڈکٹیٹر کے طعنے دیئے.یہ کہہ کر انہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 727 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء اگر امیر کسی پر بالا رادہ یا بلا ارادہ ظلم کرتا ہے تو یا درکھیئے ، ہر ایسا شخص اگر وہ نظام جماعت اور خدا کی خاطر صبر سے کام لیتا ہے تو خدا کے فرشتے اور خدا کا سارا نظام اس کی تائید میں کھڑا ہوگا اور ضرور اس کے لئے راحت کے سامان فرمائے گا.دنیا میں بھی اس کو جزا دے گا اور آخرت میں بھی اس کو جزا دے گا لیکن اگر وہ صبر سے کام نہیں لیتا تو اس کے لئے دو طریق ہیں.اول:.یہ کہ جیسا کہ نظام مقرر ہے وہ بالا افسروں تک شکایت پہنچائے ، بجائے اس کے کہ غیر متعلقہ لوگوں سے باتیں کرے.جب وہ افسر بالا تک شکایت پہنچاتا ہے اور وہ نہیں سنتا تو پھر بالآخر بات خلیفہ تک پہنچتی ہے اور میں نے تو یہاں تک اعلان کر رکھا ہے کہ سارے درمیان کے واسطے بیشک چھوڑ دو صرف ایک واسطہ اختیار کرو جس کے خلاف شکایت کرنی ہے، تقویٰ سے کام لو اور اس کی معرفت کرو تا کہ شکایت غیبت نہ بن جائے.چغلخوری نہ ہواور اس کو علم ہو کہ میرے متعلق کیا کہا جارہا ہے.لیکن اگر تمہیں شک ہے کہ وہ اس چٹھی کو دبا کر بیٹھ جائے گا تو اس کی نقل مجھے بھجوا دو اور پھر مجھ پر چھوڑو تو اول تو پہلی بات یہ کہ جس شخص کے اوپر ایک اور نگران بیٹھا ہو اور اس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ کرے بلکہ انصاف پر قائم رہے تو ایسے شخص کو ڈکٹیٹر کا طعنہ دیا ہی نہیں جاسکتا.ڈکٹیٹر تو مطلق العنان اور خود مختار ہستی کو کہتے ہیں جو چاہے کرے ہر قانون اس کے تابع ہوتا ہے.ایک امیر بے چارہ ڈکٹیٹر کیسے ہو سکتا ہے.اس کے اوپر نظارتیں ہیں، وکالتیں ہیں، اور اس کے اوپر خلیفتہ امسیح کی نگرانی ہے.جب شکایت کے یہ سارے رستے کھلے ہیں تو ان رستوں کو چھوڑ کر عوام الناس کی عدالت میں پہنچنا یہ روحانیت کے خلاف ہے اور نظام جماعت میں کسی قیمت پر برداشت نہیں ہوسکتا کیونکہ اس طرح فتنے پیدا ہوتے ہیں.یہ جماعت الہی جماعت ہے کوئی احراری جماعت تو نہیں.احراری جماعت اور الہی جماعت میں زمین و آسمان کے فرق ہوتے ہیں احراری جماعتوں میں بد تمیزی بدخلقی ، بدگوئی، ہر قسم کی پارٹی بازی یعنی سیاسی جماعتوں کی بدترین قسم ہے.الہی جماعت ایک پاکیزہ جماعت ہے.اس کے سارے معاملات خدا کی خاطر ہوتے ہیں.عہدے ذمہ داریاں ہیں نہ کہ اپنی برتری کو ثابت کرنے کے لئے کوئی شخص انہیں استعمال کرتا ہے.عہد یداری تو ایک بہت ہی بڑا بوجھ ہے.جن لوگوں نے الہی جماعتوں میں مناصب کی حقیقت کو سمجھا ان میں ایسے بھی پیدا ہوئے جیسا کہ حضرت امام مالک جن کو عہدہ قبول نہ کرنے کی سزا کے طور پر کوڑے مارے گئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 728 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء اور ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ بعد میں ان کے ہاتھ شل ہو گئے اور وہ اٹھ نہیں سکتے تھے.اور بھی بہت سے عالم اسلام کے پہلے دور میں جبکہ تقویٰ کا معیار بہت بلند تھا ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ ایک شخص عہدے سے ڈرتے ہوئے تو بہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس عہدے کے لائق نہیں ہوں میرے سپرد نہ کرو اور بادشاہ وقت زبر دستی سزادے کر ، بعضوں کو قید کیا گیا ، بعضوں پر کوڑے برسائے گئے بعضوں کو اور سزائیں دی گئیں ، اور حکماً ان کو مجبور کیا جاتا رہا کہ تم یہ عہدہ قبول کرو.کہاں یہ نظام اسلام جہاں عہدے سے خوف پیدا ہوتا ہے اور دل ڈرتے ہیں کہ میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرسکوں گا کہ نہیں ، کہاں ان عہدوں کو ڈکٹیٹر شپ قرار دے دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ بھی دنیا کے مناصب ہیں جن میں سے ایک منصب پر یہ شخص فائز ہوگیا ہے جو مجھے پسند نہیں.یہ باتیں تقویٰ کی روح سے خالی ہیں اور ان کو نظام جماعت میں اب کسی طرح بھی مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا.ایک دوہوں اور اس وقت پکڑا جائے تو بہت بہتر ہے بجائے اس کے کہ یہ عام بیماریاں بن جائیں.اس سلسلے میں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خلیفہ وقت کبھی بھی کسی امیر کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت پر کسی قسم کا ظلم کرے.اگر ایک فرد کی شکایت بھی پہنچے تو اس کی پوری تحقیق کی جاتی ہے اور امیر کو اس بات کے لئے جواب دہ بنایا جاتا ہے اور ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں ایک شخص نے جب مجھ تک شکایت پہنچائی کہ فلاں عہد یدار کی طرف سے خواہ وہ امیر تھا یا وکیل تھا یا ناظر تھا مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے تو بلا تاخیر میں نے ایسی تحقیق کروائی ہے جو کلیۂ آزاد تحقیق تھی اور بعض لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس تحقیق میں بھی کسی نے اثر ڈال دیا ہوگا ایسے لوگوں کو بعض دفعہ میں یہاں تک کہتا رہا ہوں کہ تم اپنے نمائندے مقرر کرو جو ساتھ بیٹھیں اور پھر اپنے نمائندوں سے سن کر مجھے بتاؤ کہ کیا نا جائز حرکت ہوئی ہے.جس عہدے دار کے سر پر ایسا زبردست نظام موجود ہو کہ وہ ذرا بھی راہ راست سے ہٹے تو اس کی نگرانی کی جائے ، اس کے متعلق تحقیقاتی کمیشن بیٹھیں اور اگر وہ غلطی کرتا ہے تو اس کی پاداش میں اس کو عہدے سے معطل یا معزول کرنا پڑے تو پھر ایسے شخص کو ڈکٹیٹر کہہ دینا بڑا ظلم ہے.نظام جماعت میں تو کوئی ڈکٹیٹر ہو ہی نہیں سکتا.خدمت کرنے والے لوگ ہیں.ایک بے چارہ سیکرٹری مال ہے سوائے اس کے اس کو مشغلہ ہی کوئی نہیں کہ وہ خدا کی خاطر پیسے اکٹھا کرتا پھرے.دنیا جب اپنے پیسے اکٹھے کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 729 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء میں مصروف ہوتی ہے وہ گھر گھر پھرتا ہے، دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور رات کو اپنے حساب کتاب لے کر بیٹھ جاتا ہے.بعض کے بیوی بچے مجھے شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی تو اس کا کچھ رہنے دیں.یہ تو دن رات جماعت کے کاموں میں ہے.بعض ایسے امراء ہیں جن کے بیوی بچے مجھے بتاتے ہیں کہ مدتیں ہوگئی ہیں ہمارے بچوں نے ان کو نہیں دیکھا.رات کو کام کر کے دیر سے آتے ہیں صبح جلدی چلے جاتے ہیں اور سوائے نظام جماعت کے ان کا ہے ہی کچھ نہیں.ہمارے تو کسی کام کے نہیں رہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ ان کے اتنے کام کے ہیں کہ ان کو اندازہ ہی نہیں.ان کی برکتیں وہ نسل ہی نہیں بلکہ نسلاً بعد نسل ان کی اولاد پاتی رہے گی اور آسمان سے یہ برکتیں بارش کی طرح ان پر نازل ہوں گی ایسے وفاداروں کو خدا کبھی تنہا نہیں چھوڑا کرتا کبھی بے جزا کے نہیں چھوڑا کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بچوں کو اکٹھا کیا اور کہا دیکھو تم سمجھتے ہو کہ تمہارا باپ تمہارے لئے خالی گھر چھوڑ گیا ہے کبھی یہ و ہم دل میں نہ لانا، یہ وہ گھر ہے جس پر ہمیشہ برکتیں برستی رہیں گی.تم پر تمہاری اولادوں پر تمہاری اولادوں کی اولادوں پر اس گھر میں دعاؤں کے ایسے خزانے بھر گیا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوں گے.تو نظر کی بات ہے، دیکھنے کی بات ہے جن نظروں کو خدا تعالیٰ نے نور عطا کیا ہوان کو یہ برکتیں دکھائی دیتی ہیں مگر بعضوں کو نہیں دکھائی دیتیں.کسی نہ کسی حد تک شکوہ واجب بھی ہے.چنانچہ بعض دفعہ میں حکماً ایسے عہدے داران کو کہتا ہوں کہ تم اتنی دیر کے لئے کام سے الگ ہو جاؤ یاز بر دستی چھٹی دلوا تا ہوں.بعضوں کو میں نے یہ کہہ کر رخصت پر بھجوایا کہ تم اتنی دیر اپنے خاندان کو لے کر کسی اچھے خوبصورت مقام پر جاؤ اور ان کے ساتھ کچھ دن زندگی بسر کرو اور تمہیں یہ حکم ہے تم اس کا انکار نہیں کر سکتے اور جماعت کو جو ایسا خلافت سے تعلق ہے اس میں کوئی یہ تو نہیں کہتا کہ آپ یہ حکم دینے والے کون ہوتے ہیں.آپ دین کی باتیں کریں، آپ کو ہماری ذات سے کیا تعلق ؟ ہر شخص جس سے میں ایسی بات کرتا ہوں.مجھے علم ہوتا ہے کہ اس کا مجھ سے ایک ایسا تعلق ہے کہ باپ بیٹے کو حکم دے سکتا ہے تو اس سے بڑھ کر وہ میرے حکم کو قبول کرے گا اور یہ تعلقات اور معمول کے تعلقات اور نوع کے تعلقات ہیں ، دنیا کو ان کی خبر ہی کوئی نہیں.ایسے حالات میں ایک امیر کو یہ طعنہ دے دینا کہ تم ڈکٹیٹر ہو، نہایت لغو بات ہے ایک دل کا غصہ اتارنے والی بات ہے.اگر امیر نے کوئی ظلم کیا تھا تو جب تک یہ بات
خطبات طاہر جلد ۱۰ 730 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء نہیں کہی اس وقت تک خدا کے فرشتے شاید اس کو ڈکٹیٹر کہتے ہوں.اس لئے کہ وہ ظلم کر رہا ہے.ان معنوں میں ڈکٹیر کہا جا سکتا ہو گا لیکن جب کہنے والے نے کہہ دیا تو پھر یہ آسمان کی آواز بند ہوگئی.اگر اس شخص کو پہنچنے والی تکلیف مجھے معلوم ہوتی تو میں اس کی تائید میں کھڑا ہوتا، اس کے دل کی تکلیف میرے دل کی تکلیف بن جاتی ، میں اس کی طرف سے باز پرس کرتا اور بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ اگر کسی عہدے دار کو توفیق نہیں ہے کہ وہ جھک کر معافی مانگے تو اس کی طرف سے میں جھک کر معافی مانگتا ہوں اور جس کو تکلیف پہنچی ہے اسے کہتا ہوں کہ اصل ذمہ دار میں ہوں.میرے ماتحت شخص نے یہ حرکت کی ہے اور میر افرض ہے کہ تم سے دل کے ساتھ معافی مانگی جائے.اگر یہ نہیں مانگتا تو میں مانگتا ہوں اور اس سے دلوں کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے.پس نظام جماعت تو ایک لا ثانی نظام ہے اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ہے.اس کو چھوٹی ادنی ادنی باتوں سے ذلیل ورسوا نہ کریں.اگر آپ نے اس نظام کی قدر نہ کی تو یہ سوچیں کہ یہ نظام پہلے بھی ایک دفعہ ناقدری کے نتیجے میں اٹھالیا گیا تھا اب دوبارہ خدا نے آپ کو نعمت دی ہے اور الحمد للہ اس وعدہ کے ساتھ دی ہے کہ یہ نظام اب ہمیشہ رہے گا مگر نا قدری کرنے والوں کو سزا ضرور ملے گی اس لئے احتیاط سے کام لیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.آپ کو نظام جماعت کے تابع رہتے ہوئے امیر ہی کا سوال نہیں کسی بھی عہدیدار سے کوئی شکایت ہو تو وہ مجھے لکھ سکتا ہے.خواہ وہ چھوٹا عہد یدار ہو خواہ وہ بڑا عہدیدار ہو اور میں جماعت کو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میرے بوجھ کی فکر نہ کریں.اگر مجھ تک تکلیف دہ باتیں نہ پہنچیں تو مجھے تکلیف ہوگی لیکن ہوں سچی یہ شرط ہے اگر تقویٰ کے خلاف کوئی جھوٹی باتیں پہنچیں گی تو پھر لازماً ایسے شخص کو سزادی جائے گی.وہ دہرا جرم کرتا ہے.خلیفہ وقت کو دھوکا دیتا ہے اور خدا کے نظام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے.سچی شکایت ہو.سچے طریق پر پہنچے جس کے خلاف شکایت ہے اس کی معرفت بھجوائی جائے اس کی نقل مجھے بھجوا دی جائے.پھر دیکھیں لازماً کارروائی ہوگی لیکن کارروائی وہ ہوگی جو تقویٰ تقاضا کرتا ہے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حق میں ضرور ہوگی حالانکہ بالکل غلط بات ہے.بعض دفعہ ایسے ایسے ظالمانہ الزام عہدیداروں پر لگائے جاتے ہیں کہ پہلا خط پڑھ کر تو پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے کہ اچھا جماعت میں ایسے ایسے خوفناک عہدیدار بھی ہیں.جب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 731 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء تحقیق کی جاتی ہے تو بات برعکس نکلتی ہے.شکایت کنندہ ظالم نکلتا ہے.اب میں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر فیصلے کرنے ہیں.شکایت کنندہ کے دل کی حالت کو دیکھ کر تو فیصلے نہیں کرنے جب میں فیصلہ کرتا ہوں تو پھر بعض دفعہ وہ کہہ دیتا ہے.بعض دفعہ دل میں رکھتا ہوگا کہ لوجی خلیفہ کے پاس بھی انصاف نہیں لیکن میں آپ کو ایک اور بات بتا تا ہوں کہ خلیفہ کوئی ڈکٹر نہیں ہے کیونکہ خلیفہ کے اوپر سب سے زیادہ مقتدر اور طاقتور مستی بیٹھی ہوئی ہے جو ہر وقت اس کی نگرانی کرتی ہے.حضرت اقدس خلیفہ اسح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ لاہوریوں کا فتنہ سر اٹھانے لگا تھا اپنے ایک جلالی خطبے میں یہ فرمایا کہ تمہیں خدا نے باندھ کر میرے تابع کر دیا ہے.تم عہد بیعت سے مجبور ہو، تمہاری مجال نہیں ہونی چاہئے کہ میرے سامنے بات کرو اور آواز اٹھاؤ لیکن اگر میں غلطی کرتا ہوں اور مجھ سے شکایت ہے تو مجھ سے بالا ہستی جو ساری کائنات میں سب سے بالا ہستی ہے.اس کے پاس میری شکایت کرو.اس کو شکایت کرو کہ یہ بڑھا ہمیں یہ تکلیف دے رہا ہے اور فرمایا کہ خدا پھر مجھے اس دنیا سے اٹھالے گا اور مجھے یہاں باقی نہیں رکھے گا کیونکہ اس کی خاطر تم میری اطاعت کر رہے ہو میری خاطر تو نہیں کر رہے.اس لئے جس خلیفہ کے اوپر ایسا مقتدر خدا بیٹھا ہو، جس کے قبضہ قدرت میں زندگی اور موت ہوا ایسے خلیفہ کے خلاف شکایت تو سب سے بڑے دربار میں ہوتی ہے.پس یہ نظام خلافت آمریت سے کوئی مشابہت رکھتا ہے اور نہ نظام امارت ہسلسلے کا کوئی عہدہ بھی ایسا نہیں جس میں آمریت کی ذرہ بھی خوبو پائی جائے لیکن احباب جماعت کو تقویٰ سے کام لینا چاہئے.اس نظام کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہئے.سمجھ لینا چاہئے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ سارے رستے رکھے ہوئے ہیں شکایتیں دور کرنے کے ان کو اختیار کیا جائے.جب بھی ایک شخص اپنی شکایت کو صحیح رستہ پر چلانے کے بچائے دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے جن کا تعلق نہیں ہے تو اس سے کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.اول یہ کہ وہ شکایت جب کسی اور بھائی سے کرتا ہے یا بہن سے کرتا ہے تو اپنے دل کا غبار اسی سے نکال لیتا ہے پھر خدا پر اس کا کچھ نہیں رہتا اور یکطرفہ باتیں کرتے ہوئے بسا اوقات جس عہد یدار سے شکایت ہے اس کے خلاف بدتمیزی بھی کرتا ہے ،اس کو گالیاں بھی دے جاتا ہے اور کئی قسم کے ایسے ناجائز فقرے کستا ہے جس کے نتیجے میں وہ مظلوم تھا ظالم بن جاتا ہے.پھر جس سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 732 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء باتیں کرتا ہے اس کو نقصان پہنچا دیتا ہے.اگر وہ شخص تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر نہیں ہے تو اس کی باتیں سن کر آگے متعلقہ عہد یدار کو پہنچانے کی بجائے ، اس کے خلاف رد عمل دکھانے کی بجائے وہ اپنے دل میں بٹھا لیتا ہے اور اس سے ہمدردی شروع کر دیتا ہے.کہتا ہے ہاں ہاں ! یہ تو تم سے زیادتی ہو گئی اس طرح اس کو ایک اور دوست مل گیا.پھر اس سے ایک اور منافق دوست بن گیا، پھر اس سے ایک اور منافق دوست بن گیا.اس طرح بجائے اس کے کہ کسی شکایت کا ازالہ ہو،اس شکایت سے بہت بڑھ کر ایک روحانی بیماری جماعت میں پھیلنے لگ جاتی ہے.فرض کریں ایک امیر نے کسی کو گالی دے دی.اگر وہ خدا کی خاطر ا سے برداشت کر لے.دنیا سے بھی تو گالیاں کھاتا رہتا ہے.کسی کی عزت کا سوائے خدا کے کوئی محافظ نہیں ہوسکتا.خدا کی خاطر اگر صبر کر جائے یا جیسا کہ میں نے کہا ہے شکایت کرے تو اس کا حق ہے لیکن جب وہ ارد گرد ماحول سے ہمدردیاں لینے لگتا ہے تو یہیں سے پارٹیوں کا آغاز ہوتا ہے یہیں سے فتنے بنتے ہیں اور بدنصیبی سے ناروے کی جماعت میں بھی اس قسم کے فتنے پیدا ہوتے رہے.مختلف وقتوں میں میں نے دبایا اور بعد میں مجھے چٹھیاں آجاتی تھیں کہ ہمارا تو ان سے کوئی تعلق نہیں.ہم اگر ملوث بھی تھے تو معافی مانگتے ہیں لیکن کب تک اس طرح چلے گا.ایک وقت تھا جب ناروے کی جماعت سے مجھے بڑی محبت تھی ، میں بڑے شوق سے یہاں آیا کرتا تھا ، بہت دن یہاں ٹھہرتا تھا، ملک بھی خوبصورت ہے کبھی مجھے سال سال دو دو سال تک Relaxation کے لئے وقت نہیں ملتا تو میں اس وقت کو بچالیتا تھا کہ ناروے جا کرلوں گا اور چند دن یہاں الگ چلا جایا کرتا تھا لیکن جب سے آپ لوگوں نے یہ حرکتیں شروع کی ہیں میرا اس ملک میں آنے کو دل نہیں چاہتا.اس طرف دیکھنے کو دل نہیں چاہتا.یہ لفظ میرے لئے دکھ کا موجب بن گیا ہے، تکلیف کا موجب بن چکا ہے.کہاں کہاں سے تم لوگ آئے ہو، کس خدا کی خاطر ہجرتیں کی ہیں اور یہاں آکر اس نیک امیر سے یہ سلوک کیا جو بڑا ہی متقی انسان تھا اور جس نے بڑے پیار اور محبت کے ساتھ بہت ہی محنت کر کے جماعت کی ذمہ داریوں کو سنبھالا یہاں تک کہ وہ دل برداشتہ ہو گیا.اس نے کہا یہ پاکستانی عجیب مخلوق ہیں.ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں.میں تو احمدیت کی وجہ سے ان سے تعلق رکھتا تھا.اگر یہی احمدیت ہے تو پھر میں نقصان میں ہوں.ایسا بھی وقت ان پر آیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 733 خطبہ جمعہ ۶/ ستمبر ۱۹۹۱ء جب وہ ٹھو کر بھی کھا سکتے تھے مگر متقی کو خود خدا ہاتھ رکھ کر بچالیتا ہے جس کے اندر بیماری ہو وہ نہیں بچا کرتا.اس ٹھوکر سے تو بچ گئے لیکن اس کے قریب ضرور پہنچ گئے تھے.خود انہوں نے مجھے لکھا کہ میرے پر ایک ایسا وقت آیا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ میں کنارے تک پہنچ چکا ہوں اور وجہ یہی تھی کہ کچھ جماعتوں میں کچھ بدتمیز لوگ ، نظام جماعت کیسا تھ گستاخی سے پیش آنے والے ، چھوٹے چھوٹے کمینے جھگڑے کرنے والے ، بات بات پر ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے ، وہاں سے ایسے بد نصیب لوگ آگئے تھے جنہوں نے سارے تالاب کو گندا کیا ہوا تھا اور ابھی بھی اس کے بداثرات موجود ہیں اس لئے آپ کو تقویٰ سے کام لینا چاہئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جہاں تک امراء کا تعلق ہے ان سے غلطیاں ہوتی ہیں.لیکن سب سے بڑی غلطی جو بعض امراء کرتے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جب خلیفہ وقت ان کو ایک کھلی کھلی نصیحت کرتا ہے تو اس کو نظر انداز کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں.جماعت کی عدم تربیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ساری جماعت تک خلفاء کے خطبے نہیں پہنچتے.میں جب زور دیتا ہوں کہ میرے لفظوں میں جماعت تک یہ آواز پہنچایا کرو تو مجھے ذرا بھی اپنے خطبے پڑھوانے کا شوق نہیں ہے.نعوذ بالله من ذلك اگر یہ نعوذ باللہ دکھاوا ہے تو میں اس دکھاوے پر لعنت ڈالتا ہوں.مگر میں جانتا ہوں میرا دل جانتا ہے کہ بڑی محنت کے ساتھ بڑے سوچ و بچار اور دعاؤں کے ساتھ میں ایک تربیت کا پروگرام بنا تا ہوں.مدتوں اس پروگرام پر وقت خرچ کرتا ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ ہر احمدی میری آواز میں میری بات خودسن لے.اگر نہیں سمجھ سکتا تو اس کے ترجمے اس تک پہنچ جائیں اور ان ترجموں کو سن کر وہ فائدہ اٹھائے کیونکہ وہ الفاظ دل کی گہرائی سے نکلتے ہیں.خواہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ان میں کیسے ہی نقص کیوں نہ ہوں لیکن بڑا فرق ہے اور سچے دل کے درد سے جو بات اٹھتی ہے، اس کا اور اثر ہوتا ہے.مگر بعض امراء ایک مخفی تکبر کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں دیتے چنانچہ بعض عہدے دار جو سلسلے کے مربی ہیں اور انہی کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا عہدے دیئے گئے ہیں تو سب سے پہلے ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان باتوں پر عمل کریں.لیکن مخفی تکبر سے مراد یہ ہے کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ وہ متکبر ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی بات پہنچ گئی ، ٹھیک ہے ہم جو اس کا خلاصہ تیار کر دیتے ہیں پس وہی کافی ہے اور ہم نے پہنچادی اور فرض پورا کر دیا.اس کے نتیجہ میں کئی نسلیں تباہ ہو سکتی ہیں.ان کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کتنا بڑا بوجھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 734 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء اٹھا ر ہے ہیں کتنی بڑی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں.ابھی سویڈن سے میں آیا ہوں.وہاں لجنہ میں میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ آپ سے براہ راست بھی بات کرتا ہوں.کوئی کسی قسم کا سوال کرنا ہو کوئی شکایت کرنی ہو تو بے تکلفی سے کریں اس پر ایک بچی نے اٹھ کر کہا کہ آج تک ہمیں سویڈش زبان میں آپ کا خطبہ نہیں پہنچایا گیا.آپ پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہتے ہیں.لوگوں سے ہم سنتے رہتے ہیں.اس نے کہا یہاں پلے ہیں ، یہیں پیدا ہوئے ، یہیں بڑے ہوئے ، ہمیں اردو نہیں آتی اور ہم مجبور ہیں ہمارا حق ہے کہ ہمیں بھی پتہ لگے کہ خلیفہ وقت ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے.میں حیران رہ گیا دیکھ کر کہ ایک تجربہ کار پر انا مربی ، ساری عمر کا واقف زندگی ملک کا امیر ہواور بار بار سننے کے باوجود اور علم رکھنے کے باوجود ان لوگوں سے غافل ہو اور ان کی ضرورتوں سے غافل ہو.اور مقامی مربی بھی اسی طرح ایک تربیت یافتہ پرانے بہت ہی وفادار انسان اور دوسری خوبیوں کے لحاظ سے مرصع لیکن بچوں سے غافل ہیں.ان کو کیوں خیال نہیں آیا کہ نظام جماعت کا فرض ہے کہ ان تک سویڈش زبان میں خطبہ پورے کا پورا پہنچایا جائے.جن جماعتوں میں اخلاص ہے، تقویٰ ہے وہاں یہ کام کرنے میں کوئی زیادہ دیر نہیں لگتی.عربی زبان میں ہمارے پاس بہت تھوڑے ماہر ہیں لیکن بعض ایسے ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اور نظام جماعت سے عشق ہے اور خلافت سے ایسی وفا کا تعلق ہے کہ اس کی مثال دوسری جگہ کم نظر آتی ہے.ہمارے ایک ایسے ہی بزرگ سید حلمی الشافعی ہیں وہ ہفتہ نہیں گزرتا کہ انگریزی سے اس کا عربی ترجمہ کر کے ساتھ ساتھ بھجواتے رہتے ہیں.اور وہ سلسلے کے ملازم نہیں ہیں تنخواہ دار نہیں ہیں.اپنی کمائی کے لئے اپنا وقت ہے اور الگ ان کو وقت دینا پڑتا ہے.صرف یہی نہیں بلکہ اور بہت سی کتب کے تراجم کر چکے ہیں اور بہت سے نظام جماعت کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں لیکن ایک شوق ہے اور ذمہ داری کا احساس ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خطبات ایسے ہیں جن کو ہر عرب تک پہنچنا چاہئے اور احمدی عرب کا حق ہے کہ اس تک یہ آواز عربی زبان میں پہنچے.ان کو اس بات کا علم ہے لیکن جو بعض امراء ہیں اور جو بعض پرانے مربی ہیں ان کو احساس نہیں.میں نے اس سے پہلے کئی دفعہ خطبوں میں اشارہ بغیر نام لے کر یہ باتیں سکھائیں اور سمجھائیں.لیکن جن تک بات نہ پہنچنی ہونہیں پہنچتی معلوم ہوتا ہے ان تک بات نہیں پہنچتی.اگر ان کے دماغ میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 735 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء یہ بات پہنچ جائے کہ اس کی اہمیت کیا ہے تو پھر ساری جماعت تک ضرور پہنچے گی.پس جو opaque ہو وہی block کیا کرتا ہے.opaque ایسی کشیف چیز کو کہتے ہیں جو روشنی کو اپنے تک پہنچا کر وہیں ٹھہرا دیتی ہے اور روشنی اس کی سطح تک رہتی ہے اور شفاف وہ چیز ہوتی ہے جو اپنے میں سے گزرنے دے.پس جو کثیف چیز ہو اس سے روشنی اس لئے نہیں گزرتی کہ خود اس کے اندر بھی تو داخل نہیں ہوئی ہوتی.جس کے اندر روشنی داخل ہو جائے اس مادے سے پھر ضرور روشنی باہر بھی نکلتی ہے اور دوسروں کو بھی فیض پہنچاتی ہے اس لئے باقی امور میں ایسے عہدے دار خواہ کیسے ہی نیک کیوں نہ ہوں مخلص ہوں ، فدائی ہوں ، عمر بھر کی خدمتیں ہوں لیکن بعض دفعہ ایک معاملے میں مخفی تکبر کا شکار ہونے کے نتیجے میں یا بے وقوفی کے نتیجے میں ، جو بھی آپ کہہ لیں وہ کسی ہدایت پر عمل نہیں کر رہے ہوتے اور اس سے بہت بڑا نقصان جماعت کو پہنچارہے ہوتے ہیں.دوسری بعض جماعتیں ہیں جہاں ایک ہی آدمی ہے ، وہ فوری طور پر اکیلا سارا بوجھ اٹھاتا ہے اور تراجم کر کے پھر ان کو کثرت کے ساتھ شائع کراتا ہے، اور ایسی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن معیار ترقی پر ہے اور ساری جماعت کو پتہ لگ رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے.ساؤتھ انڈیا میں ہماری ایسی جماعتیں ہیں جو اردو نہیں سمجھتیں.وہاں ہمارے مولوی محمد عمر صاحب مبلغ سلسلہ ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے اس بات کا جنون دیا ہوا ہے کہ ادھر آواز کان تک پہنچی ، ادھر فوری طور پر اس کے ترجمے کئے اور ساری جماعتوں تک پہنچائے.وہاں سے جو جماعتوں کے خط ملتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے.وہ ہمارے ساتھ ہیں.ان کو افریقہ کا بھی پتہ ہے، ان کو امریکہ کا بھی پتہ ہے ، ان کو چین، جاپان کا بھی پتہ ہے.جماعت کے سارے مسائل کا علم رکھتے ہیں اور ان کے خطوں میں روشنی ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ کر مجھ سے بات کر رہے ہیں لیکن جہاں یہ خطبات نہیں پہنچتے وہاں بچے ہوں یا بڑے ہوں وہ بے چارے جماعت سے کٹے ہوئے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے جس پر آخری ذمہ داری ڈالی ہے اس سے کٹ کر تو پھر روحانی ترقی نہیں ہوسکتی اس لئے بہت ہی اہم باتیں ہیں.یہ نہ سمجھیں کہ نعوذ باللہ میں امیروں کی ناجائز حمایت کرتا ہوں.میں ان کی ہر بات پر نظر رکھتا ہوں جہاں تک پیش چلے ان کو سمجھانے کی بھی کوشش کرتا ہوں اور کئی کئی دفعہ سرزنش سے بھی کام لینا پڑتا ہے.جماعت میں کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے.اگر مجھ سے کوئی شکایت ہے مجھ تک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 736 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء پہنچا ئیں.میں اس کو پوری نہ کروں اور آپ اپنے آپ کو سچا سمجھیں تو خدا کے دربار میں میری شکایت کریں.آپ کی حدیں تو وہاں تک پہنچتی ہیں جہاں کسی دنیا والے کی حد نہیں پہنچتی.خدا تک آپ کے سوا اور کون پہنچ سکتا ہے کیونکہ آپ خدا کی جماعت ہیں، خدا کی خاطر اطاعت کرنے والے ہیں.اس لئے اس نظام میں جو ایسا پاکیزہ الہی نظام ہے دنیا داری کی باتیں تو پہنپ سکتی ہی نہیں، نہ پنپنے دی جائیں گی.میں پھر آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان باتوں میں اپنی اصلاح کریں.تقویٰ سے کام لیں کیونکہ جیسا کہ میں نے اب شروع کیا ہے یہ باتیں عام خطبوں میں اس لئے میں بیان کر رہا ہوں کہ ساری دنیا کی جماعتوں کو پتہ چلے کہ تربیتی مسائل کیا ہیں؟ اور کن کن اطراف سے انہیں خطرے درپیش ہیں، وہ متنبہ ہو جائیں اور اگر یہ باتیں سننے کے باوجود ان کے عہدے داران تقویٰ سے کام نہ لیں اور خلیفہ وقت کی ہدایات پر عمل نہ کریں یا ان سے ناجائز سلوک کریں، زیادتی کریں تو میں حاضر ہوں جتنا بوجھ چاہیں مجھ پر ڈالتے جائیں.اللہ تعالیٰ ہے جو بوجھ اٹھانے کی توفیق بخشتا ہے اور اپنے فضل سے توفیق بڑھاتا چلا جاتا ہے اس لئے اس بات کی بالکل پرواہ نہ کریں.میرا بوجھ تو وہ بوجھ ہے کہ مجھے علم نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے.کسی ملک میں جاؤں تو وہاں کے بچے اٹھ اٹھ کے شکائیتیں کریں کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں کہ آپ کیا کہتے ہیں.ہماری طرف بھی تو توجہ کریں.ہم بھی حق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ تقویٰ کی باریک راہوں پر محافظ اور نگران ہو جائیں.شیطان باریک راہوں سے داخل ہوتا ہے یعنی متقیوں پر حملے کرنے کیلئے شیطان ہمیشہ باریک سے باریک راہ سے داخل ہوتا ہے تا کہ وہ نظر نہ آئے.جو غیر متقی موٹے موٹے عام لوگ ہیں ان پر تو وہ کھلے کھلے حملے کرتا ہے اور پھر بھی ان کو نظر نہیں آتا.مگر یہ خیال چھوڑ دیں کہ آپ کی روحانی ترقیات کے مسائل ایک دفعہ حل ہو چکے اور آپ نے ساری منازل طے کرلیں.کوئی دنیا میں نہیں ہے جو ساری منازل طے کر سکے.انجیل کا مطالعہ کر کے دیکھیں شیطان نے تو حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کی جو خدا کی طرف سے سب سے اعلیٰ منصب پر یعنی نبوت کے منصب پر فائز فرمائے گئے تھے.بھیس بدل کر ان کا بھی امتحان لینے کی کوشش کی.حضرت ایوب علیہ السلام کے بھی امتحان لینے کی کوشش کی لیکن وہ ایسے نیکوں اور متقیوں پر بہت باریک راہوں سے حملے کرتا ہے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ ان کو نور بصیرت عطا فرما چکا ہوتا ہے وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں اس لئے ان باریک راہوں پر وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 737 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۹۱ء محافظ اور نگران رہتے ہیں.اس طرف سے بھی کسی دشمن کو مجال نہیں ہوتی کہ وہ ان پر حملہ کر سکے تو اپنے اس روحانی معیار کو بڑھا ئیں اور اپنی باریک راہوں کی نگرانی کریں مخفی طریق سے شیطان جب آپ پر حملہ آور ہو خواہ وہ آواز کسی نیک آدمی کی طرف سے آرہی ہو دراصل وہ شیطان کی آواز ہے.نیک آدمی ایک ملک کا عہد یدار ایک ملک کا صدر بھی بعض دفعہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں بہت متقی اور بزرگ ہوں اور بات ایسی کر رہا ہوتا ہے کہ شیطان اس کو آلہ کار بنارہا ہوتا ہے.عام آدمی تک بات پہنچتی ہے تو کہتا ہے یہ دیکھو یہ فلاں اتنے بزرگ متقی انسان نے کہی ہے حالانکہ بات پہچانی جاتی ہے.یو بھی نہیں آتی.یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ تقویٰ کے خلاف بات ہو اور اس میں بد بو نہ ہو؟ منقی کو بد بو آجاتی ہے.اس کا دل ضرور اس کو متنبہ کر دیتا ہے کہ اس بات میں ہے کچھ بات کوئی ایسے خطرے کی بات ہے جو یہ بات قابل قبول نہیں رہی ہے اور ہر انسان کو خدا نے ایسا نورضرور عطا فرمایا ہے کہ اگر وہ اپنے ضمیر سے بر وقت اٹھنے والی اس تنبیہ کو قبول کرے اور اس پر غور کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ ہر فتنہ سے نجات پاسکتا ہے.ویسے تو یہ مضمون شاید آگے اور بھی بڑھے لیکن آج کے خطبہ میں آخری بات میں یہی کہوں گا کہ یہ ایسی مشکل باتیں ہیں کہ دعا کے بغیر چارہ نہیں ہے.دعا کے ذریعہ مدد مانگیں، دعا کے ذریعہ نئی زندگی حاصل کریں.دعا کے ذریعہ ان سب فتنوں سے بچنے کی کوشش کریں.تو بہ کرنی ہے تو خدا کے حضور توبہ کریں.مجھ سے معافی مانگنا بالکل بے معنی ہے اگر دل میں پہلے پیدا نہ ہو چکی ہو اور خدا سے استغفار کرتے ہوئے مسلسل دعائیں مانگیں.خدا آپ کی حفاظت فرمائے.اگر آپ چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے تو خدا تو دیکھ سکتا ہے.وہ چاہے تو جس طرح چاہے اپنی تقدیر کوحرکت دے کر آپ کو ٹھوکروں سے بچا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ جو کام ظاہری طور پر ہماری تدبیر کے بس میں نہیں اور حقیقت میں کچھ بھی نہیں، دعا سے ان کاموں کو کریں اور دعا ہی سے ہماری تدبیر میں بھی جان پیدا ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 739 خطبہ جمعہ ۱۳ ر ستمبر ۱۹۹۱ء مجلس عاملہ اور امارت کے فرائض کی باہمی تقسیم.جماعت کا مالی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے جو دیانت وامانت پر قائم ہے جس کی حفاظت نہایت ضروی ہے.(خطبہ جمعہ فرموده ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت النور من سپلیٹ (ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ تین خطبات جمعہ میں میں نے بعض ایسی تکلیف دہ باتوں کا ذکر کیا تھا جو نظام جماعت کے عدم احترام سے پیدا ہوتی ہیں.تقویٰ کی کمی سے یا علم کی کمی کے نتیجہ میں یا عام عقل کی کمی کے نتیجہ میں چھوٹی چھوٹی باتیں فتنوں کا رنگ اختیار کر جاتی ہیں اور نظام جماعت کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ نظام خلافت کے تابع ہر ایسے فتنے کو اٹھنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے ورنہ اگر نظام خلافت نہ ہوتا تو اب تک یہ جماعت خدا جانے کتنے ٹکڑوں میں بکھر چکی ہوتی.لیکن اصل حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ فتنے اٹھنے سے پہلے ہی ان کے احتمالات کو ختم کیا جائے.اسی غرض سے میں نے خطبات کا یہ سلسلہ شروع کیا تا کہ احباب جماعت کو خوب اچھی طرح علم ہو کہ کون کون سی غلطیاں کیا کیا بدنتائج پید کرتی ہیں اور وہ فتنے کو آغاز ہی میں دیکھ کر پہچان سکیں.جب مرض پہچانی جائے اور اس کا شعور پیدا ہو جائے تو اس پر قابو پانا کچھ مشکل نہیں ہوتا.آغاز ہی میں مرض کی شناخت ہونی ضروری ہے اور جن کو مرض کی شناخت نہ ہو مرض اکثر اوقات ان کے اختیار سے باہر نکل جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 740 خطبه جمعه ۱۳ رستمبر ۱۹۹۱ء آج کے خطبہ میں بھی عام روز مرہ کی چند چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا جن پر اگر توجہ نہ دی جائے تو اس کے بسا اوقات بہت خطرناک نتائج نکلتے ہیں.عام طور پر مجلس عاملہ میں جو امیر کے تابع ہو یا صدر کے تابع ہو ماحول کی نگرانی اس رنگ میں نہیں کی جاتی کہ بدمزہ باتیں، بدخلقی کی باتیں برداشت کر لی جاتی ہیں حالانکہ وہی فتنوں کا آغاز ہے جس مجلس عاملہ میں باہمی محبت کا رنگ نہیں ، اخوت کا رنگ نہیں ،تقویٰ کے ساتھ بات کرنے کی عادت نہیں وہ ایسی سرزمین ہے جہاں فتنے ہمیشہ پرورش پاسکتے ہیں.ان روز مرہ کی باتوں میں ایک بات ایسی ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ مجلس عاملہ کے بعض ممبران بسا اوقات ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور بعض دوسرے ممبران آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں.اس کا نام گروہ بندی نہیں ہے فطرتا انسان بعض انسانوں کے زیادہ قریب ہوتا ہے بعض انسانوں سے دور ہوتا ہے.مزاج کے بہت اختلافات ہیں اس لئے طبعا چند آدمیوں کا ہم خیال ہونا یا ایک دوسرے سے تعلق میں بڑھتے چلے جانا یہ قابل اعتراض بات نہیں لیکن مجلس عاملہ میں جب معاملات زیر بحث آتے ہیں اس وقت ہم خیال دوستوں کا ہمیشہ اس وجہ سے ایک دوسرے کی تائید کرنا کہ ہم ایک ہی قسم کے لوگ ہیں اور ایک ہی تعلق والا گروہ ہے یہ بہت ہی بڑا فتنہ ہے.یہ تقویٰ کے خلاف بات ہے اور بہت سے فتنے اسی لاعلمی اور حماقت کی وجہ سے ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ایک دوسرے کے تعلق والے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات کی تائید کریں حالانکہ مجلس عاملہ ہو یا کوئی اور مشورے کی بات ہو خواہ کہیں ہو رہی ہوں وہاں آنحضرت ﷺ نے ہر مشورہ دینے والے کو امین فرمایا ہے اور لفظ امین میں بہت بڑی حکمت کا راز پوشیدہ کر دیا.پوشیدہ تو اس لئے کہ بعض نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے ورنہ حقیقت میں تو لفظ امین میں بڑا کھلا کھلا پیغام ہے جو بات نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ امین خدا اور رسول کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں، امانت کی نگہداشت کرنے کے لئے مقرر ہوئے ہیں اور اگر کبھی مشورہ ہو تو مشورہ دینے والے کو ہمیشہ پہلے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ میں خدا کی طرف سے امین مقرر ہوا ہوں اور سچائی کی امانت اس کے سپرد ہے عدل کی امانت اس کے سپرد ہے اس میں خیانت نہیں ہونی چاہئے.پس خواہ کوئی کیسا ہی تعلق والا کیوں نہ ہو.کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہوا گر صدق دل سے انسان یہ سمجھتا ہو کہ اس کی بات میں وزن نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 741 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء ہے تو اس کی تائید کرنا امانت میں خیانت کرنا ہے.بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے اور یہ وہ گناہ ہے جس میں عام طور پر لوگ ملوث ہو جاتے ہیں.مختلف جماعتی خدمات میں مختلف قسم کی مجالس میں بیٹھنے کا موقعہ ملا ہے اور میر اوسیع تجربہ ہے کہ اچھے بھلے نیک متقی لوگ اخلاص کے ساتھ وقف کر نیوالے وہ بھی لاعلمی یا لاشعوری حالت میں ان باتوں میں ملوث ہونے لگ جاتے ہیں.بعض دفعہ ایک بات مشورے کے لئے آتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جس میں ہلکا سا اشارہ بھی ہوتا ہے آپس میں باتیں کرتے یا کسی اور کے خلاف اس کی بے وقوفی پر ہنسی اڑاتے یا اس کے مشورے کے غلط ہونے کے متعلق اشاروں میں بتاتے ہیں کہ دیکھو جی اس نے ایسی بات کر دی تھی.پس وہ ملکی سی ادا ایسی خطرناک ادا ہے جو ان کے ایمان کو کھا جاتی ہے اور کم سے کم اس موقعہ پر تو ان کے تقویٰ کو کھا جاتی ہے.جب مشورہ ہورہا ہو تو کچھ لوگ اپنی عقل کے مطابق بے وقوفی والی بات بھی کر سکتے ہیں لیکن جب دوسرے کچھ لوگ ان کی طرف حقارت سے دیکھیں اور یہ گویا کہ باتیں کریں کہ ہم جانتے ہیں کیا ہے.اس بے وقوف کو کیا پتہ یا اس نے تو ایسی ہی باتیں کرنی تھیں تو اسی وقت امانت ان کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے اور یہ خائن کی حیثیت سے مجلس میں بیٹھتے ہیں.تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ مجلس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا، مجلس عاملہ ہو یا کوئی اور مشورے کی مجلس ہو ہر ایک کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ تقویٰ کے ساتھ اپنی بات کرے اور کسی کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ اس کی بات کو تحقیر سے دیکھے ہاں اختلاف کی نظر سے دیکھنا ہر گز گناہ نہیں ہے.اس سلسلہ میں ایک اور بات جو میرے دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ امیر کی اطاعت اور امیر کے ادب کا یہ غلط مطلب سمجھا جاتا ہے کہ امیر کی ہر بات کی ضرور تائید کرنی ہے.اس کے نتیجہ میں بھی بعض دفعہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور گروہ بندی ہوتی ہے چونکہ مجھے بہت سے ایسے معاملات میں تفصیل سے جائزہ لینا پڑتا ہے اس لئے جو باتیں میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں یہ حقائق پر مبنی باتیں ہیں کوئی خیالی باتیں نہیں.ایک ایسی مجلس عاملہ میرے علم میں ہے جس میں کچھ ممبران نے یہ پیشہ بنایا ہوا تھا کہ امیر کی ہر بات کی تائید کریں اور اس رنگ میں کریں گے کہ گویا یہی امیر کے دوست ہیں اور باقی دشمن ہیں.اس میں دو قسم کے خطرات ہیں.ایک تو یہ کہ اگر ان کی نیتیں صاف بھی ہوں تو امیر یہ سمجھنے لگے گا کہ یہی میرے دوست ہیں اور باقی میرے دشمن ہیں اور دوسرا ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 742 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء کی نیتوں کے فتور کا خطرہ بھی ہے.بعض لوگ اس طرز عمل سے امیر کو اپنے ہاتھوں میں ڈالنا چاہتے ہیں اور اگر سادہ لوح امیر ہو تو وہ ضرور ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگ جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہوتا ہے.پھر یہ بات دوسرا گروہ کرتا ہے ان کے دل میں رفتہ رفتہ یہ احساس پیدا ہونے لگ جاتا ہے کہ یہاں پارٹی ہے اور گویا امیر ایک پارٹی کا خود نگران ہے.ایک پارٹی کے سپر دامیر ہور ہے ہیں.جرمنی والے خطبہ میں میں نے بیان کیا تھا کہ امیر کوئی پارٹی نہیں ہے وہ ایک ہی پارٹی یعنی خدا کی پارٹی کا نمائندہ ہے لیکن وہ اس صورتحال کو پیش نظر رکھ کر بیان کیا تھا جو میرے سامنے تھی.بعض دفعہ اس کے برعکس ممکن ہے.جب بھی امیر ایسے خوشامدیوں کی باتوں کے نتیجہ میں تقویٰ کی بات کرنے کی بجائے ان کو اپنا ساتھی سمجھنے لگ جاتا ہے اور ان پر اس وجہ سے انحصار کرنے لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کی تائید کرتے ہیں وہیں اس کی پارٹی بدل گئی یعنی اس کو تو ایسا خدا کی پارٹی کا ہونا چاہئے تھا کہ خلافت اس کی پشت پناہی پر ہوتی لیکن وہ عملاً اس اعلیٰ برکت سے محروم رہ جاتا ہے.یہ وہ خطرہ ہے جس کو مشورہ کے وقت صرف امیر ہی کو نہیں دوسروں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے.جب بھی ایک شخص اس وجہ سے تائید کرے کہ گویا وہ آپ کا ساتھی ہے تو اس ذہین آدمی کے لئے اس کو معلوم کرنا مشکل نہیں ہوتا.ایسے شخص کا احترام دل میں کرنا چاہئے نہ کہ بڑھنا چاہئے اور اس کی بر وقت سرزنش کے نتیجہ میں اس کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے اور جو اس مجلس کے باقی ممبران ہیں ان کے دل میں بھی یہ بات یقین کے ساتھ گڑھ سکتی ہے کہ یہ شخص کسی کا نہیں ہے صرف خدا کا ہے، سچی بات کا ہے اور کسی گروہ کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ گروہ اس کی تائید کرتا ہے.پس ہر بات میں اگر تقویٰ پیش نظر ہے تو کسی دوسرے جھگڑے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.ایک دفعہ یہاں عقل کے متعلق ایک غیر مسلم نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ کے نزدیک عقل کی سب سے بڑی تعریف کیا ہے تو میں نے اس کو کہا کہ تم سمجھ تو نہیں سکو گے لیکن میں سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ تقویٰ سے زیادہ کوئی عقل نہیں ہو سکتی.تقویٰ اور عقل دراصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں.ہر شخص کی اپنی عقل ہے، اس عقل میں تو وہ براہ راست اپنی کوشش سے ترقی نہیں کر سکتا لیکن اگر تقویٰ پر قائم ہو جائے تو اس کو ایک ایسا نور ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کے نور سے دیکھنے لگ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 743 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء جاتا ہے اور اسی کا نام عقل کل ہے.بعض دفعہ اپنی مرضی کے خلاف فیصلے کرتا ہے اس لئے کہ اس کو یہ بات دکھائی دے رہی ہوتی ہے کہ میری مرضی اس وقت خدا کی مرضی کے خلاف ہے.میری خواہش خدا کے خواہش کے خلاف ہے اور ایسے فیصلوں پر وہ ہمیشہ اپنے نفس کی تمنا پر اپنے رب کی اس خواہش کو ترجیح دیتا ہے جو وہ تصور کرتا ہے، یہ تقویٰ ہے اور اس کے نتیجہ میں عقل روشن ہوتی ہے اور تقویٰ کے ساتھ فیصلے کرنے والا کبھی پارٹی بازی کا شکار ہو ہی نہیں سکتا کبھی ایک کی تائید کرے گا کبھی دوسرے کی تائید کرے گا.تائید کی خاطر نہیں بلکہ بات کی خاطر.آنحضور ﷺ نے اس موقعہ سے تعلق رکھنے والی نصیحت فرمائی کہ الحكمة ضالة المومن ( ترندی کتاب العلم حدیث نمبر: ۲۶۱) کہ حکمت کی بات تو مومن کی گمشدہ اونٹنی ہے وہ اس کا مالک ہے.اگر دشمن سے بھی آئے تو وہ اسے لے لے گا.کبھی یہ تو نہیں ہوا کہ کسی کی کار چوری ہو جائے تو وہ کہے کہ بڑے کمینے دشمن کے پاس سے نکلی ہے میں نہیں لوں گا.جتنی بڑی دشمنی ہو اتنا ہی وہ جلدی اس کو لینے کی کوشش کرے گا.اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھیں مومن کے ساتھ کیسا حکمت کا رشتہ باندھ دیا کہ کسی صورت میں بھی مومن حکمت سے الگ نہیں ہو سکتا.پس اگر ایسے لوگوں کی طرف سے حکمت کی بات امیر کو ملے جن کے بارہ میں وہ عمومی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ میری تائید نہیں کرتے تو اسے دونوں ہاتھوں سے قبول کرے اور جو غلط تائید کرتے ہیں ان کی سرزنش کرے کہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو یہ اچھی بات ہے اس کے نتیجہ میں اگر خدا نخواستہ فتنے کا کوئی فتور پیدا ہو بھی رہا تھا تو وہ زائل ہو جائے گا.اس کے علاوہ ایک ایسی بات ہے جس کا مال سے تعلق ہے جماعت احمدیہ میں بعض فتنے اس وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کے اخراجات کے طریق پر خوش نہیں ہوتے جن کے سپرد جماعت کی امانت ہوتی ہے.امیر کے خرچ کے طریق ہے یا دوسرے کا خرچ کا طریق ہے اور خرچ کے معاملہ میں اکثر لوگوں کو یہ علم بھی نہیں کہ خرچ کیسے ہونا چاہئے اور نظام جماعت کس کو کیا اختیار دیتا ہے.اگر یہ علم ہو تو اس کے نتیجہ میں فتنہ پیدا ہونے کی بجائے بر وقت ایک غلط بات کی اطلاع صحیح آدمی کو پہنچ سکتی ہے مجالس عاملہ کی دو حیثیتیں ہیں.ایک وہ مجلس عاملہ ہے جو امیر کے تابع ہے اور جماعت میں امیر ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر دوسرے منتخب عہدے سے برتری حاصل ہے.امیر سے مراد یہ ہے کہ خلیفہ وقت نے اپنے جو اختیارات دوسروں کو تفویض کئے ہیں امارت کے عہدے کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 744 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء ایسے اختیارات سب سے زیادہ تفویض کئے ہیں جو نظام جماعت میں خلافت کی طرف سے ہمیشہ تفویض کئے جاتے ہیں.مختلف عہدیدار ہیں سیکرٹری مال کو بھی اختیار تفویض ہوئے ہوئے ہیں.سیکرٹری تبلیغ کو بھی ہیں ، ایک جماعت کے صدر کو بھی ہیں لیکن سب سے زیادہ اختیارات امیر کو ہیں کیونکہ امیر خلیفہ وقت کا براہ راست نمائندہ ہوتا ہے.انتخاب مشورے کی خاطر کیا جاتا ہے مگر اس کو ڈیموکریٹک انتخابات سے تعلق نہیں ہے.ڈیموکریٹک انتخاب میں جو یہ روح ہے کہ عوام کی رائے معلوم ہو جائے اس حد تک یہ ڈیموکریٹک ہے مگر عوام کے لئے بہتر کیا ہے؟ یہ فیصلہ بعض دفعہ عوام کی رائے سے نہیں بلکہ خلیفہ وقت کی موقعہ شناسی سے ہوتا ہے اور بہت کم ایسا موقعہ آتا ہے مگر بعض دفعہ وہ سمجھتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی چالا کی کی وجہ سے اور اپنے جتھے کی وجہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر لئے ہیں.اگر اس انتخاب کو منظور کر لیا گیا تو جماعت میں چالاکیاں دکھاوے اور جتھہ بندی کی روح کو تقویت ملے گی.کیونکہ وہ اس دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے اور براہ راست نہیں مگر رسول کی وساطت سے اس لئے وہ اس وجہ سے فیصلے کر رہا ہوتا ہے اور چونکہ جماعت کا اس کے ساتھ تعلق کسی صدر یا امیر کی معرفت نہیں ہوتا بلکہ ہر فرد بشر کا براہ راست تعلق ہے اس لئے وہ اس کے فیصلے کو ہمیشہ ترجیح دیتی ہے اور ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتی کہ ان کی رائے کے مطابق انتخاب کیوں نہیں کیا گیا.یہ حفاظت کا وہ دہرا نظام ہے جو خدا کے فضل سے صرف جماعت احمدیہ کو دنیا میں نصیب ہے دنیا کی کسی اور ڈیموکریسی کسی اور نظام کو دہری حفاظت کا یہ نظام میسر نہیں.بہر حال اس طریق کار پر جو امارت ہے اس کو سب سے زیادہ اختیارات خلیفہ وقت کی طرف سے تفویض کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد صدارت ہے جس عہد یدار کو صدر کہتے ہیں اس کو بھی نمائندگی کے اختیارات ہیں لیکن نسبتا کم.وہ کیا کیا ہیں، کہاں کہاں فرق ہے.مجلس عاملہ کا ان سے کیا تعلق ہے؟ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کو جماعت احمدیہ کے سامنے خوب کھول کھول کر بیان کرنا چاہئے کیونکہ دنیا کے ۱۲۶ ملکوں میں جماعت نافذ ہوچکی ہے.وہاں کے خدانخواستہ نظر سے اوجھل پیدا ہونے والے اختلافات فتنوں کا رنگ اختیار کر سکتے ہیں چونکہ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ خلیفہ وقت کے خطبات کو فوری طور پر تمام دنیا میں جماعتوں تک پہنچایا جائے اس لئے یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعہ ہم جماعتی نظام سے ساری جماعت کو روشناس کرا سکتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کے دل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 745 خطبه جمعه ۱۳ رستمبر ۱۹۹۱ء میں اس نظام کا ادب جا گزیں کر سکتے ہیں.بہر حال اس سلسلہ میں میں بتانا چاہتا ہوں کہ مجلس عاملہ کے اور امیر کے اختیارات میں فرق ہے اور ان دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس کے بعد جہاں موقعہ ملے گا اس سلسلے میں بعض دوسری ضروری باتیں بھی بیان کروں گا جن کا فتنوں کے احتمالات سے تعلق ہے.امیر کو روزمرہ کے جماعتی کاموں کو چلانے کے مکمل اختیارات ہیں اور یہ انتظامی اختیارات ہیں مجلس عاملہ کو انتظامی اختیارات بحیثیت مجلس عاملہ کوئی نہیں ہیں.یہ تمام اختیارات یا امیر کو ہیں یا سیکرٹریان مجلس عاملہ کو ہیں جو اپنے اپنے شعبہ میں انتظامی اختیارات رکھتے ہیں.مجلس عاملہ کی حیثیت ایک تو یہ ہے کہ ان سب پر مشتمل ہے لیکن اجتماعی حیثیت سے وہ منتظمہ نہیں ہے بلکہ مشیر ہے.آپس میں مل کر بیٹھ کر غور کرنے کے لئے ایک مجلس ہے لیکن بعض باتوں میں ان کو ایسے اختیارات ہیں جو امیر کو نہیں ہیں مثلاً اموال سے متعلق مجلس عاملہ کی مرضی کے بغیر امیر خود جماعت کے سامنے مجلس کے سامنے کوئی بجٹ پیش نہیں کر سکتا.یہ مجلس عاملہ کا حق ہے کہ بجٹ پر غور کرے اور اس کے مالہ وما علیہ، (Pros and cons) اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے ایک ایسا بجٹ بنائے جسے وہ شوریٰ میں پیش کرے گی.امیر اپنے طور پر یہ بجٹ نہیں بنا سکتا.مالی معاملات میں امیر کے اختیارات یہاں ختم ہو جاتے ہیں.اگلی بات یہ ہے کہ مجلس عاملہ کے مشوروں کے بعد ملک کی مجلس شوریٰ جو بجٹ منظور کرتی ہے اسے آخری فیصلہ قرار دینے سے پہلے مرکز سے اس کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے کسی مجلس شوری کا فیصلہ آخری فیصلہ نہیں بنتا جب تک مرکز سلسلہ سے اس کی منظوری حاصل نہ ہو جائے.جب منظوری حاصل ہو جاتی ہے تو طبعا امیر کے اختیارات اس معاملے میں بالکل کالعدم ہو جاتے ہیں کیونکہ امیر اپنے افسر بالا کے فیصلوں کو تبدیل نہیں کر سکتا.مجلس شوری کے جو فیصلے خلیفہ وقت سے منظور شدہ ہوں یا وکیل اعلیٰ کی طرف سے منظور شدہ ہوں ان میں امیر خود پابند ہے اس لئے یہ خیال کر لینا کہ امیر کو گویا ڈکٹیٹر شپ کے اختیارات ہیں بالکل غلط اور بودی بات ہے.جب امیر شوری کے منظور شدہ فیصلوں کا پابند ہو جاتا ہے اور منظور شدہ بجٹ کا پابند ہوجاتا ہے تو اس کو ہرگز یہ حق نہیں ہے کہ منظور شدہ بجٹ سے باہر جا کر خرچ کرے اور بہت سی جگہ ایسی غلطیاں ہوتی ہیں اور ہورہی ہیں.بجٹ کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 746 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء احترام جماعت میں پیدا کرنا بڑا ضروری ہے کیونکہ اللہ کے فضل کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ قابل اعتما دطوعی مالی نظام جماعت احمدیہ کا نظام ہے.یہ جو لوگ ایک آواز پر لاکھوں کروڑوں فدا کرتے ہیں اس کا ان کے دل کے اخلاص سے بھی تعلق ہے اور اس یقین سے بھی تعلق ہے کہ اس راہ میں ہم جو ایک ایک پیسہ دیتے ہیں اس پر وہ خدا کی طرف سے امین مقرر ہیں.انہیں کوئی بھی گارنٹی نہیں ہوتی اور یہی وہ روح ہے جس کی حفاظت کرنا بے حد ضروری ہے اسی لئے مالی نظام میں امیر کو کم اختیارات تفویض کئے گئے ہیں کیونکہ امیر کا ان باتوں میں ملوث نہ ہونا خود اس کے احترام اور تقدس کے لئے ضروری ہے لیکن امراء بعض دفعہ اس وجہ سے کہ ان کو بہت احترام دیا جاتا ہے، ان کے متعلق بار بار کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارے او پر خلیفہ وقت کی طرف سے نگران مقرر ہیں ان کی اطاعت ہی نہ کرو، ادب کرو، احترام کرو، پیار کا تعلق رکھو.اس وجہ سے بعض سادہ لوح لوگ سمجھتے ہیں کہ امیر اگر نظام جماعت کی حدوں سے بھی گزر رہا ہو اور ان اختیارات کو بھی اپنے ہاتھ میں لے رہا ہو جو اس کو دیئے نہیں گئے تو اس بارہ میں خاموشی اس کا ادب ہے ، خاموشی اختیار کرنا ہی اس کی اطاعت کی روح ہے، یہ بالکل غلط ہے اور نہایت لغو بات ہے عقل سے اور تقویٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ تقویٰ کا تقاضا ہے کہ بالا ہستی کی اطاعت کی خاطر ماتحت ہستی کی اطاعت کی جاتی ہے.تقویٰ کا پہلا سبق قرآن کریم نے ہمیں اس رنگ میں دیا تھا کہ خدا کی اطاعت کی خاطر ساری مخلوق کو آدم کے سامنے جھکنا ہوگا اور وہ شیطان جس نے کہا کہ میں بہتر ہوں اس نے اس بہت ہی بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ اطاعت صرف خدا کی ہے اور خدا کی اطاعت کے نیچے جس صاحب کو امیر بنایا گیا اس کی اطاعت عملاً خدا کی اطاعت ہے اور اس سے روگردانی سرکشی ہے.پس بالا افسر کی اطاعت ہر جگہ ہر فیصلے کے وقت فیصلہ کن امر ہے.اسی سے روشنی حاصل کرنی چاہئے.اگر امیر کسی موقعہ پر اپنے بالا افسر سے باغیانہ رویہ اختیار کرتا ہے اس کی اطاعت سے باہر نکلتا ہے تو و ہیں جماعت اس کی اطاعت سے باہر نکل جائے گی.اس کی وفا امیر سے نہیں ہے بلکہ امیر سے بالا افسر سے ہے.اس کی وفا خلیفہ سے نہیں ہے بلکہ خلیفہ سے بالا افسر نبی سے اور خدا سے ہے تو ان معنوں میں کسی جگہ بھی کوئی صاحب امرڈ کٹیرہ نہیں بن سکتا اور ہر ایک کی اطاعت خدا کی خاطر جاتی ہے.اسی لئے بیعت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں معروف امر میں آپ کی اطاعت کروں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 747 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء خلیفہ المسح سے یہ عہد نہیں ہے کہ میں ہر بات میں آپ کی اطاعت کروں گا، جوبھی نیک کام آپ مجھے بتائیں گے انہی میں آپ کی اطاعت کروں گا.جو معروف فیصلہ ہوگا اس میں آپ کی اطاعت کروں گا.پس نیک کام اور معروف فیصلے سے مراد یہ ہے کہ شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جتنے.وہ احکامات ہیں ان میں میں تابع فرمان رہوں گا اور ان سے باہر کی اطاعت کا سوال ہی نہیں.اطاعت شیطانی بن جائے گی اس لئے امارت کے ساتھ بھی آپ کا تعلق اسی مضمون کے تابع ہے.اگر کہیں کوئی امیر اپنے مالی اختیارات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے تجاوز کرتا ہے تو مجلس عاملہ کا فرض ہے بلا تاخیر اس کے متعلق خلیفہ وقت کو یا دوسرے کو جو بھی اوپر مقرر ہے اس کو مطلع کرے اور اس بارہ میں واضح قوانین ہیں کہ کہاں تک ان معاملات میں فوری تعاون کرنا ہے اور کہاں نہیں کرنا.مثلاً پیسے نکلوانے کے لئے ایک امیر کے ساتھ سیکرٹری مال کے دستخط بھی ضروری ہیں یا بعض دفعہ جماعت کے دو اور عہدیداران کے دستخط کروائے جاتے ہیں اور ساری دنیا میں یہی نظام مقرر ہے کہ سلسلے کے اموال پر کوئی شخص اکیلا اس طرح نہیں بیٹھے گا کہ جب چاہے جو چیز نکلوالے بلکہ خواہ کتنا ہی بڑا اس کا مقام ہواس کے ساتھ کسی اور کو دستخط کرنے ہوں گے.ہرایسے مقام پر جہاں واضح طور پر مرکزی ہدایت کے خلاف روپیہ نکلوایا جا رہا ہے وہاں ساتھ کے دستخط کرنے والا بھی ذمہ دار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو امین بنایا گیا ہے اور اسی لئے اس کے دستخط ساتھ رکھے گئے ہیں تا کہ اس کو علم ہو کہ کون سی بات ہورہی ہے اور اگر وہ خلاف قانون ہو رہی ہے تو وہ اس میں روک بن جائے.ایسی صورت میں اب تک کی جو میری ہدایت تھی وہ یہ تھی کہ سیکرٹری مال اگر امیر کو واضح طور پر خلاف قاعدہ رقم نکلواتے ہوئے دیکھے تو دستخط کرنے سے پہلے احتجاج کرے.اگر پھر بھی وہ حکم دے تو پھر دستخط کر دے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے ایسی صورت میں جو دومشیر ہیں ان کا کام ہے کہ انکار کریں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واضح طور پر خلاف قاعدہ حرکت ہے اس لئے ہم دستخط نہیں کریں گے.آپ ہماری شکایت اوپر کریں اور ہم بھی اس معاملہ کو اوپر بھیجتے ہیں اور فوری طور پر اس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے.آج کل ٹیلی فونز کے ذریعہ رابطے اتنے فوری ہو چکے ہیں کہ دنیا کے کسی کونے سے بھی بلا تاخیر رابطہ ہو سکتا ہے اور اس قسم کی باتیں شاذ کے طور پر ممکن ہیں.اس لئے کوئی ایسی وجہ ہی نہیں ہے کہ اس کے نتیجہ میں بڑا افساد کھڑا ہو لیکن انکار کرنے کے وقت بھی ادب کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 748 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء پہلو اور احترام کا پہلولازمی ہے اور ایسا شخص جوامیر کے ساتھ دستخط کرنے پر مقرر کیا گیا ہے اگر انکار کرتا ہے تو بڑی بھاری ذمہ داری کو قبول کرتا ہے.شک کی بناء پر اس کو انکار کا حق نہیں ہے.وہ واضح طور پر جہاں خلاف ورزی دیکھتا ہے وہاں جب انکار کرتا ہے تو پوری ذمہ داری قبول کرتا ہے.اس کو یقین ہونا چاہئے کہ میرا یہ انکار درست ہے.اس میں اور بہت سے پہلو ہیں جن کو نظر انداز کیا جارہا ہے مثلا ایک بجٹ سفر خرچ کا مقرر ہوا ہے ایک بجٹ مہمان نوازی کا ہے.ایک کسی اور چیز کا بجٹ ہے.خرچ تو امیر نے کرنا ہے یا امیر کے تابع جو انتظامیہ ہے اس نے کرنا ہے کیونکہ بحیثیت منتظم ہر شخص کو کچھ نہ کچھ خرچ اپنے دائرہ کار میں کرنے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ رقمیں جو مقرر کر دی گئی ہیں ان سے وہ تجاوز کریں لیکن ہوتا یہ ہے کہ اگر سفر خرچ کی مد پر غیر معمولی خرچ ہورہا ہے تو کسی اور مد سے اس مد کے نام پر لیکن سفر خرچ کے لئے رقم خرچ کی جاتی ہے.اس معاملہ میں یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کسی اور کو علم نہ ہو.جس بجٹ سے خرچ ہورہا ہوتا ہے اس کو محاسب دیکھتا ہے نظام جماعت کا آڈیٹر ہے وہ اس کو دیکھتا ہے اور یہ نظام اسی لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ وہ بر وقت مرکز کو مطلع کریں کہ کون سے اخراجات اپنے موقع اور محل کے مطابق درست ہیں.بسا اوقات جب میں تحقیق کرواتا ہوں تو رپورٹ آجاتی ہے کہ جی ! سب کچھ ٹھیک ہے کوئی غلطی نہیں لیکن میرے دل میں چونکہ ایک قسم کا دھڑ کا سا لگ جاتا ہے کہ صورتحال درست نہیں ہے.پھر میں تفصیل سے یہ رپورٹ منگوا تا ہوں بعض دفعہ امراء کو کہتا ہوں کہ مجھے اپنے فلاں فلاں اخراجات کے سارے بل بھجوائیں.وقت تو میرا لگے گا لیکن مجبوری ہے اب جب تک میرے دل کو اطمینان نہ ہو جائے کہ مالی معاملات میں سب کچھ ٹھیک ہے اس وقت تک میں مزید آپ کو اجازت نہیں دے سکتا.جب بل منگواتا ہوں تو اس وقت بات سمجھ آتی ہے کہ سفر خرچ پر اگر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہونا چاہئے تھا تو پانچ لاکھ ہوگیا ہے لیکن وہ چار لاکھ سفر خرچ کی مد میں نہیں لیا گیا بلکہ فلاں مد میں سے اور فلاں مد میں سے اور فلاں مد میں سے وہ بل ادھر منتقل کر دیئے گئے.یہ نا جائز ہے اور جب پوچھا گیا تو یہ بتایا گیا کہ جی ! مجموعی بجٹ میں تو گنجائش تھی.ہم نے وہاں سے لے کر خرچ کر دیا.اس کے متعلق دو باتیں جماعت کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہئیں.مجلس عاملہ کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 749 خطبه جمعه ۱۳ رستمبر ۱۹۹۱ء اختیار ہے کسی عہدیدار کو نہیں کہ بجٹ کے اندر رہتے ہوئے ایک مد سے دوسری مد میں روپیہ منتقل کرے.لیکن مجلس عاملہ کو بھی اختیار نہیں کہ ایک مد کا خرچ بغیر مرکز کو بتائے کسی اور مد میں ڈال دے.یہ بد دیانتی ہے اور یہاں سے آگے پھر بہت قسم کے فتنوں کے رستے کھل جاتے ہیں.اگر سفر خرچ کی مدختم ہوگئی ہے تو سفر خرچ کی مد کو بڑھانا چاہئے.سفر خرچ کے بل دوسری مد میں نہیں جائیں گے اور عملاً یہ جو خاموشی کے ساتھ بات کر دی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے بجائے اس کے کہ مجلس عاملہ بیٹھے اور یہ فیصلہ کرے کہ سفر خرچ کی مد کو ایک لاکھ کی بجائے ہم پانچ لاکھ کرتے ہیں اور زائد چار لاکھ روپیہ فلاں فلاں مد سے کاٹ کر ادھر منتقل کرتے ہیں، جو ایک جائز بات ہے.اس کی بجائے سفر خرچ کی مد ایک لاکھ کی ایک لاکھ رہتی ہے اور بل سفر خرچ کے دوسری مدوں میں ڈال دیئے جاتے ہیں.سفر خرچ کی مثال میں صرف ایک مثال کے طور پر پر دے رہا ہوں لیکن ہر مد سے اسی قسم کی باتیں ہیں یعنی اپنے آپ کو برابر کرنے کی خاطر ایک دن امیر صاحب اور ان کے ساتھی مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی ! یہ جوزائد خرچ ہے اس کو اب کس طرح ٹھیک کرنا ہے (اور پھر یہ طے ہوتا ہے کہ ) اچھا جی ! اس کو فلاں فلاں مد میں ڈالتے چلے جاؤ یہ سراسر بد دیانتی ہے.بددیانتی سے مراد یہ نہیں ہوا کرتی کہ اپنی جیب میں ڈالا گیا ہے.امانت کی خیانت ہے، یہ سلسلے نے بعض قوانین کے تابع ان کو اخراجات کی اجازت دی تھی.ان قوانین کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور مرکز کو دھوکہ دیا جارہا ہے کہ آپ کے قوانین کے تابع خرچ ہورہے ہیں.پس مجلس عاملہ کے ہر ممبر کو اس بات پر نگران رہنا چاہئے کہ بحیثیت مجلس عاملہ جو اختیارات ہیں ان کے اوپر کوئی اور چھا پہ نہ مار سکے.ان اختیارات کو ناجائز طور پر کوئی اپنے قبضے میں نہ کرے.ایک اختیار جو مجلس عاملہ کو بھی نہیں ہے وہ یہ ہے کہ مجموعی بجٹ کو از خود بڑھادے.مثلاً مجموعی بجٹ اگر دس لاکھ گلڈرز ہے تو دس لاکھ گلڈرز کے اندر مدات میں کہیں پچاس ہزار، کہیں دس ہزار مختلف مدات ہیں جن میں وہ روپیہ تقسیم ہوا ہے.مجلس عاملہ کی طرف سے اندرونی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں انفرادی طور پر نہیں لیکن دس لاکھ گلڈرز کو گیارہ لاکھ بنانے کا ان کوکوئی اختیار نہیں اس کے لئے لازمی مرکز سے پوچھنا ہوگا کہ آیا دوران سال ہم بجٹ کو بڑھا سکتے ہیں یا نہیں اور ان امور میں بھی بعض دفعہ بغیر مرکز کی اجازت کے تجاوز کر جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 750 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء پھر بارہا یہ سمجھایا گیا ہے کہ اگر آپ کا بجٹ ختم ہونے والا ہے اور آپ کو ضرورت ہے تو پیشتر اس سے کہ آپ کو ضرورت پیش آجائے اور بجٹ ختم ہو چکا ہو آپ مجلس عاملہ کی میٹنگ بلایا کریں اوراس میں Approval لیا کریں لیکن اس کی بجائے سال کے آخر پر جب ہم سب حساب منگواتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ جی افلاں مد میں مجبوری پیش آگئی تھی.فلاں میں مجبوری پیش آگئی تھی اس کا اتنا منظور کیا جائے اتنا منظور کیا جائے.بعض دفعہ تو نظر انداز کرنا پڑا ہے کیونکہ ابھی پوری تربیت نہیں ہوئی لیکن آج اس خطبہ کے بعد اب میں یہ بات کھول دیتا ہوں کہ بہت دفعہ میں ایسی غلطیوں کو نظر انداز کر چکا ہوں.آئندہ نہیں کی جائیں گی کیونکہ نظام جماعت میں سے مال کے نظام کی حفاظت نہایت ضروری ہے آئندہ سینکڑوں سال کا اس کے ساتھ تعلق ہے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس رنگ میں قربانیاں پیش کرتی ہے وہ بے مثل ہیں ان کا دنیا میں کسی اور نظام کسی اور جماعت میں عشر عشیر بھی دکھائی نہیں دیتا اس مقدس نظام کی حفاظت ضروری ہے اور اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اخراجات کی حفاظت بڑی ضروری ہے.اگر جماعت کو کامل یقین رہے کہ اخراجات کی پوری طرح نگرانی ہورہی ہے اور قوانین سے سرمو بھی انحراف نہیں ہورہا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو خدا تعالیٰ نے اتنا بڑا حوصلہ عطا فرما دیا ہے اور دین کی راہ میں خرچ کرنے کا ایسا چسکا ڈال دیا ہے کہ پھر سلسلہ کے خزانے کبھی بھی ختم نہیں ہو سکیں گے ہر ضرورت جس طرح پوری ہو رہی ہے آئندہ بھی ضرور پوری ہوگی لیکن جہاں ہمارے لئے تم میں فتور آئے گا وہاں یہ سب برکتیں جاتی رہیں گی.پس مالی امور میں چھوٹی سے چھوٹی باتوں میں بھی اپنے ہاتھ میں قانون کو لینا گناہ سمجھنا چاہئے اور یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ دیانتداری کی تعریف میں صرف یہ بات بھی داخل ہے کہ روپیہ دین کا ہے دین پر خرچ کرو حالانکہ دیانتداری کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ جس بات کے تم مجاز ہو وہی کرو.جس بات کے مجاز نہیں ہو وہ نہ کرو.یہاں اگر ہم نے دیانت کی حفاظت کی تو ذاتی اخراجات کا سوال ہی باقی نہیں رہے گا.وہ بد دیانتی جو دین کے مال کو اپنے اوپر خرچ کرنے پر منتج ہوتی ہے اس کا آغاز اسی قسم کی بددیانتیوں سے ہوا کرتا ہے.ایک جگہ بے احتیاطی کی ، دوسری جگہ بے احتیاطی کی.رفتہ رفتہ اس بے احتیاطی نے جرات دلا دی.حیاء کم کر دی اور پھر سلسلے کے اخراجات ذات پر بھی ہونے لگتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے واقعات جماعت احمدیہ میں بہت شاذ کے طور پر ہیں اور جہاں بھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 751 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء ہوئے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کا روپیہ واپس ہوا لیکن یہ تو بہت بعید کی بات ہے.میں آپ کو روزمرہ کی باتوں میں تاکید کر رہا ہوں اور نظام جماعت سمجھا رہا ہوں.مجلس عاملہ کے اختیارات ہیں بجٹ کے اندر تبدیلی پیدا کرنا اور پھر اس کے متعلق منظوری لینا.بجٹ کے باہر تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں.مرکز کو درخواست کی جاسکتی ہے اور بجٹ کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرنا امیر کی ذمہ داری ہے اور جہاں وہ تجاوز کرتا ہے وہاں دستخط کرنے والے کو ہاتھ روک لینے چاہئیں.اس کا اب فرض ہے کہ وہ امیر سے کہے کہ تم نے افسر بالا کی نافرمانی کی ہے اس لئے میں اس نافرمانی میں تمہارا شریک نہیں بنوں گا.مرکز سے اجازت لو اور پھر مجھے مطلع کرو، پھر میں دستخط کروں گا.اب اگر سختی سے اس بات کو نافذ کیا گیا تو انشاء اللہ آئندہ جو ہلکا سار جحان پیدا ہورہا ہے اس کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو جائے گا.مجالس عاملہ کے تعلقات میں ایک بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ امیر کو بعض اوقات مجلس کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ مجلس عاملہ کا یہ فیصلہ جماعت کی اعلیٰ اغراض کے منافی ہے اور جماعت کے لئے بعض خطرات پیدا کر سکتا ہے.اس صورت میں امیر کو یہ اختیار ہے کہ وہ ویٹو کر دے لیکن امیر کا فرض ہے کہ ویٹو کرنے کے بعد ۱۵ دن کے اندر اندر مرکز کو اس ویٹو کے حق کی وجوہات سے مطلع کرے.ایسی باتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں کہ امیر نے فیصلہ کیا ویٹو کر دیا اور بارہا ویٹو کیا اور مرکز کو مطلع نہیں کیا اور جماعت کو بھی مطلع نہ کیا کہ جماعت کے کیا حقوق ہیں اور اگر امیران حقوق سے متعلق ایک بالاحق کو استعمال کرتے ہوئے ان کو منسوخ کرتا ہے تو جماعت کو کیا حق ہے؟ جماعت کو کیا کرنا چاہئے.جماعت کی یہ عدم تربیت ہے اس کے نتیجہ میں ماضی میں بہت بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں.خاص طور پر افریقہ میں سلسلے کو بہت نقصان پہنچا ہے.ہوتا یہ تھا کہ مرکز سے ایک تربیت یافتہ آدمی تربیت یافتہ ان معنوں میں کہ جو قوانین کو خوب سمجھتا ہے وہاں مقرر ہوا اور امیر بنا دیا گیا.نئے لوگ جو احمدیت میں داخل ہوئے اخلاص تو ان میں تھا لیکن نظام جماعت سے واقفیت نہیں تھی.ان کو امیر نے یہ نہیں بتایا کہ تمہارے کیا حقوق ہیں.ان کو یہ بتایا کہ میرے کیا حقوق ہیں.جب بھی انہوں نے امیر کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا یا تو اسے یہ کہہ کر سختی سے دبا دیا کہ تم کون ہوتے ہوا میر کے خلاف بات کرنے والے یا ان کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 752 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء مرکز کو رپورٹیں بھیجنا شروع کیں کہ فلاں موقعہ پر فلاں شخص نے یہ کہا.فلاں وقت پر یہ کہا.فلاں وقت پر یہ کہا.اگر چہ وہ دب گیا ہے لیکن اس میں فتنہ پردازی کی بو پائی جاتی ہے اور بعض بہت اچھے اچھے کارکن اس طرح خدمت سے محروم رہ گئے اور کسی موقعہ پر ان کو یہ نہیں بتایا کہ اگر چہ مجھے حق ہے کہ تمہارے فیصلہ کے اوپر ویٹو کروں لیکن تمہیں بھی حق ہے اور تم میں سے ہر ایک کا حق ہے کہ میرے ہر فیصلہ کے خلاف جس سے تمہیں اختلاف ہو خلیفہ وقت کو چٹھی لکھو اور اس کا طریق یہ ہے کہ براہ راست لکھو تو مجھے اس کی نقل بھیجو لیکن بہتر طریق یہ ہے جس کو ہم رواج دیتے ہیں کہ جس کے خلاف شکایت ہے اس کی معرفت خط لکھو اورنقل براہ راست بھیج دو تا کہ یہ وہم نہ رہے کہ کوئی عہد یدار اپنے خلاف شکایت کے اوپر بیٹھ رہا ہے.یہ اگر بتایا جا تا تو جن فتنوں کی میں بات کر رہا ہوں ان میں سے ایک بھی فتنہ پیدا نہ ہوتا.ایک لمبے عرصہ تک بے چاری جماعتوں کو اس دھوکا میں رکھا گیا کہ امارت کے نظام سے مراد یہ ہے کہ امیر سیاہ وسفید کا کلیہ مالک بن چکا ہے اور اس کے خلاف اگر کوئی شکایت پیدا ہو رہی ہے.دل میں کوئی لغزش پیدا ہورہی ہے تو سوائے صبر کے اس کے حل کا کوئی رستہ نہیں ہے اور ہر آدمی سے صبر نہیں ہوتا.وہ پھر رستہ نہ پا کر نئے رستے بناتے ہیں.اپنے ماحول میں اپنے دوستوں میں باتیں کرتے ہیں ان کو بددل کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ جماعت کا اخلاص گرنے لگتا ہے اور ایک بددلی سی پیدا ہو جاتی ہے اور جب یہ بات بہت بڑھ جائے تو پھر فتنے کا ایک آتش فشان پھٹ پڑتا ہے.بعض ممالک میں بہت بھاری نقصان پہنچا ہے.میں سوچتا ہوں کہ اگر مثلاً ۲۰.۲۵ سال پہلے یہ نقصان نہ پہنچا ہوتا تو آج جماعت دس گنا زیادہ طاقتور ہوتی.بہت بڑے بڑے طاقتور لوگ جو ویسے ہی مخلص تھے وہ ہاتھ سے نکل گئے اور مخلص ہونے کا ان کا ثبوت یہ ہے کہ مدتیں ہوگئی ہیں اس فتنے کو پیدا ہوئے اور ان کو الگ ہوئے لیکن آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پورا احترام ہے.تمام دعاوی کو تسلیم کرتے ہیں اور کھلم کھلا مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا اعلان کرتے ہیں.اگر دل میں اخلاص نہ ہوتا تو اتنی دیر کے بعد یہ کیسے باقی رہ سکتا تھا جو فتنے دل کی کبھی سے پیدا ہوتے ہیں وہ ایمان کو ضرور کھا جاتے ہیں.جو فتنے لاعلمی سے پیدا ہوتے ہیں نقصان انکا بھی ہوتا ہے لیکن ایمان بیچ جایا کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو بالآخر اللہ تعالیٰ بچالیتا ہے تو جوشخص لوگوں کی لاعلمی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 753 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء کی وجہ سے ان کے ایمان سے کھیلنے لگ جائے اور جماعتی مفاد کے لئے خطرہ بن جائے وہ امارت کا اہل ہی نہیں ہے.اس لئے امراء کو بھی اس بات کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ تمام جماعت کو ان کے حقوق سے مطلع رکھیں اگر وہ دیکھیں کہ ان کی کسی بات سے کسی کو رنجش پہنچتی ہے تو اسے محبت کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کریں.اور اگر اصول کا معاملہ ہو اور وہ اس معاملہ میں فیصلہ بدلنے کے مجاز نہ ہوں تو پھر ان کو سمجھا ئیں کہ دیکھو تمہیں بھی اختیار ہے چٹھی لکھو میں تمہیں پتے بتا تا ہوں کہ کس کو چٹھی لکھنی چاہئے.میرے خلاف شکایت لکھو اور کھل کر کھو کہ میں نے کیا غلطی کی ہے.پھر تمہیں آپ ہی مرکز سمجھا دے گا کہ کیا اصل بات تھی.تو نظام جماعت میں تو کوئی رخنہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا اگر تقویٰ سے کام لیا جائے لیکن روح تقوی کی ہی ہے جو کام کرتی ہے.مجلس میں بھی کوئی بات تکلیف نہیں دیتی اگر وہ تقویٰ پر مبنی ہو اور متقیوں کا اختلاف ہمیشہ رحمت بنتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو ایک ہی فقرہ میں بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا دیا ہے مگر افسوس کہ بعض لوگ اس پر نظر نہیں کرتے.فرمایا: اختلاف امتی رحمة (حوالہ حدیث) میری امت کا جو اختلاف ہے وہ رحمت ہے اور دوسرے مواقع پر اختلافات کے خلاف بہت سخت ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا.بعض اختلافات ہیں جو امت محمدیہ کے اختلاف ہیں ، یہاں امتی کا جو لفظ ہے اس نے مضمون میں جان ڈالی ہے.جو میری امت ہو، یہ معنی ہیں کہ جو بچے رنگ میں حقیقی طور پر میری ہو وہ میرے رنگ میں رنگین ہوگی.ان کے اختلافات تقویٰ پر مبنی ہوں گے اور تقویٰ کے نتیجہ میں جو اختلاف ہے اس سے عقل ترقی کرتی ہے.اس سے آزادی ضمیر کو تقویت ملتی ہے اور خیالات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نشو ونما پاتے ہیں، ہر قسم کے اندھیرے دور ہوتے ہیں ،نئی روشنیاں نصیب ہوتی ہیں اور ترقی کا ایک لامتناہی سلسلہ اس سے پیدا ہوتا ہے اس کا نام رحمت ہے لیکن جو اختلاف تقوی سے عاری ہو وہ رحمت کیسے بن سکتا ہے.یہ تو ہمیشہ ظلم پر مبنی ہوتا ہے اور ظلمات پیدا کرتا ہے اس کے نتیجہ میں اندھیرے پیدا ہوتے ہیں، اضطراب پیدا ہوتے ہیں.تو میں پھٹ جایا کرتی ہیں.تو بات وہیں ختم ہوتی ہے یعنی تقویٰ پر.تقویٰ سے بات کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختلاف بھی رحمت بن جاتا ہے اور تقویٰ نہ ہو تو تائید بھی لعنت بن جاتی ہے.جیسا کہ میں نے بیان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 754 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء کیا بعض لوگ امیر کی تائید کر رہے ہوتے ہیں لیکن تقویٰ کے بغیر اس کے نتیجہ میں مخالف رائے رکھنے والے مجبوراً ایک گروہ بن جاتے ہیں.گویا کہ ان کو تحریک کی جاتی ہے کہ تم اکٹھے ہوورنہ ہم نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ ہر بات میں غلط ہو یا صیح ہوا میر کی تائید کر کے اس کا جتھہ بن جائیں گے.پس ان معنوں میں امیر کا جتھہ بن سکتا ہے لیکن یہ جتھہ پھر خدا کا جتھہ نہیں ہوگا امراء پر بھی بڑی ذمہ داری ہے وہ ہمیشہ اس بات کے نگران رہیں کہ مشورے میں اللہ کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہے اور سچائی کو عظمت دی جائے کسی دوستی اور تعلق کو عظمت نہ دی جائے.اس قسم کی اور بہت سی باتیں ہیں جو آج مجھے کہنی تھیں اور خیال تھا کہ شاید اسی خطبہ میں بات ختم ہو جائے لیکن میرے خطبہ کے مقررہ وقت میں چند منٹ رہ گئے ہیں اور ابھی مضمون باقی ہیں.پھر کبھی انشاء اللہ میں اس سلسلہ میں مزید باتیں کروں گا.ایک بات آخر پر میں یہ بتانی چاہتا ہوں کہ بعض باتیں ایسی ہیں جن کو بے وجہ امراء مجلس عاملہ میں لاکر اپنی ناسمجھی کی وجہ سے یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے اختلافات کے بیج ڈال دیتے ہیں اور ماحول مکدر ہونے لگتا ہے.مثلاً ایک عہدیدار نے ، ایسے مرکزی عہدیدار نے یا علاقائی عہد یدار نے کسی جماعت کا دورہ کرنا ہے جس کے لئے دلوں میں احترام پایا جاتا ہے تو بعض دفعہ مقامی امیر اس کو مجلس عاملہ میں رکھتا ہے کہ اس کو کہاں ٹھہرایا جائے اور اس پر پھر اختلافات شروع ہو جاتے ہیں.بعض لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے گھر ٹھہرے.بعض لوگوں کی خواہش ہوتی ہے ہمارے گھر ٹھہرے.بعض کہتے ہیں کہیں بھی نہ ٹھہرے ہوٹل میں انتظام ہو اور اس چھوٹی سی بات پر وہ تکرار شروع ہو جاتی ہے کہ الامان اور الحفیظ.بڑے بڑے سمجھدار لوگ نہایت ہی احمقانہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ یہ ایسی بات ہی نہیں جسے مجلس عاملہ میں رکھ کر فتنے کا موجب بنایا جائے.مجلس عاملہ کو اس فیصلہ کا اختیار ہی نہیں ہے کہ آنے والے مہمان کو کہاں ٹھہرائے.جس کا مجلس کو اختیار ہی نہیں ہے اس کو اس کا موضوع بنانے کا کیا حق ہے.مجلس عاملہ میں ان معنوں میں مشورہ کے لئے بات رکھی جاسکتی ہے کہ آپ مجھے مشورہ دے دیں آنے والے کا فیصلہ ہے کہ جہاں چاہے وہ ٹھہرے گا.آپ میں سے جو کسی کے مشورے ہوں گے میں ان تک پہنچا دوں گا لیکن یہ ایسا امر نہیں ہے جس میں مجلس عاملہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے.اس کا نظام جماعت میں کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ مجلس عاملہ کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہے کہ آنے والے مہمان کے متعلق فیصلہ کرے کہ اس کو کہاں ٹھہرایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 755 خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء جائے یا کون اس کی مہمان نوازی کرے گا.ہاں مہمان نوازی کی حد تک تو امیر کا کام ہے فیصلہ کر سکتا ہے.سیکرٹری ضیافت موجود ہے.سیکرٹری ضیافت کا کام سیکرٹری ضیافت ہی کرے گا اور امیر اس کو یہ ہدایت کر سکتا ہے کہ بھئی ! یہ کام کرو اور یہ نہ کر ولیکن امیر کو یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ مرکز کی منظوری کے بغیر سیکرٹری ضیافت کے کام دوسروں کے سپر د کرے.اس سے بھی دیکھا گیا ہے کہ فتنے پیدا ہوئے ہیں.اچھا ہوا ضمنا اس بات کا ذکر چل پڑا.میں یہ بھی سمجھاتا چلوں کہ سیکرٹری ضیافت کا کام اس طرح پر کہ سیکرٹری ضیافت کوئی اور ہو اور اس کا کام کسی اور کے سپر د کر دیا جائے.امیر کا یہ فیصلہ ویسا ہی ہو گا جیسا کہ سفر خرچ کے بجٹ میں جو بل پڑنے چاہئیں وہ بل اٹھا کر کسی اور مد میں داخل کر دے.مدیں بدلنے کا امیر کو اختیار نہیں ہے اس لئے اگر سیکرٹری ضیافت اس بات کا نا اہل ہے کہ امیر کی ہدایات کے تابع وہ ضیافت یعنی مہمان نوازی کا حق ادا کرے تو بروقت امیر کو چاہئے کہ مرکز میں وجو ہات لکھ کر اس کی تحقیق کروائے یا مرکز سے فیصلہ لے کر اس کو بدل دینا چاہئے لیکن یہ نہیں ہوگا کہ ایک عہدہ کسی کے پاس رہے اور اس کو اس طرح ذلیل کیا جائے کہ عہدہ تو تمہارے پاس رہے گا کام ہم تم سے نہیں لیں گے ، کام کسی اور کے سپرد کر دیں گے.اس کے نتیجہ میں بھی بے اطمینانی بڑھتی ہے اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں.پس امارت کا کام کوئی آسان کام نہیں ہے.آپ سب لوگ مل کر محبت اور تقویٰ سے امیر کی مدد کریں اور ان باتوں میں اگر امیر غلطی کرتا ہے تو چونکہ میں اب آپ کو تفصیل سے سمجھا رہا ہوں آپ بھی ادب اور احترام سے اس کو سمجھائیں لیکن یاد رکھیں کہ اگر اس کے باوجود امیر اپنے ان اختیارات سے تجاوز کرتا ہے جوا سے ملے ہوئے ہیں اور وہ اختیارات حاصل کرتا ہے جو اسے ملے نہیں تو پھر جماعت اس کی اطاعت سے اس حصہ میں باہر ہے اور اس صورت میں جماعت کا فرض ہے کہ فوری طور پر مرکز سلسلہ کو مطلع کرے کہ یہ صورت پیدا ہورہی ہے جو بہت خطرناک ہے.پھر مرکز کا کام ہے کہ اگر اصلاح طلب معاملہ ہے تو اصلاح کرے ورنہ اس امیر کو ہٹا کر کسی اور کو مقرر کرے.ہاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ سادگی میں اس بے چارے کو پتہ ہی نہیں کہ کون سا مشورہ کیا حیثیت رکھتا ہے یہ جو پہلو ہے اس کو مزید کھو لنے کی ضرورت ہے مجلس عاملہ سے مشورہ لینا منع نہیں ہے.اکثر صورتوں میں امیر کو مجلس عاملہ میں باتیں کھولنی چاہئیں اور وہاں سے مشورہ حاصل کرنا چاہئے لیکن مجلس عاملہ کو فیصلے کا اختیار نہیں ہے اس معاملہ میں اس لئے جہاں فیصلے کا اختیار نہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 756 خطبه جمعه ۱۳ رستمبر ۱۹۹۱ء ہے وہاں امیر کو وہ پابند نہیں کر سکتی کہ تم نے چونکہ ہم سے مشورہ لیا تھا اس لئے اب اس جگہ ٹھہراؤ جہاں ہم سمجھتے ہیں ہماری اکثریت سمجھتی ہے.اس کا اکثریت کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے.جو مشورے ہیں امیرسن کر متعلقہ متوقع مہمان کو لکھ دے کہ یہ یہ آراء آئی تھیں.آپ نے ٹھہرنا ہے، آپ کی مرضی ہے جہاں چاہیں ٹھہریں لیکن ان باتوں کو محوظ رکھ لیں.اگر ایسا ہو تو خدا کے فضل سے کسی جگہ بھی کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوسکتی.مجھے یاد ہے کہ وقف جدید یا خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کے دوروں کے وقت کئی دفعہ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا کرتا تھا.بعد میں لوگ آتے تھے کہ جی! ہم نے تو کہا تھا کہ وہاں ٹھہرائیں لیکن انہوں نے یوں کیا.میں نے کہا کہ تم نے کہا تھا تو تمہیں اختیار کس نے دیا ہے کہ تم اتنے معتبر بن جاؤ کہ ضرور تمہاری مرضی چلے.نہیں ٹھہرایا تو کیا فرق پڑتا ہے.مجھے تکلیف ہوئی ہے.تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے.میں نے خوشی سے قبول کر لیا بات ختم ہوئی.اب تمہیں کوئی حق نہیں کہ لوگوں کے کان بھر دیا میرے کان آکر بھرو کہ جناب ہم نے تو آپ کے لئے اچھی جگہ تجویز کی تھی.یہ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے جان کر آپ کو خراب کرنے کے لئے فلاں جگہ رکھی ہے.یہ چھوٹی چھوٹی کمپنی باتیں ہیں.جماعت بہت بلند مقام کی جماعت ہے.خدا کی جماعت ہے.ایسی باتیں کریں جو خدا لگتی ہوں.ایسی باتیں کہیں جو خدا والوں کو زیب دیتی ہوں.اپنے مرتبے اور مقام کو پہچانیں اور اس مقام پر رہیں جس کی آپ سے توقع کی جاتی ہے.پھر انشاء اللہ تعالیٰ کوئی فتنہ آپ کے اندر راہ نہیں پاسکے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 757 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ ستمبر ۱۹۹۱ء مالی قربانی کی روح کو سمجھیں یہ کوئی جبر کا نظام نہیں.نوافل سے اپنے فرائض کی حفاظت کریں.پھر فرمایا:.( خطبه جمعه فرموده ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنی تلاوت کیں:.وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَ مَا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَةٍ عِنْدَ اللهِ وَصَلَوتِ الرَّسُولِ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ وَالسَّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا الْأَنْهرُ خُلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا ذُلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبه: ۹۸ تا ۱۰۰) قرآن کریم نے جو مالی نظام دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے یہ ایک بالکل الگ اور ممتاز نظام ہے جس کی کوئی مثال دنیا کے کسی مذہب میں دکھائی نہیں دیتی.یہ مضمون اپنی ذات میں اتنا وسیع
خطبات طاہر جلد ۱۰ 758 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء اور اتنا گہرا ہے کہ اگر کسی غیر مذہب والے کو اس موضوع پر کوئی مسلمان متوجہ کرے اور اسے دعوت دے کہ تم اپنے مذہب ہی سے نہیں دنیا کے تمام مذاہب سے خدا کی خاطر مالی قربانی دینے والے مضامین کو اکٹھا کر لو اور ہم قرآن کریم سے ان آیات کو پیش کریں گے اور پھر دیکھو کہ کیا قرآن کی تعلیم بھاری رہتی ہے یا ساری دنیا کی اجتماعی کتابوں کی مجتمع تعلیم قرآن کریم کے اوپر بھاری ہوتی ہے.میں نے یہ موازنہ بڑے غور سے کیا ہے اگر چہ تمام مذاہب کی تعلیم پر بہت گہری نظر ڈالنے کی توفیق تو نہیں مل سکی لیکن موازنہ مذاہب کا چونکہ مجھے شوق رہا ہے میں نے اصل کتا بیں بھی پڑھی ہیں ، بعد کے زمانے کی کتابیں بھی پڑھیں اور ان پر اپنوں اور غیروں نے جو تبصرے لکھے ہیں وہ بھی بہت حد تک پڑھنے کی توفیق ملی اس لئے میں اپنے ذاتی علم کی بناء پر یہ بات کر رہا ہوں محبت کے کسی دعوے کی بناء پر نہیں.قرآن کریم سے ہر مسلمان کو محبت ہے.وہ اس کے متعلق بلند بانگ دعاوی بھی کرتا ہے لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احمدیت کو جو نئی ادا سکھائی وہ یہ ہے کہ محض محبت کی بناء پر دعوے نہ کرو بلکہ تجربے کی بناء پر دعوے کرو،خود دیکھو پرکھو، خوب اچھی طرح غور کے بعد بات کرو.پس یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں پورے غور کے بعد کہہ رہا ہوں.آپ میں سے ہر احمدی اس نسخے کو آزما کر دیکھ سکتا ہے اور ہرگز کبھی وہ تمام دنیا کے مذاہب کی اجتماعی طاقتوں سے بھی اس معاملہ میں شکست نہیں کھائے گا.یہ تعلیم اتنی وسیع ہے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اور اتنے گہرے فلسفے پر مبنی ہے اور ہر اونچ نیچ کو اس طرح سمجھا دیا گیا ہے کہ مالی قربانی کے نظام کا ایک پورا جہان ہے جو اپنی ذات میں کامل ہے اور اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی.اس تفصیل کے ساتھ یہ سمجھانے کی اس لئے ضرورت ہے کہ آج کل جو بعض نئے نئے فتنے پیدا ہوتے ہیں ان میں بارہا یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اسلام کامل کیسے ہو گیا.دنیا ترقی پذیر ہے اور ہر چیز میں پہلے کی نسبت کسی نہ کسی صورت میں ترقی کے آثار دکھائی دیتے ہیں.کیا ہم ایک جامد مذاہب کو مان جائیں گے جو اپنی ذات پر کھڑا ہے اور ماضی کے کسی ایک نقطہ پر آکر جمود اختیار کر گیا ہے وہاں سے آگے نہیں چلتا.یہ اعتراض سادہ لوح مسلمانوں پر بعض دفعہ برے اثرات مترتب کرتا ہے.بعض دفعہ ان کو پھسلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور آج کل جئے سندھ کی جو تحریک ہے اس میں بھی سید صاحب نے جو اپنا فلسفہ حیات پیش کیا ہے اس میں نمایاں طور پر اس بات کو اٹھایا ہے کہ قرآنی تعلیم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 759 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء اپنے زمانہ میں اچھی تھی لیکن اب فرسودہ ہوگئی ہے.چودہ سوسال پہلے کی باتیں ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ چودہ سو سال پہلے کی کتاب آج ہماری راہنمائی کیسے کر سکتی ہے تو ان کے لئے بھی یہ چیلنج ہے.صرف مذہب کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیا کے مالی نظام جو آج تک انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ان کے فلسفے کو جانچ لیجئے ، ان کو اکٹھا دعوت دے دیں کہ جاؤ اور سارے مل کر اپنے اپنے فلسفوں اور اپنے اپنے نظام سے چوٹی کے نکتے نکال کر لاؤ اور پھر اسلام کے مالی قربانی کے نظام سے مقابلہ کرو اور پھر یہ بتاؤ کہ اسلام کے مالی قربانی کے نظام میں کہاں اصلاح کی اور ترقی کی گنجائش ہے کچھ کر کے دکھاؤ تو ہم مانیں گے.محض خیالی تبصروں کے اوپر تو انسان اپنے دینی تصورات کو تبدیل نہیں کیا کرتا یا اعتقادات کو تبدیل نہیں کیا کرتا.تو یہ وہ نظام ہے جس کے متعلق ہر احمدی کو خوب اچھی طرح واقف ہونا چاہئے اور عملاً وہ واقف ہو رہا ہے اور یہ نظام اگر آج دنیا میں کہیں رائج ہے تو جماعت احمدیہ میں ہی اس کا ایک پہلو رائج ہے.یعنی وہ جو طوعی چندوں کا نظام ہے وہ جماعت احمدیہ میں رائج ہو گیا ہے.اور حسن واحسان میں ترقی کر رہا ہے اور دن بدن زیادہ نکھر کر سامنے آتا جا رہا ہے اور اس نئے بناؤ سنگھار میں ایک ادنیٰ سا موقع بھی ایسا پیش نہیں آتا کہ قرآنی تعلیم پر اضافے کی ضرورت پیش آئے اس کے دائروں میں یہ سب ترقی ہو رہی ہے اور اس کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہم جانتے ہیں ابھی بہت کچھ آگے بڑھنے کی گنجائش موجود ہے.پس آج پندرہویں صدی کا انسان یا چودہویں صدی کا انسان مڑ کر راہنمائی کے لئے دیکھ رہا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم سے جب وہ استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے والا باقی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زمانے کے آخر تک قرآن بنی نوع انسان کا ساتھ دے گا.وہ ساتھ دے سکیں نہ دے سکیں یہ الگ بات ہے لیکن قرآن کی تعلیم کسی دنیاوی فکر سے یاد نیاوی ترقی سے پیچھے نہیں رہ سکتی.بہر حال اس مختصر تعارف کے بعد اب میں ایک خاص پہلو کو جماعت کے سامنے نمایاں طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں.قرآن کریم نے دو طرح کی مالی قربانی کرنے والوں کا حال اعراب کے حوالے سے بیان فرمایا ہے.اس میں آنحضرت ﷺ کے تربیت یافتہ غلاموں کا ذکر نہیں ہے اس لئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 760 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء صل الله اس بات کو خوب اچھی طرح سوچ لیں کہ ان آیات میں سے جو پہلی آیت ہے اس کا اطلاق خالصہ اعراب پر ہوتا ہے یعنی ان بدوؤں پر جنہوں نے اجتماعی طور پر اسلام کو قبول کرلیا لیکن حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض یاب نہ ہو سکے لیکن حضور اکرم ﷺ کی تزکیہ کی طاقت ایسی تھی کہ ان اندھیروں میں بھی پہنچی ہے ان کو بھی پار کیا ہے اور ان میں بھی جگہ جگہ نور کی بہت ہی خوبصورت شمعیں روشن کر دی ہیں، دوسری آیت اس مضمون کو بیان کر رہی ہے.اور تیسری آیت یہ بتاتی ہے کہ نمونہ وہی ہے جو انصار اور مہاجرین کا نمونہ ہے.اعراب میں برے بھی ہیں اچھے بھی ہیں ، بہت خوبصورت قربانیاں کرنے والے بھی ہیں لیکن نمونے کے طور پر تم نے محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے صلى ساتھیوں اور انصار اور مہاجرین کو پکڑنا ہے کیونکہ وہ آنحضور ﷺ کے تربیت یافتہ ہیں.پہلی آیت میں فرمایا - وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَ مَا وَ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ کہ ان اعراب یعنی بدوؤں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو کچھ خرچ کرتے ہیں چھٹی سمجھ کر خرچ کرتے ہیں اور دل میں کڑھتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ مخفی طور پر انہیں بددعائیں دیتے رہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں مصیبت ڈال دی.ہمارے اموال میں سے حصہ لینے والے آجاتے ہیں اور خدا کرے ان پر کوئی آسمانی حوادثاتی مصیبت نازل ہوا اور یہ ان مصیبتوں کا شکار ہو جائیں.اس مضمون سے پتا چلتا ہے کہ یہ اسلام کے غلبہ کے دور کی بات ہے جبکہ اسلام اس حد تک غالب آگیا تھا کہ حکومت بھی آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں کے ہاتھ میں تھی اور عربوں پر ایک اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی.اگر یہ نہ ہوتا تو چھٹی والی بات نہ ہوتی اور اسی میں دراصل آئندہ فتنوں کی پیشگوئی بھی تھی کہ جب بھی نظام حکومت ڈھیلا ہوگا تو وہ لوگ جو انتظار میں بیٹھے ہیں کہ تم پر کوئی مصیبت ٹوٹے تو وہ آزاد ہوں ، وہ نہ صرف یہ کہ خدا کی راہ میں پیسے دینے بند کر دیں گے بلکہ ان کے باغیانہ خیالات زور سے سر اٹھا ئیں گے اور شور پیدا کریں گے چنانچہ اس آیت کی روشنی میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں بند ہوتے ہی جو کچھ آپ کی اصلاح تھی وہ مٹ گئی اور فساد برپا ہو گئے محض ایک جاہلانہ اعتراض ہے اور اہل مغرب کی طرف سے بھی اور بعض مشرقی مفکرین کی طرف سے بھی ہمیشہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی ﷺ کی اتنی لمبی محبتیں کہاں گئیں.۲۳ سالہ تربیت کے بعد اچانک جب آپ کا وصال ہوتا ہے تو اعراب بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 761 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء اور فتنہ ارتداد اور زکوۃ نہ دینے کا فتنہ شروع ہو جاتا ہے.تو قرآن کریم تو اس آخری دور میں جبکہ حکومت کامل ہوئی تھی اور یہ دو تین سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہے اس عرصے کے بارہ میں فرماتا ہے کہ اعراب میں سے ایک بڑی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے دل سے اسلام کو قبول نہیں کیا اور اس حد تک بہر حال نہیں کیا کہ خدا کی راہ میں کچھ خرچ کر سکیں.جو کچھ دیتے ہیں وہ مجبوراً چٹی سمجھ کر دیتے ہیں اور دلوں میں نفرتیں دبائے بیٹھے ہیں اور تمہارے بدخواہ ہیں.تم پر آسمانی مصائب کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی جیسا کہ قرآن کریم کا طریق ہے کسی قوم کو بحیثیت مجموعی مطعون نہیں فرما تا کسی قوم کو کلیه مجرم قرار نہیں دیتا بلکہ واقعاتی طور پر جواستثناء ہو سکتے ہیں ان کی بھی نشاندہی فرماتا ہے.فرمایا:.وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَةٍ عِنْدَ اللہ لیکن عجیب ہے انہیں اعراب میں سے ابھی تھوڑی دیر تر بیت پائی ہے لیکن ایسے عظیم الشان وجود پیدا ہو چکے ہیں يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ جواللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبتٍ عِنْدَ اللهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ اور جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کے دو ہی مقاصد ہیں کہ اللہ کی قربت حاصل کریں اور رسول کی دعائیں حاصل کریں.اس کے سوا ان کا کوئی منشاء نہیں.جب روپیہ دیتے ہیں تو اس الله بات کو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کیا دیا اور کیسے دیا اور جزا ان کی سوائے اس کے کوئی نہیں کہ خدا ان کو قربت عطا فرمائے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعائیں ان کو پہنچیں.أَلَا إِنَّهَا قُرُبَةٌ لَّهُمْ سنوان کی یہی ادا قربت پیدا کر رہی ہے مالی قربانی کا ایسا پیارا انداز ہے کہ قربت تو ان کو مل گئی.أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةً لَّهُمْ میں بہت ہی خوبصورت مضمون بیان فرمایا گیا ہے.یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قربت عطا کی جائے گی.یا اس کے نتیجے میں تمہیں یہ ملے گا.فرمایا إِنَّهَا قُرُبَةٌ مالی قربانی کا یہ انداز اپنی ذات میں قربت ہے.یہ ان ہی کو نصیب ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب ہوں.یہ مضمون ہے یعنی جزاء کا مضمون تو بعد کی باتیں ہیں وہ تو اپنی جگہ قائم ہے.اِنَّهَا قُرْبَةٌ کا مطلب یہ ہے کہ اس طرز فکر کے لوگ جو اس بناء پر قربانی دیا کرتے ہیں وہ تو پہلے ہی اہل قربت ہیں.جن کو خدا کا قرب نصیب نہ ہو ان کو اتنی حسین ادا ئیں آہی نہیں سکتیں.خدا تعالیٰ کا عجیب کلام ہے حیرت میں انسان ڈوب جاتا ہے.ذرا ٹھہر ٹھہر کر غور سے آپ پڑھیں تو حسن کے عجیب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 762 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء کرشمے دکھائی دیتے ہیں جو انسان کی جادو گری سے پیدا نہیں ہو سکتے ، خدا کا کلام ہے ،اس میں عجیب شان ہے ، عجیب گہرائی ہے، عجیب صدق ہے.اَلَا اِنَّهَا قُرْبَةً لَّهُمْ اور بعد میں دوسرا مضمون بھی بیان فرما دیا.اللہ اس کے نتیجے میں سَيُدْخِلُهُمُ ضروران پر رحمتیں بھی نازل فرمائے گا یعنی جزاء تو ان کو مل گئی کہ قربت نصیب ہے تو ایسی باتیں کر رہے ہیں.جو وہ چاہتے تھے وہ تو پورا ہو گیا لیکن اس کے سوا بھی خدا فرماتا ہے کہ سَید خِلُهُمُ اللهُ فِي رَحْمَتِهِ اللہ اس کے علاوہ بھی ان کو رحمتیں عطا فرمائے گا اِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اللہ تعالٰی غَفُورٌ رَّحِيمٌ ہے یہاں سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ سے مراد ہے کہ خدا کی رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اس میں داخل ہو جائیں گے ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے رحمت ہی رحمت ہوگی.رحمت کا یہ پودا رحمت کا ماحول ان کے اوپر چھا جائے گا ان کو لپیٹ لے گا ان کا کوئی حصہ رحمت باری تعالیٰ سے باہر نہیں رہے گا.اِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِیم اور ساتھ یہ بھی وعدہ فرما دیا کہ خدا تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.یہاں اس احتمال کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو خدا کی راہ میں مالی قربانیاں کرتے ہیں اور اس پیار اور محبت کے انداز سے کرتے ہیں ان میں بسا اوقات بعض دوسری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن مالی قربانی سے ان کی نوک پلک درست ہو جاتی ہے اور وہ بہت خوبصورت، بہت اعلیٰ کردار دکھانے والے بن جاتے ہیں لیکن بعض دوسری باتوں میں کوتاہیاں بھی ہو جاتی ہیں، غفلتیں ہو جاتی ہیں، بعض دفعہ گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، استغفار کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے، پھر ٹھوکر کھاتے ہیں تو فرمایا ان لوگوں کے لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.جب کسی کی ایک ادا پسند آ جائے تو اس کے بعض دوسرے نقائص سے انسان آنکھیں بند کر لیا کرتا ہے اور کسی کی کوئی ادا بہت پسند آجائے تو اتنا ہی زیادہ مغفرت کرنے والے کے دل میں ایک طلب پیدا ہو جاتی ہے.پس یہ اس طلب کا ذکر ہے ورنہ اس سے پہلے بخشش مانگنے کا کوئی مضمون بیان نہیں فرمایا گیا تو یہ بات بھی آپ یا درکھیں کہ بعض نیکیوں میں غیر معمولی کمال حاصل کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں مغفرت عطا کرنے کی طلب پیدا ہوتی ہے اور بخشنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے اور جہاں ہاتھ نہیں بھی پھیلا یا گیا وہاں ہی خدا نے خود ذکر فرما دیا کہ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِیم ان کو ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ اللہ بہت ہی مغفرت فرمانے والا اور بہت رحم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 763 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء کرنے والا ہے.اس کے بعد تیسری آیت ہے.والتَّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ - وَالشَّبِقُونَ اور الْأَوَّلُونَ تو وہی ہیں مِنَ الْمُعْجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ کہ جو مہاجرین میں سے ہیں اور انصار میں سے ہیں یعنی اعراب تو بعد میں آئے اس سے پہلے کون لوگ تھے مہاجر تھے اور انصار تھے جنہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ سے تربیت حاصل کی فرمایا ان کی تو بات ہی الگ ہے چنانچہ فرمایا وَالشَّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانِ اور وہ لوگ جو احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرتے ہیں.رَضِيَ الله هُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ان کی تو یہ کیفیت ہے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی.دونوں طرف سے رضا ہے.وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا الْأَنْهَرُ ان کے لئے خدا تعالیٰ نے ایسی جنات پیدا فرمائی ہیں جن کے اندر دائی نہریں بہتی ہیں.ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ اور یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمُ وَرَضُوا عَنْهُ میں صرف صحابہ مراد نہیں ہیں بلکہ صحابہ کا ذکر چونکہ الگ گزر چکا ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ صحابہ مراد ہی نہ ہوں بلکہ صحابہ کی پیروی کرنے والوں کا ذکر ہے جو بعد میں آنے والے ہیں.پس اس پہلو سے میرے نزدیک اس آیت کا مضمون ہمیشہ کے لئے جاری وساری ہے.یہ کہنا الله غلط ہے کہ صرف آنحضور ﷺ کے زمانے کے لوگوں کا تذکرہ ہورہا ہے.اگر کلام الہی ہمیشہ کے لئے ہے اگر آنحضور ﷺ کا نمونہ اور آپ سے تربیت یافتہ صحابہ کا نمونہ ہمیشہ کے لئے ہے تو یہ فیض جو بھی پائے گا وہ ان انعامات سے بھی ضرور حصہ لے گا جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے لیکن ایک شرط داخل فرما دی.وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانِ اور وہ لوگ جنہوں نے احسان کے ساتھ اتباع کی ہے.اب لفظ احسان قابل غور ہے.یہاں احسان کس طرح مضمون سے مطابقت کھاتا ہے یہ بات قابل توجہ ہے.آپ جب کسی کی پیروی کرتے ہیں تو عام معنوں میں تو احسان نہیں کرتے نا کہ اس پر ہم نے بڑا احسان کیا اس کی پیروی کی.جس کی پیروی کی جاتی ہے وہ محسن ہوا کرتا ہے اور جو پیروی کرتا ہے اس پر اس محسن کا احسان ہوتا ہے تو قرآن کریم جب ظاہری مضامین کو الٹاتا ہے تو وہیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 764 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء آپ کے قدم رک جانے چاہئیں اور آپ کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ کوئی بہت ہی عظیم بات بیان فرمائی جارہی ہے جو عام مضامین سے مختلف ہے.فرمایا وہ لوگ جو ان بزرگوں کی یعنی محمد رسول اللہ اللہ کے تربیت یافتہ مہاجرین اور انصار کی اداؤں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو والشقون الأولُونَ جنہوں نے آغاز میں اسلام سیکھا اور لمبا عرصہ آنحضور کی تربیت پائی الأولون کہہ کر یہ بتا دیا گیا ہے کہ اگر چہ اعراب میں بھی اچھے اچھے پیدا ہوئے مگر ان کا مقابلہ تو نہیں ہوسکتا جنہوں نے آغاز ہی میں آنحضور ﷺ کی اتباع کی اور پھر آپ سے خود براہ راست تربیت پائی اور لمبا عرصہ یہ تربیت پائی ان کی پیروی احسان سے کرنے کا ذکر ہے.یہاں احسان کے دو معنی ہیں ایک احسان کا معنی تو یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر احسان کرتے ہیں کسی اور پر احسان نہیں کرتے اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانِ یعنی اپنے نفس کو حسین تر بنانے کے لئے اپنے وجود کو پہلے سے زیادہ خوبصورت بنانے کی خاطر وہ ان کی پیروی کرتے ہیں.یہاں پیروی کے مضمون میں اپنے نفس کی تربیت کا مضمون بالا رادہ طور پر داخل ہو جاتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہم خوبصورت نہیں ہو سکتے جب تک ان لوگوں جیسا بننے کی کوشش نہ کریں جس طرح ایک زمانہ میں بعض لوگ کسی ایکٹر کو اپنا ہیرو بنالیتے ہیں، کوئی کسی ایکٹس کو بنا لیتے ہیں اور ان کے طریق سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں.اگر وہ کرکٹ کا اچھا بالر ہے تو اس ادا سے Ball کرتے ہیں، اگر اچھا بیٹسمین ہے تو اس ادا کے ساتھ بیٹنگ کی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح بعض بے وقوف بچیاں جب نئی نئی بڑی ہوتی ہیں تو بعض ایکڑسوں کو انہوں نے اپنا مقصود اور مطلوب بنایا ہوا ہوتا ہے اور ان ہی کی نقالی کر رہی ہوتی ہیں اور بچے بھی اسی طرح کرتے ہیں.چنانچہ مار کٹیں اس قسم کے کپڑوں وغیرہ سے بھری ہوتی ہیں جن پر کسی نہ کسی مشہور آدمی کا نام ہے کہ وہ اس طرح پہنا کرتا تھا، اس رنگ کی چیزیں پسند کرتا تھا تم بھی ایسا ہی کرو تو کس کیلئے ؟ اس لئے کہ وہ خوبصورت سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم حسین ہو جائیں گے.پیروی میں احسان کا مضمون داخل ہے احسان کا مطلب ہے چیز کو اچھا بنا نا خوبصورت بنانا.پس اِتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانِ کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ان کی پیروی ان کو ماڈل سمجھتے ہوئے کرتے ہیں.یہ جانتے ہوئے کہ جتنا ہم ان کے قریب ہوں گے اتنا زیادہ خود خوبصورت اور دل کش ہوتے چلے جائیں گے اور غور کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے کس کس رنگ میں قربانیاں دیں اور پھر
خطبات طاہر جلد ۱۰ ویسے ہی رنگ اختیار کرتے ہیں.765 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بسا اوقات اپنے خطبات میں صحابہ کی مالی قربانیوں کے تذکرے اس رنگ میں کیا کرتے تھے کہ اس سے بچپن سے ہی لوگوں کے دلوں میں اس قسم کی قربانیاں کرنے کی تمنا پیدا ہو جاتی تھی اور آج کل کے زمانے میں بھی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس مضمون میں نئے رنگ بھرے ہیں اگر چہ اتباع ان ہی لوگوں کی کی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جو نئے رنگ پیدا ہوتے ہیں وہ اس مضمون میں زیادہ دلکشی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں لیکن بنیادی ادا ئیں نہیں بدلتیں ان میں کبھی تبدیلی نہیں آئی.جن باتوں کے متعلق خدا نے یہ فرمایا کہ رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وہ بنیادی صفات ہر انسان کی ہر زمانے میں ایک ہی رہتی ہیں.یہ مضمون سمجھنے کے لائق ہے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر قرآن بھی بدلنا ہو گا پھر کوئی کتاب ہمیشہ کے لئے کامل نہیں ہو سکتی مگر چونکہ قرآن کریم دین فطرت ہے اس لئے ان فطری مضامین کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے جن میں تبدیلی کوئی نہیں.لا تبدیل لخلق اللہ کا مضمون ہے چونکہ انسانی فطرت سے ان باتوں کو باندھا گیا ہے اور فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی لیکن اس فطرت کے مظاہر بدلتے رہتے ہیں.وہ مختلف رنگ میں اپنا اظہار کرتی ہے.تو جب میں کہتا ہوں کہ نئے رنگ بھرے تو میری مراد یہ نہیں کہ انہوں نے نئی ادا ئیں بنائی ہیں.ادا ئیں وہی ہیں جو محد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی تھیں.رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ لیکن ان میں اپنے اپنے انداز کے مطابق اپنی اپنی انفرادی حیثیت کے مطابق نئی قسم کے جذبات اور اظہارات کو داخل کیا ہے اور ایک انفرادیت پیدا کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے جہاں احسان کا ذکر فرمایا وہاں یہ مراد ہے کہ ان لوگوں کی پیروی کر کے اپنے اعمال کو حسین سے حسین تر بناتے رہتے ہیں.دوسرے مضمون کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے.اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانِ کہ احسان کا ایک معنی ہے بہت ہی زیادہ حسین نیکی.کیونکہ آنحضرت ہ نے سب سے اعلیٰ درجے کی نماز کی جو تعریف فرمائی ہے اسے احسان قرار دیا ہے اور قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ احسان کا یہ معنی ایک دینی اصطلاح ہے کہ ایسی نیکی جو اپنی ذات میں درجہ کمال کو پہنچی ہوتو فرمایا کہ وہ ان کی پیروی میں یہ نہیں دیکھتے کہ ان سے کمزوریاں کیا سرزدہوئیں اور ان کو اپنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 766 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء لئے نمونہ بنا ئیں.نہ صرف یہ کہ وہ نیکیوں پر نظر رکھتے ہیں بلکہ نیکیوں میں سے بھی بہترین پر، ان کی نگاہ اونچی ہوتی ہے اور وہ ان میں سے جو بہترین ادا ئیں کرنے والے خدا کی محبت میں مبتلا ، خدا کی محبت میں گرفتار عشاق محمد مصطفے تھے ان کی پیروی کرتے ہیں ان اداؤں میں جو ان کے اندر بہترین ہیں اور ان کی ذات میں درجہ کمال رکھتی ہیں.اس مضمون نے ایک پہلو تو ہمیشہ کے لئے مردو د فرما دیا یعنی بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے جو اس عہدہ پر تھا اور اس مقام پر تھا اس نے فلاں بدی کی تو ہم نے بھی کر لی تو کیا فرق پڑتا ہے.اس کو کیوں نہیں پکڑتے.اس مضمون کو اس آیت نے ہمیشہ کے لئے مردود کر دیا ہے.فرمایا ہے پیروی کرنے والوں کو ہرگز یہ حق نہیں ہے کہ ادنی کی پیروی کریں چاہے وہ اعلیٰ سے سرزد ہوا ہو.ادنی فعل اگر اعلیٰ سے بھی سرزد ہوا ہو تو قرآن تعلیم کے مطابق وہ پیروی کے لائق نہیں رہتا اس لئے اس کا حوالہ دیا ہی نہیں جاسکتا حوالہ دینا ہے اور حوالہ تلاش کرنا ہے تو اپنے لئے حسن کا حوالہ دو اور حسن کا ہی حوالہ تلاش کرو.حسن پیدا کرنے کی خاطر کام کرو اور حسن میں جو سب سے اعلیٰ درجے کا حسن ہے اس کی پیروی کرنے کی کوشش کرو.فرمایا ان کی جزاء یہ ہے کہ رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ان سے خدا ہمیشہ کے لئے راضی ہوگیا وَرَضُوا عَنْهُ اور وہ ہمیشہ کے لئے اللہ سے راضی ہوئے وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا الْأَنْهرُ ان کے لئے خدا نے ایسی جنتیں بنارکھی ہیں جن میں دائگی نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اس میں رہیں گے.ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ایک بہت ہی بڑی کامیابی ہے.یہ مالی قربانی کی وہ روح ہے جس کا صرف ایک پہلو یہاں بیان ہوا ہے اس کے علاوہ مختلف پہلوؤں سے مالی قربانی کے نظام کو خدا تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے اور اس کے حسن و فتح کو بڑی تفصیل کے ساتھ واضح فرما دیا ہے.جماعت احمدیہ میں بعض لوگ اگر چہ چندے ادا کرنے میں وقت محسوس کرتے ہیں اور بعض بوجھ بھی محسوس کرتے ہوں گے مگر چونکہ جبر کا نظام نہیں ہے اور حکومت نہیں ہے اس لئے جب تک وہ اس اندرونی تر ڈو کے باوجود مالی قربانی میں حصہ لے رہے ہیں ان کے اوپر ہم حرف نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اکراہ کے ساتھ قربانی کی ہے.اگر چہ کچھ نہ کچھ جبر کا پہلوان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے آغاز کے وقت انسان کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 767 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ ستمبر ۱۹۹۱ء خوب اچھی طرح خبر دار ہونا چاہئے جن دلوں میں یہ باتیں پیدا ہوتی ہیں ان کا کام ہے کہ خود اپنی نگرانی کریں کیونکہ بیرونی طور پر کوئی ایسا نظام نہیں ہے جسے یہ اجازت ہو کہ وہ کسی کو یہ کہہ سکے کہ تم نے جبر کے ساتھ قربانی دی ہے، تمہارے دل میں کراہت تھی.یہ کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے، سوائے اس کے کوئی کراہت کا اظہار کرتا ہے اور بعض ایسے بدنصیب ہیں جو کر دیتے ہیں.ان کے متعلق جب اطلاع ملتی ہے ہمیشہ میں یہی کہتا ہوں کہ ان سے کبھی چندہ نہ لیا جائے کیونکہ نظام جماعت میں کوئی جبر نہیں ہے لیکن جب چندہ لینے والے جاتے ہیں تو بعض کہتے ہیں کہ کیا تم نے مصیبت ڈالی ہے ہر روز آ جاتے ہو ، یہ چندہ ، وہ چندہ بعض لوگ مجالس لگاتے ہیں اور کہتے ہیں جی کتنی قسم کے چندے ہو گئے ہیں.یہ کیا نظام ہے؟ ایک سیدھا چندہ عام رکھیں وصیت رکھیں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاری فرمایا.یہ آئے دن کے نئے چندے ایجاد کرنے کا کیا موقعہ ہے حالانکہ آئے دن کی ضرورتیں آئے دن کے چندوں سے ہی پوری ہوں گی اور چندہ میں کوئی جبر نہیں ہے.خدا کے نام پر اپیل کی جاتی ہے، ان لوگوں کے دلوں کو مخاطب کیا جاتا ہے جو پہلے ہی اس تمنا میں رہتے ہیں کہ خدا کی رہ میں قربانی والی کوئی آواز اُٹھے اور ہم پھر لبیک کہیں اور پھر اس سے لطف اندوز ہوں.تو وہ لوگ جن کے دل میں لازمی چندوں سے کسی قسم کی کراہت پائی جاتی ہے یا طوعی تحریکات میں وہ اپنے دلوں پر بوجھ محسوس کرتے ہیں ان کو اپنا تجزیہ کرنا چاہئے اور شروع میں ہی اپنی پہچان کر لینی چاہئے.وہ بعض دفعہ اس وجہ سے طوعی چندوں پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ اس میں کسی قسم کا بھی جبر نہیں.لازمی چندے میں بھی جبر نہیں ہے لیکن لفظ لازم نے اس کے اندر ایک خاص سنجیدگی پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے انسان سمجھتا ہے کہ یہ چندہ تو دینا ہی دینا ہے لیکن جس کو طوعی کہا جاتا ہے اس کا تو مضمون ہی یہ ہے کہ دینا ہے تو دو نہیں دینا تو نہ دو، قطعاً کوئی حرف نہیں، کوئی اعتراض نہیں.سلسلہ کے عہدوں کا جہاں تک تعلق ہے ووٹ کا تعلق ہے تمہارے حقوق کا تعلق ہے ایک ذرہ بھی اثر انداز نہیں ہوں گے اگر تم لازمی چندے دے دیتے ہو تو اتنا کافی ہے یعنی کافی ان معنوں میں کہ تمہارے بنیادی حقوق جو جماعت کے ساتھ وابستہ رہ کر تمہیں ملنے چاہئیں وہ سارے ملیں گے لیکن اس کے باوجود ان کو طوعی چندوں پر اعتراض ہے.اس کا مطلب ہے کہ کراہت کا مضمون داخل ہو چکا ہے اور شروع ہو گیا ہے.میں نے اس پر غور کر کے دیکھا ہے کیونکہ مجھے بھی بہت سی جماعتوں میں چندوں سے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 768 خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء جانے اور تفصیل سے جائزے لینے کا موقعہ ملا ہے.بات یہ ہے کہ ان کو ایک بات سے تکلیف ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جب بڑھ بڑھ کر طوعی چندے دیتے ہیں اور ان کا دل نہیں کھلتا تو ان کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سوسائٹی میں ہمارا مقام نگا ہو جائے گا اور لوگوں کو پتہ لگے گا کہ یہ تو حصہ نہیں لیتا جبکہ دوسرے لے رہے ہیں یہ لبیک کہنے میں پیچھے ہے تو اس کے نتیجے میں اس پر پردہ ڈالنے کی خاطر وہ فلسفہ بنا لیتے ہیں کہ جی ہم اس کے قائل ہی نہیں یہ ہے ہی بکواس.یہ سارا سسٹم ہی غلط ہے.ان نئی نئی باتوں کے ہم قائل نہیں.ہم تو وہی بنیادی چندے کے قائل ہیں آگے کو نہیں بڑھیں گے.اگر وہ جماعت میں غلط پرو پیگنڈا نہ کریں اپنی خفت مٹانے کے لئے جھوٹے اعتراض نہ بنا ئیں اور صرف یہ کہہ دیا کریں کہ ہمیں اتنے کی توفیق ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں یہ جائز ہے اور اس پر کسی کو حق نہیں کہ ان پر اعتراض کرے.آنحضرت ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا.اس نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتائیے کہ دین بنیادی طور پر ہے کیا ؟ کیا میں کروں تو میں مسلمان بن جاؤں گا.آپ نے کچھ فرائض بتائے اس کے بعد آپ نے نوافل کا مضمون شروع کیا تو اس نے کہا کہ ان کے بغیر دین مکمل نہیں ہوگا ؟ کیا میں خدا کے حضور پکڑا جاؤں گا ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں جو فرائض بتا دیئے ہیں اگر صرف اتنا کر لو تو پکڑے نہیں جاتے.اس نے کہا: بس میرے لئے بہت کافی ہے.مجھے آگے جانے کی ضرورت نہیں.آپ نے فرمایا: اگر تم عہد میں بچے ہوتو جاؤ کوئی فکر نہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے.یہ انسانی فطرت کی بات ہے جو صرف فرائض تک رہتے ہیں ان میں کشن Coshion کوئی نہیں ہوتا ان میں ابتلاؤں اور مشکلوں کے وقت جو ٹھوکر سے بچنے کے لئے درمیان کا دبیز حصہ ہے وہ نہیں پایا جاتا.جس طرح شیشے کے برتن آپ کسی جگہ بھیجیں اور ایسے کاغذ وغیرہ کے بغیر اس کو بھیج دیں جو باہر کی دیوار اور برتنوں کے درمیان ایک روک بن جاتا ہے تو اس کے ٹوٹنے کا بہت زیادہ احتمال ہے تو اسی طرح انسان کے ایمانیات کی اور اعمال کی حالت ہوتی ہے.سنتیں اور نوافل اس کے بنیادی اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور اگر کہیں کمزوری واقعہ ہوتی ہے کوئی ابتلاء آتا ہے تو اس کا بوجھ سنتوں اور نوافل کی دیوار میں اٹھا لیتی ہیں اور اس کے فرائض قائم رہتے ہیں.پس اس شخص نے بہت بڑی بات کی تھی جس نے یہ کہا کہ میرے لئے بہت کافی ہیں اور آپ نے فرمایا کہ ہاں اگر تم اپنے وعدے پر پورے رہتے ہو تو پھر کوئی خطرہ نہیں مگر بہت بڑا اگر“
