Khutbat-eNasir Vol 9

Khutbat-eNasir Vol 9

خطباتِ ناصر (جلد 9۔ 1981ء، 1982ء)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۸۱ء تاجون ۱۹۸۲ء فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد نهم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی ( جلد نہم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 9 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, Allah have mercy on him.may (Complete Set - Volume 1-10) First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو ہے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء

Page 4

Page 5

||| بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ میں لفظ سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ کی نویں جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۸۱ ء اور ۱۹۸۲ء کے فرمودہ ۶۱ خطبات جمعہ پر مشتمل ہے جن میں ۱۹۸۱ء کے اٹھارہ اور ۱۹۸۲ ء کے چار غیر مطبوعہ خطبات بھی شامل ہیں.جن مقدس وجودوں کو خدائے قا در مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف کے دریا بہا دیتا ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل خطبات جماعتی نقطہ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.۱.۲ جنوری ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فارسی زبان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.” فارسی کی طرف بھی ہمیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ بعض لوگوں کی رؤیا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں سے جن علاقوں میں پشتو اور فارسی بولی جاتی ہے، فارسی بولنے والے علاقوں میں احمدیت جلد پھیلے گی.خدا کرے کہ جو تعبیر ہمارے ذہن میں آئی ہے وہ پوری ہو اور جس وقت ان میں احمدیت پھیلے گی تو فارسی کتب کا وہ مطالبہ کریں گے.اس کے لئے جماعت کو ابھی سے تیاری کرنی چاہیے مگر یہ کام وقف جدید کا اتنا نہیں جتنا

Page 6

IV جماعت کا ہے.جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت یہ ذمہ داری سنبھالنی چاہیے.اب تو یہ حال ہے کہ چونکہ ضرورت شدید نہیں تھی اس واسطے توجہ بھی نہیں کی گئی.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی اپنی بہت سی فارسی کی کتب ہیں جن کی اشاعت کی طرف توجہ نہیں کی گئی میں چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا جہاں تک تعلق ہے بہترین کتابت ہو ان کی اور بہترین طباعت ہو ان کی اور بہترین کاغذ استعمال کیا جائے.“ ۲ - ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.یہ کہنا کہ جی ہم شاہد ہیں، جامعہ میں پڑھے ہوئے ہیں ہمیں شاہد کی جو سند ہے وہ ہمیں معزز بنا دیتی ہے بالکل نہیں بناتی.تمہارے اعمال تمہیں معزز بنا سکتے ہیں شاہد کی ڈگری نہیں معزز بنائے گی.خدا سے عزت حاصل کرو اعمال صالحہ کے نتیجے میں ، اپنی قربانیوں کے نتیجے میں.“ ۳ ۱۹ جون ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے مخالفین کے انجام کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکیلے تھے دنیا میں ایک شخص آپ کو قتل کر کے جماعت احمدیہ کو نابود کر سکتا تھا، خدا تعالیٰ نے وہ ایک نہیں پیدا کیا.پھر جب آپ کے گرد ہزاروں ہو گئے تو بیسیوں ہزار جو تھے وہ نابود کر سکتے تھے اگر ایک دس کی نسبت بھی رکھی جائے تو جو چار ہزار قرآن کریم کی بشارت کے مطابق چالیس ہزار کے اوپر بھاری تھا لیکن ایک لاکھ تو ان کو نابود کر سکتا تھا ، وہ لاکھ نہیں پیدا ہوا.پھر وہ چھوٹے سے علاقے میں، پھر پنجاب میں، پھر ہندوستان میں پھیلے اور پھر یہ جماعت ساری دنیا میں پھیل گئی اور وعدہ یہ ہے کہ اگر ساری دنیا، دنیا کے سارے عیسائی، سارے یہودی، سارے بدھ مذہب والے، سارے بت پرست، سارے دہریہ سارے اشترا کی اور دوسرے مذاہب والے اکٹھے ہو کر جماعت احمدیہ کو نابود کرنا چاہیں گے ناکام ہوں گے ، یہ خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے.ترانوے سال میں ہماری آنکھوں نے اس بشارت کو پورا ہوتے دیکھا.“ ۴ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے عربی لٹریچر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.عربی بولنے والے ممالک میں کثرت سے احمدی ہیں اور وہ سفر میں مجھے ملتے

Page 7

V ہیں، یہاں آتے ہیں، بات کرتے ہیں اور ہر عربی بولنے والا احمدی یہ کہتا ہے.وہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دنیا کے سامنے جو قرآن کریم کی تفسیر آئی ہے اس کا اس قدر اثر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ہم فوراً احمدیت قبول کر لیتے ہیں.اتنا اثر ہے اس کے اندر.وہ کہتے ہیں ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے تمام کتب کا عربی ترجمہ ہمیں کر کے دیں.اس کے بغیر محرومیت کا دور جو ہے وہ لمبا ہو رہا ہے.“ ۵.۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے باہمی پیارو محبت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:.’ہر جماعت کی نمائندگی اپنے اپنے اجتماع میں ہونی چاہیے.اس کی ذمہ داری ایک تو خود ان تنظیموں پر ہے لیکن اس کے علاوہ تمام اضلاع کے امراء کی میں ذمہ داری لگا تا ہوتا ہوں اور تمام اضلاع میں کام کرنے والے مربیوں اور معلموں کی یہ ذمہ داری لگا تا ہوں کہ وہ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جائے، ایک دفعہ نہیں ، جاتے رہ کر ان کو تیار کریں کہ کوئی گاؤں یا قصبہ جو ہے یا شہر جو ہے وہ محروم نہ رہے، نہ پنجاب میں ، نہ سرحد میں ، نہ بلوچستان میں ، نہ سندھ میں اور اس کے متعلق مجھے پہلی رپورٹ امرائے اضلاع اور مربیان کی طرف سے عید سے دو دن پہلے اگر مل جائے تو عید کی خوشیوں میں شامل یہ خوشی بھی میرے لئے اور آپ کے لئے ہو جائے گی اور دوسری رپورٹ پندرہ تاریخ کو یعنی جو اجتماع ہے خدام الاحمدیہ کا غالباً ۲۳ کو ہے تو اس سے پہلے جمعہ کو سات دن پہلے وہ رپورٹ ملے کہ ہم تیار ہیں.ہر جگہ سے، ہر ضلع سے، ہر گاؤں، ہر قریہ، ہر قصبہ ہر شہر اس ضلع کا جو ہے اس کے نمائندے آئیں گے.“ ۶.۶ نومبر ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ہم سے ء میں خدا تعالیٰ نے الہاما مجھے کہا تھا وسّع مكانك میں نے اس وقت جماعت کو بتا دیا تھا کہ خدا نے کہا ہے کہ یہ جو ۱۹۷۴ء کا منصوبہ بنا تھا استہزا کا، ہمیں ذلیل کرنے کا، اس کے لئے میں کافی ہوں اور میرے مہمانوں کا تم انتظام کر دو شعُ مَكَانَك - تو اللہ تعالیٰ نے اتنی توفیق دی ۷۴ء میں جو تعمیر کے حالات تھے اس سے ۴۰،۳۰ گنا زیادہ حالات ہو گئے ہیں.حالات سے مراد ہے پیسہ لوگوں کے پاس آ گیا.“

Page 8

VI ۷.۱۴ دسمبر ۱۹۸۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.” ہمارے لئے ساری گھبراہٹیں دور کرنے اور غموں کو ہوا میں اڑانے کے لئے یہ ایک فقرہ کافی ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح میں چاہتا ہوں اس طرح تم انا اللہ اگر کہو گے تو خدا تعالیٰ کے درود صلوات ہوں گی تم پر اور اس کی رحمت نازل ہوگی.پس یہ موقعے غم کے نہیں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے مواقع ہیں ان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور توفیق عطا کرے.“ ۸.۱۱ دسمبر ۱۹۸۱ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے احمد یہ بک ڈپو کے افتتاح کے سلسلہ میں فرمایا:.احمد یہ بک ڈپو کا نام ہم نے رکھا ہے مَخْزَنُ الْكُتُبِ الْعِلْمِيَّةِ “ اور یہ تو اس کا یہ ہے نام نا، کس غرض کے لئے ہے.اس واسطے مجھے یہ خیال آیا کہ ہم اردو میں احمد یہ بک ڈپو بھی رکھیں گے.یعنی اصل نام وہ ہے مَخْزَنُ الْكُتُبِ الْعِلْمِيَّةِ...اور ہر وہ کتاب جو پہلے چھپی ہو یا تازہ چھپے ، جس کی اجازت مصنف نے یا مدوّن نے اصلاح وارشاد سے لی ہو اور قانونِ وقت کے مطابق سنسر اسے کروایا ہو، وہ بک ڈپو میں ہونی چاہیے.“ نیز مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے بارہ میں فرمایا:.دعائیں کریں اپنے لئے.دعائیں کریں اپنے ملک کے لئے.دعائیں کریں انسانیت کے لئے.دعائیں کریں غلبہ اسلام کے لئے.دعائیں کریں اس مسجد کے بابرکت ہونے کے لئے جو سپین میں سات سو چوالیس سال کے بعد قرطبہ کے علاقہ میں تعمیر ہونی شروع ہوئی تھی اور جس کے متعلق اطلاع یہ ہے کہ اس کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے.الحمد للہ.اب اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں انشاء اللہ اگلے سال اس کا افتتاح کروں گا ورنہ افتتاح بہر حال ہو گا اس کا.دعا یہ کریں کہ وہ اہل سپین کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب بنے.“ ۹ یکم جنوری ۱۹۸۲ء کے خطبہ جمعہ.نے فرمایا:.میں معلمین وقف جدید کے بارہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ”وقف جدید کے واقفین کی علمی قابلیت کا معیار اور ہے وہ جامعہ کے پڑھے ہوئے شاہدین

Page 9

VII نہیں.واقفین وقف جدید کی اپنی تربیت اور تعلیم کا ایک علیحدہ نظام ہے.واقفین وقف جدید جو ہیں عمروں کے لحاظ سے چھوٹی عمر کے اور تجربہ کے لحاظ سے کم تجربہ ہیں.اس لئے ایک تو میں نصیحت کروں گا انجمن وقف جدید کو کہ جو واقفین وقف جدید ان کے پاس ہیں، ان کی علمی اور علم کی بنیاد پر اخلاقی اور روحانی تربیت میں زیادتی کرنے کا ایک منصوبہ بنائیں اور وہ منصوبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے پڑھنے، سمجھنے اور اس کے نتیجہ میں وہ اثر قبول کرنے کا ہو جو ایک متقی دل ان کتب کو پڑھ کے اثر قبول کرتا ہے.“ ۱۰ ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے جماعت کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.” جو انسان پیدا ہوتا ہے وہ بوڑھا ہوجاتا ہے، کام کے لائق نہیں رہتا یا فوت ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے اپنے اعمال کی جزا پاتا ہے لیکن الہی سلسلہ کو جس نے ساری دنیا میں دین الحق کو غالب کرنا ہے ان کے قائم مقام ملتے رہنے چاہئیں، اگر پہلوں سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم پہلوں جیسے.میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ عرصہ سے جماعت ( یہ جماعت کی اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے ) اس طرف توجہ نہیں دے رہی اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر ہم نے فوری اس طرف توجہ نہ دی تو ایک بڑا خطر ناک دھ کا بھی لگ سکتا ہے ، نقصان بھی پہنچ سکتا ہے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو.“ 66 ۱۱ ۱۹ مارچ ۱۹۸۲ ء کے خطبہ جمعہ میں روحانی ترقی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:.آگے بڑھو ، آگے بڑھو.اصل چیز ہے روحانیت میں آگے بڑھو.خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے عرفان میں آگے بڑھو.اس کے لئے دعائیں کریں، اس کے لئے غور کریں.اس کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اولوا الا لباب میں اللہ تعالیٰ ہمیں شامل کرے.اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور اپنے فضلوں سے ہمیں نوازے اور وہ دے ہمیں جو دینے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے.“ ۱۲.۲۱ مئی ۱۹۸۲ء کے اپنے آخری خطبہ جمعہ میں حضور انور نے خطبہ ثانیہ سے قبل فرمایا:.کئی نئے احمدی ہوتے ہیں، کئی بچے جوان ہوتے ہیں، اصل دستور یہ ہے کہ دو خطبوں کے درمیان بیٹھا جائے.میں جب سے گھوڑے سے گرا ہوں میں بیٹھ نہیں سکتا اس طرح.یہ میری

Page 10

VIII مجبوری ہے، اس واسطے میں نہیں کرتا.ابھی ایک دو ہفتے ہوئے تو کسی نے (میرے اوپر تو اعتراض نہیں کیا،حسن ظنی سے کام لیا لیکن یہ ضرور ) کہا کہ حضرت صاحب کو دیکھ کے، اگر خطبہ کوئی اور دے رہا ہو، اس نے بھی وہ روایت چھوڑ دی ہے.میں اکڑوں کی حالت جو مجھے اٹھنا ہے وہ نہیں بیٹھ سکتا.مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے.اس لئے اس تکلیف نے مجھے اجازت دی اسلامی تعلیم کے مطابق کہ میں کھڑے کھڑے ایک وقفہ ڈال کے پھر دوسرا خطبہ شروع کردوں.“ الغرض حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ بھی ہر پہلو سے انسانیت کی ضرورت ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی خاطر ہر جہت سے ترقیات کے لئے قربانی اور کامل اطاعت کی تیاری کے سامان ہیں.اس جلد کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ کی تدوین اور اشاعت کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو گیا ہے.آئندہ جلد دھم حضور انور کے خطبات عیدین اور نکاح پر مشتمل ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ ۲۳-۶-۲۰۰۸ والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت

Page 11

خطبات ناصر جلد نم نمبر شمار IX فہرست خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه 1 عنوان وقف جدید کے چوبیسویں سال کا اعلان اعمال اور اعتقادات کی بنیا د خشیت اللہ پر ہونی چاہیے ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ کی لطیف تفسیر دعا کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں ۲ جنوری ۱۹۸۱ء 1 ۹ جنوری ۱۹۸۱ء ۹ ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء ۱۷ ۲۰ فروری ۱۹۸۱ء ۲۷ ۶ 2 Λ مرنے کے بعد کی زندگی میں عمل اور مجاہدہ ہے کوئی امتحان نہیں ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء ۳۱ خدا کی رضا کے حصول کے لئے قرآنی تعلیم پر عمل کرنا ضروری ہے ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء دین ہمارا اسلام ہے اور ہم احمدی مسلمان ہیں ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ نوع انسانی کو تباہی سے بچانے کی کوشش کریں ۲۰ مارچ ۱۹۸۱ء ہر احمدی یہ روح پیدا کرے کہ خدا کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ۲۷ مارچ ۱۹۸۱ء ۳۷ ۴۳ ۵۵ ۶۳ ۶۹ ۱۰ اسوۂ نبی کو چھوڑ کر قرآن میں دیگر راہیں تلاش کرنے والا بدبخت ہے ۱/۳ پریل ۱۹۸۱ء قرآن کا حکم ہے اعلان کریں کہ ہم اسلام پر مضبوطی سے قائم ہیں ۱۰ را پریل ۱۹۸۱ء ۷۳ ۱۲ خدا کے حکم کی اطاعت کرو گے تو مقصد حیات کو پالو گے ۱۳ متقی اور مطہر قرار دینا صرف اللہ کا کام ہے یکم مئی ۱۹۸۱ء ۸ رمئی ۱۹۸۱ء ۱۴ قادر مطلق اور متصرف بالا رادہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء ۱۵ اللہ تعالیٰ کی خشیت دلوں میں پیدا کر کے مالی قربانی کے وعدوں کو پورا کریں ۲۲ رمئی ۱۹۸۱ء ۱۷ وَمَن لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ کی لطیف تفسیر ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالی جماعت کی پریشانیاں دور کرے ۵/ جون ۱۹۸۱ء ۷۹ ۹۳ 1+1 1+2 ١١٩ ۱۲۷

Page 12

خطبات ناصر جلد نهم نمبر شمار عنوان X فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۱۸ جسے اللہ تعالیٰ بچانا چاہے اسے دنیا کی طاقتیں ہلاک نہیں کرسکتیں ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء ۱۹ قرآن کریم کی رو سے حقیقی مسلمان کون ہے؟ ۱۹ ؍جون ۱۹۸۱ء جو ہدایت قرآن کریم نے دی ہے اس کی پابندی کرنا ہر احمدی کا فرض ہے ۲۶ جون ۱۹۸۱ء ۱۳۵ ۱۴۳ ۱۵۹ ۱۶۹ ۲۱ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ قرآن کی تعلیم کو تمام دنیا میں غالب کرے گا ۳ جولائی ۱۹۸۱ء ۱۰؍ جولائی ۱۹۸۱ء ۱۷۹ ۲۲ ہدایت حصولِ مقصدِ حیات کی راہیں کھولتی ہے ۲۳ قرآن کریم اللہ کے بندوں کی عاجزی میں زیادتی کے سامان پیدا کرتا ہے ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ ء ۱۹۱ ۲۴ ماہ رمضان میں بہت سی عبادتیں اکٹھی کی گئی ہیں ۲۵ ۲۴ جولائی ۱۹۸۱ء ۲۰۱ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء ۲۰۷ ۲۱۷ ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآنی حدود کی پابندی کرے ۲۶ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم نے دلوں کو جیتا ۷ را گست ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو مبعوث فرما کر بنی نوع انسان پر عظیم احسان فرمایا ہے ۲۱ اگست ۱۹۸۱ء ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر بچہ کے کان میں ڈالیں کہ اللہ کسے کہتے ہیں ۲۸ اگست ۱۹۸۱ء ۲۳۷ ۲۹ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم الرسول، النَّبِی اور الامی ہیں 11 ستمبر ۱۹۸۱ء ۳۰ مرکز سلسلہ میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات ۳۱ کائنات کی بنیادی حقیقت وحدانیت باری تعالیٰ ہے ۳۲ مؤمنین کو صراطِ مستقیم پر قائم رہنا چاہیے ٣٣ سوائے خدا کے کسی پر توکل نہ کرو ۳۴ جماعت احمدیہ کا بنیادی مقام عجز اور انکسار کا مقام ہے ۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ء ۲اکتوبر ۱۹۸۱ء ۹ را کتوبر ۱۹۸۱ء ۲۲۳ ۲۴۷ ۲۶۱ ۲۷۱ ۲۸۱ ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۱ء ۲۸۷ ۲۳ /اکتوبر ۱۹۸۱ء ۲۹۱ ۳۵ تحریک جدید کے اڑتالیسویں، اڑتیسویں اور سترہویں سال کا اعلان ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۱ء ہر فرد کا فرض ہے کہ اہوائے نفس کے خلاف انتہائی کوشش کرے ۶ نومبر ۱۹۸۱ء ٣٦ ۲۹۵ ۳۰۳ ۳۱۷ ۳۷ قرآنی اصطلاح کی رو سے شہوات نفسانی کو ترک کرنا ہجرت ہے ۱۳/ نومبر ۱۹۸۱ء احسن قول، عقیدہ اور عمل اس شخص کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء ۳۲۹

Page 13

خطبات ناصر جلد نهم نمبر شمار عنوان XI فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۳۹ خدا جو عزت کا سرچشمہ ہے اس سے عزت حاصل کریں ۲۷ نومبر ۱۹۸۱ء ۳۳۷ ۴۰ سارے غموں کو ہوا میں اڑانے کے لئے انا للہ کافی ہے ۱۴ دسمبر ۱۹۸۱ء ۴۱ آزمائش اور امتحان کے بغیر تمہیں چھوڑا نہیں جائے گا ۴۲ جلسہ سالانہ کا مقصد خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنا ہے ۱۱ دسمبر ۱۹۸۱ء ۱۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ۳۴۵ ۳۵۵ ۳۶۹ ۴۳ ارفع مقام کی طرف جماعت کے ہر فرد کی حرکت رہنی چاہیے ۲۵/دسمبر ۱۹۸۱ء | ۳۷۳ ۴۴ وقف جدید کے پچیسویں سال کا اعلان ۴۵ جماعتی ذمہ واریوں میں اہم ذمہ واری تعلیمی منصوبہ ہے.تیم جنوری ۱۹۸۲ء ۳۷۹ ۸ /جنوری ۱۹۸۲ء ۳۸۳ ۴۶ یہ حقیقت کا ئنات ہے کہ ہر شے اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ربوبیت کے احاطہ میں ہے ۱۵ جنوری ۱۹۸۲ء ۳۸۵ ۴۷ زندگی اور بقالئے ضروری ہے کہ جانے والوں کی قائمقام نسل پیدا ہو ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ ۳۹۳ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خوشی کا سامان پیدا کر دیا اور ہمیں لڑ کا عطا کیا ۵ فروری ۱۹۸۲ء ۳۹۹ جماعت کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر دنیا کے ہاتھ میں پہنچائے ۱۹ / فروری ۱۹۸۲ء ۴۰۳ ۴۸ ۵۰ اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچاؤ ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء ۵۱ کھیل اور ورزش کے متعلق اسلام کا فلسفہ ۵۲ قرآن کریم غیر محدود علوم کا سر چشمہ ہے ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء ۱۹/ مارچ ۱۹۸۲ء ۴۱۷ ۴۲۳ ۴۳۵ ۵۳ زندگی کے ہر فعل کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے دعا کی ضرورت ہے ۲۶ / مارچ ۱۹۸۲ء ۴۴۵ ۵۴ عزت سب کی سب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۱/۲ ۲ اپریل ۱۹۸۲ء ۴۴۹ ۵۵ شہوات نفسانی کی پیروی نہ کرنے سے روحانی اور اخلاقی لذت حاصل ہوگی ۱۹ پریل ۱۹۸۲ء ۴۵۵ اگر قو میں ایک دوسرے کے حقوق پہچانیں تو بین الاقوامی فضا حسین ہو سکتی ہے ۱/۱۶ اپریل ۱۹۸۲ ء ۵۷ نبی کریم کے اخلاق کے حسن سے روح کو خوبصورت بنالینا اسلام ہے ۲۳ / اپریل ۱۹۸۲ء ۵۸ نظام وصیت آسمانی رفعتوں تک پہنچانے والا نظام ہے ۵۹ ۴۷۱ ۳۰ اپریل ۰۹۸۲ ۴۸۱ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکارم اخلاق کے اتمام کے لئے ہوئی تھی سے رمئی ۱۹۸۲ء ۴۸۹

Page 14

خطبات ناصر جلد نهم نمبر شمار ۶۱ XII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه عنوان صراط مستقیم پر چلو خدا تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء ہر وہ کام جو غلبہ اسلام کی مہم مطالبہ کرتی ہے ہمیں آج کر دینا چاہیے ۲۱ مئی ۱۹۸۲ء ۴۹۵ ۵۰۳

Page 15

خطبات ناصر جلد نهم 1 خطبه جمعه ۲ / جنوری ۱۹۸۱ء وقف جدید کے چوبیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲ /جنوری ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.وَمَنْ يَشْكُرُ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ - (لقمن : ۱۳) پھر فرمایا:.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ذات کی طرف تو ساری حمد رجوع کرتی ہے.الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعلمین اس بات کا محتاج نہیں کہ اس کے بندے اس کا شکر ادا کریں.بندے اس بات کے محتاج ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پائیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں.اگر اللہ تعالیٰ کے بندے اللہ تعالیٰ کی جس قدر نعمتیں ہوں اسی قدر اس کا شکر ادا کرتے چلے جائیں.فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنفیسہ.جو اس شخص یا اس جماعت کے فائدہ ہی کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں.شکر زبان سے بھی ہے اس کی حمد بہت کرنی چاہیے.شکر کا ایک جذبہ بھی ہے جو انسان کے دل اور اس کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور ہر وقت اس کی کیفیت ایک ایسے شخص کی ہوتی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے نتیجہ میں سوائے حمد کے اس کے وجود میں کچھ باقی نہیں رہتا.ہمارا جلسہ آیا اور گزر گیا.پہلے جلسہ سے زیادہ شان میں آیا.زیادہ برکتیں لے کر آیا.

Page 16

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۲ جنوری ۱۹۸۱ء کثرت نفوس سے آیا، زیادہ تعداد میں شامل ہونے والے آئے اس میں، دلوں کی کیفیت زیادہ بدلنے والے آثار لے کر آیا.سننے والوں نے سنا.محسوس کرنے والوں نے محسوس کیا اور بہتوں نے جو ہم میں شامل نہیں ابھی یا شامل نہیں تھے، اس سے فائدہ اٹھایا.اللہ تعالیٰ کی اس آیت میں جو ہدایت ہے اس کی روشنی میں ہمیں پہلے سے زیادہ اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگی گزارنی چاہیے.اس لئے کہ آنے والا جلسہ جانے والے جلسہ کے مقابلہ میں زیادہ برکات لے کر آئے.اللہ تعالیٰ کے فضل زیادہ ہوں.زیادہ تعداد میں دوست اس میں شریک ہوں.انتظام پہلے سے بھی بہتر ہو.دکھوں کو پہلے سے زیادہ دور کرنے والا ہو.دنیا پر احسان کی زیادہ تدابیر سوچی جائیں.اس کے لئے زیادہ تربیت کی جاسکے اور صرف آنے والا جلسہ ہی نہیں خدا کرے کہ ہماری زندگی کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے اللہ تعالیٰ کی برکات سے زیادہ معمور ہو اور ہر آنے والے دن میں ہمارا دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر میں پہلے سے زیادہ بھرا ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر روز اعمال مقبول، اعمال مشکور کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم کرے اور جس عذاب اور ہلاکت کی طرف آج کی دنیا بڑھتی چلی جارہی ہے اس کے بچاؤ کے اس کے لئے سامان پیدا کرے.یکم جنوری سے وقف جدید کا سال شروع ہوتا ہے اور جو کل یکم تھی اس سال کی ہجری شمسی کے لحاظ سے ۱۳۶۰ سال ہے اور وقف جدید کا جو نیا سال شروع ہے وہ چوبیسواں سال ہے.ان چوبیس سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید نے آہستہ آہستہ اور بتدریج ترقی کی طرف قدم بڑھایا ہے.وقف جدید کی اصل ذمہ داری تو یہ ہے کہ جگہ جگہ پہ ہمارے واقفین وقف جدید بیٹھیں اور جماعت کی تربیت کریں، نئے داخل ہونے والوں کی بھی اور نئے شعور اور بلوغت کو پہنچنے والوں کی بھی.جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی میں نے جماعت سے کہا تھا کہ اگر ہر جماعت میں ایک واقف وقف جدید ہم نے بٹھانا ہے تو جتنی جماعتیں ہیں اس تعداد میں ہمارے پاس واقفین ہونے چاہئیں اور چونکہ یہ واقفین آٹے کے بنا کر یا موم کے بنا کر بھیجے نہیں جاسکتے.بہر حال انسان ہوں گے.اس

Page 17

خطبات ناصر جلد نہم خطبہ جمعہ ۲؍ جنوری ۱۹۸۱ء واسطے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کو اس تحریک میں بھی وقف کرے اور اگر چہ تعلیم کا معیار اس کے لئے کم ہے.آٹھویں جماعت کا بھی بعض دفعہ لے لیتے ہیں اگر ہوشیار ہو اور دسویں جماعت غالباً شرط ہے ان کی (اس وقت میرے ذہن میں نہیں ) لیکن تعلیم کا معیار جو کم ہے اس سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ذہانت کا معیار بھی کم ہے.اس سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ اخلاص اور ایثار کا معیار بھی کم ہے.ہمارے بہت سے واقفین وقف جدید ایسے بھی ہیں جو بعض شاہدین سے زیادہ اخلاص اور جوش اور جذبہ اور ایثار کے ساتھ کام کرنے والے ہیں.ہمیں تو ہر شخص ہمیں تو ہر احمدی ایک واقف چاہیے یعنی اپنے کاموں کی ، دنیوی کاموں کی ذمہ داریاں بھی نباہ رہا ہو اور اپنی اُخروی زندگی کی ذمہ داریاں بھی اس سے زیادہ جوش اور جذ بہ کے ساتھ نباہنے والا ہو.ایک تحریک میں نے کی تھی کہ ایسے واقفین ہوں جو اپنے گاؤں سے آویں اور چند ہفتوں کا نصاب ان سے کروایا جائے اور وہ واپس جا کے اس معیار پر لیڈر بنیں ، قیادت سنبھالیں ، اپنے اپنے معیار پر قیادت سنبھالنی ہوتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی اور مجھے افسوس ہے کہ یہاں سے جو نصاب ختم کر کے گئے ، ان میں سے بہت نے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا.اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے.وہ بھی وقف جدید کا ہی حصہ ہے.چونکہ وقف جدید زیادہ تر توجہ تربیت کی طرف دیتی ہے اس لئے ایک خاص قسم کی کتب یہ شائع کرتے ہیں.چونکہ ان کے واقفین سندھ کی جماعتوں میں بھی بیٹھے ہیں اس لئے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں سندھی زبان میں بھی کتب مہیا کی جائیں.چنانچہ بعض کتب سندھی زبان میں بھی وقف جدید کی طرف سے شائع ہوئیں.بعض واقفین وقف جدید صوبہ سرحد میں بھی کام کر رہے ہیں.ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں پشتو زبان میں کتب دی جائیں.اس کی طرف بھی انہوں نے توجہ دی ہے.ابھی ابتدا ہے اور کچھ کتب تیار ہو کے شائع ہو چکی ہیں پشتو زبان میں بھی.فارسی کی طرف بھی ہمیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ بعض لوگوں کی رویاء سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں سے جن علاقوں میں پشتو اور فارسی بولی جاتی ہے.فارسی بولنے والے

Page 18

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۲ / جنوری ۱۹۸۱ء علاقوں میں احمدیت جلد پھیلے گی.خدا کرے کہ جو تعبیر ہمارے ذہن میں آئی ہے وہ پوری ہو اور جس وقت ان میں احمدیت پھیلے گی تو فارسی کتب کا وہ مطالبہ کریں گے.اس کے لئے جماعت کو ابھی سے تیاری کرنی چاہیے مگر یہ کام وقف جدید کا اتنا نہیں جتنا جماعت کا ہے.جماعت احمد یہ کو بحیثیت جماعت یہ ذمہ داری سنبھالنی چاہیے.اب تو یہ حال ہے کہ چونکہ ضرورت شدید نہیں تھی اس واسطے تو جہ بھی نہیں کی گئی.حضرت اقدس بائی سلسلہ احمدیہ کی اپنی بہت سی فارسی کی کتب ہیں جن کی اشاعت کی طرف تو جہ نہیں کی گئی.منظوم کلام ہے اس کی اشاعت کی طرف توجہ نہیں کی گئی ، پہل میں کر رہا ہوں منظوم کلام سے.اللہ تعالیٰ جزا دے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو.ان کے سپر د میں نے کام کیا تھا.( وہ بڑے اچھے فارسی دان ہیں ) کہ جو پہلی درثمین فارسی شائع ہوئی ہے اس میں کتابت کی اور اعراب کی بہت سی غلطیاں ہیں.انہیں میں نے کہا کہ مجھے لکھ کے دیں.صحیح اور حسب ضرورت اعراب کے ساتھ.یہ میرے سفر سے پہلے کی بات ہے ، انہوں نے وعدہ کیا تھا جلسے تک میں یہ کام ختم کر دوں گا.انہوں نے وہ مسودہ تیار کر کے مجھے دے دیا ہے.اب اس کی کتابت اور طباعت کا کام ہے.اللہ تعالیٰ وہ بھی کر دے گا.میں چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا جہاں تک تعلق ہے.بہترین کتابت ہو ان کی اور بہترین طباعت ہو ان کی اور بہترین کاغذ استعمال کیا جائے.ایک نہایت اچھی شکل میں دنیا کے ہاتھ میں یہ روحانی خزانہ دیا جائے کیونکہ جوشان ہے اس کلام کی نظم ہو یا نثر، اسی کے مطابق اس کو لباس پہنانا چاہیے.یہ نہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی کتاب لکھے تو وہ تو پسند کرے کہ جو اس نے لکھا ہے وہ بہترین ہولیکن حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے.ایک وقت میں یہ بیماری لندن میں بھی پیدا ہوئی اور مجھے انہیں سمجھانا پڑا، میں نے کہا کوئی کتاب لندن مشن نہیں شائع کرے گا.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے علاوہ جس کی طباعت اور جس کا Get Up حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے اچھا ہو.بہترین شکل میں، بہترین کاغذ پر ، بہترین مطبع سے، بہترین پبلشنگ ہاؤس سے،

Page 19

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۸۱ء حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب شائع ہونی چاہئیں.چنانچہ وہاں سے اس وقت تک صد سالہ جو بلی کے خرچ پر تین کتب شائع ہو چکی ہیں.ایک تو Essence of Islam کی سیریز میں پہلی کتاب حضرت اقدس بائی سلسلہ احمدیہ کے اقتباسات چار مضامین پر.اللہ جل شانہ اور اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن عظیم یہ کوئی تین سوا اٹھائیس صفحے کی کتاب بن گئی.Essence of Islam Vol: II اس کی دوسری جلد اس وقت پریس میں ہے.یہ بھی انگریزی ترجمہ ہے.دنیا میں بڑی کثرت سے انگریزی بولی جاتی ہے.اس میں بعض دوسرے مضامین ہیں اور اس کے بعد.11:Essence Of Islam Vol اور Volume IV ( جلد سوم و چهارم) کا مسودہ تیار ہے.انشاء اللہ آگے پیچھے وہ آجائیں گی.اس کے علاوہ فرانسیسی بولنے والوں کے لئے ہمارے پاس لٹریچر نہیں تھا.دنیا میں ایک وقت میں تو (چین اور روس کو چھوڑ کے ) سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں دو تھیں.یا انگریز کی زبان انگریزی کیونکہ انہوں نے بہت زیادہ Colonisation ( کالونائزیشن ) کی اور یا فرانسیسی جو اس کے بعد نمبر دو پر آئی.پھر سپینش اور پر چوگیز کیونکہ ساؤتھ امریکہ میں وہ آباد ہوئے اور ہالینڈ کی زبان.اس لئے کہ یہ بھی ایک وقت میں Colonial Power ( کالونیل پاور ) بنے اپنی زبان دنیا کے بعض حصوں میں انہوں نے رائج کی.ہالینڈ کی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی ہے.بعض دوسری کتب بھی ہیں.فرانسیسی میں ابھی تک نہ قرآن کریم کا ترجمہ تھا،نہ کوئی اور لٹریچر تھا.چھوٹے چھوٹے رسالے بہت سارے شائع ہوتے رہتے ہیں ضرورت کے مطابق لیکن پہلی دفعہ Introduction To The Study of Holy Quran (دیباچہ تفسیر القرآن جو حضرت مصلح موعود کا لکھا ہوا ہے ) یہ بذات خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت بھی رکھتا ہے کیونکہ اس میں دو مضمون لمبے اور تفصیلی ہیں.ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور دوسرے اسلام اور عیسائیت کا موازنہ.اس کے علاوہ اور مضامین بھی ہیں.یہ بھی کوئی تین سوتیں، چالیس صفحے کی ہے.یہ بھی چھپ چکی صد سالہ جو بلی کے انتظام کے ماتحت.ہمیں اس کی اس لئے خاص طور پر ضرورت پڑی کہ ایک تو ساری دنیا میں اسلامی تعلیم پھیلانے کے لئے

Page 20

خطبات ناصر جلد نهم ۶ خطبہ جمعہ ۲؍ جنوری ۱۹۸۱ء فرانسیسی کو بھی بیچ میں لانا ضروری تھا.کیونکہ بڑی کثرت سے بولی جانے والی سمجھی جانے والی زبان ہے.دوسرے اس لئے ضرورت پڑ گئی کہ افریقہ کے بہت سے ممالک کی زبان فرانسیسی ہے.جہاں یہ حاکم رہے ہیں.مثلاً Niger ( نیگیر ) ہے جس کو یہاں نائیجر کہتے ہیں.لیگوس میں وفد ملنے آیا تھا میں نے کہا میں شاگر د بنتا ہوں تو بتاؤ کہ تمہارے ملک کا Pronunciation کیا ہے کیونکہ کوئی اس کو نا ئیجر کہتا ہے کوئی نا ئیگر کہتا ہے.انہوں نے کہا نہ ٹائیگر ، نہ نائیجر.ہم اپنے ملک میں اپنے ملک کا نام جو بولتے ہیں اس کی (Sound) آواز ہے نیگیر.وہاں ہمارا مشن نہیں لیکن نائیجیریا کی سرحدوں پر ہے.وہ لوگ نائیجیریا میں آتے ہیں.وہاں ان کو تبلیغ ہوئی اور وہاں جماعت قائم ہوگئی اور ہمارا ایک نو جوان معلم وہاں کام کرتا رہا کچھ عرصہ وہ مزید تعلیم کے لئے اسی جلسے پہ یہاں آ گیا ہے.مخلص ہے، ذہین ہے بظاہر.اس کے لئے بھی دعا کریں.کچھ فرانسیسی تھوڑی سی جانتا ہے.زیادہ نہیں.میرا خیال تھا کہ اس کو پوری طرح فرانسیسی کا ماہر بنایا جائے.نیز علوم قرآنی کا بھی ایک حد تک اس کو علم سکھایا جائے یہاں.تا کہ وہ ان علاقوں میں کام کر سکے کیونکہ وہاں جماعت قائم ہوگئی ہے یا شاید ایک سے زیادہ جماعتیں.ٹو گولینڈ فرانسیسی بولتا ہے.وہاں جماعتیں قائم ہوگئیں ”بین “ ایک ملک کا نام ہے.وہاں جماعتیں قائم ہو گئیں.سینیگال فرانسیسی بولتا ہے.بہت بڑا ملک ہے.بیچ میں گھسا ہوا ہے اس میں ہمارا گیمبیا جس کو با مجول کہتے ہیں ، اب بانجول اندر گھسا ہوا ہے.اس کے بیچ میں سے رستہ نکلتا ہے جو آر پار جاتا ہے ملانے کے لئے ان کے دو علاقوں کو.اس حصہ میں بھی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.وہ فرانسیسی بولنے والے ہیں.اس لئے فرانسیسی لٹریچر کی بہت ضرورت تھی.اس ضرورت کو ایک حد تک (Introduction To The Study of Holy Quran) دیباچہ فرانسیسی انشاء اللہ پوری کرے گا.اس میں سے پمفلٹ بھی بہت سارے مضامین پہ نکالے جا سکتے ہیں علیحدہ شائع کرنے کے لئے دو دو صفحے کے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے.اسلام کی خوبیاں ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ بیچ میں بات آگئی.میں وقف جدید جولٹریچر شائع کر رہی ہے اُس کے متعلق بات کر رہا تھا.

Page 21

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۲؍ جنوری ۱۹۸۱ء میری یہ خواہش ہے اور آپ کی بھی ہونی چاہیے کیونکہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں کہ دس سال کے اندر اندر یعنی قبل اس کے کہ ہماری زندگی کی دوسری صدی شروع ہو ہم قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ شائع کر سکیں.ترجمہ ہو چکا ہے.لیکن (Revision) نظر ثانی کی ضرورت ہے.وہ ہو رہی ہے talian ا زبان میں ترجمہ حضرت مصلح موعود نے کروا کے مسودہ رکھا ہوا تھا لیکن Revision نہیں ہو سکی اس وقت اور Revision دو وجہ سے ضروری ہے ایک یہ کہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے کی زبان میں جو تر جمہ ہوا ہے.زبان بھی کچھ بدل گئی ہے.محاورات بھی بدل گئے.Revise ہونا چاہیے زبان کے لحاظ سے.دوسرے یہ کہ جو ترجمہ کسی غیر مسلم، غیر احمدی نے کیا ہے اس کو شائع کرنے کی ذمہ داری نہیں لی جاسکتی جب تک ہمارا آدمی نہ دیکھے کہ مضمون کے لحاظ سے کوئی غلط بات تو نہیں آگئی.اس کے لئے بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زبانیں ہمارے شاہدین سیکھیں.فرانسیسی جاننے والے تو ہمارے شاہدین پیدا ہو گئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم اچھی زبان میں لکھ نہیں سکتے لیکن یہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ جو ترجمہ ہوا ہے اس میں مضمون کے لحاظ سے غلطی تو نہیں.میرا خیال ہے کہ فرانسیسی تر جمہ ان تراجم میں سب سے پہلے آجائے گا.اٹالین زبان میں آجائے گا.پھر پور چوگیز زبان میں آجائے گا.رشین زبان میں بھی Translation ہے.جس کی Revision ہونے والی ہے.اس کے لئے انتظام میں کر رہا ہوں.میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ شدید تڑپ پیدا کی ہے کہ دس سال کے اندر اندر ہم فرانسیسی اور اٹالین اور سپینش زبان میں اور رشین زبان میں اور چائینیز زبان میں قرآن کریم کے ترجمے شائع کردیں.اگر ہم ایسا کر سکیں تو دنیا کی آبادی کے قریباً اسی فیصد سے زیادہ لوگوں کو ہم قرآن کریم ان کی زبان میں دے سکتے ہیں.تو دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو خواہش پیدا کی ہے، اس کو پورے کرنے کے بھی سامان پیدا کرے.وقف جدید کو اپنے کام چلانے کے لئے پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور دوست اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.ان کی رپورٹ کے مطابق ۸۰-۱۹۷۹ء میں قریباً 99 ہزار کی بیشی ہے.لیکن جو دفتر اطفال کہلاتا ہے یعنی چھوٹے بچوں کا رجسٹر بچے تو تعداد

Page 22

خطبات ناصر جلد نهم Δ خطبه جمعه ۲ جنوری ۱۹۸۱ء میں بڑھ گئے خدا کے فضل سے لیکن ان کی جو آمد ہے اس میں.۶،۵۷۵ کی کمی ہے یہ تو درست ہے کہ بعض بچے اپنی عمر کے لحاظ سے بالغان کے گروہ میں شامل ہو گئے اور ان کی وجہ سے بھی کچھ زیادتی ہوئی ہوگی لیکن یہ درست نہیں کہ کوئی بچہ اطفال کے گروہ میں شامل نہیں ہوا.صرف نکلے ہیں اور اس وجہ سے پیچھے رہ گئے.اس واسطے اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے جماعت اس طرف توجہ کرے.مجموعی طور پر تو قریباً کم و بیش ایک لاکھ کی زیادتی ہے لیکن جو آدمی دوڑ رہا ہو اس کا ہر قدم درست اٹھنا چاہیے.ہر پہلو سے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کو توفیق عطا کرے.ابھی جلسے کی کوفت دور نہیں ہوئی.دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت دے.کام کے لحاظ سے جلسے کے بعد بھی دو تین ہفتے ( بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ) عام معمول سے زیادہ کام میں وقت گزرتا ہے.کچھ دوست ٹھہرے ہوتے ہیں.ملاقات کے لئے پھر جلسے کے دنوں میں بعض کام میں نہیں کر سکتا.مثلاً ڈاک میں نے نہیں دیکھی دس بارہ دن کی.جس کا مطلب ہے کہ کم از کم آٹھ دس ہزار خط ہو گا جو میں اگلے ایک ہفتہ میں دیکھوں گا.ہر روز خط آتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق بھی دیتا رہتا ہے.میں نہ کام سے گھبراتا ہوں نہ ڈرتا ہوں کہ نہیں ختم ہوگا.کرتا ہوں ختم جس طرح بھی ہو لیکن یہ مجھے پتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر میں اس قدر کام نہیں کر سکتا.اور یہ بھی میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو صرف دعا کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس حقیقت پر بھی میں قائم ہوں کہ خلیفہ وقت کے ساتھ ساری جماعت کی دعائیں شامل ہونی چاہئیں.تب کام ہوسکتا ہے.اس لئے میں نے یہ بات کی ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت سے کام کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق دیتا چلا جائے.(روز نامہ الفضل ربوہ یکم فروری ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 23

خطبات ناصر جلد نهم ۹ خطبہ جمعہ ۹؍ جنوری ۱۹۸۱ء اعمال اور اعتقادات کی بنیاد خشیت اللہ پر ہونی چاہیے خطبه جمعه فرموده ۹ جنوری ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسانی زندگی تین حصوں میں منقسم ہے ایک تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیدار بنایا ہے اس کو حواس بخشے ہیں.وہ دیکھتا سنتا، محسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے اس کی سوچ اور فکر جو ہے یہ اس کی زندگی کا ایک حصہ ہے دوسرے حصے کا تعلق انسان کے اعتقادات کے ساتھ ہے.وہ بعض اصول اپنا تا ہے.یہ لازمی حصہ ہے انسانی زندگی کا.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے انہوں نے بھی اپنی زندگی کے لئے بعض اصول وضع کئے ہوئے ہیں کیونکہ انسانی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ کوئی بندھن بھی ہوں جن میں انسان کو باندھا جائے ورنہ انسان انسان نہیں رہتا وحشی حیوان بن جاتا ہے.ہماری اصطلاح میں ان کو اعتقاد کہتے ہیں، اسلام نے ہمیں جو دیا وہ اعتقادات صحیحہ ہیں.اسلام سے باہر جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی ہیں اور اچھے اور برے کا مرکب بداعتقادی کہلاتا ہے عقلاً بھی اور مذہباً بھی.تیسرا حصہ انسانی زندگی کا اس کے اعمال ہیں.وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر انسان کرتا ہے، صراط مستقیم کو اختیار کرتے ہوئے ، انہیں اعمالِ صالحہ کہا جاتا ہے.اور جو

Page 24

خطبات ناصر جلد نهم 1.خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۱ء ایسے نہ ہوں وہ عمل غَيْرُ صَالِح (هود: ۴۷ ہیں.بدا اعتقادی کی وجہ سے وہ ایسے اعمال ہیں جو انسان کو انسان ہونے کے لحاظ سے اس کی جسمانی روحانی ترقیات کے لئے جو معین راستہ ہے ترقیات کا ، اس راستہ سے ہٹا دیتے ہیں.ایک احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی سوچ اور فکر میں وہ بہکے نہ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم ہے اس کی روشنی سے دور نہ جائے اور اپنے اعتقادات میں ان اصول کا پابند ہو جو قرآن عظیم جیسی کتاب نے ہمارے ہاتھ میں دیئے زندگی گزارنے کے لئے ، اور جس جہت سے اور جس تعریف کے لحاظ سے عملِ صالح کہا گیا ہے، اعمالِ صالحہ بجالانے والا ہو.قرآن کریم کی حکمرانی انسانی زندگی کی ان ہر سہ قسم پر حاوی ہے.حاکم ہے قرآن کریم کی حکمرانی ہماری سوچ اور فکر پر بھی ، ہمارے اعتقادات پر بھی ہمارے اعمال پر بھی ہے، اگر ہم اپنی سوچ میں بہک جائیں یا اپنے اعتقاد میں اندھیروں کو پیدا کر دیں یا اپنے عمل میں بھٹک جائیں صراط مستقیم سے تو ہماری زندگی کا ہر پہلو ایسا ہوگا جسے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا.بڑے احتیاط سے چوکس رہ کر اللہ تعالیٰ کی خشیت کو اپنی زندگی میں قائم رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے ورنہ خرابی پیدا ہوتی ہے نوع انسانی کی زندگی میں.مثلاً جب سوچ اور فکر بہک گئی تو Super Man (سپر مین ) کا تصور پیدا ہو گیا.یعنی ایسا انسان جو انسانوں میں سب سے بالا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا تھا کہ جب تم انسانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق سوچنا شروع کرو تو اس اصول پر سوچو.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الکھف: ۱۱۱) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے انسان انسان میں کوئی فرق نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم انسان اور دوسرے انسانوں میں بھی انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق اور امتیاز نہیں ہے اور اس اصول کو نہ سمجھنے یا بھول جانے کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں.بڑے دکھ پیدا ہوئے.بڑی قتل وغارت کی گئی اور مذہبی زندگی میں جب انسان انسان میں تمیز روا رکھی گئی اور اَرْبَاب مِنْ دُونِ اللَّهِ بن گئے انسان ، تو اس کے نتیجہ میں ، ( میں نے ایک کتاب میں پڑھا) ایک بہت بڑے غیر مسلم مذہبی راہنما کے حکم سے ( یہ صدیوں پہلے کی بات ہے، اب تو انسان نسبتا زیادہ مہذب ہو گیا ہے ) صرف ایک انسان

Page 25

خطبات ناصر جلد نهم 11 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۱ء کے حکم سے دس لاکھ انسانوں کی گردنیں کاٹی گئیں.تو یہ جو سوچ اور فکر جس وقت بہک جاتی ہے خرابی پیدا کرتی ہے.اس کے منبع سے فساد کے سوتے نکلتے ہیں.یہی حال اعتقادات کا ہے.قرآن کریم نے ہماری زندگی کے اصول وضع کئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں سات سو سے زیادہ احکام تمہاری زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے بتائے گئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک تم سے قیامت کے دن جواب طلب کرے گا کہ تم نے اس کے مطابق اپنی زندگی گزاری یا نہیں.اسی طرح اعمال ہیں.قرآن کریم اتنی عظیم کتاب ہے اور اس قسم کی بنیادی صداقتیں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ انسانی فطرت اس کی طرف فطرتا جھکتی ہے بالکل اس کے مطابق ہے.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ یہ ظاہر میں اچھے عمل ہوں گے اس کے نتیجہ میں تمہیں انعام مل جائے گا.خدا تعالیٰ کی جنتوں میں تم چلے جاؤ گے یہ نہیں کہا.قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ جب تمہارے اعمال خدا کے حضور مقبول ہو جا ئیں گے تو تمہیں جزا ملے گی.بظاہر نیکی کرنے والا ضروری نہیں کہ نیک ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک واقعہ ہوا.ایک جنگ میں ایک شخص بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ اور جانثاری کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے دشمنوں سے لڑ رہا تھا.بعض صحابہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ بڑا ہی اعلیٰ مقام ہے اس کا ایمان کے لحاظ سے اور اس کی تعریف کرنے لگے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ آواز پڑی تو آپ نے کہا یہ جہنمی ہے اور بعد کے واقعات نے بتایا ان لوگوں کو کہ واقعی وہ جہنمی تھا.اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.تو بظاہر نیک کام انسان کو ایسا نیک نہیں بنادیتا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پیار کرنے لگ جائے.پیار تو اللہ تعالیٰ اس نیکی سے کرے گا جسے وہ نیکی سمجھے گا.اللہ تعالیٰ اس نیکی سے پیار نہیں کرے گا جس کو زید یا بکر یا عمرو یا میں یا تم نیکی سمجھتے ہو.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک بنیادی اصول ہمیں یہ بتایا کہ جس طرح دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ مثلاً سیاسی اقتدار ہے.ایک وفاقی حکومت میں صوبے ہیں.وفاقی حکومت اپنے بہت سے سیاسی اقتدار جو ہیں وہ Delegate (ڈیلیگیٹ ) کر دیتی ہیں صوبوں کو.ابھی جب پین میں مسجد

Page 26

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲ خطبہ جمعہ ۹؍ جنوری ۱۹۸۱ء بنی تھی تو ان کے قانون کے مطابق اس مسجد کا نقشہ میڈرڈ میں بھی پاس ہونا چاہیے تھا.شروع میں جو خط آئے تو میں یہی سمجھا تھا کہ وہاں جائے گا اور پاس ہو گا لیکن بعد میں پتہ لگا کہ نقشوں کے پاس کرنے کا جو قانونی اختیار وفاقی حکومت کو یا میڈرڈ کو، مرکز کو ہے انہوں نے قرطبہ کے صوبے کو Delegate (ڈیلیگیٹ) کر دیا ہے.یعنی ان کو کہا ہے کہ تم اس کو ہماری قائم مقامی میں استعمال کر سکتے ہو.ساری دنیا میں یہ ہو رہا ہے آج کی سیاسی دنیا میں یہ ہورہا ہے کچھ اقتدار دوسرے کو سونپ دیا جاتا ہے.اقتدار اعلی صاحب اقتدار اعلیٰ کی طرف سے ایک ایسے صاحب اقتدار کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو صاحب اقتدار اعلی نہیں مثلاً وفاقی حکومت صوبوں کو دے دے گی یا جو اختیار گورنر کا ہے وہ وزیروں کو دے دے گی یا جو وزیر کا ہے وہ کمشنر کو دے دے گی.یہ ایک عام طریق آج کی دنیا کی سیاست کا ہے.کسی جگہ کوئی شکل اختیار کرتا ہے کسی جگہ کوئی شکل اختیار کرتا ہے.بہر حال اس اصول کو اس دنیا نے اپنی زندگی میں تسلیم کیا کہ اقتدارکو Delegate (ڈیلیگیٹ ) کیا جاسکتا ہے.دوسرے کو دیا جا سکتا ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ خدا کی خدائی Delegate (ڈیلیگیٹ) نہیں ہوتی کسی کی طرف کہ خدا تعالیٰ کی بجائے اس کے بندوں میں سے کوئی وہ کام کرنے کا اختیار رکھتا ہوجس کا تعلق خدائی سے ہے.مذہب میں اس قسم کی جو خرابیاں پیدا ہو ئیں مختلف مذاہب میں ہماری مذہبی زندگی میں حضرت آدم سے لے کے آج تک ، ان میں سے ایک یہ ہے جس کے لئے میں نے یہ ساری تمہید با ندھی کہ بعض لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جہنم کا پروانہ کسی کو لکھ کے دے دیں یعنی یہ کہیں کہ اس شخص نے ضرور جہنم میں جانا ہے یا بعض لوگوں نے یہ رسم چلا ئی اپنے ماحول میں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جنت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیں کہ جسے ہم کہتے ہیں، وہ جنت میں چلا جائے گا.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میری خدائی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی کسی انسان کو نہیں دیا جا سکتا.یہاں میں ایک بات واضح کر دوں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم تھے.اس لئے کہ کوئی انسان اس طور پر اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں فانی فی اللہ نہیں ہوا جس

Page 27

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۱ء طور اور طریق سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی محبت میں فانی ہو گئے اور اس لئے صفات باری کے اتم مظہر بنے.وہ اور چیز ہے، وہDelegation of Power (ڈیلیگیشن آف پاور ) نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں کو خود اپنے نفس کے لئے نیز دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے یہ طاقت دی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق خدا تعالیٰ کی محبت میں فانی ہو کر اس کی صفات کے مظہر بن سکتے ہیں.بہتوں نے صفات باری کا رنگ اپنے پر چڑھایا لیکن اپنی اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر عظیم استعداد اور صلاحیت دی کہ کسی اور انسان کو ویسی استعداد اور صلاحیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں عطا ہوئی اور پھر اس کی پرورش، اس کی نشو ونما اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کی اللہ تعالیٰ نے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کریم میں کامل طور پر فانی ہوکر ایک نئی زندگی پائی ، وہ ایک اور چیز ہے لیکن اقتدار کا ، طاقت کا Delegate (ڈیلیگیٹ ) ہو جانا کسی کی طرف یہ اور چیز ہے.یہ دونوں چیزیں آپس میں ایک نہیں ہیں اور اس سے کوئی غلط استدلال نہیں کیا جاسکتا.بہر حال خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ جو مختلف مذاہب میں مختلف اوقات میں دنیا کے مختلف خطوں میں یہ واقعہ ہوا کہ ”میرا پروانہ لے لو اور تمہیں خدا تعالیٰ سیدھا جنت میں بھیج دے گا یا اگر تم مجھے ناراض کر دو گے تو میں جہنم کا سرٹیفکیٹ جاری کر دوں گا اور پھر تم جنت میں جا ہی نہیں سکتے قرآن کریم اسے تسلیم نہیں کرتا.بڑی وضاحت سے اس کی نفی کی گئی ہے.یہ مضمون آج میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ بعض احمدی بھی بعض دفعہ غصے میں مخالف کے متعلق ایسی بات کر دیتے ہیں کہ گو یا ان کو خدا تعالیٰ نے خدائی کی یہ طاقت دے دی کہ وہ یہ حکم لگائیں کہ فلاں شخص ضرور جہنم میں جائے گا یا فلاں شخص ضرور جنت میں جائے گا.نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِك سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب انسانوں کو مخاطب کر کے کہ جو تم ظاہر کروا سے جو تمہارے دل میں ہے یا تم چھپاؤ اسے انسانوں سے ( خدا تعالیٰ پر تو ہر چیز ظاہر ہے اس سے تو کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی ) يُحَاسِبُكُم بِهِ الله (البقرۃ: ۲۸۵) اللہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لے گا.یہ اللہ تعالیٰ کی یعنی جو صاحب اقتدار ہے مَالِكِ كُلّ خَالِقِ كُلّ یہ اس کی حاکمیت کا ایک حصہ ہے وہ حساب لے گا پھر

Page 28

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۱ء جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے کسی اور کا نہیں.اور اس کے لئے اس صفت کا بھی ہونا ضروری ہے کہ خدائے ذوالجلال والاکرام طاقت رکھتا ہو حساب لینے کی ، بخشنے کی اور عذاب دینے کی ہر چیز پر وہ قادر ہو جس رب پر ہم ایمان لائے ہیں وہ ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک اور نقائص سے منزہ ہے لَهُ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى ( الحشر : ۲۵) تمام اچھی صفات جو خدا میں ہونی چاہئیں وہ تمام کی تمام اپنے پورے کمال کے ساتھ اس کے اندر پائی جاتی ہیں.وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : ۲۸۵) پھر سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ قَالَتِ الْيَهُودُ وَ النَّصْرِى نَحْنُ اَبْنُوا اللهِ وَاحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ ، بَلْ أَنْتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَ لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ - (المائدة : ۱۹) یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اس کے ساتھ پیار کا تعلق ہے وہ ہم سے بڑا پیار کرتا ہے اسی طرح جس طرح پیار کرنے والا باپ پیار کرتا ہے وَاحِباؤُہ اور اس کے پیارے اور محبوب ہیں چونکہ اس کے ابناء ہیں اور پیارے ہیں اس واسطے اس کے عذاب سے ہم محفوظ ہیں اپنے پر انہوں نے یہ حکم لگایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مرنے کے بعد عذاب نہیں دے سکتا اس واسطے کہ ہم وَاحِباؤُه اس کے پیاروں میں سے ہیں.کہہ دے کہ پھر وہ تمہارے قصوروں کے سبب اس دنیا میں تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے.ایسا نہیں جیسا تم سمجھتے ہو اور جس کا تم اعلان کرتے ہو بلکہ جو نوع انسانی کے دوسرے افراد ہیں تم بھی ان جیسے آدمی ہو تم میں اور ان میں اس لحاظ سے بھی فرق نہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے دے وہ جسے پسند کرتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے عذاب دینا چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور یہ بات اس کے لئے مشکل نہیں اور کیونکہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب پر حکومت اللہ ہی کی ہے اور اس نے ایسا انتظام کیا ہے کہ تم اس سے بیچ کے نہیں جا سکتے کہیں اور کیونکہ سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ کی کامل حاکمیت کو ہمارے سامنے رکھ کے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ تم خود خدا نہ بن جانا، خدائی کا دعویٰ نہ کر بیٹھنا، یہ کام کہ کسی کو بخشنا ہے یا نہیں، کسی کو عذاب دینا ہے یا نہیں، یہ کسی انسان کا کام نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.

Page 29

خطبات ناصر جلد نہم ۱۵ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۱ء سورۃ آل عمران میں فرمایا.لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٍ اَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظلِمُونَ - وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ فَفُورٌ رَّحِيمٌ ـ (ال عمران: ۱۲۹ ۱۳۰) تیرا اس معاملے میں کچھ دخل نہیں یہ سب معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے چاہے تو ان پر فضل کرے اور چاہے تو ان کو عذاب دے دے، ہیں وہ ظالم، اور وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ حاکمیت اس کی ہے حاکم اعلیٰ ہے جسے پیدا کیا ہے خالق بھی ہے وہ اور مالک بھی ہے اس کا اور حاکم بھی ہے اور غفور اور رحیم بھی ہے.تو اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے ہم تمہارے لئے دعا کریں گے.ایک دفعہ میرے سامنے بھی کسی نے کہا تھا.دیر کی بات ہے جب میں کالج کا پرنسپل تھا.میں نے اس شخص کو کہا کہ صرف رب تمہارا نہیں رب العالمین ہے، ہر ایک کا رب ہے اور ہر ایک کی دعائیں سنتا ہے.تم بھی دعا کرو گے میں بھی دعا کروں گا ہر ایک دعا کر سکتا ہے.پھر یہ اس کی مرضی ہوگی کہ وہ کس کی دعا کو قبول کرتا ہے کس کی رد کر دیتا ہے تو یہ سمجھنا کہ تمہاری دعا کو قبول کرنے پر خدا مجبور ہے اور خدا مجبور ہے کہ دوسرے کی دعار د کر دے، یہ خدائی کا دعویٰ ہے اور بڑا ہی احمق اور ظالم ہے وہ انسان جو بندگی کی عاجزانہ راہیں اختیار نہ کرے، خدا بننے کی کوشش کرے.ہمیں یہ فکر ہونی چاہیے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے حساب ہوگا ہر شخص کا نہیں ہوگا تو کسی کے زور سے نہیں.مرضی ہے بغیر حساب کے بھی بھیجتا ہے جنتوں میں، اس کا بھی ذکر آیا ہے لیکن اس کا فیصلہ اس نے کرنا ہے میں نے اور آپ نے نہیں کرنا.جو میں نے اور آپ نے کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں خشیت ہوا اور خشیت کی بنیادوں پر ہماری زندگی گزر رہی ہو.اور ہماری ہر حرکت اور سکون اور ہماری سوچ اور فکر اور ہمارے اعتقادات جو ہیں اور ہمارے اعمال جو ہیں خشیتہ اللہ پر ان کی بنیاد ہوصرف ایک غرض ہو ہر سانس لینے کی اور وہ یہ کہ خدا ہم سے راضی ہو جائے وہ ہم سے ناراض نہ ہو باقی جو اس کی مخلوق ہے وہ جس کو چاہے معاف کر دے آپ کون ہوتے ہیں اس کو روکنے والے یا سوچنے والے کہ وہ نہیں معاف کرے گا بڑی وضاحت کے ساتھ یہ چیز قرآن کریم میں آئی ہے میں اپنے بھائیوں کو کہوں گا کہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے بندہ بننے کی کوشش کریں

Page 30

خطبات ناصر جلد نهم ۱۶ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۱ء خدا بننے کی کوشش نہ کریں اور دعا کرنے والے ہوں بددعا ئیں کرنے والے نہ ہوں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو جب انتہائی دکھ پہنچایا گیا تو آپ کا اُسوہ دنیا کے سامنے اللہ تعالیٰ نے یہ پیش کیا کہ خدا نے کہا اگر بددعا کرو ان کے متعلق تو اسی وقت ان کو سزا دوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا بددعا نہیں.تو بددعانہ کرنا اُسوہ حسنہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.بددعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ نہیں ہے.ہر ایک کے لئے دعائیں کریں.وہ لوگ جو خود کو آپ کا دشمن سمجھتے ہیں، ہم تو اپنے آپ کو ان کا دشمن نہیں سمجھتے وہ لوگ جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتے ہیں ہم ان کے لئے بھی دعائیں کریں گے اور خدا تعالیٰ سے بھلائی اور نیکی ان کے لئے چاہیں گے.اور یہ چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گے.حالات اس طرح کے کر دے کہ وہ ان سے راضی ہو جائے اور اللہ انہیں مقبول اعمال کے بجالانے کی توفیق عطا کرے تو يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ یہ خدائی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی طاقت ہے انسان کے سپرد یہ کام نہیں کئے گئے.اللہ تعالیٰ کو اپنے کام کرنے دو، عاجزانہ راہوں سے اس تک پہنچنے کی کوشش کرو اس کے دامن کو پکڑو پیار کے ساتھ اور دعا کرو کہ شیطان کی کوئی طاقت تمہارے ہاتھ سے وہ دامن چھڑوا نہ سکے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.روز نامه الفضل ربوه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۱ ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 31

خطبات ناصر جلد نهم ۱۷ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ کی لطیف تفسیر خطبه جمعه فرموده ۳۰ / جنوری ۱۹۸۱ء بمقام دارالذکر.لاہور تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآنِ عظیم کا یہ دعویٰ ہے.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ (البقرۃ:۳) یہ ایک کامل کتاب ہے جس میں شک اور شبہ نہیں.لاریب فیہ کے بہت سے معانی کئے گئے ہیں.ایک معنی یہ ہیں کہ اس کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں جو حقیقت سے بعید ہوا اور شک اور شبہ والی ہو.ایک معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو صاحب فراست ،غور کرنے والوں اور نیک نیتی سے اس کا مطالعہ کرنے والوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نہیں چھوڑتی اور اس راہ کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہے روشن کر کے خدا کے بندہ کے سامنے رکھ دیتی ہے.قرآن کریم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ قرآن ہے.بار بار پڑھی جانے والی کتاب.بار بار پڑھی جانے والی کتاب کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہر فرد پر جو اسلام پر ایمان لا یا اسے اپنی زندگی کی راہوں کو ہموار کرنے کے لئے قرآنِ عظیم کا بار بار مطالعہ کرنا اور اس کو پڑھنا اور اس پر غور کرنا ضروری ہوگا.اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ہر آنے والی نسل اسے پڑھے گی اس طرح نوع انسانی

Page 32

خطبات ناصر جلد نہم ۱۸ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء قیامت تک اس کتاب عظیم سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی کے مسائل کو حل نہیں کر سکے گی بلکہ ہر بعد میں آنے والی نسل مجبور ہو گی کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآنِ عظیم کی طرف رجوع کرے.یہ ایک کامل کتاب اس معنی میں بھی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرنے کی طاقت اس میں پائی جاتی ہے لیکن محض یہ اعلان نہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ غیر مسلموں کو کوئی تسلی دے سکتا ہے.ان کے سامنے صرف یہ کہہ دینا کہ قرآن عظیم بڑی ہی عظیم کتاب ہے کیونکہ تمام مسائل کو یہ حل کرتی ہے انہیں تسلی نہیں دے سکتا.اس تسلی کے لئے ضروری ہے کہ ہم مثالیں دے کر اُن کو بتائیں کہ یہ عظیم کتاب تمہارے ان مسائل کو حل کرنے کے قابل ہے اور حل کرتی ہے جنہیں تم حل نہیں کر سکے اپنی زندگی میں.اس کے لئے یعنی مثالیں دینے کے لئے قرآنِ عظیم کی روح کو سمجھنا، سات سو سے اوپر جو احکام اس میں پائے جاتے ہیں ان پر غور کرنا اور اپنی زندگی ان راہوں پر ڈھالنا جو بیان کی گئی ہیں اور اپنی گردن ان سات سو سے زاید اس زنجیر کے جو حلقے ہیں ان میں باندھ دینا اور جس طرح ایک بکری مجبوراً قصائی کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتی ہے اور کہتی ہے لے چھری چلا لے اس طرح برضا ورغبت پوری بشاشت اور خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کو تسلیم کرنا اور خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنا اور علی وجہ البصیرت اس بات کے قابل ہو جانا کہ غیروں کے سامنے مثالیں دے کر آپ یہ کہیں کہ قرآن عظیم واقع میں عظیم ہے کیونکہ تمہارے یہ دیکھو ایک دو تین جتنی مثالیں اس وقت آپ دے سکیں دے کر ان کو بتا ئیں کہ تم ان مسائل کو حل نہیں کر سکتے ، نہ کر سکے ہولیکن قرآن کریم کی یہ تعلیم انہیں حل کر رہی ہے.اس کے لئے ہدایت کو سمجھنا، اس پر چلنا ضروری ہے.ہدایت کو سمجھنے کے لئے قرآن عظیم جو واقع میں عظیم ہے، اپنی تمام عظمتوں اور وسعتوں اور رفعتوں کے ساتھ کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی مت پڑھو.علی مُکت ٹھہر ٹھہر کے پڑھو.رَتِّلِ الْقُرْآنَ ترتيلا (المزمل: ۵) اس ریل کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ خوب کھول کے بیان کرو.خوب کھول کر الفاظ کو ادا کر و قرآن کریم کی تلاوت میں کہ تمہارا ذہن بھی قرآن کریم کے حقائق اور معارف کو پہچاننے لگے.امام رازی نے لکھا ہے کہ ایک ایک حرف ہر لفظ کا علیحدہ علیحدہ جس طرح لڑی میں

Page 33

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اس طرح وہ حروف تمہارے آپ پڑھتے ہوئے تمہارے ذہن میں حاضر ہوں اور دوسروں کو سناتے ہوئے قرآن کریم اس طرح وہ تمہارے سامنے ہو.جماعت احمد یہ چونکہ عظمت قرآن کریم کو علی وجہ البصیرت سمجھتی ہے اس لئے عام طور پر کہیں غلطی کرتی ہوگی اور اسی کی اصلاح کے لئے آج میں نے یہ بات چھیڑی ہے، قرآن کریم کی تلاوت پڑھنے یا سنانے کے لئے اس طرح نہیں کرتی کہ جس طرح حروف کا پتہ ہی نہ لگے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کوئی ایک آدھ لفظ سمجھ آجائے سننے والے کو اور باقی سب غائب ہو جائیں اس کے اندر.قرآن کریم نے کھول کر یہ بیان کیا وَ قُرْآنًا فَرَقْنَهُ ہم نے اسے قرآن بنایا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے اور آیت آیت اور سورۃ سورۃ کی شکل میں اسے محفوظ کیا ہے لتقران على النَّاسِ تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے پڑھ کر سناؤ.النَّاس کے معنے عربی زبان میں نوع انسانی کا ہر فرد مرد ہو یا عورت ہے کیونکہ الناس کے معنے میں مردوزن دونوں آتے ہیں اور اللہ کیس کے معنے نوع انسانی ہے، مسلم ہو یا غیر مسلم.لِتَقْرَآهُ عَلَى النَّاسِ تم اسے سناؤ دوسروں کو لیکن سناؤ اس طرح کہ جس طرح آیت آیت نازل ہوئی ہے آہستہ آہستہ، نرمی کے ساتھ اور ٹھہر ٹھہر کے اور عجلت کی راہوں کو اختیار نہ کرتے ہوئے ، ایک ایک حرف ان کے سامنے آتا چلا جائے تاکہ ان کو سوچنے کا بھی وقت ملے سنتے ہوئے.لِتَقْرَآهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَهُ تَنْزِيلًا (بنی اسراءیل: ۱۰۷) امام رازی نے اس کے معنے یہ کئے ہیں کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے نازل کیا (۱).تمہارے لئے یاد کرنا سہل ہو.سننے والے کے لئے یاد کرنا سہل ہو.یعنی اگر جلدی سے گزر جاؤ گے تو کوئی بات ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری، تیسری کے بعد چوتھا نکتہ اس کے سامنے آئے گا تو اس کا حافظہ ان عظیم باتوں کو جو قرآن کریم بیان کر رہا ہے اور ان روحانی اسرار کو سنے گا تو سہی لیکن ان کو یاد نہیں رکھے گا.اس واسطے آہستہ آہستہ اسے پڑھ کر سناؤ تا کہ یاد کرنا سہل ہو اور یا درکھنا سہل ہو.دوسرے اس لئے کہ تا کہ انسان جب آہستہ آہستہ رفق کے ساتھ (مکث کے معنے کئے گئے ہیں رفق ) اور نرمی کے ساتھ اور عجلت نہ کرتے ہوئے قرآن کریم کو غور سے پڑھے گا تو قرآن کریم

Page 34

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء کے حقائق اور دقائق اس کے سامنے آئیں گے اور وہ ان سے فائدہ اٹھا سکے گا.امام رازی نے دوسرے معنے یا حکمت یہ بیان کی ہے.امام رازی نے ہی سعید بن جبیر سے یہ روایت کی ہے کہ آيَةً آيَةً اس لئے ہم نے اس کو آیت آیت نازل کیا اور کہا آہستہ آہستہ پڑھو کہ تا علی مُکث پڑھا جا سکے.تا نرمی اور محل اور آہستہ آہستہ پڑھ کر سنایا جا سکے، جلدی جلدی نہ ہو.بعض لوگ اس قدر جلدی تلاوت دوسروں کو سنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ الفاظ کیا ہیں حروف تو علیحدہ رہے.قرآن کریم تعویذ نہیں ، قرآن کریم جادو نہیں، قرآن کریم موعظہ حسنہ سے بھری ہوئی کتاب ہے.قرآن کریم ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنا چاہتا ہے.قرآن کریم ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کے لئے آیا ہے.قرآن کریم ہمیں ان رستوں پر چلانا چاہتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول تک لے جانے والے ہیں.اس لئے قرآنِ کریم عظیم ہے کہ اعلان کیا اسی واسطے عَلى مُكث آ گیا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱) تم ایک ایسی امت ہو جس سے کسی کو دکھ اور بے آرامی نہیں پہنچ سکتی.ہر شخص کی بھلائی کے لئے.جو دھر یہ ہے اس کے لئے بھی خیر ہو تم ، جو مشرک ہے اس کے لئے بھی خیر ہو تم اور جو اسلام سے باہرکسی دین کا تابع ہے اس کے لئے بھی خیر ہو تم.تمہارا کام سکھ پہنچانا ہے دکھ پہنچا نا نہیں.اس قدر تاکید کی گئی کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.اتنا عظیم ہے یہ قرآن کہ اپنے متعلق اعلان کر دیا کہ میری عظمتوں، رفعتوں اور وسعتوں کو دیکھ کر غلطی نہ کر بیٹھنا.میری وجہ سے کسی بیمار کو تکلیف نہ پہنچے کہ تم شور مچاچا کے راتوں کو اسے پڑھنا شروع کر دو.میری وجہ سے کسی بچے کو جس کے لئے نیند پوری کرنا ضروری ہے، بے آرامی نہ ہو.آہستہ آہستہ پڑھو اور رات کے وقت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر تاکید کی ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تم اتنی آہستہ کیوں پڑھتے ہو کہ تمہارے اپنے کان تمہاری آواز نہیں سن رہے رات کے وقت تہجد میں دعائیں کرتے وقت.انہوں نے کہا یا رسول اللہ! اللہ تو دلوں کے حالات بھی جانتا ہے اونچی بولنے کی کیا ضرورت ہے.آپ نے کہا نہیں آواز کو اتنا اونچا

Page 35

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱ خطبه جمعه ۳۰ / جنوری ۱۹۸۱ء کرو کہ تمہارے کان اسے سننے لگ جائیں.تمہارے کان ، ہمسایہ کے کان نہیں ، اپنے گھر میں ساتھ کے کمرے میں سوئے ہوئے بچے کے کان نہیں تمہارے کان سننے لگ جائیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تم اونچی کیوں بولتے ہو رات کو دعا کرتے وقت.شور نہیں مچار ہے تھے یعنی اونچا جو ان کے کان بھی سن رہے تھے اور ذرا اونچا ہوگا.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میں قرآن کریم اور اس کے مطالب سے شیطان کو کوڑے مار رہا ہوں.کچھ اس قسم کے الفاظ تھے.آپ نے کہا، نہیں ، آہستہ آواز سے دعا کرو.آہستہ آواز سے تلاوت کرو.تمہارے کان سنیں کسی اور کے کانوں کو سنانے کی ضرورت نہیں.شیطان کو ٹھیک کرنے کے قرآن کریم نے اور اسباب اور ذرائع بتائے ہیں.میں اس حدیث کا ترجمہ نہیں کر رہا اس کا مطلب بیان کر رہا ہوں آپ کے سامنے.تو کتنی عظمتوں والی ہے یہ کتاب کہ ساری دنیا کی رہنمائی کے لئے آئی.ساری دنیا تک پہنچنا، دنیا کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ضروری ہے اور کہا شور مچا کے ان کے کانوں تک نہیں پہنچنا.پیار کے ساتھ ، آہستگی کے ساتھ ، رفق کے ساتھ جس کے معنی ہیں علی مکث رفق کے ساتھ ، نرمی کے ساتھ ، آسانی کے ساتھ، سہولت کے ساتھ.ایک ایک حرف کو علیحدہ علیحدہ کر کے پڑھو تا کہ لفظ کے معنی اور قرآن کریم کی جو گہرائیاں ہیں وہ دوسرے کے دل میں اتریں.صوتی کوڑا بھی ہے ایک.ڈانٹ بھی تو ایک کوڑا ہے نا.ایک دبکا مارتا ہے ایک جابر انسان تو اگلے آدمی کانپنے لگ جاتے ہیں.قرآن کریم اس قسم کے دبکے لگانے کے لئے نہیں آیا.قرآن کریم تو اس لئے آیا کہ اس نے اعلان کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کہ خدا اپنے بندوں سے پیار کرنا چاہتا ہے اور اپنے بندوں کو کہا جب اس پر ایمان لاتے کہ میرے پیار میں فانی ہوکر میرے پیار کے حصول کے لئے میرے پیارے بندوں کو ان راہوں کی طرف لاؤ جو میرے پیار کو حاصل کر سکیں گے اور میرے غصہ اور غضب اور قہر سے محفوظ ہوجائیں گے.یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم، میں نے بتایا نا اس کا دوسرا پہلو کہ قرآن کریم واقع میں شفاء للناس ہے.قرآن کریم میں واقع میں یہ طاقت ہے کہ وہ دنیا کے مسائل آج کی نسلوں کے بھی اور آنے والی نسلوں کے بھی سلجھا سکتا ہے.مسائل حل کر سکتا ہے.ان کی پیچیدگیاں جوان

Page 36

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء کی زندگی میں ہیں ان کو دور کر سکتا ہے.اسی سفر میں جو پچھلے سال میں نے کیا ۸۰ء میں دو مہینے ہوئے.فرینکفرٹ میں پریس کانفرنس میں ایک صحافی مجھے کہنے لگے کہ اسلام نے عورت پر بڑی سختی کی ہے تنگی.ان کا مطلب تھا کہ یہ جو پردہ کے احکام ہیں یہ عورت کو تو پتہ نہیں پسند ہیں یا نہیں وہ مرد بول رہا تھا کہ ہمیں نہیں پسند مردوں کو.میں نے انہیں کہا کہ دیکھو! قرآن کریم تمہاری بیٹیوں، بہوؤں، بیویوں کی عزت کی حفاظت کے لئے ایک قانون بناتا ہے تم اس کے اوپر کیسے اعتراض کرتے ہو.خیر وہ بات سمجھ گیا کیونکہ ان کو تو پتہ ہے.میں لندن میں تھا ، ٹی وی پر پروگرام آیا کہ پانچ ہزار معصوم بچی انگلستان میں ہے کہ انگلستان کے انگریز غنڈے ان کی عزت لوٹتے اور ان کو حاملہ کر دیتے ہیں ان کی مرضی کے خلاف یعنی وہ بد معاش لڑکیاں نہیں ہیں معصوم لڑکیاں، انہوں نے بعض مثالیں دے کے اور ان کی شکلیں دکھا ئیں ساری زندگی تباہ کر دی.وہ ساری زندگی روتی ہیں.پردے پر تمہیں اعتراض ہے اور ان پانچ ہزار بچیوں کی سالانہ جو تم آپ کہتے ہو نا جائز بچے ، ناجائز طریقے پر ان کی مرضی کے خلاف جنوائے جاتے ہیں.ان بچیوں کی عزت کا اور ان کے جذبات کا تمہیں کوئی خیال ہی نہیں.ابھی دو چار روز ہوئے مجھے امریکہ سے ایک Cutting ہمارے مبلغ نے بھجوایا.انہوں نے اس میں لکھا ہوا تھا کہ امریکہ میں کئی لاکھ عورت کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کئی لاکھ عورت اور جب میں نے اس شخص کو یہ کہا کہ قرآن کریم تمہاری بیٹیوں، بہوؤں اور بیویوں کی عزت کی حفاظت کے لئے ایک قانون بناتا ہے اور تم اس پر اعتراض کرتے ہو.تم کہتے ہو ہمیں یہ پسند نہیں.مجھے نہیں سمجھ آئی یہ بات.ایک اور صحافی بات تو وہ سمجھتے تھے سارے، مجھے کہنے لگے کہ عورتیں بھی تو غنڈی ہوتی ہیں تو ان کے غنڈہ پن سے ہمیں بچانے کے لئے اسلام کیا کہتا ہے وہ صرف تو جہ ہٹانا چاہتا تھا دوسری طرف.ویسے بھی مجھے جواب دینا تھا.میں نے انہیں کہا اگر تم نقاب پہننا شروع کر دو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا.ان کا مسئلہ ایک ہے میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ محض یہ کہنا کہ قرآن عظیم ہے کیونکہ تمہارے مسائل حل کرتا ہے.ان کے اوپر کوئی اثر نہیں جب تک آپ یہ نہ کہیں کہ تمہارا یہ مسئلہ ہے.تم

Page 37

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳ خطبه جمعه ۳۰ / جنوری ۱۹۸۱ء Strikes ناکام ہو گئے ہو اسے حل کرنے میں اور قرآن نے اسے حل کیا ہے.مثلاً اب بھی وہاں بڑی سٹرائیکس ) ہو رہی ہیں آج کل بھی سٹرائیکس ہوتی ہیں.سٹرائیک ہوتی ہیں مزدور بعض دفعہ in millions یعنی ۳۰ ۴۰لاکھ ۷۰ ۸۰ لاکھ بعض دفعہ ایک کروڑ سے بھی زیادہ مزدور اس لئے کام چھوڑتا ہے، سٹرائیک کرتا ہے تا کہ اسے اس کے مطالبہ کے مطابق حقوق ادا کئے جائیں لیکن بیچارے مزدور کو یہ علم نہیں کہ اس کے حقوق کیا ہیں.یعنی یہ پریس کانفرنس میں میں نے ان کو بتایا کہ دیکھو! تمہارا مزدور سٹرائیک کرتا ہے.ملک کی اقتصادیات پر بڑا برا اثر ہوتا ہے.پھر تم کچھ Resist کرتے ہو کئی دن یا دو چار ہفتے.تو جو انتظامیہ ہے وہ کہتی ہے اچھا پھر یہ بات ہے تو تمہیں روزانہ کی روزی جو ہے تمہاری اجرت اس سے بھی محروم ہو ر ہے تم.دیکھیں گے کب تک کرتے ہو.بہر حال کچھ عرصہ یہ جنگ رہتی ہے.پھر دونوں طرفیں تھک جاتی ہیں پھر وہ اس کا مطالبہ تھا ، ۳ پونڈ مہینہ اجرت میں زیادتی کی جائے ، گفت وشنید کے بعد فیصلہ ہوتا ہے نہیں ۳۰ پونڈ نہیں ۲۰ پونڈ اجرت میں زیادتی کر دیتے ہیں.میں نے کہا وہ تو نہ اس کو پتہ کہ مجھے کیا چاہیے نہ ان کو پتہ میرے اوپر کیا ذمہ داری ہے، ان کے حقوق کیا ہیں جو مجھے ادا کرنے چاہئیں.لینے والے کو حق کا نہیں پتہ جو وہ لے، دینے والے کو مزدور کے حق کا نہیں پتہ جو وہ ادا کرے.اسلام کہتا ہے یہ حق ہے مزدور کا.اس دفعہ دو جگہ میں نے ان کو یہ ایسی مثال دے کے جوان کے معاشرہ کا مسئلہ تھا میں نے کہا قرآن کریم حل کر سکتا ہے تم نہیں حل کر سکتے.پھر میں نے ان کو بتایا یہی مسئلہ کہ قرآن کریم نے اس طرح حل کیا ہے لیکن اس سے پہلے میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں.میں نے پہلے کہہ دیا کہ میں تمہیں بتانے لگا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ حل اس کا پیش کیا اور پہلے تمہیں کہتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو جرات نہیں ہوگی جو یہ کہے کہ ہمیں قرآن کریم کا بتایا ہوا حل منظور نہیں اور نہیں ہوئی جرات میری بات سننے کے بعد.میں نے انہیں کہا کہ دیکھو ! مزدور کو یہ پتہ ہی نہیں اس کا حق کیا ہے؟ قرآن کریم نے یہ کہا کہ ہر فرد جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے.اس کی تمام قوتیں اور طاقتیں اور استعداد میں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں.جب خدا تعالیٰ نے یہ صلاحیتیں پیدا کیں ایک بچے میں تو خدا تعالیٰ کی منشا یہ ہے کہ

Page 38

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء بچے کی یہ ساری صلاحیتیں اور استعداد میں اپنی نشوونما میں کمال تک پہنچیں ورنہ وہ اللہ تعالیٰ پیدا ہی نہ کرتا اگر یہ منشانہ ہوتا.جب اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ ہر فرد واحد کی صلاحیتیں اپنی نشو و نما میں کمال تک پہنچیں تو اللہ تعالیٰ تو جو قادر مطلق اور خالق کل ہے اس نے نوع انسانی کی ہر نسل کے لئے ان صلاحیتوں کو مجموعی طور پر کمال تک پہنچانے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی اس نے پیدا کر دی.اگر کسی کو نہیں ملتی وہ مظلوم ہے اور اس کا حق مارا گیا.اس کی داد رسی ہونی چاہیے.ایک غریب کے ہاں وہاں بھی ہو جاتا ہے.وہاں بھی ہوتا ہے اتنی اچھی ان کی تعلیم نہیں ہے.ہمارے ہاں بہت ہوتا ہے.غریب کے ہاں بچہ ہو جائے پیدا ، بڑا ہی ذہین، اس کو پھر کوئی پوچھنے والا نہیں.میں کالج میں بڑا لمبا عرصہ رہا ہوں.میرا اندازہ یہ ہے کہ جب میں ۶۵ء میں ہٹا ہوں کالج سے کوئی ایک لاکھ ذہن ہماری قوم نے اپنی غفلت کی وجہ سے ضائع کر دیئے ، ان کو سنبھالا نہیں.اور اتنی بڑی دولت ہیرے جواہرات انسانی ذہن کی جلا کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.یہ جو تہذیب یافتہ اقوام آگے نکل رہی ہیں وہ اپنے ذہن اور ذہنی صلاحیتوں کے نتیجہ میں آگے نکل رہی ہیں.سائنس کے میدان میں آگے نکلیں ، دوسرے تحقیق کے میدانوں میں آگے نکلیں.کسی وقت مسلمان صرف سپین کا ملک ان سارے ملکوں سے آگے نکل گیا تھا ایک اسلامی ملک.باقی جہاں جو تحقیق ہو رہی تھی اسے ہم نظر انداز کر دیں تب بھی ایک اسلامی ملک ان سب سے آگے نکل گیا تھا اس دوڑ میں.تو اتنا قیمتی متاع جب خدا تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان کیا میں سمجھتا ہوں اور میں کہتا ہوں اور میں کہتارہا ہوں کہ سب سے بڑا احسان جو اللہ تعالیٰ کسی قوم پر یا ملک پر کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس قوم یا ملک کو ذہین بچے عطا کرنا شروع کر دے.ایک لاکھ بچہ خدا نے ہمیں دیا اور ہم نے وہ ضائع کر دیا.اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے.بہر حال ان کو میں نے کہا تمہارے ہاں بھی یہ ہے.مزدور جو ہے موٹی ایک بات ہے آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے ، مزدور جب سٹرائیک کرتا ہے مثلاً ایک (۱) کارخانہ ہے کپڑے بناتا ہے پندرہ ہزار مزدور وہاں کام کر رہا ہے.اس نے سٹرائیک کی اور آپس میں سمجھوتا جو ہوا وہ دس پونڈ ہفتہ زیادتی ہوگئی.انہوں نے کہا اچھا اب ہم

Page 39

خطبات ناصر جلد نہم ۲۵ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء کام شروع کر دیتے ہیں.اچھا دس پونڈ زیادتی کا نتیجہ کیا نکلا.یہ جو دس ہزار مزدور ہے اس میں بعض وہ مزدور ہیں جو چھڑے چھٹانک، اکیلے ان کو ماہانہ دس پونڈ کی زیادتی مل گئی نا.اپنے پہ خرچ کرنا ہے نا اور تو کوئی نہیں.ایک دوسرا مزدور ہے اس کے تین بچے اور دومیاں بیوی پانچ.ان کی زیادتی دس پونڈ مہینہ نہیں ان کی زیادتی دو پاؤنڈ مہینہ ہے.ہر فرد واحد پر تقسیم ہوگی ناخاندان کے وہ زیادتی.تو میں نے انہیں کہا تم بڑے خوش ہوتے ہو کہ ہم نے ان کی ضرورت کو پورا کر دیا.اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ تم نے اس مزدور کی ضرورت کو پورا کر دیا جوا کیلا تھا اور اس کو دس پونڈ تم نے زیادہ دے دیئے.اس کی ضرورت پوری ہو گئی لیکن اسی کارخانے میں وہ تین چار ہزار دوسرے مزدور جن کے افرادِ خاندان ایک نہیں بلکہ چار پانچ چھ بعض دفعہ ہیں جن کو دو پونڈ ، ڈیڑھ پونڈ ، سوا دو پونڈ اس طرح ان کی زیادتی ہفتہ کی ہوئی ہے.ان کی ضرورت کو اس اصول کے مطابق تم نے کیسے پورا کر دیا یعنی اصول یہ کہ جس کو دس پاؤ نڈ مل جائیں گے اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی.کہتے ! ٹھیک ہے یہ تو ہم نے کبھی سوچانہیں.میں نے کہا تم نے نہیں سوچا مگر تمہارے خدا اور تمہارے محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لئے سوچا اور حکم دیا کہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرو.جب ہم ان کو یہ کہیں کہ قرآن کریم عظیم ہے تمہارے مسائل کو حل کرتا ہے اور خاموش ہو جائیں ان پر کوئی اثر نہیں.اگر ہم یہ کہیں قرآن کریم عظیم ہے اور تمہارے مسائل کو حل کرتا ہے دیکھو! مثلاً یہ ایک مسئلہ ہے جو تم حل نہیں کر سکتے اور قرآن کریم نے حل کیا ہے.ایک دوسرا مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا.ایک تیسرا.اس دفعہ میں نے انہیں کہا تم صرف یہ ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم اور دوسرے بہت سارے مہلک ہتھیار ہی اکٹھے کر کے تو پہاڑ نہیں بنار ہے.انبار ان کے پہاڑوں کی طرح تمہارے مسائل بھی جمع ہو رہے ہیں اور تمہاری مصیبتیں بڑھ رہی ہیں اور تمہاری ناکامیاں جو ہیں ان کی تعداد بھی زیادہ ہو رہی ہے.تو اسلام تو اگر تم نہ بھی اس طرف توجہ آج کرو تو اسلام انتظار کر رہا ہے اس دن کا جس دن تمہارے مسائل کا انبار اس قدر اونچا ہو جائے گا کہ تمہیں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا.تم پاگلوں کی طرح اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارو گے.اس وقت اسلام تمہارے پاس آئے گا اور کہے گا کہ میں یہاں ہوں

Page 40

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶ خطبه جمعه ۳۰/ جنوری ۱۹۸۱ء موجود تمہارے مسائل حل کرنے کے لئے.مجبور ہو جاؤ گے اپنے فائدہ کے لئے تم اسلام پر ایمان لانے.زبردستی کوئی نہیں کرے گا تمہاری اپنی خواہش ہوگی تمہارا اپنا دل کہے گا کہ ہمیں یہ مذہب قبول کر لینا چاہیے لیکن قرآن کریم کی عظمتیں یعنی اتنا خیال امة کہا تھا نا.ہدایت بھی دینی تھی نا کہ تم نے بھلائی کیا کرنی ہے.میں تو جب سوچتا ہوں سچ مچ جذباتی (Emotional) ہو جاتا ہوں کہ اتنی عظمت ہے اس کتاب میں کہ اپنی تمام عظمتوں کے باوجود کہا کہ دیکھو! میری اونچی تلاوت کر کے کسی اور کو دکھ نہ پہنچاؤ.اتنی بڑی عظمت لیکن کوئی سمجھے ان عظمتوں کو اور ان لوگوں تک پہنچائے تب اسلام وہاں پھیلے آپ تو سمجھتے ہیں.آپ اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھیں.میں نے اعلان کیا اس صدی کے شروع میں کہ بڑی پیشن گوئیاں ہیں.بڑی بشارتیں ہیں.بڑی خوش خبریاں ہیں.بڑی ذمہ داریاں ہیں جو اور ڈال دی گئیں ہم پر.اسلام تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ساتھ جیسا کہ مقدر ہے جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بشارت دی گئی ہے پندرھویں صدی ہجری میں ساری دنیا پر غالب آئے گا اور نوع انسانی کی بھاری اکثریت اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے چمٹی ہوئی نظر آئے گی لیکن اس کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیم نے اپنے زمانے میں اپنی زندگیوں میں دیں اور آنے والی نسلوں نے تین سو سال تک ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانیاں دی تھیں.ایک صدی کی تو بات ہے.گھبرانے کی کیا بات ہے.ایک ہزار سالہ خوشحال زندگی نوع انسانی کے لئے چھوٹی سی ایک جماعت اگر سب کچھ بھی قربان کر دے تو کوئی ایسی قربانی نہیں ہے نوع انسانی کی خدمت میں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور توفیق عطا کرے کہ اس کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 41

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷ خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۱ء دُعا کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں خطبه جمعه فرموده ۲۰ فروری ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.صحت اور بیماری کا تسلسل ابھی جاری ہے.بیچ میں آرام آجاتا ہے اور پھر بیماری عود کر آتی ہے.چند دن میں اسلام آباد میں رہا.وہاں چیک اپ کروایا.بعض ٹیسٹ ہوئے اور پھر سے ایک ماہ کے لئے اینٹی بائیوٹک کا کورس تجویز ہوا ہے.بیماری تو انسان کے ساتھ لگی ہی ہوئی ہے.اس لئے کہ غلطی کرنا انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے.اِذَا مَرِضْتُ (الشعرآء :۸۱) انسان غلطی کرتا ہے کوئی، اور بیمار ہو جا تا ہے لیکن شفا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بھی حاصل کرنا ہو اس کے لئے دعا کرنی پڑتی ہے.دعا کرتا ہوں اور آپ سے بھی امید رکھتا ہوں کہ آپ دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ صحت دے اور زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین.ذمہ داری کے جو کام ہیں وہ تو کرنے ہی پڑتے ہیں اور کرنے چاہئیں نہ آپ پر کوئی احسان ہے نہ کسی اور پر.اس بیماری میں بھی جب کچھ آرام آیا تو مجھے رات کے دو دو بجے تک کام

Page 42

خطبات ناصر جلد نہم ۲۸ خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۱ء کر کے ڈاک جو بہت جمع ہوئی تھی وہ نکالنی پڑی لیکن جب بیماری آتی ہے اور بعض دن ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کام نہیں کر سکتا.تو پھر کام جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے.پھر جب صحت ہوتی ہے تو کام زیادہ کرنا پڑتا ہے یہ بھی ایک سلسلہ جاری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس وقت میں اپنے کام میں مشغول ہوں مجھے اپنی بیماری کا احساس نہیں ہوتا اور جس وقت میں دوستوں سے مل رہا ہوں تو اتنی خوشی میں محسوس کر رہا ہوتا ہوں کہ دوست میری کمزوری کا احساس کر ہی نہیں سکتے اور ہمیشہ مجھے یہی کہتے ہیں.اب بھی ڈاکٹر صاحب نے مجھے یہی کہا کہ آپ دیکھنے میں تو بڑے صحت مند لگتے ہیں.میں نے کہا میں ہمیشہ ہی اچھار ہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اور دعا کے بغیر تو زندگی کا مزہ بھی نہیں اور دعا کے بغیر ہمیں کچھ مل بھی نہیں سکتا.نہ ہمیں نہ ہماری نسلوں کو.نہ آج کے اس انسان کو ہماری دعا کے بغیر کچھ مل سکتا ہے جو ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ بہت دعائیں کرے اور جماعت احمد یہ کی یہ شان اور علامت ہے کہ اس کی دعاؤں کے بے شمار پہلو ہیں.کوئی چیز اس کائنات کی ایسی نہیں ہونی چاہیے جو ہماری دعا سے محروم رہے.اس لئے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ آپ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ ہیں یعنی دنیا کی ہر چیز آپ کی رحمت کی محتاج بھی ہے اور آپ کی رحمت کو حاصل بھی کر رہی ہے.فیضانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وسعتوں میں عالمین کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہ جو آپ کے در کے غلام ہیں ان کی دعاؤں کو بھی اس عالمین کا احاطہ کرنا چاہیے.اس وقت انسانیت ہماری دعاؤں کی بہت محتاج ہے.اس وقت ہمارے اپنے بھائی ہماری دعاؤں کے بہت محتاج ہیں.اس وقت ہماری اپنی نسل ہماری دعا کی بہت محتاج ہے.اس وقت ہماری دعا کرنے کی طاقت اور ہمت ہماری دعا کی بہت محتاج ہے.میں نے علی وجہ البصیرت میں یہ بات کہہ رہا ہوں.محسوس کیا ہے کہ یہ دنیا کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے اور اس کے مشاغل کچھ اس قسم کے ہیں کہ اگر آدمی ہمیشہ چوکس ہو کر اور بیدار ہو کر دعا کی طرف متوجہ نہ رہے تو دعا میں غفلت کر جاتا ہے اس لئے بار بار میں جماعت کو دعا کی طرف توجہ

Page 43

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹ خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۱ء دلاتا ہوں اور اپنے نفس کو تو ہر روز ہی توجہ دلاتا ہوں اس کی طرف.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا قرآن کریم نے ہماری رہبری کے لئے محفوظ کی ہے.عَسَى أَلا أَكونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا (مریم :۴۹) کہ یقیناً رب کے حضور جھک کر دعاؤں کے نتیجے میں میرا نصیبا سویا نہیں رہے گا.تو اپنی قسمت کو جگانے کے لئے، بیدار کرنے کے لئے دعا کی ضروت ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہی میں ہے اور اس کی رحمت سے ہی یہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ سب کچھ مل جائے جس کے حصول کی اس نے ہم میں سے ہر فرد میں طاقت بھی رکھی اور جس کو دینے کے لئے وہ ہر وقت تیار بھی ہے.اگر ہم محروم رہتے ہیں تو ذمہ داری ہماری ہے.ہمارے رب کی نہیں.ہمارے اللہ نے تو اعلان کر دیا کہ ہر قسم کی ربوبیت کی ذمہ داری میری ہے.وہ جو رب ہے.اگر ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہوں تو اس سے جو رب نہیں ہم کیا حاصل کر سکتے ہیں کچھ بھی نہیں.پس بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں تا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے انسان سے اس زمانہ کے لئے کئے تھے وہ وعدے اس زمانہ کے انسان کی زندگی میں پورے ہوں اور اس زمانہ کے انسان کی غفلتوں کے نتیجہ میں ان میں تاخیر نہ پیدا ہو اور اس کے لئے پھر میں یاد دہانی کراؤں گا آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ اس بنیادی حقیقت کے سمجھنے کی ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اسے اپنے ذہن میں حاضر رکھیں.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۱ء صفحه ۲،۱)

Page 44

Page 45

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء مرنے کے بعد کی زندگی میں عمل اور مجاہدہ ہے کوئی امتحان نہیں خطبه جمعه فرموده ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَ الَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ أَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولبِكَ لَهُم عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: ٢٣) اس آیہ کریمہ میں ایک بنیادی بات بتائی گئی ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کے ہر لمحہ سے ہے اور وہ یہ ہے.وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثابت قدمی سے کام لیا.یہ جو وفا اور ثبات قدم ہے اس کا تعلق انسانی زندگی کے ، فردی زندگی کے کسی خاص وقت کے ساتھ نہیں.صبح کے ساتھ نہیں کہ ظہر کے ساتھ نہ ہو اور ظہر کے ساتھ نہیں کہ شام کے ساتھ نہ ہو.زندگی کا ہرلمحہ خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں خرچ ہوا سے اس آیت کی روشنی میں ثبات قدم کہا جائے گا تو جو استقامت کے ساتھ ثبات قدم کی جو راہ ہے ، وفا اور استقامت کا جو اُسوہ ہے اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزاریں گے.انہیں ”الدّارِ “ جو جنت انسان کے لئے

Page 46

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے.جب وہ اپنے بندے سے راضی اور خوش ہو جاتا ہے.اس جنت کا بھی بہترین بدلہ ملے گا.جنت میں جانے والے کم درجہ کے متقی اور درمیانے درجہ کے متقی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان بھی ہے اور ہر استعداد کے لوگ ترقی کرتے چلے جائیں گے.اس واسطے وہاں بھی درجات ہیں وہاں بھی ترقیات ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جنت میں مرنے کے بعد جو زندگی ہے وہ ایک نکمی زندگی ہے وہاں عمل اور مجاہدہ نہیں.یہ تصویر اسلام نے ہمارے سامنے پیش نہیں کیا.اسلام کہتا ہے کہ مرنے کے بعد جو زندگی ہے اس میں عمل بھی ہے، مجاہدہ بھی ہے ، کوشش بھی ہے لیکن امتحان نہیں.یعنی یہ خطرہ نہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد کسی امتحان میں ناکام ہونے کی وجہ سے انسان کو باہر بھی نکالا جا سکتا ہے لیکن اس زندگی میں یہ خطرہ ہر آن موجود ہے.اسی وجہ سے کہا گیا کہ دعا کرتے رہو کہ خاتمہ بالخیر ہو کہ مرتے دم تک انسان اس راہ پر چل رہا ہو.جو راہ اللہ تعالیٰ کو پسند اور پیاری ہے جو راہ اس کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے.تو بنیادی چیز جو یہاں بتائی گئی وہ ثبات قدم پر قائم رہے.صبر سے کام لیا اور استقامت دکھائی.اس کے بعد جو باتیں بتائی ہیں ان کا تعلق بھی اسلامی شریعت کے سب احکام کے ساتھ ہے.بنیادی بات ، اس صبر کی کوشش کے بعد یہ ہے کہ اقاموا الصلوۃ اللہ تعالیٰ نے فرما یا حکم تو ہے میرا کہ میری رضا کی طلب میں ثابت قدم رہو لیکن اپنی کوشش سے ایسا کرنا تمہارے لئے ممکن نہیں.اس لئے نماز کو اور دعا کو مضبوطی سے پکڑ و اقاموا الصلوة - الصلوة کے معنی فرائض نمازیں، جو ہم پڑھتے ہیں پانچ وقت دن میں اپنی شرائط کے ساتھ وہ بھی ہے اور الصلوۃ کے معنے دعا کے بھی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو پانچ وقت کی نماز ہے وہ تو ہر وقت کی دعا کے لئے ستون کا کام دیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے خالی نہ ہو تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر میری رضا کی طلب میں ثابت قدم رہنا چاہتے ہو تو محض اپنے زور پر ، اپنے اعمال پر، اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ کرنا تمہیں ثبات قدم کے لئے میری مدد کی ضرورت ہے.اس کے لئے مجھ سے دعائیں مانگو تا کہ جو تمہیں میں دینا چاہتا ہوں تمہاری زندگیوں میں تم اس کو حاصل کر لو.دوسری بات یہ بتائی کہ ثبات قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں جو ہے اس کے معنی یہ ہیں

Page 47

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء کہ قرآن کریم کے ہر حکم کے پابند رہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں نماز پڑھ لی مسجد میں آکے ، یہ کافی ہے.بعض لوگ میرے علم میں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں آکر لمبے لمبے نوافل پڑھ لئے اور لوگوں کی نظر میں آگئے بزرگ بننے کے لئے یہ کافی ہے.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کے روزے بھی رکھ لئے اس کے ساتھ تو پھر تو کوئی شبہ نہیں رہا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر وہ فضل نازل کرے گا جو ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں صبر اور ثبات قدم کا نمونہ دکھاتے ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز اور روزے کے ساتھ اگر جج ہو جائے ، اگر میں زکوۃ دے دوں تو یہ کافی ہے.یہ نہیں.قرآن کریم نے سات سو سے زیادہ احکام بیان کئے جو ہماری زندگیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم قیامت کے دن تم سے سوال کرے گا تمثیلی زبان میں بات کی ، کہ آیا تم قرآن کریم پر عمل کرتے رہے ہو یا نہیں ؟ قرآن کریم نے صرف یہ نہیں کہا کہ نمازیں پڑھو، دعا ئیں کرو، روزے رکھو، حج کرو، زکوۃ دو، قرآن کریم نے صرف یہی نہیں کہا کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ(البقرۃ: ۴) کہ جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے اس میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق خرچ کرو.اتنا بھی نہیں یعنی سارے احکام کی پابندی بھی کافی نہیں اس کے لئے بھی ایک شرط لگا دی.وَ يَدُرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ - تمہیں دیا تو الحَسَنَةِ گیا ہے لیکن تمہارے اوپر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس حسنہ کے ذریعے فسادنہ پیدا ہو بلکہ برائی اور فساد اور فتنے کو دور کرنے والے ہو تم.قرآن کریم نے صرف یہ جو موٹی موٹی چیز میں ہیں پانچ دس صرف ان کا حکم نہیں دیا.قرآن عظیم تو بڑی عظیم کتاب ہے، اس نے یہ بھی کہا ہے کہ میرے جیسی عظیم کتاب کو اتنی بلند آواز سے نہ پڑھو کہ کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے اس کی وجہ سے ہمسائے میں ایک بیمار پڑا ہے.رات کو اس کے شدید در داٹھا ( مثلاً ) صبح تین بجے تک وہ تڑپتا رہا.دوائیاں اس کو دی گئیں.تین بجے اس کی آنکھ لگی اور ہمسائے اگر زور زور سے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دیں جس سے اس بیمار کی نیند خراب ہو.قرآن کریم کہتا ہے تم قرآن تو پڑھ رہے ہولیکن گناہ کر رہے ہو.قرآن کریم نے کہا ہے مجھے پڑھنا ہے تو علی مُکث اس طریقے پر پڑھو کہ کسی اور کے لئے تمہاری تلاوت تمہارا پڑھنا

Page 48

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء وجه یہ تکلیف نہ بنے.قرآن کریم کہتا ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے بہت بڑا گناہ ہے لیکن جو شرک کا مرتکب ہونے والا ہے اس کو سزا دینا یا معاف کرنا یہ میرا کام ہے تمہارا نہیں ہے.تم نے ایک مشرک کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں پہنچانی.تو قرآن کریم کوئی معمولی کتاب نہیں.نہ پانچ دس باتوں پر اسے مشتمل سمجھا جاسکتا ہے کہ بس اسی پر مشتمل ہے یہ اور کوئی باریکیاں اور حسن اور نور اور وہ وسعت جس نے ہماری زندگیوں کا احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس میں نہیں یہ غلط بات ہے.زندگی اسلام میں ہو کر گزارو جس کو ہم دوسرے لفظوں میں کہتے ہیں فنا فی اللہ ہونا یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس کے ہر حکم کے سامنے سر جھکا دینا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کے ایک معنی یہ ہیں کہ جس طرح ایک بکرا مجبوراً قصائی کی چھری کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتا ہے اسی طرح تم جبر سے نہیں بلکہ اپنی خوشی اور رضا سے خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی گردن رکھ دو اور اس کے بعد ایک نئی زندگی کو حاصل کرو اور اس کے بعد أُولبِكَ لَهُم عُقْبَى الدار میں جو وعدہ دیا گیا ہے اس کے وارث بنو.اس چھوٹی سی آیت میں دراصل اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کر دیا گیا.خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ نا ، وفا سے زندگی گزارنا ، ثبات قدم ہونا، کسی ایک حکم میں بھی اس کی ناراضگی مول نہ لینا.دوسرے یہ کہ ان چیزوں کے حصول کے لئے محض اپنی طاقت اور صلاحیت کو کافی نہ سمجھنا، محض اپنے اخلاص اور صحت نیت پر بھروسہ نہ کرنا بلکہ یہ جاننا سب کچھ کرنے کے بعد کہ میں نے کچھ نہیں کیا اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت میرے اعمال کے شامل حال نہ ہو اور وہ اپنی رحمت سے میرے اعمال کو قبول نہ کرے.اس وقت تک ان کی وہ جز انہیں نکل سکتی جس کا وعدہ اس آیت میں کیا گیا.تیسرے یہ کہ جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی، مال دیا، دولت دی ، اثر اور رسوخ دیا، علم دیا اور فراست دی، ہزار باتوں میں مہارت کا ملکہ دیا، زندگی دی، اولاد دی.ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھنا اور ہر چیز سے سلوک اس حکم کے مطابق کرنا جو خدا تعالیٰ نے دیا اور

Page 49

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء سرًّا وَ عَلَانِيَةً احکام بجالا نا بڑا وسیع حکم ہے یہ انفاق یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بھی دیا، اس میں سے خرچ کرنا.بعض باتیں ہیں جو سزا کی جاتی ہیں بعض چیزیں ہیں جو علانیہ کی جاتی ہیں.بعض اعمال ہیں جو دونوں طرح کئے جا سکتے ہیں یعنی کبھی اعلانیہ کبھی مخفی طور پر.مثلاً تہجد، تہجد کی نماز بنیادی طور پر سرا ہے تنہائی میں اپنے محبوب اللہ کا اظہار کرنا خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرنا، اس کی حمد کرنا، کسی کو دکھ نہیں پہنچانا، کسی کو ستانا نہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک رات گشت کی مدینے کی.اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تم تہجد بہت اونچی آواز سے پڑھ رہے تھے.یہ کیوں؟ انہوں نے عرض کی کہ میں اس طرح اپنے شیطان کو درے مار رہا تھا قرآن کریم سے بھاگتا ہے وہ.آپ نے کہا نہیں اس طرح اتنی اونچی آواز سے نہیں پڑھنا.آواز اتنی ہونی چاہیے بالکل خاموش بھی نہیں، یہ یاد رکھیں تہجد کی نماز کے متعلق یا اور دعا ئیں جو آدمی کرتا ہے تنہائی میں اس کے متعلق بنیادی حکم یہ ہے کہ نہ بالکل دل میں کرو دعا کہ اپنے کان تک بھی آواز نہ آئے خیال ہی خیال میں رہے، یہ صحیح ہے کہ خدا تعالیٰ کو دلوں کا حال معلوم ہے وہ جانتا ہے تمہارے دل میں کیا خیالات دعائیہ گزر رہے ہیں.اسی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ سوال کیا آپ نے کہ اتنی آہستہ کیوں پڑھ رہے تھے کہ آواز ہی نہیں نکلی منہ سے.آپ نے عرض کی خدا تعالیٰ تو دلوں کا حال جاننے والا ہے اس کے سامنے اونچی بولنے کی کیا ضرورت ہے.آپ نے کہا ٹھیک ہے، اس کے سامنے تو اونچی بولنے کی ضرورت نہیں مگر تمہیں اتنا اونچی ضرور بولنا چاہیے دُعا کے وقت کہ تمہارے اپنے کان تک تمہاری آواز پہنچ جائے.اب میں نے تین دفعہ الْحَمدُ لِلهِ کہی تو میرے اپنے کانوں نے بھی نہیں سنی آپ نے بھی نہیں سنی یہاں اور اگر میں اس طرح کہوں گھر میں لاؤڈ سپیکر تو کوئی نہیں لگا ہوا الْحَمْدُ لِلَّهِ ، الْحَمْدُ لِلهِ ، اَلْحَمْدُ لِلهِ ( آہستہ آواز میں.ناقل ) میرے کان نے سن لی ہے اور اگر وہاں لاؤڈ سپیکر نہیں ہے تو آپ کے کان یا میرے پاس بیٹھا ہوا بھی نہیں ٹن سکے گا جہاں بیچ میں ایک دیوار آ گئی وہ بھی نہیں سن سکے گا.اپنے گھر کے جو چھوٹے بچے ہیں وہ Disturb ( ڈسٹرب ) نہیں ہوں گے تو وہ دعائیں جو تنہائی میں کی جاتی ہیں.ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ وہ سرا ہوں خصوصاً 66

Page 50

خطبات ناصر جلد نہم ۳۶ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء تہجد کی نماز اونچی اونچی نہ ہو.اس میں بعض استثناء ہیں.مثلاً رمضان کے مہینے میں لیکن وہ جو ہم تراویح کی شکل میں نوافل پڑھتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے پتہ لگتا ہے کہ گھر میں پڑھنا زیادہ اچھا ہے لیکن بعض کمزور لوگ چونکہ گھروں میں نہیں پڑھ سکتے ان کو اس نیکی سے رمضان میں محروم کرنا پسند نہیں کیا گیا.اس لئے ان کے لئے تراویح مقرر کر دی گئیں ورنہ تہجد گھر کی نماز ہے.خاموشی کی نماز ہے اور میں نے بتایا اصل تو بنیاد ہے صبر اور لرضاء باری یعنی ثابت قدم رہنا اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں.اس کے لئے ایک تو یہ کہا کہ دعائیں کرو اس کے بغیر تمہیں ثبات قدم نہیں مل سکتا.دوسرے یہ کہا کہ ایک آدھ چیز نہیں بلکہ ہر وہ طاقت اور صلاحیت اور قابلیت اور ہنر جو تمہیں دیا گیا ہے یا دولت یا مال یا اقتدار یا فراست کے نتیجے میں شہرت جو تمہیں ملی ہر چیز کو تم نے خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق خرچ کرنا اور استعمال کرنا ہے.اور تیسرے یہ کہا کہ وَيَدْرَرُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَة یہ نیکی کے کام ہیں.نیکی کے کام کو اس طرح نہ کرو کہ اس کے نتیجہ میں فتنہ و فساد پیدا ہو بلکہ اس طرح کرو کہ جس کے نتیجے میں فتنہ اور فساد اور برائی اور سیہ جو ہے اس کا علاج ہو جائے اور دور ہووہ.اور ان ساری باتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا اگر اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اپنے فضل اور رحمت سے کہ ہم اس کی رضا کے لئے اس کے حکم کے ا مطابق اپنی زندگیاں گزار نے والے ہوں کہ اوليك لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ اپنی اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق جو کام کئے ہوں گے اور مقبول ہو جائیں گے وہ.اس کے مطابق ہمیں مقام مل جائے گا جنت میں.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ بنائے اور اپنا فضل اور رحمت اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں ہم پر کرے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 51

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء خدا کی رضا کے حصول کے لئے قرآنی تعلیم پر عمل کرنا ضروری ہے خطبه جمعه فرموده ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم نے بہت سے مقامات پر اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ ، پوری طرح کھول کے بیان کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہو تو اس تعلیم پر جو قرآن کریم لے کر آیا بنی نوع انسان کے لئے عمل کرنا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص اس تعلیم سے اعراض کرے تو اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ اپنی جان پر بڑا بُرا بو جھ لا درہا ہے.قرآنی تعلیم جو ہے، دین اسلام جو ہے اس کی تعلیم ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے اور ہر احمدی کو ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اور اس کے بس میں ہو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام پر چلے اور کسی ایک حکم کو بھی نظر انداز نہ کرے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے جو پڑھے ہوئے ہیں وہ بھی اور جو اتنا پڑھے ہوئے نہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم قرآن کریم میں ہمارے سامنے پیش کی ہے اس کا علم ہوا ور علم تو سیکھنے سے آتا ہے.علم کو تو سکھایا جاتا ہے.یہی انسانی زندگی کی ریت ہے.علم تو دہرانے سے یادر ہتا ہے.ذکر فَإِنَّ الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الدريت : ۵۶) علم تو خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر اور تضرعانہ

Page 52

خطبات ناصر جلد نہم ۳۸ خطبه جمعه ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء دعاؤں کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے، حقیقی علم.عظ وعدے اور بشارتیں اور جزا اور اجر بڑا ہی تعلیم ہے.جو احکام ہیں ان میں وسعت ہے لیکن حرج نہیں.کوئی تنگی نہیں ہے.کوئی ایسا حکم نہیں قرآن کریم میں کہ جو انسان کر نہ سکے.ہر وہ حکم جو قرآن کریم نے دیا ہے ہر صحت مند انسان اسے بجالا سکتا ہے.جو ایسے بیمار ہوں انسانوں میں سے، جو سمجھ ہی نہ سکیں.بعض انسانوں میں سے ایسے ہیں کہ ان کا دماغ خراب ہے مثلاً انہیں ہمارے محاورے میں مرفوع القلم کہتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں نہیں آتے لیکن وہ بیماریاں جو عارضی طور پر آتی ہیں ان میں یہ تعلیم، یہ عظیم قرآن جو ہے، یہ دین اسلام جو ہے وہ سہولتیں دیتا چلا جاتا ہے مثلاً نماز ہی کو لے لو.ہر شخص کے لئے ، اگر کوئی جائز عذر نہ ہو، پانچوں وقت مسجد میں باجماعت ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر ایک شخص بیمار ہے وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تو اس کو اجازت دی گھر میں پڑھ لو.اگر کوئی شخص بیمار ہے وہ کھڑے ہو کر نماز جس طرح ادا کرنی چاہیے اس طرح ادا نہیں کر سکتا اسے حکم ہے کہ بیٹھ کے نماز پڑھ لو.اگر کوئی شخص اتنا بیمار ہے کہ بیٹھ کے نماز نہیں پڑھ سکتا اسے یہ اجازت دی گئی کہ تم نماز کے اوقات میں لیٹے ہوئے نماز ادا کرلو.اگر کوئی شخص اتنا بیمار ہے کہ لیٹ کے بھی اشارے نہیں کر سکتا تو اسے یہ کہا گیا کہ اپنے ذہن میں تقسیم کر لو قیام اور رکوع سجدہ اور قعدہ وغیرہ کو اور دعائیں کر لو تمہاری نماز جو ہے قبول ہو جائے گی.اگر نیت میں اخلاص ہوگا خرابی نہیں ہوگی.اگر کوئی شخص عارضی طور پر بے ہوش ہو گیا ہے.کئی ایسے ہیں جن کو مثلاً دس دن یا پندرہ دن یا بیس دن بے ہوشی کی حالت طاری رہتی ہے اسے یہ کہا گیا ہے کہ جب تمہیں ہوش آئے نمازیں شروع کر دو.- روزہ ہے، بڑی برکتیں لے کر آتا ہے ماہ رمضان ، حرج نہیں اس میں اگر کوئی شخص روزہ نہیں رکھ سکتا اسے اجازت دی گئی ہے کہ ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے.آج کے زمانہ میں جو انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں روزہ رکھ سکتا ہوں اس کو بھی کہا کہ تم روزہ نہ رکھو جب سفر پہ ہو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ سفر آسان ہو گئے سفر میں روزہ نہ رکھنے کا جو حکم تھا یہ اس زمانے میں تھا جب سفر مشکل تھا.انسان روزہ رکھ لے تو اس کے لئے بہت زیادہ تکلیف کا باعث بن سکتا تھا.وہ یہ بھول

Page 53

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹ خطبه جمعه ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء جاتے ہیں کہ جس اللہ تعالیٰ نے مشکل سفر کے زمانہ میں یہ حکم نازل کیا وہ اس آسانی کے زمانہ کو اسی طرح جانتا تھا جس طرح اس زمانہ کو وہ جانتا تھا اور سب کچھ جانتے ہوئے اس نے یہ رعایت دی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی دی ہوئی رعایتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا اس کے اندر تکبر ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے زور کے ساتھ خدا تعالیٰ کو راضی کر سکتا ہوں جہاں اللہ تعالیٰ نے رعایت دی ہے، رعایت سے فائدہ اٹھانا چاہیے.تو اس میں تو شک نہیں کہ قرآنی تعلیم اپنے احکام کے لحاظ سے اور پھر جو آگے ان کی شاخیں نکلتی ہیں اس لحاظ سے بڑی وسعت رکھتی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جو اسلامی تعلیم ہے اس کا کوئی ایک حکم انسانی زندگی کے کسی ایک لمحہ میں بھی ایسا نہیں جو اس کے لئے حرج کا ، تکلیف کا باعث ہو ، دکھ کا باعث ہو.اس واسطے کہ استثنائی حالات میں جو دکھ بن سکتا تھا یا اس شخص کے لئے بوجھ بن سکتا تھا اس کو رعایت دے دی.جہاں انسان نے اپنے حق کو نہیں پہچانا وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کے حق کو پہچانا اور اسے رعایت دی قرآن کریم کے بعض احکام ایسے ہیں جو بنیادی ارکان ہیں لیکن ہر حکم جو خدا تعالیٰ کا ہے اطاعت کے لحاظ سے وہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا نماز پڑھنا.یعنی اگر کوئی دماغ یہ سوچتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت بعض احکام میں تو ضروری ہے اور بعض احکام کے لحاظ سے ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے باغی ہو کے کھڑے بھی ہو سکتے ہیں اور وہ ہمیں کچھ نہیں کہے گا.ایسے دماغ کو بیمار دماغ یا فاسق دماغ کہا جاسکتا ہے یا منافق دماغ کہا جاسکتا ہے یا غیر مومن دماغ کہا جا سکتا ہے لیکن ایسا دماغ نہیں کہا جاسکتا جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ہو.خدا تعالیٰ تو ہر وقت رحم کرنے کے لئے ، برکتیں نازل کرنے کے لئے تیار ہے مگر جن نالیوں سے وہ آپ تک اپنی برکتیں پہنچانا چاہتا ہے ان نالیوں کو اپنے منہ میں لو.جس طرح و ہStraw نکل آیا ہے بوتلیں پینے کے لئے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رستے بنائے ہوئے ہیں اپنی رحمتوں کو نازل کرنے کے لئے.قرآن کریم کہتا ہے.لَا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيمًا (النساء : ۱۰۶) کہ جو خائن لوگ ہیں ان کی طرف سے وکالتیں نہ کیا کرو، سفارشیں نہ لے کے جایا کرو.میرا خیال ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں شاید کسی کو یہ پتہ ہی نہیں کہ قرآن کریم کا یہ حکم بھی ہے.اس کثرت کے ساتھ اس

Page 54

خطبات ناصر جلد نہم ۴۰ خطبه جمعه ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء حکم کو تو ڑا جارہا ہے.قرآن کریم کا یہ حکم تھا کہ مجھے بھی اتنی بلند آواز سے نہ پڑھنا ( قرآن عظیم کو بھی) کہ تمہارے ہمسائے کو یا کسی اور کو تکلیف پہنچانے والا ہو.کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا.قرآن کریم کا حکم تھا کہ مجھے تیزی سے نہ پڑھنا اس کا فائدہ کوئی نہیں حقیقت یہ ہے کہ قرآن کوئی تعویذ تو نہیں ہے.کوئی جادو تو نہیں ہے.یہ تو وعظ ہے، یہ ایک نصیحت ہے، ایک تعلیم ہے، یہ ایک حکمتیں بتانے والا مذہب ہے.وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل : ۵) کی مفسرین نے تفسیر کی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس طرح پڑھو کہ صرف لفظ لفظ نہیں بلکہ ہر لفظ کا ہر حرف جدا جدا تمہارے ذہن میں حاضر ہوتا چلا جائے آرام کے ساتھ ، سوچتے ہوئے اس کی تلاوت کرو، موقع دو سننے والے کو کہ وہ بھی سوچے اور اس پرغور کرے.ہوا میں صوتی ارتعاش پیدا کرنا ثواب نہیں ، دل اور روح کوگر ما دینا اور ہلا دینا یہ ثواب ہے اور اسی کے لئے آیا ہے قرآن کریم.پس کوشش کریں کہ ہر اس راہ سے آپ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں جس راہ سے خدا آپ پر فضل کرنا چاہتا ہے اور تمام وہ احکام قرآنی جو ہمارے سامنے رکھے گئے ہیں اور پھر ان کے جو مختلف پہلو اور زاویے ہمیں چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں اس لحاظ سے ہم اپنی زندگی کو گزارنے والے ہوں.ہمسائے کے ساتھ سلوک ہے.گرے ہوئے کو اٹھانا ہے.دکھوں کو دور کرنا ہے.ہر شخص کی عزت کرنی ہے.انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا.انسان کے کسی حصے کو بھی اس دائرے سے جو اشرف المخلوقات کا دائرہ ہے باہر نہیں نکالا اسلام نے ، خواہ کتنا ہی علمی لحاظ سے، دینی لحاظ سے کمزور ہو.مثلاً بت پرست جو افریقہ کے جنگلوں میں رہتے ہیں اور بالکل کوئی تہذیب بھی نہیں ان کی لیکن انسان ہونے کے لحاظ سے، انسانی شرف کے لحاظ سے ان کی بھی عزت کی مسلمانوں نے لیکن اب ویسے تو نہیں رہے وہ ، تنزل کا دور ختم ہو گیا.اب پھر اسلام کے دائرہ اسلامی میں داخل ہو گئے.اسی پیار کے نتیجے میں، اس بات کی وجہ سے کہ ان کو کسی آنکھ میں اپنے لئے عزت اور شرف کا جذ بہ نہیں نظر آیا سوائے مسلمان کی آنکھ کے.جب میں ۷۰ء میں گیا ہوں افریقہ تو میں نے بڑے دکھ سے محسوس کیا کہ افریقن محبت کا بھوکا ہے جب میں نے ایک افریقن بچے کو اٹھا کے گلے لگایا اور پیار کیا تو وہ ہزاروں کا

Page 55

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱ خطبه جمعه ۶ / مارچ ۱۹۸۱ء مجمع جس نے مجھے اس بچے کو پیار کرتے دیکھا خوشی کی ایک ایسی لہر فضا میں پیدا ہوئی کہ میرے کانوں نے ان کی خوشی کی آواز کو سنا.میری آنکھوں نے ان کے چہروں کو دیکھا جن پر خوشیاں مچل رہی تھیں.ایک دورے سے واپسی پر لنڈن کے ائر پورٹ پہ ایک افریقن ملک کے وزیر آئے ہوئے تھے جو واپس جارہے تھے.وہ بھی انتظار کر رہے تھے اپنے جہاز کا.ان کے ساتھ ان کے ملک کا سفیر تھا جو انہیں چھوڑنے آیا ہوا تھا اور ایک سفیر کا بیٹا تھا.کوئی بارہ سال کا ہوگا ہمارے دوست جو وہاں موجود تھے ان کو خیال آیا ایک کو ، پھر اور وں کو کہ نوٹ لے آئے کہ اس پر دستخط کر دیں ہم رکھیں گے اپنے پاس اس نے دیکھا وہ بھی لے آیا.خیر میں نے دستخط کر کے اس کو دیا لیکن اس کے علاوہ میں کھڑا ہوا اور میں نے اس سے معانقہ کیا اس بچہ کو پیار کیا جب یہ اعلان ہوا کہ جہاز تیار ہے آجائیں اس جہاز کے مسافر جو وزیر تھے وہ میرے پاس پھر آگئے ( پہلے مل کے جاچکے تھے ) اور اس بات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آئے کہ آپ نے ہمارے بچے کو پیار کیا اور اتنے جذباتی تھے کہ ان کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے اور آواز نہیں نکل رہی تھی تو دنیا نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل نہ کر کے بڑے دکھ اٹھائے ہیں.یہ جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ دنیا کو ان دکھوں سے نجات دلانے کی کوشش کرے اور جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ اپنی زندگی میں ، اجتماعی زندگی میں کسی کو دکھ نہ پہنچائے بلکہ جس طرح بنیان مرصوص ہوتی ہے ہر شخص اپنی جگہ کام کر رہا ہے، دعائیں کر رہا ہے، خدا تعالیٰ کے حضور جھکا ہوا ہے، خدا سے اس کی برکتیں حاصل کر رہا ہے اور اس کا تعلق اپنے بھائی کے ساتھ محبت کا ہے اور پیار کا ہے جہاں موقع کسی کو ملتا ہے خدا کو خوش کرنے کے لئے اپنے اخلاق کے حسن کے جلوے اس کو دکھاتا ہے.ایک ایسا معاشرہ پیدا کرو جو آج کی دنیا کے لئے مثالی معاشرہ بن جائے اور دنیا مجبور ہو جائے اس کو دیکھ کے اسلام کی طرف آنے پر.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقام کو سمجھنے اور قرآن کریم کی عظمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۱ء صفحه ۳ تا ۵ )

Page 56

Page 57

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳ خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۱ء دین ہمارا اسلام ہے اور ہم احمدی مسلمان ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.جہاں تک گردے کی تکلیف کا ، بیماری کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انفیکشن تو پوری طرح کنٹرول میں ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے ماتحت مجھے دوائی کھانی پڑ رہی ہے اور ابھی قریباً ڈیڑھ ہفتہ اور یہ دوائی میں کھاؤں گا پھر وہ بتائیں گے کہ مزید دوا کھانی ہے یا نہیں.میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ جو گردے کی انفیکشن کی بیماری آئی اس نے مجھے زیادہ ضعف پہنچایا یا جو اس کو دور کرنے کے لئے دوائیں دی گئیں وہ زیادہ ضعف پیدا کرتی ہیں.بہر حال انسان نے اپنی طرف سے یہ دوائیں بنالی ہیں اور جو دست قدرت باری سے ادویہ بنی تھیں ان کی طرف توجہ کم کر دی ہے.بعض نے بالکل چھوڑ دی ہے اس طرف تو جہ اور اس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے میرے جیسے ایک عاجز اور بے کس انسان کو بھی.اس کے علاوہ پچھلے ہفتہ عشرہ سے ایک اور واقعہ ہو گیا.میرے اپنے دانت بھی ہیں کچھ اور میں Denture (ڈینجر ) بھی لگاتا ہوں.بس آنی ہوتی ہے میرے ہاتھ سے نچلا ڈ پینچر گرا اور ٹوٹ گیا.اس کے بغیر میں کھانا نہیں کھا سکتا.اسی وقت لاہور بھجوایا.انہوں نے اسے جوڑ دیا اور

Page 58

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء ٹھیک کر دیا اور آگئے ڈاکٹر صاحب خود، ڈاکٹر شفیق صاحب وہ میرے Dentist ( ڈینٹسٹ ) ہیں لیکن جب وہ میں نے استعمال کیا تو اس نے میرے جبڑے میں اور گلے کی طرف دباؤ ڈالا اور سرخی اور رگڑ اس سے پیدا ہوئی اور وہ جو تکلیف تھی کہ میں کھانا نہیں کھا سکتا وہ بدستور قائم رہی اور کچھ سمجھ نہ آئے.اچانک میری نظر پڑی تو جوڑتے وقت ایک زاویہ تھوڑا سا غلط ہوا ہوا ہے.اس کی وجہ سے کمزوری میں اور بھی اضافہ ہو گیا کیونکہ کھانے کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے اور جو میں کھانا کھانے کا عادی ہوں اس میں فرق آجاتا ہے اور بڑی تکلیف ہوتی ہے.گزشتہ رات کے کھانے کے وقت تو آدھے گھنٹے میں بمشکل میں دو لقمے کھا سکا.پھر میں نے ایک اور کھانا تجویز کیا اپنے لئے تھوڑا سا کھایا.بہر حال یہ جو بیماریاں اور ضعف وغیرہ ہے یہ تو انسان کی زندگی کے ساتھ لگا ہوا ہے اور ایک مسلمان ان تکلیفوں اور بیماریوں اور کمزوریوں کی اس معنی میں پرواہ نہیں کرتا کہ جس طرح دنیا کے دیگر ابتلا ایک مسلمان کے کام میں حارج نہیں ہوتے اسی طرح یہ بیماریاں بھی ایک مسلمان کے کام میں حارج نہیں ہوتیں.اس سارے عرصہ میں میں پورا کام بھی کرتا رہا ہوں اور بیمار بھی رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھنے والے مجھے بیمار سمجھتے بھی نہیں رہے.رات کے دو دو بجے تک بھی بعض دفعہ کام کرنا پڑتا ہے.کام جماعت کی وسعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.ایک آدمی کی جماعت تھی.وہ غالب نے کہا ہے.بع ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب اکیلے تھے تو انجمن ہی تھے نا کہ جس طرح پھول کی پتیاں کھل کے گلاب کا پھول بیسیوں پتیوں والا نہایت حسین پھول بن جاتا ہے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں آپ کا یہ فدائی متبع ، آپ پر نثار ہونے والا ، آپ سے پیار کرنے والا ، چوبیس گھنٹے آپ پر درود بھیجنے والا ، آپ کے منصوبہ کے مطابق ساری دنیا کے مقابلے میں کھڑا ہو کر ساری دنیا کا مقابلہ کرنے والا اور آپ کی صداقت کی بڑی زبر دست

Page 59

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء دلیل بنی.میں نے یورپ میں ۷۸ ء میں فرینکفورٹ شہر میں پریس کانفرنس کے موقع پر صحافیوں کو کہا کہ اس سے بڑی دلیل تمہیں کیا چاہیے صداقت کی کہ وہ اکیلا تھا اور تم سارے اکٹھے ہوکر اس کی دشمنی پر تکلے اور اس کے مقابلے میں تم نے ہزار ہا منصوبے بنائے لیکن وہ نا کام نہیں ہوا.وہ ایک اس وقت ایک کروڑ بن چکا ہے.تو اگر ہم یہ کہیں کہ یہ کروڑ جو ہے ان میں سے ہر ایک انگلی صدی میں ایک کروڑ بن جائے تو حساب لگاؤ کیا بنتی ہے تعداد؟ ایک بڑا ثقہ صحافی وہاں بیٹھا ہوا تھا.یہ جو پر یس کا نفرنس ہوتی ہے اس میں باتیں سنتے ہیں، جو مرضی ہو نوٹ کرتے ہیں، جو مرضی ہو چھوڑ جاتے ہیں.ان کو میں نے کہا میری خاطر آپ ضرب لگا کر دیکھیں.میری خاطر انہوں نے ضرب لگائی.سمجھے ضرب غلط لگ گئی ہے.میں انہیں دیکھ رہا تھا خاموشی سے.پھر انہوں نے اسے کاٹا پھر دوبارہ ضرب لگائی.پھر مسکرائے ، منہ اٹھایا ، مجھے کہنے لگے اتنی تو دنیا کی آبادی نہیں.میں نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ اتنی تعداد میں دنیا میں احمدی مسلمان ہو جائے گا.میں یہ کہتا ہوں کہ جس طرح ایک نوے سال میں ایک کروڑ بن گیا اس ایک کروڑ کا اپنے اس مقصد میں کامیاب ہونا ناممکن نہیں کہ دنیا کی بڑی بھاری اکثریت اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لی جائے.تو کام تو ہر احمدی نے ہر حالت میں اپنے کرنے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اس لئے بھی کہ قرآن کریم نے بڑا زور دیا ہے اس بات پر کہ جو عہد کرو وہ پورا کرو.و اوفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسر آءیل : ۳۵) اگر نہیں کرو گے جواب طلبی ہو گی تمہاری اور خدا تعالیٰ جواب طلبی کرنے والا ہے.انسانوں سے تو آدمی دھوکہ بازی کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ سے نہیں کرسکتا.یہ مضمون تو بڑا وسیع ہے.بہت سی آیات میں اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن میں بوجہ اپنی بیماری اور کمزوری کے مختصراً اس طرف اس وقت توجہ دلا رہا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے، ایسا نظر آتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی فطرت میں دینِ اسلام نے صدق وصفا اور وفا کا مادہ دل کی گہرائیوں میں گاڑ دیا ہے.اس قدر وفا کرنے والی کوئی اُمت دنیا میں نہیں گزری.صدیاں ہو گئیں یہ اب پندرہویں صدی ہجری شروع ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک عہد کیا اس سے وفا کی.جب مسلمان کو تپتی دھوپ میں انگارے کی طرح گرم ریت کے ذروں پر لٹا کر،

Page 60

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء پتھر رکھ کر کوڑے مارے گئے تو اس کے دل سے اپنے رب کے لئے جو وفا کا جذبہ تھا اس جذبے سے یہ آواز نکلی احد احد کہ تم بت پرست غلطی پر ہو اللہ ایک ہی ہے.اللہ ایک ہی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق اور پیار کہ آپ کو تو کیا بھولنا تھا آپ کے ن پا کو بھی نہیں بھولے.قرآن کریم سے والہانہ محبت جس طرح چادر لپیٹ لی جاتی ہے اپنے جسم پر اس طرح اپنے وجود پر اس کی تعلیم کو، اس کے احکام کو لپیٹا.انگریزی کا محاورہ ہے.To Live Islam یعنی مسلمان ہو کے انہوں نے اپنی زندگی گزاری اور دینِ اسلام ان الدین عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ۲۰) دینِ اسلام سے اتنا پیار کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس طرح ایک بکرا مجبور ہو کر قصائی کی چھری کے نیچے اپنی گردن رکھ دیتا ہے اسی طرح ایک مسلمان بغیر کسی مجبوری کے برضاور غبت اپنی گردن اسلام کے احکام کے نیچے رکھ دیتا ہے.ایک ظاہری عیش والی زندگی پر موت طاری کرتا ہے اور ایک نئی روحانی زندگی حاصل کرتا ہے اپنے اللہ تعالیٰ سے.اس قدر وفا اُمت مسلمہ کے مزاج میں ہمیں نظر آتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے نہیں تھے جنہوں نے بے وفائی کی.میں یہ کہتا ہوں کہ اُمت مسلمہ نے بے وفائی کبھی نہیں کی.ایک زندہ درخت کی علامت یہ ہے کہ اس پر آپ کو مری ہوئی ٹہنیاں ملتی ہیں.ایک دفعہ جماعت میں فتنہ پیدا ہوا.ایک غیر احمدی اچھے بڑے زمیندار میرے واقف تھے ان کو جب پتا لگا تو تعلق بھی تھا، تعصب بھی تھا میرے پاس آگئے.کہنے لگے باتیں کر رہے تھے کالج کے باہر کے صحن میں کہ یہ کیا فتنہ شروع ہوا ہے.جو قریب ترین درخت تھا میں اس کے پاس ان کو لے گیا.میں نے کہا دیکھو اس درخت پر مری ہوئی ٹہنیاں آپ کو نظر آتی ہیں.کہتے ہیں ہاں.سامنے نظر کے ایک دو ٹہنیاں مری ہوئی تھیں.میں نے کہا یہ مری ہوئی ٹہنیاں اس درخت کی زندگی کی دلیل ہیں، اس درخت کے مردہ ہونے کی دلیل نہیں ہیں.آدمی بڑا ہشیار تھا.وہ کہتا مجھے مسئلہ سمجھ آ گیا.میں یہ کہتا ہوں کہ امت مسلمہ نے کبھی بے وفائی نہیں کی.ہر زمانہ میں اللہ تعالی کے ایسے مطہر بندے پیدا ہوئے جن کی تربیت اللہ تعالیٰ کے ( کیا میں کہوں ) دستِ شفا نے کی.جن کو

Page 61

خطبات ناصر جلد نهم ۴۷ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء روحانی طور پر اللہ تعالیٰ نے پوری صحت دی اور ان کے ذریعہ سے جگہ جگہ خالص اسلام، خالص اسلام پر چلنے والے ہمیشہ زندہ رہے.پھر یہ زمانہ آ گیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا جس مہدی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا تھا خدا مجھے کہتا ہے کہ میں وہی مہدی ہوں.آپ نے کہا میری صداقت کی بنیادی طور پر دو قسم کی دلیلیں ہیں.ایک قسم کی دلیلیں یہ ہیں کہ ہر وہ پیشن گوئیاں جو مہدی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں وحی کے ذریعے جو قرآن کریم کا حصہ بن گئیں یا جو احادیث صحیحہ میں پائی جاتی ہیں وہ ساری میرے زمانہ میں پوری ہو گئیں.جس سے ثابت ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت آج بھی انسان کو ماننی چاہیے کہ چودہ سو سال کے بعد آپ کی چودہ سو سال پہلے کی پیشگوئیاں پھر پوری ہو رہی ہیں.اور دوسری قسم کی پیشگوئیاں وہ ہیں جو آج مجھے اللہ تعالیٰ بتاتا ہے اور پوری ہو رہی ہیں.قیامت تک کے لئے، اس وقت بتایا یہ گیا ہے کہ انسانیت کی اکثریت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیضان کے نتیجہ میں آپ کے ایک عاشق زار، انتہائی پیار کرنے والے، آپ کے ایک جانثار، آپ کا کامل عکس بن کے جو آپ کے شاگردوں میں پیدا ہوئے مہدی، ان کی جماعت کے ذریعے دنیا کی بڑی بھاری اکثریت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی قائل ہوگی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی اور قیامت تک ( اور قیامت سے مراد ہمارے آدم علیہ السلام کی نسل پر جو قیامت آئی ہے ایک ہزار سال کے بعد وہ مراد ہے.یہ اپنا مضمون ہے علیحدہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر روشنی ڈالی ہے ) جماعت احمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس جھنڈے کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے بلند رکھیں گے اور اسلام کی سرحدوں پر بیدار اور چوکس رہ کر بدعات کو اسلامی تعلیم کے اندر داخل نہیں ہونے دیں گے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.بہر حال میں وفا کی بات کر رہا تھا.وفا کی اُمت مسلمہ نے کھجور کے درخت کے ساتھ جس کھجور نے غربت کے زمانہ میں ان سے وفا کی تھی.چند کھجوریں کھا کے گزارہ کر لیتے تھے ناصحابہ.

Page 62

خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء خطبات ناصر جلد نهم ۴۸ اس کھجور سے اس وقت بھی وفا کی جب سپین میں ساری دنیا کی دولتیں ان کے قدموں میں لا کے ڈال دی گئیں اور وفا کی اس گھوڑے کے ساتھ ، عرب گھوڑا.سارے محققین جنہوں نے گھوڑوں کے او پر تحقیق کی ہے وہ اس بات پر متفق ہیں کہ عرب گھوڑے کی ترقی کا انحصار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں دلچسپی اور اس کے متعلق آپ کے ارشادات پر ہے.میں نے مضمون اکٹھا کرنا شروع کیا تھا روایتیں تو وہ مسودہ ایک اچھی موٹی کتاب کی شکل اختیار کر گیا ہے.کہیں پڑا ہوا ہوگا.عرب گھوڑے میں یہ صفت ہے وفا، جو اس کے مالک میں وفاتھی نا کہ خدا تعالیٰ کے لئے جان دینا تو معمولی چیز ہے ساری زندگی دے دینا جو اب وقف کے نزدیک ہے نا تو چند لمحوں کی بات ہے نا جان دے دینا.لیکن ہر روز ہر آن خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان پیش کرتے چلے جانا یہ زیادہ بڑی قربانی ہے.جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مثال سے یہ واضح ہے.(اس مضمون میں نہیں جاؤں گا میں اس وقت ) گھوڑے میں بھی اپنے آقا کو دیکھ کر یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھ کر یہ وفا کا اور جاں نثاری کا مادہ پیدا ہوا.اتنا دلیر ہے میں نے بعض تصویریں دیکھی ہیں.جب انگریز شروع شروع میں ہندوستان میں آیا اور شمالی حصوں میں آیا تو سکھوں سے بھی انہوں نے بہت ساری لڑائیاں لڑیں تو اس میں سکھ بھی عرب گھوڑے پر سوار نظر آتا ہے اور انگریز افسر بھی عرب گھوڑے پر سوار نظر آتا ہے اور عرب گھوڑا نیزے کی آنی کے اوپر چھلانگ لگا تا ہے.اس کو کوئی خوف ہی نہیں ہے.اس کو صرف یہ ہے کہ میں اپنے مالک کی خاطر آج جان قربان کر دوں اور اتنی وفا کی گھوڑے نے اُمت محمدیہ کے ساتھ ، اُمت مسلمہ کے ساتھ اور اتنی وفا کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبق دینے کے لئے اپنی امت کو بھی اور خود بھی اللہ تعالیٰ کا حکم تھا گھوڑے کے ساتھ کہ ایک دن نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم ( وہ اس زمانے میں گھوڑوں نے بڑا کام کیا وہ اپنا ایک لمبا مضمون ہے ) خود اس کی صفائی کر رہے تھے اور مالش کر رہے تھے.بعض صحابہ گزرے انہوں نے کہا یہ کیا ظلم ہو گیا.دل میں کہا انہوں نے کہ ہمارے ہوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا تکلیف اٹھا رہے ہیں.آپ چلے گئے پاس کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑیں ہم کرتے ہیں.آپ نے کہا نہیں، مجھے خدا تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ.

Page 63

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء تم نے غفلت برتی ہے اپنے گھوڑے سے اس کو کرنی چاہیے تھی Massage.باوفا گھوڑا ہے.آج کل اور پرسوں اسی وفا کے اظہار کے لئے جماعتِ احمد یہ یہاں گھوڑوں کی بعض دوڑیں اور نیزہ بازی وغیرہ کی کھیلیں یعنی ایسی کھیلیں جو مفید ہیں اور نمائش ان کی اور یہ کہ گھوڑے جو ہیں وہ کتنا پیار کرنے والے ہیں یہ سارا کچھ سکھانے کے لئے یہاں ہوگی.بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں سوچتے ہی نہیں.پندرہ سو سال سے اُمّتِ مسلمہ گھوڑے سے اس لئے پیار کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے گھوڑے کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کے ماننے والوں کا پیار رکھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کے دل میں وفا ، وفا کی جو خاصیت ہے، جو جذ بہ ہے، جو صفت ہے اس کو اس طرح گاڑ دیا کہ وہاں سے جاہی نہیں سکتی اور عرب گھوڑے اور ہر دوسرے گھوڑے میں بھی فرق آپ کو نظر آئے گا کیونکہ بعض ایک عرب گھوڑی خالص بھی دیکھیں گے آپ اور پچاس فیصد عرب بھی، شکل بدل جاتی ہے اس کی پچھتر فیصد.عرب اتنا پیار کرتا ہے کہ یہاں ہمارے پیچھے بھی ہیں کچھ گھوڑے.میں اگر باہر نکلوں تو ڈیوڑھی میں میرے پاؤں کی آواز سن کے ( کان بڑے تیز ہیں گھوڑے کے ) اس وقت وہ اپنا کھانا چھوڑ کے اور کھڑکیوں کے اوپر منہ نکال کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک انگریز نے لکھا ہے کہ ہم سے ہمارا گھوڑا اتنا پیار کیوں نہیں کرتا جتنا عرب میں عرب کے مسلمانوں سے کرتا ہے.تو یہ سوال کر کے اور اس نے کہا ہے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ جو عرب اپنے گھوڑے سے پیار کرتے ہیں ہم اپنے گھوڑے سے وہ پیار نہیں کرتے.وہ بھی ہم سے نہیں پیار کرتے.یعنی اتنی اس کو سمجھ اور پیار دیا ہے کہ انگریزوں نے جو بہر حال متعصب ہیں وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اتنا پیار کرتا ہے عرب اپنے گھوڑے سے عرب گھوڑا اپنے مالک سے کہ اگر چھ سات سال کا بچہ تین سال کی بہن کو بغیر کاٹھی ڈالے، بغیر لگام کے، بغیر رسے سے بندھے ہوئے کے ان کے خیموں کے پاس ہی جہاں وہ ڈیرہ ڈالتے ہیں بدو سردار شیخ وہ پیٹھ کے اوپر بٹھا دے تین سال کی بہن کو تو جب تک وہ بہن او پر بیٹھی رہتی ہے وہ اپنا پاؤں بھی نہیں ہلاتا کہ کہیں یہ نیچے نہ گر جائے.یہ تو ہوا نا گھوڑے اور انسان کا رشتہ لیکن اس کے اندر جو پیار خدا تعالیٰ کا ہمارے لئے جھلک

Page 64

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء رہا ہے اس کو بھی تو سوچو - سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٤) کہا گیا تھا.تو یہ چیزیں ہمیں بتاتی ہیں نا کہ کس طرح انسان کے ساتھ تعلق فطرتِ اشیائے عالمین جو ہے وہ اس کے اندر رکھ دیا گیا ہے اور ہم جو ہیں.چھوٹی سی بڑی اہم بنیادی چیز آخر میں میں کہتا ہوں.ہم احمدی جو ہیں ہم دینِ اسلام کے فدائی ہیں.ہمارا دین اسلام ہے.احمدی ایک امتیازی نشان ہے جو ہماری جماعت اور ہمارے فرقہ کو نمایاں کرتا ہے دوسروں سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ احمدی فرقہ کے مسلمان یا احمدی مذہب کے مسلمان.آپ نے مذہب کا لفظ استعمال کیا ہے اس کی میں وضاحت ابھی کر دیتا ہوں.مذہب اور چیز ہے اور دین اور چیز ہے.قرآن کریم نے اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ٢٠) فرمایا ہے.مذہب خدا کے نزدیک ، اسلام نے نہیں فرما یا کہیں بھی.مذہب لغوی لحاظ سے اعتقاد کو کہتے ہیں اور لغت میں لکھا ہے کہ فقہ کے لحاظ سے چار مذاہب اسلام ہیں.اسلام تو ، دین تو ایک ہی ہے نا، تو انہوں نے کہا ہے مذاہب اربعہ اسلام کے.حنفی، شافعی ، حنبلی اور مالکی.تو مذہب کہتے ہیں عقیدہ کو ، اعتقاد کو، عقیدہ مختلف جہتوں سے ہوتا ہے.فقہی لحاظ سے مختلف العقیدہ مسلمان پائے جاتے ہیں.بعض وہ ہیں جو امام ابو حنیفہ کی فقہ کو مانتے ہیں.بعض وہ ہیں جو امام ابوحنیفہ کی فقہ کو نہیں مانتے بلکہ امام شافعی کی فقہ کو مانتے ہیں.بعض وہ ہیں جو امام شافعی کی فقہ کوبھی نہیں مانتے یعنی امام شافعی کے مذہب پر نہیں وہ فقہی مذہب پر بلکہ امام مالک کے مذہب پر ہیں وہ، جہاں تک فقہ کا تعلق ہے.بعض وہ ہیں جو امام مالک کے مذہب کو بھی نہیں مانتے.وہ امام احمد بن حنبل کے فقہی مذہب پر ہیں.تو اس لحاظ سے جو احمدی مذہب کے مسلمان ، احمدی فرقہ کے مسلمان.احمدی مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام کو بدعات سے صاف کر کے اسلام پر عمل کرنا.یہ ہے ہمارا عقیدہ یعنی ہم بدعات کو برداشت نہیں کرتے.ہمیں اپنے رب سے خلوص کا تعلق چاہیے.ہمیں خالص دینِ اسلام چاہیے.یہ جود باؤ شیطانی ہے نا انسانی زندگی کے اوپر وہ زمانہ کے ساتھ بدعات کو بیچ میں لے آتا ہے اور چوکس رہ کے زندگی گزارنی چاہیے.ایک تکلیف دہ بات آج ہی میں نے سنی کہ منع کیا تھا ہم نے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے

Page 65

خطبات ناصر جلد نهم ۵۱ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء ہمارے معاشرے میں بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور اس واسطے جب شادی ہو تو لڑ کی والے کھانا نہ کھلا ئیں.مجھے کسی شخص نے کہا کہ ابھی پیچھے جیسے دو شادیاں ربوہ میں ہوئی ہیں جب لڑکے والوں نے زور دے کر لڑکیوں سے کھانا جو ہے وہ اس کا مطالبہ کیا اور کھانا کھایا ان کے گھر.تو آج کوئی یہ برائی بیچ میں لاؤ گے کل کو کوئی اور برائی لاؤ گے.پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پھر وہ لوگ، وہ لوگ جو اپنی بزرگی اور فضیلت تقویٰ پر نہیں رکھیں گے بلکہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر دعوتوں کی وسعت اور ان کے کھانے کی اچھائی کے اوپر رکھا کریں گے وہ آپ کے اندر پیدا ہو جائے گی.خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت اس دنیا میں اپنے فضلوں کا اس وقت وارث بنانا ہے.جب جماعت بحیثیت جماعت اپنی کثرت کے لحاظ سے، اپنی گہرائیوں کے لحاظ سے، اپنے اندر ایک ٹھوس اسلامی زندگی گزارنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے وہ ہوں جو خالص دین اسلام پر چلنے والے ہوں اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والے ہوں اور انسان انسان میں فرق نہ کرنے والے ہوں.چاہے وہ انسان ہو جو اپنی بیٹی کی شادی پر ایک جوڑے کے علاوہ اس کے خاوند کو کچھ نہیں دے سکتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس ایک نہایت بدصورت نوجوان آیا ایک دن اور کہنے لگا یارسول اللہ کیا جنت میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں.آپ نے کہا کیوں کیا ہو گیا تمہیں.کہنے لگا کہ جس سے بھی میں رشتہ تجویز کرتا ہوں اس کو Proposal ( پروپوزل ) اپنے رشتے کی بھیجتا ہوں وہ انکار کر دیتے ہیں میری شکل دیکھ کے.تو اگر میں نے جنت میں نہیں جانا.اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر تقویٰ نہیں ہے میرے اندر تو پھر تو اور بات ہے لیکن اگر تقویٰ ہے تو صرف شکل دیکھ کے انکار کر دینا یہ تو ٹھیک نہیں ہے اسلام کی رو سے.آپ نے کہا تو نے جنت میں کیوں نہیں جانا.اگر ایسے اعمال بجالائے جو خدا تعالیٰ قبول کر لے تو جنت میں جائے گا.ایسی حرکتوں کے نتیجے میں تیرے لئے تو جنت کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور جا.ایک لڑکی تھی جو سارے مدینہ میں اپنے حسن اور خوبصورتی کی وجہ سے شہر کی سب سے زیادہ حسین لڑکی قابل شادی تھی.آپ نے کہا اس کے گھر جاؤ اور دروازے پر دستک دو.اگر اس کا باپ گھر میں ہو اور پوچھے کہ کون ہو تو تم اسے

Page 66

خطبات ناصر جلد نهم ۵۲ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء سلام کہو اور دروازہ کھولو اور اندر چلے جاؤ اور کہو کہ میں آرہا ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کے.آپ نے میری منگنی ( ہماری آج کل کی زبان میں ہوگی ) تیری بیٹی سے شادی کر دی ہے یعنی منگنی کر دی شادی کی.وہ تو سیخ پا ہو گیا.اس نے کہا کہ تو جھوٹ بولتا ہے اور یہ وہ.اور چل پتہ لیتے ہیں.اٹھ کر جانے لگا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں پتہ لیتا ہوں.اس کی وہی بیٹی خوبصورت ترین وہاں اندرسن رہی تھی دوسرے کمرے میں.اس نے باپ کو بڑا ڈانٹا.اس نے کہا یہ حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر تمہیں یہ پیغام دے رہا ہے اور تم اس قسم کی باتیں کر رہے ہو.میں اس سے شادی کروں گی.مگر خدا تعالیٰ نے اس کے جنت میں جانے کا بھی انتظام کیا تھا اور لڑکی نے جو نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا کہ سارے انسان برابر ہیں ان میں فرق نہیں کیا جاسکتا.نہ ان کی شکلوں کو دیکھ کے فرق کیا جاسکتا ہے نہ ان کے کپڑوں کو دیکھ کے فرق کیا جاسکتا ہے، نہ ان کے کھانوں کو دیکھ کے فرق کیا جاسکتا ہے کہ ایک زمیندار سرخ مرچ کی چٹنی پیس کے روٹی کھا رہا ہے اور دوسرا صبح شام پلاؤ زردہ اور Roast (روسٹ ) مرغ کھا رہا ہے کوئی فرق نہیں ہے.مختصر یہ کہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا آپ نے کہا اب تو شادی کے لئے تیاری کر لے.آپ نے کہا تیرے پاس کچھ پیسے ہیں اس نے کہاہاں ہیں کچھ پیسے.آپ نے کہا تو پھر تم اپنی بری بناؤ ( بری جس کو ہم کہتے ہیں ) یعنی اپنی ہونے والی بیوی کے لئے کوئی سامان خرید و.شام پڑ گئی اس دن تو وقت نہیں تھا کچھ خریدنے کا.شام کو اعلان ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جارہے ہیں کسی غزوہ پر اور مسلمان جو ہیں وہ اپنے ہتھیار لے کے اور تیار ہو جا ئیں جانے کے لئے.اگلے دن صبح یہ شخص اپنی شادی کی بری خریدنے کی بجائے جو اس کے پاس پیسے تھے اس نے ایک تلوار خریدی، اس نے ایک نیزہ خریدا اور سامان خریدا غزوہ کے لئے ، جان دینے کے لئے اور اس خیال سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر مجھے دیکھ لیا تو کہیں واپس نہ کر دیں دو دن آپ کے سامنے ہی نہیں ہوا.سینکڑوں آدمی روانہ ہو گئے.تیسرے دن سامنے آیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو تجھے وہاں چھوڑ کے آیا تھا شادی کر.تو یہاں کہاں آ گیا.کہنے لگا یا رسول اللہ.آپ جنگ پر جارہے ہوں اور میں

Page 67

خطبات ناصر جلد نهم ۵۳ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء پیچھے رہ جاؤں یہ کیسے ہو سکتا تھا.تو میں تو یہ جو میرے پاس پیسے تھے میں نے تلوار خریدی ، میں نے نیزہ خریدا میں آ گیا ہوں.پھر وہ جنگ میں شامل ہوا اور وہاں شہید ہو گیا اور جنت میں چلا گیا اور اس لڑکی کی قربانی کو بھی خدا تعالیٰ نے منظور کیا جو اس طرح تیار ہو گئی تھی.اس کے دل میں کچھ خلش تو رہتی شاید، اس ابتلا میں خدا تعالیٰ نے اسے نہیں ڈالا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چونکہ اعلان کر چکا ہوں کہ اس سے شادی ہوگی اس واسطے اس کا جو سامان ہے،معلوم ہوتا ہے اس کے اور ورثاء کوئی نہیں تھے ، یہ اس بچی کو بھیج دو جس سے شادی ہوئی تھی.تو یہ بدعات نہ گھسنے دیں اپنے اندر.ورنہ میں مجبور ہوں گا کہ اپنے اندر سے آپ کو نکال دوں.اگر آپ بدعات میں ملوث ہونا چاہتے ہیں تو جماعت احمدیہ کی حدود سے باہر نکل کے ہوں شامل، جماعت احمدیہ میں رہ کر نہیں.آپ اس قسم کی بدعات میں آہستہ آہستہ آہستہ خرابی ہو کے وہ حشر ہو گیا اسلام کا کہ آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.قرآن کریم نے Warning ( وارننگ ) دی تھی ، انتباہ کیا تھا وَ مَا يُؤْ مِنْ أَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (یوسف: ۱۰۷) کہ ایسے لوگ بھی اُمت مسلمہ میں پیدا ہو جائیں گے کہ جو ایمان کا دعوی بھی کریں گے اور شرک کی حرکات بھی ، اعمال بھی بجالائیں گے.قبروں پر سجدے ہو گئے ، ادھر منہ کر کے نمازیں پڑھنی شروع کر دیں ناسمجھ لوگوں نے لیکن ان کے لئے کوئی عذر تھا.کوئی ان کو ڈانٹنے والا سمجھانے والا ، کوئی پیار سے ان کو راہ راست کی طرف لانے والا نہیں تھا.یہ قصہ ختم ہو گیا ہے اب.اب تو مہدی آگئے.اب تو مہدی کے نائبین کا ،خلفاء کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور جب تک خدا چاہے اور ہماری دعا ہے کہ خدا قیامت تک یہی چاہے یہ سلسلہ جاری رہے اور اُمت مسلمہ نوع انسانی کی شکل میں خالص اسلام پر قائم رہتی ہوئی اس دنیا میں ایک جنت پیدا کرنے والی اور اس دنیا کی جنت کے پھل کھانے والی ہو.آمین.تو آپ اپنے بچوں کو یہ کہا کریں.بڑے ہمارے تیز ہیں بچے.کوئی بھی پوچھے ان سے تو کہیں گے ہم احمدی.آدھی بات صحیح ہے.ہر احمدی بچے سے جب پوچھا جائے تو اپنی احمدیت کو وہ نہ چھپائے لیکن ہمارا دین، دین اسلام ہے.اس واسطے وہ کہے.میں احمدی مسلمان ہوں.ہر

Page 68

خطبات ناصر جلد نهم ۵۴ خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۸۱ء بڑا، بچہ، مرد و عورت، جو بھی پوچھے تمہارا مذہب کیا ہے یا تم کون ہو وہ کہے میں احمدی مسلمان ہوں کیونکہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پسند فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 69

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ نوع انسانی کو تباہی سے بچانے کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی وجہ سے ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ نوع انسانی کو ، ساری دنیا کو اس تباہی سے بچانے کی کوشش کریں جس کی طرف وہ بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں.اس قدر مشکل ہے یہ کام اور اس قدر عظیم کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو یہ فریضہ انجام نہیں دیا جا سکتا.خدا تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لئے قرآن عظیم نے جو ہمیں تعلیم دی اس کی پہلی شق یہ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے پاک اور مطہر ہو کیونکہ اللہ پاک ہے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے.اس لئے گناہ جو ہیں جو انسان کو اللہ سے دور لے جانے والے ہیں یا تو وہ سرزد نہ ہوں.اگر سر زد ہوں تو اللہ تعالیٰ سے رحمت اور فضل حاصل کیا جائے یا قرآن کریم نے ایسا راستہ بتایا ہو کہ وہ گناہ معاف ہو سکیں کیونکہ جو گند میں ملوث اور ناپاک وجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث نہیں ہو سکتا لیکن یہ تو بنیادی منفی حصہ ہے ہماری زندگی کا.دوسری شق اس کی یہ ہے کہ ہمارے اعمال خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق اتنا حسن اپنے اندر رکھتے ہوں اور اتنا نور

Page 70

خطبات ناصر جلد نهم ۵۶ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء کہ وہ جو نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) ہے وہ ہمیں اور ہماری کوششوں کو پسند کرنے لگے.قرآن کریم نے ان دو پہلوؤں پر ان آیات میں روشنی ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ الشوریٰ میں فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ.121 b وَ يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَ يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَ الْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شديد - (الشوری: ۲۶، ۲۷) یہ جو دو آیات ہیں ان میں سے پہلی آیت میں اس پہلی شق کا ذکر ہے.اس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے معصوم نہیں یعنی ان کی فطرت ایسی نہیں جو فرشتوں کی ہے کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( التحریم : ۷) جو حکم ہو وہ بجالائیں ان سے غلطی سرزد ہوتی ہے، وہ گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں.فطرتِ انسانی ایسی بنائی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ دونوں راہیں اس کے لئے کھولی ہیں لیکن جو اللہ کا بندہ ہو وہ غلطی کرنے کے بعد تو بہ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور جب وہ خدا کے حضور عاجزانہ جھکتا اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے اور اس سے مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے اور اپنے خدا سے کہتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تیرے سوا مجھے کوئی بخشنے والا نہیں.تیرے سوا مجھے کوئی پاک کرنے والا نہیں.قرآن کریم نے ( دوسرا مضمون ہے اشارہ کر دوں یہ فرمایا ہے کہ تزکیہ کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ) اس لئے میرے گناہ کو معاف کرے.وَ يَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ ایک حصّہ سیئات کا اس طرح اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے لیکن جو گناہ اور سیئات ہیں اور جو غلطیاں انسان سے سرزد ہو جاتی ہیں ، خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنے کا وہ مرتکب ہوجاتا ہے.یہ برائیاں جو ہیں انہیں دوطریقے سے دور کیا جا سکتا ہے قرآنِ عظیم کی تعلیم کے مطابق.ایک یہ کہ إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: ۱۱۵) اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو تو ساری کی ساری برائیاں جو ہیں وہ دور ہو جاتی ہیں.مگر کون انسان ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ میری نیکیوں کا پلڑا ستیات سے بھاری ہے.اس واسطے ایک حصہ تو نیکیوں کے نتیجہ میں جن کی اللہ تعالیٰ سے انسان تو فیق پاتا ہے.اس طرح دور ہوجاتا ہے اور جو رہ جاتی ہیں باقی وہ توجہ کے نتیجہ میں وَ يَعُفُوا عَنِ السَّيَاتِ اللہ تعالیٰ ان سیئات کو دور کر دیتا ہے.

