Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ ۶۱۹۸۲ فرمودة سید نا حضرت خلیفة المسیح الرابع : الرابع حمد الله تعالى جلد اوّل
نام کتاب اشاعت خطبات طاہر ( جلداول) طبع اول (جولائی 2004ء) طبع دوم (دسمبر 2004ء) قیمت 150 روپے
صفحہ نمبر 1 9 21 24 31 37 37 47 59 نمبر شمار خطبه فرموده 1 ۱۱/جون ۱۹۸۲ء فہرست خطبات عنوان بیعت کی ضرورت اور فلاسفی ۱۸ / جون ۱۹۸۳ء عالم الغیب والشھادۃ کی تشریح اور استحکام خلافت احمدیہ کا پر شوکت وعدہ ۳ ۲۵/ جون ۱۹۸۳ء م ۲ جولائی ۱۹۸۳ء ۶ جماعت کی عظمت و طاقت بلند تقوی اختیار کرنے میں ہے تمام خلفاء کے الگ الگ رنگ ور جولائی ۱۹۸۳ء گزشتہ مالی سال میں خدائی افضال اور جماعتی قربانی کی برکت ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۸۳ء ۲۳ جولائی ۱۹۸۳ء | قبولیت دعا نیز جمعۃ الوداع کی حقیقت انفاق فی سبیل اللہ کرتے وقت تقویٰ سے کام لیں ۳۰/ جولائی ۱۹۸۳ء تمام احمد یوں کا یونیفارم لباس تقوی ہے ۶ /اگست ۱۹۸۳ء اللہ اپنے آپ کو بصائر سے ظاہر کرتا ہے آنحضرت تمام بصیرتوں کے منبع ہیں ۱۳ / اگست ۱۹۸۳ء فتنہ دجال سے بچنے کی تلقین اور اس کا طریق 73 91 103 ۲۰ را گست ۱۹۸۳ ء اللہ کی عبادت کا حق ادا کریں اور الیس الله بکاف عبدہ کا فیض اٹھاتے رہیں 107 یورپ کا اخلاقی انحطاط اور جماعت احمدیہ کی ذمہ واری ۳ ستمبر ۱۹۸۳ء ۱۰رستمبر ۱۹۸۳۵ء مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر تاریخی خطبہ 131 135 149 157 171 185 201 ۱۷ ستمبر ۱۹۸۳ء جماعت برطانیہ کی مہمان نوازی کا تذکرہ اور مہمانوں کو قیمتی نصائح ۲۴ ستمبر ۱۹۸۳ء مغربی معاشرے میں احمدیوں کی ذمہ داریاں یکم را کتوبر ۱۹۸۳ء نئی زمین اور نئے آسمان کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۳ء اطاعت امیر ، مربیان کی عزت نیز امراء کے فرائض کا بیان ۱۵/اکتوبر ۱۹۸۳ء روشنی اور اندھیرے کا طبعی نظام اور سورۃ الفلق کی تفسیر १ 1.11 = ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 لا ΙΔ
نمبر شمار خطبه جمعه ۱۹ ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۳ء ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ₹ ۲۴ ۲۵ ۲۶ Σ عنوان لعب ولہو ، زینت، تفاخر اور تکاثر کو غالب نہ آنے دیں ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۳ء سورۃ فاتحہ کے وسیع مضامین کا تذکرہ اور بیوت الحمد سکیم کا اعلان ۵/ نومبر ۱۹۸۳ء تحریک جدید کی اہمیت اور اس کا چندہ بڑھانے کی طرف توجہ ۱۲/ نومبر ۱۹۸۳ء معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد اور ہماری ذمہ داریاں ۱۹/ نومبر ۱۹۸۳ء نمازوں کے حقوق و حفاظت اور سر براہ خانہ و عہدے داروں کا فرض ۲۶ نومبر ۱۹۸۳ء ۳/دسمبر ۱۹۸۳ء ۱۰ر دسمبر ۱۹۸۳ء ذکر الہی.طمانیت قلب حاصل کرنے کا قرآنی فلسفہ صد سالہ جوبلی منصوبہ اور ہماری ذمہ داریاں جلسہ سالانہ کے حقوق کی ادئیگی کی طرف توجہ صفحہ نمبر 215 231 251 263 279 291 303 323 335 347 359 ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۱۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء جلسہ سالانہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے نصائح اور احباب کے اخلاص کا تذکرہ ۲۴ دسمبر ۱۹۸۳ء مہمانوں کے حقوق اور کارکنان جلسہ کو نصائح ۳۱ دسمبر ۱۹۸۳ء جلسہ سالانہ کا کامیاب انعقاد، اسلامی پردہ کی تلقین اور وقف جدید کے نئے سال کا اعلان نوٹ: مؤرخہ 27 اگست 1982ء کو بوجہ سفر نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی.
خطبات طاہر جلد اول 1 خطبہ جمعہ اا/ جون ۱۹۸۲ء خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلا خطبہ جمعہ بیعت کی ضرورت اور فلاسفی (خطبه جمعه فرموده ۱۱ار جون ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ حشر کی آیت کریمہ : هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ) (آیت: ۲۳) کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا: حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا جب عقد ثانی ہوا، عجیب کیفیت تھی چہرہ کی ، بیٹھے ہوئے سوچ رہے تھے.ایک سکینت بھی تھی اور گہرا غم بھی.اور مجھے فرمایا کہ طاہر ! میرے دل میں دودھارے ایک ساتھ بہہ رہے ہیں.ایک تسکین کا دھارا ہے جو خدا نے عطا فرمایا ہے اور ایک غم کا دھارا ہے جو نا قابل بیان ہے لیکن کامل صلح کے ساتھ ، ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر دونوں دھارے بہتے چلے جارہے ہیں، بظا ہر ناممکن بات نظر آتی ہے لیکن میرے دل میں یہی کیفیت ہے.وہی کیفیت آج میرے دل کی ہے ایک طرف غم کا دھارا ہے.میں خلافت کا ایک ادنیٰ غلام تھا.اس اسٹیج پر قدم رکھتے ہوئے میرے دل میں خوف پیدا ہوا.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہوا گریہ وزاری کرتا ہوا سٹیج پر آج آپ کے سامنے کھڑا ہوں.
خطبات طاہر جلد اول 2 خطبہ جمعہ ۱۱/ جون ۱۹۸۲ء حضور کی یاد دل سے محو ہونے والی یاد نہیں.اس کے تذکرے انشاء اللہ تعالیٰ جاری رہیں گے.آخری بیماری کا ایک واقعہ میں صرف آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وفات سے غالبا ایک یا دو دن پہلے آپا طاہرہ کو حضور نے فرمایا کہ گزشتہ چار دنوں میں میری اپنے رب سے بہت باتیں ہوئی ہیں.میں نے اپنے رب سے عرض کیا کہ اے میرے اللہ ! اگر تو مجھے بلانے ہی میں راضی ہے تو میں راضی ہوں.مجھے کوئی تر ڈ نہیں میں ہر وقت تیرے حضور حاضر بیٹھا ہوں ، لیکن اگر تیری رضا یہ اجازت دے کہ جو کام میں نے شروع کر رکھے ہیں، ان کی تکمیل اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تو یہ تیری عطا ہے.b خدا کی تقدیر جس طرح راضی تھی اور جس طرح آپ نے سر تسلیم خم کیا آج ساری جماعت اس تقدیر کے حضور تسلیم خم کر رہی ہے.اللہ ہمارے صبر اور ہماری رضا میں اور بھی برکت دے اور ہمیشہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہنا سیکھ لیں کیونکہ خلافت کے قیام کا مدعا توحید کا قیام ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اہل.ایسا کہ جو کبھی ٹل نہیں سکتا، زائل نہیں ہوسکتا.اس میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئے گی.يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا (نور:۵۶) کہ خلافت کا انعام یعنی آخری پھل تمہیں یہ عطا کیا جائے گا کہ میری عبادت کرو گے، میرا کوئی شریک نہیں ٹھہراؤ گے، کامل تو حید کے ساتھ تم میری عبادت کرتے چلے جاؤ گے اور میرے حمد وثناء کے گیت گایا کرو گے.یہ وہ آخری جنت کا وعدہ ہے جو جماعت احمدیہ سے کیا گیا ہے اور مجھے یقین ہے اور جو نظارے ہم نے دیکھے ہیں اور جن کے نتیجہ میں غم کے دھاروں کے علاوہ حمد کے دھارے بھی ساتھ بہہ رہے ہیں اور شکر کے دھارے بھی ساتھ ہی بہہ رہے ہیں ایسے حیرت انگیز ہیں کہ آج دنیا میں کوئی قوم اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتی جو جماعت احمدیہ کا مقام اس دنیا میں ہے وہ کسی اور جماعت کا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک زندہ معجزہ جو ہر دوسرے اعتراض پر ، ہر مخالفت پر غالب آنے والا اور ہمیشہ غالب آنے والا معجزہ ہے، وہ جماعت احمدیہ کا قیام ہے اور جماعت احمدیہ کی تربیت ہے اور جماعت احمدیہ کے رنگ ڈھنگ ہیں ، جماعت احمدیہ کی ادائیں
خطبات طاہر جلد اول 3 خطبہ جمعہ اا/ جون ۱۹۸۲ء ہیں.ایسی ادا ئیں تو دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آ سکتیں.کوئی مثال نہیں اس جماعت کی.ایسا عشق ، ایسی محبت ایسی وابستگی کہ دیکھ کر رشک آتا ہے.محبت ہونے کے باوجود رشک آتا ہے.ڈر لگتا ہے کہ ہم سے زیادہ نہ پیار کر رہے ہوں یہ لوگ.یہ کیفیت ایک ایسی کیفیت ہے کہ فی الحقیقت دنیا کے پردہ میں کوئی اس کی مثال چھوڑ اس کے شائبہ کی بھی کوئی مثال نظر نہیں آسکتی ، جماعت اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو حید پر قائم ہو چکی ہے.ہر فتنے سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کی سرشت میں وہ باتیں رکھ دی ہیں کہ جن کو دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.فتنوں سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر کرنا امتثال امر کے طور پر کیا جاتا ہے خوف کے طور پر نہیں.کیونکہ خوف زائل کرنے کا ہمیں اختیار بھی کوئی نہیں.وہ خلافت میں وعدہ ہے اللہ کی طرف سے وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا (نور:۵۶) وہی خوف دور کیا کرتا ہے.بندہ کی طاقت نہیں ہے.ہاں امتثال امر میں اللہ کی تقدیر کے تابع رہتے ہوئے تدبیر کو اختیار کیا جاتا ہے.اس سے زیادہ اس تدبیر کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی.پس کامل بھروسہ اور کامل تو کل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمد یہ کو بھی ضائع نہیں ہونے دے گا ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والے عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرہ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ و قائم رکھے گا جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِاِذْنِ رَبَّهَا (ایم ۲۲-۲۵) کہ ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی.یہ شجرہ خبیثہ نہیں ہے کہ جس کے دل میں آئے وہ اسے اٹھا کر اسے اکھاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینک دے کوئی آندھی، کوئی ہوا اس (شجرہ طیبہ ) کو اپنے مقام سے ٹلا نہیں سکے گی اور شاخیں آسمان سے اپنے رب سے باتیں کر رہی ہیں اور ایسا درخت نو بہار اور سدا بہار ہے.ایسا عجیب ہے یہ درخت کہ ہمیشہ نو بہار رہتا ہے کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھتا.تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ ہر وقت، ہر آن اپنے رب سے پھل پاتا چلا جاتا ہے اس پر کوئی خزاں کا وقت نہیں آتا اور اللہ کے حکم سے پھل پاتا ہے اس میں نفس کی کوئی ملونی شامل نہیں ہوتی.یہ وہ نظارہ تھا جس کو جماعت احمدیہ نے پچھلے ایک دو دن کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھا
خطبات طاہر جلد اول 4 خطبہ جمعہ اا/ جون ۱۹۸۲ء اپنے دلوں سے محسوس کیا.اور اس نظارہ کو دیکھ کے روحیں سجدہ ریز ہیں خدا کے حضور اور حمد کے ترانے گاتی ہیں.پس دکھ بھی ساتھ تھا اور حمد وشکر بھی ساتھ تھا اور یہ ا کٹھے چلتے رہیں گے بہت دیر تک.لیکن حمد اور شکر کا پہلو ایک ابدی پہلو ہے.وہ ایک لازوال پہلو ہے.وہ کسی شخص کے ساتھ وابستہ نہیں.نہ پہلے کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ تھا، نہ میرے ساتھ ہے نہ آئندہ کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہے وہ منصب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے.وہ ، وہ پہلو ہے جوزندہ و تابندہ ہے.اس پر کبھی موت نہیں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ.ہاں ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ (نور :۵۶) کہ دیکھو اللہ تم سے وعدہ تو کرتا ہے کہ تمہیں اپنا خلیفہ بنائے گا زمین میں لیکن کچھ تم پر بھی ذمہ داریاں ڈالتا ہے.تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح بجالاتے ہیں.پس اگر نیکی کے اوپر جماعت قائم رہی ، اور ہماری دعا ہے اور ہمیشہ ہماری کوشش رہے گی کہ ہمیشہ ہمیش کیلئے یہ جماعت نیکی پر ہی قائم رہے، صبر کے ساتھ اور وفا کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ وفا کرتا چلا جائے گا اور خلافت احمد یہ اپنی پوری شان کے ساتھ شجرہ طیبہ بن کر ایسے درخت کی طرح لہلہاتی رہے گی جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں.اس کے ساتھ ہی ایک اور پہلو کی طرف بھی میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.جب کوئی وصال کا واقعہ ہوتا ہے یا وداع کا واقعہ ہوتا ہے تو لوگ ریزولیوشن پیش کیا کرتے ہیں اور ریزولیوشنز میں لفاظیاں بھی ہوتی ہیں مبالغہ آرائیاں بھی ہوتی ہیں.لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کی روایات کا تعلق ہے، میں نے بہت نظر دوڑا کر دیکھا ہے اور میں یقین کے مقام پر کھڑے ہو کر یہ بات کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو بعض دفعہ مبالغے کا سوال نہیں ، پورے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں ملتے.اور جو بھی جذبات ہوتے ہیں ، بچے جذبات کا اظہار کرنے کی جماعتیں کوشش کرتی ہیں.اس دفعہ بھی یہی کوشش ہوگی.ایک جانے والے کو وداع کہا جائے گا اور ایک آنے والے کو اھلا و سهلا و مرحباً کہ کر پکارا جائے گا.لیکن میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ریز ولیوشنز میں ایک تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمارا ہر قول سچا ہوتا ہے پھر بھی
خطبات طاہر جلد اول 50 خطبہ جمعہ اار جون ۱۹۸۲ء ریزولیوشنز کا یہ رنگ ایک ظاہری سارنگ ہے اور جماعت احمدیہ کی شان اس سے زیادہ کا تقاضا کرتی ہے.ہمیں ریزولیوشنز کچھ اور رنگ کے کرنے چاہئیں اور وہ اس قسم کے ہونے چاہئیں کہ : اے جانے والے! ہم تیری نیک یادوں کو زندہ رکھیں گے.ان تمام نیک کاموں کو پوری وفا کے ساتھ یا پوری ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے چلاتے رہیں گے اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک ان کاموں میں حسن کے رنگ بھرنے کیلئے استعمال کریں گے جو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر تو نے جاری کئے تھے.اور اگر اس دنیا میں تیری روح ان کی تکمیل کے نظاروں سے تسکین نہیں پاسکی تو اے ہمارے جانے والے آقا! اس دنیا میں تیری روح ان کی تکمیل کے نظاروں سے تسکین پائے گی.ہم تجھ سے یہ عہد کرتے ہیں یعنی تیری یاد سے یہ عہد کرتے ہیں اور اصل عہد تو ہمارا اپنے رب سے ہے اور وہی زندہ حقیقت ہے انسان کی کوئی حقیقت نہیں..پس اگر ریزولیوشنز ہوں تو اس عہد کے ساتھ ہوں.اور آنے والے کے ساتھ بھی آپ ریزولیوشنز کے ذریعہ اظہار وفاداری کریں.وہ اس طرح کہ کہیں اے آنے والے! ہم اپنے دلوں سے معصیت اور گناہوں کے چراغ بجھاتے ہیں اور تقویٰ کے چراغ روشن کرتے ہیں اور تجھے اس دل میں اترنے کی دعوت دیتے ہیں جس دل میں اللہ کے تقویٰ کی مشعلیں روشن ہورہی ہیں اور ہم تجھ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ قیام شریعت کی کوشش میں جو اللہ کے فضل کے سوا حاصل نہیں ہوسکتی، دعائیں کرتے ہوئے ہم تیری مدد کریں گے.کیونکہ کوئی ایک ذات اس عظیم الشان کام کا حق ادا نہیں کر سکتی.ہم ایک وجود کی طرح ایک ایسے وجود کی طرح کہ خلافت اور جماعت الگ الگ نہ رہیں، ایک دھڑکتے ہوئے دل کی طرح، ایک ہاتھ کی طرح
خطبات طاہر جلد اول 6 خطبہ جمعہ اا/ جون ۱۹۸۲ء اٹھتے اور گرتے ہوئے ایک قدم کی طرح بڑھتے ہوئے ہم تمام نیک کاموں میں ترے ساتھ تعاون کریں گے اور کوشش کریں گے کہ جگہ جگہ خدا کی عبادت کے معیار بلند ہو جائیں.مسجدیں پہلے سے زیادہ آباد نظر آنے لگیں.اللہ کی یاد سے دل زیادہ روشن اور پر نور ہو جائیں.جھگڑے اور فساد مٹ جائیں اور ان کا کوئی نشان باقی نہ رہے.ایک کامل اخوت اور محبت کا وہ نظارہ نظر آئے جو اس دنیا کی جنت کہلا سکتی ہے اور وہ قائم ہونے کے بعد حقیقت میں انگلی دنیا کی جنت کی خواہیں دیکھی جا سکتی ہیں.ہم پوری کوشش کریں گے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو جاری وساری رکھیں ، زندہ رکھیں.جو کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اور کوشش کریں گے کہ ایسی نیکیاں عطا ہوں کہ ہر روز ہم نئے پھل پانے والے ہوں نیکیوں کے.اس قسم کے اگر ریزولیوشن کرنے ہیں تو ان کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوں گی.اگر محض دوسرے ریزولیوشن ہوں تو ان کے ساتھ ذمہ داریاں کوئی خاص عائد نہیں ہوتیں.جب دل ان ریزولیوشنز سے گزریں گے تو ایک پاک تبدیلی پیدا ہوگی.ایک نیکی کی لہر دوڑے گی.اور حقیقت یہ ہے کہ تجدید بیعت کا مطلب ہی یہی ہے اور یہی اس کی روح اور اس کا فلسفہ ہے.ورنہ جو مسلمان چلا آ رہا ہے جس کا دل بیعت شدہ ہے اس کو ظاہر کیا ضرورت تھی بیعت کرنے کی.اس کا ایک مقصد ہے.اور وہ ضروری بھی ہے کیونکہ اگر یہ ضروری نہ ہوتا تو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ملالہ کی بیعت کے بعد پھر کسی دوسرے خلیفہ کی بیعت کی ضرورت نہیں تھی.پھر اس بیعت کے بعد جو بیعت رضوان کے نام سے آسمان کے روشن ستاروں کی طرح چمک رہی تھی، اس بیعت کے بعد پھر ضرورت کیا تھی ابو بکر یا عمر یا علی یا عثمان کی بیعت کی.پس بیعت ضروری ہے اور یہ سنت ہے جس کو ہم نے بہر حال زندہ اور قائم رکھنا ہے.اور اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے الفاظ سے اس تجدید کے وقت جب کہ دل خاص درد کی حالت میں مبتلا ہوتے ہیں ایک نئی زندگی ملتی ہے.ایک نئی روح ملتی ہے.یہ وقت احیائے نو کا ہے.اور اس وقت کی
خطبات طاہر جلد اول 7 خطبہ جمعہ اا/ جون ۱۹۸۲ء قدر کریں اور اس کو ہاتھ سے جانے نہ دیں.میں اپنے اندر ایک بات محسوس کر رہا ہوں مجھے یوں لگا کہ میں کل مر چکا ہوں اور ایک نیا وجود پیدا ہوا ہے.اور میری دعا ہے کہ ان معنوں میں ایک قیامت برپا ہو جائے اور گھر گھر میں نئے وجود پیدا ہوں اور وہ عظیم الشان کام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کا جھنڈا تمام دنیا میں سر بلند کرنے کا کام اور تمام ادیانِ باطلہ پر اسلام کے غلبہ کا کام خدا کرے کہ ہماری ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں ہمارے ہاتھوں رونما ہو اور ہم خدا کے حضور سرخروئی کے ساتھ قیامت کے دن پیش ہوں کہ اے آقا ! ہمارا تو کچھ نہیں تھا، تو نے ہی سب فضل کئے لیکن ہمیں چنا، ہم ادنی غلاموں کو چن لیا، یہ تیرا احسان ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: دوست ایک بات سن لیں.نمازیں جمع ہوں گی کیونکہ بہت سے احباب جو بیرون سے تشریف لائے ہیں ، انہوں نے آج ہی غالباً اکثر نے واپس جانے کا ارادہ کیا ہوا ہے.مجبور ہیں.آج جمعہ کی چھٹی ہے کل کاموں پر حاضر ہونا ہے تو ان کی سہولت کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس کے معا بعد ایسے احباب کی خاطر جو بعد میں تشریف لائے اور بیعت نہیں کر سکے یہاں اجتماعی بیعت ہوگی.اس سلسلہ میں ایک بات میں ابھی کہہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ جب ایک دفعہ رش شروع ہو جائے تو پھر کنٹرول کرنا مشکل ہو جایا کرتا ہے.اس وقت آپ سہولت اور امن سے میری بات سن لیں.غور سے صفیں بنا کر جس طرح آپ سلام پھیریں گے اسی طرح بیٹھے رہیں.اس حالت میں کوئی تبدیلی نہ کریں.اٹھ کر دوڑنے کی کوشش ہنگامہ کرنے کی کوشش بالکل نہیں کرنی.کامل نظم وضبط کا ثبوت دیں.صفوں میں اسی طرح بیٹھے رہیں.ہاں آگے جھک کر اپنے سے اگلے نمازی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ لیں ، یہ نشان کے طور پر کہ میں اس کے ذریعے اس رابطہ سے جسمانی رابطہ بھی بیعت کا حاصل کر رہا ہوں.اور نہایت اطمینان سے وہیں بیٹھے رہیں.جب دعا ہو جائے پھر اس کے بعد رخصت ہوں.اور دوسرے یہ عادت ڈالیں کہ سوائے اشد مجبوری کے نماز کے بعد بھی مسجد میں آپس میں باتیں نہ شروع کیا کریں.اب دوست نماز کے لئے صفیں بنالیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 9 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء عالم الغیب والشھادۃ کی تشریح اور استحکام خلافت احمدیہ کا پر شوکت وعدہ (خطبه جمعه فرموده ۱۸ جون ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل آیت قرآنی پڑھی: هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ج هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ) ( الحشر : ٢٢) اور پھر فرمایا: ج اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ غیب کا علم بھی جانتا ہے اور حاضر کا بھی اور وہ رحمن اور رحیم ہے.ایک سرسری نظر سے جب ہم اس آیت کے مضمون کا جائزہ لیتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ غیب کا علم جانا تو ایک بہت مشکل کام اور اعجوبہ کا کام ہے.لیکن حاضر کے علم کے متعلق خدا تعالیٰ نے کیوں دعوی فر مایا کہ میں حاضر کا علم بھی جانتا ہوں.جو سامنے ہے اس کو بھی جانتا ہوں اور جو غیب ہے اس کو بھی جانتا ہوں.یہ سرسری نظر کے جائزے سے سوال پیدا ہوتا ہے اور انسان جو غلط انہی میں مبتلا ہے وہ سمجھتا ہے کہ حاضر کے علم میں تو میں بھی خدا کا شریک ہوں اپنے دائرہ کار میں ، ہاں غیب کے متعلق اسے فوقیت ہے.وہ میں نہیں جانتا.حالانکہ جب مزید غور کریں اس آیت کے مضمون پر تو
خطبات طاہر جلد اول 10 10 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرسری نظر کا فیصلہ بالکل باطل اور جھوٹا اور بے حقیقت ہے.انسان نہ تو غیب کا علم جانتا ہے، نہ حاضر کا.اور غیب اور حاضر کے علم ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حاضر کا کامل علم ہو اور غیب کا علم نہ ہو.اور غیب سے لاعلمی کے اقرار کے بعد حاضر کے علم کا دعوی کیا جائے.حاضر اور غیب دو قسم کے ہیں (ویسے تو اندرونی تقسیمیں اس کی بہت ہیں لیکن ) زمان و مکان کے لحاظ سے ہم دو قسموں پر اسے منقسم کر سکتے ہیں.ماضی کے ساتھ حال کو ایک نسبت ہے اور مستقبل کے ساتھ بھی حال کو ایک نسبت ہے.اگر حال کو ہم شھادۃ کہیں تو ماضی اور مستقبل دونوں غیب میں چلے جائیں گے.سبب اور نتیجے کا فلسفہ جو سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر حال کے متعلق کسی ذات کو تفصیلی علم ہو اور اسباب کی کنہ سے واقف ہو تو سارا ماضی اس پر روشن ہوسکتا ہے اور حال کی شہادت جو ہے وہی ماضی کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے کافی ہوگی.اور اگر کسی کو حال کا مکمل علم ہو تو وہ مستقبل کے متعلق تمام امور کو واضح بصیرت کے ساتھ دیکھ سکتا ہے.آج کل کی دنیا میں جب خدا تعالیٰ کی ذات پر دوبارہ سائنسدانوں نے توجہ شروع کی تو ان میں سے ایک کمپیوٹر کا ماہر علم غیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس سے پہلے جو یہ تصورات تھے جہالت کے زمانے کے کہ غیب کا علم ہو ہی نہیں سکتا، اب اس کے برعکس صورت سامنے آئی ہے.وہ کہتا ہے کہ اگر کمپیوٹر میں موجودات کا تمام علم تمام تفصیل کے ساتھ ڈال دیا جائے اور کمپیوٹر ایسا ہو جو ہر باریک سے بار یک چیز کو بھی اپنے علم کے دائرے میں سمیٹ لے اور صحیح نتائج اخذ کرنے کا اہل ہو تو ہر فرد بشر کی موت کی یقینی اور تفصیلی پیشگوئی کی جاسکتی ہے.ہر پتے کے گرنے کا حال معلوم ہو سکتا ہے.کوئی ایک ذرہ بھی مستقبل کا نہیں ہے جو کامل علم والے کمپیوٹر کی نظر سے بچ سکے اور اوجھل رہ سکے.پس جہاں تک زمانی شاہد اور غیب کا تعلق ہے.سو فیصدی قطعی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ حاضر کا علم ہی دراصل غیب کے علم پر منتج ہوتا ہے اور غیب کا علم حاضر کے علم پر منتج ہوتا ہے.پس اگر انسان کو حقیقتاً اپنی بے بضاعتی کا اقرار ہے، اپنی بے بسی کا اقرار ہے غیب کے بارے میں، تو اسے لازماً یہ غور کرنا ہوگا کہ شھادہ کے بارے میں بھی میں بالکل لاعلم ہوں اور میر اعلم بے حقیقت ہے.اس غور کے نتیجے میں ایک عظیم الشان عجز کا سبق انسان کو ملتا ہے جس سے بہت بڑے روحانی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.
خطبات طاہر جلداول 11 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء مکانی اعتبار سے بھی یہی کیفیت ہے.اگر مکانی اعتبار سے یہ کیفیت نہ ہوتی یعنی ایک زمانے میں جوموجودات ہیں ان پر یہ بات اطلاق نہ پاتی تو زمانی اعتبار سے بھی یہ بات غلط ثابت ہوتی لیکن اس تفصیل میں میں جانا نہیں چاہتا.میں ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں اس میں سے کسی چیز کے متعلق ہم کامل اعتماد کے ساتھ کامل یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اسے صحیح دیکھا جیسا وہ اصلی حالت میں موجود تھی.اگر بینائی نہ تبدیل ہو تو مزاج کے بدلنے سے بھی چیزوں کی کنہ میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.جو ہم اخذ کرتے ہیں اس کے تصور میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.موسم کے بدلنے سے تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.دن رات کے بدلنے سے، روشنی کے کم یا زیادہ ہونے سے تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور اس چیز کی اندرونی کیفیات بدلنے سے بھی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.اس کا اپنا درجہ حرارت کیا ہے؟ وہ اس وقت کثافت کے کس معیار پر ہے؟ بہت سے ایسے امور ہیں جن کے اوپر اگر آپ غور کریں تو سارا نظام شہادت غیر یقینی ہو جائے گا.چنانچہ ستاروں کو آپ دیکھیں کہ مختلف زمانوں میں مختلف وقت میں انہی آنکھوں سے انسان نے ستاروں کا مشاہدہ کیا.اجرام فلکی کو دیکھا لیکن بالکل مختلف نتائج پیدا کئے.آج کے زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ظاہری آنکھ سے اسی چیز کو دیکھ رہے ہیں جس چیز کو آپ اور میں دیکھ رہے ہیں لیکن نتیجہ مختلف اخذ کر رہے ہیں.ایک دفعہ، دیر کی بات ہے پندرہ بیس سال کی ، چاندنی رات میں باہر گرمیوں میں ہم لیے ہوئے تھے ، ہونے کی تیاری کر رہے تھے تو بچوں نے ہماری جو مائی ہے اس سے باتیں شروع کر دیں.بچوں کو میں چاند سورج ستاروں وغیرہ کے متعلق چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی شکل میں سبق دے رہا تھا تو ان کو خیال آیا کہ ہمیں تو بڑا اعلم آ گیا ہے.پس مائی سے ایک بچے نے پوچھا کہ بتاؤ چاند کتنا بڑا ہوگا؟ اس نے کہا بہت بڑا ہے.کہا پھر بھی بتاؤ تو سہی.اس نے کہا فٹ بال سے تو بڑا ہے.بچے ہنس پڑے، تو اس پر مائی کو خیال آیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.اس سے بھی زیادہ بڑا ہے تو کہنے لگی کہ نئیں ویڑے جڑاتے ہوئے دا.یعنی ہمارے گھر کا جو محن ہے دو کنال میں کوٹھی بھی بنی ہوئی ہے اور چھوٹا سا ایک صحن ہے پچھلا.اتنا تو ہوگا.پھر بچوں کی ہنسی نکل گئی.تو کہتی دنئیں نہیں میں دسنی آں کلا دو کلے ضرور ہوئے گا یعنی ایک دوا یکڑ کے برابر.اس سے زیادہ وہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھی.
خطبات طاہر جلد اول 12 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء آپ نے بھی ایک آنکھ سے چاند کو دیکھا ہے اور دیکھتے ہیں.آپ کا بھی ایک نتیجہ ہے اور سائنسدان جو خلائی امور سے واقف ہیں اور زیادہ گہری بصیرت سے دیکھتے ہیں.انہوں نے بھی اجرام فلکی کو دیکھا ہے.جس طرح آپ مائی کے علم پر ہنسے وہ لوگ آپ کے علم پر ہنستے ہیں.اور علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ان کے علم پر مسکراتا ہوگا کہ کیسے دعوے کرتے ہیں بڑے بڑے علوم کے ،حقیقت حال کا ان کو کچھ علم نہیں.غالب نے اپنے زمانے میں اس پر غور کیا تو ایک شعر میں اس صورت حال کو بیان کیا کہ آتے ہیں.ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ بازی گر کھلا کھلا کھلا دھوکہ ہے.صاف نظر آ رہے ہیں.لیکن پھر ہیں کچھ اور وہ نہیں ہیں جو ہمیں نظر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی اس سورۃ کی تفسیر میں اس امر کا ذکر فرمایا ہے.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 ص53) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقِعِ النُّجُومِن وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْتَعْلَمُونَ عظيم (الواقعہ: ۷۲۷۷) که خبر دار! میں ستاروں کے مواقع کی قسم کھا کر کہتا ہوں، ان کو گواہ ٹھہراتا ہوں وَ إِنَّهُ لَقَسَم لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظیم اگر تمہیں کنہ ہوتی واقفیت ہوتی ، ستارے چیز کیا ہیں اور ان کے مواقع کیا ہیں تو تب تم جانتے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے.بہت زبر دست گواہی دی گئی ہے.یہ گواہی کیا ہے، یہ ایک تفصیلی مضمون ہے جس کا فی الحال میرے مضمون سے تعلق نہیں.میں صرف یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر انسان عُلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کی اس صفت سے واقف ہو جائے تو کسی تکبر، کسی خود اعتمادی کا کوئی سوال نہیں رہتا.کامل بجز اور کامل انکسار کے ساتھ انسان خدا کے حضور جھکنے پر مجبور ہو جاتا ہے.اور اگر انسان کامل تو کل اور کامل انکسار کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکنا سیکھ جائے تو بہت سی اندرونی کمزوریاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہو جاتی ہیں اور وہ روحانی شفا پانے کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے.اس لئے اپنے اندر وہ انکساری پیدا
خطبات طاہر جلد اول 13 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء کریں جس انکساری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا حقیقی وصل ہوتا ہے.اور باقی باتیں چھوڑیں صرف اس آیت کے مضمون پر جب میں غور کرتا ہوں تو میں اپنی زندگی کو اس آیت کے انعامات کا بے حد زیر بار پاتا ہوں.ساری عمر اگر صرف اسی آیت کے احسان کا شکر ادا کرتار ہوں تو نہیں کرسکتا.کیونکہ اس کے طفیل میں نے بہت سے معارف کے پھل کھائے ، بہت سی غلطیوں سے، بہت سی ٹھوکروں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ رکھا.اور یہی وجہ ہے کہ آج میں نے اس آیت کو اپنے اس خطبے کے لئے چنا ہے.اور بعض مثالیں میں آپ کے سامنے پیش کرنی چاہتا ہوں جو میرے دل کا راز تھیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بیان سے بہت سے دوستوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کا انتخاب ہوا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جو دوست وہاں موجود تھے بلاتر در انہوں نے بیعت کی اور زبان سے ایک اقرار کیا اور یہ عہد باندھا کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس اقرار کے حقوق کی حفاظت کریں گے اور اس کے تقاضوں کو نباہتے رہیں گے.میں بھی ان میں شامل تھا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے.لیکن گھر آ کر جب میں نے غور کیا تو میں نے اپنے میں بہت سی پرانی میلیں دیکھیں، کئی غلط فہمیاں پائیں ، کئی لحاظ سے میں نے دیکھا کہ یہ دل ہدیہ حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لائق نہیں ہے.پھر میں نے آنسوؤں سے اس کو دھویا ، خدا تعالیٰ کے حضور انکساری سے گرا ، اس سے مدد طلب کی کہ میں نہیں جانتا کہ یہ دل تحفہ پیش کرنے کے لائق ہے کہ نہیں ، تو توفیق عطا فرما کہ ایسا ہو جائے.اور پھر حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا.میں نے عرض کیا کہ آج کے بعد میرا دل اور میری جان آپ کے قدموں پہ حاضر ہے اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے گا.آپ سے میری یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک دعا میرے لئے کریں کہ حضرت مصلح موعود کے سب بیٹوں میں سب سے زیادہ مجھے عاجزی اور انکساری سے آپ کی خدمت کی توفیق ملے اور ایسی محبت عطا ہو کہ اور کسی کو نہ ہو.بعد میں میں نے سوچا کہ بہت بڑی بات کی ہے.اور طبیعت میں شرمندگی بھی پیدا ہوئی.لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور خیال بھی میرے دل میں آیا کہ زبان اور دل کی گواہی بھی کافی نہیں بسا اوقات انسان بڑے خلوص کے ساتھ اقرار کرتا ہے ہدیے پیش کرتا ہے زبان کے اور دل کے لیکن جب عملاً ابتلاء کے دور میں سے گزرتا ہے تو ٹھو کر کھا جاتا ہے.بہت سے بڑے سچے خلوص سے ہے.
خطبات طاہر جلد اول 14 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء وعدے کرنے والے میری نگاہوں میں پھر گئے اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا مضمون ابھی جاری ہے.جب تک عمل میں یہ شہادت نہ ڈھلے اس وقت تک یہ مضمون کامل نہ ہو گا.چنانچہ میں نے سوچا کہ ایمان کی بھی تو یہی تین منازل بیان کی گئی ہیں: زبان سے اقرار، دل سے گواہی اور عمل سے تصدیق.تو وہ جو دل میں ایک کیٹر ا سا پیدا ہوا کہ میں نے گویا بڑا تیر مار لیا ہے وہ سب کیڑا کچلا گیا علمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کے مضمون کے پاؤں تلے اور اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا.پھر ہمیشہ مختلف مواقع پر مجھے عملاً یہ غور کرنے کا موقع ملا کہ عمل کی دنیا میں ان عہدوں کو سچا ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں.کامل اطاعت کے باوجود ایک خلیفہ وقت سے خیالات میں ، تصورات میں اختلاف ہو سکتے ہیں اور جائز ہے.اپنے خیالات پر تو بندے کا بس کوئی نہیں.وہ درست ہوں یا غلط ، تقویٰ کا تقاضا ہے کہ جو ہیں ان سے انسان آگاہ ہو اور ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو ہرگز اس رنگ میں استعمال نہ ہونے دے جس سے سلسلے کے مفاد کو یا بیعت اطاعت کو کوئی گزند پہنچنے کا خدشہ ہو.اگر کوئی اس کے نتیجے میں اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اس اقرار کو یا در کھے اور اس تکلیف کو برداشت کرے، لیکن ہرگز اشارہ یا کنایہ اس کے منافی کوئی حرکت نہ کرے.تو چنانچہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق میں مزید کچھ نہیں کہوں گا.لیکن آپ میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں یہ تجارب رکھتا ہے.بچے ماں باپ کے متعلق یہ تجربہ رکھتے ہیں کہ خوشی کے ماحول میں جب انعام مل رہے ہوں ان کی طرف سے، جب پیار کا اظہار ہورہا ہوتو بڑی گہری وفا کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.پیار کے جذبے خوب پھیل جاتے ہیں ، ساری زندگی پر محیط ہو جاتے ہیں.لیکن جب کوئی ناخوشی کی بات دیکھیں، جب کوئی تکلیف کا پہلو سامنے آئے تو آہستہ آہستہ وہ محبت سمٹنے لگتی ہے اور بعض اوقات اگر بد بختی ہو اولا د کی تو بغاوت پر بھی آمادہ ہو جاتی ہے.قرآن کریم نے فَلَا تَقُل لَّهُمَا اُف (بنی اسرائیل: (۱۳) کا مضمون بیان کیا ، اسی دوران مجھ پر اس کی بھی حقیقت کھلی کہ ماں باپ سے اگر ایسی بات سرزد ہو سکتی ہے کہ اولاد کو حکم ہے کہ اف نہیں کہنا تو خلیفہ وقت کا حق تو اس سے بہت زیادہ ہے.اس لئے اس موقع پر بھی اف زبان پر لائے بغیر اگر صبر اور اطاعت اور وفا کا نمونہ دکھاؤ گے تو خدا کے ہاں صرف یہی مقبول ہو گا.میں نہیں جانتا کہ میں اس حق کو ادا کر سکا یا نہیں
خطبات طاہر جلد اول 15 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۸۲ء کر سکا کیونکہ اب بھی میں یہی کہتا ہوں هُوَ اللهُ الَّذِئ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ لیکن میری دعا ہے کہ خدا کی نظر میں میں اس اقرار پر قائم رہا ہوں.اور آپ کو بھی میری تلقین ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں عجز وانکساری کے ساتھ کہ وہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ آپ کے دل میں کبھی تکبر کا کوئی کیڑا پیدا نہ ہونے دے اپنی ذات کے متعلق بھی.کیونکہ کوئی شخص اپنی ذات کے متعلق بھی حقیقی علم نہیں رکھتا، کیونکہ معاذ یر اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں.عذر خواہی اور عذر پیش کرنے کی جو عادت ہے انسان میں ، یہ دونوں عادتیں اس کو نقصان پہنچاتی ہیں چنانچہ اسی عادت کے انبار تلے حقیقت چھپ جاتی ہے اور انسان اپنے نفس کے حال سے باخبر ہونے کی بھی توفیق نہیں پاتا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيرَهُ (البية 1 12) معاذیر نے وہ شرط پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں بصیرت مدھم پڑ گئی.بہر حال اس مضمون کے سلسلے میں اب میں بالکل ایک اور ورق پلٹتا ہوں.اس خلافت کے انتخاب کے موقع پر خاندان حضرت اقدس نے جو عظیم الشان نمونہ دکھایا ہے میں اس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.سب سے زیادہ ایک انسان کے نقائص پر اس کے خاندان والے آگاہ ہوتے ہیں اور میری ذاتی کمزوریوں اور نقائص اور کوتاہیوں اور اس قسم کی بہت سی چیزوں سے میرے خاندان والے سب سے بڑھ کر آگاہ تھے.پس ان کے ذاتی فیصلے مختلف ہوں گے میرے بارے میں.صرف انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ قطع نظر اس کے کہ کون خلیفہ ہوتا ہے، جو بھی ہوگا ہم اس کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر دیں گے اور اپنے فیصلوں کو نظر انداز کر دیں گے، ان کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے.یہ میں اس لئے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بعض پہلوؤں سے جماعت کے دل دکھے ہوئے ہیں اور ان کو چر کا لگا ہے مگر خاندان کے اس پہلو پر بھی غور کریں کہ انہوں نے بھی کامل اطاعت کے ساتھ اپنے رب کے حضور سر جھکایا ہے.ورنہ اگر میری ذات پیش نظر ہوتی تو بھاری اکثریت کا یہ فیصلہ ہوتا کہ یہ اس لائق نہیں ہے.دو طرح کی ٹھوکریں انسان کو لگتی ہیں مشاہدے میں.بہت سی باتیں ہیں جن
خطبات طاہر جلد اول 16 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء کے متعلق نہ انسان خوبیوں سے عالم و واقف ہو سکتا ہے نہ بدیوں سے واقف ہوسکتا ہے.بسا اوقات بدیاں نظر آ رہی ہیں.ان کے پس پردہ بعض خوبیاں مخفی ہیں.بعض دفعہ خوبیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں ان کے پس پردہ بدیاں مخفی ہوتی ہیں.تو اتنے دھو کے ہیں کہ جس طرح ستاروں کا علم انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا وہ تو دور کی چیز ہے اپنے قریب کے انسان کا بھی سچا علم انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا.ایک ہی محفوظ مقام ہے کہ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کے ہاتھ میں انسان ہاتھ تھادے اس کامل یقین کے ساتھ کہ جو وہ فیصلہ فرمائے گا اسی میں بہتری ہے اور ہمارے فیصلے اس کے مقابل پر کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اس پہلو سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کو جو عظیم الشان نمونہ دکھانے کی توفیق ملی ہے وہ یقینا اس بات کا مستحق ہے کہ ہم ان کیلئے دعائیں کریں.حیرت انگیز یہ مشاہدہ تھا کہ کل تک جن کی نظریں اور تھیں، جن کے خیالات مختلف تھے ، جو ناراض تھے، جو نالاں تھے یک بیک ایک ایسی کا یا پلٹ گئی.ان کی آنکھیں بدل گئیں، ان کے اندر ادب پیدا ہو گیا اور ان کے اندر ایک عجیب قسم کا احترام اور خلوص کا جذبہ آ گیا جس کا میں عادی نہیں تھا اور شدید روحانی اذیت اور شرمندگی میں یہ وقت میں نے کاٹا استغفار کرتے ہوئے لیکن ساتھ ہی اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے بھی.ان سب کے دلوں کی جو حالت بدلی ہے جو کایا پلٹی ہے یہ ان کے دل کی نیکی کی بنا پر ہے.ورنہ تصورات کی کایا نہیں پلٹ سکتی جب تک نیکی کا بیج دل میں نہ ہو.اس بات پر سو فیصدی وہ متفق تھے اور اس میں کوئی ان کو شبہ نہیں تھا کہ نظام جماعت کو اہمیت دی جائے گی اور ہمارے ذاتی جذبات اور خیالات کی کوئی وقعت نہیں ہوگی.بڑوں نے بھی اور چھوٹوں نے بھی ، بہنوں نے بھی اور بھائیوں نے بھی ، رشتے میں بڑے مقام کے لوگوں نے بھی حتی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیاری بیٹی حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے بھی خلافت احمدیہ سے وابستگی کا ایک سانمونہ دکھایا.میرے لئے وہ وقت نا قابل برداشت تھا جب انتہائی خلوص اور کامل وفا کے عہد کے ساتھ آپ میری بیعت کر رہی تھیں.آنکھوں میں پیار تھا، اس قسم کا نہیں جو پھوپھی کا پیار ہوتا ہے.ایک اور قسم کا پیار آچکا تھا.تو میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک جہان کی سیر کرا دی.پہلے تو میں اپنے نفس میں
خطبات طاہر جلد اول 17 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء ڈوبا ہوا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ میں نے بہت بڑا تیر مارا ہے کہ اس آیت کے حضور جھک کر میں نے کچھ حاصل کیا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ یہ اللہ کا فضل عام ہے اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے وہی جذبہ عطا فرمایا لیکن چونکہ ظاہری آنکھ اندر تک نہیں جاتی ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ کسی کے دل کی کیا کیفیت ہے.پھر میں نے اور نظر وسیع کی تو یہ دیکھ کر میرا دل حمد سے کناروں تک بھر گیا.اٹڈ نے لگا.جذبات میں بہنے لگا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری جماعت اس خاندان میں داخل ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.ایسے حیرت انگیز ، ایسے عظیم الشان نمونے دکھائے ہیں ذات باری تعالیٰ کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے اور اپنے علم کو کلیہ رد کر کے ایک ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے کہ عش عش کر اٹھتا ہے دل.ربوہ کی ایک ایک گلی گواہ ہے بڑے سے بڑا ابتلاء جو ممکن ہوسکتا تھا.تصور میں آسکتا تھا وہ آیا اور گزر گیا اور کوئی زخم نہیں پہنچا سکا جماعت کو اور انتہائی وفا کے ساتھ اور کامل صبر کے ساتھ جماعت اس عہد پر قائم رہی کہ : ”ہم خلافت احمدیہ سے وابستہ رہیں گے اور اس کی خاطر اپنا سبہ کچھ لٹا دینے کیلئے تیار ہوں گے.“ ان میں بہت سے ایسے ہوں گے جن کی نظر میں میری حیثیت ایک حقیر کیڑے کی سی ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ کے بالا علم اور غالب علم کے سامنے انہوں نے بھی اپنا سر جھکایا.پس یہ سارے امور جب ایک نفس سے، ایک فرد سے سیر کرتا ہوا میں اس آیت کا ہاتھ پکڑے ہوئے خاندان سے ہوتا ہوا جماعت کی وسعتوں میں گیا تو ایک عظیم الشان سیر میں نے کی، ایسی پر لطیف ایسی عظیم الشان روحانی سیر جس نے میری زندگی کے انگ انگ کو لطف سے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کے تصور سے بھر دیا.یہ ذکر میں آپ کے سامنے اس لئے کر رہا ہوں کہ اب حمد کا وقت ہے.اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کریں آپس میں ، اور حمد کے گیت گائیں.اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ : یہ وہ آخری بڑے سے بڑا ابتلا ممکن ہو سکتا تھا جو آیا اور جماعت بڑی
خطبات طاہر جلد اول 18 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزرگئی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے.اب آئندہ انشاء اللہ تعالی خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطر ولاحق نہیں ہوگا.جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں.اور کوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل ، کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمد یہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشو ونما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں اور بار بار اپنے دلوں کے خیالات کو الٹتے پلٹتے رہیں کہ اگر یہ سلسلہ بند ہو جائے نگرانی کا تو کئی قسم کے کیڑے راہ پا جاتے ہیں، کئی قسم کی خرابیاں بیچ میں داخل ہو جاتی ہیں.اس لئے کوئی مقام بھی آخری طور پر اطمینان کا مقام نہیں ہے، یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آخری سانس تک ہم پر راضی ہو، راضی رہے اور جب ہم مریں تو وہ محبت کی نگاہ ہم پر ڈال رہا ہوں، نفرت اور غضب کی نگاہ نہ ڈال رہا ہو.آمین اس آیت میں اور خوشخبری بھی دی گئی ہے.اس کی طرف توجہ دلا کر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ کہ اگر دنیا والے ، عام لوگ تمہارے ہر حال سے واقف ہو جاتے تو تمہیں تو مصیبت میں مبتلا کر دیتے.تم کسی سے ملتے ہو، دل میں تمہارے تھوڑی سی قبض ہے اور وہ جان رہا ہوتا ہے کہ دل میں تھوڑی سی قبض ہے تو اس نے منہ پر مارنے تھے تمہاری محبت یا وفا کے جذبات کہ میں تو تمہارے دل پر نظر رکھتا ہوں تم غلط آدمی ہو.کمزوریاں جو کچھ انسان چھپاتا ہے، کچھ اللہ کی ستاری کے تابع خود بخود چھپتی رہتی ہیں ، ان پر ہر انسان کی نظر ہوتی تو ایک وجود بھی قابل محبت نہ رہتا.ہر انسان ہر دوسرے انسان سے نفرت کرنے لگتا.الرَّحْمَنِ الرَّحِیم نے ہمیں خبر دی کہ تم فکر نہ کرنا تمہارے سارے پردے اٹھ گئے ہیں.لیکن خدا
خطبات طاہر جلد اول 19 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء کی نظر کے سامنے اٹھ رہے ہیں تمہارے آپس کی نظروں کے سامنے نہیں اٹھائے گئے اور ایسی ذات سے تمہاری بے پردگی ہوئی ہے، تمہارے اسرار سے ایسی ذات واقف ہوئی ہے جو رحمن ورحیم ہے.اس سے زیادہ رحم کرنے والی ذات کا تصور ہی نہیں ہوسکتا اور رحیم ہے، بار بار اپنے رحم اور فضلوں کو لے کر آتی ہے تو ایک دفعہ تم نے غلطی کی پھر بھی بخشش کے امکان موجود ہوں گے پھر غلطی کرو گے پھر بھی رہیں گے، پھر غلطی کرو گے پھر بھی رہیں گے.اس مضمون کو حضرت محمد مصطفیٰ علیہ نے ایک انتہائی پیارے اور عارفانہ رنگ میں یوں بیان فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کمزوریوں پر نظر رکھتا تو اس کا کسی انسان سے تعلق نہیں ہوسکتا تھا، کلیپ کٹ جاتا، لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندے کی خوبیوں پر نظر رکھتا ہے.اس لئے کوئی ایک بھی انسان نہیں جس سے خدا تعالیٰ کلیۂ بے تعلق ہو چکا ہو، کیونکہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے بعض خوبیاں بھی عطا فرمائی ہیں، ہر جانور کو بعض خوبیاں عطا فرمائی ہیں.تو ساری مخلوق کا اپنے رب سے واسطہ رحمن ورحیم کے رستے سے ہے.یہ اگر رستہ کٹ جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور یہ رستہ حقیقی بجز سے نصیب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بات کا اقرار کرو پہلے کہ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ صرف وہ ہے.پھر تم دیکھو گے کہ میں رحمن اور رحیم بن کر تم پر ظاہر ہوں گا.میں بخشش کا سلوک کروں گا رحمت کا سلوک کروں گا عفو کا سلوک کروں گا اور تمہیں نئے سے نئے مراتب عطا فرما تا رہوں گا.تو اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ رحمن اور رحیم کی ذات تک اس عجز کے رستے سے پہنچ جائیں.آمین! حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی پیاری بات فرمائی کہ : بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں براہین احمدیہ جلد پنجم روحانی خزائن جلد 21 ص 18) خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے احباب کو خصوصی دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: سارے عالم میں جو حالات اس وقت ظاہر ہورہے ہیں.وہ سخت فکر مند کرنے والے ہیں اور ضرورت ہے اس وقت کہ سب سے زیادہ انسانیت کے لئے دعا کی جائے، انسان کیلئے دعا کی
خطبات طاہر جلداول 20 20 خطبه جمعه ۱۸/ جون ۱۹۸۲ء جائے اور پھر عالم اسلام کے لئے کہ ظالم انسانوں کی دسترس سے اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو محفوظ رکھے اور رحمت کی نظر فرمائے حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہ ﷺ کے نام کے صدقے ، آپ کی طرف منسوب ہونے کے صدقے.اس امت کی غفلتوں سے در گزر فرمائے اور ایسے رحمت کے نشان دکھائے کہ دنیا جان لے کہ محمد مصطفی عاللہ کے نام میں بھی بہت بڑی عظمت ہے اور بہت درد سے ان دعاؤں کی ضرورت ہے.دل زخمی ہیں ان مظالم کو دیکھ کر جو عالم اسلام پر غیروں کی طرف سے توڑے جا ر ہے ہیں.اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سچا مسلمان حقیقی مسلمان بنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ کے فیصلے کے سامنے سر جھکانے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ وہ حقیقی عظمتیں حاصل کر سکیں اور وسیع تر عظمتیں حاصل کر سکیں جو ان کے مقدر میں لکھی گئی ہیں لیکن ہاتھ آگے بڑھا کر لینا ابھی مقدر میں نہیں ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ / جون ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 21 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء جماعت کی عظمت و طاقت بلند تقویٰ اختیار کرنے میں ہے (خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) اور پھر فرمایا: یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں دعا کی صورت میں مومنوں کو کچھ ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں.ان میں سے دو کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو توجہ دلانی چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ فرمائی گئی کہ مومن اپنے رب سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے آقا! تو ہی ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان پیدا فرما اور دوسری درخواست یہ کی گئی کہ آنکھوں کی ٹھنڈک کا یہ سامان کچھ اس رنگ کا ہو کہ ہم متقیوں کے سربراہ بنیں.متقیوں کے پیشوا کہلائیں.متقیوں کے آباء واجداد بن کر تاریخ میں چمکیں.فاسق اولا د پیچھے نہ چھوڑ کر جائیں.اس میں پہلی قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ ہم آنکھوں کی ٹھنڈک کی جو دعا کرتے ہیں اور ایک
خطبات طاہر جلد اول 22 22 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء دوسرے کو اس دعا کی درخواست کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہماری اولا دکو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل قدر آنکھوں کی ٹھنڈک ، آنکھوں کی حقیقی ٹھنڈک، آنکھوں کی وہ ٹھنڈک جو دراصل ذکر کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ اولا ومتقی بن جائے.اور کسی کو اس سے زیادہ آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی اولاد کو متقی دیکھ لے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے بے ساختہ اور پیارے انداز میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ایک دعا کی شکل میں اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آئے وقت میری واپسی کا ( در مشین) کراے میرے آقا! آخری نگاہ جو میری اپنی اولاد پر پڑ رہی ہو وہ ایسی ہو کہ میں ان کو متقی حالت میں دیکھ کر دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں.سب سے زیادہ معراج آنکھوں کی ٹھنڈک کا اس وقت انسان چاہتا ہے جب وہ زندگی کے انجام تک پہنچ کر آخری نگاہیں ڈال رہا ہوتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا خلاصہ یوں بیان فرمایا: یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آئے وقت میری واپسی کا ( در مشین) پس سب سے پہلے تو جماعت احمدیہ کو خصوصیت کے ساتھ اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہم لوگ نیک اولا د پیچھے چھوڑ کر جانے والے بنیں.فاسق اور بد اولا د پیچھے چھوڑ کر جانے والے نہ بنیں.اور یہ چیز دعا کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ نصیحت دعا ہی کے رنگ میں ہمیں سکھائی گئی ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ دعائیں کرو گے تو اس اعلیٰ مقصد کو حاصل کر سکو گے.اگر محض اپنی تر بیتوں پر انحصار کرو گے یا اپنی کوششوں پر بھروسہ کرو گے تو یہ اعلیٰ مقصد تمہیں نصیب نہیں ہوگا.پس بہت دعا کرنی چاہئے اپنی اولاد کیلئے.اور دعا صرف بچوں کی پیدائش کے بعد ہی نہیں، پیدائش سے پہلے بھی کرنی چاہئے.بعض دفعہ تو انبیاء نے ایسی دعائیں کیں کہ سینکڑوں سال بلکہ ہزاروں سال بعد آنے والوں کیلئے بھی انہوں نے دعائیں کیں.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات طاہر جلد اول 23 23 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء خانہ کعبہ کی عمارت کو اٹھاتے ہوئے آنحضرت سید ولد آدم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق جو دعائیں کیں وہ ہزاروں سال بعد میں پیدا ہونے والے ایک بچہ ہی کیلئے تو دعا تھی.پس صرف یہی نہیں کہ اپنی اس اولا د کیلئے دعائیں کریں جو آپ کے سامنے حاضر کےطور پر پیش ہو چکی ہو بلکہ اس اولاد کیلئے بھی دعائیں کریں جس کا کوئی وجود بھی نہیں بنا.اس اولاد کے لئے بھی دعائیں کریں جو نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی چلی جائے گی اور قیامت تک آپ کی ذریت کے طور پر دنیا میں باقی رہے گی.تو ان سب کے لئے تقویٰ کی دعا کو اولیت دیں اور سب سے زیادہ اسی دعا کی طرف توجہ کریں.دوسری بات میں یہ بیان کرنی چاہتا ہوں کہ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا میں اسلامی نظریۂ قیادت پیش کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام میں قیادت اور سرداری کا تصور دنیا کی دوسری قوموں کے قیادت اور سرداری کے تصور سے بالکل مختلف ہے.محض قوموں کی سرداری عطا ہو جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اگر فاسقوں، بدکاروں، بے عمل لوگوں کی سرداری نصیب ہوتو وہ سرداری بجائے فخر کے ایک لعنت بن جاتی ہے.چنانچہ فرعون کو جس قوم کی سرداری نصیب ہوئی وہ اس کے لئے بھی لعنت تھی اور قوم کے لئے وہ سرداری لعنت بن گئی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سرداری کو اہمیت محض تقویٰ کے اوپر ہے.اگر متقی لوگ تمہارے پیچھے ہوں گے ، اگر متقی لوگ تمہارے پیرو کار بنیں گے تو اس سرداری کو قابل توجہ قابل فخر ، قابل فخر تو نہیں کہہ سکتے مگر اس لائق ہے کہ اللہ کے حضور دعائیں کر کے ایسی سرداری حاصل کی جائے.یہی سرداری ہے جس کی دنیا و آخرت میں اللہ کی نظر میں کوئی قیمت ہے.اس کے سوا سیادت اور قیادت کے کوئی بھی معنے نہیں.پس اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو خلافت احمدیہ کی طاقت کا راز دو باتوں میں ہے.ایک خلیفہ وقت کے اپنے تقویٰ میں اور ایک جماعت احمدیہ کے مجموعی تقویٰ میں.جماعت کا جتنا تقویٰ من حیث الجماعت بڑھے گا احمدیت میں اتنی ہی زیادہ عظمت اور قوت پیدا ہوگی.خلیفہ وقت کا ذاتی تقویٰ جتنا ترقی کرے گا اتنی ہی اچھی سیادت اور قیادت جماعت کو نصیب ہوگی.یہ دونوں چیزیں بیک وقت ایک ہی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ترقی کرتی ہیں.پس ہماری دعا ہونی چاہئے.آپ کی میرے لئے اور میری آپ کے لئے ، آپ اپنے
خطبات طاہر جلد اول 24 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء رب کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے تقویٰ نصیب فرمائے.ایسا تقویٰ جو اس کی نظر میں قبولیت اور اس کی درگاہ میں مقبولیت کے قابل ہو اور میری ہمیشہ یہ دعا ر ہے گی کہ مجھے بھی اور آپ کو بھی اللہ تعالیٰ تقوی عطا فرمائے کیونکہ بحیثیت آپ کے امام کے اور بحیثیت خلیفہ اُسیح کے مجھے جتنی زیادہ متقیوں کی جماعت نصیب ہوگی اتنی ہی زیادہ ہم اسلام کی عظیم الشان خدمت کر سکیں گے.احمدیت کو اتنی ہی زیادہ قوت نصیب ہوگی اتنی ہی زیادہ احمدیت کو عظمت نصیب ہوگی.محض اعداد کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.روحانی دنیا میں اعداد کے ساتھ فضیلتیں نہیں ناپی جاتیں.جب آنحضرت ﷺ کی بعثت ہوئی تو ساری دنیا کی کل قیمت ایک وجود یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقابل پر آپ کی جوتی کی خاک کے برابر بھی نہیں تھی.وہ ایک ہی وجود تھا جو اس دنیا میں خدا کا قائمقام تھا اور وہ ایک ہی وجود تھا جس کی خاطر ساری کائنات کو قربان کر دیا جاتا تو عرش الہی میں ایک ذرا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوتا.پس حقیقت میں خدا تعالیٰ کے ہاں قیمت اقدار کی ہوا کرتی ہے، تعداد کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور وہی تعداد باعث برکت ہوتی ہے جو اعلیٰ اقدار کے نتیجہ میں خود بخو دنصیب ہو جایا کرتی ہے.جب کسی قوم میں زندہ رہنے کے قابل قدریں پیدا ہو جا ئیں ، جب تقویٰ کا معیار بلند ہو جائے تو اتنی عظیم الشان مقناطیسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ باہر کی دنیا کی تعداد خود بخود کھنچی چلی آتی ہے اور تقویٰ والوں کے ساتھ آ کر ہم آہنگ ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی تقدیر ظاہر ہوتی ہے اور عددی غلبہ بھی نصیب ہو جاتا ہے.مگر اس عددی غلبہ کی قیمت ، اس کی حیثیت محض یہ ہے کہ اگر یہ تقویٰ کے تابع نصیب ہو تو قدر کے لائق ہے اگر یہ تقویٰ کے تابع نصیب نہ ہوتو اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.پس ہمیں دوسری دعا یہ بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ کی نظر میں ہم متقیوں کی وہ جماعت ہوں جن کے مقابل پر اللہ کی نظر میں دنیا کی ہر دوسری چیز قربان کئے جانے کے لائق ہو اور دنیا میں یہ ایک عظیم الشان معجزہ رونما ہو کہ متقیوں کی یہ جماعت جو ساری کائنات کی سردار مقرر کی گئی ہے، یہ ساری دنیا کی خادم بن کر ان پر نچھاور ہوتے ہوئے ، ان کے لئے قربانیاں کرتے ہوئے ، ان کی بھلائی کیلئے دعائیں کرتے ہوئے ان کو اپنی ذات میں ضم کرتی چلی جائے.
خطبات طاہر جلد اول 25 25 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء بیک وقت کی سرداری اور بیک وقت کی خادمانہ حالت یہ بھی ایک ایسا اسلامی تصور ہے جس کا باہر کی دنیا میں کوئی تصور نہیں پایا جاتا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں یہ اصول سکھایا اور یہ راز سمجھایا کہ سَيِّدُ القَومِ خَادِمُهُمُ الجها ولا بن المبارک کتاب الجھا دحدیث نمبر 207) اگر تم حقیقتا دنیا کے سردار ہو، اگر خدا کی طرف سے سیادت کا تاج تمہارے سروں پر رکھا گیا ہے تو حق دار اسی وقت تک رہو گے جب تک کہ باقی دنیا کی خدمت میں لگے رہو گے.اگر خدمت لینے کی خاطر سردار بنے کی کوشش کرو گے تو یہ سرداری تم سے چھین لی جائے گی.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 11) میں بھی یہی سبق عطا فرمایا گیا کہ تم بہترین امت ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ لوگوں کی بھلائی اور خدمت کے کام کرتے رہو.جب تک یہ صفت تم میں باقی رہے گی.جب تک تم خدمت کی سعادت پاتے رہو گے، اللہ کی نظر میں تم بہترین قوم کہلاتے رہو گے.جب ان باتوں سے عاری ہو جاؤ گے اور بنی نوع انسان کی بہبود سے مستغنی ہو جاؤ گے تو پھر سرداری کی ردا تم سے چھین لی جائے گی.پس ہمیں یہ بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کہ یہ سعادت جو اللہ تعالیٰ نے آج کے زمانہ میں ہمیں نصیب فرمائی کہ ہم وہ قوم ہیں جو خدا کی نمائندگی کر رہے ہیں ، ہم وہ قوم ہیں جو خدا کی نظر میں زندہ رکھنے کے لائق ہیں اور ہمارے مقابل پر کوئی عددی اکثریت کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ، ہم اپنی اس حیثیت کو نہ بھولیں کہ یہ سرداری در اصل خدمت کے لئے عطا ہوئی ہے بنی نوع انسان کی بہبود کی خاطر عطا ہوئی ہے ان پر راج کرنے کے لئے نہیں ، ہاں دلوں پر راج کرنے کے لئے ہے.دلوں کو فتح کرنے کے لئے ہے.ان پر پیار اور عشق اور محبت کی حکومت کرنے کیلئے ہے.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین رنگ میں، اس اصطلاح میں جس اصطلاح میں قرآن باتیں کرتا ہے، ہمیں سیادت عطا فرمائے اور ہمیشہ یہ سیادت قائم اور دائم رکھے.اس کے بعد میں تقویٰ سے متعلق ایک حدیث نبوی آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کرتا ہوں جو تقویٰ کی تشریح میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے تھے.عرباض روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت علی ایک دن تشریف لائے تو آپ نے ایک ایسا وعظ کیا جو بہت ہی فصیح و بلیغ تھا.اس کے نتیجہ میں ذرفت منها العيون ہماری آنکھیں بہنے لگ
خطبات طاہر جلد اول 26 26 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء پڑیں.آنسو جاری ہو گئے ووجلت منها القلوب اور ہمارے دلوں پر ایک لرزہ طاری ہو گیا.میرے باپ نے اس پر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ وعظ تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وداع کا وعظ ہے.گویا آپ ہم سب سے رخصت ہونے کے قریب ہیں تو آپ ہمیں کوئی ایسی نصیحت فرمائیے جس کو ہم پکڑ کر بیٹھ ر ہیں.کوئی ایسی بات کہیں جس عہد پر ہم ہمیشہ قائم ہو جائیں.تو آنحضرت ﷺ نے جواب میں صرف اتنا فرمایا أُوصِيكُمُ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ ( ترندی ابواب العلم باب ما جاء فى الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع ) کہ میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اور یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جب سنا کرو تو اطاعت کیا کرو.اور سننے اور اطاعت کے درمیان کوئی حیل و حجت داخل نہ ہونے دیا کرو.وَالسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ کا مطلب یہ ہے کہ سننا اور اطاعت کرنا اور کیوں اور کس لئے کی بحثیں نہ اٹھانا.پس آنحضرت علیہ نے ایک ایسے وقت میں جو خاص رقت کا وقت تھا اور جدائی کے لمحات قریب تھے، ہمیشہ کیلئے سب سے زیادہ بنیادی، سب سے زیادہ قائم اور دائم رہنے والی اور قائم اور دائم رکھنے والی جو نصیحت بیان فرمائی وہ تقویٰ کی تعلیم تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کے موضوع پر بہت کچھ فرمایا نثر کی صورت میں بھی اور نظم کی صورت میں بھی.میں ایک نثر کا اقتباس اور ایک نظم کا اقتباس آپ کے سامنے رکھ کر اس خطبے کو ختم کروں گا.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ آپ فرماتے ہیں: فرماتا ہے: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَّا قَ يُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ (الانفال:۳۰) وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه (الحديد (۳۹) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور
خطبات طاہر جلد اول 27 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ہر ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا.اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ ( راہیں) نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں ، تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں، وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.اب اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہے کہ تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہو سکتی ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقوی کم و بیش ہو سکتا ہے.اسی مقام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی اور اعلیٰ درجہ کی کرامت جو اولیاء اللہ کو دی جاتی ہے جن کو تقویٰ میں کمال ہوتا ہے وہ یہی دی جاتی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے اور ان کی قوت کشفی نور کے پانیوں سے ایسی صفائی حاصل کر لیتی ہے کہ جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ان کے حواس نہایت باریک بین ہو جاتے ہیں اور معارف اور دقائق کے پاک چشمے ان پر کھولے جاتے ہیں اور فیض سائغ ربانی ان کے رگ وریشہ میں خون کی طرح جاری ہو جاتا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۷ تا ۱۷۹) پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نظم میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں
خطبات طاہر جلد اول 28 88 تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش ہے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات اے کرم خاک! چھوڑ دے کبر وغرور کو کبر حضرت غیور کو رب زیبا ہے بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک.مرضی مولی اسی میں ہے تقویٰ کی جڑھ خدا کے لئے خاکساری ہے عفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء براہین احمدیہ جلد پنجم، روحانی خزائن جلد 21 ص 17) اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: احباب جماعت نے یہ دردناک خبر سن لی ہوگی کہ رات اچانک مکرم محترم چوہدری ظہور احمد صاحب سابق آڈیٹر.ناظر دیوان کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو گیا ( انا للہ وانا الیہ راجعون ) بہت ہی مخلص ، دیرینہ خادم تھے.مجھے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے اکٹھے
خطبات طاہر جلداول 29 29 خطبه جمعه ۲۵ جون ۱۹۸۲ء بعض مجالس میں.میں نے ان میں بعض صفات بڑے قریب سے دیکھیں.ایک تو بہت محنت کی عادت تھی دوسرے راز داری کا مادہ بہت پایا جاتا تھا اور کلیتہ ان کے اوپر انحصار کیا جاسکتا تھا.تیسرے وفا بہت تھی اور خلافت احمدیہ کے ساتھ تو ایسی کامل غیر متزلزل و فاتھی کہ جس کو نصیب ہو اس کے لئے یقیناً قابل رشک ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.اگر یہاں جنازہ آیا ہوا ہو تو انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد یہیں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.ساتھ ہی اس دعا کی بھی تحریک کرتا ہوں کہ جہاں ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کرتے رہیں وہاں یہ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اگر ایک اچھا خادم ہم سے اٹھالے تو اس کی جگہ ہزار اچھے خادم ہمیں عطا کرے.کیونکہ کام بہت ہے اور طاقت کم ہے.بہت زیادہ کام ہے دنیا میں.ابھی تو ہمیں کسی ایک ملک میں بھی روحانی غلبہ نصیب نہیں ہوا.تو اچھے کارکن اگر اٹھتے چلے جائیں اور ان کی جگہ بہت سے اور اچھے کارکن جگہ لینے کیلئے آگے نہ آئیں تو کام کیسے چلے گا.تو کل اللہ ہی کی ذات پر ہے اور وہی کام کو چلائے گا.مگر ہمارا فرض ہے کہ بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کارکنوں سے کبھی بھی خالی نہ رکھے.ایک لے تو اس کی جگہ ہزار اور دے اور یہ سلسلہ فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کا آگے ہی آگے چلتا چلا جائے.خطبہ کے بعد فرمایا: جنازہ آچکا ہے.میں نماز جمعہ کے بعد اور سنتوں سے پہلے نماز جنازہ پڑھاؤں گا.اس کا طریق یہ ہوگا کہ چونکہ محراب میں امام اور میت کے درمیان دیوار ہے اس لئے میں فرض پڑھانے کے بعد باہر چلا جاؤں گا.ایک صف باہر بن جائے گی.باقی احباب اپنی اپنی صفوں میں کھڑے رہیں اور نماز جنازہ میں شامل ہوں.“ روزنامه الفضل ربوه ۵/ جولائی ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 31 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۸۲ء تمام خلفاء کے الگ الگ رنگ ( خطبه جمعه فرموده ۲ / جولائی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ پڑھیں : وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ ۚ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّكَانَ يَوْسًا قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اهْدَى سَبِيلًا في سرائيل: ۱۳۸۵ پھر فرمایا: یہ آیات کریمہ جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جب بھی ہم انسان پر انعام فرماتے ہیں تو اس کی بدقسمتی دیکھو، اس کی محرومی ملاحظہ کرو کہ وہ ہمیشہ اجتناب کرتا ہے.اعراض کرتا ہے، منہ پھیر لیتا ہے اور اس کی کوشش یہی رہتی ہے کہ مجھ تک میرے رب کا انعام نہ پہنچے.وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جب اس کے نتیجے میں اسے شدید مشکلات گھیر لیتی ہیں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے وَإِذَا مَسَّهُ الشَّر تو پھر وہ مایوس ہو جاتا ہے.تو کہہ دے کہ ہر شخص اپنی شاکلہ کے مطابق عمل کیا کرتا ہے.اس کے مزاج ، اس کے اخلاق ، اس کی طرز فکر ، اس کے طرز عمل کا ایک سانچہ ہے.اس کا ہر عمل اس سانچے میں ڈھلتا ہے اور اس کے مطابق اس سے اعمال ظہور پذیر ہوتے ہیں.تو ان سے کہہ دے کہ تیرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کا طرز عمل ہدایت کے زیادہ قریب ہے.
خطبات طاہر جلد اول 32 32 خطبہ جمعہ ۲؍ جولائی ۱۹۸۲ء جہاں تک دنیوی انعامات کا تعلق ہے انسان تو بہت حریص واقع ہوا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اس پر کوئی کرم کیا جائے ، کوئی احسان کیا جائے تو وہ منہ پھیر کر بھاگے، یہاں کسی ایسے انعام کا ذکر ہے جس سے ہمیشہ انسان اپنی بدقسمتی میں محروم رہنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ نبوت ہی کا انعام ہے پس معلوم ہوا کہ یہاں سب سے بڑے انعام کا ذکر چل رہا ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ رسول اکرم علی کی بعثت کا ذکر ہے.اور تاریخ انسانی کا خلاصہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ یہ بدقسمت یہ محروم جو اس عظیم الشان نعمت سے منہ موڑ کر اور پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہیں ان کے مقدر میں تو شروع سے یہی لکھا ہے ، یہی ان کا سلوک ہوتا رہا ہے ہر نعمت سے.اس لئے اب اگر اس نعمت سے بھی یہ محروم رہ جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.لیکن جس طرح ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کہ نعمت سے محرومی کے بعد انسان طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے.پس حضرت محمد مصطفی علہ کے منکرین بھی ایسی ہی مصیبتوں اور مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں.اور زمانہ اس انکار کے نتیجے میں لازماً ہلاکت کی طرف جائے گا اور کوئی چیز اس کو بچانہیں سکے گی.اور وہ ہلاکت اتنی خطرناک ہوگی کہ یہی منکرین اپنی آنکھوں کے سامنے اس ہلاکت کو دیکھیں گے اور ان کے دل گواہی دیں گے کہ اس سے بچنے کے لئے کوئی جگہ نہیں گان یوسا.وہ کلیہ اپنی نجات سے مایوس ہو جائیں گے.فرمایا ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے انسان کو؟ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے کہ دیکھو! ہم نے انعام نبوت کے ساتھ ہی دو قسم کے طرز عمل پیدا کر دیئے.ایک انعام پانے والوں کا طرز عمل ہے اور ایک انکار کرنے والوں کا طرز عمل.جہاں تک مومنین کا تعلق ہے ان کے لئے انعام صلى الله پانے والے لوگوں کا طرز عمل ہے یعنی سنت حضرت محمد مصطفی ﷺ.اس سنت سے سر مو بھی تم نے انحراف نہیں کرنا.انکار کرنے والے ہمیشہ کی طرح انعام پانے والوں کو دکھ دیں گے.طرح طرح کی مصیبتیں ان پر وارد کرنے کی کوشش کریں گے.ہر طرح ان کی مخالفت کریں گے، ان کے دل دکھائیں گے، ان کو ہر قسم کے عذابوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں گے.لیکن تم نے اس طرز عمل سے سر کو بھی انحراف نہیں کرنا جو تمہاری شاكلة اسوہ محمد میے کے مطابق خدا تعالیٰ نے ڈھال دی ہے.وہی ایک طرز عمل ہے جو تمہارے لئے مقدر ہے.اس سے ہٹنا بدنصیبوں کا کام ہے، خوش نصیبوں کا کام نہیں.کیونکہ جو ہٹنے والے ہیں ان کے انجام کی پہلے ہی خبر دیدی.
خطبات طاہر جلد اول 3 33 خطبہ جمعہ ۲/ جولائی ۱۹۸۲ء تو فرما يا كُلَّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَتُكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا که یه بات تو تقدیر الہی ہی ظاہر فرمائے گی کہ وہ کون ہیں جو نجات پانے والے اور ہدایت پانے والے ہیں.حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پیروکار اور آپ کی سنت پر عمل کرنے والے یا اس سنت سے ہٹ کر مخالفانہ اور معاندانہ سلوک کرنے والے.پس جماعت احمد یہ کیلئے اس میں بہت سبق ہے.ہر قسم کے دکھ اور مشکلات اور مصیبتوں اور عناد اور گالیوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں آپ کیلئے صبر اور رضا اور دعائیں کرنا اور اپنے دشمنوں کی بھلائی چاہنا ، دکھ دینے والوں کے لئے دکھ محسوس کرنا ، غصے کا کوئی سوال نہیں ہمیشہ دل میں رحمت کے جذبات کو پرورش دینا اور رحیمانہ سلوک کرنا، یہ ہے ہمارے مقدر کی بات.اور ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اس سے ہٹنا ہمیں نصیب نہ ہو.اور ہم میں سے کمزور سے کمزور انسان کے بھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئے اور وہ اس فلاح کے یقینی راستے پر ثبات قدم کے ساتھ قائم رہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی راستے پر قائم و دائم رکھے.آمین دنیا میں بعض چیزوں کو مثالوں کی صورت میں واضح کیا جاتا ہے.اس طریق کار کو بھی ہماری زبان میں ایک مثال اور ایک کہاوت کی شکل میں بیان کیا گیا ہے.لوگوں کو سمجھانے کی خاطر میں وہ مثال ان کے سامنے رکھتا ہوں.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گائے دریا پار کر رہی تھی تو ایک بچھوڈوب رہا تھا.اس نے اپنی دم کے ذریعے اس کو اٹھا کر اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا.جب وہ ، دوسرے کنارے پہنچی تو پیشتر اس کے کہ بچھوا تر کرخشکی کی راہ لیتا اس نے اسے ڈنک مارا.کہانی میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک خرگوش ساحل پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا.اس نے گائے سے کہا تم بڑی بیوقوف ہو.ایسے ظالم، ایسے موذی کونجات دی اور جانتی نہیں تھی کہ یہ تم سے ظلم کا سلوک کرے گا، نیکی کا بدلہ برائی سے دے گا.تو گائے نے جواب دیا کہ بھائی میں بیوقوف نہیں ہوں.میرے رب نے مجھے ایسا ہی بنایا ہے اور اس سے میں انحراف نہیں کر سکتی.میری فطرت خدا تعالیٰ نے اس طرح بنائی ہے کہ میں دودھ پلاتی ہوں تم لوگوں کو اور پھر تم لوگ میرا گوشت بھی کھاتے ہو.مجھ سے ہر قسم کے فائدے اٹھاتے ہو.ہل میں جوتی جاتی ہوں اور جب کسی کام کی نہیں رہتی تو پھر تم مجھے ذبح کر دیتے ہو، قصائی کے سپر د کر دیتے ہو.تو میرا تو مقدر ہی یہ ہے کہ تم لوگوں کی بھلائی کی خاطر پیدا کی گئی ہوں.اس بدقسمت کا مقدر یہ ہے کہ یہ
خطبات طاہر جلداول برائی کی خاطر پیدا کیا گیا ہے.34 =4 خطبہ جمعہ ۲؍ جولائی ۱۹۸۲ء تو شاكلة کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں دی جاسکتی.یہ مثال تو ایک ادنیٰ مثال ہے لیکن اس کے پیچھے جو روح کارفرما ہے وہ بہت عظیم ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ساری سیرت میں ہمیشہ یہی روح کارفرما رہی.آنحضرت علی نے ہمیشہ دشمنوں سے دکھ اٹھائے اور جانتے ہوئے کہ یہ پھر بھی دکھ دینے والے ہیں ان سے احسان اور کرم اور رحم کا سلوک فرمایا.اور یہ ایک لمبی داستان ہے اس وقت اس کے بیان کا موقع نہیں.گرمی کی شدت ہے.رمضان شریف کا بھی تقاضا یہی ہے.صرف یہ اشارہ کافی ہے کہ احمدیوں کیلئے صرف ایک نمونہ ہے، ایک شاكلة ہے، ایک ہی قالب ہے، ایک ہی سانچہ ہے جس میں ہم نے ڈھلنا ہے اور ہمیشہ ان دیواروں کی اس چار دیواری کی حفاظت کرنی ہے اور اس سے باہر سر مو بھی قدم نہیں رکھنا.دوسرا پہلو شاكلة کا انفرادی ہے.اس عمومی سنت محمد مصطفی عملے کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ہر انسان کی ایک انفرادیت ہوتی ہے.ابوبکر بھی سنت محمد مصطفی ملالہ پر ہی چلنے والے تھے لیکن ان کا ایک اپنا رنگ تھا.عمر بھی تو سنت محمد مصطفی " پر ہی چلنے والے تھے لیکن ان کا ایک اور رنگ تھا.عثمان بھی سنت محمد مصطفیٰ ہی کے عاشق تھے لیکن ان کا بھی ایک اپنا رنگ تھا اور علی بھی محمد مصطفی " ہی کے غلام تھے لیکن ان کا بھی ایک الگ رنگ تھا.كُلُّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ.وہ اپنی انفرادیت کی وجہ سے مجبور تھے کہ سنت کا جو تصور ان کے دل میں تھا اور ان کا ذاتی قالب سنت کو جس صورت میں قبول کر رہا تھا اسی طرح اس رنگ کو اپنے اندراختیار کریں اور اسی طرز کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی شاكلة کے اندر رکھ دی تھی.تو ایک ہوتے ہوئے بھی یعنی سنت محمد مصطفیٰ" کے ایک ہی رنگ میں رنگین ہونے کے باوجود ہر ایک کا الگ الگ رنگ بھی تھا جیسا کہ کہا گیا ہے.رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا ہے ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے (دیوان غالب) تو محمد مصطفی ﷺ کے عشاق نے ہر رنگ میں بہار کا اثبات کیا.اور ویسے بھی یہ ناممکن تھا کہ آنحضور ﷺ کی سیرت کا بحر ذخار کسی ایک وجود میں اکٹھا ہو جاتا.اتنا ہی بڑا ظرف بھی تو ہونا چاہئے تھا.اس لئے اپنی اپنی توفیق ، اپنی اپنی حیثیت، اپنی اپنی شاكلة کے مطابق لوگوں نے
خطبات طاہر جلد اول 35 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۸۲ء آپ کے عشاق نے محمد مصطفی ﷺ کے رنگ پکڑے.جولوگ اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے وہ بعض دفعہ نادانی میں خلفاء کا ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ شروع کر دیتے ہیں.اور ہمیشہ یہ چلتا آیا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمرؓ کی زندگی میں ان کے ساتھ بعض نادانوں نے مقابلے کئے کہ جی وہ تو یوں کیا کرتے تھے، وہ تو یہ ہوتا تھا.آپ یہ کرتے ہیں اور آپ یوں کرتے ہیں.اسی طرح حضرت عثمان کے دور میں حضرت عمرؓ سے مقابلے شروع ہو گئے اور حضرت علی کے دور میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقابلے شروع ہو گئے (رضوان الله علیهم ).اور لوگ نادانی میں یہ نہیں سمجھتے کہ كُل يَعْمَلُ عَلى شَاكِلَتِهِ فَرَتْكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا تم لوگ تو نادان ہو.تم نا واقف ہو.جاہل ہو.تمہیں کچھ پتہ نہیں کہ کس کا عمل کیوں ہے؟ اور طرز عمل کس لئے اختیار کیا جا رہا ہے؟ یہ بندے ہیں ، مجبور ہیں اس فطرت کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی.یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاكلة کے اندر رہتے ہوئے صحیح قدم اٹھایا یا غلط قدم اٹھایا ، بندہ واقف ہی نہیں ان اسرار سے.وہ دل کے حالات کو ، نیتوں کو نہیں جانتا.اس لئے اس کا کام نہیں ہے کہ وہاں زبان کھولے جہاں زبان کھولنے کی اس کو مجال نہیں ، جہاں زبان کھولنے کے لئے اس کو مقرر نہیں کیا گیا.اس لئے میں جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسی لغودلچسپیوں سے باز رہیں.کسی کے کہنے سے کسی خلیفہ کے مقام میں ، اس کے منصب میں کوئی فرق نہیں پڑے گا.جو فرق پڑے گا اور پڑتا ہے وہ صرف اللہ کی نظر میں ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کسی نے اپنی استعداد کے مطابق پورا استفادہ کیا کہ نہیں.بعض دفعہ استعدادوں کے مختلف ہونے کے نتیجے میں مختلف طرز عمل رونما ہوتے ہیں اور اس کے باوجود بظاہر ایک کم نتیجے کو ایک بظاہر زیادہ نتیجے پر فوقیت دیدی جاتی ہے.مثلاً ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے استعداد عطا فرمائی ہے کہ وہ دنیا کا بہترین دوڑنے والا بن جائے اور وہ استعدادوں کو ضائع کر دیتا ہے.وہ بہترین تو نہیں بنتا لیکن اپنے ملک کا بہترین کھلاڑی بن جاتا ہے.اور ایک انسان کو زیادہ سے زیادہ یہ استطاعت ہے کہ وہ اپنے ضلع کے اندر اول آئے اور ضلع کے اندر سب سے تیز دوڑنے والا شمار ہو اور وہ ساری طاقتیں استعمال کر کے اپنے ضلع میں اول آ جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد اول 36 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۸۲ء تو انسان کو کیا پتہ کہ کس کی استعداد کی تھی اور کون خدا کی نظر میں اپنی استعدادوں کو کمال تک پہنچا کر ان کے نقطۂ منتہا تک پہنچ گیا ہے.یہ ایک چھوٹی سی مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ اپنی لاعلمی اور جاہلیت کو سمجھنا چاہئے اور یہی تقاضا ہے انکساری کا اور اپنے مقام بندگی کو سمجھنے کا کہ انسان ان معاملات میں دخل نہ دے جو اللہ کے معاملات ہیں.اور اللہ کے معاملات کو اللہ پر رہنے دے.بندے کا کام یہ ہے کہ استغفار سے کام لے، دعائیں کرے اور دعاؤں کے ذریعے من حیث الجماعت ، ساری جماعت اپنے وقت کے خلیفہ کی کمزوریوں سے پردہ پوشی کی دعا کرے.اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور جتنی بھی استطاعت اس نے بخشی ہے استطاعت کے بہترین استعمال کا موقع اس کو عطا فرمائے تا کہ اس کی رضا کی نظر پڑے اس پر اور اگر آپ کے خلیفہ پر آپ کے اللہ کی رضا کی نظر پڑے گی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ساری جماعت پر اللہ کی رضا اور محبت اور پیار کی نظر میں پڑیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: احباب صفیں درست کر لیں.اور یاد رکھیں کہ آنحضرت ﷺ کے دو احکامات کو ہمیشہ ملحوظ رکھا کریں.ایک صفیں سیدھی ہوں اور دوسرے بیچ میں خلا نہ ہو.گرمی کا تقاضا تو یہی ہے کہ کھلا کھلا کھڑے ہوں.لیکن دین کا تقاضا یہ ہے کہ اکٹھے مل کر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں.پس جب آپ نے عہد کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی آزمائش ہوتی ہے.ہر مقام پر چھوٹی ہو یا بڑی، دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھیں.کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں ، صفوں میں خلا نہ ہو اور سفیں سیدھی ہوں.(روز نامہ الفضل ربوه ۱۴ / جولائی ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 37 37 خطبہ جمعہ ۹ جولائی ۱۹۸۲ء گزشتہ مالی سال میں خدائی افضال اور جماعتی قربانی کی برکت ( خطبه جمعه فرموده ۹ جولائی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) है تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی یہ ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں : المة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ ) (البقره: ٣-٢) اور پھر فرمایا: صدر انجمن احمدیہ کا وہ مالی سال جو کیم جولائی ۱۹۸۱ء سے شروع ہوا تھا.۳۰ جون ۱۹۸۲ء پر اختتام پذیر ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سال بہت ہی کامیاب ثابت ہوا ہے.چنانچہ صرف محاصل خالص جو متوقع تھے وہ ایک کروڑ چھ لاکھ سولہ ہزار ایک سو پچاس روپے تھے.لاکھوں روپے کا مشروط بآمد بجٹ اس کے علاوہ ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو وصولی ہوئی وہ ایک کروڑ چھ لاکھ کے مقابل پرتمیں لاکھ انہتر ہزار روپے زائد یعنی کل ایک کروڑ چھتیں لاکھ تر اسی ہزار روپے وصولی ہوئی.اس پر جہاں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں وہاں ان کارکنان کا شکریہ بھی واجب ہے جو مرکزی ہوں یا مقامی
خطبات طاہر جلد اول 38 88 خطبہ جمعہ ۹؍ جولائی ۱۹۸۲ء جماعتوں کے ہوں انہوں نے بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ سارا سیال کام کیا.محض اللہ وقت دیا اور سلسلہ کا روپیہ بڑھانے کی خاطر وقت دے کر انہوں نے اپنی بہت سی قیمتی آرزوئیں قربان کیں.ایک دفعہ میں کراچی میں تھا وہاں کسی کام کیلئے طارق روڈ گیا تو کراچی کا ایک بوڑھا، کمزور، نا تواں سلسلہ کا کارکن بڑے انہماک کے ساتھ کہیں جاتا ہوا دکھائی دیا.لوگ اپنی شاپنگ کے لئے یا اور نظاروں کے دیکھنے کی خاطر اور شام کی سیر کا لطف اٹھانے کے لئے چل رہے تھے.مگر اس کا رکن کے چہرہ پر ایک خاص عزم تھا خاص مقصد تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی خاص ذمہ داری کا بوجھ لئے ہوئے جارہے ہیں.تو پتہ چلا کہ سلسلہ کے کاموں میں منہمک کیٹڑیاں جو دنیا کی نظر میں کیڑیاں ہیں لیکن اللہ کی نظر میں بہت عظیم مقام رکھتی ہیں.ان کیٹریوں میں سے وہ ایک کیٹری تھا اور صرف اللہ کے کاموں میں مصروف تھا.چندہ لینے کے لئے یا کوئی اور پیغام دینے کیلئے وہ جارہا تھا.پس ان سب کارکنان کا شکر واجب ہے دعا کی صورت میں.خواہ مرکزی ہوں یا مقامی جماعتوں کے کارکنان ہوں سارا سال بہت محنت کرتے ہیں.بہت وقت خرچ کرتے ہیں.بہت دعائیں کرتے ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ یہ فضل عطا فرماتا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کی اس رحمت پر خوش ہیں لیکن اگر ظاہری اعتبار سے دیکھا جائے تو اس روپیہ کی خواہ وہ ایک کروڑ تیس لاکھ ہو، خواہ دس کروڑ تیس لاکھ ہو ، کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.روپیہ فی ذاتہ کوئی معنے نہیں رکھتا اور خاص طور پر اس دنیا میں جب کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کے بجٹ اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ عام انسان کا تصور بھی اس کو نہیں پہنچ سکتا.ذہن وہ اعداد و شمار ہی Grasp نہیں کر سکتا.اس کو اس کا ادراک حاصل نہیں ہو سکتا کہ یہ کتنی بڑی رقمیں ہیں جن کی باتیں ہو رہی ہیں.اس وقت یہ ایک کروڑ تھیں چھتیں لاکھ کا بجٹ کسی فخر کے ساتھ پیش کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا.پھر ایک اور پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کی حیثیت دنیوی پیمانوں کے لحاظ سے کچھ بھی باقی نظر نہیں آتی اور وہ یہ حیثیت ہے کہ صرف عیسائیت.ساری عیسائیت نہیں ، صرف عیسائیت کے بعض فرقے.اکیلے اکیلے ہی روزانہ اپنے مذہب کی تبلیغ پر جو خرچ کر رہے ہیں وہ ہمارے سال کے بجٹ سے دسیوں گنا زیادہ ہے.دس کروڑ بیس کروڑ میں کروڑ روپیہ بلکہ اس سے بھی زائد بعض
خطبات طاہر جلداول 39 39 خطبہ جمعہ ۹ / جولائی ۱۹۸۲ء عیسائی چرچ روزانہ تبلیغ عیسائیت پر خرچ کر رہے ہیں.تو جب دنیا کی ان کوششوں کو دیکھیں جو اسلام کے مقابل پر ہیں تو سارے مذاہب کو تو چھوڑو.ساری عیسائیت کو بھی چھوڑو.عیسائیت کا صرف ایک فرقہ اتنے اموال خرچ کر رہا ہے کہ ہمارے روپے پیسے کی اس کے مقابل پر صفر کی حیثیت رہ جاتی ہے.جب یہ کیفیت ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم خوش کیوں ہیں.کیوں اسے اللہ کا فضل گردانتے ہوئے آج ہمارے دل بہت ہی مطمئن ہیں اور شاد ہیں کہ الحمد للہ بہت اچھا سال گزرا.اس کی تین وجوہات میں آج آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب میں نے اپنے دل کی کیفیت کا تجزیہ کیا تو میں نے دیکھا کہ ظاہری روپے پیسے کی مقدار کے لحاظ سے تو کوئی خوشی کا موقع نہیں ہے.اتنے بڑے کام پڑے ہوئے ہیں.اتنی بڑی بڑی طاقتیں مقابل پر ہیں کہ اس روپے کی حیثیت ہی کوئی نہیں.خوشی کی وجوہات میں سے سب سے پہلی بات یہ نظر آئی کہ یہ روپیہ ہمارے رب کے پیار کا مظہر ہے.اس پیار کا مظہر ہے جو جماعت کے ساتھ وہ آغاز سے لے کر آج تک کر رہا ہے.اور وہ پیار ہر پیسے میں شامل ہے.اس کی رحمت.اس کا فضل.اس کی تائید اور نصرت اس وقت بلکہ زیادہ تھی اپنی شدت اور کمیت کے لحاظ سے جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور جماعت کے مخلصین بعض دفعہ دو دو پیسے پیش کرتے تھے.ان دو پیسوں کا شکریہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے قلم سے ادا کیا.(سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 ص 85) اور قیامت تک ان کے نام ستاروں کی طرح روشن اور اسلام اور احمدیت کی تاریخ میں زندہ رہیں گے.آج دو کروڑ کو بھی وہ حیثیت حاصل نہیں جو ان دو پیسوں کو تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قلم سے قرطاس پر روشنائی سے لکھے جارہے تھے اور آپ کی دعائیں ان میں شامل تھیں اور اللہ تعالیٰ بڑے پیار اور محبت کے ساتھ ان دو پیسوں کو بھی دیکھ رہا تھا اور ان کے ذکر کو بھی دیکھ رہا تھا.پیش کرنے والوں کے اخلاص کو بھی قبول کر رہا تھا اور قبول کرنے والے کی شفقت اور رحمت پر بھی پیار کی نظریں ڈال رہا تھا.پس اصل بات جو قابل شکر ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہے اس کی رحمت ہے.اس کا فضل ہے جو آغاز کے دن سے لے کر آج تک جماعت کے ساتھ پوری وفا کر رہا ہے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس روپے پر کبھی خزاں نہیں آتی.دنیا کے حالات جب بدلتے ہیں.جب اقتصادی حالات بہتات سے بحران کی طرف مائل ہوتے ہیں تو بڑی بڑی کروڑ پتی کمپنیوں کے بھی دیوالئے پٹ جایا کرتے ہیں.بڑی بڑی حکومتوں کے
خطبات طاہر جلداول 40 40 خطبہ جمعہ ۹/ جولائی ۱۹۸۲ء خزانے خالی ہو جایا کرتے ہیں.روپے کی کوئی قدر اور قیمت نہیں رہتی.جب حکومتوں کا نظام کمزور پڑتا ہے اور Coercion ( کوئرشن ) کم ہو جاتی ہے یعنی جبر کی طنابیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں تو ٹیکس کی چوریاں شروع ہو جاتی ہیں.دینے والے اول تو ٹیکس دیتے نہیں اور جو دیتے ہیں.وہ لینے والے کھا کر بھاگ جاتے ہیں.پس دنیا کے روپے کئی قسم کے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کی خزائیں ان کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی ہیں اور ان کا خون چوس جاتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر کوئی خزاں نہیں آیا کرتی.جماعت احمدیہ پر مختلف حالات گزرے ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ ۷۴ ء میں جب ساری جماعت کے اموال لٹ رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے خزانے بھرے جار ہے تھے اور پہلے سے بڑھ کر بھرے جا رہے تھے.دوستوں کی طرف سے یہ درخواستیں نہیں آ رہی تھیں کہ ہم لٹ گئے.ہمارے تو گھر جل گئے.ہمارے چندے معاف کئے جائیں.لوگ روتے ہوئے اور التجائیں کرتے ہوئے یہ درخواستیں دے رہے تھے کہ اے ہمارے آقا! دعا کریں کہ اس حال میں بھی خدا ہمیں اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے.ہم اپنا کوئی وعدہ واپس نہیں لینا چاہتے.ہم پوری دیانت داری اور پورے خلوص سے یہ ارادہ کرتے ہیں کہ ہم نے جو وعدے کئے تھے وہ ہم ضرور ادا کریں گے.صرف اتنی التجا ہے کہ آپ بھی دعاؤں کے ذریعہ ہماری مدد کر یں.اللہ تعالیٰ ہمیں حوصلہ دے.ثبات قدم عطا فرمائے اور توفیق بخشے کہ ہم ان وعدوں کو پورا کر دیں.اس قسم کے بعض خطوط وقف جدید میں مجھے آ جاتے تھے.سیالکوٹ کی ایک جماعت تھی جو پوری اجڑ چکی تھی.وہاں موجود ہی نہیں رہی تھی ( لیکن ۷۴ء کے زمانہ کی میں بات نہیں کر رہا.یہ دوسری مثال دے رہا ہوں ۱۹۷۱ء کی جنگ کے نتیجہ میں یہ حالات پیدا ہوئے تھے ) اس زمانہ میں ان کی عارضی ہجرت کے دوران پہلے ان کے پریذیڈنٹ کا خط آیا کہ دعا کریں.چاہے ہمیں مزدوری کرنی پڑے.محنت کرنی پڑے.ہم یہ چندہ وقف جدید کا لکھایا ہوا ہے، وہ ضرور ادا کریں گے اور پھر سال ختم ہونے سے پہلے خوش خبری کا خط آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی ہے اور ہم نے اس چندے کی پائی پائی ادا کر دی ہے.پس یہ وہ جماعت ہے جس پر خدا کے فضل ہیں اور خدا کے فضلوں پر خزاں نہیں آیا کرتی.
خطبات طاہر جلد اول 41 خطبہ جمعہ ۹ر جولائی ۱۹۸۲ء خدا کے فضل ، دنیا کے دوسرے تمام مالی نظاموں سے اس طرح ممتاز ہوا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بڑے پیارے انداز میں یوں بیان فرمایا: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں (در شین) ۷۴ء میں بھی قربانیوں کے بڑے بڑے پیارے پھول کھلے تھے ایسے پھول جو سارے جہاں کو زینت بخش سکتے تھے اگر دنیا ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی اور یہ پھول بوستان احمد میں ہمیشہ کھلتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بوستان پر کبھی خزاں نہیں آئے گی.پس پہلا شکر کا موجب یہ تصور ہے جو ہماری روحوں کو اللہ کے حضور سجدہ ریز کر دیتا ہے اور جھکائے رکھتا ہے.دوسرا ایک خاص پہلو اور بھی ہے جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص وعدہ بھی تھا.اور وہ مالی اعانت کا وعدہ تھا.آر کو اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار کے انداز میں پنجابی کے کلام میں یوں فرمایا: میں تینوں اینا دیاں گا کہ رج جائیں گا رجنے کی ایک علامت ہوتی ہے کہ اس کا پس خوردہ بچا کرتا ہے.جورجے نہ ، جس کا پیٹ نہ بھرے، اس کی تو طلب باقی رہ جایا کرتی ہے اور پلیٹ میں کچھ نہیں رہتا.رجا ہوا تو اپنی پلیٹ کو چھوڑ جاتا ہے.دوسرے بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں.چنانچہ میں نے منصب خلافت پر آنے کے بعد دیکھا کہ اللہ کے فضل سے بے شمار روپیہ نیک کاموں پر خرچ کرنے کیلئے آپ کا پس خوردہ موجود ہے اور سلسلہ کو مالی لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہے اور کوئی کمی خدا کے فضل سے نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ کا جو یہ وعدہ ہے میں امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اور آپ بھی اس دعا میں شامل ہوں کہ وہ اسی طرح جماعت کے ساتھ جاری رہے کیونکہ خلیفہ کے بدلنے سے خلافت تو نہیں بدلا کرتی.خدا کے کام تو نہیں بدلا کرتے.دین کی ضرورتیں تو نہیں بدلا کرتیں.اس لئے ہمیں یہ التجا کر نی چاہئے کہ اے اللہ ! جو فضل تو نے جاری فرما دیا اس کو جاری رکھ اس مزید دعا کے ساتھ کہ اے خدا! تو اپنے فضل اور عطا بھی بڑھاتا چلا جا اور ہماری بھوک بھی بڑھاتا چلا جا.ہمارے مانگنے کا ظرف بھی بڑھاتا چلا جا.ان دونوں کے درمیان دوڑ شروع کر دے.اور خود تیری عطا کردہ ایک ایسی پیاری دوڑ چل پڑے کہ جس طرح
خطبات طاہر جلد اول 42 خطبہ جمعہ ۹ / جولائی ۱۹۸۲ء حضرت خلیفہ امسح الثالث دو گھوڑوں کی مثال دیا کرتے تھے.ویسی صورت حال پیدا ہو جائے.کہتے ہیں ایک عرب کو ایک گھوڑا بڑا پیارا تھا کیونکہ سارے عرب میں اس جیسا تیز رفتار گھوڑا کوئی نہیں تھا.ایک دفعہ چور آیا اور گھوڑے کو کھول کر وہ بہت دور نکل گیا.جب مالک کی آنکھ کھلی تو وہ گھوڑا آگے جا چکا تھا اس نے اپنا نمبر ۲ گھوڑا پکڑا اور نمبر ۲ گھوڑے پر سوار ہو کر اس کا پیچھا شروع کیا.کیونکہ وہ ماہر تھا اس کے مزاج سے واقف تھا اور چور اول نمبر گھوڑے کے مزاج سے نا آشنا تھا.اس لئے آہستہ آہستہ یہ اس کے قریب تر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ گیا.لیکن اچانک اس کو وہاں یہ خیال آیا کہ اگر آج میں نے اس کو پکڑ لیا تو میرے گھوڑے کا یہ نام جو دنیا میں رہنا تھا کہ کبھی کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں بڑھ سکا یہ نام ختم ہو جائے گا.تو اس نے چور سے کہا، جا میں اور کسی وجہ سے نہیں صرف اپنے گھوڑے کے نام کی خاطر تجھے چھوڑتا ہوں.اور گھوڑے کو اس نے جانے دیا.پس میرے دل کی یہ کیفیت ہے کہ میں اللہ سے عرض کروں کہ تو ہماری بھوک بھی بڑھاتا چلا جا اور اپنی عطا بھی بڑھاتا چلا جا.لیکن اگر ہماری بھوک تیری عطا کے قریب پہنچ جائے تو پھر تو اپنی رحمت کے صدقے اس عطا کے نام پر جسے کبھی دنیا میں کسی چیز نے شکست نہیں دی تو اپنی عطا کو اور آگے بڑھا دینا تا کہ یہ عطا ہمیشہ بے مثل رہے اور بے نظیر رہے اور کوئی بھوک اس کو پکڑ نہ سکے.غرض اللہ تعالیٰ سے ہماری التجا یہی ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر یہ فضل جاری رکھے اور ساتھ یہ بھی کہ بہترین خرچ کی توفیق بخشے.امانت کے ساتھ ، دیانت کے ساتھ بہترین سوچ کی توفیق بخشے بہترین فکر کی تو فیق بخشے.سارے کارکن خدا کی رضا کی خاطر کام کرنے والے ہوں.دیانت اور امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں.پیسے پیسے کے ساتھ دعاؤں کی اور التجاؤں کی برکتیں شامل ہوں اور یہ روپیہ اپنی ظاہری حیثیت سے کئی گنا زیادہ برکتیں اپنے ساتھ لے کر آئے جو دنیا کے حساب میں وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتیں.بجٹ کی زائد وصولی پر خوشی کا تیسرا پہلووہ ہے جو دینے والوں کی حالت سے تعلق رکھتا ہے.حق حلال کی کمائی اس میں شامل ہے.اہل ایمان مزدوروں کا پسینہ اس میں شامل ہے.ایسی محنت اور پاکیزہ محنت اس روپیہ میں داخل ہو چکی ہے جو اپنی پاکیزگی کے لحاظ سے ساری دنیا میں بے مثل ہے.
خطبات طاہر جلد اول 43 خطبہ جمعہ ۹؍ جولائی ۱۹۸۲ء اپنی قناعت کے لحاظ سے بے مثل ہے اور ان پاکیزہ خیالات کے لحاظ سے بے مثل ہے جو اس محنت میں شامل ہیں.پس اس روپیہ کے ساتھ دنیا کے کسی دوسرے روپیہ کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا.ان امیروں کا فاصلہ بھی اس میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کی گناہ آلو د زندگی کو ترک کر کے اپنے روپے کو دنیا کی لذتوں کے حصول پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے رب کی رضا کے حصول پر خرچ کیا اور نہ دنیا میں کروڑوں امیر ایسے بس رہے ہیں جو فسق و فجور کی راہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں.ان کا روپیان کی گناہ کی توفیق سے بڑھ جاتا ہے اور وہ بے چین ہوتے ہیں کہ اس کو کس طرح خرچ کریں اور کس طرح اپنے گناہ کی تمنا کو پورا کریں.اس کی پیاس بجھائیں.لیکن میدان نہیں ملتے.اس کے برعکس اللہ کے فضل سے احمدی امراء ہیں جو مواقع ہونے کے باوجود.ہر طرح کے امتحانوں اور ابتلاؤں کے باوجود ان مواقع سے رکتے رہے، جو گناہ کے حصول کیلئے ، روپے کے ذریعہ ،مواقع ان کو میسر آ سکتے تھے.اور اس روپے کو بچا کر نیک راہوں پر خرچ کیا.گو ذاتی لحاظ سے ان کی تکلیف ،غریب کی تکلیف کے مقابل پر کم تھی لیکن اس سے انکار بہر حال نہیں ہے کہ انہوں نے اور رنگ کی روحانی تکلیفیں اپنے اوپر وارد کیں اور امتحانوں میں ثابت قدمی دکھائی.پس اس روپیہ میں وہ بھی اپنے غریب بھائیوں کے ساتھ شریک ہیں.پھر ان غریبوں اور مسکینوں کی دال روٹی بھی اس روپے میں شامل ہو چکی ہے جو بمشکل زندگی گزارتے ہیں.ایسے معمولی مددگار کارکن جن کو بعض دفعہ جماعت کو عطیہ دینا پڑتا ہے.زندگی کی بقاء کیلئے ان کا روپیہ پیسہ بھی اس میں شامل ہوا ہوا ہے.ان کے بچوں کا دودھ جوان کو نہیں ملا وہ بھی اس میں شامل ہے.ان کے تن بدن کے غریبانہ کپڑے بھی اس میں شامل ہیں.انہوں نے روپے کا روپ دھارا اور سلسلہ کے اس چندے میں داخل ہو گئے.ان کی اپنی ایک چمک دمک ہے.ان کی اپنی ایک روشنی ہے اور دنیا کا کوئی روپیہ اس نور اور اس روشنی کا مقابلہ نہیں کرسکتا.پھر ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ پر کہ اس نے چندہ دینے والوں کو دعاؤں کی توفیق بخشی.اس روپیہ میں ان کی دعائیں شامل ہیں.ان کی نیک تمنائیں شامل ہیں.ان کی گریہ وزاری شامل ہے.ان کا تقویٰ شامل ہے: لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ ط التَّقْوَى مِنْكُمْ (الج:۳۸)
خطبات طاہر جلد اول 44 خطبہ جمعہ ۹؍ جولائی ۱۹۸۲ء اللہ کوقربانیوں کا ظاہر کچھ بھی نہیں پہنچا کرتا.نہ اموال نہ روٹی کپڑا.نہ گوشت اور نہ خون صرف تقویٰ پہنچتا ہے.پس وہ چیز جس نے آگے جانا تھا وہ زاد راہ بھی اس روپے میں شامل ہے.کیونکہ یہ روپیہ تو اس دنیا میں رہ جائے گا.اس کے اگلی دنیا میں انتقال کا کوئی ذریعہ ہم نہیں پاتے.تو خدا کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ ساری پاک چیزیں جو قربانیوں کو قبولیت کا درجہ دیتی ہیں وہ ساری پاک چیزیں ان روپوں میں شامل ہیں.پس دنیا کی آنکھ تو اس روپے کو ایک غریب اور نادار جماعت کا تھوڑ اسا سرمایہ دیکھتی ہے.ایسا تھوڑا سرمایہ کہ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی حکومت بھی اس سرمایہ کے مقابل پر سینکڑوں گنا زیادہ طاقتیں رکھتی ہے لیکن اللہ کی رضا کی آنکھ اس میں غریبوں کے آنسوؤں کے موتی دیکھ رہی ہے.اللہ کی رضا کی آنکھ ان روپوں میں مومنوں کے قلب و جگر کے ٹکڑے دیکھ رہی ہے.ان امیروں کے اخلاص اور پاکیزگی کے جواہر دیکھ رہی ہے جنہوں نے فتنہ وفساد میں مبتلا ہونے کی خواہشوں کے باوجود اور گندگی میں مبتلا ہونے کی خواہشوں کے باوجود اللہ کی پاک رضا کی چادر اوڑھ لی.یہ وہ ساری چیزیں ہیں جن کو اللہ کی نظر محبت اور پیار سے دیکھتی ہے اور ان کو قبول فرماتی ہے.پس اس روپے کی حیثیت عام دنیا کے روپے کی حیثیت سے بالکل مختلف اور جدا گانہ ہے چه نسبت خاک را بعالم پاک.کوئی مقابلہ نہیں.پیمانہ ہی مختلف ہے.پھر دنیا کی آنکھ اس روپے کو روبلز Roubles کی شکل میں دیکھ رہی ہے.اور روپے کی شکل میں اور ٹکوں Takka کی شکل میں اور پونڈوں کی شکل میں اور ڈالروں کی شکل میں اور مینز Yens کی شکل میں اور کروناز Kronas کی شکل میں اور پسیتا Pasetas کی شکل میں دیکھ رہی ہے اور ان پر مختلف تصویریں دیکھتی ہے.کہیں اشتراکیت کے نشان اس میں نظر آتے ہیں.کہیں درانتی.کہیں ہتھوڑے کہیں بادشاہوں کی تصویر ہیں.کہیں جارج واشنگٹن کی شبیہ ان کو دکھائی دیتی ہے.کہیں قائد اعظم کی تصویر بھی وہ اس پر دیکھتے ہیں.مگر ایک عارف باللہ اس روپے میں سوائے اپنے رب کے اور کوئی تصویر نہیں دیکھتا.اللہ کی تصویر ہے اس کا چہرہ ہے جس کو قرآن کریم مالی اصطلاح میں لِوَجہ اللہ کہتا ہے یعنی اللہ کی وجہ کی خاطر جیسے اردو میں ہم کہتے ہیں اس کے منہ کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد اول 45 نے فرمایا ہے : تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد خطبہ جمعہ ۹/ جولائی ۱۹۸۲ء آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 225) ی اردو کا محاورہ ہے.عربی میں بھی یہی محاورہ ہے وجہ اللہ یعنی اللہ کا چہرہ ، اس کی رضا.تو جس چہرہ کی خاطر.جس منہ کی خاطر یہ قربانیاں کی جاتی ہیں.وہ اسی منہ کی تصویر بنی ہوئی اس پر دیکھتے ہیں.دنیا کے ممالک کے اپنے ملکی قوانین نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں.ان کے Tarrif (ٹیرف) کے قوانین نظروں سے اٹھ جاتے ہیں.صرف وجہ اللہ ان کو نظر آتا ہے ہر اس روپے پر.ہر اس پیسے پر اور ہر اس دھیلے پر جو جماعت احمدیہ قربانی کے طور پر اپنے رب کے حضور پیش کر رہی ہے.پس ساری دنیا کی طاقتیں مل جائیں اور ان کے خزانے اربوں ارب سے ضرب کھا جائیں تب بھی یہی ہمارا روپیہ جیتے گا اور ضرور جیتے گا کیونکہ اس کے مقدر میں شکست نہیں لکھی ہوئی.یہ اللہ کی رضا کی خاطر پیش کیا جا رہا ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس روپیہ کو پاک اور صاف رکھے اور اس ایمان میں برکت دیتا چلا جائے جس سے یہ روپیہ پھوٹا کرتا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ایک دعا کی درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں.مختلف معاندین اور حاسدین نے جماعت احمدیہ کو مختلف قسموں کے مقدموں میں پھنسایا ہوا ہے اور آئے دن ان کی پیشیوں کے لئے سلسلہ کے وکلاء اپنا وقت بھی خرچ کرتے ہیں اور روپیہ بھی خرچ کرتے ہیں.دماغ سوزی بھی کرتے ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور جس کے لئے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ یہ زمین کے مقدمے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے.ہمارا اصل مقدمہ آسمان پر ہے اور وہیں سے ہم فیصلہ چاہتے ہیں.پس بہت کثرت کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ دوست دعائیں کریں کہ احکم الحاکمین خدا اپنا فیصلہ جاری فرمائے اور دنیا کی عدالتوں کی احتیاج سے ہمیں مستغنی فرما دے.(آمین) روزنامه الفضل ربوه۲۰ / جولائی ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 47 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء قبولیت دعا نیز جمعۃ الوداع کی حقیقت (خطبه جمعه فرموده ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۷) اور پھر فرمایا: رمضان کا مہینہ سارا ہی برکتوں کے حصول کا مہینہ ہوتا ہے اور بخششوں کی طلب کا مہینہ ہے، اللہ کی طرف سے مغفرت کا مہینہ ہے، اس سے عاجزانہ سوال کرنے کا، بھیک مانگنے کا مہینہ ہے، اور اس کی طرف سے شاہانہ عطا کا مہینہ ہے.لیکن یہ دن وہ ہیں یعنی آخری عشرہ ، جو اس مہینے میں بھی ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور ان دنوں میں بھی اس جمعہ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہوتا ہے جس جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہم آج اکٹھے ہوئے ہیں.دو طرح کے عبادت کرنے والے آج سارے عالم اسلام میں اس جمعہ کی برکتوں سے فیض کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اور اس کا نام جمعتہ الوداع رکھا گیا ہے یعنی وداع ہونے والا جمعہ یا وداع کیا جانے والا جمعہ.دو طرح کے وداع کرنے والے آئے ہیں آج: ایک وہ ہیں جو بڑی حسرت کے ساتھ ، بڑے دکھ کے ساتھ ، ان اندیشوں میں مبتلا ہو کر آئے
خطبات طاہر جلد اول 48 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء ہیں کہ خدا جانے اس رمضان سے ہم پوری طرح استفادہ کر بھی سکے یا نہ کر سکے.جو امید میں تھیں عبادت کی توفیق ملے گی وہ ہماری امید میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ پوری ہو سکیں یا نہ ہوسکیں.ہماری غفلتیں کتنی ہمارے آڑے آئیں.کتنی دعاؤں میں ایسے نفس کی ملونی کے کیڑے شامل تھے کہ وہ دعائیں مقبول نہ ہو سکیں ، ہم نہیں جانتے تھوڑے دن اب باقی ہیں.پس اے خدا! ہم اس جمعہ کو اس جذ بہ خلوص کے ساتھ وداع کرنے کے لئے آئے ہیں کہ اس کے بعد سارا سال ہمیں جمعہ میں حاضر ہونے اور جمعہ کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخش.جو کمیاں اس جمعہ میں ہم سے رہ گئی ہوں وہ سارے سال کی عبادت میں ہمیں پوری کرنے کی توفیق بخش.ہم اس جمعہ کو بحیثیت جمعہ وداع کرنے نہیں آئے کیونکہ جمعہ سے تو مومن کا تعلق ایک لازمی اور ابدی تعلق ہے جوکٹ نہیں سکتا.ہم اس مسجد کو وداع کرنے نہیں آئے بلکہ اپنے عہد کو اور پختہ کرنے کیلئے آئے ہیں.یہ التجائیں لے کر آئے ہیں کہ اے اللہ ! تو نے ایک دفعہ اپنی عبادت کا مزہ ہمیں چکھا دیا اب اس نعمت کو ہم سے واپس نہ لے لینا.ہمیں توفیق نہ دینا کہ ہم اس پیار کے تعلق کو تجھ سے تو ڑلیں اور جو تیرے وصال کا مزہ ہمیں پڑ چکا ہے اس مزے کو فراموش کر سکیں بلکہ اے آقا اسے دوام بخشنا.اس جمعہ کی خاص نعمت اس کی خاص برکت کے صدقے ہم تجھ سے مانگتے ہیں کہ آئندہ اپنے گھر کے ساتھ ہمارا تعلق قطع نہ ہونے دینا.پس ہم اس ماحول، اس مقدس پیار کے ماحول کو تو وداع کر رہے ہیں جو خاص قسمت کے ساتھ سال میں ایک دفعہ نصیب ہوتا ہے ،لیکن ان نیک تمناؤں کے ساتھ کہ اس ماحول کی برکتیں ہمارے ساتھ دائم رہیں گی اور وہ ہم سے بے وفائی نہیں کریں گی.وہ عبادت کے رنگ جو ہم نے سیکھے اس رمضان میں اور خصوصاً اس آخری عشرہ میں، وہ عبادت کے رنگ ہم سے بے وفائی نہیں کریں گے.ان دعاؤں اور التجاؤں کے ساتھ ہم اس خاص ماحول کو وداع کرنے کیلئے تیرے حضور حاضر ہوئے ہیں.ایک یہ لوگ ہیں جو جمعتہ الوداع کا خاص انتظار کیا کرتے ہیں اور خاص ولولوں اور امنگوں کے ساتھ خاص آرزوؤں کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے وہ اس خاص موقع پر ان مقدس لمحات کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے حاضر ہوتے ہیں.لیکن حسرت کا مقام یہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد ایک اور رنگ میں وداع کرنے کے لئے آئی ہے.وہ الوداع کہنے آئی ہے جمعہ کو، وہ الوداع کہنے آئی ہے عبادتوں کو، وہ الوداع کہنے آئی ہے اللہ کے گھر کو، گو یا زبانِ حال سے وہ یہ کہتے ہیں کہ اے خدا! یہ چند دن جو تیری عبادت میں ہم نے کالے یہ بڑے تلخ تھے.بہت بوجھ تھا ہمارے دل پر.
خطبات طاہر جلد اول 49 49 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء بڑی مصیبت کی زندگی ہم نے گزاری.اس سے زیادہ تو اور کیا چاہتا ہے.جو سجدے کرنے تھے ہم نے کر لئے.جو راتوں کو اٹھنا تھا اٹھ لیا.جو تیری خاطر تکلیف برداشت کرنی تھی کر لی.اب ہم تجھے الوداع کہنے آئے ہیں، تیری رحمتوں اور نعمتوں کو الوداع کہنے آئے ہیں، تیرے گھر کو الوداع کہنے آئے ہیں، جمعوں کو الوداع کہنے آئے ہیں، نمازوں کو الوداع کہنے آئے ہیں.لیکن ہماری ایک بات مان کہ یہ آج کی نمازیں ہمارے سارے سال کی نمازوں کی کفیل ہو جائیں.آج کی عبادت سارے سال کی عبادت کی ضامن ہو جائے اور اس کی قائمقام بن جائے.پس ہم تجھے رخصت کرتے ہیں.جاتو اور تیرے وفا دار عبادت گزار، اب سارا سال ان دونوں کا تعلق قائم رہے.لیکن ہم اب تجھے پھر نظر نہیں آئیں گے.کچھ وداع کرنے والے ایسے بھی ہیں.وہ منہ سے تو یہ نہیں کہتے لیکن جمعہ کے بعد.اس جمعہ کے بعد جب رمضان کے دن گزر جائیں گے اور عام دن آئیں گے تو ان کا عمل ان کی آج کی دعاؤں اور التجاؤں کی یہی تشریح کر رہا ہو گا.و اَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (لقمان: ٣٠) ۳۰) دیکھو تمہارے عمل بظاہر کتنے مقدس کیوں نہ ہوں اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے.وہ اعمال کی کنہ سے واقف ہے.وہ تمہارے دلوں کی پاتال تک نظر رکھتا ہے.اس لئے زبانیں تمہاری جو بھی کہتی رہیں اعمال کی زبان خدا سنے گا اور اسی زبان کے مطابق تم سے سلوک کرے گا.پس ایسے وداع کہنے والوں کو میں اس کے سوا کچھ نہیں کہتا کہ دیکھو اگر تم خدا سے وفا کا تعلق چاہتے ہو تو اس سے وفا کرو.اگر خدا سے پیار اور محبت چاہتے ہو تو اس سے پیارا اور محبت کا حق ادا کرو.اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی تو نہیں کہ ایک دفعہ اس کے قریب آنے کے بعد پھر دور بھاگنے کو دل لگے.وہ تو سب محبوبوں سے بڑھ کر محبوب ہے.سب دلنوازوں سے دلنواز ہے.وہ تو ایسا پیارا وجود ہے، ایسا محبوب وجود ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں.ایک ہی تو ہستی ہے جو فقید المثال ہے اور وہ ہمارا رب ہے اس کے دو طرح کے احسانات ہم پر ہیں : ایک وہ احسانات جو یکطرفہ جاری رہتے ہیں اور مقابل پر خدا ہم سے کچھ نہیں مانگتا، نہ پوچھتا ہے، نہ پرواہ کرتا ہے ، کافر ہو یا مومن ہو اس کی رحمانیت کے عام جلووں کے تابع ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے.
خطبات طاہر جلد اول 50 50 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء لیکن جہاں تک دعا کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کا تقاضا اپنے بندوں سے یہ ہے کہ یہاں دوطرفہ رستہ چلے گا.یہ تعلق وہ نہیں ہے جو یکطرفہ چلے.اگر تم دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہو تو تمہیں میری باتوں کو بھی قبول کرنا پڑے گا.چنانچہ اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَهـ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۷) اس آیت کے دو پہلو ہیں جو قابل توجہ ہیں.پہلا ہے وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ یعنی جب بھی میرے بندے، اے محمد ! میرے بارے میں تجھ سے سوال کرتے ہیں تو میں قریب ہوں.یہ نہیں فرمایا کہ ان کو کہہ دے کہ میں قریب ہوں.اتنا فاصلہ بھی نہیں رہنے دیا جو سوال کو جواب سے دور کر دیتا ہے یعنی ایسے الفاظ بھی بیان نہیں فرمائے جو سوال اور جواب کے درمیان حائل ہو جائیں.فرمایا ہے.اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ میں تو کھڑا ہوں سن رہا ہوں ان کی باتیں.کوئی چیز حائل نہیں ہے ان کے اور میرے درمیان.ط یہاں عام سوال کا ذکر نہیں ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ جو جس طرح چاہے اپنی مرضی سے مجھے آوازیں دیتا پھرے، تلاش کرتا پھرے میں ہر ایک کے قریب ہوتا ہوں.اس سوال کی اور اس کے جواب کی حکمت کی چابی، اس کو سمجھنے کے لئے جو حکمت درکار ہے اس کی چابی سالٹ کے لفظ میں ہے.اے محمد ! جب تجھ سے سوال کرتے ہیں تو پھر میں قریب ہوں.یہاں ک کا لفظ اگر اڑا دیا جائے تو یہ آیت اور معنی اختیار کرلے گی اور عام ہو جائیگی.إِذَا سَأَلَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِی قَرِيبٌ سے مراد یہ ہے کہ جو بندہ جب چاہے جس طرح چاہے سوال کرے میرے بارے میں ، ہمیشہ مجھے قریب پائے گا.اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا.فرماتا ہے.إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبُ اے محمد ! جب تجھ سے پوچھتے ہیں میرے بارے میں ، پھر میں قریب ہوں.اس میں ایک بہت بڑا فلسفہ بیان فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی تلاش کا.ہر چیز جس کی دنیا میں
خطبات طاہر جلد اول 51 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء جستجو کی جاتی ہے اس کی جستجو کے اپنے ڈھنگ ہوتے ہیں، اپنے آداب ہوتے ہیں، اپنے اسلوب ہوتے ہیں.تیل والے بھی خدا کی ایک نعمت کی جستجو کرتے ہیں، جب وہ زمین کی تہ سے تیل کے خزانے دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.دھاتوں کی تلاش کرنے والے بھی جستجو کر رہے ہوتے ہیں اپنے رب کی ایک نعمت کی.پانی کی تلاش کرنے والے بھی ایک نعمت کی جستجو کرتے ہیں، ہیرے جواہرات کی تلاش کرنے والے بھی جستجو کرتے ہیں.لیکن ہر ایک کا ایک اپنا اسلوب ہے، ایک الگ ڈھنگ ہے.آوازیں دے کر تو تیل کے زیرزمین چشموں کی آوازوں کا جواب نہیں آ سکتا.ہر دھات کی اپنی ایک آواز ہے.اس دھات کی آواز کو سنے کیلئے اس آواز کو پہچاننے والے آلے کی ضرورت ہوا کرتی ہے.ان ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس فن کو جانتے ہیں.اگر ان ماہرین کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور براہ راست لاکھوں کروڑوں انسان بھی تیل کی تلاش میں نکل جائیں یا سونے اور ہیرے جواہرات کی تلاش میں نکل جائیں ان کو وہ کامیابی نہیں ہوسکتی جب تک ماہر فن سے رجوع کر کے اس علم کو سیکھ نہ لیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيب اے محمد ! تو ہے اس مقام پر فائز کہ دنیا کو پر بتا سکے کہ میں کیسے ملتا ہوں؟ تیری طرف رجوع نہیں کریں گے تو مجھے نہیں تلاش کر سکیں گے اور جب تیری طرف رجوع کریں گے تو مجھے اتنا قریب پائیں گے کہ گویا تو بھی بیچ میں حائل نہیں رہا اور میں براہ راست ان کی آواز سن رہا ہوں اور ان کے قریب ہوں اور ان کو میں نے پالیا ہے.اس مضمون میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو ہزاروں لاکھوں انسان خدا کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں کیوں ان کو خدا کی طرف سے جواب نہیں ملتا ؟ انگریزی شعراء میں سے ایک شیلے ہے.وہ دہریہ تھا.لیکن وہ اپنے متعلق لکھتا ہے کہ میں دہر یہ بنا ہوں پوری تلاش کے بعد.میں غاروں میں بھی گیا اور صحراؤں میں بھی گیا اور خوبصورت وادیوں میں بھی گیا اور میں نے اللہ کو پکارا اور کہا اے خدا.آ اور مجھ سے بات کر.لیکن کسی خدا کی آواز مجھے نہیں آئی.پس میں دہر یہ ہونے میں حق بجانب ہوں.اگر وہ تیل کی تلاش میں اسی طرح نکلتا اور آواز میں دیتا پھرتا کہ اے تیل کے چشمو! میں تمہاری آواز کو سننا چاہتا ہوں مجھ پر ظاہر ہو تو وہ تیل کی حقیقت سے بھی انکار کر دیتا.کیونکہ اس نے ان رسومات کا حق ادا نہیں کیا جو رسومات ایک خاص چیز کی تلاش کے لئے لازمی ہوا کرتی ہیں.اسی طرح حال ہی میں روس
خطبات طاہر جلد اول 52 42 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء کے خلائی سفر پیا جب اوپر گئے تو ان میں سے بعض نے بڑی تعلی کے ساتھ گویا خدا کو آواز دی اور اِنِّي قَرِيبٌ کی کوئی آواز ان کو نہیں آئی.کیا وجہ ہے؟ اول تو خدا کو بلانے کا جو حق ہے، اس کی تلاش کا جو حق ہے وہ ادا نہیں کیا گیا.دوسرے وہ سنجیدگی اور خلوص ان آوازوں میں نہیں پایا جاتا تھا جو خدا کو پکارنے کے لئے ضروری ہے.إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ میں لفظ عِبَادِی میں ایک پیار کا بھی اظہار ہے، ایک شفقت کا بھی اظہار ہے.یہ قرآن کریم کا اسلوب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو کوئی خاص مقام عطا فرمارہا ہوتا ہے ان کو.إِذَا سَأَلَكَ النَّاسُ نہیں فرمایا کہ جب عوام الناس تجھ سے سوال کریں تو میں قریب ہوں گا.فرمایا میرے بندے میری تلاش کرنے والے جو حقیقت میں مجھ سے پیار رکھتے ہیں اور میرے بغیر رہ نہیں سکتے.یہ ویسا ہی نقشہ ہے جیسے بیقرار ماں اپنے بچے کی تلاش میں نکلی ہو اور وہ بچہ کسی کے پاس ہو.گھومتی ، پریشان، گریہ وزاری کرتی ہوئی ہر طرف جس طرف اس کا سراٹھے وہ چلی جائے اور ہر ملنے والے سے پوچھے، ہر مسافر سے پوچھے کہ میرا بچہ کہاں ہے؟ جو اس کی بیقراری کی حالت ہوتی ہے اس کا اندازہ کیجئے اور پھر اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جب ایسا بندہ محمدمصطفی ﷺ کے در پہ حاضر ہوتا ہے تو جس طرح وہ شخص جس کے پاس بچہ موجود ہو بڑی مسکراہٹ اور شفقت اور یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا کرتا ہے کہ ہاں، تیری مراد پوری ہوگئی، تیرا بچہ میرے پاس ہے.اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں کے سوال کو سن کر بچہ چیخ پڑتا ہے اندر سے اور بیقراری سے بلاتا ہے کہ اے ماں ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں یہاں ہوں.تو یہ نقشہ ہے جو اس آیت میں کھینچا گیا ہے کہ تم صحیح جگہ پہنچ چکے ہو، میرے محبوب محمد کے پاس آگئے ہو، میں جس کے پاس ہمیشہ رہتا ہوں.ایک لمحہ بھی اس سے جدا نہیں ہوا، نہ کبھی اس سے جدا ہوسکتا ہوں.پس اے تلاش کرنے والو! طُـوبـی لَكُمُ ! مبارک ہو تمہیں خوشخبریاں ہوں کہ تم صحیح مقام پر پہنچے انِي قَرِيبٌ میں بتارہا ہوں تمہیں ، میں تمہیں b آواز دیتا ہوں کہ میں موجود ہوں.یہ ہے وہ پہلا حصہ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ جس کو سمجھنے کیلئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اسوہ کا مطالعہ کرنا چاہئے.کس طرح آپ نے خدا کو پایا ؟ کس طرح خدا آپ کے ساتھ رہا؟ اور جتنا تعلق حضرت محمد مصطفیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
خطبات طاہر جلد اول 53 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء سے آپ جوڑتے چلے جائیں گے اتنی ہی خدا کی قربت نصیب ہوتی چلی جائے گی.پس اس آیت میں آنحضور علیہ کے وسیلہ ہونے کا مضمون بھی بیان فرما دیا گیا اور ساتھ ہی وسیلے کی حکمتیں بھی بیان فرما دی گئیں.غلط معنی جو وسیلے کو پہنائے جاتے ہیں ان کی نفی بھی فرما دی.بعض لوگ جو شرک کرتے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ شرک کیوں کرتے ہو؟ تو کہتے ہیں یہ بت ہمارا وسیلہ ہیں.فلاں ارباب جو ہیں اللہ کے سوا، وہ ہمارا وسیلہ ہیں.تم بھی تو وسیلہ پکڑتے ہو.تم نے بھی تو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنا وسیلہ بنا رکھا ہے.تو فرق کیا ہے؟ وہ فرق اللہ تعالیٰ بیان فرمارہا ہے.یہ نہیں فرما تا کہ ہر دعا محمد کے وسیلہ سے کرو.محمد مصطفی" کو پیغام دو، وہ آگے مجھے پیغام دیں، پھر میں جواب ان کو دوں گا اور وہ تمہیں پہنچائیں گے.یہ کوئی شرط نہیں رکھی محمد مصطفی " کے قرب کا نام وسیلہ ہے، آپ سے محبت کا نام وسیلہ ہے، آپ سے عشق کا نام وسیلہ ہے، آپ کی متابعت کا نام وسیلہ ہے.مگر جہاں تک تعلق باللہ کا سوال ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لا أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۷) میں خود براہ راست ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دوں گا اور میرے اور میرے بندے کے درمیان اس سوال وجواب کے دوران کوئی اور وجود حائل نہیں ہوگا.ایک تعلق ہے آقا کا بندے سے اور کوئی تیسرا آدمی اس دوران میں اس کے درمیان حائل نہیں ہے.لیکن شرط یہ ہے فَلْيَسْتَجِيبُوانِى وہ بھی میری باتوں کا جواب دیا کریں، براہ راست جواب دیا کریں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عبادتوں کو اپنی عبادتوں کا قائمقام نہ سمجھ لیں کہ اے خدا! چونکہ تیرا محبوب رسول "جس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی ، وہ عبادتیں کر چکا ہے، وہ تجھے بہت پیارا ہے اس لئے تو ہماری سن لے، اس وسیلے کا انکار کیا جارہا ہے.فرماتا ہے اس لئے تم اس سے تعلق جوڑو اور اس کے احسان تلے ہمیشہ اپنی روحوں کو دبا ہوا محسوس کرو ، اپنے سروں کو جھکا ہوا محسوس کرو، اس پر درود بھیجو.یہ ہے وسیلے کا مطلب لیکن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادتیں تمہارے کام نہیں آئیں گی اگر تعلق جوڑنے کے بعد ویسے افعال نہیں کرو
خطبات طاہر جلد اول 54 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء گے جو محد مصطفی ﷺے کیا کرتے تھے.لازماً اس کی متابعت کرنی پڑے گی ، پیروی کرنی پڑے گی تب أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ کا مضمون شروع ہوگا.پر فَلْيَسْتَجِوانی میں اللہ تعالیٰ نے جو بندوں سے تقاضے کئے ہیں اس مضمون کو بیان فرما دیا گیا.کئی دوسری آیات اس کو اور بھی کھول دیتی ہیں کہ استجابت اللہ کا معنی کیا ہے؟ اس کا خلاصہ حضرت محمد مصطفی ﷺے ہیں.آپ نے اپنے رب کے تقاضوں کا بہترین جواب دیا.پس لمبی بحث کی ضرورت کوئی نہیں رہتی.خلاصہ استجابت اللہ کا نام محمد مصطفی ﷺ ہیں.ان معنوں میں پھر آپ وسیلہ بن جاتے ہیں.آپ کی اللہ تعالیٰ کی عبادتیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کی محبت ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا پیار،اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا خلوص اور عشق اور وارفتگی اور قربانی کا تعلق یہ سارا مضمون اس میں آ جاتا ہے کہ استجابت کس کو کہتے ہیں ؟ پس اگر استجابت کا حق انسان ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں اس کی پکار کو ضرور سنوں گا اور جب خدا وعدہ کرتا ہے تو اس وعدے کو لازماً پورا کیا کرتا ہے.اس کا ایک اور پہلو بھی ہے آنحضور عمل ہے یاکسی اور انسان کے وسیلہ ہونے کا.وہ پہلو یہ ہے کہ دو قسم کی دعائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں.ایک براہ راست دعا اور ایک اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں کی دعا اپنے پیاروں کے لئے یا اپنی طرف رجوع کرنے والوں کیلئے.ان دونوں دعاؤں کا فلسفہ اس آیت میں بیان فرما دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں تم سے اجابت کا معاملہ اس شرط پر کرتا ہوں کہ تم میری باتیں مانو، اگر میرے بندے، محمد مصطفی ﷺ کی باتیں نہیں مانو گے تو ان سے جو دعا ئیں تم کرواؤ گے وہ بھی قبول نہیں ہوں گی.کیونکہ یہ بنیادی اصول ہے جو اصول میں نے اپنے لئے مقرر کیا وہی اپنے پیارے کے لئے مقرر فرما دیا ہے.مجھ سے تعلق رکھو گے، میری باتوں کا جواب دو گے، میری باتوں کو تسلیم کرو گے تو میں تمہاری سنوں گا اور اگر دوسرے رستے سے مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کرو گے تو میں اس دھو کے میں نہیں آؤں گا.محمد مصطفی ﷺ بھی اگر تمہارے لئے دعا کریں گے لیکن تم نے ان کی باتیں نہیں مانی ہوں گی تو میں ان دعاؤں کو قبول نہیں کروں گا.چنانچہ اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ (التوبه : ط
خطبات طاہر جلد اول 55 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء کہ اے محمد مصطفی علے اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کیلئے استغفار کرے تو میں اس استغفار کو قبول نہیں کروں گا.اب تعجب کی بات ہے بظاہر یوں لگتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی گویا قدرکم ہورہی ہے کہ اتنا عظیم الشان رسول اتنا پیارا جس نے اپنی ذات کو ضم کر دیا ذات باری تعالیٰ میں ، اس کو خدا فرمارہا ہے کہ ستر مرتبہ بھی تو نے دعائیں کیں ان کے لئے تو میں نہیں سنوں گا لیکن اصل مفہوم کو لوگ نہیں سمجھتے.یہ وہی مضمون چل رہا ہے جو إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبُ میں بیان ہوا تھا اور اس کے بعد خدا نے فرمایا تھا فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوابی کہ دعائیں سنوں گا لیکن استجابت تو کرو پہلے.میری باتوں کا بھی تو کچھ خیال کیا کرو.تم یکطرفہ ہی سناتے رہو گے ہمیشہ.یکطرفہ رحمتوں کا دور بہت وسیع ہے.وہ تمہیں مل چکی ہیں.ساری رحمانیت کی چادر تمہارے اوپر چھائی ہوئی ہے اور اس کے سائے تلے تم پرورش پارہے ہو.ساری ربوبیت کا فیض تمہیں پہنچ رہا ہے.لیکن یہ وہ مقام ہے جہاں اب معاملہ دونوں طرف سے جاری ہوگا.فَلْيَسْتَجِيبُوانی میری باتیں مانا کرو.اور یہی مضمون آگے چلتا ہے محمد مصطفی عملے کے متعلق.اللہ تعالیٰ یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ اے محمد ! تو تو اپنی رحمت اور شفقت کے نتیجے میں ان کیلئے دعائیں مانگ رہا ہے، ان کے لئے بیقرار ہورہا ہے، ان کے لئے اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے لیکن میں ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہوں وہ تیری باتیں نہیں مانتے، تیری طرف توجہ نہیں کرتے ، حقیقت میں تجھ پر ایمان بھی نہیں لاتے ، تجھ سے محبت نہیں رکھتے.اس لئے تیری محبت کا تقاضا یہ ہے میرا تیرے سے پیار اور خاص مقام کا تقاضا یہ ہے کہ میں ان دعاؤں کو رڈ کر دوں جوان ناشکرے لوگوں کیلئے تو کرتا ہے.پس دعا ئیں چاہے براہ راست کی جائیں چاہے بالواسطہ کروائی جائیں یہ بنیادی فلسفہ ہے جس کو بھول کر دعا کرنے والا یا کروانے والا کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتا.یہی مضمون خلافت کے ساتھ تعلق میں بھی ہے.بیشمار لوگ ، میں نے دیکھا حضرت مصلح موعودؓ کو خط لکھا کرتے تھے،حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو خط لکھتے تھے، مجھے بھی لکھتے ہیں میری ذات کی تو کوئی حقیقت نہیں.نا قابل بیان ہے وہ کیفیت جب میں اپنی ذات پر غور کرتا ہوں اور اپنی بے بساطی کو پاتا ہوں، اور کم مائیگی کو دیکھتا ہوں اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے دل کی کیا حالت ہوتی ہے.لیکن خدا نے منصب خلافت پر مجھے مقررفرمایا اور اس منصب کی خاطر لوگ مجھے دعا کیلئے لکھتے ہیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پہلے بھی یہی دیکھا تھا اور آئندہ بھی
خطبات طاہر جلد اول 56 56 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے، اس سے سچا پیار نہیں ہے، اس سے عشق اور وارنگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی.یعنی خلیفہ وقت کی دعا ئیں اس کے لئے قبول نہیں کی جائیں گی.اسی کیلئے قبول کی جائیں گی جو خاص اخلاص کے ساتھ دعا کیلئے لکھتا ہے اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام آپ مجھے فرما ئیں گے ان میں میں آپ کی اطاعت کروں گا.ایسے مطیع بندوں کے لئے تو بعض دفعہ ہم نے یہ نظارے دیکھے، ایک دفعہ نہیں بسا اوقات یہ نظارے دیکھے کہ وہاں پہنچی بھی نہیں دعا، اور پھر بھی قبول ہوگئی.ابھی لکھی جارہی تھی دعا، تو اللہ تعالی اس پر پیار کی نظر ڈال رہا تھا اور وہ دعا قبول ہورہی تھی.بعض دفعہ دعا بنی بھی نہیں تو وہ دعا قبول ہو جاتی ہے.الله اس لئے یہ ایسا ایک بنیادی اصول ہے جس کو ہمیشہ ہر احمدی کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود سچے دل اور پیار سے بھیجتا ہے اور وفا کا تعلق رکھتا ہے اپنے محبوب آقا سے ،تو آنحضرت ﷺ کی ساری دعائیں ہمیشہ کیلئے ایسے امتیوں کے لئے سنی جائیں گی.اور اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نباہتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے بھی دعائیں سنی جائیں گی بلکہ ان کہی دعا ئیں بھی سنی جائیں گی.اس کے دل کی کیفیت ہی دعا بن جایا کرے گی.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو حقیقت دعا کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.دعا کا مضمون تو بہت وسیع ہے لیکن صرف اسی پر میں اکتفا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے رب سے سب سے پہلے وفا کا تعلق عطا کرے یعنی خود اپنی ذات سے وفا کا تعلق عطا کرے آمین.یہ جمعہ جمعۃ الوداع انہیں کیلئے برکت کا موجب ہے جو جمعہ کو وداع کہنے نہیں آئے بلکہ آج کے دن کے خاص ماحول کو بڑی حسرت کے ساتھ وداع کر رہے ہیں.یہ انہیں کیلئے بابرکت ہوگا صرف جو مسجدوں کو وداع کہنے کے لئے نہیں آئے بلکہ اس مسجد کے آج کے خاص ماحول کو روتے ہوئے رخصت کرتے ہیں اور نہ وہ روز صبح ، شام پانچ وقت اپنے رب کے حضور حاضر ہوا کرینگے.ہر اذان پر ان کا دل مچلا کرے گا.ہر دوسرے کام سے ان کو نفرت ہو جایا کریگی اور دل اٹک جائے گا مسجد میں اور چاہیں گے کہ وہ مسجد میں پہنچیں اور اپنے رب کے حضور حاضر ہوں.آج کا جمعہ بھی ان کا جمعہ ہے.آج کی دعائیں بھی ان کی دعائیں ہیں.آج کی مسجد بھی ان کی مسجد ہے.اور یہ تینوں چیزیں ہمیشہ ان کے ساتھ وفا کریں
خطبات طاہر جلد اول 57 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۸۲ء گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں نے تحریک کی تھی جماعت کے سامنے ایک خاص دعا کی ، کہ بہت سے مقدمات ہیں جن میں معصوم احمدی یا جماعت من حیث الجماعت ملوث کی گئی ہے اور بڑی دیر سے وہ جماعت کے لئے اور ان افراد کے لئے پریشانی کا موجب بنے ہوئے ہیں ان کیلئے خاص طور پر دعا کریں.اس وقت ایک خاص مقدمہ بھی میرے ذہن میں تھا، اور خاص طور پر میرے پیش نظر تھا جو چند دن تک پیش ہونے والا تھا اور اس کے لئے خاص طور پر گھبراہٹ اور پر یشانی تھی.تو میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور اپنے فضل سے اس مقدمے میں اس ملوث معصوم شخص کو 66 نجات بخشی.بہت اللہ تعالیٰ کا شکر کریں.لَبِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (براہیم ) کا وعدہ حاصل کرنے کے لئے.اتنا شکر کریں اس مقدمے کے متعلق کہ جس طرح وہ بادشاہ جس کے سامنے ایک شخص حکمت کے ساتھ باتیں کر رہا تھا تو ہر دفعہ اس کے منہ سے زہ نکل جاتا تھا اور ہر دفعہ زہ نکلنے کے اوپر اس کا وزیر اس کو اشرفیوں کی تھیلی دے دیتا تھا.یہ اتنی دفعہ ہوا کہ بادشاہ نے وزیر سے کہا یہ اتنا حکیم، اتنا عقل والا انسان ہے کہ اگر میں اس کے پاس اور ٹھہرا رہا تو میرا خزانہ خالی ہو جائے گا.میرے منہ سے زہ نکلنا ہی نکلنا ہے یعنی تعریف کا کلمہ کہ کمال کر دیا تو نے اور حکم یہ تھا وزیر کو کہ جب 'زہ کہوں اس کو اشرفیوں کی تھیلی دیدو.اس نے کہا چلو، رخصت ہوں ورنہ یہ بوڑھا ہمیں لوٹ لے گا.پس آپ شکر کریں خدا کا، ایسا شکر کہ ہر دفعہ رحمت باری کے منہ سے زہ نکلے.لیکن یہ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ خدا کی رحمتوں کو کوئی لوٹ نہیں سکتا.اس کو یہ جگہ چھوڑ کر جانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ تو نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں.ازلی ابدی طور پر اگر ساری مخلوقات خدا کے پیار کو حاصل کر کے اس کی رحمت سے زہ کا ہدیہ وصول کرتی رہیں تب بھی اس کے خزانے ختم نہیں ہوں گے.پس اس یقین کامل کے ساتھ اپنے شکر کے مقام کو بڑھا ئیں.تاکہ لَا زِيدَ نَّكُم وعدہ ہمارے حق میں ہمیشہ پورا ہوتار ہے.آمین خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: احباب صفیں درست کر لیں اور شانے سے شانہ ملا ئیں.(روز نامہ الفضل ربوہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 59 5 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء انفاق فی سبیل اللہ کرتے وقت تقویٰ سے کام لیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ / جولائی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ محمد کی آخری آیت پڑھی: هَانْتُمْ هَؤُلاء تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ ۚ وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ وَ إِنْ تَتَوَلَّوْايَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (۳۹) پھر فرمایا: یہ آیت قرآنی جو میں نے سورہ محمد (ﷺ) سے اخذ کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے لیکن مومنوں سے مراد مومنوں میں سے اول اور سابقون مراد نہیں.یہاں مومنوں کا وہ طبقہ مراد ہے جو آخر پر پیچھے رہنے والے ہیں.اور ابھی پوری طرح ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ کے رسول کو یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان سے یہ کہہ دو یا اعلان کر دو کہ : هَانْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدُعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ج
خطبات طاہر جلد اول 60 60 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء خبر دار تم وہ لوگ ہو جن کو اس طرف بلایا جارہا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو.فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ تم میں ایسے بھی ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور جو کوئی بخل سے کام لے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں بھی بخل سے کام لینے لگتا ہے.وَاللهُ الْغَنِتُ یہ باطل خیال دل سے نکال ڈالو کہ اللہ تمہارے چندوں کا محتاج ہے.اللہ غنی ہے.وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءِ تم فقیر ہو جو ہر بات میں اس کے محتاج ہو اور ان وہموں میں مبتلا ہو جاتے ہو کہ گو یا نظام سلسلہ کو ہم چندے دے دے کے چلا رہے ہیں.وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَ كُمُ الله کے کام بہر حال جاری رہیں گے.تم اگر پھر گئے تو خدا تمہارے بدلے ایک دوسری قوم کو لے آئے گا.ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے.اس آیت کا انتخاب میں نے اس وجہ سے کیا ہے کہ اس سے پہلے میں نے مومنین کے صف اول کے طبقہ کا ذکر ایک گزشتہ خطبہ میں کیا تھا.جن کے خلوص اور تقویٰ اور بے مثال مالی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل سلسلہ عالیہ احمدیہ پر ہوتے رہے، ہور ہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے.لیکن خلیفہ وقت کا کام اپنے آقا کی کامل متابعت ہے.اور خلیفہ کا آقا نبی ہوتا ہے اور نبیوں میں بھی نبیوں کے امام حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی میرے مطاع ہیں اور آپ ہی کی پیروی پر میں پابند کیا گیا ہوں اور غلامانہ طور پر مسخر کیا گیا ہوں.اور تمام انبیاء کی زندگی کا اور ان کے کاموں کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے دو لفظوں میں نکالا ہے.ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم وہ بشیر بھی ہوتے ہیں اور نذیر بھی ہوتے.زندگی کا صرف ایک پہلو نہیں لیتے.دوسرا پہلو بھی اختیار کرتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے دو قسم کے محرکات کارفرما ہوا کرتے ہیں.ایک طمع کا اور ایک خوف کا.پس وہ بشارتیں دے دے کر بھی لوگوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور ڈرا ڈرا کر بھی لوگوں کو آگے بڑھاتے ہیں.اور زندگی کے یہی دو محرکات ساری کائنات پر پھیلے پڑے ہیں.جہاں بھی زندگی کا وجود ملتا ہے انہی دو محرکات پر وہ توجہ دیتے.یہ مرکزی طاقت ہے جس سے تو میں انرجی یعنی قوت حاصل کر کے آگے بڑھتی ہیں.پس پہلا خطبہ بشیر کے غلام کی حیثیت سے تھا اور یہ خطبہ نذیر کے غلام کی حیثیت سے دے رہا ہوں.