خطبات طاہر جلد ۱۰ 769 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء ہے.کون ہے جواس وعدے پر پورا رہے اور صرف فرائض تک ٹھہر جائے اور نوافل کے ذریعے فرائض کی حفاظت ضروری نہ سمجھے اور پھر اس میں کامیاب ہو.کوئی غیر معمولی انسان ہی ہو سکتا ہے مگر غیر معمولی انسانوں کو تو پھر نوافل کی توفیق بھی ملتی ہے.صلى الله پس اللہ تعالیٰ نے جو مالی نظام جاری فرمایا ہے اس کے مضمون کو سمجھنا چاہئے.وہ لوگ جو نوافل پر بھی اعتراض شروع کر دیتے ہیں ان کا وہ مضمون نہیں ہے جس نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی تھی.وہ ایک سادہ انسان تھا اس نے کھول کر کہا کہ باقیوں کیلئے بے شک ہو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے.میں یہ بحث نہیں کرتا کہ ان کی ضرورت نہیں ہے.میں تو صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ اگر میں وہ زائد باتیں نہ کروں تو میں روحانی لحاظ سے مر جاؤں گا یا زندہ رہوں گا آپ نے فرمایا: تم مرتے نہیں.اس نے کہا کہ بس پھر میرے لئے زندگی کے سانس کافی ہیں.مجھے مزید تکلفات کی ضرورت نہیں ہے.مگر جن دانشوروں کی میں بات کر رہا ہوں یہ لوگ اس نفلی نظام پر اعتراض کرتے ہیں اور زبانیں کھولتے ہیں.کہتے ہیں یہ کیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے نئی نئی تحریکیں نئے نئے قربانیوں کے رستے ، یہ ہونا ہی نہیں چاہئے ہم اس لئے ان سے باز آتے ہیں کہ ہم ان کے قائل ہی نہیں ہیں.ہم ان کو درست ہی نہیں سمجھتے.اگر ایسی بات ہے اور کوئی شخص احمدی عوام میں اس قسم کا اظہار رائے کرتا ہے تو وہ فتنہ پرداز ہے.اپنی ذات میں وہ بے شک نفلی چندہ نہ دے.اگر وہ فرض چندہ بھی نہ دے تو احمدی پھر بھی رہتا ہے.زیادہ سے زیادہ اس کا اتنا نقصان ہوگا کہ ووٹ کے نظام میں وہ شامل نہیں ہوگا.نہ ووٹ دے سکے گا نہ عہد یدار بن سکے گا اور چھٹی اور اس کو مصیبت سے رہائی.اس کو کیا فرق پڑتا ہے لیکن جب وہ سلسلے کے کسی نظام کے متعلق باتیں کرے گا تو وہ پھر منافق ہے اس سے لازمی چندے بھی نہیں لینا چاہئے اور جہاں کوئی ایسا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ نظام جماعت میں فلاں فلاں چندے اضافہ ہو گئے ہم اس کے قائل ہی نہیں ہیں تو میری طرف سے نظام جماعت کو اجازت ہے کہ اس کو کہہ دیں کہ تم بے شک اب اپنے چندے نہ دو ہمیں تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے.نظام جماعت میں جو مالی حصہ ہے یہ اس پہلو سے بہت ہی مقدس ہے کہ اس کی تمام تر جڑیں مومنوں کے اعلیٰ اعتقادات میں ہیں اور گہرے پر خلوص قلبی جذبات میں ہیں.یہ کوئی نیا سیشن کا نظام نہیں ہے.اگر اس درخت پر زلزلہ آتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 770 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء ہے تو دماغ میں اعتقادات کی جو جڑیں ہیں ان پر بھی زلزلہ آتا ہے وہ بھی اکھڑتی ہیں اور یہ نہیں ہوسکتا کہ درخت کا اوپر والا حصہ ہی جھولتا ر ہے اور جڑوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.بعض دفعہ جڑوں کی بیماریاں اوپر چلی جاتی ہیں، بعض دفعہ اوپر کے ابتلا نیچے داخل ہو جاتے ہیں مگر جماعت کا مالی نظام بہت ہی مقدس نظام ہے اس کا تعلق گہرے غیر متزلزل اعتقادات سے بھی ہے اور بہت ہی پر خلوص محبت کے جذبات سے بھی ہے.ہمیں اس نظام کی بہر حال ہر قیمت پر حفاظت کرنی ہے اور اگر کوئی اس کے اوپر پورا نہیں اتر تا تو جماعت کے مالی نظام کو ذرہ بھی نقصان نہیں ہوگا.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہزار بھی ایسے افراد ہوں کتنے ہی امیر ہوں اگر وہ نا قدری کی وجہ سے جماعت کے مالی نظام میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ جماعت کی ضروریات میں کبھی کمی نہیں کرے گا، نہ آج تک ہوئی ہے.اس ضمن میں ایک اور بہت ہی ضروری سمجھانے والی بات یہ ہے کہ جب ہم خدا کی راہ میں خدا کی مرضی کی خاطر چندہ دے بیٹھے اور قربت پیش نظر ہے یا امام کی دعائیں پیش نظر ہیں تو سودا تو نقد نقد پورا ہو گیا جس خاطر سودا کیا تھا تمہیں قیمت مل گئی.اس کے بعد تمہارا یہ حق نہیں رہتا کہ ہماری جماعت نے اتنا چندہ دیا ہے اس لئے ہماری جماعت پر اتنا خرچ کیا جائے ہمارے ملک نے اتنا چندہ دیا ہے اس کو کسی اور ملک پر خرچ نہ کیا جائے.مجلس شوری کے ذریعے بجٹ بنانے کا جو یہ نظام ہے یہ بھی ایک طوعی نظام ہے ورنہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں یہ بھی نہیں تھا.قرآن کی مالی قربانی کی روح یہ ہے کہ چونکہ تم خدا کی خاطر خدا کے نمائندے کے سپر د مال کرتے ہو جس پر تمہیں کامل اعتماد ہے اس لئے جب تک یہ اعتماد قائم ہے تمہارا دل پوری طرح مطمئن ہوگا کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اور جس غرض کے لئے دیا ہے.وہیں خرچ ہوگا لیکن غرضوں کی تعیین کرنے میں تم کوئی حصہ نہیں لو گے، یہ شرط نہیں ہے کہ تم یہ بتاؤ کہ اس کو فلاں جگہ ضرور خرچ کیا جائے یہ اور بات ہے.ایک اور بات ہے جس کی میں یہاں وضاحت کردوں تا کہ بعض دوست غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں.وہ چندے جو بالعموم خدا کے نام پر دیئے جاتے ہیں ان کے بجٹ کی میں بات کر رہا ہوں.بعض مخصوص تحریکات ہوتی ہیں.مثلاً روس کے لئے ہے،افریقہ کے لئے ہے،افریقہ کے بھوکوں کے لئے مدد کی تحریک ہے.وغیرہ وغیرہ قرآن کریم کی اشاعت کی تحریک ہے، مساجد کی تعمیر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 771 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء کی تحریک ہے ان میں چندہ دینے والا ایک غرض کے ساتھ چندہ دیتا ہے اور وہاں جماعت کا فرض ہے کہ اس غرض کے ساتھ چندے کے خرچ کو مشروط رکھے اور یہی جماعت کرتی ہے لیکن یہ اپنی ذات میں کوئی بری بات نہیں جس غرض کے لئے کوئی انسان کہتا ہے میں عام چندہ بھی دوں گا اور زائد میں یہ فلاں غرض کے لئے دینا چاہتا ہوں اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن بعض دفعہ بعض لوگ بعض ایسی شرطیں عائد کر دیتے ہیں کہ اس کو اس طرح تقسیم کیا جائے ، اس طرح خرچ کیا جائے ، اس طرح اس کی حفاظت کی جائیان لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ پھر تم خود کرو، میں تو نہیں قبول کروں گا.اگر تمہیں نظام جماعت پر اعتماد ہے تو شوق سے یہ رقم نظام جماعت کے سپرد کر دو.مقصد بتادو اور اس مقصد کے بتانے کے بعد مطمئن رہو کبھی دل میں وہم پیدا ہو تو بے شک پوچھ بھی لو کہ اس پر خرچ ہوا کہ نہیں.تمہیں بتایا جائے گا لیکن یہ کہ باریکیاں بتاؤ کہ اس تفصیل سے اس طرح طے کریں یہ نظام مقرر کیا جائے یہ نہیں ہوسکتا لیکن میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ آنحضور صلی ہے کے زمانے میں لوگ چندہ دیتے تھے اور اس بات کا کبھی تذکرہ نہیں کرتے تھے کہ فلاں جگہ فلاں طریق پر خرچ کیا جائے.یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ یا آپ کے نمائندوں کا کام تھا کہ جس طرح چاہیں اس کو خرچ کرتے تھے لیکن خرچ ان ہی جگہوں پر ہوتا تھا جو دین کی اغراض ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہی طریق جاری رہا.انجمن بن بھی گئی تب بھی کوئی مجلس شوری قائم نہیں تھی اور انجمن کے سپرد کر دیا جا تا تھا.انجمن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات تھیں کہ ان ہدایات کے تابع خرچ کرو لیکن کبھی کسی چندے والے نے یہ نہیں کہا یا کسی جماعت نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اتنا چندہ دیا ہے اور تم لوگ اتنا فلاں جگہ خرچ کر رہے ہو اور ہم پر کم کر رہے ہو یہ ایک ایسا جاہلانہ اور باطل خیال ہے جس کے ساتھ چندوں کی روح برباد ہو جاتی ہے.اول تو جیسا کہ میں نے کہا جب چندہ خدا کی قربت کی خاطر یا امام کی دعائیں لینے کے لئے دیا،.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں لینے کے لئے دیا.امام تو میں ان معنوں میں کہہ دیتا ہوں کہ آپ کی غلامی میں یہ مضمون بعد میں جاری رہتا ہے لیکن وہ اصل صلوت محمد رسول اللہ کی ہیں جو آج بھی ان لوگوں کو پہنچتی رہیں گی کیونکہ آپ کا زمانہ جاری ہے اور آپ نے ہر زمانہ کے مخلصین کے لئے دعائیں کی ہیں اس لئے اتنے بڑے مقصد کو پالینے کے لئے جس کے جواب میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 772 خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء اللہ تعالیٰ کہے کہ أَلَا إِنَّهَا قُرُبَةٌ لَّهُمْ کہ دیکھو دیکھواللہ کی تو قربت عطا ہو چکی ہے.اس کے بعد وہ یہ سوچیں کہ اور مزید بھی اس سے کچھ کمائی کریں اور یہ دیکھیں کہ کہاں خرچ ہوا کتنا خرچ ہوا اور ہمارے اوپر کیوں اتنا خرچ نہیں ہوا.یہ ایسے فتنے ہیں جنہیں کبھی جماعت میں قبول نہیں کیا جائے گا اور داخل نہیں ہونے دیا جائے گا.ایسے لوگوں کو میں کہہ دیتا ہوں کہ تم اپنے روپے اپنے پاس رکھو.یہ جہنم میں پھینکنے کے قابل تو ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ان سے استفادہ نہیں کر سکتی.آنحضرت ﷺ نے مالی قربانی کی جو جنت مسلمانوں کو عطا کی ہے یہ روپیہ اس میں داخل ہونے کے لائق نہیں ٹھہرتا.اس قسم کے بھی بے وقوفوں والے فتنے کئی دفعہ پیدا ہوتے ہیں.ابھی حال ہی میں ایک جگہ پیدا ہوا ہے اور میں نے ان کو یہی کہلا بھیجا ہے کہ تم تمہاری ساری عاملہ، تمہارے سارے چندہ دینے والے ایک آنا بھی سلسلہ کو نہ دو کیونکہ میرے نزدیک اگر ان خیالات کے ساتھ چندہ دینا ہے تو مردود چندہ ہے.ایسے چندے کے اوپر جماعت تھوکتی بھی نہیں ہے تم اور تمہارے جیسے لوگ جہاں چاہیں ان روپوں کو پھینکیں جماعت ان سے کبھی کچھ قبول نہیں کرے گی وہ لوگ جنہوں نے قادیان میں قربانیاں دی تھیں وہ غریب عورتیں جن کا وظیفوں پر گزارہ تھا اور ان وظیفوں سے بچ بچا کر چندے دیتی تھیں ان کے چندے یہاں مسجد فضل پر خرچ ہوئے ہیں.ایک ایسا بھی دور تھا کہ جب عورتوں نے قربانیاں دیں تو یہاں چندے خرچ ہوئے اور کبھی کسی عورت نے مڑ کر نہیں پوچھا کہ ہم غریب، ہم فاقہ زدہ ہم کمزور لوگ لیکن تم اس غلام ملک کی اتنی قربانیوں کے چندے اٹھا اٹھا کر اس امیر ملک میں خرچ کر رہے ہو جو تمام دنیا کی دولتیں سمیٹ رہا ہے.اشارہ بھی کبھی کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا جس نظام پر اعتماد ہے.جس خلافت سے وابستگی اختیار کی ہے اس کے ساتھ تعلقات تو کامل اعتماد پر چلتے ہیں.جہاں اعتماد ختم وہاں چندوں کا نظام ہی ختم ہو گیا.وہاں یہ تعلق ہی قائم نہیں رہا کرتا.پس مالی نظام میں بھی قرآن کریم نے دنیا کا بہترین مالی نظام ہمارے سامنے رکھا ہے تفصیل کے ساتھ ہمیں اس کے حسن و فتح کو سمجھا دیا ہے ان خطرات کی نشاندہی کر دی ہے جن میں بعض لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں وہ نمونے قائم فرما دیئے ہیں جن نمونوں کو دائمی قرار دیا اور فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی بعد میں آنے والے قیامت تک پیروی کرتے رہیں گے اور قیامت تک ان کا فیض اٹھاتے رہیں گے.اس کے بعد جماعت احمدیہ میں بعض جاہلوں کا اس قسم کے فتنے اٹھانا ہرگز قابل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 773 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ ستمبر ۱۹۹۱ء قبول نہیں ہے.میں جیسا کہ بیان کر چکا ہوں ان کے چندوں کی ایک کوڑی کی بھی قیمت نہیں ہے.یہ سارے اپنے چندے لے کر جہاں چاہیں بھاگ جائیں سلسلے کو ان کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے جانے سے برکت ہوگی ان کے داخل ہونے سے برکت نہیں ہوگی مگر میں جانتا ہوں کہ سلسلے کی بھاری اکثریت سے بھی زیادہ بھاری اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی میں حضرت اقدس محمد مصطفے اور آپ کے صحابہ کی یاد کو تازہ کرنے والی جماعت ہے.آپ کی رسموں کو زندہ کرنے والی جماعت ہے آپ کی اداؤں کو اپنانے والی جماعت ہے جو ان ہی قدموں کو چومتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے جن قدموں کے نشان حضرت محمد مصطفی میں اللہ نے اپنے پیچھے چھوڑے تھے خدا کرے کہ ہم قیامت تک اسی مالی نظام کو زندہ رکھیں جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نازل ہوا اور وہ نظام ہے جو ہمیں زندگی بخشے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 775 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء جب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے پاکستان کے حالات دن بدن بگڑتے گئے.ماریشس کے جلسہ کا ذکر خطبه جمعه فرموده ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء بمقام ماریشس ) 2 ط تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتُهُمْ إِذَالَهُمْ مَّكْرُ فِي آيَاتِنَا قُلِ اللهُ أَسْرَعُ مَكْرًا إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ هُوَ الَّذِى يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَ تَهَا رِيحٌ عَاصِف وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيْطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ : لَبِنْ أَغْخَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَتَكُونَنَّ مِنَ التَّكِرِينَ فَلَمَّا أَنجُهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ مَّتَاعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (یونس : ۲۲ تا ۲۴) لا یہ آیات سورۃ یونس کی ۲۲ تا ۲۴ آیات ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جب ہم اپنے بندوں کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں یعنی بندوں پر رحمت کا سلوک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 776 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء فرماتے ہیں.بندوں کا ترجمہ شاید درست نہیں الناس ہے یعنی لوگوں کو قطع نظر اس کے کہ وہ خدا کے بندے بنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ نہیں عمومی نقطہ ہے.تو یوں کہنا چاہئے کہ جب ہم انسانوں کو ، بنی نوع انسان کو اپنی رحمت کا لطف چکھاتے ہیں بعد اس کے کہ ان کو کوئی مصیبت آپڑی ہو إِذَالَهُمْ مَّكْرُ فِي آيَاتِنا پھر وہ ہماری آیات میں مکر کرنے لگ جاتے ہیں.قُلِ اللهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ان سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ تدبیر کرنے میں سب سے زیادہ تیز ہے.اِن رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ ہمارے بھیجے ہوئے ، ہمارے رسول ، ہمارے فرستادہ لوگ وہ سب باتیں لکھ رہے ہیں جو تم مکر کے طور پر کرتے ہو.إِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ یعنی ایسا گہرا انسانی فطرت کا فلسفہ بیان ہوا ہے جس کا صرف مذہبی دنیا ہی سے نہیں بلکہ عام انسانی دلچسپیوں کے ہر دائرے سے تعلق ہے.ایک انسان جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے لئے اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا اور بسا اوقات انسان سمجھتا ہے کہ میں تو گیا.بڑی بڑی مصیبتیں تو الگ بات ہے میں نے دیکھا ہے کہ چھوٹی سی بیماری بھی بعض لوگوں کو اس طرح مغلوب کر دیتی ہے کہ معمولی بیماری سے بھی یہ خود اپنے نفس میں افسانے گھڑتے رہتے ہیں.کسی کو کینسر ہو جاتا ہے،کسی کو کوئی اور گہری بیماری پکڑ لیتی ہے یعنی اپنے فرضی خیالوں میں ہی اور وہم ہیں کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتے اور پھر انسان یہ سوچتا ہے کہ مجھ سے یہ غلطیاں بھی ہوئی، یہ غلطیاں بھی ہوئیں آئندہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات بخشی ،صحت عطا فرمائی تو میں یہ کروں گا، یہ کروں گا.تو انسانی دلچسپی کے ہر دائرے سے اس گہری نفسیاتی سوچ کا تعلق ہے کہ جب انسان مشکل میں مبتلا ہوتو بسا اوقات مشکل اس پر اس قدر غالب آ جاتی ہے کہ اسے نجات کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی اور جب خدا تعالیٰ اس مشکل کو دور فرما دیتا ہے تو فرمایا اس کے بعد إِذَا لَهُمْ مَّكْرُ فِي آيَاتِنَا پھر وہ ہماری آیات میں مکر کرنے لگ جاتے ہیں.یہ مضمون مذہبی دنیا پر بھی بڑی صفائی اور گہرائی کے ساتھ اطلاق پاتا ہے اور دنیا وی معاملات میں بھی.مذہبی دنیا میں اس طرح کہ قرآن کریم نے ہمیں فرعون کے زمانے کے واقعات بتائے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ بار بار فرعون کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے عین مطابق پکڑا اور جب ان کی پکڑ آئی تو وہ حضرت موسیٰ کی طرف بار بار دوڑے
777 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء خطبات طاہر جلد ۱۰ اور یہ کہا کہ ہمارے لئے دعا کرو کیونکہ اب اس بلا کو تمہاری دعا کے سوا کوئی چیز ٹال نہیں سکتی اور جب وہ بلائل گئی تو اِذَالَهُمْ مَّكْرُ فِي آيَاتِنَا کا دور شروع ہوا اور انہوں نے دل میں سوچا کہ ہم نے کیا بیوقوفی کی تھی یہ تو ایک روز مرہ کا ہونے والا حادثہ تھا.ایک ایسا واقعہ تھا جو انسانوں کے ساتھ پیش آتا ہی رہتا ہے.کبھی دریاؤں کے پانی گدلے ہو جاتے ہیں، کبھی مینڈک بڑھ جاتے ہیں، کبھی جوئیں کثرت سے پھیل جاتی ہیں یہ تو روز مرہ کے ہونے والے واقعات ہیں.ان کا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے کیا تعلق ہے؟ چنانچہ ان کا جو مکر ہے وہ آیات میں شروع ہو گیا.یعنی دیکھی تو انہوں نے آیات تھیں خدا کی کھلی کھلی نشانیاں دیکھی تھیں لیکن ان نشانیوں کو دنیا کی طرف منسوب کرنے لگے اور پھر جب دوبارہ کسی بلانے پکڑا پھر بعینہ وہی حرکت کی.پھر حضرت موسیٰ کی طرف دوڑے، پھر دعائیں کروائیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کے نتیجے میں جب اس بلا کو ٹال دیا تو پھر دوبارہ وہی آیات کے ساتھ مکر کا دور شروع ہو گیا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ نو مرتبہ ایسا ہوا.نو مرتبہ موسیٰ کی بیان کردہ وعید سے تعلق رکھنے والی یعنی انذاری پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور ہر بار یہاں تک کہ قوم ہلاک کر دی گئی.مسلسل وہ اسی طرح حضرت موسیٰ کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی آیات کے ساتھ سلوک کرتے رہے.غمگین اور یہی حال بد قسمتی سے آجکل پاکستان کا ہو رہا ہے اور دن بدن یہ صورتحال زیادہ ملین اور خوفناک اور پیچیدہ ہوتی چلی جارہی ہے.یہ عجیب بات ہے جسے وہ شاید مل کر سوچتے بھی ہیں کہ نہیں کہ جب سے Islamisation کا نام شروع ہوا ہے یعنی ملک کے اندر اسلام کو جاری کرنا اور یہ ضیاء الحق صاحب کے دور کا قصہ ہے وہاں سے بات چلی ہے.جب سے ساری قوم نے بحیثیت قوم اسلام کے نام پر خدا کو خوش کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں مسلسل اللہ تعالیٰ کے عذاب اس قوم پر نازل ہوتے چلے جارہے ہیں اور جگہ جگہ سے بلائیں ان کو گھیر تی چلی جارہی ہیں.کوئی انسانی زندگی کا ایسا پہلو نہیں ہے جس میں امن رہ گیا ہو، کوئی انسانی تعلقات کا ایسا دائرہ نہیں ہے جو گندہ نہ ہو چکا ہو.ہر وہ شہری جو پاکستان میں کسی پہلو سے زندگی بسر کر رہا ہے اس کے کوئی نہ کوئی حقوق کسی اور نے ساب کئے ہوئے ہیں.اگر کسی شخص نے نہیں کئے تو حکومت نے سلب کئے ہیں، حکومت نے نہیں کئے تو کسی قوم نے کر لئے ہیں.کسی نہ کسی پہلو سے ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ آزادی سے سانس نہیں لے رہا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 778 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء مجبور اور بے اختیار ہے اور بے بس ہے اور ظلم اتنا پھیل گیا ہے، اتنا گہرائی میں جاچکا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی، معصوم بچیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی.اغواء ہو رہے ہیں دن بدن اور بڑی بڑی قیمتیں مانگی جاتی ہیں، بعض ایسے غریب لوگ ہیں جنہوں نے مجھے خود اپنی داستان لکھی کہ بچہ ہمارا اغوا ہو گیا ہے اور جتنا مطالبہ ہے اگر ہم ساری جائیداد بیچ دیں تب بھی وہ مطالبہ پورا نہیں کر سکتے اور شرط یہ ہے کہ اگر ہم مطالبہ پورا نہیں کریں گے تو بچے کو قتل کر کے اس کی لاش ہمارے پاس بھیجوا دی جائے گی اور وہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی دھمکی نہیں یہ روز مرہ کی باتیں ہیں.معصوم بچوں کو قتل کر کے واپس ماں باپ کے پاس بھجوادیا جاتا ہے یا نہروں میں بہا دیا جاتا ہے کہ ان کے ماں باپ وہ پیسے نہیں دے سکے.چوری ، اچکا پن، ڈاکے، بد دیانتی ، عدالتوں میں جھوٹ کوئی ایک پہلو بھی پاکستانی زندگی کا ایسا باقی نہیں رہا جہاں اسلام جاری و ساری دکھائی دیتا ہو اور کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی علامات ظاہر ہوتی چلی جارہی ہیں جس طرح حضرت نوح کے سیلاب نے قوم کو غرق کیا تھا اسی طرح بدیوں اور معاصی اور بے اطمینانی اور بدامنی کا ایک سیلاب ہے جس میں ساری قوم غرق ہوئی پڑی ہے اور ان کو یہ علم نہیں کہ ہمارے ساتھ کیوں ایسا ہو رہا ہے؟.آج بھی اخباروں میں بڑے دھڑلے سے اسلام کی باتیں ہورہی ہیں.شریعت کے قصے چل رہے ہیں اور مولویوں کے قبضے میں اسلام دے کر اسلام کے ساتھ حد سے زیادہ جو بیوفائی ہو سکتی تھی وہ کی جاچکی ہے.یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اگر یہ چیزیں خدا کی خاطر تھیں، واقعی اسلام کی محبت میں تھیں تو خدا کو کیا ہو گیا ہے کہ اس کے بدلے میں ہمیں انعام دینے کی بجائے جوتیوں پہ جوتیاں مارتا چلا جارہا ہے.ایسی نیک قوم جس نے اتنے لمبے عرصے تک پاکستان بننے کے بعد جد و جہد جاری رکھی بالآ خر اس ملک کو اسلامی بنانا ہے، ایسی نیک قوم جس نے اس جدو جہد کا دامن نہیں چھوڑا جب تک کہ ان مقاصد کو حاصل نہیں کر لیا اور یہاں تک کہ اسمبلیاں مجبور ہو گئیں، ان کے سر جھک گئے اور آخر شریعت اسلامی نافذ کر دی گئی ایسی قوم کو انعام ملنا چاہئے تھا یا سزاملنی چاہئے تھی ؟ یہ پہلو کوئی نہیں سوچتا.اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ سب کچھ جماعت احمدیہ سے ظلم کے نتیجے میں ہے یہاں تک تو ان کی فکر جاتی ہی نہیں.سوچ سے ہی محروم ہو چکے ہیں ، دماغی قو تیں سلب ہوگئی ہیں حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے اگر احمد یہ مسئلہ نہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ پاکستان کی سیاست
خطبات طاہر جلد ۱۰ 779 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء مولویوں کو اپنی جوتی کی نوک پر بھی رکھتی.صرف احمدیت کے تعلق کا خوف ہے، احمدیت کی دیانتداری کا خوف ہے جو ہمارے سیاستدان کو دن بدن مولویوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے.جب احمدیت سے تعلق کی دھمکی ہو تو اس دھمکی کے اثر سے نکلنے کے لئے سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں ، عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں جتنا بھی باقی ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ دنیا کی سیاستیں اس طرح زندہ نہیں رہا کرتیں.پہلو در پہلو ایک عام عدالت جاری ہے، ایک شرعی عدالت جاری ہوگئی ، ایک عام قانون جاری ہے ایک شرعی قانون جاری ہو گیا ہے اور چند مولویوں کے ہاتھ میں شریعت کی تعبیر اس طرح چھوڑ دی گئی کہ شریعت کورٹ جو بھی فیصلے دیتی ہے اب ہمارے پاکستانی اسمبلیوں کے نمائندے مجبور ہو چکے ہیں.اپنے ہاتھوں سے انہوں نے اپنے آپ کو رسیوں میں جکڑ لیا ہے.جو وہ کہیں اسلام کے نام پر ایسا کرنے پر مجبور ہیں.اتنا دوغلا پن پیدا ہو چکا ہے ہمارے قانون میں کہ بعض قانون دان اس پر بڑی سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں.تو ایک موسیٰ کی قوم تھی یعنی موسیٰ کے مقابل پر فرعون کی قوم میں کہنا چاہتا تھا جو ظلم کرتی تھی اور ظلم کے بعد اتنی عقل ضرور رکھتی تھی کہ بجھتی تھی کہ ظلم کا کچھ تعلق ضرور ہے ہماری شامت اعمال سے.بداعمالیاں ہیں تو شامت اعمال ہیں اور پھر وہ جا کر اپنے ظلموں کی معافی بھی مانگتے تھے اور استدعا بھی کرتے تھے کہ ہمارے لئے دعا کرو اللہ تعالیٰ ان مصیبتوں کو ٹال دے اور قرآن کریم نے عبرت کے طور پر ان کے واقعات کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا لیکن آج کے باشعور زمانے میں جبکہ تعلیم کا چرچا ہے، دنیا سمجھتی ہے کہ اتنی ترقی ہو چکی ہے، اتنا آگے نکل گئی ہے.اس زمانے میں عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں میں اتنی سوچ بھی باقی نہیں رہی کہ یہ باتوں سے آپس میں رشتے تو ملا کر دیکھیں تب سے پاکستان مصیبت میں مبتلا ہوا ہے جب سے احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالا ہے.اسلام کے اندر اسلام کی برکت کی یہی ضمانت تھی.یہی وہ تعویذ تھا جس کے نام پر اسلام کا تقدس جاری تھا اور اس تعویذ کو تو آپ نے نکال کر باہر پھینک دیا.پیچھے پھر اسلام کیا اور اسلام کی برکتیں کیا سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے اور مسلسل اس کے بعد سے سیاست گندی سے گندی ہوتی چلی جارہی ہے ہٹتی ہی جارہی ہے، Horse Trading کا محاورہ ایسا کھلا کھلا استعمال ہوتا ہے کہ جیسے روز
خطبات طاہر جلد ۱۰ 780 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء مرہ کی کوئی بات ہے کوئی شرم و حیا کی بات ہی نہیں رہی.کرپشن سر سے پاؤں کے ناخنوں تک پہنچ گئی ہے.کوئی زندگی کا ایسا شعبہ نہیں جہاں بددیانتی کے بغیر کام چل سکے اور بے حیائی ایسی کہ دیکھیں سب کہتے ہیں الحمد للہ اسلام آ رہا ہے.اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ہم اسلام کے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.کہاں اسلام کے قریب ہو رہے ہیں؟ کسی نے کبھی نہیں سوچا.اگر یہ ساری بدبختی اسلام ہے تو نعوذ باللہ من ذالک اس اسلام سے تو دوری بہتر ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ یہ اسلام نہیں یہ بد بختیاں تمہاری شامت اعمال ہیں.تم نے جو احمدیوں پر مظالم کر کے اسلام سے دوری اختیار کی ہے یہ اس کی سزا ہے.ورنہ اسلام کے قرب کی تو خدا سز انہیں دیا کرتا.اسلام سے قرب کی تو جزاء ہوتی ہے.پس یہ ساری وہ مصیبتیں جو تم پر نازل ہو رہی ہیں تمہیں کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسلام سے قرب کے نتیجے میں نہیں بلکہ اسلام سے دوری کے نتیجے میں ہیں، اسلام کے بنیادی حسین ، منصفانہ قوانین کو تم نے بالائے طاق رکھ دیا بلکہ بھاڑ میں جھونک دیا اور کبھی تمہارے دل میں ادنی سی بھی ضمیر میں ادنی سا بھی چونکا نہیں دیا ضمیر کی ادنیٰ سی کسک بھی تم نے اپنے دل میں محسوس نہیں کی کہ ہم کیا کر رہے ہیں، کس مقدس نام کو کیسے استعمال کر رہے ہیں اور مكْرُ فِي آيَاتِنَا ہے تو وہ یہ جاری ہے اور مسلسل چلتا چلا جا رہا ہے.ہر مصیبت کے لئے کوئی نہ کوئی نیا نسخہ پیش ہوتا چلا جارہا ہے.جماعت اسلامی کہتی ہے کہ یہ جو اب مصیبتیں آئی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے جماعت اسلامی سے انحراف کیا ہے اور اس کی باتیں نہیں مانیں اور جمعیت العلماء اسلام کہتی ہے کہ تم نے چونکہ اسلام کی ہماری تعبیر کو قبول نہیں کیا بلکہ کوئی اور اسلام جاری کر دیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ تم سے ناراض ہو گیا ہے.پہلے خدا ناراض کیوں نہیں تھا جبکہ اسلام کا نام بھی نہیں تھا.جبکہ انصاف کی حکومت تھی ، اس وقت خدا کہاں چلا گیا تھا اس کی غیرت کہاں تھی؟ اچھا بھلا پاکستان تھا، ساری دنیا میں اس کی عزت تھی ، شہرت تھی ، ہر جگہ انصاف جاری تھا.بد دیانتیاں تو ہر ملک میں ہوتی ہیں مگر پاکستان میں برائے نام تھیں، بہت معمولی سی.ایک پولیس کا محلہ تھا جو بد نام تھا اب تو پولیس کا محکمہ نیک نام تو نہیں کہہ سکتے لیکن باقی سب محکمات سے مل جل سا گیا ہے.سارے پولیس کے اہلکار لگتے ہیں.ہر جگہ نحوست ہے،ایسی نحوست ہے جو چہروں پر لکھی جاچکی ہے.قرآن کریم تو فرماتا ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ الفتح :۳۰) ان کی نشانیاں ، ان کی پاک نور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 781 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء کی علامتیں سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر لکھی گئی ہیں اور ان کے چہروں پر جگہ جگہ بے شمار جس دائرہ کار میں آپ کا تعلق کسی حکومت کے نمائندے سے ہو آپ کو وہاں سجدوں کے نتیجے میں نور کی کوئی علامت دکھائی نہیں دے گی بلکہ نحوست دکھائی دے گی.کچھ لوگ انگلستان سے پاکستان گئے واپسی پر میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا ہم پہلے پاکستانی تھے پاکستان سے تعلق تو بہر حال ہے وہ تو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا مگر شاید اس تعلق کی وجہ ہے کہ بے حد دلبرداشتہ ہو کر لوٹے ہیں بعض ماؤوں نے کہا کہ بچوں کو بڑے شوق سے لے کر گئے تھے لیکن اتنی تکلیف ہوئی ہے جا کر آپ اندازہ نہیں کر سکتے.چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی رشوت نہ دو تو کام نہیں بنتا.سیٹ بک کروانے کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے.انہوں نے یہاں تک بتایا کہ پی آئی اے کے جہاز میں لاہور سے بک ہوئی ہوئی سیٹ ہمیں دینے سے انکار کر دیا سیٹیں بھر چکی ہیں.پھر کسی نے سمجھایا کہ بیوقوف پیسے دے دو تو تمہاری ریز روسیٹ تمہیں ملے گی.تو ہر شعبہ زندگی میں بد دیانتی اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے اور اسلام کی باتیں جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی ہیں.کچھ سمجھ نہیں آتی یہ کون سا اسلام ہے.کن رگوں میں دوڑ رہا ہے، وہ کیا خون ہے جو نعوذ باللہ من ذالك اس نام سے پلید ہورہا ہے یہ نام تو خونوں کو پاک کرنے والا نام تھا.یہ نام تو جس رگ میں دھڑ کے اس رگ کو زندہ کر دیتا ہے.جس لہو میں شامل ہوا سے پاکیزہ بنادیتا ہے.یہ وہی نام ہے جس نے حضرت محمد مصطفی ہے اور آپ کے غلاموں کونئی روحانی زندگی عطا کی تھی.ایک روحانی انقلاب بر پا کر دیا تھا.آج یہ الٹ کیسے چل رہا ہے.یہ سوچنے کی بات ہے لیکن قرآن کریم جیسا کہ فرماتا ہے ان کے دلوں پر تالے پڑ چکے ہوں.اگر دلوں پر تالے پڑ چکے ہوں تو پھر کوئی علاج نہیں مگر قرآن کریم نے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ لَهُم مَّكْرُ فِي آيَاتِنَا کہ اپنے نفس کو قائل کرنے کے لئے بہانے ضرور تلاش کرتے ہیں.کوئی نہ کوئی مکر بنا لیتے ہیں.آجکل یہ مکر چلا ہوا ہے ملاں اپنی خفت مٹانے کی خاطر یہ عوام کو بار آور کروانے کے لئے کہ یہ ساری نحوستیں ہماری نہیں اور ہماری فرضی شریعت کی نہیں بلکہ اس بات کی نحوست ہیں کہ ہماری Brand کا اسلام کیوں نہیں آیا.پھر نواز شریف Brand کا اسلام کیوں آیا ہے یا بے نظیر بھٹو Brand کا اسلام کیوں لایا جائے گا.جب تک ہماری Brand ہماری قسم کا اسلام نافذ نہیں ہوتا اس وقت تک تم لوگ بچتے نہیں حالانکہ وہ آخری تنکا ہو گا جو کمر توڑنے والا ہو صد الله
خطبات طاہر جلد ۱۰ 782 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء گا.ابھی تک خدا کا شکر ہے کہ کسی مولوی کی مکمل Brand نہیں آئی.اگر وہ آجائے تو اس ملک کے بچنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.خدا کرے اس تنکے سے پہلے پہلے یہ لعنتوں کے بوجھ جو اپنی کمر پر لاد بیٹھے ہیں ان کو ہلکا کرنا شروع کریں اور مكْرَ فِي آيَاتِنَا کی بجائے تفکر فی الآیات کی عادت ڈالیں.مکر اور تفکر میں یہ فرق ہے مکر کے نتیجے میں انسان بہانے تلاش کرتا ہے اور اصل وجہ کو چھپاتا ہے اور دوسری وجہیں سوچ کر ان سے اپنے ضمیر کی غلطیوں پر پردے ڈالتا ہے لیکن تفکر کے نتیجے میں انسان گہرا ابھرتا چلا جاتا ہے.وہ بات کی کہنہ تک پہنچتا ہے، وہ آخری طرف جس کی وجہ سے کوئی چیز اور کوئی سلسلہ شروع ہوتا ہے اس آخری کننہ تک پہنچ جاتا ہے اور یہ کچھ مشکل نہیں ہے.پاکستان کی تاریخ کو احمدیت کے ساتھ پاکستان کے سلوک کی تاریخ کے ساتھ ملا کر پڑھیں ہر بات ایسے کھلتی چلی جائے گی جیسے دن کی روشنی میں آپ کچھ دیکھ رہے ہوں.پس ایک مضمون تو مذہبی دنیا سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے جس کا تاریخ سے بھی تعلق ہے حال سے بھی تعلق ہے مستقبل سے بھی رہے گا لیکن اس تعلق میں جب ہم آج کے پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو بڑا دکھ ہوتا ہے کہ سابقہ تاریخ سے استفادہ کرنے کی بجائے قو میں جب دوبارہ وہی ٹھوکر کھاتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر ٹھوکر کھایا کرتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے.پہلی غلطی دہرانے والی قومیں اس مقام پر نہیں ٹھہرا کر تیں جو پہلی غلطی کا مقام تھا بلکہ ہمیشہ آگے بڑھ جاتی ہیں اور اسی طرح اب خدا کی پکڑ بھی بالآ خر آگے بڑھتی ہے اور اس جاری سلسلے کو دنیا میں کوئی طاقت روک نہیں سکتی.ایک اور پہلو اس کا ذاتی سوچوں کا پہلو ہے اور روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھنے والا ہے.وہ یہ ہے کہ انسان جب بھی کسی مشکل میں مبتلا ہو تو ہر شخص کے دنیا کے اندر اسی قسم کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے وہ سوچتا ہے کہ میں کیوں اس مصیبت میں مبتلا ہوا؟ اب میں بچوں گا تو کیسے بچوں گا ؟ اگر میں بچ گیا تو کیا کچھ کروں گا؟ اور دعائیں کرتا بھی ہے اور کرواتا بھی ہے بسا اوقات لیکن جب بچ جاتا ہے تو ہمیشہ اس بچنے کا کریڈٹ یا اپنے آپ کو دیتا ہے یا اپنی کسی ہوشیاری کو دیتا ہے یا اپنے کسی علاج کو دیتا ہے یا اور کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے اور ہمیشہ تعریف خدا کے لئے دل میں پیدا نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے یا اپنی کسی ہوشیاری کے لئے تعریف کا جواز پیدا کرتا ہے.یہ ہمیشہ کا لفظ تو شاید درست نہ ہو کیونکہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 783 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء بہت سے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس ہلاکت سے بچاتا ہے لیکن یہ روزمرہ کی ایک عام انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والا مسئلہ ہے.ایک انسان کسی مشکل میں مبتلا ہوا اور دعا بھی کی اور ہاتھ پاؤں بھی مارے اور کوئی نہ کوئی تدبیر کہیں چل گئی یا وہ یہ سمجھا کہ اتفاق سے میرا ایک ایسا دوست آگیا جس کو مدت سے جانتا تھا لیکن تعلق نہیں رہا تھا وہ موقع پر آ گیا اور میں نے اس سے بات کر لی اور جب وہ مصیبت ٹل گئی تو اس کی تعریف جو ہے یاوہ دوست تک ختم ہو جائے گی یا اپنی ہوشیاری تک.میں اگر اس وقت اس سے بات نہ کرتا تو شاید میرا مسئلہ بھی حل ہی نہ ہوتا.اس کو یہ خیال نہیں آتا کہ جو دعا کی تھی اس کے نتیجے میں خدا مسبب الاسباب ہے.یہ کیوں نہیں سوچا اس نے کہ خدا نے دوست تو بھجوا دیا جس سے کبھی ملاقات نہیں رہی تھی ، خدا نے بروقت اس کے دل میں خیال پیدا کیا کہ یوں ہو گیا ہوگا.ایک ایسی فیملی جس کو کسی ملک کا ویزاملنا مشکل تھا کیونکہ وہ مومن فیملی ہے، مومن خاندان ہے یعنی دل کے لحاظ سے عقل کے لحاظ سے اس لئے میں ان کی مثال دیتا ہوں.ان کی سوچ مختلف تھی اس موقع پر اور اپنی مومنانہ سوچ ہے.ایک ایسی جگہ کا ویزا لینے کے لئے جہاں ایمبیسیز نے راستے بند کئے ہوئے تھے کسی احمدی کو ویزا نہیں دیتی تھیں.انہوں نے کوشش کی اور آخر خیال آیا کہ بے دلی سے، یعنی کوشش تو نہیں کی لیکن پتا کیا تو پتا لگا کہ کوئی امکان نہیں ہے.ان کے میاں نے یونہی بے دلی سے اپنے ایک دوست سے ذکر کیا کہ خواہش تو بہت تھی میرے بچے وہاں چلے جائیں لیکن کوئی صورت نہیں ہے.اس دوست نے کہا کہ صورت کیسے نہیں ابھی جاؤ اور جاکے درخواست دے دو اور دیکھو پھر کیا ہوتا ہے.انہوں نے جا کر درخواست دی، بغیر انٹرویو کے، بغیر کسی سوال جواب، بغیر بیوی بچوں کو بلائے سب کا ویزا فور دے دیا.اب اگر مكْرُ فِي آيَاتِنَا کی سوچ ہوتی تو دماغ صرف اسی دوست تک ٹھہرتا کہ دیکھو کتنا عظیم الشان دوست تھا کیسے موقع پر کام آیا لیکن چونکہ مومنانہ سوچ تھی انہوں نے شروع سے آخر تک یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں جب وہ کسی بندے کے لئے تدبیر کرتا ہے تو کس طرح تدبیر کرتا ہے.وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس دوست سے ہمیں کوئی خیر پہنچے گی اور بغیر کسی تدبیر کے بغیر کسی توقع کے بغیر اس علم کے کہ اس کا اس امریکی سے کوئی دور کا بھی تعلق ہے.یونہی بے دلی کی سی بات تھی جو کر دی.چھوڑیں جی چھوڑیں وہاں ہم کیسے جا سکتے ہیں وہاں تو کسی احمدی کو ویزا ملنے کا سوال ہی نہیں اور معلوم ہوتا ہے اس دوست کا ایمبیسی میں کسی شخص سے گہرا تعلق تھا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 784 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء اس نے اس کو جب بھیجا ہے تو کوئی بات ہوگی لیکن اصل سبب یہ تعلق نہیں تھا اصل سبب خدا کی تقدیر تھی اور وہ تدبیر تھی جو تقدیر کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے.تو مكُرُ فِي آيَاتِنَا اور تفكر في آياتنا دونوں میں فرق ہے.روز مرہ کی زندگی میں ہم سے بار ہا یہ واقعات ہوتے ہیں.جب بیمار ہوتے ہیں اور اچھے ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں دوائی سے فائدہ ہوا، فلاں چیز سے فائدہ ہوا.دوائیاں بھی کام کرتی ہیں مگر خدا کے اذن سے کام کرتی ہیں.صحیح دوائی تک ذہن کا پہنچ جانا بھی اللہ کے اذن سے ہوتا ہے.دوائی کو اجازت بھی کام کی تب ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا اذن ہو.پس مومن کو ہمیشہ تدبر فی آیات کرنا چاہئے نظر فی آیات چاہئے اور کبھی مـــر فـي الآیات کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے کیونکہ یہ ہلاک کرنے والی عادت ہے.جن قوموں میں انفرادی طور پر آیات میں مکر کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے بحیثیت مجموعی، بحیثیت قوم ان کی ساری قومی فکر ہی مکر فی الآیات کی فکر بن جایا کرتی ہے.جیسے فرعون کی قوم اس سے پہلے اس صورت سے ہلاک ہوئی ہے جیسا کہ اب ہم پاکستان میں بہت دردناک حالات دیکھ رہے ہیں.اسی طرح کا یہ زہر ہے جو افراد میں داخل ہوتا ہے پھر قومی بیماری بن جاتا ہے اور جب قومی بیماری بن جائے تو قوموں کو ہلاک کر دیا کرتا ہے.آپ اس بات پر نگران رہیں اور ہمیشہ نگران رہیں تو جب بھی کسی مشکل میں مبتلا ہوں اور خدا تعالیٰ سے التجاء کر کے اس مشکل سے نجات کے لئے خیر طلب کریں، اس خدا کی مدد طلب کریں اور وہ مشکل حل ہو جائے تو خواہ کیسے ہی بڑے بڑے بت آپ کے سامنے کیوں نہ آئیں اور ہر ایک ان میں سے یہ دعوی کر رہا ہو کہ میری وجہ سے تمہارا یہ مسئلہ حل ہوا.آپ ان سب بتوں کی آواز کورڈ کر دیا کریں اور گردن صرف خدا کے حضور جھکایا کریں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسباب کا شکریہ ادا نہیں کرنا.شکریہ ادا کرنا ہے مگر اللہ کے حکم سے.دل پوری طرح خدا کی رضا پر راضی رہنا چاہئے اور مطمئن رہنا چاہئے کہ جو کچھ ہمیں ملا محض اللہ کے فضل سے ملا یعنی چونکہ خدا فرماتا ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اس لئے صاحب شکر بندہ بنیں اور یہی سچائی ہے، یہی تو حید کامل ہے جس پر جماعت کو ہمیشہ قائم رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 785 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء پیشتر اس کے کہ میں دوسرا خطبہ شروع کروں اور اس پہلے حصے کو ختم کروں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ماریشس کی جماعت کا آج جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے اور ماریشس کی جماعت نے مجھے سے ایک خواہش کا اظہار کیا کہ یہ خطبہ جمعہ جو ہم بھی سن رہے ہوں گے یہ ہمارے جلسہ کا افتتاح بن جائے اس لئے اس خطبہ جمعہ میں ہمیں مخاطب کر کے بھی کچھ باتیں کریں.تو چونکہ یہ سارا سلسلہ ریڈیو کے وسیلے سے یعنی ٹیلی کمیونیکیشن کے وسیلے سے خطبے کا دوسرے ملکوں تک پہنچنا ماریشس سے شروع ہوا تھا اور انہی لوگوں کی Brain Wave تھی یعنی ایک خاص ان کے ذہن کی ایک لہر تھی جس سے یہ خیال پیدا ہوا اس لئے ساری دنیا کی جماعتیں ماریشس کی بہر حال ممنون احسان ہیں جن کو فوری طور پر براه راست یہ آواز سنے کی توفیق مل جاتی ہے.کا ماریشس کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی مستعد اور مخلص جماعت ہے اور ماریشس کے لوگ ذہین بھی ہیں اور اعلیٰ درجہ کا Sence of Humour یعنی ذوق مزاح بھی رکھتے ہیں اور بہت کاموں میں باقاعدہ اور مستعد ہیں.یہ اگر چہ جزیرہ ایسا ہے جس میں جاکر خیال آتا ہے یعنی Tennison کی ایک مشہور نظم ہے Lotus Eaters جس میں ایک ایسے جزیرے کا نقشہ کھینچا گیا ہے جہاں ہمیشہ ایک ہی سا موسم رہتا ہے.بہت ہریالی ہے اور بہت سرسبزی اور شادابی ہے اور زمین بھی مہربان ہے اور آسمان بھی مہربان ہے لیکن اتنا مہربان ہیں دونوں کے دونوں کہ لوگوں کو اپنے کاموں کے لئے کچھ کرنا نہیں پڑتا.اس لئے بے انتہاء سست ہو گئے ہیں اور Lotus کھاتے رہتے ہیں یعنی افیم اور یہ سارا دن ان کا سوائے اس کے کوئی کام نہیں افیم کھائی اور نشے میں دھت رہے اور خدا کی قدرت کے عجائب دیکھتے رہے.ماریشس ویسے ہی جزیرہ دکھائی دیتا ہے جیسا کا م Lotus Eaters میں بیان کیا گیا ہے مگر بالکل برعکس نتیجہ ظاہر کرنے والا جزیرہ.یہاں کہ لوگ ایسے خوبصورت جزیرے میں ایسے دائمی اچھے موسم کا فیض پاتے ہوئے بہت محنتی ہیں، بہت مستعد ہیں.جماعتی کاموں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت باقاعدہ اور مستعد اور ہر آواز پر لبیک کہنے والے ہیں اور ذہنی لحاظ سے اچھی اچھی باتیں ان کو سوجھتی رہتی ہیں.صرف ان سے شکوہ یہ ہے کہ تبلیغ کے معاملے میں جیسا ان سے توقع تھی آغاز میں تو وہ پوری کی لیکن اب کچھ سُست ہو گئے ہیں.اگر دنیا کے معاملے میں Lotus
خطبات طاہر جلد ۱۰ 786 خطبہ جمعہ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء Eaters نہیں بنے تو خدا کے لئے تبلیغ کے معاملے میں تو Lotus Eaters نہ بن جاؤ.یہ ایک وہ جگہ ہے جہاں ہو نا حرام ہے.اس لئے اگر آپ کو خدا کی نعمتوں کا جو اس نے آپ پر نازل فرمائیں شکر ادا کرتے ہوئے پوری محنت کے ساتھ اپنے جزیرے کو وہ روحانی نعمت بھی عطا کرنے کی کوشش کریں جس سے آپ فیضیاب ہو رہے ہیں تو واقعی دنیا میں جزیرہ ہر پہلو سے جنت نشان بن سکتا ہے.اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے.آپ لوگوں کو خدا نے اچھا ذہن عطا فرمایا ہے، ترکیبیں سوجھتی ہیں، محنت کر لیتے ہیں، لوگوں کے اندر جذب ہونے کی طاقت موجود ہے، دل جیتنے کی طاقت موجود ہے وہ کون سی چیز ہے جس کی تبلیغ میں ضرورت ہو اور آپ کو مہیا نہ ہو؟ اس لئے سب کچھ ہے اگر دعا کی کمی ہے تو پھر دعائیں کریں اور جس طرح بھی ہو اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی کوشش کریں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ماریشس کی جماعت پوری طرح مستعد ہو جائے تو جیسا کہ ماریشس کے عام طور پر لوگ ہیں ، صاف لوگ ہیں جلدی اثر قبول کرنے والے ہیں، مخالفت کا اثر بھی جلدی قبول کر لیتے ہیں لیکن پاکستانی میں اور ہندوستانی لوگوں کی طرح مخالفت کے رنگ کو پکا نہیں کرتے بلکہ جہاں شفاف پانی ملا اور رنگ دھل گیا اور دوسرا رنگ چڑھ گیا لیکن خدا کا رنگ پکا ہوا کرتا ہے.وہ جب چڑھتا ہے تو پھر وہ اس بات کی ضمانت خود دیتا ہے کہ وہ رنگ مستقل رہے گا.تو میں یہ چاہتا ہوں جس طرح آپ نے دوسرے گندے رنگ جو آپ پر پہلے احمدی ہونے سے چڑھے ہوئے تھے ایک دفعہ دھو ڈالے اور خدا کے رنگ میں رنگین ہوئے اور خدائی لوگوں کی صفات اپنانے کی کوشش کی ہے اگر چہ بہت سی منزلیں ابھی اس معاملے میں طے ہونے والی ہیں میں یہ نہیں میں کہتا کہ آپ درجہ کمال کو پہنچ گئے ہیں لیکن دنیا کی جماعتوں میں آپ کا ایک ایسا مقام ہے کہ مجھے بہت عزیز ہیں.اس پہلو سے میں آپ سے توقع رکھتا ہوں اور توقع رکھنے کا حق رکھتا ہوں کہ اگر آپ خدا کے فضل کے ساتھ تبلیغ کی طرف بھر پور توجہ دیں تو اس جزیرے کی چند سالوں میں قسمت بدل سکتی ہے اور یہ دنیا ہی میں نہیں بلکہ دین میں بھی ایک جنت جزیرہ بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اہل ماریشس کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ آپ کے نیک رنگ اختیار کریں اور جلد از جلد احمدیت کی پر امن آغوش میں آجائیں.آمین اس مختصر افتتاحی خطاب کے بعد اب میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں اور مسنون خطبہ پڑھوں گا.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 787 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۹۱ء جماعت احمدیہ مالمو سے اظہار ناراضگی تقویٰ یا حکمت کی کمی دونوں ہی فتنہ کا سبب بنتی ہیں (خطبه جمعه فرموده ۴ را کتوبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: میں کئی مرتبہ پہلے بھی جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ تقویٰ اور عقل کا آپس میں بہت ہی گہرا تعلق ہے.یہ درست ہے کہ اگر کسی انسان کو عقلی صلاحیتیں ہی عطا نہ ہوئی ہوں تو محض اس کا تقو کی عقل کے سارے تقاضے پورے نہیں کر سکتا لیکن تقویٰ کے بغیر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور بھر پور عقل بھی کوئی کام نہیں کرتی لیکن عقل کی کمی کو بہت حد تک تقومی دور کر دیا کرتا ہے اور بڑی ٹھوکروں سے انسان کو بچالیتا ہے.بعض فتنے ایسے ہیں یا ہو سکتے ہیں جن کے متعلق یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ فتنے تقویٰ کی کمی سے پیدا ہوئے یا عقل کی کمی سے.دونوں صورتیں اپنے طور پر یکساں صادق آسکتی ہیں اور یہ مطالعہ بھی اس لحاظ سے بہت عبرت آموز ہے اور بہت پر حکمت بھی ہے کہ انسان جب ان فتنوں کی کنہہ پر غور کرتا ہے ، ان کی عادات اور ان کے اسلوب پر غور کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعینہ وہی باتیں کلیپ عقل کی کمی سے بھی پیدا ہوسکتی ہیں اور تقویٰ کی کمی سے بھی پیدا ہوسکتی ہیں اور ایک ہی فتنے کو تقویٰ کے بحران کا فتنہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور عقل کے بحران کا فتنہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے.اس کی ایک تازہ مثال مالمو کے فتنے سے ہے جو کچھ عرصہ پہلے یعنی تقریبا گذشتہ دوسال سے وہاں نشو و نما پا تارہا ہے لیکن مقامی امیر نے بھی اور ملک کے امیر نے بھی اسے میری نظروں سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 788 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء اوجھل رکھا اور دونوں کا عذر یہ ہے کہ ہم سے بے وقوفی ہوئی ہے.اب میرا کام یہ تو نہیں کہ نیتوں کی کنہہ میں اتر کر ان کی جڑوں تک پہنچوں اور بتاؤں کہ بے وقوفی نہیں تھی یہ تقویٰ کی بیماری ہے کہیں نہ کہیں اس جڑ کو کوئی بیماری لگی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں تم سے ایسی ظالمانہ حرکت سرزد ہوئی.لیکن اللہ بہتر جانتا ہے.میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ عقل کی کمی کی وجہ سے بھی اگر ایک فتنہ پیدا ہوتا ہے تو جہاں تک مومن کا کام ہے فتنے سے جماعت کو بچانا اس کا فرض ہے اور اگر فتنہ عقل میں پیدا ہو چکا ہواور یہ بھی احساس نہ رہا ہو کہ اس فتنے سے بچانا ہمارا فرض ہے تو وہاں جا کر مکمل طور پر بحران کی شکل پیدا ہو جاتی ہے.اب میں نیتوں کا واقف نہیں ہوں لیکن خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ جماعت کو ہر فتنے سے متنبہ بھی کروں اور اگر وہ پیدا ہو چکا ہو تو اس سے بچانے کی کوشش کروں.اس لئے مجھے اس سے بحث نہیں کہ وہ عقل کے بحران کا فتنہ ہے یا تقویٰ کے بحران کا فتنہ ہے جو بھی فتنہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روحانی طور پر قائم کردہ مقدس نظام پر حملہ آور ہوگا.میں اس سے قطع نظر کہ وہ کس بحران کا فتنہ ہے، اس کا سرشدت سے کچلنے کی کوشش کروں گا اوراس معاملہ میں ایک ذرہ بھی رحم میرے دل میں پیدا ہونا گناہ عظیم ہوگا کیونکہ انسانوں کی غلطیوں پر انسانوں پر رحم کیا تو جاتا ہے لیکن نظام جماعت کو فنا کرنے کی کوشش اور برباد کرنے کی کوشش خواہ وہ بے وقوفی سے سرزد ہوئی ہے یا کسی اور وجہ سے اس کے متعلق اس کوشش کو کچلنے میں ہر گز رحم سے کام نہیں لیا جا تا نہ لیا جا سکتا ہے، نہ خدا مجھے اس کی اجازت دیتا ہے.میں نے ان لوگوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی اور جب پوری طرح اپنا سر کھپا بیٹھا اور پھر بھی ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی سوائے ایک دو اشخاص کے اور ان کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ہم سے غلطی کیا ہوئی ہے.جب یہی نہ پتہ چلے کہ غلطی کیا ہوئی ہے تو اب اس کی یہی صورت ہے کہ ساری دنیا کی جماعت کے سامنے بتاؤں کہ یہ غلطی ہے.آئندہ کوئی بھی اپنی بے وقوفی یا کم عقلی کا عذر رکھ کر ایسی باتوں کا وہم بھی دماغ میں نہ لائے ورنہ نظام سلسلہ کو یہ باتیں نہ صرف آج تباہ کرنے والی ہوں گی بلکہ دور تک صدیوں تک اس کے بداثرات ایسے جراثیم کی طرح چمٹ جائیں گے کہ پھر جماعت کے مقدس مالی نظام کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکے گی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 789 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء ساری دنیا کی جماعتیں جانتی ہیں کہ چندہ دینے والا ہمیشہ محض اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھ کر چندہ دیتا ہے.نہ اس کا کوئی ذاتی مفاد اس کے پیش نظر ہوتا ہے نہ اس جماعت کا مفاد اس کے پیش نظر ہوتا ہےجس جماعت کا وہ ممبر ہے.آج اس جماعت کا ممبر ہے کل کسی اور جماعت کا ہو جائے گا اور چندہ دیتے وقت اس کے واہمہ میں بھی یہ بات نہیں گزرتی کہ جو چندہ میں اس جماعت کے فرد کے طور پر دے رہا ہوں بعد میں میری جماعت کو اس چندے میں سے کتنا حصہ ملے گا اور کتنے فوائد اس کو پہنچیں گے.یہ عالمی نظام یعنی جماعت احمدیہ کا مقدس مالی نظام جو خالصہ اللہ ہے اور جب تک خالصہ للہ رہے گا مقدس رہے گا ۲۶ ممالک میں پھیل چکا ہے اور آج تک میرے علم میں کسی طرف سے ایسی آواز پہلے نہیں آئی تھی کہ جماعت کراچی اتنا چندہ ادا کرتی ہے اس لئے جماعت ربوہ کے اوپر اتنا خرچ نہ کیا جائے بلکہ اتنا جماعت کراچی پر خرچ ہونا چاہئے ، جماعت لاہور اتنا ادا کرتی ہے، پنڈی بھٹیاں اتنا ادا کرتی ہے ، پنڈی بھٹیاں کو کیوں ایک مبلغ دے دیا گیا اس کی آمد اتنی ہے کہ چند دن کی تنخواہ کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی.فلاں ضلع میں کیوں اتنا خرچ کر دیا گیا.فلاں کام پر اتنا خرچ کیوں کر دیا گیا؟ ایسے شیطانی وساوس آج تک میرے علم میں نہیں آئے حالانکہ وقف جدید کا بھی مجھے وسیع تجربہ ہے.دوسرے سلسلہ کے کاموں میں بھی ہر قسم کی ادنی خدمات پر میں مامور رہا ہوں اور کبھی آج تک یہ واقعہ میرے علم میں نہیں آیا کہ یہ فتنے اٹھائے گئے ہوں کہ فلاں علاقہ کی آمد اتنی ہے.فلاں شہر کی آمد اتنی ہے اس لئے ان پر اتنا خرچ کیا جائے.ہاں نظام جماعت نے از خود بعض معمولی روز مرہ کے اخراجات کے لئے حصے مقرر فرما ر کھے ہیں اور مجلس شوری نے ان کی تعیین کر دی ہے کہ اگر ایک جماعت اتنی رقم ادا کرتی ہے تو اس کے روز مرہ کے شہری اخراجات یاد یہاتی اخراجات چلانے کے لئے اتنا خرچ اس کو مل جانا چاہئے.اسے مرکزی گرانٹ کہا جاتا ہے.باقی سب کے متعلق جماعت کی مجلس شوریٰ غور کرتی ہے اور قطع نظر اس سے کہ پیسہ کہاں سے آیا تھا اس بات پر غور کرتی ہے کہ کہاں خرچ ہونا چاہئے اور سلسلے کے اعلیٰ مفادات کا تقاضا کیا ہے؟ اسے کیسے خرچ کیا جائے اور یہ بحث کبھی نہیں اٹھائی گئی کہ فلاں جماعت کے بجٹ کے لئے چونکہ اس کے چندے زیادہ ہیں اس لئے ان کو سپیشل نمائندگی اس غرض سے دی جائے کہ وہ دیکھیں کہ ان کے مفادات کی حفاظت ہورہی ہے کہ نہیں.اس قسم کی باتیں پہلی دفعہ جب میں یورپ کے دورے سے واپس آیا ہوں تو مجھے ایک رات
خطبات طاہر جلد ۱۰ 790 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء اس طرح ملیں جیسے دل پر بجلی گرتی ہو اور تعجب اس لئے تھا کہ اس سے پہلے میں فتنوں کے خلاف ہی خطبات دے رہا تھا.جرمنی میں خطبہ دیا، اس سے پہلے ہالینڈ میں دیا تھا، یہاں دیا تھا بعد میں ناروے خطبہ دیا اور ان میں سے بہت سے لوگ جو اس فتنے میں ملوث ہیں وہ ساتھ ساتھ پھر رہے تھے اور بڑے اخلاص کا اظہار ہورہا تھا کہ اب ہمیں خوب باتیں سمجھ آرہی ہیں لیکن تقویٰ کا بحران کہہ دیں یا عقل کا ، یہ ایسا خطرناک بحران تھا کہ ادھر میں یہاں واپس پہنچا ہوں اور ادھر امیر صاحب سویڈن کی طرف سے مجھے یہ فیکس ملی ہے کہ آپ کے جانے کے فوراًبعدا میر صاحب مالمو نے مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ بلائی اس میں جو باتیں پیش ہوئی ہیں وہ کچھ اس قسم کی ہیں.جماعت سویڈن کا بجٹ ۴ لاکھ کے قریب ہے جبکہ مالمو کی جماعت کو مبلغ مالمو کے اخراجات شامل کر کے بھی ایک لاکھ سے کم رقم ملتی ہے، مالمو کی جماعت کی ضروریات کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا.ان کا ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ سال کے شروع میں بجٹ کا سارا حصہ مالمومنتقل کر دیا جائے ،فنانس کمیٹی میں مالمو کی متناسب نمائندگی ہو نیشنل مجلس عاملہ میں مالمو کی مناسب نمائندگی ہو.جب اس قسم کی باتیں ملیں تو میں نے فوری طور پر پستہ کروایا کہ یہ کیا تماشہ ہو رہا ہے اور بہت سی ایسی باتیں تھیں جو میں آگے بیان کروں گا جن سے پتہ چلتا تھا کہ کسی مقام کی مجلس عاملہ کا ان باتوں سے تعلق ہی کوئی نہیں اور پھر جب اس کے متعلق جواب طلبی کی گئی کہ تم مقامی امیر ہو یہ کیسی لغو باتیں تمہارے زیر صدارت ہورہی ہیں؟ کیوں تم نے فوری طور پر ان کو نہیں کہا کہ ایسی بے ہودہ باتیں میں نہیں ہونے دوں گا اور مجلس عاملہ کو برخاست کرتا ہوں اور وہ رپورٹ آگے کیوں نہیں بھجوائی ؟ تو جواب یہ ملا کہ یہ تو ان کی بڑی پرانی عادت ہے.میں تو ان کو روکتا رہتا ہوں اور یہ مانتے ہی نہیں.جب یہ بات سنی تو میں تو اور حیران رہ گیا کہ یہ کیا قصہ ہو رہا ہے؟ جب امیر سویڈن کی جواب طلبی کی گئی تو انہوں نے پھر وہ فہرستیں بھجوانی شروع کیں کہ فلاں مجلس عاملہ میں یہ بات ہوئی تھی ،فلاں میں یہ بات ہوئی تھی ،.فلاں میں یہ بات ہوئی تھی اور اس کے اوپر دونوں بیٹھے ہوئے ہیں.کسی نے مجھے اطلاع نہیں دی کہ یہ فتنے پیدا ہورہے ہیں جو جماعت کے عالمی نظام کے تقدس کے خلاف ہیں، اس مقدس پانی کو گدلا کرنے والے ہیں.اگر ایک جگہ ایک ملک میں کسی ایک شہر میں نعوذ باللہ جماعت کی روایات کو ایسے گدلا کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر جماعت کے مقدس نظام کی حفاظت کی کبھی کوئی ضمانت نہیں رہے گی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 791 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء اور اس کی سنجیدگی کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہورہا ہے.اب میں آپ کے سامنے متفرق امور جو بعد میں اکٹھے کئے گئے ہیں.لمبی بحث و تمحیص کے بعد کہ یہ بھی بتاؤ، وہ بھی بتاؤ قریباً دو ہفتے کی محنت کے بعد ان کے مطالبات کا آخری خلاصہ یہ نکلتا ہے.ا.ایک یاد نمائندے نیشنل عاملہ میں ہوں جو نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کر کے مالمو کی ترقی اور مسائل اور مالی امور پر بحث کر سکیں.۲ مجلس عاملہ مالمو میں نیشنل مجلس عاملہ کی تشکیل پر بحث ہوئی.تمام اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئندہ جماعت سویڈن کی مجلس عاملہ تشکیل دی جائے.یعنی مجلس عاملہ موجود ہے.وہ ان کے نزدیک مجلس عاملہ ہی نہیں ہے کیونکہ جس طرح یہ چاہتے ہیں اس طرح تشکیل نہیں ہوئی.کہتے ہیں آئندہ نیشنل مجلس عاملہ تشکیل دی جائے جس میں تعداد کے اعتبار سے نمائندگی ہوتا کہ گوٹن برگ اور مالمو کی برابر نمائندگی ہو سکے گویا دنیا کے ہر ملک میں یہ فتنہ کا دروازہ کھل جائے کہ ہر مرکزی مجلس عاملہ جس کا تقر مجلس شوری کی سفارش پر خلیفہ وقت کی منظوری سے ہوتا ہے اس میں ایک نئی بحث یہ اٹھے کہ فلاں فلاں ریجن کے اتنے آدمی ہوں.فلاں فلاں ریجن کے اتنے آدمی ہوں اور بعض ملک اتنے بڑے بڑے ہیں جن کے اوپر یہ اصول عملاً اطلاق پا ہی نہیں سکتا یعنی امریکہ میں لاس انجلیز اور سان فرانسسکو اور ڈ ٹیرائیٹ وغیرہ سب کی مجلس عاملہ مرکز یہ میں متناسب نمائندگی رکھی جائے تو نہ وہ مجلس کبھی اکٹھی ہونہ کبھی جماعت کے مسائل حل ہوسکیں اور یہ صرف اتنی بات نہیں ہے.ان لوگوں کی عقل میں یہ بات نہیں پڑ رہی کہ یہ مذہبی جماعت ہے کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، کوئی علاقائی جماعت نہیں ہے کہ جہاں سندھ اور پنجاب کے سوال اٹھ کھڑے ہوں یہ ایسا خوفناک فتنہ نظام جماعت میں داخل کرنے والی بات ہے جو صرف مالی نظام کو نہیں بلکہ جماعت کے عام روزمرہ کے کام کے ڈھانچے کو تباہ کرنے والا ہے یہاں تو تقویٰ پر بحث چلتی ہے جتنے بجٹ بنتے ہیں اس میں کبھی کسی نے اس نیت سے نہیں سوچا کہ میں کہاں سے آیا ہوں مجلس شوریٰ کے سب ممبر ہوتے ہیں.جہاں جہاں مشن ہیں وہاں ان کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہاں وہ ابتدائی بجٹ تجویز کریں اور اسی طرح مالمو کے بجٹ بھی بنے تھے.وہ تجویز مجلس شوریٰ میں پیش ہوتی ہے.مجلس شوری غور کے بعد سفارشات کرتی ہے نہ کہ فیصلے.ان سفارشات پر مرکز میں غور ہوتا ہے.پھر اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 792 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء کے بعد وہ ساری سفارشات میرے سامنے پیش کی جاتی ہیں میں ان کی گہری چھان بین کرتا ہوں کہ کہیں کسی سے کوئی زیادتی نہ ہوگئی ہو یا سقم نہ رہ گیا ہو اور قطع نظر اس کے کہ کس نے کیا دیا ہے ہمیشہ اس بات پر فیصلہ ہوتا ہے کہ کس کو کیا ضرورت ہے اور جماعت کا روپیہ سلسلے کی ضروریات کے لئے کس طرح بہترین رنگ میں خرچ ہو سکتا ہے؟ اس رنگ میں یہ فیصلے ہورہے ہوتے ہیں اور اس سارے نظام کو درہم برہم کرنے کے لئے دو سال سے مسلسل سازشیں چل رہی ہیں اور اس کی مجھے اطلاع ہی کوئی نہیں دی جارہی.۳ برابر نمائندگی کا حق یعنی علاقائی نمائندگی برابر ملے.۴.پھر مالمومشن کے متعلق بحث ہوئی کہ اس مشن پر جتنا خرچ ہونا چاہئے اتنا خرچ نہیں ہورہا یہاں تک کہ بالآخر مجلس عاملہ مالمو نے یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ جماعت مالمو نے کوئی رقم مالمو مشن کے لئے جمع کی تھی وہ مالموکو واپس ملنی چاہئے.باقی امور کی طرف آنے سے پہلے میں اس کا قضیہ تو چکا جاؤں.مالمومشن جب خریدا گیا ہے تو مالمو کی جماعت نے ایک لاکھ 4 ہزار ۸۵۰ کروز چندہ پیش کیا تھا.نام بنام سب کی فہرست میں نے منگوالی ہے اور دیکھ لیا ہے.بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کے متعلق ابھی بھی میرا دل یقین نہیں کر سکتا کہ تقویٰ کی کوئی بھی کمی ہوگی کیونکہ دیر سے میں جانتا ہوں لیکن عقل کی کمی کے متعلق کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.اگر عقل کی اتنی کمی ہو جائے کہ عملاً نتیجہ تقویٰ کی کمی پر منتج ہو تو انسان بالکل بے اختیار ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کو بھی لازم زیر تعزیرلانا پڑتا ہے.۳لا کھ ۶۵ ہزار میں یہ مشن خریدا گیا تھا جس کے اوپر مرمتوں وغیرہ پر مزید اخراجات بھی ہوتے رہے.اس میں سے ایک لاکھ 4 ہزار ۸۵۰ اس جماعت کے افراد نے دیا تھا اور آج اتنے سال کے بعد یہ مطالبہ ہے کہ جو ہم نے اس مشن میں چندہ دیا تھا ہمیں واپس کیا جائے.میں نے عام دستور سے ہٹ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کی ایک ایک پائی ہر اس شخص کو واپس کی جائے جس نے یہ چندہ دیا تھا اور یہ فیصلہ کہ آئندہ کبھی ان لوگوں سے چندہ وصول کرنا ہے کہ نہیں ، یہ بعد میں کیا جائے گا مشن جاری رہے نہ رہے اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اس مشن میں کوئی ناپاک آنہ بھی داخل نہیں ہوگا جس کے متعلق خدا کے حضور پیش کرنے کا ادعا کر کے بعد میں کوئی مطالبہ کرے کہ یہ ہمیں واپس کیا جائے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تو اپنے غلاموں کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 793 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء ایسی پاکیزہ تربیت فرمائی ہے کہ یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کو تحفہ دے دے اور پھر اس سے واپس مانگے تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے قے الٹ کر پھر اسے خود نگل جائے اور چاٹ جائے (مسلم باب یہ مثال بہت ہی عظیم مثال ہے کیونکہ عقل سے عاری جانور جن کو پتہ نہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں وہ بعض دفعہ ایسا کیا کرتے ہیں.گندی غلیظ قے کی ہے اور پھر اس کے بعد اس کو چاٹ گئے.اب تحفے سے ایسا سلوک کرنا کہ گویا وہ واپس مانگا جاسکتا ہے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاک تھا ہی نہیں.یہ وہ مصلحت ہے جو میں آپ کو سمجھانی چاہتا ہوں جب میں نے کہا یہ گندہ پیسہ اس میں نہیں آئے گا تو کوئی غصے کا فتویٰ نہیں ہے بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ جو تمام حکمتوں کا سرچشمہ تھے ان کی ایک بہت ہی عظیم گہری نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بات کہہ رہا ہوں.جب آپ نے ایک عام انسان کے متعلق یہ فرمایا کہ جب تم اس کو تحفہ دیتے ہو اور پھر واپس لینے کا سوچتے ہوتو ایسی بات ہے جیسے قے کر کے اسے واپس لو تو وہ تحفہ تحفہ تھا ہی نہیں وہ ایک گندگی تھی جو کسی کی طرف بھیجی گئی تھی اور تم نے عملاً اس گندگی کو خود چاٹ لیا.تو اگر انسانوں سے معاملات میں ایسی اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے تو خدا کے معاملے میں تو بے انتہاء احتیاط کی ضرورت ہے تبھی خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ تمہارے تحفوں میں سے کچھ بھی خدا کو نہیں پہنچتا.پاک اور پر خلوص نیتیں ، طیبات پہنچتے ہیں جن کا تقویٰ کے اعلیٰ مضامین سے تعلق ہے.دل کی خاص کیفیات سے تعلق ہے جو تقویٰ کے نتیجہ میں لہر در لہر پیدا ہوتی ہیں اور مالی قربانی میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں.وہ چیزیں ہیں جو خدا کو پہنچتی ہیں تو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چیز کو قے قرار دے دیں تو میں کون ہوں کہ اسے مقدس مال سمجھ کے سلسلے کے مال میں شامل رکھوں اس لئے یہ قے جو ہے یہ تو واپس ہوگی اور میں نے اعلان کر دیا ہے کہ اس معاملہ میں کوئی عذر نہیں سنا جائے گا.یہ رو پیدان کو واپس کیا جائے گامشن جماعت کا ہے اس سے یہ لوگ استفادہ بہر حال کریں گے جب تک وہ مشن قائم رہے گا..آگے ایک مطالبہ ہے، سابقہ سالوں میں مالمو کے لئے جو بجٹ ہوتا تھاوہ چونکہ مالموکو نہیں دیا گیا وہ اب واپس مالمو کو ملنا چاہئے.اب وہ کونسا بجٹ ہوتا تھا جو مالموکونہیں دیا گیا.یہ ایک ایسی فرضی بات ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں.یہ فتنہ دو سال سے شروع ہوا ہے جب سے ایک خاص انسان وہاں امیر کے طور پر مقرر ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 794 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء ہے.اس سے پہلے بھی یہ آواز نہیں اٹھی تھی لیکن آگے جا کر میں اس معاملے پر مزید روشنی ڈالوں گا.سوال صرف یہ ہے کہ وہ کونسا بجٹ تھا ؟ واقعہ جب میں نے تحقیق کرائی تو جتنے اخراجات مالمو کے اٹھتے آئے ہیں وہ ہیڈ کوارٹر یعنی گوٹن برگ میں جو مرکز قائم ہے اس کی طرف سے ادا ہوتے رہے ہیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی کہ انہوں نے کوئی جائز خرچ کیا ہو، بجٹ کے اندر خرچ کیا ہو جوان کو ادا نہ کیا گیا ہو اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ اپنی مالی قربانی میں باقیوں سے بہت بڑھ کر ہیں اور ان پر کم خرچ ہو رہا ہے اس کے متعلق میں آگے جا کر بات کرتا ہوں.۵.پھر یہ بے باکی میں یہاں تک آگے بڑھے ہیں کہ وہ ذیلی تنظیمیں جن کا مجلس عاملہ مالمو سے کیا مجلس عاملہ سویڈن سے بھی کوئی تعلق نہیں.خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور انصار اللہ کی مجالس اپنے الگ بجٹ بناتی ہیں ان کی الگ مجلس شوری ہوتی ہے.ان کے معاملات نیشنل مجلس عاملہ میں زیر بحث آہی نہیں سکتے.اگر کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو امیر کے تابع ہیں.امیر کا کام ہے کہ مجھے بتائے کیا خطرناک باتیں ہورہی ہیں اور کیا نہیں ہور ہیں اور بالعموم جہاں تک میر اعلم ہے کہ خدا کے فضل سے دنیا بھر میں بڑی عمدگی کے ساتھ یہ نظام جاری ہے.جب یہ بات آگے بڑھنی شروع ہو جائے تو پھر منہ کھلتے چلے جاتے ہیں.1 - 14/01/90 کے اجلاس میں ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ ذیلی تنظیموں کے چندہ کا لوکل حصہان کو ملنا چاہئے اب مجلس عاملہ مالمو سے اس کا کیا تعلق ہے.یہ اعتراض بنایا گیا کہ میں جب دورے پر گیا ہوں تو میں نے ان کے ساتھ مل کر اجتماعی کھانا نہیں کھایا اور اس پر حملے کا نشانہ ملک کے امیر کو بنادیا گیا اور یہ بحث مجلس عاملہ میں ہوئی کہ گویا میں تو تیار بیٹھا تھا.ملک کے امیر نے عمداً اس رنگ میں غلط طور پر ان کی درخواست پیش کی کہ میں اس کو رد کرنے پر مجبور ہو گیا یعنی دماغ کا ایسا Twist ہےایسا ٹیڑھا پن ہے کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.نہ امیر سے پوچھا کہ آپ نے کیا پیش کیا تھا کیوں رد ہوا.نہ مجھ سے پوچھا میں وہاں گیا ہوں اور بات نہیں کی اور جب سب واقعات گزر گئے تو وہاں آخری مجلس عاملہ میں یہ بحث اٹھا دی کہ دیکھو امیر تمہارا کیسا دشمن ہے کہ وہاں تو دعوت ہوئی لیکن یہاں نہیں ہوئی.واقعہ یہ ہے کہ جب امیر صاحب نے مجھ سے درخواست کی دونوں جگہ کے لئے مالمو اور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 795 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء گوٹن برگ کے لئے تو میں نے ان کو بتایا کہ آپ کچھ عقل سے کام لیں.میرا دورہ اتنا مصروف ہے کہ صبح سے رات تک میں چکر میں ہوں اور چند منٹ نہیں ملتے سکون سے الگ بیٹھنے کے.آپ کے ساتھ جماعتی خدمت کے جتنے کام ہیں میں حاضر ہوں.سوال و جواب میں مجھے بٹھا ئیں.ملاقاتیں کروائیں سب کچھ کے لئے حاضر ہوں لیکن چند منٹ گھر میں الگ بیٹھنے دیں تا کہ تھوڑ اسا سکون ملے دوسرے دن پھر صبح صبح سفر کرنا ہے تو اس پر انہوں نے بات تسلیم کرلی اور اس وجہ سے میں نے معذرت کی.جب میں مالمو پہنچا ہوں تو صبح 9 بجے سے سفر شروع کیا ہوا ۴ بجے ہم وہاں پہنچے ہیں اور چونکہ ایسی غلط نہی ہوگئی تھی کہ ہمیں مشن کا کوئی پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ کدھر ہے اور اس طرح ہمیں دیر ہوگئی.جاتے ہی بغیر کسی اور آرام یا وقت کے ضیاع کے نماز کے لئے واپس آیا ہوں ، نماز کے معا بعد ان سے ملاقاتیں کی ہیں جتنی ملاقاتیں انہوں نے رکھی تھیں سوائے ایک کے جس سے میں جماعتی طور پر ناراض تھا اور ملنا نہیں چاہتا تھا.باقی سب سے ملاقات کی.پھر مجلس سوال و جواب کیلئے نیچے آیا.پھر خواتیں کو ان کی مجلس سوال و جواب کا الگ وقت دیا اور جب تک یہ سارا سلسلہ ختم نہیں ہو گیا اس وقت تک میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا پھر نمازیں پڑھیں اور پھر میں اوپر آیا ہوں.اس پر اعتراض یہ کہ مل کر کھانا نہیں کھایا اور اس کے لئے مجھے تو براہ راست کوس نہیں سکتے تھے اسی کو فتنے کا بہانہ بنالیا.کہ امیر نے ایسا کیا ہوگا اور نہ وہاں مجھ سے پوچھا نہ بعد میں امیر سے پوچھا.یہ ٹیڑھی سوچ ایک دن کی سوچ نہیں ہے یہ لمبے عرصے سے پلتی چلی آرہی ہے.جب میں نے تحقیق کی اور پوری طرح چھان بین کی تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.ایک تو حد سے زیادہ دونوں اشخاص کی عقل کا بحران ہے اگر اور کچھ نہیں تو ان فتنوں پر بیٹھے ہوتے ہیں اور مطلع نہیں کر رہے.پتا ہے کہ جماعت کے عالمی نظام کے تقدس کے خلاف باتیں ہیں.سلسلے کی ساری مالی روایات میں کبھی ایسی فتنے نہیں ہوئے نہ کبھی مجالس عاملہ کو اس رنگ میں تشکیل دیا گیا ہے کہ کسی ریجن کی کتنی نمائندگی ہوتی ہے لیکن بڑے آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی واقعہ ہی نہیں ہو رہا جب پوچھا گیا کہ کیوں جناب! آپ جو مقامی امیر صاحب ہیں آپ کی آنکھوں کے نیچے یہ باتیں ہو رہی ہیں آپ کس مرض کی دوا تھے تو جواب دیا گیا کہ میں تو اس معاملہ کو آگے امیر صاحب کے سپرد کر دیا کرتا تھا اور کہا تھا آپ جانیں اور یہ لوگ جانیں.آئیں اور ان کو سمجھا ئیں حیرت انگیز بات ہے.یہ تو بالکل ویسی بات لگتی ہے جیسے بعض دفعہ سیاسی طور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 796 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء پر بعض صوبوں کے وزراء اعلیٰ مرکز سے صوبے کو ٹکر انے کی خاطر ان کی تائید میں باتیں کرتے ہیں.ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، فتنے پیدا ہو جاتے ہیں اور بعد میں وہ مرکز سے کہتے ہیں کہ آؤ جی ! ان سے نیٹو.یہ ان کے جائز اعتراضات ہیں یا شکایات ہیں ان کو آکر سمجھاؤ ہم تو بیچ میں ایک طرف بیٹھے ہیں.ایک طرف بیٹھنے کا مطلب کیا ہے.جس شخص کی جماعت میں لمبی تربیت ہوئی ہو جس کو نظام جماعت کا بھی تجربہ ہو، لمبا عرصہ سلسلہ نے اس پر محنت کی ہو اس کو اتنا نہیں پتا کہ جماعت کا مالی نظام ہے کیا اور جماعت کا مجلس شوری کا کیا نظام ہے اور جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہے.کس طرح یہ باتیں چلتی ہیں اور لاعلمی کا عذر تو قابل قبول ہی نہیں کیونکہ اتنی بار خطبات میں میں ان باتوں پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ لاعلمی سے مرا دسوائے اس کے کہ جہالت ہو اور کچھ نہیں کہا جاسکتا اور جہالت کا معنی کیا ہے وہ میں آگے جا کر مزید آپ کے سامنے کھولتا ہوں.ان معاملات میں لاعلمی کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ جس چیز سے کھیلا جا رہا ہے اس کی حرمت میرے نزدیک بہت بڑی ہے اور میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کہ جماعت کے مقدس عالمی نظام کو کسی طرح بھی آنچ پہنچنے دوں.عالمی نظام خواہ مالی ہو یا انتظامی ہو.دونوں جگہ مقدس ہے اور کسی حماقت کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ان معاملوں میں فتنے برپا کرے.اب صورت حال یہ بنتی تھی کہ مالمو کے متلعق دوسال سے ایک کیس Build ہو رہا ہے اور یہ اثر ڈالا کہ ساری جماعت اس میں شامل ہے ، ساری مجلس عاملہ شامل ہے کیونکہ ان کی تائید کی ہوائیں ہیں.آواز یہ اٹھ رہی ہے کہ آپ کی خاطر ، آپ کے حقوق کی خاطر یہ باتیں ہورہی ہیں اور مجھ سے اس بات کو مخفی رکھا جا رہا ہے حالانکہ یہ سارے جانتے ہیں اور بار بار میں بتا چکا ہوں کہ اگر کسی جگہ کسی احمدی کے دل میں خواہ وہ مجلس عاملہ کا نمبر ہے یا نہیں، عہد یدار ہے یا نہیں ، سلسلے کا مالی نظام یا کسی اور معاملہ میں کوئی شکایت ہو تو اس کا حق ہے اور بعض جگہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ بلا تاخیر مجھے اس کی اطلاع کرے لیکن طریق کار یہ ہے کہ دستور کے مطابق جو چینل بنی ہوئی ہے جو رستہ بنا ہوا ہے وہ اس کو اختیار کرے.مثلا اگر مقامی امیر کے خلاف شکایت ہے تو مقامی امیر کی وساطت سے اطلاع آنی چاہئے اور اگر کسی عہدیدار کے خلاف شکایت ہے تو اس کی وساطت سے آنی چاہئے ،اگر مرکزی امیر سے شکایت ہوتو اس کی وساطت سے آنی چاہئے لیکن ساتھ ہی بار بار میں یہ بات کھول چکا ہوں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 797 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء اگر آپ کو گھبراہٹ ہو، یہ وہم ہو کہ آپ کی شکایت پر کوئی بیٹھ رہے گا تو اس کی نقل براہ راست مجھے بھجوادیجئے نقل بھجوانے میں کوئی حرج نہیں.پھر میں دیکھوں گا کہ کس حد تک زیادتی ہوئی ہے یا نہیں ہوئی اور جماعت کا جو مالی نظام ہے یہ تو ایسا ٹھوس اور مضبوط اور سقم سے پاک نظام ہے کہ کبھی کسی افریقن ایشیائی ملک میں ایسا فتنہ نہیں پیدا ہوا.یورپ میں اس ملک کے سوا کہیں یہ فتنہ پیدا نہیں ہوا جماعت جرمنی بھی ہے.بہت بڑے بجٹ ہیں ان کا بجٹ تو اس کا بیسواں حصہ بھی نہیں بنتا بلکہ اس سے بھی بہت کم ہوگا لیکن بڑی بڑی جماعتیں مختلف جگہ اکٹھے گچھوں کی صورت میں موجود ہیں.فرینکفرٹ میں مرکز ہے اور ہمبرگ میں جماعتوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جس طرح ستاروں کا جھرمٹ ہوتا ہے اسی طرح وہاں اکٹھی ہوئی ہوئی جماعتیں ہیں.اسی طرح ساؤتھ میں ہائیڈل برگ اور اس سے نیچے میونخ کی طرف یہاں بھی کئی جگہ جماعتوں کے گچھے ہیں کبھی کسی فرد جماعت نے یا جماعت نے یہ نہیں کہا کہ جی ! فرینکفرٹ پر خرچ ہورہا ہے اور ہماری متناسب نمائندگی ہونی چاہئے اور ہمیں اس کے حقوق ملنے چاہئیں.ایک اور فرق جو جر منی کی جماعت اور اس جماعت میں ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے جرمنی کی جماعت کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کیا تو ساری جماعت نے بلا استثناء فورا بات کو سمجھا اور ایک زبان ہوکر ان باتوں سے نہ صرف بیزاری کا اظہار کیا بلکہ کامل طور پر آئندہ اپنے خلوص، اپنی وفا اور امارت سے اپنی وابستگی کے متعلق مجھے یقین دلائے.یہاں تک کہ جن باپوں کے متعلق شکایت تھی ان کے بیٹے گھروں کو لوٹے تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے باپ ہیں لیکن جو خلیفہ وقت کہہ رہا ہے وہ بالکل سچی بات ہے آپ کا قصور ہے.بیویوں نے خاوندوں پر یہ بات واضح کر دی کہ آپ کے حقوق اپنی جگہ لیکن جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے آپ کی غلطی ہے تو آپ اس کو بھگتیں گے اور اس معاملے میں ہمیں اپنے ساتھ نہیں پائیں گے.۲۰۱۵ ہزار کی جماعت ہے ایک واقعہ بھی نہیں ہوا کہ جس میں ادنی سی بھی بھی پائی گئی ہو اور جب لوگ کہتے ہیں کہ تم جرمنی کی جماعت کی محبت کی باتیں کرتے ہیں تو کیوں نہ کروں جو مسیح موعود کی جماعت سے محبت رکھتا ہے میں اس سے محبت کروں گا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اسلام اور مسیح موعود کی مقدس جماعت سے پیار کرنے والا ہو میرے دل میں اس کی قدر نہ ہو لیکن اس جماعت کی بدنصیبی کہ ۱۵ دن سے سمجھا رہا ہوں اور بار بار یہ اصرار ہے کہ ہم سے تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 798 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء کچھ نہیں ہوا.آپ کیا کہتے ہیں بغاوت؟ بغاوت! کیسی بغاوت؟ اور حلفاً بیان آرہے ہیں امیر صاحب کے کہ میں حلفا گواہی دیتا ہوں کہ آج تک مجلس عاملہ نے کبھی کوئی نظام سلسلہ کے خلاف باغیانہ بات نہیں کی اور آج ہر مجلس کے الگ الگ خط آ رہے ہیں کہ ہم حلفاً اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے باغیانہ باتیں ہوئی ہیں.جب سزا کا آخری قدم اٹھایا ہے تب ان کو ہوش آئی ہے تب ان کو سمجھ آنی شروع ہوئی ہے عجیب دماغی حالت ہے.پس فتنہ خواہ تقویٰ کے بحران کا ہو یا عقل کے بحران کا ہو عملاً ایک ہی چیز بن جاتا ہے.اسی لئے میں ہمیشہ زور دیا کرتا ہوں کہ عقل حقیقت میں تقویٰ کا دوسرا نام ہے سوائے اس کے کہ کسی کو ذہنی صلاحیتیں عطا نہ ہوئی ہوں.وہ الگ مسئلہ ہے لیکن اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جانا چاہتا.میرے ذہن میں یہ بات خوب روشن ہے کہ ان دونوں کے اندرونی تعلقات کیا ہیں لیکن بیرونی نظر سے عمومی طور پر دیکھا جائے تو عقل اور تقویٰ ایک ہی چیز کے دو نام قرار دئیے جاسکتے ہیں اور جہاں تک فتنوں کا تعلق ہے میں نے اس مضمون پر غور کیا تو حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ پر دل سے بے حد درود نکلے کہ کتنی گہری باتیں کتنی دیر پا باتیں ہماری ہدایت کے لئے آپ بیان فرما گئے ہیں اور جب قرآن کریم کی روشنی میں ان کو حل کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہی اصول جو دنیاوی معاملات میں کارفرما ہیں وہی روحانی دنیا میں بھی اسی طرح کارفرما ہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ کادالفقران يكون كفرًا( حوالہ حدیث ) کہ دیکھو! میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں.ہرگز بعید نہیں ہے کہ غربت کفر میں تبدیل ہو جائے اب غربت سے کیا مراد ہے؟ دولت سے کیا مراد ہے؟ اگر مادی لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کی غربت بھی کفر میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اشتراکیت کے پیدا ہونے کے متعلق اس میں ایک بہت گہری پیشگوئی تھی.کادالفقران يكون كفراً کا اطلاق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر تو نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہاں تو یہ عالم تھا کہ جتنا غریب تھا اتنا ہی زیادہ شیدائی، اتنا ہی زیادہ عاشق اور اصحاب الصفہ نے تو وہ روایات قائم کر دی ہیں جو مذہب کے آسمان پر ہمیشہ چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح جڑی رہیں گی اور کوئی نہیں جو ان کے نور کو کم کر سکے.غریب سے غریب ، ادنیٰ سے ادنی آدمی جس کو کچھ بھی استطاعت نہیں تھی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ایسے ولولے رکھتا تھا کہ ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 799 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۹۱ء صلى الله موقعہ پر جب آنحضرت ﷺ نے تحریک فرمائی اور بعض ایسے ہی اصحاب الصفہ تھے جن کے پاس کچھ نہیں تھا انہوں نے کلہاڑے پکڑے یا عاریہ لئے جنگل میں نکلے ہلکڑیاں اکٹھی کیں اور واپس آکر بیچیں جو کچھ ہاتھ آیا وہ خدمت دین میں پیش کر دیا.تو یہ بات ہمیشہ میرے پیش نظر رہی کہ لازماً اس صلى الله میں کوئی پیشگوئی ہے ورنہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے غریبوں پر تو یہ اطلاق نہیں پارہی اس زمانے کا جو فقر تھاوہ نو رایمان میں بدلا ہوا تھا اور کان کا لفظ بتارہا ہے کہ اس کے اندر تنبیہ ہے جو مستقبل سے تعلق رکھتی ہے اور بعض احتمالات سے تعلق رکھتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ رسول صلى الله اللہ ﷺ نے ان غرباء میں کوئی کفر کی باتیں دیکھی تھیں.مراد یہ تھی کہ وہ غرباء جو محد رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ نہ ہوں ان کے لئے خطرہ ہے جو نو رنبوت کے نیچے نہیں پلتے ان کے لئے خطرہ ہے کہ ان کا فقر کفر میں تبدیل نہ ہو جائے.اور دوسرے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آئندہ کے زمانے کے متعلق یہ ایک بنیادی اصول بیان ہوا تھا کہ جو تو میں اپنے غریبوں کا فکر نہیں کرتیں ان کے غریبوں کی غربت بالآخر دہریت پر منتج ہو جایا کرتی ہے.پھر وہ خدا کے خلاف ہو جاتے ہیں ، باغی ہو جاتے ہیں اور اشتراکیت کے عروج نے جو اس صدی کے آغاز میں شروع ہوا بعینہ وہ منظر پیش کیا ہے لیکن گزشتہ صدی میں اس کی بنیادیں رکھی جارہی تھیں اور وہ بھی بعینہ اسی اصول پر کہ غربت کفر میں تبدیل ہو رہی تھی.پہلے غربت کے اثرات کے نتیجہ میں دہریت کا ایک فلسفہ وجود میں آیا ہے.پھر اس کے نتیجہ میں مارکس ازم، لینن ازم پیدا ہوئے ہیں.دوسری طرف جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یوتی الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوْتِ خَيْرًا كَثِيرًا (البقره:۲۷۰) اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جو شخص بھی حکمت دیا جائے ، جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حکمت عطا کی جائے.اسے گویا خیر کثیر عطا ہو گئی یعنی اسے زرکثیر عطا کیا گیا، کثرت سے مال دے دیا گیا.تو حکمت کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں زرکثیر کے طور پر پیش کیا.گویا حکمت کی کمی غربت ہے اگر حکمت کثرت مال پر دلالت کرتی ہے.یہ بالکل ایک دوسرے کا بر عکس ہیں اور بعینہ یہ مضمون دونوں جگہ صادق آتا ہے اگر حکمت مال ہے تو حکمت کی کمی غربت ہے اور حکمت کی کمی بھی لازماً کفر میں تبدیل ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے.چنانچہ اس مضمون کو سمجھنے کے بعد اس محاورے کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 800 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء سمجھ آجاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے کے زمانے کو جاہلیت کا زمانہ کہتے ہیں کفر کا زمانہ نہیں کہتے.جاہلیت کے اندر ایک مخفی کفر ہے.جاہلیت کفر میں اس وقت تبدیل ہوتی ہے جب دوٹوک حکم نازل ہو جاتا ہے کہ یہ کرنا ہے یا وہ کرنا ہے.اس وقت جاہلیت کے اندر دبا ہوا کفر سر اٹھاتا ہے اور انکار کردیتا ہے.پس یہ بہت ہی عظیم اصطلاح ہے جو قرآن کریم نے استعمال فرمائی کہ آنحضرت کے زمانے سے پہلے کو جاہلیت کا زمانہ قرار دیا یعنی روحانی لحاظ سے انتہائی غربت کا زمانہ فقر اور فاقوں کا زمانہ اور وہی عقلی فقر تھا جو کفر میں تبدیل ہو گیا.پس مجھے اس سے بحث نہیں ہے کہ یہ فتنے پیدا کہاں سے ہوئے تھے.براہ راست تقویٰ کا قصور تھا یا عقل کا قصور تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کر دیا ہے.ہمیں یہ تو حق نہیں دیا کہ کسی کے دل میں اتر کر اس کی نیتوں پر حملہ کرومگر یہ حق بھی دیا اور پہچان بھی دی کہ جہاں نیتوں کے نتائج بے وقوفی پر منتج ہوں ، سخت حماقتوں کی صورت میں ظاہر ہورہے ہوں وہاں تمہیں حق ہے کہ کہو کہ ان باتوں کا تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کفر کی باتیں ہیں.پس جدھر چاہو کروٹ بدلو.خواہ اپنے تقویٰ کی کمی کا قصور تسلیم کر دیا عقل کی کمی کا قصور تسلیم کر ظلم بہت بڑھا ہوا ہے اور اب زبانی طور پر یا تحریری طور پر کہہ دینا جی !ہم تو جاہلیت کی غلطیاں کرتے تھے معاف کر دینا.یہ سرسری باتیں ہیں.اس طرح یہ حل ہونے والی نہیں ہیں.ان کے متعلق مزید تحقیق ہوگی اور معین فیصلے کئے جائیں گے لیکن یہ فیصلہ تو بہر حال کیا جا چکا ہے کہ جس نے اپنے چندے کو قے بنادیا وہ تو اب خدا کی طرف واپس نہیں لوٹے گی.وہ تو آپ کی جیبوں کو زیب دے گی اور سلسلے کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے.تمام دنیا کی جماعتوں کو اس سے نصیحت پکڑنی چاہئے.نظام جماعت میں کسی ناانصافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.جب ہر فرد کو یہ حق ہے اور بعض جگہ جیسا کہ میں نے بیان کیا فرض ہے کہ وہ خلیفہ وقت سے ہر وقت براہ راست تعلق قائم کر سکتا ہے اور لوگ جب اپنی ادنی ادنی باتوں میں کرتے ہیں تو نظام جماعت میں کیوں مجھ پر رحم کرتے ہیں.کسی کی بہو ناراض ہوگئی کسی کا بیٹا روٹھ گیا ،کسی کے بچے کو فلاں لت لگ گئی وہ اطلاعیں مجھے دینے میں سمجھتے ہیں میرا حرج کوئی نہیں ہے لیکن جب نظام جماعت میں رخنہ پیدا ہورہا ہو تو کہتے ہیں ہم اس لئے نہیں بتارہے تھے کہ آپ کو تکلیف نہ پہنچے.یہ بھی نیت کا فتور ہے یا وہی کہنا چاہئے کہ یا نیت کا فتور ہے یا پھر عقل کا فتور ہے.دونوں صورتوں میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 801 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء نتیجہ وہی نکلے گا کہ بات کفر کی بن جائے گی.اب میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ صاحب جن کے دور میں یہ سب کچھ ہوا ہے بہت ہی ہوشیار آدمی ہیں.بڑی محنت کے ساتھ سلسلے کے کام بھی کئے.بچوں کو پڑھایا ، بڑوں کے دل جیتے اور ان کی تائید میں باتیں ہوتی رہیں اور مطالبے سارے ایسے ہیں جو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری خاطر ہیں اور ساتھ ہی مسلسل اپنا دامن بچاتے رہے کہ جی! میں نے تو یہ اطلاع امیر صاحب کو کر دی ہے اور امیر صاحب بڑے تجربہ کار ہیں، وہ بڑے سمجھ دار آدمی ہیں وہ آپ کو خود بتا دیں گے اور سمجھ لیا کہ میں تو دونوں طرف سے بری الذمہ ہوں.یہ بھی ایک سوچا جا سکتا تھا مگر میں یہ نہیں سوچتا.دماغ میں یہ احتمال پیدا ہوا بھی ہے لیکن یہ احتمال میں زبردستی رد کرتا ہوں کیونکہ اس صورت میں مجھے ہر قدم پر اس کی نیت پر حملہ کرنا پڑے گا لیکن بے وقوفی اس حد تک کہ ان سب باتوں کے متعلق علم ہونا چاہئے جو جامعہ کے ایک بچے کو بھی علم ہونا چاہئے کہ یہ باتیں نظام سلسلہ کے خلاف ہیں.ان پر اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی بجائے اس ذمہ داری کو اپنے افسر بالا کی طرف انسان منتقل کرتا چلا جائے اور اس پر خاموش بیٹھا ر ہے اور جماعت میں ہر دلعزیز رہے.یہ بہت خطرناک بات ہے اگر یہ بے وقوفی کا فتنہ ہے تو بہت ہی سخت فتنہ ہے.ایسا مبلغ جو قابل اعتراض باتوں پر ٹو کتا ہو اور سختی سے آگے مقابلہ کرتا ہو وہ ہر دلعزیز نہیں رہ سکتا اس کے خلاف باتیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.ساری جماعت اس کی تائید میں ہو کہ جی ! بہت ہی بہترین خدمت کرنے والا ہو اور باتیں یہ کر رہی ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی قصور کہیں واقعہ ہوا ہے.جماعت تو اس حد تک پکڑے گی جس حد تک بے وقوفی کے نتائج سامنے آئیں گے.اگر نیت کا بھی فتور ہے تو جماعت کی پکڑ پر معاملہ ختم نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ کی پکڑ جاری رہے گی کیونکہ وہ نیتوں کی کنہہ تک پہنچتا ہے اور پھر اس سلسلے کو جاری رکھتا ہے جب تک کہ اس شخص کی نیتیں کڑوے پھل بن کر اس کے سامنے ظاہر نہیں ہو جاتیں اس لئے نیتوں کے معاملے میں مجھ سے معافی نہ مانگیں.نہ میں اس میں دخل دیتا ہوں.نہ مجھے معافی کا حق ہے.خدا سے معافی مانگیں اور اپنے آپ کوٹو لیں.مجھ پر الزام بے شک لگائیں کہ ضرورت سے زیادہ سختی کی ہم تو سادگی میں باتیں کرتے تھے.مجھے اس الزام کی کوئی پرواہ نہیں ہے.میں جماعت کو کسی فتنے میں ملوث نہیں ہونے دوں گا اور تازندگی یہ میرا عہد ہے کہ خدا کی قسم! میرا ذرہ ذرہ بھی اس راہ میں فنا ہو جائے ،ساری
خطبات طاہر جلد ۱۰ 802 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۹۱ء دنیا مجھ پر لعنتیں ڈالے مگر میں خدا کی لعنت کو قبول نہیں کر سکتا اور جہاں تک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس نظام کا تعلق ہے اس کی حفاظت میں ہمیشہ سینہ سپر رہوں گا.آپ بھی میرے لئے دعا کریں اور اپنے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اجتماعی رنگ میں اس عہد کو تا دم آخر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک بات جس کا میں نے کہا تھا میں بعد میں ذکر کروں گا وہ میرے ذہن سے اتر گئی تھی.یہ جو فرضی کہانی ہے کہ ۴ لاکھ کے قریب جماعت سویڈن کا چندہ ہے اور اس میں سے ایک لاکھ بھی مالمو پر خرچ نہیں ہوتا.اس کا Break Down اب میں آپ کو بتا دیتا ہوں تا کہ یہ بتاؤں کہ ان میں سے کسی نے اتنی بھی عقل نہیں کی کہ دیکھ تو لیں کہ واقعاتی طور پر حقائق کیا ہیں.اعداد و شمار کیا ہیں.سویڈن کی جماعت کا چندہ گزشتہ سال سے گر رہا ہے.یہ بھی میرا خیال ہے ان باتوں کی ہی نحوست ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور ۴ لاکھ تک کبھی بھی نہیں پہنچا.سارے شامل کر کے بھی نہیں پہنچا.جماعت کے خرچ کو چلانے کے لئے مرکز اپنے حصہ سے جو حصہ مرکز کہلاتا ہے.جس کا تعلق خالصہ مرکز کے فیصلے پر ہے جس جگہ چاہے خرچ کرے.اس ملک میں کرے.دنیا میں کہیں اور کرے اور اس ملک کا تعلق نہیں رہتا.اسے اگر شامل بھی کر دیا جائے یعنی ابھی نکالا نہ جائے تو کل چندہ جو جماعت مالمو نے ادا کیا تھا وہ سال ۹۰-۹۱ء میں ایک لاکھ ۶۱ ہزار ۴۰۸ کرونہ تھے.اس میں سے حصہ مرکز جس کا مقامی طور پر کوئی حق نہیں ہوتا.اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ ۶۰ ہزار ۶۴۴ ہے.گویا انہوں نے لازمی چندہ جات تحریک جدید، وقف جدید وغیرہ میں جو کل ادا کیا وہ ایک لاکھ ۷۶۴ کرونہ تھا.اب اس کو یا درکھ لیجئے.سارے سال میں وہ چندہ اگر ۱۰۰ فیصدی ان کی جماعت پر خرچ کیا جائے تو ایک لاکھ ۶۴ے بنتا ہے.اس کے مقابل پر سال ۹۰-۹۱ ء میں مالمو پر خرچ ایک لاکھ ۳۸ ہزار ۳۰۳ تھا اور اس کے علاوہ مرمت مشن کے لئے ۴۰ ہزار کرونزا الگ مرکز نے دیا گویا ایک لاکھ ۷۸ ہزار ۳۰۳ ان پر خرچ ہوا.ان کی طرف سے کل چندہ ایک لاکھ 41 ہزار ادا کیا گیا.حصہ مرکز نکالا جائے جیسا کہ ہر جگہ سے نکالا جاتا ہے تو پیچھے ایک لاکھ ۷۶۴ ان کا حصہ ہے.ایک لاکھ ۷۸ ہزار ان پر خرچ ہو رہا ہے اور ابھی مانگ رہے ہیں کہ باقی ہمارا واپس کرو.وہ کونسا باقی ہے؟ کہاں سے آیا یہ تو ویسی بات ہے جیسے ایک اندھے کے ساتھ مل کر کسی نے حلوہ کھایا تھا تو تھوڑی دیر کے بعد اند ھے کو خیال آیا کہ یہ آنکھوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 803 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء والا ہے تیز نہ کھا رہا ہو اس نے تیزی سے شروع کر دیا اور پھر خیال آیا کہ ہوسکتا ہے وہ دو ہاتھوں سے کھا رہا ہو مجھے کیا پتہ ہے.اس نے دو ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر خیال آیا کہ میں اندھا ہوں مجھے کیا پتہ ہوسکتا ہے کوئی اور تدبیر کر رہا ہوتو حلوہ اٹھا کر ایک طرف بیٹھ گیا کہ باقی میرا حصہ ہے تو مالمو کی جماعت کا اندھا پن تو اس مقام پر پہنچ گیا ہے.دیکھا ہی نہیں کہ ہم کتنا دیتے ہیں.کتنا ہم پر خرچ ہو رہا ہے اور آپ باقی اٹھانے کی فکر میں ہیں کہ جی! جو کچھ مرکز والے اور سارے ہمارا کھا چکے ہواب باقی ہمارا حصہ ہمیں واپس کر دو.عقل کی کمی ، تقویٰ کی کمی یہ دونوں طرح جہالت ہے اور نتیجہ وہی اندھیرا ہے جس اندھیرے سے اسلام بدنصیبوں کو نکال کر روشنی میں لے کر آیا تھا اور دلوں کے ٹیڑھے پن پھر لوگوں کو واپس انہی اندھیروں میں لے کر چلے جاتے ہیں.ساری عالمی جماعت کو اپنے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ۱۳۰۰ سال کے بعد جس روشنی کو دوبارہ ثریا سے کھینچ کر نیچے اتارا ہے اور جو محد رسول اللہ لے کے نور کی روشنی ہے کبھی بھی دوبارہ قیامت تک اٹھنے نہیں دیں گے چمٹے رہیں گے.جان بھی جائے گی تو اس کو جانے نہیں دیں گے.ان اندھیروں کو کبھی قبول نہیں کریں گے.ان کے سایوں کو بھی کبھی قبول نہیں کریں گے جن کو جاہلیت کے اندھیرے کہا جاتا ہے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 805 خطبہ جمعہ اا/اکتوبر ۱۹۹۱ء جماعت کو جو مال دیا جاتا ہے اس پر دینے والے کا کوئی حق نہیں رہتا.پاک نیت سے چندے دیں.( خطبه جمعه فرموده ۱۱ راکتو بر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج میں دو تین متفرق امور سے متعلق جماعت سے کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں سب سے پہلے تو گذشتہ خطبے کے مضمون کو دوبارہ از سرنو چھیڑنا ہے.وہ فتنہ جو مالمو میں پیدا ہوا جس کی بروقت سرزنش کی گئی اس سلسلہ میں ایک دو وضاحتوں کی ضرورت ہے.میں نے یہ کہا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے چندہ دیا اور پھر مانگا ان پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی فرمودہ یہ مثال صادق آتی ہے کہ تحفہ پیش کرنے والا اگر اس کی واپسی کا خیال کرے تو ایسا ہی ہے جیسے قے کر کے اسے دوبارہ چائے ( مسلم حوالہ....اور یہ ایسی مکروہ چیز ہے جو انسانی تعلقات میں بھی قابل قبول نہیں ، کجا یہ کہ خدا کے تعلق میں انسان یہ وہم بھی کر سکے کہ خدا کے حضور کچھ پیش کر کے اسے واپس مانگا جائے.چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں میں نے اس معاملہ کی کراہت کو ظاہر کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ اس رقم کا واپس کرنا ہی بہتر ہے لیکن اس ضمن میں بعض اور سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بعض فتنوں کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں اس لئے ان کی پیش بندی کے لئے میں اس معاملہ کو دوبارہ چھیڑ رہا ہوں.مضمون اپنی ذات میں درست ہے.ایسے شخص کے متعلق کراہت کا اظہار اس سے بہتر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 806 خطبہ جمعہ ارا کتوبر ۱۹۹۱ء الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی چندہ دینے والا بعد میں اس عذر کو سامنے رکھ کر یا کسی اور عذر کی بناء پر چندے کی واپسی کا مطالبہ کرے ایسی صورت میں جماعت پر نہ واپسی فرض ہے ، نہ اس کا کسی قسم کا حق ہے نہ وہ کوئی قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے.کئی مرتدین نے یہ قسمت آزماد دیکھی ہے لیکن عدالتوں نے ان کے اس موقف کو رد کر دیا ہے اس لئے جہاں تک اس کا تعلق ہے جسے چیز دی جائے اس کا اس چیز کو واپس کرنا ضروری نہیں کیونکہ واقعہ اس تک تے نہیں پہنچتی ، چاٹنے والے کے لئے قے ہے اور اس معاملہ میں غالباً میں نے جو تشریح کی تھی اس کو ضرورت سے زیادہ ممتد کر دیا تھا زیادہ کھینچ دیا تھا جو درست نہیں تھا.چندہ خواہ گندی نیت سے دیا جائے یا ریا کاری سے دیا جائے یا کسی اور مکروہ بات کے ساتھ دیا جائے جب ایک دفعہ سلسلہ کومل جاتا ہے تو خدا کے نزدیک اس کا مکروہ فعل اس کی طرف لوٹایا جاتا ہے لیکن روپے کا لوٹنا ضروری نہیں ہے اس لئے خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے.جو چندہ سلسلے کو ایک دفعہ پیش کیا جائے پیش کرنے والا چاہے کیسی ہی مکروہ نیت سے پیش کرے اسے مانگنے کا حق نہیں ہے.اگر وہ مانگتا ہے تو اس کے اوپر قے والی مثال صادق آتی ہے.باقی اس کے باوجود میں نے اس کی واپسی کا فیصلہ کیوں کیا؟ تو دراصل اس کے پیچھے سزا کا مضمون ہے.حق کے طور پر واپس نہیں کیا جارہا بلکہ سزا کے طور پر کیونکہ ایک احمدی مخلص کے لئے اس سے بڑی سزا کم ہوگی کہ اس کا چندہ اسے لوٹا دیا جائے اور آئندہ کے لئے اسے چندہ دینے سے محروم کر دیا جائے.کل ایک ملاقات کے دوران جس میں یوگوسلاویہ کے کچھ دوست تشریف لائے ہوئے تھے.ایک سیاسی راہنما جو جماعت میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ، ان کو مالی نظام کی بحث میں جب میں نے یہ بتایا کہ ہم چندہ دینے والے کو جو زیادہ سے زیادہ سخت سزا دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسے چندہ واپس کردیں یا اسے کہیں کہ آئندہ تم سے چندہ نہیں لیا جائے گا.اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے تو حیرت کے ساتھ ان کے منہ پھٹے کے پھٹے رہ گئے.انہوں نے کہا یہ سزا ہے؟ دنیا میں تو کسی کو Tax واپس کریں تو وہ تو چھلانگیں لگائے ، گھروں میں ناچ گانے ہوں کہ شکر ہے ہمارے پیسے واپس ہو گئے یہ عجیب جماعت ہے جس کی سزا یہ ہے کہ پیسے واپس کر دئیے جائیں.تو دراصل پچھلے خطبہ میں ہی کھول کر مجھے یہ سمجھا دینا چاہئے تھا کہ جماعت واپسی کی ذمہ دار
خطبات طاہر جلد ۱۰ 807 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء نہیں ہے.اگر قے بھی ہے تو معنوی لحاظ سے اس کے لئے قے ہے جو مانگتا ہے مگر جور و پید ایک دفعہ سلسلے کو دے دیا جائے اس کو واپس لینے کا کوئی حق نہیں ورنہ مالی نظام درہم برہم ہو جائے گا.چندہ واپس کر دینا یا آئندہ نہ لینا اس کی سند الگ احادیث میں موجود ہے اور ایسے اقدامات ہمیشہ سزا کے طور پر کئے گئے ہیں نظام جماعت میں بھی تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ ناراضگی اور سزا کے اظہار کے طور پر ایسا کیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی بات ہے کہ اس طرح سزا کے نتیجہ میں ایک شخص ساری زندگی عذاب میں مبتلا رہا لیکن پھر بھی اس سے روپیہ وصول نہیں کیا گیا.تو یہ مضمون در اصل اس حکمت سے تعلق رکھتا ہے اسے دوسرے امور پر کھینچ کر اس کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے.دوسری بات وضاحت طلب یہ ہے کہ مجلس عاملہ نے ایک بات کی ،اس کی سزا جماعت کو کیوں ملے؟ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ بعض دفعہ جب ایک قوم کے راہنما کوئی خطرناک غلطی کرتے ہیں تو قوم بھی اس کے ساتھ سزا پاتی ہے.اہل مدینہ میں سے ایک بد بخت نے آنحضرت ﷺ پر اعتراض کیا تھا اور اس کے نتیجہ میں جب آنحضور ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تو اہل مدینہ ذبح کئے ہوئے جانوروں کی طرح تڑپ رہے تھے اور بار بار عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ! ہمارا قصور نہیں.ہم نے تو نہیں کہا.اس بدبخت نے کہا ہے مگر آنحضو ر ہے اس ناراضگی کے اظہار میں رکے نہیں.پس بعض دفعہ کسی قوم کی بدنصیبی ہے کہ اس کے راہنما، اس کے چنیدہ لیڈر ایسی بدبختی کی بات کر دیں جس کا آزار سب کو پہنچے اور سب کو اس سے تکلیف ہو لیکن یہ ایک ایسی تکلیف ہے جس میں صرف وہ لوگ شریک نہیں ہیں جن کے خلاف فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ خود میں بھی شریک ہوں کیونکہ میرے لئے ایسے احمدیوں کے متعلق جو کسی رنگ میں بھی اس معاملہ میں ملوث نہ ہوں یہ فیصلہ کرنا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ان کا چندہ لوٹا یا جائے.چنانچہ گزشتہ ایک ہفتہ بہت تکلیف کی حالت میں بار بار دعا بھی کی ، استغفار بھی کیا اور وہاں سے آئے ہوئے احتجاجات کا بھی مطالعہ کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ باقی جماعت میں سے جن کے متعلق یہ علم ہو کہ ان کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا ان کے اوپر اس فیصلہ کا اطلاق نہیں ہوگا.ان کے لحاظ سے یہ فیصلہ منسوخ ہے لیکن یہ ہے تعجب انگیز بات کہ ساری عاملہ ایک بات پر متفق ہو اور بار بار اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتی ہو اور اس وقت کا صدر ر پورٹوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 808 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء میں یہ لکھتا ہو کہ ساری جماعت کے یہی خیالات ہیں اور اس کے باوجود خطوط یہ ملیں کہ ہمارے خواب و خیال میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی نہ کبھی ہم نے سنی تو عجیب سی عاملہ تھی جو انتہائی خفیہ سازش کے طور پر بند کمروں میں باتیں کرتی تھی اور جماعت کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی.تعجب انگیز ہے لیکن ہمارا یہ حق نہیں ہے کہ اس کے باوجود کوئی شخص حلفاً یا کھلے کھلے اقرار کے ساتھ یہ بات کہے کہ میرے علم میں یہ بات نہیں تھی اس لئے میں نے احتجاج نہیں کیا تو ہم اس پر بھی یہ سزا عا ئد رکھیں اس لئے میں یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ وہ سب احباب جماعت مالموجن کے علم میں یہ بات نہیں آئی یا وہ مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شامل نہیں تھے اور بالعموم ان کا رجحان اس قسم کا نہیں ہے ان کو بھی سزا سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے.ایک اور بات یہ کہ اگر دنیا پر یہ تاثر پڑا ہے کہ مالمو کی ساری جماعت نعوذ باللہ گندی ہے تو یہ درست نہیں ہے.میں نے پہلے بھی کہا تھا بہت سے مخلصین ہیں.بہت سے ایسے نو جوان ہیں جن کے اخلاص میں کوئی شک نہیں.جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انتہائی کراہت کے ساتھ انہوں نے دیکھا اور اپنے رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کی اور بلا دھڑک ان امور کے خلاف جذبات کی بڑی شدت کے ساتھ احتجاج کیا ہے.تو بعض لوگوں کی غلطی سے بعض دفعہ سزا تو ایک رنگ میں سب کو ہی ملتی ہے لیکن ہر ایک کا مجرم ہونا ضروری نہیں ہے اور قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک اور جگہ کھولا ہے کہ اس دن کے عذاب سے ڈرو جب معصوم بھی ساتھ پیسے جائیں گے.تو بعض تکلیفیں ہیں وہ ہر ایک کو پہنچتی ہیں.یہ ایک قانون قدرت ہے بعض اس قسم کی تکلیفیں ہیں جن میں معصوم بھی ساتھ پیسے جاتے ہیں لیکن غلطیاں بعض کی ہوتی ہیں لیکن سزا کے لحاظ سے وہ عقوبت کے مستحق اور سزا وار نہیں ہوتے.یہ سزا ایک طبعی قانون کے طور پر چلتی ہے مگر یہ کہ نعوذ باللہ خدا ان سے ناراض ہو یہ بات درست نہیں اس لئے کثرت سے ایسے لوگ وہاں ہوں گے جن سے خدا ناراض نہیں جن کے تقویٰ کے متعلق کوئی شک نہیں ، جو اخلاص کے ساتھ سلسلہ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان سب کو بحیثیت جماعت مالمو کے رد کر دینا یا ان کو مطعون کرنا یہ درست نہیں ہے.علاوہ ازیں سویڈن میں بھی بحیثیت جماعت بڑی بڑی قربانی کرنے والے لوگ ہیں.ماشاء اللہ گوٹن برگ سے جماعت مالمو نے ایک قسم کی رقابت کا مضمون شروع کر رکھا تھا وہاں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 809 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء ایسے دوست بھی ہیں جنہوں نے اکیلے پورے قرآن کریم کی اشاعت کا خرچ دیا اور بڑی خاموشی کے ساتھ ایک یورپین مشن کے لئے ایک ہی فرد واحد نے بہت بڑی رقم پیش کی ہے یعنی ایک لاکھ پاؤنڈ کے قریب اور اشارہ بھی یا کنایہ بھی اس بات کو انہوں نے کسی پر ظاہر نہیں کیا.نہ مجھے کہا ہے اس کو ضبط تحریر میں لایا جائے اور میرا نام ظاہر کیا جائے تو بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی ہر جماعت بڑے عظیم الشان مخلصین سے بنی ہوئی ہے اور ایسی جماعت نہیں ہے جسے جماعت کے طور پر نعوذ بالله من ذلك رد کیا جائے.پس مالمو کی جماعت کو بھی اگر تکلیف پہنچی ہے تو لازماً پہنچنی تھی کیونکہ مجلس عاملہ ایک بہت بڑی نمائندہ حیثیت رکھتی ہے.وہاں سالہا سال سے ایسی بے ہودہ باتیں ہورہی ہوں تو لاز ما ساری جماعت کے لئے سخت شرم کی بات ہے اور ایسا معاملہ ہے کہ انہیں استغفار کرنا چاہئے مگر بیرونی دنیا کی جماعتوں کو میں سمجھا رہا ہوں کہ وہ نعـوذ بــالــلــه من ذالك اسے جماعت مالمو کے لئے طعن و تشنیع کا موجب نہ بنائیں.اگر ان کے رشتے دار وہاں ہیں تعلق والے ہیں تو ان کو یہ حق نہیں ہے کہ اس ناراضگی کے اظہار کے نتیجہ میں وہ ان کو کسی قسم کے طعنے دیں یا کسی رنگ میں گھٹیا سمجھیں.اس وضاحت کے بعد ایک اور ہدایت ساری دنیا کی جماعتوں کو یہ دینی چاہتا ہوں کہ جہاں تک میں نے جھگڑوں اور فتنوں کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے ایک سبب ہر جگہ موجود دکھائی دیا ہے کہ جب بھی کوئی بد اخلاق آدمی مجلس عاملہ میں آجائے تو اس سے ضرور فتنے پیدا ہوتے ہیں.ایسا شخص جس کی زبان میں تیزی ہے جو طبعا بد خلق آدمی ہے اور پر واہ نہیں کرتا کہ اس کی بات سے کسی کا دل کرتا ہے.اپنے ساتھی کے ساتھ ادب اور احترام سے گفتگو کرنے کی بجائے کڑوی بات پتھر کی طرح مارتا ہے.بعض لوگ اس کا نام سچائی قرار دیتے ہیں کہ دیکھو جی ! ہم تو سچی بات کریں گے.ہم تو رکھیں گے نہیں.یہ سچی بات نہیں ہے یہ بدتمیزی ہے.سچ بولنے میں اور سچ بولنے میں فرق ہوا کرتا ہے.ایک با اخلاق انسان بیچ بات کہتا ہے مگر حتی المقدور کوشش کے ساتھ کہ کسی کو دکھ نہ پہنچے اور جو سچ کے نام پر بدتمیزیاں کرتے ہیں وہ بچے ہوتے بھی نہیں ہیں.یہ بھی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب ان کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سچ کے نام پر بڑے بڑے جھوٹ بول جایا کرتے ہیں.بدخلق انسان سے بچیں اور چونکہ مجالس عاملہ کا انتخاب جماعت کرتی ہے اس لئے جماعت کو اپنے انتخاب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 810 خطبہ جمعہ ارا کتوبر ۱۹۹۱ء کے وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے.جو شخص اپنی روزمرہ کی گفتگو میں با ادب نہیں ہے اور زبان کا کرخت ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر بھڑک اٹھتا ہے ایسے شخص کو اگر آپ مجلس عاملہ میں منتخب کر کے لائیں گے تو اس مجلس عاملہ کا تقدس باقی نہیں رہے گا اور اس کے نتیجے میں صدر یا امیر یا دوسرے عہد یداروں کے لئے بھی شرمندگی کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور ساری جماعت کو بھی وہ فتنوں میں ملوث کر سکتا ہے.امرائے جماعت کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ جائزہ لیں اگر ان کی عاملہ میں یا ان کے ماتحت جماعتوں کی عاملہ میں کوئی بد خلق لوگ داخل ہو گئے ہیں تو مجھے لکھیں تاکہ پیشتر اس سے کہ کوئی فتنہ پیدا ہو، وہ خود ابتلاء میں پڑیں یا دوسروں کو ابتلاء میں ڈالیں ان کو ان عہدوں سے سبکدوش کر دیا جائے.اگر مجالس عامله با اخلاق، با ادب با تمیز افراد جماعت پر مشتمل ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسی مجالس کو فتنوں کا ڈر نہیں ہوا کرتا.اب میں ایک اور مضمون کو مختصر بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے صد سالہ جو بلی کے تشکر کے طور پر ایک تحریک کی تھی جس کا ابتداء نام ”صد سالہ جو بلی فنڈ برائے افریقہ وانڈیا' رکھا گیا تھا.یہ تحریک جولائی ۱۹۸۹ء میں ہوئی تھی.اس پر بعض ممالک کی طرف سے مجھے توجہ دلائی گئی کہ آپ صرف افریقہ وانڈیا کیوں رکھتے ہیں؟ ضرورتمند اور پسماندہ لوگ جہاں بھی دنیا میں ہیں ان کے لئے اس تحریک کو عام کر دینا چاہئے اس لئے اس کا نام تبدیل کر دیا جائے.وہ غالباً میرے مقصد کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے تھے.یہ غرباء اور ضرورتمندوں کی امداد کے لئے نہیں تھی بلکہ ایسے علاقوں میں خصوصی توجہ کرنے کی خاطر تھی جہاں خدا کے فضل سے احمدیت کے نفوذ کے بہت روشن امکانات پیدا ہورہے تھے اور ظاہر ہو رہا تھا کہ تھوڑی سی توجہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے توقع سے بہت بڑھ کر نتائج ظاہر ہورہے ہیں.اس پہلو سے یہ تحر یک اگر ہندوستان اور افریقہ کے لئے کی گئی تھی تو حکمت اس کے پیش نظر یہی تھی جو میں نے بیان کی ہے لیکن بعض لوگوں کے اصرار کے نتیجہ میں اس کا نام پھر تبدیل کر دیا گیا.اب مجھے یاد نہیں کہ نیا نام کیا تجویز ہوا تھا لیکن اب اس تحریک کے اندر انشاء اللہ اسی حکمت کے پیش نظر U.S.S.R کے علاقے بھی شامل ہو جائیں گے کیونکہ وہاں بھی بہت تھوڑی توجہ کے نتیجہ میں بہت زیادہ پھل لگ رہے ہیں اور اس کثرت کے ساتھ U.S.S.R کے باشندے جماعت کے پیغام سے متاثر ہوتے اور لبیک کہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 811 خطبہ جمعہ ارا کتوبر ۱۹۹۱ء وقت ہے کہ بڑے زور کے ساتھ اور بڑی تیزی کے ساتھ U.S.S.R کے باشندوں کو بھی احمدیت کا پیغام کثرت سے دیا جائے تو اس لحاظ سے نام کی تبدیلی ایک رنگ میں تو بہتر ہے کہ جو ایسے اور علاقے بھی پیدا ہوتے رہیں گے وہ بھی شامل ہوتے جائیں گے.چندے کی جو میں نے تحریک کی تھی وہ اس وقت کے سٹرلنگ کی قیمت کے لحاظ سے ۵ کروڑ پاکستانی روپے یعنی تقریباً ایک ملین پاؤنڈ کی تحریک کی تھی لیکن جہاں تک جماعت کے لبیک کہنے کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈیڑھ ملین کے وعدے موصول ہوئے اور ان وعدوں کے علاوہ بعض ایسی رقمیں بھی موصول ہوئیں جو وعدوں میں شامل نہیں ہیں.مثلا بعض احباب جو براہ راست مجھے رقم پیش کر دیتے ہیں یہ کہ کر کہ اپنی مرضی سے اسے جہاں چاہیں خرچ کریں ان کی پیش کردہ اکثر رقمیں میں نے اس فنڈ میں ڈال دیں اور وصولی کی جور پورٹ ہے اس کے لحاظ سے غالبا ۳۲ ہزار پاؤنڈ ہیں جو اس عرصہ میں بغیر کسی وعدہ کے زائد پیش کئے گئے اور ان میں سے بعض پر میں نے بات کھول دی اور بعض پر شاید نہ بھی کھولی کہ آپ کا اپنا جو وعدہ ہے وہ الگ ہے چونکہ آپ نے مجھ پر چھوڑ دیا ہے کہ جہاں چاہوں خرچ کروں اس لئے میں سمجھتا ہوں اس مد میں زیادہ ضرورت ہے اس لئے اس کو میں اس میں داخل کر رہا ہوں لیکن یہ آپ کے پہلے وعدہ کے علاوہ ہوگا.بہرحال اگر اس کو وعدوں میں شامل کر لیا جائے تو وعدوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو جائے گی.بہت سی جماعتیں ہیں جو وعدے بھیجتی ہی نہیں ہیں اور صرف چندے بھجوانے شروع کر دیتی ہیں اس لئے وعدوں سے پوری صحیح تصویر سامنے نہیں آسکتی.قانون ہے ایک قسم کا کہ ہمیشہ جماعت وعدوں سے زیادہ رقم پیش کیا کرتی ہے اور وعدے پوری طرح منضبط نہیں ہوا کرتے.اس تمہید کے بعداب میں وصولی کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.اس تحریک کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے کوتاہی ہوئی اور بار بار جماعتوں کو یاد دہانی نہیں کروائی گئی اور وصولی متوقع رفتار سے بہت پیچھے رہ گئی ہے.اس وقت تک ۳لا کھ ۴۲ ہزار ۷۵۶ پاؤنڈ کی وصولی ہوئی ہے اور جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے اس مد سے ۵ لاکھ سے زائد کے اخراجات ہو چکے ہیں بلکہ اگر افریقہ میں جو خصوصی پریس لگوائے گئے ہیں ان کو شامل کر لیا جائے تو تقریبے لاکھ کے قریب اس میں سے خرچ ہو چکا ہے لیکن وصولی ابھی تک صرف لا کھ پاؤنڈ ہے.اس کی بڑی وجہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 812 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء یاددہانی کے نظام کی کمزوری ہے کیونکہ جن جن جماعتوں میں بھی مستعدی کے ساتھ یاددہانی کرائی جائے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ جماعت اپنے وعدے پورے کرتی ہے بلکہ بسا اوقات وعدوں سے زیادہ ادا کرتی ہے تو تمام دنیا کی جماعتوں کو میں اس خطبہ کے ذریعہ مطلع کرتا ہوں کہ اس سلسلہ میں متعلقہ سیکرٹری کو بیدار کریں.اس کے ساتھ ایک ٹیم تیار کریں جو ساری جماعتوں کا جائزہ لے کر سلیقہ کے ساتھ ان کو یاد دہانی بھی کروائے اور یہ بھی دیکھے کہ جتنے وعدے کئے گئے تھے عملاً اتنے ہی موصول ہوئے ہیں یا زائد ہو چکے ہیں اور ان زائد وعدوں کی اطلاع بھی مرکز کو کرے.یہ اس لئے ضروری ہے کہ بعض دفعہ جماعتیں بالمقطع وعدہ کر دیتی ہیں اور ہم وعدہ میں وہی شمار کرتے ہیں مثلاً انگلستان نے ۵۰ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے تو یہی ۵۰ ہزار وعدوں میں شمار کیا جائے گا لیکن واقعہ انگلستان کی جماعت بعض دفعہ اس سے زیادہ چندے اپنی جماعت کو لکھوا چکی ہوتی ہے.یا بغیر وعدوں کے زیادہ رقمیں دے دیتی ہے تو اگر اس کا علم مرکز کو نہ ہو تو بہت سی حسابی غلطیاں ہوسکتی ہیں اور بہت سی کوششوں میں کوتاہی ہوسکتی ہے.مثلاً انگلستان میں عملاً ۲۰ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ ہو تو جب رقم ۵۰ ہزار تک پہنچے گی تو مرکز سمجھے گا کہ وعدہ وصول ہو چکا ہے.اب مزید یاددہانیوں کی ضرورت نہیں ہے اور مرکز بھی ڈھیلا پڑ جائے گا اور چونکہ ملک کو یاد دہانی نہیں ہوگی وہ بھی اسی لحاظ سے ڈھیلے پڑ جائیں گے.اس لئے اصل واقعاتی اعداد و شمار کا ہم تک پہنچنا ضروری ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ایک مہم کے ذریعے تو اعداد وشمار درست کئے جائیں گے اور پھر توجہ دلائی جائے گی.توجہ دلانے میں ہمیشہ نرمی رکھنی چاہئے بعض لوگ کئی قسم کے مالی بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں اگر ان کو توجہ دلانے میں ضرورت سے زیادہ احساس دلایا جائے تو بعض دفعہ ان کو بڑی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.اس لئے توجہ دلانے میں نرمی رکھیں اور دعا کریں مگر توجہ ضرور دلائیں اور نرمی کے پہلو اس طرح کہ آپ کی طرف سے وعدہ تھا ابھی تک ۲/۳ ملنا چاہئے تھا مگرہ ارا بھی نہیں ملا مثلا تو ہم آپ کو توجہ دلاتے ہیں اگر آپ سہولت کے ساتھ جلدی یہ رقم ادا کرنے کی کوشش کریں.اس رنگ میں اگر تحریک کی جائے تو کسی پر بوجھ نہیں پڑتا لیکن میرا یہ تجربہ ہے کہ اگر نرمی اور پیار سے تحریک کی جائے اور دعا کی جائے تو شدت کی جو رسمی تحریکیں ہیں ان سے بہت زیادہ بابرکت ہوتی ہے.بعض لوگ لکھنے میں تیز ہوتے ہیں.وہ بعض دفعہ اس طرح کی تحریر میں لکھ دیتے ہیں کہ گو یا ملزم کر رہے ہیں آپ کو پتا نہیں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 813 خطبہ جمعہ ارا کتوبر ۱۹۹۱ء کتنا وقت گزر گیا ہے آپ نے وعدہ کیا تھا خدا کے سامنے جواب دہ ہیں.یوں کریں اور ووں کریں ایسے ایسے سیکر ٹریان مال بھی میں نے دیکھے ہیں لیکن ان کے لکھے میں برکت نہیں ہوتی لیکن ایک شخص جو انسانی قدروں کا ادب کرتے ہوئے ، انسانی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مخلص کے جذبات کو ٹھوکر لگائے بغیر نرمی اور پیار سے یاد دہانی کراتا ہے اور ساتھ دعا بھی کرتا ہے تو اس کے لکھے میں بہت برکت پڑتی ہے اس لئے اس عمومی ہدایت کے تابع اس یاد دہانی کے نظام کو تیز کریں اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد اس کے نیک نتائج ظاہر ہوں گے.اب میں آخر پر ملک وار جماعتوں کا نقشہ پیش کرتا ہوں لیکن سب جماعتوں کے کوائف پڑھنے کا تو وقت نہیں ہو گا بعض کے پڑھنے ضروری ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک ایسے ہیں جنہیں یہ پسند نہیں کہ وہ پیچھے رہ جائیں اور بعض تحریکات پر جب زیادہ زور نہ دیا جائے تو بعض دفعہ وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کو علم نہیں ہوتا اس لئے جب وہ فہرست میں اپنا نام سنیں گے کہ کس نمبر پر آیا ہے تو از خودان میں ایک عام تحریک پیدا ہوگی ایک اچھے کام کے لئے رقابت پیدا ہوگی اور اس کے نتیجہ میں امید ہے کہ ان کے وعدوں میں مزید برکت پڑے گی.مثلاً اگر کینیڈا، امریکہ سے دگنے وعدے کر چکا ہو جبکہ مالی استطاعت کے لحاظ سے امریکہ کو خدا نے زیادہ استطاعت دی ہو اور امریکہ کے احمدیوں کو علم ہی نہ ہو کہ کس جگہ کھڑے ہیں تو ایسی فہرستیں جب ترتیب سے پڑھی جاتی ہیں تو اس سے بہت سے مخلصین کے دل میں خود ہی خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی جماعت کے لئے غیرت دکھاتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی بڑھ بڑھ کر چندے دیتے ہیں.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان دنیا کے سب ممالک میں اول ہے اور سٹرلنگ کے لحاظ سے ۶ لاکھ ۴۹ ہزا ر ۸۵۲ پاؤنڈ کے وعدے ہیں.کینیڈا کے وعدے ۲ لاکھ ۶۸ ہزار ۸۱۷ سٹرلنگ پاؤنڈ کے ہیں.امریکہ کے ایک لاکھ ۳۴ ہزار ۴۰۹ جرمنی کے ۵۱ ہزار ۹۶۴ اور یو کے کے ۵۰ ہزار.ماریشیس ۴۰ ہزار.میرے ذریعہ جور قوم وکالت مال کومل چکی ہیں وہ ۳۲۵۲۹ پاؤنڈ کی ہیں.ناروے کا وعدہ ہے۲۲۷۵۰ پاؤنڈ ، جاپان ۲۱۱۶۸ پاؤنڈ ، سوئٹزر لینڈ ۲۱۱۳۴ پاؤنڈ ، انڈونیشیا ۱۶۹۱۱ پاؤنڈ ، سویڈن ۱۵،۰۰۵ پاؤنڈ ، ہندوستان ۱۰۷۵۳، ڈنمارک ۸۸۲۴، فرانس ۶۴۳۳ ، آسٹریلیا ۵۹۰۵، ہالینڈ ۵۵۶۴ ، سنگا پور ۲۰۴۷.سویڈن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 814 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء ۱۱۵۰۰۵، سپین ۱۷۷۷ بیلجیم ۱۰۶ پاؤنڈ اور باقی متفرق ممالک ہیں.ان میں غانا خاص طور پر اس لئے قابل ذکر ہے کہ غانا کے اقتصادی حالات بہت ہی زیادہ خراب ہیں.اس کے باوجود افریقہ میں غانا سب سے آگے نکل گیا ہے اور ۱۲۳۲۹ پاؤنڈ کا غانا کا وعدہ ہے اس کے برعکس نائیجریا جس کو اللہ تعالیٰ نے غانا کے مقابل پر بہت زیادہ دولت عطا فرمائی ہے اور انفرادی طور پر بھی خدا کے فضل سے بہت اچھے کھاتے پیتے احمدی موجود ہیں ان کا وعدہ صرف ایک ہزار ۳۷ پاؤنڈ کا ہے.تو اس میں یہ اندازہ تو نہیں لگایا سکتا.یہ جائز نہیں ہوگا کہ یہ کہا جائے کہ نائیجریا کے احمدی اخلاص میں بہت پیچھے ہیں کیونکہ میرا ذاتی علم ہے کہ خدا کے فضل سے یہ بہت ہی مخلص جماعت ہے اگر چہ سخاوت کے لحاظ سے غانین مزاج باقی افریقہ کے مقابل پر بہت اونچا ہے.غانین لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی توفیق سے بڑھ کر خرچ کرنے کا خدا تعالیٰ نے ایک ایسا ملکہ ودیعت فرمایا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا فطری رجحان عطا فرمایا ہے کہ جس کی وجہ سے غانین اس پہلو سے باقی افریقنوں کے مقابل پر جو خود بھی بڑے اچھے ہیں نمایاں طور پر بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے.اس کو پیش نظر رکھ کر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ضرور اس میں کو ئی غلطی ہوئی ہے.غانا کا اخلاص اپنی جگہ گر نائیجریا تا پیچھے رہ نہیں سکتا.ناممکن ہے.نظام جماعت کی کوئی کمزوری ہے.وہاں جس کے بھی سپرد یہ کام ہے ، امیر کو چاہئے کہ خود بھی متوجہ ہوں اور ان کو بھی متوجہ کریں اور از سر نو نائیجریا میں اس چندے کی تحریک ہونی چاہئے اور بھی اسی قسم کے بعض غیر متوازن وعدے ہیں جو ملکی حالات اور اقتصادی حالات کے پیش نظر تعجب انگیز ہیں.میں ان کی تفصیل میں نہیں جاتا لیکن بہت سے ایسے غریب ممالک ہیں جنہوں نے خدا کے فضل سے اپنی توفیق سے بہت بڑھ کر وعدے کئے ہیں توفیق تو خدا بڑھا ہی دیا کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ظاہری حالات میں جس اقتصادی بحران سے ممالک گزررہے ہیں اس کے باوجود خدا کے فضل سے مالی قربانی میں پیچھے نہیں ہیں اور بعض ممالک تو بہت چھوٹے چھوٹے ہونے کے باوجود اپنے چندوں میں بہت آگے ہیں.ان سب کے نام یہ فہرستیں بھجوا دی جائیں گی تاکہ وہ خود موازنہ بھی کر سکیں.صرف ان کے کوائف نہیں دیئے جائیں گے بلکہ ساری دنیا کے کوائف کا جو خلاصہ ہے وہ ساری دنیا کی جماعتوں کو بھجوا دیا جائے گا تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے پیش نظر وعدے بھی بڑھیں گے اور چندوں کی ادائیگی میں بھی بہتری ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 815 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء ادائیگی کے لحاظ سے اب دیکھتے ہیں کہ کونسا ملک آگے ہے اور اس میں ایک حیرت انگیز چیز یہ دکھائی دیتی ہے (حیرت انگیز تو نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پاکستان کو جو فضیلت عطا کر دی ہے اسے وہ قائم رکھے ہوئے ہے) کہ پاکستان کی ادائیگی باقی ممالک کے مقابل پر بہت بہتر ہے.۸۵۳۱۸ پاؤنڈ کے لگ بھگ پاکستان کی ادائیگی ہو چکی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس خطبہ کے بعد انشاء اللہ اس میں نمایاں اضافہ ہوگا.جو حیرت کی بات تھی وہ یہ تھی کہ کینیڈا کا وعدہ امریکہ سے بہت زیادہ اور ادائیگی بہت پیچھے یعنی امریکہ کا وعدہ تو ہے ۱۰۰۳۴ کا لیکن ادائیگی ۵۵ ہزار ہو چکی ہے نسبت کے لحاظ سے ابھی کم ہے لیکن اچھی معقول ادا ئیگی ہے اور کینیڈا کا لا کھ ۶۸ ہزار۸۱۷ کا وعدہ تھا لیکن ادائیگی صرف ۹ ہزار ۶۳۸ ہے.کینیڈا کے لئے ایک عذر موجود ہے جو بکثرت استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنا مشن بنا رہے ہیں اس لئے ان کے چندوں کی طرف توجہ ہے.مشن کی طرف توجہ بجا لیکن جنہوں نے مشن کا چندہ لکھوایا اور اس کے علاوہ دوسرے چندے لکھوائے انہوں نے اپنا حال دیکھ کر ہی چندہ لکھوایا ہو گا اس لئے یہ عذر جو بار بار پیش کیا جاتا ہے اس میں حقیقت کوئی نہیں ہے ستی پر پردہ ڈالنے کا ایک بہانہ ہے.جو سیکرٹری جس کام کا ذمہ دار ہے اسے اپنے کام کی طرف توجہ کرنی چاہئے اگر وہ صحیح طریق پر مسلسل محنت سے یاد دہانیاں کرائے اور اپنے شعبے کا حق ادا کرے تو کبھی بھی ملک پیچھے نہیں رہ سکتے اس لئے کینیڈا میں لازما کہیں کوئی سستی ہے.کوئی غفلت ہے اس کی طرف توجہ کریں.امریکہ میں خدا کے فضل سے مالی لحاظ سے اب بہت بہتر مستحکم رنگ میں کام چل پڑا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے مزید اور فوائد ظاہر ہوں گے.جرمنی بھی وعدوں کے لحاظ سے تو ٹھیک ہے لیکن اب تک وقت گزرنے کے لحاظ سے جتنی وصولی ہونی چاہئے تھی ابھی نہیں ہوسکی.۵۱ ہزار کا وعدہ تھا اور ۱۹ ہزار۶۹۲ وصولی ہے.یو کے وصولی کے لحاظ سے میرا خیال ہے کہ سب سے آگے بڑھ گیا ہے کیونکہ یو کے.کا ۵۰ ہزار کا وعدہ تھا اس میں سے ۳۹ ہزار پاؤنڈ ہو چکے ہیں.یعنی دو تہائی سے زائد ادا کر چکے ہیں جب کہ ابھی پورا دو تہائی وقت نہیں گزرا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر دوسرے ملک سے اس وقت خدا کے فضل سے یو.کے کی جماعت آگے ہے اور جو ۳۲ ہزار میرے ذریعے ملا ہے اس میں بھی یوکے کے بہت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 816 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء سے دوست شامل ہیں چونکہ وہ اپنا نام ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے اس لئے ان کو عمومی کھاتے میں ڈالا گیا ہے، یو کے کی جماعت میں نہیں ڈالا گیا مگر یو کے کا اس کے ساتھ تعلق ضرور ہے.جاپان بھی اللہ کے فضل سے وعدوں کے لحاظ سے تقریباً ٹھیک ہے لیکن ابھی تناسب کے لحاظ سے پیچھے ہے.باقی ممالک میں تو کوئی قابل ذکر ایسی نسبت نہیں ہے جس کے متعلق یہاں کچھ بیان کیا جائے.بالعموم شکل یہ بنتی ہے کہ تین میں سے دو سال گزرے ہیں اور تین میں سے ایک وعدہ وصول ہوا ہے یعنی ایک تہائی وصول ہوا ہے جبکہ دو تہائی وصول ہونا چاہئے تھا.مجھے اب یاد نہیں رہا ہوسکتا ہے میں نے مدت بڑھا کر ۵ سال تک کردی ہو کیونکہ مجھے یاد ہے کہ کراچی کے امیر صاحب نے یہ کہا تھا کہ اگر میں ۵ سال کی مدت کر دوں تو امید ہے انشاء اللہ چندے زیادہ بھی ملیں گے اور جماعتوں کو سہولیتیں بھی ملیں گی تو اگر ۵ سال کی مدت کر دی گئی تھی تو اس میں ایک اشکال یہ پیدا ہو جائے گا کہ جن جماعتوں نے تین سال کی نسبت سے وعدے کئے تھے ان کی ادائیگی ہم تین سال کے حساب سے شمار کریں گے یعنی ہونی چاہئے تھی.اگر پانچ سال ہے تو پانچ سال کی نسبت سے وعدہ بھی تو بڑھنا چاہئے تھا اس لئے چونکہ پہلا وعدہ تین سال کی پیش نظر رکھ کر کیا گیا تھا.اس لئے جب ان کی یاد دہانی کرائی جائے گی تو تین والی نسبت کو پیش نظر رکھ کر یاد کرایا جائے گا کہ آپ نے تین سال کے پیش نظر وعدہ کیا تھا.دو سال گزرچکے ہیں دو تہائی آپ کی وصولی ہو جانی چاہئے تھی.مگر بہر حال جنہوں نے ۵ سال کی نیت سے وعدہ لکھوایا ہے ان کے لحاظ سے ہوسکتا ہے ان کی رفتار قابل تسلی ہو.اب یہ کوائف آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں.عمومی نصیحتیں کر چکا ہوں.خدا کے حضور جماعت کی معرفت جو روپیہ پیش کیا جاتا ہے اس پر ہمیشہ نگران رہیں یہ روپیہ ظاہری طور پر تو خدا کو نہیں پہنچتا کیونکہ خدا ہی ہے جو تمام کائنات کا مالک ہے اسے اس روپے کی ظاہری احتیاج نہیں ہے.ہاں اس کے بتائے ہوئے نیک کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس روپے کو قرض قرار دیا ہے اور یہ اس کا احسان ہے میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ اسے قرض کیوں قرار دیا گیا؟ اس لئے کہ واقعہ آپ خدا کو تو روپیہ دے ہی نہیں سکتے اسی کا ادا کیا ہوا مال اسی کی سب کچھ عطا ہے اس کو ہم واپس کیسے کر سکتے ہیں اس لئے قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو دوعنوانات کے تحت بیان فرمایا ہے ایک تحفہ تحفہ کے متعلق تو یہ مسلمہ بات ہے کہ تحفہ میں یہ بحث نہیں اٹھا کرتی کہ کس نے کس کو دیا تھا اور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 817 خطبہ جمعہ اا/اکتوبر ۱۹۹۱ء اس نے کتنا اس کو دیا کیونکہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو سب کچھ دیتے ہیں ان ہی کی آمد پر ان کے سب گزارے ہیں سب اخراجات چل رہے ہوتے ہیں، بچے بعض دفعہ اپنی آمد میں سے ان کو تحفہ دے دیتے ہیں اور ماں باپ بڑے پیار سے قبول کرتے ہیں تو تحفے کا مضمون تو کسی منطقی بحث کا محتاج نہیں ہے.یہ تو بالکل الگ مضمون ہے اور اکثر چندے جو ہیں وہ پیش کرتے وقت تحفے کے مضمون کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور یہ سب سے بالا مضمون ہے لیکن تحفہ کے مضمون پر جب میں نے قرآن کریم کی رو سے غور کیا تو کہیں مجھے یہ دکھائی نہیں دیا کہ خدا کہتا ہے کہ مجھے تحفہ پیش کرو.ہاں نماز میں التحیات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ التحیات للہ تھے اللہ ہی کے لئے ہیں.