Page 71

خطبات ناصر جلد نہم ۵۷ خطبه جمعه ۲۰ مارچ ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ خدا سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی جاسکتی.اس واسطے ہر کام میں خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے.انسان انسان کو دھوکہ دے سکتا ہے.انسان اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کو دھوکہ نہیں دے سکتا.اور دوسری شق یہاں یہ بتائی کہ وہ جو ایمان لائے اور اس کے مطابق انہوں نے اعمالِ صالحہ کئے اور ان روحانی اور اخلاقی تدابیر کے بعد انہوں نے یہ سمجھا کہ محض ہماری کوشش کافی نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہمارے اعمال کے ساتھ شامل نہ ہو اور انہوں نے دعا کی کہ اے خدا! ہزار کیڑے ہیں ہمارے اعمال میں، تو ان کیڑوں کو قتل کر دے.ہزار کمزوریاں ہیں ہمارے افعال میں اور نیکیوں میں، وہ بھی جو ہم جانتے ہیں اور وہ بھی جو ہم نہیں جانتے ، تو ایسا کر کہ ہمارے اعمال تیری نگاہ میں مقبول ہو جا ئیں.تو يَسْتَجِيبُ وہ دعا کرتے ہیں خالی ایمان اور عمل صالح کو کافی نہیں سمجھتے.وہ دعا کرتے ہیں اور دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اور ان کے اعتقادات صحیحہ کو قبول کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کافی نہیں ہے.اس مقام کے حصول کے لئے جس مقام پر اللہ تعالیٰ لے جانا چاہتا ہے یعنی آسمانی رفعتوں کی طرف اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان تک پہنچانا چاہتا ہے مسلمان کو.اس کا ایمان باوجود پختہ ہونے کے اور اعتقادات صحیحہ ہونے کے اور اس کی کوشش اعمالِ صالحہ کی ہے اور اعمالِ صالحہ وہ بجالا رہا ہے اپنی طرف سے یہ کافی نہیں.وہ دعا مانگتا ہے کہ اے خدا ! میرے اعتقادات میں، میری سمجھ میں اگر کوئی خامی ہے تو اسے نظر انداز کر دے اور اگر کوئی کمزوری ہے میرے اعمالِ صالحہ میں تو اسے ڈھانپ دے مغفرت کی چادر میں اور دعا کرتا ہے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور اس کے فضل اور رحمت کو جذب کر لیتا ہے اور اس کے اعمال مقبول ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مقبول اعمال کے باوجود پھر بھی کچھ کمی رہ گئی.وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ان اعمال مقبول سے کچھ زائد دیتا ہے اللہ تعالی.تب جا کے مقصود حاصل ہوتا ہے یعنی حسنات جو ہیں وہ جتنی ستیات مٹا چکیں اس سے زیادہ سیئات کو مٹانے کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ تو بہ کو قبول کرتا اور جتنی حسنات جس قدر سیئات مٹاسکی تھیں اس سے باقی جو رہ گئیں وہ تو بہ کے ذریعے مٹادی جاتی ہیں اور

Page 72

خطبات ناصر جلد نهم ۵۸ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء انسان ایمان پر پختگی سے قائم ہوتا اور اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور عاجزانہ دعائیں کرتا ہے کہ اے خدا! میری تد بیر تو ایک بچے کی تدبیر ہے تیرے حضور.تیری رفعتوں کو دیکھتے ہوئے تیری عظمتوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے کوئی چیز نہیں ہیں یہ اعمال، اس واسطے اپنے فضل سے ان کو قبول کر.پھر خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کو وہ جذب کرتا اور خدا تعالیٰ اپنے مومن بندے کو پاک اور مطہر کرتا ، اس کے اعمال مقبول کر لیتا ہے لیکن یہاں اس طرف اشارہ ہے وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِہ اس کے علاوہ اس کو کچھ اور بھی چاہیے اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے لئے اور اللہ تعالی محض اپنے فضل سے اس کو وہ دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا فضل بندے کے ایمان اور عمل صالحہ کے علاوہ اسے ملنا چاہیے تا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سے.وَالْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ لیکن جو انکار کرنے والے ہیں ان کو ان کے اعمال کے مطابق اگر وہ چاہے تو عذاب دے گا زیادتی وہاں نہیں ہوگی.میں نے بتایا ہے کہ یہ ذمہ داری کہ ساری دنیا کو ہلاکت سے بچانا، ساری دنیا کو پیار اور محبت کے ساتھ ، ان کو قائل کر کے اپنے عمل کے ساتھ ، اپنے نمونہ کے ساتھ ، قرآن کریم کے حسن کے ساتھ اللہ کے دین میں داخل کرنے کی کامیاب کوشش کرنا اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جھنڈے تلے انہیں جمع کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے.اس کے لئے جیسا کہ یہاں بتایا گیا کثرت سے تو بہ کرنا ہے.مغفرت خدا کی چاہنا ہے.ایمان میں پختگی چاہیے.ایک ایمان یہ ہے جس کی ابتدا محض زبان کے اقرار سے ہوتی ہے.ایک ایمان ہے جس کی وسعتوں کو انسان کا دماغ بڑے غور اور فکر اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے.پہلے دن اس کو پتہ ہی کچھ نہیں ہوتا کہ ایمان ہے کیا چیز.میں نے پہلے بھی کہا کہ حقیقی ایمان نے ہم میں سے ہر ایک کے سارے جو افعال ہیں ان کو گھیرا ہوا ، ہماری جتنی قوتیں اور استعداد میں ہیں ساروں کا اس نے احاطہ کیا ہوا ہے اور کہتا ہے یہ کرو یہ نہ کرو.سب کچھ کرنے کے بعد مقبول اعمال کے ہوتے ہوئے بھی کچھ اور چیز چاہیے وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ.یہ فضل کے نتیجے میں جو زیادتی ہے مقبول اعمال پر یہ رحیمیت کا جلوہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی جو صفت رحیمیت ہے وہ وَ يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ کے دائرے

Page 73

خطبات ناصر جلد نهم ۵۹ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء کے اندر اپنا کام کر رہی ہے جو نقص ہیں ان کو دور کر دیتی ہے صفت رحیمیت لیکن محض رحیمیت کے جلوے تو ہمیں وہاں تک نہیں پہنچا سکتے جہاں تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم پہنچیں.جب تک وہ رحمن خدا جس نے ہماری پیدائش کے وقت بغیر کسی عمل کے ہمیں بہت کچھ دیا اتنا د یا کہ ہم شمار نہیں کر سکتے اس کا.ہمیں کہا گیا کہ اس کا در کھٹکھٹاؤ اور اس سے وہ حاصل کرو جو تمہارے مقبول اعمال سے زیادہ ہے کیونکہ محض مقبول اعمال ہی کافی نہیں ہیں تب تم اپنی ذمہ داریاں نباہ سکو گے.اب آج کی دنیا کی طرف اگر آپ دیکھیں تو یہ تباہی کی طرف جارہی ہے ایک میں مثال دیتا ہوں.آج کی دنیا خود کو مہذب کہتی ہے اور اس تہذیب کا ایک لازمی جز اور حصہ یہ ہے کہ یہ مہذب دنیا Strike ( سٹرائیک) کرتی ہے یعنی کام چھوڑ بیٹھتی ہے اور میرا خیال ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرا خیال غلط نہیں، اربوں ارب روپے کا سالانہ نقصان کرتی ہے.یہ مہذب دنیا.اس مثال سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ایک دفعہ انگلستان میں ایک صنعتی شہر میں سترہ منٹ کے لئے بجلی فیل ہو گئی.سترہ منٹ کے لئے بجلی فیل ہوئی، سارے انگلستان کے اخباروں نے شور مچایا.چیخ پڑے جس طرح کوئے چیختے ہیں نا اس طرح اور ان کے جو ماہرین اقتصادیات تھے انہوں نے اندازے لگائے کہ اس سترہ منٹ میں اتنے کروڑ پاؤنڈسٹرلنگ کا نقصان ہو گیا ہمارے ملک کو.تو جب کا رخانے بند ہوتے ہیں مہینہ، دو مہینے، تین مہینے ، چار مہینے کے لئے کتنا نقصان ہوتا ہوگا.اربوں کھربوں روپے کا نقصان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مہذب ہیں.بعض جانوروں کے متعلق آتا ہے کہ ان کے اگر زخم لگ جائے تو اپنا ہی خون چوسنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنا ہی خون چوس چوس کر مر جاتے ہیں.سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی بھلائی کا کام کر رہے ہیں اور دراصل وہ خود کشی ہے.اس مہذب دنیا کو کس نے سمجھانا ہے اگر آپ نے نہیں سمجھانا کہ اس گند سے باہر نکلو.ہمیں بھی تھوڑا سا نقصان پہنچا نقصان تو نہیں تھوڑی سی دیر ہوگئی.میں بنیادرکھ کے آیا تھا قرطبہ کی مسجد کی اس کے بعد پھر آرکیٹیکٹ کے کام تھے، معاہدہ جو ٹھیکیدار کے ساتھ کرنا تھا اس میں بھی وقت لگتا ہے یہ معاہدہ تیار ہوا اور ۱۲ جنوری کو اس معاہدے پر دستخط ہو گئے.۱۲؍ جنوری حضرت مصلح موعود کا یوم ولادت بھی ہے.۱۲ جنوری کے ساتھ بعض دیگر برکتوں والے واقعات کا تعلق تھا.دو چار دن

Page 74

خطبات ناصر جلد نهم ۶۰ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء پہلے ہو سکتا تھا معاہدہ مگر کرم الہی صاحب ظفر نے کہا نہیں میں ۱۲ جنوری کو کروں گا اور ہمارا خیال تھا کہ اس کے بعد ایک مہینہ ٹھیکیدار کو لگے گا.وہاں بجلی کا کنکشن لینا ، پانی لینا ، بعض نالیاں پانی کی بدلنے والی تھیں.ہم نے مختلف قطعے تین آدمیوں سے لئے تھے ہر ایک کے لئے علیحدہ نالی آرہی تھی ان نالیوں کو اٹھا کے دوسری جگہ لے کے جانا اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کام ہمارا خیال تھا ایک مہینہ لگے گا اور فروری کے شروع میں کام شروع ہو جائے گا لیکن وہاں ہوگئی Strike ( سٹرائیک ) ہر ہفتے میں نے ان کو کہا تھا مجھے خط لکھیں مجھے خط لکھ رہے تھے کہ سٹرائیک نہیں دور ہوئی.کام نہیں شروع ہوا ۱۲ مارچ کو ان کا خط آیا کہ سٹرائیک دور ہو گئی ہے اور ٹھیکیدار کہتا ہے کہ آٹھ دس دن کے اندر کام شروع کر دوں گا.اب تار آئی ہے کہ تعمیر شروع ہو گئی الحمد للہ.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو توفیق دے نیز اس قوم کو توفیق دے کہ کام چھوڑ کر اپنا نقصان نہ کیا کریں.اس کا معاہدہ یہ ہے کہ دس مہینے زیادہ سے زیادہ گیارہ مہینے میں مسجد اور رہائشی مکان جو ہے مشن ہاؤس جس کو ہم کہتے ہیں وہ تیار کر دے گا.انشاء اللہ تیار ہو جائے گا یعنی اتنے سامان ہیں ان کے پاس.یہ جو دو چار ہفتے کی تاخیر ہوئی اس نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ بڑے مہذب بھی ہیں اور سٹرائیک بھی کرتے ہیں؟ اس واسطے کہ یہ مہذب دنیا اپنے عوام کو یہ بات منوا نہیں سکی کہ یہ تہذیب ان کے حقوق کی حفاظت کر رہی ہے اور ان کے آرام اور سہولت کے سامان پیدا کر رہی ہے.تبھی ان کو لڑنا پڑتا ہے نا اپنے حقوق کے لئے جس کے نتیجے میں اربوں کھربوں ڈالر اور پونڈ کا نقصان ہو رہا ہے ساری دنیا میں.انگلستان میں سٹرائیک ہولاری چلانے والے ڈرائیوروں کی تو سارا انگلستان خاموش کھڑا ہو جاتا ہے اور سامان ادھر سے ادھر نہیں جا رہا.وہاں تو ( یہاں تو ہمارے چھوٹے چھوٹے کارخانے ہیں) ایک ایک ٹیکسٹائل مل کپڑے بنانے کا کارخانہ ہے اس میں دس دس ہزار، پندرہ پندرہ ہزار ہیں ہیں ہزار مزدور کام کر رہا ہے.دو دو مہینے کام رکا ہوا ہے اور جھگڑا چل رہا ہے مہذب دنیا میں تم نے ایسا معاشرہ کیسے برداشت کر لیا.اگر مہذب دماغ تھا، اگر پڑھا ہوا ، اگر ہدایت یافتہ دماغ تھا اس حصّہ انسانیت کا تو یہ برداشت کیسے کر لیا کہ اتنا نقصان اپنے ملکوں کو پہنچا دو لیکن نقصان پہنچ رہا ہے.

Page 75

خطبات ناصر جلد نهم ۶۱ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۸۱ء میں ان کو سمجھاتا ہوں جب بھی باہر جاتا ہوں دورے پر ( کہ جب تک ) اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کرو گے یہ مصائب جو تمہارے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ان سے نجات نہ پاسکو گے.روحانی اور اخلاقی لحاظ سے تو وہ دیوالیہ ہیں ہیں.وہ آپ اسے مانتے ہیں لیکن مادی لحاظ سے بھی تم دیوالیہ ہو عملاً.اور یہ آپ نے جا کے سمجھانا ہے.اس واسطے میں نے بڑا سوچا ایک منٹ کے لئے بھی ہم سو نہیں سکتے اگر ہم اپنی ذمہ داری سمجھنے والے ہوں.تو چوکس اور بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہو تو بہ کرو تا حسنات سے جو بڑھ گئی ہیں تمہاری سیئات وہ خدا تعالیٰ معاف کر دے تو بہ کے نتیجہ میں.اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے ایسے سامان پیدا کرے کہ جو ہم حقیر سے اعمال ، اعمالِ صالحات اس کے حضور پیش کر رہے ہیں وہ عظیم وجود جو ہے وہ ہستی اللہ جل جلالۂ وعزاسمہ جس نے سارے جہانوں کو پیدا کیا اور اس کی بادشاہت اور حکم ان میں چل رہا ہے وہ ہم عاجزوں کے اعمال کو قبول کرلے اور دعائیں کرو کہ اے خدا ! ہمارے حقیر جو اعمال ہیں وہ تو قبول بھی کر لے تب بھی ہم اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح نباہ نہیں سکتے جب تک تو زائد نہ دے جس کا تو نے وعدہ دیا ہے وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ تب آپ اس قابل ہوں گے کہ وہ ذمہ داریاں نباہ سکیں جو آپ کے کندھے پر ڈالی گئی ہیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد صحت دے ( کام تو میں اب بھی کر رہا ہوں ) تا اس سے بھی زیادہ کام کروں.آمین ( روزنامه الفضل ربوه ۵ را پریل ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 76

Page 77

خطبات ناصر جلد نهم ۶۳ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۱ء ہر احمدی یہ روح پیدا کرے کہ خدا کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں خطبه جمعه فرموده ۲۷ / مارچ ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیمیں بھی ہیں.انصار اللہ ہے.خدام الاحمدیہ مع اس کی شاخ اطفال الاحمدیہ کے اور لجنہ اماء اللہ مع اس کی شاخ ناصرات الاحمدیہ کے.ان ذیلی تنظیموں کے سپر دخلیفہ وقت نے بعض معین کام کئے ہیں اور امید رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ عمل میں حسن عمل پیدا کریں گی اور حسن عمل بہت حد تک پیدا کر بھی رہی ہیں لیکن انسانی زندگی میں ترقیات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں.(خطبہ کے دوران بعض دوست جو دوسروں کے سروں پر سے پھلانگ کر آگے آنے کی کوشش کر رہے تھے کی طرف اشارہ کر کے حضور نے فرمایا لوگوں کے سروں پر سے پھلانگ کے نہیں آنا چاہیے.ناقل ) اور اس کے لئے ایک مستقل عمل ، جد و جہد میں تسلسل قائم رکھا جاتا ہے رکھا جانا چاہیے.بعض دفعه بعض ممبران ان تنظیموں سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ چونکہ مثلاً خدام الاحمدیہ کی ایک تنظیم قائم ہے.اس لئے ماں باپ کی ساری ذمہ داریاں خدام الاحمدیہ کو سونپ دی گئی ہیں.انہیں اپنے بچوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں.یہ غلط ہے ان تنظیموں نے اپنے اپنے

Page 78

خطبات ناصر جلد نهم ۶۴ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۱ء دائرہ عمل میں کام کرنا ہے اور جو جماعت احمد یہ ہے اس نے بڑے وسیع پیمانہ پر اس مہم کے لئے تیاری کرنی ہے جو جماعت کے سپرد کی گئی یعنی اس زمانہ میں اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنا.خدام الاحمدیہ نگرانی کرتی ہے کہ نوجوان اور اطفال قرآن کریم کی طرف توجہ کریں.انہیں نماز آتی ہو.موٹے موٹے مسائل اطفال کو معلوم ہوں.ایک حد تک قرآن کریم پڑھانے کا انتظام بھی کرتے ہیں.یادر ہانیاں کراتے ہیں لیکن جہاں تک گھروں کے ماحول کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں کہ زید یا بکر یا عمرو کے گھر میں کس قسم کا ماحول ہے اور اس گھر میں کیا کوشش ہو رہی ہے اپنے بچوں کی تربیت کی ، ان کے دل میں خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنے کے لئے ، اسلام کی عظمتیں ان کے دلوں میں ڈالی جارہی ہیں یا نہیں.جو ذمہ داریاں والدین پر یا بڑی عمر کے عزیزوں اور رشتہ داروں پر اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں پر ہیں ان کی طرف توجہ دی جارہی ہے یا نہیں.خدام الاحمدیہ کو اس کا کیا علم.خدام الاحمدیہ کا تعلق تو ایک خاص دائرہ میں ہے اور اس وقت ہے جب گھر سے بچہ باہر نکلتا ہے.جب گھر میں ہوتا ہے تو خدام الاحمدیہ کو اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.خدام الاحمدیہ کو دین نے بھی اجازت نہیں دی نہ جماعت احمد یہ یہ اجازت دے سکتی تھی خدام الاحمدیہ کو کہ وہ گھروں کے اندر داخل ہوجائیں.اس کی اجازت تو عزیزوں کو بھی نہیں.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جاؤ اور دستک دو اور سلام کرو اور اجازت لو.اجازت ملے تو اندر داخل ہو نہیں تو واپس آجاؤ اور واپس آ جاؤ اسی میں تمہارے لئے تقویٰ کے حصول کی راہیں رکھی گئی ہیں.غصے سے واپس نہ آؤ کہ بڑے بداخلاق ہیں انہوں نے ملنے کی اجازت نہیں دی.وہ شخص بداخلاق ہے اسلامی نقطۂ نگاہ سے جسے اجازت نہیں ملی اور اس نے برا منایا کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ بُرا مناتے ہوئے واپس آ جاؤ.قرآن کریم نے کہا ہے کہ ہنسی خوشی واپس آجاؤ.تمہیں نہیں معلوم کہ وہ کس کام میں مشغول تھا اور اس وجہ سے تمہیں وہ نہیں مل سکتا تھا.انصار اللہ جو ہیں وہ انصار بھی ہیں.ان کی ذمہ داریاں اپنے دائرہ کے اندر گھروں سے باہر ہیں اور جماعت احمدیہ کے ایسے افراد ہونے کی حیثیت میں جو اپنی عمر کے لحاظ سے بڑے، تجربے کے لحاظ سے پختہ اور اگر لمبا عرصہ ان کا گزرا ہے احمدیت کی فضا میں تو علم بھی ان کا زیادہ

Page 79

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۱ء اور وعظ ونصیحت بھی انہوں نے زیادہ بار سنا ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی ماحول بنائیں اور اس بات کی ذمہ داری ہے ان کے کندھوں پر کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے گھروں میں تلاوت قرآن ہوتی ہے، قرآن کریم کا ترجمہ ان کے گھر میں جو ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے بچے بچیاں ہیں ان کو سکھایا جا رہا ہے، جو آج کی دنیا ہے اس کے متعلق بتایا جارہا ہے.جو نوع انسانی کی آج کی ضرورتیں ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دلائی جارہی ہے اور ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ آج کی دنیا کے مسائل سوائے اسلام کے کسی اور جگہ سے حل نہیں کروائے جا سکتے اور یہ ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.یہ ایک نسل کی ذمہ داری نہیں.اگر یہ کام ایک نسل پہ ختم ہوجا تا تو ہم خوش ہوتے کہ ایک نسل جو ہے ہماری عمر میں بڑی، اگر ان کی تربیت ہو جائے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے لیکن نسلاً بعد نسل نوع انسانی کو دائرہ اسلام میں داخل کر نا تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ٹھنڈے سائے تلے ان کی زندگیاں گزریں اور نوع انسانی کو قیامت تک اس قابل بنائے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی وہ وارث ہوتی رہے.یہ تو قیامت تک آنے والی نسلوں کی ذمہ داری ہے اور ہر بڑی نسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگلی نسل کے دل میں یہ جوش پیدا کرے کہ جہاں تک ہمارے بزرگ پہنچے تھے ہم اس سے آگے نکلیں، آگے نکلیں گے تو کام ہوگا کیونکہ کام میں زیادتی ہو رہی ہے.اندرونی تربیت کو ہی لے لو.جس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں پہلا جلسہ ہوا.غالباً ( صحیح تعداد مجھے اس وقت یاد نہیں ہے ) ستر کے قریب تھے افراد.چھوٹی سی جماعت تھی ، اس چھوٹی سی جماعت کی اندرونی تربیت مختصر تھی.اب ہمارے جلسے میں ڈیڑھ اور دولاکھ کے درمیان کا اندازہ ہے گزشتہ جلسے میں.پس ذمہ داریاں بڑھ گئیں.پہلے جس تعداد میں نئے احمدیت میں داخل ہونے والے تھے اس سے کہیں زیادہ اب داخل ہونے والے ہیں.بعض ایسے سال بھی گزرے ہوں گے.بعض دفعہ بڑا جوش بھی آیا طبائع میں لیکن بعض ایسے سال بھی گزرے ہوں گے کہ سارے سال میں جتنے نئے احمدیت میں داخل ہونے والے تھے اس سے زیادہ ایک مہینے میں بعض دفعہ ایک ہفتے میں ہو جاتے ہیں نئے احمدی.تو ایک احمدی کی

Page 80

خطبات ناصر جلد نهم ۶۶ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۱ء زندگی کے جو حالات ہیں ان میں عظیم تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.خاموشی کے ساتھ ہم اپنے راستوں پر چلتے ہوئے اپنی زندگی نہیں گزار سکتے ، چوکس اور بیدار ہو کر ہر اس اچھی تبدیلی (نوع انسان کے لئے جو آج پیدا ہو رہی ہے ) اس کو دیکھنا ، اس کو سوچنا، اس کے مطابق اپنے ذہنوں میں تبدیلی پیدا کرنا ، جو نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ان کو سلجھانے کے لئے تدابیر کرنا، قرآن کریم پر غور کرنا کیونکہ قیامت تک کے ہر نئے مسئلے کا حل قرآن کریم کے اندر موجود ہے اور خدا سے دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے علوم بڑوں کو بھی سکھائے اور نو جوان نسل میں بھی علم قرآنی کے حصول کا ایک جوش، ایک عشق، ایک جنون پیدا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں.گھر کا سولہ سال کا بچہ اپنے گھر میں یہ فضا نہیں پیدا کر سکتا.یہ تو باپ فضا پیدا کر سکتا ہے یا ماں فضا پیدا کرسکتی ہے یا وہ کرسکتا یاوہ بھائی پیدا کر سکتا ہے جو اپنی عمر کے لحاظ سے بڑا ہے مثلاً گھر میں بھائی ہے تیں، پینتیس، چالیس سال کا قریباً انصار کی عمر کو پہنچا ہوا ہے اور کچھ بھائی ہیں، پندرہ ،سولہ، بیس سال کی عمر کے جو ایسی عمر میں داخل ہو رہے ہیں جس میں غلط قسم گندی قسم کی دوستی کے بداثر کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے.ان کو اس وقت سنبھالنا، اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے.اگر اسلام اپنے ماننے والوں کا ربّ کریم کے ساتھ زندہ تعلق پیدا نہ کر سکتا تو اسلام کی ضرورت نہیں تھی نوع انسانی کو.نوع انسانی کو آج اسلام کی ضرورت اس لئے ہے کہ یہ ضروری ہے انسان کی اس زندگی کی خوشحالی کے لئے بھی (جو دوسری زندگی ہے اس میں تو بہر حال ہے) لیکن اس زندگی کی خوشحالی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں انسان کا ایک زندہ اور پختہ پیارکا اور فدائیت کا اور ایثار کا تعلق اپنے رب کریم سے پیدا ہو جائے.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَی کی انگوٹھی کا رواج ہے.ہم میں کہ اللہ ہی اللہ ، یہی معنے ہیں نا اس کے.اللہ بیلی، پنجابی میں کہتے ہیں.”مولا بس.یہ روح احمدی کے بچے میں اور بڑے میں پیدا ہونی چاہیے کہ ”مولا بس خدا کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہمیں اور ہر چیز جس کی ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ہم لیں گے کسی اور طرف منہ پھیرنے کی ہمیں ضرورت نہیں.اس خطبہ میں میں بڑوں کو یہ توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنے گھروں کی صفائی کریں.گھروں میں اخلاقی اور روحانی محسن پیدا کریں.اپنے گھروں کی ظلمات دور کر کے انہیں منور بنائیں تا کہ آپ

Page 81

خطبات ناصر جلد نهم ۶۷ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۱ء کی آئندہ نسل جو ہے وہ اس نیک اور پاک اور مطہر ماحول میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ پرورش پا کر وہ بنیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بنانا چاہتا ہے.انسان زور بازو سے متقی نہیں بن سکتا، پر ہیز گار نہیں بن سکتا.قرآن کریم نے کھول کے یہ بات بیان کی اور دھڑلے کے ساتھ اس کا اعلان کیا اور حکم دیا ہمیں.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) کبھی اپنے آپ کو مظہر نہ سمجھنا.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم :۳۳) کیونکہ روحانی پاکیزگی کا تعلق اس بات پر ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے انسان کی سعی کو قبول کیا اور مشکور ہوئی وہ سعی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں اپنی محبت اسے عطا کی.متقی وہ نہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ میرے دل میں خدا کی خشیت ہے اور میں اس کی پناہ لینا چاہتا ہوں.متقی وہ ہے جس کے دل میں واقع میں خدا کی ایسی خشیت ہے جو خدا کو پسند آئی اور خدا نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا.اپنے زور بازو سے تو تم خدا کی پناہ میں نہیں آسکتے.اپنے فضل سے وہ تمہیں اپنی پناہ میں لے سکتا ہے.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے بے انتہا دعا میں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام پر کھڑا کرے جس مقام پر ایک احمدی باپ کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرنا چاہتا ہے اور آپ کی آئندہ نسلوں کو تا قیامت اللہ تعالیٰ اس بات کی توفیق عطا کرتارہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم انقلاب، انقلاب انسانی زندگی میں ایک ہی ہوا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا انقلاب ہے ( باقی سارے ہنگامے انقلاب نہیں بلکہ اس کے الٹ چلنے والی لہریں ہیں انسانی زندگی کی ) تا کہ محد صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا انقلاب نوع انسانی کو اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ لپیٹ لے اور ان کا احاطہ کر لے اور یہ خوشحال زندگی اور ایک حسین معاشرہ نوع انسانی کی زندگی میں پیدا ہو اور پھر قیامت تک وہ قائم رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اور ہمیں دعا کرنے کی توفیق دے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے.تا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۲۹ پریل ۱۹۸۱ء صفحه ۱ تا ۳)

Page 82

Page 83

خطبات ناصر جلد نهم ۶۹ خطبه جمعه ۱/۳ پریل ۱۹۸۱ء اسوۂ نبی کو چھوڑ کر قرآن میں دیگر راہیں تلاش کرنے والا بد بخت ہے خطبه جمعه فرموده ۱/۳ پریل ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میری بیماری ابھی پوری طرح دور نہیں ہوئی.دوست دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ کامل شفا دے اور پورے کام کی توفیق عطا کرتا رہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَ يَخْشَ اللهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَابِزُونَ.( النور : ۵۳) اسی طرح فرما یا بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ.(آل عمران : ۷۷) جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرے اور خدا تعالیٰ کی خشیت اپنے دل میں پیدا کرے اور اللہ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرے فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَابِزُونَ ایسے لوگ دین اور دنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی اطاعت صرف اس صورت میں انسان کر سکتا ہے جب اس کے دل میں خشیت اللہ ہو.جب وہ صفات باری کی معرفت رکھتا ہو.جب وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی سے آشنا ہو جب وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں خود کو ایک ذرہ ناچیز سے بھی زیادہ کمز ور حقیقتا سمجھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں وہ شخص ہی آسکتا ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو پہچانا ہو، جسے

Page 84

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۱/۳ پریل ۱۹۸۱ء یہ معلوم ہو کہ ہر وہ حکم جو خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم میں انسان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت عطا کیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا اور ہر وہ رفعت جو اس عمل کی وجہ سے جس کی بشارت اس عمل کی وجہ سے انسان کو دی گئی تھی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظیم قوت ، استعداد اور صلاحیت کے نتیجہ میں پائی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نے ہدایت کی ان تمام راہوں کو اپنے عمل اور اپنے اُسوہ سے منور کیا جو راہیں خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کی طرف لے جانے والی تھیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا انسان کی سب سے بڑی خوش قسمتی ہے.جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو چھوڑ کر اپنے لئے قرآن کریم میں ہدایت کی کوئی دیگر راہیں تلاش کرے اور ان پر عمل کرنا چاہے وہ بد بخت ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو نہیں پاسکتا.دوسری آیت جو میں نے ابھی پڑھی ، اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بلی.بلی کا تعلق اس مضمون سے ہے جو اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا جو اس وقت میں چھوڑ رہا ہوں.مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِہ جو اپنے عہد کو وفا کرے اور عہد کے وفا کرنے کے نتیجہ میں وہ جہاں تک عہد کے وفا کرنے کا تعلق تھا.متقی بن جائے.وَاتَّقَی فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ اس کو یہ بشارت دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے پیار کرتا ہے.انسان چھوٹے چھوٹے پیاروں کا بھوکا اور چھوٹی چھوٹی تو جہات کو اپنی طرف پھیرنے کے لئے ہر قسم کی حرکتیں کر جاتا ہے.اچھی بھی ، بری بھی ، خوشامد بھی کرتا ہے، پیر بھی پڑ جاتا ہے.انسان نے پتہ نہیں کیا کچھ شیطان سے سیکھا اور اس پر عمل کیا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عہد نباہنے کا اُسوہ قائم کیا دنیا میں ہمارے لئے وہ اُسوہ ہے،اس پر عمل کرنا چاہیے.صلح حدیبیہ کے بعد کچھ لوگ اپنے ان علاقوں کو چھوڑ کے جنہیں ان کو چھوڑ نا نہیں چاہیے تھا مدینہ آگئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو درست ہے کہ جہاں تم بستے ہو وہاں ایک مسلمان کی حیثیت سے تمہیں بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں گی لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میں نے جو عہد کیا ہے وہ پورا ہونا چاہیے.میں نے یہ عہد کیا تھا کہ تم جیسے لوگوں کو مدینہ میں پناہ

Page 85

خطبات ناصر جلد نهم اے خطبه جمعه ۱/۳ پریل ۱۹۸۱ء نہیں دوں گا.واپس چلے جاؤ.اس قدر حسین اور عظیم جلوے، عہد کو پورا کرنے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں ہمیں نظر آتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر ہی ہم اللہ تعالیٰ کے اس پیار کو حاصل کر سکتے ہیں جس کا اس دوسری آیت میں ذکر ہے.الِ عمران کی ہے یہ آیت فَانَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ خدا تعالیٰ کے پیار کو ہم تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب اس معاملہ میں بھی ، اس عمل میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو سامنے رکھیں اور اس کے مطابق اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں.اس زمانہ میں ( خدا تعالیٰ کی مجسم قدرت حضرت اقدس ) مبعوث ہوئے اور آپ کے گرد ایک چھوٹی سی جماعت جو شروع سے اب تک بڑھتی چلی آرہی ہے اور اب بھی جب کہ ہمارے اندازے کے مطابق (اور یہ ایک عام اندازہ ہے ) ایک کروڑ کے قریب ہوگئی ہے.بنی نوع انسان کی جو تعداد اس کرہ ارض پر ہے، اس کے مقابلے میں ایک کروڑ کی جماعت کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن ایک سے ایک کروڑ بن گئے.بہر حال وہ جو خود کو حضرت مہدی علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں انہوں نے اپنے خدا سے ایک عہد باندھا ہے جو بنیادی طور پر جماعتِ احمد یہ کی زندگی کا مقصد ہے اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دنیا میں ، ساری دنیا میں ، اس وسعتوں والی دنیا میں اس ظالم دنیا میں ، اس دولت مند دنیا میں ہم جو غریب اور دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں دینِ اسلام کو پھیلائیں گے اور اس غرض کے لئے اپنی ہر چیز جو یہ مقصود ہم سے مطالبہ کرے، قربان کر دیں گے.آج کا دن مشاورت کا دن ہے.ہر سال یہ دن بڑی ذمہ داریوں کو لے کر ہماری زندگی میں آتا ہے کیونکہ ہم نے دین اسلام کی اشاعت کے لئے قربانیوں کا ایک پروگرام بنانا ہوتا ہے.مشورے کرنے ہوتے ہیں.مشورے دینے ہوتے ہیں.قربانیوں کے اندازے لگانے ہوتے ہیں.ضرورتوں کو سامنے رکھنا ہوتا ہے اور ہم بھی عاجز اور ہماری فراست اور ہمارے ذہن بھی بے حقیقت.جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو اور جب تک ہم متقی ہو کر اس کے پیار کو حاصل کرنے والے نہ ہوں ، یہ منصوبے نہیں بنا سکتے.

Page 86

خطبات ناصر جلد نهم ۷۲ خطبه جمعه ۱/۳ پریل ۱۹۸۱ء پس بہت دعائیں کرتے ہوئے یہ دن گزاریں، صرف وہ نہیں جو شوری کے ممبر ہیں بلکہ ساری جماعت جن تک میری آواز پہنچ جائے.ربوہ والوں کو تو پہنچ جائے گی اور باہر والوں کے ایک حصے کو بھی پہنچ جائے گی.بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فکر اور سوچ کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ صحیح مشورہ دینے کی ہمیں توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ جن نتائج پر ہم پہنچیں وہ دین اسلام کی اشاعت میں جو ضروریات ہیں جس حد تک ممکن ہے ہمارے لئے وہ پوری کرنے والے ہوں اور مقبول اعمال ہوں خدا کے نزدیک جن سے وہ راضی ہو جاتا ہے.تو بہت دعائیں کرو اور دعائیں کرتے رہو سارا وقت اور خدا تعالیٰ سے نور اور فراست مانگو اور ہمت اور عزم اس سے حاصل کرنے کی کوشش کرو.خدا تعالیٰ نے راہیں تمہارے لئے کھول دیں ایک نمونہ عظیم تمہارے سامنے رکھ دیا.کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں رہی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک کھلی زندگی ہے.کوئی چیز تمہیں تکلیف دینے والی نہیں.قرآن کریم کی تعلیم جو ہے اس نے ہم پر اتنا احسان کیا کہ ہر انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے جس ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت تھی وہ قرآن کریم میں ہمیں نظر آتی ہے.قرآن سے پیار کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق رکھتے ہوئے.اللہ تعالیٰ پر قربان ہونے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہوئے دنیا میں فساد کو دور کرنے اور اسلام کے امن کو اور سلامتی کو اور محبت کو اور پیار کو قائم کرنے کے لئے یہ فیصلے ہوں گے شوری کے.اس میں خدا تعالیٰ کی رہنمائی تلاش کرو اور خدا کرے کہ اسے پاؤ.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ مئی ۱۹۸۱ ، صفحه ۲ ،۳)

Page 87

خطبات ناصر جلد نهم ۷۳ خطبه جمعه ۱۰ / اپریل ۱۹۸۱ء قرآن کا حکم ہے اعلان کریں کہ ہم اسلام پر مضبوطی سے قائم ہیں خطبہ جمعہ فرموده ۱۰ را پریل ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بیماری ابھی دور نہیں ہوئی اور ضعف کچھ زیادہ ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے دعا ئیں جاری رکھیں.ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر ہم قرآن کریم کی ہدایت کو مضبوطی سے پکڑے رہیں.میں نے کئی بار بتایا ہے کہ محض چند ایک موٹے موٹے احکام ہی نہیں جو ایک مسلمان کی زندگی کا احاطہ کئے ہوئے اور ایک مسلمان کو مسلمان بنانے والے ہیں بلکہ قرآن کریم نے ہماری تمام قوتوں اور استعدادوں کے متعلق ہدایات دی ہیں اور ان کے دائرے مقرر کئے ہیں اور ان کی سرحدیں اور حدود قائم کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ان مقرر کردہ سرحدوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سرحد کے قریب جانے سے بھی پر ہیز کرنا چاہیے.بعض دفعہ غلطی سے انسان کا پاؤں سرحد کی دوسری طرف چلا جاتا اور اس کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.إنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران :۲۰) بعثت نبوی کے بعد (صلی اللہ علیہ وسلم ) دین تو اب ایک ہی رہ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کہہ کر اس آیت میں پکارا ہے اور کوئی اس کے علاوہ

Page 88

خطبات ناصر جلد نهم ۷۴ خطبه جمعه ۱۰ را پریل ۱۹۸۱ء دین نہیں، کوئی ایسی ہدایت جو قرآن کریم سے متضاد ہو یا اس سے مخالف ہو یا اس سے مختلف ہو ایسی نہیں جو انسان کو ان راہوں کی طرف ہدایت دے سکے جو راہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں.اس اعتقاد پر ہم احمدی کھڑے کئے گئے ہیں اور اس اعتقاد پر ہم احمدی قائم ہیں کہ اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورہ زمر میں فرماتا ہے.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ( الزمر : ١٢) قرآن کریم کا ہر حکم ایسا ہے کہ جس کے پہلے مخاطب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور چونکہ ہمیں آپ کے اُسوہ کی پیروی کرنے کا حکم ہے.اس لئے مسلمان جو ہیں ، جہاں بھی ہیں، جب بھی تھے ، جب بھی ہوں گے.ہر مسلمان جو ہے اس کو ہر حکم مخاطب کرتا ہے کہ تو کہہ دے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (اتی اُمِرْتُ ) کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ اطاعت صرف اسی کے لئے 66 مخصوص کر دوں.“ اس آیت میں دو چیزیں واضح طور پر بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے.دوسرے یہ کہ عبادت کے معنی اسلام میں بڑے وسیع ہیں.عبادت کے معنی یہ ہیں مُخْلِصًا لَهُ الدِّین کہ اطاعت صرف اسی کے لئے مخصوص کر دوں یعنی قرآن کریم کے ہر حکم کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوئی.قرآن کریم کہتا ہے مثلاً کسی پر بدظنی نہ کرو یہ حکم ہے اللہ تعالیٰ کا جو شخص بدظنی اس لئے نہیں کرتا اس نیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے شرط بن گئی.وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ( الزمر : ۱۳) اور مجھے صرف یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں اطاعت صرف اسی کے لئے مخصوص کر دوں بلکہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے دائرہ استعداد میں جو شرف اور مرتبہ اسلام انسان کے لئے لے کر آیا اپنے دائرہ استعداد میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاؤں اور ایک ارفع مقام کو حاصل کروں.سب سے ارفع مقام تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور مسلمین کے آپ خاتم ہیں اور آپ ہی حقیقی معنی میں اَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ہیں اس کے معنی پہلوں نے بھی یہی کئے ہیں کہ زمانہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ شرف اور مرتبہ اور مقام کے لحاظ سے

Page 89

خطبات ناصر جلد نهم ۷۵ خطبه جمعه ۱/۱۰اپریل ۱۹۸۱ء اسلام میں اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران :۲۰) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رفعت حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں ہوئی تو فرمایا :.وَ أُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے بڑا فرمانبردار بنوں.چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاحیت اور استعداد نوع انسانی میں سب سے بڑی تھی اور چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت سے اپنی استعداد اور صلاحیت کو سب سے زیادہ نشو و نما دینے میں کامیابی حاصل کی اس لئے آپ سب سے بلند مقام پر چلے گئے لیکن اُسوہ حسنہ کی پیروی اس بات میں یہ نہیں کہ ہم اس مقام تک پہنچیں جہاں تک ہم پہنچ ہی نہیں سکتے متضاد ہو جاتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کریم کی نگاہ میں جو مقام پایا اس مقام تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکتا لیکن اس معنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری قوتوں اور استعدادوں اور صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کی اور یہ قو تیں اور استعدادیں اور صلاحیتیں انسانوں میں سب سے بڑی تھیں.اس لئے اُسوہ یہ بنے گا کہ جہاں تک اس معاملہ کا تعلق ہے ہر انسان یہ کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی قوت اور صلاحیت اس کو دی ہے اس دائرہ استعداد میں وہ جتنا اونچا جا سکتا ہے وہ جائے اور کسی کو تاہی اور غفلت کے نتیجہ میں وہ ایسا نہ ہو کہ جس مقام پر اللہ تعالیٰ کی عطا اسے پہنچانا چاہتی تھی اس مقام سے وہ نیچے گرا ر ہے.پھر یہ کئی آیات ہیں اسی ترتیب سے میں ان کو لے رہا ہوں.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (الزمر: ۱۴) کہہ کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ اعلان کیا اور ہر مخلص مسلم کو بھی یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہمارا رب کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو خالص کرو.اس طرح پر کہ اطاعت اس کے لئے خالص ہو جائے اور اسلام کے سب حکموں کی پیروی کرو.وہ ایک ہی راستہ خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف جو لے جانے والا ہے یعنی دینِ اسلام، اس پر گامزن رہو.تو یہاں یہ فرما یا کہ اگر میں

Page 90

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ۱/۱۰اپریل ۱۹۸۱ء نافرمانی کروں اور اس راہ کو چھوڑ دوں اور اس کی بجائے دیگر راہوں کی تلاش میں لگار ہوں یا دیگر راہوں پر گامزن ہو جاؤں.تو وہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی نہیں ہوں گی.إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ میں یہ ڈرتا ہوں کہ اگر میں ایسا کروں تو اللہ تعالیٰ بڑے دن کے عذاب میں مجھے مبتلا کرے گا.ہر مومن، مسلم کے دل میں یہ خوف یہ خشیت موجود رہنی چاہیے.پندرھویں آیت اس سورت ( سورۃ الزمر.ناقل ) کی یہ ہے.قُلِ اللهَ اعْبُدُ چونکہ میرے دل میں یہ خشیت ہے کہ اگر میں نے اسلام کو چھوڑا تو خدا تعالیٰ کا عذاب مجھ پر نازل ہوگا.اس لئے یہ اعلان کر دے کہ میں خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.پھر کہہ دے کہ میں اللہ کی عبادت اطاعت کو صرف اس کے لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا ہوں.اسلام کیا ، اسلام کے کسی حکم کو بھی میں چھوڑ نہیں سکتا.اسلام پر پختگی کے ساتھ میں قائم ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلام کے لانے والے، اسلام کو پھیلانے والے، اسلام کو بتانے والے، اسلام کی تفسیر کرنے والے، اسلام پر چل کر ایک اُسوہ قائم کرنے والے ہیں.بنی نوع کے لئے لیکن ہر انسان کو امت میں سے کہا گیا ہے کہ یہ اعلان کرو کہ ڈ نیوی طاقتیں اگر ہمیں اسلام سے پرے ہٹانے کا سارا ز ور بھی لگادیں گی تو ہم اسلام کا جو راستہ ہے جو ہدایت ہے جو تعلیم ہے اور جو یہ عظیم احسان ہے.اللہ تعالیٰ کا ہماری قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے لئے، سامان پیدا کرنے کے لئے ، ہم اس راہ سے کسی خوف سے یا کسی ڈر سے یا کسی لالچ سے ادھر ادھر نہیں جائیں گے.ہم اس کے اوپر مضبوطی سے قائم ہیں.قُلِ اللَّهَ اعْبُدُ مُخْلِصًا له دِينِي ( الزمر : ۱۵) کہہ دے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کو صرف اس کے لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا ہوں.قرآن کریم ہماری ایک ایسی شریعت ہے، ایک ایسی تعلیم ، ایک ایسا دین جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود اس میں فرمایا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة : (۴) آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا.میں نے کہا تھا اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ اس لئے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم یہ دینِ اسلام

Page 91

خطبات ناصر جلد نهم LL خطبه جمعه ۱۰ / اپریل ۱۹۸۱ء کامل ہو گیا.اس لئے نہیں کہ تمہیں تکلیف میں ڈالے.اتمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة : ۴) اس لئے کہ تمہارے اوپر میری نعمتوں کی انتہا ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں یہ ہو کہ میں تم سے راضی ہو جاؤں.میں نے تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کیا.اس پر چلو گے میں تمہیں پسند کرنے لگ جاؤں گا.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہہ دو پکار کے ساری دنیا کے سامنے کہ میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.قُلِ اللهَ اعْبُدُ مُخْلِصًا له دِينِ (الزمر : ۱۵) اس لئے سن لو کہ اللہ کی عبادت ، اطاعت کو صرف اس لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا ہوں.فَاعْبُدُوا مَا شِخْتُم مِنْ دُونِهِ (الزمر : ۱۶) باقی رہے تم تو اللہ کے سوا جس کی چاہو تم عبادت کرو.میں مکلف نہیں ہوں اس بات کا کہ تمہیں بھی پکڑ کے باندھ کے دین اسلام کی طرف لے کے آؤں.جس طرح دنیا کی کوئی طاقت مجھے ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان ہے ) اور پھر ہر امتی کی طرف سے ، ہر وہ جاں نثار جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فدائی ہے، ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی زندگی گزار رہا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میں تو اس راہ کو نہیں چھوڑوں گا جس راہ پر مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم نظر آتے ہیں.تم جو مرضی کرتے رہو اور جس کی چاہو عبادت کر ولیکن ایک بات سن لو کہ پوری طرح گھاٹے میں پڑنے والے لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو بھی اور اپنے رشتہ داروں کو بھی قیامت کے دن گھاٹے میں ڈالا اور اچھی طرح یاد رکھو کہ قیامت کے دن گھاٹے میں پڑنا، یہ کھلا کھلا گھانا ہے اور اس سے زیادہ کسی کو نقصان اور گھانا پڑ نہیں سکتا اور اس سے بڑا عذاب کوئی ہو نہیں سکتا اور اس سے بڑا کوئی دکھ نہیں کہ خدا تعالیٰ سے انسان دور ہو جائے.إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ خدا تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے.اسلام کے علاوہ اور کوئی دین نہیں اور ہم احمدی اپنے دین پر قائم ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس راستہ سے ہٹا نہیں سکتی.زبردستی کر کے نمازیں نہیں چھڑوا سکتی.ہم سے روزے نہیں چھڑوا سکتی نیز دیگر جو سات سواحکام ہیں انہیں نہیں چھڑوا سکتی اور وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا (ال عمران : ٨٦) جو

Page 92

خطبات ناصر جلد نهم ZA خطبه جمعه ۱۰ / اپریل ۱۹۸۱ء شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین پسند کرے گا وہ اپنے لئے یا کسی اور کے لئے فَلَنْ يُقْبَل منه (ال عمران :۸۶) دینِ اسلام کے سوا کوئی اور دین خدا تعالیٰ کو مقبول نہیں ہے، پسندیدہ نہیں ہے.وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ (آل عمران : (۸۶) اور وہ قیامت کے دن گھاٹے میں پڑے گا.تو یہ ایک حقیقت ہے جسے قرآن کریم نے متعدد جگہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.آج میں نے ایک اقتباس (چند آیتیں اوپر نیچے اکٹھی آئی ہیں ) لیا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو جو اور بھی روشنی ڈالی گئی ہے اس مضمون پر قرآن کریم میں وہ پھر اگلے خطبے میں بیان کر دوں گا.آج کے لئے تو اتنا ہی کر سکا ہوں.بڑا ضعف محسوس کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے.یہ یاد رکھو دین اسلام کے علاوہ کوئی دین نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ جس چیز کو آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل کیا یعنی خالص دین، یہ بدعات سے پاک دین، قرآن کریم کی تعلیم قرآن کریم کی عظمت قرآن کریم کی رفعت قرآن کریم کی وسعت جو ہماری دنیا کے سمندروں سے بھی زیادہ ہے، اس حقیقت کو آپ نے پایا ہے.دنیا کی لالچ یا دنیا کا ڈر ہمیں اس مقام سے ، اس راہ سے پرے نہیں ہٹا سکتا لیکن اپنی کوشش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے رہنا چاہیے کہ اس کی مدد کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے.ہم کچھ بھی نہیں ، ذرہ ناچیز جو ہماری جوتی کے تلوے میں لگا ہوا ہے وہ بھی حیثیت ہماری نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہمارے شامل حال نہ ہو اور اگر شامل حال ہو تو ساری دنیا کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقام کو سمجھنے اور اس حقیقت کو سمجھنے کہ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ کی تو فیق عطا کرے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ رمئی ۱۹۸۱ء صفحه ۳ تا ۶ )

Page 93

خطبات ناصر جلد نهم و خدا کے حکم کی اطاعت کرو گے تو مقصد حیات کو پالو گے خطبه جمعه فرموده یکم مئی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.ایک بڑے ہی اہم اور ایک لمبے مضمون کی تمہید آج کل میں بیان کر رہا ہوں.آج بھی تمہید ہی کے متعلق چند باتیں میں کہوں گا.انشاء اللہ اگلا جمعہ ارادہ ہے ربوہ میں پڑھاؤں.اس کے بعد چند دنوں کے بعد پھر واپس یہاں آنے کا ارادہ ہے.واللہ اعلم جو اللہ چاہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِن صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ - وَهُوَ اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ - (القصص: ۷۱،۷۰) یہ سورہ قصص کی دو آیات ہیں.پہلی آیت کا تعلق اس مخلوق سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آزادی دی ایک خاص دائرہ کے اندر اور روحانی طور پر ترقیات کی بڑی راہیں اس پر کھولیں اور اس کے لئے یہ ممکن بنادیا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرے تو وہ اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کر سکتا اور ابدی رضا اور رحمت کے سایہ میں اُخروی زندگی کو گزار سکتا ہے.چونکہ آزادی ہے اس لئے تین چیزیں انسانی زندگی میں ابھریں ایک ایمان حقیقی.ایک انکار واضح اور ایک نفاق کہ اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ.تو ظاہر کو بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور جو چیز انسان انسان سے چھپاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے وہ چیز چھپ نہیں سکتی وہ اسے بھی جانتا ہے.

Page 94

خطبات ناصر جلد نهم ۸۰ خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۱ء وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِن صُدُورُهُمْ اور تیرا رب اس کو بھی جانتا ہے جس کو وہ سینہ میں چھپاتے ہیں، ظاہر نہیں کرتے اور اسے بھی جسے وہ ظاہر کرتے ہیں.اگر چہ یہاں ذکر اس مخلوق کا ہے جو انکار بھی کر سکتی ہے، خدا تعالیٰ کے احکام سے فرار بھی کر سکتی ہے، بغاوت بھی کر سکتی ہے، مانتی بھی ہے، قربانیاں بھی دیتی ہے، انتہائی بلندیوں تک بھی پہنچتی ہے لیکن اس کے بعد ایک بنیادی حقیقت کا ئنات کا ذکر کیا اور وہ یہ کہ وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ حقیقت کا ئنات ، وحدانیت باری تعالیٰ ہے لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ اور اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں.اللہ کے سوا حقیقی تعریف کا کوئی بھی مستحق نہیں.اتنا ہی مستحق ہے جتنا مستحق ہمارا خدا کسی کو یا ہمیں بنا دے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ذات ایسی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں.ابتدائے آفرینش میں بھی وہ تعریف کا مستحق تھا اور آخرت میں بھی وہ تعریف کا مستحق ہوگا سب بادشاہت اسی کے قبضہ میں ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہو گا.له الحمد تمام محامد کا ملہ کا وہ لائق اور مستحق ہے یہاں ذکر تو نہیں لیکن ظاہر ہے کہ جس ہستی میں تمام محامد کا ملہ پائے جائیں اس میں کوئی نقص اور کمزوری نہیں پائی جائے گی.انسانی عقل بھی اس نتیجہ پر پہنچتی ہے لیکن اس کے مثبت پہلو کو یعنی اللہ تعالیٰ کی جو صفاتی بنیادی ایک حقیقت ہے اسے پہلے بیان کیا لَهُ الْحَمدُ وہ تمام محامد کا ملہ کا مالک ہے اور اس مقام سے کہ اللہ تعالیٰ سب تعریفوں کا مستحق ہے اپنی ذات میں اس کی صفات کے جلوے ظاہر ہوئے اور کائنات پیدا ہوئی اور کائنات میں وَ لَهُ الْحُكْمُ صرف اسی کا حکم اس کا ئنات میں جاری ہے.جیسا کہ میں نے شروع میں اشارہ کیا کائنات کے دو حصے ہیں.ایک وہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( التحریم : ۷) جو خدا کا حکم ہے، وہ کرتے ہیں چاند کو خدا کے جو احکام ملے ، چاند نے وہ کام کرنے شروع کر دیئے ، جو سورج کو ملے وہ سورج نے کام کرنے شروع کر دیئے اور ایک وہ چھوٹی سی مخلوق ہے جس کے لئے ایک لحاظ سے یہ کائنات پیدا کی گئی جس کو آزادی دی اور اس کو یہ اختیار دیا کہ اپنی مرضی سے اپنے رب کی رضا کے حصول کے لئے تکلیف برداشت کر اور قربانیاں دے اور عشق کی آگ اپنے سینے میں جلا اور خدا تعالیٰ سے انتہائی محبت اور پیار کر اور خود اپنی رضا سے

Page 95

خطبات ناصر جلد نهم ΔΙ خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۱ء اس کے حکم کی پیروی کر لیکن حقیقت یہی ہے وَ لَهُ الْحُکم.انسانی زندگی میں بھی یہی حقیقت ہے.وَ لَهُ الْحُكم یعنی باوجود اس کے کہ انسان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ چاہے تو خدا تعالیٰ کے حکم کا انکار کر دے مثلاً خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرنی لیکن افریقہ کی تاریخ کا میں نے مطالعہ کیا بہت سے مسلمان قبائل ایسے تھے جنہوں نے پانچ پانچ ، سات سات ، آٹھ آٹھ شادیاں کر لیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کا حکم نہیں جاری ہوا کیونکہ حکم خدا کا یہ ہے کہ میری بات مانو گے تو وہ نتیجہ نکلے گا جو امن پیدا کرنے والا ، جو خوشحالی پیدا کرنے والا ، جو کامیابی اور فلاح پیدا کرنے والا ہے یہ حکم ہے.جو حکم توڑے گا، حکم خدا کا چلے گا، یہ نہیں کہ حکم توڑ کے انسان اپنے مقصد حیات میں کامیاب ہو جائے.جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس میں وہ کامیاب صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو مانے.اگر وہ حکم کو توڑتا ہے اور دنیا سمجھتی ہے اس نے حکم کو توڑا لیکن حکم خدا ہی کا چلا کیونکہ خدا کا حکم اس کے ساتھ یہ بھی ہے ، اگر میرے حکم کو توڑو گے تو نا کام رہو گے اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی اور وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ سے بڑی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد اس کی طرف لوٹ کے جانا ہے.اس زندگی میں بھی آخری فیصلے اسی نے کرنے ہیں.فرعون نے بھی تو دعویٰ کیا تھا آنا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (النازعات : ۲۵) کس خدا کے پیچھے تم دوڑے پھرتے ہو، میں ہوں تمہارا سب سے بلند رب لیکن وہ جو اپنے دعوی کے لحاظ سے اعلیٰ رب تھا اس کی بلندی تو سمندر کی لہروں سے بھی اوپر نہیں نکلی اور وہاں وہ غرق ہو گیا.خلاصہ اس آیت کے مضمون کا یہ ہے کہ علم کامل اللہ کو ہے.کوئی چیز اس سے چھپی نہیں.تمام محامد کا ملہ اس کے ہیں.اس واسطے اس کے ہر حکم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی حمد ثابت ہوتی ہے، اس کی تعریف نکلتی ہے اس سے.کوئی خدائی حکم ایسا نہیں جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تعریف نہ نکلے، جو حکم تو ڑتا ہے اس کا بدنتیجہ بھی یہی ثابت کرتا ہے نا کہ خدا تعالیٰ سب محامد کا ملہ کا مستحق ہے.احکام اس کے حکم کے مطابق جاری ہوتے ہیں وَ الَیهِ تُرْجَعُونَ اور جزا و سزا اس کے ہاتھ میں ہے.ٹھیک ہے انسان کو آزادی دی حکم توڑ دو لیکن ساتھ یہ کہ دیا کہ یہ تمہیں ہم بتادیتے ہیں کہ حکم تو رو گے تو جس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے حصول میں تم کامیاب نہیں ہو گے.اگر حکم توڑو

Page 96

خطبات ناصر جلد نهم ۸۲ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء گے تو اس زندگی میں وہ حسین معاشرہ قائم نہیں کر سکو گے جو مذہب اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.ایک ( میں نے بتایا ہے میں تمہید کے Point صرف بتارہا ہوں ) یہ اپنے ذہن میں رکھیں.سورۃ تغابن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہاں ایک اور چیز میں واضح کر دوں کہ پہلی آیت میں، جو ابھی میں نے پڑھی ، یہ ہے کہ محامد کا ملہ خدا کے ہیں اور یہ ہستی ہے، جو ہے.الْحَمدُ لِلهِ، لَهُ الْحَمْد کہ سب تعریفیں اسی کی ہیں محامد کا ملہ کا وہ مستحق ہے.اس منبع اور سر چشمہ سے اس کے سارے احکام جاری ہوتے ہیں اور دوسری آیت میں یہ ہے کہ بادشاہت اسی کی ہے اور اس کے سارے احکام جو بطور حاکم اعلیٰ اس نے جاری کئے ہیں اس کے نتیجہ میں حمد پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ یہاں سورۃ تغابن میں فرماتا ہے.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (التغابن : ۲) کا ئنات کی ہر شے کا مطالعہ کر کے دیکھو نتیجہ یہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ کی ان صفات کے جلوے جن کے نتیجہ میں یہ کائنات پیدا ہوئی اور کائنات کا ہر جزو اور اکائی پیدا ہوئی وہ ہر قسم کے نقص سے پاک اور منزہ ہے اس لئے جس عظیم ہستی کی صفات کے یہ جلوے ہیں وہ بھی ہر قسم کے نقص اور کمزوری سے منزہ ہیں اور پاک ہیں يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ - له الملك بادشاہت خدا کی ہے.وَ لَهُ الْحَمدُ اور اس بادشاہت کے معنے ہیں حکم جاری کرنا ، شاہ وقت کا کام ہی ہے بطور بادشاہ اپنی رعایا میں احکام جاری کرنا اور اس سلسلہ میں ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی رعایا ہے.اس میں اس کے حکم جاری ہوتے ہیں (ذرا تفصیل آپ کو بتادوں ) اس بادشاہ کا حکم ہر آن اربوں دفعہ شاید، بے شمار دفعہ جاری ہوتا ہے.قرآن کریم نے کہا ہمارے علم کے بغیر اور ہمارے حکم کے بغیر درخت کا پتہ نہیں گرتا.قرآن کریم کہتا ہے کہ ہمارے حکم کے بغیر سمندروں کا پانی بخارات کی شکل اختیار نہیں کرتا.قرآن کریم کہتا ہے کہ ہمارے حکم کے بغیر یہ بخارات کسی ایک جہت کی طرف حرکت نہیں کرتے.ہواؤں کو جب تک حکم نہ ہو وہ ادھر نہیں جاتیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ بخارات ہمارے حکم سے ایسے بنتے ہیں کہ اس میں سے بارش کے قطروں کا گرنا ممکن ہو جائے.قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر تبد یلی اس کا ئنات میں ، کائنات

Page 97

خطبات ناصر جلد نهم ۸۳ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء کی ہر جزو میں، گندم میں گندم کے ہر دانہ میں اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نازل نہ ہو.یہاں بہت سے زمیندار بھی بیٹھے ہوں گے.گندم کے دانے جاکے پھینک دیتے ہیں زمین میں یا ڈرل کر دیتے ہیں یا چھٹا کر کے اوپر ہل چلا دیتے ہیں.آپ کا جو عمل ہے اس کا ایک نتیجہ نکلنا چاہیے نا.مگر ایک سانتیجہ نہیں نکلتا.بعض دانے ہیں وہGerminate ( جرمینیٹ ) ہی نہیں کرتے.آپ کا تو کوئی اختیار نہیں اس میں.نہ آپ نے حکم دیا کسی دانے کو کہلو.Germinate کر یعنی روئیدگی نکل آئے اور نہ کسی کو حکم دیا کہ نہ نکل پھر روئیدگی جن کی نکلی ان میں سے بعض مرجاتے ہیں.میں آپ زمیندار ہوں.میں نے گندم ہوئی ہے.کھڑے ہو کے اس کا مشاہدہ کیا ہے الہی آیات کو سمجھنے کے لئے ، اس کی جو صفات جلوہ گر ہوتی ہیں ہر چیز کے اوپر.پس میرا عینی مشاہدہ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.بعض ایسے دانے ہیں جو بہت طاقتور نظر آتے ہیں اگنے کے وقت ، خیال ہوتا ہے اچھا پودا بنے گا.مگر چند دنوں کے بعد وہ مرجاتے ہیں.بعض ایسے دانے ہیں جو بڑے ضعف کی حالت میں زمین سے باہر سر نکالتے ہیں اور آخر میں وہ پھل دیتے ہیں سنبلیں ان میں نکلتی ہیں اور دانوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.بعض دانے ایسے ہیں جو نکلتے ہیں لیکن آپ کے لئے نہیں نکلتے.وہاں فاختہ آتی ہے کھا جاتی ہے کسی نے محاورہ بنایا تھا کہ ہر دانے پر نام لکھا ہوتا ہے کہ یہ کس کا رزق ہے.لکھا ہوتا ہے یا نہیں لیکن خدا کی تقدیر میں ضرور لکھا ہوا ہے.گندم کے دانوں کو کھانے والے بعض ایسے ہیں جو صرف روئیدگی جو نکلی ہے اس کو کھا لیتے ہیں اور جو دانہ باقی رہ جاتا ہے اس کو وہیں پھینک دیتے ہیں.پھر کیڑے آتے ہیں ان کو کھاتے ہیں پھر آگے Division of food جو تقسیم ہے کھانے کی شروع ہو جاتی ہے.تو له الملك بادشاہت حقیقتاً اسی کی ہے اور شہنشاہ ہونے کی حیثیت میں ہر آن بے شمار احکام اس کے نازل ہورہے ہیں اور سارے کے سارے احکام ایسے ہیں.وَ لَهُ الْحَمْدُ.جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محامد کا ملہ کا وہ مستحق ہے.کوئی ایک صفت باری ایسی جلوہ گر نہیں ہوتی اس کائنات میں جس سے یہ نتیجہ نکلے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ میں کوئی ضعف ہے.حکم اسی کا چلے گا وَهُوَ

Page 98

خطبات ناصر جلد نهم ۸۴ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التغابن : ۲) ہر چیز پر وہ قادر ہے.انسان کے علاوہ جو کائنات ہے اس میں وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے اس معنی میں کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( التحریم : ۷) ایسی چیزیں بھی ہمارے علم میں آئیں کہ کئی ہزار سال کی تدریجی تبدیلیوں کے بعد وہ چیز بن گئی مثلاً ہیرا ہے.ہیرا ژالہ باری کے ژالہ کی طرح آسمان سے تو نہیں گرا.اسی زمین کے ذروں میں جن میں سے بعض گندم کے پودے کی شکل اختیار کر گئے.ہزار ہا سال تبدیلیاں آئیں خدا تعالیٰ کے جلوے ان پر ظاہر ہوتے رہے، تدریج کا حکم جاری ہے اور وہ ہیرا بن گیا.ست سلاجیت ،ست سلا جیت جو ہے اس پر ہمارے حکماء، اطباء نے تحقیق نہیں کی تھی.اب ریسرچ ہوئی ہے.یہ ایک سبز رنگ کا پودا بڑا باریک پہاڑوں کے پتھروں پر ہوتا ہے اسے بیچن کہتے ہیں انگریزی میں.اس میں سے پانی کی طرح کوئی چیز گرتی ہے.اگر یہ ایسے پتھر کے اوپر ہوجس میں تریر آئی ہوئی ہو تو اس کے اندر گرتارہتا ہے وہ پانی ، اور سینکڑوں سال کے بعد وہ ست سلاجیت بن جاتی ہے اور اس میں بڑی طاقت ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات نے اس کو مفید صحت بنایا ہے.اب نئی ریسرچ جو کہتے ہیں زیادہ تر رشیا نے کی ہے.وہ یہ ہے کہ ست سلاجیت دست قدرت باری کی نکلی ہوئی ہے وہ اینٹی بائیوٹک ہے جس میں سارے فائدے ہیں اور ضرر کوئی نہیں ہے اور نمبر ۲ جرم کش دوائی ہے.شہد کی مکھی نے جو اینٹی بائیوٹک Propolis بنائی ہے اس کے بعد کہتے ہیں یہ نمبر ۲ ہے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ جہاں تک انسانوں کا تعلق تھا قرآن کریم میں اعلان کیا گیا کہ تم مجھے میرے منصوبوں میں ناکام نہیں کر سکتے مَا اَنْتُم بِمُعْجِزِینَ (الانعام : ۱۳۵) - عَلَى شَی ءٍ قدیر کا ہی ہے وہ جلوہ.پہلے کا ئنات کا ذکر ہے.فرمایا :.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( التغابن: ۲) پھر انسان جس کی خاطر یہ سب کچھ ہوا اس کو مخاطب کر کے کہا هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمُ (التغابن: ۳) خدا تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے.خدا تعالیٰ نے کسی مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا ہے جس مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا ہے اُس مقصد کے حصول کے لئے جتنی، جس قسم کی قوتیں اور استعدادیں تمہیں چاہئیں تھیں وہ اس نے تمہیں عطا کر دیں.ان قوتوں کی نشو و نما کے لئے جو چیز بھی چاہیے تھی وہ تمہارے لئے میسر کر دی اور تمہیں یہ

Page 99

خطبات ناصر جلد نهم ۸۵ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء طاقت دی کہ اپنی قوتوں کو استعمال کرو اور لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعى (النجم :۴۰) تمہیں کہا.طاقتوں کا صحیح استعمال اور کامل استعمال تمہاری قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشو ونما کے لئے ضروری ہے اور کہا یہ کہ یہ سب کچھ جو ہے، یہ حرکت، انسانی زندگی کی یہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہے ، مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ (الداریت : ۵۷) بندہ بننے کے لئے.اس غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفات اپنے اخلاق کے اندر پیدا کرے تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله لیکن فَمِنكُمْ كَافِرُ (التغابن : ۳) تمہیں آزادی تھی تم میں سے منکر بن گئے.میرے ذہن میں تو یہ آیا کہ گناہ کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوت کا غلط استعمال کرنا یا استعمال نہ کرنا ہے، گناہ ہے.اگر ساری قوتیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو تَخَلُقُ بِأَخْلَاقِ اللہ کے لئے دیں تو ہر غفلت جو ہے وہ تَخَلُقُ بِأَخْلَاقِ اللهِ میں غفلت پیدا کرتی ہے وہ گناہ ہے.وَ مِنْكُم مُّؤْمِنٌ (التغابن: ۳) ایک طرف کا فر ہیں تو دوسری طرف انتہائی قربانی دینے والے، ایثار پیشہ، جاں نثار مومن بھی پائے جاتے ہیں لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ حقیقی اخلاص کسی سینہ اور کس دل میں ہے یہ انسان کا کام نہیں.وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ - جو تمہارے اعمال اور ان کے اعمال کے پیچھے جو نیتیں ہیں جن نیتوں کے ساتھ تم اعمال کرتے ہو اسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے.بسا اوقات انسان خود بھی اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے لیکن کوئی انسان کسی حالت میں بھی اپنے خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا.وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ - وَ لَهُ الْحَمْدُ دونوں آیات میں آیا ہے.ایک میں پہلے ایک میں بعد.بڑا علم ہے ” لَهُ الْحَمدُ کے فقرہ میں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق مثلاً یہ کہا کہ تمام اقسام حمد سے کیا باعتبار ظاہر کے، اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے، فرما یا محامد کا ملہ کا جو مستحق ہے وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے، نیز ( مجھے خیال آیا ) کیا باعتبار جزا کے.( یہ نہیں کہ فیصلہ کرتے ہوئے مجبور انسانوں کی طرح غلط فیصلہ کر دے ) اور کیا با عتبار سزا کے.وہ خالق اور مالک ہے نا.لَهُ الْمُلْكُ اور حاکم ہے.اس واسطے اس کی صفت یہ ہے.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة : ۲۸۵) جس کو

Page 100

خطبات ناصر جلد نهم ۸۶ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء چاہے بخش دے، جس کو چاہے دوزخ میں ڈال دے.کسی انسان کا یہ کام ہی نہیں کہ جہنم کے لئے وارنٹ جاری کر دے یا جنت کے لئے سرٹیفیکیٹ Issue (ایشو ) کرنا شروع کر دے فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو خدا کے کام ہیں وہ خدا کے لئے چھوڑو.جو ہم عاجزوں کے کام ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی فکر کریں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور اس چیز میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہے.قرآن کریم نے یہ کہا ہے فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ.کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے.اسی طرح لَهُ الْحَمدُ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اپنی ذات وصفات میں کامل تعریف کا مستحق.ایک یہ ہے کہ انسان بھی مجبور ہو جائے اس معرفت کے حصول پر کہ خدا تعالیٰ تمام تعریف کا مستحق ہے اس لئے کہ ایک حسنِ کامل ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) اور ایک احسانِ کامل ہے اور یہ دونوں خوبیاں اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہیں.احسان کا تعلق تو اسی مخلوق سے ہو سکتا تھا جسے آزادی دی گئی تھی کیونکہ اس کی فطرت اسے سمجھ سکتی ہے.تیسری بات ان حقائق کی روشنی میں بندہ یہ سمجھے اور اس پر ایمان لانے اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ اِنِ الْحُكْمُ الا للہ اس لئے عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ جب حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اس لئے تو کل صرف خدا پر ہونا چاہیے اور میں تو گل صرف خدا پر کرتا ہوں نہ کسی اور پر ، نہ کسی حکومت پر تو گل نہ ان سے کوئی لالچ ، نہ کوئی خوشامد.ہر ایک کو اس کا حق دو لیکن تو گل صرف، بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر کرو.وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ (يوسف: ۶۸) جو تو گل کی حقیقت کو اور اس کی روح کو سمجھنے والے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ پر ہی تو کل کیا کرتے ہیں.سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( نمبر چار میں نے بتایا ہے میں تمہید کے Points بتا رہا ہوں ) أَو لَمْ يَرَوا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد : ۴۲) اور کیا انہوں نے دیکھا نہیں ہم ملک کو اس کی تمام اطراف سے کم کرتے چلے آرہے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور قرآن عظیم ایک کامل کتاب کی شکل میں آپ نے انسان کے ہاتھ میں دی اور وفات کے وقت بھی آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے پیچھے یہ کتاب چھوڑ کے جارہا ہوں، اگر تم اسے

Page 101

خطبات ناصر جلد نهم ۸۷ خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۱ء مضبوطی سے پکڑے رہو گے کامیاب ہو گے اسے چھوڑ کر ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں.قرآن.قرآن.قرآن.اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہ حکم جاری ہوا کہ آہستہ آہستہ بتدریج اسلام غالب ہوتا چلا جائے گا.وقتی طور پر اور بعض مخصوص خطہ ہائے ارض میں جو کمزوری بھی پیدا ہوئی ہے اس کے باوجودا گر آپ غور کریں تو آپ کو بتدریج ترقی ، ارتقاء نظر آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو فیج آغوج کا زمانہ تھا اور اسلام کا انتہائی تنزل کا زمانہ جسے ہم کہتے ہیں اس میں بھی لاکھوں بزرگ اولیاء اسلام کے اندر پیدا ہور ہے تھے.تو ظاہر ہے کہ جس وقت لاکھوں مسلمان بھی نہیں تھے ، اس وقت لاکھوں اولیاء کا سوال تو پیدا نہیں ہوتا تھا.پھیلاؤ ہو رہا ہے.اس پھیلاؤ میں ( جس طرح Magnifying Glass سے آپ چیز دیکھتے ہیں ) بعض نقائص جو تھے وہ زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئے اس میں کوئی شک نہیں.نہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے اور نہ ہمیں کوئی حجاب ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں ٹھیک ہے لیکن جو خو بیاں تھیں وہ بھی اسی طرح وسعت کے ساتھ ہمارے سامنے آگئیں اور ان کا پلہ بھاری ہے.افریقہ کو لے لو ایک مثال، وہاں کی بدعات سے متاثر ہو کر ایک خطہ افریقہ میں مسلمانوں نے دریا کی پرستش شروع کر دی جس طرح نیل“ کی پرستش کی گئی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان فودی رحمتہ اللہ علیہ کو پیدا کر دیا اور حضرت عثمان فودی رحمتہ اللہ علیہ نے ( یا ان کے بھائی یا بیٹے نے ) لکھا ہے کہ اولیائے خطہ افریقہ (جس کے ساتھ ان کا تعلق تھا ) کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ یہ خبر دی کہ اس علاقہ میں ایک مجدد پیدا ہوگا اور بڑی نصرت خدا کی ملی ان کو قرآن کریم نے وعدہ دیا تھا اَنْتُمُ الْأَعْلَونَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِینَ (ال عمران : ۱۴۰) غیروں کی اوراپنوں کی تلواریں میانوں سے باہر نکل آئیں، مٹھی بھر چند آدمی تھے اس وقت ان کے ساتھ.بعض جگہ ان کو تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں ، جانیں بھی دینی پڑیں ، وقتی طور پر شکست بھی کھانی پڑی، پیچھے بھی ہٹنا پڑا.( یہی پوری تصویر ہے اسلام کی لیکن آخری فتح ان کی ہوئی اور پھر انہوں نے تمام بدعات کو اپنے علاقے سے مٹا دیا اپنے اس مقصدِ بعثت کے حصول میں کامیاب ہوئے اور خالص اسلام کو انہوں نے قائم کیا لیکن پھر بدعات آگئیں پھر اور آگئیں.نئی نسل اپنے عظیم ورثہ کو بھول

Page 102

خطبات ناصر جلد نہم ۸۸ خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۱ء گئی.یہ کشمکش ، یہ جد و جہد، یہ مجاہدہ اسلامی زندگی میں، یہ تو ہے لیکن بتدریج کمزوری کا پہلو، یہ نہیں ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسلام بتدریج ارتقائی مدارج طے کرتا رہا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ واقعہ بھی ہوا کہ ایک منافق نے (لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ ) کہا کہ مدینہ جا کے جو سب سے زیادہ عزیز ہے یعنی وہ خود ملعون منافق ، وہ نعوذ باللہ اس شخص کو جو سب سے زیادہ ذلیل ہے، نکال دے گا.اس قسم کے لوگ وہاں بھی پیدا ہوئے.اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ اسلام یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم نا کام ہوئے.ہرگز نہیں اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ باتیں تو ہوں گی لیکن او کم يَروا أنا نَاتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أطرافها لیکن تدریجی ترقی اس عظیم دین اسلام کوملتی چلی جائے گی.تیرہ سو سال تک جیسا کہ بتایا جاتا رہا اب اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا.اَو لَم يَروا أَنَا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا.یہ اپنے عروج کو پہنچے گا اور نوع انسانی اتنی بھاری اکثریت کے ساتھ کہ جو باقی رہ جائیں گے وہ کسی شمار میں نہیں ہوں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیئے جائیں گے.اسی آیت کے آگے آتا ہے.وَاللهُ يَحْكُم حکم خدا کا جاری ہوتا ہے کوئی اس کو بدل نہیں سکتا لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ (الرعد: ۴۲) ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو کہیں گے ہم خدا کے فیصلوں کو بدلنا چاہتے ہیں.اپنی شریعت بعض لوگ چلانی شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کوئی اس کے فیصلہ کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے.لَا مُعَقِبَ لِحُكْمه اس کے معنی لغت نے یہ کہتے ہیں کہ عَقَبَ الْحَاكِمُ عَلَى حُكْمِ سَلَفہ کہ جو پہلا حاکم ہے اس کے فیصلہ کو وہ تبدیل کرتا ہے اور اس کے اوپر تنقید کرتا ہے اور اس کی غلطیاں نکالنے کی کوشش کرتا ہے.تو لا معقب لحكمه جو خدا کا فیصلہ ہے وہ جاری ہو گا ، جاری رہے گا اور دنیا کا کوئی حاکم جو ہے وہ خدا کے فیصلہ میں غلطیاں نہیں نکال سکے گا.جو خدا کا حکم ہے اس کے مطابق مسلمان کو زندگی گزارنی پڑے گی.جو گزارے گا وہی کامیاب ہو گا جو نہیں گزارے گا خدا جانے ہمیں تو نہیں ہے شوق کہ خدا تعالیٰ کی گرفت کے اندر آئے کوئی.ہم تو دعائیں کرتے ہیں فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ تشاء.آپ بھی اسے سامنے رکھا کریں.بعض احمدی بھی غصے میں آکر کہتے ہیں تو نے جہنم میں جانا ہے.کون ہوتے ہو تم کسی کو جہنم میں بھیجنے والے.ایک عیسائی کے متعلق بھی نہیں ہم کہہ سکتے.اگر فَيَغْفِرُ

Page 103

خطبات ناصر جلد نهم ۸۹ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ہے تو ایک مشرک کے متعلق بھی تم نہیں کہہ سکتے تو جو خدا کا حکم ہے وہ اپنی زندگیوں میں جاری کرولا مُعَقِّبَ لِحُكمه.اور وَ هُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (الرعد: ۴۲) آج پھر اس پر میں غور کر رہا تھا تو وَ هُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ کی یہ تفسیر سامنے آئی کہ چودہ سو سال سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصوبہ کو نا کام کرنے کے لئے کروڑوں منصوبے بنائے گئے اور وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ ان کو نا کام کرتا چلا گیا.بڑی جلد ان کو پکڑا گیا ان پر گرفت ہوئی.کسری نے ایک منصوبہ بنایا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ( تاریخ نے اسے محفوظ رکھا ہے اور یاد رکھنے کی بات ہے ) اس وقت کسری کی ایران میں جو حکومت تھی وہ بڑی طاقتور تھی.دنیا کی دو بڑی طاقتور حکومتوں میں سے ایک تھی دوسری قیصر کی حکومت تھی.جس طرح کسی زمانہ میں سمجھا جاتا تھا.امریکہ اور روس دو بڑی طاقتیں ہیں.اب حالات بہت بدل گئے ہیں لیکن ایک وقت میں یہی بڑی دو سمجھی جاتی تھیں.کسری نے اپنے درباریوں کو اکٹھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے معا بعد اور ان کو کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا وصال ہو گیا اور مسلمان اس وقت ابتری اور انتشار کی حالت میں ہیں.یہ وقت ہے کہ اگر ایک کاری ضرب لگائی جائے تو اسلام کو کلیتاًا صفحۂ ارض سے مٹایا جا سکتا ہے اور کوئی طاقت اس کاری ضرب کے مقابلہ میں ان کی حفاظت کرنے والی نہیں ( اور خدا تعالیٰ نے اس کے منہ سے ایک عجیب فقرہ نکلوایا ) سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ان کو بچالے.اس نے کہا مشورہ دو میں کیا کروں کاری ضرب لگانا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا ہماری سرحدوں پر جو عرب قبائل تھے ، کچھ بت پرست تھے، کچھ عیسائیت کو قبول کر چکے تھے ، آپ کے بڑے احسان رہے اسلام کے آنے سے پہلے ان قبائل پر.ہمارے وہ غلاموں کی طرح تھے دربار میں آتے تھے گھٹنے ٹیکتے تھے آپ کے سامنے.ان سرداروں کو بلائیں اور ان سے کام لیں کیونکہ وہ حدیث العہد ہیں ان کے اسلام پر لمبا عرصہ نہیں گزرا.نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں ان کی تربیت کوئی نہیں ہے.وہ قابو آ جائیں گے آپ کے.اس نے کہا بڑا صحیح مشورہ ہے.اس نے پیغام بھیجے.چھ اور سات سو کے درمیان عرب سردار اس کے دربار میں اکٹھے ہوئے.پس ان کا اندازہ صحیح تھا اور ان

Page 104

خطبات ناصر جلد نهم ۹۰ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء سے اس نے مشورہ کیا.ان کو روپے دیئے ، ان کو ہتھیار دیئے اور کہا اس طرح جا کے ارتداد کر دو اور اس قدر عظیم یہ فتنہ تھا اسلام کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد کہ بات اس کی سچی تھی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس وقت اسلام کو نہیں بچا سکتی تھی سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ اسلام کی حفاظت کرتا.اتنے بڑے فتنہ کو مٹانے کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف اٹھارہ ہزار کی فوج تیار کر سکے اور ہر معرکہ نئی فوج کے ساتھ ستر اسی ہزار کی نئی فوج کے ساتھ ہوا.خیر وہ لمبی تفصیل ہے اور ناکام ہو گیا.ابھی جب وہ گھتم گتھا ہورہے تھے مسلمانوں کے ساتھ تو قیصر نے یہ سمجھا دوسرا منصوبہ بنایا جائے کہ یہ تو ادھر پھنسے ہوئے ہیں پیچھے سے ضرب لگاؤ.آگے بڑھا لیکن اس کو معلوم ہو گیا.پہلی دو تین جنگوں میں کہ میرے اندازے غلط نکلے.یہ اتنے کمزور نہیں کہ میں ان کو آسانی سے شکست دے سکوں.پھر اس نے اکٹھا کیا دربار میں اپنے مشیروں کو اور کہا کہ میں ایک ایسی ضرب لگانا چاہتا ہوں کہ مدینہ میں بھی کوئی مسلمان نہ رہے.اس منصو بہ کے لئے تین لاکھ کی فوج تیار کی گئی جو اس محاذ پر حملہ آور ہوئی.صرف چالیس ہزار مسلمان ان کے مقابلے میں آئے.جب صف آرائی ہوئی تو انہوں نے پچھتر پچھتر ہزار کے یونٹ بنا کے چارحصوں میں محاذ جنگ کو تقسیم کر کے مستقل کمانڈرز کے ماتحت انہیں کر دیا اور ہر چھتر ہزار کے مقابل صرف دس ہزار مسلمان تھے لیکن خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ میں نے فیصلہ کر دیا ہے.نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا یہ جیتیں گے.وَاللهُ يَحكُم حکم خدا کا جاری اور کامیاب ہوتا ہے.لَا مُعَقِّبَ لِحُکمہ انجام قیصر کی فوجوں کی شکست.یرموک کے میدان میں ستر ہزار لاشیں چھوڑ کر قیصر کی تین لاکھ فوج کا بھاگ کھڑا ہونا ثابت کرتا ہے لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِہ خدا کے حکم کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.اب آج کے زمانہ میں چودہ سو سال ہمارے بزرگ جو کہتے آئے کہ اس زمانہ میں جس کو آخری زمانہ کہا گیا ہے یہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا.نَاتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا اپنے عروج کو پہنچے گا اور پورا ہوگا اور نوع انسانی کو اسلام کا حسن اور اسلام کا احسان اور اسلام کا نور اپنے احاطہ میں لے گا اور ایک خاندان کی طرح ان کو

Page 105

خطبات ناصر جلد نهم ۹۱ خطبه جمعه یکم مئی ۱۹۸۱ء بنادے گا.یہ پورا ہوگا اس کے مقابلے میں آج کون شخص کھڑا ہو کے یہ کہے گا کہ خدا نے تو کہا تھا کہ لَا مُعَقِّبَ لِحُكمه ، میں آج خدا کے فیصلے میں تبدیلی کرتا ہوں.کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا.خدا کا کہا ضرور پورا ہوگا.روز نامه الفضل ربوه ۳/ جون ۱۹۸۱ صفحه ۲ تا ۷ )

Page 106

Page 107

خطبات ناصر جلد نهم ۹۳ خطبه جمعه ۸ / مئی ۱۹۸۱ء متقی اور مطہر قرار دینا صرف اللہ کا کام ہے خطبه جمعه فرموده ۸ رمئی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری طبیعت پہلے کی نسبت اچھی ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ.اسلام نے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ وہ لوگ جو بے نفس زندگی گزاریں گے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں گے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے اپنے مقرب کے سامان پیدا کرے گا اور ان کی رفعتوں کے سامان پیدا کرے گا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی عاجزی اور انکساری بعض دفعہ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان (اپنے نفس کو اس طرح ) خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے عرفان کے نتیجہ میں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کی وجہ سے اپنے نفس کو مٹی میں ملا دیتا ہے.جو ایسے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اٹھا کر ساتویں آسمان تک لے جاتا ہے.رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ لیکن یہ جو رفع ہے ساتویں آسمان تک یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے لیکن جو مقام انسان کے لئے پسند کیا گیا ہے وہ مقام عجز ہے تو اضح اور انکسار کا مقام ہے.وہ مقام ہر پہلو سے متکبرانہ راہوں کو نہ اختیار کرنے کا ہے.تکبر کے متعلق بھی

Page 108

خطبات ناصر جلد نهم ۹۴ خطبہ جمعہ ۸ رمئی ۱۹۸۱ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا انذار ہے آپ نے تنبیہ کی اور ڈرایا ہے.یہ جو انسان کے دل میں تکبر پیدا ہوتا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں.دُنیوی لحاظ سے دولت، اقتدار، جتھہ، یہ خیال کہ کوئی انسان ایک اچھی قوم میں پیدا ہوا ہے، جاٹ ہے ،مغل ہے یا اور کوئی اس قسم کی ذات ہے جسے دنیا بڑا سمجھتی ہے جسے اللہ بڑا نہیں سمجھتا.تکبر علم کی وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے.بعض انسان خدا کی دی ہوئی فراست کے نتیجہ میں جب علمی میدانوں میں آگے نکلتے ہیں متکبر بن جاتے ہیں.جو ان سے کم علم ہیں ان کے ساتھ حقارت کا سلوک کرنے لگ جاتے ہیں.دُنیوی طاقتیں جو ہیں وہ دُنیوی لحاظ سے کمزوروں کی عزت نہیں کیا کرتیں اور بڑے فخر سے اپنے آپ کو بلند مجھتی ہیں، غرضیکہ بہت سی وجوہات ہیں جن کے نتیجہ میں انسان عاجزانہ راہوں کو چھوڑ دیتا اور متکبرانہ طریقوں کو اختیار کر لیتا ہے.ایک وجہ دین اور مذہب بھی بن جاتا ہے اور اسی کے متعلق اس وقت میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.ہمارے عقیدہ کے مطابق مہدی اور مسیح علیہ السلام آگئے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم انہیں شناخت کریں.بدعات سے پاک جو اسلام انہوں نے ہمارے سامنے رکھا اسے قبول کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نور اور جوحسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان پر عام طور پر اور ہر فرد واحد پر خصوصاً جو احسان ہے اس سے ہمیں متعارف کرایا.خدا تعالیٰ کو دنیا بھول چکی تھی.خدا تعالیٰ کی صفات سے نا آشنا ہو چکی تھی ، شناخت کروائی خدا تعالیٰ کی ، صفات کی.ہمیں اس مقام پر کھڑا کیا کہ ہم ایک زندہ خدا سے تعلق پیدا کر سکیں اور اپنی زندگی میں زندہ خدا کی زندہ طاقتوں کا مشاہدہ کرسکیں.ہم میں سے بہتوں کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی توفیق ملی خدا کے فضل سے.جماعت احمدیہ میں بھی بعض دفعہ میں دیکھتا ہوں بعض لوگ اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ان پر ہوا عاجزانہ راہوں کو چھوڑ کر متکبرانہ راہوں کو اختیار کر لیتے ہیں.جہاں تک روحانی پاکیزگی اور تقویٰ کا سوال ہے ظاہر ہے کہ روحانی طور پر پاکیزہ وہ نہیں جو اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھتا ہے.روحانی طور پر پاکیزہ وہ ہے جسے خدا پاکیزہ قرار دیتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا کہ متقی کون ہے اور کون نہیں

Page 109

خطبات ناصر جلد نهم ۹۵ خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۱ء یہ میرا اور آپ کا کام نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس سلسلہ میں قرآن کریم نے جو ہدایت دی وہ غیر مشتبہ اور واضح اور بین ہے.اس وقت میں تین آیات کو لے کے آپ کے سامنے پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے :.وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَيِّ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - ( النور : ۲۲) اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رم تم پر نہ ہوتا تو کبھی بھی تم میں سے کوئی پاک باز نہ ہوتا لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے پاک بازا سے قرار دیتا ہے اور پاک بازا سے بنادیتا ہے.اللہ تعالیٰ بہت سننے والا ہے.سمیع ہے.تمہارے بلند دعاوی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی فیصلہ نہیں کرنا.ہر بات جو تمہارے منہ سے نکلتی ہے وہ سنتا ہے.ہر خیال جو تمہارے دل میں گزرتا ہے علیہ اسے وہ جانتا ہے.سینوں کے حالات سے واقف ، جو زبانوں پر تمہاری آتا ہے وہ اس سے پوشیدہ نہیں لیکن محض تمہارے دعادی کے نتیجہ میں تمہیں وہ پاکیزہ اور مطہر نہیں قرار دے گا بلکہ جس پر چاہے گا اپنا فضل نازل کرے گا.جسے پسند کرے گا اپنی رحمت سے نوازے گا.جسے چاہے گا ایسے اعمال کی توفیق عطا کرے گا جنہیں چاہتا ہے کہ بندے اس کے حضور پیش کریں اور جن اعمال کو چاہے گا اور پسند کرے گا انہیں وہ قبول کر لے گا.انسان اپنی جہالت کے نتیجہ میں انسان کو تو یہ حق دینے کے لئے تیار ہو گیا کہ جب کچھ اشیاء پیش کی جائیں اس کے سامنے تو ان بہت سی اشیاء میں سے جسے چاہے پسند کر لے اور جسے چاہے واپس کر دے.مسلمان بادشاہ جو حاکم رہے ہیں ہندوستان کے ایک وقت میں جب خوشامد بہت بڑھ گئی ان کی تو لوگ ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک ایک ہزار تحفہ ایک عید کے موقع پر ان کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان کا دستور یہ تھا کہ مثلاً ایک کپڑا پسند کر لیا ان پانچ سو نہایت قیمتی کپڑے کے تھانوں میں سے جو ان کے سامنے رکھے گئے اور کہا باقی تم واپس لے جاؤ جس طرح چاہو استعمال کرو.ملک کے لحاظ سے اقتصادی طور پر فائدہ بھی تھا اس میں.لیکن ان کی ایک چیز اٹھا لیتے تھے وہ اپنی رعایا میں سے ایک فرد کو خوش کرنے کے لئے.

Page 110

خطبات ناصر جلد نهم ۹۶ خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۱ء جوانسان بادشاہ کو حق دیتا ہے کہ جس چیز کو چاہے پسند کرے اور قبول کر لے لیکن اپنے خدا سے جو خالق اور مالک ہے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہر رطب و یابس جو ہم اس کے حضور پیش کریں وہ اسے قبول کر لے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے جس چیز کو چاہتا ہے، جن اعمال صالحہ کو پسند کرتا ہے قبول کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ تمہیں پاکیزگی بخشتا ہے،طہارت پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرتا ہے.پاکیزہ اعمال تم سے سرزد ہوتے ہیں اور وہ تم سے خوش ہوتا ہے اور اپنے قرب کی راہیں تمہارے اوپر کھولتا ہے وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَنِي مَنْ يَشَاءُ اگر خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ قرار دے اس وقت تک وہ پاک نہیں ہوسکتا.اس لئے اس میدان میں عاجزانہ راہوں کو چھوڑ نا ہلاکت کی راہ کو اختیار کرنا ہے.سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَاكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ آجِنَّةُ b فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ٣٣) خدا تعالیٰ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب تمہارے جسم کے ذرے ابھی مٹی میں ملے ہوئے تھے اور اس نے ان ذروں کو اٹھایا اور ایک مادی جسم پیدا کر دیا.وہ اس وقت سے تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا.پھر کم و بیش نو مہینے تم اپنی ماں کے پیٹ میں رہے.نہ ماں کو پتا تھا کہ یہ بچہ کیسا ہے نہ اس بچے کو ہوش تھی کہ میں کیا بنوں گا لیکن خدا جانتا تھا.پس وہ اس وقت سے تم کو خوب جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں پوشیدہ تھے.پس اپنی جانوں کو پاک مت قر اردو - فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم پاک قرار دینا اسی کا حق ہے جو اس وقت سے علم رکھتا ہو جب ذرات زمین ابھی جسمانی روپ میں ظاہر نہیں ہوئے اور بچہ بن کے ماں کے پیٹ میں نہیں گئے اور اس وقت سے جانتا ہے کہ جب ماں بھی نہیں جانتی تھی کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ کیسا نکلے گا اور نہ اس بچے کو کوئی ہوش تھی اس لئے فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمُ اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی یہ فیصلہ کرنا کہ متقی کون ہے اسی ہستی کا کام ہے جو اس وقت سے زمین کے ذروں کو جانتا ہو جس نے جسم بننا ہے اور جو ماں کے رحم میں بچہ کروٹیں لے رہا ہے (اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے ایک وقت کے بعد ) صرف اللہ جانتا ہے.نہ ماں جانتی ہے نہ باپ

Page 111

خطبات ناصر جلد نهم ۹۷ خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۱ء جانتا ہے نہ خود بچہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے آئندہ.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ صرف مجھے اختیار ہے اور مجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اللہ جانتا ہے اس کا کام ہے کہ وہ کس شخص کو متقی قرار دے، کسے متقی قرار نہ دے.اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر دے جنون کی کسی حالت میں کہ میں بھی ان ذرات کے وقت سے جب ابھی جسم نہیں بنے تھے جانتا ہوں بعض لوگوں کو اور ماں کے پیٹ میں جب وہ کروٹیں لے رہے تھے اس وقت سے میں جانتا ہوں اور میں منتقی قرار دیتا ہوں ، یہ تو جنون ہوگا.ہر آدمی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے اور تیرے حواس کو درست کرے.پس اعلان یہ ہو گیا قرآن کریم میں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے جو اس وقت سے تم کو جانتا ہے کہ تم زمین میں مادی ذرات کی شکل میں تھے.پھر اس نے تمہیں اکٹھا کیا اور ایک جسم دیا.انسان کو خلق کیا اور احسن صورت بنائی دوسری آیت میں ہے.اس وقت سے جانتا ہے جب یہ احسن صورت بنانے کی Process شروع ہو چکی تھی ماں کے پیٹ میں.وہ جانتا ہے کہ اس نے تمہیں کون سی صلاحیتیں اور قوتیں اخلاقی اور روحانی طور پر دیں ، وہ جانتا ہے کہ تم نے انہیں ضائع کر دیا یا ان کی صحیح نشو ونما کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا.یہ بات خدا کا پیار ملا یا نہیں ملا یہ تو خدا ہی بتا سکتا ہے نا.اس واسطے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم یہ حکم دے دیا.b اور سورہ نساء میں یہ فرمایا.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا - أَنْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُبِينًا - (النساء:۵۱،۵۰) کیا تجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جو اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں.ان کا یہ حق نہیں ہے.اللہ جسے پسند کرتا ہے اسے پاک قرار دیتا ہے.وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُنظُرُ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ کہ دیکھ وہ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں.جب وہ کسی کو پاک اور مطہر قرار دیتے ہیں تو اس کا تو مطلب یہ ہے نا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر ہے وہ.خدا تعالیٰ کہتا ہے دیکھو.وہ کس طرح خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور

Page 112

خطبات ناصر جلد نهم ۹۸ خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۱ء و یہ وَ كَفَى بِهَ اثْمًا مبينا کھلا کھلا گناہ ہے.ایک دوسرے کو یا اپنے آپ کو متقی اور پر ہیز گار قرار دینا ، خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا اور اِتھ مبین ہے، ایک ایسا گناہ کرنا ہے جو چھپی ہوئی بات نہیں ، کھلی بات ہے.اس واسطے کہ پاک اور متقی کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو خدا کی نگاہ میں پاک اور متقی ہو.پاک اور متقی کے معنی اسلامی تعلیم کی رو سے یہ نہیں کہ کوئی جماعت کسی دوسری جماعت کو پاک اور متقی قرار دے دے.پاک اور متقی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص پاک اور متقی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کو پاک اور متقی قرار نہیں دیتا اور ایک شخص یا ایک گروہ یا ایک علاقہ یا ساری دنیا مل کے کسی کو پاک اور متقی قرار دے تو وہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے اور کھلم کھلا گناہ ہے.بہت سی اور آیات ہیں جن میں اس مضمون کے بعض دوسرے پہلو بیان کئے گئے ہیں.ان میں سے میں نے تین کو اٹھایا ہے.اس واسطے انسان کا جو کام ہے وہ انسان کو کرنا چاہیے اور انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے کبھی تکبر نہ کرے.کبھی کسی سے خود کو بڑا نہ سمجھے.کبھی گھمنڈ اور فخر اس کے دل میں پیدا نہ ہو.نہ دُنیوی برتریاں ، جو دنیا کی نگاہوں میں ہیں ان کے نتیجہ میں ، نہ دین میں جب دین خدا اسے عطا کرے، نا سمجھی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی تلاش کرنے کی بجائے جو دعا کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہوتے ہیں خود ہی فیصلہ کرنا شروع کر دے کہ میں یا فلاں لوگ جو ہیں وہ پر ہیز گار اور متقی ہیں.ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی آنکھ میں ہمیشہ پیار دیکھنے والے ہوں کبھی غصہ اور نفرت اور حقارت اس کی نگاہ میں ہماری آنکھ نہ دیکھے.آمین.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے فرما یا :.میں نے اس وقت تین آیتیں لے کر کچھ باتیں کی ہیں.یہ ایک لمبا مضمون ہے جس کی تمہید میں بیان کر رہا ہوں.جو خطبہ میں نے دیا اسلام آباد میں اس میں اس مضمون کی تمہید کے طور پر میں نے یہ بات بتائی تھی کہ لَهُ الْحُكْمُ (الانعام : ۶۳) حکم جو ہے، فیصلہ جو ہے وہ خدا کا جاری ہوتا

Page 113

خطبات ناصر جلد نهم ۹۹ خطبہ جمعہ ۸ رمئی ۱۹۸۱ء ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے خلاف اور متضاد ہو وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ابھی تک میں تمہید بیان کر رہا ہوں.اسلام آباد میں چار باتیں میں نے بیان کی تھیں اور ایک بات آج میں نے بیان کی ہے.یہ اپنے ذہن میں حاضر رکھیں تا جب اصل مضمون بیان کروں آپ کو اسے سمجھنے میں آسانی رہے.خدا تعالیٰ ہمارے لئے ہر قسم کی آسانیوں کے سامان پیدا کرے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۴؍جون ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 114

Page 115

خطبات ناصر جلد نهم 1+1 خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء قادر مطلق اور متصرف بالا رادہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جب سے مجھ پر بار بار گرمی لگ جانے ، لو لگنے کے حملے ہوئے اس وقت سے گرمی میری بیماری بن چکی ہے اور بہت تکلیف دیتی ہے.اس بیماری میں میں باہر نکل آیا ہوں.مختصر سا خطبہ دوں گا.ایک مضمون کی تمہید ابھی میں بیان کر رہا ہوں.دو تین خطبات میں نے پہلے دیئے ہیں اسی تمہید کے تسلسل میں آج میں بیان کروں گا.سورۂ مائدہ کی آیات ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷، ۵۱،۵۰،۴۹،۴۸ ان گیارہ آیات میں ایک بنیادی مضمون بیان ہوا ہے اس مضمون کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور حکومت اللہ کی ہے.حکم اسی کا چلتا ہے ساری کائنات میں ، کائنات کی ان اشیاء میں بھی جنہیں آزادی نہیں اور جن کی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( التحريیم : ۷) جو حکم ہوتا ہے ویسا کر دیتے ہیں اور اللہ ہی کا حکم چلتا ہے ان پر بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص دائرہ میں آزادی ضمیر دی ہے.بادشاہت اور حکومت اللہ ہی کی ہے.حکم

Page 116

خطبات ناصر جلد نهم ۱۰۲ خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء اسی کا چلتا ہے اس پر میں ایک خطبہ دے چکا ہوں.ان آیات میں اس بنیادی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے اس وقت چند باتوں کے متعلق میں کچھ کہوں گا.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان کیا ہے کہ حکم تو اللہ ہی کا چلے گا.اگر میرے حکم نہ مانو گے تب بھی میرا چلے گا حکم.یہاں یہ فرمایا کہ جس حصہ کا ئنات میں ہم آزادی ضمیر پاتے ہیں وہاں بھی حقیقت یہی ہے کہ نیک و بد کی آزادی تو ہے مگر عذاب و مغفرت کی دوقوسوں نے ان اعمال کو بھی ایک پورے دائرہ کے اندرگھیرا ہوا ہے جس سے ظاہر وعیاں ہے کہ قادر مطلق اور متصرف بالا رادہ اللہ ہی کی ذات ہے اور کوئی شے یا عمل اس کی حکومت سے باہر نہیں یعنی انسان کو آزادی بھی دی نیکی اور بدی کا اختیار بھی دیا ، اعمال سوء اور اعمالِ صالحہ کے بجالانے کی قوت اور طاقت بھی دی اور پھر جس طرح کا بھی وہ عمل کرے اس کے او پر حکم اللہ ہی کا چلے گا.فیغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (البقرة : ۲۸۵) ان آیات میں انسان کو کہا گیا وَ آنِ احْكُمُ بَيْنَهُم بِمَا اَنْزَلَ اللهُ (المآئدة: ۵۰) کہ انسانوں کے درمیان اللہ کی وحی کے مطابق احکام جاری کرو ( مخاطب ہیں یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر مخاطب ہیں وہ جو آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے سے ہر انسان کے لئے یہ حکم ہے بنیادی طور پر ) کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام انسانی زندگی کے لئے نازل کئے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دے دی گئی.بِمَا أَنْزَلَ اللهُ ) اللہ تعالیٰ نے جو نازل کیا اور جو احکام وحی کے ذریعہ اترے ان کے مطابق تم باہمی تعلقات کو استوار کیا کرو.وَلَا تَتَّبِعُ أَهْوَاءَهُمْ اور خدا کی مرضی کو چھوڑ کے دوسروں کی خواہشات بد کے پیچھے نہ چلا کرو.اور پھر یہاں ان آیات میں اشارہ ہے کہ اس بنیادی حکم کے علاوہ جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اس پر عمل کرو.تفصیلا حکم بتائے ہیں مثلاً انہی آیات میں کہا.وَ إِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (المائدة : ۴۳).اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف

Page 117

خطبات ناصر جلد نهم ۱۰۳ خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء سے فیصلہ کر.اللہ یقیناً انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ بِمَا اَنْزَلَ اللہ پر عمل کرنے میں جو چیز روک بنتی ہے، وہ ایک نہیں بہت سی ہیں.جن کا ذکر لا تَتَّبِعْ اهُوَ اءَ ھم میں ہے ان میں سے ایک چیز جو روک بنتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت کو چھوڑ کے غیر اللہ کی خشیت دل میں پیدا کرنا ہے یعنی صاحب اقتدار سے ڈرنا، صاحب دولت کے سامنے جھکنا، صاحب علم سے خوف کھانا کہ یہ پروفیسر لگا ہوا ہے ہمارے ساتھ بے انصافی کرے گا اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی اور خدا کی بات مان لی اس کے مقابلے میں.بہت ساری چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ (المائدة : ۴۵ ) النّاس کا خوف دل میں پیدا نہ ہو.انسان کو خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے علمی طاقتوں اور استعدادوں میں اس کو بلند بنایا یا صاحب دولت اس کو 919991 بنا دے وه يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (البقرة : ۲۱۳) جو الناس ہیں.جس طرح، جس رنگ میں، جس حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے، صاحب اقتدار ہیں ، کوئی نواب بن بیٹھے ہیں، کوئی رسہ گیر بن بیٹھے ہیں، کوئی چوہدری بن بیٹھے ہیں.انسان بعض دفعہ اپنی غفلت کے نتیجہ میں یا اپنی کمزوری کی وجہ سے یا بزدلی کے نتیجہ میں ان سے ڈرنے لگتا ہے اور ان کے خوف سے خدا تعالیٰ کی بات ماننے سے عملاً انکار کر دیتا ہے.تو فَلا تَخْشُوا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ - النَّاسَ سے جن کو میں نے پیدا کیا مختلف حیثیتوں میں ان سے مت ڈرو.صرف میری خشیت ، صرف میری خشیت تمہارے دلوں میں ہونی چاہیے.وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثمنا قليلاً جو احکام میں نے نازل کئے (آیة کا لفظ قرآن کریم میں قرآن کریم کی آیات اور احکام کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے ) اپنی عظمت اور کبریائی کی معرفت کے حصول کو آسان کرنے کے لئے جو اس کا ئنات میں میری صفات کے جلوے ظاہر ہوئے (ان جلووں کو بھی قرآن عظیم نے آیات کہا ) اور تمہیں تنبیہ کر کے انداری پیش گوئیاں جو نازل ہوئیں ان کی حقیقی قدر پہچانو.کہنے والے نے کہہ دیا انا ربكم الأعلى (النازعات : ۲۵) کس خدا کی تلاش میں ہو تم.سب سے بڑا رب تو میں ہوں.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میری خشیت تمہارے دل میں

Page 118

خطبات ناصر جلد نهم ۱۰۴ خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء نہیں ہوگی اور میری بجائے الناس کی خشیت تمہارے دل میں ہوگی.تو تم گھاٹے کے سودے کرنے لگ جاؤ گے.میرے ساتھ تجارت کرو گے تو بغیر حساب کے بدلہ دوں گا.ان سے تجارت کرو گے تو تمہارا مال بھی لوٹ کے لے جائیں گے.جیسا کہ دنیا میں ہو رہا ہے اور یا درکھو.وَمَنْ لم يَحْكُم بِمَا اَنْزَلَ الله (المائدة : ۴۵) جو شخص یا جو جماعت یا جو صاحب اقتدار اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کے کوئی اور حکم جاری کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف فیصلے کرتا ہے.فَأُولَبِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ (المائدة : ۴۵ ) - ان آیات میں مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا انْزَلَ اللہ کے چار نتائج بیان کئے گئے ہیں.( تین آیات ہیں ).کفر کے دو معنی ہیں انکار کے اور ناشکری کے تو جو شخص مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ الله تعالى نے انسان کی بھلائی کے لئے جو کچھ اتارا ہے.ان احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ناشکرا بنتا ہے اور یا وہ خدا تعالیٰ کا منکر بنتا ہے اور قرآن کریم نے ہر دو کے متعلق سزاؤں کا ذکر خود بیان کیا ہے.تو یہاں یہ بتایا گیا کہ دیکھو اگر تم خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف اپنی زندگی کے فیصلے کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ سلوک وہ ہو گا جو قرآن کریم کہتا ہے کہ ایک کافر سے ہوا کرتا ہے.تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک وہ ہوگا جو قرآن کریم کہتا ہے کہ ایک ناشکرے کے ساتھ ہوا کرتا ہے.ان آیات میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے بڑے تفصیلی حکم دے دیئے.جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت، زخم کے بدلے اس قسم کی سزا اس کو ہو جائے.تفصیلی معین احکام بیان کر دیئے ہیں.معاشرہ کو برائیوں سے بچانے کے لئے اور امن کو قائم کرنے کے لئے مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ الله (المائدة : ۴۶).پہلے تفصیل بیان کی حکم کی.پھر اصول بیان کیا کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے.فَأُولبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (المائدة : ۴۶ ) اُن کی زندگی ولیسی بن جائے گی جیسی قرآن کریم کے مطابق ظالموں کی زندگی ہوا کرتی ہے.ظلم کے معنے ہیں کہ

Page 119

خطبات ناصر جلد نهم ۱۰۵ خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء جس جگہ کوئی چیز ہونی چاہیے وہاں نہ رکھنا اس کو ، جس کا حق ہے وہ لے لینا.جو طاقت مثلاً ایٹم میں رکھی انسانیت کی بھلائی کے لئے انسان کی ہلاکت کے لئے اُسے استعمال کرنا.تو جب بھی تم احکام الہی کو توڑو گے، تمہاری زندگی ظالم اور مظلوم والی زندگی بن جائے گی.فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ تو جہاں ظالم ہے وہاں مظلوم بھی تو ہے.کسی ظالم نے کسی پر ظلم بھی کیا ہے نا.تمہارا معاشرہ احسان کرنے والے اور شکر گزار بندوں کا نہیں ہوگا بلکہ ایک حصہ ظلم کر رہا ہو گا ایک حصہ ظلم سہہ رہا ہوگا اور ظلم سہنے والا حصہ جب اس کو موقع ملے گا وہ ظالم بن جائے گا اور ایک دوسرا حصہ ظلم سہنے والا بن جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے متعلق جو سزا قرآن کریم میں بتائی ہے وہ تو بہر حال اس کو ملنی ہے لیکن اس معاشرے میں بھی ایک گند پیدا ہو گا.تیسری سزا یہ بتائی کہ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا انْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَيسِقُونَ (المائدة : ۴۸) و شخص یا وہ لوگ یا وہ معاشرہ یا ده سیاسی اقتدار یا ده اقتصادی ازم (Ism) جو اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنے والا ہے.وو فأوليكَ هُمُ الفيسقُونَ چوتھی ان کی صفت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ وہ فاسق ہیں اور معصیت کے کام کرنے والے ہیں وہ اپنے نیک کاموں سے اپنے نفس پر اسلامی حسن نہیں چڑھانے والے بلکہ گندا معاشرہ پیدا کرنے والے ہیں.وہ فسق و فجور میں مبتلا ہونے والے ہیں اور اگر تم خدا تعالیٰ کے احکام کو نظر انداز کر دو گے ، انہیں توڑ دو گے، ان پر عمل نہیں کرو گے تو ایسا معاشرہ پیدا ہو جائے گا جو فاسقوں کا معاشرہ ہے.اخلاقی لحاظ سے گراوٹ ، بدعہدی، بد نیتی ، امانتوں کا خیال نہ رکھنا، لوگوں کے حقوق تلف کرنا، بچیوں کی عصمت کی حفاظت کا خیال نہ رکھنا وغیرہ وغیرہ یہ چیزیں ہمیں ایسے معاشرہ میں آج نظر آتی ہیں.یورپ میں جو مہذب دنیا کہلاتی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنے کے نتیجہ میں انہوں نے ایک نہایت گندی زندگی کو قبول کیا.یہاں یہ جو آیت ہے جس کے آخر میں آیا ہے.وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الفسقُونَ اس سے پہلے ہے تورات وانجیل کا ذکر اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے تفسیری نوٹ میں ایک جگہ مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے یہ نہیں لینا

Page 120

خطبات ناصر جلد نهم 1+4 خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۱ء چاہیے یعنی غلط ہوگا اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ تو رات اور انجیل ( آج جو بگڑی ہوئی شکل میں ہیں ویسے بھی قرآن کریم کے بعد تو ان کی ضرورت نہیں تھی ) کے احکام پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کتب بنی اسرائیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت ہے اور ایک عظیم تعلیم کے نازل ہونے کی بشارت ہے جو قرآن کریم کی شکل میں نازل ہو گیا.تو اللہ تعالیٰ نے گویا یہ فرمایا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ تورات اور انجیل کے تاکیدی حکم پر عمل نہیں کرتے اور احکام الہی جو قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں ان کے مطابق حکم اور فیصلہ نہیں کرتے بلکہ احکام قرآنی کو توڑتے ہیں.اس طرح تو وہ ہدایت نہیں حاصل کر سکیں گے.پس آج کے خطبہ میں (جو ایک تمہید ہے ) میں نے بنیادی چیز جو لی وہ یہ ہے کہ الحکم لله (المؤمن: ۱۳) اس تمہید سے متعلق گیارہ آیات ہیں.یہ مضمون شروع یہاں سے ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت اور اس کی حاکمیت جو ہے وہ اس کا ئنات میں قائم ہے لیکن آج کے خطبہ میں میں نے یہ بتا یا کہ حکم ہے انسانوں کو کہ احکام الہی کے مطابق فیصلے کرو.اس کے متعلق میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں خطبے میں لیکن آج کے خطبہ میں اس پر اضافہ میں نے یہ کیا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وہی سلوک ہوگا جو قرآن کریم نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کافروں کے ساتھ اس کا یہ سلوک ہوتا ہے، ناشکروں کے ساتھ اس کا یہ سلوک ہوتا ہے ، ظالموں کے ساتھ اس کا یہ سلوک ہوتا ہے اور فاسقوں کے ساتھ اس کا یہ سلوک ہوتا ہے، حکومت اسی کی ہے.کوئی شخص خدا تعالیٰ کے حکم سے انکار کر کے ایک اچھی ، گند سے پاک، ایک معصوم ایک خوشحال ، ایک خوش بخت زندگی نہیں گزار سکتا.خدا کو ناراض کرنے کے بعد ہلاکت ہے جنت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں جنت کا وارث بنائے اور ہر قسم کی ہلاکتوں سے محفوظ رکھے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۳ تا ۵ )

Page 121

خطبات ناصر جلد نهم ۱۰۷ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ کی خشیت دلوں میں پیدا کر کے اپنی مالی قربانیوں کے وعدوں کو پورا کریں خطبه جمعه فرموده ۲۲ رمئی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میری بیماری کی شدت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہو چکی ہے لیکن اس کے کچھ آثار ابھی باقی ہیں اور یہ گرمی بھی میری بیماری بن گئی جب اوپر نیچے کام کی وجہ سے اور خدا کا قانون توڑنے کے نتیجے میں آگے پیچھے دو تین لو لگنے کے مجھ پر حملے ہوئے.اس کے بعد سے گرمی مجھے بے حد تکلیف دیتی ہے اور میں اس موسم میں بڑی نقاہت محسوس کرتا ہوں.دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ تھوڑی بہت تکلیف جو باقی رہ گئی ہے وہ بھی دور ہو جائے.آج میں اپنے مضمون سے ہٹ کے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا اور اس کی تدریجی ترقی کے وعدے دیئے جو ہم نے گزشتہ بانوے سال میں پورے ہوتے دیکھے.جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں نے جماعت کو ایک چھوٹی اور کمزور سی حالت میں بھی دیکھا.پھر بتدریج بڑھتے ہوئے آج اس مقام پر پہنچی ہوئی بھی دیکھ رہا ہوں کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں مضبوط احمدی جماعتیں قائم نہ ہو چکی ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول کیا اور اپنے وعدوں

Page 122

خطبات ناصر جلد نهم ۷۰۱ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء کو پورا کیا.یہ بھی سوچتا ہوں شاید ہم نے وہ شرائط تو پوری نہیں کیں جو وعدوں کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں قرآن کریم میں.مثلاً اسی ایک مثال کو لے لیں جو یہ وعدہ تھا کہ تم زندگی کے ہر شعبہ میں بالا دستی حاصل کرو گے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بشرطیکہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے چلے جاؤ گے.ایمان کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کر نے والی تو جماعت ابھی نہیں بنی لیکن اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی چادر کے نیچے ہماری کمزوریوں کو چھپا لیا اور اپنے وعدوں کو ہمارے حق میں پورا کر دیا اور آنا ناتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۖ أَفَهُمُ الغَلِبُونَ (الانبیاء :۴۵) ایک ایسی حقیقت بنادی ہماری زندگی میں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.میں کئی بار دوروں پر غیر ممالک میں گیا ہوں.غیر مسلموں ، عیسائیوں، جو خدا کے بھی منکر ہیں اور مشرکوں کو میں نے یہ دلیل دی کہ دیکھو خدا نے یہ وعدہ دیا تھا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر صبح کا سورج جب طلوع ہوتا ہے تو وہ جماعت احمدیہ کو پہلے دن سے زیادہ طاقتور اور زیادہ تعداد میں دیکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ مہربانیاں ہمیں غافل کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ اور زیادہ ہشیار کرنے والی ہونی چاہئیں.ہماری قربانیاں یا جو مطالبات اللہ تعالیٰ نے ہم سے کئے ہیں اپنی راہ میں پیش کرنے کے لئے ، جو شرائط اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے لگائی ہیں وہ قرآنِ عظیم کی عظیم تعلیم میں کھول کے بیان کر دی گئیں.وہ صرف مالی قربانی نہیں ، وہ صرف اعمال صالحہ کی قربانی نہیں.( اعمال صالحہ بجالانے کے لئے بھی ایک قربانی دینی پڑتی ہے)، وہ صرف خدا تعالیٰ کی راہ میں مختلف قسم کے مصائب برداشت کرنے کی قربانی نہیں.بہت سی قربانیاں ہیں جو خدا سے پیار کرنے والی جماعت کو خدا کی رضا کے حصول کے لئے دینی پڑتی ہیں اور دینی چاہئیں کیونکہ جو پیش کیا جاتا ہے حقیر ہے لیکن جو ملتا ہے اس کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں.تبلیغ تعلیم اسلامی یعنی جو اسلام کا حسن اور نور ہے، جو اس کی بنیادی خوبیاں ہیں اور جو اس میں قوتِ احسان ہے اور اس قدر موہ لینے والی جو تعلیم ہے اس کو دوسروں تک پہنچانا یہ جماعت کا کام ہے اور ایک وقت تھا کہ (مثلاً) افریقہ کے ممالک جو ہیں مشرقی اور مغربی افریقہ کے ممالک

Page 123

خطبات ناصر جلد نهم 1+9 خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء وہاں کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جو اسلام کے نور ، اس کے حسن ، اس کی قوتِ احسان اور دیگر خوبیوں کو پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو اور پہنچانے کی لگن رکھتا ہو اور اپنی زندگی کے ایک حصہ کو بعض دفعہ بڑے حصہ کو اس راہ میں خرچ کرنے والا ہو.اپنی زندگی کے نسبتاً کم حصہ کو دنیا کمانے پر خرچ کرنے والا اور زیادہ حصہ کو خدا کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرنے والا ایک بھی نہیں تھا، باہر سے جاتے تھے.( یہاں سے ہمارے گئے ہیں) مبلغین بڑے فدائی، بڑے جاں نثار، وہ وہاں کچھ لینے کے لئے نہیں گئے ، تجارت کرنے کے لئے نہیں گئے حالانکہ تجارت کی بڑی راہیں وہاں کھلی ہوئی تھیں لیکن ان کی ساری توجہ اس بات کی طرف تھی کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ان لوگوں کو روشناس کرایا جائے.پچھلے جلسہ سالانہ پر مصطفی صاحب جو تشریف لائے تھے سیرالیون سے اور بڑے سیاستدان اور وزراء میں سے تھے وہ.جب میں ۷۰ ء میں گیا ہوں ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ جماعت احمدیہ سے پہلے ہم مسلمان، اسلام کے متعلق اگر کسی مجلس میں بات ہو جاتی ، گردنیں جھکانے پر مجبور ہو جاتے تھے، بات نہیں کر سکتے تھے.پھر احمدی آئے.پھر انہوں نے اسلام کی بنیادی طاقتیں جو ہیں، حسن بھی ایک طاقت ہے، نور بھی ایک طاقت ہے، قوتِ احسان تو ہے طاقت ، اسلام کی جو طاقتیں تھیں نور تھا اسلام کا حسن تھا عظیم تعلیم ، انسان سوچتا ہے ،غور کرتا ہے، عمل کرتا ہے خوبی ہی خوبی ایک کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری، بے شمار خوبیاں اسلامی تعلیم میں نکلتی چلی آرہی ہیں.پہلی بار ہماری زندگیوں میں احمدیوں نے اسلام کا حسن اور خوبی جو ہے اس سے روشناس کرایا ہمیں اور اب وہ زمانہ گزر گیا.اب کسی مجلس میں اگر اسلام کی بات ہو تو ہم گردنیں اونچی کر کے اسلام کے متعلق بات کرنے لگ گئے ہیں.ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کہ میں احمدی نہیں لیکن جو صداقت ہے اسے چھپا بھی نہیں سکتا.یہ باہر سے جانے والے لوگ تھے اور آج ان ملکوں میں مقامی باشندوں میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جن کے متعلق بعض دفعہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے وہ مبلغ جو واقفین زندگی کہلاتے ہیں اور وہاں ان کو بھیجا جاتا ہے تبلیغ کے لئے اگر سارے نہیں تو بہت ساروں سے زیادہ

Page 124

خطبات ناصر جلد نهم 11.خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء جذ بہ کے ساتھ مقامی آدمی وہاں تبلیغ اسلام کر رہا ہے اور اکثر ان میں سے تنخواہ لئے بغیر.اب پچھلے سال میں گیا ہوں نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوس.اس سے اتنی نوے میل کے اوپر ایک جگہ ہے ILaro (الارو) وہاں جماعت ہے چند ہزار احمدیوں کی (علاقہ ملا کے ) انہوں نے چار مسجد میں بنا ئیں یہ بیس پچیس ہزار کی آبادی ہے غالباً ( صحیح آبادی کا مجھے پتا نہیں ) شہر کے چاروں کونوں میں اس لئے کہ احمدی بکھرے ہوئے تھے شہر میں.پھر انہوں نے ایک جامع مسجد بنائی جس کا افتتاح ان کی خواہش پر میں نے کیا جب میں وہاں گیا.وہاں میں نے یہ سماں دیکھا، ایک تو ان پانچ مساجد بنانے کے لئے انہوں نے مرکز سے ایک پیسہ نہیں مانگا.دوسرے انہوں نے اپنے خرچ پر ایک Van (دین) دس یا بارہ Seater (سیٹر) کی بالکل نئی خریدی اور اس کے او پر لکھا ہوا احمد یہ مسلم مشن کچھ اس قسم کا فقرہ لکھا ہوا تھا.اس کے علاوہ انہوں نے اپنے خرچ پر یہ اپنے خرچ پہ سارا کام کر رہے ہیں ) پانچ سات آدمیوں نے موٹر سائیکل لئے ہوئے ہیں اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے.ہرا تو ار کو ان کا ایک وفد علاقے میں جا کے تبلیغ کرتا ہے.وہاں کچھ عرصے سے پہلے تو وہاں نہیں تھا ) ایک مبلغ بھی ہے لیکن ایک مبلغ ہے اور باقی سات آٹھ تو Paid ( پیڈ ) نہیں ہیں.جو گاڑی استعمال کرتے ہیں وہ مبلغ کی نہیں ہے، وہ مرکز کی نہیں ہے، جو موٹر سائیکل ہیں وہ بھی ذاتی ہیں ان کے.جو خرچ کرتے ہیں پٹرول یا ڈیزل کے اوپر وہ اپنا خرچ کر رہے ہیں اور ہر ہفتے الا رو کے گرد وہ جاتے ہیں کبھی مشرق کی طرف کبھی مغرب کی طرف کبھی شمال کی طرف، کبھی جنوب کی طرف اور مجھے انہوں نے بتایا کہ ( دوتین سال سے انہوں نے یہ پروگرام بنا کے کام شروع کیا ہے ) چودہ آبادیوں میں نئی جماعتیں قائم کر چکے ہیں.یہاں ایسے مبلغ بھی ہیں پاکستان میں کہ اگر کسی ایک کو ہدایت دینے کا ذریعہ بن جائیں تو سمجھتے ہیں کہ طارق کی طرح ہم نے سپین کو فتح کر لیا.تو باہر کے جو ممالک ہیں انہوں نے ایک عظیم مہم جاری کر رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو عظیم منصوبہ تھا اس کا بڑا بوجھ اٹھا لیا.دنیا کے بہت سے حصوں میں ، افریقہ میں گیا وہاں بھی بعض کمزوریاں ہیں وہ ہمارے لئے برکتیں بن جاتی ہیں مثلاً فارن ایکسچینج وہاں سے بھی باہر نہیں جا سکتا

Page 125

خطبات ناصر جلد نهم 111 خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء لیکن وہ جو پیسے اکٹھے کرتے ہیں وہ اپنے ملک میں خرچ کرتے ہیں اور اس طرح بہت ترقی کر رہے ہیں کہ ایسا احساس ہوتا تھا نا نا میں کہ شاید سارا ملک ہی احمدی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ بڑی جلدی مستقبل قریب میں ملک کی اکثریت شاید احمدی ہو جائے.ایسے حالات پیدا اللہ تعالیٰ کر رہا ہے وہاں.کتابوں کی اشاعت ہے.ایک وقت تھا کہ ایک ورقہ بھی اگر چھپ کے دنیا میں تقسیم کرنا ہوتا تھا تو مرکز کے انتظام میں ، مرکز کے خرچ پر ، مرکز کے ملک میں وہ چھپتا تھا اور پھر دنیا میں جاتا تھا.جو باہر جا تا تھاوہ تو تقسیم ہو جاتا تھا مگر ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں یہ واقعہ ہوا کہ خیبر لاج مری بوجہ حضور کی بیماری کے خالی پڑی رہتی تھی اور اس میں مربی صاحب رہتے تھے.ہم نے مختصر سا پروگرام بنایا وہاں جانے کا اور جو مبلغ صاحب جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ٹھہرے ہوئے تھے ، ان کو کہا کہ پانچ سات بچے حضرت صاحب کے آرہے ہیں اسے خالی کر دو.تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ میں بیوی بچوں کو لے کے تو چلا جاتا ہوں مگر ایک کمرے میں ضروری کا غذات ہیں وہ مجھے اجازت دے دیں کہ اس کو میں تالا لگا دوں وہ میں خالی نہیں کروں گا.میرا اس انتظام میں کبھی بھی تعلق نہیں رہا جو بھی منتظم تھے انہوں نے کہا ٹھیک ہے وہ کمرہ نہ خالی کرو.جب میں گیا تو مجھے شبہ پڑا.میں نے ان کو بلا یا.میں اس وقت صد رصدر انجمن احمد یہ تھا.میں نے کہا میں اس کمرے میں دیکھنا چاہتا ہوں تمہارے ضروری کا غذات کون سے ہیں؟ جب میں نے کمرہ کھلوایا تو اس مبلغ کے دو تین سال کے سارے زمانہ میں اور اس سے پہلے مبلغ کے سارے زمانہ میں اور اس سے بھی شاید پہلے جتنا لٹریچر،رسالے اور کتا ہیں اصلاح وارشاد نے ان کو تقسیم کرنے کے لئے بھیجی تھیں وہ زمین کے فرش سے لے کے چھت تک بھری ہوئی تھیں.یعنی کوئی کام ہی نہیں کیا اور شاہد مبلغ ہیں.ہمارا احترام ہونا چاہیے ہماری عزت ہونی چاہیے.تمہیں انسان عزت نہیں دے سکتا قرآن نہیں پڑھتے تم ؟ قرآن کریم میں اعلان کیا گیا.تم عزت چاہتے ہو فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء : ۱۴۰) اور جمیعا جو ہے لفظ اس پر غور کرو.ہر قسم کی ، ہر Quantity ( کوانٹیٹی) میں عزت جو ہے وہ

Page 126

خطبات ناصر جلد نهم ۱۱۲ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء صرف خدا سے مل سکتی ہے.دُنیوی عزتیں بھی خدا سے مل سکتی ہیں.دُنیوی وہ عزتیں جو خدا سے نہیں ملتیں وہ تو آنی جانی ہیں.جتنی انسان نے انسان کو عزت دی اس سے زیادہ جوتیاں ماریں اور وہ عزت اس کی چھین لی.ساری اپنی تاریخ دیکھو، دنیا کی تاریخ دیکھو قائم رہنے والی ، دائم رہنے والی وہ عزتیں نہیں ہیں.قائم اور دائم رہنے والی وہ عزت ہے جو خدا سے ملتی ہے اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے اس عزت پر انسان کا.جتنے یہاں ہمارے پاس شاہدین ہیں اس سے میرے خیال میں سوگنے سے بھی زیادہ ان سے زیادہ بہتر کام کرنے والے بغیر تنخواہ کے ساری دنیا میں احمدی احمدیت کے لئے قربانیاں دے کے کام کرنے والے ہیں.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کے عاجز بندوں کی نگاہ میں ان کی عزتیں تم سے زیادہ ہوں گی.اگر تم نے عزت حاصل کرنی ہے تو خدا سے حاصل کرو.پھر وہ اپنے بندوں کے دلوں میں بھی یہ ڈالے گا کہ وہ تمہاری عزت کریں ورنہ نہیں.بتا میں یہ رہا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی باہر کے ملکوں نے مثلاً کینیڈا ہے اس میں ابھی ہمارا مبلغ نہیں گیا تھا تو ہزار، دو ہزار تین ہزار کی جماعت بن گئی تھی وہاں.جس طرح بھی بنائی خدا نے بنادی.پھر ان کے بچوں کی تربیت کے لئے کوئی آدمی پورے وقت کا چاہیے.اب چار سال پہلے پہلی دفعہ وہاں مبلغ گیا اور ضرورت ان کی اس سے بھی زیادہ ہوگئی ہے اس لحاظ سے لیکن مثلاً کینیڈا میں جو مبلغ گیا اس نے اس قسم کی نالائقی کی دینی نقطۂ نگاہ سے کہ مجھے ۷۸ ء میں لنڈن اسے بلانا پڑا اور مجھے کہنا پڑا کہ تم یہاں ٹھہرو کچھ عرصہ اور استغفار کرو اور پھر مجھ سے وعدے کرو کہ اس قسم کی دینی معاملے میں نالائقیاں نہیں کرو گے جو تم کر چکے ہو ورنہ یہیں سے میں تمہیں بھیج دوں گا پاکستان.خیر اس نے بہت وعدے کئے ایک سال اس کا وقت رہتا تھا وہ اس کو مل گیا.یہ کہنا کہ جی ہم شاہد ہیں، جامعہ میں پڑھے ہوئے ہیں ہمیں شاہد کی جو سند ہے وہ ہمیں معزز بنادیتی ہے بالکل نہیں بناتی.تمہارے اعمال تمہیں معزز بنا سکتے ہیں.شاہد کی ڈگری نہیں معزز بنائے گی.خدا سے عزت حاصل کرو اعمال صالحہ کے نتیجے میں، اپنی قربانیوں کے نتیجے میں، طارق دنیوی جرنیل تھے.وہ جامعہ احمدیہ کے پڑھے ہوئے تو نہیں تھے ، نہ جامعہ ازہر کے تھے اور نہ

Page 127

خطبات ناصر جلد نهم ۱۱۳ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء جامعہ از ہر اس وقت موجود تھا.طارق نے جو پیار اپنے رب سے کیا اس کا نمونہ یہ ہے.خدا نے کہا تھا انتُمُ الْأَعْلَونَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۴۰) اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں تم غالب رہو گے اور تمہیں بالا دستی حاصل ہوگی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے چلے جانا.سات ہزار کی فوج کے ساتھ وہ سپین غیر ملک میں اترے ہیں اور ان کے ملک اور اس ملک کے درمیان سمندر ہے اور کشتیوں میں بیٹھ کے آئے ہیں اور اترتے ہی حکم دیا، کشتیوں کو جلا دو.ان کے اس وقت جو جرنیل تھے ان کے ساتھ وہ اس مقام پہ نہیں پہنچے ہوئے تھے جہاں طارق پہنچے ہوئے تھے.وہ آگئے گھبراتے ہوئے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے مسلمان پیٹھ نہیں دکھا تا لیکن مسلمان خبریں تو پیچھے بھیجتا ہے اپنے بادشاہ کو.تو کیوں جلا رہے ہیں یہ کشتیاں ؟ انہوں نے عملاً جو ان کا عمل ہے فقرے تو مجھے یاد نہیں میرے ذہن میں لیکن ان کا عمل مجھے یاد ہے جو انہوں نے کیا اور عمل کی زبان میں ان کو کہا وہ یہ تھا کہ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) جو خدا پر توکل کرتا ہے اس کے لئے صرف خدا کافی ہے.اسے کشتیوں کی ضرورت نہیں پڑا کرتی اور خدا تعالیٰ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ یہ ایک حصہ ہے یعنی جو جماعت قربانیاں دے رہی ہے کتا بیں چھاپنے کا ہے.اب بہترین کتابیں اس وقت لنڈن میں چھپنی شروع ہو گئیں یعنی دنیا کی جو بہترین شکل میں کتاب آتی ہے اسی میں قرآن کریم چھپنا چاہیے نا.سب سے پہلا حق کا غذ کی خوبصورتی اور حسن طباعت پر قرآن کریم کا ہے جو ایک کامل ہدایت ہے بنی نوع انسان کے لئے اور یہ سب سے ردی کاغذ کے اوپر ہم نے چھاپنا شروع کر دیا تھا.جماعت بھی ملوث ایک وقت میں ہوئی لیکن اس وقت جب جماعت کے پاس پیسے نہیں تھے مجبوری تھی اور بہر حال ترجیح اشاعت قرآن کریم کو دینی تھی اس کے ظاہری جو اس کے مطالبات تھے وہ بعد میں پورے ہونے لگ گئے.قرآن پیپر پہ قرآن کا انگریزی ترجمہ آ گیا.بہت سی زبانوں میں تراجم ہو گئے ، ہو رہے ہیں بڑی جلدی میں کوشش کر رہا ہوں اور ہو جائیں.فرانسیسی زبان میں آگیا Introduction To The Study of Holy Quran - دیبا چه قرآن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جولکھا ہے وہ دیباچہ قرآن کے طور پر بھی ہ

Page 128

خطبات ناصر جلد نہم ۱۱۴ خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۱ء ہم استعمال کرتے ہیں یعنی بعض قرآن کریم کے تراجم کے ساتھ اس کو مثلاً انگریزی کا ترجمہ ہے وہ دیباچہ بھی لگا دیا اور علیحدہ ایک کتاب ہے قریباً تین سو اٹھائیس صفحے کی ، پوری ایک کتاب بن جاتی ہے نا.اب اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو گیا.اس ترجمے کو میں نے بعض احمدیوں کے ذریعے کہ اس کا رد عمل کیا ہوتا ہے ایک فرنچ بولنے والے، فرانسیسی زبان بولنے والے ملک کے مسلمان Ambassador (ایمبیسیڈر) کو واقفیت تھی ایک احمدی کی میں نے کہا تم ان کو دو، ان سے رائے لو اور کچھ نہ کہنا، فتنہ نہیں پیدا کرنا صرف دیکھیں گے.انہوں نے کہا کہ اتنی عجیب ہے یہ کتاب کہ جب میں نے پڑھنی شروع کی تو جب تک ختم نہیں کی دوسری کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا اور زبان بڑی اچھی ہے.ان کے خیال میں دو ایک جگہ ذرا زبان کی کمزوری ہے لیکن وہ تو ان کا خیال تھا.میں نے کہا تھا پوچھ لیں اگر واقعہ میں کمزوری ہے تو دور کریں گے اس کو انشاء اللہ.ایک یہاں کلاسیں ہو رہی ہیں مختلف جگہوں پر مختلف زبانوں کی.لاہور میں ایک کلاس فرانسیسی کی ہے اور اس میں پڑھانے والے غالباً فرنچ ایمبیسی کے ماتحت ہیں یہ سارے.ہر ایمبیسی اپنی اپنی زبانوں کے متعلق کرتی ہے کچھ.تو ایک بوڑھے پروفیسر پڑھا رہے تھے تو بعض احمدی بھی وہاں پڑھ رہے ہیں ( تھا) وہ کیتھولک ، اور کہتا تھا مسلمان بچیوں کو بات کرتے ہوئے کہ تم مجھے نہیں مسلمان بناسکتیں میں بڑا پکا کیتھولک ہوں.تو ایک احمدی شاگرد نے اسے یہی دیباچہ قرآن فرانسیسی میں دے دیا اور دو تین مہینے کے بعد پوچھا تو کہنے لگا یہ تو بڑی عجیب کتاب ہے اور چونکہ وہ کیتھولک اور متعصب تھا اس نے اس کو شروع کیا اس حصے سے بیچ میں سے جہاں اسلام کا عیسائیت سے موازنہ کیا ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور اس نے کہا یہ پڑھ لوں گا تو پھر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پڑھوں گا لیکن وہ بڑا Excited تھا اس نے کہا یہ تو عجیب کتاب ہے جو تم نے مجھے دی ہے لیکن آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ یہ آپ نے نہیں شائع کی پاکستانیوں نے.نہ آپ کے پیسے سے شائع کی گئی ہے کیونکہ پیسہ تو ہم یہاں سے باہر بھیج ہی نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے باہر ایسے انتظام کر دیئے لیکن جو کام پاکستان نے کرنے ہیں وہ ضرور تیں تو بہر حال پاکستانیوں نے پوری کرنی ہیں.

Page 129

خطبات ناصر جلد نهم ۱۱۵ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء ہے اور اس تمہید کے بعد اب میں اس مضمون کے اوپر آرہا ہوں.یہ سال جو ہمارا پندرہویں صدی کا پہلا سال اس میں ایک عجیب خصوصیت اور پیدا ہو گئی کہ پہلا سال جو آیا بیچ میں یعنی اس صدی میں عیسوی پہلا سال مالی لحاظ سے وہ ۸۰ ۸۱ ء کا.وہ چودہ مہینے کا بن گیا بارہ مہینے کی بجائے.بعض قانونی ضرورتوں کی وجہ سے تاریخ بدلنی پڑی اور بارہ مہینے کی بجائے چودہ مہینے کا سال بن گیا اور خالی چودہ مہینے کا سال نہیں بنا بلکہ اس سال کے اندر بعض ذمہ داریاں مالی لحاظ سے بہت رقم طلب کرنے والی دو دفعہ اس سال میں آگئیں مثلاً آپ جانتے ہیں کہ جماعت احمد یہ کے کارکنوں کو جو ضرورت ہے اس کا نصف مفت اور نصف کے قریب ( گندم ) کے لئے قرض رقم دی جاتی ہے.تو بڑی رقم ہے دس بارہ (اس وقت میں زبانی ساری بات کر رہا ہوں ) لاکھ بلکہ سارے ہمارے ( اس جلسے پر میں نے بتایا تھا ) شاید تیرہ، چودہ لاکھ کے قریب یہ بنتی ہے اور یہ دو دفعہ آگئی کیونکہ مئی سے شروع ہوتا تھا سال.اس سے پہلا سال تو یکم مئی سے شروع ہوتا تھا تو وہ مئی کا مہینہ ہے گندم کا خرید کا، تو سال کے شروع میں اس سال کے بجٹ سے پیسے دے دیئے جاتے تھے ، خرچ کر دیئے جاتے تھے.دوسرے مستحقین پر بھی کئی لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے وہ خرچ کر دیا جاتا تھا.اس سال وہ بھی خرچ ہو گیا کیونکہ یکم مئی سے یکم جولائی تک چودہ مہینے کا سال بن گیا اور اب دوسری دفعہ وہ رقم ہمیں خرچ کرنی پڑ رہی ہے.اس کو احسن طریق پر اور اس بوجھ کو لٹکانے کی بجائے میں کوشش کروں گا انشاء اللہ کہ اسی سال میں یہ دونوں، ایک ہی بوجھ جو دو دفعہ آیا ہے گندم کا وہ بوجھ اٹھالے جماعت.میں یہ نہیں کہ رہا زیادہ پیسے دو اس وقت میرا ادھر کوئی مطالبہ نہیں.میرا مطالبہ یہ ہے کہ جو قانون کے مطابق اور آپ کے وعدہ کے مطابق اور آپ کے عہد کے مطابق إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسر آویل : ۳۵) آپ کے ذمے جو رقم آتی ہے وہ یکم جولائی تک اس سے پہلے پہلے جو آتی ہے وہ اپنے وقت پر پوری کر دیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اتنی برکت ڈالے آپ کے اموال میں ) کہ جو نسبتی چندہ بنتا ہے نا پھر ) کہ اس کا چندہ اتنا بن جائے اتنی برکت آپ کو خدا دے مال اور دولت کے لحاظ سے کہ آپ کی جو ذمہ داری ہو وہ اتنی ہو کہ آپ دونوں بوجھ ایک سال میں یعنی ایک ہی بوجھ جو دو دفعہ پڑ رہا ہے ایک سال میں اسے ادا

Page 130

خطبات ناصر جلد نہم ۱۱۶ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں میں اس عظیم غلبہ اسلام کے منصوبہ کا اس قدر پیار پیدا کرے کہ جو ذمہ داری آپ پر پڑ رہی ہو خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں اور فضلوں کی وجہ سے اور اسی رحمت کا ایک حصہ خود پھر واپس خدا کے حضور آپ نے پیش کرنا ہے.آپ بشاشت کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں جو میرے ساتھ آپ کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اپنے خدا سے آپ نے ایک معاہدہ کیا اس معاہدہ کو آپ پورا کر سکیں اور پورا کریں اور آئندہ پہلے سے زیادہ فضلوں اور رحمتوں کے آپ وارث بنیں اور آسانی کے ساتھ اور سہولت کے ساتھ خدا کے اس منصوبہ کے، جماعت احمدیہ کے کام چلتے چلیں اور بڑھتے چلیں اور وہ دن جلد آئیں جب اسلام حقیقتاً نوع انسانی کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے اور نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.جو کارکن ہیں، میں صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں کو بھی یہ تنبیہ کر دوں جو مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے اور میں بڑا ہی ایک عاجز اور نالائق غلام ہوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں سوچ سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہو اور میں اسے نظر انداز کر دوں.آپ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں جس رکابی میں ، پلیٹ میں بال آیا ہو اس میں کھانا نہ کھاؤں.جس فرد میں نفاق کا یا فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ کا یاستی کا یا اپنے فرائض ادا کرنے میں غفلت کا بال آگیا میرے نزدیک تو وہ ایسی لکڑی ٹوٹی ہوئی بھی نہیں جو جلانے کے قابل ہو سکے استعمال.اسے میں فارغ کر دوں گا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور میں آپ کو فارغ کرنے کے بعد اپنے محمد کے قدموں میں گروں گا اور کہوں گا کہ میں نے تیرا حکم پورا کر دیا اب جو تیرا منصو بہ ہے دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا اس کے لئے اپنے رب سے کہو کہ وہ سامان پیدا کرے.اگر سارے مبلغین کو ایک دن مجھے فارغ کرنا پڑا اس وجہ سے مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوگی.نہ میرا کام نہ میری ذمہ داری، اس کا کام ہے وہ آپے کرے گا.جس نے یہ کہا تھا کہ جس کے اونٹ ہیں وہ اونٹ مانگ رہا ہے، جس کا خانہ کعبہ ہے وہ آپ ہی اس کی حفاظت کا سامان کرے گا.میرے دل میں میں سمجھتا ہوں کہیں زیادہ ایمان ہے.میں تو بڑی بشاشت سے کہوں گا کہ جو خدا کا کام

Page 131

خطبات ناصر جلد نهم ۱۱۷ خطبه جمعه ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء ہے وہ ذمہ دار ہے وہ آپے کرے گا.جو میری ذمہ داریاں ہیں وہ میں پوری کر دوں گا.اس واسطے محاسبہ کیا کر و روز صبح اٹھ کے، شام کو سونے سے پہلے، جماعت کے ہر فرد کو عموماً اور جماعت کے ہر کارکن اور معلم اور مبلغ کو خصوصاً یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ جو دن گزرا، جورات گزری، دن اور رات کی وہ ذمہ داریاں ہم نے پوری کی ہیں یا نہیں.خدا کرے آپ پوری کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے والے ہوں لیکن اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ ہی ذمہ دار ہیں کوئی اور ذمہ دار نہیں.جو میری ذمہ داریاں ہیں میں آپ کی خاطر خدا تعالیٰ کی لعنت اپنے سر پر نہیں لینے کے لئے تیار، میں تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو لینے کے لئے یہاں بیٹھا ہوں یہی مسند خلافت پر اور ہر قربانی بشاشت سے.میں تو قربانی سمجھتا ہی نہیں.میری تو خدا تعالیٰ نے طبیعت بچپن سے ایسی بنائی ہے کہ ۴۷ء میں جب گولیاں، مسجد مبارک کی چھت کے اوپر ہم ہوتے تھے ہمارے سروں کے اوپر سکھوں وغیرہ کی گولیاں گزرا کرتیں شوں کر کے اس وقت بھی ہم ہنس رہے ہوتے تھے ان گولیوں کی چھاؤں میں کبھی پرواہ ہی نہیں کی ، ڈر ہی کوئی نہیں مجھے.مجھے یہ بھی نہیں پتہ ڈر کہتے کسے ہیں لیکن مجھے یہ پتا ہے کہ خشیت کسے کہتے ہیں ، خدا کی خشیت جو ہے وہ کسے کہتے ہیں اور مجھے یہ پتہ ہے کہ جس کے دل میں خدا کی خشیت نہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا.یہ ساری دنیا اور اس کی طاقتیں اور تم لوگ جو ہو جہاں تک میرا تعلق ہے ایک مرے ہوئے کیڑے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے.جہاں تک میری ذمہ داری ہے میں تمہیں ساتویں آسمان پر دیکھنا چاہتا ہوں.یہ دو چیزوں کا فرق سمجھ لو اور اپنی ذمہ داریوں کو نیا ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 132

Page 133

خطبات ناصر جلد نهم ١١٩ خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا انْزَلَ اللهُ کی لطیف تفسیر اور ظلم کی وضاحت خطبہ جمعہ فرمود ه ۲۹ رمئی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہاں آکے گرمی لگنی شروع ہوئی ہے بہر حال جتنا ہو سکا اس وقت مختصراً اس مضمون کے سلسلہ میں خطبہ دوں گا جو پہلے شروع کیا ہوا ہے.پچھلے سے پچھلا خطبہ میں نے ربوہ میں سورہ مائدہ کی آیات ۴۱ تا ۵۱ گیارہ آیات میں سے ایک ہی مضمون اٹھا کے خطبہ دیا تھا.اسی کے متعلق آج بھی میں ایک حصے کی زیادہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں.ان آیات میں تین آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ - وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ تینوں آیات میں ہے.دوسری آیت میں ہے فَأُولبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.تیسری آیت میں ہے.وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.یعنی جو لوگ اس کلام کے مطابق جو اللہ نے اتارا ہے فیصلہ نہیں کرتے.حکم صادر نہیں کرتے ، وہی حقیقی کا فر بھی ہیں.حقیقی ظالم بھی ہیں اور حقیقی اور پکے باغی بھی ہیں.