خطبات طاہر جلد اول 61 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء ضروری ہے کہ جماعت کو ان خطرات سے بھی آگاہ کیا جائے جو مالی نظام میں شامل ہونے کے نتیجہ میں جماعت کے ایک طبقہ کو درپیش ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جماعت کا سارے کا سارا مالی نظام تقویٰ پر مبنی ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں آج ایک خاص معاملہ کے متعلق توجہ دلانا چاہتا ہوں، خبر دار کرنا چاہتا ہوں ، تو میری مراد صرف یہ ہے کہ ہم خدا کی خاطر جو بھی مال پیش کرتے ہیں وہ خالصہ تقویٰ پر مبنی ہو.اور اس کے سوا کوئی مال اس پاک مال میں شامل نہ ہو اور وہ مخلصین جماعت جو انتہائی اعلیٰ معیار کی قربانی کر کے ایک طیب مال ہدیہ اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں وہ گندے مال کے ساتھ مل کر ملوث نہ ہو جائے.یہ فیصلہ اللہ ہی بہتر کر سکتا ہے کہ کون سامال پاک ہے اور کون سانہیں ہے.وہی دلوں پر نظر رکھتا ہے.يَعْلَمُ السّروَ أَخْفَى (:) وہ تمہارے رازوں کو بھی جانتا ہے ایسے رازوں کو جن سے تم بھی واقف ہو اور چھپائے پھرتے ہو.وَ اَخُفی اور ایسے رازوں سے بھی باخبر ہے جن کو تم بھی نہیں جانتے.تمہارے ضمیر میں ڈوبے ہوئے ، آنکھوں سے اس حد تک اوجھل ہو چکے ہیں وہ راز کہ تم بھول چکے ہو.مگر اللہ کو یاد ہیں.پس در حقیقت یہ فیصلہ خدا کرے گا نظام سلسلہ نہیں کرے گا کہ کون سا مال پاک ہے اور ان شرائط کو پورا کر رہا ہے جن شرائط کے ساتھ چندے اپنے رب کے حضور پیش ہونے چاہئیں اور کون سا مال نفس کی ملونی کے نتیجہ میں گندا ہو چکا ہے.میں تو اصولاً آپ کے سامنے بعض خطرات رکھتا ہوں اور آپ خود اپنے نگران ہوں گے اور اپنے رب سے دعائیں کریں گے کہ اللہ ! تو ہمیں بہترین نگرانی کی توفیق عطا فرما.اور ہمارے مخفی شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور وہ ادنیٰ سے ادنی کیڑا بھی جو اموال کو لگتا ہے اور تیرے حضور پہنچنے سے ان کو قاصر کر دیتا ہے ان کیڑوں سے بھی ہمیں بچا کیونکہ جب تک اللہ کی مدد اور نصرت شامل نہ ہو خدا کے حضور دیئے جانے والے اموال پاک نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح نے یعنی مسیح اول نے ایک بہت ہی پیارا فقرہ کہا.وہ کہتے ہیں اور یہ ان کی نصیحت تھی اپنے ماننے والوں کو : اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے
خطبات طاہر جلد اول 29 62 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیٹر ا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں“ ( متی باب ۶ آیت ۹) یہ بہت ہی پیاری نصیحت ہے.لیکن کامل نہیں کیونکہ کامل دین حضرت محمد مصطفی مے پر نازل ہوا اور ایک قدم آگے بڑھ کر اس نصیحت میں جو کمزوریاں رہ گئی تھیں ان کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی.خدا کے حضور صرف مال پیش کرنا کافی نہیں ہے.اس مال کو پیش کرنے کے لئے جو تفصیلی شرائط درکار ہیں قرآن ان سے آگاہ فرماتا ہے اور کہتا ہے مال بھیج کر اس غلط نہی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ ابھی یہ کیڑوں اور چوروں اور ڈاکوؤں اور زنگ سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا اور خدا کے حضور پہنچ گیا.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: ۹۳) جب تک تم ایسا مال پیش نہیں کرو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو.اور اس محبت کے باوجود خدا کے حضور پیش نہیں کرو گے اس وقت تک خدا کو کچھ نہیں پہنچے گا.ينَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (ج: ۳۸) اگر تقویٰ سے خالی مال ہوگا تو وہ بھی نہیں پہنچے گا.لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ بِالمَنِ وَالأذى (البقرہ: ۳۶۵) احسان جتا کر اور تکلیفیں دے کر بھی اپنے مال کو ضائع نہ کرنا.غرض بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو اموال کے ساتھ لگ جاتی ہیں اور گھن کی طرح ان کو کھا جاتی ہیں.ان سب کی طرف قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ اشتہار کوئی معمولی تحریر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں، یہ آخری فیصلہ کرتا ہوں.مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہیں سے پیوند ہے یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں.مگر بہتیرے ایسے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.سو ہر ایک ہر شخص کو چاہئے کہ اس نئے نظام کے بعد نئے سرے عہد کر کے اپنی خاص تحریر
خطبات طاہر جلد اول 63 خطبه جمعه ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے مگر چاہئے کہ اس میں لاف و گزاف نہ ہو.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۶۸) یعنی اگر انسان کے چندوں میں جھوٹ کی ملونی شامل ہو جائے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ایسے لوگ ان لوگوں میں شمار نہیں ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ میرا ان سے پیوند ہے.پس اپنا پیوند امام وقت کے ساتھ مضبوط کرنے کے لئے اپنے اموال کو اس نظر سے دیکھو کہ وہ کس حد تک پاکیزہ ہیں اور کس حد تک ان میں نفس کی ملونی یا جھوٹ کی ملونی شامل ہو چکی ہے.اس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک جماعت میں مجلس شوریٰ کے مشورہ سے خلیفہ وقت نے ایک شرح مقرر کر رکھی ہو اس وقت تک اس شرح میں بددیانتی سے کام نہیں لینا.اللہ تعالیٰ آپ کو جتنا مال دیتا ہے وہ جانتا ہے کہ کتنا دے رہا ہے جس نے خود دیا ہو اس سے دھو کہ کیسے ہو سکتا ہے.کیسی احمقانہ کوشش ہے وہی نقشہ ذہن میں آ جاتا ہے.يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُونَ) (البقر و ۱۰) خدا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں.کیسے دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں.وَالَّذِینَ امَنُوا کہہ کر وضاحت فرما دی کہ براہ راست تو خدا کو دھوکا کوئی نہیں دے سکتا.خدا پر ایمان لانے والے جو خدا کے نام پر ان کے ساتھ معاملہ کر رہے ہوتے ہیں ان کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں جو دراصل خدا کو دھوکا دینے کے مترادف ہوتا ہے لیکن ان کی کوشش کا خلاصہ یہ ہے : وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ اپنے نفس کے سواوہ کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے.یہ ہے نفاق کا وہ مضمون جو ساری دنیا کے ہر عمل میں پھیلا پڑا ہے وہ تمام مذاہب جو خدا کی طرف منسوب ہونے والے مذاہب ہیں ان کی ساری تاریخ کا یہ خلاصہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد ان میں ایسی شامل ہو جاتی ہے جو اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جھوٹ بولا جا سکتا ہے.نہیں بولا جاسکتا.یہ ناممکن ہے.رازق وہ ہے جو آپ کے محکمہ میں کام کر رہا
خطبات طاہر جلد اول 64 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء ہو اور اسے آپ نے کل تنخواہ دی ہو ایک ہزار روپیہ اور دوسرے دن آ کر وہ آپ سے کہے کہ آپ نے کہا تھا کہ دس فیصدی مجھے واپس کر دینا تو آپ نے جو پچاس روپے مجھے دیے تھے میں پانچ روپے واپس کر رہا ہوں.آپ مان جائیں گے اس کی بات؟ اس سے بڑا احمق اور کون ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ کا کارندہ اس کے پاس جا رہا ہے اور وہ اس دھو کے میں مبتلا ہے کہ اس کارندے کو پتہ نہیں کہ مجھے کتنی رقم دی گئی تھی تو پھر ایسا شخص زیادہ جرات کے ساتھ دھوکا دینے کی کوشش کرے گا.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی بڑی بیوقوفی ہے.کارندے تو مہرے ہیں ان کی تو ذاتی کوئی بھی حیثیت نہیں جب ان کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہو تو میں دیکھ رہا ہوتا ہوں.میری نظر پڑ رہی ہوتی ہے تمہارے دلوں پر تمہاری زبان پر.تمہاری تحریر پر اور تم جو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہو میں تمہارے دھو کے میں کبھی نہیں آسکتا اور کبھی نہیں آؤں گا اور یہ مومن بھی تمہارے دھوکے میں نہیں آتے.اخلاق کے لحاظ سے ادب کے تقاضوں کے پیش نظر اور یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو کہ ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے خواہ تمہیں یہ کہتے رہیں کہ بہت اچھا ہم اسے منظور کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی صاحب فراست بندے ہیں.نہ تو تم مجھے دھوکا دے سکتے ہو نہ ان بندوں کو دھوکا دے سکتے ہو.تمہارا رہن سہن، تمہارا معاشرہ.تمہاری زندگی کی اقدار ساری کی ساری یہ بتارہی ہیں کہ تمہارے اموال کتنے ہیں.مگر چونکہ یہ ایک ٹیکس کا نظام نہیں.اس لئے اخلاقاً بھی، تہذیباً بھی اور نظام سلسلہ کی پیروی میں بھی جملہ کا رکنان سلسلہ جو منہ سے کوئی کہتا ہے وہ اسے قبول کر لیتے ہیں.یہ جانتے ہوئے بھی قبول کر لیتے ہیں کہ یہ شخص کہنے والا اپنے قول میں سچا نہیں ہے لیکن واقعات جو گزر جاتے ہیں وہ ایسے تمام دھو کے دینے والوں کے لئے انتہائی خطرہ کا موجب بن جاتے ہیں.ان کی ساری عمر کی قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں.ان کے اموال سے برکت چھین لی جاتی ہے.وہ طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.ان کو چھٹیاں پڑتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو جانتا ہے اس کے عطا کے رستے بھی بہت ہیں اور واپس لے لینے کے رستے بھی بہت ہیں.رزق سے جو برکتیں ملا کرتی ہیں چین اور تسکین اور آرام جان کی برکتیں ، وہ برکتیں بھی ان سے چھین لی جاتی ہیں.بسا اوقات ایسے خاندانوں کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے ضائع ہورہے ہوتے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے.ایک دفعہ ایک جماعت کے امیر نے مجھے بتایا کہ نو جوانی میں میرا یہ حال تھا اگر چہ دھوکا تو
خطبات طاہر جلد اول 65 59 خطبه جمعه ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء نہیں دیتا تھا چندہ میں مگر سب سے آخر پر چندہ ادا کیا کرتا تھا اور پہلے اپنی ضرورتوں کو ترجیح دیتا تھا اور یہ سمجھ کر کہ بہت اچھا خدا کا قرضہ مجھ پر چڑھ رہا ہے کسی دن اتار دوں گا.میں اپنے نفس کو مطمئن کر لیتا تھا.انہوں نے کہا کہ اللہ گواہ ہے اور میں سچ کہہ رہا ہوں کہ وہ سارا دور مجھ پر اتنی پریشانیوں کا گزرا ہے کہ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں مبتلا ہو جاتا تھا.خدا کا مقروض ہی نہیں رہا بندوں کا مقروض بھی بن گیا.میں اپنی جن ذاتی ضروریات کو ترجیح دیتا تھا، وہ ضروریات پوری ہونے میں نہیں آتی تھیں.جس طرح جہنم کہے گی.هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ (ق: ۳۱) اس طرح میری ضروریات هَلْ مِنْ مَّرِیدِ کا تقاضا کرتی چلی جاتی تھیں کرتی چلی جاتی تھیں.آخر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ اے خدا! تیرا حق پہلے دوں گا چاہے کچھ گزر جائے میری جان پر.چاہے میرے بچے فاقے کریں.میں بہر حال تیرا حق پہلے ادا کروں گا.تو مجھ سے رحم کا معاملہ کر.وہ کہتے ہیں وہ دن اور آج کا دن میں نے تنگی کا نام کبھی نہیں دیکھا.ہر بات میں برکت پڑ گئی.ہر نقصان ختم ہو گیا.پس اللہ تعالیٰ جو دینے والا ہے جو رازق ہے اس کے ساتھ صدق وسداد کا معاملہ کرو.تمہاری قربانیاں بھی کام آئیں گی اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں تم مزید فضلوں کے وارث بنائے جاؤ گے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے تم کیوں خوف کھاتے ہو.یہی تو وہ خرچ ہے جو تمہاری آمد کا ذریعہ ہے اور یہی تو وہ خرچ ہے جو برکتوں کا موجب ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کے صحابہ میں سے جنہوں نے تھوڑے تھوڑے مال بھی آپ کے حضور پیش کئے.بعض نے بڑی بڑی قربانیاں بھی کیں.لیکن ان سب کے خاندان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیوی لحاظ سے بھی ایسے وارث بنے کہ وہ پہچانے نہیں جاتے اور حیرت انگیز طور پر ان کے اموال میں برکت دی گئی.مگر جیسا کہ میں نے کل (عید الفطر ) کے خطبہ میں کہا تھا: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْر الله کا مضمون یہاں بھی حاوی ہے.وہ ایک عسر سے نکالے گئے اور ایک سیسر میں داخل کئے گئے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے باعث اور اس کے رحم اور کرم کے نتیجہ میں اور وہ غلطی سے یہ سمجھنے لگے کہ یہ ہماری ذاتی کوشش کا نتیجہ ہے اور یہ یسر ہمارے لئے پیدا کیا گیا ہے.ہم اس خاطر پیدا کئے گئے ہیں کہ آسائش کی زندگی گزاریں اور وہ یہ
خطبات طاہر جلد اول 60 66 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء بھول گئے کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کا ایک اور دور بھی چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایک اور طریق پر بعض دفعہ ایسے لوگوں سے انتقام لیتا ہے.بعض دفعہ دوبارہ دنیا کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے.دوبارہ مشکلات میں ڈال دیتا ہے.ان کے اموال غائب ہوتے جاتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے دولتیں نکل جاتی ہیں اور پھر وہ خاندان دوبارہ فلاکت نصیب ہو جاتا ہے.لیکن اس سے بھی زیادہ سخت سزا ایک اور طرح سے ملتی ہے.اور وہ خدا کا یہ قانون ہے کہ اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور پھر روشنیوں سے اندھیرے کی طرف بھی لے جاتا ہے.اور جب خدا زیادہ سخت سزا دینا چاہے تو ایسے خاندانوں کو بظاہر مالی لحاظ سے اور دنیوی لحاظ سے تو روشنی ہی میں رہنے دیتا ہے.مگر نور ان سے چھین لیتا ہے جو ان کے ماں باپ کے اخلاص کا نور تھا جس کے ذریعہ سے یہ دنیا ان کو ملی تھی اور وہ روحانی لحاظ سے روشنیوں سے نکل کر اندھیروں میں داخل ہورہے ہوتے ہیں اور یہ بہت ہی برا سودا ہے.یہ کہ دین بیچ کر دنیا حاصل کر لی.اور دنیا کے ذریعہ دین کو حاصل نہ کر سکے بلکہ جو دین ان کے باپ دادا ان کے آباء واجداد نے کمایا تھا، وہ دین بھی اپنے ہاتھوں سے کھو بیٹھے.اس سے برا اور اس سے زیادہ گھاٹے والا دردناک سودا اور کوئی نہیں ہو سکتا.پس آج میرے مخاطب ایسے ہی لوگ ہیں جن کی کوئی تعیین کرنے کا نہ مجھے حق ہے نہ آپ کو حق ہے.ان میں سے ہر ایک کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ ہے.میرا فرض ہے کہ میں متنبہ کروں کیونکہ میں اس آقا اس سب سیدوں کے آقا کے غلام کی خلافت کے منصب پر بیٹھا ہوا ہوں اور اس کے سوا میں کچھ کہہ ہی نہیں سکتا جو حضرت محمد مصطفی علیہ فرماتے رہے اور جو آپ کی پیروی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعلیم دی.اس لئے میں مجبور ہوں یہ باتیں کہنے پر بھی.میں نے بشارت کے پہلو بھی آپ کو دکھائے اور آپ کے دل خوش ہوئے اور حمد سے بھر گئے اور اب یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نبی کا کام نذیر بنا بھی ہے.خطرناک راستوں سے خطرناک مواقع سے آپ کو بچانے کے لئے متنبہ کرنا بھی ہے اور انبیاء کے بچے متبعین وہی ہوتے ہیں جو آقا کے ارادوں کے مطابق ڈھلتے اور وہی شکل اختیار کر لیتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بشیر اور نذیر ہونے کی حیثیت سے آپ کے غلاموں کی بھی ایک تصویر کھینچی.وہاں بھی بالکل یہی مضمون نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا
خطبات طاہر جلد اول 67 خطبه جمعه ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجده ۷) کہ محمد مصطفی ﷺ نے انذار اور تبشیر کا حق خوب خوب ادا کیا.ایسا کہ اپنے سارے متبعین کو انذار اور تبشیر کے سانچوں میں ڈھال دیاوہ خدا کی محبت اور طمع میں یعنی بشارتوں کے نتیجہ میں راتوں کو اٹھ کر اس کے حضور حاضر ہونے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس کے زیادہ سے زیادہ فضلوں کے وارث بن سکیں اور اس خوف سے بھی اٹھتے ہیں کہ مبادا ہم اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں ان نعمتوں سے محروم رہ جائیں جو نعمتیں حضرت محمد مصطفی" کے ذریعہ ہمیں عطا کی جارہی ہیں کہا کرتے ہیں وہ راتوں کو اٹھ کر يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًاءه خدا کو خوف سے بھی یاد کرتے ہیں اور طمع کے ساتھ بھی یاد کرتے ہیں وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اور ان کے انفاق فی سبیل اللہ کا ایک سلسلہ جاری ہے.ہم دیتے چلے جاتے ہیں اور یہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.یہ ہے وہ کوثر جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بہائی اور اس کوثر کی زندگی کی ضمانت کے طور پر ہم پیدا کئے گئے ہیں.ہم ہیں جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے اس کوثر سے جام بھر بھر کے ساری دنیا کو پلانے کا کام کیا ہے.اس کوثر کو اپنی قربانیوں سے بھر دیں لیکن یا درکھیں کہ یہ کوثر ایک سب سے پاک رسول کی قربانیوں کا ایک تالاب ہے اس میں گندا قطرہ نہیں جائے گا.نفس کی ملونی کا ایک ذرہ بھی اس میں داخل نہ کیا جائے گا.ورنہ آپ قربانی کرنے والوں کے گروہ میں نہیں لکھے جائیں گے بلکہ قربانی کرنے والوں کی قربانیوں کو گندا کرنے والوں کے گروہ میں لکھے جائیں گے.اس خوف کے ساتھ اپنے نفوس کا محاسبہ کرتے رہیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مالی نظام کو ہر پہلو سے پاک اور صاف رکھے اور ہمارے نفس کی ملونیوں سے اس کو بچائے.حقیقت یہ ہے کہ اگر جماعت کا ایک طبقہ اس معاملہ میں تقوی شعاری اختیار کرے اور غیر اللہ کا خوف نہ کھائے.شرک نہ کرے اور اس بات پر قائم ہو جائے کہ خدا کی راہ میں میں جو بھی دوں گا.سچائی کے ساتھ دوں گا.تو آج شرح بڑھائے بغیر بھی ہمارا چندہ دو گنا بھی ہوسکتا ہے.کیونکہ الشبقون الاولون کی جو جماعت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اور بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ جماعت من حیث الجماعت ساری جماعت کا خلاصہ ہوتی ہے اور عددی لحاظ سے یہ کم ہوتی ہے.اس سے میں یہ اندازہ کرتا ہوں کہ ایک بڑی اکثریت ایسی ہوگی ، جو ابھی تک مالی امور میں تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اتری.اگر وہ اکثریت بھی تقویٰ کے معیار پر
خطبات طاہر جلد اول 68 خطبه جمعه ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء پوری اتر جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یقیناً ہمارے چندوں میں غیر معمولی برکت ملے گی.اب جب میں آپ کو اس مضمون کی طرف توجہ دلا رہا ہوں تو میرے دل میں ایک خوف بھی ہے.وہ خوف اچھا ہے پیارا خوف ہے.لیکن ہے خوف اور وہ خوف یہ ہے کہ السَّبِقُونَ الْأَوَّلُون ہر تحریک کے وقت خود ہی آگے آ جاتے ہیں.وہ مخاطب نہ بھی ہوں ان کے کانوں میں جب آواز پڑتی ہے تو وہ اپنے جائز چندوں سے زیادہ آگے بڑھا کر دینے لگ جاتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا ساری جماعت نے ایک قدم اور آگے بڑھا لیا اس لئے میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ سارے مخلصین جماعت جو تقوی شعاری کے ساتھ شرح کے مطابق چندہ دے رہے ہیں وہ میرے مخاطب نہیں ہیں وہ اسی طرح چندے دیں.میں جانتا ہوں ان کی تو کیفیت یہ ہے کہ اگر ان کو یہ کہا جائے کہ اپنا سب مال پیش کر دو تو وہ اپنا سب مال پیش کر دیں گے نہیں رکیں گے.ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیوی بچے ہلاک ہور ہے ہوں.بھوک سے تڑپ رہے ہوں وہ تب بھی نہیں رکیں گے مخلصین کی یہ ایک کثیر جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوئی ہے.ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک صحابی کے متعلق حضور نے تعریفی کلمات فرمائے ( مجھے اس وقت ان کا نام یاد نہیں رہا) منشی صاحب تھے کوئی سیالکوٹ کے.ان کے متعلق حضور نے فرمایا کہ دیکھو! حضرت ابوبکر کی طرح اس شخص نے بھی اپنا سب کچھ میرے حضور پیش کر دیا.اور اپنے لئے کچھ نہیں رکھا.جب ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو تیزی کے ساتھ گھر گئے اور گھر کی جو چار پائیاں تھیں وہ بھی بیچ دیں کہ میرے آقا نے مجھ سے یہ حسن ظن رکھا اور میری چارپائیاں پڑی ہوئی ہیں.بچے ابھی تک ان چار پائیوں پر سور ہے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جذبے والے غلام آج بھی موجود ہیں اور دین اسلام کی خاطر جماعت کو جب بھی ضرورت پڑے گی ، وہ سب کچھ پیش کر دیں گے.مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں.خدا کے کام نہ رکے ہیں اور نہ رکیں گے اور ان مخلصین کی تعداد انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتی چلی جائے گی.مجھے یہ خوف پیدا ہوا کہ اب بھی وہی نہ آگے آجائیں اس لئے وہ میرے مخاطب نہیں ہیں.بار بار مجھے یہ سمجھانا پڑ رہا ہے.
خطبات طاہر جلد اول 69 69 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء جماعت کا ایک طبقہ جو میرے ذہن میں ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا وہ تو ان بزرگوں کی اولادیں ہیں جن کی نیکیوں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں بہت وسعت دی.اور ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو پاکستان میں بہت ہی مشکل سے زندگی بسر کر رہا تھایا نسبتا آسانی کی زندگی بھی بسر کر رہا تھا، اسے باہر جانے کی توفیق ملی اور وہ ایسے ممالک میں چلے گئے جہاں روپے کی ریل پیل ہے اور خدا تعالیٰ نے ان کو اتنا دیا اتنا دیا کہ کوئی نسبت ہی نہیں رہی اس مال سے جو وہ یہاں کمایا کرتے تھے اور بعض دفعہ زیادہ عطا بھی ایک کنجوسی کا موجب بن جاتی ہے.روپیہ زیادہ ہو جائے تو انسان یہ نہیں سوچتا کہ میں شرح کے مطابق دوں گا تو تب بھی غریب کے برابر نہیں پہنچوں گا.کوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ تو ایک لاکھ بن جائے گا.یہ تو دس لاکھ بن جائے گا.جس کو خدا سال میں ایک کروڑ عطا فرما رہا ہے اس کے لئے اندازہ کریں کہ دس لاکھ کا جو تصور ہے وہ اس کے لئے کتنا بھیانک ہے کہ میں اکیلا دس لاکھ روپے سالانہ دوں یہ کس طرح ہو سکتا ہے.وہ کہتا ہے چلو دس ہزار بھی دوں تو بڑی چیز ہے.آخر جماعت کے کام نکل رہے ہیں.میرے دس ہزار سے بھی جماعت کو فائدہ ہی پہنچے گا نا.تو جس طرح صدقہ دیا جاتا ہے خیرات دی جاتی ہے اسی طرح وہ اللہ کو وہ چندہ واپس کر رہے ہوتے ہیں کتنی خطرناک بات ہے.کتنے دکھ کا مقام ہے.ان کو تو چاہئے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں سے قربانی کے معیار کو زیادہ بلند کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ وہ غریب جو تین سو روپے کما رہا ہے اور موصی ہے اور وہ ہمیں روپے سلسلہ کی خدمت میں اللہ کے نام پر پیش کر دیتا ہے اس کے دوسوستر بھی اس کے لئے نہیں رہتے.ایسی قربانی پیش کرنے والا دوسرے چندوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش ہوتا ہے.وہ پھر جاتا ہے تحریک جدید کا حساب دیکھتا ہے.کہتا ہے اس میں بھی میں آگے بڑھ جاؤں اس میں بھی میرا نام ان میں لکھا جائے جن کا نام السَّبِقُونَ الْأَوَّلُون کی دعائیہ فہرست میں لکھا جاتا ہے.پھر وہاں بھی ادا کرتا ہے.پھر وہ وقف جدید کا حساب بھی دیکھتا ہے.پھر وہ صدقات کی مدیں بھی دیکھتا ہے کہ وہاں بھی مجھے موقع مل جائے.بہت تھوڑا اس کے پاس بچتا ہے.اتنا تھوڑا کہ جو زندگی کی قوت کو برقرار رکھنے کیلئے بھی کافی نہیں ہوتا.کہاں اس غریب کی قربانی اور کہاں اس امیر کی قربانی جو ایک کروڑ میں سے دس لاکھ دے رہا ہے.اس کے پاس اپنی ضرورت میں سے بہت زیادہ رقم یعنی نوے لاکھ روپے بچی ہوئی ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ روپیہ خود اپنی ذات میں حرص کا موجب بن جاتا ہے.بہت کم ہیں جو اس بخل سے بچائے
خطبات طاہر جلد اول 70 10 خطبہ جمعہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۸۲ء جاتے ہیں.لیکن اللہ کی راہ میں صاف اور سیدھا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں انسان اپنے نفس پر رحم نہ کرے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان فرمایا: اِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا) (الاحزاب :۷۳) کہ وہ جو رحمت للعالمین ہے غیروں کیلئے اپنے نفس کے لئے اس سے بڑھ کر ظالم ہے ہی کوئی نہیں.وہ اپنے نفس پر حد سے زیادہ ظلم کرتا ہے.پس یہ ہے نقشہ مومن کی زندگی کا کہ غیروں کے لئے رحم اور اپنے نفس پر ظلم اور ایسا ظلم کہ وہ کبھی بھی نفس کو باغی نہ ہونے دے.پس ایسے لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی فکر کریں.کیونکہ اللہ تعالیٰ پھر ان برکتوں کو چھین لیا کرتا ہے.وہ اس معاملہ میں انصاف کا سلوک کرتا ہے ایسے لوگوں کی اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں.وہ دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اور ان کے لئے بہت ہی خوف کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ ساری جماعت کو ان خطرات سے محفوظ رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کیلئے ہے.“ ( مجموعه اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۹۸) پھر فرماتے ہیں: اور جو شخص ایسی ضروری مہمات میں مال خرچ کریگا ( یہ دیکھیں کیسی زبر دست ضمانت دی جا رہی ہے مال خرچ کرنے والے کو ) میں امید نہیں رکھتا کہ اس مال کے خرچ سے اس کے مال میں کچھ کمی آ جائے گی.بلکہ اس کے مال میں برکت ہوگی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے ایک پیسے کے برابر نہیں ہوتا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۹۷)
خطبات طاہر جلد اول 71 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء تم میں سے ہر ایک کو جو حاضر یا غائب ہے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو چندہ سے باخبر کرو اور ہر ایک کمزور بھائی کو بھی چندہ میں شامل کرو.یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے.“ (الحکم ار جولائی ۱۹۰۳ء) پھر فرماتے ہیں اور کیا خوب فرمایا ہے کہ روح وجد کرتی ہے اس کلام پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے.دراصل سچائی کے چشمے سے جو کلام نکلتا ہے اس کی قوت ہی اور ہوا کرتی ہے.اسی کا نام قوت قدسیہ ہے.عمل کی سچائی.قول کی سچائی غرضیکہ سارا وجود ہی سچا ہو چکا ہوتا ہے.اسی کا نام حق ہے.اسی کا نام حق میں غائب ہو جانا ہے انسان کا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو میں اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ میری زبان میں کہاں وہ برکت جو حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے اس عاشق غلام کے کلام میں برکت ہے.اسی کی زبان میں میں آپ سے کہتا ہوں.وو ” ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی تازہ بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۴۹۷) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اللہ کی نظر میں ہم اس جماعت میں شامل ہوں جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پیوند ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی چند دن تک انشاء اللہ تعالیٰ میں اور سلسلہ کے بعض اور نمائندگان اس بابرکت سفر پر روانہ ہونے والے ہیں جس میں ہمیں اور کاموں کے علاوہ اول طور پر مسجد سپین کا افتتاح کرنا ہے.دوسرے احمدی احباب بھی سب دنیا سے وہاں بکثرت اکٹھے ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ.سفر پر جانے سے پہلے یہ میرا آخری خطبہ ہے یہاں اس وقت.میں صرف دو باتوں کی
خطبات طاہر جلد اول 72 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۲ء نصیحت کرتا ہوں.ایک تو بکثرت دعاؤں کے ذریعہ اس تقریب میں شامل رہیں.جگہ کا فاصلہ خدا کی آنکھ کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا.وہ تمام احمدی مرد ہوں یا عورتیں، بچے ہوں یا بڑے وہ سارے اللہ کی نگاہ میں اس تقریب میں شامل ہوں گے جو پورے خلوص اور درد کے ساتھ دعائیں کر رہے ہوں گے کہ اے خدا! اس تقریب کو ہر پہلو سے بابرکت بنا.دوسرے میں یہ کہوں گا کہ میری عدم موجودگی میں اپنے عفو اور مغفرت اور بھائی چارے کے معیار کو اور بھی زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں.اللہ گواہ ہے کہ میرا دل ربوہ میں انکار ہے گا.مرکزی جماعت کا ایک اپنا مقام ہوتا ہے اور اس کے ساتھ جو پیار کا تعلق ہوتا ہے ویسے ساری جماعت کے ساتھ ہے مگر مرکز کی جماعت کے ساتھ پیار کا تعلق ایک حیثیت رکھتا ہے اس لئے یہ فکر ر ہے گی.خدانہ کرے کہ وہ پریشانی میں تبدیل ہو کر آپ لوگ کہیں آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھیں نہیں.بلا وجہ اختلافات میں مبتلا ہو کر میرے لئے دکھ کا موجب نہ بنیں اپنے بہن بھائیوں کے لئے دکھ کا موجب نہ بنیں.پس زبان سے ، قول سے فعل سے کوئی ایسی بات نہ کہیں جو کسی کو دکھ پہنچانے کا موجب بنے ، استغفار سے کام لیتے رہیں.محبت کو پھیلائیں اور اسی کی اشاعت کریں.اللہ تعالیٰ محبت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.خدا کرے ہمیں اس کی توفیق عطا ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: السلام علیکم و خدا حافظ.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ را گست ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول الله 73 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء تمام احمد یوں کا یونیفارم لباس تقوی ہے ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ کراچی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ نظارہ تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن نتائج مختلف اخذ کر لیے جاتے ہیں.اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اخذ کردہ مختلف نتائج ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہوتے ہیں اور اتنے متضاد کہ گویا ایک کو دوسرے سے کوئی نسبت نہیں.اسی قسم کا واقعہ قرآن کریم کے متعلق ظہور میں آیا جب قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت، اس کی شعریت ، اس کے نغماتی اثرات اور اس کے توازن سے متاثر ہو کر مختلف نتائج اخذ کئے گئے.ظاہر پرست، ظاہر بین آنکھ نے ، جو تجزیہ نہیں کر سکتی ، جو حکمت سے غور نہیں کرتی ، ایک یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تو شعر ہے.یہ نتیجہ اخذ کیا بَلْ هُوَ شَاعِر (الانبیاء :1 ) یعنی محمد مصطفی علیہ شاعر ہیں.بہت گہرا اثر ہے ان کے کلام میں ، بڑے نغماتی اثرات ہیں.فصاحت و بلاغت کا ایک دریا بہہ رہا ہے، یہ تو ہم مانتے ہیں.لیکن نبی مانایا یہ کہنا کہ خدا کا کلام ہے، یہ ہم تسلیم نہیں کر سکتے.شعروں سے مشابہت ہے کلام کو اور شاعروں سے مشابہت ہے نعوذ باللہ حمد مصطفی ﷺ کو.جن کی بصیرت کچھ آگے بڑھی ایک انچ یا دو انچ ، انہوں نے اس سے زیادہ یہ کہا کہ شاعر بھی ہیں لیکن اس کمال کے کہ سحر کی حد تک ان کے شعر میں اثر پیدا ہو چکا ہے.سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (القمر ۳) حیرت انگیز سحری اثرات ہیں اس کلام میں اور ساحر ہے.جادوگر ہے.اس سے زیادہ ہم نہیں مان سکتے.
خطبات طاہر جلد اول 74 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء کیوں دھوکا کھایا ان کی آنکھ نے.اور اس آنکھ نے جو ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم کی آنکھ تھی ، کیوں مختلف نتیجہ اخذ کیا؟ اس لیے کہ وہ ظاہر پرستوں کی آنکھیں نہیں تھیں، وہ غور کر نیوالوں کی آنکھیں تھیں ،فکر کرنے والوں کی آنکھیں تھیں وہ ظاہری منظر کو دیکھ کر اس کے پس منظر میں ڈوبنے والی آنکھیں تھیں اور غور کے بعد نتیجہ اخذ کر نیوالی آنکھیں تھیں.وہ اس راز کو پاگئیں کہ اگر چه شعری لحاظ سے بظاہر دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا سوائے ادنی اور اعلیٰ کے.بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کلام ہے تو شعر لیکن اتنے اعلیٰ معیار کا شعر ہے جو سحر کی حد میں داخل ہو گیا ہے، جادوگری تک پہنچ گیا ہے.لیکن یہ درست نہیں اس لیے کہ سحر اور شعر کا رخ مختلف ہوتا ہے اور نبوت کا رخ مختلف ہوتا ہے.نبوت کے تصورات اور افکار کی رو بالکل مخالف سمت میں بہہ رہی ہوتی ہے اور شعر اور جادوگری کی رو بالکل مخالف سمت میں بہہ رہی ہوتی ہے.ان کا آپس میں کوئی جوڑ ہی نہیں کوئی تعلق ہی نہیں.دنیا کے شعر اور ادب کا جتنا بھی مجموعہ ہے اس میں ہمیشہ آپ رخ مادیت کی طرف دیکھیں گے.دنیاوی لذات کی طرف اس کا رخ پائیں گے.اعلیٰ حوالے سے بھی بات ہوگی تو بالآخرتان وہیں جا کر ٹوٹے گی کہ انسانی لذتوں کا ماحصل کیا ہے اور ظاہری تسکین کیسے ہوتی ہے؟ لیکن نبوت کے کلام میں ایک بالکل مختلف رو پائی جاتی ہے.وہ ادنی ، روزمرہ کی باتیں بھی شروع کرتی ہے تو تان آخر تقویٰ پر اللہ کے ذکر پہ ٹوٹتی ہے.وہاں اللہ کے حوالے سے بھی بعض دفعہ بات کی جائے تو تان دنیا پر جا کر ٹوٹتی ہے.شراب اور کباب پر جا کر بات ختم ہوتی ہے.یہاں ادنی ادنی روز مرہ کی باتیں کی جائیں تو تان جا کر تقویٰ پر ٹوٹتی ہے، تقویٰ پر جا کر ٹوٹتی نہیں بلکہ تقویٰ کی تان میں تبدیل ہو جاتی ہے.جو پھر کبھی نہیں ٹوٹی.وہ ایسی تان ہے جس کو ابد بیت حاصل ہے.اس فرق کی مثال میں آپ کےسامنے رکھتا ہوں.ایک شاعر کہتا ہے ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر (دیوان غالب) یعنی اللہ کا ذکر بھی ہو تو ہمارا ذہن جو بادہ مست ہے آخر بادہ اور شراب کی طرف پہنچ جاتا ہے اور اس کے حوالے کے بغیر ہم بات ہی نہیں کر سکتے.ذکر الہی بھی ہو تو شراب پر جا کرتان ٹوٹ رہی
خطبات طاہر جلد اول 75 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء ہے اور اس کے برعکس قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ ادنی ، روزمرہ کی با تیں پکڑتا ہےاور اللہ تعالیٰ پر مضمون کو ختم کرتا ہے.اب لباس ہی کو لیجئے.دنیا میں یہ جو لباس کا ذکر ہے یہ شعر و ادب میں بھی ملتا ہے اور مذاہب میں بھی ملتا ہے.اور قرآن کریم نے لباس کا جو مضمون باندھا ہے وہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے شاعروں کے کلام میں نہیں ملتا بلکہ دنیا کے کسی مذہب میں یہ نظر نہیں آتا.میں علم کی بنا پر یہ بات کر رہا ہوں گومیرا علم حاوی نہیں محدود ہے.لیکن جتنی بھی انسانی علم کو دسترس ہوسکتی ہے میں نے موازنہ مذاہب کے دوران غور کیا کہ اس مضمون کی آیت ، بلکہ بیشمار اور آیات ہیں جن کے مضمون کو کسی الہی کتاب نے چھوا تک نہیں.بائیبل میں لباس کا ذکر ملتا ہے.انبیاء کے اس طرح کے فاخرانہ لباس تھے.یہ ہوا ، وہ ہوا.فلاں بادشاہ نے یہ پہنا ہوا تھا.سلک و مروارید کی باتیں ہیں ، اطلس و کمخواب کے قصے ہیں.مگر قرآن کریم لباس کے مضمون کو پکڑتا ہے اور ایک دم اچھال کر اس کو خدا تک پہنچا دیتا ہے.بیچ میں کوئی درمیانی دور ہی نہیں آتا.وَلِبَاسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرُ ط (الاعراف: ۲۷) حیرت انگیز کلام ہے.کہیں بات کرتا ہے لباس کی عبرت کے رنگ میں تو کہتا ہے.لِبَاسَ الْجُوع (الحل :۱۱۳) بھوک کا لباس.یعنی ظاہری لباس نظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور مضامین ان کی جگہ لے لیتے ہیں.لباس کی ادنیٰ حالت کا بھی ذکر کرتا ہے جو لِبَاسَ الْجُوعِ پر جا کر منتج ہوتی ہے اور اس کی اعلیٰ حالت کا بھی ذکر کرتا ہے جو لِباسُ التَّقوى پر جا کے منتج ہوتی ہے.اس مضمون پر میں نے کچھ مختصر بات عید کے خطبے میں کی تھی لیکن یہ بہت وسیع مضمون ہے.لِبَاسُ التَّقوی کے معنی کیا ہیں؟ اس آیت کا جو اصل روحانی مقصد ہے وہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ظاہری لباس سے بھی لِبَاسُ التَّقْوى کا ایک تعلق ہے اور وہ تعلق فوراً تو انسان کو سمجھ نہیں آتا.اگر انسان غور و فکر کرتار ہے اور اس کی زندگی پر پھیلے ہوئے واقعات جو ہیں ان کو مجتمع کرے اور غور کرے اور ان کی یا دوں میں ڈوبے تو اس کے سامنے یہ مضمون ابھر جائے گا کہ انسان روز مرہ کے عام لباس میں بھی تقویٰ کے بارے میں آزمایا جاتا ہے اور مختلف حالتوں میں تقویٰ کا مضمون بھی بدلتا رہتا ہے.کبھی یہ دین کی طرف لے جاتا ہے، کبھی
خطبات طاہر جلد اول 76 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء اہم کاموں کی طرف لے جاتا ہے، کبھی اعلیٰ مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور بعض دفعہ یہ سب قوموں میں مشترک ہو جاتا ہے.اور جب بحیثیت انسان تقویٰ کی بات کرتے ہیں تو اور معنے بن جاتے ہیں.کبھی یہ الہی رنگ پکڑتا ہے تو تقویٰ کا مضمون اور ہی شان میں داخل ہو جا تا ہے، لیکن صرف ظاہری لباس کے حوالے سے بھی بات کی جائے تو بڑا پیارا مضمون بنتا ہے بڑا گہرا اور تفصیلی ہے.اس کا دائرہ ساری زندگی پر محیط ہے.اس ضمن میں میں اپنے بچپن کے تجارب کے حوالے سے بات کروں گا.ایک ایک چھوٹا چھوٹا واقعہ چنا ہے آپ کو بتانے کے لیے کہ اگر آپ بیدار فکر کیساتھ غور کریں تو ہر چیز میں کچھ نہ کچھ نصیحت آپ کو ملتی چلی جائے گی.باتیں بالکل ادنی سی چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن ان کے اندر گہرے سبق ہیں اور سب میں تقویٰ کا سبق مل رہا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر میں رواج اور دستور یہ تھا کہ بہت سادہ زندگی تھی.بیوی بچوں کو بہت تھوڑا دیتے تھے اور زیادہ توجہ چندوں کی طرف دلاتے تھے.اتنی سادہ زندگی تھی کہ کپڑے بعض دفعہ سی سی کے بھی اس قابل نہیں ہوتے تھے کہ پہن کر انسان سکول جائے چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ شلوار تھی قمیص نہیں تھی اور سکول جانا تھا.میرے بہن، بھائی اب تک یاد کر کے بہت ہنستے ہیں اس لطیفے پر کہ میں نے اس خیال سے کہ سکول Miss نہ ہوا چکن خالی بدن پر پہن لی یعنی شلوار اور اچکن.اب میری آزمائش مقدر تھی.جب وہاں گیا تو پی ٹی کی گھنٹی آئی.استاد نے جب مجھے اچکن میں دوڑتے دیکھا تو بڑا حیران ہوا.اس نے کہا پاگل ہو گیا ہے.اس کو بلا کر باہر نکالو.اس نے مجھے کہا کہ اچکن اتارو اور پی ٹی کرو.اچکن کونسا لباس ہے پی ٹی کا؟ میں نے کہا نہیں.آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن اچکن اتار کے میں نے پی ٹی نہیں کرنی.تھوڑی سی چھینا جھپٹی ہوئی.انہوں نے میرے گریبان پہ ہاتھ ڈالا میں نے ان کی خوشامد کی کہ اس بات کو چھوڑ دیں.لیکن دو بٹن کھولے تو انہیں بات سمجھ آگئی.انہوں نے کہا ٹھیک ہے تم بیٹھے رہو.تو مجھے خیال آیا کہ اعلیٰ مقاصد کے رستے میں لباس حائل نہیں ہونا چاہئے.جو لباس اعلیٰ مقاصد کے رستے میں حائل ہو جاتا ہے وہ تقویٰ کے خلاف ہے.اس ضمن میں مجھے صرف اس لحاظ سے لطف آیا کہ ایک موقع پر خدا نے مجھے کامیاب کر دیا.پھر خیال آیا کہ ناکامیوں کے بھی تو بہت سے
خطبات طاہر جلد اول 77 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء مواقع ہیں.ان کی طرف دھیان گیا تو کالج کے زمانے کی بہت سی باتیں یاد آئیں.حضرت مصلح موعود کا ذکر میں ساتھ ساتھ کر رہا ہوں محبت کے انداز میں تاکہ حضور کے لیے دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو.بظاہر مضمون سے انحراف ہے لیکن پھر میں واپس اس کی طرف آجاؤں گا.حضرت صاحب سادگی کا معیار تو رکھتے تھے لیکن مہمان نوازی کے بہت اعلیٰ معیار کے قائل تھے.ہماری والدہ بھی مہمان نواز تھیں لیکن ایک فطری رنگ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی براہ راست تربیت تو ان کو حاصل نہیں تھی نا.لیکن حضرت مصلح موعود کو اصولوں کی ایسی گہری تربیت حاصل تھی کہ آپ کی مہمان نوازی کا معیار بہت بلند تھا.چنانچہ بارہا میری موجودگی میں ایسے واقعات ہوئے کہ آپ نے میری والدہ کو سبق دیے کہ مہمان نوازی کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے، یہ بھی تقاضا ہوتا ہے.چنانچہ وہ کوشش کرتی تھیں کہ اس رنگ میں رنگین ہو جائیں.عورتوں کو یادیں ہیں.بہت لوگوں کو یا دیں ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ میری والدہ ہی مہمان نواز تھیں یہ پتہ نہیں تھا کہ پیچھے ہاتھ کونسا کام کر رہا تھا؟ ان چیزوں کو کون صیقل کر رہا تھا ؟ ایک دفعہ کی بات ہے حضرت صاحب تشریف لائے اور کہا کہ فلاں چیز میں نے دی تھی ، وہ ہے؟ مہمان آگئے ہیں.امی نے کہا نہیں ، وہ تو ختم ہوگی.حضور نے فرمایا کچھ لاؤ، مہمان آئے ہوئے ہیں.انہوں نے کہا اس وقت تو کچھ بھی نہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ آئندہ ایک بات یادرکھنا کہ جن گھروں میں اچانک آنا جانا ہو وہاں مہمان نوازی کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ کچھ پس انداز کر کے رکھا جائے اچا نک وقت کے لیے ، چاہے دال روٹی ہو، چاہے چنے ہوں لیکن ایسا وقت اس گھر پہ نہیں آنا چاہیے کہ کچھ بھی نہ ہو.ورنہ پھر انسان مہمان نوازی کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا.چونکہ یہ تربیت کا رنگ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کے سارے بچوں میں، ہماری بہنوں میں بھی ، بھائیوں میں بھی انکی تو فیق کے مطابق مہمان نوازی کا جذبہ پیدا کیا.اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے.اب اس مادے کا ٹکراؤ بعض دفعہ اقتصادی حالات سے ہو جاتا ہے.جب ہم کالج میں تھے تو اتنا سا وظیفہ ملتا تھا کہ یا مہمان نوازی کریں یا کپڑے پہنیں.دو چیزیں اکٹھی تو نہیں چل سکتی تھیں.چنانچہ عادةً ، فطرۃ تربیت کا اثر تھا کہ جو ہمارے کالج میں آنے جانے والے دوست تھے ان کے ساتھ
خطبات طاہر جلد اول 78 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء مہمان نوازی کا ایک نظام چل رہا تھا.اس لیے اکثر میرا پیسہ ٹک شاپ چلا جاتا تھا اور پہننے کے لیے بعض دفعہ کپڑے نہیں ہوتے تھے.شلواریں سیتے تھے تو آہستہ آہستہ وہ ڈھل ڈھل کر پستہ بن جاتی تھیں اور سیون سے پھٹنے لگتی تھیں.اس وجہ سے میں نے کالج کی کئی کلاسیں Miss کیں.اب میں نے بعد میں سوچا تو میں ناکام ہو گیا.بچپن میں ایک موقع پر کامیاب ہوا.جوانی میں ترقی کرنی چاہئے تھی مگر میں نا کام ہو گیا.میری تعلیم کی راہ میں لباس کو حائل نہیں ہونا چاہئے تھا.ی احساس، احساس کمتری جو ہے، یہ حکمت کا احساس نہیں ہے کہ ایک بچہ یا بڑا جو بھی ہو، وہ لباس کی وجہ سے اعلیٰ مقصد کے حصول میں ناکام رہ جائے.بے نیاز ہونا چاہئے ایسی بلند نگاہیں ہونی چاہیں کہ بالکل پرواہ ہی نہ ہو.وہ نگاہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوئیں جن کی خاطر کائنات پیدا کی گئی.حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ بسا اوقات خود بیٹھ کر سوئی دھاگے سے کپڑے سی رہے ہوتے تھے اور بعض دفعہ پیوند پر پیوند لگ رہے ہوتے تھے اور پھر پیوند پر پیوند پر پیوند کے اوپر بھی پیوند لگ رہا ہوتا تھا.( مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 121 ) عظیم اور حیرت انگیز رسول تھا.ان چیزوں سے بالا تھا اور بے نیاز تھا.اچھے کپڑے آئے وہ بھی پہنے.جھوٹا فقر نہیں تھا.نہ جھوٹا فخر تھا، نہ جھوٹا فر تھا.دونوں سے بے نیاز رسول.باہر سے اچھے کپڑے آئے بڑے خوبصورت جسے آئے یہ نہیں سوچا کہ میں پہنوں گا تو لوگ کہیں گے اوہو! یہ تو دنیا کی چیزیں پہن رہا ہے.جانتے تھے کہ اللہ نے یہ زینتیں مومنوں کے لیے پیدا کی ہیں.صرف تقویٰ ساتھ رہنا چاہئے.اگر تقویٰ کا لباس دنیاوی لباس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو پھر وہ الہی رنگ پکڑتا ہے ور نہ نہیں پکڑتا.ادنی لباس بھی تکبر کا موجب بن جاتا ہے اگر اس خوف سے پہنے کہ اگر میں نے اعلیٰ پہنا تو لوگ کیا کہیں گے کہ اچھا! یہ دُنیا دار ہے.چیتھڑے پہنے ہوئے لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں.حقیقت میں انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں.اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ میں چیتھڑوں میں بڑا بزرگ لگوں گا ، میں کم کھاؤں گا تو بڑا اچھا لگوں گا، لوگ کہیں گے یہ بڑا صوفی ہے، یہ بڑا نیک ہے، تو اس کو تو چیتھڑوں نے ہلاک کر دیا.اور اگر کوئی اچھا لباس پہن کر فخر سے دنیا میں پھر رہا ہے فقر کے مقابل پر، تو وہ اس آزمائش میں مبتلا ہو گیا اور جو اپنے غریب بھائیوں پر صرف اس لیے تکبر کی نگاہ ڈال رہا ہے کہ ان کے پاس تھوڑ ا لباس ہے یعنی چھوٹے درجے کا لباس ہے، میرے پاس
خطبات طاہر جلد اول 10 79 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء اچھے درجے کا لباس ہے، وہ بھی مارا گیا.تو لباس التقوی رنگ بدلتا رہتا ہے.کہیں یہ آپ کے پاس غربت میں آزمائش کے لئے آجاتا ہے، کہیں امارت میں آزمائش کیلئے آجاتا ہے.اور ہر رنگ میں مومن کے لیے امتحان ہی امتحان ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اب میں ایک اور طرف آپ کو لے جاتا ہوں.وہ بھی اپنی یاد کے ساتھ وابستہ قصہ ہے.اسی کے حوالے سے میں چند باتیں آپ سے عرض کرتا چلا جاؤں گا.جب میں انگلستان گیا تو وہاں میں نے انگریزی لباس پہنا.ہمارا پاکستانی عام سادہ لباس جو تھا وہ تو وہاں میرے نزدیک چل ہی نہیں سکتا تھا.اس کا سنبھالنا بڑی مصیبت ہے.اب کون شلوار کو کلف دے اور استری کرے.اور پھر بڑا مہنگا پڑتا تھا.مجھے اس میں ( یعنی انگریزی لباس پہنے میں ) کوئی باک نہیں تھی.میں سمجھتا تھا اگر اس کو (انگریزی لباس کو ) پہننے کی وجہ سے لوگ مجھے گنہ گار سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں کیا فرق پڑتا ہے.میں نے وہ لباس پہنا.جب واپس آنے لگا تو کسی نے کان میں یہ بات پھونکی کہ اب تم پاکستان جارہے ہو، ربوہ پہنچو گے وہاں استقبال ہوگا اور یہ ہوگا ، وہ ہوگا، اب تم شلوار قمیص اور اچکن پہن لو.میں نے کہا اب تو میں نہیں پہنوں گا.اگر یہ لباس (انگریزی لباس) میرے لیے گنہ گاری کا لباس تھا تو پھر اس گنہ گاری کا سب کو علم ہونا چاہئے.یہ تو عجیب بات ہے کہ بارڈر بدلنے سے لباس بدل جائیں.یہاں برقع پہنا ہو اور جب عورت یورپ کے سفر پر جائے تو برقع یہاں چھوڑ جائے کہ یہ بارڈر کر اس (Cross) نہیں کر سکتا.یا اچکن وہاں بارڈر کراس نہ کر سکے اور پتلون وہاں سے ادھر بارڈر کر اس نہ کر سکے یہ تو تمسخر ہو گیا دین تو نہ ہوا.اور آگے جا کر مجھے اس بات کا بہت لطف آیا.جب میں ربوہ سٹیشن پر پہنچا تو خدام الاحمدیہ نے بڑا استقبال کیا ہوا تھا کیونکہ میں کافی دیر وہاں قائد رہا ہوں.اور میں نے دیکھا نظریں بدل رہی ہیں.بعض لوگوں کو بڑا دھکا لگا.انہوں نے کہا انَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ بھیجا کیا تھا اور واپس کیا بن کے آیا ہے.مارے گئے ہم.بعض پچھتاتے ہوئے واپس چلے گئے کہ استقبال کی خواہ مخواہ ہم نے تکلیف کی.یہ تو چیز ہی اور بن گیا ہے.اچھا بھلا شلوار قمیص ، وہ بھی پھٹی ہوئی ، پہن کے پھرا کرتا تھا اور اب پتلون ڈانٹی ہوئی ہے، کوٹ پہنا ہوا اور ٹائی لگائی ہوئی ہے تو چہرے بڑے مایوس ہوئے اور مجھے بڑا لطف آیا.میں نے کہا الحمد للہ، خدا تعالیٰ نے مجھے ایک جھوٹی عزت سے بچا لیا جس کی مجھے کوئی تمنا ، کوئی خواہش
خطبات طاہر جلد اول 80 80 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء نہیں.اس کا احسان ہے اگر مبتلا کر دیتا تو میں مارا بھی جاتا.اسی طرح ایک دفعہ سندھ کے دورے میں ہوا.حضور نے مجھے انگلستان سے آتے ہی وقف جدید میں لگا دیا.جب سندھ کے دورے پر گیا تو دنیوی لحاظ سے ایک بڑی بیک ورڈ (Backward) جماعت میں بھی جانے کا اتفاق ہوا.جس پر کچھ مولویت کا اثر بھی تھا.ویسے تو میں عام لباس بھی پہننے لگ گیا تھا.جو مرضی پہنتا تھا.میں نے اس میں کبھی فرق نہیں کیا.کیونکہ میرے نزدیک پتلون ہو، کوٹ ہو، کسی نے فرغل پہنا ہو، یا انڈونیشیا کی دھوتی پہنی ہو ، یہ ساری بے معنی باتیں ہیں.با معنی بات صرف ایک ہے کہ ہر لباس کے ساتھ تقویٰ رہنا چاہئے چنانچہ وہاں میں نے جان بوجھ کر ، عمداً ان کو ذرا چھیڑنے کے لیے اپنا بہترین سوٹ نکالا اور ٹائی پہنی اور ان کے پاس پہنچا.تو مجھے آج تک وہ Shock یاد ہے ، وہ دھکے جو ان کی نظروں کو لگے.بعض تو استغفار کرتے ہوئے وہاں سے واپس چلے گئے کہ یہ واقعہ کیا ہو گیا ہے.پھر رفتہ رفتہ مختلف رنگ میں سمجھایا گیا.آہستہ آہستہ عادتیں پڑیں.کچھ حو صلے وسیع ہوئے.لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ آپ مجھ پر رحم کریں کہ اوہو! میں بچپن میں تو اس طرح رہا کرتا تھا، اب مجھے کپڑوں کے تھنے دیں.یہ نتیجہ بالکل نہیں نکلتا.اگر کوئی یہ نتیجہ نکالتا ہے تو بڑی بیوقوفی کرتا ہے.کوئی تحفہ نہیں آنا چاہیے.زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب آپ مسجدوں میں جائیں اور اپنے غریب بھائیوں کو دیکھیں، ظاہری لباس سے بھی عاری جوان کیلئے کافی نہ ہو تو ان کی ہمدردی کریں.ان کو لباس پہنا ئیں کیونکہ ہر لباس کے بدلے آپ کو تقویٰ کا لباس مل رہا ہوگا ، آپ کو اللہ کی محبت کا لباس مل رہا ہو گا.وہ لباس ایک ایسا لباس ہے جو مادی لباس سے مستغنی بھی ہے اور کبھی کبھی اس کے ساتھ تعلق بھی جوڑ لیا کرتا ہے.خدا کی رضا کی خاطر اپنے غریب بھائیوں کی خدمت کریں.عیدوں پر انکو اچھے کپڑے پہنا ئیں.ان کیلئے سردیوں کے کپڑوں کا انتظام کریں.یہ نتیجہ نکلتا ہے.دوسرے یہ بھی نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص بظا ہر لباس سے مستغنی ہے وہی نیک ہے.یہ بھی بالکل جھوٹ ہے.کیونکہ تقویٰ کا لباس ظاہری نہیں ، وہ اندر گھسا ہوا ہے.یہ عجیب و غریب بات ہے.تقویٰ کا چونکہ روح سے تعلق ہے اس لیے لباس نام ہونے کے باوجود یہ نظر نہیں آتا.یہ روح کے گرد
خطبات طاہر جلد اول 81 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء لپٹی ہوئی کوئی چیز ہے جو باطن میں ہے.اس لیے اگر آپ نے ظاہری لباس پر بنا کی تو یہاں بھی آپ دھو کہ کھا جائیں گے.ہزار دفعہ صوفی منش بزرگ نظر آنیوالے لوگ ، خدا کی نظر میں ہوسکتا ہے متقی نہ ہوں.ہزار دفعہ ایسا بھی ہوگا کہ بظا ہر لباس بڑے فاخرانہ ہیں، دنیا داری کے نظر آتے ہیں اچھے اور قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور فی الحقیقت ان کے اندر تقویٰ بھی موجود ہے.ایسا ہی واقعہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی کے ساتھ ہوا، اتنا بڑا مقام ہے آپ کی ولایت کا، اتنا عظیم الشان مقام کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تصدیق فرمائی اور بڑی محبت کا اظہار فرمایا.ان کے متعلق آتا ہے کہ بڑا فاخرانہ لباس پہنا کرتے تھے یعنی دنیا جس کو فاخرانہ سمجھتی تھی.بڑے قیمتی قیمتی جوڑے بہت اعلیٰ قسم کے بجے ہوئے جن پر ہاتھ کی سب زمینیں لگائی ہوئی ہوتی تھیں، وہ آپ استعمال کرتے تھے.تو کسی مرید نے اپنی لاعلمی میں سوال کر دیا کہ حضرت ! آپ اتنے بزرگ ہو کے لباس کیوں اچھا پہنتے ہیں؟ انہوں نے کہا اچھا کیا تم نے پوچھ لیا، بدظنی نہیں کی.خدا کی قسم! میں کوئی جوڑا نہیں پہنتا جب تک میرا خدا مجھے نہیں کہتا کہ عبد القادر ! اٹھ اور یہ کپڑے پہن.میں ان کپڑوں سے بے نیاز ہوں میرے مولا کی ایک یہ بھی نظر ہے دنیا کو سبق دینے کی کہ: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِى اَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِن الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ القيمة (الاعراف: ۳۳) ایک یہ بھی سبق ہے.کون ہے جس نے خدا کے بندوں پر زیتوں کو حرام کر دیا ؟ کہدے یہ تو مومنوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اس دنیا میں اور آخرت میں خاص ان کے لیے ہو جائیں گی.دنیا میں اور بھی شریک ہیں.پس جس طرح آنحضرت ﷺ کی ایک شان تھی کہ کبھی نہایت ہی پیارا قیمتی لباس آپ نے پہنا جب باہر سے تحفے آئے اور سادہ کپڑوں میں بھی چلے پھرے.نہ اس پر شرمندگی کا احساس ہوا ، نہ اس پر فخر کا.بالا ہو گئے، مستغنی ہو گئے.پس تقویٰ کا ایک سبق ہمیں یہ ملا کہ انسان حسب ضرورت اچھا بھی پہن سکتا ہے ، برا بھی پہن سکتا ہے.اس کے نتیجے میں ہم اگر یہ فیصلے کریں گے کہ فلاں متقی ہے اور فلاں غیر متقی تو بالکل
خطبات طاہر جلد اول 82 88 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء جھوٹ بول رہے ہوں گے.احمقانہ بات ہوگی.وہاں دخل دیں گے جہاں دخل دینے کا ہمارا کام کوئی نہیں.ہمارا تعلق ہی کوئی نہیں ، ہمیں علم ہی کوئی نہیں.تو لباسوں سے کیوں فیصلہ کرتے ہیں.یہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر توجہ دلائی کہ.فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (انجم:۳۳) کہ ہم بار بار تقویٰ تو کہتے رہتے ہیں تم کہیں اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو جانا کہ ہم فیصلہ تم سے لیں گے کہ کون متقی بندہ ہے اور کون غیر متقی ؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے.هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُی وہی بہتر جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے؟ کیونکہ تقویٰ کا لباس آنکھ سے نظر نہیں آسکتا.وہ ایک روحانی مسئلہ ہے جس کو صرف خدا کی آنکھ دیکھتی ہے.پس اس پہلو سے ہمیں یہ بھی سبق ملا کہ لباس کو دیکھ کر ہم فیصلوں میں جلدی نہ کیا کریں.محض لباس کو دیکھ کر اگر فیصلے کریں گے تو بسا اوقات ٹھو کر کھائیں گے اور بعض دفعہ ٹھو کر نہیں بھی کھائیں گے تو گناہ میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ خدا نے ہمیں اس کام کے لیے مقرر نہیں فرمایا.لباس اور تقویٰ کا ایک اور بھی تعلق ہے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہی یہ سبق ملتا ہے کہ لباس انسان کا غلام بنا رہتا ہے اور بحیثیت غلام استعمال ہونا چاہئے ، انسان کا آقا نہیں بننا چاہئے.اور یہ جو مسلک تھا آنحضور ﷺ کا، یہ بھی قرآن پر مبنی ہے.قرآن کریم کہتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (الجائيه: ۱۴) جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے ہم نے تمہارا غلام بنایا ہے، تمہارا نوکر بنا کے رکھا ہوا ہے.اگر تم اسکی عبادت کرنے لگ جاؤ یا اسکو اپنے اوپر حاوی کر لو تو یہ شرک ہی شرک ہے.اپنے نوکر کی عبادت کرو گے؟ اپنے نوکر کے غلام بن جاؤ گے؟ تو کتنی حماقت ہے کتنی بیوقوفی ہے.گھاٹے کا سودا ہے سارے کا سارا.اس کی عبادت کرو، اس کے غلام بنو جس نے تمہارے لیے ان چیزوں کو بطور غلام ، بطور نوکر اور چاکر کے مسخر کیا ہوا ہے.تو ہمیشہ جب کوئی انسان ایسا لباس پہنے جس کو دیکھ کر یوں محسوس ہو کہ وہ لباس کے ساتھ لٹکا ہوا ہے تو وہاں طبیعت میں ایک انقباض پیدا ہو جاتا ہے، طبیعت مکدر ہو جاتی ہے اور رحم آتا ہے.کیونکہ آدمی یہ فیصلہ تو نہیں دے سکتا کہ یہ غیر متقی ہے کیونکہ اس کا یہ مقام ہی نہیں ہے.ہوسکتا ہے کچھ اور بات ہو.لیکن وہ شخص خود ضرور جان سکتا ہے جس کی یہ کیفیت ہے.
خطبات طاہر جلد اول 83 خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء اس لیے میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ دوسروں کے لباس دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کریں کہ وہ لباس کا آقا ہے یا لباس اس کا آقا ہے.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے لباس کے بارے میں ہمیشہ یہ فیصلہ کیا کریں اور اپنے نفسیاتی پس منظر کا بڑی باریک نظر سے مطالعہ کیا کریں کہ آیا آپ لباس کے غلام بن رہے ہیں یا لباس آپ کا غلام بن رہا ہے؟ آپ وہ ہینگر ہیں جس کے اوپر ماڈل کے طور پر لباس لٹکائے جاتے ہیں یا وہ انسان ہیں جن کی زینت کی خاطر لباس بنائے جاتے ہیں اگر آپ اپنا یہ زاویہ نگاہ درست کر لیں تو آپ کا ظاہری لباس بھی متقیا نہ ہو جائیگا، وہ بھی سیح ہو جائیگا.ان سب باتوں کو ملحوظ رکھنے کے بعد پھر اگلا قدم آتا ہے یعنی تقویٰ کے لباس کی حقیقت کیا ہے؟ تقویٰ کا لباس انسان کی ہر خامی کو ڈھانپ لیتا ہے اور تقویٰ کے مطابق ہی انسان کو زینت ملتی ہے.تقویٰ کا لباس نہ ہو تو جہاں جہاں سے یہ لباس نہیں ہو گا وہاں وہاں سے بدن ننگا ہو جائے گا.وہ روحانی لحاظ سے دھوپ کا بھی شکار ہو گا اور سردی کا بھی شکار ہوگا.اور خدا اور خدا والوں کی نظر میں وہ چیتھڑوں میں ملبوس شخص جیسا ہو گا.جتنا یہ لباس کامل ہوتا چلا جائے روحانی بدن ڈھکتا چلا جاتا ہے اور زینت عطا ہوتی چلی جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا: يبَنِي أَدَمَ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :۳۲) دیکھو کہ جب مسجدوں میں جاؤ تو اپنی زینت ساتھ لے کر جایا کرو.زینت سے کیا مراد ہے؟ کیا دنیا کی زینت مراد نہیں؟ وہ ثانوی معنی ہیں.مراد یہ ہے کہ تقویٰ کا لباس پہن کر جایا کر محض اللہ مسجد کی طرف سفر کیا کرو.ہر قدم پر دعائیں کرتے ہوئے جاؤ توفیق مانگتے ہوئے جاؤ کہ خدا تعالیٰ مسجد سے تمہیں نیکی عطا کرے، ریا کاری سے بچائے عبادت کے حق ادا کرنے کی توفیق بخشے.اب چونکہ ساری دنیا سے احمدی سپین کی مسجد کے افتتاح پر پہنچیں گے اس لئے مجھے خیال آیا کہ ساری دنیا کے احمدیوں کو بتانے کی ضرورت ہے، یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ لوگ وہاں ظاہری طور پر تو مختلف بھیسوں میں آئیں گے، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، بھانت بھانت کے لباس میں ملبوس.کوئی انڈونیشیا سے آرہا ہوگا ، کوئی امریکہ سے آ رہا ہوگا ، کوئی پاکستان سے آرہا ہوگا.کسی نے پگڑی پہنی ہوگی کسی نے ٹوپی، کسی نے ہیٹ.اور جب وہاں اکٹھے ہوں گے تو آپ کو اس وقت محسوس ہوگا کہ لباس میں فخر کا کوئی سوال ہی نہیں.مختلف قوموں کے فطری تقاضے ہیں.نہ وہاں
خطبات طاہر جلد اول 84 == خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء پگڑی فخر کا موجب رہے گی، ٹوپی ذلت کا موجب نہ بیٹ کسی قسم کی فضیلت کا موجب رہے گا نہ لگے سر ہونا ہی کوئی معیوب بات نظر آئیگی کوئی افریقن لباس پہن کر آئے گا، کوئی امریکن ، کوئی انڈونیشین ،کوئی جاپانی، کیا چیز ہے جو قدر مشترک ہے جس نے احمدی کو ایک رنگ دینا ہے؟ وہ لِبَاسُ التَّقْوى ہے.اس لئے اپنی یو نیفارم ساتھ لے کر جانا نہ بھولیں.کیونکہ یونیفارم کے بغیر قو میں حسین منظر پیش نہیں کیا کرتیں.یونیفارم اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی یونیفارم عطا فرما دی جو ہر ظاہری یونیفارم سے آزاد ہو چکی ہے اور وہ تقویٰ کا لباس ہے.احمدی اپنے تقویٰ سے پہچانا جائے.کسی رنگ میں ملبوس ہو، کوئی زبان بول رہا ہو.دیکھنے والی نگا ہیں جان جائیں، معلوم کر لیں کہ یہ متقی لوگ پھر رہے ہیں.یہ ہم سے مختلف قوم ہیں ، یہ خدا کے بندے ہیں، خدا کی طرف سے آئے ہیں، خدا کی خاطر آئے ہیں اور خدا کی طرف بلانے آئے ہیں.یہ وہ اہم بات تھی جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا تھا.سوچا تو آہستہ آہستہ مضمون پھیلتے پھیلتے کہیں سے کہیں نکل گیا.میں نے کہا چلیں اپنی سوچ میں آپکو بھی شامل کرلوں کہ جو سیر میں نے کی ہے آپ کو بھی اس میں ہم سفر بنالوں کیونکہ پین کا سفر بھی ہم میں سے بہت سے اکٹھے کریں گے تو ان باتوں کو لوظ رکھتے ہوئے لباس التقوی کو پیچھے نہ چھوڑ جائیں.دوسری بات میں ان لوگوں کے متعلق کہنی چاہتا ہوں جو پیچھے رہ جائیں گے ان میں سے بعض بڑا دکھ محسوس کر رہے ہیں.مجھے بڑے دردناک خط آرہے ہیں، تڑپ رہے ہیں کہ کاش ! ہم بھی وہاں جاسکتے.دعاؤں کے لئے لکھ رہے ہیں.ان سب سے میں کہتا ہوں کہ آپ زمان و مکان سے بالا ہو چکے ہیں.جس کا تعلق رب سے جڑ جائے جو زمان و مکان سے بالا ہے ،اس کے بندے بھی بسا اوقات زمان و مکان سے بالا ہو جایا کرتے ہیں.یہ وہ مقام ہے کہ اگر آپ تقویٰ کا لباس یہاں پہن لیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا جسم شریک نہ ہو آپ کی روح وہاں مسجد میں شریک ہو رہی ہو خدا کے نزدیک.اور تاریخ اسلام میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں.ایسے ایسے عظیم الشان واقعات ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس بات کے سب سے زیادہ گواہ آپ ہیں جو اس وقت یہاں احمدی بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو یہاں موجود نہیں.قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ آپ اس بات کے
خطبات طاہر جلد اول 85 55 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء گواہ ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کہ ایسے لوگ آنے والے ہیں جو زمانی لحاظ سے بھی نہیں ملے اور مکانی لحاظ سے بھی نہیں ملے.مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کے صحابہ میں ان کا شمار ہوگا.اب بتائیے ! سپین تو پھر بھی گر پڑ کے پہنچ جائیں گے مگر کیا کوئی چودہ سوسال واپس بھی جاسکتا ہے؟ اس مکہ میں جاسکتا ہے جہاں حضرت محمد مصطفی علی پھرا کرتے تھے اور اپنے رب کی خاطر دکھ اٹھایا کرتے تھے؟ اس مکہ میں جا سکتا ہے جہاں حضرت بلال گھسیٹے جاتے تھے گلیوں میں پتھریلی زمین پر؟ کوئی نہیں جاسکتا.اس مدینہ کی سیر نہیں ہوسکتی جو مدینہ تھا ظاہری طور پر.اینٹ پتھر کے ان شہروں کی سیر تو ہوسکتی ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہی خدا ہے جو دوبارہ ایسے واقعات پیدا فرما دے گا کہ آنے والی نسلیں جن کا زمانی لحاظ سے بھی بعد ہوگا اور مکانی لحاظ سے بھی بعد ہوگا اور قومی لحاظ سے بھی بعد ہو گا اور نسلی لحاظ سے بھی بعد ہوگا.لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ جب خدا کہتا ہے تو ہر چیز کٹ گئی.لیکن ان کی ایک چیز نہیں کئی اور وہ ہے ان کی روح کے جذبات عشق جو ان کو محمد مصطفی علی سے ہیں وہ جذبات انکو ایسے پر عطا کریں گے جن کے طفیل وہ محمد مصطفی ﷺ کے قدموں میں حاضر ہو جا ئینگے اور خدا آج گواہی دے رہا ہے کہ ایسی قوم آنے والی ہے.لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ابھی تک تو نہیں آئے لیکن مل جائیں گے.حضوراکرم علیہ کے غلاموں کے ساتھ.پس وہ خدا جو زمان و مکان سے بالا ہے جب انسان اس کی تقدیر پر راضی ہو جاتا ہے.جب اس کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے تو اس کو بھی زمان و مکان سے بالا کیفیت عطا فرماتا ہے.دور بیٹھے اس کے حج ہو جاتے ہیں.بغیر ملے صحابی بن جایا کرتا ہے.اگر اس کو حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرنے کی توفیق نہیں ملتی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سلام اس تک پہنچ رہا ہوتا ہے.یہ ہے لِبَاسُ التَّقوی کا نتیجہ.اس لباس سے عظیم الشان نتائج عطا ہوتے ہیں.پس پیچھے رہنے والوں کو غم کیا ہے.ان کے درد کی وجہ سے دعا کی تو توفیق ملتی ہے لیکن تعجب بھی ہوتا ہے کہ وہ رو کس بات پر رہے ہیں.کیا پتہ ہے ایسے جانے والے ہوں جن کو وہاں کی لذتیں اور سیر میں زخمی بھی کر دیں.ان کے جانے کی نیتیں اور ہوں اور فائدہ اٹھانے کی بجائے نقصان اٹھا کر واپس آرہے ہوں ایسا بھی تو ہو سکتا ہے.ابتلا بھی تو وہاں بڑے ہیں.نیتوں میں یہ بات شامل ہو کہ
خطبات طاہر جلد اول 86 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء سپین کی مسجد تو ہے سیر بھی خوب ہوگی.اگر مسجد کی سیر کا مقصد بالا ہے تو یہ چیزیں تو مل ہی جاتی ہیں.ان سے انکار نہیں ہے سیر بھی ہوتی ہے مومن کی.لیکن مقصد اوّل کیا ہے جو زندگی پر حاوی ہے بعض دفعہ انسان کو پتہ نہیں چلتا اور ٹھوکر کھا جاتا ہے.اس میں دوسرے جذبات کو خلط ملط کر دیتا ہے اور سارے کا سارا رجحان تباہ ہو جاتا ہے.وہ رخ صحیح نہیں رہتا جس کے تابع انسان قبلے کو پہنچا کرتا ہے.تو ان جانے والوں کے سامنے بھی تو بڑے بڑے ابتلا ہیں.آپ کے سامنے وہ ابتلا تو نہیں.آپ کے دل میں ایک درد ہے اور درد کی دعائیں ہیں.اگر خدا ان کو قبول کر لے تو آپ بھی شامل ہو جائیں گے.تذکرۃ الاولیاء میں مذکور وہ واقعہ آپ نے بارہا سنا ہے جسے حضرت مصلح موعود نے بھی بارہا بیان فرمایا.وہ اسی مضمون کی تشریح کرتا ہے.کہتے ہیں ایک دفعہ ایک ولی جو بہت بڑے بزرگ تھے ان کو حج کی توفیق ملی.رویا میں دیکھا کہ فرشتے باتیں کر رہے ہیں کہ اس دفعہ کسی آنے والے کا تو حج ہوانہیں ہاں فلاں شخص کا ہوا ہے جو نہیں آیا اور اس کے طفیل خدا تعالیٰ نے بعض آنے والوں کے حج بھی قبول کر لئے.جب انہوں نے یہ حیرت انگیز واقعہ سنا تو انہوں نے فرشتے سے پوچھا کہ تم کیا قصہ بیان کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا حج قبول ہوا ہے، لیکن تمہاری وجہ سے نہیں.خدا کی نظر میں ایک ایسا حاجی ہے جو حج پر تو نہیں آیا لیکن اس کا حج خدا تعالیٰ کو اتنا پیارا لگتا ہے کہ اس کے صدقے اس نے بہت سے دوسرے حاجیوں کے بھی حج قبول کئے.مگر ان کا ذاتی فیض نہیں ہے.انہوں نے فرشتے سے پوچھا وہ کون شخص ہے.اس نے کہا ہم تمہیں پتہ بتا دیتے ہیں خود ہی جا کر اس سے پوچھ لو.چنانچہ رویا میں ہی اس شخص کا پتہ بتایا گیا جو دمشق کا رہنے والا ایک موچی تھا.انہیں پتہ یادرہا.چنا نچہ وہ اس شہر گئے.محلہ کی تلاش کی اور اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کی زیارت سے اپنی آنکھیں سیر کیں اور عرض کیا کہ اے خدا کے بندے! تجھ میں وہ کیا بات ہے جو خدا کو اتنی پسند آئی کہ تیرا حج قبول ہو گیا؟ اس کی حالت زار ہوگئی کہ میں تو جانہیں سکا میرا حج کیسے قبول ہو گیا؟ اس نے کہا مجھے خدا نے بتایا ہے اور تیرا پتہ بھی خدا نے بتایا ہے.مجھے یہ بات بتا جو مجھے نہیں بتائی گئی کہ یہ کیا واقعہ ہے؟ اس نے کہا مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ بڑا لمبا عرصہ میں نے بچوں کے پیٹ کاٹے ،خود غربت میں گزارا کیا اور حج کے شوق میں پیسے جمع کئے اور اس کی وجہ سے بعض دفعہ گھر میں ہفتوں گوشت نہیں پکتا
خطبات طاہر جلد اول 87 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء تھا اور ہم اسی طرح گزارا کرتے تھے تا کہ میراج کا شوق پورا ہو جائے.ایک دن ہمسائے سے گوشت کی خوشبو آئی.گوشت پکنے کی بڑی اچھی مہک اٹھی (اور بھو کے کوتو یہ خوشبو اور بھی اچھی لگتی ہے ) میری بیوی نے کہا کہ دیکھو یہ تو ٹھیک ہے کہ مانگنا برا ہے لیکن ہمسائیگی کا بھی تو حق ہے نا جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے.تم دروازہ کھٹکھٹاؤ اور ان کو کہو کہ میرے بچے بھی ایسے ہیں جو بھوکے ہیں تم ان کے لئے تھوڑ اسا گوشت دے دو اس لطف میں ہم شریک ہوں گے اور خدا تمہیں جزا دے گا.ہمسایہ باہر نکلا اور جب اس سے یہ کہا گیا تو اس نے بڑی لجاجت سے کہا کہ آپ مجھ سے یہ کام نہ کروائیں.کچھ نہ پوچھیں.یہ سمجھے کہ شائد جان بوجھ کر Avoid کرتا ہے.اس بات کو ہٹانا چاہتا ہے اور گوشت نہیں دینا چاہتا.اس نے پھر کہا بھائی اب میں مانگ بیٹھا ہوں میری عزت رکھ لو اور مجھے کچھ دے دو.اس میں کیا حرج ہے.اس نے کہا میرے لئے حلال ہے، تمہارے لئے حرام ہے، اس لئے نہیں دے رہا.اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مومن کے لئے حلال ہو، ایک مومن کے لئے حرام ہو.اس نے کہا ہو کیوں نہیں سکتا؟ قرآن کہتا ہے ہو سکتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب بھوک یہاں تک پہنچ جائے کہ فاقے کر رہے ہو تو اس وقت تمہارے لئے سو ر بھی حلال ہے کیونکہ خدا کی نظر میں زندگی کو فوقیت دی جائے گی.اس وقت حلال و حرام کے قصے اٹھ جاتے ہیں.تو مجھے اور میرے بیوی بچوں کو اتنے فاقے تھے کہ وہ وقت آ گیا تھا جب حلال و حرام کی قید خدا نے ہم سے اٹھالی.اس وقت میں باہر نکلا تو ایک مرا ہوا گدھا دیکھا اس کا گوشت کا ٹا جو میں نے پکایا ہے.اب تم کہتے ہو کہ ہم دونوں کے لئے کس طرح ایک حکم نہیں ہے؟ ہمارے لئے الگ الگ حکم ہے.وہ موچی کہتے ہیں میرا دل ہل گیا.میرے دل پر زلزلہ برپا ہو گیا.میں نے کہا اے خدا ! میری ساری عمر کی محنتیں رائیگاں گئیں.جبکہ میرا ہمسایہ بھوکا مر رہا ہے.اس حج کا کیا فائدہ وہ حج میرے کس کام آئے گا.اگر ہمسایہ گواہ ہو جائے گا مجھ پر کہ میں انسانیت کے ادنیٰ مقام پر بھی فائز نہیں.اس نے جو پونچی تھی اٹھا کر اپنے ہمسائے کو دیدی اور حج کا ارادہ ترک کر دیا.(تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۱۰۸) عالم الغیب خدا ہے زمانوں سے بھی آزاد ہے، مکان سے بھی آزاد ہے.جس دن یہ واقعہ ہوا بیت اللہ اس شخص کے گھر پہنچ گیا.خدا وہاں چلا آیا کہ اے بندے تیری روح میرا طواف کرتی ہے.تو دنیا کی قیدوں سے آزاد ہے میں تیرا حج قبول کرتا ہوں، میں لبیک کہتا ہوں تیری آواز پر.یہ
خطبات طاہر جلد اول 88 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء واقعات بھی دنیا میں ہو جاتے ہیں.پیچھے رہنے والوں سے میں کہتا ہوں کہ دعائیں کریں اور موجیں کریں بے نیاز ہو جائیں ان باتوں سے کہ وہ جاسکتے ہیں یا نہیں جا سکتے.تقویٰ کا لباس اوڑھ کر یہیں اس مسجد کا طواف کریں جس مسجد کے طواف کے لئے کچھ لوگوں کو جسمانی طور پر جانے کی توفیق مل رہی ہے.دعاؤں سے مدد کریں.اہل پین کے لئے دعا کریں اور ان مقاصد کے اعلیٰ تر ہونے کے لئے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو ہمیں توفیق عطا فرمائے.جو جا سکے ہیں ان کی نیکی بھی قبول ہو جو نہیں جا سکے ان کی بھی قبول ہو جائے.خدا کی راہ میں ہم یہ منظر دیکھیں: ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کو ئی بندہ رہا نہ کو ئی بندہ نواز خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: جیسا کہ امیر صاحب نے اعلان فرمایا تھا ، جماعت کراچی کی طرف سے میرے بڑے بھائی مکرم محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ یہ موقعہ ایسا ہے کہ بہت سے لوگوں کو خواہش ہوگی کہ ہم بھی دستی بیعت کر لیں تو آپ جمعہ کے بعد وقت دے دیں.میں نے انہیں جزاکم اللہ کہا کہ آپ نے بڑی اچھی طرف، نیکی کی طرف توجہ دلائی.ان سے میں نے گزارش کی کہ وہ امیر صاحب سے بات کر لیں.چنانچہ اسی کے نتیجہ میں ابھی امیر صاحب نے بھی یہ اعلان کیا ہے.تو بیعت کے وقت جیسا کہ بتایا گیا ہے ، صفوں میں ہی بیٹھے رہیں.زیادہ سے زیادہ ہاتھ رکھنے کے لئے اگر تھوڑ اسا آگے سرکنا پڑے تو وہ مجبوری ہے.لیکن نظم وضبط کے ساتھ ، خاموشی کے ساتھ اسی طرح بیٹھے رہیں ، جس طرح ربوہ میں بیعت ہوئی تھی ادنی سی بھی بدنظمی نہیں ہوئی.پورے کا پورا مجمع ، اندر بھی اور باہر بھی پوری خاموشی سے بیٹھا رہا اور ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیے جسمانی رابطہ کے اظہار کیلئے.ورنہ اصل رابطہ تو قلب کا خدا سے ہوا کرتا ہے.اسمیں جسمانی رابطے کی ضرورت نہیں.مگر یہ بھی سنت اولیاء اور سنت انبیاء ہے اس لئے ہم اس سنت کو اختیار کرتے ہیں.یہ وضاحت میں اس لیے کر رہا ہوں کہ بچے بھی ہوتے ہیں ، نئی نسل ، نئے آنے والے بھی ہیں ان کو حکمت سمجھ آجائے اور ہم بدن کے واسطے پر اس لئے زور نہیں دے رہے کہ گویا بدن کے راستے سے
خطبات طاہر جلد اول 89 خطبہ جمعہ ۳۰ / جولائی ۱۹۸۲ء خلوص بہتا ہے بلکہ اس لئے کہ ہمارے بزرگوں کی انبیاء علیہم السلام کی یہ سنت ہے کہ ظاہری رابطہ بھی قائم کر لیا کرتے ہیں.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب بیعت لیا کرتے تھے تو جو نہیں پہنچ سکتے تھے وہ پگڑیاں کھول کر پھینک دیا کرتے تھے کہ پگڑی کے راستے سے تعلق قائم ہو جائے.تو اسی سنت کی پیروی میں ہم یوں کریں گے.ورنہ میرے جسم سے ذاتی رابطہ جو ظاہری ہے اس کے کوئی معنی نہیں ہیں.سنت ابرا رہی ہے جو ان چیزوں میں معنی پیدا کرتی ہے.پھر ہم نماز کے بعد انشاء اللہ بیعت کریں گے اور اس کے بعد دعا ہو گی ، پھر رخصت ہوگی.بیعت لینے سے قبل حضور نے فرمایا: ”امیر صاحب کراچی میرے ہاتھ میں ہاتھ دیں.باقی دوست بھی جو قریب ہیں ہاتھ رکھ لیں.“ ( روزنامه الفضل ربوه ۸/ ستمبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 91 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء اللہ اپنے آپ کو بصائر سے ظاہر کرتا ہے آنحضرت تمام بصیرتوں کے منبع ہیں (خطبه جمعه فرموده ۶ را گست۱۹۸۲ء بمقام اوسلو ناروے) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ ۚ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيْلٌ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ * وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ (الانعام: ۱۰۵-۱۰۳) اور پھر فرمایا: ناروے ایک ایسا ملک ہے جسے اللہ تعالیٰ کی قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ حسن عطا فرمایا ہے.یہاں کی بل کھاتی ہوئی سڑکیں ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک نیا جلوہ پیش کرتی ہیں.یہاں پہاڑوں کی بلندیوں پر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی جھیلیں نظر آتی ہیں اور سطح سمندر میں ڈوبتے ہوئے سر بفلک پہاڑ دکھائی دیتے ہیں.یہاں پتے پتے میں ایک دل نوازی ہے.یہاں گھنے جنگلات ہیں جن کے سائے تسکین بخش ہیں.یہاں ہوائیں ہلکی سروں میں گیت گاتے ہوئے چلتی
خطبات طاہر جلد اول 92 92 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۸۲ء ہیں.یہاں پہاڑوں کی ایسی چوٹیاں ہیں جن کی سطح مرتفع گھاس سے لدی ہوئی ہے اور کوئی درخت دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن چٹانوں کو بھی خوبصورت رنگوں کی کائیوں نے بڑے حسین لبادے عطا کر رکھے ہیں.یہاںAfloat کے اندر سمندر میں پانی کی جو جھیلیں پہاڑوں کی وادیوں نے بنا رکھی ہیں ، آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ سمندر کے سینے میں اتر آئے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ بڑے پیار کے ساتھ ہمیشہ ان پانیوں کا نظارہ کرتے ہیں جنہوں نے انہیں اپنے دل میں اتار رکھا ہے.حسن کی یہ ساری کائنات فردا فردا بھی اور اپنی اجتماعی شکل میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور قرآن کریم کی اس آیت کی طرف توجہ منتقل ہو جاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل (۲۵) کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو خدا کے حمد کے گیت نہ گارہی ہو اور اس کی پاکیزگی بیان نہ کرتی بو وَ لكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ، لیکن اے غافل انسان تو اس تسبیح کو نہیں سمجھتا ، اس تسبیح سے غافل ہے جو کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے رب کی حمد میں گا رہا ہے.اِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا پھر بھی تمہارا رب بہت ہی بردبار ہے.وہ بڑے حوصلے سے تمہاری بے پرواہیوں کو برداشت کرتا ہے اور تمہارے گناہوں کی بخشش فرماتا ہے.پس یہ وہ دنیا ہے جہاں کائنات کا ذرہ ذرہ اس آیت کے بیان کے مطابق حقیقتا اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے ان کانوں کو سنائی دیتا ہے جو ان کے سننے کی طاقت رکھتے ہیں.ان آنکھوں کو دکھائی دیتا ہے جو دیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں.ہاں ایک چیز جو حد سے کلینہ خالی اور عاری دکھائی دیتی ہے اور وہ یہاں بسنے والے انسانوں کے دل ہیں.میں نے حیرت سے اس نظارہ کو دیکھا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ ان جنتوں میں ایسے سینے ہیں جو صحرا بسینہ ہیں.وہ ویرانوں کو اپنے سینوں میں سمیٹے پھرتے ہیں.ان وادیوں میں ، اس حسن کے نظاروں میں ایسے دل ہیں جو خدا کی یاد سے کلینتہ عاری ہو کر ویرانوں کا منظر پیش کر رہے ہیں.اس کے ساتھ ہی میری توجہ ربوہ کے ان بسنے والوں کی طرف مبذول ہوئی جنہوں نے
خطبات طاہر جلداول 83 93 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء ابھی کچھ دن پہلے ایک نہایت ہی کڑے رمضان کا زمانہ گزارا.ان میں سے اکثر غریب لوگ ہیں.ان کے پاس آسائش کے سامانوں کا تو کیا ذکر روز مرہ کی زندگی کی ادنی ضرورتیں بھی میسر نہیں.دن بھر مکھیاں انہیں ستاتی ہیں اور رات کو مچھروں کا شکار رہتے ہیں.دن کو دھوپ کی گرمی اور رات کو مچھروں کی ایذا سے نہ ان کو دن کو نیند آ سکتی ہے نہ رات کو نیند آتی ہے.بڑی مشکل کی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی ان کے سینوں میں خدا بسا ہوا ہے.وہ ان تکلیفوں سے کلینتہ بے نیاز ہیں اور رمضان کی کڑی آزمائش میں بڑی شان کے ساتھ پورے اترنے والے لوگ ہیں.میں نے دیکھا ان مسجدوں میں جن میں شدید گرمی کے باعث اندر داخل ہوتے ہوئے بھی پسینے آتے تھے ، نہ وہ دن کو ٹھنڈی ہوتی تھیں نہ رات کو ٹھنڈی ہوتی تھیں.روزہ داروں کے بدن کے پانی سوکھ جاتے تھے لیکن پھر بھی خدا کی محبت میں ان کے آنسو سجدہ گاہوں کو تر کر دیتے تھے.پس یہ بھی ایک نظارہ میرے سامنے آیا اور میں تعجب اور حیرت میں ڈوب گیا کہ وہ جگہیں جہاں خدا زیادہ یاد آنا چاہئے.جہاں اللہ نے زیادہ فیاضی کا سلوک فرمایا ہے، وہ جگہیں تو خدا کی یاد سے خالی ہوں لیکن وہ جگہیں جو آزمائشوں میں مبتلا ہیں، ان جگہوں میں اللہ بس رہا ہو.گو یا ویرانوں میں ایسے سینے ہیں جہاں جنتیں بس رہی ہیں اور جنتوں میں ایسے سینے ہیں جہاں ویرانے آباد ہیں.آخر کیوں ایسا ہوا.کیوں انسان کی توجہ ان نظاروں کو دیکھ کر اپنے رب کی طرف مبذول نہیں ہوتی.یہ سوچتے ہوئے میری توجہ قرآن کریم کی ان آیات کی طرف پھر گئی جو سورہ انعام میں ساتویں پارے کے آخری دور کوع کے اندر پائی جاتی ہیں یعنی سورہ انعام کا وہ حصہ جو ساتویں پارہ کے آخری دور کوع مشتمل ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ اسی قسم کے فطرتی حسن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُوْنَ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنَّا وَالشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (الانعام ٩٤-٩٦) فرمایا اِنَّ اللهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوى اللہ تعالیٰ گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے اور بیجوں کا دل چیر نے والا ہے.ان میں سے نئی نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور زندگی کی نئی شکلیں نمودار ہوتی
خطبات طاہر جلد اول 94 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء ہیں.وہ موت سے زندگی نکالنے والا ہے اور زندگی کو موت میں داخل کرتا رہتا ہے ذَلِكُمُ اللهُ یہ ہے تمہارا اللہ فَانّى تُؤْفَكُونَ اس کو چھوڑ کر اس سے پیٹھ پھیر کر کہاں چلے جارہے ہو.وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنَّا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَحُسْبَانًا اس نے رات کو تمہارے لئے ذریعہ تسکین بنایا اور خود رات بھی ایک سکینت کا منظر پیش کرتی ہے.ساکن رات دلوں کے لئے اطمینان کا پیغام لے کر آتی ہے وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا اور ہمیشہ ایک دائروی گردش میں گھومتے ہوئے سورج اور چاند اپنی رفتاروں میں ایسے معین ، ایسے قطعی اور ایسے غیر مبدل ہیں کہ وہ تمام انسانوں کے لئے حساب جاننے کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں.ذلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ یہ سب تقدیر اس ذات کی ہے جو غالب بھی ہے اور سب کچھ جاننے والی بھی.ان آیات کی طرف توجہ مبذول ہوتے ہوئے میں وہاں تک پہنچا جہاں بالآ خر خدا نے ان تمام محرکات اور پس پردہ اصول کا ذکر فرمایا ہے جو زندگی کے ہر قسم کے حسن کا باعث بنتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ نے ایسے حسن کا بھی ذکر فرمایا جو ناروے میں پایا جاتا ہے اور ایسے حسن کا بھی جو صحراؤں میں پایا جاتا ہے.ایسے حسن کا بھی ذکر فرمایا جو سکوں میں پایا جاتا ہے اور ایسے حسن کا ذکر بھی جو سمندروں اور سطح آب پر پایا جاتا ہے.غرض ان تمام محرکات کا ذکر فرمانے کے بعد جو حسن کی ہر قسم کی پیداوار کا باعث ہیں اچانک خدا نے اپنی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا لِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (نام ۱۰۲) یہ ہے تمہارا で رب جو ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے.تمام حسن کا سر چشمہ اور ہر نور کا منبع ہے.اس سے ہر وہ چیز پھوٹتی ہے جو زندگی بخش ہے.کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا وہ خالق نہ ہو فَاعْبُدُوهُ پس اسی کی عبادت کرو وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وکیل اور وہ ہر چیز پرنگران ہے.یہاں تک پہنچنے کے بعد پھر مجھے مزید تعجب یہ ہوا کہ جب خدا تعالیٰ خودان تمام نظاروں کے طبعی نتیجہ کے طور پر عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے گویا یہ فرما رہا ہے کہ یہ سارے نظارے میری طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں.تم کیوں ان اشاروں کو نہیں دیکھتے؟ کیوں میری عبادت نہیں کرتے ؟ مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ اتنی بے شمار انگلیوں کے باوجود انسان ان کے پیغام کو سمجھتا کیوں نہیں.ان کے رخ کو دیکھتا کیوں نہیں.اے میرے خدا! مجھے تو اس کا جواب چاہئے تھا.میں تو اس فکر میں غلطاں
خطبات طاہر جلد اول 95 95 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء تھا کہ اس میں حکمت کیا ہے.کیوں ان لوگوں کو تو دکھائی نہیں دے رہا.لیکن جب اگلی آیت پر میری نظر پڑی تو میرے سارے مسائل کا حل مجھے اس میں مل گیا.اللہ تعالیٰ اس کے معا بعد فرماتا ہے: ج لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ کہ اے ظاہری آنکھوں سے دیکھنے والو! تمہاری آنکھوں میں یہ مقدرت نہیں کہ اس کو دیکھ سکو ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچا کرتا ہے جب تک وہ اپنے آپ کو نہ دکھائے یا اپنے چہرہ سے پردہ نہ اٹھائے کسی آنکھ میں طاقت نہیں کہ اس کو دیکھ سکے.پس یہ آیت ایک عظیم الشان فلسفہ کو بیان کرنے والی ہے.اس میں ایک بڑا ہی وسیع مضمون بیان ہوا ہے.اس کا یہاں مختصر اذکر کرنے کے بعد پھر میں آگے بڑھوں گا.مذہبی اور غیر مذہبی اہل فکر کے درمیان بہت پرانی ایک بحث چلی آئی ہے.مذہبی اہل فکر خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، خدا کو جس شکل میں بھی وہ مانتے ہوں ، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ خدا ظاہر ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مذاہب پھوٹتے ہیں.جبکہ غیر مذہبی تو میں یہ خیال کرتی ہیں کہ خدا کوئی نہیں وہ ظاہر نہیں ہوتا.قانون قدرت انسانی ذہن کو ایک ماوراء الوریٰ ہستی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، حقیقت میں کوئی وجود نہیں یہ تو انسان ہے جو بس سوچنے لگ جاتا ہے مرعوب ہو کر نظاروں سے، ہیبت زدہ ہو کر بجلی کی کڑکوں سے متاثر ہو کر خوفناک جانوروں سے اور مسحور ہو کر خوبصورت ندیوں کی روانی ، ان کی گنگناہٹ اور سرمدی نغموں سے کہ میرا کوئی خدا ہوگا اور اس کے نتیجہ میں مختلف خدا بنا لیتا ہے.اور پھر انسانی سوسائٹی رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے ان خداؤں کو جمع کرنا شروع کر دیتی ہے.وہ مختلف خدا تعداد میں گھٹنے لگتے ہیں اور انسانی شعور بالغ نظری تک پہنچتے پہنچتے سمجھنے لگتا ہے کہ اتنے خداؤں کی کیا ضرورت تھی چند کافی ہیں.پھر کوئی تین پر آ کر اٹک جاتا ہے.کچھ لوگ آگے قدم بڑھاتے ہیں اور ایک تک پہنچ جاتے ہیں.پھر جب انسان اور زیادہ بالغ نظر ہو جائے تو اس ایک خدا سے بھی چھٹی کر کے تمام عقل کی سطح پر آ جاتا ہے.یہ ہے مذہب کی تخلیق کا وہ نظر یہ جو غیر مذہبی قو میں پیش کرتی ہیں.
خطبات طاہر جلد اول 96 96 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء قرآن کریم اس آیت کے ذریعے اس سارے نظریے کو جھٹلا دیتا ہے اور دلیل اپنے ساتھ رکھتا ہے.قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ دیکھو! یہ سارے قدرتی نظارے جو تمہارے نزدیک خداؤں کو جنم دینے والے ہیں، ہم ایسی جگہوں کو جو ان نظاروں سے بھر جاتی ہیں اگر چاہیں تو ان کو اپنی یاد سے خالی رکھ سکتے ہیں.کوئی ایک دل بھی ہماری طرف متوجہ نہیں ہوسکتا ورنہ اگر یہ حقیقت ہوتی کہ یہ نظارے طبعا خدا کو پیدا کرتے ہیں تو جہاں جہاں حسین مناظر دنیا میں نظر آئیں وہاں سب سے زیادہ خدا موجود ہونے چاہئیں.کیوں صحرائے عرب میں وہ جلوہ گر ہوتا ہے.کیوں فاران کی چوٹیوں سے اس کا مظہر اترتا ہے اور کیوں حسین وادیوں میں اس کا کوئی نام ونشان دکھائی نہیں دیتا.فرماتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں.وہ آنکھوں کو پاتا ہے.اس میں ایک اور حسین طرز کلام یہ ہے کہ پرانے زمانہ میں جو تصور تھا کہ نظر کسی چیز کو پکڑتی ہے یہ واقعتاً غیر سائنسی اور غیر حقیقی تصور تھا.چنانچہ قرآن کریم وہ پہلی کتاب ہے جو اس تصور کو جھٹلا رہی ہے.نظارے آنکھوں تک پہنچا کرتے ہیں.نظر نظاروں تک نہیں پہنچا کرتی اور جو نظارے آنکھوں تک نہ پہنچیں ان سے نظر غافل رہتی ہے خواہ نظارے غائب ہو جائیں ،خواہ پر دے حائل ہو جائیں، خواہ اور غفلتیں بیچ میں حائل ہو جائیں لیکن نظر کوئی چیز نہیں جب تک نظارے نظر کو نہ پکڑیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب باقی نظارے بھی خود نظر کو پہنچتے ہیں اور نظریں طاقت نہیں رکھتیں کہ چھلانگ لگا کر نظاروں تک پہنچ جائیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میری ذات کو نظر پکڑے جب کہ میری ذات ان نظاروں سے پس پردہ اور وراء الوری ہے.میں چاہوں تو ان تک پہنچوں گا.میں نہیں چاہوں گا تو ان تک نہیں پہنچوں گا.فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وہی ہے جو خود عقلوں اور فہموں تک پہنچتا ہے.وہی ہے جو بصیرت پر جلوہ گر ہوتا ہے.خود انسانی بصیرت میں یہ طاقت کہاں کہ وہ اپنے رب کو پاسکے.اس مضمون کے بیان کرنے کے معاً بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بصیرت کس طرح انسان کو پہنچتی ہے.خدا تعالیٰ کا ادراک کیسے ہوتا ہے اور خدا کس طرح جلوہ گر ہوتا ہے.فوراً اس مضمون میں داخل : مل ہو جاتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے
خطبات طاہر جلد اول 46 97 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء وہ بصیرت عطا ہو چکی ہے جس بصیرت کا خدا ذکر فرما رہا ہے.وہ خود نظروں پر جلوہ گر ہو چکی ہے اور بصیرت ہی نہیں بصائر یعنی بے شمار روشنیاں عطا ہو گئی ہیں.اب جس رنگ میں کوئی انسان چاہے خدا کو پانے کی مقدرت رکھتا ہے.فرمایا مَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ پس جو چاہے اس نور اور روشنی سے فائدہ اٹھالے اور جو چاہے عَمِيَ عَلَيْهَا وہ اپنی آنکھیں اس سے اندھی رکھے ،ان بصائر سے غافل رہے.وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفیظ اور میں تم پر حفیظ بنا کر نہیں بھیجا گیا.یہ حیرت انگیز تصریف آیات ہے جس کی طرف میں خاص طور پر آج آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کیونکہ پھر اس کے معا بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيَّنَةُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ٥ کہ دیکھو کس طرح ہم آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں اور اپنے رنگ بدلتے ہیں.اپنے اسلوب کو اچانک بدل دیتے ہیں.جب ہم اچانک اسلوب کو بدلیں تو یا درکھنا اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں.اس میں گہرے راز مضمر ہیں اور یہ خیال نہ کر لینا کہ (معاذ اللہ ) غفلت کی حالت میں حضرت محمد ﷺ نے ضمائر کو پھیر دیا ہے.تصریف آیات کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ غائب ضمیر میں بات ہوتے ہوتے حاضر کی طرف توجہ ہوگئی.اس کی بات کرتے کرتے اپنی بات شروع کر دی.خدا کی باتیں ہو رہی ہیں.آنحضرت کا ذکر ہی کوئی نہیں تھا اچانک اس میں آنحضرت ﷺ کا وجود داخل ہو جاتا ہے.یہ تصریف آیات کا ایک طریق ہے اور یہ ساری آیات جن کا میں نے ذکر کیا ہے تصریف کے مختلف پہلو اپنے اندر رکھتی ہیں.اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَابِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبَّا مُتَرَاكِبًا انعام :) کہ وہی ذات ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا.فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا ہم اس سے سبزی نکالتے ہیں.یعنی ابھی تو فرما رہا تھا کہ اس ذات نے پانی اتارا اور اچانک کہنے لگا کہ ہم اس سے سبزی نکالتے ہیں اس کو کہتے ہیں تصریف.یعنی تعریف کا ایک رنگ یہ ہے کہ ذکر ہو رہا ہے غائب میں اور اچانک خدا خود بیچ میں داخل ہو گیا اور اس نے گویا Take Ove کر لیا.غائب سے اچانک حاضر میں جلوہ گر ہو گیا.اس تصریف کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد اول 98 88 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء غائب میں بات کر رہا ہوتا ہے تو اس سے انسان کی توجہ ایسے نظاروں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے جن کو دیکھنے کے بعد گویا خدا نظر آنے لگ جائے اور جب اس کیفیت تک دماغ پہنچ جاتا ہے تو اچانک وہ آپ آ موجود ہوتا ہے وہ پھر غائب نہیں رہتا.کہتا ہے دیکھو! تم نے دیکھ لیا نا ہمیں.لوہم تمہارے سامنے موجود ہیں.ہم اب تم سے باتیں کرتے ہیں.تصریف آیات کا ایک تو یہ طریق ہے.ایک دوسرا طریق وہ ہے جس کی طرف میں اس آیت کی رو سے توجہ دلانا چاہتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ تمہارے رب کی طرف سے بصائر آگئے.تمہیں دکھانے کے لئے حکمتیں عطا ہو گئیں.نور بصیرت عطا ہو گیا.حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے معارف تمہیں مل گئے.فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ جو چاہے اب دیکھ لے وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا لیکن جو اس کے باوجود اندھا رہے گا تو اس کا نقصان اسی کو ہے.وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا.وَمَا اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ اور میں تم پر حفیظ نہیں ہوں.یہاں خدا کی بات چھوڑ کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بات شروع ہو گئی.گویا سارا کلام حضرت رسول کریم علیہ.کا کلام تھا.اب بظاہر ایک صرفی نحوی انسان جو جہالت کی آنکھ سے اپنے علم کو ہی غالب سمجھتا ہے وہ تو اس پر بڑا اعتراض کرے گا کہ یہ عجیب فصیح و بلیغ کلام ہے کہ ذکر ہو رہا ہے رب کریم کا پچھلے دورکوعوں میں حضرت رسول اکرم ﷺ کا کہیں ذکر نہیں.ذکر چل رہا ہے خدا اور اس کی تخلیق کا.ان حسین مناظر کا ذکر ہے جو قدرت خداوندی سے ظاہر ہوتے ہیں اور بات اللہ کر رہا ہے کبھی ضمیر کو اپنی طرف پھیر کر کبھی غائب میں اپنا کر کر کے.یہ محمد مصطفیٰ آچانک بیچ میں کہاں سے آگئے.گویا وہ کہہ رہے ہیں کہ اب میں ہوں تمہارے پیغام کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ رہا ہوں جس طرح کوئی آدمی کسی Message یا کسی فریضہ کTake Over کر لے اور پھر آگے سے اچانک بات شروع کر دے.یہ آیت اسی قسم کی تعریف کا منظر پیش کرتی ہے کہ خدا کا ذکر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زبان سے جاری ہونے لگ جاتا ہے.اس میں کیا حکمت ہے اسی میں وہ جواب ہے جس کی میں تلاش کر رہا تھا.یہی وہ نکتہ ہے جس نے میری ساری الجھنیں دور کر دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بصائر جو تم تک پہنچا کرتے ہیں وہ نبیوں کے ذریعہ پہنچتے ہیں اور نبیوں کے بغیر خدا کا کوئی وجود نہیں ہے جو تم پر ظاہر
خطبات طاہر جلد اول 99 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء ہو.اگر انبیاء کا رستہ چھوڑ دو گے، اگر یہ وسیلہ اختیار نہیں کرو گے تو پھر کائنات کا ذرہ ذرہ بھی حسن سے بھر جائے تمہاری آنکھیں اندھی کی اندھی رہیں گی.قدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ اور سب سے زیادہ بصیرتیں تم پر نازل ہو گئیں، کس شکل میں؟ اب بغیر بتانے کے کون داخل ہو گیا؟ بصیرت کا مجسمہ حضرت محمد مصطفی ہے.وہ اس مضمون میں داخل ہو جاتے ہیں اور اچانک وہ کلام شروع کر دیتے اور فرماتے ہیں وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ.میں ہوں خدا کا نور ، میں ہوں بصیرتوں کا وہ منبع اور بصیرتوں کا وہ مظہر اتم جس نے تمہیں بصیرتیں عطا کی ہیں وہ میں ہی ہوں.میں آ گیا ہوں.اب اگر چاہو اسلام قبول کر کے خود بھی بصیرت حاصل کرو اور دنیا کو بھی نور عطا کرو اور چاہو تو اس سے منہ موڑ کر اندھے کے اندھے رہو.اللہ تعالیٰ صرف یہاں پر بات ختم نہیں کرتا بلکہ اس سارے جھوٹے فلسفہ کا جواب ان آیات میں دیتا ہے جس کا میں نے اس خطبہ کی ابتدا میں ذکر کیا ہے.دنیا دار کہتے ہیں کہ شرک سے بات شروع ہو کر تو حید پر جا کر ختم ہوتی ہے اور تو حید بالآخر خدا کے انکار پر منتج ہوتی ہے.خدا بتا رہا ہے کہ حسن کے ذریعہ، حسن قدرت کے ذریعہ شرک پیدا ہی نہیں ہوا کرتا اور جب تک خدا کا برگزیدہ بندہ آکر یہ دکھا نہیں دیتا کہ اس کائنات کے پیچھے کوئی ذات موجود ہے.انسان کا تصور وہاں تک پہنچا ہی نہیں کرتا.وہ آتا ہے اپنے پیغام کو مکمل کر جاتا ہے، خدائے واحد سے بنی نوع انسان کا تعلق جوڑ جاتا ہے.جب وہ چلا جاتا ہے تو پھر شرک پھوٹتا ہے.پھر یہ مناظر خدا کی جگہ لے لیتے ہیں اور کئی جھوٹے خدا بن جاتے ہیں اور یہ شرک دہریت پر منتج ہوا کرتا ہے.تو حید دہریت پر منتج نہیں ہوا کرتی.چنانچہ اس مضمون کو مکمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَ أَعْرِضْ عَنِ رِكِينَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا وَمَا جَعَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكيْلٍ (الانوم:۱۹-۱۷) کہ تو نے لوگوں کو خدا تک پہنچا دیا لیکن خدا تک پہنچنے کے بعد انسان پھر شرک میں مبتلا ہونے والا ہے.جب وہ تجھے چھوڑ دیں گے تو خدائے واحد کو بھی چھوڑ دیں گے.جب وہ تجھ سے روگردانی کریں گے تو خدائے واحد سے بھی روگردانی کریں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں پھر شرک
خطبات طاہر جلداول پھیل جائے گا.100 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء غرض خدا تعالیٰ نے مشرکین کا ذکر فرما کر اس مضمون کو مکمل کر دیا اور یہ بتادیا کہ اے رسول ! اس کی ذمہ داری تجھ پر نہیں ہے.تیرا کام تو اندھیروں سے نور کی طرف نکالنا ہے.تو نے اپنا یہ کام مکمل کر دیا.اب تو ان کا نگران نہیں ہے.پس خدا کے ذکر سے اچانک تصریف آیات ہوئی اور حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کلام شروع کر دیا کہ میں تم پر حفیظ نہیں ہوں.ایک دفعہ ایک یہودی عورت کا بچہ قریب المرگ تھا.اس عورت کو یہ علم تھا کہ آنحضرت علی کو اس بچہ سے پیار تھا.لوگ کہتے ہیں یہودیوں میں تبلیغ کیوں کرتے ہو.یہودیوں تک اسلام کا پیغام کیوں پہنچاتے ہو.جن یہودیوں نے آنحضرت ﷺ سے دشمنی کی ان سے زیادہ مغضوب تو دنیا میں کوئی یہودی نہیں ہو سکتا.ان سے زیادہ سخت دل اور شقی القلب تو کوئی یہودی نہیں ہوسکتا.اس کے با وجود اس یہودی عورت نے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں جب یہ پیغام بھیجا کہ میرا بچہ قریب المرگ ہے.آپ کو اس سے پیار تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسے بستر مرگ پر دیکھ لیں تو یہاں آ جائیں اس کو دیکھ لیں.اس کے دل میں یہ تمنا ہو گی کہ میرے بچے کا دل ٹھنڈا ہو جائے.آنحضرت علی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.یہ پیغام سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے اس یہودی عورت کے گھر تشریف لے گئے.بچہ بستر مرگ پر پڑا تھا.اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس کو اپنے قرب سے تسکین دی اور پوچھا بچے ! کیا تم یہ پسند نہیں کرو گے کہ مسلمان ہو کر جان دو.صرف یہی تبلیغ کی اور یہی سیدھا سادھا کلمہ جو دل کی گہرائی سے نکلا تھا بچے کے دل میں جا کر ڈوب گیا.اس نے سر ہلایا کہ ہاں میں یہی پسندوں کرتا ہوں.چنانچہ کلمہ پڑھا اور جان دے دی.حدیث میں آتا ہے کہ اس سے آنحضرت ﷺ کو اتنی خوشی ہوئی کہ بار بار فرمانے لگے الحمدللہ الحمد للہ.خدا نے مجھے ایک روح کو بچانے کی توفیق عطا فرما دی.( بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصحى فمات حل یصلی علیہ ) وہ جو ساری دنیا کی روحوں کو بچانے کیلئے آیا تھا جس نے ہم سب کی روحوں کو بچایا ہے.ہم اور ہمارے باپ دادے اور ہماری نسلیں ہمیشہ اس کی غلامی میں جھکی رہیں تب بھی اس کے احسانات کا بدلہ نہیں ادا کر سکتیں.وہ نور کامل جس نے بنی نوع انسان کو اندھیروں سے نکالا اور روشنی عطا کی، وہ جو سب دنیا کا محسن بنا اور محسن بنے گا، وہ جس کے در پر ایک نہ ایک دن ساری بنی نوع انسان لازماً حاضر
خطبات طاہر جلد اول 101 خطبه جمعه ۶ راگست ۱۹۸۲ء ہوگی اور اس کی توفیق سے اور اس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رشد و ہدایت پائے گی.صرف ایک روح کے بچنے پر اس پیکر رحمت کے دل کی یہ کیفیت ہے اور اس پر اظہار شکر کا یہ عالم ہے کہ بار بار کہتے ہیں الحمد للہ الحمد للہ خدا نے مجھے ایک روح کو بچانے کی توفیق عطا فرمائی اور بچنے کے بعد اس بچے کو وقت کونسا میسر آیا ؟ بس کلمہ پڑھا اور دنیا سے رخصت ہو گیا.صرف اتنی سی ہدایت تھی.صلى الله صرف ایک لمحہ کی ہدایت تھی لیکن اس پر آنحضور م ﷺ عبد شکور بنتے ہوئے اپنے رب کے حضور جھک جاتے ہیں.یہ ہیں ہمارے آقاومولا سید نا حضرت محمد مصطفی ہے جن کی غلامی کا ہم نے دعویٰ کیا ہے.آپ میں بصیرتوں کے منبع اور مادی اور مجمع.اب آپ سے سارے نور پھوٹیں گے جو خدا کی طرف لے جائیں گے.پس یہ وہ بصائر یعنی روشنیاں تھیں جن سے دنیا اپنے رب کے نور سے جگما اٹھی تھی.اب اگر ان نوروں کو جماعت نے اپنے تک روک لیا اور بنی نوع انسان اور محمد مصطفیٰ " کے درمیان حائل ہو گئے تو یاد رکھیں اس وقت بنی نوع انسان اپنے رب کو کبھی نہیں پاسکیں گے.اور آپ لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے.کیونکہ آپ کو ذریعہ بنایا گیا ہے.آج خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے اور حضرت محمد مصطفی عدلیہ کی عظمت کو دنیا سے منوانے کا فریضہ آپ کو سونپا گیا ہے اس لئے آپ اپنی نظروں کو سطحی نہ بنائیں.اپنی نگاہوں کو ان ظاہری مناظر کے پردوں تک نہ رہنے دیں بلکہ آگے بڑھیں.بلند نظری پیدا کریں اور حقیقت حال کو پانے کے لئے آپ خود پار اترنا سیکھیں اور اپنے رب تک پہنچنا اور بندوں کو رب تک پہنچانا سیکھیں.اس کے بغیر نہ حضرت محمد مصطفی عے کی غلامی کا حق ادا ہو گا اور نہ اپنے رب کی عبودیت کا حق ادا ہو گا.یا درکھیں جب تو میں خالق کا ئنات کو بھلا کر مخلوق کے حسن میں کھو جاتی ہیں تو پھر ان سے شرک پھوٹا کرتے ہیں اور جب ایسی قوموں سے شرک پھوٹتے ہیں تو پھر اللہ تعالی آنحضرت علی اللہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اے رسول! تو نے اپنا فرض پورا کر دیا.تو وکیل نہیں ہے.اب میں جانوں اور یہ لوگ جانیں جنہوں نے مجھے پانے کے بعد بھی مجھے کھو دینے کے سامان اپنے ہاتھوں سے کر لئے.دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے رب کی عبودیت اور حضور اکرم علی
خطبات طاہر جلد اول 102 خطبه جمعه ۶ را گست ۱۹۸۲ء کی غلامی کا پورا پورا حق ادا کرنے والے ہوں.خدا ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم خدا کی وحدانیت کی حفاظت اپنی جانیں دے کر بھی کریں.اپنے اموال دے کر بھی کریں.اپنی عزت دے کر بھی کریں.اپنی عزیز ترین چیزیں قربان کر کے بھی کریں اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنے کے لئے شرک کی راہ میں کھڑے ہو جائیں اور شرک کو اسلام کے اندر داخل نہ ہونے دیں.ہم اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیں.لیکن تو حید کے اس گہوارہ کو پھر دوبارہ بتوں کے گہوارہ میں تبدیل نہ ہونے دیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل بوه ۲۳ / جولائی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 103 خطبه جمعه ۱۳ را اگست ۱۹۸۲ء فتنہ دجال سے بچنے کی تلقین اور اس کا طریق ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ /اگست ۱۹۸۲ بمقام کوپن ہیگن ڈنمارک کا خلاصہ ) ( نوٹ : خطبہ کا متن دستیاب نہیں ہوسکا) ۱۳ اگست ۱۹۸۲ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ بجے بعد دو پہر مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن ڈنمارک میں نماز جمعہ پڑھائی.حضور نے سورۃ الکہف کی آیات کی روشنی میں دجال کے فتنہ، اس کی ہلاکت آفرینی اور اس سے بچنے کے طریق پر انگریزی زبان میں پر معارف خطبہ ارشادفرمایا.تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ الکہف کے پہلے رکوع کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَإِنَّا لَجُعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًان أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ أَيْتِنَا عَجَبًا إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الكيف : ۱-۸) ترجمہ: یقیناً ہم نے جو کچھ زمین پر ہے اس کے لیے زینت کے طور پر بنایا ہے تا کہ ہم
خطبات طاہر جلد اول 104 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۸۲ء انہیں آزمائیں کہ ان میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے.اور یقیناً ہم جو کچھ اس پر ہے اسے خشک بنجر مٹی بنا دیں گے.کیا تو گمان کرتا ہے کہ غاروں والے اور تحریروں والے ہمارے نشانات میں سے ایک عجب تر نشان تھے؟ جب چند نو جوانوں نے ایک غار میں پناہ لی تو انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملے میں ہمیں ہدایت عطا کر.حضور نے واضح فرمایا کہ سورۃ الکہف وہ سورۃ ہے جس میں ابتدائی عیسائیوں کی تکالیف اور کس مپرسی کا ، پھر ان کے عروج و زوال کا ، درمیان میں اسلام اور مسلمانوں کی غالب آنے کا، پھر مسلمانوں کے زوال پذیر ہونے کے بعد عیسائیوں کے از سر نو عروج پکڑنے کا اور بالآخر ان کے نیست و نابود ہونے کے بعد اسلام کے دوبارہ غالب آنے کا ذکر ہے.اس سورۃ کا تعلق عیسائیوں کے ابتدائی زمانہ سے بھی اور اس آخری زمانہ سے بھی ہے جس میں انہوں نے ایک دفعہ پھر عروج حاصل کر کے صفحہ ہستی سے نابود ہو جانا ہے اور اس کی جگہ اسلام نے دائمی طور غالب آنا ہے.حضور نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ پھر سورۃ الکہف ہی وہ سورۃ ہے جس کا تعلق عروج دجال سے بھی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے خروج دجال کی خبر دی اور اس کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلنے والی تباہی سے ڈرایا تو صحابہ نے پوچھا اس تباہی سے بچنے کا طریق کیا ہے؟ اس پر آنحضرت علی نے فرمایا تم سورۃ الکہف کی پہلی دس اور آخری دس آیات بکثرت پڑھا کرو.تم دجال کے فتنہ سے محفوظ رہو گے.اب نعوذ باللہ یہ آیات جنتر منتر کی طرح تو نہیں ہیں کہ محض ان کے پڑھنے سے ہی انسان دجال کے فتنہ سے محفوظ ہو جائے بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ چونکہ اس سورۃ میں عیسائیوں کے عروج و زوال اور آخری زمانہ میں ان کے ذریعہ پھیلنے والے فتنہ کا ذکر ہے اور اسلام کے غالب آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے اور ان لوگوں کے اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ذریعہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا.اس لیے جو مسلمان وہ اوصاف اپنے اندر پیدا کریں گے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہیں گے.حضور نے فرمایا اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ سورۃ اس زمانہ کے لوگوں کے لیے اور بالخصوص ہمارے لیے اور ہم میں سے بھی ان لوگوں کے لیے جو مغربی ملکوں میں آکر آباد ہوئے ہیں ، خاص اہمیت کی حامل ہے.یہ دانش اور روشنی کا ایک چارٹر ہے اس پر غور کریں اور اس میں پوشیدہ
خطبات طاہر جلد اول 105 خطبه جمعه ۱۳ را گست ۱۹۸۲ء حکمتوں کو تلاش کریں.قرآن مجید کے معارف کبھی ختم نہیں ہو سکتے.ناممکن ہے کہ انسان بار یک سے باریک ذرہ کے خواص پر حاوی ہو سکیں.پھر وہ ایک آیت کے معانی اور اس کے معارف پر کیسے حاوی ہو سکتے ہیں؟ آخر میں حضور نے مغربی ملکوں میں رہنے والے احمدی احباب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ قرآن مجید پر غور کرنا شروع کریں گے یہ کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے لیکن ایک بہت حیرت انگیز سفر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا معین و مددگار ہو.یہ پر معارف خطبہ ۲ بجکر دس منٹ پر ختم ہوا.اس کے بعد حضور نے نماز جمعہ پڑھائی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد کوپن ہیگن سے ہمبرگ جانے کے لیے روانہ ہو گئے.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ را کتوبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 107 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء اللہ کی عبادت کا حق ادا کریں اور اليس الله بکاف عبدہ کا فیض اٹھاتے رہیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ را گست ۱۹۸۲ء بمقام مسجد نور فرینکفورٹ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْاَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( ال عمران ۱۳۵-۱۳۲) اور پھر فرمایا: جماعت احمدیہ پر مختلف ادوارا ایسے آتے رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی آزمائشوں کا دور ہوتا تھا اور مخالفتوں کے ایسے ایسے خطرناک زلزلوں اور ابتلاؤں میں سے جماعت گزرتی رہی کہ دشمن یہ سمجھتا تھا کہ یہ عمارت اب منہدم ہونے کو ہے چنانچہ وہ لوگ جن کے چھوٹے دل اور سطحی نظریں تھیں انہوں نے خوشیوں کے شادیانے بجانے شروع کر دیے اور یہ سمجھنے لگے کہ یہ چند دن کی بات ہے اس کے بعد دنیا میں جماعت کا کوئی نشان نہیں ملے گا.یہ خدا کا فضل واحسان ہے کہ ابتلاء کے ہر دور کے بعد جماعت نے پہلے سے مختلف نظارہ دیکھا.دشمنوں کی جھوٹی خوشیاں پامال کی گئیں اور جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے نیا استحکام بخشا،نئی
خطبات طاہر جلد اول 108 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء تمكنت عطا فرمائی ، نئے ولولے بخشے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے احباب جماعت کے دلوں میں نئی امنگیں ڈالی گئیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف پہلے سے زیادہ تیز قدموں کے ساتھ روانہ ہوئے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جو ہر دور میں اسی طرح ظاہر ہوئی ہے اور ہمیشہ اسی طرح ظاہر ہوتی رہے گی.کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو بدل سکے.۱۹۷۴ء کا زمانہ کوئی دور کا زمانہ نہیں.آپ میں سے اکثر اس دور سے گزر کر یہاں پہنچے ہیں.آپ گواہ ہیں کہ احمدیوں پر کیسے کیسے خطر ناک وقت آتے رہے ہیں.ایسے حالات میں اگر چہ ہمارے پیارے امام کا ہمیں یہی حکم تھا کہ مسکراتے چہروں کے ساتھ ان مصائب کو برداشت کر ولیکن حقیقت یہ ہے کہ چہرے مسکراتے تھے اور دل خون ہورہے ہوتے تھے لیکن مصائب و آلام کے اس پر آشوب دور میں جہاں تک دنیا کی آنکھ کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کے چہروں پر ایک کھیلتی ہوئی مسکراہٹ ہی دیکھتی رہی.دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کی مسکرا ہٹوں کو ان سے چھین نہ سکی.اور وہ مسکراہٹیں ہمارے لئے ایک ابدی رحمت اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا نشان بن گئیں اور جس طرح پہلے بار ہا جماعت ان مشکلات کے دور سے گزر کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوئی تھی ایک دفعہ پھر ہم نے اللہ کے فضلوں کا نظارہ دیکھا اور اسی نے اپنی رحمت سے ڈولتے ہوئے دلوں کو سہارا دیا.گرتی ہوئی عمارتوں کی جگہ نئی بہتر اور زیادہ شاندار عمارتیں تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی.لٹتے ہوئے مالوں میں برکت بخشی.برباد ہوتی ہوئی تجارتوں کو ازسر نو استحکام بخشا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا ہم نے ایک نیا دور دیکھا جو پہلے دور سے کہیں زیادہ عظیم فضلوں والا اور پہلے دور سے کہیں زیادہ طمانیت اور تسکین بخش دور تھا.یہ سلسلہ خدا کے فضل سے جاری رہا ہے اور جاری رہے گا.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے دنیا کا کوئی ہاتھ اس خدائی تقدیر کے لکھے کو مٹا نہیں سکتا.اس ضمن میں کچھ تقاضے ہم سے بھی ہیں.یہ وفا کے تقاضے ہیں.صبر کے تقاضے ہیں.استقلال کے ساتھ اپنے رب کی راہوں پر گامزن رہنے کے تقاضے ہیں.اس کی ہر رضا پر راضی رہنے کے تقاضے ہیں خواہ تنگی کی صورت ہو یا آسانی کی صورت ہر حال میں رب کریم کے حضور سر تسلیم خم کرنے کے تقاضے ہیں.اگر ہم یہ تقاضے پورے کرتے رہے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ہمیشہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ ہمارے حق میں پورا کرتا رہے گا.جرمنی
خطبات طاہر جلد اول 109 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء کی جماعت اس پہلو سے خدا کا ایک زندہ نشان ہے.اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میں نے ۱۹۷۴ ء سے پہلے کا چندے کا ریکارڈ نکلوایا اور پھر ۷۴ء کے بعد کے چندے کا ریکارڈ دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ پہلے دور کو بعد کے دور سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے.یہ وہ ملک ہے جہاں کی جماعت احمد یہ بعض اوقات خود کفیل بھی نہیں ہوتی تھی اور جسے باہر کی جماعتوں کے ذریعہ مدد دینی پڑا کرتی تھی اور جو تھوڑا سا چندہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا وہ بمشکل اس مقام تک پہنچا کہ یہ جماعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے.پھر وہ زلزلے آئے جن کا میں نے ذکر کیا.پھر اللہ کی راہ کے مہاجرین اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اس ملک میں آکر اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کے سہارے پر انہوں نے پناہ لی.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا سایہ وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے دیکھتے اس ملک کی جماعت احمدیہ کی کایا پلٹ گئی.چنانچہ یہ جماعت جو بعض دفعہ اپنے کام چلانے کے لئے دوسری جماعتوں کی مرہون منت ہوا کرتی تھی نہ صرف خود کفیل ہو گئی بلکہ اس نے کئی دوسری جماعتوں کے بوجھ اٹھالئے اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ کی ان جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جو اپنے بوجھ اٹھانے کے بعد باہر کی جماعتوں کے بوجھ بھی اٹھا رہی ہیں.چنانچہ جہاں کہیں بھی سلسلہ کو ضرورت پیش آتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی کی جماعت کے چندہ میں سے ایک خطیر رقم اس طرف منتقل کر دی جاتی ہے.پس یہ ہے وہ الہی نشان اور اس کے فضلوں کا وہ پہلو جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ اپنے رب کے شکر گزار بندے بنیں.اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جرمنی کی جماعت کے اکثر نو جوان بڑی مشکلات میں سے گزر رہے ہیں اور گزرتے رہے ہیں.میرے دل میں ان کے لئے خاص طور پر محبت کے جذبات موجزن ہیں اس لئے کہ انہوں نے پیش آمدہ مشکلات کے باوجود خدا کے حقوق ادا کئے اور سخت مشکلات میں سے گزرتے رہنے کے باوجود حمد باری سے ان کے سینے معمور اور یا دالہی سے ان کی زبانیں تر رہیں اور جب کبھی خدا کی خاطر ان سے مالی قربانی کی اپیل کی گئی تو انہوں نے اس بارہ میں کسی قسم کی کنجوسی نہیں دکھائی.بہت سے ایسے دوست بھی ہیں جو خدا کے فضل سے موصی ہیں جو شرح کے مطابق اپنے چندے ادا کرتے ہیں.ان کے حالات اپنے ملک میں ایسے ہیں کہ وہ
خطبات طاہر جلد اول 110 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء نہیں جانتے کہ واپس جا کر ان کا کیا بنے گا.بعض دوستوں کے حالات جرمنی میں ایسے ہیں کہ ان کا سارا مستقبل بظا ہر مخدوش نظر آتا ہے لیکن جب خدا کی خاطر ان کو اپنے پاک مالوں سے جدا ہونے کی اپیل کی جاتی ہے جو انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ پاکیزہ رزق کے طور پر کمائے ہوتے ہیں تو بڑے کھلے دل کے ساتھ وہ خدا کی راہ میں ان عزیز مالوں سے جدا ہوتے ہیں.وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ ہمارا کیا بنے گا.میں ان کو بتا تا ہوں کہ ان کا وہی بنے گا جو ہمیشہ خدا کے بندوں کا بنا کرتا ہے.اللہ ہی ہے جوان کا کفیل ہے اللہ ہی تھا جو ان کا کفیل تھا اور اللہ ہی ہے جو آئندہ بھی ہمیشہ ان کا کفیل رہے گا.ان کی قربانیاں ان کے مستقبل کی ضمانتیں ہیں اور اس سے بہتر ضمانت دنیا میں اور کسی قوم کو نصیب نہیں ہوسکتی.وہ لوگ جو خدا کی راہ میں قربانیوں سے نہیں ڈرا کرتے اللہ خود ان کا نگہبان ہو جاتا ہے.وہ خودان کا نگران بن جاتا ہے.جرمنی میں پریس کانفرنسز میں لوگوں کے پوچھنے پر میں ان کو بتا تا رہا کہ یہ انگوٹھی ( جوحضور نے اس وقت پہن رکھی تھی.مرتب) وہ انگوٹھی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں میں تھی.میں ایک گنہگار اور عاجز انسان ہوں.میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ مقدس انگوٹھی اس گنہگار کی انگلی میں آئے گی.لیکن خدا کی تقدیر نے یہی ظاہر فرمایا.اس انگوٹھی کا پیغام وہی پیغام ہے جو میں آپ کو دے رہا ہوں.ایک وقت تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے دنیوی معاملات کی کچھ بھی خبر نہیں تھی.کچھ پتہ نہیں تھا کہ جائیداد کیا ہے.کتنی ہے.کون قابض ہے.دنیا کے نظام کیسے چلتے ہیں.آپ اللہ کے لئے خالصہ وقف ہو چکے تھے.اس وقت ایک شام آپ کو یہ الہام ہوا.وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ کتاب البریه، روحانی خزائن جلد 13 ص 193 ) کہ رات کو آنے والا ایک حادثہ ہے اور تمہیں کیا پتہ ہے کہ وہ حا دثہ کیا ہے.یہ سنتے ہی آپ کی توجہ اپنے والد کی طرف منتقل ہوئی جو بہت بیمار تھے اور معا یہ خیال گذرا کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ اطلاع دے رہا ہے کہ آج رات تمہارے والد اس جہان فانی سے کوچ کر جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ اُس وقت میرے دل میں اک وہم سا گذرا اور فکر کا ایک سایہ سا آیا کہ میرے والد ہی تو میرے کفیل تھے اور دنیا کی مجھے کچھ خبر نہیں.اپنے بھائیوں اور عزیزوں سے مجھے کوئی توقع نہیں.اب میرا کیا بنے گا.جب یہ خیالات آپ کے دل میں
خطبات طاہر جلد اول 111 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء پیدا ہوئے تو معا بڑے زور اور شدت کے ساتھ اور خاص جلال کے ساتھ یہ الہام ہوا.الیس الله بِكَافٍ عَبْدَهُ ( کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 ص 194) کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ؟ اس الہام کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی پر ایک زلزلہ سا طاری ہو گیا اور طبیعت شدت کے ساتھ استغفار کی طرف مائل ہوئی.لیکن جوں جوں وقت گذرتا چلا گیا معلوم یہ ہوتا چلا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان خوشخبری تھی جو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے لئے بھی تھی اور آپ کے ساتھ کے درویشوں کے لئے بھی تھی.ان نسلوں کے لئے بھی تھی جنہوں نے آپکا فیض پایا اور ان نسلوں کے لئے بھی تھی جو بعد میں آنے والی تھیں.گویا اس الہام کے فیض سے جماعت احمد یہ ہمیشہ مستفیض ہوتی رہے گی.اور گویا یہ اعلان تھا کہ آج دنیا میں ایک ہی تو ہے جو میرا بندہ کہلانے کا مستحق ہے.ماؤں کا ایک لعل ہوتا ہے تو وہ اس کو نہیں چھوڑا کرتیں پھر تمہیں کیسے یہ وہم ہوا کہ میں اپنے بندہ کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ دوں گا.اگر تجھے چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کون ہوگا جسے میں اپنا بنا سکوں.چونکہ آپ بندگی کا خلاصہ تھے اور آپ وہ تھے جن سے آگے عبادت کرنے والے پیدا ہونے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا.قبل ازیں خدا کی قدرت کا ایک زبر دست نظارہ دنیا نے جنگ بدر میں دیکھا جس کی یاد آج بھی دلوں کو ایمان سے بھر دیتی ہے.جنگ بدر میں ۳۱۳ صحابہؓ جن میں بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی.کمزور اور نحیف بھی تھے اور نہتے بھی تھے.وہ سب کے سب ایسے حال میں اسلام کے دفاع کے لئے نکل کھڑے ہوئے کہ اُن کے پاس لڑنے کے سامان بھی پورے نہیں تھے بلکہ پہننے کے کپڑے بھی پورے نہیں تھے.نہ ان کے پاس تلوار تھی.کسی کے پاس محض جھنڈا تھا.کسی کے پاس لکڑی کی تلوار تھی.مگر جو بھی کچھ کسی کے پاس تھا وہ لے کر خدا کے دین کی حفاظت کے لئے میدان میں حاضر ہو گیا.چنانچہ ایک جنگ اس میدان میں لڑی گئی جو بدر کا میدان تھا اور ایک اس خیمہ میں لڑی جارہی تھی جہاں دراصل فتح و شکست کا فیصلہ ہونا تھا یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا خیمہ.بے حد گریہ وزاری کے صلى الله ساتھ روتے ہوئے آنحضرت علی اپنے رب کے حضور یہ عرض کر رہے تھے: ﷺ اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكُ هَذِهِ الْعِصَا بَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِ سُلَام فَلَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا ( مسند احمد بن حنبل جلدا حدیث نمبر (203) کہ اے میرے اللہ.مجھے اور کچھ پرواہ نہیں.مجھے تو تیری ذات کے تقدس کی فکر ہے.اگر
خطبات طاہر جلد اول 112 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء یہ عبادت گزار بندے اس میدان میں ہلاک کر دیے گئے تو پھر تیری عبادت نہیں کی جائے گی.یہ کوئی دھمکی کا رنگ اس لئے نہیں تھا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ تو اللہ ک عشق و محبت میں فنا ہو کر مجسم عجز وانکسار بن گئے تھے.یہ دراصل اظہار غم تھا، اظہار فکر تھا، بے چینی کی ایک آواز تھی ، دردوکرب میں ڈوبی ہوئی ایک چیخ تھی کہ اے میرے رب ! میں نے تو ساری عمر کی محنت کے ساتھ تیرے عبادت گزار بندے تیار کئے تھے.اگر آج مشرکوں کے ہاتھوں یہ عبادت کرنے والے بھی ہلاک ہو گئے تو میرے بعد اور کون ہو گا جو تیرے عبادت گزار بندے پیدا کر سکے.مجھ سے بڑھ کر عبادت کا حق اور کون ادا کر سکتا ہے.میں نے خودان کو دین سکھایا.ان کو عبادت کے اسلوب بتائے.ان کو راتوں کو جاگنے کی لذت بخشی.ان کو جاگتے ہوئے اور سوتے ہوئے اور لیٹتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے اور بیٹھتے ہوئے ہمیشہ یا دالہی میں محور ہنے کی تعلیم دی.پس مجھے یہ غم نہیں ہے کہ یہ لوگ مارے جائیں گے.مجھے تو یہ غم ہے کہ اے میرے آقا! اگر یہ لوگ مارے گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.کون لوگ ہوں گے جو تیری عبادت کے لئے اس دنیا میں آئیں گے.یہ ایک ایسی دعا تھی جس نے وہیں اس خیمہ میں اس جنگ کا فیصلہ کر دیا.مؤرخ حیران ہوتے ہیں اور حیران ہوتے رہیں گے کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ بدر کے میدان میں ۳۱۳ بوڑھے اور بچے، کمزور اور نحیف لوگ عرب کے چوٹی کے لڑنے والوں پر فتح پاگئے.جب کہ آنحضرت ﷺ نے اس نظارہ کو دیکھ کر یہ فرمایا تھا کہ ملکہ نے اپنے جگر گوشے اٹھا کر اس میدان میں ڈال دیے.( تاریخ طبری جلد 2 ص 28) وہ ایسے چوٹی کے لڑنے والے تھے جن پر سارا عرب فخر کیا کرتا تھا.ان کی بہادریوں کے گیت گائے جاتے تھے.ان کے مقابل پر جنگ بدر کے میدان میں مسلمانوں کے لشکر میں ایسے بھی تھے جو بوڑھے تھے.بعض لنگڑے تھے.بعض ایسے تھے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے پورے کپڑے نہیں تھے.ان میں بعض شہید ہوئے تو ان کے کپڑے سے اوپر کا تن ڈھانکا جاتا تھا تو نیچے کا تن ننگا ہو جاتا تھا.نیچے کا ڈھانکا جاتا تو اوپر کا تن نگا ہو جاتا تھا.( صحیح بخاری کتاب الرقاق باب فضل الفقر ) لیکن خدا کے ان عبادت گزار بندوں کو جب جہاد کے لئے بلایا گیا تو محض خدا کی عبادت کی خاطر اور اس کے نام کی بلندی کے لئے وہ میدانِ جنگ میں حاضر ہو گئے.یہ وہ لوگ تھے جن کے لئے آنحضور ﷺ نے دعا کی تھی اَللَّهُمَّ اِنْ تُهْلِكُ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا ان خوش قسمت لوگوں میں بعض بچے بھی تھے ایسے بچے جو شوق شہادت میں بڑا بنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایڑیاں اٹھا اٹھا
خطبات طاہر جلد اول 113 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء کر کھڑے ہوتے تھے تا کہ آنحضرت عے ان کو رد نہ فرما دیں کیونکہ آنحضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو واپس کر دیا جائے گا.میدان جنگ میں بالغ مردوں کی ضرورت ہے اور بالغ لو گوں پر ہی جہاد فرض ہے.بچوں کا کام نہیں ہے کہ وہ میدان جنگ میں پہنچیں.تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بچے قطار میں اس طرح کھڑے تھے کہ ایڑیاں اونچی کر کے پنجوں کے بل کھڑے تھے اور گردنیں تان رکھی تھیں تا کہ قد اونچا نظر آئے.وہ اس لئے ایسا نہیں کر رہے تھے کہ انکو کوئی تکبر تھا.وہ اس لئے ایسا کر رہے تھے کہ خدا کی راہ میں گردنیں کاٹی جائیں اسکے سوا انکا گر دنوں کو اونچا کرنے کا اور کوئی مقصد نہیں تھا آنحضرت ﷺ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو مسکرا کر فرمایا.میں تمہیں جانتا ہوں.تم بچے ہو.تمہیں وا پس چلے جانا چاہئے.ایک بچے نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یا رسول اللہ ! میری عمر اس سے زیادہ ہے.اس لئے مجھے اجازت دیدیں.چنانچہ اس کا شوق اور بے قراری دیکھ کر آنحضور علی نے اس کو اجازت دے دی.دوسرا بچہ بے قرار ہو کر بولا یا رسول اللہ ! کشتی کروا کر دیکھ لیں.میں اس کو گرا لیا کرتا ہوں.اگر اس کا حق شامل ہونے کا ہے تو میرا حق فائق ہے.چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے اس کو بھی اجازت دے دی.( تاریخ طبری جلد 2 ص 61، سیرت النبی ﷺ ابن ھشام جلد 2 ص 66) تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہی وہ دو بچے تھے جو ایک مسلمان مجاہد کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے.ان کی یہ روایت ہے کہ جب میں نے اپنی دائیں اور بائیں طرف دیکھا تو میں پریشان ہوا کہ میرے دونوں بازو کمزور ہو گئے کیونکہ لڑنے والے سپاہی جانتے ہیں کہ اگر باز و مضبوط ہوں تو ان کو خدمت کا زیادہ موقع ملتا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں ابھی میں اس فکر میں ہی تھا کہ اچانک ان کو ایک طرف سے کہنی پڑی.انہوں نے مڑ کر دیکھا ان میں سے ایک بچہ یہ پوچھ رہا تھا کہ چا! وہ ابو جہل کون ہے جو میرے آقا محمد مصطفی ﷺ کوگالیاں دیتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ اس کی آواز میں ایسی بیقراری اور بے چینی تھی کہ گویا غم کا مارا ہوا وہ معصوم دل صرف اسی دُکھ میں مبتلا تھا کہ وہ ظالم ہے کون جو محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دیتا ہے.وہ بیان کرتے ہیں، میں نے تعجب سے اس کو دیکھا کہ اتنے میں بائیں طرف سے میرے کہنی پڑی اور دوسرے بچے نے بھی یہی سوال کیا چا! وہ ابو جہل کون ہے جو ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دیتا ہے.ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی.صف بندی کی جارہی تھی.انہوں نے میدان پر نظر ڈالی تو ابوجہل نظر آ گیا اس کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا وہ ہے وہ ظالم جومحمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دیتا ہے.وہ کہتے ہیں
خطبات طاہر جلد اول 114 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء جس طرح عقاب پرندہ پر جھپٹتا ہے اس طرح وہ دونوں بچے بیقرار ہو کر دوڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ابو جہل کو جالیا اور وار پر وار کر کے اس کو زخمی کر دیا.(صحیح بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرا) میں نہیں جانتا کہ وہ بچ کر واپس آئے یا نہیں.زخمی ہو کر زندہ بچے یا شہید ہو گئے لیکن تاریخ اسلام گواہ ہے کہ وہ دونوں بچے وہ پہلے مجاہد تھے جنہوں نے دشمن پر تلوار اٹھائی.یہ تھے حضرت محمد مصطفی مے کے ساتھی.اور ان سے خدا نے جو سلوک فرمایا وہ سب دنیا پر عیاں ہے.تاریخ دان اسے دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے.وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ یہ واقعہ ہوا تو کیسے ہوا.لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ واقعہ ان عبادت گزار بندوں کے ذریعہ رونما ہوا جن میں بوڑھے بھی تھے.اور معصوم بھی.جوان بھی تھے اور بچے بھی.وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار ہو گئے.لیکن وہ عبادت گزار دل رکھتے تھے اور دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو عبادت گزار دل ہوں اللہ تعالیٰ انہیں ضائع فرما دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے بھی یہی پیغام تھا.خدا نے فرمایا اکیس الله بِكَافٍ عَبْدَہ کہ اے میرے بندے! آج تو تو ہے دنیا میں میری عبادت کا خلاصہ.تجھے وہم کیسے پیدا ہوا کہ میں تجھے مٹنے دوں گا.میں نے اپنے عبادت گزار بندوں سے تو کبھی بے وفائی نہیں کی.پس جرمنی کے احباب جماعت کے لئے بھی میرا یہی پیغام ہے کہ آپ آلیس الله بكَافٍ عَبْدَہ کا فیض اٹھاتے رہے ہیں، اب بھی اٹھا رہے ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ اٹھاتے رہیں گے لیکن اس کے ساتھ عبادت کا بھی تو حق ادا کیجئے کیونکہ اس آلیس اللہ کی روح عبادت میں مخفی ہے آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ میں ایک پیغام ہے کہ جب تک دنیا میں خدا کی عبادت قائم رہے گی اور جب تک اللہ سے محبت کرنے والے دل دھڑکتے رہیں گے اللہ کے فضلوں کی ہمیشہ کے لئے ضمانت ہے اور اس ضمانت کو دنیا میں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.پس جہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو مالی قربانیوں کی توفیق بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں آپ نے اپنے عزیز مال فدا کرنے کی سعادت پائی ہے وہاں اس بات کو بھی فراموش نہ کریں.اگر آپ نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا تو یہ رحمتیں اور یہ برکتیں عارضی ثابت ہوں گی.آپ کے ساتھ کچھ دیر چلیں گی پھر آپ کی اولادوں کے حصہ میں نہیں آئیں گی اس لئے سب سے اہم اور بنیادی پیغام جو میں آپ کے لئے لے کر آیا ہوں وہ یہی ہے کہ خدا کی عبادت کو قائم کریں.ہر دل وہ عابد دل
خطبات طاہر جلد اول 115 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء بن جائے ، ہر شخص خدا کا ایسا عبادت گزار بندہ بن جائے کہ ہر ایک احمدی فرد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدا کے فرشتے یہ آواز بلند کر رہے ہوں کہ : آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یہی ہے ہماری زندگی کا راز.اسی میں جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی ہے.اسی میں ہم سب کی انفرادی زندگی ہے.اس لئے عبادت کی لذت حاصل کرنے کی کوشش کریں.ظاہری عبادت جو محض اُٹھنے اور بیٹھنے کی حد تک محدود رہنے والی عبادت ہے وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی.یہ تو ایک برتن ہے اس برتن کو محبت سے بھرنا پڑے گا.کیونکہ خدا کی راہ میں خالی برتن قبول نہیں ہوا کرتے.اللہ کی راہ میں پیار اور عشق اور محبت کا وہ دودھ قبول ہوتا ہے جو ان برتنوں کے اندر ہوتا ہے اس لئے اس کی فکر کریں.اپنی عبادت کا ظاہر بھی قائم کریں کیونکہ اگر ظاہر قائم نہ ہو یا مثلاً برتن نہ ہوتو دودھ کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا.لیکن خالی برتن بھی کوئی معنی نہیں رکھتا.اس لئے عبادت کے سلسلہ میں دو باتوں کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانی چاہتا ہوں.اول یہ کہ پانچ وقت نماز کی عادت ڈالیں.یہ مومن کی زندگی کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.دوسرے یہ کہ ہر نماز کو اللہ کی محبت کے رنگ سے بھرنے کی کوشش کریں.اگر ایک نماز بھی انسان کو ایسی نصیب ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ کا عشق موجزن ہو تو وہی نماز ہمیشہ کے لئے اس کی نجات کی ضمانت بن جایا کرتی ہے.چنانچہ لیلۃ القدر میں یہی راز ہے اور یہی پیغام ہے کہ بعض اوقات انسان کو ایک ایسی عبادت نصیب ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ ہمیشہ اس کی عبادت کی ضمانت مل جاتی ہے.انسان کو اس کی عبادت کی حفاظت کا پیغام ملتا ہے.اسی لئے ایسی نمازیں پڑھنے کی کوشش کریں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں وہ تمہیں اپنا بنالے.پس یاد رکھیں یہی وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر احمدیت نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.یہی وہ ذریعہ ہے جس سے احمدیت کی گاڑی رواں دواں رہے گی.اگر یہ گاڑی
خطبات طاہر جلد اول 116 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء خدانخواستہ اس طاقت سے خالی ہوگئی تو اس کی مثال تو ایسی ہوگی جیسے کوئی بہت اچھی کار ہو لیکن پڑول مہیا نہ ہو.آپ لاکھ کوشش کریں اس کو دھکیلنا جان جوکھوں کا کام ہوگا.بعض لوگ ایسی گاڑیوں کو چھوڑ کر پیدل سفر کرنے لگتے ہیں.یہی حال ان مذہبی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے جو اپنے اندر عبادت کی روح پیدا کرنے سے غافل ہو جاتی ہیں.پھر لوگ ان کو دھکیلتے دھکیلتے تھک جاتے ہیں یہاں تک کہ پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی اپنی گٹھڑیاں اٹھا کر اپنی راہیں لیتے ہیں.مذہب کا یہی المیہ ہے جو ہمیشہ دیکھنے میں آتا رہا ہے.پس احمدیت کی اس گاڑی کو جسے خدا کے نام پر اسلام کی سر بلندی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے خون سے سینچتے ہوئے اور اس میں اپنا خون بھر کر دنیا میں جاری فرمایا ہے، اسکو اپنے خونوں سے بھری رکھیں یعنی محبت کے خون سے عشق کے خون سے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں کے خون سے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے جذبہ سے یہ گاڑی آگے چلے گی.پس یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جس سے کبھی غافل نہ ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے عبادت کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی.ظاہری پہلو بھی بہت اہم اور ضروری ہے.کیونکہ ظاہری پہلو کی اگر حفاظت نہ کی جائے تو محض وہ پیٹرول رہ جائے گا جو کسی گاڑی کے چلانے کے کام آ سکتا ہے مگر گاڑی موجود نہیں ہوگی تو ایسا پڑول بھی کسی کام کا نہیں.اس لئے دونوں باتیں ضروری ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لازم ہیں.پس ظاہر کی حفاظت بھی بہت ہی ضروری اور اہم ہے اور بنیادی حقیقت ہے.عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ظاہر کی طرف سے انسان غافل ہونا شروع ہو جائے تو رفتہ رفتہ باطنی لحاظ سے بھی انسان غافل ہونے لگ جاتا ہے.اس لئے ان ملکوں میں جن میں آپ بس رہے ہیں ان میں پہلی ضرورت ظاہر کی حفاظت کی ہے.وجہ یہ ہے کہ آپ میں سے اکثر ایسے ہیں جو نماز کے مختلف اوقات کے دوران کام میں مصروف ہوتے ہیں اور نماز پڑھنے کی یا تو وہ جگہ نہیں پاتے یا عام جگہوں پر نماز پڑھنے سے شرما جاتے ہیں یا ایسی جگہیں جہاں مسجد میں دور دور ہوں اور بہت کم مواقع ملیں مسجدوں میں حاضری کیلئے وہاں باجماعت نماز کا تصور اڑ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ انسان یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اکیلی نماز ہی اصل نماز ہے.پھر اکیلی نماز بھی پوری نہیں رہتی.پھر موسم کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں کہ انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ سورج کا نکلنا یا نہ نکلنا یہ تو عارضی نشانیاں ہیں.ہم جن ملکوں
خطبات طاہر جلد اول 117 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء میں بس رہے ہیں ہم اُن سے بالا ہیں.اس لئے جب آنکھ کھلے اس وقت نماز پڑھ لینی چاہئے.یہ کمزوریاں رفتہ رفتہ بڑھنے لگتی ہیں.پھر نمازیں جمع کرنے کی طرف رجحان ہو جاتا ہے.پھر نمازیں جمع کرتے کرتے نمازیں Miss بھی ہونے لگ جاتی ہیں.یہ سارا ایک ایسا تکلیف دہ اور پر عذاب منظر ہے جو بعض ملکوں کا مقدر ہے اور وہاں جب تک ایک ذہین آدمی پوری بیدار مغزی کے ساتھ ان مصائب اور تکالیف کا جو نماز کی راہ میں پیش آتی ہیں مقابلہ نہ کرے وہ پوری طرح نماز کا حق ادا نہیں کر سکتا.اس لئے میں خاص طور پر ان ملکوں کے احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے رب سے یہ عہد کریں کہ خدا کی عبادت سے غافل نہیں ہوں گے.یہ ان کی زندگی کا سرمایہ ہے.یہ ان کا زادِ راہ ہے ان کی ذات کے لئے بھی اور جماعت کی اجتماعی حیثیت کے لحاظ سے بھی.یہ زادِ راہ جتنا زیادہ ہوگا احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو اتنی ہی زیادہ قوت و طاقت اور شان و شوکت نصیب ہوگی.میں اس سلسلہ میں چند مشورے احباب جماعت کو دیتا ہوں.سب سے پہلے تو دوست یہ عہد کریں کہ جہاں تک ممکن ہو سوائے ان ضروریات کے جن میں اللہ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ نمازیں جمع کی جائیں ، نمازیں اپنے وقت پر ادا کیا کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کیا کریں کہ کون آپ کو دیکھ رہا ہے اور کیا سمجھ رہا ہے.یہ محض جھوٹی شر میں ہیں اور ایسی حیائیں ہیں جو در حقیقت بے حیائی کا رنگ رکھتی ہیں یعنی اللہ سے شرمانے کی بجائے اگر کوئی شخص انسان سے شرمانے لگ جائے تو اسی کا نام بے حیائی ہے.جہاں شرم کا حق ہے وہاں یہ حق ادا ہونا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کئی عورتیں جو بے پرد ہونے لگیں تو وہ ایسا کرتی ہیں کہ جب کوئی واقف یا محرم مرد سامنے آجائے تو اس سے پردہ کر لیتی ہیں اور جب غیروں کے سامنے جاتی ہیں تو پردہ اتار دیتی ہیں اور یہی بے حیائی ہے.اور عبادت میں بے حیائی یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان سے شرمانے لگ جائے اور اللہ پر نظر نہ رکھے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے، دنیا کے ادنی آدمیوں سے جن سے میرا کچھ بھی واسطہ نہیں ، نہ وہ مجھے کچھ دے سکتے ہیں اور نہ مجھ سے کچھ چھین سکتے ہیں ،ان سے شرما کر میں عبادت سے غافل ہورہا ہوں اور اپنے خالق و مالک سے بے وفائی کر رہا ہوں.غرض یہ ہے وہ جھوٹی شرم جوا کثر غیر ملکوں میں بسنے والوں کی راہ میں روک بن جایا کرتی ہے.خود مجھے اس کا تجربہ ہے.