سب پاکیزہ تھے اچھے تھے اللہ کے لئے ہیں لیکن قرآن کریم میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ تھے پیش کرو بلکہ ” قرض پیش کرو“ کا مضمون ملتا ہے حالانکہ تحفے کا مضمون قرآن کریم میں کئی آیات سے مستنبط ہوتا ہے تو اس پر یہ دلچسپ چیز مجھ پر روشن ہوئی کہ تحفے مانگ کر نہیں لئے جاتے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہماری تربیت میں اس بات پر بہت زور دیا کرتے تھے کہ اگر تم نے کسی کو کوئی چیز لکھ کر یا کہہ کر منگوائی ہو اور وہ بعد میں یہ کہہ دے کہ جی ! میں نے پیسے نہیں لینے یہ تحفہ ہے تو ہر گز قبول نہیں کرنی یا وہ چیز واپس کر دو یار تم ادا کرو اور میں نے اس نسخہ کو اخلاق کی حفاظت کے لئے بہت ہی مفید پایا ہے.ایک بہت عظیم الشان نسخہ ہے اب جب میں نے قرآن کریم کے اس مضمون پر غور کیا تو مجھے حضرت مصلح موعودؓ کی یہ نصیحت بھی یاد آگئی اور یہ بات مجھ پر اور کھل گئی کہ تھے مانگ کر نہیں لئے جاتے.تحفہ دینے والے کے دل میں اپنی محبت کے نتیجہ میں تحریک پیدا ہوتی ہے وہ از خود پیش کرتا ہے لیکن قرآن کریم نے چونکہ مذہبی جماعتوں کو قربانی کے گر سکھانے تھے.اور اقتصادی ترقی کے راز سمجھانے تھے، یہ دونوں باتیں اکٹھی ہیں اس لئے قرآن کریم نے جب مانگا ہے تو قرض مانگا ہے اور قرضہ حسنہ مانگا ہے.قرضہ حسنہ وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہوتی.سودی یا کسی قسم کی بڑھا کر دو لیکن جو قرضہ حسنہ وصول کرتا ہے اس کا اپنا حسن طبیعت ہے کہ واپسی پر جتنا چاہے بڑھا دے.تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں چندوں کے موضوع پر جو گفتگو فرمائی ہے وہ عظیم الشان ہے.بہت ہی حیرت انگیز مضمون ہے.اس میں خدا تعالیٰ زکوۃ کے متعلق بھی یہی بیان فرماتا ہے کہ جو تم دو گے وہ تمہارے رو پے کو کم نہیں کرے گی بلکہ بڑھائے گی.فرمایا سود تمہارے پیسوں کو کم کرتا ہے، زکوۃ تمہارے پیسوں کو کم نہیں کرتی اور خدا ضامن ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 818 خطبہ جمعہ ارا کتوبر ۱۹۹۱ء خدا کی خاطر ز کوۃ ادا کرتا ہے اللہ اسے بڑھا دے گا اور زکوۃ کے نام میں یہ مضمون شامل ہے.زکوۃ کا مطلب ہے نشو و نما پانے والی چیز ، بڑھنے والی چیز ، برکت پانے والی چیز تو فرمایا کہ جو روپیہ تم خدا کی خاطر زکوۃ ادا کرتے ہو وہ کم نہیں ہوتا بلکہ تمہیں علم نہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے اور اس کو بڑھا دیتا ہے اور قرض کے متعلق ہر جگہ یہ وعدہ فرمایا کہ تم مجھے قرضہ دو اور میں بڑھا دیتا ہے.میں بڑھا کر واپس کروں گا.اس لئے کسی رنگ میں بھی خدا تعالیٰ کے اوپر احسان کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر چندہ ادا ئیگی کرتے وقت قرض کے مضمون کے اندر جو ہدا یتیں ہمیں ملی ہیں ان کو ہمیں ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے.پہلی بات یہ کہ خدا جب قرض مانگتا ہے تو ایک انسان کو اپنے نفس میں ڈوب کر ضرور سوچنا چاہئے کہ کس چیز سے قرض مانگتا ہے.وہ سب کچھ جو اس نے مجھے دیا ہے اور اس پر جو مجھ سے قرض مانگتا ہے تو میں قرض کے طور پر نہ دوں بلکہ محبت اور عشق کے اظہار کے طور پر دوں یہ منع نہیں ہے.اس لئے قرض کے سودوں کو اگر آپ محبت اور عشق کے اظہار کے سودوں میں تبدیل کر دیں تو اس سے بہتر کوئی اور طریق چندہ ادا کرنے کا نہیں.اس نیت کے ساتھ ادا کریں کہ اے خدا ! سب کچھ تو نے دیا ہے تیرے حضور، تیرے رزق میں سے، تیری عطا کردہ صلاحیتوں میں سے کچھ پیش کرنے کی سعادت پاتا ہوں وہ قبول فرمائے تو یہ عزت ہے قرض نہیں ہے تحفہ ہے لیکن اس کے باوجود اگر ایک شخص اس اعلیٰ محبت کے مقام پر فائز نہیں اور جب دیتا ہے تو تکلیف اور قربانی کے ساتھ خدا کے اذن کے احترام میں دیتا ہے تو وہ قرض ہوگا لیکن یا درکھنا چاہئے کہ یہ قرض اسے واپس ملے گا اور بہت زیادہ واپس ملے گا.اس وعدے کے نتیجہ میں جو نیتوں پر بعض اثرات پڑ سکتے ہیں ان کے متعلق میں چند الفاظ میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں.بعض لوگ جن کو خدا تعالیٰ ان کی مالی قربانیوں کے نتیجہ میں بار بارعطا کرتا ہے اس بات کے عادی ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ادھر دیا ادھر ہمیں واپس ضرور مل جائے تو گا اس کے نتیجہ میں ان کے چندوں کے جیسے اعلیٰ اثرات پیدا ہونے چاہئیں ان کی ذات پر وہ اعلیٰ اثرات مترتب نہیں ہوتے ، وہ ظاہر نہیں ہوتے.بعض دوست مجھے اپنے تجربے لکھتے ہیں.بڑے ایمان افروز ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اگر اسے کوئی انسان مستقل عادت بنالے اور یہ سمجھے کہ ادھر میں نے خدا کے حضور پیش کیا ادھر واپس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 819 خطبہ جمعہ ارا کتوبر ۱۹۹۱ء آجائے گا تو یہ بھی نا پسندیدہ بات ہے قرض کے دو پہلو ہیں.ایک دینے والے کا ایک لینے والے کا.وہ قرض جو سود سے پاک ہے اسے قرضہ حسنہ کہا جاتا ہے قرضہ حسنہ میں یہ ایک عجیب دلچسپ بات ہے کہ دینے والا ہر گز زیادہ لینے کی نیت سے نہیں دیتا.لینے والا ہمیشہ زیادہ دینے کی نیت سے لیتا ہے اس لئے اپنی نیتوں کو زیادہ کے خیال سے پاک رکھ کر اگر دینے کی کوشش کریں تو یہ چندے کی بہت بہتر قسم ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی زیادہ رضا حاصل ہوگی.جہاں تک زیادہ ملنے کا تعلق ہے وہ تو خدا نے دینا ہی دینا ہے اور اس کے دینے کے ہزاروں رستے ہیں کہ انسان کو سمجھ نہیں آتی اور ضرور ایسے لوگوں کے اموال میں برکت پڑتی ہے اور ان کی اولادوں کے اموال میں برکت پڑتی ہے ان کی خوشیوں میں برکت پڑتی ہے، ابتلاؤں سے بچائے جاتے ہیں، مصیبتوں کے وقت ان کے سہارے کے لئے خدا تعالیٰ کی نصرت اترا کرتی ہے.یہ ساری برکتیں ہیں جو چندوں کے نظام کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن چونکہ بہت باریک مضامین ہیں اس لئے جہاں تک مجھے توفیق ہے میں بار یکی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں خدا ضر ور زیادہ دیتا ہے لیکن قرضہ حسنہ کی ایک تعریف یہ ہے کہ جہاں تک دینے والے کا تعلق ہے وہ ہرگز زیادہ لینے کی نیت سے نہ دے اور اپنی نیت کو بالکل صاف کر کے دے.اس پہلو پر قرآن کریم کی ایک اور آیت روشنی ڈالتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدر: ۷ ) کہ کسی کو اس نیت سے نہ دیا کرو کہ تمہیں زیادہ ملے اگر چہ اس کا انسانی لین دین سے تعلق ہے اور اللہ تعالیٰ پر تو احسان ہو ہی نہیں سکتا.تمنن کے معنوں کا اطلاق خدا پر نہیں ہوسکتا لیکن مومن کے اخلاق کو صیقل کرنے کے لئے اس کے اخلاق کو نہایت اعلیٰ درجے کی لطافتوں تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ نے جو یہ نصیحت فرمائی ہے اس کے نتیجے میں خدا سے لین دین کے معاملات میں بھی اپنے اندر ویسے ہی اخلاق پیدا کریں جیسے خدا بندوں کے معاملات میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور دیتے وقت یہ نیت کیا کریں کہ اے خدا! ہم زیادہ لینے کی نیت سے نہیں دے رہے بلکہ حق یہ ہے کہ سب کچھ تیری عطا ہے.اگر تحفے کے طور پر قبول ہو تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں لیکن تو نے قرض فرمایا ہے تو تجھ سے بہتر محفوظ ہاتھ قرض دینے کیلئے اور کوئی نہیں ہے ہماری نیت تیری رضا کا حصول ہے اور اس نیت کیسا تھ اگر انسان چندے دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اخلاص،اس کے ایمان اس کے اعلیٰ روحانی مدارج کی یہ باتیں ضامن بن جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 820 خطبہ جمعہ اارا کتوبر ۱۹۹۱ء فضل سے ایسی پاک نیتوں کی ساتھ جو مال دیئے جاتے ہیں ان میں برکت بھی بہت پڑتی ہے ظاہری طور پر اس کی کوئی دلیل نہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور میری زندگی کا تجربہ ہے کہ پاک نیت سے جو مال دیا جائے ان کے خرچ میں بہت برکت ہوتی ہے جو بہت اعلیٰ نیتوں سے نہ دیئے جائیں یا گندی نیتیں مل جائیں تو ان کے خرچوں میں برکت نہیں رہتی اور بے وجہ ضائع ہو جاتے ہیں اس لئے اپنی نیتوں کی بہت حفاظت کریں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر کتنی برکتیں نازل فرماتا ہے خدا کرے کہ جماعت احمدیہ کا مالی نظام اسی طرح پاک شفاف بہت ہی اعلیٰ اخلاقی لطافتوں کے ساتھ وابستہ رہے اور ہمیشہ اسی طرح صحیح و سلامت تا قیامت جاری رہے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 821 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء روس میں دعوت الی اللہ کیلئے واقفین عارضی کی تحریک اسلام کی جنگ جماعت احمدیہ کے سوا کسی نے نہیں لڑی.(خطبه جمعه فرموده ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو نشوونما کی ایک صلاحیت عطا فرمارکھی ہے بدی کو بھی نشوونما کی صلاحیت ہے اور نیکی کو بھی نشو ونما کی صلاحیت ہے بلکہ زندگی کے ہر ذرے میں خدا تعالیٰ نے یہ دونوں قسم کی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں.صرف یہ بات نہیں کہ بعضوں میں دوسروں پر غلبہ پانے کی طاقت ہے بلکہ اندرونی طور پر زندگی اور موت کی جدو جہد ہر ذرے میں جاری ہے خواہ وہ ظاہری طور پر زندگی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اس کے باوجود زندگی کے لفظ کا اطلاق وسیع ترین معنوں میں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر مخلوق پر ہوتا ہے اور موت اور زندگی کی جدو جہد جس کا ذکر قرآن کریم میں سورۂ ملک کی پہلی آیت میں ملتا ہے، یہ ایسا نظام ہے جس کا تعلق ہر مخلوق سے ہے چنانچہ وہProtons جن کے متعلق پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ابدی ہیں اور کبھی مٹ نہیں سکتے ان کے متعلق اب اکثر سائنس دان یہ یقین کر چکے ہیں کہ ان کی زندگی بھی بہر حال اختتام پذیر ہوگی اور یہاں زندگی سے مرادان کی بقا کا عرصہ ہے.اندرونی طو رپران کے اندر ایک موت کا نظام بھی جاری ہے اور جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے اس نے بہر حال مٹنا ہے اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ ( الرحمن : ۲۸،۲۷) تو اس میں بھی اللہ کے ”وجہ کا ذکر فرمایا.وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 822 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء ذات جو ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ ہے اس کا چہرہ اس کی رضا ہے جو باقی ہے.باقی ہر چیز مٹ جانے والی ہے.اس ضمن میں اس سے پہلے چونکہ میں روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے اس مضمون کو یہاں بیان نہیں کروں گا چونکہ اس کا ضمناً اس مضمون کے ساتھ تعلق ہے جو میں اب بیان کرنا چاہتا ہوں اس لئے اس کا ذکر آ گیا.بہر حال بات یہ ہے کہ ہر چیز جسے پیدا کیا گیا ہے اس کے اندراندرونی طور پر ایک زندگی اور موت کی جدوجہد جاری ہے اور دونوں قسم کی صلاحیتیں خدا تعالیٰ نے اسے ودیعت کر رکھی ہیں اس کے علاوہ بیرونی تعلقات میں بھی یہی نظام جاری ہے.بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں پر غلبہ پاتی ہیں اور بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور اس میں بھی نیکی اور بدی میں کوئی تمیز نہیں کی گئی اور کوئی فرق نہیں کیا گیا بلکہ اس معاملہ میں بھی ایک حیرت انگیز عدل کا نظام جاری دکھائی دیتا ہے.اگر خدا نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام میں نشو و نما کی طاقت رکھی ہے تو ابلیس کو بھی اس طاقت سے محروم نہیں کیا اور شیطان کو جو ہمیشہ کے لئے چھٹی دی گئی کہ اپنے لاؤلشکر کو جس طرح چاہو میرے بندوں پر چڑھالا ؤ لیکن میرے بندوں پر تمہیں غلبہ نصیب نہیں ہوگا اس میں بھی وہی نظام عدل جاری وساری دکھائی دے رہا ہے.خدا نے نیکی کی صلاحیتیں جن بندوں کو عطا فرما ئیں ان کو یہ یقین دلایا کہ اگر تم ان صلاحیتوں کو استعمال کرو گے تو بدی کی طاقتیں تم پر غالب نہیں آسکیں گی لیکن بدی کو بھی ایسی طاقتیں عطا کیں کہ جہاں وہ کوئی کمزوری دیکھیں اپنے مد مقابل پر غلبہ پالیں یہ زندگی اور موت کا وہ نظام ہے جس کا مذاہب سے بھی گہرا تعلق ہے اور غیر مذہبی دنیا سے بھی ہر قسم کی انسانی دلچسپیوں کے دائرے پر اس مضمون کا اطلاق ہوتا ہے.اس تمہید کے بعد اب میں اس مقصد کی طرف آتا ہوں جس کے متعلق میں آج آپ سے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.آج کے اس دور میں مذہب کی جنگ ایک دفعہ پھر بڑی شدت کے ساتھ چل پڑی ہے.اس سے پہلے جب تک روس اور امریکہ کا مقابلہ جاری تھا اس وقت تک اسلام کے خلاف مذاہب کی جنگ میں ایسی شدت نہیں تھی لیکن گلف Gulf کے واقعات کے بعد اور روس کے منہدم ہو جانے کے بعد عیسائی طاقتوں میں بڑی تیزی کے ساتھ عیسائیت کو غالب کرنے کا رجحان پھر زندہ ہو رہا ہے اس سے پہلے بھی عیسائیت ہمیشہ اسلام پر حملہ آور رہی ہے لیکن ان سیاسی واقعات کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 823 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء بعد جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، یہ کوششیں ایک نئے عزم کے ساتھ بیدار ہوئی ہیں اور نئے منصوبوں کے ساتھ حکومتیں ان کوششوں میں شامل ہو چکی ہیں.روس پر جس طرح عیسائیت نے یلغار شروع کی ہے وہ اس دور کا ایک اہم ترین واقعہ ہے.بڑی تیزی اور کثرت کے ساتھ ہر جگہ عیسائیت کا جال پھیلایا جارہا ہے اور اسی طرح افریقہ پر عیسائیت نئے سرے سے نئے عزم کے ساتھ حملہ آور ہوئی ہے اور جو جو اطلاعات مجھے مل رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ خصوصاً ان دو واقعات یعنی گلف کی جنگ اور روس کا بالآخر اپنی شکست تسلیم کر لینے کے بعد عیسائیت میں ایک نئی رعونت پیدا ہوگئی ہے اور وہ عیسائی جو پہلے خاموش اور دبے ہوئے تھے وہ بڑی شدت کے ساتھ سراٹھا رہے ہیں اور دوبارہ بقیہ افریقہ پر حملہ آور ہورہے ہیں.نائیجریا میں جو حالیہ فساد ہوئے ہیں یہ بھی اسی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں.جور پورٹیں مجھے نائیجریا سے ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جن شمالی علاقوں میں فساد ہوئے ہیں وہاں اس سے پہلے عیسائیت کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لے لیکن یہ جو عالمی واقعات رونما ہوئے ہیں اور خاص طور پر جب وہ امریکہ کو اپنی پشت پناہی پر دیکھتے ہیں تو ان کے اندر ایک نئی رعونت پیدا ہو چکی ہے.انہیں نئی دولت کے سہارے مل چکے ہیں انہیں ہتھیار مہیا کئے جارہے ہیں اس لئے عیسائیت اسلام کے ساتھ اپنی آخری جنگ کے لئے ہر قسم کی تیاری کر کے میدان میں کو دچکی ہے.جہاں تک عالم اسلام کا تعلق ہے بدقسمتی سے عالم اسلام کو یہی عیسائی طاقتیں آپس میں الجھا رہی ہیں اور الجھائے رکھ رہی ہیں.کوئی ایسا زمانہ نہیں گزرتا جس میں بعض مسلمان طاقتوں کو بعض دوسری مسلمان طاقتوں کے خلاف کسی رنگ میں ابھارا نہ جارہا ہو اور کوئی ایسا زمانہ قریب میں دکھائی نہیں دیتا جس میں مسلمان طاقتیں پوری طرح امن کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اسلام کے فروغ کی کوششیں کر رہی ہوں.کردوں کا مسئلہ ہے جس کا عراق سے بھی تعلق ہے،ترکی Turkey سے بھی تعلق ہے روس سے بھی تعلق ہے،سیریا Syria (شام) سے بھی تعلق ہے اس مسئلے کو پہلے عراق کے تعلق میں چھیڑا گیا اب ترکی کے تعلق میں اسے چھیڑا اور ابھارا جارہا ہے اور اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں لیکن وہ لوگ جو ہوش مندی کے ساتھ خبروں کا مطالعہ کرتے ہیں ان پر یہ بات خوب روشن ہے کہ عالم اسلام کو وہ امن اور وہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 824 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء سکون میسر آنہیں سکتا جس کے ساتھ انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کو نیکی کی راہوں پر ڈال دے لیکن صرف ایک بدنصیبی نہیں اس کے علاوہ اور بھی بدنصیبیاں ہیں.اگر بیرونی طاقتیں مسلمان طاقتوں کو سیاسی چپقلشوں میں نہ بھی الجھا ئیں اور انہیں امن بھی نصیب ہو تو بدنصیبی یہ ہے کہ اس امن کے دور کو وہ پھر اندرونی طور پر ایک دوسرے سے مذہبی اختلافات میں لڑ کر اپنی طاقتوں کو ضائع کر دیتی ہیں اور اس موقع کو ضائع کر دیتی ہیں جس میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نیکی کی پرورش اور پنپنے کے وقت ہوتے ہیں.امن کا دور ہمیشہ اچھی صلاحیتوں کے لئے ایک خوش نصیب دور ہوا کرتا ہے جس میں اچھی طاقتوں کے پہنے اور پھول پھلنے کا وقت ہوا کرتا ہے لیکن عالم اسلام کی حالیہ تاریخ پر آپ نظر ڈال کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جہاں امن بھی نصیب ہوا وہاں اس امن کو ہمیشہ اندرونی بدامنی میں تبدیل کر دیا گیا اور فرقہ بازیوں میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے اور سیاست میں بھی ہر قسم کے غلط حربے استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اس امن کے دور کو ضائع کر دیا گیا اور بجائے استفادہ کے اور بھی زیادہ اس سے نقصان اٹھایا.پس کسی پہلو سے بھی آپ عالم اسلام پر نگاہ ڈالیں تسلی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اور غیر طاقتیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بڑے عزم اور بڑے گہرے اور دیر پا منصوبوں کے ساتھ دوبارہ ساری دنیا پر بھی حملہ آور ہیں اور خصوصیت سے اسلام پر حملہ آور ہیں.اس صورتحال میں جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے دفاع کا تمام تر بوجھ اپنے اوپر اٹھائے اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے جماعت احمدیہ کو پیدا کیا گیا ہے.جب میں مخالفانہ طاقتوں، ان کے منصوبوں اور ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لیتا ہوں تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے کس کو کس کے مقابل پر ٹکرا دیا ہے، اتنی عظیم طاقتیں ہیں.صرف دولت کے اعتبار سے ہی دیکھیں تو کروڑوں گنا زیادہ طاقتور قومیں ہیں، مقابل پر جماعت احمدیہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں.اگر عددی اعتبار سے دیکھیں تو یہی صورت حال ہے، اگر سیاسی اثر ونفوذ کے لحاظ سے دیکھیں تو یہی صورت حال ہے کوئی ایسا پہلو جو مقابلوں میں کام آیا کرتا ہے ایسا نہیں جو جماعت احمدیہ کو ان کے اوپر فوقیت دیتا ہو پھر خدا تعالیٰ نے ہمیں اس غیر متوازن جنگ میں کیوں الجھا دیا اور کیوں ہم سے یہ توقع کی گئی کہ ہم اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر بالآخر غالب کر کے دکھائیں گے؟
خطبات طاہر جلد ۱۰ 825 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء اس مضمون پر جب آپ غور کریں تو دنیا میں سب سے بڑا تعجب انگیز واقعہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تھی.آپ سے یہ جد و جہد شروع ہوئی اور آپ ہی سے اس جہاد کا آغاز ہوا.آپ ایک تھے جن کو مخاطب کر کے خدا نے فرمایا: صلى الله قُمْ فَانْذِرُ (المدثر :۳) اے محمد ﷺ اٹھ اور تمام دنیا کو انذار کر اورساری دنیا سے ٹکر لے میری خاطر اور میرے غلبے کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جہاد کا اعلان کر دے اور وہ جہاد عالمگیر صلى الله جہاد تھا اور آنحضرت ﷺ اکیلے تھے.پس سب سے زیادہ حیرت انگیز واقعہ تو ان دنوں کا واقعہ ہے جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اکیلے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا اوراس حکم کے تابع تمام دنیا کی طاقتوں سے ہمیشہ ہمیش کے لئے ٹکر لینے کی ہدایت فرمائی گئی اور پھر اس جہاد کا آغاز ہوا جو ۴۰۰ سال سے جاری ہے.گو مختلف وقتوں میں اس کی شکلیں بگڑتی بھی رہیں.بنتی بھی رہیں دشمنوں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائیوں میں پانسے بھی پلٹتے رہے.کبھی یہ لڑائیاں مذہبی دنیا میں لڑی گئیں کبھی سیاسی دنیا میں لڑی گئیں.مختلف حالات میں یہ جہاد مختلف صورتوں سے گزرتا ہوا جاری رہا اور آج بھی جاری ہے لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ وہ سیاسی جنگیں بھی جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوئیں ایک مذہبی عصر اپنے اندر رکھتی تھیں اور ان جنگوں کو بھی خالصہ سیاسی قرار نہیں دیا جاسکتا.عیسائی قوموں کی دنیا میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی قوموں سے لڑائیاں ہوئی ہیں مگر سوائے ان لڑائیوں کے جو مسلمان قوموں سے کی گئیں کسی دوسری لڑائی کا نام صلیبی جنگ نہیں رکھا گیا اور اسلام پر جہاد کا الزام دھرنے والوں کا اپنا یہ حال تھا کہ کئی سو سال تک مسلمان ممالک پر باہر سے جا کر حملہ آور ہوئے ہیں اور ان جنگوں کا نام صلیبی جنگیں رکھا گیا.پس اگر چہ وہ سیاسی جنگیں ہی تھیں کیونکہ علاقائی جنگیں تھیں ملکوں اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی جنگیں تھیں لیکن ان کے اندر اسلام دشمنی کا ایک عصر بھی لازماً کارفرمارہا ہے.آج جو صورتحال ہے یہ صورتحال اتنی نازک ہے اور اتنی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں پر تمام احمدیوں کا نظر رکھنا بہت ہی ضروری ہے اور اس سلسلہ میں وقتاً فوقتاً آپ کو بیدار کرنا میرے بنیادی فرائض میں داخل ہے.جو شکل آج مجھے دکھائی دے رہی ہے ایسی خطرناک شکل ہے اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی.عیسائیت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بڑے عزائم کے ساتھ اور نئے ارادے باندھ کر ، نئے منصوبوں کے ساتھ نئی دولتوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 826 خطبه جمعه ۱۸ /اکتوبر ۱۹۹۱ء کا سہارا لے کرنئی سیاسی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل کرتے ہوئے بڑے زور کے ساتھ دوبارہ تمام دنیا پر اور خصوصیت سے اسلام پر حملہ آور ہوئی ہے اور اس کے حقیقی دفاع کے لئے احمدیت کے سوا کسی میں صلاحیت نہیں ہے اور کسی کو ان باتوں کا دماغ نہیں ہے.کسی کی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ خالصہ اسلام کا دفاع کرے اور حقیقت میں اسلام کا دفاع کرے نہ کہ کسی سیاسی غرض کا.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنی تمام تر قوتوں کو جمع کر کے نئے عزم کے ساتھ اس جہاد کے میدان میں کو دنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایسا کر رہی ہے.جہاں تک مقابل پر ہر قسم کا لڑ یچر تیا رکرنے کا تعلق ہے، جہاں تک ہماری موجودہ صلاحیتوں سے کام لے کر ان کے نتیجہ میں مقابل پر منصوبے بنانے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام جاری ہے لیکن اس وقت ضرورت ہے لام بندی کی اور اسی طرف میں کچھ عرصہ سے آپ کو متوجہ کرتا رہا ہوں.بعض دفعہ دنیا کے عام امن کے حالات میں فوجوں کی تعداد بڑھانے کے لئے ایسی کوئی ضرورت نہیں ہوا کرتی.اگر چہ فوجی نظام ضرور موجود رہتا ہے ، ہتھیار بھی بنتے ہیں اور ہتھیار بنانے والے محکمے مسلسل بیدار مغزی کے ساتھ بہتر سے بہتر ہتھیار فوج کے لئے مہیا کرنے کے لئے کوشاں بھی رہتے ہیں لیکن جب جنگ کا بگل بجایا جائے تو اس وقت صورت حال یکسر بدل جاتی ہے اور انہی کوششوں میں جو پہلے سے ہی جاری ہیں نئی جان پڑ جاتی ہے، غیر معمولی حرکت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور کام میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے.پس ایسے اوقات جبکہ کثرت کے ساتھ لوگوں کو بھرتی کے لئے بلایا جائے تو اسے کہا جاتا ہے کہ لام بندی ہوگئی.لام بندی کا حکم ہو گیا اور لوگوں کو عوام الناس کو بار بار دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ اور اس فوج میں شامل ہو.مجھے یاد ہے ہندوستان میں جب جنگ عظیم کا وقت تھا تو کثرت کے ساتھ حکومت کی طرف سے ایسے محکمے قائم کر دیئے گئے جو دیہات میں جاکر اندرون ملک دور دور جا کر لوگوں کو اکٹھا کر کے فوج کے لئے بھرتی کرنے کے لئے لایا کرتے تھے.دیہات سے قافلہ در قافلہ ایسے لوگوں کو اکٹھا کر کے ان مقامات پر پہنچایا جاتا تھا جہاں ان کے معائنے ہوتے تھے اور ان کو فوج میں داخل کرنے کے لئے ابتدائی تحقیق کی جاتی تھی ان کی صلاحیتیں جانچی جاتی تھیں.غرضیکہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں فوج کی جو کچھ ضروریات ہوتی ہیں اس کے مطابق ان کو جانچا پر کھا جاتا تھا اور اس زمانہ میں مجھے یاد ہے کہ فوج کے جانچنے اور پر کھنے کا معیار
خطبات طاہر جلد ۱۰ 827 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء بھی کم کر دیا گیا تھا کیونکہ عام حالات میں اگر مثلاً چلتے وقت کسی کے گھٹنے گھٹنے سے ٹکرا جاتے ہیں تو فوج میں ایسے شخص کو قبول نہیں کیا جاتا مگر ان دنوں میں وہ جو Bandy Egs والے کہلاتے ہیں جن کے گھٹنے بہت زیادہ باہر کی طرف نکلے ہوں یا جن کے گھٹنے چلتے وقت آپس میں ٹکراتے ہوں ان کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے.تو جتنی ضرورت زیادہ بڑھتی ہے اتنے پیمانوں میں بھی پچک پیدا ہوتی چلی جاتی ہے آج اس بات کی ضرورت زیادہ بڑھتی ہے اتنی پیمانوں میں بھی لچک پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.آج اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت احمدیہ میں دعوت الی اللہ کے نظام کو بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ جاری کیا جائے اور صرف صاحب علم لوگ ہی اس نظام سے منسلک نہ ہوں بلکہ کم علم والے بھی ہر قسم کے احمدی دعوت الی اللہ کے کام میں پوری طاقت کے ساتھ اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کریں کیونکہ اس میدان میں ابھی ہمیں بہت ہی کمی محسوس ہوتی ہے.روس کے متعلق میں نے اعلان کیا تھا کہ ہمیں ایسے واقفین کی ضرورت ہے جو عارضی طور پر روس میں جاکر اسلام کا پیغام پہنچائیں.ضرورت بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور روس کے مختلف علاقوں سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ ہماری طرف آؤ ، ہماری طرف آؤ ہمارے پاس مستقل آدمی بھیجو، ہمیں ایسے معلم عطا کرو جو بیٹھ کر ہمیں اسلام سکھائیں مگر سر دست جماعت احمدیہ کے پاس ایسی انفرادی طاقت نہیں ہے کہ ہم ان کی ضرورتیں پوری کر سکیں.وقف کی جو میں نے تحریک کی تھی اس میں اگر چہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت میں لبیک کہنے کا جذ بہ ضرور ہے لیکن بعض غلط فہمیاں غالباً مانع رہی ہیں.ایک غلط فہمی یہ ہے کہ روس میں صرف روسی زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس وجہ سے وہ لوگ جن کو روسی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا وہ سمجھتے ہیں ہماری خواہش تو ہے دل تو چاہتا ہے مگر ہم مجبور ہیں اور اس خدمت میں شامل نہیں ہو سکتے.ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے میں بتاتا ہوں کہ روس میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور خاص طور پر اہل مشرق کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ فارسی زبان بعض علاقوں میں بکثرت استعمال ہوتی ہے اور بعض علاقوں میں ترکی زبان بکثرت بولی اور کبھی جاتی ہے اور بعض ایسے علماء ہیں جو عربی زبان بھی خوب اچھی طرح بولتے اور سمجھتے ہیں پس وہ لوگ جو روسی زبان نہیں جانتے اور فارسی جانتے ہیں یا فارسی سے کسی حد تک شدھ بدھ کھتے ہیں ان کے لئے بھی بہت اچھا موقع ہے کہ اپنے آپ کو پیش کریں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 828 خطبه جمعه ۱۸ /اکتوبر ۱۹۹۱ء پس روسی زبان جاننا کوئی شرط نہیں ہے.علاوہ ازیں اگر ان میں سے بھی کوئی زبان نہ آتی ہو تو اب تک جو میں نے جائزہ لیا ہے اس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اکثر ریاستوں کے صدر مقامات میں ہر قسم کے مترجمین مل جاتے ہیں اور بعض بہت اچھے اچھے ترجمے کرنے والے بہت سستے داموں مہیا ہو جاتے ہیں.مثلا یہ ازبکستان ہے، بخارا اور سمر قند وغیرہ کے علاقے ہیں ان میں بڑے اچھے اردو دان بھی موجود ہیں.جب میں نے اپنا نمائندہ وہاں بھجوایا تو مجھے معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ بہت ہی اچھے اردو دان جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی اردو میں تقریریں کرتے ہیں اور پھر بعض اردو کے رسالے بھی شائع کرتے ہیں وہ نہ صرف وہاں مہیا ہیں بلکہ بہت ہی معمولی داموں پر ان کی صلاحیتوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے.پھر ایک سے زیادہ زبانیں جاننے والے بھی وہاں بہت موجود ہیں.ایسے بھی ہیں جو دو تین چار مشرقی زبانیں جانتے ہیں اور ہر قسم کے مواقع کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں یعنی اگر کوئی احمدی پاکستان سے جاتا ہے جو اردو دان ہے تو وہ اردو سے اس مقامی زبان میں بھی ترجمہ کر سکتے ہیں.روسی زبان میں بھی ترجمہ کر سکتے ہیں.اگر کوئی عرب احمدی جاتا ہے تو ایسے ترجمہ کرنے والے ہیں جو عربی سے ترکی ، فارسی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کر سکتے ہیں.زبانوں کے لحاظ سے اس بات نے مجھے بہت ہی متعجب کیا.میرا خیال تھا کہ روس کے علاقوں میں سوائے ایک آدھ زبان کے لوگوں کا زبانوں کی طرف رجحان نہیں ہو گا مگر ہمارے اس دور کے پہلے روسی احمدی جو ایک بہت قابل آدمی ہیں ، مسٹر راویل ، وہ آج کل یہاں تشریف بھی لائے ہوئے ہیں اور انہوں نے اکثر اپنی زندگی احمدیت کیلئے وقف کر رکھی ہے ان کے متعلق مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ پانچ زبانیں نہایت شستگی سے جانتے ہیں.مثلاً مشرقی یورپ کی زبانوں میں سے روسی زبان کے تو وہ بہت اچھے لکھنے والے ماہر شاعر بھی اور ڈرامہ نویس بھی اور کالم نویس بھی لیکن ہنگیرین زبان میں بھی ایسے ماہر ہیں کہ B.B.C نے اپنے ہنگیرین پروگرام کے لئے ان کی خدمات حاصل کی ہیں اور ہنگیرین قوم کو B.B.C جو پیغام بھیجنا چاہتی ہے آج کل ان کے ذمہ ہے کہ وہ کچھ وقت ہنگیرین زبان میں وہ پیغامات ان قوموں کو پہنچا ئیں.یعنی اگر چہ پیغامات کی شکل میں تو نہیں دیئے جاتے مگر جب B.B.C غیر زبانوں میں اپنے پروگرام بناتی ہے تو آخر مقصد یہی ہوا کرتا ہے کہ انگلستان جو باتیں ان تک پہنچانا چاہتا ہے اس رنگ میں وہ ان تک پہنچیں مختلف مضامین کی شکلوں میں مختلف اہم امور
خطبات طاہر جلد ۱۰ 829 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء پر مقالے لکھوا کر وہ اپنے رنگ میں نہایت عمدگی کے ساتھ آخر اپنے مطلب کو وہاں تک پہنچا دیتے ہیں اور راویل صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ اتنے ماہر ہیں کے B.B.C جو بڑے اعلیٰ معیار کے مترجمین کو قبول کرتی ہے جن کا ترجمے کا معیار بہت بلند ہے انہوں نے ان کو اس قابل سمجھا کہ ہنگیرین زبان میں یہ B.B.C کی نمائندگی کریں.اور بھی بہت سی زبانیں یہ جانتے ہیں.ترکی زبان بھی جانتے ہیں لیکن پانچ زبانیں مجھے انہوں نے بتایا ایسی ہیں کہ وہ بآسانی بغیر کسی دقت کے بغیر توقف کے وہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کر لیتے ہیں تو اسی طرح ازبکستان وغیرہ میں ایسے لوگ بکثرت ہیں جو زیادہ زبانیں جاننے والے ہیں اور کوئی احمدی جس کو سوائے اردو کے کوئی زبان نہیں آتی وہ ازبکستان کے علاقہ میں تو اپنے آپ کو کلیہ اجنبی نہیں پائے گا.وہاں ضرور اسے ایسے آدمی مل جائیں گے جو اس کا ترجمہ کر سکیں اور دیگر جگہوں میں بھی اگر تلاش کیا جائے تو کوئی نہ کوئی ایسا مل جائے گا.تو وہ لوگ جو اپنے آپ کو روس میں وقف کے لئے پیش کرنا چاہتے ہیں وہ زبان کے تردد میں نہ پڑیں.اگر وہ تو فیق رکھتے ہیں کہ اپنے خرچ پر روس میں دو چار ہفتے یا مہینہ دو مہینے گزار سکیں تو وہ با قاعدہ تحریک جدید کی معرفت یا براہ راست مجھ سے رابطہ قائم کریں اور ہم ان کی راہنمائی کریں گے کہ کہاں جانا ہے اور کیا کیا اس علاقہ کی ضروریات ہیں جنہیں ان کو پورا کرنا ہوگا اور چونکہ جماعت احمدیہ کے روابط اب بہت سے علاقوں میں قائم ہو چکے ہیں اس لئے کوئی مشکل نہیں کہ ہم ایسے لوگوں سے ان کے رابطے کروادیں جو ان کو سنبھال لیں اور ابتدائی طور پر ان کی مدد کریں.اگر چہ ان کو اپنے اخراجات خود ہی برداشت کرنے چاہئیں لیکن روسی اقوام میں مہمان نوازی بہت ہے اور وہ کوشش یہی کریں گے کہ جس طرح بھی ہو چاہے آپ ان کو پورا کھانا میسر آئے نہ آئے آنے والے مہمانوں کا خیال رکھیں ایک غلط نہی کا یہ حصہ تھا جو دور کرنا چاہتا تھا.دوسرا یہ ہے کہ جب ہم لفظ روس بولتے ہیں روس کہتے ہیں یا روسی کہتے ہیں تو باہر کی دنیا خصوصاً ہند و پاکستان میں اس سے مراد U.S.S.R ہے یعنی یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک لیکن جس بڑے ملک کو ہم روس کہتے ہیں وہاں پہنچیں تو وہاں جب بھی آپ روس کہیں گے اس سے مراد صرف یورپین ریاست روس ہے اس کے سوا روس سے کچھ مراد نہیں لی جاتی.U.S.S.R کی سب سے بڑی ریاست کا نام روس ہے یعنی رشیاء اور اس میں بھاری اکثریت یور پینز کی ہے.اگر چہ روسی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 830 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء قومیں بھی یہاں آباد ہیں اور سٹالن کے زمانے میں خصوصیت کے ساتھ بعض مسلمان علاقوں سے لوگوں کو ہانک کر یہاں لایا گیا اور یہاں بسایا گیا.اس میں تا تاری قومیں بھی موجود ہیں قازان ایک شہر ہے جہاں بڑی تعداد میں تا تاری مسلمان بستے ہیں تو اگر چہ دوسری قومیں بھی ہیں مگر رشیا کی ریاست میں زیادہ تر یورپین ہیں اور یہ روس کی یعنی جسے ہم روس کہتے ہیں،اس کی سب سے بڑی طاقتور اور سب سے بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی ریاست ہے.اتنی بڑی ہے کہ اکیلی یہ ریاست امریکہ سے بڑی ہے.اس سے بڑی یا اس کے لگ بھگ ہوگی قریباً بہت بڑا رقبہ ہے.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ روس میں نہ صرف یہ کہ روس لفظ کو یہاں یورپین حصے پر چسپاں کیا جاتا ہے بلکہ اگر آپ اجنبی ہیں اور ان باتوں کو نہیں جانتے اور بعض دوسری ریاستوں میں ان لوگوں کو روسی کہہ کر مخاطب کریں گے تو وہ ناراض بھی ہو سکتے ہیں اور بعض بھڑک بھی سکتے ہیں کیونکہ آج کل خصوصیت کے ساتھ U.S.S.R میں روسی ریاست کے خلاف دوسری ریاستوں میں بڑی سخت رقابت پیدا ہو رہی ہے اور بعض جگہ تو شدید نفرت ہو رہی ہے چنانچہ حالیہ زمانہ میں جو محققین وہاں دورے پر گئے ہیں اور واپس آکر انہوں نے مقالہ جات لکھے ہیں ان کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض علاقوں میں تو شدید نفرت کی لہریں چل پڑی ہیں اور روسی لفظوں کو جو پہلے عام جگہ جگہ بورڈوں پر آویزاں دکھائی دیتے تھے یا روز مرہ کی سٹرکوں پر رستے دکھانے کے لئے ہدایات کی شکل میں روسی لفظ استعمال ہوتے تھے وہ سارے بورڈ اب ختم کر دیئے گئے ہیں اور ان سب روسی لفظوں کو بدل کر مقامی زبانوں کے لفظوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے.ایک لفظ مثلا مگاسان Magazin ہے جو غالبا فرنچ میں بھی دوکان کو کہتے ہیں روسی زبان میں بھی مگاسان یا میکسین (اس کا تلفظ مجھے صحیح یاد نہیں) دکان کو کہتے ہیں.اب بخارا اور سمرقند ، تاشقندر وغیرہ ان سب جگہ تمام وہ دو کا نہیں جن پر پہلے یہ لفظ لکھا ہوا تھا اب وہاں دوکان لکھ دیا گیا ہے اور ضمناً آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ ان کے ہاں مشرقی علاقوں میں جو مقامی زبانیں ہیں ان میں بہت سے ایسے لفظ ہیں جو اگر غور سے سنیں جائیں تو معلوم ہوگا کہ اردو میں بھی مستعمل ہیں.صرف تھوڑا سا تلفظ کا فرق ہے چنانچہ روسی مہمان جو ہمارے جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے بعد میں جب ان کے ساتھ مجالس ہوئیں تو ایک سے زائد مرتبہ اس طرح ہوا کہ جب یہ آپس میں بات کر رہے تھے تو ترجمہ کرنے سے پہلے میں نے ان کو بتادیا کہ میں سمجھ گیا ہوں میں اس کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 831 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء جواب دیتا ہوں.آپ یہ کہہ رہے ہیں تو انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتا چلا تو میں نے بتایا کہ آپ کے ہاں بہت سے ایسے لفظ ہیں جو اردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں جس طرح دوکان ہے ، اس کو دکان کہیں گے لیکن ہے دوکان ہی بہر حال اور بھی بہت سے لفظ ہیں چونکہ جن مضامین پر بحث ہورہی تھی وہ میرے علم میں تھے اس لئے دو چار لفظ راہنمائی کردیا کرتے تھے کہ یہ کیا بات کہنا چاہتے ہیں.یا کیا بات پوچھنا چاہتے ہیں اور وہ اندازے درست نکلتے رہے.تو اگر پاکستانی دوست یا ہندوستانی یا دوسرے اردو دان روس کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں اور ان علاقوں میں جائیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ خود بھی ان کی زبان سیکھنے کے اہل ہو جائیں گے اور اس ضمن میں واقفین کو چاہئے کہ جاتے ہی زبان سیکھنے کے اداروں میں ضرور داخل ہوں صرف گلیوں میں چلتے پھرتے گفتگو کے ذریعہ زبان نہ سیکھیں بلکہ اداروں میں داخل ہوں وہاں زبان بھی سیکھیں گے اور ساتھ تبلیغ بھی کرسکیں گے.اپنے ہم مکتب لوگوں سے مذہبی گفتگو بھی کر سکیں گے اور اس طرح ان کے دونوں کام ہو جائیں گے ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوگا.تو ہمیں اس وقت کثرت کے ساتھ لام بندی کی ضرورت ہے اور بہت احمدیوں کی ضرورت ہے جو نئے علاقوں میں جہاں اسلام کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے کثرت سے پہنچیں وہاں چھوٹے چھوٹے مکاتب لگائیں.وہاں ان کو نماز پڑھنی سکھائیں، دعائیں کرنی سکھائیں اور درس جاری کریں جس طرح گزشتہ زمانوں میں اولیاء اللہ نے تبلیغ کے کام کئے تھے اس رنگ میں جا کر انہی اداؤں کے ساتھ دوبارہ ان قوموں میں تبلیغ اسلام کریں.مسلمان علاقوں میں اس لئے خصوصیت سے تبلیغ کی ضرورت ہے کہ ان میں سے اکثریت ایسی ہے جو خدا کی ہستی سے ہی غافل ہو چکی ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے بھی ہیں تب بھی خدا کا تصور نہیں ہے اور اسلام کو ایک قوم اور نیشن Nation کے طور پر لے رہے ہیں.بڑا خطرہ یہ ہے کہ بعض مسلمان ممالک جو اپنے سیاسی نفوذ کو ہی اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں وہ پہنچ رہے ہیں اور ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ان سے پیسے لیں اور ان کے مقاصد میں استعمال ہوں اور اسلام کو ایک قومیت کے رنگ میں اپنا ئیں اور پھر سیاسی جدو جہد میں اس جذبے کو استعمال کریں.ایسے لوگ جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 832 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء عملاً خدا کی ہستی سے ہی نا واقف ہو چکے ہیں ان میں جب اس قسم کے رجحان پہنچیں گے تو اسلام کے اندر جو اس وقت دلچسپی پیدا ہورہی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے نقصان اٹھا جائیں گے.ان کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ جو ہم سیکھ رہے ہیں یہ محض سیاست ہے قوم پرستی ہے ،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں پس پیشتر اس سے کہ غلط تصورات وہاں پہنچ کر ان کی پیاس پر قابض ہو جائیں اور جسے وہ پانی سمجھ کر پی رہے ہوں وہ دراصل زہر کے پیالے ہوں کثرت سے احمدیوں کو وہاں پہنچنا چاہئے اور آب حیات لے کر پہنچنا چاہئے اسلام کو اسلام کے رنگ میں ، خالص اسلام کے طور پر ان تک پہنچانا چاہئے اور ان کی ضرورتوں کو سیراب کرنا چاہئے.پس یہ ایک دو کی بات نہیں ہے سینکڑوں چاہئیں اور میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر زبان سے کلیڈ نابلد بھی ہوں اور مترجم بھی مہیا نہ ہوں تو اگر احمدی مختلف علاقوں میں جا کر دو ہفتے ، مہینے کے لئے ایسے اڈے لگالیں کہ جہاں وہ دعائیں کرتے رہیں ، لوگوں کو اپنی طرف بلائیں اور اشاروں کے ساتھ نمازیں پڑھنا سکھائیں اور نیکی کی تعلیم جس حد تک ان کو توفیق ملے اشاروں کنایوں سے ان کو دینے کی کوشش کریں اور دعائیں سکھائیں.دعا کر کے بتائیں ، اشاروں سے اپنے مقصد کو سمجھانے کی کوشش کریں تو چونکہ یہ خالصہ للہ ہو گا.اس لئے مجھے یقین ہے کہ ان بے زبانوں کو بھی خد تعالی اثر کی زبان عطا کر دے گا اور اثر کی زبان لفظوں کی محتاج نہیں ہوا کرتی.وہ دلوں تک براہ راست پہنچتی ہے.ضرورتیں بہت زیادہ ہیں اور وقت بہت کم ہے کیونکہ جو خبریں آرہی ہیں وہ بڑی متوحش ہیں.دو قسم کے اثرات اس وقت نئے آزاد ہونے والے مشرقی ، یورپ اور روس میں بڑے نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے ہیں.ایک عیسائیت کا چرچہ اور بڑی کثرت کے ساتھ پرانے کلیساؤں کو ازسر نو مرمت کر کے اور زینت دے کر باوقار بنانا اور اس کی ظاہری کشش سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے جدو جہد کرنا.ایک یہ کام بڑی تیزی سے ہو رہا ہے پھر عیسائیت کے نام پر مالی اور دوسری امداد بہت مل رہی ہے.پھر مغربی عیسائی قوموں کے ساتھ ہمنوائی کا جو موقع ہے یہ بھی آج کل روس میں ایک فخر بن رہا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جو مغربی قوموں کے زیادہ دوست بن کر ابھریں گے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے اور آج کل کی یہی ہوا چل رہی ہے اس ہوا میں ہمیں بھی ساتھ چلنا چاہئے.اس کے نتیجہ میں عیسائیت کو فروغ کے لئے نئے نئے مواقع عطا ہور ہے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 833 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء لیکن اس کے علاوہ ایک اور خطرناک رویہ ہے مغربی طرز زندگی کی تہذیب و تمدن کی تمام برائیاں بڑی تیزی کے ساتھ ان علاقوں میں داخل ہو رہی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ آزادی سے مراد یہ ہے کہ جو چاہو جس طرح چاہو بد کاریاں کرو اور عیش و عشرت میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ جاؤ.پس Crime یعنی جرم کے رجحانات گزشتہ ایک سال کے اندراندراس تیزی سے بڑھے ہیں کہ روس سے آنے والے بتاتے ہیں کہ بعض علاقے پہچانے نہیں جاتے وہاں کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اس طرح گلیاں بے امن ہو جائیں گی لیکن اب یہی صورت حال ہے.ہمارے راویل صاحب نے بھی جو آکر ماسکو میں تبدیلیوں کے واقعات سنائے ہیں وہ بہت ہی سخت پریشان کن ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ عیسائیت کا چولی دامن کا ساتھ بن گیا ہے.یعنی ہاتھ میں ہاتھ پکڑے عیسائیت اور بدکاریاں اکٹھی ان گلیوں میں پھر رہی ہیں اور ایک دوسرے سے کوئی منافرت نہیں ہے اور یہ جو آزادی عیسائیت دیتی ہے یہ عیسائیت میں ایک مزید کشش پیدا کرنے والی بات بن گئی ہے.وہ کہتے ہیں اپنے نام عیسائی رکھ لو چرچ چلے جایا کرو اس کے علاوہ جو چاہو عیش و عشرت کرو جس قسم کی زندگی بسر کرو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تم بخشے گئے.یہ جو ڈھیل ہے اس ڈھیل نے عیسائیت میں ایک اور زائد کشش پیدا کر دی ہے.اس کے مقابل پر جب اسلام اپنی اصل شکل وصورت میں پہنچتا ہے تو ان کو بالکل مختلف طرز زندگی کی طرف بلاتا ہے.پابندیاں عائد کرتا ہے تم یہ بھی نہ کرو، وہ بھی نہ کرو اور اپنے جذبات کے اوپر بھی کنٹرول رکھو، اپنے خیالات پر بھی کنٹرول رکھو، اپنے روز مرہ کے رہن سہن میں نمایاں پاک تبدیلیاں پیدا کرو.شروع شروع میں تو بڑا ہی اکتا دینے والا منظر نظر آتا ہے جسے بوریت کہا جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں یہ کیا تماشہ بن گیا ہے.کس قسم کے لوگ ہمارے پاس آگئے ہیں.ہم تو آزادی کی طرف جارہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ نہ کرو وہ نہ کرو اور یہ کرو غرضیکہ جو جد و جہد ہے جسے انگریزی میں کہتے ہیں Unequal Fight غیر متوازن جنگ ہے اور بظاہر ہر فوقیت عیسائیت کو حاصل ہے اور بظاہر نقصان کا پہلو اسلام کی طرف ہے لیکن اس کے باوجود میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کے اندر ایک اندرونی طاقت ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق کی طاقت ہے وہ سچائی کی طاقت ہے یہ لازماً غالب آجائے گی اگر متقی لوگ اسلام کا پیغام لے کر وہاں پہنچیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 834 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء اور اپنے اعلیٰ اور پاک نمونے سے ان کو بتائیں کہ روحانی انقلاب کیا ہوتا ہے اور روحانی زندگی کس کو کہتے ہیں؟ اس قسم کے پیاسے بھی وہاں موجود ہیں اور مسلمانوں میں خصوصیت کے ساتھ عیسائیت کے مقابل پر یہ رقابت کا جذبہ پیدا ہو رہا ہے اور اس موقعہ سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے.چنانچہ وہ لوگ جنہوں نے مشرقی ریاستوں کے دورے کئے ہیں ان کے بعض مضامین سے مجھے پتہ لگا ہے کہ ان ممالک میں مغربیت کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف ایک شدید رد عمل پیدا ہو چکا ہے اور لکھنے والا لکھتا ہے کہ بہت سے مسلمان جن کو پہلے اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا اور جن کو اب بھی نہیں پتہ کہ اسلام کیا ہے وہ اس رد عمل کے نتیجہ میں مسجدوں میں جانے لگ گئے ہیں اور مسجدوں کی رونق بعض جگہ اتنی بڑھ رہی ہے کہ اگر ایک سال پہلے ایک آدمی جاتا تھا تو اب دس آدمی جاتے ہیں.تو جہاں عیسائی علاقوں میں عیسائیت اور مغربی تہذیب کی گندگیاں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں وہاں مشرقی علاقوں میں اس کے رد عمل کے نتیجہ میں ہمارے لئے ایک اچھا ماحول بھی مہیا ہورہا رہے اور ایک اچھی سازگار فضا میسر آ رہی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ وقت نہیں رہا کہ ہم انتظار کریں کہ زبانوں کے بڑے ماہر علم کے ماہر اور باقاعدہ تربیت یافتہ مربی تیار کر کے وہاں بھیجیں.یہ اس قسم کا وقت نہیں ہے یہ تو ایسا وقت ہے کہ جب قومی بقا کی خاطر جو کچھ بھی ہے میدان جنگ میں جھونکنا پڑا کرتا ہے، بعض دفعہ بچوں کو بھی بھیجنا پڑتا ہے.اب عراق ایران جنگ میں آپ دیکھیں کہ ایک وقت ایران پر ایسا آیا تھا جبکہ بالغ لڑنے والے مہیا نہیں ہو سکتے تھے تو انہوں نے عمر کا معیار ڈھیلا کرنا شروع کیا اور کم کرنا شروع کیا یہاں تک کہ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ جب میدان جنگ میں بھیجنے سے پہلے نابالغ بچے اکٹھے کئے جارہے تھے اور بعض ایسے منظر ٹیلی ویژن پر یہاں دکھائے گئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ مائیں روتی پیٹتی رہ جاتی تھیں اور ان کے بچوں کو چھین کر لے جاتے تھے کہ ان کو ہم شہادت کے لئے تیار کر رہے ہیں اور دائی زندگی بخشیں گے تم کس بات پر رورہی ہو لیکن صرف یہی نہیں بلکہ بعض حیرت انگیز ایسے مناظر بھی دکھائے گئے کہ ایرانی ماؤں نے خود اپنے بچے پیش کئے.اتنا کثرت سے پروپیگینڈا تھا کہ عراق کے مقابل پر جولڑائی کو جائے گاوہ کفر کے مقابل پر جائے گا اور اگر وہ مارا گیا تو شہید ہوگا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 835 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء بعض نیک دل مگر سادہ لوح مائیں خود اپنے چھوٹی عمر کے بچوں کو فوجیوں کے سپر د کر دیا کرتی تھیں.وہ ایک جاہلانہ جنگ تھی.اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اسلام دشمنی کی جنگ تھی.دونوں طرف اسلام دشمنی ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود چونکہ اسلام کا نام استعمال ہور ہا تھا اس لئے ماؤں نے اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اس جنگ میں جھونک دیا.میں جس جنگ کی طرف بلا رہا ہوں وہ اسلام کی جنگ ہے اور خالص اسلام کی جنگ ہے یہ وہ اسلام کی جنگ ہے کہ جو جماعت احمدیہ کے سوا کسی اور نے نہیں لڑنی اور کسی اور کے سپرد نہیں ہے یہ لڑائی اس لئے آج ہر قسم کے پیمانوں میں نرمی کرنے کا وقت ہے جس قسم کے بھی احمدی مہیا ہو سکتے ہیں، جن کو بھی توفیق ہے ان کو چاہئے کہ ان علاقوں میں چلے جائیں.ان کا جانا ہی بابرکت ہوگا اور ان علاقوں میں بیٹھ کر ان کا دعائیں کرنا ہی بابرکت ہوگا اور یہ کوئی اجنبی بات نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں اسلام کا غلبہ محض ان کے بزرگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں ہوا ہے.سب سے بڑی طاقتور چیز دعا ہے اور دعا ہی وہ ہتھیار ہے جو اس غیر متوازن جنگ میں کمزوروں کو طاقت وروں پر غالب کرنے والی ہے.اس لڑائی میں کمزور کی فتح کا یہی راز ہے ورنہ یہ ہو نہیں سکتا قانون قدرت کے خلاف بات ہے.جب بھی کمزور طاقتوروں سے ٹکراتے ہیں ضرور شکست کھاتے اور ضرور مارکھاتے ہیں.صرف مذہب کی دنیا میں یہ عجیب واقعہ رونما ہوتا ہے کہ کمزور طاقتور سے ٹکراتا ہے اور طاقتور کو شکست دے دیتا ہے.شاعروں کی دنیا میں تو ممولے شہباز سے لڑتے ہیں لیکن یہ ایک شاعری کی بات ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں مگر مذہب کی دنیا میں واقعہ ایسا ہوتا ہے.ایسے ممولے پیدا ہوتے ہیں جو شہبازوں کے پر توڑ دیتے ہیں اور ان کے لشکر کے لشکر کو ہر جہت سے شکست دے دیتے ہیں اور واقعی جب آپ ان کا مقابلہ دنیا کے پیمانوں سے کریں تو ایک طرف حقیقت میں وہ ممولے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف واقعی شہباز دکھائی دے رہے ہوتے ہیں.روما کی سلطنت سے جب چند گنتی کے مسلمان مجاہدین کی ٹکریں ہوئی ہیں اور فارس کی نت سے جب گنتی کے چند مسلمان مجاہدین کی فکریں ہوئی ہیں تو اگر چہ بعض ایسی جنگیں بھی تھیں جو خالصہ جہاد نہیں کہلا سکتی تھیں لیکن مذہبی عناصر کا بہر حال ان میں غلبہ تھا.مذہبی محرکات یقیناً ان میں غالب تھے اور چونکہ لڑنے والے نیک تھے خدا پرست تھے اور دعا ئیں کرنے والے تھے اس لئے ان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 836 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء جنگوں کے حالات پر جب آپ نظر ڈالتے ہیں تو واقعہ یوں لگتا ہے جیسے ممولوں کی ایک ٹولی بکثرت شہبازوں پر حملہ آور ہوئی اور ان کو شکست دے دیتی ہے.پس اس پہلو سے آج بھی ایسا ہی ہوگا لیکن ہوگا دعا کی برکت سے اس کے سوا اور کوئی نسخہ نہیں ہے اس لئے اگر زبان دان نہیں ہیں تو دعا گو تو ہیں ناں.ہر احمدی کو دعا کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہے کہ دنیا کی کسی مذہبی یا غیر مذہبی جماعت میں اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا.دنیا میں جتنی بھی مذہبی جماعتیں ہیں آپ ان سب کا تفصیل سے جائزہ لیں تو ان میں سال بھر میں دعا کا اتنا چرچہ نہیں ہوتا جتنا جماعت احمدیہ میں ایک ہفتہ یا ایک مہینے میں چرچہ ہو جاتا ہے حالانکہ تعداد کے لحاظ سے یہ بہت تھوڑی ہے.تو اس کثرت سے دعا کا مضمون جماعت کے اندر جاری وساری ہو چکا ہے کہ ہر فر د جب ایک دوسرے سے ملتا ہے دعا کی بات کرتا ہے ایک دوسرے کو خط لکھتا ہے تو دعا کی بات ہے.آپ ساری دنیا کی ایک دن کی ڈاک اکٹھی کر کے اگر دیکھ سکتے ہوں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ساری دنیا کی ایک دن کی ڈاک میں دعا کا اتنا ذکر نہیں ملے گا جتنا چند احمدیوں کی ڈاک میں دعا کا ذکر ملے گا بلکہ میں سمجھتا ہوں اور یہ مبالغہ نہیں ہے کہ ساری دنیا میں ہفتوں بھر کی ڈاک میں دعا کا اتناذ کر نہیں ملے گا جتنا احمدیوں کی ڈاک میں ایک دن میں مل جاتا ہے.روزانہ جتنے خط مجھے آتے ہیں سارے انگلستان بلکہ سارے یورپ میں جتنے خط مل رہے ہوتے ہیں ان کے سارے مجموعہ میں دعا کا اتناذ کر نہیں ہوتا.تو دعا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح گھوٹ کر ہمیں پلائی ہے، ہماری گھٹی میں داخل کی ہے اور یہ ماں کے دودھ کی طرح ہماری رگوں میں جاری ہوئی ہے اس لئے یہی وہ سب سے طاقت ور ہتھیار ہے جو آپ کو میسر ہے.اگر صاحب علم نہیں ہیں تو دعا گو تو ہیں ہی ناں اور یہ سب سے بڑی فیصلہ کن طاقت ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کرنا ہے.اس کے علاوہ اور بھی اس مضمون پر کچھ اور باتیں کہنے والی ہیں مگر اب چونکہ وقت ہو گیا ہے اس لئے آئندہ کے لئے میں اٹھا رکھتا ہوں.اس عمومی تحریک کے بعد کہ ہمیں آج U.S.S.R کے علاقوں میں یعنی یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک (سابق) ریپبلک کہنا چاہئے اب تو صرف یونین کا تصور ہی باقی رہ گیا ہے.وہاں مختلف علاقوں میں عیسائی علاقوں میں بھی اور مسلمان علاقوں میں بھی.ایشیائی علاقوں میں خواہ وہ مسلمان ہوں یا بدھسٹ ہوں.بعض بدھسٹ علاقے بھی وہاں ہیں.سب جگہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 837 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء بکثرت واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو عارضی طور پر اپنے آپ کو پیش کریں.جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے بالعموم روس میں تھوڑے روپے پر گزارہ ہوسکتا ہے.اگر انسان ہوٹلوں میں قیام نہ کرے.آج کل ایسا ماحول بن چکا ہے کہ درویش صفت لوگ جا کر مسجدوں میں ڈیرے لگا سکتے ہیں اور کوئی روک نہیں ہوگی اور اگر وہ نظام جماعت سے رابطہ کر کے ہدایات لے کر سفر شروع کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم ان کو بہت سے ایسے روابط مہیا کر سکتے ہیں جن کے نتیجہ میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا ،ان کا خیال رکھنے والا ، ان کو مشورے دینے والا ،ان کا خرچ بچانے والا کوئی نہ کوئی سلطناً نَّصِيرًا ان کو مہیا ہو جائے گا اور سُلْطنًّا نَصِيرًا کی بات ہوئی ہے تو ایسے ہر سفر کرنے والے کو ہمیشہ اس دعا کو ضرور یا درکھنا چاہئے جسے میں نے ساری زندگی استعمال کیا ہے اور بے انتہا مفید پایا ہے.ہر احمدی کو ہر سفر سے پہلے یہ دعا کرنی چاہئے.رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا (بنی اسرائیل (۸۱) کہ اے میرے رب! مجھے اس ملک میں صدق کے ساتھ داخل فرما، سچائی کے ساتھ داخل فرما.وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ اور اس ملک سے یا اس مقام سے سچائی اور صدق کے ساتھ باہر لا.وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطنًا نَصِيرًا اور میرے لئے اپنی جناب سے کسی غیر کی طرف سے نہیں ایسا مددگار عطا فرما جو سلطان ہو جس میں غلبے کی طاقت ہو.جو کمزور مددگار نہ ہو بلکہ یہ طاقت رکھتا ہو کہ کمزوری کو طاقت میں بدل سکے.پس یہ دعائیں کرتے ہوئے جو لوگ لہی سفر اختیار کریں گے ہر دوسری کمزوری پر یہ دعا اور ان کی بعد کی دعائیں انشاء اللہ غالب آجائیں گی اور جو انقلاب ہم U.S.S.R میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ محض ہماری تمناؤں کا انقلاب نہیں رہے گا بلکہ ایک حقیقی دنیا کا انقلاب بن جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 839 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء نصرت بالرعب کا نشان اور جماعت احمدیہ کی تعداد کی وضاحت.دعا ہے کہ میری زندگی میں ایک کروڑ نئے احمدی ہو جائیں.پھر فرمایا:.( خطبه جمعه فرموده ۲۵ اکتوبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.اذْيُرِيْكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَلَوْاَرِ يكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَإِذْ يُرِيْكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمُ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (الانفال: ۴۵،۴۴) یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے، ان کا تعلق غزوہ بدر سے ہے اور غزوہ بدر سے پہلے کی اس رویا کا اس میں ذکر کیا گیا ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دشمن کو تھوڑا کر کے دکھایا تھا.یعنی اگر چہ عملاً دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر اس مبارک رؤیا میں دشمن کی تعداد
خطبات طاہر جلد ۱۰ 840 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء تھوڑی کر کے دکھائی گئی اور اس ذکر کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اس وقت تمہیں بھی تم سب کو وہ تھوڑے دکھائی دیئے.وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ اور خدا ان کی نگاہوں میں تمہیں تھوڑا دکھا رہا تھا.لِيَقْضِيَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً تا کہ خدا تعالیٰ اس معاملے کا فیصلہ صادر فرمادے جس نے ہو کر رہنا تھا.جو مقدر ہو چکا تھاوَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمور اور خدا ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں.ان آیات کا تعلق مسلمانوں کی تعداد اور اس کے مقابل پر دشمن کی تعداد سے ہے اور اس کا اس رنگ میں دکھایا جانا کہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے سے کم دیکھ رہے تھے.ان آیات کا انتخاب میں نے اس لئے کیا ہے کہ آج میں جماعت کی تعداد کے مسئلہ پر گفتگو کروں گا اور بہت سے غلط خیالات جو پھیلے ہوئے ہیں بہت سے اعتراضات ہیں جو اس سلسلہ میں کئے جاتے ہیں اور بے یقینی کی بعض کیفیات ہیں اس لئے ضرورت سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر ضرور کچھ نہ کچھ کہا جائے.کچھ عرصہ پہلے مجھے ہندوستان سے کانپور سے بھی ایک خط ملا.اس میں یہ ذکر تھا کہ دشمن ابھی تک ہمیں بہت ہی تھوڑا بتاتا ہے اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا دعوی ہے کہیں ہم ایک کروڑ کی تعداد لکھے ہوئے دیکھتے ہیں، کہیں ڈیڑھ کروڑ کی تعداد بھی سنائی دیتی ہے اس لئے عجیب ابہام کی سی کیفیت ہے اس سلسلہ میں ضرور روشنی ڈالیں کہ اصل حقیقت کیا ہے.ایک کروڑ کی تعداد کا آغاز حضرت خلیفہ مسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ کے ایک جلسہ کے موقع پر ایک اعلان سے ہوا غالبا ۲۰ سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ کی بات ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جلسہ سالانہ پر احمدیوں کی تعداد کے متعلق اپنا تخمینہ ایک کروڑ کا بتایا تھا.اس سے پہلے ایک مرتبہ ایک نجی محفل میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جماعت کی تعداد کے متعلق جو اندازہ بتایا اس پر میں نے مودبانہ یہ عرض کیا کہ میرے نزدیک اس سے بہت کم ہے جتنی آپ کا اندازہ ہے.آپ نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور تفصیل سے مجھے یاد نہیں کیا دلائل پیش فرمائے لیکن مجھے اس ساری گفتگو کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ بہت سی جماعتیں خصوصاً بیرونی ممالک اور پاکستان میں بعض اضلاع کی جماعتیں حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں جب جماعت کے اندازے پیش کرتی ہیں تو پوری احتیاط سے کام نہیں لیتیں.ایک ملک کے متعلق مجھے یاد ہے کہ اس کے ذکر میں آپ نے فرمایا کہ وہاں دس لاکھ کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 841 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء تعداد پہنچ چکی ہے بعد میں مجھے بھی اس ملک کے دورہ کا موقعہ ملا لیکن میرے اندازے کے مطابق پانچ لاکھ کے لگ بھگ تعداد تھی.تو اندازوں میں فرق ہوتا ہے لیکن جہاں تک میں نے اس گفتگو سے اندازہ لگایا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو پورا یقین تھا کہ یہی تعداد ہے اور نعوذ بالله من ذالك اس میں کسی مبالغہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چونکہ مقام ادب یہ تھا کہ اس کے بعد میں زبان نہ کھولتا اس لئے اس موضوع پر پھر کبھی میں نے کسی سے گفتگو نہیں کی.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمۃ اللہ تعالیٰ کا وصال ہوا اور خلافت کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈالی گئی تو مجھے اکثر بیرونی ممالک میں دورہ کے وقت اس سوال کا سامنا ہوا اور میرے لئے اس وقت یہ ایک بہت ہی مشکل مسئلہ تھا کہ جہاں تک گزشتہ خلیفہ کی طرف سے اعلان کا تعلق ہے میرا یہ مقام نہیں تھا کہ میں اس کے خلاف کوئی رائے ظاہر کرتا اور جہاں تک میرے اپنے تخمینہ کا تعلق تھا میں کم سمجھا کرتا تھا اس لئے ان دونوں مسائل کے دوران سے ہمیشہ میں نے بچے گریز کی راہ یہ اختیار کی کہ جب کبھی کسی سوال کرنے والے نے سوال کیا تو میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں ساری دنیا کے احمدیوں کی تعداد کا تخمینہ نہ لگا سکا ہوں نہ یہ کسی کے لئے ممکن ہے کہ حقیقت یہ تخمینہ لگا سکے کیونکہ اس کی راہ میں بہت سی مشکلات ہیں لیکن مجھ سے پہلے خلیفہ نے ایک تخمینہ پیش کیا تھا جو ایک کروڑ کا تھا اور یہی تخمینہ ہے جو جماعت میں رائج ہے اور جب بھی سوال کرنے والے نے مزید کریدا اور میرے ذاتی اندازے کے متعلق گفتگو کی تو میں نے ہمیشہ بلاتر درد یہ بتایا کہ میرے خیال میں اس سے کم ہے لیکن مشکل یہ پیش آئی که چونکه با قاعدہ طور پر میں اس مقام پر نہیں تھا اور عملاً میرے لئے ممکن بھی نہیں تھا کہ پہلے تخمینے کے متعلق جانچ پڑتال کر کے اس کی تصحیح کر سکتا اس لئے جماعت میں ہر جگہ ایک کروڑ کی تعدا در انج ہو گئی.اس پر مزید یہ مشکل پیش آئی کہ بہت سے لوگوں نے اندازہ لگایا کہ اگر ۲۰ سال پہلے ایک کروڑ تعداد تھی تو اب سوا کروڑ ہو گئی ہوگی اور بعضوں نے اس کو ڈیڑھ کروڑ بھی کر دیا اور یہ اعداد و شمار جب شائع ہونے شروع ہوئے تو جماعت کے لئے بڑی الجھن کا سامنا تھا کہاں ایک کروڑ پھر ڈیڑھ کروڑ ، پھر دشمن کی طرف سے تعداد بہت ہی کم تو واقعہ بہت سے ممالک کے احمدیوں کے لئے یہ ایک بہت ہی مشکل مسئلہ بن گیا.اب میں آپ کو مختصر ابنا تا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اندازے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 842 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء میں کون سے محرکات تھے، کون سے اسباب تھے جنہوں نے کام کیا ہے.ایک تو یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اپنی صدارت کے زمانہ میں جب پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے تو سیالکوٹ گجرات، شیخو پوره، سرگودھا وغیرہ میں اتنے بڑے بڑے اجتماع ہوا کرتے تھے اور جماعتیں اتنے زور کے ساتھ شرکت کرتی تھیں اور ایسے بھر پورا خلاص کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں ایک سرسری تخمینے میں بہت بڑی تعداد دکھائی دیتی تھی.ان دوروں کے نتیجہ میں اور کچھ مختلف امراء کی ایسی رپورٹوں کے نتیجہ میں مثلاً جن میں سے ایک کے متعلق مجھے بھی علم ہے کہ سیالکوٹ کے متعلق ایک دفعہ کسی صاحب نے ، امیر تو نہیں تھے مگر کسی دوسرے نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو یہ اثر دیا کہ سیالکوٹ میں تو کوئی جگہ ہی نہیں جہاں احمدی نہ ہوں.تقریباً سارا سیالکوٹ احمدیت سے بھر گیا ہے جبکہ یہ بات امر واقعہ نہیں ہے.سیالکوٹ میں جہاں جماعتوں کے گچھے ہیں اور جہاں عمو مالوگ دوروں پر جاتے ہیں.وہاں واقعی یہی منظر دکھائی دیتا ہے لیکن بڑے بڑے علاقے ہیں جو بالکل خالی پڑے ہیں چنانچہ جب میں نے دورے کئے تو میں نے یہ دیکھا اور مجھے اس سے اندازہ ہوا کہ کیوں غلطی ہو جاتی ہے کہ اگر میں صرف احمدی علاقوں کے دورے کر کے آتا تو میرے پر بھی یہی تاثر ہوتا لیکن میں نے دوسرے علاقوں کے بھی دورے کئے کیونکہ وقف جدید کے تابع میں یہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ کون سے خلاء رہ گئے ہیں وہاں کوشش کی جائے اور جب خلا والے علاقے دیکھے تو دیکھ کر ہول آتا تھا کہ سیالکوٹ جیسے ضلع میں جہاں جماعت کے متعلق اتنا رعب ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جماعت پھیل چکی ہے دسیوں میل کے ایسے علاقے ہیں جہاں کوئی احمدی گاؤں نہیں یعنی بعض علاقوں میں ایک بھی گاؤں نہیں جہاں ایک احمدی بھی ہوتو اس سے طبیعت پر بہت فکر مندی پیدا ہوتی تھی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض علاقوں کے دورہ سے واقعی یہ اثر بھی پڑتا تھا کہ گویا سارا سیالکوٹ احمدیت کی جھولی میں آگیا ہے.تو ایک وجہ یہ ہوگی ، دوسری وجہ یہ کہ جماعت کی تاریخ میں مختلف ادوار ایسے آئے ہیں جن میں بعض علاقوں میں کثرت سے احمدیت پھیلی ہے اور تاریخ نے ان باتوں کو محفوظ کیا ہے اور بہت سے ایسے ادوار ہیں جو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے دیکھے ہوئے ہیں جو مجھ سے عمر میں ۷ اسال بڑے تھے اور اس کے تاثرات آپ کے ذہن پر تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب آپ نے جہلم کا دورہ کیا تو حضور نے مجلس میں بیان فرمایا کہ یہاں بڑے بڑے علاقے احمدی ہیں.اس وقت صاحبزادہ مرزا منیر احمد
خطبات طاہر جلد ۱۰ 843 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء صاحب نے جن کی کوٹھی پر آپ قیام فرمارہے تھے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب یہاں تشریف لائے تھے تو ایک ہی دن میں ۱۶۰۰ بیعتیں ہوئی تھیں لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ آہستہ آہستہ یا کہیں اور چلے گئے یا ضائع ہو گئے اور دشمن کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے.لیکن اب ۶۰۰ بھی نہیں رہے اور وہ ایک دن کی بیعتیں تھیں.تو حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ذہن پر ان تاریخی واقعات کا بھی اثر تھا اور امر واقعہ یہ ہے کہ لوگ جو پیچھے ہٹے ہیں وہ کلیہ پیچھے نہیں ہٹا کرتے ان سے جب بھی تذکرہ ہو اور ذرا سا انسان کریدے تو معلوم ہوتا کہ ان کے دل میں احمدیت کی صداقت موجود ہے اور وہ دشمن کے دباؤ کی وجہ سے گمنام سے ہو گئے.تو ایک تخمینہ لگانے والا تاریخی واقعات کو بھی اپنے تخمینے میں شامل کر سکتا ہے اور یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک علاقے میں جہاں دیہات کے دیہات اور جہاں بہت بڑے بڑے بارسوخ آدمی چند دنوں کے اندراندر احمدی ہوئے تھے اس لئے اس علاقہ میں لازماً ۱۰ ۲۰ ہزار کی تعداد میں لوگ احمدی ہوں گے یہ واقعہ ۱۰۰ سال پہلے کا ہے تو اندازہ کریں کہ رفتہ رفتہ ان لوگوں میں سے ان کے بچے بھی اگر احمدی ہوں تو تعدا کتنی بن جاتی ہے.پھر مجھے ایک تجربہ صوبہ سرحد کے دورے کا ہوا.اس سے بھی مجھے اندازہ ہوا کہ کیوں حضرت خلیفۃ اصبح الثالث کے ذہن پر تعداد کا بہت زیادہ اثر ہے.میں جب کو ہاٹ گیا تو کوہاٹ سے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا وہ سڑک جو کوہاٹ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک جاتی ہے.اس پر بعض جگہ مجھے ایسے بورڈ آویزاں دکھائی دیئے جس سے پتہ لگتا ہے کہ احمدی گاؤں ہے اور احمدی بستی وغیرہ اس قسم کے نام تھے جب میں نے دریافت کیا تو ایک مقامی دوست نے بتایا کہ واقعہ یہ بستیاں احمدی تھیں اور محض نام کی بات نہیں ہے چنانچہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سوال وجواب کی ایک بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی جس میں اس علاقے کے اکثر معززین تشریف لائے ہوئے تھے.دوران گفتگو رفته رفتہ لوگ کھلنے شروع ہوئے اور جب میں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے دلوں پر بہت گہرا اثر ہے تو بعض سے میں نے بات چھیڑ دی کہ یہ بات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اصل قصہ کیا ہے؟ تو ان میں سے ایک صاحب نے اٹھ کر بتایا کہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے زیر اثر یہ سارا علاقہ تھا اور اس وقت یعنی آپ کی شہادت کے وقت تقریباً سب کے سب احمدی ہو گئے تھے اور اس نے بتایا کہ میرا گاؤں فلاں پہاڑ کی چوٹی پر ہے جس رستے سے آپ گزر کر آئے ہیں اسی رستے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 844 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء سے اوپر رستہ جاتا ہے میں گواہ ہوں کہ ہمارا سارا گاؤں احمدی تھا اور آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہمارے گھر میں پڑی ہوئی ہیں کوئی آدمی جا کر دیکھنا چاہے تو لائبریری میں آپ کی کتابیں ملتی ہیں.پھر صوبہ سرحد کے ایک اور آدمی نے گواہی دی جو ایک وقت میں مرکزی حکومت کے وزیر بھی رہے کہ ان کے والد بھی احمدی، ان کے خاندان میں بہت سے احمدی اور اس علاقے میں ان کے اثر کی وجہ سے بہت سے احمدی ہوئے لیکن بعد میں سیاست کی وجہ سے ملاں کے زور کی وجہ سے وہ لوگ دب گئے تو انہوں نے کہا کہ دل سے تو میں آج بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے ہیں اور میں ابھی بھی بعض دفعہ ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں جو میرے والد کی لائبریری میں ہیں مگر ہمت نہیں سیاست کی کمزوری ہے اس کی وجہ سے توفیق نہیں کہ کھل کر کہہ سکوں.یہ بھی بتایا کہ میرے والد مجھے قادیان لے جایا کرتے تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے مصافحہ کی خاطر مجھے کہا کرتے تھے کہ آؤ میرے ساتھ چلو ( مصافحہ نہیں کہنا چاہئے آپ کے قرب کی سعادت حاصل کرنے کے لئے صحبت کی سعادت حاصل کرنے کیلئے ) کہتے ہیں جب میں پہلی دفعہ گیا تو میں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیا تو میرے والد نے زور سے ہاتھ مار کر کلائی سے میرے بازو کو نیچے کیا اور کہا کہ گھٹنوں کو ہاتھ لگاؤ تم اس لائق نہیں ہو کہ مصافحہ کرو.تو یہ سیاسی لحاظ سے علاقہ کے بہت معزز انسان تھے اور دل میں گہری عقیدت بھی تھی اور بچوں پر بھی اس کا اثر رہا لیکن نام کے لحاظ سے وہ احمدی نہیں.تو چونکہ یہ دور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دیکھے ہوئے تھے اور ان کے بعد کے اثرات کا میں نے مطالعہ کیا اس سے مجھے یقین تھا اور اب بھی یقین ہے کہ اگر ان سب کو شامل کر لیا جائے اور وہ خاندان یا وہ علاقوں کے علاقے جو کسی زمانہ میں احمدی ہوئے اور بعد میں کمزوری دکھا گئے تو یقیناً اس تعداد میں جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بیان فرمائی کوئی مبالغہ نہیں ہے لیکن جہاں تک ارادے یا نیت کا تعلق ہے اس میں مبالغے کا سوال ہی کوئی نہیں پیدا ہوتا.اب رہا یہ سوال کہ ایسا کیوں ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسا کیوں کرنے دیا.تو اس کے متعلق قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ الہی حکمتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک جماعت اپنے آپ کو مد مقابل کے سامنے زیادہ سمجھے اور مد مقابل کو تھوڑا سمجھے.نسبت کی بات ہے اگر مد مقابل تھوڑا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 845 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء دکھائی دیتا ہے تو مقابل پر اپنی تعداد زیادہ دکھائی دے گی اور یہ الہی حکمت ہوتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک سے زائد مرتبہ یہ الہام ہوا کہ نصرت بالرعب کہ مجھے رعب کے ذریعہ نصرت عطا کی گئی تو جماعت کا ایک رعب بھی ہے اور وہ رعب بہت بڑا ہے اس رعب کے مقابل پر ہماری تعداد تھوڑی ہے لیکن اس رعب پر جب نظر جاتی ہے تو کروڑ سے بھی زیادہ دکھائی دیتی ہے اور خدا تعالیٰ کی تقدیر بعض دفعہ ایسا کیا کرتی ہے.چنانچہ میں نے قرآن کریم کی جن آیات کی تلاوت کی ہے اس پر کوئی جاہل مولوی تو اعتراض کر سکتا ہے مگر صاحب فراست جو انسانی نفسیات پر نظر رکھتا ہے اس کے لئے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں.تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یاد کرو وہ وقت جبکہ میں نے تجھے رویا میں دشمن کی تعداد کم دکھائی اب پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے نعوذ باللہ جھوٹی رویا دکھائی اور خدا تعالیٰ کو غلط بیانی کی کیا ضرورت تھی اگر نعوذ باللہ مولوی کی تعریف میں یہ غلط بیانی کہلائے تو یہ عجیب و غریب بات ہے کہ اللہ تعالی خود دکھا رہا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ میں نے ایسا کیا اور تجھے تعداد کم دکھائی تو اگر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دل پر الہبی تصرف کے تابع دشمن کم اور اپنی تعداد کے زیادہ ہونے کا اثر پڑا تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے.اسی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ایک حکمت تھی وَلَوْاَرُ بكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ اگر تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھائی دی جاتی جیسا کہ تھی اور نسبت کے لحاظ سے تم کم ہو جاتے اور وہ زیادہ ہو جاتے تو تم میں سے بہت سے ایسے کمزور ہیں جو پھسل جاتے اور ٹھوکر کھا جاتے اور آپس میں تم لوگ اختلاف شروع کر دیتے.اللہ تعالیٰ سینوں کے راز کو بہتر جانتا ہے.لیکن پھر بھی یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اس کے باوجود واقعات کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیوں رویا دکھائی گئی تاثر اور چیز ہے تاثر میں غلطی لگ جایا کرتی ہے مگر اللہ رویا دکھائے صلى الله اور آنحضرت ﷺ کو دکھائے اور واقعات کے خلاف ہو یہ عجیب بات ہے جو قابل فہم نہیں ہے اس کا جواب اگلی آیت میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِى أَعْيُنِكُمْ قَلِیلا کہ اے مومنو! جب تم خود جاگے ہوئے اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے اور ان کی تعداد کو کم سمجھ رہے تھے وہ وقت یاد کرو تو اللہ تعالیٰ نے رویا میں آنحضرت ﷺ کو یہ واقعہ دکھایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 846 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء صلى الله ہے ایک ایسا واقعہ جس نے ظہور میں آنا تھا جو حقیقت تھی کہ جب دشمن کے سامنے مسلمانوں کی فوج صف آراستہ تھی اس وقت مسلمانوں نے جو اپنے اندزے کئے وہ بعینہ یہی تھے جو رڈیا کے مطابق تھے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا تصرف ایسا عظیم الشان ہے کہ غلط بات دکھائے بغیر وہ تاثر پیدا فرما دیا جس کا پیدا فرمانا مسلمانوں کی بقا کے لئے ضروری تھا اور حیرت انگیز ہے فرمایا: وَاذْ يُرِيكُمُوهُمْ إذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمُ الہی تصرف کے مطابق جاگے ہوئے ایک چیز کا کم دکھایا جانا یا زیادہ دکھایا جانا یہ جھوٹ میں شامل نہیں ہے اور خدائی تصرف نے مسلمانوں کو وہ نظارہ دکھا دیا جس کے اندر ایک مصلحت یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کی رویا حقیقہ سچی ثابت ہواور یہ سارے مسلمان اس بات کے گواہ بن جائیں کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے سچ دیکھا اور سچ فرمایا، ورنہ اگر نعوذ باللہ ایسانہ ہوتا اور آنحضرت ﷺ یہ کہہ کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لے جاتے جیسا کہ آپ نے ان کو فرمایا تھا کہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ دشمن کی تعداد تھوڑی سی ہے کوئی حرج نہیں ہے چلو وہاں دشمن زیادہ دکھائی دیتا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی بڑی قیامت آتی اور کتنا بڑا فتنہ پیدا ہوجاتا یعنی کمزور ایمان والوں کے لئے.سچے مومنوں کے لئے تو فتنے کا کوئی مقام نہیں ہوا کرتا اور اللہ کی شان دیکھیں کہ ان میں سے ہر شخص، ہر مجاہد جو اس غزوہ میں شامل تھا ہر ایک کی آنکھوں نے یہی نظارہ دیکھا جو حضرت محمد رسول اللہ کو دکھایا گیا تھا کہ دشمن کم ہے اور آپ تعداد میں زیادہ ہیں.پس جماعت احمدیہ کی تقویت کے لئے اور ان کو سہارا دینے کے لئے اور بہت قوی اور بڑے دشمن کے رُعب سے بچانے کی خاطر خدا تعالیٰ نے میں سمجھتا ہوں کہ اپنے تصرف کے تابع یہ انتظام فرمایا اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا جو اندازہ تھا وہ ایک الہی تصرف کے تابع تھا لیکن جب حقیقت میں اعداد و شمار پر بحث ہو تو اس وقت احمدیوں کا اس بات پر اصرار کرنا کہ ہم ضرور اتنے ہیں یہ درست نہیں ہے یا اس کو مزید بڑھا چڑھا کر بیان کرنا یہ بھی درست نہیں ہے اس میں احتیاط کرنی چاہئے.اس کا موقعہ اس لئے پیش آیا کہ ایک جگہ سے مجھے خط آیا کہ تعداد کے اوپر میری کسی سے گفت وشنید ہوئی اور اس نے حتماً کہا کہ ہر گز تم اتنے نہیں اور میں تیار ہوں کہ میں اس بات پر مباہلہ کر لوں.ایک تو مباہلہ کا مضمون عام ہو گیا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے ایک جاہل مولوی نے یا کسی نے تعداد کے معاملہ میں مجھے مباہلہ کا چیلنج دیا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ذہن پر یہ اثر ہو گا اس لئے اس صلى عليسة
خطبات طاہر جلد ۱۰ 847 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء نے کہا کہ میں مباہلہ کرتا ہوں میں نے کہا: ہرگز مباہلہ نہیں کرنا کبھی اندازوں میں بھی مباہلے ہوئے ہیں اور پھر تعداد کا مضمون ایسا مضمون ہی نہیں ہے جس میں مباہلے کئے جائیں.کسی کی صداقت کا مضمون ایسا مضمون ہے جس میں مباہلے کئے جاتے ہیں یہ تو ایک لغو بات ہے کہ ہر بات کو کھیل بنالو اور مباہلہ کر لو حالانکہ مباہلے کا مطلب یہ ہے کہ خدا ضرور تمہارے مد مقابل کو تمہاری زندگی میں ہلاک یا رسوا کر دے.تو کیوں خدا کی تقدیر کو آپ خواہ مخواہ اپنے اندازوں کے تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں.خدا کی تقدیر کا تقدس تقاضا کرتا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایسے بڑے بڑے دعوے نہ کیا کریں تو اس لئے بھی مجھے ضرورت پیش آئی ہے کہ اس مضمون کو ایک دفعہ خوب اچھی طرح کھول دوں.جہاں تک دشمن کے دعاوی کا تعلق ہے وہ ویسے ہی مضحکہ خیز ہیں اور ایک دوسرے کو جھٹلانے والے ہیں اور اتنے لغو ہیں کہ کوئی بچہ بھی ان کو سن کر ان سے متاثر نہیں ہوسکتا میں اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ وہ جو احمدیوں پر مبالغے کا الزام دھرتے ہیں ان کی اپنی کیفیت کیا ہے ان کے نزدیک جماعت احمدیہ کی تعداد کیا ہے اور ان کے اندازوں میں اختلافات کیا کیا ہیں اسکے چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایشیا جو جماعت اسلامی کا ہفت روزہ رسالہ ہے.۲۹ نومبر ۱۹۷۰ء کو اس نے اپنی اشاعت میں لکھا کہ ”پاکستان میں 11 کروڑ مسلمان بستے ہیں جبکہ قادیانیوں کی کل تعداد چند لاکھ بھی نہیں یاد رکھئے ! یہ ان کا ۲۹ نومبر ۱۹۷۰ء کا اعلان ہے اس کے ۳ مہینے بعد ہفت روزہ چٹان میں جماعت اسلامی کے سرکردہ لیڈ رسید اسعد گیلانی کا یہ بیان شائع ہوا کہ مغربی حصے میں ( یعنی مشرقی پاکستان کو الگ کر کے مغربی پاکستان میں ) ۲۲لاکھ سے زائد قادیانی اقلیت اپنے سارے وسائل کے ساتھ پیپلز پارٹی کی رضا کا تنظیم بن گئی.یعنی ۳ مہینے پہلے چند لاکھ بھی نہیں تھے ۵ سے بھی کم اور ۳ مہینے کے بعد ۲۲ لاکھ ہو گئے جن میں اکثریت رضا کاروں کی تھی.اب اس قسم کے تخمینوں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان میں نہ کوئی تنگ نہ کوئی حساب جو منہ میں آئے انٹ شنٹ کہتے چلے جاتے ہیں.کبھی جہاں دل چاہا تعداد کو کم کر دیا جہاں دل چاہا بڑھا دیا.اس کے مقابل پر جو جماعت کا تخمینہ ہے وہ اگر زیادہ بھی ہو تو اس کے حقیقت سے زیادہ ہونے کے لئے کچھ جواز بھی موجود ہیں جیسا کہ میں نے بیان کئے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 848 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء تاریخی طور پر جماعت ایک دفعہ اتنی پھیل چکی ہے کہ ایک کروڑ سے زائد یقینا اس کی تعداد پہنچ چکی ہے لیکن جو لوگ نام کے نہیں رہے یا خاندان کے خاندان یا علاقوں کے علاقے جو پیچھے بھی ہٹ چکے ہیں اگر آپ ان سے رابطے کریں اور مولوی کے معلوم کرنے کا خوف ان کو دامنگیر نہ ہو تو وہ آپ کے سامنے آج بھی یہی گواہی دیں گے.چنانچہ ایک دفعہ کی بات نہیں، بیسیوں مرتبہ مجھ سے ایسا ہوا ہے کہ وہ احمدی جن کے آباؤ اجداد احمدی تھے جو جماعت کے ریکارڈ میں ایک دفعہ احمدی کے طور پر لکھے گئے ان کی اولا د غیر احمدی ہوتے ہوئے بھی جب علیحدگی میں ملتی ہے تو تھوڑی سی بے تکلفی کے بعد ان کے دل سے یہ آواز اٹھتی ہے اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ احمدیت کچی ہے ہمارے بزرگ والدین درست تھے ہم بھی دل سے احمدی ہیں مگر مجبور ہیں.بنگال میں بھی مجھے اس کا بار ہا تجر بہ ہوا.ادھر پنجاب میں ہوا ، سرحد میں ہوا، ابھی کچھ عرصہ پہلے جہلم ہی کے ایک علاقے کے (جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے ) ایک معزز خاندان کے دوست تشریف لائے ہوئے تھے.ان سے میری بات ہوئی انہوں نے کہا: ہاں جی ! میں جانتا ہوں ، ہمارے آباؤ اجداد سارے کے سارے، سارا علاقہ احمدی تھا اور دل کی بات پوچھیں تو میں بھی احمدی ہوں ، اور ہمارے دل میں حضرت مسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت جاگزیں ہے مگر مجبور ہیں.ہم لوگ سیاسی بن چکے ہیں، دنیا دار ہو گئے تو اس کیلئے ایک جواز ہے.ایسا جواز نہیں جو محض دور کا جواز ہو واقعہ پچھلی سوسالہ تاریخ میں جماعت ایک کروڑ کی حدوں کو مس کر چکی ہے.اب ہمارا فرض ہے کہ ان لوگوں سے دوبارہ رابطے زندہ کریں.جو لوگ کھوئے گئے یا پیچھے ہٹے ان کو کھینچ کر لا ئیں.اس لئے اس مبالغہ میں (اگر یہ مبالغہ کہتے ہیں ) تو کوئی ایک بنیاد موجود ہے اسے کلیہ ہوائی بات نہیں کہا جاتا مگر ان کی باتیں آپ سنیئے کیسی ہیں.ایک جگہ جماعت اسلامی کے ۱۹۷۰ء کے اعلان کے مطابق چند لاکھ بھی احمدی نہیں اس سے ۱۴ سال کے بعد یعنی ۱۹۸۴ء میں مفتی مختار احمد نعیمی صاحب سیکرٹری جنرل مجلس عمل نے اعلان کیا کہ پاکستان میں قادیانیوں کی تعداد کسی طرح بھی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں (روز نامہ وفاق، لاہور.۱۲ جولائی ۱۹۸۴ء) یعنی اب پہلے تین مہینے کے اندراندر چند لاکھ سے بڑھ کر۲۲لا کھ رضا کاروں تک بات پہنچ گئی پھر تقریباً ۱۴ سال کے بعد وہ تعداد گھٹتے گھٹتے ایک لاکھ بھی نہیں رہی.پھر راجہ ظفر الحق صاحب جو ایک زمانے میں مرکزی حکومت میں وزیر تھے ان کا ایک باقاعدہ معین اعداد و شمار کے ساتھ اعلان شائع ہوا.وہ کہتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 849 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء ہیں.” ملک میں قادیانیوں کی تعداد ایک لاکھ چار ہزار دو سو چوالیس ہے.“ (روز نامہ وفاق.لاہور ) اب یہ ایسی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہر احمدی جو پاکستان کی جماعتوں کو جانتا ہے جس نے دورے کئے ہوئے ہیں یا ویسے بھی جلسے دیکھے ہوئے ہیں اس کو پتہ ہے کہ ایک ایک جلسے میں اس سے بہت زیادہ تعداد موجود تھی.مجھے یاد ہے جب میرا پاکستان میں ۱۹۸۳ء کا آخری جلسہ تھا تو اس میں ۲لاکھ ۵۰ ہزار سے زائد حاضرین شامل تھے.ان میں سے چند ہزار غیر احمدی بھی ہوں گے کیونکہ احمدی دوست اپنے ساتھ لایا کرتے تھے مگر یہ تو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں اس کے بعد ان کا یہ اعلان ہے کہ ایک لاکھ ۴ ہزار ۲۴۴ ہیں یہ حکومت کی بیان کردہ تعداد ہے.اب اس پر مزید چھلانگ انہوں نے یہ لگائی کہ جینیوا میں انسانی حقوق کے عالمی کمیشن کا ایک اجلاس ہوا ، جس کے سامنے جماعت احمدیہ کے نمائندوں نے بھی پاکستان میں احمدیوں پر گزرنے والے حالات رکھے اور حکومت کے نمائندے نے با قاعدہ رسمی طور پر وہاں یہ اعلان کیا کہ یہ جو کہتے ہیں ہم اتنی بڑی تعداد میں ہیں اور...مظالم ہور ہے ہیں اور اتنے مظالم ہورہے ہیں یہ سب جھوٹ ہے.مظالم ہو بھی رہے ہیں تو تمہیں کیا ؟ چھوٹی سی تو جماعت ہے اتنی سی جماعت پر مظالم ہو بھی جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق کے مطابق سارے پاکستان میں جماعت احمدیہ کی تعداد ۶۰ ہزار ہے.تو ایک طرف وہ بھی کم کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں بھی وہ کم دکھائی دیتے ہیں تو اندازوں کی غلطیوں میں ایک جماعت معصوم ہے اور ایک جماعت عمد أغلط بیانی سے کام لے رہی ہے لیکن یہ الہی تصرف ہے کہ وہ ہمیں معمولی سمجھتے ہیں.ہم اپنی تعداد کو ان سے زیادہ سمجھتے رہے اور دونوں باتوں فائدہ ہمیں پہنچا ہے کیونکہ جنگ بدر میں بھی ان دونوں غلطیوں کا فائدہ مسلمانوں ہی کو پہنچا تھا اگر ایک بڑی تعداد اپنے مد مقابل کو چھوٹا سمجھے تو وہ اسے حقیر سمجھ کر اتنے ذرائع کام میں نہیں لاتی جتنے ذرائع کی اس جدوجہد میں ضرورت ہونی چاہئے یعنی ذرائع موجود بھی ہوتے ہیں.طاقت موجود ہوتی ہے لیکن مد مقابل کو حقیر اور معمولی سمجھ کے وہ پوری کوشش کو بروئے کار نہیں لاتے اس لئے ان کا نقصان ہوتا ہے.وہ جماعت جس کے مد مقابل بہت بری طاقت ہو ان کو اگر اتنی طاقت دکھائی دی جائے تو ان کے ڈر کے مارے حوصلے پست ہو جائیں اور ان کی بقاء مشکل ہو جائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے نفسیاتی لحاظ سے اس غلطی کا فائدہ بھی ان کو ہی پہنچایا اور وہ اس حو صلے میں رہتے ہیں کہ نہیں دشمن ٹھیک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 850 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء ہے بڑا سہی ، ہم بھی کون سے کم ہیں ، ہماری بھی کافی تعداد ہے یہ مقابلہ خوب رہے گا اس سے ان کے حوصلے جوان رہتے ہیں.بہر حال یہ صورت حال ہے جو تعداد کے لحاظ سے مختلف نظریات اور مختلف جہتوں سے اندازے پیش کئے گئے ہیں مگر یہ سب اندازے ہیں.میں نے جب بھی اس موضوع پر غور کیا میرے دل سے ہمیشہ دو دعائیں اٹھتی رہی ہیں.ایک کے بعد دوسری اور میں آج ان دعاؤں میں بھی آپ کو شامل کرنا چاہتا ہوں اور اس مضمون کا تعلق تبلیغ کے ساتھ باندھ کر آپ کی ذمہ داری آپ پر روشن کرنا چاہتا ہوں.میرے دل سے ہمیشہ ایک دعا تو یہ اٹھی کہ اے اللہ ! اگر ہم کم ہیں ، ایک کروڑ سے کتنا کم ہیں ہمیں علم نہیں لیکن تو یہ تو کر سکتا ہے کہ میری موت سے پہلے ہمیں ایک کروڑ کر دے تا کہ اس تسلی کے ساتھ میں جان دوں کہ میرے پہلے واجب الاطاعت امام خلیفہ نے جو اندازہ پیش کیا تھا میں مرنے سے پہلے یہ یقین سے کہہ سکوں کہ وہ اندازہ درست نکلا.دوسری دعا میں نے یہ کی کہ اے خدا! تو مالک ہے قادر ہے یہ بھی تو کرسکتا ہے کہ میرے زمانے میں ایک کروڑ کر دے تا کہ ہم یہ تو کہہ سکیں کہ پہلے تو اندازے تھے اب اعداد و شمار سے ہم تمہیں دکھاتے ہیں اور واقعات تمہاری آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں کہ یہ دیکھو ایک ہی خلیفہ کے زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک کروڑ عطا کئے.تو ان دونوں دعاؤں کی قبولیت کا تعلق تو خدا کی ذات سے ہے وہ ارحم الراحمین ہے.میری تو دعا یہی ہے کہ وہ دوسری دعا قبول فرمالے لیکن جماعت کی کوششوں اور محنتوں اور مخلصانہ جد و جہد سے بھی اس بات کا تعلق ہے، دعاؤں کو عمل تقویت دیا کرتے ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ کلمہ طیبہ کو عمل صالح رفعت عطا کرتا ہے.پس دعاؤں کو بھی نیک اعمال سے رفعت عطا ہوا کرتی ہے اس لئے اگر ساری جماعت یہ کوشش کرے کہ ہم اس دور میں ایک کروڑ اور ہو جا ئیں تو ہر گز بعید نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کے آثار دکھانے شروع کر دیئے ہیں اور خدا کے فضل سے نہ صرف یہ کہ جماعت میں بیعتوں کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے بلکہ بعض نئے علاقے سامنے آرہے ہیں جن کے متعلق توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری التجاؤں کو قبول فرمائے اور جماعت کو خدمت کی توفیق بخشے تو علاقوں کے علاقے احمدی ہوں گے.جہاں تک ان اعدادو شمار کا تعلق ہے جن کے متعلق ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان میں کوئی مبالغہ نہیں ہے اور سو فیصد درست اعدادوشمار ہیں.جن کے متعلق تحریری طور پر بیعتوں کا ریکارڈ موجود ہے.وہ اب میں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 851 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ خدا کی تقدیر حرکت میں ہے اور قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.اگر ساری جماعت دعوت الی اللہ کے کام کو سنجیدگی سے لے اور دعائیں کر کے ہر شخص یہ کوشش کرے کہ میں ایک سے دو اور دو سے چار ہونا شروع ہو جاؤں تو مجھے کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں خدا تعالیٰ یہ عظیم خوشخبریاں دکھائے گا.جب میں انگلستان پہنچا ہوں تو اس سال دسمبر ۸۴ ء تک ۴۸۴۱ بیعتیں ہوئی ہیں.پاکستان میں تو ہم نے ان دنوں میں ریکارڈ ظاہر کرنا بند کر دیا تھا.ابھی بھی بند ہیں لیکن یہ میں باہر کی دنیا کی بتا رہا ہوں.اگلے سال یہ بڑھ کر ۹۵۲۳ ہو گئیں.اس سے اگلے سال ۱۲۶۸۹ اور اس سے اگلے سال ۱۵۰۵۹ گویا پہلے تین سال میں تقریباً ۲۵ ہزار اور چوتھے سال کو ملا کر ۴۰ ہزار کے قریب ۴ سال میں بیعتیں ہوئی ہیں اور بقیہ سالوں کا اندازہ کر لیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ ترقی دے رہا ہے.اب تک میرے یہاں قیام کے دوران موجودہ سال نکال کر ۲ لاکھ ۳۷ ہزار۸۶۷ بیعتیں ہو چکی ہیں تو کہاں وہ ۴ ہزار فی سال کی تعداد اور کہاں یہ تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا رجحان کہ گزشتہ سال میں پہلے چارسال کے معمولی چند ہزار شامل کر کے دو لاکھ ۳۷ ہزار بیعتیں ہو چکی ہیں اور جو موجودہ سال ہے اس میں بھی میرا اندازہ ہے کہ چالیس کے اوپر پچاس کے لگ بھگ ہوں گی.اب تک جو چند مہینوں کے اعداد و شمار آچکے ہیں.ان میں ۲۰ ہزار سے زائد تو موصول ہو چکی ہیں اسلئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ تعداد ۵۰ کے لگ بھگ ہوگی تو اگر یہ بھی شمار کریں تو ان ۸ سالوں میں کل تعداد ۲ لاکھ ۷۷ ہزار ۸۶۷ بنتی ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان چند سالوں میں جماعت کی رفتار کوکس تیزی سے بڑھانا شروع کیا ہے اور بعض ایسے علاقے ہیں جہاں کام ہورہا ہے اور ان کے نتائج کے متعلق میں امید رکھتا ہوں کہ جس طرح درختوں کے پھل پکنے میں کچھ وقت لیتے ہیں لیکن پکنے کا عمل سب پھلوں پر شروع ہو چکا ہوتا ہے اسی طرح بعض علاقے ایسے ہیں جہاں پھل پک رہے ہیں.پس اگر ہم دعاؤں میں غفلت نہ دکھا ئیں ، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور جماعت کو خدمت کی توفیق بخشے تو جو پھل پک رہے ہیں یہ اکٹھے جھولی میں گریں گے اور تھوڑے عرصے کے اندراندر لکھوکھا بیعتیں ہو سکتی ہیں.پس جو باتیں میں اب آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں کوئی تخمینہ نہیں ہے.یہ واقعات کی دنیا کی باتیں کر رہا ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ بظاہر ناممکن دعاؤں کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 852 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء بھی سن لیتا ہے اور ان کو بھی قبول فرمالیتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم دعاؤں کے ذریعہ بھی اور نیک مخلصانہ عمل اور جدوجہد کے ذریعے بھی خدا کے فضلوں کو کھینچنے والے ہوں اور تعداد کے متعلق دشمن جو تعلی کرتا ہے یا تمسخر آمیز باتیں کرتا ہے وہ ساری باتیں دشمن کے منہ پر پڑیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو سارے عالم میں سرخرو کرے.جہاں تک رعب کا تعلق ہے آج بھی آپ کا رعب تمام عالم میں ایک کروڑ سے زائد کا رعب ہے.واقعہ اس تعداد کے بڑھنے سے یا ڈیڑھ گنا یا دو گنا ہونے سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا میں ایک تہلکہ مچ جائے گا اور پھر ہماری رفتار کے پیمانے بڑی تیزی کے ساتھ مزید وسعت پذیر ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.پس دعوت الی اللہ کے کام کو معمولی نہ جائیں.میں ہمیشہ اسی نیت سے آپ کو دعوت الی اللہ کی تلقین کرتا ہوں کہ یہ دو آرزوئیں ہیں خدا کے فضل کے ساتھ پوری ہوں اور آپ کے سینے بھی کھلیں اور میرا سینہ بھی کھلے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت دن دگنی رات چوگنی اس تیزی سے ترقی کرے کہ دشمن کے ارادے نا کام اور نامراد ہو جا ئیں اور دشمن یقین کر لے کہ وہ ہمیشہ کے لئے شکست کھا چکا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 853 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان جماعتہائے عالمگیر کی بے مثال قربانیوں کا تذکرہ خطبه جمعه فرموده یکم نومبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کے خطبہ میں دو موضوع میرے پیش نظر ہیں سب سے پہلے تو تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرنا ہے اور اس کے بعد پھر گھنٹوں تک غالبا رات کو کسی وقت جماعت جاپان کا سالانہ جلسہ شروع ہوگا اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں براہ راست اس جلسے میں ان سے خطاب کروں.یہ چونکہ ایک ایسی نئی رسم پڑ جاتی جس کو نبھانا میرے لئے اور بعض دوسری جماعتوں کے لئے بھی مشکل ہو جاتا اس لئے ان سے میں نے معذرت کی لیکن چونکہ وہ جماعت خدا کے فضل سے بہت ہی مخلص اور بعض پہلوؤں سے امتیازی شان رکھنے والی جماعت ہے اس لئے ان کی دلداری کی خاطر یہ تدبیر میں نے نکالی کہ خطبہ جمعہ میں کچھ وقت کے لئے ان کو بھی مخاطب ہو جاؤں گا اور وہ یہی کیسٹ ان لوگوں کے لئے جلسے میں چلا دیں گے جو براہ راست نہیں سن رہے تو اس طرح گویا ان کے جلسے کا آغاز اس جمعہ کے ساتھ ہی ہو جائے گا.پس یہ دو باتیں ہیں جو میں آج احباب جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.تحریک جدید کا آغاز حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۴ء میں احرار موومنٹ کے ردعمل کے طور پر مگر الہی منشاء کے تابع فرمایا تھا یعنی بظاہر تو اس کا تعلق مجلس احرار کی اس مخالفانہ جد و جہد سے ہے جس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 854 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء میں انہوں نے یہ عہد و پیمان باندھے تھے اور بڑے بڑے دعاوی کئے تھے کہ ہم اپنے آپ کو احمدیت کو مٹادینے کے لئے وقف کرتے ہیں اور ہمارا مقصد حیات یہی ہے کہ احمدیت کو صفحہ ہستی سے ناپید کر دیا جائے.چنانچہ عطاء اللہ شاہ بخاری نے ۱۹۳۳ء کے لگ بھگ قادیان کے جلسہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ آپ دیکھیں گے کہ ہم منارۃ المسیح کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور قادیان میں کوئی مرزا غلام احمد کا نام لیوا باقی نہیں رہے گا.یہ وہ بلند دعاوی تھے جو احرار نے کئے بلند ان معنوں میں کہ شور بہت بلند تھا مگر معنوی لحاظ سے دنیا کے پست ترین دعاوی تھے کیونکہ وہ دعویٰ جو خدا کی آواز کو مٹانے اور دبانے کے لئے کیا جائے وہ دنیا کا ذلیل ترین دعوی کہلا سکتا ہے.پس ایک لحاظ سے بلند اور ایک لحاظ سے پستی میں انتہائی ذلت کے مقام کو پہنچا ہوا یہ دعوی تھا جس کے ردعمل میں حضرت مصلح موعودؓ نے بہت سے پروگرام بنائے اور جماعت کو اس تحریک کے مقابلے کے لئے آمادہ کیا.اس دوران اللہ تعالیٰ نے القاء کے طور پر آپ کے دل پر یہ تحریک نازل فرمائی اور آپ نے اپنے خطبہ میں ذکر فرمایا کہ تحریک تو میری ہے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک القاء ہے اور یقیناً یہ ایک الہی تحریک ہے جو دنیا میں عظیم الشان نتائج پیدا کرے گی.پس وہ احرار جو قادیان کی چار دیواری میں بھی احمدیت کا دم گھونٹنے کا عزم لے کر اٹھے تھے ان احرار کے اپنے دم گھونٹے گئے اور حضرت مصلح موعودؓ نے انہی دنوں میں جبکہ وہ یہ بلند بانگ دعاوی کر رہے تھے یہ اعلان کیا کہ خدا نے جو مجھے خبر دی ہے اس کے مطابق میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوں.پس ان کی اپنی زمینیں ان کے پاؤں تلے سے نکل گئیں اور خدا تعالیٰ نے دنیا میں وسیع ممالک کی نئی نئی زمینیں احمدیت کو عطا کیں اور آج یہ اسی تحریک جدید کے اخلاص اور قربانیوں کا پھل ہے کہ جماعت احمد یہ اس وقت دنیا کے ۱۲۶ ممالک میں قائم ہو چکی ہے.پس دنیا کی تحریکات اپنے عزائم لے کر اٹھتی ہیں.ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عزم کا اظہار ہوتا ہے اور ہمیشہ اللہ ہی کا عزم ہے جو دنیا پر غالب آیا کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا وَ مَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (ال عمران : ۵۵) وہ بھی مکر کرتے ہیں ، تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ کا مکر یقیناً غالب آتا ہے اور ہمیشہ غالب آتا ہے اور ان معنوں میں خَيْرُ الْمُكِرِينَ کہ وہ بدیوں کے مکر کرتے ہیں اور اللہ بھلائی کے مکر کرتا ہے اور اچھی اچھی تدبیریں کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 855 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء اس مضمون کو قرآن کریم نے اور بھی کئی جگہ مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے پس دشمن کی ہر وہ تحریک جو خدا تعالیٰ کی کسی تحریک کے مقابل پر اٹھتی ہے اور اس کو مٹانے کا عزم لے کر اٹھتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کے مقابل پر ایسی تحریکات جاری فرماتا ہے کہ دن بدن دشمن کے عزائم کو ناکام اور نا مراد بناتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر فتح خدا تعالیٰ کی تدبیروں کی ہی ہوا کرتی ہے.اس کا ایک نمونہ ہم نے تحریک جدید کی صورت میں دیکھا ہے.جس طرح اس درخت نے نشو و نما پائی.جس طرح اس کی شاخیں پھیلیں اور دور دور تک مختلف ممالک میں پھیل گئیں.یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے اور وہ آنکھیں جو بینائی رکھتی ہیں اُن کے لئے احمدیت کی صداقت کے ثبوت کیلئے یہی ایک معجزہ کافی ہونا چاہئے مگر جن کو بینائی نصیب نہ ہو وہ تو سورج کو بھی نہیں دیکھ سکتے ان کے لئے تو کوئی معجزہ بھی کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتا.تحریک جدید کے چندوں کا جہاں تک تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ قدم آگے کی طرف ہی بڑھا ہے اور گذشتہ چند سالوں میں خصوصیت کے ساتھ بیرون ممالک بہت آگے نکلے ہیں.جب میں لفظ بیرونی کہتا ہوں تو چونکہ میرا وطن پاکستان ہے اور پاکستان کی نسبت سے یہ کہنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے مراد ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک ورنہ جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے کوئی بیرونی ملک نہیں ہے.سب احمدیت کے ممالک ہیں.سب احمدیت کی سرزمینیں ہیں ہم ہر جگہ اندورنی ملک کے رہنے والے ہیں پس اس پہلو سے اس محاورے کو سطحی طور پر سمجھیں اس کو حقیقی معنوں پر اطلاق نہ کریں.احمدیت کے لئے کوئی بیرونی دنیا نہیں سب احمدیت کی اپنی دنیا ہے.پس جہاں تک پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ چند سالوں میں حیرت انگیز تیزی کے ساتھ جماعتوں نے قدم آگے بڑھائے ہیں یہاں تک کہ اگلے چند سالوں میں یہ خطرہ دکھائی دیتا ہے کہ بعض ممالک کے چندے پاکستان سے بھی آگے بڑھ جائیں اور ایک وقت ایسا تھا جبکہ پاکستان میں احمدیت کے دشمن اپنے منصوبے بناتے وقت اس بات کو اہمیت دیا کرتے تھے کہ احمدیت کے دنیا میں پھیلنے کی طاقت کا راز وہ چندے ہیں جو پاکستان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور بیرونی ممالک پر خرچ کئے جاتے ہیں.اگر پاکستان کے چندوں کا باہر نکلنا بند کر دیا جائے تو ان کی بیرونی سرگرمیوں کا دم گھوٹا جائیگا اس لئے کئی دفعہ وفود بنا کر یہ حکومتوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 856 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء سربراہوں تک پہنچے اور مطالبات میں ایک اہم ترین مطالبہ یہ ہوا کرتا تھا کہ آپ نے پاکستان کی احمد یہ جماعت کو جو یہ رعایت دے رکھی ہے کہ یہ اپنے چندے دوسرے ملکوں کی طرف منتقل کروائیں یہ بہت بھاری ظلم ہے.اس رعایت کو ختم کرنا چاہیئے اس کے برعکس ہمیں یہ موقعہ ملنا چاہئے کہ ہم آپ کی مدد سے بیرونی دنیا میں یعنی پاکستان سے باہر کی دنیا میں تبلیغ کریں چنانچہ بالآخر ان کے یہ مطالبات منظور ہوئے.پاکستان کی جماعت احمدیہ کو Exchange کی جو سہولت دی جاتی تھی وہ سہولتیں بند کر دی گئیں اور بہت سی قدغنیں لگادی گئیں.یہاں تک کہ واقعہ انہوں نے گویا جماعت کے مالی نظام کی شہ رگ پر ہاتھ ڈالا اور یہ سمجھا کہ اس طرح تمام دنیا میں احمدی جماعتوں کو خون کی سپلائی بند ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے جو نتیجہ ظاہر فرمایا وہ اس کے بالکل برعکس ہے.اب پاکستان کا چندہ تمام دنیا کے تحریک جدید کے احمدی چندوں کے مقابل پر ایک تہائی بھی نہیں رہا اور بعض ممالک اس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پاکستانیوں کے لئے خطرہ ہے کہ چند سال کے بعد وہ صف اول میں کھڑے رہنے سے محروم رہ سکتے ہیں.پس ان کو دعا بھی کرنی چاہئے اور کوشش بھی کہ جو اولیت کا مقام اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا ہے اس کو وہ قائم رکھیں.تفصیلی رپورٹیں پڑھ کر سنانے کا تو اس خطبہ میں وقت نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ سال یہی طریق اختیار کیا تھا کہ چند چوٹی کی بڑی بڑی خدمت کر نیوالی جماعتوں کی فہرست آپ کے سامنے پڑھ کر سناؤں گا اور چندوں کے متعلق کہیں نہ کہیں ایسے تبصرے کروں گا جس کے نتیجہ میں ان جماعتوں کو بھی فائدہ ہو اور دوسری سننے والی جماعتوں کو بھی احساس ہو کہ وہ آگے بڑھنے والی جماعتوں کے مقابل پر کہاں کھڑے ہیں اور کس کس جگہ کمی ہے اور کہاں ترقی کی مزید گنجائش موجود ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حسب سابق امسال بھی پاکستان کو خدا تعالیٰ نے اولیت عطا کی ہے اور اس کے بعد جرمنی کی جماعت کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ دنیا کے باقی تمام ممالک کے مقابل پر وہ اول ٹھہرے.چنانچہ ان میں ہر لحاظ سے خدا کے فضل سے نمایاں ترقی پائی جاتی ہے.۹۰ - ۱۹۸۹ء میں جرمنی کی جماعت کا وعدہ ایک لاکھ ۳۷ ہزار ۵۶۴ پاؤند تھا جس کے مقابل پر ان کی وصولی ایک لاکھ ۴۷ ہزار ۹۵۳ پاؤنڈ تھی گویا کہ وعدہ بھی خدا کے فضل سے بہت اچھا اور وصولی بھی وعدے سے بڑھ کر ۹۱.۱۹۹۰ء میں جرمنی کی جماعت نے اپنا وعدہ بڑھا کر ایک لاکھ ۵۰ ہزار ۹۴۳
خطبات طاہر جلد ۱۰ 857 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء کر دیا اور خدا کے فضل سے وصولی بھی ایک لاکھ ۵۰ ہزار ۹۴۳ ہے.اس ضمن میں میں یہ بات کھولنا چاہتا ہوں کہ جن جماعتوں کی طرف سے بعینہ اتنی ہی وصولی کی خبر ملتی ہے ان کے مالیاتی نظام کی صحت پرشک پڑ جاتا ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں چندہ دہندگان موجود ہوں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جتنا وعدہ کیا گیا ہو بعینہ اتنا ہی وعدہ پورا ہو.وجہ یہ ہے کہ بعض وعدہ کنندگان بیچارے ایسے بھی ہیں جو بڑے اخلاص سے نیک نیتی سے وعدہ کرتے ہیں لیکن درمیان میں حادثات کا شکار ہو کر مالی لحاظ سے یہ توفیق نہیں پاتے کہ اپنے وعدے کو پورا کر سکیں چنانچہ بعض دفعہ ان کی طرف سے بڑی دردناک چٹھیاں ملتی ہیں کہ ہم مجبور ہو گئے ہیں اگر اجازت دی جائے تو کچھ عرصہ کے لئے ہمیں وصولی کی قید سے آزادی دی جائے، پھر جب خدا توفیق عطا فرمائے گا ہم شامل ہو جائیں گے تو یہ واقعات ہوتے رہتے ہیں.یہ حوادث زمانہ ہیں ان سے کسی ملک کو بھی استثناء نہیں ہے.جرمنی کو بھی نہیں ہے.وہاں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ عموماً ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو چندہ لکھواتا ہی نہیں اور اگر لکھوانا چاہے بھی تو کسی نہ کسی جگہ چندے لکھنے والوں کی طرف سے غفلت ہوتی ہے کیونکہ ہم نے بالعموم یہ دیکھا ہے کہ وصولی کی طرف تو زیادہ سنجیدگی سے توجہ دی جاتی ہے لیکن وعدے لکھوانے کی طرف اتنی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ جماعت میں بالعموم یہ بڑا گہرا تاثر ہے کہ پیسہ تو ہم نے دینا ہی دینا ہے.یا لوگوں نے چندہ تو ادا کرنا ہی کرنا ہے وصولی کے وعدے تو ایک رسمی سی چیز ہے، یہ نہ بھی ہو تو فرق نہیں پڑتا اس لئے میرا سالہا سال کا یہی تجربہ ہے جب میں وقف جدید میں بھی کام کرتا تھا کہ وعدے لکھوانے میں جماعتوں کی طرف سے سنتی ہوتی ہے اور عملاً وصولی کے وقت جماعتیں خدا کے فضل سے مستعد ہو جاتی ہیں.پس وعدوں سے وصولی بڑھنی چاہئے اور بالعموم یہی ہوا کرتا ہے کہ جو لوگ کم دے سکتے ہیں ان کے مقابل پر زیادہ دینے والے نسبتا زیادہ ہوتے ہیں اور بالعموم یہی شکل بنتی ہے کہ آخر وعدوں کے مقابل پر وصولی بڑھ جاتی ہے اس کے برعکس بعض اور جماعتیں بحیثیت ملک کی اقتصادی حالت کے بہت کمزور ہوتی ہیں یعنی سارے ملک کی اقتصادی حالت اتنی کمزور ہوتی ہے جیسے سیرالیون میں کہ ایک وقت کی روٹی بھی اکثر باشندوں کو میسر نہیں آرہی.ایسے حالات میں وعدے خواہ کتنے ہی اخلاص سے لکھائے گئے ہوں سارے ملک کا اقتصادی معیار مہینوں کے اندر گرتا ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ کئی گنا روپے کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 858 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء اور ایسے لوگ اگر چاہیں بھی تو پھر وعدے پورے نہیں کر سکتے تو ان کا وعدوں کو پورا کرنا ان کے اخلاص کے لئے پیمانہ نہیں ہے بلکہ کسی اور چیز کا پیمانہ ہے.یہ ان کی بے کسی اور مجبوری کا پیمانہ ہے پس اس پہلو سے بھی یہ عقلاً ممکن ہی نہیں کہ جتنے وعدے لکھوائے گئے ہوں بعینہ اتنی وصولی ہو جائے تو جرمنی کی اس رپورٹ میں کچھ خامی رہ گئی ہے.یہ وصولی تو یقیناً ہوئی ہے کیونکہ جہاں تک میں نے ان کے مالی نظام کو دیکھا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ یہ وصولی ہے تو لازماًوہ اتنا روپیہ دکھاتے ہیں.موجود ہو گا لیکن میرا خیال ہے کہ جلدی کی رپورٹ ہے اور بہت سی وصولیاں ابھی آئی نہیں ہوں گی.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کو بھی اس معاملہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے جیسا کہ U.K کو بھی یعنی انگلستان کی جماعت کو بھی اپنی رپورٹ پر نظر ثانی کرنی چاہئے.U.K کا 90 ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تھا اور بعینہ 9 ہزار پاؤنڈ پورا ہوا ہے اب یہ بھی عقل میں آنے والی بات نہیں ہے.یہ ہو نہیں سکتا.اس سے پچھلے سال U.K کا وعدہ ۹۰ ہزار کا تھا اور وصولی اے ہزار ۰۲ ۷ تھی اس لئے یہ تعجب کی بات ہے کہ کیا واقعہ ہوا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ امیر صاحب اس کی چھان بین کر کے پھر رپورٹ بھجوائیں گے.بہر حال U.K کی یہ خوش قسمتی ہے کہ جرمنی کے بعد یہ دوسرے نمبر پر ہیں اور تیسرے نمبر پر امریکہ ہے جس کے وعدے گذشتہ سال ۷۰ ہزار ۱۷۵ کے تھے اور وصولی بھی بعینہ ۷۰ ہزار ۱۷۵ کی تھی جو تعجب انگیز ہے اور امسال ان کے وعدے ۷۸ ہزار ۹۴۷ کے تھے اور وصولی بھی بعینہ ۷۸ ہزار ۹۴۷ ہی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی امیر صاحب کے لئے چھان بین کرنے کی کافی گنجائش موجود ہے.کینیڈا کا نمبر چوتھا ہے یعنی پاکستان کو چھوڑ کر اور ان کے وعدے گزشتہ سال ۵۱ ہزار ۵۹ کے تھے اور وصولی ۴۷ ہزار ۳۹۸ تھی اور امسال ان کے وعدے ۶۱ ہزار ۲۷ کے تھے.اور وصولی ۵۰٬۰۴۲ پس کینیڈا کو خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے.بڑی مخلص جماعت ہے لیکن بہت حد تک تربیت کے محتاج نوجوان بھی وہاں پہنچے ہوئے ہیں اور بعض ایسے خاندان ہیں جن کا پہلے جماعت سے کوئی ایسا خاص تعلق نہیں تھا.کینیڈا میں جا کر ان کے اندر نئی زندگی پیدا ہوئی ہے تو وہاں کے مالی نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ان کا مرکزی نظام تو بہت مستحکم ہے اور کمپیوٹر کی مدد سے جدید ترین طریق پر وہ حسابات رکھتے ہیں لیکن خالی کمپیوٹر سے کام نہیں بنا کر تے.نظام جماعت میں دو چیزوں کی ضرورت ہے اول اخلاص کے معیار کو بلند کرنا.دوسرے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 859 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء کارکنوں کی محنت اور نظم وضبط کے نظام کو بہتر بنانا اگر سلسلہ کے کارکن محنت سے کام کرنے والے ہوں اور نظم وضبط کے ساتھ ان کے کام کی نگرانی ہوتو بالعموم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دبے ہوئے اخلاص بھی چمک اٹھتے ہیں اور جماعت میں نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے.اخلاص کی دو قسمیں ہیں.ایک تو یہ ہے جو ظاہر و باہر پریشانیوں سے پھوٹتا اور قربانیوں سے ظاہر ہوتا ہے اور ایک وہ ہے جو ہر احمدی کے دل میں بیج کے طور پر موجود رہتا ہے یا دبی ہوئی لہروں کے طو پر موجود رہتا ہے.ایسے اخلاص کو ابھارنا اور باہر لانا یہ سلسلہ کے کارکنوں کی کارکردگی پر منحصر ہے.اگر وہ اچھے ہوئے مخلص ہوں عقل والے ہوں، حکمت کے ساتھ بجائے روپے کے مطالبے کرنے کے ان کے اخلاص کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرنے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوتے ہیں.انڈونیشیا کا نمبر پاکستان کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں پانچواں ہے.انڈونیشیا نے گزشتہ سال ۳۴ ہزار کے وعدے کئے تھے اور وصولی ۳۷ ہزار کی ہوئی امسال یعنی جو سال اب گزر چکا ہے اس میں ۴۵ ہزار ۷۸۵ کے وعدے تھے اور وصولی ۴۵ ہزار ۷۸۵ ہوئی ہے.اس وصولی کی ممکن ہے ایک یہ بھی وجہ ہو یعنی بعینہ ہونے کی کہ بعض جماعتوں نے ابھی تک رپورٹیں نہیں بھجوائیں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید انڈونیشیا بھی اس میں شامل ہے.ان کے متعلق مال کے شعبہ نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ گذشتہ سال کی رپورٹ کو دہرایا ہے.یعنی وعدوں کی رپورٹ تو مل چکی ہے لیکن وصولی کی گذشتہ سال کی رپورٹ کو انہوں نے من و عن اسی طرح بیان کر دیا ہے.جو پہلی جماعتیں تھیں جن پر میں نے تعجب کا اظہار کیا ہے ان کی رپورٹیں مل چکی ہیں اور پورٹوں میں بعینہ وہی اعداد و شمار ہیں جیسے میں نے پڑھ کر سنائے ہیں لیکن انڈونیشیا کے معاملہ میں ابھی آخری رپورٹ آنے والی ہے.ماریشس کا نمبر چھٹا آتا ہے اور ان کا گذشتہ وعدہ ۹،۶۰۸ تھا وصولی ۷۲۴، ۹ اور امسال ۶۵۰ ،۱۶ اور وصولی ۶۵۰ ،۱۶ ہے یہ بھی تعجب انگیز ہے.یہ معاملہ یقیناً تعجب انگیز ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جماعتیں ایسی ہیں جن کی وصولی بعینہ وعدوں کے مطابق ہے جب کہ خدا کے فضل سے تعداد چندہ دہندگان بہت بھاری ہے اور یہ عقلا ممکن نہیں ہے کہ بعینہ ویسی وصولی ہو.ماریشس کا بھی یہی حال ہے ۶۵۰ ،۱۶ کے وعدے۶۵۰ ،۶ اوصولی اور جاپان کی وصولی امسال معمولی سی کم رہ گئی ہے جس کی جاپان سے بہر حال توقع نہیں ہے ۱۵،۱۵۵
