Language: UR
خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۷۹ء تا دسمبر ۱۹۸۰ء فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد ہشتم
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ (جلد ہشتم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 8 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may Allah have mercy on him.(Complete Set Volume 1-10) - First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)
بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ اور خطبات نکات کچھ عہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.عرصہ حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالی اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین سمس ایڈیشنل وکیل التصنیف اپریل ۲۰۲۳ء
III بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ جمعہ ہے پیش لفظ سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ کی آٹھویں جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۹ ء اور ۱۹۸۰ء کے فرمودہ ۷۴ خطبات پر مشتمل ہے جن میں ۱۹۷۹ء کے چودہ اور ۱۹۸۰ء کے دس غیر مطبوعہ خطبات بھی شامل ہیں.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرما تا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق ولطائف کے دریا بہا دیتا ہے.یہاں اس وقت آپ کے چند ارشادات پیش خدمت ہیں جو بہت ہی اہمیت اور دور رس نتائج کے حامل ہیں.۱ ۲ فروری ۱۹۷۹ ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے نئی نسل کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:.” جماعت کو چوکس رہ کر ، خدام الاحمدیہ کو خصوصا....وہ لوگ خدام الاحمدیہ کے جن کا تعلق اطفال الاحمدیہ سے ہے اور ہر خاندان کو ، یہ بڑا ضروری ہو گیا ہے ہمیشہ ہی یہ ضروری ہے کہ بچے کو ضائع نہ ہونے دیا جائے لیکن اس زمانہ میں کہ وہ جو آج سات سال کا بچہ ہے جس وقت وہ تیس سال کا ہوگا.آج سے تئیس سال کے بعد تو دنیا میں اسلام کے حق میں اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان کے لحاظ سے ایک انقلاب عظیم بپا ہو چکا ہو گا.اس وقت کے
IV حالات جو ذمہ داریاں ہمارے بچوں کے کندھوں پر ، وہ بچے جو آج سات سال کے ہیں ڈالیں گے ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی اہلیت اور طاقت اور استعداد اور صلاحیت تو ان کے اندر ہونی چاہیے.جماعت، خاندان، انصار ، خدام الاحمدیہ، اطفال کے نظام کے عہد یدار، مائیں، بڑی بہنیں، ہر وہ شخص جس کا کسی نہ کسی پہلو سے ایک بچے سے تعلق ہے اور وہ احمدی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کو ذہن میں رکھے کہ اس بچے کو ہم نے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کرنا ہے اور ضائع نہیں ہونے دینا.“ ۲.۱۶ مارچ ۱۹۷۹ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے جماعت کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی:.ایک تو دعا کرنی ہے ہم نے کہ اے خدا! پاکستان کو اتنا کھانے کو دے دے کہ ہماری ساری کی ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں اور ہمیں دنیا کے سامنے بھیک مانگنے کے لئے اپنا ہاتھ نہ پھیلا نا پڑے اور دوسرے یہ کہ اگر یہ آزمائش ہے تو وہ لوگ جو اسلامی تعلیم سامنے رکھ کر اپنے بھائیوں کی محبت اپنے دل میں پاتے ہوئے رات کو چین سے سو نہ سکیں جب تک ان کو یہ تسلی نہ ہو کہ ہمارے گاؤں میں، ہمارے شہر میں، ہمارے محلہ میں، ہمارے ہمسائے میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جو بھوکا سورہا ہے“ ۳ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ ء کے خطبہ جمعہ میں ایک پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”فرینکفرٹ میں میں نے پریس کانفرنس والوں کو یہ کہا کہ آئندہ سو، ایک سو دس سال میں ساری دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا.حیران ہو کر دیکھا انہوں نے مجھے کہ یہ شخص کیا کہتا ہے؟.پھر میں نے ان کو کہا دیکھو میں بغیر دلیل کے نہیں بات کر رہا.میرے پاس ایسی دلیل ہے جس کو تم سمجھ جاؤ گے اور میرے پاس یہ دلیل ہے کہ نوے سال پہلے آج سے قریباً، مدعی جو تھا اس بات کا کہ اسلام غالب آئے گا اس زمانہ میں وہ اکیلا تھا.اس کے گھر والے اسے پہچانتے نہیں تھے...وہ اکیلا شخص پچھلے نوے سال میں دس ملین یعنی ایک کروڑ بن گیا.تو اگر تم یہ سمجھو کہ اس ایک کروڑ کا ہر ایک اگلے ایک سو دس سال میں ایک کروڑ بن جائے تو کیا تعداد بنتی ہے؟ اس نے منہ اٹھا کے مجھے دیکھا.کہنے لگا دنیا کی تو اتنی آبادی نہیں ہے.میں نے اسے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اتنی تعداد میں مسلمان ہوجائیں گے.میں تمہیں یہ کہ رہا ہوں کہ جب ایک شخص نوے سال میں کروڑ بن گیا تو اس کروڑ میں سے ہر ایک کروڑ بن سکتا ہے، غیر ممکن نہیں ہے
V پھر اسی ضمن میں آپ نے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.66 دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے.ہم نے جنتوں میں کچھ کئے بغیر تو نہیں جانا.یہ سارا جو میں نے نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ ہر قسم کی مادی طاقت فوجی طاقت اور دولت ان لوگوں کے ہاتھ میں جو اسلام کے خلاف ہیں ، تو آپ ان کا کس طرح مقابلہ کریں گے؟ کیا آپ لاٹھیوں کے ساتھ ایٹم بم کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یا ساری دنیا کی دولتوں کا مقابلہ اپنی غربت کے ساتھ کر سکتے ہیں؟ بظاہر تو یہی ہے کہ نہیں کر سکتے لیکن اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے آپ مقابلہ کر سکتے ہیں.دعاؤں سے کر سکتے ہیں آپ ان کا مقابلہ.الغرض مقابلہ کر سکتے ہیں آپ دعا ئیں کر کے، اپنے نفس میں ایک تبدیلی پیدا کر کے، ایک نمونہ بن کر ، اسلام کے حکم پر چل کر.“ ۴ ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۹ء کے خطبہ جمعہ میں سپین کے بارہ میں ایک خدائی تفہیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.” جب میں پین میں گیا تو بڑی بے چینی اور پریشانی اس ملک کے متعلق ہوئی کہ سات سو سال مسلمانوں نے وہاں حکومت کی اور جب وہ مغلوب ہوئے تو مخالفین نے ایک بھی مسلمان باقی نہیں چھوڑا.بہت دعائیں کرنے کی ایک رات توفیق ملی کہ خدایا تیری رحمت میں رہے صدیوں، تیری رحمت سے محروم ہوئے صدیاں گزرگئیں، پھر ان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کر.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ سامان تو پیدا کر دیئے جائیں گے لیکن تیری خواہش کے مطابق نہیں.اللہ تعالیٰ جب چاہے گا وہ سامان پیدا کرے گا اور آخر یہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے ، غلبہ اسلام کے دائرہ سے پین کی قوم با ہر نہیں رہے گی.“ ۵.۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو حضور انور نے علم کے میدان میں جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.و ہمیں تو اگلے پندرہ بیس سال کے اندر پہلے سینکڑوں اور پھر ہزاروں کی تعداد میں ٹاپ (Top) کا سکالر (Scholar) چاہیے ہر مضمون میں، اس واسطے کہ اس دنیا میں آج کے انسان نے علم کی اہمیت اور اس کے مقام کو پہچانا ہے اور علم نے اس کو نقصان بھی پہنچایا.یعنی علم کے میدان میں جب آگے بڑھے تو بہتوں نے یہ سمجھ لیا کہ عقل کافی ہے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں یا بعض مغرور ہو گئے“ ۶.۴ جنوری ۱۹۸۰ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.بدعات کے خلاف جہاد بڑا ضروری ہے.اس کے بغیر تو شاید کچھ معجون مرکب بن جائے
VI بدعات کا اور اسلامی اخلاق کا لیکن اسلامی اخلاق صحیح معنی میں قائم نہیں ہو سکتے.بدعات کے خلاف جہاد جو ہے اس کی بھی بڑی ذمہ داری، اصل ذمہ داری تو ساری جماعت پر ہے لیکن کافی حد تک یہ ذمہ دار ہیں معلم وقف جدید کے ان کو ایسی باتوں سے بھی آگاہ ہونا چاہیے.بڑے بڑے آدمی بھی غلطی کر جاتے ہیں.ایک غیر ملک میں ہمارے ہیں نمائندہ انہوں نے تعویذ گنڈا وہاں شروع کر دیا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ لیکن جب جماعت کو علم ہوا تو ان کو سمجھانے کے لئے انتظام کیا گیا ہے تو بدعات کو دور کر کے اخلاق شنیعہ کو دور کر کے اخلاق فاضلہ قائم کرنا اور بلند اسلامی اخلاق جماعت میں پیدا کرنا یہ ساری جماعت کا فرض ہے وقف جدید کا بھی فرض ہے.۴۷ / جنوری ۱۹۸۰ء کے ہی خطبہ جمعہ میں اسلامی لباس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:.ایک میں بات بتادوں اگر اسلام ساری دنیا کے لئے ہے اور یقیناً اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو پھر ہر ملک کا لباس اسلامی لباس ہے.اگر کسی ملک کا لباس اس قسم کا ہے کہ اس جنگ کو وہ صحیح طور پر ڈھانپتا نہیں جو اسلام نے کہا ہے ڈھانپو.تو اتنی تبدیلی اس لباس میں ہو جانی چاہیے کیونکہ ایک اور حکم ہے جس کی خلاف ورزی کر رہا ہے وہ.لیکن یہ کہنا کہ مغربی افریقہ کا لباس اسلامی نہیں باوجود اس کے کہ وہ یہ شرائط پوری کر رہا ہے کہ ستر جو ہے اس کو ڈھانک رہا ہے اور پنجاب کا جو لباس ہے وہ اسلامی ہے یا عرب کا لباس جو ہے وہ اسلامی ہے اور یورپ کا لباس اسلامی نہیں یہ بات ہی غلط ہے.ساری دنیا کا وہ لباس جو ان شرائط کو پورا کرنے والا ہے وہ اسلامی ہے.“ ۱۸۸ جنوری ۱۹۸۰ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.بڑی ذمہ داری ہے آپ پر ، آپ میں سے ہر ایک پر ، مرد پہ بھی ، عورت پہ بھی ، آپ کی نسلوں پر بھی ، آئندہ آنے والی جو نسلیں ہیں ان پہ بھی ہے یہ ذمہ داری اور قیامت تک کے لئے ذمہ داری ہے کیونکہ کہا یہ گیا ہے کہ اسلام غالب رہے گا اس دنیا میں اور نوع انسانی کی بھاری اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع رہے گی تمھیں نسلیں کم از کم ہم نے سنبھالنی ہیں.تین ان میں سے گزرچکیں اور ستائیس نسلیں سنبھالنی ہیں.ہمیں اپنی فکر نہیں، ہمیں اپنی نسلوں کی بھی فکر کرنی چاہیے.اپنی فکر بھی کرنی چاہیے مگر صرف اپنی فکر نہیں، اپنی نسلوں کی بھی فکر کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ کوئی خاص قوم، کوئی خاص فرد ایسا ہے جس نے اجارہ داری لی ہوئی
VII ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کی.خدا تعالیٰ نے تو یہ کہا کہ تم تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو گے میرے 66 پیار کو حاصل کرو گے.“ ۹- ۱۵ فروری ۱۹۸۰ء کے خطبہ جمعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا.”خدا تعالیٰ کی کسی سے رشتہ داری نہیں.خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کی اجارہ داری نہیں کہ وہ کسی اور پر اپنا رحم ہی نہیں کرے گا.ہر وہ انسان خواہ وہ افریقہ کا ہو، یورپ ، امریکہ، چین یا روس کا جو بھی خدا سے پیار کرے گا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے گا وہ خدا کی محبت کو حاصل کرے گا اور جو قومیں اس میں ترقی کریں گی ان میں سے جو سب سے زیادہ ترقی کرنے والی ہوگی وہ مرکز بن جائے گا اس تحریک کا.پاکستان کے ساتھ یا ہندوستان کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کو پیار نہیں، خدا تعالیٰ کو پیار ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کے ساتھ جس کی زندگی کا نقشہ اگر ایک فقرہ میں کھینچنا ہو تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مہدی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں فانی ہو گئے.اپنا کچھ بھی نہیں رہا اور اس میں فخر محسوس کیا اور اعلان کر دیا.“ بع ”وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے“ ۱۰ ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء کے خطبہ جمعہ میں پندرھویں صدی ہجری کے آغاز پر فرمایا:.چودھویں صدی اب ختم ہو رہی ہے اور غالبا ۸ / نومبر کو پندرھویں صدی کا پہلا دن ہے غالباً میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک آدھ دن چاند کی وجہ سے آگے پیچھے ہو سکتا ہے.اس دن ہر احمدی کو چاہیے کہ ہر مسلمان کو بتائے کہ چودھویں صدی ختم ہو گئی ،تمہاری ساری اُمید میں بھی ختم ہو گئیں.اس صدی میں، چودھویں صدی میں ایک نے دعوی کیا اس کے لئے نشان پورے ہو گئے تم انتظار کرتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے کہ انتظار کرو اور سجدوں میں گر کے رو رو کر دعائیں کرو.تمہارے ناک رگڑے جائیں اور زخم پڑ جائیں خدا تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا ، اس واسطے کہ خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا.تو ان کو کہو کہ اگر ذرہ بھی تمہارے دل میں ایمان ہے تو آج کا دن پکار پکار کر تمہیں کہہ رہا ہے کہ آج تم احمدیت میں داخل ہو جاؤ.“
VIII ۱۱.۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے اس طرح ہمیں اپنی تربیت کے بارے میں متوجہ فرمایا:.”جو کام...جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے وہ ایک نسل کا کام نہیں.ایک صدی تو قریباً گزرگئی چند سال باقی رہ گئے.کئی نسلیں آئیں اور گئیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، انہیں ثبات قدم عطا کیا ، ہدایت پر قائم رہے، قربانیاں دیتے رہے، قربانیوں میں آگے بڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرتے رہے.اب ہم ہیں، ہمیں ہر وقت فکر رہنی چاہیے.ایک تو اپنے متعلق کہ خدا تعالیٰ ہمیں ٹھوکر سے بچائے.ہمیں دوسروں کے لئے فتنہ بھی نہ بنائے.اس سے بھی ہمیں بچائے.ہماری نسلوں کو بھی اس ارفع اور اعلیٰ مقام قرب پر قائم رکھے کہ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی دینی اور دنیوی نعماء انسان کو ملتی ہیں.ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ کثرت سے پڑھیں اور چوکس اور بیدار ہو کر اپنی زندگیاں گزار ہیں اورکم عمرنسل کی تربیت چھوٹی عمر سے ہی شروع کر دیں.“ الغرض حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ بھی ہر پہلو سے انسانیت کی ضرورت ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی خاطر ہر جہت سے ترقیات کے لئے قربانی اور کامل اطاعت کی تیاری کے سامان ہیں.۲۳ / مارچ ۲۰۰۸ء والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت
خطبات ناصر جلد ہشتم IX فهرست خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه عنوان نمبر شمار وقف جدید کے بائیسویں سال کا اعلان ۵ /جنوری ۱۹۷۹ء 1 २ قرآن کریم نے انسانی حقوق کو بیان کیا اور ان کی حفاظت فرمائی ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء صفات الہیہ کی کامل مظہر یت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہے ۱۹ / جنوری ۱۹۷۹ء ۲۹ بے شمار برکات کی حامل عظیم کتاب قرآن کریم ہمارے ایک احمدی طفل کا ذہن بھی تباہ نہیں ہونا چاہیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر تھے ابدی زندگی کا حصول خدا کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ۲۶ / جنوری ۱۹۷۹ء ۳۷ ۲ فروری ۱۹۷۹ء ۴۵ ۹ رفروری ۱۹۷۹ء | ۵۵ ۱۶ رفروری ۱۹۷۹ء ۶۹ دُنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانا جماعت احمدیہ کا کام ہے ٢ / مارچ ۱۹۷۹ء ۷۵ ۹ اسلام نے کامل مذہبی آزادی دی ہے ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ کوئی رات کو بھوکا نہ سوئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذکر اور تفکر کی دو طاقتیں دی ہیں ۱۲ دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں ۱۳ شریعت اسلامیہ کے ہر حکم میں آسانی کا پہلو ہے ۱۴ گناہ کی حقیقت اور اس کی فلاسفی ۹/ مارچ ۱۹۷۹ء ۸۵ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء ۹۹ ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء | ۱۰۹ ۳۰ / مارچ ۱۹۷۹ء ۱۱۷ ۱۶ پریل ۱۹۷۹ء | ۱۳۱ ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء ۱۴۱ ۱۵ خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم استعدادیں دے کر مبعوث فرمایا ہے ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۹ء ۱۵۱ خدائے واحد و یگانہ پر ویسا ایمان رکھو جیسا ایمان قرآن عظیم کی شریعت کہتی ہے ۲۷ را پریل ۱۹۷۹ء ۱۶۷ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی طاقتوں کو بتدریج بڑھاتا اور معراج تک لے جاتا ہے ۱۱ مئی ۱۹۷۹ء ۱۷۷ 17
خطبات ناصر جلد ہشتم عنوان نمبر شمار ۱۸ X فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه | حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوعظیم اسوہ کی شکل میں مبعوث کیا گیا ۱۸ مئی ۱۹۷۹ ء ۱۸۳ 19 ہم دنیا کا مقابلہ مادی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ صرف دعاؤں سے کر سکتے ہیں ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء ۱۸۵ اسلام امن، محبت واخوت اور ادائیگی حقوق کا مذہب ہے یکم جون ۱۹۷۹ ء ۱۹۹ ۲۱ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد خیر خواہی انسانی زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۸/جون ۱۹۷۹ ء ۲۰۹ ۲۲ نوع انسان کے دل خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کر دیں ۲۲ جون ۱۹۷۹ء ۲۱۵ ۲۳ حسن کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے خدا کی ہر نعمت کا صحیح استعمال ابدی رحمتوں کے دائرے کھولنے والا ہے ۶ ؍ جولائی ۱۹۷۹ء ۲۵۱ ۲۴ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء ۲۳۵ ۲۵ آج کے انسان کو پہلی نسلوں سے کہیں زیادہ اسلام کی ضرورت ہے ۱۳ جولائی ۱۹۷۹ء ۲۷۵ اسلام فتنہ وفساد کو دور اور اخوت کو قائم کرتا ہے ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء ۲۸۳ ۲۹ قرآنی احکام کی پابندی کرنا روزہ دار کے لئے ضروری اور لابدی ہے ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء ۲۹۵ ۲۸ قرآن شریف نے ایک عالم دعاؤں کا ہمارے سامنے کھول دیا ہے ۳/ اگست ۱۹۷۹ء ۳۰۷ قرآنی تعلیم حسن کی ایک عظیم دنیا ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ۱۰ / اگست ۱۹۷۹ء | ۳۲۱ ۳۰ خدا کی صفت غفور اس بات کی ضامن ہے کہ انسان جنت میں جائے ۱۷ را گست ۱۹۷۹ء ۳۳۵ ۳۱ عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کریں ۲۴ اگست ۱۹۷۹ء ۳۴۹ ۳۲ بڑا جہاد قرآن کی تعلیم اور اس کی عظمتوں کو دنیا میں پھیلانا ہے ۳۱ اگست ۱۹۷۹ء ۳۵۵ ۳۳ قرآن کریم حق و راستی پر مشتمل اور شبہات سے بالا ہے ۳۴ مسلمان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنیف اور مسلمان ہو ۱۴ر ستمبر ۱۹۷۹ء ۳۶۵ ۳۵ جلسہ سالانہ بڑی اہمیت کا حامل اور بڑی برکتوں والا ہے ۳۷ اسلامی تعلیم سے امن پیار اور اخوت کی فضا پیدا ہوتی ہے پاک اور متقی وہی ہے جسے خدا پاک اور متقی قرار دے ۷ ستمبر ۱۹۷۹ء ۳۵۷ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء ۳۷۱ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء ۳۸۵ ۵ اکتوبر ۱۹۷۹ء ۳۹۹ ۳۸ اللہ صبر و استقامت دکھانے والوں سے وعدوں کے مطابق پیار کرے گا ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۹ء ۴۱۱
خطبات ناصر جلد ہشتم نمبر شمار عنوان XI کائنات عالم کی بنیادی حقیقت خدا کی وحدانیت ہے ۴۰ تحریک جدید کے چھیالیسویں سال کا اعلان 3 فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۹ء ۴۲۱ ۲۶ اکتوبر ۱۹۷۹ء ۴۲۷ اسلام کہتا ہے کہ دنیا میں رہ کر خدا کے بنو اور اسی کے لئے زندگی گزارو ۲ / نومبر ۱۹۷۹ء ۴۳۷ ۴۲ اللہ کی صفات کے جلوے منکروں میں حسد پیدا کرتے ہیں ۹ نومبر ۱۹۷۹ء ۴۴۵ ۴۳ جلسہ پر زندگیوں میں روحانی انقلاب بپا کرنے کے لئے آئیں ۱۶ نومبر ۱۹۷۹ء ۴۵۷ ۴۴ زندگی کا مقصد انسانوں کے دل توحید باری اور عظمتِ رسول کے لئے جیتنا ہے ۲۳ نومبر ۱۹۷۹ء ۴۶۹ ۴۵ یہ بنیادی حقیقت ہے کہ کائنات کی بنیاد وحدانیت پر ہے ۴۶ ہر احمدی بچے کو سنبھالنا جماعت احمدیہ کا بنیادی فرض ہے ۳۰/نومبر ۱۹۷۹ء ۴۷۵ /دسمبر ۱۹۷۹ء ۴۸۷ ۴۷ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ کے مصداق ہیں ۱۴/دسمبر ۱۹۷۹ء | ۵۰۱ ۴۸ گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ورلی زندگی کو ہی مقصود بنالیا ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء ۵۰۵ سب سے بہتر اور ترقیات کی طرف لے جانے والی کتاب قرآن کریم ہے ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء ۵۱۳ ۵۰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اور کیا اُسی کی اتباع ہم نے کرنی ہے ۴ جنوری ۱۹۸۰ء ۵۱۹ ۵۱ انسان بڑی ہولناک تباہی اپنے سامنے دیکھ رہا ہے امت محمدیہ کو جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ پوری ہو گئیں ۵۲ ۵۳ ایک دوسرے کا مال ناحق اور ناجائز طور پر مت کھاؤ ۱۱/جنوری ۱۹۸۰ء ۵۳۵ ۱۸ جنوری ۱۹۸۰ء ۵۴۳ ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء | ۵۴۹ ۵۴ اسلام نے اپنی حسین تعلیم کے ذریعہ ساری دنیا پر غالب آنا ہے یکم فروری ۱۹۸۰ء ۵۵۹ قرآن کریم میں ہر زمانہ کے مسائل کا حل رکھا گیا ہے ۸ فروری ۱۹۸۰ء ۵۷۵ ۱۵ / فروری ۱۹۸۰ء ۵۸۷ ۵۶ ہماری زندگی کی آئندہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے ۵۷ انسان آپ کی اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا محبوب اور مقرب بن سکتا ہے ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء ۵۹۹ ۵۸ انسان کی اصل غرض وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ہے ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء ۶۱۱ ۵۹ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے ۷ / مارچ ۱۹۸۰ ء ۶۲۳
خطبات ناصر جلد ہشتم نمبر شمار عنوان XII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۶۰ جلسہ سالانہ پر جن وظائف کا اعلان کیا تھا وہ ادائے حقوق کے وظائف ہیں ۱۴ مارچ ۱۹۸۰ ء ۶۳۹ محبت الہیہ کے حصول کا طریق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہے ۲۱ مارچ ۱۹۸۰ء | ۶۴۹ ہر شعبہ زندگی اور ہر علم کے میدان میں حقیقی راہنما قرآن کریم ہے ۲۵ را پریل ۱۹۸۰ء ۶۵۷ ۶۲ ۶۳ ہمارا کوئی بچہ میٹرک سے کم پڑھا ہوا نہ ہو ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء | ۶۷۱ ۶۴ شریعت پر عمل پیرا ہوں اور اللہ کی طرف بار بار رجوع کریں ۶ جون ۱۹۸۰ء ۶۷۷ ۶۵ ایک دوسرے سے نہ لڑو اور اپنے حقوق چھوڑ دو ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء | ۶۸۱ كل العلم في القرآن لكن - تقاصر عنه افهام الرجال ۴ جولائی ۱۹۸۰ء ۶۸۹ ۹۷ اسلام نے مردوں اور عورتوں میں حقیقی مساوات قائم کی ہے ۱۱؍ جولائی ۱۹۸۰ء ۶۹۵ ار دعاؤں کے ذریعہ خدائی افضال و انعامات کا مورد بننے کی کوشش کریں ۱۸ جولائی.١٩٨٠ء ٧٠٣ ۶۹ اسلامی معاشرہ میں عورت کا بلند مقام ۷۰ مساجد کے دروازے تمام موحدین کے لئے کھلے ہیں اے ۲۵ جولائی ۱۹۸۰ء ۷۰۷ یکم اگست ۱۹۸۰ء ۷۰۹ | خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنے فضل نازل ہورہے ہیں ہم پر کہ عقل حیران ہے ۸ راگست ۱۹۸۰ء ۷۱۳ ۷۲.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے ۱۵ اگست ۱۹۸۰ء ۷۲۱ وہی مسجد صیح معنوں میں مسجد ہے جو اللہ کی نگاہ میں مسجد ہو ۲۲ اگست ۱۹۸۰ء ۷۲۷ ۷۴ غانا کے احمدی اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے درد و الحاح سے دعائیں کریں ۲۹ اگست ۱۹۸۰ء ۷۳۱ ۷۵ اپنی نسلوں کو لعنت خداوندی سے بچانے کی فکر کریں 22 ۵ ستمبر ۱۹۸۰ء ۱۷۳۳ ہم مغربی تہذیب سے بکلی کنارہ کش رہتے ہوئے اسلام پر عمل پیرا ہوں ۱۲ ستمبر ۱۹۸۰ء ۷۳۷ قرآن مجید کی لازوال تعلیم میں اس زمانہ کے مسائل کا پورا پوراصل موجود ہے ۱۹ ستمبر ۱۹۸۰ ء ۷۴۱ ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء ۷۴۳ ۷۸ سپین میں مسلمانوں کے تنزل کا سب تعلق باللہ کو توڑنا تھا ۷۹ پختہ عزم اور حمد کے ساتھ لوگوں کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں ۲۴ /اکتوبر ۱۹۸۰ء ۷۵۱ ۸۰ تحریک جدید کے سنتالیسویں سال کا اعلان ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء ۷۶۵
خطبات ناصر جلد ہشتم نمبر شمار عنوان XIII ۸۱ سپین میں مسلمانوں کے تنزل کے اسباب کا تذکرہ ۲ پندرھویں صدی اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۷ رنومبر ۱۹۸۰ء ۷۷۵ ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء ۷۸۷ ۸۳ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں ۲۱ / نومبر ۱۰ ۱۹۸۰ء ۷۹۷ ۸۵ تعلق باللہ اور ذکر الہی کی تاکید ۲۸ نومبر ۱۹۸۰ء | ۸۰۹ قرآن کریم میں تمام شرائع کی ابدی صداقتیں پائی جاتی ہیں ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء ۸۱۹ ۸۶ سپین میں مسلمانوں نے خدائی حکم اعتصام بحبل اللہ کو نظر انداز کر دیا تھا ۱۲ دسمبر ۱۹۸۰ء ۸۲۵ ۸۷ جلسه...ایک چھوٹا کورس ہے مگر بڑی وسعتوں والا ہے ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء ۸۳۳ نسلوں کی تربیت کے لئے دعا کے ساتھ مادی تدابیر کو بھی اختیار کریں ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء | ۸۳۹ |
خطبات ناصر جلد ہشتم 1 خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۹ء وقف جدید کے بائیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۵ /جنوری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج میرا ارادہ بعض ضروری اور اہم اور بنیادی باتیں کرنے کا تھا لیکن دو ا یک روز سے مجھے انفلوئنزا (Influenza) کی ہلکی سی شکایت شروع ہو گئی تھی جس میں آج شدت پیدا ہوگئی ہے اور آج صبح میں نے محسوس کیا کہ مجھے بخار کی سی کیفیت بھی ہے.تھرما میٹر لگا یا تو بخار تو نہیں تھا لیکن حرارت ۹۹۰۴ تھی اور وہ کیفیت اب زیادہ ہورہی ہے اس لئے وہ باتیں جن پر کافی وقت لگنا تھا وہ میں اس وقت بیان نہیں کروں گا.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انشاء اللہ آئندہ جمعہ پر بیان کروں گا لیکن تو فیق دینے والا اللہ ہی ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے اور کام کرنے کی توفیق دے.ویسے یہ جلسہ کے بعد کا انفلوئنزا تو ایک چھوٹا سا تحفہ ہی ہے کیونکہ وہ دوست جن کو جلسے کے ایام میں انفلوئنزا ہوتا ہے وہ بڑے پیار سے بہت قریب آ کر باتیں کرتے ہیں اور اس کے وائرس ایک دوسرے کو لگنے والے ہیں وہ مجھے بھی لگ جاتے ہیں اور یہ تحفہ ہم خوشی سے قبول کرتے ہیں اور ہمیں دعاؤں کی توفیق ملتی ہے، اپنی صحت کے لئے بھی اور ان لوگوں کی صحت کے لئے بھی جن لوگوں کی طرف سے یہ تحفہ ملتا ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۵؍جنوری ۱۹۷۹ء اس وقت ایک تو میں اس لئے آیا ہوں کہ یہ ہجری شمسی سال کا پہلا جمعہ ہے اور وقت کی ہر تبدیلی دعاؤں کا مطالبہ کرتی ہے.ہماری زندگی کی ہر صبح یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ دن ہمارے لئے مبارک کرے اور آسمانی برکتوں کا نزول اس میں پہلے دنوں سے زیادہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح اٹھنے کی دعائیں بھی سکھائی ہیں اور ہر رات ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم دعائیں کریں کہ اے خدا! وہ لوگ جو اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ان کے لئے بھی روشنی کا سامان پیدا کر.خدا تعالیٰ نے زمانے کو اس طرح تقسیم کر کے ہماری زندگی سے یکسانیت کو دور کر دیا ہے اور دنوں کو ہفتوں میں باندھ کر اور ہفتوں کو مہینوں میں باندھ کر اور مہینوں کو سالوں میں باندھ کر اور پھر سالوں کو صدیوں میں باندھ کر اور اس طرح زمانے کے ٹکڑے کئے ہیں ورنہ ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کب ہماری زندگی کی ابتدا ہوئی اور بسا اوقات ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگی کی کوئی انتہا بھی ہے اور آخر ہم نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے.ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے.نیا سال میری طرف سے آپ سب کو احمدیوں کو بھی اور نوع انسان کو بھی مبارک ہو.خدا کرے کہ یہ سال انسانیت کے لئے خیر و برکت کا سال ہو.دنیوی لحاظ سے بھی اور بین الاقوامی رشتوں کے لحاظ سے بھی اور امن عامہ کے لحاظ سے بھی اور غلبہ اسلام کے لحاظ سے بھی.دوسری بات جو میں اس وقت مختصراً کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان میں عام طور پر سال کے پہلے جمعہ کے خطبہ میں کیا کرتا ہوں چنانچہ آج میں وقف جدید کے ۲۲ ویں اور دفتر اطفال وقف جدید کے ۱۴ ویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.وقف جدید ہماری جماعت کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے جسے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کی تربیت کے لئے قائم کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور جماعت کو اس میدان میں کام شروع کرنے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کی توفیق دی لیکن جیسا کہ آپ اکثر میری زبان سے سن چکے ہیں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کا زمانہ آہستہ آہستہ پیچھے رہ گیا اور تیزی سے آگے بڑھنے کا زمانہ شروع ہو گیا.اس میں شک نہیں کہ وقف جدید کا کام بہت محدود ہے لیکن ہر کام کے لئے
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۵؍جنوری ۱۹۷۹ء کام کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر کام کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے.جس نے سفر کرنا ہے اس نے چوری کر کے اور ٹکٹ خریدے بغیر تو سفر نہیں کرنا یہ تو جماعت احمدیہ کی ریت ہی نہیں ہے.معلمین کے سفروں پر خرچ آتا ہے جو کہ دیہات میں جاتے ہیں اور پھرتے ہیں اور قرآن کریم ناظرہ پڑھاتے ہیں اور بعض کو ترجمہ سے پڑھاتے ہیں اور عام مسائل بتاتے ہیں.یہ چھوٹی سطح پر بچوں کی ابتدائی تربیت ہے جنہوں نے کہ پہلے اپنی بدقسمتی سے اسلامی تعلیم حاصل نہیں کی ان کو وہ ابتدائی مسائل سکھاتے ہیں.یہ تدبیر کی دنیا ہے اور تدبیر کی دنیا لازمی طور پر تدریجی ارتقا کی دنیا ہوتی ہے اور تدریجی ارتقالا زما ابتدائی باتوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنی کہ بہت آگے نکلنے کے بعد ضروری باتوں کو دی جاتی ہے اس لئے معلمین وقف جدید اگر چہ ابتدائی مسائل کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ابتدائی مسائل کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے مثلاً یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ بازار کے جو آداب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے ہیں ربوہ میں بھی بہت کم لوگ ان سے واقفیت رکھتے ہیں.ربوہ کے نظام کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور معلمین وقف جدید کو تو بہت سی کتابیں چھپوا کر یا نوٹ لکھوا کر یہ مسائل بتانے چاہئیں تا کہ ہر ایک کے دماغ میں یہ ڈالا جائے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اسلام وحشی کو مہذب انسان بنانے کے لئے اور مہذب انسان کو با اخلاق انسان بنانے کے لئے اور با اخلاق انسان کو باخدا انسان بنانے کے لئے آیا ہے.اس کا پہلا مرحلہ تادیب ہے یعنی ادب سکھانا اور انسان کے لئے ہر مرحلہ میں سے گزرنا، اس کے مسائل کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے.اسلام کی تعلیم میں کوئی بھی ایسی چھوٹی بات نہیں اور اسلام کے احکام میں سے کوئی بھی ایسا چھوٹا حکم نہیں جسے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکے اور اس کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والا نہ ہو.پس وقف جدیدا چھا کام کر رہی ہے لیکن اس کے کام میں بھی زیادہ محسن پیدا ہونا چاہیے اور جماعت کو کام کرنے والوں کی تعداد بڑھانی چاہیے اور کام کرنے کے لئے جس سرمائے کی ضرورت ہے وہ مہیا ہونا چاہیے.یہ ترقی کر رہے ہیں لیکن میرے پاس بعض دفعہ بعض دیہاتی جماعتوں کی طرف سے بڑے غصے کے خطوط آ جاتے ہیں کہ ہم نے کئی بار وقف جدید کو لکھا ہے مگر وہ ہمارے
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۵؍جنوری ۱۹۷۹ء پاس معلم نہیں بھیجتے.جب آپ نے ان کو اتنے معلم دیئے ہی نہیں کہ وہ ساری ضرورتوں کو پورا کر سکیں تو وہ کیسے ساری ضرورتوں کو پورا کریں.پس اس طرف آپ توجہ دیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اہم اور عظیم ذمہ داریاں اس زمانہ میں اس کمزور جماعت کے کندھوں پر ڈالی ہے ان کو وہ اپنے فضل سے پورا کرنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے علم سے انہیں علم سکھائے اور اپنی طاقت سے انہیں طاقت بخشے اور دنیا تک اسلام کے نور کو پہنچانے کی اور اسلام کے حسن کو چمکتے ہوئے اور بغیر گردو غبار کے صحیح اور منور حسن کو ان کی آنکھوں کے سامنے رکھنے کی توفیق عطا کرے اور ہر میدان اور ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب کرے اور آپ کو بھی اور مجھے بھی صحت دے اور صحت سے رکھے.اس کے بعد فرمایا:.جیسا کہ میں نے کہا ہے جو بہت اہم باتیں میں آج کہنا چاہتا تھا اگر صحت رہی تو انشاء اللہ وہ اگلے جمعہ کے خطبہ میں آپ سے گفتگو میں بیان کروں گا.(روز نامه الفضل ربوه ۴ رفروری ۱۹۷۹ ء صفحه ۲، ۳)
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء قرآن کریم نے انسانی حقوق کو بیان کیا اور ان کی حفاظت فرمائی خطبه جمعه فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میرا آج کا یہ خطبہ ۲۹ دسمبر کے خطبہ کے تسلسل میں ہے.ہمیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کا مقام ہر دو جہان میں سب سے بلند و بالا ہے.لَوْلاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ اور جو شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل ہوئی وہ ایک کامل اور مکمل شریعت ہے اور اس شریعت میں انسانوں کے حقوق کو واضح طور پر بیان بھی کیا گیا اور ان کی حفاظت بھی کی گئی ہے کیونکہ انسانی زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کے حاصل ہوتا ہے اور ہمارے ہاتھ میں جو قرآنِ عظیم دیا گیا اس کے سارے احکام جو ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہی ہیں.قرآن کریم نے بنیادی طور پر انسان کا جو مقام انسان کو سمجھا یا وہ یہ ہے کہ کامل مذہبی آزادی اور مکمل آزادی ضمیر اسے عطا کی گئی ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے.اور اس ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت بھی دی گئی اور آپ کے مقام کو بھی نمایاں کر کے بنی نوع انسان کے لئے مثال رکھا گیا.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶ خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء اس وقت میں بہت سی آیات آپ دوستوں کے سامنے رکھوں گا جن سے میرا یہ مضمون واضح ہو کر آپ کے سامنے آ جائے گا.یعنی یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس لئے تھی کہ انسان کی مذہبی آزادی کی حفاظت کی جائے اور آزادی ضمیر کی ضمانت دی جائے تا کہ انسان آزادانہ طور پر خدا تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اپنی مرضی سے ، اپنی خواہش کے مطابق خدا تعالیٰ کے عشق اور محبت سے مجبور ہو کر خدا کی راہ میں ایثار اور قربانی پیش کرے اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی گردن کو اسلمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة : ۱۳۲) کہتا ہوا اس طرح رکھ دے جس طرح مجبور ہو کر ایک بکرا قصائی کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتا اور کٹوا دیتا ہے لیکن وہاں مجبوری ہے اور یہاں کامل آزادی.سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَ كَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُم بوكيل (الانعام : ۶۷) اور تیری قوم نے اس پیغام کو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان تک پہنچا تھا جھوٹا قرار دیا حالانکہ وہ سچا ہے.مگر تو ان سے کہہ دے کہ مانا نہ ماننا تمہارا کام ہے میں تمہارا (وکیل) ذمہ دار نہیں.وكيل کے معنی ذمہ دار کے نگران کے محافظ کے، حفیظ کے، جبراً معاصی سے روکنے والے کے ہیں اور تفسیر کی کتب کے کچھ حوالے بھی میں نے اس بات کو واضح کرنے کے لئے اکٹھے کئے اور اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے کہ پہلے بزرگوں نے بھی اس حقیقت پیدائش انسان کو واضح طور پر سمجھا اور اسے بیان کیا تھا.ایک تفسیر کی کتاب ہے ”روح البیان “.اس میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے.لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ: بِحَفِيظ، وَكُلَ إِلَى أَمْرُكُمْ - لَا مُنَعَكُمْ مِنَ التَّكْذِيبِ وَأَجْبِرَكُمْ عَلَى التَّصَدِيقِ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرُ وَقَدْ خَرَجْتُ مِنَ الْعُهْدَةِ حَيْثُ أَخْبَرْتُكُمْ بِمَا سَتَرَوْنَهُ.کہ وکیل کے معنے ہیں حفیظ کے اور یہاں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ میں تمہارا محافظ نہیں اس معنے میں کہ میرے سپر د تمہارا یہ کام کیا گیا کہ میں تمہیں روکوں تکذیب سے.اس آیت
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء کے شروع میں "وَ كَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ “ کا ذکر تھا.پس فرمایا کہ میں تمہارا محافظ نہیں اس معنی میں کہ اس تکذیب سے تمہیں روکوں اور مجبور کروں تمہیں (تمہاری کراہت کے باوجود ) کہ تم اس کی و، تصدیق کا ، اس پر ایمان لانے کا اعلان کرو.اِنَّمَا أَنَا مُندر میں محض ہوشیار کرنے والا ، تنبیہ کرنے والا، انذار کرنے والا ہوں.وَ قَدْ خَرَجْتُ مِنَ الْعُهْدَةِ حَيْثُ أَخْبَرْتُكُمْ بِمَا سَتَرَوْنَةُ اور جو میری ذمہ داری ہے، جس کام کے لئے میں کھڑا کیا گیا ہوں، جس کا میں مکلف ہوں ، اس سے میں بری ہو جاتا ہوں جب میں نے تمہیں کھول کر بتادیا (أَخْبَرْتُكُمْ ) کہ اگر تم تکذیب کرو گے اس صداقت کی تو خدا تعالیٰ کا غضب تم پر بھڑ کے گا اور جو میں انذاری باتیں بیان کر رہا ہوں سَتَرَوْنَه تم خود دیکھ لو گے کہ جو میں کہتا ہوں وہ درست ہے کہ تکذیب کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ تم سے مؤاخذہ کرے گا.امام رازی اس کے متعلق لکھتے ہیں.لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ أَيْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِحَافِظٍ حَتَّى أَجَازِيَكُمْ عَلَى تَكْذِيبِكُمْ 66 وَاغْرَاضِكُمْ عَنْ قَبُوْلِ الدَّلَائِلِ “ میں تم پر وکیل نہیں اس معنی میں کہ میں تمہارا محافظ بنایا گیا تا کہ میں تمہیں سزا دوں اور مؤاخذہ کروں تمہارے تکذیب کرنے پر اور جو دلائل تمہارے سامنے کھول کر بیان کئے گئے ہیں ( جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے ) ان سے اعراض کرنے پر.تو عقوبت اور سزا دینا، یہ میرا کام نہیں ہے.اِنَّمَا أَنَا مُنْذِرُ میں صرف ہوشیار کرنے والا ہوں.وَاللهُ هُوَ الْمَجَازِى لَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ اور مجازات اور مؤاخذہ جو ہے یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے، یہ میرا کام نہیں ہے.تفسیر روح المعانی میں وکیل “ کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ (لَسْتُ عَلَيْكُمْ ہوگیلٍ ) ان بول کہ میں موکل بنا کر نہیں بھیجا گیا تمہاری طرف.فَوَّضَ أَمْرَكُمْ إِلَی کہ تمہارے کام تمہاری طرف سے میں کروں یہ اس کے لغوی معنے ہیں یعنی کہ جو تم نے کام کرنا تھا وہ تم نہ کرو اور میں کروں.تم نے کام کرنا تھا دلائل سن کے ، سوچ کے سمجھ کے ان کو قبول کر کے.ان کی برکات سے حصہ لینا، یہ تمہارا کام تھا.میرے سپرد یہ نہیں کیا گیا کہ یہ کام میں زبر دستی تم سے کراؤں.یہ
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء تمہارا کام ہے، یہ تم نے ہی کرنا ہے اور نہ میرے سپرد یہ کیا گیا ہے (وکیل کے وہ کہتے ہیں کہ یہ معنی ہیں ) کہ اَحْفَظُ أَعْمَالَكُمْ لِأَجَازِيَكُمْ بِهَا کہ میں تمہارے اعمال کی نگرانی کرتا ہوں کہ کیسے تمہارے گندے اعمال ہیں اور اس لئے دیکھوں (لأجَازِيَكُمْ ) کہ تمہیں سزا دوں اُن کی اِنَّمَا اَنَا مُنْذِرُ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں.وَلَمْ آلَ جُهُدًا فِي الْإِنْذَارِ اور اندار میں میں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی وَاللهُ سُبْحَانَهُ هُوَ الْمَجَازِی اور اللهُ سُبْحَانَہ ہی جزا دینے والا ہے.میرا کام نہیں ہے گرفت کرنا.میرا کام صرف پہنچا دینا ہے، انذار کرنا ہے.روح المعانی میں ہے کہ زجاج نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ لَمْ اُوَمِرُ بِحَرُ بِكُمْ یعنی یہ جو کہا ہے لَسْتُ عَلَيْكُمْ بو گیل اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اگر یہ تکذیب کریں تو تصدیق کروانے اور مومن بنانے کے لئے ان سے جنگ کرو اور تلوار کے زور سے اپنی بات منوادَ - لَمْ أُؤَمِّرُ بِحَرْبِكُمْ وَمَنْعِكُمْ عَنِ التَّكْذِيبِ کہ ان سے جنگ کرو، اور اس بات سے اُنہیں روکو کہ خدا تعالیٰ نے ایک صداقت بھیجی ہے تم اس سے رک جاؤ اور تکذیب نہ کرو.ابن جریر نے یہ معنے کئے ہیں يَقُولُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ لَّهُمْ يَا مُحَمَّدُ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے کہو لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ وَلَا رَقِيْبٍ میں تمہارا محافظ اور رقیب نہیں ہوں.وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولُ أَبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِه اِلَيْكُمْ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغامبر ، ایک رسول ہوں اور میرے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے کہ جو صداقتیں خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے مجھ پر نازل کی ہیں وہ تم تک پہنچا دوں.ایک اور تفسیر المنار“ ہے.یہ محمد عبدہ کی تفسیر ہے.چھپی ہے ۱۹۲۸ء میں.وہ درس دیا کرتے تھے اور محمد رشید رضا نے ان کو اکٹھا کر کے تفسیری شکل میں شائع کیا.وہ کہتے ہیں کہ آئی قل لَّهُمْ أَيُّهَا الرَّسُولُ اے خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ان کو کہ دے اَنَّنِي لَسْتُ بِوَكِيْلٍ مُسَيْطِرٍ عَلَيْكُمُ میں تمہارے اوپر نگران اور تم پر حاکم جبر کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا صرف تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.وہ کہتے ہیں فالو كِيْلُ هُوَ الَّذِي تُؤْكَلُ إِلَيْهِ الْأُمُورُ
خطبات ناصر جلد ہشتم و خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء وکیل وہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کے سپر ددوسرے کے کام کر دیئے جاتے ہیں.(وَفِي الْوِكَالَةِ مَعْنَى السَّيْطَرَةِ وَالتَّصَرُّف) اور وکالت کے معنے میں جبر اور تصرف کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے فَمَنْ جَعَلَهُ السُّلْطَانُ أَوِ الْمَلِكُ وَكِيلًا لَّهُ عَلَى بِلَادِهِ أَوْ مَزارِعِه پس اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کو اپنا نمائندہ بنادے، گورنر بنادے اپنے کسی صوبے پر ، یا اپنی زمینوں کے کام اس کے سپر دکرے تو بادشاہ کی طرف سے يَكُونُ مَأْذُونَا بِالتَّصَرُّفِ عَنْهُ فِيْهَا تو بادشاہ کی طرف سے اس کو اجازت ہوگی کہ جو شاہی اقتدار لوگوں پر جبر کرتا ہے ان غلطیوں کے اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں، بادشاہ کا وکیل بھی ویسا کرے بادشاہ کی طرف سے اس کی نمائندگی میں.وَالشَّيْطَرَةِ عَلَى أَهْلِهَا لیکن وَالرَّسُولُ مُبَلِّغُ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى رسول خدا کا وکیل نہیں کہ خدا کی طرف سے لوگوں کو سزا دے.سزا دینا یا جزا دینا اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے.رسول مُبَلِّغُ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مبلغ بنا کے بھیجا گیا ہے جسے حکم ہے کہ لوگوں کو وہ باتیں پہنچا دو جوخدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو پہنچانے کے لئے نازل ہوئی ہیں.وہ يَذْكُرُ النَّاسَ لوگوں کو وعظ کرتا ہے وَيُعَلِّمُهُمْ ان کے علم میں وہ باتیں لاتا ہے ، وَيُبَشِّرُهُمْ ان کو بشارتیں دیتا ہے کہ اگر تم اس ہدایت پر عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے انعام پاؤ گے، وَيُنْذِرُهُمْ اور ان کو انذار کرتا ہے کہ اگر تم ان باتوں سے اعراض کرو گے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا اور اس کی گرفت کے اندر تم آؤ گے.وَيُقِيمُ دِيْنَ اللہ اور اللہ تعالیٰ کے دین کو ان میں اس وعظ ونصیحت اور اس تعلیم اور اس تبشیر اور اس انذار کے نتیجہ میں وہ قائم کرتا ہے.هذه وظيفته یہ ہے اس کا کام.وَلَيْسَ وَكِيلًا عَنْ ربه و مرسله وہ رسول بنا کے بھیجنے والے اللہ کی طرف سے اس کا نمائندہ نہیں اس معنی میں کہ خدا کی طرف سے وہ جزا اور سزا دینے کا مالک بن جائے ، رسول کا یہ کام نہیں ہے.وَلَا يُعْطَى القدرة ( انہوں نے بڑی عجیب عقلی دلیل یہاں دی ہے ) اگر رسول خدا کی طرف سے جزا وسزا دینے کے لئے نمائندہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا سزا دینے کی قدرت بھی اسے عطا ہوتی لیکن ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ساری مکی زندگی میں آپ نے ایک مظلوم کی سی زندگی گزاری.وَ لا يُعطى الْقُدْرَةَ عَلَى التَّصَرُّفِ فِي عِبَادِهِ حَتَّى يُجْبِرَهُمْ عَلَى الْإِيْمَانِ إِجْبَارًا وَيُكْرِهَهُمْ عَلَيْهِ
خطبات ناصر جلد هشتم ا.خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء اکراها اور رسول کو اس کے مرسل رب کی طرف سے یہ قدرت عطا نہیں کی گئی کہ وہ خدا کے بندوں میں خدائی رنگ میں حکومت کرے اور ان پر ایمان لانے پر يَجْبُرَهُمْ عَلَى الْإِيْمَانِ ایمان پر جبر کرتے ، یعنی ایمان لانے پر ، ایمان پر قائم رہنے پر ، ایمان کے مطابق عمل کرنے پر.تین شکلیں بنتی ہیں ایمان کے لفظ میں.تو اس پر سختی سے جبر کرنے کی نہ اجازت ہے نہ طاقت دی گئی ہے یا وَيُكْرِهَهُمْ عَلَيْهِ اِكْرَاهَا وہ کراہت محسوس کرتے ہیں ان کے دل نہیں مانتے مگر رسول ان کو کہے نہیں ! تمہیں یہ کرنا پڑے گا.یہ اس کو نہیں کہا گیا.پھر آگے انہوں نے اس تفسیر میں قرآن کریم کی بہت سی آیات اپنے بیان کی تائید میں لکھی ہیں.وہ کہتے ہیں دیکھو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ اور ان مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ (۱) اس میں ایک اصول بیان ہوا ہے اور (۲) حکم ہے.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: ۲۵۷) میں ایک اصول بھی بیان ہوا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہوگا اور ایک حکم بھی ہے یہ.اور اس کے پہلے مخاطب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور یہاں یہی معنے انہوں نے لئے ہیں کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ دین کے معاملہ میں اکراہ نہیں کرنا جبر نہیں کرنا تم نے.فذكر إِثْمَا انتَ مُذَكر (الغاشية: ۲۲) ہاں وعظ ونصیحت کرو کیونکہ تم مذکر ہو، جبر کر نے والے نہیں ہو ، وکیل نہیں ہو، محافظ نہیں ہو ، حافظ نہیں ہو.لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصيطر (الغاشية: ۲۳) اس کے معنے لغت والے نے یہ کئے ہیں کہ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَلَّطٍ عَلَيْهِمْ تَجْبُرُهُمْ عَلَى مَا تُرِيدُ تجھے مسلط نہیں کیا گیا لوگوں پر کہ تو اپنی مرضی لوگوں پر مسلط کرے اور یہ کہ جسے تو صداقت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ قبول کریں اس کو قبول کرنے پر لوگوں کو مجبور کرے.پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ و فرماتا ہے :.نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ( 3 : ٤٦) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.فذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ ( :۴۲) جو شخص تیرے’انذار‘ سے ڈرتا ہے اس کو تم نصیحت کرو جو نہیں ڈرتا اس کی کوئی ذمہ داری نہیں اور جو کفر اور تکذیب کی باتیں وہ کہتے ہیں ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں.لَيْسَ عَلَيْكَ هُدبُهُمْ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے تیری یہ ذمہ داری
خطبات ناصر جلد هشتم نہیں ہے کہ یہ ہدایت حاصل کریں.11 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ (البقرة : ۲۷۳) یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے، یہ رسول کا کام نہیں ہے.تیرا کام صرف پہنچانا ہے اور پھر لکھتے ہیں کہ وقِیلَ الْوَكِيلُ الْحَفِيْظُ الْمَجَازِئُ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وکیل کے معنے ایسے حفیظ کے ہیں جس کے سپر د خدا تعالیٰ نے اس کے بندوں کو ان کے گناہوں کے نتیجہ میں سزا دینے کا اختیار دیا ہو.یہ جو پہلی آیت میں نے لی جس میں لَسْتُ عَلَيْكُمْ بوکیل ہے اس کے متعلق میں نے کھول کر یہ ساری باتیں آپ کو بتادی ہیں کہ وکیل کے یہاں کیا معنی ہیں.مراد یہ ہے کہ اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) میں نے وکیل نہیں بنایا یعنی خدائی کے وہ اختیار جن اختیارات کو استعمال کر کے میں نیکیاں کرنے والوں کو ان کا بدلہ اور بدی کرنے والوں کو ان کی سزا دیتا ہوں، یہ تیرے سپر دنہیں کیا.تیرا کام ہے پہنچانا.جو میں کہتا ہوں ، جو میں نے تعلیم دی ، جو میں نے ایک حسین لائحہ عمل نوع انسانی کے ہاتھ میں دیا، جو ایک کامل شریعت قرآن کریم میں آگئی اور انسان کے ہاتھ میں تیرے ذریعہ سے پہنچائی گئی.اس کا پہنچانا تیرا کام ہے.قرآن کریم نے سورہ انعام میں ہی ایک دوسری جگہ یہ فرما یا : - وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اَشْرَكُوا وَمَا جَعَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيفًا ۚ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِم بوكيل (الانعام : ۱۰۸) اس آیت سے پہلے جو مضمون بیان ہوا وہ یہ ہے کہ تیرے رب کی طرف سے دلائل آچکے ہیں ، جو ان کو پہچانے گا اور قبول کرے گا، ان کے مطابق عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کی جان کو ہے اور جو کج راہی کو اختیار کرے گا اور قبول کرنے سے انکار کرے گا اس کو اس کی سزا بھگتنا پڑے گی اور اس سے چند آیات پہلے بھی آیا ہے وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٌ (الانعام :۱۰۵) اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتَّبِعْ مَا أَوْحَى إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ جو تجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اس کی اتباع کرو.اس میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ بطور رسول کے، بطور مبلغ کے دنیا کی طرف اپنی رسالت کو یعنی جو تعلیم تجھے دی گئی ہے اسے پہنچانا تیری ذمہ داری ہے.جو کام خدا تعالیٰ کے ہیں ان کے اندر دخل نہیں دینا.اِتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (الانعام : ۱۰۷) جو مشرک ہیں ان سے اعراض کرو.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء اتنی بڑی صداقت آ گئی ، توحید کے اتنے زبردست دلائل انسان کے ہاتھ میں دے دیئے گئے ، وہ راہ بتا دی گئی جس سے انسان خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا کر کے علی وجہ البصیرت اپنے رب کو پہچان سکتا ہے، اس کے باوجود جو شخص شرک کرتا ہے پھر بھی أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ان سے اعراض کرو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اشْرَكُوا یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا انہیں انکار اور شرک کی طاقت نہ دیتا اور وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے تجھے ان پر محافظ نہیں مقرر کیا اور نہ تو ان پر نگران ہے.b سورہ بنی اسرائیل میں ہے : - رَبُّكُمُ اَعْلَمُ بِكُمْ إِنْ يَشَأْ يَرْحَمَكُمْ أَوْ إِنْ يَشَأْ يُعَذِّبُكُمُ b وَ مَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا (بنی اسراءیل : ۵۵) اس آیت سے پہلے یہ مضمون ہے کہ شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے اور وہ کوشش کرتا ہے (جیسا کہ بعض جگہ تفصیل سے بیان ہوا) کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی راہوں سے ہٹادے اور گمراہ کر دے.اس کے بعد فرما یا ربكُم اَعلَمُ بِكُم تمہارا خدا ہی جانتا ہے کہ کس شخص نے دل سے خدا کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور کس شخص نے عاجزانہ طور پر اپنے وجود کو خدا کے سپرد کر دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو قبول کیا.یہ علم انسان کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا.رتبكُم اَعْلَمُ بِکھ ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ یہ علم کہ کوئی شخص واقع میں خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا ہے یا نہیں ، یہ تو جس سے پیار کیا جاتا ہے وہی بتائے گا ، میں اور آپ کیسے بتا سکتے ہیں.ربكُم اَعلَمُ بِکھ تمہارا رب تمہیں سب سے زیادہ جانتا ہے اگر وہ چاہے گا تو تم پر رحم کرے گا.جس کے متعلق وہ سمجھے گا کہ رحم کے قابل ہے اس پر وہ رحم کرے گا اور اگر وہ چاہے گا تو تمہیں عذاب دے گا.اور اے رسول ! ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا جس کے معنے میں تفصیل سے پہلے بیان کر چکا ہوں.و سورہ زمر میں ہے اِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنِ اهْتَدَى فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (الزمر : ۴۲) اس سے پہلے ایک لمبا مضمون چلا آ رہا ہے لیکن معا پہلے یہ ہے کہ تم اپنی جگہ کام کرتے رہو میں اپنی جگہ کام کرتار ہوں گا.اور پھر جب خدا تعالیٰ اپنے ارادہ کو ظاہر کرے گا اور تم پر گرفت اس کی آئے گی اور دوسرے گروہ پر انعام
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء نازل ہوں گے تو تم خود جان لو گے کہ کس کو رسوا کر دینے والا اور دائمی عذاب ملتا ہے.اس آیت سے پہلے یہ مضمون ہے.اس کے بعد کہا إِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ہم نے تجھ پر یہ کتاب یقیناً لوگوں کے فائدہ کے لئے حق اور حکمت کے ساتھ اتاری ہے.سوجس نے ہدایت پالی صحیح اور حقیقی معنے میں، اس کا نفع اسی کی جان کو حاصل ہوگا اور جو گمراہ ہو گیا اس کی گمراہی اسی پر پڑے گی اور تو ان پر کارساز کے طور پر، وکیل کے طور پر مقرر نہیں کیا گیا.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ مقام نہیں ، آپ بھی وکیل ،نگران اور محافظ نہیں.تو اور کوئی آپ کے متبعین میں سے اگر ایسا دعوی کرے کہ میں وکیل ہوں اور مجھے خدا نے جبراً اسلام منوانے ، اس پر قائم رکھنے کا اختیار دیا ہے تو اس قسم کا دعویٰ بڑا ہی جاہلا نہ دعوی ہوگا.پھر سورہ شوری میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ * وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمُ بوکیل (الشوری: ۷) اس آیت کے بعد جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر قرآن نازل کیا تا کہ تو لوگوں کو ڈرائے اور ہوشیار کرے، اور ہر ایک جان لے گا کہ اس پر ایک قیامت آنے والی ہے اور قیامت کے دن جب خدا تعالیٰ اپنی عظمت اور جلال کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا تو ہر ایک جان لے گا کہ وہ اس گروہ میں شامل ہے جس پر جنت کے دروازے کھولے گئے ہیں یا وہ اس گروہ میں شامل ہے جس کو دوزخ کی طرف دھکیل کے لے جایا گیا ہے.یہ مفہوم ہے اس آیت کا جو اس کے بعد آتی ہے.جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ کے سوا کسی کو اپنا پناہ دینے والا بناتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف پڑنے والے سب اعمال کو محفوظ کر چھوڑا ہے اور تو ان پر وکیل نہیں ہے.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرے اور اگر چاہے تو ان کو پکڑے اور ان پر گرفت کرے.پھر سورۂ فرقان میں ہے اَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوبِهُ أَفَاَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان : ۴۴) اس سے پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جو منکر ہیں اس عظیم صداقت کے وہ تجھے صرف ایک ہنسی اور ٹھٹھے کی چیز سمجھتے ہیں.کہتے ہیں اس شخص کو اوروں کو چھوڑ کے اللہ نے رسول بنایا؟ اور کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے عقائد پر بڑی مضبوطی سے قائم ہیں، اگر ہم اپنے عقائد پر
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۴ خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء مضبوطی سے قائم نہ ہوتے تو ہمیں یہ شخص گمراہ کر دیتا یعنی مسلمان بنا لیتا لیکن جب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تو پھر ان پر حقیقت کھل جائے گی کہ یہ صداقت پر قائم تھے یا ضلالت پر قائم تھے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَولهُ أَفَاَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا اے رسول! کیا تو نے اس شخص کا حال بھی معلوم کر لیا جس نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنالیا جیسا کہ آج کل یہ فیشن بنا ہوا ہے ساری دنیا کا (یورپ ہے، امریکہ ہے،سوشلسٹ، کمیونسٹ ممالک ہیں ) کہ وہ خواہشات نفس کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہیں.بعض ملکوں نے تو یہ اعلان کر دیا کہ ہمارے عوام ہمارا خدا ہیں تو یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنالیا ہے.پھر فرماتا ہے آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَکیلا کیا تو اس شخص پر نگران ہے کہ تو اسے جبراً گمراہی سے رو کے؟ اس آیت کے متعلق بھی میں نے پرانی تفاسیر دیکھیں.مضمون لمبا ہے مگر میں چاہتا ہوں آج اسے ختم کر دوں اس لئے صرف ایک دو آیتوں کے متعلق میں نے پرانی تفسیروں کے بھی حوالے لئے تا کہ آپ پر یہ بات واضح ہو جائے.ابن جریر کہتے ہیں يَقُولُ تَعَالَى ذِكْرُهُ ( الله ) جَلَّ شَانُه فرماتے ہیں اَفَأَنْتَ تَكُونُ يَا مُحَمَّدُ عَلى هَذَا حَفِيظًا فِي أَفْعَالِهِ کہ اے محمد ! کیا ہم نے تجھے نگران مقرر کیا ہے ایسے شخص کا جو نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنالیتا ہے؟ تو یہ استفہام ایسا ہے جو عربی محاورہ کے مطابق انکار کے معنی دیتا ہے یعنی تجھے نہیں بنا یا وکیل.یہ ابن جریر نے کہا ہے.تفسیر روح البیان میں ہے کہ آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَلِيْلًا کے معنے ہیں کہ أَفَأَنْتَ تَكُونُ حَفِيظا کہ کیا تجھے ہم نے حفیظ بنایا ہے؟ یعنی نگران اور محافظ نہیں بنایا کہ تَمْنَعُةُ عَنِ الشِّرْكِ وَالْمَعَاصِی تو لوگوں کو شرک سے منع کرے اور گناہوں سے انہیں بچائے.پھر لکھا ہے.آئی لَسْتَ مُؤَكَّلًا عَلى حِفظہ ان کو شرک اور معاصی سے بچانے اور محفوظ کرنے کا کام خدا نے تیرے سپردنہیں کیا.ان کو آزادی دی ہے.بَلْ اَنْتَ مُنْذِر بلکہ تیرا کام صرف انذار کرنا ہے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے.تیرا کام ہے ان سے کہے کہ وحدانیت، کائنات کی بنیاد ہے اور دلائل دے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۵ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء نشان دکھائے ، معجزات ظاہر کرے.اور معجزہ وہ ہے عقلِ انسانی جس کو Explain نہیں کر سکتی یعنی بتا نہیں سکتی کہ یہ کیسے ہو گیا سوائے اس کے کہ خدا نے ایسا کر دیا.لیکن تیرا کام یہ نہیں ہے کہ تو شرک سے انہیں بچالے.اس بات پر مکلف نہیں ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم.نہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گناہگار نہ بنیں.تفسیر ( کبیر ) رازی میں ہے کہ آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا أَى حَافِظًا تَحْفَظُهُ مِن اتَّبَاعِ هَوَانا تجھے ہم نے یہ کم نہیں دیا اور نہ یہ قدرت اور طاقت دی ہے اور نہ تجھے حافظ بنایا ہے کہ تو انہیں محفوظ رکھے نفسانی خواہشات کی اتباع کرنے سے.آئی لَسْتُ كَذلِكَ کہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا دوسری جگہ فرما یا کستَ عَلَيْهِمْ بِمُضَيْطِرِ اور جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرِ کے معنے کئے گئے ہیں لَسْتَ بِمُسَلَّطٍ عَلَيْهِمْ تَجْبُرُهُمْ عَلَى مَا تُرِيدُ یعنی تو نے جو ایک روشنی اور صداقت دیکھی سو دیکھی، جبر کر کے کسی کو منوانے کا کام تیرے سپردنہیں کیا گیا اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرما یا مَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرما یا لا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اکراہ کرنے کی تجھے اجازت نہیں.جبر کر کے ، مجبور کر کے ان کو اس طرف لانے کی تجھے اجازت نہیں.لَسْتَ عَلَيْهِمْ ہوکیل جو ہے یعنی وکیل نہیں بنایا یا وکیل نہیں ہے، مختلف پیرایوں میں اس لفظ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف آیات میں استعمال کیا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا.سوال پیدا ہوتا تھا ( جس کی طرف میں اشارہ کرتا آیا ہوں) کہ پھر کیا بنا یا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تجھے رسول بنایا، تجھے مبشر بنایا کہ جو ایمان لائیں اور اعمالِ صالحہ بجالائیں اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیں ان کو بڑے انعام ملیں گے.آپ لوگ گواہ ہیں کہ کتنے انعام ملتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے.اور تجھے نذیر بنایا کہ دیکھو اگر خدا تعالیٰ کو ناراض کرو گے تو اس کے غضب کی آگ میں جلو گے ( ابدی جہنم کا تصور غلط ہے ) اور تجھے رسول بنایا کے معنے ہیں تجھے پہنچانے والا بنایا، تجھے مبلغ بنا یا، تیرا کام یہ ہے کہ تو بلاغ کرے، تو لوگوں تک اس تعلیم کو پہنچا دے جو تیرے خدا نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے نازل کی ہے.اس لئے قرآن کریم میں سے دوسرا لفظ جو میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶ خطبہ جمعہ ۱۲ /جنوری ۱۹۷۹ء نے منتخب کیا مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر کے مفہوم کی وضاحت کے لئے وہ ”البلاغ‘“ کا لفظ ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے.فَإِنْ حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَن اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ وَالْأَمِينَ وَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا ۚ وَ إِنْ تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَاللهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (ال عمران :٢١) اگر یہ لوگ تجھ سے جھگڑیں تو تو ان سے کہہ دے کہ میں نے اور ان لوگوں نے جو میرے پیرو ہیں اپنے آپ کو اللہ کی فرمانبرداری میں لگا دیا ہے اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ان کو اور نیز امیوں کو کہہ دے کہ کیا تم بھی فرمانبردار ہوتے ہو ، مسلمان ہوتے ہو.پس اگر وہ فرمانبردار ہو جائیں اور وہ بھی کہیں اسلمت لرب العلمین تو سمجھو کہ وہ ہدایت پاگئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے.اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرا کام ختم.تیرے ذمہ صرف پہنچادینا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھ رہا ہے اور اس سے تو کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے.وہ آپ ہی ان سے نٹے گا اور جب چاہے گا ان کو سزا دے گا.یہاں جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ مخاطب غیر مسلم ہے جس کے سامنے پہلی دفعہ اسلام رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ جھگڑا کر رہے ہیں، ان کو کہا گیا ہے ہم ایمان لے آئے ہم مسلمان ہو گئے، تم بھی مسلمان ہو جاؤ، خدا تعالیٰ کے پیار کو، اس کی محبت کو ، اس کی برکات کو ، اس کی رحمتوں کو تم حاصل کرو گے.سورہ مائدہ میں ہے اور یہاں مخاطب ہیں مومن.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اطِیعُوا اللهَ وَاطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلغُ الْمُبِينُ (المائدة : ٩٣) اس سے پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے چند آیات میں وہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! شراب، مجوا، بت، قرعہ اندازی کے تیر جو ہیں وہ ناپاک ہیں اور شیطانی کام ہیں.ان سے بچنا چاہیے.شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے عداوت اور کینہ ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکنا چاہتا ہے.کیا تم اللہ تعالیٰ) کے ذکر اور نماز سے رک سکتے ہو؟ ظاہر ہے مومن مخاطب ہیں.تو پہلی آیت میں تھا فَاجتَنِبُوهُ - مفسرین کہتے ہیں وَ اَطِيعُوا اللہ میں واؤ جو ہے یہ عطف
خطبات ناصر جلد هشتم 979 ۱۷ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء فَاجْتَنِبُوهُ پر ہے یہ مضمون اس تسلسل میں چلتا ہے اور مخاطب مومن ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور تم اللہ کی بھی اطاعت کرو اے مومنو! اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور ہوشیار رہو اور جن چیزوں سے روکا جاتا ہے ان سے رکو اور اگر اس تنبیہ کے بعد بھی تم پھر گئے تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو کھول کھول کر پہنچا دینا ہی ہے.یہاں مخاطب چونکہ مومن ہیں.تولیہ کے دو معنے ہیں ایک عملاً پھر گئے یعنی ایمان اور صداقت کی راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے نفاق فسق اور بدعملی کی راہوں کو تم نے اختیار کیا، یہ بھی ہوتی ہے کیونکہ جو حکم ہیں ان کے خلاف کیا اور یہاں تولیہ کے معنے ارتداد کے بھی ہیں کہ ا اگر تم پھر جاؤ یعنی اعلان کر دو کہ یہ پابندیاں ہم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ، ہم اسلام کو چھوڑتے ہیں.جس طرح زکوۃ کی فرض ادا ئیگی کی وجہ سے اور ترک زکوۃ کی خاطر ارتداد اختیار کیا تھا.عرب کے ایک حصے نے (بعد میں بہت سوں نے تو بہ کر لی ) جس طرح آج کل ایک شخص یورپ میں مسلمان ہوا اور ازدواجی رشتہ کے سلسلہ میں غیر اسلامی کام کر لیا اس نے.جب اس کو کہا گیا کہ اسلام تو یہ نہیں کہتا تو کہنے لگا کہ اس قسم کی پابندیاں تو میرا دماغ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.اتنا سخت ہے یہ مذہب اس لئے میں اسلام کو چھوڑتا ہوں.تو فان تولیتُم میں دونوں ہیں، نفاق یا فسق کی راہوں کو اختیار کر کے منہ پھیر نے والے یا علی الاعلان خود کہنے والے کہ ہم اسلام کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم پھر گئے تو یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ ہمارے رسول پر کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ تمہیں زبر دستی دائرہ اسلام میں رکھے یا ز بر دستی تم سے نیک اعمال کروائے.ہمارے رسول پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں.انهَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَاغُ الْمُبِينُ ہمارے رسول پہ یہ و دو ذمہ داری ہے کہ کھول کھول کے دین کی باتیں تمہارے کانوں میں ڈالے اور اپنی ذمہ داری کو وہ پورا کر رہا ہے.اس آیت کی تفسیر میں امام رازی کہتے ہیں.وَ هُذَا تَهْدِيدٌ عَظِيمٌ وَوَعِيدٌ شَدِيدٌ فِي حَقِّ مَنْ خَالَفَ فِي هَذَا التَّكْلِيفِ وَأَعْرَضَ فِيْهِ عَنْ حُكْمِ اللهِ وَ بَيَانِهِ يَعْنِي أَنَّكُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَالْحُجَّةُ قَدْ قَامَتْ
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۸ خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء عَلَيْكُمْ وَالرَّسُوْلُ قَدْ خَرَجَ عَنْ عُهْدَةِ التَّبْلِيغِ وَالْإِعْذَارِ وَالْإِنْدَارِ فَأَمَّا مَا وَرَاءَ ذُلِكَ مِنْ عِقَابِ مَنْ خَالَفَ هَذَا التَّكْلِيْفَ وَ أَعْرَضَ عَنْهُ فَلْكَ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى امام رازی نے یہ تفسیر کی ہے کہ اس میں بڑی تہدید اور بڑی وعید ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے.اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِن تولیتم اگر تم منہ پھر لوتو یا د رکھو کہ رسول نے کھول کھول کر صداقت کو بیان کرنے کی وجہ سے تم پر حجت پوری کر دی.آگے عمل کرنا یا نہ کرنا اس کی ذمہ داری رسول پر نہیں.وَالرَّسُوْلُ قَدْ خَرَجَ عَنْ عُهْدَةِ التَّبْلِيغِ وَالْإِعْذَارِ وَ الْإِنْدَارِ اور جو ذمہ داری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہماری طرف سے تھی کہ وہ انذار کرے، اور وہ تبشیر کرے اور وہ تبلیغ کرے اور وہ کھول کھول کر خدا تعالیٰ کی صداقتوں کو تمہارے سامنے بیان کرے، وہ اس نے بیان کر دیں.قد خَرَجَ عَنْ عُهْدَة اور جو اس پر فرض تھا ، جو ذمہ تھا اس کا ، اس سے وہ آزاد ہو گیا، اس نے وہ پورا کر دیا.اس کے اوپر کوئی الزام نہیں آتا اس کے بعد.فَأَمَّا مَا وَرَاء ذلك جو اس کے علاوہ سزا دینا ان لوگوں کو مَنْ خَالَفَ هذا التكليف جو اس انذار اور تبشیر وغیرہ کے بعد جو ذمہ داریاں سننے والوں پر آتی تھیں جو انہوں نے ادا نہ کیں اور مخالفت کی اور عمل نہیں کیا یا ارتداد کا اعلان کر دیا ان کو سزا دینے کا جو سوال ہے فَذَاكَ إِلَى اللهِ تَعَالَی یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے یہ رسول کا نہیں ہے.رسول کا کام صرف پہنچا دینا ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے سامنے کھل کے تبلیغ کر دی اور ہر چیز کھول کر بیان کر دی تو آپ نے اپنا وہ کام پورا کر دیا جس کام کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا.آپ کا یہ کام نہیں ہے کہ زبر دستی مومن بنا ئیں ، زبردستی نیک اعمال کروائیں زبر دستی دائرہ ایمان کے اندر رکھیں اور زبردستی کریں کہ تمہیں اب میں نے یہ کہنے نہیں دینا کہ میں اسلام سے باہر نکل رہا ہوں.یہ امام رازی نے اس آیت کی تفسیر کی ہے.ابنِ جریر کہتے ہیں.فَاعْلَمُوا ( آیت میں ہے فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ( أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى مَنْ اَرْسَلْنَاهُ إِلَيْكُمْ بِالنَّدَارَةِ غَيْرُ إِبْلَاغِكُمُ الرَّسَالَةَ - کہ یہ اچھی طرح جان لو کہ جس شخص کو ہم نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے (نذارة
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۹ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء کے معنی انذار کے ہیں ) انذار کے لئے اس کے اوپر ذمہ داری سوائے ابلاغ رسالت کے نہیں یعنی بحیثیت رسول اس کے اوپر جو تعلیم نازل ہوئی ہے اس کا آگے پہنچا دینا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری اس کی نہیں.وہ رسالت، وہ تعلیم الَّتِي أُرْسِلَ بِهَا إِلَيْكُمْ جوتعلیم بتاتی ہے.مُبَيِّنَةً لَكُمْ بَيَانًا يُوَضِحُ لَكُمْ سَبِيلَ الْحَقِّ جو تعلیم کھول کے بیان کرتی ہے کہ صداقت کا ، حق کا راستہ کیا ہے.وَالطَّرِيقَ الَّذِي أُمِرْتُمْ اَنْ تَسْلُكُوہ اور وہ کون سی راہیں ہیں خدا کو پانے کی جن پر تمہیں چلنا چاہیے تو یہ کام ہے رسالت کا.وہ تعلیم لا یا.اس نے وہ راہیں بتادیں جو خدا تک پہنچاتی ہیں.بع قرآں خدانما ہے خدا کا کلام ہے یہ کام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا.قرآن نازل ہوا تھا تم تک قرآن پہنچا دیا.تمہیں کھول کے بیان کر دیا.اپنی صداقت کے لئے عظیم نشان دکھائے جو پھیلے ہوئے ہیں قیامت تک.اس چودھویں صدی میں بھی بیسیوں خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان دکھائے جن کا پہلے علم دیا گیا تھا.اس نے وضاحت سے بیان کیا صراط مستقیم کو اور اس طریق کو جس پر چلنے کا تمہیں حکم دیا گیا تھا.وَ اَمَّا الْعِقَابُ عَلَى التَّوْلِيَةِ اور منہ پھیر لینا، ارتداد اختیار کر لینا، کہنا ہم نہیں بات مانتے ، جہاں تک اس کی سزا کا تعلق ہے.وَالْاِنْتِقَامِ بِالْمَعْصِيَةِ اور گناہ کی سزا دینے کا جہاں تک تعلق ہے فَعَلَى الْمُرْسَلِ إِلَيْهِ دُونَ الرُّسُلِ تو یہ ذمہ داری رسول بھیجنے والے کی ہے رسولوں کی نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ہے رُسل کی نہیں ہے.وَ هُذَا مِنَ اللهِ تَعَالَى وَعِيدٌ لِمَنْ تَوَلَّى عَنْ أَمْرِهِ وَنَهْيِهِ اور جو شخص خدا تعالیٰ کے اوامر سے منہ پھیرتا یا جن باتوں سے اسے روکا گیا ہے ان سے باز نہیں آتا یہ اس کے لئے بڑی سخت وعید ہے.سورہ مائدہ میں ہے مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغُ وَ اللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَ مَا تكتمون (المائدة : ۱٠٠) اس آیت سے پہلی آیت کے آخر میں ہے خدا تعالیٰ شَدِيدُ الْعِقَابِ بھی ہے اور غَفُورٌ رَّحِیم بھی ہے.خدا تعالیٰ کی یہ صفات بیان ہوئی ہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلا الْبَلغُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ.رسول پر صرف بات کا ط
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۰ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء پہنچانا واجب ہے اور جو بات عملاً تم سے ظہور میں آجاتی ہے اور اس کو بھی جو تم سے ابھی عملاً ظہور میں نہیں آئی ، اللہ خوب جانتا ہے اور جہاں تک جزا اور سزا کا تعلق ہے وہ خود تمہارے ساتھ معاملہ کرے گا.ہمارے رسول کی سوائے بلاغ کے، سوائے صداقت کو کھول کے بیان کر دینے اور تمہیں سمجھا دینے کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے.اس آیت کی تفسیر میں امام رازی کہتے ہیں کہ وَاعْلَمْ أَنَّهُ تَعَالى لَمّا قَدَّمَ التَّرْهِيبَ وَالتَّرْغِيْبَ بِقَوْلِهِ أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَ انَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِیم کہ جو پہلی آیت کے آخر میں تھا شَدِيدُ الْعِقَابِ - غَفُورٌ رَّحِيم تو یہ تر ہے اندار، ڈرانا اور یہ رغبت دلانا، بشاشت پیدا کرنا ، بشارت دینا کہ خدا تعالیٰ شَدِيدُ الْعِقَابِ بھی ہے اور غَفُورٌ رَّحِیم بھی ہے اس کے بعد اَتْبَعَهُ بِالتَّكْلِيفِ بِقَوْلِهِ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا البلغ خدا تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا کہ خدا کے رسول کو کس چیز کا مکلف بنایا جاتا ہے.کیا ذمہ داری ڈالی جاتی ہے.اور یہ بتایا کہ اس کے اوپر ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ کھول کر پہنچا دے، بلاغ.یعنی أَنَّهُ كَانَ مُكلفا یعنی رسول کو مکلف بنایا جاتا ہے بِالتَّبْلِيغِ کہ وہ تبلیغ کرے.فَلَمَّا بَلَغَ جب وہ اس ذمہ داری کو پورا کر دے اور کھول کھول کر ہر ایک کے سامنے صداقت کو بیان کر دے خَرَجَ عَنِ الْعُهْدَةِ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی، اس کے اوپر کوئی الزام نہیں آئے گا.وَ بَقِيَ الْأَمْرُ مِنْ جَانِبِكُمْ باقی رہ گیا تمہارا معاملہ، تمہارا امرتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَنَا عَالِمُ بِمَا تُبْدُونَ وبِمَا تَكْتُمُون تو تمہارے ظاہر و باطن کو میں جانتا ہوں.فَإِنْ خَالَفْتُمْ اگر تم جو صداقت آئی ہے اس کی مخالفت کرو زبان سے، دل سے، اپنے عمل سے ، فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ تو یہ نہ بھولنا آزادی تو ہے، کرو نہ کرو، یہ نہیں کہ نہیں کرنے دیں گے مگر یہ نہ بھولنا کہ خدا تعالی کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے.وَ اِنْ أطَعْتُم اگر تم نے صداقت کی جو باتیں سنیں ، جو پیار کے حصول کی راہیں تمہیں دکھائی گئیں ان پر تم چلے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو جان لو آن اللهَ غَفُورٌ رَّحِیم کہ خدا تعالیٰ غفور رحیم ہے.سورہ نحل میں ہے فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ الْمُبِينُ (النحل: ۸۳) اس سے پہلے مضمون
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۱ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان بنایا، سننے کے لئے اسے کان دیئے ،معجزات و نشانات کو دیکھنے کے لئے اسے آنکھیں دیں ، سوچ اور غور وفکر کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کو دل دیا اور آسمانوں سے اتنی ساری نعمتیں نازل کیں اور اس طرح اپنی عظمت کے نشان ظاہر کئے اور یہ سارا کچھ اس لئے کیا گیا تا کہ اے انسان! تو اس کا فرمانبردار بن جائے ، یہ پچھلا مضمون ہے.یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں فرمایا فان تولوا اگر کانوں کے ہوتے ہوئے ، اگر آنکھوں کے ہوتے ہوئے اور دل کے باوجود اور ان تمام بے شمار بے حد و حساب نعمتوں کی موجودگی میں بھی فان تولوا وہ اب بھی پھر جائیں (اس کے مخاطب بھی غیر مسلم ہیں ) تو اس کی وجہ سے اے نبی ! تجھ پر الزام نہیں آئے گا کیونکہ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ الْمُبِین تیرے ذمہ صرف کھول کر پہنچا دینا ہے، اس سے زیادہ اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے.سورہ نور میں ہے قُلْ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُيْلَ وَ b عَلَيْكُمْ مَا حِلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ ( النور : ۵۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.پس اگر وہ پھر جائیں تو اس رسول پر صرف اس کی ذمہ داری ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے (یعنی پہنچاؤ اپنی رسالت کو ) اور تم پر اس کی ذمہ داری ہے جو تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے کہ تم ایمان لاؤ، زبان سے اقرار کرو اور دل سے تصدیق اور اپنے اعمال سے ، اپنے جوارح سے اپنے ایمان پر مہر ثبت کرو.اگر تم اس کی اطاعت کرو اور حقیقی مسلمان بن جاؤ تو ہدایت پا جاؤ گے اور اس دنیا میں اور اُخروی زندگی میں کامیاب ہو گے اور رسول کے ذمہ جو بات لگائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ کھول کر تمہارے پاس پہنچا دے.رسول کی بحیثیت رسول یہ ذمہ داری ہے کھول کر تمہارے سامنے بیان کر دے.یہاں مخاطب جو ہیں وہ کمزور مسلمان اور منافق ہیں اور یہاں بھی فان تولوا میں فسق کی توتی بھی ہے اور اعلان ارتداد بھی آجاتا ہے.سورۂ عنکبوت میں ہے.وو ط دو وَ اِنْ تُكَذِبُوا فَقَد كَذَّبَ امَهُ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۲ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء (العنكبوت: ۱۹ ) اگر تم میری بات کو جھوٹا قرار دوتو یہ کوئی نئی بات نہیں.تم سے پہلی قوموں نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور رسول کا کام تو صرف کھول کھول کر پہنچانا ہوتا ہے زبر دستی منوانا نہیں ہوتا.اور سورہ شوری میں ہے.فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَاغُ (الشورى: ۴۹) اس سے پہلے یہ تھا اِسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُم جو تمہارے سامنے صداقت آئی ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا خدا کا کلام اور خدا کی شریعت کو ، اِسْتَجِيبُوا لِرَتِّكُم اور انہوں نے کہا یہ صداقت ہے اس پر ایمان لاؤ تو ایمان لاؤ کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا منشا ہے کہ تم ایمان لاؤ اور ترقی کرو اور اپنی حیات کا مقصد حاصل کرو.آگے فرماتا ہے.فَاِنْ اَعْرَضُوا ان کو کہا گیا تھا اِسْتَجِيبُوا قبول کرو، اگر وہ قبول نہ کریں بلکہ اعراض کریں فَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمُ حَفِيظا تو تجھے ہم نے نگران بنا کر نہیں بھیجا إِن عَلَيْكَ الا البلاغ تجھ پر صرف پہنچادینا فرض ہے، اس سے زیادہ کوئی فرض نہیں.پھر سورہ تغابن میں ہے.وَ أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّيْتُهُ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا البلغُ الْمُبِينُ ( التغابن : ۱۳) اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو لیکن اگر تم پھر جاؤ تو ہمارے رسول پر صرف کھول کر بات پہنچا دینا ہی فرض ہے.دو دو یہاں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ اسی سورۃ کی اور بہت سی آیات میں بھی بیان ہوا ہے.میں اسے مختصراً بیان کروں گا.پہلے کہا گیا فَا مِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ (التغابن: 9) حکم ہے بنی نوع انسان کو کہ اللہ پر اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ.اس کے بعد فرمایا.وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ (التغابن : ۱۰) جو شخص ایمان لے آئے تو اس کے متعلق بتایا کہ اس کو خدا تعالیٰ یہ جزا دے گا یعنی پیار کی جنتوں میں اسے داخل کرے گا.پہلے کہا ایمان لاؤ.پھر کہا جو ہماری بات مان کے ایمان لے آئیں گے ان کے ساتھ پیار کا یہ سلوک ہوگا.پھر کہا کہ وَالَّذِينَ كَفَرُوا (التَّغابن:١١) جو ایمان نہیں لائیں گے ان کو دوزخ میں بھیجا جائے گا، یہ سلوک ہوگا، ان کے ساتھ.پھر کہا وَ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَةُ (التغابن: ۱۲) کہ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کے دل کو خدا تعالیٰ ہدایت دیتا ہے، صحیح اور سچا ایمان، جو قلب سلیم کے اندر گھستا اور اس کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم برپا کرتا ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۳ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء یہ ہے اسلام کا مفہوم ( وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ) - پھر کہا وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ یہ جو عظیم نعمت کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی ہدایت سے پر ہو جائے یہ تبھی تمہیں حاصل ہو سکتی ہے کہ خدا کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، کامل طور پر خدا کے حضور جھک جاؤ ، اپنا سب کچھ اسے پیش کر دو، تو تم ان لوگوں میں سے ہو جاؤ گے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ہے يَهْدِ قَلْبَهُ ، تَوَلَّيْتُمْ.لیکن فان مومن یہاں مخاطب ہیں اور وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ کے بعد یہ کہا اگر تم پھر جاؤ ، منہ پھیر لو تو اس پھر جانے سے مراد نفاق وفسق کا پھر جانا بھی ہے اور ارتداد کا پھر جانا بھی ہے.بڑا واضح ہے یہ مفہوم یعنی چاہے تم عملاً اسلام کی راہوں کو چھوڑ دو، چاہے اعلان کرو کہ ہم اسلام کی راہوں کو چھوڑ رہے ہیں، ہر دو حالت میں تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے رسول پر نہ تمہاری بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ذمہ داری ہے اور نہ اس وجہ سے کوئی الزام ہے آپ پر.اور نہ تمہارے اسلام چھوڑنے کے نتیجہ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر یا آپ کے ماننے والوں پر کوئی الزام آتا ہے.فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلغ المدين جو فرض ہم نے اپنے رسول پر عائد و کیا ہے وہ صرف کھول کر ہماری بات کو بنی نوع انسان کے کانوں تک پہنچا دینا ہے.اور سب سے آخری آیت جو میں نے منتخب کی ہے آج کے لئے ، وہ سورہ رعد کی آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَ اِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَ عَلَيْنَا الْحِسَابُ (الرعد: ۴۱) اور جس عذاب کے بھیجنے کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں ( یہ پہلے اس کا ذکر آ رہا ہے ) اگر ہم اس کا کوئی حصہ تیرے سامنے بھیج کر تجھے دکھا دیں تو تو بھی ان کا انجام دیکھ لے گا، اور اگر ہم اس گھڑی سے پہلے تجھے وفات دے دیں تو تجھے مَا بَعْدَ الْمَوْت اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی کیونکہ تیرے ذمہ ہمارے حکم اور پیغام کا صرف پہنچا دینا ہے اور ان کا حساب لینا ہمارے ذمہ ہے.فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَ عَلَيْنَا الْحِسَابُ یہاں خدا تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ پہنچانامحمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے، حساب لینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہیں ، حساب لینا میرا کام ہے یعنی خدا کا کام ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس ماں نے ایسا بیٹا جنا ہے جو کہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء کہ میرا کام حساب لینا ہے، خدا کا کام حساب لینا نہیں ہے.اس کے متعلق تفسیر رازی میں ہے.کہتے ہیں کہ سَوَاءٌ أَرَيْنَاكَ ذَلِكَ أَوْ تَوَفَّيْنَاكَ قَبْلَ ظهوره که جوانذاری پیشگوئیاں ہیں وہ تیرے سامنے ظاہر ہو جائیں اور عذاب آجائے یا تیری وفات کے بعد ہوں پس ایک ہی بات ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.انذاری پیشگوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں کرتے اور نہ بشارت محمدصلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں یہ تو خدا تعالیٰ کا کام ہے.یہ ذمہ داری کہ کسی سچے مومن، مخلص، ایثار پیشہ کے حق میں بشارت دیں، یہ محد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہیں ہے ( یہ اچھی طرح سن لیں) اور یہ کہنا کہ جو انکار کر رہا ہے، جو مخالفت کر رہا ہے، جو شرک کر رہا ہے، جو فسق میں پھنسا ہوا ہے، جو خدا سے دور چلا گیا ، جس نے خدا کو ناراض کر لیا ، اس کو یہ عذاب پہنچے گا ، یہ انذاری پیشگوئی کرنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہیں.یہ کسی بھی بندہ کا کام نہیں ہے.یہ خدا کا کام ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے پیشگوئی کی ، ہم اپنے وقت پر پوری کر دیں گے، تیرے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں فالواجب عَلَيْكَ جس چیز کا تیرے ساتھ تعلق ہے اور تجھ پر ہم نے فرض کیا ہے وہ ہے تبلیغ احکامِ اللهِ تَعَالَى وَ آدَائُ أَمَانَتِهِ وَ رِسَالَتِهِ کہ خدا تعالیٰ کے احکام کو دنیا تک پہنچانا اور جو امانت خدا تعالیٰ نے تیرے سپرد کی ہے اور اپنی رسالت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت رسالت عظمیٰ ہے، آپ سب رسولوں سے افضل ہیں ) اس رسالت کا لوگوں تک پہنچانا، اس کی تبلیغ کرنا یہ آپ کا کام ہے.وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ اور حساب لینا ہمارا کام ہے.یہ ہے امام رازی کی تفسیر - روح البیان میں اس کو مزید کھول کر بیان کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ تبلیغ ، بلاغ پہنچانا جو ہے عَلَيْكَ الْبَلغُ أَنْ تَبْلِيخُ الرِّسَالَةِ وَ اَدَاءُ الْاِمَانَةِ لَا غَيْرَ کہ صرف یہ ہے کام.اس کے علاوہ اور کوئی فرض ہی نہیں رسول کا اور نہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رسالت کی جو امانت سپرد کی گئی ہے (امانت مختصراً آپ سمجھ لیں کہ قرآن کریم کی ساری شریعت جو ہمارے ہاتھ میں قرآن دیا گیا ، وہ امانت ہے ) اس کو پہنچانے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو فرض تھا یعنی قرآن کریم کو مکمل اور کامل شریعت بغیر ایک لفظ کی تبدیلی کے بنی نوع انسان کے ہاتھ میں دینے کا فرض وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۵ خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوبی سے انجام دیا ( بے شمار صلوات اور سلام ہوں آپ پر ) کہ قیامت تک اس کے اندر ہر قسم کی تبدیلی ، کمی اور بیشی کے دروازے بند کر دیئے.بڑی محفوظ کتاب ہے.خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ذریعہ بنایا خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا ، جس طرح اور بہت سے وعدوں کے پورا کرنے کا بنایا.آپ کا فرض تو تبلیغ رسالت اور ادآء الامانة ہے لَا غَیر اس کے علاوہ کوئی فرض نہیں آپ کے اوپر جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے.وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ اور یہ کہتے ہیں اس کے معنی ہیں ہمارے ذمہ ہے حساب کرنا ان کا آئی مَجَازَاتُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - قیامت کے دن ان کا مؤاخذہ کرنا اور ان کو ان کی بدیوں کی سزا دینا.حساب کے یہاں یہ معنی ہیں.عَلَيْنَا الْحِسَابُ خدا کہتا ہے کہ حساب لینا ہمارے ذمہ ہے.یعنی قیامت کے روز ان کی بدیوں کی سیئات کی سزا دینا لا عليك یہ تیرا کام نہیں ہے ان کی بدیوں کی سزا دینا.اس واسطے فَلا يُهِنَّكَ اِغْرَاضُهُمْ اور اگر اعراض کرے کوئی تو اس کا کوئی خیال نہ کرو کہ یہ میری ذمہ داری تھی.یہ کیا ہو گیا کہ یہ تو مان نہیں رہے.تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں منوانا.وَلَا تَسْتَعْجِلُ بِعَذَابِهِمْ اور عذاب دینا جو ہمارا کام ہے اس میں بھی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں.اپنی حکمت کا ملہ سے جب وقت آئے گا ہم دے دیں گے اور روح البیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ "التَّاوِيْلاتُ النَّجْمِيَّةُ “ میں ہے کہ حساب کے معنی صرف سزا نہیں بلکہ جزا وسزا ہے فِي الرَّةِ وَ الْقُبُولِ روح المعانی میں ہے.یہ کہتے ہیں."إِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ أَى تَبْلِيغُ اَحْكَامِ مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ وَمَا تَضَيِّنَهُ مِنَ الْوَعْدِ وَالْوَعِيدِ...وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ...إِنَّمَا عَلَيْنَا مُحَاسَبَةُ أَعْمَالِهِمْ السَّيِّئَةِ وَالْمُؤَاخَذَةُ بِهَا دُونَ جَبْرِهِمْ عَلَى اتِّبَاعِكَ اَوْ انْزَالِ مَا اقْتَرَحُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ، یہ کہتے ہیں إِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ کے معنے ہیں کہ جو احکام ہم نے تجھ پر نازل کئے ہیں ان کو دنیا کے انسانوں تک پہنچانا جس کے معنے ہیں کہ جو ان کو مان لیں ان کے لئے بشارتیں بھی دی ہوئی ہیں قرآن کریم میں.ان بشارتوں کا پہنچانا اور قرآن کریم کی شریعت میں جو انذاری
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۶ خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء پیشگوئیاں ہیں ، وعید ہیں ، ان کا بھی کھول کر بیان کر دینا.اگر تم نہیں مانو گے تو انگریزی میں کہتے ہیں Face کرنی پڑیں گی.یہ باتیں تمہارے سامنے آئیں گی، پھر اور اس کے تم ذمہ دار ہو گے دکھ اٹھانے کے.وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ اس کے معنے ہیں إِنَّمَا عَلَيْنَا مُحَاسَبَةُ أَعْمَالِهِمْ السَّيِّئَةِ کہ ان کے بداعمال کا محاسبہ کرنا ہمارے ذمہ ہے.اسی طرح ہمارے ذمہ ہے الْمُؤَاخَذَةُ بِهَا کہ اس کی سزا ان کو دیں.محاسبہ کریں اور سزا دیں، یہ دو مفہوم بیان کئے اس تفسیر والے نے ، یہ ہمارا کام ہے دُونَ جَبْرِهِمْ عَلَى اِتِّبَاعِكَ اور ہم نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان پر جبر نہیں کریں گے کہ وہ تیری اتباع کریں یعنی وَ عَلَيْنَا الْحِسَابُ میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی جبر نہیں کرے گا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم رسول کی اتباع کریں.جبر نہیں کرے گا.جبر کے بعد تو جزا وسزا کا سوال ہی نہیں رہتا.یہ جو ہے جبر یہ جزا وسزا کی نفی ہے.پھر نہ جزا ہے نہ سزا ہے.نہ پرند کوملتی ہے کوئی جزا نہ سزا ، نہ کتوں کو ، نہ اونٹ کو، نہ گھوڑے کو ، نہ کسی اور چیز کو، نہ پتھروں کو ، نہ ہیروں کو ، نہ جواہرات کو.یہ تو جہاں آزادی ضمیر اور مذہبی آزادی ہے وہاں سوال پیدا ہوتا ہے عقلاً کہ انسان خود اپنی مرضی سے جو کام کرتا ہے جس کے متعلق خدا کا رسول کہتا ہے کہ خدا کی نگاہ میں اچھا ہے تو اگر خدا کی نگاہ میں اچھا ہے تو خدا مجھے کیا صلہ دے گا، یا اگر خدا کی نگاہ میں بُرا ہے تو مجھے کس قسم کی عقوبت سے ڈرنا چاہیے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی ان پر جبر نہیں کروں گا کہ تیرے اوپر ایمان لائیں.ہاں محاسبہ کروں گا اور مؤاخذہ کروں گا.نیز میں یہ بھی نہیں کروں گا ( انْزَالِ مَا اقْتَرَحُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ ) کہ جو اقتراحی معجزات تجھ سے مانگتے ہیں وہ میں تجھے دے دوں.خدا تو خدا ہے.وہ لوگوں کے کہنے پر نہ معجزہ دکھاتا ہے نہ لوگوں پر جبر کرنے کا اس نے دستور بنایا ہے.یہ جو منصوبہ ہے بنی نوع انسان کی پیدائش اور خلق کا ، اس منصوبہ کی بنیادی حقیقت آزادی ضمیر اور مذہبی آزادی ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا که وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : ۵۷ ) کہ میں نے انسان کو اس لئے بنایا کہ وہ اپنی کوشش سے میری صفات کا رنگ اپنی صفات میں بھرے.میرا عبد بنے.اگر اس قسم کی مخلوق کو عبد کہا جائے جیسے مثلاً فرشتے ہیں.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: ۵۱) که خدا جو حکم
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۷ خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۷۹ء دیتا ہے وہ کرتے ہیں تو یہ اس آیت کے مفہوم کے خلاف ہے.یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہر حکم جو خدا کی طرف سے انہیں ملتا ہے اس پر وہ عمل کرتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہر حکم پر عمل بجالانے کے نتیجہ میں ان کو ایک ذرہ بھر بھی انعام نہیں ملتا.اطاعت ان کی فطرت میں ہے.کس چیز کا انعام یا کس چیز کی سزا ؟ جزا اور سزا کا مفہوم ہی ایک کامل اور مکمل مذہبی آزادی اور آزائی ضمیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس کو کھول کھول کر اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں.ایک خطبہ میں نے ۲۹؍ دسمبر کو دیا تھا.اس میں دوسری آیات تھیں.ایک آج دیا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم میں اس کے علاوہ اور آیات نہیں جن میں یہ مضمون بیان ہوا ہو.قرآن کریم نے تو کہا ہے نُصَرِّفُ الآیتِ (الانعام : ۲۶) ہم مضمون پھیر پھیر کے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے رکھتے ہیں تا کہ تمہیں سمجھ آجائے ، عقل سے کام لینے کے قابل ہو جاؤ.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دونوں خطبے مل کر کافی وضاحت کر دیں گے ایک عقلمند کے لئے کہ اسلامی تعلیم ہے کیا ؟ یہ تعلیم ہے جس کے حسن نے عرب کے دل کو جیتا تھا وہ جو تیرہ سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو انتہائی ظلم کا نشانہ بنانے والے تھے ، ان کو جیتا.جبر نے جیتا تھا؟ کیا لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ اليَوْم کسی جبر کا اعلان تھا؟ یا پیار کا اور آزادی کا اعلان تھا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہا کہ لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ میں تمہیں معاف کرتا ہوں.میرا کیا تعلق تمہارے ساتھ.تمہیں خدا جزا دیتا ہے یا سزا دیتا ہے یہ اس کا کام ہے.میں تم سے کوئی بدلہ نہیں لوں گا.اتنی تکلیفیں اٹھا ئیں خود، ماننے والوں نے تکلیفیں اٹھا ئیں سارا کچھ وہاں چھوڑ دیا.تو عجیب قوم تھی جن کے دل جیت لئے گئے تھے.مکہ فتح ہو گیا.ساری جائیدادیں اپنی جن کو چھوڑ کے گئے تھے اس طرح تھیں ان کی مٹھی میں.مگر ایک اینٹ کا بھی کلیم (Claim ) نہیں کیا اور اسی طرح واپس چلے گئے ، مہاجر.تو جبر سے نہیں ہوا کرتیں یہ باتیں.نہ جبر اسلام میں جائز ہے.قرآن کریم کھول کھول کے اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ اس حسین تعلیم میں کسی انسان پر خدا تعالیٰ کی راہوں کو اختیار کرنے ، نہ کرنے پر کوئی جبر نہیں ہے.جو شخص ان راہوں کو اختیار کرے گا جن راہوں پر اسے