خطبات طاہر جلد اول 118 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء انگلستان میں جب میں تعلیم حاصل کرتا تھا تو بہت سے پاکستانی جو ویسے نماز پڑھتے تھے لیکن لوگوں کے سامنے نماز پڑھنے سے وہ شرماتے تھے.بعض احمدی بھی اس کمزوری کا شکار ہوئے چنانچہ ہم نے اُن کو سمجھایا.میرے ساتھ میر محمود احمد ناصر صاحب پڑھا کرتے تھے.یو نیورسٹی میں ہمیں جب وقت ملتا تھا ہم وہاں دونوں مل کر نماز با جماعت ادا کیا کرتے تھے.شروع میں لوگوں نے تعجب کیا ہو گا.مگر ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوئی.لیکن رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض دفعہ پروفیسر کلاس روم یہ کہہ کر خالی کر دیا کرتے تھے کہ تمہاری نماز کا وقت ہو گیا ہے.تم یہاں نماز پڑھ لو.پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں غیروں سے شرمانا یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.اس لئے اس معاملہ میں اپنے دل کو خوب کھنگالیں اور صاف کریں اور یہ عزم کریں کہ خواہ سارا جرمنی بھی آپ کی نماز پر قہقہے لگارہا ہو آپ ایک کوڑی کی پرواہ بھی نہیں کریں گے.احباب جانتے ہیں چند سال پہلے یورپ اور امریکہ کے لئے میں اپنے ذاتی سفر پر نکلا تھا اور اپنی بچیوں کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا.میں نے ان کی تربیت کی خاطر انہیں اس بات کا پابند کیا، حالانکہ عورتوں پر نماز با جماعت فرض نہیں ہے کہ وہاں میلوں میں پھیلی ہوئی سفاری پارکس یا دوسری جگہوں پر جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.وہاں مین سب لوگوں کے درمیان ہم نماز با جماعت پڑھتے تھے.آگے میں کھڑا ہو جاتا تھا.پیچھے میری بچیاں اور کوئی احمدی دوست اگر ہوں تو وہ بھی ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے.نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ لوگ ہمارے اردگرد کھڑے ہو جاتے اور کچھ دیر تعجب سے دیکھتے اور پھر سوال کرتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا تھا ، جب ہم ان کو بتاتے تھے تو ان کی ہنسیاں غائب ہو جاتی تھیں.ان کے دل میں احترام کے جذبات پیدا ہو جاتے تھے اور اس سے تبلیغ کی کئی راہیں کھل جاتی تھیں.کئی لوگ ہمارا پتہ پوچھتے تھے.چنانچہ وہ ظاہری ذلت جس سے انسان کے دل میں جھوٹا خوف پیدا ہوتا ہے اس طرح سب کے سامنے نمازیں پڑھنے سے ہمیں وہ بھی نہیں پہنچی تھی.پہنچتی بھی تو کوئی پرواہ نہیں تھی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ خوف ہی سارا جھوٹا ہے اس کی حقیقت ہی کوئی نہیں.پس اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کبھی نہیں شرمانا چاہئے.عبادت ہی میں انسان کی عظمت ہے.اس عبادت ہی میں انسان کی عزت ہے.اسی میں اس کا وقار ہے.بھلا اپنے رب کے حضور جھکنے میں شرم والی کون سی بات ہے.لوگ دنیا والوں کے حضور جھکتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ وہ اپنے دنیوی
خطبات طاہر جلد اول 119 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء کام کے لئے چھوٹے چھوٹے اہل کاروں مثلاً پٹواریوں اور تھانیداروں کے سامنے جھک جاتے ہیں.بعض دفعہ ادنی ادنی چیزوں کے لئے لوگ اپنے دشمن کو بھی باپ بنا لیتے ہیں لیکن آحكَمِ الْحَكِمِينَ خدا کے حضور شرمانے لگ جاتے ہیں یہ انسانی کمزوری اور محض جھوٹا تصور ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں.اسی کا نام شرک ہے.اسی سے شرک کے مختلف پہلو آغاز پذیر ہوتے ہیں.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے اور ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ عبادت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کوئی ذلت نہیں آتی بلکہ اس سے ہمیشہ انسانی وقار بڑھتا ہے.میں نے ایک واقعہ پہلے لکھا بھی ہے مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں New Year's Day ( نیوائیرز ڈے) کے موقع پر پیش آیا یعنی اگلے دن نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا.رات کے بارہ بجے سارے لوگ ٹرائفا لگر سکوائر میں اکٹھے ہو کر دنیا جہاں کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں.کوئی مذہبی روک نہیں.ہر قسم کی آزادی ہے.اس وقت اتفاق سے وہ رات مجھے یوسٹن اسٹیشن پر آئی.مجھے خیال آیا جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا.اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال کا نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں.مجھے بھی موقع ملا میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا.اخبار کے کاغذ بچھائے اور دونفل پڑھنے لگا.کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا ہے اور پھر نماز ابھی میں نے ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سسکیوں کی آواز آئی.چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح پلک پلک کر رور ہا تھا.میں گھبرا گیا میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں اس لئے شائد بے چارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے تو اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے.ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کرہا ہے اس چیز نے اور اس مواز نے نے میرے دل پر اس قدراثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکا.چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا..God bless you.God bless you کرسکا
خطبات طاہر جلد اول 120 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء.God bless you.God bless you پر حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری دنیا بھی مذاق اڑائے تب بھی ایک احمدی نوجوان کو کوڑی کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.وہ آزاد مرد ہے.خدا کے سوا اس کی گردن کسی کے ہاتھ میں نہیں.یہی حقیقی آزادی ہے جو انسان کو ایمان کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہے.اگر وہ ان چیزوں کی کوڑی بھی پرواہ نہیں کرے گا تو دنیا اس کے سامنے جھکے گی.دنیا اس کی پہلے سے زیادہ عزت کرے گی.دنیا میں ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ خدا کی خاطر ذلتیں قبول کرنے والے دنیا میں کبھی ذلیل نہیں کئے گئے.ان کی عزتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اضافے ہوتے ہیں اور برکتیں ملتی ہیں.پس اس جھوٹے خیال کو دل سے نکال دیں.یہ مشرکانہ خیال ہے.کسی احمدی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ عبادت کرتے ہوئے دنیا کی طرف نگاہ رکھے اور شرمانے لگے کہ وہ مجھے کیا سمجھیں گے.تیسری بات وقت پر نماز پڑھنے کے متعلق ہے.اس بارہ میں میں پہلے کہہ چکا ہوں.چوتھی بات نماز با جماعت کے متعلق ہے اس سلسلہ میں میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ لوگوں کو یہ وہم ہے کہ جب تک آٹھ دس آدمی اکٹھے نہ ہو جائیں باجماعت نماز نہیں ہو سکتی.آنحضرت ﷺ کو جو دین عطا ہوا وہ ایک ایسا کامل اور عظیم الشان دین ہے کہ اس کی راہ میں کسی صورت میں، کسی شکل میں کوئی مشکل بھی حائل نہیں ہوتی چنانچہ جہاں تک مسجد کی ضرورت کا تعلق ہے آپ نے یہی فرمایا کہ اگر مسجد میسر ہو تو ضرور مسجد تک پہنچو.یہ تمہارا فرض ہے.لیکن اگر مسجد مہیا نہیں تو آپ نے اپنی امت کو یہ عظیم الشان خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے ساری زمین میرے لئے مسجد بنادی ہے.( صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب قول النبی عه بعلت لی الارض مسجد او لھو را) صرف آپ ہی وہ نبی ہیں جن کے لئے دنیا کی ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے کیونکہ آپ ساری دنیا کے لئے نبی بن کر تشریف لائے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ سہولت عطا فرمائی کہ کسی خاص عبادت گاہ کی بھی ضرورت نہیں ہے، تیرے غلاموں کو جہاں کہیں نماز کا وقت آجائے تو وہیں نماز پڑھ لیں وہی جگہ ان کے لئے مسجد بن جایا کرے گی.پس اس سے یہ مشکل حل ہو گئی کہ مسجد تک پہنچنا ضروری ہوتا ہے اور کوئی آدمی یہ عذر نہیں کر سکتا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ہم مسجد پہنچ نہیں سکتے ، مجبوریاں ہیں.دوسرے جہاں تک ساتھیوں کا تعلق ہے.یہ مسئلہ بھی آنحضرت مﷺ نے ہمیشہ کے لئے صلى الله حل فرما دیا.ایک صحابی نے جب دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ با جماعت نماز پر بہت زور دیتے ہیں تو اس
خطبات طاہر جلد اول 121 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں تو ایک چرواہا ہوں، ایک مزدور ہوں ، لوگوں کے چند پیسوں پر بھیڑیں پالنے کے لئے اکثر زندگی جنگل میں گذارتا ہوں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بھی موجود نہیں ہوتا.میں تو با جماعت نماز کی ادائیگی سے محروم ہو جاؤں گا.میرے لئے کیا حکم ہے.آنحضور علیہ نے فرمایا کہ تمہارے لئے بھی کوئی مشکل نہیں.جب بھی نماز کا وقت آیا کرے تم اذان دے دیا کرو.اگر کوئی مسافر دور سے گذرتا ہوا تمہاری آواز کو سن لے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دے گا اور وہ آکر تمہارے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے گا.پھر فرمایا اگر کوئی مسافر بھی نہ ہو اور کوئی آواز نہ سن رہا ہو تو خدا آسمان سے فرشتے اتارے گا جو تمہارے پیچھے نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور اسطرح تمہاری نماز با جماعت ہو جائیگی.کیسا عظیم الشان نبی ہے.کیسی عظیم الشان امت ہے اور ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا کیسا عظیم الشان پیغام ہے.ہر مشکل کا حل اسلام میں موجود ہے ہر مشکل کو رحمت میں بدلنے والا نبی ہمیں عطا ہو گیا.ہمارے لئے فکر کی کونسی بات ہے.پس اگر احباب جماعت اپنے آپ کو ان ملکوں میں مجبور سمجھتے ہیں تو کیلے بھی باجماعت نماز پڑھ لیا کریں.تکبیر کہا کریں اور با قاعدہ با جماعت نماز کی طرح نماز پڑھا کریں اور یقین رکھیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہرگز جھوٹی نہیں ہوسکتی.خدا کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھا کرینگے.آپ متقیوں کے امام بنائے جائیں گے.اگر آپ نماز کا حق ادا کرنا سیکھ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل خود بخو د نازل ہونے لگیں گے اور اس کثرت سے نازل ہونگے کہ ان کو سمیٹنے کے لئے آپ کا پیمانہ چھوٹا رہ جائے گا.خدا کے فضل آپ کے پیمانوں کے کناروں سے بہہ نکلیں گے.آخری بات اس سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کیا کریں.نماز قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان خود نماز پڑھتا ہے.اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتا ہے.پس آپ اپنے ماحول میں روز مرہ کا یہ اسلوب بنالیں ، زندگی کا یہ دستور بنالیں کہ اپنے دوستوں کو بھی تلقین کیا کریں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی تلقین کیا کریں.قرآن کریم میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کے متعلق آتا ہے: وَكَانَ يَأْمُرُ اهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ (مریم:۵۷)
خطبات طاہر جلد اول 122 خطبه جمعه ۲۰ اگست ۱۹۸۲ء کہ وہ اپنے اہل و عیال کو نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کی تاکید فرمایا کرتے تھے.خود نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اپنے اہل کو نماز کی تلقین کیا کرو.فرمایا: وَأمُرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (۱۳۳:۱۵) اور اس بات پر صبر کے ساتھ قائم رہ یعنی اے رسول ! اس بات سے ہرگز نہ نہیں، نماز با جماعت کے لئے کہتے چلے جائیں کہتے چلے جائیں.آخر ایک وقت ایسا آئے گا کہ تمہاری تذکیر سے اور تمہاری نصیحت سے بے نمازیوں کے دل بھی مغلوب ہو جائیں گے.اگر تم ان کو کہتے چلے جاؤ گے اور نہیں تھکو گے تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے.پس احباب جماعت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو، اپنے بچوں کو اپنے ساتھیوں کو، اپنے دوستوں کو نماز با جماعت کی ہمیشہ تلقین کرتے رہیں.اگر یہ چیز میں آپ کریں تو پھر معاشرہ خواہ کیسابراہو، کیسا مخالفانہ ہو، اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی نمازوں کی حفاظت ہوتی رہے گی.ویسے بھی یہ سادہ سادہ اور چھوٹی چھوٹی سی باتیں ہیں کوئی بڑی قربانی نہیں ہے.بہت معمولی بات ہے لیکن فوائد کے اعتبار سے بہت بڑی بات ہے.اس کے نتیجہ میں نماز کے ظاہر کی حفاظت بھی ہو جائے گی.اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ ہے اپنی نمازوں کو اللہ کے پیار سے بھرنے کا.جب بھی نماز ادا کیا کریں سوچ کر اور سمجھ کر نماز ادا کیا کریں.سورہ فاتحہ اگر کسی کو تر جمہ کے ساتھ نہیں آتی تو ترجمہ سیکھے اور ترجمہ کے ساتھ پڑھا کرے کیونکہ یہ علم و معرفت کا ایک لا متناہی خزانہ ہے اس میں حق و حکمت پر مشتمل ایسی دعائیں ہیں جن کا فیض کبھی ختم نہیں ہو سکتا.اس کی بعض آیتیں ایسی ہیں جو ہر صورت حال پر اطلاق پا جاتی ہیں اور پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.ایک دفعہ ایک غیر از جماعت دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ جماعت احمد یہ تو اس بات کی قائل ہی نہیں ہے کہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرے (اور نماز کے اندر انہوں نے سمجھا کہ عربی الفاظ کے سوا ہم کچھ بول نہیں سکتے ) اس لئے آپ یہ بتائیں کہ جولوگ نماز پڑھتے ہوں لیکن نماز کے بعد جن کو اجازت نہ ہو دعا کرنے کی تو وہ کس وقت دعا کریں اور کس طرح کریں.میں نے ان سے کہا اول تو یہ مسئلہ ہی غلط ہے کہ نماز میں اپنی زبان میں دعا نہیں ہوسکتی.ہم تو اس کے قائل نہیں ہیں لیکن اس کے علاوہ نما ز خود ایک کامل دعا ہے ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس کی انسان کو ضرورت
خطبات طاہر جلد اول 123 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء ، پڑسکتی ہو اور اس کی دعا نماز میں موجود نہ ہو.یہ ایک بڑا لمبا مضمون ہے.میں اس میں اس وقت داخل نہیں ہوسکتا لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مرحوم والدین کے متعلق گزشتہ انبیاء کے متعلق ،ساری دنیا کے نیک انسانوں کے متعلق بنی نوع انسان کے متعلق، اپنے لئے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے ، غرض دعا کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو نماز میں موجود نہ ہو.زندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے جو نماز سے باہر رہ گیا ہو اور جس کے لئے نماز میں دعا نہ سکھائی گئی ہو.اس پہلو سے جب آپ نماز پر غور کرتے ہیں تو آپ کو اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل ہاتھ آجاتی ہے.یہاں بیٹھے آپ کو غیروں کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقعہ ملتا ہوگا اگر آپ اور دلیلیں نہیں دے سکتے تو صرف نماز ہی پیش کر دیا کریں.ساری دنیا کے مذاہب مل کر جو عبادت سکھاتے ہیں ان کی ساری دعائیں اکٹھی کر لی جائیں تب بھی وہ انسانی زندگی پر ایسی حاوی نہیں ہیں جیسی نماز کے اندر یہ دعائیں حاوی ہو جاتی ہیں.چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ میں نماز میں اپنے بچوں کے لئے اپنے والدین کے لئے اور فلاں کے لئے اور فلاں کے لئے اپنی مالی مشکلات کے لئے اور اپنی فلاں باتوں کے لئے دعا کرنا چاہتا ہوں ، اس کا کیا طریق ہے، میں کس طرح دعا کروں.میں نے اس سے کہا تم نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتے ہو.اس میں ایک آیت ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور ساتھ ہی ہے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اس کے مضمون کو آپ سمجھ لیں تو دنیا کا کوئی بھی امکانی پہلو نہیں ہے جس پر یہ دعا حاوی نہ ہو لیکن اس کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے.اس کے مفہوم کو نہ سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک ایسی دولت کے مالک بن جائیں جس کے متعلق آپ کو یہ علم نہ ہو کہ میرے پاس ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جس طرح بعض گھروں میں بعض خزانے دبے ہوتے ہیں.اب جن مکینوں کو پتہ ہی نہ ہو کہ ہمارے پاس خزانہ دبا ہوا ہے اُن کو اس کا کیا فائدہ.جیسا خزانہ ہوا ویسا نہ ہوا.نماز کی دعاؤں کی بھی یہی کیفیت ہے.نماز کی دعا ئیں اور خصوصاً سورہ فاتحہ کی دعا ئیں ایک بہت بڑا خزانہ ہیں جن سے شعوری طور پر واقف ہونا چاہئے کہ یہ خزانہ ہے کیا.کس طرح اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے.پھر اگر آپ نماز پڑھیں گے تو آپ کی نماز کا رنگ بدل جائے گا.وہ بات جو میں کہتا ہوں کہ اپنے اندر محبت الہی پیدا کریں وہ اس طرح نماز میں پیدا ہوگی کہ آپ نماز سے پہلے تعارف تو حاصل کریں کہ یہ کیا کہتی ہے، کیا اثر کرتی ہے، ہم
خطبات طاہر جلد اول 124 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء سے کیا چاہتی ہے، ہمیں کس طرف لے کر جاتی ہے ، کن کن مواقع پر کام آتی ہے.کس طرح کام آتی ہے.میں نے ان کو سمجھایا کہ میں اس وقت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے دو دو پہلو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اگر آپ ان کو سمجھ لیں تو یہی آپ کے لئے کفایت کر جائینگے إِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک دعا کے رنگ میں یہ پیغام ہے کہ اے خدا! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں.اس کے اندر دونوں پہلو آ جاتے ہیں.نَعْبُدُ میں ایک مستقبل کا پہلو ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرینگے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے اور کسی کی عبادت نہیں کریں گے.یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کریں.دوسرا پہلو ہے تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے.اس کے نتیجہ میں کیا ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کا حق تو ہم ادا نہیں کر سکتے.ہم کمزور ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ عارفانہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مومن کا دماغ اس طرف چلا جاتا ہے کہ یہ نماز تو ہم سے کھڑی نہیں ہوتی.کئی قسم کے تفکرات اور کئی قسم کے خیالات دل کو گھیر لیتے ہیں.کئی اور کام ہوتے ہیں جن کے کرنے کی جلدی ہوتی ہے توجہ اس طرف پھر جاتی ہے.کئی ظاہری دلچسپیاں ہیں جو بت بن کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں.انسان ایک مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ نماز میں توجہ کیسے قائم رکھے تو معاً اس کا جواب یہ دیا اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اے ہمارے آقا امد دبھی تو تجھ سے ہی چاہتے ہیں اور ہمیشہ تجھ سے ہی چاہیں گے.کسی اور کی طرف دھیان نہیں دیں گے اور مدد کے لئے نہیں پکاریں گے اس لئے اگر ہم اپنے خلوص دل کے ساتھ تیری عبادت پر قائم ہونا چاہتے ہیں.تو پھر اے ہمارے معبود ! تو مالک اور با اختیار ہے.ہم تو مالک اور با اختیار نہیں.ہم ابھی کہہ آئے ہیں کہ تو ہی مالک ہے تیرے سوا کوئی مالک نہیں تو پھر اے خدا ہمیں عبادت کی توفیق عطا فرما.مدد بھی تجھ سے ہی مانگتے ہیں.تو ہماری گرتی ہوئی نمازوں کو کھڑا کر دے.تو ہمارے ڈوبتے ہوئے دلوں کو حوصلہ دے اور اپنی عبادت کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخش.إيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم نے تو اب صرف تیری عبادت کرنی ہے.باقی سب جھوٹے خدا ہیں ، ہم نے ان کو چھوڑ دیا ہے.کوئی بت باقی نہیں رہنے دیا، کسی دوسری چیز کا کوئی سہارا نہیں ڈھونڈا، اب ہم جائیں تو کہاں جائیں.ہم تو مشکل میں پڑے ہوئے ہیں.ہمیں تو مصیبتیں لاحق ہیں.اب تیرے سوا ہمارا کون ہے.ہم تجھے چھوڑ کر کہاں جائیں جب ہم تیری ہی عبادت
خطبات طاہر جلد اول 125 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء کرتے ہیں اور تیرے سامنے جھکتے ہیں تو پھر ہماری ضرورتوں کو بھی تو ہی پورا فرما.اس کے لئے یہ دعا ساتھ ہی سکھا دی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اب غور کریں کہ یہ دعا جب دوسری شکل اختیار کرتی ہے یعنی اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ڈھل جاتی ہے تو زندگی کی کون سی مشکل ہے جس پر یہ دعا چسپاں نہیں ہوتی.کوئی بیماری لاحق ہو، کوئی مشکل در پیش ہو.سفر میں حضر میں کوئی مصیبت پیش آجائے.مثلاً چلتے چلتے موٹر خراب ہو جائے تب بھی آ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا کے ذریعہ مسائل حل کرا سکتے ہیں.کوئی عزیز بیمار ہو، ایمانی کمزوری کا ڈر ہو، مالی مشکلات کا سامنا ہو، کسی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوں ، مقدمات کے مسائل دامن گیر ہوں، کئی قسم کی پریشانیاں ہیں جو ہزار رنگ میں انسان کو گھیر لیتی ہیں.غرض کوئی مشکل ہو یا مصیبت پیش آجائے ہر موقع پر ایک عبادت گزار کی نجات کی راہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں موجود ہے.تا ہم اس دعا کے دو پہلو ہیں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا کا حق دار انسان تب بنتا ہے جب وہ پہلے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا حق ادا کرے.اگر یہ بات ہی جھوٹی ہو کہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں.تو پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا بھی جھوٹی ثابت ہوگی.ان دونوں کا آپس میں ایسا گہر اواسطہ ہے اور ان میں ایک ایسا گہرا ربط ہے اور ایسا پختہ تعلق ہے کہ ایک کی طاقت سے دوسری چیز طاقت پکڑتی ہے.اگر کوئی انسان عبادت واقعہ خدا کی کرتا ہے اور کسی کی نہیں کرتا تو پھر وہ حقیقتاً غیر اللہ سے مستغنی ہو جاتا ہے.ایسی صورت میں پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا بھی نا کام ہو جائے.یہ ناممکن ہے کہ ایسے انسان کی پکار سنی نہ جائے.یہ وہ بندے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کہ ہاں میرے بندے تو میرا بندہ بن گیا.میں نے تجھے اپنا بندہ بنالیا.اب تو میری مدد مانگتا ہے.تو تجھے میرا یہ جواب ہے کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.جب تو نے اپنے لئے مجھے کافی سمجھا تو میں بھی تیرے لئے کافی ہو کر بتاؤں گا.یہ وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان تمام قسم کے فکروں سے آزاد ہو جاتا ہے.تمام خوفوں سے بالا ہو جاتا ہے.وہ اہل اللہ بن کر خدا کے فضل کے ساتھ اور اس کی رحمت کے سایہ میں زندگی بسر کرنے لگ جاتا ہے اور انہی کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد اول 126 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (يس:١٣) جب کچھ بندے میرے دوست بن جاتے ہیں ، عبادت کے رستہ سے داخل ہوتے ہیں اور میری دوستی کی راہوں پر چلتے ہوئے مجھ تک پہنچ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت ان کو دعائیں کرنے یعنی ہر بات میں مجھے پکارنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی.ان کا سارا وجوداور ان کی ساری زندگی پرکار بن چکی ہوتی ہے.فرمایالَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ کسی حالت میں بھی کبھی ان پر خوف غالب نہیں آتا کیونکہ خوف بھی ایک غیر اللہ ہے.کسی حالت میں غم ان پر غالب نہیں آتا کیونکہ غم بھی غیر اللہ ہے اور وہ غیر اللہ سے پاک ہو چکے ہوتے ہیں.پس ہر عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنے کا یہ مفہوم ہے جو سورہ فاتحہ ہمیں سکھاتی ہے اس لئے جب سورہ فاتحہ کو آپ غور سے پڑھیں گے تو ان سات آیات میں صرف ایک مضمون نہیں بلکہ معرفت کے لا متناہی سکتے آپ پر کھلیں گے.اور ایک نہ ختم ہونے والا روحانی خزانہ آپ کو مل جائیگا.اس لئے اسے غور سے پڑھیں.محبت کے ساتھ پڑھیں.پیار کے ساتھ پڑھیں.اسی کا نام النبی محبت ہے.اسی کے نتیجہ میں آپ کے دل خدا تعالیٰ کے فضل سے پاک اور صاف کئے جائیں گے.اسی کے نتیجہ میں آپ کو ابدی زندگی عطا ہوگی اور جنت ملے گی جس کا ذکر ان آیات میں ہے جو میں نے اس خطبہ کے شروع میں پڑھی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمُوتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران (۱۳۴) فرماتا ہے وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ اپنے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت کی طرف ہم تمہیں بلا رہے ہیں دوڑتے ہوئے چلے آؤ.اس مغفرت کے نتیجہ میں تمہیں کیا ملے گا فرمایا ایسی جنت ملے گی عَرْضُهَا السَّموتُ وَالْاَرْضُ جس کا محیط آسمانوں اور زمین کے محیط کے برابر ہے کوئی حصہ اس سے باہر نہیں ہے.یہ ایک ایسی جنت ہے جو جغرافیائی قیود آزاد ہے تم جس جگہ رہو جہاں جاؤ وہ جنت تمہارے ساتھ ساتھ چلے گی اور تم اس جنت کے سائے سے نکل ہی نہیں سکتے.یہ ہے پیغام اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے کہ دوڑے آؤ مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس سے تم باہر نہیں جاسکتے.یود سے
خطبات طاہر جلد اول 127 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء اس میں ایک مومن کے لئے کتنا عظیم الشان پیغام ہے جو بظاہر ایک ملک سے ہجرت کر کے کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے جیسا کہ میں نے اس خطبہ کے شروع میں کہا تھا کہ آپ اپنی جنتیں ساتھ لے کر آئے تھے.جب خدا کی خاطر نکالے گئے تو یہ نہیں ہوا کہ اپنی جنتیں پیچھے چھوڑ کر آگئے ہوں بلکہ خدا کی رحمت کی جنتیں آپ کے ساتھ چلتی ہوئی آئی ہیں اور یہ جنت ان معنوں میں ہے کہ اس کے بعد آپ کو مشکلات پیش نہیں آئیں گی.اس جنت کی تشریح خدا تعالیٰ نے خود فرما دی ہے.فرماتا ہے یہ جنت کیا ہے.یہ جنت اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کی لذتیں حاصل کرنے کی جنت ہے اور خدا تعالی کی رضا میں مزہ اٹھانے کی جنت ہے.ایسے لوگوں پر آزمائشیں بھی آئیں تب بھی یہ جنت ان سے کوئی چھین نہیں سکتا.چنانچہ فرماتا ہے: الَّذِينَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:۱۳۵) یہ وہ لوگ ہیں جن پر تنگی آئے یا آسائش آئے ، آسانی پیدا ہو یا مشکل پیش آجائے یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر ایسا مزہ اٹھاتے ہیں کہ پھر اس مزہ کو چھوڑتے ہی نہیں.دنیا میں ہر قسم کی کیفیت سے گذر جائیں گے لیکن یہ جنت ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ وہ اللہ کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور اسی کی رضا کی خاطر ہر دوسری چیز کو فدا کر دیتے ہیں.پس ایسے لوگ مشکل آئے تب وہ خدا سے راضی اور خدا ان سے راضی.آرام آئے تب بھی وہ خدا سے راضی اور خدا ان سے راضی.جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس شعر سے ظاہر ہے جسے میں بار ہا پہلے بھی دوستوں کو سنا چکا ہوں بہت ہی پیارا شعر ہے.آپ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں : و فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو ( کلام محمود ) اب ہم تیرے وہ بندے بن چکے ہیں اور ہمیشہ کے لئے تجھ سے وابستہ ہو چکے ہیں.اب تو فضل لے کر آئے تب بھی ہم تجھ سے راضی ہیں اور کوئی ابتلا اور مشکل آئے تب بھی ہم راضی ہیں.یہ وہ جنت ہے جس کا ذکر عَرْضُهَا السَّموتُ وَالْأَرْضُ میں کیا گیا.کہ وہ آسمانوں اور زمین پر محیط ہے.ایسے بندے عرض خا کی پرر ہیں یا آسمانوں پر اڑنے لگیں یہ جنت اب ان کا کبھی ساتھ نہیں
خطبات طاہر جلد اول 128 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء چھوڑے گی.کوئی مشکل ان سے یہ جنت چھین نہیں سکے گی.کوئی آسانی ان سے یہ جنت چھین نہیں سکے گی.اس جنت کو پانے کے بعد پھر وہ ان لوگوں کو جنہوں نے ان کو دکھ دیے ہوتے ہیں یا جن کے ہاتھوں انہوں نے مصائب اٹھائے ہوتے ہیں ان کے متعلق بھی ان کی رائے بدل جاتی ہے.ان کے دل میں انتقام باقی نہیں رہتا اور کوئی نفرت کا جذبہ نہیں رہتا.فرماتا ہے وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ یہ اصحاب جنت ایک عظیم الشان انقلابی کیفیت پیدا کر جاتے ہیں اور وہ کیفیت یہ ہے وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ ان کو شدید غصہ آئے تو اس کو دبانے لگ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں اے خدا! ہمیں تو مل گیا ہے تو اب شکوہ کس بات کا اور غصہ کس سے.اگر غیر نے ہمیں مبتلائے مصیبت کیا اور اس کے نتیجہ میں ہمیں تو مل گیا اور تیرا فضل نصیب ہو گیا تو پھرکـــظــــمین والی کیفیت تو ہمارے مقدر میں آگئی ، اب تو ہمیں غصہ برداشت کرنا پڑے گا.وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ جنہوں نے ان کو دکھ دیے ہوتے ہیں ان سب کو معاف کر دیتے ہیں.غالب کہتا ہے.سفینہ جب کہ کنارہ پہ آلگا غالب خدا سے کیا ستم و جور نا خدا کہئے (دیوان غالب) یہ ایک ناقص اظہار ہے اسی مضمون کا لیکن وہ ایک کامل اظہار ہے قرآن کریم کی آیت میں جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ لوگ اپنے خدا کو پالیتے ہیں اور انہیں جنتیں نصیب ہو جاتی ہیں تو مصائب والم کی یادیں ان کے دلوں میں تفخی پیدا نہیں کرتیں.ان مشکل راہوں کی یادیں جن سے گزر کر یہ میری رضا کی جنت میں داخل ہوئے ہوتے ہیں ان کو بددعائیں دینے پر آمادہ نہیں کیا کرتیں.وہ دعائیں دیتے ہیں ان لوگوں کو بھی جنہوں نے ان کو دکھ پہنچائے تھے ان کے لئے بھی خیر کے سوا ان کے دل سے کچھ نہیں نکلتا.پس آج کا پیغام میرا یہی ہے کہ ہمارا وہ ملک جس کے دکھوں کے ستائے ہوئے آپ لوگ یہاں آئے تھے جب خدا کی رضا آپ کو حاصل ہو گئی ، جب اللہ نے اپنے پیار کی جنت آپکو عطا کردی تو اس کی بخشش کے لئے ، اس کی ترقی کے لئے اور اس کے استحکام کے لئے دعائیں کریں.اس کے سوا اپنے دل میں کچھ نہ رکھیں.کیونکہ خدا آپ سے یہ توقع رکھتا ہے.کہ جب تم نے خدا کی رضا پالی،
خطبات طاہر جلد اول 129 خطبه جمعه ۲۰ / اگست ۱۹۸۲ء تمہیں خدا کا پیار مل گیا تو پھر اس کے بعد کسی کا شکوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.تم ان لوگوں کو معاف کر دو، ان سے محبت کا سلوک کرو، ان کے لئے دعائیں کرو اور دعا کرو کہ یہ محروم بھی تمہارے ساتھ مل کر الہی جنتوں میں داخل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم دکھ دینے والوں کو معاف کر دو گے تو میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ کہ ایسے احسان کرنے والوں سے اللہ بہت ہی محبت کرتا ہے.تمہیں اللہ کی محبت کا مقام نصیب ہو جائے گا جو رضائے الہی کا بہت ہی پیارا اور آخری مقام ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں ر ہیں اور خدا کی محبت اور پیار کی نظریں ہم پر پڑتی رہیں.ہم جس حال میں اور جس ملک میں رہیں رضائے باری اور محبت الہی کی جنت ہمیں حاصل رہے اور یہ جنت ہم سے کوئی چھین نہ سکے.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 131 خطبه جمعه ۳ / ستمبر ۱۹۸۲ء یورپ کا اخلاقی انحطاط اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری خطبه جمعه فرموده ۳ ستمبر ۱۹۸۲ء بمقام آخن جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اب تک کے مختصر سے سفر میں یورپ کے جتنے ممالک میں بھی جانے کا موقع ملا ہے یہ احساس زیادہ شدت کے ساتھ پیدا ہوتا رہا ہے کہ یہ تو میں مجموعہ تضادات ہیں.ایک پہلو سے ان کو دنیا کی ترقیاں نصیب ہوئیں اور ابھی تک وہ ترقیاں ان کو حاصل ہیں اور ایک دوسرے پہلو سے یعنی روحانی اور اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ گرتے چلے گئے یہاں تک کہ اس آخری کنارے پر پہنچ گئے ہیں جس سے آگے سزا و جزا کا دور شروع ہوتا ہے، مزید آگے بڑھنے کی مہلتیں نہیں ملا کرتیں.اور یہ جو Point یعنی نقطہ ہے جہاں پہنچ کر تو میں سزا اور جزا کے عمل میں داخل ہو جاتی ہیں ، جسمانی اور مادی ترقی کا دور بھی وہاں تک پہنچا ہوا ہے اور یہ دونوں سمتوں کے نقطے آپس میں ملنے والے ہیں.مادی ترقی بھی جب اخلاقی ضوابط سے آزاد ہو جاتی ہے تو خود انسان کی تباہی کیلئے استعمال ہونے لگتی ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کو زیادہ تیز رفتار کار چلانے کی مشق نہ ہو، اس کی مہارت نہ ہو اور وہ اپنی طاقت سے بڑھ کر تیز کار چلانے لگ جائے.مادی ترقی کا تو کوئی آخری
خطبات طاہر جلد اول 132 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۸۲ء کنارہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی قدرتیں بے انتہا ہیں.انسان جتنی کوشش کر لے گا اتنا آگے بڑھتا چلا جائے گا لیکن اخلاقی ضوابط جو باگ ڈور کے طور پر کام دیتے ہیں جب وہ نہ رہیں تو مادی ترقی خود اپنی تباہی کیلئے استعمال ہو جاتی ہے.پس روحانی اور اخلاقی لحاظ سے دیکھیں تب بھی یہ نظر آتا ہے کہ وہ منزل آنے والی ہے جہاں پہنچ کر ایسی قوموں کو مزید آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور مادی ترقی کے لحاظ سے بھی دیکھیں تب بھی وہ مہلک ہتھیار اور ہلاکتوں کے خوفناک ذرائع جو مادی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں وہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہاں بھی آخری مقام آنے والا ہے.اور دراصل مہلک ہتھیاروں کی ایجاد ہی اس بات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے کہ ضرور ہلاکت سر پر کھڑی ہے کیونکہ مہلک ہتھیار دراصل تصویر ہوتے ہیں اخلاقی تنزل کی.دنیا میں جتنی بے اعتمادی زیادہ ہو اور یہ یقین بڑھتا جائے کہ کوئی قوم بھی قابل اعتبار نہیں رہی ، جس کو طاقت نصیب ہوگی وہ تمام اخلاقی ضوابط کو کچل کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گی، اس وقت ہتھیاروں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے اور یہی Cold War یعنی سرد جنگ کہلاتی ہے.لیکن دنیا میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ سردجنگیں ٹھنڈی رہی ہوں.لازماً ایک وقت آتا ہے جب وہ گرم جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.پس ان دونوں لحاظ سے وہ نقطے قریب آ پہنچے ہیں.اس پس منظر میں جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے ابھی تک ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میں پوری طرح آغاز سفر بھی نہیں کر سکے.ساری دنیا کو جھنجھوڑنا، اس کو جگانا اور خدائے حی و قیوم کی طرف متوجہ کرنا یہ ہمارا کام تھا اور ہمارے کام سے مراد مبلغین کا کام نہیں ہے.دنیا میں قومیں کبھی بھی مبلغین کے ذریعہ ترقی نہیں کیا کرتیں.مبلغین تو صرف مذکر یعنی یاد دہانی کرانے والے ہوتے ہیں.تبلیغ کا بوجھ ساری جماعت اٹھایا کرتی ہے.ساری دنیا میں اسلام کی جو تبلیغ ہوئی ہے وہاں کون سے مبلغ تھے جنہوں نے فتح کیا ہے.مبلغین تو یاد دہانی کا کام کیا کرتے تھے تبلیغ کا حقیقی کام عوام الناس نے کیا ہے.چین کو کن مبلغین نے مسلمان بنایا تھا.انڈونیشیا کو کن مبلغین نے مسلمان بنایا تھا.ہندوستان میں کن مبلغین نے اسلام پھیلایا تھا.انفرادی طور پر کچھ تاجر تھے اور کچھ درویش صفت لوگ تھے جو خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے.وہ جہاں جہاں گئے اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام بھی کرتے
خطبات طاہر جلد اول 133 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۸۲ء رہے اس طرح اسلام مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا.یہ وہ اہم پہلو ہے جس کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ،معلوم ہوتا ہے ابھی ہم نے آغاز سفر بھی نہیں کیا.یورپ کی اکثر جماعتیں جن کو میں دیکھ کر آیا ہوں ان میں احساس نہیں ہے.بے چینی نہیں ہے.وہ اس معاشرہ سے اس حد تک راضی ہو گئے ہیں کہ ان کو کامل گئے اور ان کی ضروریات پوری ہو گئیں اور اس حد تک ناراض ہی ہیں جس حد تک ان کے کام پورے نہیں ہوئے یا ان کی راہ میں مشکلات حائل ہیں.لیکن یہ بے قراری ، یہ بے چینی اور تڑپ میں نے نہیں دیکھی کہ ہر شخص بے چین ہو جائے کہ میرا معاشرہ تباہ ہورہا ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیر بدلنے کیلئے نمائندہ مقرر فرمایا ہے.بظاہر یہ ویسی ہی بات ہے جیسے ٹیٹری کے متعلق کہتے ہیں وہ ٹانگیں اونچی کر کے سوتی ہے.کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے.اس نے کہا مجھے خطرہ یہ ہے کہ آسمان نہ گر پڑے اور دنیا تباہ نہ ہو جائے اس لئے میں ٹانگوں پر روک لوں گی.ہماری مثال بظاہر ٹیٹری کی سی ہو گی لیکن ہر وہ چھوٹا سا دل جس میں یہ فکر پیدا ہو کہ آسمان نہ ٹوٹ پڑے اور میں اس سے بچانے کی کوشش کروں اس کو یہ بھی تو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا خدا اس کے پیچھے ہو گا.بظاہر ٹیٹری ہے لیکن اس کے پیچھے ساری کائنات کے خالق کی قوت موجود ہوگی.اس دل کو طاقت بخشنی ہے تو خدا نے بخشنی ہے، اس کے عمل کو سہارا دینا ہے تو اس نے دینا ہے، اس کے ولولوں اور عزائم کو حقائق میں تبدیل کرنا ہے تو اس نے کرنا ہے.اس لئے دعائیں کرتے ہوئے اپنے دل کی کیفیت بدلنے کی کوشش کریں.جب تک ہراحمدی کی جو یہاں بس رہا ہے.اس کے دل کی کیفیت نہیں بدلے گی اور احساس نہیں پیدا ہوگا وہ تبلیغ نہیں شروع کرے گا.اس وقت تک ان قوموں کی کیفیت بدلنے کے خواب ، خواب رہیں گے.آپ ہزار مسجد میں بھی یہاں بنا لیں تب بھی ان کی تقدیر نہیں بدلے گی جب تک ہر احمدی اسلام کی تبلیغ نہ کرے اور آگے مبلغ احمدی نہ پیدا کرے.صرف یہی ایک قانون ہے جس سے قوموں کی تقدیریں بدلا کرتی ہیں اور کوئی قانون نہیں ہے.ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی.آپ کو اگر تبلیغ کرنی نہیں آتی تو کوئی بات نہیں.آپ پیغام تو دے سکتے ہیں.آپ کے پیغام کے پیچھے فکر اور جذبہ تو پیدا ہوسکتا ہے.اس کے ساتھ ساتھ آپ دعا ئیں تو کر سکتے ہیں.پس پیغام دیں.دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو خود تبلیغ کی راہیں سکھائے گا خود مسائل سمجھائے گا.آپ کی مشکلات کو سلجھائے گا
خطبات طاہر جلد اول 134 خطبه جمعه ۳ ستمبر ۱۹۸۲ء سب طاقت خدا کی ہے.ہماری کچھ بھی نہیں ہے.اس احساس کے ساتھ مگر اس یقین کے ساتھ کہ ہمیں پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہے، ہم نہیں کریں گے تو خدا کی طاقت اور فضل شامل حال نہیں ہو گا آپ کو اسلام کی تبلیغ کا فریضہ بطریق احسن ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.یہیں مرکز بن جائے اس حقیقت کا کہ ہر احمدی مبلغ ہے تب بھی جرمنی کے لئے کچھ مقدر پھرنے کے دن آ سکتے ہیں لیکن اگر یہاں بھی نہ بنے اور ہیمبرگ میں بھی نہ بنے اور فرینکفرٹ میں بھی نہ بنے اور سوئٹزر لینڈ میں بھی کہیں نہ بنے تو پھر یہ مسجدیں صرف وارننگ کا کام تو دے دیں گی کہ ہم نے اعلان کر دیا مگر اس اصل ذمہ داری اور فرائض کو ادا کرنے کا کام انجام نہیں دے سکتی جو ہم پر عائد کیا گیا ہے.دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه۹ /اکتوبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 135 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر تاریخی خطبہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد بشارت سپین ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : " کیمرے والے اگر اپنا جمعہ خراب کرنا چاہتے ہیں تو باہر چلے جائیں.باقی دوستوں کا بھی جمعہ خراب نہ کریں.یہ چیز فائدے کی بجائے بدعت اور بد رسم کا موجب بن گئی ہے.اس کو بند کریں آپ.دوست بیٹھ جائیں.جنہوں نے جمعہ پڑھنا ہے وہ آرام سے بیٹھ کر جمعہ پڑھیں.“ پھر فرمایا: آج کا دن تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے اور خصوصاً ان کے لئے جو آج اس مبارک تقریب میں شامل ہیں.بے انتہا خوشیوں کا دن ہے.اور دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن یہ خوشیاں عام دنیا کی خوشیوں سے کس قدر مختلف ہیں ! ان خوشیوں کا اظہار بھی ایک بالکل انوکھا اور اجنبی اظہار ہے.یہ خوشیاں ایک مقدس غم بن کر ہمارے دل و دماغ پر چھا گئی ہیں.یہ خوشیاں حمد کے آنسو بن کر ہماری آنکھوں سے بہتی ہیں.دنیا کی خوشیوں سے ان خوشیوں کو کوئی تعلق نہیں.دنیا کی خوشیوں کو ان خوشیوں سے کوئی نسبت نہیں.سب سے پہلے اس موقع پر مجھے ایک یاد ستا رہی ہے.اس وجود (حضرت خلیفہ المسیح
خطبات طاہر جلد اول 136 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء - الثالث نور اللہ مرقدہ) کی یاد جو آج ہم میں نہیں.جو سب سے زیادہ اس بات کا حقدار تھا کہ آج یہ جمعہ پڑھا تا اور آج اس تقریب کا آغاز کرتا.اس کی وہ بیقرار دعا ئیں جن کی قبولیت کا پھل ہم آج کھانے لگے ہیں، وہی دعائیں ہیں جنہوں نے سپین کی تقدیر کی کایا پلٹی ، جنہوں نے اہل سپین کو بھی آزادی نصیب کی.اور اسی آزادی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مسجد کی تعمیر کی توفیق بخشی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا یہ بھی ایک خوشی کا وقت ہے.آپ کی یاد بھی ایک خوشی کی یاد ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنے رب کے حضور التجا کرتے ہیں کہ آج آپ کی روح سب سے زیادہ ایسے نظاروں سے لذت یاب ہو رہی ہوگی.مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدس فریضہ ہے.لیکن جو مسجد میں ہم بنا رہے ہیں یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جیسا کہ عام طور پر دنیا میں ہوتا ہے.ان مسجدوں کے پس منظر میں لمبی قربانیوں کی تاریخ ہے.یہ کچھ امیر لوگوں کی وقتی کوشش یا جذباتی قربانی کا نتیجہ نہیں ، کچھ ایسے لوگوں کی جن کو خدا نے زیادہ دولت بخشی ہو اور وہ نہ جانتے ہوں کہ کہاں خرچ کرنی ہے.بلکہ خصوصاً اس مسجد کے پیچھے تو ایک بہت ہی لمبی ، گہری ،مسلسل قربانیوں کی تاریخ ہے.اور اس موقع پر اگر ہم ان کو یاد نہ کریں اور ان لوگوں کو اپنی دعاؤں میں شامل نہ کریں جو اس مسجد کے پس منظر میں خاموشی سے کھڑے انکسار کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعا گو نظر آ رہے ہیں تو یہ ناشکری ہوگی.میری مراد برادرم مکرم کرم الہی صاحب ظفر اور ان کے خاندان کی قربانی سے ہے.ایک لمبا عرصہ اس خاندان نے سپین میں دن رات احمدیت کی خدمت کے لئے سر توڑ کوشش کی.ایسے وقتوں میں جب کہ یہاں کی حکومت اتنی سنگدل اور سخت تھی کہ دوسرے عیسائی فرقوں کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ یہاں تبلیغ کرتے.اس زمانے میں جب کہ کوئی ذریعہ نہیں تھا جماعت کے پاس ان کی مدد کا، مالی حالات کی تنگی بھی تھی اور قوانین کی روک بھی رستے میں حائل تھی اور ممکن نہیں تھا کہ ان کو سلسلہ کسی قسم کی مدد دے سکتا، انہوں نے ایک خاص جذبہ قربانی میں اپنے آپ کو پیش کیا اور حضرت مصلح موعود نے اس قربانی کو قبول فرمایا.آپ نے قبول فرمایا اور اللہ کی محبت کی نظر نے بھی قبول فرمایا.اور آج اس قربانی ہی کا ایک پھل ہے کہ ہم اس کی شیرینی سے لذت یاب ہو رہے ہیں.بہت عرصہ پہلے مجھے پین میں آنے کا موقع ملا اور میں نے اپنی آنکھوں سے وہ نظارہ دیکھا
خطبات طاہر جلد اول 137 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء جو ہمیشہ کے لئے میرے دل پر نقش ہو گیا.ایک معمولی چھوٹی سی ریڑھی تھی جس پر خود عطر بنا کر ، وہ عطر بیچ کر اپنا گزارہ بھی کرتے تھے اور تبلیغ کا کام بھی کرتے تھے.۱۹۵۷ء کی یہ بات ہے مجھے اور برادرم عزیزم میرمحموداحمد صاحب کو یہاں آنے کا موقع ملا.وہ ایسی ریڑھی تھی جس کو بعض دفعہ رکھنے کی جگہ بھی میسر نہیں آتی تھی.دشمنوں کو پتہ چلتا تھا تو اس کو توڑ جاتے تھے.بعض رحمدل دکاندار بعض دفعہ ان کو جگہ دیدیتے تھے.پھر کچھ دیر کے بعد وہ جگہ چھوڑ کر کوئی اور جگہ تلاش کرنی پڑتی تھی.طریق تبلیغ یہ تھا کہ وہی عطر بیچ کر اپنے گزارہ بھی کرتے تھے اور اس سے بچی ہوئی رقم ، اپنی طرف سے ، وہ لٹریچر کیلئے پیش کیا کرتے تھے.ایسے وقت بھی آئے جب کہ ان کے گھر پر بھی حملے ہوئے.وہ جو بورڈ لگا ہوا تھا اس کے اوپر پتھروں کے نشان ہم نے خود دیکھے.چھپ چھپ کر اصحاب کہف کی طرح وہ ابتدائی احمدی ، جنہوں نے ان مخالفانہ حالات میں احمدیت کو اور اسلام کو قبول کیا، وہ اکٹھے ہوا کرتے تھے.دشمن مخبری کرتے تھے لوگ حملہ کر کے آتے تھے اور وہ بڑی مصیبت اور بڑی مشکل سے اپنی عزتیں اور جانیں بچاتے تھے.عطر کے ساتھ انہوں نے ایک چھوٹا سا سپرے پمپ رکھا ہوا تھا.جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! اس طرح تبلیغ کرتا ہوں.پمپ سے سپرے کرتے تھے اور کچھ لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے شوق اور تعجب میں.مشرقی قسم کی خوشبو سے ویسے بھی ایک خاص دلچپسی پیدا ہو جاتی تھی.اور سپرے کرتے ہوئے اس وقت جو ہم نے نظارہ دیکھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ دیکھو! یہ کتنی اچھی خوشبو ہے.لیکن یہ خوشبو تو زیادہ دیر تمہارے ساتھ نہیں رہے گی.یہ تو کپڑوں میں رچ بس کے بھی آخر دھل کر ضائع ہو جائے گی.ایک دو دن ، چار دن کی بات ہے.میرے پاس ایک اور عطر بھی ہے.ایک ایسا عطر جس کی خوشبو لا فانی ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوگی.اس دنیا میں بھی تمہارا ساتھ دے گی اور اُس دنیا میں بھی تمہارا ساتھ دے گی.اگر چاہتے ہو کہ اس خوشبو سے متعلق مجھ سے کچھ معلومات حاصل کرو تو یہ میرا کارڈ ہے.جب چاہو آؤ.مجھے ملو اور میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ خوشبو کیا ہے اور کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ بہت سے لوگ وہ کارڈ لیتے تھے.کچھ عطر خرید کر الگ ہو جاتے تھے.اس طرح تبلیغ کے رستے نکلتے تھے.پس یہ ساری وہ قربانیاں ہیں جو اس موقع پر از خود مجھے یاد آ رہی ہیں اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت کو بھی ان سے آگاہ کروں اور اس طرف توجہ دلاؤں کہ اپنی دعاؤں میں ان کو نہ بھولیں.
خطبات طاہر جلد اول 138 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء ایک دو ماہ پہلے کی بات ہے ایک شخص نے بڑا ہی متکبرانہ خط مجھے لکھا اور اس میں ان کے یعنی برادرم کرم الہی صاحب ظفر کے متعلق ایسے لفظ استعمال کئے جس سے میرا دل پھٹ گیا.اس کو اپنے علم کا زعم تھا.اس کو خیال تھا کہ ان کا علم کچھ نہیں.اس کو اپنی شکل وصورت کا زعم تھا اور خیال تھا کہ اس کے مقابل پر ان کی شکل وصورت کچھ نہیں.لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے لیکن اللہ کے پیارا اور محبت کی نظریں ان پر پڑتی ہیں.میرا دل غم سے پھٹ گیا اور استغفار کی طرف اس کے لئے مائل ہوا اور ساتھ ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جبکہ مدینہ کے بازار میں حضرت محمد مصطفی علی ایک غلام کو بیچ رہے تھے.وہ ایسا غلام تھا جس کے کپڑوں میں سے بدبو آتی تھی.دن بھر کی محنت اور مشقت سے پسینے سے شرابور اور آلودہ لباس میں وہ ملبوس تھا.انسان اس کی بدصورتی کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے کوئی اس کو اپنی لڑکی دینے کیلئے تیار نہیں تھا.آنحضرت ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا.آپ نے اپنی الہی بصیرت سے اس کے دل کی کیفیت کو بھانپ لیا اور پیچھے سے جا کر پیار سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے.جس طرح بعض دفعہ مائیں بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ بتاؤ میں کون ہوں؟ وہ جانتا تھا اور یقیناً جانتا تھا کہ محمد مصطفی علی اللہ کے سوا کوئی ایسا حسین اخلاق کا مالک نہیں جو مجھ سے ایسے پیار کا اظہار کرے.لیکن اس کی زندگی میں ایک ایسا عجیب موقع تھا کہ وہ اس کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا تھا.جان بوجھ کر، پہچاننے کے باوجود اپنے جسم کو حضور ا کرم کے جسم سے رگڑنا شروع کیا.اپنے ہاتھوں کو آپ کے جسم کے زیر و بم پر پھیرنا شروع کیا اور بہت ہی پیار کا اظہار ، جس طرح بعض دفعہ بلی ، آپ نے دیکھا ہے ، لحاف میں گھس کر پیار کرتی ہے اور اپنے بدن کو رگڑتی ہے انسان کے ساتھ ، اس طرح اس نے اظہار محبت شروع کر دیا.پھر جب حضور نے پوچھا بتاؤ میں کون ہوں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کے سوا ہو کون سکتا ہے.آپ ہی تو ہیں.تب آنحضور ﷺ نے فرمایا میں ایک غلام بیچتا ہوں.ہے کوئی لینے والا ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے کون خریدے گا.لوگوں کی نفرت کی نگاہیں مجھ پر پڑتی ہیں اور شدت نفرت سے لوٹ جاتی ہیں واپس دیکھنے والے کی طرف.مجھ پر ٹھہر نہیں سکتیں.مجھے کون خریدے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، تمہارا ایک گا ہک ہے.میرا آسمانی آقا.میرا خدا تمہارا گا ہک ہے.(الاستیعاب جز 2 صفحہ 509 باب زاهر بن حرام) پس بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، دنیا کی نگاہیں صلى الله
خطبات طاہر جلد اول 139 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء حقارت سے ان کو دیکھتی ہیں تَزْدَرِی اَعْيُنُكُمْ (هود: ۳۲) جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے.لیکن جنہوں نے اپنا سب کچھ خدا کیلئے پیش کر دیا ہو اللہ کے پیار کی نگاہیں ان پر پڑا کرتی ہیں.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ کے پیار کی نگاہیں ان سب قربانی کرنے والوں کے دل پر پڑیں ، ان کے چہروں پر پڑیں، ان کے جسم کو اس سے مس کریں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں سپین میں تبلیغ کی راہ میں قربانیاں پیش کی تھیں.ان کی اولا د بھی ساری اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے، خدا کے فضل سے.انتہائی انکسار کے ساتھ خدا کی راہ میں مٹی ہو کر انہوں نے خدمت کی.بیٹے کیا اور بیٹیاں کیا ، ماں کیا اور باپ کیا.سارا خاندان لگا ہوا ہے.کسی نے ایک لفظ نہیں کہا کہ ہماری اتنی خدمتیں ہیں.ہمیں کیوں نمایاں مقام نہیں دیا گیا.ہم سے کیوں یہ سلوک نہیں کیا گیا.یہ وہ جذبہ ہے.یہ وہ روح ہے جو واقفین میں ہونی چاہئے اور ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس روح کو ہر واقف کے دل میں زندہ کر دے اور جگہ جگہ بستی بستی ہمیں اس قسم کی روح کے واقفین میسر ہوں.کیونکہ کام بہت ہے اور آدمی تھوڑے ہیں.طاقت بہت کم ہے.مقابل پر دشمنوں کی تعداد کیا اور ان کی مالی قوتیں کیا اور ان کی سیاسی قو تیں کیا.بے انتہا ایسی نا قابل عبور چوٹیاں نظر آتی ہیں پہاڑوں کی ، جن کا سر کرنا انسان کے بس میں نظر نہیں آتا.پھر اسی سلسلے میں دعا کی تحریک کرتا ہوں اپنے بھائی عزیزم میرمحمود احمد صاحب اور ان کی بیگم کے لئے بھی ، اپنی ہمشیرہ عزیزہ امتہ المتین کے لئے.انہوں نے دن رات بے حد محنت کی.جب یہ آئے.تو اس گھر کا صرف ایک ڈھانچہ سا کھڑا تھا اور بیحد محنت کی ضرورت تھی.بہت سے کاموں کی ضرورت تھی.میری ہمشیرہ نے مجھے بتایا کہ جس دن، رات تین بجے مجھے سونے کا موقع ملتا تھا تو میں شکر کرتی تھی اللہ تعالیٰ کا اور سمجھتی تھی کہ جلدی سونا نصیب ہو گیا ہے.خاموشی کے ساتھ لمبی منتیں کی ہیں ان لوگوں نے.پھر انگلستان کی جماعت ہے.شیخ مبارک احمد صاحب اور ان کے ساتھی وہاں سے آتے رہے.بے حد کوشش ہوئی ہے اس کے پیچھے.اور دنیا کو تو صرف ایک عمارت نظر آتی ہے کھڑی ہوئی.اور سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی مسجد ہے جیسی سینکڑوں، ہزاروں دنیا میں بن رہی ہیں.مگر یہ ایسی مسجد نہیں.آج کی دنیا میں ایسے آنسو بھلا کس مسجد کو نصیب ہوئے ہیں.جیسے اس کو نصیب ہوئے ہیں؟ ایسی قربانیاں کس
خطبات طاہر جلد اول 140 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء کے پس منظر میں جلوہ گر ہیں جیسی اس مسجد کے پس منظر میں جلوہ گر ہیں؟ ہرگز دنیا کی مساجد کو اس مسجد سے کوئی نسبت نہیں.ان دعاؤں کے ساتھ میرا ذہن اہل مغرب کی طرف بھی منتقل ہوتا ہے جو دعاؤں کے بہت محتاج ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایک مسجد سے کچھ نہیں بنے گا.بستی بستی مسجد بنانے کی ضرورت ہے.قریہ قریہ اذانیں دینے کی ضرورت ہے ، خدا کا نام بلند کرنے کی ضرورت ہے.اتنا شرک پھیلا ہوا ہے، اتنی تباہی مچائی ہوئی ہے کفر نے کہ انسان محو حیرت رہ جاتا ہے کہ آجکل کا باشعور انسان اتنا بھی گراوٹ میں ملوث ہوسکتا ہے.آنحضرت ﷺ نے جو اپنی پیشگوئی میں اس قوم کو ایسے دجال کے طور پر بیان فرمایا جس کی دائیں آنکھ اندھی اور بائیں آنکھ روشن ہے.اس سے بہتر فصاحت اور بلاغت کا ایک جملہ تصور میں نہیں آ سکتا جس نے ان قوموں کی ساری تصویر بھینچ کے رکھ دی ہے.ایک طرف دنیا کی آنکھ ہے، اتنی تیز نظر ہے کہ پاتال کی خبر لاتی ہے اور دوسری طرف دین کی آنکھ ہے جو اتنی اندھی ہے کہ جگہ جگہ شرک کا گہوارہ بنا ہوا ہے.خدا کی عبادت ہی ایک عبادت ہے جس سے یہ غافل ہیں.باقی ہر دوسری چیز کی عبادت ہو رہی ہے.لہو و لعب کی عبادت ہو رہی ہے.بتوں کی عبادت ہورہی ہے.فسق و فجور کی عبادت ہو رہی ہے.جھوٹ کی عبادت ہو رہی ہے.دجل کی عبادت ہورہی ہے.صرف ایک خدا ہے جس کی عبادت نہیں ہو رہی.ان سب کی تقدیر بدلنی ہے.ایک مسجد تو کافی نہیں اور پھر ایک ایسی مسجد سے کس طرح تقدیر بدلی جائے گی جس کے لئے نمازی پیدا نہ ہوں.بے انتہا کام کی ضرورت ہے.بے انتہا قربانیوں کی ضرورت ہے.بے حد واقفین کی ضرورت ہے.بے حد مالی قوت کی ضرورت ہے.اور ہم جب اپنے او پر نظر کرتے ہیں تو بہت ہی کمزور اور حقیر اور بے بس اپنے آپ کو پاتے ہیں.یورپ کے دورے میں ان خیالات میں مگن ہوتے ہوئے میں سوچتارہا اور میری فکر بڑھتی گئی.ان معنوں میں نہیں کہ مجھے مایوسی کی طرف لے جائے.بلکہ ان معنوں میں کہ دعا کی طرف اور زیادہ اور بھی زیادہ مائل کرتی رہی.کیونکہ میں جانتا تھا کہ ساری مشکلات ایک طرف لیکن ہمارے رب کی ایک نظر ایک طرف، وہ ان سب مشکلات کو خس و خاشاک کی طرح اڑ سکتی ہے.وہ اس طرح غائب کر سکتی ہے جیسے روشنی کے ساتھ اندھیرے غائب ہو جاتے ہیں.اور اس میں کسی کوشش کا دخل
خطبات طاہر جلد اول 141 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء نظر نہیں آتا.اس لئے دعاؤں کی طرف توجہ بڑھتی رہی.لیکن ساتھ ہی میں نے بڑے غم اور دکھ کے ساتھ یہ بھی محسوس کیا کہ جماعت کے ایک طبقہ میں ابھی پوری طرح قربانی کا وہ احساس نہیں جوان مشکلات کے مقابل پر ہونا چاہئے.بہت سی جگہ بہت کوشش اور محنت کے ساتھ فہرستیں تیار کروائی گئیں چندہ دہندگان کی تجنید کروائی.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے اس سلسلے میں میری بڑی مدد کی اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بعض جگہ پچاس فیصدی سے زائد ایسے احمدی ہیں جو ایک آنہ بھی چندہ نہیں دے رہے.دنیا کے لحاظ سے ان کی کایا پلٹ چکی ہے.وہ اور ماحول میں بسا کرتے تھے کسی وقت ، اب اور ماحول میں پہنچ چکے ہیں.کوئی نسبت ہی نہیں خدا تعالیٰ کے ظاہری فضلوں کے ساتھ اس زندگی کو جو وہ پہلے بسر کرتے تھے.مگر کلیتہ ان فضلوں کو بھلا کر وہ خدا تعالیٰ کے دین کی ضرورتوں سے غافل ہو کر محض اپنی ضرورتوں میں مگن ہیں اور ان کے پورا کرنے کی فکر میں سرگرداں ہیں.یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور بہت دکھ ہوا.پھر ان لوگوں کی فہرستوں کا مطالعہ کیا جو چندہ دیتے ہیں.ایک حصہ ان میں ایسا پایا جن کو خدا نے بہت کچھ دیا لیکن مقابل پر بہت تھوڑا پیش کرتے ہیں.وہ پیش نہیں کرتے جس سے ان کو محبت ہے.وہ پیش کرتے ہیں جو وہ زائد از ضرورت سمجھ کر پھینک سکتے ہیں.ان کو میں نے بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم تو فرماتا ہے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : ۹۳) کہ ہر گز تم نیکی کو نہیں پاسکو گے جب تک وہ کچھ خرچ نہیں کرو گے جس سے تمہیں محبت ہو.تم تو خدا کی راہ میں وہ دے رہے ہو جس سے تمہیں محبت نہیں.وہ زائد چیز ہے جو تم پھینک بھی سکتے ہو.تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے.تمہارے روز مرہ کے دستور پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.اس لئے اس کو کیوں ضائع کرتے ہو.تقویٰ سے کام لو.اگر قربانی کی توفیق نہیں تو چھوڑ دو اس راہ کو لیکن خدا تعالیٰ سے سچائی کا معاملہ کرو.تب وہ تم سے سچائی کا معاملہ کرے گا.رجوع برحمت ہوگا.پھر رازق سے ڈرنا.رازق کو دیتے ہوئے ڈرنا، اس سے بڑی بیوقوفی کوئی نہیں.اسی طرح سفر کے دوران ایک موقع پر بعض دوستوں کے حالات کے متعلق دیکھ کر بہت ہی دکھ پہنچا.بہت ہی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمائے لیکن مقابل پر کسی قسم کی کوئی قربانی نہیں.اس پر مجھے وہ
خطبات طاہر جلد اول 142 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء واقعہ یاد آ گیا.ہمارے ایک سی.ایس.پی کے افسر ہوا کرتے تھے.انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ مصر گئے تو قاہرہ میں ایک جنازہ جارہاتھا اور جنازے کے ساتھ صرف چار آدمی تھے جنہوں نے اس جنازے کو اٹھایا ہوا تھا اور دیکھنے میں وہ بوجھل جنازہ معلوم ہوتا تھا.چنانچہ ان کے دل میں بہت ہمدردی پیدا ہوئی ان کیلئے.اور ایک شخص کو ، جا کر انہوں نے ہٹا کر کندھا دینے کی کوشش کی.انہوں نے زور مارا.وہ آگے سے دھکے دینے لگا ان کو.یہ بڑے متعجب کہ میں تو اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ سنتا ہی نہیں.آخر ہمدردی کا جذبہ اتنا غالب آیا کہ انہوں نے دھکا دے کر اس کو الگ کیا اور خود اس کی جگہ جنازے کو کندھا دے دیا.کہتے ہیں میں کر تو بیٹھا لیکن پھر کوئی نہیں آیا مجھے ہٹانے کیلئے.عادت نہیں تھی بوجھ اٹھانے کی.بالکل پس گیا.اور قبرستان کوئی چار میل شہر سے باہر.کہتے ہیں اس مصیبت میں مبتلا.اس جنازے کو چھوڑا بھی نہ جائے.زندگی اجیرن ہو گئی.آخر جا کر جب جنازہ قبرستان میں رکھا تو ایک مزدور جو ان میں سے لیڈر تھا ( وہ تھے مزدور ) اس نے پیسے بانٹنے شروع کئے تو ان کا حصہ ان کو دیا.تب ان کو پتہ لگا کہ یہ تو مزدور تھے ، یہ کوئی طوعی خدمت والے نہیں تھے.انہوں نے کہا میں تو شوقیہ خدمت کے طور پر آیا تھا.مجھے کیا پتہ تھا تم مزدور ہو.تب سمجھ آئی کہ وہ دھکے کیوں دے رہا تھا بے چارہ ، جس کی مزدوری انہوں نے چھین لی.تو مجھے خیال آیا کہ ایک جنازے کے بوجھ میں ایک ایسا شخص جو کوئی خاص دیندار بھی نہ ہو، اس کو اتنی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتا یہ نظارہ کہ صرف چار آدمی اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں.کیسے تعجب کی بات ہے کہ احمدی کہلا کر ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کر کے، یہ وعدے کر کے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.یہ عہد و پیمان باندھ کر کہ ہم دوبارہ اسلام کی کشتی کو پار لگانے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے، اپنے جسموں کو بھی غرق کرنا پڑا اس راہ میں تو غرق کر دیں گے تاکہ اسلام کی کشتی کا میابی اور کامرانی کے ساتھ پار ہو سکے، اس کے باوجود دیکھتے ہیں کہ جماعت کے چند آدمی اس بوجھ کو اٹھا رہے ہیں جو کھوکھہا کیا کروڑوں کا کام ہے کہ وہ اٹھا ئیں اور صرف چند آدمی ہیں جو اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا.کوئی تکلیف نہیں ہوتی.کوئی انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا.کوئی احساس ندامت دل میں پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی تو اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.ہم نے بھی تو وہی وعدے کئے
خطبات طاہر جلداول 143 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء تھے.ہم پر بھی تو احسان ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کہ دوبارہ اسلام کی حقیقی لذتوں سے آشنا کیا.اور بڑے آرام سے کھڑے اس طرح نظارے کر رہے ہیں جیسے ڈوبتی کشتی کا کوئی ساحل سے نظارہ کر رہا ہو اور کوئی اس کے دل میں حس پیدا نہ ہو.ایسے بھی نظارے میں نے دیکھے.پھر ایسے نظارے بھی دیکھے اخلاص کے اور محبت کے ، کہ جب کوئی تحریک کرتے تھے تو وہ جن پر سب سے زیادہ بوجھ تھا وہ سب سے آگے بڑھ کر اپنے جان و مال پیش کرتے تھے اور بیقرار تھے کہ کسی طرح ہماری قربانیوں کو قبول کیا جائے.وہی ہیں احمدیت کی اصل روح.وہی ہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.وہی ہیں جن کی تمنا ئیں خدا کے حضور بپایہ قبولیت جگہ پاتی ہیں.انہی کے پر تے پر آج احمدیت کی کشتی جاری ہے.انہی کے سر پر یہ قافلہ سفراختیار کر رہا ہے اور وہ بہت تھوڑے ہیں.ایسے دوست مجھ سے پوچھتے تھے کہ بتاؤ ہم کیا پیش کریں ، کس طرح پیش کریں ، اور کیا چاہئے سلسلے کے لئے.میں ان سے کہتا تھا ابھی نہیں.بعض دفعہ مجلس شوریٰ میں گفتگو ہوئی تو بیقرار ہو کر لوگوں نے پوچھا کہ بتائیں.ہم حاضر ہیں جو چاہتے ہیں دیں گے.اس کے علاوہ انہوں نے بھی پیش کیا جن سے پوچھا بھی نہیں گیا تھا.ابھی امریکہ سے ہمارے ایک بھائی نے خط پیش کیا.انہوں نے کہا جو کچھ میرا ہے سلسلے کا ہے.ایک دمڑی بھی میری نہ سمجھیں آپ.مجھے فاقے بھی کرنے پڑے تو میں گزارا کروں گا اور میں بڑی دیانتداری سے پیش کر رہا ہوں.کوئی دوری نہیں ، کوئی دوئی نہیں ، حساب سارا لکھ کر دیا کہ یہ میرا لین دین ہے یہ میری جائیداد ہے، اس کی یہ Value (ویلیو) ہے.آئندہ یہ امکانات ہیں.جس وقت ، جس لمحے مجھے کہا جائے گا سب کچھ چھوڑ دو، میں سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوں.تو حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کی بڑی ضرورت ہے.حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مبلغین کی ضرورت ہے.مگر میں ابھی کوئی تحریک نہیں کروں گا.میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اپنے کمزور بھائیوں کو ساتھ ملنے کا موقع نہ دیا جائے ہم ابھی آگے نہیں بڑھیں گے.ظلم ہوگا ان پر جو محروم رہ جائیں اور قافلہ کہیں کا کہیں نکل جائے ان کو چھوڑ کر.اس لئے کچھ وقت ہمیں ان کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے دینا چاہئے.ان کو سمجھانا چاہئے پیار اور محبت سے.ان کو بتانا چاہئے کہ کون سی نیکیاں ہیں ، کون سی سعادتیں ہیں جن سے تم محروم چلے آ رہے ہو.جب تک یہ موقع مہیا نہ کیا جائے ، اگر ہم چھوڑ
خطبات طاہر جلد اول 144 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء کر آگے بڑھ جائیں گے تو خدا کا کام ہے، وہ ضرور پورا ہوگا.یہ قافلہ تیز قدموں کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا.لیکن یہ اور ان کی اولادیں پھر دنیا میں جذب ہو جائیں گی.ان کا کوئی سہارا نہیں رہے گا باقی.اس لئے انسانی ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو ساتھ شامل کیا جائے.اس لئے وہ سارے جو آج اس خطبے میں شامل ہیں وہ اپنے اپنے ماحول میں جا کر اس بات کے مبلغ بنیں کہ پہلے جو کمزور ہیں ، جو خدا کی راہ میں خرچ سے ڈر رہے ہیں، ان کو بتایا جائے کہ تم محروم ہورہے ہو.نیکیوں سے بھی محروم ہورہے ہو اور خدا کے فضلوں سے بھی محروم ہور ہے ہو.اس دنیا سے بھی محروم ہور ہے ہو جس کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو.تمہارے روپوں میں برکت نہیں رہے گی.تم اپنی اولادوں کی خوشیوں کو نہیں دیکھ سکو گے.ان سے محروم کئے جاؤ گے.تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری لذتیں نکل جائیں گی تمہارے دلوں سے اور ان کی جگہ غم اور فکر لے لیں گے.یہ تقدیر ہے ان احمدیوں کیلئے جو احمدیت کو چھوڑ کر دور جارہے ہیں.یہی ہم نے دیکھا ہے ہمیشہ.اور جو خدا کی راہ میں قربانی کرتے ہیں اللہ ان کی قربانی رکھا نہیں کرتا.کون سا قربانی کرنے والا آپ نے دیکھا ہے جس کی اولا دفاقے کر رہی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان دیکھیں خدا نے فضل کئے ہیں.مگر اس وقت تک یہ فضل ہیں جب تک کوئی سمجھے کہ کس کی بناء پر ہیں.اگر کسی دماغ میں یہ کیڑا پڑ جائے کہ میری کوشش ہے، میری چالا کی ہے، میرے ہاتھ کا کرتب ہے تو بڑا بیوقوف ہوگا.یہ ان چند روٹیوں کے طفیل مل رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کی راہ میں قربان کی تھیں.ابھی نبوت بھی عطا نہیں ہوئی تھی کہ جو کچھ تھا خدا کو پیش کر بیٹھے.یہ اسی کا صدقہ ہے جو کھایا جا رہا ہے.صرف وہی نہیں سینکڑوں احمدی خاندان ہیں جو اسی قسم کا قربانیوں کا پھل کھا رہے ہیں.ان کے والدین یا ان کے ماں باپ نے بڑے بڑے مشکل حالات میں گزارے کئے.جو کچھ میسر تھا جو کچھ وہ بچا سکے خدا کے حضور پیش کر دیا اور آج اولادیں ہیں کہ پہچانی نہیں جاتیں.کہاں سے آئی تھیں.کہاں چلی گئیں.ان کے پیچھے رہنے والوں کو دیکھیں جو محروم تھے ان سب قربانیوں سے.ان کی شکلیں اور ہیں، ان کے ماحول اور ہیں، ان کی عقلیں اور ہیں، ان کے علم اور ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والوں کی اولا دوں کو خدا نے اتنی برکت دی.مگر پہچاننے کی ضرورت ہے، احساس کی ضرورت ہے جب تک یہ احساس زندہ رہے گا یہ قافلہ آگے بڑھتا
خطبات طاہر جلد اول 145 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء رہے گا.اگر یہ احساس مٹ گیا اور ہم غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ گویا ہماری ہی ہوشیاریوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے تو برکتیں چھینی جائیں گی.پھر ڈرتے کس بات سے ہیں؟ خدا کی راہ میں دینے والے کبھی خالی نہیں رہے.رازق وہ ہے.وہ تو محبت اور پیار کے اظہار کے طور پر آپ کے دلوں کو پاک وصاف کرنے کے لئے آپ سے مانگتا ہے والله الغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ (محم:۳۹) قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تو غنی ہے اس نے تمہیں سب کچھ دیا تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو اس نے تمہارے لئے سارے انتظام کر دیئے تھے.ساری کائنات کا مالک ہے اس کے خزائن کبھی ختم نہیں ہوتے.اسی کی رحمتوں اور برکتوں کے طفیل انسان رزق پاتا ہے اور رزق سے برکتیں حاصل کر سکتا ہے.ورنہ ایسے رزق والے بھی ہم نے دیکھے ہیں کہ دلوں میں جہنم لئے پھرتے ہیں کوئی رزق ان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس خدا سے تعلق جوڑنے کے بعد پھر منہ موڑنا، یہ کہاں کی عقل ہے.یہ تو خودکشی ہے اس لئے محبت اور پیار سے سمجھا ئیں.میں نے تو بار ہا یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا نہیں دے سکتا جو شرح کے مطابق ضروری ہے تو صاف کہے، اپنے حالات پیش کرے.چندہ عام ہے وہ خلیفہ وقت معاف کر سکتا ہے اور میں کھلا وعدہ کرتا ہوں کہ جو دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ میں نہیں پورا اتر سکتا، میری شرح کم کر دی جائے ،اس کی شرح کم کر دی جائے گی.لیکن جھوٹ نہ بولیں خدا سے یہ نہ ہو کہ خدا کروڑ دے رہا ہو اور آپ لاکھ کے اوپر چندے دے رہے ہوں اور بتا یہ رہے ہوں کہ دیا ہی خدا نے لاکھ ہے.اللہ کوئی بھول جاتا ہے(نعوذ باللہ من ذلک) کہ میں نے اس کو کیا دیا تھا اور اب یہ مجھے کیا واپس کر رہا ہے.جس نے دیا ہے وہ تو دلوں کے بھیدوں سے آشنا ہے.وہ مخفی ارادوں سے آشنا ہے وہ ان بنک بیلنسز سے آگاہ ہے جن میں روپے جاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور تسلی نہیں پاتا انسان اور بڑھانا چاہتا ہے تو جو ضرورت مند ہے اس کی ضرورتوں کی فکر کی جائے گی.اس کی ضرورت کا لحاظ کیا جائے گا.اس کو خوشی سے اجازت دی جائے گی بلکہ ایسا ضرورت مند احمدی جو چندہ نہیں دے سکتا، امداد کا مستحق ہے، جماعت کا کام ہے جہاں تک ممکن ہو اس کی امداد کرے.لیکن خدا سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس لئے ایک مہلت میں دیتا ہوں اس خیال سے کہ ہمارے بھائی ضائع نہ ہوں.مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ خدا کے کام کیسے پورے ہوں گے.اگر میں یہ فکر کروں تو مشرک
خطبات طاہر جلد اول 146 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء بن جاؤں گا.مجھے اس بات کی ہرگز فکر نہیں ہے کہ اگر کوئی احمدی ضائع ہو گئے تو ان کی جگہ کیسے ملیں گے.ایک جائے گا تو خدا ہزاروں لاکھوں دے سکتا ہے، اس کے بدلے اور دے گا.مجھے فکر یہ ہے کہ ایک بھی احمدی ضائع کیوں ہو.کیوں ہمارا بھائی ایک اچھے رستہ پر چل کر بھٹک جائے اور ہم سے ضائع ہو جائے تو مجھے ان کی ذات کا غم ہے.اپنی جماعت کا غم تو کوئی نہیں جماعت کا غم تو میرا خدا کرے گا اور وہی ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے.جماعت کی ضرورتیں وہی پوری کرتا ہے اور وہی پوری کرے گا اس لئے جب تک ایک موقعہ دے کر ہم اپنے بھائیوں کو ساتھ نہ ملا لیں ، ایک آرڈرنہ پیدا ہو جائے نظام کے اندر، سارے دوست دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ مالی قربانیوں کے کم سے کم معیار پر پورے نہ اتر آئیں ، اگر ہم آگے بڑھیں گے تو وہی چند لوگ جو السُّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ ہیں وہی قربانیوں کا بوجھ اٹھاتے چلے جائیں اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ یہ چند آدمی ہیں صرف ،ساری جماعت نہیں ہے.تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے اپنے ان بھائیوں کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ دے عقل دے، قربانیوں کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے.ہماری باتوں میں تو کوئی اثر نہیں.جب تک خدا دلوں کو نہ بدلے کوئی نہیں بدل سکتا.تو ان کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں..جہاں تک اس مسجد کی آبادی کا تعلق ہے، اب میں آخری بات آپ سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ جب سے میں سپین آیا ہوں دل کی ایک عجیب کیفیت ہے.خوشیاں تو بہت ہیں مگر جیسا کہ میں نے کہا تھا یہ خوشیاں غم میں ڈھلی ہوئی خوشیاں ہیں.یہ عجیب وغریب بات ہے آنکھوں سے بہنے والی خوشیاں ہیں.میں سوچتا ہوں کہ مسجد تو ہم بنا ئیں گے اس کی آبادی کیسے ہوگی؟ اتنی مدت ہوگئی سپین میں کام کرتے ہوئے احمدی بھی ہوئے لیکن ابھی تک ہم اتنی تعداد میں احمدی نہیں بنا سکے کہ ایک احمد یہ جماعت اتنی مضبوط اور تعداد میں اتنی کثیر پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے معاشرے کی حفاظت کر سکے.معاشرے کی حفاظت کیلئے ایک معقول تعداد کا ہونا ضروری ہے ورنہ اکیلا اکیلا احمدی اگر ہو تو وہ ماحول میں واپس جذب ہو جایا کرتا ہے.یہ قانون قدرت ہے جس کو آپ تو ڑ نہیں سکتے.اس لئے رفتار کا اتنا بڑھنا ضروری ہے کہ کم سے کم ضروری تعداد مہیا ہو جائے جو اقدار کی حفاظت کرتی ہے.اور اس تعداد کی بناء پر آگے بڑھنے کا سوال پیدا ہوتا ہے.انقلاب پیدا کرنے کے لئے بھی ایک کم سے کم مقدار کی
خطبات طاہر جلد اول 147 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء ضرورت ہوتی ہے.یہ تو دنیا کے ہر آدمی کو پتہ ہے کہ ایٹم بم کو پھاڑنے کے لئے بھی کم سے کم ایک وزن کی ضرورت ہے.اس سے کم ہو تو وہ طاقت ضائع ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ Chain Reaction پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے اس Chain Reaction کے لئے جتنی تعداد میں احمدیوں کی ضرورت ہے وہ ابھی تک ہمیں مہیا نہیں ہو سکے.کیسے مہیا ہوگی؟ اتنا شرک ہے.اتنا ماحول پر دنیا کا اثر ہے.دہریت گھر گھر میں داخل ہو رہی ہے سیاسی تو جہات نے عقلوں کو اور ذہنوں کو غلط سمتوں میں مائل کیا ہوا ہے.معاشرے کی آزادیاں، دنیا کی لذتیں.یہ سارے بت چاروں طرف سے ان سوسائٹیوں کو گھیرے ہوئے ہیں.تو بہت فکر پیدا ہوتی ہے کہ اے خدا اس مسجد کی آبادی کا تو انتظام کر.میں تو یہی دعا کرتا رہا ہوں جہاں بھی گیا ہوں دیکھ کر ایسی بے بسی کا احساس ہوا ہمیشہ اور پھر میں نے یہی عرض کی کہ اے خدا! اگر توفیق ہوتی تو میں سجدے کرتے ہوئے ان راہوں پر چلتا.میں تیرے حضور خاک ہو کر مٹ جاتا یہاں.اے خدا ! تو نمازی بخش.تو عبادت کرنے والے عطا فرما.کیونکہ خالی مسجد میں بنانا تو کوئی کام نہیں ، جب تک یہ مسجدیں خالص عبادت کرنے والوں سے نہ بھر جائیں.لیکن ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں میرے رب ! آپ بھی یہ دعائیں کریں جب تک یہاں ہیں سپین کی مٹی کو اپنے آنسوؤں سے تر کریں.اتنے آنسو بہائیں کہ خدا کی تقدیر کی رحمتیں بارش کی طرح برسنے لگیں اس ملک پر.ہر آنسو سے وہ روحیں پیدا ہوں جو اسلام کے لئے ایک انقلاب کا پیغام لے کر آئیں.ہر آنسو سے ابن عربی نکلیں ، ہر آنسو سے ابن رشد پیدا ہوں.آج ایک ابن عربی کا کام نہیں.آج تو قریہ قریہ بستی بستی ابن عربی کی ضرورت ہے.اس لئے یہ کام نہ آپ کے بس میں ہے نہ میرے بس میں ہے.صرف ہمارے آقا، ہمارے رب کے بس میں ہے اور ہمارے بس میں صرف آنسو بہانا ہے اور یہ ہمیں ضرور کرنا ہوگا.پوری گر یہ وزاری کے ساتھ ، انتہائی عاجزی کے ساتھ اور انکساری کے ساتھ روئیں خدا کے حضور اور جب قطرے ٹپکیں زمین پر تو دعا کریں کہ اے خدا! ان قطروں کو ضائع نہ ہونے دینا.ہر قطرے سے برکتیں پیدا ہوں.ہر قطرے سے وہ روحانی وجود نکلیں جو سپین کی تقدیر کو بدل دیں.اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر
خطبات طاہر جلد اول 148 خطبه جمعه ۱۰ر ستمبر ۱۹۸۲ء سکتے.ہم عاجز انسان ہیں.ہماری طاقت اور ہمارے بس میں ہے کیا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: در بعض دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جمعہ کے معا بعد اجتماعی بیعت بھی ہو جائے کیونکہ بہت سے ملکوں سے ایسے دوست تشریف لائے ہیں.جن کو موقعہ نہیں ملتا عموماً مرکز میں حاضر ہونے کا اور ان کی خواہش ہے کہ دستی بیعت یہاں ہو جائے تو انشاء اللہ جمعہ کی نماز کے معا بعد دستی بیعت ہوگی.ایک بات کی طرف خاص طور پر میں توجہ دلانی چاہتا تھا دعا کے سلسلے میں اور ذہن سے اتر گئی کہ دعا کی قبولیت کیلئے ایک گر جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں بتایا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہئے.طبعاً تو یہی ہوتا ہے عموماً لیکن Consciously با شعور طور پر ہر احمدی کے ذہن میں یہ بات حاضر رہنی چاہئے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ دعا کی قبولیت کا ایک راز تمہیں بتاتا ہوں.پہلے خوب اپنے رب کی حمد کرو.اس کی محبت کے گیت گاؤ اور مجھ پر درود بھیجو.اس لئے کہ آپ خدا کو سب سے زیادہ پیارے ہیں اور یہی چیز ہے جو فطرتا بھی ہمیں نظر آتی ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو ہوشیار فقیر ہیں.وہ بعض دفعہ ماؤں سے بھی بڑھ کر بچوں کو دعائیں دیتے ہیں.جانتے ہیں کہ یہ ایسی محبت ہے کہ یہ بچوں کی محبت کی وجہ سے مجبور ہو جائیں گی ہمیں کچھ ڈالنے کے لئے.تو آنحضرت ﷺ کیسے عارف باللہ تھے.خوب جانتے تھے ان رازوں کو.پس آپ نے فرمایا کہ دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو مجھ پر درود بھیجا کرو ساتھ پہلے حمد کرو اللہ کی ، وہ اول ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.پھر جو مانگو خدا قبول فرمائے گا.تو اسی طریق کو اختیار کیا جائے.آنحضرت ﷺ نے ایک بچے کو جب یہ سمجھایا تو اس کے بعد وہ نماز پڑھنے کے بعد بیٹھا اس نے دعائیں کیں حمد کی اور پھر درود بھیجے.وہ خودروایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کا چہرہ تمتما اٹھا خوشی سے دیکھ کر پیار سے مجھے دیکھتے ہوئے فرمایا کہ بچے ! ٹھیک کر رہے ہو، ٹھیک کر رہے ہو ، ٹھیک کر رہے ہو ، یہی طریق ہے دعاؤں کا.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب جامع الدعوات) تو آپ بھی دعاؤں میں یہ بات نہ بھولنا کہ حمد کے ساتھ ہی بے اختیار دل سے درود کے چشمے بھی پھوٹ پڑیں تا کہ ناممکن ہو جائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ان دعاؤں کا رد کرنا “ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: دد صفیں بنالیں اور سیدھی صفیں بنائیں روزنامه الفضل ربوه ۲۰ /اکتوبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 149 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء جماعت برطانیہ کی مہمان نوازی کا تذکرہ اور مہمانوں کو قیمتی نصائح خطبه جمعه فرموده ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد فضل لندن کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اگر چہ اس قسم کے اجتماعات کے موقع پر عام طریق یہی ہے کہ انگریزی زبان میں خطاب نہ کیا جائے.لیکن بعض مقامی احباب اور ان مہمانوں کی وجہ سے جو اردو سے واقف نہیں ہیں میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں آپ سے انگریزی میں خطاب کروں.اس کے علاوہ میرے ذہن میں ایک وجہ ان بچوں کی موجودگی بھی ہے جو پیدا تو پاکستانی والدین کے گھر ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اپنی مادری زبان سے اسقدر بھی واقف نہیں کہ کم از کم عمومی قسم کے خطابات کی اردو ہی سمجھ سکیں.اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ بعض اوقات اس بات پر فخر کرتے ہیں جبکہ یہ شرم کا مقام ہے.اردو یا کسی اور زبان سے واقفیت نہ ہونا کوئی فخر کی بات نہیں.لیکن اپنی مادری زبان سے ناواقفیت تو بہت ہی شرم کی بات ہے.یہ ایک ایسا احساس ہے جسے احساس کمتری کہا جاتا ہے.اور احمدیوں کو اس سے بلند ہونا چاہئے.چنانچہ مجھے امید ہے کہ آئندہ جماعت اس بات کی ذمہ داری اٹھائے گی کہ جولڑکے اور لڑکیاں پاکستانی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اردو زبان کا نہ
خطبات طاہر جلد اول 150 خطبہ جمعہ ۷ ارستمبر ۱۹۸۲ء.صرف اچھی طرح علم رکھتے ہوں بلکہ انہیں اردو ادب سے بھی واقفیت ہو اور اسی طرح وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں.چنانچہ اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اب میں ایک ایسے سوال کی طرف آتا ہوں جس کی اہمیت ہے تو عارضی لیکن پھر بھی اسے بیان کرنے کی ضرورت ہے.لیکن پہلے میں مقامی لندن جماعت کی طرف سے اسلامی روح کے ساتھ پیش کی گئی مہمان نوازی پر خلوص دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے باہر سے آنے والے تمام مہمانوں کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے.انہوں نے اس بات کے باوجود ان کی خاطر داری میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی کہ یہاں گھر عموماً چھوٹے ہیں اور غسلخانے وغیرہ کافی نہیں.چنانچہ خصوصاً ان مہمانوں کے لئے جن سے ان کی کوئی رشتہ داری بھی نہیں انہوں نے واقعی بڑی قربانی دی ہے.کیونکہ جب ایک گھر میں کچھ مہمان بھی موجود ہوں تو واقعتہ بعض مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے.اس کے علاوہ یہاں گھروں میں ملازمین بھی میسر نہیں جو مشرقی ممالک میں درمیانہ درجہ کے گھروں میں بھی میسر ہوتے ہیں جو کپڑوں کی دھلائی اور کھانا وغیرہ تیار کرنے میں محمد ہو جاتے ہیں اور اس طرح یہاں کی طرز زندگی کے ساتھ ایسے مسائل جڑے ہوئے ہیں جن کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کا معیار بہت بلند ہو جاتا ہے اور ہمیں اسی کے مطابق ان کا شکر گزار ہونا چاہئے.بے شک اسلام میں مہمان نوازی کا تصور تین دن تک کے لئے ہے.تیسرے دن کے سورج ڈھلنے تک یا زیادہ سے زیادہ چوتھے دن کے سورج نکلنے تک اور احادیث میں یہاں تک ہی یہ ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے.لیکن لندن جماعت میں اسکا عرصہ بعض اوقات دو ہفتوں تک بڑھ جاتا ہے کیونکہ بعض دوست جو پاکستان یا کسی اور ملک سے آئے ہوں ،سوچتے ہیں کہ یہاں آنے تک کرایہ وغیرہ کے جو اخراجات ہوئے ہیں وہ صرف چند دن کی رہائش میں پورے نہیں ہو سکتے.چنانچہ قدرتی طور پر اس وجہ سے اور اس وجہ سے کہ وہ انگلستان کی اچھی طرح سیر کرنا چاہتے ہیں انہیں یہاں زیادہ ٹھہرنا پڑتا ہے حتی کہ بعض اوقات تین دن تین ہفتوں میں بدل جاتے ہیں اور اس کے باوجود مقامی دوست یہ ذمہ داری اٹھائے رکھتے ہیں.اور بعض اوقات تو ہفتے مہینوں میں بدل جاتے ہیں اور چوتھے دن کا سورج نکلنے کی بجائے چوتھے مہینے کا نیا چاند مہمانوں کو انہیں کے گھروں میں پاتا ہے.
خطبات طاہر جلد اول 151 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء لیکن جیسا کہ پہلے میں کہہ چکا ہوں یہ لوگ نہایت صبر کے ساتھ اور نہایت پیار کے ساتھ شکوہ کا ایک لفظ بھی زبان پر لائے بغیر یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں.مگر آنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسلام میں اچھے رویہ کا حکم یکطرفہ نہیں ہے.فریقین پر ایسی ذمہ داریاں ہیں جو دونوں طرف سے نباہنی چاہئیں.چنانچہ مہمانوں پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور انہیں ان کا پوری طرح خیال رکھنا چاہئے.انہیں بوجھ نہیں بننا چاہئے اور کسی شریف آدمی کے اخلاص سے نا واجب فوائد نہیں اٹھانے چاہئیں.اگر وہ اس بات کا خیال نہ رکھیں تو آئندہ جماعت میں کئی مسائل کھڑے ہو جائیں گے.کیونکہ خدا کی خاطر احمدیوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا کوئی ایسی روایت نہیں جو تھوڑے عرصہ کے لئے ہو.یہ کوئی عارضی کام نہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے ساتھ چلے گا.چنانچہ ہمیں مہمان نوازی کی اعلیٰ روایات کو نقصان نہ پہنچانے اور لوگوں کی ہمدردی سے ناجائز فوائد حاصل نہ کرنے کا خاص خیال رکھنا چاہئے.مگر اسوقت میرے ذہن میں کہنے کی کچھ اور باتیں ہیں اور جو یہاں آتے ہیں میں ان کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں.آج سے کوئی تین ماہ قبل اتفاقا یہ بات علم میں لائی گئی.میرے علم میں یہ بات کوئی دوست جو لندن سے ہو کر آئے تھے لائے کہ یہاں اکثریت ایسی ہے جو مہمان نواز ہے اور جماعتی کاموں میں آگے آگے ہیں اور اپنی شکایات کا کسی سے ذکر بھی نہیں کرتے.کچھ تھوڑے سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی شکایات کا برملا اظہار کرتے ہیں.وہ آنے والے مہمانوں کے برے رویہ کا ذکر بڑے زور شور سے کرتے رہتے ہیں جس سے ان ممالک کے رہنے والوں کو بہت شرم کا سامنا کرنا پڑتا ہے.چنانچہ اسی لئے میں نے اس موضوع کو اٹھایا ہے.گو بظا ہر یہ معاملہ لندن سے تعلق رکھتا ہے مگر آپ کے سامنے اسے پیش کرنے سے میری مراد ساری جماعت کو نصیحت کرنا ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ معاملہ بظا ہر چھوٹا سا ہے لیکن دراصل یہ چھوٹا سا نہیں ہے.اور اگر اس پر ابھی سے توجہ نہ دی جائے تو یہ بالآخر جماعت کے بنیادی مقصد پر حملہ آور ہو جائیگا.اس سے بھی زیادہ میرے علم میں یہ بات لائی گئی کہ بعض لوگ یہاں آکر قرض اس وعدہ پر لے لیتے ہیں کہ واپس جاتے ہی وہ یہ رقم واپس کر دیں گے مگر پھر ان کا یہ تھوڑا سا عرصہ دنوں سے ہفتوں اور پھر مہینوں اور بعض دفعہ سالوں پر محیط ہو
خطبات طاہر جلد اول 152 خطبہ جمعہ ۱۷ ستمبر ۱۹۸۲ء جاتا ہے.یہ بہت قابل شرم بات ہے.یہ ہے وہ بات جسے میں سنگین جرم کہتا ہوں.یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا.یہ ان کے احسان کا نہایت برے طریق سے بدلہ اتارنا ہے.چنانچہ میں تمام آنے والوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ عمدہ رویہ اختیار کریں.اگر وہ ان کے احسانات کا بدلہ اچھے طور پر نہیں اتار سکتے اور بدلہ وصول کرنے کی خواہش میز بانوں کو ہے بھی نہیں تو کم از کم ایک اچھے انسان کا رویہ ہی اختیار کریں اور ہمیں تو اس سے بڑھ کر ایک مسلمان اور آنحضور علیہ کے سچے پیروکار کا رویہ اختیار کرنا چاہئے.میں ان سے توقع کرتا ہوں کہ وہ عام انسانی رویہ سے نیچے نہیں گریں گے.یہ بہت قابل شرم بات ہے.عام انسانی رویہ سے میری مراد یہ ہے کہ کسی کی مہمان نوازی سے تمام تر فوائد حاصل کئے جائیں اور پھر اس سے اس وجہ سے رقم قرض لی جائے کہ مہمان کے پاس پیسے کم ہو گئے ہیں مزید برآں زرمبادلہ کا مسئلہ ہے وغیرہ وغیرہ.نیز ٹیلیفون کے اخراجات ہیں اور پھر ان کی واپس ادا ئیگی کو بالکل فراموش کر دیا جائے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تو یہ ایک بہت بڑا جرم بن جاتا ہے.اور یہ بات میرے لیے بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ ایک شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو وہ اس قسم کا رویہ اختیار کرے کیونکہ پھر اسکا اثر و ہیں ختم نہیں ہوجا تا بلکہ میرے پیارے امام مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک براہ راست تو نہیں مگر بالواسطہ پہنچتا ہے.حضور کے نام پر بھی اسکی زد پڑتی ہے.اور یہ بات میرے لیے سخت تکلیف کا باعث ہے.چنانچہ میں خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے رویے درست کریں.نہ صرف انصاف اور برابری کے حوالہ سے رویے درست کریں بلکہ اپنے مقام کا بھی خیال رکھیں.شفقت کا رخ ان کی طرف سے اوروں کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ اس کے برعکس.یہی ان کے لئے باعث اعزاز ہے.اگر وہ واقعۂ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دوہرا رشتہ رکھتے ہیں تو ان سے یہی توقع کی جاتی ہے اور اگر انہوں نے اس طرف توجہ نہ کی تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے.میں آپ کو بتا دوں کہ آئندہ سے کسی ہمدردی کے جوش میں ان کے کسی مطالبہ کو نہ مانیں سوائے اس کے کہ اپنے امیر سے اجازت حاصل
خطبات طاہر جلد اول 153 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء کریں.یہ میں اس لئے کر رہا ہوں کہ مجھے پتہ ہے کہ ماضی میں بعض ایسے واقعات ہوئے جس سے خاندان اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے نام پر دھبہ لگایا گیا.ان واقعات سے مجھے سخت تکلیف ہوئی کیونکہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر زد پڑی جو نا قابل برداشت ہے.چنانچہ میں آپ سب کو پابند کرتا ہوں کہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب (امام مسجد فضل لندن) کی اجازت کے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے کسی فرد کو قرض نہ دیں.وہ اگر ضروری سمجھیں تو مجھ سے مشورہ کر لیں ورنہ کسی نا خوشگوار واقعہ کی صورت میں وہ میرے سامنے جوابدہ ہوں گے.آپ شاید خیال کریں کہ یہ چھوٹا سا معاملہ ہے.یہ چھوٹا سا مسئلہ نہیں ہے.یہ بہت بڑا معاملہ ہے اور اس کے اثرات دور رس ہیں.جب لوگ باتیں کرتے ہیں تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر ہی دھبہ نہیں لگتا بلکہ ان باتوں سے ایک مخلص احمدی کے اخلاص کے معیار پر بھی اثر پڑتا ہے.یہ باتیں پھر باہر پہنچتی ہیں.عوام الناس میں آزادانہ باتیں کی جاتی ہیں گو کہیں دبے لفظوں میں اور کہیں بآواز بلند مگر مجھے علم ہے کہ باتیں بہر حال ہوتی ہیں اور اس سے پھر جماعت کا معیار گرتا ہے اور اخلاص اور قربانی پر چوٹ پڑتی ہے.پھر میں اسے چھوٹا سا معاملہ کیسے کہہ سکتا ہوں جبکہ یہ ایک بڑا معاملہ ہے.اگر شیخ صاحب اس قسم کے معاملات میں مجھ سے مشورہ کر لیا کریں کیونکہ لین دین تو چلتا رہتا ہے.یہ غیر فطری، غیر اخلاقی یا غیر اسلامی بات نہیں کہ کسی شخص کو عاریتہ رقم قرض لینی پڑ جائے.صلى الله اور یہ ہو بھی سکتا ہے.آنحضور عے خود بھی کبھی کبھار قرض لے لیا کرتے تھے.مگر اسے وقت پر واپس نہ کرنا نہایت بری بات ہے.خصوصاً اس حال میں کہ آپ اپنے تمام تر معیار زندگی کوتو برقرار رکھیں اور دوسروں کے بارہ میں اپنے فرائض سے غفلت برتیں.یہ غور طلب امر ہے کہ کوئی آپ کی خاطر کیوں کمائے ؟ کیوں وہ آپ کی خاطر سخت محنت کرتا پھرے؟ یہاں زندگی اتنی آسان نہیں مجھے علم ہے اپنا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے.اور پھر کوئی شخص آئے اور آرام سے کسی چھوٹی یا بڑی رقم کا تقاضا کرے اور پھر اسے لے کر غائب ہو جائے یہ بہت ہی نا پسندیدہ امر ہے.اسی کو میں غیر انسانی رویہ کہتا ہوں.چنانچہ یہ نہیں ہونا چاہئے.اگر اس کے بعد اب کسی سے دھو کہ ہو اور کوئی اپنی جائز آمد سے محروم
خطبات طاہر جلد اول 154 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء ہو جائے تو وہ خود ذمہ دار ہو گا اسے کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ لوگوں کے سامنے باتیں کرتا پھرے کیونکہ میں نے اسے تنبیہ کر دی ہے.دوسرے اگر شیخ صاحب میرے مشورہ سے کسی کو قرض دلوائیں تو پھر اس صورت میں اگر قرضدار اپنا وعدہ پورا نہ کرے تو میں اسکی ادائیگی کا ذمہ دار ہوں گا.یہ ایک سیدھا سادہ لین دین ہے، صاف ستھرا اور منصفانہ.چنانچہ اگر آپ ایماندار اور کھرے لوگوں کا رویہ اختیار کریں تو پھر انشاء اللہ آپ کا یا جماعت کا کبھی بھی کچھ نہیں بگڑے گا.یہ بہت اہم بات ہے.یہ معاملات چھوٹے نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی جماعت کے بنے میں یہ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں.صاف ستھرا، شفاف لین دین، ساده و آسان زندگی اور قابل اعتبار گفتگویی در اصل کسی جماعت کے قیام کے لئے ضروری امور ہیں.اگر انہیں نظر انداز کر دیا جائے تو جماعت میں دراڑ پڑ جاتی ہے.مجھے امید ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے سے ہم وہ مقام حاصل کر لیں گے انشاء اللہ تعالیٰ جس کے بعد اگلی منزل پر قدم رکھنے کے لئے تیار ہوں گے جس کی طرف بالآخر ہمارا رخ ہے.یہ امور آپ کی مدد کریں گے.یہ آپ کو تیار کریں گے ،ایک صاف ستھرے معاشرہ ،ایک نارمل طرز زندگی ، سادہ طرز زندگی گزارنے کے لئے جہاں سچائی کی قدر ہو، جہاں الفاظ پر اعتبار کیا جائے ، جہاں ایک شخص کو یقین ہو کہ دوسرے اسکا خیال رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنی جائز آمد سے محروم نہیں کیا جائے گا.چنانچہ ان باتوں سے اعتماد پیدا ہوتا ہے.اور یہ چیزیں لوگوں کو اعتماد دیتی اور متحرک کرتی ہیں کہ وہ مستقبل میں ترقی کر سکیں.چنانچہ اسی وجہ سے میں ان باتوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہوں.کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ کے لئے یہ بہت ضروری ہے.اگر آپ کو سر درد ہو تو ایک معمولی چیز ہے.کوئی ایسی بیماری نہیں جو مہلک ہو.میرا مطلب ہے کہ شاذ کے طور پر ہی کوئی شخص سر درد سے وفات پاسکتا ہے.مگر یہ بعض پوشیدہ بیماریوں کی علامت ہوتی ہے.میں عام سردرد کی بات کر رہا ہوں.مگر معمولی سی سر درد بھی کسی شخص کو اس حد تک بیمار کر سکتی ہے کہ اسکی زندگی کی تمام خوشیاں کا فور ہو جائیں.وہ اپنے کھانے سے لطف نہیں اٹھا سکتا.وہ دوستوں کی صحبت سے بھی لطف اندوز نہیں ہوتا.وہ کسی بھی ایسی چیز سے لطف اندوز نہیں ہوتا جس سے عموماً انسان لطف اٹھاتے
خطبات طاہر جلد اول 155 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء ہیں.چنانچہ یہ وہ کیفیت ہے جسے بیماری کہا جاتا ہے.یہ آپ سے ترقی کرنے اور معمول کی زندگی گزارنے کی خواہش چھین لیتی ہے.چنانچہ اگر معاشرہ بیمار ہو جائے.خواہ بیماری کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو اسکی اصلاح ضروری ہے.کیونکہ بالآخر ایسے بیمار لوگ اپنے مقصد کو اس عمدگی سے حاصل نہیں کر سکتے جسے وہ عام طریق پر حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب پر رحم فرمائے.آمین.اللہ تعالیٰ یہاں آنے والوں کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے طاقت بخشے.سادہ زندگی گزارنا جو دوسرے لوگوں کو آرام و آسائش کی چیزیں مہیا ہیں ان کی خواہش کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور بہت آسان ہے.بہت عمدہ اور لمبے عرصہ تک زیادہ خوشی کے حصول کا راستہ لوگوں کے پیسوں سے چیزیں خرید نے اس طرح زندگی سے لطف اندوز ہونے اور بعد میں بدنام ہونے سے یہ امر کہیں بہتر ہے کہ اپنے پیچھے اچھی یادیں چھوڑ کر جائیں تا کہ لوگ آپ کو پیار اور محبت سے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور آپ کا دوبارہ انتظار کریں.نہ یہ کہ وہ اللہ سے یہ دعا کریں کہ آپ دوبارہ کبھی نہ آئیں.نہ یہ کہ وہ یہ دعا کریں کہ اس جیسے شخص سے ان کا دوبارہ کبھی واسطہ نہ پڑے اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ کوئی نام بدنام ہو جائے تو میرے لئے یہ نا قابل برداشت ہے.یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے.آپ اس بارہ میں میری مدد کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ خاندان حضرت اقدس کی مدد کا یہ انداز اختیار کریں کہ نا مناسب رویہ اپنائے بغیر مضبوطی اور نرمی سے اور عمدہ برتاؤ اور نصیحت کے درست الفاظ کے ذریعہ انہیں سمجھا ئیں تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا صحیح انداز ہو گا نہ کہ اس کے برعکس.اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے.اور خدا تعالیٰ آپ سب کو جزا عطا فرمائے.لندن کے احمدی جو مہمانوں کے لئے قربانی کرتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ ان کے دینی بھائی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکار ہیں.احمدیت سے محبت کی وجہ سے ہی آپ ( یعنی لندن کے احمدی) یہ کوشش کرتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ پر فضل و کرم فرمائے اور جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.السلام علیکم.
خطبات طاہر جلد اول 156 خطبہ جمعہ ۷ ار ستمبر ۱۹۸۲ء (خطبہ ثانیہ کے بعد جماعت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ حضور انور نے درخواست قبول فرمائی ہے کہ حضور نماز کے بعد دستی بیعت لیں گے.آپ نے اس پر فرمایا کہ نماز کے بعد بیعت ہوگی لوگ رش کر کے آگے نہ آئیں بلکہ اسی طرح ایک دوسرے کی کمر پر ہاتھ رکھیں.) بیعت کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے حضور انور نے اردو میں فرمایا: اب بیعت ہوگی پہلے مقامی لوگ امیر صاحب انگلستان، مبلغین جو یہاں ہیں، قریب آجا ئیں اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھیں“.پھر حضور نے انگریزی میں فرمایا: اگر یہاں ایک دوست Mr Steel نامی موجود ہیں جن سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں بیعت کے وقت اپنا ہاتھ تھامنے کا موقع دوں گا ، تو وہ سامنے آئیں.ایک نو جوان مسٹر سٹیل (جو یونیورسٹی کے طالب علم ہیں) نے مجھے کہا کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں انہیں بیعت کے دوران اپنا ہاتھ تھا منے کا موقع دوں.چونکہ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا.اگر وہ یہاں ہیں تو براہ مہربانی سامنے آئیں.ورنہ غالباً میرا خط انہیں وقت پر نہیں مل سکا ہوگا (جہاں بھی آپ ہیں اپنے ہاتھ وہیں ایک دوسرے پر رکھ لیں ) بیعت لینے سے قبل حضور اقدس نے اردو میں فرمایا : بیعت جو ہے یہ بہت مشکل کام ہے.اس کے تقاضے پورے کرنے بڑا خوف کا مقام ہے.میری اپنی حالت انتہائی غیر ہو جاتی ہے کیونکہ ہر دفعہ مجھے بھی منصب خلافت کی بیعت کرنی پڑتی ہے.اور مشکل یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ، مجبور ہیں ہم، اپنی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے بھی بیعت کرنے پر مجبور ہیں.تو اس بے بسی کا ایک ہی چارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کی جائیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے بار یک تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اگر ہماری کمزوریاں ہیں تو ان سے بخشش فرمائے ، مغفرت فرمائے، پردہ پوشی فرمائے جو کمزور ہیں انکو بھی کشاں کشاں ساتھ لیے چلیں اور جو صحت مند ہیں اللہ تعالیٰ انکو اور صحت عطا فرمائے.ان دعاؤں کے ساتھ ہم بیعت کرتے ہیں.اس کے بعد حضور نے احباب سے بیعت لی.بیعت کے بعد حضور نے پرسوز دعا کروائی.
خطبات طاہر جلد اول 157 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء مغربی معاشرے میں احمدیوں کی ذمہ داریاں ( خطبہ جمعہ فرموده ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء بمقام گلاسگو سکاٹ لینڈ کے انگریزی متن کا اردو تر جمہ ) خطبہ کے آغاز سے قبل حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ میں سے یا خواتین میں سے کوئی ایسے ہیں جو اردو بالکل نہیں سمجھتے.بتایا گیا کہ ایک خاتون سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتی ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں اس اجتماع سے انگریزی میں خطاب کرونگا کیونکہ خلیفتہ امسیح کی اتباع میں جمعہ ادا کرنے کا ان کا یہ پہلا موقع ہے.چنانچہ میں آج آپ سے انگریزی میں خطاب کرونگا تا کہ وہ بھی سمجھ سکیں.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دورہ یورپ کے دوران میں نے حضرت محمہ کی مغربی دنیا کے طرز زندگی کے بارہ میں پیشگوئیاں بڑی تفصیل سے پورا ہوتے دیکھی ہیں اور میں اس تجربہ کے بارہ میں کچھ کہنا چاہوں گا.جس پیشگوئی کا میں نے ابھی حوالہ دیا ہے وہ دجال کی آمد کے بارہ میں ہے.حضرت محمد ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں دنیا میں ایک شدید بے چینی پھیلے گی جو دجالی فتنے کا نتیجہ ہوگی جس کو انگریزی میں اینٹی کرائسٹ (Antichrist) کہا جاتا ہے.مجھے اندازہ نہیں کہ اس سے
خطبات طاہر جلد اول 158 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء لفظ دجال کے پورے معنی ادا ہوتے ہیں یا نہیں.مگر میرا خیال ہے کہ یہ لفظ دجال کے مکمل معنی ادا نہیں کرتا.کیونکہ یہ اپنے معنی کے لحاظ سے اینٹی کرائسٹ کی نسبت زیادہ گہرے مطالب کا حامل ہے.اب یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے اور مستقبل کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے.اگر میں سارے پہلو بیان کرنے لگوں تو مجھے بڑا وقت درکار ہوگا.چنانچہ میں خود کو حضرت رسول کریم ﷺ کی دجال کے بارہ میں بیان کردہ خصوصیات میں سے صرف ایک تک ہی محمد و درکھوں گا.آپ نے فرمایا کہ وہ اعور یعنی کا نا ہوگا.اس کی ایک آنکھ کے حوالہ سے آپ نے مزید فرمایا کہ اسکی دائیں آنکھ اندھی ہوگی.اتنی اندھی کہ اس میں روشنی کا کوئی شائبہ تک نہیں ہو گا یعنی بالکل نابینا.جبکہ دوسری طرف دوسری آنکھ گہری بصارت رکھنے والی اور اتنی شفاف اور نمایاں ہوگی کہ وہ زمین کی گہرائیوں میں جھانک سکے گی اور اربوں ٹن مٹی میں دفن شدہ خزانے تلاش کر لے گی.یعنی وہ اس حد تک زمین کو چیرتی ہوئی اُس کی گہرائیوں میں اتر جانے اور دور دور تک دیکھنے والی ہوگی.اب یہ مستقبل کے دجال کی اتنی دلچسپ تصویر ہے جو آجکل کی عیسائی قوموں پر جو تمام دنیا پر حکومت کر رہی ہیں بعینہ پوری اترتی ہے.جب میں یورپ آیا اور اس سے قبل بھی مجھے یہی خیال تھا کہ مغربی اقوام کی خصوصیات کے بارہ میں آنحضور ﷺ کے بیان فرمودہ لفظ اعور سے بہتر کوئی لفظ استعمال ہی نہیں ہو سکتا تھا.ان اقوام کے لوگ در حقیقت نہایت ذہین اور گہری نظر رکھتے ہیں اور جہاں تک دنیا کے مسائل کا تعلق ہے بڑی جستجو کرتے ہیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ تعبیر الرویا میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ کسی شخص کی بائیں سمت سے مراد دنیا اور مادی اشیاء ہیں.اور دائیں سمت سے روحانیت مراد ہوتی ہے.چنانچہ آپ کے اس کی دائیں آنکھ کا بے نور ہونا بیان فرمانے سے مراد یہی ہے کہ وہ بظا ہر بڑے زبر دست دکھائی دیں گے.لیکن وہ ہر اچھی بات کے بارہ میں اندھے کی طرح ہوں گے کیونکہ مسلمانوں کے علم تعبیر الرویا میں اچھی بات تقویٰ کی نشانی ہے.چنانچہ نیکی ، تقوی ، روحانیت، مذہب ، اور خدا سے تعلق رکھنے والی باتوں کی دجال کو سمجھ ہی نہیں آسکتی کیونکہ جیسا میں بیان کر چکا ہوں یہ سب کچھ مغربی ممالک اور طاقتور عیسائی اقوام کے طرز زندگی سے ظاہر و باہر ہے.چنانچہ جب میں
خطبات طاہر جلد اول 159 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء لفظ دجال کا استعمال کروں تو اس سے یہی مراد لی جائے.مجھے دجال کے لفظ کے معانی ہر دفعہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے بیان فرما دیا - ہے کہ کیوں آپ عیسائی اور مغربی تہذیبوں اور ان کے مذہب کو آنحضور ﷺ کی اس حدیث میں بیان فرمودہ پیشگوئی کا نمونہ قرار دیتے ہیں.دوسرے جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں جہاں تک دنیا کے معاملات کا تعلق ہے وہ بہت ترقی یافتہ ہیں.انہوں نے اتنی زبردست ترقی کی ہے جو باقی دنیا کے لئے حیران کن ہے.وہ فلاسفی ، سائنس اور معاشرتی علوم کی تمام مادی شاخوں میں دنیا کی راہ نمائی کر رہے ہیں.انسانی زندگی سے متعلق تمام دیگر دنیوی معاملات میں بھی جن کا مذہب، اخلاقیات یا خدا سے کوئی تعلق نہیں مغربی معاشرہ تمام بنی نوع انسان کی راہ نمائی کر رہا ہے.وہ لوگ خالق کے حوالہ سے اپنے اوپر عاید ہونے والی ذمہ داریوں سے اسکی اطاعت سے اور دیگر مذہبی فرائض سے بالکل اندھے ہیں.وہ سائنس میں اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ اب وہ آسمان سے باتیں کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں.اردو میں آسمان سے باتیں کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اتنا بلند ہونے کی کوشش کرے کہ جیسے وہ ان بلندیوں کو چھونے لگا ہو، جیسے وہ ستاروں سے باتیں کرنے لگا ہو.اور یہ وہ چیز ہے جو انہوں نے واقعتا کر کے دکھادی ہے.جب انہوں نے پہلی مرتبہ چاند پر قدم رکھا تو انہوں نے چاند اور دیگر ستاروں سے بڑے فخر سے کہا کہ اب ہم یہاں پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے خلا میں دیگر مقامات کی تلاش شروع کر دی تا کہ وہ مزید بلندیوں تک پہنچ سکیں.تو جہاں تک دنیوی معاملات کا تعلق ہے یہ محض ایک سمت ہے.انہوں نے نہایت مہلک اور زبردست ہتھیار ایجاد کر لئے ہیں، اتنے خطر ناک اور مہلک کہ اگر وہ انہیں بنی نوع انسان کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ کر لیں تو کرہ ارض کے بڑے حصے سے نوع انسان کا وجو دمٹ جائے.یہ سب کچھ انہیں مادی دنیا اور قوانین قدرت دیکھنے والی بائیں آنکھ کی وجہ سے نصیب ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں گہری نظر رکھنے والی آنکھ سے نوازا ہے.اور یہ سب کچھ پہلے بتادیا گیا تھا.عیسائیت کی آئندہ طاقت کے بارہ میں یہ احادیث حضرت محمد مصطفی اللہ نے خود ہی نہیں
خطبات طاہر جلد اول 160 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء گھڑ لیں.یہ آپ کی عادت تھی جس پر آپ بڑی سختی سے کاربند تھے کہ خود بخود آپ ایک لفظ بھی نہیں کہتے تھے.آپ نے جو کچھ بھی بیان فرمایا وہ اللہ تعالیٰ سے علم پا کر یا قرآن کریم کی تفسیر میں بیان فرمایا اور بعینہ یہی بات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) (انجم ) - ۵) دیکھو میرا رسول محمد مصطفی عمل اللہ خود ایک لفظ بھی نہیں کہتا، جو کچھ بھی وہ کہتا ہے قرآن کریم کی بنا پر کہتا ہے.چنانچہ ایسے رسول نے ہمیں دجال یا اینٹی کرائسٹ جو بھی کہہ لیس ، کی خبر دی ہے.کسی کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ جب حضرت محمد مصطفی ﷺ خدا سے علم پا کر بولتے ہیں اور خود کچھ نہیں کہتے تو اس خبر کے بارہ میں قرآن کریم میں کوئی ذکر تو ملنا چاہئے.اس سورۃ کی طرف جس میں دجال کا ذکر ہے آنحضور علیہ نے خود ہماری راہ نمائی فرمائی ہے.جب آپ نے اپنے متبعین کو دجال سے ڈرایا تو صحابہ میں سے ایک نے پوچھا کہ اس پریشانی سے انسان بچ کس طرح سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اسکا ایک ہی حل ہے کہ رات سونے سے قبل سورۃ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات کی تلاوت کیا کرو.اب آپ کی اس بات کا واضح مطلب ہے کہ اس جگہ دجال کی تفصیل بیان ہوئی ہے.اگر آپ سورۃ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات پر غور کریں تو آپ کو اپنا دشمن نظر آنے لگے گا، اور ایک دفعہ دشمن کی شناخت ہو جانے اور اس کے حملہ آور ہونے کے طریق سے آگاہ ہونے کے بعد ہی اپنی حفاظت کے لئے دفاعی منصوبہ تیار کیا جاسکتا ہے.جب تک اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ دشمن کون ہے اور کس راستہ سے وہ حملہ آور ہوگا، قدرتی طور پر آپ دفاع کر ہی نہیں سکیں گے.چنانچہ آنحضور ﷺ نے واضح طور پر بتا دیا کہ دشمن کون ہے اور اسکا دفاع کیسے ممکن ہے.سورۃ کہف کی پہلی دس آیات میں عیسائیت کا بیان ہے اور اس بارہ میں خدا تعالی متنبہ فرماتا ہے کہ کسی کو اسکا بیٹا قرار نہ دو کیونکہ اسکا کوئی بیٹا نہیں ہے.وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدَّانَ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَا بِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۖ إِنَّ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الف:۲-۵)
خطبات طاہر جلد اول 161 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ مقدس رسول تمہیں اور خصوصاً عیسائیوں کو متنبہ کرنے کے لئے آیا ہے جنہوں نے خیالی طور پر اللہ تعالیٰ کا ایک بیٹا بنالیا ہے، اور وہ اس خیالی وجود کو اللہ تعالیٰ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اسکا بیٹا ہے.حالانکہ نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادوں کا کوئی علم تھا.وہ یونہی لغو گفتگو کرتے ہیں.جیسے انگریزی میں کہتے ہیں Out of the Hats(اٹکل پچو ) چنانچہ یہ ہے كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ مگر یہ لغو باتیں اللہ تعالیٰ کے حضور گناہ اور گستاخی ہیں.اس لئے وہ سزا کے مستحق ہیں.ایسی آیات بھی ملتی ہیں جن سے واضح ہے کہ دجال کا یا جو طاقت بھی وہ ہوگی اس کا مذہب عیسائیت ہوگی اور مستقبل کی وہ عیسائیت جو تقریباً مکمل طور پر بت پرستی میں تبدیل ہو چکی ہوگی.اس کے بعد کی آیات میں عیسائیت کی اس بھری شکل سے ہٹ کر ایسی آیات بیان ہوئی ہیں جن میں ایسے عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو متقی تھے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں عظیم الشان قربانیاں پیش کیں.وہ اپنے مخالفین سے اپنا مذہب بچانے کے لئے غاروں میں چھپے رہے یہ دوسرے لوگ تھے جن کا ذکر ہے ، اور یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ عیسائی آئندہ جو ترقیات بھی حاصل کریں گے وہ دراصل ان کے آباؤ اجداد کے نیک اعمال کا نتیجہ ہوں گی.یہ ان کے اعمال کی جزا نہیں ہوگی بلکہ اپنے بزرگوں کے اعمال کے پھل وہ اس دنیا میں کھائیں گے.چونکہ یہ ایک الگ مضمون ہے اور وہ لوگ دجال میں شامل نہیں اس لئے حضرت محمد مصطفی اللہ نے خود کو پہلی دس آیات تک ہی محدود کیا ہے کیونکہ اصحاب کہف یا غاروں والے لوگوں کا جو ذکر ملتا ہے وہ اس تنبیہ سے بری ہیں.در حقیقت قرآن کریم میں ان کا ذکر بڑی محبت اور عزت سے کیا گیا ہے.اس کے بعد ان کا ذکر چھوڑ کر ہم آخری دس آیات کو لیتے ہیں کہ وہاں کیا ذکر ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِى أو لِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكُفِرِينَ نُزُلًا (الكيف : ١٠٣) أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُواوہ جو آنحضور ﷺ کا انکار کر بیٹھے ہیں ، ماننے سے انکار کر دیا ہے.کیا ان کا خیال ہے ، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے.کس لیے؟ اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد اول 162 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء کی مخلوق کو اس کا شریک ٹہرا کرا! يَتَّخِذُوا عِبَادِی مِنْ دُونِی أَو لِيَاءَ اگر میرے بالمقابل وہ شریک بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہی شریک کھڑا کرتے ہیں تو اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے تو وہ بالکل غلطی پر ہیں.مزیدان میں بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ ہیں جن کی تمام تر توجہ تمام تر توانائیاں اور تمام تر طاقتیں صرف اسی مادی دنیا کے حصول کے لئے ہیں.الَّذِینَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اور یہ وہ آیت ہے جسکی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں.جو ایک بنیادی آیت ہے.یہ بتاتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے عقائد عیسائیت پر مبنی ہیں.جن کا مذہب عیسائیت ہے مگر انہوں نے مادیت میں ترقی کی ہے.وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنعًا اور وہ سمجھتے ہیں کہ.انہوں نے دنیا کی بہترین اشیاء حاصل کر لی ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ان کی تمام توانائیاں اور طاقتیں اس کے حصول میں صرف ہو رہی ہیں بلکہ وہ واقعی بہت کچھ حاصل کر لیں گے یہاں تک کہ وہ سمجھیں گے کہ انہوں نے زندگی بہترین طریق سے صرف کی ہے.اور اس سے زیادہ کیا بہتر ہوسکتا ہے؟ اب یہ بعینہ وہ صورت ہے جو ہمیں یورپ میں سفر کے دوران نظر آتی ہے کہ وہ مادیت پرستی میں بہت آگے نکل گئے ہیں.انہوں نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ پاکستان بھارت یا دوسرے غریب ممالک کے لیے شاید سو سال کے بعد بھی تصور میں نہیں آسکتی.وہ ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں اور مادیت پرستی کی اس دوڑ میں انہوں نے بہت خوبصورت اشیا حاصل کر لی ہیں.جسکی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے کہ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعا جس کا مطلب یہ ہے کہ صنعت میں وہ ایسا کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی تیار کردہ اشیا کو دیکھ کر کہیں گے کہ دیکھو انہیں کتنے عمدہ طور پر بنایا گیا ہے.ہم کتنی خوبصورت اشیاء بنا سکتے ہیں.چنانچہ سارے یورپ میں یہی چیز نظر آئے گی.الله یہ صنعت کاری میں بہت آگے جاچکے ہیں یہی قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے اور لفظ دجال کے معانی بالکل واضح ہو جاتے ہیں.یہ وہی دجال ہے جس کے بارہ میں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں بتایا تھا کہ اسکی ایک آنکھ اندھی ہوگی.یعنی جہاں تک مذہبی اقدار کا تعلق ہے وہ کسی منطق کو سمجھ نہیں سکے
خطبات طاہر جلد اول 163 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء گا.وہ کہتے ہیں کہ تین ایک ہے اور ایک تین ، خدا تعالیٰ جسمانی طور پر بچے پیدا کرتا ہے.یہ ناممکن ہے.کتنی بے ہودہ بات ہے.لیکن مذہبی معاملات میں ان کی منطق کمزور پڑ جاتی ہے اور در حقیقت ان راستوں میں وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے.لیکن جونہی ان کی بصارت مادیت پرستی کی طرف متوجہ ہوتی ہے ، وہ اتنی واضح اور طاقتور ہو جاتی ہے اتنی روشن کہ ہم انہیں تعجب سے دیکھتے ہیں.کیسے وہ ان تمام چیزوں کا ادراک کر لیتے ہیں جب کہ ہم بھی اسی کائنات میں رہتے ہیں.ہمارا بھی انہیں قوانین قدرت سے پالا پڑتا ہے.مگر ہم ان نکات کو سمجھ نہیں سکتے جبکہ وہ سمجھ لیتے ہیں اور قدرت کے درست مطالعہ سے وہ ترقی کر جاتے ہیں.چنانچہ ہماری یہ مشکل حضرت محمد مصطفی ﷺ نے حل فرما دی ہے اور اس کے حل ہونے سے ہماری امید بھی بندھائی ہے.ہمارے اندر احساس کمتری پیدا ہونے کی بجائے کہ دنیا میں اور دانشمند لوگ بھی موجود ہیں ہمارے ایمان کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ کس طرح آج سے چودہ سوسال قبل حضرت محمد مصطفی اللہ نے یہ سب دیکھ لیا تھا اور آپ نے ہمیں انذار فرمایا تھا کہ وہ مادی طور پر نہایت ترقی یافتہ ہو جائیں گے.مگر اخلاقی اور مذہبی اقدار میں ان کی پیروی نہ کرنا نیز تمام اسلامی اقدار کے حوالہ سے کیونکہ یہاں وہ ایک اندھے کی طرح ہوں گے.اگر تم نے ان کی پیروی کی تو تم بھی تباہ ہو جاؤ گے.سیہ وہ پیغام ہے جو میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مغرب سے ہمارا مقابلہ اسی رنگ میں ہونا چاہئے.آپ کیا عظیم الشان نبی تھے.جہاں آپ کو خوبی نظر آئی آپ نے اسی طرح بیان فرما دی.جہاں اچھی بات دیکھی بلا کم و کاست بیان فرمائی.جہاں برائی دیکھی وہاں ہمیں اس برائی سے متنبہ فرما دیا.اور ہمارا بھی یہی طریق ہونا چاہئے میرا مطلب ہے کہ ہم اپنے آقا سے علیحدہ کوئی راستہ نہیں چن سکتے.لیکن یہاں (مغربی ممالک میں ) ہم غلطیاں کرتے ہیں.میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو مشرق سے آکر مغرب میں آباد ہو گئے ہیں اور انہوں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پیغام سمجھا ہی نہیں.آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی تھی کہ جہاں تک مادی دنیا کے امور کا تعلق ہے ہم ان سے سیکھ
خطبات طاہر جلد اول 164 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء سکتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فعل کا مطالعہ کرنے میں تو کوئی حرج نہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق فرمودہ ہے.ان کی تخلیق تو نہیں.اس بارہ میں ان کا ادراک درست ہے.یہ فیصلہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مادی علوم کا تعلق ہے سائنس کا تعلق ہے تو نہ صرف ان سے سیکھو بلکہ ان سے آگے نکلنے کی کوشش کرو.اس میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں.انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو درست طور پر سمجھ لیا ہے.لیکن دیگر اقدار میں نہ صرف ان کی پیروی نہ کرو بلکہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرلو.لیکن جو کچھ مجھے یہاں دکھائی دیا ہے وہ بالکل مختلف طریق ہے بلکہ برعکس ہے.ایشیا سے آئے ہوئے بہت سے لوگ ان کی خوبیوں کی نہیں بلکہ ان کی خامیوں کی پیروی کرتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں.وہ اپنی اخلاقی اقدار چھوڑ بیٹھتے ہیں.اپنے اندر کی تمام خوبیاں چھوڑ کر مغربی معاشرے کے گند سمیٹ لیتے ہیں جبکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے انہیں چودہ سو سال قبل متنبہ کر دیا تھا.آپ کی نظر کتنی گہری تھی اور پیغام کیسا خوبصورت ! اس جگہ یہ غلطی کرتے ہیں.مغرب کی ہر بات کو برا نہ کہو اور ان کے خلاف خواہ مخواہ بغاوت نہ کرو.یہ پیغام تھا جو آپ نے دیا.اچھی چیز اور بری چیز میں تمیز کرنا سیکھیں اور میں اس کے لئے آپ کو ایک تیر بہدف نسخہ بتاتا ہوں جس سے آپ کبھی بھی بھٹک نہیں سکیں گے.وہ یہ ہے کہ اخلاقی و روحانی امور میں اہل مغرب بالکل غلط راستے پر ہیں جبکہ دنیاوی امور میں وہ بالکل درست ہیں.اس لیے دنیوی امور میں ان کی پیروی کریں.ان سے سیکھیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن ان کی اخلاقی ، مذہبی یا معاشرتی اقدار کی پیروی ایک زہر ہے، اسے مت کھائیں.مگر مشرق سے آنے والے لوگ بعینہ یہی کرتے ہیں.اس کے لئے احمدیوں سے توقع تھی کہ وہ نہ صرف مغرب کو بلکہ مشرق سے آنے والے لوگوں کو بھی جو یہاں آکران مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں متنبہ کریں گے.مگر احمدی بھی درحقیقت یہ کام نہیں کر رہے.اس لئے میں نے آپ پر کھول دیا ہے کہ بدقسمتی سے آپ کون سی اقدار ضائع کر رہے ہیں.آپ جو مغرب میں آئے ہیں آپ نہ صرف اپنی ذاتی حیثیت میں یہاں آئے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر
خطبات طاہر جلد اول 165 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء اسلام اور آنحضور ﷺ کے نمائندے کے طور پر یہاں آئے ہیں.اگر آپ خود ہی اس مذہب کو نہ سمجھیں ، اسکی تعلیمات پر کار بند نہ ہوں اور اپنے ذاتی نمونے پیش نہ کریں تو پھر کس طرح آپ کو ا اسلام اور آنحضور ﷺ کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے.بعض پہلوؤں سے آپ لوگ یہاں اتنی کمزوری دکھاتے ہیں کہ مجھے تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ بعض معاملات میں ہم مغرب پر غلبہ حاصل کرنے کی بجائے اس کے زیر اثر آ رہے ہیں.جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے تو سکاٹ لینڈ میں یہ صفر ہے.میں نے یہاں آکر پتہ کیا کہ کتنے مقامی احمدی دوست یہاں موجود ہیں جن کی خاطر میں انگریزی میں خطاب کروں تو مجھے بتایا گیا کہ صرف ایک خاتون ایسی ہیں.یہ جو کچھ ہم نے یہاں حاصل کیا ہے اسکا نصف ہے.کیونکہ ایک اور دوست بھی ہیں جو یہاں موجود نہیں جو بد قسمتی سے غیر حاضر ہیں.چنانچہ مقامی احمدیوں کی آدھی تعداد یہاں موجود ہے جو صرف ایک ہے.یہ قابل شرم ہے.یہ ایسا نکتہ ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہئے.آپ سب لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں.تمام نوجوان اور بوڑھے اور خواتین اور مرد حضرات ؟ وہ پاکستان سے یا کسی اور ملک سے یہاں ملازمت کی تلاش یا کاروبار کے سلسلہ میں تشریف لائے ہیں حالانکہ یہ آپ کا بنیادی کام نہیں.ایک احمدی کے لئے سب سے اہم بات اسلام کا پیغام ہے.اسے صرف مبلغین کے لئے ہی نہ رہنے دیں ، وہ اکیلے یہ کام کر ہی نہیں سکتے.یہ بوجھ آپ کو بھی اٹھانا پڑے گا ورنہ اسلام اسی شکست خورده حالت میں رہے گا جیسا کہ آج ہے.ابتدائی تاریخ اسلام کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب ملائیت کی وجہ سے نہیں آیا.اسلام میں تو ملائیت کا کوئی تصور ہی نہیں کہ جس کے ذریعہ اتنا بڑا انقلاب آ سکتا.چین میں اسلام کس طرح پھیلا؟ تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں کوئی ایک مبلغ بھی نہیں بھجوایا گیا.میری مراد چین کے ان چار صوبوں سے ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ چار - بڑے صوبے جو تقریباً تمام کے تمام مسلمان ہیں.وہاں کسی مسلمان حکومت نے ایک شخص بھی نہیں بھجوایا ، فقط تاجر اور ایسے لوگ تھے جو ملازمتوں کی تلاش میں اس طرح گئے جس طرح آپ یہاں آئے
خطبات طاہر جلد اول 166 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء ہیں.انڈونیشیا میں کس نے تبلیغ کی ؟ نہ کسی تلوار کے ذریعہ اور نہ ہی ایسے مبلغین کے ذریعہ جو آج ہمیں نظر آتے ہیں.اسوقت ایسا نظام ہی موجود نہیں تھا.محض عام تاجر پیشہ لوگ گئے اور تبلیغ کرنی شروع کی.وہ ذمہ دار لوگ تھے.حضرت محمد مصطفی اللہ نے کوئی پہلو بھی غیر واضح نہیں چھوڑا.آپ نے دجال کے معانی کھول کر بیان فرمائے.آپ نے واضح فرمایا کہ قرآن کریم میں اسکا ذکر کہاں ملتا ہے.آپ نے دجال کی فلاسفی بیان فرمائی.آپ نے بتادیا کہ کہاں اسکی پیروی کرنی ہے اور کہاں اس کی پیروی نہیں کرنی.کہاں مخالفت کرنی ہے اور کہاں تعاون.چنانچہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہر پہلو کھول کر بیان فرما دیا.لیکن بد قسمتی سے ہم آپ کے الفاظ پر غور نہیں کر رہے ہیں.جسکی طرف میں بار بار آپ کی توجہ مبذول کروارہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کی مددفرمائے.اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر آج سے فیصلہ کر لیں کہ آئندہ آپ ایک مبلغ کی طرح زندگی گزاریں گے.اگر آج آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ اپنی توانائیاں اس ملک کو اسلام کی طرف لانے میں صرف کریں گے تو آپ واضح تبدیلیاں محسوس کریں گے.آپ کے اردگرد لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے.لیکن یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب آپ عاجزی اختیار کریں.جب آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں.اسی سے مدد کی درخواست کریں.کیونکہ اس کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں.اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کے پاس اس زمین پر کوئی طاقت نہیں اور پھر اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوں، آنسوؤں اور درد بھرے دل کے ساتھ کہ اے خدا! میں نے ان لوگوں کو اسلام میں شامل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے.میں جو ایک ذرہ ہوں.کچھ بھی نہیں ہوں.جس کے پاس کوئی علم نہیں ، دولت نہیں ، کافی طاقت نہیں ، میں اسے کس طرح کر سکتا ہوں ؟ مگر خدا یا میں اسے تیری خاطر کرنا چاہتا ہوں.مجھے تیری رحمت سے امید ہے.میں تیری طاقت اور امداد پر یقین رکھتا ہوں.تو میری مددفرما کیونکہ میں جیسا بھی ہوں بہت عاجز.تیری مدد کرنا چاہتا ہوں.پس تو اس عظیم الشان مقصد کے حصول میں جو میں تیری محبت میں حاصل کرنا چاہتا ہوں.حضرت محمد مصطفی اللہ کے پیار میں حاصل
خطبات طاہر جلد اول 167 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء کرنا چاہتا ہوں.میری مدد فرما.میں اپنا آپ تیرے سپرد کرتا ہوں تو تو میری مدد کیوں نہیں کرے گا ؟ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اس درد اور دکھ سے بھرا ہوا دل لئے فریاد کریں گے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ اسے قبول نہ فرمائے.تب آپ اپنے گرد تبدیلیاں محسوس کریں گے.تب آپ دیکھیں گے کہ اس ملک کی قسمت بتدریج بدل رہی ہے، اور تاریکی سے روشنی پھوٹے گی اور تاریکی ختم ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے.پہلے اس پر عمل کرنے کا مخلصانہ ارادہ کریں.پھر اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان مقصد کے حصول میں آپ کی مددفرمائے گا.استقلال کے ساتھ.کسی جذباتی ابال کے نتیجہ میں نہیں.یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لئے غالباً ہمیں نسلاً بعد نسل کام کرنا پڑے اور اس عظیم الشان مقصد کے حاصل کرنے میں توانائیاں صرف کرنی پڑیں.چنانچہ ہمیں تھکے ہوئے لوگ نہیں چاہئیں.اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم ہمیں بتاتے ہیں کہ ایسے فرشتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہیں.یہی حال حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متبعین کا ہے جو اسلام کے مقدس بانی کی بیان فرمودہ عظیم الشان مقصد کو فتح وظفر کے نعرے لگاتے ہوئے حاصل کرتے ہیں.زندگی میں یہ آپ کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ کی نظروں میں آپ کا یہ مقام ہے.پس اٹھیں.آپ کیوں ان کم درجہ ایشیائیوں کی طرف دیکھتے ہیں جو یہاں آکر اپنی اقدار گم کر بیٹھے ہیں احساس کمتری کا شکار ہو کر گمراہ ہو بیٹھے ہیں.لیکن آپ ان سے مختلف ہیں.آپ یہ سمجھتے کیوں نہیں؟ مجھے اس بات سے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے.نہ صرف ارد گرد کے لوگوں کی حالت دیکھ کر بلکہ احمدیوں کو عام آدمیوں جیسا دیکھ کر، جبکہ آپ معمولی آدمی نہیں، مجھے بہت دکھ پہنچتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہوں کہ اے خدا میرے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے.اگر میں احمدیوں کو بھی تیرے پیغام پر قائم نہیں رکھ سکتا.اگر میں انہیں ان کا مقام ہی نہیں سمجھا سکتا پھر تو میرے لندن اور گلاسگو اور فرینکفرٹ اور ہمبرگ کی گلیوں میں گھومنے کا مقصد ہی کیا ہے.پھر تو میں ہزاروں ، لاکھوں عام سیاحوں کی مانند ہی ہوں.میں تو یہاں اس مقصد سے نہیں آیا.اور مجھ میں احمدیوں کے دلوں کو گرفت میں لے لینے کی طاقت تو نہیں.میری مددفرما.سوجیسا کہ میں منکسر المزاجی سے اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرتا ہوں آپ بھی اسی انکسار سے اپنی
خطبات طاہر جلد اول 168 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء خاطر اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کریں.اپنی آئندہ نسلوں کی خاطر، بنی نوع انسان کی خاطر جو مشکلات میں گھری ہوئی ہے.تب آپ عظیم نشانات اتر تے دیکھیں گے.بڑی بڑی تبدیلیاں انشاء اللہ رونما ہوں گی.اور آپ کے ان مادی جسموں سے آپ کی روحیں بلند ہوں گی اور ان ممالک میں ایک نئی جماعت کا قیام ہوگا.اور یہ ہے احمدیت کا وہ پیغام جو میں آپ کو دینا چاہتا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ انشاء اللہ ضرور اثر انداز ہوگا.خطبہ ثانیہ کے درمیان حضور نے فرمایا: جمعہ کے بعد ہم نماز عصر جمع کریں گے.میں اور میرے ساتھی ہم سفر نماز عصر قصر کریں گے.یعنی دو رکعات ادا کریں گے.آپ میں سے جو یہیں رہتے ہیں وہ اپنی نماز سلام پھیرے بغیر مکمل کریں.مگر وہ اس وقت تک نہ کھڑے ہوں جب تک میں دونوں طرف سلام نہ پھیر لوں.میں نے بعض دوستوں کو جلدی کرتے دیکھا ہے.جبکہ انہیں امام کی حرکت سے قبل حرکت کرنے کی اجازت نہیں اس حال میں کہ امام ابھی نماز پڑھ رہا ہو.جیتک وہ دوسری طرف سلام نہ پھیر لے مقتدیوں کو کھڑے ہونے کا کوئی حق نہیں.جب امام نماز مکمل کر لے تب وہ آزاد ہیں.امام کی نماز دوسرے سلام کے بعد ختم ہوتی ہے پہلے کے بعد نہیں.چنانچہ آپ میرے دوسرے سلام پھیر نے تک انتظار کریں اور پھر کھڑے ہو کر بغیر سلام پھیرے دورکعات ادا کر کے نماز مکمل کریں.اس کے بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ جماعت تجدید بیعت کرنا چاہتی ہے.تو جماعت سکاٹ لینڈ کے لئے انشاء اللہ تقریب بیعت ہوگی.اور سکاٹ لینڈ کے امام مکرم بشیر آرچرڈ صاحب اور کچھ اور دوست میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھیں گے اور باقی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے دوست پر ہاتھ رکھ لیں.اس طرح ایک جسمانی رابطہ بن جائے گا.در اصل جسمانی رابطہ بذات خود کوئی حقیقت نہیں رکھتا.روحانی رابطہ کی اصل حقیقت ہے.کیونکہ یہی وہ بیعت ہے جسکا ذکر قرآن کریم میں حَبْلُ اللہ کے طور پر کیا گیا ہے.حبلُ اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رہیں.چنانچہ بیعت کے ذریعہ آپ حبل اللہ کو پکڑتے ہیں، اور یہ روحانی تعلق ہے.تو پھر جسمانی تعلق کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کسی وہم کی وجہ سے نہیں.بلکہ
خطبات طاہر جلد اول 169 خطبه جمعه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۲ء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں یہ طریق سکھایا ہے.یہ آپ کی عادت تھی.آپ اسی طرح کیا کرتے تھے اور ہم آپ کے پیروکار ہیں.میرے خیال میں یہ ایک علامت ہے.میں آپ کے سامنے اسکی ضرورت بیان کر رہا ہوں.آنحضور ﷺ کی اس سے یہ مراد تھی کہ خلیفہ یا جس کی بھی تم بیعت کر رہے ہو اس کے نزدیک رہنے کی کوشش کرنا.نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ دراصل روحانی طور پر.شاید یہ علامت ہے مگر جو بھی یہ ہے ہم اسی طرح کریں گے جیسا کہ ہم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے صحابہ سے پایا ہے.تو یہ وہم نہیں.چنانچہ نماز کے بعد ہم بیعت کریں گے اور پھر میں آپ سے اجازت چاہوں گا.انشاء اللہ تعالیٰ.
خطبات طاہر جلد اول 171 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء نئی زمین اور نئے آسمان کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں ( خطبه جمع فرموده کیم اکتوبر ۱۹۸۴ء بمقام بلنکم بر طانیہ کے انگریزی متن کا تر جمعہ ) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ الملک کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی: وَلَقَدْ زَيَّنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيعَ وَجَعَلْنَهَارُجُوْمًا لِلشَّيْطِيْنِ وَاعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ (سورة الملك :) اس کے بعد فرمایا: انسان کی توجہ فطرت کے مطالعہ کی طرف پھیرنے کے لئے قرآن کریم کا یہ ایک طریق ہے.مگر فطرت کا مطالعہ جس کی طرف انسان کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے اپنی ذات میں مقصود نہیں ہے.دراصل یہاں کچھ اور مراد ہے.اللہ تعالیٰ دراصل انسان کی توجہ ایک روحانی عالم کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے اور فطرت کا ذکر بطور نمونہ بیان کیا گیا ہے.جس کے مطالعہ سے ہم مخفی روحانی عالم کا اندازہ کر سکتے ہیں.جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے وہ اس بات کی جو میں نے ابھی کہی ہے ایک مثال ہے.بظاہر قرآن مجید میں آسمان کا ذکر کیا گیا ہے.سب سے نچلے آسمان کا جس میں ایسے چراغ جڑے ہوئے ہیں جن کا مقصد شیطان کو بھگانا ہے.جو آیت میں نے آپ کے سامنے ابھی تلاوت کی
خطبات طاہر جلد اول 172 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء ہے اس میں انہی الفاظ میں یہ بات بیان کی گئی ہے.لَقَدْ زَيَّنَ السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيعَ ہم نے نچلے آسمان کو چراغوں سے مزین کیا ہے.اس کا مقصد کیا ہے؟ جَعَلْنَهَارُجُوْمًا لِلشَّيْطِيْنِ ہم نے انہیں شیطانوں کو بھگانے کے لئے بنایا ہے.وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ اور ہم نے سخت جلانے والی آگ ان کے لئے تیار کی ہے.اب بظاہر قرآن کریم کا یہ مطلب نہیں ہے.کیونکہ یہ آیت اس دنیا سے متعلق نہیں ہے جو ہم دیکھتے ہیں.بلکہ اس سے مذہبی دنیا اور مذہبی عوامل مراد ہیں جو ہم سے مخفی ہیں.کیونکہ ہم ظاہراً کوئی شیطان نہیں دیکھتے جنہیں شہاب ثاقب بھگا رہے ہوں اور نہ ہی ہمیں ایسے چراغ نظر آتے ہیں جو آسمان پر آویزاں ہوں.چنانچہ ان لوگوں کے لئے جو قرآن کریم کا انداز سمجھتے ہیں واضح ہے کہ یہاں ذکر ایک بالکل مختلف بات کا ہورہا ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں تو بعض غیر مسلم اس پر اعتراض کرتے ہیں.وہ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ تم اپنے الفاظ قرآن کریم کے منہ میں ڈال رہے ہو کیونکہ اب دنیا سائنس کے میدان میں بہت ترقی کر گئی ہے اور نو جوان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے الفاظ زمانی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور قوانین قدرت کو غلط انداز میں بیان کرتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزامات کا جواب دینے کے لئے تم مختلف قسم کے بہانے تراشتے ہو اور ہمیں یہ بتاتے ہو کہ سب مخفی سلسلے ہیں.یہ محض روحانی امور ہیں.مذہبی باتیں ہیں اور ان قوانین قدرت کا ذکر نہیں جو ہم دیکھتے ہیں.اس سوال اور الزام کا کیا جواب ہے؟ یہ ایک بھاری اعتراض ہے اور اسلام کا دفاع عقل سے کرنا چاہئے نہ کہ اپنے اعتقاد اور تصورات کی بنیاد پر.جولوگ قرآن کریم کا انداز بیان سمجھتے ہیں وہ یہ بات بھی سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے دفاع کے لئے باہر سے کسی مدد کی ضرورت نہیں.قرآن اپنی اقدار کی خود حفاظت کر سکتا ہے اور باہر سے کسی مددکا محتاج نہیں.بعض قرآنی آیات دوسری قرآنی آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور ان کے معانی واضح کر دیتی ہیں.چنانچہ جب ہم واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ ان آیات کا تعلق مذہبی امور سے ہے اور دنیا کے ظاہری قوانین سے نہیں تو ہمیں قرآن کریم سے اس بات کا ثبوت ملنا چاہئے تا کہ جب انسان کی توجہ
خطبات طاہر جلد اول 173 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء ان دوسری آیات کی طرف مبذول کروائی جائے تو اس قسم کا اعتراض ختم ہو جائے.وہ دوسری آیت جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.وہ اس سورۃ کے چندسورتوں بعد سورۃ جن کی ہے.قرآن کریم اس آیت میں فرماتا ہے.وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدً اوَّتُهُبَّان وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدُ لَهُ شِهَابًا رَّصَدَّان (الجن...) قرآن نے یہ آیت لفظ جنات کے تعلق میں بیان کی ہے.اور لفظ جن ایک وسیع لفظ ہے اس کی توضیح کیسے کی جائے؟ کیا قرآن کریم کی اس سے مراد ایک بہت ہی عجیب وغریب اور خاص قسم کی مخلوق سے ہے جو انسانی آنکھ کے لئے غیر مرئی ہے اور جسے انسانی معاملات پر کبھی کبھار قدرت حاصل ہو جاتی ہے؟ یا اس سے کچھ اور مراد ہے مگر میں اس سوال کو فی الحال چھوڑتا ہوں کیونکہ اس سے ہم ایک اور سمت میں چل پڑیں گے.میں خود کو اس پہلی آیت کے معانی تک ہی محدود رکھوں گا جو اس دوسری آیت سے ظاہر ہوتے ہیں.اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد جنوں کے ایک وفد نے آپ سے ملاقات کی اور انہوں نے آپ کو قبول کر کے حضور علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور جب وہ واپس گئے تو آپس میں گفتگو کرنے لگے اور یہی وہ گفتگو ہے جس کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے.انہوں نے جب وہ واپس گئے تو کہا کہ وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنُهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدً اوَّشُهَبَّان وأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدَّان (این...) صلى الله اور یقیناً ہم نے آسمان کو ٹولا تو اسے کڑے محافظوں اور شہاب ثاقب سے بھرا ہوا پایا.اور یقیناً ہم سننے کی خاطر اس کی رصد گاہوں پر بیٹھے رہتے تھے.پس اب جو سننے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک لپکتے ہوئے ستارے کو اپنی گھات میں پاتا ہے.کیا وجہ ہوئی کہ فطرت کا نقشہ بظاہر مکمل طور پر بدل گیا.صرف ایک تبدیلی جو آئی وہ
خطبات طاہر جلد اول 174 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء آنحضور ﷺ کی بعثت تھی.جبکہ قوانین قدرت میں کچھ نہیں بدلا، ان میں کوئی بھی تبدیلی مشاہدہ میں نہیں آئی.آسمان ویسا ہی ہے جیسا کہ وہ تھا.میرا مطلب ظاہری آسمان سے ہے.آسمان اور ستاروں کی چال ویسی ہی رہی.مگر آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد ایک انقلاب ضرور آیا اور ایک نیا نظام جاری ہوا.چنانچہ یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ نہ اس آیت میں اور نہ گزشتہ آیت میں ظاہری قوانین قدرت کا ذکر ہے.اس سے دراصل مراد یہ ہے کہ جب انبیاء مبعوث ہوتے ہیں تو وہ ایک نیا آسمان تیار کرتے ہیں اور یہ آسمان اس سے مختلف ہوتا ہے جس سے پہلے لوگ واقف تھے.انبیاء کی بعثت سے قبل دنیا دار لوگ مذہبی اقدار پر اعتراض کرنے کے لئے آزاد ہوتے ہیں.بلکہ وہ خدا تعالیٰ پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.ان کے ٹیڑھے دماغ پہلے خود شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور پھر وہ شکوک کے یہ پیج دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں بونے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے کیونکہ اس وقت تک وہ آسمان تیار نہیں ہوا ہوتا جس کا ذکر قرآن کریم میں سب سے نچلے آسمان کے رنگ میں کیا گیا ہے اور ان ستاروں نے ابھی جنم نہیں لیا ہوتا جو مذہبی اقدار کے نگہبان ہوں.یہ آسمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں نیا آسمان اور نئی زمین کے نام سے یاد کیا گیا ہے.نئے آسمان سے مراد وہ آسمان ہے جو اس آیت میں مذکور ہے اور یہ انبیاء کی بعثت سے پہلے تیار نہیں ہوسکتا جیسا کہ سورۃ جن نے اس کو واضح طور پر بیان کر دیا ہے.چنانچہ حضرت محمد ﷺ تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ایک نئے آسمان نے جنم لیا.پھر ستارے کون ہیں؟ وہی ہیں جن کے بارہ میں آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اصحابی کالنجوم بأيهم اقتديتم اهديتم ( مشکوۃ المصابیح کتاب المناقب باب مناقب الصحابہ) میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.جس کی بھی متابعت تم اختیار کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.چنانچہ یہ نیا آسمان ہے جو تیار کیا گیا اور اس نئے آسمان کی طرف قرآن کریم کہیں کہیں اشارہ فرماتا ہے.اب اس آسمان کی خوبیاں کیا ہیں؟ اس نئے آسمان کی خوبیاں جو یہاں بیان ہوئی ہیں یہ ہیں کہ اس کے ستارے مذہبی اقدار اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے نگہبان ہیں.نیا آسمان بننے کے بعد لوگوں کو اجازت نہیں کہ وہ مذہبی اقدار پر پہلے کی طرح حملہ آور ہوسکیں.اب ان کا مقابلہ
خطبات طاہر جلد اول 175 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء ایسے مضبوط پہریداروں سے ہے جو ان کا تعاقب کرتے ہیں اور انہیں بھگا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں.اور اگر وہ فرار اختیار نہ کریں تو مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اس آسمان کی حفاظت کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ دنیا دار لوگ اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے.یہی بات ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اور اسی کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں.حضرت محمد علیہ تشریف لائے اور ایک نیا آسمان تیار فر مایا.تاریخ اسلام کے مطالعہ سے صلى الله معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد بہت لمبے عرصہ تک عظیم الشان علماء پیدا ہوتے رہے.آنحضور علیہ کے صحابہ کے اس فانی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ایسے لوگ تھے جو ان کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اسلام کی اقدار کی پرزور حفاظت کرتے رہے.نیچے وہ دشمن کو مرعوب کرتے رہے اور ایک وقت ایسا آیا کہ لوگوں کو ان اقدار پر حملہ آور ہونے کی جرات ہی نہ ہوتی تھی کیونکہ اس کے بے شمار نگہبان تھے.بد قسمتی سے کچھ عرصہ کے بعد جیسا کہ قرآن کریم نے پیشگوئی فرمائی تھی اس آسمان میں تبدیلیاں آنے لگیں.ستارے اپنے مقام سے ہل گئے اور تاریکی نے آہستہ آہستہ روشنی کی جگہ لے لی.جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا، بالآخر ایک تاریک رات چھا گئی اور صدیوں پر محیط ہوگئی.آسمان سے اس بد قسمت تاریک دور میں بہت کم روشنی نظر آتی تھی.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے.انہیں اللہ تعالیٰ نے خود تیار کیا اور اسلام کے لئے ایک نئے آسمان نے جنم لیا، نئے ستارے طلوع ہوئے اور اسلامی اقدار کے دفاع کے لئے نیا نظام جاری ہوا جس نے فورا ہی کام شروع کر دیا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ستاروں کے جنم لینے کا انتظار نہیں کیا.وہ سب سے پہلے خود آگے بڑھے اور دراصل اسی طریق سے الله نئے ستارے پیدا ہونے شروع ہوئے جیسا کہ آنحضور علیہ کے زمانہ میں ہوئے تھے.انبیاء در حقیقت سورج یا چاند کی طرح ہوتے ہیں جن کے گردان کی روشنی کے نتیجہ میں نیا آسمان جنم لیتا ہے اور اس طریق کا مشاہدہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دوبارہ کیا.مگر بہت سا وقت گزر گیا ہے اور دنیا کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی نکل گیا ہے.لوگ تبدیل ہو چکے ہیں.اسی طرح احمدی بھی بدقسمتی سے اس رویہ کے حامل نہیں رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھا.اور کئی پہلوؤں سے وہ معیار سے نیچے گر گئے ہیں اور یہ وہ پہلو ہے جس کے بارہ میں
خطبات طاہر جلد اول 176 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء میں بہت دکھ سے اقرار کرتا ہوں کہ وہ معیار سے بہت نیچے جاپڑے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام ایک اور طرف سے حملہ آور ہور ہے ہیں.انہوں نے اسلام پر ایک اور رنگ میں حملہ کیا ہے اور اب ان کا مقابلہ مختلف قسم کے نگہبانوں سے ہے مگر اسلام کے بارہ میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کا ان کا مقصد وہی ہے جو قبل ازیں تھا.انتقامی رویہ اور دشمنی کا دستور وہی پرانا ہے صرف انداز نسبتا تبدیل ہوا ہے.مگر ساری دنیا کے احمدی اگر تمام نہیں تو اکثر اس طریق کی طرف توجہ نہیں دے رہے.وہ شعوری طور پر اسلامی اقدار کی اس طرح حفاظت نہیں کر رہے جیسی ان کو کرنی چاہئے.میں یہاں اس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں جو صرف احمد یوں میں ہی نہیں بلکہ باہر کی دنیا میں بھی پیدا ہو رہی ہے.میں اس بات کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ میری بات سمجھ جائیں.میری مراد یہ ہے کہ اسلام دشمنی اسی طرح سے ہے ، اس کا انداز تبدیل ہو گیا ہے اور وہی دشمن نئے ہتھیاروں سے حملہ آور ہو رہا ہے.ان کی پالیسی بظاہر ذرا سی تبدیل ضرور ہوئی ہے مگر اصلیت تبدیل نہیں ہوئی.پالیسی میں بظاہر نرمی پیدا ہوئی ہے.دشمن بظاہر اتنے دشمن نہیں رہے اور بعض اوقات وہ دوستی کی آڑ میں گفتگو کرتے ہیں.یہ مستشرقین کی وہ نئی نسل ہے جواب ابھر رہی ہے.مگر میرا گہرا مشاہدہ ہے کہ سوائے دھوکہ اور فریب دہی کے کچھ بھی نہیں بدلا.وہی لوگ اسی شدت سے اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں.صرف زبان نرم ہوتی ہے اور طریق کار بدلا ہے اور نام بدل دیا گیا ہے.ماضی میں جسے زہر کہا جاتا تھا.اب دوا کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئی.ماضی میں وہ حضرت محمد ﷺ کو کھلے عام جھوٹا ( نعوذ باللہ ) کہا کرتے تھے.اب وہ کہتے ہیں کہ آپ جھوٹے تو نہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آپ کیا ہیں.مگر جب وہ قرآن کریم پر اعتراض کرتے ہیں تو وہ پوری صلى الله کوشش اس بات کے ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں کہ آنحضور علیہ اس کے مصنف ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا ہی نہیں.اور دراصل آپ آچھے مصنف بھی نہیں تھے.( نعوذ باللہ ).وہ انسانی اقدار میں کمزوریاں تلاش کرتے ہیں.اس طرح دیگر شعبوں میں بھی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں.اور تضادات اور تبدیلیوں اور بہت سے دوسرے پہلوؤں پر وہ اعتراض کرتے
خطبات طاہر جلد اول 177 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء ہیں.اس سے ان کا مقصد عام قاری پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہ کتاب آنحضور ﷺ کی ہی تصنیف ہے اور بہت کمزور تصنیف ہے.اگر کسی چیز کی تعریف بھی کریں تو اس سے یہ اشارہ نہیں ملتا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.مثلاً بعض اوقات وہ زبان کی تعریف کرتے ہیں اور مسلمان اس دھوکہ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کے خیال میں وہ اب اپنا رویہ تبدیل کر کے اسلام کے دوست بن گئے ہیں.کیونکہ انہوں نے آنحضور ﷺ کی اپنی زبان میں کبھی کبھار تعریف بھی کی ہے.بعض اوقات وہ آنحضور علی کی مدح بھی کرتے ہیں.مگر ان شعبوں میں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں وہ آپ کی بطور انسان تعریف کرتے ہیں.یا وہ آپ کی بعض عظیم الشان خوبیوں اور لیڈرشپ کی تعریف کرتے ہیں.مگر یہ سب فریب ہے.وہ اسلام کے پکے دشمن ہیں مگر اپنی زبان اور رویہ میں تبدیلی پیدا کر کے وہ لوگوں کو پہلے سے زیادہ دھوکہ دے رہے ہیں.مجھے حال ہی میں اس بات کے معلوم ہونے پر شدید دھکالگا کہ بہت سے عرب طلبہ برطانوی یونیورسٹیوں میں اسلام کے مطالعہ کے لیے آتے ہیں.تا کہ وہ ان نام نہاد مستشرقین سے اسلام سیکھیں.صرف ایک یو نیورسٹی میں ہی اسلام کا مطالعہ کرنے والے پچاس سے زائد عرب طلبہ موجود ہیں.اور جو کچھ بھی انہیں وہاں پڑھایا جاتا ہے وہ اسے امرت سمجھ کر پیتے ہیں.وہ اسے یہ جانے بوجھے بغیر نگل جاتے ہیں کہ یہ وہی زہر ہے جو پہلے بھی استعمال ہوتا تھا مگر اسکا لیبل بدل گیا ہے.چنانچہ صورتِ حال بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوئی ہے.مگر میرا مشاہدہ ہے کہ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور ان کے عزائم کیا ہیں؟ چنانچہ اسی وجہ سے میں نے آج اس مضمون کو چنا ہے.میں ساری دنیا کے تمام احمد یوں سے واضح طور پر چاہتا ہوں کہ وہ اس آیت میں مذکورستاروں کا کردار ادا کریں.آپ ہی اس نئے آسمان کے ستارے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تیار کیا تھا.آپ ہی پر اسلام کے دفاع کی بنیاد ہے.اگر آپ سوتے رہے تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے.اگر آپ نے اسلام کا دفاع نہ کیا تو کون ہے جو آپ کی جگہ اسلام کا دفاع کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ہمارے سپرد کی ہے.اس نے ہمیں اسی مقصد کے لئے چنا ہے.چنانچہ اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کر سکے تو کوئی بھی ہمارے لئے آگے بڑھ کر یہ بوجھ
خطبات طاہر جلد اول 178 خطبه جمعه یکم اکتو بر۱۹۸۲ء نہیں اٹھائے گا.اور باقیوں میں تو اسے اٹھانے کی طاقت ہی نہیں ہے.کیونکہ وہ اسلامی اقدار کو اس طرح نہیں سمجھتے جس طرح آپ سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو قرآن کریم کے مطالعہ کے ذریعہ نئے راستوں سے واقف ہونے کے راز سکھائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو وہ اشارے سمجھائے ہیں جن کے ذریعہ آپ قرآن کریم کو باقی دنیا کی نسبت بآسانی سمجھ سکتے ہیں.چنانچہ اگر آپ نے قرآنی اقدار کی حفاظت نہ کی تو پھر کوئی اور یہ کام کر ہی نہیں سکتا.یہ میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں اور اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے.بہت سی کتب اسلام کی تعلیمات اور آنحضور علی اللہ کی شخصیت کو بگاڑنے کے لئے مارکیٹ میں دستیاب ہیں.اور جن ممالک میں یہ طبع ہو رہی ہیں وہاں کے احمدیوں نے ان کا نوٹس ہی نہیں لیا.مثلاً یہاں انگلستان میں میں نے بعض ایسی کتب دیکھی ہیں جن کا ہمارے لٹریچر میں ذکر تک نہیں.مگر وہ شدید زہر آلود ہیں.اور نئی نسل کی اسی طرح پرورش کی جارہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ پالیسی میں جس تبدیلی کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہ بعض سیاسی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.کیونکہ عرب ممالک میں تیل کی موجودگی اور عرب ممالک میں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے اب مستشرقین اپنی پالیسی تبدیل کر رہے ہیں.اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان ممالک کی دشمنی آنحضرت ﷺ کو خواہ مخواہ کذاب قرار دے کر کیوں مول لی جائے ؟ آپ کو سچا قرار دے کر آپ کی ان کے اپنے خیال کے مطابق ( نعوذ باللہ ) جھوٹی باتوں کو اجاگر کیا جائے.چنانچہ یہ وہ پالیسی ہے جس نے اپنا نام تبدیل کیا ہے اور کچھ نہیں.وہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں مگر پھر اس کی طرف خوفناک تضادات منسوب کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اور قاری ان کی تفسیر قرآن کے چند صفحات پڑھ کر ہی اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ بے کار باتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ سے یا الہامی کتب سے کوئی بھی تعلق نہیں.چنانچہ یہ وہ دشمنی ہے جس کا آپ کو شعور ہونا چاہئے اور پوری کوشش کر کے اس کی شناخت کرنی چاہئے ، اس کا تعاقب کرنا چاہئے اور پھر ایسے دشمنانِ اسلام کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دینا چاہئے.