خطبات طاہر جلد ۱۰ 860 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء کے ان کے وعدے تھے اور وصولی ۷۵۱ ۱۴۰ کی ہے.میں سمجھتا ہوں اس میں بھی رپورٹ کی کوئی خامی رہ گئی ہوگی ورنہ جماعت جاپان کا جیسا کہ میں نسبتا تفصیلی ذکر کروں گا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سے ہرگز یہ امید نہیں کہ وعدہ سے کم وصولی کرنے والے ہوں.ہندوستان کی پوزیشن پاکستان کے بعد باہر کی جماعتوں میں آٹھویں نمبر پر ہے.ان کے وعدے سال گزشتہ ۱۳۱ ۱۴ تھے وصولی ۱۱،۴۰۰ اور اب جو سال گزرا ہے اس میں ۵۴۴ ۱۴۰ کے وعدے تھے اور وصولی ۳۰۷ ۱۲.ہندوستان کے حالات ایسے ہیں کہ ان میں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے یعنی سمجھی جاسکتی ہے اور ان کو اس بات کا حق دیا جا سکتا ہے کہ یہ کسی حد تک وصولی میں پیچھے رہ جائیں کیونکہ کشمیر کی جماعتیں بہت ہی سنگین حالات میں سے گزر رہی ہیں اور ہندوستان ویسے بھی بہت پھیلا ہوا ملک ہے جس کے مقابل پر قادیان میں جماعتوں تک پہنچنے کے جو وسائل ہیں وہ سردست نسبتا کم ہیں.انسپکٹر ان بھی کم ہیں اور لمبے سفر در پیش ہوتے ہیں.چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی خاطر اگر یاد دہانی کے لئے انسپکٹر بھیجے جائیں تو انسپکٹر بھجوانے کا خرچ زیادہ آتا ہے اور وہاں سے وصولی کم ہوتی ہے تو اس لحاظ سے کچھ ایسی دقتیں ہیں کہ ان کی مجبوریاں ہیں.اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کے میدان میں پہلے کی نسبت زیادہ آگے بڑھ رہا ہے.جہاں تک فی کس وصولی کا تعلق ہے اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے جاپان تمام دنیا کو میلوں پیچھے چھوڑ گیا ہے لیکن اس سے پہلے میں تعداد کا ذکر کر دوں.چندہ دہندگان کی تعداد بہت اہمیت رکھتی ہے.اس پہلو سے ہمیں تعداد پر بھی ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے.جرمنی میں چندہ دہندگان کی تعداد گزشتہ سال ۴۸۷۴ تھی اس سال خدا کے فضل سے ۴,۹۰۰_U.K میں ۳۰۰۰ تھی اب جو بڑھ کر ۳۳۰۳ ہو گئی امریکہ میں ۲۲۵ ، اتھی اور اب گر کر ۱،۱۶۹ رہ گئی.کینیڈا میں ۲۵۲ ۲ تھی جو بڑھ کر ۲٬۵۰۰ ہوئی اور انڈونیشیا میں ۲۴۵، ۷ تھی جو بڑھ کر ۶۹۱، ۹ بن گئی ماریشس میں ۹۷۴ کے مقابل پر ۳۹۵، تعداد ہوئی اور جاپان میں ۱۰ سے بڑھ کر ۱۳۰ تک تعداد پہنچ گئی ہے.ہندوستان میں ۱۲۸۱۵ تعداد تھی اور اب بھی ۱۲٬۸۱۵ دکھائی گئی ہے جو عقلا ممکن نہیں اس لئے ان کے اعدادوشمار میں بھی درستی کی گنجائش موجود ہے.پہلے دس میں ناروے بھی شامل ہے.ان کے چندہ کی کیفیت یہ ہے کہ سال گزشتہ انہوں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 861 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء نے ۱۷۰۳ کا وعدہ کیا تھا اور وصولی ۷۱۰ تھی اور امسال یعنی سال جو آج ختم ہو رہا ہے ان کا وعدہ ۶۷۰۴ کا تھا اور وصولی ۶۷۶۵ ہے ان کی تعداد میں بھی خدا کے فضل سے اضافہ ہوا ہے ۴۱۵ پچھلے سال تھی اور اب ۳ ۴۵ ہو چکی ہے.اس کے بعد میں فی کس وصولی کے متعلق بیان کرتا ہوں.جاپان دنیا کے سب ممالک میں فی کس وصولی کے لحاظ سے آگے نکل گیا ہے.جاپان کی جماعت نے فی چندہ دہندہ تحریک جدید ۱۳:۴۶ پاؤنڈ ادا کئے ہیں جو بہت بھاری رقم ہے اور امریکہ جاپان سے تقریبا نصف ہے پیچھے رہ گیا ۲۳ ۶۷ پاؤنڈ ز فی چندہ دہندہ تحریک جدید ادا ہوا ہے.جرمنی خدا تعالیٰ کے فضل سے تیسرے نمبر پر ہے اور ۳۰۶۸۸ پاؤنڈ فی چندہ دہندہ ادا کیا ہے جو جاپان سے تقریباً چوتھا حصہ اور امریکہ سے تقریبا نصف ہے لیکن اس پہلو سے جرمنی کی قربانی قابل تحسین ہے کہ جرمنی کی جماعت میں بھاری اکثریت غرباء کی ہے اور ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی کام کے ہیں اور حکومت کی طرف سے جو زندگی کی بقاء کے لئے گزارے ملتے ہیں اس پر گزارہ کر رہے ہیں اور اس پر بھی چندے دے رہے ہیں اس لئے جہاں تک جرمنی کی جماعت کا تعلق ہے ان کا ۳۰ پاؤنڈ فی کس تحریک جدید کا چندہ ادا کرنا بہت ہی عظیم الشان قربانی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے اور ان کے اموال میں ، جان میں ، اخلاص میں اور بھی بہت ترقی دے جس طرح کہ باقی جماعتوں کے لئے بھی ہماری یہی دعا ہے.U.K کی کیفیت ۲۴، ۲۷ ہے اب یہ سوچنے والی بات ہے کہ انگلستان کی جماعت جرمنی سے پیچھے رہ جائے.جہاں تک تعداد کا تعلق ہے چونکہ جرمنی کی جماعت تعداد میں بڑھ گئی ہے اس لئے ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ جرمنی کا چندہ U.K سے بڑھ جائے لیکن فی کس قربانی کے معیار کے لحاظ سے جرمنی کی جماعت اقتصادی لحاظ سے انگلستان سے بہت پیچھے ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خدا کے فضل سے ابھی قربانی کی اور بھی گنجائش موجود ہے.کینیڈا ۲۰۰۱ ہے.ان کی بھی کیفیت کم و بیش جرمنی والی ہی ہے کیونکہ بہت سے لوگ بے کار ہیں اور ویسے بھی اقتصادی بحران ملک میں بہت ہے لیکن اس کے باوجود جرمنی سے اتنا پیچھے رہ جانا یہ تعجب انگیز ہے.ناروے۱۴۷۹۳ ہے ناروے خدا کے فضل سے اقتصادی لحاظ سے اچھا ملک ہے.کافی مستحکم ملک ہے اگر چہ وہاں دوست یہ شکایت کرتے ہیں کہ بہت برا حال ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود جہاں تک آمد مینوں کا تعلق ہے یا حکومت کی طرف سے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 862 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء وظائف کا تعلق ہے ناروے میں آمدنیوں کا معیار کافی معقول ہے.ان کا عذر یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے مقابل پر خرچ بھی زیادہ ہیں مگر بہر حال ناروے کا کینیڈا سے اتنا پیچھے رہ جانا ضرور تعجب انگیز ہے.باقی جو ایشیائی یا افریقی ممالک ہیں ان کے اقتصادی حالات یورپ اور امریکہ وغیرہ سے بالکل مختلف ہیں اس لئے وہاں ایسا موازنہ نہیں کیا جا سکتا تاہم اب چند نام اور پڑھ کر سناتا ہوں.ماریشس کی قربانی ۱۹۳ تقریباً ۱۲ پاؤنڈ فی کس ہے انڈونیشیا کی۴۷۲ ہے جو خدا کے فضل سے انڈونیشیاء کے حالات کے مطابق اچھی ہے اور پاکستان کی ۲۸۸ ہے جو پاکستان کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت معقول ہے کیونکہ وہاں ۶ فی کس کے حساب سے یا ۱۲ فی کس کے حساب سے بچوں وغیرہ کو شامل کیا جاتا رہا ہے اور اب یہ بنتا ہے ۱۲۰ سے کچھ اوپر ۱۲۵ فی کس کے لگ بھگ رقم بنتی ہے یعنی روپوؤں میں.اس لحاظ سے تو خدا کے فضل سے پاکستان کا معیار قربانی بھی کافی بلند ہے.سوئٹزر لینڈ نیم ،فرانس ، سویڈن اور ڈنمارک یہ ان ممالک میں سے ہیں جو مجموعی قربانی کے لحاظ سے تو پہلے دس میں جگہ نہیں پا سکے لیکن نسبتی قربانی کے لحاظ سے فی کس چندہ دہندہ کے لحاظ سے ان کا قربانی کا معیار قابل تحسین ہے.سوئٹزر لینڈ میں فی کس چندہ دہندہ نے اسے پاؤنڈ ہے پینس ادا کئے تحکیم نے ۴۰ ۴۸۰ یعنی ۴۸ پاؤنڈز ۴۰ پینیس، فرانس میں فی کس چندہ دھندہ نے ۳۳ پاؤنڈ ۵۰ پینیس سویڈن نے ۲۲ پاؤنڈ ۱۴ پینس اور ڈنمارک نے ۱۹ پاؤنڈ ۳۴ پینس ادا کئے.افریقن ممالک میں جو نمایاں طور پر آگے بڑھنے والے ہیں ان میں کینیا اور گیمبیا ہیں.کینیا خدا کے فضل سے اقتصادی لحاظ سے باقی افریقہ میں بہتر ہے.وہاں فی کس تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے والے نے ۵ پاؤنڈ ۲۳ پینس ادا کیا اور گیمبیا میں آ پاؤنڈ اہم پینس.گیمبیا اقتصادی لحاظ سے کینیا سے بہت پیچھے ہے اور بہت غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے اس لحاظ سے گیمبیا کے احمدیوں کا مالی قربانی کا معیار خدا کے فضل سے بہت قابل تحسین ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے.برکنیا فاسو میں بھی نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور یہ ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے.یہاں بھی چندوں کے معیار میں بہتری کی طرف نمایاں رجحان ہے اور فی چندہ دہندہ ۳ پاؤنڈےے پینس بر کینیا فاسو نے ادا کیا ہے جو خدا کے فضل سے ان کی اقتصادی حالت کے مقابل پر بہت بہتر ہے.بینن نے ۲ پاؤنڈ ۴۹ پینس ادا کئے ہیں.یہ بھی ایک چھوٹا سا غریب ملک ہے لیکن اللہ کے فضل سے یہاں بھی جماعت اچھی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 863 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء قربانی کرنے والی اور آگے بڑھنے والی ہے نائیجریا ابھی اقتصادی لحاظ سے بہت پیچھے ہے.یہ شاید کینیا سے بھی مضبوط ہو یا غالباً مضبوط تو نہیں لیکن اس کے قریب ہی ہوگا کیونکہ یہاں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اس لحاظ سے یہ دولت ہے ورنہ آبادی بھی بہت ہے.کئی لحاظ سے غربت بھی ہے اس لئے میں معین نہیں کہہ سکتا کہ دونوں میں سے کون اقتصادی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے مگر اچھے ممالک میں سے ہے اور اس کے باوجود تحریک جدید کی مالی قربانی میں صرف ایک پاؤنڈ ۲۸ پینیس ادا کئے ہیں اور باقی ممالک تو بے چارے پھر برائے نام قربانی کرنے والے ہیں لیکن ان کی غربت کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ہو سکتا ہے بہت سے اعلیٰ مقام پانے والے ممالک سے بھی ان کے اخلاص کا معیار خدا کی نظر میں بلند تر شمار ہو.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کی قربانی مقبول ہے اور کس کی نہیں.روپوؤں میں ہم اس کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، روپے کے پیمانوں میں اس کو جانچتے اور اندازے لگاتے ہیں کہ جماعت کا اخلاص کیا ہوگا لیکن نیتوں کا مضمون بہت ہی گہرا اور پھیلا ہوا اور الجھا ہوا مضمون ہے اس لئے آخری فیصلہ تو خدا کی چوکھٹ پر ہوگا.اس چوکھٹ میں اگر یہ قربانیاں مقبول ہو جائیں اور خدا تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اور اپنی خوشنودی کی سند عطا فرمادے تو ایک پیسہ بھی ہو تو دنیا کی سب دولتوں سے بڑھ کر ہے اس لئے آخر پر میری جماعت کو یہی نصیحت ہے کہ یہ فیصلہ جو بالآخر خدا کی قبولیت کی چوکھٹ پر ہونا ہے اس کا آغاز آپ کے دل کی چوکھٹ سے ہے.جو قربانی اس دل کی چوکھٹ سے خلوص اور پیار اور محبت کے ساتھ نکلتی ہے اسے لازماً پر پرواز عطا ہوتے ہیں.وہ لازماً ایسی رفعتیں پاتی ہے کہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچے اور خدا کے حضور پایہ قبولیت میں جگہ پائے.جو قربانی دل کی چوکھٹ سے الجھی ہوئی اور پشیمان صورت میں نکلتی ہے جس میں نیتوں میں اختلاط ہو جاتے ہیں کچھ یہ نیت کچھ وہ نیت جہاں کئی قسم کی دوسری کمزوریاں نیتوں میں جگہ پالیتی ہیں ان قربانیوں کو رفعتیں نصیب نہیں ہوا کرتیں خواہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ہم ان کو کتنا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ دیکھیں اس لئے آخری فیصلہ کن امر یہی ہے جس کو ہمیشہ جماعت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اپنے دل سے پھوٹتے ہوئے قربانی کے جذبوں پر نگاہ کیا کریں.وہیں ان کی تقدیر طے ہونی ہے.وہیں ان کی قسمت کے فیصلے لکھے جائیں گے.اگر دل پاک صاف ہوں اور قربانی میں اللہ کی محبت اور خالص اللہ کی رضا شامل ہو تو ایسی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور ضرور قبولیت کے مقام میں جگہ پاتی ہیں.اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 864 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء جماعت کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ اخلاص سے دی جانے والی قربانیوں میں برکت بہت ہوتی ہے.ان کے تھوڑے میں بھی اللہ تعالیٰ بے انتہاء برکتیں ڈالتا ہے اور اب تک خدا کی تقدیر یہی فیصلے صادر فرمارہی ہے کہ جماعت کے تھوڑے میں بھی بے انتہاء برکتیں ڈالی گئیں اس لئے خدا کی تقدیر کے اس پیمانے پر پر لکھتے ہوئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی قربانیوں میں اخلاص اور پاکیزہ نیتوں کے عنصر غالب رہے ہیں.خدا کرے کہ ہمیشہ یہ عناصر غالب ہی رہیں اور جماعت کے تھوڑے اموال میں بے انتہاء برکتیں پڑتی رہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں نازل ہوتی رہیں.اب جاپان کے جلسے کے آغاز کے لئے میں چھوٹا سا پیغام جماعت جاپان کو دینا چاہتا ہوں جماعت جاپان کا چند سال پہلے تک یہ حال تھا کہ خدا کے فضل سے زندگی کا احساس تو تھا.اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی خواہش تو تھی مگر اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی تھی اس لئے ہمیں ایک مشن کو بند کرنا پڑا کیونکہ جماعت کی تعداد کی نسبت کے لحاظ سے بہت زیادہ خرچ ہورہا تھا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک مشن کو بند کر دیا جائے کیونکہ افریقہ اور دوسرے غریب ممالک پر اتنے ہی خرچ میں بہت زیادہ کام ہوسکتا ہے.وہ جو جماعت جاپان کو ایک ٹھیس پہنچی ہے اس نے ایک حیرت انگیز ردعمل پیدا کیا ہے اور جماعت جاپان جو بہت ہی محدود تعداد کے اکثر نو جوانوں پر مشتمل ہے ان کے اندر نہ صرف ایک بیداری پیدا ہوئی بلکہ یہ عزم پیدا ہوا کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے اور ہمارا ٹوکیومشن بند نہ کیا جائے.اس کے بعد میں نے وہاں دورہ کیا اور جہاں تک میں نے مختلف ممالک کے دورے کئے ہیں میرے نزدیک جتنا اچھا غیر معمولی انقلاب نیک اثر جماعت جاپان پر پڑا ہے ویسی کوئی اور مثال میرے سامنے نہیں یعنی دورے کے بعد تو یوں لگتا تھا کہ اس جماعت کی کایا پلٹ گئی ہے.ایک نئی جماعت جس طرح مردوں سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے ایسی ایک کیفیت پیدا ہوئی اور نو جوان ویسے بھی خدا کے فضل سے حساس دل رکھتے ہیں جذبات محبت کا جواب جذبات محبت سے دینے والے ہوتے ہیں اور خصوصیت سے جاپان کی نوجوان جماعت نے تو جو بھی فتوحات حاصل کی ہیں وہ قلبی کیفیات سے حاصل کی ہیں.ان کے نوجوانوں میں بے حد محبت کا مادہ ہے اور بہت زیادہ فدائیت پائی جاتی ہے.تھوڑے سے اشارے پر بھی اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو ان کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 865 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء اعداد و شمار آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے فی کس قربانی کے لحاظ سے یہ دنیا کی ہر دوسری جماعت کو نہ صرف پیچھے چھوڑ چکی ہے بلکہ بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں.نئے معیار قائم کر دیئے ہیں، نئے پیمانے بنا دیئے ہیں اور ساری دنیا کے لئے ایک ایسا نمونہ بن گئی ہے جس کی پیروی کے لئے اب کھلی دعوت ہے.صلائے عام ہے جس میں طاقت ہے جس میں توفیق ہے وہ اس چیلنج کو قبول کرے اور ان کے پیچھے پیچھے ان کی پیروی کرتے ہوئے ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے.اس لئے یہ تو میں نہیں کہتا کہ جماعت جاپان ہی ہمیشہ اول رہے مگر اس اولیت کو حاصل کرنے کے لئے جو کھلے رستے ہیں ان پر میری خواہش یہی ہے کہ ساری جماعتیں دوڑیں اور چونکہ جماعت جاپان کو اولیت عطا ہو چکی ہے اس لئے وہ اور بھی تیز دوڑے اور اس طرح یہ مقابلے جن کا ذکر قر آن کریم میں فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرہ: ۱۴۹) کی نصیحت میں ملتا ہے ہمیشہ جاری وساری رہیں اور اللہ تعالیٰ پہلوں کو بھی قبول فرمائے اور بعد میں آنے والوں کو بھی قبول فرمائے.ہاں اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ چندہ دہندگان کی تعداد جس میں بچے عورتیں سب شامل ہیں.جاپان میں صرف ۱۳۵ بنتی ہے اور تعداد کے لحاظ سے وقف جدید کو یہ اعزاز ملا کہ وقف جدید میں جاپان میں ۳۵ چندہ دہندگان شامل ہوئے اور اس پہلو سے کل تعداد کے مقابل پر جتنے چندہ دہندگان شامل ہوئے ہیں اس میں جاپان نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے ۳۲۲۳ پاؤنڈ چندہ ادا کیا جو ۷ ۸ ۲۳ پاؤند فی کس بنتا ہے جو وقف جدید کے نقطہ نگاہ سے بہت بھاری قربانی ہے کیونکہ وقف جدید میں چندوں کا معیار عموماً بہت تھوڑا ہوتا ہے.پھر چندہ تحریک جدید میں ۱۴ ہزار ۷۵۱ ادا کیا اور کل چندہ دہندگان ۱۳۰ ہیں.فی کس ۱۳۴۶ پاؤنڈ ادا کیا گیا ہے جو خدا کے فضل سے ایک حیرت انگیز رقم ہے.دنیا کی کسی جماعت کو شاید اس کے نصف تک پہنچنے کی بھی توفیق نہ ملی ہو.ایک امریکہ ہے جو نصف سے کچھ زائد ہو گیا ہے.باقی سب جماعتیں پیچھے ہیں.جماعت جاپان کا ۹۱-۹۰ ء کا بجٹ ۸۲۲، ۶۷ پاؤنڈ تھا اب ۷۲،۳۸۴ ہے اس پہلو سے ۷۲ پاؤنڈ فی چندہ دہندہ ادا کیا گیا ہے.یہ صرف عام چندہ نہیں اس میں وصیت کا چندہ بھی شامل ہے.اب آپ اس میں ۱۱۳ جمع ۲۳ وہ وقف جدید والے بھی ڈال لیں تو ہزار پاؤنڈ فی کس سے اوپر رقم بن جاتی ہے لیکن یہیں ساری کہانی ختم نہیں ہو جاتی.گزشتہ سال اس جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم
خطبات طاہر جلد ۱۰ 866 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء ٹوکیو میں ایک نیا مشن بنائیں گے، مسجد اور اس کے ساتھ مشن کی عمارت اور اس کے لئے پہلی منزل پر زمین حاصل کی جائے گی اور وہاں زمینیں اتنی مہنگی ہیں کہ جتنا بھی آپ سوچیں شاید ہی آپ کا تصور وہاں تک پہنچے کہ جاپان میں زمینوں کی قیمت کیا ہے، انچوں کے لحاظ سے بکتی ہے چنانچہ انہوں نے سوچا کہ مشن کے شایان شان ایک معقول رقبہ لینے کے لئے ان کو لاکھ پاؤنڈ کی ضرورت ہوگی اور پہلے وہ تین سال میں یہ رقبہ لیں گے.پھر اس کے بعد اس میں وہ مشن بنائیں گے یا مجھے اب صحیح یاد نہیں کہ بعد کا پروگرام کیا ہے مگر پہلے تین سال میں انہوں نے یہ چندہ اکٹھا کرنا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ۱۳۰ یا ۱۳۵ بڑے چھوٹے سب چندہ دینے والے شامل ہیں عملاً چندہ دینے والے کتنے ہیں یہ مجھے اس وقت صحیح معلوم نہیں جو مستقل کمانے والے لوگ ہیں ان کی تعداد یقیناً وقف جدید میں شامل ہو جاتے ہیں تو فی سال یہ ان سارے چندوں کے علاوہ 3لاکھ پاؤنڈ ادا کریں گے اور اس کا آغاز کر چکے ہیں.جب میں نے پہلی دفعہ یہ خبر پڑھی تو میرا دماغ بنھا گیا.میں نے کہا یہ کیسے کر سکتے ہیں میں جانتا ہوں درمیانی آمدنیوں والے نوجوان ہیں.کئیوں کے پاس کام نہیں بھی ہیں کئی کچھ تجارت وغیرہ کر رہے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی خاطر انسان دل بڑھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر حوصلے بڑھاتا ہے رزق میں برکت دیتا ہے.اخلاص میں برکت دیتا ہے تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسے روحانی جنات ہیں جو کئی سال سے قربانی کے اس معیار کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان قربانیوں کے ذریعہ جماعت جاپان نے اپنا ایک مقام پیدا کرلیا ہے اور اللہ تعالیٰ اس مقام کو مزید وسعتیں بھی عطا کرے گا اور رفعتیں بھی عطا کرے گا.پس میں جماعت جاپان کو مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ میں آپ کے اس جلسہ سالانہ کا آغاز کرتے ہوئے اس کا افتتاح کرتے ہوئے آپ کو اپنی طرف سے بھی اور تمام دنیا کی احمد یہ جماعتوں کی طرف سے بھی ان اعزازات پر مبارک باد دیتا ہوں جو نیکی کے میدانوں میں آپ نے حاصل کئے ہیں اور ہم سب آپ کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نئے نئے اعزازات عطا فرمائے اور نئی نئی قربانیوں کی راہیں دکھائے ان قربانی کی راہوں پر چلنے کی استطاعت عطا کرے اور اپنی جناب سے ایسی فراخی عطا فرمائے اور ایسی جزاء عطا کرے کہ اس دنیا میں بھی آپ پر حسنات اور رحمتوں کی بارشیں ہوں اور اس دنیا میں بھی آپ پر حسنات اور رحمتوں کی بارشیں ہوں.آپ نے ہمت کے ساتھ قربانیوں کے میدان میں اولیت کا یہ جو علم ہاتھوں میں اٹھایا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 867 خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۹۱ء ہے اس علم کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.دعا کرتے ہوئے آگے بڑھیں لیکن آخر پر میں اس بات کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ نیکی کا ایک میدان ہے جس میں ابھی آپ کو کام کی بہت ہی گنجائش ہے وہ دعوت الی اللہ کا کام ہے.اگر اس پہلو کی طرف بھی آپ اس طرح اخلاص کے ساتھ توجہ دیں جس طرح آپ کے بعض نوجوان دے رہے ہیں اور میں ان نوجوانوں کو جانتا ہوں جن کو ساراسال دعوت الی اللہ کا غم ایک روگ کی طرح لگا رہتا ہے اور جوں جوں ان کے وعدوں کے پورا ہونے کا وقت قریب آتا ہے بڑے کرب کے ساتھ وہ خطوط لکھتے اور دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے.یہاں تک کہ پھر وہاں سے فیکس Faxes اور تاریں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ اتنے دن باقی رہ گئے.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے تو بیگن جو آپ کے اندر چند نو جوانوں میں خدا کے فضل سے موجود ہے اگر ساری جماعت جاپان کو عطا ہو جائے تو اس تیزی کے ساتھ آپ میں ترقی کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ ساری دنیا کی جماعت کے لئے اس پہلو سے بھی آپ مثال بن سکتے ہیں اور ضرورت ہے آج کہ اس پہلو سے دنیا کی کوئی جماعت باقی سب دنیا کی جماعتوں کے لئے مثال بنے جب تک یہ نہیں ہوگا ہماری بلند توقعات اور تمنائیں جو احمدیت کی وسعت کے لئے ہمارے دل میں تڑپتی ہیں اور دل سے اٹھتی ہیں وہ پوری نہیں ہو سکتیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت کی بہترین جزاء عطا کرے اور آپ کا جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 869 خطبہ جمعہ ۸/نومبر ۱۹۹۱ء دعاؤں کے ذریعہ بنجر زمینوں کو بھی پھل لگ جایا کرتے ہیں.تبلیغ میں دعاؤں کی تدبیر کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں.خطبه جمعه فرموده ۸/ نومبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن پھر فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی :.اُدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل : ۱۲۶) یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس جہاد کے مضمون کو بیان فرماتی ہے جو حقیقی اور اول اور افضل جہاد ہے یعنی اپنے رب کی طرف بنی نوع انسان کو بلا نا.یہ جہاد کیسے کیا جائے گا کن ہتھیاروں سے یہ جنگ لڑی جائے گی؟ اس کے متعلق یہ آیت کریمہ فرماتی ہے کہ أدعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ اپنے رب کی راہ کی طرف بنی نوع انسان کو حکمت کے ساتھ بلاؤ تلوار یا تیر کے ساتھ نہیں ، ڈانٹ ڈپٹ کر اور دھمکا کر نہیں بلکہ حکمت کے ساتھ بلاؤ.وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ اور نیک نصیحت کے ذریعے ایسی دلکش نصیحت کے ذریعے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لے وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور بالآخر اگر مقابلہ کرنا ہی پڑے تو بہترین رنگ میں مقابلہ کر وسب سے اچھے دلائل کو اختیار کرو.احسن رنگ میں یعنی دلکش انداز میں ان دلائل کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 870 خطبہ جمعہ ۸/نومبر ۱۹۹۱ء پیش کرو کیونکہ مقصد دل جیتنا ہے نہ کہ لوگوں کو شکست دینا.پس یہ وہ اول اور حقیقی جہاد ہے جس کی طرف قرآن کریم ہر مومن کو بلاتا ہے اور اس جہاد کے اسلوب سے بڑے واضح طور پر آگاہ فرماتا ہے.وہ ہتھیار بھی بیان کر دیئے جو اس جہاد میں استعمال ہوں گے.اس آیت کریمہ کے علاوہ اسی مضمون پر اور بھی آیات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تبلیغ کے لئے صبر کی بڑی ضرورت ہے حکمت کے علاوہ دعاؤں کی بڑی ضرورت ہے.چنانچہ انبیائے کرام کے طریق تبلیغ کو جو قرآن کریم نے کھول کر بیان فرمایا اس میں دعاؤں کا مضمون بھی ساتھ ساتھ اس طرح شامل ہے جیسے زندگی کے ساتھ سانس شامل ہو اور یہاں حکمت کے لفظ کو تو اختیار فرمایا.وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ کا ذکر کیا اور وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا ارشاد ہوا لیکن دعا کا ذکر نہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ حکمت کے اندر سب سے پہلے دعا آتی ہے کیونکہ حکمت سے مراد یہ ہے یعنی مختلف معانی لفظ حکمت کے ہیں لیکن اس مضمون سے تعلق میں خصوصیت کے ساتھ حکمت کے یہ معنی ہیں کہ تم اپنے مقصد کو کم سے کم کوشش، کم سے کم نقصان کے ذریعے ، زیادہ سے زیادہ احسن رنگ میں حاصل کرو.دراصل ہر جگہ، زندگی کے ہر شعبہ پر حکمت کا یہی مضمون اطلاق پاتا ہے.وہ کام جو کم سے کم کوشش ، کم سے کم جدو جہد کے ذریعہ کرنے کی کوشش کی جائے لیکن شرط یہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل ہوں.پس کم سے کم کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ کا نتیجہ کرے گا.اگر زیادہ سے زیادہ نتیجہ حاصل کرنے کے لئے زیادہ محنت درکار ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پھر زیادہ محنت کی جائے مگر بے ضرورت محنت نہ کی جائے اور بے کار محنت نہ کی جائے، ایسی کوشش نہ کی جائے جو نتیجہ خیز نہ ہو اور جو مضمون سے بے تعلق ہو.اس سلسلہ میں چونکہ مومن کی ہر تدبیر کارگر ہونے کے لئے دعا کی محتاج رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی اس لئے حکمت کے لفظ میں سب سے پہلے دعا کا مضمون شامل ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ نے جو عظیم الشان انقلابی فتح اپنے مد مقابل پر حاصل فرمائی اور گنتی کے چند سالوں میں یہ حیرت انگیز بے مثل معجزہ کر دکھایا کہ سارے عرب کی کایا پلٹ دی ایسے مخالف اور جاہل عرب کی کا یا پلٹ دی جو کلیہ متحد ہو کر آپ کو اور آپ کے پیغام کو صفحہ ہستی سے مٹادینے پر تلا بیٹھا تھا، ایسا عجیب انقلاب وہاں برپا ہوا کہ قرآن کریم فرماتا ہے.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ ولى حَمِيم (تم السجده: ۳۵)
خطبات طاہر جلد ۱۰ 871 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۹۱ء اچانک تو یہ دیکھے گا کہ وہ لوگ جو میری ہدایت کے مطابق حکمت اور موعظہ حسنہ وغیرہ سے تبلیغ کرتے ہیں اور صبر سے کام لیتے ہیں ان کی کوششیں ایک حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیں گی.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ اچانک تو یہ دیکھے گا کہ وہ جو تیرے خون کا پیاسا تھا جو تیرا دشمن تھا وہ تیرا جانثار دوست بن چکا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے محض رسماً نام تبدیل نہیں کئے اور عقلاً قائل نہیں کیا بلکہ دل جیتے ہیں اور ایسے دل جیتے جو آپ پر فدا ہونے کے لئے تڑپتے رہے.یہ وہ آخری مقصد ہے جو تبلیغ کا آخری مقصد ہے اور اس کے حصول کے لئے حضرت محمد اقدس مصطف امہ کا سب سے بڑا اور کارگر ہتھیار دعا تھی ہر قدم پر دعا فرمائی یہاں تک کہ جب آپ سب سے زیادہ مظلوم ہوئے اور دکھوں میں مبتلا کئے گئے تو اس وقت جبکہ بدعا کا وقت ہوتا ہے، اس وقت بھی آپ کے قلب مطہر سے اپنے دشمنوں کے لئے دعا نکلی اور دعا بھی ہدایت کی دعا نکلی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی کی دعا ئیں تھیں جنہوں نے یہ انقلاب برپا کیا اور حکمت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ جب دل دکھا ہوا ہوا اور بے اختیار بددعا ئیں پھوٹنے کو تیار ہوں تو اس وقت خدا تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لانے کے لئے انسان اپنے جذبات کو قربان کرتے ہوئے ظالموں کے حق میں ہدایت کی دعا کرے.مظلوم کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے لیکن مظلوم کی دعا جو اپنے دشمنوں کے خلاف ہونے کی بجائے ان کے حق میں ہواس کے جواب میں خدا تعالیٰ کے لئے قبولیت کے سوارہ کیا جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے تبلیغ کے سلسلے میں ہمیں حکمت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا اور سب سے اہم گر یہی سمجھایا کہ دعائیں کرو اور دعاؤں پر بھروسہ رکھو.ہر حال میں دعائیں کرو اور دعاؤں کے ذریعہ تمہاری جنگ جیتی جائے گی.یہ تمہارا سب سے طاقتور سب سے بڑا اور سب سے زیادہ قابل اعتماد ہتھیار ہے جس کے سوا خدا کی راہ میں کامیابی کے ساتھ دعوت نہیں دی جاسکتی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت سی آیات کریمہ جن میں انبیاء اور دیگر بزرگوں کی تبلیغ کا ذکر ہے ان میں دعا کا مضمون سب جگہ شامل ہے.حضرت موسیٰ“ جب فرعون سے محو گفتگو ہیں بار بار خدا کی طرف توجہ جاتی ہے.خدا کے حوالے دیتے ہیں خدا پر توکل کی بات کرتے ہیں.آپ کے وہ متبعین جنہوں نے اس مناظرے اور مقابلے کے وقت آپ کے نئے پیغام کو قبول کیا اور خدا اور حضرت موسی“ پر ایمان لائے جب فرعون
خطبات طاہر جلد ۱۰ 872 خطبہ جمعہ ۸/نومبر ۱۹۹۱ء ان کو دھمکیاں دیتا ہے تو معا ان کی توجہ بھی دعا ہی کی طرف جاتی ہے اور خدا پر بھروسے کا ذکر کرتے ہیں غرضیکہ انبیاء کی جور وئید ادقرآن کریم میں جگہ جگہ پھیلی پڑی ہے اور انبیاء کے ماننے والوں کی جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے خدا پر تو کل کو دی گئی اور خدا پر توکل کے نتیجے ہی میں اپنی جو دعائیں دل سے پھوٹی ہیں وہی کار گر ثابت ہوئیں اور انہی کے ذریعہ انقلاب عظیم برپا ہوا.پس وہ کام اور وہ بظاہر بہت ہی مشکل کام جس کی طرف میں نے جماعت کو بلایا ہے وہ آسان ہو جائے گا اگر آپ بھی یہی ہتھیار استعمال کریں جو بارہا آزمائے جاچکے ہیں.یہ ایسا نسخہ نہیں جو نیا ہو اور انوکھا ہواور پتہ نہیں کہ اس کے کیا نتائج مترتب ہوں گے بلکہ ایسا نسخہ ہے کہ جو ازل سے آج تک جب بھی استعمال ہوا ہمیشہ کارگر ثابت ہوا.پس جب میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے اور یہ جدو جہد بھی کرنی چاہئے اور خدا کے در سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ایک کروڑ احمدی اور بنالیں اور ایک کروڑ ایسی روحیں خدا کی راہ میں اس کے قدموں میں ڈال دیں جو اس سے پہلے خدا سے برگشتی تھیں یا خدا سے اجنبی تھیں تو یہ اتنا بڑا کام نہیں جتنا بظا ہر دکھائی دیتا ہے کیونکہ دعاؤں کے نتیجہ میں بہت بڑے بڑے کام آسان ہو جایا کرتے ہیں، پہاڑٹل سکتے ہیں اور یہی وہ مضمون ہے جس کو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ اگر تم میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا اور تم پہاڑوں کو اپنی طرف بلاؤ گے تو وہ تمہاری طرف آجائیں گے.اس سے ظاہری پہاڑ مراد نہیں ہیں بلکہ وہ سرکش قو میں ہیں جو خدا کا پیغام سننے کے لئے تیار نہیں ان کو ایمان اور دعا کی دولت سے بلایا جاسکتا ہے.بہر حال یہ وہ سب سے اہم ذریعہ تبلیغ ہے جس کی طرف جماعت کو جس سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئے اس سنجیدگی سے توجہ نہیں کر رہی.میں اس لئے یہ بات یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اگر اس سنجیدگی سے توجہ کی جاتی تو وہ نتیجہ ضرور نکلنا تھا جو پہلے نکلتا آیا ہے.اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوا کرتے.قانون قدرت نے دیکھیں آپ کو یہ سکھایا کہ محنت کر کے زمین تیار کرو اور اس میں بیج ڈالوتو وہ پیج ضرور سبز کھیتوں کی شکل میں پھوٹے گا اور جتنا ڈالا ہے اس سے بہت زیادہ تمہیں واپس کرے گا.یہ ایک ایسا قانون قدرت ہے جو سوائے استثنائی ابتلاؤں کے ہمیشہ کارگر ہوتا رہا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ نا کام نہیں ہوا.پس یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ روحانی دنیا میں ایک دستور جاری فرمائے ، یک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 873 خطبہ جمعہ ۸/ نومبر ۱۹۹۱ء قانون بنائے اور وہ لوگ جو اس دستور پر، اس قانون پر اللہ کی رضا کی خاطر عمل کرنے والے ہوں ان سے اس قانون کی منفعتیں چھین لے اور ان کو اس کے نفع سے محروم کر دے.یہ ہو ہی نہیں سکتا اور کبھی ہوانہیں ساری تاریخ انبیاء ساری تاریخ مذاہب ہمیں بتا رہی ہے کہ دعا ہمیشہ کارگر ثابت ہوئی ہے اور دعا کے نتیجہ میں سعید روحوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں بھیجے ہوئے دوڑتے ہوئے خدا کے حضور حاضر ہونے کی توفیق ملتی رہی ہے.پس دعا پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جارہی.بہت سے لوگ مجھے لکھتے ہی کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن نتیجہ نہیں نکل رہا، دعا کرتے ہیں لیکن نتیجہ نہیں نکلتا.بعض دفعہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنی دعا میں بھی مخلص ہیں لیکن دعا کے علاوہ تبلیغ کے مضمون میں صبر کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے.بعض دفعہ بعض عمل جلدی پھل لاتے ہیں.بعض ذرا دیر میں پھل لاتے ہیں مختلف قسم کی زمینیں ہیں جن پر کام ہوا کرتے ہیں، مختلف قسم کے بیج ہیں جو بوئے جاتے ہیں.بعض بیج ہیں جو آج بود تو کل ان سے ہریالی نکل آتی ہے.مثلا مکئی کے دانے مجھے یاد ہے بچپن میں ہم خاص طور پر اس لئے بویا کرتے تھے کہ بہت جلدی ان سے روئیدگی پھوٹتی ہے اور بہت جلدی جلدی مکئی کا سرسبز وشادات پودا آنکھوں کے سامنے بڑھتا ہے لیکن بعض پیج ایسے ہیں جو بہت لمبا وقت لیتے ہیں.زمینوں کے ساتھ بھی اس مضمون کا تعلق ہے بعض زمینیں دیر سے بیجوں میں اثر پیدا کرتی ہیں اور ان کو پھوٹنے کے لئے اجازت دیتی ہیں ، بعض زمینیں جلدی اپنا اثر دکھاتی ہیں.جب میں سری لنکا سیلون بوٹینیکل گارڈن دیکھنے گیا تو وہاں مجھے ایک درخت دیکھ کر تعجب ہوا جس کے متعلق پتہ لگا کر ہزاروں سال پرانا ہے اور اس کا پھل میچور Mature ہونے یا بالغ ہونے میں بہت سے سال لگتے ہیں.دس پندرہ سال تک وہ پھل آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے.اس پر مجھے اب بعینہ یقین سے تو یاد نہیں مگر ۶۰ سال یا اس سے زیادہ مدت اس نے بتائی کہ اس عرصہ میں اس کا بیج پھوٹ کر پودا مناسب قدر کو پہنچتا ہے یعنی جوان ابھی نہیں ہوا ہوتا لیکن با قاعدہ ایک پودے کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے اس عمل کے لئے ۶۰ سال درکار ہیں.اگر کوئی بے صبر ادعا کرنے والا اس پیج پر دعا کرتا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے پہلے مرجاتا کہ وہ پودا بڑا ہو کر پھل لانے کے قابل ہوتا کیونکہ ۶۰ سال کے بعد اس کی بلوغت کا دور شروع ہوتا ہے اور پھر ایک لمبا عرصہ اس کو پھل لانے میں لگتا ہے.تو اللہ کے قوانین جاری وساری ہیں اور ضرور عمل دکھاتے ہیں لیکن یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 874 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۹۱ء قوانین جن حالات پر صادر ہوتے ہیں وہ حالات بھی تو بدلتے رہتے ہیں.ان کی کیفیات مختلف ہیں کچھ حالات خدا کے ایک قانون کے تابع ہیں کچھ دوسرے قانون کے تابع ہیں.پس ایسے لوگ جو بے صبری دکھاتے ہیں وہ بعض دفعہ اپنی ذات پر یا خدا کی ذات پر یہ بدظنی کر دیتے ہیں گویا ہماری دعاؤں میں کوئی اثر ہی نہیں یا خدا سنتا نہیں ان کو بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.پس اپنی کیفیت کو درست کریں.اللہ کی ذات پر کامل تو کل رکھیں.دعا اس طرح کریں جیسا کہ دعا کرنے کا حق ہے اور صبر کو اختیار کریں اور اپنی طرف سے سب کچھ خدا کے حضور حاضر کر دیں.پھر یا درکھیں کہ پھل پھول لانا اس کا کام ہے.میاں محمد لکھو کے والوں کا یا مجھے یاد نہیں رہا کہ کن کا وہ پنجابی کا شعر ہے بہر حال کسی صوفی بزرگ کا ہے کہ مالی کا کام تو یہ ہے کہ وہ محنت کرے درخت لگائے اور پھر بھر بھر مشکیں ڈالے آگے مالک کا کام ہے پھل پھول لائے نہ لائے ، یہ اس کا کام ہے یہ مالی کے اختیار کی بات نہیں.اس کے سپر د جو کام ہے وہ بہر حال کرے اور پھر باقی معاملہ خدا کے سپر د کر دے.یہ تبلیغ کا وہ مضمون ہے جو دعا سے اور صبر سے تعلق رکھتا ہے.اس ضمن میں میں ایک اور بات واضح کرنی چاہتا ہوں کہ خدا کے سپرد کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ذمہ داری خدا پر پھینک دے اور جب یہ سوال پیدا ہو کہ تمہاری کوششوں کو پھل نہیں لگ رہے تو آدمی بڑی بیزاری سے یا بے تعلقی سے یہ کہہ دے کہ جی ! میں نے جو کرنا تھا کر لیا آگے اللہ کی مرضی یہی بات کہ اللہ کی مرضی اور اللہ کا اختیار ایک صوفیانہ جذ بہ عشق کے ساتھ بھی بیان کی جاتی ہے اور ایک نہایت گستاخانہ بے ہودہ طریق پر بھی بیان کی جاتی ہے.بات ایک ہی ہوتی ہے مگر اس کے نتائج بالکل مختلف نکلتے ہیں.وہ لوگ جو خدا کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی محبت میں پکھل کر یہ کہتے ہیں کہ وہ مالک ہے جب چاہے گا دے گا اور ہم اس کی رضا پر ہر حال میں راضی ہیں یہاں تک کہ وہ نہ بھی دے گا تب بھی راضی ہیں اس بات میں ایک غیر معمولی جذب پایا جاتا ہے جو اللہ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے بعض عظیم الشان کام دکھاتا ہے، بعض دفعہ بعض دعا ئیں اس اظہار کے نتیجہ میں مقبول ہو جاتی ہیں حالانکہ انسان کے دل کی کیفیت تو وہی رہتی ہے جو ہمیشہ سے ہے لیکن بعض دفعہ انسان ایک دکھے ہوئے دل کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے کہ میری دعائیں قبول ہونگی ، ہونگی ، ہونگی آخر یہ سوچتا ہے کہ کیوں نہیں ہوئیں.اس وقت دل بڑی پختگی کے ساتھ اس سارے مضمون پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 875 خطبہ جمعہ ۸ / نومبر ۱۹۹۱ء غور کرتا ہے اور آخری نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ میں راضی ہوں.میرے اندر کوئی فتو نہیں ہے اور خدا کے حضور اپنے دل کی کیفیت اس طرح پیش کر دیتا ہے کہ اس وقت یہ بات دعا بن جاتی ہے اور عظیم الشان جذب کی طاقت رکھتی ہے یعنی اللہ کی رحمت کو جذب کرنے کی طاقت رکھتی ہے لیکن ایک بد تمیز آدمی جس کو کہا جائے کہ جی آپ کے سپرد یہ کام کیا تھایا آپ نے ابھی کام کیا نہیں تو وہ کہے کہ جی میں نے جو کرنا تھا کر دیا آگے نتیجہ نکالنا میرا کام نہیں.یہ اللہ کا کام ہے.اس بات میں بڑی سخت بد تمیزی اور گستاخی پائی جاتی ہے.یعنی وہ سمجھتا ہے کہ میں نے تو پورا کامل کام کیا اس میں کوئی نقص نہیں چھوڑا اور نتیجہ نہیں نکلتا تو خداذ مہ دار ہے ، میں ذمہ دار نہیں ہوں.یہ بالکل اور مضمون ہے.اس مضمون سے ایسا بھاگیں جیسا کوڑھی سے بعض لوگ بھاگتے ہیں کیونکہ یہ انسان کو ہلاک کرنے والا مضمون ہے.اس لئے مومن جہاں تو کل رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ میری دعا کو ضرور پھل لگے گا وہاں پھل میں دیر ہونے کی صورت میں اپنے عیوب تلاش کرتا ہے، اپنی کمزوریوں کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور ہمیشہ یہی سمجھتا ہے کہ دعا کو تو ضرور پھل لگنا چاہئے.اللہ کی رحمت اگر دیر سے آرہی ہے یا نہیں آرہی تو یہ تو شک والا معاملہ ہی نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو قبول فرماتا ہے اور اپنے بندوں کی سچی محنتوں کو قبول کرتا ہے.آج نہیں تو کل اس کی رحمت ضرور نازل ہوگی لیکن یہ خطرہ بھی تو ہے کہ میرے کام میں نقص رہ گیا ہے، میری نیت میں فتور ہو گیا ہو.میں نے اس بھونڈے انداز سے کام کیا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ قابل قبول ہی نہ ہو.اس پہلو سے جب انسان اپنے نفس کا جائزہ لیتا ہے تو حکمت کا ایک دوسرا باب کھل جاتا ہے اور حکمت ایک نئے مضمون کے ساتھ انسان پر روشن ہوتی ہے.پھر انسان اپنی تبلیغی کوششوں کا جائزہ لیتا ہے.یہ دیکھتا ہے کہ کس حد تک میں نے صحیح کام کیا کس حد تک مجھ میں نقائص ہیں، کہیں میرے اعمال کی کمزوری تو نہیں جو لوگوں کو مجھ سے دور بھگاتی ہے، کہیں میرے طرز بیان میں تو نقص نہیں کہ لوگوں کے دل میری طرف مائل ہونے کی بجائے وہ مجھ سے متنفر ہو جاتے ہیں، کہیں میں بے محل باتیں تو نہیں کرتا جس کے نتیجہ میں عام حالات میں کوئی بات سنتا بھی ہے تو میری بے موقع اور بے محل باتوں کے نتیجہ میں مجھ سے بد کتا اور دور بھاگتا ہے، کہیں میں ایسی بات تو نہیں کرتا جس میں صرف مجھے دلچسپی ہے اور دوسرے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے.کیا میں ایسی باتوں کی تلاش میں رہتا ہوں ، ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہوں کہ جب ایک شخص کا دل کسی خاص مضمون کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 876 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۹۱ء طرف مائل ہوتا ہو اور میں خدا تعالیٰ کی دعوت کے مضمون کو اس کے ساتھ چل کر اسی رو میں بہہ کر اس کے حضور پیش کروں یا ان باتوں سے میں غافل ہوں.تو حکمت کے بہت سے موتی اس کو اسی تلاش کے دوران ملیں گے اگر وہ غوطہ لگانے کی استطاعت رکھتا ہو، اگر اس کو پتا ہو کہ اپنے نفس کو ٹو لنے کے لئے کیسی غوطہ خوری کرنی پڑتی ہے.کس طرح محنت کے ساتھ اپنے نقائص کو تلاش کرنا پڑتا ہے تو بات وہی حکمت ہی کی ہے کہ حکمت کا اول اور آخر دعا ہے مگر دعا کے بعد اپنے نفس کی نگرانی اور محاسبہ یہ حکمت کا دوسرا تقاضا ہے اور بچے تو کل اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کا ایک طبعی تقاضا ہے.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے احمدی اس معاملہ میں بھی غافل ہیں اور انہوں نے کبھی نہ دعا پر اس رنگ میں توجہ دی جیسے دی جانی چاہئے ، نہ حکمت کے دوسرے تقاضے کو پورا کیا اور اگر دعا قبول نہیں ہوتی تو خدا پر الزام دھرنے کی بجائے اپنے نفس کا محاسبہ کیا ہو.پس وہ سب لوگ جو سمجھتے ہیں کہ وہ تو پیغام پہنچارہے ہیں نتیجہ نہیں نکل رہا ان کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ان سب باتوں پر غور کیا کریں اور ہر چیز کا اپنے مقام پر حق ادا کرنے کی کوشش کریں.دعا کا حق ادا کرنے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ کامل تو کل ہو اور یقین ہو کہ خدا دعاؤں کو سنتا ہے.دوسرا حق ادا کرنا یہ ہے کہ اپنا دل اس دعا میں اٹک جائے اور دعا قبول نہ ہو تو مایوسی نہ ہو مگر دکھ ضرور ہو.بعض دکھ رضا کے ساتھ بھی ہوتے ہیں.ایک شخص اپنے محبوب سے کوئی استدعا کرتا ہے، اس سے کچھ چاہتا ہے اور وہ اسے نہیں دیتا تو وہ اس پر راضی ضرور ہوگا لیکن محرومی کا دکھ پھر بھی اپنی جگہ رہتا ہے.پس دعا کے ساتھ دکھ کا مضمون شامل ہے اور اس کے ساتھ صبر کا تعلق ہے.پس قرآن کریم نے جہاں دعوت الی اللہ کے لئے دعا کا مضمون سکھایا.موعظہ حسنہ کا مضمون سکھایا وہاں صبر کا مضمون بھی ہمیشہ ساتھ بیان فرمایا.تو دعا کے ساتھ سبھی صبر ہو سکتا ہے جب دکھ پہنچے ورنہ دیکھ کے بغیر صبر کے معنی ہی کوئی نہیں.کون انسان خوشی پر صبر کرتا ہے کون انسان بے اعتنائی پر جب پرواہ ہی کچھ نہ ہواس پر صبر کرتا ہے اور آپ نے کس سے کوئی چیز مانگی اس نے نہیں دی آپ نے کہا جاؤ جہنم میں مجھے پر واہ ہی کوئی نہیں تو صبر کا یہاں کونسا مضمون ہے.صبر کا مضمون تو وہاں شروع ہوتا ہے جہاں دکھ شروع ہو، جہاں تکلیف ہو.تو قرآن کریم کی ان آیات نے ہمیں یہ طریق سمجھایا کہ جب دعا کرو تو پھر تمہیں دکھوں کے رستے سے گزرنا ہوگا، دعا بھی دکھ کے ساتھ کرنی ہوگی اور صبر کے ساتھ کرنی ہوگی اور دعا کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 877 خطبہ جمعہ ۸ / نومبر ۱۹۹۱ء نتیجہ میں اگر تمہاری تمنا کے مطابق پھل نہ لگیں یا جیسی تمہیں توقع ہے ویسی عطا نہ ہو تو اس وقت تمہیں صبر کے ساتھ اس صورتحال کو برداشت کرنا ہوگا اور صبر کے نتیجہ میں خدا پر الزام لگانے کی بجائے اپنی تدابیر کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ تمہاری طرف سے کوششوں میں کیا کمی رہ گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کی نصیحت کے دوران یہاں صبر بھی فرمایا اور موعظہ حسنہ کا بھی ذکر فرمایا.قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی اس تعلق کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے.جیسا کہ فرمایا وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصُّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (سورة العصر ) موعظہ اور تَوَاصَوا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی نصیحت کرنا اور یہاں فرمایا: حق کے ساتھ اور صبر کے ساتھ نصیحت کرنا تبلیغ کے مضمون میں موعظہ حسنہ اور صبر کا مضمون بیان فرمایا گیا ہے.پس موعظہ حسنہ کا ایک معنی قرآن سے یہ ثابت ہوا کہ موعظہ حق ہو، وہ بات کرو جو سچی ہو، سچی بات سے زیادہ خوبصورت اور کوئی بات نہیں ہے اور دلائل کی بات بعد میں شروع کرو، پہلے صاف سچی پیاری بات کرو ایسی نصیحت کرو جس میں حسن پایا جاتا ہو.موعظہ بچی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے باوجود حسن سے عاری بھی ہوسکتی ہے.اگر چہ حق حسن ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن طرز بیان کا فرق ہوتا ہے اس لئے قرآن کریم نے تبلیغ کے مضمون میں موعظہ حسنہ کہا ہے جس میں سچائی شامل ہے لیکن لفظ حسنہ پر زور دے کر یہ بتایا کہ حق بات ایسے رنگ میں کہو کہ دوسرے کو پیاری لگے.حق بات ایسے رنگ میں نہ کہو جس سے سنے والا بے وجہ تلخی محسوس کرے.یہاں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ بعض دفعہ ایسی بات بھی دوسرے کو تلخ محسوس ہوتی ہے جو حسین ہو جس کے اندر غیر معمولی کشش پائی جاتی ہو.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ سننے والے بیمار ہوتے ہیں.یہاں ان کا ذکر نہیں چل رہا جو سننے والے بیمار ہیں ان سے خدا خود نیئے گا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرَةٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَةٌ فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ (الغاشیہ: ۲۲ تا ۲۵ ) کہ اے محمد! تو تو مذکر ہے اور تیری نصیحت بہت حسین ہوا کرتی ہے.یہ مضمون آنحضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 878 خطبہ جمعہ ۸/نومبر ۱۹۹۱ء کے مذکر ہونے کے اندر داخل ہے کیونکہ آپ کو نہ گرا (الطلاق:۱۱) فرمایا گیا ہے ایسا رسول جو مجسم ذکر ہے ذِكْر الفظ کے اندر خدا کی یاد اور نصیحت دونوں مضمونوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے.پس اس سے زیادہ حسین نصیحت متصور ہی نہیں ہو سکتی جتنی حسین نصیحت آنحضرت یہ فرمایا کرتے تھے.فرمایا إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرَة لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِر لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ نہیں سنیں گے.کچھ ایسے بدنصیب ہوں گے جو پیٹھ پھیر کر چلے جائیں گے ان کے متعلق فرمایا پھر تیرا کام نہیں ہے ان سے نپٹنا.چونکہ بیماری ان کی ہے اور بد نصیب وہ ہیں اس لئے اس کی سزا وہ پائیں گے.إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرْتُ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ جو بيه پھیرے گا اور انکار کرے گا فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ اللہ تعالیٰ اسے عذاب اکبر میں مبتلا فرمائے گا.پس موعظہ حسنہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ نصیحت جو لازماً دوسرے کو خوش کر دے.وہ نصیحت جو لا زما دلوں کو کھینچے بلکہ موعظہ حسنہ سے مراد یہ ہے کہ ایسی حسین نصیحت جو صحت مند انسانوں پر نیک اثر پیدا کرنے والی ہو.جو دلوں کے بیمار اور ٹیٹرھے ہیں ان کے رد عمل سے اس کی نصیحت کا غیر حسنہ ہونا ثابت نہیں ہوتا.اگر بیمار متلی سے مرتے ہوئے آدمی کو جو میٹھے کے تصور سے بھی قے کرتا ہو آپ انگور کھلائیں گے تو انگور اپنی ذات میں ایک اچھی چیز اور نعمت ہیں لیکن اس کے رد عمل کے نتیجہ میں انگور کوخراب تو نہیں کہا جا سکتا اس لئے دوسرے آدمی کی صحت ایک لازمی شرط ہے اس بات کے لئے کہ وہ نیک اثر قبول کرتا ہے یا نہیں.پس موعظہ حسنہ کی تعریف یہ ہے کہ آپ کے دل سے موعظہ حسنہ اٹھی ہے سننے والے کے کانوں سے اس کا تعلق بعد میں پیدا ہو گا.آپ کے دل سے ایسی پیاری آواز اٹھی ہے آپ کی زبان سے حسین رنگ میں وہ بات ادا ہوئی ہے اور آپ نے اس مضمون کو ایسے عمدہ رنگ میں جس کو سنا رہے ہیں اس کے سامنے پیش فرمایا ہے کہ اس کے نتیجہ میں اسے ضرور آپ کی طرف مائل ہونا چاہئے.یہ ہے موعظہ حسنہ.پھر اگر نہیں مائل ہوتا تو اس کا تعلق خدا سے ہے اس کا پھر بندے سے کوئی تعلق باقی نہیں رہتا اور اس کے مائل نہ ہونے کے نتیجہ میں اس پر کوئی حرف نہیں آتا.پس یہی آیت کریمہ جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اعْلَمُ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 879 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۹۱ء بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو کچی راہ سے ضرور بھنکیں گے اور بھٹک جاتے ہیں اور اللہ ان لوگوں کو بھی بہتر جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہوتے ہیں.تو مطلب یہ ہے کہ تم موعظہ حسنہ کرو گے تو ضروری نہیں کہ اس موعظہ حسنہ کے نتیجہ میں لازما عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوں لیکن وہ لوگ جو پاک دل رکھتے ہیں وہ لوگ جو نیک فطرت رکھتے ہیں وہ ضرور اس موعظہ حسنہ سے کھینچے جائیں گے.اس کے مقابل پر موعظہ سیئہ یعنی بری نصیحت کی تعریف یہ بنے گی کہ وہ نصیحت جو نیک فطرت لوگوں کو کھینچنے کی بجائے ان کو اور بھی دور کر دے.پس موعظہ حسنہ میں پوٹینشل Potential ہے اس میں اندرونی صلاحیت اور قابلیت موجود ہے کہ اگر سننے والا صحت مند ہو اور اس کے اندر کوئی بیماری نہ ہو تو وہ ضرور اس نصیحت کی طرف کھینچا جائے گا اور بدنصیحت سے مراد یہ ہے کہ اچھی بات ہونے کے باوجود ایسے بے ہودہ رنگ میں پیش کی جائے کہ عام طور پر صحیح الدماغ صحیح صلاحتیوں والا انسان ہو اور وہ قریب آنے کی بجائے بھٹک جائے.پس تبلیغ میں یہ احتیاط بڑی ضروری ہے اور یہ بھی حکمت ہی کی تفصیل ہے پس موعظہ حسنہ فرمایا اور دلائل کی بات ابھی نہیں کی.دلائل بہت بعد میں آتے ہیں.سب سے پہلے نیک نصیحت ہے جو عمل دکھاتی ہے اور قرآن کریم نے ہمیشہ موعظہ حسنہ کو دلائل سے پہلے رکھا ہے جہاں اس مضمون کا ذکر ہے وہاں موعظہ حسنہ کو پہلے رکھ دیا.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یہ بھی وہی مضمون ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ حم السجدہ :۳۲) ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ جو احسن چیز ہے اس کے ذریعہ بدی کو دور کرو.ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيدٌ پھر تم دیکھو گے کہ وہ شخص جو تم سے دشمنی رکھتا ہو وہ تمہارا گہرا جانثار دوست بن جائے گا.دوست کبھی بھی دلائل کے ذریعہ نہیں بنا کرتے.یہ بات آپ یا درکھیں.یہاں کس حسن کا ذکر ہے وہ حسن جس کا جادو دل پر چلتا ہے اور وہ اخلاق حسنہ ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو شروع کرتے ہوئے فرمایا وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا.اس سے زیادہ حسین قول کس کا ہو سکتا ہے جس نے خدا کی راہ میں بلایا اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنے قول کو زینت بخشی.پس قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے موعظہ حسنہ کی یہ تفسیر ہمیں معلوم ہوئی کہ خدا کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 880 خطبہ جمعہ ۸ / نومبر ۱۹۹۱ء طرف بغیر کسی دلیل کے بلانا ، ایک سچے دل کے ساتھ ایک گہرے جذبے کے ساتھ ، اس کامل یقین کے ساتھ کہ آپ حق پر ہیں اور آپ خدا کو جانتے ہیں ، خدا سے مل چکے ہیں اور واقعہ خدا کی طرف بلا رہے ہیں اور بلانا اسطرح کہ آپ بلانے سے پہلے آپ اپنے اعمال کو زینت بخش چکے ہوں اور آپ کے اعمال حسین ہو چکے ہوں.جب اعمال حسین ہوں گے تو یہ قول حسن بن جائے گا، اس کے بغیر نہیں کیونکہ ان دونوں باتوں کو مشروط فرما دیا ہے وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ اس سے زیادہ کون اپنی بات میں حسین ہوسکتا ہے.جو خدا کی طرف بلائے وَعَمِلَ صَالِحًا شرط یہ ہے کہ اس کے اعمال حسنہ ہوں.اس کے اعمال کا حسن اس کی بات کے حسن میں تبدیل ہو گا.اب یہاں ایک ایسا قول جس کا ذکر چل رہا ہے جو انقلابی طاقت رکھتا ہے جو دلوں کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے.بعض قول حسن ، بڑی ہی دلکش با تیں ایسی ہوتی ہیں جن کا عمل صالح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور بڑی بڑی چرب زبانی کے ساتھ وہ باتیں بیان کی جاتی ہیں.مگر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہی اس میں راز ہے کہ قرآن کریم کی اصطلاح میں قول حسن سے مراد یہ نہیں ہے کہ نہایت ہی خوبصورت انداز میں لپیٹ لپیٹ کر باتیں کرو اور ایسے چسکے کے ساتھ مضمون کو بیان کرو کہ سننے والے کا منہ بھی چٹخارے لینے لگے.یہ موعظہ حسنہ نہیں ہے.یہ لفاظی ہے یہ شاعری ہے یہ چرب زبانی ہے جو چاہیں اس کو کہہ لیں.موعظہ حسنہ عمل حسن سے پیدا ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو و عمل صالحاً سے خوب کھول دیا تو قرآن کریم کی اصطلاحوں کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم سے مدد لینے کی ضرورت ہے.پس موعظہ حسنہ صرف اچھی نصیحت نہیں ہے، ایسی اچھی نصیحت ہے جس کی تائید میں بہت ہی حسین اعمال کھڑے ہوں جس کی پشت پناہی میں انسان کا عظیم کردار کھڑا ہو.دنیا کے سامنے وہ ایک ایسا کردار لے کر نکلے جو نہ صرف بیدار ہو بلکہ جذب کرنے والا ہو، کھینچنے والا ہو، لوگ حیرت سے اس کو دیکھیں کہ یہ کون انسان ہے جو ہم میں اس دنیا میں بستا ہے لیکن ہم سے مختلف ہے اور میں نے پہلے بھی بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اکثر کامیاب مبلغین وہی ہیں جن کا کردار ان کے قول کو حسن اور قوت بخشتا ہے اور انہی کے ذریعہ عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.پس آپ اس بات کو دوبارہ دعا کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو ایک اور نیا مضمون ہمارے سامنے نکلتا ہے.پہلے دعائیں کیں درد دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور التجائیں کیں کہ اے خدا ہم تیری راہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 881 خطبہ جمعہ ۸/نومبر ۱۹۹۱ء میں لوگوں کو تیری راہ ہی کی طرف بلانے کے لئے نکلے ہیں.ہماری محنتوں کو قبول فرما.پھر جب ان میں اثر نہیں دیکھا تو اپنا جائزہ لیا اور دیکھا کہ مجھ میں کیا کیا نقص ہیں؟ کہاں میں نے غلطیاں کی ہیں؟ کہاں میری بات میں تشدد پایا جاتا ہے کہاں میری بات سن کر دھکا کھاتے رہے بجائے اس کے کہ میری طرف مائل ہوئے اور کونسی کمزوریاں ہیں جو مجھ سے رونما ہوئیں اور جب اپنی ناکارہ حالت کو پہچان لیا اپنی بے بسی کو محسوس کر لیا تو اس کیفیت سے ایک نیاد کھ ابھرے گا اور اس کیفیت سے پھر ایک دعا اور اٹھے گی گویا پہلی دعا کو تقویت دینے کے لئے ترمیم شدہ دعا، ایک نئی دعا دل سے اٹھے گی جس میں انسان یہ عرض کرے گا کہ اے خدا! میں دعا ئیں تو کرتا رہا مگر اپنے حال سے غافل تھا.مجھے پتہ نہیں لگ سکا کہ تیری راہ میں چلنے کے کیا آداب ہیں اور تیری راہ میں بلانے کے کیا طریقے ہیں پس اب میں نے پہچانا ہے اور پوری طرح نہیں کسی حد تک میں واقف ہوا ہوں.میں اپنے اعمال کی ایسی اصلاح چاہتا ہوں کہ میرا قول حسن بن جائے اور قول حسن کی تعریف تو نے یہ فرمائی ہے فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ کہ اچانک یہ معجزہ رونما ہو جائے کہ وہ جو تیرا دشمن تھا وہ تیرا جانثار دوست بن جائے.اے خدا! میں تو یہ نہیں دیکھ رہا میری دعاؤں میں اگر کوئی کمی ہے تو میری دعا یہ ہے کہ اس کمی کو پورا فرما دے.میرے اعمال میں جو نقائص میرے سامنے روشن ہوئے ہیں ان نقائص کو دور فرمادے کیونکہ بہت سے ایسے ہیں جن پر مجھے استطاعت نہیں ہے میں چاہتا بھی ہوں تو دور نہیں کر سکتا اور اکثر وہ نقائص جو جان کو وبال کی طرح چمٹ جاتے ہیں، جو امراض مزمنہ بن جاتے ہیں یعنی دانگی امراض بن جاتے ہیں ان کے متعلق یہ ضروری نہیں ہے کہ اس شخص کو آپ ایسا بے حس اور بے دین سمجھیں کہ نیکی کی باتیں کرنے کے باوجود وہ بعض اعمال میں گندا ہے اس مضمون کو اگر قرآن کی روشنی میں سمجھیں گے تو آپ کو یہ فتویٰ دیتے ہوئے خوف محسوس کرنا چاہئے کیونکہ ہر انسان کے ساتھ کچھ ایسے عوارض چھٹے ہوئے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا.بعض دفعہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بعض دفعہ ان سے وحشت کھاتا ہے لیکن اس کے باوجود دور کرنے میں اس کو طاقت نہیں ڈرگ ایڈیکشن Drug Addicton اور Evil Addiction دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور نفرت کے ایک ہی حصے میں ان کی جڑیں ہیں Drugs کے ساتھ جو لوگ چمٹ جاتے ہیں.نشہ آور دواؤں کے جو شکار ہو جاتے ہیں ان کو ایک موقعہ پر محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہت ہی گندی حالت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 882 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۹۱ء میں پہنچ گئے ہیں.وہ ہر طرح زور لگاتے ہیں کہ اس حالت سے نکلیں مگر نکل نہیں سکتے اور بعض دفعہ ان کو طبیبوں کی ضرورت پڑتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کریں مگر نہیں چھٹکارہ حاصل کر سکتے.طبیبوں کی طرف دوڑتے ہیں اور اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں کہ ہاں مجھ سے جو چاہو کرو مگر میری اس حالت کو بدل دو.پس خدا کے حضور ایسے اعمال سے چھٹکارے کے لئے جب انسان کو دعا کرنی ہو تو اپنے آپ کو پیش بھی کرنا ہوگا.اور یہاں قبولیت دعا کا یہ راز ہے جس کو سمجھے بغیر اگر دعا کریں گے تو قبول نہیں ہوگی.وہ مرض جس سے نفرت ہے اس مرض سے نفرت کی حد تک تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تمہیں نفرت ہے لیکن اس کے باوجود اس سے ایک تعلق بھی قائم ہو چکا ہے اور وہ تعلق بعض دفعہ ایسا گہرا اور ایسا مجبوری کا تعلق ہو جاتا ہے کہ انسان سچے دل سے یہ بھی دعا نہیں کر سکتا کہ مجھے اس سے چھٹکارا نصیب ہو جائے یعنی جس مرض میں مبتلا ہے اس سے چھٹکارے کے لئے دعا بھی کرتا ہے مگر دعا میں گہری صداقت نہیں پائی جاتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ٹول کر اپنے آپ کو خدا کے سپر دنہیں کرتا ، پیش نہیں کرتا اور یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ اے خدا بہت تلخ معاملہ ہے میں جانتا ہوں کہ اس بات کو چھوڑ نا میرے لئے سخت تلخی کی زندگی کو قبول کرنا ہوگا اور میری اچھی طرح نظر ہے.پھر بھی میں اپنے وجود کو تیرے حضور پیش کر دیتا ہوں جو چاہے کر گزر مجھے اس بیماری سے نجات بخش دے.اس کامل خلوص اور یقین اور گہرے علم کے ساتھ اگر دعا کی جائے تو وہ ضرور مقبول ہوتی ہے.تو حکمت کا یہی مضمون بار بار کروٹیں بدلتا ہے کبھی دعا کی طرف مائل ہوتا ہے، پھر دعا سے منعکس کا یہی مضمون بار بار کروٹیں بدلتا ہے کبھی دعا کی طرف مائل ہوتا ہے، پھر دعا سے منعکس ہو کر عمل کی دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے پھر انسان عمل میں اپنے نقائص تلاش کرتا ہے پھر بداعمالیوں سے چھٹکارے کے لئے خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر دعائیں کرتا ہے اور اس کے بعد بالآخر اپنی کیفیت پر صبر کے بعد جب دیکھتا ہے کہ مد مقابل کسی طرح سننے پر آمادہ نہیں اور نیک نصیحتیں کارگر نہیں تو پھر دلائل کو بھی استعمال کرتا ہے پھر جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا مضمون بھی شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ سب سے آخر پر ہے لیکن اس کے لئے تیاری بھی ضروری ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آخر ایک وقت بات مجادلے تک ضرور پہنچنی ہوالا ماشاء اللہ اور آپ اس کی تیاری نہ کریں اور پھر دعوی کریں کہ ہم خدا کی طرف قرآنی تعلیم کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ مطابق بلانے والے ہیں.883 خطبہ جمعہ ۸/ نومبر ۱۹۹۱ء پس یہ وہ پہلو ہے جو ہمیں علمی تیاری کی طرف متوجہ کرنے والا ہے لیکن بالعموم میں نے دیکھا ہے کہ لوگ تو پوری طرح دعا نہیں کرتے جیسی لگن کے ساتھ دعا ہونی چاہئے ، اپنے مقاصد کے لئے اور اپنی مرادیں پانے کے لئے تو دل سے بڑی طاقت سے دعا اٹھتی ہے اپنی ناکامیوں پر حسرت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف طبیعت مائل ہوتی اور اس سے مدد چاہتی ہے اور اس سے سہارے ڈھونڈتی ہے لیکن تبلیغ کے معاملہ میں یہ سنجیدگی نہیں ہے.دعا میں وہ بے قراری نہیں ہے.اکثر لوگوں کے دل میں نہیں ہے.اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد پھر تبلیغ کیسے پھل لا سکے گی کیونکہ تبلیغ کا آغاز ہی دعا سے ہوتا ہے اور اس کے بغیر تبلیغ کوئی معنی نہیں رکھتی، کوئی معنی خیز سفر نہیں کرسکتی، کوئی معنی خیز نتائج پیدا نہیں کر سکتی تو زبانی پیغام پہنچا نا کام نہیں ہے.پھر آگے حکمت کا مضمون ہے اور بہت تفصیل کے ساتھ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے.میں نے آج تک بیسوں مجالس میں اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے.ایسی بھی مجالس ہیں جن کی کیسٹس موجود ہیں اور ممکن ہے پچپیں تھیں چالیس گھنٹے اس مضمون کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہو.اس میں حکمت کا مضمون ایک مبلغ کو سمجھانے کے لئے میں نے حتی المقدور پوری کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود جب بھی میں غور کرتا ہوں کوئی نہ کوئی نیا نکتہ پھر ایسا دکھائی دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون ختم ہونے والا مضمون نہیں ہے.اس رنگ میں کتنے ہیں جو غور کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں.یہ داعی الی اللہ جس کی جماعت کو ضرورت ہے.ایک دعا گو داعی الی اللہ جو ہمیشہ اپنے اعمال کا نگران ہو اور محاسبہ کر نیوالا ہو، جو ہمیشہ عاجزی اور انکسار کے ساتھ جب بھی اپنے اعمال کی کمزوریوں پر نگاہ پڑے ان کمزوریوں کو خدا کے حضور اس التجا کے ساتھ پیش کرنے والا ہو کہ جو چاہتا ہے کر گزر مگر ان داغوں کو مٹادے.ان کمزورریوں کو دور فرمادے.وہ جس کے نیک اعمال اس کی موعظہ حسنہ کو حسین بنارہے ہیں اور ان میں ایک عظیم الشان جذب پیدا کر رہے ہوں جو بار بار کبھی دعا کی طرف متوجہ ہو، کبھی اعمال کی طرف پھر اعمال کو دعا کے ساتھ ملا کر مختلف کروٹیں بدلتا ہوا مختلف پہلو اختیار کرتا ہوا اللہ تعالیٰ کے ساتھ لیٹے ہوئے بھی اور اٹھتے ہوئے بھی اور چلتے ہوئے بھی دعاؤں کے ذریعہ خدا سے سہارے مانگ رہا ہو.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 884 خطبہ جمعہ ۸/نومبر ۱۹۹۱ء یہ وہ داعی الی اللہ ہے جس کی جماعت کو ضرورت ہے.پھر وہ صبر کرنے والا ہو.جلدی ہار جانے والا نہ ہو.ایک طریق اگر کار آمد ثابت نہ ہو تو دوسرے طریق کی تلاش کرنے والا ہو اور یہ نہ کہے کہ یا خدا پھل نہیں دے رہایا زمین ہی گندی اور ناپاک ہے اور اس کو پھل نہیں لگیں گے.ایسی باتیں کرنے والے کو واقعی پھل نہیں لگا کرتے.ان کی دعائیں بھی نامراد ہو جاتی ہیں اور ان کی وہ زمینیں بھی بنجر ثابت ہوتی ہیں جن پر وہ کام کرتے ہیں.زمینوں کو زرخیز سمجھیں یعنی صلاحیت کے لحاظ سے اور اگر پھر محنت اور صبر کے ساتھ کام کریں گے تو بعض زمینوں میں دیر سے پھل لگے گا لیکن بالآخران زمینوں سے پھل ضرور ملے گا.دیر سے روئیدگی باہر آئے گی مگر ضرور باہر آئے گی اور آخر اپنی بلوغت کے سارے منازل طے کر کے پھل تک منتج ہوگی.پس یہ قوانین قدرت ہیں جن پر نظر رکھنی چاہئے.اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی تنظیموں کی اور ان لوگوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں جن کے سپر دانتظام کئے گئے ہیں اس مضمون پر میں انشاء اللہ کسی حد تک اگلے خطبہ میں روشنی ڈالوں گا.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو یہ باتیں بار بار سمجھائی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو کرنے کا سلیقہ نہیں آتا.اس سلسلہ میں جماعت کے وہ بزرگ عہد یدار جن کے سپرد ذمہ داریاں کی گئی ہیں ان کو جس طرح اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں شاید وہ ان باتوں سے لا بلد ہیں یا غافل ہیں کیسے ان کو کام کرنا چاہئے.انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں اس سلسلہ میں کچھ گفتگو کروں گا.عمومی طور پر میری جماعت کو نصیحت یہ ہے کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے، زمانہ بہت تیزی سے آگے نکل رہا ہے.اس کمی کو جو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ ہم وقت سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اس کو دعاؤں کے ذریعہ پوری کرنے کی کوشش کریں.تبلیغ کے تعلق میں دعا ئیں ایک الگ معاملہ ہے جس پر میں روشنی ڈال چکا ہوں.عمومی دعائیں جماعت کے مستقبل کے لئے کریں عمومی دعائیں جماعت کی بہبود کے لئے کریں اور اس یقین کے ساتھ کریں کہ اگر جماعت کا مستقبل روشن ہے تو ضرور اس عالم کا مستقبل روشن ہے، ضرور انسانیت کا مستقبل روشن ہے اگر جماعت کے مستقبل کے متعلق خدشے ہیں تو پھر اس انسانیت کے بچنے کی کوئی امید نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفاظت کی بھی توفیق بخشے اور بنی نوع انسان کی حفاظت کی توفیق بھی بخشے اور وہ روحانی انقلاب بر پا کرنے کی توفیق بخشے جس کے لئے حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 885 خطبہ جمعہ ۸/ نومبر ۱۹۹۱ء اقدس محمد مصطف مت الله سید دو عالم کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا.آج جلسہ سالا نہ فرانس کا پہلا دن ہو گا یعنی آج ان کا افتتاحی اجلاس جمعہ کے معاً بعد ہوگا.گزشتہ مرتبہ میں نے جاپان کے جلسہ کے لئے جو پیغام بھیجا تھا اس کی دیکھا دیکھی فرانس والوں نے بھی فوراً درخواست بھیج دی کہ ہمارا بھی اگلے خطبہ میں ذکر کر دیں.ان کا اس لحاظ سے بھی خصوصی حق بنتا ہے ویسے تو ہر جماعت کا ہی حق ہے کہ میں نے ان سے جلسہ میں شامل ہونے کے ارادے کا ذکر کیا تھا اور پروگرام بن گیا تھا لیکن کسی اور وجہ سے اس پروگرام کو منسوخ کرنا پڑا.وہاں سے کچھ دوست جو تشریف لائے انہوں نے بتایا کہ اس سے جماعت بے چاری بہت ہی دل شکستہ ہے کیونکہ انہوں نے بڑی محنت اور شوق سے مشن ہاؤس کی خدمت کی اسے پینٹ کیا.نئے نئے حسن پیدا کرنے کی کوشش کی پھولوں، کیاریوں کی طرف توجہ دی اور جلسہ کے انتظامات کئے شہر کے مختلف بڑے بڑے لوگوں سے رابطے کئے.بعض عالمی شہرت والے دوستوں سے بھی رابطے کئے اور ان کو جلسہ پر آنے کی دعوت دی.اتنے شوق سے وہ گھر سجا کر آپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور آپ نے کہہ دیا میں نہیں آسکتا تو انہوں نے یہ حوالہ دے کر بھی کہا ہے کہ اگر آنہیں سکتے تو ہمارے متعلق کچھ گفتگو ہی ہو جائے.کچھ ہمارا ذکر ہی چلے جو ہم براہ راست سنیں چنانچہ یہ خطبہ وہ براہ راست سن رہے ہیں اس لئے میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ انشاء اللہ پھر ملاقاتیں ہوں گی.میں آپ کی ہر رنگ میں دلجوئی کی کوشش کروں گا.جو نصیحت میں نے آج جماعت کو کی ہے وہی نصیحت آپ کے لئے ہے فرانس میں سب سے زیادہ دعوت الی اللہ کی کمی ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قوم بنجر ہے لیکن بنجر زمینوں کو بھی تو خدا تعالی زرخیز بنا دیا کرتا ہے قرآن کریم میں یہ ذکر ہے.اگر واقعہ وہ زمین بنجر ہے تو آپ کی دعا تو بے پھل ، بے ثمر نہیں رہ سکتی.آپ کی دعا میں یہ طاقت ہے اگر آپ سچے دل سے پورے خلوص کے ساتھ دعا کا حق ادا کرتے ہوئے دعا کریں گے تو اگر فرانس کی سرزمین بنجر بھی ہے تو یہ سبز و شاداب بن سکتی ہے.قرآن کریم اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا تم نے إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ (السجدہ : ۲۹) نہیں دیکھا کس طرح بنجر زمینوں کی طرف خدا کی رحمت کا پانی جب برس کر چلتا ہے تو ویرانوں کو خوبصورت شاداب گلستان میں تبدیل کر دیا کرتا ہے پس بنجر ہی سہی مگر آپ کی دعائیں تو بے ثمر اور بے اثر نہیں ہوسکتیں.دعائیں کریں.محنت کریں.کوشش کریں تا کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 886 خطبہ جمعہ ۸/ نومبر ۱۹۹۱ء اسلام کا وہ روح پرور انقلاب جس نے آخر ساری دنیا میں ضرور آنا ہے فرانس میں بھی اس کی بہار کے کچھ نظارے تو لوگ دیکھ سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ایک اور مختصر سا اعلان یہ ہے کہ آج کل سردیوں کی وجہ سے دن اتنے چھوٹے ہو گئے ہیں کہ جمعہ ختم ہونے سے پہلے ہی نماز عصر کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے اس لئے یہاں ہمیں اختیار ہی کوئی نہیں سوائے اس کے کہ ہم جمعہ کے ساتھ نماز عصر بھی جمع کر لیا کریں.مجھے پورے شرح صدر کے ساتھ یقین ہے کہ اس کی اجازت ہے کیونکہ یہ ایک ایسی مجبوری ہے جسے ہم ٹال ہی نہیں سکتے.اس لئے جب تک چھوٹے دنوں کا یہ تقاضا ر ہے گا آئندہ اس وقت تک نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کی جائے گی اور آج بھی کی جائے گی.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 887 خطبہ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۹۱ء دعوت الی اللہ کے میدان میں نئی زمین ، نیا آسمان بنا ئیں امراء اور مجالس عاملہ کو دعوت الی اللہ کے بارہ میں اہم ہدایات ( خطبه جمعه فرموده ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پیشتر اس سے کہ دعوت الی اللہ میں حکمت عملی کے مضمون کو آگے بڑھایا جائے دوغلطیوں کی اصلاح کا اعلان کرنا ضروری ہے.گزشتہ خطبہ میں سورۃ النحل کی آیت اُدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ کی تلاوت کی تھی لیکن حوالہ دیتے وقت انحل کی بجائے انمل پڑھا گیا ہے کیونکہ جمعہ کے بعد مجھے کسی نے توجہ دلائی اس لئے دوست اصلاح فرمالیں.جہاں جہاں بھی کیسٹ میں یہ حوالہ پڑھا گیا ہو گا اس کو درست کر لیا جائے.دوسری غلطی ایک پہلے خطبہ میں ہوئی تھی جس کی طرف مجھے برما کے ایک دوست عزیزم محمد سالک صاحب نے توجہ دلائی ہے.قرآن کریم کی دعاؤں پر گفتگو کے دوران میں نے ایک ایسی دُعا کا حوالہ دیا تھا جس کا حضرت موسیٰ کے ساتھ تعلق ہے جب وہ ہجرت کر کے مدین تشریف لے گئے وہاں آپ نے دعا کی رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص:۲۵) اس دعا کے ذکر میں ضمناً میں نے یہ بیان کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں شادی کی آپ کے خسر حضرت شعیب تھے جو خود بھی نبی تھے.یہ ذکر ضمناً از خود اس لئے ہوا کہ گزشتہ مفسرین نے یہی لکھا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 888 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء اور بالا رادہ طور پر تحقیق کے بعد یہ بات میں نے بیان نہیں کی تھی بلکہ تعلیم کے زمانے میں جو گزشتہ تفسیریں پڑھی تھیں ان میں یہی بات یاد تھی اور اسی طرح میں نے بیان کر دی.سالک صاحب نے برما سے مجھے خط لکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نظریے کو قرآن کریم کی آیات کے حوالے اور استدلال کے ساتھ بالکل غلط کر کے دکھایا ہے.چنانچہ ان کے توجہ دلانے پر جب میں نے دیکھا تو واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس نظریے کے خلاف ایسے مضبوط دلائل پیش فرمائے ہیں کہ جن کے بعد کسی دور کے داہمہ کا بھی سوال نہیں رہتا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے خسر کو شعیب قرار دیا جائے.مختلف دلائل میں ایک یہ آیت آپ نے پیش فرمائی.فرمایا کہ قرآن کریم میں سورہ اعراف آیت ۱۰۴ میں درج ہے ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَى بِايْتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَابِه فَظْلَمُوْا بِهَا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ فرماتے ہیں سورہ اعراف میں یہ ذکر شعیب کی قوم ( کی ہلاکت کے بعد فرمایا گیا ہے.شعیب کی قوم کا ذکر مکمل کرنے کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِم مُّوسی پھر ہم نے ان کے بعد موسیٰ کو بھیجا.بایتنا اپنے کھلے کھلے نشانات کے ساتھ اِلى فِرْعَوْنَ فرعون کی طرف.وَمَلَا ہے اور اس کے سرداروں کی طرف فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ.پس غور کر دیکھ کہ کیسا مفسدوں کا انجام ہوا کرتا ہے.تو یہ آیت اس معاملہ میں اتنی قطعی ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد یعنی حضرت مصلح موعودؓ کی نظر سے پڑھنے کے بعد یہ حیرت ہوتی ہے کہ پرانے مفسرین کی نظر سے کس طرح یہ آیت رہ گئی اور اس میں کوئی قصور نہیں ہوا کرتا.ایک دفعہ بات چل نکلے تو نظر پر ایک پردہ سا آجاتا ہے.سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم پڑھا ہے لیکن میرا بھی اس طرف خیال نہیں گیا کہ یہ آیت تو کھلا کھلا اس نظریے کی تردید کر رہی ہے کہ حضرت شعیب حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے خسر تھے.اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غریق رحمت فرمائے بے انتہاء بلند مرتبے عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جیسی خدمت قرآن کی آپ کو توفیق ملی ہے، جس طرح قرآن کے معارف کو غوطے لگا کر باہر نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق ملی ہے اس کی کوئی نظیر کہیں اور نہیں ملتی.ایسے مفسر صدیوں میں نہیں ، ہزاروں سال میں پیدا ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 889 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو یہ توفیق بخشی ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر ا چھوتے انداز میں قرآنی آیات کے دلائل پیش کر کے دنیا کے سامنے رکھی ہے یہ ایک اتنی عظیم نعمت ہے کہ اس سے جماعت کو خود بھی فائدہ اُٹھانا چاہئے اور اپنے دوسرے دوستوں تک بھی یہ نعمت پہنچانی چاہئے.تفسیر کبیر مکمل چھپی ہوئی سب دنیا میں دستیاب ہے اور جو پہلی ۵ ہزار یا اس کے لگ بھگ جلد میں ہم نے طبع کرائی تھیں وہ ساری بک چکی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ پانچ ہزار گھروں میں تو یہ دستیاب ہونی چاہئیں لیکن ان میں سے کتنوں نے استفادہ کیا ہے یہ بات کہنی بہت مشکل ہے.تو ضمنا میں نے توجہ دلائی کہ وہ جو پڑھ بھی لیتے ہیں وہ بھی ایک دفعہ کے پڑھے ہوئے کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکتے.اس لئے وقتاً فوقتاً جہاں توفیق ملے جن آیات کی تلاوت کریں، وقت نکالیں کہ ان کے حوالے کے ساتھ تفسیر کبیر قرآن کریم کو بھی دیکھیں اور وہ دیکھیں گے کہ ہر دفعہ ان کے علم میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور روحانی لذت جو نصیب ہوگی اس کا تو کوئی شمار ہی نہیں کیونکہ قرآن کے ہر نئے نکتے کی معرفت کے وقت ایک روحانی لذت کی لہر سارے وجود میں دوڑ جاتی ہے اور یہ ایک ایسا لطف ہے جس کی کوئی مثال دنیا وی لطفوں میں نہیں ملتی.اب میں اس مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو میں نے گزشتہ جمعہ میں شروع کیا تھا یعنی دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں حکمت عملی کو اختیار کرنا کیونکہ قرآن کریم نے ہمیشہ دعوت الی اللہ کے مضمون کے ساتھ حکمت پر زور دیا ہے اور اسکے علاوہ صبر پر زور دیا ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ عرض کیا تھا کہ میں آئندہ انشاء اللہ عہدیداران منتظمین اور امراء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.پس دُعا کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور حکمت کا خلاصہ اور حکمت کی روح ہے کہ دعا کے ذریعہ کام شروع کیا جائے تمام امراء اور عہدیداران جن کا اس دعوت الی اللہ کے کام سے تعلق ہے ان کو میں دوبارہ تاکید کرتا ہوں کہ بہت دُعائیں کیا کریں اپنے لئے بھی اور اپنے تابع دوسرے خدمت دین کرنے والوں کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو حکمت کے اعلی گوہر عطا فرمائے اور قرآن کریم ایک مومن سے جیسی حکمت کا تقاضا کرتا ہے ویسی حکمت اپنے فضل سے خود آپ کو عطا فرمائے اور آپ کی تبلیغ کارگر ہو، ثمر دار ہو، اور محض ایک کوشش نہ ہو بلکہ ایک نتیجہ خیز کوشش ہو.اس سلسلہ میں حضرت مسیح
خطبات طاہر جلد ۱۰ 890 خطبہ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۹۱ء علیہ السلام کا یہ قول ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اس کے مختلف معانی ہیں.بہت ہی عارفانہ کلام ہے لیکن ایک معنی یہ بھی تو ہے کہ جو درخت پھل نہ دے وہ بنجر ہی کہلائے گا خواہ آپ اس کی کیسی ہی خدمت کریں.کیسی اس کی آبیاری کریں.دیکھنے میں وہ سرسبز وشاداب ہی کیوں نہ دکھائی دے لیکن اگر پھل سے عاری ہے تو وہ درخت کاٹے جانے کے لائق ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.پس اپنے تبلیغی کا موں کو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پھلوں سے جانچیں اور پھلوں سے جانچنے کے لئے ایک تو پھلوں کی مقدار، تعداد دیکھنی ضروری ہے.اگر کوششیں بڑھتی چلی جارہی ہیں خرچ بڑھ رہے ہیں ، آپ محنت کر رہے ہیں ، ساری جماعت بظاہر مستعد دکھائی دیتی ہے، فائلوں کے منہ بھرے ہوئے ہیں، رپورٹوں میں صفحات کے صفحات تبلیغی کارروائیوں پر مشتمل ہیں لیکن جب نتیجہ تک پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہی گنتی کے چند آدمی جو پہلے تھے ویسے ہی اس سال بھی ہیں ویسے ہی اس سے پہلے تھے تو درخت کو پھل سے پہچاننے کی کیوں کوشش نہیں کرتے.پس سب سے پہلا کام عہدیداران کا یہ ہے کہ اپنا اور اپنے کاموں کا اور طریق کار کا محاسبہ کریں اور بڑی گہری اور تفصیلی نظر سے دیکھیں کہ وہ اب تک کیا کیا ذرائع استعمال کر چکے ہیں اور کب سے وہ ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور ان ذرائع کے نتیجہ میں کہیں کوئی پھل بھی لگا ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ذرائع بریکار سمجھے جائیں بلکہ استعمال کرنے والوں پر بھی نظر کرنی پڑے گی اور بھی بہت سے ایسے اسباب ہیں جن کا ذرائع کے استعمال سے تعلق ہے اور ہر سطح پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جوان ذرائع کو استعمال کر رہا ہے وہ ذاتی طور پر خود کیسا؟ وہ دعا گو ہے بھی کہ نہیں اور اس کی ذاتی توجہ پورے اخلاص کے ساتھ اور انہماک کے ساتھ ان کاموں کی طرف ہے بھی کہ نہیں؟ پس ذرائع کی چھان بین ان کی جانچ پڑتال، ذرائع کو استعمال کرنے والوں کے حالات اور ان کی جانچ پڑتال پھر ان کی اپنی صلاحیتوں کا جائزہ اور یہ دیکھنا کہ ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق ہتھیار استعمال کر رہا ہے کہ نہیں.یہ ایک اتنا وسیع مضمون ہے کہ اسی پر اگر عہد یداران توجہ دیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ یہ ایک دودن کی بات نہیں ہے.مسلسل توجہ اور محنت کا تقاضا کرنے والا معاملہ ہے لیکن اس معاملہ میں میں کچھ باتیں مزید وضاحت سے رکھنی چاہتا ہوں کیونکہ اس قسم کی نصیحتیں میں بار ہا کر چکا ہوں اور و پیسٹس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 891 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء بھی سب جماعتوں میں پہنچائی گئی ہیں لیکن چونکہ اکثر ممالک پر اثر نہیں پڑا اس لئے میرا بھی تو یہ کام ہے کہ میں محاسبہ کروں اور دیکھوں کہ میرے اختیار کردہ ذرائع میں کیا نقص رہ گئے تھے اور دوبارہ میں پیش کروں تو کیا نئی بات پیدا کر کے پیش کروں کہ وہ باتیں جو پہلے پھل نہ لاسکی تھیں اب پھل لے آئیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت کی زمین بحیثیت مجموعی زرخیز ہے اور گزشتہ چند سالوں میں جماعت نے مجموعی حیثیت سے تبلیغ میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اس بات پر گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ فصیحتیں سب بے کار نہیں گئیں اور محنت ضائع نہیں گئی بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان کوششوں کو پھل ضرور لگایا ہے لیکن کتنی زمینیں ایسی ہیں جنہوں نے بیج کو بڑھا کر واپس کیا ہے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے.مجموعی طور پر اضافہ تو ہوا ہے اور غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن ہر جگہ نہیں ہوا.بہت سے ایسے علاقے ہیں جو مثلاً ترقی یافتہ ہیں.یورپ اور امریکہ اور اسی طرح کے ترقی یافتہ ممالک جاپان ہے اور ان ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ کے درمیان کے ممالک جو کچھ تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ دوسری دنیا سے کچھ پہلی دنیا سے یعنی ان کے مختلف طبقات مختلف زمانوں میں بس رہے ہیں ان کے حالات کا بھی آپ جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اکثر ممالک میں ابھی تک ان ذرائع کے نتیجہ میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی لیکن جہاں ہوئی ہے ان کا میں نے جائزہ لیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ جہاں اخلاص اور محنت کے ساتھ امیر اور اس کے ساتھ شامل ٹیم نے واقعہ پوری لگن سے کام کیا ہے وہاں یہ بیان کردہ ذرائع کارگر ثابت ہوئے ہیں.اس لئے ذرائع کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بار باران کو یاد کرانے کی ضرورت ہے بار بار مختلف ذرائع استعمال کرنے کے طریق سمجھانے کی ضرورت ہے.ان خامیوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جن کے نتیجہ میں بعض دفعہ محنتیں بے کار چلی جاتی ہیں اور درخت ثمر دار نہیں ہوتے.یہ جونشو ونما کا مضمون ہے یہ ساری کائنات کی ترقی کا خلاصہ ہے اور کائنات پر غور کرنے سے خواہ وہ زندگی کے وجود سے پہلے کی کائنات ہو یا زندگی کے وجود کے بعد کی کائنات ہو ، انسان کو بہت سے حکمتوں کے موتی ملتے ہیں اور انسان کو اپنی روحانی انفرادی اور جماعتی ترقی کے لئے بہت سے گر ہاتھ آتے ہیں.پس ان سب مضامین پر غور کے نتیجہ میں جو باتیں اللہ تعالیٰ مجھے عطا فرما تا رہتا ہے مختلف مواقع پر میں انہیں بیان کرتارہا ہوں اور بلاشبہ بیسیوں گھنٹے کی وہ نصیحتیں ہیں جو مختلف کیسٹس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 892 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء میں یا ویڈیوز وغیرہ میں محفوظ ہیں لیکن دیتی چلی جارہی ہیں.باتیں کہی جاتی ہیں لیکن جماعت کی بھاری اکثریت کے سامنے وہ نہیں آتیں اور ان کے اندر جو نشو ونما کی صلاحیتیں ہیں انہیں تحریک نہیں ملتی.اس لئے میں یہ زور دیتا رہا ہوں کہ جو عہدیداران ہیں وہ صرف اس بات پر اکتفانہ کریں کہ میری باتیں سمجھ کر آگے دوستوں تک پہنچائیں بلکہ یہ کوشش کریں کہ ان دبے ہوئے مضامین کو نکالیں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ وہ احمدی احباب جو دعوت الی اللہ کا جذبہ رکھتے ہیں ان کو یہ چیزیں سُنائی جائیں.مجلس عاملہ کے ممبران بھی سنیں اور بار بارسنیں کیونکہ سننے کے نتیجہ میں کچھ تو ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئے طریق کار معلوم ہوں گے اور کچھ ان کے اندر خود تحریک پیدا ہوگی.ہر انسان جو ایک کام کا ارادہ کرتا ہے اور کسی مضمون کو پڑھتا ہے نئے علم کے نتیجہ میں اُسے روشنی کا احساس ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے روشنی مل گئی مگر یہ نہیں جانتا کہ روشنی کا سفر لامتناہی ہے.ایک روشنی کے بعد آگے بھی روشنی ہوا کرتی ہے اس روشنی کے بعد پھر اور بھی روشنی ہوتی ہے.وہ لوگ جو خوابوں میں جاگتے ہیں ان کو بھی جاگنے کا ایک احساس تو ضرور ملتا ہے اور وہ شعور حاصل کرتے ہیں کہ جا گنا اس کو کہتے ہیں لیکن جب سچ مچ جاگتے ہیں تو وہ کوئی اور قسم کا شعور ہوا کرتا ہے اور جاگنے کے بعد کچھ عرصے تک آنکھیں ملتے رہنے کے وقت جو جاگ کی کیفیت ہے وہ تبدیل ہو جاتی ہے.جب پانی کے چھینٹے پڑتے ہیں اور مستعدی کے ساتھ انسان باہر آتا ہے.پھر جب گھر سے نکل کر باہر دھوپ میں قدم اُٹھاتا ہے تو اس کی جاگنے کی کیفیت میں ایک نیا نور پیدا ہو جاتا ہے.پھر روزمرہ کی زندگی میں حصہ لیتے ہوئے بہت سی باتیں غفلت کی حالت میں دیکھی جاتی ہیں اور جب انسان کو اندرونی طور پر جاگنے کی توفیق ملتی ہے تو ہر قدم پر اس کو ایک نئی روشنی محسوس ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اب میں جاگا ہوں اور جب انسان معرفت کے مزید درجے حاصل کرتا ہے تو بعض اوقات بڑے بڑے صوفیا نے آخر وقت یہی محسوس کیا کہ ہم جاگے ہی نہیں تھے بلکہ ایک نسبتی کیفیت تھی.چنانچہ میر درد نے ایک شعر میں بڑی حسرت سے اس معرفت کا یوں اعلان کیا کہ وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا تو خواب اور افسانوں کی حقیقتیں فی ذاتہ تو یہ حقیقتیں نہیں ہیں لیکن اکثر ہماری حقیقتیں جن
خطبات طاہر جلد ۱۰ 893 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء کو ہم حقیقت سمجھ رہے ہوتے ہیں ان کی اپنی حیثیت خواب اور افسانے کی ہوتی ہے.یہ عمومی کیفیت ہے اس لئے انسان کو کسی مقام اور کسی مرتبے پر جا کر پورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ میرا روشنیوں کا سفر تمام ہوا اور مجھے سب کچھ حاصل ہو گیا.یہ بجز کا مقام ہے جو انسان کی تعلیم وتربیت کرتا ہے.دُنیا میں کوئی سفر بھی حقیقی بجز کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی سفر بھی روشنی کے بغیر ممکن نہیں ، تو میں عہدیداران سے عاجزانہ طور پر یہ درخواست کرتا ہوں کہ جو کچھ اس مضمون پر ان کو سمجھایا گیا ہے وہ خود بھی سنیں اور توجہ سے سنیں اور پھر اپنے نفس کا محاسبہ کریں اور اسی طرح جن لوگوں کو وہ اس کام میں شامل کرنا چاہتے ہیں.جن لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنی زبان میں سُنانے کی بجائے میری زبان میں سُنا ئیں.یہ کوئی بے وجہ تفاخر کے نتیجہ میں میں ہرگز نہیں کہہ رہا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کہنا میرے لئے دشوار ہے کیونکہ میری ذات سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے حیاء کے جذبات کو قابو کر کے ایک فرض ادا کرنے کے طور پر کہہ رہا ہوں کہ خلیفہ وقت کو جو باتیں خدا تعالیٰ دینی کاموں سے متعلق سمجھاتا ہے ان کو کہنے کے انداز بھی عطا کرتا ہے اور ان باتوں میں جیسی گہری سچائی ہوتی ہے ویسی دوسرے کی باتوں میں جگہ جگہ کہیں کہیں تو ہو سکتی ہے مگر بالعموم ساری باتوں میں ویسی سچائی نہیں آسکتی اور ویسا اثر نہیں پیدا ہو سکتا.دوسرے سننے والا ہمیشہ بات کے نتیجہ میں اثر قبول نہیں کیا کرتا بلکہ بسا اوقات کہنے والے کے اثر کے نتیجہ میں اثر قبول کیا کرتا ہے اور یہ ایک ایسا انسانی فطرت کا راز جسے سمجھے بغیر آپ خدمت دین کا حق ادا نہیں کر سکتے.ہے کلام الہی کا اپنا ایک اثر ہے.اُسے لاکھ اپنی زبان میں سمجھانے کی آپ کوشش کریں جب تک کلام الہی کے حوالے سے وہ بات نہ سمجھائی جائے وہ اثر نہیں پیدا ہو سکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے کلام کا ایک اثر ہے جو ۱۴۰۰ سال سے زائد عرصہ گزرا وہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا وہ ایسی طاقت ہے جو ہمیشہ کی زندگی رکھتی ہے اور ایسا کلام ہے جس ک کوئی نظیر نہیں ہے.اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کے بعد اگر کوئی زندہ کلام ہے تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کلام ہے اور آپ کی برکت سے اور آپ کی غلامی میں پھر یہ طاقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نصیب ہوئی اور اسی لئے میں ہمیشہ زوردیتا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام خصوصاً ملفوظات کی طرف جماعت کو توجہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 894 خطبہ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۹۱ء کرنی چاہئے.جیسی زندگی بخش طاقت اس زمانے کے مریضوں کے لئے اور کمزوروں اور نحیفوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت میں ہے ویسی کہیں اور نہیں دیکھی گئی.چند فقرے پڑھنے کے بعد ہی انسان جھر جھری لے کر بیدار ہو جاتا ہے اور ان مضامین کو پڑھنے کے باوجود جن کے متعلق پہلے علم ہوتا ہے کہ کیا ہیں پھر بھی ہمیشہ نئی روشنی ملتی ہے، ہمیشہ نئی روحانی لذتیں عطا ہوتی ہیں.تو کہنے والے کی بات کس نے کہی یہ اس لئے بھی اثر کرتی ہے کہ ایک مرتبہ اور مقام جو اپنے دل کو بھاتا ہے.اپنے دل کو پیارا لگتا ہے اور پیار کے نتیجہ میں بات میں زیادہ اثر پیدا ہو جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ جو کہنے والے خدا کے زیادہ قریب ہیں ان کی باتیں بھی خدا کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اور ان میں اثر بھی نسبتاً زیادہ ہوتا ہے.پس ہر خلیفہ کے وقت میں جو اس زمانے کے حالات ہیں ان کے متعلق جو خلیفہ وقت کی نصیحت ہے وہ لازماً دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثر ہوگی.اس تعلق کی بناء پر بھی اور اس وجہ سے بھی کہ خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داری اسکے سپرد کی ہوتی ہے خود اس کے نتیجہ میں اس کو روشنی عطا کرتا ہے.پس پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ ان حکمت کی باتوں کو سمجھیں اور انہیں تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ حتی المقدور کوشش کریں کہ پُرانے دبے ہوئے ریکارڈ سے ان کیسٹس کو یا ویڈیوز کو یا تحریروں کو نکالیں اور اگر ساری جماعت کو یکدفعہ ان باتوں سے روشناس نہیں کراسکتے کیونکہ یہ بہت مشکل کام ہے میں جانتا ہوں، میں نے ہر میدان میں عملی کام کر کے دیکھے ہوئے ہیں کہنا آسان ہے کرنا اتنا آسان نہیں ہوا کرتا مگر یہ ضروری ہے کہ ہر مشکل سے مشکل کام بھی کچھ نہ کچھ ضرور کیا جا سکتا ہے.پس میں یہ تقاضا نہیں کرتا کہ یہ ساری باتیں آنا فانا کر دکھا ئیں مگر آپ کے پروگرام میں ان کو ایک اہمیت حاصل ہونی چاہئے.آپ کے پروگرام میں ان کو ایک اقلیت نصیب ہونی چاہئے اور اس کے نتیجہ میں پھر ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کتنے احباب جماعت تک جو تبلیغ کے کاموں میں متعلق ہورہے ہیں یہ باتیں خلیفہ وقت کی آواز میں اسی کی زبان سے پہنچائی جا چکی ہیں.اب اس کیلئے ایک نظام مقرر کرنا پڑے گا امیر کیلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ تمام ذمہ داریاں ادا کرنے کے علاوہ ہر وقت اس قسم کے تفصیلی مضامین کی بھی نگرانی کرے لیکن آخری نگرانی بہر حال اُسے کرنی ہے.جہاں امیر کی آنکھ غافل ہوئی وہاں ہر طرف اندھیرا ہو جائے گا اس لئے امیر کے لئے ضروری ہے کہ ایسا نظام مقرر کرے کہ اس کے مددگار اور اس کے نصیر پیدا ہوں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو معا قرآن کریم کی وہ آیت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 895 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء پھر ذہن میں اُبھرتی ہے کہ وہ دعا اس موقعہ پر بہت ہی ضروری ہے.رَّبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا ( بنی اسرائیل: ۸۱) کیونکہ اس دُعا کا تعلق ظاہری سفر سے بہت زیادہ روحانی سفر سے ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی مے کو روحانی سفر میں جو مدارج عطا ہونے تھے ان مدارج سے تعلق ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ہر مرحلہ جو طے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیر کے ذریعہ طے ہوتا ہے اور محض اپنی کوشش سے طے نہیں ہوتا.پس اس دُعا کے ساتھ جب امراء اور دیگر عہدیداران اپنے کام کا آغاز کریں گے اور منصوبہ بندی کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کونئی روشنی نصیب ہوگی.ان کو نئے مددگار ملیں گے اور یہ محض ایک عقلی استدلال نہیں ہے بلکہ تجربے کی بات ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر دعا پر اخلاص کے ساتھ پورا انحصار ہو، یقین کے ساتھ انحصار ہو تو روز مرہ کے صرف طبعی مددگار نہیں ملتے بلکہ ایسے مددگار ملتے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ یہ دعا کا نتیجہ ہیں.ایسے مددگار جو پہلے غافل تھے وہ جاگ اُٹھتے ہیں.ایسے لوگ مدد کو آ جاتے ہیں جن کے متعلق انسان کو توقع ہی نہیں تھی اور نصیر کا مضمون دن بدن شہادت کی دنیا میں ظاہر ہوتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کے فیض اور اس کا فضل نصیر کا روپ دھار دھار کر غیب سے وجود میں آجاتا ہے اور واقعہ آپ ان مددگاروں کو دیکھتے ہیں اور پھر وہ مددگار جو خدا کی طرف سے عطا ہوتے ہیں ان میں سلطانیت پائی جاتی ہے.یہ ایک بہت ہی گہرا اور عظیم مضمون ہے جو قرآن کریم کی اس دعا نے ہمیں سمجھایا کہ دنیا کے مددگار ضروری نہیں کہ اپنی مدد میں طاقت بھی رکھتے ہوں اور ان کی مدد کو غلبے کی ضمانت نصیب ہومگر اس دعا کے نتیجہ میں جو مددگار ملتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم نے سُلطَنَّا نَصِيرًا مانگے تھے اور تمہیں سلطناً نَصِيرًا ہی عطا ہوئے ہیں اور اس طرح تم پہچان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہیں دعا کے نتیجہ میں ملا ہے.سلطان کا مطلب ہے غالب، بادشاہ کو بھی سلطان کہتے ہیں جس میں طاقت ہو، جو کرنا چاہے وہ کر دکھائے ، جس میں دلیل بھی ہو معقولیت بھی ہو.سلطان بہت عظیم لفظ ہے.پس ایسے نصیر ملیں گے جو استدلال کی قوت رکھتے ہوں گے.جن میں غلبے کی صلاحیت موجود ہوگی جو جیسا چاہیں وہ کر کے دکھا سکتے ہوں گے.ایسے مددگار اگر حاصل کرنے ہیں تو اس سفر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 896 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء کے آغاز میں بھی یہ دعا کریں اس سفر کے دوران بھی یہ دعائیں کیا کریں.محاسبہ کرتے وقت بہت سی باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا.مثلا سفر سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ، ہے کہ اس وقت آپ کس مقام پر کھڑے ہیں تمام حالات کا جائزہ لینا اور اور یہ دیکھنا کہ ہم کون کون سے ذرائع استعمال کر رہے ہیں یہ محاسبے کے لئے ضروری ہے لیکن اس کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہوگا رپورٹوں کی زبان میں نہیں پڑنا بلکہ واقعہ جانچنا ہے ، دیکھنا ہے، پرکھنا ہے کہ جو کچھ ہونا چاہئے وہ ہو بھی رہا ہے کہ نہیں اور کتنا ہورہا ہے.اب کہنے کو تو سب کام کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ جو جو ذرائع ہمارے اختیار میں تھے ہم نے پورے کر لئے ہم نے خطوط لکھے ہم نے تمام احباب جماعت کو بار بار متوجہ کیا ، ان کو بتایا کہ لٹریچر کے ذریعے، دوسرے ذرائع سے تعلقات بڑھا کر ، دعوتیں کر کے، ویڈیو دکھا کر ، آڈیو سُنا کر اس طرح تم تبلیغ کرو ہم سب کچھ کر چکے ہیں لیکن نتیجہ ابھی نہیں نکلا.تو جوسب کچھ کر چکے ہیں ان میں پہلے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کر بھی چکے ہیں کہ نہیں ؟ اس چیز نے آگے جا کر عملی جامہ پہنا بھی ہے کہ نہیں لیکن جو سیکرٹری تبلیغ ہے جب وہ یہ لکھ دیتا ہے تو اپنی رپورٹ میں ہمیں مطلع کر دیتا ہے کہ ہم نے سب ذرائع اختیار کر لئے حالانکہ یہ درست بات نہیں.اگر سیکرٹری تبلیغ کھیت کے کنارے پر جا کر دیکھے کہ وہاں پانی پہنچا بھی تھا کہ نہیں تو اس کو معلوم ہوگا کہ وہ سب زبانی جمع خرچ تھا.جہاں یہ باتیں عمل میں ڈھلنی چاہئیں وہاں یہ باتیں ہی رہیں اور عملاً کچھ بھی نہیں ہوایا ہوا تو ایک دو کے سواکسی نے کچھ نہیں کیا اور پھر جس نے جس طرح کیا اس پر نظر رکھنا یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے.آج کے خطبہ میں تو اس کو بیان کرناممکن نہیں ہوگا.لیکن آئندہ انشاء اللہ اگر کوئی اور مضمون ایسا نہ ہوا جس کو پہلے بیان کرنا ضروری ہو تو میں اس کو مزید تفصیل سے آپ کے سامنے رکھوں گا.سر دست میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امراء کو ان باتوں کی روشنی میں اور جومزید باتیں میں ان کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں ، نئے سرے سے اس سارے کام کو تر تیب دینا چاہئے.مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ کافی نہیں ہے.بار بار ایسی میٹنگز بلانی پڑیں گی.اگر ہنگامی طور پر چند دن کی رخصتیں لے کر بھی سب کو اکٹھا دن رات بیٹھنا پڑے تو ایسا کریں لیکن مقصود یہ پیش نظر ہوگا کہ ہم نے اپنی گزشتہ حالت پر راضی نہیں رہنا کیونکہ بہت بڑا کام ہے جو ہمیں کرنا ہے اور اگر ہم نہیں کریں گے تو ہم خوابوں میں بس رہے ہوں گے اور اگر اس حالت میں ہم نے جان دے دی تو پھر میر درد کا یہ شعر ہم پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ بھی صادق آئے گا.897 وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جوسنا افسانہ تھا خطبہ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۹۱ء پس اس خواب کو حقیقت میں بدلنا ہے.یہ مقصد ہے اس کے لئے عزم کی ضرورت ہے.اس کے لئے ایک چیلنج کو قبول کرنے کی ضرورت ہے اس فیصلے کی ضرورت ہے کہ ہم نے بہر حال تبدیلی کرنی ہے اور اس یقین کی ضرورت ہے کہ جو جماعت آپ کو میسر ہے اس میں اس بات کی صلاحیت موجود ہے، ہر احمدی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک سے دواور دو سے چار ہو.بیج خراب نہیں ہیں.بیچ صحیح استعمال نہیں ہور ہے یا جس طرح ان میں بعض دفعہ پڑے پڑے بوسیدگی سی پیدا ہو جاتی ہے.ایسی کیفیت ہوگی لیکن بیجوں میں اُگنے کی صلاحیت ضرور موجود ہے.دنیا میں جو قانون قدرت ہمیں دکھائی دیتا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ کچھ لوگ بانجھ تو ضرور ہوتے ہیں لیکن اکثریت بانجھ نہیں ہوا کرتی.اکثریت میں پنپنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے.پس اگر اکثریت بانجھ نظر آئے تو خدا تعالیٰ کے قانون پر حرف رکھنے کا آپ کو حق نہیں ہے.ہرگز ایسی جرات نہ کریں.آپ کو یقینا یہ سوچنا چاہئے اور یہ نتیجہ نکالنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے بیج تو ہمیں اچھے دیئے تھے لیکن ہماری غفلت سے ان بیجوں کو کچھ ایسی بلا چمٹ گئی ہے یا کچھ ایسا و بال لگ گیا ہے کہ جس کے نتیجہ میں وہ پھوٹ نہیں رہے اور نشو و نما اختیار نہیں کر رہے.تو یہ ایک سفر سے پہلے کا لازمی نتیجہ ہے جو سفر سے پہلے آپ کو نکالنا ہو گا ور نہ سفر کے بعد جو نتیجہ نکلنا چاہئے وہ نہیں نکلے گا اور یہ نکتہ بھی آپ کو خوب سمجھنا چاہئے کہ ہر سفر کے آغاز پر اس کا نتیجہ پہلے نکل جایا کرتا ہے.اس کو سائنس کی اصطلاح میں Blue Print کہتے ہیں اور قرآن کریم نے بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور احادیث نے بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے کہ کائنات کی پیدائش سے پہلے انسان کا Blue Print موجود تھا.حضرت محمد مصطفی ﷺ Blue Print خدا کے علم میں موجود تھا اور اس کی تقدیر میں موجود تھا.پس نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پہلے آغاز میں نکالا جا چکا ہو.پس اگر آپ نے تبلیغی کوششوں کے لئے ایک مکمل نظام اپنے ذہن میں رکھا اور پورے عزم کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ اپنے خیالی ڈھانچے کو عملی جامہ ضرور پہنا کر چھوڑیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی یہ کوششیں ضرور نتیجہ خیز ہوں گی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 898 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء لیکن اگر سفر سے پہلے آپ کو یقین ہی نہ ہو ، سفر سے پہلے آپ یہ سمجھتے ہوں کہ ہمارا کہ دینا فرض ہے مگر یہی ہوتا رہتا ہے.جب سے ہم نے دیکھا اسی طرح لوگ سنتے بھی ہیں اور بھول بھی جاتے ہیں.یاد کرانے والے یاد بھی کراتے ہیں اور پھر غافل ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہی روئیداد جو پہلے رونما ہوا کرتی تھی وہی رونما ہوتی رہے گی.یہ نتیجہ جب آپ نے پہلے نکال لیا تو آپ نے اپنی ناکامی کا نتیجہ نکالا ہے.آپ کا Blue Print بیمار ہے بیج ناقص نہیں.آپ کے دماغ کا پیچ بانجھ ہو گیا ہے.اس لئے بڑے کھلے دماغ کے ساتھ واقعہ اور تیز نگاہ کے ساتھ اس بات کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں کہ کون سا سفر آپ اختیار کرنے والے ہیں اور آپ کے اعلیٰ مقاصد کیا ہیں اور پھر اگر آپ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں یہ ناممکن نہیں ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ ناممکن نہیں رہیں گے.وہی مقولہ صادق آتا ہے انگریزی کا محاورہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص کو علم نہیں تھا کہ جو میں کام کرنے لگا ہوں یہ ناممکن ہے پس وہ آگے بڑھا اور اس نے اس کو کرلیا.یہ ناممکن ہونے کا احساس بڑی بیماری ہے.یہ سب سے بڑا مرض ہے جو تمام منصوبوں کو ہلاک کر دیتا ہے.آپ بظاہر ناممکن نہ بھی کہیں اور سرتسلیم خم کر دیں کہ ہاں جی ! ہم نے آپ کی نصیحتیں سن لی ہیں تو احمدیوں میں خدا کے فضل سے یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک سے دو ہو سکتے ہیں.یہ کہہ کر آپ بظاہر تائید کر سکتے ہیں لیکن عملاً آپ کے دل کی سوچ کے اندر یہ مرض موجود ہوگا کہ ٹھیک ہے جی ، اسی طرح ہوتا آیا ہے کیسے ہو سکتا ہے یہ تو خیالی باتیں ہیں.آئیڈیل باتیں ہیں کبھی عملی دنیا میں ہوئی نہیں اس لئے ٹھیک ہے کوشش کریں گے.ہوگا تو وہی جو پہلے ہوتا رہا ہے تو آپ نے اپنی تمناؤں کی جڑوں پر ابھی سے تبر رکھ دیا.جو تمنائیں ہی مر جائیں ان کے آگے اس کے نتیجے کیسے پیدا ہو سکتے ہیں.اس لئے جاگیں اور بیدار ہوں اور یقین کریں کہ خدا تعالیٰ نے جیسے دنیا کے نظام میں اکثر بیجوں میں پھولنے پھلنے کی صلاحیت رکھی ہوتی ہے، اکثر انسانوں کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ صحیح طریق اختیار کریں تو خدا ان کو اولاد عطا کرے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت بھی گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کی طرح بالعموم یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ پھولے پھلے اور دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دے اور اتنے وقت میں کرے کہ اس انقلاب کے دوران وہ آپ بیمار نہ ہو چکی ہو.وہ امتیں جن کو پھل دیر سے لگتے ہیں، بہت لمبے عرصے بعد لگتے ہیں ان کی نشو و نما بعض
خطبات طاہر جلد ۱۰ 899 خطبہ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۹۱ء دفعہ ایسے ذرائع سے ہوتی ہے جو ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتے.خدا کی تقدیر کا وعدہ ہے کہ میں غالب آؤں گا اور غالب کروں گا تو زمانے کے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ اکثریت ان کے ساتھ ہو جاتی ہے مگر ضروری نہیں کہ ان کے اندر صلاحیتیں باقی رہی ہوں.ضروری نہیں کہ وہ صالح لوگ رہیں.بہت سی فتوحات ایسی بھی ہوتی ہیں جبکہ امتیں بیمار ہو چکی ہوں اور پھر فتح نصیب ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم جب تک کمزور اور محدود تھی باصلاحیت تھی.اس میں ایسے لوگ تھے اور بڑی کثرت سے تھے جنہوں نے وحدانیت کو ہمیشہ زندہ رکھا، وحدانیت سے چھٹے رہے ، وحدانیت کا علم بلند رکھا اس کی خاطر قربانیاں دیں ،خدا کی توحید پر قائم رہے.ان کا ذکر سورۃ کہف میں اصحاب الکہف کے ذکر میں ملتا ہے لیکن جب عیسائیت سے روم فتح ہو گیا تو ایسی حالت میں فتح ہوا کہ تثلیث پھیل چکی تھی.اب سوال یہ ہے کہ فتح کا وعدہ تو خدا نے پورا کر دیا کیونکہ وہ مسیح سے وعدہ تھا لیکن وہ ایک بیمار فتح تھی.اس کے نتیجہ میں یہ نہیں کہ دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا.میں پہلے بھی اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ بچے مذاہب بگڑنے کے باوجود بھی بہت سی صلاحیتیں زندہ رکھتے ہیں اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ بچے مذاہب خواہ بگڑ چکے ہوں ان کے غلبے سے دنیا کو فائدہ نہ پہنچا ہو.ایک جہت سے نہ ہو دوسری جہت سے پہنچ جاتا ہے مگر مذہب کا جو اصل اعلیٰ مقصد ہے وہ حاصل نہیں ہوتا اور ہر مذہب کا اعلیٰ مقصد توحید کا قیام ہے.پس عیسائیت کی بڑی بدنصیبی ہے کہ ایسی حالت میں فتح پائی جبکہ تو حید بالعموم ہاتھ سے جاتی رہی تھی اور بہت تھوڑے تھے جو تو حید پر قائم تھے.پس صرف یہ بحث نہیں ہے کہ آپ میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت ہے بلکہ اس صلاحیت کو اس تیزی سے استعمال کریں کہ آپ کی روحانی صلاحیتیں ، ابھی زندہ ہوں اور ان میں نقص نہ پیدا ہو چکے ہوں.اگر بیمار حالت میں آپ کو ترقی نصیب ہو تو اس ترقی کا کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہے.کچھ نہ کچھ فائدہ تو ضرور ہوگا لیکن اعلیٰ مقاصد میں آپ ناکام ہو چکے ہوں گے اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ترقی کی رفتار کا اقدار کی حفاظت سے ایک گہرا تعلق ہے.بہت دیر تک اگر قوموں کو ترقی نہ ملے تو بعض دفعہ آہستہ آہستہ زنگ لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور غیر معاشروں سے وہ مغلوب ہونے لگ جاتے ہیں.اس لئے معاشرے کے اندر ایک طاقت پیدا ہونی چاہئے اور وہ تعداد کے بڑھتے رہنے سے ہوتی ہے.وہ طاقت جو اس یقین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 900 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء کے ساتھ پیدا ہوتی ہے کہ ہم غالب آرہے ہیں اسکے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اقدار کی بھی حفاظت ہوتی ہے ورنہ دیر تک ترقی نہ ملنے کے نتیجہ میں یائسست روی کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ جو کچھ انسان نے حاصل کیا ہے وہ بھی ہاتھ سے جانے لگتا ہے اور قومیں روحانی لحاظ سے تنزل اختیار کرنا شروع کر دیتی ہیں.پس بہت سے ایسے محرکات ہیں، بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن پر نظر رکھتے ہوئے میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری روحانی بقا کے لئے آج تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ضروری ہے.آج ہمیں ایسے ممالک چاہئیں جہاں جماعت احمدیہ غالب آکر ایک غالب معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کر سکے ور نہ اپنے معاشرے کی صحت پر ہی نئی نسلوں کو یقین نہیں رہے گا.بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے گفتگو ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے احمدیت اچھی ہوگی مگر وہ کون سی جگہ ہے جہاں احمدیت نے دنیا کی حالت تبدیل کر کے ایک پر امن معاشرہ پیش کیا ہو جس کے نتیجہ میں ہم کہ سکیں کہ ہاں یہ تجربہ باقی دنیا کے لئے بھی لائق تقلید ہے.ایسا کوئی ملک ہمیں نظر نہیں آتا.بستیاں کچھ دکھائی دیں گی مگر ایسی بستیاں جن پر غیر معاشرے کے غلبہ کی وجہ سے اچھی چیز میں بُری چیز کی ملاوٹ ہے اور کوئی بھی ایسی بستی نہیں دکھائی جاسکتی جس کو ہم کہہ سکیں کہ ہاں یہ خالصۂ احمدی معاشرے کی نمائندہ ہے کیونکہ اس پر احمدیت ہی اثر انداز ہوئی ہے اور باقی اثرات سے اس بستی کو بچایا گیا ہے.یہ غلبہ کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے.پس مجھے ایک کوڑی کی بھی دلچسپی سیاسی غلبہ میں نہیں مگر اس بات میں دلچسپی ہے کہ احمدیت کو تمدنی اور معاشرتی غلبہ نصیب ہو اور اس کا ایک تعلق سیاسی غلبہ سے ضرور ہے خواہ سیاست کی آپ کو ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہ ہو.آپ کو ملکوں میں تمدنی غلبے حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور عددی اکثریت کے بغیر یہ غلبہ حاصل ہو نہیں سکتا.اس لئے اور باتوں کے علاوہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم تیزی کے ساتھ پھیلنا، پھولنا، بڑھنا شروع کر دیں اور ہر ملک میں ایک انقلابی تبدیلی واقع ہو.پس امراء کو چاہئے اور ان کے ساتھ دوسرے خدمت کرنے والوں کو چاہئے کہ اس مضمون کی اہمیت کو تو سمجھیں.بہت ہی اہم مضمون ہے.امریکہ ہو یا یورپ کے دیگر ممالک وہاں اس کثرت سے اسلام کی دشمن قدریں بڑھ رہی ہیں اور نئے عزائم لے کر اسلام پر حملہ کرنے کیلئے منصوبے بنائے جارہے ہیں.ایسی حالت میں کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 901 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء جب آپ کمزور ہیں اتنے کمزور ہیں کہ آپ کا معاشرہ اپنی ذات میں اپنی حفاظت کی اندورنی طاقت بھی نہیں رکھتا تو کہاں تک آپ یہ مقابلہ کر سکتے ہیں.دعاؤں اور مسلسل محنت کے ذریعہ کچھ نسلوں کو آپ سنبھال سکتے ہیں مگر آپ کے ماحول میں اردگر جو لوگ رہتے ہیں وہ آپ سے بحیثیت قوم متاثر نہیں ہو سکتے.انفرادی طور پر ہو سکتے ہیں مگر کونسا ملک ہے جہاں یہ کہا جاسکے کہ احمدی معاشرہ غالب آگیا ہے اور وہ ایک مثال بن گیا ہے اور تمام ملک کے باشندوں کی نظریں اس معاشرے کی طرف اٹھ رہی ہوں جب تک یہ واقعہ نہیں ہوتا ہماری تمدنی اور معاشرتی قدروں کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اس لئے یورپ کے ممالک میں خصوصیت کے ساتھ احمدیت کو ایک جھرجھری لے کر بیدار ہونا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ بظاہر وہ بیدار ہیں لیکن ابھی خواب میں ہیں.نئے ارادوں کے ساتھ اٹھنا چاہئے اور نئے عزم کے ساتھ نئے منصوبے بنانے چاہئیں اور دعائیں کرتے ہوئے اس سفر کا آغاز کرنا چاہئے جس کا اکثر جگہ آغاز بھی نہیں ہوا.بہت ہی طمانیت کے ساتھ اور بہت ہی خوداعتمادی کے ساتھ بعض یورپ کے امراء مجھے لکھتے ہیں کہ الحمد للہ خدا کے فضل سے آپ کی دعاؤں سے اس سال ہمیں سے بیعتیں ملی ہیں جبکہ گزشتہ سال مثلا ۵۵ تھیں اور میں کہتا ہوں اللہ رحم کرے میری دعائیں اگر ایسی ہی ہیں تو اللہ میرے اوپر بھی رحم کرے.میں تو دعائیں کرتا ہوں کہ ہزاروں لاکھوں میں تبدیل ہوں اور مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہاری دعاؤں سے ملی ہیں.میں کہتا ہوں اللہ مجھے معاف کرے یہ کیسی دعائیں ہیں جو نعوذ بالله من ذلك ایسی نا مقبول ہیں مگر دعا ئیں بھی اس وقت قبول ہوتی ہیں جب دعائیں جن کے لئے کی جاتیں ہیں وہ صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کریں.یہ یاد رکھیں کہ اولاد کے حق میں بھی دعائیں نہیں لگا کرتیں اگر اولاد ان کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو اور اسے تمنا ہی نہ ہو.یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کا ایک عجیب مضمون ہے جس میں فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الکہف:۳۰) کا مضمون خدا کی تقدیر میں ہر جگہ صادق آتا ہے.ہر شخص کی اپنی تمنا اور خواہش کا اس کی زندگی کا رخ ڈھالنے میں ایک گہرا تعلق ہے اور محض دوسرے کی دعا ئیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں جب تک وہ خودان دعاؤں کے رخ پر چلنے کی تمنا پیدا نہ کرے.ہوائیں ضرور سفر میں محمد ہو جایا کرتی ہیں.سمندری سفروں میں بھی اور دنیا کے عام سفروں میں بھی ہوائی جہازوں کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 902 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء بھی ہوائیں مدد کرتی ہیں.اور موٹروں کی بھی مدد کرتی ہیں.پیدل چلنے والوں کو بھی مدد کرتی ہیں لیکن جو ہوا کے مخالف چل رہا ہو اس کی کیسے مدد کر سکتی ہیں.اس لئے دعاؤں کا مضمون بھی ہواؤں سے ایک نسبت رکھتا ہے.پس یا درکھیں کہ آپ کے حق میں آپ کی اپنی دعائیں یا میری دعائیں یا ان بزرگوں کی دعا ئیں جو ہم سے پہلے گزر گئے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے دعائیں کرتے کرتے انہوں نے جان دی تبھی مقبول ہونگی جب آپ ان دعاؤں کے رخ پر سفر کرنے کے ارادے کریں گے اور جب ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشش کریں گے تو پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی رفتار کو کس طرح غیر معمولی الہی تائید حاصل ہوتی ہے.پس یہ ۷۰، ۲۰۰،۱۰۰،۸۰ ، یورپ اور امریکہ اور کینیڈا کی اطلاعات ایسی تکلیف دہ ہیں کہ دل حیران ہو جاتا ہے کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے چند افراد چند اور آدمی پیدا کر رہے ہیں تو باقی افراد کیوں بانجھ پڑے ہیں.وہ بانجھ نہیں ہیں آپ نے ان کیلئے وہ ماحول نہیں پیدا کیا جس میں وہ نشو و نما پا سکتے ہیں ان کی اتنی تربیت نہیں کی ، ان کی مدد نہیں کی ، ان کے مسائل پر پورا غور نہیں کیا.یہ جائزہ نہیں لیا کہ آپ کس طرح تبلیغ کر رہے ہیں، اس میں کیا کیا نقص رہ گئے ہیں؟ کون سے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں تھے جو نہیں کئے ، کون سے ذرائع ہیں جن کا ذکر کاغذوں میں تو ملتا ہے لیکن عمل کی دنیا میں نا پید ہیں.ان سب جائزوں کے بغیر جس کو میں محاسبہ کا نام دے رہا ہوں آپ کے سفر کا آغاز ہو ہی نہیں سکتا.پس آج کے خطبہ میں آخری نصیحت یہی ہے کہ آپ محاسبہ کریں اور منصوبہ بنانے سے پہلے خوب اچھی طرح معلوم کر لیں کہ ساری جماعت میں کہاں کہاں کیا کیا کیفیت ہے، کس صلاحیت کے لوگ ہیں؟ کون سے ایسے ہیں جو تبلیغی لحاظ سے نشو و نما کی صلاحیت اس حد تک رکھتے ہیں کہ آپ انکوتھوڑا سا بھی سمجھا ئیں اور ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا ئیں تو وہ چل سکتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جو ابھی اس معیار سے نیچے ہیں اور ان کی صلاحیتیں مخفی ہیں ابھی ان پر زیادہ محنت اور کام کی ضرورت ہے.ہر پہلو سے یہ جائزے لے کر جب آپ مکمل طور پر اپنی پہچان کر لیں گے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں تو اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 903 خطبہ جمعہ ۱۵/ نومبر ۱۹۹۱ء کا نام محاسبہ ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ محا ہے ہی کا دوسرا نام روشنی ہے.ہر سفر کے آغاز سے پہلے اگر اندھیروں کا سفر ہو تو روشنی کی ضرورت ہے اور محاسبہ آپ کو روشنی عطا کرتا ہے.اگر اپنا محاسبہ کئے بغیر آپ سفر کریں گے تو آپ ٹھوکریں کھائیں گے.آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ کس رخ پر جانا ہے اور وہ سفر اگر طے بھی ہو تو بڑی مصیبت اور مشکل سے طے ہو گا لیکن تیز رفتاری سے ہرگز نہیں.روشنی مل جائے تو اندھیروں کا سینہ چیرتے ہوئے وہ آگے آگے بڑھتی ہے اور آپ کو ساتھ لئے لئے جس رفتار سے آپ چاہیں آپ کو آگے بھگائے پھرتی ہے اور بہت قوت اور یقین اور حوصلے کے ساتھ آپ پر خطر راہوں کے بھی سفر کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کو خطرات دور سے دکھائی دیتے ہیں.پتہ لگتا ہے کہاں کوئی جانور ہے، کہاں کوئی پتھر ہے، کہاں کوئی گڑھا ہے، کہاں سٹرک کا کنارہ ہے، کہاں جھاڑیاں ہیں ، کہاں قدم رکھنے ہیں کہاں نہیں رکھنے؟ یہ باتیں محاسبہ سے ملتی ہیں.پس دعا کے بعد جو ہمیشہ اولیت رکھتی ہے اور ہمیشہ اولیت رکھے گی اور پھر ساتھ ساتھ چلے گی آپ کو تبلیغ کا سفر کرنے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے.جن جن باتوں کی میں نے نشاندہی کی ہے ان میں بھی محاسبہ کریں اور پھر اس محاسبہ کے بعد منصوبہ بنانے میں اگلا قدم کیا ہونا چاہئے اس کی کچھ تفاصیل انشاء اللہ میں آئندہ خطبہ میں بیان کرونگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ تمام ممالک کے امراء اور ان کے ساتھی ، ان کی مجالس عاملہ خواہ انکا شعبہ اصلاح وارشاد سے تعلق ہو یا نہ ہو وہ سارے اپنی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہ بنائیں گے کہ ہم نے تبلیغی نقطہ نگاہ سے جماعت میں ایک انقلاب برپا کر دینا ہے ایک نئی فضا پیدا کرنی ہے ،نئی زمین بنانی ہے، نیا آسمان بنانا ہے کیونکہ اس بوسیدہ زمین اور بوسیدہ آسمان میں تو ہمارے سفر طے نہیں ہو سکتے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں.ہماری صلاحیتوں کی اکثریت بیکار بیٹھی ہوئی ہے.ہم کو خدا تعالیٰ نے نشو ونما کی جو طاقتیں دی ہوئی ہیں ان کو پنپنے کے لئے جس ماحول کی ضرورت ہے ابھی وہ میسر نہیں ہے.اس لئے اس مضمون پر انشاء اللہ آئندہ مزید روشنی ڈالوں گا.اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم جلد جلد بیدار ہوں اور بیدار ہونے کے بعد نئی بیداریوں کے سفر شروع کریں نئی صلى روشنیاں ہمیں عطا ہوں.ہماری رفتاریں بڑھیں اور دیکھتے دیکھتے ہم حضرت محمد ﷺ کے زندگی بخش دین کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 905 خطبه جمعه ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء موجودہ جماعت اپنی زندگی میں ایک کروڑ نئے احمدی پیدا کرے دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں عہدیداران جماعت کو نصائح.( خطبه جمعه فرموده ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ آئندہ انشاء اللہ دعوت الی اللہ کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے نسبتاً زیادہ تفصیل کے ساتھ امرائے جماعت، صدران اور عہد یداران کو ہدایات دوں گا.اس مضمون کا براہ راست تعلق تو عہدیداران سے ہی ہے کہ انہیں کس طرح کام کروانا چاہئے.خطبہ کے لئے میں نے اسے اس لئے چنا ہے کہ یہ کام تو میں بڑی دیر سے کرتا چلا آ رہا ہوں اور جہاں جہاں جس جس ملک میں دورے پر گیا ہوں وہاں ہمیشہ اس موضوع پر کسی نہ کسی جگہ ضرور خطاب کیا ہے اور عہدیداران کو بٹھا کر تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے، جماعتی عہد یداران کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو بھی کہ انہیں دعوت الی اللہ کا کام کیسے کرنا چاہئے لیکن اس کے باوجود وہ نتیجہ پیدا نہیں ہوا جس کی مجھے لازماً توقع تھی.ہر ملک کا ایک حال نہیں.بعض ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری توقعات سے بھی بڑھ کر نتیجے ظاہر ہوئے کیونکہ جن لوگوں کو مخاطب کر کے میں نے بات کی انہوں نے تقویٰ کے ساتھ انکساری کے ساتھ ، اپنے آپ کو بڑا اور عقلمند سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ عاجز بندوں کی طرح نصیحت کو سنا اور اس پر دیانتداری سے عمل کی کوشش کی اور اپنی انا کو بیچ میں حائل نہیں ہونے دیا.میں جب یہ کہتا ہوں تو مراد یہ نہیں کہ باقی سب نے ایسا کیا ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 906 خطبه جمعه ۲۲ / نومبر ۱۹۹۱ء کہ خدا کے فضل سے اگر جماعت کے تمام عہدیداران نہیں تو بھاری اکثریت متقی ہے اور ان کی انا کچلی جاتی ہے تو وہ خدمت کے لئے آگے آتے ہیں لیکن اس کے باوجودانا کے بہت سے مخفی پہلو ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں انسان کے کاموں میں بھی اور اس کی سوچوں میں بھی حائل ہوتے رہتے ہیں اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے سوائے انبیاء کے کسی کی انا ہمیشہ کے لئے کلیہ کچلی نہیں جاتی اس لئے میں جب یہ کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان کو نعوذ باللہ ادنی سمجھتا ہوں یا تقویٰ کے خلاف باتوں میں ملوث دیکھتا ہوں بلکہ یہ ساری جماعت کے لئے ایک عام نصیحت ہے کہ اپنی انا سے ہمیشہ خبردار رہیں.وہ دب جاتی ہے لیکن مٹتی نہیں اور موقع کی تلاش میں رہتی ہے.اس کا حال جراثیم کی طرح ہے صحت مند انسان کے جسم میں بھی وہ جراثیم اس کے خون میں دوڑ رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں موقعہ نہیں ملتا کہ وہ نشو و نما پاسکیں کیونکہ صحت مند جسم ان کو دبا کر رکھتا ہے اور اجازت نہیں دیتا کہ وہ سراٹھائیں لیکن حقیقت میں کامل طور پر اگر کسی کی انا مری ہے تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ہی انا ہے کیونکہ آپ نے انا کا نام ہی شیطان رکھا ہے اور شیطان کے متعلق فرمایا کہ ہر انسان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے.اس کی نسوں میں دوڑ رہا ہے.اس کے وجود کے اندر شامل ہے.اس پر کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے اندر بھی شیطان ہے.آپ نے فرمایا ہاں ہے لیکن مسلمان ہو چکا ہے (ال) تو انسانی فطرت کے اندر یہ جو سر اٹھانے کا اور کسی نہ کسی رنگ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا فطری جذبہ ہے اس کا نام حضرت اقدس محمد مصطف مﷺ نے شیطان رکھا ہے اور آپ کا یہ فیصلہ قرآن پرمبنی ہے کیونکہ قرآن نے سب سے پہلے شیطان کا جو تعارف کرایا ہے وانانیت کے سراٹھانے والے ایک وجود کے طور پر پیش فرمایا ہے اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ (الاعراف :۱۳) کی آواز والے شیطان بھی ہوں گے اور ہوتے ہیں.انسانی شکلوں میں بھی اور اس کے علاوہ بھی ممکن ہیں لیکن ایک شیطان جو محقق ہو چکا ہے جس کے متعلق ہمیں آخری دربار سے آخری فیصلہ مل گیا ہے وہ انسانی فطرت کے اندر اس کی انانیت ہے.پس وہ عہدیداران جوانانیت کو کچلنے میں زیادہ اعلیٰ مقامات پر فائز ہوتے ہیں وہ ہمیشہ نصیحتوں سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن صرف یہی ایک روک نہیں ہے جو حائل ہے.انسانی فطرت کے اندر بات سن کر اثر کو قبول کرنے کا مادہ بھی ہے اور بات سننے کے کچھ عرصہ بعد اس کو بھلا دینے کا مادہ بھی ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار اور بار بار اور بار بار نصیحت کا حکم دیا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 907 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء حضرت محمد مصطفے ﷺ کو مذکر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان کی مستقل صفت بن چکی تھی یعنی آج یا کل یا کبھی کبھی اتفاقی نصیحت کرنے والے نہیں تھے بلکہ ہمیشہ کی زندگی میں ہر مشغلے میں نصیحت ان کے وجود کا حصہ بن گئی تھی اور آپ کی ذات میں وہ نصیحت ایسی شامل ہو چکی تھی کہ خدا نے خود آپ کا مذکر ہمیشہ کا دائمی نصیحت کرنے والا نام رکھ دیا.پس اس لئے بھی نصیحت کی ضرورت پڑتی ہے.ضروری نہیں کہ انا نیت کا ہی کوئی شعبہ سر اٹھارہا ہو.انسانی غفلت ہے، کمزوریاں ہیں جو نصیحت کو سن کر ان کو بھلا دینے کی طرف انسان کو مائل کر دیتی ہیں.پس اس پہلو سے جب میں عہدیداران کو نصیحت کرتا ہوں یا ان کے متعلق بعض دفعہ یہ تبصرے کرتا ہوں تو ان کی دل آزاری ہرگز مقصود نہیں.میں امید رکھتا ہوں وہ تمل سے سنیں گے اور یہ واقعاتی تبصرے ہیں.ان سے مفر نہیں یعنی ان کو بیان کئے بغیر بات پوری کھلے گی نہیں.واقعہ یہی ہے کہ میں کہتا چلا جاتا ہوں اور پیچھے سے باتیں بھلائی چلی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ بڑی دیر سے جاری ہے.چنانچہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ساری جماعت کو وہ باتیں سمجھاؤں کیونکہ ساری جماعت کو اگر علم ہو کہ ہمارے متعلق یہ توقعات ہیں.یہ ہمیں لائحہ عمل دیا جا رہا ہے تو اگر عہد یداران کبھی غافل بھی ہوں تو جماعت ان کو بیدار کرے گی اور جماعت کے علم میں براہ راست آئے گا کہ ہم سے کیا توقعات ہیں اور ہمیں ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے کیا مدددی جارہی ہے یا کیا مدددی جانی چاہئے.اس ضمن میں پہلی بات تو میں یہ سمجھانی چاہتا ہوں کہ معلومات کی کمی خود بہت بڑے نقصان کا موجب بنتی ہے.اب جو خطبے میں دوں گا مجھے امید ہے کہ اس کے نتیجہ میں فائدہ پہنچے گا کیونکہ معلومات عام ہوں گی لیکن جو نصیحتیں میں کرتا رہا ہوں ان کو جماعت تک پہنچایا نہیں گیا اور جماعت کی بھاری اکثریت ان سے غافل ہے.ان کو علم ہی نہیں کہ کیا تو قعات تھیں ، کس طرح ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے میرے ذہن نے نقشے بنائے اور کس طرح میں نے احباب جماعت کو عہد یداران کو سمجھانے کی کوشش کی؟ معلومات کی کمی کا یہ حال ہے کہ اکثر احباب جماعت کو جو ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں اور مستعد ہیں اور جہاں ذرائع ابلاغ بہت ہی اعلیٰ درجے کے اور ہر شخص کو مہیا ہیں ، وہاں بھی عام باتوں کا بھی احباب جماعت کو علم نہیں ہے.مثلاً ان کا اگر کوئی دوست بنتا ہے جو بلغارین زبان بولنے والا ہے تو وہ گھبرا کر مجھے خط لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا بلغارین زبان میں بھی کوئی لٹریچر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 908 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء موجود ہے.بعض دفعہ عربی کے متعلق پوچھتے ہیں کہ کوئی کیسٹ ہو، کوئی ابتدائی معلومات کی کتابیں ہوں تو ہمیں بتائی جائیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ جماعت اس وقت تک لٹریچر کی تیاری میں اور آڈیو ویڈیو سامانوں کی تیاری میں کس حد تک آگے جا چکی ہے اور کیا کیا چیزیں مہیا ہو چکی ہیں؟ اگر کثرت کے ساتھ یہ معلومات بہم پہنچائی جائیں اور جماعت کے اخبارات ورسائل میں بار بار یہ بیان کی جائیں اور عہدیداران کے ذریعہ بھی اعلان کروائے جائیں.کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے بروشرز ، چھوٹے چھوٹے خوبصورت پمفلٹ شائع کر کے ان میں بھی تمام احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا جائے کہ ہمارے پاس یہ یہ چیزیں بھی ہیں.کبھی آپ کو ضرورت ہو تو ان کو استعمال کر کے دیکھیں اور اس کے نتیجہ میں آپ کے لئے تبلیغ کی راہیں آسان ہوں گی.خدا کے فضل سے اس وقت تک اتنی زبانوں میں لٹریچر تیار ہو چکا ہے کہ خود وہ لوگ جن کی زبانوں میں لٹریچر ہے وہ جب دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور بعض ایسے مخالفین جو اس سے پہلے جماعت کے شدید مخالف تھے انہوں نے جب جماعت کی بعض نمائشوں میں اس لٹریچر کو دیکھا تو بڑے زور کے ساتھ گواہی دی کہ وہ سب جھوٹے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو کیونکہ اسلام کی اتنی خدمت اور ایسے احسن رنگ میں اسلام کی خدمت کبھی کسی کو دنیا میں اس کی توفیق نہیں ملی.ان کی مراد اس زمانہ سے ہے نعوذ باللہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کو شامل کر کے تو یہ نہیں کہتے ، تو کبھی کا لفظ جب بھی کبھی بولتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ ہمارے علم میں ہمارے موجودہ زمانہ میں ہم نے کسی اور کو نہیں دیکھا کہ ایسی خدمت کرتا ہو.اسی طرح مختلف ایمبیسیز (Embassies) ہیں ان کے نمائندے مختلف ممالک میں جا کر احمدی لٹریچر کو دیکھتے ہیں تو غیر معمولی طور پر دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں.لیکن اس سلسلہ میں لاعلمی کی جو کوتاہیاں ہیں ان کا آغاز خود امیر جماعت یا عہد یداران سے ہے مثلاً ان کو سرسری علم تو ہے کہ ہمارے پاس رشین زبان میں قرآن کریم کے تراجم موجود ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ ایک میں دو ہیں، تین یا چار ہیں کسی کو دے بھی سکتے ہیں کہ نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پارسل گئے وہ کھل کر کسی جگہ لگ گئے اور مزید تفصیل سے دلچسپی نہیں لی گئی کہ ان کو آگے استعمال بھی کرنا ہے کہ نہیں.پس معلومات سرسری بھی ہوا کرتی ہیں اور گہری بھی اور گہری معلومات کا تعلق ذاتی دلچسپی سے ہے.مثلاً اگر مجھے کوئی کتاب آئے تو بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ فوراً