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸ خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۷۹ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم نظر آئیں گے وہ وہیں پہنچے گا.جہاں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پہنچے یعنی اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کی گود میں.اور جو شخص ان راہوں سے منہ پھیر لے گا اور شیطانی راہوں کو اختیار کرے گا جن سے خدا نے روکا ہے تو پھر نہ میرا کام ہے کہ اس پر گرفت کروں نہ کسی اور کا کام ہے نہ جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے یہ فریضہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کیا گیا.خدا نے کہا یہ میرا کام ہے میں جو چاہوں گا کروں گا.جو تمہارا کام ہے وہ تم کرتے چلے جاؤ.خدا تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ جو ہمارا کام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہونے کی حیثیت سے اس زمانہ میں پیدا ہو کر ساری دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لینے کا ہے ہم اس کام کو تو جہ اور محنت اور بشاشت اور پیار اور محبت سے کرنے والے بنیں تا کہ جو ہمارا فرض ہے جب وہ ہم پورا کر لیں اس رنگ میں کہ خدا بھی سمجھے کہ ہم نے پورا کر لیا تو خدا تعالیٰ کے عظیم انعامات اور برکات کے ہم وارث بنیں گے.روزنامه الفضل ربوہ ۷ رفروری ۱۹۷۹ ء صفحه ۹ تا ۱۸) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۹ خطبہ جمعہ ۱۹ جنوری ۱۹۷۹ء صفات الہیہ کی کامل مظہریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ جنوری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں اور ان کا ترجمہ سنایا:.لقَد جَاءَكُمْ رَسُولُ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ - فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ـ (التوبة: ۱۲۹،۱۲۸) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے.تمہارا تکلیف میں پڑنا اسے شاق گذرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور بہت کرم کرنے والا ہے.پس اگر وہ پھر جائیں تو تو کہہ دے کہ اللہ میرے لئے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہ عرشِ عظیم کا رب ہے.پھر حضور انور نے فرمایا:.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء جو بنی نوع انسان کی طرف بھیجے گئے ہیں وہ خاندانی لحاظ سے بھی اور اپنے خُلق کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۰ خطبہ جمعہ ۱۹ جنوری ۱۹۷۹ء لحاظ سے بھی ہر دو جہان کے لئے رحمت ہیں.ہر دو جہان کے لئے اس طرح کہ دوسرے جہان کی تمام نعماء کا تعلق پہلے جہان کے مقبول اعمال سے ہے.پس آپ پہلے جہان کے لئے اور دوسرے جہان کو مد نظر رکھتے ہوئے رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ ہیں اور آپ صفت رحمن کے مظہر ہیں جس کی طرف ان دو آیات میں سے پہلی آیت کے دو لفظ عَزِیز اور حریص اشارہ کر رہے ہیں اور مومنوں کے لئے آپ رحیم ہیں.پس ایک عظیم شخصیت، ایک عظیم رسول ، ایک عظیم صاحب اخلاق، صاحب خُلق عظیم، ایک عظیم انسان ، اور انسانوں سے عظیم محبت کرنے والا تمہاری طرف آیا ہے.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم وہ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتا.مخلوق کی تکلیف اسے سخت گراں گذرتی ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ اے انسا نو ! تمہیں بڑے بڑے منافع پہنچیں.حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ عظیم رسول ، خاتم الانبیاء، جوتعلیم لے کر آیا ہے وہ مخلوق کے ہر حصہ کے لئے رحمت ہے.وہ عالمین کے لئے رحمت ہے.وہ رحمت ہے اشجار کے لئے بھی اور پتھروں کے لئے بھی اور پانی کے لئے بھی اور معدنیات کے لئے بھی اور حیوانات کے لئے بھی وغیرہ وغیرہ.انسان کے علاوہ جو بھی مخلوق ہمیں اس دنیا میں نظر آتی ہے ان کے حقوق بھی اسلامی تعلیم نے بتائے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی ہے.اسلام نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہر چیز کا کیا حق ہے اور حکم دیا ہے کہ وہ اسے ملنا چاہیے.اصولی طور پر یہ بتایا کہ ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے کسی چیز کو بھی ضائع نہیں کرنا یہاں تک کہ کھانے کے ایک لقمے کو بھی ضائع کرنے کی اجازت نہیں.یہ بڑی حسین تعلیم ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی رکابی میں اتنا ہی ڈالو جتنا تم کھا سکو.اس کے برعکس شیطانی وساوس انسان کو دوسری انتہا تک لے گئے.چنانچہ میں نے بعض جگہ پڑھا ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ جو ان کی رکابیوں میں بچ جاتا ہے وہ دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو سیر کرنے والا اور کفایت کرنے والا ہے یعنی وہ اتنا ضیاع بھی کرتے ہیں اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں.مگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی ہے.اس کی فلاح اور بہبود کے لئے پیدا کی ہے، اسے نفع
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۱ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۹ء پہنچانے کے لئے پیدا کی ہے، اس لئے کوئی چیز بھی اور کسی چیز کا کوئی ذرہ بھی ضائع نہیں کرنا.مثلاً اسلام نے حلال پرندوں کا شکار کرنے کی اور ان کی جان لینے کی اجازت دی ہے لیکن کہا کہ جتنی ضرورت ہو اتنا شکار کرو یہ نہیں کہ ضرورت دس کی ہے لیکن سو مارو اور نوے پھینک دو اور دس کو استعمال کرو.اگر کوئی ایسا شخص ہے جو سو مارتا ہے اور دس گھر میں استعمال کرتا ہے اور نوے اپنے دوستوں واقفوں اور ہمسایوں وغیرہ میں تقسیم کر دیتا ہے تو وہ ضرورتِ انسانی کو پورا کرتا ہے لیکن اسلامی تعلیم نے کسی چیز کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی.یہ صفت رحمانیت کی مظہر ہے جو ہمیں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے.پھر حیوان ہیں جو انسان کی خدمت کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.حیوانات میں سے بعض ایسے ہیں جو زندہ رہ کر انسان کی خدمت کرتے ہیں ان کو مارنے کی اجازت نہیں اور بعض حیوانات ایسے ہیں جن کو مار کر انسان کی خدمت لی جاتی ہے.مثلاً وہ کھانے کے کام آتے ہیں یا مثلاً ادویہ میں کام آتے ہیں یا بعض اور کاموں میں انسان حیوانوں کو استعمال کرتا ہے.اس صورت میں ان کی جان لینے کی اجازت ہے.پس بوقت ضرورت انسانی خدمت کے لئے جان لینے کی اجازت ہے لیکن اس جانور کے متعلق بھی کہ جسے ذبح کر کے کھانے کی اجازت ہے یہ اجازت نہیں کہ اسے دکھ دیا جائے اور تکلیف پہنچائی جائے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم حیوانات کے لئے بھی رحمت ہیں.اس لئے کہ جس غرض کے لئے ان کے رب نے انہیں پیدا کیا اُس غرض کو پورا کرنے کی تعلیم دی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے انہیں ضیاع سے بچایا اور تکلیف اور دکھ سے بچا یا لیکن انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی اجازت دی.اور آپ انسانوں کے لئے بھی رحمت ہیں جیسا کہ فرما یا عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ اس پر سخت گراں گذرتا ہے کہ انسان کو تکلیف پہنچے.اسلامی تعلیم نے ہر انسان کو خواہ وہ بت پرست ہی کیوں نہ ہو تکلیف سے بچانے کی ہدایت دی ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ لَا تَسُبُوا الذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ الله (الانعام : ۱۰۹) کہ جو لوگ خدا کے شریک بناتے ہیں ان کے شرکاء کو بھی (باوجود اس
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۹ء کے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے ) گالیاں مت دو کیونکہ اس طرح بت پرستوں کے جذبات کو ٹھیس لگے گی اور انہیں تکلیف پہنچے گی.بت میں تو کوئی جذ بہ نہیں ہے کہ اگر اسے گالی دی جائے تو اسے تکلیف پہنچے.انسان کو تکلیف سے بچانے کے لئے ، کافر کو اور مشرک کو تکلیف سے بچانے کے لئے گالی دینے سے منع کیا.حالانکہ شرک ایک انتہائی گناہ ہے اور اس کے متعلق اعلان کیا گیا کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے لیکن خدا کہتا ہے کہ شرک کے گناہگا رکو بھی اس دنیا میں عذاب دینا یا آخرت میں جہنم میں پھینکنا میرا کام ہے.تمہیں یہی ہدایت ہے کہ تم نے کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی کیونکہ تم اس عظیم انسان کی طرف منسوب ہوتے ہو جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمینَ بنا کر دنیا کی طرف بھیجا گیا.اور فرمایا کہ وہ عظیم انسان جیسا کہ انسانوں میں سے غیر مومنوں کے لئے مشفق اور ہمدرد ہے وہ مومنوں کے لئے مشفق اور ہمدرد ہونے کے علاوہ ان سے محبت اور پیار کرنے والا اور ان پر کرم کرنے والا ہے یعنی جہاں تک مومن کا سوال ہے وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا مظہر ہے اور جہاں تک انسانوں میں سے کافر کا سوال ہے، اہل کفر کا سوال ہے خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں یا عملاً اسلام سے باہر ہوں اور فاسق فاجر ہوں ان کے لئے وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا مظہر کامل ہے.آپ نے ان کی ہدایت کے لئے کوشش کی.ان کے لئے تڑپے، ان کے لئے دعائیں کیں اور ان کے لئے بخع کی حالت پیدا ہوگئی.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ تو ان کی خاطر اپنی جان کو ہلاک کر دے گا.آپ نے ان سے دشمنی نہیں کی اور ہمیں بھی ان سے دشمنی کرنے سے منع کیا اور ان سے شفقت اور ہمدردی اور خدمت کا سلوک کرنے کی تعلیم دی.یہ ہمدردی یہ شفقت اور یہ خدمت کی تعلیم مومن کے لئے بھی ہے اور کافر کے لئے بھی لیکن مومن کے لئے اس کے علاوہ اور اس سے بڑھ کر محبت کی تعلیم دی اور اخوت کی تعلیم دی اور ان کی طبائع کو اور ان کی عادات کو بدل کر ان کو ایک برادری اور ایک بنیان مرصوصی کی طرح بنا دیا.پس وہ رحیم ہے.بڑے عظیم ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ہر انسان کا کام نہیں کہ وہ آپ کی عظمت کو پوری طرح سمجھ بھی سکے اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جوتعلیم اور شریعت لے کر آئے وہ بھی ایک کامل تعلیم اور شریعت ہے اور وہ کامل ہدایت ہے.اس کامل تعلیم کا انکار کرنے والوں کے متعلق
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۳ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۹ء اگلی آیت میں کہا فان تولوا کہ اگر کوئی تمہاری عظمت کو نہ پہنچانے اور اس تعلیم اور شریعت اور ہدایت سے پھر جائے ، منہ موڑ لے، پیٹھ پھیر لے تو اس کا تم پر رد عمل یہ ہے کہ قُلْ حسبی الله کہو کہ میں مُسَيْطِر نہیں ہوں کہ تمہیں زبر دستی ایمان لانے پر مجبور کروں خواہ تمہارے دل میں ایمان نہ ہو اور نہ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں تمہیں اس دنیا میں کوئی سزا یا عذاب دوں.اس دنیا کے عذاب کے متعلق انذاری پیشگوئیاں میری وساطت سے تم تک پہنچی ہیں لیکن ان پیشگوئیوں کو پورا کرنا اس رنگ میں جس رنگ میں کہ یہ پوری ہوں گی یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آپ قیامت تک کے نوع انسان کی خدمت کرنے والے اور حیوانوں کی خدمت کرنے والے اور دوسری مخلوقات کی خدمت کرنے والے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ اعلان کر دو کہ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور میرا تم پر کوئی احسان نہیں.میں تمہارے لئے تو یہ کام نہیں کر رہا میں تو اپنے خدا کے پیار کے حصول کے لئے یہ کام کر رہا ہوں.پس یہ اعلان کرو کہ حسبی اللہ اللہ میرے لئے کافی ہے.کسی اور سے اجر کی یا بدلے کی مجھے ضرورت نہیں.نہ خواہش ہے اور نہ میں لینا چاہتا ہوں لا الهَ الا ھو ایک واحد یگانہ ہے جس کے امر سے اور اس کے عشق میں مست ، بنی نوع انسان کی اور دوسری مخلوقات کی خدمت پر لگا ہوں عَلَیهِ تَوَكَّلْتُ.اسی خدائے واحد ویگانہ پر میرا تو گل ہے.وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ اور وہ مالک کو نین ہے.رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ کے ایک معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دو جہان کے مالک کے بھی کئے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر دو جہان سے اپنے تقدس اور اپنی بزرگی کے لحاظ سے اس بلند مقام پر ہے کہ جہاں سے ہر دو جہان اس کی نظر کے نیچے ہیں اور وہ عَلامُ الْغُيُوبِ ہے، کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے پس وہ ہستی جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اس پر میرا تو گل ہے وہ جو مالک ہے اور قادر ہے اور پیار کرنے والا ہے اور اتنی نعماء دینے والا کہ جن کا کوئی شمار نہیں.اس پر میرا تو گل ہے حسبى الله وه خدا میرے لئے کافی ہے.مجھے تمہاری ضرورت نہیں.تمہارے ساتھ میراتعلق شفقت کا ہے، تمہارے ساتھ میرا تعلق اس پریشانی کا ہے کہ تم گناہ میں ملوث ہوکر خدا تعالیٰ سے دور کیوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۴ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۹ء جار ہے ہو اور اس کے غضب کو کیوں بلا رہے ہو.اس کے غضب کو کیوں دعوت دے رہے ہو.اگر تم انسان کے علاوہ دوسری مخلوق ہو تو تمہارے ساتھ میرا تعلق یہ ہے کہ جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس غرض کے لئے تمہارا استعمال ہو اور اگر انسان ہو تو تمہارے ساتھ میرا تعلق یہ ہے کہ میں تمہیں اس خدائے واحد و یگانہ کی طرف دعوت دوں کہ جو ہر انسان کے لئے وہی اکیلا کافی ہے اور اگر مومن ہو تو تمہارے ساتھ میرا تعلق مبشر ہونے کے لحاظ سے عظیم بشارتیں تم تک پہنچانے کا ہے اور تم سے محبت کرنے کا ہے اور تم پر کرم کرنے کا ہے لیکن تم پر توکل کرنے کا میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.خدا میرے لئے کافی ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی پر میرا تو گل ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں نہ کسی اور نے پیدا کیا اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ وہ انسان کی قوتوں اور استعدادوں کو سمجھ سکے اور ان کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، اسے پیدا کر سکے یا مہیا کر سکے اور خدا کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اسی پر توکل کرتے ہوئے میں اس کی طرف جھکتا ہوں اور اسی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان وعدوں کے مطابق اور ان بشارتوں کے مطابق سلوک کرے گا جو مجھ سے کی گئی ہیں.چنانچہ آپ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انسانوں سے جو سلوک کروایا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی بعثت سے لے کر قیامت تک ایسے گروہ پیدا ہو گئے کہ جو علی وجہ البصیرت یا عادتاً حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے آپ کے احسانات کا علی وجہ البصیرت یا لوگوں سے سن کر شکر ادا کرنے والے ہیں اور دعائیں کرنے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر اور احسن سے احسن رحمتیں اور برکات اور فضل زیادہ سے زیادہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرے اور یہی درود کے معنی ہیں.پس قیامت تک درود بھیجنے والے گروہ پیدا ہو گئے.میں نے آپ کو بھی کہا تھا کہ روزانہ اتنی بار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کرو.کئی دفعہ میں سوچتا ہوں کہ اگر ساری جماعت میرے حکم پر عمل کرے تو صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے روزانہ اربوں درود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ رہے ہوں.یہ ہے اس تو گل کا نتیجہ اور اس اعلان کا کہ حسبی الله خدا میرے لئے کافی ہے.چنانچہ اس نے یہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۹ء سامان پیدا کر دیئے اور مرنے کے بعد جو نعمتیں انسان کو ملتی ہیں ، جن میں سے سب سے بڑا حصہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.وہ تو اتنی اعلیٰ، اتنی بلند اور اتنی ارفع اور اتنی لذیذ ہیں کہ انسان ان کا اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن لذیذ اس محدود معنی میں نہیں جس معنی میں ہم اس دنیا میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں بلکہ اس معنی میں کہ جسے ہم سمجھ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہی کہا گیا ہے کہ جنت کی نعماء کو تم سمجھ نہیں سکتے.تمہارے یہ دنیوی حواس ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.پس وہاں تو وہاں کے مطابق خدا تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سلوک کرے گا.لیکن اس میں ہمیں بھی ایک سبق دیا گیا ہے.ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر عمل کرو.ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر صفات باری بن کر عزیز اور حریص اور رءوف اور رحیم کی صفات کا اظہار کیا تم بھی ان صفات کا رنگ اپنی صفات پر چڑھاؤ اور دنیا میں یہ اعلان کرو کہ ہم دنیا کے خادم تو ہیں مگر دنیا کے مزدور نہیں.ہم نے دنیا سے اجرت نہیں لینی.ہم نے جو لینا ہے اس عزیز ہونے اور حریص ہونے اور رءوف ہونے اور رحیم ہونے کے نتیجہ میں وہ اپنے رب سے لینا ہے اور جہاں تک ہمارا اپنے رب سے تعلق ہے.اللہ ہمارے لئے کافی ہے.لا الہ الا ھو اور اسی پر ہمارا تو گل ہے اور ہم علی وجہ البصیرت یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا رب رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفات کی صحیح معرفت عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اور آپ کی عظمت اور رفعت کو سمجھنے کی تو فیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم ان راہوں پر چلیں جن راہوں پر چل کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ کے پیار کو حاصل کیا.(روز نامه الفضل ربوه ۱۹ را پریل ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۷ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء بے شمار برکات کی حامل عظیم کتاب قرآن کریم خطبه جمعه فرموده ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمانوں اور زمین اور ان کی ہر چیز پر غور کرتے اور ان کی صفات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ ساری کائنات ہر چیز اور اس کائنات کی ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط ہے.بندھی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر نے اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین نے سارے جہانوں کو بشمولیت انسان ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کا ربط پیدا کر دیا.یہ دنیا جو ہے.یہ کائنات جو ہے اس کی ہر چیز میں خدا تعالیٰ کی صفات کے بے شمار جلوے ظاہر ہوئے اور اس کے نتیجہ میں ہر چیز کی صفات غیر محدود اور بے شمار بے حد و بست ہیں اور جو چیزیں خدا تعالیٰ نے پیدا کیں ان کا شمار کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں اور انسان کو یہ کہا کہ یہ بے شمار چیزیں جن کا احاطہ ہمارا ذہن بھی نہیں کر سکتا ایک وقت میں یہ تمہاری خادم بنا کر پیدا کی گئی ہیں.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ہر چیز انسان کی خادم بنائی گئی اور انسان کو اس کائنات کی ہر چیز
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء سے خدمت لینے کی صلاحیت اور طاقت دی گئی.اگر یہ طاقت نہ ہوتی انسان کے اندر تو یہ اعلان کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) کہ بلا استثنا ہر دو جہان کی ہر چیز انسان کے لئے انسان کی خدمت کے لئے بنائی گئی ہے بے معنی ہو جاتی لیکن انسانی زندگی ، نوع انسان کی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کو اتنی زبر دست اتنی وسیع طاقتیں دی گئی ہیں کہ ساری دنیا کی چیزوں کو اپنے احاطہ علم میں لانا اُس کے لئے ممکن ہو گیا اور ان سے خدمت لینا اُس کے لئے ممکن ہو گیا لیکن چونکہ بے شمار صفات ایک ایک چیز میں ، اس کائنات کی ایک ایک چیز میں ہیں اور یہ اشیاء بھی انفرادی طور پر بے شمار ہیں اس لئے انسانی ارتقائی زندگی میں ، نوع انسان کی جو زندگی ہے اُس میں کوئی ایسا مقام نہیں آسکتا کہ انسان یہ کہے کہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا اس کا پورے کا پورا علم مجھے حاصل ہو گیا.نہ انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ نے مجھے طاقتیں دی تھیں اُن سب کا میں نے استعمال کر لیا.انسانی طاقتوں کا بھی تدریجی استعمال ہورہا ہے اور جن اشیاء سے اور جن اشیاء کی جن صفات اور خواص سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے ان کا استعمال بھی آہستہ آہستہ انسان کر رہا ہے اور وہ علوم جو ہیں وہ آہستہ آہستہ انسان کے سامنے آرہے ہیں.یہ چھپی ہوئی چیز میں ہر روز ایک رنگ میں ، دوسرے رنگ میں ، تیسرے رنگ میں، چوتھے رنگ میں انسان کے سامنے آرہی ہیں.انسان کی اپنی طاقتیں بھی انسان کے سامنے اسی طرح بتدریج آرہی ہیں.بڑے بڑے دماغ دنیوی لحاظ سے ایک وقت میں ایک بات کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا کا قانون اس شکل میں کام نہیں کر رہا.ابھی پچھلے سال یا اس سے پچھلے سال ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہمارے فریسیسٹ (Physicist) جو ہیں انہوں نے ایک اصولی طور پر تھیوریٹیکل ایک فارمولا بنایا کہ اس فزکس کے میدان میں یہ حقیقت ہے اور اس کے متعلق ایک بہت بڑا سائنسدان اس سے پہلے کہہ چکا تھا کہ میں نے بڑی کوشش کی اور بڑا غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ حقیقت نہیں ہے لیکن وہ حقیقت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے سامنے آگئی لیکن اس مادی دنیا میں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اس میں محض تھیوریز ، اصول تو نہیں چلتے.جب تک لیبارٹریز میں وہ اصول صحیح ثابت نہ ہوں.چنانچہ وہ اس قسم کا اہم مسئلہ ہے فزکس کا کہ دنیا میں سب سے بڑی جو لیبارٹری اس کا ٹیسٹ کرنے کے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۹ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء لئے.اس وقت آگے اور بن رہی ہیں اس سے بھی بڑی لیکن اس وقت جو سب سے بڑی لیبارٹری ہے وہ امریکہ میں ہے اور انہوں نے کئی سال کے تجربوں کے بعد پچھلے سال جب میں لندن میں تھا تو اس وقت انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے تجربہ کیا ہے اور ڈاکٹر سلام نے جو تھیوری پیش کی ہے دنیا کے سامنے وہ درست ہے.ہماری لیبارٹری ٹیسٹ نے اس کو صحیح ثابت کیا ہے حالانکہ اس سے پہلے چوٹی کے سائنسدان اسے غلط قرار دے چکے تھے.یہ میں مثال اس لئے دے رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے انسان کے احاطۂ علم میں نہیں آسکتے.خود انسان کی طاقتیں بھی اس کے علم میں نہیں آسکتیں.یہ مثال دونوں کو ثابت کرتی ہے یعنی نیوٹن کے وقت انسان کے علم میں یہ نہیں تھا کہ اس بات کو صحیح ثابت کر سکے لیکن بعد میں جو خدا تعالیٰ نے انسان کو طاقتیں عطا کی ہیں انہوں نے ثابت کیا وہ بعد میں پتہ لگا اور جب تک انسان اس کرہ ارض پر ہے اور میں اس وقت اس کرہ ارض کی بات کر رہا ہوں اس وقت تک انسان کا علم بڑھتا چلا جائے گا.کائنات کا علم انسان زیادہ حاصل کرتا چلا جائے گا اپنی طاقتوں کا علم بھی زیادہ حاصل کرتا چلا جائے گا کیونکہ ہر نئی دریافت انسان کے سامنے دو حقائق پیش کرتی ہے.ایک یہ کہ کائنات کی یہ حقیقت ہے اور دوسرے یہ کہ انسان کو یہ طاقت عطا کی گئی تھی کہ اس حقیقت کو معلوم کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے.یہ اتنا بڑا نظام جو ہے کہ بے شمار چیزیں ہر چیز میں بے شمار خواص.انسان کو یہ طاقت کہ ہر چیز کے بے شمار خواص میں سے اپنے اپنے وقت میں حصہ لیتا چلا جائے دنیا سے واقفیت بھی اس کی زیادہ ہو، اپنے نفس سے بھی اس کی واقفیت زیادہ ہوتی چلی جائے.یہ صرف اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ کھاؤ پیو اور مرجاؤ اور اس زندگی کے بعد دنیوی زندگی نہیں بلکہ یہ نظام تو خود اس کی وسعت اور اس کی Grandeur جو ہے اور اس کی شان اور عظمت جو ہے خدا تعالیٰ نے جو نظام قائم کیا ہے کہ ایک طرف ساری دنیا کو اور دوسری طرف انسان کو دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیدا کیا یہ بتاتا ہے کہ محض چند سالہ زندگی جو صرف کھانے پینے اور عیش کرنے پر مشتمل ہو اس غرض کے لئے اتنا بڑا منصوبہ جو ہے وہ خدا تعالیٰ نہیں بنا سکتا.اس لئے خود ہماری عقل علاوہ آسمانی ہدایت
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۰ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء کے خود ہماری عقل ہمیں کہتی ہے کہ ہم پھر اس سے آگے چلیں اور سوچیں کہ یہ اتنا بڑا نظام جو بنایا گیا انسان کے فائدہ کے لئے اور انسان کو جو اتنی طاقتیں عطا کی گئیں کہ وہ ان سے فائدہ حاصل کرے.اس کا مقصد کیا تھا ؟ تو اس کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنی ذہنی طاقتوں سے دنیا کا علم اور پھر اس سے فائدہ حاصل کر کے اپنی اخلاقی زندگی میں ایک جلا اور ایک روشنی پیدا کرے اور اپنے حسن اخلاق کے جلوے ایک دوسرے پر ظاہر کرے اور اپنے ذہن کو اخلاق کی حاکمیت کے نیچے رکھے اور یہ اس لئے تھا کہ جو اخلاق کا حصہ ہے انسانی زندگی میں اس انسانی زندگی کے حصے کو اپنی روحانیت کے نیچے رکھے کہ وہی آخری مقصود ہے انسان کی زندگی کا.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: ۵۷) اور جو روحانی زندگی ہے جس طرح نہ ختم ہونے والے جو علوم ہر دو جہان میں پائے جاتے ہیں یعنی ہر چیز کی صفات اتنی ہیں کہ انسانی علم اور انسانی تحقیق ان کو اپنے احاطہ میں لے کر آخری صفت تک نہیں پہنچ سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نفس کے ایک دانے میں بھی اتنی صفات ہیں کہ جب تک انسان اس پر ریسرچ کرتا چلا جائے اس کے اندر تحقیق کرتا چلا جائے وہ خواص ختم نہیں ہوں گے ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اس طرح نکلتے چلے جائیں گے اور یہ حقیقت ہے.ہمارا مشاہدہ تحقیق کی سائنس کی دنیا میں یہی ہے کہ کسی چیز کے خواص جو ہیں وہ ختم نہیں ہوتے.کچھ عرصہ نئی ایجاد ہوتی ہیں پھر جس طرح جانور جگالی کرتے ہیں کھانا چبانے کی اسی طرح انسان کی عقل جو ہے اسے ہضم کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک وقت اس میدان میں خاموش رہتا اور آگے نہیں بڑھتا، کھڑا رہتا ہے.پھر اس کے بعد ایک اگلی نسل اگلے قدم اٹھاتی ہے پھر اس سے اگلی نسل جیسے بھی حالات ہوں اسی میدان میں پھر وہ آگے بڑھتا ہے.پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کہا گیا تھا کہ ہم نے اس میدان میں جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کر لیا اور کچھ نہیں کر سکے وہ غلط ہے.ہزار ہا مثالیں اس کی سائنس کی دنیا سے پیش کی جاسکتی ہیں.روحانی ہے اب جس طرح مادی دنیا جس کو ہم کائنات کہتے ہیں آسمان و زمین ، ہر دو جہان
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۱ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء اُن کی اشیاء اپنی تعداد میں بے شمار، ہر شے، ہر چیز کی صفات خدا تعالیٰ کے غیر محدو دجلوؤں کے اثر کے نیچے آنے کی وجہ سے بے شمار، انسان اس کا علم چونکہ اُس نے فائدہ اُٹھانا ہے بے شمار اشیاء کی بے شمار صفات کا علم حاصل کر کے اُس سے فائدہ اُٹھانے کی جو طاقت ہے وہ بھی غیر محدود ہمیں سمجھنی پڑے گی.جہاں تک غیر محدود خدا تعالیٰ کے مقابلے میں تو ہر چیز محدود ہے.انسانوں کے نقطہ نگاہ سے وہ نہ ختم ہونے والی چیز ہے اسی طرح جو روحانی زندگی ہے اُس میں بھی کوئی غیر محدود چیز ہمارے ہاتھ میں ہونی چاہیے تب ہم اسی شکل میں آگے روحانی میدان میں بڑھ سکتے ہیں اور وہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل قرآن کریم کی شکل میں ایک ہدایت ملی جس نے یہ اعلان کیا اور سچا اعلان کیا کہ یہ ایک ایسی تعلیم ہے کہ قیامت تک دُنیا کے ہر خطہ کے انسان کو جو بھی مسئلہ در پیش ہو گا، اس کا حل اس کے اندر سے نکل آئے گا.چودہ سوسال کی انسانی زندگی یہ بتارہی ہے کہ کسی صدی میں بھی کوئی ایسا مسئلہ انسان کے سامنے نہیں آیا اور میں یہ علی وجہ البصیرت بات کر رہا ہوں.کسی صدی میں بھی انسان کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ نہیں آیا کہ انسان نے قرآن کی طرف توجہ کی ہو اُس کے حل کرنے کے لئے اور اُسے حل نہ کر سکا ہو.اگر قرآن کریم کی طرف توجہ ہی نہ کی ہو تو قرآن کریم پر تو الزام نہیں نا عائد ہوتا لیکن کسی صدی میں بھی کوئی ایسا مسئلہ انسان کو پیش نہیں آیا کہ قرآن کی طرف توجہ کی گئی ہو اور وہ مسئلہ حل نہ ہو سکا ہو اور کوئی صدی ایسی نہیں گزری کہ جس میں خدا تعالیٰ نے ایسے لوگ نہ پیدا کئے ہوں جو قرآن کریم کی طرف توجہ نہ کرنے والے ہوں.تو ہر صدی میں مطہرین کا ایک گروہ پیدا ہوا جو قرآنی علوم خدا سے سیکھ کر اپنے زمانہ اور اپنے علاقہ کے مسائل کو حل کرنے والے تھے مثلاً کئی دفعہ پہلے بھی نام آیا ہے وہ دُور کا علاقہ ہے وہ دُنیا کے نزدیک بہت تحقیر سے اُس کا نام لیا جاتا ہے، افریقہ کا بڑ اعظم.تو اس میں عثمان فودیؒ خدا کے ایک پیارے پیدا ہوئے جن کی وفات ہوئی ۱۸۱۸ء میں غالباً ۱۸.۱۸۱۷ء میں اغلباً ۱۸ ء ہی ہے اور ان کے علاقے میں بسنے والے انسانوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اسلام سے دُور چلے گئے تھے اور بے شمار بدعات اسلامی تعلیم کے اندر وہاں پیدا ہو گئی تھیں اور جو حقیقی روحانی برکات وہ حاصل کر سکتے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے اس سے وہ محروم ہو گئے تھے یہ تھا اُن کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۲ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء مسئلہ.خدا تعالیٰ نے اُن کو پیدا کیا اور اُنہوں نے کہا خدا نے مجھے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ میں جو اسلام میرے علاقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں بے شمار بدعات شامل ہو گئی ہیں بدعات سے پاک کر کے سنت نبوی یعنی قرآن کریم کی ہدایت پر جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمل کیا اُس شکل میں اسلام آج مسلمانوں کے سامنے پیش کروں اور اُن کی اس بنیادی جو اُن کے اندر کمی تھی یا جو بنیادی ضرورت اُن کو درپیش تھی ، اُس کو پورا کروں.اس وقت ہمارے اس زمانہ میں جو مہذب دنیا کہلاتی ہے ترقی یافتہ دنیا کہلاتی ہے میں نے بڑا غور کیا میں نے اُن سے باتیں کیں میں نے اُن کو سمجھا یا کسی نے اس سے انکار نہیں کیا کہ انہوں نے مسائل پیدا زیادہ کئے ہیں، مسائل حل کم کئے ہیں اور جو مسائل وہ حل نہیں کر سکے وہ صرف اسلام حل کرتا ہے اور وہ باتیں اُن کے سامنے رکھیں اور کسی کو یہ حجرات نہیں ہوئی کہنے کی کہ جوحل اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہمارے ذہن اُسے قبول نہیں کرتے.یہ تو اُن کے آثار تھے کہ ہم عادات سے مجبور ہو کر اپنی اُن کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں مگر کسی ایک کو یہ کہنے کی جرأت کبھی نہیں ہوئی کہ ہماری عقل اسے تسلیم نہیں کرتی.اگر تو عادات سے مجبور ہو کر گند میں زندگی گزارنا چاہتے ہو تو تمہاری بدقسمتی ہے.تو قرآن کریم کی عظیم ہدایت بے شمار برکات لئے ہوئے ہمارے پاس موجود ہے اور قرآن کریم کا ہر حکم.ہر حکم انسان کی ہر طاقت کو میں نے بتایا نا کہ انسان کو اتنی طاقتیں دی گئی ہیں کہ ہر دو جہان کی ہر چیز کی صفات سے اس نے علم حاصل کر کے فائدہ حاصل کرنا ہے تو انسان کی ہر طاقت کی راہنمائی کرنے والی ہے تا کہ ابتدا سے اُسے پکڑے اور خدا تعالیٰ کے دربار تک پہنچانے تک اس کی ہدایت کرتی چلی جائے.تو قرآن کریم کا کوئی حکم ہم پر بار نہیں.انسان کے لئے کوئی تنگی پیدا کرنے والا نہیں ہے بلکہ فراخی پیدا کرنے والا ہے.انسان کو دُکھ دینے والا نہیں سکھ کے سامان پیدا کرنے والا ہے.ہر وہ حکم جس میں ہمیں کہا گیا ہے کہ ایسا کرو وہ ہماری ہر قسم کی جو طاقتیں ہیں اُن کی رہنمائی کر کے خدا تعالیٰ کے دربار تک پہنچانے والا ہے ہر وہ نہی جس میں کہا گیا ہے کہ ایسا نہ کرو، وہ ہمیں اُن
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۳ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء چیزوں سے روکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے دربار تک پہنچانے میں روک ہیں.پس یہ عظیم کتاب ہے جو ہمیں دی گئی اور ہمارے فائدے کی کتاب ہے.ہمارے فائدے کی کتاب ہے مضمون بہت بڑا بن جاتا ہے اگر میں اُس تفصیل میں جاؤں.پھر کبھی موقع ملا ، خیال آیا تو کر دوں گا.ہمارے فائدے کی کتاب ہے اس معنی میں کہ ہماری جسمانی ضرورتیں جو ہیں اُن کو پورا کرنے والی ہے.ہمارے فائدہ کی کتاب ہے اس معنی میں کہ ہماری ذہنی جو ضرورتیں ہیں اُن کی راہنمائی کرنے والی ہے کس طرح اُن کو پورا کیا جائے.ہماری جو اخلاقی ضرورتیں ہیں اُن کو پورا کرنے والی ہے اور جو ہماری روحانی ضرورتیں ہیں وہ ہمیں صراط مستقیم دکھا کر اُس خدا کی طرف لے جانے والی ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا.پیدا اس لئے کیا تا اس کی صفات کا مظہر بنے کہ اس کی ہر صفت کے جلوؤں سے وہ اس کی نعمتوں کو حاصل کرے.کتنے وسیع دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں خدا تعالیٰ کی برکات کے حصول کے.یہ ہے قرآن جو ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس قرآن کا جو ہماری گردنوں پر ہے.ہماری گردنیں اس جوئے کے نیچے ہیں اور قرآن کی شریعت ہماری شریعت ہے اور آج اگر کوئی انسان کہے کہ نہیں ہم اپنی شریعت بنا ئیں گے تو ہم نہیں اُس کو قبول کرنے کے لئے تیار.ہمیں تو صرف قرآن کریم کی شریعت ہی منظور ہے وہی کافی ہے.علی وجہ البصیرت ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ قرآن کریم ہی ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرتی اور ہماری جو آخری ضرورت کہ خدا تعالیٰ کا پیار ہمیں حاصل ہوا اور اُس کے پیار کے جلوے ہم اسی دُنیا میں اس زندگی میں دیکھنے والے ہوں یہ ہمیں قرآن سے ملتا ہے.قرآن کریم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت کچھ کہا وہ پڑھا کریں تا کہ آپ کے پیار میں ہر روز ایک نئی شدت ، ایک نیا جوش پیدا ہو.قرآن خدا نما ہے، خدا کا کلام ہے، خدا کی باتیں ہیں اور خدا تک لے جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اس کے نتیجہ میں اس پر عمل کر کے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم قرآن کریم کو سمجھیں.اُس پر عمل کرنے والے ہوں.قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں ہم ہماری کوششیں اُن صحیح رستوں پر گامزن ہوں جس کے نتیجہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۴ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء میں ہمیں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو اور اس کے نیچے جو دوسری برکات ہیں اخلاق کے میدان میں محسن خلق اور ذہن کا چلا اور صحیح معنی میں جسمانی صحت وہ بھی ہم سب کو حاصل ہوا اور ہمیں خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے کی توفیق عطا کرتا رہے جن کے طفیل ہم نے اس عظیم کتاب قرآن مجید کو حاصل کیا.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۵ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء ہمارے ایک احمدی طفل کا ذہن بھی تباہ نہیں ہونا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۲ فروری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کمزوری محسوس کر رہا ہوں.اس لئے میں مختصراً کچھ کہوں گا لیکن کہوں گا ایک نہایت ہی اہم معاملہ کے متعلق اور وہ معاملہ ہے ہمارے بچوں کا جن کو ہم اپنی اصطلاح میں اطفال الاحمد یہ کہتے ہیں یعنی احمدیت کے بچے.کل فیصل آباد سے ہیں کے قریب اطفال مجھے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے لیکن چونکہ ملاقاتی بہت سے ہوتے ہیں.اس لئے میں اپنی خواہش کے مطابق ان کو وقت نہیں دے سکا تھا تھوڑا سا وقت انہیں دیا تھا ان سے میں نے کچھ باتیں سیکھیں اور انہی کے متعلق میں اس وقت کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک تو میں نے ان سے یہ بات سیکھی کہ والدین اپنے بچوں کی صحت کا پورا خیال نہیں رکھتے.بچوں کی غذا میں ایک ضروری حصہ دودھ کا ہے.دودھ کے اندر ایک ایسا کیمیاوی جزو ہے جس کا دماغ کے ساتھ تعلق ہے.حافظے اور ذہن دونوں کے ساتھ تعلق ہے ابھی تک سائنس نے معلوم نہیں کیا کہ وہ کیا چیز ہے لیکن کوئی ایسی چیز ہے جس کا تعلق ذہن کے ساتھ ہے یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ گائے کا دودھ پینے والے بچے بھینس کا دودھ پینے والے بچوں کے مقابلہ میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ دودھ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۶ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء میں کوئی ایسی چیز ہے جو ذہن کی پرورش کرتی ہے اور بھینس کے مقابلہ میں گائے کے دودھ میں وہ چیز زیادہ ہے اور بچے کے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیونکہ جس طرح یہ اس کے دوسرے جسمانی اعضاء کی نشو ونما کی عمر ہے اسی طرح یہ اس کے ذہن کی نشو و نما کی بھی عمر ہے.ہمارے ملک میں ایک مشکل ہے اور اسی کے متعلق میں نے ان سے سوال بھی کیا تھا.میں نے پوچھا کہ کیا تم دودھ پیتے ہو؟ تو مجھے جواب تسلی بخش نہیں ملا.میں نے انہیں کہا کہ میں اس لئے یہ سوال کر رہا ہوں کہ آج کل دودھ کی بجائے کچی لسی مہیا ہے.دودھ تو اسے کہتے ہیں جو بھینس یا گائے کے تھنوں سے نکلے اور خالص شکل میں ہمیں ملے لیکن اگر دودھ بیچنے والے اس میں ۶۰ ر فیصد پانی کی ملاوٹ کر دیں تو وہ دودھ اس شکل میں تو نہ رہا جس میں خدا تعالیٰ نے انسان کی صحت کو قائم رکھنے کے لئے اسے پیدا کیا تھا بلکہ وہ تو کچی لسی بن گیا.( کچی لسی ہمارا محاورہ ہے جسے سب جانتے ہیں ) کراچی کے ایک عزیز دوست نے مجھے ایک لطیفہ سنایا انہوں نے بتایا کہ ان کے قریب گوجر رہتے تھے انہوں نے ان کو کہا کہ تم جو مرضی قیمت لے لو مگر ہمیں بچوں کے لئے خالص دودھ چاہیے وہ ہمیں دے دیا کرو.تو انہوں نے کہا کہ خالص دینا تو بڑا مشکل ہے ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اٹھنی فی سیر زیادہ لے لیں اور پانی ۶۰ فیصد کی بجائے صرف ۴۰ فیصد ملا یا کریں.بڑے پیمانہ پر یہ انتظام تو خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے کہ قوم کو یہ عقل دے کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں اپنے ہاتھ سے ایسی ملاوٹ نہ کیا کریں جس سے ان کی افادیت کم ہو جائے یا نقصان دہ بن جائیں کیونکہ پانی ملانے والے ضروری نہیں کہ صاف پانی ملائیں بعض دفعہ جو ہڑ کا پانی چھپڑوں کا پانی ملا دیتے ہیں جن میں بیماریوں کے کیڑے ہوتے ہیں ، مضر صحت پانی ہوتا ہے وہ دودھ کے اندر ملا دیا جاتا ہے.بہر حال اس وقت تو مجھے اپنے بچوں سے غرض ہے میں ہر خاندان سے یہ کہوں گا اور چونکہ میں جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو دودھ پلانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں اس لئے میں صرف ہر خاندان کو نہیں بلکہ ہر خاندان کے ساتھ ہر جماعت کو کہوں گا کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہمارے بچوں کو جن کی چھوٹی عمر ہے اس وقت میں ویسے ے سے ۱۵ سال کے بچوں کا ذکر کر رہا ہوں لیکن دودھ پینے کے لحاظ سے تو پیدائش کے وقت سے اس کو اچھا دودھ ملنا چاہیے ان کو بھی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۷ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء اس میں شامل کر لیں کہ ہمارے بچوں کو اچھا دودھ ملے اور ملے.یعنی ایک تو دودھ ملے دوسرے اچھا ملے.جتنا کوئی پی سکتا ہے پیئے.ایک بچے سے میں نے پوچھا کہ تم بتاؤ تمہارے خیال میں انسان زیادہ سے زیادہ کتنا دودھ پی سکتا ہے تو بڑے سوچ کے بعد اس نے کہا آدھ سیر.میں نے اس کو کہا ہمارے ایک سندھ میں منشی تھے وہ ایک جگہ دعوت پر گئے.میزبان بھول گیا کہ انہوں نے دعوت کی ہوئی ہے اور گھر پر نہیں تھا.انہوں نے گھر والی سے پوچھا کہ تمہارے ہاں بھینسیں ہیں کتنا دودھ تمہارے پڑا ہے.وہ مٹی کے برتن ہوتے ہیں نا جن میں زمیندار دودھ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا تین برتنوں میں دودھ ہے کوئی ہوگا ہیں سیر کے قریب کم از کم.تو انہوں نے کہا اچھا پھر کھانا تو میں تمہارے ہاں نہیں کھا سکتا کیونکہ تم نے تیار ہی نہیں کیا تو یہ دودھ پی لیتا ہوں.انہوں نے ایک چاٹی اٹھائی اور ( عجیب نام ہے اس کا اس وقت ذہن سے نکل گیا ) اور وہ پی گئے پھر دوسری اٹھائی پی گئے پھر تیسری اٹھائی پی گئے کوئی ہمیں سیر دودھ انہوں نے پی لیا اور کہا جب تمہارے میاں آئیں کہہ دینا کہ میرا قرض ہے ان پر.انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا تھا اور کھانا نہیں کھلایا.تو ایسے استثناء بھی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم آدھ سیر دودھ تو ہر بچے کو ملنا چاہیے اور کتنا ملنا چاہیے اس کا انحصار، آدھ سیر سے جو زائد جتنا ملنا چاہیے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ استطاعت ہے اس کے ماں باپ کو آدھ سیر سے زیادہ دودھ پلانے کی یا نہیں.دوسرے یہ کہ اس میں یہ طاقت ہے یا نہیں کہ وہ آدھ سیر سے زیادہ دودھ ہضم کر سکتا ہے.کیونکہ اس کو اتنا ، اس سے زیادہ تو نہیں ملنا چاہیے جسے وہ ہضم ہی نہیں کر سکتا.صحت کے لئے بنیادی طور پر دو چیزوں کی ضرورت ہے صحیح غذا اور غذا کا ہضم.اگر آپ کسی بچے کو یا بڑے کو اس کے مناسب حال بہترین غذا دے دیں لیکن اس کی زندگی کچھ اس قسم کی ہو کہ وہ اس غذا کو ہضم نہ کر سکے، کھانے کا کوئی فائدہ نہیں.وہ تو فضلے میں باہر نکل جائے گا سارا کچھ.ایک امریکہ میں بہت ریسرچ ہوئی ، بہت بڑی ریسرچ.وہ تو بڑی امیر قوم ہے وہ جو ڈاکٹر ریسرچ میں لگ جائیں ان کو بڑے پیسے مل جاتے ہیں ریسرچ کے لئے.دس پندرہ ڈاکٹر پندرہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۸ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء ہیں سال ریسرچ کرتے رہے بچوں کی نیوٹریشن (Nutrition)، بچوں کی غذا پر اور جونتیجہ نکالا انہوں نے اس کا خلاصہ ایک فقرے میں انہوں نے.کتاب شائع کی اپناPaper شائع کیا ایک فقرے میں یہ نکالا کہ کھانے کے لحاظ سے ۱۸ سال کی عمر تک انسان بچہ ہے اور اس عمر تک جوطبی لحاظ سے ہم نے ریسرچ کی اور حقیقت کو پایا وہ یہ ہے کہ ۱۸ سال کی عمر تک جس وقت جس چیز کی جتنی مقدار میں خواہش پیدا ہو وہ ملنی چاہیے تب اس کی صحت ٹھیک رہے گی.ہمارے ملک میں تو یہ ممکن نہیں میرے خیال میں، میں نے بڑا سوچا کہ ہر پاکستانی اس پر تو عمل نہیں کر سکتا.ہزارہا روکیں ہیں قوم کو صحتمند بنانے کے راستہ میں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جس حد تک ہم اپنی نسلوں کو صحتمند بنا سکتے ہیں اتنی بھی نہ بنائیں.اس لئے میں ہر خاندان اور ہر جماعت کو کہتا ہوں کہ توجہ کریں، توجہ دلائیں جہاں تک ممکن ہوا انتظام کریں کہ اطفال الاحمدیہ کو روزانہ کم از کم آدھ سیر دودھ ملے اور کوشش کریں کہ کم سے کم ملاوٹ والا ملے.دوسرے یہ کہ جو وہ کھاتے ہیں اس کے ہضم کے لئے ان کو ورزش کرنی چاہیے.یہ بھی انتظام ہونا چاہیے نگرانی ہونی چاہیے کہ پوری ورزش کر لیتے ہیں.ورزش کچھ تو ہے اجتماعی ، ٹیمیں بنتی ہیں فٹ بال کرکٹ وغیرہ کی.ورزشیں ہیں جن کے لئے Play Grounds چاہئیں کھیل کے میدان چاہئیں.ورزشیں ہیں جن کے لئے پانی چاہیے کشتی رانی وغیرہ وغیرہ لیکن بعض ایسی ورزشیں ہیں جن کے لئے اس قسم کا کوئی سامان نہیں چاہیے.اصل مقصد ہے ورزش کرنا تا کہ کھانا ہضم ہو جائے اور چلنا جسے انگریزی میں Walk کہتے ہیں، پیدل چلنا تیز ، تیز تیز چلنا بڑی اچھی ورزش ہے.دوڑ نا اس کے لئے بھی کسی کھیل کے میدان کی ضرورت نہیں.چلنے کے لئے تو بچے سیر کے لئے نکلیں.میلوں کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً آخری عمر تک آٹھ.دس میل روزانہ کی سیر کرتے تھے.الا ماشاء اللہ.کوئی ضروری کام ہو جائے.یہ تو ان کی بنیادی جو ضرورت وہ میں نے بتا دی.باقی کام خدام الاحمدیہ اور جماعتوں کا ہے.مناسب غذا جس میں دودھ ضرور ہو اور مناسب ورزش جس سے ان کا کھانا ہضم ہو جائے.بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے اندر کوئی کمزوری لمبی بیماری کی وجہ سے یا لمبی بے پرواہی کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۹ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء وجہ سے یا غفلت کے نتیجہ میں آجاتی ہے وہ بیماری مثلاً خون کی کمی وغیرہ وغیرہ.بہت ساری اس قسم کی بیماریاں ہیں.جو تو Acute ٹائیفائڈ، ملیر یا وہ تو بیماری چیختی ہے بچہ بھی چیختا ہے ماں باپ بھی چیتے ہیں اور ڈاکٹر آ جاتا ہے حکیم آجاتا ہے.اس کا بہر حال علاج ہوتا ہے لیکن عام کمزوری جو ہے اس کا خیال رکھنا بڑا ضروری ہے.میرا تجربہ ہے بڑا لمبا.میں تعلیم کے میدان میں رہا ہوں کہ کمزور جسموں والے بچے ذہین ہونے کے باوجود محنت نہ کر سکنے کی وجہ سے اچھے نمبر نہیں لیتے اور ہمارے ذہن جو خدا تعالیٰ کی اتنی عظیم عطا ہے قوم کے لئے وہ ضائع ہو جاتے ہیں.تو ایسے بچوں کو جن کی صحت مجموعی طور پر کمزور ہے ان کا خیال رکھنا.بہت ساری ہومیو پیتھک کی ایسی دوائیں ہیں یا Salts ہیں Tissue remedies 12 میں کہ جو مثلاً خون کی کمی ہے اس کو وہ دور کر دیتے ہیں.میں نے بعض بچوں میں دیکھا ہے کہ چند ہفتوں کے اندر بالکل زرد چہروں والے بچے سرخ سفید ان کے رنگ نکل آتے ہیں.محاورہ ہے خون ٹپکتا ہے ان کے کلے سے وہ شکل ان کی بن جاتی ہے.خیال رکھنے کی بات ہے تو غذا ورزش اور صحت کے خیال رکھنے کے لئے ضروری ادویہ یا ادویہ سے ملتی جلتی چیزوں کا استعمال ذہنی حفاظت کے لئے بچوں کی یہ ضروری ہے.نہایت ضروری ہے، بہت ہی نہایت ضروری ہے کہ ان کی اخلاقی نگرانی کی جائے.آوارگی ذہنوں کو تباہ کر دیتی ہے.ہمارے احمدی طفل کا ایک ذہن بھی تباہ نہیں ہونا چاہیے، بر باد نہیں ہونا چاہیے.اس واسطے ان کی اخلاقی نگرانی ہونی چاہیے اور ان کے کانوں میں پیار کے ساتھ ،محبت کے ساتھ ایسی باتیں ڈالنی چاہئیں کہ جن سے ان میں احساس پیدا ہو کہ ہم احمدی بچے با اخلاق بچے ہیں.ہم دنیا کے بچوں کی طرح لاوراث بچے نہیں جن کے اخلاق کی پرواہ کرنے والا دنیا میں کوئی نہیں.ہم احمدی بچے وہ ہیں جن کی پروا کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپ نے ایک تعلیم دی جو بچوں کے اخلاق کو سدھارنے والی بھی ہے اور ایک جماعت پیدا ہوگئی جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کے لئے تیار رہتی ہے.ان کو یہ احساس پیدا ہونا چاہیے.ان کو اخلاق کے متعلق بتانا چاہیے.اس کے لئے خدام الاحمدیہ کو اور دوسرے ہمارے جو پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کو مشورہ کر کے چھوٹی چھوٹی بچوں والی کتابیں لکھنی چاہئیں.ہر شعبہ زندگی کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء نے ہمیں تعلیم بھی دی اور ہمارے لئے آپ اُسوہ بھی بنے.ان کو ہم آداب کہتے ہیں ، کھانے کے آداب ہیں پینے کے آداب ہیں اٹھنے کے آداب ہیں بیٹھنے کے آداب ہیں لباس پہننے کے آداب ہیں بات کرنے کے آداب ہیں.کون سی بات ہے جس کے آداب نہیں بتائے گئے ہمیں لیکن کون سے ہیں وہ خاندان جو سارے کے سارے ایسے آداب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو با اخلاق بنانے کی بنیاد قائم کرنے کے لئے ہمیں بتائے تھے ہم بچوں کو بتاتے ہیں بڑوں کو بھی نہیں بتاتے بعض دفعہ.بازاروں میں پھرنے کے آداب، بازاروں میں یہ کرنا ہے یہ نہیں کرنا آنکھیں نیچی رکھنی ہیں یہ کرنا ہے.دکانوں پر کھڑے ہو کر کھانا نہیں کھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.یہ پسندیدہ نہیں.اب تو کھڑے ہو کر وہیں بوتل یوں کھول کر پینے والے غٹ غٹ پی جاتے ہیں تو ہمیں تو بتاتے تھے.اس کا نتیجہ یہ تھا ایک لطیفہ اور سنادوں آپ کو.لاہور میں رہے ہم جب تک ۵۴ ء کے شروع میں میں آ گیا تھا کا لج تعمیر کرنے کے لئے پھر ہمارا کالج بھی آ گیا.ایک دکاندار سے حسب ضرورت میں پھل خریدتا تھا.دکانداروں کی عادت ہے کہ اسی وقت پھل کی خوبی بتانے کے لئے کوئی اچھا سا انہوں نے مثلاً میں نے سیب لینا ہے تو انہوں نے چن کر اچھا سیب رکھا ہوا ہوتا ہے.یوں کاٹ کے تو ایک پھاڑی کر دیں گے دیکھیں میرے پاس بہت اچھے سیب ہیں.میں نے ایک دکاندار کومنتخب کیا میں نے کہا بات یہ ہے کہ میں تو بازار میں کھاتا نہیں چکھوں گا نہیں.تمہارے اوپر اعتبار کروں گا اس واسطے مجھے اچھی چیز دینا.جو تم قیمت کہو گے دے دوں گا.تو دیتا رہا مجھے بڑی اچھی چیز.ایک دفعہ اس کے دماغ میں پتہ نہیں کیا آیا اس نے کہا یہ تو چکھتا ہی نہیں گھر جا کر تھوڑا سا پھل ہوتا ہے کون واپس آتا ہے دکان پرلڑنے کے لئے تو ہر گندی چیز بھی دے دو.گھر جا کر ہی پتہ لگے گا نا اس کو.میں ، دو تین دفعہ اس نے کیا تو میں نے اس کو کہا کہ تم بڑے بے وقوف ہو میں نے کبھی تم سے قیمت کروائی نہیں.میں بحث نہیں کرتا، میرا وقت زیادہ قیمتی ہے پیسے سے.تھوڑی سی چیز خریدتا ہوں تمہیں میں نے پہلے سمجھایا تھا میں چکھتا نہیں میں لے جاتا ہوں.تو ایک ایسا گا ہک تم نے کھو دیا کہ جو تم پر اتنا اعتبار کرنے والا تھا اور لوگ تو تم پر اعتبار نہیں کرتے اور سلام علیکم میں آئندہ تم سے نہیں خریدوں گا.پھر اس نے بڑا شور مچایا آجائیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۱ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء آئندہ نہیں کروں گا میں نے کہا نہیں بس ایک دفعہ ہو گیا.تو سڑکوں پر کھانے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے پسند نہیں فرمایا.یہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے سڑکوں پر کھانا، گھروں میں کھاؤ ، آرام سے کھاؤ تحمل سے کھاؤ، کھانا بھی زیادہ ہضم ہوتا ہے.جو گندی عادت دنیا نے اپنی نالائقیوں کی وجہ سے بنالی ان کی نقل ضرور کرنی ہے؟ جن کی نقل کرنی چاہیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اُسوہ کو بھول جانا ہے ہم نے؟ تو یہ بچوں کا حق ہے، بچوں کا یہ حق ہے کہ ہم انہیں اسلامی آداب سکھائیں تا کہ ان کے ذہنوں کو بھی ، یہ اور مضمون ہے لمبا ہے اشارہ کر سکتا ہوں کہ ذہنوں کی جلا کا بڑی حد تک انحصارا چھے اخلاق پر ہے اگر اخلاق کی حاکمیت ذہانت پر ہو گی تو ذہانت میں چلا پیدا ہو گی اور اگر روحانیت کی حاکمیت اخلاق پر ہوگی تو صحیح اخلاق ہوں گے.روحانی باتیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت.پہلا بچہ جو سات سال کا ہے اس کو تو حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی ایک نظم ہے وہ اس کے بعض بند ایسے ہیں کہ ان کو سکھا دینی چاہیے یعنی پہلا سبق ان کو یہ دینا چاہیے.ہوں اللہ کا بندہ محمد کی امت ہے احمد سے بیعت خلیفہ کی طاعت میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں یعنی اس بچے کو کہنا چاہیے کہ تم احمدی ہو پتہ ہے احمدی کسے کہتے ہیں؟ کہ جو اللہ کا بندہ ہو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی صفات کے غیر محدود جلوے تو ساری دُنیا کے انسان بھی نہیں سمجھ سکتے.وہ تو بڑی وسیع چیز ہے لیکن پہلے سبق میں اس کو یہ کہنا چاہیے کہ ہر احمدی طفل اللہ کا بندہ ہے شرک نہیں کرے گا.بنیادی بات اس کو ، حضرت لقمان نے بھی اپنے بیٹے کو لا تُشْرِكْ بِاللہ پہلے سبق دیا تھا نا.قَالَ لقَمَنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يُبْنَى لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ.(لقمن : ۱۴) دوسری بات.پہلا سبق بچے کو ساتویں سال عمر کے محمد کی امت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۲ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء کے ساتھ کوئی بھی شخص کسی نبی کی اُمت نہیں بن سکتا.ساری شریعتیں منسوخ ہو گئیں ان کی اُمت کیسے بن سکتا ہے صرف ایک عظیم ہستی ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم جن کی اُمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی انسان بن سکتا ہے اور وہ بچہ کہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہوں آپ کے اُسوہ کی پیروی کرنے والا.صرف اتنا کہ جو آپ کے اخلاق ہیں وہ میں پیدا کروں گا یہ بھی شاید اس عمر میں بعض بچوں کو سمجھ نہ آئے لیکن ان کو یاد کروا دو.حفظ کروا دو کہ ساری عمر تک اس کو نہ بھولیں اس فقرے کو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوں اور سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور اُسوہ کی پیروی نہیں کروں گا.ہے احمد سے بیعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مہدی آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مہدی کو اپنا سلام بھجوایا تھا میں نے اس مہدی کو پہچانا، اس کی بیعت کر لی اس کے ساتھ میرا تعلق ہو گیا اور ایک جماعت اس مہدی نے قائم کر دی اور خلیفہ کی طاعت میں ہوں، بیعت میں ہوں اور یہ میں احمدی ہوں.احمدی ہونے کا میرا یہ مطلب ہے اور پھر اسی کو ہم اسی کو پھیلائیں گے.اس میں سب کچھ آ گیا اور آٹھ سال تک ہم اس کو تعلیم دیتے چلے جائیں گے.اس کے لئے جماعت کو چوکس رہ کر خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور اس سے بھی زیادہ انہی کا حصہ ہے وہ لوگ خدام الاحمدیہ کے جن کا تعلق اطفال الاحمدیہ سے ہے اور ہر خاندان کو.یہ بڑا ضروری ہو گیا ہے ہمیشہ ہی یہ ضروری ہے کہ بچے کو ضائع نہ ہونے دیا جائے لیکن اس زمانہ میں کہ وہ جو آج سات سال کا بچہ ہے جس وقت وہ تیس سال کا ہوگا.آج سے تئیس سال کے بعد تو دنیا میں اسلام کے حق میں اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان کے لحاظ سے ایک انقلاب عظیم بپا ہو چکا ہو گا.اس وقت کے حالات جو ذمہ داریاں ہمارے بچوں کے کندھوں پر ، وہ بچے جو آج سات سال کے ہیں ڈالیں گے ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی اہلیت اور طاقت اور استعداد اور صلاحیت تو ان کے اندر ہونی چاہیے.جماعت، خاندان، انصار، خدام الاحمدیہ، اطفال کے نظام کے عہد یدار ، مائیں ، بڑی بہنیں، ہر وہ شخص جس کا کسی نہ کسی پہلو سے ایک بچے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۳ خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۷۹ء سے تعلق ہے اور وہ احمدی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کو ذہن میں رکھے کہ اس بچے کو ہم نے خدا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کرنا ہے اور ضائع نہیں ہونے دینا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے امین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۵ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر تھے خطبه جمعه فرموده ۹ فروری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اوصاف کے جلوے زمان و مکان پر اس کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کا شمار نہیں اور انہیں گننا اور حد بست میں لا نا کسی زمانہ میں کسی مکان میں کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے.ہم بعض تفاصیل مثال کے طور پر بیان کیا کرتے ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ذکر میں اور بعض بنیادی باتیں ، بنیادی اوصاف کا ذکر کرتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر رہے ہوں ہم.اس وقت میں چند بنیادی اوصاف کا ذکر کروں گا.جب ہم آپ کے وجود پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معرفت عطا ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تمام رسولوں سے افضل ہیں آپ افضل الرسل ہیں.قرآن کریم میں رسالت کے سلسلہ میں تو یہ آیا لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (البقرة : ۲۸۶) ہر رسول پر ایمان لانا ضروری ہے اور رسول رسول میں ایمان لانے کا جہاں تک تعلق ہے کوئی فرق نہیں لیکن یہ بھی فرمایا.وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( بنی اسراءیل:۵۶ ) زمین و آسمان میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۶ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء ہر چیز سے سب سے زیادہ واقف اور ہر چیز کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا وہ اللہ ہے جس نے ان جہانوں کو پیدا کیا.اُن کی خاصیتوں کو پیدا کیا اور طاقتوں کو پیدا کیا اور بتدریج اُن کو ارتقائی مدارج میں سے گزارتے ہوئے ہر چیز کو اپنے عروج تک جو پہنچاتا ہے اور اُن کی پرورش کرتا ہے اور ربوبیت کرتا ہے.وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ اللَّبِينَ عَلَى بَعْضٍ (بنی اسراءیل : ۵۶ ) اور یہ اعلم خدا، یہ اعلم ربّ تمہیں بتاتا ہے کہ بعض نبیوں کو ہم نے بعض دوسروں پر فضیلت دی ہے.ایک اور جگہ فرمایا :.b وَعَليكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ۱۱۴) خدا تعالیٰ نے تجھے اپنی صفات کی وہ معرفت عطا کی جو کسی اور کو عطا نہیں ہوئی.عَلبَكَ مَا لم تكن تعلم اور اس طرح بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ فضل خدا تعالیٰ کا تجھ پر ہوا.عربی زبان میں عظیم کا لفظ اُس جگہ بولا جاتا ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز متصور نہ ہو.یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر جو فضل نازل ہوا، اس کے متعلق عظیم کا لفظ آیا ہے یہ فضیلت جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی.اس پر جب ہم غور کرتے ہیں اور اس کا ذہنی تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے جو باتیں آتی ہیں وہ یہ ہیں.ایک تو یہ کہ جو طاقتیں اور قوتیں اور صلاحیتیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی تھیں، وہ اس قدر اور اتنی خوبیاں رکھنے والی تھیں کہ اتنی استعداد میں کسی اور کو عطا نہیں کی گئیں یعنی اپنی صلاحیتیوں اور استعدادوں کے لحاظ سے آپ ہر دوسرے انسان اور آپ ہر دوسرے رسول سے فضیلت رکھتے تھے.دوسری چیز اس سلسلہ میں ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ استعداد دے اور بہت سے انسانوں کو خدا تعالیٰ ایسی استعدادیں عطا کرتا ہے جنہیں انسان خود اپنی غلطیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں ضائع کر دیتا ہے تو محض استعداد کا ملنا کافی نہیں کسی کی شان کے اظہار کے لئے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مواقع بہم پہنچائے کہ ان استعدادوں کی صحیح اور سچی اور کامل نشو و نما کا امکان ہو.
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۷ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء اور تیسری چیز یہ کہ پھر نشو و نما کی توفیق بھی ملے اُس شخص کو کہ اپنی استعدادوں کی وہ نشوونما کر سکے.اور چوتھے یہ کہ جب اس کی قوتیں اور استعدادیں کامل نشو و نما حاصل کر لیں تو موقع اور محل پر ان کا پورا اور صحیح استعمال کرنے کی بھی اسے توفیق ملے.اس نقطہ نگاہ سے فضیلت ان چار چیزوں کا مطالبہ کرتی ہے تو یہاں یہ اعلان کیا ہے.علمك مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا كہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے صلاحیتیں اور استعدادیں دیں، اس قدر دیں کہ کسی اور انسان کو نہیں دیں اور ان کی نشوونما کے مواقع بھی پورے کے پورے اور جتنے چاہیے تھے وہ بہم پہنچائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طاقت بھی دی کہ ان مواقع سے بہترین فائدہ حاصل کریں اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کی خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور اس کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے توفیق پائیں اور پھر جب وہ اپنی استعدادوں اور اُن کی کامل نشوونما کے بعد اس قابل ہو جائیں کہ ان کامل قوتوں کے جلوے اپنی پوری وسعتوں اور گہرائیوں کے ساتھ اس کائنات پر ظاہر کر سکیں تو وہ موقع اور محل کے مطابق اپنی تمام قوتوں اور استعدادوں کے جلوے اس کائنات پر ظاہر کرنے والے ہوں.اللہ نے فرمایا ہے عَلبَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ که خدا جو اَعْلَم ہے اس نے اپنے علم سے علم دیا مثلاً ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ تمام انبیاء سے افضل ہیں جب ہم آپ کا دوسرے انبیاء سے مقابلہ کریں تو ہمیں ایک ایسا نبی نظر آتا ہے جس پر تنگی کا زمانہ آیا اور تنگی کی زندگی گزارتے وقت جن صلاحیتوں کا مظاہرہ ہونا چاہیے وہ موقع تو اس کو مل گیا لیکن فراخی اور وسعت کے وقت جن طاقتوں کا ، جن صلاحیتوں کا مظاہرہ انسان کرتا ہے وہ موقع ہی ان کو نہیں ملا یا سیاسی لحاظ سے ماتحت ہونے کے لحاظ سے جن صفات کا اظہار ان رسولوں نے کیا، وہ موقع تومل گیا لیکن بادشاہت ان کو نہیں ملی تو حاکم وقت ہونے کے لحاظ سے جن اعلیٰ خوبیوں کا اظہار کرنے کا موقع مل سکتا ہے کسی ایسے انسان کو جس میں وہ قوتیں اور استعداد میں پائی جائیں کہ جب وہ بادشاہ ہو تو ان کا اظہار کرے تو وہ تو اسی وقت ہوگا نا جب وہ بادشاہ بن جائے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۸ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء وہ زندگی میں ہر قسم کے دور آئے اور ہر زمانہ.دنیا نے تکلیفیں پہنچا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن کے جلوے دیکھے.دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا مارنے کی کوشش کر کے جیسا کہ مکہ والوں نے کیا ایک وقت میں انتہائی غربت اور بے کسی کے وقت جن اخلاق حسنہ کے جلوے ایک افضل ترین ایک کامل انسان دکھا سکتا تھا وہ جلوے انہوں نے دیکھے.جس وقت آپ ہجرت کر گئے تو خدا تعالیٰ پر ایک کامل تو گل رکھنے والا انسان جو انسان کو جلوے دکھا سکتا تھا اس کا سامان رؤسائے مکہ نے اس طرح کیا کہ وہ مٹھی بھر مسلمان جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے اُن پر حملہ آور ہوئے اور بے بس، بے کس پورے پیٹ بھر کے کھانے کو بھی انہیں نہیں ملتا تھا ، تن ڈھانکنے کے لئے پورے کپڑے بھی اُن کے پاس نہیں تھے.جنگ کرنے کے لئے پورے ہتھیار بھی اُن کے پاس نہیں تھے.چلنے کے لئے بہتوں کے پاس جوتیاں بھی نہیں تھیں لیکن اس حالت میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کی تربیت میں آپ کے صحابہ نے وہ جلوے دکھائے جو اس موقع پر کامل انسان اور کامل انسان کے اُسوہ پر چلنے والے لوگ دکھایا کرتے ہیں.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ہر دور میں سے گزارا اور دنیا پر یہ ثابت کیا کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم جس پہلو سے بھی ہم آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آپ افضل تھے.افضل الرسل تھے کیونکہ کسی اور رسول میں وہ خو بیاں ہمیں نظر نہیں آتیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں نظر آتی ہیں اور کسی رسول نے وہ جلوے اپنی صفات اور استعدادوں کے نوع انسانی پر ظاہر نہیں کئے جو جلوے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صلاحیتوں کے نوع انسانی پر ظاہر کئے جیسا کہ ابھی میں آگے جا کے بتاؤں گا.تو پہلی صفت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ آپ افضل الرسل ہیں اور دوسری صفت آپ کے اندر یہ پائی جاتی ہے جو اُسی صفت وہ جو پہلی صفت کی باتیں میں نے کی ہیں وہ ہی ہمیں اس طرف لے کر جا رہی ہے.دوسری صفت ہمیں نظریہ آتی ہے کہ آپ کامل انسان ہیں یعنی انسان کے اندر جس قدر کامل نشو ونما پا کر صلاحیتوں اور استعدادوں کا اظہار ہوسکتا ہے وہ آپ نے کر دیا اور اس کے مقابلہ میں ہر دوسرا انسان اور دوسرے رُسل بھی انسانیت کے قد کے لحاظ سے، چھوٹے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۹ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء قد والے نظر آتے ہیں.کامل انسان جنہوں نے اپنی طاقتوں کو اور اپنی استعدادوں کو ہر جہت سے اور پورے طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگائے رکھا ساری عمر.عجیب زندگی ہے آپ کی ، کوئی ایک سیکنڈ ، کوئی ایک لمحہ بھی ہمیں نظر نہیں آتا، آپ کی زندگی کا جس میں ہمیں خدا تعالیٰ کی اطاعت کا پہلو جو ہے وہ نمایاں ہو کر سامنے نہ آئے ہمیں نظر نہ آئے اور اس لئے ہم کہتے ہیں کیونکہ آپ کامل انسان اور آپ کی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں خدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگی ہوئی تھیں اور آپ کو کامل صلاحیتیں دی گئی تھیں.ہم کہتے ہیں آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے یہ صفت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات ہیں ان کے مظہر ہیں اور مظہر اتم ہیں.دوسرے انبیاء جو ہیں آپ کے مقابلہ میں پہلی بنیادی چیز افضل الرسل میں نے بتائی ہے نا آج کے مضمون میں ، آج کی اس گفتگو میں تو افضل الرسل ہیں نا، دوسرے جو ہیں وہ مظہر صفات باری بعض لحاظ سے ہیں ہی نہیں یعنی ساری صفات کے مثلاً خدا تعالیٰ کی بادشاہت ہر دو جہان پر ہے ایسا رسول گزرا ہے آدم کی اولاد میں جس کو بادشاہت کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی.تو خدا تعالیٰ کی جو بادشاہ ہونے کی صفت ہے اس کا تو مظہر نہیں بن سکا وہ اپنی زندگی میں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل صلاحتیں بھی ملیں اور آپ نے تمام صلاحیتوں کو اپنی تمام طاقتوں کو خدا تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کیا اور چونکہ انسان کو تمام طاقتیں اس لئے ملیں کہ خدا تعالیٰ نے جو انسان کے لئے جو جو بھی جلوے ظاہر کئے ہر دو جہان میں ، وہ انسان کی خدمت کے لئے وہ جلوے ظاہر ہوئے ہیں.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٤) اور ہر جلوے کے ساتھ ، جلوے کی ہر ہر صفت کے ساتھ اور صفت کے ہر جلوے کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مقابلہ میں آپ کے اندر صلاحیت ہے اُس کا ایک مضبوط تعلق ہمیں نظر آتا ہے اس لئے آپ صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں.باری تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صفات باری کی معرفت رکھتے ہوں کامل طور پر یعنی اگر آپ کو علم اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۰ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء معرفت نہ ہوصفات باری کا تو آپ ان صفات کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے ، اطاعت نہیں کر سکتے اپنے اخلاق پر اُن کا رنگ نہیں چڑھا سکتے.تو جب ہم کہتے ہیں مظہر اتم ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت آتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی ایک انسان ہیں عظیم انسان کہ جنہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت حاصل تھی اور اس کامل معرفت کی وجہ سے آپ کے تمام اعمال جو تھے، وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کے نیچے آجاتے تھے کیونکہ سب اعمال صالحہ کا محرک معرفتِ صفاتِ باری ہے یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جسے بھولنا نہیں چاہیے کہ جو معرفت ہے، وہی اعمال صالحہ کا محرک ہوتی ہے چونکہ آپ تمام صفات باری کی معرفت رکھتے تھے اس واسطے ہر قسم کے اعمال صالحہ خدا کی رضا کے لئے بجالانے کا موقع بھی تھا اور آپ بجالاتے بھی تھے اور ابتدا اس کی خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت سے ہے یعنی انسان اپنے زور سے ایسا نہیں کر سکتا اور چونکہ آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے اس لئے قرآن کریم نے ایک جگہ یہ فرمایا ہے:.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ (الزمر : ۵۴) یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ قُلْ يُعِبَادَ اللہ کہ اے اللہ کے بندو، بلکہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ یہ اعلان کر ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ اے میرے غلامو.کہہ دے اے میرے غلامو اور یہ اس لئے کہا گیا جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تفسیر میں ہمیں بتایا ہے کہ یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت ہر انسان کو دیوے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور اور آپ کی بعثت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ آیت قرآن کریم میں نازل کر کے ہر انسان کو بشارت دی بے شمار بشارتیں دی ہیں.دراصل یہاں بے انتہا رحمتوں کی یہ بشارت دی ہے اور شکستہ دلوں کو تسکین بخشنے کے سامان پیدا کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ دیکھو جو میرے ہو جاتے ہیں میری رحمتیں کس قدر ان پر نازل ہوتی ہیں.محمد کو دیکھو صلی اللہ علیہ وسلم.جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لحظہ میری اطاعت میں خرچ کیا تو میں نے اس طرح اُن کو نوازا کہ وہ میری صفات کے مظہر بن گئے مظہر اتم بن گئے اور تمہارے لئے ایک نمونہ بن گئے قُلْ يُعِبَادِی میں یہ حکمت تھی کہ یہ اعلان کیا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں نوع انسانی
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۱ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے اور بندوں کو یہ بتایا کہ دیکھو میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں.دوسری جگہ فرمایا :.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران :٣٢) اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو اور اُس کے پیار کو بھی اور اس کی رضا کو بھی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اُن کو کہہ دے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ میری اطاعت کرو خدا تم سے پیار کرے گا.یہاں یہ یا درکھنا چاہیے کہ کمال اتباع ، یہاں ہے نا.اتباع کا کمال جو ہے وہ اطاعتِ تامہ کو مستلزم ہے یعنی کامل اتباع جو ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کامل اطاعت.اور کامل اطاعت جو ہے وہ اس کے اندر مفہوم آتا ہے عبد کا اور غلام کا ، تو یہاں بھی یہی کہا گیا کہ میرے غلام بن جاؤ.خدا تعالیٰ تم سے پیار کرنے لگ جائے گا اور بتایا دنیا کو یہ کہ دیکھو جو میرا ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہا ماً بتایا گیا.” جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو تو نمونہ ایک سامنے پیش کر دیا ہمارے کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنی طاقتوں کے اور استعدادوں کے مالک تھے مگر ایک طاقت اور استعداد بھی دنیا کے لئے خرچ نہیں کی بلکہ ہر قوت اور طاقت اور استعداد اور صلاحیت میری رضا کے حصول کے لئے آپ نے استعمال کی اور میرے پیار کو پالیا اور اتنے بلند مقام کو پالیا کہ آپ افضل الرسل بن گئے.رہتی دنیا تک ایک اُسوۂ حسنہ بنا دیئے گئے اور لوگوں کو کہا کہ تمہیں نا امید ہونے کی ضرورت نہیں.ایک نمونہ تمہارے سامنے ہے.ایک واقعہ ہو چکا کہ خدا پیار کرتا ہے اور بڑا ہی پیار کرتا ہے اور اس انسان کو دیکھو.اس کی زندگی کو دیکھو، اس کی زندگی کے حالات کو دیکھو اور گھبراؤ نہیں تسلی پکڑو، غلطیاں کرتے ہو معافی مانگو، استغفار کرو ، تو بہ کرو، خدا کی طرف واپس لوٹو ، خدا کی رضا کے لئے نیکیاں کرو.محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو، اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر تمہیں بھی بے شمار بے حد و بست نعماء باری مل جائیں گی.تیسری صفت بنیادی طور پر آپ کی یہ ہے یہ اُسی کا آگے نتیجہ نکلتا ہے جو ابھی میں نے بات
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۲ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء ختم کی کہ آپ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں.رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ میں جس رحمت کا ذکر ہے اس کا صرف انسانوں سے تعلق نہیں بلکہ عالمین سے تعلق ہے ہر دو جہان سے تعلق ہے اور آپ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں کیونکہ آپ صفات باری کے مظہر اتم ہیں کیونکہ یہ میں نے جو صفات آگے پیچھے رکھی ہیں ان کا آپس میں جوڑ ذہنی طور پر ملتا چلا جاتا ہے چونکہ آپؐ صفات باری کے مظہر اتم ہیں اس لئے آپ رَحْمَةٌ لِلعلمین ہیں چونکہ صفات باری کی جو بنیادی حقیقت خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کی ہے وہ ہے.رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف:۱۵۷) کہ خدا نے یہ اعلان کیا کہ میری رحمت نے ہر چیز کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے یعنی خدا تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا کہ میری بے شمار صفات کے غیر محد ودجلوے جو ہیں جن کا تعلق اس کا ئنات کے ساتھ ہے، ان ساری صفات اور ان جلوؤں کا مظہر ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم.چونکہ آپ مظہر اتم ہیں اس واسطے آپ کی رحمت جو ہے وہ بھی رَحْمَةٌ لِلعلمین کی شکل میں ہے یعنی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ہے.کئی دفعہ میں نے مختصراً اس طرف دوستوں کو تو جہ دلائی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے دنیا کی ، اس کائنات کی ہر چیز کے حقوق قائم کر کے ان کی حفاظت کے سامان کئے ہیں کسی اور جگہ ہمیں حسن کا یہ عظیم جلوہ نظر نہیں آتا.چوتھی صفت جو ہمیں عظیم صفت جو کامل شکل میں ہمیں آپ کے وجود میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ انسانوں کے لئے یعنی عالمین کے لئے تو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ تھے.انسانوں کے لئے بادی کامل ہیں.اس قدر کامل اور مکمل شریعت لے کے آئے نوع انسانی کی طرف کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.دنگ رہ جاتی ہے اُن کی عقل جو آج چودہ سو سال بعد انسانی مسائل کا حل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صحیح اور حسین حل و ہیں پاتے ہیں دنیا میں کسی اور جگہ نہیں پاتے اور علی وجہ البصیرت میرے جیسا انسان یہ اعلان کرسکتا ہے کہ واقع میں آپ ہادی کامل ہیں کہ آج چودہ سو سال بعد جو انسان کو مسائل درپیش ہیں اُن کے حل کے لئے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کے نیچے آنا پڑتا ہے اور دوسرے بہت سے بلکہ سارے ہی انبیاء کے مقابل پر اس بادی کامل ہونے کا ایک پہلو میں بیان کر دیتا ہوں ہر صفت جو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۳ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء ہے اس کے بہت سے پہلو ہیں.ہر پہلو کی طرف نہیں جایا جا سکتا.مثالیں دی جا سکتی ہیں.کامل شریعت لائے ، یہ پتہ لگتا ہے اس بات سے کہ درختِ انسانیت کی ہر شاخ کی پوری پرورش کرنے والی یہ ہدایت ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ سختی کے مقابلے میں سختی کرو.حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا سختی کے مقابلے میں ہمیشہ نرمی کرو.جو انتقام کی صفت خدا تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے اُس کا استعمال تو کیا لیکن غلط استعمال کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے.اور جو عفو کی صفت انسان میں خدا تعالیٰ نے رکھی ہے اس کا استعمال تو کیا لیکن غلط استعمال کیا حضرت مسیح علیہ السلام نے.اُن کے اپنے حالات تھے انسان ترقی یافتہ نہ تھا بہت ساری ملتی ہیں باتیں کہ ہم کو اُن کو بری الذمہ قرار دینا پڑتا ہے ہمیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنی شریعت میں کامل نہیں تھے قرآن عظیم کے مقابلہ میں اور عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت قرآن عظیم کے مقابلہ میں ایک کامل شریعت نہیں تھی.وہ تو شریعت تھی ہی نہیں اُن کی لیکن جو اُن کی ہدایتیں تھیں جو انہوں نے دراصل یوں مجھے کہنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ لام نے جو کچھ ترمیمیں کیں موسوی شریعت میں ، وہ بھی کامل نہیں تھیں.اب انہوں نے اعلان تو یہی کیا تھا کہ میں موسوی شریعت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہوں لیکن زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ان انبیاء کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض جو باتیں تھیں مثلاً اُمّتِ موسویہ میں موسیٰ کی شریعت میں جو بعض باتیں تھیں اس میں وہ ترمیم کر جاتے تھے بدلے ہوئے حالات کی وجہ سے لیکن قرآن کریم نے کہا کہ جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) کہ برائی کا بدلہ اس سے اتنی ہی برائی ہوسکتا ہے.انتقام بدلہ جو ہے جتنا وہ ہے اس سے زیادہ نہیں فَمَنْ عَفا اگر کوئی معاف کر دے واصلح اور معاف کرنے میں اصلاح مدنظر ہو اور اصلاح متوقع ہو وہ شخص اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اگر میں نے اس کو معاف کر دیا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی تو وہ معاف کر دے فَاجرة على الله اس کو کیا گھاٹا ہے اللہ تعالیٰ اجر دے دے گا اس کو.اسلام نے یہ کہا کہ جو گناہ کرنے والا ، ظلم کرنے والا ہے.اصل مقصود اس کی اصلاح ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بیان کے مطابق اپنا انتقام لینا اصل مقصود نہیں یا السلام
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۴ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء حضرت عیسیٰ کے فرمان کے علیہ السلام مطابق اپنی بڑائی ظاہر کرنا.میں بڑا عفو کرتا ہوں ، یہ مقصود نہیں.مقصود یہ ہے کہ تمہارا بھائی گناہگار ہوا.خدا سے دور جا رہا ہے اس کے گناہ کی معافی ملے اور معافی کوئی میں اور آپ تو نہیں دے سکتے کسی اور کے گناہ کی، وہ خود تائب ہوا اپنی اصلاح کرے اور خدا کی طرف واپس آئے.اصل مقصود یہ ہے اس واسطے جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا اتنا حصہ موسوی شریعت نے لے لیا تھا فمن عفا اتنا حصہ عیسی علیہ السلام کے فرمان میں جو ترمیم کی انہوں نے اُس میں آگیا لیکن قرآن عظیم نے کامل ہدایت جو تھی اس نے کہا جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةُ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: ۴۱) کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ عفو سے معاف کر دینے سے اصلاح ہوتی ہے وہ معاف کر دے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ معاف کر دینے سے اصلاح نہیں ہوتی وہ بدلہ لے لیکن بدلے میں زیادتی نہ کرے اُس پر جتنا ظلم ہوا ہے اتنا ہی بدلہ ہو اس سے زیادہ نہ ہو.تو میں بتا یہ رہا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل ہدایت اور شریعت، درخت انسانیت کی ہر شاخ کی پوری پرورش کرنے والی ہے.پہلی ہدایتیں اور شریعتیں ہر درخت انسانیت کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والی نہیں.جن شاخوں کی پرورش کرتی ہیں اُن کی بھی پوری پرورش کرنے والی نہیں ہیں.پانچویں صفت جو جس کی طرف پہلے بھی اشارہ آیا وہ یہ کہ آپ کامل اُسوہ ہیں.پہلے آپ کے صرف ایک حصہ کے متعلق آیا تھا.زندگی کے ہر موڑ پہ اور ہر ضرورت کے وقت انسان فیصلہ کرتا ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں.اس کے لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ اگر تمہیں اپنے کسی مسئلہ کا فیصلہ در پیش ہے.تمہارے تعلقات ہیں باہمی دوسروں سے.ہزار چیزیں ہیں جو ہماری زندگی میں ہمارے سامنے آتی ہیں.تم نے فیصلہ کرنا ہے کہ میں کیا کروں، کیا نہ کروں.ہمیں کہا گیا ہے کہ اگر تو تمہاری نیت یہ ہو کہ تم نے وہ فیصلہ کرنا ہے جس سے اللہ راضی ہو تو ہم تمہیں بتاتے ہیں تو پھر وہ فیصلہ کرنا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق ہے.لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ - (الاحزاب: ۲۲)
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء.تو پانچویں صفت آپ کی یہ ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے لئے رہتی دنیا تک کامل اُسوہ ہیں اور چھٹی صفت آپ کی زندگی میں پائی جاتی ہے اور بڑی پیاری ہے اور وہ یہ کہ آپ کی دعاؤں میں بڑی گہرائی اور انتہائی وسعت ہمیں نظر آتی ہے.باریکیوں میں گئی ہیں آپ کی دعائیں کوئی پہلو نہیں چھوڑا اور وسعتیں اتنی کہ آج چودہ سو سال کے بعد بھی ہم جو حساس دل اور نور فراست رکھنے والے ہیں یہ محسوس کرتے ہیں اپنی زندگی میں کہ ہماری زندگی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی وجہ سے یہ زندگی ہے جو ہم گزار رہے ہیں مثلاً میں ایک مثال دیتا ہوں مشکل ہے سمجھنا بغیر مثال کے، آپ احمدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے، آپ آج یہ زندگی اس لئے گزار رہے ہیں کہ اسلام دنیا میں غالب آئے.اس زمانہ میں اسلام کے دنیا میں غالب آنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کی تھیں.تو جو عظیم انقلاب دنیا میں چودہ سو سال بعد آنے والا تھا اس کے لئے بھی دعائیں کی تھیں اور اس نے اپنے اُس جرنیل کو ، اس روحانی فرزند کو، جس نے یہ مہم چلائی تھی اس زمانہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے ، کہا تھا میر اسلام اُسے پہنچا دینا.سلام کیا ہے دعا ہی ہے نا.محض دعا نہیں کی بلکہ دعا کا اعلان بھی کیا.صحابہ کو کہا کہ میں اس کے لئے دعائیں کر رہا ہوں.تو چھٹی صفت آپ میں آپ کی زندگی میں ہمیں آپ کا وصف یہ نظر آتا ہے کہ آپ کی دعاؤں میں میں نے بتایا کہ زیادہ تفصیل میں میں نہیں جاسکتا ورنہ ہر جو عنوان ہے اُس کے اُو پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لکھا جا سکتا ہے.گہرائی بڑی ہے اور وسعت زمانہ کے لحاظ سے بھی اور مکان کے لحاظ سے بھی یعنی ساری زمین کا احاطہ کیا ہوا ہے.مکان کے لحاظ سے آپ کی دعاؤں نے اور قیامت تک کے زمانہ کے لئے دعائیں کی ہیں آپ نے.اور چھٹا وصف آپ کی زندگی میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انسان سے اتنا پیار کرنے والا انسان.آج کی مہذب دنیا اس نے نمائش کی ہے کچھ Show ہے اس کا ، کچھ رعب ڈالا ہوا ہے بہت سے دلوں کے اوپر.مگر یہ پیار ہی نہیں کرنا جانتے لیکن ہم نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنا ہے.میں نے کئی دفعہ اپنے دوروں پر امریکنوں اور یورپین سے کہا کہ کب وقت آئے گا
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۶ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء جب انسان ، انسان سے پیار کرنا سیکھے گا.ہمیں تو سکھا دیا سکھانے والے نے ، ہمارے استاد نے، ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ کسی انسان سے دشمنی نہیں کرنی بدخواہی نہیں چاہنی اس کی بلکہ اس کی خیر خواہی کرو.تمہیں اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 111 ) لوگوں کی بھلائی کے لئے قائم کیا گیا ہے.۷۴ء میں جماعت بڑی تکلیف میں تھی.اس وقت مجھے زیادہ فکر اپنے گرم خون والے نوجوانوں کی تھی کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہو جائے.میں نے بڑی دعائیں کیں.کئی مہینے تو کہہ سکتا ہوں کہ سویا ہی نہیں.نہ سونے کے برابر سویا ہوں.دعاؤں میں وقت گزارا ہے.نصیحتیں کی ہیں.بلایا ہے پیار کیا ہے.جن کو دکھ پہنچائے گئے تھے ان سے ہمدردی کی ہے.ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ایک نقطہ اُن کے سامنے میں نے رکھا ہے کہ تم کسی کے دشمن نہیں ہو ، دشمنی کا خیال بھی نہ لانا دل میں.میں نے کہا یہ نہیں کہ بدی کا بدی سے مقابلہ نہیں کرنا بلکہ دل میں بھی غصہ نہیں کرنا.دعائیں کرنی ہیں ان کے لئے جو تمہیں دکھ دینے والے ہیں.اس کے بغیر ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کا صحیح دعوی نہیں کر سکتے.ہمارا دعویٰ اگر ہے تو وہ غلط ہو جائے گا.ظالموں نے تیرہ سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں پر مکہ میں کتنے ظلم ڈھائے تھے اور جب خدا تعالیٰ نے اپنے قادرانہ تصرف سے ان کی گردنوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھکا دیا تلوار بھی میان سے نہیں نکلی لیکن ان کی گردنیں جھک گئیں الہی تصرف سے.اس وقت تیرہ سالہ انتہائی مظالم کا جو بدلہ لیا وہ یہ تھا جاؤ میں نے تم سب کو معاف کیا خدا تمہیں معاف کرے.لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - تو لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ قرآن کریم میں آیا ہے.ایک تپش ہے، ایک جلن ہے، ایک فکر ہے، ایک پریشانی ہے، اپنے لئے نہیں ، یہ کہ یہ لوگ جن کی ہدایت ، جن کی بھلائی جن کی خیر خواہی کے لئے ، جن پر خدا تعالیٰ نعمتیں نازل کرنا چاہتا ہے اپنی یہ ایمان کیوں نہیں لاتے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ (الشعراء: ۴) یہ بخع کی حالت ہے.یہ صفت اتنی عظیم رنگ میں کہیں اور ہمیں نظر نہیں آتی.کسی رسول میں بھی نظر نہیں آتی.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۷ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء اور یہ جو ہے کہ ہر ایک کی خیر خواہی آپ کے دل میں تھی اس کا عملی جلوہ ہمیں یہ نظر آتا ہے اور وہ آپ کا آٹھواں وصف ہے یا صفت ہے یا مقام ہے کہ آپ ایک زندہ نبی تھے.دنیا میں حیات جاودانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی.آپ کے فیوض جو ہیں ان سے پہلوں نے بھی حصہ لیا یعنی آپ کی بعثت سے بھی پہلے اور اس کا اعلان کیا گیا کہ آدم کے وجود سے بھی پہلے جب مٹی نے آدم کا وجود بنایا اس سے بھی پہلے میں خاتم النبیین تھا.کہا گیا کہ یہ جو اچھی باتیں ، نیکی کی باتیں ، اخلاق کی باتیں، ان غیر ترقی یافتہ اذہان کے لئے مجھ سے پہلی شریعتیں لائی تھیں وہ بھی میری کامل شریعت کا ہی ایک حصہ تھا.اُوْتُوا نَصِيبًا مِّنَ الكتب (ال عمران: ۲۴) تو یہ زندگی ایک زندہ نبی کی (ہے) جو زندگی آدم کی پیدائش سے پہلے شروع ہوئی اور آدم کی نسل پر قیامت جب آئے اس وقت تک یہ جاری رہے گی.آپ کے فیوض کے جلوے ہر خوش قسمت انسان اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی زندگیوں میں دیکھتا ہے اور آپ کے فیض سے ہی دنیا میں اب تبدیلیاں ہورہی ہیں.آپ کے فیض سے ہی قرآن کریم کے بطون جن کا تعلق اس زمانہ سے تھا وہ ظاہر ہورہے ہیں.یہ آپ ہی کا فیض روحانی ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جن کی زبانوں میں خدا تعالیٰ اثر پیدا کرتا اور دنیا کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس ذریعہ سے جیتے جا رہے ہیں.خدا اس زندہ نبی پر بے شمار بے حد صلوٰۃ اور سلام بھیجے اور سلام نازل کرے.( سلام ہم بھیجتے ہیں نازل وہ کرتا ہے ) اور دراصل درود وسلام کے مستحق وہی ہیں صحیح معنے میں باقی تو ہر انسان پہلا تھا یا بعد کا اور ہر بزرگ روحانی انسان جو پہلا تھا یا بعد کا اس نے اس کے پاس جو کچھ بھی ہے یا جو کچھ بھی آئندہ کسی کو ملے وہ طفیلی ہوگا.اپنی ذاتی حیثیت سے کسی کو کچھ نہیں ملنا.اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی پیار کرنا چاہیے اور آپ کی ہی اطاعت کرنی چاہیے اور آپ کی غلامی پر ہی فخر کرنا چاہیے اور آپ کی دعاؤں سے اپنا حصہ لینے کے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ دعائیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے جو اس زمانہ میں پیدا ہوئے کیں.خدا تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کا وارث بنائے اور ہماری غلطیوں کے نتیجہ میں کہیں ہم ان دعاؤں کے نیک اثرات سے محروم نہ ہو جائیں اور آپ کے فیوض سے ہمیں وافر حصہ ملے اور ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۸ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۹ء کی فوج روحانی کے بچے خادم بنائے اور سپاہی بنائے روحانی فوج کے.دوسری فوجوں سے تو ہمارا کوئی تعلق نہیں اور خدا کرے کہ جیسا کہ کہا گیا اور بشارتیں دی گئیں جلد وہ زمانہ آئے کہ نوع انسانی اپنی ظلمات سے نکل کر باہر آئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے ٹھنڈے سایہ تلے اپنی زندگی کے دن گزارنے لگے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۹ خطبہ جمعہ ۱۶ / فروری ۱۹۷۹ء ابدی زندگی کا حصول خدا کے فضل کے بغیر ممکن نہیں خطبه جمعه فرموده ۱۶ فروری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کل دو پہر سے بارش ہورہی ہے کبھی خاصی تیز ہو جاتی ہے کبھی زور ٹوٹ جاتا ہے مگر لگا تار قریباً بارش ہو رہی ہے اور اس موسم میں دین اسلام جو سہولتیں دیتا ہے اور زیادہ سختی نہیں کرتا ماننے والوں پر، اس دینِ اسلام نے اجازت دی ہے کہ اگر چاہو تو ایسے موسم میں جمعہ نہ ہو اور اپنے اپنے حلقہ یا محلہ یا قریب کی مسجد میں ظہر کی نماز پڑھ لی جائے یا گھروں میں نماز پڑھ لی جائے اور بہت سے دوست ہیں جن کو جسمانی طاقت کی وجہ سے یا دل کے جذبہ کے نتیجہ میں یہ ہمت ہوتی ہے کہ وہ مسجد میں آجائیں تو موسم پر غور کرتے ہوئے میں نے سوچا تو میرے سامنے یہ سوال آیا کہ آیا میں ان کا خیال رکھوں جو مسجد میں پہنچ جائیں گے اس موسم کے باوجود یا ان کا خیال رکھوں جو موسم کی وجہ سے اجازت جو ان کو دی گئی ہے اس کے نتیجہ میں مسجد میں نہیں پہنچیں گے.تو میں نے فیصلہ کیا کہ جو مسجد میں جمعہ کی خاطر تکلیف اٹھا کر پہنچیں گے ان کا بہر حال خیال رکھنا چاہیے.میرا خیال ہے کہ اس وقت عام حاضری کی نسبت شاید آٹھواں حصہ یا دسواں حصہ حاضری ہو مگر جو نہیں آئے ان کا بھی کوئی گناہ نہیں کیونکہ اسلام نے یہ اجازت دی ہے.ایک دفعہ اس سے ملتے
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۱۶ / فروری ۱۹۷۹ء جلتے حالات میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں یہ اعلان فرمایا صَلُّوا في رِحَالِكُمْ کہ ایسا موسم ہے کہ اپنے گھروں میں ہی نماز اب تم پڑھ لو، جمعہ کے لئے آنے کی ضرورت نہیں اور یہ جو سہولت دی جاتی ہے اور جو لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کو بھی جہاں تک ثواب کا تعلق ہے اس معنی میں کوئی نقصان نہیں کہ جنت میں جانا اور جنت میں ابدی زندگی گذار نا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے انسان کے عمل کے نتیجہ میں نہیں.تو اس موسم نے میری توجہ اس مسئلہ کی طرف پھیری کہ بہت سے انسان ایسے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کا مذہبی عقیدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محدود اعمال کی غیر محدود جزا نہیں دیتا، نہ دے سکتا ہے اس لئے یہ انتظام کیا اس نے کہ جس وقت ایک روح جنت میں اپنے اعمال کا بدلہ پالیتی ہے تو اسے واپس اس ایسی دنیا میں یا اس دنیا میں جہاں نیک اور بدعمل کا موقع اور اس کے او پر جہنم یا جنت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور پھر نئے سرے سے ایک زندگی شروع ہوتی ہے.نئی جون میں روحیں آتی ہیں.نئے جسموں کے اندر نئے سرے سے عمل کرتی ہیں ، پھر نئے سرے سے خدا تعالیٰ ان کے اعمال کی جزا کے لئے انہیں ایک محدود عرصہ تک جنت میں رکھتا ہے.پھر وہ عرصہ پورا ہوجاتا ہے پھر وہ واپس نئے جسموں میں آتی ہیں ایک نیا دور پھر شروع ہو جاتا ہے اور اس طرح غیر متناہی دور انسان کی روح پر آتے رہتے ہیں لیکن اسلام ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا.یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال پر فرمایا کہ ہاں عائشہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا اپنے اعمال کے نتیجہ میں نہیں اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو جنت میں جائیں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ان کو ایک ابدی جنتی زندگی عطا کی جائے گی پھر وہ جنت میں سے نکالے نہیں جائیں گے اور یہ عقیدہ رکھنا جیسا کہ اسلام نے ہمیں سکھایا کہ جنت کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے مرورِ زمانہ کے ساتھ پہلے کی نسبت زیادہ نازل ہوں گے یا جلوہ گر ہوں گے جنتیوں پر.بلکہ ایک حدیث میں تو یہ بھی آیا ہے کہ ہر روز جنتی اپنے مقام سے ایک بالا مقام کی طرف خدا کی رضا کے نتیجہ میں اور اس کے فضل سے ترقی کر جائیں گے اور نئی رفعتوں کو حاصل کریں گے اور زیادہ قرب انہیں نصیب ہوگا اللہ تعالیٰ کا.قرآن کریم نے ہمیں سمجھانے کے لئے یہ بتایا ہے، وہ
خطبات ناصر جلد هشتم اے خطبہ جمعہ ۱۶ / فروری ۱۹۷۹ء بڑی وضاحت کے ساتھ اور وہ اتنی روشن دلیل ہے کہ انسان جب اس پر غور کرے تو سارا مسئلہ انسان کے ذہن میں خود آجاتا ہے.قرآن کریم نے یہ کہا کہ جب ابھی تمہارے اعمال شروع بھی نہیں ہوئے تھے تو بے شمار خدا تعالیٰ کی نعمتیں تمہارے حصّے میں آگئیں.سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) کہ ہر دو جہان کی ہر چیز کو تمہاری خدمت اور تمہاری بھلائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا اور انسان کی تو ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی ہے اور پہلی نسل بھی انسان کی پیدا نہیں ہوئی تھی جب یہ دو جہان پیدا ہو گئے اور اس کی بھلائی کے اور اس کی ترقیات کے اور اس کے سکون کے اور اس کے اطمینان کے اور اس کی خوشحال زندگی کے سامان پیدا کر دیئے اللہ تعالیٰ نے.کس عمل کے نتیجہ میں پیدا کئے تھے؟ رحمانیت کے ہی جلوے تھے نا جو بغیر عمل کے جزا دیتی ہے تو دوسری طرف انسان کو دوسری مخلوق کے مقابلہ میں اس قدر کامل استعداد میں عطا کیں کہ ہر چیز جو پیدا کی گئی اس سے وہ خدمت لے سکتا ہے.یہ جو انسان کو صلاحیتیں ملیں انسان کی پیدائش کے ساتھ یہ اس کے کس عمل کا نتیجہ تھا؟ انسان کو یہ طاقتیں ملیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نیک اعمال بجالائے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرے.یہ طاقتیں ، روحانی طاقتیں جو ہیں جو روحانی صلاحیتیں اور استعدادیں ہیں جن کے بغیر روحانی میدان میں انسان ایک قدم بھی اٹھا نہیں سکتا یہ اس کے کس عمل کے نتیجہ میں اس کو ملیں؟ ظاہر ہے کہ ابھی جو چیز اس کو ملی نہیں ، اس کے مطابق اس نے عمل کہاں سے کر لیا.تو پیدائش کے ساتھ اتنی وہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ کی تصویر آتی ہے.تو یہ بارش نے ہی میری توجہ اس طرف پھیری نا کہ قطرے بارش کے تو ممکن ہے کہ انسان گن لے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گن نہیں سکتا اور یہ جن نعمتوں کا میں ذکر کر رہا ہوں ساری وہ ہیں جن کا تعلق انسان کے نیک یا بد عمل سے نہیں بلکہ انسان عمل کرنے کے ابھی قابل بھی نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اس کے لئے موجود تھیں.خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں اس کی پیدائش کے وقت اس کا استقبال کر رہی ہیں.جب اس نے پیدا ہوتے وقت پہلی چیخ لگائی اس دنیا میں آکر تو اس کا جواب کا ئنات نے یہ دیا تو چیختا کیوں ہے ہر چیز تیرے لئے پیدا کی گئی ہے ، آگے بڑھ اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر.