Page 134

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۰ خطبہ جمعہ ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی لغت ہے ان تینوں لفظوں کو اس طرح اکٹھا ایک مضمون میں باندھا ہے کہ فسق جو ہے اس کے متعلق وہ کہتے :.فَالْفَاسِقُ اَعَةُ مِنَ الْكَافِرِ فسق کا مفہوم زیادہ وسیع ہے کفر کے مفہوم سے.وَالظَّالِمُ اعَةُ مِنَ الْفَاسِقِ اور ظلم کے معنی فسق کے معنی سے زیادہ وسیع ہیں.تو اگر ہم اسے سمجھنے کے لئے دائرے بنائیں (میں نے آپ کو سمجھانے کے لئے یہاں دائرے بنائے ہوئے ہیں ) تو ایک دائرہ ہوگا بیچ کا چھوٹا وہ کفر کا دائرہ ہے.اس نقطے سے جہاں سے آپ نے پر کار کھینچ کر دائرہ بنایا اس سے بڑا دائرہ بنا ئیں ، وہ فسق کا دائرہ ہے اور اس سے تیسر ا دائرہ بڑا بنا ئیں تو وہ ظلم کا دائرہ ہے.تو ہر فاسق کا فر ہے.بڑا دائرہ ہے نا ہر فاسق کا فر ہے لیکن ہر کا فر فاسق نہیں.فسق کے معنی میں کچھ ایسے گناہ آتے ہیں جو کفر کے معنی میں نہیں آتے اور ہر ظالم فاسق بھی ہے اور کافر بھی ہے.لیکن ہر کا فرظالم نہیں.ہر فاسق ظالم نہیں.ان تین الفاظ کے معانی کی وضاحت انہوں نے ان دو چھوٹے فقروں میں کی ہے.کفر کے معنے انہوں نے کئے ہیں وحدانیت اور شریعت اور نبوت یا تینوں کا کفر کرنا.ان کی تکذیب کرنا.ان پر ایمان نہ لانا اور فاسق چونکہ بڑا دائرہ ہے انہوں نے لکھا ہے کہ وَ إِذَا قِيْلَ لِلْكَافِرِ الاصلي فاسق کہ جو اصلی کا فر ہوا سے جب فاسق کہا جاتا ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کے احکام کو جو شریعت کی شکل میں نازل ہوئے سارے احکام اس دنیا میں، اس کائنات میں اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں لیکن جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت نازل ہوئی ، صرف ان احکام کا انکار نہیں کرتا تکذیب نہیں کرتا بلکہ اَخَلَّ بِحُكْمِ مَا الْزَمَهُ الْعَقْلُ وَاقْتَضَتْهُ الْفِطْرَةُ اس سے زاید بھی کچھ گناہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقلِ سلیم عطا کی ہے اس کا گناہ کرتا ہے.اس کو توڑتا ہے اور جو فطرت کے تقاضے ہیں انہیں وہ پورا نہیں کرتا.اس لئے کفر سے زاید اس نے کیا تو الْكَافِرُ الْاَصْلِي اس معنی میں اس کو ہم کہہ دیتے ہیں اور وہ آیات بھی بیچ میں لے آتے ہیں اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا.مختصر کرنے کی کوشش کروں گا.مجھے ضعف اور گرمی محسوس ہورہی ہے.

Page 135

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۱ خطبہ جمعہ ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ( النور : ۵۶) کفر کے ایک معنے یہ جو ایک معنے ہیں نا کہ جو شریعت ، وحدانیت ، شریعت اور نبوت کا انکار کرنا.کفر کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں اور وہ ہیں کُفْرُ النَّعْمَهِ ناشکری کرنا اور اصل معنے اس کے بنیادی طور پر ہیں ڈھانکنے کے بھی وہ یہاں لگتے ہیں.تو مفردات راغب نے اس کے معنے کئے ہیں.سَتْرُهَا بِتَرْكِ أَدَاءِ شُكْرِهَا شکر ادا نہ کرنے سے اس کا خدا تعالیٰ کی نعمت کو چھپا دینا.قرآن کریم میں شکر کے مقابلہ میں کفر کا لفظ آیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُم (ابراهیم :۸) اگر میری نعمتوں پر میرا شکر ادا کرتے رہو گے تو میں اور نعمتیں دیتا رہوں گا.وَلَبِنْ كَفَرْتُم اور اگر تم میری نعماء پر شکر ادا کرنے کی بجائے بغاوت کی راہوں کو اختیار کرو گے تو یا درکھو اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ اس آیت میں شکر کے مقابلہ میں کفر، ناشکری کے معنے میں آیا ہے واضح ہو جاتی ہے بات.ابھی میں یہ معنی لے رہا ہوں.دوسرے جو ترتیب قرآن کریم کی ان گیارہ آیات میں ہے وہ کفر کے بعد ویسے وہاں ظلم ہے یعنی جو زیادہ بڑا دائرہ ہے وہ دوسرے نمبر پر آیا ہے.وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.حق کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا.جو حقوق ہیں ان سے تجاوز کرنا.غفلت کر جانا.ادا نہ کرنا اور خواہ گناہِ کبیرہ ہو یا گناہ صغیرہ ہر دو پر قرآن کریم نے ظلم کا لفظ استعمال کیا ہے.مفردات راغب والے کہتے ہیں ظلم تین قسم کے ہیں.کچھ حقوق اللہ تعالیٰ کے اس کے بندوں پر ہیں.تو جو شخص خدا تعالیٰ کے حقوق تو ڑتا ہے حقوق ادا نہیں کرتا.کفر کر کے شرک کر کے یا نفاق سے یا فسق سے یا ظلم سے.یہ ایک قسم کا ظلم ہے، یعنی خدا تعالیٰ کے حقوق کی عدم ادائیگی ظلم کہلاتی ہے اور اس کو سامنے رکھ کے یعنی یہ معنی ظاہر ہوتے ہیں ان کے نزدیک مفردات راغب کے مؤلف کے نزدیک جو اللہ تعالیٰ نے فرما یا الا لعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّلِمِينَ (هود: ۱۹) کہ جو شخص میرے قائم کردہ حقوق کو ، میرے حقوق کو بجانہیں لائے گا اور انہیں توڑے گا اور حق سے تجاوز کر جائے گا ( ہر کسی سے تجاوز ہو جاتا ہے غفلت کر کے بھی ، آگے

Page 136

خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۲ نکل کے بھی ) تو اس پر میری لعنت ہے.لعنت کا جو مفہوم ہے یہ میں آگے جا کے بتاؤں گا.دوسری قسم کا ظلم معاشرہ کا ظلم ہے.ظلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ انسان اس معاشرہ میں رہتا ہے.اس کے تعلقات ہیں ہزار قسم کے، ہزار قسم سے بھی زیادہ دوسرے انسانوں کے ساتھ تو جب وہ اپنے بھائی کے حقوق ، اپنے ہم ملک کے حقوق ، نوع انسانی کے حقوق ادا نہیں کرتا اور غفلت برتتا ہے تو وہ ظلم کرتا ہے.ظُلْمُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ انہوں نے یہ اس آیت کی تفسیر جو لکھی ہے سمجھانے کے لئے مطلب ، وہ ایک تو جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) ہے اور دوسرے اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ خدا تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا.جو انسان.دوسرے انسان کا حق ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کی محبت سے محروم ہو جاتا ہے.تیسر ا ظلم ہے حقوق نفس کی ادائیگی میں غفلت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حق تیرے نفس کے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ حقوق قائم کئے ہیں.جس طرح دوسرے انسانوں کے حقوق کو بجالانا ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بجالا نا ضروری ہے خدا تعالیٰ کا یہ حق جو قائم ہوا ہے اس کو بجالا نا ضروری ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفْسَهُ (البقرۃ: ۲۳۲) اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے.تو یہ تین قسم کے ظلم ہیں جن کی سزائیں مختلف ہیں.خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اگر خدا تعالیٰ کے حقوق توڑنے والا ہو انسان.بڑا ظلم ہے نا شرک کرنا.وہ واحد و یگانہ ہے.وحدانیت کے خلاف کھڑے ہو کر کسی اور کی پرستش شروع کر دینا ، شرک جو ہے وہ بڑا وسیع مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے.محض بتوں کی پرستش نہیں.اقتدار کی پرستش.دولت کی پرستش.جتھے کی پرستش.اگر عالم ہے اپنے علم پر تکبر کرنا اور اپنے آپ کو کچھ سمجھ لینا وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے شرک ہیں اور ہر شرک خدا کو ناپسندیدہ اور خدا تعالیٰ کی لعنت کو مول لینے والا ہے.تیسری آیت میں کہا تھا وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ فسق کے معنے ہیں، فاسق اسے کہتے ہیں لِمَنِ التَزمَ حُكْمُ الشَّرْعِ وَ أَقَرَّبِہ ایک شخص نے کہا کہ میں ایمان لایا ہوں اور جو احکام ہیں اس کے مطابق میں اپنی زندگی کو ڈھالوں گا.ثُمَّ أَخَلَّ بِجَمِيع

Page 137

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۳ خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۸۱ء احكامه اَوْ بِبَعْضِه پھر یہ جو احکام شرع ہیں ان کا حق ادا نہیں کیا اور تکفیر کی.یعنی ان کو چھوڑ دیا تو وہ فاسق بن جاتا ہے اور اس کے اندر اطاعت سے باہر جانا بھی ہے کیونکہ ہر کا فراطاعت سے باہر جاتا ہے اس لئے اس کا دائرہ بڑا بن گیا.اصل یہ تمہید کی ضرورت اس لئے پڑگئی کہ کچھ پچھلے خطبہ میں جب میں نے اس مضمون پر بات کی تو وہاں گرمی اور کمزوری کی وجہ سے میں بعض تفاصیل نہیں بتا سکا.ایک بات جو آج میں زاید کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ان آیات کے آخر میں جو ا۵ آیت ہے یعنی وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكَمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدة : ۵۱) تین گروہ تو وہ ہیں کافر ، فاسق اور ظالم جو مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا انزل الله کے نیچے آتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات پر اور اس کی صفات پر یقین رکھتے اور عرفان رکھتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں.یقینی علم ہے ، رزاق ہے، بڑا طاقتور ہے، اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے.یہ انبیاء کا سلسلہ جو کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا چوبیس ہزار پیغمبر آیا دنیا میں.ہر ایک کی زندگی تمام ان کی جنہوں نے وفا سے کام لیتے ہوئے ان انبیاء کی اتباع کی اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر.اس کے بعد آپ کے ماننے والے آپ کے فدائی ، اولیاء اور قطب اور پتہ نہیں کیا کیا انسانوں نے ان کے نام رکھ دیئے ، بہر حال انہوں نے اپنا ایک ہی نام رکھا تھا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں، جاں نثار ہیں، آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور آپ کی اطاعت میں دنیا کی ہر شے کو ٹھکرا دینے والے ہیں.دنیا کی ہراذیت جو ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنے والے.وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْما حکم تو اللہ ہی کا چلتا ہے لیکن جو مومن ہیں اور یقین رکھنے والے ہیں اس قوم کے لئے یہ ہی نہیں خالی کہ اللہ کا حکم چلتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اللہ کا فیصلہ ہی سب سے اچھا ، سب سے بہتر ہمارے فائدہ کے لئے اس سے بہتر کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی.اس واسطے جو خدا کا حکم ہے اس کو چھوڑ نہیں سکتے.دنیا جو مرضی کہتی رہے.دنیا کی طرف تو دیکھتے ہی نہیں نا.جو صاحب اقتدار ہے اس کی طرف ان کی نظر نہیں.ان کی نظر کا، روحانی نظر کا نقطہ صرف ایک ہے اور وہ ہے خدا تعالیٰ کی وحدانیت.ان کے دل میں جو ہے اس کا خلاصہ اس کا بھی ایک نقطہ ہے اور

Page 138

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۴ خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء وہ یہ ہے مولا بس.وہ یہ ہے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) کہ جو خدا پر توکل کرنے کا دعویٰ کرے یہ دعوی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یہ سمجھے اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے.اگر میں اس خطبے کو لمبا کرتا تو میں بعض اللہ تعالیٰ نے جو اس گروہ کے لئے وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ الله سزائیں تجویز کی ہیں ان کا ذکر کرتا لیکن وہ ایک لمبا مضمون ہے آپ کے سوچنے کے لئے یہ بتا دیتا ہوں کہ میں نے مثلاً قرآن کریم پڑھا ہوا ہے، جہنم ہے ان کی سزا ، آگ ہے ان کی سزا اور پھر بہت ساری تفصیل اس جہنم کی وہ بھی ہے لیکن اپنے جس مضمون جو اصل مضمون جب میں ختم کروں گا اس کے لحاظ سے میں نے بعض سزائیں منتخب کی ہیں.ساری نہیں قرآن کریم کی لیں.قرآن کریم نے تو کھول کے جھنجھوڑ کے رکھ دیا کا فر ، فاسق اور ظالم کو لیکن جو میرے نزدیک بڑی سخت اور جس نتیجہ پر انشاء اللہ تعالیٰ میں پہنچنا چاہتا ہوں اور آپ بھی پہنچ جائیں گے اس سے تعلق رکھنے والی ہیں وہ میں نے لی ہیں.ان میں سے ایک کو آج میں لیتا ہوں اور وہ ہے لعنت.لعنت کے نتیجہ میں جہنم ہے.لعنت جہنم کا نام نہیں ہے.عربی زبان میں لعنت کے جو معنی ہیں اور جس پر روشنی ڈالی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لغوی لحاظ سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں لعنت ایک ایسا مفہوم ہے جو شخص ملعون کے دل سے تعلق رکھتا ہے اور کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جب کہ اس کا دل خدا سے بالکل برگشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ لعنت قرب کے مقام سے رد کرنے کو کہتے ہیں.تو جب کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی لعنت پڑی اس پر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے مقام سے اسے رد کر دیا.تو ایسے، ایسا صاحب اعمال نہیں ، عمل صالح کرنے والا نہیں کہ جو حق رکھتا ہو کہ میرے قریب آئے.تو ناپاک ہے.تو شیطان کا چیلہ ہے خدا کا چیلہ نہیں اس واسطے میرے پاس نہ آنا.یہ جو ہے معنی یہ لعنت کا مفہوم ہے.لعنت قُرب کے مقام سے رد کر نے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جس کا دل خدا کی محبت اور پیار سے دور جا پڑے اور درحقیقت وہ

Page 139

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۵ خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۸۱ء خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو گیا اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو گیا.تو جب انسان شیطانی راہوں پر چلے.جب انسان مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ جو احکام اللہ تعالیٰ نے جاری کئے کائنات میں ان کو توڑنے لگ جائے اور جو مشورے اس کے کان میں شیطان اس کو دے، ان مشوروں کے مطابق وہ اپنی زندگی ڈھالنے لگ جائے اور اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی منزلت اور عظمت اور کبریائی نہ ہوا اور خدا تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور حقیقتاً وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس کا دشمن اور اس سے بیزار ہو جائے.یہ ہے لعنت کا لفظ.خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ اے شخص! تجھے میں نے پیدا کیا تھا اس لئے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إلا لِيَعْبُدُونِ (الذریت : ۵۷) تا کہ تو میرا بندہ بنے.تاکہ تو تخلق باخلاق اللہ کرے.میرے اخلاق کا رنگ تیرے اعمال میں سے ظاہر ہو.تو نے تو میری پرواہ ہی کوئی نہ کی.تو نے میرے اس نور کو چھوڑ کے شیطانی ظلمات کو ترجیح دی.تو نے میرے حسن کو نظر انداز کر کے انتہائی بدصورتی جو ہے شیطان کی ، اس کو اچھا سمجھا اس واسطے میرے سے کوئی تعلق نہیں.مقام قرب سے میں تجھے رد کر رہا ہوں.یہ سزا ہے ایک جو ان تین گروہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہے.اس کا تعلق اس آگ سے نہیں جس کی تفصیل آئی ہے.اس کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے ہے کہ میں تجھے اپنے پاس نہیں پھٹکنے دوں گا.اے ذلیل انسان آسمانی رفعتوں کے لئے تجھے پیدا کیا تھا، شیطانی گہرائیوں میں تو جا گرا.دور ہو جا.دفع ہو جا میرے سامنے سے لعنت ہے تجھ پر میری یہ خدا کہتا ہے.یہ ایک سزا بیان کی گئی ہے جو ان دو چار سزاؤں میں سے ہے جن کو میں نے منتخب کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ پناہ مانگتے رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا ہے لیکن بعض دفعہ انسان دوری کے ایسے فاصلے طے کر جاتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے اتنی دور جا کے کیسے تم واپس آؤ گے.اتنا دور چلا جاتا ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے خدا تعالیٰ کے پیار کے دروازے اپنے پہ بند کر لیتا ہے.خدا تعالیٰ کا فضل جب تک

Page 140

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۶ خطبه جمعه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء نہ ہو.رحمت جب تک نازل نہ ہو کچھ نہیں ہو سکتا.یہ اپنی جگہ درست ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے خود خدا نے راہیں کھولی ہیں اور دروازے وا کئے ہیں.ان راہوں پر چلنا، ان دروازوں میں داخل ہو کر اس کی رضا کی جستجو کرنا، انسان کے لئے ہے.استغفار کرتے ہوئے ، تو بہ کرتے ہوئے ، خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے ، عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اس گروہ میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ کہ سب سے بہتر حکم اللہ کا ہی حکم ہے.دنیا کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کے اگر کسی مومن ، یقین رکھنے والے صاحب عرفان شخص کو کہیں کہ خدا کے اس حکم کو توڑ دے.نہیں توڑے گا وہ.وہ کہے گا خدا کا چھوٹے سے چھوٹا حکم میرے لئے بڑی سے بڑی ذمہ داری ہے اور بڑے سے بڑے پیار کا ایک مظاہرہ ہے جو میں خدا سے کر سکتا ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلاً فرما یا کہ جوتے کا مہ چاہیے خدا سے مانگو.اگر کوئی شخص آکے مسلمان کو یہ کہتا ہے کہ میں تجھے تسمہ لا دیتا ہوں خدا سے نہ مانگ اور وہ یہ کہہ دے کہ اچھا تو لا دے.میں نہیں مانگتا خدا سے.ہلاک ہو گیا وہ شخص.اور یہ فلسفہ نہیں.یہ تھیوری نہیں.میں ذاتی طور پر بہت سے ایسے واقعات جانتا ہوں جس سے ان چیزوں کی صداقت ظاہر ہوتی ہے مثلاً ایک شخص ربوہ میں گھر سے نکلے سائیکل پر اپنے مہمان کو Receive کرنے کے لئے ، ان کا استقبال کرنے کے لئے اسٹیشن پر جارہے تھے لیکن وہ پہنچے نہیں.رستے میں دم دے دیا انہوں نے.تسمہ تم کیسے لے سکتے ہو خود تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ میں دکاندار کے پاس پہنچوں گا بھی یا نہیں پہنچوں گا.اس واسطے خدا کے ہوکر ہر احمدی کو میں کہتا ہوں خدا کے ہو کر خدا میں زندگی گزارنے کی کوشش کرو.دنیا جو کہتی ہے، کہتی رہے آپ کو ذرا بھی کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.ابدی جنتیں خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے بنادی ہیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 141

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۷ خطبه جمعه ۵ / جون ۱۹۸۱ء کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالی جماعت کی پریشانیاں دور کرے خطبہ جمعہ فرموده ۵ / جون ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ دعا کا طریق اور دعا کا فلسفہ قرآن عظیم میں بیان کر دیا ہے اور میں نے متعدد بار آپ دوستوں کو بتایا ہے کہ دعا کے بغیر اور دعا کے نتیجہ کے بغیر یہ زندگی زندہ رہنے کے قابل نظر نہیں آتی.اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق قرآن کریم نے ہمیں یہ علم دیا کہ وہ ہر جگہ ہے.سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہر جگہ تو ہے لیکن میں کہاں ملوں اس سے.کیا ان گلیکسیز (Glaxies) میں اسے تلاش کروں جن کا ابھی انسان کو علم ہی نہیں.چاند یا سورج یا ستاروں میں جاکے اسے تلاش کروں اس لئے قرآن کریم نے اس بنیادی سوال کا جواب دیا اور بتایا کہ اگر اور جب میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دو إِنِّي قَرِيب (البقرة: ۱۸۷) کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں میں تمہارے پاس ہی ہوں.خدا تعالیٰ تو ہر جگہ ہے، اس میں یہ بتایا گیا.دعا کے متعلق ہی یہ آیت ہے کہ مجھے پانے کے لئے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے اپنے قرب میں مجھے پاؤ گے.یہ اور اس قسم کی بہت سی آیات بہت سے دیگر مسائل بھی حل کرتی ہیں لیکن اس وقت میں یہ

Page 142

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۸ خطبه جمعه ۵/جون ۱۹۸۱ء بتا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں کہتا ہے کہ تمہیں مجھے پکارنے کے لئے اونچا بولنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بولنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ اعلان کیا گیا کہ جو تمہارے صدور میں ہے ،سینوں اور خیالات کے اندر ہے اسے بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرۃ: ۱۸۷) دعا کو اس کی شرائط کے ساتھ مانگو ، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا.انسانی زندگی میں نشیب وفراز ، اونچ نیچ لگی ہوئی ہے.یہ زندگی کا خاصہ ہے.عسر اور لیسر کا قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے.اس پس منظر میں میں جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جون کا مہینہ جو باقی رہ گیا ہے اس میں خصوصی طور پر، بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی پریشانیوں کو دور کرے اور جس طرح ہمیشہ ہی اپنی ۹۳ سالہ زندگی میں ہم نے مشاہدہ کیا، وہ ہماری مدد کو آیا.کیونکہ جس وقت دنیا کے سارے دروازے انسان پر بند ہو جاتے ہیں تو صرف ایک صرف ایک دروازہ ایسا ہے جس کے متعلق یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ انسان پر بند نہیں ہوتا.وہ اللہ تعالیٰ کا دروازہ ہے.اسے کھٹکھٹائیں، پریشانیاں دور ہو جائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ.یہ وقتی ادوار ہیں مومن کے لئے.ایک حقیقی مسلمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے کہا میں تمہیں آزماؤں گا.آئیں گے یہ ادوا لیکن ابدی خوشیاں اور حقیقی خوشیاں اس زندگی میں بھی سوائے مومن کے اور کسی کو نہیں ملتیں.اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے.ہماری کمزوریوں پر مغفرت کی چادر ڈالے اور جس کے ہم مستحق بھی نہیں وہ ہمیں عطا کرے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ کافر، فاسق اور ظالم کے معنی کیا ہیں.ان کے معانی میں باہمی نسبت کیا ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے قرآن کریم میں جو سزائیں کھول کر بیان کی ہیں ان کا میں ذکر نہیں کرنا چاہتا بلکہ خود اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ان لوگوں سے ہے اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک کا ذکر میں نے کیا تھا.الَا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّلِمِينَ (هود: ١٩) لعنت کے تین موٹے اور بنیادی معنے میں نے بتائے تھے.ایک یہ کہ ملعون سے خدا تعالیٰ

Page 143

خطبات ناصر جلد نهم ۱۲۹ خطبه جمعه ۵/جون ۱۹۸۱ء بیزار ہوجاتا ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے اوپر اپنی لعنت بھیجتا ہے اور وہ بیزاری کا اور نفرت کا اعلان کرتا، اور وہ ایسا ہی سلوک کرتا ہے جو ایسے شخص سے کیا جا سکتا ہے یا کیا جانا چاہیے جس سے اللہ تعالیٰ بیزار ہوا اور متنفر ہو.دوسرے اس کے معنے ہیں بعد اور دوری کے کہ وہ خدا کا بندہ جسے خدا تعالیٰ نے بندہ بننے کے لئے پیدا کیا تھا، وہ قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے ، دوری کی راہوں کو اختیار کرتا اور اپنے اور پیار کرنے والے رب کے درمیان بُعد اور فاصلے ڈال دیتا ہے.تب خدا تعالیٰ کہتا ہے میں بھی تجھ سے دور ہو گیا اور مقربانِ الہی کے لئے جو وعدے ہیں ، وہ تیرے حق میں پورے نہیں ہوں گے.اور تیسرے یہ کہ اپنی دشمنی کا اعلان کرتا ہے.میں تمہارا دشمن ہوں اور دشمن ، دشمن سے جو کرتا ہے.انسان، انسان کی اگر دشمنی ہو تو بہت سی روکیں ہیں ایک دشمنی کی راہ میں اپنی دشمنی کے منصوبوں کو کامیاب کرنے کے لئے لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں تو کوئی دشواری نہیں.پس اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں تم سے دشمنی کروں گا.تمہارے سارے منصوبے جو میرے بندوں کے خلاف ہوں گے انہیں نا کام کر دوں گا.خدا تعالیٰ سے تو کوئی دشمنی نہیں کرسکتا.نہ خدا تعالیٰ کی ذات کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے.آخر میں ذکر تو اس کے بندوں کا ہی آجا تا ہے.پہلا یہ کہ تمہارے سارے منصوبے جو تم میرے بندوں کے خلاف کرو گے، انہیں نا کام کر دوں گا اور وہ سارے منصوبے جو تم اپنے فائدہ کے لئے اور ترقیات کے لئے کرو گے، ان کو بھی نا کام کروں گا.میں مختصراً چند پہلو بیان کروں گا.ایک یہ اعلان کیا گیا ہے وَمَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إلا في ضَلل (الرعد : ۱۵) کہ کافروں کی دعا اس زندگی میں اور ان کی جو چیخ و پکار قیامت کے روز ہوگی ، وہ قبول نہیں کی جائے گی.اس زندگی میں قبولیت دعا کا نشان انہیں نہیں ملے گا.استثنائی طور پر اس ورلی زندگی میں خدا تعالیٰ ہر قسم کے انسان کی دعا سنتا ہے تا کہ اس کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہے اور وہ اپنے رب کو پہچان لے.وہ اور چیز ہے.ایک شخص کی ستر سالہ پچھتر سالہ اسی سالہ زندگی میں ایک دعا کا

Page 144

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۰ خطبہ جمعہ ۵ /جون ۱۹۸۱ء قبول ہوجانا، یہ اور چیز ہے اور اس کے بندے کے لئے ہر اس موقع پر جب وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اللہ کا.وہ در کھول دیا جانا، یہ اور چیز ہے.زمین و آسمان کا فرق ہے ان میں.پس قبولیتِ دعا کے نشان سے کافر ، فاسق اور ظالم کو محروم کیا جائے گا.صرف اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں.یہ میں بار بار واضح کرتا ہوں بعض لوگ سمجھیں گے کہ بہت ساری اور باتیں ہیں ان کو چھوڑ گئے ان میں سے بھی شاید چھوڑ جاؤں لیکن جو میرا مضمون ہے اس کے لئے میں نے بعض چیزوں کو منتخب کیا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ أَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولبِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (ال عمران : ۷۸ ) - جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے عہدوں اور قسموں کے بدلے میں (اور قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ ایک عہد فطرتِ انسانی سے بھی لیا گیا ) تھوڑی قیمت لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نعماء کے مقابلہ میں دنیوی نعمتوں کو ترجیح دیتے اور انہیں قبول کر لیتے ہیں ان لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا.اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ ان پر نظرِ التفات ڈالے گا.قیامت کے دن انہیں پاک نہیں ٹھہرائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب مقدر ہے.اس آیت میں سے میں مندرجہ ذیل باتیں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دنیا میں کثرت سے ان سے بات کرے گا لیکن اس دنیا میں خدا تعالیٰ اصلاح کا دروازہ اور واپس اس کی طرف لوٹ آنے کی جو راہ ہے.وہ بند نہیں کرتا.اس واسطے غیر مسلم کو جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے.عیسائی ہے ، ہندو ہے، بدھ مذہب ہے، پارسی ہے، یہودی ہے، وغیرہ وغیرہ.کبھی ان کو سچی خواب آ جاتی ہے.ایسی کہ ان کا دماغ سوچنے پر مجبور ہوجاتا کہ یہ بات سوائے عَلامُ الْغُيُوبِ کے مجھے کوئی نہیں بتا سکتا تھا، مجھے اس کی طرف جانا چاہیے.نشان اس کو دکھا دیا کہ میری طرف آؤ.یہاں قیامت کے دن کا جو ذکر کیا یہ

Page 145

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۱ خطبه جمعه ۵ /جون ۱۹۸۱ء اس لئے کہ وہاں تو فیصلہ ہو گیا.انجام بد اس کے سامنے آ گیا.ان سے ایک بات بھی نہیں کرے گا.یہ سلوک ہے اللہ تعالیٰ کا.ان کو اس قابل نہیں سمجھے گا کہ پیار کرنے والا خدا، معافی مانگنے کی آواز سننے کے لئے تیار ہو جانے والا خدا ، وہ انکار کر دے گا ان سے بات کرنے سے، پیار کی باتیں نہیں کرے گا.یہ دونوں پہلو اس کے اندر آ جاتے ہیں اور جو عذر وہ پیش کرنا چاہیں گے.قرآن کریم نے دوسری جگہ یہ بتایا ہے کہ دروازہ کے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا ان کو اور بہت ساری آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں.تو کسی قسم کی کوئی بات ان سے کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا.یہ سلوک ہے اللہ تعالیٰ کا.اس دنیا میں کثرت سے کلام نہیں کرے گا.مرنے کے بعد بات بھی نہیں کرے گا اور دوسری بات اس میں یہ بیان ہوئی ہے کہ ان پر نظر نہیں ڈالے گا.ویسے تو ہر وقت ہر چیز اس کی نظر کے سامنے ہے.تو یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں گے.مطلب یہ ہے کہ نظرِ التفات ، پیار اور توجہ کی نظر ، وہ نظر جو دعاؤں کے بغیر عطا کرنے والی ہے.اگر انسان کو اس دنیا میں صرف دعا پر چھوڑ دیا جاتا تب بھی انسان کے لئے ہلاکت ہوئی.آپ کو تو اپنے نفع کا بھی نہیں پتہ اس زندگی میں.مگر خدا تعالیٰ کو پتہ ہے وہ اس کے سامان پیدا کر دیتا ہے.آپ نے اپنے وجود کے لئے اپنی ذات کے لئے وہ تمام صلاحیتیں اور استعداد یں پیدائش کے وقت مانگیں تھیں؟ جو اس نے آپ کو عطا کر دیں.تو اس وقت دعا اور ہم کلام ہونا جو ہے اور وہ جو پیار کی باتیں کرتا ہے اس کا سوال نہیں بلکہ اس نے دیکھا اور فیصلہ کیا اور یہاں مطلب یہ ہے کہ نظرِ التفات نہیں ہوگی اور ان کے حق میں محبت کا کوئی فیصلہ نہیں ہوگا.مانگیں گے تب بھی نہیں ہوگا.ضرورت ظاہر ہوگی ان کی.ایک تڑپ ایک دکھ ان کے اندر.دکھ کی زندگی گزار رہے ہوں گے جہنم میں خدا تعالیٰ کوئی پرواہ ہی نہیں کرے گا.یہ ہیں لَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ (ال عمران: ۷۸) کے معنے.اور تیسری بات انہیں پاک نہیں ٹھہرائے گا.یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو پاک سمجھتا ہے.پاک ٹھہراتا ہے یا نہیں حتمی فیصلہ کا اعلان اس زندگی میں خدا تعالیٰ نہیں کرتا کیونکہ اس نے کہا ہے کہ دعائیں کرو تو بہ کرو.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : ۵۴) جن ط

Page 146

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۲ خطبه جمعه ۵/جون ۱۹۸۱ء کے سروں پر پہاڑ ہیں گناہوں کے ان سے کہتا ہے مجھ سے مایوس نہیں ہونا.تو خدا تعالیٰ یہ اعلان کر دے کہ میں نے تجھے ناپاک ٹھہرایا.اس کے بعد تو اس کے لئے پھر واپس آنے کا سوال نہیں مگر اس زندگی میں ہے واپس آنے کا سوال.اس واسطے اعلان کیا گیا کہ جو گندی زیست میں جان دے دیں گے، نا پاکی میں ان کا خاتمہ ہو جائے گا اس کا اعلان کرے گا قیامت کے دن.کیونکہ اس وقت تو واپس آنے کا سوال ہی نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر ساری دنیا جہان کی دولتیں تمہارے پاس ہوں اور تم فدیہ دینا، کفارہ دینا چاہو تب بھی تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا.میں دہراؤں گا یہ مضمون تا آپ کے ذہن میں یہ Points (پوائنٹس) جو ہیں مختلف پہلو اس کے آجا ئیں.کیونکہ آگے چلے گا یہ مضمون کہ کافر، فاسق ، ظالم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک کیا ہے.یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کیا سزا دے گا اور دینا چاہتا ہے جہنم.نار کا ذکر نہیں بلکہ اس کا ذاتی سلوک ان کے ساتھ کیا ہے یہاں یہ ذکر کر رہا ہوں.ایک ہے لعنت کا سلوک اس کے تین پہلو ہیں.بیزاری اور نفرت کا سلوک.جیسے کہ لعنة الله عَلَی الظالمین آیا ہے یہ بہت جگہ آیا ہے لیکن یہ چھوٹی سی آیت اس وقت اس لئے بتائی ہے کہ میں نے بتایا تھا کہ ہر ظالم، فاسق بھی ہے اور کا فر بھی ہے.لیکن ہر کافر اور فاسق ظالم نہیں.یعنی ایسے ظالم بھی ہیں جو کفر اور فسق کے علاوہ ظلم کرنے والے ہیں.تو ایک تو بیزاری اور نفرت کا سلوک ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو کفر کی حالت میں مرے ہمیشہ کے لئے یا جو کفر کی حالت میں ہو اس زندگی میں جب تک اس حالت میں ہے، فسق کی حالت میں بھی ہے ، ظالم ہونے کی حالت میں بھی ہے، میں اس سے بیزار ہوں اور نفرت کرتا ہوں.دوسرے اس میں آتا ہے دُوری اور بعد.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب تک تمہاری یہ حالت ہے اور تم تو بہ کر کے اور استغفار کے ذریعہ سے معافی نہیں مجھ سے لے لیتے.عملاً اس وقت تک یا اگر اس حالت پر موت ہے میرے قرب کی راہیں تم پر کھولی نہیں جائیں گی اور تیسرے معنے اس لعنت کے یہ ہیں کہ جب تک تم اس زندگی میں ، اس ورلی زندگی میں کفر اور فسق اور ظلم کی حالت میں رہو گے.تم ہر دو پہلو سے ناکام ہو گے.تمہاری ساری کوششیں میرے پیارے بندوں کے خلاف، بے نتیجہ اور ناکام ہوں گی اور تمہاری کوششیں اپنی بھلائی کے لئے جو صحیح معنی میں بھلائی

Page 147

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۳ خطبہ جمعہ ۵ /جون ۱۹۸۱ء اور کامیابی ہے، اس میں تمہاری ساری کوششیں ناکام ہوں گی.یہ نمبر ایک کے تین پہلو ہیں.دوسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کفر اور فسق اور ظلم کی زندگی گزارنے والے ہیں ان کی دعائیں رد کر دی جائیں گی.اور تیسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کا فر ، فاسق اور ظالم سے اللہ تعالیٰ ہم کلام نہیں ہوتا.نہ پیار کی باتیں ان سے کرتا ہے نہ ان سے ان کے عذر سنے گا قیامت کے دن.اور چوتھا سلوک یہ بتایا کہ ان پر نظرِ التفات نہیں ڈالتا.دعا کے بغیر جوضرورتیں وہ اس زندگی میں پوری کرتا ہے محض اپنے فضل سے وہ پوری نہیں کرے گا.اور پانچویں یہ کہ وہ انہیں پاک نہیں ٹھہرا تا ، نہ اس زندگی میں جب تک ان کی یہ حالت ہے، نہ اُخروی زندگی میں جب تک وہ جہنم میں جانے کے بعد ایک اور راستہ سے پاک ہو کر جنت میں نہیں جاتے.کیونکہ جہنم جو ہے وہ اسلام کے نزدیک ہمیشہ کے لئے نہیں ، اصلاحی ہے جب تک ان کی اصلاح نہیں ہوتی انہیں پاک نہیں ٹھہراتا جس کے معنے اس دنیا میں یہ ہیں اور اس دنیا میں بھی کہ ان تمام افضال اور نعماء سے محروم کئے جاتے ہیں جو ان لوگوں کو ملتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک ہیں.اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے سوا کوئی شخص بھی دوسرے کو کا فرنہیں کہہ سکتا.سوائے اس کے کہ یہ دعویٰ کرے کہ جس کو میں کا فرکہوں گا اس کے متعلق خدا تعالیٰ کو مجبور کرنے کی بھی اہلیت رکھتا ہوں ان پانچ باتوں کے متعلق بھی جس کو میں کا فر کہوں گا خدا تعالیٰ کی اس پر لعنت پڑے گی.اس پر خواہ خدا تعالیٰ نہ سمجھے اسے کافر.خدا تعالیٰ اس کی دعائیں سننی چھوڑ دے گا.خدا تعالیٰ اس سے ہم کلام نہیں ہو گا ، خدا تعالیٰ اس پر نظرِ التفات نہیں ڈالے گا، خدا اس کو پاک نہیں ٹھہرائے گا.جو شخص یہ دعوی کرے کہ میں خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سلوک پر مجبور کر سکتا ہوں صرف وہ یہ دعوی کر سکتا ہے کہ میں کسی بندہ کو کافر ٹھہر اسکتا ہوں.اس سے یہ بھی نتیجہ نکلا کہ خدا تعالیٰ کے وہ بندے جو ان افضال اور نعمتوں کے وارث ہورہے ہیں اس زندگی میں جن کا وعدہ ان لوگوں کو دیا گیا ہے.جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک ٹھہرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے وہ بندے جو اپنے رب کریم کی نگاہ میں پیار دیکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کے وہ بندے جن سے ان کا پیار کرنے

Page 148

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۴ خطبه جمعه ۵ /جون ۱۹۸۱ء والا خدا ہم کلام ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے وہ بندے جن کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں، خدا تعالیٰ کے وہ بندے جن کے منصوبے خدا کے لئے اور اس کی رضا کے لئے بنائے جاتے ہیں اور وہ کامیاب کئے جاتے ہیں.جیسا کہ میں ساری دنیا میں باہر جاتا ہوں، یہ اعلان کیا کہ وہ اکیلا تھا.The whole world got united against him.ساری دنیا اس کے خلاف متحد ہوگئی نا کام کرنے کے لئے اور وہ اکیلا جو تھا ایک کروڑ بن گیا ۹۲ ، ۹۳ سال میں.تو جو فرد یا جو افراد یا جو جماعت یہ دیکھتی ہے، اپنی زندگی میں یہ مشاہدہ کرتی ہے کہ جوان کے منصوبے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں نا کام نہیں کرتا کیونکہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر وہ اسی کی ہدایت کے مطابق وہ منصوبے تیار کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے وہ بندے جو خدا تعالیٰ سے پیار کرتے ہیں.اس سے زیادہ پیار جو پانی سے بھرے ہوئے سمندروں کی لہروں میں آپ کو ایک جوش نظر آتا ہے اس کے اندر اس سے زیادہ جوش والا پیار کرتے ہیں اور جتنا پیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ سے حاصل کرنے والے پیار کے مقابلہ میں اپنے پیار کو ایک قطرہ بھی نہیں سمجھتے.یعنی جتنا پیار کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ بے شمار دفعہ زیادہ پیار خدا تعالیٰ سے پاتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے ایک لمحہ میں بھی خدا تعالیٰ کو اپنے سے دور نہیں پایا ، ہمیشہ قریب پایا ہے، ان کو اگر دنیا کافر کہے تو دنیا کے اس فتوی کی وہ کیا پرواہ کریں گے.اگر کریں گے تو بڑے بیوقوف ہوں گے.اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو ہمیشہ فر است عطا کرتار ہے اور اپنے تحرب سے کبھی دور نہ کرے اور کبھی ان کے پاؤں میں لغزش نہ آئے کبھی شیطان ان پر کامیاب وار نہ کرے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 149

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۵ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء جسے اللہ تعالیٰ بچانا چاہے اسے دنیا کی طاقتیں ہلاک نہیں کر سکتیں خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک لمبا عرصہ انسان کو ہدایت پر قائم کرنے کے لئے ابتدائے آفرینش سے، زمانہ اور حالات کے مطابق کثرت سے انبیاء آتے رہے.بعض علاقوں میں ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا.بعض قوموں میں ایک ہی وقت میں بہت سے ، جیسا کہ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء ایک ہی وقت میں آجاتے تھے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک کامل اور مکمل تعلیم قرآن حکیم کی شکل میں لے کر آئے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد ہزاروں خدا تعالیٰ کے پیارے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے خدا کا پیار حاصل کرنے والے ، فدائی ، اللہ تعالیٰ سے نور حاصل کرنے والے علم پانے والے پیدا ہوتے رہے.بعض کی ذمہ داری تھی چھوٹے سے علاقہ میں بدعات کو دور کر کے خالص اسلام کو قائم کر دیں ، بعض کی ذمہ داری تھی بڑے علاقہ میں بدعات کو دور کر کے اسلام کو قائم کرنے کی اور جب ہم اس سلسلۂ اصلاح پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے کہ جب ایک ایک نسل جو ہدایت پر قائم کی جاتی ہے نبی کے ذریعہ سے یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مصلح

Page 150

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۶ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء اور خلیفہ اور مجدد کے ذریعہ سے، جب ایک نسل ہدایت پر قائم ہوتی ہے تو ایک نسل کے بعد یا دوسری نسل کے بعد یا چوتھی نسل کے بعد پھر سے بدعات ان کی زندگی میں داخل ہونی شروع ہو جاتی ہیں.پھر ان کو جھنجوڑنے کی ضرورت پڑتی ہے پھر انہیں راہِ راست کی طرف لانے کی ضرورت پڑتی ہے.پھر وہ جو ایمان باللہ کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ شرک کی بہت سی راہوں کو بھی اختیار کر لیتے ہیں، شرک کی راہوں سے انہیں بچا کر خالص تو حید ان کی زندگی میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو بھیج دیتا ہے.ایک زمانہ چھوٹا یا بڑا خالص نور کا خالص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا زمانہ، چودہ سو سال کا.دیکھتے ہیں.خالص اسلامی حسن کا ، خالص اسلام میں جو قوت احسان ہے اس کا ، خالص ایثار کا ، اطاعت کا ، فدائیت کا ، اللہ تعالیٰ کے عشق کا ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا نظر آتا ہے اور پھر رات آجاتی ہے.پہلے خاموشی کے ساتھ چند ایک، پھر ان میں پھیلا ؤ ہوتا ہے.پھر گرد جم جاتی ہے حسن پر، پھر اس گرد کو دور کرنے والا آتا ہے.تو ایک زمانہ اصلاح کا ہے اور ایک زمانہ بدعات پر قائم ہونے کا.اسلامی روح کو چھوڑ کر بے جان جسم کا زمانہ.اور اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا یا زندہ کرنے کے لئے.آپ کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے نئی زندگی پا کر ان لوگوں کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے بدعات کو مٹانے کے لئے خالص اسلام کو قائم کرنے کے لئے.یہ جو زمانہ ہے بدعات کا زمانہ جس کو اب میں کہوں گا اس میں رہنے والے، بسنے والے، وہ اب نیکی اور اصلاح پر اور سچائی پر اپنے آپ کو قائم رکھنے اور آنے والے کو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے باپ دادا نے جو کہا وہ سچ ہے.تمہاری ہمیں ضرورت نہیں.پہلے ہر نبی کو یہ کہا گیا، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہر بزرگ کو یہ کہا گیا.حضرت امام حسین سے شروع ہو گیا یہ سلسلہ (علیہ السلام ).ان پر کفر کا فتویٰ لگا، واجب القتل قرار دیئے گئے.بڑا سخت محمد بن گیا ہے یہ شخص ، اس فتویٰ میں سیاسی اقتدار اور مذہبی غرور اور تکبر دونوں شامل تھے.قاضی شہر کے بھی تھے اور علاقے کا گورنر بھی تھا اور بادشاہ وقت بھی تھا.ان کو نہایت ہی ظالمانہ طریق پر قتل کر دیا گیا.ان کے ساتھیوں کو، کم عمر نابالغ بچوں کو

Page 151

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۷ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء بھی ، بہت سخت ظلم ہوا ہے وہ.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات کو بلند کرے اور جو نمونہ انہوں نے پہلا جو زبردست واقعہ ہوا ہے.جو میں نے تفصیل بتائی ہے اس کی روشنی میں اور بڑا زبر دست نمونہ قائم کیا اسلام پر قربان ہو جانے کا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نور اور حسن کو نہ مٹنے دینے کا اور ظلمت کے سامنے سر نہ جھکانے کا.ایک لمبا سلسلہ ہے نام بھی شاید لینے لگوں تو آدھا گھنٹہ گھنٹہ لگ جائے.امام ابو حنیفہ ہیں.امام ابو حنیفہ کا تعلق فقہ سے ہے اور جو چار فقہی اصول قائم ہوئے.امام ابو حنیفہ حفی فقہ کو قائم کرنے والے، پھر امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل.امام ابوحنیفہ پر بھی کفر کا فتویٰ لگا.ان کو بھی انتہائی اذیت پہنچائی گئی.کوڑے لگائے گئے ان کو.امام مالک ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگا.امام احمد ان کے اوپر بھی کفر کا فتویٰ لگا اور ان کو بھی بڑی اذیتیں پہنچا ئیں.امام بخاری ان کی تصنیف شدہ کتاب کو بعد میں اَصَحُ الْكِتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللهِ قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب کہا گیا.کفر کا فتویٰ لگا ان پر اور تکلیفیں ان کو پہنچائی گئیں.سید عبدالقادر جیلانی پر لگا تصوف میں سے، بیسوں نہیں ہر ایک پر لگا.جو بھی آیا مصلح اس پر لگا.عثمان فودی ۱۸۱۸ ء میں ان کی وفات ہوئی ہے افریقہ میں پیدا ہوئے اس وقت کا جغرافیہ مختلف تھا.نائیجیریا کا جو مسلم نارتھ کہلاتا ہے وہ اور کچھ، بین اور کچھ اور ہیں ، اور چاڈ کا علاقہ بھی ، یہ کچھ علاقے ملے ہوئے تھے یہ ایک علاقہ تھا.جہاں بطور مجدد کے ان کی بعثت ہوئی اور انہوں نے یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں بدعات کو دور کروں اور خالص اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کروں.اس وقت اُن کے جو مخالف تھے وہ کہتے تھے ہمارے باپ دادا کے جو عقائد تھے وہ ہمارے لئے کافی ہیں.تم ملحد ہو اور فتنہ پیدا کرنے والے ہو.اور خدا تعالیٰ نے ان کو نشان بھی دکھائے بڑے، ہمت بھی بڑی دی، معجزات بھی بڑے عطا کئے.چھوٹی سی جماعت تھی جو ان کے ساتھ شامل ہوئی تھی ان کے مخالف مسلمانوں نے کفر کا فتویٰ دے کے واجب القتل قرار دے کے میان سے تلوار نکالی اور ان کو ہلاک کیا سارے ماننے والوں کو ان کے سمیت ہلاک کرنے کی کوشش کی.مگر جسے اللہ تعالیٰ بچانا چاہتا ہے اسے دنیا کی طاقتیں ہلاک نہیں کیا کرتیں اور پھر وہ میدانِ جنگ میں بھی کامیاب ہوئے اور میدانِ علم میں بھی اور تقویٰ کے اور طہارت

Page 152

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۸ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء کے میدان میں بھی کامیاب ہوئے اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ میں خالص دین بدعات سے پاک دین جو تھا وہ قائم کیا اور دو تین نسلوں کے بعد پھر ان کے ماننے والے بھی ان بدعات میں پڑ گئے اور کیونکہ اب جب مہدی علیہ اسلام آئے تو جن وجوہ کی بنا پر ان کے جد امجد پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا انہیں وجوہات کی بنا پر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکر ہو گئے.دوسرا دور آ گیا اور ماضی قریب میں حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی پر اس وجہ سے کفر کا فتویٰ لگایا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہیں اور آج ہم پہ ، احمد یوں پہ اس وجہ سے کفر کا فتویٰ لگا کہ ہم ان کے مطلب کا ترجمہ نہیں کرتے.تھوڑی سی تبدیلی ہوگئی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور اتنی عظیم پیشگوئی چودہ سو سال بعد پوری ہونے والی خدا تعالیٰ کے اذن سے ہی آپ نے فرمایا.آپ نے اعلان کیا تھا کہ میں غیب کا علم نہیں جاننے والا جو خدا مجھے سکھاتا ہے وہ میں آگے تمہیں پہنچا دیتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ مہدی کے زمانہ میں جب مہدی آئیں گے تو اس زمانہ میں اس قدر بدعات اسلام میں شامل ہو چکی ہوں گی کہ اس کی شکل ہی بدل جائے گی اور جب مہدی ان تمام بدعات کو نکال کے خالص اسلام دنیا کے سامنے پیش کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ اسلام ہی نہیں ہے آپ نے نیا مذہب بنالیا ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.دیکھو کتنا پورا ہوا ہے.قرآن کریم نے مختلف پیرایوں میں اس چیز کا ذکر کیا ہے.جو میں نے تفصیل میں ابھی بیان کی ہیں.سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَتُبُلُونَ فِي اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ (ال عمران: ۱۸۷) تمہیں تمہارے مالوں اور تمہاری جانوں کے متعلق ضرور آزمایا جائے گا.خدائے واحد و یگانہ پر ایمان کا دعوی کرو گے، محبت کا اعلان کرو گے، کہو گے ہم نے اسلام کو مضبوطی سے پکڑ لیا کچھ ہو جائے ہم اسے چھوڑیں گے نہیں تو خدا تعالیٰ آزمائش کرے گا.محض زبان کا دعوی ہے یا واقع میں اور حقیقتا تم اور تمہارا دل اور تمہارا دماغ اور تمہاری روح اور تمہارا جسم کلیتاً سارے کے سارے اسلام کے عاشق اور فدائی بن چکے ہیں.وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا (ال عمران: ۱۸۷) اور ان لوگوں سے جو قبروں پہ جاکے سجدہ کرنے والے مشرک.قرآن کریم نے دوسری جگہ فرمایا.وَمَا يُؤْ مِنْ اَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ (يوسف : ۱۰۷)

Page 153

خطبات ناصر جلد نهم ۱۳۹ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء کہ یعنی جماعت ہے اور ہو جاتی ہے پیدا جو ایمان باللہ کے توحید کے دعوئی کے ساتھ ساتھ شرک کی را ہوں کو بھی اختیار کرنے والے ہیں.قبروں کی پرستش کرنے والے پیروں کی پرستش کرنے والے.ایک دفعہ شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم جو وکیل تھے جج بھی بنے ہائیکورٹ کے.بڑے سخت پریشان، مجھے ملے کہنے لگے میں تو حیران ہو گیا ہوں ایک وکیل پڑھا لکھا، بڑا سمجھدار، دنیوی لحاظ سے.مجھے کہنے لگا ہم خدا سے دعا تھوڑا ما نگتے ہیں ہم تو جس وقت ہاتھ اٹھاتے ہیں دعا کے لئے تو ہمارا پیر سامنے آجاتا ہے اور ہم اس سے دعا مانگتے ہیں.تو پیروں کی پرستش کرنے والے اور ذاتی استعداد کو یا ترقی کو یا دولت کو خدا کا ہم پلہ سمجھنے والے اور اتنا بھروسہ کرنے والے ان چیزوں پر جتنا انسان کو خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور خدا کو چھوڑ کے ان کو کافی سمجھنے والے.یہ مشرک جو ہیں یہ تمہیں بہت تکلیف دہ.وَلَتَسْمَعُنَ یا زبان سے دیں گے تم سنو گے ایذا پہنچانے والی باتیں لیکن وَ إِنْ تَصْبِرُوا اگر تم اپنے دین اور ایمان کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے اور خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بناؤ گے اور خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں جاؤ گے تو یہ ہمت کا کام تو ہے مگر اسی کے نتیجہ میں کامیابی انسان کو عطا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو جب کہا جاتا ہے.واذا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلى مَا أَنْزَلَ اللهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَو لَو كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَ لَا يَهْتَدُونَ (المائدة : ۱۰۵) کہ ایسے لوگوں کو یہ کہا جاتا ہے..شرک کے دور میں پرورش پانے والے.بدعات سے پیار کرنے والے.اسلام کے صحیح چہرہ سے متعارف نہیں جو.جو اللہ تعالیٰ کی خاص اور اس کی عظمت اور کبریائی کا عرفان نہیں رکھتے ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے.قرآن کریم.خالص قرآن.خدا کے اُتارے ہوئے کلام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور جو آپ نے قرآن کریم کی تشریح کی ہے اس کی طرف آؤ.بدعات کو چھوڑو.تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس بات پر اپنے باپ دادا کو پایا تھا وہ ہمارے لئے کافی ہے.یعنی خدا ہمارے لئے کافی نہیں.جس بات پر اپنے باپ دادا کو پایا تھاوہ ہمارے لئے کافی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا اگر یہ صورت ہو کہ ان کے باپ دادا نادان ہوں اور اس کے نتیجہ میں بدعات میں پھنسے ہوئے ہوں اور جو صراط مستقیم کی سیدھی راہ ہمیں بتائی ان کو

Page 154

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۰ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء چھوڑ چکے ہوں اور صحیح راستہ نہ جانتے ہوں اور ہدایت کے نتیجہ میں جو کامیابیاں ملتی ہیں اور جن کی بشارت دی گئی ہے مرنے کے بعد اس کے ان میں وہ حصہ دار نہ ہوں اور فلاح اور کامیابی اس کے وہ وارث نہ بنیں.تب بھی وہ اپنی ضد پر قائم رہیں گے کہ ہم اپنے باپ دادا کی بات پر چلیں گے اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی بات کی طرف واپس نہیں آئیں گے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو دشمنی ہے صحیح اسلام پیش کرنے والوں سے جس طرح حضرت عثمان فودی رحمتہ اللہ علیہ سے دشمنی ہوئی کہ ان کو تلوار سے مارنا چاہا.جس طرح حضرت امام حسین سے دشمنی ہوئی رحمتہ اللہ علیہ کہ جن کو قتل کیا گیا اور ان کے خاندان کے بڑوں اور چھوٹوں کو.جس طرح امام ابوحنیفہ سے دشمنی ہوئی.اتنے بزرگ انسان جنہوں نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر چھوڑی تھی ان کو جسمانی اور ذہنی تکالیف اور ایذا پہنچانے لگ گئے تھے اور جس طرح میں نے بتا یا امام مالک، امام احمد ، سید عبد القادر جیلانی ، عثمان فودی اور حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی.ان پر بھی حملہ کیا جاتا تھا قتل کرنے کے لئے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو بچالیا.یہ کہہ کہ ہمارے باپ دادا کے منہ سے جو بات نکلی تم اسے چھوڑ کے، خدا اور رسول کی جو صحیح اور سچی اور حقیقی بات ہے وہ ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو تو یہ جو دشمنیاں ہیں یہ صرف اس وجہ سے ہیں اللہ تعالیٰ کہتا ہے..وَمَا نَقَدُوا مِنْهُم اِلَّا اَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ - الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (البروج : ۹، ۱۰) اور وہ ان سے صرف اس لئے دشمنی کرتے تھے کہ وہ غالب اور سب تعریفوں کے مالک اللہ پر کیوں ایمان لے آئے وہ اللہ جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے.وہ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ ہر چیز کے حالات سے واقف ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ (البروج : ۱۱) وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب میں مبتلا کیا اور انہیں تکالیف پہنچا ئیں.اور پھر تو بہ بھی نہ کی.جس صحیح اور سچ اور خالص اسلام کی طرف وہ مصلحین اور ان کے ماننے والے بلاتے تھے اس طرف توجہ نہیں کی اور توبہ نہیں کی تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی آگ ان کے اوپر بھڑ کے گی.اور جن کو ایذا دی جاتی ہے، جن کو ایذا دی جاتی رہی ہے.سارے لمبے عرصہ میں ان کو یہ کہ کے قتل کیا گیا، کوڑے لگائے جیل میں بھیجا گیا.6

Page 155

خطبات ناصر جلد نہم ۱۴۱ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء ہر قسم کی تکالیف پہنچا ئیں گئیں.قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ بت کو بھی گالی نہیں دینی.انہوں نے بزرگوں کو اپنی زبان سے نہایت گندی ایذا پہنچائی.اللہ تعالیٰ ان مصلحین کے ماننے والوں کو تیرہ سوسال میں قرآن کی آواز اس فضا میں گونجی وَاللهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ (النساء :۸۲) جو تدبیریں یہ کر رہے ہیں تمہارے خلاف فکر نہ کرو اللہ انہیں محفوظ کرتا جاتا ہے.فَاعْرِضْ عَنْهُمْ (النساء :۸۲) اس لئے اسے تکلیف اٹھانے والے خدا کی راہ میں تو ان سے اعراض کر اور وَ تَوَكَّلْ عَلَى الله (النساء : ۸۲) اللہ پر بھروسہ رکھ وَ كَفَى بِاللهِ وَكِيلًا (النساء :۸۲) اور اللہ کے بعد کسی اور کارساز کی ضرورت نہیں ہوتی انسان کو جو حقیقی معنی میں اس پر ایمان لایا ہو.اس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الله لا إله إلا هو - اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (التغابن: ۱۴) الله کے سوا کوئی معبود نہیں.خالق الکل، مالک الکل، ہر چیز پر حاوی يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (ال عمران:۴۱) وَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر جو چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے.آزمائش کے دن بھی آئیں گے لیکن اللهُ لا إلهَ الا ھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اس لئے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں ان کو اللہ پر ہی تو گل کرنا چاہیے اور کسی اور کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھنا چاہیے اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) پہلی آیت جو میں نے پڑھی اس میں تھا وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ مومنوں کو چاہیے صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں.دوسری آیت کہتی ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ.جو شخص خدا تعالیٰ کا حکم مان کر صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ.اللہ اس سے فرماتا ہے اعلان کر دو میں کافی ہوں تمہارے لئے تمہیں کسی اور کی ضرورت نہیں.إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق: ۴) اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ اللہ اس کے لئے کافی ہے اور اللہ یقیناً اپنے مقصد کو پورا کر کے چھوڑتا ہے.جہاں تک ہماری زندگیوں کا سوال ہے احمدیوں کی ، جس مقصد کے لئے مہدی علیہ السلام آئے جس مقصد کے لئے یہ جماعت جو ہے وہ قائم کی گئی جس مقصد کے لئے ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحم سے اپنی محبت پیدا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا کیا.وہ مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کے نور

Page 156

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۲ خطبه جمعه ۱۲ / جون ۱۹۸۱ء اور اس کے حسن کو اس کے پیار کو اس کی خیر خواہی کو اور بنی نوع انسان کے لئے محبت کو اور ہمدردی کو اور اس کے مفہوم میں جو قوت احسان ہے اس کے ذریعہ سے ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرنے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کمزور ہو ، تم بے مایہ ہو تم دھتکارے ہوئے ہو دنیا کے.ساری دنیا تمہارے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے لیکن تم خدا تعالیٰ کی دوانگلیوں میں ایک ذرہ ناچیز ہو.اور خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ تمہارے ذریعہ سے میں ساری دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا.تلوار کے ساتھ نہیں پیار اور محبت کے ساتھ اور ساری دنیا کے دل تمہارے ذریعہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے لئے کھینچے جائیں گے اور نوع انسانی اُمت واحدہ بن جائے گی.پورا یقین رکھو خدا تعالیٰ کے اعلان پر.خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے یہ نہیں کہ وہ وعدہ کرے اور جھٹلا دے اور اب تقریباً نوے سال گزر چکے ہیں ہماری زندگی کے اتنی عمر نوے سال ہم زبان کی ایذا ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوع (البقرۃ:۱۵۶) جو ہے وہ حالات دیکھتے چلے آرہے ہیں.وہ اکیلا تھا جس نے کہا مجھے خدا نے کہا ہے وہ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائے گا وہ ایک سے ایک کروڑ سے بھی آگے نکل گیا.اس لئے کہ کامل بھر وسہ اس نے کیا تھا.اس نے خدا کو کہا تھا و گفی بِاللهِ وَكيْلاً اس نے کہا تھا اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ ایک بندے کے لئے خدا کا فی ہے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں.یہ ایک بنیادی حقیقت ہے.ہاں جماعت احمدیہ کی زندگی کی اسے مت بھولیں.اپنے بچوں کو بھی یاد کراتے رہیں جب تک یہ حقیقت جماعت احمدیہ کو یا در ہے گی اور ان کے اعمال میں سے اور ان کے افعال میں سے اور ان کے اقوال میں سے اتنا باہر نکلے گی جتنا ایک بھاری چشمے میں سے چشمے کے منہ سے ٹھنڈا اور صحت مند اور سکون پہنچانے والا بڑا ہی لذیذ پانی نکل کے باہر آتا ہے.تو اللہ پر توکل کرو جب تک تم خدا پر بھروسہ کرتے رہو گے خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ کھڑا ہوا تمہاری مدد کرتارہے گا اور کسی سے دشمنی نہیں کرنی کسی کو دکھ نہیں پہنچانا کسی کو گالی نہیں دینی کسی کے لئے برا سوچنا بھی نہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین (از آڈیو کیسٹ)

Page 157

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۳ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء قرآن کریم کی روسے حقیقی مسلمان کون ہے؟ خطبه جمعه فرموده ۱۹ جون ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد / تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.پچھلا ہفتہ چند دن بیماری میں گزرے اور آج بیماری کا اثر ، ضعف اور گرمی تکلیف دے رہے ہیں لیکن میں اس لئے آگیا کہ آج میں اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا تھا جو میں نے شروع کیا ہوا ہے اور جس پر تمہیدی کئی خطبے میں دے چکا ہوں.مضمون جو باقی رہ گیا ہے وہ خاصا لمبا ہے.مختصر کروں گا خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ اس رنگ میں اختصار ہو کہ آپ اس کی روح کو سمجھ سکیں.پہلی بات آج کے خطبہ میں یہ ہے کہ مسلمان کون ہے قرآن کریم کی رو سے؟ اس کے متعلق میں چند آیات پڑھوں گا اس وقت جو میں نے منتخب کی ہیں بہت سی آیات میں سے اور ایک Idea ( آئیڈیا) کے بعد دوسرا یعنی تسلسل آئے گا اور وہ ایک نتیجے پر پہنچ جائے گا.اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے.فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ للإسلام (الانعام : ۱۲۶) جسے اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ، شرح صدر پیدا ہوتا ہے.قرآن کریم کے محاورہ میں شرح صدر کا پیدا ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبر کرنا ایک چیز نہیں بلکہ متضاد ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ

Page 158

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۴ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء وَقَلْبُهُ مُطْمَن بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ فَمَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدرًا (النحل : ۱۰۷) سورۃ انعام کی آیت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فر کو جبراً کافر اور گمراہ کو جبراً گمراہ بناتا ہے بلکہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے اپنی رحمت سے ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی قسم کے گند میں، گندی زیست میں نہ پڑ جائے ، گندے اخلاق اور اخلاقی لحاظ سے بدصحبت میں نہ چلا جائے ، اس کی عادات خراب نہ ہو جائیں کہ اس کے لئے دینِ اسلام کی پابندیاں اٹھانا مشکل ہو جائے ، سینہ میں انقباض پیدا ہو جائے اور بشاشت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا نباہنا اس کے لئے قریباً ناممکن ہو جائے تو جبر نہیں، رحمت ہے اور اس کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يَهْدِيَةَ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلام اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اسلام کے لئے شرح صدر پیدا کرتا ہے.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةً اجُرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۱۱۳) جو بھی انشراح صدر کے ساتھ اپنے اسلام کا اعلان کرے.مَنْ أَسْلَم یہ اعلان کہ میں مسلمان ہوں اور اسلام کا پابند رہوں گا یہاں کسی جبر کا اعلان نہیں ہوا بلکہ ہر شخص نے اپنی مرضی سے اپنی رضا کے ساتھ یہ اعلان کرنا ہے کہ میں مسلمان ہوں، مسلمان ہوتا ہوں، اسلام کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے انشراح صدر کے ساتھ تیار ہوں.پس خدا تعالیٰ نے انشراح صدر کے جو سامان پیدا کئے اس میں جبر نہیں تھا، حالات ایسے پیدا کئے گئے تھے کہ اگر کوئی شخص خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے کے لئے اور اس کے قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کا اپنا نفس اور اس کا اپنا شیطان اس کی راہ میں روک نہ بن جائے.یہاں فرمایا ہے جو بھی انشراح صدر کے ساتھ اپنے اسلام کا اعلان کرے اور اعمالِ صالحہ احسن طریق پر بجالائے ( وَهُوَ مُحْسِنُ ) تو اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بدلہ مقرر ہے اور ایسے مسلمانوں کو جو خود اپنی مرضی سے بشرح صدر اسلام کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں نہ آئندہ کا کوئی خوف ہوگا ( جیسا کہ میں آگے بتاؤں گا بہت سی بشارات قرآن کریم میں ہیں ) اور نہ وہ کسی سابق نقصان اور لغزش پر ވ

Page 159

خطبات ناصر جلد نہم ۱۴۵ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء غمگین ہوں گے کیونکہ ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور مستقبل الہی بشارات کی خوشیوں سے معمور ہوگا.مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ انشراح صدر سے اسلام کا اعلان کیا کہ اسلام کی ذمہ داریاں میں قبول کرتا ہوں اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی ان آیات میں کی.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ - قُلْ اَغَيْرَ اللهِ أَبْغِى رَبَّا وَ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ - (الانعام: ۱۶۳ تا ۱۶۵) اس سے پہلے کی آیت میں جو میں نے نہیں پڑھی ایک ٹکڑا یہ ہے قُلْ إِنَّنِي هَد نِی رَبّي إلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (الانعام : ۱۶۲) میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف میری ہدایت کر دی اور انشراح صدر مجھے پیدا ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہیں.جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس امر کا حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں.تو کہہ کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بناؤں؟ یا رب سمجھوں؟ حالانکہ وہ ہر ایک چیز کی پرورش کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اس آیت کا سچا مصداق ہو تب مسلمان کہلائے گا.یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قُلْ اِنَّ صَلاتی تدبیریں دو قسم کی ہیں ایک دعا کے ساتھ تدبیر دوسرے مادی دنیا کی تدبیریں ہیں عمل ہے، منصوبے بنانے ہیں، ان کے اوپر چلنا ہے، ماحول ایسا پیدا کرنا ہے، گھر میں دین کی باتیں کرنی ہیں، بچوں کی ہدایت کے لئے کوشش کرنی ہے، ان کے دل میں خدا اور رسول کا پیار پیدا کرنا ہے.ان کے کان میں دین کی باتیں ڈالنی ہیں، قرآن کریم سننا ہے ان سے، پڑھانا ہے ان کو وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کی تدبیر کی جاتی ہے.پہلی تدبیر تو صلاتی ہے کہ میری دعا جو ہے وہ ساری کی ساری للہ “ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کے قرب کو پانے کے لئے ہے اور میری کوشش اور تد بیر بھی اسی راہ پر گامزن ہے.(محیائی ) انسانی زندگی کسی ایک ٹھوس چھوٹی سی چیز کا نام نہیں.ستر سالہ زندگی میں بلوغت کے بعد سترہ، اٹھارہ سال کے بعد چلو میں سال ۱۷

Page 160

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۶ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء نکال دو پچاس سال کی عملی زندگی میں دن میں بیسیوں بارشاید سینکٹروں بار انسانی زندگی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے یہ لمحات کس طرح گزارنے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میری زندگی کی ہر کروٹ ، اور ہر حرکت جو اس میں پیدا ہوتی ہے خدا کے لئے ہے اور یہ محض زندگی ہی نہیں ، یہ ایک مرکب ہے ، زندگی اور موت کا اور یہ جو مرکب ہے اس کو بیان کرنے کے لئے ، اس کو واضح کرنے کے لئے میں انسانی جسم کی ایک مثال دیتا ہوں یعنی زندگی کا ہرلمحہ، جس طرح زندگی سنوارنے کی کوشش کا نام ہے زندگی کا ہر لمحہ اسی طرح موت سے بچ جانے یا بچنے کی کوشش کا نام ہے.سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ جس وقت انسانی دماغ میری اس انگلی کو حکم دیتا ہے کہ ہل، اس میں حرکت آجاتی ہے.تو یہ ایک بجلی کی کرنٹ ہے جو Nerves ( نروز ) کے ذریعے میری انگلی تک پہنچتا ہے یہ حکم ، وہ کرنٹ دماغ سے حکم لے کر جب پہنچتی ہے انگلی تک تب یہ حرکت پیدا ہوتی ہے اور یہ حرکت Nerves ( نروز) کے ذریعے چلتی ہے اور نرو ایک مسلسل دھاگہ نہیں جو ٹوٹا ہوا نہ ہو بلکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں نروز کے جن کے درمیان فاصلہ ہے بڑا خفیف سا فاصلہ لیکن فاصلہ ہے اور یہاں سے یہ کرنٹ بجلی کی Jump ( جمپ ) کر کے گزر نہیں سکتی.عجیب ہے خدا کا نظام جس وقت Nerve (نرو) حکم لے کے اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہاں ایک پل بن جاتا ہے، درمیان میں ایک Chemical ( کیمیکل ) آجاتا ہے جو دوNerves (نروز ) کے درمیان پل کا کام دیتا ہے جس پر سے گزر کے حکم آگے چلا جاتا ہے اور اس انگلی تک پہنچنے کے لئے اس حکم کو سینکڑوں، شاید ہزاروں پلوں کی ضرورت ہو اس قسم کے جو کیمیاوی پل ہیں جو بنتے ہیں اور کرنٹ کو آگے لے جاتے ہیں اور انہوں نے یہ تحقیق کر کے معلوم کیا کہ جس وقت وہ حکم گزر جاتا ہے اس پل پر سے، اسی وقت وہ پل ٹوٹ جاتا ہے اور پھر دونوں نروز کے درمیان ایک فاصلہ آ جاتا ہے اور اگر نہ ٹوٹے تو اس وقت موت واقع ہو جاتی ہے.تو ایک معمولی سا حکم دماغ سے انگلی تک پہنچانے کے لئے ، انسان ہزاروں موتوں میں سے گزرتا ہزاروں موتوں سے بچایا جاتا ہے.

Page 161

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۷ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء تو مَحْيَايَ وَمَمَاتِی میری زندگی اور میری موت یہ دونوں جسمانی لحاظ سے بھی ، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی ، موت اور زندگی کے ایک مرکب کی شکل میں آگے بڑھ رہے ہیں.ایک مومن کہتا ہے کہ جس طرح میری زندگی کا ہر لمحہ ، جب ایک نئی حرکت اس میں پیدا ہو، ایک نئی کوشش ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی اور اس کے قُرب کو حاصل کرنے کی ، اسی طرح جب ہر لمحہ زندگی میں شیطان میرے سامنے اخلاقی اور روحانی موت لے کر آتا ہے.تو میں اس شیطانی موت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے کہتا ہوں کہ میں خدا کا بندہ ہوں ، تیرا وار مجھ پر کامیاب نہیں ہوسکتا.اور اس طرح مَمَاتِي لِلہ ہرلحہ زندگی میں موت کے سامنے آنے پر میرارڈ عمل جو ہے یہ ہے کہ اخلاقی اور روحانی موت سے بچنے کی کوشش وہ اللہ خدا کی رضا کے لئے اس کے قرب کے حصول کے لئے اور انسان کے نفس کے دشمن اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو بہکانے والی جو طاقتیں ہیں اس دنیا میں ، شیطانی اثر اور نفوذ کے ماتحت کرنے والی ، ان کو نا کام کرنے کے لئے ہے.رب العلمین اور یہ میں اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے اس یقین پر قائم کیا گیا ہے کہ عالمین کی ربوبیت صرف اللہ تعالیٰ کر سکتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی قوتیں اور صلاحیتیں اور استعداد میں بھی اور ہر دوسری شے کی استعداد بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے کمال کو پہنچتی ہے.لا شريك له رب ایک ہی ہے جس سے میں نے ربوبیت حاصل کرنی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس چیز کا حکم دیا گیا ہے.وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ یہ فقرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب آیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نوع انسانی میں سب سے بڑا مسلمان میں ہوں.اسلام کو سمجھنے والا ، عرفانِ الہی رکھنے والا ، خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھنے والا ، اسلام کے لئے زندگی اور اسلام کے لئے موت ہر دو کیفیات میں وقف زندگی اور رد عمل جوموت کا ہے اس میں اپنے آپ کو ہی وقف کرنے والا ، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس سے قرب کو پانے کے لئے لیکن جب ہر دوسرے آدمی کے متعلق اس کو استعمال کیا جائے تو اوَلُ الْمُسْلِمِینَ کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جو استعدادیں دی ہیں ان کی کمال نشو و نما کے بعد جو میرا مقامِ عروج ہے اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے والا.

Page 162

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء ایک مجاہدہ ہے، ایک ہجرت ہے (اس وقت وہ میرا مضمون نہیں ہے وہ اشارے ہیں ) مجاہدہ ہے ہر لمحہ جو زندگی کا ہے اس میں بھی اور مجاہدہ ہے ہر وہ موت نئی سے نئی جو انسان کے سامنے آتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے انسان کہتا ہے کہ میں تیرا نہیں ، میں خدا کا ہوں بندہ.اس واسطے تیرا اثر مجھ پر نہیں ہوگا.تو وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.قُلْ آغَيْرَ اللهِ اَبَغِی رَبَّا کیا اللہ کے علاوہ میں کسی اور کو رب تسلیم کروں حالانکہ میں نے اپنے نفس میں بھی یہ پایا کہ اس کے علاوہ کوئی ہستی میری ربوبیت نہیں کر سکتی اور دنیا کی ہر شے کا جب میں نے مشاہدہ کیا، میں نے یہی مشاہدہ کیا کہ رَبّ الْعَلَمِيْنَ کی بجاۓ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ کے علاوہ اور کوئی رب نہیں جو ان کی درجہ بدرجہ ترقیوں کے سامان پیدا کر کے ان کو کمال تک پہنچانے والا ہو.تو یہ تین باتیں ہمیں ایک خاص مقام تک لے گئیں.جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے.يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسلام اس کی زندگی میں ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ اسلام قبول کرنے میں انقباض صدر نہیں ہوتا بلکہ انشراح صدر ہوتا ہے، اس کو محفوظ کیا جاتا ہے ایسے ابتلاؤں سے جس کے نتیجے میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے.چونکہ انقباض نہیں ہوتا ، وہ اپنی مرضی اور رضا سے اعلان کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوتا ہوں اور ساری ذمہ داریاں قبول کرتا ہوں اور زبان سے صرف اقرار نہیں ہوتا بلکہ اس کا عقیدہ جو ہے وہ بھی اور اس کے اعمال جو ہیں وہ بھی ایسے ہیں کہ ان میں بہترین حسن پایا جاتا ہے.اَحْسَنَ کے معنی عربی میں ہیں بہترین طریقے پر کسی چیز کو کرنا.تو وہ صحیح عقیدہ کو پہچانتا ہے اور جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قسم کے اعمال کو پسند کرتا ہے اور کون سے اعمال اسے پیارے ہیں ، پھر خالی بے دلی سے وہ نہیں کرتا ، بے رغبتی سے وہ نہیں کرتا بلکہ پوری کوشش سے جس قدر حسن اور نور اپنے اعمال میں پیدا کر سکتا ہے کوشش کرتا ہے کہ وہ حسن اور نور پیدا ہو جائے اور اس کی زندگی ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ہے إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ - یہ جب کیفیت ایک مسلمان کے دل میں پیدا ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ہی جیسا کہ میں نے بتایا

Page 163

خطبات ناصر جلد نهم ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء یہ سامان پیدا کئے ہیں اس کو استعداد دی، اس استعداد کوخرابی سے اور کیڑا لگ جانے سے اور شیطانی اثرات سے اور بے رغبتی سے اور جہالت سے اور بے رخی سے اور محبت الہی کے فقدان سے محفوظ رکھا اور اعلان کروایا اللہ تعالیٰ نے ہی کیا نا سارا سامان ، اس واسطے اعلان ہو گیا اسلام کا مسلمان کون ہے؟ یہاں پہنچ گئے ؟ هُوَ سَشْكُمُ الْمُسْلِمِينَ (الحج: ۷۹ ) اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.دنیا کے کسی انسان کو، دنیا کی کسی حکومت کو ، دنیا کی کسی دولت کو ، دنیا کے کسی جتھے کو ، دنیا کے کسی سیاسی اقتدار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کہے یہ حالات پیدا کرنے میں میرا دخل ہے اور اس وجہ سے کوئی مسلمان بنتا ہے، کوئی کافر بن جاتا ہے.نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا پچھلی آیتوں میں کہ یہ حالات میں نے پیدا کئے اور ان کے مطابق میں اعلان کرتا ہوں کہ میں نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.جس شخص کے کان میں یہ آواز پڑے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام مسلمان رکھ دیا اور ساری دنیا شور مچاتی رہے کہ وہ مسلمان نہیں تو کیا رد عمل ہوگا اس کا ساری دنیا کے شور اور چیخ و پکار کے مقابلے میں.کہے گا خدا مجھے کہتا ہے میں مسلمان ہوں تمہاری میں کوئی پرواہ نہیں کرتا.یہ پہلا نکتہ ہے جو میں تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا.دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں یہی دستور ہے، ہمارے ملک میں بھی رہا ہے.مغل بادشاہ کسی کو دس ہزاری کا خطاب دے دیتے تھے، کسی کو آٹھ ہزاری کا کسی کو سات ہزاری کا.وہ عقل مند ، صاحب فراست لوگ تھے ، دنیوی اقدار کی ذمہ داریوں کو سمجھتے تھے ، وہ مذاق نہیں کرتے تھے نہ اس شخص سے جس کو مثلاً دس ہزاری کا خطاب دیا نہ اپنے معاشرہ سے نہ اپنی قوم سے بلکہ جسے دس ہزاری کا خطاب دیتے تھے اور ممکن ہے بعض بچے سمجھیں نہ کہ دس ہزاری ہے کیا چیز ؟ اس لئے سمجھا دوں وہ اس کو کہتے تھے کہ میں تجھے اجازت دیتا ہوں کہ تم میرے لئے دس ہزار کی تعداد میں فوج تیار کرو یہ حکم دے دیا.اب دس ہزار کی فوج بادشاہ کے حکم سے نہیں بنتی.یہ تو ہر ایک سمجھ جائے گا.اس کے لئے بہت سے سامانوں کی ضرورت ہے.اس کے لئے کچھ تو حکومتِ وقت کے جو قوانین ہیں وہ ایسے ہونے چاہئیں جن میں دس ہزار کی فوج کی صحیح تربیت اور ٹریننگ ہو سکے اور خوشحالی ہو، اطمینانِ قلب

Page 164

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء ہوان کے دل میں.اور اس کے لئے ضرورت ہے دس ہزار خاندانوں کی پرورش کرنے کی ، ان کو کھانا دینے کی ، ان کو کپڑے دینے کی ، ان کی صحتوں کو قائم رکھنے کی.اس کے لئے ضرورت ہے دس ہزار فوجیوں کے لئے اسلحہ اور ان کی یونیفارم پر خرچ کرنے کی.اس کے لئے ضرورت ہے ان کے اوپر ایسے Instructors (انسٹرکٹر ز ) رکھنے کی جو ان کو تربیت دیں اور مہارت ان کے اندر پیدا کریں.بڑے خرچ کی ضرورت ہے.تو جس وقت بادشاہ سلامت کسی کو دس ہزاری کا خطاب دیتے تھے تو اس کو اتنی جائیداد بھی اس حکم کے ساتھ ہی دیتے تھے جس کی آمد سے ایک شخص دس ہزار کی فوج Recruit کر سکتا تھا، ان کی تنخواہیں دے سکتا تھا اور ان کی ٹریننگ کر سکتا تھا، ان کو اسلحہ خرید کے دے سکتا تھا اور ان کی تربیت کر سکتا تھا اور ان کو ایک ماہر فوجی بنا سکتا تھا.تو آپ کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن عظیم کے ذریعہ دنیا میں اعلان کرے کہ میں تمہیں مسلمان کا دیتا ہوں خطاب اور مسلمان کے لئے جن بشارتوں کی ضرورت ہے اس کا کوئی ذکر ہی نہ کرے.یہ تو نہیں ہوسکتا عقلاً نہیں ہو سکتا.وہ جو عقل وفراست کا منبع اور سر چشمہ ہے اس کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ ان چیزوں کو بھول جائے گا درست نہیں وہ تو نہیں بھول سکتا ، بھول ہی نہیں سکتا.یہ دوسری بات ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں.قرآن کریم نے اعلان کیا سورۂ بقرہ آیت ۹۸ میں ہے.هُدًى و بشرى لِلْمُؤْمِنین کہ قرآن کریم کی جو یہ ہدایت ہم نے دی ہے تمہارے ہاتھ میں، یہ تمہارے لئے ہدایت کی راہوں کو بھی روشن کرتی ہے.ایک ذمہ داری یہ تھی نا بھٹک نہ جاؤ اس کا سامان اس میں رکھ دیا.دوسرے یہ تھی کہ دنیا کے سارے اختلاف انشراح صدر کو مکڈ رنہ کریں بلکہ ہنستے کھیلتے خدا کی راہ میں تم قربانیاں دیتے چلے جاؤ ، آگے بڑھتے چلے جاؤ ، و بشری لِلْمُؤْمِنِينَ بشارتوں سے بھری ہوئی ہے یہ کتاب عظیم.سورہ نحل میں فرمایا.وَ نَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ (النحل : ۹۰) ہم نے ایک کامل کتاب قرآن کریم کی شکل میں تیرے پر نازل کی تبيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ ہر ضروری چیز روحانی، اخلاقی ، ذہنی اور جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ہدایت جو ہے وہ اس کے اندر ہے، ہر ضروری چیز اس کے اندر پائی جاتی ہے اور ہر ضروری چیز کو کھول کر بیان کر دیا ہے.اس کے اندر کوئی ابہام نہیں ہے، کوئی

Page 165

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۱ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء اشتباہ نہیں ہے بلکہ کھول کے ہر چیز کو بیان کر دیا گیا ہے.وھدی اور زندگی اور موت کے ہر مرحلہ میں جب انسان کو ہدایت کی ضرورت پڑتی ہے قرآن کہتا ہے آؤ میرے پاس، میں تمہیں اس راہ پر چلاؤں گا جس راہ پر چل کے تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے ہو.وَ رَحْمَةٌ اور ایسی راہیں بتاؤں گا کہ جن پر چل کے تم خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو ، بے شمار رحمتوں کو جیسا کہ دوسری جگہ ذکر کیا کہ اسْبَغَ یعنی بارش کی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ایسے انسانوں پر نازل ہوتی ہیں، وہ راہیں تمہارے پر کھولی جائیں گی.و بشری لِلمُسلمین اور قرآن کریم بشارتوں سے بھرا پڑا ہے.اب کامل اور حقیقی مسلمان جو ہے اس کو تو خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے کہ جو اس نے مجھے بشارتیں دی ہیں وہ میری زندگی میں پورا کرے گا.یہاں (پھر) سوال پیدا ہوتا ہے ہمارے دماغ میں کہ Not Muslim ( ناٹ مسلم ) قرار دینا تو آسان ہے لیکن ان بشارتوں کو کسی مسلمان شخص کی زندگی میں ظاہر ہونے سے روک دینا جو مسلمان کے لئے دی گئی ہیں یہ تو ناممکن ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے منصوبہ میں نا کام نہیں بنایا جاسکتا.اس واسطے اس سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بشارتیں دی ہیں وہ مالک کل اور قادر مطلق ہے اور جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے.اس نے حقیقی اور سچے مسلمانوں کو جو بشارتیں دی ہیں ہو نہیں سکتا کہ وہ پوری نہ ہوں یقیناً پوری ہوں گی ان کی زندگی میں.اب اس کی تفصیل کہ وہ بشارتیں کیا دیں؟ مومن مسلم کو اللہ تعالیٰ نے کیا بشارتیں دی ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا پچھلے خطبوں میں کہ جو جنتیں اور ان کی کیفیات اور ان کے حسن اور ان کی زندگی کا اطمینان اور خوشحالی ، میں وہ ذکر نہیں کروں گا اپنے ان خطبات میں بلکہ جو اللہ تعالیٰ کا ایک مومن مسلمان سے سلوک قرآن کریم میں بیان ہوا ہے صرف وہ سلوک جو ہے وہ میں بیان کروں گا.میں نے فاسق فاجر کے متعلق کہا تھا کہ وَ مَا دُعَاءِ الكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَالِ (المؤمن : ۵۱) قرآن کریم نے اعلان کیا کہ جو مومن اور مسلم نہیں Not Muslim ( ناٹ مسلم ) ہیں ان کی دعا اور چیخ و پکار ضائع ہو جاتی ہے قبول نہیں کی جاتی.مومن کے متعلق کیا کہا؟ مومن کے متعلق یہ کہا اذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ (البقرة : ۱۸۷) جو میرے بندے بن جائیں حقیقی معنی میں میرے

Page 166

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء ہو جائیں تو ان کے دل میں تڑپ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور ہم سے ہم کلام ہو.پس قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں.قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارے اپنے نفوس اور تمہارے رشتہ داروں سے بھی تمہارے زیادہ قریب ہوں.أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جو پکارے گا مجھے مومن اور مسلم اس کو میں جواب دوں گا اور ان کو بھی چاہیے کہ وہ میرے حکم کو قبول کریں یعنی سچے مومن رہنے کی، سچے مسلمان بننے کی کوشش کرتے رہیں اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں تا کہ قبولیتِ دعا کے نتیجہ میں ہدایت پر اور زیادہ پختہ ہو جائیں.یہ ہدایت کوئی ایسی ٹھوس چیز نہیں کہ جو بس ایک دفعہ مل گئی ایک جیسی ہر ایک کو مل گئی اور ختم ہو گیا معاملہ بلکہ اس ساری زندگی میں بھی ہدایت میں، قرب الہی میں، خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول میں اس کی رضا کی جنتوں کا جو تخیل ہے کہ آدمی کو حاصل ہو جاتی ہیں اس کی رضا کی جنتیں وہ اس میں ٹھہرتی نہیں بلکہ ہر آن ، ہر روز، ہر مہینے میں اس میں زیادتی ہونی چاہیے اور جو سچا حقیقی مومن ہے ہوتی ہے زیادتی اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد جس جنت کا وعدہ دیا گیا ہے اس میں عمل کوئی نہیں.قرآن کریم کی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہمیں بتا رہی ہے کہ عمل ہے وہاں لیکن امتحان نہیں یعنی عمل ہے اس کی جزا ملے گی ، وہاں یہ خطرہ نہیں ہے کہ امتحان میں کوئی شخص فیل ہو جائے گا اور جنت سے نکال دیا جائے گا.یہ خطرہ نہیں ہے اطمینان کی زندگی ہے ، خدا کا پیار جو ہے وہ ہر روز بڑھتا چلا جائے گا.یہاں تو یہ کہا گیا تھا جو دعا کرنے والا مجھے پکارے تو اس کی دعا قبول کرتا ہوں یہاں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ہر مسلمان مومن کو ضرور مجھے پکارنا چاہیے.ایک اصول بیان کیا.سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) دعا ئیں کرو مجھ سے، پکارو مجھے.وہاں حکم دیا ہے اور اتنا زور دیا ہے دعا کرنے پر کہ مومن مسلمانوں کو کہا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم میرے حضور عمل کی دنیا میں کچھ پیش کر رہے ہو.نمازیں پڑھ رہے ہو، زکوۃ دے رہے ہو، دوسرے نیک اعمال بجالا رہے ہو قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان :۷۸) اگر تم دعا نہیں کرو گے تمہارے دوسرے اعمال بھی قبول نہیں کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ تمہاری پر واہ کیا کرتا ہے.

Page 167

خطبات ناصر جلد نہم ۱۵۳ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء تو وَ مَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلا فِي ضَالِ کے مقابلے میں مومن کو یہ بشارت دی گئی کہ خدا دعائیں قبول کرے گا.یہ انذاری پہلو مومن کے سامنے رکھا گیا کہ اگر دعا نہیں کرو گے خدا تمہاری پرواہ نہیں کرے گا اور ان دو چیزوں کے بعد حکم دیا گیا اُدعُونی دعا کرو مجھ سے، میں قبول کروں گا.یہ پہلی بشارت ہے جو بشرى لِلْمُؤْمِنِينَ - بُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ کے ماتحت ملی.دوسری بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے کھول کر بیان کر دیا کہ جو مومن مسلم ہیں وحی کا دروازہ ان پر کبھی بند نہیں کیا جائے گا اور اس مسئلے کو سمجھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک اور اعلان کیا اور وہ اعلان یہ ہے کہ یہ کائنات جو ہےاس کی حیات ، انسان کے علاوہ کائنات کی حیات ،انسان کی روحانی حیات جو ہے اس معنی میں تو روحانی حیات کا ذکر نہیں مثلاً درخت ہے، مثلاً پانی ہے، مثلاً ہیرا ہے، مثلاً حیوانات ہیں وہ بھی زندہ ہیں نا اور مر بھی جائیں گے ایک وقت آئے گا ایسا تو ان کے متعلق بھی یہ کہا ہے کہ ہر آن میری وحی کے محتاج ہیں.ایک چھوٹی سی شہد کی مکھی کو لو خدا کہتا ہے ( قرآن کریم میں آیا ہے ) اور عیسائی یاد ہر یہ ریسرچ نے اسے ثابت کیا ہے کہ بعض ایسے دن اس کی زندگی میں آتے ہیں کہ اڑھائی ہزار دفعہ ایک دن میں اس پر وحی نازل ہوتی ہے.وحی کے لفظ سے قرآن کریم نے اس چیز کو یاد کیا اور یہ کیوں بتایا ہمیں؟ کیا اس لئے کہ ہم کتوں اور سؤروں اور شہد کی مکھیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں ، وہ انسان جو خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ اتنا ذلیل؟ نہیں بلکہ اس لئے بتایا ہے کہ ان کو اگر ضرورت ہے تمہیں زیادہ ضرورت ہے ان کے لئے ہم نے وحی کے دروازے بند نہیں کئے تمہاری ترقیات میں روک پیدا کرنے کے لئے تم پر وحی کا دروازہ کیسے بند کر سکتے ہیں.تو دوسری بشارت مومن کو دی گئی اللہ تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا ہے لیکن ہم بھی بچے سے اس کے ذہن کے مطابق بات کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ تو سر چشمہ اور منبع ہے فراست اور عقل اور ذہانت کا ، وہ بچے سے اس کی زبان میں بات کرتا ہے.۷۴ ء میں اس چیز نے اتنا اطمینانِ قلب پیدا کیا جماعت میں، ہر روز میں پانچ ، سات آٹھ ، نو گھنٹے ملاقات کرتا تھا صرف ان کو مسائل

Page 168

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۴ خطبہ جمعہ ۱۹ /جون ۱۹۸۱ء بتانے کے لئے.بیسیوں بچے مختلف جماعتوں کے میرے سامنے بیٹھے ہوتے تھے میں ان سے پوچھتا تھا کسی کو کوئی سچی خواب آئی قریباً سارے بچے کھڑے ہو جاتے تھے.اتنا بڑا احسان کیا ہے خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر کہ مسلمان کی جو یہ علامت تھی ان کی زندگیوں میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ان چند مہینوں میں پوری ہوئی.تو دوسری بشارت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دی اللہ ان سے ہمکلام ہو گا وحی کا دروازہ بند نہیں کیا جائے گا.اور تیسری چیز یہ کہ خدا تعالیٰ کی آنکھ میں وہ کبھی غضب نہیں دیکھیں گے بلکہ پیار پائیں گے.یہ ایک روحانی کیفیت ہے.جماعت احمدیہ کے افراد تو اس کو اچھی طرح پہچانتے ہیں لیکن بہر حال یہ ایک علامت بشارت کے طور پر مسلم مومن کی دی گئی ہے.چوتھی بشارت یہ دی گئی کہ اللہ تعالیٰ ان سے مطہرین والا سلوک کرے گا اور مطہرین والا ایک سلوک یہ ہے کہ قرآن کریم کے مخفی اور چھپے ہوئے بطون جو ہیں اور وہ حقیقتیں جو عمیق اسرار کہلاتی ہیں وہ مومن مسلمان پر اپنی استعداد کے مطابق ظاہر کی جائیں گی اور کھولی جائیں گی.** لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) کے مطابق.اور پانچویں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اے مسلمانو اور مومنو! اللہ تعالیٰ کا فروں کو تم پر کبھی غلبہ نہیں عطا کرے گا.بہت بڑی بشارت ہے لیکن یہ اس بشارت کا ایک رخ ہے اور دوسرا رخ اس کا یہ ہے اور یہ رخ بھی بڑی اہمیت والا ہے اس واسطے میں نے اس کو لیا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ مومنوں اور مسلمانوں کے راستہ کی تمام روکیں دور کر دی جائیں گی اور ان کے خلاف وہ تمام منصوبے ناکام بنا دیئے جائیں گے جو ان کے مخالف بنا ئیں گے اور جماعت احمدیہ کی ترانوے سالہ زندگی اس پر گواہ ہے.یہ نہیں کہ ہم آرام سے بیٹھے اور یہ نہیں کہ قرآن کریم کا یہ اعلان کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ ایمان کا دعوی کرنا کافی ہے یہ درست نہیں یہ ہمارے حق میں درست ہو گیا نہیں.ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، تیسرے کے بعد چوتھا ان ترانوے سال میں ترانوے نہیں ترانوے ہزار سے بھی زیادہ منصوبہ بنایا گیا جماعت کے خلاف اور روکیں پیدا کی گئیں ترقی کی راہ میں لیکن ایک کے بعد دوسری روک، دوسری کے بعد تیسری روک، ہزاروں

Page 169

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء روکیں جو سامنے آئیں ان سب کو خدا تعالیٰ نے دور کر دیا اور سارے منصوبے جو جماعت کو نا کام کرنے کے لئے یا جماعت کو نابود کرنے کے لئے بنائے گئے نا کام ہو گئے.ابتدائی زندگی میں ہماری جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکیلے تھے دنیا میں ایک شخص آپ کو قتل کر کے جماعت احمدیہ کو نابود کر سکتا تھا، خدا تعالیٰ نے وہ ایک نہیں پیدا کیا.پھر جب آپ کے گرد ہزاروں ہو گئے تو بیسیوں ہزار جو تھے وہ نابود کر سکتے تھے اگر ایک دس کی نسبت بھی رکھی جائے تو جو چار ہزار قرآن کریم کی بشارت کے مطابق چالیس ہزار کے اوپر بھاری تھا لیکن ایک لاکھ تو ان کو نابود کر سکتا تھا، وہ لاکھ نہیں پیدا ہوا.پھر وہ چھوٹے سے علاقے میں، پھر پنجاب میں، پھر ہندوستان میں پھیلے اور پھر یہ جماعت ساری دنیا میں پھیل گئی.اور وعدہ یہ ہے کہ اگر ساری دنیا، دنیا کے سارے عیسائی، سارے یہودی ، سارے بدھ مذہب والے، سارے بت پرست، سارے دہریہ، سارے اشترا کی اور دوسرے مذاہب والے اکٹھے ہوکر جماعت احمدیہ کو نابود کرنا چاہیں گے نا کام ہوں گے.یہ خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے.ترانوے سال میں ہماری آنکھوں نے اس بشارت کو پورا ہوتے دیکھا.دوسرے یہ ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ هُذَا بَيَانُ لِلنَّاسِ (ال عمران: ۱۳۹) یہ کھول کے باتیں بیان کی گئی ہیں، یہ ہدایت ہے، یہ موعظہ ہے نصیحت ہے متقیوں کے لئے ( قرآن کریم ) اس لئے ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ اپنے رب پر کامل تو گل رکھو اور پورا یقین رکھو اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو تمہیں اس کی ضرورت نہیں.پورا تو کل ہوگا اگر تمہارا ، اگر تم تقویٰ پر قائم رہو گے.اگر ایمان اور اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے، اگر تم حقیقی اور سچے مومن رہو گے تو تمام شعبہ ہائے زندگی میں بالا دستی تمہیں ہی حاصل رہے گی.اَنْتُمُ الْأَهْلُونَ اِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران:۱۴۰) کا تعلق محض میدانِ جنگ سے نہیں.ایک وقت میں مجبور ہو گیا تھا اسلام، تلوار میان سے نکالنے کے لئے جب کفر نے تلوارمیان سے نکالی اور مادی طاقت سے نابود کرنا چاہا تو خدا تعالیٰ نے کہا اگر تم تلوار کا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو تو چلو ان ٹوٹی ہوئی تلواروں سے ہم اپنی قدرت کا تمہیں نشان دکھا دیتے ہیں اور دکھا دیا لیکن آغکون یعنی بالا دستی تمہاری ہے

Page 170

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۶ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء یہ تو نہیں کہا فلاں شعبۂ زندگی میں اس واسطے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بالا دستی تمہیں حاصل رہے گی.اِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ایک شرط لگائی ہے بڑی ضروری شرط ہے پہلے بھی بیان میں نے کیا ہے اس کو.تو یہ چھ بشارتیں قرآن کریم سے میں نے اٹھائی ہیں.ویسے بہت بشارتیں ہیں قرآن کریم میں.اور اب میں ختم کرتا ہوں بہت ہی لطف دیتی ہیں یہ آیات.سورہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا (السجدة : ١٩) مومن اور فاسق ہرگز برابر نہیں ہو سکتے.میں نے فاسق ، کافر ، ظالم کا بھی بتایا تھانا کہ اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے.مومنوں کا بھی بتایا تھا.اس آیت میں یہ ہے کہ تم یہ اچھی طرح یا درکھو، پلے باندھ لو اپنے کہ خدا کا سلوک مومن اور کافر سے ایک جیسا نہیں ہو سکتا.بڑا عجیب اعلان ہے.مومن اور فاسق میں اللہ تعالیٰ نے ایک نمایاں فرق پیدا کیا ہے اور قرآن کریم نے اس کو بیان کر دیا ہے جس کی بعض مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں.یہ ایک آیت ہے.سورۃ القلم میں تین آیتیں ہیں بڑی عظیم ، بڑا عظیم اعلان ہوا ہے ان میں.اس کے اوپر میں اس خطبے کو ختم کروں گا.سورۃ القلم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّتِ النَّعِيمِ - أَفَنَجْعَلُ وقفة الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ - مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ.(القلم : ۳۵ تا ۳۷) یقیناً متقیوں کے لئے اپنے رب کے پاس نعمت سے پُر باغات ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کیا ہم مسلمانوں سے مجرموں کا سلوک کریں گے؟.اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِینَ.مَا لَكُمْ تمہیں ہو کیا گیا ہے، كيف تحكمون تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟ کیا تمہاری مجلس کا فیصلہ یا تمہارے اپنے فیصلے ہمیں اس بات پر مجبور کر دیں گے.( گیف عربی میں تهدید کے لئے بھی آتا ہے یعنی ڈرانا کہ ہم تمہیں سزا دیں گے تمہارے فعل پر یہاں گیف بمعنی تَهْدِید کے ہے ) تمہیں ہو کیا گیا ہے کیسے فیصلے کرتے ہو تم.کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری مجلس کا فیصلہ یا تمہارا کوئی حکم جو ہے اس کے نتیجہ میں ہم مجرموں کے حق میں ان کی اپنی دعاؤں کو قبول کر لیں گے اور جو مسلمان ہیں ان کی دعاؤں کو رد

Page 171

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۷ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء کر دیں گے اس فیصلہ کے بعد ہم دعائیں بچے اور حقیقی مسلمان ہی کی قبول کریں گے.تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو تم.کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے اس فیصلہ کے نتیجہ میں ہم ان سے جنہیں ہم حقیقی اور سچا مسلمان پائیں گے ہم کلام نہیں ہوں گے.ان پر وحی کا دروازہ بند کر دیں گے کیونکہ تم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے.تمہیں کیا ہو گیا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو.کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ جو میرے فدائی اور جاں نثار ہیں ، جنہوں نے اپنی زندگی کا ہرلمحہ میرے لئے وقف کر چھوڑا ہے وہ میری آنکھوں میں پیار کی بجائے غصہ دیکھیں گے.نہیں، وہ میری آنکھوں میں تمہارے فیصلوں کے باوجود اور تمہارے فیصلوں کے بعد بھی پیار ہی دیکھیں گے، پیار ہی پائیں گے اور اطمینانِ قلب انہیں حاصل ہو گا.تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو تم.کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے اس فیصلہ کے بعد قرآن کریم کے چھپے ہوئے اسرار جو ہیں وہ اپنے مسلمان بندوں پر ظاہر نہیں کریں گے.تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو.کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے اس فیصلہ کے بعد ہمارا یہ منصوبہ کہ آج کے زمانہ میں ساری دنیا میں اسلام کو، اسلام کے حسن اور اسلام کے نور کو ظاہر کر کے غالب کریں اس منصو بہ کو چھوڑ دیں گے اور جو ہمارے مطہر بندے ہیں ان پر قرآن کریم کے علوم کے دروازے بند کر دیں گے.مالکھ تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو تم.کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے اس فیصلہ کے بعد ہم اپنے اس فیصلہ کو بدل دیں گے کہ مومنوں اور مسلمانوں پر کافروں کو غلبہ نہیں ہو گا ، اور ہم تمہارے فیصلہ کے پیچھے چلیں گے اور غلبہ کا فروں کو دیں گے اور نا کام مومنوں کو کریں گے.ایسا تو نہیں ہوگا.مالک تمہیں ہو کیا گیا ہے، کس قسم کے فیصلے کرتے ہو تم.کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تمہارے اس فیصلہ کے بعد جو ہمارے پیارے ، ہمارے مقرب، ہماری رضا کی راہوں پر چلنے والے، ہر آن اس فکر میں رہنے والے کہ ہم ان سے راضی ہو جائیں ، اعمالِ صالحہ بجالانے والے، قربانیاں دینے والے، جو ان کی سمجھ کے مطابق ہماری

Page 172

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۱ء ہدایت اور روشنی کے نتیجہ میں ہمیں خوش کرنے والے ہیں ان کے نتیجہ میں ان کی زندگی کا ہر پہلو بالا دستی کا پہلو ہے اپنے اس بنیادی فیصلے کو تمہاری خاطر چھوڑ دیں گے.مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ تمہیں ہو کیا گیا ہے تم کیسا فیصلہ کرتے ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 173

خطبات ناصر جلد نهم ۱۵۹ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۱ء جو ہدایت قرآن کریم کے ذریعے ہمیں دی اس کی پابندی کرنا ہر احمدی کا بنیادی فرض ہے خطبه جمعه فرموده ۲۶ / جون ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنی کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - اَيَّا مَا مَعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۖ وَ أَنْ و روو تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ - شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتِ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة : ۱۸۴ تا ۱۸۷) پھر فرمایا.جو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے.اے لوگو! جو ایمان لائے b

Page 174

خطبات ناصر جلد نهم 17.خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۱ء ہو تم پر روزوں کا رکھنا فرض کیا گیا ہے.جس طرح ان لوگوں پر ( ان کی شریعتوں کے مطابق ) فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم روحانی اخلاقی کمزوریوں سے بچو.سوتم روزے رکھو چند گنتی کے دن (رمضان کا مہینہ ) اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا مسافر تو اور دنوں میں تعداد پوری کرنی ہوگی اور ان لوگوں پر جو اس روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فد یہ ایک مسکین کا کھانا واجب ہے یعنی جتنے روزے چھٹے ہیں اس کے مطابق بشرط استطاعت.رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم اترا یا جس کے بارہ میں قرآن کریم نے ہدایت فرمائی.یہ بھی درست ہے کہ رمضان میں پورے کا پورا قریباً قرآن اترا کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان میں اس وقت تک جس قدرقرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا دور کرتے تھے.رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے جو کھلے دلائل ، جو ہدایت کا رنگ رکھتے ہیں اپنے اندر رکھتا ہے اور فرقان ہے، ما بہ الامتیاز پیدا کرتا ہے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان.اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو دیکھے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنی واجب ہوگی.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم اس کے شکر گزار بندے بنو اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سوچاہیے کہ وہ بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.یہ تو درست ہے کہ حکومتِ وقت نے اپنے ایک فیصلہ کے ذریعے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے.اس لئے جو ان کے فیصلے ان کے معین کردہ دائرہ اسلام کے اندر نفوذ اسلام کے لئے ہوں ان کا اطلاق جماعت احمدیہ پر نہیں ہوتا ، نہ ہو سکتا ہے.اپنی جگہ یہ درست لیکن جو ہدایت اس نے قرآن عظیم کے ذریعے دی ہے ہماری اپنی ہی بھلائی کے لئے اور ترقیات کے لئے اس کی پابندی کرنا ہم میں سے ہر ایک پر ایک بنیادی فرض ہے ان

Page 175

خطبات ناصر جلد نهم 171 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۱ء ہدایات کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دی ہیں.قرآن کریم نے شہر رمضان کی جو خصوصیات اور ذمہ داریاں ہیں وہ بیان کر دی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کر کے وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے عملی تفسیر ان آیات کی رکھ دی ہے.میں نے جو طریق اس وقت منتخب کیا ہے وہ یہ نہیں کہ میں ان آیات کی تفسیر کروں بلکہ اس میں سے میں نے بارہ Points (پوائنٹس) اٹھائے ہیں اور وہ یہ ہیں.،، نمبر ایک یہ کہ روزہ رکھنا ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے، ہر اس احمدی کے لئے ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنا ضروری قرار دیا ہے.بعض آسانیاں پیدا کیں اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بعد میں آئے گا لیکن کسی احمدی کی ” و ”بہانہ جو نہیں ہونی چاہیے کہ بہانہ ڈھونڈ کے روزوں سے بچنے کی راہ کو اختیار کرے.روزہ فرض ہے روزہ رکھنا ہر اس احمدی پر جس کو رکھنا چاہیے فرض ہے اور ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو اس کی سزا مقرر کی نہ رکھنے کی، اس کے حکم توڑنے کی ، وہ کوئی دنیوی سزا نہیں ہے اور یہ یادرکھیں کہ دنیا کی کوئی سزا اللہ تعالیٰ کی سزا کا کفارہ نہیں بن سکتی کہ آپ سمجھیں کہ دنیا میں چونکہ انسان کی بنائی ہوئی سزا مل گئی اس لئے کفارہ ہو جائے گی.قرآن کریم میں بعض ایسی سزاؤں کا ذکر ہے جو کفارہ بن جاتی ہیں.تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا.ابھی یہ مضمون چلے گا انشاء اللہ تعالیٰ پھر موقع ہوا تو اس کو بھی بتا دوں گا.بہر حال خدا تعالیٰ کا یہ حکم توڑ نا کہ خدا کہے کہ اے فرد واحد، ( ہر فرد کو مخاطب کیا ہے قرآن کریم نے ) اے احمدی! تجھ پر روزہ فرض ہے کیونکہ فرض کی جو شرائط ہیں وہ تیرے وجود میں ، تیری ذات میں تیری زندگی میں پوری ہوتی ہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کو توڑے تو خدا تعالیٰ کی سزا کا عذاب کا وہ مستحق ، ٹھہرے گا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور دُنیوی کوئی سزا بطور کفارہ کے اس کے لئے نہیں بن سکتی کہ انسان کی سزا خدا تعالیٰ کی سزا سے اسے بچالے.قرآن کریم ، قرآن حکیم ہے دلیل دیتا اور ہمیں سمجھا تا ہے کہ جو میرا حکم ہے اس پر کیوں عمل کرو.تو یہاں دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا.ایک یہ کہ اخلاقی بیماریاں ہیں بہت سی ، روزہ ان سے بچا تا ہے کیونکہ پاکیزگی پیدا کرتا اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں کھولتا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ

Page 176

خطبات ناصر جلد نہم ۱۶۲ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۱ء کے قرب کی راہیں کھولی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کر دیتا ہے کہ ان راہوں پر چل کر اخلاقی اور روحانی بیماریاں پیدا نہیں ہوسکتیں اور نہ ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایسے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے جو نیک نیتی کے ساتھ اور پورے اخلاص کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ اور انتہائی عاجزانہ جھک کے اس کے حضور روزہ بھی رکھتے ہیں اور قبولیتِ روزہ کے لئے اس کے حضور دعائیں بھی کرتے ہیں.تیسری بات جو ان آیات سے ہمیں پت لگتی ہے، ظاہر ہے کہ جو بیمار ہو روزہ نہ رکھے.اور چوتھی بات یہ کہ جو سفر پر ہو وہ روزہ نہ رکھے.سفر پر ہونے کے متعلق نہ یہ بتایا ہے قرآن کریم نے کہ دس دن کے سفر پر ہو یا دس مہینے کے سفر پر ہو یا تین دن کے سفر پر ہو، نہ یہ بتایا ہے کہ دس میل کے سفر پر ہو یا پچاس میل کے سفر پر ہو یا پانچ ہزار میل کے سفر پر ہو.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے فرمایا ہے کہ جو عرف عام میں سفر کہلاتا ہے وہ سفر ہو گا.آپ نے فرما یا ہم سیر کے لئے نکلتے ہیں، کئی میل سیر کے لئے چلے جاتے ہیں کسی کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم سفر پر ہیں اور ہم سفر کی نیت سے نکلتے ہیں اور ابھی دو میل نہیں گئے ہوتے تو ہمارا دماغ جان رہا ہوتا ہے کہ ہم سفر پہ نکلے ہوئے ہیں.جو بیمار یا جو سفر پہ ہو، اس کے لئے جو سہولت دی گئی یہ اختیاری نہیں جس طرح یہ حکم ہے کہ جب روزہ رکھنا تم پر واجب ہو جائے شرائط کے لحاظ سے، روزہ رکھو.اسی طرح یہ حکم ہے کہ جب تم بیمار ہو یا سفر پہ ہو تو روزہ نہ رکھو.اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے.اصل چیز یہ ہے کہ جو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا تھا جب انہوں نے کہا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں خدا کی راہ میں تو انہوں نے بڑا ہی لطیف جواب دیا.انہوں نے یہ نہیں کہا پھر ذبح کر دو.انہوں نے یہ کہا اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصفت : ۱۰۳) جو حکم ہے اس پر عمل کرو.تو اصل روح یہ ہے کہ جو خدا نے کہا ہے اس کی اطاعت میں برکت اور ثواب اور خدا کی رضا کا راز ہے.اپنے زور بازو سے تم خدا تعالیٰ کے پیار کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتے.کوشش کرنے والے تو بعض لوگ ایسے ہیں جو غلط راہ پر چل کے ساری عمر اس طرح ہاتھ اونچار کھتے ہیں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے

Page 177

خطبات ناصر جلد نهم ۱۶۳ خطبہ جمعہ ۲۶ / جون ۱۹۸۱ء لئے یہاں تک کہ دورانِ خون ختم ہو کے سارا باز وخشک ہوجاتا ہے.ناسمجھ دماغ کہے گا کہ اس نے خدا کے لئے بڑی قربانی دی لیکن جو صاحب فراست اور جس کو تَفَقُه في الدين حاصل ہے وہ کہے گا کہ اس نے اطاعتِ باری تعالیٰ سے گریز کیا اور خدا کو ناراض کیا تو اس نکتے کو سمجھو.صرف جماعت احمدیہ کو کہ ان کو سمجھانا میرا فرض ہے.یہ کہ رہا ہوں کہ کوئی بدعت بیچ میں نہ آئے.خدا نے جو کہا ہے وہ کرو.جو خدا نے کہا ہے وہ کرو گے تمہیں خدا کا پیار مل جائے گا.اگر اپنی طرف سے بیچ میں بدعات کو شامل کرو گے خدا تعالیٰ کو ناراض کر دو گے.پانچویں بات ہمیں یہ پتہ لگی کہ ایسے لوگ جو عارضی طور پر بیمار اور روزہ چھوڑ رہے ہیں.مثلاً تین دن ۱۰۶ بخار ہو گیا ملیریا ہمارے ملک میں بڑا ہے دودن ، تین دن اس کی کمزوری رہی پانچ چھ دن وہ روزہ نہیں رکھ سکا، پھر رمضان میں ( رمضان تو انتیس ، تیس دن کا ہے ) اس نے روزے رکھنے شروع کر دیئے لیکن پانچ چھ روزے جو چھٹ گئے اس کے تو حکم یہ ہے کہ بعد میں رکھے، اگلے رمضان سے پہلے ان روزوں کو پورا کرے اور مسافر ساری عمر کے لئے تو مسافر نہیں ہوتا.کوئی پانچ دن کے لئے باہر جائے گا اس کے پانچ روزے چھوٹیں گے اگر رمضان میں گیا، کوئی ممکن ہے کہ سارا رمضان بھی سفر میں گزارے حکم ہے کہ چھٹے ہوئے روزے انتیس دن کا اگر رمضان تھا تو انتیس روزے اگلے رمضان سے پہلے رکھے.اگر وہ تیس دن کا رمضان ہے تو اگلے رمضان سے پہلے وہ تیس روزے اپنے پورے کرے.یہ حکم ہے ان آیات میں.کچھ لوگ ایسے ہیں جو ، جو’ بیمار ہے جو سفر پہ ہے قسم کی Category ( کیٹیگری) میں نہیں آتے.یہ وہ لوگ ہیں جو آگے دو قسمیں ہیں ان کی ، جو ہمیشہ کے لئے اپنی عمر میں روزہ رکھنے کی طاقت کو کھو بیٹھے ہیں.ایک پچھتر اسی سال کا بوڑھا ہے، وہ بالکل ہی کمزور ہو گیا ہے، چلنے پھرنے کی بھی طاقت نہیں ، لوگوں کے سہارے سے اٹھ رہا ہے اور اس حالت میں رمضان آیا پھر خدا تعالیٰ نے اس کو دس سال اور زندگی دی تو دس رمضان کے روزے اس نے گزارے ہیں.اس کے لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ رمضان کے روزے جو چھوٹ گئے ہیں وہ بعد میں رکھ لے.ایک یہ گروہ ہے.یا مثلاً ٹی بی کا بیمار ہو گیا نو جوان اور بیمار ہی رہا اس کو آٹھ ، دس، پندرہ بیس سال خدا نے

Page 178

خطبات ناصر جلد نهم ۱۶۴ خطبہ جمعہ ۲۶ / جون ۱۹۸۱ء زندگی دی اور ڈاکٹر اس کو دن میں پانچ دفعہ انجیکشن لگاتے ہیں یادوائی دیتے ہیں یا کینسر کا بیمار ہے وہ کہتے ہیں اتنے اتنے وقفے کے بعد ایک دن میں چار خوراکیں دوائی کی کھاؤ ، روزہ رکھنے کا سوال ہی نہیں اس کے لئے اور چند سالوں کے بعد اس کی وفات ہو جاتی ہے.یہ دوسری قسم ہے اور یا ایسا عذر ہے جو سال بھر اس کو روزہ نہیں رکھنے دے گا چونکہ اگلے سال سے پہلے پورے کرنے تھے نا اس واسطے اس کے روزے نہیں رکھے یعنی اس ماہ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیئے.مثلاً ایک حاملہ ہے، حاملہ کے لئے روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے.ایک حاملہ ہے جس نے بچہ جننے کے بعد دودھ بھی پلانا ہے اپنے بچے کو ، دودھ پلانے والی ماں نے روزہ نہیں رکھنا.تو سال گذر گیا ممکن ہے اس سے بھی زیادہ زمانہ گذر جائے لیکن ایک سال تو یقیناً گذر گیا نا.رمضان میں وہ حاملہ ہے، چھ مہینے کے بعد اس نے بچہ جنا، دودھ پلانا شروع کر دیا وہ اگلے رمضان تک کے جو گیارہ مہینے ہیں ان میں وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوئی ، یہ اجازت اس کو ملی ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ بھی اس کے روزے نہیں رکھیں گی اور نہ روزے پورے کریں گی بعد میں.اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر، ئیسر پر رکھی ہے عسر پر نہیں رکھی اور ہمیں دعا بھی سکھائی وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ (البقرة : ۲۸۷) اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ ہمارے اوپر ایسا بوجھ ڈال دے جس کے اٹھانے کی اس نے ہمیں قوت ہی نہ عطا کی ہو خدا تعالیٰ تو ایسا کر ہی نہیں سکتا اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم تیرے دین کے احکام کی ایسی Inter-Pretation (انٹر پر ٹیشن ) ایسی تفسیر نہ کر لیں کہ اس پر عمل مالا يطاق بن جائے ہمارے لئے ، ہمیں فراست عطا کر کہ تیری مرضی کے مطابق ہم تیرے احکام کو بجالانے والے ہوں اور مالا طاقة لنا نہ ہو بلکہ بشاشت اور شرح صدر کے ساتھ ہم تیرے احکام کو پورا کرنے والے ہوں.ساتویں بات یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ تمہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے جو تمہارے پیدا کرنے

Page 179

خطبات ناصر جلد نهم ܬ1ܙ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۱ء والے ہیں جو تمہیں قو تیں اور استعداد میں عطا کرنے والے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ تم میں کس قسم کی صلاحیت پائی جاتی ہے ہم نے اپنے کامل علم کی بنا پر اور حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں یہ فیصلہ کیا کہ تمہاری طرف جو ایک کامل اور مکمل شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعہ سے بھیجی جائے اس کی بنیاد آسانی پر رکھی جائے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وہ تگی نہیں چاہتا اور حکم ہے تمہارے لئے کہ جب خدا تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا توتم بھی اپنے لئے تنگی نہ چاہو.آٹھویں بات یہ ہے کہ اسلام کی روح بشاشت اور شرح صدر ہے یہ روح نہیں ہے کہ مشقت کرو مشقت سمجھو کوئی بھی عبادت مشقت نہیں کیونکہ جو سچا اور حقیقی مسلمان ہے وہ شرح صدر سے احکام بجالاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا یہ اس کے لئے بہتر ہو گا یعنی اصل بنیاد فرمانبرداری ہے.نویں بات یہ کہ جو شخص رخصت سے فائدہ نہیں اٹھا تا وہ زور بازو سے خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے، یہ جہالت ہے، یہ بیوقوفی ہے.کوئی شخص دنیا میں کوئی وجود دنیا کا اپنے زور سے اپنے رب کو خوش نہیں کر سکتا.اس کی اطاعت کر کے، اس کے حضور عاجزانہ جھک کے، اس سے دعا ئیں کر کے، اس کی رحمت کو ، اس کے فضل کو ، اس کی برکتوں کو جذب کر کے ، اس کو خوش کر سکتا ہے ویسے نہیں کر سکتا.دسواں یہ کہ رمضان کا مہینہ بڑی عظمتوں والا ہے.یہ ایک بنیادی چیز ہے اور سمجھنے والی اور یا در رکھنے والی، رمضان کا مہینہ بڑی عظمتوں والا ہے اس لئے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ القُرآن کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم جیسی ہدایت نازل ہوئی.ھدی للناس یہ انسانوں کے لئے ہدایت ہے.وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الهُدی اور ایسے دلائل اپنے اندر رکھتی ہے (انسان کو سمجھاتی ہے کہ جو تمہارے سامنے تعلیم رکھی جا رہی ہے وہ ان راہوں کی طرف ہدایت دیتی ہے ) جو خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہیں اور ایسی تعلیم ہے جو فرقان ہے، حق و باطل میں تمیز کرنے والا ہے.گیارہویں بات اور یہ جو یہاں روزہ رکھنے کا حکم ہے پہلا حکم تھا نماز پڑھنے کا وہ ان آیات

Page 180

خطبات ناصر جلد نهم ۱۶۶ خطبہ جمعہ ۲۶ / جون ۱۹۸۱ء میں نہیں ہے لیکن صوم کی وجہ سے اس کا ذکر ضروری ہے.نماز جو ہے الصَّلوةُ الدُّعَاءُ نماز پڑھتے ہی ہم دعا کے لئے ہیں نماز میں دو قسم کی دعائیں ہیں، ایک وہ مسنون دعائیں ہیں یعنی قرآن کریم کی آیات اور وہ دعائیں ہیں جو مروی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اور ایک وہ دعائیں ہیں اور یہ یا درکھو اس میں بھی بدعت پیدا ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے بلکہ پسند کیا ہے کہ تم مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو اور اس سے مانگو نماز کے اندر.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نماز جو ہے صلوٰۃ ، یہ تزکیہ نفس کرتی ہے اور تزکیہ نفس ( آپ فرماتے ہیں ) یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہوتا ہے یعنی اہوائے نفس جو ہیں نفسانی خواہشات جو ہیں ان سے انسان بچتا ہے.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ اور جو روزہ ہے یہ مجتبی متقلب کرتا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو کئے ) کہ کشف کا دروازہ کھلتا ہے اور دیدار الہی کے سامان پیدا ہوتے ہیں.تو کتنی عظمت ہے ماہِ رمضان میں کہ اگر نیک نیتی سے مقبول روزے رکھ لو گے تو دیدار الہی کے سامان پیدا کئے جائیں گے اور قرب کی راہیں جو ہیں وہ کشادہ کی جائیں گی تمہارے لئے.بار ہو میں بات اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرآنُ اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت اس مہینے میں کی جائے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی اور جیسا کہ میں نے بتایا حضرت جبرائیل علیہ السلام ماہ رمضان میں دور کیا کرتے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں..اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے صرف یہی کتاب پڑھنے کے قابل ہے اس واسطے میں کہتا ہوں جماعت کو کہ آپ کثرت سے قرآن کریم پڑھیں خصوصاً رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ زور تلاوت قرآن کریم کے اوپر ڈالیں.ایک محدث یا فقیہ تھے ( مجھے

Page 181

خطبات ناصر جلد نهم ۱۶۷ خطبہ جمعہ ۲۶ / جون ۱۹۸۱ء یاد نہیں رہا امام بخاری تھے یا دوسرے ) ان کے متعلق آتا ہے کہ رمضان کا جب مہینہ شروع ہوتا تھا تو ساری کتابیں بند کر کے رکھ دیتے تھے اور صرف قرآن کو پکڑ لیتے تھے ، سارے رمضان میں سوائے قرآن کریم کے اور کچھ نہیں پڑھتے تھے آپ فرماتے ہیں.”اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہیں سکتی“ آپ فرماتے ہیں ” غلبہ اسلام کے لئے یہ حربہ ہاتھ میں لو اس کام کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو اللہ تعالیٰ تمہیں تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دے گا کیونکہ یہ فرقان بھی ہے نا.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّی جو لوگ اللہ ( سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ترجمہ ہے بعض لفظی تبدیلیوں کے ساتھ ) اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں یہ پوچھنا چاہیں اگر کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو محد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں سے ، جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاتی ہوں.( إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی کے یہ معنی آپ نے کئے ہیں ) تو ان کو کہہ دے میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دور ہیں.جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دعا کرے، دعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہم کلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دعا کو پایہ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کی زندگی میں اس فرقان کو قائم کرے جو اس کو دوسروں سے ممتاز کرنے والا ہو.آمین.( روزنامه الفضل ربوه ۵ / جولائی ۱۹۸۱ ء صفحه ۳ تا ۶ )

Page 182

Page 183

خطبات ناصر جلد نهم ۱۶۹ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۸۱ء اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ قرآن کی تعلیم کو تمام دنیا میں غالب کرے گا خطبه جمعه فرموده ۳ جولائی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم میں ایک آیت ہے کہ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه (التوبة: ۳۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن عظیم کی تعلیم کو محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو تمام دنیا میں غالب کرے گا اور یہ غلبہ بتدریج ہوگا اور یہ غلبہ اپنے عروج کو جیسا کہ تمام اولیا اور بزرگ لکھتے چلے آئے ہیں اپنے عروج کو مہدی اور مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچے گا.قرآن کریم کا غلبہ ، قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنا ، قرآن کریم کے نور کو ساری دنیا میں پھیلا دینا.اس کے لئے قرآن کریم کے اسرار مکنون کی ضرورت ہے.اس لئے جہاں یہ کہا گیا کہ آخری عروج جو چوٹی پر پہنچے گا جب نوع انسانی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے سایہ تلے آجائیں گے اور ان کے سینے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن کریم کے نور سے بھر جائیں گے تو اس کے لئے اس قرآن کریم کی تفسیر کی ضرورت تھی کہ جو اس آخری زمانہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والی اور تمام مسائل کو حل کرنے والی ہو.اس لئے جس کو خدا نے بھیجا

Page 184

خطبات ناصر جلد نهم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک غلام کی حیثیت سے، ایک روحانی فرزند کی حیثیت سے، ایک عظیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں فاتح جرنیل کی حیثیت سے، اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اتنے عظیم اسرار قرآنی اور اس کے معانی سکھائے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.پچھلی صدی کے آخر میں اسلام پر غیروں کا زبردست حملہ تھا اور ہر مذہب یہ سمجھتا تھا کہ شاید وہ اسلام کو مٹانے میں کامیاب ہو جائے گا.عیسائیت ساری دنیا میں پھیل جانے کے خواب دیکھ رہی تھی اور اس وقت ہندوستان بٹوارے سے پہلے جس شکل میں تھا ، بڑے بڑے مسلمان علماء مثلاً عمادالدین صاحب اور دیگر بہت سارے ہیں ان کے نام چھپے ہوئے ہیں کتابوں میں، انہوں نے اس اثر کے ماتحت اسلام چھوڑ کے عیسائیت کو قبول کر لیا تھا اور انہی حضرت عماد الدین نے یہ لکھا کہ عنقریب ایک زمانہ آنے والا ہے ہندوستان میں کہ جب سارے ہندوستان کے مسلمان عیسائی ہو چکے ہوں گے اور اگر کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ مرنے سے پہلے کسی مسلمان کا چہرہ تو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی یعنی ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا.ہندو آریوں کی شکل میں حملہ کر رہے تھے.بدھ مذہب اپنی تیزیاں دکھا رہا تھا.فلسفیانہ خیالات جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کے اپنی عقل سے باتیں بناتے ہیں ، وہ بھی یہ امید میں رکھ رہے تھے کہ اسلام کو مٹادیں گے مثلاً کارل مارکس ہے، اپنے زمانہ کا بڑا فلسفی اور اس کے خیالات کے نتیجہ میں دنیا میں اشتراکیت آئی.جس نے یہ دعویٰ کیا ( اشتراکیت نے ) کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹادیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کچھ اور تھا.اللہ تعالیٰ کا منصوبہ یہ تھا کہ اسلام کو غالب کرے اور ہر وہ طاقت خواہ وہ مذہب کا لباس پہن کے ، خواہ وہ عقل اور فلسفے کی چادر میں لپٹ کے اسلام پر حملہ آور ہو، نا کام کر دیئے جائیں گے.اس لئے جو محد صلی اللہ علیہ وسلم کا جرنیل بن کے آیا اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وہ سارے مذاہب اور ازم اور تحریکیں جو اسلام کو مٹانے میں کوشاں تھیں.ان کے خیالات کا جواب قرآن کریم سے سکھایا اتنا موثر کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا.

Page 185

خطبات ناصر جلد نهم 121 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء ایک بچہ مشرقی افریقہ میں ، احمدی بچہ دس بارہ سال کا ، اس کو جنون تھا تبلیغ کا اور عمر کے لحاظ سے اور علم کے لحاظ سے وہ کسی سے بحث تو نہیں کر سکتا تھا.اپنا شوق پورا کرنے کے لئے اتوار کے روز سڑک پر،Pavement کے اوپر جہاں پیدل چلنے کا رستہ ہے وہاں عیسائیوں کے متعلق چھوٹے چھوٹے رسالے لے کے کھڑا ہو جاتا اور جو گزرتا وہ اپنا اندازہ لگا تا کہ یہ پڑھا لکھا ہوگا اس کو وہ دے دیتا.ایک اچھا پڑھا لکھا انسان اسے لگا بڑے قیمتی لباس میں ملبوس اور اس کو اس نے ایک رسالہ دے دیا.وہ Pavement کے اوپر ہی چلنے لگا.کھول کے دیکھا اس کو پڑھا.کوئی ۲۰.۳۰ قدم جاچکا تھا واپس آیا.کہنے لگا یہ پکڑوا پنا رسالہ اس نے کہا کیوں؟ کیا ہوگیا ؟ اس نے کہا تمہیں پتہ نہیں.میں کون ہوں؟ کہا نہیں میں تو نہیں جانتا آپ کون ہیں.کہنے لگا میں کیتھولک ہوں.ہاں.ہوں گے آپ.تم احمدی ہو.اس نے کہا ہاں میں احمدی ہوں.اس نے کہا ہمیں حکم ہے کہ نہ کسی احمدی سے بات کرنی ہے نہ ان سے کوئی رسالہ لے کے پڑھنا ہے.اس واسطے میں واپس کرتا ہوں.اتنے عظیم دلائل موجودہ عیسائیت کے خلاف، ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا پیارا رسول مانتے ہیں.اس میں شک نہیں لیکن عیسائیت اس شکل میں جو ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا بنادیا اور تثلیث پر عیسائیت کی بنیا درکھ کے بڑے بڑے محلات کھڑے کر دیئے.وہ تمام دلائل جو وہ دے رہے تھے اس زمانہ میں یا دے سکتے تھے قیامت تک.ان سب کے جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کی گئی تفسیر قرآن میں موجود ہیں اور ہونے چاہیے تھے کیونکہ جس سے خدا نے جو کام لینا تھا اس کے مطابق اسے ہتھیار بھی عطا کرنے تھے چونکہ یہ تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور اسلام کے حسن اور نور کے ساتھ اسلام کی بالا دستی قائم کرنے کا زمانہ ہے تو وہ ہتھیار آپ کو دے دیئے.ہندو مذہب کو لیس آریہ لیں سب کو قائل کرنے کے لئے دلائل ملے.خدا کے نشان بھی ظاہر ہوئے.ان کے جو عقائد اور ان کے جو دلائل تھے ، ان کا تو ڑ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا اور آپ کی کتابوں میں وہ تو ڑ موجود ہے.شاید آپ بچے ، نوجوان اس بات کو نہ سمجھیں.کوئی سوچے گا کہ اتنا

Page 186

خطبات ناصر جلد نهم ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء بڑا علوم کا خزانہ ایک دماغ میں کیسے آگیا جب خدا نے کہا ایسا ہو جائے ، آگیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ( کوئی دو ایک تمہیدی فقرے کہہ دوں ) ایک وقت میں علماء نے کہا تھا آپ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں آپ کو عربی نہیں آتی.آپ قرآن کریم کا علم کیسے رکھتے ہیں اور اسلام کے متعلق کیسے بات کر سکتے ہیں.قرآن کریم کے معانی آپ کیسے سمجھ سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک رات میں خدا تعالیٰ نے چالیس ہزار عربی کے مصدر سکھا دیئے اور وہ آپ کو یاد کرا دیئے.یہ نہیں کہ ایک فرشتہ آیا وہ پڑھ گیا بلکہ آپ کو وہ حفظ ہو گئے اور پھر آپ نے ایسی سلیس عربی میں کتب لکھیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی.اس وقت جو میں بات کہہ رہا ہوں ، وہ یہ نہیں کہ ایک رات میں چالیس ہزار عربی کے مصدر آپ کو سکھا دیئے گئے.جو بات میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ جس خدا نے اس ذیلی بات کے لئے ، عربی کا جاننا ذریعہ ہے مقصود نہیں.چالیس ہزار مصدر ایک رات میں سکھا دیئے آپ کو اور حفظ کرا دیئے اسی خدا نے ساری دنیا میں اسلام کے مخالف جو علوم تھے ان کو باطل کرنے کے لئے دلائل بھی سکھا دیئے.تو یہ ایک ظاہری چیز تھی جو دلیل بنی اس باطنی علوم کے خزانہ کی.اور پھر ایسی برکت رکھی.ایک تو کھل کے دلیل دے دی.آپ نے ہر مسئلہ کے حل کے لئے.دوسرا ایسا بیچ قرآن کریم کی اس تفسیر میں رکھا گیا کہ جب کوئی نیا سوال ، نیا مسئلہ پیدا ہوا، اس کا حل بھی وہاں سے نکل آیا.میں بہت دفعہ باہر گیا ہوں.چوٹی کے عیسائیوں سے میری گفتگو ہوئی ہے.کوئی دلیل نئی سے نئی وہ میرے سامنے نہیں رکھتے تھے کہ اسی وقت خدا تعالیٰ اس کا جواب نہ سکھائے قرآن کریم میں سے.چونکہ وہ فدائی ، وہ جاں نثار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو دنیا میں پھیلانے کے لئے چنا تھا اُس کے اور اس کی جماعت کے ذریعہ سے اسلام کو دلائل کے ساتھ، آسمانی نشانوں کے ساتھ ، دعا کی قبولیت کے ساتھ، معجزہ کے ساتھ غالب کرنا تھا.یہ ساری جو نہریں ہیں علوم قرآنی کی.یہ ہر وقت جاری ہیں.کوئی زمانہ ایسا نہیں آتا کہ نہر خشک ہو جائے.

Page 187

خطبات ناصر جلد نهم ۱۷۳ خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء یہ تو چل رہی ہیں کیونکہ جو اس کا منبع اور سر چشمہ ہے، وہ محدود نہیں کہ معجزات محدود تھے کسی زمانہ میں ظاہر ہوئے پھر ٹھہر جائیں.قبولیت دعا کی طاقت خدا تعالیٰ میں محدود نہ تھی وہ غیر محدود طاقتوں کا مالک ہے.یہ سلسلہ جاری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب مذاہب اور ہر فلسفہ کو چیلنج بھی دیا اور ستر اسی سال پہلے جو چیلنج دیئے گئے تھے ایک سفر میں میں نے ان کو دھرایا یہ کہہ کے کہ تم یہ کہ کر بھاگ نہیں سکتے کہ جس نے چیلنج دیا اس کی وفات پر ستر سال کے قریب گزر گئے ہیں اب ہم اگر قبول کریں تو کون ہمارے مقابلہ میں آئے گا.میں نے انہیں کہا کہ میں ایک عاجز بندہ ہوں لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے اس عظیم غلام محمدؐ کا نائب بنایا ہے اور میں تمہارے سامنے ہوں.تم چیلنج کو قبول کرو.میں تمہارے سامنے آیا ہوں اور میں تمہارے ساتھ بات کروں گا.تم مقابلہ کرو.انجیل نے کہا تھا کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو بیماروں کو چنگا کر دو گے.ان پر ہاتھ رکھ کر دعا کے ساتھ.دعا کے ساتھ یہ مقابلہ کر کے دیکھ لو ہم جس خدا پر ایمان لائے ہیں.وہ ایک انسان ، عاجز انسان نہیں.وہ زندہ خدا.زندہ طاقتوں والا خدا، پیار کرنے والا خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو آج غالب کرنے والا خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ علم آپ کی کتابوں میں ہے.جو آپ کے خلفاء نے لیکچر دیئے یا کتابیں لکھیں یا تفسیر لکھی ان کے اندر موجود ہے اور اتنی مقبول ہے یہ تفسیر عام طور پر آپ کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی.جماعت احمدیہ کی ایک تفسیر ہے انگریزی کی پانچ جلدوں میں.امریکن احمدی جسے احمدی ہوئے تین چار سال ہو چکے ہیں اس کے گھر میں پانچوں جلدیں ہیں اور اس نے پانچوں جلدیں پڑھی ہیں اور پانچوں جلدوں پر اسے عبور ہے اور جہاں سمجھ نہیں آتی وہاں ہمارے مبلغ کو کہتا ہے.یہ مسئلہ مجھے سمجھ نہیں آیا.یہ مجھے بتاؤ.عربی بولنے والے ممالک میں کثرت سے احمدی ہیں اور وہ سفر میں مجھے ملتے ہیں یہاں آتے ہیں، بات کرتے ہیں اور ہر عربی بولنے والا احمدی یہ کہتا ہے.وہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 188

خطبات ناصر جلد نهم ۱۷۴ خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء کے ذریعہ دنیا کے سامنے جو قرآن کریم کی تفسیر آئی ہے اس کا اس قدر اثر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ہم فوراً احمدیت قبول کر لیتے ہیں.اتنا اثر ہے اس کے اندر.وہ کہتے ہیں ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے تمام کتب کا عربی ترجمہ ہمیں کر کے دیں.اس کے بغیر محرومیت کا دور جو ہے ، وہ لمبا ہورہا ہے.میں جب ۱۹۳۸ء میں چند ہفتوں کے لئے مصر میں ٹھہرا تھا تو ایک وکیل تھے نوجوان نئے نئے احمدی ہوئے.وہ مجھے کہنے لگے کہ ہمارے پاس جور یو یو آف ریلیجنز انگریزی میں آتا ہے اس میں جو حضرت مصلح موعودؓ کے تفسیری مضامین چھپتے ہیں بس وہ ہمیں احمدی بنا دیتے ہیں.تفسیر کبیر کے بعض حصے طبع ہو چکے تھے لیکن وہ ابھی شائع نہیں ہوئے تھے.ایک حصہ میں حضرت صاحب کی اجازت سے لے گیا تھا اپنے ساتھ آکسفورڈ جو مقطعات قرآن پر تھا.ایک دوست کو میں نے وہ سنایا تو وہ تو اچھل پڑا اور ہمارے ہوتے ہوئے پہلے خطبہ جمعہ میں لوگوں کو بتایا کہ یہ دیکھیں کیسے عظیم علوم مقطعات کے متعلق ہمیں احمدیت سے حاصل ہوئے ہیں.افریقہ، مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ کو لیتے ہیں.مشرقی افریقہ میں احمدیوں کی تعداد زیادہ نہیں.لیکن اثر اتنا ہے کہ ایک وقت میں ہمارا تر جمہ ضبط کیا گیا تو اتناد باؤ تھا اس کی مقبولیت کا یعنی اس کی مقبولیت کا اتنا دباؤ تھا کہ وہ تلف کرنا چاہتے تھے ، وہ تلف نہیں کر سکے.کیونکہ لوگ اس قرآن کریم کو جو ہم انہیں ۸۰ شلنگ میں دے رہے تھے ۵۰۰ شلنگ میں لینے کے لئے تیار ہو گئے.اتنی عظمت ہے خدا تعالیٰ نے جو علوم حضرت مہدی کو سکھائے ہیں ان میں.اسی طرح مغربی افریقہ میں صرف غانا میں ہی انقلاب عظیم بپا ہورہا ہے.کیوں ہو رہا ہے بپا ؟ اس تفسیر قرآنی کے ذریعہ سے جو پیار ہے خدا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کے نتیجہ میں اس زمانہ میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے ، مہدی علیہ السلام کو وہ علوم دیئے اور اس کے اندر تاثیر رکھی.ابھی پچھلے سال کی بات ہے نائیجیریا سے خط ملا حکومت کی طرف سے کہ ہم عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور عیسائی ایک صوبہ میں بت پرستوں کو عیسائی بنارہے ہیں اور ہمارے ملک میں کوئی فرقہ کوئی مذہبی تحریک کوئی علمی سوسائٹی ایسی نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے.اگر آپ یہ

Page 189

خطبات ناصر جلد نہم ۱۷۵ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۸۱ء پسند نہیں کرتے کہ یہ لوگ عیسائی بن جائیں اور اس طرح پھیل جائے یہاں عیسائیت اور اس سٹیٹ کی ، صوبہ کی شکل بدل جائے اور اس وقت تو برابر برابر ہیں پھر وہاں عیسائیوں کی اکثریت ہو جائے تو فوری طور ریہاں چار اور سکول کھولیں.ایک پہلے وہاں موجود تھا.اس عرصہ میں کھل بھی گئے ان میں سے دو.باقی بھی کھل جائیں گے.اس میں کچھ وقت لگتا ہے.ان کی طرف سے زمین ملنی ہے پھر مکان تعمیر ہونا ہے.ہم تو انتظام کر دیتے ہیں استادوں کا.لیکن یہ اعلان کرنا حکومت کا کہ ہم سے مقابلہ نہیں ہوتا اس واسطے آپ یہاں آئیں اور عیسائیت کا مقابلہ کریں اور جو بت پرست ہیں ان کو مسلمان بنا ئیں اور عیسائی کو بھی مسلمان بنا ئیں.وہاں ایسے بھی واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ ایک ذہین نوجوان سکول کالج کا.اس کو لیا اور پادری بنانے لگے.بائیبل پڑھائی یہ کیا اور وہ کیا اور جب اس کی تعلیم ختم ہونے کو تھی تو وہ احمدی مسلمان ہو گیا.یہ علم کا زمانہ ہے.یہ فراست کا زمانہ ہے.ابھی پوری طرح بیدار نہیں ہوئی انسانیت لیکن سو یا ہوا انسان جب نیم بیدار ہوتا ہے اس کا جسم ہلنا شروع ہوتا ہے.بیدار ہونے سے پہلے اس قسم کی کیفیت نوع انسانی پر ہے.جو نیم بیدار ہیں وہ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں.وہ کہتے ہیں ہمیں.بہت آگے نکل گئے مہذب بن کر مادی لحاظ سے لیکن بے اطمینانی ہے.ہمارا دل مطمئن نہیں ہے.اطمینان قلب کے لئے ہمیں کچھ دو اور پھر وہ ہماری تفاسیر، تفسیر کی شکل میں یا مضامین کی شکل میں یا کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جومختلف مضامین پر بحث کی ہے اس کی شکل میں وہ پڑھتے ہیں پھر ان پراثر ہوتا ہے.پس ساری دنیا احمد یہ تفسیر اور ترجمہ کی طرف (ساری دنیا تمام براعظم کی بات میں کر رہا ہوں ) اس تفسیر اور اس ترجمہ کی طرف کھنچی آرہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں مہدی معہود علیہ السلام کو سکھائی تھی.اور غلط فہمیاں بھی ہیں دنیا میں.میں نے بتایا نا کہ افریقہ کے ایک ملک میں ہماری تفسیر ضبط ہوگئی تھی.یہاں ہمارے ملک میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک کتاب پر Ban کیا پھر اٹھا لیا.پھر دوسری پر Ban لگا یا پھر اٹھا لیا.ہوتے رہتے ہیں

Page 190

خطبات ناصر جلد نہم ۱۷۶ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۸۱ء ایسے غلط واقعات آپ کو خدا تعالیٰ بیدار رکھنا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپ اسی کی طرف ہمیشہ جھکے رہیں کسی اور کی طرف نہ جائیں.اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ اسے چھوڑ کے دوسروں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں اور ان سے مدد کے طالب ہوں.اس واسطے یہ ساری چیزیں پیدا ہوتی ہیں.اب چند ہفتے ہوئے ایک خاص مطبع خانہ میں چھپا ہوا ہمارا ترجمہ جو ہے اس پر پنجاب کی حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے پابندی لگائی.یہ پتہ نہیں کہ اس پابندی میں کون کون شریک ہے بہر حال جو ہمیں نظر آتا ہے.بدظنی ہم نہیں کرتے.ہوم سیکرٹری کی طرف سے پابندی لگائی گئی اور پابندی لگائی یہ کہہ کے کہ یہ غلط ہے.قرآن کریم جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں عربی زبان میں نازل ہوا اور جب کہا جائے کہ ترجمہ غلط ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ لغت عربی کے خلاف ہے.اس وجہ سے اسلامی عہد میں بہت سی لغات شائع ہوئیں.اس پر بڑی محنتیں کی گئیں.مفردات راغب بھی قرآنی الفاظ کی ایک لغت ہے جو صرف قرآن کریم کے الفاظ پر اس لغت نے بحث کی ہے.کوئی ایک لفظ ایسا نہیں ( ہما را ترجمہ جو ہے ) جس کا ترجمہ لغت عربی کے خلاف ہو.دوسرے کہا کہ اس لئے ہم پابندی لگا رہے ہیں کہ یہ Arbitrary ہے.پہلے محاورہ تھا تفسیر بالرائے.اب یہ نیا محاورہ بن گیا کہ ترجمہ بالرائے.Arbitrary کے معنے ہیں ترجمہ بالرائے.Arbitrary کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا ترجمہ ہے جس کی تائید قرآن کریم کی دوسری آیات نہیں کر رہیں.احمد یہ جماعت کی طرف سے طبع شدہ کوئی ایسا ترجمہ نہیں ہے نہ کوئی ایسی تفسیر ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات اس کی تائید نہ کر رہی ہوں.تیسری بات اس حکم میں یہ کہی گئی ہے کہ جو ہوم ڈیپارٹمنٹ کا Accepted اور Acknowledged ترجمہ ہے یعنی مستند ترجمہ ہے، ان کے نزدیک.جو ہوم ڈیپارٹمنٹ کے نزدیک مستند ترجمہ ہے اس کے خلاف ہے.یہاں اختلاف پیدا ہو گیا.پہلے تو یہ سوال ہے کہ مستند کیسے سمجھا جائے.چونکہ کوئی فہرست نہیں انہوں نے ساتھ لگائی اس لئے عقلاً

Page 191

خطبات ناصر جلد نهم 122 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۱ء Accepted and acknowledged کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ترجمہ یا اگر تفسیر کو بھی میں اس بحث میں شامل کر لوں.وہ ترجمہ اور وہ تفسیر مستند ہے جو کسی غیر احمدی نے لکھی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اسے ضبط نہیں کیا.وہ سند ہو گئی نا.اچھا اب جب ہم ان تفاسیر کو دیکھتے ہیں تو ان کے اندر ایسی باتیں ہیں کہ جو ہم احمدی تبلیغ کرنے والی جماعت ساری دنیا میں کسی کے سامنے بیان ہی نہیں کر سکتے.اس قسم کی غلط باتیں ہیں.پس مجھے یقین ہے کہ ہمارے صدر محترم کو یہ علم ہی نہیں کہ پنجاب کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے جن تراجم اور تفاسیر کو مستند قرار دیا ہے ان کے اندر لکھا کیا ہوا ہے.اس واسطے میں امید رکھتا ہوں کہ پہلے تو وہ اس کا علم حاصل کریں گے.ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت یہ امید رکھتی ہے کہ چونکہ یہ غلط فیصلہ ہوا ہے اس لئے مہربانی فرما کر وہ ذاتی دخل دے کر جلد سے جلد اس فیصلہ کو کالعدم قرار دینے کا حکم جاری کریں گے اور جماعت احمدیہ کے جذبات پر جو بلا دلیل اور بلا وجہ ظالمانہ حملہ کیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں انہیں جو تکلیف پہنچ رہی ہے اس سے بچانے کے لئے وہ کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق اور ہمت عطا کرے اور اس کی جزا دے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢

Page 192

Page 193

خطبات ناصر جلد نهم ۱۷۹ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء ہدایت حصول مقصد حیات کی راہیں کھولتی ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۰ / جولائی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.ياَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ - قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا 199191 يجمعون - (یونس : ۵۹،۵۸) وَ أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ - وَ اَنْ اَقِمُ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ - (یونس : ۱۰۶،۱۰۵) وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرُ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَكِمِينَ - اور پھر فرمایا:.(یونس: ۱۱۰) جن آیات کی میں نے اس وقت تلاوت کی ہے وہ سورۃ یونس کی آیات ۵۸.۵۹.۱۰۵.۱۰۶.۱۱۰ ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے.اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یقیناً ایک ایسی کتاب آ گئی ہے جو سراسر نصیحت ہے ، موعظہ ہے اور وہ ہر اس بیماری کے لئے جو

Page 194

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۰ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء سینوں میں پائی جاتی ہو، شفا دینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے.تو ان سے کہہ دے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے.پس اسی پر انہیں خوشی منانا چاہیے جو مال و دولت وہ جمع کر رہے ہیں اس سے یہ نعمت کہیں زیادہ بہتر ہے.اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان پر مضبوطی سے قائم رہوں.حقیقی مومن بنوں اور اس فرمان کے پہچاننے کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ تو ہر کبھی سے پاک ہوتے ہوئے اپنی توجہ کو ہمیشہ کے واسطے دین کے لئے وقف کر دے اور تو مشرکوں میں سے ہرگز نہ بن.اور جو کچھ تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اس کی پیروی کر اور صبر اور استقامت سے کام لے یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.یہ ماہ رمضان ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بالوضاحت بیان کیا گیا ہے اور میں نے بھی اپنے ایک خطبہ میں غالباً یہیں میں نے پڑھا تھا ، یہ بتایا تھا کہ ماہ رمضان کا بڑا گہرا تعلق ، قرآن عظیم سے ہے.اس لئے بھی کہ اس کی عظمت قرآن کریم میں بیان ہوئی اور اس لئے بھی کہ سارا قرآن کریم رمضان میں اس معنی میں نازل ہوا کہ ہر رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم جس حد تک نازل ہو چکا ہوتا ، اس کا دور کیا کرتے تھے.قرآن عظیم اپنی وسعتوں اور اپنی گہرائیوں اور اپنی رفعتوں اور اپنے علو مرتبت کے لحاظ سے بڑی ہی عظیم کتاب ہے.اپنے کمال میں بھی عظیم ہے، اپنے اثرات میں بھی عظیم ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہماری نجات کا موجب بن جاتا ہے.جو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم سے تم بارہ فوائد حاصل کر سکتے ہو اور ان کی طرف میں اس وقت دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کوشش کریں اور کانشس ہو کے یعنی نیست ، خلوص نیت کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور جن باتوں کا میں اس وقت ذکر کروں گا جو ان آیات میں ہیں ان کی تفاصیل مختلف آیات میں پائی جاتی ہیں تلاوت کے وقت ان کو تلاش کریں اور یہ جادو نہیں کہ آپ نے پڑھ لیا اور آپ کو فائدہ ہو گیا یا

Page 195

۱۸۱ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۸۱ء خطبات ناصر جلد نہم آپ نے گلے میں باندھ لیا یا باز و پر لٹکا لیا جیسا کہ دنیا کے بعض علاقوں میں ہو رہا ہے تو وہ تعویذ کے طور آپ کو فائدہ پہنچانے لگے.اپنی تمام عظمتوں اور تمام اثرات اور تمام وعدوں اور بشارتوں کے ساتھ آپ کے حق میں اس وقت قرآن کریم فیصلہ دیتا ہے جب آپ قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے ہیں.پہلی بات یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ قرآن عظیم موعظہ ہے.اس کے عام طور پر معنی کرتے ہیں نصیحت کے نصیحت کا لفظ انسان کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ ایک شخص نے فلاں کو نصیحت کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی قرآن کریم میں یہ لفظ بولا گیا ہے.جب قرآن کریم میں یہ لفظ بولا جائے کہ خدا تعالیٰ نے اسے نصیحت اور موعظہ بنا کے بھیجا ہے تو اس کے معنی قرآن کریم کی لغت کے ماہر ہمارے جو بزرگ گزرے ہیں انہوں نے یہ کئے ہیں کہ ایسی تعلیم ایسی ہدایتوں پر مشتمل تعلیم جو انسان کو آمادہ کرتی ہے اصلاح نفس پر اور رجوع الی اللہ کی طرف مائل کرتی ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا تھا رمضان کی آیات میں ہی کہ اگر میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو انہیں کہو کہ میں قریب ہوں.یہاں یہ ہے کہ میں قریب ہوں.میرے سے تعلق پیدا کرو.رجوع الی اللہ کی طرف تعلیم دینے والی یہ کتاب ہے اس لئے جو طریقے اللہ تعالیٰ نے تو بہ اور رجوع الیہ کے بتائے ہیں قرآن کریم میں وہ ہمارے سامنے آتے رہنے چاہئیں.تلاوت کے وقت اس طرح نہیں تلاوت کرنی چاہیے جس طرح تیز گاڑیاں دنیا میں چل رہی ہیں یا ہوائی جہاز اڑ رہے ہیں.بعض دفعہ تو ایسی آواز نکلتی ہے.میں نے سنا ہے قرآن کریم پڑھنے والوں کے منہ سے کہ یہ ان کو بھی نہیں سمجھ آتی ہوگی کہ ہم سے کیا لفظ ادا ہو رہے ہیں یعنی ان کے کانوں کو.ان کی آنکھیں تو دیکھ رہی ہوں گی لفظ لیکن ان کے کان نہیں تمیز کر سکتے ہوں گے کہ یہ کون سا لفظ میری زبان بول گئی.اسی لئے قرآن کریم نے آہستگی سے، سمجے سمجھے رتِّلِ الْقُرآنَ تَرْتِيلًا (المزمل: ۵) کا حکم دیا تا کہ ساتھ ساتھ انسان کی توجہ غور کرے اور فائدہ حاصل کرے.سبق اسے ملے اور پھر اس کی نیت کرے کہ میں نے اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہے.