خطبات طاہر جلد اول 179 خطبه جمعه یکم اکتو بر۱۹۸۲ء آپ میں سے جو دوست پڑھے لکھے ہیں اور جو اچھی انگریزی جانتے ہیں اور جو اگر پوری طرح نہیں تو کچھ نہ کچھ قرآنی اقدار اور احمدیت کی اقدار سے واقف ہیں، انہیں یہ کتابیں پڑھ کر بتانا چاہئے کہ ان میں اسلام کے خلاف کیا کہا جا رہا ہے.انہیں فہرستیں مرتب کرنی چاہئیں.اس کا ایک نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو خود اس کا جواب دیں.مگر یہ کام تمام کا تمام خود ہی نہ کرتے رہیں.میرے ذہن میں اس کام کے کرنے کے لئے ایک واضح لائحہ عمل ہے.سب سے پہلے تو انہیں غلط بات کی شناخت کرنی چاہئے.ان تمام چیزوں کی فہرست تیار کریں.پھر اس کا جائزہ لیں اور پھر ان کتب میں جو حوالہ جات درج ہیں ان کی بنیاد تک پہنچ کر اپنی بہترین صلاحیتوں کو صرف کرتے ہوئے جواب تیار کریں.مگر اسے صرف یہیں تک نہ چھوڑیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ مؤثر طور پر اسلامی اقدار کی حفاظت نہ کر سکیں.کیونکہ اس سارے قصے میں بہت سی چالاکیاں کی جاتی ہیں.مختلف پہلوؤں سے بہت سی تحقیق کے بعد ہی درست جواب دیا جاسکتا ہے.چنانچہ یہ تمام چیزیں، ایسی تمام کتب مرکز کو بھجوانی چاہئیں جہاں ہم انشاء اللہ ایک شعبہ قائم کریں گے جو دشمنان اسلام کی ایسی تمام کوششیں اکٹھی کرے گا اور پھر ہم اسے سنبھال کر ان تمام پہلوؤں پر تحقیقات کریں گے جن کا حوالہ دیا گیا ہے.اس ڈیٹا کے اکٹھے ہونے کے نتیجہ میں انشاء اللہ ہم اس قابل ہوں گے کہ دشمن کے آخری مورچے تک اس کا تعاقب کریں اور یہ فوری اور بہت اہمیت کا کام ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ میرے ذہن میں اس کے لئے ایک اور منصوبہ ہے جواب میں نے تیار کیا ہے.اگر ہم اسے لوگوں پر محض اتفاقاً چھوڑ دیں تو بعض مصنفین پر نظر نہیں جائے گی اور بعض پر ہم خواہ مخواہ زیادہ قوت خرچ کر رہے ہوں گے.چنانچہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن جن ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے با قاعدہ جماعتیں قائم ہیں، وہاں کی مقامی انتظامیہ کو تمام احمدیوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہئے.اور وہ اپنے مشنری انچارج کو تحریر ابتائیں کہ وہ کس مصنف کا مطالعہ کریں گے.چنانچہ ایسے گروپس تیار ہوں.مثلاً پانچ یا دس احمدی علماء منٹگمری واٹ کا مطالعہ کریں.اس کی تمام کتب کا مطالعہ کیا جائے ان پر غور کیا جائے کہ کہاں وہ ہمارے عقائد کے خلاف گیا ہے اور کہاں اس نے جان بوجھ کر یالا علمی میں اسلام پر اعتراض کیا ہے.اسی طرح اس نے جن کتب
خطبات طاہر جلد اول 180 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء کا حوالہ دیا ہے وہ بھی اس گروپ کے زیر مطالعہ ہوں اور یہ بات نوٹ کی جائے کہ یہ حوالہ جات اس نے درست طور پر دیئے ہیں یا غلط اور پھر اس کے جو بھی نتائج نکلیں ان سے مرکز کو مطلع کیا جائے.وہاں ہم مزید تحقیق کر کے فیصلہ کریں گے کہ ان الزامات کا بہترین طور پر جواب کیسے دیا جاسکتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کے دفاع میں مستقبل قریب میں نیا لٹریچر تیار ہو جائیگا اور اس آیت میں نئے آسمان کی تخلیق سے یہی مراد ہے.یہ نیا آسمان آئندہ تیار نہیں ہوگا.یہ تو حضرت محمد مصطفی ﷺے پہلے ہی تیار کر چکے ہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی طریق پر تیار کیا ہے.اب صرف یہ کمزور ہو رہا ہے.اسی لئے ہمیں اس نظام کو مضبوط کرنا پڑے گا.کوئی نئی تجویز پیش نہیں کی جارہی.کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں کیا جا رہا.چنانچہ بالآخر یہ ہو گا کہ جب وہ ہمیں تمام اطلاعات مہیا کریں گے تو مشنری انچارج جائزہ لیں گے کہ کہیں یہ تو نہیں کہ کوئی پہلو بالکل تشنہ رہ جائے اور کہیں بہت زیادہ توجہ ہو جائے اور پھر وہ اس میں ایک توازن قائم کریں گے.نتیجہ ہم مرکز میں اندازہ کر سکیں گے کہ ساری دنیا میں جو بھی اسلام کے خلاف کچھ لکھتا ہے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسکا تعاقب کر رہے ہیں.اور ہر اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے.اسکی نگرانی مرکز کی ذمہ داری ہے.چنانچہ انشاء اللہ ہم اسلام کو خطرے کی حالت میں نہیں رہنے دیں گے.جب تک ہم زندہ ہیں یہ ناممکن ہے.مگر جیسا کہ میرا تکلیف دہ مشاہدہ ہے کہ میں نے بعض کتب کا مطالعہ کیا جن میں آنحضور ﷺ اور قرآن کریم پر بے ہودہ حملے کئے گئے تھے.اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہمارا جگر چھلنی ہو جاتا ہے اور پھر ظلم کی بات یہ ہے کہ زبان ایسی استعمال کی جارہی ہے جیسے کوئی دوست گفتگو کر رہا ہے نہ کہ دشمن.اور اسلامی دنیا میں ان نام نہاد دوستوں کو بڑی پذیرائی ملتی ہے.پھر ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ احمدیت کا ذکر ہی نہیں کرتے.جہاں بھی انہوں نے اسلام پر اعتراض کیا ہے اور وہ سکالرز ہیں اور یقیناً انہوں نے احمد یہ لٹریچر کا مطالعہ کیا ہوا ہے.بعض کے بارہ میں تو مجھے یقین ہے اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس پہلو سے جماعت احمدیہ نے شاندار رنگ میں اسلام کا دفاع کیا تھا.مگر وہ اس بارہ میں جماعت کا نام اور جماعت کے عقائد کا ذکر ہی بھول جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد اول 181 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء اس طرح وہ ایک ہی وقت میں دو مقاصد حاصل کر لیتے ہیں.ایک یہ کہ ان کتب کا حوالہ دیے بغیر جن میں کسی عالم دین نے اس بات کا دفاع کیا ہو اسلام پر اعتراض کئے چلے جاتے ہیں.اور دوسرے وہ کا : غیر از جماعت دنیا کو خوش رکھتے ہیں اور اس طرح وہ اسلام کے وفادار ثابت ہو جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت احمدیہ کوئی چیز نہیں.اسکی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے.انہوں نے اسلام کے دفاع کے بارہ میں جو کچھ بھی کہا ہے وہ بے معنی ہے سب مذاق ہے اور ہم ان کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے.جو بڑے بڑے علماء ہیں.وہ اتنی معمولی حیثیت کے مالک ہیں کہ عظیم مستشرقین کی عالی شان کتب میں ان کا ذکر بھی نہیں ہونا چاہئے.چنانچہ اس طرح وہ تمام عالم اسلام کو خوش رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپ دراصل بچے مسلمان ہیں.آپ ہی کو علم ہے کہ اسلام کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے.اور اس طرح یہ فریب بڑھتا ہی رہتا ہے.مگر ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں.انشاء اللہ.جیسا کہ قرآن کریم ہماری راہ نمائی فرماتا ہے کہ جب نیا آسمان تخلیق ہوتا ہے ایک نیا انقلاب رونما ہوتا ہے اور اس آیت میں اسی انقلاب کا ذکر ہے.وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنُهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدً اوَتُهُبَّان عجیب بات ہوئی ہے کہ ایک نیا آسمان تخلیق ہو گیا ہے.ماضی میں ہم اس پر اپنی مرضی سے حملہ آور ہو جاتے تھے.مگر اب ہم اس آسمان پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہمیں بڑے مضبوط نگہبانوں سے واسطہ پڑتا ہے.جو ہمارا تعاقب کرتے ہیں اور ہمیں سخت سزا دیتے ہیں.بہت سخت سزا جس کی وجہ سے آگ ہمارا تعاقب کرتی ہے اور ہمیں من مرضی کرنے کی اجازت نہیں دیتی.اس آیت کا یہ مطلب ہے اور جب تک ہم اس عظیم الشان مقصد کو حاصل نہ کر لیں گے جس مقصد کے لئے احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے وجود میں آئی ہے کہ اسلامی اقدار کی حفاظت کی جائے ، ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے.چنانچہ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ جلد ہی یہ نظام کام شروع کر دے گا.اس کا آغاز انگلستان سے ہوگا.میں جانے سے پہلے ان لوگوں کے نام جاننا چاہوں گا جو اس کام کے لئے خود کو وقف کر سکتے ہوں.یہ جس پیشے سے بھی متعلق ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.انہیں انگریزی اچھی طرح آنی
خطبات طاہر جلد اول 182 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء چاہئے.انہیں اسلام کے بارہ میں کچھ نہ کچھ علم ہو.یہ نہ ہو کہ وہ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بالکل نا واقف ہوں اور وہ دفاع اسلام کی یہ ذمہ داری اٹھائیں یہ نہیں ہوسکتا.میری مرادان سے ہے جو کم از کم اسلام کا کچھ علم رکھتے ہوں اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا کسی نہ کسی حد تک مطالعہ کیا ہوا ہے اور وہ اسلامی اقدار کے دفاع کی کچھ نہ کچھ طاقت رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات سب پر واضح کر دی ہے.کہ اگر تم میری کتب کا مطالعہ نہیں کرو گے.اگر تم اسلام کے بارہ میں تیار کردہ نئے لٹریچر کا مطالعہ نہیں کرو گے.اور اگر تم دوسروں کی کتب پڑھتے رہے تو تم ان سے غلط طور پر متاثر ہو جاؤ گے.تمہارے دفاع کا ایک ہی طریق ہے کہ پہلے خود کو قرآن کریم کی تعلیمات اور روایات کے مطابق ڈھالوجیسا کہ میں ابھی کہہ چکا ہوں.جب میری نظر سے آپ اسلام کی تعلیمات کا اتنا خوبصورت مشاہدہ کریں گے تو کوئی بھی شخص جو اسلام کو بگاڑ نا چاہتا ہے اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا.جہاں تک آپ لوگوں کی بات ہے کیونکہ آپ نے اسلام کا مشاہدہ میری نظر سے کیا ہوگا.اسلام کی تمام تر خوبصورتی آپ پر اسی طرح واضح ہو جائے گی جیسا کہ مجھ پر ہوئی ہے.اس کے بعد غلط فہمی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ احمدیوں کے لئے بہت اہم بنیادی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو اس بات کے لئے تیار کریں.وہ سب سے پہلے خود کو اسلام کی درست تعلیمات کے حوالہ سے ڈھالیں.ایک دفعہ وہ یہ حاصل کر لیں اور پھر اسلام کا مطالعہ کریں تو ان کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا.پھر یہ ناممکن ہوگا کہ وہ خود کو شکست خوردہ سمجھیں یا دشمن سے خود کو خطرہ میں خیال کریں.رہے وہ کمزور لوگ جنہوں نے ابھی تک یہ کام نہیں کیا سو میں نے احمدیوں میں دیکھا ہے کہ جو احمد بیت کا لٹریچر پڑھنے سے قبل دشمن کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں میں نے بالآخر حقیقت سے دور جاتے ہی دیکھا ہے.جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا کرتا تھا تو کالج کے بہت سے طلباء، بہت سے تو نہیں مگر چند ایک غیر مسلموں کی لکھی ہوئی تاریخ اسلام کا مطالعہ کر کے بالکل غلط طور پر اس سے متاثر ہو جاتے تھے اور وہ اس زہر کا شکار ہو جاتے تھے.چنانچہ مجھے ان سے گفتگو کرنے کے
خطبات طاہر جلد اول 183 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء لئے بہت محنت کرنی پڑتی تھی اور روشنی کی طرف لانا پڑتا تھا.بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بچ گئے.مگر یہ ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے.اس ملک میں آپ کو اس بات کی حفاظت کرنی ہے.چنانچہ ایک نظام بنانا پڑے گا.امام صاحب کے پاس اس کا ریکارڈ ہو اور ہم عام طریق سے اسے چلائیں.ہمیں سائنسی طریق کا راختیار کرنا ہے اور جب یہ خطبہ باقی دنیا کے احمدیوں تک پہنچے تو انہیں بھی اس طریق پر عمل کرنا چاہئے.مجھے اس بارہ میں اتنا جوش ہے کہ اصل میں میں اسے ابھی اور یہاں سے ہی شروع کر دینا چاہتا ہوں.مگر یہ ممکن نہیں.اس میں کچھ وقت لگے گا.مگر انشاء اللہ ایک سال کے عرصہ میں ہی ہم اس نئے آسمانی نظام کو دنیا میں کام کرتا دیکھ لیں گے.اور ساری دنیا کو محسوس ہو جائیگا کہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے.اور وہ ان الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کر لیں گے.وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدً اوَّشُهُبَّان وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدَّان (اين...) اللہ تعالیٰ ہمیں مواقع اور ہمت عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم مقصد کو اس صورت میں حاصل کرنے والے ہوں جیسا کہ وہ چاہتا ہے.نماز کے بعد حضور نے فرمایا.دراصل یہ آنحضور ﷺ کی سنت ہے کہ حج کے دن سے ایک روز قبل نماز عصر کے بعد سے آپ اللہ اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اكبر الله اکبر ولله الحمد کی تسبیحات اونچی آواز میں پڑھا کرتے تھے اور اگلے اڑھائی یوم آپ ہر نماز کے بعد اسی طرح کیا کرتے تھے.چنانچہ یہ تیسرا دن ہے جس میں ہم عصر تک یہ دہرائیں گے.اس لیے ہر آنے والی نسل کو یہ باتیں بتانا چاہئیں.آنحضور ملانے کی تمام احادیث نسلاً بعد نسل آگے پہنچنتی دینی چاہئیں.مگر یہاں انگلستان میں بدقسمتی سے میں نے دیکھا ہے کہ ہماری نئی نسل ان سے واقف نہیں.اور جب میں نے یہ تکبیرات پڑھنا شروع کیں تو کسی نے میری اقتدا میں یہ نہیں پڑھیں.حتی کہ وہ بچے جو نو جوانی کی عمر کو پہنچ چکے
خطبات طاہر جلد اول 184 خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۸۲ء ہیں انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.چنانچہ یہ چیزیں سکول کی تعلیم کی طرح بتانا چاہئیں.الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد الله اکبر اللہ اکبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله و الله اکبر الله اكبر ولله الحمد اس سے مجھے یہ یاد آیا کہ کسی نے آج صبح میری توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ میں مساجد کے آداب کے بارہ میں بھی کچھ کہوں.جو لوگ نماز کے لئے مسجد آتے ہیں ان کے بارہ میں میرے ایک بہت معزز دوست نے بتایا کہ آہستہ آہستہ لوگ مسجد کے تقدس سے ناواقف ہوتے جا ر ہے ہیں اور ایسی حرکتیں ظاہر ہو جاتی ہیں.مساجد میں یہ لوگ دنیوی باتیں اونچی آواز میں شروع کر دیتے ہیں.جبکہ بعض لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں.انہیں کوئی احساس ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا گھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہے اور کسی کام کے لئے نہیں.وَأَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا (الجن : 19) یہ قرآن کریم کی آیت ہے جس کے مطابق عبادت گاہیں صرف عبادت کے لئے ہی ہیں.آپ کو مساجد میں اپنے ذاتی مسائل پر گفتگو نہیں کرنی چاہئے.صرف مذہبی گفتگو ہوسکتی ہے اور وہ بھی نماز ختم ہونے کے بعد، اس وقت نہیں جب لوگ نماز پڑھ رہے ہوں ، دیگر مذہبی معاملات پر گفتگو کی اجازت ہے.چنانچہ یہ وہ آداب اور ذمہ داریاں ہیں جو مساجد میں پیش نظر رہنی چاہئیں.آپ صرف اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں.اپنے دلوں میں اسے یاد کریں یا نسبتا اونچی آواز میں.اس کی تو اجازت ہے.مگر یہ اجازت نہیں کہ آپ مختلف قسم کی گفتگو اور گپ شپ میں وقت گزاریں جیسے یہ آپ کے لئے ایک چوپال ہے.یہ چوپال نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور یہاں اسے ہی یاد کرنا چاہئے.اور یہ بات اپنی نئی نسل کو بھی سمجھا ئیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.
خطبات طاہر جلد اول 185 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء اطاعت امیر ، مربیان کی عزت نیز امراء کے فرائض کا بیان خطبه جمعه فرموده ۱/۸ کتو بر۱۹۸۲ء بمقام مسجد فضل لندن کے انگریزی متن کا اردو تر جمہ ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس دورہ کے دوران یہ آخری جمعہ کی نماز ہے جو ہم اکٹھی ادا کریں گے.اس موقع پر سب سے پہلے تو میں اپنے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے ہم سب پر اپنا فضل نازل کیا اور خاص طور پر اس سفر کو با مقصد اور کامیاب بنا کر اپنے اس عاجز بندے پر خاص فضل نازل فرمایا.میں نے اسکی مدد ہر قدم پر مشاہدہ کی.وہی اس کا ئنات کا مالک ہے اس لئے اگر اس کا رحم ہو تبھی ہماری کسی کوشش میں پھل لگ سکتے ہیں.وہ ہم پر بہت مہربان ہے اور ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ آئندہ بھی وہ اسی طرح مہربان رہے گا اور ہم سے درگز رفرمائے گا.اس کے بعد میں جماعت انگلستان کی محبت اور مہمان نوازی کا شکر گزار ہوں.میری اور میرے ساتھیوں اور تمام دنیا سے آنے والوں کی نہایت کھلے دل سے مہمان نوازی کی گئی ہے.ہر شخص جسے میں جانتا ہوں خوش گیا ہے اور ہم بھی اپنے اس سفر کی حسین یادوں کے ساتھ خوش و خرم واپس جائیں گے اور یہ یادیں انشاء اللہ دعاؤں میں ڈھل جائیں گی اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعاؤں
خطبات طاہر جلد اول 186 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء کو قبول فرمائے گا.اب میں بعض متفرق باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور آج میں نے گفتگو کرنے کے لئے مختلف نکات نوٹ کئے ہیں.سب سے پہلے تو میں ان واقفین زندگی کے بارہ میں کچھ کہوں گا جو مختلف پہلوؤں سے یہاں خدمات بجالا رہے ہیں.وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگیاں پیش کر دی ہیں انہیں معاشرے کی طرف سے خاص مقام اور تعاون ملنا چاہئے.وہ اپنے مقصد میں اسوقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک سارا معاشرہ ،ساری جماعت اس مقصد کے حصول کے لئے ان کی مدد نہ کرے.نہ صرف یہ بلکہ انہیں ایک خاص عزت اور مقام ملنا چاہئے.مگر میں نے بڑے دکھ سے یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ بعض جماعتوں میں احباب مربیان کی کماحقہ عزت نہیں کرتے.بعض اوقات وہ ان کے کام پر اتنی شدت سے تنقید کرتے ہیں جو ان کے جگر چیر دیتی ہے.اور وہ اسکی بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں.مگر انہوں نے کہیں بھی اسکاذ کر نہیں کیا.لوگوں میں فرق ہوتا ہے.وہ مختلف قسم کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں.اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی انگریزی زبان میں خطاب نہیں کر سکتا تو یہ اسکا قصور نہیں.یہ اس نظام کا قصور ہوسکتا ہے جس میں انہوں نے پرورش پائی.یا اس سکول کا قصور ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے تعلیم حاصل کی بہت سے ایسے دیگر پہلو ہو سکتے ہیں جن کا میں یہاں جائزہ نہیں لے سکتا.مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دی ہے تو اسے عزت اور محبت ملنی چاہئے.اور ہر شعبہ میں اسے تعاون ملنا چاہئے.مجھے علم ہے کہ بعض جگہ یہاں تو نہیں مگر دنیا کے ہر حصہ میں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اب مربی ان کا ذاتی ملازم بن گیا ہے.یہ تکلیف دہ منظر ہمیں اسلامی دنیا میں عموماً اور گاؤں کی مسجد کے ملا کے ساتھ پنجاب میں خصوصاً یہ سلوک نظر آتا ہے وہاں ملا زمیندار کا ذاتی ملازم خیال کیا جاتا ہے.محض اس لیے کہ زمیندار اس کے کھانے پینے کا بندو بست کرتا ہے.یہ الگ بحث ہے کہ کھانا پینا کس معیار کا ہوتا ہے.مگر چونکہ ملا ان کے صدقات پر زندگی بسر کرتا ہے اس لئے اس سے نامناسب رویہ اختیار کیا جاتا ہے.اسکی روزانہ بے عزتی کی جاتی ہے.اس قسم کے معاشرے پر وہ صرف نفرت کی تعلیم دے کر
خطبات طاہر جلد اول 187 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء ہی قابو پا سکتا ہے.جب بھی وہ دوسروں کے لئے نفرت کی تعلیم دیتا ہے لوگ اسکی پیروی کرتے ہیں اور جب بھی وہ نیکی اور قربانی کرنے کی تعلیم دیتا ہے لوگ اسے چھوڑ جاتے ہیں.آجکل ملا اور دوسرے لوگوں میں صرف یہی رشتہ رہ گیا ہے.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ یہ بات سارے معاشرے میں نہ پھیل جائے ، ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے دور کا سفر در پیش ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تربیت کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے تیار ہونے والے مربیان اس قسم کے نظر آنے والے لوگوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں.ان میں سے بہت سے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد وقف کیا.ان کے پاس دور استے تھے.یا تو دنیا میں بھٹک جائیں یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خود کو پیش کریں.میں ایسے واقفین زندگی کو جانتا ہوں جو اگر دنیا داری میں لگ جاتے تو وہ ان لوگوں سے جو خود کو مالی طور پر ان سے بہتر سمجھ کر نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں، کہیں زیادہ بہتر حالات میں ہوتے ، وہ زیادہ کمارہے ہوتے اور دنیا میں زیادہ باعزت مقامات پر فائز ہوتے اور وہ بعض غیر واقفین سے کہیں بہتر طرز زندگی کے حامل ہوتے.مگر وہ جس حال میں ہیں اُس پر مطمئن ہیں کیونکہ ان کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.چنانچہ ان کے بارہ میں تو مجھے کوئی فکر نہیں.مجھے فکر ان لوگوں کی ہے جو ان سے نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے نہ آجائیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جوان لوگوں سے نامناسب رویہ اختیار کریں جنہوں نے اسکی راہ میں اپنی زندگیاں پیش کر دی ہوں.اس بارہ میں احتیاط کریں.اگر ہم ان سے عمدہ سلوک کریں تو یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا رد کر دیں اگر وہ اسے قبول کر لیں تو وہ آپ کے اس سلوک کو قبول کر کے شکر گزاری کا ثبوت دے رہے ہیں.آپ کے اس عمدہ سلوک کی وجہ سے وہ آپ کے غلام نہیں بن گئے.دوسری بات یہ ہے کہ وہ احمدی جو اچھے حالات میں رہتے ہوں ان پر خواہ مخواہ تنقید نہ کی جائے.یہ بڑی حیرت کی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگ شدت پسندی اور تنگ نظری سے زندگی گزارتے ہیں.اگر کوئی احمدی عمدہ طریق سے زندگی گزار رہا ہو تو ایسے لوگ غضب ناک ہوکر اس پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ آسائش کی زندگی گزار رہا ہے.انہیں اسلامی
خطبات طاہر جلد اول 188 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء تعلیمات کے مطابق آسائش کی زندگی کی تعریف ہی معلوم نہیں ہوتی.وہ نہیں جانتے کہ اسلام میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح.اگر آپ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بہترین چیزوں سے لطف اندوز ہوں، ہاں جب مالی قربانی کا تقاضا کیا جائے تو آپ قربانی کرنے والوں میں آگے آگے ہوں تو پھر جو کچھ باقی بچتا ہے وہ آپ کا ہے اور آپ جہاں چاہیں اسے خرچ کریں.اگر آپ عمدہ اور آرام دہ زندگی گزاریں تو یہ قطعا منع نہیں.جو ممانعت ہے وہ قرآن کریم میں کھول کر بیان کر دی گئی ہے.اور اس کے بعد کسی کو حق نہیں کہ اس چیز کو نا جائز قرار دے دے جسے قرآن کریم نے ناجائز قرار نہیں دیا.اسی کی طرف اس آیت میں ذکر ہے.قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِى أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ القيمة (الاعراف: ۳۳) کہدے کہ کس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کے بندوں پر حرام قرار دیا ہے جو ان کے لئے اس دنیا میں اور آخرت میں تخلیق کی گئی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا میں بھی یہ مؤمنین کے لئے ہیں اور آخرت میں تو صرف انہیں کے لئے مخصوص ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زندگی میں عمدہ چیزیں استعمال کرنے کے لئے تخلیق کی ہیں نہ کہ سچے مومن انہیں رد کر دیں.چنانچہ اگر وہ ان اشیاء کو استعمال کریں تو کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ وہ اسلامی تعلیمات کی حدود میں زندگی گزارنے والے ہوں اور یہ بھی کہ یہ طرز زندگی ان کی مالی قربانیوں میں روک نہ بنے.جب ہم تنگدستی سے زندگی گزارنے کی بات کرتے ہیں تو اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اسلام میں آرام دہ زندگی گزارنے کی ممانعت ہے.اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ بچت کر کے اسلام کی خدمت میں پیش کریں اسلام میں اسے نفل کہا گیا ہے.یعنی فرائض کی ادائیگی سے زائد اگر آپ اپنی مرضی سے کچھ خدمت کریں تو وہ فضل کے زمرے میں آتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص خود کو فرائض تک ہی محدود رکھے تو کسی شخص کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں.حضرت رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ ایک آنے والے نے اسلام کے بارہ میں دریافت کیا.آپ نے اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات
خطبات طاہر جلد اول 189 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء سے روشناس کروا دیا اور پھر بتایا کہ اس کے علاوہ جو بھی اچھا کام وہ کرے گا وہ نوافل کے زمرے میں آئے گا.اس نے کہا کہ میں وہی کروں گا جو مجھ پر فرض ہے اس سے زیادہ نہیں تو کیا میں بخشا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں وہ تمہارے لئے کفایت کرے گا.( بخاری کتاب الایمان باب الزکوۃ من الاسلام ) تو یہ کم از کم ضروری معیار ہے.چنانچہ اگر کوئی کم از کم معیار سے نیچے گرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آئے گا نہ کہ لوگوں کے غضب کے.لوگ اسے صرف پیار سے سمجھا سکتے ہیں.صرف نصیحت ہی کی جاسکتی ہے، تو جو لوگ حدود سے تجاوز نہ کرنے والے ہوں ان پر کسی کوسختی کرنے کا حق نہیں.چنانچہ اگر بعض مربیان اور مبلغین عمدہ طور سے گزارا کر رہے ہیں تو کسی کو بھی علم نہیں ہوسکتا کہ ان کے دیگر ذرائع آمد کیا ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بعض اور ذرائع آمد مہیا فرمائے ہوں جو وہ ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں.چنانچہ جب تک آپ ٹھوس شواہد نہ پیش کریں ، بے ایمانی کے ٹھوس ثبوت مہیا نہ کریں تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ کہیں دیکھو فلاں فلاں شخص اچھی طرز سے گزارا کر رہا ہے جبکہ اس کا اسے کوئی حق نہیں.کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نعمتیں مومنین کے لئے تیار کی گئی ہیں.اس دنیا میں دوسرے بھی ان میں شریک ہیں مگر آخرت میں وہ خاص طور پر صرف مومنین کے لئے ہی میسر ہوں گی.ایک اور بات یہ ہے کہ آپ کو امراء اور جماعت کے عہدیداران کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے.امراء اور عہدیداران خلافت کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں.جو بالآخر ساری جماعت کی تنظیم کی ذمہ دار ہے.چنانچہ اس نظام کے کارکنان کی حیثیت سے انہیں خلافت کے نظام سے بعض حقوق عطا کئے جاتے ہیں.وہ اپنے مقام کے لحاظ سے مختلف ہیں.بعض اوقات کسی خاص عہدیدار کے حقوق نہ جانے یا نہ سمجھنے کی وجہ سے مسائل ابھرتے ہیں.لوگوں کو نہ تو اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی ان عہدیداروں کے حقوق کا جنہیں بعض کا موں پر مقرر کیا گیا ہو.چنانچہ یہ بہت اہم بات ہے کہ جماعت انگلستان ان سب دوستوں کو بتائے کہ عہد یداران کی کیا حدود ہیں.ان کے حقوق اور فرائض کیا ہیں.اور ان کی کیا حدود ہیں جن پر وہ بطور امیر ،صدر یا کسی اور حیثیت میں مقرر کئے گئے ہیں.اگر آپ اپنے حقوق اور اپنے فرائض سے واضح طور پر آگاہ
خطبات طاہر جلد اول 190 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء ہوں تو کسی کو غلط نہیں اور نا اتفاقی کے بیج بونے کی جرات نہیں ہوسکتی.ان چیزوں کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے.جہالت اور تاریکی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.علم روشنی ہے.چنانچہ سب سے پہلے روشنی پھیلانی چاہئے.تا کہ ہر شخص راستہ دیکھ سکے.اس صورت میں ان باتوں کے پھیلنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ بصارت درست ہو تو پھر انسان دوسرے لوگوں سے ٹکرا تا نہیں پھرتا ، ماسوا جنگلی انسانوں کے.ایسا ہوتا تو ہے مگر بہت کم.نارمل ذہن رکھنے والے افراد ایک ہی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں سے ٹکراتے نہیں پھرتے.چنانچہ ساری جماعت کو احمدیت کی روایات کے مطابق اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہونا چاہئے اور نظام میں اپنے سے بالا افراد کے حقوق سے بھی.یہاں میں نے بالا افراد کا لفظ بولا ہے.میری مراد اس سے انتظامی طور پر بالا افراد سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو بعض افراد انتظامی طور پر بالا افراد سے کہیں زیادہ بلند ہونگے.کیونکہ یہ تو دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کا معاملہ ہے کہ کون دراصل بلند مقام پر فائز ہے.تو میں صرف انتظامی طور پر بالا افراد کا ذکر کر رہا ہوں.اب میں یہاں پر بعض حقوق کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ اگر کسی امیر نے غلطی سے آپ کو کوئی غلط حکم دے دیا ہے اور اگر وہ حکم قرآنی تعلیمات کے منافی نہیں آپ کو اسکی اطاعت کرنی ہے.جیسا میں نے واضح کر دیا ہے اگر وہ حکم قرآن کریم کی تعلیمات کے منافی نہیں تو پھر آپ پر اطاعت فرض ہے.اور اگر کسی آیت قرآنی کی تفسیر میں اختلاف بھی ہو تب بھی آپ نے بات ماننی ہے.کیونکہ یہ آپ کا کام نہیں کہ اسکی تاویل ڈھونڈ کر امیر کی اطاعت نہ کرنے کا بہانہ تلاش کریں.حضرت رسول کریم علیہ نے امیر کی اطاعت پر اتنا زور دیا ہے کہ لوگ تعجب کرتے تھے.کسی نے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کیا اگر کوئی شخص ایسا ایسا ہو تو کیا پھر بھی ہم اسکی اطاعت کریں.آپ نے فرمایا.ہاں پھر بھی.اگر کوئی شخص ایسا ہو تب بھی ہمیں اسکی اطاعت کرنی ہے.آنحضور ﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر ایک حبشی غلام جس کا سر منقہ کے دانے برابر ہو اور وہ تمہارے اوپر مقرر ہو جائے تب بھی تم نے اسکی اطاعت کرنی ہے.اب یہ وہ کمزوریاں تھیں جو عرب ذہن کو مشتعل کرتی تھیں.عرب ذہن اس بات کے ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ کسی عجمی کی اطاعت
خطبات طاہر جلد اول 191 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء کرے اور پھر ایسا شخص جو افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہو.اس زمانہ کے عرب اس طرح کے لوگوں کی اطاعت کو خاص اپنی بے عزتی سمجھتے تھے.اس پر مستزاد یہ کہ وہ غلام بھی ہو.ایک حبشی اور اوپر سے غلام، دو باتیں اکٹھی ہو کر عربوں کے لئے انہیں اپنا را ہنما ما نا بہت مشکل تھا.پھر بڑے سر قیادت اور عقلمندی کی نشانی تھے.اور عرب بڑے سر ہونے پر فخر کرتے تھے کہ یہ عقل و دانش کی نشانی ہے.اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جتنا سر چھوٹا ہوگا اتنا ہی وہ شخص احمق اور بے وقوف ہوگا.اگر صلى الله چھوٹا سر ہے تو زیادہ احمق ہوگا.چنانچہ آنحضور ﷺ نے یہ دونوں کمزوریاں جمع فرما دیں اور فرمایا کہ اگر وہ ایک حبشی غلام ہو جس کا سر بھی اتنا چھوٹا ہو کہ محسوس ہو کہ اسکا دماغ ہی نہیں ہے ، تب بھی اگر وہ امیر مقرر ہو جائے تو اسکی اطاعت کرو.( صحیح بخاری کتاب الاحکام باب اسمع والطاعة لامام مالم تكن معصية ) اسی صورت حال کا ایک اور پہلو بھی ہے.جب کوئی شخص نماز کی امامت کروارہا ہو.بعض متجسس ہوتے ہیں اور لوگوں کے بارہ میں ایسی معلومات رکھتے ہیں جو باقی جماعت کو معلوم نہیں ہوتیں.نتیجہ وہ ایک قاضی کی طرح بعض دوسرے احمدیوں کے بارہ میں فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے، وہ برائیوں کا شکار ہے.خواہ ان کے پاس کافی ثبوت ہو یا نہ ہو.خواہ وہ اس الزام کے ثبوت میں اسلامی قوانین کے مطابق تسلی بخش شہادت پیش نہ کر سکیں.انہیں اس سے کوئی غرض نہیں.وہ صرف ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ فلاں فلاں شخص برائیوں کا شکار ہے.چنانچہ اسے کوئی عہدہ نہیں ملنا چاہئے.خصوصاً اس کے امام الصلوۃ ہونے کے بارہ میں وہ اختلاف رکھتے ہیں.یہ سوالات حضرت محمد ﷺ کے زمانہ میں بھی اٹھائے گئے تھے اور ان کا قیامت تک کے لئے فیصلہ فرما دیا گیا.دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بد کار ہو، نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہو، بدتہذیب ہو اور نہایت برے کردار کا شخص ہو، اگر وہ امام الصلوۃ مقرر ہو جائے اور بعض لوگوں کی نظر میں اسکا امام ہونا کھٹکتا ہے کہ متقی لوگ اس قسم کے شخص کی پیروی میں نماز با جماعت کے لئے کھڑے ہوں تو اس قسم کے امام الصلوۃ مقرر ہونے کی صورت میں متبعین کو کیا کرنا چاہئے.حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسکی پیروی کرو.اللہ تعالیٰ ہی نمازیں قبول فرمائے گا.کیونکہ نمازیں امام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد اول 192 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء (سنن ابی داؤد کتاب الصلوة باب الامہ البر الفاجر ) کیا ہی حسین تعلیم ہے اور یہ کتنی خوبصورت اور سلامتی والی ہے.اسی وجہ سے اسکا نام اسلام ہے.اسکا مطلب ہے سلامتی.اس سے امن پھیلتا ہے.یہ سلامتی لاتی ہے اور سلامتی کا پیغام دیتی ہے.اسلام میں کوئی تفرقہ قابل قبول نہیں.چنانچہ حضوراکرم ﷺ کی تعلیمات کی اس روح کے ساتھ آپ اپنے امیر اور دیگر عہدیدار ان کی پیروی کریں.اس بات سے قطع نظر کہ آپ انہیں متقی سمجھتے ہیں یا نہیں.یہ آپ کا کام نہیں کہ اس بارہ میں کوئی رائے دیں.یہ بعد الموت اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اب میں امراء کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ان کے بھی کچھ فرائض ہیں.عہد یداران کے اپنے کچھ فرائض ہیں.ان کا ان لوگوں سے شفقت کا سلوک ہونا چاہئے جن پر وہ نظام کو چلانے کے لئے مقرر ہوئے ہیں.لوگوں کو امیر کی اطاعت اسکی ذاتی استعداد کی بجائے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی چاہئے.اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور اس لئے کہ انہیں خلیفہ مسیح نے مقررفرمایا ہے.کسی اور وجہ سے نہیں.وہ تمام نظام کی اس لئے پیروی کریں کہ یہ نظام خلیفہ المسیح کا مقررفرمودہ ہے.انہوں نے ہراحمدی کی بیعت نہیں کی صرف خلیفہ المسیح کی بیعت کی ہے.چنانچہ ہر امر اس کے ہاتھ سے نکلتا ہے اور احمدی اسکی اس لئے پیروی کرتے ہیں کہ وہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے.جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ان کی اطاعت بالآخراللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے نہ کہ کسی انسان کی.چنانچہ انہیں خلیفہ مسیح نے ذمہ داری سونپی ہے.اس لئے انہیں اس طاقت کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے.میں ایسے امیر کو نا پسند کرتا ہوں جولوگوں پر شفقت نہ کرے کیونکہ جماعت کا خلیفہ سے براہِ راست رابطہ ہوتا ہے.اس سے ان کا ذاتی تعلق ہوتا ہے اور دراصل خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے علاوہ اس کے پیچھے کوئی اور مقصد نہیں.مگر وہ امیر کی اطاعت اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ اس کا تقرر خلیفہ المسیح نے فرمایا ہے.وہ تمام نظام کی اطاعت اسی لئے کرتے ہیں کہ یہ نظام خلیفہ المسیح کا قائم فرمودہ ہے.انہوں نے ہر احمدی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ صرف خلیفہ المسیح کے ہاتھ پر بیعت کی ہے چنانچہ ہر چیز اسی کے ہاتھ پر مرتکز ہوتی ہے اور وہیں سے پھوٹتی ہے اور احمدی اسکی پیروی کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا دراصل وہ کسی ایک انسان کی پیروی کی بجائے
خطبات طاہر جلد اول 193 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء اطاعت کر رہے ہوتے ہیں.چونکہ خلیفہ المسیح نے انہیں بعض اختیارات تفویض کئے ہیں اس لئے انہیں ان مفوضہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے.میں کسی ایسے امیر کو جو لوگوں کا ہمدرد نہیں ہے مقرر کرنا بالکل پسند نہیں کرتا.کیونکہ خلیفہ کا سب احمدیوں سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے اور انہیں اس لئے اسکی اطاعت کے لئے نہیں کہا جاتا کہ وہ اس سے کمتر ہیں.بلکہ صرف نظم وضبط قائم رکھنے کے لئے اطاعت کے لیے کہا جاتا ہے.نہ کہ کسی اور وجہ سے مگر نظم و ضبط کا مطلب تختی اور غیر ہمدردانہ رویہ نہیں ہے.میں خود کو کسی ایسے امیر کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں سمجھتا جو احمدیوں سے اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کرتا جو مجھے پسند ہے.چنانچہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی مشنری انچارج، کوئی صدر اپنی طاقت کا غلط استعمال کرے.کیونکہ اگر وہ ان احمدیوں کو جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ان کی اطاعت کرتے ہیں تکلیف دیں گے تو دراصل وہ مجھے تکلیف پہنچائیں گے اور وہ اللہ کے راستہ سے بھٹک جائیں گے.صل الله یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے.آپ کو اس اعتماد پر جو آپ پر کیا گیا ہے پورا اترنا چاہئے.اور اس طرح سلوک کرنا چاہئے جیسا حضرت محمد ﷺ کا اپنے صحابہ سے تھا.حضور اکرم علی سے بڑھ کر اس دنیا میں کسی شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.دنیا میں آپ سے بڑھ کر کسی اور کے اختیارات کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آپ اللہ تعالی کی نمائندگی میں مبعوث ہوئے تھے اور آپ کی طرح کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کی اس رنگ میں نمائندگی کا دعویٰ نہیں کیا.اس لئے اگر بعض افراد اسلامی نظام پر معترض ہوتے ہوئے اسے آمریت سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں.کرہ ارض پر کوئی شخص دنیوی اصطلاح کی رو سے کوئی ایسی آمرانہ حیثیت یا آمریت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جس قسم کا روحانی اقتدار اعلیٰ حضور اکرم ﷺ کو نبوت کے بعد من جانب اللہ عطا ہوا.جہاں تک دنیوی آمریت کا تعلق ہے اس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں.اسلام کی رو سے کسی مقتدر ہستی کی جتنی زیادہ طاقت یا قوت بڑھتی جائے گی اتنا زیادہ مقام خوف بڑھتا جائیگا کیونکہ بالآخر سب اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں.نتیجہ طاقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوف بہت بڑھ جاتا ہے.چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے اس طاقت کو نہایت عاجزانہ طور پر استعمال فرمایا اور اتنے خوبصورت اور عمدہ انداز سے کہ آپ کی تمام زندگی پر کوئی انگلی بھی
خطبات طاہر جلد اول 194 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء نہیں اٹھا سکتا کہ کسی بھی موقع پر آمریت کا کوئی شائبہ بھی پیدا ہوا ہو.آپ نے نہایت دانشمندی اور حکمت سے حکومت کی ، آپ نے محبت سے حکومت کی.اور اگر یہ تین پہلو موجود ہوں تو پھر آمریت کا سراٹھانا ناممکن ہے.آمریت کا حکمت سے کوئی رشتہ نہیں ، نہ ہی دانشمندی یا محبت سے.آمریت کا ان سب سے تعلق ہی کوئی نہیں.تو یہ وہ انتظامی طریق ہے جو احمد یوں کو خواہ وہ کسی سطح پر خدمت کر رہے ہوں اپنانا چاہئے.انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اس اعتماد کو جو ان پر کیا گیا ہے قائم رکھیں اور کسی بھی رنگ میں اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں.اور اگر یہ دونوں پہلو اختیار کئے جائیں تو بہت سے مسائل خود بخودختم ہو جائیں گے.یہ وہ مثالی معاشرہ ہے جو جماعت احمدیہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے.اور اسی مقصد کے حصول کے لئے آپ کو اپنی تمام قو تیں خرچ کرنی چاہئیں.لیکن پھر بھی ہر پہلو پر نظر رکھنے، اور بہترین ماحول کے پیدا کرنے کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی نہ روابات ہو جاتی ہے.مثال کے طور پر کسی کے غلط انداز فکر یار جحان یا کسی کے غلط رویہ یا غلط طرز عمل کے نتیجہ میں اختلافات سراٹھا سکتے ہیں.کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ تیسری بات ہے جو میں واضح کرنا چاہتا ہوں.اگر آپ کو کسی عہدیدار سے شکایت ہے تو آپ کا حق ہے بلکہ ذمہ داری ہے کہ اسکے توسط سے مرکز کو فوری مطلع کریں.اگر آپ کو خدشہ ہو کہ وہ یہ رپورٹ آگے نہیں بھجوائے گا تو اسکا طریق یہ ہے کہ ایک کاپی براہ راست مرکز کو بھجوا دی جائے.یہاں میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک احمدیوں اور خلیفہ لمسیح کے رشتہ کا تعلق ہے کوئی احمدی جتنے خطوط چاہے خلیفتہ المسیح کی خدمت میں لکھ سکتا ہے.اس بارہ میں کوئی روک نہیں.لیکن اگر آپ کسی اور شخص کے منفی رویہ کے بارہ میں اطلاع دے رہے ہیں تو پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ آپ کا فرض ہے کہ اس شخص کو بھی مطلع کریں ورنہ یہ غیبت شمار ہوگی.اور ایسا کرنا کسی کے علم میں لائے بغیر اس پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہوگا ہے.اس وجہ سے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے ورنہ جماعت احمد یہ اور خلیفہ المسیح کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا.یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.کسی کے لئے بھی اس میں دخل دینا اور راستہ روکنا ممکن نہیں.اس سے مجھے یہ خیال بھی آیا کہ اگر کوئی بد سلوکی اختیار کرتا ہے تو وہ خلیفتہ امسیح اور جماعت کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا
خطبات طاہر جلد اول 195 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء ہے کیونکہ بعض لوگ جب مقامی عہد یداروں سے ناراض ہو جائیں تو وہ اس کے اور نظام کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے اور بعض لوگوں کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ براہ راست خلیفہ اسیح کی خدمت میں اپنا قضیہ پیش کرسکیں.چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جماعتی کمزوری ہے اور وہ پھر خلافت سے بھی ناطہ توڑ لیتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا یہ لوگ خلیفہ المسیح اور احمدی لوگوں کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں جس کا انہیں کوئی حق نہیں.چنانچہ اگر یہ مسئلہ سر اٹھائے تو اسکا حل یہ ہے کہ آپ خلیفہ المسیح سے یا اس شعبہ سے براہ راست رابطہ کریں مثلاً اگر مالی معاملہ ہے تو وکیل المال کو تحریر کرنا چاہئے.تبشیر کا مسئلہ ہو تو وکالت تبشیر سے رابطہ کریں.لیکن اگر اس پر آپ کو تسلی نہ ہواور ہو بھی آپ کو جلدی تو کم از کم یہ تو کریں کہ آپ مجھے خلیفتہ المسیح کی حیثیت میں لکھیں اور اسکی نقل امیر کو بھجوا دیں.ورنہ عمومی طریق یہی ہے کہ آپ اپنی شکایات امیر یا متعلقہ عہدیدار کے توسط سے جو بھی وہ ہیں بھجوا ئیں اور بہتر یہ ہوگا کہ ایک نقل براہ راست بھجوا دیں.تو پھر بالکل کوئی مسئلہ نہیں رہے گا.لیکن ایک بات میں واضح کر دوں کہ دنیا کے معاملات میں بھی اپیل نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کرتی ہے.اوپر سے نیچے کی طرف نہیں.وہ احمدی جو اپنی اپیل عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ غلطی کے موجب ہوتے ہیں.وہ اپنے لیے تباہی کا راستہ چنتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرنے کی بجائے مذہب سے بیگا نہ عوام الناس کے سامنے جاتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ سے نیچے کی طرف اترتے ہیں.چنانچہ اگر آپ اپنی شکایات غلط جگہ پیش کرتے ہیں تو آپ نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں.اس یک طرفہ پرا پیگینڈا کا دوسری پارٹی کو دفاع کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا.بعض اوقات انہیں اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہا جارہا ہے.چنانچہ اول یہ کہ یک طرفہ پراپیگنڈا اسلام میں منع ہے.خواہ وہ کسی امیر کے بارہ میں ہو، عہد یدار کے بارہ میں یا عام احمدی کے بارہ میں.یہ بہت سختی سے منع ہے.اور اگر نظام کے کسی نمائندے کے بارہ میں ہے تو پھر یہ دگنا خطرناک ہے کیونکہ یہ احمدیوں کے اخلاص پر حملہ کرتا ہے اور اس پر برا اثر ڈالتا ہے اور وہ اس پراپیگنڈے کے زیر اثر سست ہو جاتے ہیں.وہ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ درست بھی ہوں تو انتقام لینا چاہتے ہیں.جماعت سے انتقام اور جماعت کی روح سے
خطبات طاہر جلد اول 196 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء انتقام یہ کبھی نہیں ہوسکتا.احمدیت کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا.ایسے تمام افراد کواللہ تعالیٰ نے نکال باہر کیا اس کا خیال رکھے بغیر کہ وہ ابتدا درست تھے یا غلط.مگر جوطریق انہوں نے اختیار کیا وہ یقیناً غلط اور تکلیف دہ تھا اور انہیں یہ طریق اختیار کرنے کی سزا ملی.لیکن اگر آپ بالا نظام سے شکایت کریں اور سب سے بالا و برتر ہستی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.آپ اس پر ایمان کیوں نہیں رکھتے.اگر وہ زندہ اللہ ہے، اگر وہ حقیقت کبری ہے تب وہی آخری اور حتمی طاقت ہے.اگر وہ حقیقت نہیں ، اگر وہ صرف تصوراتی اور خیالی چیز ہے تب اس نظام کو چھوڑ دیں.ایسی احمقانہ تنظیم میں شامل ہونے کا کیا فائدہ جس کے پاس کچھ بھی نہیں اور وہ خیالی کہانیاں بُن رہی ہے.چنانچہ اس سوال کا یہ سادہ سا جواب ہے.خواہ مخواہ اس جماعت سے چمٹے رہنے کی بجائے آپ کو السلام علیکم کہہ کر انہیں تنہا چھوڑ دینا چاہئے.لیکن ہر مذہبی عقیدہ کی بنیاد کے مطابق اگر اللہ کی ذات ہے جو سنتا ہے اور انسانی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے تو پھر آپ کو اپنی فریاد بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنی ہے.حتی کہ اگر خلیفہ بھی آپ کی شکایت کی طرف توجہ نہ دے اور آپ کی سوچ سے متفق نہ ہو اور آپ اصرار کریں کہ وہ غلط طور پر انتظامیہ کی طرفداری کر رہا ہے تو جیسا کہ میں نے بتایا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آخری ہے.اور اللہ تعالیٰ کے بالمقابل خلیفہ کی حیثیت ہی کیا ہے.اس کے بالمقابل تو وہ زمین پر ایک ذرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا.اللہ اگر چاہے تو اس کے ایک حکم سے وہ ختم ہوسکتا ہے.چنانچہ جب آپ کے پاس طاقتور ترین عدالت کا راستہ کھلا ہے تو اسکو چھوڑ کر عوام کی طرف رجوع کرنا اور ان کی توجہ مبذول کروانا بتوں کی پوجا نہیں تو پھر کیا ہے.یہ بت پرستی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ کی حکمت بالغہ پر ایمان نہیں رکھتے.آپ ایک گویے کی طرح کچھ گیتوں کی پیروی کر رہے ہیں اور بس.چنانچہ اس رویہ سے احتیاط کریں.اگر آپ اس پس منظر میں درست رویہ رکھیں گے اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے گا.آپ ایک بہترین معاشرے کی بنیادرکھنے والے ہوں گے.جو پھیلتا اور وسعت پذیر ہوتا رہے گا.جو ہر سمت سے طاقت حاصل کرے گا.اور کوئی بھی اس قسم کے معاشرہ کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہوگا.بعض دوستوں نے میری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ پہلے خطبہ جمعہ میں نے ایک
خطبات طاہر جلد اول 197 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء فریق کے بارہ میں میرا رویہ یکطرفہ اور متشددانہ تھا اور یہ کہ میں اپنے خاندان کے افراد کے بارہ میں کچھ زیادہ ہی سخت بول گیا ہوں جس خاندان سے میرا تعلق ہے.اور میں نے انہیں خاص طور پر سختی سے کہا ہے کہ اگر وہ قرض لیں تو اپنے معاملات صاف رکھیں.خصوصاًمالی معاملات ، ورنہ وہ متاثرہ لوگوں کی نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام اور عزت پر بٹہ لگانے والے ہوں گے.میں نے یہ اس لئے نہیں کہا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ دوسرے لوگ بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں.میں اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں.اسلام صرف یہ نہیں کہتا کہ صدقہ کے پہلے حقدار گھر والے ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ نصیحت گھر سے ہی شروع ہوتی ہے.اسی وجہ سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو نبوت کے آغاز میں یہ ارشاد ہوا.اَنْذِرُعَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشر ۱ : ۲۱۵) کہ اپنے رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں کو تنبیہ کرو.چنانچہ آپ نے اپنے خاندان سے ہی تبلیغ کا آغازفرمایا اور پھر آپ پہاڑی پر تشریف لے گئے اور باقی تمام اہل مکہ سے خطاب فرمایا.چنانچہ یہ نہیں کہ مجھے ان باتوں کا علم نہیں تھا.صرف یہ کہ میں قرآن کریم کی تعلیم کی متابعت کر رہا تھا.اور اس پالیسی پر عمل کر رہا تھا جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے.مالی معاملات میں گڑ بڑ روکنے کے بارہ میں میں نے بڑی تفصیل سے اس لئے وضاحت کی ہے کہ کوئی معاشرہ عدل کے بغیر ترقی کر ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے.وہ تخریب کا شکار ہو جائیگا اور کبھی ترقی نہیں کر سکے گا.چنانچہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اسلامی ثقافت اور اسلامی معاشرہ کو دنیاداری کی طرف جھکا دیں گی.ایسا معاشرہ بیمار معاشرہ ہوگا.یہ ایسا معاشرہ ہوگا جیسے مثلاً ہم فرد واحد کی مثال لیں.میں اس قسم کے معاشرہ کی مثال اس طرح سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص زیادہ بلڈ پریشر یا کم بلڈ پریشر کی وجہ سے بیمار ہو یا گردوں کی کمزوری کی وجہ سے پیشاب زیادہ کرنے کا مریض ہو وغیرہ وغیرہ.چنانچہ ایک بیمار شخص زندگی میں کچھ حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا.اگر صحت کسی بھی پہلو سے تھوڑی سی بھی خراب ہو تو وہ اس پہلو سے صحت مندانہ سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتا.لیکن اگر تکلیف زیادہ ہو تو وہ بالکل ناکارہ ہو سکتا ہے.چنانچہ ورلڈ ریکارڈ توڑنے کے بارہ میں سوچنے سے قبل اچھی صحت بہت اہم ہے.اور آپ کو ورلڈ ریکارڈ توڑنے کا کام سونپا گیا ہے.یہ آپ کا مورچہ ہے.زندگی میں یہ آپ کا مقام ہے.
خطبات طاہر جلد اول 198 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء چنانچہ صحت کی کمزوری کی علامات خواہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں برداشت نہیں کی جاسکتیں.حتی کہ سومیٹر تک دوڑنے والا دنیا کا بہترین اتھلیٹ بھی اگر سر درد محسوس کر رہا ہو تو ہو سکتا ہے کہ دسویں نمبر پر آنے والا اس سے جیت جائے.چنانچہ احمدی معاشرے میں صحت مند رجحان قائم کریں.تب انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ آپ اپنے عظیم الشان مقاصد کو تیز رفتاری سے جلد حاصل کرنے والے ہوں گے.اس کے لئے میرے ذہن میں یہاں ایک کمیشن بنانے کا خیال ہے.اور اس کے لئے میں نے بعض نام سوچ لئے ہیں.میں اعلان کرتا ہوں کہ میرے جانے سے قبل مالی بد معاملگی کے بارہ میں انگلستان میں رہنے والوں اور جو انگلستان سے جاچکے ہیں اور یا تو ان پر ان بد معاملگیوں یا بے ایمانی کا الزام ہے اور یا انہوں نے انگلستان میں رہنے والے لوگوں پر ایسے الزامات لگائے ہیں، تحقیق کے لئے ایک کمیشن تشکیل پا جائیگا.جو بھی ہو، یہ کمیشن تمام شکایات اور رپورٹس مجھے بھجوائے گا کہ کیا طریق اختیار کیا جائے.اسی طرح شادیوں کے بندھن ٹوٹ جانے کے بارہ میں بھی ایسی رپورٹس ملی ہیں جو خاوند کے بیوی سے غلط رویہ یا بیوی کی خاوند سے بدسلوکی کے نتیجہ میں نا کام ہوگئی ہیں.جب ہم دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ گھر کے بارہ میں اسلام کی تعلیمات بہترین ہیں جن کی پیروی کرنا چاہئے اور اسی وقت ہم اپنے عمل سے اپنی بات کو رد کر دیتے ہیں تو یہ اسلام سے نا انصافی ہے.تو یہ بھی نہیں ہونا چاہئے.اس کے لئے میں قضا بورڈ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے تمام کیسز جو ابھی تک حل نہیں ہوئے انہیں جلد حل کروائیں.چنانچہ ا یکدفعہ جب قضا کوئی فیصلہ کرے تو پھر اس میں لیت ولعل نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ اگر آپ کے فیصلہ پر عملدرآمد میں دیر ہو جائے تو پھر انصاف کے تمام تقاضے ختم ہو جاتے ہیں.فیصلہ پر عملدرآمد کروانے والوں کا کام نہیں کہ کسی فریق سے رحم اور ہمدردی کا سلوک کریں.وہ قاضی کے فیصلہ پر قاضی نہیں ہیں.اگر وہ غلط ہے اور آپ کو یقین ہے کہ وہ غلط ہے تب بھی آپ کا فرض ہے کہ اس پر عملدرآمد کروائیں کیونکہ غلط فیصلہ کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہوگی آپ کے کندھوں پر نہیں.وہ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہوں گے آپ کو نہیں.چنانچہ فیصلوں پر فوری عمل کروانا چاہئے اور میں اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ عملدرآمد کو جانتے بوجھتے ہوئے یا ویسے ہی لڑکا یا جارہا
خطبات طاہر جلد اول 199 خطبه جمعه ۱/۸ کتوبر ۱۹۸۲ء ہو.البتہ انہیں جماعتی روایات کے مطابق اپیل کا حق ضرور ملنا چاہئے.اگر کسی کو بالا بورڈ کے پاس اپیل کرنے کا اختیار ہے تو پھر اسے کیوں روکا جائے؟ میرا مطلب ہے کہ اگر اپیل بالا بورڈ کے سامنے نہ پیش ہو یا بالا بورڈ بالآ خر کوئی فیصلہ اس فریق کے بارہ میں کر دے یا یہ بورڈ انگلستان میں ہو اور ان کے پاس کوئی ایسی اپیل نہ ہو.جو بھی نظام ہے، میں اس سے پوری طرح واقف نہیں ہوں.مگر ایک دفعہ فیصلہ ہو جانے پر عملدرآمد میں تا خیر نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ تاخیر ایک فریق سے بے انصافی ہوگی.آخر میں میں اجازت چاہنے سے قبل آپ سے اپنے سفر اور وطن واپسی کے لئے درخواست دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اسے کامیاب بنائے اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنی امان میں رکھے.رخصت حاصل کرنا یقیناً اداسی کا باعث ہوتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں.مگر ذمہ داریاں جذباتی وابستگیوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں.واپس جانے کی اپنی ضروریات ہیں.وہاں اتنی محبت کرنے والے احمدی ہیں ایسے مخلص احمدی جن میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا ممکن ہی نہیں.چنانچہ آجکل ہم ایک عجیب دنیا میں رہ رہے ہیں.عجیب صرف موجودہ حالات میں نہیں مگر ہمیشہ سے انسان کے لئے رخصت حاصل کرنا اداسی کا باعث رہا ہے.مگر یہ ایک ضرورت بھی ہے.اور اس میں ایک خوشی کا پہلو بھی ہے.کیونکہ یہ اداسیاں اگر دعاؤں میں بدل جائیں تو تسلی اور اطمینان کا موجب بھی ہوسکتی ہیں.یہ ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے.میرے لئے اپنے محسوسات کو بیان کرنا ناممکن ہے اور غالباً آپ کے لئے بھی اپنے محسوسات کا بیان مشکل ہے.مگر یہی زندگی کا طریق ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا منصوبہ ہے جسے ہمیں قبول کرنا چاہئے.چنانچہ جیسا میں ایک بوجھل دل کے ساتھ اپنے جذبات کو دعاؤں کی صورت میں ڈھال رہا ہوں.میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی میرے لئے یہی کریں.کیونکہ میں اور آپ ہی احمدیت ہیں اور اس کے علاوہ احمدیوں کی کوئی پہچان نہیں.اور جواحمد بیت کے لئے دعا کرتا ہے وہ اسلام اور دراصل اللہ تعالیٰ کے مقاصد کے لئے دعا کرتا ہے.ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں محبت ہو، ایک دوسرے کا خیال ہو، قربانی ہو.اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی خاطر بھی.اس طرح سے ہم احمدیت کو مضبوط کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقاصد کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس نے ہمارے لئے مقرر فرمائے ہیں.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کائیے.
خطبات طاہر جلد اول 201 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء روشنی اور اندھیرے کا طبعی نظام اور سورۃ الفلق کی تفسیر (خطبه جمعه فرموده ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الفلق پڑھی.قل أعوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ةُ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِّ النَّفْتُتِ فِي الْعُقَدِةُ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَن اور پھر فرمایا: قرآن کا یہ بہت ہی پیارا اسلوب ہے کہ دعاؤں کے رنگ میں انسان کی تربیت فرماتا ہے.دعاؤں سے جو فائدہ انسان کو پہنچتا ہے وہ اپنی جگہ ہے.اس کے علاوہ ان دعاؤں میں بڑے گہرے مضامین ایسے ہیں جو انسان کی تربیت سے تعلق رکھتے ہیں.اس کے ذہن اور اس کے قلب، اس کی فکر اور اس کے جذبات کو توازن بخشتے ہیں ، اور وہ غلطیاں جن میں انسان بسا اوقات مختلف جذبات اور مختلف مواقع پر مبتلا ہو جایا کرتا ہے ان غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان ٹھوکروں سے بچاتے ہیں.سورہ فلق کی یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی ایک ویسی ہی بہت پیاری دعا
خطبات طاہر جلد اول 202 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء سکھائی گئی اور انسان کو ایک ایسے مضمون سے آگاہ کیا گیا کہ اگر وہ اس سے باخبر رہے تو ترقیات اور فضلوں اور رحمتوں کے وقت بے خوف نہ ہو اور دنیا کی نظر میں جتنے خوف ہیں ان خوفوں کے وقت مایوس نہ ہو.گویا ہر حالت میں انسان کو اعتدال کا سبق سکھایا گیا ہے.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَةٌ فلق کہتے ہیں بیج کے پھوٹنے کو اور گٹھلیوں کے پھٹ کر ایک نئی کونپل پیدا کرنے کو، اور رات کے صبح میں تبدیل ہونے کو.اور اس کے علاوہ اس کے برعکس معانی بھی فلق کے ساتھ وابستہ ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ فَالِقُ الحَبّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَقَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللهُ فَانّى تُؤْفَكُونَ ) (الانعام : ۹۶) دیکھو! إِنَّ اللهَ فَالِقُ الْحَبَّ وَالنَّوَى اللہ بیجوں اور گٹھلیوں کو پھاڑ کرنئی زندگی پیدا کرنے والا خدا ہے يُخْرِجُ الْحَقِّ مِنَ الْمَيِّتِ اسی طرح وہ مردوں سے زندگی نکالتا ہے.لیکن اس حالت سے بے خبر نہ رہنا کہ یہی مضمون برعکس صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے وَ مُخْرِج الْمَيِّتِ مِنَ الْحَقِّ اور زندگی سے موت بھی نکلتی رہتی ہے.زندوں سے مردہ بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں.اور زندگی میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے.چونکہ فلق کے دونوں پہلو سامنے ہیں اس لئے جب بھی انسان کے لئے ترقیات کی نئی راہیں کھلیں ، نئی صبحیں نمودار ہوں، انسانی کوششوں اور محنتوں کا ثمرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو اور وہ کوششیں پھوٹ کر کونپلوں میں تبدیل ہو رہی ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں فخر کا کوئی مقام نہیں، بے فکر ہونے کی کوئی بات نہیں، ایسے جشن منانے کی کوئی ضرورت نہیں جو سطحی اور دنیا کے جشن ہوں، کیونکہ حقیقت میں ہر زندگی کے ساتھ ایک موت بھی لگی ہوئی ہوتی ہے.ہر روشنی کے ساتھ کچھ اندھیرے بھی وابستہ ہوتے ہیں.ایسے موقع پر اپنے رب کے حضور جھکنا چاہئے جو خالق ہے، جس نے خیر وشر کا یہ نظام پیدا فرمایا ہے، اور اس سے یہ عرض کرنی چاہئے کہ اے اللہ! ہمیں اس زندگی کے نئے دور میں اس طرح داخل فرما کہ اس کے ہر شر سے محفوظ رکھنا اور ہر خیر اور برکت ہمارے پہلے میں
خطبات طاہر جلد اول 203 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء ڈال دینا.یہ ہے وہ مضمون جس کو بھلانے کے نتیجہ میں فتوحات کے وقت فخر پیدا ہو جاتے ہیں، ادنیٰ ادنی نعمتوں کے حصول کے وقت انسان اپنی عاقبت سے بے نیاز اور بے فکر ہو جاتا ہے، زندگی کے ایک پہلو کو حاصل کر کے زندگی کے دوسرے پہلو سے آنکھیں بند کر لیتا ہے.نعمت کے طور پر اسے تھوڑی سی چیز ملے تو اس نعمت کے نتیجہ میں وہ خود مالک بن بیٹھتا ہے اور خدا سے غافل ہو جاتا ہے.نتیجہ اس شر سے بے پرواہ ہو جاتا ہے جو نعمت کے ساتھ حق ہوتا ہے.اگر نعمت کا صحیح استعمال ہو تو انسان شر سے بچ جاتا ہے، اگر غلط استعمال ہو تو شر اس کے بعد لازماً اس کے تعاقب میں آتا ہے.چنانچہ یہی وہ مضمون ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں یوں بیان فرمایا ہے.وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ ۚ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَوْسًا (بنی اسرائیل : ۸۴) کہ ایسے گھڑ دلے لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے دونوں پہلوؤں سے واقف نہیں ہوتے ، جو خدا تعالیٰ کی کائنات کے رازوں سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں، جب ہم ان کو نعمت عطا فرماتے ہیں، أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِب ہے، اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ نعمت لینے سے انکار کر دیتے ہیں.اس مضمون پر پہلے میں ایک خطبہ میں روشنی ڈال چکا ہوں.ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہم نعمت عطا کرتے ہیں اور وہ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِ ہے وہ انسان خود پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور دین سے اور شکر کا حق ادا کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے.وَنَا بِجانب ہے اور ہر چیز کو اپنی جانب ہی سمیٹ لیتا ہے یعنی پہلو تہی اس رنگ میں گویا میں ہی تھا ، سب کچھ میرا ہی ہے اور کسی کا کوئی دخل نہیں.یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت سے کلینتہ غافل اور اس کے شکر سے کلیتہ غافل ہو جاتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد شر بھی آنے والا ہے ایسی حالتیں ہمیشہ شر لے کر آتی ہیں.نتیجہ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّكَانَ يَوْسًا اس وقت بھی اس کی عجیب حالت ہوتی ہے جب اس کو شر پہنچتا ہے تو ایسے شخص میں مقابلہ کی طاقت نہیں ہوتی.وہ ایک کیفیت سے مغلوب ہونا جانتا ہے.یہ نفسیاتی فلسفہ ہے جو قرآن کریم بیان کر رہا ہے کہ وہ لوگ جو زندگی کے دونوں پہلوؤں پر بیک وقت نظریں نہیں رکھتے وہ ایک پہلو سے مغلوب ہو جاتے ہیں، جس طرح وہ خوشی سے مغلوب ہو جاتے ہیں اس طرح شر سے بھی مغلوب ہو جاتے ہیں.اور شرآ تا ہے تو
خطبات طاہر جلد اول 204 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں.ان کو روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی.ان چیزوں سے پناہ کی تلقین فرمائی گئی.دعا سکھائی گئی.قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ اے خدا! تو جونی نئی امیدیں پیدا کرنے والا اور ہمارے لئے ترقی کے نئے راستے کھولنے والا ہے، تو ہماری کوششوں کے بیجوں کو نئے پودوں اور لہلہاتی ہوئی کونپلوں میں تبدیل کرنے والا خدا ہے.تو زندگی کے اس عمل کے شر سے ہمیں محفوظ رکھنا کیونکہ ہر پیدائش کے ساتھ کچھ شر بھی لگے ہوتے ہیں.اور ہمیں موت سے غافل نہ ہونے دینا.کیونکہ جس وقت زندہ چیز موت کے خطروں سے غافل ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ انحطاط پذیر ہو جاتی ہے.وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اور رات کے خطروں سے بھی بچانا جب وہ چھا جائے.غَسَقَ الَّيْلُ کا مطلب ہوتا ہے رات جب اندھیری ہو جائے ، جب بھیگ جائے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو دوسری جگہ خود واضح کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ (بنی اسرائیل :) کہ جب رات گہری ہو جائے اس وقت بھی نماز پڑھا کرو.کیونکہ اس وقت خطرات سے بچنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.یہی مضمون ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اس وقت کھڑے ہو جایا کر و عبادت کے لئے اور دعائیں کیا کرو کہ رات کے خطرات سے بھی ہمیں محفوظ رکھنا.تو نے ایک صبح امید تو پیدا فرمائی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہر صبح کے ساتھ ایک رات بھی وابستہ ہوا کرتی ہے.تو صبح کے وہ فضل تو لے کر آیا لیکن راتوں کے شر سے بھی ہمیں محفوظ رکھنا.فَالِقَ الْاِصْبَاحِ کا یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَالِقَ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنَّا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا (الانعام: ۹۷) فَالِقُ الْاِصْبَاحِ تو وہ ہے لیکن فلق کے بعد ایک رات بھی آیا کرتی ہے.خدا کے مومن بندے جو اس کی طرف جھکنے والے ہیں اور اس کی یاد میں مبتلا رہتے ہیں ان کے لئے وہ رات سکینت
خطبات طاہر جلد اول 205 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء لے کر آتی ہے اور بے چینی اور بے فکری کو دور کرنے والی ہوتی ہے.لیکن وہ لوگ جو اس نظام سے غافل ہوتے ہیں اور اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں وہی رات ان کے لئے شر لے کر بھی آجاتی ہے، تو فرمایا وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ) جب اندھیرے آئیں گے تو ان کے شر سے بھی ہمیں محفوظ رکھنا.اندھیروں کے شرکیا ہیں، اس کا بھی ان آیات میں ذکر ہے.اور اندھیرے کس کس قسم کے آتے ہیں، ان کا بھی ان آیات میں ذکر ہے.ایک اندھیرے تو وہ ہیں جو روشنی کے نتیجہ میں ایک رد عمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں.ایک اندھیرے وہ ہیں جو قانون قدرت کے مطابق دن اور رات کے ادلنے بدلنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں جو تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران :(۱۳) کا مضمون لے کر آتے ہیں.یعنی خدا کی طرف سے ترقیات تو عطا ہوتی ہیں لیکن جو قو میں ان ترقیات کا شکر ادا نہیں کرتیں وہی دن ان کے لئے راتوں میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں.اور قوموں کی تاریخ کا خلاصہ یہی ہے کہ کبھی وہ عروج حاصل کر رہی ہیں کبھی زوال پذیر ہورہی ہیں.لیکن دنیا میں تو یہ ایک طبعی نظام کے طور پر ہمیں ملتا ہے کہ لازم روشنی کے بعد اندھیرے میں آنا ہے.مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ روشنیاں جو ہم مذہبی قوموں کو عطا کیا کرتے ہیں ان کے بعد اندھیرالازم نہیں ہے.ہوسکتا ہے اور یہ ایک حد تک تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ ان روشنیوں کا زمانہ لمبا کرلو.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَامَرَدَّ لَهُ (الرعد: ۱۳) کہ خدا تعالیٰ نے ایک تقدیر بنادی ہے.یہ مبرم تقدیر ہے جو ٹل نہیں سکتی.لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوهِر جو نعمتیں کسی قوم کو عطا فرماتا ہے ان کو پھر تبدیل نہیں کیا کرتا.حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بأَنفُسِهِمْ یہاں تک کہ وہ خود تبدیل ہونے لگتے ہیں.خود بلانے لگتے ہیں تباہی کو اور ہلاکت کو اور تنزل کو.اس وقت خدا کی ایک اور تقدیر ظاہر ہوتی ہے اور ان کے اعمال کا نتیجہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.فرماتا ہے وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءً فَلَا مَرَدَّ لَهُ پھر جب اللہ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس قوم کو برائی میں مبتلاء کیا جائے گا.لَا مَرد لہ اس فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا.یہ بھی
خطبات طاہر جلد اول 206 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء اندھیرے ہوتے ہیں جو خدا کی عطا کردہ روشنیوں کے بعد آتے ہیں.لیکن ان اندھیروں میں بندوں کا دخل ہے.وہ کوئی ایسا نظام نہیں ہے جو ٹالا نہیں جا سکتا.اس کے برعکس کچھ ایسے اندھیرے ہیں جو روشنیوں کے نتیجہ میں از خود پیدا ہو جاتے ہیں.ان کا بھی قرآن کریم میں بلکہ اسی آیت میں ذکر ہے.وہ اندھیرے ہیں ترقی کے نتیجہ میں حسد کی پیداوار.اور وہ اندھیرے مومن کی خوشی کی تقریب کے ساتھ ساتھ لازماً چلتے ہیں.وہ خدا کی طرف سے عائد کردہ اندھیرے نہیں ہیں بلکہ خدا کے دشمنوں کی طرف سے عائد کردہ اندھیرے ہیں.چنانچہ فرمایا وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ) وَمِنْ شَرِّ النَّفْتِ فِي الْعُقَدِ کہ ان اندھیروں سے مراد یہ ہے کہ جب تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھو گے اور اس کی تبدیلیوں کے نظام میں ہر خیر سے کوئی برکت پانے لگو گے لیکن ہر شر سے محفوظ رہو گے تو اس کے نتیجہ میں دشمن پر کچھ اندھیرے طاری ہو جائیں گے اور ان اندھیروں کے نتیجہ میں وہ تم پر بھی اندھیرے طاری کرنے کی کوشش کریں گے.وَمِنْ شَرِّ النَّفْتُتِ في الْعُقَدِ تمہارے جو تعلقات قائم ہوں گے، تمہارے جو روابط پیدا ہوں گے، دنیا میں تم ہر دلعزیز ہو گے، نئی نئی قوموں سے تمہارے واسطے پیدا ہوں گے، ایسے تمام مواقع پر اللہ تعالیٰ مطلع فرماتا ہے کہ کچھ ایسے بھی پیدا ہوں گے جو ان تعلقات کو توڑنے کے لئے ان میں زہر گھولنے کے لئے پھونکیں ماریں گے نظقت کہتے ہیں پھونکنے والیوں کو.یعنی جادو ٹونا کرنے والیوں کو بھی نظقت کہا جاتا ہے.لیکن نفٹ کا اصل مضمون سانپ سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ اسی مضمون سے آگے پھر جادوٹونے کا مضمون مستعار لیا گیا.افعی یعنی سانپ جب زہر گھولتا ہے، گس گھولتا ہے تو اس کو عربی میں نفٹ کہتے ہیں.( اقرب الموارد زیر لفظ نفٹ ) فرمایا ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں جو تمہارے لئے زندگی کا انتظام کر رہی ہوں گی.دوسری طرف موت تھوکنے والے بھی پیدا ہو جا ئیں گے جو تمہارے تعلقات کی گانٹھوں میں موت پڑھ پڑھ کر پھونکیں گے یا موت کا زہر گھولنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ متنبہ فرماتا ہے کہ یہ خطرات وابستہ ہیں.یہ وہ خطرات ہیں جو تمہارے مقدر میں ہیں ان کو کوئی ٹال نہیں سکتا.ہاں اگر تم دعائیں کرو گے تو ان خطرات کے وقت ان کے شر سے محفوظ رہو گے.یعنی یہ رات تو ایسی ہے جوٹل نہیں سکتی.لازماً آنی ہے.اندھیروں کی یہ پیداوار کہ سانپ بچھو نکل آئیں اور ڈسنے لگیں ، چور ڈاکو اور اچکے پیدا ہو جائیں، یہ تو ایک ایسی قدرت خداوندی ہے جس کو کوئی بدل نہیں سکتا.فرمایا ہاں ایک
خطبات طاہر جلد اول 207 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء چیز ہے جو ہمارے بس میں ہے.یہ سانپ تھوکتے رہیں گے تمہاری گانٹھوں پر.اللہ ان کے شر سے تمہیں محفوظ رکھتا چلا جائے گا.یہ وہ تقدیر ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے تم دعائیں کرو.پھر فرماتا ہے وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اگر کوئی ان تمام احتیاطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے راستہ پر آگے بڑھتا چلا جائے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل اتنے بڑھائے گا اور شر سے اس طرح محفوظ رکھتا چلا جائے گا کہ ہر قدم حصول خیر و برکت کا قدم تو ہوگا.ٹھوکر اور تنزل کا قدم نہیں ہوگا.جب تم اس مقام پر پہنچو گے تو ایک اور قسم کا اندھیرا بھی تمہاری راہ میں منتظر ہوگا اور وہ حاسد کا حسد ہے.نقلتِ فِي الْعُقَدِ کے بعد حاسد کے حسد کا مضمون رکھا گیا.یہ کیوں ہے؟ بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ حاسد کے حسد کے نتیجہ میں ہی تو وہ پھونکیں ماری جائیں گی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ایک اور مضمون بیان ہو رہا ہے.مراد یہ ہے کہ دشمنوں پر دو دور آتے ہیں.ایک نفرت اور حقارت کا وہ دور جب کہ وہ خدا تعالیٰ کے قافلوں کی راہ میں حائل ہونے کی اور ان کے تعلقات میں زہر گھولنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن وہ نا کام کر دیئے جاتے ہیں.جب وہ قافلہ ان کوششوں کے باوجود آگے بڑھ جاتا ہے اور ترقی کی نئی نئی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے تو اس وقت حاسدوں کے حسد کی نظریں پڑتی ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتیں.ایک بے اختیاری کا عالم ہے، غیظ و غضب کا عالم ہے لیکن بس کوئی نہیں ہوتا.لیکن اس حسد کے نتیجہ میں بھی بعض دفعہ نقصانات پہنچ جاتے ہیں.کیا بار یک فلسفہ ہے اس حسد کا.اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے.لیکن حسد کے نتیجہ میں انسان تاک میں لگا رہتا ہے.بعد کے مواقع میں اس کا غصہ بغض میں تبدیل ہو جاتا ہے.ایسے کینہ میں تبدیل ہو جاتا ہے جو اس کی فطرت میں گس گھولنے لگ جاتا ہے بجائے اس کے کہ وہ آپ کے تعلقات میں گس گھولے.یعنی اندرونی مضمون ہے جس طرح سانپ کو ڈسنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ طیش میں بیٹھا ہو کہ میں نے ضرور ڈسنا ہے تو اہل علم جانتے ہیں کہ جتنی دیر اسکے زہر کی تھیلی کو انتظار میں لگتی ہے اتنا ہی زیادہ زہراس میں بھرتا چلا جاتا اور خطرناک ہوتا چلا جاتا ہے.تم دعائیں کرو گے تو ہم تمہیں محفوظ رکھیں گے.تمہیں بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہئے.جو خدا کے فضل ہیں ان فضلوں کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.صرف تم کر سکتے ہو ( یعنی اپنی بداعمالیوں کے ذریعہ ) اگر تم نہ بدلو گے تو میں بھی
خطبات طاہر جلد اول 208 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء نہیں بدلوں گا.تم میرے فضلوں اور رحمتوں کے وارث بنے رہو گے، حق دار بنے رہو گے تو میں فضل بڑھاتا چلا جاؤں گا اور دشمن کے زہر سے تمہیں محفوظ رکھوں گا.لیکن کچھ افعی ایسے بھی رہ جائیں گے جن کا بس نہیں چلے گا.وہ ترقیات پر تمہیں گامزن دیکھیں گے تو وہ اپنے اندر گس گھولنے لگیں گے.اپنے زہر کو بڑھاتے چلے جائیں گے.یہ ہے حسد کا مضمون جس پر جا کرتان ٹوٹی ہے اس سارے مضمون کی ، اور یہ ایک مستقل بغض ہے جو پیدا ہوتا چلا جائے گا اور تمہاری ہر ترقی کے نتیجہ میں یہ بغض بڑھتا چلا جائے گا خواہ ان کی کچھ پیش جائے یا نہ جائے.ایسے حاسد، ایسے کینہ ور انتظار میں لگے رہتے ہیں.کسی جماعت سے یا کسی فرد سے کبھی غفلت ہو اس وقت ان کا داؤ چلتا ہے اور پھر وہ بڑی قوت کے ساتھ ڈسنے کی کوشش کرتے ہیں.تو ایک دفعہ بچنے کے بعد ہمیشہ کے لئے غافل نہیں ہو جانا.یہ نہ سمجھنا کہ آگے موت کسی پہلو سے بھی تمہارا انتظار نہیں کر رہی.وہ تو تمہاری تاک میں بیٹھی رہے گی اور اس کو انتظار میں جتنی دیر لگے گی اتنا ہی اس کا زہر بڑھتا چلا جائے گا.اس لئے قیامت تک کے لئے ہر دشمنی کے شر سے محفوظ رکھنے کی دعا سکھا دی گئی.کتنا عظیم الشان کلام ہے.کوئی ایک پہلو بھی باقی نہیں چھوڑ ا جو ترقیات کی راہ پر چلنے والی قوموں کی راہ میں پیش آسکتا ہے جس کا قرآن کریم نے یہاں ذکر نہ فرمایا ہو.سب سے پہلی بات جو بیان فرمائی گئی اس کے نتیجہ میں کچھ ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَةٌ خالق ، اللہ ہے.تم نہیں ہو.تم سمجھتے ہو کہ تمہاری کوششوں کے نتیجہ میں ایک چیز پیدا ہوئی.لیکن یہ جان لو کہ رَبّ الْفَلَقِ صرف خدا ہے اس کے سوا اور کوئی ذات نہیں.اگر تم یہ جان لو کہ خدا ہی ہے جو پیدا کرنے والا ہے تو جھوٹے تکبر اور جھوٹے تفاخر تم میں پیدا ہی نہیں ہو سکتے.انکسار تو پیدا ہوسکتا ہے اس احساس کے بعد کہ ہماری کوششیں نہیں تھیں اللہ کے فضل تھے.لیکن وہ کھوکھلی اور ملکی باتیں جوان رازوں کو نہ سمجھنے والے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہیں ہر ماحصل کے بعد ، ان کھوکھلی باتوں سے مومن محفوظ رکھا جاتا ہے.مجھے اس کا خیال تین دن پہلے اس طرح آیا کہ جب میں سفر یورپ سے واپسی پر یہاں پہنچا
خطبات طاہر جلد اول 209 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء تو لوگوں نے طبعاً خوشی کا اظہار کیا اللہ تعالیٰ نے ایک خدمت کی توفیق عطا فرمائی تھی.اس موقع پر بڑی محبت کا اظہار تھا.دلوں سے بے اختیار خلوص کے سوتے اور جذبات کے چشمے پھوٹ رہے تھے.کچھ نعرے بن کر ، کچھ دعائیں بن کر کچھ ویسے ہی چہروں سے ظاہر ہورہے تھے.پاکستان میں داخل ہونے سے لے کر ربوہ پہنچنے تک یہی منظر دیکھا.لیکن بعض نعرے ایسے سنے جن سے مجھے بہت تکلیف پہنچی مثلاً یہ کہا گیا ، فاتح سپین، ابھی تو ہم خدمت کے میدان میں پوری طرح داخل ہی نہیں ہوئے.اتنی جلدی اتنے بڑے بڑے دعوے کر بیٹھنا اور ان دعوؤں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرنا، یہ ایک بہت خطرناک فعل ہے.ہر تخلیق نو کے ساتھ جو شر لگے ہوئے ہیں ان میں ایک یہ شر بھی ہے کہ انسان چھوٹی حالت میں بہت بڑے بڑے دعوے کرنے لگ جائے.چھوٹی سی بات پر ا چھلنے لگ جائے اور اتنا شور مچائے کہ وہ سمجھے کہ میں نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے.اس کے شر بڑے تفصیلی ہیں جن کی طرف ذہن منتقل ہوا تو آج میں نے خطبہ میں ان آیات کو اپنے خطبہ کا موضوع بنایا.یعنی بظاہر تو میں نے شروع ہی میں گویا ساری باتیں بیان کر دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات لا متناہی مضامین رکھتی ہیں.اگر شر کے مضامین پر اور ہر پیدائش کے ساتھ تعلق رکھنے والے شر کے مضمون پر بھی آپ غور کرتے چلے جائیں تو زندگی بھر غور کریں صرف یہ مضمون بھی ختم نہیں ہوسکتا.کیونکہ اول تو رب الْفَلَقِ کے مظاہرات لا متناہی ہیں.وہ کس طرح رَبِّ الْفَلَقِ بنتا ہے.کن کن موقعوں پر وہ کس شان کے ساتھ رَبِّ الْفَلَقِ بن کر ظاہر ہوتا ہے.یہ اتنا حیرت انگیز اور اتنا تفصیلی مضمون ہے کہ انسان اسی میں ڈوب جائے تو ایک نسل نہیں سینکڑوں نسلیں بھی ڈوبی رہیں تب بھی وہ اس مضمون کی اتھاہ کو نہیں پہنچ سکتیں.سائنس دان جو اب تک غور کر رہے ہیں خدا کے رَبِّ الْفَلَقِ ہونے پر (اگر چہ باشعور طور پر تو اس طرح غور نہیں کر رہے لیکن حقیقت میں اسی آیت کے غلام بنائے گئے ہیں ) ان کی ساری زندگیاں وقف ہیں یہ ثابت کرنے پر کہ عجیب رَبِّ الْفَلَقِ ہے جس کی تخلیق پر ہم غور کر رہے ہیں.کس طرح ایک تخلیق نو ہوتی ہے.اس مضمون پر لکھوکھا صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آج تک سائنسدان یہ اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ کسی ایک نوع کی تخلیق کے کسی ایک پہلو پر بھی ہم غالب نہیں آ سکے.اور اس کو ہم نے اپنی لپیٹ میں نہیں لیا.چھوٹے سے چھوٹے ذرہ کی تخلیق پر بھی وہ ابھی تک حاوی نہیں ہوئے یعنی انسانی علم اتنا کم
خطبات طاہر جلد اول 210 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء ہے کہ خدا تعالیٰ کے رَبِّ الْفَلَقِ ہونے کے مضمون کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ کے سارے پہلوؤں پر ابھی حاوی نہیں ہوسکا.لَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (بقر : ۲۵۲) کا عظیم الشان اعلان ہے جو ہر انسانی کوشش، ہر انسانی جستجو کے وقت سامنے آتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو شر پیدا ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں یا آئندہ مستقبل میں پیدا ہوں گے ان کا مضمون بھی اتنا وسیع ہے کہ ہر فلق کے ساتھ ایک یہ مضمون بھی لگا ہوا ہے جو لا متناہی مضمون ہے.مسجد سپین کے ساتھ جو بجیں ہم نے دیکھیں.اللہ کے فضل کی صبحیں جو پھوٹی ہیں بلاشبہ ہمارے دل اس سے روشن ہو چکے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس صبح کی نمازیں ادا کریں اور خدا کی حمد کے گیت گائیں اور گاتے چلے جائیں تب بھی یہ ایسا فضل ہے جس کے شکر کا حق ادا نہیں ہو گا.لیکن اس کے نتیجہ میں جو بعض شر پیدا ہوتے ہیں ان سے بھی محفوظ رہنے کی دعا ضروری ہے.ایک تو صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے روشنی ظاہر ہونے پر آپ فجر کی نماز پڑھتے ہیں.لیکن ایک وہ نماز ہے جو ہر فلق کے وقت انسان کو پڑھنی چاہئے.وہ نماز ذکر الہی کی نماز ہے جو انسان کے اندر جذب ہو جاتی ہے.یہ نماز اس توجہ کی نماز ہے کہ ہر نیا دور، ہر نئی شان جو خدا نے ظاہر فرمائی ہے جو اس کی رحمت اور فضلوں کا نشان ہے ہمیں اس کے لئے اس کا شکر ادا کرنا چاہئے ، اس کی حمد کرنی چاہئے.یہ تو ہے خیر فلق یعنی فلق کا خیر کا پہلو اور شر کا پہلو یہ ہے کہ انسان اسی کو اپنا سب کچھ سمجھ لے.وہ سمجھے کہ ہم نے آخری بازی جیت لی ہے، تمام دنیا فتح ہوگئی ہے کیونکہ ہم نے یہ صبح دیکھ لی، خدا کا یہ فضل دیکھ لیا، اب اس کے بعد گویا کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہی اور اس کے جو خطرات ہیں ان سے وہ غافل ہو جائے.اس سوچ میں خطرات ہیں، اس فکر میں خطرات مخفی ہیں جن کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.وہ خطرات مثلاً ایک یہ کہ ایک انسان اگر ایک چھوٹی چیز پر راضی ہو جائے اور سمجھے کہ میں نے مقصد کو حاصل کر لیا ہے تو اگلا قدم نہیں اٹھائے گا.اس راستے کے جو تقاضے ہیں.مثلاً محنت ہے وہ ان کو پورا نہیں کرے گا.وہ جذباتی طور پر اظہار کر کے بلند نعرے لگا کر سمجھے گا کہ میری مطلب براری ہوگئی، آج مجھے مزہ آ گیا ، سب کچھ حاصل ہو گیا.لیکن جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور اس کے لامتناہی فضل ہیں ، ایک فلق نہیں اس کے قبضہ قدرت میں بے شمار افلاق ہیں، ان تمام فلقوں کا وہ
خطبات طاہر جلد اول 211 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء رب ہے، اس نے آج یہ صبح ہمیں دکھائی ہے تو کل دوسری بھی دکھا سکتا ہے، پرسوں تیسری بھی دکھا سکتا ہے اور ایک نعمت پر راضی ہو کر وہیں بیٹھ رہنے والے نہیں اگر چہ ہم اس نعمت پر راضی ہیں مگر ان معنوں میں نہیں کہ ہم اسی پر بیٹھ رہیں کیونکہ خدا کی نعمتیں لامتناہی ہیں اور اس نے عطا کی ہیں.ہمارا تو کچھ تھا ہی نہیں.پس جب سب کچھ ہی اس نے عطا کیا ہے.وہ بلا وجہ اور بلا استحقاق کے یہ فضل فرما سکتا ہے تو اگلا فضل بھی ہم کیوں نہ اس سے مانگیں.ایک بیدار مغز انسان کی طبعا اس طرف توجہ منتقل ہوتی ہے.انسان اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوتا.اپنی کوشش سے غافل نہیں ہوتا.ویسے بھی ایک دوسرا شریہ ہے کہ جو تو میں نعرہ بازیوں میں مبتلا ہو جائیں ان کے جذبات کی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں.اگر جذبات کو روکا جائے تو وہ اعمال میں ڈھل جایا کرتے ہیں.اسی لئے ہر نعمت کے ساتھ صبر کی تلقین ہے کہ صبر ضرور اختیار کرنا کیونکہ صبر کے نتیجہ میں اعمال کی اصلاح ہوتی ہے.پس یہ ٹھیک ہے کہ خوشی کے وقت یہ بھی جائز ہے اور ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ انسان نعرے بلند کرتا ہے لیکن نعرے بھی ایسے معنی خیز ہونے چاہئیں جو آپ کے جذبات کو خالی نہ کر دیں، انڈیل نہ دیں بلکہ لا متناہی معانی کے جہان آپ کے دلوں میں روشن کرنے والے نعرے ہوں.مثلاً اللہ اکبر کا نعرہ ہے.یہ ایک ایسا عظیم الشان نعرہ ہے کہ اگر ساری عمر قو میں اس نعرے کو بلند کرتی چلی جائیں اور فلک شگاف نعرے بلند کرتی چلی جائیں.تب بھی یہ اللہ اکبر کا مضمون ختم نہیں ہوسکتا.ہر ترقی ، ہر بڑائی بتاتی ہے کہ سب سے بڑا تو خدا ہے اور اس کی نہ ختم ہونے والی بڑائی ہے.جس کی بڑائی نہ ختم ہونے والی ہو اس کے لئے نہ ختم ہونے والے نعرے لگتے چلے جائیں گے.اور ان نعروں کا کوئی انجام نہیں ہے.ایسے نعروں کا کوئی اختتام نہیں ہے.اسی طرح جب خدا ہمیں کوئی فتح عطا فرماتا ہے تو فتح کی کنہ کو سمجھنا چاہئے.یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ فتح کس کے طفیل نصیب ہوئی، کیوں نصیب ہوئی.میں نے جہاں تک قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے.وہاں کسی جغرافیائی فتح کا کہیں ذکر نہیں ملتا.اول سے آخر تک آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں ، بار بار کریں ، جس طرح چاہیں سمجھیں، جن ڈکشنریوں سے چاہیں فائدہ اٹھالیں کسی علاقائی فتح کا قرآن کریم میں مومن کے لئے ذکر نہیں.روحانی فتوحات کا ذکر ہے.دینی فتوحات کا ذکر ہے آنحضرت علی کورحمتہ للعالمین تو قرار دیا گیا.فاتح عالم قرار نہیں دیا.ہاں یہ فرمایا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (اتو بہ: ۳۴) کہ وہ اس لئے مبعوث
خطبات طاہر جلد اول 212 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء فرمایا گیا ہے تا کہ تمام ادیان باطلہ پر فتح مند ہو.اس لئے ہماری فتح نہ پین کی فتح ہے نہ ہندوستان کی فتح ہے، نہ یورپ کی فتح ہے نہ امریکہ کی فتح ہے نہ جاپان کی نہ چین کی کسی ایشیائی ملک کی فتح ہماری فتح نہیں.دنیا کے کسی جزیرہ کی فتح ہماری فتح نہیں.ہماری فتح تو وہی فتح ہے جو ہمارے آقا کی فتح ہے اور فتح لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم کی فتح ہے.آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا گیا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دیں.اتنے عظیم الشان آقا سے واسطہ پڑ جائے ، اس کی غلامی کا انسان دم بھرنے لگے اور فتح سپین پر راضی ہو جائے.یہ تو آپ کی شان نہیں اور وہ فتح ہو بھی ایسی جو ابھی آئی نہ ہو، ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے آغاز کے آثار ظاہر کئے گئے ہوں.اس لئے دوست اپنے اندر توازن پیدا کریں باشعور بنیں، بالغ النظر بنیں.ان دعاؤں سے سبق سیکھیں جو آپ کو ذہنی اور فکری تو ازن سکھاتی ہیں.غور کر کے دعائیں کیا کریں اور توازن کو حاصل کریں.اس توازن کے لئے دعا مانگا کریں.پھر اللہ تعالیٰ آپ سے بہت بڑے بڑے کام لے گا.پھر آپ کی فتوحات کے دروازے لامتناہی ہیں.اس وقت تک آپ کی فتوحات کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا جب تک لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم کی پیشگوئی پوری نہیں ہو جاتی.پس آنحضرت ﷺ فاتح ادیان عالم ہیں.ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہئے.اے اللہ ! اس فاتح ادیان عالم پر سلام بھیج اور درود بھیج.جس کی رحمتوں اور برکتوں سے ہم قدم آگے بڑھا رہے ہیں.اسی کے طفیل ہمیں وہ نعمتیں عطا ہو رہی ہیں جن نعمتوں پر آج ہم خوب راضی ہیں لیکن ان معنوں میں راضی نہیں کہ ہمیں یہ کافی ہو گئیں.تیرا وہ محبوب جس کے ساتھ ہم وابستہ ہو گئے، وہ ساری نعمتیں جواس کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں ، جب تک وہ حاصل نہیں کریں گے ہم راضی نہیں ہوں گے.اس لئے رضا کے دو معنے ہیں.ایک پہلو سے ہم ہر حال میں راضی ہیں.تیری طرف سے ابتلا آئے تب بھی راضی ہیں، تیری طرف سے نعمت نازل ہو چھوٹی ہو یا بڑی ہو ہم راضی ہیں.لیکن ایک رضا ایسی ہے جس کے بعد آگے اور خواہش پیدا نہیں ہوتی.وہ رضا موت کی نشانی ہے وہ رضا زندگی کی علامت نہیں ہے.اس لئے رضا کے دوسرے معنوں میں ایک نہ ختم ہونے والی پیاس ہے جو ہمیں اپنے رب کے حضور پیش کرتے چلے جانا چاہئے اور آنحضرت ﷺ پر ہر فتح کے وقت درود بھیجنے چاہئیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جتنے بھی ادیان باطلہ یا ان کے اجزا ہمارے ہاتھوں پر فتح ہو گئے ان سارے قلعوں کی
خطبات طاہر جلد اول 213 خطبه جمعه ۵ ارا کتوبر ۱۹۸۲ء فتوحات حضرت محمد مصطفی موہ کے سرکا سہرا ہیں.ہم تو ادنی غلام ہیں خاک پا ہیں اس آقا کے جس کے صدقے اور جس کے طفیل یہ چھوٹی چھوٹی فتوحات نصیب ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان فتوحات کے دروازے وسیع تر کرتا چلا جائے نئے نئے میدان ہمیں نظر آئیں قربانیوں کے ، اللہ تعالیٰ کے حضور عجز کے ساتھ قربانیاں پیش کرنے کے میدان.ہم قربانیاں پیش کریں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی برکت سے وہ قربانیاں قبول ہوں اور نئی نئی فتوحات کے دروازے ہم پر کھلتے چلے جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آج کل چونکہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جور پورٹیں مل رہی ہیں بہت ہی خوشکن ہیں.حاضری کی تعداد بھی سائیکل پر آنے والوں کی تعداد بھی.اور انہوں نے نئے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں.چھوٹے چھوٹے ریکارڈ ہیں لیکن ان معنوں میں رضا کے متقاضی ہیں کہ ہر چھوٹی سی برکت پر بھی ہمیں راضی ہونا چاہئے.ہم بہت راضی ہیں لیکن اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان چھوٹے چھوٹے فضلوں کو بڑھاتا چلا جائے.لامتناہی کر دے.ہم ہمیشہ ترقی کی اگلی منزل پر قدم رکھتے چلے جائیں اور کسی ایک جگہ بھی ہمارے لئے قرار کا مقام نہ آئے.اس اجتماع کے وقت عموماً یہی دستور چلا آ رہا ہے کہ دینی مصروفیات کی وجہ سے نمازیں جمع کی جاتی ہیں.اس لئے آج جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہوگی.اجتماع میں جو شامل ہوں گے وہ ظہر اور عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کیا کریں گے لیکن مسجد مبارک میں یہ نمازیں اپنے وقت پر ہوا کریں گی وہاں نمازیں جمع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے.اس لئے نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ہم یہیں نماز عصر جمع کریں گے.ساڑھے تین بجے انشاء اللہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا افتتاح ہوگا.انتظام کی دقتوں کی وجہ سے چند منٹ آگے پیچھے ہو جائیں تو الگ بات ہے ورنہ عموماً ساڑھے تین یا پونے چار بجے تک انشاء اللہ افتتاح ہو جائے گا تو جو دوست اس میں شامل ہو سکتے ہوں وہ اس میں شامل ہوں.(روز نامه الفضل ربوه ۳ رنومبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 215 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء لعب ولہو، زینت، تفاخر اور تکاثر کو غالب نہ آنے دیں (خطبه جمعه فرموده ۲۲ راکتو بر۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنی پڑھیں : اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَزِينَةً وَتَفَاخُر بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَهُ مُصْفَرَّاثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانُ وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد: ۲۳-۲) اور پھر فرمایا: ط یہ سورۃ الحدید کی دو آیات ۱۲۱ اور ۲۲ ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.ان آیات میں
خطبات طاہر جلد اول 216 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء اللہ تعالیٰ نے تمام انسانی زندگی اور اس کی دلچسپیوں اور اس کے ماحصل کا بہت ہی مختصر لیکن جامع الفاظ میں خلاصہ پیش فرما دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ زندگی جس کے لئے انسان اپنی تمام تر توجہات ضائع کر دیتا ہے.تمام کوششوں اور تمام زندگی کی جدو جہد کا مقصود جس زندگی کو بنالیتا ہے وہ زندگی کھیل ہے اور کہو ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے کا ذریعہ ہے اور اموال اور اولا د میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور ایک دوسرے سے زیادہ کثیر تعداد میں ان کے مالک بنے کا نام ہے.فرماتا ہے.اس زندگی کی مثال ایسے بادل کی سی ہے جسکو دیکھ کر کا فریاز زاع خوش ہوں اور وہ سمجھتے ہوں کہ ہمارے لئے اس سے بہت ہی اچھی نباتات نکلے گی.پھر حقیقتا لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اس سے نمودار ہوں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ خشک ہو جائیں اور پھر تو ان کو زرد دیکھے یہاں تک کہ وہ ریزہ ریزہ ہو کے بکھر جائیں اور انجام کا رآخرت میں شدید عذاب ہو.لیکن ساتھ ہی مغفرت بھی ہو اللہ کی طرف سے اور اس کی رضوان بھی ہو.وَ مَا الْحَیوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ دیکھو! دنیا کی زندگی ایک دھو کے کے سوا کچھ بھی نہیں.اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑو.ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ تاکہ تمہیں اپنے رب کی طرف سے مغفرت حاصل ہو اور ایسی جنت ملے جس کی قیمت یا جس کا حجم ، دونوں لحاظ سے آسمان اور زمین کے برابر ہو.یہ جنت ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر.یہ خاص فضل ہے اللہ کی طرف سے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے.ان آیات کریمہ میں زندگی کا جو خلاصہ پیش کیا گیا ہے.اس میں سب سے پہلے لعب رکھا ہے کھیل کو د.اور دنیا میں بسنے والے بہت سے انسانوں کی تعداد ایسی ہے جو زندگی کو محض کھیل کو د اور ظاہری دلچسپیوں کے ذریعہ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے.وَلَھو اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں تمام ایسی لذتیں جن کا انسانی شہوات سے تعلق ہو لہو میں آجاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی میں اکثر انسان ان دو چیزوں کی پیروی ہی کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں.اور اس کے بعد نسبتا زیادہ وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ ان سے زیادہ توفیق دیتا ہے اگلے قدم پر ، وہ زینت کے سامان مہیا کرتے ہیں.درجہ بدرجہ انسانی زندگی کو دنیا میں جتنی عظمت حاصل ہوتی چلی جاتی ہے دنیا دار کی نگاہ میں ، جتنا اس کو حاصل
خطبات طاہر جلد اول 217 خطبه جمعه ۱٫۲۲ کتوبر ۱۹۸۲ء ہونے لگتا ہے.( دنیا کی اصطلاح میں ) اسی قدر زیادہ وہ زینت کے سامان اپنے لئے پیدا کرتا ہے وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ اور زینت کے سامان اس کے لئے کافی نہیں ہوتے.حقیقت میں مال کی ذاتی محبت میں وہ مبتلا ہو جاتا ہے اور مال کا مقصد صرف لہو ولعب یا زینت حاصل کرنا نہیں رہتا بلکہ آخر کا ر ان لوگوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ مال کی ذاتی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر فخر کرنے کے نتیجے میں فخر کے حصول کے نتیجے میں وہ مال کو بھی بڑھانے لگتے ہیں اور اولادکو بھی بڑھانے لگتے ہیں.یعنی فی ذاتہ یہ مقصود بن جاتے ہیں.اس سے مراد کیا ہے؟ اگر آپ غور کریں تو انسانی زندگی کی تمام کجیاں اور تمام بے راہ رویاں اسی آیت کے اندر مذکور ہیں اور اس کا تجزیہ نہایت ہی پاکیزہ رنگ میں یہاں کر دیا گیا ہے.دنیا میں جتنی بھی خرابیاں ہیں، جتنی بھی تباہیاں ہیں معاشرے کی جتنی بھی انسانی بیماریاں ہیں ان سب کا تجزیہ اس مختصر آیت میں پیش فرما دیا گیا اور اعلیٰ اقدار سے روکنے کی جتنی بھی چیزیں ذمہ دار ہوسکتی ہیں ان سب کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے.آپ کھیل کو د اور لہو ولعب سے بات شروع کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ کم سے کم زندگی کا مطلوب ہے جو وسیع طور پر انسان کو حاصل ہو سکتا ہے یعنی اس میں امیر اور غریب کا فرق ہوتا تو ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ غریب اس سے محروم رہ جائے.امیروں کو بہت ہی مہنگی اور اچھی قسم کی کھیلیں مہیا ہو جاتی ہیں.غریب کو معمولی کھیلیں مہیا ہو جاتی ہیں.کوئی اور بس نہیں چلتا، کرکٹ نہیں کھیل سکتا، ہا کی نہیں کھیل سکتا، فٹ بال نہیں کھیل سکتا تو کپڑے اتار کے کبڑی تو کھیل ہی سکتا ہے اور یہاں سے خدا نے بات شروع کی ہے جو انسانی زندگی کے بہت ہی وسیع پیمانے سے تعلق رکھتی ہے.اور اسی طرح نفسانی خواہشات کی پیروی میں بھی امیر وغریب برابر ہیں اس لحاظ سے کہ دونوں کا بس چلے تو کسی نہ کسی حد تک وہ نفسانی خواہشات کی پیروی کر لیتے ہیں.لیکن کھیل کو دسب سے عام ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی اس سے نسبتاً چھوٹے دائرہ کی ہے لہذا اس کا بعد میں ذکر فر مایا.زینت کا مقام اس کے بعد آتا ہے.اگر چہ ہر انسان کی خواہش ہے کہ میں زینت اختیار کروں لیکن زینت کا خاص تعلق نسبتا زیادہ اموال سے ہے.جب زندگی کی ادنی ضروریات پوری ہو جا ئیں تو پھر زینت کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.غربت کے ساتھ بعض دفعہ زینت کا تصور بھی مٹ
خطبات طاہر جلد اول 218 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء جاتا ہے.جس غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ، پیٹ بھر کے کھانا میسر نہیں ، بچوں کے پہننے کے لئے کپڑے نہیں، اور بسنے کے لئے گھر نہیں ہے.اس غریب کو زینت کی کیا ہوش ہو سکتی ہے.وہ تو بعض دفعہ خود اتنا گندا رہتا ہے کہ اس کے قریب سے بھی گزرو تو بد بو آنی شروع ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے درجہ بدرجہ انسانی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے زینت کو بعد میں رکھا.فرمایا ایک ایسا طبقہ بھی ہے انسانوں کا جس کو ادنی ضرورتیں مہیا ہو جاتی ہیں تو پھر وہ زینت کا خیال کرتا ہے.اور زینت کے ساتھ لازماً تفاخر کا تعلق ہے.جب انسان زینت اختیار کرتا ہے تو چاہتا ہے کے میں دوسرے کو دکھاؤں اور دوسرے سے بہتر نظر آؤں.مختلف زبانوں میں یہ کہانیاں مشہور ہیں کہ بعض دفعہ عورتیں دکھاوے کی خاطر گھر جلوا بیٹھیں.جس انسان کے اندر زینت آجائے اس میں بے اختیار تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار کرے اور دکھاوا کرے تو اس سے مضمون رخ بدل کر تفاخر میں داخل ہو جاتا ہے.زینت کا حصول پھر فخر پیدا کرتا ہے اور انسان انسان پر اور قومیں قوموں پر فخر کر نے لگ جاتی ہیں.وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَا دِ یہاں تک کہ انسانی دولتیں جو کچھ بھی خرید سکتی ہیں وہ خریدنے کے باوجود، سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود پھر بھی حرص باقی رہ جاتی ہے.اور وہ حرص فی ذاتہ مال کی محبت اور قومی بڑائی پیدا کر دیتی ہے.چنانچہ انسان محض اس غرض میں مبتلا ہو جاتا ہے زیادہ دولت کے بعد کہ اسے اور دولت حاصل ہو.اور یہ جو آخری بیماری ہے یہ بعض دفعہ اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ پہلے کی ادنی چیزیں ذہن سے اتر جاتی ہیں اور غائب ہو جاتی ہیں.ایسے لوگوں کو بعض دفعہ نہ کھیل کا شوق رہتا ہے، نہ ہو گا، نہ زینت کا ، کسی اور رنگ میں نہ تفاخر کا.صرف اور صرف پیسہ اکٹھا کرنا اور طاقت کا حصول ان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے.یہاں اولا د کا جو ذکر فرمایا گیا کہ اولاد میں بھی تکاثر ہوتا ہے.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آجکل کی دنیا میں تو اولاد پر نہ تفاخر ہوتا ہے نہ تکاثر کسی زمانے میں جب سوسائٹی اونی حالت پر تھی اسوقت ، ہوسکتا ہے لوگ فخر کرتے ہوں کہ ہمارے بچے زیادہ ہیں.آجکل کے زمانے میں تو بعض دفعہ بچوں کی تعداد پوچھو تو لوگ شرما جاتے ہیں.جن کے سات آٹھ بچے ہوں یا دس گیارہ بچے ہوں وہ ذرا جھجک کے جواب دیتے ہیں.تو قرآن کریم نے یہ کیا فرما دیا.کیا تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ
خطبات طاہر جلد اول 219 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء وَالْاَوْلَادِ اموال میں تو تکاثر ہے ، اولاد میں تکاثر کیسے ہو گیا ؟ اصل بات یہ ہے کہ انسانی زندگی جوں جوں ترقی کر رہی ہے اس کی اصطلاحیں بدلتی جارہی ہیں.جہاں فیملی یونٹ ٹوٹ رہے ہیں یعنی خاندانی تصورات مٹ رہے ہیں ، وہاں قومی تصورات ان کی جگہ لے رہے ہیں اور تكاثر في الْأَمْوَالِ وَالْاَولاد کا یہاں یہ معنی ہو جائے گا کہ تو میں اپنی عددی برتری پر فخر کرتی ہیں اور ایک دوسرے پر عددی قوت کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ انسانی قوت کے لحاظ سے وہ دوسروں پر سبقت لے جائیں.چنانچہ یہ امر واقعہ ہے کہ بظاہر اس وقت ہر طرف فیملی پلانگ کا حکم ہو رہا ہے حکومتوں کی طرف سے لیکن قوموں کو گہری فکر اس بات کی لاحق ہو رہی ہے کہ ہم عددی لحاظ سے کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں.روس کو یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ چین عددی قوت کے لحاظ سے ہم سے آگے نکل گیا ہے.امریکہ کو یہ دھڑکا رہتا ہے کہ روس اور چین عددی قوت کے لحاظ سے ہم سے آگے نکل رہے ہیں اور باوجود اس کے کہ اقتصادی لحاظ سے ان کو فیملی کا چھوٹا یونٹ زیادہ مفید معلوم ہوتا ہے لیکن قومی نقطۂ نگاہ سے وہ اموال اور اولاد، دونوں کی کثرت کی خواہش رکھ رہے ہیں.چنانچہ روس کے متعلق جو تازہ معلومات ہیں ، جو اعدادوشمار یورپ میں چھپ رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو سفید رشیا ہے اسکو بڑی شدید فکر لاحق ہوگئی ہے کہ وہ رشیا جو سفید فام نہیں اور جس کی اکثریت مسلمانوں کی ہے اس کی تعدا د زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے.اگر وہ اور زیادہ بڑھ گئی تو ہوسکتا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک قوانین کے تابع یورپین رشیا پر بھی قبضہ کرلے اور اس بارے میں وہ بہت فکر مند ہے اور اس بارے میں تجویز میں سوچی جارہی ہیں کہ نان وائٹ رشیا ( غیر سفید فام روس) کے غلبے کو کس طرح روکا جا سکے.تو تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ میں ، جب اصطلاحیں بدلتی ہیں تو معنی بھی ساتھ بدل جاتے ہیں.زمانہ بدلتا ہے تو اور رنگ پیدا ہو جاتا ہے مراد یہ ہے کہ ایسا زمانہ بھی آسکتا ہے کہ جب اولا د سٹیٹ کی اولاد مراد ہو اور اموال ، سٹیٹ کے اموال مراد ہوں.اس صورت میں تمام ریاست کے اموال اور تمام ریاست کی اولاد میں ایک دوسرے پر تکاثر کی کوشش ہو گی.چنانچہ جو اشتراکی ممالک ہیں ان میں اموال کے معنے بھی سٹیٹ کے اموال کے بن جاتے ہیں.ریاست کے اموال اور اس لحاظ سے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں.اور یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو انسان کے اندر بے راہروی پیدا کرتی ہیں اور اسے زندگی کے
خطبات طاہر جلد اول 220 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء اعلیٰ مقاصد سے ہٹا دیتی ہیں، اس کی توجہ پھیر دیتی ہیں اور معاشرے کی اکثر برائیوں کی بنیاد بن جاتی ہیں یہ چیزیں.چنانچہ کھیل کو داگر چہ ضروری ہے زندگی کیلئے ، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کھیل کا ذکر فرمایا صحت کے لیے ورزش کرنا یا کھیلنا، یہ ساری چیزیں ضروری ہیں لیکن جب ان کی طرف زیادہ توجہ ہو جائے تو سنجید گیاں مٹ جاتی ہیں اور کام کر نیوالی عظیم قو میں بھی بعض دفعہ کھیلوں کی طرف زیادہ راغب ہو کر اپنے مقاصد سے ہٹ جاتی ہیں.اب کھیلوں کے اندر صرف وہ کھیلیں نہیں ہیں جن کو ہم کھیلیں سمجھ رہے ہیں مثلا گلی ڈنڈا یا کبڈی یا فٹ بال یا والی بال.ایسی ایسی کھیلیں دنیا ایجاد کر چکی ہے اور مفہوم اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ تفریحات کے لفظ کے اندر سیر وسیاحت بھی آجاتی ہے،Skating بھی آجاتی ہے، بڑے پہاڑوں پر چڑھنا.یہ ساری چیزیں شامل ہو جاتی ہیں.اب یورپ کے لئے کھیل کی طرف زیادہ توجہ ایک مصیبت بن رہی ہے ، بلکہ ساری مغربی دنیا کے لئے.پہلے ساڑھے چھ دن کام کیا کرتے تھے.پھر چھ دن ہوا.اب پانچ دن کام رہ گیا ہے.اور پانچویں دن میں سے بھی آدھا دن وہ نسبتاً چھٹی کا گزار لیتے ہیں.اس کے علاوہ پھر چھٹیاں لیتے ہیں اور بہت بڑا روپیہ کھیلوں پر خرچ ہو رہا ہے اور سیر و تفریح پر ضائع ہو رہا ہے.اتنا زیادہ کہ اس میں صرف صحت کے تقاضے شامل نہیں ہیں بلکہ بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے اور اور سیر و تفریح یعنی لعب ، لہو میں داخل ہو جاتی ہے اور لہو لعب میں اور ایک جگہ جا کر دونوں ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.چنانچہ آجکل جو کھیل کا تصور ہے اس میں بے حیائی اور بدمعاشی کا تصور بھی داخل ہو گیا ہے.جو سب سے گندا مزاج اور بدمعاش ہو اس کو Play Boy کہتے ہیں.جس کے اندر حیا کا کوئی تصور نہ پایا جائے اس کا اصطلاحی نام اب مغرب میں Play Boy بن گیا ہے.کھیلنے والا.اور جتنی بھی ایڈوانسڈ (Advanced) قسم کی ، جدید قسم کی کھیلیں ہیں ان کے اندر بد معاشی اور بے حیائی اس طرح رچ گئی ہے کہ بعض دفعہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں رہتا.اور اس کے نتیجے میں وہ زندگی کی اعلیٰ اقدار سے غافل ہو جاتے ہیں.انسانی ہمدردی سے غافل ہو جاتے ہیں.اپنے مقاصد سے غافل ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے سے غافل ہو جاتے.چنانچہ کھیل کا رجحان جہاں بھی حد سے تجاوز کرتا ہے ،نفسانی خواہشات کی پیروی کا رجحان بھی ساتھ ہی بڑھتا ہے.وہاں مذہبی اقدار کم ہوتی چلی جاتی ہیں.اپنے معاشرے میں بھی آپ دیکھ
خطبات طاہر جلد اول 221 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء لیجئے کہ جہاں جہاں بچوں میں لہو ولعب بڑھتی ہے وہاں نمازوں کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے، سنجیدگی کم ہونے لگ جاتی ہے، پڑھائی کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ آپ دیکھیں گے کہ ٹیلیویژن کے اوپر لڑ کے کرکٹ دیکھ رہے ہیں لیکن نماز کا اعلان ہوتا ہے ، اذان ہوتی ہے تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.یعنی لعب غالب آجاتی ہے انکے اوپر اور جن لوگوں پر لعب غالب آتی ہے یعنی کھیل کی دلچسپیاں ، یہ ان کی تقدیر ہے کہ وہ آہستہ آہستہ لہو میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں.یہ ایسا فطری جوڑ ہے کھیل کود میں ضرورت سے زیادہ انہماک کا ، آوارہ مزاجی اور بے حیائی کیساتھ کہ ایک رجحان دوسرے میں خود بخود داخل ہو جاتا ہے.انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے.سنجیدگی پاکیزگی پیدا کرتی ہے اور کھیل کود کا مزاج بے حیائی پیدا کرتا ہے اور بے حیائی کیساتھ زینت کا تعلق ہے.چنانچہ جب انسان زینت میں داخل ہو جائے یعنی دنیا کی زمینوں میں تو اس بات سے قطعاً بے نیاز ہو جاتا ہے کہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ادنی ضرورتیں مہیا نہیں ہیں کوٹھیوں کی سجاوٹ اور اعلیٰ قسم کی زندگی کے حصول کے لئے جس میں حسن زیادہ ہو، دکھاو از یادہ ہو، لوگ دیکھیں اور کہیں کہ یہاں تو کمال ہو گیا، ایسی خطرناک دوڑ شروع ہو جاتی ہے کہ انسانی دماغ یہ توجہ ہی نہیں کرتا کہ مجھ سے نیچے ایسے لوگ ہیں جو غریب ہیں، جن کے پاس پہنے کیلئے کپڑے نہیں ہیں ، جن کو روٹی میسر نہیں ہے، جن کے لئے سر چھپانے کی جگہ نہیں.ادھر دیکھنے کی بجائے وہ ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جن کو زیادہ زینت مہیا ہے.وہ دیکھتے ہیں کہ ایک ہمسایہ ہے جس نے بہت بڑی کوٹھی بنالی ہے، ایک اور ہمسایہ ہے جس کے پاس بہت اونچی کا رآ گئی ہے، ایک اور ہمسایہ ہے جس نے ماڈرن فرنیچر خریدلیا ہے، ایک ایسا ہمسایہ آ گیا ہے نظر میں جس نے وڈیو ریکارڈر خریدا ہوا ہے.تو زینت جو ہے وہ رفتہ رفتہ تفاخر میں تبدیل ہوتے ہوتے تکاثر میں بدل جاتی ہے.پہلے فخر شروع ہو جاتے ہیں کہ دیکھو میرا گھر زیادہ خوبصورت ہے، میری چیزیں زیادہ اچھی ہیں.تو فخر جو ہے وہ پھر تکاثر کی دوڑ میں داخل ہو جاتا ہے.چین ہی نہیں آتا جب تک ایک دوسرے سے سبقت نہ لے جائیں.اور یہ تکاثر بالآخر انسانی ذہن اور توجہ کو اس طرح مسخ کر دیتا ہے کہ مال کی ذاتی محبت غلبہ پا جاتی ہے اور قوت کی ذاتی محبت غلبہ پا جاتی ہے.سیاسی برتری اور اموال کی برتری اسی کے دو نام ہیں.امیر قو میں بالآخران دو چیزوں میں
خطبات طاہر جلد اول 222 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء مبتلا ہو جاتی ہیں اور تمام نیکیوں سے محروم کرنے اور تمام برائیوں کو پیدا کرنے کی ذمہ دار یہ چیزیں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آخر پہ کیا ہوتا ہے؟ ان چیزوں کی پیروی کچھ دیر لذتیں بخشتی ہے ،لیکن ان کے حصول کے بعد رفتہ رفتہ انکی لذتیں ختم ہونے لگ جاتی ہیں.انسان جس کو لہلہاتی ہوئی کھیتی سمجھ رہا تھا، جسکی طرف دوڑ رہا تھا.خوش ہور ہا تھا کہ اب مجھ پر گو یا فضل نازل ہو گیا ہے، بہت خوبصورت نظر آنیوالا انسان بن گیا ہوں، میری طرف تو جبات مبذول ہو رہی ہیں، جس طرح کھیتی لہلہاتی ہے، اس طرح دنیا کے یہ رزق اور دنیا کے پانی مجھے راس آگئے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسکے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں انسان دیکھتا ہے کہ یہ لہلہاتی ہوئی کھیتیاں زردی میں تبدیل ہو رہی ہیں.لذتوں کا حصول جس کی وہ پیروی کرنا چاہتا تھا وہ اسے حاصل نہیں ہوتا.کچھ دیر کے بعد بے چینی اس کی جگہ لے لیتی ہے.انسان جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہونا شروع ہوجاتا ہے.قو میں ایک حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف جا کر ان حالتوں میں کھو جاتی ہیں اور قومی طور پر ان پر بڑھا پا آنا شروع ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا اس زندگی میں ، وہ دوسروں کو تو خواہ کتناہی حسین نظر آرہا ہو، خود فی ذاتہ وہ قو میں اس کی لذت سے محروم ہو جاتی ہیں.چنانچہ انسان اپنے اوپر بھی دیکھے تب بھی یہی بات صادق آتی ہے اور قومی نظر سے دیکھے تب بھی یہ بات صادق آتی ہے.ایک آدمی ایک چیز حاصل کر کے چند دن اس پر خوش ہو جاتا ہے.جس طرح بچہ کھلونے سے کھیلتا ہے کچھ دیر اس کو بڑا مزا آتا ہے لیکن وہی کھلونا پرانا ہوکر اس کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے.ایک آدمی کو پہلی دفعہ کیمرہ ملتا ہے.وہ بڑا خوش ہوتا ہے تصویریں کھینچتا ہے.رفتہ رفتہ اس کیمرے سے اس کی دلچسپی ختم ہو کر اور کیمروں کی طرف ہو جاتی ہے جو اس کے ہاتھ میں نہیں ہیں.اور یہ جو مزید کی خواہش ہے یہ اس کے اندر بے قراری پیدا کر دیتی ہے.جو حاصل ہوا ہے اس پر اطمینان نہیں رہتا، انسان ایک نئی کوٹھی میں داخل ہوتا ہے.بڑا مزہ آ رہا ہے.کچھ دیر کے بعد اپنائیت کی وجہ سے بوریت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان کہتا ہے او ہو، فلاں کی جو کوٹھی میں نے دیکھی تھی وہ تو بہت اچھی تھی.تو سبز نظر آنے والی ہر چیز اس کے لیے زردی میں تبدیل ہوتی رہتی ہے.یہاں تک کہ جب وہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے تب اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ که زندگی تو دھو کے کے سوا کچھ بھی نہیں تھی.میں خواہ مخواہ اس کی پیروی کرتا رہا.ایک چیز سے اچھل کر دوسری کی
خطبات طاہر جلد اول 223 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء طرف مائل ہوا ، دوسری سے تیسری کی طرف.آخر کار میرے ہاتھ سوائے اسکے کچھ بھی نہیں آیا کہ جو کچھ میں نے پایا تھا.اس کو میں چھوڑ کر جارہا ہوں.جو لذتیں حاصل کی تھیں وہ لذتیں بالآخر زائل ہو گئیں اور سوائے خواب اور دھو کے کے میرے پاس کچھ بھی نہیں انجام کا راس کو یہ معلوم ہوتا ہے.قوموں کا بھی یہی حال ہے یورپ میں جانے والے جانتے ہیں کہ ساری یورپین تہذیب اپنے ماحصل سے مایوس ہو چکی ہے.جو کچھ انہوں نے حاصل کیا لذتوں میں وہ اب ان کے لیے پرانا ہو گیا ہے.نئے نئے رستوں کی تلاش کرتے ہیں اس سے زیادہ ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا.تکاثر کے نتیجے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جس قومی دوڑ میں داخل ہو گئے ہیں اس نے خطرات پیدا کر دیئے ہیں.ان کو نظر آرہا ہے کہ کوئی بعید نہیں کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا دیکھتے دیکھتے یہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیگا.انتہائی مایوسی کا عالم ہے.یورپ میں جتنی بھی نئی موومنٹس چل رہی ہیں وہ اس بات کی مظہر ہیں کہ قرآن کریم کا یہ بیان سچا ہے کہ کچھ عرصے تک لذتوں کے حصول کے بعد تم خود ان لذتوں میں دلچسپی کھو دو گے.بالآخر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا.مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ آج مغرب کی آواز بھی یہی اٹھ رہی ہے کہ ہم نے کیا حاصل کیا؟ حقیقت میں ہمیں چین نصیب نہیں ہوا.اتنی بے چینی ، اتنی بیقراری ہے آج ان ترقی یافتہ قوموں میں، اگر خود کشی کا رجحان کوئی پیمانہ ہو سکتا ہے تو سب سے زیادہ خودکشی آج ترقی یافتہ قوموں میں پائی جاتی ہے.اگر پاگل پن کوئی پیما نہ ہوسکتا ہے تو اس کثرت کے ساتھ پاگل پیدا ہورہے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان قوموں کے پاس ذرائع بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ملک کے پاگل خانوں کی نسبت انہوں نے سینکڑوں گنازیادہ پاگل خانے بنائے ہوئے ہیں، پھر بھی وہ پاگل خانے بھر جاتے ہیں اور پاگل رکھنے کی جگہ نہیں ملتی پھر وہ دوسرے Homes بناتے ہیں.پھر ایسی اور سوسائٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں ، ان کی مدد کیلئے.چنانچہ صرف امریکہ میں اتنے پاگل خانے ہیں کہ ( انکی Exact گنتی تو مجھے یاد نہیں لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان اور پاکستان بلکہ سارے مشرق کے پاگل خانے ملا لیے جائیں تو اس سے کئی گنا زیادہ صرف امریکہ میں پاگل خانے ہیں اور کیوز Cues لگے ہوئے ہیں اور باری نہیں آرہی.اور کچھ مینٹل ہومز (Mental Homes) ہیں جو اس کے علاوہ ہیں.ذہنی بے چینی کا اسوقت یہ عالم ہے کہ صرف وہیم (Valium) پر، جو ایک معمولی سی دوائی
خطبات طاہر جلد اول 224 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء ہے، پچاس کروڑ ڈالر یا پانچ ارب روپیہ سالانہ خرچ ہو رہا ہے ، جو بعض ممالک کی آمد سے بھی بڑھکر ہے.وہ صرف ذہنی بے چینی کو دور کرنے کے لیے ایک دوائی کے اوپر خرچ کر رہے ہیں اور سارے Drugs پر امریکہ میں جو خرچ ہو رہا ہے وہ مشرق کے بہت سارے ملکوں کی اجتماعی دولت سے بھی زیادہ ہے.یہ کیوں ہورہا ہے ؟ اس لیے کہ ان کا دل گواہی دے رہا ہے کہ مَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ہم نے جو کوشش کی تھی حصول لذت کی ، اس میں ہم ناکام ہو گئے ہیں.ایک منزل سے دوسری کی طرف بڑھے، دوسری سے تیسری کی طرف بڑھے.یہاں تک کہ بالآخر ہم نے یہ دیکھا کہ وہ سب کچھ جو ہمارا ماحصل تھا وہ ایک ایسی زردی میں تبدیل ہو گیا ہے جس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا.سبز کھیتی جس طرح لذت عطا کرتی ہے نگاہ کو.اگر وہ پھل دینے سے پہلے مرنی شروع ہو جائے تو زمیندار کو کتنی تکلیف ہوتی ہے.وہ نقشہ قرآن کریم کھینچ رہا ہے.بیچ میں کہیں پھل کا ذکر نہیں.فرماتا ہے کھیتیاں لہلہاتی تو نظر آئیں گی تمہیں لیکن انکو پھل نہیں لگے گا وہ دیکھتے دیکھتے خشک ہونے لگیں گی اور خشک ہو کر جب زردی میں تبدیل ہوں گی پھر تمہیں تکلیف ہونی شروع ہو گی اور اس تکلیف کے نتیجے میں تم محسوس کرو گے جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا سب ہاتھ سے نکل گیا ہے.کچھ بھی ہمارے پاس نہیں رہا.تب دل کی آواز اٹھتی ہے مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ یہ ویسا ہی نقشہ ہے جس طرح انفرادی طور پر ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے.میر درد نے اسی حالت پر غور کیا تو یہ شعر کہا وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسا نہ تھا جب انسان موت کے قریب آتا ہے تو ہر فر د بھی یہی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں.خواہ خواہ کی دوڑ دھوپ لگائی ہوئی تھی ہم نے.جو کچھ حاصل کیا تھا وہ تو ہم پیچھے چھوڑ کے جارہے ہیں اور جو حاصل کیا تھاوہ چین جان اور آرام دل پیدا نہیں کر سکا.نا کامی اور حسرت کے ساتھ ایسے لوگ جان دیتے ہیں.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انجام کا ر پھر یہ ایسے دور میں داخل ہو جائیں گے کہ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ شدید قسم کا عذاب آخرت میں ان کے لیے مقدر ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ عذاب اس دنیا میں شروع ہو جاتا ہے ،فرداً فرداً بھی وہ
خطبات طاہر جلد اول 225 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء لوگ جو خدا سے غافل ہو کر ان چیزوں کی پیروی کرتے ہیں ان کی زندگی ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتی ہے اور بالآخر یہ عذاب بڑھتا رہتا ہے اور قومی لحاظ سے بھی شدید عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں.تو آخرت سے اس دنیا کا انجام بھی مراد ہے اور اس دنیا کے بعد اگلی دنیا میں جو کچھ پیش آنا ہے اس کا بھی ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے صرف عذاب ہی کی خاطر انسان کو پیدا نہیں کیا گیا.ناکامیوں اور مایوسیوں کیلئے تو پیدا نہیں کیا گیا.یہ سارے جذبے جو بیان کئے گئے ہیں ، یہ محرکات ہیں زندگی کے.اگر ان کا صحیح استعمال شروع ہو جائے تو اس کے نتیجے میں مغفرت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوسکتی ہے اور رضائے باری تعالیٰ بھی حاصل ہوسکتی ہے.بنیادی طور پر زندگی کی شکل وہی رہے گی جو اوپر بیان ہوئی ہے.اس سے تبدیل شدہ کوئی شکل بیان نہیں کی گئی.مگر یہ سارے جذبے جو انسان کو ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف لے کر جاتے ہیں ان کو ایسا رخ دیا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضوان کا موجب بن جائیں.فی ذاتہ کھیل کو د اور لہو و لعب یا عیش و عشرت ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کلیتہ جدا ہوہی نہیں سکتا ، ناممکن ہے.لیکن ہمیشہ جب کھیل کو د خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابل پر آئے اور کھیل کو د کو انسان قربان کر دے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو اختیار کرلے تو یہی انسانی جذ بہ مغفرت اور رضوان میں تبدیل ہو جاتا ہے.شہوات نفسانی بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ مومن کی زندگی میں شہوات کا کوئی دخل نہیں.مگر جب وہ تابع مرضی مولیٰ ہو جائیں تو مغفرت اور رضا کا موجب بن جاتی ہیں.اور خدا کی خاطر شہوات چھوڑنے کا نام اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.پھر زینت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومن بھی زینت اختیار کرتے ہیں لیکن ان کی زینت کا تصور بدل جاتا ہے وہ لباس التقویٰ میں زینت حاصل کرتے ہیں.اس سے عاری رہ کر تو کوئی زندگی بسر نہیں کر سکتا.زینت کی تمنا تو ہر انسان کو حاصل ہے.مگر اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات :١٣) وہ ایسی زینت اختیار کرنے لگ جاتے ہیں جس میں ان کو ظاہری زینت کی نسبت زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے اور چین دل وہ بھی پارہے ہیں اس زینت میں، لیکن وہ مختلف قسم کی زینت ہے.اور اس کے
خطبات طاہر جلد اول 226 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء نتیجے میں جب وہ ایسی زینت حاصل کرتے ہیں تو ان میں بھی رشک کے جذبے ہیں.وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بڑھیں.لیکن وہ جو سبقت ہے اسکا نقشہ یوں کھینچتا ہے.سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الحديد :۲۳) ان کے اندر بھی مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں لیکن انکی سبقت کا رُخ بدل جاتا ہے.وہ اموال اور اولاد میں سبقت کی بجائے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے حصول میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور رضائے باری تعالیٰ میں سبقت کی کوشش کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ایک ہی قسم کی زندگی میں مبتلا ہونے والے دو قسم کے لوگ دکھائے گئے ایک وہ جو دنیا کو اپنا مدعا اور شعار بنا لیتے ہیں.ایک وہ جو دنیا میں رہتے ہوئے ، بظاہر اس قسم کی زندگی بسر کرتے ہوئے اللہ کو اپنے رب کو اپنا مدعا اور مطلوب بنا لیتے ہیں.فرماتا ہےان کی زندگی نا کام نہیں ہوتی.نہ اس دنیا میں ان کو عذاب نصیب ہوتا ہے نہ اُس دنیا میں ان کو عذاب ملتا ہے.اس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے راضی رہتے ہیں اور اُس دنیا میں بھی وہ اللہ سے راضی رہیں گے.اس دنیا میں بھی اللہ کی مغفرت کے نمونے دیکھتے رہتے ہیں اور اُس دنیا میں بھی اللہ کی مغفرت کے نمونے دیکھیں گے.پس یہ وہ پاکیزہ نقشہ ہے اور موازنہ ہے چند الفاظ میں ، جس میں ساری انسانی زندگی کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ وہ خصوصیت کے ساتھ ان تمام چیزوں میں یہ پیش نظر رکھے کہ نہ لعب غالب آئے ، نہ کہو غالب آئے ، نہ زینت غالب آئے ، نہ تفاخر غالب آئے ، نہ تکاثر غالب آئے.یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ اگر وہ دنیا کے لحاظ سے قوموں پر غالب آجائیں تو قومیں تباہ ہو جایا کرتی ہیں.بلکہ ان سارے جذبات کو مذہبی اقدار میں تبدیل کریں اور مذہبی اقدار کی پیروی کی طرف اپنی توجہات کو مبذول کر دیں.لذتوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرمارہا ہے کہ تمہیں کم نہیں حاصل ہوں گی.مثلاً لہو ہے
خطبات طاہر جلد اول 227 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء لہوا ختیار کرنے میں بھی ایک لذت ہے.مگر اللہ کی خاطر چھوڑنے میں بھی ایک لذت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لذت زیادہ ہے.زینت میں لذت تو ہے لیکن ظاہری زینت میں بھی ایک لذت ہے اور باطنی زینت میں بھی ایک لذت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو باطنی زینت حاصل ہو جائے ان کو ظاہری زینت کی کوئی پرواہ نہیں رہتی.وہ بے نیاز ہو جاتے ہیں.اور بے نیازی بتا رہی ہے کہ اندرونی زینت زیادہ لذت کا موجب ہے اسی طرح تکاثر جو ہے یعنی مال اور اولاد میں تکاثر ، جب مغفرت اور رضوان کے تکاثر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے سے دوڑ شروع ہو جاتی ہے مومنوں کی کہ ہم رضائے باری تعالیٰ کو زیادہ حاصل کریں، تو اس میں ایسی لذت پاتے ہیں وہ ان ساری چیزوں کو حقیر سمجھنے لگ جاتے ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ پھر یہ ساری چیزیں وہ شوق سے اللہ کے سامنے نچھاور کر دیتے ہیں.ان کو ان کی پرواہ ہی نہیں رہتی.ان سے بے تعلق Detach ہونے لگ جاتے ہیں اور ان کو یوں نظر آتا ہے کہ جس طرح ان میں جان ہے ہی کوئی نہیں.دیکھتے ہی اس کو زرد ہیں.دنیا کو ایسی حالت میں دیکھتے ہیں جو ان کی کشش کو جذب نہیں کر سکتی.بے کیف زندگی دکھائی دیتی ہے.دنیا میں رہتے ہوئے اس سے ایک علیحدہ زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی توجہ کو اب زیادہ بہتر مقصد مل گیا ہے.یہ وہ نقشہ ہے جو جماعت کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اس کو اختیار کئے بغیر ہم دنیا میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.یہ وہ اسلامی معاشرہ ہے جس کی تصویر کھینچی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے آخر پر جس کی تصویر کھینچی ہے.جب تک ہمیں یہ معاشرہ حاصل نہیں ہوتا ہم دنیا کے معاشرے کو بدل نہیں سکتے.بلکہ جب بھی ہم میں سے کوئی اس معاشرے میں جائے گا وہ مغلوب ہو جائے گا.میں نے دیکھا ہے کمزور طبیعت کے لوگ انگلستان اور یورپ کے سفر میں جب ظاہری طور پر لہو ولعب کو کھل کھیلتا دیکھتے ہیں تو بے انتہا مغلوب ہو جاتے ہیں ذہنی طور پر.وہ سمجھتے ہیں لو جی اصل زندگی تو ہے ہی یہی.ہم تو خواہ مخواہ خراب ہی رہے دنیا میں ، ہم نے کیا حاصل کیا.کچھ بھی نہیں.رہنا ان کو آتا ہے، پہننا ان کو آتا ہے ، اوڑھنا بچھونا ان کو آتا ہے.کیسی خوبصورت گلیاں ہیں، کیسے خوبصورت محل بنے ہوئے ہیں، خوبصورت Beaches ہیں، سمندر کے کنارے ہیں، باغات ہیں،
خطبات طاہر جلد اول 228 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء پارک ہیں ، تو ساری زندگی یہیں پڑی ہے.ہم تو خواہ مخواہ جس کو پنجابی میں کہتے ہیں ” نخل خراب ہی ہوندے آئے اسی.یعنی عمر ضائع اور خراب کر دی اپنی.تو وہ یہ تاثر لے لیتے ہیں.کیوں لیتے ہیں؟ اس لیے لیتے ہیں کہ اس کے مقابل پر ان کی ذات میں کوئی اعلیٰ اقدار نہیں ہوتیں جن سے وہ راضی ہوں.خالی برتن لے کے جاتے ہیں ، اس لیے وہ اس گندگی سے بھر جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سب اقتدار کے بدلے تم بہتر اقدار اپنے اندر پیدا کرو اور مغفرت اور رضوان میں سبقت لے جانے کی عادت ڈالو.جب تمہاری توجہ اپنے رب کی طرف مبذول ہو جا ئیگی اور اس کی رضا کی طرف مبذول ہو جائے گی تو یہ چیزیں لذت کھو دیں گی.پھر تم ان کو کھو کھلے برتنوں کی طرح دیکھو گے.تم نظر تو ڈالو گے ان پر لیکن رحم کی نظر ڈالو گے رشک اور حسد کی نظر نہیں ڈالو گے.تم اپنے آپ کو بہتر انسان سمجھو گے.چنانچہ دونوں نظر سے جائزہ لینے والے وہاں میں نے دیکھے.بعض عدم تربیت یافتہ نو جوان احمدی بھی ایسے تھے جو یورپ سے مغلوب ہو جاتے تھے اور بعض ایسے سنجیدہ قسم کے لوگ تھے جن کو عبادت کی لذتیں حاصل تھیں ، جن کو ذکر الہی کا مزہ حاصل تھا ، جو جانتے تھے کہ مذہبی اقدار ہی باقی رہنے والی اقدار ہیں، وہ نہایت حسرت کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتے تھے اور رحم کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتے تھے کہ یہ تو میں ذلیل اور تباہ ہو رہی ہیں.باوجود اپنی عظمتوں کے ان کو کچھ بھی نہیں مل رہا.چنانچہ بکثرت مجھے ایسے احمدی خاندان ملے کہ ان کو وہاں دنیا کمانے کے بہترین ذرائع میسر ہیں.لیکن ایسا دل اچاٹ ہو گیا ہے ان چیزوں سے کہ وہ مجھ سے اجازتیں لیتے تھے کہ باوجود اس کے کہ بظاہر پاکستان میں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے ، ہمیں اجازت دیں ہم اس ملک کو دفع کر کے وہاں واپس پہنچ جائیں.ایسی مائیں میرے پاس آئیں جو زار و قطار رو رہی تھیں.اس قدر درد تھا ان کے دل میں کہ ہچکیاں بندھ گئیں.بات نہیں کی جاتی تھی.ان کا درد مجھے بھی مغلوب کر رہا تھا.آخر پر جب پوچھا کہ آپ کو کیا غم لگ گیا ہے.انہوں نے کہا غم کیا لگ گیا ہے.میرے بچے جو بڑے ہوئے ہیں ان میں سے بعض مغربی زندگی سے متاثر ہو کر سمجھتے ہیں کہ زندگی کی لذتیں یہی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ یہ ان کی تباہی اور ہلاکت ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں.کچھ بچے ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احساس اور در درکھتے ہیں.وہ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ اس جگہ کو چھوڑ کر واپس چلے جائیں.ہمیں
خطبات طاہر جلد اول 229 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء یہ ملک نہیں چاہئے.نہ ہمیں یہاں کی مال و دولت چاہئے ، نہ یہاں کی تعلیم چاہئے ، نہ ہمیں یہاں کی بڑائیاں چاہئیں.پاکستان میں جا کر غریبانہ گزارا کر لیں گے ، مگر ان چیزوں میں پڑ کر ہم ہلاک نہیں ہونا چاہتے.ایسی عورت ایک نہیں دو تین نہیں تھیں.بہت ساری ایسی مائیں مجھے ملیں جنہوں نے یہی درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس وطن کو چھوڑ کر نکل جائیں.بہت سے ایسے نو جوان ملے جنہوں نے کہا کہ بظاہر ہم یہاں بہت خوش ہیں، ہمیں کوئی تکلیف نہیں ، Job بھی ہے.لیکن دل اچاٹ ہو گیا ہے بری طرح.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے سامنے ان چیزوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.آج ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے، لیکن ہمیں پتہ ہے کہ کل ہمارے بچے جب بڑے ہوں گے تو وہ تباہ ہو جائیں گے.اس لیے ہمیں اجازت دیں کہ ہم واپس آجائیں.میرا دل حیران بھی ہوتا تھا اس نظارے سے اور خوش بھی ہوتا تھا کہ خدا کے ایسے مومن بندے، باوقار بندے، آزاد بندے جماعت احمدیہ کے افراد کی حیثیت سے ، یورپ میں بس رہے ہیں جن پر اس سوسائٹی کا ادنی سا بھی اثر نہیں ہے.ایک ماں روتی ہوئی آئی اور مجھے کہا کہ میرے بعض بچے دین میں کم دلچسپی لے رہے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ میری زندگی کی ساری کمائی ضائع ہوگئی.آخر میں نے یہاں آکر محنت کی تھی ، ان بچوں کو بنایا تھا.ان کو اس لیے بنایا تھا کہ یہ کچھ حاصل کر جائیں.مگر دنیا حاصل کر لیں اور دین کھو جائیں ، یہ تو میرا مقصد نہیں تھا.مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میں ایک ویرانے میں پہنچ گئی ہوں.ساری زندگی کی کمائی آخر پر حسرت کے سوا کچھ نہیں رہی.فَتَراهُ مُصْفَرَّاثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا کا کیسا اچھا نظارہ انہوں نے کھینچا.لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس سوکھی کھیتی کو پھر ہرا بھرا کر دے.چنانچہ اس کے کفارے کے طور پر انہوں نے اپنے ہاتھ کا سارا زیورا تار کے دین کے رستے میں پیش کر دیا کہ اگر میری گریہ وزاری قبول نہیں ہوتی تو خدا اس بات پر رحم کرے اور دیکھ لے کہ مجھے دنیا کے مال سے کوئی محبت نہیں مجھے میری اولا د چاہئے.اس لیے میری دعا ہے کہ اللہ مجھے میری اولا دوا پس کر دے.میں نے یہ مضمون اس لیے چھیڑا ہے کہ آپ بھی حقیقت میں آزاد مردوں اور آزاد عورتوں کی طرح زندگی گزاریں یعنی دنیا کی لذتوں سے آزاد اور صرف اللہ کی طرف جھکنے والے.کیونکہ جولوگ
خطبات طاہر جلد اول 230 خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء باہر گئے ہیں انہوں نے بغور قریب سے اس سوسائٹی کا مطالعہ کر کے وہی نتیجہ اخذ کیا ہے جو قرآن کریم ان آیات میں پیش فرما رہا ہے.اور جہاں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے دعائیں کریں وہاں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں اور بچوں کے لیے بھی دعائیں کریں جو غیر ملکوں میں بس رہے ہیں.کئی قسم کے خطرات ان کو درپیش ہیں اور ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ ہم ان سب کو واپس آنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے.ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے وہاں اسلام کا جھنڈا نہ گا ڑا، اگر تم نے وہاں مضبوط قدموں کے ساتھ پیش قدمی نہ کی اور مغلوبیت کے خوف سے بھاگ آئے تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا، کون آئے گا جو اس دنیا کو پیغام دے گا؟ اس لیے زخم بھی لگتے ہیں اس راہ میں.ان زخموں کو اس وجہ سے قبول کرو کہ آخر تم نے دنیا پر فتح یاب ہونا ہے.زیادہ دعائیں کرو، زیادہ توجہ کرو، اولاد کی تربیت کی زیادہ کوشش کرو.کیونکہ اگر ہم نے یہ نہ کیا اور مغرب سے ڈر کے مارے ہم بھاگ آئے تو پھر ان کو بدلے گا کون؟ پھر تو مجھے کوئی ایسی قوم نظر نہیں آتی جوان کی ہلاکت کی تقدیر کو بدل سکے.پس جہاں اپنی حفاظت کریں ، ان لذتوں میں اپنے آپ کو ضائع نہ کریں، اپنے وقار کو قائم رکھیں اعلیٰ مقاصد کی حفاظت کریں، اپنی ذات میں وہ عظمت کر دار حاصل کریں جو سب سے زیادہ انسان کو لذت پہنچاتی ہے اور تسکین بخشتی ہے، وہاں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی دعائیں کریں جو غیر قوموں میں آج اسلام کے سفیر بنے ہوئے ہیں.خدا کرے ہر میدان میں ان کو فتح نصیب ہو اور ایسی فوجوں میں تبدیل نہ ہو جائیں جو فتح کرنے جاتی ہیں لیکن اُن کے سارے سپاہی و ہیں کٹ مرتے ہیں اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.کچھ زخم تو لگیں گے اس راہ میں.جہاد میں لگتے ہی ہیں.لیکن بالآخر فتح ہمارے مقدر میں لکھی جانی چاہئے.غیر کے مقدر میں نہیں لکھی جانی چاہئے.اس کے لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے اور حضورا کرم ہے کے دین کا جھنڈا ہم اس مضبوطی سے مغربی اقوام میں گاڑ دیں کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے وہاں سے اکھاڑ نہ سکے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱۴/ نومبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 231 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء سورۃ فاتحہ کے وسیع مضامین کا تذکرہ اور بیوت الحمد سکیم کا اعلان (خطبه جمعه فرموده ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا: کلیڈوسکوپ (Kaleidoscope) بچوں کی ایک کھیل کا نام ہے.جو ایک تکون ٹیوب کی شکل میں ہوتی ہے.اس کے ایک طرف عدی شیشہ ہوتا ہے اور دوسری طرف عکسی.اور اس کے اندر کچھ مختلف رنگ کے شیشوں کے ٹکڑے پڑے ہوتے ہیں.جب بچہ اس عدسی شیشہ سے اس ٹیوب کے اندر دیکھتا ہے تو شیشہ کے مختلف ٹکڑے عکسی شیشہ سے منعکس ہو کر خاص شکل میں منتظم دکھائی دیتے ہیں.اور جب وہ اس کا ذرا سا رخ پلٹ دے تو اچانک وہ ٹکڑے ایک نئی منتظم شکل میں نظر آنے لگتے ہیں.پھر وہ ان کو تھوڑی سی اور حرکت دیتا ہے تو ان کا رخ اچانک بدلتا ہے اور وہ ایک نئی تنظیم کی شکل میں نظر آنے لگ جاتے ہیں.یہ کھیل مختلف زاویوں سے تصویریں بچوں کے سامنے پیش کرتا ہے.لیکن وہ زاویے بھی محدود ہیں اور تصویر میں بھی محدود.اللہ تعالیٰ نے مومن بندوں کے لئے ایک روحانی کلیڈ وسکوپ بھی بنا رکھی ہے.جس کے نہ
خطبات طاہر جلد اول 232 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء زاویے محدود ہیں ، نہ وہ نظارے محدود ہیں جو اس کلیڈ وسکوپ سے نظر آتے ہیں.اور وہ کلیڈ وسکوپ سورۃ فاتحہ ہے.مختلف زاویوں سے جب آپ سورہ فاتحہ کے رخ بدلتے ہیں اور مختلف جہتوں سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت انگیز حسین نظارے دکھائی دیتے ہیں جو لا متناہی ہیں.ان کی کوئی حدو بست نہیں.آج امت کو چودہ سو سال ہو چکے ہیں جب یہ سورۃ نازل ہوئی تھی بلکہ چودہ سو سال سے بھی کچھ زائد سال گذر چکے ہیں.اس عرصہ میں بے شمار علماء ربانی نے اس پر قلم اٹھا یا.وہ اس کے نظاروں سے خود بھی محفوظ ہوئے اور دنیا کو بھی ان نظاروں میں شریک کیا.لیکن یہ خزانہ ختم ہونے میں نہیں آتا کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ نظارے لامتناہی ہیں.اس سورۃ کے آخر پر ایک دعا سکھائی گئی ہے.اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہ اے خدا ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت دے وہ راستہ جس پر انعام پانیوالے چلے تھے یا جس پر چل کر انعام ملتے ہیں.ایسا راستہ نہ ہو جس راستہ پر غضب نازل ہوتا ہے یا کج فطرت لوگ دکھائی دیتے ہیں.گمراہ لوگ دکھائی دیتے ہیں.ایسا راستہ ہم نہیں مانگتے.میں نے سوچا کہ ہم جب سیدھا راستہ مانگتے ہیں تو سیدھے راستہ پر تو انعام والے ہی ملنے چاہئیں.یہ مغضوب کا ذکر بیچ میں کہاں سے آگیا.اور ضالین سے بچنے کی دعا کیوں سکھائی گئی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس مضمون کی طرف پھیری کہ صراط مستقیم در اصل وہ راستہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق کو بالآخر اس تک پہنچائے گا.اور اس کی دو شکلیں ظاہر ہوتی ہیں.ایک صراط مستقیم ہے جو منعم علیہ گروہ کا راستہ ہے اور دوسری وہ راہ ہے جس پر خدا کے وہ بندے چلتے ہیں جو مغضوب ہو جاتے ہیں یا گمراہ ہو جاتے ہیں اور ضالین کے زمرہ میں شمار کئے جاتے ہیں.چنانچہ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے میری نگاہ صراط مستقیم کی شکل میں پہلی آیات کی طرف مبذول فرما دی.در اصل الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں جس راستہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، یہ حمد کا رستہ ہے جو مُلِكِ يَوْمِ الدِین پر ختم ہوتا ہے.وہی صراط مستقیم ہے اور
خطبات طاہر جلد اول 233 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء صراط مستقیم کے دونوں پہلو اس آیت میں بیان فرما دئے گئے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مخلوق کی ہر شکل بالآخر اپنے رب تک اس طرح پہنچتی ہے کہ وہ اس پر ملِكِ يَوْمِ الدِین کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّین سے کیا مراد ہے.قرآن کریم دوسری جگہ اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَيذٍ لله (الانفطار : ۲۰) یعنی کوئی نفس نہ کسی دوسرے نفس کا مالک ہو گا نہ اپنے نفس کا اور ہر قسم کی مالکیت اور اختیار خالصہ اللہ کا ہوگا.گویا اس جہان میں جو ہم عارضی مالک بنائے گئے تھے خواہ اشیاء کے مالک ہوں یا صفات کے، اس عارضی مالکیت سے ہر وجود کلیۂ عاری ہو چکا ہو گا.نہ اس کی ذاتی صفات ہونگی.نہ مالکیت کی دوسری شکلوں پر اسے کوئی اقتدار ہوگا اور کلیۂ نیست ہو کر اپنے رب کے حضور لوٹے گا.اسے کسی چیز پر بھی اختیار اور قبضہ نہیں رہیگا.یعنی انجام کار صرف خدا ہی مالک ہوگا ہر چیز اس کی طرف لوٹ چکی ہوگی اور ہر مخلوق ہر دوسری چیز سے عاری ہو چکی ہوگی.یہ جو مضمون ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا، یہ خلیق کی ہر شکل پر حاوی ہے.انسان بھی اس کے دائرہ میں ہے.حیوان بھی اس کے دائرہ میں ہے.نباتات بھی اس کے دائرہ میں ہیں اور جمادات بھی اس کے دائرہ میں ہیں.اور ہر چیز اس حالت میں اپنے رب کی طرف لوٹتی ہے کہ ذاتی طور پر اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.آج کی سائنس نے مادہ کے اپنے رب کی طرف لوٹنے کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں بھی بعینہ ملِكِ يَوْمِ الدِّین کی تفسیر نظر آتی ہے.چنانچہ سائنسدان آسمانوں کی اجسام پر غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ بہت سے بڑے بڑے ستارے جو ہمارے سورج سے سینکڑوں گنا بڑے ہیں اچانک کہیں غائب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.اور اتنی شدید قوت کا ایک مرکز اُن کو اپنی طرف کھینچتا ہے کہ ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.وہ اس مرکز میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر اُن کی کوئی خبر نہیں ملتی.یہ تو آج کی دنیا میں ایک عام بات ہو چکی ہے.یہ کوئی نئی خبر نہیں رہی لیکن جس طرف میں
خطبات طاہر جلد اول 234 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سائنسدانوں کی یہ تحقیق ہے کہ آخر وہ کیا بن جاتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں.اس آخری صورت کے متعلق سائنسدان صرف اتنا ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ادراک کی حد سے باہر نکل جاتے ہیں اور یہ کہنے کے باوجود خود بھی نہیں سمجھ سکتے کہ یہ حالت ہے کیا چیز ؟ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی یہ ستارے غائب ہوتے ہیں تو ایک ایسے ستارے کی طرف حرکت کرتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں جو پہلے ہی سمٹتے سمٹتے ایک نقطہ کی شکل اختیار کر گیا ہوتا ہے.گو ہم اپنی اصطلاح میں اسکو نقطہ کہتے ہیں.لیکن نہیں جانتے کہ وہ نقطہ ہے بھی کہ نہیں.کیونکہ اس نقطہ کی کوئی خبر باہر کی دنیا کو معلوم نہیں ہو سکتی.اس کے وجود کا صرف اس طرح پتہ چلتا ہے کہ اردگرد بعض دفعہ اتنے بڑے فاصلوں پر سے ستارے ڈول کر اسکی طرف آجاتے ہیں کہ جن کا فاصلہ شعاع کی رفتار سے ناپا جائے جو تقریباً ۱,۸۲,۰۰۰ میل فی سیکنڈ ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک سال میں ایک شعاع جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اس سے ہزاروں گنا زیادہ فاصلہ کی دوری پر موجود ستارے بھی اس نا قابل فہم نقطہ کی غیر معمولی، بے پناہ کشش ثقل سے مغلوب ہو کر ڈولنے لگتے ہیں اور اپنے مدار سے ٹوٹ کر قوت کے اس مرکز کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور بالآخر اسکی طرف سفر کرتے کرتے اس کے اندر ڈوب کر غائب ہو جاتے ہیں.اور وہ نقطہ پھر بھی ایک نقطہ ہی بنا رہتا ہے جس کے اندر سورج سے ہزاروں گنا زیادہ مادہ غائب ہونے کے باوجود اس کا کوئی حجم نہیں بڑھتا.اس کو سائنٹیفک اصطلاح میں Event Horizon کہا جاتا ہے اور اسکی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جب دنیا کے سارے قوانین جن کے تابع تخلیق ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہوتی ہے اور وہ تمام صفات جو مادہ کی ذاتی صفات ہیں وہ کلیۂ اس مادہ سے الگ ہو جائیں اور مادہ ہر قسم کی ذاتی صفت سے عاری ہو جائے اس کا نام ایو بینٹ ہورائزن ہے.یعنی عدم اور وجود کے درمیان حد فاصل پر ہونے والا واقعہ.اس موقع پر چونکہ مادہ اپنی ہر صفت سے عاری ہو جاتا ہے اس لئے ہم اس کو عدم کہتے ہیں.مادہ یہاں پہنچ کر کیا شکل اختیار کر جاتا ہے؟ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں سوچ سکتے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کوئی خبر نہیں آتی.یک طرفہ راستہ ہے اور واپسی کی ایک بھی راہ نہیں ہے.نہ غیر مرئی ریڈی ایشن کے ذریعہ، نہ ہمیں نظر آنیوالی روشنی کے ذریعہ نہ کسی اور شکل مثلاً آواز وغیرہ کی شکل میں.کوئی خبر پھر وہاں کی نہیں آتی.مادہ کا ذاتی صفات سے "
خطبات طاہر جلد اول 235 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء کلیۂ مبرا ہونا بالکل وہی چیز ہے جس کو سورہ فاتحہ نے مالک یوم الدین کے حضور حاضر ہونے کا نام دیا ہے یعنی ایسی ذات کی طرف لوٹ جانا کہ جب کسی چیز کی کوئی بھی ذاتی صفت باقی نہیں رہے گی.خدا ہر چیز کا مالک ہوگا اور مخلوق اپنی تمام ذاتی ملکتوں اور ذاتی صفات سے عاری ہو جائے گی.گویا اپنے آغاز کی طرف لوٹ جائے گی اور اسی کا نام عدم ہے.بغیر صفت کے کسی کا وجود تصور ہی نہیں ہوسکتا.اسی لئے سائنسدان کہتے ہیں کہ عدم کی تعریف ہی یہ ہے کہ کوئی چیز صفات سے کلیہ عاری ہو جائے.وہ کہاں لوٹتی ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جان سکتے.وہ شکست کو تسلیم کرتے ہیں اور خواہ انسان اپنی تحقیقات میں کتنی بھی مزید ترقی کرے وہ تصور کر ہی نہیں سکتا کیونکہ حقیقت میں یہ سب چیزیں اپنے رب کی طرف لوٹتی ہیں.اسی طرح جاندار اپنے رب کی طرف لوٹتے ہیں.اسی طرح انسان اپنے رب کی طرف لوٹتا ہے.اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ یہی ہے کہ ہر چیز نے بالآخر ، جب بھی وہ تخلیق کا جامہ پہنتی ہے ، سفر کرتے ہوئے ایک منزل تک پہنچنا ہے جو اس کے خالق یعنی مالک یوم الدین کی منزل ہے.گویا دنیا میں جب بھی کوئی چیز پیدا ہوتی ہے وہ معا ایک سفر شروع کر دیتی ہے اور وہ سفر بالآخر خدا کی ذات پر اس طرح منتج ہوتا ہے کہ وہ مالک یوم الدین ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی صفات خلقیت سے کلی طور پر عاری ہو کر پہنچتی ہے.اس سفر کے دور ستے ہیں.سورہ فاتحہ کی پہلی تین آیات نے اس سفر کا نقشہ تفصیل سے کھینچا ہے گو مختصر ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو حیرت انگیز تفصیل ان چند الفاظ میں ملتی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اے بنی نوع انسان تم نے بھی آخر وہیں پہنچنا ہے.اس لئے صراط مستقیم کی وہ راہ اختیار کر و جوجد کے دروازہ سے شروع ہوتی ہے.حمد باری تعالیٰ سے تم اس سفر میں داخل ہو گے تو پہلے تمہیں ربوبیت نظر آئے گی.یعنی ہر ادنی چیز کا اعلیٰ حالت میں تبدیل ہوتے رہنا.اور یہ حالت کلیہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ وقدرت میں ہے.اس کے ہر نظام میں تم ربوبیت کا نظام دیکھو گے.ہر چیز جو پیدا ہوتی ہے معا ایک سفر شروع کر دیتی ہے.کوئی چیز بھی ٹھہراؤ کی حالت میں نہیں ملتی.اس ربوبیت کی حمد کرتے ہوئے تم یہ معلوم کرو گے کہ اگر چہ آغاز میں بھی رحمانیت اور رحیمیت کا دور تھا یعنی جس کی
خطبات طاہر جلد اول 236 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء طرف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ O میں اشارہ ہے.(اسکی تفصیل بیان کرنے کا یہاں وقت نہیں ) مگر اس کے بعد پھر ایک رحمانیت اور رحیمیت کا تم دور دیکھو گے اور مذہبی دنیا کے لحاظ سے خدا تمہیں رحمان بھی نظر آئے گا اور رحیم بھی نظر آئے گا.بن مانگے تمہیں اس نے قرآن عطا فر ما دیا جو اس کی رحمانیت کا مظہر ہے جیسا کہ فرمایا: الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن :۲۵) یعنی تخلیق خواہ روحانی دنیا کی ہو یا مادی دنیا کی، دونوں رحمان سے نکلتی ہیں لیکن رحمانیت کا یہ جلوہ دکھانے کے بعد رحیمیت کے دور میں داخل کر دیا.یعنی جزا و سزا کے دور میں تم اپنے اعمال کے ذریعہ مزید ا چھے بھی بن سکتے ہو، برے بھی بن سکتے ہو.اچھے اعمال کے نتیجہ میں اچھا نتیجہ پاؤگے اور برے اعمال کے نتیجہ میں برا نتیجہ دیکھو گے.یہ سب سفر طے کرنے کے بعد تم اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاؤ گے اور تمہارا کچھ بھی نہیں رہے گا.پھر سب کچھ اللہ کی طرف واپس لوٹ چکا ہوگا.یہ جو سفر بیان فرمایا اس سفر کے اندر رحمانیت میں سے گزرنا اور پھر رحیمیت میں سے گزرنا ضروری ہے.یعنی ہر چیز جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا مظہر بنتی ہے وہ اگر رحما نیت اور رحیمیت میں سے ہو کر مُلِكِ يَوْمِ الدِین تک پہنچے گی تو یہ وہ صراط مستقیم ہے جو أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ ہے.اگر شارٹ سرکٹ کرے گی تو پہنچے گی تو پھر بھی مُلِكِ يَوْمِ الدِین کے پاس ہی لیکن اگر رحمانیت کو نظر انداز کر کے پہنچے گی تو مغضوب بن کر پہنچے گی.اگر رحیمیت کو نظر انداز کر کے پہنچے گی تو ضالین بن کر پہنچے گی.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ رحمانیت سے عاری لوگوں کو مغضوب کہا گیا یعنی یہود کو.اور رحیمیت کی صفت کا انکار کرنے والوں کو ضالین کہا گیا یعنی نصاری کو.یہود کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے اُن کے دل پتھر ہو گئے تھے.وہ خدا کی رحمانیت سے منحرف ہو گئے اور رحمانیت کا کوئی جلوہ انہوں نے اختیار نہیں کیا.کامل طور پر سخت دل ہو گئے.چنانچہ ان کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ ان لوگوں کا رستہ نہ ہو جو رحمانیت کو نظر انداز کر کے بالآخر ملِكِ يَوْمِ الدِین تک پہنچتے ہیں.کیونکہ وہ مغضوب ہو جاتے ہیں.اوران
خطبات طاہر جلد اول 237 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء لوگوں کا رستہ بھی نہ ہو جو رحیمیت کو نظر انداز کر کے بالآخر ملِكِ يَوْمِ الدِین تک پہنچتے ہیں کیونکہ وہ ضالین ہو جاتے ہیں.رحیمیت کیا ہے؟ اعمال کے نظام کا ایک نقشہ ہے.جس میں اللہ کے رحم پر سہارا کرتے ہوئے انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے اس کی نیک جزا پاتا ہے.عیسائیت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایسا کوئی خدا ہمیں نظر نہیں آتا جو نیک اعمال کو قبول فرماتے ہوئے اس میں اپنے رحم کا حصہ شامل کرتے ہوئے ہمیں جزا دے اور ہمیں ہلاکتوں سے نجات بخشے.بلکہ ایسا ظالم خدا نظر آتا ہے کہ تمام اعمال جو ہم کرتے ہیں خواہ وہ کیسے ہی اعلیٰ پایہ کے ہوں ، کیسی ہی حسین شکلیں اختیار کر جائیں بالآخر خدا اس رنگ میں ”عدل“ کا سلوک کرے گا کہ ہمیں گناہگار ہی لکھے گا یعنی یہ عجیب عدل کا تصور ہے.تمام زندگی کے نیک اعمال کے بعد بھی ہم گناہگار کے گناہگار لکھے جائیں گے.محض اس لیے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے گناہ کیا تھا.اس لیے رحیمیت کا کوئی نظام بھی انسان کو بچا نہیں سکتا.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا اور اس کو ہماری خاطر مصلوب کیا.یعنی یہ بھی عدل کا عجیب تصور ہے کہ ایک شخص کو بچانے کے لیے ایک اور بیچارے معصوم آدمی کوسولی پر لٹکا دیا تا کہ جولوگ رحیمیت سے عاری ہو کر کوئی فیض نہیں پاسکتے میرا بیٹا اُن کے لیے ہلاک ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں اُن پر رحم کیا جائے.پس رحیمیت کے نظام کو تہس نہس کر دینا عیسائیت کا نام ہے.یہ عیسائیت کا خلاصہ ہے.آپ جس پہلو سے بھی عیسائیت کو دیکھیں گے وہ رحیمیت کے منکر نظر آئیں گے اپنے نظریات میں بھی اور اپنے اعمال کے لحاظ سے بھی.اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ضالین ہیں.مومن کیلئے صراط مستقیم پر چلنا اسی طرح ہے جس طرح ہر دوسری چیز کے لیے ہے.لیکن مومن کی صراط مستقیم ربوبیت - ہوتی ہوئی حمد کے دروازہ سے داخل ہوتی ہے.ربوبیت کا نظارہ کرتی ہوئی وہ رحمانیت میں داخل ہوتی ہے.رحمانیت سے وہ رحیمیت میں چلی جاتی ہے.رحیمیت سے پھر وہ اپنے مالک یوم الدین یعنی اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاتی ہے.یہ وہ راہ ہے جس کو الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کہا گیا اور جہاں ربوبیت نظر انداز ہو یا رحمانیت نظر انداز ہو یا رحیمیت نظر انداز ہو وہ ساری ٹیڑھی راہیں
خطبات طاہر جلد اول 238 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء ہیں اور اللہ کے غضب کی راہیں ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ حمد کے راستہ سے ہم کس طرح داخل ہوتے ہیں اور رحمانیت کی راہ سے خدا تک پہنچنے کا اور رحیمیت کی راہ سے خدا تک پہنچنے کا مطلب کیا ہے.اس کے تین پہلو ہیں.اوّل.نظریاتی لحاظ سے انسان کلیہ یہ تسلیم کرے کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ساری حمد خالصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو رب بھی ہے ، رحمان بھی ہے، رحیم بھی ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے.پھر یہ ایک الگ مضمون شروع ہو جاتا ہے اس کو میں فی الحال چھوڑ کر اصل مضمون کی طرف جلد مائل ہونا چاہتا ہوں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نظریہ دل پر وارد ہو جائے اور دل کے جذبات پر بھی قابض ہو جائے.یعنی انسان حمد صرف زبان سے نظریہ کے طور پر بیان نہ کرے.بلکہ دل اس حمد کو محسوس کرے اور ایک لذت پائے اور ایک محبت محسوس کرے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایک جوش پائے.یہ حمد کی دوسری شکل ہے.یعنی ذہن سے دل میں ڈوبتی ہے اور نظریہ ایک محبت کی شکل میں ڈھل جاتا ہے.جذبات کی شکل میں وہ نظریہ موجزن ہو جاتا ہے اور پھر ربوبیت سے اپنا تعلق جوڑتا ہے.رحمانیت سے اپنا تعلق جوڑتا ہے جس طرح گتا اپنے مالک کے قدموں میں پیار سے لوٹتا پوٹتا ہے اس طرح جب حمد کا یہ تصور دل میں آتا ہے تو کروٹیں لینے لگتا ہے.تبدیل ہونے والی یا لوٹنے پوٹنے والی چیز کو قلب کہتے ہیں.پس حقیقی قلب اس وقت بنتا ہے جب اللہ کے قدموں میں یہ لوٹتا ہے اس کی حمد کی وجہ سے.اس کی حمد سے غیر معمولی طور پر مغلوب ہو کر یہ خدا کے قدموں میں کروٹیں بدلتا ہے پیار کے اظہار کرتا ہے.کبھی اس کی ربوبیت پرواری جاتا ہے کبھی اس کی رحمانیت پر اور کبھی اس کی رحیمیت پر.اور اس طرح پھر انسان آخر ما لک یوم الدین تک پہنچ جاتا ہے.اس کا تیسرا درجہ اعمال کا درجہ ہے.حمد کی یہ دونوں شکلیں تب سچی قرار دی جائیں گی اگر ان کا اعمال پر بھی اثر پڑے اور اگر اعمال پر اثر نہیں پڑتا تو محض جذباتی تصویر میں ہیں.ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.پھر اعمال کی وہ راہ ہے جس کے لیے انسان کے سامنے بہت ہی مشکلات پیش آتی ہیں.وہ کہنے کو تو یہ کہ دیتا ہے اللہ رب ہے لیکن اس ربوبیت کا مظہر بننے کی راہ میں جب دقتیں پیش آتی ہیں تو اس وقت سمجھ آتی ہے کہ منہ سے تعریف کرنا اور چیز ہے دل سے محسوس کرنا اور چیز ہے اور
خطبات طاہر جلد اول 239 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء اعمال میں جاری کرنا بالکل اور چیز ہے.وہ کہ تو دیتا ہے اللہ رحمان ہے مگر خود بندوں کے لیے رحمان بننا ایک بہت بڑا کام ہے اتنا عظیم الشان کام ہے کہ قدم قدم پر انسان کے سامنے یہ امتحان آتا ہے اور اس میں فیل ہوتا چلا جاتا ہے.منہ سے رحمان کی تعریف کرتا ہے ، دل سے محسوس کرتا ہے کہ ہاں وہ بہت ہی پیاری چیز ہے مگر جب ایک رستہ اختیار کرنے کا وقت آتا ہے تو رحمانیت کا رستہ چھوڑ کر غضب کا رستہ اختیار کر لیتا ہے.ایسے شخص کے متعلق ہم یہ کس طرح توقع کر سکتے ہیں کہ وہ مالک یوم الدین تک رحمانیت کی راہ سے پہنچے گا.اس نے تو خود اپنی آزمائشوں کے وقت میں رحمانیت کی راہ ترک کی اور مغضوبیت کی راہ اختیار کر لی.یہی رحیمیت کا حال ہے.رحیمیت کی راہ اختیار کرنے کی بجائے انسان ہمیشہ تو نہیں مگر اکثر صورتوں میں ایسی راہ اختیار کرتا ہے کہ بندوں سے ان کے اعمال کے مطابق رحمت کا سلوک نہیں کرتا.مزدور کی مزدوری مارنے والے لوگ حق سے کم ادا کرنے والے لوگ سارے وہ لوگ ہیں جو ضالین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں.مغربی قوموں نے جو Exploitation یعنی استحصال سے کام لیا ہے، یہ رحیمیت کا عملی انکار ہے.تمام دنیا میں Capitalists نے جو Exploitation کی ہے اس کے نتیجہ میں پھر آگے اشتراکیت نے جنم لیا ہے.یہ وہی ضالین کی راہ ہے جو رحیمیت کے انکار کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.ادنیٰ قوموں سے محنتیں لیں ، کام لیے اور ان کو ان کے بدلے پورے نہیں دیئے اور وہ ان غریب قوموں کا جو جائز حق کھا گئے یہی استحصال ہے.اسی کے نتیجہ میں پھر دنیا میں بڑی بڑی تباہیاں آئی ہیں اور آفتیں ٹوٹی ہیں.پس ضالین کی راہ جو عیسائیت نے اختیار کی وہ بھی صرف نظریاتی نہ رہی بلکہ عملی شکل میں ڈھل گئی.اقتصادی نظام کی شکل میں بھی ڈھل گئی.معاشرہ میں بھی ڈھل گئی.تمدن میں بھی ڈھل گئی ملوکیت میں بھی ڈھل گئی.ہر چیز پر اثر انداز ہوگئی تو یہ جو رحیمیت کی راہ کو چھوڑ کر خدا تک پہنچیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی ضآلین کہلائیں گے اور ان رستوں کو چھوڑنے کے نتیجہ میں دُنیا اور آخرت میں سخت بدانجام کو پہنچیں گے.حقیقت یہ ہے کہ اس کی مثال ویسی ہی ہے جیسے بجلی ایک قوت کا نام ہے اس کے بھی سفر کے
خطبات طاہر جلد اول 240 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء رستے مختلف ہو سکتے ہیں.بلب یا کسی اور برقی آلہ کی راہ سے ہو کر بھی وہ اپنے دوسرے حصہ تک پہنچ جاتی ہے جو اس کا انجام ہے جہاں جا کر وہ Annihilate ہو جاتی ہے اور براہ راست بھی بغیر مقررہ راستے کے وہ دوسرے کنارے تک پہنچ سکتی ہے.لیکن اس دوسری صورت میں سوائے بھسم کر دینے والی آگ کے اس کے سفر کا ماحصل کچھ بھی نہیں ہوتا.پس اگر وہ بلب یا مشین یا پنکھے یا ریفریجریٹر کے رستے سے ہونے کی بجائے براہ راست وہاں تک پہنچتی ہے تو جل کر بھسم ہو جاتی ہے.اس کے سوا اس کا کوئی انجام نہیں ہوتا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے آنا تو میرے پاس ہے.طوعاً یا کرھا تم نے میرے پاس آہی جانا ہے.تم تخلیق کی جو بھی شکلیں ہو مادہ ہو یا نباتات ہو یا حیوان ہو یا انسان ہو بالآخر تم نے میرے پاس پہنچنا ہے اور ایسی حالت میں پہنچنا ہے کہ تمہارا اپنا کچھ بھی نہیں رہے گا.اُس وقت جو کچھ میں تمہیں عطا کروں گا اس کی بناء یہ ہوگی کہ اگر تم رحمانیت کے رستہ سے مجھ تک آؤ گے اور رحیمیت کے رستہ سے مجھ تک آؤ گے تو مجھے انعام دینے والا پاؤ گے.جو کچھ میں دوں گا پھر وہ میری طرف سے ہوگا تمہاری ذاتی مالکیت تو پھر بھی کچھ نہیں ہوگی.لیکن ان رستوں کو نظر انداز کرو گے تو تمہارا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.میرے حضور حاضر ہونے سے پہلے پہلے رحمانیت اور رحیمیت کے رستے تمہیں تین طریق پر طے کرنے ہوں گے.نظریاتی لحاظ سے بھی اختیار کرنے پڑیں گے قلبی لحاظ سے بھی اختیار کرنے پڑیں گے اور عملی لحاظ سے بھی اختیار کرنے پڑیں گے.پس یہی کچی حمد ہے جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے میری توجہ مسجد بشارت سپین کی طرف منتقل ہو گئی اور میں نے سوچا کہ ساری دنیا میں جماعت احمد یہ اللہ کی حمد کے ترانے گا رہی ہے اور سب دنیا پر یہ حقیقت واضح کر رہی ہے کہ مسجد بشارت کی تعمیر کی جو تاریخ ساز سعادت ہمیں نصیب ہوئی یہ محض ہمارے رب کی رحمانیت اور رحیمیت کے طفیل ہے.اسی نے ہمیں اس مہم کا آغاز کرنے کی توفیق بخشی اور اسی نے تکمیل کے مراحل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی یعنی جو کچھ بھی ہم نے کیا محض اس کی رحمانیت اور رحیمیت کے عظیم جلووں کے تابع کیا.ہمارے دل بھی اس ولولہ کو اور رحمن اور رحیم خدا کے احسانات کو بڑی
خطبات طاہر جلد اول 241 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور اس کے احسانات کا تصور دل میں محبت کے طوفان اٹھا رہا ہے اور ہر احمدی کا دل پہلے سے بڑھ کر رحمن و رحیم خدا کی محبت کا جوش محسوس کرتا ہے.میں نے سوچا کہ حمد کی یہ دو شرطیں تو ہم نے پوری کر دیں.تیسری شرط کس طرح پوری کریں.یعنی اعمال میں اس حمد کو کس طرح جاری کریں.اس سلسلہ میں بہت سے مضامین میرے ذہن میں روشن ہوئے کہ یہ یہ طریق ہیں اس حمد کو جاری کرنے کے.خدا کے اور گھر بنانا ، ان کی آبادی کے سامان پیدا کرنا.اس کے لیے جدو جہد کرنا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مضامین مجھ پر روشن فرمائے جن کے نتیجہ میں یورپ میں بھی بعض اقدامات کئے گئے اور یہاں آکر بھی ان اقدامات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا مضمون بھی سمجھایا جس کا میں اب یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے گھر بنانے کے شکرانہ کے طور پر خدا کے غریب بندوں کے گھروں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اس طرح یہ حد کی عملی شکل ہوگی جو ہم اختیار کریں گے اور اپنے اعمال سے گواہی دیں گے کہ ہاں واقعہ ہم اللہ کی اس رضا پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں اپنا گھر بنانے کی توفیق بخشی.پس ہم اس کے غریب بندوں کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ کر کے اس کے اس عظیم احسان کا عملی اظہار کریں گے.اس شکل میں جب میں نے غور کیا تو میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ سب سے پہلے اس مقصد کیلئے میں خود نمونہ کچھ پیش کروں غریبوں کے گھر بنانے کے لئے ایک فنڈ قائم کیا جائے.ایک کمیٹی ہو جو اس بات پر غور کرتی رہے کہ کن غرباء کو کس حد تک ہم نے امداد دینی ہے.یہ تو ایک ظاہر بات ہے کہ جماعت احمدیہ پر اتنے مالی بوجھ ہیں اور حمد کے اظہار کے اتنے بکثرت اور مختلف ذرائع ہمارے سامنے کھلے ہیں کہ ہم کسی ایک ذریعہ پر اپنی ساری قو تیں خرچ نہیں کر سکتے.ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ محدود ہے ہر چند تمنائیں بے قرار ہیں اور بے انتہاء ہیں.رستے تو بے شمار کھلے ہیں حمد کے عملی شکرانے کے اظہار کے لئے.لیکن تو فیق سر دست بہت محدود ہے.اس لئے ہر کام کی طرف حصہ رسدی توجہ ہی کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ کے شکرانے کا یہ ایک ایسا عملی پہلو تھا جو آج تک خالی پڑا تھا.اس کی طرف بھی توجہ ضروری تھی کہ خدا کے گھر بنا ئیں تو خدا کے غریب بندوں کے گھر بھی بنائیں
خطبات طاہر جلد اول 242 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء تا کہ خالق کے حقوق کے ساتھ ساتھ اسکی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہوں.پاکستان میں آجکل اقتصادی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ بہت کثرت کے ساتھ ایسے غربا ہیں جن کو سر چھپانے کی جگہ میسر نہیں اور یہ امور عامہ میں پیش ہونے والے جو جھگڑے آئے دن میرے سامنے آتے رہتے ہیں کہ فلاں کرایہ دار گھس گیا اور وہ نکلتا ہی نہیں یا فلاں آدمی کو انجمن نے الگ کر دیا اور اس نے مکان پر قبضہ کر لیا.یہ سب نا جائز شکلیں ہیں ان کا حق نہیں ہے.لیکن ان مجبوریوں کی طرف بھی یہ واقعات انگلی اٹھا رہے ہیں جو مجبوریاں بعض غرباء کو در پیش ہیں.ہم ان کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیں گے.ہم ان کو نظم و ضبط ضرور سکھائیں گے لیکن ساتھ ہی اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ہمارا فرض ہے کہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کریں.جتنی توفیق ہے.تھوڑی سہی تھوڑی کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد کا عملی صورت میں ایک یہ اظہار بھی کریں کہ ہم اس کے بندوں کے گھروں کی طرف کچھ تو جہ دے رہے ہیں.ویسے تو یہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اسکو پورا نہیں کر سکتیں.مگر مجھے اللہ کے فضل سے توقع ہے کہ چونکہ جماعت احمد یہ اس زمانہ میں وہ واحد جماعت ہو گی جو محض رضاء باری تعالیٰ کی خاطر یہ کام شروع کریگی.اس لئے اللہ اس میں برکت دیگا اور کروڑوں روپوں کے مقابل پر ہمارے چند روپوں میں زیادہ برکت پڑ جائے گی اور اسکے نتیجہ میں جماعت کے غربا کا ایمان بھی ترقی کرے گا اور اللہ کے فضل بھی ان پر نازل ہوں گے.یہ کن شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے.میں اس سکیم کا آج اعلان کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے تو میں اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ کی ایک حقیر سی رقم اس مد میں پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے دولاکھ روپے اس مد میں پیش کرتا ہوں.انجمن کی جو بچت ہوتی ہے اس کا اکثر استعمال تعمیرات پر ہوتا ہے تو ان تعمیرات کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں جو رتمہیں عطا فرمائی ہیں اس کے شکرانے کا بھی یہ ایک اظہار ہوگا کہ اس میں سے دو لاکھ روپے غربا کی عمارات کے لئے ان کی مدد کے لئے وقف ہوگا اور انشاء اللہ تعالی سال بہ سال اس کی جو شکلیں بنیں گی وہ ہمارے سامنے آتی چلی جائیں گی.تحریک جدید اور وقف جدید اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے مالی حالات
خطبات طاہر جلد اول 243 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء اس وقت میرے سامنے نہیں ہیں لیکن ان کو بھی میں تحریک کرتا ہوں کہ یہ انجمنیں اور تنظیمیں اپنی تو فیق کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور اس مد میں وقف کریں.جہاں تک دیگر احمد یوں کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا میری پہلی توجہ اس طرف ہے کہ وہ اپنے لا زمی چندے درست کریں جو نادہند ہیں وہ دہند بنیں.جو بقا یا دار ہیں وہ بقائے صاف کریں.جو شرح کے مطابق نہیں دیتے وہ شرح کے مطابق دینا شروع کریں.اللہ تعالیٰ سے سچائی کا معاملہ اختیار کریں.اس لئے جب تک یہ مہلت دی ہے کوئی عام تحریک میں جماعت میں نہیں کرنا چاہتا.لیکن اس تحریک کے لئے چونکہ انتظار میرے بس میں نہیں رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اتنے زور سے یہ تحریک میرے دل میں ڈالی کہ میں نے مجبوراً اس موقعہ پر اس کا اعلان کر دیا.اس لئے اس شرط کے ساتھ کہ جماعت کے دوسرے احباب کو اس میں شمولیت کا موقعہ دیا جائے گا کہ اوّل تو وہ توازن کو بگڑنے نہ دیں.دل تو چاہے گا کہ پہلی تحریک ہے،سب کچھ اس راہ میں پیش کر دیں.یہ ایک مومن کے قلب کی طبعی حالت ہوتی ہے لیکن یاد رکھیں اور بہت ہی تحریکات اللہ کی راہ میں آنے والی ہیں اس لئے وہ ان کے لئے بھی اپنے ذہن میں گنجائش رکھیں اور توازن برقرار رکھتے ہوئے جو کچھ پیش کرنے کی خدا سے توفیق پائیں اس پر راضی ہوں.دل تو چاہے گا کہ اور بھی زیادہ پیش کریں.لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر پیش کریں اور دوسرے یہ کہ صرف وہ پیش کریں جو خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر خود یہ سمجھتے ہیں، یہ فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے کہ وہ اپنے لازمی چندوں میں پورے ہیں.شرح کے مطابق دیتے ہیں حصہ وصیت بھی اور چندہ عام بھی جن کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ملی ، یہ حوصلہ عطا نہیں ہوا وہ ہرگز ایک آنہ بھی اس تحریک میں نہ دیں.اس شرط کے ساتھ یہ تحریک عام ہے.انشاء اللہ میں اس کے لئے ایک کمیٹی بنادوں گا جو ایسے معاملات پر غور کرے گی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہمارے بس میں نہیں ہے کہ سارے دکھ دور کر سکیں.جتنی مرضی خواہش ہو یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے.اس لئے کچھ نہ کچھ کریں گے اور باقی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں گے.اور امید رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے غربا کو مستغنی فرمادے گا.