خطبات طاہر جلد ۱۰ 909 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء جماعت کے صائب الرائے لوگوں کو، دانشوروں کو یہ کتاب ضرور پہنچائی جائے.ایسی صورت میں بعض دفعہ ان کی فوٹو کا پیز کروا کر امراء کو بھجوائی جاتی ہیں.بعض اور دانشوروں کو بھجوائی جاتی ہیں کیونکہ مجھے اس میں دلچسپی ہے اور اس بات میں دلچسپی ہے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ دوستوں کو بعض امور کا علم ہواور ان کے اندر جستجو کا شوق ہولیکن اگر ایک امیر اس میں دلچسپی نہیں لیتا تو اس کی معلومات سرسری رہیں گی.اگر وہ دلچسپی لے گا تو مثلاً جب اس کو پتہ چلا کہ آج ہمارے پاس روسی زبان میں قرآن کریم کا تحفہ آیا ہے تو وہ کہے گا کہ کتنے ہیں.اس سے فائدہ کس طرح اٹھانا ہے.بعض رشینز Russians کی تلاش کی جائے وہ ہیں کہاں؟ ان کو پہنچانے کا انتظام کیا جائے.معلوم کیا جائے کہ ان پر کیا تاثرات پیدا ہوتے ہیں لیکن چونکہ بات وہیں ختم کر دی گئی اس لئے مزید معلومات حاصل نہیں کی گئیں.پھر اچانک مجھے خط ملا ( میں مثالیں دے رہا ہوں نام نہیں لوں گا) کہ آپ نے ہدایت کی تھی کہ ایمبسڈ رز کو بلاؤ دعوت دے کر اور نمائش دکھاؤ اور ان سے رابطے پیدا کرو ہم نے روسی ایمبسڈ رکو بلایا اس نے بہت خوشی سے دعوت کو قبول کیا لیکن ہمیں بہت شرمندگی ہوئی کہ جب اس نے قرآن کریم خرید نے کی خواہش ظاہر کی اور ہم نے دیکھا تو ایک ہی نسخہ تھا جو لائبریری کے لئے تھا اور اس کے سٹاف نے بھی بڑی دلچسپی لی لیکن ہم نے ان کو پتے لکھ دیئے ہیں کہ کہاں سے منگوائے جاسکتے ہیں.اب یہ تو کوئی بات ہی نہیں.بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ جب آپ دعوت دیتے ہیں تو آپ کو کم سے کم یہ توقع تو کرنی چاہئے کہ جو چیز دکھا ئیں گے جس کی وہ زبان ہے اس میں وہ اگر کسی لٹریچر میں دلچسپی لے گا کسی کتاب میں دلچسپی لے گا تو مانگے گا بھی تو سہی اور اگر نہ بھی مانگے تو کچھ نہ کچھ تو اس کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے آپ کو زائد ضرور رکھنا چاہئے تو معلومات کی کمی اور معلومات میں دلچسپی کی کمی دونوں عملاً ایک ہی نتیجہ پیدا کرتے ہیں اور وقت کے اوپر وہ ضرورت کی چیز کام نہیں آسکتی.پس معلومات پہنچانی ہیں اس طرح نہیں جیسے سر سے بوجھ اتارا جائے ایک دفعہ ایک لسٹ شائع کر کے اگر آپ ساری جماعت میں تقسیم کروا دیں تو یہ معلومات پہنچانا میرے نزدیک نہیں ہے کیونکہ میں معلومات ان باتوں کو کہتا ہوں جن میں وہ دلچسپی پیدا ہو، جن کو انسان استعمال کرسکتا ہوورنہ وہ معلومات جو عمل کی سطح پر ذہن کے سامنے حاضر نہ رہیں وہ رفتہ رفتہ لاشعور میں دینی شروع ہو جاتی ہیں اور ایسے ہی ہے جیسے نہ ہوں پس معلومات پہنچانا اور بیدار مغزی کے ساتھ ان کو لوگوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 910 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء پیش نظر رکھنا اور اس طریق پر الٹتے پلٹتے رہنا کہ انسانی ذہن جو نیند کا عادی ہے وہ کچھ دیر کے لئے تو بیدار ہو اور اتنی چیز اس کے سامنے ہو جتنی اس کے اندر سمجھنے کی صلاحیت ہے.پس ٹکڑوں ٹکڑوں میں معلومات پہنچانا اور پھر ان کی پیروی کرنا ، ان کا تنتبع کرنا اور معلوم کرنا کہ اس سے کیا فائدہ ہوا.کسی نے ان چیزوں کو استعمال بھی کیا کہ نہیں.یہ ایک مسلسل نظام ہے جو با قاعدہ منصوبے کے تحت چلنا چاہئے اور اگر سیکرٹری تبلیغ کو خود اس بات کی استطاعت نہیں ہے.بعض دفعہ جماعتیں ایسا آدمی چن دیتی ہیں جس کو واقعہ اس شعبہ کے لئے کوئی خاص استطاعت نہیں ہوتی.تو اول تو امراء کا کام ہے کہ وہ خود ساتھ مل کر اسے سمجھا کر تربیت دیں اور رفتہ رفتہ ان باتوں کے قابل بنائیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو ان کے ساتھ بعض خصوصی کاموں کے لئے سپیشلسٹ یعنی تخصیص کے ماہر نائبین مقرر کر دیں، مددگار مقرر کر دیں اور کسی کے سپر دایک کام کر دیا جائے کسی کے سپر ددوسرا کام کر دیا جائے.جماعتوں کی مجبوریاں بھی ہیں.انتخاب کے وقت محض کسی خاص شعبے کی صلاحیت کو مدنظر نہیں رکھا جا سکتا اس شخص کی دلچسپی کو بھی تو پیش نظر رکھنا پڑے گا اور اس کا تقویٰ کے ساتھ تعلق ہے.جس شخص کو اللہ تعالیٰ کا زیادہ خوف ہے، خدا کے لئے دل میں زیادہ محبت ہے.جماعتی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے.اس کی ذہنی اور قلبی صلاحتیں تو اس کے اختیار کی بات نہیں لیکن جماعت دیکھتی ہے کہ یہ لوگ ہیں جو خدمت کرنے والے ہیں ان کے نام وہ چنتی ہے اور یہی ہے جو قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ذمہ داریاں سپر د کرتے وقت تقومی دیکھا کرو.لیکن ان کے نیچے ایسی ٹیم بنائی جاسکتی ہے جو پہلے مستعد نہیں لیکن ان کو مستعد بنانا مقصود ہو اور ان کی صلاحیتوں سے پورا پورا استفادہ کرنا مقصود ہو.ایسے لوگ مہیا کر کے ان کے سپرد کئے جا سکتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ عہدیداران میں براہ راست یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹیم بنائیں.میں ان کے لئے بعض نوجوانوں کو تلاش کرتا ہوں.ذاتی طور پر ان کو سمجھاتا ہوں ،سکھاتا ہوں اور پھر ان کے سپر د کر دیتا ہوں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کو ٹیم ملتی ہے جس سے پھر وہ بہت عمدہ کام لینا شروع کر دیتے ہیں.پس معلومات کے سلسلہ میں سیکرٹری اصلاح وارشاد کو ایسے Specialist نائبین مہیا کرنے چاہئیں جن کے سپر د مختلف شعبے ہوں مثلاً معلومات مہیا کرنا اور معلومات کو گردش میں رکھنا اور معلومات کے سلسلہ میں وسعت نظر پیدا کرنا ، صرف یہ نہیں دیکھنا کہ فلاں اعداد و شمار مہیا ہو گئے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 911 خطبه جمعه ۲۲ /نومبر ۱۹۹۱ء اور ہم نے پہنچا دیے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر یہ سوچنا کہ ان باتوں کو پہنچانے کا مقصد کیا ہے اگر ہمارے پاس Back of stock نہیں ہے.اگر ہم دلچسپی پیدا ہونے کے نتیجہ میں ان کی طلب کو پورا نہیں کر سکتے تو ان معلومات کو مہیا کرنے کا کیا فائدہ؟ اس لئے طلب بیدار کرنا اور طلب کو پورا کرنے کے سامان مہیا کرنا یہ اس مخصوص نائب کا کام ہے جو سیکرٹری کے ساتھ اس کام کے لئے متعلق ہو.اس کو مرکز سے بار بار خط و کتابت کرنی پڑے گی.مرکز سے کر تو سکتا ہے لیکن اصل طریق یہ ہے کہ اپنے ہیڈ کوارٹر سے اپنے ملک کے متعلقہ شعبہ سے وہ تعلق قائم کرے اور جو ملک کا سیکرٹری ہے وہ مرکز سے براہ راست تعلق قائم کرے اور ان سے کہے کہ ہم نے یہ یہ معلومات مہیا کی ہیں.فلاں فلاں کتب کے بارہ میں تعارف کرایا ہے.ان کو استعمال کرنے کے ڈھنگ سکھائے ہیں اور ہمارے پاس صرف دو موجود ہیں.اب طلب شروع ہوگی تو ہم کیا کریں گے اس لئے ہمیں اتنی ضرور بھجوا دیجئے.اسی طرح رفتہ رفتہ ان کے لئے جگہیں بھی مہیا کرنی ہونگی.کہاں کتا بیں رکھی جائیں کس طرح ان کو سلیقے سے رکھا جائے کہ وقت کے اوپر آسانی سے نکالا جا سکے.کام شروع کیا جائے تو جتنا کام سمٹتا ہے اتنا آگے بھی بڑھتا ہے اور معاشرے اسی طرح ہمیشہ ارتقا پذیر ہوتے ہیں.جتنا زیادہ آپ کام سمیٹنے کی کوشش کریں گے آپ فارغ نہیں ہوں گے بلکہ کام بڑھے گا اور کام بڑھے گا تو پھر آپ کو اور آدمیوں کی ضرورت ہوگی اسی لئے میں نے پہلے خطبہ میں ہی یا دوسرے میں یہ نصیحت کی تھی کہ ایک بہت اہم دعا قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے اس کو ہرگز نہ بھولیں.خود بھی کرتے رہیں اور اپنے نائبین کو یا متعلقہ عہدیداران کو بھی سمجھاتے رہیں کہ ربِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا ( بنی اسرائیل : ۸۱ ).اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! ہم جب تیرے نزدیک اس لائق ہوں کہ اعلیٰ مرتبے تک پہنچیں اور تو ہمیں اس اعلیٰ مرتبے میں داخل فرما دے تو وہاں ٹھہرائے رکھنا تو مقصود نہیں ہے.ہم تجھ سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ تو مزیدا گلے درجے کی طرف ہمارے قدم بڑھائے گا اور ایک ہی مرتبے پر نہیں ٹھہرے رہیں گے.اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ کے ساتھ ہی یہ عرض کیا و أَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقِ سچائی کے ساتھ اس مقام پر پہنچا اور سچائی کے ساتھ اس سے نکال لے اور ایک اور اعلیٰ مقام تک پہنچا دے اس کے لئے مددگار کی ضرورت ہے.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 912 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء سمجھایا ہے.واجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا.روحانی مراتب ہوں یا علمی مراتب ہوں یا دنیاوی کوششوں کے ذریعہ حاصل ہونے والے مراتب ہوں سب جگہ ایک سُلْطئًا نَّصِيرًا کی ضرورت ہے جو ہر شخص کو پیش آتی ہے.انبیاء کو بھی پیش آتی ہے.انبیاء کے روحانی مراتب کے لئے ان کو جبرائیل سُلْطنًا نَّصِيرًا کے طور پر عطا کیا جاتا ہے روح القدس عطا کی جاتی ہے اور دین کے دیگر مشاغل ہیں اور دیگر مقاصد کو پورا کرنے کے لئے فرشتوں کے علاوہ انسانی فرشتے بھی مہیا کئے جاتے ہیں اور ان کے لئے ابو بکر اور عمر اور عثمان و علی پیدا کئے جاتے ہیں.تو آپ کو بھی سُلْطنًا نَّصِيرًا کی بہر حال ضرورت ہے اور سُلْطنًا نَصِيرًا اندرونی بھی ہوتا ہے اور بیرونی بھی.اندرونی طور پر تو چند مثالیں میں نے دیں.بیرونی طور پر خدا تعالیٰ غیروں کے دلوں میں بھی اپنے پاک بندوں کی مدد کے لئے تحریک فرما دیتا ہے اور اچانک ضرورت کے وقت ایسی جگہ سے مدد گار مہیا ہو جاتے ہیں جن کے متعلق انسان وہم وگمان بھی نہیں کر سکتا تو اس مضمون کو صرف دعا کے طور پر ادا نہیں کرنا بلکہ اس کی حکمت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ضروری ہے.پس آپ جب کسی عہدیدار کو تیار کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس کو سلطنا نصِيرًا مہیا کریں یا اس میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ نوجوانوں میں سے بعض دفعہ ایسے بوڑھوں میں سے بھی بہت بڑے مدد گار مل جاتے ہیں جو ریٹائر ہو گئے ہیں ،اپنے کاموں سے فارغ ہو گئے ہیں اور ان کو زندگی کا کوئی اور مشغلہ در پیش نہیں اور اگر جماعت ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو وہ ضائع ہوکر رفتہ رفتہ ایک بریکاری کی زندگی میں خدا کے حضور حاضر ہوں گے اور کوئی مومن پسند نہیں کرتا کہ یہ بے کاری کی حالت میں اپنے رب کے پاس جائے.پس ایسے بوڑھے جو فارغ ہوں ان میں بعض دفعہ خدا تعالی یہ تحریک پیدا فرماتا ہے اور یہ بھی دعاؤں کے نتیجہ میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تا کہ آخری سانس تک خدمت کا موقع ملے تو ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.سُلْطنًّا نَصِيرًا پیدا کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ان کے لئے بھی یہ نصرت ہے جن سے خدمت لی جاتی ہے اور سلطان نصیر کی یہ دعا دوطرفہ کام کرتی ہے کیونکہ وہ لوگ جن کو پہلے دین کی خدمت کی عادت نہیں جب رفتہ رفتہ ان سے خدمت لی جاتی ہے تو ان کے اندر سے ایک نیا شعور پیدا ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تو اب زندگی کا پتہ چلا ہے اس سے پہلے تو غفلت کی حالت میں وقت ضائع کیا اور ان کو زندگی کا لطف آنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 913 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء لگ جاتا ہے.اپنے سے کام لینے والوں کو دعائیں دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ دین کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور دین ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے اندر بھی وہ روحانی ترقی کا سفر شروع ہو جاتا ہے جس کا اس دعا میں ذکر موجود ہے.تو تبلیغ کرنے کے لئے جب آپ کام شروع کریں گے.لٹریچر کے ساتھ جماعت کو متعارف کرائیں گے.آڈیو اور ویڈیو کے ساتھ جماعت کو متعارف کرائیں گے تو لازماً اس کے نتیجہ میں یہ کام بڑھے گا اور کام بڑھے گا تو اس کام کو سمیٹنے کے لئے مددگار بھی چاہئیں اور کچھ خرچ بھی چاہئے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پیش آئے گی.مثلاً میں نے دیکھا ہے جب ہم کہتے ہیں کہ آڈیو ویڈیو سے جماعت کو متعارف کرایا جائے.ان کو بار بار بتایا جائے کہ ہمارے پاس کیا نئی چیز آئی ہے اور کیا پہلی ایسی چیزیں ہیں جن سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو طلب شروع ہو جاتی ہے اور اس طلب کو پورا کرنے کے لئے جو مناسب مشینیں ہیں وہ موجود نہیں ہوتیں.جب تک آڈیو ویڈیو اچھے طریق پر وسیع پیمانے پر پیدا کرنے اور ان کو بڑھانے کا انتظام نہ ہو اس وقت تک ایک خلا ر ہے گا.معلومات بھی پہنچیں گی.طلب بھی پیدا ہو جائے گی لیکن طلب کو پورا کرنے کے لئے اگلا قدم نہیں اٹھا سکتے.اس کے لئے الگ ٹیمیں بنانے کی ضرورت پڑتی ہے.چنانچہ یہاں انگلستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جب سے میں یہاں آیا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بھی پروفیشنل کو جوفن کا ماہر ہو اس کے وقت کی اجرت دے کر ہمیں اپنے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے رکھنا نہیں پڑا.ایسے نوجوان آگے آئے جن کا اس شعبہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا.غلطیاں بھی ہوئیں مگر رفتہ رفتہ سیکھا، رفتہ رفتہ نئے نئے آلے بنی نئی ایجادات ان کو مہیا کی گئیں اور اب خدا کے فضل سے یہ شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے اور بہت ہی اعلی سطح کی صلاحیتیں حاصل کر چکا ہے.یہاں تک کہ پھر آڈیو کے بعد ویڈیوکو الگ کیا گیا.اس کے لئے ایک الگ شعبہ قائم ہوا اور اس نئے شعبہ میں خدا کے فضل سے حیرت انگیز ترقی ہوئی.نئے نئے رستے انہوں نے تلاش کئے، نئے نئے آئے ان کو مہیا کئے گئے یا انہوں نے طلب کئے تو رفتہ رفتہ یہ سب کام بڑھتا چلا جارہا ہے، پھیلتا چلا جارہا ہے.سُلْطنًا نَّصِيرًا مہیا ہورہے ہیں.ان کی ضرورتیں بھی پوری ہورہی ہیں لیکن جماعت کے اوپر کوئی الگ بوجھ نہیں ہے.شعبہ کو بناتے وقت تھوڑی سی محنت کرنی پڑتی ہے.اس کے بعد انسان بے فکر ہوکر عمومی نگرانی کرتا ہے.پہلے بھی میں نے بارہا جماعت کو سمجھایا ہے کہ تخلیق کائنات کے متعلق قرآن کریم نے جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 914 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء ނ مضمون بیان کیا ہے اس پر غور کرو.چھ دنوں میں ساری کائنات کو پیدا کر کے اس کو درجہ کمال تک پہنچادیا اور جب سب نظام خود کار آلوں کی طرح چل پڑا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف :۵۵) پھر خدا تعالیٰ عرش پر مستوی ہو گیا یعنی جس طرح جائزہ لینے کے لئے ، آفاقی نظر.دیکھنے کے لئے کوئی بلند مقام پر فائز ہو اور صرف یہ دیکھ رہا ہو کہ کیسے چل رہا ہے یا اگر کہیں کوئی رخنہ پیدا ہو تو اس کے لئے سزا دینے والا یا روکنے والا یا کمی پوری کرنے والا جو نظام مقرر ہے وہ مستعد ہے کہ نہیں.وہ کر کے پھر اور آسمانوں کی تخلیق کے لئے (خدا تعالیٰ کے متعلق یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وقت مل گیالیکن ) تو جہات فارغ ہو گئیں اور تو جہات کے فارغ ہونے کا محاورہ قرآن کریم نے خود بیان فرمایا ہے.سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلُنِ (الرحمان:۳۲) اے دو بڑی بڑی وسیع طاقتو اور بھاری لوگو! ہم تمہارے لئے فارغ ہوں گے.خدا کے لئے فراغت کے معنی ویسے تو نہیں ہوتے جیسے ہمارے لئے ہوتے ہیں لیکن بہر حال لفظ فراغت قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال فرمایا ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ سے مراد میں یہی سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا منتظم جب ایک کام کو چلا کر اور جاری کر کے روز روز کے کاموں کے دھندوں سے نجات حاصل کرلے اور انسانی سطح پر فارغ کے جو معنی ہیں ان معنوں میں نسبتی طور پر فارغ ہو جائے تو اس کو پھر اور کاموں کی طرف متوجہ ہونے کا وقت مل جاتا ہے اور اس طرح نظام ہمیشہ ارتقاء پذیر رہتا ہے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.امراء کو بھی اس مضمون کو سمجھنا چاہئے سب عہدیداران کو سمجھنا چاہئے.بات سن کر اتنی سی بات پر عمل کر کے رسمی طور پر اس بات کا حق ادا کیا، گہرائی میں جا کر اس بات کا حق ادا نہ کیا ان دو باتوں میں فرق ہے.مومن وہ ہے جو رسمی طور پر حق ادا نہیں کرتا بلکہ اوامر اور نوا ہی میں گہرائی میں جا کر حق ادا کرتا ہے اور جو لوگ علم میں ڈوب کر اس کو سمجھتے ہیں، اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ان کا علم ترقی کرتا ہے اس علم کے ذریعہ ان کو نئے نئے فوائد حاصل ہوتے رہتے ہیں.بہر حال یہ مضمون بعض باتوں کے کچھ تھوڑا سا زیادہ تفصیل میں چلا گیا ہے.اصل مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے میں عرض کرتا ہوں کہ عہدیداران کو ، خصوصاً امراء کو معلومات مہیا کرنے کے نظام کو بہتر بنانا پڑے گا اور خود دلچسپی لینی ہوگی اور گہری ذاتی دلچسپی لیں گے تو ان کو نئے نئے خیالات آئیں گے، نئی نئی تجویزیں سوجھیں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالآخر ایک نہایت عمدہ خود کار نظام کی طرح تبلیغ کا یہ شعبہ چل پڑے گا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 915 خطبه جمعه ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء اور پھر وہ دوسری طرف توجہ کرسکیں گے.معلومات کے سلسلہ میں معلومات پہنچانے کی طرح معلومات حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے.اس سے پہلے میں نے معلومات حاصل کرنے کے متعلق بعض باتیں سامنے رکھی تھیں.اب ایک عملی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب ہم کہتے ہیں کہ آپ جائزہ لیں کہ کتنے احمدی نوجوان ، بوڑھے ، مرد، عورتیں تبلیغ میں دلچسپی لیتی ہیں تو ہمیں لٹیں آجاتی ہیں اور بڑی بڑی لمبی لسٹیں ہوتی ہیں.بعض ملکوں سے ہزاروں کی لسٹیں آتی ہیں.پاکستان سے ۷۰ ہزار کے قریب ایک لسٹ آئی تھی یا ایک لسٹ کی کئی قسطیں آئی تھیں جس سے پتہ چلا کہ گویا پاکستان میں اتنے احمدی دعوت الی اللہ کے کام میں دلچسپی رکھ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے نام بھی لکھوائے ہیں.افریقہ کے ممالک سے ، یورپ کے ممالک سے بھی نسبتاً چھوٹی چھوٹی فہرستیں مگر آتی ضرور ہیں.اگر یہ فہرستیں واقعہ درست ہیں تو اس کے نتیجہ میں جو نتیجہ خیز کام ہونا چاہئے وہ تو موجودہ نتائج کے مقابل پر سینکڑوں گنا زیادہ ہونا چاہئے لیکن ایسی بات نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ معلومات حاصل کرنے کا انداز بھی سطحی ہے جس طرح معلومات پہنچانے کے انداز میں بھی گہرائی چاہئے معلومات حاصل کرنے کے انداز میں بھی گہرائی چاہئے اور با مقصد کام ہونا چاہئے.اب فہرستیں آپ اکٹھی کرلیں اور ان کو کسی جگہ کاغذوں کے نیچے غرق کر دیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.رسمی طور پر آپ کے سر سے بوجھ اتر گیا.آپ نے مرکز کی ہدایت کو پورا کر دیا مگر وہ ہدایت کس کام آئی ہمیشہ اپنے ذہن کو اس بات پر مستعد رکھا کریں کہ وہ نتیجے کی تلاش کیا کرے.صرف نتیجہ پیدا کرنے کے ذرائع کی تلاش نہ کرے بلکہ نتیجے پر دھیان رکھے.اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر قابل فکر بات ہے کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہے یا کوشش کرنے والے میں نقص ہے یا اس شخص میں نقص ہے ان لوگوں میں نقص ہے جن کے لئے کوشش کی جاتی ہے مگر نتیجہ اگر نہیں نکلتا تو تسکین سے بیٹھنے کا کوئی حق نہیں رہتا.دعاؤں میں کمی ہے تو اس طرف توجہ دی جائے.اپنے کام میں طریق کار میں کچھ نقائص موجود ہیں تو ان کو ڈھونڈا جائے.یہ معلومات کا جو سلسلہ ہے اس میں معلومات حاصل کرنے کا بھی ایک جز ہے اور اس میں بھی گہرائی یا سطحی انداز پائے جاتے ہیں.گہرائی سے میری مراد یہ ہے کہ جب آپ معلوم کرتے ہیں کہ کتنے آدمی تبلیغ میں دلچسپی لے رہے ہیں یا دلچسپی لینے کا وعدہ کرتے ہیں تو پھر فوری طور پر ان کی اگر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 916 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء روزانہ نہیں تو ہفتہ وار یا پندرہ روزہ نگرانی کا کام ساتھ ہی شروع کر دیا جائے ، ان سے رابطے ہوں، ان کے پاس مرکزی عہدیداران پہنچیں یا ان کے نمائندے پہنچیں، ان سے ملاقاتیں کریں.ان سے معلوم کریں کہ آپ نے جو یہ وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کے کیا انداز ہیں، کیا طریق اختیار کئے گئے ہیں، اب تک کے تجارب کیا کہتے ہیں آپ نے کس طرح کام کو آگے بڑھایا ہے اگر اس طرز پر وہ چھان بین شروع کریں گے تو معلوم ہوگا کہ فہرست میں جو اکثر نام درج ہیں وہ فرضی سے ہیں یعنی نام حقیقی تو ہیں لیکن اس حقیقت میں کوئی گہرائی نہیں.ایک سطحی پن ہے کاغذ کی سطح پر نام درج ہوئے اور وہیں ٹھہر گئے.عمل کی دنیا میں ان ناموں نے کوئی روپ نہیں دھارا ، کوئی شکل اختیار نہیں کی ، اس لئے وہ نام سطحی رہ جاتے ہیں.اس ضمن میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس شعبے کو دوحصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا.اس جائزے کے دوران یہ معلوم کر لیا جائے کہ عملاً وہ کتنے احمدی ہیں جن کو تبلیغ کی دھن سوار رہتی ہے اور وہ بعض جگہ گنتی کے چند ملیں گے.بعض جگہ بیسیوں بھی مل سکتے ہیں بعض جگہ سینکڑوں بھی لیکن اکثر صورتوں میں ایسے فعال احمدی جو دن رات تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے ہیں وہ تعداد میں بہت کم ہیں.ان کی الگ فہرست بنائی جائے اور کسی کے سپرد کیا جائے کہ ان کے ساتھ رابطہ رکھو، ان کے حوصلے بڑھاؤ ، ان کو کام کے نئے نئے طریق بتاؤ ان کی ساری ضرورتیں پوری کرو، ان کے ساتھ ان کے اردگرد رہنے والے احمدیوں میں سے بعض نوجوان مددگار کے طور پر دو.اگر با قاعدہ عہدہ نہیں تو اپنی ٹیم کے سرداران کو بناؤ اور ان کے سپرد یہ کام کرو کہ بعض دوسروں کو بھی یہ تربیت دیں.یہ کام اگر شروع کیا جائے تو دراصل ہمہ وقتی کام ہے لیکن چونکہ ہم سب جز و وقتی کام کرنے والے ہیں یعنی اپنے دوسروں کاموں کے علاوہ دین کا جزو وقتی کام کرتے ہیں اس لئے بہت ہی مصروف آدمی کی ضرورت ہے.یعنی ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو مصروف رہنا جانتا ہو.جب میں نے مصروف لفظ کہا تو مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جو مصروفیت کے بغیر رہ نہ سکے.میرا جائزہ اور تجربہ یہ ہے کہ جب مصروف آدمی کے سپر د کام کئے جائیں تو وہ ہو جاتے ہیں.فارغ وقت والے آدمی کے سپرد کام کئے جائیں تو نہیں ہوتے کیونکہ فارغ وقت والا ہوتا ہی وہی ہے جس کو اپنے وقت کی قیمت معلوم نہیں ہوتی اور وقت ضائع کرنا اس کی عادت بن چکا ہوتا ہے.اس لئے اگر فارغ وقت آدمی کو پکڑنا ہے تو رفتہ رفتہ اسے مصروف رہنا سکھانا ہوگا اور اس کے لئے بعض دفعہ اس کے مطلب کی چیز اگر اس کے سپرد کی جائے تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 917 خطبه جمعه ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء اس سے رفتہ رفتہ اس کو کام کی عادت پڑ جاتی ہے.پس جب آپ اس شعبہ کے لئے کوئی آدمی تلاش کریں گے تو نظر ڈالیں مختلف لوگ مختلف کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں.ان کے مختلف طبعی تقاضے ہیں ان کو لو ظ ر کھتے ہوئے صحیح آدمی کی تلاش کرنا، صحیح آدم کو صحیح جگہ کام دلانا یہ سیادت کی ضروری باتیں ہیں اور ہراحمدی امیر سے میں توقع رکھتا ہوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعلیٰ سیادت کی صلاحیتیں موجود ہیں.پس اس رنگ میں اپنی صلاحیتوں کو ٹول کر باہر نکالیں اور ذاتی دلچسپی لے کر یہ معلوم کیا کریں کہ فلاں اچھے کام کے لئے فلاں شخص موزوں ہے کہ نہیں؟ پس مصروف آدمی کو تلاش کریں یعنی جوطبعا اور فطرتا کاموں کا عادی ہو اور ایسے شخص کو جب آپ دین کے کام دیتے ہیں تو بالعموم یہ ہوتا ہے کہ اس کی دوسری مصروفیتیں جھڑ نے لگ جاتی ہیں اور ان کی جگہ دین کے کام قبضہ کرنے لگ جاتے ہیں.وہ شخص جو پہلے سمجھتا تھا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے وہ سمجھتا ہے کہ دوسری چیزوں کے لئے وقت نہیں ہے دین کے لئے وقت ہے تو اس طرح ساری قوم ترقی کرتی ہے.بہر حال ایسے آدمی کے سپر د کام کریں جو اپنے آپ کو اس میں کھو دے.اس کو یہ لگن لگ جائے کہ یہ میرا کام ہے.واسطے رکھے پتہ کرے کہ یہ جو ہمارے مخلصین تبلیغ کر رہے ہیں ان کے کیا کیا طریق ہیں.پھر جو طریق اس کو پسند آئے اس سے دوسروں کو مطلع کرے.بعض دفعہ جلسے ہوتے ہیں جن میں مبلغین کے تجارب کے متعلق تقاریر ہوتی ہیں.جو لوگ سنتے ہیں ان کے دل پر اچھا اثر پڑتا ہے لیکن ایسے رسمی جلسے تو سال میں ایک دو مرتبہ ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ساری جماعت ہفتہ وار ایسے جلسوں میں شامل ہو سکے لیکن ایک ذہین آدمی جب ایسے تبلیغ کرنے والوں کے واقعات سنتا ہے جس سے وہ متاثر ہوتا ہے تو اس کو فور چاہئے کہ اس سے استفادہ کرنے کا بھی تو سوچے.اس کو چاہئے کہ مثلاً اپنے اخبار احمد یہ میں اگر اخبار احمدیہ کے نام سے کوئی چیز شائع ہورہی ہے یا سالوں میں یا دیگر ممالک کے رسالوں میں ان دلچسپ اور دلکش اثر انداز ہونے والے واقعات کو شائع کرے پھر نو جوانوں کو اس کے ساتھ ملائے ان کو کہتے کہ تم اپنے محلے میں جہاں جہاں نماز ہوتی ہے وہاں دورہ کرو اور بیٹھ کر مجالس لگاؤ اور یہ باتیں سناؤ تو کئی رنگ میں ایک اچھے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نئے تجارب مہیا ہو سکتے ہیں یعنی انسان کونئی نئی باتیں سوجھ سکتی ہیں اور وہ ان پر عمل کر سکتا ہے اور پھر نئے دلچسپ تجربے ظہور میں آسکتے ہیں تو کام ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اگر آپ کام کریں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 918 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء جہاں کام بڑھ نہیں رہا وہاں اس کے اندر کچھ کمزوری ہے وہ انسان جو خود اپنی ذات میں سکڑ رہا ہو.اس بات کی علامت ہے کہ اس کے کام نہیں بڑھ رہے جب کام بڑھیں گے تو انسان کی شخصیت بھی وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے پھیلتی چلی جاتی ہے ، وہ اپنی حدود سے باہر آ جاتی ہے اور اس کی نئی حدود قائم ہوتی ہیں.پس جماعتوں کی شخصیتیں بھی اسی طرح بڑھتی ہیں.جو جماعتیں مستعد ہیں ان کے اوپر آپ بوجھ ڈالتے چلے جائیں وہ اور زیادہ مستعد ہوتی چلی جائیں گی اور کام بنتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ بڑے بڑے کاموں کے کارخانے قائم ہو جاتے ہیں اور کوئی پتہ نہیں لگتا، کوئی شور نہیں پڑتا.کوئی ہنگامہ نہیں ہے.کوئی افراتفری کے مطالبے نہیں ہیں کہ یہ کام آپڑا یہ مہیا کرو.فلاں کام ہے یہ کام کرو مثلاً کراچی کی جماعت ہے.ایک لمبے عرصے سے خدا کے فضل سے ارتقاء پذیر ہے اور اس جماعت پر خدا تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اگر کبھی چھوٹے چھوٹے فتنوں نے سراٹھانے کی کوشش بھی کی تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عمومی طور پر ایسی بیدار مغزی عطا کی ہے کہ وہ فوراً ان پر غالب آجاتی رہی اور اس وجہ سے اب وہاں ایک پورا بھاری نظام جاری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خوبصورت کام کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ وہ بے آواز ہو، اس میں شور نہ ہو، جو خود بخود جاری ہو جائے وہی اصل کام ہے.اب کا ئنات میں دیکھیں کہ ان گنت نظام جاری ہیں ان گنت قوانین ہیں لیکن دیکھیں کتنی خاموشی سے کام چل رہے ہیں.اتنی خاموشی ہے کہ دیکھنے والے کو نیند آ جاتی ہے وہ غافل ہو جاتا ہے وہ سمجھتا ہے ہو ہی کچھ نہیں رہا.درخت کے ایک پھل بنے تک کے حالات پر غور کریں.کتنے بے شمار قانون ہیں جواس میں حرکت میں ہیں.کام کر رہے ہیں ایک آم انسان نے اگر بنانا ہوتو سوچیں اس کے لئے اس کو کتنے بڑے کارخانے کی ضرورت پڑے گی یعنی ان چیزوں سے بنانا ہو جن چیزوں سے خدا تعالیٰ نے آم بنا کر دکھا دیا ہے اور روز مرہ ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن چونکہ نظام بہت اعلیٰ درجے کا ہے اور بہت عمدگی سے کارفرما ہے اس لئے اس کی آواز ہی نہیں آتی.مزہ چکھتے ہیں پھر بھی آواز نہیں آتی.پتہ ہی نہیں لگتا کہ یہ کیسے ہوا اور چیزیں کیا مہیا کی گئی ہیں تھوڑی سی مٹی ہے پانی ہے روشنی ہے اور ہوا ہے.یہ امریکہ کے یا روس کے اعلی ترقی یافتہ سائنسدانوں کو مہیا کر دیں کہ یہ لومٹی ، یہ ہوا، یہ پانی اور یہ روشنی اور اس سے تم آم بھی بناؤ، امرود بھی بناؤ، اور ہر قسم کی غذا ئیں پیدا کرو، گندم بھی اسی سے بنے ، کچھ نہ کچھ سائنس دان آج کل بنا سکتے ہیں، ادنی ادنی معمولی معمولی کیمیاؤں سے وہ بڑی بڑی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 919 خطبه جمعه ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء ترقی یافتہ کیمیاوی شکلیں بنا لیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ایک آم بنانے کے لئے کتنے کارخانوں کی ضرورت پڑے گی؟ کتنا شور برپا ہوگا؟ کتنی ہوا میں پلوشن Pollution ہوگی ؟ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس سے فائدہ کتنا اور نقصان کتنا زیادہ ہو گا.ہم جتنے کام بھی کر رہے ہیں ان سے شور ہی اتنا پیدا ہورہا ہے کہ اس سے ہی لوگوں کے اعصاب تباہ ہور ہے ہیں.اور فضا میں اتنی پلوشن ہورہی ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہم اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ترقی کی اعلیٰ حالتوں کی بجائے نسبتاً سادہ صورتوں کی طرف لوٹ جائیں یہ بہتر ہے یا اسی طرح آگے بڑھتے رہیں کیونکہ ہر کام جو انسان کر رہا ہے ، ہر چیز جو انسانی صنعت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اپنے ساتھ ایسا فضلہ چھوڑ رہی ہے جس کا کوئی فائدہ مند استعمال نہیں ہے بلکہ وہ زہر پیدا کر رہا ہے.کائنات میں اللہ تعالیٰ نے جو کارخانے بنائے ہیں ان کا فضلہ اس کا ذرہ ذرہ دوبارہ صحیح مصرف میں استعمال ہو رہا ہے اور یہ صنعت کا کمال ہے.اب آم بنیں یا پھول بنیں یا اور پھل بہنیں یا پتے بہنیں یا شاخیں بنیں ، جو کچھ بھی بنتا ہے جب بھی کوئی چیز بنتی ہے اس میں کچھ زائد چیزیں بے کار چیزیں نکل کر فضا میں ادھر ادھر پھیل رہی ہوتی ہیں یا زمین میں جذب ہو رہی ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے زندگی کے عمل کے ذریعہ عام کیمیاء کو نامیاتی کیمیاء میں تبدیل کیا ہے اس کے لئے جو کارخانہ بنا ہوا ہے وہ دیکھنے میں ہر جگہ ایک جیسا ہی ہے.گھاس پھوس ہو یا جھاڑیاں ہوں یا درخت ہوں ، بنیادی طور پر سب ایک ہی قسم کا کارخانہ ہے.اس میں آپ کوئی فرق محسوس نہیں کر سکتے لیکن ہر قسم کی مختلف چیزیں وہ بنارہے ہیں اور ہر ایک کا Waste Product زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہے اور ایسا حسین تو ازن ہے کہ ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جس کو آپ کہہ سکتے ہوں کہ یہ دراصل ہمیں ترقی کرنے کی سزا مل رہی ہے.مثلاً آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ان دو چیزوں کا عمل زندگی کی کیمیاء میں یا زندگی کی کیمیاگری میں سب سے نمایاں ہے اور ان دونوں کا توازن انتنا حسین طور پر قائم رہتا ہے کہ اس سے کسی قسم کے Environment کوفضاءکو یا زمین کو یا پانیوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا اور ہر چیز جو کچھ پھینک رہی ہے وہ کسی اور دوسری چیز کی بقاء کے لئے کام آرہی ہے تو یہ ہے خدا تعالیٰ کا کارخانہ جو خاموشی سے چلتا ہے اتنی خاموشی سے چلتا ہے کہ سنائی نہیں دیتا اور جو کم نظر ہیں ان کو دکھائی بھی نہیں دیتا.جن کی بقاء کا سہارا بنا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں ہم خود ہی اپنی بقاء کا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 920 خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء سہارا ہیں.یہ ساری چیزیں از خود ہو رہی ہیں تو اتنا عظیم الشان کارخانہ یہ دھوکا دینے لگے کہ میں از خود ہوں، یہ صنعت کاری کا کمال ہے.یہ انتظام کا معراج ہے اور اس پہلو سے میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک زندہ جماعت ہیں اس کے غلام ہیں جس کو روحانی اور علمی معراج عطا ہوا اس لئے ہم بھی اپنے کاموں کو درجہ معراج تک پہنچانے کے لئے کوشش کرتے رہیں اور خدا تعالیٰ نے جس طرح ہمیں نظام کا ئنات کو چلانا سکھایا ہے اسی طرح ہم اپنے نظام جماعت کو ترقی دیتے چلے جائیں اور اس ترقی کی کوئی آخری منزل نہیں ہے، یہ ہمیشہ جاری وساری رہنے والی ہے.جب ایک کام سے آپ فارغ ہوں گے تو دوسرا کام آپ کے سامنے آجائے گا فراغت کا یہ معنی نہیں کہ بے کار بیٹھو.فراغت کا مطلب یہ ہے کہ ایک کام کو جاری کر دو.وہ خود کار آلے کی طرح چل پڑے.پھر اس کو لطف کے ساتھ دیکھو وہی تمہاری جزاء ہے پھر اپنے وقت کو دوسرے کام کے لئے استعمال کرو اور ایک اور کام اس طرح جاری کر دو.غرضیکہ اس طریق پر اگر ہم اپنے کاموں کو آگے بڑھاتے رہیں تو جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی کی منازل طے کرتی رہے گی.یہ باتیں تو دو تین ہی کہی ہیں لیکن ان کو تفصیل سے سمجھانا ضروری تھا اس لئے پورے خطبہ کا وقت انہی ایک دو باتوں میں صرف ہو گیا.آئندہ انشاء اللہ اسی مضمون سے متعلق مزید کچھ باتیں بیان کروں گا.آخر پر دعا کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کیونکہ میرا ایمان بھی ہے اور زندگی بھر کا تجربہ بھی یہی ہے کہ کسی کام میں دعا کے بغیر برکت نہیں پڑتی.دعا مانگیں اور دل ڈال کر دعا مانگیں.اپنی عاجزی اور بے کسی کو محسوس کرتے ہوئے دعا مانگیں اور ہمیشہ دعا مانگتے رہیں.دعا کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت دے اور ہمارے خیالوں میں اور سوچوں میں برکت دے اور ہمارے خیالوں اور سوچوں کو عمل کی دنیا میں ڈھالنے کی توفیق ہمیں عطا فرمائے.پھر ان کاموں کو برکت دے اور اپنے فضل سے خود ان کو پھل لگا تا چلا جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.ہم نے بہت سفر طے کرنا ہے.وقت بہت تھوڑا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی تھی کہ ہمیں کوشش یہ کرنی چاہئے کہ آج جو جماعت ہے یہ بالعموم اپنی زندگی میں ایک کروڑ نئے احمدی پیدا کر دے.اگر ہم اس مقصد کو حاصل کرلیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ کروڑ پھر ایک جگہ ٹھہرنے والے نہیں ہوں گے وہ دسیوں بیسیوں کروڑ بنیں گے اور بہت تیزی کے ساتھ دنیا میں روحانیت کا آخری انقلاب برپا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 921 خطبه جمعه ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء دعوت الی اللہ کے گر سیکھیں اور احباب جماعت کو سکھائیں، حکمت سے دعوت الی اللہ کریں تو مقام محمود عطا ہوگا.(خطبه جمعه فرموده ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دعوت الی اللہ کے کام کو زیادہ احسن رنگ میں چلانے کے متعلق میں نے چند باتیں پچھلے خطبہ میں عرض کی تھیں.اب میں اسی مضمون کو وہیں سے اٹھاتے ہوئے مزید کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.Follow Up ایک انگریزی محاورہ ہے یعنی تتبع کرنا.کوئی بات چلا کر پھر اس کی پیروی کرنا جستجو کرنا اور دیکھنا کہ وہ بات اپنے مقصود تک پہنچی بھی ہے کہ نہیں.اس کی ایک بہت ہی خوبصورت تصویر قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کے واقعہ میں بیان فرمائی کہ جب ان کی ماں نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور اللہ کی وحی کے مطابق بچے کو صندوق میں ڈال کر دریا کی لہروں میں بہا دیا تو پھر بہن کو بھیجا جو پیچھے پیچھے ساتھ ساتھ کنارے پر چلتی تھی اور دیکھ رہی تھی کہ یہ ٹرنک یا لکڑی کا بکس Box جو بھی کہہ لیجئے یہ کہاں پہنچا اور کیسے پہنچا اور اس بچے کا کیا بنا.ایمان تو لازم تھا.اس میں تو کوئی شک ہی نہیں لیکن جب یقین بھی ہو، خدا تعالیٰ کی وحی بتا رہی ہو کہ بچہ محفوظ ہو جائے گا اور اپنے اس اعلیٰ مقصد کو پالے گا جس کی خاطر تم یہ قربانی کر رہی ہو، اس کے باوجود انسانی فطرت میں اگر محبت اور تعلق ہو تو یہ جستجو از خود پیدا ہوتی ہے کہ ہوگا تو سہی لیکن خود اپنی آنکھوں سے تو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 922 خطبه جمعه ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ وہ جستجو ہے جس کے نتیجہ میں انسانی منصوبوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اگر کوئی آدمی بات کہے اور نصیحت کرے اور اس بات اور نصیحت سے اس کا ذاتی گہرا اقلبی تعلق نہ ہو، یا اس شخص سے گہرا قلبی تعلق نہ ہو جس کو وہ بات کہتا ہے اور نصیحت کرتا ہے تو اسی حد تک تتبع میں کمی ہو جائے گی.بعض لوگ اس رنگ میں نصیحت کرتے ہیں کہ گلے سے بات اتاری اور کہتے ہیں ٹھیک ہے ہم نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا.اب آگے تم جانو اور تمہارا کام جانے.اور کچھ لوگ ہیں جو نصیحت کرنے کے بعد اس کے اثر کو دیکھتے ہیں.اثر نہیں پڑتا تو ان کا دل غم سے ہلکان ہونے لگتا ہے.اپنی زندگی کو اس نصیحت کی خاطر اس طرح غم میں گھلا گھلا کر زندگی کا نقصان کر رہے ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا یا سننے والا ان کے ظاہر سے اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ ان کی کیا کیفیت ہے لیکن عالم الغیب خدا جانتا ہے یا وہ خود جانتے ہیں کہ ان کی کیا حالت ہے.حضرت اقدس محمد مصلف مﷺ کا یہی نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۲) اے میرے بندے! تو اپنے آپ کو غم میں ہلاک کر لے گا کہ تیری باتیں ان پر اثر نہیں کر ر ہیں اور وہ ایمان نہیں لا رہے.تو یہ دعوت الی اللہ کی روح ہے جس کا معراج حضرت اقدس محمد مصطف اعلہ کی صورت میں دنیا میں ظاہر ہوا اور اس کی کیفیت کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے ہمارے سامنے رکھ کر زندہ جاوید کر دیا.یہی وہ طریق ہے جو ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کو بھی اختیار کرنا ہوگا اور ہر اس شخص کو بھی جس نے دعوت الی اللہ کے پروگرام مرتب کرنے ہوں.نصیحت آپ تک پہنچتی ہے، آپ اس نصیحت کو آگے پہنچا بھی دیتے ہیں جو اکثر صورتوں میں نہیں پہنچاتے.اس سلسلہ میں میں پہلے بات کر چکا ہوں.پہنچا بھی دیتے ہیں تو آپ کا فرض پورا نہیں ہو جاتا.جب ایک منتظم کو یہ اطلاع ملتی ہے یا امیر کو منتظمین کی طرف سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ ہماری تحریک پر فلاں فلاں جماعت میں اتنے اتنے دعوت الی اللہ کرنے والے یا دعوت الی اللہ کی تمنار کھنے والے پیدا ہو چکے ہیں تو اس اطلاع کے بعد ایک حصہ دل کا مطمئن ہو جانا چاہئے کہ نصیحت کسی حد تک کارگر ہوئی اور بات آگے چل پڑی لیکن پھر وہ دعوت الی اللہ کرنے والے کیسے پیدا ہوئے؟ انہوں نے ان نیک ارادوں کو عمل میں ڈھالا کہ نہیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ ان کی پیروی کی یا نہیں، دعوت الی اللہ کی تو کس رنگ میں کی ، اس کے نتائج کیسے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 923 خطبه جمعه ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء نکلے؟ یہ سارا ایک سلسلہ ہے جو دعوت کا پہلا پیغام پہنچانے کے نتیجہ میں چل پڑتا ہے اور تبلیغ کے نتیجہ میں احمدی ہونے والے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.یہ سلسلہ اس رنگ میں کڑی کے بعد دوسری کڑی جاری ہوا کہ نہیں ؟ یہ سوال ہے جو دل میں اٹھنا چاہئے اور اگر کسی شخص کو کسی کام سے دلی لگن ہو تو یہ سوال ضرور اٹھے گا.وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کی طرح دریا کے کنارے کنارے چلے گا ، بار بار نظریں ڈالے گا اور دیکھے گا کہ اس پروگرام کو جو میں نے جاری کیا تھا یہ کس انجام کو پہنچا ہے اور اگر اس کی حالت اور ترقی کرے تو حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کے دل کے مشابہ کسی حد تک سو فیصد تو ممکن نہیں کوئی اور اس کیفیت کو پا سکے لیکن کسی حد تک اس کیفیت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا اور اس پروگرام سے اس کو دلی محبت پیدا ہو جائے گی ایسی محبت ہوگی جیسے ایک مصنف کو اپنی تصنیف سے یا ایک مصور کو اپنی تصویر سے ہوتی ہے.ہر خالق کو اپنی مخلوق سے محبت ہوتی ہے.پس ان منصوبوں کو جو اپنا بنالیں، اپنے دل کو لگالیں، اپنا ذاتی کام سمجھنے لگ جائیں اور اس منصوبے سے ان کو پیار ہو جائے ان کے کاموں میں اور قسم کے رنگ پیدا ہوتے ہیں اور اور طرح کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں.پس دعوت الی اللہ سے متعلق تمام عہدیداران کو خواہ وہ منتظم ہوں ، ناظم ہوں، سیکرٹری ہوں یا امراء ہوں ، میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دل کا پہلے جائزہ لیں کہ کیا آپ نے اس کام کو اپنی جان کے ساتھ اس طرح لگا لیا ہے جیسے غم لگ جایا کرتے ہیں جیسے لگن لگ جاتی ہے جیسے عاشق کو عشق کھانے لگ جاتا ہے.کیا ایسی کیفیت آپ کی اس پروگرام سے متعلق پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ یا کچھ نہ کچھ اس قسم کی کیفیت آپ محسوس کرتے ہیں یا نہیں اگر نہیں تو پھر ابھی یہ کام آپ کے بس میں نہیں.آپ کو اپنا کچھ اور تعلق دین کے کاموں سے اور دین کے کاموں کے اپنی تکمیل تک پہنچنے کے معاملہ سے بڑھانا پڑے گا.یہ تعلق بڑھے گا تو کام آگے چلے گا.اگر یہ تعلق نہیں بڑھے گا تو سب چیزیں وہیں کی وہیں کھڑی رہ جائیں گی.جہاں پہلی حالت میں تھیں اور یہی عموماً ہوتا ہے.پس لگن کے نتیجہ میں جستجو اور تبع پیدا ہونا چاہئے اور اگر یہ نہیں ہے تو اسی حد تک آپ کے دل کی لگن میں اور اس کے تعلق میں کمی ہے.آگے پھر اس کام کو کرنا کس طرح ہے؟ کام تو اتنا زیادہ ہے کہ اس سلسلہ میں فوری طور پر کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہر دعوت الی اللہ کرنے والے تک پہنچ کر اس کی کیفیات کا جائزہ لے، اس کے پروگراموں کا جائزہ لے ، وہ پروگرام کس طرح چلا رہا ہے.ان باتوں کا جائزہ لے.یہ کام لمبا ہے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 924 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء لیکن اس کا آغاز ہونا چاہئے اور اگر آغاز درست ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ یہ کام سنبھالا جائے گا.امراء کو چاہئے کہ اپنے سیکرٹری تبلیغ سے اس معاملہ میں با قاعدہ Sitting کریں یعنی مجلس عاملہ کے علاوہ بھی ان کو بلا ئیں، ان کے ساتھ بیٹھیں.ان سے پوچھیں کہ آپ نے اس سلسلہ میں اب تک کیا کیا ہے؟ اور پھر دیکھیں کہ کیا جن لوگوں نے دعوت الی اللہ کے وعدے کئے تھے ان تک یہ سیکرٹری تبلیغ یا ان کے نائبین پہنچے بھی ہیں کہ نہیں اور مل کر تفصیل سے صورت حال کا جائزہ لیا ہے کہ نہیں.مثلاً انگلستان کی مثال لیجئے.اگر برمنگھم سے ۱۰۰ دعوت الی اللہ کرنے والے اپنا نام اس فہرست میں درج کرا دیتے ہیں اور ہر سال ان اعداد و شمار کا اعادہ ہوتا رہتا ہے اور عملاً کوئی جا کر دیکھتا نہیں کہ انہوں نے پچھلے سال کیا کیا تھا تو یہ اپنے نفس کو دھوکہ دینے والی بات ہے، یونہی وہموں میں بسنے والی بات ہے کہ ہم کوئی کام کر رہے ہیں.لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ اول تو امیر ، مرکزی سیکرٹری تبلیغ کا اس معاملہ میں جائزہ لیتا اور جب اس کو ر پورٹ پہنچتی تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہی یہ پوچھتا کہ تم نے اس کے بعد کیا کیا؟ پتہ کیا ہے وہ کون لوگ ہیں ؟ معلوم کیا ہے کن کن لوگوں کو تبلیغ کر رہے ہیں؟ ان کا تبلیغ کا طریق کیا ہے؟ تبلیغ کے لئے جو مواد ضروری ہے وہ ان کو مہیا بھی ہے کہ نہیں ؟ غلط طریق پر اگر کام کر رہے ہیں تو کسی نے کبھی معلوم کر کے ان کو سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے کہ نہیں ؟ اگر یہ نہیں تو پھر یہ کام تسلی بخش نہیں محض ایک فہرست ہے.پھر ان کو سمجھائے اور بعض دفعہ اپنے دوروں کے دوران ان مقامات پر جا کر مثال کے طور پر بعض رابطے پیدا کر کے دکھائے اور بتائے کہ اس طرح کام ہوتا ہے.مثلاً ایک سیکرٹری تبلیغ اگر پوری طرح کام کرنے والا ہو اور وہاں جماعت کی تعداد خاطر خواہ ہو تو اس کو تو اتنا وقت میسر ہی نہیں آسکتا کہ اپنے روز مرہ کے کام اور تبلیغ کے علاوہ اسے کوئی ہوش رہے.اتنے تفصیلی دورے کرنے پڑیں گے اور مختلف جگہوں پر ٹھہر ٹھہر کر اتنے وسیع رابطے کرنے پڑیں گے کہ بڑی جماعتوں میں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ۲۴ گھنٹے کے دن کے اندر کسی حد تک تو کام سموئے جاسکتے ہیں، حد سے زیادہ کام تو نہیں سموئے جاسکتے اس کا تقاضا یہ ہے اگر اسے ٹیمیں بنانی پڑیں گی.اس مجبوری کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اپنے ساتھ اپنے نائبین تیار کرنے پڑیں گے اور مثلاً وہ یہ کام کر سکتا ہے کہ ایک مرکزی ٹیم بنائے مختلف ایسے نوجوان چنے جن کے پاس پہلے کام نہیں ہیں.بے شک ایسے چنے جن کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، جو دین کی خدمت نہ کرنے کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 925 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء نتیجہ میں بہک رہے ہیں اور بھٹک رہے ہیں ان سے رابطہ قائم کرے اور اس رابطہ کے قیام کے لئے ضروری نہیں کہ پہلے ان کو بتائے کہ یہ کام تم سے لینا ہے بلکہ نظر ڈال کر پیار اور محبت سے ان کو کبھی چائے پر بلا کر کبھی کسی اور رنگ میں ان سے ذاتی تعلق قائم کرے اور پھر کہے کہ میں دورے پر جارہا ہوں کیا آپ بھی میرے ساتھ چل سکتے ہیں آئیے ہم تجربہ کرتے ہیں اور مل کر دیکھتے ہیں کہ ہم دین کی کس حد تک خدمت کر سکتے ہیں.یعنی الفاظ تو اس طرح ضروری نہیں مگر مفہوم یہی ہے جو گفتگو کا ہونا چاہئے اور اس کے علاوہ سلسلہ کی خدمت کرنے والے اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے دوسرے دوستوں کو بھی ساتھ شامل کرے اور ضروری نہیں کہ ہر جگہ یہ ساری کی ساری ٹیم پہنچے.بعض جگہوں میں ایک دو کو لیا جاسکتا ہے، بعض جگہوں پر جانے کے لئے دوسرے دو تین کو اختیار کیا جاسکتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسے نائبین لے کر جائے یا ایسے احباب جماعت لے کر جائے جن کو آئندہ نائبین بنانا مقصود ہو اور کام کی تربیت دینا مقصود ہو.وہاں پہنچ کر پریذیڈنٹ سے رابطہ کرتا ہے، بتاتا ہے کہ میں اس غرض سے آیا ہوں.یا ہم اس غرض سے آئے ہیں.پھر ایک ایک شخص سے ملنے کا پروگرام بنایا جائے.صرف میٹنگ ہی نہ بلائی جائے کیونکہ میٹنگز میں بعض باتیں ہوتی ہیں اور بیک وقت بہت سارے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں مگر انفرادی سطح پر جب تک تتبع نہ کیا جائے کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا.تو ان تک پہنچنے کے لئے پروگرام بنا کر جایا جائے.ہر شخص کے اپنے اوقات ہیں.کافی سر دردی کرنی پڑے گی لیکن جو محبت کے ساتھ کام کیا جائے وہ فی الحقیقت سر دردی نہیں بلکہ دل کا درد بن جاتا ہے اور سر دردی، مصیبت ہوتی ہے اور دل کا درد بہت پیاری چیز ہے.تو بظاہر سر دردی ہے لیکن اگر لگن ہو، توجہ ہو، تعلق ہو تو اس کام میں بہت لطف آئے گا.رابطے پیدا کرنے ہوں گے کوئی کہے گا کہ جی ! میرے پاس تو وقت نہیں ہے.اچھا جی ! مجھے بتائیں کہ میں کب آپ کے پاس آ سکتا ہوں.ہم نے ضروری باتیں کرنی ہیں.کسی ایک سے جس سے بھی وقت طے ہو اس تک پہنچ کر پوچھا جا سکتا ہے کہ جی بتائیے ! آپ نے دعوت الی اللہ میں نام لکھایا تھا، کیا کیا ہے؟ کن کن لوگوں تک آپ پہنچے ہیں یا پہنچ سکتے ہیں.اگر اس سے پہلے وہ سارے جائزے مکمل ہوں جن کے متعلق پہلے بار ہا نصیحت کی جاچکی ہے تو یہ کام بہت ہی آسان ہو جاتا ہے.مثلاً جائزوں کے سلسلہ میں بارہا یہ ہدایت کی گئی ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 926 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء Ethnic Minorities یعنی مختلف قسم کے اقلیتی گروہ جو بعض ملکوں میں بستے ہیں ان کے متعلق مکمل معلومات حاصل کی جائیں اور ان معلومات کا سب سے زیادہ تعلق سیکرٹری تبلیغ سے ہے.جس ملک کی معلومات حاصل کی جائیں اس کو پھر آگے تجزیہ کر کے شہر وار تقسیم کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی ور نہ ان معلومات کا فائدہ کوئی نہیں.تو یہ ایک الگ مضمون ہے جو پہلے بارہا بیان کیا جاچکا ہے اور ہدایات میں مختلف جماعتوں کو پہنچایا جا چکا ہے.مختصر تعارف کے طور پر میں ذکر کر رہا ہوں کہ مقصد یہ ہے کہ ہر ملک میں مختلف قسم کے طبقات کی معلومات سیکرٹری تبلیغ کے پاس ہونی ضروری ہیں وہ لوگ جو مقامی طور پر اس ملک کے باشندے ہیں ان کی طبقاتی تقسیم ، ان کی معاشرتی ، اقتصادی اور نظریاتی تقسیم وغیرہ وغیرہ ، کئی رنگ میں ان کی گروہ بندی کی جاسکتی ہے.طلباء ہیں مصنفین ہیں، اخبارات سے تعلق رکھنے والے ریڈیو ٹیلی ویژن سے تعلق رکھنے والے، سیاسی لیڈر، زمیندار ، تاجر طبقہ اور اسی قسم کے اور کئی طبقات ہیں ان کی مقامی سطح پر تقسیم ہوسکتی ہے اور اس کے علاوہ جو بیرونی لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں ان کے متعلق معلومات ہوسکتی ہیں اور ہونی چاہئیں.مثلاً جب میں پرتگال گیا تو وہاں کے مبلغ ماشاء اللہ چونکہ تبلیغ پر نظر رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے بعض ایسے دوستوں سے بھی رابطے کئے ہوئے تھے.جن کا پرتگال سے تعلق نہیں ہے.جب میں نے ان سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کہا تو افریقہ کے ایک ملک کے نمائندے جو وہاں موجود تھے انہوں نے اپنے ملک کے باشندوں کی جو معلومات مہیا کیں تو اتنا بڑا کام ان کے اندر ہوسکتا تھا کہ مبلغ کو اور کاموں کے لئے بڑی مشکل سے وقت نکالنا پڑتا اور وہ ایسے لوگ ہیں جن کو احمدیت کی مقامی لوگوں کے مقابل پر زیادہ آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کیونکہ ان ملکوں میں یعنی افریقہ کے بعض ملکوں میں اسلام کا گہرا اثر ہے اور احمدیت کو سمجھنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں.پھر وہ گھر سے بے گھر ہوئے لوگ اگر ان کو ایک مشن سے تعلق پیدا ہو جائے تو یہ ان کے لئے سہارے کا موجب بھی بنتا ہے اور ان کے اندر ایک طبعی کشش پائی جاتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ان کا اڈا ہو.جہاں مشکل کے وقت جاسکیں، جہاں بیٹھ کر اپنے دل کے دکھ درد بیان کر سکیں اور یقین ہو کہ اس کے جواب میں سچی ہمدردی پیدا ہوگی.پس ان کی بھی ضرورتیں ہیں.ایسے گروہ ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ہیں.چنانچہ ان کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 927 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء طرف میں نے اپنے مبلغ صاحب کو توجہ دلائی کہ آپ ان میں کام کریں اور ان لوگوں سے کام لیں.یہ جو آپ کے پاس آتے ہیں ، بعض ان میں سے بیعت کر چکے ہیں ، بعض نے نہیں کی.ان سے آگے کام چلائیں.وہ اپنے بھائیوں اور دوستوں کو آپ کے پاس لے کر آئیں ورنہ اگر آپ نے محض ڈاک میں لٹریچر بھیجنا شروع کیا تو اکثر اوقات اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا.آپ کو بھی اشتہار پہنچتے رہتے ہیں اور کئی قسم کے لٹریچر پہنچتے رہتے ہیں.جن چیزوں میں آپ کو ذاتی دلچسپی ہے ان میں آپ کچھ نظر ڈال بھی لیتے ہیں مگر عام طور پر اس کو ایک نظر ڈال کر پھینک دیتے ہیں.مذہب کے پیغام میں دنیا سب سے کم دلچسپی لیتی ہے کیونکہ یہ پیغام سنتے ہی آدمی سمجھتا ہے کہ مجھے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی مجھے اپنے تعلقات کے دائرے منقطع کرانے کی کوشش کی جائے گی اور خواہ مخواہ کی مصیبت میں سہیڑوں ، کیا ضرورت ہے؟ پس اگر پہلے کوئی اور تعلق قائم نہ ہو چکا ہو تو بیرونی طور پر ذاتی رابطے کے بغیر جو پیغام پہنچتے ہیں بالعموم انسان ان میں دلچسپی نہیں لیتا.اس پہلو کو میں الگ زیر بحث لاؤں گا کہ ایسا کام اگر کر نا ہوتو دلچسپی پیدا کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ مگر میں واپس اس مقام پر پہنچتا ہوں جہاں سے بات دوسری طرف چل پڑی کہ ایسے شخص سے آپ کو آخر یہ پوچھنا چاہئے کہ میری معلومات کے مطابق یہاں چینی بھی بستے ہیں ، روسی بھی بستے ہیں، پرتگیزی بھی آئے ہوئے ہیں، افریقہ کے فلاں فلاں ممالک کے لوگ ہیں.ویسٹ انڈینز (West Indians) ہیں.بہت سے طبقات ہیں.آپ کے ماحول میں بھی کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں کبھی آپ نے معلومات حاصل کیں؟ آپ کے ساتھ کام کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو آپ نے کبھی رابطے کی کوشش کی اور رابطے کی کوشش اگر کی تو کس طرح کی؟ اگر ایک اجنبی آدمی کو آپ رابطہ کر کے یہ کہنا شروع کر دیں کہ آؤ اسلام قبول کر لو تو ذاتی رابطے کے باوجود وہ کچھ تو سنے گا لیکن طبعا اس کے دل میں اس کے خلاف رد عمل ہوگا.جس کو تبلیغ کی جاتی ہے پہلے اس کی دلچسپی کے دائروں کی تلاش کرنی پڑتی ہے اس لئے جب یہ مضمون چھیڑیں گے تو اور تفاصیل میں جانا پڑے گا.بات سے بات نکلتی چلی جائیگی.اگر اُس نے مثال کے طور پر رابطے کئے ہیں تو آپ کا کام ہے کہ اُس سے پوچھیں کہ رابطے کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایک چینی نے کیا جواب دیا، ایک ترک نے کیا جواب دیا.ایک Gambian نے کیا جواب دیا.وغیرہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 928 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء وغیرہ اور اگر دیسی نہیں لی تو کیا آپ نے جائزہ لیا ہے کہ اس کو کن باتوں میں دلچسپی ہے، کس طرح اس کے دل میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے کرید پیدا کرنے کے امکانات ہیں؟ تو تفصیلی بحث انفرادی بحث تک جاپہنچے گی اور ہر شخص جو زیر تبلیغ ہے اس کے متعلق اس سے گفتگو کرنی پڑیگی اس سلسلہ میں اس کو نیک مشورے دینے پڑیں گے اور سیکرٹری تبلیغ جو اس طرح کام کرتا ہے.اس کو رفتہ رفتہ اتنا وسیع تجربہ ہونے لگ جاتا ہے کہ واقعی اس کے اندر یہ اہلیت پیدا ہوتی ہے کہ ہر صورت حال میں ایک مفید اور اچھا مشورہ دے سکے اور کچھ اس کی معلومات پہلے ہی وسیع ہوتی ہیں اس رنگ میں اس کے جو ساتھی ہیں ان کی بھی تربیت ہو رہی ہوتی ہے لیکن اس مثال کو ابھی کچھ اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے.مثلاً ایک چھینی ہے اگر آپ اس چینی کو جو انگلستان میں بس رہا ہے یا کہیں ٹھہرا ہوا ہے جا کر یہ کہیں کہ آؤ اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرو.میرا نہیں خیال کہ وہ اس میں کوئی دلچسپی لے گالیکن اگر آپ کوئی ایسا سوو نیٹر مثلاً پیش کریں جس میں چینی لوگوں سے رابطہ پیدا ہونے کا ذکر ہو.ایسا کوئی سود نیئر نہیں ہے میں مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں بعض دوسری قوموں کے ہیں تو جس قوم سے رابطہ ہے اس کے متعلق اگر کوئی ایسی دلچسپ چیز آپ اس کو دکھانے لگیں جس سے اس کو معلوم ہو کہ ہمارے ملک میں اس جماعت کا بڑا وقار ہے اور اس جماعت نے خدمات کی ہوئی ہیں اور ہمارے ملک کے معززین ان لوگوں کی عزت کرتے ہیں تو اچانک اس کے دور کے تعلق میں قربت کا ایک رجحان پیدا ہوگا.وہ آپ کے لئے اس طرح اجنبی نہیں رہے گا بلکہ شناسائی کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور قریب آئے گا پھر آپ اس کو اور باتیں سمجھا سکتے ہیں.ہماری جماعت کی روح کیا ہے ہم کس طرح کام کرتے ہیں.پھر آپ افریقن قوم کے متعلق اور افریقہ کی اس قوم کے متعلق جس کا وہ باشندہ ہے ( میرا مطلب ہے اگر وہ افریقہ کا ہو تو ) مزید دلچسپی لے سکتے ہیں اور اس کے لئے آپ کو معلومات ہونی چاہئیں اور یہ معلومات پھر سیکرٹری تبلیغ کو آگے اس شخص تک پہنچانی چاہئیں ، طریق کار سمجھانا چاہئے.اب میں واپس چین ہی کی مثال پر آتا ہوں.میرے پاس بہت سے چینی دوست ملنے کے لئے آتے ہیں.بالعموم براہِ راست فوری طور پر اسلام کا پیغام دینے کی بجائے میں پہلے اُن سے چین کے حالات اور چین کے مسائل کے متعلق بات کرتا ہوں اور جب وہ مسائل بتاتے ہیں تو کچھ دیر کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 929 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء بعد بات آخر اخلاقیات پر ضرور پہنچتی ہے اور ان کے راہنماؤں نے جو غلطیاں کی ہیں.اشتراکیت میں جو کمزوریاں ہیں جس کے نتیجہ میں چین آج اس حال کو پہنچا ہے ان سارے مسائل پر نظر ڈال کر جب بات کی جاتی ہے تو اس شخص کا ایک ذاتی گہرا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میری قوم میں اس کو دلچسپی ہے میری قوم کے حالات سے واقف ہے اور جو بات کہہ رہا ہے درست ہے اور آخری تجزیہ ایسا ہے جو میرے دل کی بھی آواز ہے.جب اس طرح تعلق قائم ہو تو پھر اس مضمون کا رخ بدلنا کوئی مشکل نہیں رہتا.پھر اخلاقیات کے موضوع پر کنفیوشس ازم کی مثلاً بات چل جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کنفیوشس ازم کی اخلاقی تعلیم بنیادی طور پر چونکہ ایک ہی خدا کی دی ہوئی تعلیم ہے اس لئے اسلام کے ساتھ اس کا یہ تعلق ہے اور اسلام میں بھی یہ تعلیم ملتی ہے اور اس تعلیم کے سوا دنیا کا کوئی نظام چاہے وہ اشترا کی نظام ہی ہو جاری نہیں ہوسکتا تو بات سے بات نکلتے ہوئے کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے.ان موضوعات پر مختلف مواقع پر بعض دفعہ سوال و جواب کی مجالس میں ، بعض دفعہ دوروں کے دوران مختلف خطابات میں بہت سا مواد موجود ہے.اس لئے کوئی سیکرٹری تبلیغ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو تو شاید ان باتوں کا علم ہو مجھے علم نہیں ہے.میں نے اپنا علم آپ کے ساتھ Share کیا ہوا ہے یعنی میرا علم اور آپ کا علم دوجدا گانہ چیزیں نہیں رہیں.جو احمدی کو علم ہوتا ہے وہ مجھے لکھ کر بھیجتا ہے اور میری توجہ اس کی طرف مبذول کراتا ہے.روزانہ کثرت سے ایسے خط ملتے ہیں جن میں بعض امور کا ذکر ملتا ہے کہ فلاں ملک میں فلاں جگہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا رجحانات ہیں اور بعض دفعہ اخبارات کے تراشے ملتے ہیں.بعض دفعہ بعض احمدی احباب کتابیں بھجواتے ہیں.کوئی بہت اچھی کتاب انہوں نے پڑھی ہو تو کہتے ہیں یہ ایسی کتاب ہے جس کی معلومات کا دین کے ساتھ ایک تعلق ہے یعنی آپ کے کاموں سے ایسا تعلق ہے کہ آپ ان معلومات کے نتیجہ میں مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور جماعت کی راہنمائی کے سلسلہ میں یہ آپ کے کام آنے والی باتیں ہیں.غرضیکہ ایسی ہی کئی تمہیدوں کے ساتھ کتابیں ملتی ہیں تو آپ جو مجھے علم دیتے ہیں میں اپنے اندر سنبھال کر کنجوس کی طرح تالے لگا کر تو نہیں رکھتا.آپ سے ملنے کے دوران ، دوروں کے وقت ،خطبات میں ،سوال و جواب کی مجالس میں جو فیض میں جماعت سے پاتا ہوں وہ جماعت کو واپس کر رہا ہوتا ہوں اور یہ مضمون اکٹھا ہو کر ایک دریا کی شکل اختیار کر جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 930 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء پس اگر سیکرٹری تبلیغ با قاعدہ اپنے کام کے سلسلہ میں تیاری کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لئے مواد بہت ہے.تیاری کے لئے ذرائع موجود ہیں.لٹریچر کا مطالعہ، دنیا کے حالات کا براہ راست مطالعه، مختلف Ethnic گروپس جو اس ملک میں رہتے ہیں یعنی اقلیتی طبقات ان کے متعلق مقامی طور پر ان کی انجمنوں سے رابطے کر کے معلومات حاصل ہوسکتی ہیں.ان کے اقتصادی مسائل کے متعلق معلومات حاصل ہو سکتی ہیں.ان کے اخلاقی مسائل کے متعلق ان کے ملکوں کے اقتصادی، سیاسی وغیرہ مسائل پر معلومات حاصل ہوسکتی ہیں.وہ معلومات جو حاصل کریں وہ مجھ تک پہنچا ئیں.جو مجھے ملتی ہیں میں ان تک پہنچا تا ہوں اس طرح علم کا ایک ذخیرہ پیدا ہوتا ہے جو بڑھتا چلا جاتا ہے اور ان سب عمومی باتوں کا تبلیغ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ جس شخص کو تبلیغ کی جائے جب تک اس کی دلچسپی کے معاملات میں آپ کو دلچسپی نہ ہو.جب تک اس کو یہ یقین نہ ہو کہ میری دلچسپی کے دائرے تبلیغ کرنے والے کی دلچسپی کے دائرے سے بالکل الگ نہیں ہیں کچھ ایسی مشترکہ زمین بھی ہے جہاں ہم دونوں ایک ہی طرح کی دلچسپی رکھتے ہیں اس وقت تک اس کے لئے اپنے پیغام میں دلچسپی پیدا کرنے کے امکانات بہت کم ہوں گے.اس کی مزید وضاحت یوں کرتا ہوں کہ آپ کے لئے اس بات کا امکان کم ہو گا کہ آپ اس کو اپنے پیغام میں دلچسپی لینے پر مجبور کرسکیں.آپ کو پہلے خود دلچسپی لینی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اور باتیں آپ کو معلوم ہوں گی اور ان باتوں کے نتیجہ میں علم کی روشنی ملے گی.جس طرح کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا روشنی کے بغیر سفر نہیں ہوسکتا.اسی لئے اجنبی سے آپ مؤثر گفتگو نہیں کر سکتے پہلے ٹول کر تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کر کے اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ یہ کس مزاج کا آدمی ہے.اس لئے جب نئے دوست میرے پاس آتے ہیں تو ہمیشہ شروع میں ادھر ادھر کی چاروں طرف کی باتیں کر رہا ہوتا ہوں جو احمدی لے کر آتے ہیں وہ بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ سیدھی بات کرتا نہیں تبلیغ کی گفتگو نہیں کر رہا لیکن میں اس کے بغیر گفتگو کر ہی نہیں سکتا جب تک مجھے یہ نہ پتہ لگے کہ کسی شخص کا مزاج ہے کیا؟ کن باتوں میں دلچسپی رکھتا ہے اس کے نظریات کیا ہیں ، اس کے تجارب کیا ہیں ، کیا تلخیاں دل میں ہیں، کیا خوشی کی باتیں ہیں؟ اس وقت تک صحیح معنوں میں تبلیغ ہو ہی نہیں سکتی.پس وہی بات حکمت کی بات ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی کہ اُدعُ اِلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ ( انحل : ۱۲۶) حکمت سے اپنے رب کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 931 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء طرف بلاؤ اور حکمت کا مضمون اتنا وسیع ہے کہ یہ جو باتیں بیان کر رہا ہوں یہ بھی اسی مضمون کی بعض شاخیں ہیں.اب دیکھیں سیکرٹری تبلیغ کے لئے کتنی محنت درکار ہے اور کتنا وقت اس کو صرف کرنا ہوگا.پھر وہ جس کو تبلیغ کے لئے تیار کر رہا ہے اس کو یہ بتا سکتا ہے کہ آپ کے لئے ہمارے پاس یہ یہ مواد موجود ہے اگر پاس بلغاریہ کے لوگ رہتے ہیں تو ان کے لئے ہمارے پاس خدا کے فضل سے یہ لٹریچر تیار ہو چکا ہے اگر رومانیہ کے لوگ ہیں تو ان کیلئے ہمارے پاس یہ لٹریچر ہے اگر ترک باشندے ہیں تو ان کے لئے ہمارے پاس یہ کچھ ہے.اگر عرب ہیں تو ان کے لئے ہمارے پاس یہ کچھ ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت دنیا کی اکثر قوموں سے متعلق پوری جدوجہد کے ساتھ ایسا لٹریچر تیار کر رہی ہے.جن کی ہمارے نزدیک ان کو ضرورت ہے اور سیکرٹری تبلیغ اکثر ایسے ہیں جن کو پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے.ان کو نہ لٹریچر کی تفصیل کا علم ہے کہ کون سا شائع ہو چکا ، نہ آڈیو ویڈیو کی شکل میں جو تبلیغی مواد ہے اس کے متعلق پورا علم ہے.وہی کیفیت ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے پرانی جن کا کام ہے تبلیغ کرنا ان کو ان باتوں کا علم نہیں ہے اگر ان کو علم ہو تو پھر آگے اس علم کو دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نام پیش کرنے والے ہر شخص تک پہنچانا ہوگا اور تفصیل سے سمجھانا ہوگا پھر یہ بنایا جاسکتا ہے کہ رابطہ کرنے کا طریق کیا ہے.اگر ایک بالکل اجنبی ہو اس سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے اور رابطے کے لئے تقریبات پیدا کی جاسکتی ہیں اس میں کوئی مشکل نہیں ہے.جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو ہماری احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشنز کے بعض طلباء کے ساتھ اسی مضمون پر گفتگو ہوئی اور میں نے ان کو بتایا کہ میرے لئے تو رابطہ قائم کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ رابطہ پیدا کرنے کا گر آنا چاہئے کہ وہ ہے کیا؟ اور وہ گر یہی ہے کہ اگر آپ کو کسی شخص میں دلچسپی ہے تو اسے آپ میں دلچپسی ہوگی.میں نے مثال دی کہ ایک کھلاڑی ہے ہاکی کا کھلاڑی ہے،اچھا کھیلتا ہے کہیں بیٹھا ہو آپ اس کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تمہارا کھیل دیکھا تھا، میرے دل پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا تو اچانک اس کے دل میں آپ کے لئے محبت اور نرمی کا گوشہ پیدا ہو جائے گا.پھر آپ اس کو کہہ سکتے ہیں کہ میں اپنے لئے اعزاز سمجھوں گا اگر آپ میرے ساتھ چائے کی ایک پیالی پئیں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 932 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء اور پھر اس کے مضمون کی کچھ باتیں آپ شروع کر دیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ آپ کے ہاتھ جھٹک دے.ہر شخص میں بعض خوبیاں ہیں.جھوٹی تعریف نہیں کرنی چاہئے.اس کا تو کسی مؤمن کے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ہر شخص کی سچی تعریف کرنے کے امکانات ہیں اور یہی امید کا وہ روشن چراغ ہے جسے ہمیں لے کر تبلیغ کے معاملہ میں آگے بڑھنا ہے.امید کا روشن چراغ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے کوئی ایک بھی اس میں سے ایسی نہیں جو خو بیوں سے عاری ہو اور ہر جنس کے ہر فرد میں خواہ وہ اپنے کردار کی گراوٹ میں کہیں تک پہنچ چکا ہو پھر بھی کچھ خو بیاں رہتی ہیں.بعض چوروں اور بدکاروں میں بھی بعض ایسی بنیادی خوبیاں قائم رہتی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں ان کے لئے ہر وقت واپسی اور تو بہ کا امکان روشن رہتا ہے.تو ہر شخص کی خوبیوں کے ذریعہ آپ کا اس سے رابطہ ہونا چاہئے.ہر قوم کی بعض خوبیاں ہوتی ہیں ان خوبیوں کو بھی آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.پس آغاز میں اگر آپ کسی شخص کو نہیں جانتے تو اس کی بعض قومی خوبیوں کا ذکر کر سکتے ہیں.اگر اس کو جانے لگے ہیں تو رفتہ رفتہ اس کی بعض اچھی باتیں تلاش کریں اور ان باتوں کا ذکر اس سے چھیڑیں اس کا تعلق آپ سے بڑھنا شروع ہو جائے گا.تو بہر حال یہ سمجھانا پڑے گا کہ رابطے کیسے کئے جاتے ہیں.ان رابطوں کے سلسلہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کچھ نہ کچھ خاطر مدارات بھی ساتھ کرنی پڑے گی اور اس کے بغیر گزارا نہیں ہے.پس داعی الی اللہ کو اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اس ضمن میں مستورات کے لئے بھی بہت سے خدمت کے مواقع ہیں.بہت سی رپورٹیں جو مجھے مختلف جگہوں سے ملتی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جن احمدی داعین الی اللہ کی بیویاں حوصلے والی اور خدمت کرنے والی اور مہمان نواز ہیں ان کا دعوت الی اللہ کا کاروبار خوب چمکتا ہے اور بڑی جلدی ان کے تعلقات کے دائرے بڑھتے ہیں.کوئی شخص جو آپ کے گھر آکر آپ کی بیوی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا سوائے اس کے کہ بدقسمتی سے وہ کھانا بہت ہی خطرناک پکاتی ہو ایک دفعہ کھالے تو کچھ کمی بھی رہ گئی ہوگی تو وہ بہت ہی ممنون ہوگا اور شکر یہ ادا کرے گا اور اس کا ایک گہرا تعلق قائم ہو جائے گا.اس طرح آپ کی بیویاں بھی اس میں حصہ لے سکتی ہیں، آپ کے بچے بھی اگر آپ ان کی اخلاقی لحاظ سے تربیت کریں ، وہ ان سے پیار کا اظہار کریں، ان سے دل لبھانے والی اچھی باتیں کریں تو وہ جو دور کا تعلق تھا اچانک قریب آتے آتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 933 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء ایک خاندانی تعلق میں تبدیل ہو جائے گا.تو دور کے تعلقات کو قریب کرنا ایک با قاعدہ منصوبے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کوچے کی آشنائی ہوئی ضروری ہے اور یہ باتیں محض عمومی نصیحتوں کے ذریعہ نہیں سمجھائی جایا کرتیں.انفرادی طور پر کام کر کے دکھانا پڑتا ہے تو اس طرح آپ دیکھیں کہ ایک سیکرٹری تبلیغ چند آدمیوں کو لے کر جاتا ہے اس کے پاس اپنا کتنا وقت ہوگا.وہ کہاں تک ان سب کاموں سے نپٹ سکتا ہے کس کس تک پہنچ سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اصل طریق وہی ہے کہ جن دو تین ساتھیوں کو لے کر وہ جاتا ہے ان سے پھر وہ بار بار کام لینا شروع کرے.ساتھ ان کی تربیت کرے اور پھر مقامی دوستوں کو وہ ساتھ لینا شروع کریں.پھر حلقے تقسیم کریں تو ایک کام جو معمولی آغاز سے شروع ہواوہ ایک وسیع کاروبار تک پہنچ سکتا ہے اور ساتھ اور لوگ شامل ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اس موضوع پر بھی وہی آیت کریمہ ہمارے کام آئے گی جو ہمیں دعا کا ایک طریق سکھاتی ہے کہ ربِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا ( بنی اسرائیل: ۸۱) کہ اے خدا! ہم ترقی کے جس مرحلے میں بھی قدم رکھتے ہیں اس مرحلے کو ہمارا آخری مقام نہ بنانا بلکہ اگلے مقامات کے لئے دروازہ کھولنے والا مقام بنا دینا اور اس ضمن میں ہر اگلا مرحلہ ہمارے لئے مقام محمود ثابت ہو.ایسا مرحلہ جس کی اللہ کی طرف سے تعریف کی جاتی ہے کیونکہ اس سے پہلے جو آیت کریمہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ خدا تعالیٰ تجھے مقام محمود تک پہنچا دے با مقام محمود پر نافذ فرمادے.اس کے بعد پھر ساتھ یہ دعا ہے کہ رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ مقام محمود کے تقاضوں کو سمجھنے کے بعد طبعا دل سے یہ دعا اٹھنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ نے یہی دعا سکھاتی ہے.پس مقام محمود چونکہ خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے اس لئے کسی انسانی تعریف کا محتاج نہیں ہے اور انسانی تعریف سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے.مقام محمود وہ ہے جس کو خدا نے تعریف کے ذریعہ ایک مقام کے لائق سمجھا ہوا ور وہ مقام اس کو عطا کیا ہو.یہ وہ مقام ہے جو مقام محمود کہلاتا ہے.اس کے بعد دنیا کی تعریف خود بخود شروع ہو جاتی ہے.اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مقام محمود میں صرف خدا تعریف کرتا ہے اور بندے تعریف نہیں کرتے مگریہ تعریف وہ ہے جو خدا کی تعریف کے تابع ہوتی ہے.یہ وہ راگ ہے جسے جب آسمان گاتا ہے تو فرشتے بھی ساتھ گاتے ہیں اور پھر ملائکہ کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 934 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء تابع زمین پر بسنے والے نفوس بھی اس سے متاثر ہو کر اسی رنگ کے راگ الاپنے لگ جاتے ہیں تو مقام محمود ہمارے ہر کام میں چھوٹی چھوٹی منازل کی شکل میں آتا رہتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفے کے جس مقام محمود کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے وہ تو ہم میں سے اکثریت کے تصور سے بھی بالا ہے.اس لئے میں اس کی مثال دے کر آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ وہ مقام محمود بھی دراصل ایک ہی چھلانگ میں حاصل ہونے والا مقام محمود نہیں تھا.آنحضرت ﷺ نے ساری زندگی سفر فرمایا ہے اور ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر فرماتے چلے گئے ہیں.ہمیں بھی اسی بات کی پیروی کرنی ہوگی اور دین کی ہر خدمت اگر اچھے رنگ میں کی جائے.اللہ پر توکل کرتے ہوئے کی جائے.اس سے دعا ئیں مانگتے ہوئے کی جائے تو ہمارے لئے اس خدمت کا ہر مرحلہ ایک مقام محمود بن سکتا ہے.پس اس موقعہ پر بھی یہ دعا ساتھ رہنی چاہئے اور یہ دعا کہ ہر مقام پر مجھے مددگار چاہتے ہوں گے.بیٹھ رہنے کے لئے تو مددگار کی ضرورت نہیں ہوا کرتی آگے بڑھنے کے لئے مددگار کی ضرورت ہوا کرتی ہے.خاص طور پر مشکل سفر میں مددگار کی ضرورت ہوا کرتی ہے.پس اپنے مددگار پیدا کر دیں اور یہ دعا مانگیں کہ اے اللہ ! ہر ایسے مرحلہ پر جسے تو مقام محمود بنائے گا میرے لئے ایسے مددگار پیدا فرما کہ یہ سفر ہمارے لئے آسان تر ہوتا چلا جائے اور ہمیشہ ہم تھک ہار کر بیٹھ رہنے کی بجائے آگے ہی قدم بڑھاتے رہیں.ان دعاؤں کے ساتھ ، اس لگن کے ساتھ اگر آپ جماعت کی تربیت کریں گے تو دعوت الی اللہ کے رنگ بدل جائیں گے اس میں نئی کیفیت پیدا ہو جائے گی.مختلف Ethnic گروپس کی میں بات کر رہا تھا، پھر آگے یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کس جگہ کس قسم کے لوگ زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور تجارب پر نظر رکھنی ہوگی محض تجربے کا آغاز کر دینا کافی نہیں ہے کئی جگہ آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ بعض دفعہ بعض طبقات میں نسبتا کم دین کی طرف توجہ ہوتی ہے بعض دوسرے طبقات میں زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے.پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ کس طریق پر رابطے پیدا کئے جائیں تو زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے.کس طریق پر رابطے پیدا کئے جائیں تو کم توجہ پیدا ہوتی ہے غرضیکہ جو کام جاری کرنے ہیں ان کو متعلقہ افراد تک پہنچا کر سمجھا کر اپنی طرف سے آپ کام مکمل کر بھی دیتے ہیں تب بھی بات ختم نہیں ہوتی پھر ان کے تجارت پر نظر رکھنی پڑے گی اور اگلے سفر کے وقت جب آپ وہاں جاتے ہیں تو ان سے پوچھنا ہوگا کہ جو ترکیبیں آپ کو پہلی دفعہ بتائی گئیں ان پر کوئی عمل ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 935 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء بھی کہ نہیں، کوئی رابطے ہوئے.کس نے کیا جواب دیا اور آپ کے پاس اس کا کیا جواب تھا؟ جب آپ اس رنگ میں ان سے گفتگو کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے بہت سے جواب غلط تھے.بہت سے جواب ایسے تھے جو کسی کو قریب کرنے کی بجائے دور پھینکنے والے تھے اور یہ باتیں مجھ تک تو خود پہنچ جاتی ہیں اس لئے مجھے جا کر پتہ کرنے کی ضرورت نہیں.پاکستان سے ،افریقہ کے ممالک سے ، نجی سے ، جاپان سے، ہر تبلیغ کرنے والے کو شوق ہوتا ہے کہ مجھے بھی بتائے کہ کس طرح تبلیغ کی اور بعض تو اتنی لمبی لمبی رپورٹیں آتی ہیں کہ مجھے ان کو پڑھنے میں کئی دن لگتے ہیں مگر جو تفصیل سے بات کرنے کے عادی ہیں انہوں نے تو بہر حال تفصیل سے ضرور بتانا ہے کہ فلاں آدمی سے یہ بات ہوئی اس نے مجھے یہ کہا، میں نے اس کو یہ کہا ، اس نے مجھے یہ کہا میں نے اس کو یہ کہا پھر یہ بات ہوگئی پھر فلاں شخص آ گیا ، پھر اس سے گفتگو شروع ہوگئی، پھر ایک اور آدمی آگیا اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی.ساری تفصیل اس رپورٹ میں لکھی ہوتی ہے اور پھر اس کو پڑھ کر بعض جگہ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ بڑی حکمت سے عمدہ جواب دیا ہے بعض جگہ کوفت ہوتی ہے کہ ہرانے کی کوشش ہو رہی ہے ، دل جیتنے کی کوشش نہیں ہو رہی سختی سے کاٹنے والا جواب دیا جارہا ہے اور اپنی طرف بڑے فخر سے مجھے بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح ہم نے اس کو لا جواب کیا حالانکہ لاجواب کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے.ہمارا مقصد یہ ہے کہ دل جیتیں خواہ خود لا جواب ہوکر دل جیتیں اور یہ بھی ایک حکمت کا مضمون ہے.بعض دفعہ لا جوابی سے بھی دل جیتے جاتے ہیں.آپ ایک بات کو برداشت کر جائیں اور اس کا جواب نہ دیں اور ایک درد آمیز خاموشی اختیار کریں تو اس کے نتیجہ میں بھی دل جیتے جاتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے افریقہ کے ایک ملک سے اسی مضمون پر ایک رپورٹ ملی کہ ہم کسی جگہ گئے.وہاں عیسائیوں کا جو مناد تھا اس نے بہت بے ہودہ زبان استعمال کی اور سختی کی اور نا پسندیدہ رویہ اختیار کیا.اس پر ہم نے یہی مناسب سمجھا کر صبر سے کام لیں اور مقابل پرختی نہ کریں.چنانچہ ہم صبر کے ساتھ اس دکھ کو برداشت کرتے ہوئے خاموش رہے.دوسرے دن وہ دلی معذرت کے ساتھ انتہائی شرمندہ حالت میں پہنچا.بار بار معافی مانگی اور عرض کیا آپ دوبارہ ہم سے بات کریں.دوبارہ تبلیغ کریں اور ہم سننے کے لئے حاضر ہیں.بڑی شرافت کے ساتھ گفت و شنید ہوگی.اس مضمون کا خط صرف ایک افریقہ سے نہیں آتا.مختلف جگہوں سے ملتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 936 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء بنگلہ دیش سے بھی اس مضمون کا ایک خط ملا اور بھی کئی ایسے ہیں جن کا مجھے اب نام بھی یاد نہیں مگر روز مرہ کا تجربہ ہے کہ جو احمدی صبر کے ساتھ اللہی خاموشی اختیار کرتا ہے اس کا جواب نہ دینا اس کے لئے زیادہ دل جیتنے کا موجب بن جاتا ہے اور جو ایسا جواب دینا جانتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں دل جیتے ہی جاتے ہیں وہ تو بہر حال خدا کے فضل سے ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور اس کے نتیجہ میں ہر تبلیغ ہر جدو جہد، ہر کوشش کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی جھولی میٹھے پھلوں سے بھرتی رہتی ہے.تو دعوت الی اللہ کرنے کا گر سکھانا اور جائزہ لینا کہ کوئی اس معاملہ میں کیا غلطی کر رہا ہے اس کی کس رنگ میں درستی کی ضرورت ہے یہ بھی ایک بہت ہی اہم کام ہے.بعض اور باتیں جو میں نے محسوس کی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ بعض لوگ خاص لوگوں سے جب ایک دفعہ ٹکر لے بیٹھتے ہیں اور تبلیغ کا سلسلہ شروع کر بیٹھتے ہیں تو یہ سوچتے ہی نہیں کہ ان کے اندر قبولیت کا کوئی مادہ کم ہے اور بعض ایسی عادتیں ہیں جن کے نتیجہ میں عام طور پر ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں ملا کرتی یعنی ضد ہے، تعصب ہے، ہٹ دھرمی ہے اور قرآن کریم نے ہمیں آغاز ہی میں یہ مطلع فرما دیا کہ یہ کتاب هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرہ:۳) ہے یہاں متقین سے مراد ابتدائی تعریف کے طور پر یہ ہے کہ وہ لوگ جو سچی بات کو دیکھتے ہیں تو سچی بات کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یعنی ضد اور تعصب نہیں ہے تو تقویٰ کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ دن کو دن کہہ سکے اور رات کو رات کہہ سکے اس کے لئے کوئی بڑی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے.یہ انسانی فطرت کی ایک طبعی کیفیت کا نام ہے تو ایسے لوگ جن کو یہ فطری سچائی نصیب نہ ہو ان سے آپ جتنا چاہیں سر ٹکرا ئیں ان کو ہدایت نہیں ملے گی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس بنیادی بیماری کو دور فرما دے.پس بجائے اس کے کہ آپ اپنا وقت اس امید پر ان بیماروں پر ضائع کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے شاید ان کا دل بدل دے.جو بیمار نہیں ہیں ان کی طرف کیوں نہیں توجہ کرتے.جب آپ کے پاس کافی وقت نہیں ہے کام زیادہ ہے تو پہلے ان چیزوں پر ہاتھ ڈالیں جن کو قبضہ میں لینا آسان تر ہے پہلے مشکل چیزوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو نتیجہ بہت کم اور بہت دیر سے نکلے گا.اس لئے تبلیغ کے وقت اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک آدمی کو کس وجہ سے Reject یعنی نظر انداز کر دینا چاہئے اور کس وجہ سے نہیں کرنا چاہئے.یہ بھی اپنی ذات میں ایک گہرے غور کا مضمون ہے.میں وضاحت سے آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس بات پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 937 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء نظر انداز نہ کریں کہ وہ سمجھنے میں دیر کر رہا ہے یا کسی اور وجوہات کی وجہ سے اس کے لئے قبول کرنا مشکل ہے.اگر اس کی فطرت میں صفائی ہے اگر اس کے اندر جھوٹ اور تعصب نہیں ہے تو خواہ دوسری کتنی ہی برائیاں کیوں نہ ہوں اس کی اصلاح ممکن ہے.اس لئے بد کہہ کرکسی کو نہیں چھوڑ نا ورنہ جس طرح حسن سب میں ہے بدیاں بھی سب میں ہوتی ہیں.آپ کو بنا بنایا فرشتہ تو تبلیغ کے لئے نہیں ملے گا.اگر بنا بنایا فرشتہ ہے تو پھر شاید وہ آپ کو تبلیغ شروع کر دے کیونکہ آپ میں اس کی نسبت زیادہ برائیاں ہوں گی.پس برائیوں کے نتیجہ میں نہیں چھوڑنا.ایک بات یادرکھیں قرآن کریم نے ابتدا میں جو تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ جس کے اندر سچائی کی روشنی نہیں ہے، جس کی طبیعت میں کبھی ہے اس کی آپ اصلاح نہیں کر سکتے.جتنا چاہیں آپ اصلاح کی کوشش کریں ان کی آپ اصلاح نہیں کر سکتے.اسی مضمون کو کچھ آیات کے بعد مزید کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ( البقرة :۸) ان کی اندرونی کبھی ان کی صلاحیتوں کی راہ میں حائل ہوگئی ہے.صلاحیتیں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو عطا فرمائی ہیں.کان بھی ہیں لیکن کانوں پر پردے پڑ گئے ہیں، کان بھاری ہوگئے ہیں، کانوں کے اوپر بوجھ پڑگئے ہیں، آنکھیں ہیں لیکن آنکھوں کے اوپر پردے پڑگئے ہیں، دل ہیں مگر دل اندھے ہو چکے ہیں.ایسے لوگ ہیں جن کے اوپر مہریں لگی ہوئی ہیں.پس مہر زدہ آدمیوں پر بے وجہ لمبے وقت ضائع کرنا یہ درست نہیں ہے.آپ کے قیمتی وقت کا ضیاع ہے لیکن اس کے مقابل پر ایک اور بات سے بھی احتیاط بہت لازم ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ جی ! یہ سارا علاقہ ہی مہر زدہ ہے.ان میں ہدایت قبول کرنے کا مادہ ہی کوئی نہیں.یہ جو عام فتویٰ دینا ہے یہ ایک بہت خطرناک بات ہے.اس کا مطلب ہے کہ اپنی کمزوریوں کو خدا تعالیٰ کی تقدیر کے سر پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں.گویا خدا تعالیٰ نے ساری زمینیں ہی بنجر پیدا کی ہیں آپ بے چارے کیا کر سکتے ہیں.جب زمینوں نے قبول ہی نہیں کرنا تو آپ کا کیا قصور اس لئے اس فتویٰ میں جلدی نہیں کرنی چاہئے لیکن حکمت اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لے کر انفرادی طور پر یہ فتویٰ دیا جا سکتا ہے اور جن لوگوں میں آپ ضد اور تعصب دیکھیں ان کو چھوڑ کر سعید فطرت لوگوں کی طرف متوجہ ہوں.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 938 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء ہندوستان کے زمانہ میں مجھے یاد ہے لاہور میں جب ہم طالب علم ہوا کرتے تھے تو ہمارے بعض دوست تبلیغ کا بہت ہی شوق رکھنے والے تھے.ساری عمر انہوں نے تبلیغ کی اور ساری عمر ایک بھی پھل نہیں لگا.وجہ یہ ہے کہ جو ضدی آدمی چنے ہوئے تھے ان سے ہی ٹکراتے رہے.آج وہ یہ دلیل لے کر آیا کل یہ دوسری دلیل لے کر آئے.ہر روز ہنگامے، ہر روز گفت و شنید ، گرم گرم بحثیں یہاں تک کہ بعض دفعہ لڑائیوں تک بھی نوبت پہنچ جاتی تھی مگر وہ ان دوستوں کے ساتھ آپس میں اس طرح جڑ چکے تھے کہ علیحدہ نہیں ہو سکتے تھے اور اپنی ساری عمر ضائع کر دی.اگر ان کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تو آسانی کے ساتھ خدا کے فضل سے ایسے سعید فطرت مل سکتے تھے لیکن کیوں ایسا نہیں کیا ؟ یہ سوال ہے جس کو آپ کے لئے سمجھنا ضروری ہے.انانیت کی بہت سی قسمیں ہیں بعض قسمیں دبی ہوئی شکل میں بھیس بدلی ہوئی شکل میں موجود ہیں بعض دفعہ جس سے ایک دفعہ دینی گفتگو میں مقابلہ شروع ہو جائے اگر آپ اس کے کسی سوال کا جواب نہ دیں اور یہ کہہ دیں کہ جی ! میں تمہیں دیکھ چکا ہوں ، بس کافی ہوگئی، میں ہار گیا سمجھ لوتو اگر آپ میں یہ کہنے کی صلاحیت نہیں ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ کسی موقع پر میں نے اپنی ذات کی ہار قبول ہی نہیں کرنی تو آپ ایسے شخص سے پھر کبھی پیچھا نہیں چھڑا سکتے.ایک تلخ گھونٹ پینے کے لئے آپ کو تیار ہونا پڑے گا ایک موقع پر آپ کو یہ کہنا پڑے گا میاں تم جیت گئے ، میں ہار گیا.میرے پاس جواب نہیں ہے یعنی تمہاری ان کج بحثیوں کا جواب نہیں ہے.تم مجھے ہارا ہوا سمجھ لولیکن خدا کے لئے میرا پیچھا چھوڑو.اگر کوئی شخص یہ کہہ دے تو بعض دفعہ اس کی مخفی انانیت کہتی ہے کہ لو جی تم شکست کھا گئے.اپنے آپ کو تم نے نیچا دکھا دیا اور یہ روک اس سے پیچھا چھڑانے میں حائل ہو جاتی ہے.چنانچہ جن صاحبان کا میں ذکر کر رہا ہوں.ایک سے زائد ہیں جو میرے ذہن میں ہیں.بعض فوت ہوگئے بعض زندہ بھی ہیں ان کی یہ عادت ان کی تبلیغ کے مؤثر ہونے کی راہ میں ہمیشہ روک رہی اور وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے جواب دینا ضروری ہے اور اچھے جواب لے کر آتے تھے مگر جس نے قبول ہی نہیں کرنا اس کو اچھے یا برے جواب سے کوئی بحث ہی نہیں ہے اس نے بہر حال قبول نہیں کرنا.تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کوئی شخص چند خاص قسم کے لوگوں کے ساتھ مسلسل سر تو نہیں ٹکرا رہا.میں جب جرمنی گیا تو وہاں یہو اوٹنس والے بڑے سر گرم عمل دیکھے.افریقہ میں بھی آج کل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 939 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء بڑا کام کر رہے ہیں.بعض دوستوں سے جب کبھی ملاقات ہوئی اور تبلیغ کی بات ہوئی تو انہوں نے بتایا تھا کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں مگر کوئی اثر نہیں ہوتا.جب مزید پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہوا وٹنس والوں سے وہ اپنا سرکھپارہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو تمام عیسائیوں میں سب سے زیادہ متعصب اور Rigid ہیں.ان کی عقلی حالت ایسی ہے کہ ان کے اندر بدلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور ایک خاص قسم کا دماغ ہی ہے جو یہو اوٹس بنتے ہیں.یہو اوٹنس کے لئے جو صلاحیتیں چاہئیں ان میں دماغ کی کروکڈ منیس Crookedness ضروری ہے اور کچھ نظر کی تنگی ضروری ہے.اس کے بغیر اچھا یہوا ونٹس بن ہی نہیں سکتا تو وہ الا ماشاء اللہ بعض کہیں ایسے نکل آتے ہیں جو یہو اوٹنس بننے کے اہل نہیں ہوتے پھر بھی بن جاتے ہیں اور ایک احمدی ان کو ان ٹھوکروں سے بچا بھی لیتا ہے.مثلاً جاپان سے مجھے ایک خط ملا جس سے پتہ لگا کہ ایک یہوا وٹنس والا اتنا سعید فطرت تھا کہ چند باتوں میں ہی اس کا دل یہوداویٹس سے ہٹ کرا سلام کی طرف مائل ہو گیا لیکن وہ دور کی قومیں ہیں.ان کو عیسائیت کا اتنا زیادہ گہرائی سے علم نہیں اور گہرائی سے اتنا تعلق نہیں ہے مگر عیسائیوں میں بعض تبلیغی فرقے ایسے ہیں جو دماغ کی کمزوری اور صلاحیتوں کے منجمد ہونے کی وجہ سے مذہبی بنے ہوئے ہیں.مولویت کے لئے بے وقوفی کا ہونا ضروری ہے اور جہاں بے وقوفی ضد میں بدل جائے وہاں آپ جو چاہیں کریں آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تو ان کو میں نے سمجھایا.میں نے کہا تم کیوں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو اور اگر یہواونس والوں سے بات کرنی ہے تو کم سے کم پتہ تو کرو کہ ان کو کس طرح گلے سے اتارا جاسکتا ہے.یا وہ سیدھے ہوں یا تمہیں منہ دکھانے کے لائق نہ رہیں ان سے گفتگو کی طرز اور ہونی چاہئے.اس قسم کی ایک خاتون ایک دفعہ مجھ سے ملنے تشریف لائی تھیں.گفتگو کرنے لگیں.میں نے کہا تم مجھے پہلے بتاؤ کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم اور خدا کے تعلقات کیا ہیں.وہ واقعہ بیٹا ہیں.ہاں جی بالکل پکا بیٹا اس میں تو شک کا کوئی سوال ہی نہیں.میں نے کہا تو حضرت مریم پھر ماں ہوئیں.تو کہا کہ طبعی بات ہے ماں ہیں.خدا باپ ہے تو حضرت مریم پھر خدا کی بیوی کہلائیں ناں.اگر وہ نکاح نہیں ہوا تو پھر رشتہ جو ہے بڑا گندا رشتہ قائم ہوا اور ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے کوئی گندہ رشتہ قائم ہو اور اگر نکاح ہوا ہے یعنی آسمان پر ہی ہوا ہو ضروری نہیں کہ دنیا میں پڑھایا گیا ہو تو پھر منکوحہ بیوی بن گئی ہیں.اب مجھے اگلا مسئلہ یہ سمجھاؤ کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 940 خطبہ جمعہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء جب یوسف نجار سے شادی کی تو کیا خدا نے طلاق دی تھی یا دو خاوند کئے ہیں.ایک خاوند خدا تھا جس سے مسیح پیدا ہوئے اور ایک یوسف نجار تھا جس سے اور بہت سے بچے پیدا ہوئے تو یہ مسئلہ حل کرو.اب ایسے مسائل جو عقلی نقطہ نگاہ سے پیش کئے جائیں ان کا کوئی جواب نہیں ہے.آپ آزما کر دیکھ لیں ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے گفتگو کرنی چاہئے اس میں کوئی شک نہیں.دل آزاری کی خاطر نہیں سمجھانے کی خاطر یہ اشکال ان کے سامنے رکھے جاسکتے ہیں.ایک دو کے ساتھ آپ اس طرح کی عقلی دلائل سے گفتگو کریں تو آپ ان کو بلائیں گے بھی تو وہ آپ کے پاس نہیں آئیں گے.جہاں اس میدان میں وہ آپ کو کھینچ لائیں یعنی بائبل کے بعض ایسے بیانات جن کو نہ وہ خود سمجھتے ہیں نہ عام انسان کی استطاعت ہے، گہرے مضمون سے تعلق رکھتے ہیں.تو آپ جو چاہیں کریں آپ کبھی ان کی اصلاح نہیں کر سکیں گے اور ہمیشہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ابھی یہ ہمارا شکار ہے.تو اس لحاظ سے بھی تفصیلی چھان بین سیکرٹری تبلیغ کو اور اس کے ساتھیوں کو کرنی پڑے گی کہ جن لوگوں کو تبلیغ کر رہے ہیں وہ کون لوگ ہیں، ان کے رد عمل کیا ہیں.یہ زمین جیت رہے ہیں یا خودا بہام کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں.یہ بڑا وسیع مضمون ہے اور بڑے وسیع وقت کا تقاضا کرتا ہے.بہت سے ایسے تربیت یافتہ مددگاروں کی ضرورت ہے.بہت دعاؤں کی ضرورت ہے لیکن چونکہ اب وقت کافی زیادہ ہو چکا ہے میں نے گھڑی پر نظر ذرا دیر میں ڈالی ہے اس لئے اس مضمون کو میں یہاں ختم کرتا ہوں انشاء اللہ آئندہ خطبہ سے دوبارہ اس مضمون کو شروع کروں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں صرف سمجھنے کی توفیق نہ بخشے بلکہ جو ہم سمجھیں اس کو عمل میں ڈھالنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 941 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء مجلس عاملہ جرمنی کے اظہار ندامت پر معافی کا اعلان سیرت طیبہ کی روشنی میں دعوت الی اللہ کریں.سیکر ٹریان مال کی طرح کھاتے بنا ئیں.خطبه جمعه فرموده ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے ضمناً جرمنی میں ہونے والے اس واقعہ سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے متعلق مجھے ایک نصیحت کا خطبہ دینا پڑا اور سمجھانا پڑا کہ اس قسم کے واقعات ہیں جو نظام جماعت کو کمزور کر سکتے ہیں، خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور امارت کے وقار کو گہرا نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لئے ان کو سمجھیں غور کر کے ان سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ اپنے لائحہ عمل کے وقت ہمیشہ اپنی نگرانی کریں، اپنے معاملات میں ہمیشہ اپنی نگرانی کریں کہ اس قسم کی ٹھوکریں آپ نہ کھائیں.یہ مقصد تھا جس کی وجہ سے وہ خطبات دیئے گئے ذاتی طور پر کسی کو متہم کرنا اور ذاتی طور پر کسی کو ساری دنیا میں رسوا کرنا ہرگز مقصد نہیں تھا.نعوذ باللہ من ذالک.کیونکہ ایسا خیال ہی میرے لئے بہت مکروہ ہے لیکن چونکہ مثالیں حقیقی پیش کرنی تھیں اور یہ مجبوری تھی کہ بجائے اس کے کہ فرضی واقعات گھڑ کر جماعت کےسامنے نمونیۂ رکھتاعملاً جو واقعات گزرے ان کی مثال دینی تھی اس لئے بغیر نام لئے عہدوں کا ذکر کر کے یا بعض لوگوں کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 942 خطبہ جمعہ ۶/ دسمبر ۱۹۹۱ء یہ کہہ کر کہ بعضوں نے ایسا کیا ان کا عمومی ذکر کیا تھا اس سے جماعت کو یہ سمجھ جانا چاہئے تھا کہ انفرادی طور پر ان لوگوں کو حقارت کا تحقیر کا نشانہ نہ بنائیں اور طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا ئیں خود نصیحت پکڑیں لیکن ان کو ذلیل اور رسوا نہ سمجھیں.عموماً یہی رد عمل جماعت کی طرف سے ظاہر ہوا ہے لیکن بعض لوگ جو عہدوں کے متعلق جانتے تھے کہ یہ عہدہ کس کے سپرد ہے انہوں نے کچھ ضرورت سے زیادہ اسے ذاتی مسئلہ بنالیا اور مجھے جو خطوط ملنے شروع ہوئے ان میں بھی یہ رجحان تھا کہ بہت سختی اور نفرت کے ساتھ ہم نے ان واقعات کو اور اس طرز عمل کو ر ڈ کرتے ہیں.طرز عمل کو رڈ کرنا تو درست ہے لیکن جن اشخاص سے یہ باتیں رونما ہوئیں ان کے متعلق تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے.اللہ تعالی اس ابتلاء میں ہرشخص کو ڈال سکتا ہے، ہم میں سے ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمزوری ایسی ضرور ہے جس پر اگر خدا تعالیٰ کی ستاری کی چادر نہ رہے تو دنیا کے سامنے ہمارا جو وجود ظاہر ہو وہ قابل نفرت ٹھہرے، اس لئے ایسے موقع پر استغفار کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے علاوہ ستاری طلب کرنی چاہئے اور جولوگ ان واقعات میں ملوث ہوئے ان پر رحم کرنا چاہئے نہ کہ نفرت.ہاں جو معاملات قابل نفرت ہیں وہ قابل نفرت ہی ٹھہرتے ہیں.اس تفریق کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ اپنے معاملات میں پیش نظر رکھا اور جماعت کو بھی اسی کی نصیحت فرماتے رہے کہ بعض باتوں سے نفرت ضروری ہے مگر انسانوں سے نفرت نہ کرو ان پر رحم کرو، ان کی اصلاح کی کوشش کرو.اس تمہید کے بعد اب میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جرمنی کی مجلس عاملہ ہو یا اس سے باہر اگر کوئی لوگ اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک غلط رویہ اختیار کر کے ناراضگی کا موجب ٹھہرے تو انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی غیر معمولی پاک تبدیلی کا نمونہ بھی دکھایا ہے.تو بہ اور استغفار سے کام لیا اور کسی ایک کے متعلق بھی اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ دل کی گہرائی کے ساتھ میں اسے معاف نہیں کر چکا.کلیہ ان میں سے ہر ایک کے معاملات میں اب میرا دل صاف ہے.ایک دو ایسے مخلصین تھے جن کو ابھی تک بات پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی تھی اور میں خطبہ میں اس اعلان سے پہلے ان کو سمجھانے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ سمجھ جائیں تو پھر میں عمومی اعلان کرسکوں ورنہ یہ کہنا پڑتا کہ ایک دو کے سوا باقی سب ٹھیک ہو چکے ہیں.ٹھیک تو اللہ کے فضل سے وہ بھی تھے ہی دل کی گہرائی میں اخلاص
خطبات طاہر جلد ۱۰ 943 خطبہ جمعہ ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء تھا لیکن بعض لوگوں کی طبیعت میں کچھ بحث مباحثے کی عادت ہوتی ہے، کچھ نکات ان کو سمجھ نہیں آ رہے ہوتے ، ان پر تھوڑا سا وقت لگانا پڑتا ہے ان کو مختلف طریق پر سمجھانا پڑتا ہے.تو اب میں شرح صدر کے ساتھ یہ اعلان کر سکتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے ان میں سے ہر ایک نے اپنے قصور کو سمجھ لیا، اپنی غلطیوں کو خود پہچان لیا اور آئندہ کے لئے سچے دل اور اخلاص کے ساتھ تو بہ کرتے ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی تو بہ کو قبول فرمائے اور آئندہ ہمیشہ ان کو اس قسم کی ٹھوکروں سے بچائے.اس کے علاوہ ان کے لواحقین کے متعلق اور دوستوں کے متعلق میں یہ خوشنودی کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ بہت ہی عظیم الشان مثال قائم ہوئی ہے کہ جتنے بھی دوست میری ناراضگی کا مورد ٹھہرے تھے ان میں سے کسی ایک کے عزیز نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ جماعت کا ساتھ دیا اور خلافت کے ساتھ اپنی کامل وفاداری کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ عملاً اس کے نمونے دکھائے.ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی ان کے عزیز پھیلے پڑے ہیں ان میں ایک بھی استثناء نہیں بلکہ ہر ایک نے کھلے لفظوں میں واشگاف الفاظ میں مجھ پر اس بات کا اظہار کیا اور اپنی جماعت میں اپنے رویہ سے اس بات کو ثابت کیا کہ ہمارے بڑوں یا عزیزوں یا اقرباء کی غلطیاں تھیں، اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے.جو کارروائی کی گئی وہ سو فیصدی درست تھی اور ہم اس معاملے میں کامل طور پر خلافت سے وابستہ اور وفادار ہیں اور نظام جماعت سے وابستہ اور وفادار ہیں.پس یہ واقعہ اپنی ذات میں مکروہ سہی لیکن خدا تعالی بعض دفعہ مکروہ باتوں میں سے حسن کی باتیں نکال دیتا ہے اور مکروہ چیزوں سے خیر کے پہلو نکال دیتا ہے.تو یہ بھی جماعت کی تاریخ میں ایک اہم قابل ذکر واقعہ ہے کہ کسی پر یا کسی خاندان پر نہیں بلکہ بعض خاندانوں پر ابتلاء کا وقت آیا ہو اور ان تمام خاندانوں کے ہر فرد نے ثابت قدمی دکھائی ہو جن کو سزا دی گئی وہ بھی ثابت قدم ٹھہریں، ان کے تمام رشتہ دار ثابت قدم ٹھہرے اور کسی نے بھی ادنیٰ سی ٹھوکر کھا کر اپنے آپ کو داغدار نہیں کیا.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس کو ریکارڈ ہونا چاہئے تا کہ خطبے میں پہلے جو ان لوگوں کے متعلق کچھ تکلیف دہ باتیں جماعت کی تاریخ میں درج ہوگئی ہیں ان کا ازالہ بھی جماعت کی تاریخ میں درج ہو جائے جیسا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے زمانہ میں بعض صحابہ سے غلطیاں ہوئیں ان میں سے تین ایسے تھے جو عظیم کردار کے مالک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 944 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء تھے.بہانہ بنا کر یا بات کو توڑ مروڑ کے وہ وقتی طور پر آنحضور ﷺ کی ناراضگی سے بچ سکتے تھے مگر انہوں نے سچائی کو قربان نہیں کیا، صاف گوئی سے کام لیا اور اس ناراضگی کو قبول کر لیا جس کے بعد ان کی زندگی ایک لمبے عرصے تک جہنم کا نمونہ بنی رہی.یعنی اذیت کے لحاظ سے جہنم کا نمونہ ویسے تو ان کے لئے ایک روحانی جنت تیار کرنے والی زندگی تھی.اس پر آنحضرت ﷺ نے انتظار فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کب ان کی بخشش کا اعلان ہوتا ہے اور اس انتظار فرمانے میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی.ایک سے زائد حکمتیں پوشیدہ تھیں مگر ایک خصوصیت کے ساتھ ایسی حکمت ہے جس کا میں جماعت کے سامنے ذکر کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ آنحضرت ﷺ اس عرصے میں خودان کے لئے بے حد دکھ محسوس کر رہے تھے اور بار بار کن اکھیوں سے ان لوگوں کو دیکھتے بھی تھے اور ان آ نکھوں میں کبھی بھی ان لوگوں نے نفرت نہیں دیکھی جن کے لئے سزا کا اعلان تھا بلکہ ہمیشہ محبت دیکھی.حضرت کعب روایت کرتے ہیں کہ میں تو ان آنکھوں کے سہارے زندہ تھا جو کبھی کبھی میری طرف اٹھتی تھیں.جب بھی میں نے ان کو دیکھا ان میں میں نے محبت دیکھی کبھی ایک دن بھی نفرت نہیں دیکھی اور وہی محبت کے صدقے تھے جو میری زندگی کا سہارا بنے ہوئے تھے.(بخاری) تو آنحضرت کا ایک عظیم کردار اس دور میں ظاہر ہوا کہ آپ فیصلے اپنے ذاتی خیالات اور رجحانات کی بناء پر نہیں کرتے بلکہ کلیۂ رضاء باری تعالیٰ کی خاطر کرتے ہیں ورنہ اتنی دیر خود کیوں اذیت محسوس کرتے رہے اور کیوں ان کو اس سے پہلے معاف نہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہو.صلى الله دوسرا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی معافی کے نتیجے میں ان لوگوں کی ہمیشہ کے لئے ایسی بریت نہیں ہو سکتی تھی جیسا کہ وحی الہی کے نتیجے میں ان کی بریت ہوئی کیونکہ آنحضرت ﷺ کی ناراضگی ایک عام آدمی کی ناراضگی نہیں تھی ، عام بزرگوں والی ناراضگی بھی نہیں تھی ، خلفاء والی ناراضگی بھی نہیں تھی.آپ خلیفتہ اللہ تھے اور آپ کی ناراضگی اس شخص کے لئے جس سے آپ ناراض ہوں دنیا اور آخرت کی ہمیشہ کے لئے ہلاکت کا موجب بن سکتی تھی.اللہ تعالیٰ کی دلوں پر نظر ہے اور انبیاء کی بھی براہ راست اس طرح دلوں پر نہیں ہوتی جیسے خدا تعالیٰ کی نظر ہوتی ہے.انبیاء کی فراست عام انسانوں کی فراست سے بہت زیادہ روشن اور لطیف ہوتی ہے اس کے باوجود وہ دلوں کا کلیۂ حال نہیں جانتے.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان کا انتظار فرمانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ ان کی ایسی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 945 خطبہ جمعہ ۶/ دسمبر ۱۹۹۱ء کامل بریت چاہتے تھے کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ان لوگوں کا نام عزت اور رحمت کے ساتھ یاد کیا جائے بجائے اس کے کہ ایک ایسے داغ دار شخص کے طور پر ، ایسے داغ دار اشخاص کے طور پر جن کے اوپر داغ تو سچا لگا لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ کامل طور پر دھل گیا تھا کہ نہیں.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آنحضرت سے نے گنہگار سمجھتے ہوئے بھی اپنی رحمت اور مغفرت کے جذبے سے ان کو معاف کیا ہے یا اس گناہ کے داغ کو دھو ڈالا ہے یا کالعدم سمجھا ہے.جب خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی تو اس میں یہ شاہجے باقی نہیں تھے.ان شائبوں کا کوئی امکان بھی نہیں تھا.خدا تعالیٰ نے دلوں پر نظر رکھی اور یہ اعلان فرما دیا ہمیشہ کے لئے کہ ان کو معاف کیا جاتا ہے ان کے دل صاف ہو گئے ہیں.التائب من الذنب كمن لا ذنب له والي ہ شخص جو گناہ سے سچی توبہ کرتا ہے اس کے متعلق ارشاد ہے کہ وہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے بھی گناہ نہ کیا ہو.پس اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی بخشش بعض دفعہ خدا تعالیٰ کی بخشش کے لئے ایک دعا بن جایا کرتی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ عرصہ جو آنحضرت نے اس تکلیف میں گزارہ ہے کہ دل چاہتا تھا کہ معاف فرما دیں لیکن خدا پر معاملہ چھوڑ چکے تھے اور وہ عرصہ مسلسل ان لوگوں کے لئے دعا بنارہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا اور تاریخی لحاظ سے وہ ہمیشہ کی زندگی پاگئے.اس سلسلے میں ان کے اپنے دل کی بھی یہی کیفیت تھی.الله چنانچہ حضرت کعب روایت کرتے ہیں کہ جب مجھے پتا چلا تو لوگ آنحضرت ﷺ سے صبح کے نماز کے وقت معافی کی خبر سن کر ان کی طرف دوڑے جارہے تھے کہ ان کو اطلاع کریں لیکن کسی بلند آواز والے نے زیادہ حکمت اور ہوشیاری سے کام لیا.ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر اس نے بلند آواز سے یہ کہنا شروع کیا کہ اے فلاں اور فلاں اور اے فلاں اور فلاں خدا کے رسول نے تمہاری معافی کا اعلان کر دیا ہے.کہتے ہیں یہ ایسی عظیم آواز تھی کہ کبھی زندگی میں پھر کسی اور آواز نے ایسا دل پر اثر نہیں کیا.پیشتر اس سے پیامبر پہنچتے یہ دوڑے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے اور حاضر ہو کر یہ سوال کیا ہے کہ یا رسول اللہ ! آپ نے معاف کیا ہے یا خدا نے معاف کیا ہے؟ آپ کی طرف سے ہماری بخشش ہوئی ہے یا اللہ کی وحی نازل ہوئی ہے.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی وحی نازل ہوئی ہے، خدا کی طرف سے معافی ہوئی ہے.کہتے ہیں اس وقت میرا دل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 946 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء ایسا راضی ہوا جیسے کبھی کوئی دکھ محسوس نہ کیا ہو تو اس خاموشی اور اس دیر میں یہ بھی ایک حکمت تھی.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی براہ راست معافی کا تعلق ہے یہ واقعات شاذ و نادر کے طور پر تاریخی نمونے کے طور پر مثالوں کے طور پر ہوا کرتے ہیں روز مرہ کی زندگی میں ایسے نہیں ہوتے بلکہ انبیاء کی صلى الله زندگی میں بھی میں نے سوائے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے دور کے کسی اور نبی کے دور میں ایسا واقعہ نہیں پڑھا کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو یا خدا تعالیٰ کے رسول نے کسی کو سزا دی ہو اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست پھر اس کو معاف فرمایا ہو.یہ واقعات بریت اور معافی کے دوہی ہیں جو صرف حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے دور میں ظاہر ہوئے.بریت کے معاملے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی بریت وحی کے ذریعے ہوئی اور وہاں بھی انتظار کی حکمت یہی تھی جو میں بیان کر رہا ہوں اور معافی کے سلسلے میں بھی حضرت کعب اور ان کے ساتھیوں کی معافی وحی کے ذریعے ہوئی اور کسی نبی کے زمانے میں یہ واقعہ نہیں گزرا لیکن اس میں جو سبق ملتا ہے وہ سبق دہرایا جاسکتا ہے.پہلے بھی تاریخ اس سبق کو دہراتی رہی آئندہ بھی دہراتی رہے گی کہ اگر کوئی شخص اللہ ناراض ہو اور شرح صدر کا انتظار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس عرصے میں دعا کرتا رہے تو بعید نہیں کہ جب اس کا دل معافی پر راضی ہو تو وہ خدا کی طرف سے ہی معافی ہو اور ضروری نہیں کہ وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس معافی کا اعلان کرے مگر بسا اوقات شرح صدر کے ذریعے اور دل کو نرم اور ملائم کر کے اپنی طرف سے معافی کا اعلان فرما دیتا ہے.بس ہم دعا کرتے ہیں کہ آئندہ بھی جماعت کو اللہ تعالیٰ ان ٹھوکروں سے محفوظ رکھے اور اگر خدانخواستہ کوئی شخص ٹھو کر کھائے وہ بھی ایسے ہی نیک نمونے دکھائے اور جب اسے معافی ملے تو خدا کی طرف سے معافی ملے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل صاف اور پاک کئے جائیں.اس لمبے اعلان کے بعد جو جرمنی کے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے اب میں واپس اس مضمون کی طرف لوٹتا ہوں یعنی دعوت الی اللہ کا مضمون جس کے متعلق خطبات کا ایک سلسلہ شروع ہے.میں ذکر کر رہا تھا کہ ایک داعی الی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی کی ذات میں دلچسپی لے اور ذات میں دلچسپی لینا ایک تو انفرادی طور پر ہر شخص کے متعلق کوئی بھلائی کی بات سوچنا جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کوئی ایسی تعریف کر دینا جو واقعہ اس شخص میں پائی جاتی ہو ایک یہ بھی ذریعہ ہے ذاتی تعلقات قائم کرنے کا اور کسی کی ذات میں دلچسپی لینے کا مگر ایک ذات میں دلچسپی لینے کا رجحان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 947 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء ہوا کرتا ہے اور وہ رجحان خدا دا در جحان ہوتا ہے لیکن اسے مزید صیقل کیا جاتا ہے اور مزید ترقی دی جاتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ میں یہ خدا داد رجحان اپنے درجہ کمال کو پہنچ گیا تھا.اسی لئے آنحضور ﷺ کو رحمۃ للعالمین فرمایا گیا.رحمة اللعرب، رحمة اللـعـجـم يـا رحمة اللمسلمین نہیں فرمایا بلکہ رحمۃ اللعالمین.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہر ایک میں دلچسپی تھی اور رحمت کے ساتھ دلچسپی تھی.ہر شخص کی بھلائی کے متعلق آپ کے جذبات قطعی طور پر اٹھتے تھے اور اس میں کسی کوشش یا ارادے کو دخل نہیں ہوا کرتا تھا از خود ہر ایک سے رحمت کے سلوک کو جی چاہتا تھا اور یہ مثال ہمیں انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ ماں اور بچوں کے رشتے میں دکھائی دیتی ہے.قرآن کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی کہ اگر تم میں سچا ایمان ہے تو ایمان کی اصل علامت یہ ہے کہ تمہیں خدا اور رسول سے اپنے ہر عزیز اور قریبی سے زیادہ محبت ہو اور زیادہ دلی تعلق قائم ہو جائے.اگر یہ نہیں تو تمہیں پھر ایمان کا پتا نہیں کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے مجھے رحمۃ للعالمین کا حقیقی مفہوم سمجھ آیا.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہرگز جبراً کسی کو یہ نہیں فرما سکتا کہ تم فلاں شخص سے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ محبت کرو.یہ بالکل بے دلیل بات ہے اور غیر فطری بات ہے لیکن اگر خدا کے علم میں ہو کہ وہ شخص کسی سے اپنے عزیزوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے اور جتنی اس سے قریب تر لوگ اس سے محبت کرتے ہیں ان سے بڑھ کر ان سے محبت کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک غیر معمولی شفقت کا سلوک ہوگا کہ اس شخص سے متعلقہ کو بتا دے کہ دیکھو یہ تم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ تمہارے قریب ترین عزیز اور اقرباء اور ماں اور باپ اور دوسرے رشتہ دار ویسی محبت تم سے نہیں کرتے.اس لئے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: ۶۱) یہ دائی قانون ہے جو یہاں بھی اطلاق پانا چاہئے اور تم میں بھی جوابا اس وجود سے ویسی ہی محبت کرنی چاہئے جیسی یہ تم سے محبت کرتا ہے.یہ سارا مضمون اس مضمون کے اندر داخل ہے، اس ہدایت کے اندر داخل ہے کہ اگر تم خدا اور رسول سے اپنے ماں باپ اور اقرباء سے بڑھ کر محبت نہیں کرتے تو تمہیں ایمان کا علم ہی کوئی نہیں کہ ایمان ہوتا کیا ہے.دراصل یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے دل کی رحمت کی گواہی تھی اور رحمۃ العالمین کا لفظ اس پہلو سے ایک حیرت انگیز لقب ہے اور ایسا بے مثل لقب ہے کہ دنیا کے کسی مذہب کے بانی کسی نبی کسی ولی کسی بزرگ کے متعلق آپ کی اپنی کتابوں میں بھی یہ الله