۷۲ خطبہ جمعہ ۱۶ / فروری ۱۹۷۹ء خطبات ناصر جلد هشتم تو جس نے ہماری پیدائش سے پہلے بے شمار نعمتوں سے ہمیں نواز اوہی ہمارے مرنے کے بعد بے شمار نعمتوں سے ہمیں نواز نے والا ہے اور ایک عمل ہمیں نظر آ رہا ہے اس زندگی میں کہ یہ بادل ہیں اللہ یہ خیر کے ہی بادل بنائے اور یہ بارش ہے اللہ خیر کی بارش کرے، یہ چاند ، یہ سورج، یہ ان کی شعاعیں، یہ زمین، یہ اس کی بے شمار خاصیتیں ، ایکٹرایکٹر میں فرق تا کہ ہم مختلف اجناس اُگا سکیں ان کے اندر ، علاقے علاقے کی طاقتوں کا زمین کا فرق.کوئی روئی اگا رہی ہے کوئی گندم اُگارہی ہے، کوئی کچھ اُگا رہی ہے، کوئی باغات اُگا رہی ہے تا کہ انسان خدا تعالیٰ کی کسی نعمت سے بھی محروم نہ رہے.بغیر کسی عمل کے یہ ساری چیزیں پیدا کیں.جس نے عملاً اپنی بے شمار نعمتوں سے انسان کو اس کے عمل سے پہلے نواز دیا اس کے متعلق تو ایک لحظہ کے لئے بھی یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ روحانی دنیا میں جب وہ اپنی رضا کی جنتوں میں انسان کی روح کو لے جائے گا.یہی جلوہ اس کے اوپر نہیں کرے گا کہ ابدی زندگی اس کو عطا کرے اور اس کی روح کو اس کے پیار کی جنتوں کے حصول کے لئے ایک خاص وقت کے بعد دوبارہ عمل کی زندگی گزارنے کے لئے دنیا میں بھیجا جائے ایک نئے جسم کے اندر.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ ہاں عائشہ میں بھی اللہ کے فضل ہی سے جنت میں جاؤں گا تو اس میں بھی یہ اعلان کیا کہ اے عائشہ! دیکھو میں ایک انسان ہوں، میری زندگی محدود، اس محدود زندگی میں خد کے لئے میرا ہر لحظہ جو خرچ ہورہا ہے زندگی کا وہ بھی محدود.اس محدود زندگی میں محدود عمل جو میں بجالاؤں اور خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں ہر عمل ہی خدا کی رضا کے لئے بجالا ؤں لیکن پھر بھی ہیں تو وہ محدود تو میرے محدود عمل کا غیر محدود نتیجہ خدا کے فضل کے بغیر کیسے نکل سکتا ہے.اس واسطے حقیقت یہی ہے کہ میں بھی اے عائشہ! خدا کے فضل کے بغیر ابدی زندگی کو حاصل نہیں کر سکتا ، اس واسطے کہ خواہ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك ہی کیوں نہ ہوتا یعنی ہر دو جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر درست لیکن اس پر دو جہان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی محدود، اس زندگی میں انتہائی فدائیت کے نمونے ایک کامل انسان کی حیثیت میں آپ نے دکھائے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم بن گئے یہ درست لیکن خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم بننے کے باوجود آپ کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۳ خطبہ جمعہ ۱۶ / فروری ۱۹۷۹ء نیکیاں محدود کیونکہ زندگی محدود.محدود زندگیوں کے مقابلہ میں غیر محدو دنتیجہ جنتوں میں رہنے کا اور انعامات کا سوائے خدا تعالیٰ کے فضل کے نہیں مل سکتا تو جس رب کریم نے ہماری پیدائش سے پہلے بے شمار ، بے حد و حساب نعمتوں سے ہمیں نوازا اس کے متعلق یہ سوچنا کہ ہمارے مرنے کے بعد وہ اب اس قابل نہیں رہا کہ اپنی جنتوں میں ہمیں ہمارے محدود اعمال کے مقابلہ میں غیر محدود جزا دے کر بے حد و حساب، بے شمار نعماء روحانی سے نواز نہ سکے یعنی یہ غلط بات ہے کہ ہم یہ کہیں کہ وہ نوا ز نہیں سکتا کیونکہ اس کے جو ہماری پیدائش سے پہلے اس کا ہم سے سلوک ہے اس نے بغیر کسی شک اور شبہ کے یہ ثابت کیا کہ وہ خدا جو ہے وہ کر بھی سکتا ہے اور کرے گا بھی.اور کرے گا اسی وجہ سے ہم کہتے کہ اس نے پہلے کیا.انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ اس پر بے حد و شمار خدا تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوں.کچھ اس کی نیکیوں کے نتیجہ میں یعنی بے حد و شمار جو نعمتیں ہیں کچھ کا حصہ تو مقبول اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں.لیکن جو اصل حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ یہ بے حد و حساب نعمتیں جو ہیں وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں.اس واسطے کسی ایسے عقیدہ کی ہماری عقل کو ، ہماری فطرت کو ، جس میں بے حد و شمار صلاحتیں نعماء ظاہری کے استعمال کے لئے اور پھر ارتقاء کرتے ہوئے نعماء روحانی کے قبول کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہیں جس کو ہماری فطرت ، فطرتِ انسانی علی وجہ البصیرت یہ بجھتی ہے، اس یقین پر قائم ہے، روشن چیز ہے ہمارے سامنے کہ ہمارا خدا جو ہے وہ اپنے فضل سے بے حد و شمار نہ ختم ہونے والی نعمتیں نہ ختم ہونے والی زندگی میں ہمیں عطا کرے گا.اس واسطے وہ تمام عقائد جو خدا تعالیٰ کی رحمانیت جو خدا تعالیٰ کے سلوک سے جو اس نے انسان سے کیا کہ یہ اعلان کر دیا سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (الجاثية : ١٤) اس کے یہ خلاف ہے کہ یہ کہا جائے کہ پھر وہ روح کو واپس لائے گا اور ایک نئے سرے سے ان کو کہے گا کہ نیک اعمال کرو تب تم میری جنتوں میں رہ سکتے ہو ورنہ نہیں رہ سکتے.خدا تعالی بڑا پیار کرنے والا ہے.اس محدود زندگی میں اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق جس حد تک ہم اس سے اس کے بے حد و حساب پیار کے مقابلہ میں پیار کر سکیں وہ ہمیں کرنا چاہیے ورنہ ہماری بدقسمتی ہوگی، ورنہ وہ روح جو ابدی جنتوں کے لئے پیدا کی گئی ہے اسے اپنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۴ خطبہ جمعہ ۱۶ / فروری ۱۹۷۹ء زندگی کا ، اپنی حیات کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے غضب کے جہنم میں گزارنا پڑے گا.اس کے لئے تو نہیں اس کو پیدا کیا.خدا نے تو یہ اعلان کیا ہے کہ میں نے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) کہ انسان بڑے ہوں یا چھوٹے اپنا عبد بننے کے لئے ان کو پیدا کیا.تو ہر شخص کو جس کی فطرت مسخ شدہ نہیں ہے اسے اس حقیقت کا احساس ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ سے پیار کا تعلق قائم کرنے کے لئے ہمیشہ اسے کوشش کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں کوشش، ایسی کوشش کرنے کی توفیق بھی عطا کرے اور ہمارے اعمال کو وہ قبول بھی کرے تا محدود اعمال کا ہم اس سے نہایت ہی پیارا غیر محدود، رضا کی جنتوں کی شکل میں اپنا بدلہ اور ثواب حاصل کرسکیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵ خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانا جماعت احمدیہ کا کام ہے خطبه جمعه فرموده ۲ / مارچ ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم نے اللہ تعالیٰ کے ذکر پر، ذکر باری پر ، خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے پر بہت زور دیا ہے.بعض مقامات میں تفصیل سے بعض باتوں کا ذکر کر کے انسان کو خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بعض آیات میں اصولی تعلیم بیان کی اور اس بنیادی حقیقت کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے.سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا ( الجمعة : ۱۱) اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.اور اس کے نتیجہ میں ہی تمہیں کامیابی ملے گی.قرآنی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی زندگی کی کامیابی یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی جو صلاحیتیں اور استعدادیں ہیں یا جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر صفتیں پیدا کی ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھے اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل ہو.خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے اس دنیا میں ظاہر ہوئے یا ہوتے ہیں ان کی معرفت ہمیں حاصل ہو.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ کی صفات کے فعلی جلوے ہیں جس سے یہ کائنات وجود میں آئی ، جس کے نتیجہ میں ہر دو جہان قائم ہیں اور جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز کے اندر بے شمار خاصیتیں پائی جاتی ہیں اور ان خواص میں مرورِ زمانہ کے ساتھ زیادتی ہوتی چلی جارہی ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج سے دس ہزار سال پہلے جو گندم زمین پیدا کرتی تھی اس کی صفات اور جو گندم آج زمین پیدا کر رہی ہے اس کی صفات میں بھی فرق ہے کیونکہ اس عرصہ میں صفات باری کے نئے جلوؤں نے صفاتِ گندم میں زیادتی پیدا کی ہے.معرفت ذات وصفات باری کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ میں بتا رہا ہوں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے ہیں ان کی معرفت حاصل ہو.اسی لئے قرآن کریم نے دنیا کی ہر چیز کو آیت قرار دیا ہے.آیات اللہ میں سے اسے ایک چیز قرار دیا ہے.بعض جگہ بڑی تفصیل سے ہواؤں کا چلنا ، ان کا پانی اٹھانا، یعنی بخارات اٹھانا ، پھر بادل بن جانا ، پھر بادلوں کا برسنا، زمین کا روئیدگی اگانا، جنسیں پیدا کرنا، درختوں کا پت جھڑ ، بعض موسموں میں پتے جھاڑ دینا، نئے اگانا، وغیرہ وغیرہ سب کو آیات کے زمرہ میں قرآن کریم میں رکھا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جو فعلی جلوے ہیں یعنی جن سے یہ کائنات بنی اور کائنات کی ہر چیز کی صفات میں زیادتی ہوتی چلی جارہی ہے اور خدا تعالیٰ کے جو قولی جلوے ہیں جو کامل شکل میں شریعت کے لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن عظیم میں ظاہر ہوئے ، ان ہر دو کا جاننا.پوری طرح معرفت حاصل کرنا، پہچانا، سمجھنا، اس کی گنہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا.اس کے حسن سے واقفیت حاصل کرنا، اس کی افادیت کا پتا لگانا وغیرہ وغیرہ.ان چیزوں سے ہمیں خدا کی اور اس کی صفات کی معرفت ملتی ہے.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَا تَتَّخِذُوا التِ اللهِ هُزُوًا (البقرة : ۲۳۲) خدا تعالیٰ کی جو آیات ہیں انہیں معمولی سمجھ کے محل تمسخر اور استہزا نہ بناؤ کیونکہ اس کے بغیر ان آیات کے سمجھنے کے بغیر تم خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ، خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کئے بغیر تم خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں کر سکتے ، خدا تعالیٰ کا ذکر صحیح رنگ میں کئے بغیر تم حقیقی نجات اور کامیابی اور فلاح نہیں حاصل کر سکتے اپنی زندگی میں.اس آیت میں پھر آیات اللہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہمارے سامنے یہ مضمون بیان کیا
خطبات ناصر جلد هشتم 22 خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمُ (البقرة :۲۳۲) آیات اللہ کو محل استہزا نہ بناؤ بلکہ خدا تعالیٰ کی جو مادی دنیا میں صفات ظاہر ہوئی ہیں.اس مادی دنیا میں نعماء باری جو ہیں ان کو سمجھو اور ان کی معرفت حاصل کرو تا کہ ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کر سکو تو نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُم یہ قرآن کریم کے محاورہ میں جسمانی روحانی ہر دو قسم کی نعمتوں پر بولا جاتا ہے (یہاں چونکہ مقابلہ ہوا ہے ہدایت کے ساتھ اس لئے ، ویسے تو خدا تعالیٰ کی روحانی نعمتیں اور اس کا کلام بھی بڑی نعمت ہے اور جو انسان کو صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ بڑی نعمتیں ہیں) لیکن یہاں چونکہ کتاب و ہدایت کا ذکر بعد میں آیا ہے اس لئے یہاں مراد ہوگی ہر دو جہان کی ہر چیز جس کا ذکر سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا منه (الجاثیۃ : ۱۴) میں آتا ہے یعنی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے تم ان کے متعلق علم حاصل کرو اور ان کے حسن کو دیکھو، دیکھو کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے بعض چیزوں کو لاکھوں سال پہلے پیدا کیا اس معنی میں ارتقائی دور میں سے گذرنے کے لئے ان میں حرکت پیدا کی اور پھر بعض چیزیں ایسی ہیں جو کئی لاکھ سال کے بعد اس شکل میں آئیں جس شکل میں آج انسان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہیں نعماء ہیں ان کو یاد کرو اور یا درکھو اور ان کے علاوه وَ مَا أَنْزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الكتب وَالْحِكْمَةِ (البقرة :۲۳۲) خدا تعالیٰ نے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تمہارے لئے ایک کامل کتاب نازل کی ہے ایک ہدایت کا ملہ تمہیں دی اور ایک حکمت کی کتاب یعنی ایسی شریعت جو فطرت کے مطابق ہے اور بات حکم“ سے نہیں بلکہ حکمت سے منواتی ہے یعنی ہر حکم جو ہے شریعت کا اس کی وجہ قرآن کریم نے بیان کی کہ یہ حکم تمہارے کس فائدے کے لئے ہے اس لئے تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے یہ تمہارے اوپر کوئی چٹی نہیں ہے کوئی بیگار نہیں لی جا رہی تم سے جس کو قربانی کہا جاتا ہے وہ تم اپنے نفس کے لئے قربانیاں دے رہے ہو اس کا فائدہ تمہیں پہنچے گا، تمہاری نسلوں کو پہنچے گا کسی چیز سے تمہیں محروم نہیں کیا جارہا.جو مال کی مثلاً قربانی ہے اس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ خدا مال کو لیتا ہے تا کہ بڑھا کر واپس کرے.غرض قرض نہیں رکھتا وہ ( یہ عجیب قربانی ہے کہ پانچ روپے لئے اور پانچ سو دے دیئے
خطبات ناصر جلد ہشتم ZA خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء اور انسان کہے کہ ہم نے خدا کی راہ میں بڑی مالی قربانیاں دے دیں) مگر یہ اس کی شان ہے جو سب سے بڑا ہے کہ وہ اسی کو قربانی سمجھتا اور اپنے پیار سے اپنے بندے کو نوازتا ہے.تو انسان خدا کا جو ذکر کرتا ہے وہ صحیح ذکر صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اس کی صفات کا علم ہو اور.صفات کے علم کے لئے ہر قسم کی تحقیق ( علمی تحقیق جو ہے وہ ) ضروری ہے یعنی جو خدا نے پیدا کیا اس کی عظمت جاننے کی کوشش کرنا اس کی جو پیدائش ہے اس کے دست قدرت سے جو چیز نکلی ہے اس میں بھی بڑی عظمت ہے اس میں بھی بڑا حسن ہے اس میں بھی بڑی افادیت ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر ضروری چیز کو پیدا کیا.جب تک ان چیزوں کا علم نہ ہو.صحیح طور پر انسان اپنی فطرت پر اپنی صفات پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھا نہیں سکتا.تو خالی یہ نہیں کہا کہ ذکر کرو بلکہ ذکر کا طریقہ بھی بتا یا کہ ذکر کا مطلب یہ ہے.ایک بچے کا سُبحان اللہ کہنا ذ کر کی ابتدا تو کہلا سکتا ہے مگر ذکر نہیں کہلا سکتا یا ایک کم علم اور ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرنے والے بالغ انسان کا سُبحان اللہ کہنا ثواب تو ہے لیکن خدا تعالیٰ جس رنگ میں اس سے پیار کرنا چاہتا ہے وہ پیار اس کو بھی حاصل ہوسکتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے رنگ کو پہچانے اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کی رفعت اور اس کی شان جو ہے اور اس کی قدرتوں کے جو جلوے ہیں اور ان میں جو حسن ہے اور جو احسان خدا تعالیٰ بے شمار شکلوں اور صورتوں میں ایک فرد واحد کی ذات پر کر رہا ہے اس کا علم اسے حاصل ہوتا ہے.تب اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے جس سے وہ بھی سیراب ہوتا ہے اور اس کا خاندان اور نسل بھی سیراب ہوتی ہے اور بہت سارے دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھانے والے بن جاتے ہیں.اسلام یہ نہیں کہتا کہ جو د نیوی علوم ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں.اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیوی علوم کی ہر برانچ ہر شعبہ کا جاننا اس لئے ضروری ہے کہ اگر تم مومن ہو اور خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو تو جب تک تمہیں ان باتوں کا علم نہیں ہو گا تم خدا تعالیٰ کی صحیح معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتے مثلاً ستاروں کا علم ہے، افلاک کا علم ہے تو یہ سمجھنا کہ رات کو بچے بھی دیکھتے ہیں.بچپن میں میرے خیال میں ہر بچہ کبھی سوچتا ہوگا کہ میں گنوں کتنے ستارے مجھے نظر آر ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۹ خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء ہیں جو گن نہیں سکتا بالکل چھوٹی عمر میں بعض بچے کہہ دیتے ہیں (ماں یا باپ کو ) کہ مجھے یہ ستارہ لا کے دو.یعنی ان کو پتا کچھ نہیں ہوتا لیکن نظر آ رہا ہے.لیکن جب تک افلاک کا یہ علم نہ ہو کہ کس قدر وسعت خدا تعالیٰ کی اس پیدائش میں ہے جس کو ہم زمین و آسمان کہتے ہیں اب تک جو علم انسان نے بہت دور دیکھنے والی دور بینیں ہیں ان سے حاصل کیا ہے اور وہ سائنس کے نئے طریقے یہ ہیں وہ جو پہلے شیشے سے دیکھنے والے طریقے تھے وہ اب نہیں رہے.بہت زیادہ آگے بڑھ چکا ہے انسان.جو اب تک معلوم کیا وہ بھی یہ ہے کہ اس ہر دو جہان میں، ان آسمانوں میں بے شمار ایسے قبائل ہیں ستاروں کے، بے شمار ایسے قبیلے ہیں جن کو یہ کیلیکسیز (Glaxies) کہتے ہیں گیلیکسی ستاروں کے ایک ایسے قبیلے کا نام ہے جو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتا ہے اور بے شمار سورجوں ر مشتمل یہ قبیلہ بحیثیت مجموعی ایک نامعلوم جہت کی طرف حرکت کر رہا ہے اور دوسروں کے ساتھ اس کا کو ئی تعلق نہیں.جو دوسری کیلیکسیز دوسرے قبائل ہیں ان کا ایک مستقل وجود ہے قبیلے ہونے کے لحاظ سے اور قبیلہ ہونے کے لحاظ سے.اس کے اندر ان گنت ( یعنی جس کو انسان گن نہیں سکا ) سورج ہیں اور ان سورجوں کے گرد ستارے گھوم رہے ہیں.تو سورج بھی ان گنت ہیں تو جوان کے ساتھ ستارے مل جائیں تو ان کی تعداد کیا بن جاتی ہے، بے شمار گیلیکسیز ، بے شمار قبائل ہیں.ہر گیلیکسی میں بے شمار سورج ہیں اور پھر حرکت کر رہے ہیں یہ، اور ان کی حرکت متوازی نہیں بلکہ ہر آن ایک دوسرے سے پرے ہو رہا ہے ہر قبیلہ، ہر سیلیکسی اور درمیان میں ان کا فاصلہ بڑھتا چلا جارہا ہے اور سائنسدان کہتے ہیں کہ جب دو گیلیکسیز میں یعنی ستاروں کے ایسے قبیلے میں جس کے اندر بے شمار سورج ہیں جن کے گرد دوسرے ستارے پھر رہے ہیں اتنی جگہ ہو جائے کہ ایک لیلیکسی بے شمار ستاروں کی وہاں سما سکے تو وہاں کُن فیکون سے ایک نئی لیلیکسی ( ستاروں کا قبیلہ ) پیدا ہو جاتی ہے.بے شمار سورجوں پر مشتمل ایک نیکیلیکسی وہاں پیدا ہو جاتی ہے.یہ کہنا کہ اس علم کی ایک مومن متقی کو ضرورت نہیں غلط بات ہے.قرآن کہتا ہے لَا تَتَّخِذُوا آیت اللهِ هُزُوا خدا تعالیٰ کی مخلوق جو ہے اس کی گہرائیوں میں جو جاتے ہیں وہی معرفت صفاتِ باری حاصل کر سکتے ہیں.ہر آدمی تو ان گہرائیوں میں جانہیں سکتا.اتنا بڑا علم ہے یہ اور اس میں پھر
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۰ خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء خدا کی ایک اور شان نظر آتی ہے.پھر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ ساری بے شمار کیلیکسیز ( ان گنت قبائل جو ہیں یہ ) قانون کی پابندی کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کے لئے جو قانون اور قواعد بنائے ہیں.ان کے پابند ہیں.آپس میں نہ لڑتے ہیں نہ جھگڑتے ہیں.کبھی یہ نہیں ہوا کہ ایک قبیلہ کا ستارہ دوڑ کے دوسرے قبیلہ میں چلا جائے یا ادھر کا ادھر آجائے یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچا ئیں بلکہ جو حکم ہے وہ کر رہے ہیں اور پھر یہ کہ ایک تونی گیلیکسیز پیدا ہورہی ہیں) جو موجود ہیں ان کی صفات میں زیادتی ہو رہی ہے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کے نتیجہ میں جس شخص کو صرف اتنا علم ہی حاصل ہو جائے باقی ( سمجھیں آپ ) بالکل اندھیرا ہے.صرف یہ روشنی اس کے سامنے آئی ہے اپنے رب کے متعلق.تب بھی اس کے دل سے نکلتی ہے تکبیر کہ خدا سب سے بڑا ہے بڑا بلند ہے اور سُبحان اللہ.ایسا قانون بنا دیا کہ جتنا گہرائیوں میں بھی جاؤ یہ پتا لگتا ہے کہ کوئی عیب اس کے فعل میں نظر نہیں آتا اور کوئی تضاد ہمیں وہاں نظر نہیں آتا.قرآن کریم میں کئی جگہ کہا ہے.سورۃ ملک میں بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کے جلوؤں میں تمہیں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.یہ بڑا لطیف مضمون ہے.ایک ہے سائنس، آپ یہ کہیں گے کہ ہر ایک کیسے ہر سائنس پر عبور حاصل کر لے.ایک ہے وہ سائنس جس کی تحقیق میں ایک جماعت سائنس دانوں کی مشغول ہوتی ہے اور بڑے پیسے خرچ کرتی رہی ہے دنیا.انتہائی قیمتی آلات بناتے ہیں مثلاً ستاروں کا جو یہ علم ہے اس کے لئے کروڑوں کروڑوں ڈالر کی انہوں نے دور بینیں بنائی ہیں ستاروں کو دیکھنے کے لئے.ہر علم کی ان باریکیوں اور گہرائیوں میں تو ہر انسان نہیں جا سکتا لیکن جو ان کے اندر بنیادی اصول کام کر رہے ہیں وہ ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنا چاہیے تا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا جو سایہ ہے وہ ہماری روح کے اوپر پڑے اور ہم بہکنے سے محفوظ ہو جائیں.پھر ایٹم کی طاقت ہے ایک ذرے کے اندر اتنی طاقت خدا تعالیٰ نے بند کر کے رکھ دی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک طرف وسعت اتنی کہ گیلیکسیز کا شمار ہیں اور ہر گیلیکسی میں اتنے سورج کہ کسی ایک گیلیکسی کے سورجوں کی تعداد بھی ہم پتا نہیں لگا سکے اور دوسری طرف ایک ذرہ (ایٹم ) لے لو اس کے اندر اتنی طاقت
خطبات ناصر جلد هشتم ΔΙ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ نے بند کی ہوئی ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.اس کی طاقت جو ہے وہ انسان کو فائدہ بھی پہنچا رہی ہے لیکن غلط استعمال کے نتیجہ میں ہلاکت کا بھی سامان پیدا کر رہی ہے.خدا تعالیٰ کا اگر ذکر کرے انسان یعنی یہ علم جب اس کے سامنے آئے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی عظمت اور خدا تعالیٰ کی معرفت بھی اسے حاصل ہو اور عظمت کا جلوہ بھی اس پر ظاہر ہوتو پھر وہ سمجھے گا کہ خدائے قادر و توانا نے جو یہ عظیم چیز پیدا کی ہے اس سے خدا کی مخلوق کو ہلاک کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے لیکن اندھی ہے دنیا جو خدا کی معرفت حاصل کرنے کی بجائے خدا کے بندوں کو دکھ دینے کے سامان پیدا کر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے دماغوں کو ہدایت عطا کرے اور خدا ایسے سامان پیدا کرے کہ سارے ہی انسان خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے والے ہوں.گیلیکسیز کے متعلق ابھی جو میں نے آپ کو بتایا اس کے نتیجے میں جب انسان کے سامنے یہ باتیں آئیں تو اس میدان کے سائنسدانوں میں سے ایک حصہ جو پہلے دہر یہ تھا انہوں نے کہا اب ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین آگیا ہے.یہ جو نئی لیلیکسیز پیدا ہوئیں تو یہ چیزیں سائنس دانوں کو اس طرف لا رہی ہیں.لا تَتَّخِذُوا ايْتِ اللهِ هُزُوًا یعنی خدا تعالیٰ کی جو آیات ہیں (اور خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے پیدا ہونے والی ہر چیز قرآن کریم کی اصطلاح میں خدا تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت ہے نشان ہے.ایک ایرو (Arrow) ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف اور اس کی صفات کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے ) ان کو محل استہزا نہ بناؤ کہ تم خدا کی طرف آنے کی بجائے اس سے دور ہونے لگ گئے بلکہ ان چیزوں کو ذریعہ بناؤ خدا تعالیٰ کی صفات کے سمجھنے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی معرفت حاصل کرنے کا تاکہ اس کے نتیجہ میں جو ایک عظیم ہدایت خدا تعالیٰ نے ( مَا انْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ ) نازل کی ہے جو حکمت سے پُر اور دلیل دے کے انسانی عقل کی تسلی کرتی اور اسے سمجھاتی ہے کہ تمہارے فائدے کے لئے یہ سارے احکام دیئے گئے ہیں، اسی طرح جس طرح تمہارے فائدے کے لئے ہر دو جہان کی ہر چیز پیدا کی گئی ہے یعنی ایک ہی خدا دنیا کی ہر چیز کو انسان کے فائدے کے لئے پیدا کرے اور اس کے متعلق انسان یہ سمجھے کہ جو اس نے اپنی وحی کے ذریعہ شریعت اور ہدایت نازل کی اس کا کوئی حکم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲ خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء انسان کو دکھ دینے کے لئے ہے یا اس کے فائدے میں نہیں ہے یہ تو ایسی نامعقول بات ہے کہ میرے خیال میں اگر سمجھایا جائے تو ایک بچے کو بھی آسانی سے سمجھ آجائے گی یہ بات.اتنی بڑی دنیا جس کے ایک حصے، چھوٹے سے نقطے کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تو اس نے پیدا کی انسان کے فائدہ کے لئے اور بے شمار چیزیں ایسی بنادیں کہ انسان فائدہ ان سے حاصل کرتا ہے، فائدہ حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور نئی سے نئی چیز اس کے علم میں آتی ہے اور اس کو پھر افسوس ہوتا ہے کہ میں نے پہلے کیوں نہیں یہ علم حاصل کیا.پہلے اس سے فائدہ حاصل کر لیتا لیکن اس کے مقابلہ میں جو اس نے انسان کی ہدایت کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل شریعت نازل کی وہ انسان کے فائدے کے لئے نہیں یا اس میں کوئی ایک بھی ایسا حکم ہے جو اس کے فائدے کے لئے نہیں.یہ نامعقول بات ہے.انسانی عقل ، انسانی فطرت اسے قبول نہیں کرے گی.اس واسطے خدا تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے دنیا کی نعماء کا ذکر کیا کہ ہر چیز انسان کے فائدے کے لئے پیدا کی گئی ہے.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ خدا تعالیٰ نے کہا دیکھو ہر چیز جو ہے وہ نعمت کے طور پر پیدا ہوئی ہے تو اس سے تمہیں نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ مَا انْزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ اس کی طرف سے آنے والی کامل ہدایت بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی لے جانے والی ہے وہ بھی ایک نعمت روحانی ہے اس کو ہم ہدایت ، شریعت ، حکمت، اس کو ہم ایک حسین تعلیم ، اس کو ہم انسان کو ایک بہترین انسان بنانے والی، اس کو ہم ایک وحشی کو متمدن، متمدن کو با اخلاق، با اخلاق کو روحانی انسان بنانے والی تعلیم سمجھتے ہیں، اس طرح جس طرح دنیا کی ہر چیز سَخَّرَ لَكُمْ کے ماتحت انسان کے فائدے کے لئے ہے.اسی طرح قرآن کریم کا ہر حکم انسان کے فائدے کے لئے ہے اور جو شخص یہ نہیں سمجھتا وہ بدقسمت اور محروم ہے کہ خدا تعالیٰ اسے دینا چاہتا ہے اور وہ لینے سے انکار کر رہا ہے.مگر اس زمانہ میں یہ اندھی دنیا خدا سے دور جا چکی ہے اور خدا کی طرف واپس انہیں لے آنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپر د کیا گیا ہے اور اس کے لئے جماعت کو نمونہ بنا چاہیے اور نمونہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت انہیں حاصل ہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳ خطبہ جمعہ ۲/ مارچ ۱۹۷۹ء دنیوی علوم بھی سیکھیں اور قرآن کریم کے علوم بھی سیکھیں اور خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں اور اس کے پیار کو پائیں اور جو پیار کے ڈر اس نے محض اپنی رحمت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے اوپر کھولے وہ در ان کی زندگی میں عملاً ان پر کھلے ہوں اور خدا تعالیٰ کا ہر رنگ کا پیارا نہیں ملے.خدا جب پیار کرتا ہے سچی خوا میں بھی دکھاتا ہے.بولتا بھی ہے اپنے بندے سے.بڑا پیار کرنے والا ہے ہمارا رب.اور پھر خدا کے لئے اس کی مخلوق کو راہِ راست پر لانے کی خاطر جوان سے ہوسکتا ہے وہ کریں.ہر قسم کی وہ کوشش کریں اور جن کو ہم قربانی کہتے ہیں اور ایثار کہتے ہیں اور کہتے ہوئے شرم بھی آتی ہے مجھے.اپنے متعلق بھی ، آپ کے متعلق بھی کہ جس خدا نے یہ کہا کہ میں تم سے مال اس لئے لیتا ہوں کہ بڑھا کر تمہیں واپس کروں اس مال کو جو وہ لیتا ہے ہم یہ کہیں کہ خدا کے لئے ہم نے کوئی قربانی دی تو ایسا تو خیال بھی نہیں آنا چاہیے.ہم اس کو خوش کرنے کے لئے اس کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ خدا ہماری امید کے مطابق ہمیں اپنا پیار دے گا اور ہمیں اس قابل بنائے گا کہ اس زمانہ میں جو ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے ہم اسے نباہنے والے ہوں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ / مارچ ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۵ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء اسلام نے کامل مذہبی آزادی دی ہے خطبه جمعه فرمود ۹۰ / مارچ ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:.اِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ ـ (البقرة : ١٢٠ ) اور پھر حضور انور نے فرمایا:.اس آیت میں محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخاطب ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، مبعوث کیا ہے بشیر اور نذیر بنا کر اور اصحب الْجَحِيمِ کے متعلق تجھ سے باز پرس نہیں کی جائے گی.قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں کہا کہ کافروں کے متعلق تجھ سے باز پرس نہیں کی جائے گی بلکہ یہ کہا کہ اصحب الْجَحِيمِ کے متعلق تجھ سے باز پرس نہیں ہوگی.تیری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ کوئی دوزخ میں جاتا ہے یا نہیں جاتا.اصحب الْجَحِيمِ کے معنی سمجھنے کے لئے جب ہم قرآن کریم ہی کو دیکھتے ہیں اور وہیں.ہمیں صحیح معنی پتا لگ سکتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اصحب الْجَحِيمُ یا اَصْحَبُ النار ، دوزخ کی آگ میں پڑنے والوں کا جہاں ذکر کیا ہے وہاں تین بڑے گروہ ہیں جن کا ذکر
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۶ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء أَصْحَبُ الْجَحِيمُ يا اصحبُ النَّارِ کے الفاظ سے کیا گیا ہے.ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تجھ سے ان تینوں گروہوں کے جہنم میں جانے کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی.پہلا گروہ ان میں سے وہ ہے جس کا ذکر سورۃ مائدہ کی آیت ! میں بیان ہوا.فرمایا وَ الَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أُولَبِكَ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ (المائدة : 1 ) وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہوں کو اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا، جو دلائل صداقت کے تھے ان کی تکذیب کی اور خدا تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا أوليكَ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ.یہ لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک اَصْحَبُ الْجَحِيمِ ہیں ، دوزخ میں پھینکے جائیں گے.یہ گروہ جو ہے آگ میں پڑنے والا ہے.دوسرا گروہ جو آگ میں پڑنے والا ہے قرآن کریم کی اصطلاح میں ، یہ بھی ایک بڑا گروہ ہے جس کا ذکر سورۃ نساء کی آیت ۱۴۶ میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کہ منافق یقیناً جہنم کی گہرائی کے سب سے نچلے حصہ میں ہوں گے.پس ایک تو کفار ہوئے جن کا پہلے ذکر تھا اور دوسرے منافق ہوئے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں اصحب الجَحِيمُ یا أَصْحَبُ النَّارِ ہیں.اور تیسرا گروہ جن کا ذکر قرآن کریم نے اصحبُ النَّارِ کے زمرہ میں کیا ہے وہ یہ ہے.سورۃ بقرہ کی آیت ۲۱۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے اور راہ ارتداد اختیار کرے پھر وہ طبعی موت مرے اس حالت میں کہ وہ ارتداد کے ذریعہ سے جس کفر میں داخل ہوا تھا ( ایمان کو چھوڑ کے ) اس کفر پر وہ قائم تھا.تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں جو نیکیاں کی تھیں اور جو بظا ہر قربانیاں دی تھیں لیکن بعد میں ارتداد اختیار کیا تو حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وہ نیک اعمال بھی ان کے کسی کام نہیں آئیں گے اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کی نیکیوں کا بدلہ ثواب اور خدا تعالیٰ کی رضا کی شکل میں نہیں ملے گا.وَ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ اور ایسے مرتد جو ہیں وہ اصحبُ النَّارِ ہیں، أَصْحَبُ الْجَحِيمُ ہیں.دوزخی ہیں، دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور لمبا عرصہ اس میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۷ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء رہنے والے ہیں.ان آیات کی روشنی میں ہمیں تین گروہ نظر آئے اور وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ کے یہ معنی ہوں گے کہ اے محمد ! تجھ سے اس بات پر باز پرس نہیں ہوگی کہ جب تو نے دنیا پر اسلام کو پیش کیا اور صداقت کے دلائل جو خدا تعالیٰ نے ظاہر کئے تھے اور نشانات آسمانی جو تیری صداقت کے لئے آئے تھے وہ تو نے بتائے اور تبلیغ کی اور دعوت دی کہ یہ حق ہے اس کی طرف آؤ.لیکن جہاں ایک حصہ نے ان کو قبول کیا وہاں ایک دوسرا حصہ تھا جنہوں نے قبول نہیں کیا اور وہ کا فربن گئے تو کافروں کے متعلق تجھ سے یہ باز پرس نہیں ہوگی ، یہ پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ کیوں وہ کفر کی حالت میں مرے اور ایمان نہیں لائے.یہ تیری ذمہ داری نہیں ہے.تیرا کام صرف البلاغ ہے، دعوت دینا ہے، سمجھانا ہے، ان کے لئے دعائیں کرنا ہے لیکن ہدایت پانے والے نے خودا پنی مرضی سے ہدایت پانی ہے اگر اللہ تعالیٰ اُسے اس کی توفیق دے یا بد قسمت ہوگا اور توفیق نہ پائے گا تو انکار کرے گا.بہر حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا کہ کیوں اتنے دلائل سننے کے بعد اور معجزات دیکھنے کے بعد ایک دنیا منکرین کے گروہ میں شامل ہوئی اور انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کے خدا کا کفر کیا.دوسرے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ، جنہوں نے کہا کہ ہم خدا اور رسول کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھتے ہیں لیکن ان کا یہ دعوی صرف زبان سے تھا عملاً انہوں نے ایثار اور قربانی اور وفا اور ثبات قدم کی راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے نفاق کی راہوں کو اختیار کیا اور خدا اور رسول سے محبت کر کے اور خدا کی مخلوق سے شفقت کر کے ان کی اسلامی تعلیم اور ہدایت کے مطابق خدمت کرنے کی بجائے فتنہ پیدا کیا اور فساد پیدا کیا اور وسوسے پیدا کئے اور نفاق کی چالوں کو پسند کیا وفا کو چھوڑ کر اور منافق نے کیوں نفاق اختیار کیا ؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باز پرس نہیں ہوگی.فرمایا، تیرا کام یہ نہیں کہ ایمان لانے والے کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والا ہو.ایمان کے تقاضوں کو اپنی مرضی سے پورے کرنے والے جو ہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۸ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء کرنا ہے.ان کے اوپر کوئی جبر نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوئی منافق منافقانہ مفسدانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے ( منافق تو پہلے دن سے ہی ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ خطر ناک نفاق کا مظاہرہ کرنے والے عبد اللہ بن ابی ابن سلول جیسے لوگ موجود تھے ).پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بری قرار دیا گیا اس الزام سے کہ کیوں بعض نے نفاق کی راہوں کو اختیار کیا وَ لَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ - یہ منافق جو إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کی رُو سے جہنم کے بدترین حصوں میں پھینکے جانے والے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی وجہ سے کوئی الزام عائد نہیں ہوتا، نہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی وجہ سے کوئی باز پرس ہوگی.تیسرے معنی وَ لا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ کے تیسری آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کی روشنی میں ، یہ ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر باز پرس نہیں کرے گا خدا کہ ایمان لانے کے بعد لوگ مرتد کیوں ہو گئے.یہ ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے کہ جو ایمان لے آیا اسے زبر دستی دائرہ اسلام کے اندر پکڑ کے رکھیں.یہ اس کا کام ہے.ساری بناہی آزادی پر ہے جزا اور سزا.خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کے قہر کا جلوہ جو ہے، اس کا انحصار ہر شخص کے اپنے افعال پر ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ کوئی ذمہ داری ہے نہ آپ سے کوئی پوچھ گچھ اس کے متعلق کی جائے گی.جماعتوں اور گروہوں کے لحاظ سے یہ تین گروہ ہی ہیں.کفر کرنے والے، نفاق کی راہوں کو اختیار کرنے والے اور ارتداد اختیار کرنے والے.اور تینوں وَ لَا تُسْعَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ “ کے مفہوم کے اندر آتے ہیں کیونکہ تینوں کے متعلق قرآن کریم نے دوزخی اور دوزخ کی آگ میں پڑنے والوں کا لفظ استعمال کیا ہے.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا.پہلے مفسرین اس بحث میں بھی پڑے ہیں کہ اس آیت میں بشیر اور نذیر کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے یا حق کے ساتھ ہے کہ ہم نے ایسے حق کے ساتھ تجھے بھیجا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۹ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء ہے جو حق بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا ہے مگر دوسری جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق واضح طور پر بشیر اور نذیر کا لفظ استعمال ہوا ہے.بات یہ ہے کہ یہ بحث لفظی ہے اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا، خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروایا ” إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى “ پس محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اگر کسی کو بشارت دی ہے تو وحی کے نتیجہ میں دی ہے اپنی طرف سے تو نہیں دی کوئی بشارت، اور اگر کسی کو کوئی تنبیہ کی ہے اور ڈرایا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا تو اپنی طرف سے تو نہیں ڈرایا.وہ تو اسی واسطے ڈرایا کہ خدا نے کہا تھا کہ میں ناراض ہو جاؤں گا اگر تم ایسے کام کرو گے.تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشیر اور نذیر ہونا ہی بتاتا ہے کہ جو تعلیم آپ لے کر آئے ، جو قرآن کریم آپ پر نازل ہوا وہ قرآن کریم خود بتارہا ہے کہ کن لوگوں کو خدا تعالیٰ بشارتیں دے رہا اور کن لوگوں پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہونے والا ہے اور قرآن کریم ان کو ڈرا رہا ہے کہ دیکھو ایسے کام نہ کر دور نہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا.تو اس آیت سے بھی ہمیں پتا لگتا ہے کہ اسلام نے کامل مذہبی آزادی دی ہے اور ایک مفتر نے جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا یہ کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے دلوں پر تصرف کرنے کی طاقت ہی نہیں دی گئی تھی.جب طاقت ہی نہیں دی گئی تو الزام کیسے.یعنی لا تسل کا لفظ بتاتا ہے کہ آپ کو یہ طاقت نہیں دی گئی تھی کہ زبر دستی کسی کے دل کی حالت کو بدلیں.جب طاقت ہی نہیں تھی تو الزام بھی نہیں.پوچھ گچھ بھی نہیں ، باز پرس بھی کوئی نہیں.اس سلسلہ میں میں نے چند ایک نمونے مشہور مفسرین کے بھی لئے ہیں کیونکہ جب ہم بات کرتے ہیں تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہمیں کہتا ہے کہ تم خودساختہ تفسیر کر رہے ہو.پہلوں نے بھی اس کے متعلق کچھ کہا ؟ اس لئے میں کچھ نمونے پہلوں کے بھی اس سلسلہ میں لیتا ہوں اور ان کو بیان کر دیتا ہوں.ایک مشہور مفسر امام رازی جن کی تفسیر تفسیر کبیر“ کے نام سے مشہور ہے اِنَّا اَرْسَلْنَك الحق کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء اعْلَمُ أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا اَصَرُّوا عَلَى الْعِنَادِ وَ الرِّجَاجِ الْبَاطِلِ وَ اقْتَرَحُوا الْمُعْجِزَاتِ عَلَى سَبِيلِ التَّعَنُّتِ بَيَّنَ اللهُ تَعَالَى لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا مَزِيدَ عَلَى مَا فَعَلَهُ فِي مَصَالِحِ دِينِهِمْ مِنْ إِظْهَارِ الْآدِلَّةِ وَكَمَا بَيْنَ ذَلِكَ بَيْنَ أَنَّهُ لَا مَزِيدَ عَلَى مَا فَعَلَهُ الرَّسُولُ فِي بَابِ الْإِبْلَاغِ وَ التَّنْبِيْهِ لِكَيْ لَا يَكْثُرَ غَمُهُ بِسَبَبٍ اِصْرَارِهِمْ عَلَى كُفْرِهِمْ “ پھر لکھتے ہیں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہ اس کے معنی یہ ہیں." قَالَ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ يَا مُحَمَّدُ بِالْحَقِّ لِتَكُونَ مُبَشِّرًا لِمَنِ اتَّبَعَكَ وَ اهْتَدَى بِدِينِكَ وَ مُنْذِرًا لِمَنْ كَفَرَ بِكَ وَضَلَّ عَنْ دِينِكَ أَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى.فَفِي التَّأْوِيلِ وُجُوهٌ کہتے ہیں بہت سارے معنے اس کے ہو سکتے ہیں.اَحَدُهَا : أَنَّ مَصِيرَهُمْ إِلَى الْجَحِيمِ فَمَعْصِيَتُهُمْ لَا تَضُرُّكَ وَلَسْتَ بِمَسْنُولٍ عَنْ ذلِكَ وَهُوَ كَقَوْلِهِ : فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ وَقَوْلُهُ : عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا (الثاني): أَنَّكَ هَادٍ وَ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ فَلَا تَأْسَفْ وَلَا تَغْتَمَّ لِكُفْرِهِمْ وَ مَصِيرِهِمْ إِلَى الْعَذَابِ وَنَظِيرُهُ قَوْلُهُ : فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ - (الثالث ) : لَا تَنْظُرُ إِلَى الْمُطِيعِ وَ الْعَاصِي فِي الْوَقْتِ فَإِنَّ الْحَالَ قَدْ يَتَغَيَّرُ فَهُوَ غَيْبٌ فَلَا تَسْتَلْ عَنْهُ وَ فِي الْآيَةِ دَلَالَةٌ عَلَى اَنَّ أَحَدًا لَا يُسْتَلُ عَنْ ذَنْبِ غَيْرِهِ وَلَا يُؤْخَذُ بِمَا اجْتَرَمَهُ سِوَاهُ سَوَاءٌ كَانَ قَرِيبًا أَوْ كَانَ بَعِيدًا - A امام رازگی لکھتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں کہ تمہیں علم ہونا چاہیے کہ جب کفار نے مخالفت اور بے فائدہ ضد پر اصرار کیا اور ہٹ دھرمی کے طور پر اقتراحی معجزات کا متواتر مطالبہ کیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو کہا کہ اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے دلائل ظاہر کر کے ان لوگوں کی دینی بہتری کے لئے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا یعنی خدا تعالیٰ نے اس سے زیادہ نہیں کیا دلائل دے دیئے.آیات آسمانی نازل کر دیں.امام رازی کہتے ہیں اس آیت میں ہمیں یہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۹۱ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتا ہے کہ جو میں کر چکا ہوں اس سے زیادہ میں ان لوگوں کی دینی صلاح کے لئے ، دینی مصالح کے لئے نہیں کر سکتا.میں نے دلائل قائم کر دیئے ، حجج قاطعہ ظاہر کر دیں، آیات آسمانی آگئے صداقت کے اظہار کے لئے اور جیسے خدا تعالیٰ نے یہ بات بیان کی ہے خدا تعالیٰ نے یہ بھی بیان کر دیا کہ جو کچھ رسول نے انہیں تبلیغ کرنے اور تنبیہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا تھا اور ایسا اس لئے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کا غم ان کے کفر پر مصر ہو جانے کی وجہ سے زیادہ نہ ہو جائے.پھر یہ لکھتے ہیں کہ بَشِيرًا وَنَذِيرًا اے محمد ! ہم نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ تو ان لوگوں کو جو تیری پیروی کریں اور تیرے دین کے ذریعہ ہدایت پائیں بشارت دے اور جو تیرا انکار کریں اور تیرے دین سے گمراہ ہو جائیں انہیں ڈرائے اور خدا تعالیٰ کا جو فرمان ہے کہ "ولا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحبِ الْجَحِيمِ “ مختلف پہلوؤں سے اس کی تفسیر کی جاسکتی ہے اوّل یہ کہ اصحب الْجَحِيمِ ہیں وہ.ان کفار کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور ان کی نافرمانی تجھے کوئی نقصان نہیں دے گی یعنی جو ان کی نافرمانی ہے، خود ان کو اس کا نقصان پہنچے گا تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور نہ ہی تجھ سے اس کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی.جیسے کہ خدا تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تیرا فرض تو تبلیغ ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے اور ایک اور جگہ فرمایا کہ اس رسول پر وہ کام کرنا ضروری ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا اور تم پر وہ کام کرنا ضروری ہے جو تمہارے ذمہ لگایا گیا.نمبر دو کہتے ہیں کہ دوسرے اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہدایت دینے والا ہے.ہدایت دینے والا دعوت دینے والا ، ہدایت پہنچا دینے والا ہے ان تک اور اس معاملہ میں تیرا کوئی اختیار نہیں یعنی اس معاملہ میں کہ وہ مانتے ہیں کہ نہیں تیرا کوئی اختیار نہیں.پس تو ان کے کفر اور دوزخ میں جانے کی وجہ سے غم نہ کر.اس مطلب کی ایک دوسری آیت بھی ہے جس میں فرمایا کہ تیری جان ان پر افسوس کرتے ہوئے ضائع نہ ہو جائے.تیسرے فرمایا کہ تو موجودہ وقت میں مطیع اور نافرمان کا خیال نہ کر حالات بدلتے رہتے ہیں.انہی میں سے تو پھر مسلمان بھی ہو گئے.پھر وہ کہتے ہیں اس آیت سے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۹۲ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء ایک اور بات کا بھی پتا چلتا ہے وہ یہ کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے نہ پوچھا جائے گا اور نہ ہی کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے اس کا مؤاخذہ ہو گا خواہ وہ گنہگار قریبی ہو یا قریبی نہ ہو.ابن جریر ایک مشہور مفسر ہیں اپنی تفسیر جامع البیان میں وہ لکھتے ہیں :.وَ مَعْنى قَوْلِهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، إِنَّا اَرْسَلْنَكَ يَا مُحَمَّدُ بِالْإِسْلَامِ الَّذِئ لَا أَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ غَيْرَةُ مِنَ الْأَدْيَانِ وَهُوَ الْحَقُّ مُبَشِّرًا مَنِ اتَّبَعَكَ فَأَطَاعَكَ وَقَبِلَ مِنْكَ مَا دَعْوَتَهُ إِلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِالنَّصْرِ فِي الدُّنْيَا وَالظُّفْرِ بِالثَّوَابِ فِي الْآخِرَةِ وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ فِيْهَا وَ مُنْذِرًا مَنْ عَصَاكَ فَخَالَفَكَ وَ رَدَّ عَلَيْكَ مَا دَعَوْتَهُ إِلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِالْخِزْيِ فِي الدُّنْيَا وَالذُّلِّ فِيْهَا وَالْعَذَابِ الْمُهِيْنِ فِي الْآخِرَةِ ( وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ ) وہ کہتے ہیں اس کے معنے ہیں کیا مُحَمَّدُ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَبَلَغْتَ مَا أُرْسِلْتَ بِهِ وَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَ الْإِنْدَارُ وَلَسْتَ مَسْئُولًا عَمَّنْ كَفَرَ بِمَا آتَيْتَهُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ وَ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَحِیمِ.وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے محمد ! ہم نے تجھے اس دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے جس کے سوا میں کسی اور دین کو کسی سے قبول نہیں کروں گا اور دینِ اسلام حق ہے.جو شخص تیری پیروی کرے، تیری اطاعت کرے اور جس حق کی تو نے اسے دعوت دی ہے اسے وہ قبول کرے تو یہ حق جو ہے وہ اسے بشارت دیتا ہے کہ دنیا میں اس کی مدد کی جائے گی اور آخرت میں اسے ثواب دیا جائے گا اور اسے دائمی نعمتوں سے نوازا جائے گا.اس کے برعکس جو تیری بات نہ مانے ، تیری مخالفت کرے اور جس حق کی طرف تو نے اسے دعوت دی ہے اسے وہ رد کر دے تو اسے یہ حق جو ہے وہ تنبیہ کرتا ہے کہ اسے دنیا میں ذلت پہنچے گی اور وہ خوار ہوگا اور آخرت میں اسے ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا.وَلَا تُسْتَل عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ کہتے ہیں پس معنی یہ ہوئے کہ اے محمد ! ہم نے تجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے.پس جو پیغام تجھے دیا گیا تو نے وہ پہنچا دیا اور تیرا کام پہنچا دینا اور تنبیہ کر دینا ہے اور تجھ سے ان لوگوں کے متعلق سوال نہ کیا جائے گا جنہوں نے اس حق کا انکار کیا جو تو
خطبات ناصر جلد هشتم ۹۳ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء ان کے پاس لے کر آیا اور وہ دوزخیوں میں شامل ہو گئے.تیسرا حوالہ میں نے لیا ہے امام قرطبی کی تفسیر سے.وہ اپنی تفسیر ” الجامع لاحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ الْمَعْنَى إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا غَيْرَ مَسْئُوْلٍ.کہ ہم نے تجھے بشیر اور نذیر کر کے بھیجا ہے اور تجھ سے ان لوگوں کے بارہ میں پوچھ کچھ نہ ہوگی ، باز پرس نہ کی جائے گی.علامہ محمودالوسی کی ایک مشہور تفسیر ہے روح المعانی اس میں اس آیت کی تفسیر یوں آئی ہے.إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ أَيْ مُتَلَبِّسًا مُؤَتِدًا بِه...وَ الْمُرَادُ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ لِأَنْ تُبَشِّرَ مَنْ أَطَاعَ وَ تُنْذِرَ مَنْ عَلى لَا لِتُجْبِرَ عَلَى الْإِيْمَانِ فَمَا عَلَيْكَ إِنْ أَصَرُّوا وَكَابَرُوا - اور وہ ولا تسل کے متعلق کہتے ہیں آئی اَرْسَلْنَكَ غَیرَ مَسْئُولٍ عَنْ أَصْحُبِ الْجَحِيمِ مَا لَهُمْ لَمْ يُؤْمِنُوا بَعْدَ اَنْ بَلَّغْتَ مَا أُرْسِلْتَ بِهِ وَ الْزَمْتَ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ.وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے ذریعہ تیری تائید کی گئی ہے اور کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اے رسول ہم نے تجھے اس لئے بھیجا ہے تاتو ان کو جو اطاعت اختیار کریں خوشخبری دے اور جو نافرمانی کریں تنبیہ کرے.تجھے اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ تو کسی کو ایمان لانے پر مجبور کرے.(یہاں میں یہ زائد کروں گا کہ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ کے جو قر آن کریم نے تین گروہ بیان کئے تھے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تجھے اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ تو کسی کو ایمان لانے پر مجبور کرے یا کسی کو ایمان کے تقاضوں کے پورا کرنے پر مجبور کرے کہ وہ نفاق کی راہوں کو اختیار نہ کریں یا کسی کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار نہ کریں).پس اگر وہ کفر پر اصرار کریں یا نفاق کی راہوں کو اختیار کریں یا ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار کریں اور فضول جھگڑا کریں تو اس میں تیرا کوئی نقصان نہیں اور تجھ پر کوئی الزام نہیں.شیخ اسماعیل حقی کی تفسیر ہے روح البیان ، وہ لکھتے ہیں :.انا ارسَلْنَك حَالَ كَوْنِكَ مُلْتَبِسًا بِالْحَقِّ مُوَيْدًا بِهِ وَالْمُرَادُ الْحُجَجُ وَالْأَيَاتُ وَسُمِّيَتْ بِهِ لِتَأْدِيَتِهَا إِلَى الْحَقِّ بَشِيرًا حَالَ كَوْنِكَ مُبَشِّرًا لِمَنِ اتَّبَعَكَ...وَنَذِيرًا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۹۴ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء أَي مُنْذِرًا وَ مُخَوَفَا لِمَنْ كَفَرَ بِكَ وَعَصَاكَ وَ الْمَعْنَى أَنَّ شَأْنُكَ بَعْدَ إِظْهَارِ صِدْقِكَ في دَعْوَى الرِّسَالَةِ بِالدَّلَائِلِ وَالْمُعْجِزَاتِ لَيْسَ إِلَّا الدَّعْوَةُ وَالْإِبْلَاغُ بِالتَّبْشِيْرِ وَالْإِنْذَارِ لَا أَن تُجْبِرَهُمْ عَلَى الْقُبُولِ وَالْإِيْمَانِ فَلَا عَلَيْكَ إِنْ أَصَرُّوا عَلَى الْكُفْرِ وَالْعِنَادِ کہتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد دلائل اور نشانات ہیں اور بشیرا تو بشارت دینے والا ہے ان کو جو تیری پیروی کریں اور نذیرا اور تو ڈراتا ہے انہیں جو تیرا انکار کریں، تیری نافرمانی کریں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ دلائل اور معجزات کے ذریعہ تیرے دعوائی رسالت کی سچائی کے اظہار کے بعد تیرا کام یہی ہے کہ تو اس حق کی طرف دعوت دے اور اسے لوگوں تک پہنچا دے خواہ خوشخبری دے کر یا ڈرا کر.تیرا یہ کام نہیں کہ تو ان کو حق کے قبول کرنے یا اس پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے اور تیرے پر کوئی الزام نہیں کہ دلائل اور معجزات کے بعد انہوں نے کفر اور مخالفت پر اصرار کیوں کیا.تیرا کام پہنچانا تھا تو نے پہنچا دیا اور لا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ تیرا کام پہنچانا تھا پہنچا دیا اور یہ باز پرس نہیں ہوگی کہ کیوں وہ ایمان نہیں لائے.ایک تفسیر ہے تفسیر المنار الامام الشیخ محمد عبدہ لیکچر دیا کرتے تھے ان کے ایک شاگرد ہیں سید رشید رضا صاحب انہوں نے ان کے جو لیکچر تھے یعنی قرآن کریم کے درس ان کو اکٹھے کر کے شائع کئے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْعَقَائِدِ الْحَقِّ الْمُطَابِقَةِ لِلْوَاقِعِ وَالشَّرَائِعِ الصَّحِيحَةِ الْمُوْصِلَةِ إلى سَعَادَةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ - بَشِيرًا لِمَنْ يَتَّبِعُ الْحَقِّ بِالسَّعَادَتَيْنِ ( یعنی سعادت دنیا اور آخرت) وَ نَذِيرً ا لِمَنْ لَا يَأْخُذُ بِهِ بِشَقَاءِ الدُّنْيَا وَ خِزْيِ الْأُخِرَةِ ۖ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ أَى فَلَا يَضُرُّكَ تَكْذِيبُ الْمُكَذِّبِينَ الَّذِينَ يُسَاقُوْنَ بِجُحُوْدِهِمْ إِلَى الْجَحِيمِ لِأَنَّكَ لَمْ تُبْعَثْ مُنْزِمًا لَّهُمْ وَلَا جَبَّارًا عَلَيْهِمْ فَيُعَدُّ عَدُمُ إِيْمَانِهِمْ تَقْصِيرًا مِنْكَ تُسْأَلُ عَنْهُ بَلْ بُعِثْتَ مُعَلِّمَا وَ هَادِيًا بِالْبَيَانِ وَ الدَّعْوَةِ وَحُسْنِ الْأسْوَةِ لَا هَادِيًا بِالْفِعْلِ وَلَا مُنْزِمًا بِالْقُوَّةِ - لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ.یہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے 19
خطبات ناصر جلد ہشتم ۹۵ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء عقائد حقہ کے ساتھ جو واقعات کے مطابق ہیں اور صحیح احکام کے ساتھ جو دینی اور دنیوی سعادت تک پہنچانے والے ہیں بھیجا ہے.بشیرا اور تو بشارت دینے والا ہے دونوں قسم کی سعادت کی ہر اس شخص کو جو حق کی پیروی کرے.ونذیرا اور ڈرانے والا ہے دنیا اور آخرت کی بد بختی سے اسے جو اسے اختیار نہ کرے.وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ أن مکذبین کی تکذیب تجھے کوئی ضرر نہیں پہنچائے گی جو اپنے انکار اور تکذیب کی وجہ سے جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے کیونکہ تو اس لئے مبعوث نہیں کیا گیا کہ تو ان پر دباؤ ڈالے یا انہیں مجبور کرے ایمان پر کہ ایمان نہ لانے کو تیری کو تا ہی شمار کیا جائے اور اس کے متعلق تجھ سے باز پرس کی جائے بلکہ تو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تو تعلیم اور ہدایت دے.حق کو بیان کرے.اس کی دعوت دے اور نیک نمونہ پیش کرے.اپنے اُسوہ سے ان کو صداقت کی طرف بلائے نہ اس لئے کہ تو انہیں عملاً مجبور کر کے بالجبر ہدایت یافتہ بنائے یا اپنی طاقت سے ان پر دباؤ ڈالے.دوسری جگہ فرمایا تیرا ذمہ نہیں کہ تو انہیں ضرور ہدایت تک پہنچائے لیکن اللہ تعالیٰ خود ہدایت دیتا ہے اسے جسے چاہتا ہے اور اس آیت میں ایک سبق بھی ہے کہ انبیاء کو بطور معلّم کے بھیجا جاتا ہے نہ کہ بطور داروغہ کے اور نہ انہیں لوگوں کے دلوں میں تصرف کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے یعنی ان کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ لوگوں کے دل بدلیں.کسی نبی کو نہیں دی گئی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا تعالیٰ نے دل بدلنے کی طاقت نہیں دی تھی.اس میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں نے دلائل مہیا کر دیئے ، آسمانی نشان ان کو دکھا دیئے.اس سے زیادہ ان کی دینی بہبود کے لئے میں ( خدا جو ساری طاقتوں کا مالک ہے ) بھی اور کچھ نہیں کروں گا.ان کی مرضی پر چھوڑا ہے وہ میری رضا کی راہوں پر چلتے ہیں یا اپنے بدعملیوں کے نتیجہ میں میرے غصے کو بھڑکاتے ہیں.تو یہ کہتے ہیں کہ انبیاء کو بطور معلم کے بھیجا جاتا ہے نہ کہ بطور داروغہ کے اور نہ انہیں لوگوں کے دلوں میں تصرف کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے نہ انہیں جبر و اکراہ کے لئے حکم ہوتا ہے.پس جب کبھی وہ جہاد کرتے ہیں تو صرف حق کے دفاع کے لئے نہ اس لئے کہ لوگوں کو وہ حق ماننے پر مجبور کریں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۹۶ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء آخری حوالہ بہت پرانی تفسیر کا نہیں بلکہ ماضی قریب کی ہے یہ تفسیر.تو جیسا کہ پہلے بھی خطبوں میں میں بیان کر چکا ہوں ایک آیت اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے.ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کہتا کیا ہے؟ حکم تو شریعت قرآنیہ کا چلے گا اور خدا کہتا ہے کہ میں بھی جبر نہیں کرتا اور میر امحمدمہ بھی جبر نہیں کرتا.اس آیت کے یہی معنے کئے ہیں ان مفسرین نے کہ خدا نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میں جبر نہیں کرتا.میر امحمد بھی جبر نہیں کرتا اور اس وجہ سے وَلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحَب الْجَحِيمِ اگر کوئی انکار کرتا ہے، کوئی نفاق کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.کوئی مرتد ہو جاتا ہے ایمان لانے کے بعد، کسی پہ جبر کوئی نہیں.لیکن کام یہ ہے کہ ڈراؤ اُن کو نہیں مانو گے تو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ میں جلو گے.منافقانہ راہوں کو اختیار کرو گے تو قہر الہی کی وہ تجلی ظاہر ہوگی کہ تمہاری نسلیں بھی کانپ اٹھیں گی.یہ انذار کیا ہے اور اگر ارتداد کی راہوں کو اختیار کرو گے تو خدا تعالیٰ کی گرفت میں آؤ گے.یہ انذار کردو، ان کو سمجھا دو اور اگر مانو گے خدا کے پیار کو پاؤ گے.دیکھو خدا کتنا پیار کرنے والا ہے.ایک حصہ تو اس کے پیار کا مومن اور کافر ہر دو پر ظاہر ہوتا ہے اس کی رحمانیت کے نتیجہ میں اور ایک حصہ اس کے پیار کا اس کی رحیمیت کے نتیجہ میں صرف ان لوگوں پر ظاہر ہوتا ہے جو اس کے پہلے پیار کے بعد ، رحمانیت کے جلوؤں کے بعد خدا کے مزید پیار کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے عبد بن کر اس کی رضا کی جنتیں حاصل کرتے ہیں اس دنیا میں یا اُخروی جنتیں پاتے ہیں وفات کے بعد.مرنے کے بعد ملنے والی جنتوں کے متعلق تو کہا گیا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ان کو نہ کسی کان نے سنا.اس کا تو ہم تصور ہی نہیں کر سکتے.اتنا ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی ہے جس زندگی کا ہر لحظہ اور ہر سیکنڈ روحانی سرور اور خدا تعالیٰ کے پیار کی لذت سے معمور ہے.خدا تعالیٰ کس رنگ میں پیار کرے گا اور کس رنگ میں وہ لذتِ روحانی عطا کرے گا یہ خدا ہی جانتا ہے یا وہ جانتے ہیں جو اس وقت جنت میں بیٹھے ہیں ہم تو اس ابتلا کی دنیا میں بستے ہیں اور اپنی فکر کرنی چاہیے یہاں اور کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور خوش ہو اور ہمیں جب اس نے توفیق دی ہے ایمان لانے کی تو جو دروازے خدا تعالیٰ سے دوری کے جہنم کے خاتمہ بالخیر ہونے تک کھلے ہیں ہمارا فرض ہے کہ خاتمہ بالخیر تک پیٹھ کر کے ان
خطبات ناصر جلد ہشتم ۹۷ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء دروازوں کی طرف قدم آگے بڑھائیں.ان کی طرف منہ کر کے نہ چلیں اور ان کے اندر داخل نہ ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ابدی جنتوں کا ہمیں وارث بناوے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نفاق کا دروازہ اور ارتداد کا بند نہیں.کوئی جبر نہیں ہے.اگر کوئی منافق بننا چاہتا ہے تو جبراًا اسے روکا نہیں جاسکتا لیکن سزا اس کی بڑی سخت ہے.اِنَّ الْمُنفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ - اگر کوئی ارتداد اختیار کرتا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدایا میں نے بیس سال تو تیری پاک جماعت میں شامل رہ کر تیری راہ میں قربانیاں دی تھیں ان کا بدلہ تو مجھے دے.حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الله نیا ان کے ایسے اعمال ضائع ہو جائیں گے ان کا بھی کوئی بدلہ نہیں ملے گا مرتد کو یہ یاد رکھنا چاہیے اور مرتد بنانے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں شیطان کا یہ بھی کام ہے.اَصْحَبُ الْجَحِيمِ کے جو تین معنے ہیں ان کی رو سے شیطان کے بھی تین کام ہیں.ایک اس کا کام ہے کہ انسان سے کفر کروائے یعنی قبول ہی نہ کرے صداقت کو جو اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا میں بیان ہوا ہے.دوسرے شیطان کا یہ کام ہے جس وقت کوئی ایمان لے آتا ہے تو بڑا تلملاتا ہے شیطان.یہ کیا ہو گیا.میرے ہاتھ سے نکل گیا.پھر وہ وسوسے پیدا کر کے انسان کو نفاق کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے اور یا وسو سے پیدا کر کے اسے ارتداد کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے.کسی شخص کا یہ کہنا کہ چونکہ میں ایک دفعہ ایمان لے آیا علی وجہ البصیرت اس واسطے شیطان کی طاقتیں جو ہیں وہ اس سے جہاں تک میرے نفس کا تعلق تھا چھین لی گئیں، یہ غلط ہے.صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا شیطان اسلام لے آیا.لیکن دوسروں کے متعلق تو یہ نہیں کہا تھا کہ ان کا شیطان بھی ایمان لے آیا.پاک و مطہر بھی بہت گزرے لیکن ہر ایک کو لرزاں ترساں اپنی زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے خدا نے سکھایا لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیمِ.اس سے شیطان دور بھاگتا ہے.لوگ جانتے تو ہیں مگر سمجھتے کم ہیں اس لئے ہمیں یہ بتایا گیا کہ اگر شیطان کے حملہ سے بچنا چاہتے ہو تو یا درکھو کہ اپنی طاقت سے تم بچ نہیں سکتے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ جب تک خدا سے طاقت حاصل کر کے شیطان کا مقابلہ نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۹۸ خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۷۹ء کرو گے شیطان کے وار سے نہیں بچ سکو گے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی توفیق عط کرے کہ ہم خدا سے طاقت حاصل کریں اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ کر نفاق اور ارتداد سے ہم میں سے ہر ایک بچنے والا ہو، ہر ایک بلا استثنا تا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال دنیا میں ظاہر ہواور ہرانسان جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے ایک خاندان کی حیثیت میں.(روز نامه الفضل ربوہ ۷ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۶)
خطبات ناصر جلد ہشتم ٩٩ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ کوئی رات کو بھوکا نہ سوئے خطبه جمعه فرموده ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کئی سال ہوئے میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جو جماعت قائم ہوئی اور اس میں اخوت پیدا کی گئی اور ایک برادری بنادی گئی اور بُنْيَانِ مَرْصُوص کی طرح کردیا گیا تو اس کے نتیجہ میں ایک ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہ سوئے.ہمیں چونکہ یاد دلاتے رہنے کا حکم ہے اس لئے اس کی طرف آج میں پھر جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور یہ خیال مجھے اس لئے بھی آیا کہ پچھلے مہینے ڈیڑھ مہینے میں موسم کچھ اس قسم کا رہا ہے کہ فصلوں کے لئے وہ مضرت رساں بھی بن سکتا تھا یا ہو گیا بعض جگہ.مختلف رپورٹیں ہیں.جو اونچے علاقے ہیں پاکستان کے یا جو ریتلے علاقے ہیں پاکستان کے ، ان علاقوں میں تو اس لمبی بارش نے فائدہ ہی پہنچایا لیکن نشیبی علاقوں میں یا سخت زمین جہاں تھی اور پانی جلدی خشک نہیں ہوتا وہاں رپورٹ یہ ہے کہ کافی نقصان گندم کے کھیتوں کو پہنچا ہے.یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ پاکستان کی گندم اور دوسری کھانے والی اجناس پر مجموعی لحاظ سے کیا اثر ہوگا اور یہ ہمیں بھی بتایا گیا ہے کہ کھیتیاں
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء اگانا اچھی یا بری ، یہ انسان کا کام نہیں اللہ تعالیٰ کا کام ہے.وَانْتُمْ تَزْرَعُونَةٌ أَمْ نَحْنُ الزرعُونَ (الواقعۃ: ۶۵) قرآن کریم نے فرمایا.اس لئے ایک تو اس وقت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ جو دعا پر یقین رکھتی اور دعا کے اچھے نتائج کی شاہد ہے، ان کے مشاہدہ میں ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور جو مانگتا ہے انسان ، اس کا عاجز بندہ اسے وہ دیتا ہے.بڑا دیا لو ہے ہمارا رب.اس لئے دعا کرنی چاہیے کہ اس موسم کی ساری خرابیوں کے باوجود خدا مجموعی طور پر پاکستان میں کھانے کی اجناس جو ہیں وہ اس مقدار میں پیدا کر دے کہ پاکستان میں بسنے والے کوئی بھی کہیں بھی بھو کے نہ رہیں.دوسرے میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اسلامی تعلیم ساری کی ساری نہایت حسین ہے اور اسلامی تعلیم انسانی زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہماری زندگی کے ہر پہلو میں حسن پیدا کرنے والی ہے.ایک دو باتیں نہیں جو اسلام نے بتا ئیں اور ہم ان کا خیال کریں اور سرخرو ہو جائیں اپنے رب کے حضور بلکہ ہماری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہدایتیں ہیں جو دی گئیں اور زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہمیں ان ہدایتوں کے مطابق عمل کرنا چاہیے.کبھی اللہ تعالیٰ تنگی سے بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے.جو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے وہ بھی دکھ اٹھاتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور اسلام میں داخل ہوئے اگر وہ اسلامی تعلیم پر عمل نہ کریں تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے لیکن اس تنگی کے زمانہ میں بھی وہ جماعتیں جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی ہیں تکالیف سے اور دکھوں سے محفوظ کی جاتی ہیں.اور یہ جو میں نے کہا کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ عام حالات میں آپ کو ایک دھیلہ خرچ کئے بغیر ایسا انتظام کرنا ممکن ہے آپ کے لئے ایک دھیلہ خرچ کئے بغیر ایسا انتظام کر ناممکن ہے کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے.ایک تو میں آج اس ملک کی ہی باتیں بتاؤں گا.اس سلسلے میں ایک بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) اللہ تعالیٰ نے ہر دو جہان کی ہر شے کو انسان کے فائدہ کے لئے اس کی خدمت کے لئے پیدا کیا، اس کا خادم بنادیا.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس کی ، بہت سے
خطبات ناصر جلد هشتم 1+1 خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء بطون ہیں اس کے اور مختلف تفسیریں کی ہیں، اس Context میں اس سلسلے میں جو میں بات کر رہا ہوں اس کے متعلق میں یہ بتاؤں گا کہ آپ نے بنیادی طور پر تو یہ کہا کہ جب ہر چیز خدا نے خادم بنائی تو ہر چیز سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینا ہمارا کام ہے.دوسرے یہ کہ کسی چیز کو جو ہماری خادم ہے اس کو ضائع کر دینا ناشکری اور گناہ ہے اور اس لئے آپ نے فرما یا اپنی رکابی میں اتنا سالن ڈالو جتنا ختم کرلو.ایک لقمہ کھانے کا ضائع کرنے کی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو اجازت نہیں دی.قرآن کریم کے اسی حکم کے ماتحت یا اس اعلان کے مطابق کہ سحر لكُم مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ اگر ہم اس کا خیال رکھیں کہ کھانا ہمارا ضائع نہ ہو تو جو لقمے بچیں گے وہ ان کے ہمارے ان بھائیوں کے کام آئیں گے جن کے منہ میں لقمہ جانے کے لئے کوئی لقمہ موجود نہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز تمہارے فائدے کے لئے تو پیدا کی گئی ہے مگر فائدہ حاصل کرنے میں استعمال میں اسراف نہیں کرنا جتنی ضرورت ہے اس سے زیادہ نہیں کرنا.جتنا کھانے کی ضرورت ہے اس سے زیادہ کھانا نہیں اور اس لئے فرمایا کہ بھوک ہو تو کھانا شروع کرو اور ابھی بھوک محسوس کر رہے ہو تو کھانا چھوڑ دو.یہ تو پھر آدمی آدمی پر ہے.طبائع مختلف ہیں اس میں شک نہیں.ہر شخص نے اس چیز کو سامنے رکھ کے فیصلہ کرنا ہے کہ کتنی بھوک ہو تو میں کھانا چھوڑوں تو میری صحت کے اوپر اور میری جو زندگی ہے کہ میں نے کام کرنا ہے خدا تعالیٰ کے حکم (کے) مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا ہے اپنے خاندان کی بھی ، اپنی قوم کی بھی ، اپنے رشتے داروں کی بھی ، اپنے ساتھ ہم عصر انسانوں کی بھی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، کتنی طاقت مجھ میں ہونی چاہیے کہ میں ان تمام ذمہ داریوں کو نباہ سکوں؟ وہ طاقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا بھوک محسوس کر رہے ہو گے تو کھانا چھوڑ دو گے تب بھی وہ طاقت تمہیں ملے گی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتے جو حسن اعظم ہیں یعنی ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ایسا حکم دیں گے جو ہمارے لئے نفع رساں ہونے کی بجائے ہمارے فائدے کے خلاف ہو، مضرت رساں ہووہ.اگر ہم کوئی لقمہ کھانے کا ضائع نہ کریں اگر ہم ابھی بھوک ہو تو کھانا چھوڑ دیں تو ہمارے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۰۲ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء گھروں میں جو کھانا پکتا ہے اسی پر بہت سے آدمیوں کا پیٹ پالا جاسکتا ہے مہمان بلا کر.حدیث میں آیا ہے ، دو مختلف باتیں آگئیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں.ایک جگہ آیا ہے کہ جتنے آدمیوں کا کھانا گھر میں پکے اس سے دگنے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں.ایک اسی حدیث میں یہ فقرہ بھی ہے کہ جتنے کا پکے اس سے ڈیڑھ گنا پیٹ بھرے جاسکتے ہیں یعنی چار کا کھانا پکے چار کھانے والے ہیں میاں بیوی اور دو بچے مثلاً تو آٹھ آدمی کھا ئیں تو ان کا پیٹ بھر جائے گا.اس معنی میں کہ کھانے کی ضرورت ان کی پوری ہو جائے گی اور کھانے کی کمی کی وجہ سے جو صحت پر برا اثر پڑ سکتا ہے وہ نہیں پڑے گا اور ایک یہ فرمایا کہ اگر چار کھانے والے ہیں تو چھ کا پیٹ بھر جائے گا اور یہ دراصل جوامیر لوگ ہیں ان کے گھروں میں اس قسم کے کھانے پکتے ہیں کہ وہ چار کا پکے تو آٹھ بھی کھا لیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو غریب ہیں نسبتا وہ چار کا گھر میں ان کے پکے گا تو چھ کھالیں گے.یہ اس چیز کو سامنے رکھ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باریکی میں گئے ہیں اور یہ ہدایت دی ہے ہمیں.بہر حال ہو سکتا ہے.ہمیں تو نہیں پتا کہ جو موسم خراب رہا اور جس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں میری رپورٹ کے مطابق ، دوست مجھ سے باتیں کرتے رہتے ہیں فصلیں بہت خراب ہو گئیں گو بعض علاقوں میں فصلوں کو فائدہ بھی پہنچا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ جو اونچی زمینیں تھیں ، ریتلی تھیں جہاں پانی ٹھہر انہیں انہوں نے فائدہ پہنچا دیا ، لمبی بارشوں نے لیکن جہاں پانی جلدی خشک نہیں ہوتا اور سخت زمین ہے اور ریتلی نہیں ہے اور وہاں دلدل سی بن جاتی ہے وہ کھیتیاں جو ہیں ان کو کافی نقصان پہنچا ہے لیکن یہ تو جس نے کہا ہے کہ وَاَنْتُمْ تَزْرَعُونَ أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ وہی ہستی جو ہے، ہمارا رب وہ جانتا ہے کہ وہ ہمیں آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے یا ہم میں سے بعض کو آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے اور کیا نتیجہ نکلے گا تو اس کے لئے ایک تو دعا کرنی ہے ہم نے کہ اے خدا! پاکستان کو اتنا کھانے کو دے دے کہ ہماری ساری کی ساری ضرورتیں پوری ہو جا ئیں اور ہمیں دنیا کے سامنے بھیک مانگنے کے لئے اپنا ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور دوسرے یہ کہ اگر یہ آزمائش ہے تو وہ لوگ جو اسلامی تعلیم سامنے رکھ کر اپنے بھائیوں کی محبت اپنے دل میں پاتے ہوئے رات کو چین
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۰۳ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء سے سو نہ سکیں جب تک ان کو یہ تسلی نہ ہو کہ ہمارے گاؤں میں ، ہمارے شہر میں ، ہمارے محلہ میں ، ہمارے ہمسائے میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جو بھو کا سورہا ہے اور اس کے لئے میں سمجھتا ہوں ، یہ تو نہیں میں کہتا کہ سو فی صد ضرورت اس طرح کہ دو کا کھانا تین کے لئے یا چار کے لئے پورا ہو جائے گا اور بھوک ہوگی ابھی تو تم چھوڑ دو گے اس کے نتیجہ میں ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں گی لیکن مجھے یقین ہے کہ ساری اگر نہیں ہوں گی تو نوے فی صد ضرورت ہماری پوری ہو جائے گی اور پھر ہمارا اور بھی دل کرے گا کہ ہم اپنے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں کہ ذرا ذرا سی چیز بھی نظر انداز نہیں کی اور ہماری ہدایت اور بھلائی کی تعلیم ہمیں دے دی.اصل چیز یہ ہے کہ تدبیر پر بھروسہ کرنا محض ، شرک بن جاتا ہے اور اپنی عقل پر یا اپنے وسائل پر یا اپنی کھاد پر یا اپنے کھیت کی زمین کا اچھے ہونے پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا.بڑی اچھی فصلیں خدا تعالیٰ جو ہے وہ پندرہ منٹ میں بھی تباہ کر دیتا ہے.میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ گندم کی کٹائی سے چند دن پہلے سے قریباً زرد ہو رہے تھے اور چند دنوں کے بعد ان کو کاٹ لینا تھا لوگوں نے ، زمینداروں نے ، اور ایک چھوٹی سی بدلی ہمارے علاقے میں آئی.دوسرے علاقوں میں بھی آئی ان دنوں میں اور پندرہ منٹ ژالہ باری ہوئی ، گلے پئے اور انہوں نے کسی کھیت کے سارے سٹے اڑا دیئے انہوں نے کسی کھیت کے پچاس فی صد سے اڑا دیئے ، کسی کھیت کے پچیس فی صد سٹے اڑا دیئے.فرشتوں کو جو حکم تھا انہوں نے وہ کام شروع کیا ہوا تھا اپنا اور کھیت والا سمجھتا ہوگا کہ بڑی اچھی فصلیں ہیں.”میرے کوٹھے تے بھر جان گے دانیاں دے نال.‘‘ دانوں کے ساتھ کوٹھوں کا بھر نا خدا کا کام ہے یہ زمیندار کا کام نہیں ہے.اس واسطے ہر وقت دعا کرتے ہوئے عاجزانہ، اس کے حضور جھکے رہنا چاہیے اور ہر خیر اور بھلائی اس سے مانگنی چاہیے.تد بیر اپنی انتہا تک پہنچاؤ اور تد بیرا اپنی انتہا تک پہنچانے کے بعد تد بیر پہ بھروسہ نہ کرو بلکہ خدا کوکہو کہ تو نے ہمیں کہا تھا کہ ہر چیز تمہارے لئے پیدا کی، تو نے ہمارے لئے کھاد پیدا کی ہم نے کھاد استعمال کر لی، تو نے ہمارے لئے پانی پیدا کیا ہم نے پانی استعمال کر لیا کھیتوں کے لئے ،تو نے ہمارے لئے اچھے بیج پیدا کئے ہم نے اچھے بیج استعمال کر لئے کھیتوں میں ، ہم نے تیرے بنائے ہوئے قانون
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۰۴ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء کے مطابق کھیتوں کو صاف رکھا، نلائی کی جڑی بوٹیاں وہاں سے نکال دیں، ہرے بھرے کھیت ہیں پراے خدا! اگانا تو نے ہی ہے یہ ہمیں پتا ہے.اس واسطے ہم پر رحم کر، ہم سے رحم کا سلوک کر اور ہماری کھیتیوں کے نتائج جو نکلیں یعنی جو دانے آئیں وہ اس کے مطابق ہوں جو نظر آرہے ہوں.یہ پچھلے سال ہی ہمارے اس علاقے میں مونجی کے کھیتوں میں اور اس سے پہلے گندم میں بھی کھیتیاں بتارہی تھیں کہ ۴۵ من نکلے گی اس کھیت سے اور نکل پچیش "من.اور پتا ہی نہیں لگا زمیندار کو یہ ہو کیا گیا ہے اور پتا لگنا چاہیے تھا کہ ہو یہ گیا ہے کہ خدا نے نہیں چاہا کہ تم اس سے پرے ہٹو اور دعاؤں کے بغیر اپنی زندگی کے دن گزارو.تو دعاؤں کے ساتھ اس کے فضل کو جذب کرو اور اس کے بندوں سے حسن سلوک کر کے اور پیار کر کے اور اس کے بندوں کے دکھوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کی تجاویز کر کے اس سے یہ چا ہو کہ تمہیں بھی وہ مولا قادر مطلق خدا جو ہے وہ تکالیف سے اور دکھوں سے بچائے اور محفوظ رکھے کیونکہ آخر میں اسی نے دکھوں سے بچانا اور تکالیف سے محفوظ رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی سمجھ عطا کرے اور ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرے محض اپنے فضل سے اور اس کے نتیجہ میں پاکستان بھوکا نہ رہے اور دنیا کے سامنے اس کو شرمندہ نہ ہونا پڑے کہ ہم اپنی ضرورت کے مطابق فصلیں نہیں اُگا سکے بوجہ اس کے کہ ہم نے اپنے خدا کو چھوڑ دیا اور اس کو بھلا دیا اور اب دوسروں سے ہمیں مانگنے کی ضرورت پڑی.اور دوسرے ہر احمدی یہ عزم کرے کہ کوئی دوسرا جو ہے وہ رات کو بھوکا نہیں سوئے گا.فرق ہی کچھ نہیں پڑتا.دیکھو ہم نے دیکھا آپ میں سے بہت سارے گواہ ہیں ایک جلسے پر انتظام خراب ہو گیا تھا.صبح کی نماز کے وقت مجھے اطلاع ملی.میں نے نماز کے بعد دوستوں کو کھڑا کیا.میں نے کہا کچھ انتظام تھوڑ اسا خراب ہے حالانکہ وہ ایک وقت خراب رہا تھا.تو میں نے کہا کہ یہ چیزیں تو ہمارے رستے میں روک نہیں بنتیں.روٹی زیادہ نہیں ، کافی نہیں پک سکی اس واسطے میں اعلان کرتا ہوں کہ جو گھروں میں اپنا روٹی کھانا پکا کے کھانے والے ہیں روٹیاں پکاتے ہیں وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور ہمارے مہمان بھی ایک روٹی کھائیں گے اور جو تمہاری بچ جائے وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۰۵ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء لنگر خانوں میں پہنچا دو اور جوز ائد پکا سکیں یعنی جتنی پانی ہیں اس سے سیر ، ڈیڑھ سیر ، دوسیر جتنی بھی زیادہ پکا سکیں پکائیں اور پہنچا دیں.ہزاروں احمدی مخلص ایسے تھے جنہوں نے کہا مجھے بعد میں بتا یا کئیوں نے.انہوں نے کہا ایک روٹی کھائی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے.تین دن ہم ایک ہی روٹی کھاتے ہیں مر تو نہیں جاتے ، کمزور تو نہیں ہو جاتے ، دبلے تو نہیں ہو جاتے ، تکلیف ہمیں کوئی ایسی نہیں ہے.اس بات میں زیادہ خوشی ہے ایک احمدی کو کہ اس کا بھائی بھوکا نہ رہے بجائے اس کے کہ وہ خود سیر ہو جائے اور اس کا پیٹ بھر جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو توڑنے والا ہو کہ بھوکا رہتے ہوئے تم ابھی بھوک کا احساس ہو تو چھوڑ دو.، جب میں نے پہلا خطبہ دیا تھا اسی سلسلے میں تو وہ چھپا الفضل میں.غالباً ضلع جہلم یا گجرات سے ایک غیر احمدی دوست کا مجھے خط آیا کہ آپ نے یہ تحریک کی ہے بڑی اچھی تحریک ہے پر ہم نے آپ کا کیا گناہ کیا ہے کہ آپ نے یہ شرط لگا دی کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے یہ کیوں نہیں کہا کہ کوئی شخص بھی بھوکا نہ رہے.تو میں نے کہا یہ اس لئے میں نے نہیں کہا کہ آپ لوگ غصے ہو جا ئیں گے مجھ سے کہ ہمارا ذکر کیوں کرتے ہیں.ویسے تو میں نے جیسا کہ بتایا ہے ہر وہ شخص کوئی اس کا عقیدہ ہو کوئی فرقہ ہو پہلا فرض تو یہی ہے نا کہ جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اس پر وہ عمل کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ دوکا کھانا چار کے لئے کافی ہو جاتا ہے.بغیر ضرورت کے یہ بات کہہ دی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ اسی لئے کی تھی کہ بعض حالات ایسے پیدا ہو جائیں گے تمہاری زندگی میں جب دو کا کھانا چار کو کھلانا پڑے گا.تو اگرتم نہ مانو بات اپنے آقا کی تو تمہاری ذمہ داری ہے.جس جماعت کی میری ذمہ واری ہے، خدا نے میرے اوپر جن کی ذمہ واری ڈال دی ہے ان کو ذکر کے حکم کے مطابق یاد دلاتے رہنا اور کوشش کر نا حتی الوسع کہ کسی کو بھی کوئی دکھ نہ پہنچے کسی تنگی کا احساس نہ ہو یہ احساس نہ ہو کہ میں بھوکا تھا اور مجھے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا.کیسے نہیں پوچھنے والا.یعنی خدا تعالیٰ نے ایک انقلاب عظیم بپا کر دیا دنیا میں ، مہدی آگئے ، دنیا میں تبلیغ اسلام شروع ہو گئی ، لاکھوں کی تعداد میں عیسائی اور دوسرے مذاہب والے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے ، اسلامی معاشرہ جو ہے وہ آہستہ آہستہ زندگیوں میں قائم ہوا.