Page 196

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۲ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء دوسری چیز اس میں یہ ہے کہ شفاء لِمَا فِي الصُّدُورِ(یونس: ۵۸).سینہ کی تمام بیماریوں کے لئے یہ شفا ہے.یہ عربی کا یا قرآن کریم کا محاورہ ہے.انگریزی میں ایک لفظ ہے Mind اور Heart.یہ دونوں انگریزی زبان محض لوتھڑے کے معنی میں استعمال نہیں کرتے جو ہمارے سینے میں دھڑک رہا ہوتا ہے بلکہ جو عقل کا نقطہ اور سر چشمہ ہے جس سے علم کے سوتے پھوٹتے ہیں اس کو بھی انگریزی میں Heart اور Mind کہتے ہیں اور عربی زبان میں عقل کہتے ہیں.جو ہمارے سینہ میں دھڑک رہا ہوتا ہے اس کو بھی کہتے ہیں دل اور قلب اور اس کو بھی کہتے ہیں جو عقل اور علم کا سر چشمہ بن جاتا ہے.تو روح کا تعلق دل کے دھڑ کنے کے ساتھ نہیں.روح کا تعلق اس خدا دا د عقل اور فراست اور علم کے ساتھ ہے جو روح کی پرورش کرتا ہے علم اور جو راہیں روح کی نشوونما کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ان راہوں کی طرف لے کے جاتا اور ان پر روح کی کوششوں کو قائم کرتا ہے.قرآن کریم میں بعض دوسری جگہ اس کی وضاحت بھی کی.مثلاً فرمایا کہ آنکھوں کی بصارت کا ذکر ہم نہیں کرتے.وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج : ۴۷) جو دلوں میں قلوب ہیں یعنی Mind اور وہ عقل کا سر چشمہ اور علم کا جو ہے وہ اندھا ہو جاتا ہے اور اس میں امام راغب کہتے ہیں عقل کی طرف اور علم کی طرف اشارہ ہے اور اندھا پن بھی ہے یعنی جو عقل اندھی بھی ہوتی ہے.ہمارے اردو میں بھی محاورہ آ گیا ہے اور عقل بہری بھی ہوتی ہے یعنی جو اس کے فائدہ کی بات ہے وہ سننے کے لئے تیار.ایک لڑائی ہو جاتی ہے.مادی دلچسپیوں کی روحانی حقائق کے ساتھ اور عقل جو ہے وہ مادی دلچسپیوں میں کھوئی جاتی ہے اور گم ہو جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے اور مرجاتی ہے اور جس غرض کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے اس غرض کو وہ پورانہیں کر رہی ہوتی یا اسے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق عمل کرنے کے نتیجہ میں حیات ملے.قرآن کریم میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر کان دھرو اس لئے.اس لئے کہ تمہیں وہ اس لئے بلا رہے ہیں کہ تمہیں زندہ کریں لیکن اس قسم کا بہرہ پن جو ہے یہ بھی ایک بیماری ہے.جس کی شفا قرآن کریم کہتا ہے کہ شِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ قرآن کریم دل کی ،

Page 197

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۳ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء Mind کی عقل کی علم میں جو گھن لگ جاتا ہے وہ تمام بیماریوں کی دوا ہم نے اس کے اندر رکھی ہے اور یہ ایک فلسفہ نہیں.یہ احمدیوں کو یا درکھنا چاہیے.کیونکہ اس کے بغیر ہم عملی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ محض ایک علمی مسئلہ نہیں.نہ یہ کوئی فلسفہ ہے بلکہ پہلوں کو چھوڑو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد لاکھوں کروڑوں وہ پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن کریم پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو پایا اور اللہ تعالیٰ پیار سے ان کے ساتھ ہمکلام ہوا اور ان کا دوست بنا.دوست بنا میں نے کہا اس لئے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ دوست بن جاتا ہے لیکن کہاں انسان اور کیا حیثیت انسان کی اور کہاں خدا اور اس کی بزرگی اور عظمت اور علو اور کبریائی لیکن یہ اس کا فضل اور رحمت ہے کہ وہ اپنے حقیر بندہ کو کہتا ہے کہ میں تیرا.دوست بن جاؤں گا اگر تو میرے احکام پر چلے گا اور لاکھوں کروڑوں نے اپنی عملی زندگی میں اس کا تجربہ حاصل کیا اور سب سے بڑی دلیل ان لوگوں کی زندگیاں دہریت کے خلاف ہیں یعنی جو خدا تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں ساری تاریخ انسانی سے وہ انکار کر رہے ہیں.بہر حال ایک چیز جو ہمیں قرآن کریم دیتا ہے اور رمضان میں خاص طور پر اس طرف توجہ کر کے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار اور سینے کی ہر قسم کی بیماریوں سے شفاء کا حصول ہے.ہدایت کے ، قرآن کریم نے اس لفظ کو ، یعنی رہنمائی کرنا سیدھا راستہ دکھانا جو کامیابی کی طرف لے جانے والا ہے.کس کام میں کامیابی؟ اصل یہ سوال پھر آجاتا ہے.تو قرآن کریم نے سینکڑوں جگہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی روحانی اور اخلاقی کامیابیوں کا ذکر کر کے قرآن کریم کو ہدایت کہا.وہ تو بیان نہیں ہو سکتیں ایک خطبہ میں نہیں ہوسکتیں.میرے خیال میں ایک زندگی میں بھی بیان ہو نا مشکل ہے.مگر بہر حال بنیادی چیز یہ ہے کہ مقصد حیات ایک ہے ہمارا.ہمیں کیوں پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت : ۵۷) اس لئے پیدا کیا کہ ہم اس کے عبد بنیں.اس کا رنگ اپنی زندگی پہ چڑھائیں.اس کے ہم رنگ ہوجائیں.وہ پاک ہے.پاکیزگی اس کے فضل سے ہماری زندگی میں پیدا ہو اور ایک ذاتی تعلق.زندہ تعلق ، زندہ خدا کے

Page 198

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۴ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء ساتھ ہو جائے جس کے نتیجہ میں ہر وہ رحمت جو مل سکتی ہے ، وہ ہمیں ملے.تو بنیادی اس وقت میں نے ایک بات کی کہ ہدایت حصول مقصدِ حیات کی کوشش میں کامیابی کی راہیں ہم پر کھولتی ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے.رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ.هُدًى وَرَحْمَةٌ بعض جگہ آ گیا.یہاں بیان کر دیا یہ ہر جگہ ہی چلے گا.شرط ہے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کہا اسے کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصفت : ۱۰۳) میں نے بتایا تھا یہیں کسی خطبہ میں کہ یہ اسلام کی روح ہے.جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فارسی کلام میں ایک بڑا عجیب شعر کہا ہے آپ نے فرمایا ہے.خدا کا پیار حاصل کرنا کوئی مشکل تو نہیں ہے.وہ جان مانگتا ہے، جان دے دو.خدا کا پیار مل جائے گا.یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کا حصول اتنی عظمت رکھتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جان دینا بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ ہر چیز کو میری رحمت نے احاطہ کیا ہوا ہے.فَسَا كتبها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ (الاعراف: ۱۵۷) اور جو میری پناہ میں آجائیں گے اپنے اعمال اور اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں ان کے لئے میں اس رحمت کو لکھ دوں گا.اور پانچویں چیز جو یہاں بیان ہوئی ہے بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِہ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست لیکن سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوتا ہے یعنی اس کے فضل اور رحمت کو حاصل کرنا بھی اس کے فضل اور رحمت پر موقوف ہے.اس لئے جہاں ہمیں اعمالِ صالحہ بجالانے کا حکم ہوا وہاں دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کو جذب کرنے کا بھی حکم ہوا تا کہ ہمارے حقیر اعمال جو ہیں وہ اس کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَبِذلِكَ فَلْيَفْرَحُوا انسانی زندگی کی خوشیاں جو ہیں وہ اس بات پر موقوف ہیں.ایک نئی بات ہے یہاں ہمیں جوش دلانے کے لئے کہ جو مال و دولت وہ دنیا جمع کر رہی ہے اور بڑا جمع کر لیا کوئی شک نہیں یعنی بے شمار کہا جا سکتا ہے ان کا مال و دولت.بڑی ترقی کی ، سائنس میں علم میں، ستاروں تک پہنچ گئے.زمین کے ذخائر

Page 199

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۵ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء باہر نکال لئے.وہ ہزاروں سال سے جو پٹرول زمین کی گہرائیوں میں چھپا تھا.سو یا ہوا آرام کر رہا تھا اس کو جا کے جھنجھوڑا، ہلایا، بیدار کیا باہر نکال لیا چھلانگیں مارتا ہوا وہ سوراخوں سے باہر آ گیا اور پیسے اس سے کمائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ہی ان ساری چیزوں کو.اس ساری دولت کو اس سارے مال کو پیدا کیا تھا ان کے لئے.اس زندگی کے لئے لیکن جو ذکر ان آیات میں میں نے کیا ہے جو تم مجھ سے حاصل کر سکتے ہو.اصل خوشی انسانی زندگی کی اس پر ہے.جو مال و دولت وہ جمع کر رہے ہیں اس پر نہیں ہے هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ.یہ بے شمار گنا زیادہ بھلائی اور خوشحالی کا موجب ہے خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کے پیار کو حاصل کرنا.اس وقت جو سب سے امیر ممالک دنیا میں پائے جاتے ہیں انہوں نے فخر اور تکبر میں اپنا نام Super Powers ) سپر پاورز ) رکھ لیا یا ان کے خوف اور احساس کمتری کے نتیجہ میں دوسری قوموں نے ان کا نام سپر پاورز رکھ لیا یہ تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن جو سپر پاورز ہیں ان کے عوام بھی خوش نہیں اپنی زندگی ہے.اطمینانِ قلب نہیں ہے ان کو اور میں نے بہت دورے کئے ہیں کھل کے میرے ساتھ بات کرتے ہیں.وہ اس وقت اندھیرے میں گرو پنگ ہاتھ ہلا رہے ہیں کہ شاید کوئی ایسی چیز مل جائے جس سے اطمینانِ قلب حاصل ہو جائے.اور اطمینانِ قلب أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:۲۹) اسلام کی تعلیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بغیر ان کو کبھی حاصل نہیں ہو گا نہیں ہوگا اور جس چیز کو وہ کھو چکے، اسے کھونے کے لئے یہ دنیا کوشش کر رہی ہے، ان کی نقل کر رہی ہے.احمدی کو ان کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ یہ وعدہ کیا اللہ تعالیٰ نے ایک مومن مسلمان سے کہ میرے بتائے ہوئے طریق پر تم عمل کرو.حقیقی خوشی تمہاری زندگی کے اندر پیدا ہو جائے گی.میں نے بڑا غور کیا قرآن کریم پر.کئی دفعہ پہلے کہہ چکا ہوں اور نہیں تھکوں گا یہ کہتے ہوئے کہ جو تعلیم ہے انسانی معاشرہ کے پہلو کے لحاظ سے یہ ہے کہ میں تمہیں لڑنے نہیں دوں گا.آپس میں محبت اور پیار کے ساتھ زندگی گزارو.ایک یہ بھی Factor ہے، ایک ذریعہ ہے خوشحالی پیدا کرنے کا ، اطمینانِ قلب پیدا کرنے کا.ہر ایک کا حق قائم کیا.ہر ایک کے

Page 200

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۶ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء حق کی ادائیگی کی ضمانت دی اور جو حق ادا نہیں کرتا.یعنی خدا تعالیٰ کا قائم کردہ حق ، وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کومول لیتا ہے اور اس کی جہنم میں جانے کے لئے کوشش کر رہا ہے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.تو حقیقی خوشیوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرے اور پیچھے جو باتیں میں نے بیان کیں ان کو وہ حاصل کرنے والا ہو.سچا اور حقیقی مومن بننا شرط ہے قرآن کریم میں الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۵) کا لفظ استعمال کیا ہمیں سمجھانے کے لئے کہ محض کہہ دینا اپنے آپ کو کافی نہیں بلکہ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا حقیقی مومن.سوال یہ ہے کہ حکم کون ہے دنیا میں کہ جو کہے کہ حقیقی مومن فلاں ہے اور فلاں نہیں ظاہر ہے کہ یہ اعلان کیا گیا کہ جو میری نگاہ میں مومن ہوگا اس کے حق میں یہ ساری باتیں پوری کی جائیں گی اور یہاں یہ بتایا پھر کہ لِلْمُؤْمِنُونَ میں اس طرف اشارہ کیا اور اگلی آیت میں پھر کھول کے بیان کیا کہ مومن وہ ہے جو ہر کبھی سے پاک ہے.یہ آٹھویں بات اس میں بتائی.اس واسطے ہیر پھیر والا ہے ناہمارا محاورہ کہ ہیر پھیر کرنا.قولِ سدید نہ ہونا اس میں بھی ہیر پھیر کر جانا.یہ لعنت ہے اس سے بچنا چاہیے ہر انسان کو.بعض عادتیں لعنتی جو ہیں وہ معصوم بھی ہوتی ہیں لیکن خطر ناک بہر حال ہوتی ہیں.ایک دوست تھے ان سے جب آپ سوال کریں کبھی سیدھا جواب نہیں دیتے تھے.ایک دن دہلی میں تھے وہ ۴۴ء کی بات ہے میں نے ان سے کہا کہ قرآن تو کہتا ہے قولِ سدید کہو اور آپ کی یہ عادت بچپن سے کہیں بیچاروں کو پڑ گئی تھی.میں نے کہا اتنی عادت آپ کو یہ پڑگئی ہے سیدھا جواب نہ دینے کی.انہوں نے ترکی ٹوپی پہنی ہوئی تھی سرخ سے رنگ کی.اتنی تمہید کے بعد میں نے کہا اب میں آپ سے پوچھوں گا اس ٹوپی کا ، کیا رنگ ہے تو آپ مجھے صحیح جواب نہیں دیں گے اور انہوں نے نہیں دیا صحیح جواب.ہیرا پھیری شروع کر دی.حالانکہ وہ تو کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں تھا.تو مومن وہ ہے جو ہر کمی سے پاک ہے.خدا نے اعلان کیا اور جو ہر بچی سے پاک ہے اور مومن ہے اس کے حق میں یہ وعدے پورے ہوں گے جن کا ذکر اس میں ہے.

Page 201

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۷ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء پس ایک عہد تو اس رمضان میں، بنیادی عہد بن گیا نا مومن بننے کے لئے.ہر احمدی کرے کجی ہو یا نہ ہو یعنی بعض دفعہ Unconscious Mind اس کو علم بھی نہیں ہوتا اور وہ ہیر پھیر والی بات کر جاتا ہے کہ میں ہمیشہ سچی بات کروں گا.اور نویں بات یہ ہے کہ اپنی پوری توجہ یعنی ایک بڑا مخلص سارا کچھ ہوتا ہے لیکن بیچ میں تو جہ بٹ جاتی ہے.توجہ نہیں ہے.اعلان یہ ہے اپنی پوری توجہ دین پر ہمیشہ مرکوز رکھوں گا.جس کا مطلب یہ ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کمانی نہیں.یہ مطلب ہے کہ دنیا کمانے کے بعد دنیا کو اس طور پر خرچ کرنا ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس طور پر خرچ کیا جائے.حسنات دنیا بھی حسنات آخرت کے لئے حاصل کی جائیں.اور دسویں بات یہ ہے کہ شرک جو ہے وہ ایک موٹا شرک ہے.بت پرستی کرنا، ایک نیم موٹا شرک ہے.قبر پہ جا کے سجدہ کر دینا.بعض شرک اس سے بھی کم ظاہر ہونے والے ہیں.اپنے نفس کو کچھ سمجھنے لگ جانا خدا کے سامنے اور اپنے علم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے بتایا ہے غرور کرنا، اپنے حسن پر تکبر کرنا ، اپنے جتھے پر ناز کرنا وغیرہ وغیرہ ساری شرک کی باتیں ہیں.ایمان باللہ توحید پر مضبوطی سے قائم ہونا ، شرک کی ہر قسم کی فنا کا تقاضا کرتی ہے اور یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مومن کے لئے ضروری ہے اگر وہ قرآن کریم کی بشارتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے.میں یہ بتارہا ہوں کہ شرک کی کوئی رگ باقی نہ رہے کیونکہ جو اس کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اس کے لئے سوچنا پڑتا ہے اس کے لئے چوکس رہنا پڑتا ہے اس کے لئے دعائیں کرنی پڑتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.گیارھویں یہ کہ غیر اللہ سے، انسانی وجود کے سارے احساس مُردہ ہوں غیر اللہ کے لئے.اور سارے احساس اللہ کے لئے زندہ ہوں.اتباع وحی الہی سے یہ میں نے نکتہ اٹھایا ہے.صرف وحی الہی اور احکام الہی سے زندگی کا خمیر اٹھے.

Page 202

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۸ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء اور بارہویں یہ معاشرہ ہے نا ہر قسم کے لوگ ہیں.بارہویں یہ ضروری ہے کہ پوری استقامت اور استقلال جیسے صبر کے ایک معنی یہ بھی ہیں.پوری استقامت اور استقلال سے یہ اتباع ہو.اتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَى مِنْ زَبي (الاعراف: ۲۰۴) ہے نا.جو وحی الہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہماری خاطر اور کامل تعلیم آپ نے ہمارے ہاتھ میں دی قرآن کریم کی شکل میں ایک کامل شریعت آگئی - اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : ۴) خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا، دنیا کی ساری طاقتیں ، دنیا کے سارے علوم ، دنیا کی ساری دولتیں ، دنیا کے سارے جتھے ، دنیا کی ساری شیطنتیں زور لگا لیں انسان اس مقام پر نہ رہے کہ اتباع وحی الہی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ، وہ ضروری ہے ہر چیز ٹھکرا دینے کے قابل ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.جب دو قسم کے مقابلے ہوتے ہیں.ایک ایسا مقابلہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کا حکم ظاہری طور پر پوری شان وشوکت کے ساتھ اگر ظاہر نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ایک وہ مقابلہ ہے جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی عظمتوں کا اپنی قدرتوں کا اظہار کرے.تو یہاں فرمایا کہ صبر یعنی استقامت اور استقلال کے ساتھ اس وحی کو مضبوطی سے، احکام الہی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو.اس وقت تک کہ جو خَيْرُ الحکمنین ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے، وہ اپنا فیصلہ کر دے.پھر جو ظاہری، جو ڈ نیوی پریشانیاں ہیں.بہت ساری ہوتی ہیں وہ خود بخود دور ہو جائیں گی لیکن یہ کہنا کہ ہمیں کوئی دُنیوی تکلیف ہی نہ پہنچے کوئی پریشانی نہ ہو.یہ غلط ہے.اللہ نے کہا ہے کہ میں تو آزماؤں گالیکن ہوں تمہارے ساتھ.اگر تم میرے رہو گے.جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو اگر تم میرے ہور ہو گے میں تمہارے ساتھ ہوں.میں تمہارے ساتھ اس وقت بھی کھڑا ہوں جب دشمن کا وار تم پر پڑتا ہے اور تمہیں تکلیف ہوتی رہی ہوتی ہے.آزمانا چاہتا ہوں تمہیں تم

Page 203

خطبات ناصر جلد نهم ۱۸۹ خطبہ جمعہ ۱۰ جولائی ۱۹۸۱ء سے دور نہیں چلا جاتا اور اگر تم استقامت اور استقلال دکھاؤ گے میرے فیصلے تک اور یہ فیصلہ کرنا کہ کب میں فیصلہ کروں.یہ میں نے کرنا ہے تم نے نہیں کرنا اس واسطے صبر تمہارا کام ہے.اور اپنی عظمتوں اور جلال کو ظاہر کرنا یہ میرا کام ہے.ہزاروں دفعہ پہلے ہوا ہماری زندگیوں میں بھی ہوا اور آئندہ بھی ہوگا.اس واسطے خدا کے ہو کر اپنی زندگی گزار و اور خدا سے پاؤ ہر چیز اور پھر اس کی عظمت اور جلال کے جلوے دیکھو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 204

Page 205

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۱ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء قرآن کریم اللہ کے بندوں کی عاجزی میں زیادتی کے سامان پیدا کرتا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے فرما یا شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (البقرة : ۱۸۶) رمضان کے مہینے کو قرآن عظیم سے ایک خاص تعلق ہے.یہ ماہ رمضان بھی ہے، روزوں کا مہینہ اس کے علاوہ ر بہت سی دیگر عبادات پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے اس مہینے میں نفلی نماز ہے، تراویح پڑھی جاتی ہیں.اصل تو تہجد ہے لیکن چونکہ دین الله يُسر اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کیں اس لئے ان لوگوں کے لئے جو دن کو جسمانی کام کرتے ہیں سخت اور ان کے جسم تھک جاتے ہیں اور اس قابل نہیں رہتے کہ وہ راتوں کے پچھلے حصے میں جاگیں اور خدا تعالیٰ کی عبادت کریں ان کے لئے یہ سہولت میسر کر دی کہ وہ پہلے حصے میں تراویح پڑھ لیں.پہلے حصے میں تراویح کا اصل رواج تو اجتماعی رنگ میں یعنی با جماعت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا.اس سے قبل شروع سے ہی صحابہ مسجد میں عشاء کے بعد اپنے اپنے علیحدہ علیحدہ انفرادی طور پر نوافل جو تھے وہ پڑھ لیا کرتے تھے.بہت سے اکٹھے ہو گئے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خیال آیا کہ ان منتشر افراد کو میں جماعتی رنگ میں حکم دے دیتا ہوں تراویح تو انہوں نے

Page 206

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۲ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء پڑھنی ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں اجتماعی طور پر باجماعت تراویح کا ، رات کے پہلے حصے میں نوافل پڑھنے کا رواج شروع ہوا.قرآن کریم کی تلاوت ہے، کثرت سے کی جاتی ہے اور پہلے بھی ایک دفعہ میں نے یہیں اشارہ کیا تھا کہ بہت سے ہمارے بزرگ ایسے ہیں جو ساری کتابیں بند کر کے رکھ دیتے تھے اور جو وقت بھی انہیں پڑھنے کے لئے ملتا تھاوہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے لیکن قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی غرض یہ ہے کہ کثرت سے ایسا موقع میسر آئے انسان کو کہ وہ اسے سمجھنے لگے.اس لئے قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ اتنی جلدی اسے نہ پڑھو کہ تمہیں اسے سمجھ ہی نہ آئے ، نہ اسے اتنی جلدی پڑھ کے دوسروں کو سناؤ کہ الفاظ کا ہی ان کو پتہ نہ لگے.قرآن کریم تعویذ نہیں ہے، بڑی پرحکمت کتاب ہے ، علوم سے بھری ہوئی اور ہدایت سے بھر پور.غور سے آپ پڑھیں گے، آپ میں سے ہر ایک کو میں کہہ رہا ہوں، غور سے آپ پڑھیں گے، بہت سی آیات پر آپ رک جائیں گے ، سوچ میں پڑ جائیں گے، کوئی الجھن آپ کے سامنے آجائے گی پھر بہتوں کے لئے اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا کرے گا کہ اسی وقت وہ الجھن ان کی دور ہو جائے گی اور صحیح مفہوم ان کے دماغ میں آجائے گا اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے.تو اوقات کا جہاں تک تعلق ہے اس کی قربانی دی جاتی ہے، جسم مشقت برداشت کرتا ہے اور جو اموال ہیں ان کے متعلق بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے.آپ بڑے سخی تھے لیکن آپ کی سخاوت کی انتہا ماہ رمضان میں ہو جاتی تھی.ماہ رمضان سے باہر بھی آپ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ جب مخالف اسلام نے اسلام کو ہلاک اور نابود کرنے کے لئے میان سے تلوار نکالی اور مسلمان کو مجبور کیا اپنے دفاع کے لئے جنگ کرنے پر تو اللہ تعالی نے فتوحات دینی شروع کیں اور مال غنیمت آنے شروع ہوئے.ایک روز کا یہ واقعہ ہے کہ ایک وادی میں ہزاروں کی تعداد میں جانور بھیڑیں ، بکریاں، اونٹ مال غنیمت کے یعنی جو قومی اموال تھے وہ چر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ٹیلے کے اوپر کھڑے ہوئے ان کو دیکھ رہے تھے اور خدا کی حمد میں مصروف تھے.سوچ رہے ہوں گے، یہ میں نے سوچا کئی بار کہ مکہ میں اڑھائی سال ایسے

Page 207

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۳ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء بھی گزرے کہ رؤسائے مکہ نے رسد کے سارے راستے بند کر دیئے اور مسلمانوں کو بھوکا رکھنے کی کوشش کی.بھوک کی مشقت اور تکلیف کو ان اڑھائی سال میں مسلمانوں نے برداشت کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ ان کو بھوکے مرنے نہیں دیا.بہر حال جو جذ بات خدا تعالیٰ کی نعمتوں پر غور اور فکر کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے وجود اور آپ کے دماغ میں پیدا ہو سکتے ہیں ان کا تصور ہم نہیں کر سکتے ، اپنی استعداد کے مطابق کچھ سوچ لیتے ہیں.اس حالت میں ایک قبیلے کا شیخ، رئیس وہاں سے گزرا اور وہ قبیلہ کئی میل دور تھا وہاں سے ، رستہ تھا یہ اس کا.وہ کھڑا ہوا، اس نے دیکھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے کچھ دیں.آپ نے کہا یہ سامنے دیکھ رہے ہو نا جانور، سارے کے سارے جانور ہانک کے لے جاؤ.اس کو خیال آیا کہ میں سمجھا ہی نہیں یہ کیا کہہ رہے ہیں.کہنے لگا یا رسول اللہ کیا بات؟ آپ نے کہا میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ جتنے جانور اس وادی میں ہیں سارے میں نے تمہیں دیئے ، تم لے جاؤ.اس نے وہ جانور لئے ، ایک مسافت طے کی اپنے قبیلے کی جہاں ڈیرہ تھا اس کا وہاں پہنچا، ساروں کو اکٹھا کیا اور ان کو کہا اپنے قبیلے کو کہ دنیا میں کوئی شخص اس قسم کی سخاوت نہیں کر سکتا جب تک اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طاقت نہ ہو.اس واسطے ہم سب کو اسلام قبول کرنا چاہیے.تو اللہ تعالیٰ نے اس سارے قبیلے کی نجات کا سامان پیدا کر دیا.ویسے میں اس وقت بتا رہا ہوں کہ کس قسم کی سخاوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہوئی ہے لیکن صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں تو جس طرح تیز ہوائیں چلتی ہیں یہ حال تھا آپ کی سخاوت کا.تو یہ بھی ایک قربانی ، ایک عبادت خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے ہمیں بھی کہا گیا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اور اس کی مخلوق کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے خرچ کرو.میں بتایہ رہا ہوں کہ ساری عبادات جو ہیں مالی بھی اور انفیسی بھی یعنی جن کا ہماری جان اور اوقات کے ساتھ تعلق ہے مشقتیں ہیں اٹھانی جذباتی بھی ( تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ) وہ ساری یہاں اکٹھی ہوگئی ہیں.بڑا عظیم مہینہ ہے.اور اس میں ایک اور عظمت ہے اور وہ یہ عظمت ہے کہ اس مہینے میں قرآن کریم پڑھا جاتا

Page 208

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۴ خطبہ جمعہ ۱۷؍جولائی ۱۹۸۱ء ہے زیادہ اور قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کے آخر میں فرماتا ہے.وَ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ( بنی اسراءیل: ۱۱۰) اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام ( قرآن عظیم ) ان میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے.قرآن کریم کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ جو اسے سمجھنے والے ہیں ، ان کے اندر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی فطرت میں عبد بننے میں ممد ہونے کے لئے عجز اور انکساری اور تواضع کا مادہ رکھا ہے قرآن کریم ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ اس میں زیادتی ہوتی ہے.لغوی لحاظ سے خَشَعَ کے معنی ہیں خَضَعَ - اِنْكَسَر اور خَضَعَ کے معنی ہیں تَوَاضَعَ.تواضع اور عاجزی جو ہے ایک مومن بندے کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے صرف اس وقت ممکن ہے جب اسے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کی صفات کی معرفت حاصل ہو اور قرآن کریم نے اس علم کے حصول کے لئے اتنے عظیم دروازے کھولے ہیں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.میر داؤد نے (رضی اللہ عنہ مرحوم ) وہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات اکٹھا کر کے ”مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے شائع کی اس میں ایک عنوان ہے اللہ تعالی تو اس کو آپ پڑھیں وہ حالانکہ اقتباسات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تو آپ کو پتہ لگے کہ قرآن کریم نے کس طرح میں سمجھتا ہوں پہلی بار یہ بھی ایک من مضمون ہے موازنے کا یعنی دوسرے مذاہب سے موازنہ کرنے کے لئے ) کھل کے اور وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کیا لیکن محض ایک تھیوری ، ایک فلسفہ، ایک علمی تحقیق کے طور پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ میں نے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ تم میری ہر صفت کے جلوے اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہو یعنی عملی مثال آپ اس کے ساتھ ہے جس کے بعد انکار کی گنجائش نہیں رہتی اور زندہ خدا کی زندہ طاقتیں جو ہیں، جو صفات ہیں وہ اس کی طاقتیں ہی ہیں نا، انہیں صفات بھی کہتے ہیں، الاسماء الحسنی بھی کہتے ہیں، زندہ طاقتیں بھی کہتے ہیں زندہ خدا کی زندہ طاقتوں کا وہ شخص مشاہدہ کرتا ہے جس کا اپنے رب کریم کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا ہو جائے.اور قرآن کریم

Page 209

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۵ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء نے یہ اعلان کیا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (اللہ ریت : ۵۷ ) میں نے تمہیں پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ تم میرے قرب کو حاصل کرو اور میری صفات اور اخلاق کا رنگ اپنے اخلاق کے اوپر چڑھاؤ.اور پھر یہ کہا کہ بہت سے لوگوں کے لئے خصوصاً ابتدا میں یہ محض ایک علمی اور تحقیقی بحث ہو گی لیکن تمہارے سامنے ایک عظیم نمونہ ، اُسوہ میں نے رکھ دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ، جس زندگی میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کے، اس کے جلال کے، اس کی صفات کے زندہ نمونے نظر آتے ہیں اور ہمیں کہا وہ نقشِ قدم تمہارے سامنے ہیں ان نقوشِ قدم کو Follow کرو، ان کے پیچھے چلو، ان کی اتباع کرو تم بھی وہیں پہنچ جاؤ گے جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے.تو رمضان کا تعلق یا قرآن کریم کا تعلق رمضان سے ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے بندوں کی جو عاجزی ہے اور تواضع ہے اس میں زیادتی پیدا کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے اور ہماری روحانی ترقی کے لئے عجز و انکسار کا پایا جانا ہماری فطرت میں اور اس کی کامل نشوونما ہونا ضروری ہے.اس لئے کہ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کو مضبوطی سے پکڑو گے نہیں ، جو کہتا ہے وہ کرو گے نہیں ، جس سے روکتا ہے اس سے باز نہیں آؤ گے اور دعا اور وہ دعا جس کو صلوۃ کے لفظ میں یاد کیا گیا ہے اس کے ذریعے سے میرے فضل اور رحمت کو جذب نہیں کرو گے تم میرے قرب کو حاصل نہیں کر سکتے.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : ۴۶) اور صبر اور دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو.بہت جگہ اور بھی آیا ہے.اس آیت کا انتخاب میں نے اس لئے کیا کہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صبر وصلوٰۃ کے بغیر کوئی استعانت ، مدد نہیں مل سکتی ، اس کی رحمت اور اس کا فضل اور اس کی برکتیں تمہیں حاصل نہیں ہوسکتیں اور صبر اور صلوۃ ، عجز اور انکساری کی بنیادوں کے اوپر اٹھتے ہیں.وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ (البقرة : ۴۶) اور بے شک فروتنی اختیار کرنے والوں کے سوا دوسروں کے لئے یہ امر مشکل ہے یعنی جو فروتنی کرنے والے ہیں صرف ان کے لئے یہ مشکل نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اور اس کی ہدایت کے مطابق صبر اور صلوٰۃ پر کار بند ہوں.

Page 210

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۶ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء صبر کے بنیادی معنی تو ہیں استقلال کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننا اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنا.لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام جو ہیں وہ ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور عربی زبان بہت سے بنیادی ایسے پہلوؤں کے ساتھ صبر کا لفظ استعمال کرتی ہے اس لئے مفردات راغب نے اس کے معنی کرتے ہوئے یہ کہا کہ صبر کے اصل معنی تو یہ ہیں حَثُ النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيْهِ الْعَقْلُ وَالشَّرْعُ کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے نفس کو اس مقام پر قائم رکھنا جس مقام پر قائم رہنے کا عقل اور شریعت مطالبہ کرتی ہے، تقاضا کرتی ہے لیکن اس کی وہ کہتے ہیں مختلف شکلیں نکل آتی ہیں.مصیبت کے وقت صبر کرنا ، جس کا مطلب ہے واویلا نہ کرنا ، اور کوئی ایسی بات نہ کرنا، نہ بولنا جس سے یہ معلوم ہو کہ انسان کا تعلق خدا سے نہیں بلکہ اس کے غیر کی طرف وہ رجوع کر رہا ہے یا خدا تعالیٰ پر اسے کامل بھروسہ نہیں اور اس کے جو احکام ہیں جس شکل میں بھی وہ آتے ہیں ان پر وہ پوری طرح راضی نہیں.دوسرے اس کے معنی میدانِ جنگ میں ایک کیفیت ہے اس کے متعلق بولا جاتا ہے.وہ شجاعت ہے جس معنی میں اسلام نے اسے استعمال کیا ہے.شجاعت کے معنی ہیں وہ بہادری جس کا تقاضا احکام قرآنی کر رہے ہیں.مثلاً قرآن کریم نے شجاعت کے معنوں میں یہ تقاضا کیا کہ ایک وقت میں کہا کہ اگر ایک ہو گے تو دو پر بھاری یعنی ایک ہزار تم ہو گے میدانِ جنگ میں تو دو ہزار پر بھاری ہو گے.پھر کہا تمہیں ہم روحانیت میں ترقی دیں گے تم ایک ہزار ہو گے دس ہزار پر بھاری ہو گے.تو یہ شجاعت ، یہ ہے شجاعت جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں صبر کہہ سکتے ہیں میدانِ جنگ میں.بڑا بہادر تھا طارق جس نے اپنی کشتیاں جلائیں اور کامل تو گل خدا تعالیٰ پر، اس نے سوچا ہوگا شاید کہ میرے مقابلے میں ایک وقت میں میرے پاس ( کچھ اور فوج مل گئی تھی ان کو ) بارہ ہزار ہیں تو ایک لاکھ بارہ ہزار سے زیادہ تو کسی میدان میں جمع نہیں ہوں گے اس واسطے مجھے کشتیوں کے سہارے کی ضرورت نہیں ، میرے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کافی ہے.کس قدر شجاعت کا مظاہرہ کیا خدا تعالیٰ کے احکام کے اوپر قائم ہو کر اور دنیا کے لئے ایک حیرت اور ایک

Page 211

خطبات ناصر جلد نہم ۱۹۷ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء اعجوبہ بن گیا طارق.لیکن صرف طارق ہی تو نہیں جس جگہ ہماری ساری تاریخ میں خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق صبر کا نمونہ دکھا یا مسلمان نے اور کامل تو کل کیا اپنے رب پر دشمن کے تیر ان کی پیٹھ پر نہیں پڑے سینوں پر کھائے نا.ایک صبر کے معنی ہیں آفات سماوی آتی ہیں آزمائش کے لئے اس وقت زجر نہ کرنا.چوتھے معنی ہیں زبان پر قابورکھنا.بہت سارے لوگوں کو عادت ہے ویسے ہی بولتے رہتے ہیں اور فتنہ پیدا ہوتا ہے اور وہ خوشحال معاشرہ اور پر امن معاشرہ جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ان کی زبان اس میں رخنے پیدا کر دیتی ہے.زبان پر قابو رکھنا اس معنی میں بھی صبر کا لفظ آیا ہے کہ اپنی زبان کو احکام الہی کی رسیوں میں باندھو اور جتنی ، جب اجازت ہوجس حد تک بولنے کی اس سے زیادہ نہ بولو.نہ کرنے والی بات کر نہ دینا، گالی نہ دینا، افترا نہ کرنا، انتہام نہ لگانا، بدظنی نہ کرنا وغیرہ وغیرہ خدا تعالیٰ نے بہت سے احکام ایسے ہیں جن کے ذریعے سے زبان پر پابندیاں لگائی ہیں اور ان احکام کے مطابق اپنی زبان کا استعمال کرنا اللہ تعالیٰ کی اصطلاح میں ایک یہ بھی صبر ہے.پانچویں، مفردات راغب میں ہے، یہ معنی ہیں اس کے کہ عبادت الہی میں جس حد تک ممکن ہو مشغول رہنا اور ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ہر وقت مشغول رہنے کا سامان پیدا کر دیا.جس وقت ہم با جماعت نماز پڑھ رہے ہیں وہ بھی عبادت میں مشغول ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک اجتماعی نماز کے وقت بھی میری عبادت میں تم مشغول ہو، کھڑے ہونے کی حالت میں، بیٹھے ہونے کی حالت میں ، لیٹے ہونے کی حالت میں تم میرا ذکر کر سکتے ہو اور میری عبادت میں مشغول رہ سکتے ہو، میری صفات کا ورد کر سکتے ہو، ان کے واسطہ سے مجھ سے مانگ سکتے ہو اور دعا ئیں کر سکتے ہو، اپنی ضرورتیں میرے سامنے پیش کر سکتے ہو، دعا اور صلوٰۃ میں مشغول رہ سکتے ہو ہر وقت رہ سکتے ہو اور جو دعا کرتے ہوئے سوجاتا ہے وہ سوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ، اس کو ایسا ہی ثواب دے دیتا ہے.اور چھٹے یہ کہ اہوائے نفس کے خلاف ہر وقت جہاد میں مشغول رہنا.یہ جو انسان کا نفس ہے نا یہ بڑا تنگ کرتا ہے انسان کو اور چوکس اور بیدار رہ کے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی عظمت اور

Page 212

خطبات ناصر جلد نہم ۱۹۸ خطبہ جمعہ ۱۷؍جولائی ۱۹۸۱ء اس کے جلال کو سامنے رکھے بغیر انسان اپنے نفس سے کامیاب جنگ نہیں کر سکتا.تو وَاسْتَعِينُوا بِالصّبرِ میری مدد حاصل کر وصبر کے ساتھ.اور جوصبر ہے وہ عاجزی کے بغیر تم نہیں کر سکتے.مثلاً ہم نے صبر کے معنی کئے تھے مصیبت کے وقت جزع فزع نہ کرنا.جو عاجز بندہ ہے وہ تو کہے گا کہ جو جتنی دیر میں اس مصیبت سے امن میں رہا اس کا بھی میرا کوئی میرے رب پر حق نہیں.تو جب وہ چیز مجھ سے لے لی گئی اور میرے اوپر بے اطمینانی کے حالات پیدا ہو گئے تو میں کیا شکوہ کروں خدا سے.جب وہ اطمینان جو میرے پاس تھا وہ میرا حق نہیں تھا تو جو مجھ سے لیا گیا وہ میرا حق چھینا نہیں گیا لیکن اگر کوئی شخص کہے میں اتنا بڑا ، میرے رب نے میرے پر یہ ظلم کر دیا ، بے صبری کی بات ہوگئی نا، عاجزی کی بات نہ رہی نا، تکبر کی بات ہو گئی نا فخر کی بات ہوگئی نا، اباء کی بات ہوگئی نا، شیطانی کلمہ منہ سے نکل گیا نا، زبان پر قابو نہ رکھنا مثالوں پر گیا تو بہت مثالیں دیں تو دیر ہو جائے گی.اکثر زبان کا وار جو ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنے والا ، وہ اپنی بڑائی کے نتیجے میں ہوتا ہے.ایک عاجز بندہ اپنی زبان سے دوسرے کو دکھ دے ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے تو یہاں تک حکم دیا کہ شرک سب سے بڑا گناہ ، مشرک کو میں اس کا گناہ معاف نہیں کروں گا لیکن تمہیں میں تمہاری زبان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ جن بتوں کی وہ پرستش کر رہے ہیں ان کو تم گالی دو وَ لا تَسُبُوا الذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الانعام :۱۰۹) کہ جو شخص خدا کے اس حکم کو توڑ کے بت کو گالی دیتا یا کسی اس کے بندے کے خلاف بدزبانی کرتا ہے وہ جس کے خلاف بد زبانی کرتا ہے اس سے خود کو بڑا سمجھتا ہے نا بھی اس نے اپنا یہ حق سمجھانا کہ اس کو گالیاں دینی شروع کر دیں، بدزبانی اس کے خلاف شروع کر دی.تو جب تک صحیح اور حقیقی خشوع نہ ہو، عاجزی نہ ہو، انکسار نہ ہو، تواضع نہ ہوصبر کے تقاضے نہیں پورے کئے جا سکتے اور اسی واسطے میں نے شروع میں کہا کہ جو صبر ہے وہ عاجزی اور انکسار کی بنیادوں کے اوپر کھڑا ہوتا ہے.دوسرے ہے صلوٰۃ.صلوۃ کے معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.

Page 213

خطبات ناصر جلد نهم ۱۹۹ خطبہ جمعہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۱ء دعاسے مختلف ہیں.صلوۃ دعا بھی ہے لیکن ہر دعا جو ہے وہ صلوٰۃ نہیں ہے.آپ فرماتے ہیں.جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں.( یہ بات میں اپنی طرف سے واضح کر دوں کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم خدا سے مانگیں لیکن یہاں یہ سوال نہیں کہ وہ حکم ہے یا نہیں، یہاں یہ ہے کہ اس کو دعا نہیں ہم کہتے.ضروری ہے آپ نے فرمایا جوتے کے تسمے کی بھی ضرورت ہے تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی دکان تمہیں تسمہ دے دے گی ، مجھ سے مانگو ) لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے اور عجز ، انکسار، تواضح اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے.اور پھر آپ دوسری جگہ فرماتے ہیں.وو دل پگھل جائے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے“ ( یہ ہے صلوٰۃ) تو جو معنی صلوٰۃ میں ، صلوۃ کے لفظ میں ، موٹے تو ہر ذہن میں آتے ہیں دعا کرنا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک خاص دعا ہے، یہ آتے ہیں لیکن اس کے معنی میں عجز اور انکساری بھی شامل ہے وہ جو چھپا ہوا حصہ تھا اس معنی کا اس آیت نے اسے کھول کر بیان کر دیا که إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِین کہ جب تک عجز و انکسار کی راہوں کو اختیار نہ کیا جائے تم وہ حقیقی دعا جسے ہم صلوۃ کہہ سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مانگ نہیں سکتے.میں نے بتایا کہ یہ جو عاجزی اور انکساری ہے اس کے لئے معرفتِ ذات وصفاتِ باری ضروری ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور دوسری اس کی عظیم جو صفات ہیں ان کی معرفت اپنی اپنی عقل اور استعداد کے مطابق ان کا جاننا ضروری ہے.تو میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ خودی جب انانیت کا روپ دھارتی ہے تو ہلاکت بن جاتی ہے اور خودی جب اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو پہچانتی اور ان عظمتوں کے دریا میں غرق ہو جاتی اور فنا ہو جاتی ہے تو اس قسم کا حسن اور روپ اس

Page 214

خطبات ناصر جلد نہم ۲۰۰ خطبہ جمعہ ۱۷؍جولائی ۱۹۸۱ء کے اوپر آتا ہے کہ جس قسم کا حسن اور روپ دنیا کی کوئی طاقت کسی انسان کو بخش نہیں سکتی.انسان کے لئے اپنے رب کا عبد بننا، اس کے اخلاق کا حسن اپنے اخلاق پہ چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے اور فنا اپنے پر وارد کرے.ہماری اصطلاح میں ، اسلام کی اصطلاح میں یا صوفیا کی اصطلاح میں فنا اور لقا اور بقا.یہ تین آگئی ہیں اصطلاح.فنا کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب مل ہی نہیں سکتا یعنی ہر چیز کو خدا کی راہ میں قربان کر دینا یہی فنا ہے نا اپنا وجود بھی باقی نہ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے سب کچھ کرو، خدا کے حضور پیش کرو، اعمال بجالا ؤ سب کچھ کرنے کے بعد سمجھو کہ تم نے کچھ نہیں کیا.ایک تو اس لئے بھی کہ جو کچھ تم نے کیا جب تک وہ مقبول نہ ہو جائے تمہیں کچھ مل نہیں سکتا اور وہ مقبول ہو نہیں سکتا جب تک دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو تم جذب نہ کرنے والے ہو اور دعا قبول نہیں ہوسکتی ، صلوۃ قبول نہیں ہوسکتی جب تک عجز اور انکسار کی بنیادوں کے اوپر اسے کھڑا نہ کیا جائے اور اسی طرح فنا ہے.اللہ تعالیٰ اس رنگ میں ہمیں اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا کرے کہ ہمیں اس کا قرب اور پیار اور رضا حاصل ہو جائے اور اس کی طاقتوں سے ہم طاقت لینے والے اور اس کی قدرتوں کے جلوے ہماری زندگیوں میں ظاہر ہونے والے ہوں تا کہ اس صورت میں ہم ان ذمہ داریوں کو نباہ سکیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں غلبہ اسلام کے لئے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.آمین.( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 215

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۱ خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۱ء ماہ رمضان میں بہت سی عبادتیں اکٹھی کی گئی ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۴ / جولائی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ماہِ رمضان میں بہت سی عبادتیں خاص طور پر اکٹھی کی گئی ہیں.یہ مہینہ صرف روزے رکھنے کا مہینہ ہی نہیں بلکہ یہ مہینہ ہے نوافل کثرت سے پڑھنے کا ، دعائیں کرنے کا یہ مہینہ ہے اپنے نفس پر ضبط کو مضبوط کرنے کا اور اہوائے نفس سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنے کا اور یہ مہینہ ہے کثرت تلاوت قرآن کریم کا اور یہ مہینہ ہے کثرت سے مالی لحاظ سے انفاق فی سبیل اللہ کا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال کے سارے مہینوں میں ہی بڑے ہی سخی تھے.آپ کی سخاوت کی مثال دنیا میں کہیں اور ملنی مشکل ہے لیکن ماہ رمضان میں آپ کی سخاوت اپنے عروج تک پہنچی ہوئی ہوتی تھی جیسا کہ احادیث سے ہمیں پتا چلتا ہے.روزہ رکھنا، قرآن کریم کی تلاوت کرنا ، ہوائے نفس سے بچنے کی کوشش کرنا ، قرآن کریم کی تلاوت کرنا ، خیرات کثرت سے دینا، انفاق فی سبیل اللہ کرنا، یہ ان سارے اعمال کا اعمالِ صالحہ سے تعلق ہے اور ایک ہے دعا کرنا.قرآن کریم نے تمام اعمالِ صالحہ کی بنیا د مقبول دعاؤں کے نتیجہ میں مقبول اعمالِ صالحہ پر رکھی ہے.اسلام کا یہ تصور نہیں کہ ظاہر میں تم اعمال صالحہ بجالانے والے

Page 216

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۲ خطبہ جمعہ ۲۴ / جولائی ۱۹۸۱ء ہو گے تو خدا تعالیٰ کے غضب اور عذاب سے بچ جاؤ گے.اسلام نے انسان کے سامنے یہ تصور پیش کیا ہے کہ اگر تمہارے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوجائیں گے.تو تم اس کے غضب اور اس کے عذاب سے بچ جاؤ گے اور قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اعمالِ صالحہ کی قبولیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے اس سے دعا ئیں کریں اور اس کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرنے والے ہوں.اس کے نتیجہ میں وہ جنہیں اعمالِ صالحہ کہا جاتا ہے، قبول ہو جاتے ہیں.تب انسان اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ جاتا ہے.اس کے پیار کو حاصل کرنے لگتا ہے اور اس کی رضا کی جنتوں کا وارث بن جاتا ہے.اسی لئے جب یہ ساری عبادتیں جن کا تعلق اعمالِ صالحہ سے ہے وہ اپنے اختتام تک پہنچ رہی ہوتی ہیں یعنی تیسرا، اب جو تیسری تہائی تھی رمضان کی وہ آج شروع ہو گئی.اکیسواں روزہ ہے تو ان دنوں میں روزے تو رکھنے ہی ہیں روزے رکھنے والوں نے جن پر فرض ہوئے ہیں لیکن خاص طور پر زور دے دیا دعاؤں پر اور لیلتہ القدر جو دعاؤں کی قبولیت کا ایک وقت ہے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا زیادہ تر پانے والے آخری عشرہ میں پائیں گے اس میں اسے تلاش کرو.دعاؤں سے ہی تلاش کرنا ہے نالیلتہ القدر کو کیونکہ اس کا تعلق دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ ہے.اس کا تعلق خیرات کی تقسیم کے ساتھ نہیں.اس کا تعلق انسان کی روح کا پانی کی طرح آستانہ الہی پر بہہ جانے کے ساتھ ہے.تو جہاں پہلے میں دن رمضان کے بھی دعاؤں کے ہیں وہاں یہ دس دن آخری جو ہیں یہ خاص طور پر دعاؤں کے ہیں.قرآن کریم نے میں نے پچھلے چند ہفتوں میں ہی یہ بیان کیا ہے اب مختصر کروں گا.ایک تو یہ اعلان کیا.میرے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو مجھے پانے کے لئے تمہیں راکٹ میں بیٹھ کے چاند پہ جانے کی ضرورت نہیں یا کسی اور ستارے یا ساتویں آسمان تک پہنچنے کی ضرورت نہیں.إذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب (البقرة : ۱۸۷) میں تمہارے پاس ہوں لیکن پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہوں - أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرۃ: ۱۸۷) جو مجھے اپنے پاس سمجھے گا میں تو پاس ہوں لیکن انسانوں میں سے جو مجھے اپنے پاس سمجھے گا اور پاس سمجھنے کے نتیجہ میں اس کی

Page 217

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۳ خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۱ء وو روح پر میری عظمت اور کبریائی جو ہے وہ سایہ ڈال رہی ہوگی اور میری عظمت اور کبریائی کی خشیت اس کے دل میں پیدا ہوگی اور میری صفات کو دیکھ کے وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ سے مانگے بغیر میری زندگی نا کارہ ہے اور اُجِیبُ دَعْوَةَ النَّاعِ إِذَا دَعَانِ وہ دعا کرے گا مجھ سے.مجھے پکارے گا میں اس کی دعا کو قبول کرلوں گا اور دوسری طرف یہ کہا.اس میں تو ایک اصول بیان کیا نا کہ جو پکارے گا اس کی پکار کو میں قبول کروں گا.دوسری طرف یہ کہا کہ قُلْ ما يَعْبُوا بِكُم رَبِّي لَولا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) اب ہماری خدا تعالیٰ کو یہ ضرورت تو نہیں ہے کہ ہم مزدوری کریں اس کی اور فائدہ پہنچائیں اسے.اس نے مکان بنانے ہیں ہم راج اس کے جا کے راجگیری کریں اور مزدور اس کی مزدوری کریں تا کہ اس کو فائدہ پہنچے.یہ تو نہیں ہمارا اللہ.وه تو كن فيكون (البقرة : ۱۱۸) اس کی صفات کی بنیاد یہ ہے کہ ہر صفت کا جلوہ جو ہمارے وقت کا سیکنڈ ہے اس سے شاید کروڑ ویں حصہ میں ظاہر ہوتا اور وہ چیز بن جاتی ہے.تو قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي کس چیز کی پرواہ کا یہاں ذکر ہے.اعمالِ صالحہ، کہ تمہارے اعمالِ صالحہ کو میں کیوں قبول کروں.اگر تم اس حقیقت سے نا آشنا ہو کہ تمہیں دعا کے ذریعہ میری رحمت کو جذب کرنا چاہیے اس کے بغیر تمہارے اعمال جو ہیں وہ مقبول اعمال نہیں بن سکتے.آگے ہے فَقَد كَن بتم تم نے میری صفات کا انکار کر دیا.تم نے میری ہدایت پر چلنے سے انکار کر دیا.تمہارے اعمال جو تم بظاہر بے تحاشا پیسے خرچ کر کے علیحدہ دوسری جگہ ذکر آیا اس کا ، مجھے خوش کرنا چاہتے ہو بالکل خوش نہیں کر سکتے.تمہارے اعمال مجھے خوش نہیں کر سکتے.جب تک تم دعاؤں کے ذریعہ سے میری رحمت کو جذب کر کے اپنے اعمالِ صالحہ کو اعمال مقبولہ نہ بنالو.یہ دو باتیں سمجھانے کے لئے رکھ رہا ہوں میں ایک آپ کے دائیں طرف اور ایک بائیں طرف.پھر فرمایا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) حکم دیا ہے پھر.یعنی محض بندہ پر یہ کہہ کے بندہ پر یہ بات نہیں چھوڑی کہ دعا کرتا ہے یا نہیں.ایک طرف یہ کہا میں تمہارے قریب ہوں.مجھ سے ملنا چاہتے ہو دعائیں کرو.میں قبول کروں گا.دوسری طرف یہ کہا کہ تم مجھ سے میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو اس لئے تم اعمال صالحہ بجالاتے ہو میری ہدایت کے مطابق جو قر آنی شریعت

Page 218

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۴ خطبہ جمعہ ۲۴ / جولائی ۱۹۸۱ء میں نازل ہوئی نہیں قبول کروں گا جب تک کہ تم دعا کے ذریعہ سے میرے فضل اور میری رحمت کو حاصل کر کے وہ ہزاروں لاکھوں رخنے اور سوراخ جو تمہارے اعمال میں ہوتے ہیں اور اس قابل نہیں چھوڑتے تمہارے اعمال کو کہ قبول کئے جائیں ان کے اوپر دعا کے ذریعہ سے میری مغفرت کی چادر نہ ڈالو.میں خود ہی چادر ڈالوں گا ان پر اگر دعا تمہاری قبول ہو جائے گی اور تمہارے اعمال کو اس قابل سمجھ لوں گا کہ میں انہیں قبول کر لوں لیکن یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بیان ہیں، حکم نہیں.حکم یہ ہے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُم دعائیں کرو.میں دعاؤں کو قبول کروں گا.اور یہ دس دن جیسا کہ میں نے بتایا خاص طور پر دعاؤں پر زور دینے کے لئے ہیں کیونکہ ایک خاص سلسلہ اعمالِ صالحہ کا رمضان کے آخری دن ختم ہونے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے کہا ان دنوں میں خاص طور پر دعائیں کر کے میرے فضل کو اور میری رحمت کو اور میری مغفرت کو جذب کرو تا کہ جو تم نے اس مہینہ میں خاص طور پر کوشش کی ہے میرے پیار کو حاصل کرنے کی ،اس میں تم کامیاب ہو جاؤ.یہ دس دن چونکہ خاص طور پر دعاؤں کے ہیں اس لئے دعا خود نیکیوں کا سرچشمہ بنتی ہے.یعنی ایک تو قبولیت ہے.دوسرے ہدایت کے نئے راستے اللہ تعالیٰ انسان پر کھولتا ہے دعا کے نتیجہ میں.یا بہت سی تکلیفیں ہیں.کمزوریاں ہیں، تکالیف ہیں، پریشانیاں ہیں ، دکھ ہیں ، گھبراہٹیں ہیں وہ دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے.اس وقت جیسا کہ اخبار پڑھنے والے یا سننے والے جانتے ہیں اُمت مسلمہ انتہائی پریشانی کے ایام میں گزر رہی ہے.خانہ جنگیاں مسلم ممالک کے اندر.مسلم ممالک کی باہمی لڑائیاں اور اب یہ نظارہ پچھلے چند ہفتوں میں آگیا کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ نے مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کہا تھا ، انہوں نے نوے سیکنڈ میں عراق کا جوہری ری ایکٹر تھا اسے جا کے اڑا دیا اور جس وقت وہ چھ سات سو میل واپس آئے ہیں اپنے گھر کو پہنچنے کے لئے تو صحیح یا غلط یورپین اخباروں نے امریکن اخباروں میں لکھا ہے کہ ڈرے ہوئے تھے کہ راستے میں مسلمان ممالک کی ہوائی طاقت جو ہے وہ روکے گی ہمارے جہازوں کو واپسی پر لیکن ایک جہاز بھی نہیں اٹھا ان کے مقابلہ میں.اور اب ظالمانہ،

Page 219

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۵ خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۱ء انتہائی ظالمانہ حملہ کر کے شہریوں کو جانی نقصان، زخمی کر کے، تکلیف لمبی کر کے تکالیف پہنچار ہے ہیں ان کے اموال کو وہ تباہ کر رہے ہیں.بڑی کثرت سے دعائیں کریں کہ اُمت مسلمہ کا اصلاح حال کے سامان پیدا ہو.اللَّهُم رَبِّ اَصْلِحْ أُمَّةً مُحَمَّدٍ - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما بھی یہ حکم ہوا ہے.یہ ہر قسم کی اصلاح اس میں شامل ہے.یہ بھی ہے.شماتت اعدا ہے.اپنی طاقتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے دیں اور بڑی دیں مسلمان کو.ان کو ضائع کر دینا ہے.صبر ہے یہ تو گل ہے کامل خدا تعالیٰ پر.تو قرآن کریم نے تو کہا تھا کہ خدا تعالیٰ پر تم کامل ایمان رکھو تمہارے سارے کام میں کردوں گا.میں ذمہ لیتا ہوں تو میری اور آپ کی کمزوریاں ہی ہیں نا جو ہمیں دکھ دینے والی ہیں.تو بہت کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان پریشانیوں کو اُمت مسلمہ کی دور کرے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت نے جو ہدایت کی راہیں ہمیں بتائی تھیں ان پر اُمت مسلمہ چل کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو اور ایسے کام نہ کرنے والے ہوں کہ جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور بچائے کہ اس کی توفیق کے بغیر دعا بھی صحیح طور پر نہیں ہوسکتی.تو دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے کی آپ کو توفیق عطا کرے اور دعائیں کریں کہ ایسی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول کرلے اور دعائیں کریں کہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے آپ وارث ہوں اور وہ اعمال صالحہ جو لاکھوں رخنے اور کمزوریاں اپنے اندر رکھنے والے ہیں وہ مغفرت کی چادر میں لپٹ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جا ئیں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے فرمایا.صفیں درست کر لیں.انشاء اللہ نمازیں جمع ہوں گی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 220

Page 221

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۷ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآن کریم نے جو حدود قائم کئے ہیں ان سے باہر نہ نکلے خطبه جمعه فرموده ۳۱ / جولائی ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج جمعہ ہے ، آج رمضان مبارک کا آخری جمعہ ہے.دو ایک دنوں تک عبادات کا گلدستہ جو ماہ رمضان نمان ہے وہ ختم ہو رہا ہے بہت سی برکتوں کے حصول کے سامان ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ نے ان انسانوں کے لئے مہیا کئے جو اس کے لئے مجاہدہ کرتے رہے اور جن کے اعمال خالصہ اللہ تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے وہ اعمال کئے گئے تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ان اعمالِ صالحہ کو مقبول کر لیا.یہ سب باتیں درست ہیں اپنی شرائط کے ساتھ لیکن جو اصل تصور ہے لیلۃ القدر کا ، وہ یہ پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ ماہِ رمضان میں ایک ایسا وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے قیامت تک جاری رہنے والے ایک انقلاب عظیم کی ابتدا کی اور وہ دنیا جو اندھیروں اور ظلمات میں سانس لے رہی تھی ان کے لئے نور کے سامان مہیا کرنے کا انتظام کیا اور یہ انتظام کیا اللہ تعالیٰ نے انْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (البقرة : ۱۸۶) قرآن کریم کی شریعت اتار کے.تو جو انقلاب عظیم نوع انسانی کی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ بپا ہوا اس کا ”دستور“

Page 222

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۸ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء قرآن عظیم ہے اور قرآن عظیم نے ہمیں کہیں یہ نہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی میں سال کے کسی حصہ میں یا کسی مہینہ میں یا کسی دن مثلاً جمعہ ہے اس میں کسی وقت کے ساتھ باندھ دیا ہو اپنے فضلوں کو اس معنی میں ، ایک مختصر سا فقرہ ہے میرا لیکن اس کی وضاحت ضروری ہے آپ کو سمجھانے کے لئے ) باندھ دیا ہو اس معنی میں کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہو کہ وہ شخص جو سارا سال جانتے بوجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑے اور اللہ کے خلاف باغیانہ زندگی گزار نے والا ہو اس امید پر کہ خدا کا وعدہ ہے کہ سال کے بعد ایک گھڑی ایسی آئے گی کہ میں اسے معاف کر دوں گا، ایسا کوئی بیان نہیں قرآن کریم میں.نہ ایسا کوئی ذکر ہے کہ کوئی ایسی گھڑی ہے کہ جس میں اگر انسان تھوڑے سے وقت کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور اس امید پر اور اس دعوی سے جھکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس تھوڑے سے وقت میں جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں آنے والے سارے سال میں اس کو اجازت دے دے گا کہ جتنی مرضی تم بدیاں اور بدکاریاں کرتے رہو میں تم پر گرفت نہیں کروں گا ایسا کوئی وعدہ نہیں.اصل لیلتہ القدر تو وہ انقلاب عظیم ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود آپ کی بعثت نے اور جو قرآن کریم نے (جو ایک کامل اور مکمل کتاب کی شکل میں اترا) بپا کر دیا.میں نے پڑھا،غور کیا، جتنے انقلابی دور انسانی زندگی میں آئے ہیں ان پر بھی غور کیا اور پھر قیامت تک کوئی ایسا انقلاب انسان کا بپا کردہ انسانی زندگی میں نہیں آسکتا جو قرآن کریم کے عظیم انقلاب کے مقابلہ میں سمندر کے مقابلہ میں جو قطرے کی حیثیت ہے وہ حیثیت اس کی ہو، اتنی حیثیت بھی نہیں.وقتی طور پر تو آتش فشاں پہاڑ بھی جوش مارتا اور اس کے اندرونے سے آگ نکلتی اور دھواں باہر آتا، آگ کے شعلے نکالتا ہوا وہ اپنی زندگی طاقت اور شدت کا ثبوت دیتا ہے لیکن پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے ختم ہو جاتا ہے.بڑے بڑے انقلاب تاریخ انسانی نے ( بڑے بڑے انقلاب ان لوگوں کی اصطلاح کے لحاظ سے ) تاریخ انسانی میں ہمیں نظر آتے ہیں ہزاروں سال پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے اس دور میں بھی اس صدی میں بھی مثلاً کارل مارکس کا جو انقلاب ہے وہ آیا لیکن انسان کی بحیثیت مجموعی جو زندگی ہے اس کے لحاظ سے خیر کا کوئی پہلو اس میں مجھے نظر نہیں آتا.تو

Page 223

خطبات ناصر جلد نهم ۲۰۹ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء انقلاب اسے کہہ لیں آپ لیکن انسانی خیر کا انقلاب نہیں ہے.میں دورے کرتا رہا ہوں یورپ، امریکہ وغیرہ ممالک کے.اپنے عقائد پر میرا مشاہدہ ہے کہ جو پختہ اشترا کی ہیں وہ اسلامی تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اعلان یہ کیا کہ سارے دنیا کے ”سائل“ اور ”محروم (قرآنی محاورہ میں نے لیا)، اکٹھے ہو جاؤ تمہاری بھلائی کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں Proletariat of the World Unite اور پھر کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ پر اپنی فوجیں لے کے دھاوا بول دیا.چیکوسلوواکیہ میں رہنے والے غریب عوام جو تھے ان کو تو تم نے یہ کہا تھا کہ تمہاری بھلائی کے لئے ہم انقلاب بپا کر رہے ہیں.ان کی بھلائی کے لئے تمہارے ہوائی جہازوں سے بم بر سے Bombing کی تم نے تمہاری تو پوں کے دہانوں سے گولے برسے، اس میں ان کی بھلائی نظر آئی تمہیں اور یہ ایک واقعہ نہیں ان کی زندگی کا ، بے شمار واقعات ہیں.صرف اسلام ہے جس نے کہا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 1) اور جو بچے اور حقیقی مسلمان مومن ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وقت سے، ان نسلوں کے وقت سے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی آج تک ، ایک بڑا دھارا ایسا چلا ہے جو اس بات پر قائم ہے کہ کسی کو دکھ نہیں پہنچا نانہ زبان سے، نہ ہاتھ سے ، ہر دکھ کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کے متعلق کہہ دیا اور سارے احکام قرآن کریم کے ایسے جن کا دُنیوی زندگی سے تعلق ہے، دنیا کی بھلائی سے تعلق ہے ، اس میں ایک جگہ بھی ( آپ، آپ نے پڑھا ہے ممکن ہے بہتوں نے غور کیا ہو، نہیں کیا تو آگے تلاوت کرتے ہوئے غور کریں ) کوئی حکم ایسا نہیں جس میں مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کیا ہو.مثلاً چھوٹی سی میں ایک مثال لیتا ہوں بالکل چھوٹی سی لا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات :۱۲) کہ حقارت سے دوسروں کے نام بدل کے خودان کے نام نہ ڈالا کرو.یہ نہیں کہا کہ اس قسم کے القاب رکھنا، برے نام رکھنا، اگر تمہارا مخاطب غیر مسلم ہے تو جائز ہے بلکہ تمہیں حکم ہے کہ تم نے لا تَنَابَزُوا بِالْالقاب القاب نہیں رکھنے.اگر کوئی شخص خود کو مثلاً حفی العقیدہ کہتا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کو حنفی العقیدہ کہو یعنی حنفی فقہ جو ہے اس کے اوپر وہ چلنے والا ہے اور فتوے نہ لگاؤ ان کے اوپر.خود امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ

Page 224

خطبات ناصر جلد نہم ۲۱۰ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء کو ( گر وہ غلطی کرنے والے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے اسلام پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ) کا فر کہا گیا ، مرتد کہا گیا، ملحد کہا گیا.بڑی خطرناک قسم کی اذیتیں ان کو پہنچائی گئیں.وہ اپنی جگہ درست، لیکن قرآنی تعلیم اس کو برداشت نہیں کرتی.خدا تعالیٰ نے تو کہا تھا کہ تمہیں میں نے خیر مجسم کے ماننے والے بنایا ہے اور تمہیں خیر مجسم اپنے اپنے دائرہ اور طاقت اور استعداد کے مطابق بننا پڑے گا.اگر میری نگاہ میں تم نے کوئی حیثیت حاصل کرنی ہے تو قرآن کریم پر عمل کرنا پڑے گا.یہ انقلاب عظیم جس نے ساری دنیا کو اپنی خیر اور اپنے نور میں لے کر محیط ہو جانا تھا یہ بتا یا گیا تھا کہ یہ تدریجی ترقی ہوگی اور بتایا گیا تھا کہ یہ ارتقائی تدریجی ترقی اپنے عروج کو آخری زمانہ میں پہنچے گی اور اب پہنچ رہی ہے.انشاء اللہ ایک صدی میں اب بہت بڑا انقلاب عظیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے نتیجے میں ، آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ، ان بشارتوں کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی تھیں یہ بپا ہو جائے گا انقلاب لیکن اس وقت تک جو چیز بڑی عظمتوں والی ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اِنَّ اللهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (ابراهیم : ۵۲) آپ یہ نہ سمجھیں کہ اسلام کے مخالفوں نے صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی میں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی بلکہ جو چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ہر صدی میں ( میں سمجھتا ہوں کہ ) ہزاروں، شاید لاکھوں منصوبے بنائے گئے ہوں اسلام کو مٹانے کے اور ہر صدی میں ان لاکھوں منصوبوں کو اللہ تعالیٰ نے ناکام کر دیا.کمزوریاں بھی پیدا ہوئیں، سیاسی لحاظ سے ملک بھی ہاتھ سے نکلے لیکن مطہرین کا ایک گروہ ہر زمانہ میں قائم رہا، موجود رہا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ایک جگہ کہ جسے ہم فیج اعوج کا زمانہ کہتے ہیں جب اسلام اپنے انتہائی تنزل میں سے گزررہا تھا اس وقت بھی ایک ٹھاٹھیں مارتے دریا کی طرح اولیاء اور مطہرین کا گروہ تھا جنہوں نے اسلام کی شمع کو روشن رکھے ہوا تھا.ایک تو ہے یہ لیلتہ القدر جس نے نوع انسانی کی قسمت کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایک حسین فیصلہ کیا اور یہ انقلاب عظیم جاری ہے، جاری رہے گا قیامت تک اس انقلاب کو قائم

Page 225

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱۱ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء رکھنے کے لئے ایسے دل چاہئیں جو خدا کی رضا کی جستجو میں دھڑ کنے والے ہوں، ایسے سینے چاہئیں جو خدا اور اس کے رسول اور قرآن کریم کے نور سے منور ہوں ایسی زبانیں چاہئیں جو خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھک کر اس سے اس کی رحمت اور برکت کے حصول کے لئے مجاہدہ کر رہی ہوں اور اس کے بندوں کے سامنے عاجزی سے اپنے پیار کا اور اپنے خیر مجسم ہونے کا ثبوت دے رہی ہوں.اس کے لئے اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (البقرة : ۱۵۴) قرآن کریم نے بنیادی اصول یہ رکھا کہ صبر اور استقامت کے بغیر تم خدا کا فضل حاصل نہیں کر سکتے صبر اور استقامت قریباً ہم معنی ہیں جو خدا تعالیٰ نے اوامر اور نواہی نازل فرمائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو قرآن کریم میں بیان ہیں.ان کو مضبوطی سے پکڑ لینا اور اس تعلیم پر قائم ہوجانا اور دنیا کا کوئی زلزلہ جس شکل میں بھی وہ ظاہر ہو پاؤں میں لغزش نہ پیدا کرے، اس کو استقامت کہتے ہیں اور جو اوامر اور نواہی ہیں ان کی تفصیل قرآن عظیم میں بیان ہوئی ہے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارے اند راس انقلاب عظیم کا خادم بننے کی طاقت اس وقت پیدا ہوگی جب تم مضبوطی کے ساتھ سارے احکام کی پابندی کرنے والے بن جاؤ گے روزانہ پانچ نمازیں شرائط کے ساتھ ادا کرنے والے ہو گے یہ اجازت نہیں دی جائے گی پچاس سے زیادہ ہفتے نمازوں کا ناغہ کرو اور رمضان کے ایک جمعہ میں میں تمہیں معاف کر دوں گا.بالکل نہیں کہا.استقامت کے ساتھ ،صبر کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم ہے ایک سیکنڈ کے لئے خدا تعالیٰ کے دامن کو چھوڑنا ہلاکت کو بلانا ہے.لیکن قانونِ قدرت میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ جو تسلسل ہے.وقفے وقفے کے بعد اس میں مضبوطی پیدا کی جاتی ہے.ایک مثال دو سال سے بلکہ ۷۴ ء کے بعد سے ربوہ میں مکان بہت بن رہے ہیں اور اس میں سیمنٹ اور لوہا والے مکان بھی بہت سے ہیں اب جو Lintel (لینکل ) پڑتا ہے تو وہ ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ مثلاً ایک کمرہ ہی اگر کسی نے ڈالنا ہے مستطیل ۳۰×۱۲ کا سمجھ لو یا ۲۰×۱۶ کا سمجھ لو تو اس کے چار کونے ہوئے ہر کنارے پر جوسر یا ساری چھت پر پڑا ہوا ہے اس سے زیادہ سر یا ڈالیں گے تو چھت ٹھیک قائم رہے گی ورنہ نہیں ، کمزوری ہو جاتی ہے پیدا.پھر

Page 226

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱۲ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء ان کو ایک خاص جگہ پر خاص زاویہ سے اٹھاتے ہیں، پھر آگے لے کے جاتے ہیں مضبوطی کے لئے.اس لئے ماہ رمضان میں لیلتہ القدر کی تلاش یہ ہمہ وقت خدا تعالیٰ کی طرف (Consciously) یعنی جانتے بوجھتے سوچتے سمجھتے ہوئے متوجہ رہنا دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو قبول کرے، یہ ہمیں دوران سال کی عبادات سے آزادی نہیں بخشا بلکہ دورانِ سال کی جو مستقل روزانہ پانچ وقت نمازیں ہم ادا کرتے ہیں ان کو ایک بار مضبوطی بخشی جاتی ہے ہر سات دن کے بعد جمعہ کے وقت.آپ نے فرمایا جو خلوص نیت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں مانگنے والا ہوگا.اللہ تعالیٰ ایسوں میں سے جن کے لئے پسند کرے گا وہ گھڑی میسر کر دے گا.جس میں ان کی دعا قبول کر لے گا.آپ نے یہ نہیں کہا کہ چھ دن مزے کرتے رہو.نمازیں چھوڑتے رہو، ڈاکے مارتے رہو، تول میں کمی بیشی کرتے رہو، جو بھی حکم ہے خدا کا اس پر کار بند نہ رہو اور جمعہ کو تمہیں وہ گھڑی مل جائے گی نہیں ملے گی وہ گھڑی وہ گھڑی تب ملے گی جب آپ چھ دن خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کر کے خدا کے حضور جھک کے کہیں گے کہ اے خدا! جو ہم نے تیری خاطر کام کئے ہیں ہزار ان کے اندر کمزوریاں ہیں، اب یہ جمعہ ہے تیرے وعدے ہیں.اس میں برکتیں تو نے رکھی ہیں، ایسی برکتیں دے کہ جو پچھلے ہفتے کی کمزوریاں ہیں ہماری خلوص نیت کے باوجود وہ دور ہو جائیں.ایک جگہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ استقامت سے کام لو اور استغفار کر و یعنی خدا سے مغفرت چاہو.یہ بات سات دن کی عبادات میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے ، اس پر حسن چڑھانے کے لئے نور میں شدت پیدا کرنے کے لئے ہے.پھر سال کے بعد رمضان آجاتا ہے، بہت ساری عبادات کا مجموعہ، میں نے کئی دفعہ پہلے بھی بتایا یہ ایک عبادت نہیں محض بھوکا رہنے کی ، کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی ہے، کثرت سے مستحقین کی طرف توجہ کرنے کی ہے، زبان کو قابو میں رکھنے کی عبادت ہے، دعائیں کرنے کی ہے راتوں کا عام راتوں کی نسبت زیادہ حصہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے یا سننے پر خرچ کرنے اور دعاؤں میں مشغول رہنے کا عمل صالح ہے.یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے سال بھر کی عبادات کی کمزوریوں کو دور کرنے اور انہیں زیادہ طاقت دینے کے لئے رمضان کا مہینہ رکھ دیا.اگر گیارہ مہینے کسی نے

Page 227

خطبات ناصر جلد نہم ۲۱۳ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء عبادت ہی نہیں کی اللہ کی ، اس کے احکام پر وہ کاربند ہی نہیں رہا، اس نے اتباع رسول کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی ، وہ خدا کو بھول گیا.خدا نے تو کہا تھا تم مجھے بھولو گے میں تمہیں بھول جاؤں گا ( خدا تعالیٰ کے علم میں تو ہر چیز رہتی ہے ) مطلب یہ ہے کہ میں تم سے ایسا سلوک کروں گا کہ گویا میں جانتاہی نہیں تمہیں کہ تم ہو بھی یا نہیں تمہارے ساتھ پیار نہیں کروں گا.تو جو شخص گیارہ مہینے خدا کو بھولا رہتا ہے وہ بارہویں مہینے میں کس طرح امید رکھتا ہے کہ مہینے میں یا اس مہینے کی ایک رات میں یا ایک موقع کے اوپر کوئی ایسا عمل وہ کرے گا کہ خدا تعالیٰ مجبور ہو جائے گا کہ وہ اس وقت کی دعا کو قبول کرے.خدا نے کوئی ایسا وعدہ نہیں دیا ہمیں.تو ایک تو ہے انقلاب عظیم اجتماعی نوع انسانی کا.ایک ہے فردفرد کے اندروہ خاصیتیں اور خواص اور وہ صفات اور وہ اخلاق پیدا ہو جائیں کہ وہ اس بوجھ کو جو بڑا عظیم بوجھ ہے کہ ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ایک انقلاب عظیم بپا کرنا ہے اس بوجھ کو وہ برداشت کر سکیں.تو یہ ہے لیلتہ القدر اور یہ اہمیت ہے ماہِ رمضان کی.ماہِ رمضان ہمیں خدا سے دور لے جانے کے لئے نہیں آیا کہ گیارہ مہینے تم بے شک دور رہو خدا سے.ماہِ رمضان ہمیں یہ بتانے کے لئے آیا ہے کہ اگر تم نے گیارہ مہینے خدا سے دوری میں گزارے تو ماہِ رمضان کی کوئی گھڑی تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی.اس واسطے توجہ کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھو اور اپنی ہی شریعت بنانے کی کوئی شخص کوشش نہ کرے.خدا نے کہا ہے کہ میں نے وحی نازل کر دی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہے قرآن کریم میں کہ اس وحی کی طرف، اس شریعت کی طرف تو لوگوں کو بلا اور ان کو کہہ دے کہ اسی میں تمہاری خیر اور بھلائی ہے.یہ نہیں کہ ہم اپنے مطالب اپنی مرضی کے لئے یا اہوائے نفس کو پورا کرنے کے لئے.خواہشات نفس سے مجبور ہو کر شریعت میں کوئی عملی یا اعتقادی تبدیلیاں کرنے لگ جائیں.ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآن کریم نے جو حدود قائم کئے ہیں یہ حدود قرآن کریم کی تعلیم کی سرحدیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے حُدُودُ الله کے نام سے حدود قائم کئے ہیں ان سے باہر نہ

Page 228

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱۴ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء نکلیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہر نکلنے کا سوال نہیں، انسان کو اتنا محتاط ہونا چاہیے کہ سرحدوں کے قریب بھی نہ جائے کہ غلطی سے اس کا قدم باہر چلا جائے تو ماہِ رمضان بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس میں کوئی شک نہیں.ماہ رمضان میں ایسی گھڑیاں بھی ہیں کہ اگر خدا چاہے اور اپنے بندے سے خوش ہو تو اس کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ وہ ( وہ انقلاب عظیم، وہ لیلۃ القدر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستہ ہے یعنی نوع انسانی میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنا، جس کے مقابلہ میں دنیا میں ہمیں کہیں انقلاب نظر نہیں آرہا ) اس انقلاب کی ذمہ داریوں کو نباہنے والا بن جائے اور کسی ایک شخص کو بھی خواہ وہ کوئی ہو کسی احمدی سے کوئی دکھ نہیں پہنچنا چاہیے.چاہے وہ مشرک ہو ، چاہے وہ جاہل انسان اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والا ہو، اسلام کہتا ہے اس کو تم نے دکھ نہیں پہنچانا، نہ ہاتھ سے، نہ زبان سے اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.خدا جو دیکھے گا اس کے حالات اس کے مطابق اس سے معاملہ کرے گا، آپ نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ پکڑ کے اس سے فیصلے نہیں کروانے.خدا تعالیٰ نے آپ کی گردن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے اور ہاتھ جب گردن پکڑتا ہے کسی کی تو وہ ہاتھ ماں کا بھی ہوتا ہے.دیکھا نہیں آپ نے گھروں میں ماں گردن سے پکڑ کے بچے کو اپنے منہ کے پاس لاتی اور پیار کرتی ہے اسے.اور وہ ایک قادر خدا کا بھی ہاتھ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی ہاتھ سے سہارا دیا اور خدا تعالیٰ نے فرعون کی فرعونیت کو بھی اسی ہاتھ سے مٹایا.تو خدا تعالیٰ کا ہاتھ تو ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کے جلوے مختلف ہیں ، ایک جگہ پیار کا ہمیں جلوہ نظر آ رہا ہے، ایک جگہ ہمیں اس کے غصے کا اور شدید العقاب ہونے کی صفت کا جلوہ نظر آ رہا ہے.پس عاجزانہ جھکو اس کے سامنے اور دعا کرو کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں ہمیں پیار نظر آئے ، ہمیشہ اس کے ہاتھ میں ہمیں نرمی محسوس ہو محبت کی اور وہ ہمارے قصوروں کو معاف کرے، ہماری غفلتوں کو بھول جائے ، مغفرت کی چادر ہماری کمزوریوں پر ڈالے اور جس کے ہم مستحق نہیں وہ بھی دے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اعمال محدود ہیں تو ابدی جنتیں کیسی ؟ قرآن کریم نے اس کا یہ جواب دیا ہے میں تمہارے ان اعمال کا جنہیں میں قبول کرلوں گا پورا پورا اجر بھی دوں گا اور اس سے

Page 229

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱۵ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ء زائد بھی بہت کچھ دوں گا.تو جواب آ گیا جب اس نے کہا ہے میں زائد دوں گا تو ابدی ہو گئیں جنتیں.آپ کیسے اعتراض کر سکتے ہیں.پس ہر چیز خدا سے مانگو نہ بندوں کی طرف احتیاج دور کرنے کے لئے دیکھو، نہ بندوں کو دکھ میں ڈالنے کے لئے ان کی طرف توجہ کرو بلکہ فساد کو مٹانا اور دکھوں کو دور کرنا آپ کا فرض ہے.خدا سے لو، خدا سے لو اور اس کے بندوں میں بانٹو تا کہ اس دنیا میں اس حسین انقلاب کی چمکا ریں وہ بھی دیکھنے لگیں جو آج اسلام کی طرف توجہ نہیں کر رہے.اللہ تعالیٰ جماعتِ احمدیہ کو اس کی توفیق عطا کرے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ /جنوری ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 230

Page 231

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱۷ خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۸۱ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلق عظیم نے دلوں کو جیتا تھا خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ /اگست ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دنوں میں نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا ہوا ، ایسا انقلاب جس کے مقابلہ میں کوئی اور انقلاب انسانی زندگی میں بپانہیں ہوا.پھر میں نے بتایا تھا کہ یہ انقلاب مادی طاقتوں کے بل بوتے پر نہیں تھا بلکہ دل جیتے گئے اور خیر اور بھلائی کے سامان نوع انسانی کے لئے پیدا کئے گئے ، ان کا دکھ دور کیا گیا اور سکھ اور خوشحالی ان کے لئے پیدا کی گئی.دل کیسے جیتے گئے؟ آج میں بڑے ہی اختصار کے ساتھ اس ایک بات کی وضاحت کروں گا.اختصار اس لئے ضروری ہے کہ گرمی میری بیماری ہے اور کل کئی گھنٹے شدید گرمی میں مجھے بیٹھنا پڑا جماعتی کام کے لئے اور اس کا اثر ہے میری طبیعت پر اور اس وقت بھی مجھے گرمی لگ رہی ہے اور میں نے سوچا کہ پچھلے سالوں میں اگر کسی وجہ سے میں خطبہ کے لئے آنہیں سکا تو میں نے جسے خطبہ کے لئے منتخب کیا اسے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ دس پندرہ منٹ سے زیادہ نہ بولنا کیونکہ گرمی میں لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور بہتوں کو اونگھ بھی آجاتی ہے اور اکثر پریشان بھی ہو جاتے ہیں.آج میں نے

Page 232

خطبات ناصر جلد نهم سوچا کہ خود اس پر عمل کروں.۲۱۸ خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۸۱ء بہر حال یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ دل اس انقلاب عظیم کے لئے بہت بڑے پیمانہ پر کیسے جیتے گئے اور کیسے جیتے جائیں گے ساری نوع انسانی کے دل؟ اس لئے سنو ! قرآن کریم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وو 66 إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : ۵ ) کہ ایک عظیم خلق پر ، اچھے اخلاق جس کی عظمتیں ہیں آپ قائم ہیں (عربی کا لفظ عظیم جو ہے اس کے معنے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ) آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خُلُقٍ عَظِیمٍ “ پر قائم کیا گیا ہے، اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی کہ ساری دنیا میں اس کے اثر نے پھیلنا اور نوع انسانی کو اس اثر نے اپنے احاطہ میں لینا ہے اور رفعتوں کے لحاظ سے ایسا کہ اس خُلق عظیم پر چلتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے رب کریم کے انتہائی قریب پہنچ گئے.ہر شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر اگر چلے گا تو انتہائی رفعت کو حاصل کر لے گا اپنے دائر کا استعداد میں.اس قدر عظیم ہے یہ خلق خلق عظیم جسے کہا گیا ہے، یہ خلق جو ہے وہ بڑا عظیم ہے.دشمن ہوتے ہیں، بہت ہی کم لوگ ہوں گے دنیا میں جو لمبا عرصہ دشمن کے وار سہنے کے بعد اور وار بھی انتہائی، تیرہ سالہ زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے انتہائی مظالم ڈھائے آپ پر، آپ کے متبعین پر ، ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ اڑھائی سال تک ہر ممکن کوشش کی کہ بھوکوں مر جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ منصوبہ بھی نا کام کیا، پھر جو غلام تھے ان کے، جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تو ان تیرہ سالوں میں جب تک کہ انہیں آزاد نہیں کیا اسلامی کوشش نے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے پیسے خرچ کئے ، اوروں نے بھی بڑی قربانیاں دیں ان لوگوں کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے ، اس سے زیادہ شدید گرمی جس کے نتیجہ میں میں آج خطبہ چھوٹا کر رہا ہوں ، تپتی ریت پر ننگے جسموں کو لٹا کر کوڑے مارے گئے ان کو.یعنی جتنا انتہائی ظلم آپ سوچ سکتے ہیں اس سے آگے بے انتہا فاصلے طے کرتا ہوا ان کا ظلم نکل گیا.اور جب تیرہ سالہ ظلم سہنے کے بعد آپ نے ہجرت کی تو پیچھا کیا اور تلوار کے زور سے آپ کو مٹانے

Page 233

خطبات ناصر جلد نهم ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۸۱ء کے منصوبے بنائے لمبا عرصہ یہ بھی ہے.بہر حال ان سب مظالم کو سہنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قوت اور عزت اور غلبہ کے نتیجہ میں (جو اس کی صفات ہیں ) ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ دس ہزار قدوسیوں کا ایک گروہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ پہنچا تو جو ر و وسائے مکہ اس ظلم کے باپ تھے ، ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی عزت کی خاطر اور اپنی عورتوں کی عزت کی خاطر تلوارمیان سے نکالتے اور بغیر لڑے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ جانتے تھے، ان کی اندر کی ، ان کے نفس کی آواز یہ تھی کہ جس قدر ظلم ہم نے ڈھائے ہیں اب حق ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کہ ہم سے جیسا بھی سلوک کریں، کریں لیکن سلوک کیا کیا ان سے؟ سلوک ان سے یہ کیا لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف: ۹۳) تمہارے سارے گناہ ہم معاف کرتے ہیں، میں اور میرے ماننے والے اور دعا کرتا ہوں میں کہ اللہ تعالیٰ بھی معاف کر دے.انسان جب معافی دے دے تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ بھی اس معافی کو قبول کر لے.قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر ہے اس کا.لیکن اس مقام کے اوپر خدا تعالیٰ سے جس درد کے ساتھ رؤوسائے مکہ کے لئے اور جو عرب کا ملک تھا اس کی اصلاح اور ان کے اسلام لانے کے لئے دعائیں کی تھیں اس دن اسی درد کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا بھی کی کہ اے خدا! ہم بھی معاف کرتے ہیں اور تو بھی انہیں معاف کر اور خدا تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا.یہ خلق عظیم ہے.66 آپ کا ہر عمل اتنی عظمتیں رکھتا ہے کہ اس کا تصور انسانی دماغ پوری طرح نہیں کرسکتا.ہر دماغ اپنی طاقت کے مطابق اسے کچھ سمجھتا ہے لیکن بڑی عظمتیں ہیں ایسی عظمت کہ جس سے بڑھ کر عظمت نہیں ہو سکتی.یہ جو خلق عظیم ہے اس نے دل جیتے.اس نے اس یہودی کا دل بھی جیتا جو مہمان آیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس رکھا.اس کو اسہال شروع ہو گئے رات کو بسترے کے اوپر اجابت ہوگئی اور شرم کے مارے وہ رات کے اندھیرے میں بھاگ گیا وہاں سے کہ کیا منہ دکھاؤں گا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو لیکن اپنے روپوں کی تھیلی ، اپنے سکوں کی تھیلی وہیں بھول گیا.یہودی آپ جانتے ہیں پیسہ نہیں چھوڑتا ، جب اس کو یاد آیا تو شرم پر پیسے کی محبت غالب آئی اور وہ واپس آیا اور اس نے جو نظارہ دیکھا وہ یہ تھا کہ اس گند کو جو وہ پیچھے چھوڑ کے گیا تھا

Page 234

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۸۱ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ہاتھ خود دھور ہے تھے اور اس کی صفائی کر رہے تھے.کوئی ایسی نیکی اس نے کی ہوگی یہودیت میں رہتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئی ہوگی.اس طرح اس کے اسلام کے سامان پیدا کر دیئے.وہ آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میری بیعت لیں کوئی شخص جس کا تعلق خدائے واحد و یگانہ سے سچا نہ ہو وہ اس قسم کے اخلاق کا نمونہ نہیں دکھایا کرتا جو آپ نے دکھایا ہے.تو یہ ایک ذریعہ بن گیا اس کے اسلام لانے کا.جو صحابہ آپ کے نقش قدم پر، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے تھے ساری دنیا میں گئے اور جو خلقِ عظیم اچھے اخلاق اس نقش قدم پر چلنے سے ان کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے اس کے نتیجہ میں انہوں نے پیار کے ساتھ ، اور یہ پیار ہے جس کا سر چشمہ خلق عظیم“ ہے.دیکھو حضرت داتا صاحب ( مظلوم ہیں بعض لوگ ان کی قبر پہ جا کے سجدہ کر دیتے ہیں ) جو خدائے واحد و یگانہ کی وحدانیت کے قیام کے لئے ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے لاہور سے باہر.وہاں ہندو گجر تھے ، اپنی ساری گندگی کے ساتھ ، جسمانی بھی اور اخلاقی بھی ، وہ آپ کے پاس آتے تھے اور آپ کے اخلاق کا اثر لیتے تھے اور لاکھوں آدمی ان کے ذریعہ سے مسلمان ہوئے ، ان سے پہلے جو بزرگ آکے وہاں بیٹھے تھے ، اور جو بعد میں بیٹھے، پھر سارے ہی ہندوستان میں، اسلام جو پھیلا وہ ان بزرگوں کے اچھے اخلاق کے نتیجہ میں پھیلا.ان بزرگوں کو اچھے اخلاق ملے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کے.جو خلق عظیم خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا، اس میں سے ایک حصہ لے کے، ساری دنیا میں اسلام پھیلا دیا.جو روشنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لی وہ روشنی لاکھوں کو منور کر گئی.اس لئے محض احمدی بن جانا کافی نہیں جب تک ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات غور سے مطالعہ نہ کریں، انہیں سمجھنے کی کوشش نہ کریں ، سمجھنے کے بعد یہ عزم نہ کریں کہ ہم ان نقوشِ قدم پر ، پاؤں کے جو نشان ہمیں نظر آ رہے ہیں ، اخلاق کے میدان میں ہم ان کے مطابق آگے بڑھیں گے اس راہ پر ہم چلیں گے، اس وقت تک ہم اس انقلاب عظیم میں کوئی حصہ نہیں لے سکتے جس نے عروج کو اس زمانہ میں پہنچنا تھا.

Page 235

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۱ خطبہ جمعہ ۷ /اگست ۱۹۸۱ء پس دعائیں کریں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہر پہلو سے حسین تھا اور اخلاق حسنہ کے لحاظ سے بھی آپ میں جو حسن پایا جاتا تھا ، وہ حسن ہماری زندگیوں میں اور ہمارے اخلاق میں پیدا ہوتا کہ ہمارے نمونہ سے متاثر ہو کر دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حرکت کرنے لگے اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء صفحه ۳،۲) 谢谢谢

Page 236

Page 237

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۳ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر فرما بنی نوع انسان پر عظیم احسان فرمایا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ راگست ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينِ - (ال عمران : ۱۶۵) فيهم و اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.b قُلْ العَلِمُونَ اللهَ بِدِينِكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ - يَمْنُونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَسُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللهُ يمن عَلَيْكُمْ أَنْ هَديكُمْ لِلْإِيمَانِ اِنْ كُنْتُمُ صُدِقِينَ - إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ - (الحجرات: ۱۷ تا ۱۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سب انسانوں کی طرف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةُ لِلنَّاسِ (سبا: ۲۹) که تمام بنی نوع انسان اس معنی میں آپ کے مخاطب اور آپ کی اُمت میں شامل ہیں لیکن جو آیت اس وقت میں نے پڑھی اس میں دو عظیم احسانوں کا

Page 238

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۴ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء ذکر ہے اور تمام بنی نوع انسان کا یہاں ذکر نہیں.دوسری جگہ ہے کہ بڑا احسان ہوا انسان پر کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ان کی طرف لیکن اس آیت میں انسانوں کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کو مخاطب کیا گیا ہے جنہوں نے بعثت نبوی سے وہ تمام فوائد حاصل کئے جن کی خاطر یہ بعثت ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ (الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا) حقیقی معنی میں مومن ہوئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں سے ایک ایسا رسول بھیج کر جو انہیں اس کے نشان پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً ان پر احسان کیا ہے، اور وہ اس سے پہلے یقینا کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں اس گمراہی میں سے نکالا اور اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا ان پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ بڑی ہی آسمانی نعمتیں لے کر آئے اور ایک گروہ انسانوں میں سے ایسا پیدا ہوا جنہوں نے قبول کیا اور فائدہ اٹھایا برکات سماوی سے حصہ لیا اور خدا کی نگاہ میں وہ پاک ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے نشان ان کی زندگیوں میں اور ان سے ظاہر ہوئے تو (مج اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ) میں نے بتایا کہ ہر انسان پر آپ کا احسان ہے لیکن اس آیت میں ذکر ہے صرف مومنوں کا اور دو احسان (بڑے ہی پیارے ہیں وہ ) جو اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار کرتے ہیں مومنوں پر ہوئے ، ان کا اس میں ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا جماعت مومنین پر کہ ان میں ایک اتنا عظیم رسول مبعوث ہوا جس کے طفیل ساری کی ساری اور پوری کی پوری آسمانی نعمتیں حاصل کی جاسکتی ہیں اور دوسرا یہ فضل ہوا مومنوں پر کہ جو ادھوری نعمتیں پہلوں پر نازل ہوئی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے نسبتاً کم فضل کے وہ وارث ہوئے تھے اس کے مقابلہ میں اب ایک ایسا گروہ پیدا ہوا جنہیں کامل نعمتیں حاصل ہوئیں اور خدا تعالیٰ کے وہ اس قدر پیارے ہوئے کہ اس سے پہلے بنی آدم میں کوئی قوم اتنی پیاری اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہوئی.تو ایک تو احسان ہے بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا یہ احسان ہے کہ آپ عظیم تعلیم لے کر آئے.اس کو یہاں اللہ تعالیٰ نے چار شعبوں میں

Page 239

خطبات ناصر جلد نہم ۲۲۵ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء تقسیم کر کے بیان کیا.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ وہ آیات پڑھ کر سناتا ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آیات“ کا لفظ یا ایہ“ کا لفظ جو اس کا مفرد ہے، مختلف معانی میں استعمال کیا ہے.آیۃ کے ایک معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ جلوہ صفت باری کا ، وہ جس کے نتیجہ میں مادی کائنات میں کوئی چیز پیدا ہوئی یا کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی یعنی صفات باری کے وہ جلوے جن جلوؤں نے کائنات کو پیدا کیا.بے شمار مخلوق ہے اس قدر کہ انسانی عقل میں وہ آنہیں سکتی.انسان اس کا تصور نہیں کر سکتا.اس کے متعلق انسان کو مخاطب کر کے فرمایا قرآن کریم میں کہ اے انسان! ہر چیز تیرے لئے پیدا کی گئی ، اس قسم کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کی زبان سے نہیں کروایا گیا.اس لئے کہ ایک تو ان کے مخاطب صرف ایک جماعت تھی یا ایک قوم تھی، ایک چھوٹا سا زمانہ تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب نوع انسانی تھی اور ہر نسل تھی جو آپ کی بعثت کے بعد قیامت تک اس دنیا میں پیدا ہونے والی تھی ابنائے آدم کی.تو فضل ہے نا اللہ تعالیٰ کا.جو اس کی معرفت رکھے گا وہ حمد باری تعالیٰ W کرے گا، جو اس کی معرفت رکھے گا وہ علوم کے میدان میں ترقی کرے گا.جب ہر چیز ہماری خادم ہے تو ہر چیز کے متعلق علم حاصل کرنا ضروری ہو گیا.جس قدر علم انسان کو حاصل ہوا ہے اس کا ئنات کا اور علم کہتے ہی اس کو ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وہ جلوے جو ظاہر ہوئے مادی دنیا میں.یہ علم آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہوا اس زمانہ میں پہنچا اور بہت ترقی کر گیا اور سوائے صفات باری تعالیٰ کے علم کے اور کوئی حقیقی علم نہیں.نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرة : ۲۵۶) کہ خدا تعالیٰ نے خالق کی حیثیت سے جو کچھ پیدا کیا علیم کی حیثیت سے وہ اسے جانتا ہے.کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے.وہ ان باریکیوں کو بھی جانتا ہے جن تک انسان ابھی تک نہیں پہنچا اور جس قدر خدا چاہتا ہے اس قدر انسان علم حاصل کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ دعا کیا کرو رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) تو علم کے حصول کے لئے ایک مومن پر دو دروازے کھلے ہیں اور علم کے حصول کے لئے غیر مومن پر ایک دروازہ کھلا ہے.

Page 240

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۶ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء غیر مومن پر جو دروازہ کھلا ہے اس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ کہتے ہیں لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إلا ما سعى (النجم :۴۰) کوشش کرو گے پالو گے.بڑا احسان کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ لیکن مومن کو یہ کہا کوشش کرو گے اور دعا کرو گے اور مقبول ہوجائے گی وہ دعا تو دوسروں سے زیادہ پالو گے.تو یہ بات جو میں کہ رہا ہوں محض فلسفہ نہیں بلکہ چودہ سو سالہ زندگی میں اُمت مسلمہ کی یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ جب بھی مسلمان نے حقیقی مومن کی حیثیت سے علم کے میدان میں دوسروں کے مقابلہ میں کوشش اور سعی کی تو جو امت مسلمہ کے سکالرز اور محققین کو ملا وہ اس سے کہیں زیادہ تھا جو دوسروں کو ملا.بڑی لمبی تاریخ ہے.تاریخ پڑھا کریں اور یہ حقیقت پہچانیں کہ ہر مومن کے لئے ، ہر مومن مسلم احمدی کے لئے حصول علم کے زیادہ اور فراخ دروازے کھلے ہیں.اس واسطے میں کہا کرتا ہوں کہ کسی سے پیچھے نہ رہو.تمہیں پیچھے رہنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.تو جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے ، جو سہولتیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مہیا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ.تو ایک تو ایسا عظیم رسول ( يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ ) جو نُعَمَاء لے کے آیا ان میں سے پہلی نعمت آیات ہیں اور آیات میں سے صفات باری کے وہ جلوے ہیں جو اس کا ئنات پر ظاہر ہوئے جس نے کائنات پیدا کی ، جس نے کائنات میں وسعت پیدا کی ( یہ بھی قرآن کریم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وسعت پیدا کر رہا ہے اس کا ئنات میں ) جس نے کائنات کی ہر مخلوق کی ا صفات میں وسعت پیدا کی.جو علم قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں حاصل ہوتا ہے یہ ہے کہ گندم کا دانہ جو دو سو سال پہلے پیدا ہوا تھا اس کی وہ صفات نہیں تھیں جو صفات اس دانے کی ہیں جو آج پیدا ہو رہا ہے.ہر وقت ہر آن خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنی مخلوق کے ہر حصے پر ظاہر ہورہے ہیں.تو ایک تو آیات کے یہ معنی ہیں اور دوسرے آیات کے معنی ہیں دعاؤں کا سننا اور قبول کرنا.عظیم انسان ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جنہوں نے بار بار ہمارے ذہن میں اور ہمارے دل میں یہ ڈالا کہ مایوس نہیں ہونا.دعا کر و خدا قبول کرے گا.یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ خالق اور

Page 241

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۷ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء مالک ہے قبول اس وقت کرے گا جب وہ چاہے گا لیکن یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے.کسی کی دعا ایک سیکنڈ میں قبول ہو جاتی ہے.میرا اپنا تجربہ ہے.ابھی منہ سے الفاظ نہیں نکلتے کہ دعا قبول ہو جاتی ہے اور کوئی دعا قبول ہوتی ہے سال بعد دو سال بعد ، تین سال بعد، چار سال بعد، جو دعا میں نے سپین کے ملک کے لئے کی کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام کی روشنی سے منور کرے، وہ قریباً نو ساڑھے نو سال بعد قبول ہوئی.مجھے بتادیا گیا تھا کہ جلدی قبول نہیں ہوگی ، اپنے وقت پر پوری ہوگی.کتنا بڑا احسان ہے.جو شخص یہ یقین رکھتا ہو اور خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے بعد اس مقام پر کھڑا ہو کہ وہ قادر مطلق جس کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں وہ میری دعا قبول کرے گا اگر چاہے گا.مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنی ہے دعا میں.دعا کو شرائط کے ساتھ کرنا ہے خدا تعالیٰ سے کبھی نا امید نہیں ہونا.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دعا کی قبولیت کا نشان امت محمدیہ کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑا دیا.تیسرے معنی آیت کے ہیں ،نشانات کا ظاہر ہونا.مثلاً خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بے شمار نشانات ظاہر کئے.نشانات یعنی اپنی قدرت کا نشان ( بغیر دعا کے نشان ہے یہ ) خدا تعالیٰ خود اپنے بندوں کی مدد کے لئے آتا ہے جب مدد کی ضرورت ہو.فراخی رزق کے لئے سامان پیدا کرتا ہے جب انہیں دشواری ہو، کھانے پینے کی چیزیں نہ مل رہی ہوں.اس وقت آسمان میں بادلوں کو حکم دیتا ہے موقع کے اوپر صحیح مقدار میں جاکے بارش برساؤ تا کہ میرے بندے جو ہیں ، بھوکے نہ رہیں.اسے ہم نشان کہتے ہیں.معجزات یعنی انہونی باتیں بظاہر وحی کے ذریعے ان کی بشارت دی جاتی ہے اور وہ کام ہو جاتا ہے بالکل ناممکن کام لیکن بشارت دی جاتی ہے، کام ہو جاتے ہیں.تیسرے معنی آیات کے یہ ہیں یعنی معجزات اور معجزات کے ساتھ ہی میں چوتھے معنی کو بریکٹ کر دیتا ہوں اور وہ مبشرات ہیں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی بشارتیں دیں ہیں مومنوں کو، جو ایک علیحدہ شعبہ ہے، روحانی زندگی کا.یہ دونوں میں نے معجزات اور مبشرات اس لئے اکٹھے کئے کہ مثلاً وَ لَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (ال عمران : ۱۲۴) ایک تو یہ معجزہ تھا

Page 242

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۸ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء کہ تین سو تیرہ غریب بھوکے، کمزور ہوئے ، ہوئے بھوک سے، مانگی ہوئی تلوار میں پھر زنگ آلود نیز کند تلواریں لے کر ایک عظیم لشکر (جس کی تعداد تین گنے سے بھی زیادہ تھی) کے مقابلہ میں آئے.سواریاں دشمن کے پاس تھیں ، زرہیں ان کے پاس تھیں، اچھی تلوار میں ان کے پاس تھیں.ہر طرح اچھے ہتھیاروں سے وہ لیس تھے اور اللہ تعالیٰ نے عظیم معجزہ دکھا دیا اس معجزے میں دعا بھی شامل تھی لیکن اگر کوئی دعا نہ ہوتی تو بھی خدا تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھانا تھا کیونکہ یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب آئیں گے اپنے مخالفوں پر.بشارت پہلے سے موجود تھی.اور پانچویں آیات کے معنی ہیں وہ آیات قرآنی جن آیات میں شریعت اور ہدایت کا ذکر ہے مثلاً یہ کہ نماز پڑھو، ذکر الہی میں مشغول رہو اور جماعت احمدیہ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نماز با جماعت فریضہ ہے.(اپنی شرائط کے ساتھ پڑھنا ) اور جو فرض ہو وہ خدا تعالیٰ کے غضب سے بچاتا ہے.فرض جو ہے اس کے ساتھ جب تک نفل نہ ملے وہ روحانی رفعتوں تک نہیں لے جاتا.اسی واسطے ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے جہاں فرمایا ( تاکیداً) کہ نماز میں ادا کرو اس کے ساتھ ہی آگے لگا دیا.وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ (العنکبوت: ۴۶) نماز کے اوقات جو تمہاری زندگی کے اوقات کا شاید چو بیسواں حصہ بھی نہیں.یعنی چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ نماز پر خرچ کرنے والے آدمی بھی ہیں لیکن وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ میں تو ہر بیدا رلمحہ ذکر میں آپ خرچ کر سکتے ہیں.صرف بیدا ر لمحہ ہی نہیں بلکہ اگر ذکر کرتے کرتے آپ سو جائیں تو اللہ تعالیٰ نیند کے لمحات جو ہیں وہ بھی ذکر میں شمار کر لیتا ہے، جزا دے دیتا ہے تو یہ جو آیات ہیں کئی سو جن میں احکام باری تعالیٰ ہیں ، اوامر و نواہی ، ان کو بھی قرآن کریم نے آیت کہا ہے.تو عظیم انسان مبعوث ہو گیا اور مومنین کا یہاں ذکر ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ان تمام مذکورہ نعماء سے فائدہ اٹھانے والا ہے مومن اور جو فائدہ اٹھانے والا ہے اس کے دل میں اپنے رب کریم کے لئے اور اپنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیار پیدا ہوتا ہے اور جو آیات شریعت اور ہدایت لے کے نازل ہوئیں انسان پر ، ( قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے اور آپ کے طفیل ) اس نے قرب الہی کی وہ رفعتیں مومنین کے لئے پیدا کر دیں کہ جو رفعتیں اس سے قبل کسی امت کے لئے پیدا نہیں ہوئیں.

Page 243

خطبات ناصر جلد نهم ۲۲۹ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء معراج میں آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی صرف چھٹے آسمان پر دیکھا تو ان کی امت چھٹے آسمان سے اوپر نہیں جاسکتی.چھٹے آسمان سے اوپر ان کی اُمت کا کوئی فرد نہیں جا سکتا تھا.جن کا نبی متبوع اس مقام سے اوپر نہیں گیا اس کے ماننے والے، اس کے متبعین کے لئے ممکن ہی نہیں ہے اپنے نبی متبوع سے او پر نکل جانا.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، معراج کا جو تجربہ تھا، مشاہدہ تھا، اس میں ساتویں آسمان سے بھی اوپر عرش رب کریم پر پہنچایا گیا آپ کو.اُمت کو بشارت دی ہے کہ پہلی قوموں کے انبیاء اپنی امت کو ، اپنے ایمان لانے والے مخلص صحیح معنی میں سچے مومن جو تھے ان کو چھٹے آسمان سے او پر نہیں لے جاسکتے تھے.جوان کے قدموں میں بھی بیٹھا ( کامل اس نے پیروی کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ آپ کے قدموں میں آ کے بیٹھانا ) وہ چھٹے آسمان تک پہنچ سکا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع چھٹے آسمان سے اوپر جا کر ساتویں آسمان کے اوپر کے حصے میں ، جہاں، جو بھی روحانی درجہ ( وہ لمبا مضمون ہے، اس میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا ) عرشِ ربّ کریم جو بھی چیز ہے، اس کے اس عرش کے قدموں کے نیچے بیٹھا ہوا ہے وہ اور کم از کم ایک آسمان کا فاصلہ ہے.وہ رفعتوں کے لحاظ سے زیادہ ہوگا.یہ عظمت ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو وہ لے کے آئے مومنین کے لئے جن سے مومنوں نے (یہاں مخاطب ہی مومن ہیں ) فائدہ اٹھایا.دوسری چیز آپ یہ لے کے آئے ویزکیھم - يُزگی میں بہت سا را ابہام لوگوں نے پیدا کر لیا.ابہام کوئی نہیں.آپ ایسی تعلیم لے کے آئے جو طہارت اور پاکیزگی پیدا کرنے والی ہے.طہارت اور پاکیزگی کا معیار تسلیم کرنا یا مقرر کرنا یہ انسان کا کام نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اس واسطے صحیح معنی ہیں اور بچے طور پر منی پاک کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے.آپ ایسی تعلیم لے کے آئے.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ یہ چار چیزیں ہیں.اس کے نتیجہ میں اور شریعت کے اوپر جو عمل کرنا ہے اس کے نتیجے میں امت محمدیہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کے اور امت مسلمہ کے مومنین کی جو جماعت صدیوں میں پیدا ہوئی اور گزری ان کے لئے یہ ممکن کر دیا کہ خدا کی نگاہ میں وہ پاک اور مطہر ہو جائیں اور سارے وعدے

Page 244

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳۰ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء ان کے حق میں پورے ہوں جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک مطہر اور مزکی کے لئے دیئے ہیں.مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا ہمکلام ہوگا.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: ۸۰) قرآن کریم میں ایک وعدہ یہ دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے مخفی معانی جن کا ضرورتِ زمانہ یا خطہ ارض کی ضرورت مطالبہ کر رہی ہے.وہ نئے نئے علوم پاک لوگوں کو سکھائے جائیں گے.قرآن کریم نے یہ وعدے کئے ہیں.بہت سارے وعدے ہیں.تفصیل میں جانا مشکل ہے.اس حقیقت کو قرآن کریم نے ایک جگہ اس طرح بیان کیا کہ وَ لَو لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُه اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی مَا زَ کی مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ آب ا ا تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک اور مطہر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہ ٹھہر سکتا وَلَكِنَّ اللهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ (النور : ۲۲) لیکن خدا جسے پسند کر لیتا ہے، اس کے اعمال کے نتیجہ میں ، اس کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نتیجہ میں ، اس عرفان کے نتیجہ میں جو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا حاصل کر سکا، خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے نتیجہ میں ، اسے وہ مُرسی قرار دیتا ہے.وَاللهُ سَمِيع خدا تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا ہے اس واسطے جو مطہر بننا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو موتی بنانے والا ہے اس سے یہ دعا کرے کہ اے خدا! ایسے اعمالِ صالحہ بجالانے کی ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تیری نگاہ میں پاک اور مطہر بن جائیں اور علیم کہہ کر یہ بتایا کہ انسانوں نے جو جائزے لئے اور اربعہ لگایا اور فیصلے کئے وہ تمہیں نہیں بنائیں گے مذی ، خدائے علیم جس کی نگاہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں جب اس کی نگاہ میں تم مزکی قرار دیئے جاؤ گے تو حقیقتاً تمہارے حق میں وہ بشارتیں پوری ہوں گی جو خدا تعالیٰ نے پاک اور مطہر لوگوں کو دی ہیں.تزکیہ کے لفظ کے متعلق بڑا اچھا نوٹ مفردات راغب ( جو قرآن کریم کی لغت ہے ) میں امام راغب نے دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ تزکیہ یہ ہے کہ أَنْ يَتَحَرَّى الْإِنْسَانُ مَا فَيْهِ تطهیره کہ انسان اپنی طرف سے ایسے اعمال بجالانے کی کوشش کرے جن میں اس کے لئے پاکیزگی ہو جنہیں وہ اپنے لئے پاکیزہ سمجھے اور وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں فاعل اللہ ہوتا ہے.اس لئے جو آیت میں نے پڑھی وَلَكِنَّ اللهَ يُزَرِّي مَنْ يَشَاءُ اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کبھی فاعل تزکیہ عطا کرنے کا اللہ ہوتا ہے لِكُونِهِ فَاعِلٌ لِذلِكَ فِي الْحَقِیقة کیونکہ حقیقی معنی میں خدا ہی کسی کو

Page 245

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳۱ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء پاک اور مطہر بنا سکتا ہے اسی واسطے کہتے ہیں وَلكِنَّ اللهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ صرف اللہ پاکیزگی عطا کر سکتا ہے.وہ کہتے ہیں کبھی فاعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں جو پہلی آیت میں نے پڑھی ہے اس میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے نا.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ - امام راغب کہتے ہیں کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک اور مطہر بناتے ہیں اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو حقیقی پاکیزگی خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عطا کرتے ہیں.معنی اس کے یہ ہیں کہ آپ پاکیزگی ان تک پہنچانے کا واسطہ بنتے ہیں کیونکہ آپ ایسی تعلیم لائے ، ایسا نمونہ پیش کیا اور ایسی آیات لوگوں کے سامنے رکھیں.اس لئے بطور فاعل آپ ان آیتوں میں آجاتے ہیں واسطہ ہونے کی وجہ سے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے پاک بنایا یہاں یہ مطلب ہے کہ آپ کے واسطہ سے اور آپ کے طفیل لوگ پاکیزگی اور طہارت حاصل کرتے ہیں اور کبھی احکام اوامر ونواہی کے متعلق آتا ہے قرآن کریم میں کہ یہ کام جو ہیں ، عبادات جو ہیں، احکام بجالانا جو ہے، یہ پاکیزگی پیدا کرتے ہیں.امام راغب کہتے ہیں یہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب وہ اعمال مقبول ہوجائیں تو ان کے ذریعہ سے انسان طہارت اور پاکیزگی خدا تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے.حقیقی ”مرگی “ جو ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لیکن مختلف معانی میں کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا گیا ہے کہ آپ پاک کرتے ہیں، کبھی احکام کے متعلق یعنی قرآن کریم کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ تعلیم پاک کرتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا ہے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) اپنے آپ کو پاک مت ٹھہرایا کرو.خوف اور خطرے کا مقام ہے کہ انسان اپنے آپ کو پاک قرار دے.اسی لئے خود کو پاکباز ٹھہرانے کی مذمت کی گئی ہے.مفردات راغب میں بھی یہ لکھا ہے.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكم اس کے انہوں نے دو پہلو لئے ہیں کہ ایسا کرنا مذموم ہے اور یہ کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے.دونوں چیزیں اس کے اندر آ جاتی ہیں.تو دو عظیم رحمتیں ، رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ، اُمت مسلمہ کے لئے ، نوع انسانی کے لئے عموماً اور جماعت مومنین کے لئے خصوصاً لے کر آئے جنہوں نے ان سے فائدہ اٹھایا.66

Page 246

خطبات ناصر جلد نہم ۲۳۲ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء تیسری عظیم چیز آپ لے کے آئے الکتاب.قرآن کریم کو قرآن کریم میں الکتاب کہا گیا ہے اور الکتاب کے شروع میں ہی ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ٣) کی آیت الکتاب کے صحیح اور پورے معنی بتارہی ہے.اس میں یہ بتایا گیا کہ میں جو خدائے عالم الغیب ہوں ، اس کتاب کو اتارنے والا ہوں تو اس کا Source ( سورس ) اور منبع جو ہے وہ عالم الغیب خدا کی ذات ہے یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا تعالیٰ کے علم سے خلعت وجود پہنا.اس لئے یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک وشبہ سے پاک ہے اور اس لئے یہ کتاب کامل متقیوں کے لئے بھی ہدایت ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی فطرت تدریجی ترقی کرتی ہے، جسمانی نشو و نما میں بھی ، اخلاقی نشوونما میں بھی اور روحانی نشونما میں بھی.تو ایک متقی جو ہدایت کی راہوں پر چل کے خواہ کتنا ہی بلند ہو جائے ، مزید بلندیوں کے دروازے اس پر اس عظیم کتاب کے ذریعہ سے کھولے جاتے ہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک فقرے میں اس سارے مفہوم کو بڑی خوبصورتی سے ادا کیا ہے.آپ فرماتے ہیں.یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک وشبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے اور ان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے (جہاں تک پہلے کوئی نہیں پہنچا ) تو یہ تیسری عظیم چیز جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے وہ الکتاب ہے جیسا کہ فرمایا يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ - اور چوتھی چیز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ ہے حکمت.اور حکمت کے معنی ہیں حقیقت کتاب اور حقیقت رسالت یعنی قرآن کریم کی اصطلاح کی رو سے جو اس کتاب کی حقیقت ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عظمت ہے اس کے دلائل پیش کرنا حکمت کے معنی میں شامل ہے.یہ قرآن کریم کی شان ہے کہ یہ انسان کو روشنی پر روشنی عطا کرتا چلا جاتا ہے، دلیلیں

Page 247

خطبات ناصر جلد نہم ۲۳۳ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء دیتا ہے.یہ نہیں کہتا کہ آنکھیں بند کرو اور مجھے قبول کرو بلکہ کہتا ہے آنکھیں کھولی رکھو اور مجھے قبول کرو یہ نہیں کہتا کہ اندھیروں میں رہو اور مجھ پر ایمان لاؤ.کہتا ہے کہ اپنے سینوں کو اللہ اور محمد کے نور سے منور کر لو اور میری بات کو مانو.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ حقیقت کتاب اور حقیقت رسالت کے جو دلائل ہیں ان سے معرفت پیدا ہوتی ہے یعنی انسان یہ پہچانتا ہے کہ یہ کتاب ہے کیا چیز اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کیا ہے.ایک تو معرفت ذات وصفاتِ باری ہے وہ علیحدہ مضمون ہے.یہاں بات ہو رہی ہے معرفت و عرفانِ حقیقت کتاب اللہ اور حقیقت رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے فرمایا کہ یہ معرفت موہبت ہے.معرفت سے پہلے کی حالت سکون کے مشابہ ہوتی ہے اور معرفت کا حصول حرکت کے مشابہ ہوتا ہے اور اس حرکت کا انحصار موہبت پر ہے.بچہ سکون کی حالت میں ہوتا ہے.بلوغت کا وہ لمحہ جو ان پہلوؤں سے سکون سے حرکت میں آتا ہے وہ حرکت اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے یعنی بغیر عمل کے اور بغیر حق کے رحمانیت کی صفت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی حق نہیں ہے، کوئی عمل نہیں ہے، کوئی دعا نہیں ہے، کوئی اتباع نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور رحمت اور موہبت ہے ، اس سے یہ حرکت شروع ہوتی ہے.آپ نے فرمایا نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ علت فیضان صرف موہبت سے ہے، يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ (فاطر:۹) یہ اس آیت کے معنی ہو گئے.اس کی تفصیل سمجھانے کا اس وقت ، وقت نہیں ہے.مگر پھر حرکت شروع ہو گئی نا.پھر معرفت میں انسان ترقی کرتا ہے.اعمالِ صالحہ اور حسنِ عمل یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں.ایک ہے عملِ صالحہ اور ایک ہے عمل صالح کا حسین طریق پر کرنا، تو یہ معرفت اعمالِ صالحہ اور حسن عمل کے شعور سے زیادہ ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الہی کے رنگ میں نمود پکڑ کر تمام صحن سینہ کو اس نور سے منور کر دیتی ہے جس کا نام اسلام ہے تو اسلام کے حصول کے لئے کیا چاہیے ہمیں؟ موہبت الہی.اپنی کسی کوشش کا اس میں دخل نہیں.معرفت شروع ہوتی ہے موہبت سے.اس واسطے یا درکھیں کہ اسلام پر کسی انسان کا نہ احسان ہوسکتا ہے نہ ہوا بلکہ اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان اور شریعتِ اسلامیہ کا احسان ، اسلام کا احسان ہر مومن پر، ہر انسان کے اوپر

Page 248

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳۴ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء ہے.بڑی دلیری ہو گی کسی کا یہ سمجھنا کہ اس نے احسان کیا ہے اسلام پر.کوئی احسان نہیں کرسکتا اسلام پر.اسلام کا احسان ہے سب پر.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قُلْ العَلِمُونَ اللهَ بدينكم (الحجرات: ۱۷) وقت زیادہ ہو گیا ہے اس کا میں ترجمہ پڑھ دوں گا.آپ مطلب سمجھ جائیں گے میرا.تو کہہ دے کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنے دین سے واقف کرتے ہو.یعنی اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص جاکے یہ کہے کہ اے میرے رب! میں بڑا متقی ہوں، میں بڑا پرہیز گار ہوں.Mental Hospital ( مینٹل ہاسپٹل ) میں تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے اپنے ہوش وحواس میں نہیں کہ سکتا خصوصاً قرآن کریم کی روشنی میں.تو کہہ دے کیا تم اللہ کو اپنے دین سے واقف کرتے ہو اور اللہ تو اس کو بھی جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ ہر ایک چیز جانتا ہے اور پھر کہا يَمْشُونَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوا وہ اپنے اسلام لانے کا تجھ پر احسان جتاتے ہیں.مومنین کی جماعت نہیں، یہ دوسری جماعت ہے یعنی اسلام تو لے آئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ احسان جتاتے ہیں اپنے اسلام لانے کا حالانکہ جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بنیادی احسان ہیں انسان پر اور پھر ان کی شاخیں ہیں.تو احسانِ مجسم ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ان کے او پر کس نے احسان رکھنا ہے.یا اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو کچھ ملا ہمیں وہ اسی سے ملا اور اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور وہ اپنے اسلام لانے کا احسان تجھ پر جتاتے ہیں.تو کہہ اپنے اسلام لانے کا احسان مجھ پر نہ رکھو.حقیقت یہ ہے کہ تم کو ایمان کی طرف ہدایت دینے کا تم پر احسان ہے.اگر تم ایمان کے دعوئی میں بچے ہو تو اس حقیقت کو قبول کرو.اللہ آسمانوں کا غیب بھی جانتا ہے اور زمین کا بھی اور اللہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں.فیصلہ اس نے کرنا ہے کہ کون مومن ہیں حقیقی ، جن کو الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا قرآن کریم میں کہا گیا ہے اور کون وہ ہیں جو اسلام تو لائے لیکن ابھی ایمان کی روح ان کے اندر داخل نہیں ہوئی.قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمُ (الحجرات: ۱۵) کہ ایمان تمہارے سینوں میں، دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا وہاں یہ فرمایا کہ تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں ولکن قُولُوا اسلمنا لیکن ہم تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہ لو تو وہ شخص جس کا دل

Page 249

خطبات ناصر جلد نہم ۲۳۵ خطبه جمعه ۲۱/اگست ۱۹۸۱ء ایمان سے خالی ہے اور اس کے باوجود جسے خدا تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے کیا وہ اسلام پر احسان جتلائے گا یا اللہ تعالیٰ پر احسان جتلائے گا کہ ہم اسلام لے آئے ہیں.تو دعائیں کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح معنی میں اور پورے طور پر مُؤْمِنُونَ حَقًّا کے گروہ میں شامل کرے اور وہ تمام فیوض اور برکتیں اور افضال اور رحمتیں جن کی بشارتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مومنین کے گروہ کو دی ہیں اس کے آپ بھی وارث ہوں اور آپ کی نسلیں بھی وارث ہوں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۸/اکتوبر ۱۹۸۱ء صفحه ۳ تا ۶ )

Page 250

Page 251

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳۷ خطبه جمعه ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر بچہ کے کان میں ڈالیں کہ اللہ کسے کہتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۸ اگست ۱۹۸۱ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ.کراچی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اگر ایک چھوٹی سی زمین میں زیادہ درخت لگے ہوں تو پنپتے نہیں.اگر ضرورت کے مطابق مسجد وسیع نہ ہو تو تربیت کے بہت سے کاموں میں روک پیدا ہو جاتی ہے.کراچی کی جماعت ہمت کرنے والی جماعت ہے اور میرے اندازہ کے مطابق اس وقت جماعت کراچی کو کم از کم چار ایکڑ زمین کی ضرورت ہے جمعہ اور عید کی نماز کے لئے.اس کی طرف فوری توجہ کرنی چاہیے.دین کی ذمہ داریاں اس طرح بدلتی نہیں جس طرح دنیا کی ذمہ داریاں بدلتی رہتی ہیں.دُنیوی لحاظ سے ایک نئی نسل ، بدلے ہوئے حالات کے مطابق ایک بدلی ہوئی نئی نسل ہوتی ہے.اگر وہ پرانی ڈگر پر چلنے والی ہو تو ترقی نہیں کرسکتی.اگر یورپ کی نسلیں آج اسی ڈگر پر چلنے والی ہوتیں جس پر وہ دو سو سال پہلے چل رہی تھیں جب وہاں سائنس نے ترقی نہیں کی تھی ، تو سائنس بھی ترقی نہ کرتی اور دنیوی لحاظ سے اس مقام تک وہ نہ پہنچتے.تو نئی ایجادات اور Discoveries (ڈسکوریز) جو ہیں ان کے ساتھ نئی نسلوں کے قدم نئی راہوں پر اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اس قسم کی تبدیلی جو ہے کہ جہت بدل جائے وہ دین میں نہیں.

Page 252

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳۸ خطبه جمعه ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء دین کی بنیاد مستحکم ہے.دین کا راستہ جسے ہم صراط مستقیم کہتے ہیں.بڑا فراخ ہے قرآن کریم کی ہدایت کے آنے کے بعد بڑا وسیع بھی ہے ، روشن بھی ہے اور اپنے اندر وہ تمام صلاحیتیں رکھتا ہے کہ نئے تقاضوں کو نئی نسلیں اخلاقی اور روحانی طور پر پورا کرسکیں.اس مسئلے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا میں بسنے والے (میں اس وقت پاکستان کی بات نہیں کر رہا) بہت سے ایسے مسلمان بھی ہیں (پاکستان سے باہر ) جو بعض دفعہ مجھے یہ کہتے ہیں کہ چودہ سو سال گزر گئے قرآن کریم کو نازل ہوئے ، دنیا بدل گئی، دنیا کے حالات بدل گئے ، دنیا کا معاشرہ بدل گیا.دنیا کی ضروریات بدل گئیں، دنیا کا علم کہیں سے کہیں پہنچ گیا.چودہ سو سال پرانی کتاب ہماری ضرورتوں کو آج پورا کر سکتی ہے؟ میرا جواب ہر ایسے شخص کو اور میری نصیحت ہر احمدی کو، بڑا ہو یا چھوٹا ، یہ ہے کہ ہاں پورا کر سکتی ہے.اس لئے کہ قرآن کریم جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے ایک کامل کتاب کی شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل کیا.اس کے اندر یہ تمام خوبیاں اور طاقتیں اور وسعتیں اور لچک پائی جاتی ہے کہ بنیادی حقائق کو بدلے بغیر ، بنیادی حقائق پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ، نئے تقاضے جو ہیں زمانہ کے، انہیں پورا کیا جا سکتا ہے.ایک جرمن غیر مسلم محقق نے ایک کتاب لکھی ہے.بائییل قرآن اور سائنس ( دور حاضر کی جو سائنس ہے ) اور اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے قرآن کریم کے متعلق ، جس کی میں بات کر رہا ہوں کہ میں (جرمن محقق.ناقل ) نے قرآن کریم کے بہت سے احکام کا موازنہ کیا دور حاضر کی سائنس سے، تو ایک حکم بھی مجھے ایسا نہیں ملا جو اس کے خلاف ہو اور متضاد ہو.تو جو چیز ایک صاحب فراست غیر مسلم کو نظر آجاتی ہے اگر وہ ایک مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کی نظر سے اوجھل رہے تو بڑی بدقسمتی ہو گی.اس کے لئے ضروری ہے کہ جو بڑی عمر کے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ذَكَر فَإِنَّ الذِكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الدريت : ۵۶) یاد دہانی کا ، آپس میں باتیں کرنے کا، جو نئے مسائل ہمارے سامنے پیش ہوتے ہیں ان کا ذکر ہوتا رہے تاکہ ہمارے حافظے کی کمزوری ہمارے ایمان پر اثر انداز نہ ہو جائے اور جو ہماری ابھرنے والی نسلیں ہیں وہ حقیقتیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، ان کے سامنے آنی چاہئیں تا کہ

Page 253

خطبات ناصر جلد نهم ۲۳۹ خطبه جمعه ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء آنے والی نسل، نئی ابھرنے والی نسل دنیا کے نئے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری اٹھانے والی نسل ہو اور دین اسلام کی عظمتوں اور اس کی خوبیوں اور اس کے حسن اور اس کے نور اور اس کی ہدایت کی جو مختلف شاخیں ہیں ان کا اس کو علم ہو.یہ جو Change ( چینج) اور تبدیلی ہے نوجوان نسلوں میں، یہ ہمیشہ بہتری کی طرف حرکت نہیں کر رہی ہوتی بلکہ بسا اوقات تنزل کی طرف کر رہی ہوتی ہے.مثلاً اسلام نے توحید پر، خدا تعالیٰ کے واحد و یگانہ ہونے پر اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن اگر نئی نسلوں کو صحیح طور پر سنبھالا نہ جائے تو وہ توحید سے پرے ہٹ جاتی ہیں.توحید سے پرے ہٹنا تو اتنی بے وقوفی ہے کہ اس سے زیادہ میرے نزدیک کوئی حماقت نہیں ہوسکتی کیونکہ جتنا سوچا میں نے اور جتنا سوچا ساری دنیا کے سائنس دانوں نے ، وہ اس نتیجہ پر پہنچے (اور جو نہیں پہنچے تھے وہ اب پہنچ رہے ہیں) کہ خدائے واحد ویگانہ اور اس کی عظمتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا.ایک اندھیرے کا زمانہ آیا تھا درمیان میں لیکن اب آہستہ آہستہ روشنی پیدا ہورہی ہے.اس لئے ضروری ہوا کہ ہم گاہے گاہے دوستوں کے سامنے جو بنیادی تعلیم ہے اسلام کی ، اس کا ذکر کرتے رہیں اور یہی مضمون اس خطبہ کے لئے میں نے چنا ہے اور تین باتیں میں اس وقت بیان کروں گا.(۱) اللہ کے متعلق (۲) قرآن عظیم کے متعلق (۳) اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ کے متعلق ہمارا عقیدہ ( میں ہمارا جب کہتا ہوں تو اس سے مرادساری جماعت ہے کیونکہ جماعت اور جماعت کے امام میں کوئی فرق نہیں ) یہ ہے کہ اللہ واحد و یگانہ ہے.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری:۱۲) اس کی مثل اس کائنات میں نہ کوئی تھی ، نہ ہے ، نہ ہوسکتی ہے لیکن بعض لوگ شبہ میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ انسان کو اللہ کا عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس سے یہ امید رکھی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنے اندر پیدا کرے گا اور خدا تعالیٰ کے

Page 254

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۰ خطبه جمعه ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء اخلاق اس کی زندگی میں ظاہر ہوں گے.اس لحاظ سے وہ کچھ مشابہت رکھتا ہے لیکن مثل نہیں.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ خدا تعالیٰ کی مثل نہ کبھی ہوئی ، نہ ہے ، نہ کبھی ہوگی.وہ صمد ہے، وہ غنی ہے اس معنی میں کہ اسے کسی غیر کی احتیاج نہیں.اس لئے کہ اس کی عظمتوں کی یہ شان ہے کہ جب وہ کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس سے زیادہ اسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کہ (کن) حکم دے کہ ایسا ہو جائے تو وہ ہو جاتا ہے.جو اس قسم کی طاقت رکھنے والا ہمارا رب کریم ہے اسے کسی کی احتیاج کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہر غیر کو اس کی احتیاج ہے اور جب میں ”ہر غیر کو اس کی احتیاج ہے“ کا فقرہ بولتا ہوں تو میں سچ مچ یہ ایمان رکھتا ہوں کہ ہر غیر کو اس کی احتیاج ہے اور اس کے لئے ضروری تھا کہ ہر غیر کے ساتھ اس کا ذاتی تعلق ہو ورنہ ضرورت پوری نہ ہو اور احتیاج کا پتہ ہی نہ لگے.پس ہر غیر کو اس کی احتیاج ہے.وہ زندہ ہے اپنی ذات میں اور اس وقت تک ہر غیر زندہ ہے جب تک اس کے ساتھ تعلق رہے.اور وہ قائم ہے اپنی ذات میں اور غیر کو حاجت ہے اس بات کی کہ اس کا تعلق خدائے واحد و یگانہ، ی وقیوم.قادر مطلق کے ساتھ قائم ہو.اس کی حکومت ، اس کا امر اس کائنات میں چل رہا ہے پتہ اس کے حکم کے بغیر نہیں گرتا، قرآن کریم کا یہ بیان ہے درختوں کے متعلق.پت جھڑ کا ایک موسم آتا ہے.مختلف موسموں میں مختلف قسم کے درختوں کے مختلف طریقے سے جھڑتے ہیں.بعض درخت ہیں کہ سارا سال پت جھڑ ہوتی رہتی ہے اور سارا سال نئے پتے نکلتے رہتے ہیں.بعض درخت ہیں کہ موسم خزاں میں پت جھڑ ہوتی ہے اور پھر ساری سردیاں کوئی پتہ نہیں نکلتا اور ایک مردہ کی حیثیت میں وہ سردیاں گزارتے ہیں اور پھر موسم بہار میں نئے پتے نکل آتے ہیں اور بعض ایسے درخت ہیں جو موسم بہار میں پت جھڑ کرتے ہیں ، پتے جھڑتے ہیں اور اسی وقت نئے پتے نکل آتے ہیں.ہمارے کالج کی لاج میں جہاں میری رہائش تھی ایک ایسا درخت لگا ہوا تھا جو موسم بہار میں پت جھڑ کرتا تھا ، ساتھ ہی نئے پتے نکلتے تھے اس میں.ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ کہا کہ میرے حکم کے بغیر کوئی پتہ نہیں گرتا تو میں اس کا مشاہدہ کروں.میں نے ایک ٹہنی کو چنا.اس ٹہنی پر بہت سے سبز پتے تھے اور جہاں

Page 255

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۱ خطبه جمعه ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء وہ چھوٹی ٹہنی بڑی ٹہنی کے ساتھ خلال کی طرح ملاپ کرتی ہے وہ بھی سبز ، طاقت ور ، صحت مند تھی.نیز بہت سے ایسے پتے بھی تھے کہ پتہ زرد اور اس کے ملاپ والی ٹہنی بھی زرد.بس موت آئی کہ آئی، یہ کیفیت تھی اس کی.شام کو میں نے یہ دیکھا.صبح میں نے دیکھا کہ سبز پتہ نیچے گرا ہوا تھا اور زرد پتہ اپنی جگہ پر کھڑا تھا.اس سے ہمیں پتہ لگا کہ یہ عام قانونِ قدرت نہیں ہے کہ جو زرد ہو وہ مرجائے اور زمین پر گر پڑے بلکہ حکم نازل ہوتا ہے ہر پتہ پر.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وضاحت سے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوتا ہے تب پتہ گرتا ہے.خدا تعالیٰ واحد ہے اور سب سے بڑا گناہ شرک ہے.ایک احمدی کی زندگی میں کسی قسم کا بھی کوئی شک نہیں ہے، نہ ہونا چاہیے.نوجوان نسل اچھی طرح یا در کھے.ہم مشرک نہیں ، اس معنی میں بھی مشرک نہیں کہ ہم بتوں کی پرستش نہیں کرتے.وہ بت جو انسان نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اس کی پرستش کرنی شروع کر دی.قرآن کریم نے انہیں ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ اپنے ہاتھ سے (بت) بناتے ہو اور پھر ان کی پرستش کرنی شروع کر دیتے ہو.کچھ عقل بھی ہے تمہارے اندر؟ یہ بالکل نا عقلی کی بات ہے نا.ایسے بت بھی ہیں یعنی انسان، جنہیں خدا نے ان کی پاک بازی کی وجہ سے عظمت دی تھی پھر ان کے مریدوں نے ان کی قبر کی پرستش شروع کر دی.بڑا ظلم ہے ایک بزرگ کی قبر پر جا کر سجدہ کرنا یا نماز اس کی طرف منہ کر کے پڑھ لینا.بہر حال میں اپنا ذکر رہا ہوں ، جماعت احمدیہ قبر پرستی نہیں کرتی.یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے، یہ ہمارا عمل نہیں ہے.ہم یہ جانتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے سامنے جھکتا ہے وہ اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے.اور ہم مشرک نہیں اس معنی میں بھی کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے رفعت اور بزرگی اور پاک بازی حقیقتا حاصل کرتے ہیں، ہم ان کی بھی پرستش نہیں کرتے.ان کی عزت کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں ، دعا ئیں ان کے لئے کرتے ہیں اور اگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعے سے کسی کو ہدایت دینا چاہے تو ہم دعا کرتے ہیں کہ جو برکت انہوں نے خدا سے لی ہے اسے وہ زیادہ حاصل کریں لیکن ہم اس کی پرستش نہیں کرتے.پرستش ہم اس عظیم انسان کی بھی نہیں

Page 256

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۲ خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۸۱ء کرتے.محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جسے خدا نے ساری کائنات کے لئے رحمت بنا کے بھیجا تھا اور ہمیں اس کی پرستش سے روکنے کے لئے کہا تھا عَبُدُهُ وَرَسُولُه محمد پہلے میرے عبد ہیں اور پھر میرے حکم سے میرے رسول ہیں اور کہا تھا کہ دنیا میں یہ پکار کے کہہ دو إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الکھف : ۱۱۱) بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.شرک ہم دولت کا بھی نہیں کرتے دولت مندوں کے آگے لوگ جھک جاتے ہیں.یہ بھی دیکھتے ہوں گے آپ.مگر سر جھکانے کے لئے تو ایک ہی در ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا در ہے.شرک ہم طاقت واقتدار کا بھی نہیں کرتے.ٹھیک ہے اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ (ال عمران : ۲۷) خدا تعالیٰ کے فعل ہیں جس کو چاہے دے دے لیکن ہمارا معبود نہیں بن جاتا وہ (اقتدار ) کہ ہم اس کے سامنے جھکیں اور اس کی عبادت کرنی شروع کر دیں.چونکہ اس قسم کی کمزوریاں انسانوں میں پیدا ہو سکتی تھیں اس لئے فرمایا فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوني (البقرة :۱۵۱) ایسے لوگوں کا کوئی خوف تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہو.صرف میری ذات ہے جس کی خشیت تمہارے دل میں پیدا ہونی چاہیے اس معنی میں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے کسی فعل کے نتیجہ میں ہمارا رب ہم سے ناراض ہو جائے اور ہماری ہلاکت کے سامان پیدا ہوں.شرک ہم اپنی ذات کا بھی نہیں کرتے.شرک ہم اپنی طرف سے جو قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کر رہے ہیں ان کا بھی نہیں کرتے کہ ہم نے بہت کچھ دے دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے سب کچھ کر کے سمجھو کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا.خدا تعالیٰ کو نہ ہمارے رکوع و سجود کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کو نہ ہماری اوقات کی قربانی ، نہ جان کی قربانی کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ کو نہ ہمارے مال کی ضرورت ہے.جنہوں نے اس کو نہیں سمجھا انہوں نے کہہ دیا.اللہ فقیر ہے ہم غنی.بیوقوف انسان ! جو مالک کل ہے وہ فقیر کیسے بن گیا؟ اور جس کے پاس چھوٹی سی اسی کی پیدا کردہ دولت آگئی وہ چمنی کیسے بن گیا؟ میں مثال دے کے آپ کو سمجھاؤں.جس کے پاس دولت ہے ایک فائدہ اس کو یہ ہے کہ خوب اچھا کھانا کھائے.ہے نا فائدہ؟ لیکن

Page 257

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۳ خطبه جمعه ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء میں نے دولت مند دیکھے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو پیسہ دیا اور معدے بیمار کر دیے.وہ مجبور ہو گئے غریب تر انسان کا کھانا کھانے پر کسی کام نہیں آئی دولت.ایسے بیمار دیکھے ہیں کہ دنیا کا بہترین لباس پہن سکتے ہیں لیکن اس قسم کی Irritation ( اریٹیشن ) خراش ان کے خون کے اندر پیدا کی کہ وہ ململ کا بوجھ بھی نہیں برداشت کر سکتے.تو دولتمند ہونا کس کام آیا ؟ خدا تعالیٰ جو خالق کل، مالک کل ہے اس کو تو ضرورت نہیں ہے آپ کی دولت کی.اپنے نفس کی پوجا بھی نہیں کرنی قرآن کریم نے کہا ہے کہ بعض لوگ اہواء نفس کی پرستش کرتے ہیں ( قرآن کریم کی باتیں میں کر رہا ہوں اس وقت ).شرک کے متعلق یہ بتایا ہے (أَهْوَانَّهُمْ ) نفسانی خواہشات کی پوجا کرنے لگ جاتے ہیں بہت سارے لوگ.حالانکہ پرستش تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات کی ہونی چاہیے اور اچھے خاندان کا ہے کوئی ، اچھے ماحول میں پرورش پائی ہے.اچھا ذہن خدا تعالیٰ نے دیا ہے.ذہن خدا تعالیٰ نے دیا ہے.آپ نے فراست اور ذہانت جو ہے اس کی بھی پرستش نہیں کرنی.جو ذہن دیتا ہے، وہ ذہن لے بھی لیا کرتا ہے.ایک طالب علم ہمارے ساتھ کالج میں داخل ہوا.بہت ہی چوٹی کے لڑکوں میں سے تھا اور خیال تھا کہ وہ I.C.S ( آئی سی.ایس ) میں چلا جائے گا.وہ اسی کی تیاری کر رہا تھا اپنی سمجھ کے مطابق.جب ہم گورنمنٹ کالج میں جاتے تو ہمارا انتظار کر رہا ہوتا گالیاں دینے کے لئے جماعت احمدیہ کو.بڑا متعصب تھا.ہمیں تو کہا گیا ہے گالیاں سن کر دعا دو.ہم اسے دعا دے دیتے تھے.وہ ہمیں گالیاں دے دیتا لیکن خدا تعالیٰ سے نہ کوئی چیز چھپی ہے، نہ کوئی اس کی طاقت سے باہر ہے جس نے I.C.S ( آئی سی.ایس ) کا امتحان دینا تھاوہ انٹر میڈیٹ کے امتحان کے وقت پاگل خانے میں تھا.جو ہستی ذہن دے سکتی ہے وہ ذہن واپس بھی لے سکتی ہے.کس بات پر فخر کرے گا انسان.کیوں اپنے ذہن کی پرستش شروع کر دی.اپنے نفس کی پرستش بھی نہیں کرنی.یہ جو فنا“ ہے نا اس سے وحدانیت پر ایمان کا منبع پھوٹتا ہے.فنا کے مقام کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہر چیز کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.پھر یہ دیکھو کہ جتنا جتناوہ پسند کرتا چلا جائے گا، اتنا اتنا پیار کرتا چلا جائے گا.اور باقی دو باتیں جو رہ گئیں یعنی قرآن عظیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، یہ پھرا گلے جمعہ.انشاء اللہ.

Page 258

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۴ خطبه جمعه ۲۸ /اگست ۱۹۸۱ء ایک اور بات جب Deliverance of the Christ from the cross کا نفرنس ہوئی اس میں جو میں نے پیپر (Paper) پڑھا اس کا پہلا فقرہ یہ تھا:.66 The Unity and Oneness of God is the basic truth of this Universe.یہیں سے ساری Universe (یونیورس) عالمین کا وجود ابھرا.پس لا إِلهَ إِلَّا اللهُ کا تعلق کسی ایک خطہ ارض یا کسی ایک Planet یا کسی ایک Galaxy ( کلیلیکسی ) یا بہت سی (گیلیکسیز ) کا جو مجموعہ ہے اس کے ساتھ نہیں بلکہ ساری کائنات جو ہے ہر آن جس )Galaxies ت ہے، میں وسعت پیدا ہورہی ہے، ( قرآن کریم میں آیا کہ وہ موسع ہے، وسعت پیدا کرتا ہے اور یہ حقیقت سائنس نے آج مانی ہے ) پس جو ہر آن وسیع سے وسیع تر ہونے والی کائنات Universe (یونیورس) ہے.عالمین ہے، اس کی بنیاد ہے.لا الہ الا اللہ کسی ایک چھوٹے سے حصے میں لا الہ الا اللہ کو قید یا محدود نہیں کیا جاسکتا.یہ ساری Galaxies ( گیلیکسیز ) کسی غیر معین ، نامعلوم جہت کی طرف حرکت کر رہی ہیں اور ان کی حرکت Parallel نہیں.یہ نہیں کہ آپس کا فاصلہ ہمیشہ قائم رہے بلکہ اس حرکت کے نتیجے میں Galaxies ( گیلیکسیز ) کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے اور جب دو کیلیکسیز کے درمیان فاصلہ بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھ جائے کہ ایک اور گیلیکسی بے شمار سورج اپنے اندر سمیٹے وہاں سما سکے تو خدا تعالیٰ کُن کہتا ہے اور وہ وہاں پیدا ہو جاتی ہے.یہ ہے ہمارا رب.تو ساری کائنات جو ہے ( اور کائنات میں وسعت پیدا ہورہی ہے، اور یہ تو میں نے وسعت آپ کو بتائی ہے جو مکان کے لحاظ سے پیدا ہوئی ) اس کائنات کے ساتھ لا إِلهَ إِلَّا اللہ کا تعلق ہے.ایک اور وسعت ہے جو ہر فرد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.ایک عاجز انسان نہ مکانی وسعتوں کی ، نہ اندرونی وسعتوں کی حدوں کو چھو سکتا ہے لیکن دعوی کرتا ہے کہ ہم اپنے رب کی صفات کو بعض دائروں کے اندر محدود کرنے کی اہلیت اور طاقت رکھتے ہیں انا للہ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة: ۱۵۷) نہیں رکھتے ہم یہ طاقت.اور ایسے شرک سے احمدیوں کو بچنا چاہیے.خدا تعالیٰ رَبِّ KURDALANGANA ہے اور ANTALLAT ہر دو پہلوؤں سے وسعت پذیر ہے اور اس

Page 259

خطبات ناصر جلد نہم ۲۴۵ خطبه جمعه ۲۸ /اگست ۱۹۸۱ء عالمین کا بحیثیت مجموعی اور بحیثیت افراد کے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم رہنا ضروری ہے.جس چیز پہ میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو دینِ اسلام کے حقائق اور صداقتیں ہیں انہیں اپنے ذہن میں حاضر رکھنا اخلاقی اور روحانی ترقیات کے لئے ضروری ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو ہم یا ہماری آنے والی نسلیں قرآن کریم کی ہدایت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ سے پرے ہٹ کے نہیں حاصل کر سکتیں.خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے ہم نے ، ہماری ہر نسل نے ، اس کے لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر بچے کے کان میں ڈالیں کہ اللہ کسے کہتے ہیں.میں نے بعض گھروں میں دیکھا ہے.بڑے پیار کے ساتھ ، بڑے پیارے طریقے سے چار پانچ سال کے بچے کے کان میں وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت ڈال رہے ہوتے ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ ہی اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے گا.ان کا جواب تو خدا نے یہ دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ہدایت دے دیتا.تو جو ذمہ داری اس نے انسان پر ڈالی ، انسان کو پوری کرنی ہے.اس لئے ذمہ داری ڈالی کہ انسان اس کے پیار کو حاصل کرے اگر پیار حاصل کرنا ہے اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں.ادھر ادھر مت دیکھیں اس وقت غلبہ اسلام کا زمانہ آ گیا.دشمنی سے نہ گھبرائیں.ان کا دل جیتنے کے لئے ، ان کے لئے دعائیں کرنے کا زمانہ آ گیا.ان پر شفقت کرنے کا زمانہ آ گیا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۱ء صفحه ۳ تا ۶)

Page 260

Page 261

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۷ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۱ء ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم الرَّسُول النَّبِی اور الاقی ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۱ارستمبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.تیرہ مہینے جو مجھے اینٹی بائیوٹک کھانی پڑیں اس کا اثر آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے لیکن پوری طرح ابھی طاقت بحال نہیں ہوئی.خدا کرے کہ اس کا اثر جلد دور ہو.اللہ اپنا فضل کرے.آمین.پچھلے سے پچھلے جمعہ کراچی میں مجھے خیال آیا کہ جو بنیادی صداقتیں ، حقائق اور ہمارے عقائد ہیں ان پر بھی گاہے گاہے بات ہوتی رہنی چاہیے کیونکہ بہت سے دوست باہر سے آکر ہم میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے ہم میں سے ذہنی طور پر طفل کی حالت سے نکل کے سمجھ اور جوانی کی حالت میں داخل ہوتے ہیں.ان کے سامنے یہ باتیں آتی رہنی چاہئیں ورنہ شیطان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بدعات کو صحیح عقائد کے اندر گھسیڑنے کی کوشش کرے.بعض دفعہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے.میرا خیال تھا کہ تین بنیادی باتوں پر میں ایک ہی خطبہ میں کچھ کہہ دوں گا.ا.اللہ تعالیٰ کے متعلق جو ہمارا عقیدہ ہے.۲.قرآن کریم کی عظمتوں کو جو ہم نے سمجھا ہے اور ۳.محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی جوشان ہے قرآن کریم میں بیان ہوئی ، اس کے متعلق میں کچھ کہوں گا لیکن کچھ تو گرمی لمبے خطبے

Page 262

خطبات ناصر جلد نہم ۲۴۸ خطبہ جمعہ ۱۱ارستمبر ۱۹۸۱ء کی راہ میں روک ہوئی، کچھ مضمون لمبا ہوا.بہر حال پہلے خطبہ میں میں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق بتایا.بہت کچھ بتایا.سب کچھ تو نہیں بتا سکتا.خدا کی ذات تو نہ ختم ہونے والی تجلیات والی ذات ہے.بہر حال جو بتایا اس کا خلاصہ ایک فقرے میں یوں کروں گا اس وقت کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بے مثل ہے اور ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک اور لَهُ الاسماء الْحُسْنٰى ( الحشر : ۲۵) تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.وہاں تفصیل بتائی تھی.قرآن کریم کے متعلق جو میں نے خلاصہ آخر میں خطبے کے ایک ایک فقرہ کہا وہ میں دہرانا چاہتا ہوں تا کہ تسلسل آپ کے دماغ میں تھوڑا بہت قائم ہو جائے وہ یہ.(۱) قرآن کریم کے متعلق قرآن کریم کے اپنے دعوی کے مطابق قرآن عظیم ایک کامل کتاب ہے اس معنی میں کہ قیامت تک کے لئے انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی یہ کتاب ہے.(۲) اپنی وسعت اور حدود میں ہر ضروری چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے.(۳) اپنے سے باہر کسی شے کا محتاج نہیں.مفردات راغب نے امت کے یہ معنی کئے ہیں کہ اس کی یہ صفت ہے.یہ جو اتممت کا لفظ ہے یہ اس صفت کو بتاتا ہے کہ خارج کی کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے اس کو اتممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى (المائدة : ۴) ساری کی ساری نعمتیں قرآن کریم کے ذریعے پوری کر دی گئیں.اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی پیروی کا جہاں تک تعلق ہے اور اس کی رضا کے حصول کا جہاں تک تعلق ہے قرآن سے باہر کوئی ایسی چیز نہیں جس کی انسان کو ضرورت ہو.(۴) یہ کہ قرآن عظیم حکیم حکمتوں کا خزانہ ہے.بصائر ہیں اس کے اندر.دلیل دیتا ہے، وجہ بیان کرتا ہے.انسانی فطرت اور انسان کی عقل کو تسلی دلاتا ہے.حق و باطل میں فرق کر دیتا ہے.(۵) یہ کہ قران " ہے.ہمیشہ پڑھی جانے والی کتاب.قرآن اس وجہ سے ہے کہ اس کی ضرورت قیامت تک کے انسان کو کثرت سے پڑتی رہے گی اور چونکہ ضرورت پڑتی رہے گی ،، اس واسطے یہ کثرت سے پڑھا بھی جائے گا قرآن.(۲) عَرَبِيًّا اپنا مطلب کھول کر بیان کرنے والا ہے.