خطبات طاہر جلد ۱۰ 948 خطبہ جمعہ ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء لقب درج نہیں پائیں گے.یہ ایک عجیب شان ہے حضرت رسول اللہ ﷺ کی کہ اس شان میں خدا کا کوئی دوسرا نبی کسی علاقے کا کسی قوم کا کسی زمانے کا شریک نہیں ہے اور یہ وہ شان ہے جو تبلیغ کے لئے بڑی ضروری ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ کے سپر د عالمی ذمہ داریاں کی گئیں.آپ سارے عالم کے لئے گہری کچی رحمت اپنے دل میں رکھتے تھے.ایسی گہری اور کچی رحمت جس سے بسا اوقات ماؤں کے دل بھی نا آشنا ہوتے ہیں اور ہر ماں سے بڑھ کر بنی نوع انسان سے خدا تعالیٰ کی مخلوق سے آپ محبت کرنے والے تھے اور تبلیغ کے لئے یہ دلچسپی ہے جو دراصل کام آتی ہے.مصنوعی دلچسپی کے ذریعے بھی ہیں اور ایک کوشش کرنے والے کو وہ بھی اختیار کرنے چاہئیں لیکن اگر وہ بچے ہوں.جیسا کہ میں نے مثال دی یہ ایک مصنوعی طریق ہے کہ کسی شخص کی خوبی معلوم کرو، اس کی تعریف کرو لیکن وہ سچی ہو.یہ کوئی طبعی طریق نہیں ہے، طبعی طریق وہی ہے کہ انسان رحمت ہو جائے.ہر دوسرے انسان میں فطرتا اور قطعاً اس کے دل میں نرمی پائی جائے، شفقت پائی جائے، پیار کا جذبہ پایا جائے ، اس کی بھلائی پر متلاشی رہے.جہاں کسی کو دکھی دیکھے، اس کا دکھ محسوس کرے اور اپنا دکھ مٹانے کی خاطر اس کی مدد کرے.یہ وہ حقیقت ہے نفسیاتی جس کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں.کسی کا دکھ سمجھ کر اس کی مدد کرنا ، بڑا مشکل کام ہے اور اسی لئے لوگ ایسے مشکل کام پر یا ہاتھ نہیں ڈالتے یا ہاتھ ڈالتے ہیں تو کامیاب نہیں ہوتے ہیں.یہ اتنا بڑا بوجھ ہے جسے انسان برداشت نہیں کر سکتا.غالب کہتا ہے: کون ہے جو نہیں حاجت مند کی حاجت روا کرے کوئی (دیوان غالب:..) اگر کوشش کر کے ، جدوجہد کر کے عقل کو استعمال کر کے انسان لوگوں کے دکھ بٹانے کی کوشش کرے اور ان کی حاجت روائی کی کوشش کرے تو ایسا کام ہے جو انسان کے بس میں نہیں ہے بہت ہی مشکل ہے لیکن اگر فطرتا لوگوں کا دکھ اس کا دکھ خود بخود بن جایا کرے، لوگوں کے غم اس کے غم ہو جایا کریں، لوگوں کی تکلیفیں اس کی تکلیفیں بن جائیں تو اپنی تکلیف دور کرنے کی کون کوشش نہیں کرتا.اپنے غم دور کرنے کی کون کوشش نہیں کرتا؟ وہ تو ایک فطری تقاضا ہے اس کوشش میں لذت ہے، اس کوشش میں بوجھ نہیں ہوتا.پس ایسے لوگ جو فطرتاً دوسروں کے ہو جاتے ہیں اور طبعا ان کے دکھوں کو اپنا لیتے ہیں اگر چہ آپ بیرونی آنکھ سے دیکھیں تو ان کو بہت زیادہ بوجھوں کے تلے دبا ہوا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 949 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء محسوس کریں گے گویا وہ کچلے جارہے ہیں.اب حیرت سے انسان دیکھتا ہے کہ کیسے انہوں نے ایسے ایسے مشکل کام سنبھال لئے ، کیسے اتنے بڑے بڑے بوجھ انہوں نے اٹھا لئے مگر وہ نہیں جانتے کہ راز اس میں یہی ہے کہ وہ بوجھ ان کے ہوتے ہیں، ان کے اپنے بن جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے اندر جو بوجھ اٹھانے کی صلاحیت موجود تھی اس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے.اِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ اَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًان ( الاحزاب :۷۳) کہ دیکھو ہم نے ایک بہت بڑا بوجھ شریعت کا بوجھ ، ساری بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی اور ان کو سنبھالنے کا بوجھ ، ان کے لئے ابدی نمونہ قائم کرنے کا بوجھ ، ان کے دکھ بانٹنے کا بوجھ، زمین، آسمان اور پہاڑوں کے سامنے رکھے کہ کون ہے جوان بوجھوں کو اٹھانے کے لئے آگے آتا ہے مگر ہر ایک نے انکار کر دیا.اور یہ سارے ان بوجھوں کے تصور سے ڈر گئے اور خوفزدہ ہو گئے.وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ کون آگے آیا؟ محمد مصطفی ہے.یہ انسان کامل تھا جو ان بوجھوں کو خوب شناخت کرنے کے بعد ان کو سمجھنے اور ان کی حقیقت سے آشنا ہونے کے بعد آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھا اور ان بوجھوں کو اٹھا لیا.کیوں ایسا ہوا؟ اِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا اس لئے کہ وہ اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والا تھا.اور اپنے نفس پر ظلموں کے نتیجے میں وہ جھول بھی تھا یعنی اس کو پھر کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کیا مجھ پر گزر جاتی ہے.یہاں اس نفس کے ظلم کی بات ہو رہی ہے یہ وہی ظلم ہے جس کا میں رحمت کے سلسلے میں تعارف کروارہا ہوں.جب انسان دوسروں کے غموں کو اپنا غم بنا لیتا ہے اور قطعاً بناتا ہے تو وہ سارے ظلم جو دنیا پر ہورہے ہیں اپنی جان پر کر رہا ہوتا ہے.اسی کا نام ظَلُومًا ہے.دوسروں پر ظلم کرنے والا نہیں بلکہ دوسروں کے ظلم خود پر جھیل لینے والا.جو ظلم ساری دنیا کی طرف سے بعض مظلوموں پر توڑے جاتے ہیں ان ظلموں کا نشانہ اپنے وجود کو بنا لینے والا ، اپنے دل کو بنالینے والا یہ وہ ظَلُومًا ہے اور اس کے لئے چارہ ہی کوئی نہیں سوائے اس کے کہ آگے بڑھے اور ساری دنیا کے بوجھ اٹھائے کیونکہ وہ بوجھ پہلے ہی اس کا دل اٹھا چکا ہے.تو شریعت کے مفہوم کے سوا بھی اس کے معنے ہیں.شریعت کا بوجھ اٹھانا اپنے اندر ایک بڑا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 950 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء مضمون رکھتا ہے لیکن ظلوم کے لفظ سے پتا چلا کہ آنحضرت ﷺے دل کی شفقت اور رافت کے لحاظ سے ایک ایسے درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے جہاں بہت کم انسانوں کی نظر پہنچتی ہے اور طبعاً اور فطرتاً آپ لوگوں پر ہونے والے ظلموں اور ستموں اور دکھوں کو از خود اپنالیا کرتے تھے اور اسی لئے آپ ان کے لئے غمزدہ رہتے تھے.پس یہ وہ جذبہ ہے جو مبلغ کے لئے ضروری ہے اور کامیاب دعوت الی اللہ کے لئے لازم ہے کہ انسان اس قسم کا طرز عمل اختیار کرے.پس طبعا اور فطرتا میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو خدا نے جذبہ دیا ہوا ہے لیکن یہ جذبہ بعضوں میں چمک جاتا ہے بعضوں میں چمکتا نہیں اور اگر اس جذبے کے تقاضوں کو آپ نظر انداز کرتے رہیں تو رفتہ رفتہ دل پتھر بنے لگتا ہے اور بعض دفعہ ایسے لوگ پھر پہچانے بھی نہیں جاتے.آدمی یقین ہی نہیں کر سکتا کہ یہ وہ شخص ہے جس کو فطرتنا اللہ تعالیٰ نے رحمت اور رافت عطا فرمائی تھی کیونکہ بداعمالیوں کی وجہ سے بار بار جرائم کی وجہ سے دلوں پر زنگ لگنے لگ جاتے ہیں اور فطرت کی سچائی دنیا کے گردو غبار سے اٹ جاتی ہے.پھر آہستہ آہستہ وہ گردو غبار کی تہیں جم جم کر سخت ہونے لگتی ہیں جس کو پنجابی میں کھرنڈ کہتے ہیں.ایسے کھرنڈ آنے شروع ہو جاتے ہیں ان کے اوپر یعنی تمہیں جو آہستہ آہستہ سخت ہو جاتی ہیں، پھر وہ منجمد ہو جاتی ہیں، پھر وہ Fossilize ہو جاتی ہیں، پتھر سی بن جاتی ہیں.انسان کی تھوڑی سی زندگی میں یہ سارے ادوار گزر جاتے ہیں اور بعض دفعہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بنی نوع انسان میں یہ جذبہ ہی نہیں ہے حالانکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اس لحاظ سے کوئی استثنائی چیز نہیں ملی تھی کہ آپ کو تو رحمت والا دل دے دیا اور سارے لوگوں کو بنی نوع انسان کو پتھر دل عطا کر دئیے یہ درست نہیں ہے.اگر یہ بات ہوتی تو آنحضور ﷺ کا کوئی امتیاز نہ باقی رہتا.پھر ہم یہ کہتے کہ خدا نے آپ کو تو دے دیا تھا نرم دل باقی لوگوں کو نہیں دیا اب اس میں لوگوں کا کیا قصور اور آپ کا کیا شرف؟ سب کو دل اپنی کیفیت کے لحاظ سے پیدائشی طور پر ایک ہی جیسے دل ملتے ہیں.بعض لوگ ان دلوں کی خوبیوں کو چپکاتے ہیں، بعض ان خوبیوں پر مٹی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ خوبیاں مٹ جاتی ہیں اور غلط قسم کے پتھر دل جیسے نمودار ہو جاتے ہیں.پس جماعت احمدیہ کو اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 951 خطبہ جمعہ ۶ /دسمبر ۱۹۹۱ء صلاحیت ضرور بخشی ہے کہ لوگوں کے غموں کو اپنا لیں.ماں بچے کے غم کو کیوں اپناتی ہے اگر اس کے اندر یہ صلاحیت نہ ہوتی.باپ اپنی اولاد کے غم کو یعنی وہ باپ جو نرم دل رکھتے ہیں اپنی اولاد کے غم کو کیوں اپناتے ہیں؟ بعض بہن بھائی ایک دوسرے کے غم کو اتنا محسوس کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ کتنا گہرا قرب کا رشتہ ہے.تو جب انسانی رشتوں میں یہ مثال سامنے آتی ہے تو صاف پتا چلتا ہے کہ ہر انسان کو فطرتا یہ صلاحیت ضرور عطا کی گئی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ رشتوں کے دائرے بڑھانے کی ضرورت ہے.خونی رشتوں سے بڑھ کر باہر نکل کر انسانوں کے ساتھ تعلقات کو قائم کرنے اور اس سلسلے میں اپنے نفس کو تربیت دینے کی ضرورت ہے.اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ انسان کی دبی ہوئی صلاحیتیں پھرا جا گر ہونے لگتی ہیں اور جو چیز فطر تا عطا ہوئی ہے لیکن غفلت کی وجہ سے وہ مٹ سی گئی ہے اس کے نقوش پھر خدا کے فضل ابھرنے لگتے ہیں اور انسان کے اندر رحمت کا جذبہ بڑھتا رہتا ہے.ایسا شخص جو اس رحمت کے جذبے کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ سخت دل ہونے لگ جاتا ہے.یہاں تک کہ ایسے سفاک لوگ بھی دیکھے جاتے ہیں جو اپنے بچوں پر ظلم کرتے ہیں ، اپنی بیویوں کو نفرت کا نشانہ بناتے ہیں، اپنے گھر میں ایک جہنم بنا دیتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ گھر رحمت اور تسکین کا موجب بنے ان گھروں میں ہر سینے میں آگ بھڑک رہی ہوتی ہے اور ایسے بعض بد نصیب لوگ احمد یوں میں بھی ابھی تک موجود ہیں.بعض بچے مجھے خط لکھتے ہیں بڑے دردناک کہ ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں جائیں، کیا کریں؟ جو ماں کے ساتھ ہم نے بچپن سے ظلم ہوتے دیکھے اور پھر بڑے ہو کر ہماری طرف ان ظلموں کے رخ پھیرے گئے ، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ باپ ہوتا کیا ہے اور وہ کیسے باپ ہیں جو بچوں سے پیار کرتے ہیں، اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرتے ہیں؟ شاذ شاذ خط اس مضمون کے بھی آتے ہیں اور میں حیران رہ جاتا ہوں کہ اس احمدیت کا کیا فائدہ جس احمدیت کے نتیجے میں ایک انسان انسان ہی نہ بن سکے.اس کو وہم ہے کہ اس نے وقت کے مامور کو پہچانا اور قبول کیا کیونکہ جو شخص وقت کے مامور کو پہچانے اور قبول کرے اس کے اندر اتنی پاک تبدیلیاں لازما ہونی چاہئیں کہ وہ جانوروں سے انسان بننا شروع ہو جائے اور رفتہ رفتہ اس کے اخلاق ترقی کریں.اگر یہ نہیں ہے تو پھر روحانیت کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.روحانیت کا مضمون تو بہت بعد کا مضمون ہے.یہ لطیف فضاؤں کا مضمون ہے.جو شخص زمین کی سطح پر بھی چلنا نہیں جانتا بلکہ ھنس رہا ہے بیچ میں اس کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 952 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء یہ خیال کر لینا کہ یہ روحانی پرندہ بن کر آسمان روحانیت پر پروازیں کرے گا یہ تو بالکل پاگلوں اور جاہلوں والی باتیں ہیں اس لئے حقیقت شناس بنیں.ایسے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھا ئیں اگر شروع میں صبر نہیں تو جبراً ان اخلاق کو اختیار کریں کہ رفتہ رفتہ آپ کے اندر وہ صلاحیتیں بیدار ہو جائیں جن صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فر مارکھا ہے.آپ کو عطا فرمائی ہوئی ہیں اور ہر شخص کو عطا فرمائی ہوئی ہیں.سفر کے رُخ کی بات ہے.اگر آپ نرمی اور رحمت اور شفقت کی سمت میں سفر اختیار کرنا شروع کریں گے تو رفتہ رفتہ یہ سفر آگے بڑھتا چلا جائے گا اور آپ کے اندر حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا کرتا چلا جائے گا.آپ اپنوں کے بھی منظور نظر ہوتے چلے جائیں گے، غیروں کے بھی منظور نظر ہوتے چلے جائیں گے.غیر آپ کو دیکھیں گے تو جان لیں گے کہ آپ کو ان میں دلچسپی ہے.اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ ان کی ذات کی خاطر اور جہاں تک آپ کے دل کی کیفیت ہو گی آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ آپ کسی پہ احسان کر رہے ہیں بلکہ آپ جانتے ہوں گے کہ آپ پر اپنی ذات پر یہ احسان ہے.ماحول کا دکھ آپ کا دکھ ہے.آپ کو چین نصیب ہی نہیں ہوسکتا اگر کوئی اور دکھ میں مبتلا ہے.تو عجیب یہ رشتہ قائم ہوتا ہے جو مذہبی تعلیم کے سوا انسانی تصور سے بالا ہے.یہ نہایت اعلیٰ درجے کی پاک تعلیم ہے جو قرآن کریم میں ملتی ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ کی صورت میں ہم پر ظاہر ہوئی ہے اور ہمارے دل و دماغ کو اس نے روشن کر دیا ہے.نئے زاویوں سے ہمیں انسانیت کی تعلیم دی اور نئے زاویوں سے ہمیں انسانی خلق کو دیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی.پس یہ رخ اختیار کریں یعنی اپنی خدا داد صلاحیتوں کو چمکانے اور میقل کرنے اور لطیف تر بنانے کا رخ اختیار کریں تو رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کو وہ مقام عطا ہو جائے گا جس کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ جہاں دنیا آپ کو اس طرح دیکھے گی کہ آپ ان کے محسن اعظم ہیں اور آپ اس طرح دنیا کی طرف دیکھیں گے کہ گویا آپ نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ جو بھی احسان کر رہے ہیں اپنی ذات پر کر رہے ہیں اور اگر کوئی جزا ہل رہی ہے تو خدا کی طرف سے تحسین کی نظروں کی صورت میں مل رہی ہے.یہ وہ اعلیٰ درجے کا مرتبہ ہے جس کے نتیجے میں ایک داعی الی اللہ کی آواز میں غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے، غیر معمولی کشش پیدا ہو جاتی ہے.ایسا شخص تھوڑی باتیں بھی کرے اس کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 953 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء زیادہ پاک اثرات ظاہر ہوتے ہیں ورنہ ان خصلتوں کے بغیر انسان جتنی مرضی چالاکیوں سے کام لے، جیسی چاہے تقریریں کرے اس کو ہدایت دینے کی توفیق نہیں مل سکتی.پس اس مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں من يهد الله فلا مضلله اصل ہدایت خدا کی طرف سے آتی ہے اور اس مضمون کا اس آیت سے بڑا گہرا تعلق ہے.اللہ جس کو ہدایت دیتا ہے اس کو کس طرح ہدایت دیتا ہے؟ آنحضرت ﷺ کو جیسے ہدایت دی اور دوسروں کی ہدایت کا موجب بنا دیا.جو طریق آپ نے اختیار کئے ان طریقوں کو اختیار کرنے کے نتیجے میں آپ کو ہدایت دینے کی صلاحیتیں عطا ہو گئیں.پس وہ ہدایت خدا ہی کی طرف سے تھی لیکن جو حضرت محمد رسول اللہ لہ کے قرب کی سعادت پا گیا آپ کے ذریعے خدا نے اس کو ہدایت دی لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیشہ یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے و من يضلله فلا هادى له اگر اللہ کسی کو رسوا اور گمراہ کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت کا بہترین طریق یہی ہے کہ انسان خود ہدایت یافتہ ہو.اللہ تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کرے، اللہ تعالیٰ سے فیض خیر حاصل کرے، اخلاق فاضلہ کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہولیکن اس کے با وجود بعض بد نصیب ایسے ضرور ہوں گے جن میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی کیونکہ وہ خدا کے بتائے ہوئے طریقوں سے اتنا دور بٹ چکے ہوتے ہیں کہ ان کے اندر ہدایت قبول کرنے کا مادہ ہی باقی نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو سمجھاتے ہوئے فرمایا ہے.یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھے ہو جاتے ہیں لوگ مراد یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مارتے رہتے ہیں جہاں ان کے مقابلے پر نیک لوگ اپنی صلاحیتوں کوترقی دیتے چلے جاتے ہیں.ان پر وہی مضمون صادق آتا ہے.وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا ( التمس : ۱۱).کہ وہ شخص ہلاک ہو گیا، نامراد ہوا جس نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو دفنانا شروع کر دیا اور زمین میں گاڑنے لگ گیا بجائے اس کے کہ نشو ونما دیتا اور ترقی دیتا یہاں تک کہ ان کی آنکھوں کا نور جاتا رہا مثلاً وہ دیکھنے سے عاری ہو گیا.فرمایا ایسی صورت میں جب ایک انسان دیکھنے سے عاری ہو جائے تو ایک سورج چھوڑ ہزار سورج چمکا کریں اس نابینا کو کچھ دکھائی نہیں دے گا.پس ہدایت دوطرفہ مضمون ہے لیکن جہاں تک آپ کی بات کا تعلق ہے آپ کو چمکنا تو چاہئے.اگر آپ نہیں چمکیں گے تو مضمون ایک اور رنگ میں ظاہر ہوگا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 954 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں تو ہیں لیکن نور ہی نہیں چکا تو وہ بیچارے کیا کرتے.پس جہاں تک ایک احمدی کی ذات کا تعلق ہے اسے ضرور چمکنا چاہئے ، اسے ضرور روشن ہونا چاہئے.اسے ایسا بنا چاہئے کہ اگر کوئی آنکھ رکھتا ہو تو پھر کم سے کم وہ آنکھ والا ضرور ہدایت پاسکے اور پھر خدا سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیدہ ور عطا کر ایسے روشن ضمیر انسان عطا کر جو اس روشنی سے فائدہ اٹھائیں جو تو نے ہمیں عطا فرمائی ہے.پس اس رنگ میں تمام عہدیداران کو چاہئے کہ اپنے نفس کا بھی محاسبہ کریں اور اپنے نور ہدایت کو چمکائیں اور جو داعین الی اللہ ہیں ان پر نظر رکھیں.بعض دفعہ ان کو خود اپنے بعض نقائص نظر نہیں آئیں گے، بعض بد خلقیاں ان کی اپنی نظر سے اوجھل رہیں گی لیکن اگر دعوت الی اللہ کا سیکرٹری بیدار مغز ہو اور ان باتوں کو سمجھ کر جو میں بیان کر رہا ہوں دائین الی اللہ کی تربیت کا پروگرام بنا ئیں تو اسے مزید دلچسپی لینی پڑے گی اور وسیع دلچسپی لینی پڑے گی ، یہ دیکھنا پڑے گا کہ ایک دعوت الی اللہ کرنے والے میں کیا کیا کمزوریاں ہیں اور پیار اور محبت سے اس کو سمجھانا ہوگا ، اس کو بتانا ہوگا کہ تم تو اپنے گھر میں ہی اچھے اخلاق کے نہیں ہو تو تمہاری باہر کون سنے گا.کچھ اپنی حالت بہتر بناؤ، کچھ لوگوں کے مرغوب نظر بننے کی کوشش کرو، کچھ اپنے اندر کشش پیدا کرو اور وہ کشش تبھی پیدا ہوگی جب تم لوگوں میں دلچسپی لو گے، گہری دلچسپی لو گے، ان سے ہمدردی کا سلوک کرو گے، ان سے پیار کا سلوک کرو گے.اس طریق پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دعوت الی اللہ کرنے والوں کے کام میں غیر معمولی برکت پڑے گی.انفرادی طور پر نظر رکھنے کا کام کیونکہ بہت مشکل کام ہے یعنی اگر کسی کو شوق ہو ان کاموں کا تو اس کے لئے مشکل تو نہیں لیکن وقت کی مجبوری ہے اور ایک سیکرٹری دعوت الی اللہ یا سیکرٹری اصلاح وارشاد جو ایک بڑے ملک کے مرکزی عہدے پر فائز ہے اس کے لئے الگ الگ ممکن ہی نہیں ہے کہ تفصیلاً ہر ایک کے معاملات پر اس طرح گہری نظر رکھے جس طرح میں بیان کر رہا ہوں تو اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ مقامی سیکرٹریاں کی تربیت کی جائے ، ان کو سمجھایا جائے اور ان کو یہ بتایا جائے کہ تم جو ہمیں رپورٹیں بھیجتے ہو کہ ہمیں پتا لگ جائے اتنے لوگ دعوت الی اللہ کر رہے ہیں یہ کوئی طریق نہیں ہے.تم ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کا کھاتہ بناؤ، اس کا ایک رجسٹر رکھو اور اس سے ہر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 955 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء ہفتہ رپورٹ لیا کرو اور بوجھ نہ ڈالو بلکہ ہلکے طریق پر پوچھ لیا کرو کہ کیا اس دفعہ کوئی تجربہ ہوا، کوئی کام ہوا کہ نہیں؟ اگر زیادہ بوجھ ڈالو گے، زیادہ مطالبے شروع کر دو گے تو وہ بھاگنا شروع ہو جائے گا تم سے اس لئے پیار محبت سے ہلکا ہلکا یاد دہانی کرواتے رہو اور اس کے کوائف کا ہر ہفتے اندراج کرو اور اس طرح ہر شخص پر باقاعدہ کھاتہ بننا چاہئے کہ اندراج کرنے کے بعد پھر ایک ایسا خانہ رکھو جس پر یہ درج کرو کہ ان معلومات سے میں نے کیا فائدہ اٹھایا ہے یا ان معلومات کو حاصل کرنے کے بعد شخص متعلقہ کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ اگر یہ نہیں کرو گے تو پھر ان کاغذی اندراجات کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہو گی.ایسے اندراجات سے دفتر کے دفتر سیاہ ہو جایا کرتے ہیں اور ایسے اندراجات فائلوں میں دب کر نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں.لکھنے والا سمجھتا ہے کہ میں نے فرض ادا کر دیا مگر اس فرض کی ادائیگی کا فائدہ کوئی نہیں پہنچتا.پس مومن کے وقت کی بڑی قیمت ہے.فضول کاموں سے اس کو بچنا چاہئے یعنی اپنے کاموں کو فضلول نہیں ہونے دینا چاہئے.یہ بھی تو اس کا مطلب ہے.پس ہر کام کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنی چاہئے.میرے ذہن میں جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ مثلاً اگر میرے سپرد کئے جائیں چند دا عین الی اللہ.میں ان سے ہر ہفتے رابطہ رکھوں گا ان سے پوچھوں گا کہ بتاؤ تم نے کیا کیا؟ کچھ نہیں کیا تو ان کو بعض مشورے دے دوں گا.اچھا یہ کر کے دیکھ لیں، فلاں چیز آزمالیں.یہ گا.پوچھ لوں گا مثلا کہ آپ کے کوئی دوست آپ کے پاس آتے جاتے ہیں، ان کے پتے مجھے دے دیں میں ان کو کچھ لٹریچر بھجوادیتا ہوں.ہوسکتا ہے آپ کے اور ان کے درمیان ایک شرم حائل ہولیکن جب میں بھیجوں گا تو وہ شرم ٹوٹ جائے گی وہ خود آپ سے پوچھنا شروع کر دیں گے.یہ ایک مثال ہے ایسی اور بہت سی باتیں سوچی جاسکتی ہیں اور ہر شخص کے حالات کے مطابق الگ الگ بات ذہن میں آسکتی ہے.تو پہلی بات تو یہ کہ رابطے کے معا بعد سیکرٹری کو یہ بتانا چاہئے کہ اسے اس رابطے کے نتیجے پر غور کرنا چاہئے.اس کے اندراجات کرنے چاہئیں اور یہ سوچنا چاہئے کہ میں اب اس سے کیا فائدہ اٹھاؤں گا اور کس طرح کسی کو فائدہ پہنچاؤں گا.پھر اس اندارج کے بعد اپنا لائحہ عمل درج کریں کہ فلاں دا عین الی اللہ ہے اس کی یہ رپورٹ ہے یا چند ہفتوں سے میں دیکھ رہا ہوں یہ حالت ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس طریق پر اسے عملاً بیدار کیا جا سکتا ہے اور فعال بنایا جا سکتا ہے.پھر اس کا فرض
خطبات طاہر جلد ۱۰ 956 خطبہ جمعہ ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء ہے کہ اس کے متعلق اپنے بالا افسرکو بھی رپورٹ کرے.بجائے اس کے کہ یہ کہے کہ دعوت الی اللہ کا کام ہورہا ہے اس کو تفصیل سے بتائے کہ میں نے اس اس رنگ میں فلاں فلاں شخص میں دلچسپی لی ہے اب تک مجھے وقت مل سکا ہے اس لئے میں انفرادی طور پر اتنوں کی طرف توجہ کر چکا ہوں، یہ مسائل میرے سامنے آئے ہیں، اس طرح میں نے ان کا حل تجویز کیا ہے.اگر آپ اس سے بہتر مجھے کوئی طریق بتا سکتے ہیں تو میری راہنمائی کریں.غرضیکہ انفرادی رابطہ اور انفرادی رابطے کے نتیجے میں معلومات جو حاصل ہوں ان پر مزید غور اور معین لائحہ عمل بنانا یہ سیکرٹری اصلاح وارشاد کا کام ہے اور اس رنگ میں میں سمجھتا ہوں کام کرنے والے شاید دنیا میں ہی کوئی نہ ہوں کیونکہ جہاں تک میری معلومات ہیں مجھے ایک لمبا عرصہ تجربہ ہوا ہے مختلف عہدوں میں سلسلے کی خدمت کرنے کا اور تبلیغ کے متعلق میں ہمیشہ گہری نظر سے جائزہ لیتارہاہوں.میں نے کبھی آج تک اپنی زندگی میں کسی سیکرٹری تبلیغ کو اس طرح فعال نہیں دیکھا.سیکرٹری مال بہت فعال ہوتے ہیں.انہوں نے تو ساری جماعت کا بوجھ سر پہ اٹھایا ہوتا ہے، دوڑے پھرتے ہیں ان کو تو ہوش ہی نہیں رہتی.بعض ایسے ہیں جو صبح دفتر سے جا کر سیدھا اپنے مال کے دفتر پہنچتے ہیں اور بعض دفعہ گھر بارہ بارہ بجے تک نہیں آئے تو اس لئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا ہے.اپنی جان سے لپٹا لیا ہے اس ذمہ داری کو.ان کو چین نہیں مل سکتا جب تک اس کو ادا نہ کریں.دعوت الی اللہ کے کام میں ابتدائی کام پر بھی غور ضرور ہوتا ہے.ابھی زمین تیار کرنے کی ضرورت ہے جس طرح زمین کے اوپر ہل چلائے جاتے ہیں ، اس کو نرم کیا جاتا ہے ، گھاس پھوس سے اس کو پاک کیا جاتا ہے، سہاگے پھیرے جاتے ہیں سو کام ہیں کرنے والے.ابھی جماعت کی دعوت الی اللہ کی زمین پر اس طرح محنت کی ضرورت ہے.اگر ایک دفعہ امراء اور متعلقہ عہدیداران اس رنگ میں محنت کر لیں گے تو بعد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمین میں بہت پیداوار ہوگی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں.ان کو کام کا طریقہ سکھاؤ ایک دفعہ رستہ چلنا بتا دو.تھوڑا سا انگلی پکڑ کے ساتھ لے جانا پڑے گا.ایک دفعہ وہ چل پڑے تو پھر دوڑنے لگیں گے انشاء اللہ.پھر وہ آپ کی انگلیاں اس لئے نہیں پکڑیں گے کہ آپ ان کو چلائیں ہو سکتا ہے کہ اس لئے پکڑیں کہ آپ ان کے ساتھ تیز چلیں اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بیداری پیدا ہوتی ہے تو جماعت میں اس قسم کے عظیم الشان نمونے ظاہر
خطبات طاہر جلد ۱۰ ہوتے ہیں.957 خطبہ جمعہ ۶ /دسمبر ۱۹۹۱ء اب میں اگلا سوچ رہا ہوں کہ وقت ہو گیا ہے تو اگلا پوائنٹ بعد میں شروع کریں انشاء اللہ.میرا خیال ہے بعض نکات ہیں وہ انشاء اللہ اگلے خطبے میں پیش کروں گا کیونکہ اتنا تھوڑ اوقت رہ گیا ہے میرا خیال تھا اڑھائی بجے تک ختم کروں گا.ایک دومنٹ رہتے ہیں اور اس عرصے میں بات شروع کی ہوئی ختم نہیں ہو سکے گی اس لئے آج کا خطبہ یہیں ختم کرتا ہوں اور آخر پر صرف اس دعا کی تحریک کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ جو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں ضروری باتیں ہیں اللہ تعالیٰ وہ مجھ پر بھی خوب روشن فرمائے اور جماعت بھی ان کو سن کر ان کی حقیقت سے آشنا ہو، وہ باتیں ان کے دل و دماغ میں گونجیں اور سرائیت کر جائیں اور جگہ پا جائیں اور جس طرح بیج اچھی زمین میں داخل ہو کر جڑ پکڑتا ہے اور شاخیں نکالتا ہے اس طرح یہ باتیں جماعت کے دل و دماغ میں جڑ پکڑ جائیں اور شاخیں نکالیں اور دیکھتے دیکھتے جماعت میں دعوت الی اللہ کی کھیتی ہری بھری ہو جائے اور ساری دنیا سے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے دراز ہو جا ئیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 959 خطبہ جمعہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۱ء ہر ملک میں مراکز دعوت الی اللہ کے مستقل قیام کیلئے ہدایات داعین الی اللہ خدا نما وجود بننے کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۱۳ دسمبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دعوت الی اللہ کے کام کو زیادہ منظم اور مرتب کرنے کے سلسلہ میں میں کچھ ہدایات دے رہا ہوں.اس سلسلہ میں ایک بہت ہی اہم چیز یہ ہے کہ ہر ملک میں کم از کم ایک مرکز دعوت الی اللہ کے مستقل قیام کی ضرورت ہے.اب یہاں انگلستان میں جہاں لندن میں ہیڈ کوارٹر ہے وہاں اگر کوئی باہر سے دعوت الی اللہ کرنے والا حاضر ہو یا اپنے کسی دوست کو لے کر آئے تو کوئی ایسا الگ ہال یا کمر نہیں ہے جہاں دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں ہر قسم کی ضرورتیں بھی مہیا ہوتی ہوں اور دعوت الی اللہ کے کام کو سکھانے کے لئے انتظام بھی موجود ہو.اس سلسلہ میں جس قسم کے مرکز کا قیام میرے ذہن میں ہے میں اس پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالتا ہوں.میرے خیال میں ہر جگہ جہاں کوئی مربی ہو یا تمام بڑی جماعتوں میں یا کم از کم آغاز میں ملک کے ہیڈ کوارٹر میں جہاں ملک کا مرکز ہو وہاں ایک جگہ خصوصیت سے دعوت الی اللہ کے لئے مخصوص کرنی چاہئے اور اس میں دعوت الی اللہ میں استعمال ہونے والی وہ تمام ضروریات مہیا ہونی چاہئیں جن کا خصوصیت سے اس ملک سے تعلق ہو.کچھ تو ایسی ضروریات ہیں جو تمام دنیا میں مشترک ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا مختلف ملکوں سے خصوصی تعلق ہوتا ہے.پس جو مشترک ضروریات ہیں وہ تو ہر ملک میں اس طرح ہوں گی لیکن خصوصی ضروریات مثلاً گھانا Ghana سے تعلق رکھنے والی، بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ، امریکہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 960 خطبہ جمعہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۱ء یا کینیڈا سے تعلق رکھنے والی یہ ان ہی ممالک میں ہوں گی جہاں ان کی ضرورت ہے.اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے مراکز میں قرآن کریم کے مختلف تراجم موجود ہونے چاہئیں.یعنی اس حد تک موجود ہونے چاہئیں جس حد تک اس ملک میں ضرورت پیش آسکتی ہے.وسیع لائبریری الگ موجود ہے یعنی ہدایت ہے کہ ہر ملک میں قائم کر دی جائے.اس لئے اس لائبریری کا اعادہ مقصود نہیں مگر اس میں سے وہ حصہ جس کی اس ملک میں دعوت الی اللہ کے لئے ضرورت ہے وہ منتخب کر کے اسے ضرور وہاں اس کمرہ میں سجانا چاہئے.مثلا اگر بنگال ہے تو قرآن کریم کا بنگلہ ترجمہ اور اس سلسلہ میں جماعت کی طرف سے جو اور خدمات کی گئی ہوں ان کے وہ سارے نمونے موجود ہونے چاہئیں، اسی طرح بنگال میں جو دوسری اقلیتیں پائی جاتی ہیں جن کی زبان الگ ہے لیکن بنگال میں ایک معقول تعداد میں وہ لوگ موجود ہیں ان کے لئے بھی ضرورت کا سامان مہیا ہونا چاہئے.مثلاً چٹا گانگ کے علاقہ میں بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں برمی زبان سمجھی جاتی ہے.اس لئے اگر چٹا گانگ میں یہ مرکز قائم ہو تو برمی زبان کا لٹریچر بھی وہاں موجود ہونا چاہئے.اس کے علاوہ ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کے لئے معلومات مہیا ہونی چاہئیں کہ یہاں کیا کیا ہے؟ اور اس کے با قاعدہ چارٹس بن کر اس کمرے میں لٹکنے چاہئیں جو تعارف کا رنگ رکھتے ہوں گے.مثلاً یہ ذکر ہو کہ ہمارے پاس آڈیو ویڈیو میں یہ یہ چیزیں یہاں موجود ہیں.ان کو دکھانے کا انتظام موجود ہے.ان ان زبانوں میں یہ چیزیں موجود ہیں.اگر آپ میں سے کسی کو دلچسپی ہو تو ان کو دکھانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے.یعنی یہ حصہ لکھنا ضروری نہیں لیکن یہ بتانا ضروری ہے.اس کے علاوہ لٹریچر میں سے مختلف زبانوں میں جو لٹریچر موجود ہے اس کا تعارف ہوتا کہ آنے والا سب سے پہلے اس چارٹ کو ملاحظہ کر کے یہ معلوم کرے کہ ہمارے پاس یہاں کیا کچھ ہے.اس کے بعد اس کمرے میں تمام ضروری لٹریچر بھی جو تبلیغ کے سلسلہ میں استعمال ہوتا ہو وہ موجود ہونا چاہئے.آڈیو ویڈیوکیسٹ کے نمونے ہونے چاہئیں اور ان کے دکھانے کا انتظام ہونا چاہئے اور وہ لٹریچر جس کے متعلق یہ خیال ہو کہ اس کا مطالبہ ہو سکتا ہے اس کا سٹاک کسی جگہ موجود ہونا چاہئے.اس کمرے کے معائنہ کے بعد اگر کسی کو کسی خاص کتاب میں کسی آڈیو ویڈیو میں دلچسپی پیدا ہوتو معلوم ہو کہ وہ کیسے حاصل کی جائیں گی اور کتنی دیر میں وہ مہیا ہو سکتی ہیں.وہ چیزیں جو قیمتا مہیا ہوتی ہیں ان کے متعلق معلوم ہونا چاہئے جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 961 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء جماعت کی طرف سے تحفہ پیش کی جا سکتی ہیں ان کے متعلق معلومات مہیا ہونی چاہئیں.غرضیکہ ایک ایسا کمرہ ہو جس میں اٹھنے بیٹھنے کا بھی انتظام ہو.اگر چائے وغیرہ کی سہولت مہیا کی جاسکے تو اور بھی بہتر ہے ورنہ کم از کم تبلیغی ضروریات کے سلسلہ میں تمام چیز میں موجود ہونی چاہئیں.اس کے علاوہ ہمارے لٹریچر میں جو حوالے مذکور ہیں جو کثرت سے استعمال ہونے والے ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں.کچھ کا عیسائیت سے تعلق ہے کچھ کا ہندوازم سے، کچھ کا سکھ ازم سے ، بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ جب دعوت الی اللہ کرنے والے کو کوئی سوال کرتا ہے کہ تم نے جو فلاں اقتباس بتایا ہے کہ ہماری کتابوں میں موجود ہے یہ دکھاؤ کہاں ہے تو دوطرح کی مشکلات پیش آتی ہیں.اول یہ کہ اصل کتاب اس ملک میں ہی موجود نہیں ہوتی دوسرے حوالے ناقص ہوتے ہیں.اور ہمارے پرانے طبع شدہ لٹریچر میں یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ حوالوں کا انداز ایسا مضمون نگار کا سا تھا واقعاتی طور پر صحت کے ساتھ اعداد وشمار درج کرنے کا رجحان ہر شخص میں نہیں پایا جاتا.اس زمانہ میں جو مضمون لکھنے والے مضمون نگار تھے وہ بڑے اچھے اچھے دعوت الی اللہ کی مہارت رکھنے والے لوگ تھے.لیکن کتابوں کے حوالوں کے فن سے ناواقف تھے.اور چونکہ سچ بولنے والے تھے اس لئے وہ اپنے بھولپن میں یہ سمجھنے لگ جاتے تھے کہ ہم نے تو حوالہ دیکھا ہے ہم جانتے ہیں کہ سچا ہے بس یہی کافی ہے اور ذکر کر دیا کہ فلاں جگہ حوالہ موجود ہے اور اکثر علمی کتا ہیں جو شائع بھی ہوئی ہیں ان میں ایسے حوالے ہیں کہ دیکھئے ، بدرسن ۱۹۰۰ فلاں یا الحکم ۱۹۰۰ فلاں اور اس حوالے سے آگے پھر وید کا حوالہ یا گیتا کا حوالہ ہے یا بائیل کا حوالہ ہے حالانکہ معمولی سی بات ہے کہ جو کتا ہیں مستقل نوعیت کی ہیں سب دنیا میں شائع شدہ ہیں ان کے حوالوں کی تلاش کے لئے کوئی بدر کے فلاں سن کے پرچے میں جائے گا اور وہاں سے جا کر ڈھونڈے گا.تو مضمون نگاروں نے اپنے بھول پن میں یا سہل انگاری سے ایسے حوالے درج کر دئیے جن تک پہنچنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے اور ان کی تلاش ان رستوں سے بے ضرورت ہے جو رستے وہاں دکھائے گئے ہیں.پھر جب ان حوالوں کو دیکھا جاتا ہے جو اصل کتاب کے ہیں تو بسا اوقات یہ دقت پیش آتی ہے کہ وہاں ایڈیشن کا ذکر نہیں کہ کس ایڈیشن کے کس صفحہ کا حوالہ ہے.گویا کہ صرف ایک ہی ایڈیشن ساری عمر میں اس کتاب کا شائع ہوا ہے اور جو شخص بھی کہیں سے وہ کتاب اٹھائے گا اس کو سیدھا اس صفحہ پر وہ حوالہ دکھائی دے گا.تو کئی دعوت الی اللہ
962 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء خطبات طاہر جلد ۱۰ کرنے والوں کو بڑی شرمندگی ہوتی ہے.جب اصل کتاب دکھائی جائے تو وہاں سے کچھ بھی نہیں نکلتا حالانکہ حوالے موجود ہیں.پھر تر جموں سے متعلق اعتراضات کئے جاتے ہیں کہ یہ ترجمہ ہم تسلیم نہیں کرتے اور اس کے مستند ترجمہ کرنے والے کی کتاب پیش کی جانی ضروری ہے اور ایک سے زیادہ ایسے ترجموں کے حوالے دینے چاہئیں جو مد مقابل کو منظور ہوں اس لئے بہت ضروری ہے کہ حوالوں کے سلسلہ میں دعوت الی اللہ کے مرکز میں کچھ ایسا مواد موجود ہو جسے تبلیغ کا شوق رکھنے والے، روزمرہ اگر وہ آسکتے ہیں ورنہ کبھی کبھی جب بھی آسکیں ، آکر دیکھیں ، ان حوالوں کا مطالعہ کریں، اور خود تسلی پکڑ لیں کہ ہاں یہ چیز اس شکل میں فلاں جگہ موجود ہے ، اس سلسلہ میں ایک دقت یہ ہے کہ اگر یہ ساری اصل کتب مہیا کی جائیں تو بہت ضخیم لائبریری بن جائے گی.اس لئے ہم نے اس کا یہ علاج سوچا ہے کہ اصل کتاب سے فوٹوسٹیٹ یعنی عکسی تصویر میں اتار کر ان کے حوالے وہاں اکٹھے کر دیے جائیں اور منضبط کر دئیے جائیں تا کہ جس طرح کمپیوٹر کے ذریعہ معلومات حاصل کی جاتی ہیں اسی طرح ان حوالوں تک پہنچنے کے لئے کوئی ایسا چھوٹا سا کتابچہ ہو جس کی مدد سے ایک شخص معین طور پر معلوم کر سکے کہ جس حوالے کی مجھے ضرورت ہے اس کی عکسی تصویر کہاں ہے اور عکسی تصویر کی کچھ کتابیں بنوائی جاسکتی ہیں وہ کوئی مشکل کام نہیں ہے.اس سلسلہ میں ایک دو عکسی تصویروں کی کتابیں بنوا کر ہم نے ایک دفعہ تمام مشنز کو بھجوائی بھی تھیں جو روزمرہ کے استعمال ہونے والے جماعت کے حوالے ہیں.وہ پر مشتمل تھیں لیکن ہر مذہب کے لئے خصوصی حوالوں کی کتابیں تیار ہونی چاہئیں.ایک دفعہ میں کوئٹہ میں ایک مجلس سوال و جواب میں شامل ہوا تھا وہاں ایک شخص نے اعتراض کر دیا کہ آپ پرانوں کا حوالہ دے کر حضرت مسیح کے کشمیر کے سفر کا ذکر کرتے ہیں لیکن جو حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو ہے ہی نہیں یہ حوالہ غلط ہے اور میں ثابت کر سکتا ہوں.ان کے پاس کوئی ایسی کتاب ہوگی جس میں وہ حوالہ مختلف طریق پر درج ہو گا یا مختلف صفحوں پر درج ہوگا.ہمارے درج کرنے والے نے جس کتاب کا حوالہ دیا اس کے صفحے اور تھے، اس کی ترتیب اور تھی ، تو اس وقت فوری طور پر تو میں اس کے چیلنج کو قبول نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں خود نہیں جانتا تھا کہ وہ حوالہ کہاں ہے اور اس کا ترجمہ بھی درست ہے یا نہیں لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ حوالہ درست موجود ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے.اس میں غلطی کا کوئی دور کا بھی شائبہ نہیں ہے لیکن میں جا کر تلاش ان پر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 963 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء کروں گا.کوئٹہ سے ربوہ آکر تلاش کرنے کے بعد اس حوالے کا علم ہوا اور یہاں انگلستان آنے کے بعد ایک پنڈت کو میں نے وہ حوالہ بھجوایا اور ان سے درخواست کی کہ آپ خود اس کا ترجمہ تفصیل سے کر کے دیں تفصیل سے مراد یہ تھی کہ اس حوالے سے کچھ پہلے کی آیات کا بھی اور کچھ بعد کی آیات کا بھی یا آیات نہ کہیں تو فقرات کا ترجمہ تا کہ سیاق و سباق کا علم ہو سکے.انہوں نے جب وہ ترجمہ کر کے بھیجا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمارے ہاں شروع سے جو تر جمہ مروج ہے اس کے مقابل پر یہ ترجمہ ہماری بہت زیادہ تائید کرنے والا ہے.مثلاً اس حوالے میں راجہ شال باہن کا ذکر ہے ، یوز آسف کا ذکر ہے لیکن مسیح کا ذکر نہیں ملتا.ہمارے ترجمے جو عام طور پر مروج ہیں ان میں مسیح کا نام نہیں ملتا.لیکن یہ ہندو پنڈت جس کو علم بھی نہیں تھا کہ میں کیوں اس کا ترجمہ کروارہا ہوں ، اس نے جب یوز آسف کا ذکر کیا تو یوز آسف کے ضمناً ایک ذکر کے بعد جب اس کا اصل ذکر اس طرح آتا ہے کہ راجہ شمال باہن کا اس نئے آنے والے کے ساتھ سوال و جواب ہوا جس کو انہوں نے وادی میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پھرتے ہوئے دیکھا تھا تو اس سوال و جواب میں راجہ شال باہن نے جب اس آنے والے اجنبی سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے تو انہوں نے کہا: میجو اور سیج اور شیح یہ ایک ہی چیز کے دو تلفظ ہیں اور بعد میں بھی میحو نام سے وہ ذات مبارک اپنے آپ کو متعارف کراتی رہی اور اسی حوالے سے بات کرتی رہی.چنانچہ جو تفصیلی حوالہ ہے وہ بہت زیادہ قوی شواہد ہماری تائید میں رکھتا ہے.یہ جو ایک عادت پڑ چکی ہے کہ پرانے حوالے جس قسم کے بھی درج ہوئے ہیں ان کو اسی طرح لئے چلو اور اصل کو دیکھو ہی نا.اس سے دعوت الی اللہ کے کام کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور دعوت الی اللہ کرنے والے کا دماغ بھی وسعت اختیار نہیں کرتا.یہ عادت پیدا کرنی چاہئے اور اس عادت کو پورا کرنے کے لئے سامان مہیا کرنے چاہئیں کہ دعوت الی اللہ کرنے والے جماعت کی طرف سے جو حوالے پیش کرتے ہیں وہ خود ان حوالوں کا مطالعہ کریں اور مختلف پہلوؤں سے ان کا مطالعہ کر کے.جائزہ لے کر اپنے دل کو پوری طرح اطمینان دلائیں کہ جماعت احمد یہ جو بات کہتی ہے سو فیصدی درست ہے اور اگر کوئی اس کو چیلنج کرے تو اس کے مقابل پر اس کو بلا کر دکھا سکیں.اصل کتاب کی فوٹوسٹیٹ اگر دکھا دی جائے تو اس سے بہت حد تک تسلی ہو جاتی ہے لیکن چونکہ یہ دعوت الی اللہ کے لئے قطعی ذریعہ ہے مگر آنے والا ممکن ہے یہ کہے کہ نہیں ! اصل کتاب دیکھنا چاہتا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 964 خطبه جمعه ۱۳ دسمبر ۱۹۹۱ء ہوں تو اس کی اصلی کتاب کے متعلق بھی یہ معلومات ہونی چاہئیں کہ کہاں موجود ہے اگر اس ملک میں موجود نہیں ہے تو کس جگہ موجود ہے؟ اس کی کسی لائبریری سے پتہ کرنا چاہئے کہ اس ملک کی کسی لائبریری میں موجود ہے کہ نہیں چنانچہ اس کے متعلق بھی معلومات ہونی چاہئیں.بہت سی کتابیں ہیں جن میں ایک اور نقص یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ حوالہ اس وقت کے لحاظ سے درست تھا لیکن بعد میں تبدیلیاں پیدا کر لی گئیں اور چونکہ وہ مخصوص حوالہ جماعت احمدیہ کی تائید میں ایک روشن نشان کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے مد مقابل نے تحریف سے کام لیتے ہوئے بعد میں جو کتب شائع کیں ان میں سے وہ حوالہ غائب کر دیا گیا.مولوی دوست محمد صاحب نے اس سلسلہ میں ایک دفعہ تحقیق کر کے ایک بہت ہی عمدہ مضمون شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بعض ظالموں نے احادیث میں بھی تحریف کرنے سے گریز نہیں کیا.اس وجہ سے کہ جماعت احمدیہ کو اس کا فائدہ پہنچتا تھا.اسی طرح عیسائیوں نے تحریف سے کام لیا ہے.بائیبل کے بعض پرانے نسخوں میں اسلام کی تائید میں کھلا کھلا حوالہ موجود ہے لیکن بعد میں شائع ہونے والے نسخوں میں وہ حوالہ موجود نہیں ہے.جنم ساکھی بھائی بالا سکھوں کے لئے اتنی مقدس کتاب ہے.لیکن وہاں بھی ایک جگہ تحریف سے کام لیا گیا ہے.مثلاً وہ حوالہ جس میں بٹالہ کے پرگنہ میں ایک ایسے گورو کے ظاہر ہونے کی خوشخبری حضرت بابا گورونانک نے دی جس کے متعلق فرمایا کہ وہ بھگت کبیر سے بھی بڑا ہو گا.اب بڑی معین پیشگوئی ہے لیکن اب آپ جنم ساکھی بھائی بالا کو اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو وہ پیشگوئی کہیں دکھائی نہیں دیگی لیکن ہمارے لٹریچر میں اس کا ذکر موجود ہے.اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف کتابوں کے بہت سے حوالے دیئے ہیں جن میں بعد میں تحریف کر لی گئی اور بعد کے ایڈیشنز میں ان کا ذکر نہیں ملتا.تو دعوت الی اللہ کا کام بہت احتیاط کا کام ہے اور بہت غور اور فکر کے ساتھ اس کے سارے پہلوؤں پر نظر رکھنا ضروری ہے.پس معلوم کرنا چاہئے اور اگر کسی ملک میں ایسے وسائل نہ ہوں کہ وہ خود معلوم کر سکیں تو مرکز کو لکھ کر اپنی مشکلات پیش کریں اور تمام وہ حوالے جن کا روز مرہ کسی ملک میں استعمال ہوتا ہو کم از کم ان حوالوں کو مگر کوشش یہی کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ حوالوں کو ایسے رنگ میں محفوظ کر لیا جائے کہ جب بھی کوئی اس کے متعلق مزید جستجو کرنا چاہے اس کے پاس کافی مواد موجود
خطبات طاہر جلد ۱۰ 965 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء ہو.حوالوں کو ترتیب دی جائے.اصل اقتباسات کی فوٹوسٹیٹس یعنی عکسی تصویریں مہیا کی جائیں اور ان سے متعلق مختصر تعارف کرایا جائے کہ یہ فلاں ایڈیشن میں موجود تھا بعد کے ایڈیشنز میں تحریف ہوئی.تحریف شدہ ایڈیشنز کی فوٹوسٹیٹس بھی شامل کی جائیں.یہ معلومات مہیا کی جائیں کہ فلاں فلاں لائبریری میں یہ مواد آج بھی موجود ہے اور مثلاً اگر برٹش میوزیم کی لائبریری میں کوئی پرانی کتاب اصل صورت میں موجود ہے تو اس سے مصدقہ نقول حاصل کرنی چاہئیں کیونکہ جب ان باتوں کا چرچا ہواور دشمن اپنے آپ کو مغلوب دیکھے تو بعض دفعہ شرارت کرتا ہے.بعض دفعہ کتابوں کو نقصان پہنچاتا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ بعض ضروری کتب کو دشمن چرا کرلے گیا اور ضائع کر دیا اور ان کی حفاظت کی چونکہ پوری احتیاط نہیں کی گئی تھی اس لئے سلسلہ کو نقصان پہنچا.ربوہ میں بھی جب باہر سے سوال وجواب کے لئے وفود آیا کرتے تھے تو ان میں بعض تنگ نظر اور متعصب لوگ بھی آجایا کرتے تھے تو مجھے لائبریرین صاحب سے علم ہوا کہ انہوں نے وہاں یہ حرکت کرنی شروع کر دی.جو نایاب نسخے جماعت کی تائید میں استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک نسخہ ایک مولوی صاحب نے جیب میں ڈالا اور کھسک گئے اور نسخہ پھر غائب ہو گیا.میں نہیں جانتا کہ اس کا متبادل پھر مہیا ہوا کہ نہیں.مگر ایسے واقعات ہوتے ہیں.اس لئے اقتباسات کے سلسلہ میں یہ احتیاط کی جائے کہ اپنے اپنے ملک میں جہاں وہ اصل کتاب موجود ہو اس کا حرف عکس نہ اٹھایا جائے بلکہ اس کے اوپر لائبریرین کی تصدیق کرائی جائے کہ ہم نے یہ عکس با قاعدہ طور پر تصدیق کرنے کے بعد جاری کیا ہے اور اس کے بعد پھراگر کوئی شرارت کرتا بھی ہے تو اس شرارت کا اتنا بڑا نقصان نہیں ہوگا.تو ان معنوں میں دعوت الی اللہ کے مراکز تیار کرنے چاہئیں جو معنی میں نے بیان کئے ہیں اور پھر ان میں آڈیو ویڈیو کا تعارف بھی ہو مختلف مواقع پر جو سوال و جواب کی مجالس ہیں یا دوروں کی تصاویر ہیں یا جلسہ سالانہ کی روئیداد ہے اس کے متعلق پہلے تعارف ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس یہ یہ چیزیں موجود ہیں اور کس کس قسم کے لوگوں کے لئے کون کون سا مواد موجود ہے اور اس کے دکھانے کا انتظام ہو تو جو بھی باہر کی جماعتوں سے یا مقامی شہر سے آتا ہے وہ کچھ عرصہ بیٹھے ، اس کا دل لگے اور اس کو معلوم ہو کہ میرا کہاں مقام ہے جہاں آکر میں نے مزید معلومات حاصل کرنی ہیں.اس دفتر سے اپنائیت کا احساس پیدا ہو اور وہاں رونق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 966 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء لگنی شروع ہو اور دوستوں کو لا کر یعنی غیر احمدی دوستوں کو بھی لا کر وہاں بٹھایا جائے اور وہاں کے آڈیو ویڈیولٹریچر سے استفادہ کیا جائے.اس کے علاوہ اس سنٹر میں ایسا رجسٹر ہونا چاہئے جہاں مطالبات کا اندراج ہو.اس کے کھلنے کے با قاعدہ اوقات مقرر ہونے چاہئیں.مطالبات کا اندراج ان معنوں میں ہو کہ ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے فلاں فلاں کتب کی ضرورت ہے لیکن وہ کتابیں ان کے پاس نہیں ہیں تو وہاں سیکرٹری ہو خواہ وہ مستقل طور پر تنخواہ دار ملازم کے طور پر رکھا گیا ہو یا جیسا کہ بہتر رواج ہے کہ کوئی رضا کار اپنا وقت دے کر وہاں بیٹھا ہو اور اس کا فرض ہو کہ کسی رجسٹر پر ایسے مطالبات درج کریں اور کارروائی کے خانہ میں بعد ازاں یہ درج کرے کہ اس مطالبے کی کب تعمیل ہوئی ورنہ بعض دفعہ ۶ -۶ مہینے کے بعد لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ جی ہم فلاں جگہ گئے تھے اور وہاں ہم نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ فلاں لٹریچر بھیجا جائے ،فلاں کیسٹ مہیا کی جائے اور ہمارے دوست آج تک مانگتے ہیں اور ہم شرمندہ ہیں لیکن ہمیں اب تک وہ مہیا نہیں کی گئی.پوچھنے والے بھی چھ چھ مہینے کے بعد بتاتے ہیں اور اس وقت یہ بھی نہیں پتہ لگتا کہ کس سے پوچھا گیا تھا.کہاں یہ مطالبہ درج ہے اس لئے لٹریچر کا مطالبہ ہو یا آڈیو ویڈیو ٹیسٹس کا ہولا ز ما کسی رجسٹر میں وہ مطالبات درج ہونے چاہئیں اور ان پر کارروائی کا خانہ خالی رہے جب تک وہ کارروائی ہو نہیں جاتی اور اگر کچھ عرصہ تک کا رروائی نہیں ہوتی تو یہ اندراج ہو کہ کیوں کا رروائی نہیں ہوئی اور ایسی باتیں جن کا مجبوریوں سے تعلق ہو مثلاً کوشش کے باوجود وہ چیز دستیاب نہیں ہو رہی تو ان کے متعلق مجھے بھی لکھنا چاہئے.جہاں روز مرہ کی کاروائی ہورہی ہے وہاں مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جہاں کوئی مشکل در پیش ہو، کوئی روک پیدا ہو جائے تو وہاں ضرور مجھے اطلاع کرنی چاہئے کہ فلاں ملک میں فلاں دعوت الی اللہ کے کام کے سلسلہ میں یہ روک ہمارے رستہ میں حائل ہوئی ہے تاکہ حتی المقدور اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے.اس کے علاوہ ایک ایسار جسر ہونا چاہئے جس میں مخالفین کی جوابی کارروائی یا ابتدائی طور پر ان کی طرف سے جماعت کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کا ذکر ہوکر آگے کا رروائی کے خانہ میں یہ ذکر کیا جائے کہ ہم نے اس کے جواب میں کیا اقدامات کئے ہیں.بعض دفعہ ایسی باتیں علم میں آتی ہیں جن کے متعلق جوابی کارروائی کرنے کا کوئی اپنے آپ کو ذمہ دار ہی نہیں سمجھتا.وہ سمجھتے ہیں ہر
خطبات طاہر جلد ۱۰ 967 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء جوابی کارروائی براہ راست مرکز سے ہونی چاہئے مثلاً انگلستان میں بعض دفعہ عیسائیوں کی طرف سے بعض دفعہ دوسرے مسلمانوں کی طرف سے جماعت کے خلاف اشتعال انگیز لٹریچر ، غلط فہمیاں پھیلانے والا لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے اور یہاں کوئی شخص اپنے آپ کو یہ ذمہ دار نہیں سمجھتا کہ اگر خلیفہ وقت یہاں موجود نہ ہو تو تب بھی ہماری لازما ذمہ داری ہے کہ ہم خود اس کا جواب دیں یا جواب تلاش کریں.فوری طور پر جماعت کو مطلع کریں کہ کیا کارروائی کی جارہی ہے.بعض دفعہ کئی کئی مہینے کے بعد اتفاقاً کوئی احمدی دوست وہ لٹریچر اٹھا کر مجھے بھجوا دیتا ہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں وقت سے یہ لٹریچر تقسیم ہورہا ہے اور ہمارے بچوں کے دماغوں پر برا اثر پڑ رہا ہے یعنی اگر وہ اس سے منفی رنگ میں متاثر نہیں بھی ہوئے تو تکلیف کا اثر تو ضرور پڑتا ہے.بے چینی پیدا ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں ایسی باتیں کی جارہی ہیں ہماری طرف سے کیا جواب ہے تو ایسی اطلاع ملنے پر جب میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ واقعہ یہ بات درست ہے اور وہ بات یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں سے مناظروں کے دوران جہاں ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام پر سختی کی گئی ہے اور آپ کی گویا ہتک کی گئی ہے.ان الفاظ کو سیاق وسباق سے نکال کر اس طرح پیش کیا گیا کہ جس کے نتیجہ میں بہت ہی غلط تاثر پیدا ہوتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں حضرت مسیح کی کوئی بھی عزت نہیں تھی بلکہ آپ ان کو یہ اور یہ اور یہ اور یہ سمجھتے تھے اور الفاظ ایسے ہیں جن سے واقعۂ طبیعت ایک دفعہ مکدر ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح واقعی نعوذ باللہ ایسے خوفناک شخص تھے تو بی اللہ تو درکنار وہ ایک عام شریف انسان کہلانے کے مستحق بھی نہیں رہتے.یہ تاثر ہے جو قائم کیا جاتا ہے اور قائم کیا جارہا تھا اور مہینوں گزر گئے لیکن جماعت انگلستان کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فوری طور پر معلوم کریں کہ ان باتوں کا جواب کہاں پہلے سے موجود ہے.اگر نہیں ہے تو فوری طور پر اس کا جواب تیار کر وایا جائے اور تقسیم کر وایا جائے.چنانچہ میں نے پھر اس کا جواب لکھوایا اور حضرت مسیح کی ہتک کا الزام‘ کچھ اس قسم کا اس کا عنوان ہے اور اسے پھر با قاعدہ شائع کروایا.میں نہیں جانتا کہ ابھی تک جماعت انگلستان نے اس کا انگریزی ترجمہ کر کے تقسیم کرایا ہے کہ نہیں.مگر جب اس کا جواب آپ پڑھتے ہیں تو صورت حال بالکل برعکس ہو جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا احترام پہلے کی نسبت کئی گنا دل میں بڑھ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 968 خطبه جمعه ۱۳ دسمبر ۱۹۹۱ء جاتا ہے.کیونکہ اس مناظرے کا پس منظر بتایا جاتا ہے وہ صورت حال بتائی جاتی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں پر یہ جوابی حملہ کیا ہے اور جب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ یہ حملہ ہرگز اس پاک اور مقدس ذات پر نہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں مسیح نبی اللہ کے طور پر ملتا ہے بلکہ اس فرضی وجود پر ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور عیسائیوں کے لٹریچر میں خود ان کی اپنی زبان سے اس کا یہ تعارف کروایا گیا ہے اور جب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس قسم کے جوابی حملے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو پڑھنے والے کا دل بجائے اس کے کہ احمدیت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے متنفر ہوا چانک حضرت مسیح موعود اور احمدیت کی تائید میں اس کا دل پلٹ جاتا ہے.چنانچہ اس کا ایک تجربہ ہالینڈ میں ہوا وہاں احمدیت کے ایک بہت پرانے واقف اور جماعت میں آنے جانے والے دوست تھے جو غالبا گزشتہ ۲۴ سال سے یا اس سے بھی شاید زائد عرصہ سے ہالینڈ میں تھے.وہ ایک اچھے عالم اور علم دوست انسان تھے.ان کے متعلق جب مجھ سے تعارف کروایا گیا کہ انہوں نے حال ہی میں بیعت کی ہے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کس طرح آپ کو بیعت کی توفیق ملی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے آپ کے مقامی امام نے ایک رسالہ ڈچ زبان میں ترجمہ کے لئے بھجوایا تھا اور اس کا عنوان ہے : ” حضرت مسیح کی ہتک یا گستاخی کا الزام اور اس کا جواب وہ کہتے ہیں جب میں نے وہ پڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صداقت اس طرح دلنشین ہوگئی کہ اس کے بعد میرے لئے کسی تردد کا کوئی سوال باقی نہیں رہا.پس وہی چیز جسے ایک رنگ میں دشمن پیش کرتا ہے اور احمدیت سے متنفر کر دیتا ہے جب صحیح پس منظر میں پیش کی جائے تو احمدیت کی محبت پیدا کرنے کا موجب بن جاتی ہے.پس اس پہلو سے ہر ملک کا فرض ہے کہ دشمن کی کارروائیوں پر نظر ر کھے اور یہ علم ہوتے ہی کہ فلاں قسم کا لٹریچر جماعت کے خلاف شائع کیا جارہا ہے فوری طور پر معلوم کیا جائے کہ اس لٹریچر کا پہلے کون سا موثر اور شافی جواب موجود ہے.اگر نہ ہو یا اس وقت کے حالات کے تقاضوں کے مطابق پورا نہ ہوتو نیا لٹریچر تیار کیا جائے لیکن یہ کام لازما اول طور پر سیکرٹری اصلاح وارشاد کا ہے اور چونکہ سیکرٹری دعوت الی اللہ اسی کے تابع ہے یا اسی کے دو نام ہو سکتے ہیں اس لئے جہاں تک مجھے یاد ہے یہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 969 خطبه جمعه ۱۳ دسمبر ۱۹۹۱ء الگ سیکرٹری نہیں ہے لیکن اگر الگ سیکرٹری مقرر ہو گیا ہو تواس کی تصحیح کر لی جائے.بہر حال اول طور پر یہ کام اصلاح وارشاد کے سیکرٹری کا ہے اور اس کے ساتھ اگر سیکرٹری اشاعت ہے تو اس کا بھی یہ کام ہے اور اگر الگ سیکرٹری دعوت الی اللہ ہے تو اس کا بھی یہ کام ہے.ان تینوں میں سے جس کو بھی پہلے معلوم ہو کہ فلاں قسم کا مخالفانہ حملہ شروع ہو چکا ہے تو اس کا اولین فرض ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے ساتھیوں کو بھی مطلع کرے، امیر کو مطلع کرے اور جوابی کارروائی کے لئے فوری طور پر پہلے تحقیق شروع کی جائے اور تحقیق کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ کسی پرانے شائع شدہ رسالہ کو جواب شائع کرنے کی ضرورت ہے یا نیا رسالہ لکھنے کی ضرورت ہے.اس تیزی سے اس کے متعلق کا روائی ہونی چاہئے کہ جیسے بجلی کی سرعت سے کام کیا جاتا ہے.ورنہ بعض دفعہ مہینوں بعض دفعہ سالوں جماعت کی مخالفانہ کارروائیوں کا علم رکھنے کے باوجود جوابی کارروائی نہیں ہو رہی ہوتی اور ایک قسم کا انجما دسا پایا جاتا ہے، بے حسی سی پائی جاتی ہے.اس طرح تو دعوت الی اللہ کے کام نہیں چل سکتے.ایسا تیزی سے رد عمل ہونا چاہئے جیسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دکھایا کرتے تھے.اس زمانہ میں آپ اکیلے تھے.کوئی محمد ومعاون ، کوئی مددگار نہیں تھا جب آپ نے کام کا آغاز کیا ہے اور مامور ہونے سے پہلے سے آپ کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ اسلام پر حملہ ہو سہی شدید بے تاب ہو جاتے تھے اور فور جوابی کارروائی کرتے تھے.بعض دفعہ بعض رسالوں کے جواب آپ نے راتوں رات بیٹھ کر لکھے اور ان کو ایک یا دور اتوں میں ہی تیار کر کے اس مضمون کو شائع کروا دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی یہی کیفیت تھی.تو اس زمانے میں مددگار نسبتا کم تھے لیکن جو بھی تھے وہ والہانہ جذبے رکھتے تھے اور چونکہ احساس بہت شدید تھا اور دین کی غیرت اور دین کی محبت ایک بہت بلند مقام پر فائز تھی اس لئے یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اسلام کے خلاف کوئی کارروائی ہو اور اس کے جواب میں فوری کارروائی رونما نہ ہو.اب یہ جو کیفیت میں دیکھ رہا ہوں اس کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے کہ یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ مجھے ان باتوں کی صرف اطلاع کر دینا کافی ہے.بعض دفعہ ربوہ سے بھی صدرانجمن کے کارکنوں کی طرف سے بھی ایسی غلطی ہوتی ہے کہ اطلاع کر دیتے ہیں اور آگے یہ بھی نہیں لکھتے کہ اس کے جواب میں ہم نے کیا کارروائی کی ہے.بار بار ان کو لکھ کر اور سمجھانے کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 970 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء بعد اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی حد تک اصلاح ہوئی ہے لیکن ابھی بھی بعض دفعہ ایسی حرکت ہو جاتی ہے.اطلاع کرنا تو بہت اچھا ہے اور ضروری ہے.جب بھی کسی قسم کی کوئی مخدوش بات ظاہر ہو.قابل فکر صورت حال پیدا ہو تو لازماً مجھے اطلاع کرنی چاہئے لیکن اگر امیر کے علم میں بات آئے یا متعلقہ عہدیدار کے علم میں بات آئے اور وہ اطلاع کرے تو ساتھ یہ اطلاع بھی کرنی چاہئے کہ آپ مطمئن رہیں ہم اس سلسلہ میں یہ جوابی کارروائی کر رہے ہیں.یا اس جوابی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا.جہاں تک اعتراضات کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت نے جوابات کا ایک بہت عمدہ سلسلہ طبع کرانا شروع کیا ہے.وہ زیادہ تر پاکستان کے اور ہندوستان کے علماء کے اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ہے لیکن انشاء اللہ تعالیٰ اسی سلسلہ کو عیسائیت اور دیگر مذاہب پر بھی ممتد کر دیا جائے گا اور جس طرف سے جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان کے جوابات کے سلسلے انشاء اللہ تعالی طبع ہو کر جماعت کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے.لیکن میں واپس اس طرف لوٹتا ہوں کہ دعوت الی اللہ کے مرکز میں ایسا رجسٹر ہونا ضروری ہے جس پر اس قسم کی کارروائیوں کا ندراج ہو اور پھر جوابی کاروائی کے متعلق نوٹ ہو کہ یہ کاروائی کی جا چکی ہے یا کی جارہی ہے.تا کہ ہر شخص وہاں جب بھی اس رجسٹر کو دیکھے تو اس کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایک مستعد اور بیدار جماعت ہے اور جس اعتراض کے سلسلہ میں بھی اس کو تلاش ہو وہ کا رروائی میں معلوم کر سکے کہ یہ جوابی کارروائی ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے.ایک رجسٹر شکایات کا بھی موجود ہونا چاہئے.جہاں انتظامات کے خلاف یا کتابوں میں غلطی کے متعلق شکایات ہوں تو وہ درج ہونی چاہئیں اور اس کے متعلق بھی جو جوابی کارروائی ہے یا اصلاحی کا رروائی ہے اس کا اندراج ہو.بعض دفعہ بعض دوست سلسلہ کے طبع شدہ لٹریچر میں کوئی غلطی نکالتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں کہ فلاں بات غلط ہو گئی ہے تو اگر وہ مجھے لکھ دیں تو فوری طور پر متعلقہ شعبہ کو متوجہ کر کے پوری طرح تسلی کر لی جاتی ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کر لی جائے گی لیکن بسا اوقات بعض دوست مجھے نہیں لکھتے اور اپنے مقامی امیر کو یا کسی عہد یدار کو متوجہ کرا دیتے ہیں اور بات وہاں ختم ہو جاتی ہے.اس کا مجھے اس لئے علم ہے کہ بعض لکھنے والوں نے یعنی ایسی شکایات
خطبات طاہر جلد ۱۰ 971 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء بھیجنے والوں نے مجھے یہ لکھا کہ اتنے سال ہو گئے ہیں ہم جماعت کو، متعلقہ عہد یداران کو متوجہ کر رہے ہیں لیکن کسی نے اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی.اسی طرح وہ چیز غلط سلط چھپتی چلی جارہی ہے اور ایک دو معاملات میں میں نے خود تحقیق کی تو ان کی بات درست نکلی اور پھر جب تحقیق کی کہ کیوں ایسے ہوا ہے تو ہر شخص اپنی ذمہ داری دوسرے پر ڈالتا چلا جاتا تھا اور بعض باتیں اتنی پرانی ہو جاتی ہیں کہ پھر پوری تحقیق ہو بھی نہیں سکتی اور ہو بھی تو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہتا.اس لئے ہر جماعت میں اپنے اپنے شعبہ کے متعلق رجسٹر شکایات ہونا چاہئے اور صرف یہیں نہیں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی مگر چونکہ میں یہاں دعوت الی اللہ کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے یہاں ایک رجسٹر شکایات ضروری ہے جس میں ایسی شکایات بھی درج ہوں کہ ہم آئے اور ہم سے حسن سلوک نہیں کیا گیا.ہم آئے اور ہم نے کہا کہ فلاں صاحب کو ہم اتنی دور سے لے کر آرہے ہیں مگر مر بی صاحب نے پانی بھی نہ پوچھا، بیٹھنے تک کی دعوت نہ دی.یا جس عہدیدار کے بھی خلاف شکایت ہو وہ وہاں درج ہونی چاہئے اور متعلقہ بالا افسر یا امیر کی طرف سے جو کارروائی ہو اس کا اندراج ہونا چاہئے.ورنہ بعض دفعہ یہ دقت پیش آتی ہے کہ ایک پرانی شکایت کا ذکر کر کے بعض دوست کہہ دیتے ہیں کہ جی ! جماعت کے نظام کا یہ حال ہے.ہم یہ کرتے رہے، یہ کرتے رہے کچھ بھی نہیں ہوا اور وہ بات ان کی غلط ہوتی ہے یا کارروائی ہو چکی ہوتی ہے اور وہ اس کا ذکر نہیں کرتے.تو ایسا رجسٹر اگر ہو تو جب بھی میں جماعت سے پوچھوں کہ کوئی ایسا واقعہ گزرا ہے کہ نہیں اور اگر گزرا ہے تو آپ نے کیا کارروائی کی تو فور اوہ مجھے دکھاسکیں.بہر حال دعوت الی اللہ کا کام چونکہ بہت ہی نازک جذبات سے تعلق رکھنے والا کام ہے.اگر کوئی شخص احمدیت میں دلچسپی لے رہا ہے اور اس کے جذبات کو ٹھوکر لگانے کا ظلم کیا جائے تو یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے اس لئے اس معاملہ میں تو غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے.دامین الی اللہ کو تازہ دم رکھنا بہت ضروری ہے تازہ دم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وقتا فوقتا ان کو ایسا مواد مہیا ہوتا رہے جس سے ان کی روح تازہ ہو.ان کے اندر دعوت الی اللہ کی محبت پیدا ہو.ان کے اندر نئے جذبے بیدار ہوں، ان کا جذبہ، ان کی دعا ئیں تبلیغ کے دوران رونما ہونے والے معجزات یہ ایسا مواد ہے جن سے ان کو مختلف رنگ میں مختلف وقتوں میں ایسا مواد مہیا کیا جائے جس سے وہ ان واقعات کو پڑھ کر اپنی روح کی تازگی اور شادابی کے سامان پیدا کریں.میں نے حضرت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 972 خطبہ جمعہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۱ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا اس لئے خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفے کے زمانہ کے دعوت الی اللہ کے واقعات بہت کم محفوظ ہیں حالانکہ اس زمانہ میں اس کثرت سے دعوت الی اللہ ہوئی ہے اور کوئی بھی پیشہ ور خدمت کرنے والا نہیں تھا جو باقاعدہ تنخواہ دار ہو.اس کے با وجود تمام صحابہ نے آنا فانا عرب میں بھی اور عرب سے باہر دوسرے ممالک میں بھی اسلام کا پیغام پہنچایا.تو بغیر دعوت الی اللہ کے تو یہ ممکن نہیں تھا لیکن افسوس ہے کہ ان تفاصیل کا کہیں ذکر نہیں ملتا ان تجارب کا ذکر نہیں ملتا، کیا کیا باتیں ہوئیں اور کس طرح ان کو جوابات دیئے گئے ، کیا مشکلات پیش آئیں.کس طرح ان مشکلات پر قابو پایا گیا، دعائیں کی گئیں معجزات رونما ہوئے ، ان کا تفصیلی ذکر نہیں ہے.منجملہ تاریخ میں صرف ان باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں.مگر چونکہ دعوت الی اللہ کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دہرائی گئی ہے اس لئے اس تازه تاریخ سے ہم استفادہ کر کے یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ پہلے کیا ہوتا ہوگا، کون سی چز میں تھیں جو کامیاب ہوئی ہیں.اس قسم کی کتب اگر ضخیم کتب کی شکل میں پہنچائی جائیں تو بعض دفعہ ایسا فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ ضخیم کتابوں کا مطالعہ کر سکے.اور ایک دفعہ اگر مطالعہ کر بھی لے تو ایک دفعہ ہی اس کی سیری ہو جائے گی لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ سیری نہ ہو بلکہ بار بار ہو اس لئے چھوٹے چھوٹے رسائل ان مضامین کے شائع ہوتے رہیں خواہ آپ کے ملکی رسائل میں یہ مضامین شائع ہوں یا چھوٹے چھوٹے پمفلٹس کی شکل میں صرف دعوت الی اللہ کرنے والوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور ان کے جذبے دوبارہ بیدار کرنے کی خاطر چھپوائے جائیں اور ان تک پہنچائے جائیں تو اس سے مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ عموماً بہت فائدہ پہنچے گا.پھر ایسے ایمان افروز واقعات کا انتخاب اچھا ہونا چاہئے اور کسی خاص منصوبے کے ماتحت ہونا چاہئے.اتفاقی طور پر نہ ہو.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض صحابہ مختلف مذاہب کا گہرا علم رکھتے تھے اور جب بھی آپ ان کے تبلیغی واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ ان کو مختلف مذاہب کا ذاتی طور پر اتنا گہر اعلم تھا اور مناظرے کے دوران مد مقابل ان کو دھوکا نہیں دے سکتا تھا.اس قسم کے واقعات جب کوئی پڑھتا ہے تو لازماً اس کی توجہ اپنا علم بڑھانے کی طرف ہوتی ہے اور اس کا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی ایسا عالم فاضل بنوں.حضرت مولوی غلام
خطبات طاہر جلد ۱۰ 973 خطبه جمعه ۱۳ دسمبر ۱۹۹۱ء رسول صاحب راجیکی کے مناظرے ہیں.حضرت مولوی سیدسرور شاہ صاحب کے ،حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کے، حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کے ، اس طرح کے بہت بڑے بڑے بزرگ علماء ہیں جن کے علم وفضل کے سامنے انسان اپنے آپ کو ایک بالکل معمولی اور بے حیثیت انسان سمجھنے لگتا ہے.جب آپ ان کے واقعات پڑھیں تو ان کا رعب دل پر قائم ہوتا ہے.وہ پہاڑوں کی طرح آپ کے سامنے بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.تو ایسے واقعات کا انتخاب الگ ہو جس سے جماعت میں اپنا علم بڑھانے کا شوق پیدا ہو اور دیگر مذاہب کے مطالعہ کا شوق پیدا ہو.اس کے علاوہ فن مناظرہ کے لحاظ سے برجستہ دلچسپ جواب دینے کا فن بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض صحابہ کو بطور خاص حاصل تھا اور اس اعتبار سے بہت بڑے بڑے دلچسپ واقعات ہیں.بڑے لطائف پیدا ہوا کرتے تھے جب کہ دشمن سمجھتا تھا کہ ہم نے زیر کرلیا ہے.اچانک اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جواب دینے والے کو خدا تعالیٰ ایسی بات سمجھا دیتا تھا کہ اچا نک صورت حال دشمن پر پلٹ جاتی تھی تو اس قسم کے جو واقعات ہیں وہ اپنے اندر ایک خاص لطف رکھتے ہیں اور ان کو پڑھنے کے بعد انسان کا ذہن حاضر دماغی کی طرف منتقل ہوتا ہے، برجستہ جوابات دینے کا سلیقہ اس کو آتا ہے اور اس کا شوق پیدا ہوتا ہے.اور اس کی بھی تبلیغ کے میدان میں بڑی ضرورت ہے کیونکہ نیک نصیحت کے بعد پھر قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( انحل : ۱۲۶) که پھر اگر عقل اور فہم اور دلائل کی لڑائی شروع ہو جائے تو جادِلُهُمْ خوب لڑوان کے ساتھ لیکن احسن طریق پر.اس طرح لڑو کہ تمہاری دلیلیں زیادہ حسن رکھنے والی ہوں تمہارا طر ز مجادلہ زیادہ حسین ہو اور زیادہ دلکش ہو تو یہ سب باتیں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے تبلیغی واقعات میں نظر آتی ہیں.پھر دعاؤں کے مقابلے ہیں.جب انسان آگے کوئی راہ نہیں پاتا تو دعاؤں کا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے جہاں بھی دعاؤں سے کام لیا ہے خدا تعالیٰ نے حیرت انگیز نشانات ان کے لئے ظاہر فرمائے ہیں اور آپ جب ان واقعات کو پڑھیں تو حیران ہوں گے کہ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے خاندانوں کے جدامجد دعاؤں کے طفیل احمدی ہوئے تھے اور بعض خاندان کے افراد کو اپنا پتہ ہی نہیں کہ ہمارے خاندان میں احمدیت کیسے آئی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 974 خطبہ جمعہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۱ء تھی اور ہمارے بزرگوں نے اس زمانہ میں جب کہ احمدیت کو قبول کرنا ایک بہت بڑے دل گردہ کا کام تھا کیوں قبول کر لیا.ان واقعات کو پڑھتے ہوئے پھر ان خاندانوں کے بزرگوں کے بعض دفعہ نام آتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ ان کی ساری اولاد کو پتا ہو کہ ہم کس کی اولاد ہیں کن واقعات کے نتیجہ میں ہمارے بزرگوں کو یہ روشنی نصیب ہوئی مگر بہر حال اس کے علاوہ جو فائدہ میرے زیر نظر ہے وہ یہ ہے کہ ان واقعات کو پڑھ کر ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کے دل میں یہ بات جاگزیں ہو جائے گی کہ دعوت الی اللہ کا کام خشک اور خالی دل کے ساتھ نہیں ہو سکتا.اس کا روحانیت کے ساتھ گہرا واسطہ ہے جب تک میں خدا نما وجود نہ بنوں ، تک میں اپنے رب سے تعلق نہ رکھوں اس وقت تک یہ کام میرے بس کا نہیں ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قدرت نمائی کے واقعات وہ پڑھ چکا ہوگا اس لئے پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین ہوگا اور خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پہلے سے بڑھ کر موجزن ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی ساری زندگی پر اس کے اچھے اثرات مترتب ہوں گے تو یہ دعوت الی اللہ کرنے والا جہاں دوسرے کو خدا کی طرف بلا رہا ہو گا دعوت الی اللہ کی تیاری کے دوران وہ خود بھی خدا کی طرف کھچا چلا جارہا ہو گا.اس لئے دعوت الی اللہ کے کام کو اگر سلیقے اور ترتیب سے کیا جائے تو اس کے بیرونی بھی اور اندرونی بھی بہت بڑے فوائد ہیں اور دعوت الی اللہ کو پھر خدا کے فضل کے ساتھ بڑے بڑے پھل لگ سکتے ہیں.پس ایک یا دو یا تین باتوں کا نام دعوت الی اللہ نہیں بلکہ ایک بہت وسیع نظام کا نام ہے اس میں جماعت کی انتظامیہ کو بھی بھر پور حصہ لینا ہو گا.ان ساری باتوں کے جائزے لے کر ایک بہت عمدہ منصوبے کے مطابق سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اس کام کو رفتہ رفتہ کھولنا ہوگا اور سب دعوت الی اللہ کرنے والوں پر نظر رکھنی ہوگی.یہ کام دیکھنے میں بڑا وسیع اور مشکل ہے لیکن حسب توفیق تھوڑا تھوڑا شروع کر دیا جائے تو آسان ہوتا چلا جاتا ہے اور کچھ مشکل نہیں رہتا.اس سلسلہ میں با قاعدہ کام کرنے والوں کی صرف تربیت کی ضرورت ہے جو شروع میں کچھ مشکل معلوم ہوتی ہے.امراء اور ان کے ساتھی اگر ایک دفعہ کچھ لوگوں کی صحیح تربیت کر لیں تو وہ ٹیمیں ان کے ساتھ مددگار اور معاون بن کر خدمت کرتی رہیں گی پھر آگے اور اچھے تربیت یافتہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے.اس کے علاوہ مقامی طور پر جب دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تائیدی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 975 خطبه جمعه ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء نشان ظاہر ہوتے ہیں تو ان کو دیگر داعین الی اللہ تک پہنچانا بھی بہت اہم ہے اور ہر جگہ جہاں بھی کامیابی سے تبلیغ چل رہی ہے.وہاں ایسے واقعات ضرور ہوتے ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کے بغیر تبلیغ کو پھل لگیں اور جہاں بھی کسی نو مبائع سے میں نے گفتگو کی ہے تو اس گفتگو کے دوران مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ محض دلائل کی کی بات نہیں تھی اور بہت سی باتیں ہیں جنہوں نے اس نو احمدی کے دل پر اثر ڈالا اور بعض اعجازی نشان انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تو وہ نشان جو قریب کے نشان ہوں وہ بعض دفعہ دُور کے زیادہ عظیم الشان نشانات کے مقابل پر بھی دل پر زیادہ اثر پیدا کرتے ہیں.جو دور کی بات ہے وہ خواہ کتنی ہی بڑی ہو بعض دفعہ دل پر وہ اتنا اثر نہیں کرسکتی جتنا ایک قریب کی چیز دل پر اثر کرتی ہے.اس وجہ سے آپ کے اپنے تجارب جن میں سے آپ گزرتے ہیں یا اپنے ماحول میں ہونے والا ایک واقعہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کا دل پر بہت زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے.بہ نسبت ۴۰۰ سال پہلے یا دو ہزار سال پہلے کے ایک اعجازی نشان کا علم ہونے سے جو دل پر اثر پڑتا ہے.انسانی فطرت ہے کہ جو چیز قریب ہے اس کا دل پر اثر پڑتا ہے اقبال نے اس سلسلہ میں کہا ہے.جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرف محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ ( کلیات اقبال) تو اس شعر میں گہری حکمت ہے.علامہ اقبال کو بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ یہ گویا ایک ایسا نام ہے جس کا ہماری زبان پر آنا ہی گویا کہ جرم ہے.یہ نہایت بے ہودہ خیال ہے.علامہ اقبال نے جماعت کے خلاف بھی باتیں لکھی ہیں.اس سے پہلے جماعت کی تائید میں بھی بہت کچھ لکھا تھا علاوہ ازیں ایک اچھے شاعر تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اتنے بڑے حکیم امت نہ ہوں جتنا بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی باتوں میں کئی جگہ بہت اچھی اچھی حکمت کی باتیں ملتی ہیں.آنحضرت ﷺ کی نصیحت ہے : الحكمة ضالة المومن بنا.پس ہمیں حکمت سے پیار ہونا چاہئے.میں اس لئے اس بات کا ذکر کر رہا ہوں کہ ایک ملک میں ایک مربی نے کسی دوسرے احمدی کے اوپر بڑی سختی کی کہ تم نے جماعتی مجالس میں علامہ اقبال کے ایک شعر کی تعریف کیوں کی.وہ شعر غلط استعمال ہوا تھا اس میں کوئی شک نہیں لیکن جہاں تک علامہ اقبال کے شعر کی تعریف کا تعلق ہے تو جو تعریف کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 976 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء قابل چیز ہے ہر بچے انسان کا کام ہے فرض ہے اس کے اندر ایک طبعی جذ بہ پایا جانا چاہئے کہ وہ اس کی تعریف کرے.پس اس بات کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں کہ کوئی اچھی بات علامہ اقبال نے کہی ہے یا ظفر علی خان نے کہی ہے حتی کہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے منہ سے بھی کوئی اچھا کلمہ نکل گیا ہو تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نصیحت یہ ہے کہ الحكمة ضالة المؤمن اصل میں تو وہ مؤمن کو زیب دینے والا کلمہ ہے.مومن ہی کی ملکیت ہے.ہر اچھی چیز مومن کو زیب دیتی ہے.جہاں سے ملے اپنی سمجھ کر لوتو بہر حال اقبال کا جو یہ شعر ہے بہت گہری حکمت پر مبنی ہے.قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ تو معجزوں کے قریب تر آپ ہوں اور آپ کے قریب جو معجزے ہیں وہ آپ کو زیادہ روشن دکھائی دیں گے، زیادہ مطمئن کرنے والے دکھائی دیں گے اور وہ دعوت الی اللہ کرنے والے جو اپنے اوپر وارد ہونے والے چھوٹے چھوٹے نشانات پیش کر سکتے ہوں ان کو یقین رکھنا چاہئے ان نشانات میں بہت زیادہ اثر ہوگا بہ نثبت کتابوں میں پڑھے جانے والے ان نشانات کے جو واقعات بہت عظیم الشان تھے.پس آپ کے دوستوں کو آپ کی ذات میں کچھ کرامات دکھائی دینی چاہئیں.کچھ عجائب کام دیکھنے کے لئے ملنے چاہئیں اور ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس شخص کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے.پس جب اس قسم کے واقعات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ دعوت الی اللہ کرنے والوں کو بھیجیں گے تو لازماً ان کی توجہ اس طرف پیدا ہوگی اور وہ اپنا جائزہ لیں گے اور خدا تعالیٰ سے اپنا قرب کا تعلق بڑھانے کی کوشش کریں گے.دل میں بہت دفعہ بے قرار تمنا پیدا ہوگی وہ رو رو کر دعائیں کریں گے کہ اے خدا! گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی ہیں خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی تو نے پہلوں کے ساتھ حسن واحسان کے ایسے سلوک کئے اور ایسے ایسے عظیم الشان نشانات ان کو دکھائے ان کی تائید میں حیرت انگیز طور پر ظاہر ہوا اور حیرت انگیز کام ان کی خاطر دکھائے ہم بھی تو اسی چمن کے شجر ہیں.ہمیں بھی ایسے ثمر عطا کر.ہم بھی تو اسی چمن کے عاشق ہیں ہمیں بھی وہ پھل نصیب فرما جن پھلوں سے تو نے پہلوں کو سیر کر دیا اور جن پھلوں کی برکت سے جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دعوت الی اللہ کرنے والوں کے ذریعے تو نے پھیلانے کی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 977 خطبہ جمعہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۱ء توفیق عطا فرمائی ہم پر بھی ایسے افضال کی بارش فرما، ایسے نمونے ہم پر ظاہر فرما.یہ دعا ہے جو بعض دفعہ انسان عام طور پر روز کرتا رہتا ہے لیکن اس دعا میں وہ اثر نہیں پیدا ہوسکتا جتنا کسی واقعہ کو دیکھ کر یا پڑھ کر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی دعا میں اثر ہوا کرتا ہے.اس نکتہ کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں ور نہ دعوت الی اللہ کرنے والے کہیں گے کہ ہمیں ان واقعات کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ہم روزانہ یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں نشان دے اے اللہ ! ہمیں برکت دے.اے خدا! ہمارے ہاتھ سے معجزات رونما فرما.یہ خالی منہ کی باتیں ہیں.دعا میں ایک گہرا اثر ہونا چاہئے اور وہ اثر یونہی منہ کی باتوں سے پیدا نہیں ہوا کرتا.قرآن کریم نے اس کی مثال دی ہے.چنانچہ حضرت زکریا کے متعلق فرمایا کہ وہ مدتوں سے دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! مجھے اولاد دے.مجھے بیٹا دے اور اس مضمون کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ساری عمر یہ دعا کی اور مایوس نہیں ہوئے لیکن اس دعا میں وہ اثر پیدا نہیں ہوا جواس واقعہ کے بعد ہوا کہ آپ ایک دفعہ حضرت مریم کے حجرہ میں گئے.وہاں آپ نے اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے عظیم نشانات دیکھے.وہ رزق دیکھا جو حضرت مریم کو عطا ہورہا تھا.اس کے نتیجہ میں اس کے حوالے سے آپ کے دل میں ایک عجیب ولولہ اٹھا ہے اور اس پر آپ نے دعا کی ہے کہ اے رب! مجھے بھی ایک پاک بیٹا عطا کر.مجھے بھی ایسا بیٹا عطا کر جو تیرے نام کو بلند کرنے والا ہو جو تیرے نور کو دنیا میں پھیلانے والا ہو اور میری اچھی باتوں کو میرے بعد زندہ رکھنے والا ہوتا کہ میرے شریک یہ طعنہ نہ دیں کہ اس کی اچھائیاں اس کے ساتھ ہی مرگئیں وہ میری نیکیوں کا وارث ہو.وہ دعا جس جذبہ سے اٹھی ہے وہ ایسا جذبہ تھا کہ جس کے نامقبول ہونے کا سوال ہی نہیں تھا اور جب آپ نے یہ دعا کی کہ اے خدا! میرے تو بال سفید ہو گئے ، میری ہڈیاں گل گئیں یہ دعا کرتے کرتے ، اب میں اے خدا ! یہ دعا کرتا ہوں کہ تو قبول فرما.میں تجھ سے مایوس نہیں ہوں تو معا اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں! ہم تجھے ایک بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام کی ہوگا، ایسا نام جواس سے پہلے کبھی دنیا نے نہیں سنا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر حضرت سکی اسی شان کے ساتھ پیدا ہوئے جس شان کے ساتھ آپ کی خوشخبری دی گئی تھی اور آپ کی زندگی کے متعلق تو خیر ایک الگ لمبا مضمون ہے.میں واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ دعاوہی ہوتی ہے جو مختلف وقتوں میں کی جاتی ہے مگر بعض دفعہ وہ دعا اثر سے لبریز ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ وہ دعا ایک سرسری سی دعا رہتی ہے.میں یہ نہیں کہ رہا کہ نعوذ باللہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 978 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء حضرت زکریا سرسری دعا کیا کرتے تھے.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک نبی جو دل کی گہرائی سے دعا کرتا ہے اس کی دعاؤں میں بھی مختلف وقتوں میں مختلف اثرات ہوتے ہیں.عام آدمی کی دعاؤں میں بھی مختلف وقتوں میں مختلف اثرات ہوتے ہیں مگر جب کسی خاص واقعہ سے دل پر بہت گہرا اثر پڑا ہوا ہو تو اس وقت کی دعا اور رنگ رکھتی ہے.پس جب آپ بزرگوں کے اچھے واقعات پڑھیں دل پر اثر کرنے والے واقعات پڑھیں تو جس نوعیت کے وہ واقعات ہوں اس نوعیت کی جو د عادل سے اٹھے گی وہ عام دعاؤں کے مقابل پر زیادہ اثر رکھنے والی ہوگی.پس دعوت الی اللہ کرنے والے تو سادہ لوگ ہیں.اکثر علم کے لحاظ سے بھی بہت پیچھے ہیں کمزور ہیں.جذبہ ہے کہ ہم دعوت الی اللہ کرنا چاہتے ہیں اور کرنے کے لئے اپنا نام پیش کر دیتے ہیں مگر ان سے سلیقے کے ساتھ کام لینا ان کی ضروریات کو پورا کرنا ان کی تربیت کرنا ، ان پر نظر رکھنا ان کی موقع بہ موقع مدد کرتے رہنا اور ان کو دن بدن دعوت الی اللہ کے کام کے لئے زیادہ تیار کرتے رہنا یہ سارے کام نظام جماعت کے کام ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور جو ذرائع میں نے آج آپ کے سامنے رکھے ہیں ان کو اگر آپ استعمال کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی دعوت الی اللہ کے کام میں بہتری کی طرف نمایاں فرق پیدا ہوگا اور اس کے علاوہ چند باتیں ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ اگلے خطبہ میں میں ان کو بیان کرسکوں گا کہ نہیں مگر انشاء اللہ اس موضوع پر وقتا فوقتا آپ سے مخاطب ہوتا رہوں گا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم الشان کام کو اس طرح سرانجام دیں جس طرح جماعت احمدیہ سے توقعات کی گئی ہیں.جب میں کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ سے توقعات کی گئی ہیں تو یا د رکھیں کہ ہم سے یہ توقع کی گئی ہے کہ اسلام کی بعثت ثانیہ میں تبلیغ کے کام کو جماعت احمد یہ اپنے منتظمی تک پہنچا دے گی اور اولین کے دور میں جو عظیم الشان کام حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھوں سے جاری ہوا آخرین کے دور میں آپ ہی کے غلام کامل اور عاشق عاشق حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کام کو آگے بڑھایا جائے گا یہاں تک کہ ساری دنیا اسلام میں داخل ہو جائے گی یہ توقع ہے اور یہ توقع آپ سے خدا تعالیٰ نے کی ہے.اس توقع کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے کہ ایک ایسا روحانی وجود پیدا ہوگا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے کے دعوت الی اللہ کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے گا.یہ وہ وعدہ ہے جو قرآن کریم میں دیا گیا ہے.جس کے متعلق بہت سے بڑے بڑے پرانے مفسرین اور بزرگ بیان
خطبات طاہر جلد ۱۰ 979 خطبہ جمعہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۹۱ء کرتے ہیں کہ یہ وعدہ مسیح موعود کے زمانہ میں پورا ہونا ہے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ۱۰) یہ وہ وعدہ ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.ایک ایسا ظاہر ہونے والا ظاہر ہونا تھا جس کے زمانہ میں حضرت محمد مصطفی اللہ کا دین تمام دوسرے ادیان پر غالب آنا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ توقع رکھی اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اس کی خوشخبری عطا فرمائی اور آنحضرت ﷺ کے دل پر اس آیت کریمہ کا جواثر ہوا ہوگا اس کا ہم پورا تصور تو نہیں کر سکتے مگر میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ہم ہمیشہ آنحضور ﷺ کی دعاؤں میں شامل ہو گئے ہوں گے کہ اے خدا! جن پر بھی تو نے یہ ذمہ داری ڈالنی ہے ان کو توفیق عطا فرما ان کی مدد فرما اور ان کے لئے اس کام کے سارے مراحل آسان فرمادے تو آپ کے ساتھ ، میرے ساتھ ، ہم سب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توقعات اور دعائیں وابستہ ہیں اس لئے اس کام کو اگر ہم کما حقہ نہ کر سکیں تو ہمارا قصور ہے.یہ کام نہ صرف یہ کہ ہو سکتا ہے بلکہ ضرور ہوگا کیونکہ یہ مقدر ہے اس تقدیر کو کوئی بدل نہیں سکتا.اس لئے کوئی عذر کام نہیں آئے گا کہ جی ! جن لوگوں کو ہم تبلیغ کرتے تھے وہ بنجر ز مینیں تھیں وہ گندے علاقے تھے.جس قسم کے بھی لوگ تھے ، جس قسم کے بھی علاقے تھے ان سب کا علم اللہ تعالیٰ کو تھا اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ وعدہ فرمایا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ دین اسلام کو تمام دیگر ادیان پر غالب کر دیا جائے گا اور اہل اللہ بزرگوں نے اس آیت کریمہ کے متعلق یہ تفسیر بیان فرمائی کہ یہ واقعہ مسیح موعود کے زمانہ میں ہونے والا ہے.پس ہم جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچی جماعت ہیں ہم سے بہت بڑی توقعات ہیں اس لئے ان توقعات کے نتیجہ میں دل میں کامل یقین پیدا کریں.ٹھوس یقین کے ساتھ آگے بڑھیں.یہ کام ہوسکتا ہے.ضرور ہوگا اور خدا کے فضل سے ہمارے ذریعہ ہوگا اور پھر اس کے نتیجہ میں دعا ئیں کریں اس کے نتیجہ میں جو بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جو بقیہ مضامین ہیں وہ آئندہ کسی وقت انشاء اللہ آپ کے سامنے پیش کروں گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:.میں ایک یہ بات کہنی بھول گیا تھا کہ اس سال کا آج کا جمعہ جو میں انگلستان میں ادا کر رہا ہوں اور اس سال کا آخری جمعہ ہے جو یہاں ادا ہوگا.اس کے بعد چند دن تک ہم انشاء اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 980 خطبہ جمعہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۱ء ہندوستان میں ہوں گے اور قادیان کا سفر درپیش ہے.اس کے متعلق ساری جماعت آگاہ ہے.وہ دوست جو جارہے ہیں ان کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ سفر جہاں تک ممکن ہو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اور درود اور سلام بھیجتے ہوئے پورا کریں اور بہت کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ سالانہ کو ایک غیر معمولی اہمیت کا اعجازی جلسہ سالانہ بنادے اور جماعت کے لئے بہت سی خیر و برکت کا موجب بنے.وہ لوگ جو پیچھے رہ رہے ہیں ان کو پیچھے رہنے کا غم ہے وہ اپنے خطبوں میں ملاقاتوں میں بھی ذکر کرتے ہیں ان کو پیچھے رہنے کے غم کو اپنے لئے ایک بہت ہی نفع بخش سرمائے میں تبدیل کر دینا چاہئے.وہ اس غم کے نتیجہ میں دعائیں کریں کہ اے اللہ ! ہم جا تو نہیں سکتے تو ہماری محرومی کے احساس کو قبول فرمالے اور ہمارے دکھ کو جماعت کے لئے خوشیوں میں تبدیل کر دے اور جو تکلیف ہم محسوس کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں جماعت کے لئے آسائش پیدا فرما اور تیرے وعدوں کے پورے ہونے کے دن قریب آجائیں.وہ جلسہ اگر ہم نہیں دیکھ سکتے تو ہمیں اس جلسے کی برکات دکھا دے اور اس جلسہ کے نتیجہ میں ہونے والے عالمی افضال کے ہم بھی شاہد بن جائیں.پس اس رنگ میں جو پیچھے رہنے والے ہیں وہ بھی دعائیں کر کے اس جلسہ کے فیض میں شامل ہو سکتے ہیں اور اس جلسہ کے نتیجہ میں جو فیوض بعد میں ظاہر ہوں گے ان میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گواہ بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ سارا عرصہ بہت دعائیں کرتے ہوئے گزاریں.خدا تعالیٰ اس سفر کے سارے مراحل آسان فرما دے اور ساری مشکلات دور فرمائے.دشمنوں کے حسد کے شر سے جماعت کو محفوظ رکھے اور سب اندھیروں کو روشنیوں میں بدل دے اور سب مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل فرمادے اور اسیران راہ مولیٰ بھی تو ہیں جو خود اس جلسہ میں شامل نہیں ہو سکتے بلکہ اپنے قریب کے جلسوں میں بھی شامل نہیں ہو سکتے.اپنے دکھ کے وقت ان کا دکھ جو بہت زیادہ گہرا اور بہت زیادہ لمبے عرصہ پر پھیلا ہوا دکھ ہے اس کو بھی یاد کر لیا کریں اور ان کے لئے بھی دعا کیا کریں.اللہ تعالیٰ ہماری ان عاجزانہ التجاؤں کو قبول فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۱۰ 981 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء والیس سال بعد خلیفہ اسیح کی قادیان آمد درویشان قادیان کیلئے بہت بڑی بڑی خوشخبری مضمر ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت اقصی قادیان) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: ” آج کا دن ایک بہت ہی اہمیت کا تاریخی دن ہے.آج ۴۴ سال کے لمبے اور بڑے تلخ التواء کے بعد آخر اللہ تعالیٰ نے خلیفہ اسیح کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ آج کا جمعہ قادیان میں احباب جماعت کے ساتھ ادا کر سکے.قادیان کے درویشوں کے لئے بھی اس میں بہت بڑی خوشخبری مضمر ہے.معلوم ہوتا ہے خدا کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہجر کے دن چھوٹے ہو جائیں گے اور وصل کے دن قریب آجائیں گے اور ان سب آنے والوں کے لئے بھی اس میں بہت خوشخبری ہے جو دور دور سے تکلیفیں اٹھا کر اور بہت سے اخراجات کا بوجھ اٹھا کر یہاں پہنچے تا کہ ان کے دلوں کے بوجھ ملکے ہو سکیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے سعادت بخشی اور توفیق عطا فرمائی کہ نہ صرف اس تاریخی جلسے میں جو سوسال کے بعد (لازم سو سالہ جلسہ سو سال کے بعد ہی منعقد ہوتا ہے ) مراد یہ تھی کہ جوسوسال کے بعد سوسالہ جلسہ منعقد ہوتا ہے اس میں شامل ہو سکے ہیں.یہ ایک ایسی سعادت ہے جو سو سال میں ایک ہی دفعہ نصیب ہوسکتی ہے اور اس پہلو سے آج کی نسل کے لئے یہ بہت ہی غیر معمولی سعادت کا لمحہ ہے.لیکن دوسری سعادت جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، یہ بھی بہت ہی بڑی اور بابرکت اور لائق
خطبات طاہر جلد ۱۰ 982 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء صد الکر سعادت ہے.خدا تعالی نے چوالیس سال کے انقطاع کے بعد خلیہ اسح کو آج قادیان میں جمعہ پڑھانے کی سعادت عطا فرمائی.جو لوگ پیچھے رہ گئے اور جو آج ہمارے ساتھ شامل نہیں خصوصاً وہ لوگ جو اسیران راہ مولیٰ ہیں، جو ایسے مجبور ہیں ، ایسے بے بس ہیں کہ خواہش کے علاوہ اگر ان میں ویسے دنیاوی لحاظ سے استطاعت ہوتی بھی تو یہاں نہ آ سکتے.ان سب کو خصوصیت سے نہ صرف آج اپنی دعاؤں میں یادرکھیں بلکہ اس دوران یعنی جلسے کے ایام اور جلسے کے شب وروز میں مسلسل جب بھی آپ کو توفیق ملے آپ ان سب غیر حاضرین کو اپنی دعاؤں میں یا در کھتے رہیں.سی وہ دن ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں خواب سا محسوس ہو رہا ہے یوں لگتا ہے جیسے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ یہ خواب نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر ہے.ایسے خوابوں کی تعبیر جو مدتوں، سالہا سال ہم دیکھتے رہے اور یہ تمنا دل میں کلبلاتی رہی ، بلبلاتی رہی کہ کاش ہمیں قادیان کی زیارت نصیب ہو.کاش ہم اس مقدس بستی کی فضا میں سانس لے سکیں جہاں میرے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی مے کے کامل غلام مسیح موعود علیہ السلام سانس لیا کرتے تھے.جب میں یہاں آیا اور میں نے اس بات کو سوچا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ایسی فضا میں دوبارہ سانس لیں گے.تو مجھے بچپن میں پڑھا ہوا سائنس کا ایک سبق یاد آ گیا.جس میں یہ بتانے کے لئے کہ جتنے ایک انسان کے سانس میں ایٹم (Atoms) ہوتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہے.وہ مثال دیا کرتے تھے کہ سیزر نے جو آخری دفعہ مرتے وقت ایک سانس لیا تھا اس سانس میں اتنے ایٹم تھے کہ اگر وہ برابر ساری کائنات میں ،ساری فضا میں تحلیل ہو جائیں اور برابر فاصلے پر چلے جائیں تو ہر انسان جو سانس لیتا ہے اس کے ایک سانس میں سیزر کے سانس کا ایک ایٹم بھی ہوگا.تو جب میں نے سوچا تو مجھے خیال آیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں لکھوکھا مرتبہ سانس لئے ، یہ فضا تو آپ کے سانسوں کے ان اجزاء سے بھری پڑی ہے اور ہر سانس میں خدا جانے کتنے ہزاروں ، لاکھوں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سانس کے ایٹم ہوں گے جو آج ہم بھی Inhale کرتے ہیں.یہ سوچتے ہوئے میرا خیال حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف منتقل ہوا تو مجھے خیال آیا کہ زمین کا سارا جو اُس ہوا سے بھرا پڑا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امی ﷺ اپنی سانسوں میں کھینچا کرتے تھے اور نکالا کرتے تھے.جب میں یہاں تک پہنچا تو اس ظاہری خوشی میں کچھ کدورت پیدا ہوگئی کیونکہ میں نے سوچا کہ انہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 983 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء میں وہ سانس بھی ہیں جو دنیا کے بہت سے بد نصیب بھی تو لیا کرتے تھے اور آج بھی لیتے ہیں.ایسے بدنصیب جنہوں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کا زمانہ پایا اور سارا زمانہ ان سانسوں کو نور رسالت کے بجھانے کیلئے استعمال کیا.اس کو ہوا دے کر فروغ کر دینے کیلئے استعمال نہیں کیا.تو یہ ظاہری اور جذباتی چیزیں مجھے بے حقیقت دکھائی دینے لگیں.وہ جذباتی لطف جو یہاں آکر آیا تھا.اس میں ایک اور پیغام بھی مجھے ملا کہ حقیقت میں ان سانسوں کی جب تک ہم قدر کرنا نہ جانیں جو محمد مصطفیٰ کے سانس تھے یا آپ کے غلام کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سانس تھے.اس وقت تک ہم ان سانسوں سے برکت پانے کے اہل نہیں ہو سکتے کیونکہ مدینہ کی فضا بھی حضرت محمد مصطفی امیہ کے سانسوں سے بھری پڑی تھی.وہ کتنے بدنصیب تھے جوان سانسوں کو لیتے تھے لیکن ان سے برکت نہ پاتے تھے.پس نظام برکت ایک روحانی نظام ہے اس کے لئے ہر انسان کو اہلیت پیدا کرنی چاہئے.جس طرح دنیا میں ایک نظام انہضام ہے، جب تک نظام انہضام درست نہ ہو قطع نظر اس بات کے کہ غذا اچھی ہے یا بری، انسان کو اس غذا سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.ایک شخص جس میں بعض اچھی غذاؤں کو ہضم کرنے کی طاقت ہی نہ ہو ، بعض دفعہ جب وہ ایسی غذا استعمال کرتا ہے تو رد عمل پیدا ہوتا ہے اور فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے.دودھ کو دیکھئے کیسی کامل غذا ہے کہ دواڑھائی سال تک بچہ مکمل طور پر محض دودھ پر پلتا ہے اور اسی سے اپنی آنکھیں بناتا ہے،اپنے دانت بنانے کی تیاری کرتا ہے ، جسم کا ہر عضلہ اسی دودھ سے پرورش پا کر بنتا ہے ہڈیاں بن رہی ہیں ، ناخن بن رہے ہیں، بال بن رہے ہیں، تمام جسم کے اعضاء خواہ کسی نوعیت کے ہوں اسی ایک دودھ سے قوت پا کر نشو و نما پاتے چلے جاتے ہیں لیکن جن کو دودھ کی الرجی ہو ، جو دودھ ہضم نہ کرسکیں ، وہ جب دودھ پیتے ہیں تو مرنے کے قریب پہنچ جاتے ہیں.مجھے چونکہ ہومیو پیتھک علاج کا تجربہ ہے اس لئے بعض مریض میرے سامنے ایسے بھی لائے گئے.مثلاً انگلستان میں ایک بچے کے متعلق بتایا گیا کہ دودھ کا ایک قطرہ بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا اور دن بدن اس کی صحت گرتی چلی جارہی ہے.دودھ دیں تو پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے.یا الٹیاں آجاتی ہیں یا قے شروع ہو جاتی ہے یا اسہال لگ جاتے ہیں الغرض کئی قسم کے وبال چمٹ جاتے ہیں.چنانچہ میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا علاج کیا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 984 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء وہ بچہ صحت مند ہوا، صحت مند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس طبعی حالت کی طرف لوٹ گیا جو خدا تعالیٰ نے سب کو عطا کر رکھی ہے.جس کو ہم اپنی غفلتوں سے بگاڑ دیا کرتے ہیں.تو اگر تم نے اپنی روحانی حالتوں کو بگاڑ رکھا ہے ، اگر ان میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ روحانی غذاؤں کے انہضام کی صلاحیت باقی نہیں رہی تو محض یہ جذباتی باتیں ہیں کہ آج ہم ان فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں جہاں کسی وقت ہمارے آقا و مولیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سانس لیا کرتے تھے.یہ سب ایک جذباتی کھیل ہوں گے جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی.پس وہ لوگ جو آج اس جلسے میں شمولیت کی غرض سے جو سو سالہ جلسہ ہے یہاں تشریف لا سکے ہیں اور اس جمعہ میں بھی شمولیت کی سعادت پارہے ہیں ان کو بھی میں یہ نصیحت کرتا ہوں اور بعد میں آکر ان سے ملنے والوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں اور ہم سب کے چلے جانے کے بعد یہاں ہمیشہ رہنے والے درویشوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس مقام کے کچھ تقاضے ہیں.ان تقاضوں پر ہمیشہ نگاہ رہنی چاہئے.عام حالتوں سے یہاں رہنے والوں کی حالت کچھ مختلف ہونی چاہئے.ہم سب انسان ہیں، ہم سب میں کمزوریاں ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے ، ہماری غفلتوں کو معاف فرمائے لیکن اس کے ساتھ ہی اس ذمہ داری سے ہم بہر حال آنکھیں بند نہیں کر سکتے جو مقدس مقامات پر رہنے والوں کی ذمہ داریاں ہیں.خواہ وہ عارضی قیام کے لئے آئیں یا مستقل قیام کی سعادت پائیں پس ان ایام میں ان ذمہ داریوں کو خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھتے ہوئے ، دعائیں کرتے ہوئے دن گزاریں، خدا تعالیٰ سے توفیق حاصل کرنے کی دعامانگیں اور توفیق پائیں کہ ہم اپنے روحانی نظام ہضم کو درست کر سکیں اور جہاں بھی قدرت کی طرف سے کوئی روحانی فیض عطا ہونے کا موقع ملے ہم اس سے پوری طرح استفادہ کر سکیں تبھی ہم ایک تنومند ، مضبوط اور صحت مند روحانی وجود کی صورت میں ارتقاء کر سکتے ہیں.یہ وہ ایام ہیں جن میں کثرت کے ساتھ درود پڑھنے کی ضرورت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور احسان کے ساتھ جو عظیم الشان تعلیم، اسلام کی صورت میں ہمیں عطا ہوئی ہے، وہ پاک کلام جس کا کوئی ثانی نہیں، یعنی قرآن کریم یہ حضرت اقدس محمد مصطفی عنہ کے قلب مطہر پر نازل ہوا تھا قرآن کی وحی کی صورت میں بھی اور اس کے علاوہ دیگر وحی کی صورت میں بھی.اسلام کی مکمل تعلیم حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کے فیض سے ہمیں عطا ہوئی ہے.یہی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 985 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء وجہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو وسیلہ قرار دیتا ہے یعنی وہ واسطہ ہیں جن کے ذریعہ سے تمام روحانی فیوض تمام بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ کے لئے جاری کئے گئے.یہی قرآن کریم ہمیں نصیحت فرماتا ہے.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ) ( الرحمن (1) کیا احسان کی جزاء احسان کے سوا بھی ہو سکتی ہے.احسان کی جزاء تو احسان ہی ہونی چاہئے لیکن مشکل درپیش ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ کا احسان اتنا عظیم اور اتنا وسیع اور اتنا دور رس ہے کہ لامتناہی ہے.اس کی حدود قائم کرنے کا انسان کے ادراک کو اختیار نہیں ہے.میں نے جب بھی غور کیا ہے اور گہرا غور کیا ہے اور نظر کو ہر طرف دوڑایا اور پھیلایا اور سوچا کہ حضرت محمد مصطفی عملہ کے احسانات کا احاطہ کر سکوں اور ان کے متعلق ایک ایسا شعور پیدا کر سکوں کہ ہر دفعہ اس احسان کو پہچان لوں تو میں اس کوشش میں ہار گیا اور کوشش کے باوجود آج بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے احسانات ہیں جو ہم پر وارد ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہم غفلت کی حالت میں ان سے آگے نکلتے چلے جاتے ہیں.صبح جب آپ اٹھتے ہیں اور اپنے بدن کو پاک اور صاف کرتے ہیں، خدا تعالیٰ کی یاد کی طرف دل کو لگاتے ہیں تو کتنے ہیں جو باقاعدہ بلا استثنا حضرت محمد مصطفی عملہ کا تصور دل میں لاتے ہیں یالا سکتے ہیں کہ یہ ہمارے آقا و مولیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اچھی صبح کا آغاز سکھایا.یا پھر سارا دن آپ کا مختلف حالتوں میں گزرتا ہے، کہیں بدیوں سے بچنے کی کوشش میں کہیں نیکیوں کی طرف میلان کی صورت میں کہیں کسی غریب پر رحم کے نتیجے میں آپ کے دل میں ایک خاص روحانی لہر دوڑ تی ہے لیکن کتنے ہیں جو سوچتے ہیں کہ یہ سب فیوض حضرت محمد مصطفی ماہ ہی کے فیوض ہیں.آپ نے سب کچھ سکھایا ہے، ایسے کامل معلم ، ایسے کامل مربی کہ آپ نے انسانی ضرورتوں کی ہر چیز کا احاطہ کر لیا.یہ درست ہے کہ یہ احاطہ خدا تعالیٰ کے اس پاک کلام نے کیا جو آپ پر نازل ہوالیکن اس لا متناہی پاک کلام کے فیوض کو اپنی ذات میں جاری کر کے ایک نمونہ بن کر ہمارے سامنے ابھرے.یہ احسان ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا احسان ہے ورنہ وہ پاک کلام ہماری حد ادراک سے باہر رہتا.ہم قرآن آج بھی تو پڑھتے ہیں.کتنے ہیں جو قرآن کے معارف کو براہِ راست پاسکتے ہیں اور ان کے مطالب کو پہنچ سکتے ہیں.لیکن وہ مطالب جو ہم نے پالئے اور ان میں سے بھی بہت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 986 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء سے ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں.اگر آپ مزید غور کریں تو آپ کا دل اس یقین سے بھر جائے گا کہ یہ تمام فیوض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتداء جاری ہوئے اگر حضرت محمد مصطفی ملے ان فیوض سے اپنا کوثر بھر کر ہمارے لئے ہمیشہ کیلئے جاری نہ فرماتے تو ہم ان فیوض کو پا نہیں سکتے تھے.ان کو سمجھ بھی نہیں سکتے تھے.ان کی تفاصیل سے لاعلم اور جاہل رہتے اس لئے یہ درست ہے کہ ہر برکت کا آغا ز خدائے واحد و یگانہ سے ہے.لیکن بعض انسانوں کو وہ تو فیق عطا فرماتا ہے کہ ادنیٰ درجہ کے گنہگار انسانوں کیلئے ایک وسیلہ بن جائیں اورسب سے بڑا وسیلہ دنیا میں حضرت محمد مصطفیٰ بنے کیونکہ سب سے کامل تعلیم آپ پر نازل ہوئی اور زندگی کے سب سے زیادہ تقاضے کرنے والی تعلیم آپ پر نازل ہوئی.اتنے تقاضے ہیں کہ دنیا کے کسی مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی آپ کو دکھائی نہیں دے گا.اگر تقاضوں پر نظر رکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی زندگی دوبھر ہو جائے گی.اس کی ساری عمر ایک قید خانے میں بسر ہوگی جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو ذکر کرتے ہوئے ان الفاظ میں ظاہر فرمایا کہ الدنيا سجن للمومن وجنة للكافر (مسلم کتاب الزهد والرقاق حدیث نمبر ۵۲۵۶) که دنیا مومن کے لئے تو قید خانہ ہی ہے.کافر کی جنت ہوتی ہوگی لیکن مومن کے لئے قید خانہ ہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب ہم ان لفظوں پر غور کرتے ہیں تو یہ قید خانہ بھی مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے ظاہر ہوتا ہے بعض قیدی ہمیں بہت خوش نظر آتے ہیں اتنے خوش کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ اس قید خانہ سے باہر ایک سانس بھی لیں اور کئی قیدی ہیں جور سے تڑاتے پھرتے ہیں اگر وہ تڑا اسکیں تو تڑا لیتے ہیں ، بے قاعدگیاں کر سکیں تو کرتے ہیں.ورنہ ان کی زندگی ایک قسم کا عذاب بنی رہتی ہے.تو کس قسم کا قید خانہ ہم نے قبول کرنا ہے یہ راز بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہم پر اپنا نمونہ پیش کر کے کھول دیا کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ قیود کو آپ نے قبول فرمایا اور سب سے زیادہ پُر لطف زندگی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زندگی تھی جن کی عشرت اپنے آقا ومولیٰ اللہ جل شانہ کی کامل اطاعت میں تھی.اس کی عبادت میں آپ کو سرور ماتا تھا.آپ کی تمام تر روحانی لذتیں اپنے خدا کی ذات سے وابستہ تھیں.پس قید بھی تو مختلف قسم کی ہوتی ہے.بعض قید میں ایسی ہیں جو زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کرنے والی ہوتی ہیں اور بعض قیدیں ایسی ہیں جو زندگی کی تمام صعوبتیں وارد کرنے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 987 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء والی ہوتی ہیں.پس اپنے زاویہ نگاہ کو درست یا نا درست کرنے والی بات ہے.یہ وہ مضمون ہے جسے دنیا کا ہر انسان سمجھتا ہے یا سمجھ سکتا ہے چاہے اسے مذہب کی دنیا میں اطلاق کرے یا نہ کرے کسی نہ کسی محبت کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے اور محبت بھی تو کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے.محبت بھی تو بہت سے تقاضے کیا کرتی ہے ان تقاضوں کو پورا کرنے میں ہی محبت کرنے والے کی لذت ہوا کرتی ہے ، ان تقاضوں سے انحراف کے نتیجہ میں زندگی کا لطف پیدا نہیں ہوتا.محبت کی بھی بے شمار قسمیں ہیں.ان میں سے ایک ماں کی بچے کیلئے محبت.میں آپ کے سامنے مثال کے طور پر رکھتا ہوں کہ ماں کی بچے سے محبت کے تقاضے بعض دفعہ اتنے شدید ہو جاتے ہیں اور اتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ انسان ان کے تصور سے بھی کانپتا ہے اور ماؤں کو بڑے رحم کی نظر سے دیکھتا ہے جن کے بیمار بچے ساری رات ان کو بلاتے اور ان سے کسی نہ کسی مدد کے تقاضے کرتے چلے جاتے ہیں.خواہ وہ مدد کر سکیں یا نہ کرسکیں اور بسا اوقات ماں مدد کرنے سے عاری ہوتی ہے، نہیں کر سکتی ، بچے کا دکھ دور نہیں کر سکتی.اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے دیکھتی ہے.جانتی ہے کہ وہ غلط کہہ رہا ہے کہ ماں ! نہ سو.میرے ساتھ جاگ اور میرے ساتھ تکلیف اٹھا.وہ جانتی ہے کہ میرا جا گنا میرے ساتھ تکلیف اٹھانا اس بچے کے کسی کام نہیں آئے گا لیکن محبت کا تقاضا ہے.اسے نیند میں عذاب ملتا ہے اسے جاگنے میں راحت نصیب ہوتی ہے.وہ جتنا بیمار بچے کے قریب ہو، جتنا اس کے دکھ کو اپنے قلب پر وار دکرے،اس کے دکھ کا احساس کرتے ہوئے اس تکلیف کو اپنانے کی کوشش کرے، اتنا ہی اس کو کچھ سکون ملتا ہے.لیکن یہ واہمہ بھی اس کے لئے جہنم کے واہمہ کی طرح ہے کہ وہ اپنے بیمار تڑپتے ہوئے بچے کو چھوڑ کر اسلئے سو جائے کہ فائدہ تو میں کچھ پہنچا نہیں سکتی ، کیوں نہ کچھ آرام کروں.تو اسلام کو جس قید خانے کی صورت میں حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے ہمارے سامنے رکھا وہ ان معنوں میں نہیں تھا کہ تم ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہو کر زندگی گزار و اور تمہاری زندگی عذاب بن جائے بلکہ سب سے بڑے قیدی اس قید خانے کے تو حضرت محمد مصطفی علی وہ خود تھے.کہنے والا جانتا تھا کہ اس قید کے کیا تقاضے ہیں اور اس قید کے کیا فوائد ہیں اور کہنے والا جانتا تھا کہ یہ وہی قید ہے کہ ایک لمحہ بھی میں اس قید سے باہر کا تصور بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے اس قلبی رجحان کو اللہ جل شانہ نے ہم پر ایک ایسے راز کے طور پر کھولا جو بہت ہی مقدس راز محبت اور پیار
خطبات طاہر جلد ۱۰ 988 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء کا راز تھا لیکن جسے بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے ان کے سامنے کھولنا ضروری تھا.فرمایا: قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: ۱۶۳) میں ایک ایسا قیدی ہوں کہ میری تمام تر عبادتیں، میری تمام تر قربانیاں، میری زندگی، میرا مرنا ، کلیپ لمحہ لمحہ خدا تعالیٰ کا ہو چکا ہے.میری زندگی کا ہر لمحہ اس قید میں جکڑا گیا ہے اور یہی میری لذت کا معراج ہے.فرمایا یہی کہہ کر لوگوں کو اس طرف بلاؤ.اگر یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہوتی تو خدا تعالیٰ اس راز کو چھپاتا ، نہ کہ ظاہر کرتا.اگر ایسی بات تھی کہ جس سے طبیعتیں متنفر ہوتیں اور بھا گئتیں اور اسے بوجھ سمجھتیں تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ اس راز کو مومنوں پر ظاہر کر کے فرماتا کہ یہ حال ہو گا تمہارا.جو میرے عاشق صادق محمد ﷺ کا حال ہے اس لئے ادھر نہ آنا.دنیا کے عاشق تو ڈرایا کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو حال ہو گیا ہے، خدا نہ کرے تمہارا بھی ہو لیکن اس حال کا جو محمد مصطفی ﷺ کا حال تھا، اس کا عجیب عالم ہے کہ بظاہر دور کی نظر سے جتنی دور کی نظر سے اس کو دیکھو اتنا تکلیف دہ دکھائی دیتا ہے.لیکن خدا کی قریب کی نظر نے اس کو ایک جنت کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دیکھا اور ایسی عظیم زندگی کے طور پر دیکھا کہ جس کا حال جس کا راز اگر بنی نوع انسان کو پتا چلے تو وہ والہانہ اس زندگی کی طرف دوڑتے چلے آئیں اور اسے اپنانے کی کوشش کریں.پس یہ وہ اندرونی مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا کیا گیا.لیکن اس میں اترنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے.اسے سمجھے بغیر انسان ان مضامین سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا.پس دنیا کے عاشق کو لطف تو آتا ہے لیکن ساتھ ساتھ ڈراتا بھی تو چلا جاتا ہے کہ الا یا ایها الساقی ادر کا ساؤنا ولها که عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلها اے ساقی ! شراب سے لبریز پیمانہ پکڑا تاکہ میں اپنے آپ کو ڈبو دوں ، اپنی یادوں کو غرق کر دوں کہ عشق کے سوا اب مجھ سے رہا نہیں جاتا کیونکہ ” آساں نمود اول عشق آغاز میں تو بہت پر لطف دکھائی دیتا تھا اور بڑا آسان لگتا تھا ولے افتاد مشکلہا اب اس میں مبتلا ہو گئے ہیں تو بہت مصیبتوں کا پہاڑ سر پر آپڑا ہے.لیکن حضرت محمد ﷺ کا عشق دیکھا کہ کس شان سے محبوب کی نظر میں ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ اب کہہ دے ! تمام بنی نوع انسان کو مطلع کردے کہ
خطبات طاہر جلد ۱۰ 989 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ اے محبت کا دعوی کرنے والو! خدا کی محبت عذاب نہیں ، خدا کی محبت ثواب ہے ، یہ لذت ہے، یہ جنت ہے اور جنت کی بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی قسم ہے اسلئے تم بھی اگر محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو میری پیروی کرو، میرے پیچھے آؤ پھر تمہیں پتا لگے گا کہ محبت ہوتی کیا ہے پھر تم محبت کی حقیقت سے آشنا ہو گے اور کچی محبت کے نتیجہ میں خدا کے پیار اور محبت کی نظریں تم پر پڑنے لگیں گی.پس ان معنوں میں حضرت محمد مصطفی مالی وسیلہ ٹھہرے.پس جب ہم درود پر زور دیتے ہیں تو ہر گز نعوذ باللہ من ذالک اس میں کوئی شرک کا پہلو نہیں.اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی کچھ نہیں.اس کے سوانہ محمد یت ہے، نہ احمدیت ہے، نہ زندگی کی کسی اور حقیقت کے کوئی معنی ہیں.تو خدا ہی ہے جو سب کچھ ہے لیکن وہ لوگ بھی بہت کچھ ہوئے جو خدا تعالیٰ سے وابستہ ہو گئے اور وہ لوگ بھی بہت کچھ ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے وابستہ ہونا شروع کر دیا.پس اس پہلو سے وسیلے کی حقیقت کو سمجھیں تو ہم سب آج اپنے رب سے وابستہ ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں.لازماً ہم سب آنحضرت ﷺ کے عظیم احسانات کے نیچے دبے پڑے ہیں.اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم احسانات کا بدلہ اتار سکیں.پس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جوفر ما تا ہے کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ کہ کیا احسان کی جزاء احسان کے سوا بھی کچھ ہو سکتی ہے؟ پس یہ بھی حضرت محمد مصطفی مے کے احسانوں میں سے ایک احسان ہے اور عظیم احسان ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تمہارے دل میں بھی تمنا ہوتی ہوگی کہ مجھے تھے دو.میرے لئے کچھ کرو تو درود پڑھا کرو.خدا کی حمد کے بعد درود پڑھا کرو اور اس کے نتیجے میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ احسان اتار رہے ہیں مگر طاقتور سے لڑائی نہیں ہو سکتی ناممکن ہے.محسن اعظم کے احسان سے فیضیاب ہونے والے اس سے مقابلہ نہیں کر سکتے.ایک طرف بظاہر ہمارے دل کو تسکین دینے کے سامان پیدا کئے کہ تم بھی مجھ پر کثرت سے درود بھیجو.کچھ تمہیں بھی تو لطف آئے کہ تم نے میرے لئے کچھ کیا اور ساتھ فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری دعائیں مقبول ہوں گی.یہ سارے درود خدا تعالیٰ تم پر لوٹا دے گا اور آسمان سے یہ درود برکتیں اور رحمتیں بن کر تم پر نازل ہوا کرے گا.تو کیسا احسان اتا را؟ ایک ذرہ بھی نہیں.احسان اتارنے کی کوشش میں اور احسانوں تلے ہم دبتے چلے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 990 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء جاتے ہیں اور دبتے چلے جائیں گے.پس آنحضرت مے چشمہ فیض ہیں.آپ کا فیض لازما لوگوں کو پہنچے گا.کسی کا فیض آپ گو نہیں پہنچ سکتا، سوائے خدا کے.میرے نزدیک خاتمیت کا آخری معنی یہی ہے کہ وہ فیض رساں جو ہر دوسرے کو فیض پہنچائے اور کبھی کسی سے فیض حاصل نہ کرے سوائے اس کے کہ جس کی وہ مہر ہے ، جس کے ہاتھوں سے لگتی ہے.پس کامل رسول ، سب سے کامل رسول، اکمل رسول ، سب کا ملوں سے بڑھ کر کامل اور سب خدا رسیدہ لوگوں سے بڑھ کر خدا رسیدہ ایک ایسا رسول تھا جس کا فیض تمام نبیوں پر پھیلا ہے.تمام بنی نوع انسان پر پھیلا ہے.حیوانات پر پھیلا ہے.جمادات پر پھیلا ہے.ان کو پہنچا جو آپ کے آنے سے بہت پہلے پیدا ہوئے.اس کا ئنات کو پہنچا جوا بھی ابتدائے وجود کی حالت میں کروٹیں بدل رہی تھی.کیونکہ آپ آخری رسول تھے اس لئے آپ فیض رساں ہیں لیکن تمام تر فیوض آپ نے اپنے رب سے پائے.یہ توحید کامل ہے جس کا سمجھنا ضروری ہے اور اس کے نتیجہ میں جہاں حمد کی طرف غیر معمولی توجہ اور عارفانہ توجہ پیدا ہوتی ہے وہاں درود کی طرف بھی غیر معمولی اور عارفانہ توجہ پیدا ہوتی ہے.پس ہم یہ مبارک ایام ان فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے یہاں بسر کریں گے جن فضاؤں کے ساتھ ہمارا ایک گہرا جذباتی رابطہ ہے.خواہ ہم اس فیض کو پاسکیں یا نہ پاسکیں لیکن جب ہم یہ سوچتے ہیں اور سوچیں گے کہ حضرت مسیح موعود ان فضاؤں میں سانس لیتے رہے اور آپ کے بزرگ صحابہ اور خلفاء ان فضاؤں میں سانس لیتے رہے تو باوجود اس احساس بے بسی کے ہم زبر دستی اس کا فیض نہیں پاسکتے جب تک فیض پانے کی اہلیت پیدا نہ کریں.ایک جذبات میں انگیخت تو ضرور ہوگی ، ایک لرزش پیدا ہوگی.ایک تموج پیدا ہوگا اور تموج بھی ایک عجیب روحانی لطف پیدا کرتا ہے.ایسی کیفیات میں درود پڑھا کریں.ایسی کیفیات میں جو خاص تموج کی حالتیں آپ پر آنے والی ہیں اور آچکی ہونگی اور آئندہ بھی آتی چلی جائیں گی ان حالتوں میں سب سے بڑھ کر حمد باری تعالیٰ کے بعد درود پڑھنے کی ضرورت ہے.اور یہ وہ چیز ہے جو برکتوں کی صورت میں آپ ہی پر نازل ہوگی آپ کا کسی پر کوئی احسان نہیں.نہ حمد کا خدا تعالیٰ پر احسان ہے نہ درود کا محمد مصطفی ﷺ پر احسان ہے.یہ احسان ایسا ہے جو کئی گنا ہو کر آپ کی طرف واپس لوٹے گا اور پھر آپ اس کیفیت میں اگر اپنوں کے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 991 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء لئے ، غیروں کے لئے ، دوستوں کے لئے اور دشمنوں کے لئے ، آزادوں کے لئے اور اسیروں کے لئے صحتمندوں کے لئے اور بیماروں کے لئے ، وہ جو خوش نصیب ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے دولت کی فراوانی عطا کی ہے، وہ جو غربت میں سسکتے ہوئے زندگیاں بسر کر رہے ہیں جو قرضوں کے بار تلے دبے ہوئے ہیں، جو کئی قسم کے مصائب کا شکار ہیں ان سب کے لئے بھی اگر آپ دعا ئیں کریں گے تو وہ دعا ئیں زیادہ مقبول ہوں گی اور ان معنوں میں آپ بھی تو کچھ فیض رساں بن جائیں گے.پس یہ عجیب گر ہمیں حمد وثنا اور درود نے سکھا دیا کہ تم اپنے اوپر والوں کا احسان تو نہیں اتار سکتے مگر اس احسان اتارنے کی کوشش میں اپنے نیچے والوں پر اور احسان کرتے چلے جاؤ تمہیں بھی کچھ فیض رساں ہونے کا سلیقہ عطا ہوگا تمہیں بھی لطف ملے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ اور محمد مصطفی ﷺ کا احسان نہیں اتار سکتے تو عاجز بندوں پر کچھ احسان تو کر سکتے ہو اور خدا کے بندوں پر احسان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو احسان مند محسوس فرماتا ہے.حضرت محمدمصطفی ﷺ کی امت پر احسان کرنے کے نتیجہ میں آنحضور ﷺ کی روح آپ پر رحمت اور درود بھیجے گی.یہ ایک ہی راستہ ہے جس سے ہم کچھ احسانات کا بوجھ ہلکا کرنے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس راستے میں داخل اسی طریق سے ہوتے ہیں جو طریق قرآن کریم نے ہمیں سکھایا جو حمد وثنا اور درود نے ہمیں سکھایا.پس آج کی اس محفل میں جو باتیں میں آپ کے سامنے کر رہا ہوں انہیں حرز جان بنائیں ان پر غور کریں ، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے کوشش کیا کریں کہ آپ کے اخلاق کے رونما ہوتے وقت یعنی جب اخلاق کسی عمل میں ڈھل رہے ہوتے ہیں یہ دیکھا کریں کہ اس پر حضرت محمد مصطفی اے کی کتنی چھاپ ہے.اور جب آپ ایسا سوچیں گے تو اکثر صورتوں میں جہاں بھی آپ بھلائی کریں گے آپ حضرت محمد مصطفی اے کے زیرا احسان آرہے ہونگے.اور اس وقت کا درود یک خاص کیفیت کا درود ہوگا.وہ عام حالت کا درود نہیں ہوگا.پس درود، درود کی بھی مختلف قسمیں ہیں.ایسا درود پڑھیں جو دل کی گہرائیوں سے تموج کی حالت میں اٹھے.ایک موج کی صورت میں ، اہر در اہر دل سے نکلے.وہ درود ہے جو آسمان تک پہنچتا ہے ، وہ درود ہے جو برکتیں بن کر آپ پر نازل ہوتا ہے.پھر آپ کی دعائیں آپ کے پیاروں کے حق میں بھی سنی جائیں گی.مجبوروں کے حق میں بھی سنی جائیں گی، غیروں کے حق میں ، اپنوں کے حق میں ، ہر اس شخص کے حق میں آپ کی دعائیں سنی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 992 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء صلى الله جائیں گے جن کیلئے آپ آنحضور ﷺ کے فیض کے اثر کے تابع دعا کریں گے.یہ آخری بات سمجھا کر میں اس خطبہ کو ختم کروں گا.آنحضور ﷺ کے فیض کے تابع اگر آپ دعا کریں تو آپ کی دعا اپنوں کے لئے نہیں رہ سکتی ، صرف اپنوں کیلئے نہیں رہ سکے گی.آنحضور ﷺ کا فیض محسوس کرتے ہوئے اس خاص حالت میں اگر آپ دعا کریں تو ناممکن ہے کہ آپ اپنے دشمن کے لئے بھی دعانہ کر یں.ناممکن ہے کہ تمام حاضر بنی نوع انسان کے لئے دعا نہ کریں.ناممکن ہے کہ آئندہ تمام آنے والی نسلوں کیلئے دعانہ کریں.ناممکن ہے کہ تمام گزرے ہوئے بنی نوع انسان کیلئے دعا نہ کریں.کیونکہ آنحضور ے کے فیض کا یہ وسیع دائرہ تھا جس میں آپ کا فیض پہنچا کرتا تھا.پس آپ کے فیض سے لذت پا کر آپ کے دل میں بھی اسی طرح کی ایک بے کنار موج اٹھے گی جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوگا ، آر کے دل کی گہرائی سے ایسی دعائیں اٹھیں گی جن سے بنی نوع انسان کو بہت سا فائدہ پہنچے گا.ان معنوں میں آپ فیض رساں بن سکتے ہیں اور انہی معنوں میں آپ کو فیض رساں ہونا چاہئے کیونکہ اگر آپ آج فیض رساں نہ بنے تو یہ دنیا ہلاکت کے آخری کنارے تک پہنچی ہوئی ہے.کسی اور کا فیض اس دنیا کو اب ہلاکت سے بچا نہیں سکتا.ایک محمدمصطفی ﷺ کا فیض ہے وہ آپ کے اور خدا تعالیٰ کے درمیان وسیلہ بنے ہیں اور آپ کو محمد مصطفی عمل ہے اور بنی نوع انسان کے درمیان لازماً وسیلہ بننا ہو گا.یہی وہ وسیلہ ہے جو آج تمام بنی نوع انسان کی نجات کا وسیلہ بنے گا اگر یہ وسیلہ نہ بنا تو بنی نوع انسان کا کچھ نہیں بن سکتا.یہ آج کی دنیا لازماً ہلاک ہونے والی ہے.اس کے اطوار تو دیکھیں.اس کی عادتیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عادتوں سے کوسوں کیا، کروڑوں اربوں میل دور جا چکی ہیں.پس وسیلے کے مضمون کو اپنے تک پہنچا کر ختم نہ کر دیا کریں.محمد مصطفی علی وسیلہ صرف خدا تعالیٰ اور آپ کے درمیان نہیں تھے ، خدا تعالیٰ اور سارے بنی نوع انسان کے لئے وسیلہ بننے کے لئے آئے تھے اور آپ کو مزید وسیلوں کی ضرورت ہے.پس وہ جو محمد مصطفی ﷺ سے عشق کا دم بھرتے ہیں ، جو غلامی کا دعوی کرتے ہیں، جو عہد کرتے ہیں کہ ہم آپ کی خاطر ، آپ کے ناموس کی خاطر ، آپ کے پیغام کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے.ان کو لازماًوہ وسیلہ بننا ہوگا اور وسیلے کے تقدس کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے جس حد تک بھی توفیق ملے.جو انسانی کمزوریوں اور بشری بے بسی کے نتیجے میں کمزوریاں لاحق ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی.ایسی صورت میں مجھے اللہ تعالیٰ سے بھاری
خطبات طاہر جلد ۱۰ 993 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء امید ہے کہ ایسے لوگوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.ان کی کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے گا ، ان کے گناہوں کو بخشے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے سب سے محبوب اور سب سے محبوب مطلوب سے یہ پیار کرنے والے ہیں.اور اگر اپنے کسی محبوب سے کسی کو پیار ہوتو لازماً اس کی کمزوریوں سے بھی انسان صرف نظر کرنے لگ جاتا ہے اور بہت سی باتیں اس کی برداشت کر جاتا ہے جو دوسروں کی نہیں کر سکتا.پس خدا سے مغفرت پانے کا بھی یہی ایک ذریعہ ہے.اس وسیلے سے تعلق قائم کریں اور اس وسیلے کی خاطر آپ اس کے اور بنی نوع انسان کے درمیان وسیلہ بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج کے خطبے کی آواز دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچ رہی ہے اور اس ضمن میں جسوال برداران کا دعا کی خاطر ذکر کرنا چاہتا ہوں، خصوصاً وسیم جسوال صاحب کی غیر معمولی محنت اور کوشش کے نتیجے میں آج یہ سامان مہیا ہوئے ہیں کہ آج یہاں کے خطبے کی آواز انگلستان پہنچے.پھر انگلستان سے سیٹلائٹ کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک میں مشرق و مغرب میں.اور جاپان تک بھی پہنچے نی میں بھی پہنچے، ماریشس میں بھی پہنچے ، یورپ کے ممالک میں بھی پہنچ جائے.غرضیکہ جہاں جہاں بھی جس جماعت کو توفیق ہے کہ خطبہ سننے کے انتظامات کر سکے ان تک یہ آواز آج براہ راست پہنچ رہی ہے.اس پہلو سے یہ ایک عظیم تاریخی دن ہے کہ آج قادیان سے محمد مصطفی میلے کے کامل غلام کے ایک ادنیٰ غلام کی آواز ، آپ ہی کی آوازیں بن کر تمام عالم میں پھیل رہی ہیں.اللہ تعالیٰ اس سعادت کے نتیجہ میں ہمیں مزید شکرگزار بندے بنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس شکر گزاری کا آغا ز اس بات سے ہونا چاہئے کہ جو لوگ اس بات کیلئے سعادت کا ذریعہ بنے ان کو بھی دعاؤں میں یادرکھیں.صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ہیں جنہوں نے ان انتظامات میں بہت ہی کوشش اور بہت ہی محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.قادیان کے جلسے کے انتظامات رسمی طور پر تو شاید کل یا پرسوں شروع ہوں گے.لیکن ان انتظامات کا آغاز بہت پہلے سے ہو چکا ہے.انگلستان میں آفتاب احمد خان صاحب جو یو نائیٹڈ کنگڈم (United Kingdom) کے امیر ہیں.وہ خصوصیت سے اس معاملہ میں میری مدد کرتے رہے ہیں اور بہت ہی حکمت ، ذہانت اور مسلسل بڑی محنت کے ساتھ اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے جو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 994 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء کچھ صلاحیتیں ان کو عطا ہوئی تھیں وہ خرچ کی ہیں.اور ان کے علاوہ بہت سے ہمارے انگلستان میں ساتھی اور پھر قادیان میں بہت سے درویش، پھر ربوہ سے آنے والے سلسلہ کے خدام کثرت سے ایسے نام ہیں جو ذہن میں دعا کی غرض سے عمومی طور پر گھوم جاتے ہیں لیکن اس موقع پر تفصیل سے ان ناموں کا بیان ممکن نہیں.اس لئے میں آپ سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ ان ایام میں تمام کارکنوں کو جنہوں نے کسی بھی رنگ میں جلسے کی خدمات میں حصہ لیا ہے یا آئندہ لیں گے ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھا کریں.یہ بھی یادرکھیں کہ جلسہ کے ان ایام میں بہت سے مختلف قسم کے لوگ یہاں آئیں گے.اکثر خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کے ساتھ ، وفا اور محبت سے مجبور ہوکر یہاں پہنچیں گے ، کچھ شریر بھی آئیں گے ، کچھ تنگ نظر بھی آئیں گے، کچھ بدار ادے لیکر بھی آئیں گے اسلئے جہاں ان پاک نیک لوگوں کے لئے ہم پر کچھ فرائض ہیں جو خدا کے نام کی خاطر اور خدا کے دین اور خدا کے پیاروں کی محبت کی خاطر یہاں پہنچے ہیں یا پہنچتے رہے ہیں، جہاں ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی ذمہ داریاں ادا ہوتی ہیں وہاں انکو غیروں کے اثر سے بچانے کی بھی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کے لئے آپ سب کو نگران رہنا چاہئے.ظاہری سیکیورٹی وغیرہ کے جو انتظامات ہیں وہ تو محض بہانہ ہوتے ہیں.اصل تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے لیکن خدا تعالیٰ کا فضل جن جن مشکلوں میں ڈھلتا ہے، جن جن وسیلوں میں سے گزر کے آگے بڑھتا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر مومن صاحب فراست ہوتا ہے.ہر مومن کو بیدار مغز ہونا چاہئے.جہاں اس کو کوئی رخنہ دکھائی دے وہاں کوشش ہونی چاہئے کہ وہ رخنہ بند ہو جائے پیشتر اس کے کہ اس کے نتیجہ میں کوئی فساد ابل پڑے.اسی طرح اپنی چیزوں کی بھی حفاظت ضروری ہے.مجھے تجربہ ہے کہ جلسہ کے موقع پر جماعت مومنین کو بھولا بھالا سمجھ کر کئی چور اچکے بھی آجاتے ہیں اور پھر لوگوں کو اس سے بڑی تکلیف پہنچتی ہے.اس لئے میں آپ کو نصیحت کر رہا ہوں.آپ خود بھی یہ نصیحت ذہن نشین کر لیں لیکن آنے والوں کو بھی بتا ئیں کہ اپنے سامانوں کی حفاظت کریں.باہر سے کثرت سے لوگ آنے والے ہیں.پس جہاں جہاں جس قیام گاہ میں آپ ٹھہرتے ہیں کوئی قیامگاہ ایسی نہیں ہونی چاہئے جہاں آپ اپنا امیر نہ بنا ئیں.اگر یہ نظام جلسہ سالانہ قادیان کے منتظمین نے جاری فرما دیا ہے تو اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 995 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء نظام کے مطابق کام کریں.اگر نہیں ہے تو یا درکھیں کہ ہر کمرہ کا ایک امیر ہونا ضروری ہے.اس کا نظام کے تابع انتخاب کر کے یا مقرر کروا کے پھر اندرونی انتظامات کو مکمل کریں.کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہ کیا کرے؟ اس کا ان سب کو علم ہونا چاہئے.کوئی اور ایمر جنسی ہو جاتی ہے ، حادثہ ہوجاتا ہے تو کیا ہونا چاہئے؟ یہ پھر آپ کی قیامگاہ کے امیر کا کام ہے کہ اپنے ساتھ نائین بنائے.سب ضروریات پر نظر رکھتے ہوئے وقت پر آپ کو مطلع کرے بلکہ پہلے سے بتا رکھے کہ یہ بات ہو تو یہ ہونا چاہئے.فلاں بات ہوتو یہ ہونا چاہئے.کوئی کسی قسم کی شرارت کرتا ہے تو اس کا یہ توڑ ہے.اگر پولیس کے پائیں جانا ہے تو کس طرح جانا ہے.کس نظام کی معرفت اور کس وسیلے سے پہنچنا ہے.یہ ساری باتیں ایسی تفصیلی ہیں جو بعض دفعہ منتظمین سمجھتے ہیں کہ سب کے علم میں ہی ہیں.سب کے سب جانتے ہیں کیونکہ خودان کے علم میں ہیں حالانکہ بہت سے بھولے بھالے باہر سے آنیوالے ایسے ہیں کہ ان کو کوئی پتا نہیں ہوتا کہ کیا کرنا چاہئے.ان کی تربیت کرنی ضروری ہے.پس جماعت کے ہر نظام میں تربیت کا ایک از خود رفته نظام جاری ہو جایا کرتا ہے اور جلسے کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی برکت ہے کہ اس جاری وساری نظام سے بہت سے لوگ فیض پاتے ہیں اور واپس جا کر بہتر زندگی گزارنے کی اہلیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں.پس اس بات کو یاد رکھئے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے احسانات میں سے ایک یہ بھی احسان ہے کہ امارت کے بغیر کی زندگی کا کوئی تصور بھی مسلمان کے لئے باقی نہیں رہتا اسے لازماً نظام کی کڑی کے طور پر نظام کے سلسلے سے مربوط ہو کر رہنا پڑے گا اور اس کا یہ طریق ہمیں سمجھایا کہ اگر تم سفر پر جاتے ہو، کہیں بھی ہو، بغیر امارت کے نہیں رہنا چاہئے.یہی امارت ہے جس کا سلیقہ اگر مومنوں کو عطا ہو جائے تو اس سے صالح امامت رونما ہوتی ہے اور خلافت کی حفاظت کے لئے بھی اس نظام کا تفصیل سے جاری رہنا ، جاری رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا بڑا ضروری ہے.پس ان تمام فسادات سے بچنے کے لئے اور اس دیر پا دُوررس اور اعلیٰ نیت کے ساتھ کہ نظام جماعت کی حفاظت اور صالحیت کے لئے یہ باتیں ضروری ہیں.جہاں بھی آپ رہیں گے وہاں ایک امیر بنا کے ان تمام باتوں پر نظر رکھئے جو ایسے بڑے اجتماعات میں حادثوں یا شرارتوں کی صورت میں رونما ہو سکتے ہیں.ان کی پیش بندی کے لئے ترکیب سوچئے ، سامان پیچھے چھوڑ کر جاتے ہیں ، کوئی آئے گا کیسے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 996 خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء داخل ہوگا ، اس کو اگر روکا جائے تو شرارت کا احتمال نہ ہو، یہ ساری باتیں ہیں جن میں توازن پیدا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے اگر بیدار مغزی سے پہلے ہی متنبہ ہوں تو پھر آپ ایسا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.ہمیں جلسے کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے.مقامی درویشوں پر بہت بڑا بوجھ ہے.بعض کے گھر اس طرح بھرے ہیں اور بھر نے والے ہیں کہ باہر سے آدمی دیکھے تو سوچ نہیں سکتا کہ اس گھر میں سے اتنے افراد نکلیں گے.آج کل تو مرغی خانے کا نظام اور طرح ہو گیا ہے.پرانے زمانے میں خصوصاً پنجاب میں چھوٹے چھوٹے دڑبے رکھے جاتے تھے اور ان میں قطع نظر اس کے کہ اتنی سانسوں کی گنجائش بھی ہے کہ نہیں ، زمیندار مرغیاں گھسیڑ تا چلا جاتا تھا.حتی کہ آخر پر مشکل سے دروازہ بند کر دیتا تھا.یہ اللہ کی شان ہے کہ ایسی حالت میں مرغیاں بچ جاتی ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں میں نے دیکھا کہ ایک دوڑ با کھلا تو اس میں اتنی مرغیاں نکلیں گھبرائی ہوئی اور پریشان کہ یقین نہیں آتا تھا کہ اس چھوٹے سے دڑبے میں سے نکل رہی ہیں لیکن یہ صرف مرغیوں کی دنیا کی بات نہیں ہے.احمدی جلسے میں ہر گھر مرغا خانہ بن جاتا ہے اور بعض دفعہ مہمان نکلتے ہیں اور اتنے نکلتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ کیسے اس میں سما گئے تھے؟ مگر دل کو خدا تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے، ایثار کے جذبے عطا کئے ہیں، محبت عطا کی ہے.اس کے نتیجے میں یہ سب انہونی باتیں ہو کر رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ محبت اور پیار کے انداز میں ان مشکل تقاضوں کو پورا کریں اور شوق سے اور پیار سے پورا کریں ،لطف اٹھاتے ہوئے پورا کریں نہ کہ تکلیف محسوس کرتے ہوئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: جلسہ کے ایام میں اور آج سے لے کر جلسہ تک اور جلسہ کے بعد بھی کچھ عرصہ تک کیونکہ لوگوں کو بار بار مساجد میں اکٹھا ہونے میں تکلیف ہوتی ہے اور ایسی تکلیف کے لئے اللہ تعالیٰ نے سہولت مہیا فرما رکھی ہے اس کے لئے نمازیں جمع ہوتی رہیں گی.آج بھی ہوں گی اور جب تک سہولت پیدا نہ ہو جائے تب تک اس رخصت سے استفادہ کیا جائے گا.تو یا در کھئے کہ اب بھی ، شام کو بھی اور آئندہ بھی ان ایام میں ظہر و عصر کی نمازیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع ہوا کریں گی.“