خطبات ناصر جلد هشتم 1+4 خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء اس کے لئے حکومت کا ہونا یا سیاسی اقتدار کا ہونا ضروری نہیں ہے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کرے اور ہر شخص جو اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ ہر دوسرا شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے اس کو اس حالت میں نہ چھوڑے کہ غیر یہ طعنہ دیں کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خود کو منسوب کر رہا تھا اور لاوارث تھا اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں.میں تو کانپ جاتا ہوں.مجھے کسی نے مسئلہ پوچھا تھا بعد میں وہ اسی مسئلے پر احمدی بھی ہو گئے ڈنمارک کے باشندے کہ آپ جنازہ نہیں پڑھتے غیروں کا ؟ میں نے کہا غیر تو ناراض ہو جاتے ہیں وہ تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے جنازہ پڑھ دیا تو ہمارا مردہ جو ہے وہ شاید جہنم میں چلا جائے گا جنت میں جانے کے بجائے.تو ہم خواہ مخواہ لوگوں کو کیوں تنگ کریں.کہنے لگا میں یہ نہیں پوچھ رہا.بڑا زیرک آدمی تھا، کہنے لگا مجھے، یہ ہے مسئلہ میرا کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا وہ ہوائی جہاز میں فوت ہو گیا اور وہ ہوائی جہاز ڈنمارک میں اترا اور جو اس کے ہم عقیدہ تھے انہوں نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا، پڑھنے کی طرف توجہ کوئی نہیں دی اور وہ لاش اسی طرح بغیر جنازے کے دفنانی پڑی حکومت کو.اس وقت جماعت نے کیوں نہیں جنازہ پڑھا؟ میں نے کہا یہ مجھے نہیں پتا کیا واقعہ ہوا ہے لیکن اگر نہیں پڑھا تو انہوں نے بڑی غلطی کی.میں نے پھر ان ساروں کو ہدایت دی.میں نے کہا دیکھو کوئی شخص دنیا کا ہو، اس کا جو مرضی عقیدہ رکھتا ہو وہ.اگر وہ ایسی حالت میں ہو کہ اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں تو ہم ہیں اس کو پوچھنے والے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہمارے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قدر پیدا کیا ہے، گاڑ دیا ہے کہ ہم یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی شخص منسوب ہوا اور دنیا کہے یہلا وارث ہے اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں.تو میں کہوں گا اب بھی یہ کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے لیکن میں یہ ساتھ کہوں گا کہ کوئی بھی بھوکا.نہ رہے بشرطیکہ آپ کی یہ کوشش فتنہ اور فساد پیدا کرنے والی نہ ہو.مجھے رپورٹ آئی کہ بعض جگہ بعض احمد یوں نے اسی طرح بیچارے غریب تھے کچھ ، ان کی کچھ مدد کرنی چاہی تو وہ سارے اکٹھے ہو گئے لوگ کہ تم ان سے مدد نہ لو.میں نے کہا ٹھیک ہے ان سے کہو ان کو ضرورت ہے تم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء پوری کر دو، ہم سے مدد نہیں لیں گے.آپ پوری نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے تم ان سے مدد نہ لو.تو ان کو پھر مجبور ہو کے ان سے مدد لینی پڑی.میں نے ان کو ہدایت کی کہ یہ پیارا سلام اور محمد اور محمد کے خدا کے پیار کے نتیجہ میں ہم کر رہے ہیں.یہ جو پروگرام ہے آپ کا اس میں تبلیغ آپ نے نہیں کرنی صرف ان کی ضرورت پوری کرنی ہے.ان کے دکھ دور کرنے ہیں.باقی تو تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے اس کو تو کوئی روک ہی نہیں سکتا یا جہاں دو انسان بیٹھیں گے وہ آپس میں باتیں کریں گے جہاں دو انسان آپس میں بیٹھ کے باتیں کریں گے ہر دو انسان مختلف آراء ر کھنے والے ہیں وہ تبادلۂ خیال شروع ہو جائے گا لیکن بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کے اپنے دائرے ہیں ان دائروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے.مجھے جب میں پرنسپل تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ہدایت دی تھی بڑی سختی کے ساتھ کہ یہ کالج ہم نے قوم جو تعلیم میں پسماندہ ہے ان کے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کھولا ہے غیر احمدیوں کے بچوں کو بھی تبلیغ کے لئے نہیں کھولا اس کے لئے ہمارا علیحدہ محکمہ ہے.اس واسطے صرف یہاں تعلیم تم دو ان کو.اور تشریف لے آئے ہمارے کالج میں ایک فنکشن کے موقع پر اور غیر احمدیوں کو کہا کہ میں نے یہ ہدایت دی ہے ان کو اور میری ہدایت کی خلاف ورزی کریں تو میرے پاس شکایت کرو تم.ان کو یہ کہا کہ تم جب کہتے ہو کہ نماز پڑھنی ضروری ہے تو میں غیر احمدی بچے کو کہتا ہوں کہ نماز پڑھ.میں یہ نہیں کہتا کہ احمدی امام کے پیچھے پڑھ لیکن نماز پڑھ کیونکہ نماز کو ضروری سمجھتا ہے تو بھی.تو ویسے اسلام بڑا حسین مذہب ہے اور اسی نے ہمیں یہ سارا کچھ سکھایا ہے کہ وَاللهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرة : ۲۰۲) خدا تعالیٰ فساد کو نہیں پسند کرتا.تو اس فساد سے بچنے کے لئے میں کہتا ہوں کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے لیکن اگر فساد کا خطرہ نہ ہو، ہزار جگہ نہیں ہوگا تو اس جگہ کوئی شخص بھی بھوکا رات کو نہ سوئے لیکن فتنہ و فساد نہیں پیدا کرنا، بالکل قطعاً اس کی خدا نے اجازت نہیں دی ، خدا اس کو پسند نہیں کرتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) تیرہ سال مکی زندگی میں ہر قسم کے دکھ اٹھائے لیکن کوئی جوابی کارروائی نہیں کی.وہ ہمارے لئے اُسوہ ہے، جب تک کہ حالات نہ بدل جائیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۰۸ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور خدا کرے کہ ہر احمدی کا یہ احساس ہمیشہ بیدار رہے کہ میں اس جماعت کی طرف منسوب ہونے والا ہوں کہ جس کو ساری جماعت پوچھنے والی ہے اور لاوارث نہیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم 1+9 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذکر اور تفکر کی دو طاقتیں دی ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۳ مارچ ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ - الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَ ج الْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَه وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارٍ - رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ - رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ ۖ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ - فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ إِنِّي لَا أَضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُم مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ أَوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَتَلُوا وَ قتِلُوا لا كَفَرَنَّ عَنْهُمْ سَيَأْتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنْتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ - (ال عمران : ۱۹۱ تا ۱۹۶) آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں ( اولوا الالباب)
خطبات ناصر جلد ہشتم 11+ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء کے لئے یقیناً کئی نشان نشان ہیں.وہ عظمند (اولوا الالباب ) جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارہ میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب !تو نے اس عالم کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا.تو ایسے بے مقصد کام کرنے سے پاک ہے.پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا اور ہماری زندگی کو بے مقصد بننے سے بچالے.اے ہمارے رب جسے تو آگ میں داخل کرے گا اسے تو تو نے یقیناً ذلیل کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا.اے ہمارے رب ہم نے یقیناً ایک ایسے پکارنے والے کی آواز جو ایمان دینے کے لئے بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ سنی ہے پس ہم ایمان لے آئے اس لئے اے ہمارے رب ! تو ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بد یاں ہم سے مٹا دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ملا کر وفات دے.اور اے ہمارے رب ! ہمیں وہ کچھ دے جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر ہم سے وعدہ کیا ہے اور قیامت کے دن ہمیں ذلیل نہ کرنا تو اپنے وعدہ کے خلاف ہر گز نہیں کرتا.( ہم سے گناہ ہو جاتے ہیں ہمیں گناہوں سے بچا ) چنانچہ ان کے رب نے یہ کہتے ہوئے ان کی دعا سن لی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کروں گا.تم ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے ہو.پس جنہوں نے ہجرت کی اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میری راہ میں تکلیف دی گئی اور انہوں نے جب دفاعی جنگیں کیں اور اپنی جانیں خدا کی راہ میں قربان کیں اور مارے گئے.میں ان کی بدیوں کے اثر کو ان کے جسم سے یقیناً مٹا دوں گا اور میں انہیں یقیناً ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.یہ انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ کے طور پر ملے گا اور اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جس کے پاس بہترین جزا ہے.ان آیات میں ایک لمبا مضمون بیان ہوا ہے لیکن میں نے اس مضمون کا ایک حصہ آج کے خطبہ کے لئے منتخب کیا ہے.ویسے اس کی بھی شاید تفصیل میں میں نہ جا سکوں کیونکہ صبح سے پیٹ میں تکلیف کی وجہ سے مجھے ضعف کی شکایت ہے.پہلی بات ان آیات سے ہمیں یہ پتا لگتی ہے کہ آسمان اور زمین کی پیدائش یعنی کائنات کی
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء ہر شے ایک آیت ایک نشان ہے.ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں پتا بتاتی ہے حقائق کا.جو ہمیں پتا دیتی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات اور اس کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کی قدرت کا.ہر چیز ہماری راہنمائی کر رہی ہے ہمارے پیدا کرنے والے رب کی طرف اور صرف مادی اشیاہی نہیں بلکہ اس کا ئنات کو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دوحصوں میں تقسیم کیا.ایک تو مادی اشیاء ہیں جن کو آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسرے زمانہ ہے اور اس کو وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ سے تعبیر کیا گیا ہے.زمانہ اپنے اثرات دکھاتا ہے ان جہانوں میں اور زمانہ سے پیدا ہونے والا ہرا ثر ہمیں کوئی سبق دے رہا ہے.ہمیں کچھ سکھاتا ہے ہماری رہنمائی اور رہبری کرنے والا ہے تو یہاں یہ فرمایا کہ یہ کائنات جو ہے اس کے ہر دو حصے مادی حصہ بھی اور زمانہ بھی جو اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے.زمانے کے اثرات مادی دنیا پر ہوتے ہیں مثلاً ان کا بڑا اور چھوٹا ہونا ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے دنوں کا چھوٹا رہنا ضروری ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے چھوٹے دنوں کا اور لمبی راتوں کا ہونا ضروری ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے لمبے دنوں کا اور چھوٹی راتوں کا ہونا ضروری ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے سورج کی روشنی اور اندھیرے کی ایک جیسی لمبائی کا ہونا ضروری ہے.تو یہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.زمانہ ہر آن حرکت میں ہے اور فاصلے کی نسبتوں کو قائم کرنے والا ہے.کس قدر تیزی سے کوئی چیز چل رہی ہے یا کتنی دور ہے کوئی چیز.اس وقت اختصار کے ساتھ زمانہ کے متعلق اس حقیقت کو بیان کر دینا کافی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کو ہم نے دو طاقتیں دی ہیں ایک ذکر کی اور ایک تفکر کی اور جو عقل مند ہیں خالص اور صحیح عقل رکھنے والے عقل اور کب میں یہ فرق ہے.عقل میں جب ہوائے نفس شامل ہو جائے اور وہ خالص نہ رہے تب بھی عربی زبان اسے عقل ہی کہتی ہے مثلاً آج کی مہذب دنیا جو دنیا میں ڈوب گئی اور خدا کو بھول گئی وہ بھی عربی زبان کے لحاظ سے عقلمند کہلائیں گے اگر چہ ان کی عقل میں ان کی ادنی خواہشات اور میلان نفس کی بھی بڑی ملاوٹ آگئی اور انہوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۱۲ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء نے اپنی تسلی کے لئے گراوٹوں میں لذتیں محسوس کرنی شروع کر دیں اور اس کا جواز پیدا کر لیا اور اس حد تک چلے گئے یہ عقلمند کہ انگلستان کی ملکہ کوسٹومی (Sodomy) بل پر دستخط کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا.اس حد تک گراوٹ اور عقلمند بھی ہیں عربی زبان ان کے لئے عقل کا لفظ استعمال کرے گی لیکن عربی زبان ان کے لئے اُولُوا الالباب کا لفظ نہیں استعمال کرے گی.اس واسطے کہ لب کے معنے ہیں خالص عقل جو اپنی صفائی میں اور Purity میں انتہا کو پہنچ چکی ہو اس کو عربی زبان میں کب کہتے ہیں تو یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو خالص عقل دی تھی.اس نے اس کو اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اور گری ہوئی خواہشات کے نتیجہ میں ناخالص بناد یا اور گدلا کر دیا لیکن وہ لوگ جنہوں نے خالص عقل کو قائم رکھا وہ اپنی ان دو طاقتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.ایک ذکر سے ایک تفکر سے.ذکر وہ کرتے ہیں ہر حالت میں يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا وَقُعُودًا و عَلَى جُنُوبِهِمْ اور وہ تفکر بھی کرتے ہیں تفکر بھی وہ ہر حالت میں کرتے ہیں.اس آیت سے یہی واضح ہوتا ہے عربی میں (جیسا کہ مفسرین نے اس کی وضاحت کی ہے ) ذکر اور تفکر میں فرق ہے وہ کہتے ہیں کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے.بدن اور روح سے.بدن سے تعلق رکھنے والی عبودیت کو ذکر کہتے ہیں اور قلب اور روح سے تعلق رکھنے والی عبودیت کو تفکر کہتے ہیں اور کامل ذکر وہ ہے جو انسان کے تمام جوارح اور اعضاء سے تعلق رکھتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں حکم دیا نماز پڑھنے کا اور نماز کے اندر قیام بھی ہے اور رکوع بھی ہے اور سجدہ بھی ہے اور قعدہ بھی ہے اور زبان کا ذکر بھی.یہ جسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.روزہ ہے اس کا ہمارے بدن کے ساتھ تعلق ہے.ہم اپنے جسم کو بھوکا رکھتے ہیں اور حج جو ہے اس کے جو ظاہری ارکان حج ہیں وہ ہمارے جسم سے تعلق رکھنے والے ہیں.جس عبودیت کا تعلق بدن سے ہے اس کا نام ذکر ہے يَذْكُرُونَ اللهَ قيما و قُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ اور جس عبودیت کا تعلق قلب اور روح کے ساتھ ہے اس کے متعلق کہا يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اور عبودیت کے ہر دو حصے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی جو ظاہری طور پر مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر نماز میں دعا کرتے ہوئے رقت نہ پیدا ہو تو وہ مصنوعی طور پر رقت کی حالت پیدا کرے.آہستہ آہستہ اس کا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۱۳ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء دل بھی اس طرف حقیقی رقت کی طرف مائل ہو جائے گا اور جو قلب کی اور روح کی عبودیت ہے اس کے نتیجہ میں جسم جو ہے وہ بھی دل اور روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے اور اخلاص کے نتیجہ میں انسان کا جسم بھی اعمالِ صالحہ بجالاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ روایت منسوب ہوتی ہے تَفَكُرُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِّنْ عِبَادَةِ سِتِّينَ سَنَة کہ ایک گھڑی کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت ظاہری سے زیادہ بہتر ہے.ظاہر ہے کہ عِبَادَةُ سِتّين سَنَة یہاں اس عبادت کا ذکر ہے جس میں تفکر نہیں.قلب اور روح کا حصہ نہیں.یعنی جس عبادت میں ہمارا دل شامل نہیں ہوا صرف ظاہر ہے،جس عبادت میں ہماری روح پگھل کے آستانہ الہی پہ نہیں بہی یہ بھی محض نمائش ہے اور ریا ہے آپ نے سمجھانے کے لئے ستين سنة کہہ دیا.یعنی بلوغت کی ساری عمر کی کھو کھلی عبادت سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ چھلکا ہے وہ تو کھوکھلی چیز ہے اس کے اندر تو کوئی حقیقت نہیں ، کوئی اخلاص نہیں.خدا تعالیٰ کے لئے کوئی پیار اور محبت نہیں، اس محبت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ پر قربان ہونے کی کوئی خواہش نہیں.خدا تعالیٰ کے لئے ہر چیز کو چھوڑ دینے کا کوئی عزم نہیں.وہ عبادت تو خدا تعالیٰ قبول نہیں کرے گا.ان آیات کے بعد دعا کی تعلیم دی ( ربنا ) اور اس میں یہ ہمیں بتایا گیا کہ دعا کی قبولیت کے لئے کوئی وسیلہ ہونا چاہیے.یعنی کوئی ایسی شکل ہونی چاہیے کہ دعا قبول ہو جائے.ایسی دعا جو استحقاق پیدا کر رہی ہو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قبولیت کا اور یہاں جو پہلے بیان ہوا ہے وہ یہی ہے کہ ذکر اور فکر ہر دو سے تعلق رکھنے والی عبودیت کے جو تقاضے ہیں جب وہ پورے کئے جائیں تب دعا قبول ہوتی ہے.اگر ایک شخص ساری رات جاگ کے دعا کرے اور ہر رات جاگ رہا ہوا اپنی زندگی میں لیکن عمل نہ کرے خدا تعالیٰ کے احکام پر اس کی دعا قبول نہیں ہوگی.دعا کی قبولیت کے لئے شرائط بیان کی گئی ہیں ان آیات میں اور یہی چیز میں اس وقت آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.بیان کی گئی ہیں یہ شرائط شروع میں بھی اور پھر آخر میں بھی.پہلے تو یہ کہا کہ ذکر کرنے والے اور تفکر کرنے والے جو ہیں وہ جسم کے لحاظ سے ، بدن کے لحاظ سے بھی عبودیت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور قلب وروح کے لحاظ سے بھی عبودیت کے تقاضوں کو
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۱۴ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء پورا کرنے والے ہیں اور یہاں جو ذکر اور فکر تھا اس کی روح یہ ہے کہ ہر وقت خدا کے ذکر میں مشغول رہنا اور خدا تعالیٰ کی جو مصنوعات ہیں جو خلق ہے اس سے دل کا ، ذہن کا ، روح کا صحیح استدلال قائم کرنا کیونکہ ہر چیز خدا تعالیٰ کی طرف پوائنٹ (Point) کر رہی ہے.ایک نشان ہے جس طرح سڑکوں پر نشان ہوتا ہے.یہ راستہ جاتا ہے لاہور کی طرف.خدا تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہر شے جو ہے وہ نشان ہے کہ یہ راستہ جاتا ہے خدا کو پہچاننے عرفان اور معرفت الہی کی طرف اور ذکر کرنا تفکر فی مصنوعات کرنا ربوبیت خداوندی کا اعتراف کرنا یہ شرائط قبولیتِ دعا ہیں.ذکر اللہ میں ہمیشہ مشغول رہنا.دل اور دماغ اور روح کے ساتھ تفکر کرنا یعنی معرفت حاصل کر کے اور معرفت اور اس عرفان کا احساس دل اور روح میں بیدار رہنا.معرفت یہ نہیں ہے کہ کوئی چیز ملی اور جیب میں رکھ لی معرفت تو ایک احساس ہے جو روح میں پیدا ہوتا ہے جو احساس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑی عظمتوں والا خدا تعالیٰ بڑے جلال والا ، خدا تعالیٰ بڑے حسن والا نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے.ہر چیز پر وہ قادر ہے.کوئی چیز اس کے سامنے آن ہونی نہیں.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی دنیا کی طاقت اس کے منصوبوں کو نا کام نہیں کرسکتی.وہ تمام صفات باری جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی بیان کی ہیں ان سب کو اپنے ذہن میں ، اپنے دل میں ، اپنے Mind میں ، قلب میں حاضر رکھنا اور روح کا اس احساس سے لذت حاصل کرنا یہ ہیں شرائط قبولیت دعا..تو ربوبیت خداوندی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی حمد و ثنا میں مشغول رہنا اور اس یقین پر قائم ہونا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل عبث اور باطل نہیں ہے.بے حکمت نہیں ہے.مصلحتوں سے خالی نہیں ہے.ہر چیز جو اس نے پیدا کی وہ کسی مصلحت کے نتیجہ میں پیدا کی اور انسان کو بھی اس نے کسی مصلحت کے لئے پیدا کیا جس کا ذکر قرآن کریم نے یہ کہہ کے کیا ہے کہ میں نے اس لئے پیدا کیا ہے اے انسان تجھے کہ تو خدا تعالیٰ کا عبد بنے کی کوشش کرے اور اپنی تمام طاقتوں پر اس کا رنگ چڑہا کے اس کے حسن میں سے حصہ لے جو تیرے دل نے اور تیری روح نے خدا کے وجود میں دیکھا اور مشاہدہ کیا اور پھر شرط لگائی ہجرت کی اور مجبور کر کے وطن سے بے وطن کئے جانے کی.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۱۵ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء اس کے ایک ظاہری معنی ہیں ایک صوفیا نے معنی کئے ہیں اور انہوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ اپنے نفس سے دوری یعنی اپنے نفس کی خواہشات کو پورا نہ کرنا اپنے نفس کا ایک وطن ہے اس کی عادتیں ہیں جہاں وہ خوشی محسوس کرتا ہے.ان کو چھوڑ نا خدا کے لئے بے نفس ہو جانا جن چیزوں سے محبت اور پیار ہے ان کو ترک کر دینا.خدا تعالیٰ کے لئے ایذا کو برداشت کرنا اور ایذا کو ایذا نہ سمجھنا اور جو شیطانی وساوس کی یلغار ہو انسان پر اس کے خلاف جنگ لڑنا ( قاتِلُوا ) ، دفاعی جنگیں کرنا.پس صوفیا اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ شیطانی وسوسوں کے خلاف جنگ کرنا کامیابی کے ساتھ اور شیطان کو کسی صورت میں یہ اجازت نہ دینا کہ وہ جسے خدا نے اپنا بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.اسے شیطان اپنا بندہ بنادے اور خدا کی راہ میں قربان ہو جانا (قُتِلُوا ) شہادت پانا اور ہر چیز قربان کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول نہ لینے کے سامان پیدا کرنا.یعنی یہ نہ برداشت کرنا کہ خدا ناراض ہو جائے.دنیا جائے ، رشتہ دار جائیں، تعلقات ٹوٹیں اپنے بیگانے ہوجائیں، جو ہو سو ہولیکن انسان خدا کے لئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کرے.صوفیا اس کو شہادت کہتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی پھر بسا اوقات بعض لوگوں کو خدا کے حضور جان پیش کرنی پڑ جاتی ہے.تو یہ دس شرائط یہاں قبولیت دعا کی بیان ہوئی ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دعا کی قبولیت کا حق (اسی کے کہنے پر) پیدا کر لیتی ہے ورنہ انسان کا کوئی حق نہیں خدا پر.لیکن خدا کہتا ہے اگر یہ دس باتیں تم اپنے اندر پیدا کرو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا.اُدعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ.اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا دن خدا کو بھولے رہو.ساری راتیں اپنی غفلت میں بسر کرو اور پانچ منٹ خدا کے حضور دعا کر لو اور سمجھو کہ خدا پر فرض ہو گیا کہ خدا تمہاری دعاؤں کو قبول کرے.اسے تمہاری حاجت نہیں تمہیں خدا کی حاجت ہے.سارے کا سارا خدا کا ہوجانا جسمانی لحاظ سے بھی قلبی اور روحانی لحاظ سے بھی اور جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ذکر اللہ میں مشغول رہنا قلب و روح کا مصنوعات باری میں تفکر کرنے کے بعد صحیح نتائج نکالنا، ربوبیت خداوندی کا اعتراف کرتے ہوئے حمد و ثنا میں مشغول رہنا ، اللہ تعالیٰ کو ہرایسی چیز سے پاک سمجھنا جو اس کی طرف عبث اور باطل کو منسوب کرنے والی ہو، اس کی راہ میں ہجرت کرنا، بے وطنی کو قبول کرنا،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۱۶ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی ایذاء کو برداشت کرنا، شیطانی حملوں کا کامیاب مقابلہ کرنا اور فنا کی حالت اپنے پر طاری کر لینا.خدا کہتا ہے میں ایسے بندوں کی دعائیں اپنے فضل سے سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں.کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا کے فضل سے ہی انسان جنت میں جاتا ہے اپنے کسی عمل سے نہیں.یہاں بھی خدا تعالیٰ نے جب دعا قبول کر کے ثواب دینے کا ذکر ہوا ہے تو فرمایا کہ لادخِلَنَّهُم جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ.میرے فضل سے جنتیں مل گئیں خدا کی رضا کی.یہ نہیں کہا تم نے دس شرائط پوری کیں اس لئے اس نے جنت میں بھیج دیا.یہ کہا ہے ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے.تمہارے اپنے عمل کا نتیجہ پھر بھی وہ نہیں ہو گا.لیکن تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ خدا تعالیٰ اگر چاہے تو تم سے پیار کرے.باقی جو خود نا پاک بنتا ہے خدا تعالیٰ جو پاکوں کا پاک ہے.اس ناپاک سے کیسے پیار کرنے لگ جائے گا.اس کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن ثواباً مِّنْ عِنْدِ اللهِ ہے یعنی دس شرائط پوری کرنے کے بعد دعا کا قبول ہونا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہونا وہ بھی انسان کے کسی اپنے فعل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض ثوابًا مِنْ عِنْدِ اللہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے جو اسے مل رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت زندگی کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور ہم جیسے بھی ہیں کمزور و ناتواں اور غافل ہمیں توفیق دے کہ وہ ہم سے پیار کرنے لگ جائے اور جب ہم پر اس کا فضل ہوتو شیطان ہمارے دل میں اس وقت بھی یہ وسوسہ نہ پیدا کرے کہ گویا ہم نے اپنے کسی عمل کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو حاصل کیا بلکہ پھر بھی ہم یہی سمجھیں کہ خدا تعالیٰ کا پیار ہمیں اس لئے ملا کہ خدا تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ہم پر فضل کرے اور ہم سے پیار کرے ورنہ نالائق مزدوروں سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے خدا کے حضور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۲۱ رمئی ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۱۷ خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۷۹ء دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں خطبه جمعه فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ بقرہ کی درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ وَ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا ۖ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - اللَّهُ وَلِى الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَولِيتُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمتِ أُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - (البقرة: ۲۵۸،۲۵۷) حضور انور نے ان آیات کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں کیونکہ ہدایت اور گمراہی کا باہمی فرق خوب ظاہر ہو چکا ہے.پس سمجھ لو کہ جو شخص اپنی مرضی سے نیکی سے روکنے والے کی بات ماننے سے انکار کرے اور اللہ پر ایمان رکھے تو اس نے ایک نہایت مضبوط قابل اعتماد چیز کو جو کبھی ٹوٹنے کی نہیں مضبوطی سے پکڑ لیا اور اللہ بہت سنے والا اور بہت جاننے والا ہے.اللہ ان لوگوں کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۱۸ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء دوست ہے جو ایمان لاتے ہیں.وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جو کا فر ہیں ان کے دوست نیکی سے روکنے والے ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں.وہ لوگ آگ میں پڑنے والے ہیں وہ اس میں رہیں گے.پھر فرمایا.لا إكراه في الدِّينِ دین میں کوئی جبر نہیں.دین کے معنی لغت عربی نے یہ کئے ہیں الطاعَةُ وَالْجَزَاء اطاعت کرنا یا اعمال پر جزا کا دیا جانا.وَاسْتَعِيرُ لِلشَّرِيعَةِ اور استعارہ اسے شریعت اور مذہب کے لئے بولا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے معنی کو اس آیت میں ظاہر کیا ہے وَاخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلهِ کہ انہوں نے اپنی اطاعت خدا کے لئے جو انہوں نے اطاعت کی، خدا کے حکم کو مانا اس میں انہوں نے اخلاص کا ثبوت دیا.مخلص ہو کر اطاعت کی اور مفردات راغب میں ہے کہ اس کے معنے جو الطَّاعَةُ اطاعت کے ہیں.فَاِنْ ذُلِكَ لَا يَكُونُ فِي الْحَقِيقَةِ إِلَّا بالاخلاص کہ حقیقی اطاعت اخلاص کے بغیر ممکن نہیں اور اخلاص جو ہے وہ جبر کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتا.وَالْإِخْلَاصُ لَا يَتَأَثْ فِيهِ الْإِكْرَاہ جبر کے نتیجہ میں اخلاص نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے اور اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے حقیقی اطاعت نہیں ہوتی اور حقیقی اطاعت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جزا سزا کا سوال نہیں پیدا ہوتا.دین کے معنی اطاعت اور جزا یا شریعت کے ہیں لیکن یہاں دین کا لفظ نہیں بلکہ الدین کا لفظ ہے یعنی وہ اطاعت جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شریعتِ اسلامیہ میں کرتا ہے.وہ اطاعت جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس کے عرفان سے اس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد دلوں میں پھوٹتی اور جوارح سے ظاہر ہوتی ہے.یہ وہ اطاعت ہے جس کا مطالبہ اسلام کرتا ہے اور یہ وہ اطاعت ہے جس پر اللہ تعالیٰ وہ انعامات عطا فرماتا ہے جس پر ان جنتوں کا خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا گیا ہے، جس کی بشارتیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور اگر اس کے معنی شریعت کے ہوں تو الدین کے معنی ہوں گے کامل شریعت جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوع انسانی کے ہاتھ میں دیا گیا.یہاں یہ بات بڑی وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ اطاعت حقیقی کا امکان ہی نہیں جبر
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۱۹ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء کے ذریعہ سے.کیونکہ اس کی بنیاد اخلاص پر، اس کی بنیاد خدا تعالیٰ کے پیار پر، اس کی بنیاد خدا تعالیٰ کی معرفت کے حصول پر، اس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی بن کر خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول پر ہے اور جبر کے ساتھ اگر کسی سے ایمان کا اعلان کروایا جائے یا جبر کے ساتھ اگر کسی سے نیکیاں کروائی جائیں یا جبر کے ساتھ کوئی شخص یہ کہے کہ میرا دل بھی تصدیق کرتا ہے کہ اسلام ایک صداقت اور بنی نوع انسان کے شرف کے لئے آیا ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ جو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے وہ ہستی تو کوئی جزا اس کے اوپر نہیں اس کو دے سکتی.تو اس اطاعت و جزا کو میں نے ایک مفہوم میں بریکٹ کر دیا ہے کہ اطاعت کے ساتھ جزا کا تعلق ہے خالص اطاعت موعودہ جزا کی بشارت دیتی ہے یعنی جو مقبول اعمال ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرتا، ان سے پیار کرتا ، ان کا دوست بن جاتا ہے، ان کو جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے.ہر اس رستے کو منور کرتا ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کے پیار کی طرف لے جانے والی جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں ہیں وہ ان پر کھولی جاتی ہیں ، ان پر چلنے کی انہیں تو فیق عطا کی جاتی ہے.یہ چیزیں جبر سے نہیں ہوتیں اور نہ اس قسم کی جزا، اس کی جزا جو ہے یا اس پر ثواب جو ہے وہ ان اعمال پر مل سکتا ہے، جزامل سکتی ہے یا ثواب مل سکتا ہے جو جبراً کر وائے جائیں.یہاں خدا تعالیٰ نے ایک دلیل بڑی واضح کر کے دے دی قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ضلالت اور گمراہی کا فرق کھول کر بیان کر دیا.ہر شخص جو اپنی فطرتی قوتوں کی صحیح نشو نما کرنے والا ہے اگر اسے صحیح غور و فکر کی توفیق ملے تو وہ اس نتیجہ پہ پہنچے گا بغیر کسی جبر کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اس کی بھلائی اور خیر کے لئے ہے لیکن جو شخص ہوائے نفس کے بندھنوں میں خود کو باندھ لے اور شیطان کا غلام ہو جائے تو ظاہری اور مادی سختیاں اور جبر و تشدد جو ہے وہ شیطان کی رسیاں ہیں جو انسان کے لئے تیار کی ہیں، گمراہ کرنے کے لئے انسان کے، ان کو تو نہیں کا ٹاکرتیں.لا إكراه في الدين کے جوا کراہ کے معنی ہیں کہ دوسرے کو مجبور کرنا حالانکہ وہ کراہت محسوس
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۰ خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۷۹ء کرتے ہیں دینِ اسلام سے لیکن مجبور کرنا کہ اس کے برعکس تم اپنی محبت کا اعلان کرو اس پر بعض اور آیات قرآنی بھی روشنی ڈالتی ہیں سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ ج إيْمَانِةِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَبِنٌ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ فَمَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِم غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُ (النحل : ۱۰۷) جو لوگ بھی اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا انکار کریں سوائے ان کے جنہیں کفر پر مجبور کیا گیا ہولیکن ان کے دل ایمان پر مطمئن ہوں وہ گرفت میں نہ آئیں گے (جن کا دل مطمئن ہے ) ہاں وہ جنہوں نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ہو ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب مقدر ہے اور پھر فرماتا ہے اس کے بعد اور ایسا اس سبب سے ہوگا، اگلی آیت میں ہے کہ انہوں نے اس ور لی زندگی سے محبت کر کے اسے آخرت پر مقدم کر لیا اور نیز اس وجہ سے کہ اللہ کفر اختیار کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا تو ایک شخص کفر کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.ایک شخص دنیا سے اندھی محبت رکھتا ہے اور دنیا کو اپنے پیارے رب کے لئے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ایک شخص مطمن بالكفر ہے اور شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدرًا اس کا اس کے اوپر اطلاق ہوتا ہے اس کے متعلق خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ عَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ خدا کا غضب ایسے لوگوں کے اوپر نازل ہوتا ہے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے عذاب عظیم مقدر کیا یعنی جو شخص اپنی مرضی سے دنیا سے پیار کرنے والا کفر کی راہوں کو اختیار کرنے والا اور کفر پر شرح صدر رکھنے والا ہے یہ تصویر کھینچ دی نا اس آیت نے اب اگر کوئی شخص جبراً اس کے منہ سے یہ کہلوائے کہ میں ایمان لا یا یا اگر کوئی جبراً اس شخص سے نماز پڑھوائے تو وہ تو اسے یہ کہے گا جبر کرنے والا کہ خدا تجھے جنت میں لے کر جائے گالیکن خدا کی وحی اور خدا کا کلام اسے یہ سنا رہا ہوگا فَعَلیهِم غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عظیم کہ یہ جو کہتے ہیں کرتے رہیں لیکن میرا فیصلہ یہ ہے کہ تیرے اوپر میرا غضب نازل ہوگا اور تیرے لئے میں نے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے.اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ لا إِكْرَاهَ في الدین کے اور قد تبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى کے معنی کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے کہ جب دل میں ایمان نہیں تو جبر جو صرف ظاہر پر کیا جاسکتا ہے وہ بے نتیجہ ہے اور کسی کا یہ خیال کرنا کہ اس سے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۱ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء کوئی اچھا نتیجہ اسلام کے حق میں یا اس شخص کے لئے جس پر جبر کیا گیا ہے نکل آئے گا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے.ایک اور جگہ سورہ مومنون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آیت تو میں نے ایک لی ہے جو میں اب پڑھوں گا لیکن اس کے علاوہ کچھ آیتیں آئی ہیں ان کا میں ترجمہ صرف سناؤں گا آپ کو تا کہ مضمون آپ کے ذہن میں آجائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آم يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۖ بَلْ جَاءَهُمُ بِالْحَقِّ وَاكْثَرُهُم لِلْحَقِّ كَرِهُونَ (المؤمنون: ١) کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو جنون ہے (مگر ایسی بات نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو نا پسند کرتے ہیں.اگر حق ان کی خواہشات کی اتباع کرتا تو آسمان اور زمین اور جو ان کے اندر بستے ہیں تباہ ہو جاتے.حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کی عزت کا سامان لے کر آئے ہیں اور وہ اپنی عزت کے سامان سے اعراض کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”مجرم یقیناً جہنم کے عذاب میں مدتوں مبتلا رہیں گے.ان کے عذاب میں وقفہ نہیں ڈالا جائے گا اور وہ اس میں مایوس ہو جائیں گے اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے اور وہ پکاریں گے کہ اے مالک (جو دوزخ کے داروغہ کا نام ہے ) تیرے رب کو چاہیے کہ ہمیں موت دے دے.( آگے سے مالک ان کو جواب دے گا اور ) کہے گا تم دیر تک اس میں رہو گے.لَقَدْ جِئْنَكُم بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَرِهُونَ (الزخرف:٧٩) اور خدا ان سے کہتا ہے ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تم میں سے اکثر حق سے نفرت اور کراہت کرتے تھے.وہ شخص جو دل سے یہ نفرت اور کراہت کرنے والا ہے حق سے، زبان سے کچھ کہلو الینا اس سے نہ اس کی بہتری کے لئے ہے نہ اسلام کی بہتری کے لئے ہے.یہ دو آیات میں نے اس لئے آپ کے سامنے رکھی ہیں کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ میں ایک کراہت کو دور کرنے کا جبراً ذکر کیا ہے تو اور دونوں جگہ ایک جگہ اکثر كُمْ لِلْحَقِّ كَرِهُونَ اور دوسری جگہ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا یعنی حق سے کراہت کرنے والے اور کفر کے لئے شرح صدر رکھنے والے اور مطمئن ، ان کے دل مطمئن ہیں کفر پر اور شرح صدر ہے ان کا کفر پر اور حق
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۲ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء سے وہ کراہت رکھنے والے ہیں.یہ ہے ان کی کیفیت ان آیات میں بتائی گئی.ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ لا اکراہ فی الدین دین کے معاملہ میں ایسے لوگوں کو جبر اتم مسلمان نہیں بنا سکتے جبر اتم نیکیاں نہیں کروا سکتے کیونکہ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى دلائل کے ساتھ اور بینات کے ساتھ حقیقت کو واضح کر دیا گیا اور کھول کر بیان کر دیا گیا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے.وکو شَاءَ رَبُّكَ لَأمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا (يونس:١٠ ) اگر جبر کرنا ہوتا اگر جبر کو جائز رکھنا ا(یونس:۱۰۰) ہوتا تو انسان پر کیوں چھوڑا جاتا جبر، خدا تعالیٰ خود جبر کرتا.أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (يونس: ۱۰۰) اور اگر اللہ ہدایت کے معاملہ میں اپنی ہی مشیت کو نافذ کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے.پس جب خدا تعالیٰ مجبور نہیں کرتا تو کیا تو لوگوں کو ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں ) مجبور کرے گا وہ مومن بن جائیں یعنی جن کے دلوں میں حق سے اتنی کراہت جو کفر کے لئے اس قدر شرح صدر رکھتے ہیں وہ زبر دستی تو ان کے دل نہیں بدلے جا سکتے نہ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا کی جو کیفیت ہے وہ دور کی جاسکتی ہے.نہ یہ جبراً اکراہ سے کراہت دور نہیں کی جاسکتی.اس کو دور کرنے کے لئے بینات اور دلائل ہیں جو خدا تعالیٰ نے بڑی کثرت کے ساتھ اسلام کے حق میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے.دلائل قرآنی جو ہیں وہ اتنی وسعت ہے ان میں کہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے اس کلام سے ایک کے بعد دوسرا، ایک کے بعد دوسرا، روشن ستارہ نکلتا چلا آتا ہے انسان کی ہدایت کے لئے.اور علوم کے میدانوں میں عقلی علوم کے میدانوں میں ، روحانی علوم کے میدانوں میں ایک روشنی جو ہے وہ پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور قرآن کریم کی ہر نئی تفسیر جو ہر نئے زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ثابت کرنے والی اور آپ کی شان کو قائم رکھنے والی ہے اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اور آسمانی نشانات جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا پر ظاہر ہوئے اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک ممتد ہے اور خدا تعالیٰ کے نیک بندے اُمت محمدیہ میں ایک ایک وقت میں بعض دفعہ لاکھوں کی تعداد میں مختلف خطوں میں پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۳ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء صداقت اور شان کو ظاہر کرنے کے لئے معجزات دکھائے انسان کو.اور یہ سلسلہ جو ہے وہ میں نے جیسا کہ بتا یا قیامت تک ممتد ہے لیکن اس قدر دلائل سننے کے بعد اس قدر نشانات دیکھنے کے بعد بھی جس کا دل حق سے کراہت رکھتا اور جس کا سینہ بشاشت سے کفر کو قبول کرتا ہے اس پر جبر کر کے تو نہیں منوا یا جا سکتا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا یہاں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ جو نیکی ہے اس کا بدلہ تو خدا تعالیٰ نے دینا ہے اگر میں یا آپ کسی پر جبر کر کے اس سے نیکی کے کام کروائیں تو وہ میرے سامنے ہاتھ پھیلائے گا نا کہ مجھے بدلہ دوستم نے جو مجھ سے یہ کام کروائے ہیں مجھے خدا کی رضا کی جنتوں کا پروانہ لکھ کے دو.تو کون ایسا انسان ہے جو کسی دوسرے انسان کو ایسے پروانے لکھ کے دینا شروع کر دے اور خدا ان کو مان بھی لے.بدلہ تو خدا نے دینا ہے اور خدا ظاہری اعلان کو دیکھ کر تو بدلہ نہیں دیتا.خدا تعالیٰ تو ، بعض بد بخت ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے اعمال انسان کی نگاہ میں بڑے پیارے اور مخلصانہ ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں قبول نہیں کرتا بوجہ کسی ایسی خباثت کے جوان اعمال کے پیچھے پوشیدہ ہوتی ہے اور ان کے منہ پر ماردیے جاتے ہیں ان کے اعمال نامے.حدیثوں میں کثرت سے اس کا ذکر ہے تو جس نے بدلہ دینا ہے اور جو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے اور جس پر کوئی زبر دستی کر کے اس کے قانون اس کی خواہش اور منشا کے خلاف کچھ کر وا نہیں سکتا.اس سے کیسے جزا دلوائی جاسکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو مَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف:۳۰) کا اعلان کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ کہا کہ اپنی مرضی سے محمد پر ایمان لاؤ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مجھ سے اگر پیار حاصل کرنا چاہتے ہوتو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرو، اپنی مرضی سے لا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے.مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی زبردستی نہیں کیونکہ اگر مسلمان ہونے کے بعد کوئی زبردستی ہوتی تو اسلام کے اندر نہ فاسق کوئی ہوتا نہ منافق کوئی ہوتا.اپنی مرضی سے اخلاص کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت جو کامل محبت کا تقاضا کرتی ہے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا پیار ملتا ہے اس کی معرفت ملتی جس کے نتیجہ میں خدا کا عرفان حاصل ہوتا خدا کے لئے دل میں محبت کا ایک سمندر موجزن ہوجاتا ہے.اس کے بعد
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۲۴ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ اس قابل سمجھتا ہے اس پاک بندے کو جو اس پاک کی خاطر خود کو پاک بناتا ہے کہ اس سے وہ پیار کرے اپنی رضا کی جنتوں میں اسے داخل کرے تو لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.پہلوں نے بھی باوجود اس کے کہ بہت سی غلط قسم کی روایتیں بھی ان کے پاس پہنچ چکی تھیں لیکن جو حقیقت تھی وہ بھی انہوں نے کھول کے بیان کر دی.ان میں سے چند حوالے اس وقت میں پڑھ کے سناؤں گا آپ دوستوں کو.ہمارے ایک مشہور بزرگ مفسر قرآن ہیں امام رازگی.یہ ساتویں صدی ہجری کے ہیں.ان کی وفات ہوئی یعنی چھٹی کہنا چاہیے زیادہ زندگی انہوں نے گزاری چھٹی میں، ۶۰۶ ہجری میں - لاَ إِكْرَاه فی الدین کے نیچے وہ لکھتے ہیں بعض حوالے دے کر پہلوں کے کہ خدا تعالیٰ نے لا إكراه فی الدین کی تفسیر کرتے ہوئے :- خدا تعالیٰ نے ایمان کی بنیا د جر وا کراہ پر نہیں رکھی بلکہ ہر انسان کی طاقت اور اختیار پر رکھی ہے.توحید کے متعلق فیصلہ گن اور واضح بیان دینے کے بعد فرمایا کہ ان دلائل کی توضیح کے بعد کافروں کے لئے کفر پر قائم رہنے کا کوئی عذر باقی نہیں رہا.سوائے اس کے کہ اس کو ایمان پر مجبور کر دیا جائے (یعنی جتنے دلائل دیئے جانے چاہیے تھے وہ دے دیئے گئے.حق آگیا نا، جاءَ الْحَقُّ اور معجزات بھی دکھائے گئے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ ایمان نہ لائیں.اب جو وہ ایمان نہیں لاتے تو ایک ہی صورت رہ جاتی ہے باقی کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایمان لائیں لیکن وہ کہتے ہیں ) اور کسی پر جبر وا کراہ دنیا میں جو دارالا بتلا اور دار الامتحان ہے جائز نہیں کیونکہ دین میں جبر وا کراہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ابتلا اور امتحان کا مقصد باطل ہو گیا.اسی فرمان کی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( آیت کا میں ترجمہ کروں گا) کہ جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کفر اختیار کرے اور ایک دوسری سورۃ میں فرمایا کہ اگر تمہارا رب جبر کرنا چاہتا تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا.پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں اور پھر ایک اور جگہ فرمایا کہ ( شاید کہ تو تباہ کر دے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (الشعراء: ۴)) شاید کہ تو تباہ کر دے اپنی جان کو اس فکر سے کہ وہ ایمان نہیں لاتے.اگر ہم انہیں مجبور کرنا چاہتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۵ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء ایسا نشان نازل فرما دیتے کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھکنے پر مجبور ہو جاتیں اور اس معنی کی تائید اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے (جو اسی آیت میں لا إكْرَاةَ في الدِّينِ کے آگے ہے قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَی اس کی طرف اس کے معنی کر رہے ہیں ) اور اس معنی کی تائید اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد ہے ( لا إكراه في الدِّينِ کے بعد ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے یعنی اس کے دلائل ظاہر ہو چکے ہیں اور اس کے بعد ان کو ایمان کی طرف لانے کے لئے کوئی طریق باقی نہیں رہا.(یعنی ہر وہ طریق جو کسی کو Convince کرنے کے لئے جو کسی کو سمجھانے کے لئے جو کسی پر ہدایت کھولنے کے لئے ممکن تھا وہ طریق اختیار کیا گیا وہ دلائل دے دیئے گئے معجزات دکھا دیئے گئے ) اور یہ جائز نہیں ،کوئی طریق باقی نہیں رہا سوائے جبر کے اور یہ جائز نہیں کیونکہ یہ ذمہ داری کے خلاف ہے ( کہ ہر آدمی پہ جو ذمہ واری ہے کہ اپنی مرضی سے کرے یہ اس کے خلاف ہے جو بنیادی.پہلے میں نے بتایا تھا کہ یہ جو انسان کی پیدائش کا منصوبہ باری ہے اس کے خلاف ہے ).پھر یہ لکھتے ہیں کہ لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ کا بعض کے نزدیک یہ مطلب بھی ہے جو شخص جنگ کے بعد دین میں داخل ہوا ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مجبور ہو کر دین میں داخل ہوا ہے.“ اسلام جب آیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری دنیوی کمزور حالت میں رہے لمبا عرصہ مکی زندگی میں، تیرہ سال.پھر مدینے ہجرت کر کے تشریف لے گئے.پھر وہاں حملہ آور ہوئے رؤسائے مکہ اور انہوں نے سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا یا اور یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو دنیا سے مٹا دیں گے اس وقت تو وہی چند مسلمان تھے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو چکے تھے، تو دفاعی جنگیں اسلام کو لڑنی پڑیں.دفاعی جنگیں بھی لڑیں لیکن جنگ کی بعض شکلیں معجزانہ صورتیں بھی اختیار کر جاتی ہیں عقلمند آدمی کے لئے مثلاً بدر میں تین سو کچھ صحابہ کا نہتے ، نہ کپڑے ٹھیک نہ ہر ایک کے پاس جوتا بھی تھا اور اس کے مقابلے میں بڑے کتر وفر کے ساتھ رؤوسائے مکہ حملہ آور ہوئے تھے لیکن ان کا سر وہاں کٹ گیا اور شکست کھائی اور وہ واپس آئے اس وقت بہتوں نے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۶ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء سمجھا ہوگا کہ اتنی کوشش جو کی ہے جب تک اس چھوٹی سی جماعت کے پیچھے کوئی زبردست خدائی ہاتھ نہ ہو اس وقت تک یہ چیز نہیں ہے، یہ نظارہ نہیں ہماری آنکھیں دیکھ سکتیں تو وہ ایمان لے آئے تو لا إكراه فی الدین کا بعض لوگوں نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ جنگ کے بعد اس قسم کی دلی تبدیلی پیدا ہو جانے کے نتیجہ میں اگر کا فر کچھ ، مومن بھی ہو جائیں تو یہ نہ کہو کہ جنگ کی وجہ سے مجبور ہو گئے وہ.جنگ کی وجہ سے مجبور نہیں ہوئے جنگ تو دفاعی کی گئی تھی جنگ میں تو کمزوری کی حالت میں جب وہ جنگ کی گئی تھی.ظاہری حالات میں اس جنگ میں جیتنا ناممکنات میں سے تھا لیکن اس جنگ نے بعض عقلمندوں کو ایک نشان دکھا یا خدا کا اور اس نشان میں انہیں خدا تعالیٰ کا ہاتھ نظر آیا.اس ہاتھ کو انہوں نے پکڑا اور وہ اسلام کی طرف آگئے.تو ایسوں کو یہ نہ کہو کہ تم دل سے ایمان نہیں لائے مجبور ہو گئے ہو.اس کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں.کیونکہ جب وہ جنگ کے بعد دین میں داخل ہونے کے لئے راضی ہو گئے دل سے اور اس کا اسلام صحیح ہوا تو وہ مجبور نہیں کہلائیں گے.مطلب یہ ہوا کہ تم ایسے لوگوں کو اکراہ و جبر کی طرف منسوب نہ کرو.اس کی مثال دوسری جگہ یہ اتی ہے ( یہ امام رازی ابھی فرما رہے ہیں ) جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص تمہیں سلام کہے تم اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں صرف ظاہر سے اسلام کا اعلان کر رہا ہے.“ علامہ الوسی ہیں.ان کی ایک تفسیر ہے روح المعانی.وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں.انہوں نے یہ، ان کی وفات ہوئی ہے ۱۲۷۰ء میں تو مختلف روایتیں جو ان تک پہنچیں مختلف تفاسیر ان کا ذکر کر کے وہ کہتے ہیں :.اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ دین کے متعلق خدا کی طرف سے کسی قسم کا جبر نہیں بلکہ اس کا سارا دارو مدار اختیار اور رضا پر ہے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر ابتلا اور امتحان کا وجود ہی بے فائدہ ہو جائے اور یہ آیت ویسی ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا کہ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے.“ اور تفسیر المنار، محمد عبدہ کی ہے لیکن ان کے شاگرد نے ، وہ درس دیتے تھے لکھی ہے.وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۲۷ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء 66 لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے بہت سی روایات جمع کی ہیں جن میں ہے کہ جاہلیت میں عورتیں نذر مانا کرتی تھیں“.( جاہلیت کے زمانہ میں یہودی مذہب اور عیسائی وہاں بستے تھے.مدینے میں بھی تھے تو یہ مدینے کی بات ہے ) ” جاہلیت میں عورتیں نذر مانا کرتی تھیں کہ ہم اپنے بچوں کو یہودی بنادیں گے تاکہ وہ زندہ رہیں.( جن عورتوں کے بچے مرجاتے تھے وہ حب اٹھرا کھانے کی بجائے نذر مانتی تھیں کہ یہودی بنا دیں گے تاکہ وہ زندہ رہیں ).پھر مسلمانوں کو اسلام نصیب ہوا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے ان بچوں کو جو اہلِ کتاب کے دین پر ہیں مجبور کریں کہ وہ اسلام لے آئیں.( جو بچے یہودیوں نے لے لئے تھے ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی.ابن جریر یہ کہتے ہیں بہت سی روایات جمع کی ہیں اور یہ ان کا آپس میں پھر جھگڑا ہو گیا نا.جواصل ماں باپ تھے وہ کہتے تھے کہ پہلے اسلام تھا ہی نہیں.ہم نے یہودی مذہب کو اپنے سے بہتر سمجھا اور نذرمانی.اب یہودی مذہب سے زیادہ اچھا ایک کامل اور مکمل مذہب ہمیں مل گیا ہے اسلام کی شکل میں اب تمہارے پاس کیوں رہنے دیں اپنی اولاد کو.یہ اختلاف ان میں پیدا ہو گیا اور اس اختلاف کا فیصلہ کیا.یعنی اس آیت کے نزول کی وجہ جو ہے وہ یہ بیان کرتی ہیں روایات.اور سعید بن جبیر کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے اترنے پر فرمایا.اللہ تعالیٰ نے تمہارے لوگوں کو اختیار دیا ہے اگر وہ چاہیں وہ بچے جو یہودی لے چکے تھے یا عیسائی خاندان لے چکے تھے اگر وہ چاہیں تو تمہیں ترجیح دیں اور تم میں داخل ہو جائیں.اگر وہ چاہیں تو وہ ان کو ترجیح دیں اور ان میں داخل رہیں.اس کے بعد وہ اپنی تفسیر جو انہوں نے کی وہ کہتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ یہ حکم.بڑا ان کے دماغ نے یہاں کام کیا ہے.”میں کہتا ہوں کہ یہ حکم اس دین کا ہے جس کے متعلق اس کے دشمن ، اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے کو اس دین کا دوست خیال کرتے ہیں.میں کہتا ہوں.میں پڑھتا ہوں دوبارہ.میں کہتا ہوں کہ یہ حکم ہے اس دین کا جس کے متعلق اس کے دشمن اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ طاقت اور تلوار کے ساتھ کھڑا ہوا اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ( طاقت کے بل بوتے ) اس حال میں کہ طاقت
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۲۸ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا اس حال میں کہ طاقت اس کے دائیں ہوتی اور جو اسے قبول کرتا وہ نجات پا جاتا اور جو اسے قبول نہ کرتا تو تلوار اس کا فیصلہ کر دیتی.کہتے ہیں یہ اُس مذہب نے فیصلہ دیا ہے جس کی روایتیں ہیں.”ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ تلوار اس وقت بھی کام کر رہی تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ چھپ کر نماز ادا کیا کرتے اور جب کہ اسلام لانے پر مسلمان کو قسم قسم کے عذاب دیئے جاتے اور کوئی نہ تھا جو ظالموں کو ظلم سے رو کے.حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ہجرت پر مجبور ہو گئے.یا کیا وہ کہتے ہیں کہ جبر وا کراہ مدینہ میں استعمال کیا گیا بعد اس کے کہ اسلام سر بلند اور غالب ہو چکا تھا اور یہ آیت تو اس غلبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہو چکی تھی.آیت کا نزولِ زمانہ جو ہے وہ امام بخاری کے نزدیک ۳ھ میں غزوہ احد ہے اور یہ اس سے پہلے آیت نازل ہو چکی تھی.تو بالکل ابتدائی زمانہ میں تھی اس وقت کب عروج ہوا تھا؟ وہ تو جنگ احزاب میں بھی پیٹ پر پتھر باندھ کے پھرتے تھے اور جانوں کی فکر لگی ہوئی تھی اور منافق جو تھے وہ ریشہ دوانیوں میں تھے اور یہود جو تھے وہ اپنا فتنہ تیز کرنے کی کوشش میں تھے.اس وقت تو بڑی کمزوری کی حالت تھی ۳ھ میں اور مکہ کے کفار ہمیشہ مسلمانوں سے جنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے.بنو نضیر نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور دو دفعہ آپ کو ہلاک کرنے کی تدبیر کی.یہ وہ زمانہ ہے اس آیت کے بعد یہ واقعات ہوئے ہیں حالانکہ وہ مدینہ میں آپ کی پناہ میں رہ رہے تھے.آخر حضور نے ان کا محاصرہ کیا اور وہ ہار کر مدینہ سے نکل گئے اور جن مسلمانوں نے اجازت مانگی تھی جب یعنی ان کی شرارتوں کی وجہ سے ان کو مدینہ چھوڑنا پڑا تو مسلمانوں نے جب وہ جانے لگے تو مسلمانوں نے اجازت مانگی ہم اپنے بچے جو ہیں وہ ان کے پاس نہیں رہنے دیتے اور جن مسلمانوں نے اجازت مانگی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو جو یہودی ہو چکے تھے مجبور کر کے مسلمان بنا ئیں انہیں اس کی اجازت نہ فرمائی.یہ اُستاد امام شیخ محمد عبدہ نے لکھا ہے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ ” دراصل وہی پہلا دن تھا جس میں مسلمانوں کو کسی قدر جبر و اکراہ کا خیال آیا.یہ محمد عبدہ نے لکھا ہے اپنی تفسیر میں ” دراصل وہی پہلا دن تھا جس میں مسلمانوں کو کسی قدر جبر و اکراہ کا خیال آیا اور اسی دن یہ فرمان نازل ہوا کہ
خطبات ناصر جلد هشتم دین میں جبر وا کراہ جائز نہیں“.استاد امام شیخ محمد عبدہ نے فرمایا کہ ۱۲۹ خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۷۹ء عام مذاہب میں خصوصاً عیسائیوں میں یہ دستور تھا کہ وہ لوگوں کو جبراً اپنے مذہب میں داخل کرتے اور یہ مسئلہ دراصل دین کی نسبت سیاست سے زیادہ تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایمان جو دین کا اصل اور جو ہر ہے اس کے معنی ہیں نفس کا جھک جانا اور فرمانبردار ہو جانا.اور ناممکن ہے کہ یہ جھکنا اور یہ فرمانبرداری جبر اور زبردستی سے پیدا ہو.یہ صرف وضاحت اور دلیل سے ہی پیدا ہو سکتی ہے.اس لئے جب اکراه و جبر کی نفی فرمائی تو فرما یا قد تبين الرُّشْدُ مِنَ الغَى کہ ظاہر ہو چکا ہے کہ اس دین میں ہدایت فلاح اور نور کی طرف پیش قدمی ہے اور جو مذاہب اس کے خلاف ہیں وہ گمراہی اور بے راہ روی میں مبتلا ہیں.“ یہ چند ایک مثالیں میں نے اس وقت دینی تھیں.اسلام نے بڑی وضاحت سے دلائل دے کر سمجھا کر حقیقت کھول کر پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ اس عظیم دین میں اس کامل دین میں اس مکمل دین میں اس حسین تر دین میں بنی نوع انسان پر عظیم احسان کرنے کی طاقت رکھنے والے دین نے دین کے معاملہ میں جبر کو جائز قرار نہیں دیا.نہ مذہب کے معاملہ میں جائز قرار دیا نہ کسی مسلمان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہونے دی کہ اطاعت حقیقی جبر سے بھی کروائی جاسکتی ہے یعنی ہماری عقلوں کو بھی یہ باور کروایا کھول کے بیان کیا ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی عقلمند سوچ نہیں سکتا کہ جبراً حقیقی اطاعت کروائی جاسکتی ہے.جبراً ظاہری اطاعت کا تو امکان ہے لیکن جبراً حقیقی اطاعت جب دل میں بشاشت پیدا ہو جب سینوں میں شرح پیدا ہوفراخی اور وسعت پیدا ہو جب روح میں نور پیدا ہو جب انسان کے وجود میں خدا تعالیٰ کا پیار سمندر کی لہروں کی طرح موجزن ہو جائے.یہ جبر سے ہو سکتا ہے؟ تو ہمیں جب کہا خدا نے کہ جب یہ ناممکن ہے کہ جبر اور اکراہ اور زور کے ساتھ اور طاقت کے ذریعہ سے کسی کے دل میں تبدیلی پیدا کی جائے تو ہر وہ ازم یا ہر وہ مذہب جو اس کے برعکس خیال کرتا ہے وہ خدا کی مرضی کے خلاف باتیں کر رہا ہے.اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳۰ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی روح کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اسلام کے حسن کو اور اسلام کی پیاری تعلیم کو ان لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں جو ابھی تک اسلام کے فائدوں سے فائدہ نہیں حاصل کر سکے ، استفادہ نہیں حاصل کر سکے تاکہ وہ جن نیکیوں سے محروم ہیں ، جن فائدوں سے محروم ہیں، جن برکتوں سے محروم ہیں ، جن رحمتوں سے محروم ہیں خدا تعالیٰ کی جن نعماء سے محروم ہیں ان کی یہ محرومی دور ہو اور وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور ہم سب بھائی بھائی بن کر ایک حسین ترین معاشرہ اس دنیا میں قائم کریں اور خدا تعالیٰ کے پیار کو سارے کے سارے انسان مل کر مرنے کے بعد حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳۱ خطبہ جمعہ ۱۷۶ پریل ۱۹۷۹ء شریعتِ اسلامیہ کے ہر حکم میں آسانی کا پہلو ہے خطبه جمعه فرموده ۶ / ۱ پریل ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.يُريدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا - (النساء : ٢٩) پھر حضور انور نے فرمایا:.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے.ضعیف اس معنے میں کہ خدا تعالیٰ نے جہاں اس کو نیکی کی بہت سی قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں وہاں اس کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ ان راہوں کو چھوڑ کر جو اس کے رب کی طرف لے جانے والی ہیں، ان راہوں کو اختیار کرے جن پر چل کر شیطان لعین سے وہ اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے اور ضعیف اس معنی میں بھی کہ غیر محدود انعامات اس کے سامنے رکھے اور محدود عمل سے زیادہ کی اسے طاقت نہیں دی.کمزور ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کرے.تمہارے لئے آسانی پیدا کرے.اسلامی شریعت کا گہرا مطالعہ ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جاتا ہے اور اس صداقت پر قائم کرتا ہے کہ ہر حکم شریعتِ اسلامیہ کا ایسا حکم ہے جس میں آسانی کے پہلو کو مد نظر رکھا گیا
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۳۲ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۹ء ہے.اس وقت میں نے تین چار باتیں اصولی جو ہیں ان کو منتخب کیا ہے اس وقت کے خطبہ کے لئے.ایک یہ کہ انسان میں جو قوت اور طاقت ہے وہ اپنے نفس میں ایسی نہیں جو اسے خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتی.انسان کی ساری نیکی کی طاقتیں بھی اس کے لئے بدی بن سکتی ہیں.اس میں کبر پیدا کر کے، اُس میں نخوت پیدا کر کے، اس میں ریا پیدا کر کے، اس میں جذ بہ نمائش پیدا کر کے، اس میں اپنے نفس کی پوجا کر کے اور پرستش کے جذبات پیدا کر کے، اس کی نیکیاں جو ہیں ان کے اندر وہ خود شرک کی ملاوٹ پیدا کر سکتا ہے.اس لئے چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نیکی کی طاقتیں بھی دیں ان کا بھی وہ غلط استعمال کر سکتا تھا.وہ انتہائی عاجزانہ نمازیں پڑھنے کے بعد بظاہر جو ہمیں نظر آتی تھیں خشوع اور تضرع کے ساتھ دعائیں کرنے والا لیکن اس کی روح اس میں غائب بھی ہو سکتی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس ضعف سے بچانے کے لئے اور آسانی کو پیدا کرنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ اس کے لئے قبولیت دعا کے دروازے کھولے گئے اور اسے یہ حقیقت سمجھائی گئی کہ جو اعمال صالحہ بجالانے کی تمہیں طاقتیں عطا کی گئی ہیں ان کے ذریعہ سے محض تم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ساری نیکیاں کرنے کے بعد بھی تم خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار دیئے جاؤ سوائے اس کے کہ تم اپنی عاجزانہ دعاؤں سے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے ہو.اگر تم اپنی نیکیوں کی قبولیت کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے اور یہ دروازہ تمہارے لئے کھلا ہے تو پھر تمہاری نیکیاں اس کے حضور قبول ہوں گی اور تم اس کے پیار کے مستحق ہو گے اور تمہیں اس کا ثواب ملے گا.تو قبولیتِ دعا کے نتیجہ میں ہماری راہ کو اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا.ہمارے بوجھ کو ہلکا کر دیا ورنہ یہ بوجھ ضعیف انسان کیسے اٹھا سکتا تھا کہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کو ثواب دینے اور پیار کرنے پر مجبور کر سکتا.تو پہلا اصول اس نے اس آسانی کے پیدا کرنے کا یہ بنایا کہ دعائیں کرو اور میرے فضل کو جذب کرو تا کہ میں تمہاری نیکیوں اور تمہارے اعمال صالحہ میں جو کمزوریاں اور خامیاں رہ گئی
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۳۳ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۹ء ہیں ، انہیں مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دوں اور تمہارے اعمال کو قبول کروں اور تم سے میں پیار کرنے لگوں.دوسری تخفیف جو ہے جو آسانی پیدا کی گئی ہے، وہ اسلام نے بڑے حسین پیرا یہ میں اور بڑے عظیم طریق پر فرائض اور نوافل، عبادات کو اور حقوق کی ادائیگی کو ان دوحصوں میں منقسم کر کے پیدا کی ہے.فرائض انسان پر نیکیوں کا کم سے کم بوجھ ڈالتے ہیں اتنی آسانی سے اس کے نتیجہ میں کہ انسان جب خدا تعالیٰ کے فضلوں پر غور کرتا اور اس کے پیار کو دیکھتا ہے تو دنگ رہ جاتا ہے.نماز.دن میں پانچ دفعہ دو، چار، چار، تین، چار رکعتیں پڑھنی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک باہر سے ، دیہاتی علاقے سے مسلمان آئے اور انہوں نے کہا کہ کیا ہیں اسلام کے ارکان ، نماز کے متعلق یہ فرائض آپ نے سارے فرائض بتائے.اس نے کہا میں فرائض پورے کروں گا اس سے زائد کچھ نہیں کروں گا.تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ اپنی بات پر قائم رہا اور خدا تعالیٰ نے اس کی اسے توفیق بھی دی تو دَخَلَ الْجَنَّةَ خدا اسے جنت میں بھیج دے گا.تو جنت میں داخل ہونے کے لئے فرائض ہمارے لئے رکھے.جنت میں داخل ہو کر جنت میں جو ارفع مقامات ہیں ، مقامات محمودہ ان کے حصول کے لئے نوافل رکھ دیئے اور اس طرح اُمت مسلمہ کے لئے آسانی پیدا کر دی کیونکہ ہر شخص جو ہے نہ اس میں اتنی طاقت ہے نہ اس میں اتنا جذبہ ہے.ہر ایک کو کہا کہ کم از کم لے لو، کر لو تو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے..روزے ہیں.بارہ مہینے میں سے ایک مہینے کے روزے رکھے.چوبیس گھنٹے میں سے کبھی بڑا ہوتا ہے کبھی چھوٹا میں اوسط لے لیتا ہوں.بارہ گھنٹے کا روزہ رکھ دیا یعنی بارہواں حصہ دنوں کے لحاظ سے اور پھر وہ جو صیام کے، رمضان کے ایام ہیں ان کا آدھا وقت کھانے کے لئے دے دیا اور آدھا خدا کی خاطر اور حقوق کی یاد دہانی کے لئے اور روح کی پاکیزگی کے لئے اور معاشرہ میں محبت واخوت پیدا کرنے کا سبق دینے کے لئے بہت ساری حکمتیں ہیں.آدھا وقت روزہ کے لئے اور آدھا وقت جو ہے وہ کھانے کے لئے دے دیا.اس سے مختلف ممالک میں مختلف رنگ میں مسلمان نے فائدہ اٹھایا.میں مصر میں بھی کچھ عرصہ رہا ہوں وہاں کا طریق میں نے یہ دیکھا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳۴ خطبہ جمعہ ۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء کہ افطاری سے لے کر سحری کھانے تک ساری رات بیٹھ کے باتیں بھی کرتے تھے اور ساری رات کھاتے رہتے تھے اور سحری کا جب وقت ہوتا تھا سحری کھاتے تھے اور ان کا روزہ شروع ہو جا تا تھا پھر افطاری تک سورج غروب ہونے تک وہ روزہ دار تھے.تو کتنی آسانی پیدا کی.حج ہے.ساری عمر میں ایک حج فرض اور اس کی بھی بہت سی شرائط اور بنیادی ارکان اسلام میں سے ہے.تو بڑی سہولت اور آسانی پیدا کی لیکن جن کو خدا تعالیٰ توفیق عطا کرے اگر وہ ہر سال حج کر سکتے ہوں دوسروں کا حق مارے بغیر کیونکہ اب کو ٹاسٹم بن گیا ہے اس لئے یہ فقرہ بولا ہے تو ہر سال حج کریں لیکن فرض حج جو ہے وہ ایک ہے باقی نفلی حج ہوں گے اور سارا سال عمرہ کرتے رہیں.میں نے ایک جگہ کتاب میں پڑھا کہ جدہ میں رہنے والے بہت سے لوگ روزانہ ہی شام کو مثلاً دکاندار ہے تو دکان بند کر کے مکہ مکرمہ چلے جاتے ہیں اور عمرہ کر کے آجاتے ہیں تو وہ نوافل ہیں.زکوۃ ہے.نصاب کے ماتحت دینی ہے جو صاحب نصاب ہے وہی دے گا لیکن جو مال کے خرچ کرنے کے نوافل ہیں وہ یہ ہیں کہ دنیا میں اگر ایک شخص مالی تنگی میں ہے تو امت مسلمہ اس کی ذمہ دار ہے.وفي أمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ الذّاریات: ۲۰) جب تک ایک سائل اور ایک محروم بھی ہے، ساری اُمت مسلمہ کا فرض ہے کہ اس کی ضرورت کو اس کی حاجت کو پورا کرے اور اس کی تکلیف کو رفع کرے.وہ نوافل میں آتا ہے لیکن صاحب نصاب، نصاب دیتا ہے اور مالی قربانی کا جو فرض ہے وہ پورا کرتا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتا ہے.جنت کا دروازہ جو زکوۃ نے کھولنا تھا وہ اس کے لئے کھول دیا گیا.جنت میں جو رفعتوں کے مقامات وہ حاصل کر سکتا ہے مالی قربانیوں کے نتیجہ میں وہ جتنا کر سکتا ہے ، کرے.اس میں ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نظر آتے ہیں کہ ایک وقت میں اسلام کو مال کی ضرورت پڑی تو گھر سے ہر چیز اُٹھا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دی.آپ نے پوچھا گھر میں کچھ چھوڑ کے آئے ہو تو انہوں نے کہا خدا اور اس کے رسول کا نام چھوڑ کے آیا ہوں.اس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳۵ خطبہ جمعہ ۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء اور ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے آدمی بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے سوچا کہ آدھا گھر میں چھوڑ جاؤ آدھا لے جاؤ.کسی نے بہت کسی نے کم لیکن وہ نوافل کی دوڑ تھی.وہ فرائض کے بعد شروع ہوتی ہے تو یہ ایک ہمیں نظر آتی ہے.میں نے غور کیا کہ ایک بڑی عظیم سہولت مسلمان کو دی گئی ہے کہ اس کی عبادات کو اور اس کے ادائیگی حقوق انسانی کو یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں فرض اور نفل دو علیحدہ علیحدہ بنیادی قسم کی ہر میدان میں ، ہر میدان قربانی میں علیحدہ علیحدہ حقوق کی ادائیگی کی شکلیں بنا دیں.ایک پاس ہونے کے لئے ، ایک اگر مقبول ہوجائیں ویسے نہیں ، اگر مقبول ہو جائیں فرائض تو جنت کے دروازے کھل گئے لیکن جنت میں بھی رفعتیں ہیں.جنت میں بھی بلند مقام ہیں.جنت میں بھی خدا کے پیار پیار میں فرق ہے.جنت میں بھی یہ سمجھنا کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو خدا کا پیار ملے گا ہر ایک کو ویسا ملے گا یہ تو ہماری عقل نہیں مان سکتی لیکن جنت میں ہر وقت دروازہ کھلا ہے ان رفعتوں کے حصول کا.جنت میں رفعتوں کے حصول کا دروازہ کھلا ہے اس دنیائے ابتلا اور امتحان میں نوافل کی ادائیگی کے ساتھ اور وہاں خدا تعالیٰ نے احادیث میں آتا ہے کچھ اور اصول بنائے ہیں وہ اس وقت میرے زیر بحث نہیں.تیسری سہولت ہمیں بنیادی سہولت جو ہر ہمارے عمل سے تعلق رکھتی ہے، وہ توازن کے اصول سے ہمیں سہولت عطا کی ہے یعنی ایک طرف پورا جھک جانا اور اس طاقت کو قریباً توڑ دینا یا توڑ دینا اور دوسروں کو نظر انداز کر دینا اس کی اجازت نہیں.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ حقوق العباد کو بھول کر چوبیس گھنٹے حقوق اللہ کو ادا کرتے رہو یا حقوق اللہ کے ان حصوں کو جن میں ذکر الہی ہے مثلاً گناہگار بن جاتا ہے آدمی ، تو توازن کے اصول کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادا ئیگی میں قائم کر کے ایک نہایت حسین سہولت اور آسانی انسان کے لئے پیدا کی.میں نوجوان اور بچوں کو سمجھانے کے لئے اس توازن کی سہولت کو واضح کرنے کے لئے کھانے کی مثال لیتا ہوں.کھانے میں بھی اصول توازن قائم کیا گیا ہے.جو ہم کھانا کھاتے ہیں اے میرے بچو اور نوجوانو! وہ ایک قسم کا نہیں بلکہ جو کھانے کی تحقیق کی گئی ہے اس میں نشاستہ ہے، لحمیات ہیں، کاربو ہائیڈریٹس ہیں جن کو ہم پروٹینز کہتے ہیں، اور ان میں پھر نشاستہ بھی کئی قسم کا ہے اور پروٹینز
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۳۶ خطبہ جمعہ ۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء بھی کئی قسم کی ہیں اور اس میں وائٹکا من بھی ہیں اور اس میں منرلز بھی ہیں.بہت ساری چیزیں مل کے غذا بنتی ہیں ، بہت سارے اجزا ہیں ہماری غذا میں اور ہمیں کہا گیا ہے کہ ان اجزا کو متوازن رکھو.اس میں میٹھا بھی ہے شکر بھی ہے ایک.اچھا ہر چیز کو ہضم کرنے کے لئے ہمارے جسم کے بعض حصے کام کرتے ہیں مثلاً میٹھے کو ہضم کرنے کے لئے ہمارے جسم کے بعض غدود کیمیاوی اجزا پیدا کرتے ہیں جسم کے اندر کہ جن سے میٹھا جو ہے وہ طاقت کے اندر تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی واسطے صحت مند جسم جو ہے اگر وہ مثلاً دو چھٹانک ایک دن میٹھا کھائے تو اسی کے مطابق غدود جو ہیں وہ کام کر رہے ہیں ان کے اوپر بوجھ پڑے گا اور کسی دن دوست بیٹھ جائیں اور آئس کریم کی دعوت اڑا رہے ہوں تو بہت سارا میٹھا کھا لیں.یہ خدا تعالیٰ نے نظام ایسا کیا ہے جو خود بخود پھر وہ تیز ہو جاتا ہے یعنی دو چھٹانک کی بجائے اگر کسی نے چار چھٹانک کھالیا ہے تو غدود پر دگنا بوجھ پڑ گیا وہ کام کریں گے صحت مند غدود، لیکن انسان کے جسم کو بیمار نہیں ہونے دیں گے.وہ ذیا بیطس کا بیمار نہیں ہو جائے گا.صحت مند جسم کئی دفعہ ایسا کبھی کم میٹھا کھا رہا ہے یا کاربوہائیڈریٹس بھی میٹھے میں تبدیل ہوتے ہیں یہ ایک ہی قسم کا ہے اس کو ہضم کرنے کے لئے وہ ہے.اس واسطے سہولت یہ پیدا کی کہ ہمارے جسم کے کسی ایسے حصہ کو ہمارے جسم کی کسی ایسی طاقت کو جو ایک خاص قسم کا کھانا ہضم کر رہا ہے اُس طاقت کو اتنا بوجھ تلے نہ دبا دیا جائے کہ وہ ٹوٹ جائے اس واسطے کہا متوازن کھاؤ.متوازن غذا جب کھاؤ گے تو جو میٹھا ہضم کرنے والے غدود ہیں ان کے اوپر متوازن بوجھ پڑے گا.جو لحمیات، پروٹینز ہضم کرنے والے حصے ہیں جسم کے اندر انتڑیوں میں بہت سارے انزائنز بن رہے ہیں جسم کے دوسرے حصوں میں کیمیاوی اجزا بن رہے ہیں جو گوشت اور دوسرے اس قسم کی پروٹینز کو ہضم کرتے ہیں تو ان کے اوپر اگر متوازن غذا ہوگی تو زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا لیکن اگر آج صرف گوشت کھا ئیں تو ان کے اوپر بوجھ پڑ جائے گا اور دوسرے نکمے بیٹھ جائیں گے.تو جسم کی جو مشینری ہے جو کارخانہ ہے خدا تعالیٰ نے جسم میں پیدا کیا ہے اس کے مختلف حصوں پر غیر متوازن بوجھ پڑ کے جسم کے اندر کمزوری پیدا ہو جائے تو اسلامی تعلیم میں ایک توازن کا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳۷ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۹ء اصول ہے جس نے يُرِيدُ اللهُ اَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ کے ماتحت ہمارے لئے سہولت پیدا کی.یہی حالت عبادات کی ہے پہلے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں روحانی ترقیات کو تقسیم کر دیا.حقوق العباد میں سینکڑوں باتیں آتی ہیں.جذبات کا خیال رکھنا ہے، ان کی صحتوں کا خیال رکھنا ہے، ان کی بھوک کا خیال رکھنا ہے، ان کے کپڑوں کی ضرورت پوری کرنی ہے کہ جو عنا صر ہیں وہ ان کو دکھ نہ پہنچائیں ان کی تعلیم کا خیال رکھنا ہے، ان کی کفو میں شادیاں ہونے کا خیال رکھنا ہے.گنتے چلے جائیں سینکڑوں حکم ہیں اور سب میں ہر جگہ جب آپ دیکھیں گے وہ تو ازن آجاتا ہے.ایک تو پہلے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن کر دیا.یہ کہا کہ تم حقوق اللہ کی ادائیگی میں اتنے محو نہ ہو کہ حقوق العباد کو بھول جاؤ.یہی توازن کا نام ہے نا توازن اسی کا نام ہے اور یہ کہا کہ تم حقوق العباد کی ادائیگی میں اتنے محو نہ ہو کہ حقوق اللہ کو بھول جاؤ.دونوں کے درمیان ایک توازن پیدا کر دیا.بڑی تفصیل یہ مضمون خود یہ جو ایک اصول ہے بڑی تفصیل چاہتا ہے.میں نے آپ کے سامنے کھانے کی ایک مثال پیدا کی اور ساتھ آپ کو بعض روحانی باتوں کی طرف بھی توجہ دلا دی.اچھا اسی میں یہ جو اصول توازن ہے اس میں مثلاً صدقہ خیرات ہے، ایک تو ساتھ نا، فرض.اس میں جب ہم نوافل میں آگئے تو نوافل میں توازن رکھو قائم.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے اموال کو نیکیوں میں اس طرح خرچ نہ کرو کہ تمہاری اولاد کو بھیک مانگ کر روٹی کھانی پڑے.توازن قائم کر دیا نا.اور چوتھا اصول سہولت جو ہمیں اسلام میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ امتدادِ زمانہ کے لحاظ سے دار الامتحان اور دار الابتلا کی زندگی انعام پانے والی اور اس کا نتیجہ حاصل کر کے زندگی جو انسان گزارے گا ان کے امتداد زمانہ کے لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں.اس دنیا کی زندگی ہیں سال کی ، تیس سال کی، پچاس سال کی ، ساٹھ سال کی ، اسی سال کی ،سوسال کی سو پلس ، کچھ اور سال بیچ میں شامل ہو جائیں لیکن جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے جنت کی زندگی ، خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو اپنی رضا کی جنتوں میں لے کے جائے ، وہ زمانہ اتنا لمبا اور وہ جزا اتنی ہے کہ اس کو غیر محدود کہنا غلط نہیں ہوگا، تو محدود اعمال ہیں ایک طرف پڑے ہوئے دارالا بتلا میں اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۳۸ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۹ء ایک طرف ایسی زندگی ہے جس کی نعمتیں غیر محدود ہیں اس کا انتظام کر دینا محد وداعمال کی غیر محدود جزا کا اعلان کر دینا کتنی بڑی سہولت پیدا کر دی.اگر انسان کو یہ کہا جاتا کہ جتنے عمل کرو گے اتنے ہم سے انعام لے لینا تو وہ تو پھر بعض بہکے ہوئے روحانی طور پر بعض بہکے ہوئے دماغوں کی طرح ان کو پھر دار الا بتلا میں آنا پڑتا.پھر یہ مصیبتیں جھیلنی پڑتیں.پھر کچھ عرصہ جنتوں میں گزارنا پڑتا.پھر واپس آنا پڑتا اور اس دنیا کی جو نیکیاں ہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ ساری عمر کی نیکیاں جو ہیں وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے ایک جلوہ جو ہے اس کی قیمت بھی ادا نہیں کرسکتیں تو ستر سال کی زندگی دارالا بتلا اس دنیا میں اور اس کے مقابلے میں ایک سیکنڈ کی زندگی جنت میں اور پھر وہ واپس آجائے یہاں ستر سال گزارنے کے لئے پھر تو ایسا انتظام کرنا چاہیے تھا نا لیکن يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا انسان کو خدا تعالیٰ نے ضعیف اس جہت سے بھی بنایا کہ وہ اپنی محدود زندگی میں غیر محدود اعمال صالحہ بجا نہیں لاسکتا.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ہو گیا نا.انسان کو اتنی زندگی دی کہ اس کے اعمال جتنا مرضی زور لگالیں اس کے اعمال صالحہ غیر محدود نہیں ہو سکتے.لیکن جو انعامات دیئے گئے جن کا وعدہ دیا گیا وہ غیر محدود ہیں تو یہ سہولت پیدا کر دی گئی انسان کے لئے.جو تم محدود عمل کرو گے اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اپنے پیار کا یہ جلوہ ظاہر کرے گا کہ غیر محدود انعامات کا تمہیں وارث بنادے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ یہ میں نے موٹے موٹے اصول چار جو مجھے نظر آئے وہ میں نے لئے ہیں ورنہ اسلام کا ہر حکم ہمیں یہ بتا تا ہے اور یہ حقیقت ہمارے اوپر کھولتا ہے کہ يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ ہمارے لئے سہولت کا سامان اور آسانی کا سامان پیدا کرے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ انسان ضعیف ہے اور وہ اس معیار کو نہیں پہنچ سکتا کہ جس کے اوپر یہ ہم کہہ سکیں کہ جو جنتیں ہیں وہ اس کے اعمال کے نتیجہ میں اس کو ملیں گی.اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہاں عائشہ! میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی اس کی جنتوں میں جاؤں گا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ، آپ کی عظمت، آپ کا جلال ، آپ کا رتبہ اتنا بڑا ہے کہ کوئی انسان کیا آپ تو سارے انسان مل کے بھی اس مقام یعنی جو سارے انسان مل جائیں اور ان کے جو اعمال ہیں وہ لے لئے جائیں تو وہ اس مقام کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۳۹ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۹ء نہیں بنتے جو عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اپنے رب کریم کے لئے تھا اور جس قسم کی قربانی خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے آپ نے خدا کے حضور پیش کی اور جس قسم کا پیار بنی نوع انسان سے آپ کے دل میں موجزن تھا اور کس طرح آپ نے قیامت تک کے انسانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے تعلیم دی لیکن ان ساروں کے باوجود محدود زندگی میں اور آپ کی زندگی بھی بڑی چھوٹی تھی.محدود زندگی میں ہر لحظہ بھی اعمال جو ہیں غیر محدود زندگی کے تو نہیں بن سکتے اس واسطے آپ نے کہا میری زندگی کی بھی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی مجھے جنت میں لے کے جائے گا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے بے انتہا فضل کیا محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اور اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند ہمیشہ کرتا چلا جائے اور ہمیں آپ کے اُسوہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور جن سہولتوں کی طرف قرآن کریم کی تعلیم نے ہماری راہنمائی کی ہے انہیں سمجھنے ، ان سے فائدہ اٹھانے کی ہمیں توفیق ملتی رہے اور خدا کرے کہ ہم اپنی تمام کمزوریوں کے اور غفلتوں کے باوجود اور ہر قسم کی غلط یلغاروں کے باوجود ہماری ایک نیکی کو وہ پسند کرے لیکن پسند اس طرح کرلے کہ وہ کہے کہ آؤ میں تمہیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرتا ہوں اور پھر ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی اور ہمیں توفیق دے کہ اس کے جو بندے ہیں ان کی خدمت بھی ہم اس کے مطابق کر سکیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی خواہش تھی.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۴۱ خطبه جمعه ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء گناہ کی حقیقت اور اس کی فلاسفی خطبه جمعه فرموده ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ النساء کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا اَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا - وَمَنْ يَكْسِبُ اِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَ كَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا - وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرُمِ بِهِ بَرِيَّا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا.(النساء : ۱۱۱ تا ۱۱۳) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ پیر اور منگل کی درمیانی رات مجھ پر ڈائریا (Diarrhoea) کا بڑا سخت حملہ ہوا اور قریباً ساری رات جاگ کے گزارنی پڑی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی میں تکلیف بھی محسوس کر رہا ہوں اور ضعف بھی محسوس کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مجھے بھی شفا دے اور آ سب کو بھی صحت کے ساتھ رکھے.سورۃ نساء کی ان آیات میں گناہ کی حقیقت اور فلاسفی اور خدا تعالیٰ کی بعض صفات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص بھی کوئی بدی کرے گا یا اپنے نفس پر ظلم کرے گا