Page 263

خطبات ناصر جلد نهم ۲۴۹ خطبہ جمعہ ۱۱ار ستمبر ۱۹۸۱ء (۷) بشارات سے معمور ہے.محض ذمہ داریاں نہیں ڈالتا.محض ترقیات کی راہ کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ جو خدا کے ہو جاتے ہیں، ان کے لئے اس قدر عظیم بشارتیں اس کے اندر پائی جاتی ہیں کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے.(۸) تنبیہ کرنے والا ہے.بڑا احسان ہے.یہ جو انذار کا پہلو ہے، یہ حد و دکو قائم کر کے کہتا ہے اللہ کہ یہ میری حدود ہیں ان سے باہر نہ نکلنا ، بچ کے رہنا.(۹) یہ کہ ہر ضروری تعلیم مختلف پیرایوں میں بیان کرنے والا صرفنا مناسب حال بھی انسان کو چیز مل جائے اور مختلف طبائع کے جو میلان ہیں ان کے مطابق ان کی اصلاح کے دروازے کھولنے والا ہے.(۱۰) نور ہے.سب ظاہر وباطن کے اندھیروں کو دور کرنے والی یہ کتاب ہے.(۱۱) کتاب مبین ہے.ہر چیز اس نے کھول کے ضرورت کے مطابق سامنے رکھ دی.(۱۲) یہ کہ قرآن کریم صراط مستقیم پر چلانے کے لئے ہدایت ہے.(۱۳) رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ ہے.(۱۴) سراسر نصیحت ہے.(۱۵) تمام امراض سینہ کے لئے شفا ہے.ایک مرض اندھا پن ہے.وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج: ۴۷) قرآن کریم میں آیا ہے.مگر بہر حال تمام امراض سینہ کے لئے شفا ہے.(۱۶) دین اور معاش کے معاملات میں بصیرت دیتی ہے.(۱۷) کوئی کبھی اس میں نہیں لا عِوَج.عربی زبان میں ع.و.ج کا لفظ دو تلفظ رکھتا ہے.ایک یہ ہے عو مج (عین کی زبر کے ساتھ ) اس کے معنی ہیں مادی ٹیڑھا پن.مثلاً یہاں سے جو سڑک بنائیں ہم یا بنائی ہوگی تو اس میں کہیں نا کہیں ٹیڑھا پن آ گیا ہو گا.اس کو عِو ہے نہیں کہتے اس کو عوج کہتے ہیں عربی میں اور جو فکری اور عقلی اور سوچ اور بچار میں جو اللہ تعالیٰ کی مثلاً صفات کے متعلق انسان سوچ رہا ہو اگر اس میں کجی آجائے تو عربی زبان میں اس کو عو حج کہتے

Page 264

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۱ارستمبر ۱۹۸۱ء ہیں.قرآن کریم کی تعلیم بصیرت دیتی ہے، بصائر رکھتی ہے.ہر قسم کی بجھی سے محفوظ ہے اور نا کا می کی طرف لے جانے والی نہیں.(۱۸) روحانی رفعتوں کی کوئی حد نہیں مقرر کرتی یہ، بلکہ یہ اعلان کرتا ہے قرآن کریم کہ جہاں تک روحانی رفعتوں کا تعلق ہے غیر محدود رفعتوں کے دروازے اللہ تعالیٰ نے کھولے ہیں قرآن کریم کی شریعت میں هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ٣) ہے.(۱۹) طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی.صلاحیت اور فطرت کے مطابق مطالبے کرتی (۲۰) ئیسر کی تعلیم ہے تنگی اور عسر کی تعلیم نہیں.(۲۱) تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے.(۲۲) اسے دلائل سے پر کیا گیا ہے جو ہدایت کی راہیں روشن اور آسان کر دیتی ہے.(۲۳) حق و باطل میں تمیز کی توفیق بخشتی ہے.(۲۴) اس لئے نازل نہیں ہوا کہ انسان لتشقى (طه: ۳) انسان سعادت دارین سے محروم ہو جائے.اس لئے نازل ہوا ہے کہ انسان کو دینی، دُنیوی سعادت دارین جو ہیں وہ میسر آجائیں.ان کا حصول اس پر عمل کر کے ممکن ہو جائے.(۲۵) کتاب مبین ہوتے ہوئے یہ کتاب مکنون بھی ہے یعنی قیامت تک کی ضرورتیں ، ان کے جو مسائل تھے ، ان کی جو ضرورتیں تھیں ، مسائل کا حل اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسی تعلیم اس میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے کہ جو آج کے انسان کو ضرورت نہیں تھی اس پر وہ ظاہر نہیں کی گئی لیکن ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطہرین پیدا ہوتے ہیں جو زمانہ زمانہ اور جگہ جگہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے معلم حقیقی سے قرآن کریم کی تعلیم کو حاصل کرتے اور انسان کی ضروریات کو پورا کرنے والے ہیں.(۲۶) یہ کہ یہ اہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتی بلکہ انسان کی جو نفسانی خواہشات ہیں انہیں ٹھنڈا کرتی ہے اور اس وجہ سے یہ ذکر ہے.

Page 265

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۱ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۱ء یہ میرے پچھلے خطبے کا جو آخری خلاصہ میں نے چھیں پڑھ کے سنا یا تھا، مختلف آیات اس سے پہلے بیان کیں.آج ہے میرا مضمون تیسرا جو تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الرَّسُول ہیں، النَّبِی ہیں، الاقی ہیں.یہ بنیادی عقیدہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمارا.الرَّسُول ہیں اس معنی میں کہ جو وحی آپ پر نازل ہوئی آپ نے کامل طور پر اس کی تبلیغ کی اور آگے پہنچایا.الرسول ہیں، کامل رسول ہیں یعنی جو وحی نازل ہوئی اس کو آگے پہنچانے کے لئے دو رستے ہیں ممکن ، اصولی طور پر.ایک اقوال سے.قرآن کریم کی تفسیر کر کے، زبان سے نصیحت کرتے ہوئے ، لوگوں کو یاد دہانی کروا کے اس کو بھی کمال تک پہنچایا اور ایک فعل سے اس پر عمل کر کے بتایا.تو جہاں تک قول اور فعل کا تعلق ہے الرسول ہیں.کوئی ایسا رسول پہلے نہیں گزرا جس پر اس قدر عظیم ذمہ داری تھی اور اس نے اپنی عظمتوں کے نتیجہ میں جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کیں خدا تعالیٰ کے کلام کی عظمتوں کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب ہوئے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معنی میں الرسول مانتے ہیں..ہم مانتے ہیں کہ آپ النَّی ہیں.النَّبِی اس معنی میں ( نبی کہتے ہیں اس مطہر کو جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مطہر ہو اور خدا تعالیٰ بندوں کی اصلاح کے لئے اپنی وحی اس پر نازل کر رہا ہو.) تو النَّبِی ہیں یعنی کامل وحی کے حامل نبی.اور جو نباً جو اخبار ، جو وحی آپ پر اتری وہ اپنے کمال میں انتہاء تک پہنچی ہوئی ہے.اس واسطے آپ نبی نہیں آپ النَّبِی ہیں.اور بڑا پیارا یہ اعلان ہے کہ آپ آلامتی ہیں.قرآن کریم نے کہا.فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِي الأمّ الَّذِى يُؤْمِنُ بِاللهِ وَ كَلِمَتِهِ (الاعراف: ۱۵۹) تو امی کے معنی وہ ہیں جسے اپنے نفس میں خالی ، کچھ نہیں آتا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس اپنی ذات میں بالکل خالی ہے.یہ اعلان ہوا ہے اس واسطے جو کہا وہ خدا کے کہنے پہ کہا.جو معلّم حقیقی ہے اس کے بلائے پہ آپ بولے اور نہ خاموشی ہے چونکہ خدا تعالیٰ کے بلائے پہ بولے،اس واسطے

Page 266

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۲ خطبہ جمعہ ۱۱ ستمبر ۱۹۸۱ء جو وحی آپ پر نازل ہوئی النبی کے ، اس کے خلاف کوئی بات آپ کے منہ سے نکل ہی نہیں سکتی.یہ اعلان ہوا ہے الام میں کہ جو عظیم وحی اس النَّبِ کو ملی، یہ ممکن ہی نہیں تھا ( اس کی تفصیل میں اور آگے دوسری آیات سے لے کے آپ کو بتاؤں گا یہ ممکن ہی نہیں تھا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہ آپ کوئی ایسی بات کرتے یا آپ کا کوئی ایسا عمل ہوتا جو اس کے خلاف ہوتا.کیونکہ جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے.آپ محض ان پڑھ ہیں یعنی اپنی طرف سے آپ کچھ بیان کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ، قابل ہی نہیں.اپنی طرف سے کچھ بیان کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کی حامل وحی کو بیان کرنے کی اہلیت آپ رکھتے ہیں.جہاں تک اپنے نفس کا تعلق ہے آپ گونگے ہیں کہہ لو لیکن جہاں تک خدا تعالیٰ کی وحی کا تعلق ہے آپ جیسا خطیب کوئی نہیں.آپ جیسا شعلہ بیان کوئی نہیں.آپ جیسا تفصیل سے بات کرنے والا کوئی نہیں.آپ جیسا مختلف پہلوؤں کو خدا تعالیٰ کی وحی کے اجاگر کرنے والا کوئی نہیں.آپ جیسا ہر شخص کی قابلیت کے مطابق بات کرنے والا کوئی نہیں.اسی واسطے آپ نے کہا کہ ہر ایک کی سمجھ کے مطابق بات کیا کرو.تو الاق" میں یہ اعلان کیا کہ یہ کوئی خطرہ نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ملاوٹ النَّبِي کے بیان میں ہو جائے گی یعنی اس طرف سے پاک ہے.ایک تو إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لحفظُونَ (الحجر : ١٠) وہ دوسری طرف سے اس کو Protect ( پروٹیکٹ ) کیا ہے جہاں تک آپ کی ذات اور خدا تعالیٰ کے کلام کا باہر کا حصہ تھا.اندرونی طور پر اتی ہیں اور اُمّی ہونے پر فخر کرتے ہیں.یعنی آپ کے فخر کی جا یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے قابل نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر بات کہنے کے قابل بنا دیا گیا ہوں.یہ الامی میں بڑا پیارا اعلان ہوا.ہمیں حکم ہوا فَا مِنوا اس رسول پر ایمان لا والرَّسُول النَّبِي الْأُمِّي پر.اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس اللہ پر ایمان لاؤ جس نے الرَّسُول النَّبِي، الاقی کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا اور کھڑا کیا فَا مِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأرقي اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کیا اللہ تعالیٰ نے جو ہر چیز کا جاننے والا ہے.الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللهِ بِهِ الرَّسُولِ، یہ النَّبِي بِهِ الْأُمِّي جو ہے یہ کامل ایمان رکھتا ہے.اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) دوسری جگہ کہا.اللہ تعالیٰ

Page 267

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۳ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۱ء پر، اس کی صفات اور اس کی ذات کی کامل معرفت رکھنے والا.وَ گلمیہ اور جو وحی نازل ہوئی ہے اس کو جاننے والا اور اس کے مطابق عمل کرنے والا ہے ایمان لا دَوَاتَّبِعُوهُ اور اس کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ.یہ ہے ہمارا عقیدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق.کوئی دنیا کا رسول، کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول آئے ، کوئی بھی ان میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں تھا ہی کچھ نہیں ، کہنا چاہیے.کیونکہ بہت ساری ان کے اندر حدود تھیں.ان کو خدا تعالیٰ نے محدود علم دیا محدود زمانہ کے لئے مقرر کیا ، خاص قوم کی طرف آئے اور اس کے نتیجہ میں جو اس قوم کی اس زمانہ میں ضرورت تھی اس حد تک ان کے اوپر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كَافَةٌ لِلنَّاسِ (سبا:۲۹) اور بَشِيرًا ونَذِيرًا (سبا: ۲۹) آئے.مومن اور کافر دونوں کے لئے بشارتوں کے سامان بھی دیئے.ایسا کرو گے خدا کا پیار مل جائے گا اور ہر دو، مومن و کافر کے لئے انذار کے سامان بھی پیدا کئے.ان کو کہا ایک دفعہ ایمان تمہیں مل جائے یہ نہ ہو کہ بعد میں بھٹک جاؤ.اس واسطے بچتے رہنا.اس عظمتوں والے نبی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النبي (الاحزاب : ۵۷) اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہیں اس النَّبِيِّ پر (جس کا ذکر ابھی میں نے ، پچھلی آیت میں آیا اس کو بیان کیا تھا) اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے رحمت مانگ رہے ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں اَلنَّبِيِّ کے لئے.اس لئے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اللہ تعالیٰ کے اخلاق تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں، صَلُّوا عَلَيْهِ تم بھی خدا سے درخواست کرو کہ وہ رحمتیں جو ہیں وہ ہر آن زیادہ سے زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی رہیں اور دعائیں کرتے رہو.فرشتے دعائیں کر رہے ہیں ان کی زبان کے ساتھ ، ان کی آواز کے ساتھ شامل ہو کر تم بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، النَّبِي کے لئے دعائیں کرو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہو.یہ دوسری عظمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے ہمارے عقیدہ کے مطابق.تیسری عظمت یہ پائی جاتی ہے کہ آپ قیامت تک کے انسانوں کے لئے اسوہ ہیں.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ

Page 268

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۴ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۱ء فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب: ۲۲) جو اللہ اور اُخروی دن سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور اللہ کا بہت ذکر کرتا ہو اللہ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے جس کی پیروی کرنی چاہیے.نبي اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رہتی دنیا تک، قیامت تک کے انسان کے لئے اُسوہ ہیں.اُسوہ ہیں حَسَنَةُ اعلیٰ نمونہ کامل نمونہ ، ایک ایسا نمونہ جس میں ہر فطرت ، ہر قابلیت اور استعداد اپنے لئے قابلِ پیروی راستہ تلاش کر سکتی ہے یعنی جو ہدایت کی راہوں میں ترقی یافتہ ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے آزاد نہیں ہو جاتے.یعنی اسی طرح محتاج ہیں جس طرح ایک مبتدی جو کل مثلاً کلمہ پڑھ کے ایمان لایا.بڑا عظیم اُسوہ ہے.اس کو سمجھانے کے لئے میں یہ بتادوں کہ معراج میں جو آپ کا مقام بتایا گیا وہ عرشِ ربّ کریم ہے یعنی ساتویں آسمان سے اوپر.اس واسطے ہر مومن جو روحانی رفعتیں حاصل کر رہا ہے اور بلند سے بلند ہوتا چلا جارہا ہے جب تک وہ عرش رب کریم تک نہیں پہنچ جاتا، جو نہیں پہنچ سکتا.اس واسطے عملاً جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ جب تک وہ ساتویں آسمان تک نہیں پہنچ جاتا اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی انگلی پکڑ کے اس کی رفعتوں کا سامان کرنے والے ہیں ،اس کے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.کیوں اُسوہ حسنہ ہیں؟ یہ سوال یہاں بہت اہم ہے کہ نبی کریم کو جو اسوہ حسنہ کہا گیا تو بعض لوگ اس دنیا میں ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بڑی عظمت تھی اس لئے آپ کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ قرآن کریم کے مخالف، مقابل مختلف اور متضاد فتویٰ دے دیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرۃ: ۱۵۷) لیکن قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے.( یہ ابھی جو میں نے فقرہ بولا ہے وہ سنو اور یا درکھو.اس پر میں آزادانہ ایک خطبے میں یا کسی تقریر میں یا کسی مضمون میں اس کے مختلف پہلوؤں پر تنقید کروں گا ).سوال یہ ہے کہ کیوں اُسوہ ہیں؟ ہمیں کہا گیا تھا امِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ (الاعراف: ۱۵۹) ہمیں کہا گیا تھا وَاتَّبِعُوہ ہمیں بتایا گیا کہ تمہارے لئے اسوہ بنائے گئے ہیں کیوں؟ ہاں ایک چیز رہ گئی.نمبر (۴) ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں

Page 269

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۵ خطبہ جمعہ ۱۱ ستمبر ۱۹۸۱ء کر سکتا جب تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا نہ ہو.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) کوئی شخص چھوٹی سے چھوٹی روحانی رفعت حاصل ود نہیں کر سکتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر کھڑا ہوکر اور ہر شخص اپنی استعداد، صلاحیت کے مطابق انتہائی دائرہ استعداد میں انتہائی رفعت حاصل کر سکتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور اس کا گر یہ بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو جائے گا.یہ کیوں کہا؟ وہ جو پہلے میں نے سوال دہرایا تھا نا اب اس موقع پر میں دہرا رہا ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ آپ اُسوہ ہیں اور آپ کی اتباع کئے بغیر اللہ تعالیٰ کا پیار ہمیں حاصل نہیں ہوسکتا.قرآن کریم نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.سورۃ یونس میں ہے حکم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وَ اتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ (یونس : ١٠) اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ جو تیری طرف میری وحی نازل ہو رہی ہے اس کی کامل اتباع کر.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے.واصبر اور استقامت سے ، مضبوطی کے ساتھ ،صبر کے ساتھ اس پر قائم ہوجا.کوئی غیر مسلم کہہ سکتا ہے حکم ہے.یہ تو نہیں کہیں ہوا کہ اس حکم کو آپ بجا بھی لائے.سورہ اعراف میں ہے قل اعلان کر دو.یہ خدا تعالیٰ نے جو دیکھا اس کا اعلان کروایا ہے.یعنی خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اور نفس میں جو مشاہدہ کیا ، خدا تعالیٰ نے ، اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا اس کا اعلان کر دو.قُلْ إِنَّمَا اتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَى مِنْ رَبِّي (الاعراف: ۲۰۴) حکم تھا نا اتباع کرو.اعلان کروادیا کہ میں نے اس حکم کی اطاعت کی.میں جو میرے رب کی طرف سے وحی نازل ہوئی ہے، اس کی کامل اتباع کرنے والا ہوں.اور اُسوہ کے متعلق کہا ھذا بَصَابِرُ من ربكم تمہارے لئے اس وحی میں بصائر ہیں یعنی بصیرت پیدا کرنے والے دلائل ہیں.و ھدی ہدایت کا سامان ہے، جس کے نتیجہ میں وَرَحْمَةُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ان لوگوں پر، اس گروہ پر ، اس جماعت پر جو اپنے ایمان پر پختہ طور پر قائم

Page 270

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۶ خطبہ جمعہ ۱۱ارستمبر ۱۹۸۱ء ہو جاتے ہیں.(الاعراف: ۲۰۴) تو حکم تھا اتباع کرو.اللہ تعالیٰ نے اعلان کروایا کہ آپ نے کامل اتباع کر لی اور اعلان دوسری جگہ کروا دیا.اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) آنا اوَلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۴) یہ تو آپ کی ذات ہوئی نا.جو اُسوہ بنانا ہے اور آپ کی اتباع کرنی ہے اس کے متعلق روشنی پیدا کرنے کے لئے اُمت کے دل و دماغ میں حکم ہوا فاصدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (الحجر: ۹۵) جو وحی تیرے او پر نازل ہورہی ہے ( اوامر و نواہی کے سلسلہ میں.یہ محاورہ ہے عربی کا ، ایک لفظ آجاتا ہے ).جس چیز کا تجھے حکم دیا جاتا ہے اضلاغ کے معنی ہیں کھول دینا.وہ جو پتھر کے اوپر لوہے کا ایک ہتھوڑا سا رکھ کے مارتے ہیں اور پتھر کو دوٹکڑے کر دیتے ہیں اس کے معنی بھی یہی ہیں.اس کے معنی ہیں کھول دینا.تو کھول کر بیان کرو.جو وحی تم پر نازل ہوئی اسے کھول کر بیان کرو اپنے قول اور اپنے فعل کے ساتھ.سورہ مائدہ میں کہا - يَاَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ وَ إِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بلَغْتَ رِسَالَتَه (المائدة : ۶۸) اے رسول ! ( جو یہ اکٹھے ہیں دراصل الرَّسُول النَّبِي، الامي اور اقی میں آجاتا ہے محمد ) بلیغ کے معنی مفردات نے یہ کئے ہیں اسی آیت کے نیچے.آئی إِن لَّمْ تبلغ هذا جو وحی نازل ہوئی ہے وہ کلیتا تم وضاحت سے بیان نہ کر دو، پہنچا نہ دو آ گے.اَوْ شَيْئًا مِمَّا حُمِّلْتَ یا اپنی ذمہ داری کے تھوڑے سے حصے میں بھی اگر کوتا ہی کروتَكُنْ فِي حُكْمِ مَنْ لَمْ يُبْلِغْ شَيْئًا مِنْ رِسَالَتِہ تو اس کے اوپر حکم یہ ہوگا کہ کوئی چیز بھی نہیں پہنچائی.یعنی پوری کی پوری وحی نے جو اوامر و نوا ہی نوع انسانی کی ضرورتوں کے لئے بیان کئے ہیں ایک ایک کر کے سارے جو ہیں وہ پہنچا نا بنی نوع انسان کو یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے.اور اعلان یہ کیا گیا ہے کہ اگر سینکڑوں ایسے اوامر اور احکام میں سے دو بھی نہیں تم پہنچاتے تو تم نے اپنی رسالت کی جو ذمہ داری تھی جو تمہارے اوپر ڈالی گئی (محتلت ) وہ پوری نہیں کرو گے.سورہ نور میں کہا.فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِلَ (النور : ۵۵ ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر

Page 271

خطبات ناصر جلد نهم ۲۵۷ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۱ء صرف اس کی ذمہ داری ہے جو اس کے ذمے لگایا گیا.اور ذمہ داری کیا ہے؟ اسی آیت میں آگے كها وَ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغُ الْمُبِينُ.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری یہ ہے الا البلع المبين کہ صرف بات کو کھول کر لوگوں تک پہنچاد دینا.وحی کولوگوں تک پہنچا دینا، اُمّی ہونے کے لحاظ سے اپنی طرف سے کچھ ملاوٹ نہیں کرنی.ہو ہی نہیں سکتی آپ کی فطرت میں ہی نہیں یہ.اسی چیز کو واضح کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ ایک واقعہ ہو گیا.سورہ یونس دو کی سولہویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اور جب انہیں ہماری روشن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ اے محمد! اِثْتِ بِقُرانِ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِلْهُ (یونس :١٦) کہ تو اس کے سوا یعنی جو وحی نازل ہو رہی ہے قرآن کریم کی اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آیا اس میں کچھ تغیر و تبدل کر دے.تو کہہ دے یہ میرا کام نہیں ہے.یہ امی بول رہے ہیں نا اب.تو کہہ دے کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کروں.بڑا زبردست اعلان ہے آج کی دنیا کے لئے.جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گا اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے وہ بھی یہی اعلان کرے گا کہ جو قرآن کریم میں آچکا اس میں چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی انسان کا یا کہنے والا کہے گا میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس میں کوئی تغیر و تبدل کروں.میرا یہ کام ہے سَبْعًا وَ طَاعَةٌ میں قرآن کریم پڑھوں اور سنوں اور اس کے مطابق عمل کروں.إنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَتی ائی.یہ اسی آیت کا ہے.مجھ پر جو وحی کی جاتی ہے میں تو صرف اسی کی اتباع اور پیروی کرتا ہوں اس کے علاوہ ادھر ادھر کی نہیں.آگے اعلان کیا یعنی ممکن نہیں لیکن جو شخص قرآن کریم کی وحی میں ردو بدل کرے کوئی تغیر کرنا چاہے اس کے لئے اس کو سمجھانے کے لئے ، اس کے لئے بطور انذار کے کہ پھر تمہیں عذاب عظیم ملے گا، یہ اعلان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کروایا جن کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا.جن کی حالت یہ تھی ان کی کیفیت تھی جو خدا نے مشاہدہ کی وہ قرآن کریم میں بیان کی ناکہ یہ میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر وتبدل کروں.اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى.ساتھ یہ اعلان کرا دیا.إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي

Page 272

خطبات ناصر جلد نہم ۲۵۸ خطبہ جمعہ ۱۱ ستمبر ۱۹۸۱ء عَذَابَ يَوْمٍ عَظِیمٍ (الانعام (۱۶) اگر میں قرآن کریم کی وحی کے خلاف کوئی بات کروں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ایسا ممکن نہیں تھا.آپ تو دوسروں کو جنت میں لے جانے والے ہیں لیکن دوسروں کے لئے ایسا ممکن تھا اس لئے یہ اعلان کروایا جیسا کہ آج کل دنیا کے مختلف حصوں میں اس قسم کی باتیں کی جاتی ہیں جو ہمارے کانوں میں پڑتی ہیں.اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں، جو قرآن کریم کی وحی کو قول اور فعل سے سچا ثابت کرنے والے ہیں، اس پر عمل کرنے والے ہیں، جو یہ اعلان کرنے والے ہیں کہ ہم تو خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں ہم ایک ذرہ بھر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے.مثلاً پاکستان سے باہر کسی ملک میں نام نہیں میں لوں گا.فتنہ پیدا ہوتا ہے ) ایک جگہ یہ فتویٰ دے دیا کہ شراب جو ہے وہ تو گرم ملک میں حرام کی گئی تھی ، ٹھنڈے ملکوں میں بے شک پی لیا کرو.حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوایا گیا تھا اِنّی اَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ حالانکہ شراب کے متعلق رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطن (المائدة: 91) کا اعلان کیا گیا تھا کہ ایک گند کی چیز ہے اور اس کا پینا شیطانی عمل ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کوثر عطا کیا.اتنے جاں ثار فدائی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے پیار جو پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ نے حاصل کیا تھا انتہائی اذیتیں قبول کیں لیکن صبر اور استقامت کی راہوں کو نہیں چھوڑا.ہر چیز خدا اور اس کے رسول کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن خدا اور رسول کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوئے.قرآن کریم کو سینے سے لگایا.اس کا ایک ذرہ بھر بھی یہ برداشت نہیں کیا کہ ان کے سینوں سے کوئی ورق پھاڑ کر اس کو پرے پھینک دیا جائے یعنی پورے کا پورا قرآن انہوں نے اپنے سینوں سے لگائے رکھا.جن کے متعلق قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ ( جو میرے یہاں نوٹ میں نہیں ہے ) کہا ہے اُولبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۵) حقیقی مومن ہیں وہ اور ان کے متعلق سن لو اور خدا کرے کہ تمہارے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ تم

Page 273

خطبات ناصر جلد نہم ۲۵۹ خطبہ جمعہ ۱۱ارستمبر ۱۹۸۱ء بھی ایسے ہی مومن بنو.سورۃ انفال ( آیت:۶۵) میں یہ اعلان ہوا یا يُّهَا النَّبِيُّ اے النَّبِيِّ، اے الرَّسُول ، الاقي محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یا يُّهَا النَّبِی.اے النبی ! حَسْبُكَ اللهُ سوائے خدا کے تجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے.خدا تیرے لئے کافی ہے اور خدا تعالیٰ کے علاوہ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وہ مومنین خدا نے تیرے لئے کافی بنا دیئے ہیں جنہوں نے ہمارے حکم کے مطابق تجھے اُسوہ سمجھا اور تیری اتباع کی اور کامل مومن بن گئے.تو اس آیت میں جس جس گروہ مومنین کا ذکر ہے ویسے مومن بننے کی احمدیوں کو کوشش کرنی چاہیے.وَمَن اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بڑا عظیم اعلان ہے.بہت بڑی عظمت کو ان جاں نثاروں کی ثابت کیا گیا اور اس کا اعلان کیا گیا حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ خدا تیرے لئے کافی ، خدا کے علاوہ مجھے اور کسی کی ضرورت نہیں اور جو کامل تیرے متبع بن گئے کامل طور پر اور تجھ میں فانی ہو گئے اور اپنے وجود کو تیرے وجود میں کھو دیا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، تیرے کامل متبع ہو گئے اس معنی میں جس معنی میں لفظ اتباع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال کیا گیا ہے قرآن کریم میں، ویسے مومن تیرے لئے کافی ہیں.وہ جب تین تھے ( تاریخ پر اب ہم نظر ڈالتے ہیں) اس وقت وہ تین کافی تھے، چوتھے آدمی کی مدد کی آپ کو ضرورت نہیں تھی.جب نتوا ہوئے وہ سو کافی تھے، ایک لسنوا ایکویں کی ضرورت نہیں تھی.جس وقت دنیا اکٹھی ہوگئی تو دو چار ہزار کافی ہو گئے.میں نے مشاہدہ کیا اور غور کیا اور یہ واقعات پڑھے جو جنگیں ہوئی ہیں کسری اور قیصر کے ساتھ ، اصل جو اسلام کے لئے کافی ہوئے اس اعلان کے بعد، وہ وہ Hard Core (ہارڈ کور ) مومن تھے ، وہ فدائی جو جاں نثار تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور باقی تو پروانے تھے جو ان شمعوں کے گرد، انہیں کی بدولت ثبات قدم بھی دکھاتے تھے ، پیچھے ہٹتے تھے پھر آگے بھی بڑھ جاتے تھے ان کی بدولت.تو حَسْبُكَ اللهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ یہ اعلان بھی ہے.یہ بشارت بھی ہے.یہ تاریخی حقیقت بھی ہے.یہ ایک وعدہ بھی ہے اگلوں کے لئے.اگلوں کو اکسانے کے لئے ایک کوڑا بھی ہے پیار کا.کوڑا لگاتے ہیں نا ایسا تیز ہو جائے گھوڑا.تو گھوڑے کو غصے میں تو سوار کوڑا نہیں

Page 274

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۰ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۱ء لگا تا ، بڑا پیار کر رہا ہوتا ہے تو اس واسطے جماعت احمدیہ اس آیت کی روشنی میں وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ کی جماعت میں شامل ہونے کی کوشش کریں اور ہر اس چیز کو اپنی زندگی سے نکال کے باہر پھینک دیں جسے ہمارے پیارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں کیا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 275

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۱ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ء مرکز سلسلہ میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات خطبه جمعه فرموده ۱۸ رستمبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اکتوبر کے آخر میں خدام الاحمدیہ ، اطفال احمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماع ہوں گے.آج میں ان اجتماعات کی تیاری اور اہمیت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَةُ والهُ عُدَّةٌ (التوبة : ۴۶) قرآن کریم کی یہ بھی ایک عظمت ہے کہ وہ ایک واقعہ کی اصلاح جب کرتا ہے تو چونکہ یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے اس کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہو جائے اور ایک بنیادی اصول اور حقیقت بھی بیان کر دی جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کمزوروں کے متعلق اور منافقوں کے متعلق جو جہاد میں نہیں نکلے اور بعد میں عذر کرنے شروع کئے کہ یہ وجہ تھی اور یہ وجہ تھی ، ہمارے گھر ننگے تھے، ڈکیتی کا خطرہ تھا وغیرہ وغیرہ، اس لئے ہم نہیں جاسکے ورنہ دل میں بڑی تڑپ تھی ، بڑی خواہش تھی ہمارے سینوں میں بھی مومنوں کے دل دھڑک رہے ہیں وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو،

Page 276

خطبات ناصر جلد نہم ۲۶۲ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ء تمہارا ارادہ تمہاری نیست کبھی بھی جہاد میں شامل ہونے کی نہیں ہوئی اور دلیل یہاں یہ دی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے تیاری بھی ہوتی.جس شخص نے اس زمانہ کے حالات کے مطابق نہ کبھی تلوار رکھی، نہ نیزہ ، نہ تیر کمان ، نہ زرہ، نہ خود نہ نیزے کا فن سیکھا ، نہ تلوار چلانے کی مشق کی ، نہ تیر کمان ہاتھ میں پکڑا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ عارضی ضرورتوں کی وجہ سے میں اس جہاد سے محروم ہو رہا ہوں ورنہ دل میں تڑپ تو بہت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دل میں اگر تڑپ ہوتی ، اگر تمہارا ارادہ اور نیت خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی ہوتی تو اس کے لئے تمہیں تیاری کرنی پڑتی.جو مسئلہ زیر بحث ہے یہاں یعنی جہاد بالسیف اس کے لئے تیاری دوطرح کی ہے.ایک جہاد کے لئے اسلحہ وغیرہ کی تیاری.اس وقت رضا کا رفوج تھی اپنے ساتھ کھانے کا سامان لے کے جاتے تھے، اس کی تیاری اور دوسرے مشق ہے، تھوڑا کھاکے، بھوکا رہ کے مشقت برداشت کرنے کی تیاری تلوار اس طرح چلانے کی تیاری کہ جب کسری کے ساتھ مقابلہ ہوا بعد میں تو کچھ عرصہ حضرت خالد بن ولید بھی اس محاذ پر سپہ سالار کے طور پر لڑ رہے تھے.چار پانچ لڑائیاں انہوں نے وہاں لڑیں پھر وہ قیصر کے مقابلہ پر چلے گئے.مسلمان فوج چار ہزار گھوڑ سوار اور چودہ ہزار پیادہ تھی اور ان کے مقابلہ میں ہمیشہ قریباً چار گنا زیادہ فوج کسری کی ہوتی تھی.ایک دن کی لڑائی اگر آٹھ گھنٹے کی سمجھی جائے تو ہر دو گھنٹے کے بعد کسری کی فوجوں کا کمانڈر اگلی لڑنے والی صفوں کو پیچھے ہٹا لیتا تھا اور تازہ دم فوج آگے بھیج کے ان کی صفیں بنالیتا تھا.طریقہ یہ ہوتا تھا کہ درمیان لڑنے والوں کے درمیان سے وہ آگے بڑھتے تھے اور محاذ کو سنبھال لیتے تھے اور لڑنے والے پیچھے ہٹ جاتے تھے اور مسلمان فوج کا ہر سپاہی آٹھ گھنٹے لڑتا تھا.کسریٰ کا سپاہی ہر دو گھنٹے کے بعد تازہ دم آگے آتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ کسری کے تازہ دم فوجیوں کا وہ مقابلہ کر رہے ہوتے تھے، آٹھ گھنٹے ( اپنی زندگی کی حفاظت کی تو انہیں پرواہ نہیں تھی لیکن ) خدا کے نام پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان نثاری کا یہ مقابلہ تھا کہ آٹھ گھنٹے لڑتے چلے جاتے تھے.کسی کے دل میں یہ خواہش ہو کہ وہ ان حالات میں آٹھ گھنٹے دشمن کا مقابلہ کرے، اس دشمن کا کہ ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج اس کے سامنے آرہی ہے، وہ اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک تیاری نہ کی ہو اس کے لئے

Page 277

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۳ خطبه جمعه ۱۸ ار ستمبر ۱۹۸۱ء یعنی آٹھ گھنٹے لگا تار تلوار چلانے کی مشق نہ کی ہو اور آٹھ گھنٹے تلوار چلانے کے بعد وہ تھکاوٹ محسوس نہ کرے مزید لڑائی کے لئے تیار ہو.تو ایک تیاری تو اسلحہ خریدنے کی ہے دوسری تیاری اس اسلحہ کے استعمال کی ہے.مسلمان کے لئے تیاری ایک ایسے استعمال کی تھی کہ اپنے سے کہیں زیادہ تعداد میں دشمن اور ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج کا مقابلہ کبھی پانچ گنا زیادہ ان کی فوج انہی اٹھارہ ہزار کے مقابلہ میں جس کا مطلب یہ تھا کہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج سامنے آگئی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ تڑپ بڑی تھی ، ہم بھی پکے مومن ہیں مگر مجبوریاں ایسی آگئیں کوئی بچہ بیمار ہو گیا.بہانہ جو طبیعت ، گھر خطرے میں پڑ گیا، یہ ہو گیا وہ ہو گیا اور نہ پیچھے رہ نہ جاتے.خدا کہتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو اور دلیل یہ کہ اگر تمہیں خواہش ہوتی جہاد پر نکلنے کی تو اس کے لئے ہر ممکن تیاری کی ہوتی.نہ تم نے اسلحہ پر مال خرچ کیا، نہ تم نے اسلحہ چلانے کی مشق کی ضرورت کے مطابق مشق ، مشق اتنی کہ ، مثلاً میں نے تیراندازی کا نام لیا ابھی ، ایک بار جب خالد بن ولید ہی قیصر کی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو دمشق کا محاصرہ کیا ہوا تھا.قیصر کی فوج کا جو کما نڈ رتھا اس نے جہالت سے مسلمان پر رعب ڈالنے کے لئے ، یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ مسلمان پر رعب نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ وہ تو صرف خدا سے ڈرتا ہے، یہ منصوبہ بنایا کہ نوجوان لڑکیوں اور راہبوں، پادریوں کو فوجی لباس پہنا کے اور ہاتھ میں نیزے دے کر اور تلوار میں لٹکا کے فصیل کے اوپر کھڑا کر دیا.کئی ہزار مردوزن کو.خالد بن ولید کی دور بین آنکھ مومنانہ فراست رکھنے والی تھی.انہوں نے کہا اچھا میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو تم.آپ نے اپنی پیادہ فوج کو پیچھے کیا اور تیراندازوں کو آگے بلا یا اور تیراندازوں کو یہ حکم دیا کہ تم یہ جو سامنے تمہارے کھڑے ہیں ہم پر رعب ڈالنے کے لئے ان میں سے ایک ہزار کی آنکھ نکال دو تیر سے.اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ان تیراندازوں نے ایک ہزار کی آنکھ میں نشانہ ٹھیک بٹھایا اور آنکھ نکال دی.اس کے مقابلہ میں مشہور ہے کہ ایک بادشاہ بیوقوف تھا وہ سمجھتا تھا میں بڑا بہادر، ماہر فن ہوں، جنگ جو ہوں تو مشق کر رہا تھا اور کوئی نشانہ بھی اس کاBull's eye ( بلز آئی) پر نشانہ نہ بیٹھتا تھا.کوئی دس گزا دھر پڑتا تھا کوئی دس گزا دھر پڑتا

Page 278

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۴ خطبہ جمعہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۸۱ء تھا.کوئی راہی گذر رہا تھا اس نے سوچا بادشاہ سے مذاق کر رہے ہیں سارے.جہاں وہ نشانہ مار رہا تھا وہ وہاں کھڑا ہو گیا جا کے.تو حواری خوشامد خورے کہنے لگے نہ نہ پرے ہٹ پرے ہٹ مرنا چاہتا ہے؟ بادشاہ سلامت تیراندازی کر رہے ہیں.اس نے کہا صرف یہ جگہ محفوظ ہے جہاں تیر نہیں لگ سکتا باقی دائیں بھی لگ رہا ہے، بائیں بھی لگ رہا ہے او پر بھی نکل رہا ہے ورے بھی پڑ رہا ہے، اس جگہ پر نہیں آرہا.ایک وہ تیرانداز تھا اور ایک یہ تیرانداز کہ ایک ہزار انسان کی آنکھ میں نشانہ مارا ٹھیک اور وہ جو سپہ سالار نے رعب ڈالنا چاہا تھا مسلمان پر وہ ناکام ہو گیا.وہ سب بھاگے اس طرف سے جہاں ان پر تیر پڑ رہے تھے اور شہر کے دوسری طرف جا کے اور دروازہ کھول کے باہر نکل گئے اور سارے شہر میں شور مچادیا کہ مسلمانوں نے ہماری آنکھیں نکال دی ہیں.خدا کہتا ہے.وکو أَرَادُوا الخروج لاعَدُّ واله عُدة اور اس زمانہ کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ تیاری کا یہ مطلب ہے کہ اگر یہ حکم ہو کہ ایک ہزار آنکھ نکال دو ایک ہزار آنکھ نکال دی جائے گی.یہ ہے تیاری ! تیاری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سامنے آ جائے تو آٹھ گھنٹے ایک مسلمان لڑتا رہے گا کامیابی کے ساتھ لڑے گا اور فاتح ہوگا.ہر روز ، ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سے لڑنے کے بعد شام جو نتیجہ نکلتا تھا وہ کسریٰ کی اسی نوے ہزار فوج کی شکست اور ان اٹھارہ ہزار مسلمان، دعا گو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے والے، توحید خالص پر قائم ہونے والے مسلمان کی فتح.یہ نتیجہ نکلتا تھا.تیاری اس کا نام ہے قرآن کریم کے نزدیک جو مسلمان نے سمجھا.تاریخ میں آتا ہے کہ اتنی تیاری کرواتے تھے اپنے بچوں کو کہ بارہ سال کا بچہ آٹھ سال کے بھائی کے سر پر سیب رکھ کے تیر سے اڑا دیتا تھا.اگر دو تین انچ بھی نشانہ سے نیچے پڑے تو ماتھے پہ لگے اور مرجائے بھائی لیکن اس کو پتا تھا کہ میرا تیر سوائے سیب کے کسی اور چیز کو نہیں لگ سکتا اور یہ مشق اور مہارت تھی.یہ ان کی کھیل تھی.زمانہ بدل گیا ہے اس واسطے میں اپنے خدام اور انصار اور اطفال اور ناصرات سے کہتا ہوں کہ آج کی جنگ جن ہتھیاروں سے لڑنی ہے ان ہتھیاروں کی مشق ، مہارت ، اور آپ کا

Page 279

خطبات ناصر جلد نهم خطبہ جمعہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۸۱ء ہنر اور پریکٹس کمال کو پہنچی ہوئی ہو.شکل بدلی ہوئی ہوگی.اس زمانے میں دفاع کے لئے اور دشمن کے منصوبہ کو ناکام بنانے کے لئے مادی اسلحہ کی بھی ضرورت تھی ، غیر مادی ہتھیاروں (بصائر وغیرہ) کے استعمال میں بھی ان کو مہارت حاصل تھی.مگر ہمارے ہتھیا رصرف وہ بصائر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے.بصائر سے مراد دلائل ہیں.بصیرت کی جمع بصائر ہے ایک تو ہے نا آنکھ کی نظر.ایک ہے روحانی نظر جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج: ۴۷) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں روحانی طور پر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں دھڑک رہے ہوتے ہیں.ایک تو ہماری جنگ بصائر کے ساتھ ہے اور بصائر کہتے ہیں وہ دلیل جو فکری اور عقلی طور پر برتری رکھنے والی اور مخالفین کو مغلوب کرنے والی ہو ہمارے ہتھیار ( نمبر دو ) نشان ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا اظہار جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اس لئے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ لڑ رہے ہوں.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں کے ساتھ اسے جذب کیا جاسکتا ہے.اس کے لئے بصائر سیکھنے ، دعائیں کرنے کے جو مواقع ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.اس واسطے جو آنے والے ہیں ان کو آج ہی سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جس مقصد کے لئے ہمیں بلا یا جا رہا ہے انہیں پورا کرنے کے سامان کرے.ہمیں بلایا جا رہا ہے باتیں دین کی سننے کے لئے، کچھ باتیں کہلوانے کے لئے ، ہم تقریریں کرتے ہیں یہاں آ کے خدا کرے اس میں بصائر ہوں، آیات کا ذکر ہو.نور ہم نے پھیلانا ہے وہ نور ہم حاصل کرنے والے ہوں ، اپنی زندگیوں میں اسے قائم کرنے والے ہوں، اپنے اعمالِ صالحہ میں اس کو ظاہر کرنے والے ہوں ، ظلمات دنیا کو نور میں بدلنے والے ہوں.جو اجتماع ہورہے ہیں اس میں دو طرح کے نظام ہیں جن کی پوری تیاری ہونی چاہیے.ایک تو جو شامل ہونے والے ہیں.خدام ، اطفال، ناصرات، لجنہ اماءاللہ، اور انصار اللہ.فرداً فرداً ان کو تیار ہونا چاہیے.ذہنی طور پر چوکس اور بیدار مغز لے کر یہاں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کے نور اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور خدا تعالیٰ کے عشق سے اپنی جھولیاں

Page 280

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۶ خطبہ جمعہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۸۱ء بھر کر واپس جائیں.اس کے لئے ابھی سے تیاری کریں.استغفار کریں.لاحول پڑھیں.شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کریں.خدا سے دعائیں مانگیں کہ ہماری زندگی کا جو مقصد ہے حاصل ہو.ایک ہی ہے مقصد ہماری زندگی کا اس کے علاوہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں اور مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں آج سارے انسانوں پر اسلام اپنے دلائل، اپنے نور ، اپنے فضل ، اپنی رحمت ، اپنے احسان کے نتیجہ میں غالب آئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نوع انسانی جمع ہو جائے.دوسری تیاری کرنی ہے منتظمین نے.وہ بھی بغیر تیاری کے کچھ دے نہیں سکتے.ایک تو وہ ہیں جو لینے والے ہیں اور معطی حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے میں نے کہا اس کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تا کہ تمہاری جھولیاں بھر جائیں.ایک ہیں دینے والے اور جو دینے والے ہیں ان کو قرآن کریم نے دو تین لفظوں میں بیان کیا کہ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا الانفال : ۵ ) مومن مومن میں فرق ہے.ایک وہ گروہ ہے جو محض عام مومن نہیں بلکہ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا جن کے متعلق میں نے پچھلے خطبے میں بتایا تھا خدا نے یہ کہا کہ اے محمد ! حَسْبُكَ اللهُ وَمَن اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال :۶۵) کہ تیرے لئے وہ مومن کافی ہیں جو تیری کامل اتباع کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی وحی پر پورا عمل کرنے والے اور توحید خالص پر قائم اور ان راہوں کی تلاش میں لگے رہنے والے جن راہوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ہیں اور ان نقوشِ قدم کو دیکھ کر ان راہوں کو اختیا ر کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہیں.کامل متبعین ! خدا تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (الاحقاف :١٠ ) - خدا تعالیٰ کی وحی کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اور اس سے باہر کسی چیز کی احتیاج نہ رکھنے والے.ایسا بننا چاہیے منتظمین کو بھی.دعاؤں کے ساتھ آپ اپنا پروگرام بناتے ہیں.اس میں برکتیں بھی پڑسکتی ہیں اور برکتیں نہیں بھی پڑسکتیں.دعائیں کریں گے تو بابرکت ہوجا ئیں گے.دعائیں کریں گے آپ کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا کر دے گا.

Page 281

خطبات ناصر جلد نہم ۲۶۷ خطبہ جمعہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۸۱ء مثال دیتا ہوں.میں تو بڑا عاجز بندہ ہوں.اللہ تعالی بڑا افضل کرنے والا ہے.پچھلے سال ہی دورے پہ میرے منہ سے یہ فقرہ نکلوایا کہ Love For All And Hatred For None ہر ایک سے پیار کرو، کسی سے نفرت نہ کرو، اتنا اثر کیا اس فقرے نے کہ ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہوا ہالینڈ میں ہمارا سالانہ جلسہ ہوا ہیگ میں ہماری مسجد اور مشن ہاؤس ہے وہاں کے مئیر کو انہوں نے بلایا.وہ آئے.میر کی ان ملکوں میں بڑی پوزیشن ہوتی ہے اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں تم احمدیوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمہارے امام نے جو تمہیں یہ سلوگن دیا تھا کہ Love For All And Hatred For None کہ ہر ایک سے پیار کرو نفرت کسی سے نہ کرو، میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم ہالینڈ کے گھر گھر میں یہ فقرہ پہنچا دو کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ایک فقرہ انقلاب پیدا کر سکتا ہے.ایک گھنٹے کی تقریر سوکھے گھاس کی طرح ہاتھ سے چھوڑ وزمین پر گر جائے گی.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو انسان کامیاب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے منتظمین ان اجتماعات کا انتظام کریں اور خدا تعالیٰ کا فضل اور رحمت مانگتے ہوئے شامل ہونے والے ان میں شامل ہوں تا کہ ہم اپنی زندگیوں کے مقصد کو پانے والے ہوں.آمین.اس بات کی ذمہ داری کہ ہر جماعت سے چھوٹی ہو یا بڑی، نمائندہ ان اجتماعات میں آئے سوائے اس کے کہ بعض اکا دُکا استثنائی طور پر ایسی جماعتیں ہیں جس میں سارے ہی خدام ہیں بڑی عمر کا وہاں کوئی نہیں.نئی جماعت بن گئی نوجوانوں کی.وہاں سے کوئی انصار اللہ کے اجتماع میں ممبر کی حیثیت سے نہیں آئے گا بعض ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو دو چار وہاں بڑی عمر کے ہیں اور ابھی خدام الاحمدیہ کی عمر کا کوئی نہیں.اطفال اور ناصرات کی عمر کے تو یقینا ہوں گے وہ کوشش کریں کہ جن کی نمائندگی ہوسکتی ہے ، وہ ہو جائے.ہر جماعت کی نمائندگی اپنے اپنے اجتماع میں ہونی چاہیے.اس کی ذمہ داری ایک تو خود ان تنظیموں پر ہے لیکن اس کے علاوہ تمام اضلاع کے امراء کی میں ذمہ داری لگا تا ہوتا ہوں اور

Page 282

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۸ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ء تمام اضلاع میں کام کرنے والے مربیوں اور معلموں کی یہ ذمہ داری لگا تا ہوں کہ وہ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جاکے، جاتے رہ کر ایک دفعہ نہیں ، جاتے رہ کر ان کو تیار کریں کہ کوئی گاؤں یا قصبہ جو ہے یا شہر جو ہے وہ محروم نہ رہے نہ پنجاب میں، نہ سرحد میں ، نہ بلوچستان میں ، نہ سندھ میں اور اس کے متعلق مجھے پہلی رپورٹ امرائے اضلاع اور مربیان کی طرف سے عید سے دو دن پہلے اگر مل جائے تو عید کی خوشیوں میں شامل یہ خوشی بھی میرے لئے اور آپ کے لئے ہو جائے گی اور دوسری رپورٹ پندرہ تاریخ کو یعنی جو اجتماع ہے خدام الاحمدیہ کا غالباً ۲۳ کو ہے تو اس سے پہلے جمعہ کو سات دن پہلے وہ رپورٹ ملے کہ ہم تیار ہیں.ہر جگہ سے، ہر ضلع سے، ہر گاؤں ، ہر قریہ، ہر قصبہ ہر شہر اس ضلع کا جو ہے اس کے نمائندے آئیں گے.یہ انتظام جو ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں اس کے بھی آگے دو حصے ہو گئے.ایک کے متعلق میں نے پہلے بات کی تھی جو یہاں کے رہنے والے ہیں.ایک کے متعلق میں اب بات کر رہا ہوں جن کا تعلق باہر سے ہے.اور دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت نوع انسانی ایک خطر ناک ، ایک ہولناک ہلاکت کی طرف حرکت کر رہی ہے.اس قسم کی خطرناک حرکت ہے جو انسان کو تباہ کرنے والی ہے اور عقل میں نہیں ان کے آ رہی بات کہ ہم کیا کر رہے ہیں.اس واسطے تمام احمدی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو سمجھ اور فراست عطا کرے کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنی ہلاکت کے سامان نہ کرے اور خدا تعالیٰ ان کو اس عظیم ہلاکت سے جس کے متعلق پیش گوئیاں بھی ہیں بچالے.ہر انذاری پیشگوئی دعا اور صدقہ کے ساتھ ٹل جاتی ہے.ان کو تو سمجھ نہیں، انہوں نے اپنے لئے دعا نہیں کرنی.مجھے اور آپ کو تو سمجھ ہے.ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہیے اور صدقہ دینا چاہیے.اجتماعات پر صدقہ دینا چاہیے نوع انسانی کو ہلاکت سے بچانے کے لئے اپنی طاقت کے مطابق ہم صدقہ دیں گے اجتماعات کے موقع پر لجنہ اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ یہ تین انتظامات ۲۱، ۲۱ بکروں کی قربانی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ان

Page 283

خطبات ناصر جلد نهم ۲۶۹ خطبہ جمعہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۸۱ء اجتماعات کے موقع پر دیں گے، انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ فضل کرے انسان پر کہ وہ بہکا ہوا انسان اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس روشنی میں واپس آ جائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کی بھلائی اور ترقیات کے لئے آسمانوں سے لے کر آئے ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۴ /اکتوبر ۱۹۸۱ ء صفحه ۳ تا ۶)

Page 284

Page 285

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۱ خطبه جمعه ٫۲اکتوبر ۱۹۸۱ء کائنات کی بنیادی حقیقت وحدانیت باری تعالیٰ ہے خطبه جمعه فرموده ۲ اکتوبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے چند دن بیماری میں گزرے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا آرام ہے.تھوڑ اسا ابھی اثر باقی ہے ضعف کی شکل میں اور دانت کی تکلیف کی صورت میں ، اللہ فضل کرے گا وہ بھی دور ہو جائے گی.آج میں اس کائنات کی بنیادی حقیقت اور انسانی لحاظ سے ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس کے متعلق کچھ کہوں گا.اس کائنات کی بنیادی حقیقت وحدانیت باری تعالیٰ ہے.اللہ ایک ہے.یہ اس ساری کائنات کی ، اس Universe (یونیورس) کی ، عالمین کی بنیادی حقیقت ہے اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے انسان کی حقیقی خوشحالی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ اپنے ربّ کریم سے ایک زندہ تعلق قائم کرے.یہ زندہ تعلق دو پہلوؤں سے ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے.ایک عقیدہ کے لحاظ سے جس کو ہم معرفت یا عرفان کہتے ہیں.معرفت ذات اور صفات باری ضروری ہے اپنی زندگی سنوارنے کے لئے اور اُس ابدی زندگی کی خوشحالی کے لئے جو مرنے کے بعد، اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد، موعودہ ہے وہ حیات جس کا وعدہ دیا گیا ہے انسان کو.

Page 286

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۲ خطبه جمعه ٫۲اکتوبر ۱۹۸۱ء 66 شرک عقیدے میں بھی آجاتا ہے.شرک ، شرک میں بہت فرق ہے.جو تعلیم جو معرفت اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل قرآن عظیم جیسی عظیم شریعت اور وحی کے ذریعے دی وہ یہ ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ (الشوری:۱۲) ایک بنیادی اعلان ہے قرآن کریم میں.اُس جیسی اور کوئی ہستی نہیں ، نہ اپنی ذات میں اور نہ اپنی صفات میں.اس قدر عظمتوں والا ہے کہ یہ سارا کچھ جہاں تک ہمارا خیال بھی نہیں پہنچتا یہ ایک سٹ“ کے کہنے سے ہو گیا.کسی کو ایک جھونپڑا بنانا پڑے تو ہفتوں ، مہینوں لگ جاتے ہیں اور بہت سے مزدورا کھٹے کرنے پڑتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو ”صمد “ ہونے کی وجہ سے ( یہ اس کی صفت ہے ) کسی اور کی احتیاج نہیں.وہ جب کچھ کرنا چاہتا ہے کون کہتا ہے ، ہو جاتا ہے.یہ ساری کائنات اسی طرح بنی.یہ جود ہر یہ سائنسدان ایک وقت میں مہذب دنیا میں تھے ان کا ایک حصہ پھر خدا تعالیٰ کی طرف واپس آ رہا ہے کیونکہ ستاروں کی سائنس کے ساتھ جن کا تعلق تھا ان کو یہ بات نظر آئی ان کے مشاہدہ میں یہ آیا کہ وہ بے شمار ستارے جس کو وہ Galaxy ( سیلیکسی) کہتے ہیں یعنی بڑے بڑے قبیلے ستاروں کے، وہ ایک نامعلوم جہت کی طرف حرکت کر رہے ہیں یعنی اپنے فاصلے قائم رکھتے ہوئے وہ بے شمار ستارے جو ہیں وہ ایک جہت کی طرف حرکت بھی کر رہے ہیں.ایک ان کی اندرونی حرکت ہے.سورج کے گردگھومتے ہیں ستارے، اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے.لیکن گیلیکسی ، جو قبیلہ ہے وہ اپنی اپنی جگہ پہ بھی قائم ہے اور سارے کا سارا ایک طرف حرکت بھی کر رہا ہے.جس طرح انسانی جسم پیدل چل رہا ہوتا ہے جس وقت تو ایک حرکت اس کی مثلاً احمدنگر کی طرف ہے سارے جسم کی اور ایک حرکت ( بہت ساری اندر چیزیں ہیں ایک چیز کو لوں گا ) دوران خون کی ہے اس کے اندر.لیکن یہ حرکت متوازی نہیں بلکہ اس میں فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے Galaxies ( گیلیکسیز ) کے درمیان.اور ان کا یہ مشاہدہ ہے کہ جس وقت یہ فاصلہ اتنا بڑھ جائے کہ اس میں بے شمار ستاروں کی اور سُورجوں کی ایک گیلیکسی سما سکے تو وہ وہاں پیدا ہو جاتی ہے.وہ کن ، کا آرڈر ہوتا اور اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے.اسی واسطے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ وسعت پیدا کرنے والا ہے.اس صفت کے جلوے مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن اس وقت میں

Page 287

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۳ خطبه جمعه ٫۲اکتوبر ۱۹۸۱ء اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا وہ میر امضمون نہیں.تو ایک تو معرفت باری تعالیٰ میں بنیادی چیز ہمیں سکھائی گئی کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ ءٍ دوسری بنیادی چیز یہ سکھائی گئی کہ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی ( الحشر : ۲۵ ) ساری اچھی صفات جو ہیں وہ اس کے اندر پائی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی تعلق رکھنے والی یا تیسری چیز یہ ہے کہ کوئی کمزوری یا نقص یا بے طاقتی اس کے اندر نہیں پائی جاتی.اس کی طرف کسی قسم کے نقص کو اور کمزوری کو منسوب نہیں کیا جاسکتا.یہ بنیادیں ہیں عرفانِ باری تعالیٰ حاصل کرنے کی.پھر انسان اس کی صفات پر غور کرتا اور دعاؤں کے ذریعہ سے اس کے جلوے دیکھتا اور اپنی معرفت میں بڑھتا چلا جاتا ہے.بعد بڑا ہے.انسان اور پیدا کرنے والے رب کے درمیان جو فاصلے ہیں وہ نہ ختم ہونے والے ہیں.اس واسطے جو قرب میں ترقیات ہیں وہ بھی نہ ختم ہونے والی ہیں.یہ تو معرفتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک عقیدہ ہے تو حید پر قائم ہونے کے لئے.دوسرے عملی تو حید ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) کہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے.اس واسطے ہر چیز اس سے مانگو ، اس سے حاصل کرو اور کسی احتیاج کے وقت کسی غیر کا خیال بھی نہ لاؤ دل میں.یہ عملا توحید کے ساتھ ایک فرد واحد کا اور قوموں کا تعلق پیدا ہوتا ہے.کوئی چیز کسی غیر سے مانگنی نہیں ، نہ حاصل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرتا ہے اور قرآن کریم نے مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ کی حکمت مختلف پیرایوں میں بیان کی ہے.سب پر تو اس وقت بات نہیں کی جاسکتی.پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جوتو گل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کیا اپنے رب پر ہمیں حکم ہے کہ آپ کی اتباع کریں.قرآن کریم میں آیا ہے سورہ تو بہ میں.( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یعنی وحی کے ذریعے خدا تعالیٰ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اس کا اعلان کر دو ( حسبي الله میرے لئے اللہ کافی ہے.لَا إِلَهَ إِلا هُوَ وه یکتا، واحد ہے اور کسی اور کے پاس مجھے جانے کی ضرورت نہیں.اس لئے عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ اور

Page 288

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۴ خطبه جمعه ۲ /اکتوبر ۱۹۸۱ء میں نے اس پر توکل کیا اور اس وجہ سے کیا کہ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (التوبة: ۱۲۹) اس نے ذمہ لیا ہے اس عالمین ، اس Universe (یونیورس) اس کائنات کی ہر چیز کی ربوبیت کا.ہر چیز جس کی ضرورت پڑ سکتی تھی انسان کو بحیثیت نوع یا انسانی افراد کو فرڈ افرڈ اسے طور پر حقیقی معنی میں ضرورت پڑ سکتی تھی وہ اس نے پیدا کر دی.بعض دفعہ نہیں ملتی.کوئی ظالم آجاتا ہے بیچ میں.اس دکھ کو سوائے خدا کے کوئی دور نہیں کر سکتا.بعض دفعہ انسان کو بلکہ ( بعض دفعہ غلط شاید میں نے کہا ) اکثر یا ہمیشہ ہی انسان کو پتہ نہیں کہ میری بھلائی کسی چیز میں ہے.جو جانتا ہے اس سے مانگو.تو لا اله الا هو خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.خدا کے سوا کوئی ربوبیت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.حسبي الله یہ رب جو ہے یہ میرے لئے کافی ہے اور اس پر میں تو گل کرتا ہوں.سورۃ زمر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سینتیسویں آیت میں ہے.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ یہ عام اعلان ہے ایک ، جس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس معنی میں ہے کہ عملاً اس حقیقت کو ظاہر کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یہ سینتیسویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے.انتالیسویں آیت میں ہے.تو کہہ دے مجھے اللہ کافی ہے ( یہ جو آیا تھا پہلے ) قُل حَسبى الله - ( اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.پہلی آیت ( آیت ۳۷.ناقل ) میں تھا) پھر کہا اعلان کر دو حسبي الله میرے لئے اللہ کافی ہے کسی غیر کی مجھے ضرورت نہیں.عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ اس لئے جو میری اتباع کرنے والے ہیں انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ تم صرف خدا پر توکل کرو.ہمیں قرآن کریم میں یہ حکم ہوا.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران: ۳۲) اور اتباع کس چیز میں کرو؟ (صرف میں اصولی طور پر ایک بات بتارہا ہوں اس وقت ) فرمایا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ اعلان کروایا ) إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (يونس:۱۲) جو وحی مجھ پر نازل ہو رہی ہے میں صرف اس کی اتباع کرتا ہوں اور جس وقت ہمیں کہا گیا کہ آپ کی اتباع کرو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صرف اس وحی کی اتباع کر رہے ہیں جو آپ پر نازل ہورہی ہے.اس لئے ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ صرف اس وحی کی اتباع کرے جو آپ پر نازل ہو رہی ہے.

Page 289

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۵ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۸۱ء اور اس وحی سے ہمیں ایک بات جس کا اب میں ذکر کر رہا ہوں یہ معلوم ہوئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے اس کے علاوہ کسی پر توکل کرنے والے نہیں تھے اور کسی کی احتیاج محسوس کرنے والے نہیں تھے بلکہ یہ اعلان کرنے والے تھے اپنے متبعین ، اتباع کرنے والوں کو مُؤْمِنُونَ حَقًّا، جنہیں قرآن کریم نے کہا ہے کہ میری طرح تم بھی خدائے واحد و یگانہ، رب العالمین پر توکل کرو اور ہر چیز اس سے مانگو.یہ عملی زندگی میں خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.عملی زندگی میں زندہ خدا سے زندہ تعلق، ہم کہتے ہیں، پیدا کرو یہ ہے.ہر چیز اس سے مانگو.قرآن حکیم بھی ہے یعنی دلیل بھی دیتا ہے.سورہ تغابن میں فرمایا.وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (التغابن : ۱۲) کوئی چیز خدا تعالیٰ سے چھپی ہوئی نہیں.ہر چیز کو وہ جانتا ہے.تفصیل سے بھی بتایا.تمہارے خیالات کو وہ جانتا ہے یعنی جن خیالات نے الفاظ کا جامہ نہیں پہنا، اللہ تعالیٰ سے وہ چھپے ہوئے نہیں ہیں.جو تمہارے جذبات ظاہر نہیں ہوئے اور دل کی کیفیت ہے وہ، اس کو بھی وہ جانتا ہے علیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (التغابن : ۵) اور چودہویں آیت میں یہ کہا اللهُ لا إلهَ الا هُوَ وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ خدا ایک ہی ہے جس کی پرستش کرنی چاہیے.وہ ایک ہی حقیقی معبود اور مقصود اور محبوب ہے ہمارا.اور جو ایمان کا دعوی کرتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے وہ خدائے واحد و یگانہ پر صرف خدائے واحد و یگانہ پر تو گل کریں اور غیروں کی طرف نگاہ نہ اٹھا ئیں.دوسری حکمت یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر اس لئے تو کل کرو کہ کمزور نہیں ہے وہ.جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال: ۵۰) وه غالب ہے، طاقت والا ہے کوئی شخص اس کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتا.اگر تم پر رحم کرنا چاہے دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس کے رحم سے محروم نہیں کر سکتی.اگر تم اسے ناراض کر دو تو کوئی طاقت اس کی ناراضگی سے تمہیں بچا نہیں سکتی.عزیز تو اس پر تو گل کرنا چاہیے نا ، جو بنیادی طور پر ہر قسم کی طاقت کا سر چشمہ ہے اور کوئی غیر اس کے راستے میں روک نہیں اور اس پر توکل کرو کیونکہ وہ حکیم ہے، حکمت والا ہے.انسان بعض دفعہ ایک چھوٹے بچے کی طرح جو آگ کا مطالبہ کیا اس نے ماں سے اللہ تعالیٰ

Page 290

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ٫۲اکتوبر ۱۹۸۱ء سے ایک ایسی بات مانگتا ہے جو اس کے علم میں ہے کہ اسے نقصان دینے والی ہے یا ایسی بات کی خواہش رکھتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کسی اور کے متعلق خواہش ہے کہ وہ جو اور ہے وہ اس کے حق میں نہیں ہے جیسے کشتی کا تختہ توڑ دینا.قرآن کریم نے وہ مثال بڑی اچھی ایک دی ہے ہمارے لئے.تو خواہش بظا ہر نیک لیکن جو کامل علم رکھنے والی ہستی ہے اس کے نزدیک وہ درست نہیں.اس واسطے اس طرح نہیں دے گا کہ بچے نے سانپ مانگا اور سوٹی سے اس کی طرف سانپ پھینک دیا ماں نے.بلکہ وہ حکیم ہے وہ اپنی حکمت کا ملہ سے تمہاری دعاؤں کو سنے گا اور اپنے پیار کا اظہار کرے گا.تین دلیلیں ، تین حکمتیں یہاں بیان ہوئی ہیں.سورۂ شعراء میں ہے وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (الشعراء: ۲۱۸) عزیز پہلے آ گیا ہے.یہاں دونوں کو اکٹھا کیا ہے.جو ، جو چاہتا ہے کر سکتا ہے، طاقتور ہے اور بار بار کرم کرنے والی اس کی صفت ہے.بار بار کرم کرنے والا ہے.تو رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) جس کی صفت ہو اسے چھوڑ کے ایک ایسی ہستی کی طرف جانا جو جاہل بھی ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے میں، طاقتور بھی نہیں ہے اور جس کا رحم جو ہے وہ خدا تعالیٰ کے رحم کے مقابلہ میں اپنی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، یہ حماقت ہوگی.اس واسطے تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ اس لئے عملی زندگی میں (جو اصل چیز میں اس وقت پورے زور کے ساتھ آپ کو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں ) سوائے خدا کے کسی کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو اس معنی میں کہ صرف اس پر توکل کرو اور جو عقید تا اس کی صفات کا علم ہے، دعا کرو کہ وہ پیاری صفات تمہاری زندگی میں جلوہ گر ہوں.خدا کے سوا حقیقی خوشی اور خوشحالی کا سامان کوئی ہستی نہیں پیدا کر سکتی اور اللہ تعالیٰ اتنا پیار کرتا ہے، اتنا پیار کرتا ہے کہ انسانی عقل شرم سے سر جھکا دیتی ہے اور انسان جو ہے اس کو سمجھ نہیں آتا کہ میں کس منہ سے خدا تعالیٰ کی حمد ادا کروں.ایک ایک انعام کے بدلے میں جو شکر ادا کرنا ہے مناسب، ساری عمر کرتے رہیں تب بھی نہیں وہ شکر ادا ہو گا لیکن کہا تو یہ گیا ہے کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (القمن: ٢١) موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح تمہارے اوپر میری نعمتیں نازل ہو رہی ہیں.صرف ایک

Page 291

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۷ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۸۱ء مثال دوں گا عملاً کس طرح خدا تعالیٰ دیتا ہے.جماعت احمدیہ کے مخالف بعض دفعہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ غریب سی جماعت ہے لیکن بعض دفعہ ایسا کام کر جاتی ہے جس پہ پیسے خرچ ہوتے ہیں.تو چونکہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والے نہیں ، ان کا عقیدہ یہ معلوم ہوتا ہے جیسا کہ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودی جماعت کو پیسہ دے سکتا ہے، امریکہ پیسہ دے سکتا ہے اور جیسا کہ ایک سعودی میاں بیوی نے قرطبہ میں پچھلے سال کہا کہ جو آپ نے مسجد بنائی ہے ضرور سعودی عرب سے پیسے لئے ہوں گے.تو سعودی عرب پیسے دے سکتا ہے.اگر نہیں دے سکتا دولت تو خدا نہیں دے سکتا.عجیب عقیدہ بنالیا لیکن ہم احمدی جو ہیں احمدی مسلمان، ان کا جو عقیدہ ہے ان کا جو مشاہدہ ہے وہ یہ ہے کہ پانچ چھ سال ہوئے ، کینیڈا کے مغرب میں ایک شہر ہے کیلگری.چھوٹی سی جماعت پیدا ہوئی.میں ان کو کہتا تھا کہ نماز ادا کرنے کے لئے ، اکٹھے بیٹھ کے میٹنگ کرنے کے لئے ، بچوں کو اسلام کے چھوٹے چھوٹے سبق دینے کے لئے قرآن کریم پڑھانے کے لئے کوئی جماعت کی جگہ ہونی چاہیے.تو ایک گھر ہے پرائیویٹ ایک خاص شخص کا.اس نے کہا کہ میری بیٹھک میں تم نماز پڑھ لیا کرو.دو چار آدمیوں کی اس سے شکر نجی ہوگئی.وہ نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں.کہتے ہیں اس کے گھر میں نہیں جانا نماز پڑھنے کے لئے.تو اگر وہ خدا کا گھر ہو اور خدا کے عاجز بندوں کی جو جماعت ہے وہ خدا کے لئے خرید لے، تو جتنی مرضی رنجشیں ہو جائیں نماز کے لئے وہ کوئی روک نہیں ہوگی.وہاں آ جائیں.پانچ چھ سال ہوئے انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹا سا مکان ( فلیٹ نہیں ) جس کا صحن بھی ہے، آگے بھی پیچھے بھی ، وہ کم و بیش ستر ہزار ڈالر کو مل رہا تھا.( صحیح قیمت نہیں مجھے یاد ) تو نصف ہم نے یہاں آپس میں چندہ کر کے اکٹھی کر لی.اگر جماعت کی وہ رقمیں جو کینیڈا میں پڑی ہوئی ہیں جن کو ہماری ہدایت کے مطابق خرچ کیا جاتا ہے ( یہ یادرکھیں کہ ان ملکوں میں خود ایسے چندے اکٹھے ہوتے ہیں جو ضرورت کے وقت کام آتے ہیں) ان میں سے قرض دے دیں.ہم یہ لے لیں ہماری ضرورت پوری ہو جائے گی.ان کو میری اجازت سے ہی یہاں جو محکمہ Deal( ڈیل ) کرتا ہے ان کو رقم دے دی گئی.یہ پانچ چھ سال کی بات ہے اور وہ مکان خرید لیا انہوں نے چھوٹا سا.

Page 292

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۸ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۸۱ء قریباً ستر ہزار ڈالر میں وہ خریدا گیا.دو ہفتے کی بات ہے انہوں نے لکھا کہ ہمیں ایک جگہ مل رہی ہے کیلگری سے سات میل پر چالیس ایکڑ کی اور جو جگہ پہلے ہم نے پہلے خریدی تھی وہ بمشکل ایک کنال کی ہوگی ، شاید اتنی بھی نہ ہو.چالیس ایکڑ کی جگہ مل رہی ہے.جس میں ایک نیا مکان بنا ہوا ہے جس کی مکانیت ہمارے مشن ہاؤس سے کافی بڑی ہے.کھلے کمرے ہیں.زیادہ اچھا مکان بنا ہوا ہے اور وہ مل رہا ہے مکان ہمیں تین لاکھ پچاس ہزار ڈالر کو وہ.ہم نے ستر ہزار ڈالر میں وہ خریدا.تو یہ تین لاکھ پچاس ہزار ڈالر کومل رہا ہے اور جو وہ خریدا ہوا مکان تھا پانچ چھ سال پہلے، وہ چار لاکھ بیس ہزار ڈالر کو بک جائے گا یعنی مکان بھی خریدا جائے گا اور جو اس وقت اس کے او پر خرچ ہوا تھا وہ رقم کیش، نقد ہمارے پاس آ جائے گی.اب یہ میں نے تو نہیں دیئے ان کو پیسے یا امریکہ نے تو نہیں دیئے پیسے ان کو یا کسی اور انسان نے تو نہیں دیئے پیسے.خدا تعالیٰ نے انتظام کیا یعنی پانچ چھ سال پہلے بڑی سوچ بچار کرنے کے بعد تکلیف محسوس ہوئی کہ اتنا یہ خرچ ہورہا ہے اور وہ خرچ کر دیا اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ برکت ڈالی کہ وہ ایک کنال کے بدلے میں چالیس ایکٹر زمین ( ۳۲۰ کنال) اس سے اچھا گھر.میں نے ان کو کہا خریدو.الحمد اللہ پڑھو اور خریدلو.یہ پہلا پرانا ریچ دو.اور جس سے میں یہ اندازہ لگاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو جلد بڑی جگہ کی تعداد میں زیادتی ہونے کی وجہ سے ضرورت پڑ جائے گی کیونکہ ہمارا جو مکان بڑا ہوتا ہے وہ ایک لمبا عرصہ بڑا نہیں رہتا.چھوٹا ہو جاتا ہے یعنی تعداد ہماری بڑھ جاتی ہے.ربوہ بڑھ گیا.جہاں ہمارا جلسہ سالانہ سامنے یہ میدان، ہر سال بڑھ جاتا ہے.جو ہم نے مکان بنائے ، اس وقت بہت بڑا ایک گیسٹ ہاؤس غیر ملکیوں کے لئے بنایا تھا اب اس میں صرف تیس پینتیس فیصد غیر ملکی ٹھہرتے ہیں.اس وقت سمجھا گیا تھا کہ یہ ضرورت سے زیادہ بنایا گیا ہے.تو ہماری کم مائیگی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی دوڑ لگی رہتی ہے اور ظاہر ہے کہ ہماری کم مائیگی کے مقابلے میں اس دوڑ میں خدا تعالیٰ کے فضلوں نے ہی جیتنا ہے.یہ میں بات اس لئے بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے.اس کے علاوہ کسی پر توکل اپنی انفرادی زندگی

Page 293

خطبات ناصر جلد نهم ۲۷۹ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۸۱ء میں بھی نہ کریں.میرے پاس آجاتے ہیں بعض دفعہ کہ سفارش کر دیں اور مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے.دو تین دفعہ ایک شخص دُکھیا تھا نو جوان ، اور جماعت آئی.یہ اس وقت کی بات ہے جب میں صدر، صدرانجمن احمد یہ تھا.مجھے بڑا دکھ پہنچا کہ فلاں جگہ سفارش کر دیں ، فلاں جگہ سفارش کر دیں.ایک دن میں نے ذرا غصے میں کہا.میں نے کہا دیکھو! یہ نوجوان اس وقت اڑھائی تین سور و پیہ تنخواہ لے رہا ہے.اگر فارغ نہ کریں تو ریٹائر منٹ کے وقت ساڑھے چھ سو، سات سو روپے اس کو ملیں گے.اگر فارغ کر دیں تو ممکن ہے خدا تعالیٰ اس سے قربانی لے کے اس کو ثواب بھی پہنچائے اور ہر سو کے مقابلے میں ایک ہزار اس کی تنخواہ ہو جائے.ابھی دو مہینے ہوئے یا تین ، اس کا خط آیا.( میری تو زندگی میں ہزار ہا ایسے واقعات گزر جاتے ہیں ) وہ شروع ہی یہاں سے ہوا کہ میں اپنا تعارف کرواؤں.جب ظالمانہ طور پر مجھے فارغ کیا گیا تو آپ نے یہ کہا تھا کہ کیا پتہ خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے اور سوروپے کے مقابلے میں جو سور و پیہ پنشن کے وقت ہو گا (اب نہیں مل رہا ) ایک ہزار ملے.تو سات سو پنشن کے وقت یعنی پنشن سے معا پہلے جو (Highest Pay) مجھے مل سکتی تھی وہ سات سو روپیہ تھا اور اس مہینے مجھے سات ہزار روپیل گیا اور وہ بات خدا نے پوری کر دی آپ کی ، خدا دیتا ہے.کسی چیز میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا نا ہی نہیں.توکل کا یہ تقاضا ہے ورنہ تو پھر قرآن کریم نے کہا وَ مَا يُؤْ مِنْ اَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ (يوسف : ۱۰۷) ایمان کا دعوی بھی ہے اور شرک کی حرکتیں بھی ہیں، ساتھ ساتھ چل رہی ہیں زندگیوں میں.خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہیں.اس جماعت پر اللہ تعالیٰ نے پچھلے بانوے سال میں اتنے انعامات نازل کئے ہیں کہ جن کا حد و حساب کوئی نہیں، بیشمار.ہمارے تو چھوٹے دماغ انسان کے ان سب کو یا د بھی نہیں رکھ سکے.ہمیں یہ پتہ ہے کہ ہر آنے والا دن اس قدر انعام لے کر طلوع کرتا ہے ہم پر کہ ہرگز رنے والے دن کے انعامات ہم بھول جاتے ہیں.پھر اس کا شکر الحَمدُ لِلَّهِ ، پڑھنا شروع کر دیتے ہیں.اس لئے ہر احمدی یہ یاد رکھے وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) جو خدا تعالیٰ پر توکل کرے گا صحیح معنی میں حقیقی رنگ میں اسے اللہ کے سوا کسی اور کی ضرورت نہیں.

Page 294

خطبات ناصر جلد نهم ۲۸۰ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۸۱ء پھر دیکھو خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ سچ مچ یہ سلوک کرے گا کہ خدا کے سوا کسی کی ضرورت نہیں.طارق نے ، کہتے ہیں جب غیر ملک میں اور اپنے اور اس غیر ملک کے درمیان سمندر ہے اور راستہ خشکی کا کوئی نہیں ، سات ہزار اپنے ساتھیوں کے ساتھ غیر ملک میں کشتیوں کے ذریعے وہ اترے.انہوں نے کشتیاں جلا دیں.پاگل نہیں تھا طارق.طارق کو یہ پتا تھا وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسبُه اس کے اپنے ساتھیوں نے کہا کہ پیغام ہی بھیجنا ہوتا ہے کوئی.ہر قسم کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں.یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا خدا میرے لئے کافی ہے مجھے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں اور غیر ملک میں جہاں کی نہ منڈیوں کا ان کو پتہ کہ جہاں سے اپنی رسد خرید سکیں نہ راستوں کا پتہ کہ اپنی پیٹھ کو محفوظ کر سکیں دشمن سے.وہ ان کو منڈیوں کا بھی پتہ تھا اور راستوں کا بھی پتہ تھا.پانچ ہزار کی بعد میں ان کو فوج مل گئی وہ بارہ ہزار ہو گئے.ایک لاکھ سے زیادہ فوج ، زیادہ ہنر مند فوج، زیادہ اچھے ہتھیاروں سے لیس فوج.اس نے کہا میرے لئے خدا کافی ہے اور خدا نے کہا اس نیک بندے نے میرے اوپر کامل تو کل کیا میں اس کے لئے کافی ہوں اور کافی ہوا عملاً.چودہ سو سالہ تاریخ بھری پڑی ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے والے ہیں خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے ہیں.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس گروہ میں شامل ہو جائے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 295

خطبات ناصر جلد نهم ۲۸۱ خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء مومنین کی جماعت کو صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے خطبه جمعه فرموده ۹ اکتو بر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے حسب ذیل آیت قرآنی تلاوت فرمائی:.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.(ال عمران : ٩) پھر فرمایا:.قرآن عظیم نے جو دعا اس آیت میں ہمیں سکھائی ہے جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے اس کی ضرورت اور اہمیت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے سپین میں آجاتی ہے.قریباً چھ صدیاں اُمت مسلمہ کے اس حصہ نے جو یہاں رہائش پذیر تھا اور یہاں کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں تھی انہوں نے صراط مستقیم کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ سے ان کا اتنا مضبوط تعلق تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اور دنیا کی کوئی کشش اور رغبت اس تعلق کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی اور قریباً چھ صدیاں اللہ تعالیٰ نے ان پر اسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن:۲۱) موسلا دھار بارش کی طرح ظاہری اور باطنی نعمتیں نازل کی تھیں علمی میدان میں ساری دنیا کی بادشاہت ان کے ہاتھ میں تھی.روحانی طور پر بھی بڑے بزرگ انہوں نے پیدا کئے اور اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ

Page 296

خطبات ناصر جلد نهم ۲۸۲ خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ (ال عمران : ۲۷) اس زمانہ میں ان کی زندگی نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ التجا کی تھی کہ اگر ہمارے ہاتھ میں مملکت رہے تو تیری مخلوق کو فائدہ پہنچے گا بجائے اس کے کہ کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے اور خدا تعالیٰ جس نے انہیں پیدا کیا اور ایسا بنایا جیسا وہ تھے ان کی اس قابلیت کو جو اسی نے دی تھی دیکھتے ہوئے ان کو یہ موقع دیا کہ وہ انسانیت کی خدمت کریں.بڑے بڑے لاٹ پادری ان کے مدرسوں میں آکر علم حاصل کرتے تھے.علم کے میدانوں میں اسقدر آگے نکلے کہ آج بھی وہ دنیا جو اس روشن ماضی کو بھول چکی ہے، ان کا رناموں سے انکار نہیں کر سکتی ، نہ کرتی ہے.اقرار دبی زبان سے کرتی ہے.دھیمی آواز میں کرتی ہے مگران کا احترام کرتے ہیں، انکار نہیں کرتے.پھر دنیا نے انہیں اپنی طرف راغب کر لیا.دنیا کی رغبت اور اس کا زہر آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے وہ محروم ہوتے رہے اور وہ جو بارہ ہزار کی تعداد میں یہاں آئے ان کے مقابل عیسائی طاقت جن کا ملک تھا یہ، لاکھوں کی ان کی فوج تھی اور اکیلا یہ ملک ہی نہیں تھا کہ ایک جزیرہ ہے پین ، جس کے چاروں طرف سمندر ہے جو فوج ان کے پاس ہے بس اسی سے انہوں نے کام لینا ہے، ان کی پشت کے ساتھ ان کے ممد اور معاون اور ہم مذہب اور اتنے ہی متعصب اسلام کے خلاف جتنے یہ خود تھے.فرانس تھا ، پھر اس کی پشت کے ساتھ جرمنی لگا ہوا تھا، پھر سارا یورپ جو تھا وہ ان کو مدد دینے کے لئے تیار تھا ایک وہ وقت ، جب بارہ ہزار ان لاکھوں کے مقابلے میں کافی تھے اور ایک وہ وقت آیا جب ان کے دل صراط مستقیم کو چھوڑ کر کج راہوں پر چلنے لگے اور ان کے ذہنوں میں نور کی بجائے ظلمتیں بسیرا کرنے لگیں اور ان کی روح اللہ تعالیٰ کے پیار کے سایہ سے نکل کر شیطانی آگ سے لذت پانے لگی جب لاکھوں بن گئے اس وقت لاکھوں کا مقابلہ نہیں کر سکے.جب بارہ ہزار تھے تو لاکھوں پر بھاری تھے.جب لاکھوں بن گئے تو شاید دشمن ان سے کم ہوں تعدا میں ، وہ ان پر بھاری ہو گئے.ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا اس واسطے دعا سکھائی خدا نے ہمیں بڑے پیار سے.یہ دعا کرتے رہو ہدایت پانا بھی اس کے فضل سے ہوتا ہے، ہدایت پر قائم رہنا بھی اس کی مدد اور رحمت کے بغیر

Page 297

خطبات ناصر جلد نہم ۲۸۳ خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء ممکن نہیں.وہ خود ہی رہنمائی کرے تو سیدھا راستہ سامنے نظر آتا رہتا ہے ورنہ انسان کی نظر بھٹکتی اور پاؤں میں لغزش پیدا ہو جاتی ہے.وہ جو آسمان کی بلندیوں تک پہنچے تھے سمندروں کی گہرائیوں میں ان کی ہڈیوں کا بھی نشان نہیں ہمیں ملتا.ان کے کارناموں کے خال خال نقوش نظر آتے ہیں.غرناطہ میں الحمراء ہے.قرطبہ کی مسجد ہے وہ بھی بہت کچھ خراب ہو چکی مرورِ زمانہ یا تعصب دشمنان کے نتیجے میں، لیکن ان کے نشانات نظر آتے ہیں ان پر ، آج صبح ہم مسجد دیکھنے گئے تو محراب کی چھت جو تھی اس کے اوپر جو نقش و نگار تھے ان میں بھی خدا تعالیٰ کی صفات کی عظمت کو انہوں نے نمایاں کیا ہوا تھا.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْن (الرحمن:۳۰) تنوع بھی تھا اور اس میں وحدت بھی جھلک رہی تھی اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کی.لیکن وہ انسان جس کو خدا نے یہ سب کچھ کرنے کی توفیق عطا کی وہ تو ضلالت کے گڑھے میں گر گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ صرف ایک انسان تھا جس نے اپنے کردار سے اسلام کی عظمت کو قائم رکھا.اس نے کہا شکست نہیں تسلیم کرنی ، لڑنا چاہیے.اگر نہیں لڑتے تو میں جاتا ہوں وہ اکیلا گھوڑے پر سوار ہوا اور غرناطہ کے قلعے سے نکلا اور خدا جانے کہاں گیا ؟ اغلب یہی ہے کہ وہ اکیلا دشمن کی کسی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا.اگر وہ اس وقت علماء ظاہر کی بحثیں سننے میں اپنا وقت ضائع نہ کرتے جب وہ اس پریشانی کے وقت میں غرناطہ کے چوراہوں میں ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کر کے آپس میں بغض اور عناد کی آگ کو ہوا دے رہے تھے اور خدائے واحد و یگانہ کی طرف توجہ کرتے اور خدا کے ہو کر خدا کے لئے لڑتے تو یقیناً دشمن کو شکست دیتے اور یہ خلیہ نہ ہوتا جو آج اس ملک کا نظر آتا ہے.قریباً آٹھ صدیاں ، ساڑھے سات سو سال کم و بیش یہاں مسلمان نے حکومت کی.حکومت کی ، ظلم سے نہیں، انصاف کے ساتھ ، غرناطہ میں الحمراء میں جوگا ئیڈ ملا وہ کہتا تھا کہ میں بھی ایک مسلمان خاندان کا عیسائی بیٹا ہوں اور پھر یہ دیکھیں (وہ کہہ رہا تھا ) مسلمان بادشاہوں نے اتنا عدل قائم کر رکھا تھا کہ چھوٹی چھوٹی چپقلش جو ہو جاتی ہے، رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں، بدمزگیاں ہوتی ہیں، فضا کو خراب کرتی ہیں ، ان سے بھی بچانے کے لئے عیسائیوں کے علیحدہ کوارٹر ، محلے بنا دیئے تھے.شہر کا ایک حصہ تھا اس میں عیسائی تھے.ان کے گرجے تھے ، ان کے پادری تھے ، وہ جس طرح چاہتے تھے

Page 298

خطبات ناصر جلد نهم ۲۸۴ خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء وعظ کرتے تھے.یہودیوں کا ایک علیحدہ علاقہ اور Gipsy ( جیسی ) جن کو آج بھی غیر مسلم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کا جو تمدن اور ثقافت تھی اس کو نہیں چھیڑا.وہ چاہتے تھے کہ Caves ( کیوز ) میں جو وہاں ان کو میسر آئی تھیں ان میں رہیں اور جب دل کرے خانہ بدوش بن کے ادھر اُدھر پھرتے رہیں.حکم تھا تم جس طرح چاہتے ہو اپنی زندگی گزارو.آج بھی وہ Caves ( کیوز ) میں ہیں لیکن آج وہ عزت اور احترام جو ایک مسلمان انہیں دیتا تھا.اس عزت اور احترام سے وہ محروم ہیں اس مہذب دنیا میں ، اُس مہذب دنیا میں جو حقیقی معنی میں مہذب تھی وہ محروم نہیں تھے.پھر مسلمانوں کے کوارٹرز تھے.عیسائیوں کو گر جے بنانے کی اجازت تھی ، مسلمان کو گرجے گرانے کی اجازت نہیں تھی.ہمارا گائیڈ کہنے لگا.وہ جو سامنے آپ کو بہت بڑا گر جا نظر آتا ہے.یہ مسجد تھی جسے گر جا بنایا گیا.اس کے صحن میں ابھی وضو کرنے کے لئے جو انتظام ہوا کرتا تھا وہ موجود ہے.بہر حال زمانہ کروٹ نہیں بدلتا انسان کا دل کروٹ بدلتا ہے اور دنیا بجھتی ہے کہ شاید زمانہ بدل گیا.جب تک انسان خدا کا ہو کر خدا میں زندگی بسر کرتا رہے زمانہ جو کچھ بھی کرے گا اس کے حق میں کرے گا.اور جب یہ تعلق ٹوٹ جائے اور انسان خدا کی بجائے شیطان کی گود میں اپنے آپ کو بٹھا دے، پھر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی توقع رکھے یہ حماقت ہے وہ تو نہیں اس کو مل سکتی.رحمت تو تبھی ملے گی جب انسان سمجھے کہ جو کچھ ملا ، وہ خدا سے ملا ، جو کچھ مل سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ہی مل سکتا ہے اور ہدایت کی اس روشنی کو اور نور کے اس جلوہ کو دیکھنے کے بعد پھر بہک جانا اور نور کی بجائے ظلمت میں آجانا اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر کج رہی کو اختیار کر لینا.اتنا بڑا ظلم ہے جو انسان اپنے پر کرتا جو انسانی نسلیں اپنے پر کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کے لئے ہمیں یہ دعا سکھا دى رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا - اب ایک نیا دور شروع ہوا ہے عظمت اسلام کا.مہدی آگئے اور جس صدی میں آنے کی بشارت دی گئی تھی وہ صدی اختتام پر ہے.بہت سے لوگ اب اس صدی کے ان آخری دنوں میں کہہ رہے ہیں کہ ہم انتظار کر رہے ہیں پہلا دن جو پندرھویں صدی کا ہوگا اگر اس دن تک مہدی اور مسیح آسمان سے نہ آئے تو ہم بیعت کر لیں گے.خدا معلوم وہ اس دن تک زندہ رہتے

Page 299

خطبات ناصر جلد نہم ۲۸۵ خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء ہیں یا نہیں.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت مسلمہ متحد ہو کر یہ اعلان کر چکی ہے کہ آنے والے نے جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا تھا لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف:۱۰) اس کے زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی.اس کا زمانہ چودھویں صدی ہے، وہ چودھویں صدی آگئی.نشان پورے ہو گئے.چاند اور سورج نے گواہی دی اور سینکڑوں اور نشان ہیں.ہمارے علماء کی تھیں پیشگوئیاں ، وحی کے ذریعہ، رویاء صادقہ کے ذریعہ زمانہ کی تعین کی گئی ہے کہ اتنے زمانہ بعد آئے گا قریباً پانچ سو سال پہلے کہا ۵۰۰ سال بعد آئے گا.ایک بزرگ حج کرنے گئے.خانہ کعبہ میں ان کو نیند آگئی وہاں انہوں نے عجیب خواب دیکھی.انہوں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے، اس پر ایک مریض پڑا ہوا ہے اور بہت سے معالج ، طبیب اطباء ، ڈاکٹر اس کے گرد ہیں اور وہ اس کا علاج کر رہے ہیں اور اس کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا اور ان کو خواب آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے کوئی آٹھ دس سال پہلے کہ چند قدم کے فاصلہ پر ایک طبیب بیٹھے ہیں اور وہ اس کی طرف توجہ نہیں کر رہے بیمار کی طرف اور خواب میں ان کو بتایا گیا کہ اگر یہ طبیب توجہ کرے تو بیمار کو صحت ہوسکتی ہے.لیکن وہ تو جہ نہیں کرتے ، وہ بڑے پریشان ہوئے.واپس گئے ، ان کے ایک پیر تھے ، انہوں نے ان سے پوچھا خانہ کعبہ میں میں نے یہ خواب دیکھی ہے اور مجھے اس کی تعبیر نہیں معلوم اور میں پریشان ہوں.میری طبیعت پر بڑا اثر ہے، مجھے تعبیر بتائیں، انہوں نے جواب دیا کہ جو تم نے مریض دیکھا ، وہ اسلام ہے اور اسلام کی حالت نا گفتہ بہ ہے اور جو تم نے دیکھا کہ بہت سے اطباء اس کے گرد منڈلا رہے ہیں اور علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ میرے تیرے جیسے طبیب ہیں.اور جو تم نے دیکھا کہ چند قدم کے اوپر ایک شخص بیٹھا ہے.ایک طبیب بڑا ماہر اور تمہیں بتایا گیا کہ یہ توجہ کرے تو اسے صحت ہو سکتی ہے وہ آنے والا مہدی ہے اور خواب میں تمہیں زمانہ، مکان کی شکل میں دکھایا گیا ہے اور چند سال میں وہ آجائے گا اور چند سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا.ہزار ہا پیشگوئیاں ہیں، دلائل ہیں ، نشان ہیں، آیات ہیں، معجزات ہیں، جنہوں نے حضرت مہدی علیہ السلام کی صداقت کو ثابت کیا ہے، لیکن جنہوں نے نہیں مانا تھاوہ نہیں مانے اور چودھویں صدی

Page 300

خطبات ناصر جلد نہم ۲۸۶ خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء اب ختم ہو رہی ہے اور غالباً آٹھ نومبر کو پندرھویں صدی کا پہلا دن ہے.( غالباً میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک آدھ دن چاند کی وجہ سے آگے پیچھے ہو سکتا ہے ) اس دن ہر احمدی کو چاہیے کہ ہر مسلمان کو بتائے کہ چودھویں صدی ختم ہو گئی تمہاری ساری امیدیں بھی ختم ہو گئیں.اس صدی میں، چودھویں صدی میں ایک نے دعوی کیا اس کے لئے نشان پورے ہو گئے ، تم انتظار کرتے رہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے کہ انتظار کرو اور سجدوں میں گھر کے رورو کے دعائیں کرو، تمہارے ناک رگڑے جائیں اور زخم پڑ جائیں خدا تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا ، اس واسطے کہ خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آپکا ، تو ان کو کہو کہ اگر ذرہ بھی تمہاے دل میں ایمان ہے تو آج کا دن پکار پکار کر تمہیں کہہ رہا ہے کہ آج تم احمدیت میں داخل ہو جاؤ.خدا کرے کہ ان کو سمجھ آجائے لیکن ان کو تو جب سمجھ آئے گی آئے گی.جو ہماری ذمہ داریاں ہمیں چاہیے ان کو نبھا ہیں.پس آپ بڑی کثرت سے یہ دعا کیا کریں کہ آپ کو خدا نے ہدایت دی ہے ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً خدا کی رحمت کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا.فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمُ (الصف: ٦) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب انہوں نے اپنے اعمال میں آہستہ آہستہ بدعات کو شامل کرنا شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بدلا.جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت تھی وہاں ان کے دل الہی محبت سے خالی ہو گئے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے اور ہمیں ہمت اور قوت دے کر ہم اس سے زیادہ سے زیادہ نعمتوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں.( آمین ) خطبہ ثانیہ کے بعد نماز سے قبل حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.” دوست صفیں درست کر لیں یہ آج کا جمعہ بھی بڑا اہم ہے پہلا جمعہ ہے جنہوں نے اذان دی اور اقامت کہی ان سب کے نام نوٹ کرنے ہیں تاریخ کے لئے.“

Page 301

خطبات ناصر جلد نهم ۲۸۷ خطبه جمعه ۱۶ /اکتوبر ۱۹۸۱ء سوائے خدا کے کسی پر تو گل نہ کرو خطبه جمعه فرموده ۱۶ اکتوبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.طبیعت تو ٹھیک نہیں تھی کچھ تو پیٹ میں تکلیف ہے کچھ جسے انگریزی میں کہتے ہیں Muscle Pull (مسل پل ) ہو گیا ہے.چلنے میں بھی تکلیف محسوس کرتا ہوں درد ہوتی ہے.ویسے بھی درد کا احساس ہے لیکن میں آگیا کیونکہ جمعہ بھی ایک ملاقات کا سامان پیدا کرتا ہے ہم ایک دوسرے کو دیکھ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.ایک لمبے مضمون کی بڑی مختصر تمہید اس وقت میں بیان کروں گا.آگے پھر پھیلے گا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے.انشاء اللہ.میں نے دنیا کے ہر ملک میں بھی اور آپ کے سامنے بھی یہ بنیادی حقیقت بار بار رکھی ہے کہ وحدانیت باری تعالیٰ اس کائنات کی بنیاد ہے.قرآن کریم پر جب ہم غور کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے سارے بیانات کو اپنی صفات سے باندھا ہوا ہے.جس صفت کے ماتحت وہ حکم دیا گیا اس صفت کا وہاں اظہار کر دیا گیا.بڑا لطیف مضمون ہے یہ.سارا قرآن ہی آجاتا ہے بیچ میں.

Page 302

خطبات ناصر جلد نهم ۲۸۸ خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۱ء اس لئے جو ایک مومن مسلم سے مطالبہ کیا اسلام نے بنیادی طور پر صرف ایک وہ ہے.وہ یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کسی کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو کسی کی طرف متوجہ نہ ہو.کسی سے آس نہ رکھو سوائے خدا کے کسی پر تو گل نہ کرو.اپنے سارے وجود کو اس کے حضور سونپ دو اور اپنی ساری قوتوں اور استعدادوں کو اس کی راہ میں خرچ کرو اس معنی میں کہ جو قو تیں اور استعدادیں اس نے عطا کی ہیں جس رنگ میں ان قوتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کا حکم قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اس طرح ان کی نشو ونما کرو اور ہر مطالبہ جو ہماری طاقت سے ہمارا رب کرتا ہے کہ اگر میرے جانثار ہو تو اپنی اس طاقت کو اس رنگ میں میرے حضور پیش کر دو، اس رنگ میں خدا تعالیٰ کے مطالبہ کے مطابق ہمیں پیش کر دینا چاہیے.آسان بھی ہے کیونکہ جو چاہا گیا وہ ہماری فطرت میں رکھا بھی گیا.جب کہا گیا کہ مجھ سے تعلق پیدا کرو تو ہماری فطرت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے سامان بھی پیدا کر دیئے.مشکل بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے شیطانی طاقتوں کو ، طاغوتی قوتوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ ہونا چاہیں اور اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنا چاہیں انہیں وہ ور غلا لیں اور اللہ کی جنتوں کی بجائے انہیں وہ خدا تعالیٰ کے جہنم ، آگ کی طرف لے جائیں.یہ ایک کشمکش ہے انسانی فطرت اور طاغوتی طاقتوں کے درمیان لیکن انسان چونکہ کمزور تھا خدا تعالیٰ نے بہت سے ایسے سامان پیدا کئے کہ اپنی کمزوری کے باوجود وہ اپنے خدا کا ہی ہو کر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے.فرشتوں کو اس نے مقرر کیا کہ انسان کی ہدایت کے سامان پیدا کر لیں.اپنے پیار سے اپنے ماننے والوں ، اپنے دامن کو پکڑنے والوں ، اپنے حضور جوسب کچھ اپنے وجود کا پیش کرنے والے ہیں ان کے لئے اتنی بشارتیں دے دیں، اتنی بشارتیں دے دیں کہ انسان ان کا حقدار تو نہیں بنا لیکن جب ہمارا رب دینے پر آتا ہے تو یہ تو نہیں دیکھتا وہ کہ میرا یہ بندہ حق رکھتا ہے یا نہیں.وہ تو اپنے فضل کے ساتھ پھر جھولیاں بھر دیتا ہے اور دنیا کو حیرت میں ڈال دیتا ہے.خدا کرے کہ ہم سب اُس گروہ میں شامل ہوں اور شامل رہیں جن کے متعلق قرآن کریم

Page 303

خطبات ناصر جلد نہم ۲۸۹ خطبه جمعه ۱۶ /اکتوبر ۱۹۸۱ء نے اعلان کیا هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۷۵) که حقیقی اور سچے مومنوں کا وہ گروہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے وارث بنتے ہیں.اس وقت میں اسی پر اکتفا کروں گا.تکلیف میں ہوں درد کی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 304

Page 305

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۱ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۱ء جماعت احمدیہ کا بنیادی مقام عجز اور انکسار کا مقام ہے خطبه جمعه فرموده ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چند دن سے مجھے شدید انفلوئنزا کی تکلیف رہی ہے.کافی حد تک آرام ہے مگر فلو کا کچھ حصہ باقی ہے شعف بھی ہے.فلوسر پر بھی حملہ کرتا ہے اور جسم کو بھی کمزور کرتا ہے.بلڈ پریشر بھی بعض دفعہ بہت گر جاتا ہے.Low ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ نے فضل کیا اور اس قابل کیا کہ میں آج نماز جمعہ کے لئے آگیا.یہ اس لحاظ سے بڑا اہم جمعہ ہے کہ اس جمعہ ہی سے میں اس مضمون کو شروع کر دیا کرتا ہوں جو خدام الاحمدیہ میں میں نے بیان کرنا ہوتا ہے اور جو مضمون خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماعات کی تقاریر میں میں نے بیان کرنا ہے وہ اس لئے بہت اہم ہے کہ یہ اجتماعات پندرہویں صدی ہجری کے پہلے اجتماعات ہیں اور میں چاہتا تھا کہ پندرھویں صدی ہجری کی اہمیت کے پیش نظر جو اہم ذمہ داریاں ہیں اُس کے مطابق جس قسم کی ہمیں زندگی گزارنی چاہیے اس کے متعلق میں جماعت کو کچھ کہوں.کیونکہ ابھی جمعہ کے بعد اجتماع بھی ہے میں بیماری کی وجہ سے ضعف بھی محسوس کر رہا ہوں ، ہم نمازیں انشاء اللہ جمع کریں گے.اس لئے مختصراً ایک ضروری بات کہوں گا کہ جو بنیاد بنتی ہے

Page 306

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۲ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۱ء ساری اسلامی تعلیم کی بھی اور ہماری زندگیوں کی بھی اور وہ یہ ہے کہ عاجزی کو اختیار کرو.“ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس مضمون پر ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے.ایک جگہ فرمایا وَ يَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (بنی اسرآءيل:۱۱۰) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ قرآن عظیم يَزِيدُهُمْ خُشُوعًا انہیں عاجزی اور فروتنی میں اور بھی زیادہ کرتا چلا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم میں جو بھی تعلیم پائی جاتی ہے وہ وحی تعظیم جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اور جس نے نوع انسانی کے ہاتھ میں ایک کامل شریعت پکڑائی.سارے احکام ، اوامر بھی اور نواہی بھی ایسے ہیں جن کی بنیاد عاجزی اور انکساری پر ہے یا جن پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی راہوں کو اختیار کئے بغیر ممکن ہی نہیں.میں نے مثال کے طور پر ایک آیت کو اس وقت منتخب کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ۖ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ - الَّذِيْنَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة : ۴۶، ۴۷) یہ دو آیات ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ حکم دیا کہ میرے سارے احکام، اوامر اور نواہی جن پر عمل کرنا ضروری ہے تم اُن پر عمل نہیں کر سکتے جب تک میری مدد، میر افضل اور رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو.اس لئے وَاسْتَعِينُوا تم خدا تعالیٰ سے مدد مانگو.اس لئے کہو کہ ہماری مدد کو آ اپنے فضل اور رحمت سے.تا کہ ہم تیرے احکام بجالا کر اس طریقے پر جس طریق کو تو پسند کرتا ہے تیری رضا کو حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم محض یہ کہہ دینے سے کہ ہماری مددکو آمیری مددکو نہیں پاؤ گئے.میری مدد کے حصول کے لئے دورا ہیں میں نے تمہارے لئے کھولی ہیں.ایک صبر کی راہ ہے دوسرے دُعا کا راستہ ہے.صبر کے معنے ہیں مضبوطی کے ساتھ استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر گامزن رہنا، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا اور الصلوةُ - الدُّعَاءُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.یہ جو ہم ایک فارمل دعا کرتے ہیں.نماز ابھی ہم پڑھیں گے جمعہ کی اور عصر کی.یہ بھی کیا ہے؟ تسبیح ہے ، تحمید ہے ، استغفار ہے ، درود ہے ، بہت کچھ ہم ما نگتے ہیں.بہت کچھ قرآن کریم کی آیات ہیں.خدا سے کہتے ہیں جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں اُن کی عقل اور سمجھ ہمیں عطا

Page 307

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۳ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۱ء کر.دُعا ہی ہے پانچ وقتہ تا کہ کم سے کم جو ہمارے لئے ضروری تھا وہ ہمیں مل جائے.اور پھر کہا جتنی زیادہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے مدد حاصل کرتے رہو گے ملتی رہے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری مدد تمہیں مل نہیں سکتی صبر اور دعا کے بغیر اور تمام دباؤ کے باوجود جو شیطانی اور طاغوتی طاقتیں تمہارے اوپر ڈالیں گی اور تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گی اور دعا ان طاغوتی طاقتوں کو ناکام بنا دے گی.صبر کرنا اور دعا کو اپنی شرائط کے ساتھ مانگنا بڑا مشکل کام ہے.وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ یہ آسان کام نہیں.یہ تو درست ہے لیکن جس قسم کے صبر کا، استقامت کا ہونا ضروری ہے یعنی یہ کہ ایک لحظہ کے لئے بھی غیر کا خیال انسانی ذہن میں نہ آئے اور ہر وقت اُس کے آستانہ پر انسان جھکا رہے دُعا کرتے ہوئے ، اس کے بغیر وہ مدد نہیں مل سکتی اور یہ آسان کام نہیں لیکن آسان ہے بھی.آسان ہے ان لوگوں کے لئے جو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہیں.إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ جو عاجزی کو اور فروتنی کو اور انکسار کو اور تواضع کو اختیار کرتے ہیں اُن کے لئے صبر اور ہمیشہ دُعا میں مشغول رہنا اور مضبوطی کے ساتھ اتباع وحی قرآنی کرتے رہنا یہ مشکل نہیں ہے اور یہ جو خشوع ہے ، یہ عاجزی اور انکساری یہ الَّذِيْنَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ اس معرفت کے نتیجہ میں انسان کے دل اور اس کے سینہ میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ کہ اُن کا واسطہ اُن کے خدا سے پڑنا ہے اور وہ یہ شدید خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں اَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وصالِ الہی حاصل ہو ، اس زندگی میں بھی.اور اس یقین پر قائم ہیں کہ جو بھی فیصلہ ہونا ہے صبر و دعا کے قبول ہو جانے کا ،صبر اور استقامت اور اتباع وحی قرآنی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ، اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرتا ہے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے یا اُن کے اندر جو بشری کمزوریاں رہ جائیں بدقسمتی سے اللہ تعالیٰ اُن کی وجہ سے اُن کو کہیں رد تو نہیں کر دیتا و أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَجِعُونَ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے یہ خواہش کہ خدا سے زندہ تعلق قائم ہونا چاہیے اور قائم رہنا چاہیے اور اس حقیقت کی معرفت که آخری فیصلہ اللہ نے کرنا ہے اسی کی طرف ہم نے لوٹ کے جانا ہے، اُن کو اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہے کہ ہم لاشے محض ہیں ، ہم کچھ بھی نہیں ، نیست ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے جو تواضع کرے گا ، عاجزانہ راہوں کو اختیار

Page 308

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۴ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۱ء کرے گا اور اس رنگ میں اختیار کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی عاجزی اور فروتنی کو قبول کر لے گا تو رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ( يَا السَّابِع ) اللہ تعالی ساتویں آسمان تک اُسے اُٹھا کے لے جائے گا.تو جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت اور افراد جماعت احمدیہ کا انفرادی حیثیت میں جو بنیادی مقام ہے وہ عجز اور فروتنی اور تواضع اور انکساری کا مقام ہے اس کو نہ بھولنا.اگر تکبر ہو، اگر ریا ہو ، اگر اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ جاؤ، اگر غرور ہو تمہیں اپنے علم پر یا اپنے مال پر یا اپنی دولت پر یا اپنے قبیلہ پر یا اپنی طاقت پر تو مارے گئے تم ! یہ جو ہے فروتنی یہ فنا کی شکل اختیار کرتی ہے یعنی اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دینا اللہ میں فانی ہو جانا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں کھوئے جانا ، ایک موت اپنے پر وارد کرنا ایک ایسی موت جونئی زندگی عطا کرتی ہے اگر قبول ہو جائے وہ موت (اپنی جان پیش کی ہے خُدا کے حضور ) اگر خدا تعالیٰ اس قربانی کو قبول کر لے تو ایک نئی زندگی آپ کو عطا کرتا ہے جو بڑی پاک ہوتی ہے ، جو بڑی مظہر ہوتی ہے جس پر فرشتے بھی ناز کرتے ہیں ، جسے خدا قبول کرتا ہے اور جسے قبول کر کے اپنی تمام اُن بشارتوں کا وارث بنا دیتا ہے جو قرآن کریم نے مُؤْمِنُونَ حَقًّا نیچے اور کامل مومنوں کو دی ہیں.اللہ کرے کہ جماعت کو جماعتی حیثیت میں اور افراد جماعت کو انفرادی حیثیت میں اس عجز و انکسار کے مقام کو حاصل کرنے اور پھر ہمیشہ اُس پر قائم رہنے کی توفیق ملتی رہے.اسی بنیاد پر میں انشاء اللہ خدام ولجنہ کو کچھ کہوں گا.غور سے سُنیں اور اپنی زندگیوں کو اُن کے مطابق ڈھالیں.اللہ تعالیٰ توفیق دے روزنامه الفضل ربوہ ۷ /نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۳، ۴)

Page 309

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۵ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء تحریک جدید کے اڑتالیسویں ، اڑتیسویں اور سترہویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس میں شک نہیں کہ جماعت احمدیہ میں کچھ لوگ ناشکرے بھی ہوتے ہیں تربیت کے محتاج ، جن کی تربیت کی طرف توجہ دی جاتی ہے ہمیشہ اور اپنی اصلاح کر کے وہ شکر گزار بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن بحیثیت جماعت یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں پر مشتمل ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَبِنْ شَكَرْتُم لازيد تكُم (ابراهیم : ۸) اگر ان نعماء کا جو میری طرف سے تم پر نازل ہوں تم شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ نعمتوں کا تمہیں وارث بنائے گا اور پہلے سے زیادہ جن نعمتوں کا وہ وارث بناتا ہے ان میں سے ایک نعمت پہلے سے زیادہ اس کے حضور قربانی پیش کرنے کی توفیق ہے اور پھر زیادہ قربانی کے نتیجہ میں جو شکر کے جذبات کے ساتھ اس کے حضور پیش کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پہلے سے زیادہ برسنے لگ جاتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا وَ مَا انْفَقْتُم مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرزِقِينَ (سبا:۴۰) اور جو کچھ بھی تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کا نتیجہ ضرور نکالے گا اور دوسری جگہ فرمایا کہ یہ نتیجہ اس شکل میں بھی ظاہر ہوگا کہ دُنیوی اموال میں تمہارے برکت ڈالی

Page 310

خطبات ناصر جلد نہم ۲۹۶ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء جائے گی اور تمہیں زیادہ تو فیق دی جائے گی خرچ کرنے کی.وہ سب رزق دینے والوں میں سے اچھا اور کامل ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور شکر ادا کرتے ہوئے اپنے اموال کو خرچ کرنے کی ایک مثال آج میں یہاں بیان کروں گا اور وہ تحریک جدید کی مد میں جو قربانی دینے والے ہیں ، ان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے وہ ہمارے سامنے ایک عظیم حقیقت بیان کرتا ہے.آج میں تحریک جدید کے اڑتالیسویں ، اڑتیسویں اور ستر ہویں تین دفتر ہیں ان کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید نے جو قربانیاں یا تحریک جدید میں جماعت نے جو قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی اس کی شکل یہ بنتی ہے.میں نے اپنی خلافت کے سال سے یہ گراف ان سے بنوایا ہے.ان اٹھارہ سال میں چار لاکھ پینتیس ہزار روپیہ تحریک جدید کی مد میں وصول ہوا تھا ۶۵ - ۶۴ء میں چندہ جات تحریک جدید اندرون پاکستان اور ۸۲-۸۱ ء کا بجٹ اٹھارہ لاکھ چالیس ہزار ہے جس کا مطلب ہے کہ ساڑھے چار سو فیصد یعنی اتنے گنا زیادہ یہ ہو گیا اس عرصے میں.لیکن تحریک جدید کی جو آمد ہے وہ اس ملک میں ہمارے پاکستان میں اتنی خرچ نہیں ہوتی جتنا اس کا تعلق باہر کی جماعتوں سے ہے.یہاں ہمارے خرچ جو ہیں ، یہاں کی آمد اس کا جو خرچ ہے وہ مبلغین کا تیار کرنا ، ان کے الاؤنسز دینا ، کتابیں شائع کرنا ، دفتر چلانا وغیرہ وغیرہ.کسی وقت تحریک جدید کو جب سہولت تھی فارن ایکسچینج کی اور حکومت کچھ رقم ( زیادہ نہیں لیکن باہر بھیجنے کی اجازت دیتی تھی اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ حصہ ہماری جد و جہد اور سعی اور کوشش کا بھی شامل ہو جاتا تھا لیکن اب نہیں ہوتا.اب سارے کا سارا جو تحریک جدید کی ذمہ داریاں پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں ان پر خرچ ہوتا ہے اور اس ضرورت کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ نے اس میں زیادتی کی ہے جیسا کہ میں بتاؤں گا اس زیادتی کے مقابلے میں بیرونی ممالک کی زیادتی بہت زیادہ ہوگئی ہے.بیرونی ممالک میں ساری دنیا میں جماعت جو پھیلی ۶۵-۶۴ء میں اکتیس لاکھ روپیہ آمد تھی امریکہ، یورپ کی جماعتیں ، افریقہ کی جماعتیں.کچھ نئی پیدا ہو ئیں تھیں کچھ پرانی تھیں کچھ کم تربیت یافتہ تھیں

Page 311

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۷ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء کچھ زیادہ تربیت یافتہ تھیں.بہر حال ساری دنیا کی احمدی جماعتیں تحریک جدید میں اکتیس لاکھ روپیہ دیتی تھیں.اکتیس لاکھ کا بجٹ تھا کچھ چندوں کے علاوہ بھی مثلاً جو سکول ہیں ان کی فیسوں کی آمد اس طرح شامل ہو جاتی ہے تھوڑی سی اور اٹھارہ سال میں قربانی کی یہ رقم اکتیس لاکھ سے بڑھ کر چار کروڑ اٹھارہ لاکھ بن گئی.میرا خدام الاحمدیہ کے زمانہ میں بھی یہ تجربہ تھا کہ جتنی ضرورت جس مہینے میں ہمیں پڑی اتنی ہی خدا تعالیٰ نے ہمیں آمد دے دی ، رقم کا انتظام کر دیا.یہ جو چار کروڑ اٹھارہ لاکھ، اکتیس لاکھ کا بن جانا ہمیں دو چیزیں بتاتا ہے.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمایا اور وہ نتائج جو خدا تعالیٰ چاہتا تھا ہماری کوششوں سے نکلیں وہ نکالے.میرا اور آپ کا یہ کام نہیں کہ لوگوں کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں.دلوں کے جیتنے کے سامان صرف اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے.کوئی اور ہستی یہ سامان پیدا نہیں کر سکتی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں ہمیں یہ سمجھایا کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی انگلیوں میں سمجھو اس طرح پکڑا ہوا ہے.وہ یوں کر کے دے تو اس کا زاویہ اور بن جائے گا اور یوں کر دے تو اس کا زاویہ اور بن جائے گا.اس کے لئے تو کوئی مشکل نہیں ہے.تو ایک تو جو یہاں کا چار ساڑھے چار لاکھ روپیہ، باہر کی جماعتوں کا اکتیس لاکھ روپیہ تھا اتنی برکت ڈالی اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اتنا اثر پیدا کیا ان کی کوشش میں کہ ان کی تعداد کہیں سے کہیں پہنچ گئی.یہ جو گراف بنتا ہے تعداد کے لحاظ سے یہ خطے خطے میں مختلف ہے مثلاً غانا کا اندازہ یہ ہے کہ کم و بیش پانچ لاکھ عیسائی اور بت پرست اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حقیر اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار نے والی لیکن خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والی جماعت کے ذریعے کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوئے اور دوسرے یہ بتاتی ہیں یہ جو رقوم ہیں غیر ممالک کی چار کروڑ اٹھارہ لاکھ کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے مقام کو پہچانتے نہیں اور جس مقصد کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے اس کا اندازہ نہیں کر پاتے.مقصد آپ کا یہ نہیں تھا کہ اپنی عزت دنیا میں قائم کریں.مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید ہر دل میں بٹھائی جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر گھر پر گا ڑا جائے لیکن پوری طرح ان کو ابھی سمجھ نہیں آئی تھی.احمدی ہو گئے تھے لیکن پوری طرح سمجھ نہیں آئی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ تربیت

Page 312

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۸ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء کے نتیجہ میں وہ اس عظیم جد و جہد اور مجاہدہ کو سمجھنے لگے ہیں اور اس کے لئے قربانیاں دینی شروع کر دی ہیں.وقت کی بھی قربانی اور ہر قسم کی قربانی جو انسان دیتا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور مال کی بھی قربانی.یہ کیوں ہوا؟ خدا نے تو کہا تھا لَبِنْ شَكَرْتُم لازیدنکم اگر تم ناشکرے ہو گے تو میں زیادتی نہیں کروں گا.یہاں ہمیں زیادتی نظر آتی ہے.معلوم ہوا کہ جماعت احمدیہ ( یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعتِ احمدیہ ( اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں کی جماعت ہے.دوسرے یہ نتیجہ ) نکلتا ہے کہ چونکہ وہ نہایت عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور پیش کرتے اور خدا تعالیٰ کی نعمتیں جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہیں ان پر اتنا ہی ان کا سر جو ہے وہ زیادہ جھکتا جاتا ہے زمین کی طرف.اس واسطے لازید نکم کے مطابق ان کے اموال میں بھی برکت اور ان کے اخلاص میں بھی برکت ڈالی گئی اور ان کی قربانی کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کوشش کے ثمرات جو پیدا ہونے چاہئیں تھے وہ پیدا کرنے شروع کر دیئے.ایک انقلاب عظیم بپا ہونا شروع ہو گیا.صحیح ہے بہت سی آنکھیں ابھی نہیں دیکھتیں اسے لیکن یہ جو فرق ہیں اس اٹھارہ سالہ (اٹھارہ سالہ زمانہ کوئی بڑا زمانہ نہیں) اس میں دیکھو غیر ممالک کو اللہ تعالیٰ نے اکتیس لاکھ سے اٹھا کر چار کروڑ اٹھارہ لاکھ پر پہنچا دیا.بڑا فضل ہے خدا کا.دنیا میں اربوں روپے کے مالک ہیں جو پانچ روپے بھی خدا کے لئے دینے کے لئے تیار نہیں اور اب ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے.اس کے اندر وہ جو ابھی تحریک ہوئی تھی خدام الاحمدیہ کی طرف سے مساجد فنڈ کی وہ رقوم شامل نہیں ہیں.اس کے اندر صد سالہ کی رقوم شامل نہیں ہیں.اس کے اندر ( یہ جو Figure ( فگر ) ہے چار کر وراٹھارہ لاکھ کی ) جو برکت اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں کی سکیم میں ڈالی تھی وہ شامل نہیں ہے.اس کے اندر وہ جو میں نے بتایا تھا بڑا لطف آیا د ہراؤں گا پھر.بڑی مزے دار چیز ہے.پانچ سات سال ہوئے کیلگری ، شمال مغربی کینیڈا میں ایک شہر ہے.وہاں ایک چھوٹی سی جماعت تھی.انہوں نے لکھا کہ ایک گھر ہمیں مل رہا ہے مشن ہاؤس کے لئے قریباً ستر ہزار ڈالر کا کچھ رقم ہم نے اپنے چندوں سے اکٹھی کی ہے اس کے لئے ، کچھ مدد کرے ہمارا مرکز.تو ہم وہ

Page 313

خطبات ناصر جلد نهم ۲۹۹ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء خرید لیں.تربیت کے لئے مل بیٹھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی جماعت کا مرکز ہو.ان کو اجازت دے دی اور وہیں ان کے پاس جو ایسے چندوں کی رقوم تھیں جو وہ خودخرچ نہیں کر سکتے تھے ان میں سے خرچ کرنے کی اس مد میں اجازت دے دی گئی.یہ چند سال پہلے کی بات ہے.اب انہوں نے خط لکھا مجھے چند ہفتے ہوئے کہ کیلگری سے سات میل کے فاصلہ پر ( یہ جو عمارت خریدی گئی یہ بمشکل ایک کنال جگہ ہوگی اور چھوٹے چھوٹے تین چار کمرے.میں پچھلے سال گیا ہوں تو وہاں میں نے نماز بھی پڑھی) چالیس ایکڑ زمین جس میں ایک مکان بنا ہوا ہے جو اتنا بڑا ہے کہ آپ اور سارا قافلہ بھی وہاں ٹھہر جائے تو آسانی سے ٹھہر سکتا ہے.جو مشن ہاؤس پہلا ہے اس سے کہیں بڑا.اور وہ ہمیں مل رہا ہے تین لاکھ پچاس ہزار ڈالر کا ( کینیڈین ڈالر ) اور رقم کی ہمیں فکر نہیں کیونکہ جو ستر ہزار میں مشن ہاؤس خریدا تھا وہ ہمیں امید ہے کہ چار لاکھ اور نہیں ہزار یا تیس ہزار ڈالر ( کینیڈین ڈالر ) میں بک جائے گا.تو میں نے سوچا کہ خدا نے جو ہم پر احسان کیا اور پیار اس طرح کیا کہ جو تم لوگوں نے مشن ہاؤس خریدنے کے لئے ستر ہزار کی رقم خرچ کی تھی یہ پکڑو اپنی رقم اور وہ جو ساڑھے تین لاکھ ڈالر کا مکان مل رہا ہے اس میں ایک دھیلہ بھی کسی جماعت کے فرد کا حصہ نہیں ہے.وہ سب خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت نے اس کا سامان پیدا کیا.وہ بھی اس میں شامل نہیں.درخت جب لگایا جاتا ہے کچھ عرصے کے بعد اسے پھل لگتا ہے.جس درخت نے بہت لمبا عرصہ پھل دینا ہو اس درخت کو پھل بھی کافی دیر بعد لگتا ہے مثلا تخمی آم ہے.اس کی عمر بہت سے دوسرے درختوں سے زیادہ ہے تو اس کو پھل بھی آٹھ دس سال کے بعد لگتا ہے.بعض ایسے درخت ہیں جو کئی سو سال پھل دیتے رہتے ہیں لیکن ان کو پھل آتا ہے ہمیں چھپیں سال کے بعد تو جس جماعت نے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درخت وجود نے ساری دنیا کے لئے پھل کا انتظام کرنا تھا قیامت تک کے لئے ، ایک وقت درکار تھا اس کی پرورش کرنے کا اور اس کی تربیت کرنے کا ، اس کی Pruning کرنے کا ، اس کی دیکھ بھال کرنے کا ، وقت پر اس کو پانی دینے کا.اور اب اس کو پھل لگنا شروع ہو گیا لیکن ایسے درخت شروع میں تھوڑا پھل دیتے ہیں پھر زیادہ پھل دینے لگ جاتے ہیں.

Page 314

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی برکتوں سے نوازا ہے اور ہم چونکہ اس کے شکر گزار بندے ہیں شکرانہ کے طور پر میں جو ٹارگٹ ہے وہ اٹھارہ لاکھ سے ہمیں لاکھ کر دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ جماعت اسے پورا کر جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.یہ پاکستان کی جماعت کا ٹارگٹ ہے اور باہر کی جماعتوں کا تو ٹارگٹ ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ وہ چھلانگیں مارتے ہوئے خود ہی آگے بڑھ رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر بعض ایسی جگہیں ہیں علاقے کہ جن کے متعلق میرے علم میں ہے کہ اگر ان کی تربیت کر دی جائے تو یہ وہ علاقے جو ابھی سست ہیں چار کروڑ سے زیادہ وہ تحریک کو دینا شروع کر دیں گے انشاء اللہ.بہر حال ایک تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانہ کے طور پر اس سال کے بجٹ میں دولاکھ روپیہ زیادہ دینا ہے.دوسرے ہم نے (اور وہ بڑی اہم بات ہے ) نہایت عاجزی اور تضر ع کے ساتھ اور حقیقی توحید پر قائم ہوتے ہوئے یہ دعائیں کرنی ہیں کہ اے خدا! ہم سے ہمیشہ ہی پیار کرتا رہ اور ہمیں شکر گزار بندہ بنائے رکھ.ہمیں دعاؤں کی توفیق عطا کر اور ہماری دعاؤں کو قبولیت عطا کرتا کہ ہم تیرے عاجز بندے تیرے اس حکم کی تعمیل میں کامیاب ہو جائیں کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے.آمین پھر حضور انور نے فرمایا:.آج انصار اللہ کا اجتماع ہے.اس سال یہیں انہوں نے انتظام کیا ہے.ماشاء اللہ جور پورٹیں ابھی تک مشاہدے کے نتیجے میں مجھے ملی ہیں وہ تو یہی ہیں کہ تعداد پچھلے سال سے زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ برکت ڈالے نفوس میں بھی اور اموال میں بھی آپ کے اور غور سے سنیں.بعض چیزوں کو دہرانا بھی پڑتا ہے.آج کی افتتاحی تقریر میں میں وَذَكَرُ فَإِنَّ الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الثَّریت : ۵۶) کی ہدایت کے مطابق وہ باتیں جو ہر احمدی کے ذہن میں ہر وقت حاضر رہنی چاہئیں تھیں لیکن بعض لوگ بھول جاتے ہیں وہ یاد دلاؤں گا انشاء اللہ.خدا میری زبان میں تاثیر دے اور آپ کے دلوں میں تا خیر قبول کرنے کی طاقت بخشے.آمین

Page 315

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ء نمازیں ہم جمع کریں گے اور پھر اپنے وقت کے اوپر انصار اللہ کا اجتماع انشاء اللہ شروع ہو جائے گا.بہت دعاؤں کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ دن گزاریں اور ساری دنیا کے لئے دعائیں کریں.میں نے بار بار کہا اور کہتا رہوں گا کہ ہمیں کسی سے عداوت نہیں، مخالفت نہیں.جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں ہم انہیں بھی یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں.ان کے لئے بھی دعائیں کریں اور ان کے لئے بھی دعائیں کریں جو دہر یہ ہیں اور بت پرست ہیں.بڑے ظالم ہیں، وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے کہ خدا تعالیٰ جس نے اعلان کیا تھا کہ میں نے اپنے قُرب کی راہیں تمہارے لئے کھول دیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ.بڑی چوڑی شاہرا ہیں ہیں یہ لیکن وہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.غیر مطمئن بھی ہیں اپنی زندگی سے، اطمینان نہیں انہیں.اندھیرے میں بھٹک بھی رہے ہیں لیکن اسلام کی روشنی ابھی تک قبول کرنے کے لئے ان کے اندھیرے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اندھیروں کو بھی دور کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی جو روشنی ہے اس کے اندر وہ اپنی زندگی گزارنے لگیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 316

Page 317

خطبات ناصر جلد نهم ۳۰۳ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۱ء ہر فرد کا فرض ہے کہ اہوائے نفس کے خلاف انتہائی کوشش کرے خطبه جمعه فرموده ۶ /نومبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ تو بہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ (التوبۃ :۲۰) جو لوگ ایمان لائے.جولوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور وہ لوگ جنہوں نے جہاد کیا اپنے نفوس کے ساتھ بھی اور اپنے اموال کے ساتھ بھی.انہیں بہت اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں بشارت دیتا ہے اپنی رضا کی جو اس زندگی سے شروع ہوتی اور خاتمہ بالخیر ہو تو بغیر تسلسل ٹوٹے ہمیشہ کے لئے ساتھ رہتی ہے اور اُن جنتوں کی جن میں سے ایک، ایک اور شکل میں اس زندگی سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری ایک اور شکل میں مرنے کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے ہے.قرآن کریم کی تمام تعلیم اس کے احکام اور او امر و نواہی ، وہ ان باتوں سے جو یہاں بیان ہوئی ہیں تعلق رکھتے ہیں یعنی ایمان ، ہجرت کرنا اور مجاہدہ کرنا خدا کی راہ میں.ایمان کا تعلق دل سے ہے اور اس کے معنی میں پھر دل کا جو پختہ عقیدہ ہے اُس کا اظہار بھی ہو ساتھ اور جو دل کا پختہ عقیدہ ہے اس کے مطابق اعمال بھی ہوں.یعنی جوارح بھی لکھنے والوں

Page 318

خطبات ناصر جلد نہم ۳۰۴ خطبه جمعه ۶ نومبر ۱۹۸۱ء نے لکھ دیا.تو زبان سے اظہار کرنا اور دل میں ایک پختہ عقیدہ رکھنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا یہ تین چیزیں ایمان کے اندر ان کی یا هَاجَرُوا والی شکل بنتی ہے یا جهَدُوا والی شکل بنتی ہے اور تمام اسلامی تعلیم اور عقائد احکام و اوامران ستونوں کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں.مفردات راغب میں ہے کہ ہجرت کے معنے ہیں ترک مکان.اپنا ایک مکان ، رہائش ، جگہ کو چھوڑنا.انہوں نے کہا دار الکفر سے دارالایمان کی طرف.یہ اسلامی اصطلاح ہے.مہاجرین وہ بنے جنہوں نے مکہ کے ماحول کو ، مکہ کی جائیدادوں کو ملکہ کے مکانوں کو، مکہ کے رشتہ داروں کو جو ایمان نہیں لائے تھے چھوڑ دیا اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے سارے تعلقات قطع کر کے اور کسی قسم کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے مکہ چھوڑا اور مدینے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں زندگی گزارنے کے لئے چلے گئے.مفردات میں راغب لکھتے ہیں کہ ہجرت کے معنی.هِجْرَانُ الشهوات انہوں نے یہاں تین معنے کئے ہیں.اہوائے نفس جو ہیں ، شہوات جو ہیں اُن کو ترک کرنا.اصل اس کے معنی ترک کے ہیں نا.تو جوا ہوائے نفس ہیں ، شہوات ہیں ، اُن کو چھوڑ دینا ترک کرنا.دوسرے جو اخلاق ذمیمہ ہیں.بُرے اخلاق ، گندے اخلاق ، خدا سے دور لے جانے والے اخلاق ، معاشرہ میں فساد پیدا کرنے والے اخلاق، اُن اخلاق ذمیمہ کو ترک کرنا.وہ کہتے ہیں کہ ہجرت میں یہ بھی شامل ہے.اور تیسرے معنی ہیں کہ خطا یا کو ترک کر دینا.یعنی ہر وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے، اُسے چھوڑ دینا.اب قرآن کریم کی تعلیم اوامر ونواہی پر مشتمل ہے.تمام نواہی یعنی یہ جو کہا گیا ہے کہ یہ نہ کر، یہ نہ کر، یہ نہ کر ان کا تعلق انہی تین چیزوں سے ہے.اہوائے نفس کو چھوڑنے کے ساتھ.اخلاق ذمیمہ کو ترک کرنے کے ساتھ اور خطایا جنہیں کہتے ہیں غلطیاں اور گناہ اور معصیت کے کام ، ان سے عملی بیزاری اور اُن کو چھوڑ دینے کے ساتھ.اور جهَدُوا مجاہدہ کے بنیادی معنی ہیں مقدور بھر کوشش کرنا.اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرنا، پورا زور لگا دینا.اس کے اصطلاحی معنی، اسلامی اصطلاح

Page 319

خطبات ناصر جلد نهم ۳۰۵ خطبه جمعه ۶ نومبر ۱۹۸۱ء میں اس کے پھر آگے تین معنی بنتے ہیں.ایک اُس دشمن کے خلاف انتہائی کوشش جو زور کے ساتھ اور طاقت کے ساتھ اور ہتھیاروں کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اور جیسے ایک اصطلاحی چھوٹا سا ایک محاورہ ہمارا ہے.مجاهدة العدو اسلام کا جود ثمن ہے اس کی تمام ایسی کارروائیاں کہ جو اسلام دشمنی پر مبنی ہیں، اُن کا پورے زور کے ساتھ مقدور بھر کوشش کر کے مقابلہ کرنا اور انہیں نا کام کرنا.اس کے دوسرے معنی شیطان کے خلاف مقدور بھر کوشش کرنا.مجاھدۃ الشیطن.شیطان بالواسطہ یہ جو انسان، انسان کا دشمن بنتا ہے مجاهدة العدو کے پیچھے بھی شیطانی قوتیں، وساوس حرکت کر رہے ہیں لیکن یہاں قرآن کریم کی تعلیم نور لے کے آئی.مجاھدۃ الشیطن کے معنے ہم یوں کریں گے کہ ظلمات کو اللہ ، قرآن اور محمد کے نور کے ذریعے سے نور میں بدل دینا.ظلمت کو مٹا کے نور آ جائے اور قرآن کریم کے تمام نواہی نے گند مٹا کر اور اوامر.ہرامر جو ہے وہ نور پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ہر امر کی ، حکم کی جو اطاعت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو کھولنے والی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والے نور کی وارث بنانے والی ہیں اور مجاهدة النفس کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو شیطان کے وار ہر انسان پر پڑتے ہیں اُن کا مقابلہ کرنا اور نا کام بنانا شیطان کو.شیطان نے آدم کی پیدائش کے وقت خدا تعالیٰ سے یہ اجازت لی تھی تمثیلی زبان میں کہ میں تیرے بندوں کو جنہیں تو نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے یعنی وہ تیرے بندے بن جائیں تیرے ہو جا ئیں تجھ میں فانی ہو کر ایک نئی زندگی پانے والے ہوں.میں اُن کو دوزخ کی طرف لے جانے کی انتہائی کوشش کرتا رہوں گا.قرآن کریم نے اعلان کیا جو میرے بندے ہوں گے حقیقتاً اُن پر تیرا زور نہیں چلے گا.ہاں جو خود میرے بندے نہ بننا چاہیں اور اہوائے نفس اور شہوات نفس کے پیچھے چلنے کی کوشش کریں وہ تیرے گروہ میں شامل ہو جائیں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجاهدة النفس کے متعلق.جَاهِدُوا أَهْوَاءَكُمْ ہر شخص کا ، ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اہوائے نفس کے خلاف انتہائی کوشش کرے اور اُس نفس کو جو شیطان کی طرف گھسیٹنے والا ہے اُس کی ہیئت کذائی بدل کر ایسا بنا دے جو اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 320

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ۶ /نومبر ۱۹۸۱ء حرکت کرنے والا ہو اور اُس کے فضلوں کو پانے والا ہو.مفردات راغب میں یہ بھی ہے کہ مجاہدہ ہاتھ سے بھی ہو جو کوشش ، اُسے بھی مجاہدہ کہتے ہیں اور جو زبان سے ہوا سے بھی مجاہدہ کہتے ہیں.ہاتھ سے کوشش محاورہ ہے یعنی جو مادی طریقے پر کوشش کی جائے مثلاً انسان کا نفس ہے جو اپنے خلاف مجاہدہ کرتا ہے وہ ہاتھ کی کوشش ہے.انسان اپنے آپ کو وعظ نہیں کیا کرتا تقریر کر کے.وہ دوسروں کو سناتا ہے.کبھی خلوص نیت کے ساتھ کبھی بد نیتی کے ساتھ خدا کے ساتھ ایسے لوگوں کا معاملہ.لیکن ہر وہ کوشش جو زبان کی نہیں وہ کوشش ہاتھ کی کوشش کے اصطلاحی معنے میں شامل ہیں.چونکہ اسلام کی ساری تعلیم ان بنیادوں پر کھڑی ہوئی اور ان ستونوں کے اوپر وہ بلند ہوئی اس لئے جماعت احمدیہ کے سارے کام جو دینی اغراض کو پورے کرنے والے ہیں اُن کا تعلق خالص ایمان کے ساتھ ہے.جو ہجرت کے معنی ہیں ھجران الشهوات اور اخلاق ذمیمہ سے پر ہیز اور خطا یا سے بچنا اس کے ساتھ ہے اور مجاہدہ اپنی جو شکلیں اختیار کرتا ہے یعنی مقدور بھر کوشش پوری سعی اپنی ، پورا زور لگا دینا.پوری طاقت خرچ کرنا تا کہ اسلام کا دشمن نا کام ہو شیطان کے ہتھیار کند ہو جائیں اور انسانی نفس خدا کا بندہ بن کر زندگی گزارے شیطان کا بندہ بن کر زندگی نہ گزارے.اس لئے جو جماعتی پروگرام ہیں ان کو ہم نہ نظر انداز کر سکتے ہیں نہ بے توجہی سے اُن کو لے سکتے ہیں ، نہ ہمارا عمل مقدور بھر کوشش جو مجاہدہ کی جان ہے اُسے کئے بغیر کامیاب ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنگر جو ہے اُسے جماعتِ احمدیہ کی جو کوشش، اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی ہے اُس کا ایک ستون بتایا ہے.زمانہ کروٹیں بدلتا ہے کبھی لنگر خانے کا انتظام ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اتنی اہمیت دی کہ اپنے ہاتھ میں رکھا پھر پھیل گیا پھر نظام ایک بن گیا.وہ نظام کبھی تھوڑا بہت کمزور بھی ہوا کبھی بہت کچھ ترقی بھی کی لیکن ایک چیز ہمارے مشاہدہ میں ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اتنا اثر ہے دارالضیافت کے نظام کا.اپنوں پر بھی اور جو باہر سے آتے ہیں ہمارے بھائی جو ابھی احمدی نہیں ہیں اُن پہ بھی کہ جس وقت

Page 321

خطبات ناصر جلد نہم ۳۰۷ خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۱ء ہم نے زیادہ توجہ دینی شروع کی اس کی طرف تب ہمیں اس کی افادیت اور اس کی عظمت کا پتہ لگا.اب تو جماعت وسعت اختیار کر گئی اور غیر ملکوں سے بھی آتے ہیں.دنیا کے کونے کونے سے جلسہ سالانہ کے موقع پر آ جاتے ہیں.سارے سال تو ساری دنیا کے احمدی یہاں زندگی نہیں گزار سکتے.سارا سال بھی آتے رہتے ہیں.اب بھی اس مسجد میں ایک ہالینڈ سے آئے ہوئے مہمان ہیں اور بھی کوئی ہو.ہاں ایک کینیڈا سے آئے ہوئے مہمان ہیں اور بھی شاید کوئی ہو.تو یہ مہمانوں کو عیش ہم نے نہیں کروانی اُن کو تکلیف نہیں ہونے دینی.اس اصول کے اوپر ہمارا لنگر خانہ چل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں تک خیال رکھا تھا کہ جن لوگوں کو پان اور زردہ کھانے کی عادت تھی اُس زمانہ میں جب قادیان چھوٹا سا گاؤں تھا اور نہ پان ملتا تھا نہ زردہ وہاں کوئی کھاتا تھا تو آدمی بھیجوا کے امرتسر یا بٹالہ جہاں بھی ملتے تھے اُن کی عادت کے لئے یہ چیز میں منگوا کے دیتے تھے.پھر وہی لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منگوائے ہوئے پان کھائے بہت ساروں نے پان کھانا ہی چھوڑ دیا ہوگا بعد میں جب پوری تربیت ہوگئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خیال رکھا اور جب ذرا ایک دو موقع پرستی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظام کے متعلق خفگی کا اظہار ہوا.ہمارے پاس محفوظ ہیں خدا تعالیٰ کے احکام بھی کتابوں میں.وہ تو لمبی تفصیل ہے.اس تمہید کے بعد اور یہ بتانے کے بعد کہ لنگر اور خصوصاً جب یہ سال میں ایک بارا اپنے عروج پہ ہوتا ہے یعنی جلسہ سالانہ کا نگر.وہ ایک ہی لنگر کی شاخ ہے.ہر مہینے میں میرے خیال میں لنگر سے آٹھ دس ہزار کھانے تقسیم ہوتے ہیں لیکن ان چند دنوں میں کئی لاکھ کھانے تقسیم ہو جاتے ہیں.پھر یہ چھوٹا سا قصبہ.پھر اس قصبے سے محبت کرنے والے لاکھوں آدمی.وہ باہر سے یہاں آجاتے ہیں.دنیا کی نگاہ میں دنیا کے معیار کے مطابق تکلیف اٹھانے کے لئے لیکن بڑی لذت اٹھاتے ہیں.اب تو جو Americans (امریکنز ) یہاں آنے شروع ہوئے کئی سال سے میری تحریک پر تو اُن میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہمارے ساتھ عدم مساوات کا سلوک کیوں کیا جاتا ہے.جب پاکستان کا مہمان چاول کی پرالی پر سوتا ہے تو ہمیں بھی پرالی دو ہمیں چار پائیاں

Page 322

خطبات ناصر جلد نهم ۳۰۸ خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۱ء کیوں دی جاتی ہیں.کئی ایک نے مجھے کہا.میرے دماغ نے تو یہ سوچا جب تمہاری کثرت ہو جائے گی تو تمہیں بھی ہم پرالی دیا کریں گے.آج میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان کی طرف جلسہ سے پہلے میں یاددہانیاں ذکر کے ماتحت کروایا کرتا ہوں ان میں سے بعض باتوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.اہل ربوہ کی ذمہ داریاں باہر سے آنے والوں کے مقابلہ میں اپنے اثر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں.اگر آپ میں باہر سے آنے والا بد اخلاقی دیکھے گا تو آپ کے لئے ڈوب مرنے کی جاہے اور اتنا برا اثر ہوگا اس کے اوپر کہ کوئی حد نہیں اور اگر آپ ان سے میٹھے بول بولیں گے ان کی خدمت کر رہے ہوں گے اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہوں گے کہ انہیں تکلیف نہ پہنچے ، ہوسکتا ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہ ہو لیکن اگر دل سے آپ کوشش کر رہے ہوں گے بالکل اسے نظر انداز کر دیں گے.اگر وہ یہاں صفائی نہیں دیکھیں گے اور ہمارے قرآن کریم نے ان کو یہ سکھایا ہوا ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنی وحی نے یہ ذمہ داری ڈالی کہ اُمت مسلمہ کی اس طرح اصلاح کرو کہ جسمانی لحاظ سے بھی ، مادی لحاظ سے بھی اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی ان میں پاکیزگی پائی جائے ، طہارت پائی جائے.اتنی تفصیلی ہدایات دیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک کرو.آپ صبح اُٹھ کے مسواک کرتے تھے کیونکہ رات بھی نہیں انسان کرتا ایک لمبا عرصہ گزرتا ہے تو منہ میں بعض Germs ( جرمز ) پرورش پا جاتے ہیں.پھر مسواک کیسے کرو.جو آج کا ڈینٹسٹ ہے ان کو ایک دفعہ میں نے بتا یا ماہر کو تو وہ کہنے لگا اچھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے.ہم تو سمجھتے تھے کہ آج کے زمانہ کی جو Discoveries بہت سی ہوئی ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اس طرح برش کرنا چاہیے کہ مسوڑھے کے اوپر سے نیچے کی طرف نہ لاؤ.اس سے زخم ہو جائے گا نیچے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور یہ جو مہذب دنیا ہے جیسے اثر قبول کر کے آپ میں سے بعض خاندان وہاں جا کے پردہ چھوڑ دیتے ہیں ، ان کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ جب میں پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ میں سیر کر رہا تھا گاؤں کے ایک علاقے میں.میری عادت تھی کہ میں سیکھتا تھا بہت کچھ مشاہدہ کر کے.تو ایک چوراہے کے اوپر میں سیر کر رہا تھا تو ایک چوراہے پر

Page 323

خطبات ناصر جلد نهم ٣٠٩ خطبه جمعه ۶ نومبر ۱۹۸۱ء چھوٹی گاؤں کی سڑکیں تھیں ایک دودھ کی موٹر van' لے کر پھرتے رہتے ہیں دودھ بیچنے کے لئے وہ کھڑی ہوئی تھی اور سکول کے بچے سکول سے واپس آکے تو بعض کے پاس پیسے تھے.وہاں کھڑے ہوئے تھے کوئی چاکلیٹ خرید رہا تھا کوئی دودھ پی رہا تھا.تو میں نے اُن کو دعوت دی کہ جو دودھ پی رہا ہے اس کے پیسے میں دوں گا.میں اپنا تعارف کروانا چاہتا تھا.خیر وہ پانچ دس بچے جو تھے انہوں نے میری دعوت قبول کر لی.اُن کو میں نے دودھ پلایا.ہر بچہ سے میں نے پوچھا کہ آج تم نے دانت صاف کئے.کہتا نہیں.میں نے کہا ایک ہفتے سے تم نے دانت صاف کئے.کہتا نہیں.میں نے کہا جب سے تمہیں ہوش آئی ہے.تم نے اپنی ہوش میں کبھی دانت صاف کئے کہتا نہیں.یہ مہذب دنیا ! لیکن ہمارے آقا نے تو چودہ سو سال پہلے ہمیں مہذب بنا دیا.پاکیزگی جسمانی اور اپنے ماحول کی اور کپڑوں کی.یہ تہذیب کا حصہ ہے جو اُن کے نصیب میں نہیں تھا ، ہمیں مل گیا.اس لئے ربوہ میں صفائی ابھی سے شروع کر دو.ربوہ کی صفائی کے دو حصے ہیں.ایک جو گند نظر آئے خدام الاحمدیہ اسے دور کرنا شروع کر دے سارے ربوہ سے.ایک ہر گھر کی یہ ذمہ داری ہے کہ گند باہر نہ پھینکے.بہت سارے ایسے گھرانے ہیں جن کو ہمارے محلوں کی تنظیم نے یہ بتایا ہی نہیں کہ سڑک کے اوپر ، راہ گزر پر جسے عربی میں’ طریق “ کہتے ہیں.گند پھینکنا گناہ ہے.گند پھینکنا گندگی پیدا کر نا عام فضا میں گناہ ہے.اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ طریق یعنی راستے سے گند کو دور کرنا اور ہٹا نا ایمان کا حصہ ہے.تو بے ایمانی ہو گیا نا گند پھینکنا.بڑی دلیری کے ساتھ جہالت کے نتیجہ میں گھر والا بے ایمان بن جاتا ہے.صفائی کر کے سڑک کے اوپر پھینک دیتا ہے.اہلِ ربوہ کو میں مخاطب ہوں ایک تو آپ نے سڑک پر گند نہیں پھینکنا اور خُدّام کی تنظی دوسروں کے ساتھ ملائیں انصار کو بھی اور اطفال کو بھی.آپ نے کہیں گند نظر آئے ، اُسے اٹھا دینا ہے یا غلط جگہ خار دار جھاڑیاں آگ آتی ہیں اُن کو کاٹ دینا ہے.دوسرا گند یہ جو کھو کھے اور یہ ساری چیزیں ہیں نا یہاں کیلا کھایا اور اس کا چھلکا پھینک

Page 324

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱۰ خطبه جمعه ۶ / نومبر ۱۹۸۱ء دیا.ہوسکتا ہے اور دنیا میں ہزاروں ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ پندرہ منٹ کے بعد ایک شخص آیا.اس کا پاؤں پڑا وہ پھسلا اور اُس کی لات کی ہڈی ٹوٹ گئی.تمہیں اسلام لوگوں کی لاتوں کی ہڈیاں توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.نہ جو تھوڑا سا زخم ہے اُس کی بھی اجازت ہے.جو گر نے سے تکلیف ہوتی ہے اس کی بھی اجازت نہیں.اسلام نے تو کہا تھا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱) تمہیں تو پیدا ہی کیا گیا ہے دکھوں کو دور کر کے سکھ کے حالات پیدا کرنے کے لئے.اس لئے جتنا حصہ اس نظام کا ہمارے پاس ہے ایک حصہ تو حکومت کا ہے نا.اس میں تو میں دخل نہیں دیتا لیکن جو ہمارے پاس ہے جو احمدی کھو کھے دار ہیں دوسرے ہیں اُن سے کہیں کہ تمہارے جو کھو کھے ہیں.کھوکھے کے پاس کوئی چھلکا نہیں گرا ہوا ہوگا.معمولی بات ہے.ایک پرانا بڑا سا ڈرم لے لو.وہ پیسے تو تمہیں خرچ کرنے پڑیں گے اور دکاندار کا فرض ہے کہ کوئی ایسی چیز ہے اور کوئی وہاں کھا رہا ہے تو کہے اُس کو کہ چھلکازمین پر نہیں پھینکنا، اس کے اندر پھینکو.ہزار ہا ایسی جگہیں جہاں پھٹا ہوا کاغذ یا چھلکے یا گند یاوہ ڈبہ جہاں سے کھانے کی چیز نکالتے ہیں وہ پھینکنے کے لئے ہزار ہا نہیں لکھوکھا ایسے ڈرم انگلستان کے کونے کونے میں پڑا ہوا ہے.کاغذ کا ایک پرزہ نظر نہیں آتا.جنگل میں جائیں گے پکنک کرنے کے لئے کھانا کھا ئیں گے.اب انہوں نے کاغذ کی پلیٹیں بنالیں.کاغذ کے چمچے بنالئے آسان کام کر دیا وہ.یعنی خیال ہو تو آسانی پیدا ہوتی ہے نا.ہر پارٹی میں بھی گیا ہوں پکنک پر جماعت کے ساتھ.انہوں نے اس وقت تو آدمی زیادہ ہوتے ہیں کئی بڑے بڑے بورے جو ہوتے ہیں نا روئی کے اس طرح کے پلاسٹک کے تھیلے.وہ ساتھ لے کے جاتے ہیں.تھوڑی سی جگہ میں وہ آجاتا ہے.اُس کو وہ پھر ساری صفائی کر کے کاغذ کے پیچھے، چھریاں، ڈبے جن میں سے انہوں نے کھانا نکالا ہے، پھل کے ڈبے، ہر چیز اس تھیلے میں ڈال دیتے ہیں.کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی وہاں نہیں چھوڑتے اور پھر جگہ مقرر ہوتی ہے وہاں جا کر پھینک دیتے ہیں.اُن کی دین 'Van آتی ہے تھیلے کو اٹھا کے لے جاتی ہے.اس دنیا کو جا کے آپ تبلیغ یہ کریں گے کہ اسلام کہتا ہے کہ صفائی رکھو وہ آپ کی بات سنے گا اس سال اور دوسال کے بعد وہ زیر تبلیغ یہاں آ جائے گا.وہ کہے گا تم تو ہمیں کچھ اور کہتے تھے اور تمہارا عمل تو

Page 325

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱۱ خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۱ء کچھ اور ہے.قرآن کریم تو کہتا ہے لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:۳) پس یہ تو سارا سال ہے لیکن اس موقع پر جب گند کا نقصان زیادہ ہے.یہ ساری و بائیں جو پھیل جاتی ہیں بعض دفعہ میلوں پر اُس کی وجہ ایک یہ بھی ہے اور بھی ہوں گی واللہ اعلم.و پس اہالیانِ ربوہ اپنے گھر بھی صاف ستھرے رکھیں اور اُن کے کمرے دیں جلسہ کے نظام میں مہمانوں کو وہاں رکھنے کے لئے.ویسے تو ہر سال ہی میں یہ بتا تا ہوں کہ ہمارا ہر گھر ہی اللہ کے فضل سے مہمانوں سے بھرا ہوتا ہے لیکن ہر گھر جو مہمانوں سے بھرا ہوتا ہے اُس میں وہ مہمان ہیں جو اُس گھر والے کے جان پہچان ہیں.ایسے بھی مہمان بھی آتے ہیں پاکستان سے یہاں کہ ربوہ میں اُن کو کوئی جانتا پہچانتا نہیں.وہ کہاں ٹھہریں؟ کچھ تو ہماری جماعتی قیام گا ہیں ہیں عورتوں اور مردوں کے لئے کچھ خاندانوں کے لئے لیکن وہ سب کو نہیں سنبھال سکتیں عملاً.اس کوشش میں آپ نے نظامِ جماعت کا ہاتھ بٹانا ہے.چھوٹا کمرہ ۸ × ۸ یا ۸ × ۱۰ کا کمرہ ہو وہ دے دیں اگر زیادہ بڑا کمرہ نہیں دے سکتے.بڑا دے سکتے ہیں وہ دیں لیکن اس کوشش میں کہ جن کے دوست، واقف، رشتے دار یہاں نہیں ہیں اُن کو کم سے کم یہ سہولت مل جائے کہ وہ رات کی سردی میں آسمان کے نیچے نہ سوئیں بلکہ اُن کو تکلیف سے بچایا جائے.دوسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تعداد میں بہت اضافہ ہوا اللہ کے فضل سے پچھلے سال ہمارا خیال تھا ڈیڑھ لاکھ ربوہ والے ملا کے.ڈیڑھ لاکھ احمدی اور اُن کے دوست جلسہ کے دنوں میں جو زیادہ سے زیادہ تعداد یہاں جمع ہوئی ہے ربوہ میں وہ ڈیڑھ لاکھ ہے.بڑی تعداد ہے اور ہرسال بڑھتی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال وہ کم از کم پونے دولا کھ کو شاید دولاکھ تک بھی پہنچ جائے کیونکہ پچھلے سال بھی ڈیڑھ دولاکھ کا اندازہ کم سے کم تھا.میرا اندازہ دولاکھ کے قریب تھا کیونکہ جو دونوں جلسہ گا ہیں میں نے دیکھی ہیں اور میری تقریر پہ وہ کچھ غافل بھی آجاتے ہیں جو باہر چھوڑ کے چلے جاتے ہیں جلسہ گاہوں کو تو جو زنانہ جلسہ گاہ تھی میری تقریر کے وقت وہ 'Overflow کر رہی تھی.ہزار ہا عورت برقعہ پوش زنانہ جلسہ گاہ سے باہر پھر رہی تھی اور اسی طرح مردانہ جلسہ گاہ سے باہر مرد پھر رہے تھے.میرا اندازہ تھا کہ پونے دو لاکھ.دولاکھ کے