خطبات طاہر جلد ۱۰ 997 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء وقف جدید کے نئے سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۱۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء بمقام بیت اقصی قادیان تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.آج سے 34 سال پہلے دسمبر کی 27 / تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلی بار وقف جدید کی بناء ڈالی.اور اس کا اس خطبہ میں اعلان کیا.آج 34 سال کے بعد پھر دسمبر کی 27 / تاریخ ہے اور جمعہ کا دن ہے اور مجھے وقف جدید کے نئے سال کے اعلان کی توفیق مل رہی ہے.یہ بھی ان اتفاقات کے سلسلہ میں سے ایک حسن اتفاق ہے جو اس سال بہت اکٹھے ہو گئے ہیں اتنے کہ اتفاقات پر ایمان اٹھ گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اتفاق کی بات نہیں یہ تقدیر الہی ہے جو جاری ہے ورنہ اتفاق سے، ایک اتفاق ہو جائے، دو ہو جائیں ، تین ہو جائیں ، یہ کیا کہ اتفاقات کا مسلسل سلسلہ جاری ہو اور ہر اتفاق حسن اتفاق ہو.پس میں سمجھتا ہوں کہ اس سال کی خصوصیات میں سے حسن اتفاق کے ایک مجموعہ کا اس طرح ظہور ہونا بھی شامل ہے.یعنی ہر اتفاق اپنی ذات میں ایمان افروز لیکن ان کا گلدستہ بہت ہی دیدہ زیب دکھائی دیتا ہے.وقف جدید سے متعلق جب حضرت مصلح موعودؓ نے پہلا اعلان کیا تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ بہت معمولی چندے کی تحریک فرمائی اور اسے بہت آسان کر کے جماعت کو دکھایا.چند ہزار روپے کی تحریک تھی اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اس سلسلہ میں چونکہ بہت سے زمیندارزمین کے کچھ ٹکڑے وقف کریں گے اور معلمین کو جن کو ہم بہت تھوڑا گذارہ دیں گے ان زمینوں سے کچھ زائد آمدنی کی صورت پیدا ہو جائے گی اس لئے مالی لحاظ سے اتنے فکر کی بات نہیں.اس تحریک کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جتنی تو قع حضرت مصلح موعودؓ نے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 998 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء ظاہر فرمائی تھی ، اس سے زیادہ کے وعدے جماعت نے پیش کئے اور جتنے مراکز کا شروع میں اعلان فرمایا تھا کہ وقف جدید کے معلم وہاں جا کر بیٹھیں گے اس سے زیادہ مراکز کا سامان مہیا ہو گیا.اس تحریک کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسی بات کہی جس کو میری ایک والدہ نے بڑے تعجب سے دیکھا اور بعد میں مجھے بتایا ، انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے اس تحریک کے اعلان کا فیصلہ کیا تو ساتھ مجھے بتایا کہ اس میں مجلس کے ممبر کے طور پر میں نے سب سے پہلا نام طاہر کا لکھا ہے.پس آج جب میں اس خطبہ کے لئے آرہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ یہ بھی شاید اللہ کی کسی تقدیر کے نتیجہ میں تھا کہ وقف جدید کی مجلس میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو پہلا نام اپنے ہاتھ سے لکھا تو وقف جدید کے 34 سال کے بعد لیکن تقسیم کے بعد خلیفہ وقت کے تعلق سے یہاں خطبات کا جو انقطاع ہوا تھا، اسکے 45 سال کے بعد آج قادیان میں ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ کے جمعہ میں مجھے ہی وقف جدید کے نئے سال کے اعلان کی توفیق مل رہی ہے.ہندوستان میں وقف جدید کی تحریک کچھ کمزور حالت میں پائی جاتی تھی.کیونکہ وقف جدید کے چندے کی طرف ہندوستان کی جماعتوں میں دلچسپی دکھائی نہیں دیتی تھی.ابھی تک وہ کمزوری جاری ہے اور بمشکل پانچ لاکھ کے قریب یا کم و بیش اتنی ہی وصولی ہوتی ہے حالانکہ ہندوستان میں وقف جدید کی غیر معمولی اہمیت سمجھی جانی چاہیے.یہ وہ تحریک ہے جس کے ذریعہ تمام ہندوستان کے علاقوں میں کم سے کم خرچ پر جماعت احمدیہ کا مؤثر رنگ میں پیغام پہنچایا جا سکتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جو نقشہ تھا وہ کچھ اس قسم کا تھا جیسا کہ میں نے اپنی کل کی تقریر میں ذکر کیا تھا کہ کچھ درویش صفت لوگ جن کی ضروریات زیادہ نہ ہوں ، خدا کے نام پر کسی ایک جگہ جا کر بیٹھ رہیں اور وہاں دھونی رمائیں اور اردگرد اصلاح وارشاد کا کام کریں اور جماعتیں ہوں تو وہاں ان کی تربیت کا کام بھی سنبھالیں.یہ وہ طریق کار ہے جس کے ذریعہ ہم آسانی کے ساتھ ملک کے گوشے گوشے میں تبلیغ ہدایت کا سامان مہیا کر سکتے ہیں.ہندوستان میں جماعت کی عمومی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ اگر ہم بڑے بڑے علماء تیار کر کے ہندوستان کو پیغام دینا چاہیں تو اس کے لئے بہت لمبے انتظار کی ضرورت ہوگی.وقف جدید کی طرف سے اگر چہ ہم معلمین کو با قاعدہ تعلیم بھی دیتے ہیں لیکن اس جدید تحریک کی روایات یہ ہیں کہ اگر ضرورت پیش آئے تو تعلیم کے فقدان کی پرواہ نہ کی جائے اخلاص کو
خطبات طاہر جلد ۱۰ 999 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء دیکھا جائے اور اگر واقعہ کوئی معمولی تعلیم والا شخص بھی اخلاص میں بڑھا ہوا ہو، تقومی کے لحاظ سے اس کا معیار اونچا ہو تو اس کو بھی وقف جدید میں شامل کر لیا جائے.شروع میں یہی طریق تھا لیکن رفتہ رفتہ پھر معیار تعلیم کو بڑھایا جانے لگا اور وقف جدید میں داخلہ کیلئے کم سے کم میٹرک کو معیار قرار دیا گیا.رفتہ رفتہ تعلیم میں اور بھی اضافے ہوئے.اب پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ خدا کے فضل سے جتنے بھی معلمین ہیں ان کی ٹھوس تعلیم کا اگر مکمل نہیں تو کسی حد تک انتظام کیا جاتا ہے.یہی صورت اس وقت ہندوستان میں رائج ہے لیکن آغاز میں وقف جدید کی جو روح تھی وہ وہی تھی جس کو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ اگر وقت کا تقاضا ہو تو تعلیم کو بے شک نظر انداز کر دو.اخلاص اور تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے واقفین کا انتخاب کرو.اور جہاں ضرورت ہے اس ضرورت کو پورا کرو.میں سمجھتا ہوں کہ آج ایسا ہی وقت ہے کہ ہمیں تعلیم کے لیے جھگڑوں کو نظر انداز کرنا ہوگا اور جب ہم یہ کہتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں معا وقف جدید کے معلمین کی دو شکلیں سامنے آتی ہیں.اول وہ جو محض تبلیغ حق کیلئے تبلیغ ہدایت کیلئے دنیا میں نکل کھڑے ہوں اور ان کی تعلیم خواہ کیسی بھی کیوں نہ ہو وہ تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہوں، تقویٰ کا زاد راہ رکھتے ہوں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا کے فضل سے ان کی تبلیغ کو بہت پھل لگیں گے.ایک دوسری نوع کے معلمین وہ ہوں گے جن کو لازماً کم سے کم بنیادی تعلیم دینی ہوگی.کیونکہ ان کا زیادہ تر کام جماعتوں کی تربیت ہوگا.پس دوستم کے معلمین کی ہمیں اس وقت ہندوستان میں شدید ضرورت ہے.ایک وہ جو پیغام حق پہنچا ئیں خواہ کسی تعلیم کے ہوں.کسی طبقہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں.شرط صرف یہ ہے کہ وقف کی روح رکھتے ہوں، ایک ولولہ رکھتے ہوں، ایک جوش رکھتے ہوں کہ آج میدان خدمت نے ہمیں آواز دی ہے ہم ضرور لبیک کہیں گے.اس جذبہ کے ساتھ وہ میدان میں نکل کھڑے ہوں اور ہر میدان کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں سر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرے معلمین تربیت کی خاطر تیار ہونے ضروری ہیں.اور انہیں کچھ علمی ہتھیار سے مرصع کرنا اس لئے ضروری ہے کہ بعض اوقات بعض علماء ان جگہوں پر جہاں جماعت احمد یہ ترقی کر رہی ہے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جا پہنچتے ہیں اور چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ ہم سے علمی مقابلہ کرو، ایسی صورت
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1000 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء میں اگر وہاں نہیں تو قرب و جوار میں ضرور ایسے معلم مہیا ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ علمی میدان میں بھی ان کو شکست دے سکیں.ہندوستان میں ضروریات اس تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتوں سے شاید اتنے احباب نہ مل سکیں.اس ضرورت کے پیش نظر میں نے قادیان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہندوستان کی حکومت سے درخواست کریں کہ جس طرح دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کو پنے مبلغین بھجوانے کی اجازت ہوتی ہے اس طرح ہندوستان بھی ہمیں باہر سے مبلغین بھجوانے کی اجازت دے.اس سلسلہ میں گفت و شنید ا بھی کسی آخری مرحلے پر نہیں پہنچی لیکن اگر ہندوستان کی حکومت وسیع حوصلہ دکھائے اور جیسا کہ دنیا کے تمام ممالک خدمت دین کرنے کیلئے آنے والوں کی درخواستوں پر ہمدردی سے غور کرتے ہیں اور انہیں اجازت دیتے ہیں جیسے ہندوستان میں کثرت سے یورپ اور امریکہ سے عیسائی مبلغ اور مناد پہنچتے رہے اور آج بھی شاید ان کو اجازت دی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان مبلغین کو جو خالصہ اللہ کی خاطر قربانی کرتے ہوئے امن کو پھیلانے کے لئے ، خدا کی محبت کو فروغ دینے کیلئے سچائی کا پیغام لے کر یہاں پہنچیں ان کی راہ روک دی جائے.بہر حال اگر حکومت ہندوستان نے ہمدردانہ غور کرتے ہوئے جماعت کو اجازت دی تو میں ہندوستان کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک عالمی وقف کی تحریک کروں گا تا کہ دوسرے ملکوں سے بھی لوگ یہاں پہنچیں اور آپ کے وقت کے تقاضوں پر لبیک کہیں.اگر یہ اجازت نہ مل سکی تو پھر آپ کو لازماً اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرنا ہوگی.اس وقت جو میدان ہمارے سامنے ہیں ان میں بعض نئے ممالک بھی ہیں جن کا بظاہر تحریک جدید سے تعلق ہے لیکن کام کی نوعیت وقف جدید والی ہی ہے.مثلاً سکم ہے ، بھوٹان ہے، نیپال ہے وہاں جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے مبلغین پہنچے ہیں انہوں نے زمین کو پیسی دیکھا جو پیاسی بھی تھی اور سیراب ہونے کی خواہش بھی رکھتی تھی.ورنہ انسانی تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ جب تمثیلی طور پر انسان کا ذکر زمینوں کی صورت میں کیا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ پیاسی زمینیں پانی کی طلب بھی رکھتی ہوں.پانی آئے تو اسے رد بھی کر دیتی ہیں لیکن بھوٹان ، سکم اور نیپال میں اللہ تعالیٰ کے فضل کیسا تھ طبعی فطری رجحانات پائے جاتے ہیں اور صرف ایک مذہب
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1001 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء کی طرف سے پیاس کا اظہار نہیں بلکہ وہاں جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں ، ان سب میں ہی ایک طلب ہے اور ایک تلاش ہے چنانچہ اب تک ہمارے معمولی تعلیم یافتہ معلمین نے جتنا بھی کام کیا ہے خدا کے فضل سے اس کے توقع سے بہت بہتر نتائج ظاہر ہوئے ہیں.اس لئے ہمیں پھر لازماً ان ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے آپ سے مزید واقفین طلب کرنے ہوں گے.جہاں تک اعلیٰ تعلیم یافتہ واقفین کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب قادیان میں جگہ کی اتنی سہولت مہیا ہو چکی ہے اور اس جلسہ کے اثر سے بعض دوسری جماعتوں نے بھی مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خرچ پر ان کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ ان کے علاقوں سے آنے والوں کے لئے بھی یہاں مہمان خانے تعمیر کئے جائیں.پس وہ جو دقت تھی کہ طلباء کو کہاں پڑھایا جائے ، کہاں جامعہ بنایا جائے ، یہ دقت تو عملاً دور ہو چکی ہے اور باقی مزید دور ہو جائے گی.اساتذہ کا جہاں تک تعلق ہے، میں نے غیر ممالک سے جائزہ لیا ہے اور بہت مثبت جواب پایا ہے کہ عرب جو عربی زبان کی مہارت رکھتے ہوں ، ویسے تو ہر عرب کو عربی آتی ہے لیکن ہر مادری زبان بولنے والے کو اس زبان پر قدرت نہیں ہوا کرتی اس لئے مزید چھان بین کرنی پڑتی ہے کہ کون فصیح و بلیغ زبان جانتا ہے، پس ایسے عرب احمدیوں میں سے جو زبان پر خدا تعالیٰ کے فضل سے قدرت رکھتے ہیں.جب میں نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ اپنے آپ کو وقف کر کے قادیان کے جامعہ میں پڑھانے کے لئے تیار ہوں گے تو انہوں نے خوشی سے اثبات میں جواب دیا بلکہ بہت ہی پر خلوص جذبے کے ساتھ لبیک کہی.اسی طرح ایسے انگریزی دان بھی میسر ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قادیان میں آکر خدمت کے لئے تیار ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے اور زبانوں میں بھی زبان سکھانے والے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں.اس پہلو سے یہاں کے جامعہ کا معیار خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت بلند کیا جاسکتا ہے.اہل زبان اپنی اپنی زبان یہاں کے طالب علموں کو سکھائیں اور قابل علماء جو یہاں میسر نہ ہوں تو باہر سے منگوائے جائیں.وہ اپنے اپنے مضمون کو اعلی پیمانہ پر ذہن نشین اور دلنشین کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جامعہ کا معیار بہت بلند ہوسکتا ہے اور جو روکیں اس وقت پاکستان میں ہمیں زچ کر رہی ہیں اور دل کو تنگ کرتی ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ وہ روکیں یہاں
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1002 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء نہیں ہوں گی.پس اگر یہ ہو تو میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے کہ ایک وسیع جامعہ بنایا جائے جس کا کام صرف اعلیٰ درجہ کے مولوی فاضل پیدا کرنا یا مولوی فاضل کے معیار سے بلند مبلغ پیدا کرنا نہ ہو بلکہ وقف جدید کے لئے بھی وہی کام کرے گویا شروع کے دو یا تین سال جتنی دیر میں ہم سمجھتے ہیں کہ وقف جدید کے مبلغ اس حد تک تیار ہو سکتے ہیں کہ وہ حو صلے اور اعتماد کے ساتھ میدان عمل میں جا کر خدمت بجالا سکیں اسوقت تک ان سب کی کلاسیں اکٹھی بھی ہوسکتی ہیں.بعد میں جو مزید ماہر علماء تیار کرنے ہوں وہ تین یا چار سال کے لئے مزید اس جامعہ میں ٹھہر کر اپنی آخری ڈگری حاصل کر سکتے ہیں.پھر ان میں سے جو مخلصین فوری طور پر اپنے آپ کو میدان عمل کیلئے پیش کریں اسی جامعہ میں کچھ نہ کچھ ابتدائی تربیت کیلئے ان کو چند مہینے روکنا ہوگا اور خدا کے فضل سے اسی جامعہ میں اس کا بھی بہت عمدہ انتظام ہو سکتا ہے.تو تین قسم کے معلمین اور مبلغین یہ جامعہ تیار کریگا.ایک وہ مخلصین جو فوری طور پر اپنے آپ کو میدان عمل میں پیش کرنے کے لئے حاضر ہوں اسمیں نہ کوئی عمر کی شرط ہوگی نہ کوئی تعلیم کی شرط ہو گی ، تقویٰ اور خلوص اور قربانی کا مادہ ، یہ دیکھے جائینگے.ابتدائی طور پر ان کو نظام جماعت سمجھانے کیلئے تبلیغ کے میدان میں حکمتوں کے معاملات سمجھانے کیلئے اور عمومی طور پر ان علاقوں کے متعلق کچھ معلومات بہم پہنچانے کے لئے جن میں ان کو بھجوانا مقصود ہو.پھر اسلام کی کم از کم وہ تعلیم عمدگی کے ساتھ ان کے ذہن نشین اور دلنشین کرنے کی خاطر جس تعلیم کے بغیر کوئی مسلمان روز مرہ کی زندگی میں اپنے مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کرسکتا.وہ بھی ان کو لازماً سکھانی ہوگی مثلاً نماز ہے، اگر کوئی بہت ہی مخلص آدمی اپنے آپ کو پیش کرے کہ میں حاضر ہوں.مجھے میدان عمل میں جھونک دیا جائے لیکن نماز صحیح نہ جانتا ہو، اس کا تلفظ درست نہ ہو ، اس کا ترجمہ اسے نہ آتا ہو، نماز کے متعلق اس کے اردگرد جو مسائل گھومتے ہیں ان سے نا آشنا ہو.وضو کے مسائل کا نہ پتہ ہو.دیگر آداب صلوۃ سے نا واقف ہو تو یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ یہ متقی ہے کیونکہ تقویٰ کی کچھ ظاہری علامتیں ہوئی بھی تو ضروری ہیں.تقویٰ اگر کسی دل میں ہو تو وہ نماز سے محبت کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک سچا متقی ہو اور نماز کیلئے اس کے دل میں جستجو اور تڑپ نہ ہو.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اسی قادیان کی بستی میں جب بچپن میں ہم یہاں گلیوں میں گھوما کرتے
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1003 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء تھے تو عام سے عام انسان جسے دنیا کی زندگی میں عام کہا جاتا ہے ایک مزدور، ایک فقیر ، وہ بھی نماز کو نہ صرف اچھے تلفظ کے ساتھ ادا کر سکتا تھا بلکہ اس کے مطالب سے آگاہ تھا اور روز مرہ کے دینی مسائل سے واقف ہوا کرتا تھا.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں قادیان کے لوگ کچھ اور ہی مخلوق دکھائی دیتے تھے.جن کا اردگرد کی دنیا سے گویا کوئی تعلق نہیں تھا.یہ وہ بستی تھی جہاں لوگ فقیروں کو ، مانگنے والوں کو جھک کر سلام کیا کرتے تھے، ان کی عزت کیا کرتے تھے اور ان کے سامنے دعا کی درخواستیں پیش کیا کرتے تھے.یہ وہ بستی تھی جہاں مزدور جوٹیشن پر مزدوری کرتے تھے پانچ وقت اپنی مزدوری کو چھوڑ کر مسجد مبارک میں حضرت مصلح موعودؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کے شوق میں حاضر ہوا کرتے تھے.وہ اعتکاف بھی بیٹھا کرتے تھے.ذکر الہی میں بھی مصروف ہوا کرتے تھے اور دیکھنے میں ریلوے کے ایک قلی ہی تھے.یہ وہ لوگ تھے جن کو لوگ دعاؤں کیلئے بھی کہتے تھے.ان سے استخارے بھی کروایا کرتے تھے.ان کی مجالس میں بیٹھنا باعث فخر اور باعث عزت سمجھتے تھے.یہ وہ معاشرہ تھا جس میں تقویٰ کی تعریف اپنے پورے جو بن کے ساتھ جلوے دکھا رہی تھی.پس جب میں نے یہ کہا کہ تقویٰ موجود ہواور سچا اخلاص ہو تو ہم تعلیم کی مزید پروا نہیں کریں گے تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ سطحی طور پر تقویٰ کو دیکھا جائے گا.امر واقعہ تو یہی ہے کہ تقویٰ کی گہرائی میں اتر نا صرف خدا کا کام ہے لیکن کسی حد تک انسانی نظر کو بھی تو جانچ کرنی پڑتی ہے.جس حد تک انسان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اس وقت تقویٰ کی ظاہری شرائط کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ عارضی طور پر وقف کرنے والوں کو بھی ہم فوراً بغیر کسی تحقیق کے میدانِ عمل میں نہیں جھونک سکتے.یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ اسے مسلمان کی روزمرہ کی زندگی کے ابتدائی فرائض ادا کرنے آتے ہیں کہ نہیں.بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے لئے علم کی ضرورت نہیں.از خود ہر مسلمان کو معلوم ہونے چاہئیں اور ایک متقی کو لازماً معلوم ہوتے ہیں.پس ان ابتدائی مسائل سے آگاہی کی خاطر ا سے ان باتوں سے بہت اچھی طرح مسلح کرنے کی ضرورت ہے جو میدان عمل میں اس کے سامنے روز مرہ پیش ہوگی اور ان سے لاعلمی کے نتیجہ میں وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہیں کر سکے گا.جب وہ کسی کو اسلام کی طرف بلائے گا تو وہ پوچھے گا ناں کہ بتاؤ اسلام کیا ہے؟ اگر محض اخلاص ہی اخلاص ہو تو وہ اسے کیا بتائے گا.اسکی تو ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک پٹھان نے جب فساد کے زمانے تھے کسی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1004 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء غیر مذہب والے کو تلوار کے زور سے ڈرا کر مسلمان بننے پر آمادہ کر لیا.جب وہ آمادہ ہو گیا تو اس نے کہا: خانصاحب ! اب آپ فرمائیے کیسے مسلمان بنوں ؟ اسنے کہا: کلمہ پڑھو.اسنے کہا پھر پڑھایئے تو کہا کہ تمہاری قسمت اچھی ہے.کلمہ مجھے بھی نہیں آتا.یہ لطیفہ ہے.میں نہیں سمجھتا کہ پٹھانوں میں جو دین سے بڑی محبت رکھتے ہیں ایسے لوگ ہوں گے.مگر پرانے زمانوں میں یہ جاہلانہ رواج تھے کہ قوموں کے اوپر لطیفے بنائے جاتے تھے.پس کسی نے یہ لطیفہ گھڑا ہوگا.لیکن یہ فرضی لطیفہ ایسے معلم پر ضرور صادق آئے گا جو مسلمان بنانے کیلئے نکل کھڑا ہو اور اسے صحیح طریق پر کلمہ بھی پڑھنا نہ آتا ہو.نماز بھی پڑھنی نہ آتی ہو، قرآن کریم کی تلاوت نہ جانتا ہو اور مسائل کی شدھ بدھ نہ رکھتا ہو.اس قسم کی تعلیم کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ آغاز میں ہم تین مہینے کا تجربہ کر سکتے ہیں.اس کے بعد اگر اساتذہ مشورہ دیں تو تین مہینے کو چھ مہینے میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے.یہ چھ مہینے جو ابتداء میں ہمیں کم از کم ضرورت کے معلم پیدا کرنے کیلئے درکار ہوں گے وہ ضائع نہیں جائیں گے کیونکہ اس عرصہ میں ہمیں بہت سے انتظامی کام بھی کرنے ہیں.بہت سے جائزے لینے ہیں اور میدان عمل میں دیگر ضرورتوں کی طرف بھی توجہ کرنی ہے.بعض مقامی قوانین کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں.مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سکم، بھوٹان، نیپال وغیرہ میں خدا کے فضل سے ایک رجحان پایا جاتا ہے لیکن وہاں پر جب تک جماعت رجسٹر نہ ہو اس وقت تک تبلیغ کی کھلے بندوں اجازت نہیں اور معلمین کو کافی دقت پیش آتی ہے.پس جب تک ہم وہاں با قاعدہ قانون کے تقاضے پورے نہ کر لیں اس وقت تک کھلی آزادی کے ساتھ اور پورے ولولے کیساتھ وہاں کام نہیں ہوسکتا.تو اگر آج کے بعد ہم ایک مہینہ آپ کی جماعتوں تک اس پیغام کے پہنچنے اور وہاں سے جواب آنے کا رکھ لیں اور ایک دو مہینے ان خواہشمند احباب کی درخواستوں پر غور کرنے کے ، انکے حالات کی چھان بین کرنے کے اور وہاں کی جماعتوں سے رپورٹیں حاصل کرنے کے رکھ لیں تو پہلے تین مہینے تو اسی قسم کی ابتدائی تیاری کے لئے درکار ہوں گے.ان کے بعد پھر دوسری تیاریاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کرنی ہوں گی.جامعہ کی تیاریاں ، اساتذہ کو حاصل کرنا ، اس کے سلیپس تیار کروانا.نئے طرز پر جامعہ کی تعمیر کیلئے بڑی محنت درکار ہوگیا س کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم تین مہینے اور چاہئیں ہونگے تو جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھ مہینے کے لیے بعد میں ، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے تعلیم شروع کریں تو ایک سال کے بعد پہلا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1005 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء پھل لگے گا.اگر چہ ہماری خواہش کے مطالبے اور ہیں اور صبر کے تقاضے اور ہیں لیکن لازماً آخر صبر کے تقاضے جیت ہی جاتے ہیں.ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا ایک سال کا انتظار تو ہمارے لئے بہر حال مقدر ہے.اس لئے پہلے سال کے بعد انشاء اللہ پھر ہر سال یا اگر چھوٹی کلاس ہو تو تین تین.چھ چھ مہینے کے بعد معلمین کے نئے وفود تیار ہوتے چلے جائیں گے.نئے گروہ تیار ہوں گے جن کو ہم حسب حالات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے شمال وجنوب میں پھیلا سکتے ہیں.وقف جدید کی تحریک کا اس طر ز تبلیغ سے گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جوطرز تبلیغ تھی یا طر ز تربیت تھی یہ وہی ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.آپ کے پیش نظر کوئی بہت زیادہ رسمی سخت مزاج کی تنظیم نہیں تھی.ایسی تنظیم تھی جس میں لوچ ہو ، جس میں تقاضوں کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت ہو، اونچ نیچ کیلئے اس میں گنجائش موجود ہو.پس ہندوستان کی وقف جدید کو بھی اسی نہج پر کام کرنا ہو گا اور اللہ کے فضل سے کسی حد تک یہ کام ہو رہا ہے.لیکن جہاں تک مقامی ضروریات کا تعلق ہے پانچ لاکھ کی رقم تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی.چنانچہ چند سال پہلے میں نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پہلی مرتبہ وقف جدید کے چندہ کے نظام کو بین الاقوامی یا کل عالمی بنا دیا.پہلے وقف جدید کے متعلق یہ خیال تھا کہ برصغیر ہندوپاکستان کی حدود میں محدود ہے اور صرف پاکستان ہی سے چندہ وصول کیا جائے یا صرف ہندوستان ہی سے چندہ وصول کیا جائے.اور اس میں ایک اضافہ بنگلہ دیش کا بھی کر لیں.ان دنوں میں وہ چونکہ مشرقی پاکستان تھا اس لئے اس وقت دو ہی ملک پیش نظر تھے مگر بنگلہ دیش بھی اس گروہ میں شامل ہے چند سال پہلے خصوصیت سے ہندوستان کی ضروریات کو مہِ نظر رکھتے ہوئے میں نے وقف جدید کے چندہ کی عالمی تحریک کی اور تمام دنیا کی جماعتوں سے یہ درخواست کی کہ پاکستان اور ہندوستان کی سرزمین وہ ہے جہاں سے کبھی خالصہ آپ تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے وہاں کے باشندگان مسلسل قربانی کیا کرتے تھے اور کبھی کسی ذہن میں یا ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ چندہ تو ہم اکٹھا کر رہے ہیں لیکن خرچ دوسرے ملکوں میں ہو رہا ہے.ہندوستان اور پاکستان کے باشندوں نے ایک لمبے عرصہ تک کلیۃ اللہ کی خاطر اور تمام نفسانی اغراض سے پاک ہو کر تمام دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے مالی قربانیاں بھی دیں اور جانی قربانیاں بھی دیں.چنانچہ میں نے باقی ملکوں کو سمجھایا کہ یہ تو ایک
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1006 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء ایسا احسان ہے جو آپ عمر بھر اور نسلاً بعد نسل بھی اتارنے کی کوشش کرتے رہیں تو دعا کے سوا اُتر نہیں سکتا.مگر ظاہری طور پر اگر یہ احسان اُتارنا چاہتے ہیں تو ایک صورت یہ ہے کہ آپ ایک ایسی تحریک میں شامل ہو جائیں جس کا خرچ آپ کے ملک میں نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان اور پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہوا کرے گا چنانچہ اس طرح آپ اظہار تشکر بھی کر سکتے ہیں اور آپ کے دل احسان کے بوجھ سے ہلکا محسوس کریں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک پر بہت ہی شاندار لبیک کہا گیا اور بڑے بڑے ممالک نے جن میں یورپ کے ممالک میں سے جرمنی ہے اور UNITED KINGDOM ہے اور دوسرے مغرب کے ممالک میں سے کینیڈا ہے اور امریکہ ہے اسی طرح انڈونیشیا اور دیگر مشرقی ممالک نے بھی بڑی ہی خوشدلی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ لبیک کہا.اور اس کے نتیجہ میں ہماری بہت سی مالی وقتیں دور ہو گئیں.اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دیگر ممالک تو مسلسل قربانی میں آگے بڑھ رہے ہیں اور آغاز میں جتنے انہوں نے وعدے کیے تھے اور جتنی ادا ئیگی کی تھی اس کے مقابل پر اب انکے وعدے اور ادا ئیگی کئی گنا بڑھ چکی ہے.لیکن ہندوستان کی وقف جدید کا وہی حال ہے جس رفتار سے پہلے قدم اٹھا رہی تھی بعینہ اسی رفتار سے اب قدم اٹھا رہی ہے.شاید اس میں کچھ قصور بیرونی قربانی کرنے والوں کا ان معنوں میں ہو کہ یہاں کے کارکنوں نے سمجھ لیا کہ خدا کے فضل سے پیسے تو باہر سے آہی جانے ہیں، ضرورتیں تو پوری ہو ہی جانی ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ کوشش کریں اور مصیبت میں مبتلا ہوں اور چٹھیاں لکھیں اور جماعتوں کو احساس دلائیں کہ تم نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے.بعض دفعہ بیرونی مدد اس قسم کی کمزوری بھی پیدا کر دیا کرتی ہے.تو ایک بات تو میں آج آپ سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ دین کی خاطر قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی پر ذاتی احسان نہیں ہے.یہ نہیں میں کہہ رہا کہ واقعہ آپ پر وہ قومیں احسان کر رہی ہیں.یہ لفظ تو محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے.عملاً جو بھی چندہ دیتا ہے اللہ دیتا ہے.اللہ کی رضا کی خاطر دیتا ہے اس لئے احسان کے مضمون کو کچھ دیر بھول جائے.لیکن انسانی غیرت اور حمیت کے مضمون کو ضرور یا درکھیں.ایک مومن حتی المقدور ضرور یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو.ایک مومن حتی المقدور ضرور یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی اور اپنی علاقائی ضرورتوں کو وہ خود پورا کر سکے اور ہر معنی میں یعنی لطیف تر معنی بھی فیض رساں ہو فیض قبول کرنے والا نہ ہو.
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1007 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء پس ذاتی طور تو ہندوستان کو جہاں بیرونی دنیا سے کوئی بھی زیرا احسان نہیں کرتا جب وہ خلیفہ وقت کی تحریک پر وقف جدید کی مد میں قربانی کرتا ہے.لیکن ہندوستان میں یہ احساس پیدا ہونا ضروری ہے کہ ہم وہ ملک ہیں جہاں احمدیت کا سوتا پھوٹا ہے.جہاں آسمان سے احمدیت کا نور نازل ہوا ہے.ایک لمبے عرصہ تک ہمیں یہ سعادت ملی کہ ہمارا فیض ساری دنیا کو پہنچتارہا.مشرق کو بھی پہنچا، مغرب کو بھی پہنچا، کالوں کو بھی پہنچا، گوروں کو بھی پہنچا.ایک ہندوستان ہی تھا جو افریقہ کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا، امریکہ کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا، یورپ کے ممالک کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا اور مشرق بعید کے ممالک کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا.کبھی کسی ہندوستانی احمدی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے.اسکے لئے یہ سعادت تھی اور اس سعادت کے نتیجہ میں تکبر کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احسان کو یا در کھتے ہوئے اس کا سراونچا ہوتا تھا.سرکا اُونچا ہونا بھی مختلف وجوہ سے ہو سکتا ہے یاد رکھیں کہ سر کا اونچا ہونا لازماً تکبر کی علامت نہیں ہے.بعض دفعہ نیک مقاصد کیلئے بھی سر بلند کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احسان کے تابع جہاں سر جھکتے ہیں وہاں سر بلند بھی ہوا کرتے ہیں.پس ان معنوں میں ہندوستان کی جماعتوں کا سر بہت بلند تھا لیکن رفتہ رفتہ تقسیم کے بعد جو کمزوریاں پیدا ہونی شروع ہوئیں ان میں ایک مصیبت یہ آپڑی کہ دوسروں پر انحصار کا رجحان پیدا ہو گیا اور ہندوستان یہ بھول گیا کہ وہ تو ایک فیض رساں ملک تھا اور فیض رساں ملک کے طور پر بنایا گیا تھا.اس مقصد کیلئے خدا نے اسے چنا تھا کہ اس کا فیض ساری دنیا میں پھیلے.پس اس نقطۂ نگاہ سے ہندوستان کی جماعتوں کو اپنے حالات کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے.میں یہ نہیں کہتا کہ فلاں جماعت کے لوگ مالی قربانی میں پیچھے ہیں اور فلاں کے آگے ہیں لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی ضروریات کے لئے استطاعت ضرور بخشی ہے.آپ میں جتنے مخلصین کام کیلئے آگے آسکتے ہیں ان کا آپ کی تعداد سے ایک تناسب ہے اور ہر قوم میں یہ تناسب موجود ہوتا ہے پس جتنے مخلصین آپ پیدا کر سکتے ہیں ان مخلصین کی ضروریات کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ضرور توفیق بخشی ہے.پس اگر وہ ضروریات پوری نہ ہوں اور باہر سے مدد کی ضرورت پیش آئے تو یہ تکلیف دہ صورت اُبھرتی ہے کہ ہندوستان کی جماعتیں اپنے فرائض کو پورا ادا نہیں کر رہیں.پس میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے حالات کا جائزہ لیں.آپ میں سے وہ خوش نصیب جن کو خدا تعالیٰ نے کثرت سے دولت عطاء فرمائی ہے اور ایسے ضرور ہیں.وہ یہ جائزہ لیں کہ کیا وہ اس نسبت سے جس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1008 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء نسبت سے اللہ نے ان پر فضل فرمایا ہے، خدا کے حضور مالی قربانی میں لبیک کہتے ہیں کہ نہیں.یہ خیال کہ جماعت کے عہدیداران کو کیا پتہ کہ ہمارے پاس کیا ہے، ہمیں کتنا ملتا ہے، یہ ایک بے تعلق اور بے معنی خیال ہے.جماعت کے عہدیداران کو خوش کرنے کیلئے تو آپ نے دینا ہی نہیں ہے.جس کے حضور پیش کرتے ہیں اسے سب کچھ پتہ ہے کیونکہ دینے والا ہاتھ وہ ہے.عطا کرنے والے کو کیسے آپ دھوکہ دے سکتے ہیں.جس نے خود آپ کو کچھ دیا ہو آپ کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اسے آپ کے حالات کا علم نہیں ہے.پس ان عذر کے قصوں کو بھلا دیجئے چھوڑ دیں ان باتوں کو کہ آپ کے او پر کتنی ذمہ داری ہے اور مالی لحاظ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ اچھے ہیں لیکن عملاً یہ حال نہیں ہے.اس قسم کی باتیں عموماً کم چندہ دینے والے کیا کرتے ہیں.ان کو بھلا دیجئے اور یہ بات دیکھئے کہ جس خدا نے آپ کو عطا کیا ہے اگر اس کی محبت اور پیار کے اظہار کیلئے آپ اس کے حضور کچھ پیش کرتے ہیں تو وہ اسے رکھ نہیں لے گا وہ اسے واپس لوٹائے گا اور دہ چند کر کے واپس لوٹائے گا.اور دس گنا زیادہ کر کے واپس لوٹا نا اس نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے.وہ کیسے یہ کام کرتا ہے ہم ان اسرار کو نہیں جانتے مگر روزمرہ کی زندگی میں ان کاموں کو ہوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اخلاص کے اعلیٰ معیار پر قائم ہیں ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے کوئی حد قائم نہیں فرمائی.فرمایا: پھر جسے وہ چاہے اسے جتنا چاہے بڑھا کر دیتا چلا جائے اسکی کوئی حد نہیں ہے.تو پہلے تو یہ دیکھیں کہ خدا کے معاملے میں کنجوسی کرنا کوئی عقل کا سودا ہے؟ کوئی نفع کا سودا ہے یا گھاٹے کا سودا ہے.اللہ تعالیٰ بہت ہی حلیم ہے اور ضروری نہیں کہ ہر کنجوسی کرنے والے کو اسکی کنجوسی کی فور سزا دے.وہ مستغنی بھی ہے.وہ بعض دفعہ پر واہ بھی نہیں کرتا اور خصوصاً ان لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا جن سے توقعات نہ ہوں.پس خدا کی طرف سے اس معاملہ میں پکڑ کا نہ آنا ایک خطرناک علامت ہے.میرا ساری زندگی کا تجربہ ہے کہ نیک لوگوں پر غفلت کے نتیجہ میں احساس دلانے والی پکڑ ضرور جلد ہی آیا کرتی ہے.خدا کی پکڑ کی صرف ایک ہی قسم نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی عقوبت کی بھی اور پکڑ کی بھی بہت سی قسمیں ہیں.بعض دفعہ پکڑ ایسی ہوتی ہے جو صرف احساس دلانے کیلئے ہوتی ہے کہ ہیں ہیں ! تم سے یہ توقع نہیں تھی.یہ کام نہیں کرنا ورنہ میں غالب ہوں.مجھ سے بھاگ کر تم الگ نہیں جاسکتے.یہ ایک ایسی پکڑ ہے جسے مومن اور مخلص مومن ہی جانتا ہے.غیروں کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے.اس کا نام ابتلاء نہیں ہے اس کا نام سوائے محبت کی دنیا کے کسی
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1009 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء اور دنیا کو معلوم ہی نہیں ہو سکتا.ایک ماں جو اپنے بیٹے سے محبت رکھتی ہے اور اعلیٰ تو قع رکھتی ہے جب وہ غفلت کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے سزا دے.لیکن اسکی آنکھ میں ہلکی سی جو مایوسی ظاہر ہوتی ہے وہی اس پیارے بچے کے لئے سزا بن جاتی ہے.اگر نسبتا کم لطیف مزاج کا بچہ ہو تو اس کے لئے اظہار ناراضگی یا اظہار مایوسی ذرا اور رنگ میں ظاہر ہوگا.نسبتاً زیادہ کھل کر ظاہر ہوگا.مگر وہ بھی عام دنیاوی معنوں میں عقوبت یا سزا نہیں کہلاتی وہ محض ایک یاد دہانی ہے.پس میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ مومنوں کو جن سے توقعات رکھتا ہے جن کو آگے بڑھانا چاہتا ہے ان کی بعض ایسی غفلتوں پر ضرور پکڑتا ہے اور جلدی پکڑتا ہے.اور اس پکڑ کا نتیجہ انکی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے اور خدا کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ تجربے کے بعد جان لیتے ہیں ، خوب اچھی طرح پہچان لیتے ہیں کہ خدا سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے.جہاں ہم نے غلطی کی ہم اپنی غلطی میں کامیاب نہیں ہوں گے.ہم اپنے غلط مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے.پس وہ خوش نصیب ہیں جو غفلت کے نتیجہ میں ان معنوں میں پکڑے جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اپنے حال پر تو راضی ہو جائیں جن کی تجوریاں بھرتی رہیں، جن کے رزقوں میں ترقی ہوتی چلی جائے وہ یہ مجھے لگیں کہ خدا ہم سے تو راضی ہے اگر ہم اس کے حضور پیش کرنے میں کمی بھی دکھاتے ہیں تو اس نے کبھی بھی ناراضگی کا ظاہری اظہار نہیں کیا.یہ بہت بڑی بیوقوفی ہے.خدا مستغنی ہے.وہ عطاء کرنے والا ہے ایسے موقع پر اس کی ناراضگی کا ظاہری اظہار کوئی نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ کوئی شخص اتنا دور چلا جائے کہ وہ دین کا دشمن ہو پھر بعض دفعہ اسکو دنیا میں عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے لیکن یہ تو بہت ہی بعید کی بات ہے.میں کسی احمدی کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ نعوذ باللہ اس حال کو پہنچ جائے پس وہ لوگ جن کو خدا نے زیادہ دیا ہے خواہ وہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں ،خواہ ان تک مال کے انسپکٹر ان کی آواز پہنچتی ہو یا نہیں یا مرکز کے ناظر ان کے خطوط پہنچتے ہوں یا نہیں.انکو یا درکھنا چاہیے کہ خدا جانتا ہے اور خواہ آپ ظاہری قربانی کریں ، اعلامیہ قربانی کریں یا مخفی قربانی کریں خدا کے علم میں ہے کہ کون میرا بندہ مجھ سے محبت رکھتا ہے.میرے پیار کے نتیجہ میں وہ میرے حضور کچھ پیش کرتا رہتا ہے.اس علم کو آپ اپنے کانشنس ، دماغ میں اگر محسوس کریں یعنی باشعور طور پر ہر قربانی کرنے والا قربانی کرتے وقت یہ جانتا ہو کہ میرے مولیٰ کی مجھ پر نظر ہے تو اس کی قربانی کا معیار یکدفعہ بدل
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1010 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء جائے گا.اس میں ایک انقلاب بر پا ہو جائے گا.کیونکہ وہ شخص جسے کوئی دیکھ رہا ہو اور خصوصا وہ دیکھنے والا ہو جو اُس سے بلند تو قعات رکھتا ہو جس کا اس شخص کے دل میں احترام ہو.جسے دیکھا جا رہا ہے تو اس وقت اُس کا رد عمل بالکل مختلف ہوتا ہے اس کی ادائیں بدل جاتی ہیں.بچے ، دیکھا ہے کہ ان لوگوں کے سامنے جن کی عزت کرتے ہیں کتنے مہذب اور بن ٹھن کر تیار بیٹھے ہوتے ہیں.گفتگو کا سلیقہ بھی بالکل مختلف لیکن اُدھر استاد کمرے سے باہر نکلا یا ماں چلی گئی تو اچانک شور شرابا بر پا ہو جاتا ہے.دیکھنے کا جو مضمون ہے یہ ایک بہت ہی اہم مضمون ہے.اسے سمجھے بغیر اخلاص میں کچی ترقی ہو نہیں سکتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک بہت ہی پاکیزہ اور عظیم الشان کلام میں بار بار جو یہ فرمایا کہ سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی تو اس میں صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا میری نگہد اشت کر رہا ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ میں ہر آن اس کے سامنے کھلا پڑا ہوں.میری زندگی کا کوئی شعبہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں ہے.چھپا ہوا نہیں ہے.میں کیسے غلطی کر سکتا ہوں مجھے تو توفیق ہی ہے میں تو ہر وقت دھوپ میں بیٹھا رہتا ہوں.میرا زندگی کا کوئی حصہ چھپا ہوا مخفی ، پُر اسرار نہیں ہے.ہر وقت میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے.پس ان معنوں میں جب خدا دیکھتا ہے تو انسان کے طرز عمل میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اسکے نتیجہ میں.پھر دوسرے معنے میں بھی دیکھتا ہے یعنی ہر وقت اس کی پیار کی نظر اپنے ایسے بندے پر رہتی ہے ، نگہداشت کی نظر اس پر رہتی ہے اور اس کے دشمن اس پر وار نہیں کر سکتے.مگر خدا کی حفاظت ان کے واروں کو نا کام اور نا مراد کر دیتی ہے.یہ نگہداشت کی نظر اس پہلی نظر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.اسکی کوکھ سے پھوٹتی ہے اور لوگ اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں کتنی سعادتوں سے محروم رہ جاتے ہیں.پس اس کا تجربہ ہر جماعت کا چندہ دینے والا اپنے روز مرہ کے چندوں میں کر کے دیکھے تو وہ محسوس کرے گا کہ مالی قربانی سے اسے نئی عظمتیں اور نئی رفعتیں نصیب ہو رہی ہیں.اور خدا سے اس کا تعلق دن بدن بڑھتا جارہا ہے.پس ایسی مالی قربانی نہ کریں جس کے نتیجہ میں خدا سے تعلق کم ہو.ایسی مالی قربانی کریں جس کے نتیجہ میں آپ خدا کے پیارے بنتے چلے جائیں.اور وہ آپ کا نگہدار ہو جائے آپکی ہر ضرورت کا کفیل ہو جائے.وہ اپنے ذمہ یہ لے لے کہ اس بندے کی ہر ضرورت میں پوری کروں گا.کیونکہ اس
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1011 خطبہ جمعہ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء نے میری خاطر اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کر کے میرے حضور کچھ مالی قربانی پیش کی ہے.خدا سے زیادہ شکر گزار اور کوئی نہیں ہے.اسی لئے اس کا نام شکور رکھا گیا ہے.حالانکہ اگر آپ گہرائی سے دیکھیں تو شکر کے مضمون کا خدا پر اطلاق ہو ہی نہیں سکتا.اور ظاہری نظر سے ہم اس معاملہ پر غور نہیں کرتے.شکر تو اس کا ادا کیا جاتا جس نے کوئی احسان کیا ہو.خدا پر تو کوئی احسان ہو نہیں سکتا.جو کچھ ہے اس نے عطا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے ( در تین صفحه : ۳۶) محسن کے طور پر ہے.اس کا شکر بھی احسان کی ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کی قسم ہے.اس شکر کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی.اپنے بندے پر احسان فرماتا ہے کہ اسے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بخشے اور پاک جذبوں سے خرچ کرنے کی توفیق بخشے.پھر شکر کے ساتھ اسے قبول فرماتا ہے.اور اس کی ضروریات کا کفیل بنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے ”شکور ہونے کا یہ جو مضمون ہے یہ اتنا لطیف ہے کہ اسپر آپ جتنا غور کریں اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی محبت آپ کے دل میں اچھلتی چلی جائے گی.پس چندے دیں تو اس ادا سے دیں کہ ہر چندہ آپ کے طرز فکر کو خدا کی محبت کی سمت رواں کر دے.آپ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات کے مضمون پر مزید غور کیا کریں اور آپ کی مالی قربانی آپ کو وہ کچھ عطا کر جائے جسے دنیا کی ساری دولتیں بھی خرید نہ سکتی ہوں ایک شخص چند کوڑی خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے.ایک ہے جو چند لا کھ پیش کر دیتا ہے.لیکن خدا تو نہ چند کوڑی میں خریدا جا سکتا ہے نہ چند لاکھ میں خریدا جا سکتا ہے.تمام دنیا کی دولتیں خود اسی نے عطاء کر رکھی ہیں.ساری دنیا کی دولتیں بھی اس کے حضور پیش کر دیں تو خدا خریدا نہیں جاسکتا.مگر یوسف تو سوت کی ایک آٹی پر بک گیا اور آج تک دنیا اس کے قصے سناتی ہے.لیکن یوسف کو خدا سے کیا نسبت ہے ، خدا تو ایک آٹی سے کم رزق کے ایک دانے پر بھی بکنے کیلئے تیار بیٹھا ہے.اگر وہ محبت اور خلوص کے ساتھ اس کے حضور پیش کیا جائے.تو اپنی عظیم پر رفعت قربانیوں کو اس طرح ضائع نہ کریں.جب خدا کے نام پر آپ سے مانگا
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1012 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء جائے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے حالات پر غور کر کے اس سے تعلق بڑھانے کیلئے ، اس سے پیار کے رشتے قائم کرنے کیلئے پیش کیا کریں.پھر دیکھیں آپ کی تنگ دستیاں بھی دور ہونی شروع ہو جائیں گی اور آپ کے رزق میں غیر معمولی وسعت ملی گی اور ایسی وسعت نہیں ملے گی جو آپ کے لئے ابتلاء لیکر آئے.ایسی وسعت ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بدلیاں آپ کیلئے اٹھالائے گی اور آپ ہمیشہ خدا کی رحمت کے سائباں تلے رہیں گے.آپ پر خدا کی برکتیں برسا کریں گی.آپ کی مصیبتیں کم ہوتی چلی جائیں گی.آپ کی راحت کے سامان بڑھتے چلے جائیں گے اور کچھ عرصہ کے بعد آپ اپنے آپ کو ایک محفوظ انسان سمجھیں گے.جہاں بھی رہیں گے وہ آپ کے لئے دارالامان ہوگا.قادیان دارالامان میں آپ کیلئے ایک یہ بھی پیغام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان قربانیوں اور قربانیوں کی ان اداؤں کے ساتھ اپنے گرد ایک دارالامان خدا سے طلب فرمایا.یعنی زبان حال سے اور اللہ تعالیٰ نے اس دارالامان کو پہلے ”الدار“ کی صورت میں عطا فرمایا پھر اس کا درجہ بڑھاتا چلا گیا.یہاں تک کہ یہ وعدہ فرمایا کہ جو تیرا روحانی فرزند ہے ، تجھ سے روحانی تعلق بھی رکھتا ہے، وہ بھی تیرے گھر کی امان میں ہے.پس قادیان کی امان کو آپ سارے ہندوستان پر پھیلا سکتے ہیں.یہ امان ایسی نہیں جو یہاں جڑ پکڑ کر یہیں کی ہو رہی ہے.یہ ایسا پودا ہے جو آپ کے گھروں میں لگ سکتا ہے.اور ہر احمدی ہر ایک گھر کو دارالامان بنا سکتا ہے.مگر اس کا طریق وہی ہے جو میں آپ کو بتارہا ہوں.اللہ تعالیٰ سے جب ایسا تعلق قائم کر لیا جائے کہ آپ پیار کے نتیجہ میں اس کی خاطر اٹھتے بیٹھتے اور قربانیاں کرتے ہوں محض رسمی طور پر نہیں محض ظاہری اطاعت کے طور پر نہیں تو خدا تعالی کی طرف سے آپ کو امان دی جاتی ہے ہر قسم کے مصائب سے امان دی جاتی ہے، ہر قسم کی مشکلات سے امان دی جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کا ایک پیار کرنے والا ، آپ کی نگہداشت کرنے والا ایک موجود ہے.ہمیشہ وہ آپ کے سر پر کھڑا ہے اور آپ کا ساتھ دینے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو ایسا خدا کا ہو جائے وہ جب سوتا ہے تو خدا اس کیلئے جاگتا ہے ، جب اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس کا دشمن اس کیلئے کیا تیاری کر رہا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے دشمن کی شرارتوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کے توڑ کے منصوبے بنارہا ہوتا ہے اور دشمن کے ہر وار کو اس کے پڑنے سے پہلے ہی معطل اور نا کام
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1013 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء کر دیتا ہے.پس اس خدا سے ہم نے تعلق باندھا ہے، اسی خدا سے اپنے تعلق کو استوار کرنا ہے.وقف جدید کے سلسلہ میں بھی اور دیگر چندوں کے سلسلہ میں بھی میں ہندوستان کی جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا کے لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں اور بڑی تیزی سے آگے نکل رہے ہیں.اس لیے آپ اپنے پہلے اعزاز کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.وہ جھنڈا جو خدا نے خود آپ کے ہاتھ میں تھمایا تھا یعنی عظیم مالی قربانیوں کا جھنڈا، اسے اپنے سینے سے چمٹا رکھیں.اسے بلند رکھیں اور اگر چہ سب آپ کے بھائی ہیں اُن سے حسد اور رقابت کوئی نہیں مگر نیکیوں میں خدا تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.پس اس روحانی رقابت کو تو بہر حال آپ کو محسوس کرنا ہوگا.یہ عہد کریں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ دن جلد آئیں جب نہ صرف یہ کہ آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں بلکہ از سرنو ساری دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے آپ خدا کے حضور مالی قربانیاں کرنی شروع کر دیں اور ایک دفعہ پھر آپ کا سر اس فخر کے ساتھ بلند ہو جو بجز اور شکر کا جذ بہ اپنے اندر رکھتا ہے کہ الحَمْدُ لِلهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِله ، اپنی توفیق سے نہیں بلکہ خدا کے فضل اور رحم کیساتھ ہمیں یہ توفیق ملی ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قربانی کے جو اسلوب اور قربانی کی جو ادا ئیں ہمیں سکھائی تھیں از سرنو ہم نے ان کو اپنا لیا ہے.اب اس پہلو سے ہم دنیا کے حسین ترین وجود بن کے ابھر رہے ہیں خدا کرے ایسا ہی ہو اور جلد تر آپ کو اسکی تو فیق ملے.جماعتوں کی طرف سے قربانیوں کے مقابلے کی جو فہرست پیش کی جاتی ہے تا کہ دوسروں کو تحریک ہو وہ تو بہت لمبی ہے.صرف دو باتیں کر کے اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.پہلے تو پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر دنیا کے دیگر ممالک میں جو پہلے دس ملک ہیں ان کا ترتیب وار اعلان کرنا چاہتا ہوں تا کہ جو ملک خدا کے فضل سے اس مقابلے میں نمایاں حیثیت حاصل کر سکے ہیں ان کو طمانیت نصیب ہو اور وہ ملک جو ان سے پیچھے رہ گئے ہیں انکے اندر یہ جذبہ پیدا ہو کہ ہم بھی آگے بڑھیں اور ان کا مقابلہ کریں.اس لئے میں وہ فہرست پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں.اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ پہلی تحریک پر بیرون ہندو پاکستان اور بیرون بنگلہ دیش ممالک نے جو مالی قربانی وقف جدید کے لئے پیش کی تھی وہ چند ہزار کی تھی لیکن 1991 ء میں جو وقف
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1014 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء جدید کے لحاظ سے آج ختم ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر ایک لاکھ پانچ ہزار 963 پاؤنڈ بن چکی ہے اور اس کو اگر روپوں میں ڈھالا جائے اور ہندوستان اور پاکستان کی مالی قربانی کو بھی روپوں کے ایک ہی معیار پر اکٹھا کر دیا جائے تو یہ پہلا سال ہے کہ خدا کے فضل سے وقف جدید کی سالانہ آمد ایک کروڑ روپے ہو چکی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی عظیم احسان ہے اور یہ حسن اتفاق بھی اسی سال کو نصیب ہوا ہے.دوسری بات اول اور دوم کے لحاظ سے یہ ہے کہ ساری دنیا پر جرمنی کی جماعت وقف جدید کی مالی قربانی میں سبقت لے جاچکی ہے.اور پچھلے سال بھی خدا کے فضل سے انہوں نے اس سبقت کو قائم رکھا تھا اور اس سال بھی باوجود اسکے کہ بعض دیگر رشک رکھنے والے لوگوں نے زور بھی مارے مگر جرمنی نے ان کو آگے نہیں نکلنے دیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ وعدہ تو 24 ہزار 648 سٹرلنگ پاؤنڈز کا تھا لیکن ادائیگی 32 ہزار 446 کی ہے خدا کے فضل سے وعدوں سے بہت بڑھ کر انہوں نے ادائیگی کی توفیق پائی اور یہ بھی خدا کا ایک خاص اعزاز ہے.امریکہ نمبر 2 ہے.21 ہزار 47 ادائیگی ہے لیکن وعدے سے کچھ پیچھے رہا ہے.پس دونوں لحاظ سے یہ جرمنی سے پیچھے ہے.کینیڈا نمبر 3 ہے جسکی 13 ہزار 277 پاؤنڈ کی ادائیگی ہے اور اللہ کے فضل سے وعدے سے کچھ زیادہ دیا ہے.برطانیہ نمبر 4 ہے.12,500 کے وعدے کے مقابل پر 13,051 پیش کیا اس کے بعد انڈونیشیا ، جاپان ، ناروے ، ماریشس ، ہالینڈ اور بنگلہ دیش آتے ہیں.جاپان کو دنیا میں ایک خصوصیت حاصل ہے جو وہ آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہے اور مالی قربانی کے ہر شعبہ میں اسے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ فی چندہ دہندہ (کے حساب سے ) جاپان ساری دنیا میں سب سے زیادہ اور سب سے آگے ہے اور اتنا نمایاں آگے ہے کہ کسی اور ملک کو ابھی مستقبل قریب میں بظاہر یہ توفیق نہیں ملے گی کہ وہ اس کو پکڑ سکے.جاپان کا جو میں نے جائزہ لیا تھا تو اس سے پتہ چلتا تھا کہ فی کس مالی قربانی میں بعض ممالک سے تقریباً 3 گنا زیادہ بعض ممالک سے 4 گنا زیادہ یعنی بہت ہی آگے ہے.تو اللہ تعالیٰ آپ کو بھی یعنی اہل ہندوستان کو بھی یہ تو فیق عطا فرمائے کہ نہ صرف وقف جدید کے میدان میں بلکہ دیگر سب میدانوں میں بھی ، مالی قربانی میں بھی پورے جوش
خطبات طاہر جلد ۱۰ 1015 خطبہ جمعہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء اور خلوص کیساتھ آگے بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لطف اٹھا ئیں اور اللہ آپ کے اموال میں بھی اس کے نتیجہ میں بہت ہی برکت دے.اور آپ کی مالی کمزوریاں دور فرمائے اور جہاں تک زندگیاں پیش کرنے کا تعلق ہے خدا تعالیٰ آپ کو یہ بھی توفیق عطاء فرمائے کہ آپ اپنے ملک کی ضرورتیں خود پوری کر سکیں.اس توقع کے بعد کہ ہندوستان میری آواز پر اسی طرح نمایاں شان سے لبیک کہے گا جس طرح آج کا جلسہ ایک نمایاں شان رکھتا ہے، اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.
1017 Friday Sermon 7th, June 1991 at Trinidad I am facing a dilemma today because I have been told that many among you cannot understand Urdu.The dilemma is that ever since I have left Pakistan around 7 years ago plus some months I have always delivered my sermons in Urdu for the sake of those Ahmadies left in Pakistan who have this link between me and them and who are so accustomed to hearing me directly on Fridays.Also there are other Ahmadies in India and Kashmir particularly who speak and understand Urdu well, also a large number of Ahmadies who reside in Europe around 30 to 40 thousand of them understand Urdu but do not understand English, so that is why my Sermons have always been in Urdu but fortunately there have been simultaneous arrangements for translation in English in England and other European countries, and in America and Canada also, there are always simultaneous translations but here there is no such arrangement.So in view of this, I have been persuaded very strongly that I make just one exception today and deliver my sermon in English.If I do that and I think I should do that then I leave the series of lectures on Namaz (Prayer) and the Quranic Prayers, particularly which are preserved for the mankind with a special purpose, I have been speaking
1018 in the past and have been giving a series of lectures on the Quranic prayers, there significance, there background, and how well they can be utilized by us today, but for today I think I shall have to depart from that practice also, so that when I speak again in Urdu then I will return to the same series and it should continue unbroken in the same language.Juma is a very special institution in Islam.It is a gathering much larger than 5 daily prayers.In the 5 daily prayers Muslims belonging to a certain area which is smaller in size who have access to the Mosques and can go 5 times to a Mosque.But once in every week it is expected that much larger audience is drawn to the Mosque, those who belong to one town or if the town is too big at least much larger area of that town, who could get together at such Mosques which are built for this particular purpose, to accommodate people, that is a larger gathering, for Juma day.They are called Jamia Mosques.Now the reason behind this is that Islam wants to unite mankind and togetherness in Islam has a very important message.That is why the size of the congregations goes on increasing, every week there is Juma, and every year there are two Eids.And in Eid it is not just the inhabitants of one town or one city who say prayer behind one Imam, but it is the entire area which gathers around in one central Mosque but the Mosque cannot accommodate them, so they gather, not in the mosque but, outside in the open places and there the Eid prayer is held.
1019 So a larger congregation symbolizes the Message of Islam that you must remain united, then once in a life time you are expected to go the Pilgrimage at least once in a life time to Mecca to indicate the universality of Islam.The oneness is not just on the smaller regions or the small scale but it is on a much larger scale where all the Humanity is represented and you get together in one place in the world that is Mecca and show, demonstrate to the world that we are one.The whole mankind is one.There is no difference in color or creed or geographical entities.Man is a servant of God where ever he is born, whatever color he is born in, and whatever language he speaks, so this is all symbolic language, to repetitively remind you that you belong to one God.That is the meaning of unity.On this I have been speaking to various gatherings in the world and I have been emphasizing this message not only to Ahmadies but some times to Non Muslims as well.When I speak to them, people perhaps naively consider unity to be just a matter of belief, something which has to do with our thinking alone and has nothing to do with our practice or way of life.It is not so, if that was just a matter of belief then Y) JYwould not be counted among five practices.People know this and yet they do not know this.How strange it is that all Muslims believe that Kalima is a part of five practices, Kalima is a not part of the five beliefs, the five beliefs are Allah, Angels, The Books, The Prophets and to believe in the day of
1020 judgment, but five practices in Islam begin with so that means its not just a لاالہ الا الله محمد رسول الله Kalima message, its not just an ideology.It is a practice.What is that practice? That is what I am pointing out to you.This message is delivered home five times a day to Muslims on a smaller scale, once every Juma and on a much larger scale, once every Eid or twice every Eid and then once in a life time.The universality of man, the oneness of man is demonstrated so completely and comprehensively that no shadow of doubt should be left in any mind that Islam wants you not only to believe in oneness of God but also in oneness of man.Man must be united under one God, that is the purpose of Islam, now this is not just an Ideology as I have emphasized it involves many more things which automatically emerge from this.If, to unite man is one of the fundamental messages of Islam, then anything which disunites man should be considered non Islamic.And if you go further into it, delve deeper into this concept then you realize that any harsh world spoken to a friend, to a brother, to a sister, to a neighbor, to any one which puts distances between him and you, which creates bitterness in the society, which disunites man, which throws people a part, a harsh word, a harsh act, an unjust act, they are all against unity.How could you be believing in one God and in Kalima while you are acting a life exactly contrary to your beliefs.This is a very profound message which was given once by Hazrat Muhammad PBUH to Hazrat Abu
1021 Haraira in a form which he could not understand, it was too profound for him.Once Hazoor PBUH addressing Abu Haraira said: He did not say من قال لا الہ الا الله فدخل الجنۃ With that, just said whoever declares that there is no God but Allah he would most certainly enter heavens, enter the paradise.Abu Haraira took up this message and went from street to street crying full throatedly that look here be happy there is a great glad tiding for you.Hazrat Muhammad PBUH has declared that all you have to do is to say Y JYto enter the Heavens and no more.Hazrat Umar was coming, passing from the same street, where he was declaring to the world that this is the new message.He caught him by the throat, almost dragged him back to Hazrat Muhammad PBUH and complained to him that Abu Huraira is doing this, what will happed to the people, what will they begin to do after this? Hazrat Muhammad PBUH told Umer to leave him off.Leave him alone.He said I did say to him but I know what you mean, I know people will not understand.So let it be left at that.What was the message? this is what I am discussing today.The message was far more profound than a simple man like Abu Hurraira could understand.The message was further explained by Hazrat Muhammad PBUH in many of his sermons, in many of his traditions and the essence of that message is that is not just a matter of belief but a matter of the لاالہ الا الله conduct of whole lifetime.
1022 Any one who acts contrary to this, anyone who behaves in a manner as to create distances between family members, children born out of same mothers or relatives or next door neighbors or people at large.Anyone who works contrary to the unity of man, in لاالہ الا الله reality does not believe in This is the message and as such once Hazrat Muhammad PBUH explained the meaning of Raham.There are two words having the same root letters which means Raham as well as Rehim.Raham means mercy and Rehman as you know God to be.That name of Allah is derived from the same three letters but Rehim means a completely different thing, Rehim means the uterus, in which children develop in the womb of their mothers.That human organ that is known as uterus or womb, is also derived from the same three letters and this is pronounced Rehim instead of Raham.So Hazrat Muhammad PBUH once pointed out the word Rehman and the Uterus are derived from the same source to give you a special message, who ever breaks the ties born out of relationship to a mother he also breaks his ties with Rehman Lord, God.Fundamentally if you cut at the root you cut the entire tree and both relationships connected through Rehim and relationship with God belong to the same root, cut at one root and other also is severed.So this is again a message of unity and the message tells us that the unity begins at home first, In the families its highly important that we behave in a manner as to improve the family ties and preserve the
1023 family units as healthy and wholesome units, which create peace for mankind.Unless the family units are strengthened and unless family ties are protected.It is impossible for a people who have broken families to bring mankind to one unified entity.So all this is a part of our beliefs and beliefs turn into practices.So see how profoundly Hazrat Muhammad PBUH understood the Attributes of Allah and how he translated them into messages for us.Rehman is the name of God which stands supreme because the Holy Quran says the word Rehman is Rehma/Mercy of Allah covers every thing and this Attribute of God is so strong that it is overwhelmingly more emphatic and strong than the rest of his Attributes.So this again delivers a message to mankind.As Muslims we must stress Rehmaniyat, we must stress a conduct in life where we are benign to others and where we show kindness to the mankind, that would be the means of unification of man.It is not just a theory, it is not just a dischanted attitude.If you further study the teachings of Hazrat Muhammad PBUH you will be surprised how united all the branches of his teachings are and whatever he says ultimately converges into one single theme.For instance, in other place He says that he who does not show Reham, that is mercy to the people of Allah, on the servants of Allah He has created Allah does not show mercy to him.So the same message which was first delivered in relation to mother's children now is delivered in relation to the whole mankind.
1024 The unifying word remains to be the same Reham.So try to understand, It's a very profound message when he spoke of Rehami Relationship.It was not just a limited teaching applying to homes, applying to strengthening the ties between the children born of the same mother.Apparently it seems to be just that but when you further study Hazrat Muhammad PBUH, traditions of his messages then you are amazed at the depth and width of his wisdom.How beautifully and how profoundly he understood God and how he related Allah's Attribute to human affairs, So to begin with, he says strengthen the ties relating to your close relationships through your mothers and then he enlarges the same subject with reference to the same Attribute of God remember the.Rehman and with no other reference, to the entire mankind.He says who ever treats other human beings without Reham, Allah will not show Reham to him.What a great teaching and what an important teaching من قال لا الہ الا الله فدخل الجنۃ this is ?This is the meaning of Some one who claims that there is no God but Allah, who believes in the unity of God in all its depth and width and breadth, in all that it comprises of, if he understands unity and practices unity, that is the message than he will most certainly go to Paradise.So to go to Paradise is not just a matter of claims or professions, it is a matter of much deeper understanding of the message of Islam and translating that understanding into practicing this message.Again talking of Paradise you will be surprised that Hazrat Muhammad PBUH relating to mothers also in
1025 an other manner, tells you that to enter Paradise is through entering from under the feet of your mothers.There is a doorway which leads to Paradise but it lies under the feet of your mothers.So the whole teaching is so well organized and well connected, all there are different parts of a much bigger whole.So Ahmadies have been blessed by Allah that He sent Hazrat Masih Moud Al.Imam Al_Mahdi in this age.And the wisdom of Islam was Revealed to him in a manner that we saw Islam as if it was reborn.It was given a new life.The same other Mullahs who oppose you, who read the Holy Quran, who read the traditions, but just skip along the surfaces.They don't know what they are reading, they don't understand the message.It was left to Hazrat Masih Moud A.S., who was guided by Allah, who delved deeper into the wonders of Islam, into the wisdom of Islam and bring it back to us.So we must be grateful to Allah that He has granted us this great opportunity to accept the message of Truth which He sent as a servant of Hazrat Muhammad PBUH in this age.A servant indeed but a perfect servant.A servant who lost his own identity completely in his master.That was the reason why he was chosen to lead the world, that is the meaning of Almahdi, so when we talk of these things I assure you we learnt this from Hazrat Masih Moud A.S.If you read his writings that is a way to understand true Islam as it was revealed to Hazrat Muhammad PBUH.So once we have been re- informed, once we have been reinstructed we have been reeducated it is doubly our responsibility to act upon the message.
1026 Now when I say that, I have in view many small petty differences which you have from time to time among yourself, which some times are reported to me and they leave me deeply disturbed.I am cut to the deep some times, I am so pained, I wonder what is happening, I wish to come over to you and tell you this is not the way you are expected to behave.Small things must not put you a part.You have been created to rejoin the world, to strengthen the joints that join the various entities of man.You have come to unify and not to disintegrate.So if over small things you fight with each other, you misunderstand each other, you will fall apart, you begin to build small mosques of your own in the name of God, and yet make such mosques with a purpose to serve a group or a family, then this is not Islam.The Holy Quran speaks with the strongest condemnation of this tendency.What was masjid-e- Zarrar? Masjid-e-Zarrar was a mosque built apparently for the sake of God yet it was built for the sake of creating differences between one section of Muslim society and other sections of Muslim Society.So what could be the holier purpose in life than to build Allah's home, Allah's houses, yet if the intentions are wrong and the intentions are not to enforce unity but to create disintegrate then even this holiest purpose becomes the un holiest.So I beseech you, I advise you from the bottom of my heart to maintain this unity in the light of what I have told you, to respect this unity, to realize that unity of God will mean nothing to God if you are not united and
1027 if you do not always make an effort to unite first your own brothers and then the rest of the mankind.So the message is very profound and very important.Hazrat Musleh Moud R.A.once wrote a poem on this subject.He said" those who want my love, those who want me to love them, they should behave like great people, like people above small petty things." He goes on developing the theme and says "that those who fight with each other, who pickup quarrels for small insults whether they are meant or not meant, sometime the insults are just imaginary, no body meant to heart you.Who cannot forgive there brothers, who think small and act small.Who sow the seed of discontent".Having developed this theme he says "such people are not mine.I don't belong to them.They don't belong to me because God has made me for big things and I can not descend to such depths as to love such people who disintegrate the society.I have nothing to do with them.So if you care, at all, for my love, for my regard then behave in a manner that I willy-nilly love you." "I love those who are noble minded, who have broader visions, who have greater capacity to forget and to live in harmony with others even if they are offended.They know how to forgive, they know how to forget, and yet despite the fact that they are the ones who have been offended they seek forgiveness from their offenders instead of waiting for them to come to their doors and knock at their doors and say please forgive us.Those who have been offended they take the initiative in their own hands, they go and ask
1028 forgiveness of those who have offended them.Now, this is a strange teaching but this is the teaching of Hazrat Masih Moud A.S.as he says سچے ہو کر چھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو (کشتی نوح) Even if you are right, for the sake of God learn to seek forgiveness from those who have transgressed you, like as if you have offended them and as it you were in the wrong.Now I have thought over this instructions of Hazrat Masih Moud A.S.for years and I think there cannot be a better formula to bring warring sections of human society together, to bring those brothers together who over small things get angry with each other and some times for weeks after weeks, even for months, do not speak to each other.Who fall apart over small things and then their families fall apart.Some time they also fall apart from the Jamat just because they think they were offended by the Missionary in-charge or by some office bearers.Some times they stop going to the mosques for real or imaginary offences.Now such people I have been dealing with them many a times in my life.I used to travel a lot in Pakistan and have been to so many villages, traveled far and wide and everywhere I went I found some people of that type, who are over sensitive to their own tribes, and they go on quarrelling with each other, for things said or unsaid.So whenever I dealt with such people I knew the answer.They insist that we are right and he is wrong.Why should we ask forgiveness from him.And when you go to the other party he says we are right and he is wrong.Why should
1029 we go first to seek forgiveness from the persons who has robbed us of our right.Now having read Hazrat Masih Moud A.S.this instruction always came to my rescue.So I asked them many times, repeatedly are you sure that you are right and your brother is wrong? They say off course, we are sure.I said then it is your responsibility to go first to him because the leader you have accepted, the leader of this age Created by God Himself, he requires of you that if you are right you go to your brother who is in the wrong and seek forgiveness from him.Now this leaves no options for a person who has got any regard for Hazrat Masih Moud A.S.but to come to terms with his brothers with whom he has fallen out.What better formula could there be than this? So whenever you come across any Ahmadi who is angry at some thing with some one, Weather he is wrong or have not been wrong, that is a different issue, apply the same formula to him.Tell him are you really right? and if he says yes, then you tell him this is what Hazrat Masih Moud A.S.says, then to prove that you are right you must take the initiative and seek forgiveness of your brother.It is a beautiful teaching, it can unite a warring society, and once somebody seeks forgiveness of his brother even if he is right, the unification of erstwhile angry brothers becomes even stronger.I have noticed this that to be angry, off course it happens, but to become friends after you have been angry sometimes strengthens the ties of friendship much more strongly than before.Such people make up for the past grievances and try to appease each other
1030 and help each other and be kinder to each other.That is the one advice in the name of unity which I render to you and as I have been pointing out repeatedly, unity is all important.It is not just a theme, it is not just a doctrine.It is a way of life, it is a practice.Without practicing unity you cannot be a true believer in the Unity of God.So unite together say nothing to anger your brothers or sisters, even if some one hurts you be magnanimous enough to forgive Even if you are Right, take the first step towards the house of your brother who has angered you and seek forgiveness.This is not a difficult advice.It is heaven on earth.Practice it.And then you will see your life will turn into a glorious life of peace and understanding and love.That is what we must create within ourselves before we think of providing the Paradise for the rest of the society.Homes are falling apart everywhere in the world, the society is disintegrating everywhere in the world.You have heard of United Nations but if you truly observe the behavior of the United Nations you can find it only to be a body of disunited nations.No more no less.You are the people Raised by God to create a united nations in the sense that the Holy Quran wants to create in the world.So be united among yourselves, love each other then you can say to the world."Love for all hatred for none".Not without it, these are not the slogans to show to the rest of the world, to show your guests this is what we are.If we privately nourish hatred among our brothers, if we abhor certain people, certain families and we do not have that love in our heart for our own
1031 brothers and sisters.What is this hypocrisy, declaring to the world "Love for all hatred for none", that is not Islam, that is not a belief in the unity of God, so Allah Bless you and let you not only understand this message but practice this message.The world needs it, Ahmdiyyat needs it, if you are progressing by a pace of 10 paces in a year, if you get united you will proceed by 100 or even 1000 paces per year.This is the fruit of unification.Those who are disunited they can never progress.Their energies are wasted one against the other.They cannot make real progress in the world.They cannot leave a lasting impression on the people around them.So be united and travel together, march forward to progress and pray to Allah that He keep you united generation after generation and then you will see Inshallah, with The Grace of Allah, that the Pace of your progress will become hundred even thousand times greater than before.Allah Bless you.With these words I finish this sermon with the hope that you have understood the message, I have repeated this so many times, in so many ways, I don't think anyone among you is left without knowing what I wanted to say.Believe in the unity and act in the unity of God that is the way to Heaven and that is the only way to Heaven.Allah Bless you.We will say Asr Prayers together with Juma because I am on journey and also because many other people.
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۱۰
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 آخرین اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 آخری دور میں بلاؤں کی انتہاء پر حضرت مسیح موعود کی دعائیں اسلام اور دنیا کو بچائیں گی آخرین کے دور میں قوموں کے تو بہ کرنے اور اسلام میں شامل ہونے کی پیشگوئی حضرت آدم علیہ السلام آپ کی قرآن میں مذکور دعا 230 340 316 340 آصفہ بیگم صاحبہ ( حرم حضرت خلیفہ مسیح الرابع) ایک غریب پاکستانی عورت کی آپ سے ملاقات کی خواہش اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا خودا سے ساتھ لے کر جانا اور ملاقات کروانا دل کے علاج کے لئے امریکہ کا سفر آفتاب احمد خان آل عمران آمنہ صدیقہ آواز 642 672 676 993 442,443 333 انسان کے صوتی نظام اور آواز کے سفر کی وضاحت 249 249 624,746 233,620 اچھی آواز والے کے دل میں بُت کا پیدا ہونا آئفل ٹاور آیات قرآنیہ الفاتحة الحمد لله رب العلمين (2) ایاک نعبد و ایاک نستعین (5) 36,283,305,621,636 255,267,282,283,2 اهدنا الصراط المستقيم...(67) 84,292,295,300,305,314,324,327,373,374,457 554,558,629 936 461 937 608 البقرة هدى للمتقين (3) ومما رزقنهم ينفقون (4) ختم الله على قلوبهم (8) واذا قيل لهم لا تفسدوا (12) 913 913 207 437 268 آڈیو ویڈ یو شعبہ انگلستان کے نو جوانوں کا اس شعبہ میں کام کرنا اس شعبہ کی طرف جماعت کو توجہ دینے کی تلقین آزاد کشمیر آزر آزر کے لئے حضرت ابراہیم کی دعا آزمائش آزمائش کی وضاحت اللہ جن کو مال دیتا ہے ان کی آزمائش بھی کرتا ہے 462 دنیا میں آزمائشوں کے نظام پر غور اور اس کا شکر کے 463 137 22,137,813 مضمون سے تعلق آسٹریا آسٹریلیا
186 329 329-330 252 330 335 256 335-336 560 206 172 336 336 337 245 561 237-238 562 173 988-989 906 566 564 340 666 568 570 342 513,914 343 كنتم خير امة اخرجت للناس (111) وكأين من نبى قتل (147) وما كان قولهم الا ان قالوا (148) لا تحسبن الذين يفرحون (189) ان في خلق السموات والارض (191) ربنا و اتنا ما وعدتنا (195) النساء ومن يطع الله والرسول (70) ربنا اخرجنا من هذه القرية (76) وقالوا ربنا لم كتبت علينا القتال (79-78) المائدة وتعاونوا على البر (3) ولا يجرمنكم شنان قوم (9) فاذهب انت وربك (25) رب آنی لا املك الا نفسی (26) قال عیسی ابن مريم اللهم ربنا (115) الانعام سيروا في الارض (12) ولو ترى اذ وقفوا على النار (28 تا 31) فقطع دابر القوم الذين ظلموا (46) وقال اولياؤهم من الانس (130-129) واذا قلتم فاعدلوا (153) قل ان صلاتی و نسکی (163) الاعراف انا خير منه (13) قال انظرني الى يوم يبعثون (15 تا 19) ربنا ظلمنا انفسنا (24) انه يراكم هو و قبيله (28) قال ادخلوا في امم (38 تا 40) وقالت أولهم لاخرهم (40) ربنا لا تجعلنا مع ا القوم الظلمين (48) ثم استوى على العرش (55) وسع ربنا كل شيء علما (90) 2 288 620 305 580 363 307 288 297 439 298 285,306 351 558 312,559 53 314 314 799 314 315-316,516 319 321 321 323 321-322 442,443 444 325 328 328,336-337 854 634 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 الا انهم هم السفهاء (14) واركعوا مع الراكعين (44) واستعينوا بالصبر والصلوة (46) واذ فرقنا بكم البحر فانجينكم (51) واذ قال ابراهيم رب اجعل هذا بلدا (127) واذ قال ابراهيم رب اجعل (127 تا 130) ارنا مناسكنا (129) امة وسطا (144) انا لله وانا اليه راجعون (157) اشد حبا الله (166) واذا سألك عبادی عنی (187) حتى لا تكون فتنة (194) فاذا قضيتم مناسككم (201) ومنهم من يقول ربنا اتنا (202) ویسئلونک ماذا ينفقون (220) ربنا افرغ علينا صبرا (251) فهزموهم باذن الله (252) يؤتى الحكمة من يشاء (270) أمن الرسول بما انزل اليه (286) لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (287) آل عمران ربنا لا تزغ قلوبنا (9) ربنا انک جامع الناس (10) ربنا اننا أمنا فاغفر لنا (17) انه لا اله الا هو (19) قل اللهم ملک الملک ( 27,28) اذ قالت امرأت عمران (36) فلما وضعتها قالت (37) هنالک دعا زکریا ربه (39) فلما احس عيسى منهم الكفر (53) ربنا أمنا بما انزلت (54) ومكروا ومكر الله (55) لن تنالوا البر حتى ت تنفقوا (93)
185 238 363 365 366 366 639 367 582 583 585 587 585 الرعد ان الله لا يغير ما بقوم (12) ويسبح الرعد بحمده (14) ابراهيم واذ قال ابراهيم رب اجعل هذا البلد (36) ربنا انى اسكنت من ذريتي (38) ربنا انك تعلم ما نخفی (39) الحمد لله الذي وهب لي (40) رب اجعلني مقيم الصلوة (41) رب اجعلني مقيم الصلوة (42-41) وانذر الناس يوم يأتيهم العذاب (45) وسكنتم في مسكن الذين ظلموا (47-46) الحجر واذ قال ربك للملكة (29) قال لم اكن لاسجد لبشر (33تا 45) النحل ادع الى سبیل ربک (126) 879,887,931,973-869,878 بنی اسرائیل وقضينا الى بني اسرائيل في الكتب (5) فاذا جاء وعد اولهما (7) ان احسنتم احسنتم لانفسكم (89) وقضی ربک الا تعبدوا (24) رب ارحمهما كما ربيني صغيرا (25) ومن الليل فتهجد به (80) 218 218-219 219 374 374,380 399 رب ادخلني مدخل صدق (81)390,837,895,911,933 فاغر قناه و من معه جميعا (104) وقلنا من بعده لبنی اسرائیل (105) 580 222 الكهف اذا اوى الفتية الى الكهف (11) 384 فمن شاء فليؤمن (30) والبقيت الصلحت (47) 901 659 3 888 445 446 447 345 346 346 570 172 184 839 714 757 369 347 775 571-572 350 352 353 573 356,579 357 358 358 360,385 362 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ثم بعثنا من بعدهم موسى (104) ربنا افرغ علينا صبرا (127) ولما جاء موسى لميقاتنا (144) ولما سقط في ايديهم (150) رب اغفرلی ولاخی (152) رب لو شئت لاهلكتهم (156) واكتب لنا في هذه الدنيا حسنة (157) و از قالوا اللهم ان كان هذا الانفال (31 تا 34) لیهلک من هلك عن بينة (43) و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة (61) اذ يريكهم الله (45-44) التوبة اذن خير لكم (62) ومن الاعراب من يتخذ (98 تا 100) ان يستغفروا للمشركين (113) يونس دعواهم فيها سبحنك اللهم (11) واذا اذقنا الناس رحمة (22 تا 24) هو الذي يسيركم في البر (24-23) فقالوا على الله توكلنا (87-86) ربنا اطمس على اموالهم (89) امنت انه لا اله الا الذي (91) و جوزنا ببنی اسرائيل البحر (91) تا 93) آلئن وقد عصيت من قبل (93-92) هود وقال اركبوا فيها (46) انه ليس من اهلک (47) رب انی اعوذبک ان اسئلک (48) يوسف قال رب السجن احب الي (34) ان النفس لامارة بالسوء (54)
425 428 592-593 599 قل رب اما ترینى ما يوعدون (94 تا 96) وقل رب اعوذ بک من همزات (99-98) حتى اذا جاء احدهم الموت (100) تا (102) قالوا ربنا غلبت علينا شقوتنا (107 تا 109) انه كان فريق من عبادى يقولون (110 تا 112) 430-429 وقل رب اغفر وارحم (119) 430 النور لا شرقية ولا غربية (36) 537 فاطر وهم يصطرخون فيها (38) 607 الفرقان ويوم يعض الظالم على يديه (28) تا (31) واذا خاطبهم الجاهلون (64) والذين يقولون ربنا اصرف عنا (67-66) والذين يقولون ربنا هب لنا (75) 277 430 430 431 الشعراء لعلک باخع نفسک (4) واذ نادی ربک موسی (11تا 15) قال كلا فاذهبا بايتنا (17-16) وانجينا موسى ومن معه (67-66) رب هب لي حكما 84 تا 90) واجعل لى لسان صدق (85) واجعل لى لسان صدق ( 85 تا 90) واجعلني من ورثة جنة النعيم (86) واغفر لابی (87) قال رب انی قومی کذبون (118) تا (121) رب نجنی و اهلى مما يعملون (170) النمل 922 450 451 580 434 435,437 437-438 473 437 453-454 452 رب اوزعنی ان اشكر (20) فلما رأته حسبته لجة (45) 454,455,459 489,490 القصص رب انی ظلمت نفسی (17) فغفر له انه هو الغفور الرحيم (18-17) 491 492 4 386 386 387-388 388 389 390-391 391 345 448-449 316 591 592 243 401 404 405 406 416 421 538 422 421 173 59 173 60 423-424 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 مریم كهيعص ( 2) ذکر رحمت ربک زکریا (3) قال رب اني وهن العظم منى (5) يرثنى ويرث من ال يعقوب (7) يزكريا انا نبشرك بغلام (8) قال رب اشرح لی (26) تا (28) اذهبا الى فرعون (45-44) فاقض ما انت قاض (73) ولا تعجل بالقرآن (115) طه ولم نجد له عزما (116) قال رب لم حشر تنی اعمی (1260127) و کذلک نجزی من اسرف (128) وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس (131) الانبياء وایوب اذ نادى ربه (84) فاستجبنا له فكشفنا ما به (85) وذا النون اذ ذهب مغاضبا (88) فاستجبنا له ونجينه من الغم (89) وزكريا اذا نادى ربه (90) فاستجبنا له ووهبنا له يحيى (91) ان الارض يرثها عبادي الصالحون (106) رحمة للعلمين (108) وان ادرى لعله فتنة لكم (112) قال رب احكم بالحق (113) الحج فاجتنبوا الرجس من الاوثان (31) اذن للذين يقاتلون (39) ان الله على نصرهم لقدير (40) الا ان يقولوا ربنا الله ) (41) المؤمنون قال رب انصرني بما كذبون (27 تا 30)
879 870 518 523 611 610 612 521 526 780 538 530 530 821 914 76,985,989 243 534,607 663 536 50,71,979 641 5 ومن احسن قولا (34) فاذ الذي بينک و بینه عداوة (35) الزخرف اذا استويتم عليه (15-14) اولئک اصحاب الجنة (16-15) الدخان فارتقب يوم تأتى السماء بدخان (12) ربنا اكشف عنا العذاب (13 تا 15) انى لهم الذكرى (14) الاحقاف ان الذين قالوا ربنا الله (14) انی تبت الیک (16) الفتح سيماهم في وجوههم (30) الحجرات ان اکرمکم عند الله اتقكم (14) القمر كذبت قبلهم قوم نوح (10) فدعا ربه اني مغلوب فانتصر (11) الرحمن كل من عليها فان (28-27) سنفرغ لكم ايها الثقلان (32) هل جزاء الاحسان الاحسان(61) الواقعة لا يمسه الا المطهرون (80) الحشر والذين جاء وا من بعدهم (11) ولتنظر نفس ما قدمت لغد (19) الممتحنة ربنا علیک توکلنا (5) الصف ليظهره على الدين كله (10) من انصارى الى ا الله (15) 499 494 272,495,510,887 602 603 605 497 497 885 641 653 949 605 500 498 410-411 412 608 504 503 508 509 511 713 513 514 610 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 قال رب بما انعمت على (18) قال رب نجني من القوم الظلمين (22) رب اني لما انزلت الى (25) فلما جاء هم الحق (49) قال الذين حق عليهم القول (64) وقيل ادعوا شركاء كم (65) العنكبوت فما كان جواب قومه (30) قال رب انصرنی (31) السجدة الى الارض الجرز (29) الاحزاب فمنهم من قضى نحبه (24) يايها الذين امنوا اتقوا الله (72-71) انا عرضنا الامانة (73) سبا فقالوا ربنا بعد بين اسفارنا (20) الصافات وقال اني ذاهب (101-100) رب هب لي من الصلحين (101) وان يونس لمن المرسلين (140) تا (142) فالتقمه الحوت (143تا 145) وقالوا ربنا عجلنا قطنا (17) ولقد فتنا سليمان (35) وهب لي ملكا (36) واذكر عبدنا ایوب (42 تا 44) ووهبنا له اهله ومثلهم (44) انا وجدنه صابرا (45) انا خير منه (77) المؤمن الذين يحملون العرش (8) ربنا وسعت كل شيء علما ()10 حم السجدة وقال الذين كفروا (30)
121 341,600 877 548-549 55 550 553 الزلزال واخرجت الارض اثقالها (2) العصر والعصر ان الانسان لفي خسر (3-2) والعصر ان الانسان لفي خسر 2 تا 4) الفلق قل اعوذ برب الفلق (2 تا 5) ومن شر حاسد اذا حسد 6) الناس قل اعوذ برب الناس (2تا 4) الذي يوسوس في صدور الناس (7-6) 1 ابتلاء اس وقت مسلمانوں کے ابتلاء میں مبتلا ہونے کی وجہ 52 ابتلاؤں کے وقت بعض مسلمان ممالک کی غلطیاں 55 یہ لازمی نہیں کہ قومی ابتلاؤں کے وقت سیچوں کی جماعت 84 298 361 441 71,296,502 305 307 کلیہ بچ جائے ابتلاؤں اور نقصانات پر صبر سے کام لینے والے ابتلاء کے وقت بعض احمدیوں کی حالت ابتلاء میں صبر پر خدا کا غیر معمولی اجر حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ پر آنے والے ابتلا اور تلخیاں آپ کے ابوالانبیاء کہلانے کی وجہ آپ کی قرآن میں مذکور دعائیں 308,312,349,434,498,536 آپ کی دعاؤں کا آنحضرت کے دل پر ہزاروں سال بعد القاء آپ کی مکہ کے لئے دو دعائیں بے حد رحم کرنے والے، بڑے نرم دل تھے آپ کی اپنے والد کے لئے دعا، اس کی تفصیل 349,350 363 364 369 دنیا کے تین مذاہب کے سلسلے آپ کی طرف منسوب 435,436 310 529,619 10 614 614 878 540,694 542-543 547 U544 547 547 825 631,819 684 539 877 615 52 953 229,659 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 الجمعة هو الذي بعث في الاميين (3) و آخرین منم لما يلحقوا بهم (4) مثل الذين حملوا التوراة (6) المنافقون وانفقوا مما رزقناكم (11) الله نفسا (12) ولن يؤخرا الطلاق ذكرًا (11) التحريم يايها الذين امنوا توبوا الى الله (9) ضرب الله مثلا (12) نوح قال رب انی دعوت قومی (6تا 29) يرسل السماء عليكم مدرارا (12) ويمددكم باموال وبنين (13) المدثر قم فانذر (3) ولا تممن تستكثر (7) القيامة ولو القى معاذيره (61) البروج ان الذين فتنوا المؤمنين (11) انما انت مذكر (22 تا 22) الغاشية الفجر يايتها النفس المطمئنة (28تا 31) البلد وتواصوا بالصبر (18) الشمس وقد خاب من دسها (11) الضحى وللآخرة خير لك (5)
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 7 آپ کی خانہ کعبہ کی تکمیل پر دعا ئیں اور حضرت سلیمان احسان کی ہیکل سلیمانی کی تعمیر پر دعائیں، ان کی مشابہت 468 شکر گزار انسان ٹھوکر نہیں کھا سکتا اور اپنے محسن کے آپ کا آگ میں ڈالے جانا، وضاحت قرآن میں آپ اکیلے کو امت قرار دیئے جانا 498 500 خلاف کارروائی نہیں کرسکتا احسان کا مطلب 567 765 اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے گھر کی چوکھٹ بدلنے کی تلقین 662 احمدیت / جماعت احمدیہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کئی بار وہاں جانا ابلیس ہرنبی کے دور میں اہلیسوں کا پیدا ہونا 662,663 ہم دولت کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے کے قائل نہیں 2 جماعت کے اندر نسلی تعصب نہیں ہے جماعت احمد یہ آنحضرت کی سنت کے معدوم حصوں کو 18 ابلیس کو مہلت دیئے جانے سے مراد ابلیس کے انکار کی وجہ سنن ابن ماجہ ابن المبارک حضرت ابو بکر صدیق ابو جہل ابو جہل کی دعا ابوجہل ابلیس تھا مولوی ابوالعطاء صاحب حضرت ابو ہریرة " اتحاد اتحاد اسلام کی اصل شناخت ہے 571 586 712 224 80 27,912 586,609 570 588 715 478 476 زندہ کرنے والی جماعت ہے 18 احمدی تمام دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں 44 ابتلاؤں کے وقت احمدیوں کا رد عمل 58 جماعت احمدیہ کسی قومی تعصب میں مبتلا ہو کر کسی خیال کا اظہار نہیں کرتی جماعت احمد یہ توحید کی علمبر دار جماعت ہے جماعت احمد یہ انگریز کی ایجنٹ ہے، اس کارڈ ہمیں اس دنیا کا قائد بنایا گیا ہے 69 69 74 80 جماعت احمدیہ کے لئے سورۃ فاتحہ میں انکسار کی تعلیم 259 جماعت احمدیہ پر ابتدائی عیسائیوں جیسے حالات اور دعا کی تلقین جماعت کے جاپان میں دومشن 385 393 دنیا کی تمام احمدی جماعتوں کے امت واحدہ بننے جماعت احمدیہ کو خدا نے اقوام متحدہ کے قیام کے لئے چنا 486 کے سامانوں کا پیدا ہونا اٹاری اسٹیشن اجلاس 209 471 جماعت میں اختلافات کے وقت خلیفہ وقت کی حالت 482 احمد یہ تاریخ بتاتی ہے کہ سب کچھ لٹنے کے باوجود مسکراتے رہے.واقعہ 521 میری ہدایت کہ اجلاسات میں اسی ملک کی زبان بولی امریکی سفر کے دوران بعض احمدیوں کا کہنا کہ پاکستان جائے ہاں ترجمہ کی سہولت ہو اگر کسی کو سمجھ نہ آتی ہو 707 سے آنے والے احمدی ہمارے لئے ٹھوکر کا باعث بنتے ہیں 537 احرار موومنٹ احراری جماعت 854 پاک و ہند کے لوگوں کو احمدیت کا سفیر سمجھا جانا پاکستان میں احمدیوں پر لمبے مظالم کے باعث خطوط آنا 538 احراری جماعت اور الہی جماعت میں فرق 727 کہ انہیں بدلہ کا موقع دیا جائے مگر انہیں صبر کی تلقین 560
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 8 احمدیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے محبت کی تلقین اسلام کے دفاع کے لئے احمدیت کو پیدا کیا گیا ہے اس تا کہ تفریق نہ ہو دیہاتی مجالس میں اخلاص زیادہ مگر آہستہ آہستہ علمی تربیت میں کمی آنا 607 617 لئے موجودہ حالات میں دفاع کا تمام بوجھ اٹھائے 824 عیسائیت کے اسلام پر حملہ کے وقت ہمیں لام بندی کی ضرورت ہے تقوی کی بنیاد پر ہزاروں سال کی عمارت تعمیر ہونی ہے 645 ہر احمدی کا دعا کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ دنیا کی کسی احمدی تجارتیں کریں مگر کھاتے پیتے لوگ اپنی بیویوں کو اس میں ڈالیں گے تو نقصان ہوگا 677 جماعت میں اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا بعض ملکوں کا جماعت کے اندازوں کے متعلق پوری ذاتی گناہوں کی کرید سے نظام جماعت کو ممانعت 685 احتیاط سے کام نہ لینا 826 836 840 جہاں بدیاں باہر آ جائیں وہاں نظام جماعت آنکھیں جماعت احمدیہ کی تعداد کے مختلف اعتراضات کے جوابات 840 بند نہ کرے 685 جماعت احمدیہ کا تعداد کے لحاظ سے رعب 845 انفرادی غلطی کی نسبت جماعتی غلطی زیادہ اہم ہے کیونکہ جولوگ کھو گئے یا پیچھے ہٹ گئے ان کو کھینچ کر لائیں 848 نظام بر باد ہو جاتا ہے جماعت میں فتنوں کی سرکوبی کے لئے حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کا طرز عمل 701 702 بیعتوں کے رجحان میں تیزی احمدیت کی صداقت کا ایک معجزہ پاکستانی حکومت کا جماعت کے چندوں کے باہر منتقل جرمنی کی مجلس عاملہ کا اپنے امیر کا احترام نہ کرنا اور حضور کا کرنے پر پابندی لگانا انہیں سمجھانا 702 جماعت کو سنجیدگی سے تبلیغ کے لئے سب سے اہم ذریعہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے 850 855 856 872 جرمنی کے مربی صاحب انچارج کی وجہ سے جرمنی کی مجلس عاملہ میں ہونے والے فتنہ کا تفصیلی ذکر اور عہدیداران اگر جماعت کا مستقبل روشن ہے تو ضرور اس عالم، انسانیت کی معزولی کا ذکر اس دور میں جماعت میں اٹھنے والے فتنوں کا آغاز 703 کا مستقبل روشن ہے 884 جماعت کے مستقبل کے لئے عمومی دعاؤں کی تحریک 884 ابلیسیت سے ہوا کسی عہدیدار کے کسی ظلم پر شکایت کا طریق جماعت کی عدم تربیت کی ایک بڑی وجہ فتنوں سے بچنے کے لئے جماعتی نظام سے ساری جماعت کو متعارف کرانے کا طریق 715 727 733 744 یہ جماعت بھی صلاحیت رکھتی ہے کہ پھلے پھولے اور دنیا میں انقلاب عظیم برپا کر دے 898 مجھے احمدیت کے سیاسی غلبہ کی بجائے تمدنی اور معاشرتی غلبہ میں دلچسپی ہے 900 یور بین احمدیوں کو جھر جھری لے کر بیدار ہونا چاہئے 901 جماعت احمدیہ کے انتخاب اور ڈیموکریٹک انتخاب میں فرق 744 ہم کو خدا نے نشو ونما کی جو طاقتیں دی ہیں ان کو پنپنے کے احمدیت کے خوف کی وجہ سے سیاستدانوں کا مولویوں لئے جس ماحول کی ضرورت ہے وہ ابھی میسر نہیں ہے 903 جس شخص کو اللہ کا خوف ہے وہ جماعتی کاموں میں زیادہ 779 کی طرف جھکنا جب سے احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالا ہے تب سے دلچسپی لیتا ہے پاکستان مصیبت میں مبتلا ہے نظام جماعت میں کسی نا انصافی کی گنجائش نہیں 779 800 910 935 ہمارا مقصد دل جیتنا ہے خواہ لا جواب ہو کر جیتیں وہ واقعات جو جماعت کے نظام کو کمزور کر سکتے ہیں 941
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 9 ساتھ کامل وفاداری، جماعتی تاریخ کا ایک اہم واقعہ 943 جرمنی کی عاملہ کے ابتلاء پر کئی خاندانوں کی خلافت کے اسرائیل 24,31,32,47,48,49,62,64,65,74 76,80,81,84,97,104,111,144,170,196,120 124,125,127,128,129,130,467 993 اسرائیل کا اردن پر قبضہ جماعت احمدیہ کا تاریخی دن جب خلیفہ وقت کی آواز قادیان سے تمام عالم میں پھیلی خدا نے جماعت کے لوگوں کے دل میں یہ صلاحیت بخشی عالمی قوتوں کی اسرائیل کے ساتھ ہمدردی اسرائیل کے فلسطینیوں پر خوفناک مظالم ہے کہ لوگوں کے غموں کو اپنا لیں 950 ہر جماعت میں اپنے ا.کے متعلق رجسٹر شکایات اسرائیل کے قیام کے مقاصد اور وجوہات ہونا چاہئے 971 370 بعض یہودی فرقے جو اسرائیل کے خلاف ہیں 20 45 63 81,95,112 90 احمدی میڈیکل ایسوسی ایشنز اختلاف اختلافات کو مٹانے اور اتحاد کا بہترین فارمولا و وہ اختلاف جو ترقی کا موجب بنتا ہے اخلاص اخلاص کی دو قسمیں ارتداد 484 753 859 ارتداد کی سزا کے متعلق موجودہ مسلمانوں کا موقف 179 ارتقاء ارتقاء کی وضاحت اردن اردو اردو زبان سمجھنے والے احمدیوں کی تعداد از ابیلا ازبکستان استغفار امتحان اور پکڑ کے وقت استغفار کرنا چاہئے استغفار کی دو قسمیں کمزوری پر استغفار کرنا چاہئے حضرت اسحاق 629 24,85,198 475 159 828,829 562 679 942 366 اسرائیل کے قیام کے بعد اس علاقہ میں دو قسم کی جنگوں کا ہونا98 اسرائیل کا1956 میں مصر پر حملہ یوم کیبور کی لڑائی 101,102 104 1947 سے 1949 کے درمیان یہود کی متشددانہ کارروائیاں 106 اسرائیل کے مخالف یہودی 109 اسرائیل پر سکڈ میزائل حملہ کے وقت امریکی صدر کی حالت 110 شروع سے لے کر آج تک اسرائیل کی مسلسل وسعت پذیری کا نقشہ اسرائیل کا قیام تمام نفرتوں کا آغاز اور جڑ ہے 112 146 اسرائیل کا مسلمانوں کو Terrorist کہنا اور اس کی طرف سے خوفناک واقعات اسرائیل کی بربریت کا ثبوت.لبنان پر حملہ اسرائیل کے وعدوں کی حقیقت اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ کا طریق 148 149 150,151 154 اسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد کو 27 مرتبہ امریکہ کا سیکیورٹی کونسل میں ویٹو کرنا 155 اسرائیل کے انتقام اور اس کے احسان کی تازہ مثال 158 اسرائیل ایک وقت مغرب سے ایسا ہولناک بدلہ لے گا کہ مغرب کو اس کا تصور بھی نہیں اسرائیل کی تباہی یا بقا کا فیصلہ آسمان پر ہوگا اسرائیل کا جنگ تھمتے ہی کہنا کہ اب ہمیں عراق سے تو خطرہ نہیں شام سے ہے 161 225 260
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 10 سید اسعد گیلانی اسلام تعصبات اور اسلام میں بُعد المشرقین ہے 847 31 آئندہ چند ماہ عالم اسلام کے لئے خوفناک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کی ضرورت آخرین کے دور میں قوموں کے تو بہ کرنے اور اسلام میں شامل ہونے کی پیشگوئی اسلام کی بدنامی کا موجب بننے والے مسلمان ممالک 55 اسلام صرف اللہ کو ایک ماننے کا نام نہیں بلکہ تمام انسانوں اسلام کا کوئی وطن نہیں 55 کو بھی ایک ماننا شرط ہے 229 257 340 478 481 غیر مسلم ممالک کا اقلیت مسلمانوں سے سوال کہ تم پہلے اسلامی تعلیم ایک دوسرے سے منسلک ہے آخری دور میں مہاجرین اور انصار میں ہونے والے اختلافات اور مؤرخین کا الجھنا کہ کون حق پر اور کون غلطی پر تھا 535 اسلام کے وفادار ہو یا وطن کے.اس کا جواب اسلام کی تعلیم وطنیت سے بالا ہے اسلام کو پیدا کرنے کی غرض 55 56 58 اسلام کسی ایک ملک کا نہیں تمام دنیا کا ہے اسلام کی مقدس اصطلاحوں کے بے محل استعمال سے اسلام کے کامل ہونے پر اعتراض کا جواب روس اور امریکہ کی جنگ کے دوران اسلام کے خلاف اسلام کی بدنامی 61 گزشتہ کئی سالوں سے مغرب کی اسلام سے نفرت مذہبی ہے 62 مذاہب کی جنگ میں شدت نہ تھی جو روس کے منہدم اسلام کی تاریخ غداریوں سے دغدار سعودی عرب کی اسلام سے غداریاں 73 74 537 758 822 ہونے کے بعد ہے عیسائی طاقتوں کا عالم اسلام کو آپس میں الجھائے رکھنا 823 اسلام میں مذہبی لحاظ سے غیر معمولی مقام رکھنے والی عالم اسلام میں بدامنی کے بیرونی اور اندرونی اسباب 824 سلطنتیں رو 77,78 158 عیسائیت کانٹے زور کے ساتھ اسلام پر حملہ 826 مغربی دنیا کی اسلام سے گہری دشمنی کا پس منظر اسلامی تاریخ میں یہود سے احسان کا حسن سلوک اور یہود اسلام کی جنگ صرف احمدیت نے لڑنی ہے روسی علاقوں میں اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ اور توازن 833 کا سلوک اسلام میں خدا اور دین محمد کے نام پر جنگیں اور عبرتناک شکستیں 160 173 835 900 امریکہ اور یورپ میں اسلام دشمن اقدار کا بڑھنا اسلام کی اشاعت کے حوالہ سے احمدیت سے وابستہ توقع 978 دین اسلام کے تمام ادیان پر غالب آنے کا زمانہ عالم اسلام کا قرآنی نظام عدل پر عمل نہ کرنا اور اس کا اثر 178 اسلام بطور قید خانہ، اس کی وضاحت عالم اسلام کونصیحت کہ سیاست کی دنیا الگ ہے اور مذہب اسلام آباد (یوکے) کی دنیا الگ ہے خطرہ کے وقت عالم اسلام میں ملائیت کا فروغ 180 181 جنرل اسلم بیگ حضرت اسماعیل عالم اسلام کے اندرونی تضادات کو دور کرنے کا لائحہ عمل 181 عالم اسلام کو اسلامی اصولوں کی طرف لوٹنے اور علوم وفنون اسوان ڈیم کی طرف توجہ کی تلقین 185 اسیر یا عالم اسلام اور تیسری دنیا کوسب سے بڑا خطرہ ان کی اسیر مینز نفسیاتی ذلتوں سے ہے 186 979 987 617,643 75 71,366 101 407 406,407
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 11 اسیر مینز کا یہود کی شمالی مملکت کو تاخت و تاراج کرنا 220 ان کا عراق پر حملہ اور ان پر مظالم اشترا کی نظام اشتراکی نظام کے وجود کا سبب 165 563,564 جماعت احمدیہ کی طرف سے افریقی فاقہ کش ممالک کے لئے دس ہزار پاؤنڈ صدقہ افریقی فاقہ کشوں کے لئے صدقہ کی تحریک 52 53 افریقہ بھوک کا شکار مگر ان کی طرف امریکہ کی توجہ نہیں 132 اشتراکیت کے پیدا ہونے کے متعلق نبی کریم کی پیشگوئی 798 افریقہ میں غربت اور فاقہ کشی پر جماعت کو امداد کی تحریک 370 اصحاب کہف یہ عیسائیت کی پہلی تین صدیوں کے موحدین تھے 384 قرآن میں مذکوران کی دعا 384 افریقہ میں یہووا ویٹنس کی سرگرمیاں اقوام متحدہ ان اقوام قدیم کے اطوار زندہ رہنے کے نہیں یہ عبرتناک یادگار بن جائیں گی رومن حکومت کے اصحاب کہف پر توحید کی وجہ سے مظالم 385 جماعت احمد یہ نئی اقوام متحدہ کی فلک بوس عمارتیں تعمیر 939 70 اصلاح اصلاح اعتراف سے شروع ہوتی ہے اطاعت 655 کرنے والی ہے علامہ اقبال 71 187 اطاعت کے ساتھ ادب کا تعلق خدا اور نظام کی خاطر صبر کرنے والے کی تائید میں خدا کے فرشتے لگ جاتے ہیں خلیفہ اسیح کی معروف اطاعت سے مراد اعلان 713 727 747 ایک اچھا شاعر ، جماعت کے حوالہ سے اس کی تحریریں 975 اقتصادیات اسلامی ممالک میں اقتصادی استحکام کی صورتحال کوئی قوم اقتصادی ترقی کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتی اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہونے کا اصول دان چھوٹے ہونے کی وجہ سے جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر ادا جن قوموں کو مانگنے کی عادت پڑ جائے وہ اقتصادی لحاظ 886 سے اپنی حالت بہتر بنا ہی نہیں سکتیں کیا کریں گے جلسہ سالانہ قادیان کے ایام میں نمازوں کے جمع کر کے اقتصادی آزادی کو در پیش خطرات ادا کرنے کا اعلان افغانستان افغانستان میں امریکہ کا مجاہدین کی مدد کرنا افریقہ 996 260 23,188,200,201,221,735,751 770,810,811,814,864,915,926,927,928 935,936,1007 186 188 188 188 199 امیر ممالک سے امداد حاصل کرنے کے نقصانات 205,206 الجہادلا بن المبارک الحکم (اخبار) اللہ تعالیٰ 80 961 خدا زندہ اور ہمیشہ رہنے والا ہے، دنیا کی اولتی بدلتی تاریخ کو پیش نظر رکھو، اس خدا کے ہاتھ میں دنیا کی طاقتیں ہیں 177 رب کے معافی 233 افریقہ کے بعض علاقوں میں تیزی سے جماعت احمدیہ کا پھیلاؤ یورپین قوموں کے افریقیوں پر مظالم 11 21 سورۃ فاتحہ کی دوسری آیت سے تمام صفات الہی کا تعلق 233 قرآن کریم کی رو سے خدائی صفات پر غور کی تلقین 237 افریقی ممالک کے بھوکے لوگوں کے لئے دعا کی تحریک 51 غضب یا رحم و شفقت کی صفات در حقیقت ربوبیت کی
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ہی صفات ہیں 12 238 بخشش اور مغفرت کے معاملہ میں انسان اور اللہ میں فرق 685 خدا کی حمد کی راہ میں سب سے بڑی روک اور بڑائت 248 انسان ہر وقت خطرہ میں ہے صرف خدا کا فضل ہے جو اس کسی انسان پر خدا کا فضل اور لوگوں کی جستجو کہ کسی نیکی کی کے اوپر امن کا سایہ کئے رکھے تو انسان بچ سکتا ہے 697 اللہ کا اپنے بندوں سے رحمت کا سلوک سورۃ فاتحہ میں صفات الہیہ کا آنحضرت کے ساتھ مہر اعلق 255 اللہ کا اپنے بندوں کے لئے مکر کرنا.واقعہ منعمین کے چار مراتب اور سورۃ فاتحہ میں خدا کی چار صفات صحیح دوائی تک ذہن کا پہنچ جانا اللہ کے اذن سے ہے 784 وجہ سے شاید ہوا ہو کا آپس میں تعلق لا الہ الا اللہ میں الہ کی نفی سے مراد اللہ کی رحمت اور عظمت کا اظہار 254 255 266 273 291 323 347 775,776 783 818 خدا کے قرض مانگنے کی حقیقت اللہ نے جس چیز کو پیدا کیا ہے اس کے اندر زندگی اور موت کی جدوجہد جاری ہے اللہ کی رحمت کے جذب کرنے کا طریق 821,822 874 خدا کے لئے فراغت کا مطلب 914 خدا کی معافی اور رحمت کا ہر انسانی لغزش کو ڈھانپنا خدا کے ستر مرتبہ دیدار سے مراد خدا کے رب ہونے کی وضاحت اللہ سے مغفرت کے علاوہ کمزوری پرستاری طلب کرنی چاہئے 942 اللہ کی براہ راست معافی کے واقعات شاذ کے طور پر بطور بعض دفعہ خدا کسی کو بہت جلدی پکڑ لیتا ہے اور بعض دفعہ نمونہ ہوتے ہیں 946 بڑی بڑی چیزوں پر بھی نہیں پکڑتا.اس کا سبب ساری کائنات پر خدا کی مالکیت کا تصرف دنیا کی سب سے بڑی دولت.اللہ 355 440 441 اللہ کے ہدایت دینے کا طریق خدا کی پکڑ کی قسمیں 953 1008 وہ بندہ جس پر ہر وقت خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے 1010 آنحضرت کا لا الہ الا اللہ کہنے والے کو جنت کی بشارت خدا کے شکور نام کی وجہ دینا.اس میں حکمت 478 خدا کا اپنے پیاروں کی خاطر ان کے سونے پر جا گنا لا الہ الا اللہ صرف عقیدہ نہیں بلکہ تمام زندگی کا طرز عمل ہے479 اور دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رکھنا 1011 1012 رحمانیت اور رحیمیت کا رحم سے تعلق اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی صفت رحمان پر عمل کی تلقین رب کا مطلب خدا کا بندوں سے مغفرت کا سلوک خدا کی ملکیت کے جلوے اللہ تعالیٰ کے عظیم ہونے کی تفصیل دنیا کی کوئی شے خدا کی ربوبیت سے باہر نہیں دنیا کی ہر شے خدا کی حمد کے ترانے گارہی ہے 479 480 480 522 ام ہائی امة الرشيد نماز جنازہ غائب کا اعلان 533 امة العزيز 551 ذکر خیر اور نماز جنازہ کا اعلان 386 419 418 18 امریکہ 2,13,14,19,28,34,40,47,53,62,63 خدا کے عظیم اور اعلیٰ ہونے کی وضاحت انسان کے خدا سے تمام تعلقات تحفہ پیش کرنے کے تعلق 620 620 624 65,69,70,72,83,87,88,89,92,98,99,105 112, 118,121,123,154,160,170,176,178 186,187,188,194,200,215,216,371,375 452,471,475,544,558,641,650,667,668 669,667,791,813,815,822,830,858,860 861,862,864,891,900,902,918,960 جیسے ہیں خدا کو تحفہ دینے سے مراد 632 632 1007,1014 عراق کویت جنگ میں عراق اور امریکہ کا موقف 19,20
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 امریکہ میں سیاہ فام کی کثرت کا تاریخی پہلو سے ذکر امریکی قوم کے Red Indians پر مظالم امریکی مصنفین کی کتابوں سے C.I.A کے ذریعہ دوسرے ممالک میں امریکی مداخلت کا ثبوت امریکہ کا یہود کی خاطر عراق سے انتقام امریکیوں کا عراق میں دجل 21 21 24 66 131,132 امریکہ کا صدام حسین کو ہٹلر ، ظالم ، سفاک قرار دینا 163 امریکہ کے ویتنام اور عراق پر مظالم 163 13 کی تلقین امن کے لئے قرآن کے نظام عدل کو مضبوطی سے پکڑنے آج امن عالم کا انحصار اسرائیل اور اس کے فیصلوں پر ہے 218 182 امیر ( نیز دیکھئے عہدیداران) امیر کے ساتھ محبت اور ادب کا تعلق بہت ضروری ہے 713,714 اسلام کی امارت اور اطاعت کی روح امیر سے مراد امریکہ کی خوفناک نفسیاتی بیماری دنیا کے امن کے لئے لاعلمی کی وجہ سے امارت کے اختیارات کے متعلق احباب سب سے بڑا خطرہ امریکہ، اسرائیل پر اردن کے مغربی کنارہ خالی کرنے کے لئے دبا ؤ صرف ڈرامہ ہے امریکہ ، اسرائیل کا فوجی امداد کے ذریعہ غلام بنانا 164 197 جماعت کو پتا نہ ہونا اور اس کے نقصانات امارت کا کام کوئی آسان کام نہیں ہے 714 743 751,752 امراء کو نصیحت کہ عاملہ میں بدچلن لوگوں کی خلیفہ وقت کو اطلاع دیں امریکہ اور اسرائیل کا کئی ممالک میں بغاوت کے طریق امراء کو دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں ہدایات سکھلانا 204 755 810 894,922 امارت کے بغیر زندگی کا کوئی تصور مسلمان کے لئے باقی امریکہ کے عقل سے کام لینے اور خدا کا نمائندہ بننے کے نہیں رہتا لئے دعا کی تحریک 995 امریکہ اور اس کے ساتھیوں کا پوری دنیا پر غلبہ امریکہ کے عراق پر مظالم 261 261 262 انانیت انا نیت کو کچلنے والے عہدیداران ہمیشہ نصیحتوں سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں امریکہ کے لئے انصاف سے کام لینے کے لئے دعا کی تحریک 263 نبی کریم نے انا کا نام شیطان رکھا ہے امریکہ میں جانے والے طالب علموں کو برائیوں سے بچنے کے لئے ایک قرآنی دعا کی تلقین امریکہ کو دجال قرار دینا 453 517 1905ء میں پہلی دفعہ امریکہ میں جہاز کا تجربہ کیا گیا 613 سوائے انبیاء کے انا ہمیشہ کچلی نہیں جاتی انا نسیت کی مختلف قسمیں انتخاب 906 906 906 938 امن جماعت احمدیہ کے انتخاب اور ڈیموکریٹک انتخاب میں فرق 744 جماعت کو تمام بنی نوع کے حوالہ سے عالمی امن کے لئے بدخلق انسان کے عاملہ کے انتخابات کے وقت چنا ؤ دعا کی تحریک جماعت کو امن عالم کے لئے دعا کی تحریک 31 50 میں احتیاط کی تلقین انٹاریو 809,810 557 اسلامی سیاست کے تین اصول دنیا کے دائمی امن کی انڈونیشیا 13,56,178,213,499,813,859,860 ضمانت دینے والے 177 ہر اسلامی ملک سے امن کا اٹھنا ، اس کی وجہ 178,179 1006,1014