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۴۲ خطبه جمعه ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء اس کے بعد اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے گا تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پائے گا.پھر فرماتا ہے کہ جو شخص کوئی بدی کرے اس کا فعل اسی پر الٹ کر پڑے گا اور اللہ بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی غلطی کرے اور گناہ کا مرتکب ہو اور خود گناہ کا مرتکب ہے لیکن الزام لگاتا ہے کہ یہ گناہ میں نے نہیں کیا بلکہ فلاں نے کیا تو وہ بہتان بھی باندھتا ہے اور گناہ کا بہت بڑے، سب سے بڑے گناہ کا وہ مرتکب ہوتا ہے.پہلی آیت میں دو قسم کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کا ذکر ہے.ایک حقوق العباد ایک حقوق نفس یعنی جو اللہ تعالیٰ نے حقوق انسانوں کے انسان پر قائم کئے ہیں ایک انسان ان حقوق کو توڑنے والا ہے.مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا وہ بدی کرتا ہے اور یہ نتیجہ ہم اس لئے، یہ معنی ہم اس لئے کرتے ہیں کہ اس کا دوسراحصہ اؤ يَظْلِمُ نَفْسَۂ کہا گیا ہے کہ خود اپنے نفس پر ظلم کرتا اور نفس کے حقوق کو بجانہیں لاتا ، تو اس سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے، ویسے تو قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں ایک معنی ہم یہ کرتے ہیں کہ جو شخص غیروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے وہ اپنے نفس کے حقوق کا بھی خیال نہیں کرتا اور اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے.یہ گناہ کا ارتکاب جو ہے خواہ وہ حقوق العباد کو تلف کرنے کے نتیجہ میں ہو یا حقوق نفس کے تلف کرنے کے نتیجہ میں ہو یہ ایک تو بشری کمزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی ہر انسان میں بعض کمزوریاں ہیں اور بڑی کمزوری جس کی وجہ سے وہ گناہ پہ دلیر ہو جاتا ہے یہ ہے جو بڑی طاقت بھی ہے اس کی ایک نقطۂ نگاہ سے اور دوسرے نقطۂ نگاہ سے بہت کمزوری بھی ہے وہ ہے اس کا صاحب اختیار ہونا کہ خدا تعالیٰ نے اسے یہ اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر ایمان لائے اور ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے اور اگر چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے احکام ماننے سے انکار کرے اور ظلم اور گناہ اور اثم کا مرتکب ہو.ایک پہلو سے بے انتہا فضلوں کا وہ وارث بنتا ہے بوجہ صاحب اختیار ہونے کے اور دوسری طرف اس کو یہ خدشہ بھی لگا رہتا ہے کہ وہ خدا کو ناراض کرنے والا اور اس کے غضب کے نیچے آنے والا نہ ہو جائے.بعض کمزوریاں، انسان کو چونکہ ایک متمدن نوع بنایا گیا ہے مختلف الانواع ذمہ داریاں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۴۳ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء انسانی معاشرہ میں مجموعی طور پر انسانوں کو ادا کرنی پڑتی ہیں بعض ذمہ داریاں ہیں اس کے لئے بڑی کثیف اور کرخت قسم کی طبیعتوں کی ضرورت ہے.بعض ذمہ داریاں ہیں جن کی ادائیگی کے لئے بہت لطیف طبائع کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کے پیش نظر انسان انسان کی قوتوں اور استعدادوں میں فرق پیدا کیا اور مختلف الاقسام طبائع اس نے پیدا کر دیں کیونکہ ذمہ داریاں مختلف تھیں.بعض ذمہ داریاں ایسی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں انسان جو ہے وہ زیادہ گناہ کی طرف مائل ہو جا تا ہے.اگر اس کے لئے پناہ کا کوئی راستہ، بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا ، اللہ تعالیٰ اس کے لئے رحمت کے سامان نہ کرتا تو وہ کہ سکتا تھا کہ اے میرے خدا! تو نے مجھے اپنی مصلحتوں کے نتیجے میں اس قسم کے کثیف قومی دے دیئے اگر میں ان کے نتیجہ میں کوتاہی کروں کہاں جاؤں تیرے در پر نہ آؤں تو.تو اس وجہ سے بھی کمزوری پیدا ہوتی ہے، گناہ پیدا ہوتا ہے لغزش ہوتی ہے ارتکاب تلف حقوق ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ دروازہ کھلا رکھا خدا تعالیٰ نے.ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله پھر وہ تو بہ کرتا ہے اور ندامت کے جذبات اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.تو باوجود اس کے کہ اس قسم کی طبیعی کمزوری کے نتیجہ میں بار بار وہ کمزوری کی طرف جھکے گا جب بھی جھکے گا اور اس کے بعد اس کے دل میں ندامت پیدا ہوگی.وہ ہمیشہ ہی بار بار خدا تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا.تو کمزوریوں کے دروازے بھی اس کے اوپر کھلے ہیں بڑے لیکن خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے دروازے بھی بڑے کھلے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی تفسیر میں جو باتیں فرماتے ہیں ان میں سے دو ایک یہ ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس ناقصہ کا خاصہ ہے...خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے.یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صد در لغزش و گناه به ندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے.....یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے یعنی ایک ہزار بار بھی وہ غلطی اور گناہ کرتا اور ایک ہزار بار اگر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے اور خدا کی طرف وہ رجوع کرتا ہے تو ایک ہزار بار وہ بخشا جاتا اور خدا کی مغفرت کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۴۴ خطبه جمعه ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء نیچے ڈھانپ دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلے میں جو مختلف قویٰ کے ساتھ مختلف انسانوں کو پیدا کیا آپ فرماتے ہیں.مثال آپ نے یہ دی ہے کہ طبائع انسانی جواہر کانی کی طرح مختلف الاقسام ہیں.کان معدنیات سے جو چیزیں نکلتی ہیں نا وہ مختلف ہیں ، ان کی طرح انسانی طبیعتیں بھی مختلف ہیں.یہ میں نے اب میرے الفاظ ہیں خلاصہ کیا ہے میں نے ، بعض چاندی کی طرح روشن ، بعض گندھک کی طرح بد بودار اور جلد بھڑ کنے والی اور جوش میں آنے والی ، بعض پارے کی طرح بے ثبات اور بے قرار، بعض لوہے کی طرح سخت اور کثیف اور میں ساتھ یہ مثال بھی دیتا ہوں کہ بعض ہیرے کی طرح روحانی شعاعوں سے جگمگانے والی مختلف قسمیں ہیں اور اس کے بغیر انسانی تمدن اپنے عروج کو ارتقائی ادوار میں سے گذرتا ہوا پہنچ نہیں سکتا تھا.کثیف کاموں کے لئے کثیف طبیعتوں کی ضرورت ہے لطیف کاموں کے لئے لطیف طبیعتوں کی ضرورت ہے.بعض ایسے کام ہیں مثلاً جو، اب تو کچھ انسان نے سہولتیں اور قسم کی پیدا کر لیں لیکن ایک خاص وقت میں غسل خانوں وغیرہ کی گلیوں کی نالیوں کی صفائی بعض خاص قسم کی طبیعتیں ہی کر سکتی تھیں ہر آدمی کر ہی نہیں سکتا تھا.ایک لطیف طبیعت کا آدمی گزرتے ہوئے ناک پر رومال ڈال کے گذرتا تھا ایک دوسرا آدمی اپنا ہاتھ بیچ میں ڈال کے نالی کو اس کو صفا کر رہا ہے.طبیعتوں طبیعتوں میں بڑا فرق ہے.بے شمار قسمیں بن جاتی ہیں ان کو ہم گن نہیں سکتے لیکن ایک حقیقت اپنی جگہ محکم اور ثابت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی کمزوری انسان کی ایسی نہیں کہ اگر اس کے نتیجہ میں وہ خدا کو ناراض کرنے والا ہو جائے تو اس پر تو بہ کا دروازہ بند ہو اور خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحم سے ہمیشہ کے لئے اسے محروم کر دیا جائے.نہیں بلکہ خدا تعالیٰ میں جو مغفرت اور رحم کی صفت ہے غفور اور رحیم ہونا اس کا ، یہ ازلی ابدی صفت ہے اور ایک فرد واحد ، میں نے تو ہزار دفعہ کہا تھا اگر لاکھ دفعہ کروڑ دفعہ بھی غلطی کرتا اور کروڑ دفعہ اپنے رب کریم کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو بہ اور ندامت کے جذبات کے ساتھ تو ایک کروڑ دفعہ اس پر خدائے ربّ کریم کا دروازہ کھولا جائے گا.اس آیت میں ایک لوگوں کے حقوق کی ادئیگی کا اشارہ ہے یا عدم ادائیگی کی طرف یعنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۴۵ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء ادا ئیگی ہوگی تو وہ ثواب ہے اور اگر نہیں ادا ئیگی کرے گا تو وہ سُوءًا ہے، بدی ہے.ایک اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی ہے.اپنے نفس کے حقوق کو ادا کرنا، اس آیت سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے، اتنا ہی ضروری ہے جتنا غیروں کے حقوق کی ادائیگی اپنے نفس کے ساتھ.پھر ایک دائرہ آجاتا ہے خاندان کا.جو حقوق خدا تعالیٰ نے کسی کے رشتہ داروں کے قائم کئے ہیں اگر ذمہ وار آدمی وہ حقوق ادا نہ کرے صرف اس لئے کہ اس کے اوپر کوئی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کر دے گا کہ چونکہ تمہارے ساتھ عزیز داری ہے اس لئے تم اس کی رعایت کر دو گے تو اسلام اس کو گناہ سمجھتا ہے اور حقوق ، اس شخص کے حق کو قائم کرنا اور اس کو ادا کرنا جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس کو ثواب اور جنت کا دروازہ کھولنے والا ایک عملِ صالح سمجھتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے.آپ کے ایک عزیز کا ایک دوسرے مسلمان کے ساتھ چشمے کا پانی تھا بہر حال ایک کنارہ تھا قدرتی ، اس پانی کے اوپر ہوا جھگڑا.آپ کے عزیز کی زمین او پر تھی پانی کی طرف.دوسرے مسلمان کی نیچے تھی.وہ آیا آپ کے پاس.آپ نے کہا اپنے عزیز کو کہ کھیتوں کو اپنے پانی دو بے شک لیکن اس کے لئے بھی چھوڑ دیا کرو پانی.وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اس کی رشتے داری ہے آپ کے ساتھ.آپ تو احسان کر رہے تھے یعنی جو حق تھا اس سے زائد اس کو دے رہے تھے جب اس نے یہ کہا تو پھر آپ نے کہا الفاظ میں یا عمل سے کہ اچھا تم اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہو تو وہ یہ ہے کہ اپنے عزیز کو کہا تمہاری زمین اوپر ہے تم اپنے کھیت کو پانی پلاؤ.پھر پانی پلاؤ ، پھر پانی پلا ؤ اور پوری طرح جب سیراب ہو جائے پھر پانی جو بچ جائے وہ اس کو چھوڑ دو ، آپ ہی اس کے پاس پہنچ جائے گا.تو نفس کے حقوق ہوں یا غیر کے حقوق ہوں، عزیز رشتے دار کے حقوق ہوں یا غیر مسلم کے حقوق ہوں حقوق کی ادائیگی تو اس لئے کرنی ہے کہ خدا کہتا ہے کہ میں نے یہ حق قائم کیا اس حق کو قائم کرو.اس لئے ہم نے ادا نہیں کرنی کہ ہم چاہتے ہیں ہم کسی پہ احسان کریں یا ہم چاہتے ہیں کہ کسی پہ احسان نہ کریں.جو حق خدا نے قائم کر دیا، مثلاً جو حق خدا نے ربُّ العالمین کی حیثیت سے قائم کر دیا کوئی دنیا میں انسان نہیں پیدا ہوا کہ جسے خدا نے یہ حق دیا ہو کہ وہ ان حقوق کو پامال کرے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۴۶ خطبه جمعه ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء خواہ وہ حقدار جو ہیں وہ بت پرست اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں خواہ وہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے دہر یہ کیوں نہ ہوں خواہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کی اندھی مخالفت کرنے والے کیوں نہ ہوں خواہ وہ ساری عمر آپ کو ایذا پہنچانے والے کیوں نہ ہوں.کسی کو کوئی حق نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اُسوہ جو ہمیں نظر آتا ہے یعنی نمونہ ہمارے لئے وہ یہ ہے کہ جس حق کو خدا نے قائم کیا بندے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اس حق کو توڑے.خدا تعالیٰ نے جو حق قائم کئے ہیں وہ بنیادی طور پر صفت ربوبیت کے نتیجہ میں ہیں صفت رحمانیت کے نتیجہ میں ہیں صفت رحیمیت کے نتیجہ میں ہیں ، صفت مالکیت یوم الدین کے نتیجہ میں ہیں، جس کا ایک دھندلا ساعکس اس ہماری زندگی میں آتا ہے وہ اپنا مضمون مستقل حیثیت کا ہے اس وقت نہیں ہمارے سامنے.تو حقوق العباد کو قائم کر ناضروری ہے حقوق نفس کو ادا کرنا ضروری ہے جو نہیں کرتا، پھر تو بہ کرتا اور استغفار کرتا ، خدا کی طرف رجوع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے اسے میں معاف کر دوں گا.اور دوسری آیت میں ہر قسم کے گناہ کا انما میں ذکر ہے یعنی خواہ حقوق نفس ہوں یا حقوق العباد ہوں یا حقوق اللہ ہوں جو شخص بھی گناہ کرتا ہے وَمَنْ يُكسب اِشا جو شخص بھی بدی کرتا ہے تو بدی کا پہلا اور جو پہلا اور آخری اثر میں کہوں گا، پہلا اور آخری اثر اس کا اس کے اپنے نفس پر ہے.فَإِنَّمَا يَكْسِبُه علی نفیسہ اس کا فعل اس پر الٹ کے پڑتا ہے مثلاً اگر وہ چوری کرتا ہے دوسرے کا مال لوٹتا ہے اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے اس گناہ نے اس کے دوسرے انسانی بھائی کو دکھ پہنچایا ، اس کا گناہ کیا اس نے لیکن اس کا حقیقی اثر یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے پر خدا کی رضا کی جنت کے دروازے بند کئے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر حکم جو ہے خواہ وہ اوامر میں سے ہو یا نواہی میں سے ہو یعنی یہ حکم ہو کہ ایسا کردیا یہ حکم ہو کہ ایسا نہ کرو وہ ہماری قوتوں اور استعدادوں کی صحیح تربیت اور صحیح نشو و نما کے لئے ہے اور جب ہم کسی حکم کو توڑتے اور اللہ تعالیٰ کا کہنا نہیں مانتے تو اس کا نقصان ہمیں ہے کیونکہ پھر ہماری صحیح اور پوری اور پیاری نشو و نما نہیں ہوسکتی ، پھر ہمارے وجود کی وہ نشو و نما نہیں ہو سکتی جس نشو و نما کے بعد ہمارا نفس خدا کے پیار کو حاصل کر سکے.تو گناہ کا اثر دوسرے پہ بھی پڑتا ہے لیکن اصل وہ اُلٹ کے اس شخص پر گناہ کرنے والے پر آ کے پڑتا ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۴۷ خطبه جمعه ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء اور یہ اس لئے کہا کہ خدا تعالیٰ علیمًا خدا تعالیٰ کے علم سے کوئی باہر نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیدا کیا اور اس کی ساری قوتوں اور استعدادوں کا صحیح اور کامل علم رکھنے والا ہے.انسانی استعدادوں اور قوتوں اور صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کے لئے اور جس کے نتیجہ میں روحانی نشو ونما اپنے کمال کو پہنچتی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر اور خدا تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ پیار کو حاصل کرنے والی بن جاتی ہے.اس عالم نے ، اس عظیم خدا نے سارا اس علم کے ماتحت ایک طرف اس عالمین کو پیدا کیا اور دوسری طرف انسان کو اور اس کی فطرتوں کو اور اس کی صلاحیتوں کو اور اس کے قومی کو پیدا کیا اور ہر چیز میں اس نے ایک حکمت رکھی اور ہر چیز کی حکمت اس نے قرآن میں بیان کی اور ہمیں سمجھایا کہ تمہارے اوپر کوئی بوجھ نہیں ڈال رہے تمہارے فائدے کے لئے ہر حکم ہے، تمہیں بلند کرنے کے لئے ہر حکم ہے.ایک جگہ کہا کہ ہم نے تو اس کو آسمانوں کی بلندیوں کی طرف لے جانا چاہا تھا لیکن وہ زمین کی طرف مائل ہو گیا اور خدا سے دور ہو گیا.ہر فعل خدا کا حکیمانہ ہے حکمت رکھتا ہے.ہر خدا تعالیٰ کا حکم جو ہے وہ ایک دلیل ہمارے سامنے رکھتا ہے ہمیں حکمت بتاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے اور کوچ مالج کے حسین بنا کر، پاک اور مطہر وجود بنا کر اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ جو سر چشمہ ہے پاکیزگی اور طہارت کا ہمارا رب، اس کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو سکے.وہ جو پاکیزگی اور طہارت کا سرچشمہ ہے وہ نا پاک سے تو تعلق نہیں قائم کر سکتا، عقلاً نہیں کرسکتا.میں اور آپ بد بودار جگہ سے گزرتے ہیں اور اس سے گھن آتی ہے اور اس تعفن کو ہم پسند نہیں کرتے ، ہماری طبیعت متلا جاتی ہے بعض دفعہ.ہم عاجز بندوں کا یہ حال ہے تو وہ خدا جو محض پاکیزگی اور طہارت ہے اور ہر قسم کی پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ جو ہے وہ اسی سے نکلتا اور ہم تک پہنچتا ہے وہ نا پاک کو کیسے پیار کرے گا.تو ہر حکم جو ہے وہ ہمیں پاک بنانے والا مطہر بنانے والا ہمارے گند کو اور غلاظتوں کو دھونے والا ، ہم پر نور چڑھانے والا اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) اس نور کو وہ ، ہمارا وہ نور جو خدا تعالیٰ سے ہمیں حاصل ہوتا ہے اس نور کو خدا پسند کرتا ہے.خدا اندھیروں کو پسند نہیں کرتا اندھیروں سے وہ نفرت کرے گا کیونکہ اندھیرا ہے خدا سے دوری کا نام جس طرح مادی ظلمت ہے نور سے دوری کا نام.دن کے وقت آپ کھڑکیاں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۴۸ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء اگر آپ کی لائٹ پروف ہوں یعنی کوئی سورج کی کرن اندر نہ جا سکے بند کر دیں گے تو دن کے با وجود سورج نصف النہار پر ہوگا آپ کے کمرے کے اندر اندھیرا ہو جائے گا.تو جو شخص اپنے گناہوں کے نتیجہ میں اپنے وجود کی ان کھڑکیوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف کھلنے والی ہیں بند کر دیتا ہے اور اپنے نفس میں اندھیرا پیدا کر دیتا ہے خدا کا نو ر وہاں کیسے داخل ہوسکتا ہے.تو یہاں دوسری آیت میں یہ بتایا کہ تم جو گناہ کرتے ہو دوسروں کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ حقیقی نقصان اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ ان کو دیتا ہے.تمہیں حقیقی نقصان ہے کیونکہ تم خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کر کے، اس نور سے دور ہٹ کے ظلمات کو اختیار کر کے، اس پاک سے جدائی اختیار کر کے گندگی کو اختیار کرتے ، اس کی ناراضگی کی جہنم کو اپنے لئے پیدا کرتے ہو.خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے وارث بننے کے لئے سامان نہیں پیدا کرتے.اور تیسرے قسم کا جو مرکب ہے گناہ، کہ گناہ کیا اور تہمت دوسرے پہ لگا دی ، یہ اس کا بھی آج کل فیشن ہوا ہوا ہے کہ ناکردہ گناہ پر گناہ کی تہمتیں لگائی جاتی ہیں اور پھر فخر بھی کیا جاتا ہے بعض حلقوں میں.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور سمجھ دے ان لوگوں کو.تو یہاں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ، حقوق نفس کی ادائیگی کی طرف توجہ، حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف توجہ اور انسان بشری کمزوری یا ضعف استعداد کے نتیجہ میں اگر گناہ کرے تو استغفار کا دروازہ اس کے لئے کھلا ہے اور غفور رحیم خدا ہر وقت اسے جب وہ اس کی طرف رجوع کرے رجوع بر رحمت اس کی طرف ہونے کے لئے تیار ہے اور پھر ہمیں یہ سمجھایا کہ تمہارے اوپر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جار ہا بلکہ ہر گناہ تمہارے لئے ابدی دکھ کا باعث بننے والا ہے اس سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے تمہیں.تمہارے اپنے فائدے کے لئے ہے.چوری کے مال کا نقصان جتنا اس مالک کو ہے اس مال کے اس سے زیادہ تمہیں ہے.اس کو تو ہزار روپے کا نقصان یا ایک بھینس چرا لیتے ہیں لوگ ، جا کے رستہ کھول لیتے ہیں رسہ گیر.اس کو دو ہزار تین ہزار بہت اچھی بھینس ہے تو پانچ دس ہزار کی اس کا اتنا نقصان ہے لیکن تم نے جنت کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اس کا نقصان تو تمہارے نقصان کے مقابلے میں کوئی چیز ہی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۴۹ خطبه جمعه ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء نہیں ہے.تو اِنَّمَا يَكْسِبُه عَلى نَفْسِہ ہر گناہ جو ہے اس کا اصل وار جو ہے انسان کے، گناہگار کے اپنے نفس کے اوپر ہے اور ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہر حکم جو دیا گیا وہ علیم وحکیم کی طرف سے دیا گیا ہے جو جانتا تھا کہ تمہارے فائدے کے لئے تم پہ حُسن چڑھانے کے لئے تمہیں منور کرنے کے لئے تمہیں پاکیزہ اور مطہر بنانے کے لئے کن چیزوں کی ضرورت تھی اس کے مطابق تمہیں ہدایت اور شریعت دی گئی، اس کے مطابق تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایک اُسوہ دیا گیا اور تیسرے یہ کہ سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ انسان گناہ کرے اور تہمت دوسرے پہ لگا دے اس کو ، اپنی زیادہ فکر کرنی چاہیے.ہر ایک کو ہی تو بہ اور استغفار کا جو دروازہ کھلا چھوڑا ہے خدا تعالیٰ خدائے غفور رحیم نے ، گناہ ہوتے (ہی) خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور ہمیں اس طرح صاف اور ستھرا اور سفید کر دے اس سے بھی زیادہ جتنا ایک دھوبی کپڑے کو پتھروں پہ مار مار کے شفاف پانی میں، آج کل کے بعض گندے پانیوں میں بھی دھوبی دھو دیتے ہیں، شفاف پانی میں جو پہاڑی نالوں کا میٹھا شفاف پانی ہے اس کے اندر ایسے اجزا ہیں جو گند کو نکالنے والے ہیں کوئی گند باقی نہ رہے تا کہ وہ جو نو ر ہے ہماری ہلکی سی روشنی کو وہ پسند کرے اس کے نور کے مقابلے میں تو کچھ نہیں لیکن بہر حال اس سے مشابہت حاصل کرنے کی اس کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کی گئی اور ہمیں وہ پاک بنے کی اور مطہر بننے کی توفیق عطا کرے تا کہ ہمارا اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا ہو جائے تاکہ ہم اسی زندگی میں اس کے پیار کی آواز سننے والے ہوں تا کہ ہماری ساری خوشیاں اس آواز پر بنیادرکھنے والی ہوں کہ وہ ہمیں کہتا ہے کہ تم فکر نہ کرو تم گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں.پھر اس کے بعد کسی اور چیز کی انسان کو ضرورت نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ فضل کرے.( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۵۱ خطبه جمعه ۱۷۲۰ پریل ۱۹۷۹ء خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم استعداد میں دے کر مبعوث فرمایا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۰ را پریل ۱۹۷۹ء بمقام مسجد تھی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَ كَذَبْتُم بِهِ مَا عِنْدِى مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ اِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلهِ - يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِينَ - قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۚ وَ مَنْ عَلَى فَعَلَيْهَا وَ مَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٌ - وَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَبِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ.(الانعام : ۱۱۰،۱۰۵،۵۸) پھر حضور انور نے فرمایا:.یہ تینوں آیات جو ابھی میں نے تلاوت کی ہیں سورہ انعام کی آیت ۵۸ اور ۱۰۵ اور آیت ۱۱۰ ہیں.یہ ایک لمبا مضمون ہے جو یہاں بیان ہوا ہے، اس میں سے میں نے یہ تین آیات چنی ہیں اس کا یعنی اس مضمون کا ایک حصہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں.پہلی آیت نمبر ۵۸ کا ترجمہ یہ ہے." کہہ دے! مجھے اپنی رسالت کی سچائی پر کھلی کھلی دلیل اپنے رب کی طرف سے ملی
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۵۲ خطبه جمعه ۱۷۲۰ پریل ۱۹۷۹ء ہے.میں بے ثبوت نہیں آیا.میں ثبوت لے کر اپنے رب کی طرف سے آیا ہوں اور تم پھر بھی تکذیب کر رہے ہو.جس عذاب کو تم جلدی مانگتے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں.حکم صادر کرنا خدا تعالیٰ ہی کا منصب ہے.وہی حق کو کھولے گا اور خَيْرُ الْفَصِلِينَ ہے وہ اور ہمارے درمیان بہترین فیصلہ کرے گا“.سورۃ الانعام کی آیت ۱۰۵ کا ترجمہ یہ ہے.” خدا نے میری رسالت کی صداقت پر روشن نشان تمہیں دیئے ہیں.تمہاری آنکھیں ان بصائر کو دیکھ کر کھل جانی چاہئیں تھیں مگر یہ نہیں ہوا بلکہ ایک گروہ وہ ہے جس نے شناخت کیا اور ایک وہ ہے جس نے شناخت کرنے سے انکار کیا.فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِه پس جو ان کو شناخت کرے اس نے اپنے ہی نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اور روشن 66 دلائل کو نہ دیکھے اس کا وبال بھی اسی پر ہے.میں تو تم پر نگہبان اور محافظ نہیں.“ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۰ کا ترجمہ یہ ہے.یہ لوگ سارے نشانات کو دیکھنے اور ان کی تکذیب کرنے اور ان کو جھٹلا دینے کے بعد بھی سخت قسمیں کھاتے ہیں اَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے.کہہ دو نشان تو اللہ کے پاس ہیں.جس نشان کو چاہتا ہے اسی نشان کو ظاہر کرتا ہے.اقتراح کے نشان کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے یعنی یہ کہنا کہ یہ فلاں نشان ہمیں دکھایا جائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہی دوسری جگہ آیا ہے کہ کافروں نے کہا ہمیں یہ نشان دکھاؤ، یہ نشان دکھاؤ، یہ نشان دکھاؤ تو ان کو یہی جواب دیا گیا کہ نشان دکھانا اللہ کا کام ہے رسول کا کام نہیں.نشان کے دیکھنے میں اپنی مرضی نہیں چلے گی خدا کی مرضی چلے گی.جو نشان وہ چاہے گا وہ دکھلائے گا جو نشان وہ نہیں چاہے گا وہ نہیں دکھلائے گا.“ ان آیات پر غور کرنے سے بہت سی چیزیں سامنے آتی ہیں، میں نے ہمیں باتیں نوٹ کی ہیں جو ہمارے سامنے آتی ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۵۳ خطبه جمعه ۲۰ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء ایک تو یہ اعلان کیا کہ مجھے میرے رب نے بھیجا ہے.خدا تعالیٰ جس نے میری ربوبیت کی، اس کی طرف سے میں مبعوث ہو کر آیا ہوں.یہاں یہ نہیں کہا کہ کہا یہ ہے کہ قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ من ربى اس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں سے ایک وجود کو منتخب کیا اور اس قدر عظیم صلاحیتیں اور استعدادیں اسے عطا کیں کہ جس قدر عظیم صلاحیتیں اور استعدادیں کسی اور کو عطا نہیں ہوئی تھیں اور افضل الرسل اور خاتم الانبیاء کی حیثیت میں اسے بھیجا تور بوبیت کرنے والے رب کی طرف اپنی رسالت کو یہاں منسوب کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے تا کہ اس چیز کو نمایاں کیا جائے کہ عظمت والا ایک رسول ہوں اور عظمت والے وہ نشان ہیں جو خدا تعالیٰ نے میری صداقت پر قائم کئے ہیں.وَكَذَ بتُم بِہ اور اس کے باوجود تم ہو کہ تم انکار کر رہے ہو.پہلی بات یہ کہ مجھے میرے رب نے بھیجا دوسری بات ہمیں یہ پتالگتی ہے کہ میرے ربّ نے ثبوت دے کر بھیجا بے ثبوت نہیں بھیجا اور یہ ثبوت جو ہے آپ کی صداقت کا ، یہ ایک دو دلائل یا چند ایک نشانوں پر مشتمل نہیں بلکہ دلائل کے لحاظ سے اس قدر زبر دست دلائل کہ نہ صرف ان انسانوں کی ذہنی تسلی کے لئے کافی تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا بلکہ بعد میں آنے والے جو بدلے ہوئے حالات میں، بدلے ہوئے دماغ اور ذہن رکھنے والے تھے، ان کو بھی کنونس (Convince) کرنے ، باور کروانے کی طاقت رکھنے والے دلائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ہمیں قرآنِ عظیم میں ملتے ہیں.تو دوسری حکمت صفت رب کے استعمال کی ہمیں یہاں یہ نظر آتی ہے کہ مجھے ربوبیت عالمین کے لئے بھیجا ہے اس لئے قیامت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان اس تعلیم میں رکھ دیا گیا ہے جو قرآن عظیم کے ذریعہ مجھے دی گئی اور جس کو قیامت تک کے انسانوں تک پہنچانا میرا اور میرے ماننے والوں کا کام ہے.تیسری بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ان کھلے دلائل کے باوجود تم میری تکذیب کر رہے ہو.تمہاری اپنی بھلائی کے لئے تمہاری اپنی رفعتوں کے لئے ، تمہاری عزتوں کے قیام کے لئے،
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۵۴ خطبہ جمعہ ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے ، ایک زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرنے کے لئے یہ تعلیم آئی.تمہاری بھلائی ( دنیوی بھلائی اور اُخروی بھلائی) کے سامان بھی اس میں تھے.اتنی عظیم تعلیم ، اتنی حسین تعلیم ، اتنی مفید تعلیم تمہیں زمین سے اٹھا کر اس قدر رفعتوں تک پہنچانے والی تعلیم تمہارے پاس آئی لیکن تم ہو کہ پھر تم تکذیب کر رہے ہو.چوتھی بات ہمیں ان آیات میں یہ نظر آتی ہے کہ یہ تعلیم جو ہے اس میں بشارات بھی ہیں اور انداری پیشگوئیاں بھی ہیں تو عجیب ہو تم (منکر اور کافر ) کہ جو عظیم بشارتیں یہ تعلیم لے کر آئی ان کی طرف تم تو جہ نہیں دیتے اور ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے.کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ وہ وعدہ جو ہمارے کفر اور انکار پر ہمیں عذاب دینے کا ہے وہ وعدہ کیوں نہیں پورا کرتا.ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا.تم یہ نہیں کہتے کہ خدا تعالیٰ نے پیار کے جو وعدے ہم سے کئے ، ہمیں زمین سے اٹھا کر آسمانوں کی رفعتوں تک پہنچانے کے جو وعدے کئے وہ ہماری زندگیوں میں پورے ہوں اور ہم اس دنیا کی جنتوں سے بھی حصہ لیں اور اُخروی زندگی کی جنتیں بھی ہماری قسمت میں لکھی جائیں بشارتوں کی طرف تم توجہ نہیں کرتے اور اتنی عظیم تعلیم ، اس قدر وسیع اور اس قدر ارفع اور اس قدر عظیم بشارتوں کو چھوڑ کے تم کہتے ہو.(مَا تَسْتَعْجِلُونَ ) کہ ہم پر جلد تر عذاب کیوں نہیں آتا.ہم نے انکار کیا تمہارا، تو خدا ہمیں پکڑتا کیوں نہیں ، ہمیں ہلاک کیوں نہیں کرتا تم بشارتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خدا کی گرفت اور اس کی قہری تجلی کے متعلق مطالبہ کرتے ہو کہ وہ قہری تجلی جلد تم پر نازل ہو اور تمہیں جلا کر رکھ دے.پانچویں بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں عذاب دینا یا ڈھیل دینا یہ میرے اختیار میں نہیں.میں رسول ہوں.میں پیغامبر ہوں.دوسری جگہ فرمایا کہ ہمارے رسول پر البلاغ کے سوا اور کچھ نہیں.پہنچادینا اس کا کام ہے.آپ کہتے ہیں میرا کام ہے پہنچا دینا، میں پہنچا دوں گا، میرا کام ختم ہو جائے گا.تم عذاب مانگتے ہو.عذاب دینا میرا اختیار نہیں.تم کہو کہ ساری بشارتیں تمہارے حق میں پوری ہو جا ئیں خواہ تم اعمالِ صالحہ بجالا ؤ یا نہ بجالا ؤ.اپنے رب کریم کو خوش کرنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو، یہ بھی میرے اختیار میں نہیں.تمہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۵۵ خطبه جمعه ۱۷۲۰ پریل ۱۹۷۹ء عذاب دینا یا ڈھیل دینا میرا کام نہیں.تم اپنی گمراہیوں میں بڑھتے چلے جاؤ اور خدا اپنی نرمی کے جلوے تم پر ظاہر کرتا چلا جائے ، یہ اس کی مرضی ہے تم جانو اور تمہارا خدا.میرے اختیار میں نہیں ہے یہ.ان معاملات میں حکم صادر کرنا اس بالا ہستی کا کام ہے اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلهِ حکم اسی کا چلتا ہے، جو صاحب حکم بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے.اس کے سارے کام حکمت سے ہیں حکمت سے خالی نہیں ہوتے.اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی دور میں اپنی گرفت میں جلدی کرتا تو عکرمہ اور ان کے ایک سو چالیس کے قریب ساتھی جنہوں نے بعد میں تو بہ کی اور اسلام میں داخل ہوئے اور جنگ یرموک کے موقع پر جب انہیں ان کے دوست خالد بن ولید نے اس طرف توجہ دلائی کہ تم بڑے گناہگار ہو تم نے خدا کے رسول کے خلاف کارروائیاں کیں، ان کو ایذاء پہنچایا، مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے ،مسلمانوں کو دیکھ دیئے ، بہتوں کو شہید کیا.ایسے داغ تمہارے چہرہ پر لگے ہوئے ہیں کہ سوائے تمہارے خون کے کوئی اور چیز انہیں دھو نہیں سکتی اور آج موقع ہے، آج دھو لو اپنے رھے.چنانچہ تین لاکھ فوج پر ان کم و بیش ایک سو چالیس مکہ کے رؤساء کے بچوں نے حملہ کر دیا اور ان میں سے ہر ایک نے میدانِ جنگ میں جامِ شہادت پیا اور اس طرح پر اپنے چہروں سے نہایت بھیانک دھبے دھونے میں کامیاب ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ اگر ان کو ڈھیل نہ دیتا تو تو بہ اور رجوع الی اللہ کا یہ نظارہ تو دنیا نہ دیکھتی.مکی زندگی کے تیرہ سال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو انتہائی اذیتیں دی گئیں، دکھ پہنچائے گئے لیکن خدا تعالیٰ نے نرمی کا سلوک کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی خدا سے چاہا کہ وہ نرمی کا سلوک کرے جیسا کہ طائف کے واقعہ میں آتا ہے کہ اے خدا یہ پہچانتے نہیں مجھے، ان کے ساتھ ڈھیل کا معاملہ کر.بہر حال وہ پکڑتا بھی ہے جب چاہے اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے اس کی قہری تجلی کا تصور بھی انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے لیکن وہ ڈھیل بھی دیتا ہے.وہ بڑا رحم کرنے والا بھی ہے وہ موقع دیتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرے.تو ہمیں چھٹی بات یہاں یہ نظر آتی ہے کہ تمہیں عذاب دینا یا ڈھیل دینا میرے اختیار میں نہیں، یہ اللہ کا کام ہے.وہ صاحب حکم ہے ( الحُكْمُ لِلَّهِ )، صاحب اختیار ہے، مالک ہے، کوئی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۵۶ خطبه جمعه ۱۷۲۰ پریل ۱۹۷۹ء دنیا کی طاقت نہیں جو اس کو اس کی مرضی کرنے سے روک سکے اور صاحب حکمت ہے اور حکم صادر کرنا اسی کا منصب ہے جو اپنا حکم جاری بھی کر سکے اور حکمت سے کام لینے والا ہو.اور ساتویں چیز ہمیں ان آیات سے یہ پتا لگتی ہے کہ تم جلدی کر رہے ہو شاید اس خیال سے کہ کبھی حق و صداقت کو خدا تعالیٰ کھولے گا نہیں.لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ خود يَقُضُ الْحَقِّ حق اور صداقت کو کھولے گا لیکن اپنے وقت پر کھولے گا.نہ میرے کہنے سے کھولے گا نہ تمہارے واویلا کرنے سے کھولے گا.وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِینَ.آٹھویں بات یہ ہے کہ وہ حق و حکمت کا سرچشمہ ہے.وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور اس لئے وہ ہمارے درمیان بہترین فیصلہ کرے گا.جیسا کہ بہترین فیصلہ اس نے کیا پہلے دن سے لے کر آج کے دن تک اور آج کے دن سے لے کر قیامت تک کرتا چلا جائے گا.خَيْرُ الْفَصِلِينَ اس میں ہمیں بتایا گیا کہ کسی بھی نسل انسانی کو خدا تعالیٰ سے اس قسم کے مطالبے نہیں کرنے چاہئیں اور لرزاں ترساں اپنی زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.خدا تعالیٰ جب چاہے گا جو چاہے گا جس رنگ میں چاہے گا اپنے حکم کو جاری کرے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان وہ جب فیصلہ کرے گا تو اس کا جو فیصلہ ہوگا وہ خَیرُ الفصلِینَ کا فیصلہ ہوگا.وہ بہترین فیصلہ ہوگا وہ نوع انسانی کی بھلائی کا فیصلہ ہوگا.وہ ایک ایسی ہستی کا فیصلہ نہیں ہوگا جو اپنے علم میں کمزور جو اپنی طاقت میں کمزور، جو اپنی حکمت میں کمزور ، جو اپنی رحمت میں کمزور بلکہ اس عزّ و جلّ کا ہوگا جو رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کہنے والا ہے جس نے خَيْرُ الْفَصِلِينَ اپنے متعلق کہا.وہ اس کا ہو گا جس نے کہا کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) که اصل غرض تو تمہاری پیدائش کی یہ ہے کہ تم میرے بندے بنو.میرے ساتھ زندہ تعلق قائم کرو.نویں بات ( دوسری آیت سے ) ہمیں یہ پتالگتی ہے کہ خدا جانے تمہیں کیا ہو گیا ہے.بصائر آچکے آنکھیں کھولنے والے روشن نشان ظاہر ہوئے اور تمہیں نظر نہیں آرہے.دسویں بات ہمیں یہ پتالگتی ہے کہ ان روشن نشانوں کو شناخت کرنے میں تمہارا اپنا فائدہ ہے کسی اور کا فائدہ نہیں اور اگر تم آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے ہو جاؤ تو جو اندھا ہوگا وہ خود اپنا
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۵۷ خطبه جمعه ۲۰ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء نقصان کرے گا.کسی اور کا نقصان نہیں کرے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے انکار پہلی نسل سے لے کر قیامت تک کی انسانی نسلوں تک جو ہے اس کا نقصان منکرین کو پہنچے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، آپ کی تعلیم کو، آپ کی بشارتوں کو ، آپ کے ماننے والوں کو ، خدا تعالیٰ کی جو رحمتیں آپ کے ماننے والوں پر آپ کے طفیل نازل ہو رہی ہیں ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.جو اندھا ہوگا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کو دیکھ نہیں سکے گا وہ اپنا نقصان کرے گا.ایک اور بات یہ کہ میں تم پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا ، محافظ نہیں ہوں ، رسول ہوں.ایک پیغام خدا نے میرے ذریعہ سے تم تک پہنچانا چاہا میں نے تمہیں پہنچادیا.خدا تعالیٰ نے اس تعلیم کے لئے دنیا کے سامنے ایک بہترین نمونہ قائم کرنا چاہا اور خدا نے توفیق دی مجھے کہ میں تمہارے لئے اُسوہ حسنہ بن جاؤں.ایک حسین تعلیم ایک حسین وجود میں عملی رنگ میں تمہیں نظر آتی ہے.نگہبان اور محافظ نہیں ہوں رسول ہوں اور اُسوہ ہوں.میری تعلیم کو دیکھو، میرے اعمال کو دیکھو.میری اس تعلیم کے نتیجہ میں انسان کو جو خدا تعالیٰ کے نعماء ملتے ہیں ان کو دیکھو.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران :۳۲) میرے اُسوہ پر چل کر خدا تعالیٰ کا جو پیار تمہیں حاصل ہوتا ہے، اسے دیکھو.ان چیزوں کو دیکھو اور اپنے خدائے واحد و یگانہ جو بڑا رحم کرنے والا 79 روو اور رپ کریم ہے کی طرف واپس لوٹ کے آؤ.دوری کی راہوں کو اختیار نہ کرو.ایک اور بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ظاہر ہونے والے بینہ اور بصائر ہزاروں نشان دیکھتے اور ان کو جھٹلاتے ہیں اور ہزاروں نشانوں کو جھٹلانے کے بعد پھر قسمیں بھی کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان آجائے تو ہم مان لیں گے مگر نشان ہماری مرضی کا ہو.ایک دفعہ ایک گاؤں میں ایک ان پڑھ سادیہاتی تھا اس نے میرے ساتھ خود ہی باتیں شروع کر دیں.وہ مجھے کہنے لگا کہ ہم تو احمدیت کی صداقت پر یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی کی بات ہے ) تب ایمان لائیں گے کہ آپ کے حضرت صاحب ہمارے یہاں آئیں اور ہمارے مینار کے اوپر آم کی گٹھلی لگا ئیں اور وہ اسی وقت ایک پیر بن جائے اور اسے بُور آئے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۵۸ خطبہ جمعہ ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۹ء اور اسی وقت چند منٹوں کے اندر سے پھل لگ جائے اور پھر ہم وہ پھل کھا ئیں.یہ نشان دیکھیں تو ہم احمدیت کو قبول کر لیں گے.میں نے اسے کہا کہ اگر تم لوگوں کو آم کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو آم کے موسم میں میرے پاس آجانا میں تمہیں اتنے آم کھلاؤں گا کہ تمہارے نتھنوں سے آم کا رس ٹپکنے لگ جائے لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ ہمیں احمدیوں کو.اس بات کی فکر ہے ، ہم اس فکر میں اپنے رات دن گزار رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ طیبہ میں پھل لگیں اور وہ انسان جو آپ سے دور ہے وہ اس درخت کے نیچے آجائے اور تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درخت اور اس درخت کے جو فائدے ہیں ان کی فکر نہیں ، اپنے آم کھانے کی فکر پڑی ہوئی ہے.ایسے نشانوں کو جیسا اس دیہاتی نے مانگا اقتراحی نشان کہا جاتا ہے.پس ہمیں ایک بات ان آیات میں یہ نظر آتی ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہزار ہا ہزار ہا ہزارہا نہیں میں کہوں گا کہ لکھوکھا نشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اور آپ کی عظمت کے دکھائے گئے جو انہوں نے دیکھے اور دیکھے بھی اور جھٹلایا بھی اور پھر قسمیں بھی کھاتے ہیں کہ ہماری مرضی کا کوئی ایک نشان آجائے تو ہم مان جائیں گے.ایک اور بات.ہمیں یہ کہا گیا کہ یہ لوگ خدا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں.اپنی مرضی منوانا چاہتے ہیں.خدا پر تو کوئی شخص اپنی مرضی ٹھونس نہیں سکتا اور اگر یہ لوگ یہ کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت میں دخل اندازی کریں اور اسی کی حکمت میں اپنی آراء کے مطابق ہیر پھیر کریں تو یہ تو نہیں ہوگا، ہو گا وہی جو خدا چاہے گا اور ہو گا اسی وقت جب خدا چاہے گا.کسی کے کہنے پر خدا کوئی نشان کسی مقام پر کسی زمانے میں نہیں دکھایا کرتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا نے اپنی مرضی سے اپنی حکمت کا ملہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پچھلے چودہ سو سال میں نشان نہیں دکھائے یا محدود نشان دکھائے.وہ جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمینَ بنا کر بھیجا گیا تھا دنیا کی طرف ،اس کی صداقت کے نشان ایسے ہونے چاہئیں جو ہر نسل کے لئے زندہ نشان کے طور پر انسان کے ہاتھ میں ہوں.قصے اور کہانیاں تو بہت لوگوں نے بنا ئیں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا نہ دل نہ دماغ نہ روح پر ، نہ اس کے نتیجہ میں کسی نے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۵۹ خطبه جمعه ۲۰ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء اور زندہ خدا کی معرفت کی راہیں آپ نے ہم پر کھولیں اور ہمارا ایک زندہ تعلق اپنے زندہ خدا سے ان راہوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا اور زندہ تعلق خدا سے پیدا ہونے کے بعد دلائل کے میدان میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نئے سے نئے دلائل نکلتے چلے آئے پچھلے چودہ سو سال میں.اور نکلتے چلے جائیں گے قیامت تک آسمانی نشان - محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والا شخص ایک گاؤں میں بیٹھا ہوا تھا خدا کا پیارا ، مطہر - (لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - الواقعة : ٨٠) اس کے ذریعے اس گاؤں کو خدا تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے آسمانی نشان دکھائے اور جو بشی کہلاتے ہیں ، جن کو دنیا صدیوں تحقیر کی نظر سے دیکھتی رہی اتنے عظیم انسان پیدا ہوئے ہیں ان لوگوں میں جن میں سے ایک عثمان بن فودگی ہیں وہ اس قدر خدا کو پیارے تھے کہ جب ان کو خدا نے کہا کہ کھڑے ہو اور اسلام کے اندر جو بدعات شامل ہو گئی ہیں ان بدعات کو نکال دو اسلام سے اور ایک خالص اور صاف اسلام کو قائم کرو اپنے علاقہ میں.تو اس وقت کے لوگوں نے تلوار نکال لی کہ تیری گردن اڑادیں گے تو مرتد ، واجب القتل ہے.چھوٹی سی جماعت ان کے پاس تھی.ان کو خدا نے کہا جب تلوار سے تیری گردن اڑانا چاہتے ہیں تو تلوار سے ہی اپنی حفاظت کر.ان کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی خدا نے اجازت دی اور کئی سومیل کے فاصلہ پر بعض دفعہ ایک جنگ ہوئی ان کے متبعین کی منکرین کے ساتھ اور شام کو وہ جنگ ختم ہوئی اور مغرب کی نماز میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ اس جنگ کا فیصلہ ہوا ہے ہمارے حق میں.وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے اللہ کا پیارا نہیں حاصل تھا خدا تعالیٰ ان کو اطلاع دیتا تھا مگر یہ پیار ان کی کسی ذاتی خوبی کے نتیجہ میں نہیں تھا یہ ہر احمدی کو اچھی طرح یا درکھنا چاہیے.اس قسم کا ہر پیار اس پیار کے نتیجہ میں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے رب کریم کو ہے.اُمت محمدیہ میں الہام اور وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے والی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ بلند درجہ تو علیحدہ رہا معمولی سے معمولی روحانی مقام بھی کو ئی شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر کھڑا ہو کر حاصل نہیں کرسکتا.اس کے لئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی اتباع کرنی پڑے گی اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶۰ خطبه جمعه ۲۰ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء ہوگا تا کہ یہ ایک نشان ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برحق ہونے پر.پس ایک اور بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ اقتراحی نشان خدا تعالیٰ نہیں دکھاتا.ایک اور بات یہ کہ مرضی خدا ہی کی چلے گی جس نشان کو چاہے گا ظاہر کرے گا جس نشان کو چاہے گا ظاہر نہیں کرے گا.ایک اور بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جہاں بشارتیں ہیں وہاں انداری پیشگوئیاں بھی ہیں.گرفت کی پیشگوئی بھی ہے.وہاں عذاب کی پیشگوئی بھی ہے یہ جلدی کر رہے ہیں کہ جلدی آجائے عذاب.عذاب تو آئے گا مگر جب عذاب آئے گا تو ان کے کہنے کی وجہ سے نہیں آئے گا بلکہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے انذار کی وجہ سے آئے گا.جب عذاب آیا ایک رنگ میں ان کا اپنا مطالبہ بھی پورا ہو گیا کہ یہ کہہ رہے ہیں جلدی آجائے.جلدی نہیں آئے گا لیکن عذاب آئے گا ضرور.اگر یہ اصلاح نہیں کریں گے.ہر انداری پیشگوئی مشروط ہے یعنی اگر جن کے متعلق وہ انذار ہے وہ اپنی اصلاح کرلیں تو خدا تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.اسلام کی یہ تعلیم ہے لیکن اگر وہ اصلاح نہ کریں اور خدا کی گرفت میں آجائیں تو عذاب تو آیا لیکن مطالبہ کرنے والے کا جو مطالبہ جلدی کا تھا اس وقت نہیں آیا لیکن آیا ضرور اور جب آ گیا تو اس وقت اس کا بھی انکار کر جائیں گے.عذاب دیکھیں گے پھر بھی انکار کر جائیں گے.آخر جیسا کہ میں نے بتا یا ساری دنیا نے ان انذاری پیشگوئیوں کے جلوے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لئے قرآن کریم نے بیان کی ہیں، دیکھے مغرب نے بھی دیکھے، مشرق نے بھی دیکھے، شمال نے بھی جنوب نے بھی دیکھے اور جو عذاب میں ہلاک ہو گئے ان کے تو ایمان لانے کا سوال نہیں.جو بچ گئے ان میں سے بھی بہت ساروں نے پھر بھی انکار کر دیا.اسی واسطے خدا نے کہا کہ تمہیں پتا لگ جائے گا کہ جس چیز (عذاب) کو یہ مانگ رہے ہیں، جب خدا چاہے گا عذاب آئے گا لیکن عذاب آنے کے باوجود بھی وہ انکار کریں گے ایمان نہیں لائیں گے اور بشارتیں جو دی گئی ہیں مومنوں کے لئے اس میں حصہ دار نہیں بنیں گے.اور آخری چیز جو اصل ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے اور قیامت تک کے لئے افضل الرسل، خاتم الانبیاء کی حیثیت میں مبعوث کیا گیا ہوں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶۱ خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۷۹ء ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان آنے چاہئیں.صداقت کے نشان جو ہیں وہ دلائل کی شکل میں اور آسمانی نشانات اور معجزات کی شکل میں ہیں.قرآن کریم نے دلائل کا جو حصہ تھا اس کے متعلق تو کہا کہ ہم تفصیل سے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور اس کے متعلق یہ کہا کہ قرآنِ عظیم اپنے دلائل کے لحاظ سے ایک پہلو سے کتاب مبین اور دوسرے پہلو سے کتاب مکنون ہے، چھپی ہوئی کتاب ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر نئے زمانہ میں (لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) خدا تعالیٰ کے مظہر بندے پیدا ہوں گے جو خدا تعالیٰ سے قرآنی علوم و اسرا رسیکھ کر اپنے زمانہ کے مسائل کو حل کریں گے اور اس طرح پر عظیم دلیل پیدا کریں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر اگر ایسا نہ ہو اگر اسلامی تعلیم آج کا مسئلہ حل نہ کرے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ درست نہیں رہتا کہ قیامت تک کے لئے میں نبی ہوں.اگر آج کا انسان اپنے بعض مسائل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شاگرد بن کر دوزانو ہونے کی بجائے کسی اور کا محتاج ہے تو پھر تو اس کے لئے آپ رحمت نہ رہے اس مسئلے تک.اس واسطے تفصیل میں جائے بغیر میں آپ کو بتادوں مجھے کئی دفعہ موقع ملا ہے یورپ میں جانے کا.اور چوٹی کے دماغوں سے بات کرنے کا.میں ان کو ہمیشہ ہی اس بات کے منوانے میں کامیاب ہوا ہوں کہ تم اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہو، نہ تم اپنے مسائل کو سمجھتے ہو نہ ان کا حل تمہیں معلوم ہے جو شخص مسئلہ ہی نہیں سمجھے گا حل کیسے اس کو پتا لگے گا.مثلاً میں نے ان کو کنونس (Convince) کیا.انہوں نے مانا کہ یہ بات درست ہے کہ ہمارا مزدور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سٹرائیک کرتا ہے لیکن اس بیچارے کو یہ نہیں پتا کہ میرا حق کیا ہے تو اپنے جس حق کا اسے علم ہی نہیں اس حق کے لئے وہ سٹرائیک کر رہا ہے؟ تو بڑا عظیم ہے یہ مذہب ، یہ تعلیم ، یہ قرآن جو ہے یہ واقع میں قرآنِ عظیم ہے.زمانہ بدل رہا ہے.انسانی زندگی حرکت میں ہے ایک جگہ کھڑی نہیں ہوئی.جو معاشرہ آج سے چارسوسال پہلے تھا اس میں بڑی تبدیلیاں آگئیں.انقلابی تبدیلیاں آگئیں.عظیم انقلابات بپا ہو گئے.زرعی انقلاب، صنعتی انقلاب.یہ انقلاب وہ انقلاب، پس بہت سی انقلابی تبدیلیاں ان کے اندر پیدا ہو گئیں اور انقلابی تبدیلیاں معاشرہ میں پیدا ہونے سے انقلابی مسائل پیدا ہو گئے اور دوصدیوں سے وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶۲ خطبه جمعه ۲۰ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء مسائل حل کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور حل نہیں کر سکے.پھر بھی یہ دعویٰ کہ ہم تو بہت مہذب ہیں.ساری دنیا پر حکومت کرنے کا ہمیں حق ہے.میں نے کہا ، ابھی تک اپنے بھائی کو معاف کرنا تم نے نہیں سیکھا.جرمنی میں میں نے کہا تم دو عالمگیر جنگیں لڑ چکے ہو.جرمن اور اس کے ساتھی ایک طرف تھے اور امریکہ اور روس اور ان کے ساتھی دوسری طرف.میں نے کہا جب جنگ ہوتی ہے تو ایک نے بہر حال ہارنا ہے.اتفاق ہوا دونوں دفعہ تم ہارے تمہیں معاف نہیں کیا انہوں نے.اتنا ظلم کیا ان لوگوں نے کہ حد نہیں.وہ اچھی طرح ان کو یاد دلا کر کہ کن مسائل اور مشکلات میں سے گزرے ہیں.میں نے کہا کہ یہ تمہارے حل کرنے کا مسئلہ نہیں.جس نے حل کرنا تھا وہ مسئلہ حل کر چکا ایک اُسوہ پیدا کر دیا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تیرہ سال کی زندگی میں اور پھر آٹھ سال کے قریب کم و بیش مدنی زندگی میں ہیں سال تک ہر قسم کا دکھ اور تکلیف ان کو دی گئی.عورتوں کو نہایت بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا.مردوں پر مظالم ڈھائے گئے اور بھوکا مارنے کی کوشش کی گئی.کوئی ایسی ایذا نہیں تھی جو پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی اور جب خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حالات بدل دیئے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آپ مکہ کے باہر آکے ٹھہرے اس وقت رؤسائے مکہ جو سارا عرصہ دکھ دینے میں اپنی زندگی گزار چکے تھے ان کو یہ نظر آگیا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں اس وقت ہم اگر میان میں سے تلوار نکالیں گے حماقت کریں گے.انہوں نے تلوار میں اپنی میانوں میں سے نہیں نکالیں.اتنے حالات بدل چکے تھے اس وقت، ان کو یہ پتا تھا کہ یہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس پوزیشن میں ہے، اتنی طاقت ہے اس کی کہ جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کرے اور سلوک کیا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھ دینے والوں سے؟ جنہوں نے ایک سانس سکھ کا نہیں لینے دیا تھا اس نے کہا جاؤ سب کو معاف کرتا ہوں لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ اور يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ.میں معاف ہی نہیں کرتا بلکہ تمہارے لئے دعا بھی کروں گا کہ خدا بھی تمہیں معاف کر دے.میں نے کہا وہ نمونہ ہے تمہارے سامنے تم لڑتے ہو اور معاف نہیں کرتے ، ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے.اسلام نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا دیکھو.اگر کوئی بڑوں کی عزت نہیں کرے گا تو وہ میرے اُسوہ پر نہیں عمل کر رہا.اگر کوئی -
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۶۳ خطبه جمعه ۱۷۲۰ پریل ۱۹۷۹ء چھوٹوں سے شفقت کا سلوک نہیں کرے گا تو وہ اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کرتا.میں نے کہا ایک دن صبح بغیر کسی اطلاع کے چودہ ہیلی کا پڑ ایک بڑے ملک کے.ایک چھوٹے سے ملک کے ایک جزیرے میں اُتر گئے اور وہاں قبضہ کر لیا.ایک گولی نہیں چلی.کوئی جنگ کا اعلان نہیں ہوا.کچھ نہیں.اور وہاں جا کے ہیلی کا پڑا تارے اور قبضہ کر لیا دوسرے کی زمین پر.میں نے کہا یہ تو تم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہو نہ احساس کا ، نہ عزت کا ، نہ کسی کے مال کا احترام کسی کا حق نہیں ہے کہ کسی کی چیز غصب کرے.تو اتنی عظیم تعلیم ہے اسلام کی اور جو آج کے مسائل ہیں وہ اسلام حل کرتا ہے لیکن خالی دلائل کافی نہیں ( یہ آپ یاد رکھیں ) آج کی دنیا میں اسلام کا مخالف صرف مذہب نہیں بلکہ دہریت بھی ہے جنہوں نے خدا سے انکار کر دیا جنہوں نے کہا کہ ہم زمین سے خدا کا نام اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے اس دہریت کے سامنے.جب آپ دلیل دیں گے تو ان کا دماغ کوئی اور دلیل سوچ لے گا اور تسلی پالے گا.انسان کو خدا نے ایسا بنا یا ہے کہ جھوٹی دلیل سے بھی وہ تسلی پالیتا ہے لیکن آسمانی نشانوں کو Explain نہیں کرسکتا.کوئی دماغ ایسا نہیں کر سکتا.تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر خدا تعالیٰ نے اربوں آسمانی معجزات دکھائے یہ تو ایسا سمندر ہے جس کی انتہا ہی کوئی نہیں.صبح شام خدا تعالیٰ دکھا رہا ہے ایسے نشان اور صداقت ظاہر ہوتی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکہ وہ مشن پورا ہو جس کے لئے آپ آئے اور وہ مشن یہ ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانے اور ہر قسم کے شرک سے پاک ہو اور خدائے واحد و یگانہ کی گود میں چلا جائے اور ہر قسم کا پیار اس سے حاصل کرنے لگ جائے.یہ مقصد ہے انسانی زندگی کا.اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے.اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے روز بر دست سمندر پیدا کئے ایک دلائل کا سمندر ایک آسمانی نشانوں کا سمندر اور اُمت محمدیہ میں دلائل بھی کسی انسان نے دینے ہیں؟ خدا تعالیٰ ہی متبعین کو دلائل سکھاتا ہے.کوئی انسان بھی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں فانی نہیں ہوتا خدا کے پیار کو حاصل نہیں کرتا اور نشان بھی انسان کے ذریعہ ہی دکھائے جاتے تھے.انسان
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۶۴ خطبه جمعه ۲۰ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء کی بجائے درختوں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان نہیں دکھانے تھے.کسی انسان نے ہی دکھانے تھے.اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری بعثت سے پہلے کے دوصد سال اسلام کے انتہائی تنزل اور انحطاط کے سال تھے لیکن یہ نہ سمجھنا کہ یہ زمانہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض پیدا کرتا ہے.نہیں بلکہ اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہونے والے ہمارے بزرگ ٹھاٹھیں مارتے دریا کی طرح تھے.لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے تھے اس تنزّل کے زمانہ میں بھی اور جوت نزل کا زمانہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور ترقیات کا زمانہ تھا اس کا تو کہنا ہی کیا.اب وہ زمانہ پھر آگیا ہے اور مہدی کے زمانہ کے متعلق کہا گیا تھا کہ بچے بھی نبوت کریں گے یعنی ان کو بھی سچی خوا ہیں آئیں گی.یہ نہیں کہ وہ نبی بن جائیں گے.یہ لغوی معنی میں ہے کہ آئندہ کی خبر دینے والے.۷۴ء میں میں نے بہتوں کو تسلی دینی تھی کثرت سے احباب آتے تھے.سارا دن میرا یہی کام تھا.پیار کرتا تھا.تسلی دیتا تھا.بچے بھی آتے تھے میں پوچھتا تھا تمہیں سچی خوا میں آئیں بچو! کئی بچے کھڑے ہو جاتے تھے.ہر روز ہر گروہ میں کہ خواب آئی اور اس کے مقابلے میں ایسے لوگ بھی آج ہیں جو کہتے ہیں کسی مسلمان کو سچی خواب نہیں آسکتی.بندہ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نشانوں کا یہ جو دروازہ کھولا ہے یہ کبھی بھی بند نہیں ہو سکتا.کوئی اسے بند نہیں کر سکتا.قصے کہانیوں سے تو انسان تسلی نہیں پاتا.قصے تو مبالغہ آمیز طریقے پہ ہندوؤں نے اپنی کتابوں میں اپنے رشیوں کے متعلق لکھے ہوئے ہیں اور اتنا مبالغہ کیا ہے کہ میں نے میٹرک کا امتحان دیا.ہندوؤں کی تاریخ کا بھی پچاس نمبر یا ساٹھ نمبر کا پرچہ تھا.میں نے پڑھا ہی نہیں.میرے ساتھیوں نے کہا کہ آپ پڑھتے نہیں.میں نے کہا انہوں نے آپ بنائی ہے تاریخ.میں امتحان کے کمرے میں خود بنالوں گا.پڑھنے کی کیا ضرورت ہے.پڑھے تو وہ جہاں کوئی واقعہ ہوا اور اس کو مؤرخ نے لکھا.جب انہوں نے تاریخ آپ بنالی.میں بھی آپ بنالوں گا.اور میں نے آپ بنائی ان کی تاریخ اور بہت اچھے نمبر دیئے ممتحن نے مجھے.تو قصے تو کافی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶۵ خطبه جمعه ۱۷۲۰ پریل ۱۹۷۹ء نہیں ہمارے لئے.ہمارے لئے تو ہمارا خدا کافی ہے جو الحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس الحق کے مظہر اتم.اس واسطے اُمت مسلمہ کی بنیاد تو حق وصداقت کے اوپر ہے.دلائل زبر دست اور صحیح اور سچے اور نشان ایسے کہ ان کی مثال نہیں.آپ روز نشان دیکھتے ہیں.روز نشان دیکھتے ہیں.خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے خدا نشان تو ہمیں دکھا رہا ہے.نشانوں سے جو یہ چاہتا ہے کہ ہم فائدہ اٹھائیں اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ تیرے پیار کو حاصل کرتے چلے جائیں.ہمیں اس کی توفیق عطا کر.خدا کرے کہ ہم سب کو اس کی توفیق ملے.روز نامه الفضل ربوه ۳۱ رمئی ۱۹۷۹ ء صفحه ۱ تا ۶ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶۷ خطبہ جمعہ ۱٫۲۷ پریل ۱۹۷۹ء خدائے واحد و یگانہ پر ویسا ایمان رکھو جیسا ایمان پرور قرآن عظیم کی شریعت ہمیں کہتی ہے خطبه جمعه فرموده ۷ ۱۷۲ پریل ۱۹۷۹ ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مجلس خدام الاحمدیہ ہر سال ایک تربیتی کلاس منعقد کیا کرتی ہے.آج سے اس سال کی تربیتی کلاس شروع ہو رہی ہے.مجھ سے انہوں نے یہ خواہش کی تھی کہ میں افتتاح کروں عصر کے بعد اس کلاس کا.اُن سے تو میں نے معذرت کر دی.پھر مجھے خیال آیا کہ اس کلاس کا افتتاح اس خطبہ میں کر دوں اور یہ اس لئے کہ زیادہ گرمی میں میں تکلیف محسوس کرتا ہوں کیونکہ ماضی میں کئی بار مجھ پر ٹو لگنے کا حملہ ہوا جس کو انگریزی میں ہیٹ سٹروک کہتے ہیں اور اس کے بعد سے گرمی میری بیماری بن چکی ہے.چند دنوں سے گرمی کا ہم سے پیار شدت اختیار کر گیا ہے اور رات کو واپڈا ہم سے روٹھ گئی تھی اور بہت سے گھرانے شاید سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ہیں جو پنکھا استعمال کرتے ہیں.مجھے بتایا گیا کہ انکو بہت تکلیف اٹھانی پڑی رات کو.ایک دوست کہنے لگے کہ آج آپ کے خطبہ جمعہ میں بہت سے دوست سور ہے ہو نگے کیونکہ رات کو انہیں جاگنا پڑا.مگر میرا ایسا خیال نہیں اس لئے کہ اس وقت میں اپنے ان بچوں کی کلاس کا افتتاح کر رہا ہوں اس خطبہ میں اور ان
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۶۸ خطبہ جمعہ ۷ ۱۷۲ پریل ۱۹۷۹ء سے میں اپنے نہایت ہی پیاروں کی پیاری باتیں کرنا چاہتا ہوں.یعنی اللہ تعالیٰ کی باتیں جو ہمارا محبوب اور مقصود اور معبود ہے اور اُس عظیم ہستی اور خدا کے محبوب کی باتیں ، ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ) جنہوں نے خدا کے پیار کو بھی حاصل کیا ، انتہائی پیار کو کہ کسی اور انسان نے خدا کی محبت کے لحاظ سے اس سے بلند مقام حاصل نہیں کیا اور اتنا بڑا احسان کیا نوع انسانی پر کہ خدا کے پیار کے حصول کی تمام راہیں انسان پر آپ نے کھول دیں.یہ زمانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک پیارے شاگرد، روحانی فرزند، آپ کے ایک غلام، ایک ایسے پیار کرنے والے کا زمانہ ہے جس نے اپنی ساری زندگی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر گزاری تا کہ آپ کے دین کو استحکام ہوا اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ دینِ اسلام ساری دنیا میں الہی وعدوں کے مطابق غالب آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو بنیادی سبق ہمیں دئے ہیں اور ان دو بنیادی اسباق کی طرف میں اپنے نو جوانوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک بنیادی سبق ہے توحید حقیقی کا ، خالص توحید کا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن عظیم انسان کے ہاتھ میں دیا اس قرآن میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر بڑا زور دیا گیا ہے.ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو سمجھنے کی راہیں کھولیں اس کی معرفت اس کا عرفان حاصل کرنے کے جو طریقے ہیں وہ بتائے.خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق بھی ہمیں بہت کچھ بتایا گیا اور اس کی صفات کے متعلق بھی ہمیں بہت کچھ بتایا گیا قرآن عظیم میں اور ہمارے جو اپنے رب کریم سے تعلقات ہونے چاہئیں انکے متعلق بھی بہت کچھ بتایا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ اللہ عظیم ہستی ہے لیکن وہ اپنے بندوں سے پیار کرنا چاہتا ہے.وہ جو سر چشمہ حیات ہے.ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندہ رکھنے والا وہ یہ چاہتا ہے کہ ایک زندہ تعلق اس کے بندوں کا اس کے ساتھ ہو جائے.ہمیں قرآن عظیم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی واحد لاشریک ہے.وہ بے مثل و مانند ہے.نہ اس کی ذات جیسی کوئی اور ذات ، نہ اس کی صفات کسی اور میں صحیح معنی میں عظمت و جلال کے ساتھ پائی جاتی ہے.یہ تو صحیح ہے کہ خود
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۶۹ خطبہ جمعہ ۲۷ اپریل ۱۹۷۹ء اسی نے یہ منصوبہ بنایا نوع انسان کو پیدا کر کے کہ انسان بحیثیت نوع کے اس کی صفات کے مظہر بنیں اور ہر فرد واحد انسانوں میں سے اپنی اپنی قوت اور طاقت اور صلاحیت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات پہ چڑھائے لیکن یہ رنگ جو انسان اپنی صفات پہ چڑھاتا ہے اس سے انسان خدا نہیں بن جاتا.خدا تعالیٰ کی روشنی کا خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنتا ہے.اس کے متعلق شاید چند فقرے میں بعد میں بھی کہوں، اس کی وضاحت کرنے کے لئے.بہر حال ہمارا خدا جس پر ہم ایمان لائے وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.کوئی ایسی صفت جو اللہ میں ہونی چاہیے نہیں کہ اس میں نہ ہو.ہر صفت حسنہ اس میں پائی جاتی ہے اور ہر قسم کے عیب اور نقص اور کمزوری سے وہ پاک ہے.اسی واسطے ہم اسکی تسبیح کرتے اور اسکی قدوسیت کا اعلان کرتے ہیں.ہر شے کے کرنے پر وہ قادر ہے جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے کر سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اگر اللہ اُسے کرنا چاہے اسے روک نہیں سکتی اور دنیا کا کوئی منصو بہ اگر اللہ نہ کرنا چاہے اس سے کوئی کروا نہیں سکتا.حکم اُسی کا چلتا ہے.بادشاہت اُسی کی ہے.انسان کو اُسی نے آزادی دی اپنے دائرہ کے اندر لیکن ہر انسان کا وجود نوے(۹۰) فیصد سے بھی زیادہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے آزاد نہیں بلکہ اس کے حکم کے تابع ہے.دل کی حرکت ہے.آپ اپنی مرضی سے دل کی حرکت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.قانونِ الہی آپ کے دلوں کی حرکت پر متصرف، یہ جو لوتھڑا ہمارے سینے کے اندر دل کہلاتا ہے اور حرکت کرتا ہے یہ خدا تعالیٰ کے قانون کا تابع ہے اس میں انسان آزاد نہیں ہے پھر دورانِ خون ہے.بے شمار نظامِ جسمانی ہیں.کہنے والوں نے یہ کہا اور سوچنے والوں نے اسے صحیح سمجھا کہ ایک انسان کا وجود بھی سارے جہانوں کی طرح بہت عظیم بڑی وسعتوں والا ہے.ایک نظام کے بعد دوسرا نظام انسان کے علم میں آیا.جسم میں پانی کا نظام.ہم پانی پیتے ہیں.پانی پر ہماری زندگی کا بہت حد تک مدار ہے.پانی ہمارے جسم کے مختلف حصوں میں جاتا ہے.پانی مختلف حصوں سے نکل کے خارج ہوتا ہے ہمارے جسم سے اس کو کہتے ہیں، نظامِ پانی (Water Metabolism) ایک دنیا ہے ایک
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۱۷۲۷ پریل ۱۹۷۹ء کارخانہ ہے جو پانی کو کنٹرول کر رہا ہے.ہمارے جسم میں شکر ہے.شکر جو ہے وہ جسم کے لئے ضروری حصہ ہے.ہمارے جسم میں ایک کارخانہ ایسا لگا ہوا ہے کہ جو Starch کو کاربوہائیڈریٹس کو شکر میں، میٹھے میں تبدیل کرتا ہے اور پھر اس سے وہ جسمانی طاقت کے سامان پیدا کرتا ہے بہت بڑا کارخانہ ہے اور ایسے شعبے میں اس کارخانے میں کہ جس دن آپ، (ایک صحت مند انسان ) دو چھٹانک میٹھا کھا ئیں تو جسم میں وہ شعبہ جو ہے وہ دو چھٹانک میٹھا ہضم کرنے کے سامان پیدا کر دیتا ہے.ایسے کیمیاوی اجزاء پیدا کرتا ہے کہ دو چھٹانک میٹھا ہضم ہو جاتا ہے اور اگر کسی دن کو ئی شخص نالائقی کرے اور دوست کے ہاں گیا ہے اور گرمی کے دن ہیں اور اس کے دوست نے آئس کریم بنائی ہے اور وہ لذیذ ہے بہت ، وہ دوست کے وہاں بیٹھ کے دوسیر آئس کریم کھا جائے یا زردہ یا فرنی زیادہ کھا جائے یا شربت پی جائے گرمی میں بہت زیادہ.تو یہ جو شعبہ ہے یہ اسی کے مطابق کیمیاوی اجزاء پیدا کر دیتا ہے اور انسان بیمار نہیں ہوتا بلکہ ایک دن میں اس شعبہ نے دو چھٹانک شعبہ میٹھے کو ہضم کرنے کا انتظام کیا (جو Sugar Matabolism کا ایک حصہ ہے ) اور دوسرے دن اس نے آدھ سیر میٹھا ہضم کرنے کا سامان پیدا کر دیا اسی طرح ہم پروٹین، لحمیات کھاتے ہیں اور اس کی بہت سی قسمیں ہیں اور بہت سے Enzyme ہیں جو مختلف قسم کی لحمیات اور معد نیات کو ہضم کر رہے ہیں یعنی جتنا اندر اور گہرے چلے جاؤ ایک کے بعد دوسری چیز ہمیں نظر آتی ہے.اتنا بڑا نظام کہ ساری دنیا ایک طرف اور ایک انسان کے جسم کا نظام اس کے مقابلے میں دوسری طرف اور یہ سارا آزاد نہیں، یہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کام کر رہا ہے.آزادی انسان کو صرف اس دائرہ کے اندر دی گئی ہے کہ جس دائرہ میں جو اعمال کئے جاتے ہیں انکے اوپر جزاء یا سزا کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں نعماء نازل کرے گا یا اس کے بدلے میں خدا تعالیٰ کی قہری بجلی نازل ہوگی ایک بد بخت انسان پر اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہے.اگر وہ نہ چاہتا تو کوئی انسان زبردستی آزادی خدا عز وجل سے چھین نہیں سکتا تھا.جزاء کا نظام اس نے روحانی زندگی میں مقرر کیا لیکن کیا، ایک محدود زندگی
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۹ء گذارنے والے انسان نے سوچا کہ میں اپنی عمر میں ۳۰ سال ۵۰ سال ۸۰ سال ۱۰۰ سال میں کتنی نیکیاں کرلوں گا کہ وہ مجھے ابدی جنت کی مستحق بنادیں.اس نے سوچا میں اتنی نیکیاں تو نہیں کرسکتا خدا نے کہا گھبراؤ نہیں تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دوں گا ( قرآن کریم میں کھل کے یہ بات بیان ہوئی ہے لیکن ابدی جنت کے پھر بھی تم وارث نہیں ہو سکتے اسلئے میں اس سے بڑھ کے اور بھی دونگا.تاکہ تم ابدی جنتوں کے وارث ہوسکو.ہمارا خدا جو ہے وہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اسی پر پورا بھروسہ اور کامل تو کل رکھیں.ہمارا خدا ہم سے مطالبہ یہ کرتا ہے کہ ہم کسی کی خشیت اپنے دل میں پیدا نہ کریں سوائے اس کے.فلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَونى (البقرہ:۱۵۱) کا اعلان کیا قرآن کریم نے.ہمارا خدا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے رنگ میں رنگین ہو کر جس طرح اس نے اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے بے شمار چیزیں پیدا کر دیں اسی طرح تم اس کی مخلوق کی بھلائی کے لئے اپنی زندگی کا ہر لحظہ وقف رکھو اور کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ اور بنی نوع انسان کے ہمدرد اور غمخوار بنو.ہمارا خدا ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ شرک بالکل نہیں کرنا قبر پرستی بالکل نہیں کرنی انسانوں کو خدا بالکل نہیں بنانا.سارے انسانوں کو ایک مقام پہ لا کے کھڑا کر دیا.اس لعنت سے محفوظ کرنے کے لئے کہ قبر پرستی نہ کہیں آجائے امتِ مسلمہ میں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ فرمایا کہ جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِد اساری کی ساری زمین میرے لئے مسجد بنائی گئی ہے وہاں یہ بھی فرمایا کہ دو جگہیں ہیں جہاں تم نے خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرنی، خدائے واحد و یگانہ کی عبادت بھی دو جگہ نہیں کرنی.ایک لیٹرین میں جہاں تم گند کرتے ہو اور دوسرے قبرستان میں.ان جگہوں میں خدا کی عبادت بھی نہیں کرنی تا کہ شرک کے خیالات ، وساوس سے تمہیں محفوظ رکھا جائے اور کوئی دوسرا بدظنی کرتے ہوئے تمہیں مشرک نہ سمجھنے لگ جائے.بدظنی کے مواقع سے دوسروں کو بھی بچالیا.ہمارا خدا عظیم خدا ہے دعاؤں کو وہ قبول کرتا ہے.وہ پیار کرتا ہے اگر اس کے پیار کے حصول
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۹ء کے جو طریق اسی کے بتائے ہوئے ہیں ان کے اوپر ہم چلیں اور اس دنیا میں پیار کے جو صحیح تقاضے سمجھے جاتے ہیں ، خدا تعالیٰ اسی طرح پیار کا اظہار کرتا ہے.مثلاً جب ایک انسان دوسرے سے پیار کرے اور چاہے کہ وہ دوسری ہستی مجھ سے بھی پیار کرے مجھ سے ہمکلام ہو، مجھ سے باتیں کرے.قرآن کریم نے یہ دروازے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل امت مسلمہ کے لئے کھلے رکھے ہیں.دوست خدا بنتا ہے.پیار کرتا ہے اور یہ تو مہربانی ہے خدا کی کہ اپنے عاجز بندوں سے وہ پیار کرتا اور اس سے دوستانہ سلوک روارکھتا ہے اور اس مہربانی کے نتیجہ میں وہ ان کی مدد کو آتا ہے ان کی نصرت کرتا ہے وہ ان کے دکھوں کو دور کرتا ہے وہ ان کو جب آزماتا ہے تو ان کی شان کو بلند کرنے کے لئے وہ آزمائش ہوتی ہے.جب وہ امتحان میں پاس ہوتے ہیں تو ان کو اس قدر انعام ملتا ہے کہ دنیا کا دماغ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا.تو ہر لحاظ سے وہ اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے وہ کہتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں اس واسطے کسی سے تم نے گھبرانا نہیں کسی کی طرف تم نے ہاتھ نہیں بڑھانا.مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.وہ کہتا ہے کہ جب میں تمہیں آزماؤں تو گلے شکوے نہیں کرنے میں نے تمہارا امتحان لینا ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو اس دعوئی میں تم سچے ہو یا نہیں.تو پہلا سبق اے میرے عزیز بچو ہمیں قرآن کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ دیا جو آج حضرت مہدی علیہ السلام نے ہمارے سامنے دہرایا اور تاکید کی اس بات کی کہ اس سبق کو کبھی اپنی زندگی کے ایک لحظہ کے لئے بھی بھولنا مت وہ یہ ہے کہ خدائے واحد و یگانہ پر ویسا ایمان رکھو جیسا ایمان قرآن عظیم کی شریعت ہمیں کہتی ہے کہ رکھو.قرآن کریم نے کھول کے بیان کیا.آپ کے اسباق کے اندر ممکن ہے تفاصیل آئیں اس کی ممکن ہے نہ آئیں.بعض باتیں میں نے بیان کر دیں بعض آپ سیکھتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھیں گے آپ کے سامنے آجائیں گی.اسلام کا دوسرا سبق جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا، اس زمانے میں دنیا
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۷۳ خطبہ جمعہ ۷ ۱۷۲ پریل ۱۹۷۹ء بھول گئی تھی ، وہ یہ کہ خدا کا پیار اگر حاصل کرنا ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کامل اتباع کرنی پڑے گی اور کامل اتباع کا ایک تقاضایہ بھی ہے کہ پیار کرنا پڑے گا محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے بغیر حقیقی پیار کے انسان اتباع نہیں کیا کرتا اور اس کا اعلان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ کہہ کے کیا که قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: ۳۲) قیامت تک کے انسان کو کہہ دواے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے پیار کرتے ہو حقیقی پیار اور چاہتے ہو کہ خدا بھی تم سے پیار کرے تو خدا کے پیار کو حاصل کرنے کا طریق اور خدا سے پیار کے اظہار کرنے کا طریق یہ ہے (اتَّبِعُوني ) کہ مد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا يُحبكم الله ، اللہ تعالیٰ کے پیار کو تم حاصل کر لو گے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کے جلال اور آپ کے مقام کو پہچاننا اور ہر وقت اس عظمت و جلال کو سامنے رکھ کر آپ پر درود بھیجتے رہنا یہ ایک احمدی مسلمان کا بنیادی فرض ہے، یہ دوسرا سبق ہے جو ہمیں سکھایا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے.میں صرف ایک چھوٹا سا حوالہ اس وقت آپ کو سنانا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار وو درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۷۴ خطبہ جمعہ ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۹ء ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں گے.اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.یہ جو میں نے چھوٹا سا اقتباس پڑھا اس میں جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں: نمبر ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو حید حقیقی کو قائم کرنے والے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ پر محبت کرنے والے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم انتہائی درجہ پر بنی نوع کے ہمدرد اور غمخوار ہیں.اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء پر فضیلت بخشی.اور پانچویں یہ کہ انتہائی محبت آپ نے اپنے رب کریم سے کی اور انتہائی ہمدردی اور غمخواری آپ نے بنی نوع سے کی اسلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام انبیاء پر آپ کو فضیلت بخشی اور دوسری طرف آپ کو بنی نوع انسان کے لئے حقیقی معنی میں اور یقینی طور پر محسن اعظم بنا کر بھیجا.اتنا احسان ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نوع انسانی پر کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ آپ سر چشمہ ہیں ہر ایک فیض کا.کوئی فیض بنی نوع انسان کے اندر بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس فیض کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سرچشمہ سے نہ ہو.ہر فیض ہر انسان نے ، ( فیض چھوٹا ہو یا بڑا) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی حاصل کرنا ہے اور وہ شخص جو یہ اقرار نہ کرے اور کہے کہ میں خدا تعالیٰ کے فیض کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق پیدا کئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۷۵ خطبہ جمعہ ۷ ۱۷۲ پریل ۱۹۷۹ء بغیر حامل کر سکتا ہوں اور وہ شخص جو یہ نہ کہے اور یہ اقرار نہ کرے کہ مجھے فیض باری کے حصول کے لئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے یا وہ شخص جو یہ کہے کہ میں نے جو فیض اور فضیلت حاصل کی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر حاصل کی ہے وہ ذریت شیطان ہے.نمبر 4: ہر ایک فضیلت کی کنجی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے جب تک آپ تالہ نہ کھولیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی.ہر ایک معرفت کا خزانہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالی کی طرف سے عطا ہو چکا ہے.جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی معرفت میں آگے بڑھنے کی سعی نہیں کرتا وہ محرومِ ازلی ہے.نمبر ے : ہم ہیں کیا.ہم لاشے محض ہیں.ہم کا فرنعمت ہوں گے اور ناشکرے ہوں گے اگر یہ نہ کہیں کہ زندہ خدا کی شناخت اس کامل نبی کے ذریعے ہم نے پائی اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فیضان ہے کہ آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اپنے عاجز بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس سے بڑی نعمت اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مثال دی ہے اور اس میں ساری باتوں کا خلاصہ بیان کر دیا ہے.وہ مثال یہ ہے کہ آپ آفتاب ہدایت ہیں.یعنی ہدایت کا ایک سورج ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جو شخص سورج کے سامنے کھڑا ہوگا اس پر اس کی شعاعیں پڑیں گی لیکن جو شخص کمرے میں داخل ہو کر دروازے بند کر دے تو وہ روشنی سے محروم ہو جائے گا.جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ادب سے کھڑا نہیں ہوگا تو وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شعاع سے محروم ہو جائے گا.آپ کی شعاع دھوپ کی طرح ہے.ہم اُس وقت تک ہی منور رہ سکتے ہیں جب تک ہم آپ کے سامنے کھڑے رہیں اور ہم پر آپ کی شعاع پڑتی رہے.آپ سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنے والے خدا کے غضب کو بلانے والے ہیں اور جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے یعنی عبد بننے کے لئے اس مقصد میں ناکام ہونے والے ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۷۶ خطبہ جمعہ ۷ ۱۷۲ پریل ۱۹۷۹ء پس دوسرا بنیادی سبق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ہدایت ہیں اور یہ محض فلسفہ یا لفاظی نہیں ہے بلکہ امت محمدیہ میں کروڑوں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع خلوص نیت اور اخلاص سے کر کے آپ کے نور سے روشنی حاصل کی اور اپنے آپ کو منور کیا اور تمام نعمتوں کو پایا.پس اے میرے بچو! ابھی سے یہ عزم کرو کہ تم روحانی ترقی کے ان دروازوں سے داخل ہو کر جو خدا نے اسلام کے ذریعہ کھولے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منور ہو گے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہو گے.خدا کرے کہ آپ کے لئے بھی یہی مقدر ہو اور ہمارے لئے بھی یہی مقدر ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم 122 خطبہ جمعہ الارمئی ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ ہر چیز کی طاقتوں کو بتدریج بڑھاتا اور معراج تک لے جاتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۱ مئی ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا رب ، رب العالمین ہے، جو چیز بھی اس نے پیدا کی ، اس کی وہ ربوبیت کرتا ہے اور بتدریج اس کی طاقتوں کو بڑھاتا ہے اور اس کے معراج تک اسے لے جاتا ہے.اور اس کی صفت رحمانیت کا تعلق اس کی ہر مخلوق سے ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کہا گیا ہے.اس کی رحمانیت کے جلوے ہر مخلوق پر ظاہر ہوتے ہیں.ان کو وہ سہارا دیتے ہیں اور ان کے اندر وہ صفات پیدا کرتے ہیں جو وہ پیدا کرنا چاہتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی عالمین کی ربوبیت کی صفت کا جلوہ نظر آتا ہے اور آپ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ بھی ہیں.آپ کی رحمت کی وسعت عالمین پر پھیلی ہوئی ہے.اس کا ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان اور غیر انسان ہر دو سے ہے.ہمارے محبوب رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں لیکن اس رحمت کا ایک تعلق جو ہے وہ صرف انسان سے ہے اور چونکہ آپ کی بعثت کے وقت نوع انسانی کی طاقتیں اور استعداد یں بتدریج ارتقائی مدارج میں گزرنے کے بعد اپنے عروج کو پہنچ چکی تھیں.اس لئے آپ ایک کامل
خطبات ناصر جلد ہشتم IZA خطبہ جمعہ ۱۱ رمئی ۱۹۷۹ء اور مکمل شریعت لے کر آئے.پہلوں نے بھی آپ ہی کی رحمت سے حصہ لیا اور آپ ہی کی تعلیم کا ایک حصہ ان کو دیا گیا اور اُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتب ( ال عمران : ۲۴) کا اعلان ہوا ہے قرآن کریم میں.لیکن آپ کی بعثت کے ساتھ شریعت کے مخاطب کی شکل بدل گئی.آپ سے قبل آپ ہی سے فیض پاکر انبیاء جو علیمیں دنیا کی طرف لائے وہ مختص الزمان بھی تھیں مختص المکان بھی تھیں اور مختص القوم بھی تھیں.وہ ہمیشہ کے لئے نہیں تھیں وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھیں ، ساری قوموں کے لئے نہیں تھیں لیکن جب کامل شریعت انسان کے ہاتھ میں دی گئی تو شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے کمال کو پہنچی.اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة: ٢) کا اعلان ہوا.یہ مختص الزمان ہے، مختص المکان، ب مختص القوم ہر مکان کے لئے ، سارے ملکوں کے لئے ، ساری اقوام کے لئے اور ہر زمانہ کے لئے، قیامت تک کے لئے یہ شریعت ہے.بنی نوع انسان نے آپ کی اس رحمت کے جلوے روحانی بھی اور مادی بھی ان لوگوں کے ذریعہ دیکھنے تھے جو آپ سے فیض یافتہ ہوتے تھے یعنی اُمت محمدیہ کا وہ گروہ و حصہ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کرنا تھا اسی نے آگے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض پہنچانا تھا.اس لئے ہمیں کہا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک ایسی امت تربیت پائے گی جو اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ) تمام انسانوں کی بھلائی کے لئے ہے اخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سے بھی یہ پتا لگتا ہے کہ انسان اپنی قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے معراج کو پہنچ چکے اور انہیں ایک کامل اور مکمل شریعت کی ضرورت تھی اور دوسرے یہ کہ وہ کامل اور مکمل شریعت قرآن کریم کی صورت میں نازل ہو چکی اور تیسرے یہ کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنے مقام کو پہچانیں گے اور قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہوں گے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل متبعین، اس آیت کے مطابق جس میں کہا گیا تھا کہ خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے تو فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران (۳۲) میری اطاعت کرو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے تو خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے بنی نوع انسان کو دکھانے لگ جاؤ گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مظہر بن جاؤ گے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۷۹ خطبہ جمعہ ۱۱ رمئی ۱۹۷۹ء أخْرِجَتْ لِلناس ہر انسان کی بھلائی کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ہے یعنی اُمت محمدیہ کے اس حصہ پر جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے حاصل کئے اور کامل اتباع کے نتیجہ میں جس طرح خدا تعالیٰ کے مظہر محمد بن گئے صلی اللہ علیہ وسلم.یہ لوگ بھی فنافی الرسول کی حیثیت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عکس بنے اور اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے اپنے دائرہ کے اندر مظہر صفات باری بن گئے.دائرہ چھوٹا بھی ہے بڑا بھی ہے لیکن اس سے ہمیں یہ پتا لگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک اُمتِ مسلمہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس غرض کو پورا کرنے والے ہوں گے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱) بہترین امت ہو لوگوں کی بھلائی کے لئے تمہیں قائم کیا گیا ہے اور بہترین اُمت بننے کے لئے قرآن کریم پر پوری طرح عمل کرنا اور قرآن کریم کے فیوض سے پورا حصہ لینا اور کامل اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرناضروری ہے.اُمت محمدیہ میں قیامت تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جوان بشارتوں کے وارث ہوں گے جو قرآن کریم نے اُمت محمدیہ کو دیں جس کے ساتھ شرط یہی ہے کہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اور وہ نمونہ بنیں گے.اس پاک نمونہ کو ظاہر کرنے کے لئے جو کامل نمونہ اُسوہ حسنہ بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا صلی اللہ علیہ وسلم.ہر صدی میں، ہر نسل میں، ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہونے چاہیے تھے.اس اعلان کے بعد جن کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا کیا گیا اور جنہوں نے اپنی اس محبت کے نتیجہ میں انتہائی کوشش کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیارا نہیں حاصل ہوا.جس کے نتیجہ میں وہ اپنے دائرہ میں فانی فی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنے.جس کی وجہ سے وہ اس بات کے اہل بن گئے کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ یہ تھا نمونہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پیش کیا اور جس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کو راہ ہدایت کے حصول کے مواقع میسر آنے لگ گئے.سارے قرآن کریم کو آپ پڑھیں جب یہ کہا گیا کہ امت محمدیہ خیر امت ہے.جو لوگوں کی بھلائی کے لئے ، دینی اور دنیوی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے.سارے قرآن کو آپ پڑھیں.ہر حکم قرآن کریم کا نوع انسان کی بھلائی کے لئے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۸۰ خطبہ جمعہ ۱۱ رمئی ۱۹۷۹ء ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو مسلم اور غیر مسلم میں فرق کرنے والا ہو.جس طرح خدا تعالیٰ کی ربوبیت نے انسان اور غیر انسان میں اور انسانوں میں سے مسلم اور غیر مسلم میں اور مؤحد اور مشرک میں فرق نہیں کیا اور اس کی رحمانیت کے جلوے سب پر یکساں ظاہر ہوتے رہے، ہوتے ہیں، ہوتے رہیں گے.جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں ایک تڑپ تھی کہ لوگوں کی بھلائی کے سامان پیدا ہوں.آپ کے ذہن میں یہ خیال بھی پیدا نہیں ہوا کبھی کہ لوگوں کو دکھ پہنچانے کا کوئی سامان پیدا کیا جائے.تاریخ انسانی کے سارے اوراق ہر ورق کا ہر لفظ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کسی انسان کی دشمنی نہیں پیدا ہوئی اور اس پر قرآن کریم کی یہ آیت گواہ ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴) ایک گروہ ہے جو مومن نہیں منکر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا انکار کر رہا ہے.جو اس تعلیم کو نہیں مانتا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے جو خدا سے منہ پھیر رہا ہے.جو عالمین کا پیدا کرنے والا اور جس کی معرفت کے دروازے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے کھولے گئے.اَلا يَكُونُوامُؤْمِنِينَ ایمان نہ لانے والا یہ گروہ ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اور ان کی فکر میں تو اپنی جان ہلاک کر رہا ہے اوراق تاریخ میں کسی کے خلاف غصہ یا دشمنی کا کوئی ایک واقعہ درج نہیں.مجھے بڑا لطف آتا ہے اس مثال سے کہ جب آپ مکہ میں تھے شعب ابی طالب میں کفار مکہ نے قریباً اڑ ہائی سال ( کم سے کم زمانہ اڑھائی سال کا تاریخ نے کہا ہے ) اس وقت کی اُمت مسلمہ کو (اس وقت وہی تھے ساری دنیا کے مسلمان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ا کٹھے ہوئے تھے ان کو وہاں ) بند کر دیا.ان کے دروازے چند دڑے تھے جو اس وادی میں جانے والے تھے وہاں پہرے لگا دیئے.اڑھائی سال تک پوری کوشش کی کہ ان کو بھوکوں ماریں.خدا تعالیٰ نے یہ انتظام تو کیا کہ وہ بھوکے نہ مریں لیکن خدا تعالیٰ نے اس عظیم قوم متبعین رسول خدا کی شان ظاہر کرنے کے لئے یہ انتظام نہیں کیا کہ وہ سیر ہو جایا کریں.بھوک کی انتہائی تکلیف انہوں نے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۸۱ خطبہ جمعہ ۱۱ارمئی ۱۹۷۹ء برداشت کی.خدا نے ان کو مرنے نہیں دیا لیکن بھوک کی انتہائی تکلیف کے امتحان میں سے گزار کر ان کا امتحان لیا.اس قدر کہ ایک بزرگ صحابی کہتے ہیں کہ ہماری یہ حالت تھی کہ رات کے اندھیرے میں ایک رات میری بھوتی کسی ایسی چیز پر پڑی کہ میں نے محسوس کیا کہ یہ کوئی نرم چیز ہے.میں جھکا.میں نے اٹھایا.میں نے کھالیا اسے اور مجھے آج تک نہیں معلوم کہ وہ تھی کیا چیز جو میں نے اٹھائی اور کھالی.اس قدر شدید دکھ بھو کے رہنے کا اور ایذا آپ کے دشمنوں نے پہنچائی لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کی ، اپنے محبوب ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے ایسے سامان پیدا کئے کہ ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے مکہ میں قحط پڑا اور وہی مخالف جو مسلمانوں کو بھوکا مارنے کے منصوبے بناتے تھے، انہوں نے دیکھا کہ الہی منصوبہ ان کو گھیرے میں لے رہا ہے اور بھوک سے مرنے کے سامان ان کے لئے پیدا ہورہے ہیں.انہوں نے پیغام بھیجا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہ کیا اپنے بھائیوں کو بھوکا مارنے دو گے؟ اور جس نے اڑھائی سال تک بھوک کی تکلیف اٹھائی تھی اس نے ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی اور پیغام سنتے ہی حکم دے دیا کہ ان کے لئے سامان بھیجنے کا انتظام کرو اور ان کے لئے غذا کے بھجوانے کا انتظام کیا.کچھ وقت لگا ہوگا بھجوانے میں.وہ تو درست ہے لیکن اسی وقت سنتے ہی آپ نے کہا کہ انتظام کیا جائے ، ان کو بھوکا نہیں رہنے دیں گے.قرآن کریم کی تعلیم مسلمان کو کوئی ایک سبق بھی یہ نہیں دیتی کہ کسی سے دشمنی کرنی ہے، کسی کو ایذاء پہنچانی ہے، کسی کو دکھ دینا ہے، کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانی ہے یاد کھ سے اُسے بچانے کی کوشش نہیں کرنی.شروع سے لے کر آخر تک اتنی پیاری تعلیم ہے یہ.اتنی عظیم اور اتنی حسین ہے یہ تعليم كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اس لئے میں اپنے چھوٹے بچوں ، نو جوانوں، خدام اور بھائیوں کو اور بہنوں کو کہتا ہوں کہ یہ اسلامی تعلیم ہے، اپنی زندگیاں اس کے مطابق بناؤ.ساری دنیا سمجھے کہ وہ تمہاری دشمن ہے لیکن تم کبھی یہ نہ سمجھو کہ کوئی ایک انسان بھی ایسا ہے جس کے تم دشمن ہو.تم کسی کے دشمن نہیں ہو.تم ہر ایک کے خیر خواہ ہو.تم ان کے دکھوں کو دور کر نے والے ہو.قربانیاں دے کر ( مالی، وقتی) اور اگر تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو نہ مال، نہ دولت تب بھی جو سب سے بڑا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۸۲ خطبہ جمعہ ۱۱ رمئی ۱۹۷۹ء ہے.ہر دو جہاں کا خالق و مالک اس کے حضور جھک کر دعائیں کر کے ان کے دکھوں کو دور کرنے والے بنو.جولوگ خدا سے دور جا رہے ہیں دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان کے اوپر کھلیں اور وہ جو اندھیروں میں بسنے والے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے نور کے اندر آ جائیں اور جو مُردہ ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طفیل زندہ ہو جائیں اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے تم بھی خدا سے کہو کہ اے خدا ! جو روحانی مُردے ہیں ان کو زندہ کر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ عرب کی حالت ایک مردہ قوم کی سی تھی ، وہ زندہ ہو گئی اور کس شان کی زندگی.زندگی کے ایسے آثار کہ دنیا میں کسی قوم میں زندگی کے وہ آثار نہیں دیکھے گئے.یہ سب اندھیری راتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متضرعا نہ دعاؤں کا کرشمہ تھا تو یہ نہ سمجھو تم کہ ہم غریب ہیں، دولت خرچ کر کے انسان کے دکھوں کو کیسے دور کریں.ہم تھوڑے ہیں.ہم خدمت کر کے لوگوں کی تکلیفوں کو کیسے دور کریں.اللہ کا درایک ایسا ڈر ہے جو تمہارے لئے کھلا ہے.ایک ایسا ڈر ہے جس کے کھلے ہونے کی علامتیں تم اپنی زندگی میں دیکھتے ہو اور محسوس کرتے ہو اور مشاہدہ کرتے ہو.اس دَر پر حاضری دو.اس واحد و یگانہ کے حضور جھکو.اللہ تعالیٰ سے یہ کہو کہ اے خدا! تو رب العالمین.تُو نے اعلان کیا رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ تُو نے اپنے پیارے کو بھیجا جس کے حق میں تُو نے اعلان کیا.رَحْمَةٌ لِلعلمین ہے وہ.تو نے ہمیں اس کی اُمت بنایا.تو نے کہا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہمارے اوپر یہ لیبل لگا دیا.ہم کمزور، ہم غریب ، ہم دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں.ہمیں اپنے دروازے سے مت دھتکار اور ہماری دعاؤں کوسن اور نوع انسانی کو تو فیق دے کہ وہ اپنے محسن کو پہچانے اور اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور اس دنیا کے دکھوں سے نجات حاصل کرے.اس دنیا کی جنتیں ان کے لئے پیدا ہوں اور مرنے کے بعد کی جنتیں ان کے نصیب میں ہوں اور ہمارے نصیب میں بھی ہوں.خدا کرے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۵ جولائی ۱۹۷۹ ء صفحه ۳ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۸۳ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۹ء حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم اُسوہ کی شکل میں مبعوث کیا گیا خطبه جمعه فرموده ۱۸ مئی ۱۹۷۹ء بر مکان صاحبزادہ مرز امنیر احمد صاحب چپ بورڈ فیکٹری.جہلم تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام کے معنے ہیں امن اور سلامتی اور اسلام اس غرض سے آیا ہے کہ انسانوں میں امن کے حالات اور سلامتی کے حالات پیدا کرے.اس غرض کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم اُسوہ کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا اور اس غرض کے لئے سب سے پہلے امت محمدیہ میں امن اور سلامتی کا ماحول پیدا کیا گیا اور اس طرح پر اس اُمت کو نوع انسان کے لئے ایک نمونہ بنایا گیا.اسلام کہتا ہے کہ آپس میں محبت اور پیار کے ساتھ زندگی گزارو.سارے لڑائی جھگڑے ختم کر دو.زندگی کی تلخیاں مٹاڈالو اور امن کی اور اخوت کی اور دوستی کی فضا پیدا کرو.اسلام نے سارے جھگڑوں کو مٹانے کا حکم بھی دیا اور سارے احکام ایسے اسلام نے دیئے ہیں جن کے نتیجہ میں کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو سکتا ہے نہ قائم رہ سکتا ہے.ہمارے آپس کے باہمی بہت سے تعلقات ہیں.میاں بیوی کے تعلقات ہیں.ماں باپ کے تعلقات ہیں، بھائی بہنوں کے تعلقات ہیں ، بہنوں بہنوں اور بھائیوں بھائیوں کے تعلقات
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۸۴ خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۷۹ء ہیں ، ہمسائیوں کے تعلقات ہیں، قبیلے کے تعلقات ہیں، شہریوں کے جو ایک ہی ملک کے رہنے والے ہیں ان کے آپس کے تعلقات ہیں.پھر بین الاقوامی تعلقات ہیں ، ہر شعبہ زندگی کے متعلق حکم یہ ہے کہ لڑنا نہیں.جھگڑے کی فضا پیدا نہیں کرنی.تمام معاملات کو پیار اور محبت کے ساتھ طے کرو مگر محض فلسفہ اور وعظ اور نصیحت ہی نہیں اسلام.بلکہ اسلام ہماری زندگیوں میں عملاً ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر کے مسلمان کی زندگی میں امن کے حالات پیدا کرتا ہے.ہر حکم جو دیا اسلام نے وہ امن پیدا کرتا ہے.وہ سلامتی پیدا کرنے والا ہے.وہ جھگڑوں کو دور کرنے والا ہے.وہ فسادات کو مٹانے والا ہے.اس کی تفصیل لمبی ہے، وسعتیں رکھنے والی ہے.اسلام کا ہر حکم جھگڑے دور کرتا اور پیار کو پیدا کرتا ہے اور جتنا ہم تفصیل میں جائیں اور اس پر غور کریں، یہ حسین تعلیم ، یہ نہایت ہی اچھی اور روشن تعلیم ابھر کے ہمارے سامنے آتی ہے.آج میں نے مختصر خطبہ دینے کا ارادہ کیا تھا.پس یہ بنیادی بات آپ کو جو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ کے ذریعہ سے ساری جماعت کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے سارے جھگڑے عملاً مٹادیئے ہیں اور سارے احکام جھگڑے مٹانے والے دیئے اور پھر کہا ان پر عمل کرو ، جھگڑے ختم ہو جا ئیں گے.جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے احکام پر عمل کرے اور ہر قسم کی تلخیوں کو اپنی زندگی اور اپنے ماحول سے مٹانے کی کوشش کرے.اللہ نے توفیق دی تو انشاء اللہ اس کی تفصیل کے بہت سے پہلو ہیں جو جماعت کے سامنے میں بعد میں رکھوں گا اس وقت اسی پر اکتفا کرنا چاہتا ہوں کہ جھگڑوں کو آپ مٹادیں.آئندہ میں بتاؤں گا جوں جوں مجھے تو فیق ملتی رہی کہ یہ جو مختلف قسم کے تعلقات ہیں ان کو کس حسین ملاپ میں، بندھن میں جوڑا اور باندھا ہے.انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے کہ ہم دنیا کے لئے اس حسین اور امن والی تعلیم کا نمونہ بنیں اور آپس کی ساری رنجشوں کو دور کر نے والے بن جائیں اسی کی توفیق.سے.روزنامه الفضل ربوه ۵ / جولائی ۱۹۷۹ ء صفحہ ۲) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۸۵ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء ہم دنیا کا مقابلہ مادی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ صرف دعاؤں سے کر سکتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء بر مکان صاحبزادہ مرزا امنیر احمد صاحب.جہلا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعت کے احباب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہیں کیا چیز ؟ کس جماعت کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان کے فرائض کیا ہیں ان سے توقعات اللہ تعالیٰ کیا رکھتا ہے اور ان سے وعدے کیا کئے گئے ہیں.اس وقت اسلام دشمن طاقتیں دنیوی لحاظ سے بڑی مضبوط ہیں.ان کو ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں.ایک وہ جود ہر یہ ، ایک وہ جو کسی مذہب کی طرف منسوب ہونے والے ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ کسی مذہب پر ایمان رکھتے ہیں جو د ہر یہ ہیں وہ بھی آگے کئی قسم کے ہیں.ایک وہ دہریہ ہے جو خدا تعالیٰ کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کر رہا اور بڑی طاقت میں ہے وہ.مثلاً روسی اشتراکیت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹادے گی.بہت بڑا دعوی ہے جو انہوں نے کیا.آسمانوں تک ان کی رسائی نہیں لیکن آسمانوں سے خدا کے وجو د کومٹانے کا وہ دعوی کرتے ہیں.ایک وہ دہر یہ ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا کو مانتے ہیں.مگر وہ نہ اس کی ذات کا صحیح علم رکھتے