Page 326

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱۲ خطبہ جمعہ ۶ /نومبر ۱۹۸۱ء درمیان کوئی تعداد ہے لیکن بہر حال جو گنتی کا اندازہ کم تھا وہی میں بیان کرتا رہا ہوں.اس سال تو وہ گنتی میں بھی آجائیں گے پونے دولاکھ.اس عرصہ میں مکان بھی بہت بنے ہیں.تعمیر کی طرف زور زیادہ رہا.اور یہ ۷۴ء میں خدا تعالیٰ نے الہاما مجھے کہا تھا.وَشِعُ مَكَانَك میں نے اس وقت جماعت کو بتا دیا تھا کہ خدا نے کہا ہے کہ یہ جو ۱۹۷۴ء کا منصوبہ بنا تھا استہزاء کا.ہمیں ذلیل کرنے کا.اس کے لئے میں کافی ہوں اور میرے مہمانوں کا تم انتظام کرو.وَشِعُ مَكَانَك تو اللہ تعالیٰ نے اتنی توفیق دی ۷۴ ء میں جو تعمیر کے حالات تھے اس سے ۴۰،۳۰ گنا زیادہ حالات ہو گئے ہیں.حالات سے مراد ہے پیسہ لوگوں کے پاس آ گیا.قیمتیں بھی ناجائز طور پر بعض لوگوں نے بڑھا دیں Competition کر کے.تو مکان بہت بن گئے ہیں.ضرورتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں.تو اُسی نسبت سے آپ حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بڑا اجر دے گا جیسا کہ میں نے اس آیت میں ساری آیت نہیں پڑھی، اس کا مفہوم بتا دیا ہے کہ اجر عظیم ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اور بشارتیں ان کے لئے.اگر آپ خدا سے اجر اور اس کی رضا اور اس کی بشارتیں لینا چاہتے ہیں تو ہجرت کے وہ تین مفہوم اور مجاہدہ کے وہ تین مفہوم جو میں نے ابھی بتائے ہیں ان پر آپ کو کار بند ہونا پڑے گا کار بند رہنا پڑے گا.چونکہ تعداد بڑھ گئی اس لئے یہاں کے رضا کار ہمارے لئے کافی نہیں رہتے انتظامی.اس لئے پانچ سو مخلص رضا کار باہر سے ہمیں ملنے چاہیں اور ۲۳ کی شام کو جلسہ شروع ہوتا ہے ۲۳ کی دو پہر تک یہاں پہنچ جانے چاہئیں اور حسب قواعد وہ اپنے ساتھ سرٹیفکیٹ لائیں اپنے علاقے کے قائد کا اور جو بھی ہیں اس وقت میرے سامنے نہیں کہ کیا کیا الفضل میں شائع کر دیں گے جلسہ سالانہ والے، اس کے مطابق ہوں.اخلاص سے کام کرنے والے ہوں.خدا کا فضل ہے کہ ایک آدھ کے متعلق جلسہ میں شکایت ملتی ہے کہ اُس نے کام ٹھیک نہیں کیا.بڑے اخلاص کے ساتھ آتے ہیں اور اخلاص سے یہاں کام کرتے ہیں.پس کمرے دیں.صفائی کریں.رضا کارآئمیں چھلانگیں مارتے ہنستے مسکراتے قہقہے لگاتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر جو گزر چکے اور امید رکھتے اس بات پر کہ پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل اُن پر نازل ہوں گے.پچھلے سال جلسہ کے بعد نظام جلسہ نے مجھے کہا کہ دیگیں ہمارے پاس کم ہیں

Page 327

خطبات ناصر جلد نہم ۳۱۳ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۱ء اور بڑی مشکل پڑتی ہے.ہم دیگیں کرایہ پر لے کے آتے ہیں فیصل آباد سے.ان کی پھر صفائی کرنی پڑتی ہے ان کی قلعی کروانی پڑتی ہے اور وہاں سے لا نا اور پھر لے جانا.کام بڑھ گیا تو میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کا کام ہلکا کر دے گی جماعت.میں نے تحریک کی.ان کا اندازہ تھا کہ دوسو د یگ اگر ہمیں مل جائے تو کرایہ کی دیگوں کی جو زحمت ہے اور انتظام ہے ، اس سے ہم بچ جائیں گے.میں نے جماعت کے امیر لوگوں کو کہا جو آسانی سے دو ہزار جو قیمت انہوں نے بتائی تھی ایک دیگ کی دے سکیں ، وہ دوسو دیگوں کے پیسے دے دیں.دوسو دیگوں کے پیسے بنتے ہیں دو ہزار کے لحاظ سے چار لاکھ روپیہ اور بعض لوگ جو احمدی نہیں احمدیت سے باہر سمجھتے تھے کہ یہ کیسے ہو جائے گا کہ دو سو آدمی ایک ایک دیگ دے دے گا لیکن عملاً جو جماعت نے قربانی دی اس میں یکم نومبر ۸۱ ء تک اور اب تو ضرورت نہیں.اب آئندہ نہ دیں لوگ.ایک اس کے بعد بھی آ گیا یکم نومبر ۸۱ ء تک ۳۱۷ + ۱ - ۳۱۸ دیگوں کی قیمت آگئی ۲۰۰ کی بجائے.۶٫۳۷,۸۹۱ روپے انہوں نے جب دیگیں بنوائیں تو مجھے خیال آیا میں نے ہی ان کو کہا کہ پوری دیگ جو ہے بعض دفعہ آدھی دیگ پکانی پڑتی ہے اگر پوری دیگ میں آدھی دیگ پکا ئیں سالن تو ضیاع ہوتا ہے پیسے کا.زیادہ آگ چاہیے پکانے کے لئے گرم کرنے کے لئے.تو کچھ وہ دوسری دیگیں بھی بنائی گئیں.اور یہ قریباً ۲۴۰ دیگیں بن گئیں اور اس کے بعد بہت سی رقم بچ گئی.جو بچ گئی رقم یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ نظام جلسہ کو اجازت دے دیں کہ دیگوں کی بجائے ایک اور ضرورت تھی وہ پوری انہوں نے کی ہے مجھ سے پوچھ کے وہ کر لیں کیونکہ پیسے دینے والے نے دیگ کی نیت کی تھی.کھانے کے برتن Stainless Steel کے.یہ انہوں نے بنائے ہیں ہزار آدمیوں کے لئے.ایک ہزار کو کھانا کھلانے کے لئے Stainless Steel کے برتن لئے ہیں.جس کے اوپر = / ۴۸۳۶۰ روپے خرچ آئے ہیں.یہ اسی دیگوں والی مد سے خرچ کئے گئے ہیں.اور پانچ سو کی چائے کے لئے Stainless Steel کے برتن لئے گئے ہیں جن کے اوپر = / ۱۳۴۰۰ روپے خرچ آیا ہے.ابھی کچھ رقم بچی ہوئی ہے.دار الضیافت کو میں کہتا ہوں کہ اسے ریزرو میں دیگوں کے لئے رکھیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آنے والے جلسے پر یہ محسوس کریں

Page 328

خطبات ناصر جلد نہم ۳۱۴ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۱ء گے کہ کچھ اور دیگیں بننی چاہئیں کیونکہ مہمان زیادہ آنے لگ گئے ہیں.انشاء اللہ.پس ایک تو بڑی قربانی کرنے والی جماعت اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی ہے اور اس لئے نہیں کہ کسی ایک شخص نے یا اس جماعت نے کوئی دنیوی فوائد حاصل کرنے ہوں یا اعزاز لینا ہو.ہمارا اعزاز تو صرف یہ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے.رضوانِ باری تعالیٰ کسی غیر احمدی کے منہ سے یہ نکل گیا کہ تالیف القلوب ہونا چاہیے.میں نے کہا کیا کہتے ہو تم.جن کی جھولیاں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھری ہوئی ہیں اُن کی تالیف قلوب تم کرنے آؤ گے.یہ جو دیگوں میں حصہ لینے والے ہیں عام طور پر بہت مالی قربانی کرتے ہیں، اُس کے علاوہ میں جماعت کو کہتا ہوں کہ اُن کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزادے اور آج جمعہ کی نماز کے ایک سجدے میں.دوسری رکعت کے پہلے سجدہ میں.یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ میں میں نے اپنا یہ دستور بنایا ہوا ہے کہ یہ جماعت کے لئے صرف دعا کرتا ہوں یعنی کسی فرد کے لئے نہیں کرتا.تو دوسری رکعت کے پہلے سجدہ میں دو تین فقرے کہیں دعا کے اندر بے شک.اس طرح کی لمبی دُعا تو نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزا دے اور ان کے اموال میں برکت ڈالے اور ان کے اخلاص میں برکت ڈالے اور ان کا خاتمہ بالخیر کرے.ایک دفعہ راضی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نہ ہوں.اور میں دعا کرتا ہوں جلسہ کا کام شروع ہو گیا نا.اور آپ بھی خاص طور پر دُعائیں کرتے رہیں.کوئی معین نہ میں وقت مقرر کرتا ہوں نہ کوئی طریقہ - آج سے جلسہ تک دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ باہر سے آنے والوں کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور اہل ربوہ کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی اور دُکھ اور بیماری سے ہر دوحصے جو ہیں جماعت کے آنے والے اور رہنے والے، انہیں محفوظ رکھے اور ہنستے کھیلتے ہم اُس کی راہ میں جلسہ پر جیسا کہ ہمارا بغیر نام لئے کے طریق ہے آئندہ کے لئے عزم کرتے ہیں کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے آگے بڑھیں گے.خدا تعالیٰ ایسا عزم کرنے کی توفیق اس آنے والے جلسہ پر بھی دے کہ جو عزم پہلے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو اور جو پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے والا ہو اور جس

Page 329

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱۵ خطبه جمعه ۶ نومبر ۱۹۸۱ء عزم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے حق میں پہلے سے زیادہ حالات پیدا کر دے.اور جس ملک میں ہمارا مرکز ہے اللہ تعالیٰ پاکستان کی بھی حفاظت کرے اور ہمارے اس ملک.پاکستان کی خوشحالی کے سامان پیدا کرے اور ترقیات کے سامان پیدا کرے اور پاکستانی دل میں وہی محبت پیدا کر دے جو اُس نے ہمارے دل میں پیدا کی ہے اور غلبہ اسلام کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جاری کی ہے اُس میں وہ زیادہ سے زیادہ حصہ لینا شروع کر دیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 330

Page 331

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱۷ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء قرآنی اصطلاح کی رو سے شہوات نفسانی کو ترک کرنا اور گناہوں سے بچنا ہجرت ہے خطبه جمعه فرموده ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنی کی تلاوت اور ان کا ترجمہ بیان فرمایا:.وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا النَّبوَثَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ لَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ - الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ.(النحل: ۴۳۴۲) آفَامِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيَاتِ اَنْ يَخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ - اَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ - اَوْ يَأخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمُ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ - (النحل : ۴۶ تا ۴۸) اور پھر فرمایا :.ترجمہ ان آیات کا یہ ہے.اور جن لوگوں نے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا اللہ کے لئے ہجرت اختیار کی ، انہیں ضرور دنیا میں اچھا مقام دیں گے اور آخرت کا اجر تو اور بھی بڑا ہوگا.کاش یہ منکر اس حقیقت کو جانتے.جو ظلموں کا نشانہ بن کر بھی ثابت قدم رہے ( ہجرت کرنے والے ) اور جو ہمیشہ ہی اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں.پھر کیا جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم

Page 332

خطبات ناصر جلد نهم ۳۱۸ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء اور اسلام کے خلاف تدبیریں کرتے چلے آئے ہیں اور اس بات سے امن میں ہیں کہ اللہ انہیں اس ملک میں ہی ذلیل اور رسوا کر دے یا موعودہ عذاب ان پر اس راستے سے آ جائے جس کو وہ جانتے ہی نہ ہوں.یا وہ انہیں ان کے سفروں میں ( دوسری جگہ آیا ہے.وہ دوڑے پھرتے ہیں دنیا میں، اسلام کو نا کام اور کمزور کرنے کے لئے ) تباہ کر دے.پس وہ یا درکھیں کہ وہ ہرگز اللہ کو ان باتوں کے پورا کرنے سے عاجز نہ پائیں گے.( جو بشارتیں یہاں مومنوں کو دی گئی ہیں.ان باتوں کے پورا کرنے سے عاجز نہ پائیں گے ) یا وہ انہیں پہلے کہا تھا ہلاک کر دے اللہ ) آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے کیونکہ تمہارا رب یقیناً مومنوں پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.ان آیات میں ان ہجرت کرنے والوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کو اختیار کرتے ہیں اور اس ہجرت کو وہ اختیار کرتے ہیں اُس وقت جب ان پر ظلم کی انتہا ہو چکی ہوتی ہے.اس وقت بھی وہ ہجرت کو اختیار کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں بشارت دی کہ لنبونَتَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً دنیا میں بھی اچھا مقام دیں گے.دُنیوی حسنات دیں گے جس کے لئے دعا سکھائی رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً (البقرة : ٢٠٢) وَ لَاجُرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ اور آخرت کا اجر اس دنیا کے اجر کے مقابلے میں بہت بڑا ہے.کاش اس حقیقت کو یہ منکر سمجھتے اور اپنی بدتر بیروں سے باز آجاتے.ہجرت، جیسا کہ ابھی حال ہی میں ماضی قریب میں میں نے ایک خطبے میں بتایا تھا ، عربی معنی کے لحاظ سے اور قرآنی اصطلاح کی رو سے تین باتیں ، تین پہلوا اپنے اندر رکھتی ہے.ہجرت کے لفظی معنی تو عربی میں ہیں قطع تعلق کرنا اور چھوڑ دینا اور ہجرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہجرتِ مکانی یعنی اپنی رہائش کی جگہ کو چھوڑنا.بڑی زبر دست قربانی ہے اپنے عزیزوں کو چھوڑنا، اپنے دوستوں کو چھوڑنا ، اپنے تعلقات کو چھوڑنا ، اپنے اموال کو چھوڑ نا خدا اور رسول کے لئے اور اس جگہ چلے جانا یا اس زندگی کو ( جو اس وقت میرا مضمون ہے.میں یہ فقرہ اس کے لئے زائد کر رہا ہوں ) ترک کر دینا جس زندگی کو ترک کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے موعودہ انعامات کے وہ وارث بن

Page 333

خطبات ناصر جلد نہم ۳۱۹ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء سکتے ہیں.مفردات راغب نے ہجرت کے معنی میں لکھا ہے.مُقْتَضَى ذلك ہجرت کا تقاضا یہ ہے کہ هُجْرَانُ الشَّهَوَاتِ شہوات نفسانی کو ترک کرنا وَ الْأَخْلَاقِ النَّمِيمَةِ اور جو گندے اور بڑے اخلاق ہیں انہیں چھوڑ دینا والخَطَايَا اور جو گناہ کی باتیں ہیں ان سے باز آجانا.خواہشات نفسانی کا ذکر بہت سی جگہ قرآن کریم میں آیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو شیطانی اثر ہیں زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ (ال عمران : ۱۵) اہوائے نفس خوبصورت کر کے دکھائے جاتے اور ان کا پیار شیطان انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے.هوی کا لفظ اس سے ملتے جلتے معنی کا ہے.اہوائے نفس بھی ہم کہتے ہیں.خواہشات نفس بھی ہم کہتے ہیں.ھوی کے معنی ہیں مَيْلُ النَّفْسِ إِلَى الشَّهْوَةِ شہوت کی طرف خواہشات کی طرف انسان کا میلان جو ہے عربی میں اسے الھدی کہتے ہیں.مفردات راغب میں آیا ہے وَقَدْ عَظَمَ اللهُ دَمَّ اِتِّبَاعِ الْهَوَی کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی بڑی اہمیت بیان کی اور اس پر بڑا زور دیا کہ اتباعِ الهَوای خواہشات نفسانی کی اتباع بڑی مذموم چیز ہے، بہت بُری چیز ہے، بہت گندی چیز ہے.بڑا زور دیا گیا ہے اس پر اور قرآن کریم کا دعویٰ تھا کہ میں ہر چیز کھول کھول کے بیان کرنے والا ہوں ، قرآن کریم نے بہت جگہ شہوات نفسانی جن کو ترک کرنے کا حکم ہے ہجرت میں.اور یہ اہواء جو ہیں ان کے جو مضرات ہیں جس وجہ سے اس کی برائی کی گئی ہے اللہ تعالیٰ کے کلام میں ، ان کے اوپر روشنی ڈالی گئی ہے.میں نے اس خطبہ میں چند باتیں ان آیات قرآنی میں سے لی ہیں کہ شہوات نفسانی کی اتباع کرنے والے کس قسم کی محرومیوں میں خود کو ڈالنے والے اور اللہ تعالیٰ کے کن انعاموں سے وہ محروم ہو جاتے ہیں.اس مضمون کے تعلق میں (اہوائے نفس یا خواہشات نفس یا شہوات نفس ایک ہی چیز ہے ) پہلی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول سے شہوت نفس یا اہوائے نفس محرومی کا باعث بن جاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۷ میں بیان کیا ہے.و کوشتنا اگر ہم چاہتے تو اسے رفعتیں اور بلندیاں عطا کرتے.اس کے یہ معنی بھی ہیں ( تلاوت کرتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ بالکل یہ معنی ہیں ) و کوشتنا اگر ہماری مرضی پر وہ چلتا ( ہم چاہتے“

Page 334

خطبات ناصر جلد نہم ۳۲۰ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء تبھی ہوتا نا جب ہماری مرضی پر چلتا ) لرفعنہ اُسے روحانی رفعتیں حاصل ہو جا تیں لیکن وہ ہماری مرضی پر نہیں چلا بلکہ اہوائے نفس کی اس نے اتباع کی ولكنَّه أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وہ زمین پر گر پڑا رفعتیں حاصل کرنے کی بجائے.وَاتَّبَعَ هَولہ یہ قرآن کریم کا ہے اخُلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هونه رفعتوں سے محرومی اسے ملی اور زمین پر اسی طرح، زمین کا کیڑا جس طرح زمین پہ چل رہا ہوتا ہے وہ اس کی حالت بن گئی.انسان زمینی گراوٹ کے لئے نہیں پیدا کیا گیا.انسان کو ( مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (اللہ ریت: ۵۷) کی آیت جس کی طرف اشارہ کرتی ہے ) آسمانوں کی بلندیوں کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی اُمت مسلمہ کو کہ جب تم میں سے کوئی عاجزی، انکساری اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرے گا رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ساتویں آسمان کی بلندیاں اسے حاصل ہو جائیں گی.یہاں یہ فرمایا اگر وہ ہماری مرضی کی راہوں کو اختیار کرتا کر فعنہ ہم نے اس کے لئے بلندیاں مقدر کیں ہوئی تھیں لیکن اخلد إلى الْأَرْضِ وہ تو زمین پر گر پڑا، زمین کا کیڑا بن گیا وَ اتَّبَعَ هَواهُ اور اپنے اہوائے نفس کی اتباع اس نے کرنی شروع کر دی.دوسری چیز جس سے کہ حصول میں روک بنتی ہے اتباع اہوائے نفس وہ یہ ہے.شہوات نفسانی کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب ہوتی ہے.سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اہوائے نفس کی اتباع کا ، پیروی کا مرتکب ہوگا اتنا ظلم کر رہا ہوگا اپنے نفس پر کہ اللہ تعالیٰ نے جو آیات اس کی بہتری کے لئے نازل کی ہیں ان کی وہ تکذیب کر رہا ہے.اہوائے نفس کی پیروی تکذیب آیات باری ہے.یہ اعلان کیا گیا ہے.آیات جو ہیں قرآن کریم میں دو معنی میں استعمال ہوئی ہیں.دُنیوی انعامات مثلاً ایٹم کے ذرے میں وہ طاقت جو آج انسان نے معلوم کی اور روحانی انعامات جو اللہ تعالیٰ نازل کرتا ہے اور فرمایا ہے کہ موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح میری آیات ، انعامات جو ہیں ، نعماء جو ہیں وہ تم پر نازل ہو رہی ہیں.ہر آیت کا انکار ہو رہا ہے.ایٹم کے ذرے ہی کو لو جو چیز انسان کی

Page 335

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۱ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء بھلائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی اسے انسان کی تباہی کے لئے استعمال کرنے کے ہتھیار بنالئے.تو اہوائے نفس کا نتیجہ تکذیب آیات اور ناشکری آیات باری کی ہے.تیسرے یہ کہ خواہشات نفس کی جو پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی دوستی اور اس کی مدد اور پناہ سے محروم کر دیا جاتا ہے.سورۃ الرعد کی آیت ۳۸ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.بڑا سخت نقصان ہے یہ.اس دنیا کی دوستیاں تو تم دیکھتے ہو روز آج دوستی ہے کل دشمنی میں بدل جاتی ہے.جس کو آج سر پہ اٹھا یا کل اسے زمین پر گرا دیا.جس کے لئے آج اپنی جانیں لاکھوں کی تعداد میں قربان کرنے لئے تیار ہو گئے ، اس کی جان لے لی اگلے روز تو خواہشات نفس کی پیروی اللہ کی دوستی اور اس کی پناہ سے محروم کر دیتی ہے.اور چوتھی بات یہ بتائی کہ گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیار کرنا ، ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنا دل کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے پھر تو میں ہی میں ہو جاتا ہے نا.انانیت جوش مارتی ہے.یہ خواہش ہے، پوری ہونی چاہیے.وہ خواہش ہے ، پوری ہونی چاہیے.ایک اور خواہش ہے وہ پوری ہونی چاہیے.جب خواہشات کی اتباع شروع ہوگئی تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ پھر خواہشات کی کوئی انتہا نہیں رہتی.جو سب سے زیادہ امیر اس وقت ہماری دنیا میں پایا جاتا ہے اس کے دل میں پھر بھی یہ خواہش ہے کہ کچھ اور مال مجھے مل جائے لیکن جو خدا کے بندے ہیں وہ مال لٹایا کرتے ہیں، فقیر بن کے ہاتھ پھیلا یا نہیں کرتے.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے ہیں، غیر اللہ کے سامنے جھکنے والے نہیں ہوا کرتے اور قرآن کریم سورۃ الکہف کی آیت ۲۹ میں یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیار کرنے والا انسان ایسا دل رکھتا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے اور جو دل ایک لحظہ کے لئے اپنے رب کی یاد سے غافل ہوا اس نے ہلاکت مول لی.پانچویں بات خدا تعالیٰ نے ، پانچواں پہلو اس کا یہ بتایا ہے کہ ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنے سے ایمان بالآ خرت جاتا رہتا ہے یعنی قیامت پر ایمان کہ ایک اور زندگی ہوگی جہاں جواب طلبی ہوگی ، جہاں انعامات ملیں گے ، جہاں ایک ابدی زندگی عطا کی جائے گی ، جہاں ایسی

Page 336

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۲ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء جنتیں ہونگی جن کی نعماء کا حسن اور نور اور لذت ہمارے جسمانی اعضاء اور حواس جو ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے ، ہماری عقل میں نہیں آسکتے.تو ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنا آخرت اور قیامت پر ایمان لانے میں روک بن جاتا ہے.پھر ایسا شخص جو اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے ، وہ کہتا ہے یہی زندگی سب کچھ ہے ، جو کچھ جس طریق سے مل سکے حاصل کرو اور وہ اپنی روح کو ، اپنے وجود کو ان جنتوں سے محروم کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے پیدا کیں جو قرآن کریم کی اتباع اس رنگ میں کرتے ہیں جس رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھائی.یہ ہے وَ الَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللهِ.اس مضمون پر ہجرت“ کے معنی پر زیادہ روشنی ڈالی اس ” لئے کہ آگے آیا تھا الَّذِينَ صَبَرُوا.یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو شخص صحیح معنی میں ہجرت کرنے والا ہے یعنی ہر چیز خدا کے لئے ترک کرنے کی نیت اور ضرورت کے مطابق ترک کر دینے والا ہے اور جو شخص شہوات کو چھوڑتا ہے اور اخلاق ذمیمہ سے اس طرح دوڑتا ہے جس طرح شیطان لاحول سے دوڑتا ہے اور خطا یا اور گناہوں سے وہ بچنے والا ہے تب وہ صبر کرتا ہے.صبر کے معنی ہیں کہ جو احکام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کئے ہیں ، جو تعلیم اس نے دی ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لینا.کچھ ہو جائے خدا کے دامن کو ایک دفعہ پکڑ کے اس کو چھوڑ نا نہیں اور صبر کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یعنی جو خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اس کے نتیجے میں خدا کے سوا اللہ کے مقابل ہر غیر کو چھوڑنا پڑے گا یعنی دوستی اگر خدا کے مقابلے میں آئے گی دوستی قربان کرنی پڑے گی.اگر آل و اموال خدا تعالیٰ کے احکام چھوڑ کے ملتے ہوں گے تو مال کو چھوڑنا پڑے گا احکام الہی کو نہیں چھوڑ نا ہوگا وغیرہ وغیرہ.بہت لمبی تفصیل ہے اور جو شخص ایک، دو، سو، دوسو، ہزار، دو ہزار ، لاکھ، دولاکھ، چیز میں خدا کے لئے چھوڑ رہا ہے جب تک کوئی سہارا مضبوط اس کے سامنے نہ ہو جس کو اس نے ہاتھ سے پکڑا ہوا ہو یہ قربانی نہیں دے سکتا.تو فرما یا الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یہ صبر کرتے ہیں اس لئے کہ خدا پر ان کا تو گل ،، ہے.جو خدا پر توکل کرتے ہیں ”حسبنا اللہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور جن کے لئے اللہ کافی

Page 337

خطبات ناصر جلد نہم ۳۲۳ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء ہے اللہ اپنے نشان اور پیار کا اظہار اس طریقے پہ کرتا ہے کہ ہماری عقلیں جو پیار وصول کرنے والی ہیں دنگ رہی جاتی ہیں.میں دو تین دفعہ بتا چکا ہوں کیلگری میں چھوٹی سی جماعت پیدا ہوئی.چھ سات سال پہلے کی بات ہے.انہوں نے لکھا کہ ایک یہاں چھوٹا سا مکان ، کوٹھی نما، فلیٹ نہیں، ( میرا خیال ہے بمشکل ایک کنال رقبہ ہو گا شاید ایک کنال زمین میں بھی نہ ہولیکن ہے کوٹھی نما ) وہ مل رہا ہے کم و بیش ستر ہزار کینیڈین ڈالر کا.کچھ رقم ہمارے پاس ہے.کچھ جماعت دے دے تو ہم یہ خرید لیں بچوں کی تربیت نہیں ہوتی اگر مرکز نہ ہو اور نمازیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں اور بہت سارے کام جو جماعت نے کرنے ہوتے ہیں ،مشورے کرنے ہوتے ہیں، تربیتی لیکچر کرنے ہوتے ہیں وہ نہیں ہو سکتے اور ہماری ضرورت کے لئے پوری ہے یہ جگہ، خیر دعاؤں کے ساتھ ان کو اجازت دے دی اور کچھ پتہ نہیں تھا نہ مجھے نہ کسی اور کو اللہ تعالیٰ نے عظیم انعام کرنے کی تدبیر اور منصوبہ بنایا ہے.انہوں نے خرید لیا.پچھلے سال جب میں گیا ہوں کیلگری پہلی دفعہ تو وہ مسجد بھی دیکھی ہمشن ہاؤس دیکھا.ظہر اور عصر کی نمازیں بھی وہاں پڑھیں.چھوٹی سی ایک جگہ تھی.مجھے کہنے لگے کہ یہ ہے Residential Area ( ریذیڈنشل ایریا) آپ دُعا کریں اگر یہ کمرشل ایریا بن جائے تو اس کی ایک دن میں قیمت بڑھتی ہے وہ بھی دعا کر رہے تھے میں نے بھی دعا کی.اللہ تعالیٰ نے جماعت کی دعاؤں کو سنا اور کمرشل ایریا بن گیا.چند ہفتے ہوئے مجھے خط ملا ان کا کہ کیلگری سے سات آٹھ کلو میٹر دور ایک جگہ مل رہی ہے چالیس ایکڑ زمین ایک کنال کے مقابلے میں یعنی چالیس کو آٹھ کے ساتھ ضرب دیں تو ۳۲۰ ہو گئے نا.اس نسبت سے اللہ تعالیٰ کا فضل.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہاں جو مکان ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ آپ اگر آئیں پھر اور ضرور آئیں تو سارا قافلہ آپ کا اور ہم لوگ بھی وہاں سماسکتے ہیں اور قیمت اس کی ہے تین لاکھ اور پچاس ہزار ڈالر ) اور قیمت کی ہمیں اس وقت کوئی مشکل نہیں کیونکہ جو مکان ہم نے کم و بیش ستر ہزار کینیڈین ڈالر کا خریدا تھا اس کی Offer (آخر) ہے چار لاکھ بیس ہزار یعنی پورے ستر ہزار کے فرق کے ساتھ.تو میں نے سوچا اور دل میں کہا یہ تو خدا نے عجیب شان کا اظہار کیا مجھے تو ایسے لگا کہ خدا نے کہا یہ پکڑو اپنے پیسے ستر ہزار.اور یہ جو نیا مکان تین لاکھ پچاس ہزار کا دے رہا ہوں اس میں ایک دھیلہ

Page 338

خطبات ناصر جلد نہم ۳۲۴ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء تمہارا نہیں.میرے فضلوں نے سب رقم ادا کی ہے.اس طرح فضل کرنے والا ہے ہمارا خدا.تو وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ صبر کر و استقامت کے ساتھ ، مضبوطی کے ساتھ ، وفا کے ساتھ ، جانثاری کے ساتھ ، قرآن کریم کی شریعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو پکڑو اور آپ کے أسوه پر چلو وَ عَلى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ایسے لوگ خدا تعالیٰ پر کامل تو کل صحیح تو گل ، پورا تو گل کرنے کے بعد ہی صبر کر سکتے ہیں یعنی یہ کہ ہر چیز چھوڑ دیں خدا کے لئے.صبر نہیں کر سکتے جب تک ہر چیز خدا سے پانے اور اس کی بشارتیں اپنی زندگی میں پورا ہونے پر کامل یقین نہ رکھیں.اس مضمون کے لحاظ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کا ترجمہ اپنی تفسیر میں یہ کیا ہے.” جو ظلموں کا نشانہ بن کر بھی ثابت قدم رہے ہجرت میں آ گیا تھا ناظلم.شہر چھوڑ ا.خاندان چھوڑا، اموال چھوڑے، حویلیاں چھوڑیں ، چھوڑ ہی دیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر جو کیا آپ کی عظمتوں کا وہ نشان ہے اور جو فتح مکہ کے روز کیا، عظمتوں کا وہ نشان بڑا ہی بلند ہو گیا.ایک لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ (يوسف : ۹۳) کہ تم سب کو میں نے معاف کر دیا.دعا کرتا ہوں اللہ بھی تمہیں معاف کر دے اور دوسرے وہ مہاجر جن کی بڑی بڑی حویلیاں شایدان میں اتنی بڑی بھی ہوں گی جو یہاں بھی ملنی مشکل ہیں پرانے طریق کی بڑی مضبوط بنی ہوئی حویلیاں تھیں.بڑے رئیس تھے.رؤسائے مکہ بڑے امیر تھے.ان میں سے جو مسلمان ہوئے سب کچھ چھوڑ کے مدینہ آئے تھے.نبی کریم صلی اللہ وسلم نے یہ سوچا ہوگا کہ اگر میں نے ذرا سا بھی یہ اشارہ کیا کہ اب تم سب کچھ واپس لے سکتے ہو تو یہاں تو بڑا فساد پیدا ہو جائے گا.آپ نے کہا میں جا رہا ہوں واپس مدینہ اس میں ایک اور بھی حکمت ہے اور وہ یہ کہ جس دن حویلیاں چھوڑ کے مدینہ چلے گئے تھے، کوئی کہ سکتا تھا مجبوری تھی اور کیا کرتے.جس دن رہ سکتے تھے وہاں نہیں رہائش اختیار کی اور چھوڑ کے چلے گئے.کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کوئی مجبوری تھی خدا کے لئے چھوڑ دیا تھا پھر واپس نہیں لیا.ساری جائیدادیں وہیں چھوڑ کے مہاجرین کو لے کے واپس چلے گئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ کی دراصل وہ تشریح ہے کچھ آیتیں بیچ میں

Page 339

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۵ خطبه جمعه ۱۳ / نومبر ۱۹۸۱ء مضمون کی اور حصے تھے وہ میں نے چھوڑ دیئے ہیں.) أَفَا مِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيَاتِ أَنْ يَخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لا يَشْعُرُونَ انہوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا ہے.خدا کہتا ہے یہ میرے پر تو گل کر کے میری ہر بات مان رہے ہیں.میرے لئے اپنی ہر چیز قربان کر رہے ہیں پھر کیا جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف تدبیریں کرتے چلے آرہے ہیں، انہیں امن کی گارنٹی کس نے دی ہے کہ اللہ انہیں اس ملک میں ہی ذلیل نہیں کرے گا اور رسوا نہیں کرے گا اور جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ عذاب ان پر نہیں آئے گا.سب کچھ ہو گیا.جس دن آپ نے یہ کہا کہ تمہارے جن گھروں کے مکینوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہمارے گھروں سے نکالا تھا ، ان مکانوں کو میں کہتا ہوں جو تمہارے اندر چلے جائیں گے وہ امن میں آجائیں گے.میں نے بتایا نا وہ دن بڑی عظمتوں کے بڑی رفعتوں کے اظہار کا دن تھا.ہم سب کو عقل دی ہے.سوچنا چاہیے یہ اعلان کس قدر عظیم ہے.آپ نے کہا جس گھر کے مکین نے مجھے مکہ سے نکالا تھا اس گھر کو میں یہ عظمت دیتا ہوں کہ اس گھر میں تم چلے جاؤ گے تو وہ گھر تمہیں پناہ دے گا یہ اعلان تھا کہ خانہ کعبہ کے گرد جو گھر بنائے گئے تھے وہ امن کے لئے بنائے گئے تھے.وہ لوگوں کے گھروں کو اجاڑنے کے لئے تو نہیں بنائے گئے تھے اور اس لئے یہ اعلان کر دیا اور وہ عذاب ان پر آ گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوْ يَأْخُذَهُم فِي تَقَلُّبِهِمُ کہ وہ دوڑے پھرتے ہیں.یہ جو جنگ احزاب ہوئی ، یہ سفروں کے نتیجے میں ہوئی.رؤسائے مکہ دوڑے پھرتے تھے عرب قبائل کو اکٹھا کرنے کے لئے اور یہودی دوڑے پھرتے تھے رؤسائے مکہ کو اکٹھا کرنے کے لئے تا کہ مٹا دیا جائے اسلام کو.اعلان کیا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ تو درست ہے کہ تم بڑے انہماک کے ساتھ ، بڑے پیسے خرچ کر کے، اپنا آرام کھو کے سعی میں ، کوشش میں اور دوڑ میں لگے ہوئے ہو کہ کسی طرح اسلام کو مٹایا جائے.تمہیں کس نے یہ امان دی ہے کہ ان سفروں میں تمہیں تباہ نہ کر دیا جائے گا.میں نے بتایا نا

Page 340

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۶ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء بڑی دوڑ دھوپ کے بعد جنگ احزاب کے حالات پیدا ہوئے اور اللہ جلّ شانہ کا یہ نشان ( آیت ) ظاہر ہوا.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبُرَ (القمر : ۴۶) سارے اکٹھے ہو کر آئے تھے تباہ کرنے کے لیے تباہ و برباد ہو کر چلے گئے وہاں سے.اور انسان کے ہاتھ سے نہیں فرشتوں کے ہاتھ سے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ يَأْخُذَهُم فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ تم اللہ تعالیٰ کو نا کام نہیں کر سکتے اس کے منصوبے میں - اَوْ يَأْخُذَهُم عَلَى تَخَوفِ پنجابی میں کہتے ہیں بھورنا.على تخوف کے بھی یہی معنی ہیں یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے ، یہ دونوں طرح ہوتا ہے یا آگے نسل کم ہو جائے یا نسل مسلمان ہو جائے ، ایک ایک کر کے ، وہ مکہ جس کے سپوت اسلام کو مٹانے کے لئے باہر نکلتے تھے ان میں سے خالد بھی نکلا مگر اسلام کو مٹانے کے لئے نہیں اسلام کا جرنیل بننے کے لئے تو آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ، بھور بھور کے ان کی طاقت کو خدا کم کرتا چلا گیا اور اسلام کی طاقت اللہ بڑھاتا چلا گیا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء : ۴۵) ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کناروں کی طرف سے اس کو چھوٹا کرتے جارہے ہیں.وہ اپنی تدبیر میں کامیاب کیسے ہونگے ہر دو کو اکٹھا کر کے ایک گلدستہ جس طرح بن جاتا ہے بہت خوبصورت کہ اَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخُوفِ یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے.اور یہ سارا کچھ کیوں کرے؟ اس لئے کہ جو تمہارا رب ہے وہ مومنوں پر بہت ہی شہ کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے جن مومنوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا ان کے ساتھ یہ اس کا سلوک ہے اور وہ ربّ ہے ربوبیت کرتا ہے اور ربوبیت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت تھی.اس کی شفقت کی اور اس کے رحم کی.تم نے دیکھا نہیں کن عظیم مظاہروں کے ساتھ اس نے اپنی شفقت کا ، اپنے پیار کا بھی اظہار کیا اور اپنی رحمتوں کی بارش بھی کی مسلمانوں پر.یہ اُمت مسلمہ کے ساتھ پیشگوئیاں لگی ہوئی ہیں ساری.چودہ سو سال سے یہ ہوتا چلا آیا ہے یعنی انتہائی ایذا رسانی کی کوشش ہجرت اور مجاہدہ جس میں کیا جائے وہ حالات پیدا کئے جاتے رہے اور صبر کا مطالبہ اور کامل تو گل کا اظہار اور انعاموں کی بارش.چودہ سوسال کی تاریخ ہماری شفقت

Page 341

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۷ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء بھری ہوئی ہے اس سے اور چونکہ آج اسلام کو تمام ادیان پر اپنے دلائل اور نشانات کے ساتھ غالب کر دینے کا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اس لئے جماعت احمدیہ سے وہ عاجزانہ راہوں کا مطالبہ کرتا ہے.وہ ہجرت کا مطالبہ کرتا ہے ہجرت بھی ہوئی ایک، قادیان سے لیکن جو ہر وقت ہمارے ساتھ مطالبے چھٹے ہوئے ہیں یعنی ہجرت کے تین پہلو.شہوات نفسانی ترک کر دو.اچھے اخلاق ہوں ، گناہوں سے بچو.پھر مجاہدے کے معنی ہیں تین.وہ تو میں نے اس اپنے مضمون میں نہیں لئے اور پھر بنیادی چیز کہ صبر اور توکل.ہم کہا کرتے ہیں خدا میں فنا ہو جاؤ یعنی اپنی زندگی اس کے حضور پیش کر دو اور ایک نئی زندگی پاؤ.اپنی زندگی اس کے حضور پیش کر دو اسی کا نام صبر ہے یعنی ہر چیز اس کے حضور پیش کر دی.وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یہ تو گل ہے وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.اب میں صرف جماعت احمدیہ کو (ویسے چودہ سوسال سے یہ چلا آرہا ہے قصہ ) مخاطب کر رہا ہوں.کوئی بانوے ، ترانوے سال ہو گئے.ایک دن بھی تو ایسا نہیں جو یہ گواہی دے کہ جماعت کا جو مضبوط حصہ ہے (دوسرا حصہ بھی ساتھ رہتا ہے اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کر دیتا ہے یا مٹا دیتا ہے ) انہوں نے اپنے خدا سے صبر کا رشتہ جو ہے وہ قطع کیا ہوا نہیں.صبر ، ثبات ،حسن عمل ہے اور ایک دن بھی ایسا نہیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کے وعدوں کی روشنی میں اس کے انعامات نہ پائے ہوں.ابھی خدام الاحمدیہ نے ایک سکیم بنائی.نوجوانوں کی خواہش تھی.میں نے ان کو اجازت دے دی کہ دو مسجدوں کے لئے یورپ اور امریکہ اور کینیڈا سے چندہ جمع کرو.وہاں خدا تعالیٰ نے بیسیوں اپنے پیار کے اور شفقت کے اور محبت کے مظاہرے دکھائے.انگلستان کا ایک نوجوان تھا.اس نے خود مجھے خط لکھا ہے (ساری تفصیل نہیں لکھی.بعض حصے لکھے وہ شرما گیا ہے لکھتے ہوئے ) کہ جب یہ تحریک ہوئی تو مجھے بھی خیال پیدا ہوا کہ میں دوں.میں نے پانچ سو پچاس پونڈ کا وعدہ ۵۵۰ کر دیا اور تھے میرے پاس صرف پانچ پونڈ.پھر مجھے خیال آیا کہ صرف وعدہ تو ٹھیک نہیں ہے.میں نے اپنے بنک سے بات کی کہ مجھے Over Draw (اوور ڈرا) دوستم پانچ سو پچاس پونڈ ، تو میں چندہ دے دوں وہ میں نے قرض لے لیے.کہتا ہے ایک ہفتے کے اندراندر قرض کے اتر

Page 342

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۸ خطبه جمعه ۱۳ نومبر ۱۹۸۱ء جانے کے سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیئے.لیکن کیسے پیدا کئے؟ اس شحض نے نہیں بتایا شرم کے مارے.لیکن کسی اور Source ( سورس) نے مجھے بتایا کہ ابھی ہفتہ ہی گزرا تھا اس قرض پر کہ اسی بنک نے جہاں اس کا اکاؤنٹ تھا اُس کو پانچ سو پچاس پونڈ کا چیک بھیجا اس نوٹ کے ساتھ کہ پچھلے سال ہم نے جو تمہارا انکم ٹیکس کا ٹا تھا، غلطی سے پانچ سو پچاس پونڈ زیادہ کاٹ لیے.اب ہم نے چیک کیا ہے اور وہ تمہیں چیک بھیج رہے ہیں یعنی جو رقم اس نے دی تھی وہ ایک ہفتے میں خدا تعالیٰ نے اس کو واپس کر دی.جب تک آپ انتہائی قربانی دے کر خدا تعالیٰ کے انتہائی پیار کو حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک آپ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ قربانیاں اس کے حضور پیش کریں جو کل، جو پرسوں، جو آنے والا سال ، اس سے اگلا آنے والا سال آپ سے مطالبہ کرے گا.اس واسطے میری مانو.خدا کے لئے میری مانو اور اس کے دامن سے چمٹ جاؤ اور اسے بالکل نہ چھوڑو اور کامل تو کل اس پر کرو.وہ کبھی ایسے آدمی سے بے وفائی نہیں کرے گا.بے وفا انسان ہی بن جاتا ہے خدا بے وفائی نہیں کرتا.اس نے اعلان کیا ہے قرآن کریم میں کہ جو میں وعدہ کرتا ہوں اسے پورا کرتا ہوں اور وہ طاقت رکھتا ہے پورا کرنے کی.یہ نہیں کہ بوڑھا ہونے کا خطرہ، کمزور ہونے کا خطرہ ، دشمن سے مغلوب ہو جانے کا خطرہ ہو.اس کی تمام طاقتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ اور پورے نور کے ساتھ اور پورے حسن کے ساتھ ہمیشہ قائم رہیں اور قائم رہیں گی.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء صفحه ۱ تا ۶ )

Page 343

خطبات ناصر جلد نهم ۳۲۹ خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء احسن قول ، عقیدہ اور عمل اس شخص کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۰ /نومبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ سورۃ حم السجدۃ میں فرماتا ہے.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ( حم السجدة: ۳۴) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی.اسی کی بات سب سے اچھی ہے جو اللہ کی طرف سب کو بلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق صالح عمل کرتا ہے اور ( قال ) کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں.یہاں فرمایا کہ وَ مَنْ اَحْسَنُ قَولاً قول کے لحاظ سے سب اچھا وہ ہے.عربی زبان میں قول کا لفظ مختلف معانی میں بولا جاتا ہے.مفردات راغب نے دس پندرہ معنی اس کے کئے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر وہ معنی درست استعمال ہوئے قرآن کریم میں.یہاں جو معنی لگتے ہیں، جو مفردات راغب نے بھی کئے ہیں ، یہ ہیں کہ اس سے مرا دصرف زبان کا اعلان بعض دفعہ نہیں ہوتا یعنی ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ صرف زبان سے اعلان کرنا، بیان کرنا ، کہنا یہ مراد نہیں.اس سے مراد صرف زبان کا اعلان ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ مراد بھی ہوتی ہے إِذَا كَانَ مَعَهُ اِعْتِقَادُ وَ عَمَل کہ اس زبان کے بیان کے ساتھ عقیدہ بھی اسی کے مطابق ہو

Page 344

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۰ خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور عمل صالح بھی اسی کے مطابق ہوں جن کا تعلق جوارح کے ساتھ ہے.جب زبان کے اعلان کے ساتھ دل کا اعتقاد اور اس کے مطابق عمل ہو تو اس معنی میں قول کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور یہاں اسی معنی میں قول کا لفظ استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا کہ سب سے اچھا قول وہ ہے جو زبان ، عقیدہ اور عمل سے ہو کہ جس سے دعا إلی اللہ ایسا قائل یعنی ایسی بات کہنے والا جو اس کے مطابق عقیدہ بھی رکھتا ہے، عمل بھی کرتا ہے دعا إلى الله اللہ کی طرف بلاتا ہے یا دعوت دیتا ہے.اللہ کی طرف بلانا.دعا الى اللہ جو ہے اس کے دو اصولی معنی ہیں.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید کو قائم کرنے کے لئے لوگوں کو آواز دیتا ہے کہ ہر قسم کے شرک کو چھوڑو اور اپنے رب کریم کی طرف واپس آؤ.جس کے لئے ضروری ہے کہ ایسا شخص عرفانِ ذات وصفات باری رکھتا ہو یعنی جب تک کوئی شخص خود اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچانتا نہ ہو اور اس کی صفات کی شناخت نہ رکھتا ہو کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے بلا سکتا ہے.اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ( وہ توحید خالص جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ) جو ہے وہ ہر قسم کی برائی اور نقص اور کمزوری سے پاک ہے.یعنی ایک صفات اس کی ہیں ایسی جن سے اس کی سبوحیت اور نقدس ظاہر ہوتا ہے.جس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اس قسم کے جلوے خدا تعالیٰ کی ذات سے ظاہر نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ پاک ہے مثلاً وہ جھوٹ نہیں بول سکتا.پاک ہے وہ.اس کو بھی قرآن کریم نے بڑا کھول کے بیان کیا ہے اور میں سوچ رہا تھا تو بہت سارے پہلو اس کے قرآن کریم میں مجھے نظر آئے وہ کسی اور خطبے میں میں بیان کروں گا.وہ بھی بڑا دلچسپ مضمون بنتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچاننا اور شناخت کرنا اس معنی میں ( دو چیزیں ہیں وہ بھی ساتھ بیان کر دوں ) بھی کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس معنی میں بھی کہ اس کی ذات ہر قسم کے عیب اور نقص اور کمزوری سے پاک ہے.وہ قدوس ہے.سر چشمہ ہے پاکیزگی کا.کوئی برائی اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی.اگر کوئی دماغ ایسا سوچے تو شیطان اس کو اس کی رہنمائی کرنے والا ہے.قرآن کریم اس کی رہنمائی کرنے والا نہیں.

Page 345

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۱ خطبه جمعه ۲۰ / نومبر ۱۹۸۱ء تو ایک معنی دعا إلى الله کے یہ ہیں کہ توحید خالص کی طرف وہ بلاتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا اپنا عقیدہ ( مَنْ اَحْسَنُ قَولاً میں یہ بھی آیا تھا نا، اس کی میں وضاحت کر رہا ہوں ) بھی پاک ہو ، صحیح ہو ، سچا ہو ، قرآن کریم کے مطابق ہو ، اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کے عین مطابق ہو اور اس کی طرف وہ بلا رہا ہو.صرف یہ کہہ دینا یا یہ دُنیا کو آواز دینا کہ خدا کی طرف آؤ، کافی نہیں کیوں کہ ہر انسان کہے گا کس قسم کے خدا کی طرف تم بلاتے ہو.کیا اس خدا کے تصور کی طرف جو بعض انسانوں نے اپنے ذہن میں یہ رکھا کہ وہ ظالم ہے.کیا اس خدا کی طرف بلاتے ہو کہ بعض انسانوں کے ذہنوں میں یہ ہے کہ وہ لڑکوں کو پیدا کرتا ہے اور لڑکیوں کو پیدا کرنے والا کوئی اور ہے کیا اس خدا کی طرف جو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جزا دیتا ہے، سزا دینے والا کوئی اور ہے کس خدا کی طرف بلاتے ہو تم ؟ اس خدا کی طرف جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا، اس تصور کو اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہر عیب سے پاک اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.پھر بیسیوں آگے تفاصیل ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں.اور دوسرے دعا إلى الله کے یہ معنی ہیں کہ اس بات کی طرف بلاتے ہیں کہ اگر اپنی خیر چاہتے ہو اس معنی میں کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ تم دین اور دنیا میں ترقی کرو تو اس اللہ کی طرف آؤ جو حقیقی رب ہے کہ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی ہستی ربوبیت نہیں کر سکتی.اس نے انسان کو پیدا کیا اور وعدہ دیا.چھوڑا نہیں.ہر فرد ہے جو بنی نوع انسان کا ، اس میں بہت سی قو تیں اور استعدادیں ہمیں نظر آتی ہیں.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا بڑی قوتیں اور استعدادیں دیں اور پھر چھوڑ دیا کہ جاؤ اور اپنے زور بازو اور اپنی عقل سے دین و دنیا کی ترقیات کو حاصل کرو.اسلام ہمیں یہ نہیں بتاتا.اسلام یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور ہر قسم کی استعداد میں اور صلاحیتیں تمہیں عطا کیں لیکن تم ان استعدادوں اور صلاحیتوں کی صحیح نشو ونما اور صحیح راہوں پر چل کے جونشو و نما ہوسکتی ہے وہ خود نہیں کر سکتے جب تک تمہارا زندہ تعلق ربوبیت رب کریم سے نہ ہو ، جب تک وہ خود تمہارا رب تمہاری ربوبیت کرنے والا نہ ہو.تو بلاتے ہیں اس طرف کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو ، دینی دنیوی خوشحالی چاہتے ہو، دینی دنیوی عزتیں چاہتے ہو، دینی دُنیوی

Page 346

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۲ خطبه جمعه ۲۰ / نومبر ۱۹۸۱ء سکون اور آرام چاہتے ہو تو اپنے رب کی طرف آؤ.وہ تمہیں دے گا.اور ربوبیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بتایا کہ ربوبیت کے لئے اس نے ہدایت نازل کی.ہدایت نازل کی آدم کے ذریعہ سے بھی اس وقت کے لوگوں کے لئے.ہر نبی جو شریعت لایا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی بھلائی کے لئے ہدایت نامہ لے کر آیا اور وہ جو نبی کامل تھا وہ کامل شریعت لے کے آگیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم.اب اس ہدایت کے دائرہ سے باہر کھڑے ہو کر تم اس رب کی ربوبیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جس رب نے اس ہدایت کو تمہاری بھلائی کے لئے نازل کیا ہے.یعنی اگر تم اس کا کہنا نہیں مانو گے ، اس کی بتائی ہوئی راہوں پر نہیں چلو گے، ان راہوں پر چل کر اس سے زندہ تعلق قائم نہیں کرو گے اور ہر آن اور ہر لحظہ اس سے برکتیں حاصل کر کے اپنی نشو ونما اور سکون اور راحت کے سامان پیدا نہیں کرو گے تو ہدایت اپنی جگہ رہے گی ، وہ رب اپنی جگہ رہے گا اور تمہاری محرومیت اپنی جگہ رہے گی.پھر بھی تم محروم رہو گے.تو دعا إلی اللہ سب سے احسن قول ،عقیدہ اور عمل اس شخص کا ہے جو بلاتا ہے اللہ تعالیٰ کی صحیح صفات جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور اس کی ذات کی عظمت کی طرف لوگوں کو صحیح تو حید ، خالص تو حید وہ قائم کرنا چاہتا ہے.جس کے لئے اس نے ، اپنی بھلائی کے لئے بھی اور دوسروں کی بھلائی کے لئے بھی ، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی.اور وہ بلاتا ہے ( دعا إلى الله ( لوگوں کو اس امر کی طرف کہ خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار مسلم بن جاؤ.مسلم کے معنی ہی ہیں کامل فرمانبردار بن جاؤ.اور کامل فرمانبرداری کس کی؟ قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی (الانعام : ۷۲) اس ہدایت کی کامل اطاعت کرو، ہر حکم کی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری بھلائی کے لئے نازل کیا ہے.ہر اس چیز سے بچو جس کے بچنے کا اس نے تمہیں کہا ہے سختی کے ساتھ.یہ نہیں کر نہ کر نوا ہی جو ہیں.اسی لئے سورۃ الا انعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی رہنمائی.رہنمائی کیوں ہوتی ہے؟ رہنمائی ہوتی ہے.بھولا بھٹکا ہے اس کو ہدایت کی ضرورت ہے.اس کو رہنمائی کی

Page 347

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۳ خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء ضرورت ہے.یہاں ربوہ میں بھی بہت سے آ جاتے ہیں اور آپ میں سے کسی کو پوچھتے ہیں ہم نے فلاں جگہ جانا ہے.ایک دوست ہمارا رہتا ہے اس کا راستہ کہاں ہے؟ یہ اللہ کی ہدایت کامل ہدایت انسانوں کی تمام صلاحیتوں کی صحیح، خالص اور پوری نشو ونما کرنے والی جو ہدایت ہے یہ سوائے اللہ کے جو انسان کو جانتا اور پہچانتا ہے اس لئے کہ وہ خالق ہے اور کوئی دے ہی نہیں سکتا.میں تو آپ کو نہیں جانتا نہ مجھے آپ کے اندرونے کا پتہ.نہ مجھے آپ کے خیالات کا پتہ.نہ مجھے آپ کے اخلاق کا پتہ.نہ مجھے آپ کی دلچسپیوں کا پتہ.نہ مجھے آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں کا پتہ.میں آپ کے لئے ہدایت کیسے کر سکتا ہوں پیدا.نہ آپ ایک دوسرے کی ہدایت کر سکتے ہیں.ہدایت تو وہی دے سکتا ہے جس نے پیدا بھی کیا اور جو ہر وہ علم جس کا ہماری ذات سے تعلق ہے وہ جانتا ہے اسے.وہ علم وہ رکھتا ہے.وَاُمِرْنَا لِنُسلِمَ یہاں بھی یہ کہا ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اطاعت کریں لِرَبِّ العلمينَ (الانعام : ۷۲ ) اس رب کی جو عالمین کا رب ہے.ہمارا بھی رب ہے.ہماری ربوبیت کے لئے جو اس نے سامان پیدا کئے اس کی طرف وہی رہنمائی کر سکتا ہے.اس کے لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، وَمَنْ اَحْسَنُ قَولاً میں جیسا کہ میں نے بتایا عربی لغت کے لحاظ سے تین پہلو پائے جاتے ہیں.زبان سے اعلان کرنا مذ ہبی ہدایت کے متعلق ، عقائد کے متعلق دل میں اسی کے مطابق عقیدہ رکھنا اور اس کے مطابق اس کے عمل رکھنا.پھر آگے اس کی تشریح کر دی وَعَيلَ صَالِحًا میں کہ اپنے ایمان کے مطابق اور لوگوں کی ضرورت اور ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے نیکی اور وعظ کی بات کرنا اور وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ( المائدة : ۳) کے مطابق ان سے حسن سلوک کرنا اور ان سے تعلق کو قائم رکھنا.وَ قَالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور اپنا نمونہ ان کے سامنے رکھنا.کہنا کہ دیکھو میں نے اپنے رب کو پہنچانا ہے.میں عرفانِ ذات وصفات باری رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے تو فیق دی کہ میرے دل میں صحیح عقیدہ محض اس کی رحمت سے راسخ ہوا.اس کے مطابق میں اعلان کر رہا ہوں اور وہ اتنا راسخ ہے کہ میرے جوارح میرے دل کے تابع ہو کر ہر وقت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں مصروف رہتے ہیں.

Page 348

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۴ خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء اسی لئے دوسری جگہ یہ بھی فرمایا تھا کہ.قُلْ اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) کہ کامل اطاعت کرنی ہے.نماز ہے.دوسری قربانیاں ہیں.زندگی کا ہر پہلو ہے.موت کی ہر شکل ہے.یہ اللہ رب العلمین کے لئے ہے یعنی میری ہر حرکت اور میرا ہر سکون اس لئے ہے کہ میرا تعلق ربوبیت ربُّ الْعَلَمِيْنَ کے ساتھ قائم اور پختہ رہے کیونکہ اگر وہ تعلق کٹ گیا تو پھر میں ہدایت نہیں پاسکتا اس کی طرف.لا شَرِيكَ لَئے اس کا کوئی شریک نہیں.توحید خالص پر میں قائم ہوں اور مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں مقدور بھر اطاعت کرتا ہوں.یہ عملی نمونہ ہے میرا.میرے پیچھے چلو.کہنے والا تو ایک ہی تھا، میرے پیچھے چلو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.آپ کے منہ سے آپ کی حقیقت خدا تعالیٰ نے یہ بیان کی إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى الی (یونس : ۱۶) جو وحی الہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری اور نوع انسانی کی بھلائی کے لئے نازل ہوئی میں صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں اور تم ؟ اِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ (ال عمران : ۳۲) اگر تمہارے دل میں اللہ کی جو رب العالمین ہے، محبت ہے اور چاہتے ہو کہ وہ بھی تم سے پیار کرے فاتبعونی میری اتباع کرو.کس چیز میں اتباع کرو؟ وہی جو دوسری جگہ ہے اِنْ اتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى رائی میں صرف اس وحی الہی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر اللہ نے نازل کی ہے اور تم میری اتباع کرتے ہوئے صرف اس وحی کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی اور اس کے علاوہ ہلاکت ہے.انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (یونس: ۱۶) یاد رکھو جو اس وحی کو چھوڑتا وہ اپنے لئے ہلاکت، ناکامی ، بدامنی ، خوف ، بے اطمینانی کے سامان پیدا کرتا ہے اس زندگی میں بھی اور آخری زندگی میں ، اُخروی زندگی میں بھی.اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑا عظیم مضمون بیان کیا ہے.زبان دی ہے خدا نے میں اب خلاصہ بیان کرنے لگا ہوں ) بولنے کے لئے.ہر آدمی بولتا ہے.اچھی باتیں بھی کہتا ہے بری باتیں بھی کہتا ہے امن اور اطمینان پیدا کرنے کے لئے اپنے معاشرہ میں بھی اس کی زبان کام کر رہی ہے اور فساد کرنے کے لئے بھی اس کی زبان کام کر رہی ہے.تو خدا تعالیٰ نے ہر دو کاموں

Page 349

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۵ خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء کے لئے تو زبان نہیں دی.خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ میں نے زبان دی.زبان کو آزادی دی لیکن اس آزادی سے اپنی مرضی سے میری اطاعت زبان کرے، انعام پالے گی.اگر یہ زبان مجھے چھوڑ کے دوری کی راہوں کو اور مہجوری کے رستوں کو اختیار کرنے والی ہوئی تو شیطان کی گود میں چلی جائے گی.پھر میری رضا کی جنتیں اس انسان کے لئے نہیں جس کے منہ میں ایسی زبان ہے.میری رضا کی جنتیں تو اس انسان کے لئے ہیں جس کے منہ میں یہ زبان ہے مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا کہ جس سے بہتر زبان نہیں اور وہ ، وہ زبان ہے جس کا بیان اسلام ( زبان سے اظہار ہو رہا ہے ) جس کا عقیدہ اسلام، راسخ ہے دل کے اندر ) جس کا عمل اسلام.دعا کریں.میں بھی دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے کہ اس آیت کریمہ کے مطابق ہماری زبان بھی اسلام ہو ، ہمارا راسخ عقیدہ بھی اسلام ہو، ہمارے اعمال بھی اسلام ہوں اور ایک مسلم کی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کی رحمت کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رہے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 350

Page 351

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۱ء خدا جو عزت کا سرچشمہ ہے اس سے عزت حاصل کریں خطبه جمعه فرموده ۲۷ /نومبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعا ( بنی اسراءیل:۱۱۰) که قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو عجز ،انکسار اور تواضع میں بڑھا تا ہی چلا جاتا ہے.جس قدر انسان خدا تعالیٰ سے علوم قرآنی سیکھتا ہے، اتناہی اسے اپنی صحیح ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے.قرآن کریم میں جو ذمہ داریاں انسان پر ہمیں نظر آتی ہیں کہ ڈالی گئی ہیں بنیادی طور پر دو حصوں پر منقسم ہوتی ہیں.ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد.جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے وہ تمام احکام باری تعالیٰ جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں ان کی بنیا داس بات پر ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱) تم بنی نوع انسان الناس“ کی خیر اور بھلائی کے لئے قائم کئے گئے ہو، ان کی خدمت پر مامور ہو اور خادمانہ راہیں اور عاجزانہ راہیں ایک ہی راہیں ہیں ان میں کوئی فرق ہمیں نظر نہیں آتا لیکن اس وقت میں اس حصے کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا بلکہ دوسرے حصے کے متعلق کہنا چاہتا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق جن کی ادائیگی کی بنیاد بھی عاجزی اور انکساری پر رکھی گئی.

Page 352

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۸۱ء جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس کی عظمت ، اس کی رفعت ، اس کی شان سے وہ ناواقف اور نا آشنا ہو وہ بد قسمت انسان خدا کے سامنے بھی اباء اور استکبار کا رویہ اختیار کر لیتا ہے.خدا تعالیٰ کے جو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے حقوق کی ادائیگی ہے اس کے نتیجہ میں دو احساس پیدا ہوتے ہیں انسان کے اندر.ایک احساس اپنی ذات کے متعلق ہے اور وہ نیستی کا احساس ہے.لاشے محض ہونے کا احساس ہے.میں کچھ نہیں“.اور دوسرا احساس یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس سے زندہ تعلق قائم رکھنے کا قرآن کریم نے مجھے حکم دیا اور جس کی راہیں اس نے مجھ پروا کیں اور کھولیں ، وہ اللہ جو ہے وہ بہت ہی رفعتوں والا ، بہت ہی عظمتوں والا ، علوشان، ہر قسم کی صفاتِ حسنہ سے متصف کوئی غیب اور برائی اور کمی اور نقص اور کمزوری اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی جوں جوں وہ عرفان میں بڑھتا چلا جاتا ہے، خدا تعالیٰ کی عظمت کے عرفان میں ، اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی نیستی کا جو احساس ہے اس میں وہ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے یعنی اس کو پتہ لگتا ہے کہ میں جو دو سال پہلے مثلاً سمجھتا تھا کہ میں اس قسم کا نیست ، اور لاشے محض ہوں ، میں تو اس سے بھی زیادہ نیست اور میری کیفیت اور حالت اور حقیقت تو اس سے بھی زیادہ لاشئی محض کی ہے.اس وقت اس لمبے مضمون کا ایک پہلو میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور وہ یہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو خدا تعالیٰ کے مقابلے میں نیستی کا تصور ہے، اسے کس رنگ میں بیان کیا ہے، آپ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے میں مختصراً اس وقت اسے بیان کروں گا چونکہ یہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی بنیاد تھی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نثر میں بھی پورے Emphasis کے ساتھ ، پورے زور کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی گئی اور آپ کی نظم میں بھی اس پر روشنی ڈالی گئی.آپ نے زیادہ تر تین زبانوں میں منظوم کلام ہمارے سامنے ہماری ہدایت اور راہنمائی کے لئے رکھا.عربی میں منظوم کلام ارود اور فارسی میں.اس وقت میں نے چند ایک اشعار اردو اور فارسی کے منتخب کئے ہیں میں وہ پڑھ کے سناؤں گا.کچھ چھوٹی سی تمہید میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے.آپ کوشش کریں اور میں دعا بھی کرتا ہوں اور کوشش بھی کروں گا.آپ کوشش کریں کہ آپ سمجھ جائیں اور میں کوشش کروں گا دعا کے ساتھ کہ آپ کو سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں.

Page 353

خطبات ناصر جلد نهم ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۱ء در ثمین اردو میں بہت جگہ آپ نے اس مضمون کو بیان کیا.چند ایک اشعار میں نے منتخب کیسے وہ یہ ہیں.وہی اس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اس کی عالی بارگاہ تک خود پسندوں کو پھر آپ فرماتے ہیں.کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے وہ پسند آتی ہے اس کو خاکساری تذلل ہے ره درگاه باری عجب ناداں ہے وہ مغرور و و گمر راه کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے بے خبر ہے فارسی کلام میں بہت جگہ مختلف پیرائے میں اسے بیان کیا.جو چند اشعار آپ نے بیان کیے، ہ مضمون لمبا شروع ہوا ہے پہلے سے جہاں سے میں نے اٹھایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے کے لئے فنا کی راہ کو اختیار کرنا پڑتا ہے یعنی جو شخص اپنی جان اس کے حضور پیش کر دے اور دنیا کی نگاہ میں زندگی کے جو لوازم ہیں وہ سب اس کے لئے چھوڑ دے اور اسی کا ہو جائے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ایک نئی جان ، ایک نئی روح ، ایک نئی زندگی اس سے پاوے تب کام بنتا ہے ورنہ نہیں.آپ فرماتے ہیں.دلبر و دل آرام کشته دلبر رسته یکسر ز ننگ و ز نامی

Page 354

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۰ خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۱ء دلبرا اور دلآرام پر قربان اور ننگ و ناموس سے بالکل بے پرواہ ہوجاتا ہے ایسا شخص.پر از عشق و تہی زہر آزے قصہ کوتاه کرد آوازی وہ محبت الہی سے بھرا رہتا ہے اور دنیوی حرص اور لالچ سے خالی ہوتا ہے.ایک ہی آواز نے اس کا کام تمام کر دیا.یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کا جو پہلا جلوہ اس پر نازل ہوا ، اسی نے اس کے وجود کو جوڈ نیوی وجود تھا اس کو جلا کے راکھ کر دیا اور ایک روحانی زندگی اسے عطا کر دی.آپ فرماتے ہیں.قدم خود زده براه عدم گم بیادش ز فرق تا بقدم فنا کے راستے پر چل پڑا اور اس کی یاد میں سر سے پیر تک گم ہو گیا.میں زیادہ تر ترجمہ پڑھتا جاؤں گا ).دلبر کا ذکر اس کی غذا ہو گیا بلکہ سارا دلبر اس کے لئے ہو گیا.اس نے سوائے دلدار کے اپنی ہر خواہش کو جلا دیا.ایک ہی آرزو دل میں رہ گئی کہ خُدا مجھ سے راضی ہو جائے خُدا مجھ سے مل جائے ، خدا سے میرا زندہ تعلق پیدا ہو جائے.اس کے علاوہ ہر خواہش کو جلا دیا.اور اللہ جو اس کا محبوب ہے اس کے سوا ہر چیز کی طرف سے آنکھ بند کر لی.ایک چہرہ پر جان و دل فدا کر دیا اور اس کو پانے کے لئے اور اس کے وصل کو اپنا خاص مدعا اور مقصود بنالیا.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت ہم کلام ہوتا ہے جب یہ کیفیت پیدا ہو ورنہ ہم کلام نہیں ہوتا.جب تو ہم سے خدا کی وحی سئے تو یہ نہ کہ کہ وہ ہمیں کیوں نہیں ملی.خدا نے صرف آپ کو کیوں چن لیا؟ آپ فرماتے ہیں جب تک تیرے دل کا کام تمام نہ ہو جائے کس طرح تیرے محبوب کا پیغام تیرے پاس پہنچے.یعنی تو تو سر گرداں پھرے غیروں کے کوچہ میں اور وہ جو بادشاہِ ہر دو جہاں ہے وہ تجھ سے ہم کلام پھر کیسے ہو.جب تک تو اپنی نفسانیت سے باہر نہ آئے ، نفسانیت کا چولہا تار کے باہر نہ پھینک دے

Page 355

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۱ خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۸۱ء اور جب تک تو اس کے چہرہ کا دیوانہ نہ بن جائے.تا نہ خاکت شود بسان غبار جب تک تیری خاک غبار کی طرح نہ ہو جائے اور جب تک تیرے غبار میں سے خون نہ ٹکنے لگے، جب تک تیرا خون کسی کی خاطر نہ بہے اور جب تک تیری جان کسی پر قربان نہ ہو جائے تب تک تجھے گوئے جاناں کا راستہ کیونکر ملے اور اس دست گاہ کی طرف سے تجھے آواز کیونکر آئے.اس قدر لالچ ، حرص، تکبر اور غرور کے ساتھ ، کیا وجہ ہے کہ گوئے جاناں سے تو محروم نہ رہے یعنی حرص بھی ہو ، لالچ بھی ہو، اباء بھی ہو، تکبر بھی ہو اور غرور بھی ہو تو پھر کیسے توسمجھتا ہے کہ محرومی کی یہ دیوار گر جائے اور خدا تعالیٰ کا دیدار تجھے نصیب ہو جائے.آپ فرماتے ہیں:.وہاں ڈھونڈ جہاں زور باقی نہیں رہا.یعنی اگر تیرے نفس میں اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے، سمجھتا ہے اپنے زور بازو سے کچھ حاصل کر سکتا ہے تو نہیں ملے گا تجھے.وہاں ڈھونڈ جہاں زور باقی نہیں رہا.خود نمائی ، تکبر اور جوش باقی نہیں رہا.وہاں ڈھونڈ جہاں موت آ گئی ہے.جب خزاں چلی جاتی ہے تو پھل اور پتوں کا موسم آتا ہے.زبانی دعویٰ مُردار کی طرح ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے ، اپنی بزرگی کے ، اپنی طہارت کے دعوے، اپنی ایثار کے ، خدا کے لئے اپنے عشق کے دعوے جو ہیں بے معنی ہیں.زبانی دعوے مُردار کی طرح ہوتے ہیں.گتوں کے سوا کوئی ان کو نہیں پوچھتا.مُردار پر کتے ہی جاتے ہیں نا ).جب تک تو فنا نہیں ہوتا تب تک مُردار سے بھی بدتر ہے اور فضلِ خُدا تجھ سے بہت دور ہے.جب تک تیرا سر عاجزی کے ساتھ نیچا نہ ہو گا تب تک تیرے نفس کے سامنے سے دوری اور مہجوری کا پردہ نہ ہٹے گا.جب تک تیرے سب بال و پر نہ جھڑ جائیں گے تب تک اس راہ میں تیرا اُڑ نا محال ہے.اس کے معنی دراصل یہ ہیں ( گہرائی میں جائیں) کہ جب تک بال و پر رہیں تو انسان سمجھتا ہے میں اپنے بال و پر کے زور سے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہوں لیکن جب بال و پر جھڑ جائیں

Page 356

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۲ خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۸۱ء تو سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ انسان اپنے رب کریم کے پاؤں میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ کوٹنا شروع کرے اور تضرع کے ساتھ اس سے دعائیں مانگے تب خدا تعالیٰ اس کو پیار کے ساتھ اوپر اٹھائے گا اور اس سے وہ سلوک کرے گا جو وہ اپنے پیاروں سے کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں.دلبر کے چہرہ پر کوئی پردہ نہیں ہے.تو اپنے آگے سے ، اپنی آنکھوں کے سامنے سے خودی کا پردہ اٹھا.جب تیرے سامنے سے، تیری آنکھوں کے سامنے سے خودی کا پردہ اٹھ جائے گا تیرے محبوب اللہ کا چہرہ تجھے نظر آنے لگ جائے گا.آپ فرماتے ہیں.اں سعیداں لقائے او دیدند کہ بلایا برائے او دیدند ان خوش قسمتوں نے اللہ تعالیٰ کی لقا کا درجہ حاصل کیا جنہوں نے اس کی راہ میں مصیبتیں اٹھا ئیں اور مصیبتیں اٹھانے کی مثال بلال ہیں ہمارے سامنے، جنہوں نے مگی زندگی میں (اسلام لانے کے بعد ) ظالم آقاؤں کے ہاتھ سے اس قدر مصیبتیں اٹھا ئیں کہ آج بھی ہم جب وہ روئداد پڑھتے ہیں ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں.ایک اس کا (حضرت بلال کے حالات پر مشتمل کتاب.ناقل ) حصہ چھپ چکا ہے دوسرا چھپنے والا ہے.میں سمجھتا ہوں ہر احمدی کو ان کی زندگی کے حالات پڑھنے چاہئیں.ایک اللہ تعالیٰ نے ان کو اس زندگی میں، اس جہان میں یہ رفعت عطا کی کہ وہ سردار جوان کو حقیر جانتے تھے ، وہ سردار جو ان کو ذلیل سمجھ کے ان پر کوڑے برسایا کرتے تھے، تپتی ریت پر لٹا کر گرم پتھر رکھ کے کوڑے برساتے تھے ان کے اوپر ، فتح مکہ کے دن اللہ تعالیٰ نے ان کا بدلہ اس طرح لیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بلال کے جھنڈے تلے آجائے گا اس کو پناہ مل جائے گی.ان کو وہ عزت عطا ہوئی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے جو قریب تر گروہ تھا صحابہ کا ، بنے خلفاء بعد میں بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، وہ بلال کو ( رضی اللہ عنہ ) سیدنا بلال کہتے تھے.ان دنیا کے کتوں کا جو غلام تھا وہ خدا تعالیٰ پر جان نثار کرنے والوں کا سردار بنادیا گیا.اور بھی ہیں وہ ان کی زندگی

Page 357

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۳ خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۱ء میں واقعات جو بتاتے ہیں کہ کس قدر پیار کرنے لگے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے حضرت بلال.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ان خوش قسمتوں نے اس کی لقا کا درجہ حاصل کیا جنہوں نے اس کی راہ میں مصیبتیں اٹھا ئیں.اس بادشاہ کے لئے انہوں نے اپنی عزت برباد کر دی.دل ہاتھ سے گیا اور ٹوپی سر سے گری لیکن اس بادشاہ نے انہیں زمین سے اٹھایا اور آسمان کے ستاروں سے بھی وہ انہیں آگے لے گیا.آپ فرماتے ہیں.انہوں نے اپنی سب بنیاد، ( زندگی کی بنیاد کا ہر پہلو جو تھا نا ) بر باد کر دی یہاں تک کہ فرشتے بھی ان کی وفاداری پر حیران ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان میں یہ اعلان کیا کہ تم میں سے جو کوئی عاجزی اور انکسای کی راہوں کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دے گا.یہ اس عاجزی کا انعام ہے، ان راہوں پر چل کر جو خدا تعالیٰ نے بیان کیں اور جس کی ایک جھلک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان اشعار میں ہے ان راہوں پر چل کر خدا کے حضور جو عاجزانہ زندگی گزاری انہوں نے خدا نے جو بہت ہی پیار کرنے والا ہے اس قدر پیار کا سلوک کیا کہ میں نے بہت غور کیا ، تاریخ پڑھی اُمت محمدیہ کے لئے جن رفعتوں کے سامان پیدا کئے گئے ہیں آج تک آدم کی اولاد میں سے کسی اور کے لئے وہ سامان پیدا نہ ہوئے.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو اور خدا میں ہو کر، خدا میں فنا ہو کر ایک نئی زندگی پاؤ.خدا کے لئے عرب تیں قربان کر کے اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء :۱۴۰) جو عزت کا سر چشمہ ہے اس سے عزت حاصل کرو.دُنیوی عزتیں تو دنیا کی ہر دوسری شے کی طرح آنی جانی ہیں، ہم اپنی زندگیوں میں اس کے نظارے دیکھتے ہیں، ہم نے دیکھے ہیں، آگے بھی دیکھتے رہیں گے زندہ رہنے والے لیکن جو خدا کا ہو جائے اور اس سے وفا کا جو اس نے عہد باندھا ہے اس کو پورا کرنے والا ہو، اس کا دامن پکڑے اور دنیا کی کوئی طاقت اس دامن کو چھڑوا نہ سکے.اس کو پھر اس خدا کےسواحسبنا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (ال عمران : ۱۷۴) اور کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی.ہر چیز اس کے لئے

Page 358

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۴ خطبه جمعه ۲۷ /نومبر ۱۹۸۱ء قربان کرو، ہر چیز اس سے پاؤ اور اس سے کہیں زیادہ جو تم نے قربان کیا ہے.اس سے حاصل کرو.خدا کرے کہ ہمیں اس نکتہ حیات کے سمجھنے کی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم وارث ہوں اور خدا کرے کہ یہ جو عاجزانہ راہوں کے سکھانے کے لئے ہر سال جلسہ سالا نہ ہوتا ہے وہ بھی ہمارے لئے ہزار ہا لکھوکھا، کروڑ ہا، بے شمار برکتیں لانے کے سامان پیدا کرنے والا روزنامه الفضل ربوه ۴ را کتوبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴) ہو.آمین.

Page 359

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۵ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء ہمارے لئے سارے غموں کو ہوا میں اُڑانے کے لئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کافی ہے خطبه جمعه فرموده ۴ / دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.رَضِيْنَا بِاللَّهِ رَبِّاً وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا “ ( صلی اللہ علیہ وسلم) بہت بڑے خزانے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کئے ہیں اُن میں سے ایک بہت ہی عظیم خزانہ یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی ایسی قضا نازل ہو جود نیوی حالات میں تکلیف دہ ہو اُس وقت ایک ہی نعرہ زبان پر آنا چاہیے اور وہ یہ ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ جیسا کہ دوست جانتے ہیں کل شام قریباً ساڑھے آٹھ بجے منصورہ بیگم اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.میرا اُن کا ساتھ بڑا لمبا تھا.قریباً ۴۷ سال ہم میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہے اور ۴۷ سال جہاں انہیں مجھے دیکھنے اور سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا مجھے بھی انہیں دیکھنے، سمجھنے اور پر کھنے کا موقع ملا.ہمارا رخصتانہ ۵ /اگست ۱۹۳۴ء کو ہوا تھا اور ۶ /اگست کو میں انہیں بیاہ کر قادیان پہنچا تھا اور ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی ۶ رستمبر ۱۹۳۴ء کو میں اپنی تعلیم کے لئے انگلستان روانہ ہو گیا.یہ پہلی چیز تھی جس نے مجھے موقع دیا کہ میں اُن کی طبیعت کو سمجھوں.ایک ذرہ بھر بھی انقباض نہیں پیدا ہوا

Page 360

خطبات ناصر جلد نہم ۳۴۶ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء کہ میں اپنی تعلیم کو مکمل کروں جس تعلیم نے آئندہ چل کر مجھ سے بہت سی خدمات بھی لینی تھیں.ہماری شادی کے متعلق حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کو بہت سی بشارتیں ملی تھیں.اُس کے نتیجہ میں یہ شادی ہوئی تھی.یہ رشتہ آپ نے کروایا تھا الہی بشارت کے مطابق.اور جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ نے بعض اغراض کے مد نظر خود کیا اور ایک ایسی ساتھی میرے لئے عطا کی جو میری زندگی کے مختلف ادوار میں میرے بوجھ بانٹنے کی اہلیت بھی رکھتی تھی اور ارادہ اور عزم بھی رکھتی تھی.یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جس پر جتنا بھی میں شکر کروں کم ہے.اور چونکہ میں اس وقت مختصراً بعض باتیں بیان کر کے یہ امید رکھوں گا کہ ہم سب بھی اور آپ بھی ، اس جانے والی روح کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ خطاؤں کو معاف کرے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نوازے.رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ رُخصت کر دینا اور پھر قریباً ساڑھے تین سال تک ( بیچ میں میں آیا بھی دو ایک ماہ کے لئے ) ہماری جدائی رہی اور اس جدائی نے کوئی فرق نہیں ڈالا اور جس غرض کے لئے حضرت مصلح موعود نے میرے لئے آکسفورڈ کی تعلیم کو پسند کیا تھا، اُس تعلیم میں اس معنی میں مرد اور معاون ہوئیں کہ مجھے ایک دن بھی وہاں اُن کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے یہ فکر پیدا نہیں ہوئی کہ میرے فراق کی وجہ سے وہ گھبرائیں گی.مجھے پتہ تھا کہ وہ گھبرانے والی روح نہیں ہیں.پھر جب میں تعلیم ختم کر کے آیا تو چند سال ہمارے قادیان میں گذرے.۳۸ء میں میں آیا ہوں اور ۴۷ء میں ہجرت ہوگئی.نو سال ہم قادیان میں رہے اور اس عرصہ میں میں تو واقف زندگی تھا اسماً اور کوشش کرتا تھا کہ عملاً بھی رہوں اور وہ واقفہ زندگی بن گئیں عملاً.پہلے میرے سپرد جامعہ احمدیہ میں پڑھانا اور خدام الاحمدیہ کا کام تھا.اس قدر ساتھ دینے والی تھیں کہ ایک دن خدام الاحمدیہ کے کسی پروگرام کے مطابق مجھے عصر کے بعد اپنے گھر سے دور کسی محلے میں خدام کے کسی پروگرام میں شرکت کے لئے جانا تھا میری بچی امتہ الشکور اُس دن بڑی سخت بیمار ہوگئی اور اسے اسہال شروع ہوئے اور دیکھتے دیکھتے اس کا وزن آدھا ہو گیا یعنی جسم کا پانی نچڑ گیا.میری

Page 361

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۷ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء طبیعت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں وہ پروگرام Cancel‘ کردوں اور بچی کے پاس ٹھہروں.میں نے ہومیو پیتھک کی ایک دوالے کے اُس کے منہ میں ڈالی اور منصورہ بیگم سے کہا کہ شفا دینا اور زندگی دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.میں یہاں رہوں یا نہ رہوں کوئی فرق نہیں پڑتا.اس لئے السلام علیکم میں جارہا ہوں.چہرے پر بالکل کوئی گھبراہٹ نہیں آئی.اس وقت بھی وہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ہے مُسکراتے ہوئے مجھے رخصت کردیا اور خدا تعالیٰ کی یہ شان ہم دونوں نے دیکھی کہ جب میں واپس آیا تو بچی صحت یاب ہو چکی تھی.اور کام پڑتے رہے.الیکشن آئے ، نہ دن کی ہوش نہ رات کی ہوش.قادیان سے ہجرت کا زمانہ آ گیا.بڑا سخت زمانہ تھا.آپ میں سے جو لوگ اُس دور میں سے نہیں گزرے وہ اندازہ نہیں کر سکتے کس قدر روحانی اور ذہنی اور جسمانی اذیت میں سے گزرنا پڑا.روحانی اس لئے کہ ہمارا جو مرکز تھا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مدفون تھے ہمیں نظر آرہا تھا کہ وہ ہم سے لچھٹ جائے گا پھر باقی قتل و غارت.ہر وہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتا تھا ، مظلوم تھا، اُسے قتل کیا جارہا تھا ، اُس کو شہر بدر ، گاؤں بدر، ملک بدر کرنے کا منصوبہ تھا.اُن کے اموال لوٹے جارہے تھے، اُن کی عزتیں خراب کی جارہی تھیں ، اُن کی عزتوں کو اُن کی آنکھوں کے سامنے لوٹا جا رہا تھا.اُس وقت سب بھول گئے تھے کہ کس فرقہ کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں.صرف ایک بات یاد تھی کہ وہ اللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور خدا کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر وہ اذیتیں دیئے بھی جار ہے ہیں اور اذیتیں برداشت بھی کر رہے ہیں.اُن دنوں میں جب میں جیپ میں بیٹھ کے باہر نکلتا تھا اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے.تو نہیں کہا جا سکتا تھا کہ واپسی کیسے ہوگی.کبھی خیال بھی نہیں کیا.زبان پہ بھی نہیں آیا، اشارہ بھی نہیں کیا کہ ان حالات میں آپ باہر کیوں جاتے ہیں بلکہ ہماری باہر تھی کوٹھی اس کو بھی سنبھالتی تھیں بچوں کو بھی سنبھالتی تھیں.میں چیدہ چیدہ باتیں اس وقت بتاؤں گا کیونکہ اس وقت، وقت نہیں ہے پھر کبھی موقع ملا تو انشاء اللہ بتاؤں گا وہ کیا تھیں کیسی تھیں.پھر وقت آگیا پارٹیشن ہوگئی.۲۵ / اگست کو حضرت مصلح موعود نے حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا

Page 362

خطبات ناصر جلد نهم ۳۴۸ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے والی دیگر مستورات اور بچوں کو ( بہت ساری مصلحتیں تھیں ) پاکستان بھجوا دیا.آپ وہاں ٹھہر گئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت مصلح موعود کے ساتھ حضرت آپا صدیقہ صاحبہ ٹھہریں گی.بس ایک، خاندان میں سے.منصورہ بیگم نے اصرار کیا کہ میں تو نہیں جاؤں گی.میں تو ٹھہروں گی یہاں.مجھے اگر صحیح یاد ہے تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے نہیں مانی بات، پھر حضرت صاحب سے منوائی کہ نہیں میں یہاں ٹھہر ونگی اُس وقت کے لوگ یہ سمجھے کہ شاید اپنے میاں کو ان حالات میں چھوڑ کے یہ نہیں جانا چاہتی.لیکن ۱۳۱ اگست کو جب حالات نے مجبور کیا اس بات پر حضرت مصلح موعود کو کہ وہ چھوڑ جائیں قادیان تو اپنے میاں کو چھوڑ کے خلیفہ وقت کے ساتھ آگئیں پاکستان.ت پھر آئے ۵۳ ء کے حالات.ہم لاہور میں تھے.جو ربوہ میں تھے ان کو نہیں پتہ کیا حالا تھے وہ جو لا ہور میں تھے ان کو پتہ ہے کیونکہ یہ مقامی ، لوکل فتنہ وفساد تھا.کالج میں میری ڈیوٹی.ہر طرف گولیاں چل رہی ہیں.ایک دن درد صاحب آگئے مجھے کہنے لگے آپ نے نہیں جانا کالج ؟ میں نے کہا کیوں نہیں جانا کہ گولیاں چل رہی ہیں.میں نے کہا آج ہی تو دن ہے جب میں نے ضرور جانا ہے کیونکہ میرے اوپر ذمہ داری ہے اُن احمدی اور غیر احمدی بچوں کی حفاظت کی جو میرے کالج میں آج آئیں گے.وہ وہاں آجائیں اور میں گھر میں بیٹھا رہوں یہ نہیں مجھ سے ہوگا.اتنا اصرار تھا ان کا کہ اگر وہ یہ سمجھتے کہ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور ہیں جسمانی لحاظ سے تو انہوں نے مجھے باندھ کے رکھ دینا تھا وہاں.لیکن میں کالج چلا گیا اور منصورہ بیگم کے چہرہ پر کوئی ملال نہیں تھا گھبراہٹ نہیں تھی.اُن حالات میں سے گذرے بشاشت سے ہم دونوں.جماعت کی خدمت کا موقع ملا.بڑی دلیر عورت تھیں.اس جگہ میں ذکر کروں کہ جب میں ۷۶ء میں پہلی دفعہ امریکہ گیا تو ایک خطہ ہمیں ملا امریکن کا کہ میں آپ کو یہ بتا تا ہوں، انذار کرتا ہوں کہ آپ کی جان لینے کے لئے تین کوششیں کی جائیں گی.اگر وہ ناکام ہو ئیں تو پھر چوتھی کوشش کی جائے گی آپ کو اغوا کرنے کے لئے.پہلے تو میں نے یہ خط جیب میں رکھ لیا کیونکہ مجھے تو پتہ ہی نہیں ڈر کہتے کسے ہیں.پھر مجھے خیال آیا کہ ہم ان

Page 363

خطبات ناصر جلد نہم ۳۴۹ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء کے ملک میں ہیں.جماعت کہے گی کہ ہمیں کیوں نہیں اعتماد میں لیا.میاں مظفر احمد صاحب کو بھی پہلے میں نے نہیں بتایا.پھر اُن کو بتا کے جماعت کے سپرد کر دیا وہ خط.انہوں نے اپنا جو انتظام کرنا تھا وہ کیا.جماعت امریکہ نے (چونکہ کینیڈا جانا تھا) کینیڈین ایمبیسڈر سے بھی بات کی.لمبا قصہ ہے جب میں ٹورنٹو میں اُترا تو جماعت نے کہا کہ آپ کا سامان بعد میں آجائے گا.قریب ہی ایک عمارت ہے وہاں احمدی دوست مرد و زن اکٹھے ہیں آپ چلیں ایک آدمی چھوڑ جائیں وہ سامان لے آئے گا ہم وہاں اس کا انتظار کریں گے.دو تین فرلانگ ہے وہ جگہ ہم وہاں چلے گئے مستورات علیحدہ تھیں اُن سے منصورہ بیگم نے مصافحہ کیا.میں نے مردوں سے مصافحہ کیا.پھر ہم کھڑے ہو گئے برآمدہ سے باہر بڑی اچھی فضا تھی.موسم اچھا تھا.منصورہ بیگم فارغ ہو کے میرے پیچھے کھڑی ہو گئیں.انہوں نے دیکھا ہر احمدی میری طرف متوجہ ہے.انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ کوئی شخص دبے پاؤں آہستہ آہستہ قدم قدم میرے قریب آرہا ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے فراست بڑی دی تھی.دماغ نے کہا جس شخص نے خط لکھا تھا قتل کی دھمکی جس میں دی گئی تھی یہ وہ شخص ہے.نہ جان نہ پہچان.یہ میرا پہرہ دار بن کے کھڑی ہو گئیں میرے پیچھے اور جس وقت اور قریب آیا تو خدام الاحمدیہ میں سے کسی کو کہا کہ یہ وہ شخص ہے (انہیں بھی خط کی اطلاع تھی ) اس کا خیال رکھو.خیر انہوں نے گھیرا کیا اُس کا.اس سے پوچھا.اس نے اپنا نام بتا یا کہ ہاں میں ہی ہوں وہ.انہوں نے اپنی حکومت کو اطلاع دی پولیس کو.پولیس نے اس کو پکڑ کے پوچھا کہ تم نے جو اطلاع دی ہے، تین قتل اور ایک اغوا کی کوشش کی اس کا مطلب ہے کہ جنہوں نے منصوبہ بنایا ہے تم بھی ان میں سے ایک ہو ورنہ تمہیں پتہ کیسے لگ گیا.اُس نے کہا نہیں نہیں.(اپنی طرف سے بڑا ہو شیار بنا تھا ) بات یہ نہیں ہے.بات یہ ہے کہ مجھے علم نجوم میں بڑا شغف ہے اور ستاروں نے مجھے بتایا تھا کہ یہ واقعہ ہوگا.انہوں نے کہا ستاروں نے بتایا تھا یا نہیں بتایا تھا پر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ کینیڈا میں جس جگہ حضرت صاحب ہوں اگر اس جگہ سے ۴۰ میل کے اندراندر بھی تم نظر آ گئے تو تمہاری بوٹیاں ستاروں کو نظر نہیں آئیں گی.اس واسطے چلے جاؤں یہاں سے.اور اس کو اپنی فراست سے پہچاننے والی اور اس طرح حفاظت کرنی والی.اس قسم کے احسان بھی ہیں

Page 364

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵۰ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء اُن کے مجھ پر.پھر ایک وقت آیا کہ نئی ذمہ داریاں پڑ گئیں.ان نئی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی تو انسان کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں مثلاً کھانا کھانا.مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حقا اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہیں.تو اگر بیوی ساتھ نہ دے تو اوقات بٹ جائیں دوحصوں میں.ایک حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اور ایک اپنے نفس کے حقوق کی ادا ئیگی میں.بغیر بات کئے ساری ذمہ داریاں جو میرے نفس کی تھیں وہ آپ سنبھال لیں اس حد تک کہ بعض Vitamins‘ وغیرہ ہم نے کچھ عرصہ سے شروع کی ہوئی تھیں خود نکال کے دیتی تھیں کبھی میں خود نکالنے کی کوشش کروں تو ناراض ہو جاتی تھیں کہ یہ میرا کام ہے کیوں کیا آپ نے.مطلب یہ تھا کہ یہ دو منٹ بھی اس کام پر خرچ کیوں کئے جو دوسرے اہم جماعتی کام ہیں اُن پر خرچ کریں اور مجھے ہر قسم کی ذاتی فکروں سے آزاد کر کے سارے اوقات کو آپ احباب کی فکروں میں لگانے کے لئے موقع میسر کر دیا اور اس وجہ سے میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کر رہا ہوں کہ اُن کا یہ حق ہے کہ ہم اُن کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور رحمتیں ان پر نازل ہوں.اللہ تعالیٰ جتنا زیادہ سے زیادہ پیار دے سکتا ہے ، وہ اُن کو دے.پھر خلافت کی ذمہ داریوں میں آئے ۷۴ء کے حالات یعنی نہ مجھے ہوش تھی کہ دن کس وقت چڑھتا ہے اور کس وقت غروب ہوتا ہے اور رات کب آتی ہے اور کب جاتی ہے نہ اُن کو.لگی ہوئی تھیں میرے ساتھ جماعت کی خدمت کے لئے سارا دن یہ کام کرنے پھر پڑھی لکھی کافی تھیں.منشی فاضل فارسی میں کیا ہوا تھا جو سب سے بڑا فارسی کا امتحان ہے.اردو کی ڈگری تھی پاس میٹرک کیا ہوا تھا، خدا داد فراست تھی، علم سے شغف تھا.میں سمجھتا ہوں تاثر ہے میرا کہ میری حفاظت کے لئے اپنا یہ طریق بنالیا تھا کہ جب تک میں نہ سو جاؤں رات کو آپ نہیں سوتی تھیں پڑھتی رہتی تھیں کتاب اور جب میں غسل خانے جا کے واپس آ کے اپنی طرف کی بتی بجھا کے لیٹ جاتا تھا پھر دومنٹ کے بعد لیٹ جاتی تھیں بنتی بجھا کے.تو ۷۴ ء میں عورتوں کو تسلی دلانی ، ان کے غم میں شریک ہونا اور بالکل بے نفس تھیں.پھر مجھے آج پتہ لگا کہ ۱۱۷ کی وصیت کی ہوئی تھی.ممکن ہے ۳۵.۱۹۳۴ء میں کسی وقت سامنے آئی

Page 365

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵۱ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء ہو بات لیکن کبھی ذکر نہیں کیا اور چھپایا ہوا تھا.جب کہیں سے کوئی آمد ہوتی مثلاً زمین کی آمد ہوگئی یا اور کچھ حصے میں نے ہی مہر میں دے دیئے تھے شوگر مل کے ، وہ تھوڑی سی آمد ہو گئی.پہلا کام کرتی تھیں کہ اپنی وصیت ادا کر دیں لیکن مجھے نہیں دیتی تھیں کیونکہ مجھے پتہ لگ جائے گا کہ ۱۱۷ کی ہے.تو ایک اور شخص تھا جس کے سپرد یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی.میں کہتا بھی بعض دفعہ کہ مجھے دیدیں دفتر میں جمع کروا دتیا ہوں مگر مجھے کہتیں کہ فلاں شخص نہیں آرہا.میں نے اپنی وصیت ادا کرنی ہے مجھے دے دو میں دفتر کو دے کر ابھی بھجوا دیتا ہوں کہ نہیں میں تو اسی کے ہاتھ بھجواؤں گی اور آج پتہ لگا کہ کیوں کہ رہی تھیں.یہ نہیں ظاہر ہونے دینا چاہتی تھیں کہ ۱۱۷ کی وصیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ جو بغیر جھگڑے کے چھوڑا پیچھے مال اُس کی وصیت کا انتظام خود ہی اس طرح کیا ہوا تھا کہ رقم جمع تھی اس میں سے ۳۱ ہزار کے قریب رقم وصیت کی دے دی جو زمین تھوڑی سی ہے سندھ میں.میں نے تاکید کی ہے کہ ۳ مہینے کے اندر اندر اس کی قیمت ڈلوا کے بتا ئیں جتنی بنے گی وہ بھی ادا ہو جائے گی انہی کے پیسوں سے ادا ہو جائے گی اور کچھ ایسی زمین ہے جن پر مقدمے چل رہے ہیں یا مشترکہ ہے.ابھی فیصلہ نہیں ہوا کس کے حصہ میں کیا ملنا ہے لیکن وہ وصیت بھی کی.اللہ تعالیٰ نے سامان بھی پیدا کر دیا کہ جو چیز بالکل واضح طور پر بغیر کسی جھگڑے کے تھی اس کی وصیت ۳۱ ہزار روپے بڑی تھوڑی ہے چیز یعنی خدا تعالیٰ کو دینے کے لئے ساری دنیا دے دیں تب بھی تھوڑی ہے لیکن بہر حال اس کا سامان بھی خدا تعالیٰ نے کر دیا کہ مرنے والی پر کسی کا یہ احسان نہ ہو صدرانجمن احمدیہ کا یا کسی کا کہ ہم نے دو ہفتے کے بعد پیسے وصول کئے.مجھے کہا بھی کہ کل ہو جائے گا میں نے کہا بالکل نہیں.وصیت کی فائل میرے پاس آنے سے پہلے یہ رقم ادا ہونی چاہیے.میں نے کاغذ سارے دے دیئے حساب کر کے وہ ساری رقم ادا ہوگئی.نمائش اور دکھا وا بالکل نہیں تھا طبیعت میں اور اتنا اثر.میرے ساتھ سات دوروں پر رہی ہیں.میں صبح سوچ رہا تھا کہ پچھلے سال جب بنیاد رکھی گئی سپین کی مسجد کی تو پیڈ رو آباد کے قریباً سارے بچے اور عورتیں ان کی واقف ہوئیں.پاس بیٹھیں کوئی آدھا گھنٹہ کوئی گھنٹہ.اب انشاءاللہ افتتاح جب ہوگا مسجد کا تو یاد کریں گی ان کو لیکن اس لئے نہیں انہوں نے ان کے ساتھ پیار اور

Page 366

خطبات ناصر جلد نہم ۳۵۲ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء محسن سلوک کیا کہ وہ یا دکر ہیں.اس لئے کیا کہ اللہ انہیں بھولے نہ.تو دورے میں، میں عجیب انسان بنایا گیا ہوں مثلاً کھانے کے لحاظ سے تھوڑا سا کھاتا ہوں.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنی تھوڑی میری غذا ہے لیکن ہونی چاہیے میرے پسند کی.کیوں کہ جتنا میں کھاتا ہوں اگر وہ بھی میں نہ کھا سکوں پھر میں کام نہیں کر سکتا تو چھوٹی چھوٹی چیز کا خیال رکھنا پانی کا.کسی قسم کا پانی ہے چائے کا یعنی چائے کی پیالی مجھے کبھی نہیں بنانے دی کہ میں آپ بناؤں گی اور غیر ملکوں میں جس سے ملیں اس کے اوپر اپنا اثر چھوڑا خدا تعالیٰ انسان کو جو صفات دیتا ہے وہ اسی لئے دیتا ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت کی جائے اور وہ اثر قبول کریں.غانا میں میں گیا جب ۱۹۷۰ ء میں پہلی دفعہ تو میں نے کہا مصافحے کریں گے تو وہاں جتنی عورتیں اتنے مرد.پتہ نہیں کتنی دیر لگ گئی.دواڑھائی گھنٹے شائد اور ایک ہی وقت میں ہم فارغ ہوئے.ہر عورت سے مصافحہ کیا اور بشاشت سے کیا مسکراتے ہوئے کیا.کسی نے دُعا کے لئے کہا کہ ہاں میں کہوں گی دعا کے لئے ، آپ بھی کروں گی.تو یہ جو خدا تعالیٰ نے احسان کیا مجھ پر اور آپ کے خلیفہ وقت پر کہ ایسی ساتھی دی گئی جو اس کے کام میں ہاتھ بٹانے والی ہو اور اچھے نتائج پیدا کرنے والی ہو.خدا تعالیٰ کا شکر کریں اور حمد پڑھیں اور لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کا ورد کریں اور اللهُ أَكْبَرُ کے نعرے لگائیں اور جس کو ذریعہ بنایا اس چیز کا.اس کے لئے دعا کریں اور ہمارے لئے ساری گھبراہٹیں دور کرنے اور غموں کو ہوا میں اڑانے کے لئے یہ ایک فقرہ کافی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَونَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةُ (البقرة: ۱۵۸،۱۵۷) تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح میں چاہتا ہوں اس طرح تم انا اللہ اگر کہو گے تو خدا تعالیٰ کے درو دصلوات ہوں گی تم پر اور اس کی رحمت نازل ہوگی.پس یہ موقعے غم کے نہیں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے مواقع ہیں ان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور توفیق عطا کرے.چونکہ دن چھوٹے ہیں اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج عصر کی نماز کی اذان اپنے وقت پر ہوگی.وقت تو نہیں ہم بدل سکتے لیکن اذان کے آدھے گھنٹے کے بعد جو ہماری مسجد ( مبارک ) میں نماز ہوتی ہے، آج اذان کے دس منٹ کے بعد میں آجاؤں گا مسجد میں تاکہ پندرہ منٹ ہمیں

Page 367

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵۳ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۸۱ء وہاں سے وقت کے مل جائیں.پھر جیسا کہ اعلان ہو چکا ہے جو نظام ہے اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور انا للہ پڑھتے ہوئے آپ جہاں جمع ہونے کے لئے کہا گیا ہے وہاں جمع ہو جائیں.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش اسی طرح کرتا رہے گا جس طرح وہ کر رہا ہے.اگر ہم اسی طرح اس کے وفادار رہے جس طرح ہم بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ / دسمبر ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 368

Page 369

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵۵ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۸۱ء آزمائش اور امتحان کے بغیر تمہیں چھوڑا نہیں جائے گا خطبه جمعه فرموده ۱۱ دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ / تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالی سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے:.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ - (البقرة : ۱۵۶ تا ۱۵۸) اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ آزمائش کے بغیر ، امتحان کے بغیر تمہیں چھوڑا نہیں جائے گا.جو دعاوی محبت اور پیار کے اور فدائیت اور ایثار کے تم کرو گے اس سلسلہ میں تمہاری آزمائش بھی کی جائے گی، تمہارا امتحان بھی لیا جائے گا.کسی قدر خوف پیدا ہو گا بِشَیءٍ مِّنَ الْخَوفِ خوف کے حالات مختلف قسموں کے ہیں.دو Extremes (ایکسٹریمز ) یعنی سب سے زیادہ خوف، سب سے کم خوف.سب سے زیادہ خوف اس وقت ہوتا ہے جب انسان یہ دیکھے کہ دُنیوی طاقتیں اسے مٹارہی ہیں اور سب سے کم خوف نہ ہونے کے برابر اس وقت ہوتا

Page 370

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵۶ خطبہ جمعہ اار دسمبر ۱۹۸۱ء ہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ جو سب سے زیادہ طاقت ور ہے اللہ ہمارا، وہ ہماری مدد کے لئے ہمارے پاس کھڑا ہے اور دشمن ہمیں ایذا تو پہنچا سکتا ہے کچھ خوف کے حالات تو پیدا کر سکتا ہے لیکن اپنے منصو بہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بھوک سے بھی تمہاری آزمائش کی جائے گی.جو صنعت و تجارت سے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت اُس کی کم حاصل کرو گے اس میں کمی اموال تمہارے پاس ہوں گے، ان تجارتوں میں گھاٹا ، صنعتی جو تمہارے منصوبے ہیں ان میں نقصان ہو گا اور ہم تمہاری آزمائش کریں گے.تمہاری جان لے کر بھی تمہاری آزمائش کریں گے یعنی جان لے کر آزمائش تو اس کی ہے جس کی جان نہیں لی گئی.یعنی تمہاروں کی جان لوں گا میں اور تمہاری آزمائش کروں گا وہ تمام فدائی جو پہلے زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وقت اپنی جان نثاری کا ثبوت دے رہے تھے اور شہادت حاصل کر رہے تھے وہ تو جنتوں میں چلے جاتے تھے.تکلیف اٹھانے والے، امتحان میں پڑنے والے تو وہ رہ جاتے تھے جو پیچھے زندہ چھوڑے جائیں.اور پھلوں کا نقصان ہو گا.باغات ہیں زراعت ہے، ثمرات کے لفظ میں صرف درخت کا پھل نہیں آتا بلکہ زمین کی پیداوار ساری کی ساری اس کے اندر آجاتی ہے.تو تمام ذرائع آمد کا ذکر کیا ہے مختلف پہلوؤں سے، مختلف وقتوں میں مختلف شکلوں میں اللہ تعالیٰ نقصان کے ذریعے ان چیزوں میں ہماری آزمائش کرتا ہے.دوسری بات جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مصیبتیں جو تم پر نازل ہوں گی، وہ ایک دوسری قسم کی مصیبت جو ہے ویسی نہیں ہوں گی.قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے اور اس آیت میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ مصیبت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک آزمائش وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی شکل میں آتی ہے اور ایک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے امتحان کی شکل میں آتی ہے.تو یہاں یہ فرمایا کہ یہ مصیبتیں عذاب نہیں، آزمائش ہیں.جو مصیبتیں عذاب کی شکل میں ہوتی ہیں ان کا تعلق انذار اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی جہنم سے ہے لیکن جو مصیبتیں آزمائش کے رنگ میں آتی ہیں ان کا تعلق بشارتوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے ساتھ ہے.اس لئے یہاں یہ اعلان کیا گیا کہ یہ مصیبتیں جو تم پر آئیں گی یہ تمہاری

Page 371

خطبات ناصر جلد نهم ۳۵۷ خطبہ جمعہ اار دسمبر ۱۹۸۱ء آزمائش کے لئے ہوں گی.یہ Bracketed ( بریکیٹڈ ) ہوں گی ہماری بشارتوں کے ساتھ ہمارا عذاب نہیں ہوگا.جس پر آئیں گی ، اس سے یہ نہیں ثابت ہوگا کہ خدا ان سے ناراض ہوا یہ ثابت ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے جلوے ان پر ظاہر کرنا چاہتا ہے.تیسری بات یہاں یہ بتائی گئی کہ اس امتحان میں ( ہر امتحان کے ساتھ یہ لگا ہوا ہے کہ فیل بھی ہو جاتے ہیں لوگ اور کامیاب بھی ہوتے ہیں.تو یہاں یہ اعلان کیا گیا کہ اس امتحان میں ) پورے وہ اترتے ہیں جو آزمائشی مصیبت ، امتحان کے رنگ میں جو مصیبت آتی ہے جب وہ آئے تو ان کی توجہ اپنے دکھ اور درد کی طرف نہیں ہوتی ، اپنے نقصان کے خیال سے وہ اذیت نہیں اٹھا رہے ہوتے بلکہ آزمائش والی مصیبت ان کو دھکا دے کر اور بھی ان کے رب کے انہیں زیادہ قریب کر دیتی ہے اور وہ شیطانی وسوسوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کے وجود کا ذرہ ذرہ یہ پکارتا ہے اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ ہم اور ہماری ہر چیز اللہ کی ہے اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کے جانا اور اسی سے ہم نے اس کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے.اور چوتھی بات یہاں یہ فرمائی کہ اگر تم اپنے امتحان میں پورے اُتر و گے تو ایسوں پر ہی اس کی رحمت کا نزول ہوتا ہے نمبر ایک أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ (ایسوں پر ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے ) وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ اور ایسے ہی ان تمام انعامات کے وارث ہوتے ہیں جو ہدایت یافتہ جماعتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کئے ہیں اور جن کی بشارتیں ہمیں قرآن کریم میں نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بظاہر اچھے عمل کرنے والے ہیں وہ آگے دوحصوں میں منقسم ہو جاتے ہیں.(اسی میں اشارہ ہے.وہ دوسری آیت میں بھی اس طرف ہے ) سورۃ العنکبوت میں ہے.اور اچھے عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہوتا ہے، ان مومنوں کا جو اپنے عقیدہ اور عمل پر جھے رہتے ہیں، صبر کرتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں اس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ بظاہر جو صبر کرنے والے ہیں وہ بھی ابھی آزمائش میں ہیں کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کا صبر اللہ پر

Page 372

خطبات ناصر جلد نہم ۳۵۸ خطبہ جمعہ ۱۱/دسمبر ۱۹۸۱ء تو گل کے نتیجے میں نہ ہو بلکہ مثلاً اپنی بزرگی کے اظہار کے لئے ہو یا بعض دُنیوی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہوں صبر کے اظہار سے، تو ایسے صبر کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کے انعامات نازل نہیں ہوتے بلکہ ایسے صبر کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات نازل ہوتے ہیں وَ عَلى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (العنكبوت: ٢٠) جو خدا تعالیٰ کو حقیقی رب سمجھتے ہیں اور اپنی ربوبیت اور تمام حاجتوں کے پورا کرنے کا صرف اسے ایک نقطہ مرکزی سمجھتے ہیں اور اسی پر کامل توکل رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی غیر کی طرف ان کی توجہ، ان کی نگاہ ، ان کی نظر نہیں ہوتی.ایسے صبر کرنے والوں کے متعلق سورۃ النحل میں فرمایا وَ لنَجْزِيَنَ الَّذِينَ صَبَرُوا (النحل : ۹۷) اور ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ جو لوگ ثابت قدم رہے ہیں.صابر ہیں ہم انہیں یہ عظیم بشارت، میں نے بشارتوں کا ذکر کیا تھا اس وقت میں نے ایک بشارت کو چنا ہے جو قرآن کریم میں ہے اور عظیم بشارت ہے ) ہم انہیں یقیناً ان کے بہترین عمل کے مطابق ، جو عمل خدا تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں ان میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی زیادہ اجر کا مستحق ہوگا، کوئی کم اجر کا مستحق ہوگا.جب قبولیت ہوگی سارے اعمالِ صالحہ جنہیں اللہ تعالیٰ قبول کر لے گا وہ سارے ہی خدا کی نگاہ میں اجر کے مستحق ہوں گے لیکن کچھ عمل زیادہ اجر کے مستحق ہوں گے کچھ عمل کم اجر کے مستحق ہوں گے مثلاً جس وقت دشمن اسلام نے اسلام کو مٹانے کے لئے اپنی میان سے تلوار اٹھائی تو جو میدانِ جہاد میں جانے والے تھے ان میں سے ایک عمل یہ نظر آیا ایک کا کہ وہ شہید ہو گیا ، شہادت اس نے حاصل کی.دوسرے کا عمل ہمیں یہ نظر آیا کہ اس کا بازوکٹ گیا.تیسرے کا عمل ہمیں یہ نظر آیا کہ اس کے ایک چھوٹا سا زخم لگ گیا.اب یہ میدانِ جہاد میں تین مختلف عمل جاں شاری کے ہمیں نظر آئے.ہماری عقل بھی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر جو رحمتیں نازل کرے گا وہ ایک جیسی نہیں ہوں گی یعنی استحقاق کے لحاظ سے ( میں استحقاق کے لحاظ سے بات کر رہا ہوں ) بلکہ ان میں فرق ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس شخص کے میں اچھے اعمال قبول کرلوں گا تو جو ان میں سے سب سے اچھا عمل ہوگا سارے اعمال کی جزا اس کے مطابق دے دوں گا.ہم انہیں یقیناً ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمالِ صالحہ کا بدلہ دے دیں گے.یہ سورۃ النحل کی ۹۷ آیت ہے.

Page 373

خطبات ناصر جلد نہم ۳۵۹ خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۱ء تو آزمائے جاتے ہیں.میں بھی آزمایا گیا.آپ بھی آزمائے گئے.ابھی ایک سانحہ ہو گیا اور آج میں بے حد خوش ہوں اس لئے کہ گزشتہ رات میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میری تسکین کے تو سامان پیدا کر.تو مجھے جنت کے نظارے دکھائے گئے اور ایک منٹ یا شاید اس سے بھی کم کے لئے منصورہ بیگم (نورَ اللهُ مَرْقَدَهَا) سے میری ملاقات کروائی گئی لیکن وہ جو نظارہ دیکھا اس میں ایک چیز میں نے یہ دیکھی کہ ہر آن اس کی شکل بدل رہی ہے.وہ جو حدیث میں آیا ہے نا کہ صبح ایک مقام پہ ہو گا جنتی ، شام کو ایک اس سے بھی بلند مقام پہ ہوگا یعنی میرے دیکھتے دیکھتے رنگوں میں تبدیلی آرہی تھی یعنی میں ویسے اپنے احساس کے لحاظ سے وہاں ٹھہرا ہوں گا دس پندرہ منٹ لیکن ملاقات ہماری ایک منٹ سے زیادہ نہیں ہوئی اور جو کپڑے پہنے ہیں وہ پہنے پہنے ہیں.یعنی جسم کے اوپر کپڑا ہے اس کا رنگ بدل رہا ہے، پہلے سے زیادہ خوب صورت ہو رہا ہے.اس قسم کے نظارے اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور تین جگہ ایسا ہوا کہ دربان رستہ روک کے کھڑے ہو گئے کہ باہر نہیں جاسکتے تو جو ساتھ میرے لگا ہوا تھا اس نے کہا یا یہ کہا کہ یہ باہر سے آئے ہیں یا یہ کہا کہ یہ باہر جانے والے ہیں تو اس نے رستہ دے دیا اور جس وقت میری آنکھ کھلی تو میں اپنے آپ کو وہیں سمجھتا تھا.تو اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے.جتنا وہ مہربان ہے اتنا وہ عظیم بھی ہے.جتنے ہم اس کی رحمتوں کے وارث بنتے ہیں اتنا ہی ہمیں ، اگر ہم حقیقی مومن ہیں اپنی عاجزی اور انکساری کا احساس بھی ہوتا ہے.تو اس چیز کو جماعت کے کسی فرد، ساری جماعت کو چھوڑ نانہیں چاہیے.اپنے آپ کو عاجز اور نالائق سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا.” میں اللہ کا ایک نالائق مزدور ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن پر اس زمانہ میں ہم ایمان لائے وہ اعلان کریں کہ میں اللہ کا ایک نالائق مزدور ہوں اور ہم میں سے کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میں اللہ کا چہیتا بیٹا ہوں، بڑا ظلم ایسا شخص اپنے آپ پہ کر رہا.اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو محروم کر رہا ہے ایسا شخص.تو تکبر سے بچتے رہیں اور دعاؤں میں لگے رہیں.ہمارا تو اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ایک ہی سہارا ہے، وہ ہمارا رب ہے.اس سے مایوس

Page 374

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۰ خطبہ جمعہ اار دسمبر ۱۹۸۱ء نہیں ہونا.اس پر ہمیشہ امید رکھنی ہے، تو گل کرنا ہے اور اللہ کے فضل سے جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے اسی سے سب کچھ پانا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین جو ایک نئی چیز ہم نے پائی اس سے اس سال ، وہ احمد یہ بک ڈپو ہے.قادیان میں جب ہم بہت ہی غریب ہوا کرتے تھے (وہ بھی ایک آزمائش کا دور تھا ) ایک ایسی دکان تھی جہاں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہونی والی ہر کتاب مل جاتی تھی.اس کا نام تھا ” احمد یہ بک ڈپو اب خیال آیا کہ ہجرت ہوئی ، جماعت وہاں کی جو مہاجرین کے ادھر آئی اپنا سب کچھ چھوڑ آئی.ذرائع آمد، زمین تھی وہ چھوڑ آئے ، کارخانے تھے وہ چھوڑ آئے ، دوکا نیں تھیں وہ چھوڑ آئے.دولت پیسوں کی شکل میں تھی وہ چھوڑ آئے.کپڑے پہنے کے لئے وہ چھوڑ آئے اور بعضوں کو خدا نے یہ توفیق دی کہ وہ کپڑے چھوڑے بھی اور جو چھوڑ نے کا عام بھی ثواب ہے لیکن اس سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی انہیں تو فتق بھی مل گئی.ایک وقت میں ہماری غیر احمدی بہنوں کو بڑی سخت کپڑوں کی ضرورت پڑی.ابھی میں وہاں تھا تو میں نے پہلے منصورہ بیگم کے اور پھر اپنے خاندان کے سارے صندوق کھول کے اور ان میں تقسیم کر دیئے کیونکہ نگ اپنا ڈھانپنے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہیں تھا.جب میں سارے کہتا ہوں تو میری مرا دساروں کی ہے یعنی وہ جوڑے جو نواب محمد علی خاں رضی اللہ عنہ اور ہماری بڑی پھوپھی جان صاحبہ رضی اللہ عنہا نے بڑے پیار سے دہلی سے زری کے بنائے تھے، (اس سستے زمانے میں بھی ہزار ہزار، دو ہزار کے ) وہ بھی سارے تقسیم کر دیئے اور کسی پہ احسان نہیں ، نہ کوئی بڑی بات کی کیونکہ وہ دیئے تھے اللہ نے ، اللہ کی راہ میں دے دیئے اور ایک سیکنڈ کے لئے احساس نہیں پیدا ہوا ( منصورہ بیگم وہاں نہیں تھیں ) میرے دل میں کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں اور میں نے خط کے ذریعے اطلاع کر دی تھی انہیں اور باقی سب کو بھی اور یہاں جب آ گیا میں نومبر میں ، تو مجھ سے اس کا ذکر ہی نہیں کیا کہ وہاں کیا کیا؟ کوئی حالات ہی پوچھتا ہے.کوئی اپنے کپڑوں سے دلچسپی لیتا ہے.نہیں.خوش تھیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چلے گئے.خدا نے ہمیں نگا نہیں رکھا.خدا نے ہمارے گھروں کو پھر اس سے زیادہ بھر دیا جتنے وہ وہاں بھرے ہوئے تھے.تو جو شخص یہ ایمان لاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس

Page 375

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۱ خطبہ جمعہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۸۱ء کائنات کا خالق اور مالک ہے اور تمام خزانوں کی چابیاں اس کے ہاتھ میں ہیں اس کی راہ میں خرچ کرنے سے اسے گھبرانا نہیں چاہیے.ہم نے وہاں چھوٹا سا ایک بک ڈپو بنایا.سہولت تھی بڑی، جو قادیان میں آتے تھے.ساری دنیا میں احمدی کم تھے.زیادہ تر ہندوستان سے آتے تھے.زیادہ تر جلسہ سالانہ پر آتے تھے.انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی ادھر اُدھر دکانوں پر جانے کی.وہاں وہ بک ڈپو میں جاتے تھے اور ہر کتاب جو موجود ہو وہ ان کو ایک جگہ سے مل جاتی تھی اور بلیک مارکیٹ میں نہیں ملتی تھی.جو اس کی اصل قیمت تھی اس پر وہ مل جاتی تھی کتاب.پھر لمبا عرصہ گزرا ہماری ہجرت کے زمانے کا.کچھ عرصہ لاہور میں رہے.پھر اس بے آب و گیاہ زمین پر رہے.یہاں جب آئے تو خیموں میں رہے پہلے.بہت سارے جو بچے ہیں وہ خیموں کے بعد کی پیدائش ہیں ، ان کو پتہ ہی نہیں.خیموں میں بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ساری جماعت جو یہاں آئی وہ خیمہ زن خانہ بدوشوں کی طرح تھے.پھر وہ کچے مکان بنائے گئے پھر ان میں رہے.پھر اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ وہ آزمائش کی سختی کو ، امتحان کی اذیت کو کم کرتا چلا گیا برداشت کے اندر.پھر اپنی رحمت کے سامان پیدا کئے.پھر مجھے یاد ہے کہ جس وقت یہ مکان یہاں بنے جن میں میں بھی رہا ہوں قریباً سولہ سال اپنی خلافت کے، یہ اڑھائی روپے مربع فٹ خرچ کے اوپر بنائے گئے تھے اور اب ہماری رہائش کے وقت میں وہ اپنی عمر پوری کر چکے تھے.بعض دفعہ چھت پر سے اینٹ نیچے گر جاتی تھی لیکن ہم اس میں رہ رہے تھے اور خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گارہے تھے.اب وہ دفتر بھی.اتنا سا دفتر ، کتنی ضرورت تھی.اب اللہ کا فضل ہے کہ جمعرات کو ملاقاتی بعض دفعہ بارہ تیرہ سو ہو جاتا ہے.بڑی مشکل پرانے دفتر میں، مجھے شرم بھی آتی.مہمان آتا ہے.اکرام ضیف کا حکم ہے ہمیں.ایک وقت میں میں نے محسوس کیا کہ ان کو ٹھنڈا پانی گرمیوں میں پلانے کا جماعت کی طرف سے کوئی انتظام نہیں.تو میں نے سوچا کہ میرے اوپر خدا نے ذمہ داریاں ساری ڈالی ہیں میں جماعت کو تو کچھ نہیں کہہ سکتا اپنے آپ کو مجھے ملامت کرنا چاہیے.میں نے اپنے انتظام کے مطابق ( آج میں پہلی دفعہ شاید آپ کو بتا رہا ہوں ) ان کی چائے کا سردیوں

Page 376

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۲ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۸۱ء میں انتظام کیا.میں دیوالیہ تو نہیں بن گیا.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں سے سارے انتظام کرتا ہے وہ ہو گیا لیکن میں بتا رہا ہوں شرم آتی تھی.کرسیاں کوئی نہیں، پرانی در یاں.ہمارے پاس اس وقت آہستہ آہستہ توفیق بڑھتی چلی گئی.اس وقت یہی توفیق تھی.تیرہ سو آدمی ، ان کو بٹھانا مشکل.ایک ایک ضلع کی جماعت بعض دفعہ دو دو حصوں میں بٹ کے مجھ سے ملاقات کرتی تھی اور میرے او پر بھی اس کا بوجھ تھا کیونکہ میری ملاقات کا مطلب تھا کہ کوئی اور نہ بولے خاموش رہیں صبح سے.میں ذیا بیطس کا بیمار ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو بعض دفعہ اس طرح بھی بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ جب ملاقات کے دن ڈاکٹروں کے مشورے کے خلاف، صبح کے ناشتے کے بعد دوائی کھا کے ذیا بیطس کی (جس کے بعد بھوکا نہیں رہنا چاہیے.بڑی خرابی پیدا کرتی ہے وہ ) پانچ بجے بعض دفعہ میں کھانا کھاتا تھا دو پہر کا اور میری عادت یہ ہے کہ دو کھانوں کے درمیان میں کچھ کھاتا ہی نہیں، بعض دفعہ پانی بھی نہیں پیتا تھا.تو پانچ بجے تک پوری طاقت کے ساتھ ، میں ان سے ملاقات کرتا تھا.پھر اپنا کھا لیا الحمد للہ.خدا تعالیٰ کا نشان ہر ملاقات کے دن مجھے یہ ملتا تھا.عام دنوں میں مجھے ضعف ہو جاتا تھا ایک بجے.ملاقات کے دن نہیں ہوتا تھا ضعف.یہ نہیں کہ میں کوئی تکلیف آپ لوگوں کے لئے برداشت کر رہا تھا.قطعاً کوئی تکلیف نہیں کیونکہ تکلیف تو میں تب برداشت کرتا جب ملاقات کے دن مجھے ضعف ہوجاتا ، نہیں ہوتا تھا.خدا نے ایسا انتظام کیا ہوا تھا میرے جسم میں بہر حال اب وہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ بھی ایک چیز آرہی ہے اس جلسے تک تو نہیں ہوں گے تیارلیکن میں ایسا انتظام کر رہا ہوں کہ جو ابھی تیار کمرے نہیں ہیں ، ملاقات ان میں ہو جائے کیونکہ پچھلے سال کے جلسے پر ہمارے مہمانوں کو بڑی تکلیف ہوئی شامیانے کے نیچے سردی کے دنوں میں.دوست دعا کریں کہ یہ دونوں عمارتیں جو رہائشی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے.جتنی میری زندگی ہے میری زندگی میں بھی مجھے آرام پہنچا ئیں اور آنے والے خلفاء کی زندگی میں بھی برکتوں سے کمرے جو ہیں اور دیوار میں جو ہیں اور ماحول جو ہے وہ بھرا ر ہے اور مہمان جب آئیں ان برکتوں سے حصہ لینے والے ہوں.وہ تو اگلے سال پورا ہو جائے گا لیکن اس سال ایک

Page 377

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۳ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۸۱ء حصہ انشاء اللہ استعمال کریں گے.احمد یہ بک ڈپو کا نام ہم نے رکھا ہے مَخَزَنُ الْكُتُبِ الْعِلْمِيَّةِ “ اور یہ تو اس کا یہ ہے نام نا، کس غرض کے لئے ہے.اس واسطے مجھے یہ خیال آیا کہ ہم اردو میں احمد یہ بک ڈپو جو پرانا نام ہے وہ بھی رکھیں گے.یعنی اصل نام وہ ہے مَخَزَنُ الكُتُبِ العِلْمِيَّةِ لیکن لکھا جائے گا' احمد یہ بک ڈپو جو اس قسم کی دکان کو پشتو زبان میں کہا جاتا ہے وہ پشتو میں لکھا جائے گا.جو بلوچی زبان میں کہا جاتا ہے وہ بلوچی زبان میں لکھا جائے گا.جو سندھی زبان میں کہا جاتا ہے وہ سندھی زبان میں لکھا جائے گا.جو جرمن زبان میں کہا جاتا ہے وہ جرمن زبان میں لکھا جائے گا اور جو انگریزی میں فرانسیسی میں، سپینش میں، فرینچ (اگر میں نے نہیں کہا تو فریج) میں اور سیکنڈے نیوین Countries ( کنٹریز) کی زبانوں میں اور یوگوسلاوین میں یہ وفود اور سواحیلی اور مغربی افریقہ کی جو عام بولی جانے والی زبانیں ہیں ان میں بھی تختیاں نام کی رکھی جائیں گی تاکہ جو دوست اردو اور دوسری زبانیں نہیں سمجھتے وہ وہاں سے گزریں تو ان کی نظر پڑے اور وہ سمجھ لیں کہ یہاں ہے کیا؟ اور ہر وہ کتاب جو پہلے چھپی ہو یا تازہ چھپے، جس کی اجازت مصنف نے یا مدوّن نے اصلاح وارشاد سے لی ہو اور قانونِ وقت کے مطابق سنسر اسے کروایا ہو، وہ بک ڈپو میں ہونی چاہیے اور یہ اس وقت میں ہدایت کر رہا ہوں کہ کوئی کتاب ربوہ میں نہیں بکے گی ایسی جس کو اصلاح وارشاد نے بھی پاس کیا ہے اور حکومت وقت نے بھی سنسر کر کے اس کو اجازت دی ہے چھاپنے کی ، جب تک کہ اس مَخْزَنُ الْكُتُبِ الْعِلْمِيَّةِ “ کے مطالبہ کے مطابق جو تعداد ہے وہ مانگ رہے ہیں اس کے مطابق ان کو نہ دے دی جائے.پہلے تو میرا خیال تھا، میں کہہ دوں اور کوئی کہیں سے خریدے ہی نہ، لیکن جب مشورہ کیا اور غور کیا تو انہوں نے کہا کہ خدام الاحمدیہ والے اپنے چھوٹے چھوٹے رسالوں کے لئے ہیں ، ہیں آدمی رکھتے ہیں اتنا Rush (رش) ہوتا ہے.وہاں نہیں چلے گا یہ کہا ٹھیک ہے.کسی کو دکھ نہیں دینا.لیکن جو شخص مثلاً اس کے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے کتابیں خریدنے کا ، (باہر سے آیا ہوا ہے غیر ملک سے ) وہ ہیں جگہ ہیں دکانوں پہ جا کے اپنے مطلب کی کتابیں نہیں

Page 378

خطبات ناصر جلد نہم ۳۶۴ خطبه جمعه ۱۱ دسمبر ۱۹۸۱ء خرید سکتا.کوئی ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں ساری کتابیں ہوں خریدنے کے لئے.وہ جا کے چٹ دے کہ یہ مجھے کتا ہیں چاہئیں اور دس منٹ میں وہ لپیٹ کے ، وہ اس کو دے دیں.دوسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کے بعد میں یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ آپ جماعت کے اخلاص کو Exploit (ایکسپلائٹ ) کریں اور کتابوں کو بلیک مارکیٹ کریں.وہ جو چھاپنے والے نے اس کی قیمت رکھی ہے اس سے ایک پیسہ زیادہ کوئی شخص بھی نہیں لے گا.یہ میری خواہش ہے، یہ میری مرضی ہے، یہ میری ہدایت ہے، یہ میرا حکم ہے، تو یہ جو چھاپنے والے ہیں وہ اس کے مطابق الفضل جو ہے یہ اتنا حصہ جو ہے یہ شائع کر دے جلدی کل ہی آ جائے پرسوں ، ترسوں جب سنسر ہو جائے میرا یہ مضمون.اور ادارۃ المصنفین ، کی وہاں ساری کتابیں مل جائیں گی جو اس وقت' Available‘ ہیں.الشرکۃ الاسلامیہ کی ساری کتابیں مل جائیں گی جو اس وقت Available‘ ہیں وہ تو ساری سنسر ہوئی ہوئی ہیں.اور مینٹل اینڈ ریلیجس پبلیشنگ کارپوریشن کی ، نظارت اشاعت، دوسری یعنی جماعت کے جتنے ادارے ہیں یا تنظیمیں ہیں، ان کی تو ہوں گی ہی لیکن جو افراد بھی بعض شائع کرتے ہیں وہ اگر جب مجھے بھی لکھیں دعا کے لئے تو ساتھ یہ تصدیق بھجوادیں کہ سنسر بھی ہوئی ہوئی ہے اور اصلاح وارشاد نے بھی اس کو پاس کیا ہے.پچھلے سال میرا خیال ہے مجھے ایک کتاب کے متعلق شبہ پڑا تھا.تو ہمارے جیسے اونچے اخلاق کی جماعت جس نے دنیا کو اخلاق سکھانے ہیں یہ سجتا نہیں کہ ہم ایسی حرکت کریں.ہماری ہر کتاب جو چھپتی ہے جو جماعت کی چھپتی ہے وہ تو ایسا ہی ہے کہ حکومت سے سنسر کرواتے ہیں.ان کی مرضی ، بعض دفعہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کیوں کاٹتے ہیں.بہر حال کاٹ دیتے ہیں.حالات تو بدلتے رہیں گے.ریکارڈ ہوا ہوا ہے دنیا میں ساری.تو فکر کی کوئی بات نہیں، نہ غصے کی کوئی بات ہے.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر حکومت کو دنیا کے ہر ملک میں یہ تو فیق عطا کرے کہ وہ اپنے شہریوں کے سارے حقوق بلا تمیز ادا کرنے والے ہوں.

Page 379

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۵ خطبہ جمعہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۸۱ء اس کو ( احمد یہ بک ڈپو.ناقل ) جنہوں نے دیکھا ہے وہ کچھ ماتھا اس کو خو بصورت بنانے کی بھی کوشش کی ہے.وہاں پھول بھی لگائیں گے.پھول کا کتاب سے بڑا گہرا تعلق ہے.وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ گلاب کی شکل میں دکھائی تعلق ہو گیانا پھول سے.اس وقت اگر گلاب دستیاب ہوئے تو کچھ گملے لگے ہیں، کچھ نیچے ہوں گے، سیڑھیوں کے اوپر ہوں گے اور آرام دہ.یہ جو ہے نا کتا ہیں بیچنے کا، یہ بھی فن ہے اور انسانی ذہن اس میں ہے.میں آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا وہاں بلیک میل کتاب، بک ڈپو ہے یعنی کتابوں کی دکان، ساری دنیا میں مشہور، ہزار ہا کتا بیں ان کے پاس، مختلف آدمی ان کے انچارج لیکن جو کاؤنٹر کے اوپر آدمی بیٹھا ہوا ہے وہ ہمارے طلبہ کا اتنا خیال رکھتا تھا کہ ان کا وقت ضائع نہ ہو.کہ مثلاً میں جاتا تھا کوئی کتاب لینے تو میں وہاں چلا جاتا تھا ( انہوں نے لکھا ہوا ہے کہ یہاں یہ ہے.یہ ہے ) وہ کتاب شیلف سے اٹھا کر پانچ چھ گز کے فاصلے پر سے میں اس کو کہتا میں یہ کتاب لے کے جا رہا ہوں.میرا ان کے ساتھ حساب تھا وہ کہتا تھا Yes sir اور کتاب کا نام لکھتا تھا میرا نام لکھتا تھا کتاب کی قیمت لکھتا تھا اور دو مہینے کے بعد ٹرم کے بعد ان کا بل آجاتا تھا.وہ ادا کر دیتے تھے ہم سب طالب علم.تو اس سے آگے بڑھیں گے انشاء اللہ لیکن اس سال تو ابتدا ہے.دوسری بات میں خریدار کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت چونکہ ابتدا ہے اس لئے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچے نا تجربہ کاری کے نتیجے میں ، تو آپ غصہ نہ کریں بلکہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بک ڈپو کو دنیا کی جو بہترین کتابیں بیچنے والی دکان ہے اس سے بھی کہیں کہیں کہیں کا کہیں آگے لے جائے.پس دعائیں کریں اپنے لئے.دعائیں کریں اپنے ملک کے لئے.دعائیں کریں انسانیت کے لئے.دعائیں کریں غلبہ اسلام کے لئے.دعائیں کریں اس مسجد کے بابرکت ہونے کے لئے جو سپین میں سات سو چوالیس سال کے بعد قرطبہ کے علاقہ میں تعمیر ہونی شروع ہوئی تھی اور

Page 380

خطبات ناصر جلد نہم ۳۶۶ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۸۱ء جس کے متعلق اطلاع یہ ہے کہ اس کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے.الحمد للہ.اب اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں انشاء اللہ اگلے سال اس کا افتتاح کروں گا ورنہ افتتاح بہر حال ہو گا اس کا.دعا یہ کریں کہ وہ اہل سپین کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب بنے اور جس طرح وہ علاقہ صد ہا سال اسلام کے نور سے منور اور اسلام کے حسن سے خوبصورت رہا اور ساری دنیا وہاں کی چمک اور وہاں کے حُسن کو دیکھنے اور اس سے لذت حاصل کرنے کے لئے وہاں جاتی تھی اسی طرح پھر از سر نو جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ پین کو ویسا ہی بنادیں، ان کے دل پیار اور خدمت سے جیت کر خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے.اس کے بعد ہمارے یورپ میں جو ضروری مساجد دو بننے والی ہیں (ویسے تو تین چار اور بھی ہوں گی لیکن جو ضروری ہیں ) وہ اٹلی کے ملک میں اور فرانس کے ملک میں.اور نئی راہیں کھولنے کے لئے ساؤتھ امریکہ میں.برازیل میں ارادہ ہے مسجد بنانے کا.تو میری خواہش تو یہ تھی ، اس میں کچھ دیر ہو گئی.اگر دو ایک مہینہ پہلے ہم اٹلی میں زمین خرید لیتے تو ممکن تھا کہ ہم اگست ستمبر میں ( سپین کی مسجد تو ، اس کا افتتاح تو ہونا ہے ) اٹلی کی مسجد کا بھی افتتاح کر دیتے.لیکن خدا تعالیٰ عظمتوں والا ، قدرتوں والا ، طاقتوں والا ہے، سب کچھ ہے.ایک منٹ میں 'گن کے ساتھ اس نے اس ساری کائنات کو بنا دیا.لیکن جو کرتا ہے اپنی مرضی سے کرتا ہے.جبر انہیں اس سے کچھ کروایا جاسکتا.ہمارا مقام اس کے قدموں میں ہے اور اس نے یہ بشارت دی کہ میرے قدموں میں ہی رہنا، تو میں تمہیں ساتویں آسمان کی رفعتوں تک پہنچادوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ بشارت دی.ہمیں ساتویں آسمان سے کوئی پیار نہیں.میں نے بڑا سوچا اگر خدا تعالیٰ ساتویں آسمان تک ہمیں نہ لے جائے اور وہ جو ہماری شہ رگ کے قریب ہے ، ہمارے پہلو میں بیٹھ کر مجھے اور آپ کو اپنی گود میں لے لے، ہم نے ساتواں آسمان لے کے کیا کرنا ہے.تو دعاؤں کے لئے ہم پیدا ہوئے دعاؤں کے نتائج کی عظمتیں ہم نے دیکھیں خدا تعالیٰ کو ہم علی وجہ البصیرت جانتے ہیں.کوئی فلسفہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ ایک عظیم ہستی ہے.خدا تعالیٰ

Page 381

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۷ خطبہ جمعہ ۱۱/دسمبر ۱۹۸۱ء کا وجود بڑا پیار کرنے والا وجود ہے.مختلف پہلوؤں سے اس نے ہمیں سمجھایا کہ میں تو ہمیشہ تم سے پیار کرنا چاہتا ہوں، تم اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں مجھ سے دور کیوں ہو جاتے ہو تو ایسے گروہوں میں ہمیں شامل نہ کرے جو اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں اُس سے دور ہونے والے ہیں.ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل کرے جو اپنا سب کچھ عملاً یا دینا اس کے حضور پیش کر کے اس کے ہو گئے اور وہ ان کا ہو گیا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 382

Page 383

خطبات ناصر جلد نهم ۳۶۹ خطبه جمعه ۱۸ ؍ دسمبر ۱۹۸۱ء جلسہ سالانہ کا مقصد خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۸ دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا یہ با برکت جلسہ اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ اور اپنی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ آگیا.ان ذمہ داریوں کی طرف میں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں.سب سے بڑی ذمہ داری احمدی کی ، خاص طور پر جلسہ کے ایام میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی ہے.الہی سلسلوں میں سارے ہی ایک درجہ کے بلند مقام پر فائز نہیں ہوا کرتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلِكُلّ دَرَجَتُ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (الانعام : ۱۳۳) که اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو، وہ اس کے علم میں ہے اور اپنے علم کامل کے نتیجہ میں عمل عمل کے مطابق درجہ، درجہ دیتا چلا جاتا ہے.بہت اخلاق کے بھی ہیں پھر درجہ بدرجہ خدا جانے کتنے رنگ ہیں اخلاقی اور روحانی جو ہمیں الہی سلسلوں میں نظر آتے ہیں.اس کے مطابق درجات میں بٹی ہوئی ہوتی ہے وہ قوم جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والی اور خدا تعالیٰ کے لئے جاں نثاری اور ایثار کا نمونہ دکھانے والی ہوتی ہے.اور الہی سلسلوں میں ایک گروہ منافقوں کا بھی لگا رہتا ہے ساتھ.پھر اُن لوگوں کا جنہیں

Page 384

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۰ خطبه جمعه ۱۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں منافق تو نہیں کہا مگر فی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ (البقرة :۱۱) کہا ہے کہ بہت سے پہلو صحت مند بھی ہیں اور بعض بیماریاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں.بیماری کا جب اعلان ہو تو اس سے مُراد موت نہیں ہوتی بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ صحت کے حصے بھی ہیں.صحت مند پہلو بھی ہیں اور کمزور اور بیمار پہلو بھی ہیں.ایسے لوگوں سے بھی نفرت کرنے کا حکم نہیں.پیار ان سے کیا نہیں جاسکتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ راہ نکالی کہ پیار کے قابل نہیں یہ لوگ، نفرت کا مقام نہیں اُن کا.اس لئے جو بلند درجات والے ہیں، جو اچھے اخلاق والے ہیں، جو اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں، جنہوں نے روحانی رفعتوں کو حاصل کیا ہے، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو کمزور ہیں اُن کے لئے دعائیں کریں کہ جن نعمتوں سے کمزور محروم ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کی زندگیوں میں ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ کمزوریاں اُن کی ، وہ بیماریاں اُن کی ، وہ نفاق اُن کا دُور ہو جائے اور جس طرح اکثریت اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنی دعاؤں سے جذب کر کے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرنے والی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بن جائیں اور سب کے ساتھ ملتے چلے جائیں.پروہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خاص طور پر یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہم میں سے جو کمزور ہیں ، وہ کسی کمزوری کے نتیجہ میں جماعت کی بدنامی اور اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے غضب کو حاصل کرنے کا باعث نہ بن جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کی عظمتوں کا احساس اُن کے دل میں پیدا کرے اور اس احساس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں ایک نیک تبدیلی پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر وہ چلنے لگیں اور جن بشارتوں کا ذکر جماعت احمدیہ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اُن بشارتوں سے وہ حصہ لینے لگ جائیں.کوئی نیکی اُس وقت تک انسان کر نہیں سکتا جب تک وہ جو حقیقی اور کامل نیک ہے،سبوح اور قدوس ہے، اپنی طرف سے ایسے سامان نہ پیدا کر دے کہ انسان نیکی کرنے کے قابل ہو جائے.اس لئے ہر آن ، ہر وقت حضوصاً ان دنوں میں یعنی جلسہ کے ایام میں ، انتہائی عاجزی کے ساتھ اور حقیقتاً خود کو محض لاشے سمجھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کریں اور دعائیں

Page 385

خطبات ناصر جلد نہم ۳۷۱ خطبه جمعه ۱۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر موقع ، ہر آن ، ہر لحظہ ہماری ہدایت کے سامان کرتا چلا جائے اور فرشتے ہماری مدد کو اُتریں اور خدا کے نام کو بلند کرنے کے لئے جو یہ جلسہ قائم کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس مقصد کے حصول کے سامان ہماری زندگی میں پیدا کر دے.مہمانوں کی آمد آمد تو شروع ہو چکی ہے.اس وقت میرے سامنے بہت سے غیر ملکی مہمان بھی بیٹھے ہیں.اپنے پاکستانی بھی اس جمعہ بہت زیادہ کثرت سے مجھے نظر آرہے ہیں.گہما گہمی ہے.یہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ربوہ اپنے کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے نظر میں نہیں آتا اور باہر سے آنے والے میرے پیارے بھائی جو ہیں اُن کی شکلیں ہی میری نظروں کے سامنے آتی ہیں لیکن میں اہل ربوہ کو کہوں گا کہ اگر چہ تمہاری شکل میری آنکھ نہیں پکڑتی مگر میرے دل سے تم کبھی غائب نہیں ہوئے.میں ہمیشہ تمہارے لئے دُعا کرتا رہتا ہوں جس طرح ہر اُس احمدی کے لئے جو دنیا کے کونے کونے میں بسنے والا ہے.اور ان ایام میں چونکہ قبولیت دعا کے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے نوع انسان کی بھلائی کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس زمانہ میں انسان، مہذہب انسان ، طاقتور انسان، سائنس میں آگے بڑھنے والا انسان، ایجادات کرتے کرتے آسمانوں کی رفعتوں کو چھو لینے والا انسان، ہلاکت کے گڑھے کی طرف بھی حرکت کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ انسان کو اس ہلاکت سے جس کے لئے وہ خود کوشاں ہے ، محفوظ رکھے اور اس کے ہاتھ کو جو ہلاکت کا سامان پیدا کرنے والے ہیں خدا کے فرشتے پکڑ لیں اور کہیں کہ نہیں ایسا نہیں کرنا.ہاتھوں سے وہ کام لوجس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہاتھ دیئے ہیں.اپنی ہلاکت کے سامان پیدا نہ کرو.دوسروں کی ہلاکت کے سامان پیدا نہ کرو تا کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کے احسان سے انسان فائدہ اٹھا کر ایک ایسا معاشرہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جس معاشرے کے پیدا کرنے کے لئے یہ زمانہ آ گیا تا کہ نوع انسانی اُمتِ واحدہ، ایک خاندان ہو جائے اور ہر قسم کے دُکھ دُور ہو جائیں اور اگر دُکھ کسی کو کہیں کسی جگہ پہنچے بھی تو سارے انسان اس کو دور کرنے کی کوشش میں لگیں اور غم خوار بنیں ایک دوسرے کے.انسان جس غرض کے لئے پیدا

Page 386

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۲ خطبه جمعه ۱۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء کیا گیا یعنی مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریت : ۵۷ ) وہ غرض پوری ہو اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق نوع انسانی کا پیدا ہو جائے کہ جن کا نہ پیدا ہو یہ تعلق، خدا تعالیٰ جو رب کریم اور مہربان ہے اُس سے ، وہ گنتی کے چند رہ جائیں جو شمار میں نہیں آتے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ہماری زندگی میں اپنے فضلوں سے پورا کرے.ہم عاجز اور کمزور انسان اپنے اعمال کے ساتھ اس چیز کو حاصل نہیں کر سکتے لیکن جہاں اُس کی رحمانیت نے اپنے جلووں سے نیک اور بد، مومن اور کافر کی جھولیاں بھر دیں وہاں وہ یہ سامان بھی پیدا کرے کہ اپنی رحیمیت کے نتیجہ میں جو انعام وہ دینا چاہتا ہے، اس کا حق دار بن جائے انسان اور اس کے تقرب میں اس دنیا میں جو جنت پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ پیدا ہو جائے اور ہمارے جلسے کی غرض پوری ہو اور اس غرض کو قائم رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ برکتوں کے ساتھ آنے والے جلسے آیا کریں اور ہمارے لئے خوشی کا سامان پیدا کیا کریں.روزنامه الفضل ربوه ۲۷؍ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحه ۲،۱) 谢谢谢

Page 387

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۳ خطبه جمعه ۲۵/ دسمبر ۱۹۸۱ء پڑھی:.ارفع مقام کی طرف جماعت احمدیہ کے ہر فرد کی حرکت رہنی چاہیے خطبه جمعه فرموده ۲۵ دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام مردانہ جلسہ گاہ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنی بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ١١٣) اور پھر فرمایا:.قرآن کریم میں یہ بیان ہے کہ مومن، مومن میں بڑا فرق ہوتا ہے.جو اسلام لاتے ہیں ان کی ابتدا تو اس نچلے مقام سے شروع ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ لیا کرو.وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيمَانُ في قُلُوبِكُمُ (الحجرات: ۱۵) ابھی تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں لیکن وہ مبتدی جن کی ابتدا یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ درجہ بدرجہ روحانی میدانوں میں ترقی کرتے ہوئے آخر میں ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۵) کہ وہ سچے اور پورے اور حقیقی مومن ہیں.جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی اس میں اس آخری رفعت کا ذکر ہے اور ان لوگوں کا ذکر

Page 388

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۴ خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۸۱ء اشارہ ہے کہ جن کا خاتمہ بالخیر اس مقام پر ہو جاتا ہے.میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ دنیا ابتلا اور امتحان کی دنیا ہے جہاں یہ ممکن ہے کہ ایک مبتدی کا روحانی میدان میں پاؤں پھسلے اور وہ روحانی طور پر شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ ( ال عمران : ۱۰۴) آگ کے گڑھے میں گر جائے.وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص روحانی ترقیات کرتے ہوئے بہت سی منازل طے کر کے کہیں کا کہیں آگے نکل جائے اس کے پاؤں میں بھی لغزش آئے اور خدا تعالیٰ کے دربار سے وہ دھتکارا جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِحْلِ دَرَجتٌ مِّمَّا عَمِلُوا (الاحقاف:۲۰) جیسے جیسے کسی کے عمل، عمل صالح ہوں گے ویسے ویسے اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہوگا.تو جتنے انسان خدا تعالیٰ کا نام لے کر، اس کی عظمتوں کا کلمہ پڑھ کے اسے جَلّ جلالہ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں ، اتنے ہی درجات ہیں جتنے افراد ہیں.لیکن وہ ایک بار یک مسئلہ ہے جسے سمجھانے کے لئے میں یہ کہوں گا کہ جس طرح دنیا میں دو انسان کی شکل ایک نہیں اسی طرح روحانی طور پر کسی دو انسان کی روحانیت کا مقام بھی ایک نہیں.اس میں بہت سی باتیں دخل انداز ہوتی ہیں جن کی تفصیل کی طرف اشارہ بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا.درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے یہی لوگ ( وَلِكُلّ دَرَجتُ مِمَّا عَمِلُوا ) ایک مسلسل جد و جہد، ایک سعی ، ایک مجاہدہ ، ایک ہجرت ، ہجرت مکانی نہیں ہجرت روحانی جو ہے کہ چھوٹے مقام کو چھوڑ کے بڑے کی طرف منتقل ہونے کی مقبول کوشش جس کے نتیجے میں ایک بلند مقام کی طرف ایک انسان منتقل ہو بھی جاتا ہے.) اس مسلسل کوشش کے بعد ایک گروہ ایسا آگیا اولنكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ جو گروہ ہے اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے بَلَى مَنْ اَسْلَم والی آیت میں بیان کی ہے.وہ Ideal ( آئیڈیل ) ہے.کوئی شخص اس آیت کوشن کے اور اس کی تفسیر ( جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بیان کی ہے جسے پڑھ کر سناؤں گا آپ کو ، اسے ) ٹن کے اس شبہ میں نہ رہے ایک :.کہ سارے کے سارے مومن اس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں.نہیں، سارے نہیں پہنچے ہوئے لیکن جو پہنچے ہوئے ہیں وہ بھی اور جو نہیں پہنچے اس مقام کو ، وہ بھی مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ زندگی کے ہر آنے والے لمحہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی اس سے زیادہ برکات نازل ہوں جو گزرنے والے لمحے

Page 389

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۵ خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۸۱ء میں ان پر نازل ہوئیں.یہ ایک مسلسل حرکت روحانی میدانوں میں جاری ہے.نہ یہ غلط فہمی ہونی چاہیے کہ جو مُؤْمِنُونَ حَقًّا بن گئے ، مرتے دم تک ان کو کوئی خطرہ نہیں.اس لئے کہ اس میدان کا کوئی کنارہ نہیں کہ جہاں پہنچ کے انسان کی کنارے پر پہنچنے کی کوشش ختم ہو جاتی ہے کیونکہ یہ ساری کوشش خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہے اور جو بعد انسان اور خدا میں ہے وہ غیر محدود ہے، نہ ختم ہونے والا ہے لیکن قریب سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پیارا نسان اللہ تعالیٰ کا حاصل کرتا رہتا ہے اپنی زندگی میں.یہ صحیح ہے کہ یہ آئیڈیل ہے بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ میں جو بیان ہوا.سارے یہاں تک نہیں پہنچے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہر ایک کو اس آئیڈیل ، اس اعلیٰ ترین مقام تک پہنچنے کے لئے (Consciously) بیدار زندگی گزارتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے ورنہ ہلاکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مقام کے متعلق جو فرماتے ہیں ایک مختصر سا اقتباس اس وقت میں پڑھ کے دوستوں کو سناؤں گا.اس کا ایک ایک حرف جو ہے وہ یا درکھنے کے قابل ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے.چونکہ یہ جلسہ سالانہ ہمارا تربیت کے لحاظ سے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اس واسطے میں نے اس کی ابتدا آج جمعہ میں اس مضمون سے شروع کی تاکہ آپ کی توجہ اس طرف پھیروں کہ ان دنوں میں خصوصاً آپ کوشش کریں کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے آپ اپنی جھولیاں بھر سکیں وہ بھر لیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے آمین.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی مسلمان وہ ہے ( وہ مسلمان جسے مُؤْمِنُونَ حَقًّا کے گروہ میں اللہ تعالیٰ نے شامل کیا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ) جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کوسونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی

Page 390

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ۲۵؍ دسمبر ۱۹۸۱ء خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوئے پھر آپ فرماتے ہیں :.وو معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت یہ مُؤْمِنُونَ حَقًّا کی طرف اشارہ ہے“ حضور ایدہ اللہ ) نہایت ہی اعلیٰ ہے.اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس اتارہ کا نقش ہستی معہ اس کے تمام جذبات کے یکدفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن لِلہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو اس کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام میں ہی یہ فرمائی:.اس جگہ ہر یک بچے طالب کے دل میں بالطبع یہ سوال پیدا ہوگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے کہ تا یہ مرتبہ عالیہ مکالمہ الہیہ حاصل کر سکوں.پس اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک نئی ہستی ہے جس میں نئی قوتیں ، نئی طاقتیں، نئی زندگی عطا کی جاتی ہے اور نئی ہستی پہلی ہستی کی فنا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور جب پہلی ہستی ایک سچی اور حقیقی قربانی کے ذریعہ سے جو فدائے نفس اور فدائے عزّت و مال و دیگر لوازم نفسانیہ سے مراد ہے بکلی جاتی رہے تو یہ دوسری ہستی فی الفور اس کی جگہ لے لیتی ہے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ پہلی ہستی کے دور ہونے کے نشان کیا ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب پہلے خواص اور جذبات دور ہوکر نئے خواص اور نئے جذبات پیدا ہوں اور اپنی فطرت میں ایک انقلاب عظیم نظر

Page 391

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۷ خطبه جمعه ۲۵؍دسمبر ۱۹۸۱ء آوے اور تمام حالتیں کیا اخلاقی اور کیا ایمانی اور کیا تعبدی ایسی ہی بدلی ہوئی نظر آویں کہ گویا ان پر اب رنگ ہی اور ہے.غرض جب اپنے نفس پر نظر ڈالے تو اپنے تئیں ایک نیا آدمی پاوے اور ایسا ہی خدا تعالیٰ بھی نیا ہی دکھائی دے اور شکر اور صبر اور یاد الہی میں نئی لذتیں پیدا ہو جا ئیں جن کی پہلے کچھ بھی خبر نہیں تھی اور بدیہی طور پر محسوس ہو کہ اب اپنا نفس اپنے رب پر بکلی متوکل اور غیر سے بکلی لا پروا ہے اور تصور وجود حضرت باری اس قدر اس کے دل پر استیلا پکڑ گیا ہے کہ اب اس کی نظر شہود میں وجو د غیر بکلی معدوم ہے اور تمام اسباب بیچ اور ذلیل اور بے قدر نظر آتے ہیں اور صدق اور وفا کا مادہ اس قدر جوش میں آ گیا ہے کہ ہر یک مصیبت کا تصور کرنے سے وہ مصیبت آسان معلوم ہوتی ہے اور نہ صرف تصور بلکہ مصائب کے وارد ہونے سے بھی ہر یک درد برنگ لذت نظر آتا ہے.تو جب یہ تمام علامات پیدا ہو جائیں تو سمجھنا چاہیے کہ اب پہلی ہستی پر بکی موت آ گئی.اس موت کے پیدا ہو جانے سے عجیب طور کی قوتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں پیدا ہو جاتی ہیں.وہ باتیں جو دوسرے کہتے ہیں پر کرتے نہیں اور وہ راہیں جو دوسرے دیکھتے ہیں پر چلتے نہیں اور وہ بوجھ جو دوسرے جانچتے ہیں پر اٹھاتے نہیں ، ان سب امور شاقہ کی اس کو توفیق دی جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی قوت سے نہیں بلکہ ایک زبردست الہی طاقت اس کی اعانت اور امداد میں ہوتی ہے جو پہاڑوں سے زیادہ اس کو استحکام کی رُو سے کر دیتی ہے اور ایک وفادار دل اس کو بخشتی ہے.تب خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے وہ کام اس سے صادر ہوتے ہیں اور وہ صدق کی باتیں ظہور میں آتی ہیں کہ انسان کیا چیز ہے اور آدم زاد کیا حقیقت ہے کہ خود بخود ان کو انجام دے سکے.وہ بکلی غیر سے منقطع ہو جاتا ہے اور ماسوا اللہ سے دونوں ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور سب تفاوتوں اور فرقوں کو درمیان سے دور کر دیتا ہے اور وہ آزمایا جاتا اور دکھ دیا جاتا ہے اور طرح طرح کے امتحانات اس کو پیش آتے ہیں اور ایسی مصائب اور تکالیف اس پر پڑتی ہیں کہ اگر وہ پہاڑوں پر پڑتیں تو انہیں نابود کر دیتیں.