خطبات طاہر جلد اول 244 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء اسی تحریک کا دوسرا پہلو رحمانیت سے آگے جا کر رحیمیت سے تعلق رکھتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک طرف غریبوں سے ہمدردی سکھاتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ ان کیلئے کچھ کرو ، انہیں کچھ عطا کرو.دوسری طرف غریبوں کو عزت نفس سکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ حتی المقدور کوشش کرو کہ تم لینے والے نہ بنو، دینے والے بنو.یہ حیرت انگیز معاشرہ ہے اس کے تصور سے بھی روح اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے.یعنی دنیا کے معاشروں سے بالکل برعکس شکل پیش کرتا ہے.تو سوال یہ ہے کہ اگر چہ ہم بحیثیت جماعت کے اپنے غرباء کے لئے لازماً کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے.جتنی خدا تو فیق دے مگر ان تقاضوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو عالم اسلام کی ضروریات کے وسیع تقاضے ہیں اور ساری دنیا میں پھیلے پڑے ہیں.لیکن خود غربا کو یہ چاہئے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ کفایت اختیار کریں اور قناعت اختیار کریں اور اپنے اندر ایک عظمت کردار پیدا کریں اور ان کی کوشش یہ ہو کہ حتی المقدور وہ لینے والے نہ بنیں بلکہ دینے والے بنیں.یہ قناعت اور عظمت کردار ایک ایسی عظیم الشان چیز ہے جو اسلام عطا کرتا ہے.دنیا میں کسی اور مذہب میں نہیں ملتی اور اس کے نتیجہ میں تکلیفیں کم ہوتی جاتی ہیں اور ہونے کے با وجود زائل ہو جاتی ہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس کا نظارہ ہمیں یہ ملتا ہے کہ اصحاب الصفہ جو بالکل غریب لوگ تھے اور آنحضرت ﷺ کی عطا پر ان کا انحصار تھا.اگر وہ عطا نہ ہوتی تو وہ فاقے مرجاتے لیکن اس کے باوجود یہ تمنا کہ ہم خرچ کرنے والے بہنیں اتنا بے قرار رکھتی تھی کہ بعض دفعہ وہ ہتھیار لے کر باہر جنگلوں میں نکل جاتے تھے یعنی کلہاڑے اور آریاں وغیرہ لے کر چلے جاتے تھے اور لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور فروخت کرتے تھے.یہ مزدوری وہ اس غرض سے کرتے تھے کہ وہ بھی غریبوں پر کچھ خرچ کریں اور وہ بھی اسلام کی راہ میں کچھ پیش کریں.ان کا نام بھی عطا کرنے والوں میں لکھا جائے.(مسلم کتاب الامارۃ باب الجر للشھید ) یہ عظمت کردار ہے جو اسلام غریب کو عطا کرتا ہے.اس سلسلہ میں رحیمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی کچھ مدد کریں اور ایک ایسے رنگ میں کریں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں.غربا کی سوسائٹی کی طرف ایسی توجہ کریں کہ رحیمیت کے نظام میں داخل ہوتے ہوئے وہ اپنے اعمال کی اچھی جزاء پائیں اور جہاں ان کو نظر نہیں آتا کہ ہم کیا کریں اور بے بسی کے عالم میں ہیں وہاں ہم ان کو
خطبات طاہر جلد اول 245 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء دکھا ئیں کہ تمہارے لیے یہ کچھ کرنے کا پڑا ہوا ہے.یہ تم کرو اپنی محنت ڈالو.اس کی بہتر جزا اللہ تعالیٰ تمہیں عطا فرمائے گا.اور تمہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دے گا.پس رحیمیت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے میں ایک کمیٹی بنادوں گا لیکن اس سے پہلے کہ ایک مرکزی کمیٹی بنائی جائے میں ساری جماعت سے یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ ذی شعور دوست جن کو اللہ تعالیٰ نے صنعتوں کا ملکہ عطا فرمایا ہوا ہے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تجارت کا ملکہ عطا فرمایا ہے، جن کو مالی لحاظ سے وسعتیں دی ہیں اور تجربے دیئے ہیں وہ ربوہ کے حالات کا (فی الحال ہم ربوہ سے بات شروع کریں گے ) اور ربوہ کے غربا کا جائزہ لے کر یہ تجویزیں پیش کریں کہ ان غربا کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے جماعت ان کی کیا مدد کر سکتی ہے.کون سے ایسے ذرائع عمل میں لاسکتی ہے جن کے نتیجہ میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے حصہ پائیں جس کے نتیجہ میں انسان دوسروں کو بھی عطا کرتا ہے.ان کی بھی تمنائیں پوری ہوں کہ ہم مسجدوں کی تعمیر میں بھی خرچ کریں اور دوسرے غریبوں کے گھروں کے لیے بھی خرچ کریں.یہ وہ کم از کم مقام ہے جس کی طرف اسلام لے جانا چاہتا ہے.اس لیے اس تقاضا کے پیش نظر جماعت کے جو انڈسٹریلسٹ ہیں، تاجر ہیں، اقتصادیات میں مختلف قسم کے صاحب تجربہ لوگ ہیں ، ان کو میں ایک عام اعلان کے ذریعہ اس طرف دعوت دیتا ہوں.مثلاً حالات کا جہاں تک تعلق ہے، ایک گندم کمیٹی ہے اس کے پاس ! لا ما شاء اللہ اکثر غربا کے حالات موجود ہیں ربوہ میں اکثر مصیبت زدگان آجاتے ہیں.غربا اکٹھے ہو جاتے ہیں بیوگان اور یتامی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک بڑی بھاری نسبت ہے ہمارے اندر سوسائٹی کے ایسے حصہ کی جن کے لیے دیکھ بھال کا کوئی نظام نہیں ہے.اگر چہ جماعت کی طرف سے گندم بھی دی جاتی ہے.کپڑوں کی صورت میں بھی امداد دی جاتی ہے.تعلیم کی صورت میں بھی امداد دی جاتی ہے.لیکن یہ سارے رحمانیت کے مظاہر ہیں.رحیمیت کے مظاہر کے طور پر کوئی چیز مجھے اس وقت نظر نہیں آرہی.البتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف وقتوں میں ایسی مختلف تحریکات کی تھیں جو کچھ دیر چلیں اور پھر وہ آہستہ آہستہ نظر سے غائب ہو گئیں اور اس کا بھی دراصل اس پیشگوئی کے ایک حصہ سے تعلق تھا جو مصلح موعود کی پیشگوئی کہلاتی ہے اور جس کو رڈیا کی صورت میں حضرت مصلح موعودؓ نے
خطبات طاہر جلد اول 246 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء دیکھا یعنی ایک تو پیشگوئی ہے.ایک اس کا وہ اظہار ہے جو رویا کی صورت میں حضرت مصلح موعود پر کیا گیا.اس میں یہ بھی بیان ہے کہ میں آگے نکل جاتا ہوں اور جماعت پیچھے رہ جاتی ہے.تو یہ جو تحریکات تھیں ان کے ساتھ جو عملاً واقعہ ہوا ہے اس میں ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ بیشمار تحریکات ہیں اور بڑی عظیم الشان تحریکات ہیں جن میں حضرت مصلح موعودؓ آگے نکل گئے اور جماعت پیچھے رہ گئی.ہمیں واپس لوٹ کر ان کو وہیں سے اٹھانا ہے اور لے کر آگے بڑھنا ہے.ان میں یہ تحریکات بھی ہیں کہ غربا کو صنعتیں سکھائی جائیں ایسے دوسرے کام دیے جائیں کہ جس کے نتیجہ میں خود اعتمادی اور شرف انسانیت قائم ہو اور وہ سوسائٹی کا وہ حصہ بنیں جو عطا کرنے والا حصہ ہوتا ہے وصول کرنے والا نہیں ہوتا.پس اس پہلو سے ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں لیکن اس کام کی اول ذمہ داری امور عامہ پر عاید ہوتی ہے.امور عامہ صرف محاسبہ کا نام نہیں ہے یا تنفیذ کا نام نہیں ہے.یہ ایک غلط تصور پیدا ہوگیا ہے.محاسبہ اور تنفیذ امور عامہ کے بیشمار کاموں میں سے ایک بہت معمولی اور چھوٹا سا کام تھا جس نے پھیلتے پھیلتے آخر دوسرے کاموں کو باہر نکال دیا جس طرح اونٹ کے متعلق آتا ہے کہ ایک صحرا میں جب رات کو بہت سردی ہوئی تو اونٹ نے تھوڑا سا سر خیمہ میں داخل کرنے کی اپنے مالک کی اجازت چاہی کہانی میں تو جانور بول لیتے ہیں.یہ ظاہری دنیا کا کوئی اصل واقعہ نہیں ہے ) تو اونٹ نے تھوڑی سی تھوتھنی اندر کر کے کہا.اے میرے مالک! بہت ہی سردی ہو گئی ہے مجھے اجازت دو.میں تھوتھنی اندر کر لوں.اس نے کہا ٹھیک ہے کر لو.پھر اس نے کہا باقی سر بچارے کا کیا قصور ہے تھوڑی سی اجازت ہو تو میں وہ بھی اندر کرلوں.چنانچہ وہ سر بھی اندر آ گیا.پھر وہ گردن آئی.پھر وہ انگلی ٹانگیں آئیں.پھر جسم.پھر دم یہاں تک کہ مالک باہر تھا اور اونٹ اندر تھا.امور عامہ سے بھی کچھ اس قسم کا واقعہ ہو گیا ہے کہ مالک تو باہر پڑا ہوا ہے اور اونٹ اندر آ گیا ہے.اس لیے اونٹ کو واپس باہر جانا پڑے گا.یا کم سے کم اونٹ کا اتنا ساحق ادا کرنا پڑے گا جو مالک پر عاید ہوتا ہے.تنفیذ اور محاسبہ امور عامہ کے فرائض میں داخل ہے.یہ کام تو اُسے کرنا ہے لیکن ادنی کام کے طور پر کرنا ہے، اپنے مقاصد میں سے اعلیٰ حصہ کے طور پر نہیں کرنا.امور عامہ کے مقاصد کے اعلیٰ حصوں میں غریبوں کی پرورش، ان کے حقوق کی خبر گیری، ان کے لیے
خطبات طاہر جلد اول 247 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء مختلف قسم کی صنعتوں کا جاری کرنا ، ان کی دیکھ بھال، یتامی کی دیکھ بھال، یہ ساری چیز میں داخل ہیں.پس امور عامہ اسکی نگرانی کریگی.اور ایک مرکزی کمیٹی بن جائیگی یا یوں کہنا چاہیئے کہ فی الحال ہم ایک مرکزی کمیٹی بنا دینگے جس میں نظارت امور عامہ عملی حصہ کے طور پر ذمہ دار ہو گی.یعنی وہ ان اعلیٰ اقدار کی تنفیذ کی ذمہ دار ہو جائے گی کیونکہ ان کو تنفیذ کی تو بہر حال عادت پڑی ہوئی ہے،اس لیے اس نیک کام کی تنفیذ میں بھی وہ انشاء اللہ تعالی نمایاں کردار ادا کریں گے.وہ بھی ان کا نیک کام ہے اس میں مذاق کا رنگ نہیں.مگر پھر بھی نیک کاموں میں سے ایک چھوٹے سے نیک کام کو انہوں نے پکڑا ہوا ہے اور بڑے بڑے نیک کام بھول گئے ہیں.تو بہر حال اس نیک کام کی تنفیذ کا زیادہ تر تعلق امور عامہ کے محکمہ سے ہوگا.لیکن ایک رہنما کمیٹی بن جائے گی جس میں امور عامہ کے نمائندے بھی ہوں گے اور بعض دوسرے بھی.اور ساری جماعت سے آراء طلب کر کے پھر ان کو انشاء اللہ ایک عملی صورت میں جاری کریں گے.اگر چہ وقت اب زیادہ ہو رہا ہے لیکن گھروں کے سلسلہ میں ایک چھوٹی سی بات میں بہر حال کرنا چاہتا ہوں.ویسے تو سارے گھر جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کئے ہیں خدا تعالیٰ کے گھر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بعض دفعہ یہ بھی مطالبے کرتا ہے اور یاد کرواتا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی کرواتا.جب مومن کے گھر میں کوئی مہمان آتا ہے اور وہ اپنے منہ ملاحظہ کی بجائے خدا کی خاطر اس کو جگہ دیتا ہے تو اس وقت وہ ثابت کرتا ہے کہ ہاں میرا گھر خدا کا گھر ہے.تو یہاں آکر وہ دائرہ مکمل ہو جاتا ہے.ہماری ہر چیز پھر خدا کی ہو جاتی ہے.امتحان کے بعض ایسے ہی دن آنے والے ہیں یعنی جلسہ سالانہ.اس موقع پر آکر حقیقت میں ربوہ کے سارے گھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر بن جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سارے گھر اللہ کے گھر ہو جاتے ہیں.اس لیے خوب دل کھول کر اپنے گھر نظام جلسہ کو پیش کریں اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ ظاہر کریں کہ مجبورا تو ہم نے مالک یوم الدین کے حضور پہنچنا ہی ہے اس سے تو ہمیں کوئی مفر نہیں، لازما جاتا ہے.اگر اس دنیا میں بھی خدا کو طو عاملِكِ يَوْمِ الدِین تسلیم کرلیں گے تو قیامت کے دن اس کی مالکیت سے زیادہ حصہ پائیں گے اور زیادہ رحم کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے.
خطبات طاہر جلد اول 248 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء پس اس پہلو سے ربوہ والے اپنے گھروں کو خوب بشاشت کے ساتھ پیش کریں.پہلے بھی کرتے ہیں اس دفعہ اور بھی زیادہ محبت کے ساتھ پیش کریں اور کارکنان بھی اپنی ساری طاقتوں کو مالک یوم الدین کے حضور پیش کر دیں.بے شمار کام ہوتے ہیں اور جو اس وقت ہمارے پاس عملہ مہیا ہے وہ اتنا تھوڑا ہے کہ حقیقت میں وہ تقاضے پورے نہیں کر سکتا.محض اللہ کا فضل ہے.ہر دفعہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کام ہو گئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہم بہر حال اللہی جماعت ہیں اللہ کی خاطر کام کرتے ہیں.وہ اپنے فضل سے فرشتوں کے ذریعہ کام پورے کر دیتا ہے.لیکن خدا کے فضل کو ہم انتہا کی شکل میں اس وقت دیکھتے ہیں جب ہم اپنی قوتوں کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں.جب ہم اپنی قوتوں کو آدھے راستہ میں چھوڑ دیتے ہیں تو پھر خدا کا فضل بھی آدھے راستے تک رہتا ہے.اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ جس قدر بھی ممکن ہو طوعی طور پر اپنے وقت کو بھی خدا کے حضور پیش کر دیں.تیسری شکل یہ ہے کہ مہمانوں کے لیے اپنے گھروں کو خوب سجا دیں.جب آپ کے مہمان آتے ہیں تو آپ اپنے گھروں کو خوب سجاتے ہیں.اللہ کے مہمان آئیں گے تو کیا آپ اپنے گھروں کو نہیں سجائیں گے.کیا آپ اپنی گلیوں کو صاف نہیں کریں گے.کیا خدا کی خاطر آپ یہ خیال نہیں رکھیں گے کہ ربوہ کے بعض محلوں میں رات کو چلتے ہوئے گندی نالیوں میں بھی پاؤں پڑ جاتے ہیں.گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ان سے بد بوئیں بھی اٹھتی ہیں.پس جب آپ اپنے مہمانوں کی خاطر اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں.تو اب تو خدا کے مہمان آنے والے ہیں.اس لیے اپنے گھروں کی بھی صفائی کریں.اپنی گلیوں کی بھی صفائی کریں.ان ڈھیروں کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں جو بد بو پھیلاتے ہیں اور اس سلسلہ میں جماعت کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں وہ ساری تیزی کے ساتھ عملی توجہ شروع کر دیں.یعنی سکیمیں بھی بنائیں اور پھر ان کو عمل میں ڈھالیں انصار اللہ، لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ یہ ساری تنظیمیں کام کریں اور جلسہ سالانہ کا نظام اس کی عمومی نگرانی کرے.اس کے بعد پھر سجاوٹ کا وقت بھی آئے گا.میرے ذہن میں ایک نقشہ یہ بھی ہے کہ غریب کے مکان کو خوبصورت بھی بنایا جائے اور سجایا بھی جائے لیکن ابھی فورا تو اس کا وقت نہیں.میں نے غیر ملکوں میں اس کا جائزہ لیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ہر سوسائٹی خواہ وہ غریب
خطبات طاہر جلد اول 249 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء ہے خواہ وہ امیر ہے ، وہ زینت کی طرف توجہ کرتی ہے اور غریب بھی اپنے گھر کو سجانے کی کوشش کرتا ہے.یہ چیز مجھے یورپ کی سیر میں معلوم ہوئی.اسی وقت میں نے اپنے ساتھیوں کو لکھوا دیا کہ ربوہ پہنچ کر یاد کروانا تا کہ ہم بھی اپنے گھروں کے لیے ایسا ہی نظام جاری کریں کہ غریب ہو یا امیر ہو وہ کچھ نہ کچھ سجاوٹ پیدا کرے اور گھر کو خوبصورت بنائے.اس سلسلہ میں میں آرکیٹیکٹ اینڈ انجینئر زایسوسی ایشن کو دعوت دیتا ہوں اور ساتھ ہی مجھے ایک اور خیال آیا کہ ایک اور ذمہ داری بھی ان کے سپرد کر دیتے ہیں.جب غربا کے گھروں کی طرف توجہ ہے تو اس کا نقشہ بھی تو بننا چاہئے.بیچارے غریبوں کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی کو کچھ دے کر اس سے نقشہ بنوا لیں.تو نقشے بھی ایسے تجویز کئے جائیں جو مناسب حال ہوں.اور اس میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو خوب استعمال کریں اور ایسے نقشے تجویز کریں جو دلکش بھی ہوں اور ہمارے ملک کے موسموں کو پیش نظر رکھ کر اچھے بھی ہوں اور نئی ایجادات کی روشنی میں ایسی تجاویز اس میں شامل کی جائیں کہ جو غریبانہ دسترس کے اندر ہوں.پھر ہم ہر ایک کے بنائے ہوئے نقشہ کا مقابلہ کریں گے.جس آرکیٹیکٹ کا نقشہ سب سے اچھا ہوگا اسکو میں ایک خاص انعام دوں گا.پس انجینئر زایسوسی ایشن کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ ربوہ میں بنایا جانیوالا گھر کیسا ہونا چاہئے.اس کا نقشہ پیش کریں اور اسکی سجاوٹ میں اردگرد درختوں اور سبزہ کی جو رونق ہوتی ہے اس کو بھی ملحوظ رکھیں، یہ بھی دیکھیں کہ سبزہ پیدا کرنا ہے غریبانہ سبزہ ہی سہی.جنتر سے ہو جا تا ہے تو جنتر کو شامل کریں.غرض چھ ماہ میں ایک غریبانہ گھر کا نقشہ تیار کر دیں.جہاں تک گھروں کی صفائی اور سجاوٹ کا تعلق ہے اب تو بہر حال اتنا وقت نہیں ہے.جلسہ قریب آرہا ہے اس لیے اس وقت اگر کوئی سفیدی کر سکتا ہے تو سفیدی کرے.کوئی رنگ پھیر سکتا ہے دیواروں پر تو رنگ پھیر دے.گھروں کی صفائی کریں اور ان کو سجائیں تا کہ جس طرح حضرت خلیفہ مسیح الثالث ( نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ ربوہ ایک غریب دلہن کی طرح رنگ اختیا کر لے، اس طرح سح جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی تو فیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
خطبات طاہر جلد اول 250 خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء ابھی صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے ایک لاکھ روپیہ اس مد میں پیش فرمایا ہے جزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.لیکن یہ میں وضاحت کر دوں کہ اس لیے انہوں نے خدام میں الگ چندہ کی کوئی تحریک نہیں کرنی.مرکزی فنڈ سے بچت کے طور پر اگر وہ یہ رقم پیش کر سکتے ہیں تو کریں ورنہ اپنے اس وعدہ پر نظر ثانی کر لیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ / نومبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 251 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۸۲ء تحریک جدید کی اہمیت اور اس کا چندہ بڑھانے کی طرف توجہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۵/ نومبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: تحریک جدید کے آغاز کو آج اڑتالیس سال گزر چکے ہیں اور اب ہم ۴۹ ویں سال میں داخل ہو رہے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۳۴ء میں سب سے پہلے قادیان میں اس تحریک کا آغاز فرمایا.یہ وہ دن تھے جب ابھی فضا میں احرار کے ان دعووں کی آواز گونج رہی تھی کہ ہم مینارہ مسیح کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور قادیان کو اس طرح مسمار کر دیں گے کہ وہاں قادیان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا اور ایک وجود بھی ایسا نہیں رہے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام لینے والا ہو.فضاؤں میں بہت ارتعاش تھا اور احمدیوں کی طبیعت میں بھی ایک ہیجان تھا ، ایک جوش تھا اور ایک ولولہ تھا.جتنی قوت کے ساتھ جماعت کو دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی اتنے ہی زور کے ساتھ یہ جماعت اچھلنے کے لئے تیار بیٹھی تھی.ایک آواز کا انتظار تھا یعنی خلیفہ اسیح کی آواز کا کہ وہ جس طرح چاہیں، جس طرف چاہیں قربانیوں کیلئے بلائیں.لیکن دل سینوں میں اچھل رہے تھے کہ کب یہ آواز بلند ہو اور کب ہمیں آگے بڑھ کر نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ کہنے کی توفیق عطا ہو.
خطبات طاہر جلد اول 252 خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۸۲ء چنانچہ اس پس منظر میں ۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعود نے اس تحریک کا آغا ز فرمایا.اس وقت کے اقتصادی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اس وقت کی جماعت کی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے اپنے اندازے کے مطابق ستائیس ہزار روپے کی تحریک فرمائی اور اس پر بھی آپ کا یہ تاثر تھا کہ اس وقت کے جماعت کے اقتصادی حالات مستقل طور پر یہ بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.یا یوں کہنا چاہئے کہ اقتصادی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ مستقل طور پر یہ تحریک جاری نہ کی جائے بلکہ چند سال کے لئے قربانی مانگی جائے.چنانچہ آپ نے تین سال کیلئے اس چندے کا اعلان فرمایا جس کے ذریعے سے تمام دنیا میں تبلیغ اسلام کی داغ بیل ڈالی جانی تھی.اس وقت حاضرین اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے.بہت سے ایسے تھے جنہوں نے سمجھا کہ یہ تحریک صرف ایک سال کیلئے ہے.چنانچہ انہوں نے بظاہر اپنی توفیق سے بہت بڑھ کر چندے لکھوائے.سلسلہ کے بعض کلرک ایسے تھے جن کو اس زمانے میں پندرہ روپے مہینہ تنخواہ ملا کرتی تھی.انہوں نے تین تین مہینے کی تنخواہیں لکھوا دیں.بعض ایسے تھے جنہوں نے دو مہینے کی تنخواہ لکھوا دی اور ذہن پر یہی اثر تھا کہ ایک دو سال کے اندر ہم ادا کر دیں گے.سلسلہ کے بہت سے ایسے بزرگ بھی تھے جو اگر چہ کچھ زائد تنخواہ پانے والے تھے لیکن اس زمانے میں بھی ان کی تنخواہ دنیا کے لحاظ سے بہت کم تھی.مثلاً ناظروں کے معیار کے لوگ اور سلسلہ کے پرانے خدام اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی لمبی خدمت کی توفیق پائی تھی پچاس، ساٹھ ، ستر روپے ماہوار سے زیادہ ان کی تنخواہیں نہیں تھیں، ان میں سے بھی بعض نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندے لکھوائے.مثلاً حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اڑھائی سو روپے چندہ لکھوایا.اسی طرح دیگر بزرگوں میں سے مولوی ابوالعطاء صاحب ( جو اس وقت کی نسل میں نسبتا چھوٹے تھے ) اور مولوی جلال الدین صاحب شمس نے بھی پچاس پچاس روپے پچپن پچپن روپے لکھوائے، جو اس زمانے کے لحاظ سے ان کی آمد کے مقابل پر بہت زیادہ تھے.لیکن اس وقت یہ بات کھل کر سامنے نہیں آئی تھی کہ یہ تحریک مستقل نوعیت کی ہے، ہاں بعد میں جب یہ اعلان کیا گیا کہ یہ ایک سال کے لئے نہیں بلکہ تین سال کیلئے تھی تو ان زیادہ لکھوانے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ درخواست کی ہو کہ غلط فہمی میں زیادہ لکھوا دیا گیا ہے، طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہے، اس لئے ہمیں
خطبات طاہر جلد اول 253 خطبه جمعه ۵ رنومبر ۱۹۸۲ء اجازت دی جائے کہ اس چندے کو کم کر دیں.بلکہ خود حضرت مصلح موعود نے پیشکش فرمائی کہ اگر کسی نے غلط فہمی سے اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ لکھوا دیا ہے تو اس کو کم کروانے کی اجازت ہے.یہ درخواستیں تو موصول ہوئیں کہ حضور! ہمیں یہ چندہ اسی طرح ادا کرنے کی اجازت دی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں ،لیکن کوئی یہ درخواست نہیں آئی کہ ہمارے چندے کو کم کر دیا جائے.بعد میں جب یہ بات اور کھل گئی کہ یہ تحریک تین سال کے لئے نہیں بلکہ ایک مستقل اور ایسی عظیم الشان تحریک بنے والی ہے جس کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچنی تھی اور جس کے نتیجے میں حضرت مصلح موعودؓ نے زمین کے کناروں تک شہرت پانی تھی.تب بھی کوئی پیچھے نہیں ہٹا ، بلکہ قربانیوں میں آگے بڑھتے چلے گئے.بزرگوں کا بھی یہی عالم تھا.امیروں کا بھی یہی عالم تھا.متوسط طبقے کے لوگ جو سلسلے کے کاموں سے براہ راست متعلق نہیں تھے ان کی بھی یہی کیفیت تھی اور غرباء کی بھی یہی کیفیت تھی.تمام جماعت کے ہر طبقے نے قربانی میں ایک ساتھ قدم اٹھایا ہے.اور آج جب ہم اعداد و شمار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کے تجزیے سے ہر گز یہ بات سامنے نہیں آتی کہ کسی طبقے نے زیادہ قربانی کی تھی اور کسی نے کم.امراء نے اپنی توفیق کے مطابق بہت بڑے بڑے قدم اٹھائے.بڑی بلند ہمتوں کے ساتھ ( دعووں کے ساتھ نہیں ) وعدے لکھوائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو پورا کیا.اسی طرح غرباء اپنی توفیق کے مطابق، بلکہ توفیق سے بڑھ کر اس میں شامل ہوئے.جوش اور ولولے کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ جب حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا کرتے تھے تو جو لوگ سب سے پہلے دفتر تحریک جدید میں پہنچ کر اپنے چندے لکھواتے تھے ان میں دو دوست پیش پیش تھے.ایک کا نام محمد رمضان صاحب تھا جو مدد گار کارکن تھے اور دوسرے کا نام محمد بوٹا ” تانگے والا تھا.جب تک وہ زندہ رہے ایک سال بھی اس بات میں پیچھے نہیں رہے.خدا نے ان کو جتنی توفیق بخشی تھی اس کے مطابق وہ لکھواتے تھے اور ادا ئیگی میں بھی السابقون میں شامل ہوتے تھے.اور وہ لوگ جو سب سے پہلے پرائیویٹ سیکرٹری کے باہر ا نتظام کر رہے ہوتے تھے (اس زمانے میں لوگ پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں پہنچا کرتے تھے ) ان میں یہ دونوں دوست پیش پیش ہوتے تھے.مزدوروں کا یہ عالم تھا کہ سیالکوٹ کے ایک
خطبات طاہر جلد اول 254 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۸۲ء مزدور جوان دنوں دو روپے دہاڑی کمایا کرتے تھے ، یعنی دوروپے یومیہ ان کی مزدوری تھی انہوں نے اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑا یعنی تمیں روپے چندہ لکھوایا.ایک اور صاحب تھے وہ بھی غریب اور کمزور حال تھے.انہوں نے دس روپے چندہ لکھوایا.تو قربانی کرنے والوں کا یہ حال تھا.جہاں تک اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا تعلق ہے وہ فضل ان لوگوں پر بارش کی طرح اس طرح بر سے ہیں کہ ان پر نگاہ پڑتی ہے تو قربانیاں کہتے ہوئے بھی شرم آنے لگتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان خاندانوں کی کایا پلٹ دی.ان کی نسلوں کے رنگ بدل گئے خدا نے ایسے فضل نازل فرمائے کہ پہچانے نہیں جاتے کہ یہ کون سے خاندان تھے ، کس حالت میں رہا کرتے تھے اور کس تنگی ترشی میں گزارہ کیا کرتے تھے.وہ مزدور جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور جس نے تمہیں روپے سے اپنے چندے کا آغاز کیا تھا، آج ان کا چندہ تین ہزار پانچ سو روپے سالا نہ ہے اور وہ مزدور جس نے دس روپے سے اپنے چندے کا آغاز کیا تھا آج اس کا چندہ ۵۰۰۰ ہزار روپے سالانہ ہے اور وہ بچہ جس نے پانچ روپے کے ساتھ اپنے چندے کا آغاز کیا تھا، گزشتہ سال اس کا چندہ پانچ ہزار روپے سالانہ سے زائد تھا.پس ہر عمر کے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا، ہر طبقے کے لوگوں کو اپنے فضل سے نوازا.روحانی لحاظ سے بھی ان لوگوں نے بہت ترقیات حاصل کیں اور دنیوی لحاظ سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے اور ان کی اولادوں نے بھی ان کی قربانیوں کا اتنا پھل کھایا کہ سیری کے مقام تک پہنچ گئے اور وہ فضل ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے.وہ ایک نسل سے تعلق رکھنے والے فضل نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری نسل میں بھی جاری ہیں، تیسری نسل میں بھی جاری ہیں اور یہ معاملہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.زمانے کے لحاظ سے بھی لمبا ہورہا ہے اور وسعت کے لحاظ سے بھی پھیلتا جارہا ہے.یه دفتر اول دس سال تک بلا شرکت غیر جاری رہا.یعنی ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۴ء تک کوئی اور دفتر اس کا رقیب نہیں تھا.جو لوگ بعد میں شامل ہوئے وہ بھی اس دفتر میں شامل ہوتے تھے.لیکن ۱۹۴۴ء میں ایک نئے دفتر کا آغاز ہوا جسے دفتر دوم کہا جاتا ہے.دفتر دوم کے جاری ہونے کے بعد دفتر اول میں داخلے کے رستے بند ہو گئے اور نکلنے کے رستے جاری رہے.یعنی پانچ ہزار یا اس سے کچھ زائد چند ه دهندگان جو دفتر اول میں شامل تھے، ان کو اللہ کی تقدیر بلاتی رہی اور وہ اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہے اس لئے اس دفتر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھانے کے رستے بند
خطبات طاہر جلد اول 255 خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۸۲ء تھے.اور اب جس احمدی نے بھی تحریک جدید میں شامل ہونا تھا اس کے لئے صرف دفتر دوم کا دروازہ کھلا تھا.چنانچہ عظیم الشان قربانیاں کرنے والا یہ گروہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور آج ان میں سے صرف دو ہزار زندہ باقی ہیں جنہوں نے دفتر اول میں حصہ لیا تھا اور ان کے چندے کی مقدار جواس وقت تک بیان کی گئی ہے وہ ایک لاکھ پچیس ہزار ہے ، جو میرے نزدیک غلط ہے.میں نے از سرنو چھان بین کیلئے کہا ہے.کیوں غلط ہے؟ میں اس کی وجہ بتاؤں گا.بہر حال دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد جہاں تک زندہ لوگوں کا تعلق ہے وہ گر کر دو ہزار تک پہنچ گئی ہے.لیکن تحریک جدید نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو مرنے کے باوجود بھی چندہ ادا کر رہے ہیں کیونکہ ان کی نسلیں ان کی طرف سے دے رہی ہیں ان کولسٹ سے خارج کرنے کا کس کو حق ہے؟ اگر ان کا نام تحریک جدید نے اپنی لسٹ سے نکال دیا ہے تو یہ ان کی غلطی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی مثال لیجئے.وفات کے وقت آپ کا چندہ بارہ ہزار اور چند سو تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس وقت جماعت میں سب سے زیادہ چندہ آپ کا تھا.بلکہ جہاں تک میراعلم ہے ( ہوسکتا ہے کبھی استثناء بھی ہو گیا ہو ) اگر سو فیصدی نہیں تو اکثر سالوں میں آپ کا چندہ باقی سب جماعت کے انفرادی چندوں سے ہمیشہ زیادہ رہا.آپ کے وصال کے بعد آپ کے بچوں نے اپنے پہلے مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ مشترکہ جائیداد کے حساب میں سے سب سے پہلے ہم حضرت مصلح موعود کا یہ چندہ دیتے رہیں گے اور اس چندے میں کمی نہیں آئے گی.اس کے علاوہ بھی بچوں نے اپنے طور پر حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے چندے لکھوائے ہیں جو وہ ادا کرتے ہیں.پس اس رقم میں اضافہ ہو رہا ہے، کمی نہیں ہوئی.جس کا چندہ جاری ہے وہ کس طرح مرسکتا ہے؟.اس لئے دفتر اول کی از سر نو ترتیب کرنی پڑے گی.میری خواہش یہ ہے کہ یہ دفتر قیامت تک جاری رہے اور جولوگ ایک دفعہ اسلام کی ایک مثالی خدمت کر چکے ہیں ان کا نام قیامت تک نہ مٹنے پائے اور ان کی اولادیں ہمیشہ ان کی طرف سے چندے دیتی رہیں اور ایک بھی دن ایسا نہ آئے جب ہم یہ کہیں کہ اس دفتر کا ایک آدمی فوت ہو چکا ہے.خدا کے نزدیک بھی وہ زندہ رہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے اس دنیا میں بھی ان کی زندگی کی علامتیں ہمیں نظر آتی رہیں.پس اس نقطہ نگاہ سے تحریک جدید کو دفتر اول کی از سر نو تر تیب قائم کرنی پڑے گی، اس کو پھر منتظم کرنا پڑے گا اور وہ بچے
خطبات طاہر جلد اول 256 خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۸۲ء جو اپنے والدین یا بزرگوں کی طرف سے رقمیں ادا کر رہے ہیں اگر وہ بزرگ مر بھی چکے ہیں تو وہ زندہ شمار ہونے چاہئیں جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے.اور ان کے نام اس فہرست سے نہیں نکالے جائیں گے.بچوں کے چندوں میں سے اتنا کم کر کے جو انہوں نے اپنے والدین کے نام پر لکھوایا ہے اس فہرست میں منتقل کیا جائے جو دفتر اول کی فہرست ہے اور پھر صحیح صورت حال پیش کی جائے کہ اب کیا شکل بنتی ہے؟ مجھے امید ہے اور بھاری توقع ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے بچے ان کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ دفتر اول کے چندے کی مقدار کم ہونی شروع ہو جائے.یہ انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتی رہے گی.دفتر دوم کا آغاز ۱۹۴۴ء میں ہوا اور اب یہ دفتر ار میں سال کا ہو چکا ہے.اس نے بھی ایک عرصہ تک بلا شرکت غیر چندے دینے والے وصول کئے یعنی اگر چہ دفتر اول میں داخلے کا رستہ بند ہو چکا تھا لیکن اس دفتر میں داخلہ جاری رہا اور اکیس سال تک یہ بغیر کسی رقابت کے جماعت کے چندہ دہندگان حاصل کرتا رہا.ان میں سے کچھ جاتے بھی رہے اور خدا کے حضور پیش ہوتے رہے لیکن زیادہ تعداد اندر آنے والوں کی تھی.یہاں تک کہ ۱۹۶۵ء میں اس دفتر کو بند کر دیا گیا ان معنوں میں کہ اس کے داخلے کے رستے بند ہو گئے (ویسے یہ دفتر جاری ہے ) اور دفتر سوم کا آغاز ہوا.اس وقت تک اس کے چندہ دہندگان کی جو تعداد تھی وہ تو میرے سامنے نہیں آئی.لیکن اس عرصے میں جو سترہ سال کا عرصہ ہے لازماً ایک بڑی تعداد فوت ہوگئی ہوگی ،مگر کم ہونے کے باوجود اس وقت ان کی تعداد اٹھارہ ہزار پانچ سویا اٹھارہ ہزار چھ سو کے قریب ہے اور ان کا مجموعی چندہ تیرہ لاکھ سے زائد اور چودہ لاکھ سے کچھ کم ہے یعنی تیرہ اور چودہ لاکھ کے درمیان ہے.اس دفتر والوں کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جو دوست فوت ہو چکے ہیں، دفتر دوم کی آئندہ نسلیں ان کے نام کو زندہ رکھنے کی خاطر یہ عہد کریں کہ کوئی فوت شدہ اس لسٹ سے غائب نہ ہونے دیا جائے گا اور ان کی قربانیاں جاری رہیں گی تاکہ ہمیشہ ہمیش کیلئے اللہ کے نزدیک وہ فعال شکل میں زندہ نظر آئیں.یعنی ایک تو زندگی ہے ہی کہ نیک لوگ جو خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں.لیکن نیک اعمال کی صورت میں اگر ان کی وفات کے بعد ان کی طرف سے قربانیاں جاری رکھی جائیں تو آنحضرت عمل اللہ ہمیں خبر دیتے ہیں ، اور ان سے زیادہ سچی خبر دینے والا کوئی
خطبات طاہر جلد اول 257 خطبه جمعه ۵ رنومبر ۱۹۸۲ء انسان پیدا نہیں ہوا، کہ وہ نیک لوگ جو نیک کام کرتے ہوئے فوت ہو جائیں اور ان کی اولا دان کی نیکیوں کو جاری رکھے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان نیکیوں کا ثواب ان کو پہنچتا رہتا ہے.اس لحاظ سے میرا مطلب ہے کہ وہ عملاً بھی اس دنیا کی فعال زندگی میں زندہ رکھے جائیں گے.تیسرے دفتر کو قائم ہوئے آج سترہ سال ہو چکے ہیں اور اس سترہ سال کے عرصے میں اس دفتر میں جتنے شامل ہونے چاہئیں تھے اس سے بہت کم تعداد میں شامل ہوئے ہیں یعنی مشکل سے صرف پانچ ہزار تک پہنچے ہیں.حالانکہ دفتر اول کے وقت جماعت کی جو تعداد تھی اور بچے پیدا ہونے کی جو رفتار تھی اس کے لحاظ سے دس سال کے اندر پانچ ہزار کی تعداد کو حاصل کرنا کافی نہیں اور جبکہ خدا کے فضل سے جماعت کا عظیم الشان پھیلاؤ ہو چکا ہے اور روزانہ مجھے بچوں کے جس قدر نام رکھنے پڑتے ہیں وہی اتنے ہیں خدا کے فضل کے ساتھ کہ اب تک پانچ ہزار کیا ،اگر دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں چالیس ہزار بھی ہو جاتی تو مجھے تعجب نہ ہوتا.پس معلوم ہوتا ہے کہ دفتر سوم کی طرف غفلت کی گئی ہے.ہوسکتا ہے اس میں منتظمین کا بھی کچھ قصور ہو اور ہوسکتا ہے ہمارا بحیثیت جماعت یہ قصور ہو کہ ہم نے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت نہیں کی.تربیت کیلئے یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے کہ بچوں سے بہت بچپن ہی سے چندہ لینا شروع کرو.ان کو ہفتہ وار یاماہانہ کچھ رقم دو اور پھر ان سے کچھ خدا کے نام پر لو اور ان کو بتاؤ کہ ہم یہ کس غرض کیلئے لے رہے ہیں؟ اس لحاظ سے دفتر سوم کیلئے بہت ہی وسیع گنجائش موجود ہے اور اگر چہ یہ گنجائش پاکستان میں بھی ہے لیکن پاکستان سے بہت بڑھ کر غیر ممالک میں ہے.کیونکہ غیر ممالک کا چندہ عام اور چندہ وصیت اس وقت پاکستان کے چندہ عام اور چندہ وصیت سے دگنے سے بھی زائد ہے.لیکن ان کا چندہ تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے چندہ کا تقریبا نصف ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کم از کم چار گنا گنجائش موجود ہے.اسی طرح چندہ عام اور چندہ وصیت میں بھی ابھی بہت گنجائش ہے.اللہ کے فضل سے جماعتیں تیزی کے ساتھ چندہ با شرح دینے کی طرف آ رہی ہیں اور بہت خوشکن رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں.لیکن میرا جو ابتدائی جائزہ تھا اس سے یہی معلوم ہوا کہ ابھی بہت بھاری تعداد ایسی موجود تھی جو چندہ ادا ہی نہیں کر رہی تھی یا اگر ادا کرتی بھی تھی تو شرح کے مطابق نہیں دے رہی تھی اور چندہ دہندگان میں سے ایک بھاری تعداد ایسی تھی جس نے سرے سے تحریک جدید میں
خطبات طاہر جلد اول 258 خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۸۲ء شمولیت ہی نہیں کی.تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ تحریک جدید نے بیرونی آمد کو بڑھتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ اب تحریک جدید کے چندے کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں.اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے.قربانی کرنے والی کسی جماعت کو قربانی کی بعض راہوں سے محروم کر دینا بہت بڑا ظلم ہے.یعنی اچھے بھلے قربانی کرنے والے، نہایت مخلص لوگ ، دوسرے چندے دے رہے ہیں لیکن ان کو توجہ ہی نہیں دلائی جارہی کہ تم نے تحریک جدید کا چندہ بھی دینا ہے.ذرا سی توجہ دلائیں تو وہ بڑے جوش کے ساتھ آگے آئیں گے.دراصل ہوایہ کہ بیرون پاکستان جو اس وقت ہندوستان تھا جتنی جماعتیں تھیں ان میں جہاں تک تبلیغ کا اور تحریک جدید کے مشنز کا تعلق ہے ان کا تعلق صرف چندہ تحریک جدید سے تھا اور جہاں تک حصہ آمد اور چندہ عام کا تعلق ہے وہ صدر انجمن احمدیہ کے نام شمار ہوتا تھا.مگر کچھ عرصے کے بعد حضرت مصلح موعود کے وقت میں ہی انتظامی تبدیلی کی گئی اور تمام چندہ عام ہو یا چندہ وصیت، وہ تحریک جدید کی طرف منتقل کر دیا گیا.جب تک یہ نہیں ہوا تھا تحریک جدید کو فکر رہتی تھی کہ ہم نے اپنا خرچ کس طرح پورا کرنا ہے.اس لئے وہ تحریک جدید کے چندے کی طرف توجہ کرتی تھی جب اچانک ان کو Wind Fall درختوں کا جھاڑ.وہ پھل جو خود بخود نیچے آ رہتا ہے اس کو Wind Fall کہا جاتا ہے ) مل گئی تو ان کو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی سہولت حاصل ہوگئی.بہت سا زائد روپیہ جس کا ان کو گمان بھی نہیں تھا وہ ان کومل گیا اور انہوں نے کہا اب یہ تھوڑا سا تحریک جدید کا چندہ ہے، اس کی کیا ضرورت ہے اس کو بے شک چھوڑ دو.حالانکہ تحریک جدید کا تھوڑا سا چندہ جوان کو نظر آ رہا ہے اس کی تو کوئی بھی حقیقت نہیں.وہ بے شمار اخلاص جو ضائع ہو رہا ہے اس کی حقیقت ہے یعنی تھوڑے سے چندے کو دیکھتے رہے اور یہ نہ دیکھا کہ بے شمار اخلاص ہے جماعت کا جس کو یہ ضائع کر رہے ہیں.ان کو قربانی کے مواقع سے محروم کر رہے ہیں تحریک جدید کا کیا حق تھا کہ جماعتوں کو قربانی کی راہوں سے اپنی غفلت کی وجہ سے محروم کر دیں.اس لئے میں نے تحریک جدید میں ایک نئی وکالت قائم کی ہے تاکہ وکالت مال کا بوجھ بٹ جائے اور اب وکالت مال ثانی خالصہ بیرونی دنیا میں چندہ تحریک جدید کے لئے وقف ہوگی.یعنی اس کے آمد وخرچ کا حساب اس کے ساتھ متعلق ہوگا.اور بہت سے زائد بوجھ ان پر پڑے ہوئے تھے.
خطبات طاہر جلد اول 259 خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۸۲ء اب وہ ہٹا دیئے گئے ہیں.جہاں تک چندہ عام اور چندہ وصیت کا تعلق ہے آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ باوجود ان کمزوریوں کے جن کا میں نے ذکر کیا ، پاکستان کا چندہ ایک کروڑ چار لاکھ ہے.اس کے مقابل پر بیرونی دنیا کا دوکروڑ بیس لاکھ ہے یعنی دگنے سے بھی زائد ہے اور یہ سارا بجٹ نہیں ہے.جہاں تک بیرونی بجٹ کی کل آمد کا تعلق ہے وہ خدا کے فضل سے پانچ کروڑ ہو چکی ہے یعنی ایک لاکھ سے تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا جو اب خدا کے فضل سے پانچ کروڑ تک پہنچ چکا ہے لیکن تحریک جدید کے لحاظ سے یعنی چندہ تحریک جدید کے لحاظ سے غفلت کا یہ عالم ہے کہ یہاں یعنی پاکستان میں تو ہیں لاکھ سے زائد ہے (اس وقت تک خدا کے فضل سے توقع ہے بیس لاکھ سے زائد آمد ہو چکی ہوگی.) اور باہر صرف گیارہ لاکھ کے قریب ہے.اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے صحیح طور پر اس طرف توجہ نہیں کی.لیکن امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جب تحریک جدید کا یہ شعبہ، وکالت مال ثانی پوری طرح یہاں کی مشکلات اور ضروریات سے فارغ الذہن ہو کر بیرونی دنیا کی طرف توجہ کرے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت تیزی کے ساتھ وہاں چندے بڑھیں گے.اول تو مجھے توقع ہے کہ چندہ عام اور چندہ وصیت بھی بہت جلدی کم از کم ڈیڑھ گنا ہو جائے گا.اور اگر دو گنا بھی ہو جائے تو تعجب کی بات نہیں لیکن تحریک جدید میں تو بہت زیادہ گنجائش ہے.باہر کا جو گیارہ لاکھ ہے.اس کو ذراسی توجہ کے ساتھ پچاس ساٹھ لاکھ کیا جاسکتا ہے.اور ایسا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جو اس وقت کا بگڑا ہوا توازن ہے وہ درست اور برقرار ہو جائے گا اور بیرونی دنیا کی تحریک جدید کی قربانی بھی پاکستان کی قربانی کے مطابق ہو جائے گی.لیکن خود پاکستان میں بھی ابھی بڑی گنجائش موجود ہے.اس لئے جب ہم ان کو تیز کرینگے تو اپنے آپ کو نہیں بھلا سکتے.یعنی پاکستان میں بسنے والے احمدی بحیثیت پاکستانی احمدیوں کے اپنے آپ کو نہیں بھلا سکتے.میرا جائزہ یہ ہے کہ یہاں بھی دفتر سوم میں بڑی بھاری گنجائش موجود ہے.یہ کام میں لجنہ اماءاللہ کے سپر د کرتا ہوں کیونکہ اس سے پہلے دو دفتروں میں سے ایک دفتر یعنی دفتر اول خدام الاحمدیہ کی خصوصی تحویل میں دے دیا گیا ان معنوں میں کہ وہ چندوں کی طرف خصوصی توجہ کریں.دفتر دوم انصار اللہ کے سپرد کیا گیا کہ وہ اس طرف توجہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل
خطبات طاہر جلد اول 260 خطبه جمعه ۵ نومبر ۱۹۸۲ء سے انصار نے اس میں بڑی محنت سے کام کیا ہے.تیسرا دفتر ، دفتر سوم کسی ذیلی تنظیم کے سپردنہیں کیا گیا.ہوسکتا ہے یہ بھی وجہ ہو اس میں غفلت اور کمزوری کی.تو امید ہے کہ لجنہ اماءاللہ ، انشاء اللہ تعالیٰ بڑی تیزی کے ساتھ اس طرف توجہ کرے گی اور لجنہ کا تجربہ یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کی طرف توجہ کرتی ہیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مردوں کو شرمندہ کریں اور ان کو پیچھے چھوڑ جائیں.اور بسا اوقات وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں.اس لئے مرد بھی کمر ہمت کس لیں.جب وہ دوڑیں گی تو آپ کو بھی دوڑنا پڑے گا.آپ قوام ہیں.آپ کو اپنا وقار اور اپنا مقام قائم رکھنے کے لئے قربانیوں میں لازما آگے بڑھنا ہو گا.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کا ایک بہت ہی حسین منظر ہمارے سامنے آ جائے گا.یعنی جماعت کے تمام حصے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے دوڑ کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم دنیا کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہر آن بڑھتی ہوئی قربانی پیش کرتے رہیں.خدمت کے نئے نئے میدان ظاہر ہو رہے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں اور دنیا کی طرف سے آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ بلاوا دیا جا رہا ہے.آپ کو جو جماعت احمدیہ کے خدام ہیں ، جو جماعت احمدیہ کے انصار ہیں ، جو جماعت احمدیہ کی لجنات ہیں.دنیا کے ممالک آپ کو بلا رہے ہیں کہ آؤ اور ہمیں بچاؤ.اگر آپ نے اس آواز پر لبیک نہ کہا تو کوئی اور ایسا کان نہیں ہے جس کے پر دے اس آواز سے لرز نے لگیں اور یہ آوازان کے دلوں میں ارتعاش پیدا کر دے.اول تو ان کو کوئی بلا نہیں رہا اور اگر بلائے گا بھی تو سننے والے کان نہیں ہیں اور اگر سنے والے کان بھی ہوں تو وہ دل میسر نہیں ہیں جو خدا کی خاطر قربانیوں کے نام پر نہیجان پکڑ جاتے ہیں اور وہ اعضاء میسر نہیں ہیں جو عمل کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں.یہ توفیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا ہوئی ہے.اس لئے ساری دنیا کے تقاضے آپ نے ہی پورے کرنے ہیں.پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان پھیلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہمیں آگے بڑھنے اور لبیک لبیک اور اللھم لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:
خطبات طاہر جلد اول 261 خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۸۲ء آج چونکہ انصار اللہ کا اجتماع ہوگا جو غالباً ساڑھے تین یا پونے چار بجے شروع ہونے والا ہے، اس لئے سابقہ روایات کے مطابق ان دینی مصروفیات کے پیش نظر آج عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوگی.اس کے بعد جنہوں نے کھانا کھانا ہے یا دوسری ضروریات سے فارغ ہونا ہے، وہ فارغ ہو کر ( خدام اور انصار) زیادہ سے زیادہ تعداد میں مقام اجتماع میں پہنچ جائیں جو مسجد کے ساتھ ہی ملحق ہے.(روز نامه الفضل ربوه۲ / دسمبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 263 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۸۳ء معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد اور ہماری ذمہ داریاں (خطبه جمعه فرموده ۱۲ نومبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: الَّذِينَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُتِيَ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةَ " أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) اور پھر فرمایا: (الاعراف: ۱۵۸) میں نے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں قرآن کریم کی اس آیت کے مضمون کی طرف توجہ دلائی تھی جس میں دنیا کی زندگی کا تجزیہ پیش فرمایا گیا ہے اور یہ بیان کیا تھا کہ دنیا کی اسی زندگی کے استعمال سے اور اس میں دلچسپی لینے سے دو بالکل مختلف نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.عذاب شدید کا نتیجہ بھی جو دنیا و آخرت
خطبات طاہر جلد اول 264 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء دونوں سے تعلق رکھتا ہے اور مغفرت اور رضوان کا نتیجہ بھی جو دنیا و آخرت دونوں سے تعلق رکھتا ہے.مغفرت اور رضوان کا وہ نیک انجام کیسے حاصل کیا جائے اور آنحضرت علیہ نے ہمیں اس مغفرت اور رضوان کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں کیا سعی فرمائی ، اس کا ذکر اس آیت میں ملتا ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.یعنی دنیا کی زندگی کے تمام بد پہلوؤں سے بچنے کا بہترین ذریعہ کیا ہے ، اس کا پہلا حصہ قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے وہی لوگ ہیں جو زندگی کے بد پہلوؤں سے بیچ کر اس کے نیک اور پاکیزہ پہلوؤں کو اختیار کرتے ہیں.الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِي الَّذِى وہی لوگ اس عظیم الشان مطلب کو پا جاتے ہیں جو نبی امی حضرت محمد مصطفے علم کی پیروی کرتے ہیں.جس نظر سے اس نے دنیا کو دیکھا.جس طرح اس نے دنیا میں رہ کر دنیا سے پاک زندگی بسر کی اور حیات روحانی کا ایک عظیم الشان نمونہ قائم فرمایا اگر تم اس رسول کی پیروی کرو گے تو تم بھی دنیا کی ہر قسم کی بدی سے پاک رہو گے، اس کے شر سے بچے رہو گے اور اس کے نیک پہلوؤں سے استفادہ کرنے کے اہل قرار دیئے جاؤ گے.اس آیت میں آنحضرت عملے کی مساعی کا جو خلاصہ پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ آپ ہمیشہ نیک کاموں کا حکم دیا کرتے تھے يَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ اور برے کاموں سے اور بدیوں سے روکتے رہے.یعنی تمام زندگی آپ نے ہمیشہ نیک احکام جاری فرمائے اور برے کاموں سے روکا ، اور اپنے ماننے والوں پر طیبات کو حلال کیا اور خبائث کو حرام قرار دیا.یعنی آپ کی تعلیم میں زندگی کے سارے اچھے پہلو موجود ہیں اور زندگی کے سارے بد پہلوؤں سے نجات بخشی گئی ہے.زندگی کے ہر مختلف شعبہ میں خواہ وہ ماکولات سے تعلق رکھتا ہو یعنی کھانے پینے کی چیزوں سے یا پہنے اوڑھنے سے یا معاشرہ سے.ہر پہلو میں طیبات بھی ملتی ہیں اور خبائث بھی ملتی ہیں تو آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ اپنے ماننے والوں پر یہ دونوں امور کھول دیتا ہے، کوئی لگی لپٹی باقی نہیں رکھی، کوئی مخفی راز نہیں رہنے دیا، زندگی کے تمام برے پہلوؤں سے خوب اچھی طرح آگاہ فرما دیا اور زندگی کے تمام اچھے پہلوؤں سے بھی خوب کھول کر آگاہ فرما دیا.اور صرف یہی نہیں بلکہ ان برائیوں سے بچنے میں ان کی مدد کی.چنا نچ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ میں ایک عجیب
خطبات طاہر جلد اول 265 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء نقشہ کھینچا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی مساعی محض تعلیم کی حد تک نہیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو بلکہ جہاں بوجھ اترنے کا سوال ہے یعنی وہ گندی عادتیں، وہ بدیاں جو انسان کو چھٹ جاتی ہیں ، وہ محض تعلیم سے دور نہیں ہوا کرتیں حضرت محمد مصطفے ﷺ نے خود وہ عادات دور کروائی ہیں.کس طرح دور کروائیں اس مضمون کو قرآن کریم کئی دوسری جگہ بیان فرمارہا ہے.دعاؤں کے ذریعہ، اپنے پاک نمونہ کے ذریعہ، اپنی قوت قدسیہ کے ذریعہ جو دعا اور پاک نمونہ سے الگ ایک تیسری چیز ہے.یہ ایک ایسی روحانی قوت ہے جو نیک بندہ کو عطا کی جاتی ہے اور براہ راست اصلاح کرتی ہے جیسا کہ فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ التِهِ وَيُزَكِّيهِم ( الجمعة (۳) یعنی تعلیم و حکمت کتاب تو بعد کی باتیں ہیں یہ خدا تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ نفس شروع کر دیتا ہے تو یہاں ضمیر يَضَعُ عَنْهُمْ اصْرَهُمْ کی اُن لوگوں کی طرف نہیں پھیری جن پر بوجھ پڑے ہوئے ہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم سے مستفید ہو کر اپنے بوجھ اتار پھینکتے ہیں.یہ نہیں فرمایا گیا.فرمایا محمد مصطفے عملہ نیکیوں اور بدیوں کی را ہوں کو خوب کھولنے کے بعد پھر اپنے ماننے والوں کی مددفرماتے ہیں اور اپنی طرف سے اپنی کوشش اور جدو جہد سے ان کو پاک کرتے ہیں.اس موقع پر بجلی کی رو بند ہو جانے پر جنریٹر چلانے میں تاخیر ہوگئی حضور نے محترم ناظر صاحب اصلاح وارشاد کو یہ ہدایت فرمائی کہ نیا بیری سسٹم فوری جاری کریں اور بجلی کی روبند ہو جانے پر یہ متبادل انتظام فوری طور پر عمل میں آجایا کرے تا کہ جماعت کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو.ناقل ) پس يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ وَالْأَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ میں جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کتاب کے بعد اور اس کی حکمتیں بیان فرمانے کے بعد آنحضور ﷺ اپنی قوت قدسیہ کے ساتھ اور ذاتی مساعی کے نتیجہ میں قوم کو ان مصیبتوں سے نجات بخش رہے ہیں جن مصیبتوں میں وہ قوم خود صدیوں سے مبتلا ہے ، اور یہ پہلو بہت ہی عظیم الشان حکمت کا پہلو ہے جو تمام مربیان کے لئے اختیار کرنا ضروری ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی اصلاح کے لئے مقرر کئے گئے ہیں تو ہر گز یہ مراد نہیں ہے کہ دنیا کو صرف اس کی نیکیوں اور اس کی بدیوں کی راہوں سے آگاہ کر دیں اور پھر بے نیاز ہو کر بیٹھ جائیں کیونکہ دنیا کو نیکیوں اور بدیوں کی راہیں معلوم بھی ہوں تو وہ نہ بدیوں کی راہوں سے بچ سکتی ہے
خطبات طاہر جلد اول 266 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء نہ نیکیوں کی راہوں کو اختیار کرسکتی ہے.دنیا کی وہی کیفیت ہوتی ہے کہ: جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر آتی نہیں (دیوان غالب) یعنی مجھے تم کیا بتاتے ہو کہ بدی کی راہ کیا ہے اور نیکی کی راہ کیا ہے مجھے اس بات کا علم تو ہے لیکن طبیعت ادھر نہیں آتی.اب دنیا میں جتنے بھی Drug Addicts یعنی خطرناک نشوں کے عادی لوگ ہیں جو لاکھوں، کروڑوں اربوں روپیہ ایسی زہریلی دواؤں پر خرچ کر رہے ہیں جن سے وقتی طور پر ان کو خمار آجاتا ہے، مستی آجاتی ہے.بعض دفعہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہلکے پھلکے ہو گئے ہیں اور او پراڑ رہے ہیں.اس قسم کی وقتی اور آنی جانی کیفیات ہیں جو وہ اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں.ان کو یہ خوب علم ہے کہ ان لوگوں کا کتنا خطرناک انجام ہوتا ہے.یا وہ پاگل ہو کر مر جاتے ہیں یا ہزار قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.ان کے اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں.وہ دوائیاں ان کو نہیں مل سکتیں پھر وہ جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے بھیا نک جرائم کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ دوائی حاصل ہو جائے.یہ تو نہیں کہ ان کو علم نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں پر طبیعت ادھر نہیں آتی.طبیعت میں جو کچی پیدا ہو جاتی ہے یا بدی کی لذت پیدا ہو جاتی ہے وہ لذت ان کو برائیوں پر مجبور کرتی رہتی ہے.جماعت احمدیہ کو اس آیت نے یہ مضمون سکھایا کہ حضرت محمد مصطفے عملہ محض تعلیم کی حد تک نہیں رہے بلکہ ایک پاک نمونہ قائم کیا اور اس قوت قدسیہ سے کام لیا جو پاک نمونہ اور دعاؤں کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے جب آسمان سے دعا کی قبولیت ہوتی ہے اور پاک نمونہ انسانی اعمال کی شکل میں ظاہر ہورہا ہوتا ہے تو اس امتزاج کے نتیجہ میں ایک تیسری قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کو قوت قدسیہ کہا جاتا ہے اس قوت قدسیہ کے بغیر دنیا میں کبھی کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں ہوئی نہ پیدا ہوسکتی ہے.تمام دنیا میں مختلف مذاہب آئے ، ان کے اندر پاک تعلیمات موجود ہیں.یہ درست ہے کہ اسلام کے مقابل پر ان کی کوئی حالت نہیں.وہ بہت ادنی ، بہت کمزور اور ناقص تعلیم رکھنے والے مذاہب ہیں لیکن جتنے بھی ہیں ان میں نہایت پاکیزہ تعلیمات بھی موجود ہیں.مثلاً دنیا میں شاید ہی کوئی مذہب ہو یعنی آج کی دنیا میں بگڑی ہوئی شکل میں بھی شاید ہی کوئی مذہب ہو جس نے جھوٹ کی
خطبات طاہر جلد اول 267 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء تعلیم دی ہو یہ بد قسمتی ہے کہ نعوذباللہ من ذلک اسلام کی طرف اسلام کے ماننے والوں میں سے بعض نے یہ تعلیم منسوب کر دی کہ بعض اوقات جھوٹ واجب ہو جاتا ہے.(فتاوی رشید یہ از حافظ رشید احمد گنگوہی ص 545) حالانکہ یہ ایک ایسی کریہہ المنظر چیز ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کا آپ جائزہ لیں ان کی بگڑی ہوئی شکلوں میں بھی جھوٹ کی تعلیم نہیں ملتی.گو بعض حصوں میں ظلم کی تعلیم ملتی ہے لیکن بگڑی ہوئی صورت میں.لیکن ان کے ماخذ کا مطالعہ کریں تو وہاں ظلم کی تعلیم بھی نہیں ملتی.عدل مالتا ہے، انصاف ملتا ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت ملتی ہے، بنی نوع انسان سے پیار ملتا ہے.یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو تمام مذاہب کا سرمایہ ہیں لیکن ان کے ماننے والوں میں کہاں پائی جاتی ہے.اگر آج ان نیک باتوں پر ہی دنیا کے مذاہب کے پیرو کار عمل کر لیں تو چھوٹی جنت ہی سہی مگر دنیا جنت ضرور بن جائیگی.ویسی عظیم الشان جنت نہ سہی جو حضرت محمد مصطفے ﷺ کی تعلیم سے پیدا ہوتی ہے کچھ نہ کچھ جنت کے آثار ضرور ظاہر ہوں گے.اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹی چھوٹی جنتیں ضرور بن جائیں گی.اسی لئے قرآن کریم ان قوموں کو جن کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی، مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اگر تم سچے ہو اور خلوص رکھتے ہو تو اس تعلیم پر تو عمل کرو جو تمہیں دی گئی تھی اگر وہ محض نا کا رہ تعلیم ہوتی تو قرآن کریم یہ حکم کبھی نہ دیتا.پس ساری دنیا میں تعلیم موجود ہے.آج بھی وہی قرآن کریم ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قلب صافی پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.تو تعلیم تو موجود ہے اس کی حکمتیں بھی موجود ہیں.احادیث میں موجود ہیں.قرآن کریم کی بعض آیات خود بعض دوسری آیات کی حکمتیں بیان کرتی ہیں.لیکن معاشرہ کا کیا حال ہے.اس کا انگ انگ دکھ رہا ہے.یہ ایسا بگڑا ہے کہ اس کی اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.کیوں؟ اس لئے کہ وہ وجو د نہیں ہے جو يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ کی رو سے خود محنت کر کے لوگوں کے بوجھ اتارتا تھا اور ان طوقوں سے نجات بخشتا تھا جو ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے تھے.پس جماعت احمدیہ نے اگر مر بی بننے کا حق ادا کرنا ہے تو اسے یہ مزید محنت کرنی پڑے گی اپنے اعمال کو پاک کرتے ہوئے ، دعاؤں سے مدد مانگتے ہوئے وہ قوت اپنی ذات میں پیدا کرنی پڑے گی جو قوت بدیوں کو دور کیا کرتی ہے، محض تعلیم دور نہیں کیا کرتی.
خطبات طاہر جلد اول 268 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۸۲ء اگر چہ سارے معاشرے میں اصلاح کے لئے محنت کی ضرورت ہے لیکن مجھے اس وقت ان بدیوں کی فکر ہے جو جماعت احمدیہ کے اندر داخل ہو رہی ہیں.باقی دنیا کا کام بھی ہم نے ہی کرنا ہے لیکن پہلے اپنے بوجھ تو اتاریں، پہلے اپنی کمزوریاں تو دور کریں اس کے بعد ہم دنیا کو دعوت دیں گے کہ آؤ دیکھو! ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے وہ پاک معاشرہ قائم کر لیا ہے تم بھی ہمارے پیچھے آؤ اور اس جنت میں داخل ہو جاؤ.اس آواز سے پہلے جو دنیا میں گویا ایک صلائے عام ہو گی، جو دنیا کے چاروں کونوں میں گونجے گی، احمدیت کو تیاری کرنی چاہئے.وقت کے ساتھ جو بدیاں دخل انداز ہو جاتی ہیں اگر ہم نے زندہ اور باشعور قوموں کی طرح ان کا مقابلہ نہ کیا تو پھر دنیا کے معلم نہیں بن سکتے پھر تو ہم پر وہی مثال صادق آئے گی کہ Physician Heel Thyself اے علاج کے دعویدار ! پہلے اپنا تو علاج کر.ہمارے ایک احمدی دوست تھے ان کی گنج دور کرنے کی دوا بڑی مشہور تھی اور انہوں نے اس سے بہت کمایا.اور دنیا میں ایسے گنجے کم دیکھنے میں آتے ہیں جیسے وہ خود تھے یعنی بارڈر پر بھی بال نہیں تھے اور وہ پگڑی پہنے ہوئے اور سجے ہوئے بیٹھے گنج کا علاج کیا کرتے تھے.بڑی دور دور تک ان کی شہرت پائی جاتی تھی.تو جس نے ان کو نہیں دیکھا اور ان کے اشتہار پڑھے ہیں وہ تو بیچارا پیسے خرچ کر دیتا ہوگا بال اگیں یا نہ اگئیں.لیکن جس نے ایسے طبیب کو دیکھا ہو وہ تو یہی کہے گاPhysicianHeel Thyself او میرے طبیب حاذق ! پہلے اپنا تو علاج کر.تیرے سر پر تو ایک بال نہیں ہے تو ساری دنیا کو بال اگانے کی دعوت دے رہا ہے.پس یہی مثال ان قوموں پر صادق آتی ہے جو دنیا کی تعلیم وتربیت کے بلند دعاوی کرتی ہیں اور اپنے معاشرہ میں جو خرابیاں داخل ہو رہی ہوتی ہیں ان سے لا پرواہ ہو جاتے ہیں.مجھے بڑی کثرت سے خط آتے ہیں جب کسی احمدی کو کوئی تکلیف ہوتی ہے ہماری بہن کو ، ماں کو بیٹی کو، بھائی کو، باپ کو، کسی کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو وہ مجھے لکھتا ہے.چنانچہ روزانہ کثرت سے ایسے خط سامنے آتے ہیں جن سے معاشرہ کے دکھ معلوم ہوتے ہیں اور پتہ لگتا ہے کہ معاشرہ کس قدر مصیبت میں مبتلا ہے.جہاں تک بیرونی معاشرہ کا تعلق ہے مجھے یہ موازنہ ہرگز تسلی نہیں دے سکتا کہ ہم ان سے بہتر ہیں، ان سے چند حصے بہتر ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا، میرے ذہن میں تو معیار ہے حضرت محمد
خطبات طاہر جلد اول 269 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء مصطفی ﷺ کا اور اس معاشرہ کا جو آپ پیدا کرنا چاہتے تھے مگر اس سے ہم بہت پیچھے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ بعض باتوں میں نیچے کی طرف نگاہ کرنی چاہئے تا کہ حسد پیدا نہ ہومگر بعض باتوں میں اوپر کی طرف نگاہ کی جاتی ہے.پس جہاں تک اسوہ حسنہ کا تعلق ہے وہ ایک ہی ہے یعنی حضرت محمد مصطفی عملے کا.ہمارے اپنے پیمانے ، ہماری ذاتی اصلاح کے پیمانے ، سب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پیمانے پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں.وہی ایک کسوٹی ہے.جب ہم معاشرہ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو بے انتہا بیماریاں اور دکھ اور تکلیفیں نظر آتی ہیں.اس وقت دو تین بنیادی باتوں کی طرف میں جماعت احمدیہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی فکر کریں ورنہ دنیا اور آخرت دونوں میں شدید نقصان اُٹھائیں گے.جائیدادوں کی تقسیم کے جھگڑے ہیں.مالی لین دین کے جھگڑے ہیں.دو دوست شریک ہو جاتے ہیں ، بڑی محبت اور خوشی کے ساتھ آپس میں پیسے ڈال لیتے ہیں کہ چلومل کر کام کریں.چند دن تک بڑا پیارا ماحول رہتا ہے پھر کچھ دیر کے بعد اختلافات شروع ہو جاتے ہیں.پھر بدظنیاں شروع ہو جاتی ہیں.پھر وہ کہتے ہیں کہ اچھا اب الگ ہو جاؤ.الگ تو ہو جاتے ہیں لیکن شروع میں اعتماد کا جو دور تھا وہ ان کے لئے مصیبت بن جاتا ہے.قرآن کریم تو فرماتا ہے چھوٹی بات ہو یا بڑی بات ہو مالی لین دین کو فَاكْتُبُوہ اس کو لکھ لیا کرو.اس بات کو وہ بھلا دیتے ہیں اور ظاہری اعتماد جو شروع کا چلتا ہے اور بڑا پاکیزہ ماحول اور بھائی بہن بن جاتے ہیں ، گھروں میں آنے جانے شروع ہو گئے ، جی کہ مشترکہ کام شروع ہو گیا ہے اور قرآن کریم کی اس ہدایت کو کہ لین دین کو لکھ لیا کروعملاً تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں زبانی باتوں پر چلتے ہیں.جب اختلاف شروع ہوتے ہیں تو ساری زبانی با تیں یا تو بھول چکی ہوتی ہیں یا ایک شخص کو عمداً جھوٹ بولنے کا موقع مل جاتا ہے اور معاشرہ میں بہت بڑی مصیبت پیدا ہو جاتی ہے.علیحدہ ہور ہے ہیں لیکن کوئی حساب کتاب نہیں.کوئی کہتا ہے تم نے یوں کر لیا تھا کوئی کہتا تم نے یوں کر لیا تھا.کوئی کہتا ہے تم نے زیادہ فائدے اٹھائے تھے.اگر اس وقت محبت کے نتیجہ میں وہ فائدے برداشت ہورہے تھے تو اب پھر ان پر اعتراض کا حق نہیں ہے.اور اگر وہ ایسے فائدے تھے جو قابل اعتراض تھے تو لین دین کے حساب میں اس کو شامل ہو جانا چاہئے تھا مگر یہ تفصیلات میرے ذہن میں نہیں ہیں میں تو صرف آپ کو مثالیں دے رہا ہوں کہ اس قسم کی باتوں میں قرآن کریم کی تعلیم سے انحراف کے نتیجہ میں بہت بڑے مصائب ہیں جو معاشرہ
خطبات طاہر جلد اول 270 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء میں داخل ہو گئے ہیں.لیکن جب اس سے آگے چلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر بعض جھگڑالو لوگوں میں تقویٰ میں کمی ہے.بنیادی طور پر ان میں سچائی کی کمی ہے.کیونکہ اگر پورا تقوی موجود ہو اور سچائی کی عادت ہو تو کسی قسم کے اختلاف میں بھی تلخی نہیں ہوسکتی.اگر ایسی غلطی صرف ایک فریق سے ہوتی ہے تو دوسرا فریق اللہ تعالیٰ کے حضور ضرور بری الذمہ ہوگا.مگر بعض معاملات جو میرے سامنے آتے ہیں ان میں بدقسمتی سے اکثر دونوں طرف ہی تقویٰ کی کمی کے آثار ملتے ہیں.اگر تو یہ صورت حال ہو کہ جماعت کے تمام جھگڑوں میں ایک فریق کلیۂ پاک وصاف ہو، متقی ہو اور دوسرے فریق ہی کی وجہ سے ساری شرارت ہو پھر کم سے کم اتنی تسلی تو ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے نصف اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل ٹھیک اور پاک ہیں.لیکن اگر دوسری طرف بھی لالچ اور حرص و ہوا اور گندگی اور جھوٹ کی کچھ ملونی پائی جائے تو پھر تو ساری جماعت کے جھگڑے کرنے والوں کے اندر یہ بد بختی داخل سمجھی جائے گی.یہ درست ہے کہ ایسے جھگڑے کرنے والے نسبتاً بہت کم ہیں.یہ درست ہے کہ جتنے جھگڑے کرنے والے ہیں ان میں سے سامنے صرف وہی آتے ہیں جن میں اختلاف اس حد تک آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں.لیکن جتنے آتے ہیں ان کے اندر یہ منظر ہمیں ضرور ملتا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وراثت کے جھگڑے ہوں، اشتراک کے جھگڑے ہوں، یہ جتنے بھی جھگڑے ہیں ان میں جیسا کہ میں نے پچھلی آیت میں واضح کیا تھا آپ کے لئے دو ہی طریق ہیں یا تو عذاب شدید اپنے لئے حاصل کر لیں اور یا مغفرت اور رضوان کی طرف قدم اٹھائیں تیسری کوئی راہ قرآن کریم نے بیان نہیں کی.اگر آپ یہ سمجھیں کہ ان جھگڑوں کے نتیجہ میں آپ کو کچھ حاصل ہو جائے گا یا جھوٹ بولنے کے نتیجہ میں یا چرب زبانی کے نتیجہ میں کسی دوسرے کی جائیداد کا حق ایک فریق لے لے گا تو اس کے متعلق تو اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نارا (النساء:1) وہ تو آگ کھاتے ہیں.آنحضرت علی نے فرمایا کہ اگر ایک چرب زبان و جھگڑے کو اس رنگ میں پیش کرتا ہے اور واقعات کی اس طرح تلبیس کر دیتا ہے کہ میں اس پیش کردہ صورت حال کے پیش نظر غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں اور مظلوم کی چیز غاصب کو دلوا دیتا ہوں تو فر ما یاوہ یہ نہ سمجھے کہ میرے فیصلہ کے نتیجہ میں اسے کوئی نعمت مل گئی ہے اس فیصلہ کے نتیجہ میں وہ آگ خریدتا ہے اور آگ کا ٹکڑا اپنے پیٹ کے لئے پال رہا ہے اس سے زیادہ اسے کچھ بھی نصیب نہیں ہوا.
خطبات طاہر جلد اول 271 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۸۲ء غرض امر واقعہ یہ ہے کہ قضا کا فیصلہ ہو یا ثالث کا فیصلہ ہو یہ بالکل ایک الگ چیز ہے.یہ طریقے تو نظام کے اندر آرڈر پیدا کرنے کے لئے ہیں تا کہ کسی طریق سے آخر جھگڑے نپیٹیں اور سوسائٹی ہلکی پھلکی ہو کر آگے کی طرف بڑھنا شروع کرے لیکن ان فیصلوں کے باوجود یہ امر اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور عذاب کو مستلزم ہوتا ہے کہ ان جھگڑوں کے دوران بعض فریق نے جھوٹ بولا ، بعض نے ظلم سے کام لیا، بعض نے تعدی کی بعض نے دست درازیاں کی ہیں اور اس کے نتیجہ میں سوسائٹی کو ایک دکھ پہنچا ہے.اور اگر ایسا کرنے والے اس چیز سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ (الحديد: ۲۱) کہ آخرت میں ان کے لئے عذاب شدید ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس آخرت سے مراد اس دنیا کا انجام بھی ہے.کیونکہ آخرت کے محاورہ سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسان جس انجام کو پہنچا ہے اس کے لیے بھی آخرت کا لفظ استعمال ہوا ہے.اسی دنیا میں بسنے والوں کے لئے بھی اخرین کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسری دنیا کے لئے آخرت کا لفظ استعمال ہوا ہے.پس یہ جو خرابیاں ہیں اگر ان کی اصلاح نہ کی جائے تو سارے معاشرہ کو عذاب میں مبتلا کر دیتی ہیں.آپ قتل و غارت کی جو خبریں سنتے ہیں.بعض زندہ لوگوں کی آنکھیں نکال دی گئیں.جائیداد کے بعض جھگڑوں میں معصوم بچے ذبح کئے گئے اس لئے کہ وہ بڑے ہو کر جائیداد کا مطالبہ نہ کر سکیں اور پھر اس کے نتیجہ میں معاشرہ پر عاید ہونے والے دیگر مظالم اور انتقام در انتقام کی دیگر کارروائیوں کی وجہ سے بعض گھر کے گھر اجڑ گئے ہیں اور بڑے بڑے خاندان تباہ ہو گئے ہیں اور بعض علاقوں کے علاقے تباہ ہو چکے ہیں.ایک یہ عذاب شدید ہے جسے وہ دیکھتے ہیں.پھر اس قسم کی ناجائز کمائی کے ذریعہ روپیہ ہتھیانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.ان لوگوں کی زندگیاں چین میں نہیں کٹتیں نہ ان کے مقدر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطمینان لکھا جاتا ہے نہایت حسرت کی حالت میں ساری عمر کے جھگڑوں میں مبتلا ہو کر کوئی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہو کر اور کوئی کسی اور طریق سے آخر مر جاتا ہے.کچھ حاصل بھی کر لے تو اس کو چین نصیب نہیں ہوتا.اس کے گھروں میں بیماریاں پڑ جاتی ہیں.اور سوطریق پر اللہ تعالیٰ اس چین کو چھین لیتا ہے جسے وہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ میں مبتلا ہوتا ہے.کبر میں مبتلا ہوتا ہے.انانیت میں مبتلا ہوتا ہے.ہزار قسم کی بدیوں کے
خطبات طاہر جلد اول 272 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء نتیجہ میں وہ جھگڑے کرتا ہے اور آخر سب کچھ چھوڑ کر چلا جاتا ہے.بعض دفعہ ابھی فیصلے نہیں بھی ہوئے ہوتے تو اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوتا ہے اس وقت اسے پتہ چلتا ہے کہ میرا ہے ہی کچھ نہیں محض ایک تماشہ تھا.میں نے چند دن شور شمار ڈالا ہے اور اب حسرتیں لئے ، بیماریاں لئے ، دکھ لئے اور ایک جھگڑا کرنے والی اولاد پیچھے چھوڑتے ہوئے جو برکتوں سے محروم ہو چکی ہے.جو نیکیوں کی لذتوں سے نا آشنا ہو چکی ہے دنیا کو چھوڑ رہا ہوں میں یہ جھگڑے اور ذلالتیں اور یہ عذاب اپنی اولا د کو ورثہ میں دے کر اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں.اس سے زیادہ کچھ بھی اس کی زندگی کا ماحصل نہیں ہوتا اور اس کے بعد جو دوسری آخرت آنے والی ہے اس میں اور بھی شدید تر عذاب اس کے مقدر میں لکھا جاتا ہے.اس کے بدلہ بعض لوگ محض اللہ ، اللہ کی رضا کی خاطر دکھ برداشت کر لیتے ہیں وہ کہتے ہیں جس طرح ہو جھگڑا نپٹا ؤ ختم کرو اس معاملہ کو اور رضائے باری تعالیٰ کی خاطر وہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ان کے حقوق ہیں پھر بھی ان کو چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مغفرت ہے اور رضوان ہے.اس دنیا میں بھی انجام کا روہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا سلوک پائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے رستے دیکھیں گے.خدا ان کو رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے گا اور آخرت میں رضا کی جنت سے بہتر اور کوئی جنت متصور ہی نہیں ہو سکتی.اگر آخرت میں مغفرت مل جائے اور رضوان مل جائے تو اس سے اچھا سودا اور کیا ہوسکتا ہے.مغفرت کا تعلق اصل میں انصاف سے ہے.مغفرت کہتے ہیں حق چھوڑنے کو.یعنی اس کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا حق بندہ کے لئے چھوڑ دیتا ہے ورنہ گناہگار انسان تو خدا کی چھری کے نیچے آچکا وہ جب چاہے چلے اس کو کوئی روک نہیں سکتا مگر وہ چھری رکی رہتی ہے.خدا اپنا حق نہیں دیتا.اس کا نام مغفرت ہے.تو جو لوگ بجائے اس کے کہ اپنا حق چھوڑیں وہ ظلم سے دوسرے کا حق لیتے ہیں وہ مغفرت کے نیچے کس طرح آسکتے ہیں.جن کی چھری ناحق بھی دوسروں پر چلتی ہے.ظالم لوگ نا طاقت لوگوں پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہمیں ایک بہت عظیم الشان قوت حاصل ہوگئی.اس نے ہمارا کیا کر لیا.ہماری طاقت زیادہ ہے یہ کچھ بھی ہمارا بگا ڑ نہیں سکا.وہ دنیا کی زندگی کے چند دن اس کی جائیداد کھاتے ہیں اور بظاہر مزے اڑا رہے ہوتے ہیں.لیکن حقیقت میں اگر آپ ان کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو وہ مزے دنیا کی ظاہری آنکھ کے مزے ہیں.لیکن کرتے کیا ہیں.وہ اپنی
خطبات طاہر جلد اول 273 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء چھری لوگوں سے روکنے کی بجائے ناجائز ان کی گردنوں پر چھریاں پھیر رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگوں سے مغفرت کا سلوک ہو کیسے سکتا ہے؟ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ تم اپنا حق تو نہ چھوڑو خدا کی خاطر اور لوگوں کے حق غصب کرو بے پرواہی کرتے ہوئے اپنے رب سے اور پھر توقع یہ رکھو کہ جو تم نے خدا کے حق مارے ہوئے ہیں جب خدا کے حضور حاضر ہو گے تو وہ اپنے حق تمہیں چھوڑ دے گا.یہ نہیں ہوسکتا.قرآن کریم کا سارا نظام ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ یہ بات جھوٹی ، یہ تصور جھوٹا ہے.دنیا میں جو رحم کرتا ہے اس پر رحم کیا جائے گا.جوخدا کی خاطر مغفرت کرتا ہے اس سے مغفرت کی جائے گی.جو بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے حقوق ادا فرمائے گا.اپنی جنت بنانی یا بگاڑنی ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے.اس نظام کے بعد فضل کا دور شروع ہوتا ہے جو ان عارضی چیزوں کو بے انتہا وسعتیں عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی لا متناہی کر دیتا ہے مگر اس سے پہلے نہیں پہلے انسان خود اپنے اعمال سے ان جنتوں کا حقدار بنتا ہے پھر اس کو بڑی وسعت کے ساتھ یہ جنتیں عطا ہوتی ہیں.پس یہ چیزیں جو ہمارے معاشرہ میں جڑ پکڑ رہی ہیں لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس طرف توجہ کریں.میں خوب کھول کر جماعت کے سامنے بیان کر دیتا ہوں کہ آپ کو نیک کاموں کی توفیق مل ہی نہیں سکتی جب تک ان مصیبتوں سے نجات نہ پائیں.قرآن کریم نے اس کا یہ نقشہ کھینچا ہے يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِم وہ قوم جس کی گردن میں طوق پڑے ہوئے ہوں وہ ترقی کس طرح کر سکتی ہے، وہ آگے کس طرح بڑھ سکتی ہے.جن لوگوں نے بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں اور ان کی کمریں دہری ہو رہی ہوں وہ دنیا کو ساتھ لے کر کس طرح چلیں گے.آنحضرت ﷺ کا وجود ہلکا اور پاک تھا تب آپ نے دوسروں کے بوجھ اٹھائے ہیں، تب آپ ساری دنیا کے بوجھ اٹھانے کے لائق بنے.جب تک آپ اپنے وجودوں کو پاک اور ہلکا نہیں کرتے آپ کس طرح دنیا کے بوجھ اٹھا سکیں گے.اس وقت تو کیفیت یہ ہے کہ ہم اپنی جماعت کے بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہیں جب تک ہم یہ جھگڑے پوری طرح نپٹا نہیں لیتے.بڑے عظیم الشان کام ہمارے سامنے پڑے ہوئے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ ہم نے سفر کرنے ہیں، آپ نے جھگڑوں کی یہ پنڈیں ، یہ گٹھڑیاں ساتھ لئے تو نہیں پھرنا.اسلام کی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہورہے ہوں اور تیز
خطبات طاہر جلد اول 274 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۸۲ء رفتاری سے قدم اٹھانے کے دعوے ہوں اور گندگیوں کے ڈھیر اور جھگڑوں کی مصیبتوں ( پنجابی میں کہتے ہیں پنڈیں یعنی گھڑیاں مگر پنڈ میں جو لفظ کا مزہ ہے وہ گٹھڑی میں نہیں ہے بوجھ کے ساتھ لفظ پنڈ ہی دماغ میں آتا ہے.) کا بوجھ ایک گٹھڑی بنا ہوا سر پر لدا ہواور انسان شاہراہ ترقی اسلام پر گامزن ہو یہ نہیں ہوسکتا کبھی گردنوں میں طوق لے کر بھی لوگوں نے دنیا کو مصیبتوں سے آزاد کروایا ہے آپ نے تو دنیا کو آزاد کروانا ہے.آپ نے قوموں کی رستگاری کا موجب بنتا ہے.آپ خودان بندھنوں میں گرفتار ہوں تو کس طرح قوموں کو آزاد کروائیں گے اس لئے آپ یہ بھی جان لیں کہ اس کے نتیجہ میں جماعت کو جو نقصان پہنچتا ہے اسکا بوجھ بھی ان لوگوں پر پڑتا ہے یعنی دو طرح کے عذاب ان کے مقدر میں لکھے جاتے ہیں.ان کے جھگڑوں کے نتیجہ میں اگر ایک جماعت میں مثلاً سو کی جماعت ہے چار بھی جھگڑے والے پیدا ہو جائیں تو ساری جماعت برکتوں سے محروم ہو جاتی ہے.ایک اس فریق کی طرف ہو جاتا ہے دوسرا دوسرے فریق کی طرف ہو جاتا ہے.نیک کاموں سے محروم ، نیک خیالات سے محروم ہو جاتے ہیں.ساری عمر اپنے جھگڑوں میں مبتلا ، اپنے تصورات میں مبتلا کہ کس طرح فریق ثانی کو شکست دی جائے، گواہیاں اکٹھی کر رہے ہیں ،سارا روپیہ، سارا وقت برباد کر رہے ہیں.ان کو خدمت دین کی توفیق کس طرح مل سکتی ہے.ان باتوں سے دماغ پاک ہو ہلکا پھلکا ہو خدمت دین اور جماعت کی ترقیات کی سکیمیں سوچے تو کوئی لطف بھی ہے.ہر وقت کا یہ جھگڑا سر پر سوار، مقدمہ بازیاں ،ہمصیبتیں اور پھر فیصلے ہوتے ہیں تو عمل نہیں کرتے کہتے ہیں ایک ثالثی پر ایک اور ثالثی بٹھائی جائے ، اس پر ایک اور بٹھائی جائے.دس دس فیصلوں کے بعد آخر یہ درخواست کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت کو کہا جائے کہ آپ ہمارا فیصلہ کریں یعنی خلیفہ وقت کا کام ہی اور کوئی نہیں ہے سوائے اسکے کہ آپ کی مصیبتیں بھی وہ اپنے سر سہیڑ لے اور دین کے کاموں میں اپنے دماغ کو صرف کرنے کی بجائے محض آپ کے جھگڑوں کے فیصلے نپٹانے میں غلطاں ہو جائے.اس کا کام یہ تو ہے کہ آپ کو پاک کرنے کی کوشش کرے، آپ کو ان جھگڑوں سے ، آپ کے ذاتی تقویٰ کے معیار کو بلند کر کے آزاد کرانے کی کوشش کرے مگر یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ایک قاضی بن کر ہر وقت آپ کے جھگڑوں میں مبتلا رہے.بعض جگہ بے انتہا ضد نظر آتی ہے.بعض جگہ انا نیت نظر آتی ہے کہ اگر ہم جھک گئے.ہم
خطبات طاہر جلد اول 275 خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۸۲ء نے دوسرے فریق کے سامنے حساب پیش کر دیئے تو گویا ہماری ناک کٹ گئی ہم ذلیل ہو گئے.تو اس کے لئے دو باتیں میرے سامنے ہیں اول تو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنے نفس پر غور کریں اور جہاں تک ممکن ہے اپنے موقف کی اصلاح کریں، اپنے مطالبات کو درست کریں اور کوشش کریں کہ مصالحت کے ذریعہ ، افہام و تفہیم کے ذریعہ یہ سارے معاملات طے ہو جا ئیں.اگر یہ نہیں ہوسکتا اور ہر فریق یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے کی غلطی ہے.بعض دفعہ دیانتداری سے سمجھ رہا ہوتا ہے تو پھر سب سے آسان طریق یہ ہے کہ Irrevocable ثالثی اختیار کر لے یعنی ناقابل تنسیخ ثالثی مان لے جس کو عدالت بھی تسلیم کرتی ہے اور پھر اس کی تنفیذ کرواتی ہے.اگر دونوں فریق متقی ہیں اور ان کو خوف ہی کوئی نہیں اور ثالث مل کر بنانا ہے تو پھر بیچاری قضا کو کیوں مصیبت میں ڈالتے ہیں.عدالتوں میں کیوں ایک دوسرے کا روپیہ اور وقت برباد کرتے ہیں.ثالث بنا ئیں.دونوں فریق رضا مند ہو جائیں کسی متقی آدمی پر یا اپنا اپنا ثالث چن لیں اور وہ کوئی تیسرا چن لے.اگر کوئی فریق اس طریق کو اختیار نہیں کرتا تو اکثر صورتوں میں اس کے اندر کوئی کمزوری ہوتی ہے وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے ثالثی کو مان لیا تو واپسی کی راہ ختم ہو جائے گی اور پھر مجھے لازماً سرتسلیم خم کرنا پڑے گا اور میں جو ٹوٹ مار کرنا چاہتا ہوں اس سے محروم ہو جاؤں گا.لیکن اگر دلوں میں انصاف اور تقویٰ ہے تو سب سے اچھا طریق یہی ہے.چنانچہ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا (النساء (۳۶) میں بھی یہی طریق سکھایا گیا ہے.غرض جھگڑے خواہ جائیدادوں کے ہوں یا خاندانوں کے ہوں بہترین طریق یہ ہے کہ ایک فریق اپنی طرف سے ایک حکم کو چن لے اور دوسرا فریق اپنی طرف سے ایک حکم کو چن لے.دونوں سر جوڑ کر کوشش کریں اگر وہ سمجھوتہ نہیں کر پاتے تو پھر ایک تیسرے کو چن لیں.اگر یہ نہیں تو پھر قضا میں آئیں.بے شک اپنی مصیبت کو بھی لمبا کریں مجبوری ہے ہم ان کو اس سے باز نہیں رکھ سکتے.قضا میں آئیں لیکن قضا کا کام ہے کہ جلد از جلد ان فیصلوں کو نپٹانے کی کوشش کرے.جو حقوق ہیں ان سے ان کو کوئی روک نہیں سکتا.عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے اسلام میں جو حقوق قائم ہیں ، وہ بہر حال دیئے جائیں گے.لیکن یہ میں بتا دیتا ہوں کہ اگر فیصلوں کے بعد کسی فریق نے خواہ وہ کسی خاندان سے تعلق رکھتا ہو خواہ دنیا کے لحاظ سے کسی مقام کا انسان ہو.اپنے آپ کو جو مرضی سمجھتا ہو.اگر اس نے
خطبات طاہر جلد اول 276 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء بعد میں نظام سلسلہ سے تعاون نہیں کیا تو اس کو جماعت سے خارج کیا جائے گا ایسے وجود کو ہرگز جماعت میں برداشت نہیں کیا جائے گا.اور جہاں تک انصاف کی چھری کا تعلق ہے وہ رحم سے عاری ہوا کرتی ہے اور اسی کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے.فیصلے کرتے وقت ،مصالحتیں کرتے وقت رحم اور مغفرت اور تعلیمات کا کام ہے وہ جس حد تک کوشش کریں، کریں لیکن جب فیصلے صادر ہو جاتے ہیں تو اس وقت کسی قسم کے رحم کی اجازت نہیں دی جاتی.دین اللہ میں رافت کو داخل ہونے کی مجال ہی کوئی نہیں یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے.پس وہ چھری پھر لا زما چلے گی اور وہ چھری جب چلائی جاتی ہے تو چلانے والے کو بھی کاٹتی ہے.یہ بھی میں آپ کو بتا دیتا ہوں مجھے جو ناحق دکھ آپ پہنچائیں گے اس کے بھی آپ ذمہ دار ہوں گے یعنی آپ پر چھری چلاؤں گا.میرا دل زخمی ہور ہا ہوگا.میں دکھ میں مبتلا ہورہا ہوں گا.ایک مصیبت پڑی ہوگی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں.دکھ اٹھا کر بھی پورے کرنے ہیں.تو ایسی صورت میں خواہ مخواہ ایک تیسرے شخص کو جس کی آپ نے بیعت کی ہوئی ہے اس کو بھی اپنے عذاب میں مبتلا کر رہے ہوں گے.پس استغفار کریں ، تقویٰ سے کام لیں اور ان ساری مصیبتوں سے قوم کو نجات بخشیں.آپ یہ بات یا درکھیں جب تک ہلکے پھلکے قدموں کے ساتھ ہم آگے بڑھنے کے اہل نہیں ہوتے ترقیات ہمیں نصیب نہیں ہوسکتیں.پھر بعض گھریلو جھگڑے ہیں جنہیں دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے.بعض مرد اپنی عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں.گندی زبان استعمال کرتے ہیں.اپنی بیویوں پر بدظنی کرتے ہیں اور ان پر بے ہودہ اور نا پاک الزام لگاتے ہیں اور اس میں کوئی شرم اور حیا محسوس نہیں کرتے اور کوئی خوف نہیں کھاتے کہ وہ اپنے معاشرہ کو کس طرح دکھ پہنچا رہے ہیں.وہ اپنی بیویوں کے حقوق پر حقوق مارتے چلے جاتے ہیں.پھر جب چاہتے ہیں ردی کپڑے کی طرح ان کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں.وہ بچے پالتی ہیں.وہ سلائیاں کرتی ہیں اور طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہیں.ایسے مردوں میں انسانیت کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوتا.وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ انہوں نے کس آرام سے اپنے بوجھ عورت پر ڈالے اور اس کو تسکین کا ذریعہ بنایا اور جب ذمہ داریاں پیدا ہو گئیں تو ساری ذمہ داریاں بھی اس پر ڈال دیں.نو مہینے اس نے مصیبت سے اپنا خون دے کر، اپنی ہڈیاں دے کر، اپنا دماغ دے کر، اپنی
خطبات طاہر جلد اول 277 خطبه جمعه ۱۲/ نومبر ۱۹۸۲ء ساری طاقتیں دے کر مرد کے بچہ کی پرورش کی ہے اور جب وہ وجود میں آجاتا ہے ، جب اس کی ذمہ داریاں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں تو ایک آرام طلب مرد، آرام کی راہوں پر چلنے والا بڑے آرام سے اس کو کہتا ہے بہت اچھا اب میرا تمہارا گزارا مشکل ہے جاؤ بھاگ جاؤ گھر سے نکل جاؤ.بہت بھاری تعداد میں معاشرہ اس دکھ میں مبتلا ہے.اس کے برعکس بعض عورتیں ہیں جن کی زبانیں دراز ہوتی ہیں.جو گندی تربیت لے کر آئی ہوتی ہیں.اولا دکو نیکیوں سے محروم کرنے والی ، ان کی بری باتوں کی پردہ پوشی کرنے والی نیکیوں سے باز رکھنے والی ہیں.نہ خود نماز پڑھتی ہیں نہ نماز کی تعلیم دیتی ہیں.نہ پاکی ناپاکی کا خیال رکھتی ہیں.خاوند کی کوئی مدد نہیں کرتیں بلکہ اس کو نیکیوں سے محروم کر کے اس پر بوجھ بن جاتی ہیں اور خاوندان کو گھسیٹے پھرتے ہیں.بعض ان کو گلے سے اتار بھی دیتے ہیں بعض نہیں اتارتے اور ان کی اولا دیں تباہ ہو جاتی ہیں.پس معاشرہ کے یہ سارے دکھ ہیں جن سے ہم نے آزاد ہونا ہے.اور ایسے بہت سے دکھ خود ماؤں کی کوکھ میں جنم لے رہے ہوتے ہیں.یعنی اگر ایک مرد آپ دیکھیں جو سفاک ہے، جو سخت دل ہے، جو عورت پر زیادتی کرتا ہے، باز نہیں آتا بد کلامی سے کامل لیتا ہے، بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو آپ کو اس کے پس منظر میں ایک بچہ نظر آجانا چاہئے جس کی ماں اسے بگاڑ رہی ہوتی ہے.اس کی بہنوں کے مقابل پر اس بچہ کو معبود بنا رہی ہوتی ہے بیٹے کی پرورش ناز و نعمت سے ہو رہی ہوتی ہے بیٹی کو خود ایسی ماں نظر انداز کر رہی ہوتی ہے.چنانچہ بچپن میں وہ اپنے بیٹے کے دل میں سفا کی کے بیج ڈال رہی ہوتی ہے.ناجائز طریق پر اسکی پردہ پوشی کر رہی ہوتی ہے.اس کو سانڈ بنادیتی ہے.وہ محلہ کے بچوں پر ظلم کر رہا ہوتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتی.جب ہمسائی عورتیں شکایت کرتی ہیں تو کہتی ہے جہنم میں جاؤ میرا بچہ تو اسی طرح کرے گا اور میرا بچہ تو بالکل ٹھیک ہے وہ غلطی نہیں کر سکتا.غرض وہی دکھ ایک لعنت بن کر واپس عورت پر پڑتا ہے جو ماں کی کوکھ سے جنم لے رہا ہوتا ہے اور ایسے بچے جب جوان ہوتے ہیں تو سارے معاشرہ کو عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں.معاشرہ کے لئے ایک مصیبت بن جاتے ہیں.عورتوں پر ظلم کرتے ہیں.بچیوں پر ظلم کرتے ہیں.بہنوں پر پھر ان ماؤں پر ظلم کرتے ہیں جنہوں نے ان کو بچپن میں ظلم کی تعلیم دی ہوتی ہے.
خطبات طاہر جلد اول 278 خطبه جمعه ۱۲ / نومبر ۱۹۸۲ء پس معاشرہ کی اصلاح کے لئے بڑی محنت کرنی پڑے گی اسے لئے میں جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ ان برائیوں کو جڑوں سے نکال دیں.محض ایک انسپکٹر کا کہیں چلے جانا اور مصافحے کرواد بنایا بغل گیریاں کروا دینا کافی نہیں ہے.یہ تو بہت ہی بیوقوفوں والا علاج ہے.اگر اسی پر بس کر دی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب سب لڑائیاں ختم ہو گئیں.ہر چند یہ بھی ضروری ہے.اس سے انکار نہیں.یہ بیوقوفوں والا طریق تب بنتا ہے اگر بس اسی ظاہری علامت پر ہم راضی ہو جائیں.ہمیں تو ان مسائل کی گہرائی تک اتر نا پڑے گا.جڑوں سے اس کینسر کو نکالنا پڑے گا جو فساد اور اختلاف کا موجب بنا ہوا ہے.اس لئے جماعت کے جتنے بھی ادارے ہیں، جتنے بھی مربیان ہیں وہ اس طرف توجہ کریں.ماں باپ ، عورتیں کیا، مرد کیا، بڑے کیا، چھوٹے کیا سب ایک جہاد شروع کر دیں اس بات کے خلاف کہ معاشرہ سے ہم حرص و ہوا اور لہو ولعب کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریاں بھی دور کر دیں گے اور تفاخر اور زینت اور تکاثر کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی یہ ساری بیماریاں بھی دور کر دیں گے اور اس ضمن میں حضرت محمد مصطفی ملے کے کردار کی پیروی کریں گے محض نصیحت کے ذریعہ نہیں بلکہ ان کا دکھ محسوس کرتے ہوئے ، ان کے بوجھ بانٹتے ہوئے خود اپنی جان کو مشقت میں ڈال کران کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ، اگر اس طرح آپ بدیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے تو انشاءاللہ ضرور دور ہوں گی اور نہ نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روز نامه الفضل ربوه ۲۱ نومبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 279 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء نمازوں کے حقوق و حفاظت اور سر براہ خانہ و عہدے داروں کا فرض ( خطبه جمعه فرموده ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ مریم کی مندرجہ ذیل آیات پڑھیں: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَبِ اِسْمُعِيْلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِوَ كَانَ رَسُولًا نَبِيَّان وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا (مریم:۵۲-۵۵) اور پھر فرمایا : عبادت وہ مقصد ہے جس کے لئے ، قرآن کریم کے بیان کے مطابق ، جن وانس کو پیدا کیا گیا.عبادت کے متعلق عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس کا تعلق محض حقوق اللہ سے ہے اور بعض کھوکھلی اور سطحی سوچ رکھنے والوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو صرف اپنی خاطر اپنے سامنے جھکانے کے لئے بنی نوع انسان کو پیدا کیا ہے.اس سے ہمیں کیا فائدہ؟ یہ گویا ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی خود غرضی ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر عبادت کے مفہوم کو حقوق اللہ کے طور پر بھی دیکھا جائے تب بھی تمام تر فائدہ ان بندوں کا ہے جو عبادت کرتے ہیں.لیکن دراصل عبادت محض حقوق اللہ کا نام نہیں ہے.عبادت میں حقوق العباد بھی شامل ہیں.چنانچہ وہ نماز جو ہمیں عبادت کے طور پر
خطبات طاہر جلد اول 280 خطبه جمعه ۱۹ نومبر ۱۹۸۲ء سکھائی گئی وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ایک سنگم ہے.اس میں اللہ کے حقوق بھی سکھائے گئے ہیں اور بندے کے حقوق بھی بتائے گئے ہیں.فرمایا: اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (اقلیت (۳۹) نماز کا یہ پہلو کہ یہ فحشا اور منکر سے بچاتی ہے، یہ خالصتا بندوں ہی کے حقوق ہیں، جونماز سکھاتی ہے.جہاں تک حقوق اللہ کا تعلق ہے عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پیروی کرے.عبد اس غلام کو کہتے ہیں جو آقا کے تابع ہو جائے.اس کا اپنا کچھ نہ رہے.سب کچھ اسکے مالک کا ہو اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلے.اور یہ جو مضمون ہمیں سکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو اور اس کی صفات اختیار کرو، یہی دراصل عبادت کا مفہوم ہے.کلیتہ اپنے رب کے پیچھے چلنا اور ایک اعلیٰ ذات کی نقل کرنا ان معنوں میں کہ اس کی صفات کا رنگ آہستہ آہستہ اس کے وجود پر چڑھنے لگے، یہ ہے عبادت کا مفہوم.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک اعلیٰ نمونے کے پیچھے چلا جائے تو اس نمونے پر چلنے والے ہی کا فائدہ ہوتا ہے ، نہ کہ اس نمونے کا جس کے پیچھے چلا جاتا ہے.دنیا کے سامنے ماڈل پیش کئے جاتے ہیں تا کہ لوگ اس ماڈل کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کریں.لیکن اس سے اُس ماڈل کو کیا فائدہ؟ فائدہ تو اس کو ہوتا ہے جو اس ماڈل کے پیچھے چل کر اپنی تزئین کرتا ہے، اپنی بدیاں دور کرتا ہے اور اپنے اندر نیا حسن پیدا کرتا ہے.پس عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور اس ذکر کو اپنے اعمال میں ڈھالنے کی کوشش کرو.جب اس کو رحمن کہو تو خو درحمانیت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کر و.جب اس کو رحیم کہو تو خودرحیم کا مظہر بننے کی کوشش کرو.جب اس کو قادر کہو تو اپنی قدرتیں بڑھانے کی طرف توجہ دو اور وہ صلاحیتیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہیں ان کو اور چمکاؤ.غرضیکہ صفات باری تعالیٰ کا مضمون جتنا زیادہ انسان پر روشن ہوتا چلا جائے اتنا ہی زیادہ عبادت کا اہل بنتا چلا جاتا ہے اور عبادت کے مقصد کو حاصل کرنے والا بنتا ہے.پس یہ تصور کہ خدا نے اپنی خاطر بنی نوع انسان کو پیدا کر کے ان کے بڑوں اور چھوٹوں کو اپنے سامنے جھکا دیا محض ایک لغو تصور ہے.کیونکہ اس میں خدا کا کوئی فائدہ تجویز نہیں کیا جا سکتا.
خطبات طاہر جلد اول 281 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء ہاں عبادت ایک دائمی ترقی کا پیغام ہے ایک ایسی ترقی جس کا کوئی منتہا نہیں.کیونکہ عبادت میں جس ذات کو پیش نظر رکھ کر اُس کی تعلیم دی گئی اس ذات کی کوئی حد نہیں.نہ کمیت میں اسکی حد بندی کی جاسکتی ہے ، نہ کیفیت میں ، نہ وقت میں اور نہ ہی شش جہات کے لحاظ سے.تو ایک ایسی ذات جسکی کوئی حد نہ ہو، اس کی پیروی کی تعلیم دینا، لا متناہی ترقیات کی طرف دعوت دینا ہے.اور اس پہلو سے بھی عبادت بندے ہی کو فائدہ پہنچاتی ہے.پھر ایک اور پہلو سے بھی عبادت بندوں ہی کے فائدہ کے لئے ہے کہ جب انسان اپنے رب کا رنگ اختیار کرتا ہے تو نتیجہ اس کے بندوں پر زیادہ مہربان ہوتا چلا جاتا ہے.اور ان کے حقوق پہلے سے بھی زیادہ بڑھ کر ادا کرنے لگتا ہے.آنحضرت علہ جو کامل اسوہ بنائے گئے وہ اسی طریق پر کامل اُسوہ ٹھہرے کہ اپنے رب کی تمام صفات کو اپنی ذات کے ہر پہلو میں اس طرح جذب کر لیا کہ گویا آپ خدا نما وجود بن گئے.ایک ایسا خدا نما وجود جس کا تصور بھی پہلے انسان کیلئے ممکن نہیں تھا.تب وہ بندوں پر مہربان ہوئے جیسا کہ فرمایا: بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التو به ۱۳۸) اور سارے عالمین کے لئے رحمت بن گئے جیسے فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (انبياء ۱۸) چنانچہ جب بندے کو خدا کی صفات عطا ہو جائیں تو پھر خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ میں بندوں کی تقدیر دے دیا کرتا ہے.اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کوئی نبی خدا کی صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا اس طرح مظہر نہیں بنا ان معنوں میں کہ خدا نے اس کو مالکیت عطا فرمائی ہو، جس طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ.کیونکہ آپ کامل طور پر اسی طرح خدا کے ہو گئے کہ خدا کی مخلوق پھر کامل طور پر آپ کے سپر د کر دی گئی.اور ان معنوں میں آپ مالک یوم الدین بنائے گئے.(الحکم 10 اگست 1903 ص 20) پھر اسی مضمون کو جب آگے چلا کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن شفاعت کرنے والا وجود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے اور اس لیے آپ کو شفاعت کے لائق ٹھہرایا گیا کہ اس دنیا میں آپ مالک بننے کے اہل قرار دیئے گئے تب اس دنیا میں بھی آپ کو شفاعت کا حق دیا
خطبات طاہر جلد اول 282 خطبه جمعه ۱۹ نومبر ۱۹۸۲ء گیا.کیونکہ بغیر کسی استحقاق کے بخشش کا تصور مالکیت کے سوا ممکن نہیں.اور وہ وجود، جو اپنے رب اپنے مالک کے سب سے زیادہ قریب تھا وہ حضوراکرم ﷺ ہی تھے.پس جتنا زیادہ کوئی عبادت کرتا چلا جائے ، اگر وہ صحیح معنوں میں اور حقیقت میں عبادت کرتا ہے تو اتناہی زیادہ وہ بندوں کے حقوق ادا کر نیوالا بن جاتا ہے اور جتنا زیادہ عبادت سے غافل ہو اتنا ہی غاصب ہوتا چلا جاتا ہے اور اتنا ہی زیادہ وہ سوسائٹی کیلئے دُکھ کا موجب بنتا چلا جاتا ہے.یہ ہے عبادت کا حقیقی مفہوم جو قرآن کریم پیش کرتا ہے.اس پہلو سے اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبادت تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہوں یا حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہوں.اور تمام بدیاں اس سر چشمے سے بے تعلقی کا نام ہے.جتنا اس سر چشمے سے منہ موڑو گے اور علیحدگی اختیار کرو گے اتنی ہی بدیاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.یہ نتیجہ انسانی زندگی کا خلاصہ ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے عبادت کرنے والے بھی بدیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں.بہت سے عبادت کرنے والے بھی ایسے دکھائی دیتے ہیں جو بندوں کے حق چھینتے ہیں اور ان پر ظلم کرتے ہیں اور ان سے رحم اور شفقت کا سلوک کرنے کی بجائے ان سے ظلم اور تعدی کا سلوک کرتے ہیں.تو یہ کیسی عبادت ہے جس نے ان کو وہ صفات عطا نہیں کیں جو قرآن کریم دعوی کرتا ہے کہ عبادت کرنے والے بندوں میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں.اس مضمون کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ) الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ ) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُوْنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ) (الماعون:۷-۵) کیسی عجیب بات ہے کہ سارے قرآن میں نماز اور نمازی کی تعریف ملتی ہے لیکن یہاں پہنچ کر قرآن کریم کے بیان میں اس تعریف سے ایک عجیب انحراف ملتا ہے.یعنی یہ کہنے کی بجائے کہ ان پر خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور سلامتیاں ہوں، قرآن کریم فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ نماز پڑھنے والوں کے لیے ہلاکت ہو.اور وہ کون سے نماز پڑھنے والے ہیں؟ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمُ سَاهُونَ فرمایا جو نماز کے مفہوم سے غافل ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور نماز کے حقوق ادا کرنے کی بجائے نماز کو دکھاوے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ وہ بے شک نمازیں پڑھتے
خطبات طاہر جلد اول 283 خطبه جمعه ۱۹ نومبر ۱۹۸۲ء ہیں.مسجد میں بھی آباد ہوتی ہیں، وہاں نماز پڑھتے ان کی تصویر میں بھی کھینچی جاتی ہیں.وہاں بڑے بڑے جبہ پوش بھی پہنچتے ہیں جو اس طرح تکبر سے سوسائٹی میں پھرتے ہیں کہ گویا اب صرف وہی خدا کے ولی اور اس کے فضلوں کے وارث بن چکے ہیں اور انکے سوا کوئی اور عزت کے لائق ہی نہیں رہا.ایسے لوگوں کا مقصد محض نمائش محض دکھاوا اور محض اپنے نفس کی بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.ایسے نمازیوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا بلکہ ان کے متعلق فرماتا ہے کہ ان کے لیے ہلاکت ہے اور اس کے سوا ان کے لیے اور کچھ نہیں.اور ساتھ ہی ان کی ریا کاری کا ثبوت یہ پیش فرماتا ہے اور ان کی نماز کے بے حقیقت ہونے کی دلیل یہ دیتا ہے وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ کہ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کا حق ادا نہیں کرتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی خساست کا نمونہ دکھاتے ہیں.غریب ان کے سامنے اگر بھوکے مر رہے ہوں تو ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی.یہاں تک کہ ہمسایہ کوئی چھوٹی سی چیز بھی مانگنے کے لیے آجائے تو اس کو رڈ کر دیتے ہیں.ہمسائیگی کے ادنی حقوق بھی ادا نہیں کر سکتے.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے اس نماز کا نقشہ کھینچا ہے جو دونوں جہات سے عاری ہے.نہ حقوق اللہ کو ادا کر رہی ہے اور نہ ہی حقوق العباد کو.اور در حقیقت یہ ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.یہاں پہنچ کر نماز مجمع البحرین ہو جاتی ہے.یعنی ایک پہلو سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حقوق اللہ ہے اور دوسرے پہلو سے یہ حقوق العباد نظر آتی ہے.تو فرمایا کہ یہ لوگ خدا کی یاد سے غافل ہو کر دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں.اور جو خالق کی یاد سے غافل ہو کر نماز پڑھے وہ مخلوق کی ضروریات سے بھی غافل ہو جایا کرتا ہے.وہ مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے کا اہل نہیں رہتا.ایسی نماز تو بالکل بیکا ر اور بے فائدہ ہے جو برکتوں اور ثواب کی بجائے لعنتوں کا موجب بن جائے.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہئے اور یہ حفاظت دوطرح سے کرنی ہوگی.ایک اس کے ظاہر کی حفاظت کرنی پڑے گی.اور دوسرے اس روح کی حفاظت کرنی پڑے گی جس کے بغیر نماز باطل ہو جایا کرتی ہے.ان دونوں پہلوؤں سے، میں سمجھتا ہوں ، توجہ دلانے کی بہت گنجائش موجود ہے.میں یہ دیکھتا ہوں کہ ربوہ میں نماز کاوہ معیار نہیں رہا جو قادیان میں ہوا کرتا تھا اور گھروں میں وہ تلقین نہیں رہی جس کے نتیجے میں کثرت کے ساتھ نمازی پیدا ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد اول 284 خطبه جمعه ۱۹ نومبر ۱۹۸۲ء چنا نچہ قرآن کریم کی وہ آیات جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھیں ان میں نماز کو قائم کرنے کا گر بتاتے ہوئے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی مثال پیش کی گئی ہے.فرماتا ہے: كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيَّان وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيَّان (مریم ۵۵.۵۲) کہ اسمعیل کی ایک بہت پیاری عادت یہ تھی کہ وہ اپنے اہل کونماز اور زکوۃ کی ادائیگی کی تعلیم دیا کرتا تھا.اور خدا کو بہت پیارا لگتا تھا كَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا اسکی یہ ادا ئیں اللہ کو بہت پسند تھیں کہ وہ ہمیشہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتا تھا.اس میں یہ نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نمازوں کا قیام اور ان کا استحکام گھروں سے شروع ہوتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأمُرُ اَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ( ۱۳۳۰) کہ اے محمد علی ! تو بھی اپنے اہل کو نماز کا حکم دیا کر.وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لیکن یہ ایسی بات نہیں ہے کہ ایک دو دفعہ کہنے سے اس پر پوری طرح عمل شروع ہو جائے.گھروں میں اگلی نسلوں کو نماز کی عادت ڈالنی ہو تو مستقل مزاجی کے ساتھ تلقین کی عادت اختیار کرنی پڑتی ہے.ایک دو دفعہ یا ایک دو دن یا ایک دو ماہ یا چند سالوں کا کام نہیں وَاصْطَبِرُ عَلَيْهَا کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تو زندہ رہے، جب تک تجھ میں طاقت ہے اس عادت پر صبر سے استقامت اختیار کر لے.اس عادت کو کبھی چھوڑ نا نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب میں ہم نے یہ چیز دیکھی کہ وہ اپنے اہل وعیال کو نمازوں کے متعلق تلقین کیا کرتے تھے.اور کبھی کسی حالت میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے نماز کی تلقین کرنی چھوڑ دی ہو.میرے سامنے بہت سی مثالیں ہیں کہ جو اپنے بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے وہ با قاعدگی کے ساتھ ایسا کرتے اور کبھی بھی اس طرف سے غافل نہیں ہوئے.نماز پڑھنے والوں کے بھی اور نماز پڑھانے والوں کے بھی بڑے بڑے پیارے نظارے نظر آیا کرتے تھے.چنانچہ جن ماں باپ نے اس نصیحت پر عمل کیا اور اپنے گھروں میں نمازوں کی تلقین کو دوام کے ساتھ اختیار کیا، یوں لگتا تھا کہ وہ گھر نمازیوں کی فیکٹریاں بن گئے ہیں اور ان کی نسلوں میں
خطبات طاہر جلد اول 285 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء آج بھی بکثرت نمازی نظر آتے ہیں جو دوسرے خاندانوں کی نسبت زیادہ نماز پڑھنے والے ہیں.چنانچہ وہ اصحاب جنہوں نے اس عادت میں نمایاں امتیاز حاصل کیا ان کی اولا د نسلاً بعد نسل نمازی بنتی چلی گئی.لیکن بعض دفعہ ایسا ہوا کہ اصحاب کے اندر تو خدا تعالیٰ نے نماز کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا تھا مگر بیویاں عمل کے لحاظ سے کمزور تھیں.یا جس جگہ بچوں کی شادیاں ہوئیں وہاں کے بے نمازیوں کے خون ان سے مل گئے اور وہ پانی گدلا ہو گیا.تو ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ با قاعدگی سے نماز پڑھنے والے خاندانوں میں بے نماز شامل ہو گئے اور انہوں نے رفتہ رفتہ اس سارے پانی کو گدلا کرنا شروع کر دیا.لیکن جہاں ان کی شادیاں نمازیوں میں ہوئیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی نسل ملی ہے جو نماز پر ہمیشہ قائم رہتی ہے اور مداومت میں قرآنی الفاظ هُم عَلى صَلَاتِهِمْ دَابِمُونَ (المعارج (۲۳) کا نقشہ پیش کرتی ہے.اسی طرح بعض گھروں میں بے نمازوں کی فیکٹریاں ملتی ہیں.یعنی جو بھی وہاں پیدا ہوتا ہے، بے نمازی ثابت ہوتا ہے.تو سوال یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ یا دیگر تنظیمیں ان لوگوں کو کس طرح سنبھالیں؟ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم پہلی ذمہ داری بیرونی تنظیموں پر نہیں ڈالتا.بلکہ پہلی ذمہ داری گھروں پر ڈالتا ہے اور یہ ایک بڑا ہی گہرا اور پر حکمت نکتہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر اپنے بچوں کی نماز کی حفاظت نہیں کریں گے تو بیرونی دنیالا کھ کوشش کر لے وہ اس قسم کے نمازی پیدا نہیں کر سکتی جو گھر کی تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں.پس میں تمام گھروں کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ وہ بڑی ہمت اور جد و جہد کے ساتھ نمازی پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور ہمارے ماضی میں جو نیک مثالیں ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں ان کی پیروی کریں.بہت سی مثالوں میں سے میں ایک مثال اپنے چھوٹے پھوپھا جان حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کی دیتا ہوں.ان کو نماز سے، بلکہ نماز با جماعت سے ایسا عشق تھا کہ لوگ بعض دفعہ بیماری کے عذر کی وجہ سے مسجد نہ جانے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، لیکن وہ بیماری کے باوجود مسجد جانے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے.دل کے مریض تھے اور ڈاکٹر نے بشدت منع کیا ہوا تھا کہ حرکت نہیں کرنی.لیکن اس کے باوجود آپ ایک Wheel Chair میں بیٹھ کر ( پہیوں والی وہ
خطبات طاہر جلد اول 286 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء کرسی جس پر بیٹھ کر مریض خود اپنے ہاتھوں سے اس کے پیسے گھماتا ہے ) رتن باغ لاہور میں جہاں نمازیں ہوتی تھیں، (اس وقت مسجد نہیں تھی اس لیے رتن باغ کے صحن میں نماز میں ہوا کرتی تھیں ) با قاعدگی کے ساتھ وہاں پہنچا کرتے تھے.جب مسجد گھر سے دور ہو گئی تو اپنے گھر کو مسجد بنالیا اور اردگرد کے لوگوں کو دعوت دی کہ تم پانچوں وقت نماز کے لیے میرے گھر آیا کرو.اور مسجد کے جس قدر حقوق عائد ہوتے ہیں، ان سب کو ادا کرتے تھے.یعنی جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میرا گھر مسجد ہے تو پانچوں نمازوں کے لیے آپ کے گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے.صبح کے وقت نمازی آتا تھا تو دروازے کھلے ہوتے تھے.رات کو عشاء کی نماز کے لیے آتا تھا تب بھی دروازے کھلے ہوتے تھے اور دو پہر کو بھی دروازے کھلے رہتے تھے.پھر نمازیوں کے لیے وضو کا انتظام تھا اور دیگر سہولتیں بھی مہیا تھیں.یہ سب کچھ آپ اس لئے کرتے تھے کہ آپ کو نماز با جماعت سے ایک عشق تھا اور یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی حالت میں بھی آپ کی کوئی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے رہ جائے چنانچہ آپ کی اولاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کی بڑی پابندی پائی جاتی ہے.یہ صرف ایک نمونہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے.اسی قسم کے ہزار ہا نمونے قادیان میں رہنے والوں کی یادوں میں بس رہے ہونگے.نماز کا اتنا شوق پایا جا تا تھا اور اس کی اتنی تربیت تھی کہ قادیان کے پاگل بھی نمازی رہتے تھے ایسے پاگل جو دنیا کی ہر ہوش گنوا دیتے تھے.وہ نماز پڑھنے کے لئے اکیلے مسجدوں میں پہنچ جایا کرتے تھے.نماز پڑھنے کی عادت ان کی زندگی میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ وہ اس سے الگ ہو ہی نہیں سکتے تھے.ایسے ہی ایک راجہ اسلم صاحب ہوا کرتے تھے.جب پاگل پن کی انتہاء ہوگئی تو بیچارے گھر سے باہر چلے گئے.پاگل پن میں جو بھی اندر نہ ہو وہ باہر آ جاتا ہے.چونکہ ان پہ نیکی کا غلبہ تھا اس لئے (آخری اطلاع کے مطابق ) تبلیغ کے جنون سے غالب روس کی طرف چلے گئے تھے.پھر انہیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان پر کیا گزری.لیکن پاگل پن کے انتہا کے وقت بھی پانچوں نمازوں میں مسجد میں آیا کرتے تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے اصحاب کو خدا تعالیٰ نے عبادت کے قیام کی جو توفیق بخشی تھی وہ اگلی نسل یعنی تا بعین تک بھی بڑی شدت کے ساتھ جاری رہی.اب ہم ایک ایسی جگہ پہنچے ہیں جہاں تابعین اور تبع تابعین کا جوڑ ہے اور اگر ہم نے اس وقت بشدت اپنی
خطبات طاہر جلد اول 287 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء نمازوں کی حفاظت نہ کی تو خطرہ ہے کہ آگے بے نمازی پیدا ہونے نہ شروع ہو جائیں.اس لئے ہمیں غیر معمولی جہاد کی روح کے ساتھ نماز کے قیام کی کوشش کرنی چاہیئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ جہاد گھروں سے شروع ہو گا.اب جلسہ سالانہ کے ایام قریب آرہے ہیں اور ربوہ کے گھروں کو خدا تعالیٰ ایک غیر معمولی حیثیت عطا کرنے والا ہے وہ گھر جو نمازی گھر ہیں ان کا فیض دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے گا.دور دور سے آنے والے جو لوگ ان کے ہاں ٹھہریں گے وہ ان سے نیک نمونہ پکڑیں گے اور ان آنے والوں میں سے اگر کوئی بے نمازی بھی ہوں گے تو یہ گھر ان کو نمازی بنادیں گے.لیکن اس کے ساتھ ایک یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر وہ گھر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ٹھہرتے ہیں، بے نمازی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ یہ ان مہمانوں کی عادتیں بھی بگاڑ دیں اور ان کو بھی نمازوں سے غافل کر دیں.اس طرح ان گھروں کی حالتِ بے نمازی بھی زمین کے کناروں تک پہنچ سکتی ہے.یعنی ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں حاصل کر سکتے ہیں تو دوسری طرف ان رحمتوں سے محرومی کی بھی کوئی حد نہیں رہتی.پس خصوصیت کے ساتھ اپنے گھروں کو اس طرح بھی سجائیں کہ وہ عبادت اور ذکر الہی سے معمور ہو جائیں.جب مہمان آتے ہیں تو ان کے لئے گھروں کو سجایا جا تا اور انہیں زینت بخشی جاتی ہے.میں نے ایک خطبہ جمعہ میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ربوہ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجانا چاہیے لیکن مومن کی اصل سجاوٹ تو تقویٰ کی سجاوٹ ہے، نماز کی سجاوٹ ہے.خُذُوا زِينَتَكُمُ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲) میں یہی اشارہ کیا گیا ہے کہ اصل زینت تو وہ ہے جو نمازوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے.نمازیں سنوارو گے تو مسجدیں بھی زینت اختیار کر جائیں گی.لیکن اگر بغیر سنوارے کے نمازیں پڑھو گے تو تمہاری مسجدیں بھی ویران ہو جائیں گی.پس اپنے گھروں کو زینت بخشو مہمانوں کے استقبال کی تیاری کرو.اللہ کے ذکر کو گھروں میں بھی کثرت سے بلند کرو اور بار بار بچوں کو بھی اس کی تلقین کرو تا کہ ہر گھر خدا کے ذکر کا گہوارہ بن جائے اور ہر مہمان جو آپ کے ہاں ٹھہرے، وہ اگر کمزور بھی ہے تو آپ کی مثال سے طاقت پکڑے اور ذکر الہی کی طاقت لے کر یہاں سے واپس لوٹے.