23,28,47,57,75,79,82,83,84 انگلستان 86,89,98,99,101,102,118,124,126,130,143 150,168,221,265,339,370,373,419,452 575,641,667,668,673,674,781,812,828 836,852,858,924,928,959,963,966,979 983,993 150 14 312 575 210 249 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 حضرت انس انسائیکلو پیڈیا انسان انسانی قدروں کو بلند کرنے کی ضرورت انسان کے صوتی نظام کی ترقی کا ذکر اپنی تعریف چاہنا اور اپنے متعلق بدگوئی سے بچنا زندگی کے بہت بڑے محرکات ہیں جو شرک نہیں انسان کا اپنے نفس کو معبود بنانا انسان کامل یعنی محمد کی دعا دو قسم کی ہلاکتیں انسان کو درپیش ہیں 266 491 521 531 انگلینڈ اولاد والدین کی اولاد کے لئے قرآنی دعا بچپن میں رحم کا معاملہ زیادہ ہوتا ہے والدین کے لئے تربیت اولا د کا ایک گر تین باتیں جو انسانی زندگی پر ہر لحاظ سے حاوی ہیں 550,551 سختی کے ساتھ بچے کی تربیت نہیں ہوسکتی انسان کا اپنی تمناؤں کو اپنا معبود ٹھہرانا انسان کی زندگی کے دو پہلو خوف ، حرص 552 617,618 666 ہر انسان میں چھپا ہوا شیطان انسان فطرتا بعض سے نزدیک اور بعض سے دور ہوتا ہے 740 جو انسان اپنی ذات میں سکڑ رہا ہو اس بات کی علامت ہے کہ اس کے کام نہیں بڑھ ر ہے انسانی حقوق کا عالمی کمیشن انصار ہجرت کے وقت انصار کا جذبہ ایمان انفاق فی سبیل اللہ انفاق فی سبیل اللہ کا قبولیت دعا سے تعلق انکساری عظمت انکساری میں ہے انجیل انگریز 918 849 510 614 231 225,736 374 377 378 378 378,379 اولاد کے لئے متوازن پیار کی تعلیم والدین کے اپنی اولاد کے لئے پر پھیلا دینے کا مطلب 380 Generation Gap کی اصطلاح بہت خطرناک ہے 380 بعض معاشروں کا خیال کہ صرف والدہ کا کام تربیت کرنا ہے،اس کارڈ یورپی معاشرہ میں صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اولاد کو والدین سے خطرہ اولاد سے سختی کرنے والے پر حضرت مسیح موعود کا اظہار ناراضگی 381 382 382 وہ والدین جو بیٹے کے لئے دعا کرتے ہیں انہیں نصیحت 389 ہمیشہ نیک اولاد کی دعا کرنی چاہئے 390 اولا د کی دولت سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی دولت نہیں 472 والدین کا اپنی اولادوں پر احسان خلیفہ وقت کے خطبات کے ساتھ جوڑ دیں 473 آج کل پیدا ہونے والے بچے دو قسم کی پولوشن میں مبتلا ہیں 526 اہل سنت 535 51 انگریزوں کی ڈپلومیسی امریکہ سے بہت بہتر ، اس کی وجہ 88 اہل سنت کے پیدا ہونے کا سبب انگریز قوم کے انصاف کا ذکر 128 ایسے سینیا
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ایٹم بم ، ایٹمی جنگ ایٹم بم کے نتیجہ میں خوفناک بادلوں کا اٹھنا قرآن میں ایٹمی دور کی پیشگوئی 611 611 15 ایمان پانچ ارکان ایمان نیچے ایمان کی علامت 1400 سال میں صرف حضرت مسیح موعود کا دنیا کو ایٹمی حضرت ایوب ہلاکت سے متنبہ کرنا 612 ایٹمی جنگ کو صرف احمدیوں کی دعائیں ٹال سکتی ہیں 613 ایٹم بم سے مہلک اثرات ایڈز 613 ایڈز کی بیماری سے مغربی اقوام کی ہلاکت کی پیشگوئی 203 ایڈز کی بیماری کا تعارف حدیث میں Aids (ایڈز) کی بیماری کی پیشگوئی ایڈمنٹن ایڈورڈ گرے ایڈورڈ ہیتھ 204 223 557 132,133 79,89 حضرت ایوب کی قرآن میں مذکور دعائیں حضرت ایوب کے مختلف حالات زندگی شیطان کے ذریعہ حضرت ایوب کا ابتلاء 477 947 396,401,508 401 402 ہریش چندر اور حضرت ایوب کے واقعہ میں مماثلت 403 حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک بعید نہیں کہ حضرت ایوب ہندی نبی ہوں 404 وہ مصائب و تکالیف جو آپ کو برداشت کرنی پڑیں 508,509 حضرت ایوب کی ہجرت اور وہاں کے لوگوں کا حسن سلوک 509,510 شیطان کا حضرت ایوب کا امتحان لینا 736 ایران 14,25,61,76,98,99,100,101,113 147,198,212,213,551 ایران کی تاریخ خدمت اسلام کے عظیم کارناموں سے 401,402,404,406,407,408,410 940,961 بائبل نے حضرت سلیمان کو نبی تسلیم نہیں کیا بلکہ گندے روشن ہے ایران کے خلاف صدام حسین کے مظالم اور اس کی مدد کرنے والے 77 کردار کا بادشاہ ظاہر کیا ہے (نعوذ باللہ ) عیسائیوں کا بائبل میں تحریف کرنا 175 بابا سندھی امیران کی عربوں سے تاریخی رقابت 196 حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ ایسٹ لنڈن ایسٹرن لندن 265,373 بالفور بيلفور 348,370 بٹالہ ایسٹرن مشی گن یونیورسٹی ڈیٹرائٹ امریکہ 529 بجٹ ایشیا ایشیا ( هفت روزه رساله ) ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ 144,188,201 847 624 465,466 964 501,502 535 84,85,95,104 964 بجٹ کا احترام جماعت میں پیدا کرنا بڑا ضروری ہے 746 بجلی سے انسان کے مرنے کی وجہ 240 دنیا کی زرخیزی کا آسمانی بجلی سے براہ راست تعلق 240
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 16 بجلی کے کڑکوں کے ذریعہ ساری دنیا کے کارخانوں سے زیادہ نائٹروجن گیس کا بننا بحرین بحیرہ طبریہ بخارا 241 48,51 223 828,830 بخاری 187,646,647,711,714,906,944 بدامنی 35,64,76,79,80,84,102,103 صدر بش 107,108,109,110, 112, 113, 115,135,136 143,144,165 وہ نیو ورلڈ آرڈر جس کا بش صدر نے خواب دیکھا تھا 111 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفہ المسیح الثانی 403,404,417 1 آپ نے 1957ء میں وقف جدید کا آغاز فرمایا برائی کو پکڑنے کے حوالہ سے حضرت مصلح موعود کا طریق 318 دنیا کی بدامنی کے وقت مغربی ترقی یافتہ قوموں کو فوائد خدا کی وحدانیت اور آپس میں اتحاد کے حوالہ سے حضرت کا حصول بدتمیزی 47 مصلح موعودؓ کی ایک نظم حضرت مصلح موعودؓ کا چشمہ کے پانی میں ایک منٹ ہاتھ 483 بدتمیزی اور سچائی کے اظہار میں فرق بدر (اخبار) 809 960 رکھنے پر انعام کا اعلان وقف جدید کی تحریک کے اجراء کے وقت دیہاتی علاقوں میں کام کی نصیحت ، اس میں حکمت 509 607 بدظنی حضرت مصلح موعودؓ کا اپنی صحت سے خطاب کا آغاز کرنا بدظنی سے بچنے کا حکم برٹش میوزیم لائبریری 666 965 جو جماعت کو پسند تھا 708 سرحد سے ایک دوست کا آپ سے ملاقات کے لیے آنا 844 آپ جیسے مفسر ہزاروں سال میں پیدا ہوتے ہیں 888 برطانیہ 13,19,62,90,103,125,126,216,1014 حضرت مسیح موعود کے بعد جیسی خدمت قرآن آپ برطانیہ کے آسٹریلیا پر مظالم برطانیہ کے 1920ء میں کردوں پر مظالم برکینا فاسو برلن برما برمنگھم 22 175 862 83,147,152 887 265,924 نے کی اس کی نظیر نہیں اور نہیں ملتی 888 اسلام پر حملہ کے وقت حضرت مصلح موعود کا رد عمل 969 حضرت مصلح موعود کے دور میں قادیان کی مذہبی حالت 1003 حضرت مرزا بشیر احمد بصره بغاوت 502 26,193 بربیت ہر قوم کا بنیادی حق کہ باغیوں کا سر کچلے اس صدی کی تمام بغاوتوں کے پیچھے ضرور دوسری قوموں 262 بریت اور معافی کے دو واقعات جن میں خدا نے براہ راست معاف فرمایا بریڈ فورڈ 946 53,72 کا تعلق تھا بغداد بلعم باعور 260 41,42,119,193 400
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 بلغاریہ بلقیس (ملکہ سبا) بنگال 17 931 بيت الناصر ، سر بینام 491 بيت النور ، نسپٹ 848,960 بیروت 457 739 150 بنگلہ دیش 11,12,200,936,959,1005,1006 بنو عباس 1013,1014 ایک بدوی کا بنو عباس کے خلیفہ کو ابو جہل کی دعا کے حوالہ سے طعنہ دینا بنو قریظہ بنو قینقاع بنو نضیر بنوں بنی اسرائیل بنی اسرائیل کی حکومت کا حضرت سلیمان کی وفات کے بعد دو حصوں میں بٹنا 570 158 158 158 843 573 بیعتیں کروانا آخری مقصود نہیں بلکہ آخری مقصود کی طرف پہلا قدم اٹھانے کا ذریعہ ہے بیلجئیم بے نظیر بینن 12 137,150,814,862 781 862 پاکستان 10,14,19,29,56,90,212,475,484 503 12 595,641,668,813,815,828,829,842,846 847,848,851,855,858,862,915,935,970 1006,1013,1014 پاکستانی احمدیوں کے صبر اور قربانیوں کا تذکرہ بنی اسرائیل کے 10 قبائل کو گمشدہ بھیڑیں کہنے کی وجہ 504 پاکستانی فوج اور قوم کا مزاج ہی نہیں کہ مغربی ممالک بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے فرعونی لشکر کی غرقابی کے متعلق قرآن میں مذکور آیات پر بحث بورژوا بوژوا بھگت کبیر بھوٹان بیت اقصیٰ قادیان 580 553,563 553,563 964 1000,1004 981.997 کے ساتھ مل مسلمان ملک پر حملہ کریں 75 پاکستان کا نیوکلیر طاقت بننے کا خواب اور اسکے مسائل 113 پاکستانی ممبران اسمبلی کی خرید وفروخت اور ہارس ٹریڈنگ 125 پاکستان میں درست ہونے والے لسانی اور مذہبی اختلافات 208 پاکستان میں احمدیوں پر مظالم 268,385,429,778 پاکستان میں نشہ کا عام ہونا پاکستان میں دو احمدی بستیوں کو جلا کر خاک کرنا پاکستان کے حالات کی وجہ سے احمدیوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت بيت الفضل لندن 1,7,39,55,73,93,169 پاکستان کے خوفناک حالات 247,265,281,303,327,349,421,439,599 631,645,665,683,757,787,805,821,839 853,869,887,905,921,941,959 453 498 670 777,778,779,781 پاکستانی احمدیوں کی اسلام کی خاطر جانی اور مالی قربانیاں 1005 ایک پاکستانی مولوی کا جماعت کی تعداد کے حوالہ سے چیلنج 846 بیت اللہ 39,40 پرتگال 926
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 پردہ پوشی پردہ پوشی صرف ذاتیات تک جائز ہے پر وٹو کالز آف ایلڈرز آف زائن پنجاب پنڈی بھٹیاں پیرامار پیو پیر پگاڑا پیرس پیشگوئی 687 81 791,848 789 457,458 39 557 18 تبلیغ ( نیز دیکھئے ” دعوت الی اللہ ) محض تبلیغ سے نیا مسلمان بنانے سے پرانی بیماریاں دور نہیں ہو جاتیں 332 تبلیغ کے دوران مولویوں کا حقیقت سمجھنے کے باوجود رد عمل 592 اس وقت کثرت کے ساتھ لام بندی کی ضرورت ہے 831 تبلیغ کا صحیح طریق تبلیغ کے آخری مقصد کے حصول کا کارگر ہتھیار تبلیغ کا صبر کے ساتھ تعلق اپنے تبلیغی کاموں کو اپنے پھلوں سے جانچیں تبلیغ کے میدان میں جماعت کی کامیابیاں تبلیغ کی راہیں آسان کرنے کا طریق 869 871 873 890 891 908 ایڈز کی بیماری سے مغربی اقوام کی ہلاکت کی پیشگوئی 203 تبلیغ کے لئے معلومات مہیا کرنے اور معلومات کے تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ تمام علاقوں کے یہود کا فلسطین حصول کے نظام کو بہتر بنانے کی تلقین میں اکٹھے ہونا اور قرآنی پیشگوئی کا پورا ہونا حدیث میں Aids (ایڈز) کی بیماری کی پیشگوئی 222 223 صرف نتیجہ پیدا کرنے کے ذرائع نہ تلاش کریں بلکہ نتیجہ پر نظر رکھیں 914 915 حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کہ یورپ اور عیسائی جسے تبلیغ کریں اس کی دلچسپی کے دائروں کا علم ہو 930 ممالک میں ایک قسم کا طاعون پھیلے گا انداری پیشگوئیوں کا مشروط ہونا 224 تبلیغ کے لئے کسی شخص کے ساتھ رابطہ کرنے کا گر 931 224,225 تحریک قرآن میں عیسائیوں کو رزق دیئے جانے کی پیشگوئی 340 آخرین کے دور میں قوموں کے تو بہ کرنے اور اسلام میں شامل ہونے کی پیشگوئی قرآن میں ایٹمی دور کی پیشگوئی 340 611 اشتراکیت کے پیدا ہونے کے متعلق نبی کریم کی پیشگوئی 798 تاریخ دنیا کی تاریخ کا رخ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی دعاؤں نے موڑنا ہے 167 افریقی ممالک کے بھوکے لوگوں کے لئے دعا کی تحریک 51 53 افریقی فاقہ کشوں کے لئے صدقہ کی تحریک مسلمان ممالک کے لیے عقل کے حصول کی دعا کی تحریک 32 امریکہ کے عقل سے کام لینے اور خدا کا نمائندہ بننے کے لئے دعا کی تحریک امریکہ کے لئے انصاف سے کام لینے کے لئے دعا کی تحریک 263 صد سالہ جوبلی فنڈ برائے افریقہ وانڈیا کے نام پر افریقہ میں غربت اور فاقہ کشی پر جماعت کو امداد کی تحریک 370 261 حضرت خلیفہ ثالث نے ایک دفعہ آخری جمعرات کو روزہ آج کا وقت انسانی تاریخ میں انتہائی نازک ہے 167 کی تحریک صد سالہ جو بلی کی کامیابی کے سلسلہ میں فرمائی 709 دنیا کی تاریخ کا سلسلہ جاری وساری ہے جو ایک سانہیں 176 اعتراض اور نام میں تبدیلی تاشقند 830 صد سالہ جوبلی فنڈ کی ادائیگی کے حوالہ سے ذکر 810 813
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 تحریک جدید تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان تحریک جدید کا آغاز اور اس کے مقاصد 853 854 19 جھوٹی تعریف کی تمنا شرک کی بدترین قسم 253 تعریف کی خواہش طبعی لیکن اسے اصل مقام پر رکھنا ضروری 253 پاکستانی احمدیوں کو اس چندہ میں اول مقام کے قیام کے تعریف کے معاملہ میں غفلت جو شرک پر منتج ہوتی ہے 266 لئے دعا کی تلقین تحفہ تحفہ کیا ہے، اس کی وضاحت تحفہ قبول کرنے والے کی دو حیثیتیں 856 627,631 632 وہ تحفے جو خدا تعالیٰ تک پہنچتے ہیں ان کی کیفیات 793 تحفہ کبھی مانگ کر نہیں لیا جاتا اخلاق کی حفاظت کے لئے تحفہ کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ کا تربیت کا ایک انداز 817 817 سچا انسان کبھی جھوٹی تعریف پر راضی نہیں ہوتا تفریق 622 روحانی جماعتوں میں پھٹنے اور تفریق کی علامات 607 قل العفو میں عفو سے مراد الارض میں مسلمانوں کے غلبہ سے مراد سورۃ فاتحہ میں دفن بے شمار راز 53 174 243 سیروا فی الارض سے فائدہ حاصل کرنے کا طریق 245 سورۃ فاتحہ کے مضامین پر ہر نماز میں غور کرنا چاہئے 247 تخلیق تخلیق کے ساتھ وابستہ خیر و شر تذکرہ 548,549 83,117,449,498,501 تذلل بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل اختیار کرو 699 تربیت تربیت کا ایک اہم ذریعہ.خلیفہ وقت کے خطبات کو با قاعدگی سے سننا وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسجد میں جانا چھوڑ دیتے ہیں.ان کو نصیحت وہ ماں باپ جو بچیوں کے لئے فکر مند رہتے ہیں ان کے لئے دعا کا نسخہ تعلیم وتربیت کا بجز کے ساتھ تعلق 472 484 518 893 ترکی29,76,85,86,113,131,196,197,823,931 ترندی تصوف سیر فی اللہ کا مطلب 743 244 سورۃ فاتحہ سب سے سچا آئینہ ہے سورۃ فاتحہ کا عید کو عابد میں بدلنا 247 255 یہود ونصاریٰ کا نام لیے بغیر خدا کا انہیں مغضوب عليهم اور الضالین ٹھہرانا سورۃ فاتحہ کا عدل کا حق ادا کرنا خلق آخر سے مراد حمد کے مضمون کی تفصیل حمد اور انعمت علیہم کا آپس میں تعلق 256 258 259 266 267 312 حریہ اور فضل میں فرق سورۃ فاتحہ میں مذکور صراط کا علم ہر ایک کو ہونا چاہئے 324 حضرت مریم کو غیب سے رزق دیئے جانے سے مراد 325 فرعون کے متعلق ننجیک ببدنک سے مراد 353 حضرت یوسٹ کے قصہ کو احسن القصص کہنے کی وجہ 360 لفظ فتنہ سے مراد والدین سے احسان کے سلوک میں حکمت لفظ جُناح کا مطلب کھیعص سے مراد 350,537 376 380 386
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ذوالنون سے مراد لفظ ابق کا مطلب الارض سے مراد فلسطین کی زمین ہے الظالمین کے مختلف معانی همزات کا مطلب ازواج سے مراد صرف بیویاں نہیں وقف زندگی کے تعلق میں محررا کا مطلب النمل سے مراد اواب کا مطلب یوم سے مراد 20 408 411 421 428 428 432 443 455 511 515 آسمان سے بارش کا برسنا اور زمین کا پانی اگلنا، مراد 531 الجنّ سے مراد غرق کا عربی میں مفہوم عظیم کے معانی الصلوات سے مراد الطیبات سے مراد استغفار کا مطلب آیت استخلاف کا آخری نتیجہ تفسیر کبیر 553 580 618 632 632 679 724 403,888 اس اچھوتی تفسیر سے جماعت کو خوف فائدہ اٹھانا چاہئے 889 تقوى ہر اسلامی چیز کی بنیاد تقویٰ پر ہے تقومی کی جڑ نیتوں پر ہے 31 646 ہر بات میں تقویٰ پیش نظر ہو تو جھگڑے کا سوال نہیں 742 تقویٰ اور عقل کا تعلق تقویٰ کا پہلا قدم قادیان کے معاشرہ میں تقویٰ اپنے جوبن پر 742,787 936 1003 سرکا اونچا ہو تالا ز ما تکبر کی علامت نہیں تنزانیہ 1007 597 بچی تو بہ اور پاک تبدیلی کا مغفرت سے تعلق 225 توبۃ النصوح کے بعد کی دعا 540 مرنے سے پہلے تو بہ کا اصل وقت 576 توحید دنیا میں سب سے بڑا دکھ تو حید کے زخم لگنے کا دکھ ہے 135 تو حید کا دامن چھوڑنے والوں سے خدا کا سلوک معاشرہ میں وحدت کے لئے توحید کی ضرورت تو حید اور وحدانیات کی عملی طور پر اہمیت 176 383 477 تلخ کلمات جن سے اختلاف ہو تو حید کے خلاف ہیں 478 سبحان ربی الاعلیٰ میں توحید کامل کا مضمون تو حید کامل جس کا سمجھنا ضروری ہے تورات 626 990 152,225 تہجد تہجد پڑھنے والوں کی اکثریت کی حالت یا تو بچپن سے تقویٰ کے فقدان کے نتیجہ میں انسانی تعلقات میں فساد 648 عادت ہے یا جن کے گھروں میں بزرگ پڑھتے ہیں 280 تقویٰ کیا ہے اور اس کے تقاضے 671 | تہذیب تقوی میں ایسی قوت ہے جو دلوں کو مغلوب کر لیتی ہے 672 تہذیب کی ایک نشانی 678 دل کا سکون تقوی سے ملتا ہے تقوی کی کمی سے معاشرہ میں ہونے والے نقصانات 683 605 602 تقوی کی کمی سے جماعتی معاملات میں نقصان تقوی کی کمی سے غلطی پر اصرار اور پھر ٹھوکر لگنا 683 701 تیسری دنیا تیسری دنیا کے ممالک کو نصائح 190
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 21 تیسری دنیا کے ممالک کو اقتصادی لحاظ سے درپیش مسائل 200 جاپان کی مجلس عاملہ کا تین سال میں مسجد کی تعمیر کا فیصلہ 393 تیسری دنیا کی قوموں میں قناعت اور عزت نفس کا فقدان 202 جاپان کی جماعت کی مالی قربانی کی تعریف تیسری دنیا کے ممالک میں غیر ممالک کے جاسوسی کے جاپان کے جلسہ سالانہ سے حضور کا خطاب نظام کے فیکٹر تیسری دنیا آمریت کا شکار تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لئے نیا امدادی نظام جاری کرنے کا مشورہ 203 جاپان کے جلسہ سالانہ پر پیغام 205 جارج 206 جارج لائیڈ تیسری دنیا کے لئے ایک نئی یونائیٹڈ نیشنز کے قیام کی تجویز 212 جالوت تیسری دنیا کے قوم کو یونائیٹڈ نیشنز کے خلاف علم بغاوت جامعہ احمدیہ بلند کرنے کی تلقین 218 جامعہ احمدیہ قادیان کے معیار کو بلند کرنے کے حوالہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لئے ہولناک دن آنے والے ہیں 261 سے نصائح تیسری دنیا کے ملکوں کو نصیحت، اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ اقدار جامعہ قادیان اور معلمین اور مبلغین کی تیاری اختیار کرنے کے حوالہ سے تیل 263 جامعہ از ہر 393 853 864 123 123 313 1001 1002 78 تیل کی طاقت پر قبضہ کی مغربی کوششیں 160,161 تیل پیدا کرنے والے ممالک کو نئی او پیک کی بنیاد ڈالنے کا مشورہ ،امریکی غلام ممالک نہ ہوں 213 جان ہماری طاقتوں کی جان دعائیں ہیں جانور گوشت خور جانوروں میں شائستگی, تہذیب, نرمی اور پیار 72 171 زندگی اور موت کی جدو جہد ہر ذرے میں جاری ہے 821 تیمور لنگ تیمور لنگ کا بغداد پر حملہ 166 کا ہونا جد و جہد ٹرینیڈاڈ 475,489 | جرمنی ٹورانٹو 557 ٹورانٹو کاCNN ٹاور 624 ٹوکیو 395,864,866 ج جاپان 13,14,53,72,178,195,207,212,245,265 286,287,370,373,471,557,735,813,816 860,861,885,891,935,939,993 12,13,14,72,81,89,106,107,137,200,222 245,246,265,348,395,396,418,419,557 651,669,704,709,715,742,790,797,813 815,856,857,860,861,939,942,946 1006,1014, جرمنی کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے 1919ء میں اتحادی طاقتوں کا ور سائے میں اجتماع جرمنی کی جماعت کے امیر کے تقویٰ منکسر المزاجی 176 اور شرافت کا ذکر 710
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 امیر جرمنی کے حوصلہ کی تعریف 22 724 جلسہ سالانہ قادیان کے کارکنان کی خدمات کے لئے جرمن جماعت سے خلیفہ وقت کی ناراضگی اور اس پر ان جماعت سے خلیفہ کی اور اس پران دعائیہ کلمات کا طرز عمل 777 جلسہ سالانہ قادیان کے حوالہ سے انتظامی ہدایات جرمنی جماعت کی مجلس عاملہ کے متعلق ایک وضاحت 941 جلسہ سالانہ قادیان کے ایام میں نمازوں کے جمع کر کے جستجو جستجو کے نتیجہ میں انسانی منصوبوں پر بہت گہرا اثر 922 جسوال برادران ان کے کام پر ان کی تعریف حضرت مولوی جلال الدین شمس 993 ادا کرنے کا اعلان جلنگھ جماعت اسلامی جمال الدین افغانی 994 994 996 265,348,370,373 780,847,848 جمال الدین افغانی کا عرب کے اتحاد کا تصور فریضہ تبلیغ کے لئے جانا اور بچے کو تب دیکھنا جب وہ11,12 سال کا تھا جلسه سالانه جلسہ سالانہ امریکہ میں حضور کی شرکت 168 529 669 جمعه 199 یہ جائز نہیں کہ خطبہ کہیں اور پڑھا جار ہا ہو اور باقی اس کو جمعہ کے حصہ کے باقاعدہ فریضہ کی ادائیگی میں شامل کر لیں 53 مواصلاتی ذرائع سے خطبہ میں شرکت کے باوجود جمعہ کی 265 303,304 476 529 جلسہ سالانہ اور تقریبات میں لجنہ کو کپڑے بیچنے سے حضور کا منع کرنا ، اس سلسلہ میں ایک تلخ واقعہ 674,675 کارروائی الگ ہونی چاہئے جلسہ سالانہ یو کے کا مرکزی حیثیت اختیار کرنا رمضان کے بعد کے جمعہ کی حالت جلسہ سالانہ یو.کے پر اسرائیلم کی نیت سے نہ آنے کی تلقین 670 جمعہ کی نماز اسلام کا خاص امتیاز حضور کے دیدار کے لئے جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت جمعہ کے دن کا جماعت احمدیہ سے گہرا تعلق جماعت احمدیہ کا قرآن میں ذکر اور جمعہ سے تعلق 554 671 کرنے والے پاکستانی جلسہ سالانہ یو کے میں آنے والوں کو جلد واپس جانے جمعۃ الوداع کی نصیحت 675 جمعۃ الوداع میں لوگوں کی کثرت کا ذکر صاف نیت لے کر جلسہ پر آنے سے خدا افضل کرے گا 678 یہ جمعہ ایسی خیر پیچھے چھوڑ کر جائے جو کبھی وداع ہونے 303 پاکستان کے 1983 کے جلسہ سالانہ کی حاضری جلسہ میں خلیفہ کے خطاب کے حوالہ سے نئی رسم جلسہ سالانہ فرانس کے افتتاح کے موقع پر پیغام 849 853 861 980 جلسہ سالانہ قادیان کے لئے دعا کی تحریک جماعت کے لئے سویں جلسہ سالانہ میں شرکت غیر معمولی سعادت کا لمحہ ہے جلسہ سالانہ قادیان میں شاملین اور درویشان قادیان کو قادیان کے حوالہ سے نصیحت 981 984 والی نہ ہو 326,327 جمعیت العلماء اسلام جموں 780 207,208 جمہوریت اسلامی ملک میں حقیقی جمہوریت کے لئے خطرات 182 جنات جنات کے بارہ میں عوام کا عقیدہ اور اصل حقیقت 563
23 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 اسلامی جہاد کو تسلیم کرنے کے بعد عمل کرنے والے وہ طریق جس کے نتیجہ میں اللہ کسی شخص کے لئے جنت مسلمانوں کی ذمہ داریاں بطور ماوی کے مقدر کر دیتا ہے تو حید اور جنت کا تعلق ماؤں کے قدموں تلے جنت جنت نظیر معاشرہ کے قیام کی تلقین 323 480,481 481 486 اکیلے آنحضرت سے عالمگیر جہاد کا آغاز ہوا حقیقی اور افضل جہاد جہاز انگلستان میں بہت بڑا جہاز بنایا گیا جس کے بارہ میں کہا 184 825 869 جنت کا راستہ.توحید پر ایمان اور اس کے مطابق عمل 487 کہ کبھی ایسا جہاز نہیں بنا مگر پہلے ہی سفر میں غرق ہو گیا 519 جنت اور جہنم کے سات دروازوں سے مراد 588 842,848 758 849 51 960 847 132,133,169 96 جہلم جئے سندھ کی تحریک جنیوا 46 جنگ جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دنیا کی جنگوں پر انبیاء کے اصول اطلاق پاہی نہیں سکتے 56 جنگ میں غداری کرنے والے کے ساتھ سلوک جنگ کے دوران خدعہ جائز ہے جنگ میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ سے حضور کی ناراضگی اور معافی جنم ساکھی بھائی بالا 164 653 چاؤ 686 چٹا گانگ چٹان (هفت روز و رساله ) چ چرچل چیمبرلین چنده سال کے اختتام پر بجٹ سے زیادہ آمد کی خوشخبری 595 مالی حالات کے جائزہ کے لئے جماعتوں کو میٹنگز کی تلقین 596 وہ لوگ جو چندہ کو مصیبت سمجھتے ہیں ان کو نصائح وہ لوگ جو آئے دن کے نئے چندوں پر اعتراض کرتے 767 767 767 771 ہیں ان کے اعتراض کا جواب لازمی اور طوعی چندہ کی وضاحت چندہ دینے اور اس کے خرچ کے حوالہ سے ہدایت چندہ کے اخراجات کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کی 964 21 23 161,162 220 406 59 59,60 178,179 جنم ساکھی بھائی بالا میں سکھوں کی تحریف جنوبی امریکہ جنوبی افریقہ جنوبی ویتنام جودا نبوکدنضر کا جودا پر حملہ جونا ( حضرت یونس ) جہاد اس دور میں جہاد کے متعلق سوال اٹھایا جانا جہاد کی تعریف اسلامی دنیا میں جہاد کا غلط تصور ساری دنیا کی قوموں میں سیاسی لڑائیاں مگر اسلامی تاریخ انجمن کو ہدایات میں تمام لڑائیاں جہاد کہلاتی ہیں 183 771 چندہ کے حوالہ سے ایک ملک میں فتنہ اور حضور کا انتباہ 772
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 24 چندہ دے کر بعد میں کسی عذر کی بناء پر واپسی کے مطالبہ اليد العليا خير من اليد السفلى پر جماعت پر اس کی واپسی فرض نہیں ، نہ وہ قانونی چارہ انه خارج خلة بين الشام والعراق جوئی کر سکتا ہے چندہ دینے والے کے لئے سخت سے سخت سزا 806 806 لم تظهر الفاحشة في قوم قط علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر اللهم صل على محمد وعلى آل محمد من قال لا اله الله فدخل الجنة لولاک لما خلقت الافلاک سزا کے طور پر چندہ نہ لینا احادیث اور نظام جماعت میں تاریخی طور پر ثابت ہے 807 ہمیشہ جماعت وعدوں سے زیادہ رقم پیش کرتی ہے 811 چندہ کی توجہ دلانے میں نرمی رکھنی چاہئے 812 خدا کے حضور جماعت کی معرفت جور و پیہ پیش کیا جاتا ہے اس پر ہمیشہ نگران رہیں 816 187 223 224 256 289,986 436 478 515 انما الاعمال بالنيات 533,646,647,62,660,663,664 من عصا امیری فقد عصانی الحكمة ضالة المومن پاکستانی حکومت کا جماعت کے چندوں کے باہر منتقل اختلاف امتی رحمة کرنے پر پابندی لگانا 856 كاد الفقر ان يكون كفرا وعدے لکھوانے میں سستی اور وصولی کے وقت جماعتوں التائب من الذنب كمن لا ذنب له 711 743,975,976 753 798 945 میں مستعدی وعد ہ جات اور وصولی کے حوالہ سے ہدایت چندہ کی ادائیگی کا اصلی طریق 857 857 1011 چین چینیوں سے دعوت الی اللہ کا طریق 187,211,215,216,286,471 735,929 928 احادیث بالمعنى تمہارا بھائی اگر ظالم بھی ہو تو اس کی اس طرح مدد کرو 40 اگر تم نے مجھے تلاش کرنا ہے تو غریبوں میں کرو شہریوں ، بوڑھوں کو جنگ میں ہر گز تہ تیغ نہ کرنا مانگنے والوں کو آنحضرت کا قیامت کے دن برے حال میں دیکھنا آخری دور میں بلاؤں کی انتہاء پر حضرت مسیح موعود کی 52 66 188 حافظ الاسد حج 76 10 لکھوکھا حج کرنے والے جو دنیا طلبی کی تمنا لئے ہوئے مدینہ بھٹی کی طرح ہے حج کرتے ہیں حجاز 559 27,85,86 انگریزوں کی تائید سے سعودی خاندان کا ارض حجاز پر قبضہ 27 حدیث احادیث میں تحریف عربی سيد القوم خادمهم 964 80 دعا ئیں اسلام اور دنیا کو بچائیں گی خدا نے اتنی بڑی قو میں آئندہ نکالنی ہیں....آخری زمانہ میں دجال جب ظاہر ہو گا تو اس کا شر اتنا دنیا میں پھیلے گا..230 226 227 232 تین آدمی جو کسی کام کی غرض سے ایک غار میں گئے...271 آنحضرت ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف 312,313 جو شخص سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے پھر آیت الکرسی اور پھر آل عمران کی آیت کی تلاوت کرتا ہے...323
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 اسلام جس طرح آج غریب ہے...ک سے مراد کافٍ ہے قیامت کے دن جب حشر نشر ہوگا تو سب بے ہوش ہو کر جاپڑیں گے 25 340 حقائق 387 446 وہ حدیث جس میں موسیٰ کے قیامت کے روز سب سے پہلے ہوش میں آنے کا ذکر ہے، اس کی وضاحت 446,447 خدا کے سامنے کوئی بندہ پیش ہو گا تو وہ اسے کہے گا کہ دیکھو میں بھوکا تھا اور بہت تکلیف میں تھا....جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا 463 حقائق کے اظہار پر وطنیت کا سوال اٹھا نا ظلم ہے حکمت مومن کا حکمت کے ساتھ تعلق قرآن کا حکمت کو زر کثیر قرار دینا حکمت کی کمی غربت ہے حکمت کے مختلف معانی 480 علمی الشافعی ماں کی طرح اپنے قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو 480 خطبہ کا عربی میں ترجمہ کرنا اور ان کی تعریف جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے 481,650 517 حمد خدا کے لئے حمد کے مضمون کی وضاحت 65 743 799 799 870 734 234 دجال کی دینی آنکھ نہیں ہوگی دجال سے تمام نبی اپنی اپنی امتوں کو ڈراتے آئے ہیں 517 بجلی کے کڑکنے اور طوفان میں اور طوفان میں سے حمد ایک شخص جس نے بہت زیادہ گنا کئے تھے.532,533 کے مضمون کا تعلق تمہارے بادشاہ کو میرے بادشاہ نے ہلاک کر دیا ہے 551 روز مرہ کی زندگی میں خالق کی حمد کی طرف دھیان نہ جانا 248 اللہ اس حمد کو ہمیشہ بڑھا کر واپس کرتا ہے جو اس کے حضور ہر شخص کی رگوں میں شیطان دوڑ رہا ہے سب اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے جب تم شادی کی نیت کرتے ہو...588,906 حضرت عائشہ کی اس روایت کی تشریح جس میں آنحضرت 647 648 پیش کی جاتی ہے 238,239 250 وہ مرتبہ جب انسان خدا کے نزدیک حمد کے لائق بنتا ہے 250 جو اپنی حمد کا عادی ہو وہ اکثر لفرح فخور ہو جاتا ہے 251 نے ایک شخص کی غیر حاضری میں ایسی بات کہی جو اس خدا کی حمد کے وقت اپنی ذات سے حمد کی نفی کی ضرورت 260 622 623 646 کی کمزوری سے متعلق ایک امر واقعہ کا بیان تھا 688 689 خدا کی حمد کا صحیح طریق حمد میں برکتوں سے مراد و شخص جو کسی کی غیبت کرتا ہے...مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے 698,722 | حمیدی تمہارے اوپر اگر ایک ایسا امیر بھی مقرر کیا جائے جو حواس خمسه حبشی ہو...تحفہ دے کر واپس لینے والے کی حالت حز قیل 714 793,805 220 حواس خمسہ کا خدا کی فرمانبرداریوں اور نشانات سے تعلق 592 خ حنہ قیل کی کتاب 220 خانہ کعبہ حق خانہ کعبہ کی عظمت کو خطرہ 40,46,559 135 شہری حقوق چھین لینے کا مثالوں سے تذکرہ 343 حضرت اسماعیل کی خانہ کعبہ کی تعمیر میں شمولیت کا مقصد 308
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 خانہ کعبہ کے متعلق حضرت ابراہیم کی دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی دعاؤں میں حکمتیں 308 309 26 بعض لوگوں کا خلیفہ بنے کی کوشش کرنا جو صرف خلافت کا ایک خصوصی حق ہے خلیفہ وقت اور نظام کا آپس میں رابطہ اور تعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم کی دعا میں محمد خلیفہ وقت کی ذات پر حملہ کرنے والے احمدی کے سلسلہ کی بنیاد ڈالنے والی دعا تھی جس کے لئے غیر معمولی تقومی اور انکسار دکھلایا خطبہ الہامیہ خطبه جمعه 310 167 707 712 715 خلافت اسلام میں توحید کی نگرانی کرنا سب سے بڑا فریضہ 724 خلیفہ وقت کا اولین فریضہ، جماعت کو ایک ہاتھ پراکٹھارکھنا 724 خلیفہ وقت کے پیار کی حد جماعت اور خلافت کا تعلق 725 729 731 وہ ممالک جن میں براہ راست خطبہ سنا جا رہا ہے 53,72,245,265,348,370,395,557 خلیفہ کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے ساری جماعت تک خلفاء کے خطبے نہ پہنچنا، جماعت کی عدم تربیت کی ایک بڑی وجہ 733 735 744 یہ جائز نہیں کہ خطبہ کہیں اور پڑھا جار ہا ہو اور باقی اس کو جمعہ جہاں میرے خطبات نہیں پہنچتے وہ جماعت سے کئے کے حصہ کے باقاعدہ فریضہ کی ادائیگی میں شامل کرلیں 53 ہوئے ہیں مواصلاتی ذرائع سے خطبہ میں شرکت کے باوجود جمعہ خلیفہ وقت اور جماعت کا آپس میں تعلق کی کارروائی الگ ہونی چاہئے جماعت کو فتنہ سے بچانے کے لئے خلیفہ وقت کی حالت 788 تربیت کا ایک اہم ذریعہ.خلیفہ وقت کے خطبات کو خلیفہ اسیح کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا چندہ اکٹھا کرنے 265 472 کی اجازت نہیں ہوتی باقاعدگی سے سننا خلیفہ وقت کے خطبات کو فوری طور پر دنیا کی جماعتوں خلیفہ وقت کو جو باتیں خداد ینی کاموں سے متعلق سمجھاتا تک پہنچایا جائے خلافت اخلیفة المسیح اخلیفہ وقت 744 ہے ان کو کہنے کے انداز بھی عطا کرتا ہے ہر زمانہ میں خلیفہ وقت کی نصیحت اس زمانہ کے حالات کے متعلق دوسروں سے زیادہ موثر ہوگی احمدیوں کا مفید علمی کتابیں اور حوالہ جات بھجوانا تادین خلفاء وقت کے بعض ایسے فیصلے جو بار یک حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اس پر انسان کا جو رویہ ہونا چاہئے اس کا ذکر 359 کے کاموں میں مفید ہوں خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ کی اہمیت قادیان میں جمعہ ادا کرنا خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کا پور اتر جمہ کرنے کی تلقین اور اس کی وجوہات 471 472 44 سال کے لیے اور تلخ التواء کے بعد خلیفہ امسیح کا خلق کسی امیر یا خلیفہ کوکسی کے خلاف سختی کرنے کی وجہ 686 اعلیٰ اخلاق کی اہمیت خلافت کا بر وقت مختلف ملکوں میں فتنوں کو دبانا 687 اخلاق حسنہ کا دعوت الی اللہ کے ساتھ تعلق 796 893 894 929 981 433 879 خلافت کا کام نہیں کہ میاں بیوی کے جھگڑے یکطرفہ طور خلیج / گلف نیز خلیج کی جنگ کے لئے دیکھئے عراق) 691 خلیج کی جنگ میں مسلمانوں اور دیگر اقوام پر جنگ میں پر سنے جائیں ،صرف دعا کے لئے کہا جا سکتا ہے خلیفہ وقت کی متبعین سے محبت کا اظہار اور ان کے لئے تڑپ 700 شرکت کے لئے دباؤ 29
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 خلیج کی جنگ میں گہرے سبق خلیج کی جنگ کا ہولناک اختتام 174 27 دعا خلیج کی جنگ کے بعد صدر بش کا تبصرہ 193 194 جو بھی روحانی انقلاب اب دنیا میں برپا ہو گا وہ دعا کے ذریعے ہوگا خلیج کی جنگ نے تیسری دنیا کو سبق دیا کہ اقوام متحدہ کا دعا میں رفعت اور طاقت کے حصول کا طریق نظام بوسیدہ ہو چکا ہے خواب 211 خواب میں جاگنے اور ظاہری جاگنے کی وضاحت 892 17 قومی اور عصبیتی رنگ میں قوموں کی ہلاکت کی دعا نہ کرنے کی نصیحت 72 231 231 محض رونے اور گریہ وزاری سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں 232 دعاؤں کی شکل میں ہمارے لئے عظیم خزانہ دعا کی قبولیت کے لئے ضروری لوازم 270 270 حضرت داؤد علیہ السلام دجال 62,81,461,466 دعا کا آغاز اس حمد سے کریں جو آپ کے دامن کو بالکل خالی کر دے ایاک نعبد کی دعا کے دورُخ دجال کے فتنہ سے نبی کریم کا امت کو ہوشیار کرنا 517 دجال کے زمانہ کی سواریاں دجله در مشین درود شریف 519 408 254,367,426,460,1011 عمر بھر کے قیدی بننے کی دعا دعا مانگنے کی توفیق کے لئے دعا جو کچھ خدا سے مانگیں ہوش سے سمجھ کر مانگیں استباق فی الخیرات کی دعا 274 283 289 290 290 297 صبر وصلوۃ اور شہادت کی دعا وہ دعائیں جو سورۃ البقرۃ میں بیان ہیں درود شریف میں حضرت ابرا ہیم کے نام کی حکمت 436 قرآنی ترتیب کے لحاظ سے دعاؤں کا بیان درود شریف میں حضرت ابراہیم کے ذکر کی وجہ 638,639 درود پر زور دینے میں شرک کا کوئی پہلو نہیں درود کی مختلف قسمیں دریائے Jordan دریائے فرات دریائے لتانی دریائے نیل دشمن دشمن کے دعاوی کی حقیقت 989 991 223 221 152 582 298 2990290 306 پس منظر کے بغیر دعا کی تیر خطا ہوجاتا ہے وہ دعا جو ہر نماز کے بعد کرنے سے خدا کا دیدار ستر مرتبہ نصیب ہو اور جنت الفردوس مقدر ہو 320 323 مختلف قسم کی تنگیوں میں مبتلا لوگوں کے لئے قرآنی دعا 323 قرآن میں مذکور دعاؤں کا تذکرہ مختلف انبیاء کے مصائب میں مبتلا ہونے پر دعا قرآن میں مذکور عقل والوں کی دعا 327 329 330 ایک صحابیہ کا حضور کو دعا کے لئے خط کہ خدا سے راضی ہونے کی حالت میں وفات ہو 333,334 847 دعاؤں کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا341,342 دشمن کی کسی تحریک کے بالمقابل خدائی تحریکات کا آغاز 855 انبیاء کی دعاؤں پر غور کی تلقین 347
510 518 521 527 530 28 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 روحانی دنیا میں کوئی ترقی دعا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں 347 دعا بعض دفعہ بن مانگے محض درد کے اظہار کے نتیجہ میں اللہ کی راہ کے مسافر رستے کی مشکلات اور صعوبتوں کو قبول ہوتی ہے صرف دعا کے ذریعہ برداشت کرتے ہیں انبیاء اور دیگر انعام یافتہ لوگوں کی دعاؤں کو قرآن کا محفوظ کرنا 349 349 سواری کی وہ دعاجواللہ نے آنحضرت اور آپ کے صحابہ وہ دعا جس کی برکت سے دین بہت سے حادثات سے کو سکھائی بچایا جاتا ہے قرآن میں مذکور انبیاء،انعام یافتہ لوگوں کی دعائیں 350 قرآن میں دو تین جگہ انبیاء کی بددعائیں مذکور ہیں 352 وہ دعا جو امریکہ اور باقی دنیا کے حالات کے مطابق آج دعا اور قبولیت دعا کے درمیان ایک بہت ہی لطیف رشتہ 353 کی سب سے بڑی ضرورت ہے سمندر یا دریائی سفر کے لئے با عموم کی جانے والی قرآنی دعا 357 قرآنی دعاؤں کا جماعت احمدیہ سے ایک رشتہ دعاؤں کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان جیسا بننے اپنے لئے مشکل دعا مانگا ہی نہ کرو اعلیٰ مراتب کے حصول کے لئے دعا 361 400 قبولیت دعا اور خدا کی تسبیح وتحمید کا آپس میں تعلق 414 ضرورت کے وقت دعا کی وقعت نہیں ہوتی اگر خدا کو پہلے کے پیش نظر کی جانے والی دعا یاد نہ رکھا ہو دعا کے نتیجہ میں عمر کا دراز ہونا 414 418 کی کوشش کریں جن کی وہ دعائیں ہیں مسلمان سوسائٹی میں اختلافات اور جماعتوں کے لیٹنے کوئی شخص کسی کی وجہ سے ٹھوکر میں مبتلا نہ ہو اور اعمال کی دعاؤں میں اثر کے لئے نیک اعمال کی ضرورت براہ راست نگرانی کے حوالہ سے دعا خلیج کی جنگ کے وقت حضور کا حق کی فتح کے لئے دعا کی قرآن کی آخری دو دعا ئیں معوذتین تلقین 422 534 536 537 قبولیت دعا کے حوالہ سے اللہ کا انبیاء سے ایک مسلسل طرز عمل 426 نبی کریم کا دعا پھونک کر جسم پر ملنا عشق اور محبت کے اظہار 548 552 وہ دعا جس کی وجہ سے آنحضرت کو دشمن پر کامل غلبہ ملا 427 تقدیر اعلیٰ کا دعاؤں سے گہرا رابطہ ہے 427 کے لئے تھا شیطان کی دعا کا ذکر 553,554 565 دوزخیوں کے مقابل خدا کے نیک بندوں کی دعا 429 بددعا قبول ہو تو بہت بڑی لعنت اور نیک دعاؤں کی قبولیت نقصانات سے بچنے اور گمشدہ اشیاء کے ملنے کی دعا 439 قربت کا نشان ہے قرآنی دعا جس کے نتیجہ میں وقف نو کی تحریک کا آغاز ہوا 442 مغضوب علیہم اور ضالین کی قرآنی دعائیں، ان دعاؤں منعم علیہ گروہ کی سب سے اہم بات ، ان کی زندگی کاہر سے بچنے کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت لمحہ دعا کے سہارے گزرتا تھا دعا کی قبولیت میں ایک لطیف نظام عدل قبولیت دعا کے معاملہ میں خدا کا انبیاء سے سلوک 457 492 492 505 565 558,560,561,562,564,568,570,571,599 602,603,605,607,610 آخری سانس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں قرآن میں مذکور کافروں کی دعاؤں کی حقیقت نبیوں کو بددعائیں دینے کی عادت نہیں ہوتی نیک اعمال دعا کو طاقت بخشتے ہیں 503 576 583 دعا کے مخلص ہونے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے 590 منعم علیہم کی راہ پر چلنا دعاؤں کے بغیر بہت مشکل ہے نیکی کی دعا مانگنا سب سے مشکل دعا ہے اس حوالہ سے دعائیں کرنے کی تلقین 507 590 دنیا کی بھاری اکثریت دعا کا مضمون بھلا چکی ہے 600
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 29 عام انسانوں کی نسبت انبیاء کی نیکی کی دعائیں ان کی اولاد دوسرے کے لئے دعا کے قبول ہونے کا طریق کے حق میں کیوں مانی جاتی ہیں ، اس کا جواب 591 اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن کی سب سے دردناک دعا600 قبولیت دعا کا ایک گر جماعت احمدیہ اور دعاؤں کی کثرت 600 جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم دعائیں کرتے ، نمازیں پڑھتے ہیں صحابہ حضرت مسیح موعود کا دعاؤں سے کام لینا مختلف وقتوں میں دعاؤں کے مختلف اثرات دعوت الی اللہ مگر مزہ نہیں اس لئے کیوں نہ چھوڑ دیں، ان کے لئے انذار 601 دعا کی اہمیت 601 انشراح صدر کے حصول کے لئے داعیان کے لئے ایک بہت بڑی دعا قبولیت دعا کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کا ارشاد 601 داعیان اپنے لئے مددگار مانگیں وہ پیر جو بیس سال سے دعا کر رہا تھا مگر دعا کرنے سے رکا نہیں ، اس واقعہ کا ذکر بعض دعاؤں کی قبولیت کا وفا سے تعلق ہے 601,602 602 حضرت نوح کا دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنا دعوت الی اللہ کے کام میں زیادہ سنجیدگی اور ہر قسم کے لوگوں کی شمولیت ضروری ہے قبولیت کے حوالہ سے مومنین اور مغضوب علیہم کی دعاؤں کا ایک اصول سب سے خوفناک باغیانہ دعا شیطان نے کی جو خدا نے ساری قبول کی ، اس کی وجہ نفس کے شرور سے پناہ مانگنے کا دعا مغضوب اور ضالین کی دعائیں نور کی تعمیل کی دعا 609 609 666 روسی ریاستوں میں دعوت الی اللہ کے لئے سستے داموں متر جمعین کا ملنا 902 973 977 978 390 392 544 827 828 اگر ساری جماعت دعوت الی اللہ کے کام میں سنجیدگی دکھائے تو پھر خدا ایک سے دو، دو سے چار کر دے گا 851 دعوت الی اللہ کے کام کو معمولی نہ جانیں دعوت الی اللہ کے وعدوں کے پورا ہونے کے وقت 852 599,602,603,605,607,610 694 710 737 دعا کو کھیل نہیں بنا نا چاہئے دعا کے ذریعہ فتنوں سے بچنے کی تلقین جاپانی نو جوانوں کی عمدہ حالت کا ذکر دعوت الی اللہ اور صبر کا تعلق اخلاق حسنہ کا دعوت الی اللہ کے ساتھ تعلق صرف مذہب کی دنیا میں کمزور دعا کے باعث طاقتور پر وہ داعی الی اللہ جس کی جماعت کو ضرورت ہے دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں جماعت کے بزرگ 835 فتح پاتے ہیں مومن کی ہر تد بیر کارگر ہونے کے لئے دعا کی محتاج ہے 870 عہد یداروں کی ذمہ داریاں حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایک کروڑ احمدی بنانے کے لئے دعا 872 فرانس کی جماعت کو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ 867 876 879 883 دعوت الی اللہ کے لئے حکمت عملی کو اختیا کرنا دعوت الی اللہ کے لئے سلسلہ میں عہد یداران منتظمین 884 885 889 اور امراء کو ہدایات 889 دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں عہد یداران کو محاسبہ کی تلقین 890 جب دعا قبول نہ ہورہی ہو تو.دعا کا حق ادا کرنے کا ایک طریق قبولیت دعا کا ایک راز دعا کے بغیر تبلیغ کوئی معنی نہیں رکھتی 874 876 882 883 اولاد کے حق میں دعا قبول نہیں ہوتی اگر اولاد میں انہیں دعوت الی اللہ کے لئے مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ کافی نہیں 896 قبول کرنے کی صلاحیت اور تمنا ہی نہ ہو 901 دعوت الی اللہ کے حوالہ سے امراء ، عہدیداران کو نصائح 905
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 911 30 971 974 دعوت الی اللہ کے حوالہ سے جماعت میں معلومات کی کمی 907 مخالفانہ لٹریچر کی اشاعت پر فوری کارروائی کی تلقین 969 دعوت الی اللہ کے لئے ایک دعا کی تلقین داعیان کو تازہ دم رکھنے سے مراد دعوت الی اللہ کے کام کے لئے سلطان نصیر پیدا کریں 912 دعوت الی اللہ کے اندرونی اور بیرونی فوائد مصروف آدمی کے سپر د کئے جانے والے کام ہو جاتے ہیں 916 مقامی داعیان کے تائیدی نشانات کا دیگر داعیان تک دعوت الی اللہ کی روح کا معراج آنحضرت کی صورت پہنچنا نہایت ضروری ہے میں دنیا میں ظاہر ہوا 922 975 وہ توقع جو ہم سے اس کام کے سلسلہ میں وابستہ ہے 978 عہد یداران، امراء کو غم کی طرح اس کام کو اپنی جان کے مولوی دوست محمد شاہد ساتھ لگانے کی تلقین Ethnic Minorities کے متعلق معلومات اور ان کا 923 926 تجزیہ کی طرف توجہ، دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں مختلف اقوام کے لوگوں کو دعوت الی اللہ کا طریق 928 دہریت غریبوں کا فکر نہ کرنے والی قو میں بالآ خر دہریت پر منتج ہوتی ہیں گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اسیح دیر یاسین 964 799 148 الرابع کا دعوت الی اللہ کا طریق احمدی خواتین کا دعوت الی اللہ میں کردار دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں صبر کے واقعات 931 931 935 دیوار چین دیوان غالب 221 11,275,459,948 دعوت الی اللہ کے لئے زمین کا انتخاب دیکھ کر کریں 937 دین ایک داعی اللہ کے لئے ضروری کہ وہ کسی کی ذات میں دین سے بے بہرہ ہونے کے وقت قوموں کی حالت 9 کسی کے دین کو ز بر دستی تبدیل کرنا فتنہ کہلاتا ہے 351 دیپسی لے 946 وہ اعلیٰ درجہ کا مرتبہ جس کے نتیجہ میں داعی الی اللہ کی آواز دین سے مراد میں غیر معمولی طاقت اور کشش پیدا ہو جاتی ہے 952 سیکرٹری دعوت الی اللہ کی بیدار مغزی داعیان سے کام لینے کا طریق دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں ضروری باتوں کے کسی پر روشن ہونے کے لئے دعا 954 955 ڈاک ڈاک میں لٹریچر بھجوانے پر کوئی توجہ نہیں دیتا 957 ڈزرائیلی 657 927 83,118 ہر ملک کے مرکز میں دعوت الی اللہ کے لئے کم از کم ایک ڈنمارک 13,53,72,245,265,557,813,862 مرکز کے قیام کی ضرورت وہ لٹریچر جو مرکز میں ہونا ضروری ہے 959 960 ڈیٹرائٹ ہر مذہب کے لئے خصوصی حوالوں کی کتابیں ہوں 962 ڈیرہ اسماعیل خان پرانے حوالے بغیر دیکھے آگے چلانے سے نقصان 963 ڈی کوئیار (سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ) رجسٹر ز جن کا دعوت الی اللہ کے مرکز میں ہونا ضروری ہے 966 ہر ملک کا فرض کہ دشمن کی کارروائیوں پر نظر رکھے 968 ڈیوڈ بین گورین 529,791 843 120,124 97
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 31 رمضان کے داخل اور خارج ہونے والے کناروں کی اہمیت 228 رمضان میں خصوصیت سے عالم اسلام کے لئے دعا لارڈر تھشیلڈ رام چندر مسٹر راویل اس دور کے پہلے روسی احمدی ربوه رجسٹر 84,85 435 828 14,588,789,963,965,969 رجسٹر ز جن کا دعوت الی اللہ کے مرکز میں ہونا ضروری ہے 966 9664 کی ضرورت اسی رمضان کو خصوصیت کے ساتھ بنی نوع انسان کے دفاع کا رمضان بنادیں 229 230 رمضان کے ایام میں قرآنی دعاؤں کے یاد کرنے کی تلقین 269 رمضان کے آخری عشرہ میں نبی کریم کا کمر ہمت کس لینا 281 رمضان کے آخری عشرہ کی اہمیت اور اس کا اثر کسی سبب سے روزہ نہ رکھ سکنے والوں کے لئے قرآن کی خوشخبری ہر جماعت میں اپنے اپنے شعبہ کے متعلق رجسٹر شکایات رمضان کے بعد کے جمعہ کی حالت ہونا چاہیئے رحمی رشتوں کے حوالہ سے رحم کی تلقین رحمت وہ لوگ جن کے دلوں میں رحمت نہیں ہوتی امت نہیں ہونا مولانا رحمت علی صاحب رزق 971 480 282 282 303,304 حضرت خلیفہ ثالث نے ایک دفعہ آخری جمعرات کو روزہ کی تحریک صد سالہ جو بلی کی کامیابی کے سلسلہ میں فرمائی 709 روز ویلٹ 169 روس 40,81,83,86,98,101,112,118,120 951 499 130,144,170,187,197,200,215,216,471 770,821,822,829,918 حلال طیب رزق کے حصول کی دعا 298 انعام اور چیز ہے اور ظاہری رزق میں فراخی اور چیز 339 رشدی (سلمان رشدی) رشیا 25 25 روس اور امریکہ کی جنگ جب تک تھی تب تک اقوام متحدہ کے نظام میں غریب ممالک کی تباہی کی صلاحیت موجود نہ تھی 211 روس و امریکہ کے ایٹم بموں کے ذخائر سے تباہی کا انداز 230 روس پر عیسائیت کی یلغار اس دور کا اہم ترین واقعہ ہے 823 روس کے علاقوں میں روسی زبان کے علاوہ غیر زبانوں 827 رعمسیس ثانی ڈاکٹر رفیق بخاری رمضان روزه رمضان کا لفظی مطلب اور بھٹی سے تشبیہہ 829,830 575 419 کا استعمال روس میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے واقفین کی بہت ضرورت ہے اس دور کے پہلے روسی احمدی مسٹر راویل روسی اقوام میں مہمان نوازی بہت ہے 827 828 829 227 لفظ روس کی وضاحت کہ اس سے کون سا علاقہ مراد ہے 829 یہ دعا کریں کہ جس مقام سے اس رمضان میں چلے تھے روس کے میدانی علاقوں کی زبان میں اردو کے الفاظ اگلے رمضان تک پھر اسی مقام پر نہ پہنچ جائیں 228 کا استعمال 830
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 32 روس کے مسلمان علاقوں میں تبلیغ کی ضرورت کا سبب 831 س روس میں جرائم کی شرح میں اضافہ اور اس کا سبب 833 سانچو پنز و ( جرنیل، فرضی کردار ) روشنی روشنی کا سفر لامتناہی ہے روفوس مولا ناروم روم رومانیہ 892 137 379 536,899 931 سان فرانسسکو ساؤتھ امریکہ ساؤتھ ہال ساؤتھ انڈیا سائرس سائنس 169 791 188 265,348,370,373 735 221 ریڈ انڈینز ریڈ انڈینز کی امریکی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل اور ان کے حق میں فیصلہ مگر نفاذ میں مشکل 217 زائن زبان ز 81 سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے حوالہ سے قرآن اور سائنس کا مضمون اور زندگی کے ساتھ اس کا تعلق 243 244 ہر سفر کے آغاز پر اس کا نتیجہ پہلے ہی نکل آیا کرتا ہے اسےBlue Print کہتے ہیں سری لنکا کا ہزاروں سال پرانا درخت جس کا پھل Mature ہونے میں کئی سال لگاتا ہے 847 873 ایک وقت میں ابور جنیز کے علاقوں میں 1600 زبانیں بولی جاتی تھیں روس میں واقفین کو جاتے ہی زبان سیکھنے کے اداروں سے زبان سیکھنے کی ہدایت زبور حضرت زکریا علیہ السلام زکریا کی بیٹے کے حصول کے لئے دعا حضرت زکریا کا حضرت مریم پر رشک کرنا 23 831 421.218 978 324,325 325 حضرت زکریا کی اولاد کے لئے دعا حضرت زکریا کا اولاد کے لئے دعا کا طریق زكوة زکوة کا مطلب زلیخا 386,415 977 818 360 سبا چین 1490ء میں یہود کے پین سے انخلاء کا حکم اور یہود پر مظالم سپین میں ہونے والی Inquisition کا ذکر سٹالن سچائی 213 814 159 159 169 بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرنے کی تعلیم 484 لارڈ سڈنم صوبه سرحد سرداری 127 843,844,848 سرداری کے حق ادا کرنے کا وہی طریق ہے جس طرح نبی کریم اور خلفاء نے کی 191
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 سرگودھا حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب سری لنکا سرینام سرینام میں تربیت کے لحاظ سے خطرات 33 842 سلاطین نمبر 1 سلطان سلطان کا مطلب 973 200,204,873 458 471 حضرت مرزا سلطان احمد حضرت سلیمان علیہ السلام 467 895 502 حضرت سلیمان کی قرآن میں مذکور دعائیں سرینام کی تاریخ کا پہلا واقعہ کہ خلیفہ وقت براہ راست جمعہ کے دن مخاطب ہے سزا سزا کے متعلق ایک طبعی قانون 472 808 454,458,459,489,503 صاحب عقل اور فیصلہ کرنے میں بہتر مقام پر فائز لیکن ساتھ ہی عاجزی کا اظہار حضرت سعد بن ربیع آپ کو ملنے والی حکمت اور بادشاہت کی کیفیت خدا کے بے شمار احسانات پر شکر کا انداز آخری سانس نبی کریم کے قدموں میں لینے کی خواہش 300 یہود کے حضرت سلیمان پر سب سے زیادہ ظلم سعود 26 456 461 464 465 آپ کے متعلق ایک یہودی مصنف کے سخت الفاظ 466 سعودی عرب 26,28,35,47,51,74,78,108 خدا کے تصور کو یہود کی بجائے تمام بنی نوع انسان 129,131,175,186,196,198,214 پر محیط کرنا سعودی عرب کی امامت میں اکثر مسلمان ممالک مغرب آپ کے متعلق یہود کی کردارکشی کی وجوہات پر انحصار سعید جسوال 40 آپ کے زمانہ میں غیر قوموں کو مذہبی آزادی کا حق حاصل تھا سعید جسوال کی خطبہ جمعہ کے براہ راست نشر ہونے کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے وقت 467 467 467 لئے مساعی چوہدری حکیم محمد سعید سفر روزمرہ کے سفروں کے لئے بہت ہی مفید دعا سواری پر چڑھنے کی دعا دنیا میں کوئی سفر عجز کے بغیر ممکن نہیں سفیان سکاٹ لینڈ سکم 373 419 398 518 893 646 114 1000,1004 حضرت سلیمان کی تقریر حضرت سلیمان کی اصلاحات و ایجادات حضرت سلیمان کی عظیم الشان تعمیرات 468 469 469 آپ عارف باللہ موحد تھے اور شرک سے دور کا بھی علاقہ نہ تھا 470 حضرت سلیمان کے بعد سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی 503 حضرت سلیمان کی حکومت آخری تھی جس میں نبوت اور دنیاوی حکومت اکٹھے تھے حضرت سلیمان کی ترقی کے وقت یہود کی دعا سلیمان اعظم 505 605 137
842 370,857 823 982 994 873 963 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 سماریہ 34 220 سیالکوٹ سیرالیون سیریا سیکیورٹی جلسہ کے ایام میں سیکیورٹی کے حوالہ سے سب کو نگران رہنا چاہئے سیلون بوٹینیکل گارڈن راجه شال با بهن شام 76,104,131,197,259,260,401 113 جب تک اسرائیل موجود ہے شام محفوظ نہیں ایک فتنہ اٹھے گا جو عراق اور شام کے درمیان چھوٹے 223 111 148 109,112 828,830 813 791 129 975 49,51,52 160 13,14,813,862 سمرقند سنگاپور سندھ سنڈے ٹائمنر (اخبار) سنن ابن ماجه سوڈان سوویت یونین سوئٹزرلینڈ سویڈن 72,265,395,790,791,794,808,813,862 سویڈن کی ایک بچی کا کہنا کہ آج تک ہمیں سویڈش زبان 734 101,102 سے سمندر سے نکلے گا شاه حسین 80 شائیلا 917 شرق اردن شرک شرک کی مختلف قسمیں ہیں مگر سب سے مکر وہ تکبر ہے 69 میں خطبہ نہیں پہنچایا گیا سویز نهر سیادت سیادت پانے کے لئے خدمت ضروری ہے ہر احمدی میں سیادت کی صلاحیتیں موجود ہیں سیاست 172 قدیم سے لامذہب سیاست کے تین اصول قرآن کریم میں بیان فرموده تین اصول سیاست 172,173 سیاست کے حوالہ سے آج کی اسلامی دنیا کا المیہ مسلمان سیاستدانوں کے ہاتھ میں کشکول دولت کے غلط استعمال کا سیاست پر اثر 173 187 189 شرک کا بت اپنے دائرے تک محدود نہیں رہنا شرک کے علاوہ باقی سب گناہوں کی بخشش ظلم اور شرک کو قرآن نے ہم معنی قرار دیا ہے پرانے زمانوں جیسا شرک آج کل نہیں ہے سرداری کے حق ادا کرنے کا وہی طریق ہے جس طرح نبی کریم اور خلفاء نے کی اسلامی سیاست کی روح سیاسی دنیا کے تعاون کی حالت اخلاق سے عاری سیاست کا نتیجہ 191 191 211 264 شریف حسین ، گورنر حجاز کون ہے جو نہیں حاجت مند کسی کی حاجت روا کرے کوئی 249 286 490 491 85 11,948
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آگ دی صیاد نے جب آشیانے کو میرے 13 35 وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زبان چلتی نہیں شرم و حیا ہے ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ہم کو غصہ پر پیار آتا ہے 496 جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے اک ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کہ کچھ لوگ پہچانے گئے اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی واذا كان الغراب هاد قوم طريق الهالكين کچھ تیری عطا ہے تو کچھ نہ 78 171 184 187 191 254,460,1011 20 قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینار نہ ہوا کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا الا یا ایها الساقی اور کاسا و ناولها 275 275,276 که عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلها 284,988 ہم تیرا در چھوڑ کے جائیں کہاں چین دل آرام جاں پائیں کہاں بشارت تو نے دی اور پھر کہا ہرگز نہیں ہوں گے از اولاد یہ برباد مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو ز جو ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاء ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا مثل طفل شیر خوار جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 319 367 379 417 426 459 اگر 512 منزل ایک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے میرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے وائے دانائی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا 624 خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا 892,897 جو تھا نہیں جو ہے نہ ہوگا یہی اک حرف محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی 646,664 پنے شعور کو ہمیشہ بیدا ر کھتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کریں حضرت شعیب علیہ السلام 975 976 259 887,888 342,343 495 352 557 حضرت شعیب کی دعا شعیب (مدین والے) حضرت شعیب مدین کے بزرگ تھے شکاگو شکر شکریہ شکریہ ادا کرنے کا طریق اور اس کی توفیق کے حصول کے لئے قرآنی دعا شکر یہ ادا کرنے کا مقصد نعمت پر شکر ادا کرنے کا طریق خدا کا شکر ادا کرنے کا طریق بچوں پر فرض ہے کہ وہ والدین کا بھی شکر یہ ادا کریں اور اس حوالہ سے قرآنی دعا کا ذکر 464 459 464 460 463
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 صاحب شکر بندہ بننے کی تلقین شمالی امریکہ شیخڈم ریاستیں شیخوپوره شیطان شیطان کا باریک راہوں سے حملہ وہ لوگ جن پر شیطان کو غلبہ نہیں ملتا 36 784 صحابہ کی دعوت الی اللہ 21,161,162 صحبت صالحین 48,51,108 صحبت صالحین اختیار کرنے کی تلقین 842 376 979 279 صدام حسین 28,33,42,45,46,49,57,76,77,79 80,87,88,119,122,123,124,130,145,146 148,197,262 صدام حسین کا کویت کو خالی نہ کرنے اور شرائط کو نہ ماننے 587 کی وجوہات 30 شیطان وہاں سے حملہ کرتا ہے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتا 684 اس کے خلاف پراپیگنڈا کہ بہت خوفناک جابر ہے شیطان کا چھپ کر حملہ کرنا شیطان کا انبیاء کا امتحان لینے کی کوشش کرنا شیطان کو ہمیشہ کے لئے چھٹی دینے کی وجہ 697 736 822 صدام حسین کا کویت پر حملہ کے حوالہ سے توقف صدام حسین کے گردوں پر مظالم اور ان کی وجوہات 174 66,67,93,102 120 شیعہ حضرت صفیہ شیعہ کا حضور سے پوچھنا کے کیا حضرت علی درست تھے خیبر سے واپسی کے سفر میں نبی کریم کا اسے اپنے حالات یا حضرت عائشہ شكير مبر مومنوں کی ایک دوسرے کو صبر کی تلقین ہر قسم کے ابتلاء ونقصان پر صبر اور اناللہ کا اظہار صبر کا دعا کی قبولیت کیساتھ تعلق صبرا 535 140 52 298 876 148 سنانا کہ کیوں خیبر پر حملہ کیا ڈاکٹر صلاح الدین امریکہ میں ان کی وفات اور ذکر خیر سلطان صلاح الدین ایوبی 17 168 139 باوجود کوشش کے یورپین معاندین اس کی زندگی کا کوئی ظلم کا واقعہ نہیں ثابت کر سکے بعض کا اسے عبدالعزیز ثانی قرار دینا اس کا فلسطین پر قبضہ اور صلیبی جنگیں صلیبی جنگیں 42,43 44 136 صحاب صحابہ کی اتباع کے حوالہ سے احسان کے مضمون کی وضاحت 764 صلیبی جنگوں کی وجہ سے عیسائیوں کو مسلمانوں پر دکھ 136 صحابہ کی مالی قربانیوں کے بیان میں حضرت مصلح موعود صلیبی جنگوں کا آغاز فرانس سے ہوا کا طریق اصحاب الصفہ کا مقام تین صحابہ جنہوں نے سچائی کو قربان نہیں کیا اور آنحضور کی ناراضگی مول لی 765 798 944 صومالیہ صیہونیت صیہونیت کا بانی 138 51 153
37 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ضیاءالحق اس کا نماز فرض کرنا 317 1965ء میں سری لنکا کے دورہ کے وقت طوفان کے باعث خوفناک منظر اور حضور کی دعا کے باعث اطمینان قلب 520 1974ء کے فسادات میں نصیر نامی لڑکے کا خوشی کے عالم میں ملاقات کرنا جبکہ اس کی ملیں اور کار خانے برباد کر اسکے دور سے ملک میں اسلام کو جاری کرنے کی بحث 777 دیئے گئے تھے طاعون b 521,522 فرانس کی مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع اور حضرت خلیفہ اسیح الرابح کی نصائح جنسی بے حیائی میں مبتلاء قوم میں حدیث کی رو سے طاعون جماعت کے وقت میں سے اپنی ذاتی گفتگو کے لئے کی بیماری کا پھیلنا 224 وقت نکالنے میں شرم محسوس کرنا حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کہ یورپ اور عیسائی حضور کاRelaxation کے لئے ناروے جانا ممالک میں ایک قسم کا طاعون پھیلے گا 224 دنیا کی طاقتوں اور مذہبی طاقتوں میں بنیادی فرق 231 طائف ایک بچہ کا علاج جس کو دودھ پینے سے الٹیاں شروع ہو جاتی تھیں طالمود طالوت 27 983 179 557 708 732 جماعت کی تربیت کے لئے آپ کے دل میں درد 733 مالمو کے امیر کا اعتراض کرنا کہ حضور نے ان کے ساتھ کھانا نہیں کھایا اس اعتراض کا جواب حضرت مسیح موعود کے مقدس نظام کی حفاظت اور اسے ہر 794,795 801,802 841 فتنہ سے بچانے کے لئے حضور کا عہد حضرت خلیفہ ثالث کی اطاعت کا ایک انداز جماعت کی تعداد کے حوالہ سے آپ کی دو دعائیں 850 حضور کے دورہ کے بعد جاپانی نو جوانوں میں تبدیلی 864 آج جو جماعت ہے یہ اپنی زندگی میں ایک کروڑ نئے یہ جدعون تھے ان کی قرآن میں مذکورد 313,314 احمدی پیدا کر دے اس کے لئے کوشش 920 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع مختلف اقوام کے لوگوں سے تبلیغ کے وقت ذاتی نمونہ 928,930 939 981 982 148 491 1957ء کے سال کی حضور کی زندگی میں اہمیت وقف جدید کی مجلس کا پہلا مبر توحید کے اظہار پر حضور کے جذبات 1 1 70 یہوواہ ویٹنس کی ایک خاتون سے ملاقات قادیان میں 45 سال کے انقطاع کے بعد خلیفتہ المسیح کا پہلا خطبہ جمعہ ایک لمبے سفر پر جانے اور اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لئے قادیان میں آنا خواب سا محسوس ہورہا ہے اور جذباتی جماعت کو دعا کی تلقین اردو میں خطبات جمعہ کی وجہ 456 475 خلیفہ رائج کا ایک ملک کی شہزادی کو رب اني لما انزلت لطف کا اظہار ظ 496 الى من خير فقیر والی دعا کا بطور وظیفہ بتانا انگلستان ہجرت کے بعد حضور کے ساتھ احمدی خاندانوں ایک عام شخص اور خدا کے ولی یا نبی کے لئے لفظ ظلم کے استعمال کے وقت معانی 510 کا اظہار محبت
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 38 امیر اور غریب کا ظالم ہونا اور ان میں فرق راجہ ظفر الحق عاجزی عاجزی کا قبولیت دعا کے ساتھ تعلق حضرت عائش 262 848 609 281,688,689 946 حضرت عائشہ کی بریت وحی کے ذریعہ ہوئی عائلی معاملات بیوی بچوں سے کرخت رویہ اور کنجوسی کرنا اولا داور گھروں کو نا چاقیوں سے بچنے اور گھر کا ماحول سدھارنے کی دعا 294 432 433 شادی کے وقت بچیوں کی بیماریاں وغیرہ بتا نا قول سدید میں سے ہے 656 وہ فتور جود والیا اور دلہن کی نیتوں میں ہوتے ہیں 657 ظاہری حسن سے پیار کے حوالہ سے ایک لڑکے کا واقعہ جسے بزرگ کی بیٹی سے پیار ہو گیا تھا.658 حسن فطرت والوں کی شادی کامیاب ہوتی ہے 660 ایک لڑکے کا مخط حضور کے نام جس میں اپنی بیوی کی دنیا پرستی کا ذکر کیا..661 وہ والدین جو باہر کے ممالک میں نیشنلٹی کے حصول کی خاطر رشتہ کرتے ہیں اور اچھی لڑکی پیش نظر نہیں ہوتی 667,668 بیویوں اور بچوں پر ظلم اور سفا کی عبادالرحمن 951 عبادالرحمن کی دعائیں عبادت 430,431 226 280 254,255 اعلیٰ اخلاق سے گھر جنت کا نمونہ بنتے ہیں ماں سے جو تعلق تو ڑے گاوہ رحمان خدا سے تعلق توڑے گا479 عبادت، جہادا کبر گھروں کی مضبوطی اور خاندانی اقدار کی حفاظت جب تک بچوں کو بچپن میں عبادت کی عادت ڈالیں ممکن نہیں تب تک انسانیت کی وحدانیت ناممکن ہے 479 وہ صورت جب عبد ، عابد بن جاتا ہے گھر یلو حالات کے سدھارنے کے لئے قرآنی دعا 549 عبادت پر ہونے کے باوجود عابدوں کے لئے امتحانات بیویوں کی کمائی کھانے والے کبھی دنیا میں چین نہیں پاتے 668 آیا کرتے ہیں جہاں گھر میں خاوند بیوی ساس نندوں کی وجہ سے لڑائی جھوٹے خداؤں کی عبادت کرنے والوں کی حالت 604,605 669 عبد العزیز ہوتی ہو وہاں اولا دشر سے نہیں بچ سکتی شادی کرتے وقت ہی کریم کی تقوی کومد نظر رکھے کی تلقین 648 صاحبزادہ عبد اللطیف شہید رشتوں میں خلل کی وجوہات پاکستان میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیوں کی زندگیوں کا جہنم بننا 649 650 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عدل ایک بہو کا دوران ملاقات اپنی ساس کے حسن سلوک کی وجہ عدل کے فقدان سے شرک کا پیدا ہونا سے رونا 651 عدل کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا 368 26 843 912 261 261 رشتہ کے حوالہ سے والدین کی نیتوں میں فتور 651,652 عراق 18,27,28,33,40,44,60,6,64,65 نکاح کے موقع پر قول سدید والی آیت کا ذکر نکاح کے موقع پر دونوں طرف کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی کرید نہ ہونے دیں 653 655 67,69,90,105,113,119,121,125,130,131 212,213,262,406,407,823 عراق جنگ کی اول ذمہ داری امریکہ پر عائد 124
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 عراق جنگ کی ذمہ داری صدام حسین پر ہے عراق جنگ سے مسائل بڑھیں گے 121 121 39 عراق جنگ میں صدام کی حکمت عملی کی تعریف عراق جنگ میں امریکی تکبر کا ٹوٹنا عراق جنگ کا پس منظر اور موجودہ صورت حال کا ذکر 119 عراق جنگ کا نفع و نقصان عراق جنگ کی صورت میں موجودہ بدامنی کا عالمی بدامنی عراق کے ایٹمی توانائی پلانٹ پر اسرائیلی حملہ میرا کام ( عراق ) جنگ پر تبصرہ کرنا نہیں بلکہ پس منظر 50 135 134 130 110 94 93 میں تبدیل ہونے کا خطرہ عراق جنگ کے بعد مسلمان ممالک پر ہونے والے بداثرات 49 کھولوں تا کہ اصل صورتحال کا دنیا کو علم ہو عراق جنگ سے مغربی ممالک کو ملنے والے اقتصادی فوائد 48 عراق جنگ کی تباہی کا ذکر عراق جنگ کے مقاصد کے متعلق غیروں کی آراء 129 عراق جنگ کا مقصد اور اس کے بداثرات کی وسعت 78 عراق پر بمباری کی ہولنا کی موجودہ عراق جنگ میں مسلمانوں کی غداریاں عراق کے مٹائے جانے سے ماضی کی تاریخ ملیا میٹ عراق کے اقتصادی بائیکاٹ کے متعلق امریکی ارادے 24 کر دی جائے گی عربوں کے مزاج بدل جائیں گے 35 امریکہ اور برطانیہ کا دنیا کے امن کے لئے عراق کو کچل دینے کا ارادہ ہے 193 عراق جنگ کا سعودیوں کی وجہ سے جلدی شروع ہونا 34 عراق جنگ کے حوالہ سے اتحادی ممالک کو مشورہ 177 مسلمان نوجوان نسل کا عراق جنگ کی وجہ سے رونا اور میں نے شروع میں کہا تھا کہ اس کو اسلامی مسئلہ رہنے دیں اور عالم اسلام آپس میں نپٹائے پوچھنا کہ خدا مد دکو کیوں نہیں آرہا ؟ اس کا جواب 175,176 عراق ایران جنگ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام اس سوال کا جواب کہ جو مسلمان عراق جنگ میں شکست دشمنی کی جنگ تھی کو اسلام کی شکست قرار دیتے ہیں 173,174 26 عراق ایران جنگ میں ایران کا فوج کی تعداد بڑھانے 73 19 19 835 سعود کا کربلا کے مزاروں کو ملیا میٹ کرنا 834 کے لئے پراپیگنڈا عرب 19,20,56,62,86,114,120,126,172 عراق جنگ کے حوالہ سے حضور کی قوموں کو نصائح 167 عراق، ویتنام پر امریکی مظالم 166 259,870,931 148,149 عراق میں کھوپڑیوں سے بنائے جانے والے مینار 165,166 عرب بستیوں پر اسرائیل کے مظالم عراق کی سرزمین بڑی مظلوم ہے تاریخ سے ثبوت 165 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا عربوں و بینام اور عراق پر بمباری کا تناسب عراق کے خلاف Sanctions کاریزولیوشن عراق اور اسرائیل کے خلاف سیکیورٹی کونسل میں ریزولیوشن اور ان میں فرق 163 156 155,156 عراق کے متعلق اسرائیلی جنگی تیاریاں اور عراق کے جنگی وسائل کے حوالہ سے مغربی مبصر کا تبصرہ 147 کی زمین ہتھیا نا عرب ممالک کو تین اندرونی مسائل کے فوری حل کی تلقین عرب ممالک کو تیل کی تقسیم کے حوالہ سے مشورہ صدر ناصر کا عرب کی سیاسی وحدت کا تصور عرب ممالک کو اقتصادی وحدت کا مشورہ عراق کی جنگ اور جنگ عظیم میں گرائے جانے والے صحابہ کی تبلیغ سے عرب میں آنا فانا انقلاب 151 195,196 198 199 199 972 بموں کا تقابلی جائزہ عراق جنگ کے حوالہ سے امریکہ کو مشورے 145 143 عرب احمدیوں کا قادیان کے جامعہ میں عربی پڑھانے کے لئے لبیک کہنا 1001
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 العرب / العربية (اخبار) عرب ریاستیں عرش عرش کی حقیقت عزت 130 97 513 40 حضرت عمر بن عبد العزیز عمل بد اعمال کرنے والے ہمیشہ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اچھے عمل کر رہے ہیں اعمال میں نقائص کی دوری کے لئے دعا عہد یداران ( نیز دیکھئے امیر) 44 607 881 کسی کی عزت کا سوائے خدا کے کوئی محافظ نہیں عطاء اللہ شاہ بخاری عطاء اللہ شاہ بخاری کا جماعت کے متعلق اعلان عظمت 732 976 854 کسی کی عظمت اس کے قرب سے ظاہر ہوتی ہے 619 عصر عفو کی تعریف عقل عقل کل سے مراد عقل حقیقت میں تقویٰ کا دوسرا نام ہے 695 742,743 798 647 جہاں انتظامیہ مستعد ہے وہاں اللہ کے فضل سے جماعت بھی مستعد ہوتی ہے 595 جماعتی معاملات میں بعض مربیان وامراء میں تقویٰ کا فقدان 684 جماعتی معاملات اور نظام جماعت کے متعلق باتیں ہوں تو کیا عہد یداران تک پہنچانا غیبت تو نہیں؟ فتنوں کے بند کرنے کا حضرت مسیح موعود کا نسخہ جرمنی کی مجلس عاملہ کا اپنے امیر کا احترام نہ کرنا اور حضور کا انہیں سمجھانا 690 699 جرمنی کے مربی صاحب انچارج کی وجہ سے جرمنی کی مجلس عاملہ میں ہونے والے فتنہ کا تفصیلی ذکر اور عہدیداران کی معزولی کا ذکر 702 703 علقمہ انسانی علم کا وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرنا راسخون فی العلم کی دعا علم میں اضافے کے لئے قرآنی اور حضرت مسیح موعود کی دعا 235 319 448,449 نئے دستور کے مطابق اگر امیر مربی سلسلہ نہ ہو تو اسے نائب امیر بنایا جاسکتا ہے مگر ضروری نہیں امیر کی اطاعت سے متعلق آنحضرت کا ارشاد امیر کے خلاف شکایت ہے تو خلیفہ اسی کو کریں اور اس کا طریق فتنوں کے وقت عہدیداران کا صرف نظر کرنا سلسلہ کے معلومات کی کمی بہت بڑے نقصان کا موجب بنتی ہے 907 لئے نقصان دہ ہے اگر کوئی کتاب آئے تو جماعت کے صائب الرائے 909 لوگوں اور امراء کو فوٹو کا پیز بھجوائی جاتی ہیں ان کا علم ترقی کرتا ہے جو اس میں ڈوب کر سمجھتے ہیں 914 حضرت علی کرم اللہ وجہہ 912 اس سوال کا جواب کہ کیا امیر کبھی غلطی نہیں کرتا امارت اور ڈکٹیٹرشپ میں فرق عہدے ذمہ داریاں ہیں نہ کہ برتری کا ثبوت امیر کی اطاعت لازم ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 139,647,478,912 امارت کے نظام کا طریق حضرت عمر کی آخری وقت کی دعا 191 704 711 713 723 725 726 717 726 726 عہدہ نہ قبول کرنے پر حضرت مالک کو کوڑے مارے جانا 727
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 41 نظام جماعت میں کوئی ڈکٹیٹر نہیں 728 کسی سیکرٹری کا کام کسی دوسرے سیکرٹری کو سپر دکر نے عہد یداران کے خلاف کسی کی شکایت پر آزادانہ تحقیق 728 سے فتنوں کا پیدا ہونا 754,755 بہت زیادہ کام کرنے والے عہد یدار ان کی بیویوں کے عہد یداران اپنے نفس کا محاسبہ کریں اور اپنے نور ہدایت خطوط کہ صرف جماعت کے کام کی فکر ہے 729 حضور کا حکماً بعض عہدیداران کو زبردستی چھٹی دلوانا 729 شکایت دور کرنے کے صحیح طریق کے استعمال کریں 731 سلسلہ کے کسی عہدہ میں آمریت کی بو نہیں ہے بعض امراء کی سب سے بڑی غلطی بعض عہد یدار ان کے مخفی تکبر کی بناء پر اور تربیت کے حوالہ سے اس کا نقصان عہد یداران میں مخفی تکبر 731 733 733 735 کو چمکائیں 954 سیکرٹری تبلیغ کی نسبت سیکرٹری مال زیادہ فعال ہوتے ہیں 956 401,435,939 حضرت عیسی علیہ السلام طمانچہ پر دوسری گال آگے کر دینے کی تعلیم حضرت عیسی کی قرآن میں مذکور دعا حضرت عیسی کی دعا کے دو حصے حضرت عیسی کی مائدہ والی دعا عہد یداران کو جماعتی معاملات میں تقویٰ سے کام لینے حضرت عیسی کی دعا کے باعث آج کل کے عیسائیوں 736 کو بکثرت رزق دیا گیا 56 327 328 337 339 389 کی ہدایت فتنوں کا آغاز کرنے والی باتیں جن کی مجلس عاملہ ابتداء حضرت عیسی کی اولاد سے محرومی میں حکمت حضرت عیسی کی صلیب کے بعد آزمائش اور حضرت یونس 740 میں نگرانی نہیں کرتی مجلس عاملہ کے درمیان گروہ بندیاں اور اس سے پیدا کے واقعہ کے ساتھ تشبیہہ کا ذکر ہونے والا فتنہ 740 409 حضرت عیسی کا حضرت موسیٰ سے فاصلہ 1300 سال ہے 504 بعض دفعہ امیر کی اطاعت اور اس کے ادب کا یہ غلط مطلب حضرت عیسی کا فرمانا کہ جو کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا کہا جاتا ہے کہ امیر کی ہر بات کی ضرور تائید کرنی ہے اس ہے بہتر تھا کہ اس کی ماں نے اسے جنم نہ دیا ہوتا...537 کے نقصانات 741 امیر کوئی پارٹی نہیں وہ خدا کی پارٹی کا نمائندہ ہے 742 امیر کو خوشامدیوں سے بچنے کی ہدایت مجالس عاملہ کی دو حیثیتیں اختیارات کے لحاظ سے عہدوں کا ذکر امراء اور مجلس عاملہ کے اختیارات میں فرق مجلس عاملہ کی حیثیت 742 743 744 745 745 اگر تم میں رائی کے برابر ایمان ہوگا.حضرت مسیح ناصرتی کا قول ” درخت اپنے پھل سے پہچانا 872 890 جاتا ہے آپ کی قوم جب تک کمزور اور محدود تھی با صلاحیت تھی 899 عیسائی عیسائیت کوئی عیسائی ملک نہیں جو حضرت عیسیٰ کی جنگ کے حوالہ بعض اوقات امیر کو مجلس عاملہ کے فیصلوں کو ویٹو کرنے سے روحانی تعلیم پر عمل پیرا ہو 751 عیسائیوں کو ضال ٹھہرانے کے باوجود ان کے اچھے لوگوں کا اختیار ہوتا ہے اس کا وقت امراء کا کام کہ تمام جماعت کو ان کے حقوق سے مطلع رکھیں 753 کا بھی ذکر بعض باتوں کو بے وجہ امراء کا مجلس عاملہ میں لا کر اپنی 56 258 عیسائیوں کو قرآن میں تعریف اور ضالین کہنے کی وجہ 285 نا مجھی، ناتجربہ کاری کی وجہ سے اختلاف کے بیچ ڈالنا 754 عیسائی قوم نے آغاز میں خدا کی خاطر بہت قربانیاں دیں 385
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 کمزوری کے وقت اس میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے وحدانیت کا علم بلند رکھا فتح کے وقت عیسائیت کے ہاتھ میں توحید کے بجائے تثلیث تھی 899 899 42 حضرت مسیح موعود کی ظلم وتعدی اور عناد میں حد سے بڑھنے والوں پر پختی ، عامتہ المسلمین اس میں شامل نہیں ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اس دعا کے 258 بکثرت پڑھنے کی تلقین : ربنا اتنا فى الدنيا 312......روس پر عیسائیت کی یلغار اس دور کا اہم ترین واقعہ ہے 823 حضرت مسیح موعود کا گناہوں سے استغفار کے لئے عیسائیوں نے کئی قوموں سے لڑائیاں کیں مگر صرف مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کو صلیبی جنگ کا نام دیا مشرقی یورپ اور روس پر عیسائیت کا حملہ غالب غانا غذا غ 825 832 275,459,624 370,814 حضرت آدم کی دعا پڑھنے کی تلقین حضرت مسیح موعود اس دور کے آدم حضرت مسیح موعود بطور روحانی طبیب بھیجے گئے حضرت مسیح موعود کی قبولیت دعا کا واقعہ حضرت مسیح موعود کی اپنی اولاد کے حق میں دعا حضرت مسیح موعود امتی نبی ہیں حضرت مسیح موعود کے المہدی ہونے سے مراد البام ينقطع اباء ک کے پورا ہونے کا ذکر حضرت مسیح موعود کو بھی ابراہیم فرمایا گیا آپ کی آنحضرت کے تیرہ سو سال بعد بعثت 340 341 341 354 367 470 481 501 501 504 531 اچھی غذا فائدہ نہیں دے سکتی جب تک نظام انہضام ٹھیک نہ ہو غزوه 983 حضرت مسیح موعود کو نوح قرار دیا گیا بعض مخالفین کا کہنا کہ خدا خود اتر کر ہمیں کہے کہ یہ سچا ہے پھر بھی ہم نہیں مانیں گے اُحد میں ایک صحابی کی آپ کے قدموں میں آخری سانس لینے کی خواہش غزوہ بدر کے متعلق رویا جس میں نبی کریم کو دشمن کی تعداد کم کر کے دکھائی گئی 300 839 حضرت مسیح موعود کے مخالفین بہت سے چیلنجوں کی قبولیت کی وجہ حضرت مسیح موعود نے دعا ہمیں اس طرح گھوٹ کر پلائی 571 609 ہے یہ ماں کے دودھ کی طرح ہماری رگوں میں ہے 836 بدر میں دشمنوں کی تعداد کے متعلق مسلمانوں کی شہادت 846 حضرت مسیح موعود کا نبی کریم کو عشق میں خدا نما قرار دینا جلد بازی میں انسان غصہ میں مبتلا ہو جاتا ہے 382 اس کی وجہ حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد حضرت اماں جان 625 کا بچوں کو اکٹھا کر کے بتانا کہ تمہارے لئے دعاؤں کا حضرت مرز ا غلام احمد قادیانی علیہ السلام 537 خزانہ چھوڑا ہوا ہے مسیح کی روح کے پگھلنے سے بڑی بڑی طاقتوں کی ہلاکت آپ کے جہلم جانے پر 1600 بیعتیں ہوئیں کی خبر 167 729 843 جماعت کو حضرت مسیح موعود کے کلام کی طرف توجہ کی تلقین 843 آخری دور میں بلاؤں کی انتہاء پر حضرت مسیح موعود کی سرحد کے ایک شخص کا کہنا کہ ابھی تک ہمارے گھر میں دعائیں اسلام اور دنیا کو بچائیں گی 230 کتب حضرت مسیح موعود پڑی ہیں 843,844
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 43 عیسائیوں کو حضرت مسیح موعود نے مناظروں کے دوران جو سخت الفاظ مسیح کے متعلق استعمال کئے ان کو سیاق و سباق سے نکال کر پیش کرنا 967 اسلام پر حملہ کے وقت حضرت مسیح موعود کا رد عمل 969 فنجی فرانس 14,471,935,993 14,85,8695,98,101,102,103 137,160,163,170,176,216,245,813,862 حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں دعوت الی اللہ کی تاریخ فرانس کی مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع اور 972 885 دہرائی گئی حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی نصائح حضرت مسیح موعود کو ملنے والے الدار“ کی وضاحت 1012 فرڈیننڈ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرشته 557 159 فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے 87,117 فرشتوں کی قرآن میں مذکور ایک دعا یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت سخت ہوگی رب ارنی حقائق الاشياء 224 449 فرض 513 صرف فرائض تک محد و در بنے والوں کے لیے احتمالات 768 آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے 498,499 | فرعون ينقطع آبائک و یبدء منک تجھ پر بھی نوح جیسا زمانہ آئے گا.501 فرعون کا حضرت موسی کو ہجرت سے روکنا 343,871 352 نصرت بالرعب 531 845 فرعون کے غرق ہونے کے متعلق تحقیق فرعون کی لاش کے متعلق قرآن کریم کا اعجاز 354 356 چوہدری غلام دستگیر ( نائب امیر ضلع فیصل آباد ) فرعون کے ساحروں کے ایمان لانے کے وقت کی دعا 430 418 ساحروں کا فرعون کو چیلنج اور ان کی دعا حضرت مولوی غلام رسول را جیکی 972,973 فرعون کی بیوی کی دعا غیبت غیبت کی تعریف غیبت کے متعلق قرآن میں مومنوں کو تنبیہ 688 687 فرعون کی غرق ہونے کے وقت کی دعا فرعون کے بدن کو نجات دینے سے مراد اہل مصر میں فرائین کی ممیاں بنانے کا رواج فرعون کے غرق ہونے کی تفصیل فرعون کے تعلق میں لفظ غرق کی وضاحت 445 542,543 573 574 574 579 581 فارس صاحبزادی فائزه فتح البیان فتنه فتنہ سے بچنے کی دعا تمام فتنوں کا ایک سبب جو ہر جگہ نظر آتا ہے 221 209 386 539 809 فرعون کا خدا کے نظارہ کے لئے بلند عمارت بنانے کا ارادہ 624 فرعون کی قوم کا ظلم کے بعد سمجھنا کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے 779 فری میسنز فری میسنز کا دنیا پر تسلط کا منصوبہ اور حضرت مسیح موعود کو اس کے متعلق الہام ہونا 83,84,118
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 فرینکفرٹ مرز افضل احمد لا ولد فوت ہونا 44 72,557,797 صدر قذافی 502 215 42,95,106,120,127,136,139 148,174,217406,407 فلپائن فلسطین یونائیٹڈ نیشنز کا فلسطین کی تقسیم کا اعلان فلسطین میں یہود کی آباد کاری 96 96 قرآن کریم یہود کے متعلق بیان کی گئی اس تمثیل کی تشریح جس میں گدھوں پر کتابیں لادنے سے مماثلت دی گئی قرآن کریم کے نظام عدل سے ٹکرانے والا ہر نظریہ غیر اسلامی ہے 123 9 181 جو تو میں مغضوب ہو ئیں قرآن نے خودان کے اسباب بیان فرمائے ہیں برٹش حکومت کا فلسطین چھوڑتے وقت نقصان پہنچانا 103 دعا کے حوالہ سے سورۃ فاتحہ کا اعجاز 257 283 فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا سبب تھیوڈور ہرزل کسی قوم کو یکلخت اور یک دفعہ ضالین نہیں کہا جا سکتا 285 کی نظر میں 137 قرآن میں کسی قوم سے نفرت کی تعلیم نہیں بلکہ برائیوں فلسطین پر دومرتبہ مسلمانوں کا قبضہ ہوا اور یہود پر مظالم سے نفرت کی تعلیم ہے نے کئے گئے 139 سورۃ فاتحہ میں عبادت کے راز فلسطین کی خودی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا اسرائیلی منصوبہ 153 قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب اور نزول کی ترتیب تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ تمام علاقوں کے یہود کا فلسطین میں حکمت 222 286 304 307 352 162 میں اکٹھے ہونا اور قرآنی پیشگوئی کا پورا ہونا فلوریڈا فورڈ کمپنی قادیان 84,209,357,709,844,854,860 118 قرآن کامل کتاب جو شبہ کو کوئی پہلو نہیں چھوڑتی سورۃ بنی اسرائیل ہجرت سے قبل نازل ہوئی.اگر چہ اختلاف ہے عیسائیوں کا اعتراض کہ قرآن نے تو بائیبل کی نقل اتاری ہے قرآنی دعاؤں کی قبولیت کا گر قادیان کی غریب عورتوں کے چندوں سے مسجد فضل کی تعمیر 772 قرآن کریم کی مکمل اور متوازن تعلیم قادیان کے سفر کے لئے دعا کی تحریک قادیان میں 45 سال کے انقطاع کے بعد خلیفہ المسیح کا پہلا خطبہ جمعہ قادیان میں وسیع جامعہ بنانے کا نقشہ 980 981 1002 قرآن کریم میں مضامین کے تکرار کے فوائد قرآن میں دھوئیں (دخان) کی پیشگوئی قرآن کریم کا فتنوں کی باتوں کو محفوظ رکھنا 396 466 511 538 593 611 714 قرآن میں تقویٰ کا سب سے پہلا سبق ، اطاعت 746 بچپن میں قادیان میں ہر کوئی نماز کے مطالب اور روز مرہ قرآن میں بیان فرمودہ ممتاز مالی قربانی کا نظام دنیا کے کے دینی مسائل سے آگاہ تھا قادیان کے دارالامان ہونے کی وضاحت قازان 1003 1012 830 کسی دوسرے مذہب میں نہیں 757,758 اس اعتراض کا جواب کہ 1400 سال پرانی کتاب آج کے لئے ہدایت کیسے ہو سکتی ہے 759
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 قرآن کی اصطلاحوں کو سمجھنے کے لئے قرآن سے مدد کی ضرورت ہے قرآن کی تلاوت کے وقت تفسیر کبیر کوعلم میں اضافہ کے لئے استعمال کریں قرآن کے بعد اگر کوئی کلام زندہ ہے تو وہ نبی کریم کا کلام ہے قربانی خدا کے حضور قربانی کی مقبولیت کے نشانات قرض قرضہ حسنہ کی تعریف اور وضاحت قضاء 880 889 893 863 819 45 کائنات کی ہر چیز کا مقصد ہے، جو مقصد پورا نہ کرے اسے رد کر دیا جاتا ہے نظام کائنات ہی عرش ہے کائنات پر غور کی تحریک 331 513 891,913,914 کائنات میں ان گنت نظام جاری ہیں مگر خاموشی سے کام کر رہے ہیں 918 خدا نے زندگی کے عمل کے ذریعہ عام کیمیا کو نامیاتی کیمیا میں تبدیل کیا ہے کائنات کے کارخانوں کی صنعت کا کمال کہ فضلہ کا ذرہ ذرہ دوبارہ صحیح مصرف میں استعمال ہوتا ہے کتاب کتابیں پڑھنے سے فائدہ اور لذت دیتی ہیں نہ کہ قضاء کے جھگڑوں کے حوالہ سے خلافت اور امراء کا مقام 691 اٹھانے سے قول سدید 919 919 9 640,671,789 918 348,370,373 26 406 196 823 435 کراچی کراچی کی جماعت کے نظام کی تعریف کرائیڈن کربلائے معلیٰ 672 185 قولِ سدید کے بغیر اصلاح ممکن نہیں قوم قوموں کی امداد اور تبدیلی کے متعلق الہی قانون جو تو میں مغضوب ہوئیں قرآن نے خود ان کے اسباب بیان فرمائے ہیں 257 گرد قوم کمزور قوم اخلاقی لحاظ سے طاقتور قوموں کا مقابلہ کر سکتی ہیں.263 گرد قوم کے مسئلہ کا چارا قوام سے تعلق قرآن میں کسی قوم سے نفرت کی تعلیم نہیں بلکہ برائیوں ان کے مسئلہ کو عیسائیوں نے چھیڑا سے نفرت کی تعلیم ہے 286 حضرت کرشن علیہ السلام جس قوم میں انفرادی طور پر مکر فی الآیات کی عادت پڑ کشتی نوح 784 جائے وہ ہلاک ہو جاتی ہے قوم کے رہنما کی خطرناک غلطی کی وجہ سے قوم کا بھی ساتھ کشتی نوح کے مضمون کو پڑھتے ہوئے احمدیوں کے 484,531 532 534 475,860 خوف سے رونگٹے کھڑے ہونا کشتی نوح کے مطالعہ کی جماعت کو تحریک 807 سزا پانا کائنات کائنات پر غور کرنے والوں کی قرآن کریم میں مذکور دعا کشمیر کی وجہ سے پاک و ہند کا بہت بڑی فوج رکھنا اور اس وجہ سے ہونے والے اقتصادی مسائل 200,201 330,331
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 46 کشمیر کے مسئلہ کے تین حل 207,210 مرزا گل محمد حضرت کعب 944,946 صرف ان کی نسل کا احمدیت کی وجہ سے زندہ رہنا501,502 معافی کے وقت حضرت کعب کی حالت 945 | گلف خلیج کلام محمود کلمہ طیبہ کلمہ طیبہ پانچ ارکانِ اسلام کا حصہ کلومناہلی 319,417,483 477 509 گلف میں مزدوری کرنے والوں سے بُر اسلوک گلف جنگ کے نتیجہ میں آنے والے خطرات گلیل گناه 822,823 214 260 149 568 587 169 964 کلیات اقبال کنعان کنفیوشس ازم 187,975 220 گناہ کا آغاز ناشکری سے ہوتا ہے گناہ کے فلسفہ کی تفصیل گوبلز بابا گورونانک کنفیوشس ازم کا اخلاقی تعلیم کے حوالہ سے اسلام کے گورونانک کی بٹالہ کے پرگنہ میں ایک بھگت کبیر سے یک جگت کبیر.791,794,795,808 931 76,109 25 959 961 862 ساتھ اشتراک کنگ ڈیورڈ ہوٹل کوریا کوئیل کوہاٹ 929 106 25,212 962,963 89 843 کویت 18,28,29,31,41,47,48,49,51,60 61,87,88,90,105,119,120,121,131,129 144,164,170,171,175,186,193,196,198 کیلگری لینڈا 214,262 557 13,14,371,475,669,676,677 بھی بڑے گورو کی پیشگوئی گوٹن برگ گورنمنٹ کالج لاہور گولان ہائیٹ گوئٹے مالا گھانا گیمبیا 813,815,858,860,861,862,863,960,1014 لارڈ سڈنم گجرات گلاسگو 842 265 لارڈ کرزن 127 127 لارڈ کرزن کے نزدیک اسرائیل کے قیام کی غرض 126 لاس اینجلیز 791
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 لاؤس 25 47 مارکس 204,370 | مارکس ازم 127,176 لاہور 651,671,789,848,849,938 لائبیریا لائیڈ جارج لبنان لبنان پر اسرائیل کی بربریت کا منصوبہ 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی مظالم کی انتہا لٹریچر ماروت 627 799 221 ماریشس 13,72,99,245,265,348,370,395 149 152 غیر زبانوں میں لٹریچر کی تیاری پر غیروں کی حیرت 908 ڈاک میں لٹریچر بھجوانے پر کوئی توجہ نہیں دیتا وہ لٹریچر جو مرکز میں ہونا ضروری ہے 927 960 471,557,629,775,813,859,860,993,1014 ماریشس کی جماعت کا جلسہ سالانہ اور حضور کی شمولیت اور براہِ راست خطبہ جمعہ 785 خلیفہ وقت کی نظر میں ماریشس کی جماعت کا مقام 786 ماریشس کی جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ کی نصیحت 785,786 مخالفانہ لٹریچر کی اشاعت پر فوری کارروائی کی تلقین 969 مالی قربانی اصر اور حمل کی لغوی بحث عربوں میں لفظ ستر سے مراد لفظ فتنہ کا مطلب لقمان حکیم لندن 316 323,324 350,351 567 جس کو مالی قربانی کی عادت ہو وہ خدا کے فضل سے عبادتوں میں بھی بہتر ہو جاتا ہے دنیا میں جماعت احمدیہ سے بڑھ کر مالی قربانیاں کرنے والی جماعت اور کوئی نہیں 147,339,959 لندن Mosque ( نیز دیکھیں’بیت الفضل لندن (373 دنیا میں صرف ایک ہی جماعت ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کرتی ہے، ان کے لئے خوشخبری خدا سے تجارت سے مراد 15 460 614 631 حضرت لوط علیہ السلام قرآن کریم کا اعراب کے حوالہ سے دو طرح کی مالی قرآن میں مذکور آپ کی دعائیں 452,497,498 قربانی کرنے والوں کا حال بتانا لیڈی میکبتھ 114 مالی قربانی کے نتیجہ میں اصلاح 759 762 لیگ آف نیشنز 94 تا 96 مالی قربانی کے حوالہ سے نظام جماعت میں جبر نہیں ہے 766 لیلة القدر لیلۃ القدر کی اہمیت وفضیلت لینن ازم لینن گراڈ 281 799 147 قرآن کی مالی قربانی کی روح مالی قربانی اور تحفہ کا مضمون قرآن کا مالی قربانی کو قرضہ حسنہ سے تشبیہ دینا مالی قربانی کے نتیجہ میں نئی عظمتیں اور رفعتیں حاصل ہونا 1010 770 816,817 817
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 48 787,788 مالی قربانی کے نتیجہ میں رزق میں غیر معمولی وسعت 1012 مالمو کی جماعت میں مالی فتنہ کے اسباب مالی قربانی کے حوالہ سے جاپان کی جماعت کی تعریف 1014 مالمو جماعت کا مشن کی خریداری کے لئے دیئے گئے مالی نظام چندہ کی واپسی کا مطالبہ اور خلیفہ وقت کا فیصلہ 792 805 مالمو جماعت کے فتنہ کے متعلق وضاحت مال کو خرچ کرنے کے صحیح طریقے نہ علم ہونے کی وجہ سے مالمو جماعت کے وہ احباب جن کو سزا سے مستثنیٰ کیا گیا 808 بعض فتنوں کا پیدا ہونا دنیا میں سب سے زیادہ قابل اعتما دطوعی مالی نظام جماعت احمدیہ کا ہے 743 746 مانچسٹر ماں 72,265,348,370,373 بجٹ کی ایک مد میں رقم کم ہونے کی صورت میں دوسری وہ مائیں جن کے قدموں تلے جنت ہے مدات سے رقم خرچ کرنے کی صورت میں مجلس عاملہ اور جماعت کو ہدایات 748,749 مباہلہ مجلس عاملہ کو اختیار نہیں کہ مجموعی بجٹ کو از خود بڑھادے749 مباہلہ کی حقیقت نظام جماعت میں سے مقدس مالی نظام کی حفاظت نہایت ضروری ہے،اس کی وجہ مالی اخراجات میں میں دیانتداری کا طریق بجٹ ختم ہونے کی صورت میں اس کو مزید بڑھانے کے متعلق ایک اصولی ہدایت 750 750 750,751 جماعت کے مالی نظام کی بتدریج ترقی اور اس کا زیادہ نکھر نا759 مالی نظام ٹیکسیشن کا نظام نہیں 769 چندوں کے اخراجات کا مجلس شوریٰ میں فیصلہ کیا جاتا ہے 789 مرکزی گرانٹ کا نظام جماعت احمدیہ کا مقدس مالی نظام خالصہ اللہ ہے اور جب تک خالصہ اللہ رہے گا مقدس رہے گا مالی نظام کے حوالہ سے مالمو جماعت میں فتنہ 789 789 790 مبشر باجوہ 650 847 715,716 وہ مبلغ جو قابلِ اعتراض باتوں پر ٹو کتا اور سختی سے مقابلہ کرتا ہے وہ ہر دل عزیز نہیں رہ سکتا میٹھی مجلس شوری / مشاورت 801 مجلس شوری میں روشدہ تجاویز کو نہ پیش کرنے اور نہ ان پر تبصرہ کی اجازت ہے 4 706 مجلس شوری کے اختتام پر امیر کے خطاب کی روایت 707 الله مشورہ دینے والے کو آنحضرت ﷺ کا امین کہنا اور اس سلسلہ کے مالی نظام یا کسی بھی پہلو سے خلیفتہ امسیح کو میں گہری حکمت شکایت کا صحیح طریق جماعت کے مالی نظام کے مقدس اور سقم سے پاک ہونے کا ثبوت مالمو 796 797 791,793,794,796,802,803,809 ملک کی مجلس شوری کے فیصلے مرکز سلسلہ کی منظوری سے آخری فیصلے قرار دیئے جاتے ہیں محاسبه محاسبہ کا دوسرا نام روشنی کا سفر ہے 740 745 902
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 محبت خدا کی محبت کے بعد سب سے زیادہ بنی نوع سے محبت کا اظہار محبت کی دو قسمیں اور حقیقی محبت محبت کے ادنی درجہ میں انسان کی قربانیاں محبت کی بے شمار قسمیں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم 52 617 628 987 49 آپ میں دو ممتاز خوبیاں آپ کی خاطر ساری کائنات کی پیدائش اس وہم کا جواب کہ قرآن میں آپ کی دعائیں نہیں ہیں باقی انبیاء کی دعائیں موجود ہیں آنحضرت اور آپ کے ساتھیوں کی خدائی وحی پر ایمان لانے کی کیفیت آپ کا لوگوں کے طوق دور کرنا آپ کا فارسی میں الہام 311 310 314 315 317 319 خیبر کے قلع کی فتح کے بعد آپ کا نکاح حضرت صفیہ سے ہوا 17 اللہ کا آپ کو والدین کے لئے بخشش کی دعا سے روکنا 369 27 قرآن میں آپ کے مدینہ ہجرت اور مکہ واپسی کی پیشگوئی 397 آل سعود کے ذریعہ آپ کے مولد کا مسمار کیا جانا ایک یورپین شہزادے کا آپ کے مزار کو اکھیڑنے کی نیت آپ نے تیرہ سال مکہ میں دکھ جھیلے پھر مدینہ کی طرف سے مدینہ روانگی اور صلاح الدین ایوبی کا اسے روکنا 43 44 ہجرت فرمائی آپ کی قرآن میں مذکور دعائیں آپ تمام دنیا کی سیادت کے لئے پیدا کئے گئے آپ کا خدا کی محبت کے بعد سب سے زیادہ بنی نوع سے محبت کا اظہار 52 397 421,425,428,430 معنوی لحاظ سے آنحضرت مومنوں میں سب سے اول 447 نزول وحی کے وقت آپ کی کیفیت جہاد کے لئے افواج بھجوانے سے قبل آپ کی ہدایت 66 آپ کی معصومیت توحید کے اعلان پر آنحضرت کی مکہ میں مخالفت اور آپ کا استقلال 69 136 ہجرت کے بعد پیچھے رہنے والے عزیزوں سے زیادہ آپ کا دین دنیا میں تمام ادیان پر غلبہ کے لئے بھیجا گیا 71 محبت کرنے والوں کا نصیب ہونا بدر کے میدان میں نبی کریم کی التجائیں آپ کے ذریعہ اللہ کی رحمت کا تمام بنی نوع کے لئے عام کیا جانا دنیا کی کوئی طاقت سیرت محمدی پر غالب نہیں آسکتی 141 آپ کے دور میں ہر خونی رشتہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا209 آپ کا بنی نوع کے لئے استغفار آپ کا مدینہ کو بھٹی قرار دینا آپ کا نام محمد رکھنے میں حکمت 227 250 آنحضرت مقصود کائنات سب سے بڑی آزمائشیں بدیوں کے لئے زمانہ نبوی ہمیں روز مرہ کی زندگی میں آنحضرت کے صراط مستقیم پر میں مقدر تھیں 277 چلنے کی ضرورت ہے آپ کے والدین تو پہلے فوت ہو گئے تھے پھر والدین آپ کی بعض مواقع پر عبادت میں سہولت کی نصیحت 281 سے حسن سلوک کا کیوں فرمایا گیا، اس کا جواب آپ سے متعلق حضرت ابراہیم کی دعا کو قبول کرتے کسری کی ہلاکت کے متعلق آپ کی پیشگوئی وقت خدا کا الفاظ کی ترتیب کا بدلنا اور اس میں حکمت 310 سونے سے قبل معوذتین کو پڑھنا 448 448 510 514 515 515 516 523 551 553
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 آپ کے شیطان کا مسلمان ہونا آپ کی عظمت کے ادراک کا طریق خدا سے تعلق میں اپنی ذات کو فنا کر دینا آپ کے لئے آنحضرت“ کہنے سے مراد التحیات میں آپ پر سلام سے مراد آپ پر سب سے زیادہ انعاموں کی بارش کی گئی انعمت علیھم کی دعا سے محمد مراد ہیں 588 619 626 635 635 636 637 50 آپ کے مقام محمود سے مراد آپ کی بخشش بعض دفعہ خدا کی بخشش کے لئے دعا بن 933,934 جایا کرتی تھی آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا باعث آپ کے ظلوما جھولا ہونے سے مراد آپ کے لامتناہی احسانات کامل مربی ، کامل معلم 945 947 949 985 985 آپ کے بعد جس کا سب سے زیادہ حق کہ ان پر سلام گنہگاروں کے لئے سب سے بڑا وسیلہ آپ بنے 986 بھیجا جائے حضرت ابراہیم ہیں جو ابو الانبیاء ہیں 638 آپ کی خاتمیت کا مطلب 990 ایک جنگ کے وقت آپ کا ایک شخص سے ایک دوسری آپ کے وسیع فیض سے فیضیاب ہونے کا طریق 991,992 654 آپ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان امارت جگہ کا رستہ پوچھنا ناراضگی کا اظہار، باوجود مجسم رحم ہونے کے معاف نہ فرمانا686 کا تصور ہے 995 آپ پخشش کی آخری حدوں کو چھورہے تھے آپ کے پاس آواز اونچی نہ کرنے کا حکم آپ کو اُڈن کہنے والوں کا قرآن میں رڈ آپ کے پاس ایک اعرابی کا آنا اور اس کا فرائض پر اکتفاء 686 713 محمد بن ابرا تیم اتمی 715 مولوی محمد احسن امروہی کا وعدہ اور آپ کی اسے جنت کی بشارت دینا چوہدری محمد رفیق آپ کے تزکیہ کی طاقت آپ کی وفات کے بعد اعراب میں بغاوت اور مستشرقین کا اعتراض کرنا 768 760 محمد سالک 647 973 14 887 760 محمد شریف اشرف (ایڈیشنل وکیل المال) 14,596 آپ سے پہلے زمانہ کو جاہلیت کا زمانہ کہنے کی وجہ 800 مدینہ کے ایک بد بخت کے اعتراض پر نبی کریم کے ناراضگی کے اظہار پر ان کا تڑپنا آپ کی دعاؤں کے ذریعہ عرب میں انقلاب بددعا کے موقع پر بھی ہدایت کی دعامنہ سے نکلی آپ نے دوسروں کے دل جیتے آپ مجسم ذکر آپ کے کلام کا اثر 1400 سال سے جاری ہے آپ کو مذکر کہنے کا مطلب 807 870 871 871 878 907 مولوی محمد عمر حضرت خلیفتہ مسیح الرابع کے خطبات کا مقامی زبان میں ساتھ ساتھ ترجمہ کرنا مفتی مختار احمد نعیمی مدین حضرت موسی کی مدین کی طرف ہجرت 735 848 352,495 مدینہ 28,29,85,510 سعود خاندان کا مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کو مسمار کرنا 27
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 مکہ اور مدینہ کا تقدس عبادت سے وابستہ ہے مکہ،مدینہ اور توحید کے مغربی خطہ سے مراد مذہب مذہب کا نسلی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں مذہب کا تعلق روحانی دنیا سے ہے مذہبی لحاظ سے قوموں کے مصائب میں مبتلا ہونے کے فلسفہ کا ذکر بچے مذاہب بگڑنے کے باوجود بہت سی صلاحیتیں زندہ رکھتے ہیں 36 161 18 56 776 مذہب کے پیغام میں دنیا میں سب سے کم دلچسپی حضرت مریم 899 927 442,939,977 حضرت زکریا کی تحویل میں اور ان کی زندگی وقف تھی 324 مسجد بیت الا ول، گوئٹے مالا مسجد ضرار مسجد مبارک ( قادیان) مسجد نور اوسلو، ناروے 489 482 1003 721 51 اس صدی کا مسلمانوں کے خلاف ہولناک منصوبہ پورا ہو چکا ہے مسلمان اگر آنحضرت کی سیرت کو اپنا لیں تو ساری دنیا کے لیے نمونہ ہوگا 94 141 مسلمانوں پر غیروں کی زیادتیوں کی وجوہات 179,180 مسلمان ممالک کا خدا کو الہقر ار دینے کی بجائے امریکہ روس، چین کی طرف کشکول اٹھا کر بھاگنا مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی جنگوں کی کیفیت مشرق وسطی 553 825 68,103,108,121 مشرق وسطی دنیا کا امیر ترین علاقہ تیل کی %60 پیداوار اس علاقہ میں ہوتی ہے مگر دفاع اور انڈسٹری کے حوالہ سے کمزور ترین مشرقی پاکستان ڈاکٹر مصدق 86 39,847,1005 99,100 مصر 29,47,49,74,78,101,104,197,356 مصرع جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ 931 مصیبت کے وقت دعا کے ساتھ صدقات کا حکم مصیبت کے وقت انسانی نفسیات 51 776 782 حضرت مسیح علیہ السلام ( نیز دیکھئے حضرت عیسی ) 963 مصیبت حضرت مسیح کی ہتک کا الزام 967,968 حضرت مسیح کو شیطان کا دھوکا دینا راجہ شال باہن اور مسیح کی گفتگو 736 963 صحیح مسلم 224,226,289,793,986 مسلمان مسلمان ممالک کی ڈپلومیسی کی زبان سے ناواقفیت 25 مصیبت کے وقت انسان کی نفسیات مشکلات اور مصائب کے حل کے لیے خدا سے التجا کریں 784 مظلوم کی دعاضر ور قبول ہوتی ہے معاشرہ مسلمان ممالک کے لیے عقل کے حصول کی دعا کی تحریک 32 یورپی معاشرہ میں صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اولاد عالمی مسائل سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو قبلہ سیدھا کو والدین سے خطرہ کرنے کی ضرورت ہے 40 معاشرہ میں وحدت کے لئے توحید کی ضرورت 871 382 383
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 جنت نظیر معاشرہ کے قیام کی تلقین 486 52 سعود خاندان کا مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کو مسمار کرنا 27 تقومی کی کمی سے معاشرہ میں ہونے والے نقصانات 683 مکہ اور مدینہ کا تقدس عبادت سے وابستہ ہے ایسے ممالک کی ضرورت ہے جہاں جماعت غالب آکر تو حید کے اعلان پر آنحضرت کی مکہ میں مخالفت اور آپ 36 ایک غالب معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کرے کا استقلال قادیان کے معاشرہ میں تقویٰ اپنے جوبن پر 900 1003 مکہ، مدینہ اور توحید کے مغربی خطہ سے مراد فتح مکہ کی پیشگوئی کا پورا ہونا 69 161 398 معلمین ملاں وقف جدید کے تحت معلمین کی تھر کے علاقہ میں کوششیں 3 ملاں اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ سے اسلام کے نظام عدل 178 225 513,514 56 343 491 489,490 341 854 تھر کے علاقہ میں معلمین کے لیے ناسازگار حالات اور مشکلات کا ذکر 4 حضرت مصلح موعودؓ کی توقع سے زیادہ وقف جدید کے وعدے اور معلمین کے لیے زیادہ مراکز کا مہیا ہونا 998 پاکستان میں معلمین کی ٹھوس تعلیم کا انتظام 999 معلمین سے وابستہ توقعات سے بہتر نتائج کا ظہور 1001 کی تباہی ملاں کی سرشت اسلام کی سرشت نہیں ملائکہ افرشتے ملائکہ کے استغفار سے مراد ملائیشیا معلمین کو میدان عمل میں بھیجنے کے حوالہ سے لائحہ عمل 1003 ملک بدری ملک بدر کرنے سے مراد ملکہ سبا حضرت سلیمان کا اس سے امتحان لینا ملفوظات منارة المسيح 148 847 53 مغربی بیروت مغربی پاکستان مغربی جرمنی مغفرت گنہگاروں کی مغفرت کے بارہ میں خدا کا طریق 493 ہر جگہ مغفرت اصلاح کا موجب نہیں ہوتی 493 مناظرہ خدا کا بار بار شرارت کرنے والوں سے مغفرت کا سلوک 573 مناظر میں برجستہ جواب دینے والے صحابہ حضرت اقدس 973 منافق منافقین کا بات اس طرح کرنا کہ فتنہ پیدا ہو 722 حضرت منشی اروڑے خان صاحب 354,355 حضرت منشی ظفر احمد صاحب 354,355 933 782 28,2974,85,477,570 مقام محمود مقام محمود سے مراد مکر مکر اور تفکر میں فرق
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 منعم علیہم گروہ قرآن میں مذکور منعم علیہم کے مطالعہ کی تلقین منعم علیہم سے مذاق اور انہیں پاگل کہنے کا سبب وہ انعام یافتہ جن کے رستہ پر چلنے کی قرآن نے ہمیں 287 288 53 حضرت موسی کی مدین کی طرف ہجرت 352,495 سارے قرآن میں فرعون کے ساتھ مکالمہ میں حضرت موسیٰ کا ذکر ہے 392 حضرت موسی " پر ایمان لانے والے ساحروں کی دعا 445 ہدایت کی ہے انعام تافتہ ہونے کے باوجود ان کی زندگیاں مشقتوں اور تلخیوں میں گزریں 292 305 حضرت موسی کی دیدار الہی والی قرآنی دعا حضرت موسیٰ کے ماننے والوں کی دعا جو بچھڑا بنانے کے بعد شرمندہ ہوئے منعم علیہم گروہ نے دعاؤں کے ذریعہ مشکل راہوں کو طے کیا 327 حضرت موسی کی دعاؤں کی وجہ سے فرعون کی قوم پر 446 447 منعم علیہم نے اپنی اولا دوں کے لیے بہت دعائیں کیں 383 آنے والے 9 عذاب فرعون سے مناظرہ 776,777 871 منوسمرتی 179 حضرت موسیٰ" کے خسر کے متعلق وضاحت 887 صاحبزادہ مرز امنیر احمد 842 مولوی منیر الدین شمس 168 منیر احمد جاوید موز و جب آپ کی والدہ نے وحی کے مطابق آپ کو لہروں میں بہایا تو آپ کی بہن نے پیچھا کیا، اس میں سبق 921,923 651 | موصل 406 موسم موسموں کی تبدیلی کا زندگی پر اثر حضرت موسیٰ علیہ السلام 401 581,602,603 244 حضرت موسیٰ کی قرآن کریم میں مذکور دعائیں 272,336,390,446,450,491,494,495 حضرت موسی کی ملک بدری 343 موعظه حسنه موعظہ حسنہ سے مراد موعظہ حسنہ کی تعریف موعظه سینه موعظہ سیدہ کی تعریف مومن مومن کی فراست سے ڈرو 877 878 879 698 حضرت موسیٰ کا جادوگروں سے مقابلہ اور جادوگروں وہ اندھیرے جن کا مومن کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے 698 کا ایمان لانا اور ان کی دعا 344 مومن کی سادگی کی کیفت حضرت موسیٰ کے بالمقابل جادوگروں کے ایمان لانے مومن کوند برفی الآیات کی تلقین کے بعد ثابت قدمی 345 حضرت موسیٰ کی دعاؤں کا ایک خاص انداز ہے 346 حضرت موسی " پر ایمان لانے والوں کی قرآنی دعا 350 مومن کے وقت کی بڑی قیمت ہے.فضول کاموں سے اسے بچنا چاہئے مومن کی زندگی قید خانہ اس کی وضاحت حضرت موسی کو ماننے والے لوگوں کی کمزور حالت 351 مومن کی غفلتوں پر خدا کا سلوک 722 784 955 986 1008,1009
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 مهمان نوازی 54 ناصر باغ ( گروس گیراؤ جرمنی ) 395,701 مہمان نوازی کے حوالہ سے عہد یداران کو ہدایات 756,755 ناگا ساکی 170,612 میاں محمد لکھو کے خواجہ میر درد میونخ 874 896 797 نائیجیریا 213,370,814,863 امریکی پشت پناہی کے باعث عیسائیوں کی طرف سے نائیجیریا میں فسادات نبی انبیاء کی دعاؤں کی کیفیت 823 ناروے 13,245,265,395,723,724,790 813,861,862,1014 271 اپنی نیکی کے حوالہ سے کسی نبی نے کبھی دعا نہیں کی 272 امیر صاحب ناروے کا ناروے کے احمدیوں کی وجہ سے قرآن سے ثابت کہ ہر جگہ خدا نے ہر جگہ رسول بھیجے 286 ٹھوکر لگنے کے مقام تک پہنچنا ناروے کی جماعت پر خلیفہ وقت کا حسن ظن 732,733 721 انبیاء کے قوموں پر گواہ بنائے جانے کی حکمت انبیاء کی قرآنی دعائیں 328 3920374 ناروے کی جماعت میں مسائل اور سرکشیاں 721,722 یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی خدا کی کھلی نافرمانی کرے 407 صدر ناصر 102,103,146 نبی کے اندر بیک وقت سارے مراتب ہوتے ہیں 465 گزشتہ انبیاء کے تقدس کے قیام کے حوالہ سے قرآن کریم صدر ناصر کا نہر سویز کو قومیانے کا فیصلہ اور اس کا پس منظر 101 صدر ناصر کو مٹانے کے لیے مصر پر مظالم حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث 145 521 کا احسان 466 وقت کے نبی کی مخالفت پر قوم نا پاک حملے کرتی ہے 470 انبیاء کو حکم نہیں کہ وہ اپنے ان والدین کے لئے دعا کریں اپنے وقت میں وقف جدید سے متعلق بچوں کے چندوں جن کے متعلق مشرک ہونے کا احتمال ہو 15 انبیاء کا خدا کے پیغام پہنچانے میں حد کرنا اور بددعا میں میں زیادہ دلچسپی لیتے.اس کی حکمت حضرت خلیفہ ثالث فرمایا کرتے تھے اگلی صدی توحید کی جلدی نہ کرنا 136 525 574 انبیاء کے منکرین کا ایک جیسا رویہ اور نشان کا مطالبہ 602 عظمت اور قیام اور نافذ کرنے کی صدی ہے حضرت خلیفہ ثالث نے ایک دفعہ آخری جمعرات کو روزہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق کرنے والوں کی تحریک صد سالہ جو بلی کی کامیابی کے سلسلہ میں فرمائی 709 کے ساری کوششیں ضائع ہوتی ہیں بعض کا کہنا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث مولوی ابوالعطاء نجات صرف ظاہری نجات نہیں بلکہ بدیوں سے روحانی کی باتیں سن کر ھمارے خلاف ہو گئے ایک جلسہ پر آپ نے احمدیوں کی تعداد کا تخمینہ ایک کروڑ بتایا 840 انبیاء کو دیا جانے والا سلطان نصیر جماعت کی تعداد کے متعلق اندازوں کے محرکات 842 انبیاء کو دی جانے والی فراست 715 نجات کی بڑی اہمیت ہے 712 452 912 944
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 نشونما نش زندگی کے ہر ذرہ میں نشو نما کی صلاحیت ہے 821 55 نکاح نشونما کا مضمون ساری کائنات کی ترقی کا خلاصہ ہے 891 نماز نکاح کے موقع پر سچ بلکہ قول سدید سے کام لینے کی تلقین 653 جولوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن نماز کے مطالب ،فلسفہ کو Drug Addiction اور Evil Addiction ایک ہی نہیں جانتے ان کی نماز ایک جنین کی طرح ہے چیز کے دو نام ہیں نصیحت نصیحت کا اثر اور اس کی وجوہات قرآن میں بار بار نصیحت کی ذکر کی وجہ نصیحت کی ضرورت کا سبب 881 894 906 907 نصیحت کرنے کے بعد اس کے اثر کو دیکھنے کی طرف توجہ دیں 922 نظام نظام جماعت ایک لاثانی نظام ہے اس کی ناقدری نہ کریں 730 نظام خلافت کی صورت میں جماعت کے اندر فتنہ کو اٹھنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جانا ایک احسان ہے نظام جماعت میں دو چیزوں کی ضرورت 739 زندگی کے حصول کے لیے نماز پڑھیں 7 8 8 نماز کا ترجمہ، اس کے مطالب کا آنا ضروری ہے سورۃ فاتحہ کے ذریعہ نما ز لذت حاصل کرنے کا طریق 233 وہ دعا جو نماز کے لیے ساری عمر جاری رکھنی چاہیے 368 نماز میں سورۃ فاتحہ سے استفادہ پر خطبات کا سلسلہ 558 پانچ وقت کی نماز سے استفادہ کے لیے خطبات کا سلسلہ 617 نماز کوسنوار کر ادا کرنے کے حوالہ سے ہدایات اور مسائل نماز کا ذکر اللہ اکبر کا حرکت سے تعلق سبحان ربی العظیم کے مختلف معانی اور رکوع میں رکھنے کی حکمت 617 617 (1) اخلاص کے معیار کی بلندی (2) کارکنوں کی محنت اور نظم وضبط کی بہتری مرز انظام دین نفاق 859 501,502 سمع اللہ لمن حمدہ کو رکوع کے بعد رکھنے کی حکمت سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ کہنے میں حکمت 618,619 622 624 سجدہ کی حالت میں بعض اہل مغرب کا تمسخر اڑانا 624 اس اعتراض کار د جو کہتے ہیں کہ اسلام کی عبادتیں بہت منافقت کو منافقت اس طرح قرار دینا جس کے نتیجہ میں بور کرنے والی ہیں تکلیف پہنچے یہ جائز نہیں نفس 696 التحیات کی وضاحت التحیات کا مطلب نفس کا بت سب سے بڑا بت ہے جو شرک میں مبتلا کرنے نماز کا مالی اور بدنی قربانیوں کا سبق سکھانا والا ہے اپنے نفس پر تنقید سے اصلاح نفل چھوٹی عمر میں نفلوں کی عادت کا فائدہ 248 693 279 پانچ نمازوں میں التحیات رکھنے کی وجہ دو نمازوں کے درمیان نیکی کی تعلیم درود شریف کی تشریح نماز میں لذت کے حصول کا طریق 626 627 631 632 633 633 638 639
56 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 جلسہ کی وجہ سے مغرب اور عشاء کی نمازوں کے جمع کر نیتوں کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ بعض دفعہ انسان کے ادا کرنے کا اعلان 692 800 801 665 677 1000,1004 خود واقف نہیں ہوتا نیت کے یا عقل کے فتور کی وجہ سے کفر تک پہنچنا نیت کے فتور کی سزا خدا دے گا سب سے بڑا فتور نیتوں کا فتور ہے نیتوں میں فتور کا ایک واقعہ نیپال نیکی 664 765 781 223 778 نبی کریم کا اعلیٰ درجہ کی نماز کو احسان قرار دینا نواز شریف حضرت نواس بن سمعان حضرت نوح علیہ السلام نور حضرت نوح کی قرآن کریم میں مذکور دعائیں 357,358,369,423,424,453,530 حضرت نوع کی دعا کا جماعت احمدیہ سے تعلق 534 نیکی اور بدی کی جڑ کا پوشیدہ ہونا اور ان میں فرق 665 حضرت نوع کا گریہ وزاری کے ساتھ قوم کو پیغام حق پہنچانا 534 صرف نیکیوں کی توفیق نہیں بلکہ خدا استباق فی الخیرات اس زمانہ کا نوح حضرت مسیح موعود ، اس کی کشتی میں بیٹھیں 534 کی توفیق عطا فرمائے حضرت نوح کی درد ناک دعا طوفان نوح کی حقیقت نور کے سامنے اور دائیں بھاگنے سے مراد نور کس حالت کا نام ہے؟ اور اس کی وضاحت 543 547 540,541 541 ہمارا ہر قدم ہجرت میں نیکیوں کی طرف ہو نیکی کی تعریف میں ہمیشہ رہنا شامل ہے اللہ کے حضور وہی نیکیاں قبول ہوں گی جو تحائف کا رنگ رکھتی ہوں گی بد اور نیکی میں نشونما کی صلاحیت خدا کے نور کے حصول کیلئے باطنی نور بڑھانے کی ضرورت 542 نینوا نور کے لیے نور کی ضرورت 680 723 297 533 659 634 821 4090406 نینوا کی بستی کے رہنے والوں کا عذاب کی خبر پر رد عمل 410 557 597 53,72,557 507,557 455 نور بولستاد (امیر ناروے) نیوجرسی حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفہ مسیح الاول 973 نیوزی لینڈ لاہوریوں کے فتنہ کے وقت جلالی خطاب 731 نیویارک نومبائعین نو مبائعین کے ساتھ لگ کر ان کی کمزوریاں دور کریں 333 واشنگٹن ڈی سی نیت وادی نمله نیت کا بہت گہرا تعلق سچی توبہ اور آخری نجات سے ہے 534 ہر عمل کی جڑ نیت ہے 646 والدین توحید کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کے برتاؤ کی تعلیم 374 651 نیت کا فتور سب سے خطرناک چیز ہے
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 57 ماں کی طرف سے اپنے قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک حسن اتفاق کہ وقف جدید کا آغاز 27 دسمبر کو جمعہ کے روز کی تعلیم والدین سے حسن سلوک کی دعا وائز مین ورسائے وز ڈمن اویز من شرارتوں کے ساتھ وساوس کا گہرا تعلق و سیم جسوال وعید وفا تو بہ واستغفار پر خدا کے وعید کاٹلنا وفا ہمیشہ حسن اخلاق سے پیدا ہوتی ہے وفاق (روز نامه اخبار ) وقف حقیقی آزادی وقف میں ہے وقف جدید وقف جدید کے 34 ویں سال کا اعلان 480 523 125 176 125 429 993 410 658 848,849 443 ایک لمبے عرصہ تک وقف جدید کا بیعتیں کروانے میں اول رہنا2 وقف جدید کے آغاز کے سال تھر پر امریکی عیسائیوں کی یلغار 2 1 حضرت مصلح موعود نے کیا اور آج 34 سال بعد پھر 27 دسمبر کو جمعہ کا دن ہے وقف جدید کے 35 ویں سال کا اعلان 997 997 حضرت مصلح موعودؓ کی توقع سے زیادہ وقف جدید کے وعدے اور معلمین کے لیے زیادہ مراکز کا مہیا ہونا 998 وقف جدید کے متعلق وہ نقشہ جو حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں تھا 998 وقف جدید کے پہلے مر حضرت خلیفہ المسح الرابع 998 وقف جدید کے معلمین کی دو قسمیں وقف جدید کا بین الاقوامی ہونا وقف جدید کے ذریعہ حضرت مصلح موعود کی طر ز تبلیغ اور طرز تربیت 999 1005 1005 1013 وقف جدید اور دیگر چندوں کے حوالہ سے ہندوستان کی جماعت کو آگے بڑھنے کی تلقین وقف جدید میں پوزیشن حاصل کرنے والے ممالک 1013,1014 پہلا سال جب وقف جدید کی آمد ایک کروڑ روپے ہوئی 1014 وقف نو کے لیے لوگوں کے بچے کے حصول کے دعائیہ وقف نو خطوط اور حضرت زکریا کی دعا ولتكبر وقف جدید کے ذریعہ جائزہ سے اسلامی تاریخ کے ایک ویتنام اوینام 8 324 557 25,46,195,212 134,135 پہلو سے ایک المیہ کی سمجھ آنا ویتنام کی جنگ میں امریکی مظالم وقف جدید کے دنیا کے ہر ملک میں جاری ہونے کی پیشگوئی 12 ویتنام کی جنگ میں امریکہ کا تکبر پارہ پارہ ہوا اس نا کامی وقف جدید میں شاملین کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ دیں 16 کے داغ کو مٹانے کے لیے عراق پر حملہ وقف جدید کے تحت حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کے دورے 842 ویتنام میں امریکیوں کا نقصان وقف جدید کے چندہ دہندگان کے حوالہ سے جاپان کا ریکارڈ 866 ویتنام کی ذلت کا بھوت امریکہ پر سوار وقف جدید کے آغاز میں معمولی چندے کی تحریک کی گئی 997 دینام جنگ کا آغا ز اور اس کی وجوہات 161 194 196 161,162
619 72,797 2 ہمالہ ہمبرگ ہندو تھر کے علاقہ میں اچھوت ہندؤوں کی کثرت 58 ہندوستان 11,12,13,21,23,103,113,212 286,475,650,810,813,840,860,970,980 1013,1014,1015 5,6 ہندوستان میں وقف جدید کے اجراء پر سب سے زیادہ کامیابی راجستان کے علاقہ میں ہوئی جنگ عظیم کے وقت دیہات سے لوگوں کو فوج کے لیے اکٹھا کیا گیا 162 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ویٹنام پر امریکی بمباری اور جنگ عظیم کے 6 سالوں کی بمباری کا تناسب ویٹنام اور عراق کی جنگ میں خرچ کے حوالہ سے امریکہ کا طریق وینام میں روس کا ان کی مدد کرنا وید و بیگوور 164 260 961 557 حضرت ہاجرہ ہاروت 308 221 حضرت ہارون علیہ السلام ا 392,451 حضرت موسیٰ کا حضرت ہارون کو اپنے بعد جانشین بنانا اور ہندوستان میں وقف جدید کے حوالہ سے کمزوری قوم کا چھڑے کو معبود بنانا ہالینڈ ہائیڈل برگ ہٹلر ہجرت ہجرت سے متعلق قرآنی دعا 345 13,14,813,968,1014 797 94,147,148,153,169 424 ہندوستان کی جماعت کو حکومت سے بیرونی مبلغین کی اجازت کے حصول کی طرف توجہ 826 998 1000 ہندوستانی احمدیوں کی اسلام کی خاطر جانی اور مالی قربانیاں 1005 ہندوستان کی جماعت کو اپنے مقام کا جائزہ لینے کی تلقین 1007 ہندوستان کی جماعت کے لیے سعادت 1007 ہنسلو ہیڈرین 265,348,370,373 رومن بادشاہوں کی تاریخ میں اس کے غیر معمولی مقام اس کی سلطنت کی وسعت اور شمال میں اس کا ایک دیوار بنانا 221 221 44,178,612 221 219 222 یہود کی بغاوت کو کچلنا ہیروشیما ہیکل سلیمانی ہیکل سلیمانی کی دودفعہ عمیر اور دو دفعہ تباہی 953 640 901 46,93 166 ہدایت ہدایت کا بہترین طریق چوہدری ہدایت اللہ بنگوی وفات پر ذکر خیر ہوا ہواؤں کا سفروں میں محمد ہونا ہلاکوخان ہلاکو خان کا عراق پر حملہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 ی یا جوج ماجوج یا جوج ماجوج کے متعلق پیشگوئی یا سرفات 224 153 59 مغرب کا یہود کو مسلمانوں کے خلاف کرنا مگر ایک وقت یہودان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے یہود کے تین قبائل کا بار بار معاہدہ شکنی کر کے آنحضرت 140 اور مسلمانوں سے دھوکا کرنا 153 سپین میں 800 سال کی مسلم حکومت میں کسی یہودی پر ظلم یاسر عرفات کا یونائیٹڈ نیشنز کے اجلاس میں اسرائیل کو تسلیم نہیں ہوا کرنا اور اس کے بالمقابل اسرائیل کا جواب 154-153 تمام دنیا کے مظالم پر یہود کو فلسطین میں پناہ ملی یہود کے دو مرتبہ فساد کرنے کی پیشگوئی اور وہ پورے ہو يافا یافه حضرت یحییٰ علیہ السلام 4080406 148 977 389 چکے ہیں 158 160 218,219 یہود سے ایک تیسر اوعدہ جو قرآن میں کیا گیا ہے 219 یہود کے فسادوں کے نتیجہ میں دومرتبہ جو انہیں سزادی گئی حضرت یحی شہید ہوئے یحیی بن سعید انصاری یروشلم یمن 646 97,220,221 یہود خیبر کے قلعہ کی فتح کے وقت یہود سے سختی کی وجہ 551 17 اس کا ذکر اہل فارس کی مدد سے یہود کا دوبارہ ارخ مقدس پر غلبہ حاصل کرنا Hadrian (ہیڈرین) کا یہود کی بغاوت کو کچلنا نبوکد نظر کا یہود کو قید کر کے ساتھ لے جانا جرمنی میں یہود پر مظالم پر رحم کھاتے ہوئے خدا کا انہیں غلبہ عطا کرنا 220 221 221 220 222,223 1897 میں یہود کی ورلڈ کونسل کا قیام اور اس کا ڈیکلریشن 81 یہود کے بحیثیت قوم ہر قوم سے انصاف بلکہ احسان کا برطانیہ کا یہود سے عربوں کے دل میں جگہ عطا کرنے کا وعدہ 62 معاملہ اپنانے پر خدا بھی ان سے احسان کا سلوک کرے گا 225 103 پاک تبدیلی کے حوالہ سے یہود کو نصائح یہود کی توسیع پسندی کی جنگیں وہ حقوق جو یہود کو سیاسی طور پر دنیا میں ملے ہوئے ہیں 107 یہود کو مغضوب ٹھہرانے کے باجود ساتھ ساتھ بعض استثناء دنیا کے مختلف ممالک میں یہود کی آبادی دنیا میں یہود کے تسلط کے منصوبہ سے خدا کا حضرت مسیح موعود کو آگاہ کرنا 112 118 بھی کرنا قرآن میں یہود کی تعریف بھی اور انہیں غیر المغضوب علیہم بھی قرار یا گیا.اس کی وجہ یہود او یٹنس کی سرگرمیاں صلیبی جنگوں کے وقت صدقہ کے طور پر یہود پر مظالم 178 یہود او یٹنس Natsi جرمنی کا یہود پر ظلم 139 مسلمانوں نے اپنے دور میں یہود پر کبھی ظلم نہیں کیا 139 یہ عیسائیوں میں سب سے زیادہ متعصب ہیں 225 258 285 939 939
اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 635 60 بری قوتوں کا یا نا ئیٹڈ نیشنز پر قبضہ 157 یوکے 14,72,147,176,177,199,200,371 395,640,650,678,789,797,815,816,891 موجودہ یونائیٹڈ نیشنز میں کئی اندرونی تضادات ہیں 215 غلامی کو جاری رکھنے کا ادارہ, یہ زندہ رہنے کے لائق نہیں 218 900,902,915,1006,1007 | حضرت یونس علیہ السلام یو کے (uk) کے جلسہ میں شامل ہونے والے لوگ کئی قسم قرآن میں حضرت یونس کی مذکور دعا کی نیتوں کے ہوتے ہیں پاکستان سے آنے والی وہ عورتیں جو یو کے کے جلسہ میں کپڑوں کی گٹھڑیاں لے کر آتی ہیں یورپ 670 673 112,136,137,139 406,408 405 406 408 حضرت یونس کے حالات بائبل و قرآن سے حضرت یونس کے مچھلی کے پیٹ میں تین دن رہنے ذوالنون اور صاحب الحوت والے واقعہ کے متعلق وضاحت 408,409 Black Death (طاعون ) کے دوران رد بلالے طور حضرت یونس کے سمندر میں پھینکے جانے والا واقعہ 411 پر یہود کا صدقہ 138 وہ غلطی جو حضرت یونس سے سرزد ہوئی یورپ میں تین مختلف مواقع پر یہود سے انتقام 138,139 حضرت یونس کی معافی کی وجہ حضرت یونس اور حضرت عیسی کے تین دن رات والے 412 413 Black Death یعنی طاعون کے حملہ کے وقت یہود پر مظالم یوز آسف حضرت یوسف علیہ السلام آپ کی قید خانہ کے متعلق دعا اور اس کا پورا ہونا یوسف یوسف نجار یوگوسلاویہ یونا یکٹڈ سٹیٹس یونا بیٹر سلام یونائیٹڈ نیشنز 414 واقعہ کا ذکر اور اس کے متعلق وضاحت یونین آف سویت سوشلسٹ ریپبلک 836,829 159,160 963 Aborginies 22 385 Adward Heith 79 361 Anthony Eden 102,103 1011 April Glaspie 122 Aviation Week and Space 940 Technocology 123 806 Balfour 84,85,95,104,125,126,127 Bavin 106 115,557 Bovillon 138 993 Britain 45 Canadian Cumenical News 122 Chamber Lane 96 Cheney 123 63 کیا یونائیٹڈ نیشنز کو یہ حق حاصل ہے کہ دنیا میں ایک نیا ملک پیدا کرے؟
61 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 Lord Curzon 126 Colerigde 146 Lord Sydenham 127 David Ben Gorion 146,147,161 Making Of Israel 106,146 David Gilmour 148,149 Marx 627 Diaspora 220 Mc Mahon 85 Dispossessed, the Ordeal of the Menachem Begin 97,106 Palestinians 148,149 Michael Dugan 122 Don Duixot 167,170 Dr.Nanum Goldman 153 Dugan 123 Nunspeet 373 Edward Grey 133 Nutting 102 Egypt 74,101,102,103 Paramaribo 458 Frank Kellog 177 Perez De Cuellar 30 Galilee 149 President Secret Wars Covert Ghana 959 Operation 24 Great Contemporaries 133 Protocoles of the Elders of the Zion81,118 Godfrey 138 Protons 821 Grey 132,133 Ramesess the Second 575 Gulf 95 Red Indians 21,22,23 Harrisburg Patriot News 194 Richard (the Lion Hearted) 137,139 Henry Ford 118 Richard B.Cheney 122 James Akins 121 Rome 536,899 James Cameron 106 Ronald Reagan 123 Jordin 109 Rothchaild 95 Judah 221 Lord Roth Shaild 84,85 Pompery 221 Rothchild 95 Kim Rosvelt 99,100 Saddam 122,123,129 King 2 468 Saudi Arabia 74,122,129 Kubla Khan 146 Secret Wars of of President 24 Kuwait 122,129 Sixlus iv 159 Lady Mecbeth 114,115 Socialist Standard 129 Levi Eshkol 151 Soloman 467 Litani River 152 Solomon the Magnificent 137 Liyod George 133
62 اشاریہ خطبات طاہر جلد 10 U.K.245,246348,395,858,860,861 Sun Clare 919 United Kingdom 993,1006 Syria 76 United Nations 20,79 Syrus 221 United States 155,596 Tenison 785 U.P 156,157 Terrorism 107 U.S.S.R 810,829,830,836,837 The Time 123 Versalles 176 The Originas and Evolution of the Vietnam 194 Palestine Problem 127,128 Wilson 128 Theodore Argand 152 Windmill 169 Theodor Herzl 85,125,137,139 Winston S.Churchill 133 Tom King 195 Weizmann 125 Tony Ben 67 Water Flowing Eastwards 82 Tranidad 475,489 Turkey 76