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۸۶ خطبه جمعه ۲۵ مئی ۱۹۷۹ء ہیں نہ اس کی ذات کی معرفت انہیں حاصل ہے.کئی ایسے ہیں جو بعض صفات باری کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے.اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے قرآن کریم میں بار بار کہا کہ جو میرے منصوبے ہیں.مَا أَنتُم بِمُعْجِزِینَ (الانعام : ۱۳۵) تم ان منصوبوں میں مجھے نا کام نہیں کر سکتے.ایسے بھی ہیں جو خدا کو مانتے بھی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی معرفت نہیں رکھتے اس کی عظمت اور جلال سے کماحقہ واقف نہیں ہیں.ایک لحاظ سے وہ مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے لحاظ سے ان کا تعلق دہریت سے بھی ہے کیونکہ جس حد تک وہ خدا تعالیٰ کی کسی صفت کا صحیح علم نہیں رکھتے یا اس کا انکار کرتے ہیں.اس حد تک وہ دہر یہ ہو جاتے ہیں.مذاہب دنیا میں مختلف پائے جاتے ہیں.اس وقت زوروں پر جو مذہب ہیں ان میں نمبر ایک عیسائیت ہے جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ساری دنیا میں اسلام کے مقابلے پر نبرد آزما ہے وہ اسلام کو مٹانے کی ، مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے.مختلف دجل ہیں جن کو وہ استعمال کرتی ہے.دلائل تو ان کے پاس نہیں ہیں لیکن انسان کی کمزوریوں اور بعض مسلمانوں کی اسلام کی تعلیم سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ ان کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.لالچ دیتے ہیں.بہت سے دوسرے ہتھکنڈے ہیں جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں.بہر حال عیسائیت اس وقت مخالف اسلام طاقتوں میں ( جو مذہب سے تعلق رکھنے والی ہیں ) سب سے بڑی طاقت ہے.اس کے علاوہ مختلف مقامات پر دوسرے مذاہب ہیں مثلاً ہندوستان میں ہندو مذہب ہے.بعض علاقوں میں بدھ مذہب ہے.بعض علاقوں میں مثلاً جاپان ہے.وہاں مذہب ہے لیکن بہت سارے فرقوں کو ملا کر انہوں نے ایک مذہب بنالیا ہے.ان کے متعلق مشہور ہے کہ جس وقت وہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک تعلیم کے مطابق اس کی رسومات ادا کی جاتی ہیں یعنی غیر مسلم فرقے جو ہیں بدھ مذہب وغیرہ سے تعلق رکھنے والے ان کی رسومات تو ایک فرقے کی تعلیم کی رسومات ادا کی جاتی ہیں پیدائش کے وقت اور بالکل دوسرے فرقہ کی تعلیم کے مطابق رسومات ادا کی جاتی ہیں اس کے مرنے پر.تو ایک جاپانی سارے فرقوں کا ممبر بن جاتا ہے.وہ مذہب کی حیثیت ایک کلب کی سمجھتے ہیں.جس طرح جہلم میں پانچ دس مختلف کلبیں بنی ہوئی ہیں.کوئی ٹینس
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۸۷ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء کھیل رہی ہے کوئی ہاکی ، کوئی کچھ، کوئی کچھ ، اسی طرح بعض دوسری کلمبیں ہیں جہاں بیٹھ کر لوگ چائے پیتے اور گپیں ہانکتے ہیں.مجھے نہیں پتا جہلم کا اسی لئے میں نے کہا اگر کہیں ہوں وہاں لا ہور کا تو مجھے پتا ہے بہت ساری کلبیں ہیں وہاں.تو ایک شخص ہر ایک کلب کا ممبر بن سکتا ہے.اسی طرح جاپان میں ہر جاپانی ہر مذہب کا ممبر بن جاتا ہے کیونکہ مذہب کی جو بنیادی حیثیت ہے اس سے وہ واقف نہیں رہا.بہر حال میں بتایہ رہا ہوں کہ اسلام کے مقابلہ میں جو زبر دست طاقتیں ہیں.ان میں دہریت اور عیسائیت اور بعض دوسرے چھوٹے مذاہب ہیں اور دہریت کے بھی مختلف فرقے ہیں.دنیوی لحاظ سے یہ ساری طاقتیں جو ہیں اسلام کے خلاف بڑی مضبوط ہیں.اس میں کوئی شک نہیں.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دہر یہ اشترا کی اور سوشلسٹ جو ہیں وہ کمزور ہیں اور دنیوی کوئی طاقت انہیں حاصل نہیں تو وہ یا بالکل سادہ بچہ ہوگا یا پاگل ہوگا.اس حقیقت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ جو خدا کے دشمن دہر یہ ہیں.ان کو دنیوی لحاظ سے آج بڑی طاقت نصیب ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عیسائی بھی بڑی طاقت ہیں ایک وقت میں تو ساری دنیا پر حاکم تھے وہ زمانہ گذر گیا لیکن اب بھی بڑی طاقت ہیں وہ.بڑا اثر ہے ان کا.پرانے جو اثرات ہیں وہ بہت سی جگہوں پر قائم ہیں.میں نے پہلے بھی بتا یا اس جلسے پر ایک دوست زمبیا سے آئے تھے وہ کہنے لگے کہ زمبیا میں جو مشرقی افریقہ کا ایک ملک ہے تنزانیہ کے پہلو میں، وہاں ایک مسلمان بھی نہیں.وہ خود وہیں سے آئے تھے.میں نے کہا ہاں ایک بھی مسلمان نہیں.تم کہاں سے آگئے ہو کہنے لگا میں زمبیا کا رہنے والا نہیں میں زائر کا رہنے والا ہوں.میرے ماں باپ بھی زائر میں ہیں میرے بیوی بچے بھی زائر میں ہیں میں کام کے سلسلے میں وہاں آیا ہوا تھا وہاں مجھے احمدیت سے واقفیت حاصل ہوئی اور میں احمدی ہو گیا اور جلسے پر یہاں آگیا ہوں.پھر وہ کہنے لگے کہ اصل باشندے زمبیا کے جو ہیں ان میں ایک بھی مسلمان نہیں رہا تھا یہاں تک کہ جماعت احمدیہ نے وہاں تبلیغ شروع کی اور اس وقت غالباً ڈیڑھ ہزار کے قریب مقامی باشندوں میں سے پھر واپس اسلام کی طرف آچکے ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۸۸ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء جماعت احمدیہ کی کوششوں میں اللہ تعالیٰ نے جو برکت ڈالی اس کے نتیجہ میں وہ آئے.ورنہ وہاں ایک بھی نہیں رہا تھا اتنی زبر دست یلغار اس علاقہ میں عیسائیت نے کی تھی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں بڑی مضبوط ہیں بڑی اثر والی بھی ہیں.دولتیں بھی انہوں نے سمیٹ لیں.سائنس میں بھی ترقیات کیں، چاند پر پہنچ گئے.دوسرے ستاروں کی خبر میں لانے لگے.یہا اپنی جگہ درست لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانہ میں اس دنیا کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی فرزند کی حیثیت میں اس لئے بھیجا کہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے.اکیلے تھے پہلے آپ پھر خدا تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں زیادتی ہونی شروع ہوئی، وہ بڑھنے شروع ہوئے وہ پھیلنے شروع ہوئے وہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھیلے، پھر ہندوستان میں پھیلے، پھر باہر نکلے، پھر ساری دنیا میں پھیل گئے لیکن اب بھی باوجود اس کے کہ وہ ایک، ایک کروڑ بن گئے.دنیا کی آبادی کے لحاظ سے تعداد میں اور اثر ورسوخ کے لحاظ سے ( کہ کسی جگہ بھی طاقت نہیں) اسی طرح مال کے لحاظ سے غریب جماعت، بڑی غریب جماعت ہے، یہ اپنی جگہ درست ہے لیکن بعثت کی غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے؟ انسان سوچتا ہے کہ یہ ہوگا کیسے؟ اس حالت میں ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی اُسوہ ہے.تیرہ سال آپ نے مکہ میں گزارے.دنیا کا تو پوچھنا ہی کیا خود مکہ کے روساء میں بھی کوئی اثر نہیں تھا.تیرہ سالہ کی زندگی تھی.مظلومیت کی زندگی اور غربت کی زندگی اور بے کسی کی زندگی اور دشمن کی زبان سے ایذاء سننے کی زندگی اور ان کے ہاتھوں سے دکھ اٹھانے کی زندگی اور ان کے منصوبوں سے فنا ہو جانے کے امکانات کی زندگی.یعنی وہ یہ منصوبے بنارہے تھے کہ یہ چند آدمی ہیں ان کو ختم کر دو اسلام ختم ہو جائے گا.اس وقت جو ذہنی کیفیت یقین کی اور خدا تعالیٰ پر اعتماد کی اور اس کے وعدوں پر اعتبار کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مٹھی بھر ساتھیوں کی تھی وہ ذہنی کیفیت اس زمانہ میں جس میں میں اور آپ زندہ ہیں ہر احمدی کی ہونی چاہیے.یہ درست ہے کہ دشمن ظاہری طاقت، ظاہری غلبہ، ظاہری مال و دولت میں اتنا امیر اور اقتدار والا ہے ہم مقابلہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۸۹ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء نہیں کر سکتے.بالکل مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ تو درست ہے اپنی جگہ لیکن یہ بھی درست ہے کہ باوجود اس کے ہم مقابلہ نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ اس مقصد میں ہمیں کامیاب کرے گا جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ کو کھڑا کیا گیا ہے.فرینکفرٹ میں میں نے پریس کانفرنس والوں کو یہ کہا کہ آئندہ سو، ایک سو دس سال میں ساری دنیا میں اسلام غالب آجائے گا.حیران ہو کر دیکھا انہوں نے مجھے کہ یہ شخص کیا کہتا ہے؟ ویسے میرے سامنے بڑے ادب سے، احترام سے بیٹھے ہیں یہ سارے.سنی بات، کوئی اثر نہیں لیا.پھر میں نے ان کو کہا دیکھو میں بغیر دلیل کے نہیں بات کر رہا.میرے پاس ایسی دلیل ہے جس کو تم سمجھ جاؤ گے اور میرے پاس یہ دلیل ہے کہ نوے سال پہلے آج سے قریباً.مدعی جو تھا اس بات کا کہ اسلام غالب آئے گا اس زمانہ میں وہ اکیلا تھا.اس کے گھر والے اسے پہچانتے نہیں تھے اور بعض دفعہ اس کی سگی پھوپھیاں اور خالائیں وغیرہ اسے کھانا دینا بھول جاتی تھیں کیونکہ وہ مسجد میں بیٹھا قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوتا تھا.یعنی ان کی نگاہ میں فرد ہی نہیں تھا وہ.اپنے گھر کا فرد ہی نہیں یا در بہتا تھا ان کو.یہ حالت تھی.کوئی نہیں پہچانتا تھا اور خدا تعالیٰ کی آواز جو اس کے کان میں آئی یہ تھی کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور اسلام کو تیرے ذریعہ سے غالب کروں گا اور جو اسلام سے باہر رہ جائیں گے ان کی حیثیت چوڑھے چماروں کی طرح ہوگی.یعنی بہت بھاری اکثریت انسان کی اسلام کے اندر داخل ہو جائے گی.میں نے کہا وہ اکیلا شخص پچھلے نوے سال میں دس ملین ، یعنی ایک کروڑ بن گیا، تو اگر تم یہ سمجھو کہ اس ایک کروڑ کا ہر ایک اگلے ایک سو دس سال میں ایک کروڑ بن جائے تو کیا تعداد بنتی ہے تو ایک ثقہ سا صحافی تھا ادھیڑ عمر کا بڑا اچھا سمجھدار.میں نے اسے کہا ذرا ضرب لگا کر تو دیکھو.وہ سمجھا میں ویسے ہی اپنی باتیں کرتے ہوئے پر یس کا نفرنس سے مخاطب ہوں اور میں بات کہہ گیا ہوں تو اس نے سنا اور ضرب نہ دی کروڑ کی کروڑ کے ساتھ.میں نے کہا میرا دل کرتا ہے، میری یہ خواہش ہے کہ آپ ایک کروڑ کو ایک کروڑ سے ضرب دیں اور میری خاطر آپ یہ تکلیف برداشت کریں.اس طرح جب میں نے اس کو کہا تو اس نے پھر ضرب دی.جب اس نے ضرب لگائی تو اس نے سمجھا ضرب ٹھیک نہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ١٩٠ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء لگی.پھر اس نے کاٹ دی.میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا.پھر اس نے دوبارہ ضرب لگائی پھر وہ مسکرایا.اس نے منہ اٹھا کے مجھے دیکھا.کہنے لگا دنیا کی تو اتنی آبادی نہیں ہے.میں نے اسے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اتنی تعداد میں مسلمان ہو جائیں گے.میں تمہیں یہ کہہ رہا ہوں کہ جب ایک شخص نوے سال میں کروڑ بن گیا تو اس کروڑ میں سے ہر ایک کروڑ بن سکتا ہے، غیر ممکن نہیں ہے یہ اور اس سے میں یہ استدلال کرنا اور یہ بات تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ جو دعویٰ ہے کہ اکثریت بنی نوع انسان کی اسلام میں داخل ہو چکی ہوگی اگلی صدی میں اور یہ جو میں آپ کو بار بار کہتا ہوں اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے، ایک سو ایک سو دس سال کے اندر بھاری اکثریت انسانوں کی اسلام میں داخل ہو چکی ہوگی ، یہ بغیر دلیل کے محض ایک مبالغہ آمیز بیان نہیں ہے.اس کے پیچھے ایک بڑی زبردست دلیل ہے اور وہ دلیل ہے ایک شخص کا ایک کروڑ ہو جا نانوے سال کے اندر.اس دلیل نے اتنا اثر کیا کہ وہاں جو نمائندے بیٹھے ہوئے تھے پریس کے انہوں نے اور خاص طور پر اس شخص جس نے ضر میں لگائی ہوئی تھیں، اپنی زبان میں کہا.انہوں نے کمپیوٹر کی زبان میں ہمیں سمجھایا ہے کہ اسلام غالب آ جائے گا.آپ کو میں یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ ان لوگوں کے دلوں میں ایک یقین تھا، وہ اندھے نہیں تھے ، وہ بیوقوف نہیں تھے، بڑے صاحب فراست تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے اور آپ کی تربیت میں آگئے تھے.یہ وہ جانتے تھے کہ جو اس وقت وہ کھڑے ہو کر اس طرح نماز بھی نہیں پڑھ سکتے تھے جس طرح آج ہم یہاں جمع ہو گئے ہیں.چھپ چھپ کے نمازیں پڑھ رہے تھے لیکن ان کو یہ پتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور جو باتیں یہ خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ واقع ہیں خدا نے کہی ہیں اور خدا بڑی طاقتوں والا ہے اور جو وہ کہتا ہے وہ ہو گا.یعنی کوئی ظاہری صورت نہیں ہے ان باتوں کے ہونے کی لیکن خدا کہتا ہے اس واسطے ہو جائیں گی اور پھر ان کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی اور ابھی آٹھ سال نہیں گزرے تھے ہجرت کو کہ وہی رؤسائے مکہ جو یہ سمجھتے تھے کہ ہم اسلام کو دنیا سے مٹادیں گے، شعب ابی طالب میں اڑھائی سال کے قریب بھوکا مارنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۹۱ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء کے وقت ) مکہ سے باہر خیمہ زن ہوئے تو ان میں اتنی جرات نہیں تھی، اتنے حالات بدل گئے تھے اس وقت ، اتنا خوف طاری تھا ان کے ذہنوں پر خدا تعالیٰ کی عظمت کا کہ اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی میان سے تلوار نکالتے اور لڑ کر اپنی دشمنی کا فیصلہ کرتے.بغیر لڑنے کے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے.وہ جانتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے انقلابی تبدیلیوں کے بعد عرب میں اس قابل بنا دیا ہے کہ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہیں کریں ہمارے ساتھ.لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا کہتا ہے کہ اے مکہ والو! محمد تمہیں بلا رہے ہیں ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی طرف آجاؤ کیونکہ وہ تمہیں زندہ کرنا چاہتے ہیں، مارنا نہیں چاہتے.تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ، آپ کی بعثت کا مقصد جو تھا وہ زندہ کرنا تھا، مارنا نہیں تھا.اگر چاہتے تو ایک مرد، ایک عورت ، ایک بوڑھا، ایک جوان ، ایک بچہ بھی اس دن زندہ نہ رہتا مکہ میں لیکن جو سلوک آپ نے کیا اپنے ان دشمنوں کے ساتھ جو آپ کو مٹا دینے کے لئے ہیں سال تک کوششیں کرتے رہے تھے وہ یہ تھا کہ جاوَلَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ الله لكم (يوسف : ۹۳) میں تم سے کوئی شکوہ نہیں کرتا اور خدا سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں معاف کر دے.تو ان کے ذہنوں میں (بڑا میں نے سوچا اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا دو یقینی باتیں تھیں.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی بات بہر حال پوری ہوگی.دوسرے یہ کہ ہم ان کا مقابلہ خود نہیں کر سکتے دنیوی تدبیر سے.لیکن تدبیر کرنا ہمارا فرض ہے.وہ کیا تدبیر باقی رہ جاتی ہے وہ دعا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو انقلاب عظیم بپا ہو گیا عرب کے باشندوں کی زندگیوں میں.وحشی تھے اور آداب انسانیت سے بھی نابلد تھے جو وہ بڑے اچھے انسان بن گئے ، خدا رسیدہ انسان بن گئے، با اخلاق انسان بن گئے.یہ کیوں ہوا کبھی سوچا کسی نے؟ آپ فرماتے ہیں ایک جگہ.آپ نے کہا ہے کہ یہ اس لئے ہوا ایک شخص راتوں کو اُٹھ کے ان کے لئے تضرع کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور دعائیں کرنے والا تھا اور ان
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۹۲ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء دعاؤں کے نتیجہ میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی اور اسی طرح آپ کے ماننے والے دعائیں کرنے والے تھے ان کے لئے.تو آج ہر احمدی کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اب جو اس زمانہ میں اسلام کو غالب کرنے کے وعدے دیئے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے کیونکہ یہ وعدے خدا نے دیئے ہیں.یا اگر نعوذ باللہ کو ئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اس بیان میں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدے کئے ہیں اور یہ مجھے خوشخبریاں دی ہیں اسلام کے غلبہ کی ، سچے نہیں تھے تو اس کو احمدیت چھوڑ دینی چاہیے لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ آپ سچے تھے اپنے دعویٰ میں تو جو وعدے آپ کو دیئے گئے ، اپنے لئے نہیں ہمارے لئے نہیں بلکہ وحدانیت کے قیام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں قائم کرنے کے لئے اور اسلام کے غلبہ کے لئے ، وہ یقیناً بچے ہیں.دوسرے ہر احمدی کو نظر آ رہا ہے اور اسے اپنے ذہن میں حاضر رکھنا چاہیے اس بات کو کہ ہمارے اندر یہ سکت نہیں کہ ہم ان طاقتوں کا دنیوی تدابیر سے مقابلہ کر سکیں.اور تیسرے یہ کہ جہاں دنیوی تدابیر سے مقابلہ انسان نہیں کر سکتا وہاں یہ حکم نہیں ہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاؤ اور کوئی تدبیر بھی نہ کرو.روحانی تدبیر کرو اور یہی اُسوہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ مکی زندگی میں جب کوئی دنیوی تدبیر ممکن ہی نہیں تھی اس وقت آپ نے بلا ناغہ ہر رات عاجزی کے ساتھ تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دربار میں شور مچایا اے خدا! تیرے بندے ہیں یہ بہک گئے ، پرے ہٹ گئے ، دور ہو گئے تیرے سے، تیرے غضب کے نیچے آگئے ہیں تیری قہر کی تجلی ان کو بھسم کر کے رکھ دے اگر تو چاہے.مگر تو بھی نہیں چاہتا یہ اور میں بھی نہیں چاہتا.جس غرض کے لئے مجھے بھیجا ہے تو نے وہ بتاتی ہے کہ تیرا یہ منشا نہیں.پس ان پر رحم کر.ان کے دلوں میں انقلاب عظیم بپا کر.چنانچہ وہی جو قتل کے درپے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے انہوں نے پھر اس قدر قربانیاں دیں اسلام کی خاطر کہ ان دعاؤں کے اثر کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا ایسا انقلاب.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۹۳ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء پتا نہیں آپ میں کتنے دعائیں کرتے ہوں گے.یہ ساری تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ ہر احمدی کو ہر روز تضرع کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا! تیرے یہ بندے تجھ سے دور ہو گئے اور دور چلے جارہے ہیں ، تو اپنے وعدوں کو پورا کر اور ایک انقلاب بپا کر اور ایسے سامان پیدا کر دے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے کہ یہ تیری طرف آنا شروع ہو جا ئیں اور تیرے غضب سے بچ جائیں اور تیرے پیار اور تیری رحمت کے یہ وارث بن جائیں اور یہ تیرے بندے بن جائیں ، شیطان کے بندے نہ رہیں اور بڑی کثرت سے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ واقع میں ایسا ہی کر دکھائے.یہ دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے.ہم نے جنتوں میں کچھ کئے بغیر تو نہیں جانا یہ سارا جو میں نے نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ ہر قسم کی مادی طاقت ،فوجی طاقت اور دولت ان لوگوں کے ہاتھ میں جو اسلام کے خلاف ہیں ، تو آپ ان کا کس طرح مقابلہ کریں گے؟ کیا آپ لاٹھیوں کے ساتھ ایٹم بم کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یا ساری دنیا کی دولتوں کا مقابلہ اپنی غربت کے ساتھ کر سکتے ہیں؟ بظاہر تو یہی ہے کہ نہیں کر سکتے لیکن اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے آپ مقابلہ کر سکتے ہیں.دعاؤں سے کر سکتے ہیں آپ ان کا مقابلہ.الغرض مقابلہ کر سکتے ہیں آپ دعا ئیں کر کے اپنے نفس میں ایک تبدیلی پیدا کر کے ایک نمونہ بن کر، اسلام کے حکم پر چل کر.اس کے بغیر تو آپ نہیں کر سکتے.میں افریقہ میں ایک دفعہ گیا ہوں، یورپ میں بہت دفعہ گیا ہوں خلافت میں اپنی.وہ ایک ہی سوال کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں جو تعلیم آپ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں یہ بڑی اچھی ہے، یہ بتا ئیں اس پر عمل کہاں ہو رہا ہے.یعنی قومی لحاظ سے ہلکی لحاظ سے کہاں عمل ہو رہا ہے اس تعلیم پر.انفرادی لحاظ سے آپ کہہ دیں گے کہ جی چند لاکھ احمدی ہیں پاکستان میں وہ کر رہے ہیں.کہیں دس ہزار احمدی ہے سارے یورپ میں وہ کر رہا ہے.وہ کہتے ہیں یہ بات نہیں، بتاؤ قومی لحاظ سے کہاں عمل ہو رہا ہے اس تعلیم پر.پہلے تو آپ نے اُسوہ بننا ہے، نمونہ بنا ہے اوروں کے لئے اور یہ بھی نمونہ بننا ہے کہ ہم دعائیں کریں گے.اول چیز دعا ہے.سچی بات یہ ہے کہ دعا کے بغیر تو زندگی کا مزہ ہی کوئی نہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۹۴ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء ا خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا، بڑا پیار کرنے والا ہے وہ.میری اور آپ کی زندگی کا مزہ اس دعا کے بغیر نہیں جس میں ہم محض اپنے لئے نہیں، دوسروں کے لئے خیر مانگیں خدا سے.آپ نے تبلیغ کرنی ہے.اثر نہیں ہوسکتا جب تک خدا اثر نہ ڈالے.وہ بڑے پڑھے لکھے لوگ ہیں.ایسے عجیب و غریب سوال کر دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اگر جواب نہ سکھائے تو جواب دے ہی نہیں سکتا انسان بڑے ہوشیار ہیں.بڑے چالاک ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا.پہلی دفعہ جب میں گیا تو ہالینڈ میں بڑا سخت تعصب پھیلا ہوا تھا.یہ جو جنگ ہوئی تھی مسلمان ممالک کے خلاف یہودیوں کی ، انہوں نے پراپیگینڈہ کر کے بڑا سخت تعصب اسلام کے خلاف پھیلا یا ہوا تھا.بس اللہ نے فضل کیا.مشن ہاؤس ہمارا بھر گیا صحافیوں سے.پینتیس کے قریب آئے ہوئے تھے اور جب میں نے باتیں شروع کیں تو ان پر اثر بھی ہوا.ایک بڑا تیز قسم کا کیتھولک نو جوان صحافیوں میں بیٹھا ہوا تھا.اس نے دیکھا کہ ان کی باتوں کا تو اثر ہو رہا ہے.اثر زائل کرنے کے لئے اس کے دماغ نے ایک ترکیب سوچی.اس نے یہ سوچا کہ میں اگر یہ پوچھوں کہ اس وقت تک آپ کتنے مسلمان بناچکے ہیں ہمارے ملک میں تو انہوں نے سچی بات کرنی ہے یہ کہیں گے دو ایک درجن بنائے ہیں.زیادہ تو نہیں بنائے تو اثر زائل ہو جائے گا اور ہر کوئی سوچے گا کہ یہ تو کوئی بات نہیں کہ اتنے بڑے ملک میں دو ایک درجن مسلمان ہو گئے.اس نے مجھ سے یہ سوال کر دیا کہ آپ یہ بتائیں کہ اس وقت تک ہمارے ملک میں ڈچ باشندوں میں سے کتنے مسلمان بنا چکے ہیں؟ اس نے تو اپنا ایک منصوبہ بنا یا تھا نا.خدا تعالیٰ نے اپنا منصوبہ بنایا ساری عمر میں پہلی دفعہ اس قسم کا سوال اس پس منظر میں ہوا تو خدا تعالیٰ نے مجھے جواب اسی وقت سکھایا.میں نے کہا کہ تمہارے نزدیک جتنا عرصہ حصہ حضرت مسیح زندہ رہے ( میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ کتنا عرصہ زندہ رہے کیونکہ ہمارا تمہارا اختلاف ہے اس بارہ میں میں کہتا ہوں کہ) تمہارے نزدیک جتنا عرصہ زندہ رہے اپنی ساری عمر میں جتنے عیسائی بنائے تھے انہوں نے اس سے زیادہ تمہارے ملک میں عیسائی مسلمان بنا چکے ہیں ہم.وہ تو زرد ہو گیا بالکل، کیونکہ اس کے دماغ میں منصوبہ کچھ اور تھا اس نے سنا کچھ اور سر ڈال کے بیٹھا رہا،
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۹۵ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء بات ہی نے اس نے کرنی چھوڑ دی.خیر کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد میں نے ہی اسے مخاطب کیا.میں نے کہا تم نے مجھ میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے کوئی اور سوال کرو.سوال بیچارہ کیا کرتا.پھر تو کتا ہیں خرید کر لے گیا.اب یہ تو خدا تعالیٰ نے اسی وقت میرے ذہن میں ایسا جواب ڈالا جو اس کو خاموش کرنے والا تھا اور سارے جو صحافی تھے وہ ہنس پڑے اور انہوں نے میرے جواب سے زیادہ اثر لیا.جو اثر اس نے لیا وہ تو اور تھا.اس کے چہرے پر تو نا کامی کا اثر تھا اور ان کے چہروں پر بشاشت کا اثر تھا.پھر میں نے ان کو بتایا کہ بات یہ ہے کہ اس وقت تک ہم نے جو کام کیا ہے اسے تعداد سے نہیں جانچنا چاہیے.میں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی بھی تو برات کرنی تھی نا.میں نے کہا جب الہی سلسلے شروع ہوتے ہیں تو اس وقت سر نہیں گنے جایا کرتے اس وقت دلوں میں جو آہستہ آہستہ تبدیلی ہوتی ہے، اس کو دیکھا جاتا ہے اور وہ ہم نے تمہارے ملک میں بہت پیدا کر دی ہے.ایک وقت تھا کہ لوگ گالی دیئے بغیر نام ہی نہیں لیتے تھے اسلام کا.اب وہ عزت کے ساتھ، احترام کے ساتھ اسلام کا نام لینے لگ گئے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے لگ گئے ہیں.بڑی انقلابی ذہنی تبدیلی ایک پیدا ہو گئی ہے بہر حال.تو ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ دعا کو اپنی عادت بنائے اور ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اپنی دعا کا بڑا حصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو دلوں میں گاڑنے پر خرچ کرے اور خدا سے کہے.اے خدا! دنیا کے دل تجھ سے دور ہو گئے.تجھے بھلا دیا انہوں نے.تیری معرفت حاصل نہیں انہیں ، تجھے جانتے نہیں.تیری نہ صفات کو جانتے ہیں ، نہ تیری ذات کو جانتے ہیں.مگران دلوں میں تبدیلی تو ہی پیدا کر سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا دل تمثیلی زبان میں تاکہ ہمیں سمجھ آجائے ) خدا تعالیٰ کی انگلیوں میں اس طرح ہے.انگلیوں کو ذرا حرکت دیں تو اس کا زاویہ بدل جائے گا.زاویہ بدلنے کی دیر ہے نا.وہی جو دشمن ہے وہ دوست بن جاتا ہے.وہ جو قاتل بن کے گھر سے نکلا تھا ( حضرت عمر قاتل بن کے گھر سے نکلے تھے ارادہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آج قتل کر دینا ہے ختم ہو قصہ ) وہ خلیفہ بن کر کسری اور قیصر
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۹۶ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء کی حکومتوں کو شکست دینے والا بن گیا.اتنا انقلاب عظیم آیا اس شخص میں اور کتنا اس کی قربانی کو اس کے پیار اور فدائیت کو اور اس انقلاب عظیم کو خدا نے قبول کیا.یہ میں ایک ہی آدمی کی زندگی کے دو ایک واقعات بتا رہا ہوں کہ گھر سے نکلے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے لیکن خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ دل بدل گیا اور اتنا بدلا کہ خدا کو اتنا پیارا ہو گیا وہ دل کہ ان کی خلافت میں کسری کی حکومت مٹادی گئی.قیصر کی حکومت مٹادی گئی.دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں یہ.ان کے مقابلہ میں عرب کے بدوؤں اور ان کی طاقت کا جو تناسب تھا.بظاہر وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا.اسی شخص کی خلافت کے زمانہ میں انہوں نے ( ان دو بڑی طاقتوں نے ) شکست کھائی اور وہ مٹادی گئیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلا تھا.خدا کے ہاتھ میں دل تھا.خدا نے زاویہ بدل دیا دل کا.وہ جو دشمن تھا وہ عاشق زار بن گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کشف میں کسریٰ کا سونے کا ایک زیور ایک صحابی کے ہاتھ میں دیکھا.آپ کے بعد جب مال غنیمت آیا تو وہ بھی آگیا.حضرت عمرؓ نے کہا پہنو.انہوں نے کہا مردوں کو تو سونا پہننا منع ہے.انہوں نے کہا پہنتے ہو یا نہیں میں نے تو کشف کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنا ہے.خدا کی شان ہے یہ اپنا کچھ نہیں رہا.پھر ہر سانس جو تھا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں لیا جار ہا تھا.تو یہ انقلاب آتے ہیں دنیا میں.بعض کہتے ہیں کہ جی ہم تھوڑے ہیں ، ہم طاقت میں نہیں.ٹھیک ہے، کون کہتا ہے طاقت ہے؟ یہ کون کہتا ہے تعداد زیادہ ہے ہماری کون کہتا ہے ہمارے پاس حکومتیں ہیں ، کون کہتا ہے ہمارے پاس دنیا کے خزانے ہیں ، کون کہتا ہے ہمارے پاس سارے ہیرے اور جواہرات ہیں.کوئی نہیں کہتا.لیکن میں ایک چیز کہتا ہوں اگر تم خدا کے ہو گئے تو خدا تمہارے ساتھ جو تمام خزانوں کا مالک ہے اس کے بعد کسی اور چیز کی تمہیں ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس حقیقت اور صداقت کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اس کے مطابق
خطبات ناصر جلد هشتم ۱۹۷ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۹ء بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق عطا کرے اور اسی طرح توفیق عطا کرے جس طرح صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے لئے دعائیں کیں اور اس کے ثمرات کو ، اس کے پھلوں کو انہوں نے کھایا.روزنامه الفضل ربوہ ۱۳ / جولائی ۱۹۸۰ ، صفحہ ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۱۹۹ 69 خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء اسلام امن، محبت و اخوت اور ادا ئیگی حقوق کا مذہب ہے خطبه جمعه فرموده یکم جون ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے.اسلام محبت ، اخوت ،شفقت، ہمدردی ، خیر خواہی اور ادا ئیگی حقوق کا مذہب ہے.اسلام نے ہر اس فساد کی جڑا کھیٹر کے پھینک دی جو انسان انسان میں بغض اور عداوت پیدا کرنے والی تھی اور جو فساد حقوق کی ادائیگی کے رستے میں روک بنتا تھا.اسلام کے سارے احکام میں ہی اس پیار کی ، اس حسن کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جنہوں نے سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی وحی پر عمل کیا اور ایک بہترین نمونہ بنی نوع انسان کے لئے بنے آپ کی زندگی کا ہر پہلو پیار کو قائم کرنے والا اور فساد کو دور کرنے والا ہمیں نظر آتا ہے.انسان اجتماعی معاشرتی زندگی گزارتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں باہمی تعلقات ہیں جن کے متعلق اسلامی تعلیم کے نتیجہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہاں سے پیار کے اور محبت کے اور اخوت کے اور ہمدردی کے اور ادائیگی حقوق کے چشمے پھوٹے اور ان باہمی تعلقات کو جہاں ہم دیکھتے ہیں وہاں ہمیں شیطان بھی نظر آتا ہے جو فتنہ اور فساد پیدا کرتا اور جہاں سے اسلام نے امن پیدا
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۰۰ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء کیا وہیں سے وہ فساد کے شعلے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر اسلامی تعلیم ٹھنڈا پانی چھڑکتی اور ان شعلوں کو بجھا دیتی ہے.باہمی تعلقات جو ہیں جہاں سے پیار کے سوتے بھی بہہ نکلتے ہیں اور جہاں سے فساد کے شعلے بھی بھڑکتے نظر آتے جیسا کہ میں نے ابھی بتا یا وہ سینکڑوں ہزاروں ہیں مثلاً معاشرتی زندگی.باہمی رشتے انسان انسان کے تعلقات جو ہیں ان پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو میاں بیوی کے تعلقات ہیں.پھر اس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہوتی ہے.ماں باپ اور بچوں کے باہمی تعلقات ہیں.بھائی بھائی اور بہن بہن کے باہمی تعلقات ہیں.پھر رشتے داروں کے ساتھ رشتے داری کے تعلقات ہیں پھر ہمسائے کے ساتھ ہمسائیگی کے تعلقات ہیں.پھر شہر میں بسنے والوں کے ساتھ شہری کی حیثیت سے تعلقات قائم ہوتے ہیں.پھر اہل ملک کے ساتھ تعلقات ہیں.پھر دنیا میں بسنے والے انسان کا انسان سے تعلق ہے.پھر کائنات سے تعلق خدا نے پیدا کر دیا انسان کا سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية: ۱۴) کہہ کر.یہ ایک لمبا مضمون ہے جس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف پہلو میں بیان کروں گا مختلف خطبات میں.باہمی تعلقات میں ایک تعلق ہے ان لوگوں کے ساتھ جو دشمنی کرنے والے ہیں.دشمن سے بھی ایک تعلق پیدا ہوتا ہے.دشمن کو اپنی دشمنی کے اظہار کے لئے بھی قریب آنا پڑتا ہے.پہلے تو بہت ہی قریب آنا پڑتا تھا.تلوار کا وارجو کرنا چاہتا تھا اس کو تین چارفٹ کے فاصلے تک پہنچنا پڑتا تھا اپنے دشمن کے تبھی وار کر سکتا تھا.اب اس قُرب کی رینج (Range) بڑھ گئی ہے.توپ کی رینج (Range) اور ایٹم بم لے جانے والے جہازوں کی رینج (Range) کی وجہ سے.لیکن بہر حال قُرب ہے.وہ فاصلہ بھی مقرب ہی بتا رہا ہے.دشمن سے جو تعلق ہے ایک مسلمان کا جو اسلام کی تعلیم پر چلنے والا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر عمل کرنے والا ہے.اس کی میں آج ایک مثال بیان کروں گا.بطور تمہید کے میں پہلے یہ بتادوں کہ بعض باتیں ایسی ہیں جو حقائق بیان کرتی ہیں.اس میں گالی یا سب وشتم کا پہلونہیں ہوتا.مثلاً خدا تعالیٰ اگر کسی کو کہتا ہے کہ ایسے اعمال کرو گے تو جہنم میں جاؤ گے تو اللہ تعالی گالی تو نہیں دے رہا.خدا تعالیٰ اسے جہنم کے رستوں سے باز رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اپنے انبیاء کے ذریعے ، ان پر جو تعلیم نازل ہوتی ہے اس کے واسطہ سے.بتوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۰۱ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء کو جہنم کا ایندھن بھی قرار دیا گیا اور ان کا ٹھکانہ بھی بتایا گیا اور شرک کوسب سے زیادہ ظلم اور سب سے بڑا گناہ بھی قرار دیا گیا.اپنی جگہ یہ بھی حقیقت ہے لیکن بت کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں دی گئی جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے تاکہ مسلمان یہ سبق سیکھے کہ میں امن کو پیدا کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں ، سلامتی کو قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں ، ادا ئیگی حقوق مجھ پر فرض ہوتے ہیں، حقوق تلف کرنا میرا کام نہیں.تو حقیقت کا بیان گالی نہیں ہے.حقیقت کا بیان گالی نہیں کہلا سکتا اس وجہ سے جب خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ حقیقت دنیا پر ظاہر کی.مکی زندگی کے شروع زمانے میں آگئے آپ کے مخالف کہ ہمارے بتوں کو خداؤں کو یہ بُرا بھلا کہتا ہے.آپ برا بھلا نہیں کہتے تھے جو خدا کہتا تھا وہ ان کو سنا دیتے تھے.اس لئے نہیں کہ غصہ نکال رہے تھے، اس لئے کہ ہمدردی کر رہے تھے.جو بچہ آگ مانگتا ہے ماں سے، ماں اسے کہتی ہے کہ دیکھو اسے نہ پکڑو نہ میں تمہیں دوں گی کیونکہ تم جل جاؤ گے.تو یہ بختی تو نہیں ہے، یہ دشمنی تو نہیں ہے.یہ تو شفقت اور خیر خواہی کا نتیجہ ہے.حقیقت کا بیان اپنی جگہ ہے.اس میں خلط نہیں کرنا چاہیے.لیکن جہاں تک جذبات کے خیال رکھنے کا سوال ہے تو اس وقت حکم یہ ہے کہ بت کو بھی گالی نہیں دینی.اس کی مثال میں میں نے آج کے لئے چنا ہے واقعہ جنگ اُحد کا.یہ دوسری جنگ ہے ہجرت کے بعد.ہجرت کے تیسرے سال میں یہ ہوئی اور بدر میں جو شکست رؤسائے مکہ کو اٹھانی پڑی اس کے نتیجہ میں وہ آگ میں جل رہے تھے.انہوں نے قسمیں کھائیں کہ بدلہ لیں گے وغیرہ وغیرہ لمبی داستان ہے.بہر حال انہوں نے بڑی تیاریاں کیں بڑے ہتھیا را کٹھے کئے اور بڑے غصے میں بھرے ہوئے آئے اپنے مقتولوں کا بدلہ انہوں نے لینا تھا.تین ہزار تھے حملہ آور جو اسلام کو مٹانے کے لئے مکہ سے چلے تھے.ہجری کے تیسرے ۲۰۰ سال اور مارچ کا مہینہ تھا سات سو ان میں زرہ پوش تھے یعنی پوری طرح ہتھیار بند اور دو ٹو ان کے پاس تھے گھوڑے اور تین ہزار ان کے پاس تھے اونٹ اور رسد کا بڑا سامان اور بھاری مقدار میں جنگی سامان ان کے پاس تھا.تلوار میں اچھی، کمانیں اچھی ، نیزے اچھے وغیرہ وغیرہ اور مدینے سے تین میل کے فاصلے پر اُحد کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں وہاں یہ خیمہ زن ہوئے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۰۲ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء جمعرات کا دن تھا جب مدینے میں یہ بات عام ہو گئی کہ دشمن مدینے سے تین میل کے فاصلے پر خیمہ زن ہے اور جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات بڑے چوکس رہے اہلِ مدینہ اور جمعہ والے دن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا اپنے صحابہ کو بلا کے جن میں بڑے بھی تھے ، تجربہ کار بھی تھے، مخلص متقی بھی تھے اور دوسرے بھی تھے، بچے بھی تھے ، نوجوان بھی تھے بڑے جو شیلے نو جوان.آپ نے ان سے مشورہ کیا کہ اب دور ستے ہیں ہمارے سامنے یا ہم باہر نکلیں اور جہاں وہ خیمہ زن ہیں وہاں جا کے کھلے میدان میں جنگ ہو ان کے ساتھ یا ہم مدینہ میں رہیں اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے رویا میں ایسے اشارے بھی کئے تھے کہ مدینے میں رہنا چاہیے لیکن بہر حال مشورہ کیا آپ نے.بڑی بھاری اکثریت نے اصرار کیا کہ باہر نکل کے جنگ کریں گے.آپ نے بات مان لی.جمعہ کی شام کو ایک ہزار صحابہ کا یہ شکر باہر نکلا اور قریبا ڈیڑھ میل پر شیخین ایک مقام ہے وہاں آپ خیمہ زن ہو گئے ، وہاں جائزہ آپ کے حکم سے لیا گیا سارے لشکر کا اور اگلے دن صبح وہاں سے کوچ کر کے جانا تھا.اس عرصے میں عبد اللہ بن ابی بن سلول جو رئیس المنافقین مدینے کا تھا وہ اپنے تین سو ساتھی لے کر واپس چلا گیا.باقی رہ گئے سات سو مسلمان تین ہزار کے مقابلے میں، جن کے پاس سامان بھی کوئی زیادہ نہیں تھا دو گھوڑے تھے دوسو کے مقابلے میں یعنی ایک فی صد گھوڑوں کے لحاظ سے اور زرہ پوش بھی بہت تھوڑے گنتی میں.بہر حال عددی لحاظ سے اور ساز وسامان کے لحاظ سے ان دولشکروں کا کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن اس لحاظ سے بھی آپس میں کوئی نسبت نہیں تھی کہ ایک خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے اور دوسرے بتوں کی پرستش کرنے والے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہفتہ کی صبح کوچ کیا اور خدا تعالیٰ کے حکم یا انتہائی خداداد فراست سے آپ نے چکر کاٹ کے ان کے خیموں سے بھی آگے نکل کے اُحد کے دامن میں اس کی طرف پیٹھ کر کے اپنی صفیں بنالیں.جس کا مطلب یہ تھا کہ دشمن کی فوج اور مدینے کے درمیان کوئی مسلمان لشکر نہیں تھا.اگر وہ دشمن پلٹتے اور گھوڑوں کو ایڑی لگا کے بھاگتے مدینے کی طرف تو وہ قبضہ کر لیتے شہر پر.مگر ایسا نہیں ہوا.میں نے سوچا اور کئی دفعہ سوچا، بڑا تو گل تھا خدا پر اور بڑی فراست تھی اور ایک نشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۰۳ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء کی صداقت کا بھی کہ آپ نے پیٹھ کی طرف رکھا احد کی پہاڑیوں کو اور اپنی سامنے کی طرف رکھا مدینہ کو اور وہاں جاکے آپ صف آراء ہوئے اور جنگ شروع ہو گئی.اس جنگ کی تفصیل میں میں نہیں جاتا اس کا جو خا تمہ ہے اس میں مجھے زیادہ دلچسپی ہے آج کے مضمون کے لئے.سخت بڑی سخت جنگ تھی.انہوں نے بدر کے مقتول عزیزوں، رشتے داروں کے بدلے لینے تھے بڑے غصہ میں تھے وہ اور مقابلہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے اور اسلام کی خاطر اور خدا کی وحدانیت کے لئے اس کے پیار میں لڑنے والے تو اس بہادری سے لڑتے ہیں کہ الفاظ ان کی بہادری کو بیان نہیں کر سکتے.بہر حال بڑی گھمسان کی جنگ ہوئی سات سو کی تیس سو کے ساتھ اور لمبا عرصہ دن کا پہلے شروع میں پتا نہیں لگ رہا تھا کہ اس میں کونسا پلہ بھاری رہتا ہے کون جیتتا ہے کون ہے یعنی ظاہری حالات کے لحاظ سے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور منتشر ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے.پچھلی طرف میں نے بتایا اُحد کی پہاڑیاں تھیں وہاں ایک تھا درہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیرانداز وہاں بھجوا دیئے تھے صبح اور آپ نے کہا تھا اس درے کو نہیں چھوڑ نا خواہ ہمیں فتح ہو خواہ ہمیں شکست تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنا.لیکن اس واضح حکم کے باوجود انہوں نے چھوڑ دیا سوائے چھ کے ان میں سے یعنی ان کے سردار اور پانچ ان کے ساتھی اور درہ خالی ہو گیا اور خالد بن ولید اور عکرمہ دنیوی لحاظ سے بڑی تیز جنگی آنکھ تھی ان کی.انہوں نے دیکھا کہ وہ درہ خالی ہے پیچھے سے حملہ ہو سکتا ہے.انہوں نے چکر کاٹا اپنے گھوڑوں کے ساتھ اور پیچھے سے آکے حملہ آور ہو گئے مسلمانوں پر جو اس وقت صف آرا بھی نہیں تھے کیونکہ جنگ تو ختم ہو چکی تھی.ادھر ادھر بٹ کے کوئی بیٹھا ہوگا کوئی ستا رہا ہوگا کوئی باتیں کر رہا ہوگا.بہر حال وہ جنگ لڑنے کی جو ترتیب ہوتی ہے صف آرائی ہوتی ہے وہ نہیں تھی اور پیچھے سے عکرمہ بھی آملے.انہوں نے تو وہ وہاں قیامت ڈھادی پھر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کے نتیجے میں یہ واقعہ ہو گیا.ستر مسلمان شہید ہو گئے اور اس سے بھی بڑا واقعہ یہ ہو گیا کہ بار بار حملہ کر رہے تھے.میں نے بتایا ہے نا بکھر گئے تھے مسلمان.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض دفعہ صرف دورہ جاتے تھے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۰۴ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء ساتھی دشمن کے مقابلے میں اور آپ پر ہی حملہ زوروں سے ہورہا تھا.تو ایک دشمن اتنا قریب آیا کہ اس نے وار کیا آپ پر.ایک صحابی نے اس وار کو روکا اور اس کا ہاتھ کٹ گیا.وار کمزور ہو گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی زرہ پہنی ہوئی تھیں لیکن اتنا زور کا تھا وہ وار کہ پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چکرائے اور گر گئے اور وہ سمجھا کہ شاید میں نے آپ کو شہید کر دیا ہے.اس نے نعرہ مارا اور واپس چلا گیا اور آپ کے گرد تو صحابہ تھے ہی بہت کم ، ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے.یہ آواز جب ان کے پاس پہنچی تو اور بھی وہ دل برداشتہ ہوئے اور یہ جو بتوں کے پجاری اور پجار نہیں تھیں ، عورتیں بھی تھیں ان کے ساتھ ابوسفیان کی بیوی ہند اور عکرمہ کی بیوی اور خالد کی بیوی اور عمرو بن عاص کی بیوی اور بڑے بڑے سرداروں کی بیویاں.بت پرستی کا زمانہ ان کے لئے سخت ظالم ، کوئی شرافت اور انسانیت نہیں ان میں.ان کی ایک بڑی ظالمانہ رسم تھی مثلہ کرنا یعنی عورتیں شہداء کے کان اور ناک کاٹ کے ان کا ہار بنا کے گلے میں پہنتی تھیں.تو مسلمان شہداء کے کان ناک کاٹے اور ان کے ہار بنا کے پہنے اور ہندہ جوسر دارلشکر رو سائے مکہ جو تھے اس وقت ابوسفیان ، ان کی بیوی ، انہوں نے ، حضرت حمزہ بھی شہید ہوئے تھے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے پیارے چچا بھی تھے اور بڑے پیارے رضاعی بھائی بھی تھے اور دوست بھی تھے ان کا پیٹ چیر کے اور ان کا جگر نکال کے اور اس کچے کو چبا گئی غصے میں اپنے.اس حالت میں کہ ستر صحابہ شہید پڑے ہیں، ان میں سے بہتوں ساروں کے تو نہیں بہتوں کے ناک اور کان کاٹ لئے گئے ہیں.عورتوں نے ان کے ہار بنا کے پہنے اور خوشیاں منارہی ہیں وہ اس وقت حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کر کے اور ان کا جگر نکال کے اور ہند جو ہے وہ کچا چبا گئی.اس حالت میں پھر وہ جب ان کو پتا لگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو خوشیاں تو ان کی ویسے ختم ہو گئیں لیکن ابھی یقین نہیں آرہا تھا تو یہ سارا دیکھ کے ابوسفیان نے نعرہ یہ لگا یا اُخْلُ هُبل ایک بہت بڑا بت خانہ کعبہ کے اندر تھا ان بت پرستوں کا کہ اس کی بزرگی قائم ہو یعنی بڑا جس طرح ہم جوش میں آ کے اللہ اکبر کہتے ہیں نا تو ان کا یہ نعرہ تھا اُعُلُ ھبل.اس سے پہلے اس
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۰۵ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء نے آوازیں دی تھیں کہ کیا تم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو آپ نے فرما یا تھا کچھ نہ بولو.ان کو رہنے دو اسی شش و پنج میں لیکن جس وقت اُخْلُ هُبل کا اس نے نعرہ لگایا تو آپ نے فرما یا جواب کیوں نہیں دیتے.تو انہوں نے کہا ہم کیا جواب دیں.آپ نے فرمایا تم یہ جواب دو الله اعلى وَاَجَل.یہ نہیں کہا کہ یہ جواب دو کہ تمہارے بت جو ہیں وہ جہنم کا ایندھن ہیں تمہارے بت ایسے اور ویسے ہیں یہ بالکل نہیں کہا یعنی اس حالت میں بھی امن کے مذہب نے امن کو قائم رکھا ہے اور اُغلُ هُبل کا جواب جو ہے وہ اللهُ اغلى وَاجَل دینا اور اس کے علاوہ ایک لفظ بھی ان کے متعلق کچھ نہ کہنا یہ ایک عظیم معجزہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا.پھر اس نے جو نعرہ لگا یا وہ ہے عڑی کا نعرہ لگایا اس نے لَنَا الْعُزّى وَلَا عُزّى لَكُمْ ایک اور بول کہ ہمارا ہمارے ساتھ ہماری مدد کرنے والا تو عربی ایک اور بت ہے اور تم تو بت پرستی ہی نہیں کرتے تمہیں تو اس کی مدد نہیں ملتی.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عربی کے خلاف بھی ایک لفظ کہنے کو نہیں کہا بلکہ کہا یہ جواب دو اللهُ مَوْلَنَا وَلَا مَوْلَالَكُمْ خدا ہما را آقا اور ہمارا مددگار ہے اور تم نے بت پرستی کے نتیجہ میں خدا کی مدد سے محرومی کی راہوں کو اختیار کر لیا ہے.تمہارا ، اللہ تمہارا مولا نہیں رہا تمہارے اعمال کے نتیجہ میں.تو ان حالات میں یہ ظلم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے کہ، جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں وہ تو ٹھیک ہے لیکن شہداء کے ناک اور کان کاٹے گئے ان کے ہار بنائے گئے اور بڑے فخر کے ساتھ ان ہاروں کو گلے میں پہنا دشمن کی عورتوں نے اور خوشیاں منائیں اور آپ کے چچا اور رضاعی بھائی اور ایک نہایت مخلص فدائی اسلام کا جس نے اسی میدان میں جان دی تھی اس کا جگر نکال کے کچے کو چبا گئی سردار کی بیوی.یہ سارا کچھ دیکھا لیکن لَا تَسُبُوا الذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ (الانعام : ۱۰۹) پر عمل کرتے ہوئے آپ نے تو ایک نمونہ دکھانا تھا ناد نیا کو کہ جو ہم کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھاتے ہیں محض لفاظی نہیں ہے.تو اُخْلُ هُبل کے مقابلے میں الله اغلى وَاجَل کا نعرہ لگانا اور ھبل کو نظر انداز کر دینا گویا کہ وہ اس کا وجود ہی کوئی نہیں وہ ایگزسٹ (Exist) ہی نہیں کرتا.بڑی شان ہے.میں ( نے ) تو بڑا سو چا مجھے بڑا ہی لطف آیا.میں آپ کو بھی اس لطف میں شامل کرنا چاہتا ہوں اور بڑا سبق ہے اس میں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۰۶ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء سبق یہی ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے.یہ فساد کی جڑیں کاٹتا ہے.دنیا میں کوئی فساد اسلام پر عمل کر کے پیدا ہو ہی نہیں سکتا.میں کہا کرتا ہوں کہ اسلام کی ساری تعلیم یہ کہتی ہے انسان کو کہ اے انسان میں تجھے آپس میں لڑنے نہیں دوں گا.پیار سے زندگی گزارو.ہر باہمی ،لڑائی وہیں ہوتی ہے نا جہاں باہمی تعلقات ہوں.میاں بیوی کی لڑائی ہو جاتی ہے، بیٹوں کی باپ سے ہو جاتی ہے، باپ بیٹوں پہ غصہ کرتے ہیں، رشتہ داریاں ہیں ان کی آپس میں جنگ و فساد شروع ہو جاتا ہے، ہمسایوں کے ساتھ جنگ شروع ہو جاتی ہے.اسلام نے تو ، اس وقت میں تفصیل میں نہیں جاتا ایک کوئی اگلے خطبوں میں انشاء اللہ بیان کروں گا ایک ایک مضمون لے کے.ویسے مثالیں اشارے اب کر دیتا ہوں.انگلستان میں لاکھوں کی تعداد میں میونسپلٹیز کے پاس یہ شکایت جاتی ہے کہ میرے ہمسائے کے بچے اپنے صحن میں کھیل رہے ہوتے ہیں اور ان کی آوازوں سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ان کو منع کریں کہ شور نہ مچائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہمسائے کے حقوق پر اور ان کے خیال رکھنے پر اتنا زور دیا اتنا زور دیا اتنا زور دیا کہ مجھے خیال پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی وحی میں ہمسائے کو وراثت میں نہ شامل کر دیا جائے تو یہ فرق ہے دو ذہنیتوں کا کہ ایک ذہنیت کو ہمسائے کے بچے کی آواز بھی تکلیف دیتی ہے.دوسرے کا ذہن اس بات کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے کہ اگر ورثے میں شامل کیا گیا تو ہم اس ہمسائے کو ورثہ بھی دے دیں گے.تو دشمن کے ساتھ بھی ایک تعلق ہے.دشمن دشمن سے تعلق اپنا پیدا کرتا ہے.اسلام کہتا ہے کہ تو مجھے اپنا، تو خود کو میرا دشمن سمجھتا ہو گا.پر میں تو تجھے اپنا، میں تو خود کو تیرا دشمن نہیں سمجھتا.میں تو تیرا خیر خواہ ہوں.میں تو تیرے حقوق کی ادائیگی کا ذمہ وار ہوں.چند دن ہوئے ایک اخبار میں ہمارے خبر چھپی تھی ایران کے جو ہیں مذہبی لیڈر خمینی صاحب مجھے بڑا پسند آیا وہ بیان ان کا.انہوں نے یہ کہا ہے کہ اسلامی تعلیم میں جو ایران میں بسنے والے ہیں سارے کے سارے خواہ وہ یہودی کیوں نہ ہوں لیکن صیہونیت سے ان کا تعلق نہ ہو جو برسر پیکار ہیں مسلمانوں سے، مسلمانوں سے لڑنے والے نہ ہوں ان کو ویسے ہی حقوق ملیں گے جیسے ایران کے مسلمانوں کو ملیں گے کیونکہ وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۰۷ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء ملت ایرانیہ کے ایک جیسے افراد ہیں اور یہی ہے اسلامی تعلیم.اسلام انسان کو کہتا ہے مخاطب اسلام نے انسان کو کیا ہے مسلمان کو نہیں کیا.ایسے سارے احکام میں مخاطب جو ہیں وہ بنی نوع انسان ہیں اور مسلمان کو یہ کہا ہے کہ یہ حقوق ادا کرنے ہیں ہمسائے کے مثلاً یہ نہیں کہا کہ اگر ہمسایہ مسلمان ہو تو یہ حقوق ادا کرنے ہیں غیر مسلم ہو تو پھر کوئی حق نہیں اس کا یہ نہیں کہا.تو ہر تعلق جو ہے انسان انسان کے درمیان اس میں امن کی فضا، اخوت کی فضا، جو میں نے اسی واسطے فقرہ شروع میں ادائیگی حقوق کر دیا تھا کیونکہ وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے وہ فضا پیدا کی ہے اسلام کسی کا دشمن نہیں.اسلام کے دشمن پیدا ہوتے رہے اور اب بھی ہیں اور اسلام کا دشمن یہ بھی کہتا ہے کہ اسلام ہر غیر کا دشمن ہے.یہ سب سے بڑا ظلم ہے اسلام پر کہ اسلام جود نیا سے فساد کی جڑ کاٹنے والا اور اپنے دشمن کے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھانے والا یعنی اس شخص کی جو اسلام سے دشمنی رکھتا ہے اور مسلمان سے دشمنی کرتا ہے اس کے جو حقوق خدا تعالیٰ نے بنادیئے فرض کر دیے وہ حقوق جو ہیں اس کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھاتا ہے اسلام اور مسلمان اور جس مذہب نے ہر شے کے حقوق قائم کئے اور ان حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی اور کسی جگہ بھی حقارت کا مظاہرہ نہیں کیا.غیر انسان سے، غیر ذی روح سے بھی مثلاً یہ بھی حقارت کا ہی ایک نظارہ ہے نا کہ آپ رکابی بھر لیں اور آدھی کھا کے یوں پھینک دیں تو آپ تحقیر کی نظر سے خدا تعالیٰ کے رزق کو دیکھ رہے ہیں.حالانکہ رزق میں تو نہ جان نہ شعور نہ احساس نہ کچھ نہ کچھ لیکن خدا نے کہا تحقیر کی نظر سے میرے رزق کو بھی نہیں دیکھنا.خدا نے کہا تحقیر کی نظر سے میرے گدھے کو بھی نہیں دیکھنا اس کو بھی میں نے بنایا ہے تمہاری خدمت کے لئے اس سے خدمت لو.لیکن یہ کہہ کے کہ یہ گدھا ہے اس واسطے جو جتنا بوجھ وہ اٹھا سکتا ہے اس سے زیادہ ڈالو گے ظالم ہو.خدا کے نزدیک ظالم ہوٹھہرو گے اور گناہگار ٹھہرو گے اور قابل مؤاخذہ ٹھہرو گے.تو اسلام بڑا ہی پیارا مذہب ہے.اللہ مجھے توفیق دے میں مختلف پہلوؤں پر اسی طرح روشنی ڈالوں اور آپ کو بھی توفیق دے اس کے سمجھنے کی.دشمنی اپنے دل میں کسی کی نہ رکھیں، کسی کی ، نہ انسان کی نہ غیر انسان کی، نہ بت پرست کی نہ مذہب کے ماننے والے کسی کی نہیں.اسی وجہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۰۸ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۹ء سے اسلام جو ہے میں کہا کرتا ہوں میں یورپ کو سمجھاتا رہا ہوں جا کے کہ جو وشس سرکل (Vicious Circle) انگریزی کا محاورہ ہے کہ ایک چکر بن جاتا ہے ظلم اس کے بدلے مقابلے میں پھر ظلم بدلے میں پھر اس کے مقابلے میں ظلم پھر نہ ختم ہونے والا یہ تسلسل ایک قائم ہو گیا.لیکن اسلام ایک مذہب ہے جو کہتا ہے جب میرے پاس یہ تسلسل والا چکر پہنچے گا میں کاٹ دوں گا اس کو.میں ظلم سہہ لوں گا میں ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دوں گا.اس وقت اگر ہماری جماعت ذہنی اور عملی طور پر دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کرے تو انشاء اللہ، اللہ کے فضل سے وہ دن بڑے جلد آ جائیں گے جن کی ہم امید رکھ رہے ہیں کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے اور اسلام کے حسن سے اور اسلام کے پیار سے سارے بنی نوع انسان فائدہ اٹھانے لگ جائیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۰۹ خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۷۹ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد خیر خواہی انسانی زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے خطبه جمعه فرموده ۸ / جون ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی قدرتوں کا جلوہ ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے.یہ گرمی کا موسم ہے اور پچھلے چند دنوں سے بڑی شدید گرمی ہو گئی ہے اس کے بہت سے فوائد ہیں یہ مضر کیڑوں کو تلف کرتی ہے.بہت ساری فصلوں کے لئے مفید ہے وغیرہ وغیرہ.اس تفصیل میں اس وقت جانے کی ضرورت نہیں.لیکن اس وقت جو مختصر سی بات میں اس سلسلہ میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو اس کے ماحول کے ساتھ اس طرح باندھا ہے کہ جس وقت گرمی اور سردی آتی جاتی ہیں تو انسانی جسم کے اندر کے بیبیوں شاید سینکڑوں ایسے نظام ہیں جو اس کے نتیجہ میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور اس طرح پر سردی سے گرمی ہو جانے کے نتیجہ میں بہت سی تکلیفوں سے وہ محفوظ ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کے اندر ایسا انتظام کیا ہے کہ اس کے اندر جو بہت سے نظام ہیں سینکڑوں ہزاروں ہوں گے وہ سارے Adjust کرتے ہیں.جوں جوں درجۂ حرارت بڑھتا چلا جاتا ہے انسانی جسم کے نظام اُس درجہ حرارت کے مطابق کام کرنے کے لائق بننے کے لئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور جب گرمی سے سردی آتی ہے تو جوں جوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۱۰ خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۷۹ء سردی بڑھتی چلی جاتی ہے انسانی اجسام کے اندر جو نظام اور شعبے ہیں کام کرنے والے ان شعبوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ سردی کی شدت میں کام کرنے کے لائق ہو جاتے ہیں.اگر وہ اسی حالت میں رہیں برفانی موسم میں جس حالت میں کہ اس وقت ہمارا جسم ہے تو سارے ہی بیمار ہو جا ئیں اور برداشت نہ کر سکیں.لیکن بتدریج سردی سے گرمی، گرمی سے سردی ہوتی ہے اور بتدریج انسانی جسموں کے اندرسینکڑوں تبدیلیاں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں.خدا تعالیٰ کا حکم اور اس کے منشا کے مطابق.لیکن انسان بعض دفعہ غلطی کرتا ہے اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اپنی ہی غفلت اور غلطی کے نتیجہ میں دو چار دفعہ مجھے لو لگ گئی جس کو انگریزی میں ہیٹ سٹروک (Heat Stroke) کہتے ہیں اور جسے اس طرح دو ایک دفعہ کو لگ جائے اسے گرمی تکلیف دیتی ہے بیماری بن جاتی ہے اس کے لئے.اس وقت میری یہی کیفیت ہے لیکن یہ تو میرا اپنا گناہ تھا کہ میں نے خیال نہیں کیا اور.اذا مرِضْتُ میں خود اپنی غفلت کے نتیجہ میں بیمار ہو گیا اور اس کا نتیجہ میں بھگتا ہوں.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا ہے انسان کے جسموں کے اندر کہ ( جس طرح تھرما میٹر کا پارہ گرمی کے ساتھ اونچا ہوتا اور سردی کے ساتھ نیچا ہوتا ہے ) اسی طرح انسانی اجسام کے نظام جو ہیں وہ Adjust کرتے ہیں، مطابق ہوتے چلے جاتے ہیں گرمی اور سردی کے تا کہ جسم تکلیف نہ اٹھا ئیں اور ان کے کام کرنے کی قوت جو ہے اس کے اندر کوئی کمزوری نہ پیدا ہو جائے.بڑی عظمت ہے ہمارے خدا میں اور اس کی قدرتوں کے جلوے اپنی شان اور وسعتوں کے ساتھ ہمارے سامنے Unfold ہوتے ہیں.ایک کے بعد دوسرا آتا چلا جاتا ہے اور سائنسدان (جو عقلمند ہیں ان میں سے ) وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ابھی تک ہم نے خدا کی مخلوق کا جو علم حاصل کیا وہ ایسا ہی ہے جیسا کوئی ناخن کے ساتھ دیوار کے ذراذرا سے ذرے اتارے.اور سارا قلعہ جو ہے وہ اسی طرح چھپا کھڑا ہے ہمارا علم جو ہے اس نے تو خدا کی کائنات اور اس کی شان اور اس کی قدرتیں جو کائنات کے اندر ہیں ان کا احاطہ نہیں کیا.ہمارے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور کبھی بھی انسانی علم خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کی قدرتیں غیر محدود اور انسان کا علم محدود ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۱۱ خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۷۹ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد خیر خواہی ( یعنی جو آپ کو خدا تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی کہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی کریں اس) میں بھی بڑی وسعت ہے اور انسان کے ہر شعبۂ زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے خیر خواہی نے اور اس کی ہدایت کے سامان پیدا کئے اور دنیا کے ہر خطہ کا احاطہ کیا اور ہر خطہ کی ضرورتوں کے مطابق انسان کو تعلیم دے دی اور آپ اُسوہ بن گئے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہمارے افریقہ کے ایک بزرگ ہیں انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ لباس کے متعلق یہ ہے کہ جو میسر آئے وہ پہن لو.تو یہ اُسوہ قائم کر دیا.پگڑی بھی پہنی رومال بھی سر پر باندھا، ٹوپی بھی ہر قسم کی پہنی.جس قسم کے سر کے بال میٹر تھے عرب کو سارے آپ نے استعمال کر لئے اور کسی کو بھی دھتکارا نہیں.اسی طرح قمیص کا انہوں نے ذکر کیا اور شلوار اور دھوتی وغیرہ ہر قسم کے حالات میں سے آپ گزرے اور ہر قسم کا لباس استعمال کیا.جوتی کے متعلق بھی یہی عمل رہا اور نتیجہ نکالا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ أسوہ ہے کہ جو میٹر آئے وہ پہنو.میسر میں دو چیزیں ہیں ایک ہے کپڑا.ایک ہے ضرورت کے مطابق کپڑا.یہ دونوں میتر آنے کے لحاظ سے ہے.مثلاً جہاں سردی ہے وہاں اُسوہ یہ ہے کہ سردی کے مطابق کپڑا پہنو اور جہاں گرمی ہے وہاں گرمی کے مطابق کپڑا پہنو.اسی واسطے اسی کو دیکھ کے ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ بڑا قیمتی کپڑا بھی پہنتے تھے لیکن پیار کوئی نہیں کرتے تھے کپڑے سے.پیار کپڑا دینے والے سے ہی کرتے تھے.بتائیں یہ رہا ہوں کہ جو خیر خواہی کا جذ بہ بنی نوع انسان کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں موجزن تھا اس کے وسعت کا احاطہ کرنا بھی میرے اور آپ کے لئے ممکن نہیں قیامت تک وہ پھیلا ہوا ہے اور ہر چیز کے متعلق زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق انسان کی ہر ضرورت کے متعلق.ہرانسان کی عمر کے مطابق آپ نے خیر خواہی کی ، بچے کو اپنی خیر خواہی سے باہر نہیں چھوڑا.بزرگ کو اپنی خیر خواہی سے باہر نہیں چھوڑا.مرد کو اپنی خیر خواہی سے باہر نہیں چھوڑا، عورت کو اپنی خیر خواہی سے باہر نہیں چھوڑا.جانوروں کو اپنی خیر خواہی سے باہر نہیں چھوڑا.جو جاندار نہیں ہیں ان کو اپنی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۱۲ خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۷۹ء خیر خواہی سے باہر نہیں چھوڑا.پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ ہر چیز کے حقوق اسلام نے قائم کئے اور ان کی حفاظت کا سامان پیدا کیا.اس کے مطابق تعلیم دی اور ہمیں حکم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگی گزاریں.یہ ہمارے لئے حکم ہے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم اور فساد کو دور کرنے کی کوشش کر وظلم اور فساد پیدا کر کے نہیں بلکہ ظلم اور فساد سے بچتے ہوئے ظلم اور فساد کو دور کرنے کی کوشش کرو.آپ نے فرمایا کہ اگر تم ہاتھ سے کسی کو ظلم سے روکنے کے نتیجہ میں ایک اور ظلم پیدا کرنے کا موجب بن جانے کا خطرہ محسوس کر و تو ہاتھ سے ظلم نہ روکو بلکہ دعا کرو اس وقت.اگر مادی سامان تمہارے پاس نہ ہوں یا تم سمجھو کہ اس کے استعمال سے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے مادی سامان چھوڑ دو، روحانی سامان سے کام لو.روحانی تدا بیر کرو.اپنے خدا کے حضور جھکو اپنے خدا کے حضور التجا کر وتضرع سے دعا کرو کہ اے خدا بنی نوع انسان کی بھلائی کے سامان پیدا کر.بنی نوع انسان کی بھلائی ایک قسم کی بھی ہے ہزار قسم کی بھی ہے دعا کرو کہ ہر قسم کی بھلائی انہیں ملے اور جو فساد اور جو ظلم آپ کو نظر آرہے ہوں ان کا نام لے کے خدا سے کہو.آج کی دنیا میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انسان انسان سے پیار نہیں کرتا.انسان انسان سے برسر پیکار ہے.گورا کا لے سے لڑ رہا ہے، کالا گورے سے لڑ رہا ہے.رنگ کا امتیاز فساد اور ظلم کا موجب اور حق تلفی کا باعث بن رہا ہے.سفید فام، سیاہ فام سے لڑ رہا ہے جو گندمی رنگ والے ہیں وہ گندمی رنگ والوں سے لڑ رہے ہیں جو افریقہ کے رہنے والے ہیں وہ آپس میں لڑ رہے ہیں.عیسائی ہیں وہ عیسائیوں سے لڑ رہے ہیں اور دوسرے مذاہب والے آپس میں ہم مذہبوں سے لڑ رہے ہیں.اس وقت انسان ، انسان پر ظلم کر رہا ہے انسان ،انسان کے لئے تکلیف کے سامان پیدا کر رہا ہے.اسے دُکھ پہنچانے کے سامان پیدا کر رہا ہے اور ہم ہاتھ سے اسے روکنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے.جماعت احمدیہ کو میں مخاطب کر رہا ہوں اور ہم سے مراد ہے جماعت احمد یہ.ہم ہاتھ سے ظلم روکنے کی طاقت نہیں رکھتے.جہاں ہم ہاتھ سے ظلم روکنے کی طاقت رکھتے ہیں وہاں اس وجہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۱۳ خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۷۹ء سے ہم ہاتھ سے ظلم روکنے سے پر ہیز کرتے ہیں کہ اس سے پھر اور فساد بڑھنے کا اندیشہ ہے لیکن اگر ہم اس قسم کی دکھوں کی ایک لمبی فہرست سامنے رکھیں اور دنیا کے ہر خطہ میں انسان دکھی انسان ہمیں نظر آئے تو ہم جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خود کو منسوب کرنے والے ہیں ہم جن کے آقا کے متعلق قرآن کریم میں یہ بیان ہوا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : ۴).کہ ایمان کے تقاضے پورا کر کے جن جنتوں کو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ حاصل نہیں کر رہے.وہ سکھ کی جنتیں ، وہ آرام کی جنتیں، وہ امن کی جنتیں ، وہ ادا ئیگی حقوق کی جنتیں وہ ان کو حاصل نہیں کر رہے اور تو دُ کھ اٹھا رہا ہے.لوگوں کی خاطر اپنی جان دینے کے لئے تیار ہے.اس اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو یہ سمجھ عطا کرے کہ وہ انسان سے پیار کرنے لگ جائے.انسان کو اللہ تعالیٰ یہ عقل عطا کرے کہ وہ انسان کے حقوق ادا کرنے لگ جائے.انسان کو اللہ تعالیٰ یہ اخلاق عطا کرے کہ وہ دوسرے انسانوں کے حقوق کو غصب کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ ادائیگی حقوق کی طرف متوجہ ہو.پس اس وقت میں مختصراً مگر نہایت اہم بات کی طرف جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ دعاؤں کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کریں.اس قدر دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ان دعاؤں کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کے سکھ کے سامان پیدا کرے اور آپ کے لئے پیار کی جنتوں کے سامان پیدا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / جون ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۱۵ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء نوع انسان کے دل خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کر دیں خطبه جمعه فرموده ۲۲ / جون ۱۹۷۹ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بعض اذہان میں یہ غلط خیال پیدا ہو گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کافروں کے لئے نذیر اور مومنوں کے لئے بشیر ہیں.قرآن کریم نے ہمیں جو تعلیم دی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے ہمیں پتا لگتا ہے جو وہ اس سے کچھ مختلف ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں.آپ کا تعلق آپ کی رحمت کا تعلق صرف انسان سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق سے ہے.اس سے پہلے ایک خطبہ میں میں مختصراً اس مضمون پر بھی روشنی ڈال چکا ہوں.اس وقت میرا یہ موضوع نہیں.اس عالمگیر رحمت کا جلوہ جو انسان پر ظاہر ہوا ، وہ وَ ما أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا ونَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا: ٢٩) کی شکل میں کہ تمام بنی نوع انسان کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں.اس آیت کے ٹکڑے سے ہمیں بہت سی باتیں پتا لگتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قوتیں اور طاقتیں عطا کر دی ہیں جن کے استعمال سے وہ بدی سے بچ سکتا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۱۶ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء ہے.جن کے نتیجہ میں وہ ان راہوں پر چلنے سے محفوظ رہ سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی اور شیطان کی گود تک پہنچانے والی ہیں.اس سے ہمیں یہ بھی پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں جن کی نشوونما کے بعد اور جن کے مطابق اعمالِ صالحہ بجا لا کر انسان خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کر سکتا ہے ، اس کی رضا کو پاسکتا ہے، اس کی جنتوں کا وارث بن سکتا ہے، اس کی بے شمار نعماء سے حصہ لے سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافر کے لئے نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.کافر کے لئے نذیر اس معنی میں کہ آپ اسے کہتے ہیں کہ دیکھو! جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور مقصودِ حیات کے حصول کے لئے جو قو تیں اور استعداد میں اس نے تمہیں عطا کیں اور تمہاری رہبری کے لئے جو عظیم ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہو چکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں میں تمہارے لئے کامل شریعت لے کے آیا ہوں.تم اگر میری بات کو سنو گے نہیں ، اگر تم اپنی طاقتوں کو ضائع کرو گے، اگر تم خدا کی طرف توجہ نہیں کرو گے اور شیطان کی طرف منہ کر کے اپنی زندگی کے دن گزارو گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ تمہارے حصہ میں آئے گی.یہ انذار کرتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کو اور بشارت دیتے ہیں کہ میری آواز پر لبیک کہو میں تمہاری عزت کو قائم کرنے کے لئے ، میں تمہاری دنیوی اور روحانی فلاح و بہبود کے لئے آیا ہوں.ایسی تعلیم لے کے آیا ہوں جو زندگی میں بھی تمہاری بھلائی کے سامان پیدا کرتی ہے اور اُخروی جنتوں کے بھی سامان پیدا کرتی ہے.جو حقیقی زندگی خدا چاہتا ہے تم گزارو، اس زندگی کے سامان پیدا کرنے کے لئے میں آیا ہوں.اسی واسطے قرآن کریم نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو کیونکہ وہ تمہیں بلاتے ہیں اس لئے لِيُحْيِيَكُمْ کہ وہ تمہیں زندہ کریں.إذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال : ۲۵) کہ تمہیں اس غرض سے بلاتے ہیں کہ تمہیں زندہ کریں.یہ کفار کو کہا گیا.اب یہ انذار تو نہیں یہ تو بشارت ہے بڑی زبر دست.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح نذیر ہیں کافر کے لئے اس طرح بشیر بھی ہیں کافر کے لئے اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے لئے محض بشیر ہیں جو
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۱۷ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء اعلان کرتا ہے کہ میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کے رب پر ایمان لایا.آپ بشیر بھی ہیں اس کے لئے اور نذیر بھی ہیں اس کے لئے یعنی جس طرح کافر کے لئے نذیر اور بشیر ہیں اسی طرح مومن کے لئے بھی نذیر اور بشیر ہیں.قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس مضمون کے ساتھ اور ایک آیت میں نے اٹھائی ہے جس میں صاف ، بالکل وضاحت کے ساتھ یہ ہے کہ مومنوں کے لئے آپ نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.قرآن کریم میں ہے.إن أنا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۱۸۹) کہ میں صرف نذیر اور بشیر ہوں مومن قوم کے لئے.تو یہ خیال کہ مومنوں کے لئے محض بشیر اور نذیر نہیں اور کافروں کے لئے محض نذیر اور بشیر نہیں یہ غلط ہے.اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک دفعہ ایمان کا دعویٰ کر دیا پھر بشارتیں ہی بشارتیں ہیں ، پھر خیر ہی خیر ہے، پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی رضا ہی رضا ہے اور ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ، ہمارے اوپر کوئی پابندیاں نہیں، گناہوں سے بچنے کے لئے ہم نے کوئی کوشش نہیں کرنی.نیکیاں کرنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی جد و جہد اور سعی نہیں کرنی.یہ خیال غلط ہے.اصولی طور پر خدا تعالیٰ نے جو لِقَومٍ يُؤْمِنُونَ مومن قوم کو جو بشارت دی وہ بڑی زبر دست ہے وَ انْتُمُ الْأَعْلُونَ (آل عمران : ۱۴۰ ) ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی.اعلیٰ کا لفظ بولا ہے نا.ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی یہ بشارت ہے مگر اس کے ساتھ میں نے قرآن کریم پر بڑا غور کیا ہر بشارت کے ساتھ انذاری پہلو ساتھ لگا ہوا ہے.اس کے ساتھ ایک انذار ہے.اِن كُنتُم مُؤْمِنین اگر تم ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہیں کرو گے تو یہ بشارت تمہارے حق میں پوری نہیں ہوگی.الا غلون والی اور تیرہ چودہ سوسالہ اسلامی زندگی میں جو مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی آپ تاریخ دیکھیں اس کے دونوں پہلوانذار کے بھی اور تبشیر کے بھی بڑے زبر دست طریقے پر پورے ہوئے.ایمان کے تقاضے جہاں بھی پورے کئے گئے ، فوقیت بشارت کے مطابق لِقَومٍ يُؤْمِنُونَ انہی کو حاصل ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۱۸ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء رض وہ تو اس زمانے کا تو ہر لمحہ اس کی تائید کر رہا ہے کیونکہ آپ کی تربیت میں صحابہ تھے وہ تقاضوں کو پورا کر رہے تھے ایمان کے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قیادت کر رہے تھے.ہر وقت ان کی رہنمائی تھی.جس وقت انتہائی دکھوں کی زندگی تھی ان دکھوں میں سے کامیاب نکلے.تیرہ سالہ زندگی کے دکھ اٹھا کے پھر چند سال میں سارے عرب پر غالب آجانا یہ کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے.ایسا معجزہ ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی قوم کو تیرہ سال تک اس طرح پیسا گیا ہو مکی زندگی میں اور آٹھ سال تک حملہ آور ہو کر اس طرح کوشش کی گئی ہو ان کو نیست و نابود کرنے کی اور پھر بیس سالہ اس ظالمانہ کوشش کا نتیجہ.اسلام کی موت نہیں بلکہ مسلمان کی زندگی کی شکل میں ظاہر ہوا.پھر ہم صحابہ کا زمانہ لیتے ہیں.چھوٹی سی قوم ہے.غیر مہذب ہے.طاقت ان کے پاس کوئی نہیں.ہتھیار ان کے پاس اچھا نہیں.تجربہ کار یہ نہیں ہیں جنگ کے میدان میں اور مال و دولت ان کے پاس نہیں ہے.ساری دنیا کے خزانے لوٹے ہوئے تھے.اتنے ہیرے جواہرات تھے کہ ہمارے جرنیلوں کو تو شاید میں روپے کی ٹوپی ملتی ہوگی پہننے کو اور ان کے کور کمانڈ رایک لاکھ کے ہیرے جڑے ہوتے تھے اس کی ٹوپی میں.یہ اس کا حکم تھا کہ ایک لاکھ ہیرے اور اس زمانہ میں ایک لا کھ میں جو ہیرا ملتا تھا اب شاید دو کروڑ میں بھی نہ ملے.ان کو خیال پیدا ہوا کہ ہم مٹادیں گے اور ہوا یہ کہ پہلے اس نے یہ ترکیب کی.یہ اس کا بڑا زبردست منصو بہ ہے.عام طور پر ہمارے جو مبلغ ہیں وہ اپنی تقریروں میں اس حصہ کو نہیں لیتے.یہ جوارتداد کا فتنہ پیدا ہوا ہے عرب میں، یہ سارا منصوبہ ایران کے کورٹ میں یعنی بادشاہ نے خود چھ سو عرب سرداروں کو بلا کے یہ منصوبہ بنایا تھا اسلام کو مٹانے کے لئے.تو حملہ تو کر دیا اس نے.جس وقت یہ نا کام ہوا منصو بہ اس کا تو چھیڑ چھاڑ اس نے اور دوسرے طریقے پر کی ہوگی.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد بن ولید ابھی مدینہ نہیں پہنچے تھے ان کو پیغام بھیجا کہ یہ سرحد میں جو ہیں وہ محفوظ نہیں ہیں.فتنہ تو شروع ہو گیا تو چلے جاؤ.جو تمہارے پاس فوج ہے وہ بھی لے کے چلے جاؤ.اٹھارہ ہزار فوج ان کے پاس.چار ہزار گھوڑ سوار اور چودہ ہزار پیادہ اور کسری کے مقابلے میں.انہوں نے پھر بعد میں ان کو حکم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء مل گیا تھا قیصر کے مقابلے میں جانے کا چار پانچ لڑائیاں لڑکی ہیں.ہر لڑائی میں کسری کی تازہ دم فوج ایک نئے کور کمانڈر کے ماتحت ساٹھ ستر ہزار سے لے کے ایک لاکھ کی تعداد میں آتی تھی اور یہ بیچارے وہی اٹھارہ ہزار کچھ شہید ہو گئے کچھ زخمی ہوگئے.تھکے ہوئے اور ان کا مقابلہ وہ تو زمانے کی اس قسم کی تو نہیں تھی امریکہ سے بٹن دبایا اور گولہ برساد یا کسی چھ ہزار سات ہزار میل پر.آمنے سامنے ہو کر لڑنا پڑتا تھا.فرق تعداد کا اتنا تھا کہ ہر آدھے گھنٹے ، گھنٹے کے بعد اگلی صف لڑنے والی کسری کی پیچھے چلی جاتی تھی اور تازہ دم آگے آجاتی تھی اور مسلمانوں کی ایک ہی صف اور وہ صبح سے لے کے شام تک لڑنے والے اور جیتے چلے جاتے تھے.کیا چیز جتارہی تھی ان کو؟ دنیا کا کوئی اصول.دنیوی کوئی اصول تو نہیں ان کو جتا سکتا.یہ وعدہ تھا ان سے آنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ فوقیت تمہیں حاصل ہوگی.اِن کُنتُم مُؤْمِنین ایمان کے تقاضے پورے کرتے چلے جاؤ اللہ تعالیٰ کی نعماء سے اپنی جھولیوں کو بھرتے چلے جاؤ.پھر جس وقت یہ سارا جنگ جو تھی ایران کے خلاف یہ اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی اس وقت قیصر نے سوچا پھنسا ہوا ہے عرب کا مسلمان.یہ موقع ہے ان کو پیچھے سے حملہ کر کے اور ان کو مٹا دو.دو محاذ کھل گئے.دونوں دنیا کی زبر دست طاقتیں سامنے آگئیں.اس وقت ان کو حکم ملا تھا کہ روووو آدھی فوج لے کے تم اس محاذ پر چلے جاؤ یعنی وہاں چھوڑ دیئے تھے پیچھے صرف نو ہزار ہی کسری کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے.لیکن اس وقت سر نہیں گنے جاتے تھے.اُس وقت تو اِن كُنتُم مؤْمِنين سامنے رکھ کے دلوں کی حالت دیکھی جاتی تھی.اسی زمانے میں مختصراً میں بیان کر دوں.حضرت خالد بن ولید نے جنگ سے بھی پہلے خط لکھا پوری رپورٹ تفصیلی لکھی کہ یہ ہوگا.یہ نقشہ بنے گا.اس طرح میرے مقابلہ میں تازہ دم فوجیں آئیں گی مجھے کمک بھیجیں.ہر نیا معرکہ کوئی دو دن بعد.کوئی تین دن کے بعد ہوا ہے.مہینوں کے وقفہ کے بعد نہیں ، دنوں کے وقفہ کے بعد ہوئے ہیں.تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کی کمک بھیج دی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آیا ہے وہ کھڑے ہو گئے انہوں نے کہا یہ کیا کر رہے ہیں آپ.اتنی تفصیل سے ہمیں رپورٹ دی ہے یہ حالات ہیں اور آپ ایک آدمی
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء کی کمک بھیج رہے ہیں.اس خدا کے بندہ نے آرام سے یہ جواب دیا کہ جس فوج میں اس جیسا آدمی ہو وہ شکست نہیں کھایا کرتی.اور پھر خیر وہ لمبا ایک واقعہ ہے اس نے بھی جا کے کارنامے جو دکھائے.پھر یہاں جو ایک ہی جنگ کا میں ذکر کر دیتا ہوں.یرموک کی جنگ میں تین لاکھ فوج قیصر کی عیسائیوں کی اور اس کے مقابلے میں یہ کئی فوجوں کے مختلف جگہوں کے یونٹ اکٹھے کر دیئے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آ گیا ہے خلافت کا.تو چالیس ہزار اندازہ ہے یعنی ہر ۷۵ ہزار کے مقابلے میں دس ہزار.یہ وہی قریباً نسبت رہ گئی اور پانچ دن عملاً جنگ ہوئی.ایک دن ان کے کہنے پر وقفہ ہو گیا تھا اور اس طرح بُری طرح شکست کھائی انہوں نے کہ کوئی حد نہیں.اس میں ایک واقعہ اور ہوا جو میں ذکر کر دیتا ہوں کیونکہ وہ اصل مضمون میرا جو ہے اسی کے او پر میں بیان کر رہا ہوں.یہ اس کی مثالیں دے رہا ہوں.پانچویں دن جس دن آخری معرکہ ہوا اور انہوں نے شکست کھائی اور کہتے ہیں کہنے والے واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے کہ ستر ہزار لاشیں میدان میں چھوڑ کے وہ تین لاکھ کی فوج بھا گئی تھی چالیس ہزار کے مقابلے میں اور پہلے جو چار دن تھے ان میں پتا نہیں کتنے زخمی ہوئے.کیا ہوا اس کا پتا نہیں.پانچویں دن خالد بن ولید نے اپنے دوستوں کو جو سردارانِ مکہ کے بیٹے تھے جن میں عکرمہ تھا ابوجہل کا بیٹا ، ان کو بلا یا اور کہا کہ دیکھو تم نے بڑا لمبا عرصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دشمنی کے مظاہرے کئے اور جنگوں میں شامل ہوئے ، اسلام کو مٹانے کی کوشش کی.تمہارے چہروں پر ایسے داغ ہیں کہ تمہارے خون کے علاوہ کوئی چیز ان کو نہیں مٹاسکتی اور آج موقع ہے اپنے چہروں کے دھبے دھوڈالو.ایک سو چالیس دوست اکٹھے کئے انہوں نے.ایک سو چالیس سے حملہ کر وا دیا تین لاکھ کی فوج پر.کوئی کہے گا پاگل پن تھا.کوئی کہے گا خدا تعالیٰ کے پیار کا سمندر موجزن تھا.انہوں نے بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں کی.انہوں نے کہا ٹھیک ہے ایسے دھبے ہیں جو صرف ہمارا خون دھوسکتا ہے اور آج ہم دھوڈالیں گے.ایک آدمی نہیں بچا ان میں سے.بیچ ہی نہیں سکتا تھا.۱۴۰ آدمی تین لاکھ پر حملہ آور ہو جائے.بچنے کا سامان ہی نہیں.کہتے ہیں ایک زخمی زندہ بعد میں ملا ان کو جو چند گھنٹے کے بعد وہ بھی فوت ہو گیا لیکن باقیوں کی تو لاشیں ہی وہاں سے اٹھائی انہوں نے.ان میں عکرمہ بھی تھے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۲۱ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء یہ کس برتے پر لڑ رہے تھے؟ انتم الاعلون کے.حضرت خالد بن ولید نے ایک جگہ فوج کو جوش دلانے کے لئے انہوں نے کہا کہ فوجوں کی ہار اور جیت ان کی تعداد پر نہیں ہوا کرتی بلکہ خدا تعالیٰ کے اس فضل پہ ہوتی ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے.اس واسطے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.بتا میں یہ رہا ہوں کہ اِن كُنتُم مُّؤْمِنین کے جب تقاضے پورے ہوں تو اس طرح بھی ہو جاتا ہے جیسا تاریخ نے ریکارڈ کیا اگر اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِین کے تقاضے پورے نہ ہوں تو پھر ایسا بھی ہمیں نظر آتا ہے مختلف ملکوں میں کہ اس ملک میں جو جوتی بھی سر پر مارنے کے لئے اٹھائی جاتی ہے وہ مسلمان کے سر پہ پڑتی ہے.ایسے نظارے بھی تاریخ میں دیکھے.ایک دفعہ ایک صحافی نے مجھ سے پوچھ لیا تھا کہ ہم سے کوئی وعدے بھی ہیں؟ ہمیں کوئی بشارتیں بھی دی گئی ہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں بشارت بڑی زبردست ہے.میں بتارہا ہوں یہ اصولی بشارت ہے.ہر شعبۂ زندگی میں فوقیت تمہیں رہے گی حاصل اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِین.میں نے کہا انتم الاعلون کی بشارت ہے اور تمہیں کون سی بشارت چاہیے.ہر شعبہ زندگی میں تمہاری فوقیت لیکن چھوٹی سی ایک شرط لگائی تھی ساتھ اِن كُنتُم مُّؤْمِنِين.یہ جو شرط لگانا ہے یہ انذار ہے.اسی سے انذار پتا لگتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو بشارت میں تمہیں بہت زبر دست دے رہا ہوں انتم الاعلون مگر ڈراتا بھی ہوں تمہیں.اگر تم نے ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہ کیا تو تمہارے حق میں یہ بشارت پوری نہیں ہوگی.ایک دوسری جگہ مومنوں کو بشارت ملی مغفرت کی.لا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر:۵۴) بڑی زبر دست بشارت ہے رزق کریم کی.یہ کریم جو میں نے Study کیا ہے کریم کے لفظ کے معانی کو ، یہ ہر شخص کے مزاج کے مطابق اور طبیعت کے مطابق معنی دیتا ہے کریم کا.تو رزق کریم نوعی لحاظ سے جو انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والا رزق ، جو انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا رزق مثلاً دو مہینے کے بچے کے لئے دودھ جو ہے ماں کا وہ رزق کریم ہے.اس کی حالت کے مطابق ہے اور اس کے لئے اگر آپ نہایت اچھا پکا ہوا پاکستان کا بہترین باور چی جو ہے وہ موٹا پلا ہوا چوزہ جو ہے پکا کے دو مہینے کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۲۲ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء بچے کے منہ میں ٹھونسے تو وہ رزق تو ٹھیک ہے لیکن وہ کریم نہیں ہے اس کے لئے ، طیب نہیں ہے اس بچے کے لئے.تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ جیسے جیسے تمہارے حالات بدلتے جائیں گے تمہارے حالات کے مطابق میں تمہاری ضروریات پوری کرنے کا سامان پیدا کرتا چلا جاؤں گا ).رزق کے معنی صرف کھانا ہی نہیں ہے بلکہ ضروریات پورا کرنے کا سامان تمہیں دیتا چلا جاؤں گا لیکن ساتھ انذار بھی ہے اتنا ز بر دست، مغفرت بھی ہے.حالات کے مطابق تمہیں ہر چیز میتر بھی آجائے گی.انذار ہے یہ کہ اگر تم ہجرت نہ کرو ہمارے حکم کے مطابق اور جہاد میں حصہ نہ لو اور مومن بھائیوں کو پناہ نہ دو اور بھائی بھائی کی مدد نہ کرے اور اس طرح تم سچے مومن نہ بنو یعنی قرآن کریم نے بھی مومن ، مومن میں فرق کر کے ایک جگہ خالی مومن کہا ہے.ایک جگہ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا کا لفظ ہے اسی آیت میں جو میں پڑھ رہا ہوں.یہ فرق خود قرآن کریم نے کیا ہے.سچے مومن نہ بنو تو یہ بشارت تمہارے حق میں پوری نہیں ہوگی.فرمایا:.وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَ الَّذِينَ اوَوُا وَ نَصَرُوا أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (الانفال: ۷۵) ہجرت کے معنی محض اپنے گاؤں کو یا شہر کو یا اپنی جائیداد کو چھوڑ کے دوسری جگہ منتقل ہونے کے نہیں ہجرت کے معنی ہیں ہر اس چیز کو چھوڑ دینے کے جسے چھوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہو.اس معنی کی طرف زیادہ تر توجہ ہمارے جو صوفیاء مفسر ہیں ان کی گئی ہے.وہ بہت سارے تو دوسری طرف آتے ہی نہیں.وہ اپنے ہی معنی کر جاتے ہیں لیکن وہ بھی معنی ہیں جو خدا کی.جس نے خدا کی خاطر مکہ جیسے شہر کو چھوڑا، اپنی جائیداد میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں.ہمیشہ کے لئے میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب فتح مکہ کے بعد بھی ان جائیدادوں کو واپس لینے کا کوئی Claim نہیں کیا انہوں نے.اسی طرح واپس آگئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ، بڑا ز بر دست واقعہ ہے وہ بھی.تفصیل بتائیں گے تمہیں یہاں کہیں.....اور وہ بھی ہجرت ہے لیکن ہر وہ چیز جس سے خدا منع کرتا ہے اس کو چھوڑ دینا وہ بھی ہجرت ہے.اس کو چھوڑ دو.اس آیت میں بنیادی طور پر دراصل
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۲۳ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء سارے اعمالِ صالحہ کو Cover کیا ہے ان کے متعلق بات کی ہے.جس چیز کو خدا منع کرتا ہے اس سے باز آؤ.ہجرت کرو.وَجْهَدُوا فِي سَبِيلِ الله اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیتا ہے اس کے لئے پوری سعی کرو.محض سعی نہیں جہاد کے معنے ہوتے ہیں انتہائی کوشش کر دینا.ہر شخص اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق پوری کوشش کرے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اس کے احکام کو پورا کرنے میں اور اس کی آگے پھر تفصیل کیونکہ بنیان مرصوص (الصف: ۵) بنانا تھا کہ تمہیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے.ایک دوسرے کی پناہ بننا چاہیے دوسروں کے دکھوں کا مداوا بننا چاہیے - أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ ہیں سچے مومن.نام کے مومن تو بہت سارے ہوتے ہیں لیکن قرآن کہتا ہے یہ سچے مومن ہیں.انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے مغفرت ہے.انسان ہے بشری کمزوریاں ہیں غلطی کرے گا ہزار جگہ اور اگر تو بہ کرے گا تو وعدہ ہے اس کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ اس کی تو بہ قبول کرے گا اور مغفرت کے سامان پیدا کرے گا اور اس کی ہر ضرورت پوری کرے گاؤ رِزْقٌ كَرِيم - دوسری جگہ بشارتیں دیں انتہائی کامیابی تمہیں ملے گی تمہاری کوششوں کا بہترین نتیجہ نکلے گا اپنے ربّ کریم کی طرف سے تمہیں عظیم الشان رحمت نصیب ہوگی.خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیار تمہیں ملے گا.دائمی نعمتوں والی جنتیں تمہارے نصیب میں ہوں گی.یہ ساری بشارتیں ہیں نا.انتہائی کامیابی ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان رحمت کا ملنا اس کا راضی ہو جانا.اس کے پیار کا حاصل ہو جانا.ایسی جنتوں کا، رضا کی جنتوں کا ملنا جو دائی ہیں جو ایک دفعہ مل جائیں پھر چھینی نہیں جاتیں لیکن ساتھ انذار ہے.وہی جو دوسری جگہ ہے وہ میں نے بتایا ہے نا کہ دراصل وہ سارے اعمال کو یعنی جو کہ کرنے کے ہیں وہ بھی اطاعت کرنا.ان کا نہ کرنا.جو کرنے کے ہیں وہ بھی اطاعت کرنا اور ان کے.اس اطاعت میں انتہائی توجہ اور انتہائی زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نمونہ ظاہر کرنا.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَ أُولبِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ - (التوبة :۲۰) انتہائی کامیابی جس کا میں نے ترجمہ کیا تھا.یہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۲۴ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء بشارت ہوگئی نا اعظمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْفَابِزُونَ کا میابی بڑی ہے.يُبَشِّرُهُم رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ ان کو بشارت دو.یہ ساری بشارتیں ہی ہیں جس کو میں نے کہا تھا نا بشارت.آپ کسی کو کسی کا دماغ ادھر نہ چلا جائے کہ وہ تو جزا ہے.کوئی جزا نہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ (التوبة : ۲۱) خدا تعالیٰ اپنی رحمت کی انہیں بشارت دیتا ہے.رضوان اور اپنی رضا کی انہیں رحمت دیتا ہے.وَجَنْتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ ابدی نعماء والی وو، جنتوں کی انہیں بشارت دیتا ہے.جن میں وہ ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.اور خدا تعالیٰ بڑا اجر.دینے والا ہے لیکن هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَ انْفُسِهِمْ یہاں جہاد کے معانی کا تجزیہ کر کے ، اس کو کھول کے بیان کر دیا ہے، اپنے اموال سے اور اپنے نفسوں سے یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفوس کی تہذیب کرنا، انہیں پالش کرنا اور خدا کی ، ملتِ اسلامیہ اور اشاعت اسلام کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرنا.قرآن کریم نے جہاد کو تین بنیادی معنوں میں استعمال کیا ہے.اپنے نفس کو پالش کرنا یعنی ساری برائیوں کو پاک کر کے.وہ پاک ہے خدا تعالیٰ پاک ہے نا اور پاک کو پسند کرتا ہے.پاکیزگی میں اس جیسا بنے کی کوشش کر نا انسان خدا نہیں بن سکتا یہ درست ہے لیکن انسان بننے کی کوشش کر سکتا ہے.اس کے دل کی یہ تڑپ جو ہے وہ خدا تعالیٰ کو پسند آتی ہے.خدا کہتا ہے میرا یہ عاجز بندہ، جو میری عظمت اور پاکیزگی ہے اس کے اربویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتا.طاقت ہی نہیں اس کو میرے مقابلے میں لیکن دل میں ایک جلن ہے، ایک آگ ہے، ایک تڑپ ہے، ایک لگن ہے وہ کہتا ہے میں بھی اپنے خدا کی طرح پاک بن جاؤں.خدا تعالیٰ کو وہ جو اس کی لگن اور تڑپ ہے اور جو نیت ہے، جو کوشش اس کے لئے وہ کر رہا ہے وہ پسند آتی ہے.بعض استاد کسی زمانے میں پرچے تول کے نمبر دے دیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ پرچے تول کے نمبر نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ تو اخلاص پر نگاہ رکھتا ہے اور اپنے پیار سے اٹھا کے اور اپنی گود میں رکھ لیتا ہے.اتنی عظیم بشارتیں ہیں.بشارت کا لفظ بھی یہاں استعمال ہوا ہے لیکن وہ لوگ جو، انذار کا پہلو بھی ہے اگر تم ہجرت اپنے پورے معانی میں جو ہجرت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے بیان کئے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوپر روشنی ڈالی ہے، آپ کے اُسوہ میں وہ چیز ہمیں نظر آتی ہے، اس کے مطابق ہجرت