Page 392

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۸ خطبه جمعه ۲۵/ دسمبر ۱۹۸۱ء اور اگر وہ آفتاب اور ماہتاب پر وارد ہوتیں تو وہ بھی تاریک ہو جاتے لیکن وہ ثابت قدم رہتا ہے اور وہ تمام سختیوں کو بڑی انشراح صدر سے برداشت کر لیتا ہے اور اگر وہ ہاونِ حوادث میں پیسا بھی جائے اور غبار سا کیا جائے تب بھی بغیر انِّی مَعَ اللہ کے اور کوئی آواز اس کے اندر سے نہیں آتی.جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء لوراء ہو جاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے.66 یہ وہ آئیڈیل، یہ وہ ارفع مقام ہے جس کی طرف جماعتِ احمدیہ کے ہر فرد کی حرکت ہے اور ہونی چاہیے اور رہنی چاہیے.پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ، ہم سب کو تو فیق عطا کرے کہ وہ اس جلسہ پر بھی ایسی تربیت حاصل کر سکیں کہ اپنے عجز اور انکسار کے مقام کو پہچاننے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی عظمتوں اور رفعتوں اور اس کی بلندیوں کی معرفت اور عرفان رکھنے والے ہوں اور ایک مستقل حرکت ہر دوسری چیز کو بھول کے ہماری ، اپنے ربّ کریم کی طرف ہورہی ہو اور خدا کرے کہ ہماری کوشش کو وہ قبول کرنے والا ہو اور خدا کرے کہ اس کے نتیجہ میں وہ بے انتہا فضل ہم پر ، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی نازل کرنے والا ہو.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۰ جنوری ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 393

خطبات ناصر جلد نهم ۳۷۹ خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۲ء وقف جدید کے پچیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده یکم جنوری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کھانسی ہو گئی ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے.آمین آج عیسوی کیلنڈر کا نیا سال شروع ہوتا ہے یعنی ۱۹۸۲ء کا یہ پہلا دن ہے اور جمعہ سے شروع ہو رہا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے.خدا کرے کہ سارا سال ہی ہمارے لئے عید کا سماں رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں عید کے سامان ہمارے لئے پیدا کرتی رہیں.آپ سب کو اور جہاں جہاں احمدی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ یہ نیا سال مبارک کرے اور ان سب کے لئے بھی برکتوں کے سامان پیدا کرے جو جمعہ کو عید کا دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سمجھتے ہیں.وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور جنوری کے پہلے جمعہ کے موقع پر میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.اتفاقاًیہ جمعہ سال کا پہلا دن بھی ہے.یہ نیا سال جو ہے جہاں تک بالغانِ احمدیت کا سوال ہے، ہمارے مجاہدہ کا اس دائرہ میں پچیسواں سال ہے اور دفتر اطفال کا سترھواں سال.بالغان کے پچیسویں اور اطفال کے سترھویں سال کے آغاز کا آج

Page 394

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۰ خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۸۲ء میں اعلان کر رہا ہوں.دو قسم کی قربانیاں ہماری ذیلی تنظیمیں بھی خدا کے حضور پیش کر رہی ہیں.ایک مالی اور ایک ان تمام قربانیوں کا مجموعہ جن کے ساتھ مالی قربانی کا تعلق نہیں.جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے جو بجٹ اپنے جائزہ کے مطابق وقف جدید بناتی ہے ابھی وہ بجٹ عملاً ہم نے پورا کرنا شروع نہیں کیا.اس لئے جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے میں امید رکھوں گا کہ سال رواں میں جماعت احمد یہ اپنے بجٹ کو پورا کر دے گی.انشاء اللہ.وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان کے قیام کا بڑا مقصد دیہات کی تربیت تھا اور ہے.احمدی دیہات ( یعنی وہ گاؤں پاکستان کے جہاں احمدی بستے ہیں، دوسرے بھی بستے ہیں لیکن جہاں احمدی بستے ہیں ان کو اس وقت میں احمدی دیہات کہتا ہوں ).احمدی دیہات کی تعداد سال بہ سال بڑھتی چلی جا رہی ہے.چوبیس سال قبل جب یہ تحریک شروع ہوئی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے، تو اس وقت جتنے گاؤں اس نظام کی تربیت کے ماتحت آتے تھے ان کی تعداد واقفین وقف جدید سے کہیں زیادہ تھی.واقفین کی تعداد اور احمدی دیہات کی نسبت کم نہیں ہوئی، بڑھتی چلی جارہی ہے.ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ انسانوں کو اپنے قرب کی راہیں دکھلا رہا ہے اور وہ نور جو محد صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کے لئے لے کر آئے تھے، زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.ہر سال اس میں زیادتی ہو رہی ہے لیکن تربیت کرنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہو رہی ہے دیہات کی تعداد بڑھنے کے نتیجہ میں.اس لئے اس وقت اشد ضرورت وقف جدید کو وقف جدید کے واقفین کی ہے.وقف جدید کے واقفین کی علمی قابلیت کا معیار اور ہے.وہ جامعہ کے پڑھے ہوئے شاہدین نہیں.واقفین وقف جدید کی اپنی تربیت اور تعلیم کا ایک علیحدہ نظام ہے.واقفین وقف جدید جو ہیں عمروں کے لحاظ سے چھوٹی عمر کے اور تجربہ کے لحاظ سے کم تجربہ ہیں.اس لئے ایک تو میں نصیحت کروں گا انجمن وقف جدید کو کہ جو واقفین وقف جدید ان کے پاس ہیں ، ان کی علمی اور علم کی

Page 395

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۱ خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۲ء بنیاد پر اخلاقی اور روحانی تربیت میں زیادتی کرنے کا ایک منصو بہ بنائیں اور وہ منصوبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے پڑھنے سمجھنے اور اس کے نتیجہ میں وہ اثر قبول کرنے کا ہو جو ایک متقی دل ان کتب کو پڑھ کے اثر قبول کرتا ہے.اگر ہر واقف وقف جدید کے ذمے یہ لگایا جائے کہ ہفتے کے سات دنوں میں ہر روز وہ کم از کم پندرہ صفحات کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑھے گا تو اس کے نتیجہ میں ان کا علم بھی بڑھے گا اور ان کی توجہ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بھی زیادہ ہوگی اور دوسروں کی تربیت کرنے کی قابلیت بھی بڑھ جائے گی اور جیسا بھی وہ لکھنا جانتے ہیں، ہیں صفحے پڑھ کے کم از کم پانچ باتیں وہ اپنی کا پی پر لکھیں کہ ہم نے ان صفحوں میں یہ باتیں خاص طور پر پڑھیں جو ہمارے کام آنے والی ہیں تربیت وغیرہ کے لحاظ سے.جماعت سے میں یہ کہوں گا کہ اس وقت ستوا سے بھی کم واقفین وقف جدید ہیں.یہ ہماری ضرورت کا بیسواں حصہ بھی پورا نہیں کرتے.اس واسطے ایسے نوجوان جو سکول کی قابلیت کے لحاظ سے ان کے قواعد پر پورے اترتے ہوں اور دل میں جذبہ رکھتے ہوں، خدمت دین اور تربیت کی قابلیت بھی رکھتے ہوں یعنی ان کی اپنی بھی تربیت ہو چکی ہو، یہ نہ ہو کہ اپنے گھر میں آنکھیں بند کر کے گالیاں دینے کی عادت لے کر وہ وقف جدید میں آجائیں.جو ظاہر کی چیزیں ہیں موٹی موٹی ، کم از کم اس لحاظ سے وہ مہذب اور تربیت یافتہ ہونے چاہئیں اور دل کا تقویٰ جسے اللہ بہتر جانتا ہے نہ میں فیصلہ کر سکتا ہوں نہ آپ لیکن روح کا جذ بہ جو ظاہر ہوتا ہے اور جس کا ہم بھی فیصلہ کر سکتے ہیں ، وہ ہونا چاہیے اور اس کے لئے ہر ہفتے میرا یہ پیغام ہر گاؤں میں پہنچایا جائے کہ ہمیں بچے دو، ہمیں بچے دو تاکہ بڑوں کی ہم تربیت کر سکیں.ہمیں بچے دو تا کہ ہم آئندہ آنے والی نسل کی ابتدائی تربیت کرسکیں.واقفین وقف جدید کے ذمے، جب میں نے کہا تربیت کا کام ہے تو وہ انتہائی تربیت نہیں تھی.میری مراد تھی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں جو تربیت ہونی چاہیے، کم سے کم معیار ایک احمدی کا جو ہے اس تک تو پہنچنا چاہیے نا.گالی نہیں دینی ، ”اوئے“ کر کے نہیں پکارنا ، ” تو نہیں کہنا، اپنے چھوٹے کو بھی.میں بڑوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں ، اپنے بچوں کو بھی آپ کہیں.اگر آپ اپنے

Page 396

خطبات ناصر جلد نہم ۳۸۲ خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۸۲ء بچوں کو آپ نہیں کہیں گے تو وہ بڑوں کو بھی ” آپ نہیں کہے گا.اگر آپ اپنے بچے کو ” آپ کہہ کے پکاریں گے تو اس کو عادت پڑ جائے گی ” آپ کہہ کے پکارنے کی.وہ بڑوں اور چھوٹوں ہر دو کو ” آپ کہہ کے پکارے گا اور بڑا لطف اٹھائیں گے وہ لوگ جو آپ کے ماحول میں آکے آپ کے بچوں کو تو کی بجائے ہر ایک سے آپ کہہ کر بات کرتے سنیں گے.کچھ حصے ہیں جن کا تعلق انجمن وقف جدید سے ہے جو میں نے اب بیان کئے اور کچھ حصے ایسے ہیں جن کا تعلق جماعت سے ہے.ہر دو کو اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی اور توجہ سے نباہنی چاہئیں.اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے مکان تعمیر ہورہا ہو، تو بنیادیں کھود کر روڑی کوئی جاتی ہے اور اس پر اینٹوں سے دیوار میں اٹھائی جاتی ہیں.واقفین وقف جدید کا کام روڑی کوٹنا ہے، چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ٹکڑوں کو یکجان کر دینا، اس قابل بنادینا کہ جب اعلیٰ درجے کی تعلیم اور تہذیب ان کو سکھائی جائے تو وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور بوجھ نہ سمجھیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.کھانسی مجھے بڑا تنگ کر رہی ہے، لیکن اس اعلان کی وجہ سے میں نے جمعہ کا خطبہ چھوڑ نا پسند نہیں کیا.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ صحت سے رکھے اور دعا کریں کہ مجھے بھی صحت دے اور صحت سے رکھے.آمین.روز نامه الفضل ربوه ۶ /جنوری ۱۹۸۲ ، صفحه ۳، ۴)

Page 397

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۳ خطبہ جمعہ ۸ /جنوری ۱۹۸۲ء جماعتی ذمہ داریوں میں اہم ذمہ داری تعلیمی منصوبہ ہے خطبه جمعه فرموده ۸ /جنوری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ نوٹ : حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ مطبوعہ وغیر مطبوعہ دستیاب نہ ہونے کے سبب آڈیو کیسٹ سے صفحہ قرطاس پر لایا گیا ہے.آڈیو کیسٹ بھی اکثر مقامات سے خراب ہونے کی وجہ سے باوجود کوشش کے مکمل خطبہ تحریر نہیں کیا جا سکا جو حصے ضبط تحریر میں لائے جاسکے وہ درج ذیل ہیں.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بعض ذمہ داریاں انفرادی ہیں بعض جماعتی.جماعتی ذمہ داریوں میں سے بڑی اہم ذمہ داری تعلیمی منصوبہ کے نام سے جماعت یاد کرتی ہے...اس کی بہت ساری شقیں ہیں.میرا خیال ہے کہ جن اداروں یا سسٹم پر یہ ذمہ داری ابتدائی طور پر ڈالی گئی تھی ان میں سے بعض نے اس طرف کماحقہ توجہ نہیں دی.ویسے بھی ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے...اسوقت میں اس سلسلہ میں ، اس کی مختلف شقوں کا ، پہلوؤں کا ذکر کروں گا اور جو مرکزی ذمہ وار ہیں ناظر صاحب تعلیم ، ان کی جو ذمہ داری ہے کہ ہر مہینہ میں ایک دفعہ وہ مختلف مختصر جو عنوان میں اس وقت دہراؤں گا، عنوان دہرانے چاہئیں.ہاں اس کی یاد دہانی جماعت کو کرواتے رہیں..ہے کہ جب تک دنیائے اسلام..اس دنیا پر جو ابھی اسلام کے دائرہ میں داخل نہیں ہوئی، 09.

Page 398

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۴ خطبه جمعه ۸ /جنوری ۱۹۸۲ء علم کے میدان میں غلبہ حاصل نہیں کرتی اس وقت تک کامیاب تبلیغ ان میں نہیں کی جاسکتی ، دنیا کے اس حصہ پر جس پہ یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہو..جماعت پر یہ ذمہ داری تھی کہ جو خدا تعا لی کی عطا اس میدان میں فہم وفراست اور ذہن جو ہے اسے ضائع نہ ہونے دیں.میں نے کہا تھا کہ اگر ایک ہزار جینیس بچہ خدا ہمیں دے دے تو انہیں..ان کی صلاحیت اور استعداد کمال عطا جو اللہ تعالیٰ کی ہے اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں.یہ جائیدادیں تو آنی جانی ہیں.ایک اور ذمہ داری دولت کو صحیح استعمال کے متعلق ہے.جس کا تعلق اس وقت میرے اس خطبہ کے مضمون کے ساتھ نہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن کریم میں اعلان کیا کہ لا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاء (البقرة : ۲۵۶) اس لئے علم کا حصول اور اس کی نشو و نما کی بنیاد خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں پر ہے.(از آڈیو کیسٹ)

Page 399

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۵ خطبه جمعه ۱۵ جنوری ۱۹۸۲ء یہ حقیقت کا ئنات ہے کہ ہر شے اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ربوبیت کے احاطہ میں ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵ جنوری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس اللہ پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ رب العلمین ہے.اس کا ئنات کی ہر شے مخلوق ہے جسے اس واحد و یگانہ نے پیدا کیا اور ہر شے اپنے قیام کے لئے اس کی محتاج ہے اور اس کی ربوبیت کے دائرہ کے اندر آتی ہے.یہ کائنات جو ہے جس میں اس کی پیدا کردہ اشیاء ہر قسم کی موجود ہیں، اس میں بڑی وسعت ہے.انسان اپنی تمام ترقیات کے باوجود، اس کائنات کو اگر سمندر سے تشبیہ دی جائے تو ابھی کنارے پر کھڑا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سات آسمان مختلف خواص کے پیدا کئے گئے ان میں سے پہلے آسمان کی وسعت ستاروں کی حد تک ہے اور جو مہم ساعلم ان ستاروں کے متعلق انسان نے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ بے شمار یعنی جس کو انسان گن نہیں سکتا، گیلیکسیز ہیں، قبائل ستاروں کے اور ہر قبیلہ میں، ہر گیلیکسی میں بے شمار سورج ہیں اور ہر سورج کے گرد دوسرے ستارے گردش کر رہے ہیں اور جہاں ان کو اکب کی زَيَّنَا السَّمَاةِ الدُّنْيَا بِزِينَةِ إِنَّكَواكِبِ (الصفت : ۷) انتہا ہے وہاں پہلے آسمان کی انتہا ہے.

Page 400

خطبات ناصر جلد نہم ۳۸۶ خطبه جمعه ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۸۲ء تو ہر شے اپنے قیام کے لئے ، قائم رہنے کے لئے ایک تو اس نے پیدا کر دی نا جس کو ہم زندگی کہیں گے.وہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہے.اس نے زندگی دی ہر شے کو اس کے مطابق ، درخت کی اپنی زندگی ہے، پتھروں کی اپنی زندگی ہے مثلاً ہیرے کے متعلق کہتے ہیں کہ ہزاروں سال ذرات ارضی زمین کے ذرات جو ہیں، وہ تدریجی ارتقا کرتے ہوئے ہیرا بنتے ہیں.اگر وہ زندگی نہیں، کوئی تبدیلی ایسی نہیں جو اس آخری شکل تک اس کو پہنچانے والی ہے تو ہیرا بن ہی نہیں سکتا تھا.تو ایک تو یہ حقیقت کا ئنات ہے کہ ہر شے جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کی ربوبیت کے احاطہ میں ہے.اور یہ جور بوبیت ہے یہ توازن کے اصول پر ہے یعنی اتنی کثرت مخلوق کی ، جیسے میں نے بتایا کہ صرف ستارے جو ہیں وہ بھی کہتے ہیں بے شمار، شمار میں نہیں ہمارے آسکتے لیکن خالی ستارے تو نہیں.اس زمین کو لو.زمین میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں ان کا بھی کوئی شمار نہیں.آئے دن نئی سے نئی تحقیق جو ہے وہ نئی باتیں ہمارے سامنے لا رہی ہے.ذرے کے (جس کو ایٹم کہتے ہیں ہم، وہ ایٹم بم بھی بن گیا لیکن سائنس دان نے تسلیم کیا کہ ایٹم کے ) بہت سے ایسے خواص بھی ہیں جو ابھی تک ہمیں نہیں پتہ لگے ان کے اوپر تحقیق ہو رہی ہے.ایسی ہی ایک تحقیق پر ہمارے دوست ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل پرائز ملا لیکن جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تحقیق پہنچی وہاں ذرات کے خواص تو نہیں ختم ہو گئے.آنے والی نسلیں کچھ اور معلوم کریں گی پھر کچھ اور معلوم کریں گی.اس وقت جو میں بات بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس میں ایک توازن پایا جاتا ہے یعنی انتشار نہیں ہے بلکہ ہر چیز کا دوسری کے ساتھ تعلق ہے.اس کائنات کی ہر شے ہر دوسری شے سے ایک توازن کے اصول پر تعلق رکھتی ہے اور انسان ، نوع انسان ، نوع انسان سے مراد یہ ہے کہ وہ نوع جس کو اللہ تعالیٰ نے آزادی دی کہ اس کا ایک خاص دائرہ کے اندر حکم مانے یا نہ مانے ، اور نہ مانے تو اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو اور مان لیں تو اس سے اس کا پیار حاصل کریں اور اس کی رضا کی جنتوں میں وہ داخل ہو سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ صرف اس زمین میں اس قسم کی نوع نہیں

Page 401

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۷ خطبه جمعه ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۸۲ء بلکہ السَّماء الدنیا سب سے ورلا جو آسمان ہے اس میں جو کواکب ہیں اور بہت ساری جگہ اس قسم کی مخلوق ہے ہمارے جیسی آزاد، خدا کا پیار بھی حاصل کرنے والی ، اپنی غفلت اور گناہ اور خدا سے دوری کے راستوں کو اختیار کر کے اس کے قہر کا مورد بھی بننے والی ہے.تو یہ جو وسیع کائنات ہے یہ منتشر نہیں بلکہ ایک منطقی اکائی کی طرح بندھی ہوئی ہے ایک دوسرے سے.اس میں دو بڑی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں تو ازن کے اصول میں بندھی ہوئی، انسان اور انسان کے علاوہ ساری کائنات، ساری ہی کائنات انسان کو فائدہ پہنچانے کے لئے انسان کے ساتھ باندھ دی گئی ہے.سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) کوئی چیز بغیر استثناء کے ایسی نہیں جو انسان کے فائدہ کے لئے نہ ہو.تو اس ایک نقطے کے اوپر ساری کائنات ایک چیز بن جاتی ہے انسان کو فائدہ پہنچانے میں اور دوسری چیز انسان جسے وہ فائدہ پہنچا رہی ہے.پھر یہ ایک منطقی ہول ہے.میں ایک چھوٹی سی مثال لیتا ہوں.کائنات میں بارش ہے.انسان کھیتوں میں ہل چلاتا ہے.کوشش ہے انسان کی دانہ اگانے کی ، وہ بارش انسانی کوشش میں بڑی برکت ڈالتی ہے، اس کو فائدہ پہنچاتی ہے اور خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے انسان کی توجہ اس طرف مبذول کی کہ زمین کے پانی جو کھیتوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ آسمانی پانی جو بادلوں سے نازل ہوتا ہے وہ فائدہ پہنچاتا ہے.ہر صاحب فراست زمیندار اس کا مشاہدہ کرتا ہے.ہمارے سامنے کھل کے یہ باتیں بسا اوقات آئیں.مثلاً انسان اپنی غفلت سے بیمار ہوجاتا ہے تو کائنات میں لِكُلِ دَاءٍ دَوَاءِ ہر غفلت کے نتیجہ میں جو بیماری پیدا ہوتی ہے اس کے لئے تو بہ کا دروازہ کھلا ہے.بیماری اِذَا مَرِضْتُ انسان خود پیدا کرتا ہے اپنے لئے فَهُوَ يَشْفِينِ اور سامان علاج کا اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.تو باندھ دیا نا.ساری کائنات کو انسان کے فائدہ کے لئے باندھ دیا اور انسان کو ساری قوتیں اور استعداد میں عطا کیں جن کے نتیجہ میں وہ اس کائنات سے، جو اتنی وسعت رکھتی ہے،استفادہ حاصل کر سکے.اور یہ توازن کا جو اصول چل رہا ہے ہر شے میں جن کی کثرت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ، وہ

Page 402

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۸ خطبه جمعه ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۸۲ء متصرف بالا رادہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے، وہ قیومیت، وہ ربوبیت ہے، یہ نہیں کہ ایک اصول بنادیا اور پھر خدا تعالیٰ علیحدہ ہو گیا اپنی مخلوق سے.ذرے ذرے پر اس کا تصرف ہر آن جاری ہے اور اس کی دلیل اس نے ہمیں سمجھانے کے لئے یہ دی، قائم کی.ایک بیمار ہے، ایک اچھا ڈاکٹر ہے، صحیح تشخیص کرتا ہے.اس کی تشخیص کے مطابق جو دوا ہے اس کو اثر کرنا چاہیے، وہ نہیں کرتی.اس لئے نہیں کرتی ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عجیب رنگ میں اس پر روشنی ڈالی ) کہ خدا تعالیٰ حکم دیتا ہے دوائی کے خواص کو ( متصرف بالا رادہ ہے نا.اس کا ہی ارادہ چلے گا تفصیل میں بھی ) کہ تو نے اس شخص کی بیماری کے علاج کے لئے جو تیری خواص ہیں وہ اثر نہیں کرنا نہیں کرتی ، حکم کی بندی.اور انسانی جسم کے ذرات پر اس کا حکم نازل ہوتا ہے تم اس اثر کو قبول نہیں کرو گے.ڈاکٹر ہے، ماہر ہے، تشخیص ہے، صحیح ہے، دوا ہے، غلط نہیں اور اثر کوئی نہیں.پھر اس شخص کی تو بہ کو قبول کرتے ہوئے یا کسی اور نیک بندے کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ جو متصرف بالا رادہ ہے اسی دوا کے خواص کو حکم دیتا ہے کہ اب اس پر اثر کرو اور اسی بیمار کے جسم کے ذرات کو حکم دیتا ہے کہ اس اثر کو قبول کرو اور وہ اچھا ہو جاتا ہے.میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں سے بات کی کہ مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس کبھی ایسا مریض آیا کہ تم نے یقین کیا کہ معمولی مرض ہے.یہ سوال ہی کوئی نہیں اس کے مرنے کا.چند دنوں میں اچھا ہو کر چلا جائے گا اور مرجاتا ہے وہ.کہتے ہیں ہاں ، ایسا ہوتا ہے.میں نے کہا یہ بتاؤ کہ تمہارے کبھی ایسے مریض آئے کہ تم قسم کھانے کے لئے تیار تھے کہ یہ بچ نہیں سکے گا اور وہ بیچ جاتا ہے.انہوں نے کہا ہاں، ایسا ہوتا ہے.ہمارے اپنے شاہدین جو مبلغین ہیں، ان میں ایک کیس تھا.ڈاکٹر نے کہا زیادہ سے زیادہ سات دن ، آٹھ دن ، دس دن زندہ رہے گا.کینسر کا کیس، انتہا کو پہنچا ہوا.نظر بیکار ہو گئی ، شنوائی ختم ہوگئی ، زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا، دماغ جو تھا وہ Coma میں چلا گیا یعنی کوئی اس میں حس نہیں تھی.اس نے کہا لے جاؤ.گھر میں اپنے عزیزوں میں جائے اور وہاں جا کے وہ جان دے دے اللہ تعالیٰ کے حضور اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی.آج بھی وہ زندہ ہے ( یہ کئی سال پہلے کی بات ہے ) اور کام کر رہا ہے.

Page 403

خطبات ناصر جلد نهم ۳۸۹ خطبه جمعه ۱۵ جنوری ۱۹۸۲ء تو خدا تعالیٰ کا حکم ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز پہ بھی چل رہا ہے.بڑی عظیم ہستی ہے وہ اور توازن کو اس نے قائم رکھا ہے.جب توازن کو وہ متصرف بالا رادہ ختم کر دیتا ہے اور کہتا ہے توازن نہ رہے، خاص قسم کی ہلاکت پیدا ہو جاتی ہے اس کا ئنات میں.جو خدا میں نے ابھی بتا یا قیوم ہے، القیوم اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر شے کا جو دوسری شے سے تعلق ہے اس کو وہ قائم رکھتا ہے.ابھی میں نے جو مثال دی تھی اور اس کے نتیجے میں ہر شے کی پیدائش کا جو مقصد ہے اسے وہ پورا کرتا ہے.مثلاً اس نے ایک بوٹی بنائی جو کسی خاص مرض کی دوا تھی.تو اس خاصیت کو قائم رکھنا اس بوٹی میں ، یہ ہر آن ربوبیت کے جلوے اس چھوٹی سی بوٹی پر ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے ان خواص کو وہ قائم رکھتا ہے.انسان کو خدا تعالیٰ نے ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا اور ہر چیز کو اس مقصد کے حصول کے لئے مد اور معاون بنا کے پیدا کیا.صحت اچھی ہو ، دماغ چوکس ہو ، قلب سلیم ہو ، سینہ میں نور ہو.تمام اشیاء اس کائنات کی اس طرف انسان کو لے جانے والی ہیں لیکن اس کا اپنا نفس جو ہے اس کے اندر ایک طاقت رکھی جو بغاوت کرے کائنات سے اور کائنات کے رب سے ، رب العلمين سے اور اپنے لئے جہنم کی راہوں کے دروازے کھولے اور ان پر وہ چلنا شروع کر دے.جو نیکی کرتے ہیں یعنی جو مقصد ہے ساری اس کائنات کی پیدائش کا وہ یہ ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ (التريت : ۵۷) میرے بندے بہنیں اور ہر چیز کا ئنات میں پیدا کر دی اس مقصد کے حصول کے لئے اور ہر طاقت اور صلاحیت انسان کو دے دی اس مقصد کے حصول کے لئے دے دی اور اس کے لئے فرمایا.سَابِقُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحدید: ۲۲) اے لوگو! تم اپنے رب کی طرف سے آنے والی مغفرت اور ایسی جنت کی طرف تیزی سے بڑھو ( سَابِقُوا ) یعنی ساری اشیاء کا استعمال اس طرح کرو، اپنی صلاحیتوں کی نشوونما، پرورش اس طرح کرو، ان کا استعمال اس طرح کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مغفرت اور ایسی جنت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہو جس کی قیمت ووسعت،

Page 404

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۰ خطبه جمعه ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۸۲ء ، آسمان اور زمین کی قیمت کے برابر ہے اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے تجویز کی گئی ہے یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جس کو پسند کرتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑا فضل والا ہے.جنت کا تصور قرآن کریم نے یہ بیان کیا کہ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ یہ تو چھوٹی سی ایک زمین ہے نا ہماری، اس کے کناروں تک بھی کم ہی آدمی پہنچتے ہیں لیکن جنت کی وسعت تو زمین و آسمان کی وسعت یعنی جس تک ابھی انسان کا تصور بھی نہیں پہنچا، وہ وسعت ہے.اب میں اس جگہ پہنچا ہوں جو اصل تمہید کے بعد میرا مقصد تھا بیان کرنا.اب اس جنت کی وسعت کو دیکھیں.ایک شخص فوت ہو گیا اس کی بیوی زندہ ہے.بیوی فوت ہوگئی خاوند زندہ ہے اور ہر دو کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جنت میں پہنچا دیا اپنے اپنے وقت پر.تو وہ جو بعد میں جانے والی روح ہے وہ اتنی وسیع جنت میں اپنے ساتھی کو اپنے زور سے کیسے تلاش کرے گی ؟ کر ہی نہیں سکتی خواہ کتنی ہی خواہش ہو اس کے دل میں کہ اس جنت میں بھی اکٹھے رہیں.خواہش نہیں پوری ہوسکتی جب تک اللہ تعالیٰ اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ اور حکم نہ کرے.خدا تعالیٰ کو ناراض کر کے خدا تعالیٰ کا نہ پیار حاصل کیا جا سکتا ہے، نہ اپنی خواہشات کو جن میں کوئی بدی اور برائی نہیں، پورا کیا جاسکتا ہے.یہ حقیقت ہے اس کائنات کی.اس واسطے ہر وہ شخص جو جنت میں جانا چاہتا ہے اسے خدا تعالیٰ کا دامن مضبوطی سے پکڑنا پڑے گا اور جو شخص یہ چاہتا ہے کہ جنت میں جاکے اس کے پیارے اس کو ملیں ، خدا تعالیٰ کے پیار کو اسے حاصل کرنا پڑے گا پہلے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر اور اس کی رضا کے بغیر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی.اس واسطے کسی جانے والے پر اس قسم کی حرکات اسلام نے جائز قرار نہیں دیں کہ جو خدا تعالیٰ کو پیاری نہیں اور جتنی زیادہ کسی کے دل میں یہ تڑپ ہوگی مثلاً میرے دل میں ہے کہ جب میں اس جہان سے جاؤں تو منصورہ بیگم اور میں ، ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں.میں جانتا اور سمجھتا ہوں کہ میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا حکم نہ ہوا اور خدا تعالیٰ کا حکم میرے حق میں نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو راضی نہ کروں.اس واسطے اصل چیز تو یہ ہے کہ بغیر کسی خواہش کے کہ کوئی بدلہ خدا دے خود اتنا حسین اور نورانی وجود ہے اور اتنے اس کے ہمارے اوپر احسان ہیں کہ اس کو پانے کے لئے ، اس کی رضا

Page 405

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۱ خطبه جمعه ۱۵ /جنوری ۱۹۸۲ء کے لئے سارے اعمالِ صالحہ کرنے چاہئیں لیکن اس نے ہمارے دل میں خواہشات بھی رکھیں ہم نے خود تو نہیں پیدا کیں.نیکی کے راستوں پر آگے بڑھنے کی خواہش کوئی انسان نہیں پیدا کر سکتا اپنے اندر جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو.ایک جگہ فرمایا کہ ہم نے تو چاہا تھا بعض لوگوں کے متعلق کہ ان کو رفعتیں عطا کریں مگر وہ زمین کی طرف جھک گئے.تو یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کا کہ کوئی شخص رفعت حاصل کرے، یہ تبھی پورا ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو جس کے متعلق ارادہ ہو یہ طاقت اور صلاحیت عطا کی جائے کہ وہ رفعتیں حاصل کر سکے اور اپنی رحمت اور فضل سے اس کو توفیق دے کہ اپنی صلاحیتیں اور استعدادیں خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق وہ استعمال کر رہا ہو.اس واسطے جب ہم یہ سوچتے ہیں اس مضمون کو جو قرآن کریم میں بیان ہوا تو یہ جو جدائی ہے اس کو غلط پہلو سے نہیں دیکھتے بلکہ اس صحیح پہلو سے دیکھتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اور بھی زیادہ اچھا بننا چاہیے.خدا تعالیٰ کے حضور اور بھی زیادہ مجاہدہ کر کے قرب حاصل کرنا چاہیے اور ہجرت، اہوائے نفس کی بدیوں سے، اس کی طرف توجہ کر کے اور اپنے نفس کو پاک کرنے کی خدا کے حضور دعا کرنے کے نتیجہ میں کوشش کرنی چاہیے کیونکہ وہ پاک تو جب تک پاک کسی کو بنانے کا ارادہ نہ کرے کوئی انسان پاک نہیں بن سکتا.اس واسطے یہ تو سلسلہ جاری رہے گا.اصل چیز پھر یہ ہماری زندگی میں بن گئی اس جدائی کے بعد کہ دل میں یہ تڑپ ہو کہ ہم جنت میں جائیں، ہم اکٹھے ہو جا ئیں اور اپنے زور سے آپ کی روح ان وسعتوں میں اپنے ساتھی کو ڈھونڈ بھی نہیں سکتی ، وہاں پہنچ بھی جائیں تب بھی جب تک اللہ تعالیٰ فیصلہ نہ کرے.تو خدا تعالیٰ کے حضور اور زیادہ جھکیں اور اپنی زندگی کے مقصد کو پانے کی کوشش کریں اور خدا کرے کہ آپ اپنی زندگی کے مقصد کو پالیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیں.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 406

Page 407

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۳ خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ء اجتماعی زندگی اور بقا کے لئے ضروری ہے کہ جانے والوں کی قائمقام نسل پیدا ہو خطبه جمعه فرموده ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - وَالَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُم اَحْسَنُ عَمَلًا - (الملك : ٢، ٣) اور پھر فرمایا:.انسانی زندگی میں زندگی ، موت اور ابدی زندگی کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری کیا اس کا ایک تعلق تو افراد سے ہے اور ایک بڑا ہی اہم تعلق جماعت سے ہے یا اُمت مسلمہ سے ہے.اُمتِ مسلمہ نے اپنی چودہ سو سالہ زندگی میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا تھا کہ اجتماعی زندگی ، اُمت مسلمہ کی زندگی اور بقاء کے لئے یہ ضروری ہے کہ جانے والوں کے بعد ان کی قائم مقام نسل پیدا ہوتی رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ زمانہ جسے فیج اعوج کا زمانہ کہا جاتا ہے جس زمانہ میں بظاہر اسلام انتہائی کمزوری اور تنزل میں ہمیں نظر آتا ہے اس زمانہ میں بھی ٹھاٹھیں مارتے دریا کی طرح خدا تعالیٰ کے مقربین کا گروہ ہمیں نظر آتا ہے.امت مسلمہ نے کبھی یہ نعرہ نہیں لگایا کہ خالد مر گئے اور ان کے بعد کوئی

Page 408

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۴ خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۸۲ء خالد پیدا نہیں ہوگا، محمد بن قاسم اس جہان کو چھوڑ کے چلے گئے اور اب اُمت مسلمہ محمد بن قاسم جیسے انسانوں سے محروم رہے گی یا طارق آئے ، اور چھوٹی عمر میں اور تھوڑے سے زمانہ میں انہوں نے ایک عظیم کام کیا.ایک عظیم خدمت ، دینِ اسلام کی کی.اس کے بعد اب کوئی طارق پیدا نہیں ہوگا بلکہ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ رسول ہیں اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں قیامت تک خالد، محمد بن قاسم اور طارق پیدا ہوتے رہیں گے.ایسے جاں شمار کہ اپنے جذبۂ جان شاری کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی معجزانہ تائید ان کو حاصل ہوگی اور اسلام کے انقلاب عظیم کے لئے وہ کار ہائے نمایاں کرتے چلے جائیں گے جیسا کہ ایک عربی شاعر إِذَا سَيدٌ مِنَّا خَلَا قَامَ سَيْدُ نے کہا ہے.کہ جب ہمارا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو ویسا ہی ایک اور سردار کھڑا ہو جاتا ہے اس کی جگہ لینے کے لئے.تو جن جماعتوں میں (اُمتِ مسلمہ کی ) ہمیں تنزل یا کمزوری نظر آتی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے تھے اور جانے والوں کے قائم مقام کم از کم اس قسم کے نہیں تھے جس قسم کے کہ جانے والے تھے ویسے تو جب ضرورت بڑھی تو خدا تعالیٰ کی تائید نے ہر کام کرنا تھا ایسے لوگوں کے لئے تائیدات الہی بھی بڑھ گئیں اور جہاں تلوار سے اسلام کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی وہاں خالد جیسے محمد بن قاسم جیسے اور طارق جیسے اسلام کو خدا نے دیئے ، لیکن اسلام کی طاقت اور اسلام کی یہ خوبی کہ اس میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے اس کا تعلق تلوار سے نہیں، اس کا تعلق ان اخلاق سے ہے کہ جو خلق عظیم کی پیروی کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے.اس کا تعلق اس نوراور حسن سے ہے جو اسلام میں پایا جاتا ، جس پر فدا ہونے والے ان پروانوں سے کہیں زیادہ ایثار اور قربانی کا جذ بہ رکھتے ہیں جو شمع پر اپنی جان دیتے ہیں اور نور خدا سے لے کر نور پھیلانے والےاور حسن سے خوبصورتی حاصل کر کے دنیا کی فضا کو خوبصورت بنانے والے اور معاشرہ میں حسن پیدا

Page 409

خطبات ناصر جلد نہم کرنے والے بن جاتے ہیں.۳۹۵ خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ء جہاں ، جس وقت ، جس گروہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس حقیقت کو وہ بھول گئے وہاں ہمیں کمزوری اور تنزل بھی نظر آنے لگتا ہے.اس اہم بات کی طرف اس وقت میں جماعت کو تو جہ دلا نا چاہتا ہوں.جوانسان پیدا ہوتا ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے، کام کے لائق نہیں رہتا یا فوت ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے اپنے اعمال کی جزا پاتا ہے لیکن الہی سلسلہ کو جس نے ساری دنیا میں دین الحق کو غالب کرنا ہے ان کے قائم مقام ملتے رہنے چاہئیں، اگر پہلوں سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم پہلوں جیسے.میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ عرصہ سے جماعت ( یہ جماعت کی اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے ) اس طرف توجہ نہیں دے رہی اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر ہم نے فوری اس طرف توجہ نہ دی تو ایک بڑا خطرناک دھکا بھی لگ سکتا ہے، نقصان بھی پہنچ سکتا ہے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو.عارضی طور پر ہو گا کیونکہ خدا کا منصوبہ نا کام نہیں ہوا کرتا.کمزوری دکھانے والے ایک حصہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اپنے ماحول میں.جو بات دس سال میں ہونی ہے وہ پندرہ سال میں ہو جائے گی، ہیں سال میں ہو جائے گی لیکن کامیاب تو خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہی ہوگا اور آج منصو بہ یہ ہے کہ سلسلہ عالیہ احمد یہ جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق نے قائم کیا جس کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس قدر تھی کہ قیامت تک کے علماء اور بڑے بڑے بزرگ اور آپ سے فیض حاصل کر کے روحانی رفعتوں کو حاصل کرنے والے وہ کروڑوں جو آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ان میں سے اس ایک کو چنا اور اسے سلام پہنچایا اپنا.یہ عظیم اور دین الحق کو اپنے انتہائی عروج تک پہنچانے والا سلسلہ قائم کیا گیا ہے.اس کے لئے واقفین زندگی چاہئیں اور جلد چاہئیں.جلد سے میری یہ مراد نہیں کہ آج شام سے قبل، چھ مہینے سال لگ جائے گا.جو پڑھ رہے ہیں نوجوان، وہ غور کریں وہ اپنی زندگیوں کی حقیقت کو سمجھیں ، وہ اپنے مقام کی عظمت کو پہچانیں.دنیا اگر ان کو دس لاکھ روپے ایک Million (ملین ) ماہانہ بھی دے تو ان کی وہ عزت قائم نہیں ہوتی جس قدر وہ عزت جو خدا کی راہ میں حقیقی وقف کی روح پیدا

Page 410

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۶ خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ء کر کے اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں پیار دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے.تو بی.اے اور ایم.اے یا بی.ایس سی اور ایم.ایس.سی (میں سمجھتا ہوں کہ ) درجنوں ہمیں چاہیں اس وقت.اس لئے کہ پہلے تھوڑے آدمی کام کر لیتے تھے، تھوڑا کام تھا.پہلے بوڑھے بھی کام کر لیتے تھے کیونکہ بوجھ کم تھا کام کرنے والے پر لیکن خدا نے فضل کیا.وہ ایک جسے ساری دنیا نے دھتکار دیا تھا، ایک کروڑ سے زیادہ بن گیا تو ایک کا کام جو تھا وہ کروڑ گنے زیادہ بھی تو ہو گیا.تو اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لئے ہمیں واقفین چاہئیں پڑھے لکھے.پہلی شرط.اخلاص رکھنے والے.دوسری شرط.اخلاص کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا کچھ مطالعہ کر چکے ہوں اور باقی ہم ٹریننگ دیں گے.تیسرے.ان کو اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق تربیت دی جائے گی مثلاً کسی کو ایک سال کی تربیت اگر ہم سمجھیں گے کہ یہ اب قابل ہو گیا ہے بوجھ اٹھانے کے کسی کو دو سال کی تربیت ،مگر چاہیے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی ایک حد تک معرفت رکھنے والا ہو اور جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے عشق کا جذبہ پایا جائے ، جس کے سینے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت لہریں لے رہی ہو ، جو ہر وقت ہر آن ہر گھڑی اپنی زندگی میں اپنے نفس کو بھول کر صرف خدا اور محمد کو یا درکھتا ہو، تو ایسے لوگ آگے آئیں.ایسے بچوں کو ماں باپ پیار اور محبت کے ساتھ اور اس حقیقت کو بتاتے ہوئے آگے لائیں.پھر بہت سی چیزیں اور بھی دیکھنی پڑیں گی اور بعض کو جماعت قبول کر لے گی دعاؤں کے بعد اور بعض کو وقتی طور پر یا مستقل طور پر رد کر دے گی.مختلف حالات پیدا ہوتے ہیں.ایک سال دو سال لگ جائیں زیادہ سے زیادہ لیکن آنے شروع ہو جانے چاہئیں بی.اے ، ایم.اے نوجوان.نوجوان سے میری مراد ہے کہ ایسابی.اے یا ایم.اے جس کو ایم.اے اور بی.اے کا امتحان پاس کئے ہوئے پانچ سات سال سے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو.میں نے وقف بعد ریٹائر منٹ کی ایک سکیم چلائی تھی لیکن حالات دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر وہ سارے واقفین غالباً سو سے بھی زیادہ ہیں جنہوں نے وقف کیا ہے لے بھی

Page 411

خطبات ناصر جلد نہم ۳۹۷ خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۲ء لئے جائیں تو جماعت کا کام نہیں ہوتا.اس لئے کہ جس وقت وہ ریٹائر ہوتے ہیں تو اپنی طاقت اور استعداد اور زور اور ہمت کا بہت سارا حصہ کسی اور پر قربان کر چکے ہوتے ہیں جہاں وہ نوکری کر رہے ہیں.طاقت اور ہمت کے لحاظ سے (صرف ایک لفظ لے کے مثال دے رہا ہوں تا کہ آپ سمجھ جائیں) وہ اپنے وجود کے پچاس فیصد ہوتے ہیں اس وقت یا چالیس فیصد ہوتے ہیں یا تیس فیصد ہوتے ہیں.وہ اپنی طاقت اور ہمت کے لحاظ سے اپنے وجود کے سو فیصد بہر حال نہیں ہوتے.بعض بیماریاں ہیں جو اپنی ہی غلطیوں کے نتیجہ میں بڑی عمر میں ظاہر ہوتی ہیں.ان کے آثاران کے اندر پیدا ہو چکے ہوتے ہیں.گھٹنے کی درد ہے، اعصاب کی کمزوری ہے اور اس قسم کی بہت سی بیماریاں ہیں جن کا تعلق غلط کھانے ، غلط بوجھ برداشت کرنے ، غلط عادتیں پڑ جانے کے نتیجہ میں بڑی عمر میں ظاہر ہوتی ہیں.بہر حال اگر ان میں اخلاص ہو تو کچھ نہ کچھ کام لیا بھی جاسکتا ہے نہیں بھی لیا جا سکتا لیکن میں ان کی بات اس وقت نہیں کر رہا.میں تو اس احمدی نوجوان کی بات کر رہا ہوں جوخدا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ، ان کے معیار کے مطابق بچے اور حقیقی احمدی ہیں اور مُؤْمِنُونَ حَقًّا کے گروہ میں یا شامل ہیں یا پورا جذ بہ رکھتے ہیں کہ اس میں شامل ہو جا ئیں.تو جماعت کوشش کرے اور اس ضرورت کو پورا کرے ورنہ کوئی اور قوم کھڑی ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہے کامیاب ضرور ہوگا اگر پاکستان نہیں دے گا ، اگر ہندوستان نہیں دے گا، اگر موجودہ جو جماعت ہے وہ نہیں دے گی تو نئے آنے والے دیں گے، نئے آنے والے کئی بہت آگے نکل جاتے ہیں.بعد میں آتے ہیں مگر پہلے آنے والوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں مگر ہر احمدی کے دل میں یہ خواہش ہونی چاہیے کہ بعد میں آنے والا اس سے آگے نہ نکلے ورنہ تو زندگی کا مزہ ہی کوئی نہیں اگر ہم نے اسی طرح بعد میں آنے والوں سے شکستیں کھا کھا کے خدا کے حضور پہنچنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ اور فراست عطا کرے.آپ کی نوجوان نسل کو ایمان ، اخلاص اور ایثار

Page 412

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۸ خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۸۲ء عطا کرے اور عزم اور ہمت دے اور ان کو وہ نور عطا کرے جس کے نتیجہ میں وہ اس حقیقت کو سمجھنے لگیں اور اپنی جانیں اس کے حضور پیش کر دیں جس کے حضور سے (اللہ تعالیٰ ) انہوں نے ابدی زندگی اس کی رضا کی جنتوں میں حاصل کرنے کی خواہش رکھی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ فروری ۱۹۸۲ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 413

خطبات ناصر جلد نهم ۳۹۹ خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۲ء اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خوشی کا سامان پیدا کر دیا اور ایک پیارا سالڑ کا ہمیں عطا کیا خطبه جمعه فرموده ۵ فروری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.حقیقی صبر کامل تو گل کو چاہتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا لَنَا اللَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ (ابراهیم : ۱۳) کہ ہمیں کچھ ہو تو نہیں گیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہوئے اس پر تو گل نہ کریں اور اس کے ساتھ ہی بعض مقامات پر وَ لَنَصبِرَن آ گیا اور اس لئے ہم صبر کرتے ہیں.صبر کے کئی معانی ہیں اس لئے ہم خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرتے ہیں.استقامت کے ساتھ اس دین پر قائم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا.ہم صبر کرتے ہیں اس ابتلاء اور امتحان کے وقت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے آتا ہے کہ وہ دیکھے کہ ہم نے اس کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے یا نہیں.کائنات کی اور انسانی زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ جو ملتا ہے اللہ سے ملتا ہے اور بظاہر جس چیز کوڈ نیوی نگاہ تکلیف دہ پاتی ہے اس کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سمندر موجزن ہوتا ہے وہ آزماتا بھی ہے ایسے حالات پیدا کر کے ، وہ آزماتا بھی ہے خوشیوں کے سامان پیدا کر کے بھی.

Page 414

خطبات ناصر جلد نهم ۴۰۰ خطبه جمعه ۵ رفروری ۱۹۸۲ء ابھی ایک حادثہ گزرا ، سخت ہے وہ لیکن جو تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا ہوتا ہے، ایسی ہزار قربانیاں بھی دینی پڑیں تو اس تعلق کو تو قطع نہیں کیا جا سکتا نہ وہ تعلق قطع ہوسکتا ہے.پھر وہ خوشی کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے اور پچھلی پیر ( یکم فروری ) کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ایک خوشی کا سامان پیدا کر دیا.ایک پیارا سالڑ کا ہمیں عطا کیا.جس کا نام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ رکھ گئے تھے.ابھی لقمان چھوٹا تھا، کم عمر اور اس کا بھائی فرید قرآن کریم پڑھ رہا تھا.مکرم مولوی ارجمند خاں صاحب مرحوم سے.تو یہ آیت اس وقت آگئی پڑھتے ہوئے اِذْ قَالَ لقُمنُ لِابْنِهِ (لقمن : ۱۴) لقمان بہت چھوٹا تھا.تو یہ غصے میں آ کے کہنے لگا یہ میرا نام کیوں لے رہے ہیں مجھے چڑانے کو؟ مولوی صاحب نے کہا میاں ! یہ تمہارا نام نہیں لے رہا، یہ قرآن کریم کی آیت پڑھ رہا ہے.تو لقمان اپنے بچپنے میں کہنے لگا کہ اس وقت میں کوئی تھا؟ تو حضرت صاحب رضی اللہ عنہ کو جب لطیفہ سنا یا ہم نے تو بہت ہنسے اور پھر نام رکھنے شروع کئے اس کے بیٹوں کے، چھ ،سات نام رکھ دیئے ، رضوان ، عثمان ، عمران ، عدنان ، سلمان ، عرفان.وہ نام نوٹ کئے ہوئے تھے تو رضوان تو جو پہلا اس کا لڑکا تھا، اس کا نام رکھا گیا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی پریشانیوں کو بھی دور کرے، وہ پریشانیاں بھی جن کا اسے احساس ہے اور وہ بھی جن کا اس عمر میں اسے احساس نہیں پیدا ہو سکتا.اور جب اس دوسرے بیٹے کے نام رکھنے کا سوال پیدا ہوا، مجھے خیال آیا کہ نام تو بہت سارے رکھے ہیں اگر ان میں سے خود میں انتخاب کروں.پھر میرا بھی حصہ بیچ میں آجائے گا نا انتخاب میں.تو میں نے کہا کہ اس طرح نہیں نام رکھتے بلکہ قرعہ ڈالتے ہیں.تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو نام رکھے تھے، ایک تو رکھا جا چکا تھا رضوان، باقی جو تھے ان کو پرچیوں پہ لکھ کے قرعہ نکالا تو ”عثمان “ نکلا تو عثمان نام رکھا گیا.میں نے اس سے پہلے ذکر نہیں کیا تھا کہ میری خواہش ہے کہ میں عثمان رکھوں یعنی ان ناموں میں سے عثمان کا انتخاب کروں.میں نے باپ سے پوچھا تھا کیا نام رکھنا ہے؟ تو لقمان کہنے لگا جو آپ کی مرضی.تو میں نے سوچا کہ جو آپ کی

Page 415

خطبات ناصر جلد نهم ۴۰۱ خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۲ء مرضی یہ کہ رہا ہے تو میں بھی اپنے باپ کو کہوں جو آپ کی مرضی قرعہ نکال لیتے ہیں تو قرعے میں یہ نام رکھا گیا اور اللہ تعالیٰ نے خوشیوں کا سامان پیدا کیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِ حَالَ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رب العلمين سب تعریفیں اسی کی طرف رجوع کرتی ہیں.جماعت اور خلیفہ وقت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.یورپ میں بھی میں نے بعض دفعہ اعلان کیا اس کا بعض سوالوں کے جواب میں.تو خلافت کی وساطت سے وہ اس خوشی میں بھی شامل ہوئے جو ذاتی بھی ہے.اور خدا تعالیٰ کرے کہ دین کے خادم ہوں سب بچے، یہ بھی ان میں سے ہو.خدا کرے کہ وہ ذریت طیبہ جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں کیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس نھی جان کو عمرہ صحت کے ساتھ اس ذریت طیبہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا کرے.آمین.جس رنگ میں میرے بھائیوں نے اور بہنوں نے اس خوشی میں شرکت کی ہے میں الفاظ نہیں پاتا کہ ان کا شکریہ ادا کروں خصوصاً اہلِ ربوہ نے جس رنگ میں خوشی کا اظہار کیا.دعا کرسکتا ہوں ، دعا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو احسن جزا دے اور آپ کے گھروں کو بھی نیک اور پاک اولاد سے، طیب ذریت سے معمور کر دے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۶ / مارچ ۱۹۸۲ء صفحه ۳،۲)

Page 416

Page 417

خطبات ناصر جلد نهم ۴۰۳ خطبه جمعه ۱۹ / فروری ۱۹۸۲ء جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر دنیا کے ہاتھ میں پہنچائے خطبه جمعه فرموده ۱۹ فروری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت كافة للناس ہے یعنی نوع انسانی کی طرف دنیا کے کسی خطے میں انسان بستا ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس کی طرف بھی ہے اس کی خوشحالی اور بہبود کے لئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کے ہر فرد کے لئے بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں اور یہ جو بشیر ہونا ہے آپ کا ، اس قدر بشارتیں ہیں انسان کے لئے اس کلام الہی میں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ان بشارتوں کا تعلق اس ورلی زندگی سے بھی ہے اور ان بشارتوں کا تعلق اس ابدی زندگی کے ساتھ بھی ہے جو انسان کو اس دنیا سے کوچ کرنے کے بعد ملتی ہے.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نذیر بھی ہیں مومنوں کے لئے بھی نذیر ہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے بھی نذیر ہیں.عام طور پر جہاں مضمون قرآن کریم کا اجازت نہ بھی دیتا ہو بَشِيرًا وَنَذِيرًا کے

Page 418

خطبات ناصر جلد نهم ۴۰۴ خطبہ جمعہ ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء معنے یہ کر دیئے جاتے ہیں کہ مومنوں کے لئے بشیر اور کافروں کے لئے نذیر لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت جب قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئی وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (سبا: ۲۹) تو یہ بشیر و نذیر مومن و کافر کے لئے ہیں.اس کی وضاحت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف میں فرمایا انسان کو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۱۸۹) میں نذیر بھی ہوں اور بشیر بھی ہوں مومنوں کے لئے.نذیر ہونا، ہوشیار کرنا، انتباہ کرنا مومن کو اور ہے کافر کو اور.یہ تو تسلیم لیکن یہ سمجھنا کہ آپ بشیر صرف مومن کے لئے ہیں اور نذیر صرف کافر کے لئے ہیں ، یہ غلط ہے.قرآن کریم کی آیات اس کی توثیق نہیں کرتیں.کافروں کو یہ بشارت دی کہ اگر اس زندگی میں بھی تم خوشحالی اور امن اور سکون کی زندگی چاہتے ہوتو تمہیں قرآن کریم پر ایمان لانا پڑے گا اور ایمان لاؤ گے تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا.قرآن کریم نے ان کو یہ بشارت بھی دی کہ اس زندگی کے بعض معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق روحانیت سے نہیں بلکہ محض ورلی زندگی کے ساتھ ہے اور ان معاملات میں اگر تم خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو گے جو قرآن کریم نے بتایا تو تمہیں اس کا نتیجہ مل جائے گا.صرف اس وجہ سے کہ تم قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے اپنے اس عمل کے نتیجہ سے تم محروم نہیں کئے جا سکتے مثلاً فرما یا لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى - وَ أَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُرى (النجم :۴۱،۴۰) اب جس میدان میں غیر مسلم نے یعنی علمی میدان میں اور زندگی کے ان شعبوں میں جن کا براہ راست (ویسے تو ہر چیز کا تعلق روحانی زندگی سے ہے لیکن براہِ راست ) روحانی زندگی سے تعلق نہیں تھا جب کوشش کی تو انہیں نتیجہ مل گیا.یہ سائنس کی ساری ترقیات خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے نتیجہ میں ملیں جو اللہ تعالیٰ نے دنیوی سعی کو مقبول کر کے اپنی رحمت ان پر نازل کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سائنس دان ایک ایسا وقت دیکھتے ہیں اپنی زندگی میں کہ جو کوشش کر رہے ہیں علمی میدان میں اندھیرا آ جاتا ہے سامنے اور ان کو کچھ پتہ نہیں

Page 419

خطبات ناصر جلد نهم ۴۰۵ خطبہ جمعہ ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء لگتا کہ ہم آگے کس طرح بڑھیں تو ان کی یہ تڑپ جو ہے کہ آگے بڑھیں کیونکہ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي 669 السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) میں کم “ سارے انسانوں کے لئے کہا گیا ہے.تو اندھیرے میں وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ اس تڑپ کو دعا قرار دے کے اور ان کی اس تڑپ کے نتیجہ میں اس مجوب کی جو دعا ہے کہ خدا تعالیٰ کو جانتا بھی نہیں لیکن دعا کی کیفیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے اسے قبول کرتا اور اس کے لئے روشنی پیدا کر دیتا ہے.تو قرآن کریم کی تعلیم اور ہدایت اور وہ راہیں جو ترقی کے لئے قرآن کریم نے بیان کیں اس دنیا میں بھی مومن و کافر کے لئے بشارتیں بھی رکھتی ہیں اور انذار کا پہلو بھی رکھتی ہیں یعنی اگر صحیح راہ کو اختیار کرو گے فلاح پاؤ گے.اگر صحیح راہ کو اختیار نہیں کرو گے نا کام ہو جاؤ گے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رحمتوں سے بھر پورا حسان جو ہے وہ صرف نوع انسانی پر نہیں بلکہ عالمین پر ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) لیکن چونکہ انسانی زندگی سے باہر ہر شے انسان کی خدمت کے لئے مامور ہے اس لئے زیادہ فائدہ اس رحمت سے نوع انسانی حاصل کرتی ہے اور نبی کریم رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا جو رنگ اپنے پر چڑھایا تو بہت ساری روشنیاں آپ کی ہستی اور وجود سے باہر نکلیں تو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ اس لئے بنے کہ خدا تعالیٰ نے اعلان کیا تھا کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷ ) میں رحیم ہوں ، رحمان ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.اس واسطے وہ ایک جو کامل طور پر میر اعکس بنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وہ رَحْمَةً لِلعلمین بن گیا اور اس رحمت کے جلوے انسانی زندگی پر جو ظاہر ہوتے ہیں ان کا بیان قرآن کریم میں ہے ان ساری باتوں پر غور کر کے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر انسان کا یہ حق قائم کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ اسے قرآن کریم کی تعلیم حاصل ہو اور اس تک قرآن کریم کا حسن اور انوار پہنچائے جائیں اس لئے قرآن کریم کی اشاعت ضروری ہوگئی.ہر صدی میں حتی المقدور اپنی طاقت کے مطابق اُمّت مسلمہ کے اولیاء قرآن کریم کے نور اور

Page 420

خطبات ناصر جلد نهم ۴۰۶ خطبہ جمعہ ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء حسن کو غیر مسلموں میں پھیلانے کی کوشش کرتے رہے اور اسی کے نتیجہ میں اور اس پیار اور اس خدمت اور ان اخلاق کے نتیجہ میں لاکھوں کروڑوں کے دل خدا تعالیٰ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چودہ سو سال میں جیتے گئے لیکن اسلام کی ترقی اپنے عروج کو ابھی نہیں پہنچی تھی ان تمام عظیم کوششوں کے باوجود اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بشارتوں میں یہ اطلاع بھی دی تھی کہ اس زمانہ میں جس میں مہدی اور مسیح تیرے ایک روحانی فرزند ، تیرے ایک فدائی خادم کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور اس زمانہ میں پھر ساری دنیا میں اسلام کامیابی کے ساتھ پھیلے گا.یہی وہ زمانہ ہے اس لئے جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ قرآن کریم ، صحیح تفسیر اور معنی اور مفہوم کے ساتھ ، ساری دنیا کے انسانوں کے ہاتھ میں پہنچائے اور ساری دنیا کے ہاتھ میں قرآن کریم کی تعلیم پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہوا یا ترجمہ جو خدا تعالیٰ کے نزدیک صحیح بھی ہو اور مقبول بھی ہو اور برکتوں والا بھی ہو اور تاثیر رکھنے والا بھی ہو.اس کے لئے جماعت نے شروع سے ہی کوشش کی اور بہت سی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ جنہوں نے ان کو پڑھا، اثر قبول کیا اور قرآن کریم کی عظمت کو پہچانا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول میں یہ تراجم ممد و معاون ہوئے لیکن ابھی کام ختم نہیں ہوا کیونکہ بیسیوں زبانیں ایسی ہیں جن میں ابھی تراجم جماعت احمدیہ کی طرف سے اور تفسیر قرآن کریم کی نہیں ہوئی اور ان زبانوں کے بولنے والوں کے ہاتھ میں ابھی تک ہم نے قرآن کریم صحیح معنی اور صحیح تفسیر کے لحاظ سے نہیں دیئے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا میں جو کثرت سے بولی جانے والی زبانیں ہیں پہلے انہی کو لینا چاہیے تاکہ زیادہ ہاتھوں میں کم وقت میں قرآن کریم اپنی پوری عظمت اور شان کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پہنچ جائے.میں نے جلسہ سالانہ پر بھی بتایا تھا کہ سپینش زبان میں جو ساؤتھ امریکہ اور سپین کی زبان ہے پورچوگیز زبان بھی اس سے ملتی جلتی ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ جو پرتگالی زبان بولنے والے ہیں وہ سپینش زبان بھی سمجھ جاتے ہیں.پھر فرانسیسی ہے

Page 421

خطبات ناصر جلد نہم ۴۰۷ خطبہ جمعہ ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء ایک وقت میں ان کی بڑی Colonies ( کالونیز ) تھیں.کالونیز کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہوں گا.میرا یہ مضمون نہیں لیکن اس کے نتیجہ میں انگریزی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان روس اور چین کو علیحدہ کر دیں اگر ، تو فرانسیسی تھی ، تیسری امیلین زبان کے بعد Russion (رشین ) اور Chinese (چائنیز ) زبان کے ترجمے انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ توفیق دے مجھے جب تک میں زندہ ہوں اور جماعت کو جو قیامت تک زندہ رہنے کی بشارتیں اپنی جھولیوں میں رکھتی ہے کہ وہ ترجمے بھی جلد سے جلد شروع ہو جا ئیں.میں آج یہ بتانے لگا ہوں کہ ان تین زبانوں کے ترجموں پر کام شروع ہو چکا ہے.چند دن ہوئے مجھے اطلاع ملی یورپ کے اس ملک سے جہاں یہ ترجمے کروائے جار ہے ہیں.میں نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ کسی ایک سورۃ کا ترجمہ نموٹا ہمیں بھجوائیں تا کہ ہم تسلی کر لیں کہ آپ اس قابل ہیں یا نہیں کہ ترجمہ صحیح کر سکیں؟ تو انہوں نے سورۃ الدھر کا نمونہ بھجوایا.ترجمہ کے لحاظ سے یہ سورۃ مشکل ہے یورپ میں ہی ان کو دیکھا جاسکتا ہے اور پر کھا جاسکتا ہے اور ان پر تنقید کی جاسکتی ہے.انشاء اللہ چند دنوں تک یا چند ہفتوں تک ان سے معاہدہ ہو جائے گا اور ان کا یہ وعدہ وعدہ ہے کہ ہم پندرہ مہینے میں تینوں زبانوں کے تراجم اور تفسیر، کوئی چودہ چودہ سو صفحے کی کتاب ہے، ہمیں دے دیں گے اور دعویٰ ہے ان کا (ویسے انسان کمزور ہے غلطی بھی کرتا ہے آپ دعا کریں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے غلطی نہ کریں کوئی) کہ اگر کوئی ایک لفظ ایسا آپ نکال سکیں ہمارے ترجمہ میں جو صحیح نہ ہو تو ہم بارہ سوفر بینک (جس کا مطلب ہے کہ کئی ہزار روپیہ ) اس ایک لفظ پر حرجانہ دیں گے.تو بظاہر تو بڑی مشہور ہے دنیا میں وہ فرم ترجمہ کرنے کے لحاظ سے.آج میں اس لئے یہ بات کر رہا ہوں کہ آپ خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو وعدہ کے مطابق پندرہ مہینے کے اندر اندر یہ تراجم اور تفسیر ( بہت بڑی تفسیر ہے چودہ سو صفحے میں آتی ہے) کرنے کی توفیق بھی دے اور ایسا ترجمہ ہو جو خدا تعالیٰ کے نزدیک صحیح اور درست اور اثر رکھنے والا ہو اور یہ حقیر جماعت دنیا کی نگاہ میں اور کمزور اور کم مایہ جماعت ، خدا تعالیٰ کے حضور کچھ تھوڑ اسا جو پیش کر رہی ہے خدا تعالیٰ اسے قبول کرے اور افراد جماعت کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور اسلام

Page 422

خطبات ناصر جلد نہم ۴۰۸ خطبه جمعه ۱۹ / فروری ۱۹۸۲ء کو غالب کرنے کے لئے جو یہ مہم جاری ہے اس میں برکت ڈالے اور ہماری زندگی کی جو سب سے بڑی خوشی ہے کہ ہم اسلام کو غالب ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھیں وہ خوشی ہماری پوری کرے اور ہمیں توفیق دے کہ اسی کے مطابق ہم اور زیادہ اس کے سامنے عاجزانہ جھکنے والے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بن جائیں.میں نے اشارہ کیا کہ ترجمہ صحیح اور تغیر صحیح ہونی چاہیے اس کا کوئی معیار ہونا چاہیے اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں ہیں جو دیکھنی پڑتی ہیں چند باتوں کا میں ذکر کروں گا.ایک تو یہ ہے کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا اس لئے کسی ایک لفظ کا بھی ایسا ترجمہ کرنا جائز نہیں جس کو عربی جائز نہ کہتی ہو یعنی جو ترجمہ یا جو معنی لغت عربی نے کسی عربی لفظ کے بتائے ہیں اس سے باہر نہ ہو ویسے تو چونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کو نازل کرنے والا ہے اس واسطے وہ اپنی حکمت کا ملہ اور قدرت کا ملہ سے عربی الفاظ استعمال کرتا ہے مثلاً زکوۃ کے بارہ چودہ معنے ہیں.تو بہت سے معانی میں قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کی جاسکتی ہے سیاق و سباق کے لحاظ سے.تبھی یہ چھوٹی سی کتاب اتنے عظیم اور وسیع علوم پر حاوی ہوگئی.دوسرے یہ کہ کوئی ایسا ترجمہ یا تفسیر نہ کی جائے جو قرآن عظیم کی کسی دوسری آیت یا آیات کے خلاف ہو اور اس ترجمے اور تفسیر کی تائید دوسری کوئی آیت نہ کرتی ہو بلکہ اس کے خلاف بات کر رہی ہو.میں ایک مثال لیتا ہوں.عیسائی پادریوں نے اس پر بہت کچھ اعتراض کیا.”حور‘ کا لفظ ہے کہ جنت میں حوریں ہوں گی.تو نا سمجھی سے انہوں نے اعتراض کر دیئے.اس ایک لفظ کو لے کے جو عیسائیوں کی طرف سے قابل اعتراض بنا اس کو لے کے میں آپ کو مثال دے رہا ہوں کہ ایسے کوئی معنے نہیں ہونے چاہئیں حور کے لفظ کے جس کی تائید خود قرآن کریم کی آیات نہ کرتی ہوں اور اگر وہ معنی ہم کریں جس کی تائید قرآن کریم کی آیات کر رہی ہیں تو کوئی خرابی نہیں پیدا ہوتی ، کوئی فساد نہیں پیدا ہوتا ، کوئی اعتراض نہیں پیدا ہوتا.قرآن کریم میں چارسورتوں میں چار آیات میں حور کا لفظ استعمال ہوا ہے اور میں سورۃ کا نمبر یعنی قرآن کریم میں کس جگہ وہ آئی ہے ترتیب سے دوں گا تا کہ وہ لوگ جو علمی ذوق رکھتے ہیں

Page 423

خطبات ناصر جلد نهم ان کو بعض مسائل اور بھی معلوم ہو جا ئیں.۴۰۹ خطبه جمعه ۱۹ / فروری ۱۹۸۲ء سورہ طور ! یہ باونویں سورۃ ہے اور اس کی اکیسویں آیت میں حور کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن اس سے پہلے جو مضمون چل رہا ہے وہ میں نے عربی کے الفاظ تو نہیں لئے سمجھانے کے لئے اس کا ترجمہ لے لیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن متقی جنتوں میں نعمتوں میں ہوں گے جو کچھ ان کا رب ان کو دے گا اس پر خوش ہوں گے اور ان کا رب دوزخ کے عذاب سے ان کو بچالے گا.اس میں بہت ساری چیزیں بیان ہوئی ہیں.ایک تو یہ کہ اسلام میں دوزخ کا جو تصور ہے یعنی دکھ اور در داور خدا تعالیٰ کی ناراضگی وغیرہ اس قسم کا کوئی احساس جنتی کونہیں ہو گا.خدا تعالیٰ خوش ہوگا ان سے ان کو خوش رکھے گا.خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہر آن ان پر نازل ہوں گی وہ پائیں گے وہی جو خدا چاہے گا اور جو خدا چاہے گا اس میں وہ خوشی محسوس کریں.اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہی سب سے بہتر ہے.رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص: ۲۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ایک وقت میں یہ دعا کی تھی اور دوزخ کے عذاب سے وہ بچالئے جائیں گے.ان کو کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچے گی جنت میں.خدا تعالیٰ انہیں کہے گا کھاؤ اور پیو اور یہ کھانا پینا نیا برکت والا ہوگا.چربی نہیں چڑھائے گا تمہارے جسموں پر جیسے اس دنیا میں ہو جاتا ہے غلطی کر کے یعنی متوازن غذا، ضرورت کے مطابق غذا ان کی ہر وقت ہر آن ضرورت کے مطابق غذا ملے گی.احادیث میں آتا ہے کہ مومن جنت میں ہر روز ترقی کر رہا ہے روحانی طور پر.اس کے لئے جس غذا ، جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی ملے گی.ہمیں کچھ نہیں پتہ وہاں کیا ہوگا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کسی آنکھ نے دیکھا نہیں کسی کان نے سنا نہیں لیکن ملے گی ہر وہ چیز انہیں جو برکت والی ہوگی اور انتخاب خدا تعالیٰ کرے گا.وہ انسان نہیں کرے گا کہ غلطی کا احتمال ہو.تو بڑی عظیم زندگی ہے جس میں کھانے پینے کا انتخاب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا جائے گا اور اپنی تمام برکتوں کے ساتھ وہ کھانے ان کو مہیا کئے جائیں گے اور برکتوں کے وارث ہوں گے اور رحمتوں سے انہیں نوازا جائے گا اور یہ اس لئے ہوگا ( بڑا اہم ہے یہاں یہ بیان ) کہ تم جو اعمال اس ورلی زندگی میں کرتے رہے ہو خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کر لیا.

Page 424

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۰ خطبه جمعه ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء اس لئے کس قدر ضروری ہے ہمارے لئے کہ ہم دعا کے ساتھ اور خدا پر توکل اور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے ایسے اعمال اپنی اس زندگی میں کرنے کی کوشش کریں جو ضائع نہ ہو جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول کرنے والا ہو کیونکہ جو نئی زندگی وہاں شروع ہو گی اس کو ان آیات میں اس طرح شروع کیا کہ تمہیں جنت ملے گی تمہیں نعمت ملے گی.تمہیں جو کچھ ملے گا اس کا انتخاب خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا جائے گا جو کچھ ان کا رب ان کو دے گا اس کے نتیجہ میں ان کے لئے خوشی کے سامان پیدا ہوں گے اور ہر قسم کی تکلیف سے انہیں بچا لیا جائے گا.پھر ذرا اور کھل کے تفصیل آئی.کھاؤ اور پیو اور یہ کھانا پینا ھینگا برکت والا ہوگا اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے پہلی زندگی میں تمہارے جو اعمالِ صالحہ اخلاص کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ کئے گئے تھے ان کو قبول کر لیا اور یہ برکتیں اور رحمتیں جو جنت میں نازل ہوں گی وہ پوشیدہ نہیں ہوں گی بلکہ وہ فضا جو ہے وہ ہر انسان پر نازل ہونے والی رحمتوں سے معمور ہو گی.وہ صف بصف بچھے چھپر کھٹوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے آمنے سامنے بھی.دوسری جگہ فرمایا - وَ زَوَجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ (الدخان: ۵۵) پہلے تو میں نے بتایا نا تمہید بتائی تھی کہ یہ جنت ہے یہ اس کا نقشہ ہے اور ہم ان کی ازواج کو حور بنا دیں گے.حور کو اللہ ان سے ازدواجی رشتہ سے باندھ دے گا.حور کی صفات بہت جگہ بیان ہوئی ہیں کچھ میں آگے بھی بیان کروں گا.وَزَوَّجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ ہم ان کو ازدواجی رشتہ میں باندھیں گے ایسی جوان عورت کے ساتھ جو حور ہوں گی روحانی آنکھ رکھنے والی ہوں گی اور خوبصورت اس کی آنکھیں ہوں گی اور یہ نتیجہ اس سے بھی نکلتا ہے کہ اگلی آیت میں ہے کہ ان کے ساتھ جنتوں میں ان کی اولا دکو بھی جمع کریں گے یعنی جنت میں جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کی اولاد نیک عمل کرنے والی ہے لیکن اس مقام کو پہنچنے والی نہیں جہاں باپ پہنچا ( ویسے بعض دوسرے سوال دماغ میں آجائیں گے جن کو قرآن نے حل کیا ہے اس وقت ان کا ذکر نہیں کروں گا ورنہ دیر ہو جائے گی ) ان کے ساتھ جنت میں میں ان کی اولا د کو بھی جمع کروں گا.اس میں بیوی کا ذکر کیوں چھوڑ دیا اس واسطے کہ زَوَجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ پہلی آیت میں آپ کا تھا.نو جوان، خوبصورت، خوبصورت آنکھوں والی ، ہر وہ چیز دیکھنے والی جس کا دیکھنا ایک جنتی کے لئے اپنی ارتقا اور اپنی خوشی

Page 425

خطبات ناصر جلد نہم ۴۱۱ خطبه جمعه ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء کے لئے ضروری ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیک صالح عورتیں فوت ہوتی ہیں ان میں سے بہت سی بہت بوڑھی ہوتی ہیں ان سے چلا بھی نہیں جاتا.بڑھاپے کا شکار ، بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو خوبصورت نہیں ہوتیں.کچھ بدصورت بھی ہوتی ہیں جانے والی لیکن جنت میں جاکے ساری خوبصورت بن جائیں گی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑھیا مومنہ سے کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تو اس نے رونا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ میں کہاں مروں کھیوں گی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم نہیں جاؤ گی.میں نے یہ کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تم جوان ہونے کی حیثیت میں وہاں جاؤ گی تو جب بوڑھی وہاں جوان ہونے کی حیثیت میں جائے گی تو بدصورت وہاں خوبصورت حیثیت میں جائے گی.جوانگڑی لولی یہاں سے گئی ہے وہاں صحت مند اعضا، بھر پور نشو ونما کے ساتھ اس دنیا کے لحاظ سے جس کی تفصیل کا ہمیں پتہ نہیں اس لحاظ سے جائے گی تو زَوَجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ کہ ان کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھا جائے گا بڑھیا سے نہیں جس حالت میں اس نے اس دنیا میں چھوڑی اپنی بیوی بلکہ خود عین کے ساتھ جو جوان بھی ہوگی ، خوبصورت بھی ہوگی ، نیک بھی ہوگی.بہت تفصیلات قرآن کریم نے بیان کی ہیں.بہر حال یہاں حور“ کا لفظ آیا ہے اور حور“ کا لفظ زوج کی حیثیت سے آیا.جنتی کی زوج ، حور! یہ باونویں سورۃ ہے.اس سے پہلے چوالیسویں سورۃ ہے (الدخان ) وہ آیت اب میں پڑھ دیتا ہوں.یہ سورۃ دخان چوالیسویں سورۃ ہے جو باونویں سورۃ سے پہلے ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے متقی امن والے مقام میں ہوں گے.اگلی سورۃ میں یہ تھا کہ متقی مومن جنتوں میں نعمتیں حاصل کرنے والے ہوں گے.پہلے یہ سورۃ دخان جو ترتیب کے لحاظ سے پہلی آیت ہے قرآن کریم میں جہاں حور" کا لفظ آیا ہے اس کے آگے پیچھے جو مضمون ہے وہ چوالیسویں سورۃ اور ۵۵ آیت میں ہے کہ متقی امن والے مقام میں ہوں گے.جنتوں میں، چشموں میں ، ریشم اور تافتہ پہنیں گے یعنی ان کا لباس ایسا ہوگا جو لباس کے مس سے وہ روحانی وو راحت حاصل کر رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہوئے ہوں گے.

Page 426

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۲ خطبه جمعه ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء كَذلِكَ ایسا ہی ہوگا کوئی شبہ نہ کرے وَ زَوَجُنُهُمْ بِحُورٍ عِيْنِ اور ہم بڑی آنکھوں والی، سیاہ آنکھوں والی نوجوان نیک عورتوں سے ان کی شادی کریں گے یعنی ان کی بیوی اس حالت میں ان کو ملے گی کہ بڑھیا نہیں ہوگی لولی لنگڑی نہیں ہوگی ، معذور نہیں ہوگی ، کم عقل نہیں ہوگی، اپنی زندگی سے پیار نہ کرنے والی اور نشوونما کی خواہش نہ رکھنے والی نہیں ہوگی بلکہ اس کی تو خواہش یہ ہوگی کہ صبح ودو، کی جو کیفیت ہے شام کو اس سے بڑھ کے ہو جیسا کہ احادیث میں آیا ہے یہ بیوی (حور عين ) 66 جوان اور پاک باز ہو گی.ان دو آیتوں میں حور کے ساتھ زوجنا آ گیا.اب یہ تو نہیں کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ لفظ "حور کو استعمال کرے ضرور وہاں یہ دہرائے کہ ذُو جُنُهُم وہ بیوی ہے جنتی کی.تلاوت قرآن کریم کرنے والے کے سامنے پہلے دو سورتیں ایسی آئیں سورۃ دخان اور سورۃ طور جن میں بتادیا گیا کہ جس کو ہم حور کہتے ہیں وہ جنتی کی بیوی ہے.جہاں بھی حور کہیں گے وہ جنتی کی بیوی ہوگی.سورۃ رحمان میں جنت کے متعلق بتایا.ان باغوں میں نیک اور خوبصورت عورتیں ہوں گی.جنت باغ کو کہتے ہیں.جنت میں باغ بھی ہوں گے محل بھی ہوں گے، سارا کچھ ہوگا.جو چاہیں گے پائیں گے.جنت کے باغات میں نیک اور خوبصورت عورتیں ہوں گی زوج کی حیثیت میں.حُورٌ مَقْصُورت فِي الْخِيَامِ ( الرحمن : ۷۳) حوریں کالی آنکھوں والی اور خیموں میں بھی وقت گزار نے والی.یہ نہیں کہ ہر وقت وہ خیموں میں ہی رہنے والی ہیں.خیموں میں بھی وقت گزار نے والی ، نیچی نگاہوں والی ، شرم وحیا سے معمور، پاکباز.یہ آیات قرآنی میں ہے اس کا ترجمہ میں بتارہا ہوں گویا کہ وہ یا قوت اور مرجان ہیں.یا قوت اور مرجان تمثیلی زبان میں مثال دی ہے کہ عورت یا قوت اور مرجان کی طرح ہے.یاقوت سرخی کی طرف اشارہ اور مرجان ایک ایسی سفیدی جس میں سرخی بھی جھلک رہی ہے یعنی ان کی خوبصورتی ، سفیدی میں سرخی جھلک رہی ہے.ان کی خوبصورتی سفیدی (اطمینان ) سرخی ( جوش ) اطمینان میں آگے بڑھنے کی خواہش جھلک رہی ہے.

Page 427

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۳ خطبه جمعه ۱۹ / فروری ۱۹۸۲ء اب حُورٌ مَقْصُورت فِي الْخِيَامِ میں کوئی ضرورت نہیں تھی زوجنا کے دہرانے کی یہ ترتیب وار جو آگے پیچھے آئی ہیں سورتیں ، پہلی دو سورتوں میں اعلان ہو چکا ہے کہ وہ زوج ہے جنتی کی.اب یہاں یہ کہا کہ جس کو ہم نے زوج کہا خود عین ہی نہیں بلکہ وہ نیچی نگاہوں والی اور پاکباز عورتیں ہیں.گناہ بخشے جائیں گے تبھی تو وہ جنت میں پہنچیں گی.چوتھی آیت سورۃ واقعہ میں ہے جو چھپنویں سورۃ ہے.میں ایک دفعہ یہاں دوہرا دوں سورتوں کے نمبر پہلی سورۃ اس ترتیب میں قرآن کریم کی چوالیسویں، دوسری باونویں، تیسری پچپنویں، چوتھی چھپنویں.ان چار سورتوں میں حور کا لفظ آیا ہے.پہلی دوسورتوں میں یہ اعلان کیا کہ وہ جنتی کی زوج ہیں.پھر اگلی دو ہیں ان میں اس اعلان کی ضرورت نہیں بلکہ اس حور کی جس کو زوج کہا گیا صفات بیان کی گئیں اور سورۃ رحمان میں کہا کہ شرم وحیا والی ہیں.نیچی نگاہوں والی ہیں.اس واسطے کھلے باغات نہیں بلکہ ان کے لئے خیموں کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور حفاظت کا بھی انتظام کیا گیا ہے.سورۃ واقعہ میں ہے وَحُورٌ عِيْن كَامْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ (الواقعة : ۲۳، ۲۴) کالی پتلیوں والی ، بڑی بڑی آنکھوں والی ، جو محفوظ موتیوں کی طرح ہوں گی.نیک اور پاکباز ، یہ ان کی صفات ہو گئیں اور بھی کچھ صفات ہیں ان ازواج کی جو میں نے نہیں لیں.اب اگر کوئی شخص حور کے معنی یہ کر لے کہ وہ زوج نہیں اس دو دفعہ کے اعلان کے بعد کہ زوجتهُمْ بِحُورٍ عِینِ تو وہ درست نہیں ہو گا.اس واسطے محض قرآن کریم کا ترجمہ غیروں میں، غیر مسلموں میں پہنچانا کافی نہیں جب تک یہ ساری احتیاطیں نہ برتی جائیں کہ کوئی ایسا ترجمہ یا تفسیر نہ ہو دوسری آیات نہ کر رہی ہوں جس کی توثیق بلکہ قرآن کریم خودا پنا مفسر ہے.قرآن کریم کو نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ جتنا مرضی غور کر لو اس کا ئنات میں تمہیں میری صفات کے جلوؤں میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.اس لئے ہم علی الاعلان عیسائی دنیا جو ابھی قرآن کریم کو سمجھ نہیں سکی اور دوسرے غیر مسلموں کے سامنے یہ اعلان کیا کرتے ہیں کہ جس طرح قرآن کریم میں یہ اعلان ہوا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں تمہیں کوئی تضاد نہیں نظر آئے گا

Page 428

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۴ خطبہ جمعہ ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء اس لئے اس بات پر بھی ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جو خدا کا کلام ہے (اور خدا کے جلوے کبھی کلام کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں، اس کی ایک صفت کلام کرنے والے کی بھی ہے ) اس کے کلام میں بھی کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا کہ کہیں کچھ لکھا ہو اور کہیں کچھ لکھا ہو.سارا قرآن کریم شروع سے آخر تک ایک منطقی مجموعہ ہے ہر چیز اپنی جگہ پر ہے.کوئی چیز بے موقع نہیں ہے.کوئی چیز بے مقصد نہیں ہے.کوئی چیز بے فائدہ نہیں ہے.کوئی چیز بے غرض نہیں ہے.ہر چیز اپنی جگہ پر ہے اور وہیں ہونی چاہیے اور تضاد نہیں ہے (Ideas) جو ہیں وہ معانی ہیں قرآن کریم کے وہ ایک دوسرے سے دست بگریبان نہیں ہیں.لڑائی نہیں ان کی ہو رہی بلکہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہوئے ہماری روح اور ہمارے سینے کے اندر وہ اپنی نورانی شعاعوں سے دھنستی چلی جاتی ہیں اور گند ہمارا دور کرتی اور نور ہم میں پیدا کرتی اور حسن کے جلوے ہمیں دکھاتی اور ہمارے اخلاق میں حسن پیدا کرتی چلی جاتی ہیں تا کہ ہم جب قرآن کریم کو ان لوگوں کے سامنے پیش کریں تو ہمارا عملی نمونہ بھی قرآن کریم کی تعلیم کی تائید کر رہا ہو یہ بڑی زبر دست ذمہ داری ہے جماعت احمد یہ اور اس کے افراد پر کہ ایسے افعال نہ کیا کرو.ایسی حرکتیں نہ کیا کرو، ایسی بداعمالیاں نہ کیا کرو کہ تمہاری وجہ سے ہمارا قرآن بدنام ہو دنیا میں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے اور خدا ہمیں یہ توفیق دے کہ ہمارے دل میں جو یہ خواہش ہے کہ جلد سے جلد نوع انسانی کے ہاتھ میں ہم قرآن کریم مع اس کے معانی کے رکھ سکیں ، ہماری یہ خواہش جلد پوری ہو.درجہ بدرجہ کام ہوگا اس میں شک نہیں لیکن درجات کے فاصلے زمانی لحاظ سے بعد والے نہ ہوں بلکہ جلد جلد یہ سارے کام ہوتے چلے جائیں اور دنیا کی نسل قرآن کریم کے نور سے محرومی کی حالت میں اس دنیا کو چھوڑنے والی نہ ہو.ہمارے اوپر یہ ذمہ داری ہے ورنہ خدا کہے گا کہ تمہیں ہم نے حکم دیا تھا کہ اگر دعوی ہے خدا تعالیٰ کے پیار اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تو جو چیز خدا نے بھیجی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.كَافَةَ لِلنَّاسِ اور رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کی حیثیت سے، کیوں نہیں تم نے وہ نوع انسانی کے ہاتھ میں وہ چیز پہنچائی ؟

Page 429

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۵ خطبه جمعه ۱۹ رفروری ۱۹۸۲ء پس دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں کسی اور چیز کی طاقت دے یا نہ دے، کسی اور کام کے لئے ہمیں دولت دے یا نہ دے لیکن قرآن کریم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے طاقت بھی دے اور دولت بھی دے اور ہمیں کامیاب بھی کرے اور ہماری کوشش کو قبول بھی کرے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھر دے بڑوں کی بھی اور چھوٹوں کی بھی ،مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۶ را پریل ۱۹۸۲ء صفحه ۱ تا ۶ )

Page 430

Page 431

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۷ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو خطبه جمعه فرموده ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پہلے آٹھ ، دس روز بڑے شدید انفلوئنزا میں گزرے.اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.بیماری تو دور ہو گئی ہے کچھ ضعف ابھی باقی ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا یہ بھی دور ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم " كَافةً لِلنَّاسِس‘ مبعوث ہوئے یعنی کسی ایک قوم کی طرف یا کسی ایک خطہ ارض کی طرف یا کسی ایک زمانہ کی طرف نہیں بلکہ قیامت تک کے سب انسانوں کی طرف آپ کی بعثت تھی اور آپ کی یہ بعثت بشیر ونذیر ہونے کی حیثیت میں بھی تھی.اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی صفات ہیں لیکن آپ کی بنیادی صفات اور مقاصد بعثت میں بشیر اور نذیر ہونا بھی ہے.آپ پر ایمان لانے والے بھی ہیں.اُس وقت بھی پیدا ہوئے.اُس وقت سے پیدا ہو رہے ہیں.آج بھی یہی کیفیت ہے اور آپ کا انکار کرنے والے بھی ہیں.آپ کا بشیر اور نذیر ہونا ہر دو کے لئے ہے یعنی آپ نے اپنے ماننے والوں کو بھی ہشیار کیا اس بات سے کہ ایسی غلطی نہ کر بیٹھنا کہ ایمان لانے کے بعد تمہارے دلوں میں کبھی پیدا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل

Page 432

خطبات ناصر جلد نہم ۴۱۸ خطبه جمعه ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء کرنے کے بعد اس کے غضب کے مستحق ہو جاؤ اور جو ایمان نہیں لائے ان کو بھی ہشیار کیا کہ ایک عظیم شریعت تمہاری بھلائی کے لئے نازل ہو چکی.اس شریعت کے، اس دین کے احکام پر عمل کرو.خدا تعالیٰ کی بڑی بشارتیں ہیں تمہارے حق میں.اگر تم نہیں سنو گے ان بشارتوں سے محروم ہو جاؤ گے.اگر تم سنو گے اور مانو گے اور عمل کرو گے اور قربانیاں دو گے تو جو انذاری پہلو ہیں ان کا اطلاق تم پر نہیں ہوگا.جو بشارتیں ہیں ان کے تم مستحق ہو جاؤ گے.قرآن کریم بھرا ہوا ہے انذار سے اور تبشیر سے.اس وقت میں اس کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں.سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التَّحريم : ۷ ) اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اھلِیکم کا ایک انداری پہلو یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ ایک انسان خود تو ایمان رکھتا ہے اپنے دل میں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بشارتوں کا مستحق ہوتا ہے لیکن اس کے اہل اس کے لئے فتنہ بنتے اور صراط مستقیم سے اسے دور لے جانے والے بن جاتے ہیں.اس واسطے کسی ایک شخص کا یہ کہنا کہ میں صراط مستقیم پر قائم ہو گیا ہوں ، یہ کافی ہے؟ یہ اس لئے کافی نہیں کہ جو قریب ترین فتنہ اس کی زندگی میں ہے وہ اس کے گھر میں موجود ہے.اس واسطے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کرنا ان نسلوں کی بھلائی میں بھی ہے اور اپنی بھلائی بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ انسان فتنے سے اپنے آپ کو بچائے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے اور جو پیارا سے حاصل ہوا وہ پیارا اسے اور اس کے خاندان کو مرتے دم تک اس دنیا میں حاصل رہے تا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں گزرنے والی ابدی زندگی کے وہ مستحق بنیں..سورة التحریم میں ہی نویں آیت میں ہے.يَآيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحریم : ۹) حکم تھا کہ خود اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو بچاؤ ، ان کی حفاظت کی کوشش کرو اور یہاں وہ طریقہ بتایا گیا () اس آیت میں بشارت ہے ) اور اس کی ابتدا یوں ہے کہ خدا تعالیٰ

Page 433

خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۹ خطبه جمعه ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء کی طرف خالص رجوع کرو.تو بہ کرو اور تو بہ پر قائم رہو.تو بہ زندگی کے چند لمحات کی کیفیت کا نام نہیں.تو بہ ساری زندگی کے سارے ہی لمحات کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے.خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، اس کی طرف جھکتے ہوئے ، غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے، ندامت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ عاجزانہ اس سے مغفرت چاہتے ہوئے زندگی گزارنا اس کا نام ہے تو بہ.اس کی دوشاخیں ہیں آگے ، عقیدہ اور عملاً، دونوں اس میں شامل ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا عرفان رکھنا اور اس کی عظمتوں اور اس کے نور کو اس کے حسن کو سمجھتے ہوئے اور شناخت کرتے ہوئے اور اس سے دوری کے مضرات کو اور برائیوں کو جانتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرنا ، یہ عقیدہ تو بہ ہے یعنی آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ اگر میں خدا سے کٹ گیا اور تو بہ کا تعلق میرا اس سے نہ ہوا تو میں ہلاک ہو گیا لیکن اسلام محض فلسفہ نہیں.حقیقی فلسفہ اسلام ہی ہے، اس میں شک نہیں لیکن اسلام محض فلسفہ نہیں.یہ تو ہماری زندگی کا ایک حسین لائحہ عمل ہے جو ہمیں بتایا گیا جس پر چل کر ہماری زندگی خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہوتی اور اس کے حسن سے حسن حاصل کرتی ہے.تو فرمایا جو حکم ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارا اس کا طریق تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر آن خالص طور پر کا ملتا رجوع کرتے رہو، اس کا نتیجہ نکلے گا.اس مخلصانہ تو بہ کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو تمہاری بدیاں ہیں (یہ اس آیت سے میں نے مضمون اٹھایا ہے.میں عربی کے الفاظ نہیں دہراؤں گا ) ان کو وہ مٹادے گا تو بہ کے نتیجے میں.تمہاری بدیوں کو وہ مٹاتا جائے گا تمہاری زندگی میں.انسان ضعیف ہے غلطی کر جاتا ہے لیکن انسان کو متکبر نہیں ہونا چاہیے کہ سمجھنے لگے کہ میں غلطی نہیں کر سکتا.اس لئے ہر آن اپنے خدا کی طرف رجوع کر کے اس کے حضور تو بہ کرنی چاہیے اور ہر آن خدا کے فضل کو حاصل کر کے اپنی غفلتوں کو مٹاتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہیے.تو بشارت یہ دی کہ تو بہ کرو گے تمہاری بدیوں کو مٹادیا جائے گا.یہ منفی پہلو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک یہ پہلو ہے یعنی صاف کر دی جائے گی زمین بدیوں سے اور دوسرا یہ کہ تمہارے لئے جنت کا سامان پیدا کیا جائے گا.قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ جنت دو ہیں.ایک اس زندگی کی

Page 434

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۰ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء جنت، ایک مرنے کے بعد کی جنت.اس زندگی میں بھی جنت جیسی کیفیات پیدا ہو جا ئیں گی تمہارے گھروں میں اور وہ ابدی زندگی جو مرنے کے بعد انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی جنتی زندگی ہوگی.جنت سے باہر خدا تعالیٰ کے غضب کی جہنم میں رہنے والی زندگی نہیں ہوگی.تیسرے اس بشارت والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہر بدی رسوائی ہے، بے عزتی ہے اور سب سے بڑی رسوائی وہ ہے جو حقارت کی نگاہ انسان دیکھے اپنے لئے اپنے رب کی آنکھ میں.یہاں فرمایا اللہ اپنے نبی کو رسوا نہیں کرے گا ، نہ ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے.یعنی ہمارے لئے یہ بشارت دی گئی یہاں کہ جس عزت کے مقام پر النبی کو رکھا جائے گا اس کی معیت میں ، اس کے ساتھ ہی تو بہ کرنے والے مومنوں کو رکھا جائے گا.اور چوتھی یہاں یہ بات بتائی کہ ان کا نور ان کے آگے آگے بھی بھاگتا جائے گا اور دائیں پہلو کے ساتھ بھی.یہاں یہ بتایا کہ جو عقیدہ اور عملاً تو بہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے اور ایسے اعمال بجالاتے ہیں جن میں کوئی ملاوٹ اور کھوٹ نہیں ہوتا ، جن میں کوئی ریا اور تکبر نہیں ہوتا ، جن میں کوئی دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ سارے کے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے پیار کے چشمے سے ابلتے ہوئے باہر آتے ہیں اور خدا کے نزدیک مقبول ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ایک نور عطا کرتا ہے.یہ جو نور عطا کیا جاتا ہے یہ خود ایک لمبا مضمون اسلام میں بیان ہوا.ایک پہلو اس کا یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرتے رہا کرونور فر است دیا جاتا ہے اسے.بہر حال ایک نور مومن کو عطا ہوگا اور یہ نور جو ہے یہ محض حال کو یعنی جو آج کا وقت ہے صرف میری زندگی کے، آپ کی زندگی کے آج کو روشن کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ آگے آگے بھاگتا جائے گا یعنی مستقبل کو بھی منور کرنے والا ہوگا اور اس نور کے نتیجے میں دائیں طرف بھی روشن ہوگی ( دایاں دین اسلام کی طرف اشارہ کرتا ہے ) یعنی صحیح میلان دین کی طرف پیدا کرے گا یعنی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا حوصلہ بھی دے گا اور عزم بھی دے گا اور توفیق بھی دے

Page 435

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۱ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۸۲ء گا.مستقبل روشن ہوگا.دین کی طرف میلان قائم رہے گا اور خاتمہ بالخیر ہوگا اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اور آخر میں یہ بتایا کہ ان کی مقبول دعا اللہ کی رحمت کو جذب کرے گی.انہیں یہ دعا کرنے کی توفیق ملے گی کہ (کہ کے بعد میں ایک اور فقرہ بیچ میں لانا چاہتا ہوں.کوئی انسان جتنی مرضی رفعت حاصل کر لے وہ انتہائی رفعت تک نہیں پہنچتا.اس لحاظ سے اس میں نقص اور کمال کی کمی رہتی ہے.تو ان کو اس دعا کی توفیق ملے گی کہ ) اے خدا! ہمارے نور کو اور بھی کامل کر اور یہ دعا ان کی قبول کی جائے گی اور ان کا نور کمال“ سے کمال کی طرف بڑھتا چلا جائے گا اور وہ ہمیشہ اللہ کی مغفرت کے سایہ میں حفاظت اور تقویٰ کی زندگی گزاریں گے اور خدائے قدیر کی عظیم قدرتوں کے جلوے ان کی اس زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ان پر ظاہر ہوتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا کرے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا:.کچھ دوست باہر ہیں اور شاید بوندا باندی بھی شروع ہوگئی یا ہو جائے گی ، ان کے لئے اندر جگہ بنانے کی کوشش کریں.میں نمازیں موسم کی وجہ سے جمع کراؤں گا.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 436

Page 437

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۳ خطبہ جمعہ ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء کھیل اور ورزش کے متعلق اسلام کا فلسفہ خطبه جمعه فرموده ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج سے باسکٹ بال ٹورنامنٹ شروع ہو گیا ہے.اس لئے میں جو کھیل اور ورزش کے متعلق اسلام کا فلسفہ ہے اس پر کچھ کہنا چاہتا ہوں.کھیلیں محض کھیلیں نہیں اور کھیل اور کھیل میں بھی فرق ہے.بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کھیلتے ہیں صرف ورزش کرنے کے لئے اور ورزش میں جو ایک لذت بھی ہے اسے اٹھانے کے لئے.بعض لوگ کھیلتے ہیں پیسے بنانے کے لئے.مثلاً ٹینس کے جو بین الاقوامی مقابلے ہوتے ہیں ان میں بعض دفعہ فسٹ آنے والے کو چھ لاکھ روپیہ، آٹھ لاکھ روپیہ مل جاتا ہے.سیکنڈ آنے والے کو بھی کافی روپے ملتے ہیں.جو باکسنگ ہے ملکہ بازی ان میں جو دنیا میں اوپر نکلے ان کو اس سے بھی کہیں زیادہ پیسے مل جاتے ہیں.ان کی کھیل کھیل کے لئے نہیں بلکہ ان کی زندگی کھیل کے لئے ہے یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم کھیلیں اور پیسے بنا ئیں.بعض کھیلیں ہیں جو اپنے ملک کے شہریوں کو خوشی پہنچانے کے لئے کھیلی جاتی ہیں ، بڑی مقبول ہیں مثلاً Rugby ( رنگی ) ہے وہ انگلستان میں ، ساؤتھ امریکہ کے بہت سارے ملکوں اور اب کچھ حد تک

Page 438

خطبات ناصر جلد نہم ۴۲۴ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء یورپ میں بھی رنگی فٹ بال مقبول ہو رہا ہے.جو ہما رافٹ بال ہے جو ہم کھیلتے ہیں اپنے ملک میں بھی اس کو Soccer ( ساکر) کہتے ہیں انگریزی میں.وہ رنگی فٹ بال جو ہے وہ اور ہی کھیل ہے.بڑی سخت ہے، بڑے مضبوط جسم وہ کھیل کھیل سکتے ہیں.جو کھیلنے والے ہیں وہ اپنے جسم کو مضبوط کرتے ہیں کسی اعلیٰ مقصد کے لئے نہیں صرف کھیلنے کے قابل بنانے کے لئے.اسلام کا یہ فلسفہ نہیں.اسلام نے ہمیں یہ سکھایا اور سورۃ فاتحہ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چار بنیادی صفات باری کی جو تفسیر کی ہے اس میں ایک پہلو تسلسل میں ایک ایسا مضمون اپنے اندر رکھتا ہے جس میں جسمانی صحت ، ورزشیں وغیرہ شامل ہو جاتی ہیں.اسلام کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ العلمین ہے.جو چیز بھی اس نے اس عالمین میں پیدا کی اس کی ربوبیت کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے.ہر چیز کو مناسب حال قو تیں عطا کیں اور ہر قوت کے مناسب حال غذا یا دوسری ضروریات جو ان کی نشوونما کے لئے چاہئیں تھیں وہ مہیا کیں.انسانوں کے لئے خاص طور پر پیدائش نوع انسانی سے پتہ نہیں کتنے کروڑ سال پہلے سے ایسی اشیاء کی پیدائش کا سامان کیا جو انسان کو کئی کروڑ سال بعد چاہیے تھا.تو جو صفت ربوبیت ہے اس کا تعلق مخلوق کی ہر شے سے ہے.رب کے معنی عربی میں ہیں پیدا کرنے والا اور صحیح نشوونما کے سامان پیدا کر کے کمال مقصود تک پہنچانے والا.مثلاً ( عام مثال میں لے لیتا ہوں سب کو سمجھانے کے لئے ) ایک اچھا دنبہ چاہیے ایک صحت مند جسم کی صحت کو قائم رکھنے کے لئے.تو دنبہ پیدا کیا اس نے اور اس کو صحت مند رکھنے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی وہ پیدا کر دی.اس لئے کہ تمام اشیاء آخر کار انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں.تو اسلام کہتا ہے کھیلو اس لئے کہ کھیلنے کے نتیجہ میں تمہارے اجسام کی ، تمہارے جسموں کی نشوونما اس طور پر ہو کہ تم وہ بوجھ برداشت کرسکو جو دوسری تمہاری صلاحیتوں کے نتیجہ میں تمہارے جسموں پر پڑنے والے ہیں.پہلا بوجھ جو پڑتا ہے جسم کے اوپر ، وہ ذہنی میدان میں کوشش کے نتیجے میں.آدمی کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے اور سارا جسم جو ہے وہ کچھ عرصے کے بعد کمزوری محسوس کرتا ہے.غذا کے متعلق

Page 439

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۵ خطبہ جمعہ ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ جو مختلف غذا ئیں ہیں ان کا اثر اخلاق پر پڑتا ہے اچھا یا برا.کچھ لوگ نئی سائنس کو جاننے والے اس نکتے کو سمجھنے لگے ہیں کچھ ابھی تک بھی نہیں سمجھتے لیکن اخلاق تو تیسرے نمبر پر آتے ہیں ، اس سے پہلے ذہنی قو تیں اور صلاحیتیں ہیں.تو بعض غذا ئیں ایسی ہیں جو ذہنی قوتوں اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں مثلاً بادام ہے مثلاً اخروٹ ہیں.بہت ساری چیزیں ہیں جن کے کھانے کے نتیجے میں ذہنی کام کرنا جو ہے اس میں مدد ملتی ہے اور ذہن تیز ہو جاتے ہیں غذا کے نتیجے میں اور بعض غذا ئیں ایسی ہیں جو ذہن کو کند کرتی ہیں.ان میں سے زیادہ چکنائی کا کھانا ہے، ان میں سے توازن غذا کو تو ڑ کر زیادہ گوشت کا استعمال ہے.تو کہنے کو کھانے کی چیز ہے اور اثر ڈال رہی ہے طالب علم کی پڑھائی پر، اس کے ذہن کے اوپر.تو یہ جور بوبیت ہے اس میں ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے گئے ہیں کہ جو اس کی صحیح نشو ونما کریں اگلی صلاحیتوں کی ، جو بعد میں بلندی کی طرف لے جانے والی ہیں.تو جسمانی صحت کے بعد ذہنی قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں تو اسلام کہتا ہے کہ ایسی کھیلیں کھیلو کہ تمہارے جسم ذہنی طور پر صحیح اور بہترین نشو و نما حاصل کر سکیں.جس وقت جسم کی طاقت اور ذہن کی بلندی شامل ہو جائیں تو اچھے اخلاق کو مددملتی ہے.یہ جس کو ہم خلق، اخلاق کہتے ہیں اس کا بڑا تعلق ذہن سے بھی ہے اور جسم سے بھی ہے مثلاً اپنے بھائیوں کی مدد کرنا.وہ شخص جو بیمار پڑا ہو، بیمار جسم ہے اس کا اور گھر سے باہر نکلنا بھی اس کے لئے مشکل ہے ، وہ بیواؤں اور یتیموں کے گھروں پر جا کر ان کی مدد کے لئے کیا کر سکتا ہے؟ دل تو اس کا کرتا ہے اگر نیکی ہے اس میں لیکن جسم اس کا انکار کر رہا ہے.اگر یہ خواہش ہو کسی مسلمان کے دل میں کہ میں دنیا میں چکر لگاؤں اور اسلام کی جو تعلیم اور حسن ، اس کی روشنی ہے اور اسلام کے جو اخلاق ہیں وہ اس حصّہ انسانیت تک پہنچاؤں جو ابھی اسلام میں داخل نہیں تو اس کے لئے جسم کی بھی ضرورت ہے کہ اتنی طاقت ہو اور اس کے لئے ذہن کی بھی ضرورت ہے کہ علم میں اتنا آگے بڑھ جائے کہ علمی میدان میں وہ لوگ جنہیں میں مفلوج کہا کرتا ہوں بعض حصے ان کے نشوونما

Page 440

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۶ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء حاصل کر چکے ہیں، بعض نہیں کر سکے ، ان کے پاس جا کے کامیابی کے ساتھ ایسی باتیں کرے، ایسے رنگ میں اسلام ان کے سامنے پیش کرے کہ وہ اس کے حسن سے متاثر ہوسکیں اور جب تک جسم صحیح طور پر نشو و نما حاصل نہ کرے اور ذہن اپنی کامل رفعتوں تک نہ پہنچے اور اخلاق اپنے کمال کو نہ پائیں روحانیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور روحانیت کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں اپنے احمدی بچوں کو ، نو جوانوں کو اور ان لوگوں کو جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں کہ کھیلیں، اس لئے کھیلو تا کہ تم خدا تعالیٰ کا زیادہ تقرب حاصل کر سکو.کیونکہ جس طرح چار منزلہ مکان جو ہے اس کی پہلی منزل بہت مضبوط بنیادوں کے اوپر قائم ہونی چاہیے.جو میں بات کر رہا ہوں وہ جسم ہے.تو اگر پہلی منزل مضبوط بنیاد پر قائم ہی نہیں ہوگی تو دوسری منزل کو وہ سہا رہی نہیں سکے گی.اگر اتنی مضبوط نہیں ہوگی کہ تین منزلوں کا بوجھ وہ سنبھال لے تیسری منزل نہیں بن سکے گی.اگر اتنی مضبوط نہیں ہوگی بنیاد کہ وہ چار منزلوں کا بوجھ سنبھال سکے تو چار منزلیں نہیں بن سکیں گی اور چوتھی منزل تک تو ہماری زندگی کا مقصود ہے پہنچنا.اس لئے اسلام یہ فلسفہ ہمارے سامنے رکھتا ہے کہ کھیلو اس لئے محض نہیں کہ کھیل میں ایک لذت ہے، کھیل میں خود صحت ایک سرور انسانی جسم میں پیدا کرتی ہے.اس لئے نہ کھیلو کہ تم نے پیسے بنانے ہیں.اس نیت سے نہ کھیلو کہ تم نے لوگوں کے لئے خوشی کا سامان پیدا کرنا ہے.اس لئے کھیلو کہ تم نے خود ان ذمہ داریوں کو جو بہت ہی عظیم ہیں ، جو بہت وزنی ہیں ، جو بہت ضروری ہیں ، جو بہت ارفع ہیں اٹھا سکو.اگر تم اپنی کھیل کے نتیجے میں اپنے جسموں میں یہ قوت پیدا نہیں کرتے تو تمہارا دوڑنا اور جسم کو مضبوط بنانا اس سے مختلف نہیں ہو گا جس طرح ایک ہرن یا ایک شیر جو ہے وہ کھانے کے بعد ورزش کرتا اور اپنے جسم کو مضبوط بناتا ہے اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.میں نے ایک جگہ پڑھا کہ شیر بعض دفعہ جانور مار کے تو من، ڈیڑھ من گوشت کھا جاتا ہے ایک وقت میں لیکن من.ڈیڑھ من گوشت کو ہضم کرنے کے لئے پھر وہ پچاس میل چلتا ہے اور پھر کھانا کھاتا ہے پچاس میل کے بعد.تو اس کی زندگی کا چکر ہی یہ ہے کہ اتنازیادہ گوشت کھالو پھر پچاس میل چلو پھر اس کو ہضم کر لو پھر نئے سرے سے بھوک لگے اتنا گوشت کھانے کی.لیکن انسان

Page 441

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۷ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء میں اور شیر میں فرق ہے اور انسان میں اور لومڑ میں فرق ہے.وہ اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے ورزش کرتے ہیں.بعض دفعہ انسان سے زیادہ ورزش کرتے ہیں جیسا کہ میں نے شیر کی مثال دی لیکن اس سے آگے ان کا قدم نہیں بڑھتا.انسان نے تو آگے قدم بڑھانا ہے.انسان نے تو صحت جسمانی سے ایک قدم آگے بڑھا کے اپنے ذہنوں میں جلا پیدا کرنی ہے اور پھر اور قدم آگے بڑھانا ہے اور اپنے اخلاق میں ایسا حسن پیدا کرنا ہے کہ جس حسن میں دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس نظر آئے.پھر ایک اور قدم آگے بڑھانا ہے اور اپنے خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے روحانی میدان میں اور اس پیارے کی یہ آواز سنی ہے کہ جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو چار بنیادی صفات اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی ہیں ، ان کے متعلق جو روشنی ڈالی ہے اپنی تفسیر میں مختصر میں اس کو لیتا ہوں کیونکہ اصل جوڑ میرے دماغ نے انہی کے ساتھ باندھا ہے ان باتوں کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ( الفاظ میرے ہیں کیونکہ میں نے نقل نہیں کئے ،مفہوم نوٹ کیا ہوا ہے ) فرماتے ہیں کہ اللہ رب العلمین ہے یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا تمام عالموں میں جاری وساری ہے.اس میں انسان میں اور دوسری چیزوں میں فرق نہیں بلکہ حیوانات سے بھی آگے چلتے ہیں.آپ فرماتے ہیں یہ ربوبیت باری تمام ارواح واجسام حیوانات میں، نباتات میں، جمادات وغیرہ پر مشتمل ہے اسے آپ نے فیضانِ عام کا نام دیا اور یہ جو تقسیم کی ہے آپ نے ، نباتات و جمادات کا ایک گروپ اور اجسام وحیوانات کا دوسرا اور ارواح کا تیسرا اس میں یہ شکل بنتی ہے کہ اس سارے عالمین میں وہ اشیاء جن کا تعلق نباتات و جمادات سے ہے مثلاً کا نین ہمیشیم اس کے اندر نمک آجاتا ہے وغیرہ وغیرہ.اور یہ جو نباتات ہیں کھیتیاں ہیں، یہ درخت ہیں، یہ جنگل والے درخت ہیں، یہ پھل والے درخت ہیں یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ نباتات میں آتی ہیں.یہ ساری کی ساری چیزیں حیوانات کی خدمت کر رہی ہیں، حیوانات واجسام کی خدمت کر رہی ہیں اور جو حیوانات و اجسام ہیں یعنی حیوانات کے اجسام، وہ سارے کے سارے

Page 442

خطبات ناصر جلد نهم ۴۲۸ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء آگے انسان کی خدمت کر رہے ہیں، تو کچھ خدمت نباتات و جمادات اجسام وحیوانات کی وساطت سے انسان کی کر رہے ہیں.نباتات و جمادات کچھ خدمت بالواسطہ نہیں ، بلا واسطہ ارواح کی یعنی انسان کی جس کو خدا تعالیٰ نے قائم رہنے والی روح عطا کی ہے اس کی کر رہے ہیں.سَخَّرَ لَكُم ما فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴ ) کہا گیا.تو رَبُّ العلمین کی ربوبیت کا تعلق تمام اجسام سے ہے، ہر چیز جو مخلوق ہوا اور ارواح سے بھی ہے اور تمام اجسام جو ہیں وہ ایک جہت کی طرف جارہے ہیں.پہلے وہ ملتے ہیں انسانی زندگی کے ساتھ.پھر انسان کی جو ہے کوشش اور تگ و دو اور دوڑ یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن میں روشنی پیدا کرے، اچھے اخلاق کا مالک ہو، روحانی میدان میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے اور اپنے لئے ایک ایسی پیاری ، خوشحال ابدی زندگی پائے جو مرنے کے بعد ملتی ہے انسان کو.تو ہم کھیل اس لئے کھیلتے ہیں کہ ہمارے لئے جنت میں جانا آسان ہو جائے.ہم وہ بوجھ اٹھا سکیں جن بوجھوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ جنت میں بھیجنے کے سامان پیدا کرتا ہے اپنے فضل سے.یہ جسمانی استعدادیں اور صلاحیتیں جو ہیں ان کا تعلق ربوبیتِ رَبُّ الْعَلَمِینَ سے ہے.دوسرے ہیں ذہنی صلاحیتیں ، ان کا تعلق خدا تعالیٰ کی صفت رحمن سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ہر جاندار کو جس میں انسان بھی شامل ہے اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی.جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضا کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کر دیئے.تو صفت رحمانیت کا تعلق سارے جانداروں سے ہے، حیوانات سے ہے اور تمام حیوانات کم یا زیادہ ذہن رکھتے ہیں، فوری نتیجہ نکالا.شکاری جانتے ہیں کہ ہرن جب شکاری کے سامنے جھاڑیوں میں سے نکل کے آتا ہے تو اسے ایک سیکنڈ سے زیادہ وقت نہیں لگتا یہ نتیجہ نکالنے میں کہ یہاں مجھے خطرہ ہے اور اس پھرتی سے وہ گھومتا اور پھر جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا ہے.اس کا تعلق ذہن سے ہی ہے نا.اس کے گھٹنوں سے یا اس کے پیروں سے یا اس کے سینگوں سے تو نہیں

Page 443

خطبات ناصر جلد نہم ۴۲۹ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء اس کا تعلق.لیکن سب سے زیادہ ذہن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا.بہر حال رحمانیت کا تعلق جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فیضانِ عام فرمایا ، تمام حیوانات سے ہے کیونکہ اس کا تعلق ذہنی صلاحیتوں سے ہے.آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ملا.ہر چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے.اس واسطے انسان کو ایسا ذہن ملا کہ اس کائنات کی ہر چیز سے جو اس کی خدمت پر مقرر کی گئی ہے فائدہ اٹھا سکے اور کام لے سکے.رحمانیت کا تعلق ذہنی صلاحیتوں سے ہے.رحیمیت کا تعلق اخلاقی استعدادوں سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسے فیض خاص کہتے ہیں اور اس کا تعلق صرف انسان سے ہے.صرف انسان ہے جو با اخلاق یا بد اخلاق ہے.جب مثلاً شکاری پر ریچھ حملہ کرتا ہے (ایسے علاقوں میں شکاری جاتے ہیں جہاں ریچھ رہتے ہیں ، ان کے شکار کے لئے ) تو کبھی انسان ریچھ کا شکار کر لیتا ہے کبھی ریچھ انسان کا شکار کر لیتا ہے.تو جب ریچھ حملہ کرتا ہے انسان پر تو کوئی دنیا کا انسان اسے بداخلاق نہیں کہتا.اسے خونخوار جانور تو کہتا ہے لیکن اخلاق کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ اس کی فطرت جو ہے، رحمانیت نے جو اس کو ایک دیا ہے کہ جہاں خطرہ ہے اس کا مقابلہ کر اپنی زندگی بچانے کے لئے ، اس لئے وہ حملہ کرتا ہے لیکن اس کو ہم اچھے خلق والا یا بداخلاق نہیں کہہ سکتے.جو مرغی آپ ذبح کر کے کھا جاتے ہیں اسے نہیں کہہ سکتے کہ بڑی اچھی ، اخلاق والی دیکھو! انسان پر قربان ہوگئی.مرغی کا اخلاق کے ساتھ کیا تعلق؟ اخلاق کا تعلق صرف انسان سے ہے اور خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ہے اس لئے کہ اب یہاں قائم رہنے والی روح کا ایک بنیادی ہلکا سا تعلق ہو گیا پیدا.یعنی ایک ایسا فعل جس کے نتیجہ میں استحقاق پیدا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کا.ملتا نہیں لیکن حقدار بن جاتا ہے یعنی اخلاقی نشوونما، روحانی نشوونما کے لئے راہ ہموار کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ رحیمیت کے معنی یہ ہیں کہ رحمن خدا لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمالِ صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تجزیہ اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں صرف انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نطق عطا کیا.جس طرح میں اس وقت بول رہا ہوں اور جو بھی میرے خیالات ہیں وہ بیان کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہوں ، اس

Page 444

خطبات ناصر جلد نہم ۴۳۰ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء کو کہتے ہیں نطق عطا کیا.صرف انسان کو نطق عطا کیا اس معنی میں.اشارے کرتے ہیں جانور بھی ایک دوسرے کو.مثلاً کوا کائیں کائیں کر کے دوسرے کو وں کو کہتا ہے خطرہ ہے، اڑ جاؤ یہاں سے.لیکن وہ بولنا نہیں ، وہ نطق نہیں ہے وہ تو رحمانیت کے اندر آ جاتی ہے چیز.آپ فرماتے ہیں.اس لئے (یہ میں بیچ میں لے آیا ہوں ویسے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا لیکن ایک بہت ہی لطیف بات یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما یا اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا دعا کرنا ( یہ اچھی طرح سمجھیں.بعض لوگ دعا کی طرف توجہ نہیں کرتے.اصل میں تو چوبیس گھنٹے انسان کو دعا میں گزارنے چاہئیں ) اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے.تو جو ہماری فطرت کہتی ہے کہ ہم ہر ضرورت، حاجت ، تکلیف یا ایک خواہش کے پورا ہونے کا خیال جب آئے ہم ایک خالق اور مالک، سب قدرتوں والے خدا کی طرف رجوع کریں.آپ فرماتے ہیں.عظمتوں رحیمیت کے ذریعہ سے استحقاق پیدا ہوتا ہے، جز انہیں ملتی یعنی ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ پھر وہ روحانیت میں ترقی کرے تو جنت میں جائے اور اس کو جزا ملے.ثمرہ اعمالِ صالحہ حقیقتاً پورے طور پر وہاں ملتا ہے.یہاں بھی مل جاتا ہے اس دنیا میں بھی.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ دو جنتیں ہیں.ایک کا تعلق چھوٹی سی ، محدودسی، کم وسعت والی جنت جس کا تعلق ہماری زندگی سے ہے، اس ورلی زندگی سے اور ایک وہ جہاں اللہ تعالیٰ کا پیار پوری کے ساتھ ، انسان کی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق ظاہر ہوگا اور ہر قسم کے خوف و ہراس سے محفوظ زندگی ، خوشحال زندگی، امن والی زندگی ، سلامتی والی زندگی ، پیار والی زندگی ، دکھوں سے محفوظ زندگی اس کو عطا ہوگی اور نہ ختم ہونے والی زندگی ہمیشہ ایک مقام پر نہ ٹھہر نے والی زندگی ، خدا تعالیٰ کے پیار میں ہمیشہ زیادتی دیکھنے والی زندگی ، ایک وہ جنت ہے.

Page 445

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳۱ خطبه جمعه ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء تو رحیمیت کا تعلق اخلاقی استعدادوں سے ہے اور جو اوپر کی منزل ہے سب سے اور جو مطلوب ہے پیدائش انسان کا وہ روحانی طاقتیں ہیں.روحانی طاقتیں دیں تا کہ انسانی روح جو قائم رہنے والی ہے اپنے مقصود کو پالے یعنی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اس کا قائم ہو جائے اور اس کے پیار کو ہمیشہ پالینے والی بنے.اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فیضانِ آخَص کہتے ہیں.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی یہ صفت ہے اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی صفت کا فیضان فیضانِ آخَصّ ہے اور یہ استحقاق کے بعد ثمرہ عطا کرنے والی سند ہے.جزا ملتی ہے اس سے اور استحقاق پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رحیمیت جو ہے اس نے ایسے سامان پیدا کئے کہ انسان اپنے لئے خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کا استحقاق حاصل کر لیتا ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے نتیجہ میں شمر مل جاتا ہے، خالی استحقاق نہیں.اب دیکھو نا اس دنیا میں بہت سارے ایم.اے ، بی.اے ہیں جن کو نوکری کوئی نہیں ملتی لیکن نوکری کا حق ہے ان کا ملتی نہیں.تو رحیمیت استحقاق پیدا کر دیتی ہے مالکیت یوم الدین اس کو وہ شمرہ دے دیتی ہے وہ صفت فیضانِ آخَض کی.آپ فرماتے ہیں :.اس کے دو پہلو ہیں.وسیع اور کامل طور پر عالم معاد ( یعنی مرنے کے بعد جو زندگی ہے ) میں یہ صفت متجلی ہوتی ہے، اس کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے اور دوسرے اس عالم میں بھی ، یہ جو ہماری دنیا ہے، اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفتیں جس میں ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی ہے بجلی کر رہی ہیں اور انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمانی رفعتوں تک پہنچاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں لا بٹھاتی ہیں.قرآن کریم میں ایک جگہ یہی جو ہے ایک حرکت انسان کی یا تنزل کی طرف یا روحانی طور پر رفعتوں کی طرف اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے تو اسے رفعت دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ زمین کا کیڑا بن گیا.تو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زمین کا کیڑا بن جانے سے محفوظ رکھے اور جو اس کی خواہش ہے کہ ہم اس کے پیار کو اپنے مقبول اعمال صالحہ کے نتیجہ میں حاصل کریں، اس میں وہ ہمیں کامیاب کرے.آمین.

Page 446

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳۲ خطبہ جمعہ ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء اور یہ صفت جو ہے یہ فیض کا ثمرہ بخشتی ہے یعنی وہ ہل جاتی ہے.جنت مل جاتی ہے مالکیت یوم الدین کے نتیجے میں اور اس کے لئے انسان کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھنا نہیں بلکہ شروع کرنا ہے اپنے جسم کو مضبوط کرنا خاص مقاصد کے لئے یعنی کھیلنا، کھانے کو ہضم کرنا، جسم میں صلاحیت پیدا کرنا لیکن مقصد دنیا نہ ہو بلکہ دین ہو.یہ جو آج کل کھیلیں ہو رہی ہیں نا اس سے مجھے خیال آیا کہ کھیلوں کا فلسفہ آپ کو بتا دوں.مقصد ہے یہ کہ ہمارا ذہن کمزور نہ ہو جائے جسم کی کمزوری کے ساتھ ، جسم کی بیماری کے ساتھ.مقصد یہ ہے کہ ہمارے اخلاق پر ہمارے دبلے پتلے نکے جسم جو بوجھ نہیں اٹھا سکتے وہ بیچ میں روک نہ بن جائیں.مقصد یہ ہے کہ اخلاق اچھے ہونے کے بعد ہم روحانیت میں ترقی کرنے والے ہوں.اس لئے آج باسکٹ بال کا جو ٹورنامنٹ ہو رہا ہے میرا پیغام ان کے نام یہ ہے ورزش کی روح کو سمجھتے ہوئے کھیلیں کھیلیں.یعنی یہی کہ ورزش کے نتیجے میں ہم نے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق عطا کرے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کھیلنا بچوں یا جوانوں کا کام ہے.غلط ہے اس قسم کی کھیل واقع میں ، بچوں اور جوانوں کے لئے ہے.سمجھ دار ، ثقہ، بڑی عمر کے لوگوں کو اس قسم کی کھیل کی ضرورت نہیں لیکن بڑی عمر کے لوگوں کو بھی جنت میں جانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اپنی ساری صلاحیتوں اور استعدادوں کی کامل نشو و نما کی ضرورت ہے جس میں جسمانی صلاحیتیں اور استعدادیں بھی شامل ہیں.اس واسطے جو بڑی عمر کے ہیں وہ بھی جہاں تک ہو سکے ورزش کریں.عمروں کے ساتھ ورزشوں کی شکل بدل جاتی ہے اس میں شک نہیں لیکن عمروں کے ساتھ ورزش کرنے سے نجات نہیں مل جاتی اور نہ تو پھر وہی کسی نے کہا تھا کہ روح تو کہتی ہے کہ یہ قربانی دوں مگر جسم ساتھ نہیں دیتا.مومن وہ ہے جس کا قربانی کے وقت ہمیشہ ہی مرتے دم تک جسم ساتھ دیتا ہے اور گھبرا تا نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور پیار کو ہم حاصل کرنے والے ہوں.

Page 447

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳۳ خطبہ جمعہ ۱۲ / مارچ ۱۹۸۲ء خطبہ ثانیہ سے قبل فرمایا.ایک دعا کے لئے بھی میں نے کہنا تھا.دو روز ہوئے میری بڑی بیٹی امتہ الشکور (سَلَّبَهَا الله تعالی ) کو جگر کی کسی بیماری کا بڑا سخت حملہ ہوا اور کمزوری بھی ہوگئی.دوائیاں دے رہے ہیں.اصل تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں شفا ہے.وہی شفا دینے والا ہے.پہلے تو خیال تھا کہ ایک خاص قسم کی خطر ناک بیماری ہے وہ نہ ہولیکن لاہور سے جوٹیسٹ کروایا وہ خاص بیماری تو نہیں لیکن جگر میں کوئی ایسی تکلیف ہوئی ہے.بعض دفعہ جگر میں پھوڑا بھی ہو جاتا ہے بعض دفعہ اور کوئی چیز ہو جاتی ہے جو ابھی تک نہیں پتہ لیکن اللہ تعالی کو تو ہر چیز کا علم ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے شفا دے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 448

Page 449

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳۵ خطبه جمعه ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء قرآن کریم غیر محد و دعلوم کا سر چشمہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ الربّ مر میں ہے.آمَنْ هُوَ قَانِتٌ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ - b ط ( الزمر : ١٠) یہاں هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ اس چھوٹے سے ٹکڑے میں آیت کا مضمون یہ بیان ہوا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک تو عقل عطا کی اور ایک لب عطا کی.عقل عام ہے ہر کس و ناکس میں کچھ نہ کچھ تو عقل پائی جاتی ہے.جو د ہر یہ بھی ہیں وہ بھی بعض پہلوؤں سے بڑے عقل مند ہیں.جو بت پرست ہیں وہ بھی عقل رکھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی کب نہیں رکھتا.اس کے معنی مفردات راغب میں یہ کئے گئے ہیں.اَللُّبُ الْعَقْلُ الْخَالِصُ مِنَ الشَّوائِبِ وَسُتِى بِذلِكَ لِكَوْنِهِ خَالِصَ مَا فِي الْإِنْسَانِ مِن معانِيْهِ وَ قِيْلَ هُوَ مَا زَكَى مِنَ الْعَقْلِ فَكُلُّ لُبٍ عَقْل وَلَيْسَ كُلٌّ عَقْلٍ لُنَّا وَلِهَذَا

Page 450

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳۶ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍ مارچ ۱۹۸۲ء عَلَّقَ اللهُ تَعَالَى الْأَحْكَامَ الَّتِي لَا يُدْرِكُهَا إِلَّا الْعُقُوْلُ الزَّكِيَّةُ بِأُولِي الْأَلْبَابِ - فرق یہ ہے کہ محض عقل کے لئے پاکیزگی کی ضرورت نہیں لیکن اس عقل کے لئے جو لب کہلاتی ہے پاکیزگی کی ضرورت ہے.الْخَالِصُ مِنَ الشَّوائِبِ کے معنی ہیں کہ جس میں کوئی عیب نہ پایا جائے کوئی ناپاکی نہ پائی جائے ، دئس نہ پایا جائے اور جو مقصدِ حیات ہے اس سے دور لے جانے والی چیز نہ پائی جائے.تو وہ عقل جو الخَالِصُ مِنَ الشَّوائِبِ ہے اسے لب کہتے ہیں اور یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں وہ ان جیسے نہیں جو علم نہیں رکھتے لیکن جس علم کا یہاں ذکر کیا گیا وہ عام علم نہیں جو عام عقل کے ذریعہ سے حاصل کیا جاتا ہے اس لئے آگے فرما یا انمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ جو اولوا الا لباب ہیں وہ نصیحت حاصل کرتے ہیں.وہ علم رکھتے ہیں اور علم سے نصیحت حاصل کرتے ہیں.بنیادی علم جو انسان کی ہدایت کا موجب بنتا اور جس سے وہ نصیحت حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور جو ہے وہ اس کا علم ہے یعنی معرفت ذات باری تعالیٰ کا علم رکھنا، یہ تعلق رکھتا ہے اس انسان سے جو اولوالالباب کے گروہ میں ہے اور ہر جلوہ اللہ تعالیٰ کی صفت کا ایک Pointer(پوائنٹر ) ہے کسی جہت کی طرف اشارہ کر رہا ہے.قرآن کریم نے یہاں تو ( هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ایک آیت کا چھوٹا سا ٹکڑہ ہے اس میں ) یہ حقیقت بیان کی لیکن بھرا پڑا ہے اس تفصیل سے کہ مراد کیا ہے علم سے.چند ایک مثالیں دو ایک میں دوں گا ابھی.اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر عقل مند جو ہے وہ آخرت کا خوف تو نہیں رکھتا.یہ جو بڑے بڑے عقل مند بڑی ایجادیں انہوں نے کیں ہیں، ان کے دل میں کوئی آخرت کا خوف نہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ اکثر کے دل میں، کیونکہ اب مسلمان بھی ابھر رہا ہے.ڈاکٹر سلام بھی آگے نکل آئے ہیں.تو دنیا کے اکثر سائنسدان ایسے ہیں جن کے دل میں آخرت کا خوف نہیں یعنی اس بات سے وہ خائف نہیں کہ ہماری زندگی کا ایک مقصد ہے اور اگر ہم اس مقصد کے حصول میں نا کام ہوئے تو اللہ تعالیٰ کا غضب ہم پہ بھر کے گا اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں.وہ خدا کو ہی نہیں مانتے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امیدرکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.

Page 451

خطبات ناصر جلد نہم ۴۳۷ خطبہ جمعہ ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء تو آمَنْ هُوَ قَانِتَ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِما اس کی تفسیر لمبی میں میں نہیں جاؤں گا اس وقت.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ بتایا کہ جو راتوں کو اٹھتے اور اپنی فرمانبرداری کا اعلان کرتے ہیں خدا کے سامنے چھپ کے سَاجِدًا وَ قابِما سجدہ کرتے ہوئے اور قیام میں.اس کی بڑی لمبی چوڑی تفسیریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کی ہیں ،حضرت مصلح موعود نے بھی کی ہے بہر حال یہ کیفیت قَانِتٌ آنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قابِما یہ پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ، جہاں جزا سزا کا فیصلہ ہوگا.جب تک انسان یہ نہ سمجھے کہ میری مخلصانہ کوشش اور مقبول اعمال کے نتیجہ میں اس قدر اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل کرتا ہے کہ ان کا شمار نہیں اس وقت تک وہ راتوں کو اٹھ کے اپنی عاجزی کا متضرعانہ دعاؤں کا راستہ اختیار نہیں کرتا.تو اعلان یہ کیا گیا کہ لَا يَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ جو عالم ہیں وہ جاہل کے برابر نہیں ہو سکتے اور مراد یہ ہے کہ ایسے عالم جو ” اولوالالباب“ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے الْعَقْلُ الخَالِص دی ہے.جس عقل میں کوئی عیب اور ناپاکی نہیں اور جو مابہ الامتیاز پیدا کرتی ہے اس عقل کے درمیان جو خدا تعالیٰ کے نور اور حسن سے بھر پور ہے اور اُس عقل کے درمیان جو اندھیروں میں Grope ( گروپ) کر رہی ہے، ہاتھ پاؤں مار رہی ہے.(صاحب) مفردات راغب معنی بھی کرتے ہیں الفاظ قرآنی کا اور بڑے چھوٹے چھوٹے فقروں میں تفسیر بھی بتا جاتے ہیں.انہوں نے اس جگہ یہ بھی لکھا ؤ لهذا ( کہ جو میں نے معنی کئے ہیں صاحب مفردات راغب نے که اللُّبُ الْعَقْلُ الْخَالِصُ اور مَا زَكَى مِنَ الْعَقْلِ ) اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عَلَّقَ اللهُ تَعَالَى الأحكام الَّتِي لَا يُدْرِكُهَا إِلَّا الْعُقُولُ الزَّكِيَّةُ بِأُولِي الْأَلْبَابِ ان احکام کا اور ہدایات کا تعلق قائم کیا ہے ان عقول کے ساتھ جو پاک ہیں اور اولوا الالباب کے پاس ہیں وہ.چند مثالیں :.سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۳۸ میں ہے.اللہ تعالیٰ کو آیات کے نازل کرنے پر قادر نہ سمجھنا یعنی یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اب آیات

Page 452

خطبات ناصر جلد نہم ۴۳۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء کے نزول پر قادر نہیں رہا ( یہ آیت کا ترجمہ ہے.میں عربی نہیں لے رہا ) ان لوگوں کا کام ہے جو لا يعلمون جو عقل تو رکھتے ہیں لیکن پاکیزہ عقل نہیں رکھتے.جاہل ہیں اس لحاظ سے.ایک اور آیت ہے.اللہ کا وعدہ یقیناً پورا ہونے والا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اپنی پوری قدرتوں کے ساتھ اور پورے غلبہ کے ساتھ ایسی نہیں کہ وعدہ کرے اور پورا نہ کر سکے اور وہ جو طہارت کا سرچشمہ ہے اس کے وعدے ایسے نہیں کہ وہ وعدہ کرے اور پورا کرنے کا ارادہ چھوڑ دے یعنی دغا کر جائے وعدہ خلافی کر جائے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقیناً پورا ہونے والا ہے.ایسا سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے دیئے ہیں وہ پورے ہوں گے، یعلمون ان لوگوں کا کام ہے ( اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر تھا ) کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں پاکیزہ عقل ، لب کے نتیجہ میں اس گروہ میں شامل ہیں.ایسانہ سمجھنا جہالت ہے.یہ آیت تو ہے چھوٹی سی لیکن قرآن کریم نے تبشیر وانذار سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں وعدے دیئے ہمیں اور ایسے بھی وعدے تھے جن کا تعلق خاص گروہوں کے ساتھ ہے.ایسے بھی وعدے ہیں جن کا تعلق ہر اس شخص کے ساتھ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے.تو وعدہ ہے وہ تمہیں دے دیا جائے گا.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ یقیناً پورا کرنے والا ہے لیکن انسان دوگروہوں میں بٹ گئے.ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ پورانہیں کرتا یا نہیں کر سکتا اور ایک وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ پہلے اپنی پوری قدرتوں اور غلبہ کے ساتھ تھا، ہے اور آئندہ ویسا ہی رہے گا.اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں نا ہوتی.ایک تو یہ گروہ ہے اور ایک وہ ہے جو کہتا ہے نہیں.وعدے تو ہیں ، پورے ہوں نہیں ہوں گے یا شک میں پڑ گئے کہ پورے شاید نہ ہوں.طارق نے جب کشتیاں جلائیں وہ شک میں نہیں پڑے.انہیں یہ پتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے آنتم الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۴۰) ان کو فکر اپنے ایمان کی تھی.ان کو خدا تعالیٰ طرف سے بے وفائی، وعدہ کی بے وفائی کا خوف نہیں تھا.چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اخلاص کے.

Page 453

خطبات ناصر جلد نهم ۴۳۹ خطبه جمعه ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء ساتھ اور خدا تعالیٰ کی محبت میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت میں یہاں آئے ہیں ان کے مخالفانہ منصوبوں کو نا کام کرنے کے لئے ، اس لئے ہمیں کسی مادی دنیوی سہارے کی ضرورت نہیں.اور پھر چودہ سو سال اور پھر پندرہویں صدی کا جو کچھ حصہ گزرا ہے جنہوں نے یہ سمجھا اور شناخت کیا اور یہ معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے، پورا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور اس کا جو نقدس ہے جو اس کی طہارت ہے سُبحَانَ اللہ میں جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اپنے وجود کی وہ تقاضا کرتی ہے کہ جو وہ وعدہ کرے وہ پورا کرے.ہاں اس نے شرط لگائی ہے بندوں پر، ایسا کرو گے میں وعدہ پورا کروں گا.ایسا نہیں کرو گے تمہارے اندر استحقاق نہیں رہے گا کہ میں وعدہ پورا کروں.اس کی ذمہ داری بندے پر ہے خدا پر نہیں ہے اور خوف کا مقام ہے.پھر سورۃ یوسف کی اکیالیسویں آیت میں ہے.فیصلہ کرنا اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں.(بڑے عجیب اعلان ہوئے ہوئے ہیں قرآن کریم میں ) اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ اور اس نے حکم دیا ہے جس کے اختیار میں فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.یہی درست مذہب ہے.خالص توحید.اعلان کرنا آسان ہے.عمل کرنا مشکل بھی ہے، آسان بھی ہے.عمل کر کے جو نعماء ملتی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور فضل نازل ہوتے ہیں ان کا شمار نہیں.یہ توفیق کہ انسان کا رواں رواں یہ پکا رہا ہو مولا بس.اللہ کے سوا ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں.جو ایسا نہیں سمجھتے ، کچھ بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں کچھ بھروسہ غیر اللہ پر رکھتے ہیں لا یعلمون کے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی وہ لوگ جواب سے، روحانی پاکیزگی سے ، مومنانہ فراست سے محروم کئے گئے ہیں.پھر انتیسویں سورۃ کی پینسٹھویں آیت میں یہ ہے:.یہ ورلی زندگی صرف ایک غفلت اور کھیل کا سامان ہے اور اُخروی زندگی کا گھر ہی در حقیقت اصلی زندگی کا گھر کہلا سکتا ہے.

Page 454

خطبات ناصر جلد نہم ۴۴۰ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍ مارچ ۱۹۸۲ء اب ہر ایک جو یہاں بیٹھا ہے یا جس تک میری آواز پہنچے اگر وہ دو سیکنڈ کے لئے سوچے کہ جو زمانہ گزرگیا ستر سال کا یا پچاس سال کا اپنی عمر کے لحاظ سے بیس سال کا یا دس سال کا گزرنے کے بعد اس کے سوا کوئی احساس باقی نہیں رہتا کہ شاید چند سیکنڈ ہی ہیں جو گزرے لیکن اُخروی زندگی پر یقین جو ہے ہمیں ، وہ ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ وہ ابدی زندگی ہے، نہ ختم ہونے والی.بنیادی طور پر اُخروی زندگی کی دو عجیب خصوصیات اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھیں.ایک یہ کہ وہ نہ ختم ہونے والی ہے.دوسرے یہ کہ ہمیشہ حرکت کرنے والی ہے.حرکت رفعت کی طرف ، خدا تعالیٰ کے زیادہ پیار کی طرف اللہ تعالیٰ کے عرفان کو زیادہ حاصل کرنے کی طرف، لذت وسرور کا احساس پہلے سے ہر آن زیادہ ہو جانے کی طرف حرکت.لیکن یہ ورلی زندگی غفلت اور کھیل کا سامان ہے.اس میں خوشیاں بھی زندگی کے اندر، اسی زندگی کے دائرے میں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہوتیں.خوشی ہوتی ہے، چند گھنٹوں کے لئے ہوتی ہے.کئی یہاں بھی شاید نوجوان بیٹھے ہوں جن کو مثلاً ہاکی کی کھیل سے بہت پیار ہے اور وہ دیکھتے ہیں.میں نے پیچھے بتایا تھا باسکٹ بال والوں کو کہ ہم تو ہر خوبصورتی میں خدا تعالیٰ کے حسن کا جلوہ دیکھتے ہیں.اس واسطے جہاں بھی ہمیں خوبصورتی نظر آئے ہم الْحَمدُ لِلهِ پڑھنے والے ہیں.تو کھیل میں بھی بڑی خوبصورت Move (مود) کہتے ہیں ان کو، وہ ہوتی ہیں اور بڑی بھیا نک ، بدشکل کہہ دیں ہم ، بڑی مو بھی ہوتی ہیں لیکن جو ہا کی کا میچ دیکھتا ہے وہ ایک گھنٹہ کچھ منٹ کے بعد ختم ہو گیا.لیکن جو جنت کی خوشی ہے وہ ایک گھنٹہ یا ایک دن یا ایک مہینہ یا ایک سال یا ایک صدی یا ایک Million کا زمانہ ( لفظ مجھے پوری طرح نہیں رہا ذہن میں ) یعنی لاکھوں سال یا اربوں سال یا کھربوں سال کا زمانہ تو نہیں ہے.وہ تو نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.پھر اس میں حکمت یہ ہے، یہ جو تبدیلی ہے یعنی لذت کا بڑھتے چلے جانا اس واسطے کہ اگر لذت اور سرور خواہ وہ روحانی ہو خواہ اس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہو اگر اس میں ٹھہراؤ آجائے تو بور ہو جائے گا آدمی.ایک ہی چیز اگر آپ کو بہت اچھی لگتی ہے اور صبح شام آپ کی بیوی وہی پکا کے آپ کو کھلا نا شروع کر دے تو دو، چار، پانچ دس دن کے بعد آپ کہیں گے کہ

Page 455

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۱ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍ مارچ ۱۹۸۲ء یہ کیا شروع کیا ہوا ہے میرے ساتھ تم نے سلوک ؟ تو بوریت کوئی نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ اب میں یہ کھاتے کھاتے تھک گیا ہوں اس لئے کہ وہ Change ( چینج ) ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صبح انسان جنت میں جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرے گا شام کو اس سے بڑھ کے کرے گا.اگلی صبح اس سے بھی بڑھ کے کرے گا.اس واسطے ان لوگوں کا خیال بالکل غلط ہے کہ وہاں عمل نہیں ہے.جنت میں عمل ہے، امتحان نہیں ہے.عمل ہے، اس کی جزا ساتھ ساتھ ملتی ہے یعنی اگر ( میں فلسفہ بتانے لگا ہوں آپ کو، بہت سارے سمجھ جائیں گے ) جنت میں داخل کئے جانے کا استحقاق ہماری ورلی زندگی کے مقبول اعمال نے پیدا کر دیا تو جو پہلے دن جنتی نے عمل کیا اس کا استحقاق کیسے پیدا ہو سکتا ہے.وہ یہی ہے.پھر وہ Plus ( پلس ) ہو گیا نا اس استحقاق کے ساتھ.پھر اگلے دن کا وہ Plus ( پلس ) ہو گیا اس استحقاق کے ساتھ ، اس لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ ، ان کا احساس خوشی کا ، پہلے سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے.دوسری بات ابھی آئی تھی میرے ذہن میں وہ نکل گئی کسی اور وقت سہی ) اب میں واپس آ جاتا ہوں هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ کی طرف.میں نے جماعت کو کہا ہر شخص علم حاصل کرے.میں نے ابتدا کی تھی اپنے بچوں سے اور ان کا بھی ابتدائی پروگرام بنایا کہ ہر بچہ ہمارا جو ہے وہ میٹرک تک پڑھے.میرے ذہن میں تھا کہ چند سالوں تک جب حالات زیادہ اچھے ہو جائیں گے ہمارے تو میں کہوں گا ہر بچہ ایف.اے، ایف.ایس.سی یعنی انٹر میڈیٹ تک پڑھے.پھر میں کہوں گا ہر بچہ ہمارا گریجویٹ، گریجویشن تک یعنی بی.اے ، بی.ایس.سی تک پڑھے پھر میں کہوں گا کہ ہر بچہ ہمارا ایم.اے ، ایم.ایس.سی تک پڑھے.اس میں کچھ رہ جائیں گے اپنی قابلیت کی وجہ سے.بس اس طرح ہمارا علم کے میدان میں جو محاذ ہے وہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا.اب میں کہتا ہوں ہر احمدی اس آیت کی روشنی میں هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ کب عطا کرے، عقل سلیم عطا کرے اس کے صحیح استعمال کی طاقت اور استعداد عطا کرے اور آپ کے ذہنوں میں جلا پیدا کرے اور قرآن کریم جو سر چشمہ ہے غیر محدود علوم کا ، اس میں سے آپ ہر روز ہی اپنی اس

Page 456

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء ور لی زندگی میں نئے سے نئے علوم نکالتے رہیں اور علم میں زیادتی ہوتی رہے آپ کی اور اگر آپ دعا کریں گے اور غور کریں گے قرآن کریم پر اور اللہ تعالیٰ کی صفات پر ،اس کی صفات کے جلووں پر تو علم کی تو انتہا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ ہر آن اللہ تعالیٰ کے جلوے اپنی مخلوق پر ظاہر ہورہے ہیں اس لئے کوئی چیز بھی ایسی نہیں اس مادی دنیا میں کہ جس کے خواص غیر محمد ود نہ ہوں.اور جواب نئی تحقیق شروع ہوئی ہے ایک جگہ آ کے ٹھہر جاتی ہے.ایک نسل کی ، پہلے بھی میں نے مثال دی ہے بڑی واضح ہے اس لئے میں دہرا تا رہتا ہوں.ایک وقت میں ایک نسل نے کہا افیم میں چودہ است ہیں.اگلی نسل نے کہا افیم میں اٹھائیں " است ہیں.اس سے اگلی نسل نے کہا افیم میں چوالیس است ہیں اور اسی طرح وہ بڑھتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا نوع انسانی قیامت تک کوشش کرتی ہے شخص کے ایک ذرے کے جوخواص ہیں وہ ان پر حاوی نہیں ہوسکتی.اور انسان کا وہ حصہ جو Unfortunately بد قسمتی سے اپنی خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم بھی ہے، جو حقیقی رحمتیں ہیں لیکن لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ الَّا مَا سَعَى (النجم :۴۰) کے وعدہ کے نتیجہ میں جن میدانوں میں انہوں نے کوشش کی ان میں ترقیات بھی انہوں نے کیں، وہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی یہ Disvcoveries ( ڈسکوریز ) جو ہیں ، نئی سے نئی معلومات جو ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو حقیقت ہمارے سامنے رکھی ، اس کو ظاہر کر کے ہمارے سامنے پیش کر رہی ہیں.قرآن کریم نے کہا تھا کہ شہر میں تمام بیماریوں کا علاج موجود ہے.معترض نے اعتراض کیا تھا یہ تو بڑا نا معقول ہے دعوئی اور اسی معترض نے یعنی قومی لحاظ سے یہ ثابت کر دیا شہد کی بعض صفات یا شہد کی مکھی کی بعض صفات سے کہ ناممکن نہیں.یہ جو دعویٰ کیا گیا کہ فِيْهِ شِفَاء لِلنَّاسِ (النحل:۷۰) یہ نامعقول نہیں ہے.ہمارا اعلم ان حدود تک بھی نہیں پہنچا ( انتہا تک تو پہنچ ہی نہیں سکتا میرے اس مضمون کی روشنی میں) کہ جو ستر ، اسی ، سو بیماریاں سامنے آتی ہیں ان کا علاج شہد سے کیا جاسکے.