خطبات طاہر جلد اول 288 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء.جہاں تک میرا نظری جائزہ ہے میں سمجھتا ہوں ربوہ کی پوری آبادی جمعہ میں بھی حاضر نہیں ہوتی.ربوہ کی آبادی ہمیں معلوم ہے اور جتنے فیصد لوگوں کو مسجد میں پہنچنا چاہئے اتنے یہاں نظر نہیں آتے.چونکہ ہمارا موازنہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا، دوسری سوسائٹیوں سے نہیں ہے بلکہ ہمارے معیار بہت بلند ہیں.ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ، بہت اہم ، بہت گہری اور بہت بھاری ہیں.اس لئے ان کی ادائیگی کے لئے بھی ہمیں اسی قسم کی تیاریاں کرنی پڑیں گی اور نماز کے قیام کے بغیر ہم دنیا کی تربیت کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے.اس لئے جمعہ کی نماز میں بھی حاضری کو بڑھانا چاہئے اور اس کے لئے بھی گھروں میں تلقین کرنی پڑیگی.صدران محلہ جات اور زعماء انصار اللہ کا فرض ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ صرف مسجدوں میں نماز کی تلقین اور یاد دہانی کا پروگرام بنائیں ، اگر کوئی ایسے گھر ہیں جو مسجد میں نہیں آتے تو گھروں میں جائیں اور گھر والوں سے ملیں اور ان کی منت کریں اور ان کو سمجھائیں کہ تمہارے گھر بے نور اور ویران پڑے ہیں.کیونکہ جو گھر ذکر الہی سے خالی ہے وہ ایک ویرانہ ہے اور جس گھر میں بے نمازی پیدا ہور ہے ہیں وہ تو گویا آئندہ نسلوں کے لئے ایک نحوست کا پیغام بن گیا ہے اس لئے ہوش کرو اور اپنے آپ کو سنبھالو اور نمازوں کی طرف توجہ کرو اس سے تمہاری دنیا بھی سنورے گی اور تمہارا دین بھی سنورے گا کیونکہ عبادت میں ہی سب کچھ ہے.عبادت پر قائم رہو گے تو خدا کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے.پس یہ نصیحت گھروں کے دروازوں تک پہنچانی پڑے گی اور بار بار وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا کا نقشہ پیش کرنا پڑے گا.یعنی جو بھی یہ عہد کرے کہ میں گھروں میں نماز کا پیغام پہنچاؤں گا اور گھر والوں کو تاکید کروں گا اور ان کو ہوش دلاؤں گا کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں ، اس کو یہ نیت بھی کرنی پڑے گی کہ میں پختہ عزم اور مستقل مزاجی کے ساتھ یہ کام کروں گا کیونکہ ایسا کہنا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل بہت مشکل ہوگا.وجہ یہ کہ چند دنوں کے بعد انسان پر غفلت غالب آجاتی ہے اور وہ اس کام کو جو اس نے شروع کیا ہوتا ہے چھوڑ بیٹھتا ہے.اس لئے اگر نتیجہ حاصل کرنا ہے تو وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا کے مضمون کو پیش نظر رکھنا ہوگا.جب تک خدا تعالیٰ کی اس واضح تلقین کو ہمیشہ مدنظر نہ رکھا جائے کہ نماز کی تلقین میں صبر اور دوام اختیار کرنا چاہیئے اس وقت تک ہم اعلیٰ مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے.
خطبات طاہر جلد اول 289 خطبه جمعه ۱۹/ نومبر ۱۹۸۲ء پس خصوصیت کے ساتھ آج سے جلسہ سالانہ تک کے عرصہ کے دوران ہمیں بکثرت ایسے ناصحین کی اشد ضرورت ہے جو گھروں کے دروازے کھٹکھٹائیں اور گھر والوں کو ہوش دلائیں اور ان کو نماز کی تلقین کریں.اگر ربوہ کے سارے بالغ مرد جو با جماعت نماز پڑھنے کے اہل ہیں اور وہ سارے بچے جنہیں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے ، مسجدوں میں پہنچنا شروع ہو جائیں تو میرا اندازہ ہے کہ ہماری موجودہ مسجدمیں چھوٹی ہو جائیں گی اور پھر ان مسجدوں کو بڑھانے کی طرف فوری توجہ پیدا ہوگی.اس طرح وَسِعُ مَكَانَگ کا بابرکت دور نئے سرے سے شروع ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نماز کے حقوق ادا کریں اور خدا کرے کہ نماز ہمارے حقوق ادا کرے اور وہ تمام فیوض جو بنی نوع انسان کے لئے نماز کے ساتھ وابستہ ہیں وہ دنیا میں سب سے زیادہ ہم ہی حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 291 ذکر الہی.طمانیت قلب حاصل کرنے کا قرآنی فلسفہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں انسان جتنی مادی ترقی کرتا چلا جارہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ گوانسان کی آسائش کے بھی نئے نئے سامان مہیا ہور ہے ہیں، تاہم انسانی بے چینی ہر دم اور ہر آن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے.افراد بھی بے چین ہیں اور خاندان بھی بے چین ہیں.اور قو میں بھی بے چین ہیں اور (Blocks) بلا کس بھی بے چین ہیں.مشرق بھی بے چین ہے اور مغرب بھی بے چین ہے.شمال بھی اور جنوب بھی اور تمام دنیا میں انسان دن بدن زیادہ سے زیادہ شدید تر بے چینی میں بڑھتا جا رہا ہے.بے چینی اور سکون دونوں کی جنگ تو ابتدائے آفرینش ہی سے جاری ہے اور ہمیشہ سے انسان کو سکون کی تلاش رہی ہے.لیکن زمانہ میں بعض ادوارا ایسے بھی آتے ہیں جب کہ بے چینی بڑی شدت کے ساتھ غلبہ پا جاتی ہے اور سکون عنقا نظر آتا ہے جس کا ذکر کتابوں میں تو ملتا ہے لیکن یہ حقیقت میں کہیں نہیں پایا جاتا.ایسے ہی زمانہ کو قرآنی اصطلاح میں خسر کا زمانہ کہا جاتا ہے.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (اصر (۲۳) زمانہ گواہ ہے اور زمانہ کی بے چینیاں اور
خطبات طاہر جلد اول 292 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء بے قراریاں گواہ ہیں کہ انسان من حیث المجموع گھاٹے میں مبتلا ہے.اور گھاٹے کا سودا کر رہا ہے.ہر تاجر جانتا ہے کہ گھاٹا کوئی تسکین قلب تو نہیں دیا کرتا.وہ تو دل میں ایک شدید بے چینی پیدا کرتا ہے.پس جہاں گھاٹے سے مراد کئی قسم کے نقصانات ہیں وہاں اس کا نتیجہ بھی پیش نظر رہنا چاہیئے کہ جب بھی انسان یا زمانہ بحیثیت مجموعی گھاٹے میں مبتلا ہو جائے تو بے چینی کا بڑھنا اس کا ایک لازمی نتیجہ ہے.جماعت میں سے بھی زمانہ کے ان حالات کا شکار ہو کر بہت سے دوست مجھے دعاؤں کے لئے خط لکھتے ہیں اور اپنے دل کی بے چینی کا اظہار کرتے ہیں اور بعض یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اس کا علاج کیا ہے.اور بعض دوست جو زیادہ حساس ہوتے ہیں اور زمانہ کی زیادہ فکر کرنے والے ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے لئے بے چین ہوتے ہیں اور ان کے لئے دعاؤں کے خط لکھتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ایک دوست نے خط لکھا کہ زمانہ کی بے چینی سے میں اتنا بے قرار رہتا ہوں کہ میری راتوں کی نیندار گئی ہے.پس ایسے لوگ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک رحمت کا دل عطا کیا ہے.اپنے حالات درست بھی ہوں تو ماحول کے دکھ ان کو بے چین کر دیتے ہیں اور حقیقی انسان کا یہی تصور ہے.آنحضرت ﷺ کو اپنا دکھ تو کوئی نہیں تھا لیکن ساری دنیا کے لئے بے چین تھے.انسانیت کا یہی وہ اعلیٰ تصور ہے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے.پس سوال یہ ہے کہ آخر اس بے چینی کا علاج کیا ہے.قرآن کریم نے اس کا کیا تصور پیش کیا ہے اور مختلف فلسفیوں اور اہل فکر نے اس کا کیا حل تجویز کیا ہے.صلى الله جہاں تک انسانوں میں سے اہل فکر اور سوچ بچار کرنے والے انسانوں کا تعلق ہے.ان میں جو گہری نظر رکھتے تھے انہوں نے اس کا یہ حل پیش کیا کہ انسان اپنی تمناؤں سے آزاد ہو جائے.ایک ایسا دل پیدا کرے جس میں کوئی خواہش باقی نہ رہے.اور جب انسان کو یہ حاصل ہو جائے تو لازماً اسے سکون مل جاتا ہے اور طمانیت حاصل ہو جاتی ہے چنانچہ بہت سے مذاہب کی بنیا داسی فلسفہ پر رکھی گئی.بدھ مت یا جین مت یا اس قسم کے بعض اور بھی مذاہب ہیں جن کا نقطہ ارتکاز یہی ہے.اسی سے آگے ان کا سارا فلسفہ پھوٹتا ہے یعنی انسان اگر تمناؤں سے آزاد ہو جائے تو اسے تسکین قلب
خطبات طاہر جلد اول میسر آ جائے گی.293 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ تعالی عنہ جن دنوں کشمیر میں تھے وہ اکثر سیر کے لئے جایا کرتے تھے.یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ مہاراجہ کشمیر کے ہاں ملازم تھے.سیر کے دوران وہ بسا اوقات ایک ایسے فقیر کو دیکھا کرتے تھے جس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ اکثر بے چین اور بے قرار نظر آیا کرتا تھا.ایک دن جب وہ سیر کو نکلے تو اس فقیر کو دیکھا وہ بہت ہی خوش ہے اور خوشی سے چھلانگیں لگا رہا ہے.آپ نے اس سے پوچھا سائیں تمہیں آج کیا میسر آ گیا ہے تم اتنے خوش ہو.اس نے کہا جسے سب کچھ مل جائے وہ خوش کیوں نہ ہو.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے پوچھا تم جیسے کل ننگے تھے، آج بھی ویسے ہی ننگے ہو.جیسی لنگوٹی کل تمہارے پاس تھی ویسی ہی آج بھی ہے.مجھے تو کوئی زائد چیز نظر نہیں آ رہی جو تمہیں مل گئی ہو.اس نے کہا.آپ نہیں جانتے.آج میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میری مراد کوئی نہیں رہی.پنجابی میں اس نے کہا ”جدی مراد کوئی نہ ہو وے اودی پوریاں ہی پوریاں ، یعنی جب دل میں تمنا ہی باقی نہ رہے تو پھر پوری ہی پوری ہے.پھر انسان بہت تسکین حاصل کر لیتا ہے.غالب نے بھی اس فلسفہ کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا.گر تجھ کو ہے یقین اجابت، دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ (دیوان غالب) کہ اگر تمہیں یقین ہو جائے کہ قبولیت کا یہ خاص لمحہ ہے تو پھر کوئی دعا نہ مانگوسوائے اس دعا کے کہ اے خدا! ایسا دل عطا کر کہ جس میں کوئی مدعا باقی نہ رہے.یہ دل تمہیں مل جائے تو تسکین ہی تسکین ہے.پس ایک یہ بھی فلسفہ ہے.جس نے بہت سے انسانوں کو ایک ایسے سکون کی تلاش میں مبتلا کر دیا اور آج بھی کر رکھا ہے کہ جو سکون ہمیشہ ان سے گریزاں رہتا ہے کیونکہ ایسا دل جو بے مدعا ہو اس میں سکون کا پیدا ہونا ممکن نہیں.سوسائٹی سے ایسا کامل گریز کہ جس کے نتیجہ میں کوئی تمنا باقی نہ رہے اسی کا دوسرا نام موت ہے اور موت کے سوا یہ مقصد انسان کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا.اور اگر ایسا دل ہو جس میں مدعا نہ رہے.سوسائٹی بے قرار ہو اور وہ دل اس کی بے چینی محسوس نہ کرے تو ایسے دل کے ہونے سے نہ ہونا بہتر ہے کیونکہ جو انسان سوسائٹی سے اس طرح کٹ جائے کہ اس کے دکھ اور غم میں
خطبات طاہر جلد اول 294 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء شریک ہی نہ رہے ، وہ انسان تو انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں رہتا.پس اگر چہ تمناؤں سے آزاد ہو جانے والا یہ فلسفہ بظا ہر بڑا دیدہ زیب معلوم ہوتا ہے اور بعض فقیر اس فلسفہ کو اپنا کرنا چتے بھی دیکھے جاتے ہیں مگر قرآن کریم اس کو کلیۂ رد کرتا ہے.سارے قرآن میں ایسا کوئی تصور آپ کو نہیں ملے گا کہ یہ تعلیم دی گئی ہو کہ تم تمناؤں سے آزاد ہو جاؤ.ہاں تمناؤں سے اس طرح آزاد ہونے کی بجائے کہ کوئی تمنا ہی نہ رہے، قرآن کریم ایک ایسی راہ تجویز کرتا ہے جس پر چلنے کے نتیجہ میں تمنائیں مغلوب ہو جاتی ہیں.وہ انسان کی مالک نہیں رہتیں بلکہ انسان ان کا مالک بن جاتا ہے.وہ انسان کو اپنا غلام بنا کر نہیں رکھتیں.بلکہ انسان کی غلام بن جاتی ہیں اور اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہیں.رہا یہ کہ وہ مقام کیسے حاصل ہوسکتا ہے ، تو اس کے متعلق مضمون کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے.الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ الْقُلُوبُ اے سکون کے متلاشیوسنو ! تمہیں کہیں طمانیت نہیں ملے گی سوائے اس کے کہ تم اپنے رب کے ذکر میں محو ہو جاؤ اور اللہ کی یاد شروع کر دو.اب اللہ کی یاد سے کیسے طمانیت حاصل ہو ، اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے.قرآن کریم میں اس کی بہت تفصیل ملتی ہے کہ اس سے مراد محض ایک ایسا ذکر نہیں ہے جس کے نتیجہ میں انسان منہ سے اللہ اللہ کہنا شروع کر دے اور پھر سمجھے کہ اس کا دل تسکین پا جائے گا اور طمانیت حاصل کر لے گا بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا فلسفہ کارفرما ہے اور خود قرآن کریم اسے کھول کر بیان فرماتا ہے.ذکر الہی اور عبادت دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.جب تک انسان خدا کا عہد نہ بنے اس وقت تک اسے ذکر الہی کی توفیق ہی نہیں مل سکتی.ان دونوں چیزوں کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے.اس آیت میں وہ ذکر الہی مراد ہے جو عبد کا ذکر ہو یعنی خدا کے ان بندوں کا ذکر ہو جن کو خدا تعالیٰ اپنی اصطلاح میں عبد شمار کرتا ہے.وہ کن کو شمار کرتا ہے، وہ کون ہیں جو خدا کے عبد بن جاتے اور ذکر الہی کے مستحق بن جاتے ہیں.وہ کون ہیں کہ جب وہ اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا ذکر الہی کرنا ان کے لئے موجب تسکین بن جاتا ہے.ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب یہ مررہے ہوتے ہیں تو بستر مرگ پر ان کو یہ آواز سنائی دیتی ہے.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر ۳۳) (۲۸-۳۱ :
خطبات طاہر جلد اول و 295 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء کہ اے میرے بندو! تم اس دنیا میں مجھ سے راضی ہو کر ر ہے.میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ جب تم مجھ سے راضی ہو گئے تھے تو تم مَّرْضِيَّةً بھی بن گئے یعنی میں بھی تم سے راضی ہو گیا اور اسی مقام کا نام عبودیت ہے.فرمایا اس حالت کے بعد ہم تمہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں فَادْخُلِي فِي عبدی اب تم حق رکھتے ہو کہ میرے بندے کہلا ؤ.پس میرے بندوں کی صف میں داخل ہو جاؤ.وَادْخُلِي جَنَّتِی اور جو کچھ میرے بندوں کا ہے وہ میرا ہے اور جو میرا ہے وہ میرے بندوں کا ہے.رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً میں یہی تصویر کھینچی گئی ہے.پس میری جنتیں تمہاری جنتیں ہو گئیں.یہاں جنت کو الجنة نہیں کہا گیا.یہاں جنت کی کوئی باغوں والی تصویر نہیں کھینچی گئی بلکہ جَنَّتِی کہا گیا ہے کہ میری جنت میں داخل ہو جاؤ یعنی جنت کا اس سے بڑا کوئی تصور نہیں کہ اللہ کی جنت میں داخل ہو جاؤ.اس جنت کا دوسرا نام رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً رکھا گیا.گویا انسان اپنے رب سے راضی اور اللہ اس کے راضی ہونے کے نتیجہ میں اس سے راضی ہو جائے.پس یہاں تمناؤں کو رد نہیں کیا گیا ، تمناؤں کے رخ موڑ دیئے گئے ہیں.تمناؤں کی تربیت کی گئی ہے.تمناؤں کو ایسے رستہ پر چلایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں تمنا ئیں بے چینی پیدا کرنے کی بجائے اطمینان پیدا کرنے لگ جاتی ہیں.یہ بہت ہی عجیب مضمون ہے اس کو دوسری جگہ خدا تعالیٰ اس طرح کھول کر بیان فرماتا ہے کہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ ہیں جنہوں نے اپنی تمناؤں کو اپنا معبود بنالیا اور ان کی پیروی کرتے ہیں.وہ ان کی آقا بن جاتی ہیں.ان کو در بدر لئے پھرتی ہیں.ایسے لوگوں کے لئے سکون کا پیدا ہونا ایک ایسی ناممکن بات ہے جس کا تصور ہی اس دنیا میں نہیں پایا جاتا.یہ ایک حسابی حقیقت ہے کہ جن کی تمنائیں ان کا معبود بن جائیں ان کو اس دنیا میں کبھی اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا.وہ حسابی حقیقت یہ ہے کہ تمناؤں اور حصول تمنا کی نسبت ہمیشہ قائم رہتی ہے.تمنائیں آگے بھاگتی ہیں اور حصول تمنا اس سے پیچھے رہ جاتی ہے.انسانی زندگی میں کبھی کوئی ایسا مقام نہیں آیا کہ اس کی تمنا پوری ہو کر آگے پھر کوئی تمنا باقی نہ رہی ہو.ایک تمنا پوری ہو کر اگلی تمناؤں کے بچے پیدا کر دیتی ہے.چنانچہ پھر نئی تمنائیں اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں اور اس طرح تمناؤں کی پیروی کا ایک ایسالا متناہی سفر شروع ہو جاتا ہے جہاں ہر مقام پر بے چینی ہے ہر حصول تمنا ایک اور بے قرار تمنا پیدا کر دیتا ہے.قرآن کریم نے هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ (۳۹) کی جہنم کا جو نقشہ
خطبات طاہر جلد اول 296 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء کھینچا ہے وہ یہی نقشہ ہے.کوئی ایک بھی تو مقام ایسا نہیں جہاں انسان پہنچ کر یہ سمجھ لے کہ میں نے سب کچھ پالیا اور مجھے چین نصیب ہو گیا.اس سے آگے اور مقام پیدا ہوتے ہیں اور اس سے آگے اور مقام پیدا ہوتے ہیں.ایک وادی مانگتا ہے تو دوسری وادیاں منہ کھولے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں.اس کے برعکس کچھ وہ لوگ ہیں جو اپنے اللہ کو اپنی تمنا بنا لیتے ہیں.لَا إِلهَ إِلَّا اللَّه کے یہی معنی ہیں.اسی لئے آنحضور ﷺ نے فرمایا: أَفْضَلُ الذِAND ANWALA AND ANWALA اللہ تم جس ذکر کی تلاش میں ہو کہ وہ تمہیں سکون بخشے اور تمہاری طبیعتوں کو اطمینان عطا کرے، وہ ذکر تو اس فلسفہ کا نام ہے کہ اللہ تمہارا الہ ہو جائے.یعنی خدا خود تمہاری تمناؤں کا آخری مرکز بن جائے جو سب سے بالا اور سب سے افضل مقام ہے.گویا اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہ رہے.ظاہر ہے جب خدا مطلوب ہو جائے تو ہر دوسری تمنا اس کے تابع ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی مختلف جگہ نظم میں بھی اور نثر میں بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں: در دو عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی (درشین فارسی) اے مرے آقا! مجھے تو دونوں جہان میں تو ہی عزیز ہے.و آنچه می خواهم از نیز توئی.اور تجھ سے جو میں چاہتا ہوں وہ یہ کہ تیرے سوا میں کچھ اور نہیں چاہتا.مجھے صرف تو مل جائے گو یالا اله الا اللہ کی ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے، خواہش کے آخری مقام کواله کہتے ہیں.کبھی وہ انسانی خواہش کا آخری مقام بن جاتا ہے.کبھی وہ حقیقتا خدا ہو جاتا ہے جو اللہ ہے.فرمایا اگر لا اله الا اللہ کی رو سے اللہ تمہارا آخری مطلوب ہو جائے تو پھر تمہاری کوئی بھی خواہش تمہیں بے قرار نہیں کر سکتی کیونکہ اسی کا نام ہے راضی ہو جانا.پیارے کی طرف سے جو کچھ ملتا ہے وہ پیارا لگنے لگ جاتا ہے کیونکہ انسان سمجھتا ہے پیارے ہاتھوں سے آیا ہے.پھر انسان یہ نہیں دیکھا کرتا کہ یہ کیا ہے.وہ پیارے کے ہاتھوں پہنچنے والے غم پر بھی راضی ہو جاتا ہے.اس کے ہاتھوں پہنچنے والی خوشی پر بھی راضی ہو جاتا ہے.رَاضِيَةً کے یہی معنی ہیں.فرمایا ہم نے تمہیں مختلف
خطبات طاہر جلد اول 297 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء حالتوں میں رکھا.تمہیں دکھ بھی پہنچے.تمہیں خوشیاں بھی ملیں.تم اور لوگوں کی طرح بیمار بھی ہوا کرتے تھے.تم شفا بھی پا جایا کرتے تھے.تمہیں مالی پریشانیاں بھی لاحق ہوتی تھیں اور تمہاری پریشانیاں دور بھی ہو جاتی تھیں لیکن ہر حالت میں تم اپنے خدا سے راضی رہے.تم نے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ اے خدا! میں تو تیری عبادت کرتا ہوں مجھے دکھ کیوں پہنچتا ہے.میں بیمار کیوں ہوا.میرے بچے کیوں فوت ہوئے.میری بیوی کو کیوں نقصان پہنچا.میری جائیدادیں کیوں تباہ ہوئیں.یہ سارے حالات جس طرح دوسرے انسانوں پر گزرے تھے اے میرے بندہ! تجھ پر بھی گزرتے رہے.اگر چہ یہ الگ بات ہے کہ دوسروں کی نسبت تو کم ابتلاء میں تھا.لیکن جہاں تک تیری ذات کا تعلق ہے تو بھی زندگی کے زیر و بم میں سے گزرا ہے.لیکن ہر حالت میں تو مجھ سے راضی تھا.غم کی حالت میں بھی تو مجھے یاد کیا کرتا تھا.خوشی کی حالت میں بھی یاد کیا کرتا تھا.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا و عَلَى جُنُوبِهِمْ (آل عمران: ۱۹۲) کی رو سے یہ تیری حالت تھی کہ راتوں کو بھی اٹھتا تو خدا کو یاد کرتا تھا.کھڑے ہو کر بھی یاد کرتا تھا لیٹے ہوئے بھی یاد کرتا تھا.بیٹھے ہوئے بھی یاد کرتا تھا.اسی طرح فرمایا يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّارَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجد (۱۷) کہ خدا کو یاد کرنے والے ایسے بندے بن گئے تھے کہ وہ طمع کی حالت میں بھی خدا کو یاد کرتے تھے اور خوف کی حالت میں بھی یاد کرتے تھے.یعنی وہ حالتیں جو دوسرے انسانوں کو خوف اور غم میں مبتلا کر دیتی ہیں.ان میں بھی ان کو اللہ ہی یاد آیا کرتا تھا.پس اگر کسی وجود سے کامل طور پر محبت ہو جائے تو اس محبت کے نتیجہ میں اس کی ہر عادت اور ہر بات اور ہر ادا پیاری لگنے لگ جاتی ہے.اور اسی کا نام طمانیت قلب ہے یعنی انسان کو محبت کا ایسا مقام حاصل ہو جائے اور وہ کسی ایک وجود سے ایسا پیار کرنے لگے کہ پھر اس کی ہر بات پر راضی ہونا سیکھ جائے.لیکن یہیں تک بات نہیں رہتی.دنیا میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک انسان اپنے محبوب سے راضی رہتا ہے لیکن محبوب راضی نہیں ہوتا.ہر انسان کا اپنا اپنا مقام ہے کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت ہے کوئی اعلی علمی صلاحیتیں رکھتا ہے کوئی جہالت میں مبتلا ہے.قومی فرق ہیں، نسلوں کے فرق ہیں.مزاجوں کے فرق ہیں.انسانی دنیا میں اکثر ہم یہی دیکھتے ہیں کہ عاشق تو راضی ہوا پھرتا ہے اور معشوق راضی ہی نہیں ہونے میں آتا اور وہ بے چارا ہو بھی نہیں سکتا.اس کے اپنے بھی تو کچھ
خطبات طاہر جلد اول 298 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء تقاضے ہیں.اس کے اپنے بھی تو کچھ ذوق ہیں وہ بھی تو پورے ہونے چاہئیں.اس لئے وہ عشق پھر بھی بے چینی پیدا کر دیتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے جس عشق کا ذکر فرمایا ہے وہاں ہر رضا کے ساتھ ایک متقابل رضا بھی ملتی ہے جو مرضيّةً کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم جس مقام پر بھی ہو گے، خواہ تم اعلیٰ بندوں میں سے ہو یا ادنی بندوں میں سے ہو، خواہ علماء میں سے ہو یا جہلا میں سے ہو،حسین لوگوں میں سے ہو یا بد صورتوں میں سے ہو ، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تم مجھ سے یا میری کسی ایک ادا سے بھی راضی ہو گئے تو اس کے جواب میں ایک مرْضِيَّةً کی حالت بھی پاؤ گے اور اس کا ایک جواب دیکھو گے.میں ہمیشہ اس کے جواب میں تم سے راضی ہوا کروں گا اور تم سے اپنے پیار کا اظہار کروں گا.یہ ہے طمانیت قلب جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے.رَاضِيَةً مرْضِيَّةً اس حالت میں کہ ہر دفعہ جب عاشق اپنے معشوق سے راضی ہوتا ہے تو معشوق بھی رضا کی ایک ادا دکھاتا ہے ، اس سے پیار کا اظہار کرتا ہے، اسی کا نام طمانیت قلب ہے.اس کے سوا طمانیت قلب حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں.جاہل ہیں وہ لوگ جو اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے رستوں میں طمانیت کی تلاش کیا کرتے ہیں.پس وہ لوگ جو مجھے خط لکھ کر پوچھتے ہیں اور دنیا کی بے قراری کا علاج چاہتے ہیں ان کو میں بتا دیتا ہوں کہ اس علاج کے سوا مجھے تو کوئی اور علاج نظر نہیں آتا کہ اپنے رب سے محبت پیدا کریں اس کو اپنا مطلوب بنالیں.اس کو اپنا مقصود بنالیں اور پھر اس سے راضی ہونا سیکھ جائیں.آپ اس رضا میں جتنا آگے بڑھتے چلے جائیں گے اتنا ہی آپ عبودیت میں داخل ہوتے چلے جائیں گے.اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے عبد بنتے چلے جائیں گے.اور جب کوئی انسان خدا کا کامل عبد بن جائے تو اس سے ایک اور نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہی کامل عبد ہوتا ہے جس کا اپنا کچھ نہ رہے.اپنے وجود سے کلیۂ خالی ہو جائے اور پھر جو کچھ اس کو مالک دیتا ہے وہی اس کا ہوتا ہے.یعنی سو فیصدی مالک پر منحصر ہو جاتا ہے.جب اپنا کچھ نہیں رہا تو جو کچھ بھی مالک سے ملتا ہے بطور عطا ہی ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جب ہم تمہیں ہر دوسری چیز سے خالی کر دیں گے یعنی تمہاری تمنائیں تو رہیں گی لیکن میری غلام بن کر رہیں گی.آزاد تمنا ئیں نہیں رہیں گی.غالب تمنا ئیں نہیں رہیں گی.میری یاد کے نیچے مغلوب ہو جائیں گی.تب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جو کچھ میرا ہے وہ تمہارا ہو جائے گا.تب تم میرے عباد میں
خطبات طاہر جلد اول 299 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء داخل ہو جاؤ گے اور عباد میں داخل ہونے کا مطلب ہے وَادْخُلِي جَنَّتِی تم میری جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے.یہ وہ مقام ہے جو ایک لحاظ سے ایک درجہ تک اس دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہو جاتا ہے.خدا کے جتنے برگزیدہ بندے انبیاء کی صورت میں ہمیں نظر آتے ہیں یا جو دوسرے نسبتا ادنی مقامات پر ہوتے ہیں ان میں بھی ہم درجہ بدرجہ رضا کا یہی مقام دیکھتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے رب سے پیار کا ایک بڑا پیارا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے جو دراصل اسی فلسفہ کو ظاہر کرتا ہے.آپ نے ایک ضرورت کے وقت ایک نئی جگہ میں جہاں آپ کا کوئی ساتھی نہیں تھا، کوئی واقف نہیں تھا کوئی مددگار نہیں تھا، ایسی حالت میں بیٹھ کر دعا کی.آپ کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے تھے.صرف اپنے رب سے مانگنا چاہتے تھے اور اس کے سوا کسی اور سے مانگنے کی عادت ہی نہ تھی لیکن کوئی سہارا نہیں تھا.خوف کی وجہ سے اپنے وطن سے نکل گئے تھے.ایک نئی قوم میں جا کر سوچ رہے تھے کہ اب میں کیا کروں.چنانچہ وہاں بیٹھے بیٹھے انہوں نے یہ دعا کی: رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القمص ۲۵) کیسی عجیب تمنا ظاہر کی ہے.کہتے ہیں اے میرے رب ! تو جو کچھ بھی مجھے دے وہی میری تمنا ہے میں اسی پر راضی ہوں.میں فقیر اس چیز کا ہوں جو تو مجھے عطا کرے.یعنی کچھ نہیں بتایا کہ میں کیا چاہتا ہوں، میری کیا تمنائیں ہیں ، میری کیا ضروریات ہیں ، میں بھوکا ہوں، میں شادی کے بغیر ہوں، مجھے سہارا چاہئے ، ایک نئے قبیلہ میں آیا ہوں.مجھے کوئی نہ کوئی سا یہ چاہئے جس کے تحت میں یہاں زندگی گزاروں.اور بے شمار ضروریات ہو سکتی تھیں.لیکن کیسا پیارا فقرہ دماغ میں آیا ہے.کیسی پیاری سوچ ہے.معلوم ہوتا ہے بڑا غور کیا ہو گا کہ آخر میں اپنے رب سے کیا مانگوں.اتنی ضرورتیں کیا بتاؤں.اتنی لمبی چوڑی تقریر میں کیا کروں.پھر یہ سوچا ہوگا کہ میں تو اپنے اللہ سے محبت کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میری محبت کے جواب میں وہ ہمیشہ مجھ سے محبت ہی کرتا ہے تو کیوں نہ یہ معاملہ اس پر چھوڑ دوں.اس کو بھی یہ پتہ ہے کہ جو کچھ مجھے دے گا میں اس سے راضی ہو جاؤں گا اور مجھے بھی یہ پتہ ہے کہ مجھے وہی دے گا جس سے میں راضی ہوں گا تو اس کے بعد پھر اور مانگنے کا سوال ہی کیا باقی رہ جاتا ہے.اس لئے آپ یہ دعا کرتے ہیں:
خطبات طاہر جلد اول 300 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۳ء رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: ۲۵) کہ اے خدا ! میں تو فقیر بنا بیٹھا ہوں اس چیز کا جو تو مجھے عطا کرے.یہی بات ایک اچھی ادا کی شکل میں مغربی تہذیب میں اس رنگ میں پائی جاتی ہے (جس قوم میں بھی کوئی اچھی بات ہو اسے سراہنا چاہئے ) مغربی قوموں میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی ان کو تحفہ دیتا ہے تو جس فرد کو تحفہ دیا جاتا ہے وہ آگے سے یہ جواب دیتا ہے کہ آپ نے ایسا تحفہ دیا کہ بالکل اسی چیز کی مجھے ضرورت تھی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں.یہ جواب تو دراصل خوش کرنے کے لئے ایک رسمی جواب ہے لیکن اس کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ بالکل درست ہے.اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ جو کچھ آپ نے مجھے دیا ہے مجھے اس کی ضرورت تھی تو اس سے زیادہ خوشی اس کو نہیں پہنچ سکتی کہ اسے یہ احساس ہو کہ بعینہ اس کی مرضی اور ضرورت کے مطابق میں نے اسے کوئی چیز دے دی ہے.پس دنیا کی تہذیبوں میں بھی یہ بات اچھی لگتی ہے لیکن ویسے حقیقت سے عاری ہوتی ہے.شاذ و نادر ہی کبھی اتفاقا کسی کو کوئی ایسا تحفہ ملتا ہوگا جس کی اسے ایسی ضرورت ہو کہ گویا اسی کے انتظار میں بیٹھا ہے لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ تحفہ قبول کرنے کا اصل مزہ اور تحفہ دینے والے کے شکریہ کا بہترین اظہار یہی ہے کہ انسان کہے کہ مجھے اس کی ضرورت تھی.لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ دیکھنے سے قبل کہ خدا نے کیا دیا ہے یہ فقرہ کہا کیونکہ وہ تو یہ جانتے تھے کہ میں اپنے رب سے ایسا پیار کرتا ہوں کہ یقیناً پوری سچائی کے ساتھ میں اپنے رب سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ تری طرف سے آئے گا مجھے اس کی ضرورت ہے، میں اس کا فقیر بنا بیٹھا ہوں.پس جب انسان کسی سے ایسے محبت کرے کہ اس کی ہر عطا اس کی ضرورت بن چکی ہو گویا اسی کے انتظار میں بیٹھا تھا تو ہر تمنا پوری ہوئی کہ نہ ہوئی اور کوئی تمناماری نہیں جا رہی.ایسی تعلیم نہیں دی جارہی جو انسانی فطرت کے خلاف ہو یعنی یہ کہ تمناؤں سے عاری ہو جاؤ بلکہ یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تمناؤں کو مغلوب کر دو ایک اعلیٰ تمنا کے حصول میں.یعنی تم اگر اللہ کے ہو جاؤ تو تمہیں ہر دوسرے سے آزادی نصیب ہو جائے گی.مرد آزاد کا اس سے بہتر اور کوئی تصور نہیں کہ رب کی غلامی کے بعد ہر دوسری غلامی سے انسان آزاد ہو جائے.اور وہ اس طرح کہ اس کی تمنا انسان کی ہر دوسری تمنا پر غالب آجائے کیونکہ اس کے بغیر آزادی حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک تمناؤں کو ایک اعلیٰ تمنا سے
خطبات طاہر جلد اول 301 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۸۲ء مغلوب نہ کیا جائے.ورنہ یوں انسان بغیر تمنا کے تو زندگی نہیں گزار سکتا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآنی فلسفہ کے مطابق طمانیت قلب حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی بھی توفیق عطا فرمائے کہ اس زندہ جاوید فلسفہ کو ساری دنیا میں پھیلا دیں اور تمام دنیا کی بے چینی ذکر الہی کے اس مفہوم کے ساتھ دور کریں جس کو قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۳ مارچ ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 303 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء صد سالہ جوبلی منصو بہ اور ہماری ذمہ واریاں ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: صد سالہ جوبلی کا جو منصوبہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے سامنے پیش فرما یا تھا، اس وقت اگر چہ آپ کے پیش نظر اڑھائی کروڑ روپے کی تحریک تھی، لیکن بہت جلد احباب جماعت کے غیر معمولی اخلاص کے اظہار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جماعت اس موڈ میں تھی کہ وہ دس کروڑ سے زائد پیش کرے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے جماعت کو یہی توفیق عطا فرمائی اور تمام دنیا کی جماعت ہائے احمدیہ نے اڑھائی کروڑ کی بجائے دس کروڑ ستر لاکھ اکہتر ہزار دوسو ستائیس (۱٫۲۲۷ ۷ ۱۹۷۷) روپے کے وعدے پیش کئے.یہ منصوبہ جس کا نام صد سالہ جشن احمدیت بھی رکھا گیا اور جشن ہی کا انگریزی ترجمہ جو بلی ہے.اس غرض کیلئے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ سو سال انتظار کے بعد کروڑ ہارو پے کو ہم میلے کی شکل میں خرچ کر دیں اور جس طرح دنیا کی تو میں بے معنی اور کھو کھلے جشن مناتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی یہ جماعت بھی لغویات میں مبتلا ہو کر ایک بے معنی اور بے ہودہ خوشی کا اظہار کرے.اگر یہ مقصد ہوتو یہ
خطبات طاہر جلد اول 304 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء سارا روپیہ ضائع ہونیوالی بات ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعتِ احمدیہ کے مقاصد کی گردن پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے.اس منصوبے کے کچھ اور مقاصد تھے جو مختلف وقتوں میں جماعت کے سامنے کھول کر پیش کئے جاتے رہے.اس غرض سے ایک منصوبہ بندی کمیشن بھی بنایا گیا اور میں بھی اس کا ایک ممبر تھا.بڑے تفصیلی غور و خوض کے بعد تمام دنیا کے حالات کا جائزہ لیکر اور تمام دنیا سے کوائف اکٹھے کر کے وقتا فوقتا اس منصوبے کی مختلف شکلیں ابھرتی رہیں.ان دنوں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے وقت لے کر کبھی ساری کمیٹی پیش ہوتی رہی اور کبھی سیکر ٹری منصوبہ بندی کمیشن.اور بعض دفعہ گھنٹوں اکٹھے بیٹھ کر اس کی تفصیلی چھان بین کی جاتی رہی اور بالآخر وہ منصو بہ ایسی شکل میں منظور ہوا کہ اگر چہ اس کے بعض پہلو ابھی بھی قابل غور ہیں، لیکن خدا کے فضل سے اکثر شکلیں اپنی سوچ اور فکر کے لحاظ سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہیں.اس غرض کے لیے جو اخراجات در پیش ہیں وہ اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ آخری وعدوں کی آخری وصولی آخری سال یعنی ۱۹۸۹ء میں ہو، تب بھی ہمارا کام چل جائے.اخراجات میں سے ایک بہت بڑا حصہ اس نوعیت کا ہے کہ صد سالہ جشن سے چند سال پہلے اگر ساری وصولی ہو سکے تو زیادہ عمدگی کے ساتھ کام چل سکتے ہیں اور اگر اس میں تاخیر ہو جائے تو یہ بھی خطرہ ہے کہ بعض بنیادی اور اہم ضرورت کے کام تشنہ تکمیل رہ جائیں.لیکن اس وقت وصولی کی جو شکل سامنے آئی ہے وہ انتہائی فکرانگیز ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار چونکہ ایک الگ محکمے سے تعلق رکھتے تھے یعنی اس کیلئے ایک سیکرٹری صد سالہ جو بلی برائے وصولی چندہ الگ مقرر تھا.اس لیے منصوبہ بندی کمیشن کے سامنے چندہ کی تدریجی وصولی کے اعداد و شمار نہ پیش ہوئے ، نہ ان سے اس کمیشن کا کوئی تعلق تھا، لیکن اب جب میں نے یہ اعداد و شمار نکلوائے تو یہ فکر انگیز صورت سامنے آئی کہ تدریجی وصولی کے لحاظ سے اب تک جتنا وقت گزر چکا ہے اس نسبت سے جو وصولی ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی.یعنی دس کروڑ ستنتر لاکھ اکہتر ہزار دوسوستائیس (۷۱٫۲۲۷ ۷۷ (۱۰) میں سے چھ کروڑ بیالیس لاکھ چھیانوے ہزار آٹھ سو ترپن (۶,۴۲۹۶,۸۵۳) روپیہ اب تک وصول ہو جانا چاہئے تھا.اس کے مقابل پر اس
خطبات طاہر جلد اول 305 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء وقت تک کل وصولی صرف تین کروڑ پچپن لاکھ انسٹھ ہزار دو سو چونتیس (۳۵۵٫۵۹,۲۳۴) روپیه ہے.گویا دس کروڑستتر لاکھ کے وعدوں میں سے سات کروڑ روپیہ بقیہ چند سالوں میں قابل وصول پڑا ہوا ہے.اس کا مزید تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کا کل وعدہ پانچ کروڑ بیالیس لاکھ اکانوے ہزار دوسوتر اسی روپے تھا.اس کے مقابل پر پاکستان کو اب تک وصولی کی شکل میں تین کروڑ پچیس لاکھ چوہتر ہزار سات سو انہتر (۷۴٫۷۶۹ (۳٫۲۵) روپے پیش کر دینا چاہئے تھا، لیکن ادائیگی صرف ایک کروڑ ستاون لاکھ نواسی ہزار نو سو اٹھارہ (۱,۵۷,۸۹,۹۱۸) روپے ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک بھی پاکستان کی جماعتیں اس چندے میں اللہ تعالیٰ کی ایک کروڑ ستاسٹھ لاکھ چوراسی ہزار آٹھ سوا کا ون (۱,۶۷,۸۴۸۵۱) روپے کی مقروض ہو چکی ہیں اور بقیہ وعدہ اگر تدریجا دیں اور جلدی نہ دیں حالانکہ جلدی دینے کی ضرورت ہے، ( ضرورت یہ ہے کہ آخری سال سے دو تین سال پہلے سب روپیہ وصول ہو جائے) تب بھی ایک کروڑ ستاسٹھ لاکھ چوراسی ہزار روپے کا مزید باران کے او پر ایسا پڑا ہوا ہے جو بظاہر پورا ہوتا نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ جماعتیں غیر معمولی قربانی اور فکر اور ہمت سے کام لیں.تو پاکستان کی جماعتوں کو اب تک جو ادا کرنا چاہئے تھا اس میں سے نصف بھی ادا نہیں ہو سکا یعنی اس کی وصولی صرف ۴۸ فیصدی ہے.بیرون پاکستان کی یہ شکل بنتی ہے کہ وہاں کی جماعتوں نے پانچ کروڑ چونتیس لاکھ اناسی ہزار نوسو چوالیس (۵,۳۴۲۷۹,۹۴۴) روپے کا وعدہ لکھوایا ، جس میں سے اب تک ان کو تین کروڑ سترہ لاکھ بائیس ہزار چوراسی (۳۱۷,۲۲۰۸۴) روپے ادا کرنا چاہئے تھا مگر ادا ئیگی صرف ایک کروڑ ستانوے لاکھ انہتر ہزار تین سوسولہ (۱,۹۷,۶۹,۳۱۶) روپے ہوئی ہے.تو بیرونی جماعتیں پاکستان کے مقابل پر تدریجی وصولی میں کچھ آگے ہیں.یعنی ان کو اب تک جو سو (۱۰۰) دینے تھے ان میں سے باسٹھ (۶۲) روپے دیئے ہیں اور ۳۸ روپے ان پر قرض ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کی جماعتوں نے سو(۱۰۰) میں سے صرف ۲۸ روپے دیئے ہیں اور ان پر ۵۲ روپے کا قرض ہو چکا ہے.اس نسبت سے بیرون پاکستان وصولی کی رفتار قدرے بہتر ہے لیکن اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کے لحاظ سے بہت سے بیرونی ممالک پاکستان کی جماعتوں کی قربانی کے معیار سے ابھی پیچھے ہیں.جب یہ صورت حال
خطبات طاہر جلد اول 306 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء سامنے آئی تو مزید جائزہ لیا گیا اور پتہ لگا کہ کراچی اور لاہور کی جماعتیں باوجود اس کے کہ باقی چندوں میں وہ بہت مستعد ہیں، اس چندے میں نمایاں طور پر پیچھے رہ گئی ہیں.اکیلے کراچی کا وعدہ ایک کروڑ پچپن لاکھ پچپن ہزار پانچ سو پچپن (۱۵۵,۵۵,۵۵۵) روپے تھا، جس میں سے دو تہائی ابھی ان کے ذمے قرض پڑا ہوا ہے.اسی طرح لاہور کا وعدہ تر اسی لاکھ انہتر ہزار ایک سو چھہتر (۸۳۶۹,۱۷۶) روپے تھا اس میں سے بھی بیشتر ان کے ذمہ ابھی قرض پڑا ہوا ہے.دوسری طرف چندوں کی بہتری کی جو تحریکات چل رہی ہیں اور اس کے لیے ایک روچلی ہوئی ہے اس طرف بھی لازماً جماعت کی توجہ ہے.پھر تحریک جدید ہے.وقف جدید ہے.اسی طرح اور بہت سی تحریکات ہیں.مثلاً بیوت الحمد کا منصوبہ بھی سامنے آیا ہے.یہ سارے بوجھ جماعت نے بہر حال اُٹھانے ہیں.میں ان کو بوجھ اس لیے کہتا ہوں کہ اردو محاورے میں یہی لفظ سامنے آتا ہے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بوجھ نہیں ہیں.عربی زبان میں تو دو الگ الگ ایسے لفظ استعمال ہوئے ہیں جن سے فرق ہو جاتا ہے.ذمہ داریوں کیلئے قرآن کریم حمل کا لفظ استعمال کرتا ہے جیسا کہ فرمایا: رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ (القرو: ۲۸) اور رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا (البقره: ۱۸۷) میں اصر کا لفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے.قرآن کریم اصر کا لفظ اس بوجھ کے لیے استعمال کرتا ہے جس کو قوموں نے ذمہ داریاں سمجھ کر اٹھایا مگر پھر ان سے بے پرواہی کی.تب وہ ذمہ داریاں ان کے او پر بیٹھ گئیں اور یہ ان کو بوجھ سمجھ کر اٹھائے پھرتے رہے.حقیقت میں وہ بوجھ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت اور انعام تھا.پس جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصر کا لفظ قرآن کریم میں عموماً اس قسم کے بوجھوں کے لیے استعمال ہوا ہے جہاں شریعت کی ذمہ داری کو عرف عام میں بوجھ اور مصیبت اور بیگار کہا جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت علی کی ایک صفت یہ بیان فرمائی يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ (الاعراف:۱۵۸) کہ وہ ان کے اوپر سے بوجھ اتارتا ہے.اگر اصر سے شریعت کی ذمہ داریاں مراد ہوں تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ آنحضرت علیہ نعوذ باللہ شریعت کی ذمہ داریوں سے آزاد کرانے آئے تھے حالانکہ آپ تو ذمہ داریاں ڈالنے والے تھے نہ کہ اتارنے والے.پس مراد ی تھی کہ پرانی شریعتوں نے جن چیزوں کو بوجھ سمجھ لیا یا شریعت سے زائد ذمہ داریاں قبول کر لیں جو ج
خطبات طاہر جلد اول 307 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء واقعہ بوجھ تھیں ان سب کو اتار پھینکا.نفسیاتی لحاظ سے رجحان میں بھی تبدیلی پیدا کی اور وہ ذمہ داریاں جو خدا نے نہیں ڈالی تھیں ان کو بھی دور فرما دیا.چونکہ اردو میں کوئی دوسرا لفظ نہیں ملتا اس لئے میں مجبور ہوں کہ بوجھ کہوں.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور اس کا احسان ہے.اللہ تعالیٰ جس جماعت کو قربانی کے لئے بلائے اور اس پر انحصار کر دے دنیا میں انقلابات لانے کا، اس پر بنار کھدے ایک نئی زمین اور اک نئے آسمان کی تعمیر کی اس کے لیے اس سے بڑا انعام اور احسان اور کیا ہو سکتا ہے.یعنی اس ساری دنیا میں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہی چنا ہے انقلاب اور تبدیلی لانے کیلئے.حالانکہ آج دنیا میں اربوں ارب روپیہ کمانے والے ایسے افراد موجود ہیں جو جماعت احمدیہ کی کل دولت سے زیادہ اکیلے دولت رکھتے ہیں پھر بیشمار کمپنیوں میں سے ایسی Multi National کمپنیاں موجود ہیں جو بعض بڑے بڑے ملکوں کی دولت سے زیادہ دولت اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں.پس جہاں تک دولتوں کے سمندر کا تعلق ہے ہم اس کا ایک قطرہ بھی شمار ہونے کے اہل نہیں ہیں پھر جہاں تک دنیاوی طاقتوں اور سیاسی طاقتوں کا تعلق ہے، دنیا میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے.اس لئے خدا کا ہمیں اس بات کیلئے چن لینا کہ ساری دنیا کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لو اور میں تمہارے ساتھ ہوں ، اس سے بڑا احسان اور اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے.اسلئے یہ ہماری خوش قسمتی ہے اور جب تک خوش قسمتی سمجھ کر ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہیں گے ادا ئیگی کی بھی توفیق ملتی رہے گی اور اس کے بدلے میں ہم بے انتہاء فضلوں کے بھی وارث بنائے جائیں گے.لیکن اگر ہم نے اس انعام کو اصر سمجھ لیا.ایسا بوجھ جو چیٹی کے طور پر پڑ جاتا ہے تو پھر ہماری قربانیاں بھی رائیگاں گئیں اور انکے مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکتے.سوال یہ ہے کہ ایسی جماعت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اخلاص کے لحاظ سے ایک بے مثل مقام رکھتی ہے اور جب وہ وعدہ کرتی ہے تو پورے اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اسے پورا کرتی ہے، وہ اتنے اہم چندے میں پیچھے کیوں رہ گئی؟ میں نے مختلف حیثیتوں میں بطور سائق بھی کام کیا ، بطور زعیم بھی کام کیا ، بطور قائد بھی اور بطور صدر مجلس بھی.اسی طرح وقف جدید میں بھی مجھے موقع ملا.جماعت کے مالی نظام کے متعلق میرا سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جماعت احمدیہ، بحیثیت جماعت
خطبات طاہر جلد اول 308 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء کسی قربانی سے پیچھے رہنے والی جماعت نہیں ہے نظام جماعت کے جو کارندے ہیں بعض دفعہ ان میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جماعتیں چندوں میں پیچھے رہنا شروع ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ غفلت کی حالت میں بعض دفعہ واقعہ وہ اتنا پیچھے رہ جاتی ہیں کہ پھر مزید ذمہ داری کا اٹھانا ان کیلئے بوجھ بن جاتا ہے.ذمہ داری نہیں رہتی.یہ جو حالت ہے اس میں لازماً ایک حصہ اس نظام سے بھی تعلق رکھتا ہے جس کا فرض تھا کہ ہر سال جماعت کو بیدار کرتار ہے اور جھنجھوڑتا رہے اور یاد کراتا رہے کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے اور تم اسکی ادائیگی میں پیچھے رہ رہے ہو.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس منصوبے کے جو اعلیٰ مقاصد ہیں ان کو جس طرح کھل کر بار بار جماعت کے سامنے پیش ہونا چاہئے تھا اس کا کوئی موقع نہیں آیا.یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی میں جو منصوبہ کھول کر پیش کیا تھا اسکے سارے نقوش چھپ چکے ہیں لیکن وہ ایسی صورت میں چھپے ہیں کہ جس طرح اخبار الفضل جماعت کے سامنے پیش کرتا ہے یا دوسرے رسائل اس طرح وہ جماعت کے سامنے بار بار نہیں آسکے جس طرح ان کا حق تھا.وہ یا شوری کی کارروائی میں پڑے ہوئے ہیں.یا منصوبہ بندی کمیشن کے سامنے جو ہدایات ہیں یا کمیشن کی سوچ و بچار کے جو نتائج ہیں وہ ان کی فائلوں میں دبے پڑے ہیں.تو جماعت کے سامنے کھل کر بار بار یہ بات پیش نہیں ہوئی کہ یہ یہ کام ہیں جن پر اتنا خرچ آنا ہے اور تمہاری غفلت یا نیند نے اب تک یہ نقصان پہنچا دیا ہے.منصوبہ بندی کے سارے کوائف تو میں آپکے سامنے پیش نہیں کر سکتا.لیکن خلاصہ چند باتیں میں نے نوٹ کی ہیں جو میں اس وقت آپکے سامنے رکھنی چاہتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ کتنے عظیم مقاصد ہیں جن کیلئے یہ روپیہ خرچ ہونا ہے اور بعض ضرورتیں کتنی تیزی کے ساتھ سامنے آکھڑی ہیں اور اگر ان کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو پھر اتنا وقت ہی نہیں رہیگا کہ انکی طرف توجہ دی جا سکے.جلسہ سالانہ قریب آنیوالا ہے اس لئے ہم یہاں سے بات شروع کرتے ہیں.جب سوسالہ جلسہ سالانہ ہو گا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا سے کس طرح جوق در جوق احمدی پروانوں کی طرح جلسہ پر حاضر ہونگے اور جلسے کی یہ شکل تو نہیں رہے گی جو اس وقت ہے.اس کے انتظامات ہر پہلو سے کئی گنا پھیل جائیں گے.عمارتوں کے تقاضے ہیں.نئی جلسہ گاہ بنانے کے تقاضے
خطبات طاہر جلد اول 309 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء ہیں.پھر لنگروں کے نئے تقاضے پیدا ہوں گے.پھر اُس جلسے سے تعلق رکھنے والے جشن کے بعض ایسے پہلو ہیں جو اسی وقت سامنے آئیں گے اور جلسے سے پہلے ہی ان پر کام مکمل ہو چکا ہو گا.گویا وہ سارا سال ہی عملاً جشن میں گزرے گا.اور بعض پہلو ایسے ہیں جن کی تیاری پر ابھی سے خرچ کرنا پڑے گا اور ابھی سے محنت کرنی پڑے گی.مثلاً تعمیرات ہیں.اس کے لئے زمین حاصل کرنے کا کام ہے.(اس کا ایک حصہ تو ہو چکا ہے ) پھر یہ جائزہ کہ اس زمین کو کس طرح بہتر رنگ میں جلسہ سالانہ کے لئے تبدیل کیا جا سکتا ہے.کس قسم کی تنصیبات کی ضرورت ہے.کس قسم کی تعمیرات کی ضرورت ہے.نقشے بنتے بنتے ہی کافی وقت لگ جاتا ہے.پھر جب گو آرڈر (Go Order) یعنی کام شروع کر دو، کہا جائے گا تو اس کے لئے کئی سال درکار ہیں.پھر ضروری کتب اور پمفلٹ کی اشاعت ہے.تمام ملکوں میں خدمت اسلام کی با تصویر تاریخ ہم نے وہاں پیش کرنی ہے.تصنیف کا یہ ایک شعبہ جلسہ سالانہ سے تعلق رکھنے والا ہے.غانا، نائیجیریا، سیرالیون، امریکہ، انگلستان ، جرمنی اور دیگر ممالک جہاں جماعت احمدیہ کے با قاعدہ مشن قائم ہیں، ان تمام مشنوں کی پوری تاریخ الف سے ہی تک اور پھر وہاں جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیا کیا کامیابیاں نصیب ہوئیں، نہایت اعلیٰ قسم کی با تصویر کتابوں کی شکل میں پیش کرنی ہے.جس سے ہر بڑی زبان میں پڑھنے والا معلوم کر سکے کہ کیا پیش کیا گیا ہے.چھوٹے چھوٹے کپشنز (Captions) یعنی عنوانات مختلف زبانوں میں تیار ہوں.کچھ فرنچ میں ، کچھ اٹالین میں، کچھ جرمن میں کچھ اردو میں، کچھ عربی میں، کچھ سواحیلی میں، کچھ روسی اور لاطینی میں.غرض یہ کہ مختلف زبانوں میں ہمیں ساتھ ایک ایک لائن کا تعارف دینا پڑے گا.اب صرف یہی اتنا بڑا اور وسیع کام ہے کہ اس کی تیاری کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے اور بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہے جو ابھی سے ہمہ تن وقف ہو کر یہ کام شروع کر دیں.علاوہ ازیں دنیا کی ایک سو زبانوں میں اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا کام ہے.اس کام کیلئے ان زبانوں کے ماہرین کی تیاری کی ضرورت ہے.اس پر بہت سا روپیہ خرچ ہوگا.اگر اپنے ماہرین تیار نہیں ہو سکتے تو دوسرے ماہرین کو لینا پڑے گا.پھر پمفلٹ کی اشاعت کی
خطبات طاہر جلد اول 310 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء تیاری اور اس کی تقسیم کی تیاری ہے کہ وہ تقسیم کس طرح ہوگی تاکہ دنیا کی ایک سوز بانوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت محمد مصطفی علی کا پیغام پہنچ جائے.یہ ہے ہمارا جشن.اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے اس کام کیلئے ہم یہ تو نہیں کر سکتے کہ ساری دنیا کی کمپنیوں کو کہیں کہ ہمارا کام کر دو.ہم پیسے بعد میں دیدیں گے.ہمارے پیسے آنیوالے ہیں.انتظار کرو.یہ تو کوئی بھی نہیں مانے گا.آج کل بہت سے کام ایسے ہیں جن پر پیشگی خرچ کرنا پڑتا ہے.پھر ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ایک سوملکوں میں جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہو چکی ہو.آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کوشش کے لئے کتنی محنت اور کس قدر اخراجات کی ضرورت ہے.جن نئے ملکوں کا انتخاب کیا جائے گا (اور وہ انتخاب ساتھ ساتھ ہو رہا ہے ) ان میں مشغوں کا قیام ، وہاں مبلغوں کا بھجوانا اور ان کی وہاں کی ضروریات کا پورا کرنا ہے.اگر فی الحال صرف کرائے پر مکان لیکر ہی کام شروع کیا جائے تو اس پر بھی بے انتہا خرچ کا اندازہ ہے.آپ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ باہر کی دنیا خصوصاً مغربی دنیا میں روپے کی کیا قدر اور حیثیت رہ گئی ہے اور وہاں چھوٹے چھوٹے مشنوں کے قیام کے لئے کتنے اخراجات کرنے پڑتے ہیں.پھر مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے.سو(۱۰۰) جگه تو با قاعدہ جماعتیں قائم کرنی ہیں لیکن اس کے علاوہ ہر جگہ عمارت خرید کر یا اپنی عمارت تعمیر کر کے مشن کا قائم کرنا اس وقت ہمارے لئے ناممکن ہے.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے، اکثر صورتوں میں مکان کرائے پر لے کر گزارہ کرنا پڑے گا.ایک کمرہ بھی مل جائے تو مبلغ وہاں تبلیغ کا کام شروع کر سکتا ہے.دو مشنوں یعنی اٹلی اور برازیل کے لئے تو خدام الاحمدیہ پہلے ہی روپیہ پیش کر چکی ہے لیکن ان کے علاوہ جو ملک ہمارے پیش نظر ہیں ان میں یونان ہے، پرتگال ہے، آسٹریا ہے، آئر لینڈ ہے، آسٹریلیا ہے، نیوزی لینڈ ہے.اسی طرح ایسے افریقی ممالک ہیں جہاں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے اور ابھی تک ہمارا وہاں کوئی نفوذ نہیں ہوا.سوائے بین اور ماریشس کے جوفرانسیسی بولنے والے ممالک ہیں، ابھی تک جماعت احمدیہ کوفرانسیسی کالونیز میں پھیلنے کا موقع نہیں ملا.دنیا کا یہ ایک بڑا حصہ ہے جو احمدیت سے خالی پڑا ہے.پھر ساؤتھ ایسٹ ایشیا یعنی جنوب مشرقی ایشیا یا فار ایسٹ یعنی مشرق بعید وغیرہ.( جو جو اصطلاحیں جغرافیائی حالات پر پوری اترتی ہیں.ان کی روشنی میں میں کہہ
خطبات طاہر جلد اول 311 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء رہا ہوں.یہ سارے علاقے عملاً محتاج پڑے ہوئے ہیں یہاں احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا.پھر بدھسٹ (Buddhist) دنیا ہے.دنیا میں بدھوں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے.سارے مسلمانوں کی کل تعداد سے دُگنے سے بھی یہ زیادہ ہیں.لیکن ان میں ابھی تک جماعت کا کوئی نفوذ نہیں.بدھ ممالک میں مشنوں کا ایسا قیام ہو کہ بدھ قوم کو تبلیغ کی جائے.بدھ ممالک میں اس وقت ہمارے جتنے بھی مشن کام کر رہے ہیں وہ ہندوستانی نسل کے آباد کاروں میں تبلیغ کرتے رہے ہیں اور انہی میں سے جماعتیں بنا چکے ہیں.لیکن جہاں تک بدھ دنیا کا تعلق ہے وہاں خلا پڑا ہوا ہے.پھر آپ جنوبی امریکہ میں چلے جائیں جو عملاً ایک عظیم الشان کانٹمینٹ یعنی براعظم ہے.ایک براعظم ساؤتھ امریکہ کا بن جاتا ہے اور ایک نارتھ یعنی شمالی امریکہ کا بن جاتا ہے.جغرافیائی لحاظ سے تو شاید ان دونوں کو ایک ہی بر اعظم کہیں لیکن جغرافیائی تقسیم ایسی ہے کہ حقیقت میں ساؤتھ امریکہ ایک الگ براعظم ہے.وہاں ایک برازیل سے تو بات نہیں بنے گی.اور برازیل میں صرف ایک مشن قائم کرنے سے تو بات نہیں بنے گی.وہاں دسیوں اور ممالک ہیں چھوٹے بھی اور بڑے بھی اور ان کے جزائر جو بہت پھیلے ہوئے ہیں، ان سب میں ہمیں کام کرنا پڑے گا.تو یہ کام بھی قرض سے تو نہیں چل سکتا کہ ہم ان سے کہیں ہمیں یہاں مشن بنانے دومگر پہلے تم اپنی طرف سے خرچ کر دو.ہم تمہیں بعد میں دیدیں گے.اس معاملے میں تو کسی نے آپ کے ساتھ معمولی سا بھی تعاون نہیں کرنا.ان مشنوں کی تعمیر کے لیے ہی حقیقت میں کروڑوں روپیہ درکار ہے.لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی ذمہ داریاں ہیں جو اس منصوبے کے علاوہ جماعتوں نے خود ادا کرنی ہیں اور وہ پہلو بہ پہلو جاری رہیں گی.مثلاً جرمنی میں جماعت کا جو پھیلاؤ ہے اس کے لحاظ سے وہاں مشن بہت تھوڑے ہیں.مغربی جرمنی کے لیے ہم نے جو منصوبہ بندی وہاں کی تو پتہ چلا کہ کم از کم تین اور مشنوں کا قیام وہاں ضروری ہے.نیز موجودہ دونوں مشنوں یعنی ہمبرگ اور فرینکفورٹ کی توسیع ضروری ہے.مسجد ہمبرگ میں بھی اور مسجد فرینکفورٹ میں بھی جو حاضرین تھے ان کا او در فلو (Over flow) کناروں تک باہر چلا جاتا تھا یعنی صحن بھی بھر جاتا اور لوگ سڑکوں تک پہنچ جاتے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ ہمسایوں کو شکایت پیدا ہوئی.بہت سے ہمسائے تو بڑے خلیق اور ہمدرد ہیں
خطبات طاہر جلد اول 312 خطبه جمعه ۳/ دسمبر ۱۹۸۲ء لیکن ان میں بعض اسلام کے دشمن بھی تھے.انہوں نے اعتراض کئے.یہاں تک کہ اب وہ توسیع کے معاملے میں بھی روک بنے ہوئے ہیں.یہ توسیعات اس منصوبے کے علاوہ ہیں.پھر انگلستان میں با وجود اس کے کہ قریب کے عرصہ میں خدا کے فضل سے چھ مشن قائم ہوئے ہیں وہاں ہماری مرکزی مسجد بہت چھوٹی رہ گئی ہے اور وہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ جگہ کی کمی کی وجہ سے دوست باہر کھڑے ہونے پر مجبور ہوتے ہیں.پارکنگ کی ضروریات پوری ہونے والی ہیں.احمدیوں کی کاروں سے تمام سڑکیں بھر جاتی ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمسایوں کو تکلیف ہوتی ہے اور ان کی تکلیف کا اظہار جائز بھی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ وہ بڑی مہذب قومیں ہیں.لیکن برداشت کی بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں.اب ہر جمعہ کو دوست مسجد میں اکٹھے ہوں اور تمام سڑکیں بھر دیں اور گزرنے والوں کے لیے ایک مصیبت کھڑی کر دیں تو وہ کہاں تک برداشت کر سکتے ہیں.اس لیے وہاں کاروں کی پارکنگ کے لیے جگہ کی ضرورت ہے.اور اس کے لیے بہت سا روپیہ چاہئے.امریکہ میں کم از کم پانچ مشن فوری طور پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے.یہ بھی اس منصوبے کے علاوہ ہے اور وہاں کی جماعتوں نے یہ بوجھ بھی اٹھانے ہیں.پس اتنے وسیع کام پڑے ہوئے ہیں جو ہم نے کرنے ہیں اور ابھی تو میں نے سارے کام آپ کے سامنے پیش ہی نہیں کئے.ان میں سب سے بڑا اور سب سے اہم کام قرآن کریم کے تراجم کی مختلف زبانوں میں اشاعت ہے.بہت سی زبانوں میں ابتدائی مراحل پر تر جے مکمل ہو چکے ہیں.ان کی نظر ثانی ، پھر نظر ثانی ، اور پھر مزید احتیاط ، یہ مراحل ابھی باقی ہیں.لیکن بسم اللہ کی سب سے لے کر الناس کی س تک کا ترجمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہے اور مسودات پڑے ہوئے ہیں.ان کے اوپر کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں.ماہرین ڈھونڈے جارہے ہیں تا کہ یہ مسودات بھی جلد سے جلد طباعت کی شکل میں دنیا کے سامنے آئیں.اخراجات کے سلسلے میں سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی سے جب فرانسیسی زبان کے صرف ترجمے کے متعلق بات کی گئی کہ ترجمے کو اس درجے تک پہنچا دو کہ پروف ریڈنگ تک کا کام ہو جائے (اس کے بعد باقی سب خرچ جماعت نے کرنا تھا) تو ان کا اندازہ پچپن (۵۵) لاکھ روپے کا تھا اور اس کے بعد پچاس ساٹھ لاکھ روپے اس کی اشاعت پر خرچ ہونا تھا.پھر اس کی تقسیم کا
خطبات طاہر جلد اول 313 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء کام ہے کہ وہ کیسے ہوگی.اس کے لیے بھی اخراجات درکار ہیں.تو قرآن کریم کی ایک ایک اشاعت کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کی ضرورت پیش آئے گی.قرآن کریم کی اشاعت کا پورا حق تو انسان ادا ہی نہیں کر سکتا.لیکن جہاں تک تمنا بیقرار ہے ہم کچھ تو کریں.الغرض یہ سارے کام وہ ہیں جو بھی ہو نیوالے ہیں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عمومی تصویر اب یہ بن رہی ہے کہ جماعت کے اوپر ابھی تک دو تہائی قرضہ پڑا ہوا ہے ان وعدوں کے لحاظ سے جو جماعت نے یقیناً بڑی محبت اور خلوص اور دیانتداری کے ساتھ پیش کیے تھے.میں یہ تفصیلات اس لیے بتا رہا ہوں کہ جماعت کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ یہ سارے کام ہم نے ہی کرنے ہیں.کسی اور نے آکر نہیں کرنے.اس لیے جہاں سے چاہیں لیں اور جس طرح چاہیں کریں، لیکن یہ قرض جو ان کے ذمہ ہے اسے جلد اتار دیں.چاہے قرض اٹھائیں ، بچوں کا پیٹ کاٹیں، اپنی دوسری ضروریات پیچھے کریں، اپنے گھروں کی تعمیر پیچھے ڈال دیں اور جو کچھ بھی وہ کریں گے خدا کی خاطر کریں گے.کسی پر احسان تو نہیں ہے.بلکہ جو بھی توفیق خدمت کی ملے گی یہ ان پر احسان ہوگا.اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ خودان پر اپنے فضلوں کی بارش کرے گا.یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے.نظام جماعت پر کسی کا ایک ذرے کا بھی احسان نہیں ہے.کیونکہ یہ سوداہی اللہ تعالیٰ کا ہے فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الجنَّة (التوبة (11) کہ تمہارا سودا تو اللہ کے ساتھ ہوا ہے نہ کہ کسی انسان کے ساتھ.حضرت محمد مصطفی مے کے پاس جا کر احسان جتانے کی کیا ضرورت ہے.آپ کو فر ما یا ان سے کہہ دو قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَى اِسْلَامَكُمْ (الحجرات:۱۸) تم کہہ رہے ہو کہ ہم نے یہ قربانیاں کیں.مجھ پر اپنا اسلام ہرگز نہ جتلاؤ.مجھ پر تمہارا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ میں تمہارا محسن ہوں جو تمہیں اعلیٰ مقاصد کی طرف بلا رہا ہوں.میری وجہ سے تو تمہیں تو فیق مل رہی ہے کہ تم خدا کی خاطر نہایت ہی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی زندگیاں پیش کرو.پس یہ احسان تم پر ہے نہ کہ مجھے پر.جہاں تک قربانیوں کا تعلق ہے اسلام تو ایک بڑا ہی منصفانہ مذہب ہے.اگر احسان
خطبات طاہر جلد اول 314 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء محمد مصطفی ﷺ پر نہیں ، آپ کے نظام پر نہیں تو وہ قربانیاں گئیں کہاں؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کہیں نہیں گئیں.وہ میرے پاس ہیں.انَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اللہ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ ایک سودا کیا ہے.میں نے تمہارا سب کچھ خرید لیا ہے.تمہاری جانیں بھی خرید لی ہیں.تمہارے اموال بھی خرید لیے ہیں.تمہاری جائدادیں بھی ، تمہاری عزتیں بھی، تمہاری ساری تمنائیں بھی میں لے چکا ہوں.اس لیے کہ ط بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ یعنی ان لوگوں کے لیے میری جنتیں پیش کی جائیں گی.اور حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ دینے کے بعد وہ جنت جو رضائے باری تعالیٰ کی جنت ہے اور جو دائی ہے اگر وہ مل جائے تو ان چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی.یہ سودا بھی نام کا ہی سودا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ محبت اور پیار کے اظہار کے لیے سودا کہہ دیتا ہے ورنہ سودا کیسا؟ جو کچھ دیا ہے وہ بھی تو اسی نے دیا تھا.وہ جب دوبارہ ہم اس کے سامنے پیش کر دیں تو اللہ میاں کہتا ہے میں تم سے سودا کر رہا ہوں.وہ اگر چاہے تو چھین بھی لیتا ہے.دیکھتے دیکھتے بڑے بڑے تاجروں کے خلیے بگڑ جایا کرتے ہیں اور ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا زمینداروں کے پاؤں تلے سے زمینیں نکل جاتی ہیں.تو سو (۱۰۰) طریق ہیں اس کے لینے کے ، مگر وہ نہیں لیتا.عجیب حوصلہ دکھاتا ہے بنی نوع انسان کے ساتھ.لیکن چاہتا یہ ہے کہ جب میں لوں تو طوعی طریق پر لوں تا کہ دینے والوں کے اندر عظمت کردار پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں وہ مزید فضلوں کے وارث بنیں.یہ ہے فلسفہ اس چندے کا جو حضرت محمد مصطفی عدلیہ نے دنیا سے طلب کیا.پس یہ سارے کام ہم نے کرنے ہیں، لیکن کسی پر احسان نہیں.خود ان پر احسان ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ پیش کرنا ہے.یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے اور جب خدا کے ساتھ خلوص کا معاملہ پڑتا ہے تو خدا اس معاملے کو انسان کے لیے کبھی بھی نقصان کا معاملہ نہیں بننے دیتا.یہ صرف بیوقوفی ہے، بدظنی ہے، جہالت ہے انسان کی کہ وہ سمجھے کہ میں قربانی کروں گا تو مصیبت میں مبتلا ہو جاؤں گا.حالانکہ قربانی نہ کرنے والے تو مصیبت میں مبتلا دیکھے گئے ہیں، قربانی کرنے والے کبھی مصیبت میں مبتلا نہیں دیکھے گئے.نہ وہ مبتلا ہوتے ہیں نہ ان کی اولادیں نہ اولادوں کی اولادیں.محاورہ ہے کہ
خطبات طاہر جلد اول 315 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء اولیاء کی اولادیں سات پشت تک اپنے باپ دادا کی نیکیوں کا پھل کھاتی ہیں.اور جسے اللہ تعالیٰ بڑھانا چاہے اگر سات پشتوں میں ایک بھی نیک پیدا ہو جائے تو یہ نظام جاری رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی جزا کا نظام تو کبھی ختم ہی نہیں ہوسکتا.پھر آنحضرت علﷺ کی سیرت طیبہ ہم نے ساری دنیا کے سامنے اس نقطۂ نگاہ سے پیش کرنی ہے کہ ظالموں نے آپ کی ذات مقدس پر جتنے بھی اعتراض کیے ہیں ان سب کے جوابات ساتھ ہوں اور دنیا کی سب زبانوں میں وہ تراجم پیش کیے جائیں.یہ جو دوسرے رائج الوقت نظام کے قائل ہیں، مگر سہرے سے خدا کے قائل ہی نہیں جب تک ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی ذات کو پیش نہ کیا جائے اور ایسے پُر اثر اور مدلل مضمون نہ لکھے جائیں جن سے وہ سمجھنے لگیں کہ ہاں ، واقعہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہئے ، اس وقت تک یہ ساری چیزیں ان پر کچھ بھی اثر نہیں کریں گی.نہ وہ قرآن کو سمجھیں گے ، نہ سیرت آنحضرت ﷺ کو سمجھیں گے اور نہ ہی دوسرے پمفلٹ اور رسائل کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہوگی.جب وہ خدا تعالیٰ کی ذات پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں تب قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی سیرت اور دوسرے مضا میں ان کے سامنے پیش کئے جائیں.ان کی دلچسپیوں کو اسلام کی طرف کھینچنے کے لیے بعض اور ضروری ذرائع ہیں.اگر آپ وہ اختیار نہیں کریں گے تو لاکھ کوشش کریں یہ لوگ آپ کی طرف مائل نہیں ہوں گے.مثلاً اسلام کا اقتصادی نظام ہے.ان کو بتایا جائے کہ کیوں یہ نظام اشترا کی نظام سے بہتر ہے؟ کیوں یہ Capitalistic سسٹم یعنی سرمایہ دارانہ نظام سے بدرجہا بہتر ہے؟ یہ لوگ مذہبی اقدار کو بھلا بھی دیں اگر خالصہ دہریہ کے نقطہ نگاہ سے حسابی نظر کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلام کا پیش کردہ اقتصادی نظام باقی سب نظاموں سے بہتر ہے.جماعت کی طرف سے اس کو بار ہا ثابت کیا جا چکا ہے لیکن وہ کافی نہیں.نئے بین الاقوامی تقاضوں کے لحاظ سے ، اور نئے حالات کے لحاظ سے اس چیز کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے.اقتصادیات تو کوئی غیر متبدل چیز نہیں ہے کہ اگر اس کے اوپر آج سے پچاس سال پہلے ایک کتاب لکھی گئی تو وہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گی.صرف قرآن ہے جو ہمیشہ کے لیے جاری رہتا ہے.باقی
خطبات طاہر جلد اول 316 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء ساری انسانی کتا میں خواہ وہ کتنے بڑے بزرگوں اور علماء کی لکھی ہوئی ہوں ، وقت سے پیچھے رہ جاتی ہیں.اس لیے بڑی جرات اور بڑی قوت کے ساتھ ہمیں ان کو بتانا پڑے گا کہ موجودہ وقت کے نقطۂ نگاہ سے اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلام کیا نظام پیش کرتا ہے اور دلائل سے منوانا پڑے گا کہ یہ نظام بہتر ہے اور تمہارا نظام اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.پھر اس نظام کے ساتھ جو مزید فوائد وابستہ ہیں اور جن کا تصور بھی ان کے نظاموں میں نہیں پایا جاتا وہ بھی ان کے سامنے پیش کرنے پڑیں گے.ان باتوں کے وہ قائل ہوں گے تو اسلام میں دلچسپی لیں گے.ورنہ دنیا کی بھاری اکثریت دہر یہ ہو چکی ہے.ان کو اس بات میں ایک کوڑی کی بھی دلچسپی نہیں کہ مذہب کیا چیز ہے؟ میں نے ایسے لوگوں سے بارہا گفتگو کی ہے ابھی یورپ میں بھی کئی جگہ گفتگو کا موقع ملا.جو عیسائی کہلانے والے ہیں ان میں سے بھی اکثر عملاً دہر یہ ہو چکے ہیں.ان کے اندر کوئی ایسی دلچسپی نہیں ہوتی تھی کہ ہم ایک دم عیسائیت اور اسلام کی باتیں شروع کر سکتے.اس لیے ایسی مجالس منعقد ہوتی تھیں جن میں ان کے ہر قسم کے سوالات کے جواب قرآن کریم کی رو سے دیے جاتے تھے.نتیجہ جب وہ دیکھتے تھے کہ ان کے دنیاوی سوالات کا حل قرآن کریم میں ہے تو پھر ان کے اندر دلچپسی پیدا ہوتی تھی.پس با تیں تو ساری ہی قرآن کریم کے حوالے سے ہونگی خواہ اقتصادیات کی باتیں ہوں خواہ فلسفے کی باتیں ہوں، خواہ سائنس کی باتیں ہوں.لیکن سائنسدان کو سائنس کی زبان سمجھ آئے گی.فلسفہ دان کو فلسفہ کی زبان سمجھ آئیگی اور اقتصادیات کے ماہر یا اقتصادیات میں دلچسپی لینے والی دنیا کو اقتصادیات کی زبان سمجھ آئے گی.یہ سارے کام ایسے ہیں جو ابھی ہونے والے ہیں ان کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.پھر جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ہمیں ایسی قوموں کے لئے جن کو قرآن کریم کے ساتھ کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے، قرآن کریم کی ایسی آیات کا انتخاب کرنا پڑے گا، جوان پر اثر کریں.خواہ کوئی دہریہ ہو یا غیر دہریہ، قرآن کریم کی تلاوت اسکے دل پر گہرا اثر کرتی ہے.قرآن کریم میں یہ طاقت ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (الزمر: ۲۴) انسان کے اندر
خطبات طاہر جلد اول 317 خطبه جمعه ۳/ دسمبر ۱۹۸۲ء ایک قسم کا تزلزل پیدا کر دیتی ہے اور وہ خدا کی عظمت کے احساس سے کانپنے لگ جاتا ہے.اس قدر براہ راست قوت ہے اس کلام میں تو ایسی آیات کا انتخاب کر کے نہایت ہی پاکیزہ آواز والے قاریوں سے انکی تلاوت کروائی جائے.فنی لحاظ سے جو قاری ہیں وہ میرے ذہن میں نہیں ہیں بلکہ ایسے قاری ہوں جو معانی سمجھتے ہوں اور ان معانی میں ڈوب کر اور پورا دل اور جان ڈال کر تلاوت کریں.پھر مختلف زبانوں میں ان آیات کے ترجمے ہوں.میرے ذہن میں تو یہ نقشہ ہے کہ ہمیں کم از کم سوز بانوں میں قرآن کریم کی تلاوت کی ٹیپیں تیار کرنی چاہئیں.یعنی چھوٹی چھوٹی علاقائی زبانوں میں بھی تیار ہوں لیکن دنیا کی بڑی بڑی زبانوں کی طرف تو ہمیں فوری توجہ دینی چاہئے.دس پندرہ ایسی زبانیں ہیں جن کی اکثریت کے علاقوں کو ہم کو ر (Cover) کر سکتے ہیں.یعنی وہاں تک ہم پہنچ سکتے ہیں.الله علاوہ ازیں آنحضرت ﷺ کا کلام یعنی حدیث ہے.مختلف موضوعات پر احادیث کی ٹیسیں تیار کی جائیں.کچھ اقتصادی پہلو سے تعلق رکھتی ہوں کچھ نظریات سے.اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق آپ کا بیان ہے.حشر و نشر کے متعلق آپ کا بیان ہے.اسی طرح آپ کی اور بہت سی پیاری باتیں ہیں.انسان تقریروں میں لاکھ مہارت حاصل کر جائے.حضرت محمد مصطفی اللہ کے کلام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.ایک ایک کلمہ بعض دفعہ اتنا گہرا اثر کرتا ہے کہ کوئی چیز اس اثر کو روک نہیں سکتی.وہ ہر مدافعانہ طاقت کوتو ڑ کر دل میں اتر جاتا ہے.اس میں سچائی ہے وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.اس میں ایسا نور ہے جو انسان بناہی نہیں سکتا جو بناتا ہے وہ اسی نور سے لیکر بناتا ہے.اس کی طاقت سے طاقت حاصل کر کے آگے اس کے کلام میں عظمت پیدا ہوتی ہے اس لئے جب تک ہم حضرت محمد مصطفی ملی کا کلام دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے (اور اس میں سے بھی صرف انتخاب پیش کرسکیں گے ) اور پھر اس کے تراجم پیش نہیں کرتے ، دنیا کو کیا پتہ کہ کون ہم سے مخاطب ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے.اللہ کے عشق میں آپ نے جو گیت گائے ہیں، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کی محبت میں جو گیت گائے ہیں اور قرآن اور اسلام کی محبت میں جو گیت گائے ہیں ان کو مختلف اچھی آواز والوں سے ریکارڈ کروا کر مختلف زبانوں میں منظوم ترجمے کروانے ہیں اور پھر ان منظوم تراجم کو کیسٹ میں بھرنا ہے یا وڈیو کی شکل میں اتارنا ہے.اور ساری دنیا
خطبات طاہر جلد اول 318 خطبه جمعه ۳/ دسمبر ۱۹۸۲ء میں پھیلانا ہے تا کہ جب یہاں سو سالہ جشن منایا جارہا ہو تو ہر قوم قرآن کی تلاوت کرتی ہوئی آئے اور احادیث پڑھتی ہوئی آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ نغمے الاپتی آئے جو آپ نے قرآن اور حدیث اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں کہے.یہ ہے ہمارا جشن.ہم کسی ڈھول ڈھمکے کے تو قائل نہیں.جب تمام دنیا سے قافلے یہ گیت گاتے ہوئے ربوہ میں داخل ہوں گے، وہ ہوگا اصل جشن جس سے روحیں ایک عجیب سرور حاصل کریں گی اور خدا کی راہ میں قربانیوں کے لئے ایسی نئی قوت پائیں گی کہ اگلے سو سال کے لئے وہ قوتیں کام دیں گی.لیکن اس جشن کی تیاری کے لئے جو ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اب سوائے اس کے کہ ہر وہ شخص جس نے صد سالہ جو بلی میں وعدہ لکھوایا ہے جب تک غیر معمولی طور پر توجہ اور الحاح کے ساتھ دعا نہ کرے، اس وقت تک اس کے یہ فرائض پورے نہیں ہو سکتے.میں بھی دعا کروں آپ بھی دعا کریں، بچے بھی ، بڑے بھی عورتیں بھی ، مرد بھی.سب کے سب اس طرح دعائیں کریں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس طرح سپین کی مسجد کی تعمیر کے وقت آپ کی دعائیں پوری ہوتی آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھیں.یوں لگتا تھا کہ خدا کے فرشتے بارش کے قطروں کی طرح اتر رہے ہیں.یہ ہوتا ہے دعاؤں کا مزہ کہ آنکھ کو دکھائی دے کہ ہاں کچھ ہو رہا ہے اور ایک عجیب پاک تبدیلی پیدا ہو رہی ہے.ایسے آنسو بہانے کی ضرورت ہے ایسی دعائیں کرنے کی ضرورت ہے ورنہ آپ سو سالہ جشن کے حقوق ادا نہیں کرسکیں گے.نہ قربانی کے لحاظ سے اور نہ دوسرے فرائض کے لحاظ سے جن کا خلاصہ میں نے اس وقت پیش کیا ہے بلکہ خلاصہ بھی نہیں ، بہت بڑے وسیع کاموں میں سے چند ایک عنوانات آپکوسنائے ہیں.پس دعا کریں، پھر دعا کریں اور پھر دعا کریں.اشکوں کی راہ سے اپنے خون بہائیں خدا کی راہ میں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائیگا اور سارے کام بنادے گا.پتہ بھی نہیں لگے گا کہ بوجھ کس چیز کا نام ہے.بوجھ خود بخو داتر تے چلے جاتے ہیں اور قربانیوں کی توفیق ملتی جاتی ہے.دعا ایک ایسی عظیم الشان چیز ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں برکت کے.اس کا وہ کنارا بھی
خطبات طاہر جلد اول 319 خطبه جمعه ۳ / دسمبر ۱۹۸۲ء بابرکت ہے جہاں سے یہ اٹھتی ہے اور وہ کنارا بھی بابرکت ہے جہاں یہ پہنچتی ہے.دعا کرنے والے کو قبولیت دعا سے پہلے دعا کی کچھ برکتیں نصیب ہو جاتی ہیں.کیونکہ دعا کرنے والے کے دل میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے.دعا اس کے اندر اپنے پیچھے ایک سچائی چھوڑ جاتی ہے.اس کے اندر بعض ایسی اعلیٰ صفات پیدا کر جاتی ہے کہ ابھی قبول بھی نہیں ہوئی ہوتی اور اپنی برکتیں عطا کر دیتی ہے.پھر جب دعا عرش الہی کے کنگروں تک پہنچتی ہے تو بے انتہائی برکتیں لے کر نازل ہوتی ہے تو جس کے دونوں کنارے با برکت ہوں اس سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا جائے.ایسی دعاؤں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکتوں سے جماعت احمدیہ کو بے انتہاء فوائد پہنچیں گے.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ قرآن کریم میں دنیا کی یا کائنات کی مثالیں پیش کر کے الہی مضامین بیان فرماتا ہے ، اسی طرح دعا پر بھی غور کریں تو دنیا میں اس کی ایک بڑی عجیب مثال نظر آتی ہے.جب پانی سے بخارات اٹھتے ہیں تو وہ بجلی کی ایک قوت سمندر میں چھوڑ جاتے ہیں اور ایک دوسری قوت آسمان میں لے جاتے ہیں.یعنی اٹھتے وقت بھی قوت پیدا کر جاتے ہیں اور جہاں پہنچ رہے ہیں وہاں بھی قوت پیدا کر دیتے ہیں.بجلی کی ایک قسم مثبت یا منفی ( کہیں مثبت، کہیں منفی) سمندر کی سطح پر رہ جاتی ہے اور ایک قوت اٹھ کر آسمان پر چلی جاتی ہے اور دونوں مختلف سطحوں سے مختلف قسم کی قو تیں اٹھ رہی ہوتی ہیں.کہیں سے مثبت اٹھ رہی ہے.کہیں سے منفی.کہیں منفی پیچھے رہ رہی ہے، کہیں مثبت پیچھے رہ رہی ہے نتیجہ سارا آسمان قوت سے بھر جاتا ہے.اور پھر جب بجلی کی وہ طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ عمل کرتی ہیں تو اس کے نتیجے میں فضلوں کی وہ بارش پیدا ہوتی ہے جو آپ دیکھتے ہیں.کچھ اسی قسم کا نظام میں نے دعا کا بھی دیکھا کہ جب دعا خلوص کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ دل سے اٹھتی ہے تو ایسی دعا انسان کو پاک کر دیتی ہے انتظار نہیں کرواتی کہ میری قبولیت کا انتظار کرو.اس کی ساری محنت کا بلکہ اسکی محنت سے کہیں بڑھ کر پھل اس کو عطا کر جاتی ہے.پھر جب وہ فضل بن کر نازل ہوتی ہے تو انسان کہتا ہے کہ یہ تو فضل ہی فضل ہے میری دعا تو میرا اجر اور پھل مجھے دے گئی تھی.جو کچھ ہے محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.
خطبات طاہر جلد اول 320 خطبه جمعه ۳/ دسمبر ۱۹۸۲ء پس اس جذبے کے ساتھ اور دعا کے اس فلسفے کو سمجھتے ہوئے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.ہمیں ساری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.وہ خود ہمارے بوجھ اٹھانے والا ہو اور جس طرح باپ اپنے بچوں کا بوجھ پیار کے ساتھ اٹھاتا ہے اور بتا تا یہ ہے کہ گویا وہ اٹھارہے ہیں ، اسی طرح ہم بھی اپنے بھول پن میں یہی سمجھتے رہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر لیا.مگر حقیقت یہ ہے کہ ساری ذمہ داریاں اللہ ہی ادا کرے گا.اسی کی طاقت میں ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: خطبہ میں میں ایک بات کہنی بھول گیا.وہ دراصل اس کا حصہ ہی ہے کچھ انتظامی وضاحتیں بھی ضروری تھیں وہ ایک دو فقروں میں میں کر دیتا ہوں.یہ جو صد سالہ جو بلی کا نظام ہے.دراصل اس کا تعلق تحریک جدید سے ہے.لیکن ابتداء میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے.کہ ایک الگ چھوٹی سے آرگنائزیشن بنادی جاتی ہے تا کہ وہ فوری طور پر اس کام کو سنبھال لے.یہ ایک نیا منصوبہ تھا.اس کے سارے خدو خال اس وقت کھل کر سامنے نہیں آئے تھے.اب میں نے انتظامی پہلو پر غور کیا ہے.اس لحاظ سے یہ انجمن کا حصہ بنے کی نسبت تحریک جدید کا حصہ بننے کے زیادہ اہل ہے اور قریب تر ہے کیونکہ اس کے اکثر تقاضے بیرونی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں تک جشن کا تعلق ہے تو اس کے لئے ایک الگ کمیٹی مقرر ہے.اس لئے اس پر کوئی فرق ہی نہیں پڑنا چاہے اس منصوبے کو تحریک کا حصہ بنایا جائے یا انجمن کا.منصوبہ بندی کمیشن اپنا آزاد کام کرتا رہے.یہ میں اس لئے واضح کر رہا ہوں کہ اب سے یہ تحریک جدید کی ذمہ داری ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ساری دنیا میں کوشش کر کے جلد از جلد جماعت کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں اور امید ہے انشاء اللہ بہت جلد حالات بہتر ہو جائیں گے.آئندہ سے سیکرٹری صد سالہ جو بلی کی بجائے اس شعبے کا انچارج وکیل ہوگا اور وہ وکیل برائے صد سالہ جو بلی فنڈ کہلائے گا یا علماء جو بھی اس شعبہ کا ایک مختصر سا اور بہتر نام تجویز کریں اس کے مطابق وہ رکھ لیا جائے گا.آج ہی حسن اتفاق سے ہمارے وہ سینئر مبلغ ربوہ پہنچے ہیں یا پہنچنے والے ہیں جو اس منصوبے کے لئے میرے ذہن میں تھے.تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تطابق فرمایا اور ایسا توارد ہو گیا کہ جمعہ پر
خطبات طاہر جلد اول 321 خطبه جمعه ۳/ دسمبر ۱۹۸۲ء آنے سے معا پہلے پتہ چلا کہ میر مسعود احمد صاحب ( مبلغ انچارج ڈنمارک ) آج ہی پہنچ رہے ہیں.ان کے استقبال کے لئے دوست فیصل آباد گئے ہیں اور وہی میرے ذہن میں تھے کہ وہ آجائیں تو ان کے سپرد یہ کام کیا جائے.اس لئے میں انکو اس کام کے لئے وکیل مقرر کرتا ہوں.جس طرح تحریک جدید میں باقی وکلاء ہیں.اسی طرح یہ بھی وکیل ہوں گے اور وکالت علیا کے تابع ، وکیل اعلیٰ کی ہدایت کے مطابق کام کریں گے اور انشاء اللہ آئندہ سے اس شعبے کے حسابات تحریک جدید کی طرف منتقل کر دیئے جائیں گے.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 323 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۸۲ء جلسہ سالانہ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ خطبه جمعه اردسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جو مادہ پرستی کے ماحول سے بے نیاز ، دین کی طرف توجہ دینے والی اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی جماعت ہے.دنیا میں جتنی بھی جماعتیں تنظیم کی صورت میں کام کر رہی ہیں، ان میں اس پہلو سے یہ جماعت بالکل منفرد ہے کہ اس کا ہر کام محض لله ہوتا ہے.اور کام کرنے کی قوت ہر دل سے پھوٹتی ہے، باہر سے نہیں آتی.اور یہ طوعی طور پر وہ بہترین نظام ہے جو تمام دنیا کے سامنے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے.ان نیک باتوں میں سے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں، توجہ اور تربیت کی برکت سے حاصل ہوئیں ایک یہ ہے کہ نصیحت کا اثر بہت جلد ظاہر ہوتا ہے اور قرآن کریم کی اس آیت کی صداقت دل میں گھر کر جاتی ہے: فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرُى (عل :) کہ تو نصیحت کر اور کرتا چلا جا، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ تیری نصیحت کو بریکارنہیں جانے دے گا، یقینا نصیحت فائدہ پہنچائے گی.اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے کہ بعض باتوں کی طرف جب توجہ دلائی گئی تو خدا تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد اول 324 خطبه جمعه ۱۰ رو نمبر ۱۹۸۲ء فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ نے بڑی جلدی ان امور کی طرف توجہ شروع کر دی.مثلاً چندوں کو صحیح کرنے اور شرح کے مطابق دینے کے لئے کہا گیا تو تمام دنیا سے بکثرت ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض جگہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دگنا تگنا بلکہ چوگنا چندہ بڑھ گیا.اور لکھنے والوں نے بڑی معذرت اور شرمندگی کے ساتھ لکھا کہ ہمیں پہلے خیال ہی نہیں تھا لیکن اب ہم نے اتنے گنا بڑھا کر چندہ دینا شروع کر دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مغفرت کے لئے دعا کی درخواستیں بھی کیں.اب اس جماعت کی تو دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی.ہر نصیحت جو کی جاتی ہے اس پر عمل کرنے والے اس کثرت کے ساتھ آگے آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے چنانچہ اہل ربوہ کو میں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ جلسہ سالانہ آ رہا ہے اس کے لئے تیاری کریں، اپنے گھروں کو صاف کریں، اپنی گلیوں کو صاف کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا بھی بہت ہی اچھا اثر ظاہر ہوا ہے.تمام ربوہ میں خدام کیا اور انصار کیا ، بڑی محنت اور توجہ کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ مہمانوں کو کسی قسم یا کسی نوع کی تکلیف نہ پہنچے.پھر گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کے خطبہ میں یہ توجہ دلائی گئی تھی کہ جمعہ کی نماز میں حاضری کی طرف دوست خصوصی توجہ دیں.کیونکہ ربوہ کی آبادی کے لحاظ سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس کثرت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے والے نہیں آتے جتنے آنے چاہئیں.چنانچہ پچھلے جمعہ کی نماز میں بھی میں نے محسوس کیا کہ خدا کے فضل سے اس تحریک کا نمایاں اثر ظاہر ہوا اور آج بھی میری آنکھ دیکھ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے ساتھ سننے والے کانوں نے اس بات کو سنا اور عمل کرنے والے دلوں نے ان کو عمل کی تحریک کی.چنانچہ آج مسجد کی رونق خدا تعالیٰ کے فضل سے اس جمعہ کی نسبت بہت بہتر ہے جس میں میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی.تو اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی حمد کی جائے کم ہے.جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.ہمارے پاس تو سوائے اخلاص کی دولت کے اور کچھ نہیں.اور دلوں میں جو اپنے اندر سے ایک قوت پیدا ہوتی ہے اس کے سوا کام چلانے کے لئے اور کوئی قوت نہیں.اور یہ دونوں چیزیں دعا کی برکت سے بڑھتی اور نشو و نما پاتی ہیں.اللہ تعالیٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو اسی طرح زندہ اور پائندہ رکھے اور دلوں کو خلوص اور اس اندرونی قوت سے بھر دے جس کے نتیجہ میں دین کے کام بحسن و خوبی چلا کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد اول 325 خطبه جمعه ۱۰ر دسمبر ۱۹۸۲ء اب میں چند چھوٹی چھوٹی باتیں کہنا چاہتا ہوں.ان کو چھوٹی تو نہیں کہنا چاہئے کیونکہ حقیقت میں وہ بہت بڑی باتیں ہیں لیکن مطلب یہ ہے کہ چند سادہ اور آسان سی باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ویسے وہ اس لحاظ سے تو چھوٹی ہیں کہ ہر انسان ان کو اختیار کر سکتا ہے لیکن اپنے مضمون کے لحاظ سے وہ بہت بڑی باتیں ہیں جبکہ عمل کے لحاظ سے نہایت آسان اور سادہ ہیں.اور ہر انسان کی دسترس کے اندر ہیں.گویا وہ کوئی ایسے مشکل کام نہیں جن کے متعلق کوئی یہ کہہ سکے کہ میری طاقت سے بالا ہیں.اس ضمن میں سب سے پہلے میں جلسہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.انسان کی یہ بشری کمزوری ہوتی ہے کہ وہ ان اجتماعات کو جو نہایت اعلیٰ مقاصد کی خاطر منعقد کئے جاتے ہیں رفتہ رفتہ میلوں ٹھیلوں میں بدلنے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے اور یہ ایک ایسا انسانی رجحان ہے جودنیا میں ہر جگہ نظر آتا ہے.بہت ہی عظیم الشان اجتماعات کی بنیادیں اللہ کے عظیم الشان بندوں نے ڈالیں یعنی انبیاء علیہم السلام نے.اور الا ماشاء اللہ دنیا کی اکثریت نے ان اجتماعات کو میلوں میں اور لغو کھیلوں میں تبدیل کر دیا اور بجائے اس کے کہ وہ اجتماعات ذکر الہی کے لئے مخصوص ہوتے ، لہو ولعب کے لئے وقف ہو کر رہ گئے.یہ ایک ایسا طبعی رجحان ہے جو رفتہ رفتہ جڑ پکڑتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ بیماری آگے آنا شروع ہو جاتی ہے.اس لئے بار بار اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.جس طرح زمیندار جانتا ہے کہ کھیتوں کی طرف اگر وہ توجہ نہ دے تو لازماً ان میں جڑی بوٹیاں اُگ آتی ہیں جن کو تلف کرنے کے لئے بار بار توجہ دینا پڑتی ہے.اسی طرح قو میں خواہ کتنی ہی زندہ ہوں ان میں زندگی کا ایک دوسرا قانون بھی جاری رہتا ہے یعنی مخالفانہ قو تیں سراٹھاتی ہیں.آخر وہ بھی تو خدا تعالیٰ کے قانون کے تابع ہی عمل کرتی ہیں.اس لئے زندہ قوموں کا یہ اولین کام ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ اپنا جائزہ لیتی رہیں.اس قسم کی جڑی بوٹیاں جن کا ہمارے اندر جڑ پکڑنے کا کوئی حق نہیں وہ جہاں اور جب بھی جڑ پکڑنے کی کوشش کریں ان کو تلف کر دیا جائے.ہمارا جلسہ سالانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی گریہ وزاری کے ساتھ دعاؤں کے نتیجہ میں جاری ہوا تھا اور بہت ہی پاک اور اعلیٰ مقاصد کی خاطر جاری کیا گیا تھا اب اس میں بھی کچھ عرصہ سے اس قسم کے رجحانات کا پتہ چلتا ہے اور کئی قسم کی خرابیاں آہستہ آہستہ ظاہر ہورہی
خطبات طاہر جلد اول 326 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۸۲ء ہیں.ان میں سے مثلاً ایک یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہمارے بازار تقویٰ کی صحیح نشاندہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کے عام بازاروں کی طرح وہاں نو جوانوں کے گروہ ادھر ادھر آپس میں گئیں مار رہے ہوتے ہیں یا مذاق کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں.یوں لگتا ہے گویا وہ ایک سیر گاہ میں اکٹھے ہوئے ہیں اور چند دن گپ شپ کے لئے آئے ہیں.یہ ٹھیک ہے یہاں باقی شہروں کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑا نمایاں فرق ہے بے حیائی کی باتیں ویسی نہیں ہوتیں جیسی ایسے موقع پر دوسرے شہروں میں ہوتی ہیں لیکن ہم اس فرق پر راضی نہیں ہیں ہمارا دینی منصب بہت بلند ہے ہمیں کوشش بہر حال یہ کرنی چاہئے کہ یہ اجتماعات جماعت احمدیہ کی حقیقی روح کا مظہر بنیں.جلسہ کے دوران ہمارے بازار ایک امتیازی شان رکھیں.لوگ ان کو دیکھ کر یہ محسوس کریں کہ یہ مختلف قسم کے انسانوں کے بازار ہیں ، عام شہروں کے بازار نہیں ہیں.یہ اجتماع کچھ عجیب سی مخلوق کا اجتماع ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے الگ ہے.پس جب تک ہر دیکھنے والے کے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہیں.پھر یہی مجالس گھروں میں بھی لگتی ہیں.اس سے تو انکار نہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کی غرض و غایت میں ایک غرض یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ مختلف ممالک اور مختلف شہروں کے بسنے والے لوگ یہاں اکٹھے ہوں.ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوں.آپس میں ان کے روابط قائم ہوں.محبت اور پیار کے ماحول میں ایک نہایت ہی وسیع سوسائٹی وجود میں آئے جو دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لوگوں پر مشتمل ہو اور ایک نہایت ہی پاکیزہ اسلامی معاشرہ جنم لے جس میں باہمی اخوت کی بنیاد اللہ تعالی کی محبت ہوں.چنانچہ یہ سوشل فوائد جلسہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور اس کے بہت ہی نیک اثرات بھی ہم دیکھتے ہیں.اس لئے تعلقات کا قیام.ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ ملنا.ایک دوسرے کا خیال رکھنا.مہمان نوازی کرنا.یہ تو قابل اعتراض بات نہیں.قابل اعتراض بات اس وقت پیدا ہوتی ہے جب گھروں کی مجالس لغویات کی طرف مائل ہو جائیں یا جب وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نظموں کی بجائے لغوگانوں کی آوازیں بلند ہونی شروع ہو جائیں.عام حالات میں بھی یہ اچھا نہیں لگتا لیکن جلسہ کے دنوں میں کانوں میں پڑنے والی یہ آواز میں تو بہت ہی تکلیف دیتی ہیں.یا مثلاً
خطبات طاہر جلد اول 327 خطبه جمعه ۱۰ رو نمبر ۱۹۸۲ء ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے گرد سارے گھر اکٹھے ہوئے ہوں.تو اس طرح بجائے اس کے کہ گھروں میں یہ باتیں ہوں کہ آج کا جلسہ کیسا رہا اور آئندہ کیلئے سکیمیں بنائی جائیں کہ ان تقریروں کے نیک اثر سے ہم اپنے اندر کیا تبدیلی پیدا کریں گے، مجلسوں کو لغو مجلسوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے.ہر جگہ تو یہ نہیں ہوتا لیکن میری آنکھ نے دیکھا، میرے کانوں نے سنا کہ واقعتہ یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے اور بڑھ رہا ہے تو اس کی بیخ کنی کی بھی ضرورت ہے.پھر جوسب سے بڑی خطرناک بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مجالس عبادت کے رستہ میں حائل ہونے لگ جاتی ہیں یعنی نمازوں کے اوقات ہیں اذانیں دی جا رہی ہیں لیکن گھروں کی مجلسیں اسی طرح قائم رہتی ہیں اور بڑے بھی اور چھوٹے بھی بے تکلفی کے ساتھ آپس میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں اور کسی کو خیال نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بلایا جا چکا ہے.ہمیں مسجدوں میں جانا چاہئے.کسی کو سے مراد صرف بعض ان گھروں کی بات ہے جہاں ایسا ہوتا ہے یعنی ان گھروں میں کسی کو خیال نہیں آتا ور نہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا ہی پیار انظارہ ہوتا ہے.بعض مسجدیں تو چھلک جاتی ہیں اور وہاں نمازیوں کو اندر جگہ نہیں ملتی.لیکن اس کے باوجود مسجدوں کو جتنا بھر کر باہر چھلکنا چاہئے اتنا نہیں چھلکتیں کیونکہ ربوہ کی مساجد تو ربوہ کی عام ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں.کچھ اس سے وسیع تر ہوں گی.اس میں کوئی شک نہیں لیکن اتنی نہیں کہ سارے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو سمو سکیں.مسجد مبارک میں تو یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ باہر صحن تک نمازی پہنچ جاتے ہیں بلکہ صحنوں سے باہر نکل جاتے ہیں لیکن بہت سی دوسری مساجد میں میں نے دیکھا ہے کہ نمازوں کے اوقات میں صحنوں سے باہر نمازی نہیں نکلتے.حالانکہ اگر سارے نماز پڑھنے والے ہوں تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ ان مساجد کے اندر اس وقت کی ساری آبادی سما سکے.یعنی وہ آبادی جن کو مسجدوں میں جانا چاہئے اور جن کو مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھنی چاہئیں.تو اس طرف بھی بڑی توجہ کی ضرورت ہے.جلسہ کے اوقات میں ایک بڑی قابل فکر بات یہ ہے کہ جس وقت جلسہ ہورہا ہوتا ہے اس وقت بھی میلے ٹھیلے کا رجحان بعض جگہوں میں اپنے طور پر جاری رہتا ہے.حیرت ہوتی ہے کہ دوست بڑی تکلیف اٹھا کر باہر سے آتے ہیں.بڑی بڑی دور سے خرچ کر کے آتے ہیں سردی کی تکلیف
خطبات طاہر جلداول 328 خطبه جمعه ۱۰ ردسمبر ۱۹۸۲ء برداشت کرتے ہیں.سفر کی صعوبتیں اٹھاتے ہیں سب احمدی جانتے ہیں کہ ریلوے کی طرف سے اب وہ سہولتیں مہیا نہیں ہوتیں جس طرح پہلے ہوا کرتی تھیں.ریلوے کی اپنی مشکلات ہوں گی.دوسرے جو ذرائع مواصلات ہیں ان کی بھی مشکلات ہوں گی.لیکن ہمیں یاد ہے جس طرح پہلے ایک مثالی تعاون ملا کرتا تھا ویسا تعاون اب نہیں ملتا.تو اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ بڑی مصیبت کے ساتھ ڈبوں میں ٹھس کر لوگوں کو سفر کرنا پڑتا ہے.بچے بیمار ، روتے ، بلکتے ساتھ لے کر آتے ہیں.غرض بیچارے آنے والے بہت تکلیفیں اور بڑی مصیبتیں اٹھاتے ہیں.تو یہ سب کچھ کرنے کے بعد یہاں آ کر بجائے اس کے کہ جلسہ میں حاضر ہوں اور اس سے استفادہ کریں بازاروں کی رونق بن جائیں تو پھر تو یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے.اس کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.بازار والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسے مواقع پر دکانیں بند کر دیا کریں لیکن یہ جو غیر ذمہ داری کارجحان ہماری قوم میں پایا جاتا ہے اس نے بڑی مصیبت ڈالی ہوئی ہے.دو تین ریڑھی والے جب دکان لگا لیتے ہیں تو دیکھا دیکھی سارے دکانیں کھول کر کا روبار شروع کر دیتے ہیں.یہ خوف ہر ایک کے دامنگیر ہو جاتا ہے کہ میرا رزق نہ مارا جائے یہ سب کچھ کما کر لے جائے گا.یہ دراصل تو کل کی کمی کا نتیجہ ہے.وہ دکاندار جو خدا کی خاطر دکانیں بند کرتے ہیں چاہے سارا بازار بھی کھلا ہو، ان کا رزق نہیں مارا جا سکتا.اللہ رازق ہے.اسی جمعہ کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَانُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمع : ١٠) کہ جمعہ کے دن جب تمہیں خدا کے ذکر کی طرف بلایا جاتا ہے تو اپنی دکانیں اور اپنے کاروبار بند کر دیا کرو تم یہ سمجھتے ہوگے کہ یہ نقصان کا سودا ہے.تم گھبراؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کاش ! تمہیں علم ہوتا یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر کام ہے کہ خدا کی خاطر اپنی تجارتیں ٹھپ کر دو.پھر آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اللهُ خَيْرٌ الرّزِقِینَ.کہ رازق تو اللہ ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے.پس جب یہ تسلیم ہے کہ رازق اللہ ہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدا کی خاطر ہم اپنی
خطبات طاہر جلد اول 329 خطبه جمعه ۱۰ ردسمبر ۱۹۸۲ء دکانیں بند کرتے ہیں تو پھر اپنے رب پر یہ بدظنی کرنا کہ کوئی دوسرا آدمی ہمارا رزق ماردے گا یا جو رزق ہمارے مقدر کا تھا وہ کوئی اور عدم تعاون کرنے والا لے جائے گا اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوسکتی ہے.تو کل ایک بڑی بنیادی صفت ہے.جو لوگ تو کل اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہیں کرتا.آزمائشیں تو آتی ہیں اور یہ تو کل کا حصہ ہوتی ہیں.تو کل کے فلسفہ کے اندر آزمائشیں داخل ہیں.اگر تو کل سے یہ مراد ہو کہ ادھر فوراً کچھ چھوڑا اور خدا پر توکل کیا ادھر فور اوہ چیز میسر آ گئی.یہ تو پھر دنیا کا قانون بن جائے گا.پھر تو ہر دنیا دار بھی اس تو کل کی طرف دوڑے گا.اس لئے اللہ کے بندوں کو دوسرے بندوں سے ممتاز کرنے کے لئے تو کل میں کچھ خفا ء بھی ہوتا ہے.کچھ پردے بھی ہوتے ہیں.کچھ آزمائشیں بھی ہوتی ہیں.لیکن انجام کار تو کل کرنے والے دوسروں کی نسبت کبھی پیچھے نہیں رہا کرتے.ہر بات میں آگے بڑھ جاتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بڑے بڑے تو کل کرنے والوں کے لئے بھی خدا نے امتحان رکھے ہوتے ہیں.تذکرۃ الاولیاء میں ایک ایسے ہی تو کل کرنے والے کا ذکر ہے.کہتے ہیں ایک بزرگ عبادت کے لئے دنیا کو حج کے ایک غار میں جا کر پناہ گزین ہو گئے.ان کا تو کل یہ تھا کہ انہوں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کیا کہ مجھے بھوک چاہے کتنا بھی ستائے میں اس جگہ کو چھوڑ کر باہر دنیا کے سامنے روٹی مانگنے کے لئے نہیں نکلوں گا.جو کچھ مانگنا ہوگا اسی غار میں اپنے رب سے مانگوں گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ لوگ جوق در جوق وہاں حاضر ہونے لگے.ہر قسم کی نعمتیں اسی غار میں ان کو پہنچنے لگیں.اس بزرگ نے تو کل کا بہت پھل کھایا.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو نازل ہوتے دیکھا اور عبادت میں اور ترقی کی یہاں تک کہ آزمائش کرنے والے نے آزمائش کا وقت بھی لا کھڑا کیا.خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ اس بزرگ کی کچھ آزمائش بھی ہونی چاہئے جو دنیا کی نظر میں ایک بہت بڑا مقام بنا چکا ہے.چنانچہ ایک وقت آیا جب ان کے لئے ہر روٹی لانے والے اور ہر تحفہ لانے والے نے خیال کیا کہ اتنے لوگ وہاں جاتے ہیں آج میں نہ گیا تو کیا فرق پڑتا ہے.چنانچہ اس دن خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے ہر شخص کو وہاں کچھ پہنچانے سے روک دیا.دو پہر کو بھی کوئی نہ آیا.رات کو بھی کوئی نہ آیا.دوسرے دن صبح کو بھی کوئی نہ آیا شام کو بھی کوئی نہ آیا.ان کو تین دن کا فاقہ پڑا.آخر بے قرار ہو گئے اور اس غار کو چھوڑ کر ایک دوست کے پاس پہنچے.اس نے جب دیکھا کہ ان کا یہ حال ہے تو بڑی معذرت کی اور جو کچھ گھر میں حاضر تھا
خطبات طاہر جلد اول 330 خطبه جمعه ۱۰/دسمبر ۱۹۸۲ء پیش کیا.روٹیاں جو پکی ہوئی تھیں وہ پیش کر دیں.سالن پیش کر دیا.جب وہ روٹیاں لے کر باہر اپنے مسکن کی طرف جانے لگے تو اس گھر والے کا کتا پیچھے پڑ گیا.کاٹنے کے لئے نہیں بلکہ روٹی کی خوشبو کی وجہ سے اس کی بھوک بھی تیز ہوگئی اور اس کے اندر بڑا ہیجان پیدا ہو گیا اور زبان نکال نکال کر کبھی ان کے کپڑے چاھتا اور کبھی بھونکنے لگتا تھا چنانچہ انہوں نے آدھی روٹیاں کتے کو ڈال دیں.ابھی وہ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ کتا روٹیاں کھا کر پھر ان کے پیچھے بھونکنے لگ گیا.اس وقت انہوں نے جس طرح انسان جانوروں سے باتیں کرتا ہے.یہ تو نہیں ہوتا کہ جانور باتیں سمجھتا ہے لیکن پھر بھی آدمی بعض جانوروں سے باتیں کرتا ہے سو اسی طرح) کتے سے کہا تو بڑا حریص جانور ہے.تیرے مالک سے جو کچھ میں نے لیا تھا اس میں سے آدھا تجھے دے دیا ہے لیکن تو پھر بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا.تو بہت ہی حریص ہے.بڑی ہی گندی قسم کا جانور ہے.اس پر ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ کتا ان کو یہ جواب دیتا ہے کہ میں حریص ہوں یا تو حریص ہے؟ میں تو کئی کئی دن کا فاقہ کرتا ہوں مگر اپنے مالک کا دروازہ نہیں چھوڑا کرتا.ابھی بھی اپنے مالک ہی کی روٹیوں کی خاطر تیرے ساتھ لگا ہوا ہوں تو اپنے گھر سے تو نہیں لے کر آیا تھا.لیکن تم عجیب آدمی ہو.تمہارے مالک نے تم پر اتنے احسان کئے لیکن تم تین دن کا فاقہ برداشت نہیں کر سکے اور میرے مالک کے دروازے پر آ گئے.جو نہی یہ کشفی حالت دور ہوئی انہوں نے ساری روٹیاں وہیں پھینک دیں اور بے اختیار روتے چلاتے اور گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے غار کی طرف لوٹے اور خدا کے حضور دعائیں کرنے لگے کہ اے اللہ تو مجھے معاف فرما.میں تو ایک کتے سے بھی زیادہ ذلیل نکلا.وہاں پہنچے تو دیکھا ایک ہجوم خلائق کھڑا تھا وہ ان کا انتظار کر رہا تھا اور پریشان تھا کہ یہ کہاں چلے گئے.لوگ ان کی خاطر دنیا جہان کی نعمتیں لے کر حاضر تھے پس تو کل کرنے والے کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا.لیکن تو کل کرنے والے پر امتحان بھی آتے ہیں.اگر آپ امتحانوں میں ثابت قدم رہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار نعمتوں سے نوازے گا لیکن یہ ہوہی نہیں سکتا کہ تو کل کرنے والا ضائع کر دیا جائے.پس چھوٹی چھوٹی تجارتوں کی خاطر یہ دو تین دن کے چند گھنٹوں کے رزق کے خوف سے اگر آپ دکانیں کھلی رکھیں گے تو یہ تو کل تو در کنار ویسے بھی بہت گری ہوئی بات ہو گی.اتنی دور سے لوگ جلسہ کی خاطر آتے ہیں.لیکن آپ کی دکانیں انہیں اپنی طرف بلاتی ہیں اور ان کے ایمان کیلئے
خطبات طاہر جلد اول 331 خطبه جمعه ۱۰ رو نمبر ۱۹۸۲ء ٹھوکر کا موجب بنتی ہیں.ان کے لئے آزمائش پیدا کر دیتی ہیں.اگر کوئی دکان کھلی ہو تو پہلے ایک آدمی آتا ہے.پھر دو آتے ہیں.یہاں تک کہ ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے.پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نمازوں کے اوقات میں بھی دکانیں بند نہیں ہوتیں حالانکہ ہم عبادت کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں.عبادت کے لئے ہی سارا کاروبار چل رہا ہے آخر یہ کارخانہ عالم ہے کیا ؟ صرف یہ کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مزہ بتائیں، ان کو عبادت کی لذتوں سے آشنا کریں تا که رفته رفته ساری مخلوق اپنے رب کی عبادت کرنے لگے.یہ ہے مقصد جلسہ سالانہ کا.اس مقصد کے خلاف عین اس موقع پر یہ حرکت ہو رہی ہو.جبکہ یہ مقصدا اپنے عروج کو پہنچا ہوانظر آتا ہے، یہ ایک بہت ہی کر یہہ المنظر شکل ہے.تین باتیں ہیں جن کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں.ایک یہ کہ جلسہ سالانہ کے دوران عبادت الہی پر خاص زور دیں.دوسرے جلسہ گاہ میں حاضری کا خیال رکھیں.تیسرے خدا کی خاطران دنوں میں رزق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جلسہ کے اوقات میں اپنی دکانیں بند رکھیں.ہمارا جلسہ سالانہ ایک عظیم الشان اجتماع ہے.اس کے نہایت ہی پاکیزہ اور بلند اور عظیم الشان مقاصد ہیں ان کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.اپنی تمنائیں پچھلی جاتی ہیں تو کچلی جائیں اپنے مفادات مرتے ہیں تو مرنے دیں ان کی پرواہ نہ کریں.اس جلسہ کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دیں.پھر دیکھیں کہ اللہ آپ پر کس قدر مہربان ہوتا ہے.ہمارا خدا اتنا مہربان آقا ہے، اتنا رحم کرنے والا اور اتنا کرم کرنے والا خدا ہے کہ کوئی تھوڑا سا بھی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا تکلیف اٹھا تا ہے تو خدا تعالیٰ صرف اسی کو نہیں نو از تا.بعض دفعہ اس کی سات پشتوں تک کو آرام پہنچاتا ہے.پس ایسے پیارے خدا سے منہ موڑنا اور اس سے بے وفائی کرنا اور توکل علی اللہ میں کمی کرنا سراسر نقصان ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں.بیرونی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ جلسہ پر آنے والے دوستوں کو وہ پہلے سے سمجھا ئیں اور اپنے طور پر بھی انتظام کریں کہ کسی ضلع سے یا کسی بڑے شہر سے آنے والے جلسہ کی برکتوں سے غافل اور محروم نہ رہیں بعض لوگ بعض اچھے مقرر کی تقریر سننے کی خاطر جلسہ گاہ پہنچ جاتے ہیں.انہوں نے پروگرام پر با قاعدہ نشان لگائے ہوتے ہیں کہ فلاں تقریر میں بیٹھنا ہے اور فلاں میں نہیں بیٹھنا کیونکہ فلاں مولوی صاحب بور تقریر کرتے ہیں اور فلاں مولوی صاحب دلچسپ تقریر کرتے ہیں.حالانکہ یہ
خطبات طاہر جلد اول 332 خطبه جمعه ۱۰/ دسمبر ۱۹۸۲ء بہت ہی ناقص العقل آدمی کا فیصلہ ہوتا ہے.در حقیقت اس میں دو پہلو ہیں جو ہمیشہ مد نظر رہنے چاہئیں.اول یہ کہ خدا کی رضا کی خاطر آپ جلسہ گاہ میں بیٹھتے ہیں.خواہ بور بھی ہو رہے ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ کی رضا آپ کو مل رہی ہوتی ہے اس سے بہتر آپ کو کیا چیز حاصل ہو سکتی ہے.آپ نے دیکھا نہیں جب تک غیر ملکیوں کے لئے ترجمے کا انتظام نہیں کیا گیا تھا سارے غیر ملکی صبح سے شام تک خاموشی سے بیٹھے ہوتے تھے ان کی طرف سے ایک آواز بھی نہیں آتی تھی یعنی وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے مسلسل محض اللہ کی رضا کی خاطر بیٹھے رہتے تھے.حالانکہ ایک لفظ کی بھی ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتی تھی.ان کو دیکھ کر ان سے ہی نمونہ پکڑا ہوتا.یہ خیال کر لینا کہ وہ آئے اور ان کا سب کچھ ضائع ہو گیا ان کا وقت ضائع ہو گیا ، ہزار ہا روپے خرچ کر کے ہزاروں میل دور سے آئے ہیں.ان کے پیسے ضائع گئے ، یہ خیال ہی بے وقوفی کا خیال ہے.آنے والے جانتے ہیں کہ ان کے دل برکتوں سے بھر رہے ہوتے ہیں.جب وہ واپس جاتے ہیں تو ان کی کایا پلٹ چکی ہوتی ہے.پس جلسہ کا یہ وقت اپنی ذات میں برکتوں کا وقت ہے.جب خدا کی خاطر آپ خاموشی سے کسی جگہ بیٹھتے ہیں تو ویسے ہی یہ سودا بڑا مفید اور کارآمد سودا ہوتا ہے.لیکن اس کے علاوہ یہ بھی نفس کا ایک تکبر ہے کہ فلاں تقریر کچھ نہیں ہمارے لئے بے کار ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں ہم کافی عالم ہیں.ہمیں تقریر سننے کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ لوگ بڑی محنت سے تقریریں تیار کرتے ہیں اور ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی ایسا نکتہ ضرور ہوتا ہے جو بڑے سے بڑے عالم کے ذہن میں بھی نہیں آیا ہوتا.اس لئے تقریریں سننے سے بہت ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر جلسہ پر آنے والے جلسہ کی تقاریر میں سے ایک دفعہ گزرجائیں تو ان کی بالکل کا یا پلٹ جائے گی.ان کے علم میں برکت پیدا ہوگی اور ان کے اخلاص میں برکت پیدا ہو گی.ایک تبدیل شدہ شخصیت لے کر وہ واپس لوٹیں گے.اور اگر آپ نے صرف اپنی لذت کی خاطر جلسہ گاہ میں بیٹھنا ہے تو اس میں پھر ایک خود غرضی کا پہلو آ جاتا ہے.اس میں رضائے باری تعالیٰ کا پہلو کہاں چلا گیا جو تقریر پسند ہے وہاں بیٹھ گئے جو نہیں پسند اس میں نہیں بیٹھے.جلسہ کی اپنی ایک حرمت ہے اس حرمت کا خیال رکھیں گے تو پھر آپ کا سارا وقت رضائے باری تعالیٰ کے حصول میں شمار کیا جائے گا.
خطبات طاہر جلد اول 333 خطبه جمعه ۱۰ر دسمبر ۱۹۸۲ء جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اور ہر شخص کے بس میں ہیں لیکن مشکل بھی ہوسکتی ہیں.کیونکہ اگر انسان کو دعا کی توفیق نہ ملے، اگر دل میں خلوص نہ ہو، اور اگر انسان ایک پختہ ارادہ کر کے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرے تو آسان چیزیں بھی مشکل ہو جایا کرتی ہیں.اسی طرح جہاں تک مضمون کا تعلق ہے.یہ باتیں اپنی ذات میں بہت ہی اہم ہیں اور بڑے اعلیٰ مقاصد پورا کرنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ دسمبر ۱۹۸۲ء)
خطبات طاہر جلد اول 335 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء جلسہ سالانہ کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے نصائح اور احباب کے اخلاص کا تذکرہ (خطبه جمعه فرموده ۱۷ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جوں جوں وہ جلسہ قریب آتا جارہا ہے جس کی تقریباً سارا سال ہی احمد یوں کو انتظار رہتی ہے اور جس کے لیے منتظمین بھی سارا سال فکر کرتے رہتے ہیں ذمہ داریوں کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے.کچھ کام تو ایسے ہیں جو جلسہ کے قریب آکر ایسی وسعت اختیار کر جاتے ہیں کہ جماعت کا ایک خاطر خواہ طبقہ ان کاموں میں نظام جماعت کا ہاتھ بٹاتا ہے.وہ کام کھل کر کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتے ہیں اور ایک وسیع طبقے کو ان میں حصہ لینے کی توفیق ملتی ہے لیکن کچھ کام ایسے ہیں جو خاموشی کے ساتھ جلسہ سالانہ کے معاً بعد شروع ہو جاتے ہیں اور سال بھر جاری رہتے ہیں، ربوہ میں ہی نہیں ، بلکہ باہر بھی.چنانچہ کئی احمدی انجینئر سارا سال اپنا وقت اس چیز پر خرچ کرتے رہے کہ لنگر کے روٹی پکانے کے نظام کو پہلے سے بہتر کیا جائے.دنیا میں دوسرے انجینئر بھی ہیں لیکن کتنے ہیں جو خدا کی خاطر اپنے بچے ہوئے وقت کو اس طرح مسلسل محنت کے ساتھ اور خاموشی سے خرچ کر رہے ہوں.پس ایسے خاموش رضا کا ر بھی ہیں جو شروع سال سے ہی جلسے کی تیاری بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اس کا انتظام کرنے میں حتی الوسع ہاتھ بٹانے کی کوشش بھی کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد اول 336 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء اب جبکہ جلسہ قریب آچکا ہے.یہ مختلف انتظامات قریب پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں.اس کے باوجود، چونکہ مہمانوں کی آمد کا کوئی صحیح اندازہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور بسا اوقات توقع سے بڑھ کر مہمان حاضر ہو جاتے ہیں ، اس لیے ایک فکر بھی لاحق ہوتی ہے.اور پھر دعا کی طرف زیادہ توجہ مبذول ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس قسم کی مشکلات در پیش ہوں گی.کس قسم کے وسیع انتظامات کا سامنا کرنا پڑے گا.پس جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو، یہ ساری کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ سکتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ انتظام کتنے بھی مکمل کیوں نہ ہوں ، اندازے بھی درست ہوں، آنے والوں کے متعلق انسانی پیشگوئیاں بھی صحیح ثابت ہوں اور ان اندازوں سے زیادہ کا اندازہ لگا کر بھی انتظام مکمل کر لیے جائیں ، جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو کوئی انتظام بھی احسن رنگ میں نہیں چل سکتا.ہم نے لنگر خانوں میں کام کیا ہے.ہمیں تجربہ ہے کہ بعض دفعہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ سارا انتظام دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور کچھ پیش نہیں چلتی.کبھی بارش آجاتی ہے.کچھ اچانک وہ مزدور جن کو ہم کام کیلئے باہر سے بلاتے ہیں آپس میں لڑنے لگ جاتے ہیں اور وہ لڑائی ایسی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ سارا انتظام ایک طرف پڑا رہ جاتا ہے اور جتنی روٹی پکنی چاہئے بعض دفعہ اس سے آدھی بھی نہیں پک سکتی.تو مستقبل میں سو قسم کے ایسے اندھیرے ہیں جن پر انسان کا کوئی بس نہیں.اس لیے جوں جوں جلسہ قریب آرہا ہے احباب جماعت کو بڑے اخلاص کے ساتھ اور گریہ وزاری اور عاجزی کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو کامیاب و کامران فرمائے.آنے والوں کیلئے بھی مشکلات ہیں.پھر واپس لوٹنے والوں کے لیے بھی مشکلات ہیں.دور دور سے ہمارے مہمان یہاں آنے شروع ہو گئے ہیں.بیرونی ملکوں سے وفود پہنچے رہے ہیں اور ابھی تو وہ سب یا ان کی اکثریت قادیان کے جلسہ میں شمولیت کے لیے گئی ہوئی ہے، لیکن وہ بھی بہت جلد یہاں آنے والے ہیں.اس لیے بہت سی ذمہ داریاں ہیں جن کو اہل ربوہ نے بہر حال ادا کرنا ہے.اور دعا کی مدد کے بغیر احسن رنگ میں ان کو ادا نہیں کیا جاسکتا.اسی انتظام کے سلسلے میں سوچتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ صد سالہ جو بلی کا جلسہ جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ وسیع ہوگا اور بہت زیادہ وسیع تر انتظام کے تقاضے لے کر آئے گا،
خطبات طاہر جلد اول 337 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء اسکی ذمہ داریوں کو ہم کس طرح ادا کریں گے.بیشمار ایسے کام پڑے ہوئے ہیں جن کا ابھی تک ہم نے آغاز بھی نہیں کیا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی سالوں کی مدت درکار ہے.پھر یہ فکر بھی لاحق ہوئی کہ وہ روپیہ کہاں سے آئیگا جس کی ضرورت ابھی پیش آگئی ہے اور بعض دوست سمجھ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ آخر میں ادا کر دیں گے.اسی لیے میں نے ایک گزشته خطبه جمعه ( فرمودہ ۳۰ دسمبر ۱۹۸۲ء.ناقل ) میں اس چندہ کی ادائیگی کی تحریک بھی کی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اور اسکی غیر معمولی رحمت اور فضل و کرم ہے کہ جتنی فکر میں پیدا کرتا ہے اتناہی ان فکروں کے دور کرنے کے سامان بھی مہیا فرما تا رہتا ہے اور فکر کے نتیجے میں تکلیف نہیں آتی بلکہ تعلق باللہ بڑھتا ہے.الہی جماعتوں کے ساتھ یہ ایک ایسا نظام جاری ہے جس پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر فکر اللہ کا احسان بن جاتا ہے.چنانچہ گزشتہ مرتبہ جب میں نے صد سالہ جوبلی کے چندے کی طرف توجہ دلائی تو ابھی وہ خطبہ تمام دنیا کی جماعتوں میں پوری طرح شائع بھی نہیں ہوا کہ بعض دور دور کی جماعتوں سے بھی مثلاً یو گنڈا اور اسی قسم کے اور کئی ممالک کی جماعتوں سے بڑی کثرت کے ساتھ یہ اطلاعیں آ رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے غیر معمولی توجہ شروع کر دی ہے.نہ صرف 'صد سالہ جو بلی کے چندے کی ادائیگی کی طرف بڑے انہماک کے ساتھ متوجہ ہور ہے ہیں بلکہ تحریک جدید کا چندہ بھی بعض صورتوں میں کئی گنا بڑھا دیا ہے.پاکستان کی جماعتوں سے بھی جو خبریں موصول ہو رہی ہیں وہ بھی عموماً خوشکن ہیں.ایک بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے اور تمام کارکن کیٹریوں کی طرح دن رات کام کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ گزشتہ کوتاہی کی پاداش ہو اور تلافی مافات ہو.اس طرح اللہ تعالیٰ ان خوش کن خبروں کے ذریعے تسلی بھی دیتا ہے.انفرادی طور پر بھی جو خطوط موصول ہوتے ہیں ان میں بھی بعض ایسی پیاری اور درخشندہ مثالیں سامنے آتی ہیں کہ دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے کہ اس نے خود اپنے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ایسے عظیم الشان فدائی عطا فرمائے ہیں.چنانچہ کل رات ہی میں نے لاہور کی ایک احمدی خاتون کا خط پڑھا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں ایک عام غریب سی عورت ہوں.لیکن بہر حال میں نے اپنے شوق کے مطابق 'صد سالہ جوبلی کا چندہ لکھوا دیا.بعد میں کچھ ایسے حالات
خطبات طاہر جلد اول 338 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء پیش آتے رہے کہ میں اپنا چندہ وقت کے مطابق سال بہ سال ادا نہ کر سکی.یہاں تک وہ ذمہ داری کا ایک پہاڑ بن کر سامنے آکھڑا ہوا.انہوں نے لکھا کہ جتنا بھی چندہ تھا، مجھے محسوس ہوا کہ یہ بوجھ میری توفیق اور طاقت سے آگے نکل گیا ہے.جب آپ نے توجہ دلائی تو کئی دن تو میں نے بڑے ہی کرب میں گزارے.خدا کے حضور روئی ، گریہ وزاری کی کہ تو نے ہی اپنے فضل سے وعدے کی توفیق بخشی تھی ، اب تو ہی اسے پورا کرنے کی بھی توفیق عطا فرما.اسی دوران میری نظر اپنے زیور پر پڑی تو معاً میرے دل میں خیال آیا کہ جو کچھ میرے بس میں ہے وہ تو پیش کر دوں چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ سارے کا سارا زیور چھوٹا ہو یا بڑا، جماعت کے سامنے رکھ دیتی ہوں تا کہ اپنے خلوص کا یہ ثبوت تو پیش کروں کہ جو میرے بس میں تھا وہ میں نے کر دیا.صرف یہی نہیں ، بلکہ (وہ لکھتی ہیں کہ ) جب میں نے یہ فیصلہ کیا تو اس زیور سے مجھے ایسی نفرت ہوگئی کہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا، یہ میرے دل پر بوجھ بن گیا ہے.اس لئے خدا کے واسطے اس زیور کو میرے گھر سے دور کریں اور مجھے بتائیں کہ میں کس کو ادا کروں تا کہ میرے دل پر سے یہ بوجھ اتر جائے.کیسا عجیب خدا ہے، کتنے احسان کرنے والا خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی پیاری جماعت عطا کی ہے کہ قرونِ اولیٰ کے زمانوں کی یاد کو زندہ کر دیا.جب میں نے یہ خط پڑھا تو میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ اے اللہ ! اس عورت کو زیور ایمان سے آراستہ فرما جیسا کہ اس نے خود خواہش ظاہر کی ہے اور سر سے پاؤں تک اس کے ظاہر و باطن کو اپنی رضا کے زیور سے مزین فرما دے.پھر میں نے سوچا دنیا میں کتنی ہی عورتیں ہوں گی ( کروڑوں ہوں گی ) جن کو اللہ تعالیٰ نے زیور کی زیبائش سے محروم رکھا ہے.ان کے سر، ان کے ہاتھ ، ان کے گلے اور ان کے پاؤں خالی پڑے ہیں.لیکن ان میں سے کتنی ہوں گی جنہوں نے رضائے باری تعالیٰ کی خاطر اپنے ہاتھوں کو، اپنے سر کو، اپنے گلے کو اور اپنے پاؤں کو زیور سے عاری کیا ہوگا.بہت کم ایسی مثالیں نظر آئیں گی.اور اگر کوئی مثالیں ہوں گی تو وہ ساری کی ساری جماعت احمدیہ میں ملیں گی.پہلے بھی جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے نظارے پیش کر چکی ہے، آج بھی پیش کر رہی ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پیش کرتی چلی جائے گی.اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جن خواتین کو ایسی عظیم الشان قربانیوں کی توفیق ملی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو کبھی خالی نہیں چھوڑا.دنیا میں کتنی ہی عورتیں ہیں ( کروڑوں ہوں گی ) جن کو خدا
خطبات طاہر جلد اول 339 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء تعالیٰ نے زیور بھی عطا کئے ہیں.مگر کون ہے وہ زیوروں والی جو خدا تعالیٰ کی نظر میں زینت کے لحاظ سے اس عورت کا مقابلہ کر سکے جس کے ہاتھ اور پاؤں اور سر اور گردن محض خدا کی خاطر زیور سے خالی ہوئے ہیں.وہ سر سے پاؤں تک بھی ہیروں اور جواہرات سے بھر جائیں پھر بھی وہ اس عورت کی زینت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.خدا کا ایسا احسان ہے کہ اپنے ہاتھوں کو زیور سے خالی کرتے ہوئے اس عورت کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ میں اب قابل رحم ہو گئی ہوں ، میں محروم ہورہی ہوں ، بلکہ معاً خدا تعالیٰ نے اس کے دل کو ایک ایسے جذبے سے بھر دیا کہ وہ زیور سے نفرت کرنے لگی اور ایسی شدید نفرت کا اظہار ہے کہ گویا گھر میں زہر پڑا ہوا ہے.اسے دور کریں ، ورنہ مجھے چین نصیب نہیں ہو گا.یہ محض اور محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے.پس جو خدا فکریں پیدا کرتا ہے یا فکر والے حساس دل عطا کرتا ہے وہی فکروں کو دور کرنے کے سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے.اس ساری جدو جہد کا ماحصل کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ احمدی پہلے سے بھی بڑھ کر اپنے رب کے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے.یہ فکریں اور فکروں کو دور کر نے کا نظام تو محض بہا نہ ہو گیا.فی الحقیقت ان کی کوئی بھی حیثیت نہ رہی.کام سارے خدا ہی نے کرنے ہیں اور کرتا چلا جاتا ہے.لیکن اس جدو جہد کے دوران ہمارا ماحصل کیا ہے؟ وہ ہے اپنے رب کی رضا.ہم دن بدن پہلے سے زیادہ اپنے پیارے محبوب، اپنے خالق و مالک کے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.پس کیسا عظیم الشان سودا ہے جو ہم نے اپنے رب سے کیا ہے.ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا اور ہر دفعہ ہم پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی دولت سے مالا مال ہوتے چلے جارہے ہیں.اسی سوچ میں محو ہوتے ہوئے میرا خیال پھر جلسہ سالانہ کی طرف لوٹا جو اس سال کا جلسہ ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ اگر ہم دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ساری مشکلات دور فرمادے گا،سارے خدشات ٹال دے گا اور اس جلسے کو اپنے فضل کے ساتھ ہر لحاظ سے ایک نہایت کامیاب جلسہ ثابت فرمائے گا.لیکن جہاں تک جلسے کی حقیقی کامیابی کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی ، اس کے لئے ہمیں عبادت کا حق ادا کرنا ہوگا.اگر ہم عبادت کا حق ادا نہیں کریں گے تو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوگی.جلسہ کی ظاہری رونق اور ظاہری بہار اور ظاہری کامیابی تو کچھ بھی
خطبات طاہر جلد اول 340 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء معنے نہیں رکھتی.عبادت نقطہ عروج ہے مومن کے مقاصد کا.اگر عبادت کا حق ادا نہ کیا گیا تو یہ جلسہ اپنی تمام شان و شوکت کے باوجود ویران ہوگا.اس لئے میں ایک دفعہ پھر جماعت کو اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں.گھروں میں خاص طور پر اس بات کا چرچا ہونا چاہئے اور ابھی سے یہ عزائم ہونے چاہئیں کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ نمازوں کے اوقات میں گھروں کو خالی کریں گے اور مساجد کو بھرا کریں گے.اس سلسلے میں انتظامیہ بھی مدد کر سکتی ہے.ہر محلے کی انتظامیہ اپنے محلے کے ہر گھر کو ایسا چارٹ مہیا کرے جس کو گھر والے دیوار پر آویزاں کر سکیں اور اس چارٹ پر ان کی قریبی مسجد کے اوقات صلوۃ لکھے ہوں تا کہ ہر وقت اہل خانہ کو یاد دہانی ہوتی رہے.پھر یہ بھی لکھا ہو کہ آپ کی مسجد اس قدر فاصلے پر ہے.اگر آپ نماز سے دس پندرہ منٹ پہلے اپنے مہمانوں کو توجہ دلا دیں اور کھانے کے اوقات ایسے رکھیں جو نماز کے اوقات میں مخل نہ ہوں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہوگی اور بہت بڑی سعادت ہوگی.اسی طرح جلسے کے اوقات بھی لکھے جائیں اور پھر شام کے پروگرام بھی درج ہوں اور توجہ دلائی جائے کہ آپ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کر سکتے جب تک اس مقصد میں ان کے ممدو معاون نہ ہوں جس کی خاطر وہ تکلیف اٹھا کر باہر سے تشریف لائے ہیں اور وہ مقصد جلسہ میں حاضر ہونا اور تقریروں سے استفادہ کرنا ہے.پس اگر آپ کے ناشتے ، کھانے اور مجلسوں نے ان کو اس مقصد سے ہی محروم کر دیا تو پھر اس میز بانی کا کیا فائدہ؟ پھر تو یہ میز بانی نہیں ہوگی بلکہ ایک ظلم ہو جائے گا.یہ چارٹ چھپے ہوئے نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے ملیں گے.نظارت محلوں کو مہیا کر سکتی ہے.اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا پمفلٹ (جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ) جو نمازوں کے اوقات اور نصائح پر مشتمل ہو شامل کر کے ہر گھر میں تقسیم کریں.یہ انتظام انشاء اللہ بہت مفید ہوگا.اسی طرح جلسہ کے دنوں میں صبح کے وقت نماز کے لئے جگانے کا انتظام ہو.جس طرح عموماً اطفال الاحمدیہ صبح کے وقت صَلِّ عَلى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ پڑھتے ہوئے نمازوں کے لئے جگاتے ہیں، اس وقت بھی خصوصیت کے ساتھ اطفال الاحمدیہ کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ سارے ربوہ میں درود کا ایک شور برپا کر دیں اور تہجد کے وقت سے لے کر نماز فجر کے وقت تک ایک عجیب منظر ہمیں نظر آئے.لذت نگاہ بھی پیدا کرے اور لذت گوش بھی.کانوں کے لئے بھی لذت کا سامان
خطبات طاہر جلد اول 341 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء پیدا ہو اور آنکھوں کے لئے بھی لذت کا سامان پیدا ہو کہ چھوٹے چھوٹے بچے درود پڑھتے ہوئے نمازوں کے لئے جگاتے پھر رہے ہیں.یہ انتظام بھی انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوگا.ضرورت صرف بار بار نصیحت کرنے کی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیوں کو سننے والے کان عطا کئے ہیں اور ایسے دل عطا فرمائے ہیں جو بڑی جلدی پکھل جاتے اور مائل ہو جاتے ہیں.ذراسی توجہ کے نتیجہ میں ہم بہت بڑے فوائد حاصل کر سکتے ہیں.اس ضمن میں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ جلسہ سالانہ کے لئے مخلص اور محنتی کارکنان کی ضرورت ہے.افسر جلسہ سالانہ کو یہ شکایت ہے کہ کارکنان کا معیار گر رہا ہے.جس لگن اور قربانی اور جذبے اور روح کے ساتھ ایک زمانے میں احمدی بچہ اور احمدی نوجوان کام کیا کرتا تھا اس معیار میں کچھ کمی آگئی ہے.جب میں ایسی باتیں خطبے میں بیان کرتا ہوں تو بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ آپ نے یہ کیا اندھیر کر دیا.آپ یہ کمزوریاں سب کے سامنے کھول کر بیان کر رہے ہیں.ان کے خطوط کے باوجود میں یہ بیان کر رہا ہوں اور بیان کرتا چلا جاؤ نگا کیونکہ اپنی ایسی کمزوریوں سے پردہ پوشی کرنا جو اصلاح طلب ہوں، یہ نیکی نہیں ہے بلکہ اپنی جان پر ظلم ہے.بلا وجہ اپنی تعریف کرنا اور بلا وجہ اپنے عیوب کو چھپانا، حقیقتاً کوئی نیکی نہیں ہے ، بلکہ تقویٰ کے خلاف بات ہے.اس لئے جو کمزوریاں ہمارے علم میں آتی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو اپنے سامنے کھول کر رکھیں ،محسوس کریں اور معلوم کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں.اور پھر ان کو دور کریں.یہی قول سدید کا طریق ہے اور اس کے نتیجے میں لازماً اصلاح ہوگی.قرآن کریم کا بیان یا يُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (الاحزاب :۷۲-۷۱) اتنا قطعی ، اتنا پختہ اور اتنا یقینی ہے کہ کبھی بھی اس کا وار خالی نہیں جاتا.پس آپ قول سدید اختیار کریں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قول سدید کے نتیجے میں آپ کو کوئی نقصان پہنچے.اس لئے جو کمزوریاں ہیں ان کو تسلیم کرنا چاہئے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور اگر افسر جلسہ سالانہ نے محسوس کیا ہے تو لازماً کمزوریاں ہونگی.پس میں تمام کارکنان جلسہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کے معیار کو بلند کریں اور بہت بلند کریں.مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد افسر جلسہ کو انشاء اللہ کوئی شکایت پیدا نہیں ہوگی.