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۲۵ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء نہیں کرو گے اگر اس کے مطابق جہاد نہیں کرو گے.میں بتارہا تھا تین معنے ہیں ایک نفس کے خلاف جہاد.ایک قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑ کے ساری دنیا میں قرآن کریم کے نور کو پھیلانے کی کوشش وہ بھی قرآن کریم کی اصطلاح میں جہاد ہے اور ایک اس انجان ناسمجھ کے خلاف جہاد جو خدا تعالیٰ کی پیاری قوم کو مادی طاقت سے مٹانے کی کوشش کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلواریں بھی ہوں گی ، تو کوئی پرواہ نہ کرنا میرے نام کے اوپر کھڑے ہو جانا جیسا کہ میں مثالیں دے کر پہلے آپ کو بتا چکا ہوں.بہر حال یہ سارے اعمالِ صالحہ کے اوپر ہجرت اور جہاد کا لفظ احاطہ کئے ہوئے ہے.بشارت خدا تعالیٰ کی رحمت کی دی اور شرطیں.قرآن کریم میں بشارتوں کے ساتھ انداری پہلو مختلف جگہ ساری تعلیم ہی یہ بھری ہوئی ہے یعنی ہر حکم جو ہے اس کا ایک پہلو انذار کا نکل آتا ہے یعنی یہ کہا کہ اپنے بھائی سے حسن سلوک کر.اسے دکھ نہ پہنچا.دونوں منفی اور مثبت دونوں چیزیں.اگر وہ دکھ پہنچا تا ہے حکم نہیں مانتا تو وہ انذار ہے اگر وہ سکھ پہنچاتا ہے تو وہ بشارت بن جاتی ہے.عملاً اگر وہ ایسا کرتا ہے أُولَبِكَ سَيَرْحَمُهُمُ الله (التوبة: ۷۱) خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہوں گے.کون لوگ ؟ وہ مومن مرد اور مومن عورتیں جو بعض، بعض کے خیر خواہ ہیں.امر بالمعروف کرنے والے، منکر سے روکنے والے، نمازوں کو قائم کرنے والے، زکوۃ کو دینے والے، غرض کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی پوری اور سچی اور کامل اطاعت کرنے والے - أُولَبِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ - تو جو شخص باہمی دوستی اور خیر خواہی نہیں رکھتا، امر بالمعروف نہیں کرتا ، نہی عن المنکر نہیں کرتا، نماز کو شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا پڑھتا تو ہے لیکن شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا ، زکوۃ کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتا.غرضیکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمی کرتا ہے وہ انذار ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ گے اگر ایسا کرو گے.یہ آخر میں میں نے دو آیتیں اس لئے لی تھیں اس کا دوسرا حصہ نبی والا حصہ بھی ایک دوسری آیت میں ہے.دونوں سامنے آجائیں گی تو آپ پر مضمون واضح ہو جائے گا.دوسری آیت میں ہے کہ ایک گروہ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ خدا تعالیٰ ان کی وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۲۶ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء کوششیں جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے بظا ہر نظر آتی ہیں، قبول نہیں کرے گا.ان کے صدقات قبول نہیں کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے عذاب کا سامان پیدا کرے گا اور ہیں وہ انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اور نماز ادا کرنے والے.یہ وہ گروہ ہے جن کے متعلق خدا کہتا ہے کہ ان کی قرب الہی کی کوششیں قبول نہیں ہوں گی.خدا تعالیٰ ان کے لئے عذاب کرے گا پیدا.بظاہر وہ خرچ بھی کرتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں.مومن بھی ہیں اور کفر باللہ بھی کر رہے ہیں اور رسول کا بھی کفر کر رہے ہیں.وَ مَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إِلَّا وَهُمْ كَسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ (التوبۃ: ۵۴) نماز پڑھتے ہیں مگر ٹھونگے مارتے ہیں یعنی شرائط اس کی قائم نہیں کرتے.ان کے دل میں خدا تعالیٰ کا پیار نہیں.وہ جو عاجزی کی کیفیت دل اور دماغ اور روح میں پیدا ہونی چاہیے وہ نہیں.وہ خدا تعالیٰ کو ہی حاکم اور دیا لو نہیں سمجھتے بلکہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور قبروں پہ مثلاً سجدہ بھی کر لیتے ہیں جاکے اور پیروں کی پرستش بھی کرتے ہیں.اس قسم کی نماز پڑھنے والے ہیں.وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ.دیتے تو ہیں مگر نفرت کے ساتھ دیتے ہیں.بشاشت کوئی نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا.ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ خرچ کرے اور بشاشت سے خرچ کرے کراہت سے خرچ نہ کرے.ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پڑھے اور نماز کو شرائط کے ساتھ قائم کرے.یہ نہیں کہ کسالی.مثلاً آگئے دوڑ کے ادھر ادھر دیکھ لیا اچھا مجھے کسی کی نظر مجھ پر پڑی ہے مجھے پھر نماز پڑھنی پڑے گی تو آگئے اور ظاہر میں ٹھونگے بھی مار لئے.ایمان کا دعوی بھی ہے اور عملاً کفر باللہ اور کفر بالرسول بھی ہے اور ساتھ یہ دعویٰ بھی ہے یہ ہے ہی منافقوں کے متعلق.ایسے کمزوروں کے متعلق جو نماز بھی پڑھتے ہیں آخر وہ ایمان کا دعوی کرنے والے ہیں نا جو آ جاتے ہیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے اور زکوۃ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں.تو اس کو چاہیے آپ تمہید سمجھ لیں.جو کچھ ابھی تک میں نے بیان کیا.میں جماعت کے یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت ہی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۲۷ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کو جو اس نے بشارتیں دی تھیں اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا ہے کہ ساری دنیا میں صحیح اور سچے اسلام کو وہ پھیلا کے اور قائم کر کے اور بنی نوع انسان کے دلوں کو پیار اور محبت کے ساتھ خدائے واحد و یگانہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو رَحْمَةٌ لِلعَلَمِينَ اور بشیر اور نذیر حافة للناس ہیں ان کے لئے جیتے.بنی نوع انسان کے دلوں کو جیت کے خدائے واحد ویگانہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے جھنڈے تلے جمع کرے بنی نوع انسان کو.اس لئے آپ کو قائم کیا، اتنی آپ کو بشارتیں دی گئی ہیں اتنی بشارتیں دی گئی ہیں کہ اندازہ نہیں آپ کر سکتے.اگر آپ میں کوئی سمجھدار ہو تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ میرے جیسے انسان کو اتنی عظیم بشارتیں کیسے مل گئیں؟ مجبور ہوگا اس نتیجہ پر پہنچنے پر کہ مجھے یہ بشارتیں ملی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل.تو جو اس ایمان کے تقاضے ہیں جو اَطِیعُوا اللهَ وَاَطِیعُوا الرَّسُول کا مطالبہ کر رہا ہے وہ ایمان خالی یہ نہیں کہ ہم ایمان لے آئے جو خدا اور رسول کی کامل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے.جو اس ایمان کے تقاضے ہیں اس کو آپ پورا کریں ساری دنیا اکٹھی ہو جائے آپ کا بگاڑ کچھ نہیں سکتی اس لئے کہ آپ کی ساری محنت اور کوشش مزدوری جو ہے وہ اپنے لئے نہیں خدا اور اس کے رسول کے لئے ہے.آپ اپنے لئے مکان نہیں بنا رہے.آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محل تیار کر رہے ہیں اور ایسا قلعہ جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں ساری دنیا آجائے گی.اگر آپ واقع میں ایسا کر رہے ہیں تو جو بشارتیں پہلی بھی اور نئی بھی ہیں وہ آپ کے حق میں پوری ہوں گی اس واسطے کہ اِن كُنتُم مُؤْمِنین والی کیفیت آپ کی زندگیوں میں ہے لیکن اگر آپ ایسا نہیں کر رہے تو خالی احمدی بن جانے منہ سے اور احمدی کہلانے دوسروں کے مونہوں سے، یہ آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس واسطے ہر شخص، ہر گھرانہ ، ہر شہر اور قصبہ اور ملک سوچے کہ اتنی بڑی بشارتیں ہمیں دی ہیں اتنی بڑی ذمہ داریاں ہم پر ڈالی گئیں ، اتنے بڑے نشان ہمیں دکھائے گئے ، انْتُمُ الْأَخْلُونَ.ہماری تو پچھلے نوے سالہ زندگی ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی چودہ سوسالہ زندگی کا چھوٹا سا حصہ.یہ بھی
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۲۸ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے روحانی.اس نوے سالہ زندگی میں ہر وہ بشارت پوری ہوتی ہم نے دیکھی جس کا وعدہ ہم سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا یا آپ کے طفیل آپ ہی کی بنیادی بشارتوں کے نتیجہ میں حضرت مہدی علیہ السلام نے ہمارے ساتھ کیا.اتنا سا آپ چندہ دے دیتے ہیں اور اتنے ملک ہیں وہ.پیچھے غانا میں کچھ ان کے حساب کتاب کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی.وہاں مبلغ انچارج خود غانین ہیں عبدالوہاب بن آدم.ان کو میں نے کہا آجاؤ مشاورت بھی دیکھ لو کئی سال سے آئے نہیں اور تم سے باتیں بھی کرنی ہیں.آپ نے چھ ملکوں میں نصرت جہاں سکیم کے ماتحت کام کرنے کے لئے جماعت کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے نیک نیتی کے ساتھ کیونکہ اس کا نتیجہ ایسا ہی نکلا باون لاکھ روپیہ دیا تھا.جب وہ یہاں آئے تو یہ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۳ء کے درمیان یہ رقم باون لاکھ جمع ہوئی ہے تو کئی کروڑ روپیہ جو صرف غانا میں خرچ ہو چکا ہے.میں نے ان سے کہا ہر ہفتے تمہاری طرف سے مطالبہ آتا ہے کہ جی تین لاکھ کی منظوری دے دیں.وہ صرف منظوری مجھ سے لیتے ہیں.باقی سارا کچھ انہی کے اختیار میں ہے.پانچ لاکھ کی منظوری دے دیں.ہمیں لاکھ کی منظوری دے دیں.میں بعض دفعہ گھبرا جاتا ہوں کہ پتا نہیں تمہارے پاس پیسے ہیں بھی یا نہیں اور مجھ سے تم منظور یاں لیتے جاتے ہو.خرچ کرتے جاتے ہو.مجھے بتاؤ تو سہی.کہنے لگے کہ وہ سارے اخراجات جو ہو چکے پچھلے سالوں میں ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ روپیہ بنک میں پڑا ہے.اس واسطے اور ان کے لئے جو وہاں میں نے بھیجے تھے ڈاکٹر.ان کو پانچ سو پاؤنڈ یعنی دس ہزار روپیہ میں دیتا تھا اور ان کو میری ہدایت تھی کہ چھتر بنا کے بیٹھ جاؤ اور خدا کی راہ میں خدمت کرو اس کی مخلوق کی.ان کو ضرورت ہے یا نہیں؟ یہ میرا اور تمہارا کام نہیں.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے شروع میں مجھے کہا ان کا دماغ تاجرانہ بھی ہے، وکیلا نہ بھی ہے.مجھے کہنے لگے آپ یہ باون لاکھ روپیہ کے حصے خرید لیں تو یہ جو Dividend ملے گا اس سے اپنے پروگرام چلائیں.خیر میں ان کی بات سنتا رہا.پھر میں مسکرایا.میں نے کہا چوہدری صاحب! مجھے زیادہ سے زیادہ کتنا Dividend مل جائے گا.کہنے لگے زیادہ سے زیادہ بہت اچھی بھی اگر کوئی کمیٹی ہو اور کامیاب ہو تو آپ کو بارہ فیصد مل جائے گا.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۲۹ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء میں نے کہا جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ تو کہتا ہے میں بغیر حساب کے دوں گا.میں بارہ کے اوپر کیسے راضی ہو جاؤں؟ اس واسطے مجھے کرنے دیں اپنا کام.تو یہ دیکھ لو آپ ہی بغیر حساب کے دیا کہ نہیں.ان کو بھی پتا نہیں لگتا.غیر ملکوں سے.غانا میں ہمارے لئے مسئلہ اور بڑھ گیا.میں نے پہلے بھی بتایا آپ کو کہ ڈاکٹر اپنی سمجھ کے مطابق نسخہ لکھ سکتا ہے.اپنی سمجھ کے مطابق تشخیص بھی کر سکتا ہے نسخہ بھی لکھ سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ تشخیص صحیح ہو.ضروری نہیں کہ نسخہ صحیح ہو.اگر تشخیص صحیح ہو اور نسخہ صحیح ہو تو اس نے تشخیص کر دی اور نسخہ لکھ دیا لیکن کوئی ڈاکٹر شفا نہیں دے سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ بازار میں بکتی نہیں.اس واسطے جو ہمارے مقابلے میں کروڑوں روپے خرچ کر دیے تھے جنہوں نے ابتدا میں پہلے سال بڑے بڑے محلات بنا دیئے جن کو ہسپتال انہوں نے کہا.بہت بڑی شاندار عمارتیں.ان کے پہلو میں ہم نے وہ خونچہ، یہ وہ لکڑی کا ایک ڈبہ سا بنا دیا.ان کو کہا کام کرو اور غیر ممالک کے (Millianaires) غانا میں آجاتے ہیں ہمارے ہسپتال میں سوسو اپنے ساتھ نوکر لے کے.وہاں یہی طریقہ ہے.ہمیں مصیبت ڈال دیتے ہیں کہ ان کو ٹھہراؤ.انتظام کرو ان کا اور دے جاتے ہیں.آپریشن کروانا ہے جو ان سے کہیں وہ فیس دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے اس واسطے سارے ویسٹ افریقہ میں شہرت ہوگئی ہے ہمارے ڈاکٹروں کی.غانا کے ایک افسر نے عیسائی نے اور کوئی اعتراض نہ کیا اس کو یہ اعتراض سوجھا اس نے کہا ہم تو تمہارا ہسپتال بند کر دیں گے تم غانین کا علاج نہیں کرتے اور جو غیر ملکی ہیں ان کے علاج کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہو.یہ اعتراض بنالیا خیر وہ تو پھر سمجھ آگئی اُن کو کہ ان کا بھی کرتے ہیں ان کا بھی کرتے ہیں.جو مریض آئے گا ان کے پاس بہر حال اس کا علاج کرنا ہے.یہ تو نہیں کہ بعض کا کرے گا اور بعض کا نہیں کرے گا.تو خدا نے وعدے دیئے ہیں بے شمار وہ پورے کر رہا ہے.کوئی احمق ہو گا جو کہے کہ خدا نے وعدہ ہم سے کیا تھا اور پورانہیں کیا.بعض تو اتنے جلدی وعدے پورے کئے ہیں پہلی قو میں تو اپنے دشمنوں کے متعلق صدیوں انتظار کرتی رہیں اور کچھ نہیں بنا ان کا اور آپ کو تو بعض ایسے تھے وعدے کہ چار سال انتظار نہیں کرنا پڑا.دنیا جہان کو آپ کے لئے الٹا کے رکھ دیا خدا نے اور کام کرنا ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۳۰ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء آپ کا ایک ہی کام ہے انسان کا دل خدا اور محمد کے لئے جیتنا ( صلی اللہ علیہ وسلم ).اس کے لئے قرآن کریم کی اشاعت ہے مختلف زبانوں میں اور قیمتیں بڑھ رہی ہیں.ہمارے لئے وہ Problems ہیں لیکن بہر حال ہم تلاش کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرتا ہے.قرآن کریم کی تفسیر آج کے زمانہ میں بہترین ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے یعنی میں تو پچھلے پندرہ سال میں بہت دفعہ باہر بھی گیا، Tour کیا.کوئی ایسا مسئلہ میرے سامنے یہ بڑے ذہین سمجھدار، پڑھے لکھے پی ایچ ڈی اور اس سے بھی آگے نکلے ہوئے انہوں نے اسلام کے متعلق نہیں رکھا کہ اسی وقت خدا تعالیٰ نے جواب نہیں سکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اندر بڑی برکت ہے وہ صحیح ہمیں قرآن کریم کا مقام، قرآن کریم کی تفسیر کرنے کا صحیح طریق ، قرآن کریم کی عظمت، یہ یقین کہ ہر چیز قرآن کریم میں سے نکل آتی ہے بتاتی ہیں.اب یہ یقین نہ ہو تو نہیں نکلے گی قرآن کریم سے یعنی جو دماغ یہ سمجھے گا کہ نکل نہیں سکتی وہ نہیں نکالے گا اور جو شخص یہ سمجھے گا کہ قرآن کریم میں سے ہر problem کاSolution ہر مسئلہ کا حل موجود ہے، نکالے گا.خدا تعالیٰ اس کی مدد کرے گا اور بڑے بڑے عجیب و غریب سوال وہ کرتے ہیں.ایک ذمہ داریوں کے ساتھ کچھ آپ کو جو صحیح Approach ہے مجلسوں میں تو میں نے بتائی شاید کسی خطبہ میں بھی آگئی ہو.خطبے بھی نہیں پڑھتے بہت سارے.یہاں بہت سارے ہوں گے جو پہلی دفعہ سن رہے ہوں گے بات.فرینکفرٹ کی بڑی اچھی پر یس کا نفرنس تھی اس میں ایک صحافی مجھے کہنے لگے.اسلام میں تعدد ازدواج کی تعلیم دی گئی ہے.اپنی طرف سے بہت بڑا اعتراض انہوں نے بنایا ہوا ہے یورپ کے ملک میں تو میں کوئی Apology تو نہیں کیا کرتا.میں تو.مجھے تو خدا تعالیٰ نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے نائب بنایا ہے مہدی کا.میں نے کہا ہاں دی گئی ہے تعلیم.مگر اگر دنیا کی کوئی عورت دوسری بیوی بننے کے لئے تیار نہ ہو تو عملاً تعدد ازدواج نہیں ہوگا اور اگر دنیا کی کوئی عورت دوسری بیوی بننے کے لئے تیار ہو نہ تمہیں کوئی اعتراض نہ مجھے کوئی اعتراض.جب وہ دوسری بیوی بننے کے لئے تیار ہے تم کون ہوتے ہو اعتراض کرنے والے.اس کو تسلی ہو گئی کیونکہ یہی اس نے مجھ سے پوچھا تھا.مجھے تسلی نہیں ہوئی.میں نے کہا
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۳۱ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء گھر جا کے شاید شیطان وسوسہ ڈالے کہ پہلی بیوی کے متعلق پھر کیا کہتا ہے اسلام.قرآن کریم میں ہے یہ کہ دوسری بیوی کرنے سے پہلے، پہلی بیوی سے مشورہ کرلو.یہ قرآن کریم کی آیت کی تفصیل بیان کی میں نے اس کے سامنے.میں نے کہا کہ وہ کہے گا کہ میری فلاں فلاں ضرورت ہے مثلاً ہیں سال ساتھ رہا اس کے.اس کے تعلقات.پیار ہے بیوی کے ساتھ.وہ کہے گا میں سال تمہارے ساتھ رہا ہوں اب یہ مجھے مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، یہ میری Problem ہے.اگر تم کہو تو میں دوسری شادی کرلوں.اس کے دو جواب ہوں گے یا وہ کہے گی کہ میں سمجھ گئی تمہارا مسئلہ اور تمہاری ضرورت حقہ ہے کر لو.پھر بھی نہ تمہیں اعتراض کوئی نہ مجھے کوئی اعتراض.یا وہ یہ کہے گی کہ میں تمہارے مسئلہ کو صحیح نہیں سمجھتی اور تمہیں چھوڑنا بھی نہیں چاہتی.میں تمہارے ساتھ رہوں گی چاہے مجھے سمجھ آئے نہ آئے تب بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں یا وہ کہے گی کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی.تو قرآن کریم خاوند کو کہتا ہے کہ اس کے سارے حقوق ادا کرو اور اس کو تم علیحدہ کر دو.پھر بھی تعدد ازدواج نہیں ہوگی.ایک جگہ امریکہ کی ایک مجلس میں احمدیوں کے ساتھ بہت سارے عیسائی بھی تھے یہی اعتراض کر دیا تعدد ازدواج کا تو ہمارے مبلغ یا احمدی جواب دینے لگے تو ایک امریکن عورت عیسائی کہنے لگی نہیں نہیں آپ ٹھہریں میں جواب دوں گی.کہنے لگی تم تو بالکل ہی ناسمجھ ہو.زندگی میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایک شخص کو دوسری شادی کرنی پڑتی ہے.کہنے لگی مجھے دیکھو.میرے باپ نے دوشادیاں کیں اور اسے کرنی چاہئیں تھیں.کہنے لگی شادی کی پھر بچے پیدا ہوئے.میں بھی ایک لڑکی ہوں اپنی پہلی ماں سے.پھر ایک وقت گزرنے کے بعد میری ماں ہوگئی پاگل.تو دو صورتیں تھی یا وہ اس کو طلاق دے دیتا اور وہ خراب ہوتی رہتی اور دوسری شادی کر لیتا اس کی بجائے ایک ہی رہتی اور یا وہ اس کو اپنے پاس رکھتا اور دوسری شادی کرتا.اس نے دوسری شادی کی اب وہ گھر میں ہے.نئی بیوی بھی اس کا خیال رکھتی ہے.اس کا ہم علاج کرتے ہیں.بڑا خوش رکھتے ہیں کوئی تکلیف اسے نہیں.بہت ساری تکلیفیں اس کو اٹھانی پڑتیں اگر دوشادیوں کی اجازت نہ ہوتی.تو اس نے یعنی عیسائی عورت نے معترض کو اسلام کی طرف سے یہ
خطبات ناصر جلد ہشتم سمجھا دیا.دنیا کی عقل اس طرف آرہی ہے.۲۳۲ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تم عورت کو دکھ دینے کے لئے دوسری شادی کرو.یہ کہیں قرآن کریم نے اجازت نہیں دی.اسلام نے تو کہا ہے ضرورت ہو ، حالات کا تقاضا ہو کر و دوسری شادی لیکن عدل کا قائم رکھنا ضروری ہے.اگر تم سمجھو.تم سمجھو عدل قائم نہیں رکھ سکو گے تو بالکل نہ کرو دوسری شادی.دوسری شادی کا ایک دفعہ جب میں پڑھا کرتا تھا آکسفورڈ میں تو ایک سویڈن کا نوجوان طالب علم میرا دوست بن گیا.میں نے سویڈن کے متعلق بھی کچھ پڑھا ہوا تھا.میں نے اس کو اسلام کا تعارف کروانے کے لئے تعدد ازدواج کا ہی مسئلہ لیا.میں نے کہا مجھے یہ بتاؤ تمہارے ملک میں عورت اور مرد کی نسبت کیا ہے.کہنے لگا ( میں نے پڑھا ہوا تھا وہ.اس کے منہ سے کہلوانا چاہتا تھا ) کہنے لگا چالیس فیصد مرد اور ساٹھ فیصد عورت.میں نے کہا تو پھر بیس فیصد عورت وہاں کیا کرتی ہے؟ وہ بڑے ذہین ہوتے ہیں.کہنے لگا تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو.میں نے کہا مذاق نہیں کر رہا.تمہارا علاج ہے تعدد ازدواج میں.ورنہ بدمعاشی پھیلے گی تمہارے ملک میں اگر اس طرف نہیں آؤ گے تو.یہ قوم کا مسئلہ ہے جس کو تعدد ازدواج حل کرتا ہے.بعض افراد کے مسائل ہیں ان کو حل کرتا ہے.بہر حال سوال یہ نہیں کہ تعدد ازدواج کی اجازت ہے یا نہیں.اور جو احکام وہ ہیں.سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جن شرائط کے ساتھ جو کام کرنے کو کہے ہیں وہ آپ نے کرنے ہیں جن سے روکا ہے ان سے آپ نے رکنا ہے.اس کے بغیر آپ وہ نمونہ آج دنیا کے سامنے نہیں رکھ سکتے.جسے دیکھ کے وہ اسلام کی طرف مائل ہوں گے.قرآن کریم نے کسی ایک جگہ یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور غیر مسلم کے دنیوی حقوق مختلف ہیں.کسی ایک مسئلے میں نہیں.سینکڑوں جگہ جو روکا ہے مثلاً کہا ہے بدظنی نہ کرو.کہیں نہیں کہا کہ غیر مسلم کے اوپر بدظنی کر لیا کر و مسلمان پر نہ کرو.افترانہ کرو، تہمت نہ لگاؤ.یہ نہیں کہا کہ عیسائی پر تہمت لگا دیا کرو آرام سے اور مسلمان پہ نہ لگاؤ.سب کے برابر کے حقوق ہیں دنیوی حقوق جتنے ہیں.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ااا) کہا ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۳۳ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۹ء نوع انسانی کی بھلائی کے لئے قائم کیا ہے اُمت مسلمہ کو.أُخْرِجَتْ لِلْمُؤْمِنِينَ نہیں کہا کہ جو ایمان کا دعویٰ کرے صرف ان کی بھلائی کے لئے تمہیں ہم نے کھڑا کیا ہے.تو جب تک آپ لوگ دیانت داری کے ساتھ خدا کے بندے بننے کی کوشش نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو مستحق نہیں بنائیں گے خدا تعالیٰ کی بشارتوں کا کہ وہ تمہاری زندگیوں میں پوری ہوں اس وقت تک اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کہ نوع انسان کے دل جیتیں اور خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے ان کو جمع کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور ہمیں سمجھ دے اور ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور ہماری روکوں کو دور کرے اور ہمیں ہمت عطا کرے اور طاقت دے اور دنیا میں سب سے زیادہ دلیر اور نڈر اور خدا کے پیغام کو ساری دنیا کے کناروں تک پہنچانے والا بنادے.(آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۳۵ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء حسن کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے خطبه جمعه فرمود ه ۲۹ / جون ۱۹۷۹ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:.إنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ مَا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ اخِذُ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - (هود: ۵۷) پھر حضور انور نے فرمایا:.یہ خطبہ پچھلے خطبہ کے مضمون کے سلسلہ میں ہی ہے.ہم احمدی مسلمان اس اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں جسے قرآن کریم میں پیش کیا گیا ہے.اس کی ذات کو جس طرح بیان کیا گیا اس پر ہمارا ایمان ہے اور اس کی صفات کو جس طرح پیش کیا گیا ، ان صفات پر ہمارا ایمان ہے.ہمارا اللہ ہمارا معبود ہے.ہمارا محبوب ہے اور ہمارا مطلوب ہے.ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس غرض سے پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ ساری صلاحیتیں عطا کیں جن کے نتیجہ میں وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات اور صلاحیتوں پر چڑھا سکتا ہے.صرف اللہ ہی عبادت کا سزاوار ہے.صرف وہی ہے جس کی عبادت کرنی چاہیے اس رنگ میں کہ اس کے ہر حکم کو مان کر جو حکم کہ ہماری صلاحیتوں کی نشوونما ہی کے لئے ہمیں دیا گیا ہے، ہم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۳۶ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء اس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں اور وہ ہمارا رب بڑا ہی پیارا ہے.حسن کا سر چشمہ اور منبع ہے.محسن بنیادی طور پر اس چیز کو کہتے ہیں کہ کشش اور جذب ہو ، جس چیز میں جذب اور کشش ہو اس کو حسین کہا جاتا ہے.گلاب کا پھول تر و تازہ جب کھلتا ہے تو وہ انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی طرح ہر حُسن جو خدا تعالیٰ نے اس جہان میں پیدا کیا وہ انسان کو اپنی طرف کھینچنے والا ہے اور حسن کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر غیر اللہ کا حسن یا نور جو ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے.اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بھی بیان کیا ہے قرآن کریم میں کہ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) اور پیار کرنے والا بھی ہے اسی طرح جس طرح چاہتا ہے کہ ہم اس سے پیار کریں.بڑا پیار کرنے والا ہے.سب سے زیادہ پیار خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا.ساری دنیا کو آپ کے لئے بدل دیا اس معنی میں کہ تمام پہلے انبیاء جو تھے علیحدہ علیحدہ ان کی امتیں تھیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں ان کی تعلیموں کا محسن اکٹھا کر دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور قوتِ احسان میں تمام انبیاء کے حسن و احسان کو اکٹھا کر دیا اور زائد دیا یہ بتانے کے لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے یہ کائنات پیدا کی گئی ہے.لولاك لَمَا خَلَقْتُ الافلاك - اگر الہی منصوبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی کی پیدائش نہ ہوتی تو اس کائنات کو بھی پیدا نہ کیا جاتا.پس یہ خدا ہمارا پیارا بھی ہے ، ہم سے پیار کرنے والا بھی ہے اور ہمارا مطلوب بھی ہے.ہم سے پیار کرنے والا ہے اس شرط کے ساتھ کہ ہم اس کی طرف رجوع کریں ہم اس کی طرف بڑھیں.جو صراط مستقیم اس نے اپنے تک پہنچنے کے لئے تجویز کی ہے اس صراط مستقیم پر چل کر ہم اس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.صرف اس پر ہم تو گل کریں کسی اور پر ہمارا تو گل نہ ہو.صرف اسی کو ہم زندہ اور زندگی بخش سمجھیں کسی اور سے اپنی زندگی اور بقا کے لئے مانگیں نہیں.کسی کی احتیاج اپنے دل میں محسوس نہ کریں.إنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ (هود: ۵۷) اس آیت میں فرمایا کہ جس اللہ پر میں تو گل کر رہا ہوں ، وہ میری ربوبیت بھی کر رہا ہے اور تمہاری ربوبیت کے بھی اس نے سامان پیدا کئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۳۷ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء ہیں.میری ربوبیت کر رہا ہے میں اس پر توکل کرتا ہوں.تمہاری ربوبیت کے سامان اس نے پیدا کئے ہیں تمہیں اس پر تو گل کرنا چاہیے اور ہر دوسری چیز کو نظر انداز کر دینا چاہیے.بھول جانا چاہیے.چھوڑ دینا چاہیے.اور اس پہ میں توکلت کرتا ہوں علی وجہ البصیرت اور جانتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت اگر وہ مجھ سے پیار کرے، اگر وہ مجھے اپنی حفاظت میں لے لے، اگر وہ میری ڈھال بن جائے تو مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی.مَا مِن دَآبَّةٍ إِلَّا هُوَ اخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا(هود: ۵۷ ) ہر جاندار اس کی گرفت میں ہے.کوئی اس سے اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہے.مگر جیسا کہ وہ پچھلے خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اور نذیر ہیں مومن اور کافر کے لئے.یہاں بھی شرط لگائی ہے.تو گل کا نتیجہ تب ظاہر ہوتا ہے جب انسان صراط مستقیم پر گامزن ہو اور بہکے نہیں دائیں یا بائیں.ان رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (هود: ۵۷) صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس راستہ کی ضرورت نہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے.اِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ راہ سیدھی ، وہ صراط مستقیم جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہے اس صراط مستقیم پر خدا تعالیٰ کھڑا ہوا ہے انعام واکرام کرنے کے لئے اپنے ان بندوں کو جو اس راہ پر چل کر اس کی تلاش کرتے ہیں.تو جو صراط مستقیم پر نہیں اُس کے لئے اندار ہے.جو صراط مستقیم سے بھٹکتے نہیں اور خدا تعالیٰ کی ان راہوں کو اختیار کرتے ہیں جو اس کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور اس کی رحمتوں کے وارث بنتے ہیں.پھر ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلوةَ وَ انْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً و يَدرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَبِكَ لَهُم عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: ۲۳) جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثابت قدمی سے کام لیا اس طرح پر کہ اس کے حکموں کو بجالائے ، نماز کو عمدگی سے ادا کیا اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے چھپ کر بھی اور ظاہر بھی ہماری راہ میں خرچ کیا اور وہ لوگ جو بدی کو نیکی کے ذریعہ سے دور کرتے رہتے ہیں، بدی کے مقابلہ میں بدی نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۳۸ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء کرتے ، گالی کے مقابلہ میں گالی نہیں دیتے، ظلم کے مقابلہ میں ظلم کی راہوں کو اختیار نہیں کرتے اور اس طرح ظلم کے تسلسل کو بڑھانے میں حصہ دار نہیں بنتے بلکہ بدی کو نیکی کے ذریعہ سے دور کرتے رہتے ہیں.یہ ایک ایسا بنیادی اصول ہے یا ایک ایسا بنیادی حکم ہے یا انسانوں میں ایک ایسی بنیادی صفت پیدا کرنے کا طریق بتایا گیا ہے کہ جس کے ذریعہ سے ظلم اور بدی کا جو چکر ہے اسے کاٹ دیا جاتا ہے اور بند کر دیا جاتا ہے اور ظلم کا دروازہ جو ہے وہ کھلا نہیں رہتا بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے بند کر کے اور ظلم کے چکر کو ختم کر دیا جاتا ہے.تو وہ لوگ جو بدی کو نیکی کے ذریعہ سے دور کرتے رہتے ہیں انہی کے لئے اس گھر کا اور گھر کا ذکر اگلی آیت میں ہے جنتوں کا ذکر جس میں ابدی نعمتیں ہیں ، بہترین مقام ان کو ملے گا ، بہترین مقام کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ ابھی بتایا وَ الَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ یہ بنیادی چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بہترین مقام کا حق دار بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو رب سمجھتے ہوئے ، اس کی ربوبیت کو علی وجہ البصیرت جانتے ہوئے ، اس اللہ، رب کی رضا کی طلب میں ہمیشہ رہتے ہوئے ثابت قدمی سے کام لینے والے، ہمیشہ اس کوشش میں رہنے والے ہیں کہ کسی طرح ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے.یہ بنیادی چیز ہے باقی تمام احکام اسلام کے اسی بنیادی مقصود کے حصول کے لئے دیئے گئے ہیں.نمازیں پڑھنا، ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کا، اس کے بندوں کی خیر خواہی چاہنا، ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہ کرنا ، گالی کے مقابلہ میں گالی نہ دینا ظلم کے مقابلہ میں نیکی کرنا اور گالی کے مقابلہ میں دعائیں دینا تا کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جائے ، یہ تمام تفاصیل ہیں احکام کی جو ایک مقصود کے حصول کی طرف نشاندہی کرنے والی ہیں اور وہ مقصود یہ ہے کہ کسی طرح ہمارے رب کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے.اس طلب میں وہ ثابت قدم رہتے ہوئے خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر چلتے ہیں اور اس طرح پر وہ جنت کے اعلیٰ مقام پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق پہنچا دیئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ، کیونکہ وہ انعامات جو ہیں وہ نہ ختم ہونے والی اُخروی زندگی سے تعلق رکھنے والے، نہ ختم ہونے والے انعامات ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو اس چھوٹی سی زندگی کی محدود کوششیں ان
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء غیر محدود انعامات کا عقلاً اور منطقی لحاظ سے کسی کو وارث نہیں بناتیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہی ہے جو انسان کو ابدی نعمتوں کا وارث بنا دیتی ہے.اللہ بڑا رحم کرنے والا ، بڑا پیار کرنے والا ہے.پس میں بتا یہ رہا ہوں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر جسے اسلام نے ، جسے قرآن کریم نے ، جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں اور اپنے اسوہ میں پیش کیا.اللہ ہمارا معبود ہے.اللہ ہمارا محبوب ہے.وہ ہمارا مقصود و مطلوب ہے اور اللہ تک پہنچانے والے، اللہ کی رضا کی راہوں کو ہم پر ظاہر کرنے والے ہمیں وہ راہیں دکھانے والے، پیار کے ساتھ ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم.چونکہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ ہم سے راضی ہو اور ابدی انعامات کا ہمیں وارث بنائے اور ہم اس کی پیاری آواز کو اپنی اس محمد ود زندگی میں بھی ساری ان بشارتوں کے ساتھ سنیں جو اس نے دی ہیں اور مرنے کے بعد بھی وہ اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں داخل کرے اور اس گروہ میں ہم شامل ہوں جن کے متعلق فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد : ۲۵) کہا گیا ہے اس پہلی آیت میں جو میں نے پڑھی تھی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قدر پیار کیا اپنے رب سے کہ کسی انسانی زندگی میں وہ پیارا اپنے ربّ کے لئے ہمیں نظر نہیں آتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر عظیم صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ جسمانی قوتوں کے ساتھ بھی اور روحانی قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ بھی آئے.بنی نوع انسان کی طرف کہ اس قدر قو تیں اور صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے کسی اور کو عطا نہیں کی تھیں.بہت ساری یہ میں کر جایا کرتا ہوں مختصر باتیں کیونکہ بہت سارے شیطانی وساوس جو ہیں وہ حل ہو جاتے ہیں اگر ہم اس بات کو سمجھیں.جس قدر صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں اور کسی انسان کو نہیں دیں.پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب صلاحیتوں کو جس قدر نشو و نما کرنے کی توفیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اتنی توفیق کسی انسان کو اس کی.اس کو جوطاقتیں ملی تھیں ان کی نشو ونما کے لئے توفیق نہیں ملی ہمیں نظر نہیں آتی.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۴۰ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑی روشنی ڈالی ہے کہ کامل نمونہ تو تب بن سکتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ جب ہر انسان کے ہر قسم کی زندگی کے ماحول سے ملتے جلتے ماحول میں سے آپ کو گزرنا پڑتا.آپ نے مظلومانہ زندگی بھی گزاری ، آپ نے محکومانہ زندگی بھی گزاری، یعنی اور بادشاہ تھے.کسی اور کی بادشاہت میں رہے مکی زندگی میں.آپ نے غریبانہ زندگی بھی گزاری، آپ نے مسکینی کی زندگی بھی گزاری ، آپ ایک وقت تک اکیلے تھے اور اس معنی میں کہ گھر والے بھی نہیں پہچانتے تھے ، پھر یتیمی کی زندگی بھی گزاری اور آپ نے عیال داری کی زندگی بھی گزاری.آپ ایسے ماحول میں سے بھی گزرے کہ آپ کے سارے ہی لڑکے فوت ہو گئے اور صرف بچیاں اولاد میں سے بچیں.باپ بھی بنے اچھے باپ، بہترین باپ اور صدمہ بھی اٹھایا اور ہر انسان کے لئے ایک نمونہ پیدا کر دیا.پھر آپ صاحب دولت بھی بنے.ساری دنیا کی دولتیں آپ کے قدموں میں اور آپ کے ماننے والوں کے قدموں میں خدا تعالیٰ نے لا کے رکھ دیں.اُس وقت کی دنیا کی ساری دولتیں سمٹ سمٹا کے کسری کے خزانوں اور قیصر کے خزانوں میں تھیں اور اس وساطت سے پھر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کے قدموں میں کسری کے خزانے بھی آکے ڈال دیئے گئے اور قیصر کے خزانے بھی وہاں...اور جو نمونہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب دولت و ثروت ہونے کے زمانہ کے لئے اپنے صحابہ کے سامنے پیش کیا تھا اس کی دو مثالیں آپ کو دے دیتا ہوں، بھری پڑی ہے ہماری تاریخ.حضرت ابو ہریرہ ایک نہایت ہی غریب اور مسکین انسان.کئی دفعہ بھو کے بھی رہتے.کئی وقت کا فاقہ آپ پہ گزر جاتا ، ظاہر نہیں کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اشارہ کبھی کہہ دیتے تھے کہ دیر سے کھانا نہیں ملا.ان کو قیصر کا رومال بادشاہ سلامت کا ملا.اب انہوں نے فخر سے اپنے سر پہ نہیں باندھا بلکہ رومال لے کے اس میں تھو کا اور کہا خدا کی شان ہے کہ جسے روٹی کھانے کو نہیں ملتی تھی آج اسے قیصر کا، کسری کا رومال تھوکنے کے لئے مل گیا.تو کسریٰ کا رومال کوئی فخر کا باعث نہیں تھا ان کے لئے فخر کی بات یہ چیز تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آج یہ دن بھی ان کو دیکھنا نصیب ہوا اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ.جب یہ خزانے آئے حضرت عمر
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء نے ترجیحی فہرستیں صحابہ کی بنائی ہوئی تھیں ان کے مقام کے لحاظ سے ان کا حصہ رسدی مال غنیمت سے بانٹ دیا کرتے تھے.ایک موقع پر حضرت عائشہ کے حصہ میں ایک لاکھ سونے کی اشرفی آئی.وہ ان کے گھر میں پہنچا دی گئی.آپ کی ایک خادمہ تھی اس کو بلایا ان دنوں میں ایک لاکھ کا گنا تو بڑی مشکل بات تھی نا اس لئے تول لیا کرتے تھے.تو ایک فہرست بنائی ذہن میں کہ اس طرح میں نے تقسیم کرنی ہے.اتنے سیر اس میں سے فلاں کے گھر بھیج دوں گی اتنے فلاں کے.اس کو کہا تکڑی لاؤ.تول تول کے اسی کے ہاتھ ان لوگوں کے گھروں میں جن کو حصہ رسدی ملا ہوگا لیکن کم.ان کے گھروں میں اشرفیاں سونے کی بھجوائی شروع کر دیں اور آخری تول تو لا اشرفیوں کا اور بھجوا دیں اور یوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑی ہو گئیں.ایک اشرفی بھی اپنے پاس نہیں رکھی.خادمہ نے کہا کہ آج کھانے کے لئے کچھ نہیں ہمارے گھر میں ، اس کا خیال رکھیں.انہوں نے کہا خدا کا نام میرے گھر میں ہے.آپ ہی انتظام ہو جائے گا.اس کی کیا پرواہ ہے.تو صاحب ثروت و دولت ہونے کے لحاظ سے بھی ایک اُسوہ پیش کیا دنیا کے سامنے.اور وہ یہ تھا کہ دولت ملے دولت سے پیار نہ کرنا.دولت دینے والے سے پیار کرنا اصل یہ ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بھی یہی نمونہ ہے.انہوں نے کہا دولت دینے والا جب میرے پاس ہے تو دولت کی احتیاج کا خیال میرے ذہن میں کیسے آسکتا ہے.ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کئی ہزار اشرفی کا جبہ پہن لیتے تھے.بڑے بزرگ تھے لیکن وہ جبے سے پیار نہیں کرتے تھے.ایک دن ایک بہت بڑے امیر نے ان کو دعوت دی.تو وہ اپنے فقیرانہ لباس میں اس کے محل کی طرف روانہ ہو گئے.جس وقت وہ ڈیوڑھی میں پہنچے تو ان کے دربان نے ان کو پہچانا نہیں اس لباس میں.وہ کہنے لگا بابا جاؤ یہاں آج تو بڑوں بڑوں کی دعوت ہے.کہاں آگئے ہو آج تم پھر آ جانا کسی وقت.وہ سمجھا کہ مانگنے کے لئے کوئی آگیا ہے.یہ چلے گئے واپس اور انہوں نے وہی ہزار ہا پاؤنڈ کی اشرفیوں کا جبہ پہنا.پھر آئے اور بڑے جھک کے سلام کیا اس دربان نے اور بڑے عزت و احترام کے ساتھ اس نواب صاحب کے پہلو میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء جا کے ان کو بٹھا دیا.وہی ان کا مقام تھا.جب کھانا سامنے رکھا گیا تو انہوں نے آرام سے اپنا وہ قیمتی جبہ کا کنارہ لے کے شوربے کے پیالے میں ڈال دیا.وہ حیران کہ یہ کیا ہو گیا.میزبان کہنے لگا یہ کیا کیا آپ نے؟ اس نے کہا کہ تم نے میری دعوت تو نہیں کی جے کی ( کی ) ہے.پہلے میں غریبانہ لباس میں آیا تھا تمہارے دربان نے مجھے واپس کر دیا.پھر میں یہ جبہ پہن کے آگیا اس نے مجھے بڑی عزت و احترام کے ساتھ تمہارے پہلو میں لا بٹھایا تو جس کی دعوت کی تم نے اسے میں نے کھلانا شروع کر دیا ہے.اصل چیز یہ کہ ہزار ہا اشرفی اس جیتے کی قیمت تھی ان کے دل میں کوئی قیمت نہیں تھی اس کی اور اس کو خراب کر دیا.یہ ہمارے ہاں بھی بعض لوگ ہیں نو جوانوں میں میں نے بعض احمد یوں کو بھی دیکھا ہے.مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے.ٹھیک ہے اگر خدا نے تمہیں پیسے دیئے ہیں اس کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے تم پہنو.خدا نے منع نہیں کیا لیکن دوسروں کے حقوق کا خیال رکھو.چار سو روپے کا سوٹ پہنا ہوا ہوگا اور ذرا لگ جائے مٹی تو یوں جھاڑ رہے ہوتے ہیں......یہ ہے تمہاری زندگی ، ایک مومن کی زندگی اس طرح نہیں گزرسکتی.بڑی دیر کی بات ہے ایک جگہ لڑائی ہو گئی.پارٹیشن سے پہلے کی بات ہے.احمدی ، احمدی آپس میں لڑ پڑے.لمبا قصہ نہیں میں آپ کو سناؤں گا.بہر حال ان کے لئے فیصلہ کی کوئی صورت نظر نہیں آئی.ہمارے چوہدری فتح محمد سیال مرحوم اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے بڑی خدمت کی انہوں نے اسلام کی تو وہ بھی ناکام ہو گئے.تو ان دونوں لڑنے والی پارٹیوں کے لیڈروں کو میں نے کہا آؤ میرے ساتھ چلو ذرا.اور اٹھنے لگے میں نے کہا نہیں تم بیٹھے رہو ان کے ساتھ بات کرنی ہے.دونوں کو میں نے ایک فرلانگ گاؤں سے باہر لے جا کے تو ایک ہل چلا ہوا سو ہا گہ پھری ہوئی بڑی نرم سی کھیتی تھی وہاں میں چوکڑی مار کے بیٹھ گیا اپنی اچکن اور کپڑوں سمیت اور میں نے کہا میرے سامنے بیٹھو.ان سے گلے شکوے سنے اور کوئی آدھے گھنٹے پونے گھنٹے میں وہ سارا فیصلہ کر دیا ان کا.تو یہ کپڑے جن کو میسر آئیں ، پہنیں الحمد للہ پڑھ کے.کوئی نہیں روکتا کسی کو کیونکہ رہبانیت اسلام میں نہیں ہے.یہ بھی اُسوہ رسول ہے.کئی لوگ اپنے اوپر راکھ مل لیتے ہیں فقیر.اس قسم کی
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء عبادتیں اسلام کے اندر نہیں ہیں.خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو لیکن خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی انسان کو بھی دکھ نہیں پہنچنا چاہیے اور ہر ایک کا خیال رکھو.ان کے دکھوں میں شریک ہو.اپنے پیسوں سے ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو اور پھر جو حصہ رسدی تمہیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے تم نے کرنا ہے وہ تم پہنو جو تمہیں دیتا ہے وہ.اس کو استعمال کرو.کوئی نہیں روکتا.میں اپنی ایک مثال دے دیتا ہوں چھوٹی سی.بہت سارے دوست مجھے مثلاً قلم لا دیتے ہیں تحفہ، تو میں سال میں کوئی پندرہ ہیں پچیس قلمیں کسی غیر ملکی کو جلسہ کے اوپر باہر والے آنے والوں کو، ہوشیار احمدی طالب علموں کو ، بڑی قیمتی قلمیں اپنی طرف سے بڑے پیار سے دیتے ہیں.میں بھی آگے بہت پیار سے دیتا ہوں اسی طرح میں آگے کر دیتا ہوں اور اپنے پاس وہ قلم رکھتا ہوں جو تیز چلنے والی ہو کیونکہ مجھے بڑا تیز کام کرنا پڑتا ہے نا.اگر میں کہوں آپ کے بہت سارے آپ میں سے سمجھ ہی نہیں سکیں گے میں اس پندرہ منٹ میں ایک ہزار خط کے او پر دستخط کر جاتا ہوں.اور اگر قلم نہ چلنے والی ہو میرے ہاتھ میں ،ٹو جو چلتا ہی نہیں تو مجھے بخار چڑھ جاتا ہے تو وہ بس میری قلم ہے.باقی میں دیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کرتا ہے.بڑی قیمتی دوائیں لے آتے ہیں لوگ باہر سے.میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کس شخص ، کس بیمار کے لئے خدا نے میرے پاس یہ دوائی بھیجی ہے.پھر وہ بیمار بھی آجاتا ہے کوئی ایک دو دن کے اندر پھر میں اس کو آگے کر دیتا ہوں.تو یہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بھائی چارہ کے بندھنوں میں باندھ دیا ہے.ایک خاندان بنادیا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک طرف ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں.خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں.ثبات قدم کے ساتھ اس کی رضا کی طلب میں لگے رہنے والے اور خدا تعالیٰ کی جنتوں کو پانے والے اور دوسری طرف جس کے بغیر خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوتا اس کی مخلوق کا خیال رکھنے والے، ان کے دکھوں کو دور کرنے والے، ان کی غلطیوں کو معاف کرنے والے ( بنیں ) یہ جو گالیاں سن کر دعا دو یہ غلطیوں کو معاف کرنا ہی ہے نا.پاکے دکھ آرام دو.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴۴ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء سارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ساری، آپ پر ایمان لانے والے جنہوں نے آپ کے طفیل خدا تعالیٰ کی رضا کے بڑے درجات حاصل کئے ان کی زندگیاں اس سے معمور ہیں.بہر حال یہ یمنی باتیں میں نے جماعت کی تربیت کے لئے اس وقت کہی ہیں ، بتا میں یہ رہا ہوں اسی کے ساتھ ہی تعلق ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم پیار کرتے ہیں.وہ ہمارے محبوب ہیں ، ہمارے مطاع ہیں.ہم ان کی اتباع کو فرض جانتے ہیں.خدا تعالیٰ اگر ہمیں توفیق عطا کرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی تو خدا تعالیٰ کا یہ بے حد و شمار احسان سمجھتے ہوئے سجدات شکر اس کے حضور بجالاتے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ کہا گیا ہے،سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے نور کا جلوہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، یہ وہی ہے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہی کی ہے تفسیر کا ایک حصہ.وو ” وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملا یک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید ومولی ، سیدالانبیاء، سید الاحیاء، محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں.قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) والا ہے نا.یہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرنگ ہیں وہی نور خدا تعالیٰ کا حسب مراتب ان کو بھی ملا.پھر فرماتے ہیں :.” اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولی ، ہمارے ہادی، نبی آتی صادق مصدوق محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ سے انتہائی پیار کرنے والے بھی تھے اور خدا تعالیٰ کا انتہائی پیار پانے والے بھی تھے.ہمارا یہ ایمان ہے اور شان ہے یہ آپ کی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک انسان کے لئے یہ سامان پیدا کیا کہ آدم سے لے کر قیامت تک اس کی بزرگی اور اس کی شان کے نشانوں کے طور پر ہزار ہا نشان بنی نوع انسان کو دکھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی حوالے لئے ہیں.پہلے جو انبیاء گزرے آپ سے ان میں سے بہتوں کے نام تو تاریخ نے یاد نہیں رکھے بنی اسرائیل کے انبیاء کے نام تاریخ نے یادر کھے.تو آپ نے حوالے لئے ہیں تو رات کے کہ تو رات کہتی ہے کہ اس کا آناThat Prophet کے نام سے ذکر کیا گیا ہے وہ وہ نبی.کیونکہ اس کی ذات کے متعلق ابھی کچھ نہیں جانتے وہ.لیکن اس کی شان کے متعلق جانتے ہیں.اس کا آنا خدا کا آنا یہ تورات میں لکھا ہے کہ پہلوں کو بھی یعنی ایک ہی آدمی ہے.آدم سے لے کے قیامت تک اس کی عظمت اور اس کے جلال کا اظہار جو ہے وہ کیا گیا.اس کی عظمت اور اس کے جلال کو ظاہر کیا گیا پہلے انبیاء پر اور یہ بھی آتا ہے پہلے نوشتوں میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے خدا ! تو مجھے بھی جو اس کا.اُمت میں ایک بزرگ پیدا ہونے والا ہے مجھے وہ بنا.تو خدا نے کہا نہیں وہ اس کی اُمت میں سے ہو گا یعنی جو اس کی کامل اتباع کرے گا وہی وہاں تک پہنچے گا.تمہارے پاس تو پوری روشنی ہی نہیں پہنچی ابھی تک.پوری تعلیم نہیں ابھی ملی.قرآن کریم کا ابھی نزول نہیں ہو ا و غیرہ وغیرہ.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یہ میں ایک دو حوالے پڑھنا چاہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ہم ایمان لائے.جب ہم نے دعویٰ کیا کہ ہم آپ سے پیار کرتے ہیں.آپ ہمارے محبوب ہیں.جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان کس رنگ میں ہم پر ظاہر ہوئی آپ کے ایک روحانی فرزند کے ذریعے سے.میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء اس کی تاثیر قدسی کا اندازاہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارا فاضہ اس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ) اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.“ پھر حضور فرماتے ہیں:.”اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پرسچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے.اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء تو ایک طرف ہم اس خدا پر ایمان لاتے ہیں جو قرآن کریم نے پیش کیا.جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے رکھا.جس سے آپ نے اس رنگ میں محبت کی کہ ہمارے لئے وہ محبت بھی اُسوہ بن گئی اور جس خدا سے آپ نے اس رنگ میں پیار حاصل کیا کہ ہمارے دلوں میں بھی ایک لگن لگی کہ ہم بھی اپنے پیارے خدا سے اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق اسی قسم کا پیار حاصل کریں.ہم خدا کی ذات اور اس کی صفات پر کامل ایمان رکھتے اور سوائے خدا کے کسی پر تو گل نہیں رکھتے اور سوائے خدا کے کسی کی خشیت ہمارے دل میں نہیں صرف خدا کی خشیت ہمارے دل میں ہے.اسی پر ہمارا بھروسہ ہے اور یہ سب کچھ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طفیل حاصل ہوا.اس لئے ہمارے دلوں میں ہمارے سینوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سمندروں کی طرح موجزن ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سمندر ہمارے سینوں کے سمندروں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ جس سینہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت موجزن ہو اور خدا تعالیٰ کا پیار جو ہے وہ موجیں لے رہا ہو اس کے مقابلہ میں ان مادی سمندروں کی کیا حقیقت ہے اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پیار کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ پتا ہے، یقین ہے، ہمیں یہ معرفت حاصل ہے، ہم علی وجہ البصیرت اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنا اور آپ کے فدائی بننا اور آپ کے غلاموں میں شامل ہونا ضروری ہے.جو آپ سے حاصل نہیں کرتا جیسا کہ ابھی آپ نے حوالوں میں سنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کے، وہ خدا تعالیٰ سے تھوڑے سے تھوڑا پیار بھی حاصل نہیں کر سکتا بڑے سے بڑا رتبہ تو علیحدہ رہا کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا کہ اگر میری محبت حاصل کرنا چاہتے ہو اپنی اپنی استعداد کے مطابق بڑی محبت یا چھوٹی محبت تھوڑی یا بڑی محبت فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اعلان کر دو.میری اتباع کرو گے تو خدا کا پیار حاصل کر سکو گے.ہم علی وجہ البصیرت اس ایمان پر قائم ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اللہ کے فضل کے ساتھ ، نہ ہماری کسی طاقت کے نتیجہ میں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس مقام سے پرے نہیں ہٹا سکتی.جو منہ میں آتا ہے کسی کے، کہے آپ کو کیا فکر؟ آپ کو تو یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ جو
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴۸ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء آپ کے پہلو میں کھڑا ہے اپنے وعدہ کے مطابق ، وہ آپ سے پیار کرنے والا ہے یا نہیں.یا نہیں آپ کی اپنی کسی غفلت یا کوتاہی کے نتیجہ میں.اگر اس کا پیار آپ کو حاصل ہے تو کسی اور سے آپ کو غرض کیا اس رنگ میں.غرض ہے ایک اور رنگ میں کہ آپ ان کے خیر خواہ ہیں.آپ ان کے دکھوں کو دور کرنے والے ہیں.یہ تعلق تو ہے آپ کا ان کے ساتھ.لیکن یہ کہ وہ کچھ کہیں اور آپ گھبرا جائیں یا پریشان ہو جائیں یا آپ غصہ میں آجائیں یا آپ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکیں یہ احمدی کا مقام نہیں اور خدا کے فضل سے دنیا کے حالات نے اور دنیا کی تاریخ نے دنیا کو بتایا کہ احمدی اپنے اس دعوی میں بچے ہیں.۵۳ ء کے فسادات ہوئے.۷۴ ء کے فسادات ہوئے.اس وقت مجھے ایک ہی فکر لگی ہوئی تھی یعنی بعض دفعہ میں ساری ساری رات نہیں سو یا.بہت نہیں سو یا مختلف وجوہات کی بنا پر.بہت راتیں نہیں سو یا لیکن بعض دفعہ اس وجہ سے بھی نہیں سویا کہ کوئی نوجوان ہمارا عدم تربیت کے نتیجہ میں ایسا کام نہ کر بیٹھے جو جماعت احمدیہ کے مقام سے ہٹ کے کر رہا ہو وہ اور بدنامی ساری جماعت کی ہو.لیکن خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ دنیا کوئی ایک مثال بھی نہیں پیش کر سکتی.میں ایسے اشخاص کو بھی جانتا ہوں کہ جن کے پاس اپنی جان کی حفاظت کے لئے مادی طاقت موجود تھی.انہوں نے جان دی خدا تعالیٰ کی راہ میں لیکن مادی طاقت کے استعمال سے فتنہ و فسادکو ہو انہیں دی اور کئی دفعہ میں سنا چکا ہوں دو ہمارے نوجوان مبلغ ایک سفر کر رہے تھے وہ تیس چالیس آدمی بس کے انہوں نے وہ سکے اور چھیڑ میں ان کو مارنی شروع کیں کوئی آٹھ دس بارہ میل کے سفر میں.منہ سوجھ گیا.گردن فٹ بال بنی ہوئی.خیر مجھے رپورٹ ان کے پہنچنے سے پہلے پہنچ گئی.بعد میں ان میں سے ایک آیا میرے پاس.تو دکھ اٹھانا آپ کے لئے یہ میری فطرت کا ایک حصہ ہے لیکن اس کا اظہار خدا کی منشا کے مطابق کرنا، یہ میرا فرض ہے اور اس کو میں ادا کرتا ہوں.جب ان میں سے ایک مجھے ملنے آیا منہ سوجھا ہوا اگر دن سو جبھی ہوئی تو میں نے مسکرا کے اس سے بات کی.میں نے کہا دیکھو! یہ جو تمہارے ورم آئی ہوئی ہے یہ عارضی ہے.میرے منہ سے اس وقت نکلا خدا نے میری بات پوری کر دی کہ ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر یہ سوجھن ، یہ ورم جاتی
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۴۹ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء رہے گی لیکن جو ہماری بشاشت ہماری خوشی ہے وہ تو ان مٹ ہے، وہ تو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا.ہم خوش اس لئے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کہا خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ غلبہ اسلام کا موسم آ گیا.موسم بہار آ گیا اسلام کے لئے.جب اسلام کے نام پر ہماری خوشیاں ہیں تو ہمیں یہ دنیوی چیزیں اور دکھ جو ہیں یہ ہماری خوشیاں کیسے چھین سکتے ہیں.اور مسکراہٹیں کیسے....میں نے کہا جا کے مسکراؤ.بھیج دیا میں نے.ویسے میں جانتا ہوں کہ وہ مسکراتے ضرور ہوں گے لیکن لوگ یہی سمجھتے ہوں گے کہ یہ رور ہے ہیں یعنی چہرہ پر ورم آئی ہوئی تھی.اس نوجوان کے ذہن پر میری بات کا اتنا اثر کہ گھڑی دیکھ کے ٹھیک ۴۸ گھنٹے کے بعد میرے پاس آیا دوبارہ اور کہنے لگا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو دکھاؤں کہ میری ورم چلی گئی.گردن بھی اب متورم نہیں اور چہرہ بھی نہیں اور ٹھیک آپ نے کہا تھا کہ ہم تو اس لئے خوش ہیں کہ اسلام کے غالب آنے کے دن آئے.خدا تعالیٰ اپنی نعمتوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں جو بنی نوع انسان کو اپنے فضلوں اور رحمتوں کے احاطہ میں لینے کا سامان کر رہا ہے.اس واسطے ہم خوش ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے.مسکراتے رہو اور خوش رہو اپنے خدا سے.تو ہماری تو یہ خوشیوں کے دن ہیں.ہم خوش ہیں اور یہ جو دنیوی روکیں ہیں یہ تو انگریزی کا محاورہ ہے! Pin Pricks یعنی ایک سوئی چھو دی کسی کو ، Pin چھود یا کسی کو.کاغذ بھی لیٹتے ہیں کئی دفعہ انگلی کو میرے بھی چبھ جایا کرتا ہے تو یہ pin Pricks ہمیں اپنے راستہ سے ہٹا دیں گے؟ یہ لوگ اپنا کام کرتے رہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا سے یہ کہیں کہ اے خدا! جو کچھ کر رہے ہیں ان سے غصہ نہ ہونا یہ پہچانتے نہیں تیرے منصو بہ کو.اس واسطے تو ایسا سامان پیدا کر دے کہ جو تیرا منصوبہ ہے اسے پہچاننے لگ جائیں.ہمیں اپنے لئے کچھ نہیں چاہیے.مجھے تو اپنے لئے کچھ نہیں چاہیے اور جتنی مرضی قسمیں دلوا دو اس پر اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے لئے بھی کچھ نہیں چاہیے.ہمیں اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سب کچھ چاہیے اور ہمیں بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے سب کچھ چاہیے.تو دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کے سامان پیدا کر دے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں.خدا نے وعدے کئے ہیں.شرطیں لگائی ہیں.آپ شرطیں پوری کرتے چلے جائیں ایمان کے عملِ صالحہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۵۰ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۹ء کی.قرآن کریم کی آیات بھری ہوئی ہیں اس کے ساتھ.خدا تعالیٰ نعمتوں سے آپ کو نوازتا چلا جائے گا اور بڑی دعائیں کریں کہ وہ دن جلد آئے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کا اور خدا تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا ہر گھر پہ لہرانے لگے.خدا ایسے سامان پیدا کر دے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۵۱ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء خدا کی ہر نعمت کا صحیح استعمال ابدی رحمتوں کے دائرے کھولنے والا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۶ / جولائی ۱۹۷۹ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت ساری دنیا میں جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اور جو مسائل دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والا انسان حل کرنے میں ناکام ہوا ہے اور جس کے نتیجہ میں فساد اور لڑائیاں پیدا ہوئیں اور ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی.یہ حالات انسان کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیم کی طرف رجوع کرے اور جن مسائل کو وہ اپنی عقل سے حل نہیں کر سکا، ان مسائل کو وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم شریعت اور تعلیم کی روشنی میں حل کرے.مختلف شکلوں میں یہ مسئلے انسان کے سامنے ابھرے اور ابھرتے ہیں.اس وقت میں ایک اصولی بات کی طرف توجہ دلاؤں گا جماعت کو بھی کیونکہ ان کی ذمہ داریاں ہیں بڑی اور دنیا کو بھی کہ ان کی خوشحالی کا سامان اس تعلیم سے باہر ہمیں کہیں نظر نہیں آرہا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ (النحل: ۷۲) کہ جو کچھ بھی انسان کو ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اور جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملا ہے وہ قرآن کریم کی اصطلاح میں رزق کہلاتا ہے اور یہاں یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۵۲ خطبہ جمعہ ۶ / جولائی ۱۹۷۹ء اپنے رزق کی بخشش میں جو مختلف انسانوں کو اس نے دیا، بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.بعض کو زیادہ دیا بعض کو کم دیا ہے اور جو لوگ خدا تعالیٰ کی یہ جو عطا ہے اور جو اس کا رنگ ہے اور جس شکل میں اس نے یہ تقسیم کیا ہے اپنے رزق کو اس کی حکمت کو سمجھتے نہیں.وہ خدا تعالیٰ کا عطا کردہ جو رزق ہے، اسے کسی صورت میں بھی ان لوگوں کی طرف جو ان کے Dependant ہیں جن پر ان کے داہنے ہاتھ قابض ہیں.یہاں غلام مراد نہیں بلکہ جو ، جن کی ذمہ داریاں ان پر ہیں کہ ان کے کھانے کا، پینے کا، کپڑوں کا ، رہائش کا ، ان کے علاج معالجہ کا ان کو خیال رکھنا چاہیے وہ ان لوگوں کو خدا کے دیئے ہوئے رزق میں حصہ دار بنانے کے لئے تیار نہیں اور خدا کا منشا یہ ہے کہ حصہ دار بھی وہ اس طرح بنا ئیں کہ جس کے نتیجہ میں وہ برابر کے حصہ دار بن جائیں.پھر کیا وہ اس حقیقت کے جاننے کے باوجود، یہ حقیقت جو پہلے بیان ہوئی وہ یہ کہ دینے والا اللہ اور حکمت یہ ہے کہ سارے اس میں شریک کئے جائیں اور مختلف جگہوں میں خدا تعالیٰ نے بتایا کہ ہر انسان کے لئے میں نے اس ارض اس جہان کو ، اس کی نعماء کو پیدا کیا ہے کسی خاص گروہ کے لئے نہیں پیدا کیا.انسان ، انسان میں اس معاملہ میں فرق نہیں کیا جا سکتا.رزق دنیا میں یعنی رزق سے مراد میری یہ پیسہ یا گندم نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے جو چیز بھی دی جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا وہ رزق کے لفظ کی اصطلاح کے اندر آ جاتا ہے.ایک تو بالکل واضح اور غیر مشکوک یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگوں میں قابلیت زیادہ ہے.ہر میدان میں استعدادیں مختلف بھی ہیں اور ہر میدان کی استعداد میں فرق بھی ہے مثلاً تجارت کو لے لیں.مشہور ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جس چیز کو مٹی کو بھی ہاتھ لگا ئیں تو وہ سونا بن جاتی ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جو سونے کو بھی ہاتھ لگا ئیں تو وہ مٹی بن جاتی ہے یعنی ان میں جو مٹی کو ہاتھ لگا ئیں جن کے متعلق کہا گیا وہ سونا بن جاتا ہے خدا تعالیٰ نے یہ استعداد اور صلاحیت پیدا کی ہے کہ وہ تجارت کے میدان میں آگے بڑھیں اور پیسے جمع کریں.مدینہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا.ایک جس وقت خدا تعالیٰ نے دنیا جہان کی دولتوں کا رخ مدینہ کی طرف پھیر دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثاروں کے قدموں میں ساری دنیا کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۵۳ خطبہ جمعہ ۶ / جولائی ۱۹۷۹ء دولتوں کو اکٹھا کر دیا.اس کی ابتدا تھی ابھی.تاجروں کا کوئی قافلہ ایک لاکھ اونٹ مدینہ کی منڈی کی طرف لا رہا تھا.راستہ میں ایک صحابی گزر رہے تھے اپنے کسی کام سے وہاں ان کی انہوں نے دیکھا یہ مال منڈی میں جا رہا ہے.وہ بھی تاجر تھے انہوں نے غور کیا.انہوں نے دل میں فیصلہ کیا مال اچھا ہے میں خریدوں گا.لیکن حکم یہ ہے اسلام کا کہ بھاؤ کو بگاڑو نہ ، منڈی میں جانے دو.وہاں جو منڈی کا بھاؤ نکلے اس کے مطابق خریدو.منڈی کے باہر باہر جیسا کہ اب رواج ہو گیا ہے بعض جگہوں پہ ، بعض جگہ نہیں.بھاؤ بگاڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.انہوں نے دل میں ایک خیال قائم کیا ، سوچا، ایک فیصلہ کیا منڈی میں آگئے.ان سے پہلے ایک اور صحابی نے سودا کر لیا ایک لاکھ اونٹ کا.وہ آپس میں سارے بھائی بھائی اور دوست تھے.وہ جنہوں نے رستے میں دیکھا تھا انہوں نے آکے اپنے دوست کو کہا تم پہلے آگئے منڈی میں تم نے یہ مال خرید لیا ایک لاکھ اونٹ.میرا تو خیال تھا میں خریدوں گا.تو انہوں نے کہا تم اب خرید لو.کہ کیا بھاؤ، کس بھاؤ پر؟ انہوں نے کہا جس بھاؤ پر میں نے لیا ہے اسی بھاؤ پر تم لے لو، صرف نکیل مجھے دے دو ہر اونٹ کی.تو اب یہ بڑا تاجر، تاجر دماغ یہ سوچ سکتا ہے کہ نکیل مجھے دے دواسی بھاؤ پہ لے لو.اگر وہ اٹھنی بھی قیمت سمجھی جائے تکمیل کی تو پچاس ہزار روپے کا انہوں نے آدھے گھنٹے میں نفع حاصل کرلیا.- میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہ جو کہا ہے کہ ہم نے فضیلت دی بعض کو بعض پر ، یہ فضیلت کا پہلا حل جو ہے وہ استعداد کا دینا ہے.بعض زمیندار ہیں ، وہ ۱۵ ایکٹر میں.میں نے خود پڑھا ہے یعنی دنیا کی بات کر رہا ہوں صرف اپنے علاقہ کی بات نہیں کر رہا.یہاں سے ہزاروں میل دور سے یہ واقعہ ہوا کہ پندرہ ایکڑ کے مالک نے ساڑھے پانچ لاکھ روپیہ خالص آمد پیدا کی اور بہت سارے ایسے زمیندار بھی ہیں کہ جو پندرہ ایکڑ کے مالک ہیں اور سرخ مرچ کی چٹنی پیس کے اور روکھی روٹی کے ساتھ ان کا گزارہ ہے.علم کے میدان میں، ہر علم کے میدان میں آپ کو نہایت ذہین ، آگے بڑھنے والے ملیں گے.ہر علم کے میدان میں آپ کو اس علم کے حصول کی صلاحیت نہ رکھنے والے یا کم رکھنے والے
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۵۴ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء پیچھے رہنے والے بھی ملیں گے.ہر شعبہ زندگی میں انسان کی آپ کو اس آیت میں جو خدا تعالیٰ نے عظیم حقیقت بیان کی ہے اس کا جلوہ نظر آتا ہے.وَالله فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ کہ ہم نے جو عطا دی انسان کو اس میں بعض کو بعض پر فضیلت دے دی لیکن اسی آیت میں ساتھ یہ کہا کہ فضیلت اس لئے نہیں دی کہ تم میرے بندوں کے خدا بننے کی کوشش کرو بلکہ اس لئے دی ہے کہ جو تمہارے Dependant ہیں، جو تمہارے زیر کفالت ہیں ان کو اپنا برابر سمجھو.جو کھاؤ انہیں دو.جو پہنو انہیں پہناؤ جہاں رہوا نہیں رکھو.یہ جو Dependant ہیں اس میں سب سے نچلا درجه ان غلاموں کا تھا جو اسلام سے پہلے غلام بنالئے گئے تھے لیکن فوری طور پر بغیر صحیح انتظام کے ان کو آزاد کر دینا انسان پر ظلم کرنا تھا.ایسا ہی تھا جیسے چڑیا گھر کے شیر کو آزاد کرنے کے لئے لاہور میں انارکلی میں لا کے چھوڑ دیا جائے.پہلے ان کو انسانیت کے آداب، شرافت کے آداب، اخلاق ، ان کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا کرنے کا سوال تھا ، بعد میں ان کو آزاد کرنے کا سوال تھا.یہ ضمنا میں بات مثال کے طور پر دے رہا ہوں قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے یکسر غلامی کو مٹا دیا اور کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کہ وہ کسی دوسرے انسان کو غلام بنائے تو جو مسئلہ آپ کے درپیش تھا، وہ غلامی کا نہیں تھا وہ تو ختم ہو گیا قصہ.وہ یہ تھا کہ جو پہلوں نے غلام بنائے ہوئے تھے نسلاً بعد نسل ان کی ذہنیتیں جو ہیں وہ مسخ ہو چکی ہوئی تھیں.ان کو اٹھا کر اس گراوٹ کے مقام سے انسان کے مقام پر لا کے کھڑا کرنا یہ تھا آپ کے سامنے مسئلہ اور اس کو آپ نے حل کیا.تو یہ جو میں بات بتا رہا ہوں کہ جو زیر کفالت ہیں ان کو اپنے برابر کا حصے دار سمجھو کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو آپ کھاتے ہو وہ اپنے غلام کو کھلاؤ.پرانے غلام جو ملے ہیں ورثے میں.اس کے بعد پھر وہ جو قابلیتیں اور صلاحیتیں ہیں اس کے نتیجہ میں مختلف چیزیں رزق کے ساتھ تعلق رکھنے والی انسان کو ملتی ہیں.ایک شخص ہے وہ علم میں ترقی کرتا ہے.اس کے اوپر دوفرض عائد ہو جاتے ہیں.ایک علم پڑھانا دوسروں تک پہنچانا اپنی قابلیت کو اور اپنے جیسے ذہین
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۵۵ خطبہ جمعہ ۶ / جولائی ۱۹۷۹ء لڑکوں کے لئے یہ تدابیر سوچنا کہ وہ بھی اسی طرح انتہائی رفعتوں تک پہنچنے والے ہوں اور دوسرے یہ کہ علمی ترقی کے نتیجہ میں دنیوی اموال جو ہیں وہ حاصل ہوتے ہیں اس میں وہ صرف اس لئے ایک شخص کہے کہ جی میں آئن سٹائن بن گیا اس واسطے جو دنیا مجھے اموال دیتی ہے اس کے او پر میں کسی کا حق نہیں سمجھوں گا قرآن کہتا ہے یہ غلط ہے.تمہیں ہر دوسرے کا حق سمجھنا پڑے گا کیونکہ یہ فضیلت خدا تعالیٰ نے اس لئے نہیں دی کہ تمہاری اجارہ داری ہو جائے بلکہ بہت ساری اشیاء پر اس لئے دی ہے کہ تم جہاں خدا تعالیٰ کی دنیوی مادی نعمتوں سے مالا مال ہوئے ہو وہاں تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کئے جائیں کہ ان مادی نعمتوں کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں تم روحانی نعمتوں کو حاصل کرنے والے بن جاؤ اور جو وقتی طور پر اور ہلاک ہونے والی چیزیں ہیں ان کے ذریعے سے تم خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ان کا استعمال کرنے کے نتیجہ میں ابدی نعمتیں جو خدا تعالیٰ کی ہیں اس کی رضا کی ابدی جنتوں سے تعلق رکھنے والی ان کے تم حق دار بنو.تو یہاں اس آیت کے آخر میں میں نے اس کا ایک ٹکڑا لیا تھا، تو آخر میں ہے کہ پھر کیا وہ اس حقیقت کے جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں.تو انکار کے ساتھ ہی اقرار اور انکار دونوں کا یہاں مضمون کے لحاظ سے ذکر ہے اور اقرار کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق کو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق خرچ کرنا اور خدا تعالیٰ کی نعمت کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے نعمت حاصل کی اور جس سے پایا اسی کی حکم عدولی شروع کر دی.یہ ہے کفرانِ نعمت.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَ بِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَ (النحل : ۷۳) اور اللہ نے تمہیں تمام قسم کی پاکیزہ چیزوں سے رزق بخشا ہے.کیا پھر بھی ایک ہلاک ہونے والی چیز جو دنیوی عطا کی شکل میں تمہارے اوپر نازل ہوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے.اس پر تو ایمان رکھو گے اور کہو گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم میں پتا نہیں کیا خوبی دیکھی دنیوی اموال سے مالا مال کر دیا اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا تقاضا ہے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں.وہ ان مادی اور دنیوی عطایا
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۵۶ خطبہ جمعہ ۶ / جولائی ۱۹۷۹ء کے نتیجہ میں تم روحانی نعمتوں سے محروم ہونے کی کوشش کرو گے.وَ بِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَ اصل نعمت خدا تعالیٰ کی.ایک شخص ہے اس کو اتنا مال ملا کہ اس پر دس ہزار روپیہ ز کوۃ واجب ہوگئی خدا کے لئے.وہ دس ہزار روپیہ خدا کے حکم سے دے دیتا ہے تو جو مادی دولت اس کو ملی جس پر زکوۃ واجب ہوئی مادی دولت ہے.روپیہ ہے.سونا ہے.چاندی ہے.بھیڑ بکری ہے.اونٹ ہیں.گائے اور بھینس ہے وغیرہ وغیرہ تو وہ زکوۃ دے گا تو یہی چیز جو مادی ہے اس نے خدا تعالیٰ کا حکم ماننے کے نتیجہ میں ایک روحانی نعمت کا دروازہ کھولا نا! خدا تعالیٰ نے کہا میرے بندے نے میرے حکم کے مطابق میری راہ میں اپنے مال کو میرے بتائے ہوئے نصاب کے مطابق خرچ کر دیا.مگر خدا تعالیٰ نے محض یہ نصاب نہیں مقرر کیا بلکہ نوع انسانی کا جہاں تک تعلق ہے اس نصاب کا میں آگے آکے ابھی ذکر کروں گا.رَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَتِ یہاں جو الطَّيِّبَتِ“ کا لفظ استعمال کیا گیا اس سے میری توجہ اس طرف پھری کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت جو ہے، وہ پاک ہے.اس معنی میں کہ وہ پاکیزگی کی طرف لے جانے والی ہے.پاکیزگی کی طرف لے جانے والی ہے صحیح استعمال کے نتیجہ میں ، اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں.تو یہاں رزقکم میں ہر قسم کی عطا اور بخشش آگئی اور مِنَ الطیبت میں اس طرف اشارہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی ہر قسم کی عطا اور بخشش کے نتیجہ میں تم خدا تعالیٰ سے اس کے پیار کو حاصل کر سکتے ہو اگر اس کا صحیح استعمال کرو.لیکن پھر آگے کافروں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ جو ہلاک ہونے والی چیز ہے اس پر تو وہ ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لئے دی کہ ہم ہی اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور کوئی اور اس کا شریک نہ ہو.ہم ہی اس کا استعمال کریں صحیح یا غلط جس طرح چاہیں.جس طرح قرآن کریم میں ایک نبی کے متعلق آیا ہے کہ ان کی اُمت نے کہا ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ جو ہمیں خدا نے چیزیں دی ہیں ہم اپنی مرضی کے مطابق ان کو خرچ نہ کریں.تو طیبات سے اس طرف ہمیں توجہ دلائی گئی کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت اگر اس کا صحیح استعمال ہو ابدی رحمتوں کے دروازے کھولنے والی ہے اور جو اس کا غلط استعمال ہے اس کے اوپر قرآن کریم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۵۷ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء نے باطل یعنی ایک ہلاک ہونے والی چیز قرار دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ نے ابدی نعمتوں کو نواز نے کے لئے تمہیں چھوٹی اور بڑی، دینی اور دنیوی نعمتیں عطا کی تھیں لیکن تم نے ان کا محض دنیوی استعمال کر کے اور اپنے رب کو بھول کر اور اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے اس کو محض ایسے طور پر استعمال کیا کہ وہ آئی اور چلی گئی.دنیا تو ہے ہی آنی جانی اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے تم وارث نہیں بنے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک اور آیت میں ہمیں سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھانے کے لئے ایک ایسے بندے کی حالت بیان کرتا ہے جو غلام ہو.قرآن کریم کی اس آیت کے بہت سے بطون ہیں آپ جانتے ہیں بہت دفعہ ہم ذکر کرتے ہیں پہلے بھی کر چکے.یہاں میں یہ معنی کروں گا کہ ایسے بندہ کی حالت بیان کرتا ہے جو دنیا کا غلام ہو اور جو کسی بات کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو.جو دنیا کا غلام ہے وہ کس بات کی طاقت رکھتا ہے.وہ تو خدا سے لڑنے والا ہے نا.جو خدا تعالیٰ سے لڑنے والا ہے وہ گھمنڈ میں ، وہ تکبر میں ، وہ استکبار میں، وہ غرور میں ، وہ لوگوں کو حقیر سمجھنے کی مرض میں بھی تو مبتلا ہو جائے گا لیکن حقیقی طاقت جس کا صحیح نتیجہ نکلے اور جو خدا کا پیار حاصل کرنے والی ہو وہ طاقت تو اسے نصیب نہیں ہوتی.تو وہ دنیا کا غلام جو دنیا دارانہ زندگی گزارتا اور دنیا کی دلدلوں میں پھنسا ہوا ہے اور کسی بات کی بھی طاقت نہیں رکھتا ایک وہ ہے اور ایک وہ ہے اس کے مقابلے میں جو دنیا کا غلام نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہے وہ وَمَنْ زَزَقْنَهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا جس کو ہم نے رزق دیا اور اس نے یہ جانا اور پہچانا کہ ہم نے ایک اس کو اچھا رزق دیا تھا، ایک ایسا رزق دیا تھا جو خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا اور اس کے نتیجہ میں اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد ہمارے اس بندہ نے يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَ جَهُرًا ہمارے دیئے ہوئے مال میں لوگوں کے اس حق کو تسلیم کیا جو ہم نے ان کا قائم کیا اور ان کے اوپر وہ خرچ کرتا ہے پوشیدہ طور پر بھی اور اعلانیہ طور پر بھی.اس آیت کے پڑھتے وقت میرا اس طرف بھی خیال گیا ویسے وہ آیت میں آگے لوں گا بھی، ایک جگہ آیا ہے آگے ذکر آئے گا ان کا کہ وفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَ الْمَحْرُومِ (الذاريات :۲۰) تو جو اپنے اس حق کو پہچانتا ہے جو اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۵۸ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء نے اس کا قائم کیا اس کا مطالبہ کرتا، اس کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے.جو شخص اس حق کو ادا کرنے والا ہے وہ ظاہری طور پر کھلم کھلا ادا کرتا ہے نا.مانگنے والے نے بھی کھلے طور پر کہا مطالبہ کیا.مانگنے والا نہیں مطالبہ کرنے والے نے ظاہراً مطالبہ کیا، جہراً مطالبہ کیا میرے یہ حقوق خدا تعالیٰ نے قائم کئے ہیں میرے حقوق ادا کرو.تو خدا تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ ایسا شخص ہمارا بندہ جو ہمارے رزق کو رِزْقًا حَسَنًا سمجھتا اور اس کے نتیجہ میں وہ حقوق العباد جو ہیں وہ ان کو ادا کرتا اور جن کو نہیں ملے ہوئے حقوق اور جو پہچانتے ہیں اپنے حقوق کو جو خدا تعالیٰ نے قائم کئے کھلم کھلا ان کے او پر خرچ کرتا ہے اور کہتا ہے میں نہیں دیتا حق ہے تمہارا لے لو اپنا حق خدا نے اسے قائم کیا ہے.اور بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے حقوق ہی نہیں پہچانتے اس وجہ سے وہ حقوق کے حصول میں محروم ہوتے ہیں.تو یہ شخص جو ہے خدا کا بندہ وہ سزا بھی خرچ کرتا ہے ان کو اپنے حق کا نہیں پتا اور لوگوں کے حقوق کی جو ادائیگی یہ شخص کر رہا ہے اس کا نہیں علم.دونوں باتیں چھپی ہوئی ہیں.ان کے سامنے ان کے حقوق ظاہر نہیں اور لوگوں کے سامنے حقوق کی ادائیگی ظاہر نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ دنیا کا غلام اور یہ اللہ کا بنده هَلْ يَسْتَونَ یہ برا بر ہو سکتے ہیں؟ یہ برابر نہیں.ایک زمین کا کیڑا، ایک کو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے ہاتھوں سے اٹھا کر اپنی رفعتوں تک پہنچایا اور اپنی گود میں لے لیا پیار کے ساتھ.یہ دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں.الحَمدُ لِلَّهِ (النحل : ۷۶) اصل بات تو یہی ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں.اسی کی طرف دوسری آیت میں اشارہ کیا یتم نِعْمَتَهُ عَلَيْكُم (النحل: ۸۲) اللہ تعالیٰ نے یہ ساری دنیوی نعمتیں پوری کر دیں تمہارے اوپر.ویسے اس میں روحانی بھی ہیں لیکن اس کے ایک حصہ کو میں نے اس فقرہ میں لیا ہے يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلیکم اس نے ساری کی ساری نعمتیں اور رحمتیں جن کی تمہاری فطرت تقاضا کر رہی تھی ، وہ تمہیں دے دیں.لَعَلَّكُمْ تُسلِمُونَ اس لئے دیں کہ تم میری ان نعمتوں سے حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کرو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات : ٢٠) - وَفِي
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۵۹ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء اموالھم کی ضمیر اس آیت میں میرے نزدیک جو میں اب معنی کر رہا ہوں جیسا کہ میں نے بتایا بہت سے بطون ہیں وَفِي اَمْوَالِهِمْ وہ لوگ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ کہا ہے نا.وہ لوگ جن کو ہم نے دوسروں پر فضیلت دی.انہوں نے تجارت کی اور تجارت کے مال بڑے اکٹھے کر لئے.انہوں نے زراعت کی اور بڑی آمد پیدا کی اپنی زمین سے.انہوں نے کارخانے لگائے اور وہ Millionaire بن گئے وغیرہ وغیرہ.دنیوی لحاظ سے انہوں نے دولتیں اکٹھی کیں.وہ ذہین تھے ان کو اپنے ذہنوں کی نشوونما کے سامان ہم نے دیئے تھے ان کو انہوں نے استعمال کیا اور سائنس کے میدان میں اور دوسرے علوم کے میدان میں آسمانوں کی رفعتوں تک پہنچ گئے اور اس ذریعہ سے انہوں نے دنیوی اموال بھی کمائے.محاورہ ہے ے کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی کہ کمال حاصل کرو دنیا کی عزت بھی حاصل ہو جائے گی اور دنیا کے اموال بھی حاصل ہو جائیں گے.ان لوگوں کے اموال میں ایک تو یہ گروہ ہو گیا نا.ایک دوسرا گر وہ ہے جو سائل بھی ہے اور محروم بھی ہے.جس کو ان حقوق کا جو خدا تعالیٰ نے اس کے قائم کئے ہیں علم بھی ہے اور اسے مل نہیں رہے اور وہ ان کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کا علم نہیں اس واسطے مطالبہ ہی نہیں کر سکتا اور وہ خاموش ہے اور محروم ہے.اس کو پتا ہی نہیں میرے حقوق کیا ہیں.جیسا کہ اس وقت یہ جو ترقی یافتہ مہذب قومیں ہیں ان کے مزدوروں کو کچھ پتا نہیں کہ ان کا حق کیا ہے اور میں ان سے مذاق میں ہنسی میں مسکراتے چہروں کے ساتھ بات کرتا تھا اور یہ حقیقت ان کے سامنے رکھتا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ تمہارا مزدور اپنے حق کے حصول کے لئے سٹرائیک کرتا ہے اور اس کو یہ پتا نہیں کہ اس کا حق کیا ہے.یہ عجیب چیز بن گئی نا! کہ جس چیز کا اس کو علم ہی نہیں اس کے حصول کی وہ کوشش کر رہا ہے.تو حاصل کیسے کرے گا جس کا علم ہی نہیں اس کو.تو محروم ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ ان کا حق ہے ان کے مال میں جن کو خدا نے دیا.مختلف طریقوں سے دیا کسی کو تجارت کا ملکہ دیا کسی کو زراعت کرنے کی صلاحیت عطا کی.کسی کو استعدادیں دیں اور صلاحیتیں دیں علوم کے حاصل کرنے میں.مختلف طریقوں سے اس نے
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۶۰ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء فضیلت حاصل کی اور اموال اکٹھے کئے.خدا کہتا ہے صرف تم اس کے حق دار نہیں بہت سارے اور حقوق ہیں جو تمہارے مال کے اندر ہم نے جمع کئے ہوئے ہیں اور یہ بتادوں ضمناً کہ خدا تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت اور بھک منگا ہونے کا تصور نہیں ہمیں دیا بلکہ غریب کا حق قائم کیا ہے اور یا یہ شخص خدا تعالیٰ کی جو مالدار ہے فَضَّلَ بَعْضَكُم عَلى بَعض کے گروہ والا یا یہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ خود ان کے حقوق ادا کرے گا یا خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جو تنظیمیں ہیں یا جو حکومتیں ہیں یا جو اقتدار ہیں وہ ان کو حقوق دیں گے.جہاں سے میں نے شروع کیا تھا لوٹ کے پھر وہیں آ گیا.یہ زمانہ آ گیا ہے اس وقت دنیا، اسلام سے باہر کی دنیا، عیسائی دنیا، دہر یہ دنیا، بدمذہب دنیا، لا مذہب دنیا یہ زمانہ آ گیا ہے کہ وہ ناکام ہو کر اپنی کوششوں اور اپنے منصوبوں میں اپنے مسائل کاحل اسلامی تعلیم میں پانے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ ان کو جلد تر اس کی تو فیق عطا کرے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولتمند اور صاحب ثروت بنایا ہے ان کے اموال میں ہر اس شخص کا حق ہے جو اپنے رب کے قائم کر دہ حقوق سے محروم ہے.خواہ وہ اس حقیقت سے واقف ہو، خواہ اس کا علم اس کو نہ ہو ہر صورت میں اس کا حق خدا تعالیٰ نے قائم کر دیا ہے.ایک چھوٹی سی میں مثال لوں گا.ایک چھوٹی سی ویسے تو میں نے بتایا بڑا وسیع مضمون ہے ہر قسم کے حقوق پر مشتمل.وہ لوگ ہمارے ملک میں بھی ہیں.ہمارے ملک کی اکثر آبادی ایسی ہے کہ جن کو اتنی غذائیت تو کھانا کھانے کے متعلق میں ذکر کر رہا ہوں مل جاتی ہے کہ وہ زندہ ہیں مرے نہیں بھوکوں لیکن ان کی صلاحیتوں اور استعدادوں کی کامل نشو ونما کے لئے جس قسم کی غذا کی ضرورت تھی وہ نہیں ملی.مثلاً ہمارے ملک میں کہتے ہیں واللہ اعلم قریباً اسی فیصد کسان Small holding رکھتا ہے.اس کے پاس بہت تھوڑی زمین ہے.آٹھ ، دس، بارہ، چودہ ایکٹر کی اور مجھے خدا نے توفیق دی ملاپ کرنے کی ہر قسم کے آدمی سے.اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا اور مجھے پتا ہے کہ وہ اکثر ان میں سے اپنے بیلوں کے غلام بن کے رہ گئے ہیں یعنی اگر وہ اپنے بل کی فکر نہ کریں.بارہ ایکڑ کا مالک جو ہے اس کو ایک ہل چاہیے.تین جانور چاہئیں بارہ ایکٹر میں پہلے وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۶۱ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء کھلاتا ہے تین جانوروں کو اپنے ورنہ تو اس کو سوکھی روٹی بھی نہ ملے.اور ان کی پیتی (ان کے پاؤں کے پیچھے ) پاس اپنی چارپائی بچھا کے اور وہاں سو جاتا ہے رات کو.اکثریت ایسی ہے، اکثریت Small holding کی ہے اور اکثر Small holding والے جو ہیں بعض اچھے بھی ہیں لیکن اکثر ایسے ہیں جن کو اتنی روٹی تو مل جاتی ہے کہ وہ بھوکوں مریں نہ لیکن اتنی غذائیت ان کو نہیں ملتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی جو طاقتیں دی تھیں ان کی کامل نشو و نما وہ کر سکے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو طاقتیں میں نے ہر فرد واحد کو دی ہیں ان کی کامل نشو ونما ہونی چاہیے.ہر فرد کی ہر طاقت کی کامل نشوونما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے مادی یا غیر مادی، وہ میں نے پیدا کر دی.اگر وہ اس کو نہیں ملی تو کوئی اور غاصب ہے جس کے پاس ہے وہ.اور انہی کو خدا کہتا ہے، انہی کی طرف اشارہ کر کے کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَتَّى لِسَابِلِ وَالْمَحْرُومِ ان کے پاس جن کے حقوق کی ادائیگی کے سامان ہیں پڑے ہوئے ان سے لو اور دو یاوہ آپ دے دیں.خدا کی رضا کو حاصل کریں.قرآن کریم یہ کہتا ہے اصل تو یہ ایک فقرہ ہے جس کے لئے میں نے یہ خطبہ آج پڑھا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب انسانوں کے ایک طبقہ کو ان کے مناسب حال اور متوازن غذا نہ ملے اور اس سے وہ محروم ہوں تو سب دولتمند ان کے برابر لا کے کھڑے کر دیئے جائیں.وفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ میں بڑا عظیم اعلان ہوا ہے.خدا یہ کہتا ہے کہ اگر مثلاً کوئی ملک اس کو ہم کہتے ہیں ”جیم ہر نام لے دیتے ہیں.اس کی اتنی فیصد آبادی جو ہے اس کو مناسب حال متوازن غذ انہیں ملتی تو جب تک اس طبقہ کو مناسب حال متوازن غذا نہیں ملتی کسی امیر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان سے بڑھ کے کھائے.وہاں لا کے کھڑا کر دیا جائے گا کہ جیسا یہ کھائے گا وہ.تمام امرا اور دولتمند صاحب ثروت جو ہیں ان کو دکھ اور تکلیف میں غریب کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا کر کے سو فیصد ان کا شریک حال بنادیا.شریک غم بنادیا ان کا اور ان امیر کو یہ کہا ہم نے تمہیں بڑا دیا.جب ان کو مناسب حال متوازن غذامل جائے پھرا اپنی مرضی کی کھا.تیرے اوپر کوئی پابندی نہیں.بعض دوسری Extreme پر چلے گئے ہیں.خیالات فلاسفی ، ازم جو ہیں وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۶۲ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء کہتے ہیں کسی کو بھی اس کی مرضی کا نہیں کھانے دیں گے.یہ غلط ہے.قرآن کریم یہ کہتا ہے فَضَّل بَعْضَكُم على بعض ہر شخص کو اس کا حق ادا کرو.پھر جوز ائد تمہارے پاس ہے پھر اپنی مرضی چلا لو اس کے اندر اور پھر جب اپنی مرضی چلانے کا وقت آئے گا پھر خدا کہتا ہے جب اپنی مرضی چلا رہے ہو تو اپنی عارضی خوشیوں کا خیال رکھنے کی بجائے اپنی ابدی خوشیوں کا خیال رکھو.پھران کو آگے وہ نعمتیں بیان کر کے وہ خدا تعالیٰ کے فضل بیان کر کے، خدا تعالیٰ کی جو رحمتیں اس زندگی میں نازل ہوتی ہیں ان کے نمونے ان پر نازل کر کے اس رنگ میں خدا تعالیٰ پیار کرے گامر نے کے بعد اپنے ایک پیارے بندے کو اپنی رضا کی جنت میں لے جاکے اس کا ایک نمونہ مثلاً یہ اس کو بتا دیتا ہے کہ وقت سے پہلے اس کو بشارت دے دیتا ہے اور وقت سے پہلے اس کو یہ تنبیہ کر دیتا ہے کہ یہ بات نہ کرو ورنہ تمہیں تکلیف ہوگی.وقت سے پہلے بتا دیتا ہے کہ مثلاً اس ہوائی جہاز میں نہ جاؤ تمہاری جان کا خطرہ ہے.ایسے بھی لوگ ہیں میں نے ایسے واقعات پڑھے ہیں.تو وہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ساروں کو ان کے حقوق ادا کر دو پھر اگر تمہارے پاس فالتو بچتا ہے پھر جائز طور پر خدا تعالیٰ نے جو چیز حلال قرار دی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کو حرام کہا ہے اس سے بچتے ہوئے اپنی مرضی سے جو مرضی کھاؤ لیکن ہر شخص کو مناسب حال متوازن غذا ملے گی پہلے.یہ جو میں فقرہ بول رہا ہوں شاید بہت سارے نوجوان سمجھیں ہی نہ.مناسب حال بدلتی ہے.مثلاً ایک ابھی پیچھے جیسے بڑا یہاں شور تھا گشتی ہو رہی تھی جاپان اور پاکستان کی تو ایک پہلوان کی مناسب حال اور غذا ہے اور ایک وہ منحنی سابچہ نور صاحب کے پاس بیٹھا ہوا ہے پتا نہیں کون جس کا معدہ اور نظام ہضم جو ہے اس کے مطابق مناسب حال بالکل اور چیز ہے.مناسب حال غذا عمر کے ساتھ بدل جاتی ہے.مناسب حال غذا کام کی نوعیت کے ساتھ بدل جاتی ہے مثلاً ایک زمیندار جو ہے وہ اتنی بعض ہمیشہ نہیں لیکن بہت سارے سال کے ایسے بھی دن ہیں یا ہفتے ہیں جن میں اس کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، دن رات محنت کرنی پڑتی ہے اور اس محنت کے نتیجہ میں وہ شاید ڈیڑھ دوسیر آٹا بھی کھا جائے تو ایک وقت میں ہضم کرے گا وہ.تو مناسب حال کو یہ سمجھ لو کہ جس کو وہ ہضم کر سکتا ہے اور متوازن کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف ہمارے لئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۶۳ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء آٹا یا میدہ یا سوجی یا چنا یا کی پیدا نہیں کی یا صرف گوشت نہیں پیدا کیا یا صرف شلجم کی ترکاری نہیں پیدا کی یا صرف اخروٹ اور بادام یہاں کشمیر قریب ہی ہے وہاں بڑا رواج ہے اخروٹ بہت کھاتے ہیں وہاں کے لوگ وہ نہیں پیدا کئے بلکہ یہ اب انہوں نے بڑی ریسرچ کی ہے اسلام کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق اس کو پروٹینز کہتے ہیں یہ گوشت یا Nuts یا پنیر یا دودھ تو ان کا بھی کہتے ہیں آپس میں توازن پیدا کرو اور یہ پہلوان مثلاً گھی کا بڑا کھا جاتے ہیں.بادام بڑا کھا جاتے ہیں.وہ اس کو ہضم کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو طاقت چاہیے اپنے کام کے لئے.ایک کلرک جو بیٹھا ہوا ہے وہ آدھ سیر آٹا کھائے تو اس کو اسہال شروع ہوجائیں گے.ایک زمیندار جو ساری رات کام کرتا رہا ہے اپنی زمینوں کے اوپر وہ صبح جس وقت کھانے پہ بیٹھتا ہے جس کو ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کا پہلا کھانا ہوتا ہے اس وقت وہ سیر پکی روٹیاں کھا جائے گا اور وہ ہضم کرے گا اس کو تو یہ ہے مناسب حال اور متوازن کا مطلب یہ ہے کہ جو مختلف خدا تعالیٰ نے غذا ئیں بنائی ہیں اپنی قسم کے لحاظ سے مختلف جس کو انہوں نے Fat یعنی چکنائی، جس کو انہوں نے (Carbohydrate) نشاستہ یا میدہ.یہ کہا.یا جس کو انہوں نے پروٹین کہا آگے ان کی بھی بہت ساری قسمیں ہیں.پروٹین کے متعلق تھوڑا سا اب میں نے بتایا.یا جس کو انہوں نے Vitamins کہا یہ بھی غذا کا حصہ ہے.یا جس کو انہوں نے Minerals کہا یعنی جو معدنیات ہیں.وہ ان کو Trace element بھی بعض ہیں ان میں سے بہت تھوڑا چاہیے لیکن انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے.خدا کہتا ہے کہ ہر شخص کو دو.تو میں نے یہ کہا کہ میرے نزدیک وَفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم نے بڑا عظیم اعلان کیا ہے.بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے کہا میں تمہیں لاوارث نہیں چھوڑوں گا.قرآن کریم نے کہا تمہارے جو سیاسی بڑے ہیں وہ تمہارا خیال نہ رکھیں یا رکھیں.تمہارے دوسرے، تمہارے اپنے بزرگ جو ہیں خاندانی یا قبیلے کے وہ اس طرف توجہ دیں نہ دیں، پر میں تمہارا پیدا کرنے والا رب تمہیں ایک مقصد کے لئے میں نے پیدا کیا.تمہیں ایک مقصد کے لئے پیدا کیا میں نے.جو بھی تمہیں ملا وہ مجھ سے ملا اور بنیادی طور پر میں نے تمہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۶۴ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء چار قسم کی عظیم صلاحیتیں اور قابلیتیں دیں.ان کی نشوونما کے میں نے سامان پیدا کئے.میں یہ سامان پیدا کروں گا کہ سارے انسان اسلام کی حسین تعلیم میں ، اسلام کے ٹھنڈے سایہ میں جمع ہو کر ہر شخص کو پہلے اس کا حق مل جائے گا.اس کے بعد پھر جن کو ہم نے ایسی صلاحیتیں دی ہیں کہ مثلاً وہ زیادہ کما لیں پھر ہم کہیں گے جب وہ اپنے حقوق ادا کر چکے ہوں گے اور ان کے پاس مال بچے گا پھر ہم کہیں گے اپنی مرضی سے اب کھا لولیکن یہ دیکھنا کہ اپنی مرضی سے اتنانہ کھا لینا کہ رات کو ہماری عبادت نہ کر سکو.دن کے وقت بھی اونگھتے ہی رہو.ہماری طرف توجہ نہ کرو.اپنے جو ہر وقت کے حقوق ادا کرنے ہیں وہ تم ادانہ کر سکو.یہ جو میں نے کہا کہ جس وقت کسی ملک کے ایک طبقہ کو مناسب حال اور متوازن غذا نہ ملے اس وقت سب امراء کی غذا لے کے اکٹھی جمع کر لو اور یہ انتظام کرو کہ پہلے ان کو مل جائے پھر ان سے کہو کہ اب تم جو مرضی کرو اپنی غذا سے یہ میں نے اعلان اس میں یہ کیا آج.یہاں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کئی دفعہ، اس آیت کا یہی مفہوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھے ، اور اس وقت میں نے آپ کے سامنے آپ کا ایک ارشاد اور اُسوہ اور اس پر عمل کرنے والوں کے دو واقعات لئے ہیں تین.بڑی چیز واضح ہو جاتی ہے کسی کو کوئی شبہ اور شک نہیں رہے گا.یہ مسلم میں حدیث آتی ہے.مسلم ،تھوڑا سا تعارف حدیث سے کروا دوں آپ کا.ہمارے ان بزرگوں نے بڑے پیار، بڑی تحقیق سے اور بڑی توجہ کے ساتھ پوری کوشش ہے کہ کوئی غلط بات کوئی کسی غلط سند سے ہم تک پہنچی ہوئی بات ہمارے اس مجموعہ میں شامل نہ ہو جائے جو شائع کرنا چاہتے ہیں.انسان تھے پھر بھی بعض غلطیاں کر گئے ہوں گے لیکن انتہائی قربانی کے ساتھ اور بڑی ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے بڑے عظیم لوگ تھے یہ.ان عظیم لوگوں میں سے ایک طبقہ وہ تھا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جمع کئے ، چھان بین کی ، ایک ایک حدیث کے لئے بڑی کوفتیں اٹھا ئیں اور سفر کئے اور اپنی پوری تسلی کرنے کے بعد انہوں نے جو اپنے معیار قائم کئے اس کے مطابق انہوں نے جمع کر دیئے.یہ چھ صحاح ستہ ، چھ حدیث کی کتابیں ہیں جو کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ قابل اعتماد، قابل اعتبار ہیں.ان میں سے صحیح بخاری نمبر ایک پر