Page 457

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۳ خطبه جمعه ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء اسے سمجھنے کی ، جہاں ہم سمجھ سکتے ہیں اس حقیقت اور اصول کو وہ یہ ہے کہ نئی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ شہد کی مکھی Mix ( مکس ) نہیں کرتی Nectar (نیکٹر ) کو بلکہ جب تک کسی پھول سے وہ نیکٹر اٹھانا شروع کرے شہر بنانے کے لئے جب تک وہ نیکٹر اسے میسر رہے وہ اسی کے پاس جاتی ہے.یعنی کوئی ہزار ڈیڑھ ہزارکھی جو ہے ان کی ورکر، وہ باہر نکلتی ہے گلاب کے پھول سے اٹھالیا تو صرف گلاب کے پھول پر جائے گی جب تک گلاب کے پھول اس کو میسر ہیں اس کے اٹھانے کے لئے.جب ختم ہو جائے گلاب تب وہ دوسرے پھول کے پاس جاتی ہے.پھر جو اس کا چھتہ ہے اس میں گلاب کے پھول کے ساتھ وہ Mix نہیں کرے گی اس شہد کو بلکہ چھتے کے اندر ایک نئی جگہ نئے شہد کو جمع کرنا شروع کر دے گی اور پرانے شہد کو وہ کھانا شروع کر دے گی.وہ اپنے لئے بناتی ہے کچھ ہمیں بھی دے دیتی ہے تحفہ.اب طب یونانی نے قریبا ہر بیماری کا علاج جڑی بوٹیوں سے اور ہومیو پیتھک نے ایک قدم آگے بڑھ کے یہ کہا کہ جڑی بوٹی ( ہومیو پیتھک جس شکل میں بھی بناتے ہیں پوٹینسی ) کی دوا پہلے وہ استعمال کرو.جب بالکل ناکام ہو جاؤ پھر معدنیات کی طرف آؤ.کیلشیم دے دو، یہ دے دو، دے دو لیکن پہلے وہ TTY کرنی ہے تم نے.تو سب سے اچھی وہ ہے اور انسانی جسم مادی دنیا میں سب سے لطیف جسم ہے اور Nectar (نیکٹر ) مادی دنیا میں سب سے لطیف غذا ہے.اس واسطے عقلاً انسانی جسم کے سب سے زیادہ موافق ہے.امل تاس استعمال کرتی ہے طب جلاب کے لئے.بہترین علاج انسان کے لئے امل تاس کے پھول کا شہد ہے اگر مکھی وہاں سے اٹھانا شروع کر دے تو چھتے میں سے خالص شہد امل تاس کا آپ کو مل جائے گا.اور یہ خاصیت کہ یہ پالی جاسکتی ہے.اب یہ مثلاً چین نے تجربے کئے ہیں وہ اپنی مرضی سے جن پھولوں سے شہد بنانا چاہیں وہ بنا لیتے ہیں.پھر اس علم کے بعد پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ Orange Blossom کا شہد ہے، مالٹے اور سنگترے وغیرہ میں پھول آتے ہیں نا، بڑی خوشبو ہوتی ہے اس میں ، اس کے پھول کے اندر.اس واسطے کہ اگر مکھی کا چھتہ جو پلی ہوئی مکھی ہے وہاں ہو اور پھول نکل آئیں اور پہلے پھول ان کو ملنے بند ہو جائیں اور مالک باغ اور کھی کے چھتے کو دیکھے کہ میرے چھتے کی مکھیاں ان

Page 458

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۴ خطبہ جمعہ ۱۹ / مارچ ۱۹۸۲ء پھولوں کی طرف، Orange Blossom کی طرف جا رہی ہیں اور وہاں سے لا رہی ہیں نیکٹر تو وہ قسم کھا سکتا ہے کہ یہ اس کا پھول ہے کیونکہ Mix کرتی ہی نہیں.تو یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے اور علم کے دروازے.میں نے ایک ڈاکٹر سے کہا تھا.یہاں نہیں آئے یہ تو بلین ڈالر ریسرچ پروگرام دیئے ہیں خدا تعالیٰ نے ہمیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے.آگے بڑھو ، آگے بڑھو.اصل چیز ہے روحانیت میں آگے بڑھو.خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے عرفان میں آگے بڑھو.اس کے لئے دعائیں کریں.اس کے لئے غور کریں.اس کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اولوا الالباب میں اللہ تعالیٰ ہمیں شامل کرے.ان عقل مندوں میں شامل نہ کرے جن کے ساتھ وہ دوسر افقرہ استعمال نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور اپنے فضلوں سے ہمیں نوازے اور وہ دے ہمیں جو دینے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۲ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 459

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۵ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۸۲ء انسانی زندگی کے ہر فعل کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے دعا کی ضرورت ہے خطبه جمعه فرموده ۲۶ / مارچ ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ہر چیز پیدا کر دی لیکن اس کی فطرت میں یہ بھی رکھا کہ ہر چیز کے حصول کے لئے وہ اپنے رب کریم کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے مانگے گا.انسانی ضروریات دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ قسم ہے جس میں کائنات کی ہر شے اس کے ساتھ شامل ہے اور اس قسم کی ضرورتوں کے لئے مانگنے کی حاجت نہیں مثلاً دل کی دھڑکن ہے.زندگی کے ساتھ ضروری ہے کہ دل اپنی صحت مند حرکت کے ساتھ دھڑکتار ہے.تو کہیں ہمیں یہ دعا نہیں سکھائی گئی کہ اے اللہ ! ہمارا دل اپنی صحت مند حرکت کے ساتھ دھڑکتا رہے.صحت کی دعا سکھائی لیکن جو ضرورت دل کو تھی دل کو دعا کرنے کی ضرورت نہیں تھی.یہ چیز میں اس وقت واضح کرنا چاہتا ہوں.آنکھ کو اپنے دیکھنے کے لئے کسی دعا کی حاجت نہیں تھی اس کی حاجت اللہ تعالیٰ بغیر دعا کے پوری کر رہا ہے.اسی طرح انسان کے جسم کا ہر ذرہ جو ہے اس کی وہ ضرورت جو دوسری کائنات کی مخلوقات میں مشترک ہے وہ اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اور اس کے لئے انسانی تدبیر ایک اور رنگ میں ظاہر ہوتی ہے جس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا لیکن انسان کو

Page 460

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۶ خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۸۲ء انسان کے ناطے، انسان جس غرض اور مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے ہر چیز جس کی اسے ضرورت ہے اس ہر چیز کے لئے اسے دعا کرنے کی بھی ضرورت ہے.اس لئے کہ انسان کو بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا.اس لئے پیدا کیا گیا کہ وہ اس کا بندہ بنے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ الثَّريت : ۵۷) عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا.عبد بننے کے لئے صرف انسان کو پیدا کیا گیا.اس کائنات کی بے شمار مخلوق میں سے کسی اور چیز کو عبد بننے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا.ان کی کیفیت يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: ۵۱) خدا تعالیٰ حکم دیتا چلا جاتا ہے وہ کرتے چلے جاتے ہیں.ان کو نافرمانی کی طاقت بھی نہیں ملی.اس کا احساس بھی نہیں کیونکہ وہ کرتے ہی نہیں لیکن چونکہ انسان ایک بلند مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا عبد بنے اور اس کے پیار کو حاصل کرے اس لئے صرف انسان کے ساتھ یہ لگایا کہ دعا کرو، ملے گا.دعا نہیں کرو گے نہیں ملے گا یعنی عبد بننے کے لئے اپنی انسانی زندگی میں کامیابی کے لئے ، خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے، خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت اور پیار دیکھنے کے لئے، خدا تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے بے شمار عمل کرنے پڑتے ہیں جنہیں اسلامی اصطلاح میں اعمالِ صالحہ کہا جاتا ہے.انسانی زندگی کا ہر فعل اسی غرض کے لئے ہونا چاہیے اور انسانی زندگی کے ہر فعل کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو فرما یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان ہوا.مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان:۷۸) عربی زبان میں يَعْبُوا کے کیا معنی ہیں.اس کے معنی ہمیں بتائیں گے کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے.منجد ایک چھوٹی کتاب ہے لغت کی اُس نے تو یہ لکھا ہے:.لَا أَعْبَأُ بِهِ أَن لَا أَبَالِي بِه اختقارًا که حقارت کے نتیجہ میں جو یعنی خدا کہتا ہے کہ میرے اندر تمہارے لئے تحقیر پیدا ہوگی اور میں تمہاری پرواہ نہیں کروں گا اگر تم دعا نہیں کرو گے.مفردات نے اس کے یہ معنی کئے ہیں مَا عَبَأْتُ بِهِ أَيْ لَمْ أَبَالِ بِهِ كَانَهُ قَالَ یعنی آپ کہتے ہیں کہ گویا خدا نے یہ اعلان کیا مَا أَرى لَهُ وَزْنَا وَ قَدْرًا کوئی قدر میرے دل میں ایسے بندہ

Page 461

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۷ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۸۲ء کے لئے نہیں ہوگی ، نہ کوئی مقام ہوگا اس کے لئے اگر وہ دعا نہیں کرتا.پس جس طرح ہمارے جسم کے ساتھ دل کی دھڑکن اور خون کی روانی لگی ہوئی ہے اسی طرح ہماری روح کے ساتھ دعا لگی ہوئی ہے اگر انسان سمجھے.اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز کے حصول کے لئے اپنے آپ کو کچھ سمجھ نہ لینا، خدا سے مانگنا یہاں تک کہ اگر تمہارے بوٹ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو بوٹ کا تسمہ بھی اپنے خدا سے مانگنا اور خود میرے مشاہدہ میں ہے کہ بعض دفعہ ایک انسان ایک چھوٹی سی غرض کے حصول کے لئے سائیکل پر سوار ہوتا اور چند فرلانگ پر اس نے جانا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اگر مقبول دعا کئے بغیر وہ روانہ ہو جاتا ہے تو مقصود تک پہنچنے سے پہلے راستہ میں اس کا دم نکل جاتا ہے.زندگی اور موت کسی کے اختیار میں نہیں.روحانی طور پر اور اخلاقی لحاظ سے کامیابیاں اور نا کامی بھی کسی کے اختیار میں نہیں.خدا تعالیٰ کی نظر سے گر جانا اور خدا تعالیٰ کی نظر میں پیار دیکھنا، یہ بھی کسی کے اختیار میں نہیں.خدا تعالیٰ کی درگاہ تک پہنچ جانا یا درگاہ سے دھتکارا جانا ، یہ بھی کسی کے اختیار میں نہیں.یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اس لئے فرما یا :.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ دعا کے ذریعہ سے اپنی تمام انسانی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کرو.دعا قبول ہوگی کامیاب ہو جاؤ گے.دعا قبول نہیں ہوگی ناکام ہو جاؤ گے.آج کا دن جماعتِ احمدیہ کی زندگی میں ہر سال بہت اہمیت لئے ہوئے آتا ہے کیونکہ مجلس شوری آج منعقد ہوگی.اس کا افتتاح ہوگا بہت ساری باتوں پر غور کیا جائے گا.ہمارے ذمہ جو اللہ تعالیٰ نے کام لگایا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کریں دلوں کو جیت کر اور مردوں کو زندہ کر کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کر کے خدا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کونے کونے میں گاڑیں.یہ جو عظیم مہم اور مجاہدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ثابت کرنے اور آپ کے نور اور حسن سے اس زمین کو روشن اور خوبصورت بنانے کے لئے شروع کیا گیا ہے یہ ہماری باتیں ہماری فکر ہمارا غور ہمارے مشورے سب اس غرض کے لئے ہوں گے.اگر جوتی کا تسمہ بھی ہم نے اپنے رب کی

Page 462

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۸ خطبه جمعه ۲۶ / مارچ ۱۹۸۲ء طرف عاجزانہ جھک کر حاصل کرنا ہے تو زیادہ جھک کر زیادہ عاجزی اور تضرع کے ساتھ دعائیں کر کے اس مقصد کے حصول کی ہم نے کوشش کرنی ہے.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح مشورہ دینے کی صیح غور کرنے کی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی توفیق عطا کرے اور جس طرح ہم سے آج تک یہ سلوک اس کا ہوتا رہا اب بھی یہی سلوک ہو کہ ہماری بالکل ہی ناچیز کوششیں بہت بڑے نتائج پیدا کرنے والی ہوں اور ہم اس خالق و مالک کے حضور جو ذرہ ناچیز پیش کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں وہ نتائج نکلیں کہ دنیا کی عقل تو دنگ رہتی ہے ہم بھی حیران ہوتے ہیں کہ ایک دھیلا پیش کیا تھا اور کروڑوں کروڑ روپے کا نتیجہ اس کے مقابلے میں نکل آیا.یہ میرے اور آپ کے بس کی بات نہیں.یہ صرف وہ قادر وتوانا ہے جو ایسا کرسکتا ہے.خدا کرے کہ وہ ایسا کرے عملاً.روزنامه الفضل ربوه ۵/اکتوبر ۱۹۸۲ء صفحه ۳،۲)

Page 463

خطبات ناصر جلد نهم ۴۴۹ خطبه جمعه ۱/۲ پریل ۱۹۸۲ء عربات سب کی سب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے خطبه جمعه فرموده ۲ را پریل ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.انسانی فطرت شرف اور عزت کا مطالبہ کرتی ہے.ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے عزت کا مقام ملے.ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کی عزت کریں، احترام سے اس سے پیش آئیں ،حقارت سے اسے نہ دیکھیں.انسانیت اس نقطۂ نگاہ سے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے.ایک حصہ وہ ہے جو عزت کی تلاش اپنے رب کریم کی نگاہ میں کرتا ہے.ایک حصہ وہ ہے جو عزت کے لئے انسانوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے.بعض لوگ دولت کو عزت کا سر چشمہ سمجھتے ہیں.وہ دولتمند کے گردگھومنے لگ جاتے ہیں کہ شاید ان کی صحبت ہمیں معزز بنادے گی.بعض لوگ ورثہ میں ملی ہوئی خاندانی وجاہت کو عزت کا سبب جانتے ہیں اور ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں عزت کی تلاش میں.بعض لوگ اثر و رسوخ کو عزت کا منبع سمجھتے ہیں اور جو لوگ دنیوی لحاظ سے اثر اور رسوخ رکھنے والے ہیں ان کی صحبت میں بیٹھتے ہیں، ان کے گرد گھومتے ہیں تا کہ وہ بھی ان کی وجہ سے معزز بن جائیں.بعض لوگ علم کو عزت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں.بڑے بڑے عالم دنیوی لحاظ سے جو گزرے، ان کے

Page 464

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵۰ خطبه جمعه ۱/۲ پریل ۱۹۸۲ء شاگرد ہونے میں فخر سمجھتے ہیں اگر ان کی زندگی میں شاگردی کا موقع انہیں ملا یا ان کی کتابوں کی رٹ لگائے پھرتے ہیں یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اتنے معزز سکالرز جو دنیا میں پیدا ہوئے ہمارا ذہنی تعلق علمی لحاظ سے ان کے ساتھ قائم ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے سب جھوٹ ! اللہ کے سوا کسی اور سے عزت نہیں مل سکتی.فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (النساء :۱۴۰) عزت ساری کی ساری، ہر قسم کی ، ہر رنگ کی ، ہر جہت سے اللہ تعالیٰ سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے.پوری آیت یوں ہے.الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاء مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر اس کی نگاہ میں معزز بن گئے ، انہیں چھوڑ کے اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں اور اس کی عظمتوں کو پہچانتے نہیں اور اس کے دین سے دور رہتے ہیں اور اس کے احکام کو بوجھ سمجھتے ہیں، ان کو اپنا دوست بناتے ہیں.اس لئے فرمایا کیا وہ ان کے پاس عزت کے خواہاں ہیں ؟ ایبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةُ کیا یہ حرکتیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنے والے ہیں ان کی صحبت میں رہ کے یہ دنیا میں عزت پالیں گے؟ نہیں! فَانَ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا اگر ایسا ہے تو وہ یا درکھیں کہ عزت سب کی سب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے.عزت کے سب سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے.عزت کے حصول کی ساری راہیں اس نے کھولیں.ان کی طرف اسی نے رہنمائی کی.حقیقی عزت کی بخشش اسی دربار سے ہوتی ہے.یہ جو دنیا کی عزتیں ہیں ہمارا مشاہدہ یہ ہے، انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آج جس کو سر پر اٹھا یا کل اسے گالیاں دینی شروع کر دیں.دولت کو عزت کا سرچشمہ سمجھا خدا تعالیٰ نے دولت چھین لی وہ انسان جب کنگال ہو گیا اسی کی بے عزتی کرنی شروع کر دی.جہاں سے عزت پارہے تھے اس کو حقیر سمجھنا شروع کر دیا.اثر ورسوخ بھی آتا ہے، جاتا ہے.جب آیا تو گھٹنوں کو ہاتھ لگایا.جب گیا تو بوٹ کے ٹھڈے مارنے شروع کر دیئے.حقیقی عزت کہ جب تک انسان اپنی عاجزی اور فروتنی اور اللہ تعالیٰ کی خشیت کے مقام کو نہ چھوڑے، خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت اور خدا تعالیٰ کی کائنات میں اس کے لئے عزت ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فطرت کا یہ تقاضا صرف میرے دربار سے پورا ہوتا ہے.یہ جو ہم

Page 465

خطبات ناصر جلد نہم ۴۵۱ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۸۲ء نے فطرت میں رکھا، اللہ ہی نے رکھا یہ کہ انسان عزت کا خواہاں ہو.قرآن کریم اسی لئے آیا اور قرآن کریم نے دعوی بھی یہ کیا کہ میں اس لئے آیا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ المومنون میں.وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمُوتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ آتَيْنَهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (المؤمنون: ۷۲) اور اگر حق ان کی خواہشات کی اتباع کرتا تو سب آسمان اور زمین اور جوان کے اندر بستے ہیں تباہ ہو جاتے.حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان کے پاس، ان کے پاس، ان کی عزت کا سامان لے کر آئے ہیں اور وہ اپنی عزت کے سامان سے اعراض کر رہے ہیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ عزت کے سامانوں کو ٹھکرا کر کہیں اور سے وہ عزت کو حاصل کر سکتے ہیں.قرآن کریم سارے کا سارا انسان کے لئے عزت اور شرف کا سامان لے کر آیا.عزت اور شرف کے متعلق اس نے تاکیدی حکم دیا.بڑے حسین پیرا یہ میں اس نے انسان کو بتایا کہ انسان کی عزت کر.نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جن کے متعلق فرمایا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات پیدا نہ کی جاتی ، ان کے منہ سے یہ اعلان کیا یعنی الفاظ یہ آئے.قل اعلان کر دے إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم (الكهف :ااا) انسان ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.یہ نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سا تو میں آسمان سے بھی او پر جو رفعت حاصل تھی وہاں سے نیچے لا کر زمینی انسان کے پاس کھڑا کر کے یہ اعلان کیا انما انا بشر مثْلُكُم کہ مجھ میں اور تم میں بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں بلکہ عزت کے لحاظ سے ہر چھوٹے سے چھوٹے انسان کو اٹھا کے اس مقام پہ پہنچایا جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور پھر یہ اعلان کیا کہ مجھ میں اور تم میں عزت انسانی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے اور قرآن کریم کا یہ اعلان دراصل یہ اعلان ہے کہ عزت خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کے نتیجہ میں انسان کو ملتی ہے.انسان انسان میں فرق ہے لیکن ایک ایسی چیز ہے جس میں کسی انسان میں فرق نہیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اگر چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قابلیت اور صلاحیت اور استعداد کے لحاظ سے ہر انسان سے بالا کر دیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو یہ صفت ہے کہ آپ کی ساری قابلیتیں اور استعدادیں اپنے کمال نشو ونما کو پہنچیں

Page 466

خطبات ناصر جلد نہم ۴۵۲ خطبه جمعه ۱/۲ پریل ۱۹۸۲ء اس کمال نشو ونما تک پہنچنے میں ہر انسان آپ کے برابر ہے یعنی جس کو جتنی طاقت اور قوت اللہ تعالیٰ نے عطا کی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی طاقتوں کو کمال نشو نما تک پہنچا دے.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پہ پہنچ گیا نا! کہ آپ نے اپنی قوتوں کو کمال نشو و نما تک پہنچایا اور اس شخص نے اپنی قوتوں کو کمال نشوونما تک پہنچایا.اس کے باوجود اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ قوت اور استعداد میں فرق ہے لیکن اس چیز میں تو فرق نہیں رہا نا کہ ہر دو نے جو بھی خدا نے طاقت اور استعداد دی تھی اس کو نشوونما کے لحاظ سے کمال تک پہنچا دیا.جتنا پہنچادیا اس سے آگے جاہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے اسے طاقت ہی نہیں دی.اس نے ایثار اور قربانی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ، اس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو پانے کے لئے ان كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) اگر خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو اتباع نبوی ضروری ہے صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی کامل اتباع کی اور دوسری جگہ اس کی تفصیل اور تفسیر یوں فرمائی قرآن کریم میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا.إنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس:۱۲) جو وحی میرے پر نازل ہو رہی ہے میں صرف اس کی اتباع کرتا ہوں اور انسان کو کہا اگر تو اس چیز میں میری اتباع کرے گا کہ جو وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی ہے صرف اس کی اتباع کر، تو جو اللہ تعالیٰ نے تجھے طاقتیں اور صلاحیتیں دی ہیں وہ کمال تک پہنچ جائیں گی اور ہر شخص جب اپنی ساری صلاحیتوں کو کمال نشوونما تک پہنچا دے گا تو ہر شخص اس بات میں برابر ہو جائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ نے بھی اپنی صلاحیتوں کو کمال نشو ونما تک پہنچایا اور ہر بڑے چھوٹے دوسرے انسان نے جتنی جتنی طاقت اس کو تھی اپنی طاقتوں کو کمال نشو و نما تک پہنچایا بشر ہونے کے لحاظ سے، بشری طاقتوں کی نشو و نما کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.ہر وہ شخص جو ایسا کرتا ہے وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق خدا تعالیٰ کے پیار کے کمال کو حاصل کر لیتا ہے.جتنی جھولی خدا نے اسے دی وہ بھر جاتی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقتوں کی وسعت کا ہماری عقل نہیں اندازہ کرتی ، کرتی نہیں.بڑا ہی میں نے سوچا، اس نتیجے پہ پہنچا ہوں علی وجہ البصیرت

Page 467

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵۳ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۸۲ء یہ کہ رہا ہوں آپ کو کہ انسانی عقل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم صلاحیتیں دیں ان کی وسعتوں کا تخیل بھی نہیں کر سکتی، اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتی ، یہ اپنی جگہ ٹھیک لیکن اس چیز دورود میں برابری ہوگئی کہ جس کو جو ملا اس کو کمال تک پہنچایا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم شرف انسانی جو ہے اس کو بڑے حسین رنگ میں قائم کر دیا.ہر انسان شریف ہے فطرتاً اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے.اس کا فرض ہے کہ ان کی نشو و نما کرے اور ہر دوسرے انسان کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس بندے کا احترام کرے جو اس گروہ میں شامل ہے جس کے متعلق کہا گیا تھا.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت : ( ۵ ) میں نے اپنی جو صفات ہیں ان کا رنگ تمہاری طبیعت پر چڑھانے کے لئے تمہیں پیدا کیا.جس وجود کو اس لئے پیدا کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اس پر چڑھے وہ معزز ہے، وہ قابلِ احترام ہے.اگر وہ غلطی کرتا ہے انسان کا کام نہیں ہے یہ فیصلہ کرنا کہ اس نے کیا غلطی کی کتنی کی اور کیا سزا اس کو ملنی چاہیے؟ انسان کو حکم ہے ہر دوسرے انسان کی عزت کر.انسان کو بشارت ہے کہ تیری فطرت میں جو یہ رکھا تھا کہ تیری عزت اور احترام کو قائم کیا جائے اس کے لئے ہم نے سامان پیدا کر دیئے.قرآن کریم نازل ہو گیا.قرآن کریم کے احکام پر عمل کرو گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے لگ جاؤ گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو گے اس مقام پر پہنچ جاؤ گے کہ اِنْ اتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى 79 ائی (یونس: ۱۶) جب اس مقام تک پہنچ جاؤ گے يُحْبِبْكُمُ اللہ اللہ تم سے پیار کرنے لگ جائے گا.اس وقت دنیا میں فساد کی بڑی وجہ یہ بنی ہوئی ہے کہ انسان انسان سے پیار کرنا بھول گیا ہے اور جماعت احمدیہ کے قیام کی ایک ہی غرض ہے کہ انسان کو یہ سبق یاد دلا کر کہ انسان انسان سے پیار کرنے ، اس کا احترام کرنے ، اس کے شرف کو قائم رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، دنیا سے فساد مٹاکر نوع انسانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سائے تلے جمع کر دے.اللہ تعالیٰ ہم کو ان حقائق کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور انسان پر خدا تعالیٰ رحم کرے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ جس گند میں آج انسانیت دھنسی ہوئی ہے اس میں سے وہ نکل آئیں اور

Page 468

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵۴ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۸۲ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اپنے رب کا عرفان رکھنے لگیں ، اس کی عظمت کو پہچانیں، اس کی خشیت اپنے دل میں پیدا کریں اور اس سے برکتیں حاصل کریں اور ساری دنیا میں شرف انسانی ہو اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں انسان اس مقصود کو حقیقتا پالینے والا ہو جس مقصود کے حصول کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا وہ حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کا بندہ بن جائے اور ہمیں خدا توفیق دے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نباہنے والے ہوں اور دنیا کی لالچوں اور دنیا کے آرام اور دنیا کی عزتوں کی خاطر خدا تعالیٰ کو بھول نہ جائیں، ہمیشہ اسے یاد رکھیں، اس کے دروازے کو ہمیشہ کھٹکھٹا ئیں اور اسی سے ہمیشہ پانے والے ہوں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا کرے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۲ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 469

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵۵ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۸۲ء جو شہوات نفسانی کی پیروی نہیں کریں گے انہیں روحانی اور اخلاقی لذت حاصل ہوگی خطبه جمعه فرموده ۹ را پریل ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پرسوں اچانک میرا بلڈ پریشر اونچا ہو گیا.میرا بلڈ پریشر معمول کے مطابق جو ہے وہ بڑا اچھا نچلے درجہ میں رہتا ہے.مجھے بلڈ پریشر کی یہ بیماری کبھی نہیں ہوئی.کوئی ایسی وجو ہات ہوگئی ہوں گی اور ان کی وجہ سے بڑے چکر آنے شروع ہو گئے.میں نے ایلو پیتھک کی دوائی تو نہیں کھائی.ہومیو پیتھک کی جو میرے ذہن میں آئیں وہ کھا لیں.کچھ میں نے آرام کیا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلڈ پر یشر تو نہیں لیکن اس کے نتیجہ میں میں دماغی ضعف محسوس کر رہا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری طرح کامل طور پر شفا عطا کرے تاکہ میرے کاموں میں ہرج نہ واقع ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے اس ورلی زندگی میں بھی اس زندگی کو صحیح طور پر گزارنے کے لئے انسان پر بہت سی ذمہ داریاں ڈالی ہیں ور ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے اس نے جس جگہ ذمہ داری ہے اس جگہ کے لئے ہر فرد کے دل میں پیار، لگا ؤ ، توجہ اس طرف ہونے کا جذبہ.یہ طاقت بھی دی ہے یعنی ذمہ داری بھی ڈالی ہے اور ذمہ داریاں نباہنے کی طاقتیں بھی دی

Page 470

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵۶ خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۸۲ء ہیں اور انسان کے ساتھ شیطان کو بھی لگا دیا اور فرشتوں کو بھی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب انسان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے اپنی طاقتوں کو شیطانی وسوسوں یا اس کے دل میں جو خیالات پیدا کرتا ہے یا طاغوتی طاقتیں انسان کو اس طرف لے جاتی ہیں کھینچ کر.اس حالت میں جب وہ ذمہ داری ادا کر رہا ہوتا ہے تو وہ قرآن کریم کی اصطلاح میں اہوائے نفس یا شہوات نفسانی کی پیروی کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے طاقت تو دی تھی اور ذمہ داری بھی ڈالی تھی لیکن ذمہ داری کی ادائیگی ویسی نہیں جسے خدا چاہتا ہے بلکہ ویسی اس رنگ میں کی گئی جسے شیطان چاہتا ہے.یہ جو شہوات نفس، شیطانی دباؤ کے نیچے غلط راستوں پر چل کر انسان کی زندگی کو ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہیں ، اسے دین کہا گیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (البقرۃ : ۲۱۳) ایک تو وہ گروہ ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کی ناشکری کی.جو نعماء دی گئی ہیں ان میں تصرف اس رنگ میں کیا جو خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.اور اسے انہوں نے زینت سمجھا.یہ چیزان کو خوبصورت کر کے دکھائی گئی اور اس قسم کا تکبیر ان کے اندر پیدا ہوا اس دنیوی زینت یا دنیوی زمینوں کے حصول کے نتیجہ میں کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہوں نے عرفانِ ذات وصفات باری تعالیٰ حاصل کیا اور ایمان لائے اللہ پر اور اس کے کلام پر ان سے وہ تمسخر اور استہزاء کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور مومنوں کو جو خدا کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی طاقتوں کا اس دنیا میں استعمال کر رہے ہیں.ان کے نزدیک وہ حقیر ہیں اور تمسخر کی جگہ ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ایمان ان کا صحیح ہے وہ مُؤْمِنُونَ حَقًّا ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنایا ہے اور تقویٰ کے مقام پر انہوں نے اپنے آپ کو کھڑا کیا ہے.فَوقَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ قیامت کے دن یہ تمسخر کرنے والے جان لیں گے کہ ان

Page 471

خطبات ناصر جلد نهم ۴۵۷ خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۸۲ء لوگوں ہی کو فوقیت حاصل ہے اور دنیوی لحاظ سے جو زیخوں میں پرورش پانے والے ہیں ان کو فوقیت نہیں ذلت حاصل ہے اور وہ یہ بھی جان لیں گے.وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ کہ اللہ تعالیٰ جس کو پسند کر لیتا ہے اس کی نیکی کی وجہ سے، اس کے ثبات قدم کی وجہ سے، اس کی وفا کی وجہ سے، جو محبت اس کے دل میں اپنے ربّ کریم سے ہے اس کے نتیجہ میں جو عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے سینے میں موجزن ہے اس کے نتیجہ میں جسے وہ پسند کرتا ہے بغیر حساب دیتا ہے.اس میں یہ بھی بتایا کہ جو دنیوی زینتیں ہیں یا دولتیں ہیں یا اولا د ہے اور اس کے نتیجہ میں اثر اور رسوخ ہے، وہ محدود ہے بغیر حساب نہیں.ایک بڑے سے بڑا دولت مند بھی کچھ اور مانگتا ہے کچھ اور چاہتا ہے اور چونکہ شیطان کی پیروی کرنے والا ہے.وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جس ذریعہ سے میں حاصل کر رہا ہوں وہ جائز بھی ہے یا ناجائز.یہاں کہا ہے زین یعنی زندگی خوبصورت کر کے دکھائی گئی.کون دکھاتا ہے یہ کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام : ۴۴) کہ یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کو بھول کے ، اس کے احکام کے خلاف اعمال کرتے اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کا غلط استعمال کرتے اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا غلط خرچ کرتے ہیں یہ اعمال ان کو شیطان خوبصورت کر کے دکھاتا ہے.اس آیت میں تو یہ کہا گیا ہے کہ خوبصورت کر کے دکھائی جاتی ہے.دوسری میں کہا شیطان ہے خوبصورت کر کے دکھانے والا.دوسری طرف شیطان کے مقابلہ میں اللہ ہے جو انسان کے دل میں اپنا نور بھرتا اور تقویٰ کی راہوں کو اس پر منور کرتا اور اسے توفیق دیتا ہے کہ وہ تقویٰ کے مقام پر کھڑا ہو.پھر اس کی دعاؤں اور اس کے اعمال صالحہ کو قبول کرتا اور تول کے نہیں دیتا کہ تو نے دس روپے دیئے دس روپے جزا لو.وہ دینے والا تو اپنے عمل کے لحاظ سے بھی ، اپنی سوچ کے لحاظ سے بھی ، اپنے علم کے لحاظ سے بھی ، اپنے ایمان کے لحاظ سے بھی اپنی استعداد سے باہر نہیں جا سکتا لیکن اللہ تعالی کی تو کوئی حد بست کر ہی نہیں سکتا.دینے والا اپنے مقام کے لحاظ سے غیر محدود

Page 472

خطبات ناصر جلد نہم ۴۵۸ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۸۲ء طاقتوں کا مالک، وہ اس کو بغیر حساب کے دے دیتا ہے.اس دنیا میں بھی جو تیز روحانی نگاہ رکھنے والے ہیں وہ اس فرق کو محسوس کرتے ہیں لیکن يَوْمَ الْقِیمَةِ تو ہر ایک کو پتا لگ جائے گا.وہ جو تمسخر کرنے والے ہیں انہیں بھی پتا لگ جائے گا.یہ جو حیات دنیا خوبصورت کر کے دکھائی گئی اس کی تفصیل ایک اور آیت میں آتی ہے.زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ (ال عمران : ۱۵) ان لوگوں کو جو معرفتِ باری ، ذات باری اور صفات باری نہیں رکھتے.شہوات نفسانی کی محبت اچھی شکل میں دکھائی گئی ہے.اس آیت میں پوری تفصیل کے ساتھ جو قسمیں بنتی تھیں شہوات نفسانی کی اور انسانی زندگی کے جن حصوں سے ان کا تعلق تھا، وہ بھی بتائے گئے.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ شہوات نفسانی میں ایک تو عورت سے پیار ہے ، عورت کا پیار ، عورت مرد کے لئے پیدا کی گئی.مرد عورت کے لئے پیدا کیا گیا.یہ درست ہے خدا تعالیٰ نے ہر دو کو ایسی طاقتیں دیں جو وہ مقصد حاصل کر سکیں جس مقصد کے لئے انہیں زوجین بنا یا گیا لیکن جب شیطانی ہلاکت کی راہوں کے نتیجہ میں انسان اندھا ہو جاتا ہے تو عورت سے اس کا تعلق صرف شہوات نفسانی کے دائرہ کے اندر ہوتا ہے بچوں سے محبت یہ دوسری چیز ہے.سونے چاندی کے محفوظ خزانوں یعنی دولت سے محبت کرتا ہے.خدا کی روحانی دولتوں کو بھول جاتا ہے.دولت سے مجنونانہ عشق پھر یہ جو زمین ہے کھیتیاں ہیں.ان کے لئے مویشی چاہئیں گھوڑے ہیں.یہ ساری چیزوں کا ذکر کیا.ان چیزوں پر ایسے لوگ شہوات نفسانی جن کو شیطان نے خوبصورت کر کے دکھایا ہے، فدا ہیں.اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ( یہ ال عمران کی پندرویں، سولہویں آیات ہیں ) اس کے مقابلہ میں کچھ چیزیں رکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہوات نفسانی کے مقابل اور ان سے کہیں بہتر یہ چیزیں ہیں.اور یہ ان لوگوں کو دی جاتی ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.قرب الہی اور خاتمہ بالخیر تک پہنچنے والا جس کے نتیجہ میں جنت میں، جس کا بہت تفصیل کے ساتھ اس کی عظمت بیان کرنے کے بعد ، خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر کیا جو متقیوں کے لئے بنائی گئی ہیں جیسا کہ پہلے متقی کا لفظ آیا تھا.

Page 473

خطبات ناصر جلد نہم ۴۵۹ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۸۲ء شہوات نفسانی سے جو کچھ یہاں انہیں ملتا ہے اس کے مقابلے میں ابدی زندگی ملے گی.شہوات نفسانی میں زیادہ سے زیادہ بھی اگر کچھ مل جائے تو یہ زندگی ختم.وہ سارے غلط قسم کے مزے اور بے ہودہ قسم کی اور گندی قسم کی لذتیں بھی ساتھ ختم ہو گئیں لیکن یہ (ابدی زندگی کی چیزیں ) خوبصورت بھی ہیں.یہ زیادہ لذت پہنچانے والی بھی ہیں.یہ زیادہ سرور دینے والی بھی ہیں اور ابدی ہیں.نہ ختم ہونے والی ہیں.اس زندگی سے شروع ہوتی ہیں ، اُخروی زندگی تک چلتی ہیں.پھر ایک تعلق عورت سے شیطان نے باندھا مرد کا شہوت نفسانی کے ماتحت عورت سے پیار کا اور زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ مِنَ النِّسَاء کی آیت میں اس کا ذکر کیا ہے.یہ جو نفسانی شہوت کے نتیجہ میں عورت سے پیار ہے اس پیار میں اور کتا اپنی شہوت کو پورا کرنے کے لئے کتیا سے جو پیار کرتا ہے، کوئی فرق نہیں یعنی ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت صرف اس لئے بنی ہے کہ اس وقت اس سے پیار کا تعلق قائم کیا جائے جب نفسانی شہوت اپنی شدت اختیار کر چکی ہولیکن اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو متقی ہیں ان کو پاک ازواج عطا کی جائیں گی اور اس میں اشارہ کیا ان کے باہمی تعلقات کی طرف.جس کی تفصیل کچھ تو خود قرآن کریم میں بیان کی ، ( وہ آخر میں میں بتاؤں گا ) اور پھر سب سے زیادہ یہ کہ جو لوگ شیطانی احکام بجالا کر شہوات نفسانی کے مطابق اس دنیا میں زندگی گزارتے ہیں.شیطان ان کا ساتھ چھوڑ دے گا.دوسری جگہ آتا ہے.شیطان کہے گا کہ میں نے تو ان پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی.میں نے کہا، یہ مان گئے.یہ اپنے گناہوں کے خود ذمہ دار ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان کا کہا مانیں گے.خدا سے دور ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ کے غضب کو حاصل کریں گے.شیطان کا کہا نہیں مانیں گے.اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں ان پر چلیں گے.اس دنیا میں بھی انہیں جو روحانی اور اخلاقی لذت اور سرور ملے گا وہ اس دنیا کے ہر دوسرے سرور اور لذت سے کہیں بہتر اور سب سے زیادہ یہ کہ جس کی اطاعت کرنے والے ہیں.جس پر فدا ہونے والے ہیں.جس اللہ کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے والے ہیں جس خدا کے پیار کے لئے سب کچھ اس پر شار کرنے والے ہیں رِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اللہ کی رضا ان کو حاصل ہو جائے گی.

Page 474

خطبات ناصر جلد نہم ۴۶۰ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۸۲ء ان دو آیتوں میں شیطانی ہدایت کے مطابق شہوات نفسانی کی راہوں پر چل کر زندگی گزار نے والے اور خدا تعالیٰ کی بات قبول کر کے اور وہ جو مانگتا ہے وہ دے کر ، جو وہ چاہتا ہے وہ کر کے.جن راہوں کو وہ منور کرتا ہے ان کو اختیار کر کے.جن راستوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش نظر آتے ہیں، ان نقوش کے پیچھے روانہ ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے.اس میں بہت ساری چیزیں آئی تھیں یعنی ساری زندگی جو ہے وہ اس کے اندر آ جاتی ہے.اس کے اندر عورت سے پیار، بچوں سے محبت، دولت سے عشق اور جو ذرائع پیداوار ہیں ان پر فدا ہوجانا اور خدا کو بھول جانا اور اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کر دینا.ان میں ایک چیز کا دونوں جگہ ذکر ہے اور وہ ہے حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ یعنی شہوات نفسانی سے پیار اس کے نتیجہ میں نساء سے عورت سے صرف شہوت کے لحاظ سے پیار اور دوسرے اس کے مقابلہ پر رکھا تھا پاک ازواج اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ مِنْ ايَتِه أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً (الروم : ۲۲) اور اس کے نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے ہیں جو ایک دوسرے کو سمجھنے والے، جو ایک دوسرے کو پہچاننے والے، جو ایک دوسرے کے لئے قربانی کرنے والے، جو ایک دوسرے پر توجہ دے کر اپنے رب کے پیار کو حاصل کرنے والے (جیسا کہ اس کا ذکر بہت جگہ آیا ہے ) تمہارے لئے جوڑے بنائے ہیں.تم ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرو.یہاں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.تسکین حاصل کرو.اس کے معنے عربی میں ہیں گھبراہٹ اور بے چینی اور اضطراب اور قلق دور ہو جائے اور سکون اور اطمینان اور طمانینہ تمہیں حاصل ہو اور تمہارے درمیان پیار پیدا ہوا اور رحم کا رشتہ پیدا کیا جائے.اب میں نے آپ کو بتایا جب منصورہ بیگم کی وفات کے بعد کہ اس طرح میرے ساتھ انہوں نے زندگی گزاری کہ مجھے بے فکر کر دیا ہر چیز سے تا کہ میں اپنی پوری توجہ اور وقت دین کے کاموں میں خرچ کروں.لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا ان سے میں نے یہ سکینت اور طمانینہ اور اطمینان

Page 475

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۱ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۸۲ء پایا.یہی کام ہے ایک دوسرے کا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ مجھ سے غلطی نہیں ہوئی ہوگی اور انہوں نے بھی مجھ سے ایسی ہی تسکین حاصل کی ہوگی.موَدَّةً.یہ اس قسم کی محبت نہیں بلکہ یہ وہ محبت ہے جو باہمی موڈت مل کے خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہے.اس گاڑی کی طرح جس کو دو گھوڑے جتے ہوئے ہوں.اب تو ایسے کم نظر آتے ہیں.کسی زمانہ میں دو گھوڑوں کی گاڑیاں ہوتی تھیں.دو گھوڑے مل کر ایک خاص جہت کی طرف سفر کیا کرتے تھے تو پیار کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ رفعتوں کے حصول کے لئے ایک جہت کو دوڑنے والے.ایک مرکزی نقطہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف چلنے والی موڈت پیدا ہوگی.اور رَحِمَ - رَحِمَهُ رَحْبًا کے عربی زبان میں معنی ہیں رَقٌ لَهُ وَ شَفِقَ عَلَيْهِ وَتَعَطَّفَ وَغَفرله ایک دوسرے کے لئے رقیق ہونا، شفیق ہونا جس کے معنی ہیں ایک دوسرے کی خیر اور بھلائی کے لئے حریص ہونا عربی میں شَفقَ عَلَيْهِ کے معنی ہیں.حِرْصُ عَلَى خَيْرِهِ وَ إِصْلَاحِهِ اور ایک دوسرے سے احسان کا سلوک کرتے رہنا.یہ ہے مرد اور عورت کا تعلق ، صرف وہ تعلق نہیں جو جانوروں کے درمیان ، نر اور مادہ کے درمیان ہوتا ہے جیسا کہ آج کی بہکی ہوئی دنیا میں تو یہ خیل کہیں پاس بھی نہیں پھٹکا کہ عورت کا مقام مرد کے ساتھ ازدواجی رشتے میں کیا ہے.یہ لوگ اخلاقی لحاظ سے اس حد تک گر گئے ہیں کہ بہت سے لوگ میں سفر کرتا ہوں مجھ سے بھی ملتے ہیں.مرد اور عورت نکاح کئے بغیر یعنی قانونی بندھنوں کے بغیر میاں بیوی کی زندگی گزار رہے ہیں.بچے بھی پیدا کر رہے ہیں.کہتے ہیں ہم نے نکاح نہیں کرنا یا قانون کے مطابق اپنے آپ کو میاں بیوی رجسٹر نہیں کروانا کیونکہ بہت ساری قانونی الجھنیں ہیں یا ذمہ داریاں ہیں جن کو نہ باپ، نہ ماں، نہ خاوند نہ بیوی ادا کرنا چاہتے ہیں.اس حد تک گر چکے ہیں.یہ شہوات نفسانی کی تصویر ہے یہاں دوسری جگہ ہے کہ پیار ہے، ایک گھناؤنا پیار، ایک گندا پیار، ایک مہلک پیار، ایک پیار جو اگلی نسل کو ہلاک کر دینے والا ہے یعنی وہ بچہ جو بڑے ہو کر یہ سمجھے کہ قانونانہ میرا کوئی باپ ہے نہ میری کوئی ماں.کیا ہو گا اس کا حال ؟ ہورہا ہے.

Page 476

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۲ خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۸۲ء اب ان میں سے بعض افریقہ میں احمدی بھی ہو گئے.دو تین سال ہوئے یہاں امریکنز کا جو وفد آیا تھا ان میں سے ایک عورت نے مجھے خط لکھا کہ میری گھر یلو Problems ( پرابلمز ) ہیں.میں علیحدہ بھی کوئی بات کرنا چاہتی ہوں.میں نے منصورہ بیگم کے ذریعہ (اس جلسہ پر نہیں، وہ زندہ تھیں پچھلے جلسہ یا اس سے بھی پچھلے جلسہ سالانہ پر ) اس کو کہلا بھیجا کہ اگر مجھے وقت ملا جلسہ کے دنوں میں تو ملوں گا ورنہ مجھے لکھ کے دے دے.اس نے لکھ کے دیا کہ میری Problem یہ ہے کہ میں احمدی ہوگئی.میرا خاوند بھی احمدی ہوا.ہم نے آپس میں شادی کر لی اور شائد لکھا کہ بچہ بھی پیدا ہو گیا.اس کے خاوند) کی ماں نے پہلے بتایا ہی نہیں کہ میں کیا بے ہودہ حرکت کر چکی ہوں.شادی ہونے کے بعد ایک دن ماں نے بلا یا اور کہنے لگی تو اپنے باپ کا تو بیٹا ہی نہیں.میں نے تو کسی اور کے ساتھ بدمعاشی کی تھی تو رحم میں پڑ گیا تھا.وہ عورت کہے وہ تو یہ سن کر پاگل ہوا ہوا ہے.تو اسلام کیا حل کرتا ہے اس مسئلہ کا ؟ وہ تو جا چکی تھی.خط پڑھنے کا وقت نہیں ملا.میں نے بعد میں پڑھا.ان کے نیشنل امیر یہاں تھے.میں نے کہا اسلام اس کا حل یہ کرتا ہے کہ جو گناہ گار ہے اسے سزاملنی چاہیے اور جو معصوم ہے اس کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے.وہ جو بچہ ہے اس کا کیا گناہ ہے یعنی جو بچہ گناہ کی پیداوار ہے وہ بچہ گناہ گار نہیں اسلام کے نزدیک ماں باپ گناہ گار ہیں اس بچے کے حقوق کی حفاظت کرو.میں نے تو ان کو یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ کسی نے مجھے خط لکھا ہے اور اس لئے آپ سے بات کر رہا ہوں.ہر ایک کی عزت ہوتی ہے.کہیں سے اس کو تلاش کرلیتے.میں نے انہیں کہا کہ آپ کا معاشرہ ایسا ہے.آپ کے پاس کئی ایسے Cases آجائیں گے کہ جن پر یہ حال گزرا ہوگا.اس لئے میں آپ کو اسلام کی تعلیم بتا دیتا ہوں.اس تعلیم کے مطابق آپ فیصلہ کیا کریں.وہ میری بات سنتے رہے جب میں چپ کیا تو کہنے لگے.آپ کہتے ہیں ایسے معاملات ہمارے سامنے آجائیں گے.ایسے معاملات ہمارے سامنے آچکے ہیں.کئی Cases ان کے سامنے آچکے ہوئے تھے.

Page 477

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۳ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۸۲ء پس یہ حال ہے یعنی عورت سے پیار صرف شہوت نفسانی کے نتیجہ میں اور اس حد تک ، اس سے آگے نہیں بڑھا.مغرب اور امریکہ وغیرہ میں لوگ T.V پر رو ر ہے ہیں کہ اس ذلت تک ہماری قو میں پہنچ چکی ہیں اور ان کے اپنے معاشرہ میں ، اپنے اخلاقی اقدار جو بھی ان کے ہیں یا جو مذہب ان کا ہے اس میں اس کا کوئی حل نہیں.اسی لئے میں ان کو کہتا رہا ہوں کہ تمہارے مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے اور تمہاری بچیوں اور عزیز رشتہ دار عورتوں کی عزت کی حفاظت کے لئے اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے اور تم پردہ پر اعتراض کر دیتے ہو.عجیب ہو تم ! پس خدا نے انسان کو طاقتیں دیں، صلاحیتیں دی ، استعدادیں دیں، بڑی زبردست دیں.ان استعدادوں کے استعمال کے لئے ساری کائنات پیدا کر دی اور ان کے صحیح استعمال کے لئے اب ہماری زندگیوں میں چودہ سو سال ہوئے قرآن کریم کو نازل کر دیا اور ہمیں حکم دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.آپ کے متعلق قرآن کریم نے کہا.إنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس : ۱۶) میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ ود 79 کی طرف سے نازل ہوئی اور ہمیں حکم دیا.إن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: ۳۲) اگر چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو ایک ہی رستہ ہے اِتَّبِعُونِي میری اتباع کرو اور اس کا اعلان کر دیا یعنی میری اتباع کرو اس معنی میں کہ جس طرح میں صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی کی اتباع کرتا ہوں.تم بھی صرف خدا کی طرف سے نازل کردہ وحی کی اتباع کرو.يُحببكُمُ الله میرے نقشِ قدم پر چلو گے.اللہ تعالیٰ کے پیار کو پالو گے.پس بڑا ز بر دست فرق ہمیں نظر آتا ہے اس زندگی میں جو شیطانی تپتی ہوئی دھوپ کے نیچے آج دنیا گزار رہی ہے اور اس زندگی میں جو خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سائے کے نیچے گزرنے والی ہے.ان دو زندگیوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے.پس کوشش یہ کرنی چاہیے کہ شیطان قریب آئے تو دھکے دے کر اسے اپنے قرب سے پر پھینکو اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اگر تمہاری ہدایت کے لئے نازل ہوں تو چمٹ جاؤ ان کے

Page 478

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۴ خطبه جمعه ۹ را پریل ۱۹۸۲ء ساتھ کہ تمہاری فلاح اور بہبود اور تمہاری نسلوں کی بھلائی اسی میں ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان چیزوں کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی حمتیں نازل کرے اور جیسا کہ اس نے وعدہ دیا.ہم میں سے ہر شخص اتنا نہیں دے سکتا جتنے کے وعدے خدا تعالیٰ نے مقابلے میں کئے ہیں.ایک موٹی مثال میں دیتا ہوں.اس محدود دنیا میں غیر محدود نعمتوں کے آپ وارث اپنے عمل سے نہیں ہو سکتے.اس واسطے اس کے لئے اللہ کا فضل ہونا چاہیے.پس دعائیں کرو بغیر حساب وہ دے ہمیں ، حساب نہ کرے ہم سے.بغیر حساب لے جائے اپنی جنتوں میں.خدا کرے ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۹ /اکتوبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 479

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۱۶ را پریل ۱۹۸۲ء اگر قو میں ایک دوسرے کے حقوق پہچا نہیں تو بین الاقوامی فضا نہایت حسین ہو سکتی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۶ را پریل ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (القصص:۷۸) فساد کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ پیار نہیں کرتا ، انہیں پسند نہیں کرتا.اور وہ تمام بشارتیں جو قرآنی وحی میں خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والوں کے لئے اور جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرتے ہیں ان کے لئے دی گئی ہیں ، ان سے مفسد محروم رہتے ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مومن و کافر ہر دو کو بشارتیں بھی ملی ہیں اور تنبیہ بھی کی گئی ہے انہیں.اس وقت دنیا میں ایک عظیم فساد بپا ہے اور نوع انسانی خود اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر رہی ہے.اس وقت اس کرہ ارض پر بڑے خطرناک حالات پیدا ہو چکے ہیں اور اگر نوع انسانی نے اصلاح نہ کی اور اپنے پیدا کرنے والے مہربان رب کی طرف رجوع نہ کیا تو اس قدر تباہی ہمیں سامنے نظر آتی ہے کہ جسے سوچ کر بھی رونگٹے کھڑتے ہوتے ہیں.

Page 480

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۶ خطبه جمعه ۱۶ را پریل ۱۹۸۲ء قرآن کریم نے صرف یہ اعلان نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ مفسدین سے سے پیار نہیں کرتا اور انہیں پسند نہیں کرتا بلکہ فساد کی جو تعریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہے اسے بھی بیان کیا ہے اور اسے دور کرنے کا جو طریق ہے اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.فساد قرآن کریم کی اصطلاح میں حق تلفی کا نام ہے، ظلم کا نام ہے.حق کو تلف کرنا برا ہے.حق وہی ہے جو حقیقی ہو.اگر انسان خود اپنے حقوق بنالے جو اس کے حق نہیں ہیں اور کوئی شخص ان کو توڑنے والا ہو تو وہ قابل الزام خدا تعالیٰ کے نزدیک نہیں.اس لئے قرآن کریم نے حقوق کو قائم بھی کیا اور ان کی حفاظت کے سامان بھی پیدا کئے.قرآن کریم نے انسان کے حقوق بھی قائم کئے اور اس کائنات کی دیگر ہر شے کے حقوق بھی قائم کئے.لیکن اس وقت میرا موضوع صرف انسان سے تعلق رکھتا ہے.انسان کا حق وہ ہے اصولاً جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہو اور جو اللہ تعالیٰ نے حق قائم کیا انسان کا ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں اور صلاحیتیں اسے دیں ، ان کی نشوونما کے لئے جو سامان اس نے پیدا کیے وہ اسے میسر ہوں اور قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے راستہ میں روک نہ بنا جائے ، نہ ان سامانوں کو جو اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اس سے چھینا جائے.اگر قوم قوم کے حقوق کو پہچانے اور ان حقوق کی ادائیگی کے لئے تیار ہو تو بین الاقوامی فضا میں نہایت ہی حسین امن کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے ، جو فساد پیدا ہوتا ہے، اس کے متعلق ایک تو یہ فرما یا کہ حق کا علم ہونا چاہیے اور صحیح حق وہ ہے جو خدا تعالیٰ قائم کرتا ہے.ہمیں بتایا کہ حق تلفی مختلف طریقوں سے ہوتی ہے، مختلف وجوہات کی بنا پر حقوق کو غصب کر لیا جاتا ہے.ایک تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کو پہچانا ہی نہیں، کسی انسان یا کسی جماعت یا کسی گروہ یا کسی ملک یا کسی خطہ ارض میں.چونکہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کو پہچان ہی نہیں.اور پھر ان کی حق تلفی میں ، حقوق کی ادائیگی میں جان بوجھ کر بھی غفلت ہوئی کیونکہ خوف کوئی نہیں تھا.اور غفلت ہو جاتی ہے بے خیالی میں بھی ، ستی میں بھی، بیدار مغزی نہ ہونے کی وجہ سے بھی، یاد دہانیوں کے فقدان کی وجہ سے بھی کسی ایسے نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی جو وَ ذَكِّرْ فَإِنَّ الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذُریت:۵۶) کے تحت

Page 481

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۷ خطبه جمعه ۱۶ را پریل ۱۹۸۲ء قائم ہو.جب بتایا جائے تو سمجھنے والے بھی ہوں اور جب سمجھنے والے ہوں تو بتانے والے بھی ہوں.دونوں چیزیں اس میں ہمارے سامنے رکھیں.اگر حق تلف ہو جائے تو اس حق تلفی کے نتیجے میں جو فساد پیدا ہوا ہے اسے دور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باہم گفت وشنید کے ذریعے سے دور کرنے کی کوشش کی جائے اقوام عالم سر جوڑیں اور حقوق کی ادائیگی کا سامان پیدا کر کے فساد کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اگر کوئی ملک یا بہت سے ملکوں کا مجموعہ بضد ہوں کہ ہم نے جو اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق ہیں انہیں بہر حال ادا نہیں کرنا تو وہ جو سمجھ رکھتے ہیں وہ اپنی پوری طاقت کا استعمال کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس وقت اور اس موقع پر اور ان حالات میں وہ اپنی دوستیوں کو قربان کریں اور امن عامہ کو قائم کرنے کے لئے اپنی دوستی کو بھی ، اپنے اموال کو بھی ، اپنی جانوں کو بھی ، اپنی نسلوں کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہو جا ئیں تا کہ اس دنیا میں امن پیدا ہو.بہر حال قرآن کریم حقوق کو قائم کرتا ہے، حقوق کی تعریف کرتا ہے حقوق کو قائم کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے، طریقے بتاتا ہے، وضاحتیں کرتا ہے، بڑی تفصیل میں گیا ہے.اگر فساد پیدا ہو تو اس کو کیسے دور کیا جائے ؟ ان راہوں کو بھی روشن کرتا ہے.اگر ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں اور لالچ کے نتیجہ میں یادشمنی کی وجہ سے یا تعصب کی بنا پر حق تلفی ہو رہی ہو تو ان لوگوں پر جن کو خدا تعالیٰ نے عقل اور سمجھ عطا کی اور نور فراست انہیں دیا اور قرآن کریم جیسی عظیم شریعت ان کے ہاتھ میں پکڑائی انہیں حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر چیز قربان کر کے نوع انسانی کے لئے امن کے سامان پیدا کرو.بہر حال قرآن کریم نے ان ساری باتوں کے نتیجہ میں یہ اعلان بھی کیا کہ اگر فساد ہوگا تو فساد کے دو نتیجے نکلیں گے.ایک اس دنیا میں بے چینی پیدا ہوگی.امن کی زندگی پھر نہیں تم گزارو گے اور دوسرے احکام الہی کو نظر انداز کرنے اور شریعت کے قانون کو توڑنے کی وجہ سے اُخروی زندگی میں بھی کوئی چین کی زندگی تمہیں نصیب نہیں ہوگی.ان بشارتوں کے حق دار تم نہیں ہو گے جو قرآن کریم نے دی ہیں تو یہ زندگی اور آنے والی زندگی ہر دو بے چین زندگی ، سکون سے خالی زندگی، خدا تعالیٰ کی محبت سے محروم زندگی خدا تعالیٰ کے قہر سے معمور زندگی ایک جہنم کی زندگی ہوگی.

Page 482

خطبات ناصر جلد نهم ۴۶۸ خطبه جمعه ۱۶ را پریل ۱۹۸۲ء اس لئے آج میں جہاں ایک طرف جماعت احمدیہ سے یہ کہوں گا کہ وہ نوع انسانی کی خاطر خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ خدایا! تو نے ہمیں عقل تو دی ہے، فراست تو عطا کی ہے لیکن سامان اور مادی اسباب نہیں دیئے کہ ہم فساد کو دور کر سکیں، ہم تیرے حضور جھکتے اور عاجزانہ تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری دعاؤں کوسن اور انسان کو عقل اور فراست عطا کر کہ وہ اپنے بھلے، برے کی تمیز کر سکے.اور دوسرے میں تمام اقوامِ عالم کو پھر سے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں جیسے آج سے قبل ۱۹۶۷ء میں انگلستان میں ایک موقع پر میں نے بڑی وضاحت سے انہیں کہا تھا کہ اگر تم ساری اقوام جو بعض لحاظ سے مہذب اور ترقی یافتہ ہو اپنے رب کریم کو پہچان کر اس کی طرف واپس نہیں لوٹو گے تو ایک ایسی ہلاکت تمہارے سامنے کھڑی دیکھتا ہوں میں ، پیشگوئیوں کے مطابق جو قرآن کریم نے کیں، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کیں، جو امت کے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں، ایک ایسی ہلاکت ہوگی کہ زمین کے علاقوں کے علاقے ایسے ہوں گے جن میں زندگی ختم ہو جائے گی.یہ انتباہ کیا گیا ہے.یعنی صرف انسان نہیں مارے جائیں گے بلکہ کوئی جانور نہیں رہے گا ، کوئی چرندہ نہیں رہے گا ، کوئی درندہ نہیں رہے گا، کوئی بکٹیریا نہیں رہے گا.کوئی virus ( وائرس ) کا کیڑا نہیں رہے گا.زندگی جس کو کہتے ہیں درختوں کی زندگی، دوسری زندگی، زختم ہو جائے گی اور وہ خطے زندگی سے عاری ہو جائیں گے.اس قسم کی ہلاکت سے ڈرایا مہدی اور مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دنیا کو اور استدلال کیا پہلی زبر دست پیشگوئیوں سے بھی اور انہیں کی تفصیل اور تفسیر میں جو باتیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بتا ئیں ان کی روشنی میں پہلی تفسیر کو اس دنیا کے سامنے رکھا.اندر سے جانتے ہیں کہ ہم خطرے میں ہیں.جب لنڈن میں میں نے یہ انتباہ کیا تو ایک دوست اپنے بنک کے مینجر کو جو انگریز تھا ( عیسائی یا دہر یہ جو بھی تھا وہ ، بہر حال مسلمان نہیں تھا ) ساتھ لے کر آئے.رات کے کھانے کے بعد میں نے یہ پیپر پڑھنا تھا وہاں.وہ مجھے کہنے لگے کہ پہلا فقرہ جب آپ کے منہ سے نکلا تو حیرانگی اور پریشانی میں اس کا منہ یوں کھلا ( کھل جاتا ہے لوگوں کا ) اور پھر سارا وقت کھلا ہی رہا.کیونکہ فقرے کے بعد فقرہ جو تھاوہ ان کو جھنجھوڑنے والا تھا.

Page 483

خطبات ناصر جلد نہم ۴۶۹ خطبه جمعه ۱۶ را پریل ۱۹۸۲ء ۱۹۶۷ ء کے بعد اب قریباً پندرہ سال ہو گئے.اب پیچھے جیسے وہاں کے حالات خراب ہوئے تو جن دکانوں میں یہ چھپ کے مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کے یہ پیپر چھپا تھا ان دکانداروں نے مانگنے شروع کئے کہ اس کی مانگ بڑھ گئی ہے، یہ ہمیں دوبارہ چھاپ کے دیں تو وہ دوبارہ چھاپ کے بھی دے رہے ہیں اور دوبارہ میں تنبیہ ان کو بھی کر رہا ہوں.جماعت ان کے لئے دعائیں کرے.وہ لوگ اپنی فکر کریں.اندھیرے میں ہی کسی کو تلاش کریں.اس کو جس نے ان کو پیدا کیا اور جو بڑا رحم کرنے والا ہے اور جذبہ پیدا کریں اپنے دل میں کہ ان کا رب جس نے انہیں اپنا بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا تھا اور جس سے دُوری کی راہوں پر ، اپنی بدقسمتی کے نتیجہ میں انہوں نے غلط قدم اٹھائے ، وہ مہربان خدا ان پر مہربانی کرے اور جو صراط مستقیم اسلام نے نوع انسانی کے سامنے پیش کیا جو شاہراہ غلبہ حسنِ انسانیت بھی ہے ( بہت سارے نام اس کو دیئے جاسکتے ہیں ) اس شاہراہ پر ان کو چلنے کی توفیق عطا کرے اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے اس بھیانک نتیجہ سے بچالئے جائیں.اللہ تعالیٰ فضل کرے.ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور ان غیر مسلم اقوام کو اپنی بھلائی کی فکر کے سامان پیدا کرنے کی عقل عطا کرے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۷ اکتوبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 484

Page 485

خطبات ناصر جلد نهم ۴۷۱ خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۸۲ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے حسن سے روح کو خوبصورت بنا لینا اسلام ہے خطبه جمعه فرموده ۲۳ را پریل ۱۹۸۲ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اسلامی تعلیم دو حصوں میں منقسم ہے.ایک کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ہے اور دوسرے کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ہے.ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ یہ دونوں باتیں جن کا ذکر میں نے پہلے ایک دو فقروں میں کیا ، اس چھوٹے سے فقرے میں بیان ہوئی ہیں.اس میں ہمیں یہ کہا گیا کہ بندہ بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کا حصول ضروری ہے.عرفانِ باری کے بغیر انسان مقصد پیدائش کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.جو بنیادی باتیں ان صفات میں ہمیں نظر آتی ہیں وہ اللہ تو اپنی ذات میں تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور ہر قسم کے نقائص اور رذائل اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے اور جو اس کی صفات ہیں انہی کے جلووں نے اس کائنات کو پیدا کیا اور ان صفات کی بنیا در بوبیت ، اس کی صفت رب، رحمان ہونا ، رحیم ہونا اور مالک یوم الدین ہونا ہے.اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ان چار ( امہات الصفات جنہیں

Page 486

خطبات ناصر جلد نہم ۴۷۲ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء کہا جاتا ہے ) صفات کا علم رکھتے ہوں اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق ، تو ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ ہم پر جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے متعلق ڈالی گئی ہے وہ ہم پورا کر سکیں.پہلی دو صفتیں جو ہیں رب ہونا اللہ تعالیٰ کا اور رحمن ہونا ، ان میں انتہائی وسعت ہے.ہر چیز کو اس نے پیدا کیا.ہر چیز میں اس نے کچھ قوتیں اور صلاحیتیں اور طاقتیں پیدا کیں اور اصول تدریج کے مطابق ہر چیز کی نشو و نما کے سامان پیدا کئے اور ہر چیز کو اس نے کمال نشو و نما تک پہنچایا یا جہاں تک انسان کا تعلق ہے، پہنچانے کے سامان پیدا کئے.یہ جو کائنات ہے اس میں مختلف قسم کی اشیاء ہمیں نظر آتی ہیں.مثلاً نباتات ہے.ان درختوں میں مثلاً آم کا درخت ہے.آم کا درخت ابتدا میں خدا نے جس طرح پیدا کیا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس وقت وہ اپنی گٹھلی سے پیدا ہوتا ہے.ہم گٹھلی لگاتے ہیں.اس میں سے ایک شاخ نکلتی ہے.پھر وہ بڑی ہوتی ہے.پھر وہ اپنے اچھے خاصے قد کو پہنچتی ہے.پھر اس سے پھل پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اور انسان کو اس نے یہ عقل اور سمجھ عطا کی کہ پیوند کر سکے، اچھے آم کے درخت کا ، عام کٹھلی جو ہے اس سے جو درخت پیدا ہوا، اس کے ساتھ.اور اس درخت میں یہ قوت رکھی کہ وہ اس پیوند کو قبول کرے اور اپنی جو پیداوار ہے، جو اس کا نتیجہ نکلا، جو ثمر ہے اس کوشش کا ، اس میں زیادہ لذت پیدا ہو.اور بہت سی دوسری صفات ہیں جن کی تفصیل میں اس وقت جانے کی ضرورت نہیں ، جو پیوند کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کائنات میں ہیرا ہے.پتہ نہیں کتنے ہزار سال میں مٹی کے اجزا مختلف مدارج میں سے گزر کے ہیرا بنتے ہیں.اتنا لمبا زمانہ ہے اور اتنی تھوڑی تحقیق ہے اس پر کہ اس کا سمجھنا شاید ہمارے لئے مشکل ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شاید لاکھوں، کروڑوں سال میں مٹی کے اجزا ہیرے کی شکل اختیار کرتے ہیں.میں آسان ایک اور مثال لے لیتا ہوں سمجھنے کے لئے.ست سلاجیت ہے.ایک دوائی ہے.پہلے سمجھتے تھے یہ پتھر کا حصہ ہے.اب تحقیق یہ ہوئی کہ ایک بڑی چھوٹی بوٹی ہے جس کا قد بمشکل ایک چاول کے برابر ہے اور Lichen (لچن ) اس کو کہتے ہیں انگریزی میں ، وہ پتھروں کے اوپر سبز سی ایک ، جس طرح مخمل ہوتی ہے اس طرح تہ جم جاتی ہے مٹی کے

Page 487

خطبات ناصر جلد نهم ۴۷۳ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء ذروں اور اس بوٹی کی، اس میں سے پانی رہتا ہے اور اگر جس پتھر پر یہ جمی ہو، اس میں تیر ہو تو یہ پانی اس تیر میں نیچے گرتا ہے ، گرتا رہتا ہے اور کئی سو سال کے بعد وہ ست سلاجیت کی شکل اختیار کرتی ہے جو دوائی ہے، جس میں بڑی طاقت ہے، جو بہت سے فوائد اپنے اندر انسان کے لئے رکھتی ہے، جس میں اتنی گرمی ہے کہ سردیوں میں وہ منجمد پتھر کی طرح ہوتی ہے.گرمی میں ایک دن ایک دفعہ میرے پاس پڑی ہوئی تھی.خیال نہیں کیا، تو ٹین کے جس ڈبے میں تھی (کوئی ایک چوتھائی ست سلاجیت تھی اس میں ) اچانک نظر پڑی تو ابل ابل کے وہ اپنے کناروں سے باہر گر رہی تھی.اتنی گرمی اس کے اندر اس گرمی کے نتیجے میں پیدا ہو چکی تھی.ایک دفعہ کالج کے لڑکوں نے اپنے نوکر سے مذاق کیا.( کاغان وادی میں پھر رہے تھے) اسے بہت سی ست سلاجیت کھلا دی.برفانی ہواؤں میں اس نے رات کے دو بجے کھڑ کی کھول کے، اپنی قمیص اتار کے جسم کو باہر کیا اور کہا مجھے تو آگ لگی ہوئی ہے میرے جسم کے اندر.تو انسان کے فائدے کے لئے یہ چیز پیدا ہوئی اور سینکڑوں سال میں نشو ونما کے بعد اسے اس کی اپنی شکل ملی جس کے نتیجے میں انسان کو فائدہ پہنچتا ہے.تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ الله میں صفات باری کی معرفت کے بعد پھر حسن سلوک انسان کے ساتھ آجاتا ہے.رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) جس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے پیارے بندے جو ہیں ان کی رحمت نے بھی اس کا ئنات کی ہر شے کا احاطہ کیا ہوتا ہے.کائنات کی ہر شے کو تو اس وقت چھوڑیں، ہم صرف انسان کو لیتے ہیں.انسان سے ان کا سلوک اتنے پیار کا اور خیر خواہی کا ہوتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اسلام یہ ہے.حسن اخلاق اس کے علاوہ اسلام ہے ہی نہیں.اس دائرے سے باہر اسلام نہیں نظر آتا ، جہاں تک انسان کا انسان سے تعلق ہے.جہاں تک انسان کا خدا سے تعلق ہے اس وقت میر امضمون نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی جو صد ہے جس کو ہماری عبادت کی احتیاج نہیں.تو حقوق کی ادائیگی پھر انسان کی طرف ہی لوٹتی ہے لیکن میں نے بتایا وہ میرا مضمون نہیں.اس وقت میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اچھے اخلاق، وہ اخلاق جو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 488

خطبات ناصر جلد نهم ۴۷۴ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء زندگی میں نظر آتے ہیں ان اخلاق کے حسن اور نور سے منور اور خوبصورت بنا لینا اپنے نفس اور روح کو ، یہ اسلام ہے اور اس کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کا پیار آپ حاصل کر سکتے ہیں، نہ حقوق الانسان آپ ادا کر سکتے ہیں.یہ رحمت جو ہے مثلاً یہ بزدل نہیں یعنی بزدلی کے سرچشمے سے نہیں نکلتی.جس وقت اسلام کے دشمنوں نے اپنی حماقت کے نتیجے میں، اپنے جتھے کے گھمنڈ میں ، اپنی اچھی تلواروں کو دیکھتے ہوئے سمجھا تھا کہ ہم Root Force تھے ، اس مادی طاقت کے ساتھ اسلام کو مٹادیں گے ، اس وقت کمزور ، نہتے Under Nourished ، جن کو کھانے کو بھی پورانہیں ملتا تھا اور جسمانی لحاظ سے کمزور تھے ان کے وجود سے اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ مخالفین اسلام اپنے ان منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا لیکن جس وقت یہی رؤسائے مکہ اپنی تمام طاقتوں کے باوجود اور اپنے جتھے کے ہوتے ہوئے بھی اس حالت میں پہنچے کہ ان کے دماغ نے یہ فیصلہ کیا کہ آج ہم اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس لئے تلوار کو میان سے نکالنالا یعنی ہے، بے فائدہ ہے اور جس وقت انہوں نے اس حقیقت کو پہچانا کہ ہم نے اپنے وقت میں انتہائی مظالم ڈھائے مسلمان پر اور اس قدر اذیتیں پہنچا ئیں کہ ان کا شمار نہیں، آج جو بھی ہم سے سلوک کریں حق بجانب ہوں گے.اس طاقت کے وقت اور اس فتح کے زمانہ میں یہ اعلان لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف: ۹۳) تم سب کو معاف کر دیا.اُحد کے موقع پر یہ اعلان نہیں ہوسکتا تھا یعنی اگر اعلان ہوتا تو اس کی عظمت کو اور اس کے حسن کو دنیا نہ پہچانتی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محض یہ اعلان کافی نہیں تھا.عظمت یہ ہے کہ آپ نے کہا میں معاف کرتا ہوں اور اپنے خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی تمہیں معاف کر دے.یہ حسن اخلاق کا ایک مظاہرہ ہے.ہر شخص سے ہر قوم سے، دنیا کے ہر خطے سے اسلام نے پیار کیا اور حسنِ اخلاق سے ان کے دل خدا اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے.محض نمازیں پڑھ لینا، محض درود بھیجنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر محض ورد کرنا ظاہری چیز ہے.ہم نہیں جانتے وہ قبول ہوتی بھی ہے یا نہیں ہوتی.ہم نہیں جانتے کہ اس کا نتیجہ نکلتا بھی ہے یا نہیں نکلتا اور اگر نتیجہ نکل آئے تو سوائے اس کے کہ اچھے اخلاق پیدا ہو جا ئیں اور کوئی شکل

Page 489

خطبات ناصر جلد نہم ۴۷۵ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء ہی نہیں بنتی اس کی.یعنی کوئی شخص یہ کہے کہ میں خدا کو پیارا اس لئے ہوں کہ اگر چہ میں اس کی مخلوق کے حقوق کو غصب کرنے والا ہوں لیکن اس کے سامنے گھنٹوں گر کے عاجزانہ دعائیں کرنے والا ہوں تو ہم کہیں گے کہ جھوٹے ہو تم ! اگر تم خدا کو پہچانتے تو خدا کے بندوں کو ایذا نہ پہنچاتے.ہماری تاریخ میں، جو بظاہر نیکی کی تحریک تھی ، وہ دوحصوں میں منقسم ہوگئی.ایک کی موٹی مثال ہم فقہ سے دے سکتے ہیں یعنی اس چیز میں پڑ گئے کہ وضو اس طرح کرنا ہے.اگر وضو کرتے ہوئے کہنی جو ہے وہ خشک رہ گئی تو اللہ تعالیٰ سزا دے گا وغیرہ وغیرہ.ان چیزوں، باریکیوں میں پڑ گئے ، فقہاء کہلائے.اور دوسرا بڑا گر وہ تھا وہ صوفیاء کا تھا.تصوف جو ہے سوائے حسن اخلاق پر زور دینے کے کسی اور چیز کا نام نہیں.بعد میں تنزل پیدا ہوا صوفیاء کے مسلک میں بھی اور جو حقیقت تھی وہ نظر انداز ہوگئی ایک زمانہ کے بعد اور مرور زمانہ کے نتیجہ میں ، یہ اور بات ہے لیکن سید عبد القادر جیلانی ہیں، یہ سارے بزرگ تصوف کے میدان میں جنہوں نے خدمت کی ہے اسلام کی سینکڑوں پیدا ہوئے اور سارا زور ان کا اخلاق کے اوپر تھا اور اتنی باریکیوں میں گئے ہیں کہ انتہا نہیں.مثلاً زبان ہے.زبان کے اوپر حسن اخلاق کے لئے یہ پابندیاں لگائی ہیں.قول نہیں کافی ، قولِ سدید ہونا چاہیے.ہر وقت بولنا نہیں.آزادی ہے بولنے کی ویسے تو اسلام کہتا ہے بولنے کی اجازت ہے لیکن بولنے کے نتیجے میں فساد پیدا کرنے کی اجازت نہیں.تو ان باریکیوں میں صوفیاء گئے ہیں، ایک ایک چیز لے کے اور اس کے اوپر زور دیتے چلے گئے ہیں.اصل چیز تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ ہے.اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو ہیں ان کو آدمی پہچاننے لگے اور عرفانِ باری ایک محاورہ ہم نے بنالیا ) حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے تو بے شمار ہیں.ایک دن میں اتنے ہو جاتے ہیں کہ ساری دنیا کے انسان کے دماغ ان کو اپنے احاطہ میں نہیں لے سکتے لیکن ہر شخص اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنے ماحول میں جلوے دیکھ سکتا ہے اگر وہ چاہے.ادھر توجہ کرنی چاہیے کس طرح خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے پیار کر رہا ہے؟ قرآن کریم نے جو یہ اعلان کیا کہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَانَمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة : ۳۳) کہ انسانی جان کی حرمت اتنی عظیم

Page 490

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء ہے کہ بغیر حق کے ایک جان لینا، انسانیت کا خون کرنا ہے.اس کے مقابلے میں خدا تعالیٰ کی رحمت کا جلوہ بھی ہمیں نظر آتا ہے.اب نئی تحقیق نے یہ معلوم کیا کہ انسان اپنی روزمرہ کی معمولی زندگی میں ایک گھنٹے میں ہزاروں موتوں میں سے گزرتا اور خدا تعالیٰ اس کی جان کی حفاظت کرتا ہے.ان جلووں کو دیکھ کر اور خدا تعالیٰ کی اس صفت کو ملاحظہ کر کے انسان اپنی ذمہ داری کو سمجھ سکتا ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کتنی ضروری ہے اور انسانی جان کی حفاظت ہر موقع اور ہر لحاظ سے فساد نہ کرتے ہوئے ، فساد کو مٹا کر ( ہزار طریقے ہیں اس کی حفاظت کے ) خدا تعالیٰ کی اس.صفت کا رنگ اپنی صفات کے اوپر ہم پھیر سکتے ہیں، وہ رنگ ہمارے اندر روشن ہوسکتا ہے.کھانا ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا.وَاَنْتُمْ تَزْرَعُونَةٌ أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ (الواقعة: ۶۵) خدا تعالیٰ کی صفات کا ایک جلوہ یا جلووں کا ایک مجموعہ، گروپ جو ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی اور بقا کے لئے خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے ایک غذا پیدا کرتا ہے جو انسان کے بس کی بات نہیں.جس طرح میں نے بتایا انسانی جان کو ایک گھنٹے میں ہزاروں موتوں سے وہ بچاتا اور اس کی غذا کو بھی ہزاروں ہلاکتوں سے محفوظ رکھتا ہے.انسان اپنی حماقت اور جہالت کے نتیجہ میں سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے لئے غذا پیدا کی.خدا کہتا ہے میرے جلووں کی پیروی کر کے، اپنی صفات میں میرا رنگ پیدا کر کے، میرا قرب حاصل کر کے، میرے فضل اور رحمت کو لے کر تم اپنی اور اپنوں کے لئے غذا پیدا کر سکتے ہو ورنہ نہیں کر سکتے.اور اس بات کو عملاً ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتا رہتا ہے.اب گندم تیار ہے.ایک سال یہ ہوا ہمارے ربوہ میں کہ بالکل کٹائی کے لئے تیار تھی.دانہ پڑ چکا تھا بیچ میں ، ذرا کچا تھا.دو چار دن کے اندر اس کو کاٹنا تھا زمیندار نے تو ربوہ کے ماحول میں ایک چھوٹی سی بدلی آئی اور ژالہ باری شروع ہو گئی.کسی کھیت کو سارے کا سارا تباہ کر دیا، ایک سٹہ بھی نہیں چھوڑا اس کا.کسی کھیت کے، محاورہ ہے ۷۵ فیصد کی بجائے ہم کہتے ہیں، بارہ آنے تباہ کر دیئے.کسی کے آٹھ آنے تباہ کر دیئے.کسی کی چوٹی تباہ کر دی.کسی کا آنہ تباہ کر دیا اور ساتھ کا کھیت ایسا بھی تھا جس کا ایک سٹہ بھی نہیں تباہ ہوا.ایک بدلی چکر لے رہی ہے خدا کے حکم سے چھوٹی سی بدلی ، اولے برسنے شروع

Page 491

خطبات ناصر جلد نهم ۴۷۷ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء ہو گئے.کہیں نشانہ ٹھیک لگ رہا ہے، کہیں نہیں لگ رہا.میں نے اور آپ نے انتظام کیا تھا ان کی تباہی اور حفاظت کا یا خدا تعالیٰ نے اپنے حکم سے فرشتوں کے ذریعے سے ایسا انتظام کیا تھا ؟ احمد نگر میں میری بھی زمینیں ہیں.وہاں کا کارندہ جو میرا تھا ( بالکل مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے یہ واقعہ ہوا) میرے پاس آیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے.کہنے لگا مجھے کہ آٹھ آنے گندم خراب ہوگئی ہے، تباہ ہوگئی ہے.مجھے بڑا غصہ چڑھا.میں نے کہا بڑے نالائق ہو تم.جو آٹھ آنے رہ گئی وہ خدا نے فضل کیا تو رہ گئی ، میں اور تم تو نہیں اس کو بچا سکتے تھے.تو واپس جاؤ اور آدھا گھنٹہ وہاں اللہ اکبر کے نعرے لگاؤ اور اَلْحَمْدُ للهِ اونچی اونچی پڑھو، پھر مجھے آکے رپورٹ دینا.اس کی دین ہے وہ بتا تا ہے کہ میرے اختیار میں ہے.میرے پر تو اس نے یہ فضل کیا کہ جب میں نے اس کا حق سمجھا اور کوئی شکوہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی میرے دل میں نہیں پیدا ہوا کہ یہ کیا ہو گیا.تو اگلی فصل میں معمول سے زیادہ پہلی فصل کا جو نقصان ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ پورا کر دیا خدا تعالیٰ نے.تو خدا تعالیٰ کا جب اپنے بندوں سے یہ سلوک ہے کافر و مومن کے ساتھ ، جہاں تک صرف ڈ نیوی ضروریات کا تعلق ہے تو بندوں پر بھی تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کے مطابق یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کے بندوں سے کافر اور مومن کے امتیاز کے بغیر اس قسم کا سلوک کریں.یہ ہے حسن اخلاق.یہ نہیں کہ اگر کوئی کافر جو مسلمان نہیں کہتا اپنے آپ کو ، وہ بھوکا ہو اور آپ خوش ہوں کہ وہ بھوکا ہے.آپ کا تو چین اٹھ جانا چاہیے کہ خدا کا بندہ جو ہے وہ بھوکا ہے اور میں نے پیٹ بھر کے کھالیا.ایک دفعہ میں نے تحریک کی تھی ، اب ضمنا میں پھر کر دوں.جماعت احمدیہ میں جو عہد یدار ہیں اور جو اخلاص رکھتے ہیں خدا اور اس کے رسول سے ان کا فرض ہے کہ یہ دیکھیں کہ کوئی احمدی فرد یا خاندان رات کو بھوکا تو نہیں سوتا ؟ میں نے خطبے میں اعلان کیا، وہ خطبہ چھپ گیا.گجرات کے ایک غیر احمدی دوست نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے یہ کیوں کہا ہے کہ کوئی احمدی بھوکا نہ سوئے ، یہ کیوں نہیں کہا کہ کوئی بھی بھوکا نہ سوئے.میں نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو.میں نے اس لئے نہیں کہا کہ اگر ہم یہ کریں گے تو پھر آپ کو تنگ کرنے کے لئے ایک طبقہ آجائے گا کہ احمدیوں کے ہاتھ

Page 492

خطبات ناصر جلد نهم ۴۷۸ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۸۲ء سے نہ اور وٹی اور نہ کھاؤ.تو تمہاری حفاظت کے لئے میں نے کیا ہے لیکن دل تو میرا یہی چاہتا ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے.دل تو میرا یہی چاہتا ہے کہ ہر انسان جو بیمار ہو گیا اس کو خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ دوا میسر آجائے اور اسی وجہ سے ہم نے جہاں اس قسم کے حالات نہیں جیسے ہمارے ملک میں ہیں ہسپتال کھول دیئے.دل ہمارا چاہتا ہے کہ ہر انسان خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کے نتیجہ میں جو علوم پیدا ہوئے ہیں اسی کے ہم نے بہت سے انٹر میڈیٹ کالج کھول دیئے ،سکول کھول دیئے.یہ حقیقت ہے کہ افریقہ کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن میں ہمارے جانے سے پہلے ایک پرائمری سکول بھی نہیں تھا کسی مسلمان کا.اور اس وقت سینکڑوں احمد یہ سکول کہلاتے ہیں وہ.پرائمری سکول ، مڈل سکول اور انٹر میڈیٹ کالج کے برابر ہائر سیکنڈری سکول (انٹر میڈیٹ کے برابر ہے ان کا معیار ) کھولے.میں یہاں پرنسپل رہا ہوں.مجھے حکم تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کا کہ یہ کالج تبلیغ کے لئے نہیں اس لئے ہے کہ ہماری قوم تعلیم میں بہت پیچھے ہے، ان کو تعلیم میں آگے کیا جائے.یو نیورسٹی کہتی تھی جتنے لڑ کے داخل کرو ان کے دس فیصد کو تم Half Fee Concession دو.میں نے اپنی منتظمہ سے اجازت لے کے اور ان کے علم میں لا کے، پچاس فیصد کو Full Fee Concession بھی دے دیا اور مراعات بھی دے دیں کیونکہ جماعت کی پالیسی یہ تھی اور سینکڑوں ایسے ہونہار بچے کہ جو تعلیم حاصل ہی نہیں کر سکتے تھے اگر وہ میرے پاس نہ آجاتے ، ان کو تعلیم دلوائی.ہر فرقے سے ان کا تعلق تھا، ہر علاقے سے ان کا تعلق تھا، ہر تعصب سے ان کا تعلق تھا میں نے کوئی پرواہ نہیں کی.میں نے کہا تم مستحق ہو مالی لحاظ سے اور ذہین ہو.تمہاراحق بنتا ہے وہ تمہیں مل جائے گا، جہاں تک میری طاقت ہے.اور اس کا بڑا اچھا نتیجہ نکلا.یہاں تو چونکہ اور بھی کالج ہیں ، نظر نہیں آتا.پچاس سال سے جماعت احمد یہ افریقہ میں کام کر رہی ہے.اب تو ہماری دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی کچھ سکول اور کالج کھولے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آیا بیچ میں کہ افریقہ میں کوئی پڑھا لکھا افریقن ایسا نہیں تھا جس نے جماعت احمدیہ کے کالج میں یا سکول میں تعلیم نہ حاصل کی ہو.ایک بھی نہیں تھا.بڑا پیار

Page 493

خطبات ناصر جلد نهم کرنے والے ہیں یہ لوگ.۴۷۹ خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۸۲ء تو حسنِ اخلاق سکھاؤ.یہ اسلام ہے، یہ احمدیت ہے.یہ سو چوہی نہ کہ دوسرے کا تمہارے ساتھ کیا سلوک ہے؟ یہ دیکھو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کیا چاہتے ہیں کہ تمہارا خدا کی مخلوق کے ساتھ کیا سلوک ہے؟ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر اپنے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی ہے.اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور ساری دنیا اس محسن اور نور سے منور ہو جائے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ یکم نومبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 494

Page 495

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۱ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء نظام وصیت آسمانی رفعتوں تک پہنچانے والا نظام ہے خطبه جمعه فرموده ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں نظام وصیت کو قائم کیا.نظام وصیت ایک عظیم نظام ہے ہر پہلو کے لحاظ سے.نظام وصیت کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جو ممبر ہیں یا داخل ہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں، ان میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو اسلامی تعلیم کی رو سے ذمہ داریوں کو اس قدر توجہ اور قربانی سے ادا کرنے والا ہو کہ ان میں اور دوسرے گروہ میں ایک ما بہ الامتیاز پیدا ہو جائے.نظام وصیت صرف ۱۱۱۰ مالی قربانی کا نام نہیں.یہ نظام ہے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمانی رفعتوں تک پہنچانے کا اور جہاں اس نظام میں مالی قربانی کی امید رکھی جاتی ہے وہاں ہر دوسرے پہلو سے ایک نمایاں، بھر پور اسلامی زندگی جو ہر لحاظ سے منور ہو اور حسین ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رفعتوں کی طرف لے جانے والی ہو اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو.جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے عملی زندگی میں الجھنیں پیدا بھی ہوتی ہیں.الجھنیں دور

Page 496

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۲ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء بھی کی جاتی ہیں یا دور کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے.الجھنوں کو جب دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو الجھن دور بھی ہو جاتی ہے اور نئی الجھنیں پیدا بھی ہوسکتی ہیں اور بسا اوقات پیدا بھی ہو جاتی ہیں.اس وقت اس وجہ سے اس نظام کے متعلق جماعت کو ہر آن چوکس اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے مثلاً عورت کی وصیت.ایک وقت میں جماعت نے محسوس کیا کہ اچھے کھاتے پیتے دولت مند امیر خاوند بتیس روپے مہر رکھ کر جو کسی وقت سمجھا جاتا تھا اسلامی مہر یا ایک ہزار مہر رکھ کر اس کو اُس دولت سے محروم کر دیتے تھے جس کی وہ مستحق تھی اور جو اسے ملنی چاہیے تھی.اس واسطے جماعت نے یہ ایک روایت قائم کی کہ کم سے کم اپنی سالانہ آمد کا پچاس فیصد یعنی چھ ماہ کی آمد مہر رکھو.بعض لوگ اس کے برعکس دس سال یا بیس سال کی جو آمد ہے وہ رقم مہر میں رکھ دیتے تھے اور نیت یہ ہوتی تھی کہ دوں گا نہیں.اور اگر بیوی مطالبہ کرے گی تو پیسے دینے کی بجائے اس کو چپیڑ لگا دوں گا کہ میرے سامنے بولتی ہے تو.ایک اور فتنہ تو مہر کا تھوڑا ہونا یا بہت ہونا اور صرف مہر کے اوپر وصیت کا قائم کر دینا عقلاً اور جو قربانی کی روح ہے اور جو نظامِ وصیت کی روح ہے وہ جائز نہیں.جب میری پہلی شادی ہوئی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار مہر رکھا.جب حالات سے مجبور ہو کر مجھے دوسری شادی کرنی پڑی تو میرے جذبات نے یہ تقاضا کیا کہ میں ایک ہزار سے زیادہ مہر نہ رکھوں.بعض جگہ شیطانی وسوسہ یہ پیدا ہوا کہ اتنا تھوڑا مہر رکھ کر وصیت کے نظام میں آپ نے خلل ڈال دیا.وصیت کے نظام کا مہر کے ساتھ کیا تعلق.منصورہ بیگم کا مہر تھا ایک ہزار اور ان کی وصیت کی ادا ئیگی جس میں اُلجھن کو ئی نہیں تھی.صاف تشخیص ہو سکتی تھی اس لحاظ سے اٹھاون ہزار سے زیادہ رقم انہی کی جائیداد میں سے ہم ادا کر چکے ہیں.تو مہر کا ایک ہزار روپے ہونا ان کے مالی قربانی کرنے کے راستہ میں تو روک نہیں بنا اور میرا خیال ہے کہ ایک زمین ہے پہلے مقدمہ تھا اس کے اوپر وہ مقدمہ تو حق میں ہو گیا لیکن بعض اور الجھنیں دور ہونے والی ہیں.انشاء اللہ وہ جلد ہی دور ہو جائیں گی.تو شاید اس کا حصہ وصیت کا منصورہ بیگم نے ۱۱۷ کی وصیت کی ہوئی تھی تو وہ ستر یا پچھتر یا اسی ہزار روپیہ اور انہی کی جائیداد

Page 497

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۳ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء میں سے ادا ہو گا اور یہ سارامل کے قریباً سوالاکھ روپیہ بن جاتا ہے.تو ایک ہزار روپیہ مہر سوالا کھ وصیت کی ادائیگی میں تو روک نہیں بنا.اسی طرح کسی کے متعلق کچھ اور اعتراض بھی پیدا ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں وصیت کی وضاحت کر دوں.اصل چیز ایک ہزار یا دس ہزار نہیں.اصل چیز ہے اسلامی زندگی گزارنا اور بشاشت کے ساتھ خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لئے ہر قسم کی جن میں ایک صرف مالی قربانی ہے.ہر وقت قربانی دینے کے لئے تیار رہنا.جس دوست نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے نئی شادی میں ایک ہزار روپے مہر رکھا تو وصیت کے اوپر اس کا برا اثر پڑ گیا ان کو میں نے جواب یہی دیا تھا کہ میں نے کسی بھک منگی سے شادی نہیں کی.تو ایک تو ابھی انہوں نے وصیت نہیں کی ہوئی لیکن میں نے کہا ہے کہ وصیت کر دو.تو شاید پہلی قسط جو وہ ادا کریں گی وہ ایک ہزار سے بہر حال بڑھی ہوئی ہوگی یعنی پورے مہر سے آگے نکل جائے گی اور اللہ تعالیٰ زندگی دے اور توفیق دے ان کو اسی ہمت کے ساتھ مالی قربانی کرنے کی بھی تو لاکھ تک پہنچ جائے بشاشت سے دیں گی.یہ جو شیطانی وسوسے دماغ میں آتے ہیں خدا تعالیٰ کی عطا کردہ جو فراست ہے مومن کو چاہیے کہ آپ ہی حل کر لیا کرے.ایک ایسا نظام جو اپنی عظمتوں کی وجہ سے مثالی بنا تھا اسلام کی خدمت کے میدان میں اس کے اوپر بعض لوگوں کی غلطی کی وجہ سے دھبے پڑ رہے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے فراست اور ہمت دی.میں کوشش کروں گا کہ ان دھبوں سے اسے صاف کیا جائے.اس وقت بنیادی چیز میں جماعت کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں کہ نظام وصیت کا ہر احمدی مرد اور عورت سے یہ مطالبہ ہے بلوغت کے بعد کہ وہ مالی میدان میں اس قدر قربانی کرنے والی ہو کہ جو غیر موصی مرد و زن جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں ان سے کہیں آگے بڑھ جانے والے ہوں نظام وصیت احمدی مرد وزن سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جہاں تک اوقات کی قربانی یا نفس کی قربانی ہے یعنی زندگی کے جو لمحات ہیں ان کی قربانی ہے وہ غیر موصی سے زیادہ قربانی دینے والے ہوں، نظام وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ اعلان فرمایا.بُعِثْتُ لِأُتَيْمَ

Page 498

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۴ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء مَكَارِمَ الْأَخْلاقِ میری بعثت کی ایک غرض یہ ہے کہ میں مکارم اخلاق کو اپنے پورے کمال تک پہنچا دوں جس سے بڑھ کر اور کوئی کمال ممکن نہیں.عربی زبان میں اتمام کے یہ معنی ہیں.تو نظامِ وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مکارم اخلاق کے میدانوں میں موصیوں کی گرد کو بھی غیر موصی پہنچنے والے نہ ہوں.ہر ایک سے پیار کرنے والے، ہر ایک کو عزت سے پکارنے والے، جھگڑا نہ کرنے والے، کافر و مومن سے ہمدردی اور خیر خواہی کرنے والے، دنیا کی بھلائی کے لئے راتوں کو جاگ کر خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں کرنے والے.غرض وہ سینکڑوں شعبے مکارم اخلاق کے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اور عملی زندگی میں جن کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ان شعبوں میں غیر موصی سے کہیں آگے بڑھنا نظام وصیت اس کا مطالبہ کرتا ہے.نظام وصیت اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں موصی پر کوئی دھبہ ایک سوئی کے Point کے برابر بھی نہ پڑے.نظام وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ حقوق اللہ جسے کہا جاتا ہے چکر کھا کے وہ پھر حقوق العباد ہی بنتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ تو کسی کا محتاج نہیں بہر حال ایک ہماری اصطلاح ہے حقوق اللہ کی ادائیگی میں سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اتنی دور آگے نکل جائیں گے غیر موصی سے کہ غیر موصی کی نگاہ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکے گی.یہ ہے نظام وصیت ! اس کو بگاڑ کر اس عظیم احسان کی ناقدری نہ کرو جو عظیم احسان اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے نوع انسانی پر کیا.جو منتظمین ہیں وہ بھی نہیں سمجھتے.عجیب و غریب وصیتیں میرے پاس آجاتی ہیں منظوری کے لئے.مجھے غصہ بھی آتا ہے.غصے کو پیتا بھی ہوں.مجھے دکھ بھی پہنچتا ہے.اس دکھ کو میں سہتا بھی ہوں لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ کے پیارے محمدصلی اللہ علیہ وسلم جن سے بڑا کوئی نبی نہیں جن سے بڑا کوئی انسان نہیں.جن سے بڑا کوئی محسن نہیں.انہوں نے اس زمانہ میں اپنی روحانی قوت کے نتیجہ میں مہدی اور مسیح کے ذریعہ سے نوع انسانی پر احسان کرتے ہوئے رَحْمَةٌ لِلعالمین ہوتے ہوئے ، رحمت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے جو احسان کیا ہے اس میں کمزوری نہ پیدا ہو.یہ میرا فرض ہے.یہ جماعت کا فرض ہے.سمجھتے ہیں کہ بیوی نے

Page 499

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۵ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء بتیں مہر میں سے تین روپے کی قربانی ساری عمر میں دی اور وہ نظام وصیت کے لحاظ سے موصیہ بن گئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس کے مقابلہ میں میں جانتا ہوں کہ احمدی بہنوں میں سے وہ بھی ہیں جو تین روپے کے مقابلہ میں تین لاکھ روپے مالی قربانی دے کر بھی اپنے آپ کو نظامِ وصیت کے مرتبہ پر نہیں سمجھتیں اور وصیت نہیں کرتیں.پس جو صاحب فراست عورت یا جو صاحب فراست مرد نظام وصیت کی حقیقت سمجھتا ہے، منتظمین نظام وصیت کو کم از کم اتنی سمجھ تو ہونی چاہیے.باقی یہ جو مثلاً نئی شادی ہوئی ایک ہزار مہر رکھا.وہ ایک ہزار مہر اس لئے رکھا کہ بتیس روپے مہر سے عورتوں کو چھٹکارا دلا دیا اور ناجائز بوجھوں سے اپنے غریب بھائیوں کو چھٹکارا دلا دیا.اب موجودہ زمانہ میں ایک یہ رسم ہے کہ کہہ دیتے ہیں منہ سے کہ فارم کے اوپر لکھ دو پچاس ہزار، نہ دینا، کسے دھوکہ دے رہے ہو.دنیا کو یا خدا کو یا اپنی ضمیر کو یا اپنی بیوی کو یا اپنے سسرال کو یا اپنے میکے کو یعنی اپنے ہی خاندان کو ، کسے دھوکا دے رہے ہو؟ یہ نمائش دائرہ احمدیت و اسلام سے باہر ہو سکتی یہ جھوٹی نمائش دائرہ اسلام واحمدیت کے اندر نہیں ہو سکتی.سیدھے سادے مسلمان مومن بننے کی کوشش کرو.خدا سے پیار کرو اتنا کہ کوئی دوسرا انسان وہ پیار خدا کو نہ دے سکے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کرو اتنی کہ دوسرے سمجھ ہی نہ سکیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق ہو سکتا ہے.قرآن کریم اتنی عظیم کتاب ہے قرآن کے گرد گھومو کہ تمہاری ساری ضرورتوں کو وہ پورا کرنے والی تعلیم ہے.اور جماعت احمدیہ میں ایک بڑا گر وہ ان موصیان کا ہونا چاہیے جو اس ارفع مقام تک پہنچنے والے ہوں جن کا میں نے ذکر کیا.پھر یہ جو انتہائی قربانیاں دینے والا جو خدا تعالیٰ کے عشق میں مست اپنی زندگیاں گزارنے والا ہے.وہ کمزوروں کے بوجھ اٹھا لیتے ہیں اور جماعت کو پھر کسی قسم کی کمزوری نہیں پہنچتی ، نقصان نہیں پہنچتا.تو وہ موصی آگے بڑھیں جو وصیت کے نظام کے مقام کو پہنچاننے والے اور عزم اور ہمت رکھنے والے.میں اپنے گھر کی مثال دیتا ہوں.اب منصورہ بیگم نے ۱/۷ کی وصیت کر دی.میرے ذہن میں کم از کم نہیں تھا اور مجھے عجیب لگتا تھا کہ بعض دفعہ کسی Source سے کوئی آمد ہوتی تو ایک ناظر صاحب

Page 500

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۶ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء کو انہوں نے کہا ہوا تھا کہ مجھ سے پیسے لے کر وصیت ادا کیا کریں.وہ گئے ہوئے تھے باہر اور یہ تھیں بے چین کہ میرے پاس پڑے ہوئے ہیں پیسے.بار بار مجھ سے پوچھیں کہ کب آ رہے ہیں وہ.میں نے وصیت کی رقم ادا کرنی ہے.وہ بے چینی دیکھ کے میں نے کہا کہ مجھے دے دیں میں وہاں بھجوا دیتا ہوں اور رسید آ جائے گی.کہا کہ نہیں آپ کو نہیں دینے اور دراصل مجھ سے بھی یہ چھپا رہی تھیں کہ میں نے ۱/۱۰ سے اٹھا کے ۱۱۷ کی وصیت کی ہوئی ہے.وہ سمجھتی تھیں کہ وصیت کے لحاظ سے موصیہ کا جو مقام ہے وہ اپنے خاوند کے ساتھ جو تعلق ہے اس سے بہت بڑا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے میں دے رہی ہوں مجھے اپنے خاوند کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں اپنے خدا کے حضور کیا پیش کر رہی ہوں.پس ایسے مرد اور عورتیں کہ جو اس قسم کی قربانیاں دے سکتے ہیں.دیں گے انشاء اللہ اگر ان کی Guidance ( گائیڈنس ) اور رہنمائی اور ہدایت کے سامان صحیح ہوتے رہیں.جو ایسے نہیں وہ اپنے آپ کو وصیت کر کے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ذلیل کرنے کی کوشش نہ کریں.نظام وصیت سے باہر بھی وہ را ہیں اسی طرح کھلی ہیں جس طرح پہلے کھلی تھیں جوخدا تعالیٰ کی محبت کو پاتیں اور خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہیں لیکن قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں مومن اور مومن میں فرق ہے.بعض جگہ خالی مُؤْمِنِینَ کہا گیا یا مُؤْمِنُونَ کہا گیا اور بعض جگہ مُؤْمِنُونَ حَقًّا کہا گیا.اور فرق بھی کیا ہے.وہ میرا مضمون نہیں اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا لیکن مُؤْمِنُونَ حقا وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے اتنا کہ اپنے آپ کو فانی کر دینے والے.جہاں سے تمہیں کچھ چیز ملے اس کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے جہاں تم خوبصورتی دیکھو اس کے لئے پیار پیدا ہوتا ہے جس شخص پر خدا تعالیٰ اپنے احسان اور اپنے محسن کے انتہائی ارفع جلوے ظاہر کر دے.وہ تو بس مر ہی جاتا ہے خدا کے لئے.یہ ہے نظامِ وصیت اسے پہچان کر نظامِ وصیت میں داخل ہوں.خدا کرے کہ ہزاروں میں داخل ہوں لاکھوں میں داخل ہوں لیکن اس مقام سے نیچے رہ کر نہیں کہ اپنے لئے بھی ذلت کا سامان پیدا کریں گے اور جماعت کے او پر بھی ایک دھبہ سا لگے گا.خدا تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور خدا تعالیٰ ہمیں عزم اور ہمت دے کہ نظام

Page 501

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۷ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۸۲ء وصیت جس غرض کے لئے قائم کیا گیا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہزاروں لاکھوں آدمی ہماری نسل میں، آنے والی نسلوں میں پیدا ہوں اور پیدا ہوتے رہیں اور ہم اپنے مقصود کو پانے میں کامیاب ہو جائیں.خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی عظمتوں کو نوع انسانی پہچاننے لگے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ تلے وہ سب اکٹھے ہو کر ایک خاندان بن جائیں.آمین روزنامه الفضل ربوه ۵/ دسمبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 502

Page 503

خطبات ناصر جلد نهم ۴۸۹ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۸۲ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکارم اخلاق کے اتمام کے لئے ہوئی تھی خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ رمئی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں نے بتایا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی وآلہ وسلم کی بعثت مکارم اخلاق کے اتمام کے لئے ہوئی تھی یعنی انسانی زندگی میں تہذیب پیدا کرنا اور حسن پیدا کرنا ، یہ مقصد تھا بعثت محمدی کا، اس مقصد کے لئے قرآن کریم کے سارے احکام ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تہذیب اخلاق کے لئے جو احکام دیئے ہیں وہ دوحصوں پر منقسم ہوتے ہیں.ایک نہ کرنے کی باتیں ہیں.ایک کرنے کی باتیں ہیں.ان دوحصوں پر منقسم ہونے کے بعد پھر تفصیل کے ساتھ وہ تمام احکام ہمیں دے دیئے گئے جن کا تعلق ان تمام قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ تھا جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے عطا کیں کہ وہ ان کی صحیح نشو و نما کر کے اپنے رب کریم کے اخلاق کا رنگ اپنے پر چڑھا سکے.(تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ ) نہ کرنے والی جو باتیں ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون: ٤) سے ہے،لغو سے بچنا، کوئی ایسی بات نہ کرنا، کوئی ایسا کلمہ منہ سے نہ نکالنا، کوئی ایسا کلام نہ سننا، ایسے اعمال بجانہ لا نا جو لغو ہوں.لغو کے معنی یہ ہیں کہ بے مقصد ہو اور بے فائدہ ہو اور نجس ہو اور گندہ ہو

Page 504

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹۰ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۸۲ء اور فتیح ، تو اس چھوٹے سے فقرے میں ان اخلاق کی بنیادی بات ہمیں بتائی گئی جن کا تعلق ” نہ کرنے کے ساتھ تھا.ہر وہ بات ، ہر وہ فعل جس کا کوئی نتیجہ ہماری زندگی میں خوشکن نہیں نکلتا وہ لغو میں شامل ہو جاتا ہے.فتیح باتیں فتیح اعمال جو ہیں ان کا تعلق لغو کے ساتھ ہے.پہلی چیز تو یہ ہے کہ انسان کو ” کچھ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، نہ ” کرنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.اس واسطے اچھے اخلاق کی بنیاد اس بات پہ رکھی کہ ایک مومن، مسلم احمدی کے اوقات ضائع نہیں کئے جائیں گے.ایسی باتیں کرنا جن کا کوئی فائدہ نہ ہو، گپیں لگانا، وقت ضائع کرنا یہ تمام چیزیں لغو کے اندر آ جاتی ہیں.اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی و آلہ وسلم کی عظیم ہستی کا ایک بہترین نمونہ ، اُسوہ ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شکل میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپ کو کہا اَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِئ لَا يُضَاعُ وَقْتُه که تیر وقت ( اور تیرے میں وہ تمام اوقات شامل ہیں جن کا تعلق آپ کی جماعت کے ساتھ ہے ) ضائع نہیں کیا جائے گا، ضائع نہیں ہوگا اس کے دو معنی ہیں.تیراے ماننے والے اچھے اخلاق کے حامل ہوں گے اور کوئی ایسے عمل نہیں کریں گے نہ کوئی ایسی باتیں کریں گے جو بے فائدہ اور بے مقصد ہوں اور وقت کا ضیاع ان سے ہو رہا ہو اور یہ بشارت دی کہ خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کے احکام کی روشنی میں تیرے ماننے والے خدا تعالیٰ کے حضور جو اعمال پیش کر رہے ہوں گے ان کا نتیجہ نکلے گا اور وہ ضائع نہیں ہوں گے.اچھا خلق جو ہے وہ ابدی زندگی پاتا ہے جو گندی باتیں، فتیح اعمال ہیں وہ جلد ضائع ہو جاتے اور مرجاتے ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ، اب بھی وہی مثال دیتا ہوں.انسانی تاریخ میں کہیں بھی آخری فتح نفرت اور حقارت کو نہیں ہوئی.آخری فتح ہمیشہ محبت اور پیار کو ملی ہے.نفرت، آنا اور حقارت سے پیش آنا یہ سارے گند ہیں جولغو کے اندر شامل ہو جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکلتا جو نتیجہ انسانی زندگی میں، اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والا بھی اللہ تعالیٰ نکالنا چاہتا ہے.نہ کرنے والی باتوں میں جولغو کی بنیاد سے اٹھیں پھر بہت سی باتیں ہیں ان میں ایک

Page 505

خطبات ناصر جلد نهم ہے مجنس نہ کرنا.۴۹۱ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۸۲ء اللہ تعالیٰ نے فرما یا لا تَجَسَّسُوا (الحجرات : ۱۳) عیب جوئی نہیں کرنا ، دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرنا.اپنی فکر کرو.اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے رہو.محاسبہ تو ہر وقت خدا تعالیٰ سے عشق رکھنے والا انسان کرتا رہتا ہے کہ اگر کوئی چھوٹی یا بڑی غلطی سرزد ہو جائے ، ہو چکی ہو، تو تو بہ کرے اور خدا تعالیٰ سے معافی مانگے.توبہ کی بنیاد محاسبہ پر ہی ہے.اگر کسی نے محاسبہ نہیں کیا تو حقیقی تو بہ بھی اس کے نصیب میں نہیں ہو سکتی دوسروں میں عیب تلاش کرنا ، اپنا وقت ضائع کرنا اور خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اس حد تک اس پر زوردیا کہ فرمایا جب ہم کہتے ہیں لا تجسسوا تو ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایمان کے دعوئی کے ساتھ ( زبانِ قال سے یا زبان حال سے ) تمہیں سلام کہے ( کوئی شخص سفر کر رہا ہے، پیدل چل رہا ہے، رستے میں ایک شخص ملا اس نے سلام کیا ) لَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء : ۹۵) تمہیں تجس کرنے کی ضرورت نہیں.اس نے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے سلام کیا ہے.تم اسے مومن سمجھو جس کا نتیجہ تب نکلتا، اگر انسان عیوب کی سزا دینے کا اختیار رکھتا اور اس کی طاقت بھی ہوتی.تو جب نہ طاقت ہے نہ اختیار، تو بے نتیجہ ہے مجنس.جسے طاقت حاصل ہے اور جس کے اختیار میں ہے سزا دینا یا معاف کر دینا ، وہ تو اللہ علام الغیوب ہے، اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں.جب تمہاری طاقت میں نہیں ، جب تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا اختیار نہیں دیا گیا تو تمہارا مجنس کرنا بے مقصد، بے نتیجہ، اپنے وقت کا ضیاع اور دنیا میں فساد اور بدامنی اور معاشرے میں الجھن پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.اگر غور کیا جائے تو نہ کرنے والی باتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ لغو سے ہی تعلق رکھتی ہیں.اس کی تفصیل میں انشاء اللہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں کسی اور خطبے میں کچھ کہوں گا.پچھلا ہفتہ میرا بیماری میں گزرا ہے.اتنی شدید قسم کی پیچش اور اسہال اور ہمارے طبی محاورہ ہے آؤں ، آئی.سمجھ ہی نہیں آتا تھا کس طرح بھر گیا پیٹ آؤں سے ، اس قسم کی سوزش انتڑیوں میں تھی اور اس کے نتیجے میں دو وجہ سے ضعف پیدا ہوتا ہے.ایک بیماری ضعف پیدا کرتی ہے،

Page 506

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹۲ خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۸۲ء ایک بیماری کی خاطر پر ہیز کرنا.کھانے کی شکل بدل جاتی ہے، اس کی مقدار بدل جاتی ہے، آج کی زبان میں Calories ( کیلریز ) بہت ساری کم ہو جاتی ہیں.تو یہ قریباً سارا ہفتہ ہی بیماری میں گزرا غالباً اتوار یا ہفتے کی شام سے یہ کیفیت شروع ہوئی تھی.کل قریباً آرام آ گیا.اب بھی ہلکی سی سوزش باقی ہے لیکن ضعف ہے اس لئے میں اراد تا بہت ہی مختصر خطبہ دے رہا ہوں.ویسے بھی میں نے جب یہ ارادہ کیا تو مجھے خیال آیا کہ جب میں گرمی میں جمعہ کا خطبہ نہیں دے سکتا، تو میں ہدایت دیا کرتا ہوں کہ دس پندرہ منٹ سے زیادہ خطبہ نہ دوں، تکلیف ہوتی ہے.تو جس حد تک ممکن ہو مجھے بھی اس پر عمل کرنا چاہیے.جس حد تک ممکن ہو، میں نے اس لئے کہا کہ خلیفہ وقت کے سامنے بعض ایسے معاملات آجاتے ہیں جس میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ خواہ جماعت کو یا خود اسے گرمی کے ایام میں گرمی کی تکلیف محسوس ہو رہی ہو تب بھی یہ تکلیف برداشت کر کے ان باتوں کو کہا جائے اور سنا جائے لیکن آج تو بوجہ کمزوری اور بیماری کے (اور گرمی خود میری بیماری ہے اس کی وجہ سے میں ) اور زیادہ بیمار ہو کر کام کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا.دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور بیماری کی کیفیت جو ہے وہ دور ہو جائے اور اللہ تعالیٰ مجھے پھر سے پورے طور پر کام کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین ویسے بیماری میں میں اس طرح آرام کرتا رہا ہوں کہ کئی دنوں کی ڈاک ہزاروں کی تعداد میں آجاتی تھی میرے سامنے ( کمرے میں بیٹھا رہتا تھا نا ، خالی تو میں نہیں بیٹھ سکتا ) تو وہ ساری نکال دی اور کل یا پرسوں شام کو، کوئی بقا یا نہیں تھا ڈاک کا.روز کی روز ڈاک کل سے آنی شروع ہوگئی ہے لیکن یہ میرے آرام کا ہی حصہ ہے کیونکہ خالی بیٹھنا میرے لئے ممکن نہیں.میں بیمار بھی پڑ جاؤں تو ایک دن کے بعد اداس ہو جاتا ہوں لیٹے ہوئے.تو دعا کریں کہ اس قسم کی اداسی مجھے نہ ملے.میں خوشی خوشی آپ کی خدمت میں لگا رہوں ہر وقت اور دعا کریں کہ آپ میں بھی یہ احساس زندہ رہے ہمیشہ اور پوری شدت کے ساتھ کہ ایک احمدی کی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے.جو وقت ملتا ہے آپ کو گھر میں ، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے مثلاً کہ آپ نے نماز کے لئے جانا ہے اپنے محلے کی مسجد میں اور آپ تیار ہو گئے ہیں اذان سے پانچ منٹ پہلے اور میرا اندازہ

Page 507

خطبات ناصر جلد نہم ۴۹۳ خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۸۲ء ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ چلو پانچ منٹ ہی تو ہیں میں لیٹ کے یاٹہل کے گزار لیتا ہوں حالانکہ ایک منٹ بھی کام کئے بغیر نہیں گزارنا چاہیے اور کچھ نہیں تو خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیں.قرآن کریم اٹھا کے چند آیات قرآن کریم کی پڑھ لیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآن کریم کی تفسیر ( آپ کی ساری کتب ہی تفسیر ہیں ) پڑھنا شروع کر دیں.فارغ نہ بیٹھیں ایک لمحہ بھی.اور اگر ساری جماعت کی ساری زندگیاں معمور الاوقات ہو جائیں تو اس کے نتیجہ میں بھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے وہ آج کی انقلابی مہم میں ، خدا کی توحید کے قیام کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گاڑنے کے لئے جو جاری کی گئی ہے.اس پر بہت اچھا اثر پڑسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.اور میرے لئے بھی دعا کرتے رہا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۳ رمئی ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 508

Page 509

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹۵ خطبه جمعه ۱۴ مئی ۱۹۸۲ء صراط مستقیم پر چلو خدا تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے خطبه جمعه فرموده ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم نے مسلمان کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں.سب سے کمزور وہ مسلمان ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کے علم میں ہے یہ بات کہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا لیکن تمہیں اجازت دی جاتی ہے کہ اپنے آپ کو اگر چاہو تو مسلمان کہہ سکتے ہو اور دوسری طرف اس مسلمان کا ذکر ہے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں مُؤْمِنُونَ حَقًّا کے گروہ میں داخل ہے.ان کے درمیان بھی بعض ایسے مسلمان کہلانے والوں کا یا جن کو اللہ تعالیٰ نے دائرہ اسلام میں داخل سمجھا ہے ، ذکر ہے جو ان دو کے درمیان آتے ہیں.سورہ حج کی آخری دو آیات میں مُؤْمِنُونَ حَقًّا اور وہ مومن جو مُؤْمِنُونَ حَقًّا سے ذرا کم درجے کے ہیں، وہ دونوں ہی داخل ہو جاتے ہیں لیکن وہاں مُؤْمِنُونَ حَقًّا کی بہت زبر دست تفسیر کی ہے خود قرآن کریم نے اپنی زبان میں.آخری سے پہلی آیت میں یہ ہے کہ یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو! جو اپنے آپ کو مومن کہتے ہو یا ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہور کوع اور سجدہ کرو.وَاعْبُدُوا رَبَّكُمُ اپنے رب کی عبادت

Page 510

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹۶ خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء ان تمام عبادات کے احکام کے ماتحت کرو جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے یعنی حقوق اللہ کو ادا کرنے کی کوشش کرو.اپنی قوت اور استعداد اور سمجھ اور صلاحیت کے مطابق وا فَعَلُوا الخَیر اور خدا تعالیٰ کی مخلوق سے بھلائی کا سلوک کرو.دوسری جگہ فرمایا تھا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران:۱۱) تم خیر امت اس لئے ہو کہ لوگوں کی خیر کے لئے تمہیں قائم کیا گیا ہے.اگر تم حقوق اللہ کو ادا کرو گے اور حقوق العباد کو بھی اپنی طاقت کے مطابق ادا کرو گے لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تو تم ایسی فلاح اور کامیابی کو حاصل کرو گے جو تمہاری زندگی کا آخری مقصد ہے.آخری آیت میں پھر فرمایا وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ (الحج: ۷۹ ) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو.قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ یہ جہاد جس کا اسلام حکم دیتا ہے یہ تین شقوں پر مشتمل ہے.ایک جہاد ہے جس کا تعلق خود انسان کے اپنے نفس کے ساتھ ہے کہ وہ انتہائی کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو قو تیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں ان کو الہی منشاء کے مطابق اور قرآن کریم کے احکام کے نیچے چلتے ہوئے کمال نشو و نما تک پہنچائے.یہی نیکی ہے حقیقتا.جو بہترین نیکی کی تعریف قرآن کریم میں مجھے نظر آئی ، ہو سکتا ہے کہ کسی اور کو کوئی اور نظر آجائے بہر حال جو مجھے نظر آئی وہ یہی ہے کہ جو قوت اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو دی ہے اسے الہی منشاء کے مطابق نشو ونما دینا اور استعمال کرنا ، یہ نیکی ہے.خدا تعالیٰ نے مثلاً جسمانی طاقتیں دیں.نیکی یہ ہے کہ جسمانی طاقتوں کی نشو ونما، اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت کی جائے.اب یوروپین اقوام اپنی جسمانی طاقتوں کی نشوونما کے لئے سور کا گوشت اور اس کی چربی استعمال کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف وہ ایسا کرتے ہیں اور خود ان کے محققین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جسمانی طور پر وہ نقصان اٹھاتے ہیں اور یہ نقصان دو قسم کے ہیں.ایک ایسا نقصان جو ہر سو ر کھانے والے کو نہیں پہنچتا لیکن امکان ہے کہ ہر سو ر کھانے والے کو نقصان پہنچ جائے لیکن بعض کو پہنچ جاتا ہے.ایک خاص بیماری ہے بڑی خطرناک قسم کی جو سور کے گوشت کے کھانے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے اور ایک نقصان یہ ہے کہ جو ساروں ہی کو

Page 511

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹۷ خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء پہنچتا ہے اور وہ یہ کہ غذائیت پر خود ان لوگوں نے جو ریسرچ کی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ غذا ئیں انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں.سور کا گوشت یا اس کی چربی کھانے سے بداخلاقی پیدا ہوتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ صرف سور کا گوشت اور اس کی چربی کھانے سے بداخلاقی پیدا ہوتی ہے کیونکہ یورپ میں اور اسلام سے باہر دوسری اقوام میں ایسی قومیں بھی ہیں جو سور کا گوشت اور چربی نہیں کھاتیں اور بداخلاقی میں شاید دوسروں سے بھی بڑھی ہوئی ہیں اور وجوہات بیچ میں آتی ہیں ہزار ہا ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنے کی کوشش انسان کو کرنی چاہیے وہ نہیں بچتے.تو جسمانی طاقت کی نشوونما کے لئے خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا ضروری ہے ورنہ جسمانی طاقتوں کے استعمال میں غلطیاں سرزد ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ نے یہ ایک بہت بڑا نظام قائم کیا ہے.ایک دوسرے کے ساتھ اس کا ملاپ ہے اور بڑاز بر دست ملاپ ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اخلاقی طاقتیں بھی دیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا کہ انسان کو جو اخلاقی صلاحیتیں دی گئیں، ان کا تعلق ہر دوسرے انسان کے ساتھ ہے.رَحْمَةٌ لِلْعَلَمينَ ہمارے لئے یہ پیغام الہی لے کر آئے.پس انسان کو جو اخلاقی طاقت دی گئی ، اس کا استعمال رَحْمَةً لِلْلعلمین کے نقش قدم پر چلنے کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی کسی میں امتیاز نہ کیا جائے.مسلم و کافر میں امتیاز نہ کیا جائے مثلاً ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آیا جائے.مثلاً سینکڑوں اخلاقی باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک دو مثالیں دوں گا.مثلاً یہ نہیں کہا کہ صرف مسلمان پر افتر مسلمان نہ کرے.یہ کہا ہے کسی انسان پر بھی افترا نہیں کرنا.کسی پر تہمت نہیں لگانی.خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے.پس جو اخلاقی طاقتیں ہیں، ان کا جو استعمال ہے ان کا جو مظاہرہ ہے وہ ایک نمونہ ہے ہمارے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.اس نمونہ کے مطابق ہماری طاقتوں کا مظاہرہ ہونا چاہیے یعنی مسلم و کافر کے درمیان کوئی امتیاز کئے بغیر ہم ہر ایک کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے اور ہر ایک کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے والے ہوں.وَجَاهِدُوا اپنے نفسوں کی تربیت کے لئے انتہائی کوشش کرو.وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ.اس آیت میں آیا ہے یعنی ایسی کوشش کہ جس کو خدا تعالیٰ کی نگاہ بھی صحیح اور حقیقی کوشش سمجھے.

Page 512

خطبات ناصر جلد نہم ۴۹۸ خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء دوسرا جہاد جو بیان ہوا وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جب ایک مومن ، ایک مسلم ، ایک مقرب الہبی خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو حاصل کرنے والا مسلمان دیکھتا ہے تو اس بات پر خوش نہیں ہوتا کہ مجھے ملیں اور دوسرے کو نہیں ملیں بلکہ اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دائرہ اسلام سے باہر ہیں، وہ خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور خدا تعالیٰ کی ان رحمتوں سے، اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں، اپنی جہالت کے نتیجہ میں، اپنے تعصب کے نتیجہ میں ، اپنے تکبر کے نتیجہ میں محروم ہو رہے ہیں اور اس کے دل میں یہ جوش ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس حسین تعلیم کو ان تک پہنچائے اور اسلامی تعلیم کو دنیا کے کناروں تک ہر قوم اور ہر خطہ تک پہنچانے میں اپنی قوت اور اپنا وقت اور اپنا مال اور دولت خرچ کرنے کی خواہش رکھتا ہو اور جب موقع ملے وہ ایسا کرے بھی.پس یہ جو اشاعت حسن اسلام ہے، جسے تبلیغ بھی کہتے ہیں.جسے ہم تربیت کا نام بھی دیتے ہیں اس دائرہ کے اندر رَحْمَةٌ لِلعلمین کی رو سے سارے عالم کو شامل کرنا اور پھر جہاد کرنا جاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِہ یہ جہاد کا حق اس طرح ادا ہوتا ہے اس دائرہ میں.اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو صداقت ہے اور حق ہے.اگر حق وصداقت کا مخالف حق کو مٹانے یا کمزور کرنے کے لئے منصوبہ بنائے تو اس منصوبہ کو نا کام کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کر دی جائے.یہ تیسری قسم کا جہاد ہے.پس جاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِہ میں یہ سارے شامل ہو گئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم حقوق اللہ ادا کرو گے ، حقوق العباد ادا کرو گے ، اگر تم ہر ایک سے بھلائی کرو گے، اگر تم جہاد ہر سہ معنی میں کرو گے تو تم قرب الہی حاصل کرو گے.هُوَ اجْتَبكُمُ خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاؤ گے اور جس شخص میں یہ ساری باتیں پائی جائیں اللہ تعالیٰ کے نزد یک.دعوی کرنا آسان ہے عمل کرنا بھی اتنا مشکل نہیں لیکن مقبول اعمال کا ہونا، یہ انسان کی طاقت میں نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت پر منحصر ہے.وہ جن کے اعمال کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور ان کو اپنا مقرب بنالیتا ہے هُوَ اجتَبكُم.آگے فرما یاسمكُمُ الْمُسْلِمِینَ تمہیں اس

Page 513

خطبات ناصر جلد نهم ۴۹۹ خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء وو حالت میں اس نے مسلمان کا نام دیا.پس یہاں جس مسلمان کا ذکر ہے وہ وہ مسلمان ہے جو ایک اور اصطلاح اور محاورہ کے مطابق ہم کہیں گے ثمرات اسلام حاصل کرنے والا ہے.قرآن کریم سچے مومن کے لئے بشارتوں سے بھرا پڑا ہے اور انہی کے حق میں وہ بشارتیں پوری ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاتے ہیں وہ مسلمان ہیں جو ثمرات اسلام حاصل کرنے والے ہیں اور هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ پھر آگے یہاں یہ فرمایا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن قرآن کریم تمہارے او پر جرح کرے گا کہ میرے اس حکم کو تم نے رد کر دیا.میرے اس حکم کو تم نے رد کر دیا.میرے اس حکم کو تم نے رڈ کر دیا.اس کی وہ جواب دہی ہوگی.یہاں یہ فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ جواب طلبی کرے گا.لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ گواہی دے گا کہ اس شخص نے اپنی تمام قوتوں کی نشوونما اور ان کے استعمال کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ قدم کی تلاش کی اور ان پر چلا اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الہی بشارتوں کے نتیجہ میں اپنی بڑی عظمتوں کے ساتھ یعنی جو فضل اور رحمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، وہ بہت بڑی عظمتوں والی تھیں.کوئی دوسرا انسان تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ہر شخص اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو وہ شخص حاصل کر سکتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا ہو اور اس کو اسلامی اصطلاح ثمرات اسلام کہتی ہے.خدا تعالی مددگار ہے ضرورت کے وقت.خدا غموں کو دور کرنے والا ہے ابتلاؤں کے وقت.خدا دولت میں برکت ڈالنے والا ہے حاجات اور فقر کے وقت.وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (القمن:۲۱) کہ بارش کے قطروں کی طرح آسمان سے ظاہر ہوتی ہیں.بڑا محروم اور قابل رحم ہے وہ دماغ جو سمجھتا ہے کہ اسلام کے ثمرات آج نہیں ملتے.وقت کی کوئی قید تو نہیں لگائی گئی تھی اس آیت میں اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً - قیامت تک ہر وہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والا ہے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم نہیں

Page 514

خطبات ناصر جلد نہم ۵۰۰ خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء رہ سکتا.تضاد ہے ان دو خیالات میں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نمونہ ہمارے سامنے رکھا ، وہ یہ تھا کہ اس صراط مستقیم پر چلو خدا تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے.جب خدا تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے تو تمہاری ضرورت ، تمہاری طاقت، تمہاری صلاحیت ، تمہارے مقبول اعمال کے مطابق تمہیں نتیجہ دے گا.جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت عظیم اعمالِ صالحہ کے مطابق عظیم نتیجہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دے دیا.فرما یا ھو سکمُ الْمُسْلِمِین اس میں یہ اعلان کیا گیا کہ کو یا هُوَ کسی شخص کو مسلمان کا نام دینا صرف اس ہستی کا کام ہے جو اسلام کے ثمرات دے سکے.قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ جوشخص استقامت سے کام لے گا اور باوفا ہو گا.ثبات قدم رکھے گا.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ ( حم السجدة : ۳۱) ملائکہ اس کے اوپر نازل ہوں گے.یہ میں صرف ایک مثال آپ کو سمجھانے کے لئے بتا رہا ہوں.ہر وہ انسان جو یہ دعوی کرے اور ایسا کر دکھائے کہ جسے وہ مسلمان کا لقب عطا کرے اس پر فرشتوں کا نزول کروانا.اس کے حکم سے اس کے اوپر فرشتوں کا نازل ہو جانا، یہ اس کے اختیار میں ہوگا.یہ ہو ہی نہیں سکتا اس واسطے میرا اور تیرا کام نہیں کہ کسی کو مسلمان کہو یا یہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ اپنے نے کہا یہ یہ کام کرو.مقبول ہوں گے.مقرب بن جاؤ گے اِجْتَبكُمْ میں تمہیں چن لوں گا.لئے تم میرے مقرب بن جاؤ گے اور جب مقرب بن جاؤ گے پھر میں تمہیں ایک لقب دوں گاھو شكُمُ الْمُسْلِمِينَ اور پہلی آیت کے آخر میں بھی ، دوسری آیت کے آخر میں بھی انعام بتایا ہے.فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ حقیقی معنی میں اس کے غلام ہو گے تو وہ اتنا پیارا آقا بنے گا کہ تمہاری عقل دنگ رہ جائے گی کہ خدا تعالیٰ اپنے حقیر بندہ سے اس قسم کا پیار بھی کر سکتا ہے لیکن وہ کر سکتا ہے، کرتا ہے اور کرے گا.وَنِعْمَ النَّصِيرُ اور تمہارا بہترین مددگار، ہر موقع پر تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر تمہاری مدد کرنے والا اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے.پس دنیا میں مختلف خیال پھیل جاتے ہیں اور پھیلے ہوئے ہیں.احمدی سے میں اس وقت مخاطب ہوں اور یہ کہ رہا ہوں کہ تم اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جس مقام کی طرف یہ آیات اشارہ کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرو اور ہمارے بزرگوں نے بھی جو پہلے گزرے انہوں

Page 515

خطبات ناصر جلد نہم ۵۰۱ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء نے بھی یہی کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ہمیں یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کو ہم سمجھیں اور کسی قسم کا کوئی شرک نہ کریں یعنی عرفانِ باری تعالیٰ کو اور اس کی عظمتوں کو سمجھنے کے بعد بس اسی کے ہو جائیں اور کسی غیر کی طرف ہماری نگاہ نہ اٹھے.ہے اور حقوق العباد کے معنی یہ ہیں وَافْعَلُوا الخَیر میں حقوق العباد سے بھی آگے نکلتا اسلام ، رَحْمَةً لِلْلعلمین میں نے کئی دفعہ تفصیل سے بتایا ہے جو انسانوں سے باہر کی دنیا ہے مثلاً جانور ہیں ان کے حقوق بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائے اور ان کی حفاظت کا سامان کیا.پس خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم ہونا، معرفتِ ذات وصفات باری تعالیٰ پر منحصر ہے.ہر قسم کے شرک سے بچنا، ہزار ہا قسم کے شرک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں گنوائے ہیں.وہ آپ پڑھیں اور اس قسم کے شرک سے بچیں.اگر آپ ایسا کرلیں اور اعمال مقبول ہوں تو اللہ تعالیٰ منتخب گروہ میں تمہیں شامل کرے گا اور اس کی نگاہ میں تم مسلمان ہو جاؤ گے اور ثمرات اسلام حاصل کرنے والے ہو گے اور دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان ثمرات اسلام سے تمہیں محروم نہیں کر سکیں گی اور اس کے بعد پھر تمہیں کسی کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے.کسی چیز کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے اگر تم اس عظمت کو سمجھنے لگو.ہر ایک کا احترام کرو، تمہیں جولوگ گالیاں دیتے ہیں ان کے لئے دعائیں کرو، جو ایذا پہنچاتے ہیں ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو وا فعَلُوا الْخَيْرَ میں یہ ساری چیزیں آئی ہوئی ہیں لیکن جو خدا سے تمہیں ملے گا وہ ہر دوسری شے سے تمہیں غنی کر دے گا.تمہیں اس کی احتیاج نہیں رہے گی.خدا کرے کہ آپ اپنے مقام کو سمجھیں اور خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ ایسے اعمال کرنے والے ہوں کہ جن اعمال کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ آپ پر رحم کرے یعنی وہ مقبول ہوں.خدا کو وہ پیارے ہوں.جس کے نتیجہ میں خدا آپ کے قرب میں آنے میں یعنی آپ کے قریب آنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے کیونکہ وہ پاک ہے اور غیر پاک کے پاس اصطلاحی زبان ہے ویسے تو وہ ہر جگہ ہے.اصطلاح میں ہم کہتے ہیں وہ پاک ہے، پاک کو پسند کرتا ہے، پاک ہی کو اس کا قرب ملتا ہے.

Page 516

خطبات ناصر جلد نهم ۵۰۲ خطبه جمعه ۱۴ رمئی ۱۹۸۲ء ہمیں ثمراتِ اسلام مل رہے ہیں.کثرت سے مل رہے ہیں.اللہ کا شکر ادا کر و جو وہ دے رہا ہے وہ ہمارے اعمال کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.ناشکرے نہ بنیں ، غیروں کی تقلید نہ کریں، دوسروں کے گند میں نہ پھنسیں، اپنی نسلوں کی عزت واحترام کی حفاظت کا سامان پیدا کریں.باہر آپ کے لئے کمائی کے دروازے کھلے ہیں.وہاں جا کے بعض گند میں دھنس جاتے ہیں.اس سے بچیں.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں ہماری نسل کی زندگی میں اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہر انسان بھیجنے لگے سوائے چند استثنیٰ کے.اللہ تعالیٰ اس میں ہمیں کامیاب کرے اور اپنے فضلوں کا ہمیں وارث بنائے.یہ میں بتادوں کہ آپ جا کے خود غور کریں.ان دو آیات میں بہت بڑا مضمون ہے.میں نے بڑا مختصر ایک قسم کے عنوان ہی یہاں آپ کو بتائے ہیں.خود جا کر غور کریں اس پر.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 517

خطبات ناصر جلد نهم ۵۰۳ خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء ہر وہ کام جو غلبہ اسلام کی مہم مطالبہ کرتی ہے ہمیں آج کر دینا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.ہمارا مالی سال کم و بیش ایک ماہ اور دس دن میں ختم ہو رہا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جماعت کا قدم ہر سال پہلے سے آگے بڑھتا ہے اور مالی قربانی کے میدان میں بھی جماعت نمایاں ترقی پیش کر رہی ہوتی ہے.انسانی زندگی میں حوادث کا سلسلہ بھی جاری ہے.یہ حوادث کسی نہ کسی فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ہر سال ہی.مثلاً تاجر ہے اس کو تجارت میں نقصان ہو گیا یا زمیندار ہے کوئی ایک یا چند ، جن کی فصل اچھی نہیں ہوئی ، یا نوکری پیشہ ہیں ان کے حالات کچھ ایسے ہوئے کہ انہوں نے کئی ماہ نصف تنخواہ پر چھٹی لی.بہت سی شکلیں بنتی ہیں لیکن بحیثیت جماعت ہمیشہ ہی قدم تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا ہمیں نظر آتا ہے.بعض حوادث بعض سالوں میں زیادہ وسعت اپنے اندر رکھتے ہیں.مثلاً گندم کا جو زمانہ گزرا اس میں بے موسم بارش ہوئی ، ژالہ باری نے بھی نقصان پہنچایا ، ہوائیں ، آندھیاں بھی چلیں معمول سے زیادہ ، بعض جگہ زمیندارکو زیادہ نقصان پہنچا لیکن جہاں تک میرے علم میں ہے

Page 518

خطبات ناصر جلد نهم ۵۰۴ خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء جماعت احمدیہ کے سب زمینداروں کو نقصان نہیں پہنچا اور جہاں تک میرا علم اور مشاہدہ ہے جماعت کے جذبہ کے متعلق اس نقصان کی پرواہ کئے بغیر جماعت بحیثیت جماعت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ.لیکن مجھے حکم ہے کہ میں یاد دہانی کراؤں ذکر اور اس یقین کے ساتھ کراؤں کہ جو میرے مخاطب ہیں وہ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ایمان کے مقام پر کھڑے ہیں اور فَانّ الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذریت : ۵۶) میری اس یاد دہانی کے نتیجہ میں انہیں فائدہ پہنچے گا اور اگر کہیں سستی ہے تو دور ہو جائے گی.اگر کہیں پریشانی ہے اس معنی میں کہ مثلاً گندم پوری نہیں ہوئی ایک عام زمیندار ہے دس پندرہ ایکڑ کا مالک، عام حالات میں جماعتِ احمدیہ سے باہر اگر اس کے اوپر ذمہ داری ہوتی تو عذر تھا اس کے پاس مگر میں ایسے زمینداروں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے ایسے حالات میں اپنے چندوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی بھینس کو بیچ دیا اور خدا کے گھر کو پورا کر دیا.اس واسطے انشاء اللہ تعالیٰ یاد دہانی اپنے فرض کے مطابق کر رہا ہوں.آپ پر بدظنی نہیں کر رہا اور اس وثوق کے ساتھ کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں آپ کا مقام تنزل کی طرف گرے گا نہیں، بلکہ اور بھی رفعتوں کو حاصل کرنے والا ہوگا.قرآن کریم نے مالی قربانیوں کے متعلق متعد دجگہ بار بار مختلف زاویوں سے توجہ دلائی ہے اور شوق پیدا کیا ہے اور اس کے نتائج پر روشنی ڈال کے بشارتیں دی ہیں.آج میں نے جس آیت کا انتخاب کیا ہے وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۴۶ میں فرماتا ہے.مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۖ وَاللَّهُ ص يَقْبِضُ وَيَبْقَط وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرة : ۲۴۶) اس میں جو مضمون بیان ہوا اس میں سے میں نے چھ باتیں اٹھائی ہیں.پہلی بات یہ کہی گئی کہ مَنْ ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے جو اللہ کو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے؟ کیا کوئی ہے؟ یہ اعلان ہے انسانیت کی طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رنگ میں مالی قربانی کا اعلان غالباً تاریخ انبیاء میں پہلی دفعہ کیا.مَنْ ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے؟ اس

Page 519

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء وقت تو جن کی پرستش کرتے تھے، بتوں کی رؤسائے مکہ، ان کے لئے بھی خرچ نہیں کرتے تھے، ان پر بلکہ ان کی وجہ سے پیسے بناتے تھے اور آمد پیدا کرتے تھے.وہ دولت کمانے کا ذریعہ تھے اس دنیا میں.وہ اُخروی زندگی میں کچھ حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھے اور یہ اعلان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کی اتباع میں اُمت محمدیہ کے جو چودہ سو سال گزرے ہیں اس میں تمام خدا تعالیٰ کے مقرب مصلح اور ولی جو ہیں، یہ آواز دیتے رہے ہیں کیونکہ مختلف خطہ ہائے ارض میں ایک چکر کے اندر مسلمانوں کے گروہ غافل ہوتے رہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کے میدان میں اور ان کو یہی کہا گیا.مَنْ ذَا الَّذِمی کیا کوئی ہے جو اللہ کی راہ میں قربانی دینے والا ہو؟ تاریخ کی باتیں تو دور کی باتیں ہیں، ہماری اپنی زندگی کی ابتدا میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ساری دنیا مین اسلام کو غالب کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہونے کے لئے ایک جماعت کو قائم کیا تو اس وقت جو ہماری شروع کی تاریخ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو آنے پیش کرنا بھی بڑا بارمحسوس کرتا تھا، اس وقت کا ایک مسلمان، ایمان تھا، دعوئی تھا، لیکن بہت سارے ایسے حالات پیدا ہو چکے تھے کہ وہ مالی قربانی کو بالکل بھول چکا تھا.اس واسطے ہمیں نظر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو آپ پر شروع میں ایمان لائے اور انہوں نے مالی قربانی میں حصہ لینا شروع کیا تو جس نے دو آنے دیئے یا چار آنے دیئے ، ان کے نام بھی اپنی کتابوں میں لکھ کے قیامت تک ایک دعا حاصل کرنے کی زندگی انہیں بخش دی.ایک خاندان ایک اور ضمن میں میرے سامنے آیا.ایک شخص اپنے اخلاص سے لنگر خانے میں کام کرتا تھا باورچی کا اور اسکو تین روپے تنخواہ ملتی تھی مہینے کی اورکھانا تونگر میں ملتاہی ہے ہر ایک کو، اس کا حق ہے اور تین روپے کے اوپر اگر وصیت بھی کی ہو تو پانچ آنے سے کچھ کم رقم بنتی ہے.ماہانہ.یہ قربانی تھی لیکن اصل قربانی ی تھی کہ اپنی زندگی ایک طرح وقف کی ہوئی تھی اور اللہ تعالی نے اس پر یہ فضل کیا کہ اس کے بچوں میں سے پانچ کے متعلق تو مجھے علم ہے کہ ہر ایک آٹھ ، دس ہزار روپیہ ماہانہ کمانے لگ گیا ہے.جس کا باپ تین روپے سے خدمتِ سلسلہ اور خدمت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کر رہا تھا.

Page 520

خطبات ناصر جلد نہم خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء تو مَنْ ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے؟ یہ نعرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لگایا.اور یہ ایک نعرہ ہے جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ لوگ مالی میدان میں خدمت کا شوق بھول چکے ہیں اور ان میں شوق پیدا کیا گیا اور دوسرا پہلو یہ ہے، ( جو آگے اگلی باتیں میں بتاؤں گا ان میں وہ نمایاں ہوتا ہے ) دوسری بات اس میں یہ کی کہ مالی قربانی کرنے والے کیا ایسے ہیں کہ جو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر دیں؟ يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا پھر جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہ جو دو، دو آنے دینے والے تھے ان میں سینکڑوں ہزاروں نے ، جب جائیداد بنائی تو اس کا ایک حصہ دے دیا اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے ، جب ضرورت پڑی تو قریباً سارا مال ہی پیش کر دیا.تو اچھا ٹکڑا کاٹ کر دیا.دو آنے سے وسعت پیدا ہوئی اور ہزاروں لاکھوں کی رقم ایک وقت میں دینے والے پیدا ہو گئے.یعنی اب جماعت احمدیہ کے اخلاق اور کردار کا یہ حال ہے روحانی ترقی کے نتیجہ میں کہ صد سالہ جو بلی میں بعض دوستوں نے لاکھوں میں وعدے لکھوائے ہیں.پھیلا ہوا ہے وہ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے وعدہ کیا ہے ہم ہر سال ایک لاکھ روپیہ دیتے چلے جائیں گے.تو انہوں نے یا ان کے آباء نے آنوں میں قربانی دی خدا تعالیٰ نے دولت کے پہاڑ ان کے قدموں میں لا کے رکھ دیئے اور دل میں جو جذ بہ تھا قربانی کا اس میں اور جوش پیدا کیا اور اگلی نسل نے آنوں کی قربانی کے مقابلے میں لاکھوں کی قربانی دینی شروع کر دی.تیسری بات اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے حضور پیش کر دو گے فَيُطْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كثيرة تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بہت بہت بڑھائے گا.آپ میں سے جو مشاہدہ کرنے والے ہیں اور غور اور فکر اور دور بینی سے اپنے ماحول کا جائزہ لینے والے ہیں ان کے سامنے بہت ساری ایسی مثالیں آئیں گی کہ جو أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ.بہت بہت بڑھا کر پیش کرنے والے ہیں.ابھی جو اٹلی اور برازیل کی مساجد کے لئے خدام الاحمدیہ چاہتی تھی کہ ہمیں اجازت دی جائے ہم قربانی پیش کریں، تو لنڈن کے ایک احمدی نوجوان نے کئی سو پونڈ اپنے بنک سے قرض لے کر دے دیئے.پہلے وعدہ لکھایا ، پھر اس کو خیال آیا کہ وعدے سے تو کچھ نہیں بننا، بنک سے کہا

Page 521

خطبات ناصر جلد نہم خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء مجھے قرض دے دو.اس کا لین دین بنک والوں سے اچھا تھا، انہوں نے قرض دے دیا اور ( صحیح مجھے یاد نہیں) شاید ایک ہفتہ ہی گزرا تھا ( بہت کم وقت گزرا تھا) کہ اسی بنک کی طرف سے اس کو چٹھی آئی کہ پچھلے سال ہم نے تمہارا انکم ٹیکس ادا کرنے کے لئے جو رقوم کائی تھیں غلطی سے زائد کاٹ لی تھیں اور یہ اب ہم تمہیں واپس کر رہے ہیں اور بالکل وہ رقم جو اس نے چندے میں دے دی تھی اس کا چیک دیا.تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک چھپی ہوئی دولت جو تھی وہ اس کو لوٹا دی اور عملاً ذہنی لحاظ سے اس کو کوئی کوفت یا تکلیف نہیں بھی ہوئی.یہ بھی تکلیف نہیں اللہ تعالیٰ نے پہنچائی کہ میں نے آہستہ آہستہ بنک کو جو قرض واپس کرنا ہے وہ کیسے کروں گا ؟ بہت ساری جگہ لمبا سلسلہ چل پڑتا ہے قرض کی ادائیگی میں اور وہ دے دیا.بہت ساری مثالیں ہیں ایسی.تو تیسری بات اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جو شخص اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتا ہے خدا تعالیٰ فَيُطْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ ( یہ میں اب ترجمہ نہیں کر رہا، مفہوم بیان کر رہا ہوں) بہت بہت اضافہ کر کے اس کا مال اسے لوٹا تا ہے.یہ أَضْعَافًا كَثِيرَةً دورنگ میں سامنے آتا ہے.ایک اس دنیا میں ، اس زندگی میں اور ایک مرنے کے بعد.مرنے کے بعد جو فدائیت اور ایثار خدا تعالیٰ قبول کر لیتا ہے اس کا بدلہ جو ہے وہ تو ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتی.اتنی دولت ہے وہ ، اتنی قیمت ہے اس عطا کی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( پہلے تو مومنوں کو کہا نا مَنْ ذَا الَّذِی کون میرے حضور قربانی پیش کرے گا قَرْضًا حَسَنًا کی شکل میں.پھر بشارت دیتا ہے کہ میں اسے بڑھاؤں گا.جیسا کہ میں نے ذرا مختصراً تفصیل سے بتایا یعنی اختصار بھی ہے تھوڑی تفصیل بھی ہے ) کہ اللہ کی سنت ہے.يَقْبِضُ وَ يَبطُ کہ اس دنیا میں جو اموال خدا بندوں کو دیتا ہے وہ لیتا ہے، دیتا بھی ہے اور اسے بڑھاتا بھی ہے.یہاں لیتا بھی ہے ( یہ عربی کا محاورہ ہے، قرآن کریم کی بہت ساری آیات سے بھی یہ ہمیں پتہ لگتا ہے ) کے معنی ہم یہ کریں گے.وہ لیتا بھی ہے اور کبھی نہیں بھی لیتا“.بعض دوسری جگہ اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو بس دنیا کے ہو رہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے اچھا! پھر دنیا لے لو اور ان کو انذار یہ ہے کہ آخری زندگی میں پھر جو تمہارا حال ہو گا خدا کی پناہ.پھر

Page 522

خطبات ناصر جلد نهم ۵۰۸ خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء تمہیں پچھتاوا ہو گا کہ کیوں ہم نے یہ حرکت کی.تو اللہ تعالیٰ بعض سے نہیں لیتا، بعض سے لیتا ہے، جن سے وہ لیتا ہے ان کی شکل دو طرح سامنے آتی ہے، دو شکلیں بنتی ہیں.ایک یہ کہ یبط جو مال لیتا ہے اس میں بڑھوتی کرتا ہے اور ایک یہ شکل ہے کہ مال لیتا ہے اور بڑھوتی نہیں کرتا.سزا کے طور پر تو وہ انعام نہیں نا ملتا.جو شخص اپنے مال کے بھروسے پر اور اس کو ذریعہ بنا کر خدا تعالیٰ کے منصوبہ کو نا کام کرنے کی کوشش کرے، جب ایسے گروہ سے دولت اللہ تعالیٰ واپس لیتا ہے تو بڑھا کے دینے کا تو سوال.نہیں پیدا ہوتا.یہ تو سزا ملی ہے ان کو.تو ویبضط کے بھی دو معنی ہوں گے یعنی ایک ذکر جس کا نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں کہ وہ بڑھاتا ہے اور ساتھ اس کے یہ کہ وہ چاہے تو نہیں بھی بڑھاتا.اور جن کا مال وہ لیتا ہے اور اپنے فضل اور اپنی رحمت سے یہ مالی قربانی وہ قبول کرتا ہے اور اس قربانی کو قبول کرنے کے نتیجہ میں بنقط وہ ان کی دولت کو ، ان کے اموال کو، مادی اموال کو بھی ، مادی دولت کو بھی اور روحانی طور پر بھی جو نعمتیں ہیں ان میں وہ برکت ڈالتا ہے اور بہت بڑھوتی ہے ان میں.یہ جو میں نے دوسری زندگی کے متعلق کہا کہ وہ بھی اس میں شامل ہے اس کی طرف یہی آیت اشارہ کر رہی ہے کیونکہ اسے ختم کیا ( چھٹی بات یہ بتائی ).آخر تمہیں اسی کی طرف لوٹا یا جائے گا.وَاللهُ يَقْبِضُ وَ يَبْقطُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اور جب اس کی طرف لوٹا یا جائے گا تو جو اموال خدا نے تمہارے قبول کئے ہوں گے.(جب تم پیش کرو گے اللہ قبول کرے گا ).جب قبول کرے گا ان میں بڑھوتی کرے گا.جب بڑھوتی کرے گا تو اس زندگی میں بھی وہ اس کا بدلہ دیتا ہے لیکن مرنے کے بعد جو ہے بدلہ وہ تو اس قدر حسین اور وسعتیں رکھنے والا ہے کہ عَرْضُهَا السموتُ وَالْأَرْضُ (ال عمران : ۱۳۴) کہ آسمان وزمین کی دولت ایک آدمی کی جنت کی دولت کے برابر ہے.اس واسطے جماعت احمد یہ جو قربانی دیتی ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں ، اس کا ذکر جب میرے دورہ میں مثلاً عیسائیوں کے سامنے بھی ہو تو ان کے لئے بڑا عجوبہ ہے وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ایک

Page 523

خطبات ناصر جلد نهم خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء اپنے ہوش و حواس میں اپنی کمائی ہوئی دولت ۱/۱۰ یا ۱/۵ یا ۱/۳ کس طرح اس خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے جس خدا کو وہ پہچانتے نہیں اور اسی وجہ سے انہیں سمجھ نہیں آرہی.ان کو یہ تجربہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اس زندگی میں بھی اس وعدے کے مطابق جو قرآن کریم میں پہلے سے کر دیا گیا ان کی دولت میں برکت ڈالتا ہے اور ان کی زندگی کو خوشحال بنا تا اور فکروں سے انہیں آزاد کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی ایسی زندگی ہے جس کا وہ تصور نہیں کرتے.اس وقت یہ ان کی بدقسمتی ہے، کہ ایک ایک آدمی کو جو انعامات ملیں گے، ایک آدمی کے انعامات کی قیمت سارے آسمانوں اور زمین کی قیمت سے زیادہ ہے.تو قربانی دیتے ہیں ہم یا ہم کہتے ہیں کہ ہم قربانی دیتے ہیں مگر اس معنی میں کہ ہم نے خدا کے لئے کوئی تکلیف اٹھائی، اس معنی میں تو ہم قربانی نہیں دیتے.ایک پیار کا جذبہ، ہماری اپنی دولت کے لئے ہمارے دل میں حقارت پیدا کرتا ہے.اپنے رب سے پیار اور غلبہ اسلام کی مہم کے لئے ہم خدا تعالیٰ کے حضور پانچ روپے سے لے کر ( پانچ روپے دینے والے بھی ہیں چندہ.یہ جو سال ختم ہو رہا ہے اس میں بہت سارے ہوں گے جو پانچ روپے چندہ دینے والے ہوں گے ) قربانی دینے والے ہیں ان کو بھی خدا تعالیٰ اتنے انعام دیتا ہے اس دنیا میں.ایک تو یہ کہ اتنی بڑی برادری دے دی پیار کرنے والی.دنیا میں کوئی غریب ایسا نہیں.( یہ جو دنیا ہے نا امراء کی اور مہذب دنیا اسے میں شامل کر رہا ہوں ) جس سے ایک کروڑ بھائی اس کا اس سے پیار کرنے والا ہو.سوائے احمدی غریب کے، کیونکہ احمدیت میں غریب اور امیر کا تصور ہی نہیں.سب کو اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ایک مقام پر لا کے کھڑا کر دیا ہے.یہ ٹھیک ہے بعض کمزوریاں بھی ہیں ، لڑبھی پڑتے ہیں.زبان سے ایذا بھی بعض دفعہ دے دیتا ہے احمدی احمدی کو لیکن نظام ان کو فوری توجہ دلاتا ، اور اصلاح کی کوشش کرتا ہے یا وہ احمدیت چھوڑ کے باہر نکل جاتے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ اور ہمارا ماحول اور ہماری فضا ایسی ہے جہاں امیر اور غریب کا ، کالے اور گورے کا کوئی فرق اور امتیاز ہی نہیں ہے.تھوڑا سا پیار میں نے ایک عیسائی بچے کو ائر پورٹ پر ( کئی سال کی بات ہے ) کیا تھا اور

Page 524

خطبات ناصر جلد نہم ۵۱۰ خطبه جمعه ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء اس ملک کا ایمبسڈر، اس لڑکے کا باپ شکریہ ادا کرنے کے لئے آ گیا میرے پاس ، بڑا دکھ ہوا اس دن مجھے اور ان کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے.اتنے جذباتی ہو چکے تھے، کوئی بات ہی نہیں نکلتی تھی کہ آپ نے اتنا احسان کیا ہے کہ ہمارے بچے کو پیار کیا ہے اور میں نے کوئی احسان نہیں کیا تھا اس پر، میں نے خدا تعالیٰ کا ایک حکم مانا تھا اور اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا کرتا ہے، اس بچے کا باپ بعد میں مشرقی افریقہ کے اس ملک کا وزیر بن گیا.جب ہمارے مبلغ گئے تو کہنے لگا میں تو آپ لوگوں کو پہلے ہی جانتا ہوں.آپ کی ہر قسم کی مدد کروں گا.ایک پیار کا اتنا اثر.اسی پیار نے کہ کوئی تفریق نہیں ہے انسان انسان میں، کئی لاکھ عیسائیوں کے دل جیت کے کلمہ پڑھا کے انہیں احمدی مسلمان بنایا اور لَا فَخْرَ ہمیں اس پر کوئی فخر نہیں.یہ تو خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اتنی چھوٹی سی جماعت، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ساری دنیا دشمنی پر اکٹھی ہوئی ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی.ہمیں ناشکرے نہیں بنا چاہیے اور ہر وہ کام خدا تعالیٰ کی راہ میں ہمیں آج کر دینا چاہیے.جو غلبہ اسلام کی مہم مطالبہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا کرے.آمین.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے فرمایا:.کئی تھے احمدی ہوتے ہیں، کئی بچے جوان ہوتے ہیں ،اصل دستور یہ ہے کہ دو خطبوں کے درمیان بیٹھا جائے.میں جب سے گھوڑے سے گرا ہوں میں بیٹھ نہیں سکتا اس طرح.یہ میری مجبوری ہے ، اس واسطے میں نہیں کرتا.ابھی ایک دو ہفتے ہوئے تو کسی نے (میرے اوپر تو اعتراض نہیں کیا ، حسن ظنی سے کام لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ حضرت صاحب کو دیکھ کے، اگر خطبہ کوئی اور دے رہا ہو، اس نے بھی وہ روایت چھوڑ دی ہے.ان کو تو نہیں چھوڑنی چاہیے.میری ریڑھ کی جو ہڈیاں ہیں ناچھوٹی ان میں سے دو میں فریکچر ہو گیا تھا ٹوٹ گئی تھیں اور اس کی وجہ سے مجھے بڑالمبا عرصہ بارہ ، تیرہ ہفتے لٹایا گیا.ڈاکٹروں کو بڑی فکر تھی اور اس کے نتیجہ میں بعض جگہ سختی آگئی ہے.کئی مہینے مجھے بڑی شدید درد کا مقابلہ کر کے، اپنے کو اس قابل بنانا پڑا کہ میں سجدہ کرسکوں اور مسجد میں جاسکوں.اس کے لئے بڑا مجاہدہ مجھے کرنا پڑا تھا.اس میں اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس

Page 525

خطبات ناصر جلد نہم ۵۱۱ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ء حد تک مجھے صحت ہو گئی.تو یہ ایک چھوٹی سی چیز رہ گئی.میں اکڑوں کی حالت جو مجھے اٹھنا ہے وہ نہیں بیٹھ سکتا.مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے.اس لئے اس تکلیف نے مجھے اجازت دی اسلامی تعلیم کے مطابق کہ میں کھڑے کھڑے ایک وقفہ ڈال کے پھر دوسرا خطبہ شروع کر دوں.روزنامه الفضل ربوه ۶ / دسمبر ۱۹۸۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 526

Page 527

خطبات ناصر جلد نهم نمبر شمار ۵۱۳ حوالہ جات جلد نہم حوالہ جات كنز العمال ، كتاب الاذكار من قسم الافعال من حرف الهمزة الفصل الثاني آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱،۶۰ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۳ تا۷ ۲۳ صفحہ نمبر ۹۳ ۳۷۸

Page 528

Page 529

خطبات ناصر جلد نهم ۵۱۵ خطبات جمعہ 1 فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا یا نہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ حوالہ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۶ جنوری ۱۹۸۱ ء | الفضل ربوه ۲۱ جنوری ۱۹۸۱ء صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۳ جنوری ۱۹۸۱ ء الفضل ربوه ۲۶ جنوری ۱۹۸۱ ء صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۶ فروری ۱۹۸۱ء | الفضل ربوه ۸ فروری ۱۹۸۱ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۳ فروری ۱۹۸۱ء الفضل ربوه ۱۵ فروری ۱۹۸۱ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۷ را پریل ۱۹۸۱ ء الفضل ربوه ۱۹ ۱۷ پریل ۱۹۸۱ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱/۲۴ پریل ۱۹۸۱ ء الفضل ربوه ۱/۲۶ پریل ۱۹۸۱ صفحه ۱ ۶ ۱۰ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۴ / اگست ۱۹۸۱ ء الفضل ربوه ۱۶ را گست ۱۹۸۱ صفحه | حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۴ ستمبر ۱۹۸۱ء | الفضل ربوه ۸ /ستمبر ۱۹۸۱ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۵ ستمبر ۱۹۸۱ء الفضل ربوه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۱ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۹ / جنوری ۱۹۸۲ء الفضل ربوه ۳۱ / جنوری ۱۹۸۲ ء صفحه ۱ | حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۲ / فروری ۱۹۸۲ ء الفضل ربوه ۱۳ / فروری ۱۹۸۲ صفحه ۱ | ۱۲ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۶ فروری ۱۹۸۲ء الفضل ربو ه ۲۸ فروری ۱۹۸۲ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۸ مئی ۱۹۸۲ء | الفضل ربوه ۳۰ رمئی ۱۹۸۲ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۴ جون ۱۹۸۲ء الفضل ربوه ۵/ جون ۱۹۸۲ صفحه ۱ 11 ۱۳ ۱۴

Page 530

Page 530