خطبات طاہر جلد اول 342 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء حقیقت یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کام کرنا اور خدمت کرنا بھی بالواسطہ تبلیغ بن جاتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہی ایک دفعہ ایسا وقت آیا کہ بارش ہورہی تھی اور خطرہ تھا کہ صبح مہمانوں کو ہم روٹی مہیا نہیں کرسکیں گے.ادھر نان بائی تنور چھوڑ کر بھاگنے لگے.اس زمانے میں تو چھتیں بھی مہیا نہیں ہوا کرتی تھیں.بہت برا حال ہوتا تھا.تنور کچے اور پھر دیگر وسائل کی بہت کمی ہوتی تھی.پیڑے والیاں تو پہلے ہی بھاگ گئی تھیں.اُس وقت ہمارے جتنے اطفال بھی روٹی جمع کرنے پر مقرر تھے اور دوسرے کارکنان ، ان سب کو میں نے اکٹھا کیا.علاوہ ازیں باہر سے بھی جتنے کارکن مل سکتے تھے وہ بلائے.اس کے بعد ہم نے یوں کیا کہ پراتیں اور کنالیاں اور جو بھی مہیا ہوا ان کو لے کر نان بائیوں کے سروں پر کھڑے ہو گئے تا کہ بارش ان کو تکلیف نہ دے.اور بچوں نے جیسا تیسا بھی انکو پیڑا بنانا آتا تھا ، پیڑے بنائے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہماری ساری رات اسی طرح گزری.صبح نماز کے بعد مجھے ایک مولوی صاحب نظر آئے جو سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور غالبا مجھے لاڑکانہ میں ملے تھے.بڑے شدید مخالف ہوتے تھے اور جماعت اسلامی کے پیش رو لوگوں میں سے تھے.وہ دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئے ان کے اوپر رقت طاری ہو گئی.میں نے کہا مولوی صاحب ! آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا میں ابھی نماز کے بعد بیعت کر کے آرہا ہوں اور اس خوشی میں گلے لگ کر مل رہا ہوں.میں نے کہا آپ کو بیعت کرنے کا خیال کس طرح پیدا ہوا؟ کہنے لگے میں رات کو جبکہ بارش ہو رہی تھی، یہ دیکھنے آیا تھا کہ اب احمدیوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں تو آپ کے نظام کو درہم برہم ہوتے دیکھنا چاہتا تھا لیکن رات میں نے جو نظارہ دیکھا ہے وہ بڑا حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے ، جن کے پاس بدن ڈھانکنے کو کپڑے بھی کافی نہ تھے.اور افسر کیا اور ماتحت کیا.سارے کے سارے کنالیاں اور پراتیں لیکر کھڑے ہیں اور نان بائیوں کو بارش سے بچارہے ہیں تا کہ وہ بھیگ نہ جائیں.یہ کیفیت دیکھ کر میری کا یا ایسی پٹی کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ضرور بیعت کروں گا.کیونکہ یہ جھوٹوں کی جماعت نہیں ہو سکتی اور میں نے دل میں کہا ملوں گا اس وقت، جب بیعت کرلوں گا.چنانچہ میں نے رات بڑی بے چینی میں گزاری ہے اور اب میں آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بیعت کی توفیق عطا فرما دی ہے.پس اخلاص کے نمونے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی ضائع نہیں جاتے.ان کے نتیجے میں بڑی تبلیغ ہوتی ہے.دلائل خواہ لاکھ بھی ہوں، بچے
خطبات طاہر جلد اول عمل کی قوت تا ثیر کا مقابلہ نہیں کر سکتے.343 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء اس لئے پورے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ آپ اپنی قربانی سلسلہ کے لئے پیش کریں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مشکلات میں بھی ثابت قدم رکھے.کیونکہ جلسے کے پروگرام جب آگے بڑھتے ہیں تو بعض دفعہ بچوں پر اور دوسرے کارکنوں پر اتنا زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہے، کہ یوں لگتا ہے کہ انسانی طاقت میں ہی نہیں ہے کہ اس کو اٹھا سکے.بعض دفعہ ایسا لگتا ہے کہ آدمی کا م کرتے کرتے بیہوش ہو کر گر پڑے گا ایسی کیفیتیں بھی آتی ہیں.لیکن اگر انسان دعا کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ان سب بوجھوں کو آسان فرما دیتا ہے.اب میں ایک بات دکانداروں سے کہنی چاہتا ہوں.یہاں کے دکانداروں کے لئے رزق کی کمائی کا یہ بڑا اچھا موقع ہے.کئی بیچارے انتظار کرتے ہوں گے کہ سارے سال کے گھاٹے جلسہ سالانہ پر پورے ہو جائیں.لیکن گھاٹے اس طرح پورے ہونے چاہئیں کہ کوئی بڑا گھاٹا نہ کھا جائیں.یہ نہ ہو کہ دنیا کا گھاٹا پورا کرتے کرتے اپنی عاقبت کا گھاٹا مول لے لیں اور بددیانتی کا ایسا طریق اختیار کریں جس کے نتیجہ میں آپ کی عاقبت خراب ہو جائے.لوگ بڑے اخلاص سے باہر سے آئیں گے.بڑی بڑی امیدیں لیکر آئیں گے.بعض تو اس لئے یہاں شاپنگ کرتے ہیں کہ ربوہ سے کچھ نہ کچھ لے کر جانا ہے.یہ ظاہر بات ہے کہ جس جگہ سے محبت ہو اور جس کے متعلق انسان سمجھے کہ یہ نیکی کی آماجگاہ ہے وہاں کی ظاہری چیزوں سے بھی اس کو پیار ہو جاتا ہے.لوگ مکہ اور مدینہ جاتے ہیں یا دوسرے مقامات مقدسہ مثلاً اجمیر شریف وغیرہ جاتے ہیں تو وہاں کی نشانیاں لے کر آتے ہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ ان کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو وہیں سے ملتی ہے بلکہ وہ صرف پیار کے ایک اظہار کے طور پر وہاں کی ایک نشانی لے کر آتے ہیں.ہمارے پاس بھی کئی احمدی جب حج کر کے آتے ہیں تو کبھی مدینہ کی جائے نماز دے دیتے ہیں اور کبھی کوئی تیج دے دیتے ہیں.یہ چیزیں وہ صرف محبت کے اظہار کے طور پر خریدتے ہیں کہ جس شہر میں حضرت محمد مصطفی عملے پھرا کرتے تھے وہاں سے ہم نے کوئی چیز خریدنی ہے خواہ وہ چیز جاپان میں بنی ہو.لیکن چونکہ وہ اس مقدس مقام سے منسوب ہو جاتی ہے.اس لئے برکت پا جاتی ہے.اس میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے.وہ پیار کا ایک اظہار بن جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد اول 344 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء پس باہر سے آنیوالے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد، ضرورت سے بے نیاز ہوکر ، یہاں صرف اس لئے شاپنگ کرتی ہے کہ جس جگہ کو خدا نے آج تمام دنیا میں نور پھیلانے کا مرکز بنایا ہے وہاں کی چیزیں لے کر جائیں.ان میں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے احمدی بھی ہوتے ہیں.ان کو ضرورت تو نہیں ہوتی کہ یہاں سے چیزیں خرید میں بلکہ ساری دنیا ان سے چیزیں خریدتی ہے اس لئے جب باہر کے مہمان یہاں آکر شا پنگ کرتے ہیں تو خالصتہ نیکی کی وجہ سے اور لہی محبت کے اظہار کے لئے ایسا کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے جب بعض دکاندار زیادتی کرتے ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے ایمان کو کیسی ٹھو کر لگتی ہوگی وہ منہ مانگے دام دے دیتے ہیں.وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک احمدی دکاندار جائز منافع سے زیادہ لے گا یا ہمارے بھول پن سے فائدہ اٹھا کر ہمیں کچھ زیادہ دام بتائے گا.لیکن جب وہ دوسری جگہ جاتے ہیں اور وہاں نسبتا نیک دکاندار ملتا ہے تو اشک ٹھوک لگتی ہے وہ کہتے ہیں کہ اچھا! یہ قیمت ہے اس کی ؟ ہمیں تو فلاں جگہ یہ بتائی گئی تھی.چنانچہ ایسے واقعات وہ پھر بتاتے بھی ہیں.گزشتہ کئی سالوں سے مجھے تجربہ ہوا ہے کہ بعض باہر سے آنیوالوں مثلاً امریکنوں نے بتایا کہ ہمیں یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ ایک دکاندار کے پاس گئے اور ایک چیز کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا پچاس روپے ، ہم نے اسی وقت دے دیئے.لیکن جب دوسرے دکاندار کے پاس گئے تو اس نے کہا یہ تو اکیس روپے کی ہے.کوئی نسبت ہونی چاہئے.آپس میں کوئی موازنہ تو ہو.اکیس کے بائیس ہو جائیں یا تئیس ہو جائیں یا انہیں ہوں.یہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے.لیکن پچاس کے اکیس ہو گئے ہوں یا اکیس کے پچاس ہو جائیں.یہ حساب سمجھ میں نہیں آ سکتا.پس لازماً کسی نے بد دیانتی کی ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ ان کے ایمان ان ٹھوکروں سے بالا ہیں لیکن ایک نقصان لازماً پہنچتا ہے.ان کی توقعات میں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے، پھر وہ سوچتے ہیں کہ جتنی اعلیٰ توقعات ہم نے رکھی ہوئی ہیں.یہ بہر حال وہ تو قعات نہیں ہیں.اور اگر وہ ایمان سے منحرف نہ بھی ہوں.تب بھی ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے اخلاص کے اندر کمی ضرور آجاتی ہے اور اخلاص بڑھنے کے مواقع تو بہر حال ہاتھ سے نکل جاتے ہیں.پس بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.اللہ تعالی رازق ہے اس پر تو کل کریں جتنا خدا دیتا
خطبات طاہر جلد اول 345 خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۲ء ہے وہ قبول کریں اور اگر آپ خدا کی خاطر بد دیانتی سے باز رہیں گے، منافع کو مناسب رکھیں گے اور حسن اخلاق سے پیش آئیں گے.بلکہ اگر کوئی شخص غلط چیز لے گیا ہے اور واپس کرنے آتا ہے تو باوجوداس کے کہ آپ کا دستور نہیں ہے.آپ واپس لینا قبول کرتے ہیں ،تو اللہ تعالیٰ آپ کے افعال میں برکت دے گا اور آپ کے نقصان کو بھی فائدے میں بدل دے گا.تو گل کریں.پھر دیکھیں تو سہی اپنے خدا کو کہ وہ کس قسم کا خدا ہے.یونہی بدظنیاں کر کر کے اپنا نقصان کر رہے ہیں حالانکہ بہت ہی محبت کرنے والا خدا ہے.بہت بڑھا کر عطا کرتا ہے.کبھی تھوڑا سا آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس آزمائش میں پورا اترنے کی کوشش تو کریں.پس دکانداروں کو بھی خصوصیت کے ساتھ اپنے اخلاق کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے اور دیانتداری کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں.اگر وہ محض اللہ ایسا کریں گے تو ان کے رزق میں برکت ہوگی ان کے ایمان میں بھی برکت ہوگی ان کی اولا دوں میں بھی برکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ ان پر بڑے فضل نازل فرمائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ ہم جلسہ سالانہ کو اپنی دعاؤں کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ خوب سجائیں گے.اس کا ظاہر بھی سج جائے گا اور باطن بھی سج جائے گا.انشاء اللہ تعالی.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 347 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء مہمانوں کے حقوق اور کارکنان جلسہ کو نصائح (خطبه جمعه فرموده ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جلسہ کا وقت جتنا قریب سے قریب تر آتا چلا جارہا ہے اُسی قدر وقت کی رفتار بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں جلسہ قریب آیا وقت نے چلتے چلتے دوڑنا شروع کیا اور اب دوڑتے دوڑ تے اُڑنے لگا ہے.اور جب جلسہ آجا تا ہے تو پتہ بھی نہیں لگتا کہ چلا کب گیا.اس تیزی سے وقت گزر جاتا ہے کہ کارکنان جلسہ جو مختلف قسم کے فکروں میں مبتلا ہوتے ہیں کہ مشکل ذمہ داریاں کیسے ادا ہوں گی وہ آنِ واحد میں ادا ہو بھی جاتی ہیں اور معلوم بھی نہیں ہوتا کہ جلسہ کب آیا تھا اور کب چلا گیا.اور جب جلسہ آ کے چلا جاتا ہے تو اپنے پیچھے ایک بڑی گہری اداسی چھوڑ جاتا ہے.ایسی گہری اُداسی کہ ربوہ کے درودیوار سے اُس وقت اداسی ٹپک رہی ہوتی ہے.پہلے جب قافلے آکر جایا کرتے تھے اور نعرہ ہائے تکبیر سے بعض لوگوں کی دل آزاری نہیں ہوتی تھی اور بلند آواز سے اللہ تعالے کا ذکر کرتے ہوئے جب گاڑیاں روانہ ہوتی تھیں تو میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ بہت سے کارکنان دورویہ کھڑے خاموشی سے آنسو بہا رہے ہوتے تھے.اتنا گہرا دُکھ مہمان پیچھے چھوڑ جاتے تھے کہ باہر کی دنیا اسکا تصور بھی نہیں کر سکتی.میں نے سوچا کہ یہ جذبہاور بی خلق کہاں سے ہم نے پایا تو ذہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد اول کے اس مصرعہ کی طرف منتقل ہوا.348 بے پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء کہ ابھی تو مہمانوں کی آمد آمد ہے لیکن ایک عارف باللہ اور مہمان نوازی کے اعلیٰ خلق پر فائز ایک انسان اُن کے جانے کے بعد جوغمگین ہوتا تھا وہ تو ہوتا تھا ابھی وہ وقت آیا ہی نہیں تو اس غم کا احساس پہلے ہی دل میں جنم لے چکا ہوتا تھا.پس آپ ہی کے ادنی غلاموں کا مہمانوں کے جانے پر غم محسوس کر نا یہ تو ایک روایت ہے جو ہم نے ورثہ میں پائی ہے.انسانی فطرت تو ایک ہی رہتی ہے.البتہ بچہ میں اس کا اظہار مختلف طریق پر ہوتا ہے.مجھے یاد ہے کہ میرے ایک بھانجے قمر سلیمان احمد جو آج کل نائیجیریا میں لیکچرر ہیں ہم انہیں پیار سے بھی کہتے ہیں.وہ بچپن میں جب انڈا کھایا کرتے تھے تو ان کو انڈا اتنا پسند تھا کہ کھاتے کھاتے ابھی نصف تک نہیں پہنچا ہوتا تھا تو رونے لگ جاتے تھے اور ہم جان کر چھیڑنے کی خاطر ان کا جواب بڑا پیارا لگا کرتا تھا ) ان سے پوچھتے تھے کہ بہی روتے کیوں ہو.تو وہ جواب دیتا تھا کہ انڈا ”چم ہو جائے گا یعنی ختم بھی نہیں کہہ سکتا تھا اتنی چھوٹی عمر کا واقعہ ہے کہ مجھے یہ غم لگ گیا ہے کہ یہ انڈا جو شروع کر بیٹھا ہوں یہ تو ختم ہو جائے گا.66799 در اصل ساری زندگی کا فلسفہ یہی ہے.جو چیز آتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے اور اسی فلسفہ کا نام زندگی ہے.اگر یہ نہ ہو تو پھر دکھ بھی ختم نہ ہوں.اللہ تعالیٰ نے کیسا عدل قائم کر رکھا ہے.خوشیاں بھی آتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں.بڑے بڑے دکھ بھی آتے ہیں جن سے انسان سمجھتا ہے کہ میں کبھی گزر ہی نہیں سکوں گا، وہ بھی آکر ختم ہو جائیں گے.اسی طرح تکلیفوں کے ادوار بھی آنی جانی بات ہے.زندہ اور عارف قو میں جانتی ہیں کہ یہ وقتی تکلیفیں اور یہ آزمائشیں سب آنی جانی چیزیں ہیں.یہ گزر جائیں گی.ان کو دوام نہیں ہے.کیونکہ تقدیر الہی اسی طرح جاری وساری ہے.پس ان چیزوں سے جہاں غم بھی پہنچتا ہے وہاں حو صلے بھی بڑے بلند ہوتے ہیں.یقین اور عزم بھی پیدا ہوتا ہے.اس تعارف کے بعد اب میں ایک دو باتیں جلسہ کی ذمہ داریوں سے متعلق کہنا چاہتا ہوں.جن میں آنے والے اور جانے والے بھی شریک ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ چونکہ غیر معمولی طور پر آبادی بڑھنے کی وجہ سے سڑکوں پر ہجوم ہو جاتا
خطبات طاہر جلد اول 349 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء ہے.بعض دفعہ ایک انبوہ کھڑا ہو جاتا ہے.اس لیے میں یاد کرانا چاہتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ نے سڑکوں کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں اُن کا خیال رکھیں.اسلام ایک کامل مذہب ہے.ہر چیز جو بنی نوع انسان کی زندگی سے کسی رنگ میں بھی تعلق رکھتی ہے اس کے متعلق اس میں کامل تعلیم دی گئی ہے.یہاں تک کہ سڑکوں اور بازاروں کے حقوق بھی قائم کئے گئے ہیں.چنانچہ ان حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ بازاروں میں مجلسیں نہ لگائی جائیں.کیونکہ جب بازاروں میں مجلسیں لگتی ہیں تو اس سے معاشرہ میں کئی قسم کی برائیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر آنے جانے والے مسافر جن کی خاطر بازار بنائے گئے تھے کہ وہ ان میں خرید وفروخت کریں، ان کے اصل کام میں یہ مجلسیں مخل ہو جاتی ہیں.پس جو چیز اصل میں مخل ہو اس کا نام غیر منصفانہ فعل ہے.تو بازاروں کا حق یہ ہے کے آپ اتنی دیر وہاں رہیں جتنی دیر رہنا ضروری ہے.اتنی دیر ہوٹلوں میں بیٹھیں جتنی دیر ہوٹل میں بیٹھنا ضروری ہے.وہاں مجلسوں کے اڈے نہ بنائیں اور اگر کبھی کچھ دیر کے لیے رکنا پڑے ( بعض دفعہ لازماً رکنا پڑتا ہے ) تو اس وقت بھی ذکر الہی میں مصروف رہیں.دین کی باتیں کریں تا کہ ربوہ کا ما حول اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مہک اٹھے.دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ بازاروں میں چلتے ہیں تو کارکن آپ کو یہ کہتے ہیں کہ یہ رستہ اختیار کریں اور وہ اختیار نہ کریں.ایسی صورت میں دو قسم کی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.بعض اوقات کارکنان تحکم اختیار کر لیتے ہیں.محبت اور عاجزی سے سمجھانے کی بجائے وہ تحکمانہ رنگ اختیار کرتے ہیں.تو ایسی صورت میں وہ لوگ بھی جن کو تعاون کی عادت ہے بعض دفعہ مزاج کی وجہ سے بھڑک اٹھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسانی مزاج بے شمار قسموں کے پیدا کیے ہیں.بعض لوگ بڑی جلدی بھڑک اٹھتے ہیں.ان کا بیماریوں سے بھی تعلق ہوتا ہے مثلاً کسی کو ہائی بلڈ پریشر ہے.وہ بے اختیار ہو جاتا ہے.اور پھر بڑی بڑی سخت باتیں بھی کہہ جاتا ہے.تو اول تو کارکنان کو تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہنا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو محبت اور پیار کے ساتھ سمجھا ئیں.رستہ سب کے درمیان ایک مشترک چیز ہے.اس لیے انتظامی دقتوں کے پیش نظر اگر ہمیں بعض لوگوں سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ تھوڑی دیر ٹھہریں یا اس طرف چلیں اور اس طرف نہ چلیں.مستورات کی طرف نہ چلیں.مردوں کی طرف چلیں.یہ ان کی سہولت کی خاطر ہے.اور رستہ کے حقوق میں یہ
خطبات طاہر جلد اول 350 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء بات اس لیے داخل ہے کہ رستہ کے حقوق کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر آنے جانے والے کے لیے آسانی پیدا کی جائے.پس اجتماعی آسانی پر انفرادی آسانیوں کو قربان کیا جاتا ہے.اس لیے یہ انتظامات کسی تحکم کے کسی زبردستی کے کسی شاہی فرمان کے مظہر نہیں ہوتے بلکہ عوامی بہبود کے لیے بعض افراد سے درخواست کی جاتی ہے کہ آپ اجتماعی طور پر اپنے نفس کو قربان کریں.ایک اعلیٰ مقصد کے لیے ایک ادنی چیز کی قربانی دینا یہ زندگی کا ایک بنیادی فلسفہ ہے.پس جب اجتماعیت کے مقابل پر انفرادیت آئے گی.تو انفرادیت کو قربان ہونا پڑے گا.لیکن بحیثیت مجموعی اجتماعیت کی حفاظت بھی افراد کو فائدہ پہنچاتی ہے.اجتماعیت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو افراد سے کلیتہ الگ کوئی اوپر کی فضا میں بس رہی ہو.گویا آپ کے سارے فائدے اجتماعیت کو پہنچ رہے ہیں اور آپ محروم رہ رہے ہیں.ہرگز ایسی بات نہیں ہے.اجتماعی فائدہ سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد بشر کو فائدہ پہنچے، ایک شخص اُس محدود فائدہ سے زیادہ استفادہ نہ کر جائے اور باقیوں کے حصہ کو نقصان نہ پہنچ جائے.تو بالآخر یہ فائدہ ہر فرد کی طرف ہی لوٹتا ہے.اس لیے تعاون کی روح ہی بہتر ہے اور آپ کے اپنے مفاد کے اندر ہے.اس سلسلہ میں میں آپ سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ایسے لوگ بھی آئے ہوں جوحسن اخلاق سے بات کرنے کے باوجود بھی بھڑک اٹھیں اور کہیں ہم نے جانا ہے تو ان کو جانے دیجئے.جب تک حکومت رستہ کے اوپر ایسی پابندیاں عاید نہ کرے کہ فلاں رستے سے فلاں کا گزرنا ضروری ہے فلاں کا گزرنا ضروری نہیں جو پبلک جگہیں ہیں جو ہماری جائیداد نہیں ہیں مثلاً یہ جلسہ گاہ ہماری جائیداد ہے.یہاں ہمیں انتظام کرنے کا پورا حق ہے.مگر سٹرکیں تو ہماری جائیداد نہیں ہیں.وہاں ایسی صورت میں آپ کو اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے.حکومت کے متعلقہ ادارے ہیں آپ ان سے تعاون کریں.اُن سے تعاون حاصل کریں اور بجائے اس کے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لیں ایسے مسائل ان کی طرف منتقل کیا کریں.قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اسلام کی اخلاقی تعلیم کے بھی خلاف ہے.اور حکمت کے بھی خلاف ہے.تیسری بات اس ضمن میں میں یہ کہوں گا کہ اُس وقت اگر کوئی تلخی کے ساتھ بولتا ہے تو کارکنان تلخی نہ دکھا ئیں.پیار اور محبت کے ساتھ سمجھائیں.صبر کے اندر بڑی طاقت ہے.انکسار میں ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے.اگر انکسار اور تکبر کا مقابلہ ہوتو اگر صبر ساتھ شامل ہو جائے تو لازماً
خطبات طاہر جلد اول 351 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء انکسار جیتا کرتا ہے اس لیے اپنے اندر اخلاق کی یہ دو اعلیٰ قدریں پیدا کریں.صبر تحمل اور پورے حلم کے ساتھ آپ انکسار کو اختیار کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس سے بڑا فائدہ پہنچے گا.جہاں تک مہمانوں کے عمومی حقوق کا تعلق ہے اس میں حفاظتی نقطہ نگاہ بھی شامل ہے.بعض اوقات ہم نے دیکھا ہے جلسہ سالانہ پر بعض لوگ یہ سمجھ کر کہ میلا ٹھیلا ہے لوگ غافل ہوں گے ، اُن کو لوٹنے کے لیے آجاتے ہیں.چنانچہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت سے جیب کترے ربوہ میں آگئے.اُن کا ایک باقاعدہ منظم گروہ تھا.ایک دو دن ہمیں بڑی مشکل پڑی رہی.یہاں تک اس محاورہ کے مطابق کہ Let a thief to catch a thief کہ چوروں کو پکڑنے کے لیے چور کو ہی ملازم رکھا جائے.وہ چور کی ادائیں سمجھتا ہے تو ایک ایسا شخص قا بو آیا جو کسی زمانہ میں اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا.اُس نے چند منٹوں کے اندر اندر سارے جیب کترے پکڑوا دیے.بات یہ ہے کہ اس موقع پر اور بھی کئی قسم کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں کئی قسم کی بد نیتیں لے کر لوگ یہاں آتے ہیں.چور اُچکے، اٹھائی گیر اور کئی بدنی طور پر نقصان پہنچانے اور فتنے پیدا کرنے والے آجاتے ہیں.ان سب کے خلاف آپ کو پوری طرح شعور کے ساتھ چوکس اور بیدار رہ کر وقت گزارنا چاہئے.اس ضمن میں سب سے اہم دفاع تو دعا ہے.کیونکہ دعا کی برکت شامل ہو تو اکثر مخالفانہ تدبیریں خود ہی باطل ہو جایا کرتی ہیں.پستہ اس وقت لگتا ہے جب وہ نا کام ہو چکی ہوتی ہیں.دعا نہ ہو تو معمولی معمولی تدبیریں بڑے بڑے حادثوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.اس لیے دوست بکثرت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام مخفی خطرات سے محفوظ و مامون رکھے.دوسرے ہر شخص باشعور طور پر آنکھیں کھول کر بیدار ر ہے.ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی علی نے تو مومن کی نظر کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے.مومن کی نظر گہرائی میں سرایت کر جاتی ہے اور مخفی چیزوں کو پا جاتی ہے.اس لیے ہر مومن کو اپنی بصیرت کو اور اپنی بصارت کو تیز کرنا چاہئے اور ہوشیار رہنا چاہئے اور باخبر رہنا چاہئے کہ ماحول میں کیا ہو رہا ہے.اجنبی آدمی کو بلا وجہ مجرم سمجھنا تو کوئی ذہانت نہیں.لیکن اجنبی کو تکلیف دیے بغیر اس کے احتمالی خطرہ سے محفوظ رہنا ذہانت ہے.بعض دفعہ اجنبی آدمی سے جب بات کی جائے ، اس سے گفتگو کی جائے تو یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اُس کی کوئی ضرورت آپ کے سامنے آجاتی ہے.یعنی یہ بات بدظنی پر مبنی نہیں ہے کہ آپ کسی
خطبات طاہر جلد اول 352 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء اجنبی سے پوچھیں.آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں.کیا بات ہے.واقعتہ آپ جب اس سے بات کرتے ہیں.اس سے تعلق بڑھاتے ہیں تو دو فائدے پہنچتے ہیں.ایک تو یہ کہ اگر وہ بد نیتی سے آیا ہو تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے.کہ ایک ذہین آدمی سمجھ جاتا ہے اور اگر خود ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے.دنیا میں آزاد ممالک میں جو پولیس فورسز ہیں وہ اسی اصول پر کام کر رہی ہوتی ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ہمیں خود اس کا تجربہ ہوا میں ۱۹۷۸ء میں جب امریکہ گیا تو شکا گو سے ہمیں ایک اور شہر جانا تھا.شکا گو بہت بڑا شہر ہے.اس میں ٹریفک بھی بہت زیادہ ہے.ہم نے چھ بجے نکلنا تھا لیکن نکلتے نکلتے رات کے نو بج گئے.جہاں پہنچنا تھا وہ کئی سو میل کا فاصلہ تھا.رات کے تقریباً دو بج گئے جب کہ ابھی ہم اپنی منزل پر بھی نہیں پہنچے تھے اس لیے ہم نے فیصلہ یہی کیا کہ تھوڑی دیر کہیں آرام کیا جائے.ہم ایک شہر میں موٹر آہستہ کر کے جگہ ڈھونڈ رہے تھے.وہ چونکہ نسبتاً چھوٹا قصبہ تھا اس لیے جلدی سو گیا تھا ورنہ امریکہ کے بعض شہر تو دو تین بجے تک آرام سے جاگتے رہتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ ایک موٹر میرے پیچھے لگ گئی ہے.چنانچہ میں نے اس کو ڈاج دینے کی بہت کوشش کی.جس طرف میں مڑتا تھا وہ پیچھے آجاتی تھی.یہاں تک کہ میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اب کھل کر بات ہونی چاہئے.اگر کوئی شریر آدمی ہے تو پھر ٹھیک ہے اس کو شرارت کا موقع اسی شہر میں ملے با ہر نکل کر پھر کیوں ملے.چنانچہ میں نے موٹر رو کی اور اُتر کر اسکی طرف گیا تو اندر سے ایک پولیس والا اترا.اس نے سلام کر کے بڑی معذرت سے کہا کہ آپ کو تکلیف دینا مقصود نہیں ہے.میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا بات ہے.آپ کیوں آہستہ آہستہ جگہ جگہ پھر رہے ہیں کوئی مقصد نظر نہیں آ رہا.اس نے بڑے اخلاق سے بات کی.اس کا مقصد بھی پورا ہو گیا اور میرا مقصد بھی پورا ہو گیا.میں نے اس کو کہا کہ ہم سونے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں کوئی جگہ مل نہیں رہی.اس نے کہا میرے ساتھ تشریف لائیں.میں ابھی آپ کو جگہ دلوا دیتا ہوں.چنانچہ وہ ان جگہوں کو جانتا تھا.وہ ہمیں وہاں لے کر گیا اور رات ٹھہرنے کی بڑی اچھی جگہ مہیا کر دی.آجکل کی ترقی یافتہ قوموں میں رفتہ رفتہ بعض اخلاق بھی ترقی کر گئے ہیں.ان میں سے حسن معاشرت کا ایک خلق ہے.آپ تو پہلے ہی بہت ترقی یافتہ قوم ہیں اتنی ترقی یافتہ کہ حضرت محمد
خطبات طاہر جلد اول 353 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء مصطفی ﷺ نے آپ کو حسن خلق اور حسن سیرت خود سکھایا ہے.میں یہ مثالیں اس لیے نہیں دے رہا کہ آپ ان کی پیروی کریں.میں تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں.اور آپ کو بتا یہ رہا ہوں کہ وہ سنت ایسی پیاری سنت ہے کہ جب غیر بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو ایک حسن پا جاتے ہیں تو اپنوں کو تو زیادہ توجہ اور زیادہ خلوص کے ساتھ اس سنت کی پیروی کرنی چاہئے.اس لیے اس پہلو سے بیدار مغزی کے ساتھ ہر نا واقف سے رابطہ پیدا کریں جس کے متعلق آپ کو یہ خیال ہے کہ بے مقصد پھر رہا ہے.اس کا خیال رکھیں اور اگر اس کی کوئی ضرورت ہے تو وہ پوری ہونی چاہئے.اسی طرح اگر کوئی قابل فکر بات سامنے آئے تو متعلقہ افسران کے پاس وہ بات پہنچانی چاہئے لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے.پس ایک یہ پہلو ہے جس میں ہم سب مل کر مہمان بھی اور میزبان بھی خدمت کر سکتے ہیں.اسی ضمن میں میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض مہمان اپنی سادگی میں ٹوٹے جاتے ہیں.حالانکہ مومن کو اس قسم کی سادگی زیب نہیں دیتی.مہمان نوازی کے انتظام کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے مجھے تجربہ ہے.میرے سامنے کئی ایسی باتیں آئیں جن کی وجہ سے بڑی تکلیف پہنچی کہ بعض احمدی مہمانوں نے اپنی سادگی میں بڑا بڑا نقصان اٹھایا ہے.ایک بیچارہ احمدی تقریریں ریکارڈ کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر لے کر آیا ہوا تھا.وہ ٹیپ سن رہا تھا.ایک آدمی دوڑا دوڑا آیا اور اس سے کہا کہ آپ کے فلاں دوست جو آپ کے ساتھ فلاں جگہ باتیں کر رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ ذرا تھوڑی دیر کے لیے ٹیپ ریکارڈر دے دیں.اس نے اسی وقت پکڑا دیا.حالانکہ وہ آدمی نہ دیکھا نہ جانا.ٹیپ ریکارڈر لے کر غائب ہو گیا.وہ جب اپنے دوست سے ملا تو اس نے کہا.تم نے تھوڑی دیر کے لیے ٹیپ ریکارڈر مانگا تھا واپس تو کرو.اس نے کہا کیسا ٹیپ ریکارڈر.مجھے تو پتہ ہی کچھ نہیں.بعد میں پتہ چلا کہ اسی قسم کے واقعات اور جگہ بھی ہوئے.تو بہت سے مہمانوں کا سادگی میں نقصان ہو گیا.ایک آدمی ایک قیام گاہ میں آیا کہ فلاں مہمان صاحب ہیں ان کی بس جارہی ہے اور وہ اپنا بستر اور سامان چھوڑ گئے ہیں.وہ فوری طور پر دے دیں.وہ خود آنہیں سکتے میں لینے آگیا ہوں.اس وقت جو سارے میزبان یا مہمان بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.اسی وقت بستر وغیرہ اٹھوا دیئے اور وہ اور صاحب تھے جو سامان اٹھا کر بھاگ گئے.اس لیے ان معنوں
خطبات طاہر جلد اول 354 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء میں بھی بیدار مغزی کی ضرورت ہے.اپنے سامان کی حفاظت خود کریں.اتنے بڑے انتظامات میں انتظامیہ پر پورا پورا انحصار کرنا کہ وہ اس قابل ہو گئی ہے کہ آپ کی ہر طرح مدد کر سکے یہ تصور ہی غلط ہے.آپ خود اپنا جو نقصان کریں گے اس میں انتظامیہ کچھ نہیں کر سکتی.انتظامیہ کی انشاء اللہ تعالیٰ پوری کوشش تو ہے لیکن اس کی حدود ہیں لیکن جہاں آپ کی حدود شروع ہو جاتی ہیں وہاں انتظامیہ دخل نہیں دے سکتی.پس آنے والے مہمان خصوصیت کے ساتھ ان باتوں میں بھی بیدار مغزر ہیں.آخری بات جو میں کہنی چاہتا ہوں وہ مہمان نوازی سے تعلق رکھتی ہے.مہمان نوازی سے متعلق مختلف باتیں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں لیکن ایک دو باتیں ایسی ہیں جو مہمان نوازی کی اعلیٰ قدروں سے تعلق رکھتی ہیں.اس لئے اہل ربوہ کو عمومی تحریک کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہمان نوازی کا جو معیار ہمارے سامنے رکھا ہے وہ بار بار جماعت کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے.تا کہ اس اعلیٰ معیار کو پیش نظر رکھ کر ہم اپنی تربیت کریں.چنانچہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں: ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمانِ مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اتارے جائیں اور سامان لایا جائے.چارپائی بچھائی جائے.“ کئی دفعہ یہاں بھی ایسا ہو جاتا ہے.مجھے علم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے لمبی تربیت کے نتیجہ میں اب کارکنان دوڑ دوڑ کر سامان اٹھاتے ہیں اور اتارتے ہیں.یہ عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم مزدور نہیں ہیں.مزدور لے کر آؤ یا خودا تار ومگر اس زمانہ میں مہمان خانہ کے جو ملازم تھے یا تو شاید نئے تھے یا ان کی ابھی پورے طور پر تربیت نہیں ہو پائی تھی اس لئے : "خادموں نے کہا آپ خود اپنا سامان اتروا ئیں.چار پائیاں بھی مل جائیں گی.دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فوراً یکہ میں سوار ہوکر وا پس روانہ ہو گئے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کہتے ہیں.میں نے مولوی عبدالکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو.حضور کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت
خطبات طاہر جلد اول 355 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء میں کہ جوتا پہنا بھی مشکل ہو گیا.حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے.چند خدام بھی ہمراہ تھے میں بھی ساتھ تھا.نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایا.کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا ہے چنانچہ وہ واپس ہوئے.حضور نے یکہ پر سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا اور فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے.حضور نے خود ان کے بستر اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اتار لیا.حضور نے اسی وقت دو نواری پلنگ منگوائے اور ان پر ان کے بستر کرائے.اور ان سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے اور خود ہی فرمایا کیونکہ اُس طرف چاول کھائے جاتے ہیں اس لئے میں چاول خود ہی بھجوا دوں گا اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا.غرضیکہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے مہیا فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے.راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا ہوں.اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقیناً اس کی دل شکنی ہوگی.ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹے کے قریب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے.جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا،حضوڑ نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا یہ پی لیجئے اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے.راستہ میں بار بار ان سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں آپ یکہ میں سوار ہو لیں مگر وہ سوار نہ ہوئے.نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کرا کر حضور واپس تشریف لائے.“ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۲۰-۱۱۹) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی ایک اور روایت بھی ہے اور اس روایت کا تو
خطبات طاہر جلد اول 356 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء خاص طور پر جلسہ سالانہ سے ہی تعلق ہے وہ کہتے ہیں : ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی آئے تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا.“ ایسا ہو جاتا ہے.چنانچہ گزشتہ چند سالوں سے مہمان نوازی کا شعبہ چونکہ میرے سپر د تھا.ہم نے یہ انتظام کیا کہ ارد گرد کی جماعتوں سے بستر منگوا کر یہاں رکھے جائیں.تا کہ کچھ مہمان جو بغیر بستر کے آجاتے ہیں.( مثلاً افغانستان سے بعض مہمان بغیر بستر کے آئے تھے ان کے لئے بستر اٹھانا مشکل تھا) ان کے بستر مہیا کئے جائیں.اسی طرح افسر صاحب جلسہ سالانہ نے بہت سے زائد بستر بنوا کر رکھے ہوتے ہیں وہ سارے ختم ہونے کے باوجود جو زائد انتظام تھا وہ بھی بیچ میں کام آ گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں مہمانوں کو تکلیف نہیں پہنچی.ایسا ہو جاتا ہے لیکن آنے والے مہمانوں کو بھی خیال کرنا چاہئے کہ اب جلسے کی حدود پھیل گئی ہیں اور جلسہ کا نظام اتنی وسعت اختیار کر چکا ہے کہ اب کسی میزبان کے بس میں نہیں رہا کہ وہ خواہش بھی کرے تب بھی ان کی بستروں کی ضروریات کما حقہ پوری کر دے.اس لئے اپنی تکلیف کی خاطر اور کچھ میزبانوں کی تکلیف کی خاطر کہ جو میزبان یہ دیکھتا ہے کہ میں اپنے مہمانوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا اسے بڑی شدید تکلیف پہنچتی ہے وہ بڑا دکھ محسوس کر رہا ہوتا ہے.اس تکلیف کی خاطر مہمان حتی المقدور اپنے بستر ساتھ لایا کریں.بہر حال جو روایت میں پڑھ رہا ہوں اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ ایسے مہمان آگئے جن کے پاس بستر نہیں تھے چنانچہ: ایک شخص نبی بخش نمبر دارسا کن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا.میں عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی تھے پاس لیٹے تھے اور ایک چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا.معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا.میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے.فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائیگی نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبر دار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم
خطبات طاہر جلد اول 357 خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں.پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا.لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا.آپ نے فرمایا کسی اور کو دے دو.مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کی ضرورت پوری کریں.“ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۳۵) مہمان نوازی کا ایک یہ معیار ہے جو ہمارے سامنے ایک منصب بن کر ، ایک مقصود بن کر چمک رہا ہے.اس معیار کے قریب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یہ مثالیں عام ہوگئی ہیں.گزشتہ تجربوں کی بنا پر میں یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ربوہ میں ہی ایسی مثالیں ہیں کہ گھر چھوڑ کر باہر نکل کر لوگ صحنوں میں سوئے اپنے بستر مہمانوں کو دے کر اور اپنے ہاتھ بغلوں میں دبا کر رات گزاری.کارکنوں نے بھی اور غیر کارکنوں نے بھی.اب یہ مثالیں عام ہیں.لیکن یہ بھی وہ حسین ورثہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہم نے پایا ہے.ایک دفعہ مہمان نوازی کے انتظام میں رات ایک دو بجے کے قریب ایک کارکن کو میں نے کہا آپ جائیں اور آرام کریں.وہ چلے گئے.نصف گھنٹے کے بعد دیکھا پھر واپس آگئے ہیں.میں نے ان سے کہا آپ واپس آگئے ہیں.کیا بات ہے آرام کیوں نہیں کیا.انہوں نے کہا یہاں زیادہ آرام ہے.یہاں کمرہ ہے کرسی ہے بیٹھنے کی جگہ ہے.میرے گھر میں تو اتنے مہمان ہیں کہ دروازہ کھولنے کی بھی گنجائش نہیں رہی.جب میں دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تھا تو مہمانوں کو تکلیف پہنچتی تھی اس لئے میں واپس آ گیا ہوں اور اب رات اسی طرح کئے گی.پس اب یہ مثالیں عام ہو گئی ہیں.روحانی حسن کا یہی امتیاز ہے کہ وہ ایک وجود میں محدود نہیں رہتا بلکہ اس شمع سے سینکڑوں ہزاروں شمعیں روشن ہونے لگتی ہیں.یہ شمعیں روشن ہو رہی ہیں ہوتی رہی ہیں اور اس دفعہ بھی روشن ہوں گی.انشاء اللہ تعالیٰ اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ہمیں مہمان نوازی کے نہایت ہی اعلیٰ اور حسین تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد اول 359 خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء جلسہ سالانہ کا کامیاب انعقاد، اسلامی پردہ کی تلقین اور وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان اور فضل اور کرم ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ ہر پہلو سے انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا.کارکنان نے بھی مثالی خدمت کا حق ادا کیا.چھوٹے کیا اور بڑے کیا، مرد کیا اور عورتیں کیا، سب نے ہی دن رات پورے انہماک اور پورے خلوص کیسا تھ اور دعائیں کرتے ہوئے جو کچھ ان کے بس میں تھا اپنے رب کے حضور پیش کیا.کارکنان کی حاضری کی رپورٹ دیکھ کر میرا دل حمد سے بھر جاتا رہا کہ ان کی حاضری غیر معمولی طور پر بہتر رہی.اور باوجوداس کے کہ کچھ موسم کی دشواریاں در پیش تھیں اور کچھ ایسے مسائل جو ہمیشہ جلسے کے ساتھ لگے رہتے ہیں، وہ اس دفعہ بھی لگے رہے.بالعموم انتظام بہت اچھا تھا.اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو جزائے خیر عطا فرمائے.مہمانوں نے بھی بہت تکلیف اٹھانے کے باوجود نہایت ہی صبر کا مظاہرہ کیا.جیسا کہ آپ جانتے ہیں اب انتظامات اتنے پھیل گئے ہیں کہ خصوصیت کے ساتھ اچھے معیار کی روٹی پیش کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے.کام تنوروں کی حد سے بہت آگے نکل گیا ہے اور جہاں تک مشینوں کا تعلق ہے اگر چہ احمدی انجینئر زبہت محنت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک مشین کے ذریعے اعلیٰ معیار کی روٹی تیار کر نا ممکن نہیں ہوسکا.اگر چہ روزمرہ کے استعمال کیلئے تو یہ ممکن ہے، لیکن اتنے بڑے کام میں جہاں
خطبات طاہر جلد اول 360 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء ضرورت فیصلہ کرتی ہے کہ رفتارکتنی تیز ہونی چاہئے وہاں ہم بعض دفعہ معیاری روٹی پیش نہیں کر سکتے.بعض انجینئر زایسے ہیں جنہوں نے اس کام پر سارا سال محنت کی ہے اور بہتری کے کچھ ذرائع بھی تجویز کئے.جن پر اس دفعہ عمل بھی ہوا.اور جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ خدا کے فضل کے ساتھ ان ذرائع سے بہت اچھے نتائج پیدا ہوئے ہیں.لیکن ان سب ذرائع کو ابھی زیر نظر رکھنا پڑے گا.پھر ان کو آہستہ آہستہ باقی انتظامات پر بھی ممتد کرنا پڑے گا.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ صورت حال دن بدن بہتر ہوتی چلی جائے گی.مگر جہاں تک مہمانوں کا تعلق ہے وہ کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے اور جو کچھ بھی ان کو میسر ہوا، انہوں نے بڑے صبر اور شکر کے ساتھ ، راضی برضا ر ہتے ہوئے اسی پر کفایت کی.اسی طرح آخری دن جلسے کے دوسرے حصے میں اگر چہ موسم بہت خراب تھا، اس کے باوجود مہمانوں نے حیرت انگیز صبر کے ساتھ تقریر کو سنا.ہم تو مسجد کے اندر تھے اس لئے پوری طرح احساس نہیں ہوسکتا تھا کہ جو دوست باہر بیٹھے ہوئے ہیں وہ کتنی سردی کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں.اور بولنے والے کا جسم تو ویسے ہی بولتے بولتے گرم ہو چکا ہوتا ہے اس لئے گرمی کا احساس تو اس کو ہو سکتا ہے، سردی کا احساس نہیں رہتا.یہ تو اللہ تعالی کی مشیت تھی اور اچھا ہی ہوا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے مجبوراً جلسہ ختم کرنا پڑا.بعد میں پتہ چلا کہ ساری جلسہ گاہ بھری پڑی تھی اور خصوصاً دیہاتی جماعتوں کے دوست گیلی پرالی کے اوپر بڑے صبر کیساتھ مسلسل کئی گھنٹے بیٹھے رہے ہیں اور ایک آدمی بھی اٹھ کر باہر نہیں گیا.جماعت احمدیہ کے صبر اور اخلاص کا یہ جو حیرت انگیز مظاہرہ ہے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے.بات وہیں آتی ہے کہ اس جماعت کے تو اخلاص سے ڈر لگتا ہے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو حیرت انگیز اخلاص بخشا ہے، جس کی مثال تو کیا اس کا عشر عشیر بھی دنیا کی دوسری تنظیموں میں آپ کو نہیں مل سکتا.طوعی نظام ہو اور اس قدرا خلاص اور محبت کے ساتھ انسان اپنے وجود کو پیش کر دے.اس کی کوئی مثال آپ کو جماعت سے باہر نہیں مل سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا یہ ایک زندہ ثبوت ہمیشہ کے لئے قائم و دائم رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اس موقعہ پر خدا تعالیٰ کی حمد کرنا ہم پر فرض ہی نہیں بلکہ یہ خود بخود دل سے نکلتی ہے.فرض
خطبات طاہر جلد اول 361 خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء والی بات سے تو ہم بہت آگے نکل چکے ہیں اب تو کیفیت یہ ہے کہ خدا کے احسانات دل میں پہنچتے ہوئے از خودحمد میں تبدیل ہو جاتے ہیں.اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جوں جوں ہم شکر کا حق ادا کر رہے ہیں لَا زِيدَنَّكُمْ کا قانون بھی بر سر عمل رہتا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے مسلسل بڑھتے ہوئے فضلوں کو آسمان سے اترتا دیکھتے ہیں.اسلام ایک بہت ہی پیارا مذہب ہے.یہ الیسا حیرت انگیز مذہب ہے کہ اس کے ایک ایک جزو میں ڈوب کر انسان جنت حاصل کر سکتا ہے.لہن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (برایم ) والا ایک ایسا جاری اور مسلسل عمل ہے کہ جو اس عمل میں ایک دفعہ داخل ہو جائے اس کے لئے جہنم کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا.وہ ایک حمد سے دوسری حمد میں داخل ہوتا چلا جاتا ہے.ایک منزل سے دوسری منزل میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کا لامتناہی سلسلہ ہے جس سے دل بھرتے اور چھلکتے رہتے ہیں اور پھر بھرتے اور پھر چھلکتے رہتے ہیں لیکن یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا.اس جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو نظارے دیکھنے میں آئے ان میں سے ایک کا میں خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں.مستورات کی تقریر میں میں نے ”پر دے“ کو موضوع کے طور پر اختیار کیا.کیونکہ میں محسوس کر رہا تھا کہ دنیا میں اکثر جگہ سے پردہ اس طرح غائب ہو رہا ہے کہ گویا اس کا وجود ہی کوئی نہیں اور اس کے نتیجے میں جو انتہائی خوفناک ہلاکتیں سامنے کھڑی قوم کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی ہیں، ان ہلاکتوں کا کوئی احساس نہیں ہے.ماں باپ اپنی بے عملی اور غفلتوں کے نتیجے میں اپنی نئی نسلوں کو ایک معاشرتی جہنم میں جھونک رہے ہیں.اور کوئی نہیں جو اس کی پرواہ کرے.یہ صورت حال ساری دنیا میں اتنی سنگین ہوتی جارہی ہے کہ مجھے خیال آیا کہ اگر احمدیوں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو معاملہ حد سے آگے بڑھ جائیگا.چنانچہ جب جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ احمدی مستورات میں بھی یہ کمزوریاں داخل ہوگئی تھیں اور مجھے اس بات کی بہت فکر لاحق ہوئی.اس لئے جلسہ کے دوسرے روز میں نے مستورات میں اپنی تقریر میں اپنی بچیوں کو سمجھایا اور انتظامی لحاظ سے بعض سختیاں بھی کیں.مثلاً اگر پہلے بے پردہ مستورات کو سٹیج کا ٹکٹ مل جاتا تو اس دفعہ اس بارے میں خاص طور پر سختی کی گئی.چنانچہ کچھ شکوے بھی پیدا ہوئے.لیکن تقریر کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس قسم کے خط مجھے اپنی بچیوں کی طرف سے موصول ہوئے ہیں
خطبات طاہر جلد اول 362 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء ان سے یوں محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر زخم کے اوپر اپنے فضل کا چھا یہ رکھ رہا ہے اور اپنے رحم وکرم کی مرہم لگا رہا ہے اور اس نے کوئی دکھ بھی باقی نہیں رہنے دیا.ان انتظامات سے پہلے اور اس تقریر سے قبل بعض لوگوں نے کچھ اندازہ لگا لیا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں اور کیا کہنا چاہتا ہوں.بعض ڈرانے والوں نے مجھے ڈرایا کہ دیکھو! اتنی جلدی ایسی سختی نہ کرنا.خطرہ ہے کہ بہت سی بچیاں اس سختی کو برداشت نہ کر کے ضائع ہو جائیں گی.اس لئے دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ ، آہستہ آہستہ قدم اٹھاؤ.میں نے ان سے کہا کہ اب آہستگی کا وقت نہیں رہا کیونکہ معاملہ حد سے بڑھ چکا ہے.آج فوری اقدام کی ضرورت ہے.اور دوسرے یہ کہ تم جو یہ مشورہ مجھے دیتے ہو، تم مجھ پر بھی بدظنی کر رہے ہو اور احمدی بیٹیوں پر بھی بدظنی کر رہے ہو.میں تو اس آقا کا غلام ہوں جس نے کھوئی ہوئی بازیاں جیتی ہیں اور دعا کی تقدیر سے تدبیر کے پانسے پلٹے ہیں اور یہ بچیاں بھی اسی آقا کی غلام ہیں جس کی آواز پر اس کے غلاموں نے جاں شاری کے ایسے نمونے دکھائے کہ دنیا ان کو دیکھتی ہے تو باور نہیں کر سکتی کہ دنیا میں ایسی جاں نثار قوم کبھی کبھی پیدا ہوسکتی ہے.اس وقت میرا ذ ہن جنگ حنین کی طرف منتقل ہوا اور میں نے سوچا کہ کس طرح مسلمان فوج کے پاؤں اکھڑ گئے تھے اور سواریاں بے قابو ہوئی جاتی تھیں یہاں تک کہ آنحضور علیہ صرف چند غلاموں کے درمیان تنہا رہ گئے.آپ اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے.سب سے پہلا رد عمل تو آپ کا یہ ہوا کہ وہ دشمن جو صحابہ کے پیچھے دوڑ رہا تھا اس کو اپنی طرف متوجہ کیا.ایک حیرت انگیز کردار ہے حضوراکرم ﷺ کا، جس کو دیکھ کر روح سجدہ ریز ہو جاتی ہے.خدا نے ہمیں کتنا عظیم الشان آقا عطا فرمایا ہے.یعنی سب سے پہلے اس توجہ کو مسلمانوں سے ہٹا کر اپنی طرف منتقل فرمایا اور ایک شعر کی صورت میں یہ اعلان شروع کر دیا کہ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ کہ اے کفار! تم کدھر بھاگ رہے ہو.اسلام کی جان تو میں ہوں.اگر نبی کی دشمنی تمہیں ان لوگوں کو ہلاک کرنے پر آمادہ کر رہی ہے تو ادھر آؤ یہ نبی یہاں ہے.اور اگر کسی کو عبد المطلب کے خاندان سے دشمنی ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو عبد المطلب کی اولاد کا سربراہ یا عبدالمطلب کی اولاد کی جان یہاں موجود ہے.ان کو چھوڑو اور میری طرف آؤ.ایسے خطر ناک وقت میں دشمن کو اپنی طرف متوجہ کرنے
خطبات طاہر جلد اول 363 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء والا سپہ سالا ر آپ نے دنیا کے پردے پر کہیں اور نہیں دیکھا ہوگا.یہ اعلان فرمانے کے بعد آپ نے صحابہ کو بلایا اور بلانے کا انداز یہ تھا کہ اعلان کروایا اے انصار! خدا کا رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور اے مہاجرین ! خدا کا رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.روایتوں میں آتا ہے کہ اس وقت حالت یہ تھی کہ پاؤں اس شد سے اُکھڑ چکے تھے کہ کوشش کے باوجود بھی سواریاں نہیں مڑتی تھیں.جن جن کے کانوں میں یہ آواز پہنچی اگر وہ پیدل تھے تو وہ اسی طرح پلٹ آئے اور جو سوار تھے ان کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے پوری قوت کے ساتھ سواریوں کو موڑنے کی کوشش کی.ان سواریوں کی گردنیں ان کی چھاتیوں کے ساتھ لگ گئیں لیکن وہ مڑنے کا نام نہیں لیتی تھیں.تب انہوں نے تلواروں سے اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹیں اور لبیک یا رسول اللہ لبیک کہتے ہوئے پا پیادہ حضوراکرم علی کی خدمت میں حاضر ہو گئے.کیوں گردنیں کا میں ؟ اپنی گردنیں بچانے کے لئے نہیں.بلکہ اس لئے سواریوں کی گردنیں کاٹیں کہ خودان کے اپنے تن سر سے جدا کئے جائیں.میں نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ وہ قوم تھی جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوئی.اور ہم بھی تو اسی آقا کے غلام ہیں اور اسی کے تربیت یافتہ ہیں.اس لئے تم کتنی بدظنی سے کام لیتے ہو، یہ کہتے ہو کہ جب میں احمدی بچیوں کو آنحضور علﷺ کی عزت اور ناموس کے نام پر بلاؤں گا تو وہ نہیں آئیں گی.مجھے یقین ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا اور یہ بات جو تم کہتے ہو، ناممکن ہے.تم دیکھو گے کہ وہ ساری کی ساری انشاء اللہ ادھر پلٹیں گی اور خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹیوں کو ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مجھے ایسے ایسے دردناک خط ملے کہ میں وہ پڑھتا تھا اور میرا دل حمد سے بھر جا تا تھا.اور مومن کی حمد خود بخود دعا میں تبدیل ہوتی رہتی ہے.ان بیٹیوں کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی تھیں کہ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور انہوں نے اپنے عہد کو سچا ثابت کر دکھایا.پس یہ وہ جماعت ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئی ہے.کوئی ہے دنیا میں طاقت جو خدا کی ایسی جماعت کو مٹا سکے.جس میں اسوہ محمدی زندہ ہو، اس کو دنیا کی کون سی طاقت مٹاسکتی ہے.آپ کی ساری ضمانت ، آپ کی ساری حفاظت اسوۂ محمدی میں مضمر ہے اس اسوہ کو حرز جان بنالیں.اس کو اپنی رگ و پے میں رچا لیں.پھر آپ ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے.ایسی زندگی پائیں گے جس کے اوپر موت کو کوئی دخل نہیں رہتا.
خطبات طاہر جلد اول 364 خطبه جمعه ۳۱ / دسمبر ۱۹۸۲ء پس یہ بھی حمد کے اظہار کی بات تھی اور شکر کے اظہار کی بات تھی.اور جیسا کہ میں نے کہا ہمارا شکر از خود حمد میں بدل جاتا ہے.ایک ہی چیز کے دو نام معلوم ہوتے ہیں.اس لئے میں نے سوچا کہ جماعت کو مطلع کروں کہ وہ خطرات جو منڈلا رہے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مل رہے ہیں.اور ٹل جائیں گے اور ساری دنیا میں اسلامی پردے کی حفاظت کا سہرا احمدی بچیوں کے سر رہے گا انشاء اللہ.ہم نے سب کھوئی ہوئی اقدار کو واپس حاصل کرنا ہے.ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک حضرت محمد مصطفی ﷺ کے معاشرے کی حفاظت نہیں کریں گے اور اسے دوبارہ دنیا میں قائم اور نافذ نہیں کر دیں گے.پردے کے سلسلے میں کچھ معمولی شکایات بھی پیدا ہوئیں کہ بعض باتوں میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا.لیکن جب ان بچیوں کو سمجھایا گیا تو وہ سب سمجھ گئیں.بات یہ ہے کہ صرف سٹیج کے ٹکٹ سے روکا گیا تھا نا راضگی کے اظہار کے طور پر.یہ تو کوئی نا انصافی نہیں ہے.سٹیج تو کسی کا حق نہیں ہے.نا انصافی تو حق تلفی کے نتیجہ میں ہوتی ہے.اس لئے اگر بعض پردہ دار بچیوں کو بھی سٹیج ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا تو انہیں اس کا بُر انہیں منانا چاہئے تھا.مثلاً بعض ایسی خواتین ہیں جو ایسے علاقوں سے آتی ہیں جہاں چادر کا پردہ بڑی تختی کے ساتھ رائج ہے اور اس پردے پر کوئی مسلمان اعتراض نہیں کرسکتا.صرف اس لئے کہ چونکہ انہوں نے بُرقع نہیں پہنا اگر ان کو ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا تو یہ ایک غلطی ہو سکتی ہے.لیکن نا انصافی نہیں.کیونکہ انصاف کا معاملہ تو حقوق میں شروع ہوتا ہے.سٹیج ٹکٹ تو احسان کا معاملہ ہے.ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہئے تھا کہ انتظام میں غلطی ہوگئی ہے، کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ معاف کرے، ہمارا بھی کون ساحق تھا، جماعت کا یہ احسان تھا کہ ہمیں ٹکٹ ملا کرتا تھا ، اب احسان نہیں ہے تو ہم اس پر بھی راضی رہیں گی.اگر وہ یہ ردعمل دکھا تیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات اور بھی بڑھا دیتا.اسی طرح بعض اور بھی اس قسم کی مثالیں ہیں.لیڈی ڈاکٹر ہیں.مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین ہیں.اسلام کی تعلیم کے مطابق ان کے پردے کا معیار نسبتاً مختلف اور نرم ہے.ہاں جب وہ ان کاموں سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کی عام زندگی میں لوٹتی ہیں تو ان کا فرض ہے کہ نسبتا زیادہ سختی سے پردہ اختیار کریں.آپ نے دیکھا ہوگا کام کے کپڑے اور ہوتے ہیں اور جب
خطبات طاہر جلد اول 365 خطبه جمعه ۳۱ / دسمبر ۱۹۸۲ء انسان گھر میں آکر روز مرہ کی زندگی اختیار کرتا ہے تو وہ کام کے کپڑے اتار دیتا ہے اور دوسرے کپڑے پہن لیتا ہے.پس اسلام میں بھی تو یہی طریق جاری رہنا چاہئے.اگر کام کے تقاضے اور کام کے کپڑے آپ کو نسبتا نرم پردہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ آپ حیا کی چادر میں لپٹی ہوئی ہوں.لیکن اس کے بعد روزمرہ کی زندگی میں یہی طریق اختیار کرنا درست نہیں ہے.انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں ہم نے دیکھا ہے مزدور بالکل اور کپڑے پہن کر کام پر جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو صاف ستھرے، کوٹ پتلون پہنے اور نکٹائی لگائے باہر نکلتے ہیں اور پہچانے نہیں جاتے کہ یہ وہی لوگ ہیں.اس لئے آپ بھی اپنے معاشرے میں اسی قسم کی مناسب حال تبدیلیاں پیدا کیا کریں.پھر آپ پر کوئی اعترض نہیں ہوسکتا.اسی طرح بڑی عمر کی عورتیں ہیں.اگر وہ اس عمر سے تجاوز کر گئی ہیں جہاں نا پاک لوگوں کی گندی نظریں ان پر پڑیں تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان پر کوئی حرف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی حرج ہے.ایسی عورتیں اگر عام شریفانہ طریق پر چادر لے لیں جو ہمارے ہاں رائج ہے خواہ چہرہ نہ بھی ڈھکا ہوا ہو، تو یہ ان کے لئے جائز ہے.کیونکہ جس چیز کی قرآن کریم اجازت دیتا ہے اس کو دنیا میں کون روک سکتا ہے.اور قرآن کریم کے تقاضوں کو ہمیں بہر حال پورا کرنا چاہئے ،اگر سٹیج ٹکٹ کے معاملے میں ان پر بھی کسی قد رسختی ہوگئی ہو جس کی وجہ سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے تو انہیں حلم سے اور در گذر سے کام لینا چاہئے ویسے انتظام کی طرف سے عمداً ایسا نہیں ہوا.لیکن آئندہ کے لئے جماعت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پردہ کے متعلق انفرادی طور پر ایسے فیصلوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی.ورنہ اس کا ناجائز استعمال ہوگا اور از خود لوگ بعض اجازتیں اپنے لئے لینی شروع کر دیں گے.اگر اجازت کا غلط استعمال کریں گے تو پھر ہم اسی مصیبت میں مبتلا ہو جائیں گے جس مصیبت سے نکل کر آئے ہیں.اس لئے اس قسم کی چیزیں جماعتی انتظام کے تحت ہونی چاہئیں.جن خواتین کو جس قسم کے اسلامی پردے کی ضرورت ہے وہ اپنے انتظام کو بتائیں کہ میرے یہ حالات ہیں اور میرے متعلق قرآن کریم کا یہ حکم ہے اور میں اس کے مطابق عمل کر رہی ہوں پھر ا نتظام کو کوئی شکوہ نہیں ہوگا.لیکن بچیاں خصوصاً ایسے طبقے کی بچیاں جو ناز و نعمت میں پلی ہوتی ہیں اور جن کے لئے خطرات زیادہ ہیں ان کے بارہ میں نظامِ جماعت کو اجازت دیتے وقت
خطبات طاہر جلد اول بہت احتیاط کرنی چاہئے.366 خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء پھر ایسی خواتین ہیں جن کو باہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن وہ سنگھار پٹا ر کر کے نکلتی ہیں.اب کام کا سنگھار پٹار سے کیا تعلق ہے.سنگھار پٹار ان کے اس فعل کو جھٹلا دیتا ہے کہ اگر تم فلاں کام کے سلسلے میں نرم پردہ کرنے پر مجبور ہو تو کم از کم پر دے کے جو دوسرے تقاضے ہیں ان کو تو پورا کرو پورے سنگھار پٹار اور زمینوں کے ساتھ باہر نکلو اور پھر کہو کہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ یہاں نسبتا نرم پردہ کرلیں ، یہ غلط بات ہے.اسلام کے نام کو غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.الغرض اس قسم کی کچھ بالکل معمولی انتظامی سختیاں تھیں جو کی گئیں.لیکن بہر حال میرا یہ فیصلہ تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو رفتہ رفتہ مزید سختی کی جائے گی اور اس سختی کے لئے سب سے پہلے میں نے اپنے آپ کو چنا.میرا فیصلہ یہ تھا کہ پیشتر اس کے کہ کسی احمدی بچی کو نعوذ بالله من ذلك بے پردگی کی وجہ سے جماعت میں سے نکالنا پڑے، پہلے میں اپنے دل پر سختی کروں گا.ان کے لئے راتوں کو اٹھ کر روؤں گا اپنے رب کے حضور عاجزانہ عرض کروں گا کہ اے اللہ! ان بچیوں کو بچا اور مجھے توفیق دے کہ میں پہلے تنبیہ کے تقاضے پورے کروں اس کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھاؤں.نرمی ، محبت اور پیار سے ، جس طرح بھی بن پڑے میں ان کو سمجھاؤں اور واپس لانے کی کوشش کروں.ان کی ذمہ داریاں ان کو بتاؤں.جب یہ سارے تقاضے پورے ہو جائیں اور ہر قسم کی حجت تمام ہو جائے ، پھر تو ایسا فضل کر کہ بختی کا موقعہ پیش ہی نہ آئے.یہ میرا فیصلہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور اس کے احسانات کو آدمی گن نہیں سکتا کہ اس چیز کا موقعہ ہی نہیں آنے دیا.احمدی عورت نے حسن واحسان کا اتنا حیرت انگیز ردعمل دکھایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے سامنے سر جھک جاتا ہے.اب میں مردوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اگر ان کی بچیوں نے اسلام کی خاطر کچھ فیصلے اور عزم کئے ہیں تو ان کی راہ میں روک نہ ڈالیں.اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ خدا کے سامنے دوہرے طور پر جوابدہ ہوں گے اور پھر وہ خودان نتائج کے ذمہ دار ہوں گے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوں اور ظاہر ہوں.اس مختصر سی تنبیہ پر ہی میں اکتفا کرتا ہوں اور سمجھنے والے سمجھیں گے کہ اگر کوئی احمدی بچی خدا کی خاطر ایک پاکیزہ اور عصمت والی زندگی اور حفاظت والی زندگی اور قناعت والی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے، تو کسی مرد کو ہرگز اس کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہئے.یہ چیز خودان کے لئے اور ان کے
خطبات طاہر جلد اول 367 خطبه جمعه ۳۱ / دسمبر ۱۹۸۲ء گھروں کے لئے بہتر ہے.ان کے گھروں کو جنت بنانے کے لئے یہ ضروری ہے.بعض لوگ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اس بات کو نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی فیشن میں ہے.حالانکہ فیشن میں کوئی زندگی نہیں.اصل زندگی تو اس فیشن میں ہے جو دین کا فیشن ہے.اس میں نہیں ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا کہ یہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں.پس زندگی کا فیشن تو ہم آنحضرت مے سے سیکھیں گے نہ کہ کسی اور سے.ایک چیز جو بعض دفعہ بچیوں کو بھی پریشان کرتی ہے اور بعض دفعہ مردوں کو بھی ، وہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پردہ اختیار کرنے کی وجہ سے سوسائٹی ہمیں ادنیٰ اور حقیر سمجھے گی.وہ کہے گی یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں.چنانچہ جن احمدی عورتوں نے اس معاملے میں کمزوری دکھائی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ ان میں بے حیائی کا کوئی عنصر نہیں تھا.دراصل نفسیاتی کمزوری نے اس میں ایک بہت ہولناک کردار ادا کیا ہے.عورتیں بجھتی ہیں کہ اگر ہم اس دنیا میں جہاں سے پردے اٹھ رہے ہیں، اپنی سہیلیوں کے سامنے برقع پہن کر جائیں گی تو وہ کہیں گی کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں، پگلی ہیں، پاگل ہوگئی ہیں، یہ کوئی برقعوں کا زمانہ ہے اور یہی بات مردوں کو بھی تکلیف دیتی ہے.حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ عزت نفس اور دوسرے کا کسی کی عزت کرنا انسان کے اپنے کردار سے پیدا ہوتا ہے.دنیا کی نظر میں لباس کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہتی.اگر کوئی آدمی صاحب کردار ہو تو اس کی عزت پیدا ہوتی ہے اور یہ عزت سب سے پہلے اپنے نفس میں پیدا ہونی چاہئے.عظمت کردار اپنے نفس سے شروع ہوتی ہے.اور جب اپنے نفس میں عزت پیدا ہو جائے تو پھر دوسروں کی دی ہوئی عزتیں بے معنی رہ جاتی ہیں.بہر حال یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانی چاہتا ہوں.آپ اپنے کردار کے اندر ایک عظمت پیدا کریں اور اس کا احساس پیدا کریں.اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا قانون از خود آپ کو آپ کے وجود کے اندر معزز بنا دے گا اور ایسے معززین کو پھر دنیا کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں رہتی.وہ ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کرتے.ہاں دنیا ان کی پرواہ کرتی ہے.دنیا ان کو پہلے سے زیادہ عزت دیتی ہے.گھٹیا نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ رفعتوں کی نظر سے دیکھتی ہے.یہ فطرت کا ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ جس نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے.وہ گواہ ہوگا کہ یہ قانون کبھی نہیں بدلتا.
خطبات طاہر جلد اول 368 خطبه جمعه ۳۱ / دسمبر ۱۹۸۲ء پس جن بچیوں کے دل میں یہ خوف ہوں ان کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں.آپ نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بر پا کرنا ہے.آپ دنیا والوں سے مختلف ہیں.اس لئے اپنی ذات میں خوش رہنے کی عادت ڈالیں چونکہ ہر کام آپ محض اللہ کر رہی ہونگی اس لئے اپنے متعلق محسوس کریں کہ خدا نے آپ کو عزت بخشی ہے.اور آپ کو ایک اکرام بخشا ہے اور جود خت کرام ہو اسے دنیا کی عزتوں کی کیا ضرورت ہے.اس کے باوجود بھی اگر آپ کو کوئی کہتا ہے کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں تو آپ کہیں کہ ہاں ہاں ، ہم اگلے وقتوں کی ہیں لیکن ان اگلے وقتوں کی جو حضرت محمد مصطفی عملے کے وقت تھے اور وہ اگلے وقت ایسے وقت تھے کہ جن کے سامنے ماضی بھی گزشتہ وقت تھا اور مستقبل بھی گزشتہ وقت ٹھہرتا ہے.محمد مصطفی ملے کے وقت میں ہی تو وقت نے رفعت اختیار کی تھی اور زمانی قیود سے آزاد کر دیا گیا تھا.وہی وقت تھا جو سب سے آگے تھا اور ہمیشہ آگے رہے گا اور انسان کا مستقبل کروڑہا کروڑ سال تک آگے چلتا چلا جائے گا.تب بھی مستقبل کا انسان کبھی بھی حضرت محمد مصطفی اللہ سے آگے نہیں بڑھ سکے گا.پس کہو اور جرات سے کہو کہ ہم اگلے وقتوں کی ہیں لیکن ان اگلے وقتوں کی جو محد مصطفی عے کے وقت تھے.وہ کہتے ہیں پگلیاں ہو گئی ہو تو کہو کہ ہاں ہم پگلیاں ہیں ، دیوانیاں ہیں، لیکن محمد مصطفی ﷺ کی پگلیاں ہیں، اور دنیا کی فرزانگیوں سے ہماری کوئی بھی نسبت نہیں ہے.نہ ہی ہم اس فرزانگی کو حرص کی نظر سے دیکھتی ہیں.ہماری دیوانگی جو آنحضور ﷺ کی محبت اور پیار کی دیوانگی ہے تمہاری فرزانگی سے کروڑوں گنا افضل اور زیادہ پیاری ہے.اگر یہ احساس پوری طرح بیدار ہو تو یہ پر دے تکلیف کی بجائے لطف کا موجب بن جاتے ہیں اور معاشرے کو ایک عجیب جنت عطا ہوتی ہے.پس قربانی تو دراصل ہے ہی کوئی نہیں.یہ تو نعمت ہی نعمت ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ نعمت پہلے بھی عطا فرمائی تھی اور اب دوبارہ اس نعمت پر پوری شان کے ساتھ قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.پس دعا کرتے رہیں اور کوشش کرتے رہیں اور اپنے دائیں، بائیں آگے پیچھے نصیحت جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح سے اسلامی معاشرے کی تمام قدروں کو زندہ اور اعلیٰ اور ارفع طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق عطا فرما تا ر ہے.
خطبات طاہر جلد اول 369 خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء اب میں صرف چند لفظوں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.جمعہ پر آنے سے قبل مجھے وقف جدید والوں کی طرف سے ایک ارجنٹ (Urgent) یعنی فوری چٹھی ملی کہ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے اور گزشتہ طریق یہی ہے کہ یہ اعلان جلسہ سالانہ کے بعد پہلے خطبہ جمعہ میں کیا جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے کسی خاص تحریک کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں ہمیشہ پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور آئندہ بھی اسی طرح حصہ لیتی رہیگی چونکہ اس تحریک کو بہت اچھی خدمت کی توفیق مل رہی ہے.اس لئے اس کی ضرورتوں کو جو دراصل جماعت کی ضرورتیں ہیں، جماعت نے بہر حال پورا کرنا ہے اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ پوری کرے گا.ان چند الفاظ کے ساتھ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.سب دوست یہی کوشش کریں کہ جہاں تک توفیق ہو، پہلے سے بڑھ کر اس میں حصہ لیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۳ء)
English Text of Friday Sermons
Khutbat-e-Tahir Vol 1 372 September 17, 1982 Hospitality of Jama'at England and Valuable Exhortations to Visitors (Friday Sermon delivered on 17.9.1982 at Fazl Mosque London) After tashahhud, ta 'awwudh, and recitation of Surah Al-Fatihah Hadur said: Though not accustomed to address such gathering in English but for the sake of those natives and some of the visitors abroad who cannot understand Urdu, I have elected this day to address you in English.Also I have in mind those children, though born of Pakistani parents but unfortunately they have chosen to remain ignorant of their mother tongue; to that extent at least, that they cannot follow ordinary speeches delivered in Urdu.And again more unfortunately so, they some time take pride in this, while this is a fact, of which one should be ashamed.There is no pride in not knowing any thing, least Urdu or any other language.But it is a question of
Khutbat-e-Tahir Vol 1 373 September 17, 1982 shame if one does not learn his own mother tongue.It's a case of a complex; they call inferiority complex.So Ahmadis are expected to rise above these things.Their pride lies elsewhere, not in such small things.So, I hope in future local community would take care of it that all boys and girls, born of Pakistani parents, are made to learn Urdu properly and well in addition to ordinary knowledge of Urdu they should be given a background knowledge of Urdu literature as well, and again they must be well-versed in the literature of Hadrat Masih-e- Ma'ud So special care must be taken towards this.Now I come to the question, which is of temporary importance but still it needs to be mentioned, that we begin first by expressing the deep sense of gratitude to the local London community, who have offered their homes in a great spirit of Islamic hospitality to all the visitors, who have come from abroad.They are taking care of them, despite the fact that the houses are generally small here and, according to the local customs, there are not many baths and toilets.So they have to undergo some real hardship entertaining particularly those who are not related to them.For their sake they'll have to face some difficulties and problems because in a family if you have some guests then your relationship, naturally toilets cause a main problem.Apart from that they have no servants, while in many eastern countries even to the middle
Khutbat-e-Tahir Vol 1 374 September 17, 1982 class servants are available to do the washing etc after the food, if not for the cooking, at least.So there are many problems attached to this way of life, and keeping them in view, their hospitality (becomes) achieves their greater status and we must (be), in proportion to that, be more thankful to them.Although in Islam the traditional concept of a guest is for three days at the sunset of the third day or let's extend it to the sunrise of the fourth day, the normal tradition, all responsibilities of the hospitality end, but in the case of London Jama'at it is extended to some times two weeks because people who come from Pakistan or some other foreign countries they think that the money they have spent on fare is not well paid, not paid back if they return after a few days.So naturally, because of that and because of their desire to see England, they have to extend their visits, with the result that some times three days get extended to three weeks and still the local people cope with that and some times weeks get extended into months and, instead of the sunrise of the fourth day, new moon of the fourth month still finds the guests well entrenched in their houses.And yet as I have told you and I feel, they show immense patience to them and they show immense kindness.They suffer a lot at their hands and they don't utter a word of complaint.But it should be kept in mind by those who visit here that Islamic concept of good conduct is not a one-way traffic.Both the parties have their responsibilities
Khutbat-e-Tahir Vol 1 375 September 17, 1982 and they must see to it that they fulfil the responsibilities which fall to their lot.So the guests also have responsibilities.They must see to it that they are properly fulfilled.They must not be a burden.They must not trespass upon the hospitality of a kind gentleman and if they forget this, they will create many problems for the future of the Jama'at, as such, because this organization of this tradition of Ahmadis, visiting other places for the sake of Allah, is not a short-lived affair.It's not a transient phase; it is to be with us for ever and for ever.So we must not injure this best tradition of hospitality by taking undue advantage of people's kindness.That must be kept in mind.But I have other things to say and remind those who come here.It has been reported, particularly about three months ago.Just by chance it was reported to me by some one, who had visited London, that although the majority of those who are hospitable, who offer sacrifices, who are forwarding the community they are at silent work, they don't give voice to their complaints.Yet there is a minor local community in London which gives voice to their complaints with a greater vengeance and they start talking about such misbehaviour of visitors and so on and so forth, which brings shame to the countries of their origin.So this is why I have taken up this matter.Although apparently it pertains only to London but it is by.addressing you, in fact I am indirectly addressing the whole community out there.I have told you: though
Khutbat-e-Tahir Vol 1 376 September 17, 1982 apparently a short-lived problem, it's not a short- lived problem.It is going to injure the cause of Ahmadiyyat in the long run, if we do not pay attention to these small things.But more than that it has also been brought to my notice that some people borrow money, with promises of returning the money shortly after they return, but their shortness gets extended like their visit here.Instead of a few days or weeks it gets extended into months and years some times.This is a shame.This is what I call enormity.This must not be tolerated.This is paying them back in a very bad coin, to say the least.So I warn all the visitors to behave correctly.If they cannot give them any reward, and no reward is expected by their hosts, at least they should behave like human beings; they should behave like gentlemen; much more so we should behave like.Muslims, like the followers of Holy Prophet of Islam, Muhammad (peace be upon him).This is what I expect of them; not to fall below the human level.That is a shame and this is what I call falling below the human level, to draw the best benefit of somebody's hospitality and then asking him for some money because he's short of money.This exchange problem and this and that and telephones and so on and so forth and then forgetting about it; not to pay it.It becomes a very great crime if such a thing is done by some body who is related to Hadrat Masih-e-Ma'ud And it particularly hurts me to think that any one related to Hadrat
377 Khutbat-e-Tahir Vol 1 September 17, 1982 Masih-e-Ma'ud comes and behaves in this manner because then the reflections do not end there, they go beyond and the name of my beloved Imam, Hadrat Masih-e-Ma'ud is also taken in such behaviour, although not meaningfully to attack him but, through the reflection, of course, his name is injured and that is what hurts me the most.So particularly I warn those belonging to Hadrat Masih-e-Ma'ud's family to behave properly, not only to behave properly with equity and justice but also realize their status.The flow of beneficence is accepted to be from their direction to other direction, not the vice versa.This is where their honour lies.This is what is expected of them if they are related truly to Hadrat Masih-e-Ma'ud with a double bondage but if they don't pay heed to it they'll be answerable to Allah, and I inform you, all of you, not to extend any undue kindness, not to grant to their demands from now on except by the permission of your Amir.I am doing it because I know that in the past some misbehaviour has got bad name to the family and to late Hadrat Khalifa tul Masih Thalith (III) and such incidents so deeply hurt me because they hurt the name of Masih-e-Ma'ud That simply cannot be tolerated.العلمية ال So I bind you not to give any loan to any member, particularly belonging to Masih-e-Ma'ud his family, without prior permission of the Imam, Sheikh Mubarak Ahmad Sahib.If he deems it
Khutbat-e-Tahir Vol 1 378 September 17, 1982 necessary he would consult me otherwise it will be his responsibility.He'll be answerable before me if any mishap then follows.You, perhaps think that it is a small affair; it is not a small affair; it's a very big affair and the result and effects are wide spread and they are talked about and they injure not only the name of Hadrat Masih-e-Ma'ud unduly but it injures the standard of devoutness of each Ahmadi who comes across such things.They spread abroad.They are given free publicity, though partly in hushed tones, may be somewhere in louder tones, some where else but such things are made subject of discussion.I know that, and as a whole it brings down the standard of the community and its devotion and its very act of sacrifices.So how can I call it a small thing? It's a very big thing.If Sheikh Sahib consults me about such deals because they happen.It's not inhuman, immoral or unislamic to be in need of some money temporarily; it can happen.Hadrat Muhammad himself had to borrow money but what is obnoxious is not to pay back in time while you can.You remain sticking to your old standard of your life and forget about your responsibilities to others.Why should somebody earn for you? Why should he put in hard labour for your sake? It's not an easy life here, I know.They have to earn money through blood and toil and sweat, and some body else comes and softly asks him for a small amount or a big amount and disappears with it.That is shocking.That is what I
Khutbat-e-Tahir Vol 1 379 September 17, 1982 call inhuman behaviour.So it must not happen.If after this warning some body is defrauded or somebody is deprived of his rightful earning, then it is his own responsibility.Then he loses the right to discuss such a thing in public because I have given him warning.And secondly if after consulting me Sheikh Sahib permits someone to offer a loan to any visitor, then it'll be my personal responsibility I assure you, I'll pay it back if somebody doesn't keep his promise.So that is fair enough deal, quite straightforward and honest.So you behave like straightforward honest people and nothing will go wrong with you or with the community's affairs in the long run.That is highly important.These small things are not small.This is what is in fact most important in the making of a community.Clean, neat dealings, simple easy life, reliable words.These are the features which make a community or unmake it when (and) if ignored.And I hope that by paying attention to these small things we'll gain a status where you'll be fit for taking the next jump towards the higher steps to which we are ultimately.انشاء الله تعالی going That gives you help, that gives you readiness, a clean society, a normal way of life, a simple way of life where truth is honoured where words are honoured, where one knows that I am being cared for by others, not that I'll be deprived of my rightful earnings.So these things give confidence and more
Khutbat-e-Tahir Vol 1 380 September 17, 1982 impetus to the people to take a higher jump in the future.So this is why I am paying more attention to these things because I know for the creation of health this is highly important.If you are suffering from a headache, this is a small thing, not a disease which kills you more often, I mean very rarely one gets killed by headache but then it is a sign of some deeper disease.I am talking of normal headache, but a small headache can ill dispose some person in a manner that all the pleasures of his life are taken away from him.He can't enjoy his food; he can't enjoy his company; he can't enjoy any thing which ordinary human beings would ordinarily enjoy so much.So this is what ill health is.It takes the desire from you to go forward and lead your normal life.So if the community suffers from ill health, however small the disease be, these diseases must be cured because ultimately such diseased people cannot travel towards their goals with as robust and healthier steps as they should normally.May Allah bless you all, may Allah remind those who are coming here to fulfil their responsibilities and may Allah give them strength to fulfil their responsibilities.It's far better to lead a life of simplicity, being deprived of such pleasures of shopping and luxurious things as are available to any other.Much easier, much better and in the long run a much happier course to follow than that of buying things at others' expense, enjoying life at others' expense and leave a cursed name behind.Leave
Khutbat-e-Tahir Vol 1 381 September 17, 1982 good memories behind, such memories that people should remember you with love and tenderness in their prayers and should like you to repeat their visits; not that they should wish to Allah that they'll never come again; not that they should pray that I may not encounter such a person again.And also a name if it is defiled, related to Hadrat Masih-e- Ma'ud that is impossible for me to bear.This must not happen.So please help me in doing this.Your love of Masih-e-Ma'ud demands this discipline.You help the relatives of Masih-e-Ma'ud behave like this, not through discourtesy but through firmness and discipline and correct behaviour and correct word of admonishing.This is how you will express the best of love which you cherish, to Hadrat Masih-e-Ma'ud Not the other way round.So may Allah help us to discharge our duties and may Allah reward you all.The Ahmadis of London, to undergo such hardships for the sake of visitors, only because they are brothers in Islam, they are followers of Masih-e-Ma'ud And out of your love for Ahmadiyyat you are undergoing all this struggle.May Allah bless you and may Allah reward you! Assalam o ‘alaikum.(خطبہ ثانیہ کے بعد جماعت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ حضور انور نے درخواست قبول فرمائی ہے کہ حضور نماز کے بعد دستی بیعت لیں گے.آپ نے اس پر فرمایا کہ نماز کے بعد بیعت ہوگی لوگ رش کر کے آگے نہ آئیں بلکہ اسی طرح ایک دوسرے کی کمر پر ہاتھ رکھیں.)
Khutbat-e-Tahir Vol 1 382 September 17, 1982 بیعت کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے حضور انور نے اردو میں فرمایا: ’اب بیعت ہوگی پہلے مقامی لوگ امیر صاحب انگلستان، مبلغین جو یہاں ہیں، قریب آجا ئیں اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھیں“.If there is one gentleman by the name of Steel, whom I promised that I'll give him opportunity to come closer and touch my hand at time of Bai'at, he should please step forward.Mr.Steel; a young man, student of University here, he bowed to me that he wants to become a Muslim.But also he expressed desire that I should give him opportunity to touch me during Baiʻat.Because I made a promise to him, so if he is here, he can come forward please, otherwise I think my letter may not have reached him in time.(Where ever you stand, put your hand and there is no more here) بیعت لینے سے قبل حضور اقدس نے اردو میں فرمایا: بیعت جو ہے یہ بہت مشکل کام ہے.اس کے تقاضے پورے کرنے بڑا خوف کا مقام ہے.میری اپنی حالت انتہائی غیر ہو جاتی ہے کیونکہ ہر دفعہ مجھے بھی منصب خلافت کی بیعت کرنی پڑتی ہے.اور مشکل یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں، مجبور ہیں ہم، اپنی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے بھی بیعت کرنے پر مجبور ہیں.تو اس بے بسی کا ایک ہی چارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کی جائیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے باریک تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اگر ہماری کمزوریاں ہیں تو ان سے بخشش فرمائے ،مغفرت فرمائے، پردہ پوشی فرمائے اور جو کمزور ہیں انکو بھی ساتھ لیے چلے کشاں کشاں اور جو صحت مند ہیں انکو اور صحت عطا فرمائے.ان دعاؤں کے ساتھ ہم بیعت کرتے ہیں.اس کے بعد حضور نے احباب سے بیعت لی.بیعت کے بعد حضور نے پرسوز دعا کروائی.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 383 September 24, 1982 Responsibilities of Ahmadis in Western Society (Friday Sermon Delivered on 24-9-1982 at Glasgow, Scotland) Before delivering the khutba Hadur said "is there someone among you or in ladies who doesn't understand Urdu at all.She (there) is an Ahmadi who belongs to Scotland.So I shall address this congregation in English.Because it is her first chance to attend this Jumu'ah led by Khalifatul Masih.So I will address you in English today so that she should also be with us".After tashahhud, ta'awwudh and recitation of Surah Al-Fatihah Hadur said: During my tour of Europe I have found the fulfilment of the prophecy of Hadrat Muhammad as such a great extent, in such detail covering every aspect of life of the western nations, that I'm only compelled to say a few words on this experience.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 384 September 24, 1982 The prophecy which I've just referred to is the prophecy about the coming of Dajjal (J).Hadrat Muhammad Mustafa prophesies that the time would come in latter days when a great havoc for the world would be born, under the style of Dajjal, which is the word translated as Antichrist in English.Whether it carries the full connotation of the word Dajjal or not, I don't know.But I am inclined to believe that it does not carry the full connotation of the word Dajjal, because it is a much deeper and richer word in meaning, for just Antichrist would not be able to carry all the messages which are sort of packed, very closely packed in the word Dajjal Now this is a very great prophecy and also a lengthy prophecy which covers so many aspects of the future world.If I begin to speak on all these aspects it would take me a very very long time.So I am going to limit myself strictly to only one single word which Hadrat Rasul-e-Karim has used to depict the attributes of Dajjal.It says he will be a war, (c), that is, one- eyed.Now in connection of his one eye, he further explains that his right eye would be blind; so totally blind that there won't even be the realization of its shadowing light in that eye, to be totally blind.The other one, on the other hand, would be very deep sighted and far sighted and so clear and so prominent that if that eye would be able to penetrate the depths of earth and find out the secrets of the
Khutbat-e-Tahir Vol 1 385 September 24, 1982 earth hidden below billions of tons of earth.It will be such (a) penetrating eye.Now this is a very interesting depiction of the future Dajjal as we understand it to be as a future of Christian nations which are going to dominate the whole world.When I came to Europe and even before that I have observed this that Hadrat Muhammad Mustafa could not have chosen a better phrase than the word a'war for the characteristics of the western people.They are in fact highly intelligent and very deep sighted and very queer sighted as far as the worldly matters go.And you must bear in mind that while interpreting dreams we are told that if you see left side of a person that indicates the world or materialism.If you see the right side of a person that indicates spiritualism.So, by explaining that his right eye would be blind what he meant was that, that people however great they are apparently be, they would be blind to all that is good because righteousness stands for goodness in interpretation of Muslim way of interpretation of dreams.So all that stands for goodness, righteousness, spiritualism, religious or Godly things would not be perceived by that Dajjal which as I have explained, has been manifested in the form of the Western civilization or Christian dominance of the world.So when ever I say Dajjal it should be understood as such.I don't have to explain every time what I mean by word Dajjal because Hadrat Masih-e-Ma'ud has at length explained ✓
Khutbat-e-Tahir Vol 1 386 September 24, 1982 why he considers the Western Christian civilization and their religion to be the representative of this tradition, fulfilment of this tradition of the Holy Prophet Now secondly, as I have mentioned earlier as far as the worldly matters go, they are so much advanced.They have achieved such high standards of precise and correct wheel that it is surprising for the rest of the world.They lead all movements which can be called materialistic movements in philosophy, in science, in sociology, in all other aspects of life which concern man, but which are not religious and which are not moral, which are not Godly, the western society leads the entire mankind.The same people who are completely blind to the values of the Creator, their submission to Him, their obligations to Him, are so well advanced in science that now they are virtually talking, literally talking with the heavens above, as we call it why I use this word talking because in Urdu we say asman sei batein karna ().It means one attains such heights as if he is by that by reaching those heights, he is able to really talk to the heavenly bodies.And this is what exactly they have done.When they first put their feet on the surface of the moon they addressed that moon and they addressed the heavenly bodies in such pride that now we have reached this.And they have started searching for other places in space to achieve even greater heights.سے
Khutbat-e-Tahir Vol 1 387 September 24, 1982 So this is one end as far as the worldly affairs go, they have invented highly sophisticated weapon system; so sophisticated and so deadly that once they decide to use such weapons against the mankind, there is every possibility that the species of mankind would be destroyed and wiped out from large areas of the world.All this because of their very exceptional eye-sight regarding the material world and the laws of nature.Very penetrating eyes have been granted to them by Allah.And this is what was foretold.Now these traditions who depict the future power of Christianity are not sayings which Hadrat Muhammad Mustafa concocted from himself.It was his habit and custom and a very strict custom for that matter that he would utter not a single word from himself.All that he said was from Allah or was by way of interpretation of the Holy Qur'an.And this is exactly what has been mentioned as well in the Holy Qur'an itself: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ إِلَّا وَحي يوحى (6-5:Al-Najm) Look at My prophet Muhammad Mustafa, he does not utter a single word from himself.All that he says is based on the Holy Quran.So such is the prophet addressing us and telling us that there is going to be a Dajjal or Antichrist.What ever you call him.Where is he mentioned in the Holy Quran that is the question, which comes to ones mind if Hadrat
Khutbat-e-Tahir Vol 1 388 September 24, 1982 Muhammad Mustafa is going to say all that he says from his Lord and nothing from himself, then there must be some reference of this in the Holy Quran.Now, that Surah in which Dajjal has been mentioned has been pointed out by Hadrat Muhammad Mustafa himself.When he warned his people; his followers against the appearance of Dajjal, he was asked by one of them: how could they be saved from the horror and the damage of such a havoc? So he said the only way out is that you recite first ten verses of Surah Al-Kahf before retiring and also the last ten verses of Surah Al-Kahf.Now, what he meant was obviously that, that Dajjal has been described here in detail.If you understand the meaning of first ten verses and final ten verses of Surah Al-Kahf, then you will recognize your enemy and once you recognize your enemy and the direction of attack, then it is only possible for you to take defensive measure to guard yourself against the enemy.As long as you do not know where the enemy is and where he will attack from, from which direction he is going to come upon you.You are naturally not be able to defend yourself.So he is pointing out very positively what the enemy is? And what he should be guarded against? The first ten verses of the Surah Al-Kahf refer to Christianity and the warning is specifically given to Christianity.That Allah warns you against
Khutbat-e-Tahir Vol 1 389 September 24, 1982 concocting and attributing a false son to Him, while He has no son.وَيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدَانٌ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لا بَابِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا (Al-Kahf:5-6) S So this Holy Prophet of Allah has come to warn you and warn those in particular who are Christians, who have invented by themselves imaginatively a son to Allah.And they attribute that imaginary being to Allah and say He has a son.Neither they have any knowledge, nor their forefathers had any knowledge, they are just talking nonsense, out of their hats, as they say in English.but this nonsense كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ So this is would be taken very seriously by Allah because it is an affront to Him.So they are going to be punished for that.These are the verses which make very clear the religion of Dajjal that what ever power that being, that power is going to be Christian and Christian of that stage in future which would become almost entirely idolaters.Now after this there is diversion after a few verses and distorted shape of Christianity is left alone and then Allah turns to their count of, those are the Christians who were God-fearing and who offered great sacrifices for the sake of Allah, went to the caves for the sake of saving their religion from their opponents.Those were the other people then mentioned.And it is made explicitly
Khutbat-e-Tahir Vol 1 390 September 24, 1982 clear that whatever the future Christians would gain by way of the materialistic advancements would be in fact because of their early forefathers' good deeds.It is a reward not for their own sake, but for the sake of those early Christians who offered so much for the sake of Allah, that they are reaping this reward of great achievements in the world.Now that is a different subject altogether, but those were not Dajjal, so Hadrat Muhammad Mustafa confined himself to the only first ten verses.Because the account which relates to the great early Christians who part of whom we called Ashab-e-kahf (); people of the cave, are exempt from this warning.They are, in fact, narrated in the Holy Qur'an with great love and regard.So we leave them alone for the time being and go to the last ten verses.What do we find there? There Allah tells us: أَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِى أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكُفِرِينَ نُزُلًا (103:Al-Kahf) those who have denied the أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا message of the Holy Prophet, who refused to believe in him, do they think, are they working under the misconception that they will ultimately become successful.By doing what? By making Allah's creatures by treating Allah's creatures as his b As against Me if يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِى أَوْلِيَاءَ partners they start making partners, calling partners besides Allah from among Allah's creatures.If they think
Khutbat-e-Tahir Vol 1 391 September 24, 1982 that they would become successful, then they are totally wrong in that.Further it says these are the people who have turned all their attentions, all their energies, all their powers towards materialism: الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ( 105 Al-Kahf) Now this is the verse to which I want to attract your attention, in particular.This is a tell-tale verse.It tells us that these are the people whose faith is Christianity, whose religion is Christianity, but who would have made such advancements in material pursuits وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعا ( 105:Al-Kahf) that they would think that they have achieved the very best in life, that means to say, that not only their entire energies and capabilities would be directed towards materialistic pursuits, but also they would have gained so much by that pursuit that they would believe that they have done the very best in life.What best could there be other than this? Now this is exactly the situation which we find today when we are travelling in Europe.They have excelled in the pursuit of materialism.They have gone to such stages as is unimaginable for poor people of Pakistan or India or other backward countries to achieve even in after hundred years.They've gone so far ahead of us.And by the pursuit of materialism they've come out with beautiful things as well as the Holy Qur'an himself self
Khutbat-e-Tahir Vol 1 392 September 24, 1982 means that their industry أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا admits would be so wonderful that when they would look at their products they'd say, look here, how beautifully they've made them.We can manufacture such beautiful things.So all over Europe you'll see the same things.They've excelled in industry, and this is what the Holy Quran tells and at the same time that Dajjal becomes manifestly clear to us.He is the same Dajjal which was talked about by Hadrat Mhammad Mustafa.That one eye is blind; as far as the religious values are concerned they don't see the logic of the things.They say three is one and one is three.God begets children, physical beings.It's impossible.How absurd it is! Yet their logic immediately goes to sleep when they begin to realize religion.They don't see anything at all there, in fact.This is why they are called "blind".And the moment their eyes turn towards the materialistic things their vision becomes so bright and clear, so illuminated that we look at them with wonder.How they could perceive those things while we also live the same universe, we also pass through the same natural phenomenon.But we miss the point while they have picked at the right points and made advancements because of the correct study of nature.So this dilemma is solved by Hadrat Muhammad Mustafa for us.And by solving this it gives us hope too.Instead of giving us inferiority
Khutbat-e-Tahir Vol 1 393 September 24, 1982 complex we are strengthened in our faith, we realize that although there are wise people but fourteen hundred years ago Hadrat Muhammad Mustafa☑ had seen through them.He had warned us that they would materialistically become extremely advanced, yet you must not follow them in their ethical values, in their religious values, and all the values which are termed good in Islam because there they would be a blind people.If you follow them there you'll be destroyed yourself.This is the message which I want to make clear now to you that this should be our approach to the West.What a great prophet he was! Where he saw light, he admitted it in so many words.Where he saw goodness he admitted in so many words.Where he saw badness he warned us against that bad and evil feature.And this is our approach too.I mean we can't follow a different approach from the master.Now here we are making mistakes.I am talking about that society which has migrated from the East to the West by not understanding the message of Hadrat Muhammad Mustafa.They are following an entirely different course from what he advised.He advised us that you can trust their vision as far as material world goes; you can copy their pursuits because there is no harm in studying the nature of Allah.It was the creation of Allah, not their own creation.Their vision is correct.This verdict has been given by Hadrat Muhammad
Khutbat-e-Tahir Vol 1 394 September 24, 1982 Mustafa.By that the Holy Prophet meant that, in as much as their sciences are concerned, their study of nature is concerned, you should not only follow them, you should try to excel them.No harm in that.Because they are not the creators.It's the creation of Allah which they have rightly understood.But in all the other values you must completely abandon them and not follow their path.What I see here is quite a different pattern altogether, in fact it's the converse of this.Most of the Asians who come over to these countries they don't follow them in their good nesses, but they follow them in their wrongs.They lose their way of life.They lose their moral values.They lose their religion.They lose all that is good in them and start following the western pattern of the rotten society.While they were forewarned by Hadrat Muhammad Mustafa fourteen centuries ago.How clear was his vision! How beautiful the message! Here they are wrong.Don't just condemn them wrongly and revolt against all the Westerns.This is what he said in his message.Choose the right thing from wrong.And I'll give you the criterion, unfailing criterion which would never lead you to a wrong decision.That on the right things, they are always wrong; on the left things, they are always right.Follow them materialistically.Learn from them and try to excel them (-) no harm.But whenever there are the moral values, religious values, ethical values are
Khutbat-e-Tahir Vol 1 395 September 24, 1982 concerned; it could be poison for you, if you follow them.You'll eat poison.Now this is exactly what the people are doing from the East.This is why Ahmadis are expected, not only to warn the West but also the Eastern people who come over here and indulge in these blunders.And this is what the Ahmadis are not doing in fact.This is why I have prepared the ground for you to see where you are missing the values which are expected of you, most unfortunate.In fact you came here, to the West, not only in your personal capacities.But in the capacity much more so, in the capacity of ambassadors of Islam and the representative of Hadrat Muhammad Mustafa.If you don't understand his religion, if you don't follow his path and you don't exhibit the way of life through your own personal example, how can you be named the ambassadors of Islam and representatives of Hadrat Muhammad Mustafa You are so dormant to these things, in fact in some respect, that it deeply hurts me to notice that in many respects we are losing ground to the West, rather than gaining ground.As far as our rate of preaching is concerned, that is almost zero in Scotland.I made thorough inquiry here about how many Ahmadis today are present here who belong to this soil, so that for their sake, I should address you in English, and I was told just one lady.And that is fifty percent of all we have
Khutbat-e-Tahir Vol 1 396 September 24, 1982 achieved here, because there is one gentleman left out who is missing unfortunately.So fifty percent of local Ahmadis are here and that is one! This is (a) shame.This is a point for us to ponder and reflect.What have you been doing here, all of you; young, youth and old and ladies and gentlemen? Who came from Pakistan or some other countries to seek employment here or to do business.That was not the fundamental thing in you.The most overriding thing in an Ahmadi should be the message of Islam.Don't leave it to the missionaries.They simply can not do it alone.It is you who are going to take up the cajole, otherwise, Islam will remain in this defeated state, as you find it today.Read the early history of Islam and you'll come to know, that, in fact, it was not a clergy, because there are no such things as clergy in Islam, which brought about the great revolution over the world.Who converted China? Go to the history of Islam and then you'll find out; not not a single missionary was sent to China.I mean those four provinces of China which are predominantly Muslim.The four big provinces who have become almost entirely Muslim, and not a single creature was sent to them by any Muslim ruler.Just tradesmen, those who sought employment as you have sought employment today, they went to China.Who converted Indonesia? Neither a sword nor such
Khutbat-e-Tahir Vol 1 397 September 24, 1982 missionaries as you find today; there were no such systems in fact.Just ordinary tradesmen went there and started preaching and they were responsible people.Hadrat Muhammad Mustafa didn't leave any thing unexplained.He explained at length what he meant by Dajjal, he explained at length where he is mentioned in the Holy Qur'an, he explained the philosophy of the institution of Dajjal, he explained where he should be followed and where he should be avoided and where he should be opposed and where he should be aided.So every thing has been made manifest by Hadrat Muhammad Mustafa☑ but, unfortunately, we are not paying attention to his words and this is what I am repeatedly trying to draw your attention to.Allah bless you, may Allah help you but I assure you that, if for the sake of Allah you make this decision today, that from now on, you are going to lead a life of a missionary, if you make this decision today, that for Allah's sake you'll devote all your energies towards converting this country into Islam, then you'll see the great changes appear.All around you people will begin to get converted.But that can only be done, if you also remain humble, if you also continuously pray to Allah, seek His help, accept you are being nothing.Admit that you have no power on earth whatsoever.And then turn to your Lord repeatedly with tears and with aching hearts.O Allah! O Allah! I have taken the
Khutbat-e-Tahir Vol 1 398 September 24, 1982 responsibility of converting these people, I who am a nonentity, we are nothing, we have neither any knowledge, nor wealth, no strength enough.How can I do it? But O Lord! I have done it for your sake.I believe in Your mercy, I believe in Your succour and aid.You come to my aid because I was what ever I am, however humble I have been, I have come to Your aid.So all that expect of You is, to come to my aid for this noble goal which I am pursuing for my love for You, for my love for Hadrat Muhammad Mustafa.So if I am offering my self to Your task, why shouldn't You come to help me? If you pray to Allah with such pain and such aching hearts, it's impossible for Him not to accept it.Then you will see changes occurring all around you.Then you will see the fate of this country changing gradually and light appearing in the darkness and dispelling darkness all around.May Allah bless you, may Allah help you! First make this sincere resolution, then act upon it.Then may Allah help you to follow this noble goal perseverantly, not with temporary emotions.We don't want Ahmadis with temporary emotions.It is a long task, we may have to devote a generation after generation or energies towards achievements of this goal.So we don't want people who are tired.Allah and the Holy Quran tell us that there are angels who never tire in praising Allah.So are the followers of Hadrat Muhammad Mustafa who tirelessly
Khutbat-e-Tahir Vol 1 399 September 24, 1982 follow the goal which has been set to them by the holy founder of Islam.This is your station in life; this is your status in the eyes of Allah.So rise to it.Why do you seek ordinary low level of ordinary Asians who come here, lose their values, acquire complexes and get lost themselves.You are different.Why don't you realize it? This is what hurts me most.Not only the fate of the people around, but when I see Ahmadis behaving like ordinary people, while they are not ordinary people, then it hurts me most, and then I turn to Allah.O Allah! What is the use of my coming here? If I can't turn Ahmadis back to your massage, if I can't make them realize where they belong to.What is the use in my going through the streets of London and Glasgow and Frankfurt and Hamburg? Because then I would be just an ordinary person, doing the same thing as hundreds and millions of visitors do.I have not come here for that purpose and I have no power on the hearts of Ahmadis.It is You alone who has that power.You help me.So, as I am humble in my approach and I only seek Allah's help.You should also be humble in you approach and seek Allah's help for your sake.For the sake of your generations, for the sake of mankind suffering around you.Then you'll see the great signs appearing, great changes appearing And a new Jama'at would be born here in these countries out of your bodies, your souls will emerge and that is the massage of Ahmadiyyat which I deliver
Khutbat-e-Tahir Vol 1 400 September 24, 1982 to you and trust to Allah that it will carry the انشاء الله تعالي weight During Khutba-e-Thania Hadur said: After the Jum'ah prayer we'll say 'Asr prayer together with the Jum'ah.I my self and all the rest of those who are on journey, would say half of the 'Asr that is two rak'at (CLS).Those of you who belong here, they should complete their prayer after that without saying assalam o ‘alaikum (l).But they should not stand up until I finish the second assalam o 'alaikum.I have observed people behaving hastily, impatiently.While they are not permitted to bow beyond the movements of Imam while the Imam is still locked in prayer, till he says and finishes his second assalam o 'alaikum, the followers have no right to stand up.When Imam is free, then they are free to move.So the prayer of the Imam ends with the second assalam o ‘alaikum, not with the first.So you wait until I have finished the second assalam o 'alaikum and then stand up for completing your prayer, that is adding two more rak'ats without assalam o 'alaikum.After that, Shiekh (Mubarik Ahmad) Sahib has told me that Jama'at wants to renew their pledge for the sake of Jamaat of انشاء الله So.(بیعت) of Baiat Scotland we'll go through the ceremony of Bai‘at.And Imam of Scotland brother Mr.Bashir Orchard, he would come forward and some of those who can and put their hand touching my hand and the rest of
Khutbat-e-Tahir Vol 1 401 September 24, 1982 you can put hands on the person who is sitting before you.So that to establish a sort of bodily contact.Now bodily contact is not what is meant.What is meant is the spiritual contact.Because this is the same Bai'at which is referred to in the Holy Qur'an as Hablullah (J).You hold Hablullah with the strongest possible power which you have.Now through Bai'at you come to, in contact with Hablullah.So that is a spiritual contact, and why do we ask you to establish also a bodily contact? Not because of superstitions, but because Hadrat Muhammad Mustafa has taught us this.This was his habit, he used to do it like this.So we are his followers.It's only I think, a way of symbol.I am establishing the necessity of your contact, by telling you to establish physical contact, what the Holy Prophet meant was that you should try to be near the Khalifah or near whom you are pledging your Bai'at to.Not only physically, but also spiritually much more so.Perhaps that is a symbol, but what ever it is, we do how we found, exactly as we found Hadrat Muhammad Mustafa and his followers do.So it is no superstition.So after the Bai‘at we'll say prayer and then I'll take leave of you.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 402 October 1st, 1982 Guarding of New Heaven & our Obligations (Friday Sermon Delivered on 1-10-82 at Gillingham England) After tashahhud, ta'awwudh and recitation of Surah Al-Fatihah Hadur recited: وَلَقَدْ زَيَّنَا السَّمَاء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَهَا رُجُوْمًا لِلشَّـ وَاعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ (6:Al-Mulk) It is a style of the Holy Qur'an to draw man's attention to the phenomena of nature, but that phenomenon of nature to which the attraction of man is drawn is not an object in itself.Thereby something else is meant.In fact, Allah wants to draw the attention of man towards a different spiritual phenomenon and the phenomena of nature is only to work as an analogy, the study of which would give us more (and) greater opportunity to study the hidden phenomena of (the) spiritual world.The verse which I have just quoted also is an example; an illustration of what I have just said.Apparently a heaven is described according to the
Khutbat-e-Tahir Vol 1 403 October 1st, 1982 words of the Holy Qur'an, the lowest heaven, in which lamps are studded and the purpose of those lamps is to repel or drive away Satans.This is what is said in so many words in the verse which I have We لَقَدْ زَيَّنَ السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ.just recited before you have decorated the lowest heaven with lamps.What And we had made جَعَلْنَهَا رُجُوْمًا لِّلشَّيطين ?is the purpose وَاعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ.them to drive away the Satans And we have prepared, by way of punishment, for them a blazing fire.Now apparently this is not what is meant by the Holy Qur'an, because the whole verse, in fact, is applicable not to the apparent world we see but to the hidden world of religion and the religious phenomenon is being revealed thereby, because apparently we don't see any shyatin (J) who are being repelled by shooting stars, nor do we observe lands as such in the heaven.So obviously, according to those who understand the style of the Holy Qur'an, such verses relate to different phenomena altogether.When we say that some non-Muslims can raise this objection, they can allege that you are putting words into the mouth of the Holy Qur'an because you have reached the stage of knowledge where the world has advanced in science and you think that the verses of the Holy Qur'an are left far behind in time and they are describing the phenomena of nature incorrectly.So, to guard against allegations
Khutbat-e-Tahir Vol 1 404 October 1st, 1982 regarding the Holy Qur'an, you are trying to come out with excuses.And you tell us that it is just a hidden phenomenon; it is just a spiritual phenomenon; a religious phenomenon and not exactly the phenomenon of nature as we observe it.What is the answer of such a question, such an allegation? It appears to be rather heavy and Islam must be defended rationally, not through imaginations and through our beliefs alone.Those who understand the style of the Holy Qur'an would further proceed to note that the Holy Qur'an does not require any outside defenders.It can well defend its values and it doesn't need any outside help.Verses of the Holy Qur'an support other verses and make their meaning manifestly clear.So when we say positively that these verses mean to refer to a religious phenomenon and not the apparently natural phenomenon, we must have some proof in the Holy Qur'an itself so that when the attention of man is drawn towards the second type of verses, immediately the allegations fall by themselves.But the second verse to which I want to draw your attention is after a few Suras; in Surah Jinn.the Holy Qu'ran tells us in that verse of that Surah وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدً اوَتُهُبَّان وَأَنَّاكُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدُ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا (10-8:Al-Jinn) It says, in the words of jinnai, and again that word jinn () is a very debatable word; how it should.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 405 October 1st, 1982 be interpreted? Is it meant by the Holy Qur'an to refer to a very special type or unknown type of creation, which is invisible to human eye and which has power over human affairs as well, occasionally, or something else is meant by this? But I leave this question alone for the time being because that will be making a diversion in another direction.I'll stick myself to the meaning, the true meaning of the verse, which I first recited as illustrated by this second verse.In the second verse Allah tells us that after the advent of Hadrat Muhammad a party of Jinn.Jinnai came to see him.And they accepted, and they took oath of allegiance at his hands.And when they returned, they started talking between themselves.And this is the talk which is refered to.They say while they go back, they are saying: وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسَا شَدِيدً اوَّشُهُبَّان "We tried to reach heavens but we found it fully protected by strong guards b and shooting while previously وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ.stars now if any body attempts to فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ ,happened we used to sit in places to listen and nothing listen he will find in wait, in ambush, the shooting stars for him".What has happened that the apparent phenomena of nature has totally changed; has been transformed? The only thing that happened is the coming of Hadrat Muhammad Mustafa, while in
Khutbat-e-Tahir Vol 1 406 October 1st, 1982 nature nothing has changed; no changes observable in nature.The heaven is the same as it used to be, I mean the apparent heaven.The skies and the stars and their behaviour is exactly alike.But something has changed after the advent of Hadrat Muhammad Mustafa and a new system is created.So that shows positively that the outward nature is not meant at all in this verse nor in the previous verse.What is meant is this that when prophets come they create a new heaven, and that heaven is different from the heaven previously known to the people.Before the advent of prophets the men of the world are at liberty to attack religious values; they even attack God.In their perverted minds they create allegations and suspicions and doubts, first in their own minds and then they sow the seeds of suspicions and doubts into other people's minds.And this phenomenon goes on unchecked because that heaven is not yet created which is mentioned in the Holy Qur'an, as the lowest heaven.And those stars have not yet been created which are made guard over the religious values.That heaven, which is mentioned in Hadrat Masih-e-Ma'ud, 's words: "" (نیاآسمان اور نئ زمین) nya asman aur naye zamin or the (آسمان) is the asman (نیا آسمان) Nya asman heaven which is being mentioned in this verse.And that can only be created when prophets appear, not before them, like Surah Jinn has made it manifestly clear to us.So Hadrat Muhammad Mustafa came and with him was created the new heaven.And who
Khutbat-e-Tahir Vol 1 407 October 1st, 1982 are the stars then? The same stars as are refered to by Hadrat Muhammad Mustafa (that) اصحابي كالنحوم بأيهم اقتديتم اهتديتم (Mishkat ul Masabih, book Almanaqib, chapter Manaqib us Sahabah) My companions are stars whom so ever you follow, you will be rightly guided.So this is the new heaven.which is created and this is the new heaven to which the Holy Qur'an refers to, occasionally.Now what is the quality of this new heaven? The quality of this new heaven, as mentioned here, is this that they are guards over religious values and all that is Godly.After the new heaven is created then the people of the world are not permitted to attack the religious values as they were used to before it.They come upon such guards, such strong guards which pursue them and repel them and put them to flight.And if they are not put to flight they are destroyed totally, because such is the strong system of guarding this heaven that the people of the world have absolutely no play, no say in the matter left any more.This is what has been described in the Holy Qur'an and this is what I want to draw your attention to.came and Hadrat Muhammad Mustafa created a heaven and for a long time to come, we observe in the history of Islam, that very great religious scholars were produced.Even after the companions of the Holy Prophet had left this mortal world, there were people who followed them in their footsteps and defended the values of Islam very
Khutbat-e-Tahir Vol 1 408 October 1st, 1982 strongly, with the result that they were awe-inspiring to the enemies and a time came when the people dared not attack the values of Islam because there were so many guards created in this lowest heaven.After a while unfortunately, as the Holy Qu'ran had itself predicted, there were changes taking place in this heaven.Stars were torn from their hinges and darkness was replacing light gradually, with the result that ultimately as Hadrat Muhammad Mustafa had predicted himself, a time of total darkness came and got extended into centuries.Very little light from the heaven was observable during that unfortunate period of dark ages, for the world of Islam.But with the grace of Allah, Hadrat Masih-e-Ma'ud came.He was raised by Allah Himself and the new heaven for Islam was created.New stars came into being, new system of defence for Islamic values was created and it went into action immediately.But Hadrat Masih-e-Ma'ud did not wait for the stars to be born.He himself went into action first and, in fact, that process was the process of creation of other stars, like it happened earlier in the time of Hadrat Muhammad Mustafa The prophets are like suns or like moons.Around them a new heaven is created by their light, in fact, and this is the phenomenon which we observe unfolding again in the time of Hadrat Masih-e-Ma'ud But time has left since a lot of water has flown under the bridges of the world.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 409 October 1st, 1982 People have changed; so have Ahmadis but unfortunately they are not behaving as ideally as Ahmadis produced by Hadrat Masih-e-Ma'ud himself.They have fallen in standard in many respects.And this is one respect in which, I so painfully have to admit, that they have fallen much below the standard.The fact is that the enemies of Islam have again become active.From different angles they have started attacking Islam and different gods they address now, of course, but the object of creating doubts, suspicions about Islam is the same object, no change.The malevolent attitude and the inimical stance is the same, only the style has changed a little bit.But Ahmadis all over the world if not all, majority of them, are not mindful of this phenomenon any more.They are not consciously defending the values of Islam as they should be.I refer to a change having taking place not only in Ahmadis but in outside world as well.I want to further elaborate on this observation.Then you'll understand what I mean.What I mean to say is this that although the enmity of Islam continues to be the same, its form has changed and new garbs and new dresses are been worn by the same enemies.Their policies are changed a little bit, apparently though, but not in fact.The policy has changed a bit, apparently it has softened down, apparently the enemies are less enemies and they are some times talking in terms of friends.This is the new generation of the
Khutbat-e-Tahir Vol 1 410 October 1st, 1982 orientalists, we observe, now coming up.But I have noted with minute study that practically, except for the addition of deception, nothing has changed.The same people with same bitterness are attacking Islam.Only the language has softened down and the style has changed and the nomenclature has changed.Previously what they used to call "poison", now they label it as "potion".And no other change has taken place.Previously they used to call Hadrat Muhammad Mustafa a liar in plain language, now they say he is not a liar, we don't know what he is.But when they criticise the Holy Qur'an they take pains to prove it positively that the founder of Islam, Hadrat Muhammad was the author of this book and there was no Allah who spoke to him and he was a very poor author for that matter.They point out defects; in human values, defects in other areas and contradictions and changes and so many things they indulge in, only to prove to a common reader that this book was not only the work of Hadrat Muhammad Mustafa himself but was a very poor work.What they praise is some thing which is not at all an indication of the Holy Qur'an being from God, e.g.they praise just the language sometimes, and the Muslims are deceived.They think that oh! they are friends of Islam; they have changed their stance and attitude, because they have started praising Hadrat Muhammad Mustafa occasionally and his language.Some times they come out with great tributes to Hadrat Muhammad Mustafa, (peace be
Khutbat-e-Tahir Vol 1 411 October 1st, 1982 upon him) as well.But in such departments, as are divorced from religion, in fact, only as a human being they praise you or they praise him for having some exceptional qualities and capabilities of leadership.But that is all deceiving.They remain to be the committed enemies of Islam but, by changing this language and apparent attitude, they are deceiving more people than before.I was shocked to learn only recently that many Arab students are now sent to British universities to study Islam, to be taught Islam by these so called orientalists.At one university alone there are more than 50 Arab students, studying Islam and whatever is being taught to them, they swallow it with good grace; they swallow it not knowing that it is the same poison which used to be administered before but under a different label.So this situation has changed for the worst, not for the better.But I have seen that there are very few people who are closely following their cause and keeping watch over their activities.So this is the only reason why I have taken up this subject today.I want to invite the attention of all Ahmadis all over the world, where ever they be, to prove to be those stars which are mentioned in this verse.They are the stars of the new heaven, which has been created by Hadrat Masih-e-Ma'ud They are the stars on which depends the defence of Islam today.If they sleep over this, they will not be mindful of their duties to Allah.If they do not guard Islam who
Khutbat-e-Tahir Vol 1 412 October 1st, 1982 would be in their place? Who would be the person who would guard Islam because Allah has bestowed this responsibility upon us.He has chosen us for this purpose.So, if we leave this responsibility alone, nobody is going to come forward and do it for you.And they are incapable of doing it, because they do not understand the values of Islam as you understand today.Hadrat Masih-e-Ma'ud has drawn your attention to such keys as open up new avenues for you when you study the Holy Qur'an.He has handed over (to) you such clues as make you understand the Holy Qur'an more easily than the rest of the world.So if you do not defend the values of the Qur'an, nobody else is going to do.This I tell you positively.And this is what is happening at present.A lot of books on Islam, distorting the teachings of Islam and distorting the figure of Hadrat Muhammad Mustafa have come into market and they have not been taken notice of by the Ahmadis, living in that particular country where they are published.For example, here in England I have come across certain books which have not at all been mentioned in our literature but which are full of poison.And the new generation is brought up in that manner.In fact, the change in the policy, which I have just mentioned, had been brought about because of some political changes; because of the find of oil in the Arab world, because of the rise of Arab wealth.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 413 October 1st, 1982 Now the orientalists are changing their policy in form alone.What they have decided is this that why to antagonize the Muslim world by calling a so called liar a liar.Call him a truthful person and then start enlarging upon his lies, as they say it.This is a policy.So a change of nomenclature has occurred and nothing else.They call the Holy Qur'an the book of Allah, all right, but then attribute such enormities to this book, such horrible contradictions and so on and so forth, that the reader, after reading only a few pages written by them as commentary on the Holy Qur'an, begins to believe that it is just a hocus-pocus, nothing to do with Allah or any thing which is, nothing to do with those books which are revealed by Allah.So this is the enmity about which you must be conscious now and make conscious efforts to first detect and then pursue, and then to put to flight all these enemies of Islam.Among your people who are knowledgeable, who are learned, who can understand English very well and who are also some what, if not entirely, well versed, with the values of the Holy Qur'an and Ahmadiyyat, so they should start reading such books and pinpointing the mistakes and elaborating on what has been said against Islam.They should prepare such lists.With the result that afterwards if they are themselves capable of writing some convincing answers, after making some research, they should do it by themselves.But should not leave it entirely to their own efforts.What they
Khutbat-e-Tahir Vol 1 414 October 1st, 1982 should do is, I have that in mind, a very clear policy to pursue.What they should do is first of all detect where the wrong has been committed, prepare a list of all these things, analyse them, pursue the original sources which have been referred to in the books and try to come out with effective answers, to their own best capabilities.But should not leave it at that, because it is just possible that they are not capable of defending the values of Islam effectively because there is lot of treachery involved in this.A lot of investigation in many quarters has to be done before you can come out with the proper answer.So all these things, all these books with references, every thing should be referred to the centre.There we are going to create a cell which will collect all such attempts made by the enemies of Islam and we will tabolize them and then make a research work pursuing all the authorities they have quoted, with the result that after collection of such data we will be able to pursue the enemy to انشاء الله تعالى the last ditch, he can go to.And this is a very important and urgent matter.How can it be done? I have got another plan which I want to develop on now.If, for example, we leave it to people at chance, there may be some who would be left unattended, some writers against Islam, and there would be some on whom so many people would be wasting energy uselessly.So what I mean to do is this that I should like all the various countries, where Ahmadiyyat is
Khutbat-e-Tahir Vol 1 415 October 1st, 1982 established with the grace of Allah and we have regular jama'ats, to call the attention of all the Ahmadis, I mean the local administration there should call the attention of all the Ahmadis to this fact, and they should be required to send in writing to the missionary in charge, which particular author on Islam they are going to study.So a group of study should be created, for example, five or ten Ahmadi scholars should be appointed to study, for example, Montgomery Watt.All his books should be studied and analysed completely and an inventory should be made where he has gone wrong, according to our belief, where he has intentionally or inadvertently attacked Islam.And all those books, which he has refered to, should also be studied by that group originally.And it should be verified whether he has quoted those original sources correctly or wrongly.And then whatever they have achieved should be refered to the centre.There we shall go into further investigations and decide how best these allegations should be met with.With the result that l¨àçlül in the near future new literature in defence of Islam will come into being and that is what is meant in this verse 'by the creation of a new heaven'.That heaven is not now going to be created; that heaven has already been created first by Hadrat Muhammad Mustafa and then by Hadrat Masih-e-Ma'ud on the same pattern.Only it is weakening down.This is why we have to reinforce the system.That is all.Nothing new is being suggested; nothing new is
Khutbat-e-Tahir Vol 1 416 October 1st, 1982 being added.So what will happen ultimately is that after they have fed us with this information, the missionaries-in-charge will see if there are any authorities left untouched, or too many people are drawing attention towards one or two authorities alone.So (they) will try to create balance between them, with the result that in the centre we would know that all over the world whoever writes against Islam is being observed and pursued by Ahmadis, with the grace of Allah and nothing is left unanswered then.This is the responsibility of the centre to see.So we'll not leave Islam as undefended; it's impossible.As long as we live, this cannot happen.But, as I have observed, most painfully I came across certain books, in which such enormities have been said against Hadrat Muhammad and the Holy Qur'an, that it hurts one deeply; in fact, one is cut to the core but again unfortunately all that has been done in such a language as if a friend is speaking and not an enemy and such, so called friends are being lauded by the world of Islam and I also noted a strange tendency among them to ignore Ahmadiyyat completely; not even to mention Ahmadiyyat, wherever they have attacked Islam.And they are scholars and, of course, they have read Ahmadiyyah literature, some of them I know positively.And they also knew at that time that in that respect, in that particular quarter, Jama'at Ahmadiyyah had defended the cause of Islam
Khutbat-e-Tahir Vol 1 417 October 1st, 1982 admirably.But they wouldn't even mention the name of Jama'at and Jama'at's view on this, with the result that they achieve two goals at the same time; one that they go on attacking Islam, without referring to such books, in which defence of Islam can be found by any scholar who wants to pursue the subject further, and secondly they please the non- Ahmadiyyah Muslim world by doing so and become greater champions of Islam, apparently in their eyes.They take the stance that: look here, Jama'at Ahmadiyyah is just nothing; it's insignificant.They don't mean any thing.What ever they have said by way of defence of Islam is just nothing.It is all a joke and we don't even want to mention their name the scholarly people of the world; because they are too small and insignificant people to be mentioned in such great books as written by great orientalists.So by doing this they please all the Muslim world.They say, look here, these are the true people, they know where Islam lies and where it does not.And this is how the cheating goes on and on, manifold.the But we are not going to leave them alone c.As the Holy Qur'an has told us, when new heaven is created a new change takes and that change is mentioned in this verse وأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسَا شَدِيدَ اوَتُهُبَّان place Strange thing has happened; a new heaven is created.Previously we used to attack it at our pleasure; at pleasure whenever we pleased to do so,
Khutbat-e-Tahir Vol 1 418 October 1st, 1982 we did.But now when we attempt to attack this heaven, we are being pursued.It is strongly guarded by such staunch guards as would not leave us alone.Whenever we attempt to attack heaven we are verily punished, thoroughly punished, with the result that a fire pursues us and would not let us do as we will.This is the meaning of this verse and as long as we achieve this high objective, this goal, for which Ahmadiyyat is now created, with the grace of Allah again to defend the values of Islam, we will not sit satisfied and content.So, I hope very soon this machinery will start working and it will start from England.Before I leave I want the names of such scholars who devote their selves to this task.Whatever their profession be, it doesn't make any difference.They should be able to read English well, they should know something of Islam; not that they are totally ignorant of the Holy Qur'an or Masih-e-Ma'ud and undertake to defend Islam.This cannot happen.I mean those who at least know Islam; who have read Masih-e-Ma'ud books to a certain degree and they are capable of understanding the values of Islam in the first place.Hadrat Masih-e-Ma'ud has made it manifestly clear to every body that unless you read my books, unless you read new literature produced on Islam, if you read other books you'll be wrongly influenced by them.The only defence of you is to first apprise yourselves of the teachings of the Holy Qur'an and the traditions of
Khutbat-e-Tahir Vol 1 419 October 1st, 1982 the Holy Qur'an, as I see it.Through my eyes you will see such beauties that no person who attempts to distort the face of Islam will succeed in doing so as far as you are concerned, because you will have observed Islam through my eyes.All the beauties of Islam would have been made clear to you as I see them.After that there is no question left of any misunderstanding.So this is a very important fundamental thing for Ahmadis.They must first of all prepare themselves.They must first of all apprise themselves of the correct approach to Islam.Once they do it and then afterwards they study the literature of enemies of Islam, then no harm would come to them.It is impossible for them then to feel defeated or to be in any danger of being misled by the enemies.But lesser people who have not done so, I have seen among Ahmadis, who start reading the literature of the enemies without first reading the literature of Ahmadiyyat, I have found them ultimately misled, in fact.There were many students, not many but there were some students at the college, when I used to study in Government College, Lahore, who were totally wrongly influenced by such studies; by studying the history of Islam through the eyes of the so-called orientalists and so on and so forth.They were ultimately themselves poisoned.So I had to work hard upon them to discuss things with them and to let them see light and ultimately, with the grace of Allah, they
Khutbat-e-Tahir Vol 1 420 October 1st, 1982 were saved.But this can happen and this has happened before.In this country you should also guard against this.So a system should be evolved, should be recorded by the Imam and we should go about it in an ordinary manner.We must make a scientific approach and when this sermon reaches other Ahmadis all over the globe, they should follow suit, as well.I am so excited about it, in fact.I want it to be done now and here but it is not possible; it will take some time but within one year we should see this system of new heaven operative in the world and all the world should realize that something has changed.And they should admit defeat in the words: وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدً اوَّتُهُبَّان وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا (10-9: Al-Jinn) May Allah grant us opportunities and strength and the will to fulfil this noble objective as best as He (آمین).pleases After prayer Hadur said: In fact, it is the tradition of Hadrat Muhammad Mustafa that an evening before the Hajj (Eid day), during the day of Hajj an evening before the Eid day i.e.the day of slaughtering, he after 'Asr prayer, always recited loudly: الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر والله الحمد And he continued to do so after every prayer for the following next two and a half day.So this is the
Khutbat-e-Tahir Vol 1 421 October 1st, 1982 third day in which we do it till 'Asr prayer.So every generation should be informed of such things.All the traditions of the Holy Prophet of Islam (peace be upon him) must be capitalized and generation after generation should be told and retold.But I found it here, unfortunately in England, that our younger generation is not apprised of these things.And so when I started reciting it, nobody followed me.Even young boys, belonging to older generation would not know what I was saying.So these things should be taught, like in schools.الله الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد And again it reminds me of something suggested to me this morning by someone that I should speak on the subject of the rules and obligations towards mosques, of those who come there for worship.It was pointed out to me by a very highly respected friend of mine that gradually people have started showing the signs of disrespect, inadvertently though it be, but surely the signs of disrespect are obvious.In the mosques they begin talking loudly of the worldly affairs.Even while some people are saying prayers they are not mindful of the fact that the house of Allah is for the worship of Allah and for nothing else وَاَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا (19) Al-Jinn)
Khutbat-e-Tahir Vol 1 422 October 1st, 1982 This is verse of the Holy Qur'an that places of worship are made for worship alone.You should not discuss your own private affairs in the mosques.Only religious talks should be held and that too when prayer has been finished; not while the people are saying prayer, is it permitted for you to start talking even on other religious topics.So these are the dues and obligations which we must fulfill towards mosques.You come here just for the memory of Allah.Remember Him in you hearts or a bit loudly.That is permissible, but not for you to talk of various things and indulge in gossips and this and that, as if this is a social place for you to do it.It is not so.It is house of Allah and you should remember it and teach your younger generation as well.Allah (آمین).bless you
Khutbat-e-Tahir Vol 1 423 October 8, 1982 Obedience & Obligations to Amir & Respect of Missionaries (Friday Sermon Delivered on 8.10.1982 at Fazl Mosque London) After tashahhud, ta'awudh and recitation of Surah Al-Fatihah Hadur said: This is going to be my last Jum'ah we are going to say together, this day, during this visit.On this occasion, first of all, let me express my deep sense of gratitude towards my Lord or Allah, Who has shown mercy upon us and particularly mercy upon this humble servant of His by making this trip meaningful and purposeful.I saw help coming from Him from every direction in every way.He is the Master and the Lord of the universe, so all our efforts can only bear fruit if He shows mercy.He has been very kind to us and we hope that He will continue to be kind and merciful, forbearing and forgiving.After this I express my gratitude to the England Jama'at for their kindness and hospitality, and a very generous hospitality for that which they
Khutbat-e-Tahir Vol 1 424 October 8, 1982 showed to me and to my companions, and also to all the rest of the visitors, who came from all over the world.Every body, I know, has gone back very happy, so shall we, and we will be carrying sweet memories of this visit which will keep turning into prayers and I hope Allah will listen to those humble prayers of ours.Now I have to say a few odd things.I have jotted down a few diverse points to speak upon today.First of all I want to say a few words about devotees of life who are serving here in various capacities.Those people who have offered their lives for the sake of Allah, they deserve special respect from the community and special help.They cannot become successful in the pursuance of their goal unless the entire community, entire Jamaʻat puts in their effort towards the achievement of that goal and help them.Not only this, they should be shown special respect and kindness.I have noted with regret and with pain that in some places some people have not been kind to their missionaries.They have been very critical of their work and so loudly critical and censuring that their sharp tongues cut deep into their hearts and they felt the pain of it although they didn't mention it in any way.Different people are made differently, they have different educational backgrounds, if somebody is not capable of addressing you in first class English, it's not his fault.May be it is the fault of the system which brought him up, may be it's the
Khutbat-e-Tahir Vol 1 425 October 8, 1982 fault of the schooling he has had.But there are so many factors involved that it is not for me to analyse them all here.But one thing I know, that some one with what ever he has, if he has offered his life for the sake of Allah, he should be treated respectfully and kindly, and cooperation should be extended to him in all departments.Some times I know, not here, but it may happen every where in the world, that some people show kindness to a missionary and then they think that by doing so, they have turned him into a personal slave.Now this is the common tragedy we find in the rest of the Islamic world vis-à-vis their mulla which we find serving in the mosques, in the villages particularly in the Punjab.There the mulla is supposed to be a personal servant of all the big land lords of that community, because he is being fed by them.In what manner of feeding, there is no point to discuss it, but, because he is ultimately kept alive at their alms, there he is mistreated; he is insulted in every day life.The only hold he has over such a society is by way of creating hatred.Whenever he speaks of hatred for others, people follow him, when ever he speaks of goodness and sacrifices for the sake of goodness, people desert him.That is the only relationship left now.We must not make it happen to our community.We have to go a very very long way towards the final achievement of our goal.And the kind of missionaries which has been created with the grace of Allah through Hadrat
Khutbat-e-Tahir Vol 1 426 October 8, 1982 Masih-e-Ma'ud's directions is a very different type from the one you see.Many among them are those who devoted their lives after studying to the best of their capability and they were left with two choices, either they could pursue the worldly goal or offer their services for the sake of Allah.The same people, I know, some of them, if they had pursued the world instead of joining Allah's forces, could have earned much more than those who seem they are financially superior to them, so they can mistreat them.They could earn much more money and they could have highly respectable places, they could live even better than many of the non-devotees can live.Yet they don't mind it, because they know their reward is with Allah.So, as far as they are concerned, I am not bothered about them; I am bothered about those who mistreat them because they will fall under the wrath of Allah because Allah.does not like His people to be mistreated, those who have offered sacrifices for His sake.So be mindful of that.If we have shown some kindness to those missionaries, still it is for them to accept it or reject it, if they accept it.If they are showing a good turn to you by accepting your kindness.They do not become your slaves, if you have shown mercy towards them.Secondly, do not judge Ahmadis harshly if they live decently.Now this is a very strange thing but this is also true that some people, some how, become so strict and narrow minded in their
Khutbat-e-Tahir Vol 1 427 October 8, 1982 approach to life, that if an Ahmadi is living a normal decent life they become censorious, they become extremely stingy in their remarks about such a person.They feel that he is living a luxurious life and they don't know the essence of what luxurious life is according to Islam, what is wrong in Islam and what is right in Islam.To enjoy the best things in life provided that you remain within the four walls of prohibitions by Allah is not at all forbidden and provided that when asked for financial sacrifices you remain in the forefront of those who sacrifice their earning for the sake of Allah, so after that what is left to you, is completely your own choice, how to spend it.If you live decently and nicely, it is not at all forbidden for you to live a decent life.What is forbidden has been made manifestly clear in the Holy Qur'an.So after that, nobody has a right to declare something forbidden which is not forbidden by the Holy Qur'an.This is what has been mentioned in this verse: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِى أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِمَةِ (33 : Al-Araf) Say who has forbidden the good things in life to Allah's servants which He has created for their sake, for this life as well as for the life to come.He says for this life they are for the believers and for the life to come exclusively for the believers.So Allah has
Khutbat-e-Tahir Vol 1 428 October 8, 1982 created out of His love good things of life to be used not to be abandoned by His people, by His true servants.So if they make use of these things there is nothing wrong at all with it.And after this verse of the Holy Qur'an nobody on earth has a right to censure them for good living, provided as I have mentioned before that they live within the four walls of Islamic dictates.Also provided that this living does not bar them from taking part in the sacrifices in the way of Allah.When we plead austerity, it is not because living a life of comfort is prohibited in Islam It is only because if you can save more, you will be more able to serve the cause of Islam.That belongs to the region of Naf () as it is said in Islam, Nafl (J) is a term which means after doing the obligatory things if you do some thing of volition that is Nafl (J) so, that pertains to the department of Nafl (J).But even if somebody remains restricted to the department, to the field of obligation, no man on earth has right to censure him.Hadrat Rasul-e- Karim was once asked by a visitor, "Tell me about Islam".He, in reply, told him the fundamentals of Islam and also started telling him of acts of volition later on; of good acts which pertains to the region of Nawafil (J).So he said, "Look here, I will do just that what is obligatory and nothing more, so will I be forgiven?" He said, "Yes,
Khutbat-e-Tahir Vol 1 429 October 8, 1982 that will suffice you".That is the minimum which is required.Now if somebody falls below the minimum, then of course, he comes under the censure again of Allah, not of human being.It is only for them to admonish him with kindness, but still he can be admonished.But those who remain within that sphere and don't transgress in any way the dictates of Islam, no body has a right to speak harshly to them.So if some of the Murabbis some of the missionaries are living a decent life.Nobody knows what else are the resources they have access to.May be Allah has provided them that money from some resources which they do not want to reveal.So as long as you do not come upon, some positive charge of mistrust of misuse of money nobody has a right to say that look here, such a such person is living decently and he has no right to.Why not? Allah tells He has created these things for the sake of true believers.Here they are shared by the rest but in the hereafter, they would be exclusively for the believers.Now another point is that you should be mindful of your duties to the Amirs and other office bearers of the community.The Amir and the other office bearers exercise such powers on behalf of Khilafat, on behalf of the institution of Khilafat which is finally responsible for the entire organization of the community.So in this capacity
Khutbat-e-Tahir Vol 1 430 October 8, 1982 as workers of the organization, they draw their respective rights and prerogatives from the institution of Khilafat.They are different in different tiers.Some times by not understanding or by not knowing the rights of particular office bearer and limitations of their rights, so many problems crop up.People do not know their rights and do not know the rights of those who have been appointed in certain official capacity.So this is a very important thing that the Jama'at of England must make it known to every Ahmadi.What are the limitations of these office bearers and what are their rights and obligations and what are the limitations of those on whom they are appointed as Amir, or as president or in what ever capacity they are appointed.If you know clearly your rights and your limitations, then there is very little chance of some body creating misunderstanding and sowing their seed of discord.Mostly it is in ignorance that these things spread.Darkness and ignorance are one and the same thing.Knowledge is light.So first of all, light should be spread in this area.Every body should begin to see his path, then there is very little chance of coming into clash with each other or running into anybody because with seeing eyes only very reckless people do that.That happens, of course, even then but very rarely.People with normal balance of mind do not run into each other while they have seen things.So the whole Jama'at should be apprised of
Khutbat-e-Tahir Vol 1 431 October 8, 1982 their rights according to the best traditions of Ahmadiyyat and the rights of their superiors in administration.Superiors in administration, I repeat, because those who have not been involved in administration, they could be much more superior to those who are involved in administration in the eyes of Allah.Because it is a matter of heart and a matter of fear of Allah and a matter of taqwa (5) where real superiority lies, so only in this context I am saying who are superior to those or placed higher to those in the ladder of administration.Now some rights I must speak upon now and here.Number one: if an Amir has made a mistake and ordered you wrongly.If that order is not in clear violation of the Holy Qur'an you should obey him, however wrong he may be appear to you.As I have made it very clear if it is not in clear violation of the Holy Qur'an, you must obey him.If there is a difference of opinion regarding a particular verse of the Holy Qur'an and only interpretation differ, even then you should obey him.Because it is not for you to choose the interpretation and using that excuse to disobey your Amir.Hadrat Rasul-e-Karim laid so much stress upon the obedience of Amir that people got surprised.They said Hadur-e-Akram! if somebody is like that even then we should follow him? He said yes, even then.If some body is like that, even then we should follow him? He said yes even then.At last Anhadur retorted by saying that even if a
Khutbat-e-Tahir Vol 1 432 October 8, 1982 black slave is appointed Amir over you, whose head is like the head of a Munaqqah (dis); a piece of raisin, even then you must obey him.Now these were the two things which irritated the Arab mind, which could irritate the Arab mind, one to obey an ‘Ajami (c) and coming from an area which was known to be the area of black people.Arabs of those days considered it to be a personal insult to follow such a people.And on top of that they being slaves.Slaves and blacks all together you know both things together made it abhorring to the Arab to accept them as their leaders.Secondly to have a big head that was a sign of qiyadat (), of leadership and wisdom.So the Arabs took pride in having big heads because that was a sign of great wisdom, and it was understood that the smaller the head be, the stupider and fooler the man would be.More fool, if he has small head.So Hadrat Rasul-e-Akram brought these two points of abhorrence together.And said if there is a slave belonging to an area where the colour is black and also if his head is so small that there seems to be no brain in him at all, if he is appointed an Amir, you follow him.Then came another aspect of the same situation, that was if somebody is leading you in prayer.Some people are detective minded, they sift things and make things that they perhaps have got information of one's personal life much more than the rest of the community does.With the result that
Khutbat-e-Tahir Vol 1 433 October 8, 1982 they sit like judges over the characters of certain other Ahmadis.They say, we know them; they are bad, whether they have evidence enough or not, whether they pursue the allegations in the proper manner of producing evidence according to the Islamic dictates or not, they are not concerned.The only position they take is that we know such a such person is bad character, so he should not hold any office, particularly they take exceptions to his (صلوة)becoming Imam in the Slat So such a question was also raised at the time of Hadrat Muhammad Mustafa and decided for all times to come.The question was that if somebody is badkar (S), somebody is vicious person, a wild person and he is bad thoroughly bad in character, if he is appointed as Imam-u-Slat (), you know how abhorring it may appear to some that such a person to be with in ( - ) with the righteousness should be made leader of those righteous people and standing in prayer, in congregation prayer before Allah.So they said if such a person is made Imam-u-Slat what should the followers do? Hadur-e-Akram told them that they should follow him; it is Allah who accepts the prayer.He will be answerable for his deeds and you will be answerable for your deeds.If you follow such a man because you follow the organization and discipline, Allah will accept your prayer because it's not the Imam who is going to accept their prayer, it is Allah.What a beautiful teaching! How beautiful
Khutbat-e-Tahir Vol 1 434 October 8, 1982 and peaceful it is, this is why the name is Islam; it means peace.It spreads peace; it breeds peace; it dictates peace.No disorder is acceptable in Islam.So in this spirit of Hadur-e-Akram teachings you should follow the Amir and all other office bearers, regardless of whether you consider them to be inferior in taqwa or in righteousness, that is not for you to brag in this world, it is for Allah to decide.after the death.Now I come to the responsibilities of Amirs, they have their obligations.The office bearers have their obligations too.They must be kindly towards the people on whom they have been appointed, not to rule, I can't use that word but to running the administration, they follow him (the Amir) only for the sake of Allah and not in his personal capacity and to make it more particular, of course ultimate end is to please Allah and nothing else.But to make particular they follow the Amir because he has been appointed by Khalifatul Masih, for no other reason.They follow the entire system of organization because that system has been approved by Khalifatul Masih.They have not accepted Bai‘at or they have not taken oath of allegiance to every Ahmadi, they have only taken oath of allegiance at the hands of Khalifatul Masih.So every thing gets concentrated in his hands and then commit it emanates in all directions and as long as it is coming from him Ahamdis follow it because it is an article of their faith that he is appointed by Allah.So, as I
Khutbat-e-Tahir Vol 1 435 October 8, 1982 have said, ultimately their obedience is to Allah and not to a single person or human being.So this is the entire system, in a nutshell.So, because they have got delegated powers from Khalifatul Masih, they must not misuse their delegated powers.I should abhor to appoint an Amir who is unkind to Ahmadis, because Khilafat has a direct relationship with all Ahmadis.They are made to obey not because they are made to feel inferior, but only to keep order, no other reason at all, but order does not mean harshness and unkindness.I should not feel safe my self in the hands of any Amir who does not behave as like I should love to behave to other Ahmadis.So this must not happen.No missionary incharge, no president should misuse these powers because when they hurt those Ahmadis and they obey them despite being hurt only for the sake of Allah, they'll be hurting me and they'll be going away from the cause, path of Allah.So it is a very serious affair.You must keep this trust intact and try to behave like Hadrat Muhammad Mustafa behaved towards his followers.No more authority more supreme than Hadur-e-Akram can be conceived in this earth.In this world it is impossible to conceive other person with greater authority because he was representing Allah in all consummation no one had ever represented Allah before like Hadur-e-Akram did.So if some people object to Islamic way of organization as dictatorial, no one on earth could
Khutbat-e-Tahir Vol 1 436 October 8, 1982 claim such dictatorial power, in the worldly terms, as Hadur-e-Akram assumed after the prophet hood.But there is no dictatorship in Islam.Greater the power or concentration of power, more fearful is the office because everybody is ultimately answerable to Allah.With the result that fear intensifies the greater your power increases.So Hadur-e-Akram used that power in the humblest manner.In such beautiful and attractive manner that all through his life you can't pinpoint a single occasion where any body on earth could call that occasion to be an exhibition of dictatorship.He ruled through wisdom, he ruled through prudence, he ruled through love.And if you rule with these three factors, then it is impossible for dictatorship to come into the picture.It is nothing to do with prudence, dictatorship has not, nor with wisdom nor with love.It does not belong here.So this is the sort of administrative power which is devolved on all Ahmadis serving in any capacity.So they must be very weary that they should keep the honour of this trust alive and intact and must not misuse it in anyway.If these two aspects are attended then most of the problems automatically dissolve into thin air as if they had never been.This is the ideal society which Jama'at Ahmadiyyah is endeavouring to create.And towards this thing you must put in your entire endeavours.Now when something happens despite every thing, despite the best atmosphere, things do happen.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 437 October 8, 1982 Things of friction, born out of misbehaviour or misconduct by any body or wrong bent of mind for example.What should one do? That is the third point which I want to make clear.If you disagree with any officer in the community, then it is your first right, not only right it is your duty to report this matter to the centre, and report it through that particular officer concerned.Now if you fear that he will not forward that report to the centre in due time, what you can do is send a copy direct to the centre.Now here I must tell you that as far as relationship between every Ahmadi and Khalifatul Masih is concerned, anybody can write any number of letters to Khaliftul Masih directly, there is no procedure involved at all in any way.But when you speak of somebody else, in censuring terms, then according to the teachings of Islam it is obligatory upon you to let him know otherwise it would be a ghibat (nc).It would be just painting him in black one-sidedly without him knowing it.So this is why this procedure is involved, otherwise, nobody stands between Khalifatul Masih and Ahmadiyyat.They are one and the same thing.It is impossible for any body to interfere and stand in the way.So it also reminds me that if the officials of Jama'at are misbehaving in any way to others, they actually stand in the way of Khalifatul Masih and the Jama'at.Because some times some people, when they are angry with their local officers they cannot
Khutbat-e-Tahir Vol 1 438 October 8, 1982 find distinction between him and the authority which they were usurping or misusing and many of them have not opportunity to reach directly to the Khilafat and plead their case as they should.With the result that they think this is a representation of Jama'at and ultimately they fall out with the Khalifa as well.So as I told you, they are standing in the way of Khalifatul Masih and the people; Ahmadiyyah people, which they have no right to do.So the answer to this problem, if it occurs, is this that you write direct to Khalifatul Masih or to the office concerned, for example if it is the financial matter you could write to the Wakil ul Mal, if it is a matter concerning Tabshir you could write to Wakil ul Tabshir.But if someone is not satisfied at that he could directly write to me in this capacity of Khalifatul Masih, and send a copy to the Amir if they are very hasty.This is a minimum they are expected to do.But otherwise the normal process to direct their application and complaints through the channel of Amir, or the officer concerned who ever he be, and send a copy direct, that would be better.So no problem is left at all.But one thing I must remind you, the court of appeal is in the higher direction even in the worldly affairs, not in the lower direction.Those Ahmadis who make the mistake of appealing to the masses for the wrongs done to them have always being annihilated by Allah.They have been destroyed, nothing is left of them.Because instead of going to
Khutbat-e-Tahir Vol 1 439 October 8, 1982 Allah they went to the masses while no religion springs from the masses.It comes down from Allah.So instead of sending your appeal to the right direction, if you go to the wrong direction and by doing so also damage the system and the fabric of the community by making one-sided propaganda of which the other party has no opportunity to defend, the other party even some time does not know what is happening and what is being talked about against him.So one-sided propaganda, No: 1, is forbidden in Islam, positively in the Holy Qur'an.Whether it be against an Amir or an office bearer or an ordinary Ahmadi.It is very strictly forbidden.But if it is directed against the representatives of the organization, then it is doubly evil, because it hurts the devotion of Ahmadis, it injures that devotion.And they become less active Ahmadis under the influence of such propaganda.So what are they trying to achieve? What do they want to hurt? Hurt the cause of Ahmadiyyat? Take their revenge, even if they are rightful, to take revenge their personal revenge from Ahmadiyyat and the spirit of Ahmadiyyat! This will not do, it has never been successful in the history of Ahmdiyyat.Such people have always been chucked out by Allah without regard to whether in the initial place they were right or wrong.The method they adopted was positively wrong and injurious and they are punished for this method.
Khutbat-e-Tahir Vol 1 440 October 8, 1982 But if you appeal to the higher authority, and the highest authority is Allah, why not have trust in Him.If He is alive, Allah, if He is a real being, then He is the last and final authority and the supreme authority.If He is not a real being, if He is just imaginary and a mythical person, then just leave this organization.Why to get stuck to such a stupid organization which is believing in nothing and laying all stores by nothing.So this is a simple answer to this question.Instead of censuring such community and injuring those who believe, you should simply say assalam o 'alaikum (Skull) and leave them alone.But if the fundamental concept of every religion is Allah and His existence and His live interest in affairs of men, then you must make the final appeal to Allah if even Khalifah does not listen to your way of thinking or your complaints and does not agree and you still insist that he is taking side with the administration unduly, Allah's court is the final appeal.And what is a Khalifah? Nothing compared to Allah, not even a speck on earth.He can be annihilated by one word of Allah if He so chooses.So when you have access to the highest and the most powerful court, to abandon that and to go down to the masses and start talking among them, if it is not idyllic pure and simple what else it is? This is idolatry, this is a proof that you do not believe in the existence of Allah, (and) you are only following some songs and nothing else.So be mindful of this
Khutbat-e-Tahir Vol 1 441 October 8, 1982 behaviour.If you behave correctly in this sense Allah will show mercy upon you.You create the most ideal society which would be flourishing and which would be expanding, which would be gaining power in every direction and nobody would be able to suppress such a society.Now it was pointed out to me by some friends that in the first sermon I was rather too harsh and one sidedly harsh upon the members of my family, the family I belong to.And I single them out by saying that if they borrow money from some body or try to borrow money, everybody should take precautions and I pointed out to them that it is a grave responsibility to behave cleanly and above board in financial matters otherwise it is Hadrat Masih-e-Ma'ud's name and honour which is some times defiled by those who are hurt.I such did it, not because I was not aware of other people doing it.But because I know the approach of Islam.Islam does not just say that charity begins at home, it also tells you that admonition begins at home.This is why Hadrat Muhammad Mustafa was told in the beginning of his office you give warnings اَنْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (215: Al-Shuara) to your kith and kin who are closest to you.So he started the process of warning from his own family people and then it was that he went to the top of the hill and addressed the whole and rest of the Mecca.So I was not unaware of these things, only I was
Khutbat-e-Tahir Vol 1 442 October 8, 1982 following the dictates of the Holy Qur'an and following the policy as laid down by the Holy Qur'an.As far as these financial discrepancies and misbehaviour is concerned, I lay great importance to such things, because a society without ‘adl (J₁c) cannot flourish, cannot go on to the next higher stages.It is impossible.It will remain in a state of decay and would never be able to prosper.So those small things which tilt the balance of Islamic culture in Islamic society in the favour of worldly affairs, that society is unhealthiest society.It is like a society for example; if we give the quote illustrate the matter by quoting the example of single person.I should say a society is like somebody who is suffering from high blood pressure or low blood pressure, or too much urination, too highly sensitive and active kidneys and so on and so forth.So any unhealthy person is incapable of achieving any thing in life.If the health is bad in small respect, to that respect he is hindered from taking pursuit, healthy pursuits of life.But if the injury is more he is incapacitated in more words in one than some times these people become bedridden.So health is highly important before you can think of breaking the world record, and you are made for breaking the world record.This is your position this is your station in life.So no unhealthy symptoms should be tolerated, however small.Even the world athlete in 100 metres, if he is suffering
Khutbat-e-Tahir Vol 1 443 October 8, 1982 from headache can perhaps be beaten by number 10.So create that health, bestow that health in the Ahmadiyyah society and then you will see I that you will be able to pursue your noble goals much faster and more actively and vigorously.For that I have in mind, to form a commission here and already I am thinking of certain names.ALI'll declare that before I leave.A commission to go into the financial discrepancies pertaining to the people living in England or to people who have left England and either they are targets of these discrepancies or dishonesty or they made people living in England targets of their dishonesty, what ever the case be.This commission will collect all these complaints and report to me about the procedure if they should adopt.Similarly there are reports of marriage dissolutions or misbehaviour by husband to wife or wife to husband ultimately resulting in marriage dissolution.While we are preaching to this world that Islamic way of family life is the best and has the best example to be followed, and we at the same time contradict our word by our actions, this is doing injustice to Islam, so that should not do either.For that I request the Board of Qada (L) to expedite all such cases which are still pending.Now once the Qada has decided, execution must not linger behind.Because if you linger in execution or your decision, then you destroy the whole system of justice.It is not for those who are appointed to execute decisions
Khutbat-e-Tahir Vol 1 444 October 8, 1982 to show mercy or kindness to some parties.It is not their right to judge over the judgment of the Qadi.If it is wrong and you hundred percent believe it to be wrong even then it is your prime responsibility to execute that, because the responsibility would fall on their shoulder of the wrong judgement, not on your shoulder.They will be answerable to Allah, not you.So the execution must be highly efficient and I should not tolerate any delay, conscious or otherwise in executions.But give them the due rights of appeal according to the traditions of the community or the decisions of the community.If somebody has a right to appeal to a higher board, why not let him, but what I mean to say that if an appeal is not lodged to the higher board or if the higher board has ultimately decided against such a party or if the higher board lies here in England and there is no such appeal against them, what ever the system be, I am not aware of that, but once it is decided, execution must not be delayed because that would be delaying justice to the party.And in the end, as I take leave, I remind you to pray for me and for my journey back home.May Allah make it successful and guard over us, myself and all my companions.Leave taking is sad indeed; there is no doubt about it.But responsibilities stand superior to these emotional affairs.Also going back has its own demands.There are such loving Ahmadis there; such devoted Ahmadis that is impossible to make preferences of one section
Khutbat-e-Tahir Vol 1 445 October 8, 1982 Ahmadis over another section.So it is a strange world in which we find today, not even today I mean strange world in which ever a man has found himself that leave taking is also sad, but going leave taking also becomes a must.And it has also an element of pleasure too, because that sorrow if turns into prayers also gives you a sort of satisfaction and a sense of achievement.So it is a very complex affair.It is impossible for me to describe how I feel.Not perhaps it is possible for you to describe how you feel but this is life.This is the scheme of things by Allah.We must accept it.So as I will leave with a sad and heavy heart, turning that emotion of sorrow into prayers for you, I request you to do the same for me because all together, you and me, that is one Ahmadiyyat and there is no distinction there, in any way.And who pray for Ahmadiyyat will be praying for Islam, for the cause of Allah, in fact.We must create a society of greater love, greater understanding, greater sacrifice, not only for the sake of Allah but for also each other.By doing so will be adding strength to Ahmadiyyat.May Allah, may Allah help us achieve the noble goals He has set for us.Assalam o ‘Alaikum Warahmatullah.السلام عليكم ورحمة الله
اشاریہ
33 فہرست اشاریہ 1 33 4 35 12 36..b 14 36 14 36 39 39 40 ع غ ف ق 17 18 18 چ 22 43 22 ¿ 45 24.45..........29 46..29..ز 55 29 57 , 31 ز 60 0 32 60
آخرت 1 اشاریہ آمریت اسلام میں آمریت کی کوئی جگہ نہیں.آئرلینڈ 193..310...272,271,269,239,224,189,188,81,23....آیات قرآنیہ.نیز دیکھئے تفسیر القرآن آخرت سے مراد اس دنیا کا انجام بھی ہے............271 آخرین اس دنیا میں بسنے والوں کے لئے بھی آخرین کا لفظ استعمال ہوا ہے.آخن جرمنی کا ایک مقام...271.131...الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولاهم يحزنون (يونس: ٦٣)..126.الا يذكر الله تطمئن القلوب (الرعد: ۲۹ ).......294 الرحمن - علم القران ـ خلق الانسان ـ علمه البيان (الرحمن) : (۵۲).اتبع ما اوحى اليك من ربك...........و ما انت 236...آرکیٹیکٹ اینڈ انجینئر زایسوسی ایشن...249 عليهم بوكيل (الانعام) : (۱۰۷(۱۰۸) ایسوسی ایشن کو خوبصورت گھروں کے نقشے بنانے کی دعوت.249..آزادی اللہ کی غلامی کے بعد انسان ہر دوسری غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے.آسام 300...منی پور آسام سے دو مہمانوں کی قادیان آمد آسٹریا..آسٹریلیا..354 310........310.......اجيب دعوة الداع اذا دعان فليستجيبوالي وليو منوابی لعلهم يرشدون البقره (۱۸۷) اعلموا انما الحيوة الدنيا..........والله 99.53..ذو الفضل العظيم (الحديد : ۲۱ - ۲۲).............215 افحسب الذين كفروا.................انا اعتدنا.للكفرين نزلا (الكهف : ۱۰۳).اقم الصلوة لدلوك الشمس الى غسق اليل (بنی اسرائیل : ۷۹) الحمد لله رب العليمن (الفاتحه : ۲).جهنم 161 204.235.الذين يتبعون الرسول النبى الامى...اولئك هم المفلحون (الاعراف) : (۱۵۸) الذين يذكرون الله قياما وقعوداو على جنوبهم 263.(آل عمران : ۱۹۲)..297.
2 الذين ينفقون في السراء والكظمين الغيظ والعافين عن الناس (آل عمران : ۱۳۵)..127.تقشعر منه جلود الذين يخشون الم - ذلك الكتاب لاريب فيه...........ومما رزقنهم (آل عمران : (۱۴۱)..ينفقون (البقره: ۴۲)...اليس الله بكاف عبده (الزمر (۳)..ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر (العنكبوت (۴۶).37.125..280......ان الله اشترى من المومنين انفسهم واموالهم بان لهم الجنة (التوبه: ۱ 314,313.ان الله فالق الحب والنوى..........ذلكم الله فاني توفكون (الانعام : ٩٦ )..202,93.ان الله لا يغير...واذا اراد الله بقوم سوء فلا مردله (الرعد: ۱۲)...205.....316.205..275..ربهم (الزمر: ۲۴)..تلك الايام نداولها بين الناس حكما من اهله وحكما من اهلها (النساء : ٣٦).خذوازيتكم عند كل مسجد (الاعراف : ٣٢).ذلك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل 287......العظيم (الجمعه: ۵ )..ذلكلم الله ربكم.......وما انا عليكم بحفيظ (الانعام : ۱۰۳ - (۱۰۵) رب اني لما انزلت الى من خير فقير (القصص: ۲۵ )..300,299.طاقة لنابه (البقره: ۲۸۷)..306...........ان اكرمكم عند الله اتقاكم(الحجرات: ۱۴)....225 ربنا ولا تحملنا مالا ان تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم 226..94,91.ذلك بانهم كفروا بالله ورسوله (التوبه:........54 سابقوا الى مغفرة من ربكم وجنة عرضها كعرض انا جعلنا ما على الارض.........وهي ء لنا من امرنا رشدا (الكهف: ۱۰۸ - ۱۱۱).انذر عشيرتك الاقربين (الشعراء: (۲۱۵) انه كان ظلوما جهولا (الاحزاب (۷۳).اهدنا الصراط المستقيم............ولا الضالين (الفاتحه : ۷۶)...103.197...70.237,232.السماء والارض (الحديد: ۲۲).سحر مستمر (القمر: ۳).سخر لكم مافي السموت وما في الارض (الجاثيه (۱۴)..فالق الاصباح وجعل اليل سكنا والشمس والقمر حسبانا (الانعام: (۹۷) بالمومنين رؤف رحيم (التوبه : ۱۲۸)............281 فان مع العسر يسرا ان مع العسر يسرا بسم ! الله الرحمن الرحيم (الفاتحه : ۱ )..........236 (الانشراح : ۶.۷) بل الانسان على نفسه بصيرة ولا القى معاذيره (القيامة (۱۵-۱۶.بل هو شاعر (الانبياء: (٦)...15..73..تتجافى جنوبهم (السجده: ۱۷)......ومما رزقنهم ينفقون تزدرى اعينكم (هود: ۳۲)...67.139...226.73.82..204...65..فتراه مصفراثم يكون حطاما (الحديد: ٢١)...229 323.........فذكر ان نفعت الذكرى (الاعلى: ۱۰).فلا اقسم بمواقع النجوم - وانه لقسم لو تعلمون عظيم (الواقعه : ۶..فلا تزكو انفسكم هوا اعلم بمن اتقى (النجم : ٣٣ )......12..82.
فلا تقل لهما اف بنی اسرائیل (۲۴ فويل للمصلين.................ويمنعون 14...3 وان المساجد لله فلا تد عوامع الله احدا (الجن: ۱۹).وانا لمسنا السماء فوجد نها ملئت الماعون الماعون) : (۷۵).282.في الاخرة عذاب شديد الحديد: ۲۱)..........271 حر ساشديد او شهبا (الجن (۹)..قد جائكم بصائر من ربكم...........وما انا عليكم وما ارسلنك الا رحمة للعالمين بحفیظ (الانعام : ۱۰۵)..(الانبياء : ١٠٨ )..وكان يامر اهله بالصلوة والزكوة قل اعوذ برب الفلق....و من شر حاسد اذا حسد (الفلق).96...208-201.(مریم: ۵۶).قل لا تمنوا على اسلامكم (الحجرات : ١٨)...313 وادخلي جنتي (الفجر: ۳۱)..قل من حرم زينة الله التي.........يوم القيمة واذا انعمنا على الانسان اعرض ونا بجانبه واذا 184.181..281..121.....299.(الاعراف : ۳۳).كان صادق الوعد........وكان عندربه مرضیا (مریم: ۵۵-۵۶)..كنتم خير امة اخرجت للناس (آل عمران: ۱۱۱)..188,81.284.25.مسه ـه الشركان يؤسا - قل كل يعمل على شاكلته فربكم اعلم بمن هو اهدى سبيلا (بنی اسرائیل: ۸۴-۸۵).203,31.واذكر في الكتاب اسمعيل..............وكان عند ربه مرضیا (مریم: ۵۶،۵۵)..لئن شكرتم لازيد نكم (ابراهیم)).........57, 361 واذا سالك عبادی عنی فانی قریب 279...لاتدركه الابصار وهو يدرك الابصارو هو اللطيف الخير (الانعام : ۱۰۴)..لا تبطلوا صدقتكم بالمن والاذى (البقره : ۲۶۵)...لباس التقوى ذلك خير (الاعراف : (۲۷).لباس الجوع (النحل : ۱۱۳ )..95.62.75...75...(البقرة: ۱۸۷).50,47.والاذين يقولون ربنا هب....واجعلنا للمتقين اماما - (الفرقان : ۷۵).21 والعضر ان الانسان لفي خسر (العصر : ۲ - ۳)..والله الغنى وانتم الفقراء (محمد) (۳۹) 291 145..لن تنا لو البرحتى تنفقوا وان من شيئي الايسبح بحمده........انه كان حليما مما تحبون (آل عمران : ۹۳..................141,62 غفو را - بنی اسرائیل (۴۵ لن ينال الله لحومها ولا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم (الحج: ۳۸)..92...ليظهره على الذين كله (التوبة: (۳۳)...مالك يوم الدين (الفاتحه (۴)...وامر اهلك بالصلوة واصطبر عليها (طه:۱۳۳)....وان الله بما تعلمون خير (لقمان : ۳۰ 43.211.233.122..49....وانا لمسنا المساء فوجد نها ملئت حرسا شديد او شهبا...فمن يستمع الان يجدله شها با رصدا (الجن: ۱۰۹)..183,173..وسارعوا الى مغفرة...........والله يـ المحسنين (آل عمران : ۱۳۴ (۱۳۵).126,107.وعد الله الذين امنوامنكم وعملوا الصلحت (النور : ۵۶)..56,4,3..
63 يخادعون الله والذين امنو او ما يخدعون الا انفسهم وما يشعرون (البقره: (۱۰).يدعون ربهم خوفا وطمعاو ممارزقنهم ينفقون (السجدة: ۱۷)..297..يضع عنهم اصرهم (الاعراف: ۱۵۸)......306,273 يعبدونني لا يشركون بیشینا (النور: (۵۶).يعلم السرو اخفى (طه: ۸)..يناله التقوى منكم (الحج: ۳۸).2...61 62....يوم لا تملك نفس لنفس شينا 210.171....160.97.ولا يحيطون بشيئي من علمه الا بما شاء (البقره: ۲۵۶).ولقد زينا السماء الدنيا بمصابيح وجعلنا رجو ما لشيطين واعتدنالهم عذاب السعير (الملك : ٦ )..وما ينطق عن الهوى ـ ان هو الا وحى يوحى (النجم: ۶۵).وهو الذي انزل من السماء ماء فاخر جنابه نبات كل شيئى (الانعام: ۱۰۰ )..ويجعل لكم نوراتمشون) به (الحدید: ۲۹)........26 والامر يومئذ لله (الانفطار : (۲۰) وينذر الذين قالو اتحذ الله ولدا_مالهم به من علم ولا لابائهم (الكهف : ۵-۶)..................160 ابتلا هانتم هولاء تدعون.....ثم لا يكونوا امثالكم (محمد: (۳۹).هل من مزيد (ق: (۳۹)..59.62,295.1 233.زندہ قو میں جانتی ہیں کہ وقتی تکلیفیں اور آزمائشیں سب آنی جانی چیزیں ہیں.348..هم على صلاتهم دآئمون - (المعارج: ۲۴).....285 حضرت ابراہیم علیہ السلام 22,3 هو الله الذي لا اله الاهو......هو الرحمن الرحيم حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عن.......34 (الحشر: ٢٢)....1,9,15.ياكلون فى بطونهم نارا (النساء : ١١ )............270 يايتها النفس المطمتة.....وادخلي جنتي (الفجر : ۲۸ - ۳۱)..يايها الذين امنوا...........يصلح لكم اعمالكم (الاحزاب: ۷۲۷۱)..يايها الذين امنوا ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا (الانفال: ۳۰).یا بنی ادم خذوا زينتكم عند كل مسجد (الاعراف: ۳۲)..يا يهالذين امنوا.......ان كنتم تعلمون 294..341.......26.83.35....114,113...آپ نے آنحضرت ﷺ کو دل کی آنکھ سے پہچانا...74 آپ بھی سنت محمد مصطفی ﷺ پر چلنے والے تھے...34 لوگوں نے آپ کا بعض میدانوں میں حضرت عمرؓ کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کر دیا........ابوجهل.جنگ بدر میں دو بچوں نے اسے قتل کیا 113 آپ نے تحریک جدید کے آغاز میں پچاس روپے چندہ لکھوایا.حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری 252....328..265.(الجمعه: ١٠)..يتلوا عليهم ايته ويزكهيم (الجمعة : ۳)..
5 اجتماع انصار اللہ مرکز یه ۱۹۸۲ء............261 اخلاص اجرام فلکی...,173,159,39,16,12,11 اخلاص اور دلوں کی اندرونی تبدیلی یہ دونوں چیزیں دعا کی 234,233,177,175,174 بعض ستارے سورج سے بہت بڑے ہیں..چاند 2346 175,159,94,12,11..سائنسدانوں کا اجرام فلکی کے بارے میں علم 234..برکت سے نشو نما پاتی ہیں..اخلاص کے ساتھ کام اور خدمت کرنا بھی بالواسطہ تبلیغ ہے..324.342........جماعت احمدیہ کا صبر اخلاص اور محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں.......360 سورج..11, 234,233,210,175,150,116,94 اخلاص کے نمونے.........363....خلوص اور تقویٰ کے ساتھ آپ اپنی قربانی سلسلہ کے لئے اجمیر شریف اجمیر شریف سے لوگ پیار کے اظہار کے طور پر کوئی نشانی پیش کریں..لے کر آتے ہیں..احرار 343..ہمارے پاس سوائے اخلاص کی دولت کے 343...احرار کے دعوے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے..احساس کمتری..251.....163,149,78..اور کچھ نہیں..324.اخلاقی ضوابط جب اخلاقی ضوابط نہ رہیں تو مادی ترقی تباہی کے لئے استعمال ہوتی ہے.اخلاقیات 132,131.یہ حکمت کا احساس نہیں کہ ایک بچہ لباس کی وجہ سے اعلیٰ مقصد کے حصول میں نا کام رہ جائے...........78 آپ ﷺ نے ہمیں حسن حلق سکھایا.....احسان مالی قربانی بوجھ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان ہے.307.353..اخلاقی اور روحانی امور میں اہل مغرب کی پیروی نہ کریں کیونکہ ان امور میں یہ غلط راستہ پر ہیں جبکہ دنیاوی امور میں بالکل درست ہیں..164,163..352.....آنحضور ﷺ نے ساری دنیا کی روحوں کو بچایا ہم اور ہمارے حسن معاشرت ایک اعلیٰ حلق ہے.باپ دادے ہمیشہ آپ ﷺ کی غلامی میں جھکے رہیں تب بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اسلام کی اخلاقی تعلیم کے خلاف احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے 100..احمدیت.دیکھئے جماعت احمدیہ احمدی نوجوان ہے..350...مادی ترقی جب اخلاقی ضوابط سے آزاد ہوتی ہے تو انسان کی تباہی کے لئے استعمال ہوتی ہے.132,131.189.ٹھوس شواہد کے بغیر کسی پر الزامات نہ لگا ئیں..یورپ میں بعض عدم تربیت یافتہ احمدی نوجوان مغربی ماحول سے مغلوب ہو جاتے ہیں.............228.ادب دنیا کے شعر و ادب کا رخ مادیت کی طرف ہے..74
6 اردو 306,185,159,157,156,150,149,45,44 309,307 احمدیت اس لئے وجود میں آئی ہے کہ اسلامی اقدار کی حفاظت کی جائے.....181.آخری زمانہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی پیشگوئیاں.....175 اردو یا کسی اور زبان سے واقفیت نہ ہونا کوئی فخر لہ بات اسلام ایک بہت ہی پیارا مذہب ہے جس کے ایک ایک نہیں..ازدواجی زندگی از داوجی زندگی کے مسائل.میاں بیوی کے حقوق.استحصال 149..276..276..جزو میں ڈوب کر جنت حاصل ہو سکتی ہے..........1 36 اسلام پر اعتراضات کا دفاع عقل سے کرنا چاہیے نہ کہ اپنے تصورات سے..172.اسلام غربیوں سے ہمدردی کرنا اور غریبوں کو عزت نفس سکھاتا ہے..اسلام میں آمریت کی کوئی جگہ نہیں.دنیا میں Capitalists نے جو استحصال کیا اس کے نتیجہ میں اسلام میں پرو پیگنڈہ منع ہے.244..193.195.165..اسلام میں ملائیت کا کوئی تصور نہیں.اسلام کا پیش کردہ اقتصادی نظام باقی سب نظاموں سے بہتر ہے..صلى الله 315...اسلام کی تعلیمات اور حضور علی کی شخصیت کو بگاڑنے کے لئے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں.178 اسلام کیا اقتصادی نظام پیش کرتا ہے........316..اسلام کے دفاع کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے.اشاعت اسلام ہمارا جشن ہے.182..318...آنحضور ﷺ کے صحابہ کے بعد بھی ایسے لوگ تھے جو ان اسلامی اقدار کی حفاظت کرتے رہے..............175 ایک احمدی کے لئے سب سے اہم بات اسلام کا پیغام پہنچانا ہے...165...بعض مسلمانوں نے اسلام کی طرف یہ تعلیم منسوب کر دی کہ بعض اوقات جھوٹ واجب ہو جاتا ہے.تبلیغ اسلام عوام الناس نے کی ہے.267.132..199..جواحمدیت کے لئے دعا کرتا ہے.چین میں اسلام تاجروں کے ذریعہ پہنچا.165.چین کے چار صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے..165 239.239.35..اشتراکیت نے جنم لیا.مغربی قو میں استحصال سے کام لیتی ہیں..استعداد استعداد سے استفادہ کی مثال.اسلام 102,100,99,68,47,39,28,27,25,20,7 137,134,132,123,121,117,111,104 165,163,156,153,151,150,147,143,142 188,186,186-175,172,167,166 252,245,244,230,227,212,199,191 313,312,309,275,273,266,255 143...177..362,361,359,342,326,317,315 368,366-364 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ اسلام کی حقیقی لذتوں سے آشنا کیا..احمدی ہی وہ ستارے ہیں جو اسلام کے دفاع کی بنیاد ہیں..
7 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاندین اسلام کے لٹریچر کا اسلامی نظریہ قیادت جواب تیار کر کے نیا اسلامی لٹریچر تیار فرمایا...180 حضور ﷺ سے ایک شخص کا اسلام کے بارہ میں دریافت کرنا.دشمنوں کی طرف سے اسلام پر حملے کرنے کے نئے انداز.188.176..واجعلنا للمتقين اما ما میں اسلامی نظریہ قیادت پیش کیا گیا ہے.اسلم ، راجہ 23.راجہ اسلم صاحب پاگل پن کی انتہا کے وقت بھی پانچوں دنیا میں مختلف مذاہب کے اندر پاک تعلیمات موجود ہیں نمازیں مسجد میں ادا کر تے تھے.تا ہم اسلام کے مقابل پر ان کی کوئی حالت نہیں......266 حضرت اسمعیل علیہ اسلام زیادہ سے زیادہ بچت کر کے مال اسلام کی خدمت میں پیش کریں......188.صد سالہ جوبلی کے موقعہ پر سوز بانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا منصوبہ.309...عرب طلباء برطانوی یونیورسٹیوں میں مستشرقین سے اسلام سیکھنے آتے ہیں..177..قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اسلام کی اخلاقی تعلیم کے خلاف ہے.قناعت اور عظمت کر دار عظیم الشان چیز ہے جو اسلام سکھاتا ہے.الكہف میں اسلام کے غلبہ کا ذکر ہے.مستشرقین نرم زبان میں شدت سے اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں...350..244..104.176..286.آپ علیہ اسلام اپنے بیوی بچوں کو نماز کی تلقین کیا کرتے اسوہ حسنہ.نیز دیکھئے سنت نبوی علے ہماری ساری ضمانت اور حفاظت اسوہ محمدی علیہ میں ضمر ہے.121.363..آنحضور علی اسلام معاشرہ کے لئے اسوہ حسنہ ہیں 269 ہر زمانہ میں ہمارا معیار اسوہ رسول ع ہے.حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ لباس انسان کے لئے بحیثیت غلام استعمال ہونا چاہیے.اشتراکیت.368 82...............239,44.یورپ میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی نصیحت.........230 اشتراکی ممالک اموال کے معنے بھی سٹیٹ کے اموال اسلام اور سرداری اسلام میں سرداری کا تصور تقومی پر مبنی ہے.اسلام اور مہمان نوازی 23....150.219..کرتے ہیں..دنیا میں Capitalists نے جو استحصال کیا اس کے نتیجہ اسلامی معاشرے نیز دیکھئے معاشرہ اسلامی معاشرہ کے بگاڑ کی وجہ.جب ہم اپنے جھگڑے پوری طرح نپٹا لیں گے تب 267..دوسروں کے بوجھ اٹھانے کے قابل ہوں گے......273 میں اشتراکیت نے جنم لیا..اصحاب الصفہ 239.....اصحاب الصفہ کی عظمت کردار اور مالی قربانی 244 اصر کے معنی اور اصر اور حمل میں فرق.306..........
8 اصلاح معاشرہ نیز دیکھئے معاشرہ.....274 ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں محبت اور ایک اصلاح معاشرہ کے لئے آپ ﷺ کے کردار کی پیروی دوسرے کا خیال ہو.کریں..........278..اگر معاشرہ بیمار ہو جائے تو اس کی اصلاح ضروری ہے 155 آنحضور ﷺ اسلام معاشرہ کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.269..اطاعت 199..193,192,191,190,185,159,100,56,26,14 اگر ایک حبشی غلام آپ پر مقرر ہو جائے تب بھی اس کی اطاعت کریں...190..پہلے اپنی اصلاح کریں پھر اللہ کی توفیق سے پاک معاشرہ امیر کی اطاعت اس لئے کریں کہ انہیں خلیفہ مسیح نے مقرر قائم ہوگا.268.فرمایا ہے..192.جب بازاروں میں مجلسیں لگتی ہیں تو اس سے معاشرہ میں عرب ذہن کسی عجمی کی اطاعت تسلیم نہیں کرتا تھا.19 349..برائیاں پیدا ہوتی ہیں...جماعت احمدیہ کو معاشرہ کی اصلاح کے لئے بہت محنت کرنی پڑے گی..277,267.اطفال الاحمدیہ جماعتی ادارے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لئے جہاد کپڑے کی ایک قسم..اطمینان کریں......278..75...........سو (۱۰۰) کی جماعت سے چار بھی جھگڑے والے پیدا ہو جائیں تو ساری جماعت برکتوں سے محروم ہو جاتی ہے...274...قرآنی تعلیم سے انحراف کی صورت میں معاشرہ میں بڑے بڑے مصائب پیدا ہوئے..کوئی معاشرہ عدل کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا.269...197..معاشرتی جھگڑوں میں ثالثی کے قرآنی اصول.......275 معاشرتی جھگڑوں کے لئے متقی بن کر ثالثی کریں.....275 معاشرتی جھگڑے...معاشرتی مسائل اور ان کے حل.274...270....269.معاشرہ میں جھگڑوں کی وجہ تقوی کی کمی ہے..معاشرہ کی حفاظت کے لئے جماعت کی ایک معقول تعداد کا ہونا ضروری ہے........146.وہ اقوام جو دنیا کی تعلیم و تربیت کے دعوے کرتی ہیں اپنے معاشرہ میں خرابیوں سے لاپر واہ ہیں.268..جن کی تمنائیں ان کا معبود بن جائیں انہیں دنیا میں کبھی اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا..اطمینان قلب اگر کسی سے کامل محبت ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں اس کی ہر ادا پیاری لگتی ہے اسی کا نام طمانیت قلب ہے.طمانیت قلب کا بیان اعتدال 295...297.298..انسان کو ہر حالت میں اعتدال کا سبق سکھایا گیا ہے.202
9 اعمال انکساری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کو اپنے اعمال میں وصل ہوتا ہے.ڈھالنے کی کوشش کریں.........افریقہ اقتصادی نظام 280.191.اہل فکر کے درمیان پرانی بحث ہے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا 13..ظاہر ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مذاہب پھوٹتے ہیں....95 جو خدا کی راہ میں قربانی کرتے ہیں اللہ ان کی قربانی رکھا اسلام کا پیش کردہ اقتصادی نظام باقی سب نظاموں سے نہیں کرتا...315.خدا تعالیٰ زبان و مکان سے بالا تر ہے.144..85.بہتر ہے.اسلام کیا نظام پیش کرتا ہے.اقدار 316.دنیا سے لاکھوں انسانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب کیوں نہیں ملتا..خدا تعالی کے ہاں اقدار کی قیمت ہے تعداد کی کوئی قیمت ذکر الہی کا فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تمہارا اللہ 51 نہیں..اقوام 24..ہو جائے یعنی معبود....ساری حمد خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.296..238.زندہ قومیں جانتی ہیں کی وقتی تکلیفیں اور آزمائشیں سب آنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے پیار اور جانی چیزیں ہیں..اله الہ کے معنی.اللہ تعالیٰ ہستی باری تعالیٰ 348.....296..216,213-202,199-151,148-91,88-1 278,273-270,268,260-225,220,217 350,349,345-323,320-292,289-280 369-359,357,356,354,351 اپنے اللہ کو اپنی تمنا بنالینا ہی لا الہ الا اللہ ہے.......2006 آج اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کو قائم کرنے کا فریضہ جماعت احمد یہ کوسونپا گیا ہے..101.شفقت کا اظہار...52...کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتا ہے.92 وہ راستہ جو خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق کو بالاخر اس تک پہنچاتا ہے.وہ غیب اور حاضر کا علم جانتا ہے..الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام 232.9..اليس الله بكاف عبده...........25,115,114,111 زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے.والسماء والطارق.وسع مكانك.367.10.289.حضرت سیدہ مریم النساء ام طاہر رضی اللہ عنہا اگر تم خدا سے وفا کا تعلق چاہتے ہو تو خدا سے وفا کرو...49 آپ رضی اللہ عنھا بہت مہمان نواز تھیں.77.اگر نظام جماعت سے مطمئن نہیں اور اللہ تعالیٰ پر یقین نہیں تو مہمان نوازی کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پھر اس جماعت کو چھوڑ دیں..196.............کی آپ کو ایک نصیحت 77.
10 10 امام الصلوة جب انبیاء مبعوث ہوتے ہیں تو وہ ایک نیا آسمان تیار کرتے امام الصلوۃ کے بارے میں منجس نہیں ہونا چاہئے...191 امام کے دونوں اطراف سلام پھیرنے سے پہلے اپنی نماز مکمل انجینئرز کرنے کے لئے کھڑے نہ ہوں..168...174.جلسہ سالانہ کے موقع پر روٹیوں کی مشینوں پر احمدی انجینئرز آنحضرت ﷺ نے فرمایا امام الصلوۃ کی پیروی کرو.191 نے بہت محنت سے کام کیا.359...انسان 51,38,36-31,25,22,19,18,16,14-9,5 105,104,101-81,78-74,71,70,69,63,54 142,140-138,132,131,125-115,110 168,160,159,154-152,148,145,144 199,192,190,177,176,173,171 221,219,218,216,212-207,203-201 235,233,230,228,226,225,222 281,276,275-271,246,245,240-237 319,317,316,314,313,301-288,282 361,360,349,348,343,336,333,330,325 16.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم آپ کی خلافت احمد یہ سے وابستگی کا نمونہ..صاحبزادی امتہ المتین بیگم آپ کے لئے دعا کی تحریک..139.مسجد بشارت چین کے لئے آپ کی خدمات کا ذ کر....139 امریکہ 344,312,311,309,224,212,143,118,83 365,352 امریکہ میں بہت زیادہ پاگل خانے ہیں.223.امریکہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا اپنی بچیوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کر نے کا واقعہ.118....368,367,365 انسان بہت حریص واقع ہوا ہے..حضرت خلیفۃ اسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا شکا گو میں رات انسان نہ علم غیب جانتا ہے نہ علم حاضر.سونے کی جگہ تلاش کرنے کا واقعہ امور عامه نظارت امور عامہ کی ذمہ داریاں.انبیاء علہیم السلام 352 246.281,264,163,122,121,120,73,66,60 362,356 نبی کا کام نذیر بننا بھی ہوتا ہے.66..32.10...انسان کو ہر حالت میں اعتدال کا سبق سکھایا گیا ہے...202 تاریخ انسانی کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ نبوت جیسی عظیم الشان نعمت سے منہ موڑتا ہے..32..جب انسان یا زمانہ بحیثیت مجموعی گھاٹے میں مبتلا ہو جائے تو بے چینی کا بڑھنا لازمی نتیجہ ہے..292.جب تک انسان خدا تعالیٰ کا عہد نہ بنے اس وقت تک ذکر الہی کی توفیق نہیں ملتی...294.عبادت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پیروی کرے...280 انبیاء کرام سورج کی طرح ہوتے ہیں 175 عدل و انصاف محبت الہی اور بنی نوع انسان سے محبت مذاہب انبیاء کی بعثت سے قبل دنیا دار لوگ مذہبی اقدار پر اعتراض کرتے ہیں.174.کا سرمایہ ہیں..267.......
11 انسانیت.God Bless You 119,120.آنحضور ساری دنیا کے دکھوں کے لئے بے چین نیوائر ڈے یوسٹن اسٹیشن پر حضور رحمہ اللہ تعالی کو نماز پڑھتے انصار الله 292.دفتر دوم تحریک جدید انصار اللہ کے سپر دیا گیا......25 اجتماع انصار الله مرکز یه ۱۹۸۲ ء..ذیلی تنظیمیں جلسہ سالانہ کے انتظامات کی عمومی نگرانی کریں..انصاف 261..248.ہوئے دیکھ ایک بوڑھے انگریز کا کہنا.Irrevocable ناقابل تنسیخ ( ثالثی).Kronas سویڈش کرنسی..Let a thief to catch a theif 119....275.44 چور کو پکڑنے کے لئے چور کو ہی ملازم رکھا جائے.......351 Multi National ایسی کمپنیاں جو بڑے ممالک کی دولت سے زیادہ دولت رکھتی عدل و انصاف محبت الہی اور بنی نوع انسان سے محبت مذاہب ہیں.307.19.161.44..New year's Day 267...Out of the Hats یعنی انکل بچو.Pasetas سپین کی کرنسی.Physician Heet Thyself اے علاج کے دعوے دار پہلے اپنے علاج کر..268 Play Boy جو سب سے گند ا مزاج اور بدمعاش ہوا سے Play Boy کہتے ہیں..220.44 Roubles روسی کرنسی Steel,Mr.ایک انگریز دوست جس سے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ کا سرمایہ ہیں.انگریزی اردو سے نا واقف احباب کے لئے انگریزی زبان میں خطاب.انگریزی مضامین.Afloat Antichrist یہ لفظ دجال کے پورے معنے ادا نہیں کرتا.149..92.....157.227.315..32.....Beaches Capitalistic سرمایه دارانه (نظام ).....Cold War Drug Addicts خطرناک نشوں کے عادی..Drugs 266....امریکہ میں جتنا Drugs پر خرچ ہوتا ہے وہ کئی مشرقی ممالک کی اجتماعی دولت سے بھی زیادہ ہے......224 Event Horizon 234..اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا......Takka بنگلہ دیشی کرنسی..Valium 156.44 اس سکون آور دوا کا سالانہ خرچ پانچ ارب روپیہ ہے..223
ایمان 125,120,111,63,59,55,45,42,26,14,4 342,338,330,242,198,196,192,189,163 345,344 12 44 Yens جاپانی کرنسی.انگلستان 183,181,178,156,150.139,118,80,79 365,312,309,227,199,189,185 ایمان کی تین منازل..انگلستان میں جماعت کے مالی معاملات کے بارے میں ایٹم بم.ایک کمیشن بنانے کا اعلان.......198...جب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب انگلستان بائیبل.79.بائبل اور لباس.پڑھنے گئے تو وہاں آپ نے انگریزی لباس پہنا.جماعت کی مہمان نوازی کا تذکره...185 مستشرقین کی کتب کے جوابات کا سلسلہ انگلستان سے شروع کرنے کی خواہش.183....مستشرقین کے خلاف مہم کا آغاز انگلستان سے ہوگا....181 کمزور لوگ انگلستان اور یورپ میں لہو ولعب دیکھ کر مغلوب ہو جاتے ہیں..انگوٹھی 227.بازار 14..147.75..75..جب بازاروں میں مجلسیں لگتی ہیں تو اس سے معاشرہ میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں..349...جلسہ سالانہ کے اوقات میں دکانیں بند ہوں.........328 جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی جو خلیفہ وقت پہنتا دکانداروں کے فرائض.ہے انڈونیشیا.110...166,132,83,80.........343...دکانداروں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے اخلاق کی اصلاح کرنی چاہیے..لباس میں تقویٰ ہونا چاہیے انڈونیشیا کی دھوتی ہو......80 دکانداروں کے فرائض..انکساری..........147,36,15,13,12 ربوہ کے بازار..350.....345..344.326...356....218...بٹالہ بجٹ دیکھئے مالی قربانیاں 13..310......انکسار میں بہت بڑی طاقت ہے.انکساری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا حقیقی وصل ہوتا ہے.اٹلی ایشیاء 310,164..آج کل بعض مرتبہ بچوں کی تعداد پوچھو تو لوگ شرما جاتے ہیں.ایشیا سے آنے والے لوگ یورپ کی حامیوں کی پیروی کرتے 164....ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں..
13 بدھ مت بیعت کے ذریعہ حبل اللہ کو پکڑتے ہیں.بدھ مت کا یہ فلسفہ ہے کہ جب کوئی خواہش باقی نہ رہے تو پاک تبدیلی پیدا کرنا ہی تجدید بیعت ہے.292.خلافت رابعہ کی اجتماعی بیعت..168..6.7.سکون مل جاتا ہے.دنیا میں بدھوں کی بہت زیادہ تعداد پائی جاتی ہے...311 صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب بدی ابرائیاں بہت سے عبادت کرنے والے بدیوں میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں..282.بیعت لیتے تھے تو جو نہیں پہنچ سکتے تھے وہ پگڑیاں کھول کر 89.6......پھینک دیا کرتے تھے.بیعت رضوان...اللہ تعالیٰ نے زور سے یہ تحریک میرے دل میں ڈالی ناجائز ذرائع سے مال کمانے کے نتیجہ میں انسان ہزار قسم کی بیوت الحمد.بدیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.271....جب بازاروں میں مجلسیں لگتی ہیں تو اس سے معاشرہ ہے..میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں........برازيل.بصائر 349..311,310...........138,101,99,98,97,96,91,73,15,12,10 351 بصیرت 306........بیوت الحمد تحریک کا دوسرا پہلور حمیت سے تعلق رکھتا ہے.243.244..صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس فنڈ میں دولاکھ روپے کا عطر 242.مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بیوت الحمد سکیم کے لئے ایک لاکھ روپے کا عطیہ..250.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بیوت الحمد فنڈ کے لئے دس مومن کو اپنی بصیرت اور بصارت کو تیز رکھنا چاہیے....351 ہزار روپے کی رقم پیش فرمائی 242 بھارت یورپ مادہ پرستی میں بہت آگے نکل گیا ہے اتنی ترقی پاکستان بھارت کے لئے شائد سو سال کے بعد تصور میں نہیں آسکتی...156,148,142,89,88,16,14,13,7,6,1 342,276,192,173,169,168 بیعت لیتے وقت ہر مرتبہ میری اپنی حالت انتہائی غیر 162.بے چینی ( بے چینی ) کے زمانہ کو قرآنی اصطلاح میں خسر کا زمانہ کہا جاتا ہے..291.انسان جتنی مادی ترقی کرتا چلا جارہا ہے اتنی ہی بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے..291..ایک دوست کا حضور کی خدمت میں خط جو زمانہ کی بے چینیوں سے بے قرار ہے.292.بے چینی اور سکون کی جنگ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے..ہو جاتی ہے کیونکہ ہر مرتبہ منصب خلافت کی بیعت کرنی بے چینی کا قرآنی حل.پڑتی ہے..156...291..292..
14 بے قراری کا علاج یہ ہے کہ اپنے رب سے محبت پیدا کریں جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء کے موقعہ پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پردہ 298..کے موضوع پر نصائح فرمائیں..361 اور اس کو اپنا مطلوب بنالیں..جب انسان یا زمانہ بحیثیت مجموعی گھاٹے میں مبتلا ہو جائے تو مرد عورتوں کے پردہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں.......36 کام کرنے والی خواتین کے لئے دوران ڈیوٹی پردہ کا معیار بے چینی کا بڑھنا لازمی نتیجہ ہے.پاگل خانہ امریکہ میں بہت زیادہ پاگل خانے ہیں..پاکستان 292.223.228,209,165,162,150,149,83,79,69, نسبتا نرم ہے.پرو پیگنڈ....اسلام میں پرو پیگنڈہ منع ہے.364....195.....195.کسی امیر یا عہد یدار یا عام احمدی کے بارے میں پروپیگنڈہ سختی سے منع ہے.پر یس کا نفرنس پکڑی 195.....110............305,259,258,257,242,229 پاکستان میں تحریک جدید کے دفتر سوم کے لئے بہت صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب گنجائش موجود ہے.257.پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے دعائیں کریں....1208 پھینک دیا کرتے تھے.پاکستان کے اقتصادی حالات.پاکستان کے بجٹ تحریک جدید کا ذکر.صد سالہ جو بلی فنڈ میں پاکستان کا بجٹ.یورپ مادہ پرستی میں بہت آگے نکل گیا ہے اتنی ترقی 242.259.305..89..یعت لیتے تھے تو جو نہیں پہنچ سکتے تھے وہ پگڑیاں کھول کر پنجاب.....293,273,228,186,41 پنجاب کے گاؤں کے مساجد میں زمیندار ملا کو ذاتی ملازم خیال کرتے ہیں..پاکستان اور بھارت کے لئے شائد سو سال کے بعد تصور پیشگوئیاں.نیز دیکھئے قرآنی پیشگوئیاں میں نہیں آسکتی..یا کیزگی 162.186.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میں نے حضور ﷺ کی مغربی دنیا کی طرز زندگی کے بارہ میں پیشگوئیاں پورا ہوتے دیکھی سنجیدگی پاکیزگی پیدا کرتی ہے اور کھیل کود کا مزاج بے حیائی ہیں..157.158..157...دجال اعور ہوگا.دجال کے بارہ میں پیشگوئیاں.تابعین حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ کو خدا تعالیٰ نے جو قیام عبادت کی توفیق بخشی وہ تا بعین تک جاری رہی...286 221.310..366.364..365...پیدا کرتا ہے.پرتگال..پرده احمدی خواتین کے لئے پردہ کا معیار.....اسلامی پردہ کی حفاظت کا سہرا احمدی بچیوں کے سر پر ہے..بڑی عمر کی خواتین کے لئے پردہ کا معیار
15 تاریخ احمدیت.نیز دیکھئے جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ خواہش که دفتر ۱۹۷۴ء میں جب ساری جماعت کے اموال لٹ رہے تھے اول تا قیامت جاری رہے.255..اس وقت بھی خدا کے خزانے بھرے جارہے تھے........40 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1934ء میں اس تحریک کا ۱۹۷۴ء کے حالات.تبلیغ اخلاص کے ساتھ کام اور خدمت کرنا بھی بالواسطہ تبلیغ تبلیغ کا بوجھ جوساری جماعت اٹھایا کرتی ہے.108...342..132.اعلان فرمایا...251.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس تحریک کے ذریعے زمین کے کناروں تک شہرت پائی..253..حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ نے آغاز میں تحریک جدید کا چندہ اڑھائی سورو پری لکھوایا..252..جلسہ سالانہ کے دوران شدید بارش میں کارکنان اعلیٰ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے آغاز میں تحریک نمونہ کو دیکھ کر لاڑکانہ کے ایک معاند احمدیت کا قبول احمدیت.342..جدید کا چندہ پچاس روپیہ کھوایا..252..دفتر اول ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۴ء تک بلا شرکت غیر جاری رہا 254 دعائیں کریں اللہ تعالیٰ خود تبلیغ کی راہیں سکھائے گا....133 دفتر اول تحریک جدید خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا...259 ہر احمدی کو تبلیغ کرنی چاہیے.تحریک جدید 133.....321,320,306,259-255,253,251,242,69 337 دفتر اول میں سیالکوٹ کے مزدوروں کی قربانی......253 دفتر اول کے لئے چندہ لکھوانے والے محمد رمضان صاحب اور محمد بوٹا صاحب کا ذکر خیر..253..دفتر دوم ۱۹۶۵ ء تک جاری رہا.256.بیرون پاکستان جماعتوں کے چندہ کا ذکر....258.دفتر دوم میں عظیم الشان مالی قربانی کرنے والوں کا ذکر خیر پاکستان میں دفتر سوم کے لئے بہت وسیع گنجائش موجود ہے.پس منظر..257 252..تحریک جدید کا دفتر سوم لجنہ اماءاللہ کے سپر د کیا گیا.....259 تحریک جدید کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ گئی..253 255...254.دفتر دوم کا آغا ز ۱۹۴۴ء میں ہوا.دفتر دوم تحریک جدید انصار اللہ کے سپرد کیا گیا.......259 دفتر دوم کے جو دوست فوت ہو چکے ہیں میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئند پنسلیں ان کی قربانیاں جاری رکھیں.دفتر سوم کا آغاز ۱۹۶۵ء میں ہوا.جن لوگوں نے تحریک جدید میں چھوٹی چھوٹی مالی قربانیاں پیش کیں اللہ تعالیٰ نے ان کے خاندانوں کی کا با بلیٹ ڈالی.254.320.......دفتر سوم کا بیان..256..256.257.صد سالہ جو بلی فنڈ کا انچارج وکیل تحریک جدید ہو گا جو وکیل برائے صد سالہ جو بلی کہلائے گا.320..لجنہ اماء اللہ سے حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جو بلی کا دراصل تحریک جدید سے تعلق ہے.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا وفات کے وقت توقع تحریک جدید کا چندہ بارہ ہزار روپے سے زائد تھا...255 وکالت مال ثانی کا قیام..260.258..
16 تحریکات وہ اقوام جو دنیا کی تعلیم و تربیت کے دعوے کرتی ہیں اپنے اللہ تعالیٰ نے زور سے بیوت الحمد تحریک میرے دل میں ڈالی معاشرہ کی خرابیوں کی لاپر واہ ہیں.ہے.243.ہما را معیار تربیت حضور ﷺ کا وہ معاشرہ ہے جو 268..انسانیت اور عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک.بيوت الحمد.19..306,241 بیوت الحمد تحریک کا دوسرا پہلورحیمیت سے تعلق رکھتا ہے.244..آپ ﷺ پیدا کرنا چاہتے تھے.268..یورپ میں بعض احدی ایسے بھی ہیں جن پر اس سوسائٹی کا ادنیٰ سا بھی اثر نہیں..229.یورپ میں بعض عدم تربیت یافته احمدی نوجوان مغربی ماحول جماعتی مقدمات میں ملوث احباب کے لئے دعاؤں کی سے مغلوب ہو جاتے ہیں.تحریک......حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بعض تحریکات کا ذکر خلفاء کے لئے دعاؤں کی تحریک..57,45.245.36....یورپ میں تربیت کے مسائل.تربیت اولاد اولاد کی زبان وادب سے واقفیت کا بھی خیال رکھا جائے.228..228...........صد سالہ جوبلی منصوبہ کے لئے دعاؤں کی تحریک.......318 مالی قربانی میں کمزور بھائیوں کے لئے بہت دعائیں کریں..مستشرقین کی کتابوں کے جواب تیار کرنے کی تحریک..تحفہ 146 179....150.بچوں کا حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے.150.تصریف آیات..........100,99,98,97 تصریف آیات اور غائب ضمیر کے معنی 97 ان تمام آیات میں حضور ﷺ کا ذکر ہو رہا ہے.98....158...مغربی اقوام میں رواج ہے کہ جب انہیں کوئی تحفہ دیتا تعبير الرؤيا.ہے تو کہتے ہیں کہ آپ نے ایسا تحفہ دیا ہے جس کی مجھے اس میں بائیں سمت سے دنیا داری اور دائیں سمت سے ضرورت تھی..تربیت 300......روحانی علم مراد ہوتا ہے.علم تعبیر میں اچھی بات تقویٰ کی نشانی ہے.تفاخر 158.158........اپنے بیوی بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کیا کریں...121 حفاظت نماز اور گھر کی تربیت.285.اس بات کو خصوصیت سے پیش نظر رکھیں کہ نہ لغو غالب آنے قادیان کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ پاگل بھی نمازوں کے عادی نہ لہو نہ زینت نہ تفاخر نہ تکاثر..286..تفاخر اور تکاثر کا بیان.قرآن کریم کا یہ پیارا سلوب ہے کہ دعاؤں کے رنگ میں تفسیر القرآن.نیز دیکھئے آیات قرآنیہ انسان کی تربیت فرماتا ہے.201..226..218..تفسیر سورۃ الفاتحہ 237,235,232,126,125,124,123
17 سورۃ فاتحہ کی دعا تمام مشکلات کا حل ہے.سورۃ الفاتحہ کی کلیڈ وسکوپ سے مشابہت 123.232.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے زیادہ تقویٰ کی نصیحت فرمائی سورۃ الفلق کی دعاؤں اور مضامین کا بیان.....209,201 خلافت احمدیہ کی طاقت کا راز خلیفہ وقت اور جماعت کے سورۃ الملک میں بیان ظاہری اور روحانی آسمان کی تفسیر 171.مجموعی تقوی میں ہے.26.23.معاشرہ میں جھگڑوں کی وجہ تقوی کی کمی ہے......206 سورۃ الکہف میں آخری زمانہ کے فتنوں کا ذکر........104 مومن کی اصل سجاوٹ تقوی اور نماز کی سجاوٹ ہے...287 سورۃ الکہف میں دجال کی علامات کا تمنائیں تفصیلی بیان ہے..سورۃ الکہف میں اسلام کے غلبہ کا ذکر ہے..سورۃ الکہف میں عیسائیت کے 160.104.جن کی تمنائیں ان کا معبود بن جائیں انہیں دنیا میں کبھی اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا..295...توحيد.102,99,32.عروج وزوال کا ذکر ہے.104..جماعت احمد یہ توحید پر قائم ہے.3.سورۃ الکہف کی پہلی اور آخری دس آیات میں عیسائیت کا تو کل 328,70,12,3-345,344,331 ذکر ہے.سورۃ الکہف کی پیشگوئیاں..تقدیر الہی 104.104....توکل کے فلسفہ کے اندر آزمائشیں بھی داخل ہیں......329 اس زمانہ میں قومیں اپنی عددی برتری پر فخر کرتی ہیں..219..تکاثر 68,67-62,59,44,43,28-21,14,5 270,269,190,158,146,141,88,84-73 343,341,326,287,276-274 اگر تقویٰ کا لباس دنیا وی لباس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو الہی رنگ پکڑتا ہے..تقویٰ اور جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہو سکتے.تقویٰ حسب مراتب کم و بیش ہوسکتا ہے.78..27.27.تقومی شعاری سے جماعت کا چندہ شرح بڑھائے بغیر دگنا ہو سکتا ہے.67.227,223,221,218,215..اس بات کو خصوصیت سے پیش نظر رکھیں کہ نہ لغو غالب آئے نہ لہو نہ زینت نہ تفاخر نہ تکاثر 226..اگر یہ جان لو کہ پیدا کرنے والا اللہ ہے تو جھوٹے تکبر تم میں پیدا نہیں ہو سکتے.ٹرائفا لگر سکوائر 208....تقویٰ کا لباس انسان کی ہر خامی کو ڈھانپ لیتا ہے.....83 لندن میں ایک مقام جہاں لوگ نیو ائر ڈے منانے کے لئے جب تقویٰ کا معیار بلند ہوتو باہر کی دنیا خود بخود کھینچی چلی آتی اکٹھے ہوتے ہیں.119...24.
18 جلسه سالانه ثالثی ثالثی کے قرآنی اصول 275..335,331,327-323,309,308,287,248 369,359,356,351,343-341 معاشرتی جھگڑوں کے لئے متقی بن کر تالشی کریں......275 ۱۹۸۲ء کے جلسہ کے موقع پر خراب موسم کے باوجود مہمانوں ناقابل تنسیخ عالش ج جرمنی 275....311,309,134,131,118,114,110,109,107 نے حیرت انگیز صبر سے تقاریر سنیں..اغراض و مقاصد..360...335,326..اگر آپ اللہ کی رضا کی خاطر جلسہ گاہ میں بیٹھتے ہیں تو اللہ کی رضا آپ کو مل رہی ہوتی ہے..332.ان ایام میں باجماعت نمازوں کا خصوصی انتظام ہو...327 اگر ہر احمدی مبلغ ہے تب جرمنی کے مقدر پھر سکتے ہیں..جرمنی میں جماعت کے اکثر نوجوان مشکلات میں گزر رہے ہیں....134...جرمنی کے لئے میرا پیغام ہے کہ الیس الله بکاف عبدہ کا فیض اٹھاتے رہیں...109.114.جماعت احمد یہ جرمنی آج یورپ کا بوجھ اٹھانے والی جماعتوں 109..انتظامات..اہل ربوہ کی ذمہ داریاں برکات جلسه سالانه.342,336.336...332..ترجمہ کے انتظام سے پہلے بھی غیر ملکی صبح شام جلسہ گاہ میں خاموشی سے بیٹھے رہتے تھے.تین خصوصی نصائح..332.........331..جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء کے کامیاب انعقاد کا تذکرہ......359 جلسہ سالانہ بعد میں ربوہ میں گہری اداسی چھوڑ جاتا ہے 347 میں شامل ہوتی ہے..یہ وہ ملک ہے جہاں جماعت احمد یہ بعض اوقات خود کفیل جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کے گھروں میں نمازوں کا 109..شدت سے اہتمام ہونا چاہیے.287.بھی نہیں ہوتی تھی..یہاں بہت سے ایسے موصی ہیں جو شرح کے مطابق اپنے جلسہ سالانہ کے دوران شدید بارش میں کارکنان کے اعلیٰ چندے ادا کرتے ہیں.جشن تشکر اشاعت اسلام ہما را جشن ہے.109...318..نمونہ کو دیکھ کر لاڑکانہ کے ایک معاند کا قبول احمدیت.342 جلسہ سالانہ کے فرائض.347.جلسہ سالانہ کے لئے محنتی اور مخلص کارکنان کی ضرورت دنیا کی سوزبانوں میں آنحضور ﷺ کا پیغام پہنچ جائے تو یہ ہمارا جشن ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس آپ نے آغا ز تحریک جدید کا چندہ پچاس روپیہ لکھوایا..310..252.ہے.341....357......جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کا واقعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہمارے گھر خدا تعالیٰ کے گھر بن جاتے ہیں..247.جلسہ سالانہ کے موقع پر جیب کتروں کو پکڑنے کا واقعہ 351
19 جلسہ سالانہ کے موقعہ پر سامان اٹھائے جانے کے واقعات 353..برطانیہ کا ایک شہر.جلسہ سالانہ کے نہایت عظیم الشان مقاصد ہیں.......331 جماعت احمدیہ جلسہ کی اپنی ایک حرمت ہے اس کا خیال رکھیں...332 جلسہ کی حقیقی کامیابی کا تعلق عبادت کے حق ادا کر نے 171.122,111,107,45,40,35,33,23,22,5-2 242-240,229,226,194,181,180,131 326,324,319,310,309,307,269,267,260 سے ہوگا..جلسہ کے اوقات میں دوکانیں بند ہوں..جلسہ کے ایام میں مہمان نوازی کا حق ادا کریں..339..328..340.369,338,337 ۱۹۴۷ء کے واقعات.40.آج اللہ تعالی کی واحدانیت کو قائم کرنے کا فریضہ جماعت جلسہ کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں گھروں کو خالی احمدیہ کو سونپا گیا ہے..کریں اور مساجد کو بھرا کریں 340 جلسہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے کا ارشاد..325 جلسہ کے دنوں میں بازاروں کی ذمہ داریاں.........320 جلسہ کے کارکنان ک ونصائح جلسے کے ایام میں ربوہ کے گلی اور محلوں کو صاف ستھرا رکھیں جماعت احمدیہ کا صبر اخلاص اور محبت حضرت مسیح موعود 349.248..علیہ السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں.360 ذمہ داریاں...348.101.احباب جماعت خدا سے یہ عہد کریں کہ عبادت سے غافل نہیں ہوں گے.احمدی امراء نے تکالیف میں بھی بچتیں کر کے قربانیاں دیں..117.43..احمدی ہی نئے آسمان کے ستارے ہیں جو حضرت اقدس سیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے دفاع کے لئے تیار کیا....احمدی ہی وہ ستارے ہیں جو اسلام کے دفاع کی بنیاد ہیں..احمدیت اس لئے وجود میں آئی ہے کہ اسلامی اقدار کی حفاظت کی جائے..گھروں میں جلسہ سالانہ کی سکیمیں بنائی جائیں.....327 احمدیت جسے خدا کے نام پر اسلام کی سر بلندی کے لئے لنگر خانه.......336.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خون سے سینچے ہوئے جاری فرمایا ہے اس کو اپنے خونوں سے بھرے 177.177.181.مہمانوں کے لئے اپنے گھروں کو خوب سجالیں.نئی جلسہ گاہ کے تقاضے.248........308.رکھیں.احمدی کو مستشرقین کو کتب پڑھ کر اعتراضات کو نشاندہی نمازوں کے اوقات میں دوکانیں بند ہونی چاہئیں...331 کرنی چاہیے.یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گریہ وزاری اور دعاؤں کے نتیجہ میں جاری ہوا تھا..325.116.179...اس بات کو خصوصیت سے پیش نظر رکھیں کہ نہ لغو غالب آئے نہ لہو نہ زینت نہ تفاخر نہ تکاثر..226.
20 20 اگر ایک احمدی ضائع ہوگا تو خدا ہزاروں لاکھوں دے سکتا جماعت احمدیہ کا مالی نظام دوسرے تمام نظاموں سے ہے.146.ممتاز ہے.41.283.اگر نظام جماعت سے مطمئن نہیں اور اللہ تعالیٰ پر یقین جماعت احمدیہ کی حفاظت نماز کی تلقین..نہیں تو پھر اس جماعت کو چھوڑ دیں...196 جماعت احمدیہ کو معاشرہ کو معاشرہ کی اصلاح کے لئے مزید ایک احمدی جتنے چاہیئے خلیفہ اسیح کو خطوط لکھ سکتا ہے.ایک احمدی کے لئے سب سے اہم بات اسلام کا پیغام پہنچانا ہے..ایک دوست کا حضور کی خدمت میں خط جو زمانہ کی بے چینیوں سے بے قرار ہے.194.165.292.محنت کرنی پڑے گی.277,267..جماعت احمدیہ کو ہر قسم کے دکھ اور مصائب میں صبر ورضا کی تلقین..33.جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی کا راز الیس الله بکاف عبدہ میں ہے..جماعت کی سرشت میں وہ باتیں ہیں جن کی دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.پہلے اپنی اصلاح کریں پھر اللہ کی توفیق سے پاک معاشرہ قائم ہوگا.268...جماعت کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ لین دین کے معاملات میں سادگی ہو.115.3...154..تبلیغ کا بوجھ ساری جماعت اٹھایا کرتی ہے...132 جب تک اپنے کمزور بھائیوں کو اپنے ساتھ ملنے کا موقع نہ جماعتی ادارے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لئے جہاد دیا جائے تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے........143..کریں......278..جب ہم اپنے جھگڑے پوری طرح پیپٹا لیں گے تب جو احمدیت کے لئے دعا کرتا ہے وہ دراصل اسلام اور اللہ 273..تعالیٰ کا مقاصد کے لئے دعائیں کرتا ہے...........199 دوسروں کے بوجھ اٹھانے کے قابل ہوں گے..جماعت احمد یہ اور خلیفتہ امسیح کے درمیان کوئی حائل نہیں حضرت اقدس علیہ السلام سے وابستہ کوئی نام بد نام ہوسکتا.جماعت احمدیہ اور مالی نظام..194...61.جماعت احمدیہ پر آزمائشوں کے آنے والے ادوار....107 ہو جائے تو میرے خلیفہ امسیح الرابع ) کے لئے یہ نا قابل برداشت ہے..155.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ساری جماعت آپ علیہ السلام کے خاندان میں شامل ہے..جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت مادہ پرستی کے جلوے..جماعت احمد یہ توحید پر قائم ہے.240..3....ماحول سے بے نیاز ہے.17 323.خلافت احمدیہ کی طاقت کا راز خلیفہ وقت اور جماعت کے جماعت احمدیہ نے اخلاص میں قرون اولی کے زمانوں کو مجموعی تقوی میں ہے...زندہ کر دیا...338..خلافت اور جماعت احمد یہ الگ نہیں ہیں..جماعت احمدیہ کا صبر اخلاص اور محبت حضرت مسیح موعود دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کی مسکراہٹوں کو نہیں چھین علیہ السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں...360 سکتی.23.5...108.17.ربوہ کی ایک ایک گلی گواہ ہے کہ جماعت ابتلاء کے وقت وفا پر قائم رہی.24.2..جماعت احمدیہ کا عددی غلبه..جماعت احمدیہ کا قیام ایک زندہ معجزہ ہے.
21 زندہ قوموں کا اولین کام یہ ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ اپنا ہماری فتوحات حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سرکا سہرا جائزہ لیتی رہیں.....325...ہیں..ساری دنیا میں جماعت کو خدا کی خاطر قربانیوں کی توفیق مل ہمارے پاس سوائے اخلاص کی دولت کے رہی ہے.260.....اور کچھ نہیں.213...ساری دنیا کو خدا کی طرف متوجہ کرنا جماعت احمدیہ کے ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں محبت اور ایک 324.فرائض میں شامل ہے..سکاٹ لینڈ کی جماعت کو تبلیغ کی نصیحت.132.165..دوسرے کا خیال ہو.ہمیں معاشرہ کے دکھوں سے آزاد ہوتا ہے.199..277.230.سو (۱۰۰) کی جماعت سے چار بھی جھگڑنے والے پیدا ہو جائیں تو یورپ میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی نصیحت.....یورپ میں بعض ایسے احمدی بھی ہیں جن پر اس سوسائٹی ساری جماعت برکتوں سے محروم ہو جاتی ہے...274 عیسائیت جو روزانہ تبلیغ پر خرچ کرتی ہے اس کے مقابل پر کا ادنی سا بھی اثر نہیں..ہمارے خرچ کی صفر حیثیت ہے.کرم الہی ظفر صاحب کی سپین میں جماعت کے قیام کے احمدیوں سے توقعات..لئے قربانیوں کا ذکر..39.136.....مجھے فکر یہ ہے کہ ایک احمدی بھی ضائع کیوں ہو؟......146 یہ مستشرقین اپنی کتب میں جماعت احمدیہ کا ذکر نہیں کرتے.180.معاشرہ کی حفاظت کے لئے جماعت کی ایک معقول تعداد کا ہونا ضروری ہے..وفا اور صبر کے تقاضے ہیں کہ استقلال کے ساتھ اپنے رب کی راہوں پر گامزن رہیں..146...108.یورپی معاشرہ کی اصلاح کے لئے 229..164...342...جماعت اسلامی جماعت اسلامی کے ایک مولوی کا جلسہ سالانہ پر بیعت جمعتہ المبارک اہل ربوہ کو نماز جمعہ میں حاضری کی تلقین.288..جمعہ کی نماز کی طرف توجہ دینے کا ارشاد 324 جمعتہ الوداع...................56,48,47 و مخلصین جماعت جو تقوی شعاری سے شرح کے مطابق دو طرح کے وداع کرنے والے.چندہ دیتے ہیں.ہر احمدی کو تبلیغ کرنی چاہیے.ہرزمانہ میں ہمارا معیارا سوہ رسول عہ ہے..68..133..368..اس دن یہ دعا کریں کہ اے اللہ ہمیں سارا سال جمعہ کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخش...47.48.ہم ہیں جن کے سپرد اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ کے کوثر بعض لوگ سارا سال جمعتہ الوداع کا ہی کے جام سے ساری دنیا کو پلانے کا کام کیا ہے........67 انتظار کرتے ہیں.ہماری ساری ضمانت اور حفاظت اسوہ محمدی علیہ میں مضمر ہے.363....جن 48.جنوں کے ایک وفد نے آنحضور ﷺ سے ملاقات کی اور ہماری فتح کسی ملک یا جزیرہ کی فتح نہیں ہماری فتح وہی ہے ایمان لائے.جو ہمارے آقا محمد مصطفی مے کی.212..قرآن کریم اور جنوں کی حقیقت..173..173...........
22 22 چ اسلام ایک بہت ہی پیارا مذہب ہے جس کے ایک ایک چندہ.دیکھئے مالی قربانیاں جزو ہیں ڈوب کر جنت حاصل ہو سکتی ہے.361 چین 165,132.جنتوں (ناروے) میں ایسے سینے میں جہاں ویرانے آباد ہیں 93 چین میں اسلام تاجروں نے پہنچایا.جنگ بدر..............315,112,111 چین کے چاروں صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے...165 بچے بھی جنگ بدر کے جہاد میں شامل ہوئے........113 روس کو یہ فکر کے چین عددی قوت میں اس سے آگے نہ جنگ بدر کے ۳۱۳ صحابہ جنگ کی فتح اور شکست کا فیصلہ آنحضور علی کے خیمہ میں ہوا..111.111...حضور ﷺ کی خیمہ میں کی ہوئی دعا نے جنگ بدر کا فیصلہ کر دیا..112...نکل جائے.حبل اللہ بیعت کے ذریعہ حبل اللہ کو پکڑتے ہیں..219...مورخ حیران ہوتے رہیں گے کہ بدر کے میدان میں ۳۱۳ جسمانی رابطہ کو ئی حیثیت نہیں رکھتا اصل حیثیت روحانی محیف لوگوں نے چوٹی کے لڑنے والوں پر کیسے فتح پائی..جنگ حنین..112..362...168.رابطہ کی ہے جسے قرآن کریم نے حبل اللہ کہا ہے......168 343,183,87,86,85............ایک ولی کا واقعہ جن کا حج پر نہ جا کر بھی حج قبول ہوا.....86 جنگ حنین کے موقعہ پر جب مسلمان فوج کے پاؤں اکھر حج کے ایام میں تسبیحات پڑھنا سنت نبوی ہے....183 جھوٹ 362..حدیث نبوی علله اللهم ان تهلك هذه العصابة من جھوٹ بول کر یا چرب زبانی سے دوسرے کا حق لینا آگ اهل الاسلام.لینے کے مترادف ہے.270.چندوں میں جھوٹ کی ملونی نہیں شامل ہونی چاہیے.....63 بعض مسلمانوں نے اسلام کی طرف یہ تعلیم منسوب کر دی کہ بعض اوقات جھوٹ واجب ہوجاتا ہے.267...........افضل الذكر لا اله الا الله..انا النبي لاكذب انا ابن عبدالمطلب.اوصيكم بتقوى الله والسمع الطالعة.سيد القوم خادمهم.112,111.296...362..26.25.جہاد......287,278,230,113,112 اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهديتم........174 جہاد کی فرضیت.جین مت 113............جین مت کا یہ فلسفہ ہے کہ جب کوئی خواہش باقی نہ رہے تو سکون مل جاتا ہے.292...آپ ﷺ کی تمام احادیث نسلاً بعد نسل آگے پہنچتی رہتی چاہئیں.183...
23 23 حدیث بالمعنى نے ایسا وعظ کیا کہ ہماری آنکھیں بہنے لگ 25..حاسد سے بچنا چاہئے..268,228,208,207,206.208.دشمن سے ایک مرتبہ بیچنے کے بعد غافل نہ رہو......2008 بسا اوقات خود سوئی دھاگہ سے کپڑے سی لیتے حسن معاشرت 78....حسن معاشرت ایک اعلیٰ خلق ہے.آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ دجالی اقوام سے مادی علوم سیکھو حقوق بلکہ آگے نکلنے کی کوشش کرو.164.352..بعض لوگوں اللہ کی رضا کی خاطر جھگڑ انپٹانے کے لئے اپنے آخری زمانہ میں دنیا میں ایک شدید بے چینی پھیلے گی...157 حقوق چھوڑ دیتے ہیں..........اگر ایک حبشی غلام آپ پر مقرر ہو جائے تب بھی اس کی جو دوسروں کو خاطر اپنے حقوق چھوڑ دیتے ہیں ان کے اطاعت کریں......اللہ تعالیٰ انسان کی خوبیوں پر نظر رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ساری زمین مسجد بنادی ہے..امام الصلواۃ کی پیروی کرو.190..19.120.191...272..لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان ہے.......272 حضور ﷺ نے راستوں کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں ان کا خیال رکھیں.مہمانوں کے حقوق..ایک صحابی ( چرواہا) کا آپ ﷺ سے باجماعت نماز کی میاں بیوی کے حقوق.ادا ئیگی کے بارے میں پوچھنا.120.حقوق اللہ / حقوق العباد 349..351.276..........جھوٹ بول کر یا چرب زبانی سے دوسرے کا حق لینا آگ جو بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرتا ہے اللہ اس کے حقوق 270...لینے کے مترداف ہے....حدیث میں آتا ہے کہ یہودی بچہ کے کلمہ پڑھنے کی حضور ادا کرے گا.273..کو اتنی خوشی ہوئی کہ بار بار الحمد للہ پڑھنے لگے...100 حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق عبادات.......282 حضور ﷺ سے ایک شخص کا اسلام کے بارہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا 279..238.عبادت سے تعلق ہے.حمد وثناء ساری حمد خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے..188....158..162..158...دریافت کرنا..دجال اعور ہوگا.دجال کی ایک آنکھ اندھی ہوگی.دجال کی علامات.....دعا سے پہلے خوب اپنے رب کی حمد کرو...148 کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتا ہے....92 دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو مجھ پر درود بھیجا کرو....148 حمد د شکر کا پہلو منصب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے........4 صحابہ رضی اللہ نھم کا آنحضرت ﷺ سے یہ پوچھنا کہ دجال سے انسان کس طرح بچ سکتا ہے؟ صفیں سیدھی کرو..160.36.حمل اصر اور حمل میں فرق.306...
24 24 چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید.حکومت 141...خلافت / خلفاء 66,56,55,41,29,23,18-16,15,9,5-1 195,189,156 خلافت ایک وعدہ ہے.حکومت کے متعلقہ اداروں سے تعاون کریں..........350 خلافت ایک شجرہ طیبہ ہے.خالق خ خلافت کا آخری انعام تمہیں دیا جائے گا..خلافت کے قیام کا مدعا توحید کا قیام ہے.اگر یہ جان لو کہ پیدا کرنے والا اللہ ہے تو جھوٹے تکبر تم میں خلفاء کا ایک دوسرے کے ساتھ پیدا نہیں ہو سکتے..208...3...3.2...........2...35...36.مقابلہ نہیں کرنا چاہیے.خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خلفاء کے دعاؤں کی تحریک.خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع پر خاندان حضرت اقدس خلیفہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی قرب حاصل کرنے کی مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان نمون......15...کوششیں کریں.منصب خلافت.افراد خاندان کو چاہیے کہ لین دین کے معاملات میں اپنا کسی کے کہنے سے خلیفہ کے منصب میں کوئی فرق نہیں 169...35.رویہ درست کریں.....152...خدام الاحمدیہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیه ۱۹۸۲ ء.310,259,250,248,242,213,79 213...............پڑتا..35.خلافت احمدیہ 18,3.آئندہ انشاء اللہ خلافت احمد یہ کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا.18 اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا....3 امراء اور عہدیداران خلافت کی جب حضور انگلستان سے واپس تشریف تو خدام الاحمدیہ نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں.79.ایک احمدی جتنے چاہیے خلیفتہ المسیح کو ربوہ نے استقبال کیا..حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے خدام الاحمدیہ میں بطور سائق ، مخطوط لکھ سکتا ہے.زعیم ، قائد اور بطور صدر مجلس کا م کیا ہے..307.دفتر اول تحریک جدید خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا.....259 ذیلی تنظیمیں جلسہ سالانہ کے انتظامات کی عمومی نگرانی کریں.248...مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بیوت الحمد سکیم کے لئے ایک لاکھ روپے کا عطیہ.250.189.194.جب تک منصب خلافت کا احترام نہیں ،سچا عشق و پیار نہیں تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی.صل الله جس طرح حضور ع ہمارے لئے وسیلہ ہیں اسی طرح خلافت احمدیہ سے تعلق کے نتیجے میں دعائیں قبول ہوتی ہیں..56..55....جماعت احمد یہ اور خلیفہ امسیح کے درمیان کوئی حال نہیں ہوسکتا.194.
25 25 خلافت احمد یہ ایک شجرہ طیبہ ہے جس کی شاخیں آسمان سے خلیفہ کا کام نبی کی اطاعت ہے.باتیں کر رہی ہیں..4..60.حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ خلافت احمدیہ کم از کم ایک ہزار سال تک زندہ رہے گی...18 خلافت احمدیہ کی طاقت کا راز خلیفہ وقت اور جماعت کے حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کا ایک فقیر کو مجموعی تقوی میں ہے.خلافت اور جماعت احمد یہ الگ نہیں ہیں.خلافت ثالثہ کا انتخاب.خلافت رابعہ کی اجتماع بیعت خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع خاندان 23..5..13.7...نهایت خوش دیکھ کر اس سال 2 حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ آپ بیوی بچوں کو چندوں کی طرف زیادہ توجہ دلاتے تھے.76.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان نمونه....15 بچوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کا چندہ جو وہ ادا کرتے رہے ہیں خلافت سے اطاعت کے نتیجہ میں ہی دعائیں قبول ہوتی خلیفہ اسی کو دعائیہ خط لکھنے والے.ہیں..56..55.جاری رہے گا...آپ کے شعر ہوفضل تیر ایا رب یا کوئی ابتلا ہو کی تشریح..255..127..خلیفہ وقت کا جتنا ذاتی تقویٰ بڑھے گا اتنی ہی جماعت کو اچھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی اور مہمان نوازی قیادت نصیب ہوگی.خلیفہ وقت کا حق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے.23..14.کے اعلیٰ معیار کے قائل تھے.آپ نے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا اعلان 77 251..خلیفہ وقت کا کام اپنے آقا کی متابعت ہے...60 فرمایا...خلیفہ وقت کے تقویٰ کو بڑھانے کے لئے دعائیں کرتے آپ کا وفات کے وقت تحریک جدید دفتر اول کا چندہ ہیں.مستقبل کی پیشگوئیاں.24.18.بارہ ہزار روپے سے زائد تھا.255.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے ذریعہ کامل اطاعت کے باوجود خلیفہ وقت سے خیالات میں زمین کے کناروں تک شہرت پائی.اختلاف ہو سکتے ہیں.14.حضرت مصلح موعود کی ایک رویا نظام کی اطاعت اس لئے کرتے ہیں کہ خلیفہ مسیح کا کا ذکر قائم فرمودہ ہے.خلوص 192...حضرت مصلح موعودؓ کی بعض تحریکات کا ذکر.253..246...245..جب دعا خلوص اور سچائی کے ساتھ دل سے اٹھتی ہے تو انسان ساری جماعت میں سب سے زیادہ چندہ آپ کا تھا.255 حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو پاک کر دیتی ہے.خلیفہ 319...308,303,249,153,55,42,41,13,1 13..خلافت ثالثہ کا انتخاب.آپ کا ارشاد کی ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں.249 145,63,60,56,41,36,35,23,15,14,6,4 274,196,193,192,169
26 26 آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مالی اعانت کا خاص وعدہ کیا خلافت کے بعد مجھے یوں لگا کہ میں مر چکا ہوں اور ایک نیا 41.مسجد بشارت کے افتتاح کے موقعہ پر آپ کا ذکر خیر 135 کے ذکرخیر وجود پیدا ہوا.......دعا کریں کہ سب سے زیادہ مجھے عاجزی اور انکساری سے 7.صد رسالہ جوبلی کا منصوبہ حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے آپ (خلیفہ اسیح الثالث) کی خدمت کی توفیق ملے...13 پیش فرمایا.آپ کی آخری بیماری.آپ کی یاد دل سے محو ہونے والی نہیں.آپ دو گھوڑوں کی مثال دیا کرتے تھے.303.....2...2...سفر یورپ سے واپسی پر احباب جماعت کا غیر معمولی اظہار سکاٹ لینڈ کی جماعت کو تبلیغ کی نصیحت.208..165...42.مجھے اللہ تعالیٰ نے یورپ کی تقدیر بدلنے کے لئے نمائندہ حضرت خلیفة أسبح الثالث کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے مقرر فرمایا ہے.136.133..میرا پہلا خطبہ بشیر عہ کے غلام کی حیثیت سے تھا اور یہ سپین کی تقدیس کی کا با چی..حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے ابتداء میں ہی صد سالہ خطبہ نذیر علے کے غلام کی حیثیت ہے...جو بلی کا منصو بہ کھول کر پیش فرمایا..حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نیز دیکھئے حضرت مرزا طاہر احمد 308.41.60.میری طرف سے دس ہزار روپے کی حقیر رقم اس ( بیوت الحمد ) فنڈ کے لئے.242.میرے منصب خلافت پر آنے کے بعد خلیفہ اسیح الثالث کا بے شمار روپیہ نیک کاموں پر خرچ کے لئے پس خوردہ موجود تھا.اردو سے نا واقف احباب کے لئے انگریزی زبان میں میں حضور ﷺ کے غلام کی خلافت کے منصب پر بیٹھا خطاب..اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بہت سے مضامین روشن فرمائے.اللہ گواہ ہے کہ میرا دل ربوہ میں انکار ہے گا.149.241.72..ہوا ہوں.میں خلافت کا ایک ادنی غلام تھا.41 66.1...یورپ میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی نصیحت.......2030 یورپی احمدیوں کی اصلاح کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع بیعت لیتے وقت ہر دفعی میری اپنی حالت انتہائی غیر ہو جاتی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تڑپ..ہے کیونکہ ہر دفعہ منصب خلافت کی بیعت کرنی پڑتی ہے.بیوت الحمد کی تحریک.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے وابستہ کوئی نام 156.241.خلیفہ وقت چندہ عام خلیفہ وقت معاف کر سکتا.خودکشی بدنام ہو جائے تو میرے لئے یہ نا قابل برداشت ہے.155 یورپ میں خودکشی کا رجحان..حضور رحمہ اللہ تعالی کا فائح سپین کے نعرہ پر اظہار نا پسندیدگی 209.خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع پر خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان نمونہ 15 دجال 167.145...223............166,162,161,160,158,157,140,104,103
27 27 سورۃ الکہف میں یورپی اقوام کی پیشگوئی ہے.140.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دجالی اقوام سے مادی علوم سیکھو بلکہ آگے نکلنے کی کوشش کرو 164 268,266,253,232,230,229,213,212,210 336,333,324,320-318,299,293,278 368,363,362,351,345,343,339,338 دجال کی علامات آج کل کی عیسائی اقوام پر پوری ہوتی آپ بکثرت دعاؤں کے ذریعہ مسجد ( بشارت ) کے افتتاح ہیں..دجال کے بارہ میں پیشگوئیاں.سورۃ الکہف میں دجال کی علامات کا تفصیلی بیان ہے.صحابہ کا یہ پوچھنا کہ دجال سے انسان کس طرح بچ سکتا ہے؟..دجال کی علامات فتنہ دجال سے بیچنے کی دعا..158...157.160.160.....166,162,158.103..میں شامل ہو سکتے ہیں..72..اخلاص اور دلوں کی اندرونی تبدیلی یہ دونوں چیزیں دعا کی برکت سے نشو و نما پاتی ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دعا سے پہلے خوب اپنے رب کی حمد کرو..آنحضور ﷺ کی خیمہ میں کی ہوئی دعا نے جنگ بدر کا فیصلہ کر دیا..آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے دعا.324..148.112.21..قرآن کریم میں ایسی واضح آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے رب کی عبودیت اور ہے کہ دجال کا مذہب عیسائیت ہوگا.............161 حضور ﷺ کی غلامی کا پورا پورا حق ادا کرنے نیکی، تقوی، روحانیت اور خدا سے تعلق رکھنے والی باتیں والے ہوں.دجال کی سمجھ میں نہیں آسکتیں..وہ اعور ہوگا..158..158..101...اللہ کرے ہم اس جماعت میں شامل ہوں جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے پیوند ہے...........71 ہم عیسائی اقوام سے مادی علوم سیکھیں بلکہ ان سے آگے نکلنے اولاد کے لئے دعائیں..کی کوشش کریں....163.....22..اہل مغرب ہماری دعاؤں کے بہت محتاج ہیں...140 ایک دوست کا سوال کہ نماز میں دوسروں کے لئے دعا کرنے کا کیا طریق ہے؟ 123..وخت کرام جو دخت کرام ہوں انہیں دنیا کی عزتوں کی کیا ضرورت ایک غیر از جماعت کا سوال کہ جماعت احمد یہ نماز کے بعد ہے؟..درود شریف 368........ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی قائل نہیں.122.اے اللہ ہمیں زندگی کے نئے دور میں اس طرح داخل فرما دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو حضور ﷺ پر درود بھیجو.148 کہ اس کے ہر شر سے محفوظ رکھنا.دعا دعائیں 45,41,40,38,36,33,29,25-18,13,7,4 122,120,101,89-85,83,67,57-53,50,47 146,140,139,136, 134,129,128,125 209,208,204,201,199,156,155,148 202...پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے دعائیں کریں....128 تقویٰ کے حصول کے لئے دعائیں..جب دعا خلوص اور سچائی کے ساتھ دل سے اٹھتی ہے تو انسان کو پاک کر دیتی ہے.جلسہ سالانہ کی کامیابی کے لئے اخلاص اور عاجزی کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیں..24.319..336...
28 جماعت میں سیادت کے ہمیشہ قائم رہنے کے لئے دعا ئیں غزوہ بدر کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ کی دعا اللهم ان تهلك 25.هذه العصابة من اهل الاسلام..............111 کرتے رہنا چاہیے..جماعتی مقدمات میں ملوث احباب کے لئے دعاؤں کی غور کر کے دعائیں کیا کریں اور توازن کو حاصل کریں 212 فتنہ دجال سے بچنے کی دعا تحریک..45..103...جمعتہ الوداع کے دن یہ دعا کریں کہ اے اللہ ہمیں سارا قرآن کریم کا یہ پیارا اسلوب ہے کہ دعاؤں کے رنگ میں سال جمعہ کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخش...48 انسان کی تربیت فرماتا ہے..جو احمدیت کے لئے دعا کرتا ہے وہ دراصل اسلام اور اللہ قرة العین کی دعا.تعالیٰ کے مقاصد کے لئے دعائیں کرتا ہے.199.201..21 اللہ تعالیٰ کے حضور ایک براہ راست دعا اور ایک اللہ کے حسد سے بچنے کی دعائیں...حصول اولاد کے لئے دعائیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ئیں.208..22...22.حضرت خلیفة أسبح الثالث کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے بہت دعائیں کریں..سپین کی تقدیر کی کایا پلیٹی..خانہ کعبہ کی عمارت کو اٹھاتے وقت حضرت ابراہیم کی دعائیں..خلفاء کے دعاؤں کی تحریک.خلیفہ اسیح کو دعائیہ خط لکھنے والے.136...23.36.55.مقدس بندوں کی دعا اپنے پیاروں کے لئے 54.مالی قربانی میں کمزور بھائیوں کے لئے مساجد کو آباد کرنے کے لئے دعائیں...146..147 نماز خود ایک کامل دعا ہے.122.نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا کرنی چاہیے 122.والدین کو بچوں کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں دعا ئیں کرنی چاہئیں.22..دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعتی روپیہ کو پاک صاف رکھے.45..دفتر اول ( تحریک جدید ) دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک اچھے کارکن کے بدلے ہزار اچھے خادم عطا کرے.دعا کی برکت سے مخالفانہ تد بیر میں خود ہی باطل ہو جاتی ہیں..29.351..یہ دفتر خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے.دفتر دوم یہ دفتر انصار اللہ کے سپرد ہے.259..259..دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو حضور ﷺ پر درود بھیجو...148 دفتر سوم دعائیں کریں اللہ تعالیٰ خود تبلیغ کی راہیں سکھائے گا...133 دفتر سوم کے حوالہ سے لجنہ اماءاللہ سے حضرت خلیفۃ المسیح سپین میں تبلیغ کی راہ میں قربانی کرنے والوں کے لئے الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی توقع دعائیں کریں..سورۃ الفاتحہ کی دعا تمام مشکلات کامل ہے.سورۃ الفلق کی دعائیں بیان.139...123.201 یہ دفتر لجنہ اماءاللہ کے سپرد ہے.دوکاندار 260.259.دوکانداروں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے اخلاق کی اصلاح صد سالہ جوبلی منصوبہ کے لئے دعاؤں کی تحریک.......318 کرنی چاہیے.345.....
29 29 316,315,51 راستوں کے حقوق.نیز دیکھئے حقوق روس کی دہر یہ خلائی سفر پیما کی خدا کی تلاش..........51 بازاروں اور سڑکوں کا حق یہ ہے کہ وہاں مجلسیں نہ لگائی 316....} 321,103.....قرآن کریم کی تلاوت دلوں پر گہرا اثر کرتی ہے خواہ کوئی دہریہ ہو یا غیر دہریہ ڈنمارک.ز ذکر الہی جائیں......349.حضور ﷺ نے راستوں کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں ان کا خیال رکھیں.349..راستہ کے حقوق کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر آنے جانے والے کے لئے آسانی پیدا کی جائے.ربوبیت 350..238,237,235,55..ربوه 72,59,57,49,37,36,31,21.20,17,9,7,1 215,213,209,201,148,105,92,89,88,79 263,261,251-249,248,245,231,230 318,303,301,291,289-287,279,278 325,301,294,291,288,287,228,210,74 جب تک انسان خدا تعالیٰ کا عبد نہ بنے اس وقت تک ذکر الہی کی توفیق نہیں ملتی...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمودہ ذکر الہی کا 294.فلسفه دل کا سکون ذکر الہی سے حاصل ہوتا ہے.ذکر الہی کا فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تمہارا اللہ ہو جائے یعنی معبود..ربوہ کے ماحول کو ذکر الہی سے بھر دیں..296..294.296..349.340,336,335,333,327,324,323,321,320 359,357,354,349,347,345 اطفال الاحمدیہ صبح کے وقت صلی علی کر کے ربوہ میں شور بر پا کر دیں..340.اگر ربوہ کے سارے بالغ مرد با جماعت نماز ادا کریں تو ربوہ کی مساجد چھوٹی ہو جائیں گی.289.وہ نماز جو ہر فلق کے وقت پڑھنی چاہیے وہ ذکر الہی کی نماز اللہ گواہ ہے کہ میرا (خلیفہ امسیح الرابع ) دل ربوہ میں اٹکا 210....رہے گا..ذیلی تنظیمیں اہل ربوہ کو با جماعت نماز کی تلقین..ذیلی تنظیمیں جلسہ سالانہ کے انتظامات کی عمومی نگرانی اہل ربوہ کو نماز جمعہ میں حاضری کی تلقین.72....288..288 کریں.248.....جلسہ سالانہ بعد میں گہری اداسی چھوڑ جاتا ہے..رؤیا وکشوف حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی ایک رؤیا کا ذکر جلسہ سالانہ میں اہل ربوہ کی ذمہ داریاں جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کے گھروں میں نمازوں کا 347..336..246..287...شدت سے اہتمام ہونا چاہیے.
30 30 جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ربوہ کے سارے گھر اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے 247.جلوے.گھر بن جاتے ہیں..حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ربوہ کو رحیمیت اعمال کے نظام کا ایک نقشہ ہے..249.240...237..غریب دلہن کی سجا دیں..ربوہ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجانا چاہیے لیکن اصل رحیمیت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ.رحیمیت کا انکار کرنے والوں کو ضالین کہا گیا ہے......236 سجاوٹ تو تقویٰ کی سجاوٹ ہے.287.رحیمیت کے نظام کو تہس نہیں کر دینا عیسائیت کا نام ربوہ کی ایک ایک گلی گواہ ہے کہ جماعت ابتلاء کے وقت ہے..236..237.وفا پر قائم رہی.ربوہ کے بازار ربوہ کے غرباء کے سینوں میں خدا بسا ہوا ہے..ربوہ کے غرباء کے لئے ایک کمیٹی کی تجویز.ربوہ کے گلی اور محلوں کو صاف ستھرارکھیں.17.326..93 245.248.رضا ارضائے الہی جتنا رضا میں آگے بڑھیں گے اتنا ہی عبودیت میں داخل ہو جائیں گے.عشق اور رضائے الہی کا بیان.298.298..249.دعا کریں ہم جس ملک میں رہیں رضائے باری تعالیٰ اور 129.ربوہ کے ماحول کو ذکر الہی سے بھر دیں...349 محبت الہی کی جنت ہمیں حاصل رہے.ربوہ کے ہر گھر میں سجاوٹ پیدا کریں..لوگ یہاں سے پیار کے اظہار کے طور پر کوئی نہ کوئی چیز رضا آپ کومل رہی ہوتی ہے..اگر آپ اللہ کی رضا کی خاطر جلسہ گاہ میں بیٹھتے ہیں تو اللہ کی لے جاتے ہیں..343.اگر زندگی کے محرکات کا صحیح استعمال شروع ہو جائے تو ویرانوں (ربوہ) میں ایسے سینے ہیں جہاں جنتیں بس رہی رضائے باری تعالیٰ حاصل ہو سکتی ہے.93...332..225..بعض لوگ اللہ کی رضا کی خاطر جھگڑا نپٹانے کے لئے اپنے حقوق چھوڑ دیتے ہیں..272..ہیں.جو دنیا میں رحم کرے گا اس پر رحم کیا جائے گا..273.رحمانیت جو تقدیر پر راضی ہوتا ہے اللہ اسے زمان و مکان سے بالا کیفیت عطا کرتا ہے.85....280,240,239,238,237,236.خدا کی خاطر شہوات چھوڑنے کا نام جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے اللہ تعالیٰ کی رضا ہے..جلوے.رضا کے دو معنی..225..212..240..رحمانیت سے عاری لوگوں کو مغضوب کہا گیا ہے سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دینے سے رضائے باری یعنی یهود.رحمانیت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ 236..236.رحیمیت 245,244,240-235 تعالیٰ کی جنت حاصل ہوتی ہے........مالی قربانیوں سے ہمارا ما حصل اللہ کی رضا ہے..مغفرت اور رضوان کا نیک انجام کیسے حاصل کیا جائے..314.339.......264..
31 رمضان المبارک 253,93,49,48,47,34..رمضان کا مہینہ ساری برکات کا مہینہ ہے.روزی ناجائز ذرائع سے روپیہ ہتھیانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا..47.271..صدسالہ جو بلی کے موقعہ پر اردو، اٹالین جرمن ، روسی ،سواحیلی ،عربی،فرنچ اور لاطینی زبانوں میں Captions تیار کرنے کا منصوبہ.309 مادری زبان سے نا واقفیت بہت شرم کی بات ہے.زندگی 149..نا جائز ذرائع سے مال کمانے کے نتیجہ میں انسان ہزار قسم کی آپ ﷺ نے ہمارے لئے حیات روحانی کا ایک عظیم ہدیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.روس 271.309,286,267,220,219,51,22,3...روس کو یہ فکر کہ چین عددی قوت میں ان سے آگے نہ نکل جائے.روس کے خلائی سفر پیما کی خدا کی تلاش...ریا 219.51 264.کی تعلیم میں زندگی کے سارے اچھے پہلو موجود الشان نمونہ قائم فرمایا..ہیں.اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے ادنی چیز کی قربانی دینا زندگی کا ایک بنیادی فلسفہ ہے.اگر زندگی کے محرکات کا صحیح استعمال شروع ہو جائے تو 264...350.رضائے باری تعالیٰ حاصل ہو سکتی ہے.....225 زندگی کا فلسفہ یہی ہے کہ جو چیز آتی ہے جو نماز کے مفہوم سے غافل ہو کر نماز پڑھتے ہیں وہ نماز کو وہ ختم ہوجاتی ہے.دکھاوے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.ریا کارنمازیوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.ریزولیوشن.جماعتی روایت اور ریزولیوشن دینے کا طریق.ریزولیوشن کی ذمہ داریاں..ریڈی ایشن ز زبانیں 282...283.6,5,4..4.6..234..زندگی کی ناکامیوں اور مایوسیوں کا ذکر.زندگی کے فیشن آنحضور ﷺ سے سیکھیں...لہو و لعب زندگی کا کم سے کم مطلوب کا ہے.زندہ قومیں 348..225...367 217...زندہ قوموں کا اولین یہ کام ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ اپنا جائزہ لیتی رہیں.زكوة 325.....حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے اہل کونماز اور زکوۃ کی اردو یا کسی اور زبان سے واقفیت نہ ہونا کوئی فخر کی بات ادائیگی کی تعلیم دیا کرتے تھے.نہیں..149.زینت 284..جوبلی کے موقعہ پر سوز بانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا اس بات کو خصوصیت سے پیش نظر رکھیں کہ نہ لغو غالب آئے 226._ نہ لہو نہ زینت نہ تفاخر نہ تکاثر 309......
32 32 جنہیں باطنی زینت حاصل ہو جائے وہ ظاہری زینت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں.......دنیاوی زمینوں کے اثرات.زینت اور تفاخر کا تعلق.مساجد میں زینت سے کیا مراد ہے..سچائی 319,317,300,270,269,154,141,71,67 341 227.221.218.83......نفسانی خواہشات کے بعد زینت کا مقام آتا ہے......217 ساوتھ ایسٹ ایشیا یعنی جنوب مشرقی ایشیا سائنس /سائنسدان س 310..سائنسدانوں کے مطابق عدم کی تعریف یہ ہے کہ کوئی چیز صفات سے کلیتہ عاری ہو جائے..سائنسدانوں کا اجرام فلکی کے بارے میں علم.سانپ 235.234 سچائی کی عادت ہو تو کسی قسم کے اختلاف میں تلخی نہیں ہو سکتی.سحر اور شعر میں فرق.صلى الله سنت نبوی علی نیز دیکھئے اسوہ حسنہ 270...341 74 183........حج کے ایام میں تسبیحات پڑھنا سنت نبوی ہے..آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کریں...353 سنجیدگی سنجیدگی پاکیزگی پیدا کرتی ہے اور کھیل کود کا مزاج بے حیائی جب سانپ کس گھولتا ہے تو اسے نفث کہتے ہیں.....2006 پیدا کرتا ہے.221.سپین 147,146,139,136,135,88,85,84,83,72 318,240,212,210,209 سندھ.سوئٹرز لینڈ.سوال و جواب 342......134..سپین میں تبلیغ کی راہ میں قربانی کرنے والوں کے لئے دعائیں کریں..........سید محمود احمد ناصر صاحب اور صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کی سپین میں خدمات کا ذکر.مسجد (بشارت )..139.139.72...کرنے کا کیا طریق ہے..ایک دوست کا سوال کہ نماز میں دوسروں کے لئے دعا 123..ایک غیر از جماعت کا سوال کہ احمدی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کیوں نہیں کرتے.کرم الہی ظفر صاحب کا سپین میں عطر بیچ کر تبلیغ کرنا...137 سکاٹ لینڈ..122...168,165,157.کرم الہی ظفر صاحب کی سپین میں جماعت کے قیام کے جماعت احمد یہ سکاٹ لینڈک و تبلیغ اور لئے قربانیوں کا ذکر...136..دوسری نصائح.یہاں حکومت کی سختی کی وجہ سے عیسائی فرقوں کی بھی تبلیغ یور پی احمدیوں کی اصلاح کے لئے کی اجازت نہیں تھی..136..166,165..حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تڑپ.......167
سکون 33 33 بہت سے مذاہب کی بنیا داس فلسفہ پر کھی گئی کہ جب کوئی جب اگر نعمت کا صحیح استعمال ہو تو انسان خواہش باقی نہ رہے تو سکون مل جاتا ہے.292.شر سے بچ جاتا ہے..بے چینی اور سکون کی جنگ ابتدائے آفرینش سے جاری اندھیروں کے شر.ہے.دل کا سکون ذکر الہی سے حاصل ہوتا ہے.سیاسی برتری 291..294.شر سے بچنے کی دعا.شرک 203.205..202.......147,140,119,118,102,101,99,82,67,53 سیاسی اور اموال کی برتری بالاخر تمام نیکیوں سے محروم کرنے جب قو میں خالق کائنات کو بھول کر مخلوق کے حسن میں کی وجہ بنتی ہے.سیالکوٹ.221..253,68,40..کھوتی ہیں تو پھر ان سے شرک پھوٹا کرتے ہیں......101 دفتر اول میں سیالکوٹ کے مزدوروں کی قربانی.......253 سحر اور شعر میں فرق.سیرالیون..ش حضرت منشی شادی خان 309.....شفاعت.آپ مد ﷺ کو شفاعت کا لائق ٹھہرایا گیا.شکا گود یکھئے امریکہ 74.281 281.جنہوں نے حضرت ابو بکر کی طرح اپنا سب کچھ شکر الہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا..68 اللہ تعالیٰ کا پیار اور رحمت قابل شکر ہے.شاكلة.35,34,32,31.اپنی اپنی شاکلتہ کے مطابق لوگوں نے محمد مصطفی عالیہ شہاب ثاقب.39.172..آسمان محافظوں اور شہاب ثاقب سے بھرا ہوا ہے......173 کے رنگ پکڑے.ہر شخص اپنے شاکلتہ کے مطابق عمل کرتا ہے.شجره خبیشه شجرہ طیبہ 34...31.3....خلافت احمد یہ شجرہ طیبہ بن کر ایک درخت کی طرح لہلہاتی رہے گی...خلافت ایک شجرہ طیبہ ہے.4..3.خدا کی تلاش کے بارے میں شیلے کا قول.شیلے کے دہریہ ہونے کی وجہ.ص مبر 284,211,151,122,108,33,17,14,4,2 364,360,359,351,350,289 51..51..51....
34 =4 جماعت احمدیہ کا صبر اخلاص اور محبت حضرت مسیح موعود ان بزرگوں کی نیکیوں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ان کی اولا دوں علیہ السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں..........360 کے اموال میں بہت برکت ڈالی...........جنہوں نے تھوڑے مال بھی پیش کئے آج ان کے خاندان اللہ کے فضلوں سے دینوی لحاظ سے بھی وارث صبر میں بہت بڑی طاقت ہے..وفا اور صبر کے تقاضے ہیں کہ استقلال کے ساتھ اپنے رب کے راہوں پر گامزن رہیں.صلى الله صحابه رسول علی آپ ﷺ کے عشاق نے ہر رنگ میں بہار کا اثبات کیا..الله آنحضرت علیہ کا ایک حبشی غلام سے شفقت کا سلوک.آنحضور ﷺ کے صحابہ کے بعد بھی ایسے لوگ تھے جو اسلامی اقدار کی حفاظت کرتے رہے.350..108..34 138..ہیں..69.65....حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ کو خدا تعالیٰ نے جو عبادت کے قیام کی توفیق بخشی وہ تابعین تک بڑی شدت سے جاری رہی.286..حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان مخلصین کا بھی شکریہ ادا کیا جو دو پیسے ادا کرتے تھے.حضرت مفتی فضل الرحمن.حضرت منشی شادی خان صاحب نے حضرت ابوبکر کی طرح اپنا سب کچھ حضرت اقدس علیہ السلام کی حضور پیش کر دیا.حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی..39.357.اصحاب الصفہ کی عظمت کردار اصحاب الصفہ کی مالی قربانی اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهديتم صيا الله 175.244....244.174.ایک صحابی ( چرواہا ) کا آپ علیہ سے باجماعت نماز کی حضرت منشی نبی بخش نمبر دارد.ادائیگی کے بارے میں پوچھنا.جنگ بدر کے ۳۱۳ صحابه.جنگ حنین کے موقعہ صحابہ کے اخلاص کے نمونے..صحابہ رضوان اللہ علیہم کا مقام.120.111...363....67.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان..صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب بیعت لیتے تھے جو نہیں پہنچ سکتے تھے وہ پگڑیاں کھول کر پھینک دیا کرتے تھے.68..355..356..285..صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اہل و عیال کو نمازوں کی تلقین کیا صحاب رضوان اللہ علیہم کا یہ پوچھنا کہ دجال سے انسان کرتے تھے..کس طرح بیچ سکتا ہے؟.160.89 284..قرآن کریم نے آخرین کا شمار آنحضرت علم کے صحابہ قرآن کریم میں حضور علی کے بشیر اور نذیر کی حیثیت سے میں کیا ہے..85.آپ ﷺ کے غلاموں کی بھی تصویر کھینچی ہے...66 صد سالہ جوبلی...337,336,304,303 مؤرخ حیران ہوتے رہیں گے کہ بدر کے میدان میں ۳۱۳ نحیف لوگوں نے چوٹی کے لڑنے والوں پر کیسے فتح پائی..صحابہ مسیح موعود علیہ السلام 112..آپ رضوان اللہ علیہم کی مالی قربانیوں کا تذکرہ 252 یہ منصوبہ حضرت خلیفہ امسح الثالث نے پیش فرمایا...303.آئندہ سے اس شعبہ کا انچارج وکیل تحریک جدید ہو گا جو وکیل برائے صد سالہ جو بلی کہلائے گا...........320
35 237,236,235,232..وہ راستہ جو خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق کو بالآخر آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ پر اعتراضات کے جوابات صراط دینے کا منصوبہ پاکستان اور بیرون پاکستان کا بجٹ..315..305.....312....320.تراجم قرآن کی اشاعت کا منصوبہ جو بلی کا دراصل تحریک جدید سے تعلق ہے.جو بلی کے موقعہ پر سوز بانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا 309.اس تک پہنچاتا ہے.صفات الهيه 232.236.....اگر یہ جان لو کہ پیدا کرنے والا اللہ ہے تو جھوٹے تکبر تم میں پیدا نہیں ہو سکتے.208..حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ابتداء میں ہی یہ منصوبہ صفات باری تعالیٰ کا مضمون جتنا انسان پر روشن ہوگا اتنا 308.کھول کر پیش فرمایا..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کی مختلف زبانوں میں منظوم کیسٹوں کا پروگرام..317.ہی زیادہ عبادت کا اہل بنتا چلا جائے گا..ربوبیت.صفت مالکیت کا بیان دنیا کی سوزبانوں میں آنحضور عل اللہ کا پیغام پہنچ جائے تو یہ ہمارا جشن ہے..310..سو زبانوں میں قرآن کریم کی تلاوت کی کیسٹ تیار کرنے کا منصوبہ.317.صد سالہ جوبلی منصوبہ کے لئے دعاؤں کی تحریک......318 لاہور کی ایک احمدی خاتون کا جو بلی فنڈ کے لئے زیور کی قربانی..مختلف موضوعات پر احادیث کی کیسٹوں کی تیاری کا مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کا منصوبہ مقاصد منصو به کمیشن.کتب اور پمفلٹ کی اشاعت.337.317.310.304.320.309.الرحمن..الرحيم.280...........235..233..........19..19.18...248..249.........ستار صفائی ربوہ کے گلی اور محلوں کو صاف ستھرارکھیں..ربوہ کے ہر گھر میں سجاوٹ پیدا کریں.صل على اطفال الاحمد یہ نمازوں پر جگانے کے لئے صل علیٰ کا اہتمام کر.ے.ضالین 340..صدر انجمن احمد یہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے بیوت الحمد فنڈ میں دولاکھ رحیمیت کا انکار کرنے والوں کو ضالین کہا گیا ہے.....236 روپے کا عطیہ صدر انجمن احمدیہ کا ۱۹۱۸ء کا بجٹ.صدر انجمن احمد سید کامالی سال...242.37.37.عیسائیت نے جو ضالین کی راہ اختیار کی وہ نظریات سے عملی شکل میں ڈھل گئی..239..
36 36 معمولی عزم و ہمت.حضرت مرزا طاہر احمد.نیز دیکھئے حضرت خلیفہ المسیح میں خلافت کا ایک ادنی غلام تھا.طاہراحمد.نیز الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ غلام 183..1.میں نے بطور سائق، زعیم ، قائد اور بطور صدر مجلس کام کیا آپ کا سکول کا واقعہ جب آپ خالی بدن پر اچکن پہن کر ہے.چلے گئے.76...307.آپ کا یہ واقعہ کہ جب انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر ، حرم حضرت خلیفہ تھے تو بہت سے پاکستانی نماز پڑھنے سے شرماتے تھے.پ کی کالج کی زمانہ کی باتیں..آپ کے بچپن کے تجارب..آپ نے ہر قدم پر خدا تعالیٰ کا فضل مشاہدہ 118.76..76 المسیح الثالث.ظ حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی 2......حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے بارے میں 355,354.88..حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلوی کی دو روایات.185.11.کیا ہے..بچوں کا چاند کے حجم کے بارے میں ایک مائی سے پوچھنا..جب میں انگلستان پڑھنے گیا تو وہاں میں نے انگریزی صاحبزاہ مرزا ظفر احمد لباس پہنا..79.ابن حضرت صاحبزاہ مرز ا شریف احمد.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا شکا گو (امریکہ ) چوہدری ظہور احمد.ناظر دیوان میں رات کو سونے کے لئے جگہ ڈھونڈنے کا واقعہ.....352 آپ کا وصال اور ذکر خیر.ع 80..حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو انگلستان سے آتے ہی وقف جدید کی ذمہ داری دی.خلافت ثالثہ کے انتخاب کے وقت اطاعت کے نمونے..13..خلافت سے قبل آپ کا سفر یورپ و امریک.........118 حضرت عائشہ صدیقہ عبادات 28.78.........خلافت کے بعد مجھے یوں لگا کہ میں مر چکا ہوں اور ایک نیا احباب جماعت خدا سے یہ عہد کریں کہ عبادت سے غافل وجود پیدا ہوا...7.نہیں ہوں گے.گورنمنٹ کالج لاہور کے طلباء کا غیر مسلم لٹریچر سے غلط طور پر اللہ تعالیٰ تمام نظاروں کے طبعی نتیجہ کے طور پر عبادت کی متاثر ہونا اور آپ کا ان کی اصلاح کرنا..182...لندن میں نیوائیر ڈے کے موقعہ پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا ریلوے اسٹیشن پر نفل پڑھنے کا واقعہ..119.مستشرقین کی کتب کے جوابات کے بارہ میں آپ کا غیر طرف توجہ دلاتا ہے..117.94...بہت سے عبادت کرنے والے بدیوں میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں.282.........
37 جلسہ سالانہ کی حقیقی کامیابی کا تعلق عبادت کے حق ادا کرنے حضرت نواب محمد عبداللہ خان سے ہوگا..جو عبادت گزار دل ہوں اللہ تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ کو خدا تعالیٰ نے جو عبادت کے قیام کی توفیق بخشی وہ تابعین تک بڑی شدت سے جاری رہی..حضور ﷺ کی عبادات کو اپنی عبادات کا قائمقام نہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا عبادت سے تعلق ہے.عبادت تمام نیکیوں کا سر چشمہ ہے..عبادت میں بے حیائی یہ ہے کہ انسان خدا کی بجائے دوسرے انسان سے شرمائے..339.114..286..53.279..282.عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کو اپنے اعمال میں ڈھالنے کی کوشش کریں..117.280..آپ کو باجماعت نماز سے عشق تھا..حضرت عبدالمطلب آنحضرت ﷺ کے دادا..عبودیت اللہ کی غلامی کے بعد انسان ہر دوسری غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے..285...362.300.جتنا رضا میں آگے بڑھیں گے اتنا ہی عبودیت میں داخل ہوجائیں گے.مقام عبودیت...298...295.......35..34...........حضرت عثمان غمی 74,35,34,6 آپ نے آنحضرت مے کو دل کی آنکھ سے پہچانا 74 حضرت علی کے دور حضرت عثمان سے مقابلے شروع ہوگئے آپ بھی سنت محمد مصطفی میں پر چلنے والے تھے 34 عبادت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پیروی کرے....280 عدل عبادی عبادی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیار اور شفقت کا اظہار ہے.52...علی.عدل و انصاف محبت الہی اور بنی نوع انسان سے محبت مذاہب کا سرمایہ ہیں..عیسائیت میں عدل کا تصور..جب تک انسان خدا تعالیٰ کا عبد نہ بنے اس وقت تک ذکر الہی کوئی معاشرہ عدل کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا.کی توفیق نہیں ملتی..294.عدم 267..237.197..عبادت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پیروی کرے....280 سائنسدانوں کے مطابق عدم کی تعریف یہ ہے کہ کوئی چیز عبد اس غلام کو کہتے ہیں جو اپنے آقا کے تابع ہو جائے.عبد شكور..280.101......حضرت سید عبد القادر جیلانی 81 صفات سے کلیتہ عاری ہو جائے..عرب 235.190,178,177,147,122,112,96,45,42 309,306,206,191 آپ بڑا فاخرانہ لباس پہنا کرتے تھے.81 عرب ذہن کسی عجمی کی اطاعت کو تسلیم نہیں کرتا تھا.1990
38 عرب طلبا ء برطانوی یونیورسٹیوں میں مستشرقین سے اسلام عہدیداران سیکھنے آتے ہیں..177..192,189..اگر کسی عہدیدار سے شکایت ہو تو مرکز کو مطلع کریں....194 عرب ممالک میں تیل کی موجودگی کی وجہ سے مستشرقین امراء اور عہدیداران خلافت کی نمائندگی کر رہے ہوتے اپنی پالیساں تبدیل کر رہے ہیں.....حضرت عرباض رضی اللہ عنہ.عظمت کردار اسلام غریب کو عظمت کر دار سکھاتا ہے..اگر انسان علم غیب سے واقف ہو جائے تو کسی تکبر کا سوال نہیں رہتا...اللہ تعالیٰ غیب اور حاضر کا علم جانتا ہے.انسان نہ علم غیب جانتا ہے نہ علم حاضر..178.25...244.12.ہیں.امراء کی ذمہ داریاں..189...192..انہیں اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے.....193 عہدیداران کے حقوق وفرائض.189.کسی امیر یا عہد یدار یا عام احمدی کے بارے میں پرو پیگنڈہ سختی سے منع ہے.عیسائیت عیسائی اقوام 236,162,161,160,159,136,39,38 9 316 10.195.اخلاقی اور روحانی امور میں اہل مغرب غلط راستہ پر ہیں جبکہ حاضر کا علم در اصل غیب کے علم پر منتج ہوتا ہے.علم غیب پر غور کے نتیجے میں بجز کا سبق ملتا ہے.10.10.دنیاوی امور میں بالکل درست ہیں................164 الکہف میں عیسائیت کے عروج و زوال کا ذکر ہے.....104 ان اقوام کی اخلاقی اور مذہبی اقدار میں پیروی نہ کریں کیونکہ وہ ان معاملات میں اندھے ہیں............163.کمپیوٹر اور علم غیب.کوئی شخص اپنی ذات کے متعلق حقیقی علم نہیں رکھتا.....15 انہوں نے نہایت مہلک ہتھیار ایجاد کر لئے ہیں جن کے استعمال سے انسان کا وجود مٹ جائے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ صلى الله آپ نے آنحضرت ﷺ کو دل کی آنکھ سے پہچانا....74 دجال کی علامات آج کل عیسائی اقوام پر پوری ہوتی آپ بھی سنت محمد مصطفی علی پر چلنے والے تھے 34 ہیں.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ...رحیمیت کے نظام کو تہس نہس کر دینا عیسائیت کا نام آپ بھی سنت محمد مصطفی حملے پر چلنے والے تھے 34 ہے..سپین میں حکومت کی سختی کی وجہ سے عیسائی فرقوں کو بھی آپ نے آنحضرت ﷺ کو دل کی آنکھ سے پہچانا 74 حضرت عثمان کے دور میں حضرت عمر کے مقابلے شروع تبلیغ کی اجازت نہیں تھی......ہو گئے.عہد 35.....159 158.237..سورۃ الکہف کی پہلی اور آخری دس آیات میں عیسائیت کا ذکر ہے.136.160..احباب جماعت خدا سے یہ عہد کریں کہ عبادت سے غافل عیسائیت جو روزانہ تبلیغ پر خرچ کرتی ہے اس کے مقابل پر نہیں ہوں گے.117.....ہمارے خرچ کی صفر کی حیثیت ہے.39...
عیسائیت میں عدل کا تصور 237..39 غسق الیل عیسائیت نے جو ضالین کی راہ اختیار کی وہ نظریات سے عملی جب رات اندھیری ہو جائے.شکل میں ڈھل گئی.239.204 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام.عیسائیت کی بنیا د اس بات پر ہے کہ ہمیں کوئی ایسا خدانظر نیز دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہیں آتا جو نیک اعمال قبول کر کے ہمیں جزا دے......237 عیسائیت کے بعض فرقے اکیلے ہی روزانہ اپنے خرچ پر تبلیغ کرتے ہیں.......قرآن کریم میں ایسی واضح آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دجال کا مذہب عیسائیت ہوگا..38.44,41,39,27,26,25,22,19-16,12,6,2 124,110,89,81,77,71,70,68,67-62 174,159,155,153,152,150,144-142 161.253,252,251,247,197,187,182,177,175 326,325,323,318,317,296,287,286,260 367,363,360,357,354,338 قرآن کریم کا فرمان کی عیسائی دنیاوی معاملات اور علوم میں بہت ترقی یافتہ ہیں مگر دینی معاملات سے کوئی تعلق نہیں..وہ مادی طور پر نہایت ترقی یافتہ ہو جائیں گے.159..163..حضرت مرزا غلام مرتضی ہم عیسائی اقوام سے مادی علوم سیکھیں بلکہ ان سے آگے حضور علیہ السلام کو آپ کی وفات کے بارے میں الہام نکلنے کی کوشش کریں..حضرت عیسی علیہ السلام آپ علیہ السلام کی یہ نصیحت کہ اپنے واسطہ زمین پر مال جمع نہ کرو..عیش و عشرت 163..61..ہوا.......غلامی 110...اللہ کی غلامی کے بعد انسان ہر دوسری غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے..غیر مذہبی اہل فکر 300....ان کا خیال ہے کہ خدا ظاہر نہیں ہوتا.عیش وعشرت سے انسان کلیتہ جدا نہیں ہوسکتا...225 غ مرزا اسد اللہ خان غالب 293,266,7434 غانا..غرباء 309......95.قرآن کریم غیر مذہبی اہل فکر کے نظریہ کو جھٹلاتا ہے...96 ف فاتح ادیان عالم ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہیے کہ حضور علیہ اسلام غریب کو عظمت کر دار سکھاتا ہے.244.اسلام غربیوں سے ہمدردی کرنا اور غریبوں کو عزت نفس فاتح سپین سکھاتا ہے.غرباء کے گھر بنانے کے لئے فنڈ کا قیام..244.241.فاتح ادیان عالم ہوں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا فاتح سپین کے نعرہ پر اظہار نا پسندیدگی.212..209..
فارایسٹ یعنی مشرق بعید.فاران.فرانسیسی کالونیز فرعون.فرعون کے لئے سرداری لعنت بن گئی..فرینکفرٹ جرمنی کا ایک شہر.310...96.......310.........23..23.167,134 40 40 فلق کا خیر اور شر کا پہلو..210..وہ نماز جو ہر فلق کے وقت پڑھنی چاہیے وہ ذکر الہی کی نماز 210.زندگی کے فیشن آنحضور ﷺ سے سیکھیں.......367 فیشن میں کوئی زندگی نہیں..فیصل آباد فیملی پلاننگ 367...321.حضرت مفتی فضل الرحمن بھیروی......357 بعض قوموں کو یہ فکر ہے وہ عددی لحاظ سے کسی سے پیچھے فطرت نہ رہ جائیں..219...فطرت کے مطالعہ سے ہم مخفی روحانی عالم کا اندازہ کر سکتے ق ہیں.قرآن کریم اور مطالعہ فطرت..171.171 33..قادیان احرار کے دعوے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے.251..گائے اور بچھو کی مثال..فلسفه قادیان میں راجہ اسلم صاحب پاگل پن کی انتہا کے وقت بھی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے ادنی چیز کی قربانی دینا 350...پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرتے تھے.قادیان میں باجماعت نماز کے ہزار ہا نمونے زندگی کا ایک بنیادی فلسفہ ہے.تمناؤں سے آزاد ہونے والے فلسفہ کو قرآن کریم کلیتہ رد موجود تھے..کرتا ہے.294.286....286...قادیان کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ پاگل بھی نمازوں کے عادی تمناؤں سے آزاد ہوکر سکون حاصل کرنے کا فلسفہ....294 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمودہ ذکر الہی کا قائد اعظم.296..قانون 286...44...زندگی کا فلسفہ یہی ہے کہ جو چیز آتی ہے وہ ختم ہو جاتی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اسلام کی اخلاقی تعلیم کے خلاف ہے.فلق 348......ہے.قانون قدرت 350...پیج کے پھوٹنے اور گٹھلیوں کے پھٹ کر نئی کونپل پیدا کرنے آپ ﷺ کی بعثت سے قانون قدرت میں کوئی تبدیلی کے فلق کہتے ہیں.202.نہیں آئی..174.
41 جب انبیاء مبعوث ہوتے ہیں تو وہ ایک نیا آسمان تیار کرتے قرآن کریم ہیں..قاهره قاہرہ میں ایک جنازہ کا ذکر جو چار مزدوروں نے اٹھایا ہوا تھا.قبولیت / قبولیت دعا استجابت اللہ کا معنی..73,70,66,62,59,52,44,31,25,14,12,9 139,128,121,105,96,93,92,87-82,75 174.142..182-171,168-166,162-160,145,141 208,206,204-201,197,190,188,184 142...263,240,236,233,230,223,218,211,209 292,291,284,282,276,273,270,269,267 313,312,306,301,299,298,296,295,294 54 365,341,323,319,318,317,316,315 جماعت کے چندہ میں قبولیت کا درجہ رکھنے والی تمام باتیں اس کا اسلوب کو روزمرہ باتیں پکڑتا ہے اور مضمون اللہ پر شامل ہیں.........44.ختم کرتا ہے.75..اگر آپ ﷺ کی باتیں نہیں مانیں گے تو دعائیں قبول اس کی آیات لامتناہی مضامین رکھتی ہیں.........2009 نہیں ہوں گی..جب تک منصب خلافت کا احترام نہیں ،ساعشق و پیار نہیں تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی.54 56.اس کی بعض آیات دوسری آیات کی حکمتیں بیان کرتی _ بے چینی کا قرآنی حل..267...292.تراجم قرآن کی اشاعت کا منصوبہ.312...جس طرح حضور ﷺ ہمارے لئے وسیلہ ہیں اسی طرح تصریف آیات اور غائب ضمیر کے معنی..خلافت احمدیہ سے تعلق کے نتیجے میں دعائیں قبول ہوتی تمناؤں سے آزاد ہونے والے فلسفہ کو قرآن کریم کلیتہ رد ہیں.قدرت اللہ تعالی تمام نظاروں کے طبعی نتیجہ کے طور پر عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے.قرآن کریم اور قانون قدرت.55..94..172.کرتا ہے.97 294.حضرت مصلح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مطالعہ کے ذریعہ نئے راستوں سے واقف ہونے کے راز سکھائے ہیں..178..خدا تعالی قرآن کریم میں کائنات کی مثالیں پیش کر کے الہی مضامین بیان فرماتا ہے.ناروے ایسا ملک ہے جسے قدرت نے بڑی فیاضی کے سورۃ الملک میں بیان ظاہری اور روحانی ساتھ حسن عطا کیا ہے.ناروے کے قدرتی حسن کا ذکر..قربانی 91 94..آسمان کی تفسیر.......319...171.صد سالہ جو بلی سکیم میں سوزبانوں میں قرآن کریم کیسٹیں تیار کرنے کا منصوبہ فصاحت و بلاغت.خلوص اور تقویٰ کے ساتھ آپ اپنی قربانی سلسلہ کے لئے قرآن کریم اپنی اقدار کی خود حفاظت کرتا ہے.پیش کریں.343..317.73..172.
قرآن کریم اور جنوں کی حقیقت قرآن کریم اور قانون قدرت.قرآن کریم اور لباس..173..172...75.171.42 قرآنی اصطلاح / اصول ( بے چینی) کے زمانہ کو قرآنی اصطلاح میں خسر کا زمانہ کہا 291..جاتا ہے.قرآن کریم اور مطالعہ فطرت.قرآن کریم غیر مذہبی اہل فکر کے نظریہ کو جھٹلاتا ہے.....96 معاشرتی جھگڑوں میں ثالثی کے قرآنی اصول 275 اصول..قرآن کریم فرماتا ہے کہ نصیحت کا اثر بہت جلد ظاہر ہوتا قرآنی اور انجیلی تعلیم ہے.323.مال کے بارے میں قرآنی اور انجیلی تعلیم کا تقابل...62 قرآن کریم میں حضور علے کے بشیر اور نذیر کی حیثیت سے قرآنی پیشگوئیاں.نیز دیکھئے پیشگوئیاں آپ اللہ کے غلاموں کی بھی تصویر کھینچی ہے..قرآن کریم میں روحانی فتوحات کا ذکر...66..211.آخری زمانہ کے بارے میں قرآنی پیشگوئیاں..سورۃ العصر کی پیشگوئیاں..175.قرآن کریم میں کسی جغرافیائی فتح کا ذکر نہیں ملتا 211 291..قرآن کریم نماز کی سب سے پہلی ذمہ داری گھروں پر قرآن کریم میں ایسی واضح آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے ڈالتا ہے.الله 285.قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی ایک صفت بضع عنهم اصر هم بیان فرمائی ہے.306..قرآن کریم کا اسلوب ہے کہ جب اللہ بندوں کا اپنی طرف 161..212..کہ دجال کا مذہب عیسائیت ہو گا.غلبہ دین کی پیشگوئی..قرآنی تعلیمات منسوب کرتا ہے تو خاص مقام عطا فرماتا ہے..........52 قرآنی تعلیم سے انحراف کی صورت میں معاشرہ میں بڑے 269...لین دین کے معاملات میں قرآنی تعلیمات.......269 201...بڑے مصائب پیدا ہوئے..قرآن کریم کا یہ پیارا اسلوب ہے کہ دعاؤں کے رنگ میں انسانیت کی تربیت فرماتا ہے.قرآن کریم کی تفسیر کے بارے میں بعض غیر مسلموں کا قرآنی دعائیں اعتراض.قرآن کریم کی تلاوت دلوں پر گہرا اثر کرتی ہے خواہ کوئی دہریہ ہو یا غیر دہریہ...172.316...172..75..رب اني لما انزلت الى من خير فقير (القصص: ۲۵ )..299.قرب الہی اللہ تعالیٰ کا قرب آپ ﷺ کے وسیلے سے حاصل ہو 52.........سکتا ہے.قرآنی آیات ایک دوسرت کی تفسیر کرتی ہیں.لباس التقوی اور لباس الجوع کا بیان...لہو کو لعب سے پہلے کیوں بیان کیا گیا..قرآن کریم اور بائبل 217.قربانیاں.نیز دیکھئے مالی قربانیاں جس قدر ممکن ہو طوعی طور پر اپنے وقت کو خدا کے حضور پیش قرآن کریم اور بائبل کی لباس کے بارے میں تعلیم....75 کریں..248..
43 قرض آنحضرت علہ کبھی کبھار قرض لے لیا کرتے تھے...153 قرض اور مالی معاملات میں اپنے آپ کوصاف رکھیں..197.قرض کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتنی چاہیے...153 کارکنان 349,347,342,341,248,189,64,38,37 359,354,350 جلسہ سالانہ کے دوران شدید بارش میں کارکنان کے اعلیٰ نمونہ کو دیکھ کر لاڑکانہ کے ایک معاند احمدیت کا قبول 342...لین دین کے معاملہ میں صاف ستھرا اور شفاف ہونا جلسہ سالانہ کے لئے محنتی اور مخلص کارکنان کی ضرورتے چاہیے.قضاء بورڈ قضا کے فیصلہ پر کوئی لیت ولعل نہیں ہونی چاہیے..سید قمر سلیمان احمد 154.198..جلسہ کے کارکنان کو نصائح.341..349..جو کارکنان سارا سال محنت سے کام کرتے ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ فضل عطا فر ما تا ہے........38..دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک اچھے کارکن کے بدلے ہزار 29.42...38....45,27.191.357,355.....206.138..اچھے خادم عطا کرے.سارے کارکنان خدا کی رضا کی خاطر کام کرنے والے ہوں..کراچی میں ایک عمر رسیدہ کارکن کا واقعہ کتابیت آئینہ کمالات اسلام..ابوداؤ د سنن.اصحاب احمد جلدم..اقرب الموارد.الاستيعاب....348..244.بچپن میں آپ کے انڈا کھانے کا واقعہ.قناعت قناعت اور عظمت کر دار عظیم الشان چیز ہے جو اسلام سکھاتا ہے.266,265......265...266..قوت قدسیه آنحضور علی کی قوت قدسیه.آپ ﷺ نے قوت قدسیہ سے پاک تبدیلی پیدا فرمائی قوم جب قو میں خالق کا ئنات کو بھول کر مخلوق کے حسن میں کھوتی بخاری، جامع صحیح..190,189,120,113,112,100 براہین احمدیہ جلد پنجم..ہیں تو پھر ان سے شرک پھوٹا کرتے ہیں...........101 28,19.113....329,86..148..281,71..41,22.296...تاریخ طبری..ک تذكرة الاولياء.کائنات نیز دیکھئے اجرام فلکی ترمذی، جامع صحیح خدا تعالی قرآن کریم میں کائنات کی مثالیں پیش کر کے الحكم قادیان.در تین اردو.الہی مضامین بیان فرماتا ہے..319...در نمین فارسی.
44 دیوان غالب.روزنامه الفضل 293,266,74,34.308..سراج منیر..39 سیرت ابن هشام.فتاوی، رشید یه از حافظ رشیدالدین گنگوہی.112.267..........كتاب البريه...111,110.كتاب الجهادلا بن المبارک کرامات الصادقين..متی ، عهد نامه جدید.محمو داشتہارات جلد سوم..مسلم، جامع صحیح.مسند احمد بن حنبل..25.12.127.62,61.71,70,63........244.111...کراچی.راچی....306,89,88,73,38 کرم الہی ظفر.مبلغ سپین..آپ کا سپین میں عطر بیچ کو تبلیغ کرنا.138.136...137.کعبة الله.خانہ کعبہ کی عمارت اٹھاتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں.کفاره 23..23....عیسائیت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ہمیں کوئی ایسا خد انظر نہیں آتا جو نیک اعمال قبول کر کے ہمیں جزا دے..کلیڈ وسکوپ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے ایک روحانی کلیڈ وسکوپ 237 بنارکھی ہے..بچوں کی ایک کھیل کا نام.کمپیوٹر کمپیوٹر اور علم غیب..کمخواب کپڑے کی ایک قسم..کمیشن 231...انگستان میں مالی معاملات کے بارے میں ایک کمیشن آپ کی سپین میں جماعت کے قیام کے لئے قربانیوں کا بنانے کا اعلان.ذكر 136...کھیلیں ایک شخص کا آپ کے بارے میں حضور کی خدمت میں صحت کے لئے کھیل اور ورزش ضروری ہے..متکبرانہ خط.کرکٹ 138...بعض مرتبہ لڑ کے کرکٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں، اذان ہوتی ہے تو اس طرف توجہ نہیں کرتے.221...293...کشمیر میں حضرت خلیفہ امسیح الاول کا ایک فقیر کو نہایت خوش دیکھ کر اس سے سوال..293..231.10..75.198...220..موجودہ کھیلوں میں بے حیائی اور بدمعاشی کا تصور بھی داخل ہو گیا ہے.سکیٹنگ فٹ بال.گلی ڈنڈا.والی بال کبڈی.220....220..220.220..220..220.
45 یورپ کے لئے کھیل کی طرف زیادہ توجہ ایک مصیبت بن لاہور.گئی ہے..کوپن ہیگن.کہاوتیں 220.105,103.......337,306,182..لا ہور کی ایک احمدی خاتون کا جو بلی فنڈ کے لئے زیور کی لباس 337..اونٹ کا خیمہ میں سر داخل کرنے کی مثال............246 آنحضور مے کی یہ شان تھی کہ کبھی نہایت قیمتی لباس پہنا گائے اور بچھو کی مثال.....ٹیٹری کی مثال جو ٹانگیں اونچی کر کے بجھتی ہے کہ وہ آسمان تھامے ہوئے ہے.33...133..مختلف زبانوں میں زینت کی کہانیاں مشہور ہیں کہ بعض دفعہ عورتیں دکھاوے کی خاطر گھر جلوا بیٹھیں 218 222,135...........کیمرہ گ گلاسگو سکاٹ لینڈ کا ایک شہر گلی ڈنڈا..گندم کمیٹی.گورنمنٹ کالج لاہور..167,157.220..245..182..اور کبھی سادہ کپڑے پہنے..اعلیٰ مقاصد کے راستہ میں لباس حائل نہیں ہونا چاہیے..81.76.اگر تقوی کالباس دیناوی لباس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو الہی رنگ پکڑتا ہے.78.....تقوی کا لباس انسان کی ہر خامی کو ڈھانپ لیتا ہے...83 جب حضرت خلیفۃ ابیح الرابع انگلستان پڑھنے گئے تو وہاں آپ نے انگریزی لباس پہنا.حضرت سید عبدالقادر جیلانی بڑا فاخرانہ لباس پہنا کرتے حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ لباس انسان کے لئے بحیثیت غلام استعمال ہونا چاہیے.قرآن کریم اور لباس.79.81.82...75.کس کا محض لباس دیکھ کر جلد فیصلہ نہیں کرنا چاہیے......82 وہاں طلباء غیر مسلموں کی تحریر کردہ تاریخ اسلام پڑھ کر غلط یو نیفارم اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ ہے......طور پر متاثر ہو جاتے ہیں..ل لا الہ الا الله اپنے اللہ کو اپنی تمنا بنا لیتا ہی لا الہ الا اللہ ہے.لاڑکانہ 182...296..جلسہ سالانہ کے دوران شدید بارش میں کارکنان کے اعلیٰ یہ حکمت کا احساس نہیں کہ ایک بچہ لباس کی وجہ سے اعلیٰ مقصد کے حصول میں ناکام رہ جائے.لباس التقوى...........78..225,75..لباس میں تقویٰ ہونا چاہیے چاہے انڈونیشیا کی دھوتی ہو.80 لباس الجوع.75.........لجنہ اماء الله...361,260,259,242 اسلامی پردہ کی حفاظت کا سہرا احمدی بچیوں نمونہ کو دیکھ کر لاڑکانہ کے ایک مولوی کا قبول احمدیت.342 کے سر پر ہے.364.
46 46 جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ ء کے موقعہ پر حضور نے پردہ کے موضوع لیلتہ القدر پر نصائح فرمائیں....361.وہ نماز جس میں اللہ تعالیٰ کا عشق ہو وہی نجات کی ضامن ہے تحریک جدید کے دفتر سوم کو لجنہ اماءاللہ کے سپر د کیا گیا.259 اور یہی لیلتہ القدر کا پیغام ہے..احمدی خواتین کے لئے پردہ کا معیار.جو دخت کرام ہوں انہیں دنیا کی عزتوں کی کیا ضرورت ہے؟..366.368.لین دین 115.جھوٹ بول کر یا چرب زبانی سے دوسرے کا حق لینا آگ لینے کے مترداف ہے..........270...ذیلی انتظامات جلسہ سالانہ کے انتظامات کی عمومی نگرانی لین دین کے معاملات میں قرآنی تعلیمات.......269 کریں.248..لجنہ اماءاللہ سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی توقع..لندن جماعت لندن کی مہمان نوازی کا ذکر.لنگر خانہ انتظامار 260..150 336.ماده پرستی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت مادہ پرستی کے ماحول سے بے نیاز ہے...323......یورپ مادہ پرستی میں بہت آگے نکل گیا ہے کہ اتنی ترقی پاکستان اور بھارت کے لئے شاید سو سال کے بعد بھی تصور جلسہ سالانہ کے موقع پر روٹیوں کی مشینوں پر احمدی انجینئرز میں نہیں آسکتی..نے بہت محنت سے کام کیا..جلسہ کے لئے نئے لنگر کے تقاضے.لہو ولعب.359.309..216..اس بات کو خصوصیت سے پیش نظر رکھیں کہ نہ لغو غالب آئے نہ لہو نہ زینت نہ تفاخر نہ تکاثر اللہ تعالیٰ کی خاطر لہو ولعب چھوڑنے میں بھی ایک لذت 226.مادی ترقی.162.._ 291,132,131..انسان جتنی مادی ترقی کرتا چلا جارہا ہے اتنی ہی بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے.291..مادی ترقی جب اخلاقی ضوابط سے آزاد ہوتی ہے تب انسان کی تباہی کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے..ماریشس 131.........310.......ہے.عیش وعشرت سے انسان کلیتہ جدا نہیں ہو سکتا.لہو ولعب کے نتائج..لہو کو لعب سے پہلے کیوں بیان کیا گیا.227.225.217...217.مال اللہ کا حق ادا کرنے سے ہر بات میں برکت پڑتی ہے..65 اللہ کے حضور مال پیش کرنے کی قرآنی شرائط...62 61...یہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے کہ کونسا مال پاک ہے.کمزور لوگ انگلستان اور یورپ میں لہو و لعب دیکھ کر مغلوب ہو جاتے ہیں.لہو و لعب کا بچوں پر اثر.227.221..مالک یوم الدین صفت مالکیت کا بیان.233.
47 مالی قربانیاں اچندہ بجٹ ۱۹۷۴ ء سے پہلے چندہ کا ریکارڈ..109.حضرت منشی شادی خان صاحب نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح اپنا سب کچھ حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا.آپ ( مسیح موعود علیہ السلام ) نے ان مخلصین کا بھی شکریہ جو خدا کی راہ میں قربانی کرتے ہیں اللہ ان کی قربانی رکھا ادا کیا ہے جو دو پیسے ادا کرتے تھے.اپنے غریب بھائیوں سے قربانی کے معیار کو بلند کرنے کی سے قربانی کے.کوشش کریں.اپنے لازمی چندے درست کریں.اصحاب الصفہ کی مالی قربانی بجٹ میں خوشی کے پہلو.پاکستان کے بجٹ تحریک جدید کا ذکر.39.69..243.........244.42..259.نہیں کرتا.جو دیا نیت داری سے کام لیں گے ان کی شرح کم کر دی لیںگے ان جائیگی.جو شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے انہیں صاف بتادینا چاہیے کہ میری شرح کم کر دیں لیکن جھوٹ نہ بولیں...چندوں میں جھوٹ کی ملونی نہیں شامل ہونی چاہیے..تحریک جدید دفتر دوم میں عظیم الشان مالی قربانی کرنے چند و تحریک جدید..والوں کا ذکر.....255..68.144.145..145..63......337.چندہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ دعاؤں کی توفیق بخشتا ہے..43 تقومی شعاری سے جماعت کا چندہ شرح بڑھانے بغیر دگنا چندہ عام خلیفہ وقت معاف کرسکتا ہے.ہوسکتا ہے.جماعت احمدیہ اور مالی نظام.جماعت احمدیہ کا بجٹ اپنی قناعت کے لحاظ سے بے مثل ہے.67 61 43.چندہ کا فلسفہ 145..314.حضرت خلیفہ اصبح الرابع کی یہ خواہش کہ دفتر اول تا قیامت جاری رہے.255..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانی کا صدقہ ہے جو آج جماعت احمدیہ کو مالی لحاظ سے خدا کے فضل سے کوئی کمی کھایا جا رہا ہے..نہیں ہوگی...41..144..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری مالی قربانیوں میں جماعت میں مجلس شوری کے مشورہ سے خلیفہ وقت نے چندہ قرون اولیٰ کی یاد کو زندہ کر دیا..کی ایک شرح مقرر کر رکھی ہے.جماعت کا مالی نظام تقومی پر مبنی ہے..63.61 338...حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد آپ کے بچوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کا چندہ جو وہ ادا کرتے جماعت کے چندہ میں قبولیت کا درجہ رکھنے والی تمام باتیں رہے ہیں جاری رہے گا..شامل ہیں..44 255..حضرت مفتی محمد صادق نے آغاز میں تحریک جن لوگوں نے چھوٹی چھوٹی مالی قربانیاں پیش کیں اللہ جدید کا چندہ اڑھائی سوروپے لکھوایا 252 حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری نے آغاز میں تحریک جدید تعالیٰ نے ان کے خاندانوں کی کایا پلٹ ڈالی...جنہوں نے تھوڑے مال بھی پیش کئے آج ان کے 254.کا پچاس روپے چندہ لکھوایا.252..خاندان اللہ کے فضلوں سے دینوی لحاظ سے بھی وارث حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے تحریک جدید ہیں.65...کا چندہ پچاس روپے لکھوایا..خواتین کی قربانیوں کا ذکر.252..338..
48 قربانی کا ذکر..دفتر دوم کے جو دوست فوت ہو چکے ہیں میں نصیحت کرتا ہوں محمد رمضان صاحب کی تحریک جدید میں مالی کہ آئندہ نسلیں ان کی قربانیاں جاری رکھیں.256 دنیا کے روپے کئی قسم کے بحران کے شکار ہو جاتے ہیں لیکن و مخلصین جماعت جو تقوی شعاری سے شرح کے مطابق چندہ..دیتے ہیں...اللہ تعالیٰ فضلوں پر کوئی خزاں نہیں آتی 40 زیادہ سے زیادہ بچت کر کے مال اسلام کی خدمت میں ہمارا رو پیہمارے رب کے پیار مظہر ہے.188..253.68...39.یہ اللہ تعلی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مال پاک ہے...پیش کریں.........ساری جماعت میں سب سے زیادہ چندہ حضرت مصلح شیخ مبارک احمد مبلغ سلسله....154,153 موعود کا تھا.255...آپ کے لئے دعا کی درخواست.ساری دنیا میں جماعت کو خدا کی خاطر قربانیوں کی توفیق مبلغین / مربیان نیز دیکھئے واقفین مل رہی ہے.ساری دنیا کے خزانے اربوں ارب سے بھی ضر میں کھا جائیں تب بھی ہمارا رو پہیہ جیتا گا.260..45..166,165,156,144,143,134,133,132 320,310,189 سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دینے سے رضائے باری انہیں معاشرہ کی طرف سے خاص مقام اور تعاون ملنا تعالیٰ کی جنت حاصل ہوتی ہے.سیالکوٹ کی مزدوروں کی مالی قربانی کا ذکر.شرح کے مطابق چندہ دینا چاہیے..صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مالی قربانیوں کا تذکرہ..314.253..145.....252.چاہئے...139.186.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کے نتیجہ میں مربیان گاؤں کے ملا سے بہت مختلف ہوتے ہیں............187 مبلغین محض مذکر یاددہانی کروانے والے ہوتے ہیں.لاہور کی ایک احمدی خاتون کا جو بلی فنڈ کے لئے مجمع البحرین زیور کی قربانی 337.اللہ تعالیٰ جماعت کے ساتھ پوری وفا کر رہا ہے جس کا ثبوت محبت یہ ہے کہ جماعتی روپیہ پر کبھی خزاں نہیں آتی..39....نماز مجمع البحرین ہے.اگر کسی سے کامل محبت ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں اس کی ہر ادا پیاری لگتی ہے اسی کا 132..283..مالی قربانی بوجھ نہیں بلکہ اللہ تعالی کا انعام اور احسان ہے.مالی قربانی میں کمزور بھائیوں کے لئے بہت دعائیں کریں.307....146..نام طمانیت قلب ہے.297..جماعت احمدیہ کا صبر اخلاص اور محبت حضرت مسیح موعود علیہ مالی قربانی کے نتیجہ میں جماعت پر اللہ کے بے شمار فضل السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں..ہوئے ہیں...............60.عدل وانصاف محبت الہی اور بنی نوع انسان سے محبت ماہانہ چندہ کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مذاہب کا سرمایہ ہیں.کی نصائح..62...محمد بوٹا صاحب کی تحریک جدید میں مالی قربانی کا ذکر 253 360.267.....
273.آپ ﷺ نے ساری دنیا کے بوجھ اٹھائے.49 49 محبت الہی بے قراری کا علاج یہ ہے کہ اپنے رب سے محبت پیدا کریں آپ ﷺ نے قوت قدسیہ سے پاک تبدیلی پیدا اور اس کو اپنا مطلوب بنالیں..298....فرمائی 266..دعا کریں ہم جس ملک میں رہیں رضائے باری اور محبت الہی آپ ﷺ نے ہمارے لئے حیات روحانی کا ایک عظیم کی جنت ہمیں حاصل رہے.محمد بوٹا ، تانگہ والا 129..تحریک جدید کے دفتر اول میں قربانی میں پیش پیش...253 253..محمد رمضان تحریک جدید کے دفتر اول میں قربانی میں پیش پیش...حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق بھیروی آپ نے آغاز میں تحریک جدید کا چندہ اڑھائی سوروپے لکھوایا..حضرت محمد مصطفى عبد الله 252..الشان نمونہ قائم فرمایا..کو رحمتہ للعالمین قرار دیا گیا فاتح 264..211...کی پیروی کر کے مغفرت اور رضوان حاصل کی 264.ﷺ کی تعلیم میں زندگی کے سارے اچھے پہلو موجود روکتے تھے.264.ہمیشہ نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں اور بدیوں سے 264.الله آپ ﷺ نے ایک نیا آسمان تیار فرمایا اور آپ علی کے بعد لمبے عرصے تک عظیم الشان علماء پیدا ہوتے 175..26.آپ ﷺ نے سب سے زیادہ نصیحت تقویٰ کی تعلیم فرمائی.آپ ﷺ نے ہمیشہ دشمنوں سے دکھا اٹھائے اور ان سے کرم اور رحم کا سلوک فرمایا..34 353..آپ ﷺ نے ہمیں حسن خلق سکھایا.60,56-53,52,35-32,25-23,20,19,7,6 100,99-97,85,78,73,71,70,67,66,62 159,157,148,138,114,113,111,101 193,191,180,176,175,174,169-160 317,314,269,268,264,230,213,197 368,364,353,351,318 خدا سے علم پا کر کلام کرتے ہیں اور کچھ نہیں آپ ﷺ نے ہمیں یہ اصول اور راز سمجھایا کہ 160..سيد القوم خادهم.کو شفاعت کا لائق ٹھہرایا گیا...281 آپ علی وہ نور کامل تھے جنہوں نے بنی نوع انسان کو 60.اندھیروں سے نکالا.25..100..بشیر اور نذیر کی حیثیت سے ے بیعت لیتے وقت جسمانی رابطہ کو ملحوظ رکھتے آپ علیہ کا ایک حبشی غلام سے شفقت کا سلوک...138 169.آپ ﷺ کا عہد شکور ہوتا..101..50.ساری دنیا کے لئے مبعوث کئے گئے......24 آپ صلی اللہ کا قرب الہی.بسا اوقات خود سوئی دھاگہ سے کپڑے سی لیتے آپ ﷺ نے یہ فرمانا کہ دجالی اقوام سے مادی علوم سیکھو 164.بلکہ آگے نکلنے کی کوشش کرو.78....
50 50 آپ ﷺ کی بعثت سے ایک نیا انقلاب آیا اور ایک نیا آنحضرت ﷺ سے طاقتور کوئی حکمران نہیں تھا.....193 نظام جاری ہوا..174.آپ ﷺ کی بعثت سے قانون قدرت میں کچھ تبدیلی نہیں 174..32..آنحضرت علہ کبھی کبھار قرض لے لیا کرتے تھے..153 آنحضور ﷺ اسلام معاشرہ کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.269 آنحضور ﷺ ساری دنیا کے دکھوں کے لئے بے چین تھے 292..آپ ﷺ کی تمام احادیث نسل بعد نسل آگے پہنچتی رہنی آنحضور ع کی جنگ بدر کے موقعہ کی دعائیں.....111 صل الله - نہیں ہو سکتی.183..آنحضور علیہ کی قوت قدسیہ..کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہر گز جھوٹی جنگ کی فتح اور شکست کا فیصلہ آنحضور ﷺ کے خیمہ آپ علیہ کی سنت کی پیروی کریں..کی صفت ظلوما جهولا کا ذکر..121.353...70.میں ہوا......265.111..جنوں کے ایک وفد نے آنحضور ﷺ سے ملاقات کی اور ایمان لائے.173.آپ ﷺ کی یہ شان تھی کہ کبھی نہایت قیمتی لباس پہنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہزاروں سال پہلے کی دعائیں جو آپ علیﷺ کے وجود میں پوری ہوئیں..81..23...اور بھی سادہ کپڑے پہنے.حضور ﷺ ہمارے آقا و مطاع ہیں..کے بنی نوع انسان پر احسانات........100 حضور رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ میں آنحضور ﷺ کے غلام کی آپ ﷺ کے عشاق نے ہر رنگ میں بہار 34 خلافت کے منصب پر بیٹھا ہوا ہوں..حضور رحمہ اللہ کایہ فرمانا کہ میں حضور علیہ کی مغربی دنیا کی طرز زندگی کے بارہ میں پیشگوئیاں پورا ہوتے 60 66...کا اثبات کیا..آپ ﷺ کے کلام میں حیرت انگیز سحری اثرات ا تمام بصیرتوں کے منبع ہیں..آپ اللہ کے وسیلہ ہونے کا مطلب.73..101,99...53.54.استجابت اللہ کا نام محمد مصطفی عے ہیں.157..دیکھی ہیں..حضور ﷺ نے طاقت کو نہایت عاجزانہ طور پر استعمال فرمایا.صلى الله اسلام کی تعلیمات اور حضور علیہ کی شخصیت کو بگاڑنے حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ لباس انسان کے لئے کے لئے بہت سی کتب لکھی گئی ہیں.178..بحیثیت غلام استعمال ہونا چاہیے.حضور ﷺ کی خیمہ میں کی ہوئی دعا نے جنگ بدر اصلاح معاشرہ کے لئے آپ علیہ کے کردار کی پیروی کا فیصلہ کر دیا..کریں..اگر آپ کی با تیں نہیں مانیں گے تو دعا ئیں قبول نہیں ہوں گی.278.54 دعائیں قبول کروانا چاہتے ہوتو حضور ﷺ پر درود بھیجو 193..82.112.148..دنیا کی سوزبانوں میں آنحضور ﷺ کا پیغام پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کا قرب آپ ﷺ کے وسیلے سے حاصل ہو یہ ہمارا جشن ہے.سکتا ہے.52..زندگی کے فیشن آنحضور سے سیکھیں..صلى الله انا النبي لاكذب انا ابن عبد المطلب ( آپ علی ساری دنیا کی قیمت آپ ﷺ کی جوتی کا جنگ حنین کے موقعہ پر شعر ).362...............کے برابر بھی نہیں.310..367.....24.
51 صد سالہ جو بلی سکیم میں آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد 315.پر اعتراضات کے جوابات دینے کا منصوبہ قرآن کریم میں حضور علیہ کے بشیر اور نذیر کی حیثیت سے نیز دیکھئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی آپ علیہ کے غلاموں کی بھی تصویر کھینچی ہے.255,253,252,251,246,245,136,127,55 66.258 قرآن کریم نے آپ ﷺ کی ایک صفت یضع عنهم اصرهم بیان فرمائی ہے..306..مخالفانہ تدابیر مستشرقین پہلے آنحضور ﷺ کو کھلے عام (نعوذ باللہ ) دعا کی برکت سے مخالفانہ تدبیریں جھوٹا کہتے تھے اب یہی بات دوسرے انداز میں کہتے ہیں..176.خود ہی باطل ہو جاتی ہیں.مخلوق 351...آپ علیہ جنہوں نے ساری دنیا کی روحوں کو بچایا ہم ساری مخلوق کا اپنے رب سے واسطہ رحمن اور رحیم کے راستہ اور ہمارے باپ دادے ہمیشہ آپ علیہ کی غلامی میں جھکے رہیں تب بھی احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے 100 سے ہے.مد بینہ ہرزمانہ میں ہمارا معیار اسوہ رسول ﷺ ہے.ہم ہیں جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے کوثر 368.کے جام سے ساری دنیا کو پلانے کا کام کیا ہے......7 ہمارا معیار وہ معاشرہ ہے جو حضور علیہ قائم کرنا چاہتے ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہیے کہ حضور ﷺ فاتح ادیان عالم ہوں..268.212.19.343,138,85.....مدینہ سے لوگ پیار کے اظہار کے طور پر کوئی نشانی لے کر آتے ہیں..مذاہب 343.....اہل فکر کے درمیان پرانی بحث ہے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا ظاہر ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مذاہب پھوٹتے ہیں........95 بہت سے مذاہب کی بنیاد اس فلسفہ پر رکھی گئی کہ جب کوئی ہماری فتح کسی ملک یا جزیرہ کی فتح نہیں ہماری فتح وہی ہے خواہش باقی نہر ہے تو سکون مل جاتا ہے.292 جو ہمارے آقا محمد مصطفی ع کی.کی ہے...ہماری فتوحات حضرت محمد مصطفی علے کے سر کا سہرا ہیں.سید محمود احمد ناصر ۱۹۵۷ء میں آپ کا حضور کے ساتھ سفر سپین..آپ اور آپ کی اہلیہ کے لئے دعا کی تحریک..212.213...137.139 دنیا میں مختلف مذاہب کے اندر پاک تعلیمات موجود ہیں تاہم اسلام کے مقابل پر ان کی کوئی حالت نہیں......266 عدل و انصاف محبت الہی اور بنی نوع انسان سے محبت مذاہب کا سرمایہ ہیں..267.مذاہب عالم میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے نفس کو دھوکہ دیتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ جھوٹ بولا آپ نے انگلستان میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ جاسکتا ہے..کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی.118.63.نیکی ، تقومی ، روحانیت اور خدا سے تعلق رکھنے والی باتیں دجال مسجد بشارت چین کے لئے آپ کی خدمات کا ذکر...139 کی سمجھ میں نہیں آسکتیں..158......
52 52 یورپی اقوام کی اخلاقی اور مذہبی اقدار میں پیروی نہ کریں کیونکہ وہ ان معاملات میں اندھے ہیں............163 آداب مساجد مساجد میں زینت سے کیا مراد ہے.184.83.مذہبی اور غیر مذہبی اہل فکر اہل فکر کے درمیان پرانی بحث ہے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا ظاہر اگر ربوہ کے سارے بالغ مرد با جماعت نماز ادا کریں تو ربوہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مذاہب پھوٹتے ہیں.........95 کی مساجد چھوٹی ہو جائیں گی..مزاج مزاج کے بدلنے سے چیزوں کی کہنہ میں تبدیلی پیدا ہو جاتی 11.289................اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ساری زمین مسجد بنادی ہے (حدیث النبي ع ) 120.مستشرقين...181,178,177,176 جلسہ کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں گھروں کو خالی احمدیوں کی مستشرقین کی کتب پڑھ کر اعتراضات کی نشاندہی کریں اور مساجد کو بھرا کریں...........179....کرنی چاہئے..اسلام کی تعلیمات اور حضور علیہ کی شخصیات کو بگاڑنے کے لئے بہت سی کتب لکھی گئی ہیں.178..صد سالہ جو بلی سکیم میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کا منصوبہ مساجد میں سوائے اشد مجبوری کے آپس میں باتیں نہ کریں.......پہلے آنحضور ﷺ کو کھلے عام ( نعوذ باللہ ) جھوٹا کہتے تھے اب یہی بات دوسرے انداز میں کہتے ہیں.......176 عرب طلبا ء برطانوی یونیورسٹیوں میں مستشرقین سے اسلام مساجد کو آباد کرنے کے لئے دعا ئیں........سیکھنے آتے ہیں..177.مسجدوں کی تعمیر ایک بہت مقدس فریضہ ہے.340 310.7.....147 136..عرب ممالک میں تل کی موجودگی کی وجہ سے مستشرقین مسجد بشارت (سپین)....240,135,85 اپنی پالیساں تبدیل کر رہے ہیں.مستشرقین اپنی کتب میں جماعت احمدیہ کا ذکر 178..اس مسجد کے پیچھے ایک لمبی اور مسلسل قربانیوں کی تاریخ 136..83.327,213........103..........321..ہے.مسجد سپین کا افتتاح مسجد مبارک.مسجد نصرت جہاں..سید مسعود احمد صاحب 180.179.نہیں کرتے.مستشرقین کی کتابوں کے جواب کے لئے ایک تفصیلی لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے.مستشرقین کی کتب کے جوابات دینے کی شدید خواہش..183..مستشرقین کے خلاف مہم کا آغاز انگلستان سے ہوگا....181 وکیل برائے صد سالہ جو بلی فنڈ.وہ آنحضور ﷺ کی جو تعریف بھی کرتے ہیں وہ سب فریب ہے.یہ لوگ نرم زبان میں شدت اسلام پر حملہ آور ہور ہے 177 مسکراہٹ دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کی مسکراہٹوں کو نہیں چھین 108....سکتی.176...ہیں.
53 3 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نیز دیکھئے احمدیت جسے خدا کے نام پر اسلام کی سر بلندی کے لئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خون سے سینچے ہوئے جاری فرمایا اس کو اپنے خونوں سے آپ علیہ السلام نے ان مخلصین کا بھی شکر یہ ادا کیا ہے جو دو بھری رکھیں.پیسے ادا کرتے تھے.آپ علیہ السلام نے بعثت انبیاء کونئی زمین اور نئے آسمان کا نام دیا ہے.39 174.116.اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی جو مادہ پرستی کے ماحول سے بے نیاز ہے.تحریک جدید کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ گئی.323.253.پ علیہ السلام نے تقویٰ کے موضوع پر بہت نصائح جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گریہ وزاری اور 26.دعاؤں کے نتیجہ میں جاری ہوا تھا.325.فرمائیں.........آپ علیہ السلام نے دوبارہ اسلام کی حقیقی لذتوں سے آشنا جماعت احمدیہ کا صبر اخلاص اور محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں....کیا.143.360.جماعت احمدیہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک زندہ 2..آپ علیہ السلام نے سب کچھ خدا تعالی کو پیش کر دیا....144 معجزہ ہے....آپ علیہ السلام نے معاندین اسلام کے لٹریچر کا جواب تیار حضرت اقدس علیہ السلام کی ساری جماعت آپ علیہ السلام کر کے نیا اسلامی لٹریچر تیار فرمایا..آپ علیہ السلام کا بیان فرمودہ ذکر الہی کا فلسفہ 180..................296..17..کے خاندان میں شامل ہے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مطالعہ کے آپ علیہ السلام کو اپنے والد کی وفات کے بارے میں ذریعہ نئے راستوں سے واقف ہونے کے راز سکھائے الهام وا...........110...22.ہیں..178..گاؤں کے ملا سے بہت مختلف ہوتے ہیں............187 آپ علیہ السلام کی انگوٹھی جو خلیفہ وقت پہنتا ہے.....110 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کے نتیجہ میں مربیان آپ علیہ السلام کی بیان فرمودہ دعائیں.آپ علیہ السلام کی قربانی کا صدقہ ہے جو آج کھایا جارہا خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع پر خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان نمونه.پ علیہ السلام کی مہمان نوازی کا معیار...........3354 صحابہ بیان کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آپ علیہ السلام کی مہمان نوازی کے بارے میں حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی کی روایات..144.355,354.بیعت لیتے تھے تو جو نہیں پہنچ سکتے تھے وہ پگڑیاں کھول کر 15.89.پھینک دیا کرتے تھے...صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ علیہ السلام کی مہمان نوازی کے واقعات.355,354 کی کلام کی مختلف زبانوں میں منظوم کیسٹوں کا آپ علیہ السلام کی کتب کی اہمیت 182.....پروگرام..317..ماہانہ چندہ کے بارے میں آپ علیہ السلام کی نصائح...
54 مشن ہاؤسز مغفرت اور رضوان کا نیک انجام کیسے صد سالہ جو بلی سکیم میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کا حاصل کیا جائے.منصور مصر.310...348,142.معاشرہ نیز دیکھئے اصلاح معاشرہ معاشرتی مسائل....276..ہمارا معیار وہ معاشرہ ہے جو حضور ﷺ قائم کرنا چاہتے تھے 268..277.264.ملائیت اسلام میں انقلاب ملائیت کی وجہ سے نہیں آیا.......1665 اسلام میں ملائیت کا کوئی تصور نہیں...1665 منافقت مذاہب عالم میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے نفس کو دھوکہ دیتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ جھوٹ ہمیں معاشرہ کے دکھوں سے آزاد ہونا ہے.مغربی اقوام نیز دیکھئے یورپ و یورپی اقوام بولا جا سکتا ہے.ان میں رواج ہے کہ جب انہیں کوئی تحفہ دیتا ہے تو کہتے ہیں کہ آپ نے ایسا تحفہ دیا ہے جس کی مجھے ضرورت تھی.مغربی اقوام رحیمیت کا عملی انکار کرتی ہیں..مغربی قو میں استحصال سے کام لیتی ہیں..300.239.239..منصب خلافت 63..حمد و شکر کا پہلو منصب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے.........منعم علیه گروه منکرین نبوت انعام پانے والوں کو ہمیشہ دکھ دیتے ہیں..32 منکرین مغربی معاشره...............164,159 منکرین نبوت مصیبتوں اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں..ایشیا سے آئے ہوئے لوگ یورپ کا خامیوں کی پیروی کرتے 164..منی پور 32.ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں.منی پور آسام سے قادیان میں دو مہمان آئے.یورپ میں بعض ایسے احمدی بھی ہیں جن پر اس سوسائٹی 229.354.حضرت موسیٰ علیہ السلام........300.299 کا ادنی سا بھی اثر نہیں.مغضوب رحمانیت سے عاری لوگوں کو مغضوب کہا گیا ہے یعنی یہود..مغفرت 236.آپ علیہ السلام کا اپنے رب سے پیار کا ایک واقعہ....299 مومن مومن کو اپنی بصیرت اور بصارت کو تیز رکھنا چاہئے......351 مومنوں میں سے پیچھے رہنے والے.59._ جو دوسروں کی خاطر اپنے حقوق چھوڑ دیتے ہیں ان کے لئے مکه اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان ہے..حق چھوڑنے کی مغفرت کہتے ہیں.272.272....343,197,112,85..مکہ سے لوگ پیار کے اظہار کے طور پر کوئی نشانی لے کر آتے ہیں.343..
55 مہلک ہتھیار دراصل مہلک ہتھیاروں کی ایجاد ہی ہلاکت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے.یه در اصل اخلاقی تنزل کی تصویر ہوتے ہیں.مهمان نوازی حضرت مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی اور مہمان نوازی 132...132...کے اعلیٰ معیار کے قائم تھے.77 خواجہ میر درد.نائیجیریا.ناروے...224.348,309.....94,91.ایسا ملک ہے جسے قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ حسن عطا کیا ہے..91....جنتوں میں (ناروے) میں ایسے سینے ہیں جہاں ویرانے آباد ہیں...انگلستان میں مہمان نوازی کے مسائل 151 جلسہ سالانہ میں مہمان نوازی کے انتظامات.جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کا واقعہ.جلسہ کے ایام میں مہمان نوازی کا حق ادا کریں.353....357.340.93.ناروے کے قدرتی حسن کا تذکرہ.............94,92 حضرت مرزا نا صراحہ دیکھئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث جماعت احد پی بر طانیہ کی مہمان نوازی کا تذکرہ 1985 حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کا کالج کے زمانہ کا مہمان نوازی نبوت کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی 77...354...تاریخ انسانی کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ نبوت جیسی عظیم الشان نعمت سے منہ موڑتا ہے.32..کے معیار.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے واقعات.مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار پیش نظر رکھیں.مہمان نوازی کے بارے میں حضرت مصلح موعود کی حضرت ام طاہر کو نصیحت کہ اچانک کے وقت کے لئے گھر میں ضرور کچھ نہ کچھ ہو.355.354 77 منکرین نبوت مصیبتوں اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں...32.حضرت منشی نبی بخش نمبر دار 356 نشر خطرناک نشوں کے عادی لوگ..مہمانوں کو میز بانوں سے قرض نہیں لینا چاہیے...152 نشہ کی لذت برائی پر مجبور کرتی ہے.مہمانوں کے حقوق..مہمانوں کے فرائض.351...151..مہمانوں کے لئے اپنے گھر وں کو خوب سجائیں.....249 یورپ کی مہمان نوازی کا ذکر.150 266 266..نصاری نیز دیکھئے عیسائیت رحیمیت کا انکار کرنے والوں کو ضالین یعنی انصاری کہا گیا ہے.236..
90 56 نصیحت قرآن کریم فرماتا ہے کہ نصیحت کا اثر بہت جلد ظاہر ہوتا ہے.323.نظارت اصلاح وارشاد...............340 نفسانی خواہشات ان خواہشات کی پیروی میں امیر اور غریب برابر ہیں..217 نفسانی خواہشات کے بعد زینت کا مقام آتا ہے......217 نفسیات نظام جماعت نیز دیکھئے جماعت احمدیہ نعمت اور شر کا نفسیانی فلسفہ..365,335,313,308,16..نظام جماعت کے سامنے ذاتی خیالات کی کوئی وقعت نہیں.16.نظام کی اطاعت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ خلیفہ مسیح کا قائم 192.نماز ا صلوة 203..148,147,140,124-115, 105,49,29,7 210,204,191,185,184,183,169,168,156 324,289-282,280,279,277,261,213 343-341,340,331,327 فرمودہ ہے..نظام وصیت اپنے بیوی بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کیا کریں.....121 احباب جماعت خدا سے یہ عہد کریں کہ عبادت سے غافل جرمنی میں بہت سے ایسے موصی ہیں جو شرح کے مطابق نہیں ہوں گے.اپنے چندے ادا کرتے ہیں.نعرہ 109..اگر ساری قومیں اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرہ کو بلند کرتی جائیں تب بھی اللہ اکبر کا مضمون ختم نہیں ہوسکتا 211 بھی اللہ اکبر ایک عظیم الشان نعرہ ہے..211 117.احباب کا فرض ہے کہ اپنی بیویوں ، بچوں ، ساتھیوں اور دوستوں کو ہمیشہ نماز با جماعت کی تلقین کرتے رہیں....122 اگر دوسرے ممالک میں مجبور ہوں تو اکیلے بھی باجماعت نماز 121.پڑھی جاسکتی ہے...اگر ربوہ کے سارے بالغ مرد با جماعت نماز ادا کریں تو ربوہ جو قو میں نعرہ بازی میں مبتلا ہو جائیں ان کی جذبات کی قوتیں کی مساجد چھوٹی ہو جائیں گی.ختم ہو جاتیں ہیں..حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتح سپین کے نعرہ پر اظہارنا پسندیدگی..211.209..289..امام الصلوۃ کے بارہ میں منجس نہیں ہونا چاہیے...1991 امام کے دونوں سلام پھیرنے سے پہلے اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑے نہ ہوں..اہل ربوہ کو باجماعت نماز کی تلقین..168...288.ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہئے کہ حضور ﷺ فاتح ادیان عالم ہوں..پھونکنے والیاں..جب سانپ کس گھولتا ہے تو اسے نفث کہتے ہیں.212.206..ایک دوست کا سوال کہ نماز میں دوسروں کے لئے دعا کرنے کا کیا طریق ہے..123..ایک صحابی (چرواہا) کا آپ ﷺ سے باجماعت نماز کی ادا ئیگی کے بارے میں پوچھنا.120.ایک غیر از جماعت کا سوال کہ جماعت احمد یہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی قائل نہیں 122
57 بعض گھروں میں بے نمازوں کی فیکٹریاں ملتی ہیں.....285 زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو نماز سے باہر ہو.........123 صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اندر خدا تعالیٰ نے نماز بعض مرتبہ لڑکے کرکٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں ، اذان ہوتی ہے تو اس طرف توجہ نہیں کرتے..پنجوقتہ نماز کی عادت ڈالیں..جلسہ سالانہ کے ایام میں باجماعت نماز کا خصوصی انتظام ہو..جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کے گھروں میں نمازوں کا شدت سے اہتمام ہونا چاہیے.221.115.327.جلسہ کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں گھروں کو خالی کریں اور مساجد اور کو بھرا کریں.......جلسہ کے دنوں میں نمازوں کے اوقات دکانیں بند ہونی چاہئیں..287.340.331...جو نماز کے مفہوم سے غافل ہو کر نماز پڑھتے ہیں وہ نماز کو دکھاوے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.282.جہاں بھی آپ بستے ہوں ظاہری طور پر نماز کی ضرور حفاظت کریں..حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے اہل کو نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کی تعلیم دیا کرتے تھے.116.284.کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا تھا.285..صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل و عیال کو نمازوں کی 284.286..286..تلقین کیا کرتے تھے.قادیان میں باجماعت نماز کے ہزار ہا نمونے موجود تھے.قادیان کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ پاگل بھی نمازوں کے عادی تھے.قرآن کریم نماز کی سب سے پہلی ذمہ داری گھروں پر ڈالتا ہے.....مومن کی اصل سجاوٹ تقومی اور نماز کی سجاوٹ ہے...287 نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا کرنی چاہیے.نماز میں توجہ کیسے قائم کی جائے؟ نماز کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر ادا کی جائے 122 نماز خود ایک کامل دعا ہے.نماز مجمع البحرین ہے..285..122.283..122.124.نمازوں کا قیام اور استحکام گھروں سے شروع ہوتا ہے..284 وہ نماز جو ہر فلق کے وقت پڑھنی چاہیے وہ ذکر الہی کی نماز حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ واقعہ کہ جب انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو بہت سے پاکستانی ہے..نیوزی لینڈ.نماز پڑھنے سے شرماتے تھے.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان کو نماز با جماعت 118....و سے عشق تھا.حفاظت نماز اور گھر کی تربیت.حفاظت نماز کی تلقین..دینی مصروفیات کی وجہ سے نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں..راجہ اسلم صاحب پاگل پن کی انتہا کے وقت بھی پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کر تے تھے.ریا کار نمازیوں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا.285.285.283..213..286....283..واقعات 210...310..لندن میں نیوائیر ڈے کے موقعہ پر حضور رحمہ اللہ کا ریلوے اسٹیشن پر نفل پڑھنے کا واقعہ.119.۱۹۷۴ء میں جب ساری جماعت کے اموال لٹ رہے تھے اس وقت بھی خدا کے خزانے بھرے جارہے تھے........40 ۱۹۷۴ ء کے حالات و واقعات.108,41,40..امریکہ میں حضور رحمہ اللہ کا اپنی بچیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کا واقعہ.118....
58 آنحضرت ﷺ کا ایک حبشی غلام سے شفقت کا سلوک..138.جنگ بدر میں شامل ہونے والے بچوں کے واقعات.کا ایک دوست جن کی تو دور کرنے کی دو بہت مشہور جنگ بدر کے واقعات.جنگ حنین کے واقعات.268...113..113,111.362.....ایک امیر جماعت کے نو جوانی کا ایک واقعہ جو چندہ پر اپنی جنوں کے ایک وفد نے آنحضور ﷺ سے ملاقات کی اور 64.ایمان لائے ذاتی ضروریات کو تر جیح دیتا تھا.ایک بزرگ کے تو کل کا واقعہ جو ایک غار میں پناہ گزین حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے بچپن کے تجارب.ہو گئے.ایک صحابی (چرواہا) کا آپ ﷺ سے باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے میں پوچھنا.ایک قریب المرگ یہودی بچہ کو تبلیغ کرنا.ایک مرتبہ حضرت مصلح الموعود کے گھر اچانک مہمان آگئے..329.120.100...77...ایک ولی کا واقعہ جن کا حج پر نہ جا کر بھی حج قبول ہوا......86 بادشاہ اور بوڑھے کا زہ والا واقعہ.بچوں کا چاند کے حجم کے بارے میں ایک مائی سے پوچھنا...57.11.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا ایک فقیر کو نہایت خوش دیکھ کر اس سے سوال..173.76...293..حضرت خلیفۃ ابیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب انگلستان سے حصول تعلیم سے واپس آئے تو انگریزی لباس پہنا ہوا تھا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا سکول کا واقعہ جب آپ 79.خالی بدن پر اچکن پہن کر سکول چلے گئے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا کالج کے زمانہ کا مہمان نوازی کا ایک واقعہ.76.77 تاریخ اسلام میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن سے انسان حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی کالج کے زمانہ کی باتیں....7 84...کی عقل دنگ رہ جاتی ہے..حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا یہ فرمانا کہ خدا جو لباس کہتا جب حضرت خلیفۃ اسیح الرابع سندھ کی ایک دیہاتی جماعت میں تشریف لے گئے.جب قریب المرگ یہودی بچہ نے کلمہ پڑھا.80.....100.40.ہے میں وہ لباس پہنتا ہوں...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے واقعات.81...355,354.68..299..حضرت منشی شادی خان صاحب نے حضرت ابو بکر کی طرح اپنا سب کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے رب سے پیار کا ایک واقعہ.حضرت نواب عبد اللہ خان کو نماز با جماعت سے 285.....عشق کا واقعہ 342.351...353....جب وقف جدید میں بعض مخطوط آتے تھے.جلسہ سالانہ کے دوران شدید بارش میں کارکنان کے اعلیٰ نمونہ کو دیکھ کر ایک معاند احمدیت کا قبول احمدیت جلسہ سالاہ کے موقعہ پر جیب کتروں کو پکڑنے کا واقعہ.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر سامان اٹھائے جانے کے واقعات
59 59 حضور جب انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو بہت جارج وا سے پاکستانی نماز پڑھنے سے شرماتے تھے 118.سفر یورپ سے واپسی پر احباب جماعت کا غیر معمولی اظہار محبت.سید قمر سلیمان احمد صاحب کا بچپن میں انڈا کھانے کا واقعہ.عربی گھوڑے کے مالک کی غیرت کا واقعہ.208...348.42..منٹگمری واٹ ایک مستشرق.قاہرہ میں ایک جنازہ کا ذکر جو چار مزدوروں نے اٹھایا ہوا تھا..کراچی میں ایک عمر رسیدہ کارکن کا واقعہ.142..38..پانچ دس احمدی علماء اس کی کتب کا مطالعہ اور احمدی تحقیق کریں.وداع دیکھئے جمعتہ الوداع ورزش صحت کے لئے کھیل اور ورزش ضروری ہے..وسیله کرم الہی ظفر صاحب کا سپین میں عطر بیچ کر تبلیغ کرنا....137 حضور ﷺ سے محبت اور عشق کا نام وسیلہ ہے..گورنمنٹ کالج لاہور کے طلباء غیر مسلموں کی تحریر کردہ وصل الہی تاریخ اسلام پڑھ کر غلط طور پر متاثر ہو جاتے تھے...182 انکساری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا لاہور کی ایک احمدی خاتون کا جو بلی فنڈ کے لئے قربانی کا واقعہ..337.حقیقی وصل ہوتا ہے.وفا 44.179..179.220.53.13...واقفین اواقفین زنگی نیز دیکھئے مبلغین اگر تم خدا سے وفا کا تعلق چاہتے ہو تو خدا سے وفا کرو.....49 187,140,139,186..اللہ تعالیٰ جماعت کے ساتھ پوری وفا کر رہا ہے جس کا ثبوت جماعت کو بے حد واقفین کی ضرورت ہے.........140 یہ ہے کہ جماعتی رو پسیہ پر بھی خزاں نہیں آتی.انہیں معاشرہ کی طرف سے خاص مقام اور تعاون 39.ملنا چاہیے..وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی زندگیاں پیش کردی.ایسے واقفین بھی ہیں جو اگر دنیا داری میں لگ جاتے تو 186.186..وقف جدید 369,359,307,242,80,69,40..اس تحریک کو بہت اچھی خدمت کی تو فیق مل رہی ہے.369.عام لوگوں سے بہت زیادہ مالی طور پر مستحکم ہوتے....187 حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت خلیفہ المسح الرائع واحدانيت.....................102,101 کو انگلستان سے آتے ہی وقف جدید آج اللہی واحدانیت کو قائم کرنے کا فریضہ جماعت احمدیہ کو سونپا گیا ہے..101..اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی واحدانیت کی حفاظت اپنی جانیں دے کر بھی کریں.102 کی ذمہ داری سونپی.80..وقف جدید کے نئے سال (۱۹۸۳) کا اعلان..369,359 وکالت مال ثانی نیز دیکھئے تحریک جدید نئی وکالت کا قیام..258...
60 60 یہ وکالت بیرون پاکستان چندہ تحریک جدید کے لئے حساب حضور رحمہ اللہ کایہ فرمانا کہ ہیں میں نے حضور ﷺ کی مغربی رکھتی ہے.ویرانے ویرانوں (ربوہ) میں ایسے سینے ہیں جہاں جنتیں بس رہی ہیں...ہلاک در اصل مہلک ہتھیاروں کی ایجاد ہی ہلاکت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے.258...93....132.دنیا کی طرز زندگی کے بارہ میں پیشگوئیاں پورا ہوتے دیکھی ہیں.157.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا فرمان مجھےاللہ تعالی نے یورپ کی تقدیر بدلنے کے لئے نمائندہ مقرر فرمایا ہے......133 وہ دنیاوی معاملات اور علوم میں بہت ترقی یافتہ ہیں مگر دینی معاملات سے کوئی تعلق نہیں.159.کمزور لوگ انگلستان اور یورپ میں لہو ولعب دیکھ کر مغلوب ہو جاتے ہیں...........227.یورپ مادہ پرستی میں بہت آگے نکل گیا ہے کہ اتنی ترقی ہمبرگ.....311,167,134,105 پاکستان اور بھارت کے لئے شاید سو سال کے بعد بھی 134,105....تصور میں نہیں آسکتی..162...جرمنی کا ایک شہر ہندوستان.......311,258,212,132 یورپ میں بعض عدم تربیت یافته احمدی نوجوان مغربی ماحول ہندوستان میں اسلام تاجروں نے پہنچایا.ی یورپ نیز دیکھئے مغربی اقوام 132..162,158,157,140,133,131,118,109,79 316,249,241,229,228,227,223,212,208 ساری یورپین تہذیب اپنے ماحصل سے مایوس ہو چکی ہے.اخلاقی اور روحانی امور میں اہل مغرب غلط راستہ پر ہیں 223.سے مغلوب ہو جاتے ہیں............یورپ میں تربیت کے مسائل.یورپ میں خود کشی کا رجحان...یورپ کا ظاہری حسن..یورپ کی مہمان نوازی کا ذکر 228.228.223.227.150.یورپ کے لئے کھیل کی طرف سے زیادہ توجہ ایک مصیبت بن گئی ہے.یورپی اقوام یورپی اقوام مجموعہ تضادات ہیں.جبکہ دیناوی امور میں بالکل درست ہیں..........164 یورپی تہذیب انہوں نے نہایت مہلک ہتھیار ایجاد کر لئے ہیں جن کے ساری یورپین تہذیب اپنے ماحصل سے استعمال سے انسان کا وجود مٹ جائے.اہل مغرب ہماری دعاؤں کے بہت محتاج ہیں.159.140...مایوس ہو چکی ہے.یورپی معاشرہ 220..131 223...ایشیا سے آئے ہوئے لوگ یورپ کی خامیوں کی پیروی کرتے یورپ میں بعض ایسے احمدی بھی ہیں جن پر اس سوسائٹی ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں..164..کا ادنی سا بھی اثر نہیں..229.........
61 119....310..یوسٹن.یونان یونیفارم یو نیفارم اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ ہے.یہودا یهودیت.84..236,100..ایک قریب المرگ یہودی بچہ کو آنحضرت ملا یا اللہ کا تبلیغ کرنا.رحمانیت سے عاری لوگوں کو مغضوب کہا گیا ہے 100.236...یعنی یہود..