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۶۵ خطبہ جمعہ ۶/ جولائی ۱۹۷۹ء ہے اور پھر صحیح مسلم ہے.میں نے یہ دونوں کتابوں کے ہی دو (حوالے ) لئے ہیں لیکن مسلم کا حوالہ میں نے اس لئے پہلے لیا کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ درج ہے.اس کا میں ترجمہ لوں گا.ویسے میرے پاس عربی کے الفاظ بھی ہیں مگر دیر ہوگئی ہے.ایک صحابی کہتے ہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے مگر رستے میں ہمیں خوراک کی سخت کمی پیش آگئی.حتی کہ ہم نے ارادہ کیا کہ اپنی سواریوں کے بعض اونٹ ذبح کر دیں.( میں ذرا ساتھ ساتھ تشریح کروں گا تھوڑی ) شان دیکھو! کھجور میں ساتھ لے کے گئے تھے غریب آدمی.ستو ہوں گے اسی قسم کا راشن.یہ مجاہد فوج ہے جن کو حکومت نہ کھانے کو دیتی ہے نہ پہنے کو دیتی ہے نہ ہتھیار دیتی ہے.اپنے پیسوں سے إِلَّا مَا شَاء اللہ جتنی توفیق دی اور بعض ایسے غریب تھے ان کو دیا بھی لیکن اصل اصول یہ ہے کہ جس کو خدا نے توفیق دی وہ اپنے پیسے خرچ کرے.اپنے کپڑے بنائے.اپنی زرہیں بنائے.اپنی تلوار میں خریدے.اپنے نیزے لے.اپنے تیر کمان تیار کرے اور پھر ان کی پریکٹس کرے اور ان میں مہارت حاصل کرے وغیرہ وغیرہ اپنی سواریاں لے.غریب لوگ سواری انہوں نے لے لیں.دو دو نے مل کے بھی لے لی ہوں گی ایک ایک اونٹ یا تین تین نے مل کے لے لیا ہوگا یا اس سے زیادہ نے والله اعلم لیکن راشن تھوڑا سا تھا.کھجوریں ہوں گی کچھ اور اس قسم کی اور چیزیں.جس وقت ان کا کھا ناختم ہوا تو....انہوں نے ہاتھ نہیں پھیلا یا کھا ناختم ہو گیا لا ؤ کچھ کھانے کو دو.انہوں نے یہ سوچا کہ مانگیں گے نہیں.جب تک ہمارے پاس کھجوریں تھیں ہم نے کھا ئیں.جب تک ہمارے پاس ستو تھے ہم نے ان کا استعمال کیا اور اپنے پیٹ بھرے اب وہ ختم ہو گئے ہیں.ہمارے پاس اونٹ ہیں جن کی ہم سواری کرتے ہیں اور اس طرح کوفت سے بچ جاتے ہیں.اب ہم اونٹ ذبح کر کے باری باری کوئی انہوں نے بنائی ہو گی سکیم وہ اس میں نہیں لیکن بڑے ذہین لوگ تھے جو میرے سامنے تصویر آئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے مل کے سر جوڑے ہوں گے.انہوں نے کہا ہوگا ہم چالیس آدمی یا سو آدمی ہیں یا پچاس آدمی ہیں اتنے دنوں کے بعد ایک اونٹ ذبح کیا کریں گے باری باری اور یہ کھالیں گے ، مانگیں گے نہیں.یہ عظیم ذہنیت کہ جہاد پہ جارہے ہیں.اپنے خرچ پہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۶۶ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء جارہے ہیں.غریب ہیں غذا ساتھ نہیں ہے پوری.غذا کا سامان پورا نہیں لے جارہے وہ ختم ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی شکایت نہیں کی.خدا تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں کیا.کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں پھیلایا.آپس میں سر جوڑے اور مشورہ کیا.آداب اونٹ ذبح کریں اور کھائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا لگ گیا.جب آپ کو پتا لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے پاس خوراک موجود ہے اور ختم نہیں ہوئی وہ اس گروہ کے امیر لوگ تھے نا، جو زیادہ کھانے پینے کی چیزیں لے کے آئے ہوئے تھے.غریبوں کی ختم ہو گئی ان کی ختم نہیں ہوئی یعنی اس چھوٹے سے دائرہ میں دو طبقے بن گئے نا.ایک غریب کا جن کا کھانے کا سامان خستم ہو گیا.ایک امیروں کا جن کے پاس کسی کے پاس دومن ہوگی کسی کے پاس ایک من ہوگی.کھجوریں بھی تھیں ، ستو بھی تھے اور کھانے کی جو چیزیں وہ استعمال کرتے تھے وہ.آپ نے کہا سب جن کے پاس بھی جو کھانے کی چیز ہے بیت المال میں آ کے اکٹھی کر دو.میں نے کہا تھا نا کہ جب کسی طبقے کو اس کے مناسب حال اور متوازن غذا نہ ملے تو سارے امرا کی غذا اکٹھی کر لو اور اکٹھا ایک جیسا کھانا دے دو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا سب لوگوں کے خوراک کے ذخیرے اکٹھے کر دیئے جائیں.پس ہم نے سب ذخیرے اکٹھے کر لئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے سب کو مساویانہ راشن بانٹنا شروع کر دیا.سب کو ایک جگہ لا کے کھڑا کر دیا نا.یہ اُسوہ آپ نے قائم کر دیا.اس کے بعد دو اور واقعات میں نے اس وقت بیان کرنے کے لئے ، آپ کو مسئلہ سمجھانے کے لئے ، اور دنیا کو منتخب کئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک پارٹی ساحل سمندر کی طرف روانہ کی اور اس کا امیر ابوعبیدہ بن جراح جو آپ کے ایک بڑے پیارے صحابی تھے ان کو مقرر کیا.یہ جو پارٹی تھی یہ تین سو افراد پر مشتمل تھی.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس سر یہ میں نکلے تو ان کو مثلاً کوئی کام دیا تھا ساحل سمندر کی طرف.تو اگر سیدھا راستہ اختیار کرتے تو چار پانچ دن میں پہنچ جاتے.دس بارہ دن میں واپس آجاتے.جب ان کے کام سپر دہی یہ ہوا ہے بارہ دن کا.انہوں نے بارہ دن کی غذا ر کھی اپنے ساتھ.چلے گئے لیکن راستہ بھول گئے.یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۶۷ خطبہ جمعہ ۶ / جولائی ۱۹۷۹ء راستہ بھول جانے کی وجہ سے ابھی ہم منزل مقصود کو پہنچے ہی نہیں تھے وہ کہتے ہیں ہم راستہ میں ہی تھے کہ ہمارا زاد کم ہونا شروع ہو گیا.تو جو تین سو میں سے غریب تھے جن کے پاس تھوڑا کھانا تھا ساتھ ان کو مشکل پیش آگئی.تو ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگوں کی خوراک کا ذخیرہ جمع کرلیا جائے.جو امیر تھے اس پارٹی کے تین سے کے، ان سے ان کی ، ان کے پاس جو کافی تھا ذخیرہ ان کو کہا اکٹھا کرو یہاں سب برابر.تو یہ سارا جمع شدہ ذخیرہ ابوعبیدہ نے ، وہ تھوڑا ہی بنا ویسے، اس ذخیرہ میں سے تھوڑی تھوڑی خوراک تقسیم کرتے تھے.حتی کہ یہ ذخیرہ اتنا کم ہو گیا کہ بالآخر ہمارا راشن صرف ایک کھجور فی کس پر آ گیا.تو جس کے پاس اتنا راشن تھا کہ وہ جس دن ان کو سب کو فی کس ایک کھجور ملی اس دن وہ ہیں کھجوریں کھا سکتا تھا تو حضرت ابو عبیدہ نے کہا یہ سنتِ نبوی نہیں آج تم ہیں کھجور نہیں کھا سکتے اپنی.آج تم ایک کھجور کھاؤ گے.جو سائل اور محروم کو ملے گی ، اتنی کھاؤ گے لیکن جب ان کو ان کی ضرورت کے مطابق متوازن غذامل رہی تھی اس وقت اپنے مال سے ، ذخیرے سے جو مرضی کرتے تم.اور تیسرا فرمان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.ایک اشعر قبیلہ ہے ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ نبوی پر جس طرح وہ عمل کرتے تھے انہوں نے اپنے قبیلہ کی روایت یہ بنائی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نا وہ روایت بن گئی.اس کو یہ تو اپنی شان کے ساتھ ہے یہ میں بعد میں بیان کروں گا اس کی ایک تھوڑی سی جھلک ہمیں اس جلسے یہ نظر آئی جب صبح کی نماز کے وقت مجھے مسجد میں بتایا گیا کہ نانبائیوں کے کام نہیں پورا کر سکے کسی وجہ سے تو روٹیاں نہیں تیار ، تو اب کیا کریں ہم ؟ ہم وقت پر کھانا نہیں کھلا سکتے.پوری روٹی لے کے دو یا تین روٹیاں جتنی بھی ملتی ہیں فی کس نہیں تیار.یا آپ پیچھے ڈالیں جلسہ کی تقاریر کا پروگرام.میں نے ان کو کہا یہ تو نہیں ہوگا.میں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو گا تم اپنے وقت کے اوپر جو بھی ہے تقسیم کرو.میں نے نماز کے بعد یہ اعلان کیا کہ یہ واقع ہو چکا ہے اور کھانا وقت پر نہیں مل سکتا.ہم روحانی غذا نہیں چھوڑیں گے جسمانی غذا کی قربانی دیں گے اور جن کے گھروں میں روٹیاں پکتی ہیں یا جو کھانے کا اپنا یعنی باہر سے بھی آنے والے انتظام کرتے ہیں ان کو میں کہتا ہوں کہ وہ بھی اور جو باہر سے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۶۸ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء آئے ہوئے ہیں وہ بھی اور میں بھی اور میرے بچے بھی اور ہمارا خاندان بھی اور جماعت کے عہدیدار بھی اور جماعت کے کارکن بھی ، آج ہم سارے ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائیں گے.تو ان سے میں نے بات کی تھی میرا اندازہ تھا کہ ایک روٹی ہر ایک کو مل جائے گی.ہم ایک روٹی کھائیں گے اور خدا تعالیٰ نے یہ بڑی عجیب جماعت پیدا کی ہے مجھے بعد میں پتا لگا کہ کئی لوگوں نے کہا کہ پھر اب جب ایک وقت ایک روٹی کھائی ہے تو سارے جلسے میں ایک روٹی کھائیں گے کیا فرق پڑتا ہے.اس قسم کے اخلاص والے بھی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اشعر قبیلہ کے لوگوں کا یہ طریق ہے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کے اور اُسوہ دیکھا ممکن ہے کوئی ان میں سے اس غزوہ میں شامل بھی ہوجس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکٹھا کر لیا اور وہ سب کو....کہ جب کسی سفر میں خوراک کا ٹوٹ پڑ جاتا ہے یا حضر کی حالت میں ہی ان کے اہل وعیال کی خوراک میں کمی آجاتی ہے یعنی ایک حصہ کی خوراک میں کمی آجاتی ہے تو ایسی صورت میں وہ سب لوگ اپنی اپنی خوراک ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں اور پھر اس جمع شدہ خوراک کو ایک ناپ کے مطابق برابر، ہر ایک کو امیر غریب.ایک ناپ کے مطابق سب لوگوں میں مساویانہ طریق پر بانٹ دیتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں.آپ فرماتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا میرے ساتھ حقیقی جوڑ ہے اور میرا ان کے ساتھ حقیقی جوڑ ہے.تو اسلام یہ اعلان کرتا ہے آج دُنیا میں کہ دنیا کا کوئی طبقہ ایسا نہیں رہنے دیا جائے گا جس کو متناسب اور متوازن غذا نہ ملے اور ایک طبقہ موجود ہو جو عیش کر رہا ہو کھانے کو.ایک طبقہ موجود ہو کہ امریکہ کے متعلق کہا ہے پتا نہیں صحیح ہے یا نہیں لیکن کسی جگہ میں نے پڑھا تھا کہ بعض دفعہ وہ فخر کرتے ہیں کہ جتنا ہم اپنی رکابیوں میں بچا کے پھر پھینک دیتے ہیں اس سے یہ جو غریب ممالک ہیں پاکستان ، ہندوستان جیسے ان کا پیٹ پالا جا سکتا ہے.تو قرآن کہتا ہے یہ فخر کی بات نہیں یہ تو ہلاکت کے سامان پیدا ہورہے ہیں.تمہیں اپنی فکر کرنی چاہیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان سے بڑا پیار تھا.ایک دفعہ میں نے یہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۶۹ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء خطبہ دیا کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سوئے گا اور میں نے دو حدیثیں بیان کیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ایک جگہ کہ ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہے.دو کا چار کے لئے.ایک جگہ فرمایا کہ ایک کا تین چار کے لئے کافی ہے یعنی ایک سے زیادہ.ایک کا کھانا دو سے زیادہ نسبت سے کافی ہے، وہ اس وقت وہ نسبت مجھے یاد نہیں رہی.بہر حال سمجھ لو کہ مثلاً یہ کہہ دیا کہ ایک کا چار کے لئے کافی ہے.وہ دونوں حدیثیں اسی ضمن میں میں نے پڑھیں تو میں نے سوچا کہ یہ دوسری جو ہے یہ امیروں سے تعلق رکھتی ہے یعنی بعض گھرانے ایسے ہیں غریب جو اپنی ضرورت کے مطابق کھانا پکا رہے ہیں.وہ اگر دو آدمی میاں بیوی ابھی بچہ کوئی نہیں کھانے والا دودھ پیتا مثلاً بچہ ہے ماں کی گود میں تو وہ دو آدمیوں کا فکر کر سکتا ہے اگر کوئی دو بھو کے ہیں تو ان کو کہہ سکتا ہے آؤ ہم اکٹھے مل کے کھا لیتے ہیں.چار کھالیں گے.لیکن ایک امیر ہے اگر اس کے ہاں دو کا پکا ہوا ہے تو وہ دس کو بھی کھلا سکتا ہے.پہلے جماعت نے ذرا توجہ دی تھی.اب مجھے بعض نے کہا ہے کہ بعض دفعہ سستی کرتے ہیں، یہ بڑی غلط بات ہے.جماعت احمدیہ میں کوئی شخص رات کو بھوکا نہیں سونا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو.اپنے محلے والوں کا خیال رکھو.مجھے ایک غیر احمدی دوست نے بڑا پیارا خط لکھا.مجھے انہوں نے خط لکھا کہ میں نے یہ آپ کا خطبہ پڑھا.پر میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم نے آپ کا کیا گناہ کیا کہ آپ نے ہمارے متعلق نہیں کہا کہ ہم بھوکے نہ سوئیں رات کو.خیر میں نے ان کو کہا کہ بات یہ ہے کہ جہاں تک میرے دل کے جذبات کا تعلق اور احساسات کا تعلق ہے، میرا دل یہی پکارتا ہے کہ کوئی انسان رات کو بھوکا نہ سوئے لیکن اگر میں بول پڑتا یہ کلمات تو بہت سارے لوگ مجھ پہ بڑا غصہ کرتے اور اعتراض کرتے ، الزام لگاتے.تو ویسے جو لوگ سب انسانوں کو انسان سمجھ کے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کو اسلامی تعلیم کا جزو سمجھتے ہیں وہ سارے شامل ہیں میرے اس اعلان میں کہ کوئی شخص بھی رات کو بھوکا نہ سوئے اور وہ تو کم سے کم غذا ہے نا.لیکن جو اعلان کیا گیا ہے وہ مناسب حال متوازن غذا.اب میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں جو میرا مشاہدہ ہے.اس واسطے میں نے کہا تھا کہ اسی فیصد Small Holding کا مالک آٹھ دس بارہ ایکڑ کا مالک
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۷۰ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء زمیندار اس کا حلیہ یہ ہے جو میں نے کہا تھا نا وہ دراصل غلام ہے اپنے تین بیلوں کا ، اپنے ہل کا.ایک دفعہ ہم سیر کو نکلے.ہم بہت سارے اپنے بھائی چازاد بھائی وغیرہ کبھی کبھی آرام بھی کیا کرتے ہیں.تو ربوہ سے پچیس تیس میل کے اوپر ہم گئے تھے.وہاں ایک وہ بیل والا ہل جو بیل سے رہٹ پانی نکالتا ہے پنجابی میں ٹنڈیں“ کہتے ہیں ان کو.تو میں نے کہا.اس سے ہم نے دو چار فرلانگ آگے جانا تھا میں نے کہا ٹھہر جاتے ہیں پانی مل جائے گا.تو وہاں ہم ٹھہر گئے.موٹروں سے اترے.ہمارے ساتھ اپنا کھانا وغیرہ ہوتا ہے وہ سارا نکالا یعنی کیمپ اپنا بند کر دیا.باقی....وہاں میں چلا گیا وہاں اسی وقت.وہ ساری رات اس نے جیسا کہ طریق ہے زمیندار کا اس کے اوپر بیٹھ کے پانی نکالا اپنی زمینوں کو ساری رات پانی دیتے ہیں یہ.اس کے گھر والی اس کا کھانا لے آئی.تو میں نے کہا دیکھیں ساری رات اس نے محنت کی ہے کھانے کو کیا مل رہا ہے بیچارے کو.میں چلا گیا اس کے پاس وہ ہاتھ منہ دھو کے جیسا کہ عادت ہے وہ چوکڑی نہیں مارتے اکڑوں بیٹھ جاتے ہیں.وہ بیٹھا ہوا سامنے اس کے رومال بچھا ہوا وہ کھانا کھانے لگا تھا.میں نے سلام کیا.میں نے ہنس کے کہا میں مہمان آیا ہوں اور تم مجھے کھانے کو نہیں پوچھو گے؟ وہ شریف آدمی کہے آئیں بیٹھیں کھانا کھا ئیں تو میں بیٹھ گیا اس کے ساتھ.تو میں نے تو چکھنا ہی تھا ، دیکھنا ہی تھا کیا کھاتا ہے تو وہ باجرے کی بڑی موٹی روٹی اور میں نے ذرا سا ٹکڑا لیا توڑا اور ساتھ سرخ مرچ کی پسی ہوئی چٹنی یعنی ساری رات اس شریف آدمی نے کام کیا اور صبح اس کے حصے میں غذا یہ آئی ہے.تو میں نے.میں مرچ کھاتا نہیں مجھے تکلیف ہوتی ہے اس کی تو میں نے ٹکڑا لے کے وہ چبا یا اتنا لذیذ کہ کوئی حد نہیں.خیر میں نے اس کا شکر یہ ادا کیا.اٹھا تو وہ کہنے لگا نہیں اور کھائیں نہیں.میں نے کہا جو پتا لینا تھا وہ پتا لے لیا.میں نے تو اس کو اپنا استاد بنالیا نا.یہ آدمی جوساری رات پانی دیتا ہے اور صبح کے وقت اس کے حصے میں سرخ مرچ کی پسی ہوئی چٹنی آتی ہے اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہمارے ہاں؟ حالانکہ اس کا حق ہے.اس کو جو تجربہ رکھتے ہیں ، جو علم رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ اسی زمین میں ان کو دودھ اور مکھن اور لسی مل سکتی ہے لیکن ان کو بتانے والا کوئی نہیں.مثلاً اگر تین بیل ، یہ جو ایک ہل ہے ویسے تو دو بیل چلاتے ہیں نا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۷۱ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء ہل کو لیکن کوئی بیمار ہو جاتا ہے اچانک مرجائے تو عام زمیندار تین بیل رکھتے ہیں ایک ہل میں یہ سمجھا جاتا ہے اصول تین بیل.اگر وہ تین بیل بیچ دیں اور ان کو مناسب کرایہ پر قریب کی کسی ورکشاپ سے ٹریکٹر میسر ہو ان کو کیا ضرورت ہے غلام بن کے رہنے کا بیلوں کے.وہ تین بیل بیچ دیں اور اس کی بجائے دو بھینسیں لے لیں.ایک بیل کو....جو چارہ دیتے تھے اس کی تو چارے کی بچت ہوگئی نا اس میں کچھ اور لگائیں.دو بھینسوں کو پالیں.دو بھینسوں کا میں نے یونٹ اس لئے سوچا کہ بھینس بھی ایک وقت میں خشک ہو جاتی ہے نا.تو اگر وہ ہر ور یائی یعنی ہر سال بچہ دینے والی بہت ساری ہماری بھینسیں ہیں ایسی ، تو اگر وہ چھ چھ مہینے بعد دینے والی ہو تو اس کو آٹھ دس بارہ چودہ سیر ہر روز اس کے حصے میں دودھ آجائے گا.تو وہ اور اس کے بچے دودھ پیئیں گے.لسی پئیں گے.وہ مکھن کھا ئیں گے.وہ ان کا بوجھ بناسپتی گھی بنانے والے کارخانوں پہ نہیں ہوگا.وہ اپنے گھر کا تازہ مکھن کھا رہے ہوں گے.ان کی صحتیں اچھی ہو جائیں گی.بچے اگر ذہین ہیں تو ان کے ذہنوں کو غربت کا دھکا لگ کے کمزوری نہیں پیدا ہوگی ان کے ذہنوں میں.کھانے کا ذہن کے ساتھ بڑا تعلق ہے.مجھے خدا تعالیٰ ہی سمجھ دیتا ہے، عقل دیتا ہے.میں اپنے دفتر سے پرنسپل لاج کی طرف جارہا تھا.راستے میں مجھے مل گیا ایک سکالر، نہایت چوٹی کا طالب علم ہمارا اور دو مہینے بعد ہونے تھے امتحان.وہ راستے میں ملا میں نے سلام کیا اس کو.میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس کے چہرے کے اوپر سفید سفید داغ پڑے ہوئے تھے جو کمزوری کی علامت ہے.اتنی سخت شرم آئی اس بچے سے.میں نے کہا کہ یہ پڑھ رہا ہے امتحان قریب ہے اور کھانے کو متوازن غذا اس کے مناسب حال اس کو نہیں مل رہی.یہ شکل بن گئی ہے اس کی.بڑی استغفار کی میں نے.اس کو میں نے کہا چلو ایک تو تمہیں میں ابھی دوں ایک چیز.تو میں بڑی دیر سے سویا بین پر تجربہ کر رہا ہوں.گھر گیا.میں نے اس کو سویا بین دی.میں نے کہا یہ کھانا شروع کرو.پھر ہوٹل ہی کا طالب علم تھا میں نے ہوسٹل والوں کو کہا کہ تم اتھلیٹ کو دیتے ہو سو یا بین کی پنجیری بنا کے تو اپنے سکالرز جو ہیں پڑھا کو بہت تیز پڑھنے میں ، ان کو بھی دو.وہ بنا کے دی.وہ مجھے پندرہ دن کے بعد میں نے دیکھا تو سارے داغ غائب، سرخ چہرہ ، خون باہر نکلے.میں بڑا خوش ہوا.میں نے کہا یہ خدا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۷۲ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء نے مجھے اس کے چہرے سے سبق دیا تھا اور میری توجہ اس طرف پھیر دی.تو یہ جو ذہین بچہ کمزور ہے جو Under Nourished ہے.جس کو کھانے کو نہیں ملتا ، جس کو مناسب غذا انہیں ملتی وہ علم کے میدان میں ترقی کیسے کرے گا؟ جس قوم کے ذہین بچے غیر مناسب، غیر متوازن غذا کھا کے علم کے میدانوں میں ترقی نہیں کر رہے ہوں گے وہ ملک دنیا کے ممالک کے مقابلے میں کیسے ترقی کریں گے، ہو ہی نہیں سکتی یہ بات.خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت سے انسان نہیں لڑسکتا.جو لڑتا ہے وہ نا کام ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا قانون ہے تم ان کا خیال رکھو.ان کے.یہ تو میں نے ایک مثال دی.اس میں دیر ہوگئی ہے ورنہ اس کے اخلاقی مطالبے ہیں.اخلاقیات کی نشوونما کے لئے اس کی.اس کے روحانی مطالبے ہیں.ہر انسان اپنے بھائی سے پیار اور محبت کے ساتھ کچھ مطالبہ کرتا ہے.ہر بھائی اپنے بھائی کے مطالبات کو پورا کرتا ہے پیار اور محبت کے ساتھ.یہ ہے اسلامی تعلیم.دعا کریں اور کوشش کریں اور ہر وقت چوکس رہ کے کوشش کریں کہ اسلام کی تعلیم پر آپ عمل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.نہ صرف احمدی بلکہ دنیا کا کوئی انسان بھی بھوکا نہ رہے.انسان، انسان سے چالاکیاں بھی کرتا ہے.خدا کرے کہ ہم چالا کی کرنے والے نہ ہوں.ایک دفعہ مجھے کسی شخص نے ایک اشتہار بھیج دیا ایک امریکہ کی فرم سویا بین سے جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اس میں چوبیس فیصد بہت اعلی قسم کی غذائیت رکھنے والا تیل بھی پایا جاتا ہے.اس میں لکھا ہوا تھا کہ ہم تیل نکال لیتے ہیں اور جو کھلی رہ جاتی ہے نا جس طرح بنولے کی کھلی آپ جانور کو ڈال دیتے ہیں وہ کھلی کے انہوں نے پیس کے ڈبے بنائے ہوئے ہیں اور افریقہ کے غریب ممالک اور فلاں جگہ کے غریب ممالک میں بڑا احسان کر کے تقسیم کر رہے ہیں.تو میں بھی چونکہ سویا بین میں تجربہ کرنے والا تھا.میں نے ان کو خط لکھا بڑے آرام سے.میں نے کہا میرا تجربہ یہ ہے کہ Whole سویا جو ہے یعنی اس میں سے اگر تیل نہ نکالا جائے تو یہ بہت زیادہ مفید ہے بنسبت اس کے کہ تیل نکال کے کھلی لوگوں کو کھلائی جائے.یہ آپ کیوں کرتے ہیں ایسا؟
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۷۳ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۹ء بڑے پیار سے خط لکھا شریفانہ.بڑی ہوشیار قوم ہے.ان کا جواب آیا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس کا تیل اگر ہم نہ نکالیں تو تھوڑی سی ہیک آتی ہے جسے بعض لوگ پسند نہیں کرتے اس وجہ سے ہم نکال لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تیل نکالنے سے اس کے اندر غذائیت دسواں حصہ بھی نہیں رہتی.بہر حال یہ چیزیں ہیں.ہمارے ملک میں ایک وقت اس کو لگایا گیا تھا.پھر لوگوں نے چھوڑ دیا.اب پھر سنا ہے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں.یعنی انسان کو خدا نے عقل دی.انسان کو خدا نے کہا اتنی تجھے عقل دی ہے تھوڑی سی نہیں دی.اتنی عقل دی ہے قرآن نے اعلان کیا کہ میری پیدا کردہ ہر چیز کو اپنا خادم بنا کے اس سے خدمت لے سکتے ہو تم سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : (۱۴) اتنی عقل دی.وہ عقل والا انسان اپنے بھائی کی جو ضرورتیں ہیں وہ نہیں پوری کر سکتا.پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں.اس لئے خود کریں آپ ، آپ کا یہ فرض ہے اور دعائیں کریں کہ ہر انسان دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا ہو.ہر انسان دوسرے کو اپنے ساتھ لے کے ان رفعتوں تک لے جانے والا ہو جن رفعتوں تک لے جانے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 健康
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۷۵ خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۹ء آج کے انسان کو پہلی نسلوں سے کہیں زیادہ اسلام کی ضرورت ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۳ / جولائی ۱۹۷۹ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمد للہ بارانِ رحمت سے ہمیں بھی حصہ ملا اور گرمی کی شدت میں کمی ہوگئی اور آرام کے سامان پیدا ہو گئے.بارش کے بہت سے نتیجے نکلتے ہیں.ایک بات میں اس وقت یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ بارش کی شدت نمازیوں کو مسجد میں جانے سے بھی روکتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان حالات میں ایک مومن کو یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اگر وہ مسجد میں نہ پہنچ سکے تو اسے کوئی گناہ ہوگا بلکہ ایک موقع پر آپ نے جمعہ کے دن فرمایا:.صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ اپنے اپنے مکانوں پر نمازیں پڑھ لو.تو اصل چیز خلوص نیت کے ساتھ انتہائی عشق اور پیار کے ساتھ اپنے رب کریم کی عبادت ہے.یہ جو ظاہری شکل ہے تو اگر خدا کے لئے اسی کے حکم سے آپ مسجد جائیں تو بڑی برکت ہے اور اگر خدا کہتا ہے کہ صَلُوا فِي رِحَالِكُمْ تو اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرنا اتنا ہی ثواب ہے جیسا کہ مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا.اس وقت میں ایک لمبے مضمون کی ابتدا کرنا چاہتا ہوں.اس مضمون کے دو حصے ہیں اور
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۹ء دونوں میں بڑی وسعت ہے.ایک کی ابتدا میں پہلے کر چکا ہوں اور دوسرے حصہ کی ابتدا مختصراً میں آج کر دوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ۱۰۸) عالمین میں صرف انسان نہیں بلکہ ہر غیر انسان مخلوق بھی عالمین میں شامل ہے اور ایک پہلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق کے حقوق اس تعلیم نے قائم بھی کئے اور ان کی حفاظت کا حکم بھی دیا اور ان کی حفاظت کے سامان بھی پیدا کئے.اس عالمین میں انسان بھی شامل ہیں.غیر انسان بھی شامل ہیں.جن کے لئے آپ رحمت ہیں.اس کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ انسان کے متعلق فرمایا کہ ہم نے حافَةُ لِلنَّاسِ (سبا: ۲۹) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھجوایا ہے اور یہ آیا کہ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) اے انسانو! سنو!! کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں یہ جوسب انسانوں کی طرف رحمت بن کے آپ آئے.اس سے آگے دوسوتے پھوٹتے ہیں اور ان میں سے ایک کے متعلق میں پہلے ابتدا کر چکا ہوں اور وہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے.اور وہ یہ ہے إنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اور كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (سبا: ۲۹) اس کی تفصیل میں جب ہم جاتے ہیں تو بنیادی چیز جو ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ اسلام انسان کو کہتا ہے کہ میں تجھے آپس میں لڑنے نہیں دوں گا پیار سے زندگی کے دن گزارو.دنیا نے دنیوی لحاظ سے بڑی ترقی کی لیکن انسان نے انسان سے پیار کرنا ابھی تک نہیں سیکھا کیونکہ اس دنیا کے انسان نے جو د نیوی ترقیات کر چکا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی.یہ وہ پہلا مضمون ہے جس کی میں ابتدا کر چکا ہوں.دوسرا سوتا جو اس اعلان سے پھوٹا ہے کہ آپ رحمت ہیں عالمین کے لئے اور مبعوث ہوئے ہیں بنی نوع انسان کے لئے ، سارے کے سارے انسانوں کے لئے ایک رحمت بن کر آپ آئے.اس مضمون میں بنیادی چیز اسلام نے یہ قائم کی کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں سارے انسان برابر ہیں اور قرآن کریم نے بہت جگہ اس کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک تو کہا گیا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۷۷ خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۹ء کہ انسان اشرف المخلوقات ہے.جب یہ کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے تو یہ نوع انسانی کے متعلق کہا گیا ہے کسی خاص گروہ کے لئے یہ نہیں کہا گیا.دوسرے قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے کہ قرآنی تعلیم تمہارے شرف اور تمہاری عزت کا سامان لے کر آئی.اور عجیب بات ہے کہ جو تعلیم تمہاری عزت کے قائم کرنے اور تمہارے اندرونی شرف کو اجاگر کرنے کے لئے آئی تھی.اسی کی طرف تم تو جہ نہیں دے رہے.اور تیسرے یہ کہہ کر انسانی مساوات کا کہ انسان ، انسان میں کوئی فرق نہیں عظیم اعلان کیا اس فقرہ میں کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف: ۱۱۱) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.جب میں ۱۹۷۰ء میں افریقہ کے دورے پر گیا تو مجھے وہاں یہ احساس ہوا کہ عیسائیت ان ملکوں میں اس دعوئی کے ساتھ داخل ہوئی تھی کہ ہم خداوند یسوع مسیح کے پیار کا اور محبت کا پیغام تمہارے پاس لے کر آئے ہیں.لیکن ہوا عملا یہ کہ نہ ان کی دولتیں ان کے ہاتھوں میں رہنے دیں گئیں ، نہ ان کی عرب تیں ان کے پاس رہیں.انتہائی تحقیر کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کیا گیا اور ساری دنیا میں اس قسم کی ڈراؤنی تصویریں افریقہ کے ممالک کے رہنے والوں کی دنیا میں پھیلائی گئیں کہ عیسائی دنیا کے بچے راتوں کو تصویریں دیکھ کے بعض دفعہ سو بھی سکتے تھے.اتنی بھیانک تصاویر، بڑی حقارت تھی جس کا اظہار کیا گیا تھا.ایک موقع پر غانا میں ٹیچی من“ کے مقام پر یورپین لاٹ پادری بھی آئے ہوئے تھے ہمارے جلسہ میں لیکن بیٹھے اس طرح تھے کہ میں آ گیا ہوں دیکھنے کے لئے کہ کیا سکیمیں یہ بنارہے ہیں.لیکن کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہا بے پرواہی کے ساتھ ایک طرف جھک کے لات پہ لات رکھ کے بیٹھے ہوئے ان احباب سے باتیں کرتے ہوئے اپنی تقریر میں میں نے کہا کہ دیکھو وہ جو افضل الرسل خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ جو پیرا ماؤنٹ پرافٹ تھا اس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں تو Those who were junior to him like Musa and Christ تو جوان
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۷۸ خطبہ جمعہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۹ء سے جونیئر ، نبی تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام وہ یا ان کے ماننے والے وہ تم پر اپنی برتری کا کوئی دعوی نہیں کر سکتے.وہ جولاٹ پادری صاحب تھے وہ یہ سن کر اس طرح اُچھلے جس طرح ان کو کسی نے سوئی چھودی کہ یہ کیا کہہ گئے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ عظیم اعلان ہے یہ كَافَةً لِلناس اور میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اس تعلیم نے اس کی ابتداء یہاں سے کی کہ تم سارے ہی سارے اس نوع کے جو اشرف المخلوقات کے افراد ہو.اور مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تم عزت پانے کے حق دار ہو.اگر خود اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو بے عزت نہ کرو تو ٹھیک ہے.اگر کوئی خود اس عزت کے سامان کی طرف جو قرآن کریم ان کے لئے لے کر آیا ان کی طرف توجہ نہ کرے اور صاحب شرف وعزت بننے کی بجائے ایسے اخلاق پیدا کرے جو اچھے نہیں اور جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہیں تو اس میں خالق کا تو کوئی قصور نہیں.مخلوق نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی بے عزتی اور اپنی حقارت کے سامان پیدا کئے.جہاں تک محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے اور جہاں تک اسلامی تعلیم کا تعلق ہے جہاں تک ایک مسلمان کے اخلاق کا تعلق ہے کسی انسان، انسان میں فرق نہیں کیا جاسکتا.اور محض یہ نہیں بلکہ بہت بلند مقام پر نوع انسان کو کھڑا کر کے کہا ہے کہ یہ ہے تمہارا مقام.عزت اور شرف کا مقام اور تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.موحد اور مشرک میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.جہاں تک ان کی بہبود کا ، جہاں تک ان کی عزت اور شرف کا، جہاں تک ان کے جذبات کا سوال ہے، کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.ساری اسلامی تعلیم اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے اور سارے بنی نوع انسان کو ان کا مقام بتایا اور وہاں لا کھڑا کیا اور کہا کہ یہ ہے تمہارا مقام اشرف المخلوقات ہونے کے لحاظ سے، بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.اپنی اپنی استعداد کے مطابق تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرو اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کے سامان پیدا کرو.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۷۹ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۹ء عزت کا جو یہ مقام نوع انسانی کو دیا گیا.اور اخوت و مساوات کے یہ بندھن جن میں بنی نوع انسان کو باندھا گیا.یہ اسلام کی پہلی بنیادی تعلیم ہے.اس کے بعد پھر بیبیوں ،سینکڑوں اور باتیں مضمون کے اندر آتی جائیں گی.لیکن اس وقت میں صرف ایک چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چونکہ سارے انسان برابر ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس لئے اسلامی تعلیم یہ اعلان کرتی ہے کہ زمین و آسمان کی ہر شے بلا استثناء ہر انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے.قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ زمین و آسمان کی ہر شے بلا استثناء ایک مسلمان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے اور غیر مسلم کی خدمت کے لئے پیدا نہیں کی گئی.یہ اعلان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر شے بلا استثناء ہر انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے.میں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں اس کی وضاحت کے لئے یہاں بھی اب بتاؤں گا کہ جو قو تیں اور استعدادیں ( جن کو انگریزی میں Faculties کہتے ہیں ) بھی انسان کو ملیں ، فرد فرد کو ملیں ، مختلف شکلوں میں ملیں ، فرق فرق سے ملیں ، بہر حال وہ تمام قوتیں اور استعداد میں جو انسانی قوتیں اور استعداد میں کہلائی جاسکتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں کہیں اور سے تو نہیں لا یا کوئی فردا اور خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ قوتیں اور استعد میں جو اس نے کسی فرد واحد کو دی ہیں ان کی کامل نشو و نما کے سامان پیدا کئے جائیں اور جس وقت ان کی کامل نشو و نما ہو جائے تو ان قوتوں اور صلاحیتوں کو اپنے کمال پر رکھنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر فرد واحد کو مہیا ہوں.اس میں مسلم اور غیر مسلم کا تو کوئی فرق نہیں.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ اگر ایک مسلمان کے گھر میں ایک ذہین بچہ پیدا ہو اور تھیوریٹیکل فزکس کا دماغ اور صلاحیت اس کو عطا کی گئی ہو اور ڈاکٹر سلام بنے کی وہ قابلیت رکھتا ہو کہ چوٹی کے سائنسدانوں کے دلوں میں بھی اس شخص کی عزت ہو تو اس مسلمان کو تو جس چیز کی ضرورت ہے اسے دو لیکن اگر ایک دھر یہ ایک کمیونسٹ گھرانہ، ایک ایسا گھرانہ جن کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹادیں گے.ان کے گھروں میں کوئی ایسا بچہ پیدا ہو کہ جس کو خدا تعالیٰ نے ذہنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸۰ خطبہ جمعہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۹ء قابلیت عطا کی ہو تھیوریٹیکل فزکس کے میدان میں ترقی کرنے کی تو جو اس ترقی اور کامل نشود نما کے لئے مادی اور غیر مادی سامانوں کی ضرورت ہے وہ اسے نہ مہیا کئے جائیں کیونکہ وہ خدا کو نہیں مانتا.ایسا کوئی اعلان نہیں.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.نُمِد هَؤُلَاءِ وَهُؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ( بني اسراءيل : ۲۱) ہم سبھی کو مدد دیتے ہیں دین والوں کو بھی دنیا والوں کو بھی.وَ مَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا اور تیرے رب کی عطا کسی خاص گروہ سے رو کی نہیں جاتی نہ اللہ تعالیٰ روکتا ہے اور نہ اس کی تعلیم روکتی ہے.تو یہ جو مساوات ہے یہ محض نعرہ نہیں جسے اسلام نے بلند کیا ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.ایک مادی حقیقت بھی.یہ ایک حقیقت ہے ایک ذہنی حقیقت بھی اور یہ ایک حقیقت ہے.ایک اخلاقی اور روحانی حقیقت بھی کہ کسی انسان اور دوسرے انسان میں فرق نہیں کیا جائے گا جو حقوق خدا تعالیٰ نے کسی شخص کے قائم کئے ہیں.مثلاً ابھی جو میں نے مثال دی.خدا تعالیٰ نے ہر شخص کا یہ حق قائم کیا ہے کہ اس کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قوت اور استعداد عطا ہوئی ہے اس کی کامل نشوونما ہو اور اپنے کمال پر اسے قائم رکھنے کے لئے ہر ضروری چیز مہیا کی جائے.اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کا کوئی فرق نہیں.نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل اور اُسوہ میں اور إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحی الی (یونس : ۱۶) آپ نے کہا کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی ہوئی اور نہ اس وحی کی جس کی آپ پیروی کرتے اور جس کی پیروی کر کے آپ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ بنے.تو اسلام ایک عظیم مذہب ہے اس لحاظ سے بھی کہ وہ انسان، انسان کو پیار سے زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے.اور اس لحاظ سے بھی کہ اس نے سارے انسانوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے لا کے کھڑا کر دیا اور انسان انسان میں فرق نہیں کیا.سب مساوی ہیں اس معنی میں کہ جو حقوق اللہ تعالیٰ نے ان کے قائم کئے ہیں وہ ان کو ملنے چاہئیں قطع نظر اس کے کہ ان کا عقیدہ کیا ہے.قطع نظر اس کے کہ ان کے اعمال کیا ہیں خدا تعالیٰ نے ایک حق قائم کیا ہے.کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ کسی ایسے شخص کو خدا کے عطا کردہ حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کرے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸۱ خطبہ جمعہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۹ء تو یہ بنیادی بات آج میں مختصراً کہنا چاہتا ہوں.مختصر ہی خطبہ دینے کی نیت تھی اور انشاء اللہ.اللہ توفیق دے تو میں پچاس، سو پتا نہیں کس قدر باتیں قرآن کریم کی آیات سے لے کے بتاؤں گا کہ کسی جگہ بھی مسلم اور غیر مسلم میں، موحد اور غیر موحد میں ، امیر اور غریب میں، کالے اور گورے میں اسلام نے فرق نہیں کیا.سب انسانوں کو شرف واحترام کے ایک بلند ترین مقام پر لا کے کھڑا کر دیا.یہ بھی بتا دوں کہ جس وقت آپ نے یہ فرمایا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گری ہوئی اور حقیر مخلوق انسان کے پاس آسمانوں سے اتر کے اور خود کو ان کے مقام پر کھڑا کر کے یہ اعلان نہیں کیا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَر مثْلُكُم میں تمہارے جیسا انسان ہوں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، نا قابل تردید حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو گرے ہوئے مقام سے اٹھا کے آسمانی رفعتوں تک لے گئے اور کہا دیکھو إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ تمہاری عزت اور شرف کو قائم کرنے کے بعد میں کہتا ہوں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.میری بھی عزت تمہاری بھی عزت کسی انسان کو تحقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا.گنہگار کو بھی نہیں دیکھا جائے گا.تفصیل میں جائیں گے تو بعض مثالیں ہمیں ایسی نظر آئیں گی کہ دنیا کی نگاہ میں انتہائی گناہگار انسان ہے اور اس کے خلاف ایک شخص مخلص ، مومن کے منہ سے حقارت کا کلمہ نکلا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند کیا اور سخت غصہ میں آئے اور اس کو جھڑ کا کہ اس قسم کی باتیں کیوں نکل رہی ہیں تمہارے منہ سے.اسلام بڑا پیارا مذہب ہے اور آج کے انسان کو پہلی نسلوں سے زیادہ اس کی ضرورت ہے کیونکہ پہلی نسلوں نے اپنے لئے تباہی کے اس قسم کے سامان اکٹھے نہیں کئے تھے جس قسم کی تباہی کے سامان اس دنیا نے آج کے انسانوں نے اکٹھے کر لئے ہیں.پس دعا کریں کہ آپ کو بھی خدا تعالیٰ قرآن کریم کی تعلیم کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور جو اس کو ابھی نہیں مان رہے جو اس کی عظمت کو پہچان نہیں رہے جو اس کے نور سے واقف نہیں اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۸۲ خطبہ جمعہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۹ء ظلمت اور اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، آپ کو خدا تعالیٰ توفیق عطا کرے کہ آپ ان تک اس تعلیم کو پہنچا سکیں اور وہ لوگ اس تعلیم کو سمجھ سکیں اور اس کی برکات اور اس کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کے وارث بن سکیں.روزنامه الفضل ربوه ۲ /اگست ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۸۳ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء اسلام فتنہ وفساد کو دور اور اخوت کو قائم کرتا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۰ / جولائی ۱۹۷۹ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں نے ایک مضمون کی ابتدا کی تھی.مضمون لمبا ہے، لمبا چلے گا انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ.میں نے بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دو بنیادی مقام قرآن کریم نے بیان کئے ہیں.ایک آپ کا رَحْمَةٌ لِلعلمین ہونا اور دوسرے آپ کے بنی نوع انسان کے لئے ، سارے بنی نوع انسان کے لئے مبعوث ہونا جیسا کہ فرمایا :.يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف:۱۵۹) تم سب کی طرف بلا استثناء کالے گورے، مشرق و مغرب میں بسنے والے، جنوب و شمال میں رہنے والے سب کی طرف میں مبعوث ہو کے آیا ہوں.یہ جو آپ كَافَةً لِلنّاس کے لئے رسول تھے.میں نے بتایا تھا کہ اس سے آگے دو چشمے پھوٹے ، ایک باہمی شفقت اور پیار کا، اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے.فتنہ اور فساد کو دور کرنے والا ، شفقت اور اخوت کو قائم کرنے والا ہے.بڑا غور کیا قرآن کریم پر ، اس لحاظ سے بنیادی حکم یہی ہے کہ پیار سے زندگی گزارو.اے نوع انسانی ! میں تمہیں لڑنے نہیں دوں گا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۸۴ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء اور دوسرا جو چشمہ پھوٹا وہ ہے حقیقی کامل مساوات کا قیام.انسان انسان میں کوئی فرق نہیں رہنے دیا.Islam is a great Leveller ایک مقام پر سب کو لا کھڑا کیا.سب کو برابر کر دیا اور میں نے بتایا کہ اشرف المخلوقات کہا گیا انسان کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہی عظیم اعلان فرمایا : - إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم ( حم السجدة : - ) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں فرق نہیں اور میں نے بتایا تھا کہ خود گھٹیا مقام پر گر کے یہ اعلان نہیں کیا بلکہ نوع انسانی کو اٹھا کر ایک ارفع مقام پر اپنے پاس کھڑا کیا اور کہا.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.دوسری چیز میں نے یہ بتائی تھی کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کی مخلوق کا سوال ہے انسان کے علاوہ کائنات کی ہر شے کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا اور کسی چیز کو بھی کسی خاص انسان یا انسانوں کے کسی خاص گروہ کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.ہر چیز کو تمہاری خدمت پر لگایا گیا یہ بھی اعلان کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم دین والوں کو بھی دیتے ہیں اور دنیا والوں کی بھی مدد کرتے ہیں.وَمَا كَانَ عَطَاء رَبَّكَ مَحْظُورًا ( بنی اسرآءيل: ۲۱) تیرے رب کی عطا کسی گروہ سے بھی رو کی نہیں جاتی.آج کا مضمون میں نے لیا ہے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے والد والد میں جو ہزاروں فرق انسانی آنکھ دیکھتی ہے اس سب تفریق کو مٹا کر ہر والد کو ( بیٹے کی نسبت کے ساتھ ہوگا نا والد ) ایک ہی مقام پر لا کھڑا کیا.یہ اتنا عام مضمون نہیں جتنا شاید مشرق میں بسنے والے سمجھتے ہوں.گومشرق میں رہنے والے بھی مغرب اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو رہے ہیں.مغرب میں تو یہ حال ہے کہ مبالغہ نہیں ہوگا اگر میں کہوں کہ لاکھوں بچے ایسے ہیں جو اپنے ماں باپ کو یا باپ کو یا ماں کو ، اگر ان میں سے کوئی اکیلا ہی رہ گیا ہے اپنے پاس رکھنے کے لئے بھی تیار ہوں.جولا وارثوں کے لئے انہوں نے بعض ادارے کھولے ہوئے ہیں یا بعض گھر پیسے لے کے رکھ لیتے ہیں وہاں ان کو وہ داخل کروا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سب ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو گئے ہیں.قرآن کریم نے ماں باپ کے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ تین بنیادوں پر قائم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۸۵ خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۷۹ء کئے.ایک یہ کہ ماں باپ کے شکر گزار بچے بن کے رہو.دوسرے یہ کہ ماں باپ سے (حُسنا محسن سلوک کرنے والے بنو اور تیسرے یہ کہ ماں باپ سے احسان کرو.یہ تین بنیادی اصول ہیں ماں باپ کے حقوق کے قیام کے لئے جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.یہ آیات شروع یہاں سے ہوتی ہیں.وَقَضَى رَبُّكَ أَلَا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا (بنی اسراءیل: ۲۴) اور ان دو آیات کا ترجمہ یہ ہے.تیرے رب نے اس بات کا تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور نیز یہ کہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو.احسان کا سلوک کرو.اگر ان میں کسی ایک پر یا ان دونوں پر بڑھاپا آ جائے تو انہیں ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑ کو اور ان سے ہمیشہ نرمی سے بات کرو اور رحمت کے جذبہ کے ساتھ ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کرو اور ان کے لئے دعا کرتے ہوئے یہ کہا کرو.اے میرے رب ان سے رحمت کا سلوک کر کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی ( جب میرا کسی عمل کی وجہ سے ان پر کوئی حق نہیں بنتا تھا).سورۂ عنکبوت میں ہے.وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا (العنکبوت : ۹) اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک ، اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ دونوں تجھ سے اس بات میں بحث کریں کہ تو کسی کو میرا شریک قرار دے حالانکہ اس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان دونوں کی اس خاص حکم میں فرماں برداری نہ کر کیونکہ تم سب نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے اور میں تمہارے عمل کی نیکی بدی سے تم کو واقف کروں گا اور سورہ لقمان میں ہے.ووصينا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ (لقمن : ۱۵) اور ہم نے یہ کہتے ہوئے کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر یہ ادا کرو انسان کو اپنے والدین کے متعلق احسان کرنے کا تاکیدی حکم دیا.اور اگر وہ دونوں تجھ سے بحث کریں کہ تو کسی کو میرا شریک مقرر کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان دونوں کی یہ بات مت مان.ہاں د نیوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھ اور اس شخص کے پیچھے چل جو میری طرف جھکتا ہے اور دینی اور دنیوی معاملات میں اُس کا اُسوہ اس قابل ہے کہ اس کے پیچھے چلا جائے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸۶ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء یہ تین آیات آج کے اس مضمون کے لئے میں نے منتخب کی ہیں.سورہ بنی اسرائیل کی جو آیات ہیں ان میں مندرجہ ذیل احکام پائے جاتے ہیں.ایک.اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی اور اس کا بڑا گہرا تعلق ہے اس تعلیم کے ساتھ جو اسلام نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے لئے دی.دوسرے یہ کہ ماں باپ سے احسان کروا چھا سلوک کرو.تیسرے یہ کہ ان کی کسی بات پر خواہ تمہیں وہ نا پسند ہواُف تک نہ کہو.چوتھے یہ کہ ان کو جھڑ کو مت.کسی بات پر بھی تلخ کلامی سے کام نہ لو.پانچویں یہ کہ ان سے ہمیشہ نرمی سے بات کرو.چھٹے یہ کہ ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کرو.ساتویں یہ کہ یہ عاجزانہ رویہ رحمت کے جذبہ سے تمہارے دلوں میں پیدا ہو یہ عاجزانہ رو یہ جو تم اختیار کرو اس کی بنیا د رحمت کا جذبہ ہو.جس کا اظہار اس طرح کرو کہ ان کے لئے دعا کرتے رہا کرو (یہ آٹھواں ہے ) کہ اے میرے رب ان سے رحمت کا سلوک کر.رحمت اسلامی اصطلاح میں آگے دو شکلیں اختیار کرتی ہے.خدا تعالیٰ کے متعلق جو آتا ہے کہ وہ رحم کرتا ہے انسانوں پر اور دوسری چیزوں پر، ان میں سے ایک کا تعلق صرف انسان سے ہے، اس ایک رحمن کی صفت میں رحمت کا اظہار ہوتا ہے خدا تعالیٰ کا اور ایک رحیم کی صفت میں.خدا تعالیٰ کی رحمت کا اظہار ہوتا ہے.رحمن کی صفت میں جب اظہار ہو تو اس کے یہ معنی ہیں عربی لغت اور قرآنی اصطلاح میں کہ کوئی حق قائم نہیں کیا اس شخص نے جس سے رحمت کا سلوک ہو رہا ہے کہ بدلہ اس کا دینا ہو.انسانوں کے ساتھ اگر تعلق ہے یا یہ کہ اس کی جزا دینی ہو، نیک کام اگر کسی نے کیا اور اس کا جو بدلہ قرآن کریم کہتا ہے.میں اپنے فضل سے دوں گا وہ صفت رحمانیت کے نتیجہ میں نہیں.رحمانیت ہے بغیر عمل عامل یعنی کسی نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کیا گیا ہو اور خدا تعالیٰ نے اس عمل کو مقبول کر لیا ہو اور اس کو مقبول بنا کر پھر اس کی جزا دی ہو تو یہ بات رحمانیت کے معنی میں نہیں.رحمانیت میں وہ تمام نعمتیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸۷ خطبہ جمعہ ۲۰/ جولائی ۱۹۷۹ء شامل ہیں جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے ہماری پیدائش سے بھی قبل پیدا کر دیں جیسا کہ کہا گیا تھا.سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) تو جو نعماء اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں ان کی بڑی بھاری اکثریت شاید اگر آپ سوچیں تو ننانوے فی صد ایسی نعمتیں ہیں ایسے فضل اور برکتیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ جن کا تعلق انسان کے کسی عمل سے نہیں.مثلاً سورج ہماری خدمت کر رہا ہے.مثلاً چاند ہماری خدمت کر رہا ہے.مثلاً ہوا میں ہماری خدمت کر رہی ہیں مثلاً پانی ہماری خدمت کر رہا ہے.مثلاً زمین اور اس کے خواص ہماری خدمت پر لگے ہوئے ہیں.آپ میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ آپ کی پیدائش کے بعد آپ نے جب نیکیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے سورج کو اور چاند کو اور زمین کو اور ہوا کو اور پانی کو پیدا کر دیا؟ پتا نہیں کتنا زمانہ قبل ہماری پیدائش سے خدا تعالیٰ نے ان نعمتوں کے سامان ہمارے لئے پیدا کئے تھے اور ہماری طرف سے کسی عمل کے ہونے کا اور کسی سعی کے ہونے کا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی جہاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا.دوسرے ہے رحیمیت.رحیمیت کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص نیک نیت کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اور ایثار کے جذبہ کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اس کے حضور کچھ پیش کرتا ہے اور خدا اسے قبول کر لیتا ہے تو وہ بھی اپنے فضل سے ہی دیتا ہے مگر اس فضل کے نتیجہ میں جو اس موقع پر ہوتا ہے یہ رحیمیت کا جلوہ ہے اور اس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے.انسان کام کرتا ہے.بڑی نیک نیتی سے خلوص سے ایثار سے کام کر رہا ہوتا ہے لیکن بیچ میں خامیاں رہ جاتی ہیں.وہ مغفرت سے ان خامیوں کو ڈھانپ لیتا ہے.انسان عمل کرتا ہے بعض جگہ اس کو پتا ہی نہیں لگتا کہ میں خدا تعالیٰ کے حضور جو پیش کر رہا ہوں بہتر طریق پر کس طرح پیش کروں تو خدا تعالیٰ اس کی ہدایت کے سامان پیدا کرتا ہے،خوداس کی راہنمائی کرتا ہے.ہزاروں لاکھوں اُمت محمدیہ میں ایسے فدائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے براه راست وحی اور الہام کے ذریعے اس کی ہدایت پائی اپنے اعمال کو مہذب کرنے کے لئے پالش (Polish) کرنے کے لئے اور پھر خدا تعالیٰ نے دوسر افضل یہ کیا کہ ان کے اعمال کو قبول
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸۸ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء کر لیا اور ان کی اچھی جزا ان کو دی اور اس زندگی میں بھی اور وعدہ کیا اُخروی زندگی میں بے انتہا انعامات کا.تو رحمت جو ہے یہ ان دو مختلف معنوں میں قرآن کریم کی اصطلاح اور عربی لغت کے لحاظ سے ظاہر ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ انسان کو کہ میری صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرو.تو یہاں اس آیت میں یہ جو کہا گیا کہ رحمت کے جذبہ سے عاجزانہ رویہ اختیار کرو اس میں بھی دو حکم آجائیں گے.ایک یہ کہ بہت سارے بچوں کو اپنی زندگی میں یہ خیال آیا ہوگا کہ ہمارے باپ نے ہم سے حسن سلوک نہیں کیا.یعنی اس کا کوئی عمل ایسا نہیں جو ہمیں احسان پر اکساتا ہو.قرآن کریم کہتا ہے پھر بھی تم نے احسان کرنا ہے.رحمت یعنی رحمانیت کا جلوہ تمہارے حسنِ سلوک ، والدین سے حسنِ سلوک میں نظر آنا چاہیے اور جو انہوں نے تمہارے ساتھ نیکیاں کیں وہ بھی یہ تقاضا کرتی ہیں کہ تم ان کے ساتھ شکر گزار ہو کر معاملہ کرو.حسنِ سلوک کرو اور احسان کا معاملہ کرو.مثلاً بچہ ہے ماں کی گود میں ، باپ کی شفقت کے نیچے ، چند مہینوں کا بچہ، چند سال کا بچہ وہ کون سا احسان کر رہا ہے اپنے ماں باپ پر اس عمر میں ، احسان وصول ہی کرنے کی عمر ہے نا.شفقت پانے کی عمر ہے.ماں کے سینے سے بہت کچھ حاصل کرنے کی عمر ہے.پرورش میں مدد دینے والے ہیں دونوں.اس نے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا اور بہت ہیں ایسے ماں باپ جو اس لحاظ سے بچوں سے کبھی بھی کچھ نہیں لیتے جو یہ کہتے ہوں کہ باپ نے کچھ دیا نہیں پھر بھی ہم دیتے ہیں اور یا باپ نے جو دینا تھا وہ نہیں دیا پھر بھی ہم اس سے حسن سلوک کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کہتا ہے ہر دولحاظ سے تمہیں میری صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت کا مظہر بننا پڑے گا جہاں تک تمہارے باپ کا تعلق ہے.ان کے لئے دعا کرو کہ اے خدا ان سے رحمت کا سلوک کر اور جو مثال آگے دی ہے اس سے یہ دعا یہ بنتی ہے کہ اے خدا! میرے ماں باپ نے تیرے سے معاملہ کرتے ہوئے ہزار کو تا ہیاں کی ہوں تو انہیں معاف کر دے اور مغفرت کی چادر کے نیچے چھپا لے کیونکہ جب میں بچہ تھا اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا ان کے لئے ، اس وقت وہ میرے ساتھ بڑا پیار کیا کرتے تھے تو رحمانیت کے جلوے کی یہ مثال دے کر اس دعا میں ایک حُسن پیدا کر دیا گیا ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۸۹ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء سورۂ عنکبوت کی جو آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نمبر ا.اپنے والدین سے اچھا سلوک کرو ، محسن سلوک کرو.حُسنا کا لفظ ہے.اپنے والدین کی اطاعت کرنے کا حکم ہے.کامل اطاعت ! سوائے ایک استثناء کے.یہ استثناء اپنے معنی کے لحاظ سے بڑا ہے لیکن اس کا بنیادی نقطہ ایک ہی ہے.تیسرے یہ کہ اگر ماں یا باپ یا دونوں یہ حکم دیں کہ خدا کا شریک بناؤ تم تو اس بات میں ان کی اطاعت نہیں کرنی.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کوئی ایسا حکم نہ دیں کہ خدا کا شریک بناؤ تو ایسے ہرحکم میں ان کی اطاعت کرنی ہے تو حید پر قائم رہتے ہوئے.ایک اور بڑا حسین، بڑا پیارا مضمون اس جگہ بیان ہوا ہے.مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ شرک کے خلاف یہ ابتدائی بنیادی تعلیم ہے.مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم یہ ابتدائی بنیادی تعلیم ہے اس پر اسلام نے عمارت بڑی حسین کھڑی کی ہے جو شرک کو انسان کے ذہنوں سے ملیا میٹ کر دیتی ہے.اتنی حسین عمارت توحید باری تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ بت یعنی شریک باری کے وجود کے متعلق مجھے کوئی علم نہیں.اس واسطے تم ان کی بات نہ مانو Agnostics جو کہلاتے ہیں کہتے ہیں کہ چونکہ ہمیں خدا کا پتا نہیں (وہ دوسری طرف لے گئے ہیں نا ) اس واسطے ہم خدا کو نہیں مانتے.یہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا.سویڈن میں ایک بڑا چوٹی کا محقق ہے اس سے میں نے پوچھا کہ تم بھی عیسائی ہو؟ کس فرقے سے تعلق ہے؟ تو کہنے لگا.میں عیسائی ویسائی کچھ نہیں.میں Agnostic ہوں.ایک تو ایسے دھر یہ ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا کو مانتے ہی نہیں.خدا ہے نہیں.ہمیں علم ہے کہ خدا نہیں ہے.جو ہے تو غلط مگر ان کا دعویٰ یہ ہے.ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ چونکہ ہمیں ذاتی علم نہیں اس واسطے ہم نہیں مانتے.وحدانیت باری کا سوال تھا.میں نے بڑا سخت اس کو جواب دیا اس کا.میں نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے والد کا بھی یہی مذہب تھا ؟ کہنے لگا ہاں.میرے والد بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے.میں نے کہا تمہارے دادا صاحب کا؟ کہنے لگے ان کا بھی یہی عقیدہ تھا میں نے کہا تمہارے پڑدادا صاحب کا ؟ مسکرایا.کہنے لگا میں تو اپنے پڑ دادا کو جانتا ہی نہیں.میں نے کہا چونکہ تم اپنے پڑدادا کو جانتے نہیں اس سے یہ نتیجہ تو نہیں نکالتے کہ تمہارا کوئی پڑدادا تھا ہی نہیں.تم کہتے ہو چونکہ میں خدا کو نہیں جانتا اس لئے میں خدا کو مانتاہی
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۹۰ خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۷۹ء نہیں یہ نتیجہ تو نہیں نکلتا.خیر وہ برداشت کر گیا اسے.لیکن شرک کے خلاف یہی تعلیم یہاں دی ہے.مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم ، تجھے کوئی علم نہیں ہے.کسی انسان کو یہ علم نہیں ، یہ دلیل میں نے کہا ہے ابتدائی اور بڑی حسین دلیل ہے لیکن یہی نہیں ہزاروں اور دلائل ہیں جو اس کے ساتھ آکے ملتے ہیں.یہاں سے قرآن کریم نے شرک کے خلاف دلائل کی ابتدا کی کہ چونکہ تمہیں علم نہیں ہے کہ خدا کا کوئی شریک ہے اس لئے تم خدا کا کوئی شریک نہ مانو.لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں شرک کے خلاف بہت سے دلائل دیئے ہیں.پھر فرمایا چونکہ تمہیں اس بات کی معرفت حاصل ہوگئی اسلامی تعلیم میں کہ خدا کا کوئی شریک نہیں.مثبت ، قوی دلائل وشواہد کے (ساتھ ) اس واسطے خدا کا کوئی شریک نہیں مثلاً ایک جگہ کہا کہ دیکھو خدائے واحد و یگانہ میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اور قرآن کریم کہتا ہے کہ جو اس قرآن پر عمل کرے گا اس کو یہ بشارتیں میں دیتا ہوں.اس کو یہ بشارت دیتا ہوں.بیسیوں سینکڑوں بشارتیں قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو دی ہیں.ان بت پرستوں کو پوچھو کہ جو تعلیم ان شرکاء کی طرف منسوب کرتے ہو وہ کونسی تمہیں بشارتیں دیتی ہیں اور کبھی تمہاری زندگی میں پوری بھی ہوئیں؟ لیکن جو خدا نے تم سے وعدے کئے وہ صادق الوعد تمہاری زندگی میں اپنے وعدوں کو پورا کر رہا ہے اور اپنے ہونے کا ثبوت اور اپنے واحد ہونے کا ثبوت تمہیں مہیا کر رہا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل دیئے.تو مَا لَيْسَ لَكَ یہ علم میں شرک کے خلاف ( شرک کے رد میں کہنا چاہیے ) شرک کے رد میں ابتدائی بنیادی دلیل، دین....جس کا تمہیں علم ہی نہیں اس تعلیم کی طرف تم مجھے لے کر کیوں جانا چاہتے ہو.سورۃ لقمان کی آیت میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں، وہ یہ ہیں.ایک والدین سے احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہ کہ کر کہ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، خدا کہتا ہے میرے شکر گزار بندے بنو اور اگر میرے شکر گزار بندے بنا ہے تو اپنے والدین کے بھی شکر گزار بندے بنو.اس واسطے کہ جو تمہاری زندگی میں انہوں نے تم پر احسان کئے وہ میرے بعض ان احسانوں سے بڑے ملتے جلتے ہیں جو میں نے تم پر کئے.اگر تم اپنے والدین کا شکر یہ نہیں ادا کرو گے تو پھر میرے شکر گزار بندے بھی نہیں بن سکو گے ، بھٹک جاؤ گے
خطبات ناصر جلد ہشتم صراط مستقیم سے.۲۹۱ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء دوسرے یہاں یہ کہا گیا کہ اگر والدین شرک کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی.جیسا کہ میں نے بتایا.والدین کے شکر کو خدا کا شکر گزار بننے کے ساتھ باندھ دیا ہے.تو یہاں یہ دونوں طرف چلتی ہے.یعنی جب خدا تعالیٰ کا احسان تمہارے سامنے آئے گا تو تم ماں باپ کا احسان ماننے لگ جاؤ گے جب ماں باپ کا شکریہ ادا کرو گے.احسان تسلیم کرو گے تو خدا تعالیٰ کا احسان بھی تبھی کر سکو گے.تیسری بات ( اور وہ بنیادی بات ہے ) وہ ہے سورۃ لقمان میں میں نے بعض باتیں گن کے بتائیں اور گنے کا میرے ذہن میں ایک یہ بھی فائدہ تھا کہ بچوں کا اپنے ماں باپ کے ساتھ جو تعلق ہے اس سلسلے میں جو بچوں کی ذمہ داریاں ہیں وہ صرف اس دائرے تک محدود نہیں جن کو کھول کر قرآن کریم کی آیات نے بیان کیا اس واسطے کوئی ایسی آیت کسی آیت کا ایسا حصہ ہونا چاہیے کہ جو بنیادی طور پر ایک ایسی بنیادی تعلیم دے جو ہر شعبہ زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہو.اور وہ یہ ہے.وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا “.پس چوتھی بات جو سورۃ لقمان میں یہ بیان کی گئی کہ دنیوی معاملات جتنے بھی ہیں سب کے سب میں ، ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھو.یہ ہمارا حکم ہے.تو دنیوی لحاظ سے جتنی ذمہ داریاں بھی انسان کی انسان پر ہیں ماں باپ اور بچے کا تعلق اس لحاظ سے بھی ہے وہ تمہیں ادا کرنی چاہئیں.وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا سارے کے سارے دنیوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھنے کا حکم دے کر اور بعض باتوں کو کھول کر بیان کر کے یہ سارا مسئلہ واضح طور پر ہمارے ذہنوں میں ڈال دیا اسلامی تعلیم نے.اور پھر یہاں ( الفاظ میں نہیں لیکن ) مضمون کے تسلسل میں جو بات کہی گئی ہے اس سے واضح ہے کہ انسان سوچے گا کہ اتنا وسیع حکم دے دیا کہ سارے دنیوی معاملات میں اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک تعلقات کو قائم رکھو.ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا تمہارے ساتھ.تو سارے دنیوی معاملات جن میں ماں باپ کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھے جاسکتے ہیں.ان کا ہمیں پتا
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۹۲ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء کیسے لگے گا ؟ پھر کس رنگ میں ان کو ادا کرنا ہے؟ فرمایا اس کے لئے عظیم اُسوہ کی ضرورت ہے اس واسطے جو عظیم اُسوہ تمہارے لئے بنایا گیا ہے اس اُسوہ کی پیروی کرو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی تمہیں پتا لگ جائے کہ ماں باپ کے حقوق کیا ہیں.تمہیں علم حاصل ہو جائے گا کہ ان کی ادائیگی کس طرح کی جاسکتی ہے.تو جہاں تک ماں باپ کا سوال ہے والد، والد میں فرق نہیں کیا گیا.اب ایک تو بزرگوں کے بچے ہیں ، ایک ایسے بچے ہیں جن کے والد سید عبد القادر جیلانی جیسے ، جن کے والد امام ابوحنیفہ جیسے جن کے والد امام بخاری جیسے، جن کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے ہیں.پھر بعض والد ہیں جو موحد تو ہیں.خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں مگر وہ غیر مسلم، ان کا عقیدہ وحدانیت کے متعلق نہ اتنا روشن نہ اتنا حسین نہ اتنا وسیع ، نہ اتنا مؤثر.ان کی اپنی زندگی میں جتنا مسلمان کا عقیدہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت میں جب وہ معرفت الہی حاصل کر لیتا ہے.لیکن وہ ہیں مؤخد.وہ کہتے ہیں خدا ایک ہے مگر اس کی صفات کی واضح شناخت نہیں ، معرفت نہیں رکھتے ، صفات کے جلوے ان کی ذاتی زندگیوں میں ظاہر نہیں ہوتے یہ تو ٹھیک ہے لیکن ہیں مؤحد یہ نمبر دو قسم کے ہو گئے.پس ایک باپ ہے مؤحد غیر مسلم یہ دوسری قسم کا مؤقد ہے وہ آگے پھر وہ قسمیں بن جاتی ہیں.ایک تو اس دوسری قسم کا موحد وہ ہے جو خدائے واحد و یگانہ پر ایمان بھی لاتا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی نہیں کر رہا اور ایک موحد وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان بھی لاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی بھی کر رہا ہے.یہ بھی کہنے کو مؤخد ہے.اور ایک وہ باپ ہے جو مؤخد نہیں ہے، مشرک ہے.تو مشرک باپ بھی ہے ایسا موحد بھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا لیکن وہ آپ کے خلاف بولتا بھی نہیں.ایک ایسا موحد ہے جو کہتا ہے خدائے واحد و یگانہ پر میں ایمان بھی لا یا لیکن معرفتِ الہی نہ ہونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی بھی کرنے والا ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۹۳ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء ایک ایسا موحّد ہے جو خدائے واحد و یگانہ کی معرفت بھی رکھتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں نثار اور فدائی بھی ہے.تو عقیدے کے لحاظ سے اور مذہبی رجحان کے لحاظ سے باپ باپ میں کتنا فرق پڑ گیا.ان سارے فرقوں کے باوجود قرآن کریم کہتا ہے کہ ان کے ساتھ تم نے شکر کی بنیاد پر محسن سلوک کی بنیاد پر، احسان کی بنیاد پر ، سلوک کرنا ہے.یہ حکم ہے خدا تعالیٰ کا.اس (اللہ تعالیٰ ) نے کہا اس حکم پر عمل کرنے کے راستہ میں مشرک باپ کا شرک روک نہیں بنے گا.ایسے موحد کا عقیدہ بھی اس حکم کی بجا آوری میں روک نہیں بنے گا جو مؤحد ہونے کا دعوی تو کرتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ماننے کی وجہ سے جہالت سے جاہلانہ گستاخی سے وہ آپ کے خلاف بدزبانی بھی کرتا ہے ایک ایسا باپ بھی ہو گا مسلمان کا جو اسلام نہیں لا یا ابھی لیکن فطرتاً شریف ہے وہ کہتا ہے.کسی کو بھی بُرا بھلا نہیں کہنا.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں کہتا لیکن ایمان نہیں لاتا.اور ایک ایسا بچہ بھی ہے جس کا باپ حضرت ابوبکر جیسا انسان ہے.رضی اللہ تعالیٰ عنہ.تو قرآن کہتا ہے کہ تمہارے باپ مختلف العقیدہ ہوں گے.سارے انسانوں پرغور کرو، باپ مؤحد مومن ہوں گے، باپ مؤحد گستاخ ہوں گے، باپ مؤحد شریف ہوں گے، باپ مشرک ہوں گے، باپ دھر یہ ہوں گے.ایسا باپ بھی ہوگا ایک شخص کا جو کہتا ہو میں زمین سے خدا کا نام اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دوں گا اسلام کہتا ہے تمہارا باپ اگر ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ میں زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹا دوں گا تب بھی میرا تمہیں یہ حکم ہے کہ جو اس کے حقوق میں نے قائم کئے ہیں وہ تم نے ادا کرنے ہیں ورنہ میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا.یہ ہے اسلامی تعلیم جس نے ہر انسان کو ایک مقام پر لا کے کھڑا کر دیا ہے.ہر ایسے انسان کو جو اپنے بچوں کے رشتے کے لحاظ سے باپ ہوں گے.کسی کا کوئی عقیدہ، کسی کا کوئی عقیدہ، کسی کا کوئی عقیدہ.جو خدا کو نہیں مانتاد ہر یہ ہے، جو خدا کے ساتھ بتوں کی پرستش کرتا ہے، جو خدا کو واحد مانتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی نالائقی کی وجہ سے بدبختی کی وجہ سے گستاخی کرنے والا ہے.جو خدا کو مانتا ہے لیکن اسلام کو نہیں مانتا لیکن بد زبان نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۹۴ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۹ء ہے.لیکن وہ جو خدائے واحد و یگانہ کی معرفت حاصل رکھتا اور خدا تعالیٰ کے نور میں لپٹا ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا ہے.باپ باپ میں کتنا فرق ہو گیا.لیکن تعلیم اسلامی کہتی ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں ان کے اندر کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.ایک نہایت حسین معاشرہ جو مساوات کی بنیادوں پر قائم کیا گیا جو اس اعلان کے ساتھ قائم کیا گیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الکھف: ۱۱۱) بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.دعا کریں کہ نوع انسانی جس پر خدا تعالیٰ نے اسلامی تعلیم کے ذریعے بے شمار احسان کئے ہیں وہ اپنے خدا کو اور اس کے احسانوں کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور آپ کے حسن و احسان کو پہچاننے لگے اور خدا تعالیٰ کے جھنڈے تلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آکر اکٹھی ہو جائے.آپ نے ان کو دلائل کے ساتھ ذہنی روشنی کے ساتھ اپنے روحانی نور کے ساتھ اپنے پیارے عمل کے ساتھ اس طرف کھینچ کے لانا ہے.یہ ذمہ داری آپ کی ہے.آپ کو اس کو سمجھنا چاہیے.اس پر عمل کرنے کی خدا تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ اس کی توفیق کے بغیر اور اس کی مدد اور نصرت کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۹۵ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء قرآنی احکام کی پابندی کرنا روزہ دار کے لئے ضروری اور لابدی ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - اَيَا مَا مَعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۖ وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ - شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى للنَّاسِ وَبَيِّنَتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۹۶ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا القِيَامَ إِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَاَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ.(البقرة : ۱۸۴ تا ۱۸۸) اور پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم کا ہم ترجمہ کرتے ہیں.اس کا مفہوم بیان کرتے ہیں اور اس کی تفسیر بتاتے ہیں.اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے اور اس کی تفسیر سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ترجمے کو اچھی طرح سمجھنے والے ہوں.رمضان کا جو درس دیا جاتا ہے اس میں زیادہ تر تفسیر پر زور ہوتا ہے.ہمارے وہ پرانے احمدی جن کے سامنے قرآن کریم کا ترجمہ بار بار آیا وہ تو اس تفسیر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن جماعت میں نئے داخل ہونے والے یا نئے نوجوان ہونے والے بچے جو درس میں شمولیت کی عمر کو پہنچے ہیں، ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کے سامنے ترجمہ اس طرح رکھا جائے ( قرآن کریم کا) کہ ترجمے کو وہ سمجھنے لگیں اور اس کے مفہوم سے آگاہ ہوں.اس کی طرف صرف رمضان کے مہینے میں خاص توجہ دے کے بقیہ مہینوں میں بے تو جبکی سے کام لینے سے تو کام نہیں بنتا جو طریق اس وقت رائج ہے مختلف دوست درس دیتے ہیں وہ تو اسی طرح رائج رہے گا لیکن میں یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں جماعت کو کہ بچوں کے سامنے اور نئے آنے والوں کے سامنے یا نٹے سیکھنے والوں کے سامنے قرآن کریم کا ترجمہ وضاحت سے بیان کر دینا چاہیے.یہ ایک لمبا سلسلہ جو درس کا شروع ہو جائے گا اس کی ابتدا اس خطبہ سے میں کرنا چاہتا ہوں اور اس مہینہ کی نسبت سے روزوں کے متعلق جو آیات ہیں وہ میں نے ابھی تلاوت کی ہیں وہاں سے شروع کروں گا.آیات کی تو میں نے تلاوت کر دی، ان کا ترجمہ تفسیر صغیر کے ترجمہ کی روشنی میں یہ ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو خدا اور اس کے رسول اور اس عظیم کتاب پر تم پر
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۹۷ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء بھی روزوں کا رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو.آیا ما مَعْدُودَتِ سو تم روزے رکھو چند گنتی کے دن اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اسے اور دنوں میں تعداد پوری کرنی ہوگی اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں یعنی روزے کی بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کے لئے بہتر ہوگا اور تم سمجھو تو تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے.رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا.( میں ترجمے میں کوئی تھوڑا سا تر رد و بدل بھی کر رہا ہوں) اور جس مہینے میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جسے تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے.ایسے دلائل جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قرآن میں الہی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص بھی اس مہینہ کو پائے یا دیکھے، اس حالت میں کہ نہ وہ مریض ہونہ مسافر اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنا واجب ہوگی.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور تاکہ تم تعداد کو پورا کرلو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو اس نے تم کو ہدایت دی ہے تا کہ تم اس کے شکر گزار بنو.اور اے رسول ! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دو کہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.سوچاہیے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے وہ تمہارے لئے ایک قسم کا لباس ہیں اور تم ان کے لئے ایک قسم کا لباس ہو.اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے.اس لئے اس نے تم پر فضل سے توجہ کی اور تمہاری اس حالت کی اصلاح کر دی.سواب تم بلا تامل ان کے پاس جاؤ اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۹۸ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء جستجو کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے.اس کے بعد صبح سے رات تک روزوں کی تکمیل کرو اور جب تم مساجد میں معتکف ہو تو ان بیویوں کے پاس نہ جاؤ.یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس لئے تم ان کے قریب بھی مت پھٹکو.اللہ اسی طرح لوگوں کے لئے اپنے احکامات بیان کرتا ہے.تا کہ وہ ہلاکتوں سے بچیں.ان آیات میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ یہ ہیں.اب میں مفہوم بتاؤں گا.نمبر ایک روزہ رکھنا تم پر اس طرح فرض ہے جس طرح پہلوں پر فرض کیا گیا ہے.اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلوں پر ماہ رمضان میں اسی طرح روزے فرض کئے گئے تھے جس طرح مسلمان پر کئے گئے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے اور انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنی اپنی شریعت کے احکام کے مطابق روزے رکھو اور تمہیں بھی یہی حکم ہے کہ اپنی شریعت کے مطابق روزے رکھو تو جس طرح پہلوں پر فرض تھا کہ وہ اپنی شرائع کے مطابق اور ان کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے روزے رکھیں.اسی طرح تم پر فرض ہے کہ تم اپنی شریعت کے مطابق اور ان کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے روزے ان دنوں میں جن دنوں میں روزہ رکھنے کا حکم ہے.ان شرائط کے ساتھ جن شرائط کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم ہے.تو روزہ رکھنے کا جو حکم ہے وہ مختلف ہے شریعت شریعت میں.لیکن بنیادی حکم جو ہے وہ ایک ہی ہے کہ اپنی شریعت کے مطابق جو شریعت کے احکام ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائے ہوئے طریق پر روزے رکھو.دوسرے یہ کہا گیا ہے کہ روزہ رکھنا روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور کرنے کا ذریعہ ہے.تقویٰ پیدا کرتا ہے.اب ظاہر ہے ( پہلا مضمون بھی اس سے واضح ہوتا ہے ) کہ پہلوں کی روحانی کمزوریاں اور قسم کی تھیں اور ان کی اخلاقی حالتیں کچھ اور رنگ رکھتی تھیں.لیکن انسان ارتقائی مدارج میں سے گزرتا ہوا اس حالت کو پہنچ گیا کہ قرآن کریم کی شریعت کا متحمل ہو سکے تو اب اس کی ضرورت کے مطابق اور اس کی طاقت اور قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اس کو قرآن کریم نے حکم دیئے.پہلی شریعتوں کا بھی مقصد یہی تھا کہ ان کے ماننے والوں کی روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور ہوں.لیکن ضرورتیں اور تھیں احکام اور تھے اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۲۹۹ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء شریعت محمدیہ کا بھی یہ مقصود ہے کہ ایک ایسے شخص کی جو امت محمدیہ کی طرف منسوب ہوتا اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑا ہے اس کی روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور ہوں.یہ جو کہا گیا کہ روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور کرنے کا ذریعہ ہے.تقویٰ کا ذریعہ ہے اس میں اس طرف توجہ دلائی کہ اس عبادت کے چھلکے پر اگر تم نے اکتفا کیا اور سمجھا کہ یہ کافی ہے اور اس کی روح کو پانا اور اس سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں تو تمہاری روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور نہیں ہوں گی تو سوچو اور غور کرو کہ وہ تمام حکمتیں جو قرآن کریم نے بیان کی اور وہ تمام روحانی اور اخلاقی بیماریاں جن کے متعلق کہا گیا کہ قرآن کریم شفا ہے ان کے لئے.وہ کونسی ہیں اور روزے کے دنوں میں Consciously اور بیدار مغزی کے ساتھ اس عبادت کو اس رنگ میں ادا کرو کہ روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور ہو جائیں اور تم شریعت محمدیہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہو.تیسرے یہ کہا گیا ہے کہ مقررہ گنتی پوری کرنا فرض ہے.یہ مضمون پہلی شریعتوں اور شریعت محمدیہ دونوں کے ساتھ Parallel چل رہا ہے.ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کہ مقررہ گنتی پوری کرنا ضروری ہے.جس شریعت میں جس گفتی میں روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے.یہ نہیں کہا کہ سب شریعتوں میں رمضان کے روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے اس واسطے کہ جہاں پہلوں کا ذکر تھا ان کی گنتیاں کچھ اور تھیں اور تمہاری کچھ اور ہیں.ان کے روزے کے اوقات کچھ اور تھے تمہارے کچھ اور ہیں.اس واسطے یہ الفاظ کر دیئے کہ جو تمہیں کہا گیا اس اس کے مطابق گنتی کا پورا کرنا فرض ہے اور جو ان کو کہا گیا اس کے مطابق ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ گنتی کو پورا کریں.جو دائم المریض ہوں.یہ دو جگہ آیا ہے دو آیتوں میں.مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سفر پہلی آیت میں جو مریض کا لفظ ہے اس سے مراد دائم المریض ہے اور اس کی طرف اشارہ کرتا ہے آیت کا یہ اگلاٹکڑا کہ جو روزے کی طاقت کھو بیٹھے ہوں کیونکہ اطاق يُطِيقُ باب افعال جو ہے اس کی ایک خاصیت سلب کی ہے تو جو روزہ رکھنے کی طاقت کھو بیٹھے ہوں یعنی روزہ رکھ ہی نہ سکتے ہوں وہ روزہ نہ رکھیں اور اگر طاقت رکھتے ہوں تو ہر روزہ کے بدلہ میں بطور فدیہ کے طَعَامُ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۰۰ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء مسکین چوبیس گھنٹے کا کھانا جو ہے وہ فدیہ کے طور پر دیں.یعنی وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہوگئی ہے، ان کا روزہ نہ رکھنا کیونکہ ایک اجتہادی امر ہوگا.یہ فیصلہ تو ہر شخص نے خود کرنا ہے کہ میں اتنا کمزور ہو چکا ہوں.بیماریوں کی کثرت کے نتیجہ میں یا عمر کی زیادتی کے نتیجہ میں یا ڈاکٹروں کے مشورہ کے نتیجہ میں کہ اب مجھ میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی.زیادہ لمبا فاقہ نہیں میں کر سکتا.تو یہ اجتہاد ہوگا اور جب اجتہاد ہو گا تو اجتہادی غلطی کا بھی امکان ہوگا.جب اجتہادی غلطی کا امکان ہوگا تو اس نامعلوم یا غیر محسوس گناہ پر مغفرت کی چادر ڈالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انتظام کیا ہے کہ طَعَامُ مِسکین بطور فدیہ کے دے دیا کرو کہ اگر تو اجتہادی امر ہے اس میں غلطی نہیں مزید ثواب تمہیں مل جائے گا اور اگر اجتہادی امر جو ہے اس میں غلطی ہے کچھ تو خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری مغفرت کر دے گا.ایک اور ذریعہ سے تم اس کے فضل کو حاصل کرنے والے ہو گے.اور چھٹے یہ کہ اگر سفر پر ہو تو روزہ نہ رکھو.ساتویں یہ کہ اصل چیز یہ ہے کہ نیت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی پوری اور سچی اور حقیقی فرمانبرداری کرنی ہے.آٹھویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ روزوں کا حکم تمہاری بہتری کے لئے ہے اب جو درس دینے والے ہیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ بہتری کی کتنی قسمیں ان کو نظر آئیں.بے شمار قسمیں ہیں بہتری کی.نویں بات ہمیں یہ بتائی گئی کہ ماہ رمضان کا دوہرا تعلق قرآن کریم سے ہے.اس لئے کہ قرآن کریم میں اس کے احکام ہیں.ماہ رمضان کی عبادات صوم کی جو عبادات ہیں اس کے احکام جو ہیں وہ قرآن کریم میں نازل ہوئے اور دوسرے یہ کہ قرآن کریم ماہِ رمضان میں نازل ہوا حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا قرآن نازل ہوتا تھا اس کا دور کیا کرتے تھے.تو ماہِ رمضان کا ایک گہرا تعلق اور دوہرا تعلق قرآن عظیم سے ہے.پھر دسویں یہ بتایا گیا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے
خطبات ناصر جلد ہشتم ٣٠١ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء انسانوں کے کسی ایک گروہ کے لئے نہیں.کسی ایک خطہ ارض کے لئے نہیں اور ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی کہ ماہِ رمضان میں قرآن کریم کے پڑھنے اور اس کے مطالب سیکھنے کی طرف دوسرے دنوں کی نسبت زیادہ توجہ دیا کرو.اور جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اس لئے جو ماننے والے ہیں اس حقیقت کو کہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے ان کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ اس عالمگیر ہدایت کی طرف بنی نوع انسان کو ( جو ابھی تک اس سے واقف نہیں ) لانے کے لئے قرآن کریم کے علوم سیکھیں.گیارھویں ہمیں یہ بات بتائی گئی.قرآن کریم جس کا ماہ رمضان سے گہرا تعلق ہے ایسے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے جو ہدایت پیدا کرتے ہیں.یعنی یہ تصور اسلام نے نہیں دیا کہ مسلمان ہوتے ہی یا اصلاح نفس کے ابتدائی دور میں ہی انسان ہدایت کے عروج کو ، اس کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے قرآن کریم نے ہمیں یہ علم عطا کیا ہے.قرآن کریم نے ہمیں اس بات کے لئے ابھارا ہے کہ دیکھو وصلِ الہی اصلی اور آخری انتہائی مقصود ہے اور انسان اور خدا کے درمیان غیر محدود بعد ہے.وہاں تک پہنچنے کے لئے ایک ہدایت کے بعد دوسری ہدایت کا پانا ضروری ہے.اس کی رضا کو تم پاؤ گے تمہیں روحانی سرور ملے گا.تم خدا کے پیارے ہو گے اس حد تک.لیکن یہ پیار وہ انتہائی پیار تو نہیں ہو گا.جو تم حاصل کر سکتے ہو اس لئے قرآن کریم میں شروع میں ہی کہہ دیا گیا تھا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ہدایت کے بعد دوسری ہدایت.نئی راہیں ہدایت کی جو اور آگے لے جانے والی ہیں.ایک منزل کے بعد اگلی منزل پر پہنچیں گے پھر ہدایت ملے گی.یہ تو نہیں تمہاری منزل آگے چلو.پھر اور راہ دکھا دی.پھر اور آگے لے گئے.پس اپنے نفس کے لئے اور دوسروں کی ہدایت کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی جو یہ صفت ہے کہ وہ ہدایت کے بعد ہدایت دیتا چلا جاتا ہے اس کا ہمیں علم ہو اور اس کے لئے ہماری جد و جہد اور جہاد اور مجاہدہ ہو.اور بارھویں یہ ہے کہ ہدایت کی نئی راہیں کھولنے والے دلائل ہیں.دوسرے نئی راہوں کی ضرورت پڑتی ہے نئے زمانوں کے ساتھ.ہر زمانہ نئے مسائل انسان کے سامنے رکھتا اور نئے علوم قرآنی کا
خطبات ناصر جلد هشتم ٣٠٢ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء تقاضا کرتا ہے تو پچھلے دروازے پچھلی راہیں بند ہو جاتی ہیں آگے نہیں چلتیں.انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے انسان کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتیں.نئی راہیں کھلنی چاہیے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے ایسے محبوب بندے امت محمدیہ میں موجود رہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے نئے علوم روحانی سیکھ کر ہدایت کی نئی راہوں کا علم حاصل کر کے زمانہ کے نئے مسائل کو حل کرنے کے سامان پیدا کرتے ہیں.اور تیرھویں ہمیں یہ بتایا گیا کہ قرآن کریم ایک ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس کے ساتھ محض دلائل کا یا تعلیم کا ، ہدایت کا ہی تعلق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرقان بھی اس کو دیا گیا اور اس کے ساتھ الہی نشان بھی ہیں.پہلے کہا گیا تھا کہ روزے تم پر فرض کئے گئے جس طرح پہلوں پر فرض کئے گئے.اب چودھویں بات ہمیں یہ بتائی گئی کہ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ رمضان کے روزے رکھو امر کے صیغہ میں.پہلے فرضیت بتائی تھی ، اب حکم کا رنگ ہے.تمہیں حکم ہے کہ رمضان کے روزے رکھو.اور پندرھویں یہ کہ اگر عارضی وقتی بیماری ہو.پہلے جس بیماری کا ذکر تھا وہ دائمی تھی جب روزہ رکھنے کی طاقت ہی جاتی رہتی ہے لیکن اب یہ ذکر ہے کہ عارضی طور پر انسان بیمار ہو جاتا ہے مثلاً بہت ساری بیماریاں ہیں ایک کو بطور مثال کے لے لیتے ہیں.رمضان سے دو چار دن پہلے آٹھ دس دن پہلے اگر کسی نو جوان بالغ کو ٹائیفائیڈ ہو جاتا ہے ڈاکٹر اس کو کہے گا تم روزہ نہیں رکھ سکتے تو اگر وقتی بیماری ہو تو تعداد جو ہے، جتنے چھٹ گئے مثلاً بیماری جو ہے وسط رمضان میں بھی آسکتی ہے شروع میں بھی آسکتی ہے پہلے بھی آسکتی ہے.کچھ روزے بھی چھڑ واسکتی ہے.سارے روزے بھی چھڑوا سکتی ہے تو جو تعداد رہ گئی ہے وہ تعداد اور دنوں میں پورا کرو اور تمہیں ثواب رمضان کے روزوں کا ہی ملے گا یہ شان ہے اسلامی تعلیم کی.اگر وقتی بیماری ہے اور عذر صحیح ہے اور نیت میں اخلاص ہے تو دوسرے وقت میں ماہ رمضان سے باہر جو تم فرض روزے پورے کر رہے ہو گے تمہیں ثواب وہی ملے گا جو رمضان کے دوران روزہ رکھنے والوں کو ثواب ملے گا اور اگر مسافر ہو تب بھی اور دنوں میں تعداد پوری کرنا واجب ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۰۳ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء سولہویں بات ہمیں یہ بتائی (اللہ بدعات سے محفوظ رکھے ) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے.ایک یہ بتایا کہ ان آیات میں يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اللہ آسانی چاہتا ہے اس کی بڑی مہربانی ہے پر ہم تکلیف اٹھا کے اس کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے.اسلام کہتا ہے کہ تم اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے.کامل فرمانبرداری کے نتیجہ میں اس کی رضا کو حاصل کرو گے تو سولہویں کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے.اور ستر ہوئیں ہمیں کہا وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر - اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے تنگی پیدا کرو تو جو شخص اپنے لئے تنگی پیدا کر کے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کسر اور آسانی ( يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ اليسر ) کی سہولت دی گئی ہے اس کے خلاف کام کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کر رہا ہے کیونکہ اعلان کیا گیا ہے وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے تنگی پیدا کرو تو خدا کچھ چاہتا ہے اور تم اس کے خلاف چاہتے ہو اس کو کیسے خوش کرو گے.اور اٹھا رہو میں بات اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے.اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے تنگی پیدا کرو.اس لئے اللہ کہتا ہے دوسرے وقتوں میں تعداد کو پوری کرو.اگر مریض ہو تب بھی اگر عارضی طور پر مریض ہو تب بھی اور اگر مسافر ہو تب بھی اور یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور تعداد کو بھی پورا کر لو یعنی تنگی میں پڑے بغیر روزوں کی تعداد پوری کر کے اس کی رضا بھر پور جو لے سکتے ہو تم حاصل کرلو.اور انیسویں یہ کہ روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جا سکتے ہو..اور بیسویں یہ کہ تم ایک دوسرے کے لئے لباس ہو.اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دو کے تعلقات ایسے ہیں اور ہر دو کی ذمہ داریاں ایسی ہیں ( مرد اور عورتیں دونوں سن لیں ) کہ خاوند بیوی کی عزت کا نگہبان اور بیوی خاوند کی عزت کی نگہبان بن جاتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کسی فرانسیسی مترجم نے فرانسیسی میں قرآن عظیم کا ترجمہ کیا تو اس آیت کا یہ ترجمہ کر دیا کہ هیچ لِبَاسٌ لَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ کہ عورتیں تمہاری پتلونیں ہیں اور تم ان کے گھگرے ہو ے ہو They
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۰۴ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء.are your trousers and you are their shirts تو یہ مطلب نہیں ہے ظاہری لباس مراد نہیں.لباس ڈھانکتا ہے.لباس سردی گرمی سے حفاظت کرتا ہے.لباس زینت بنتا ہے.لباس کے متعلق خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بہت سے فوائد بتائے ہیں.یہاں روحانی فوائد مراد ہیں اور صرف اتنا کہا ہے کہ تم ان کے لئے لباس اور وہ تمہارے لئے لباس.اکیسویں بات یہ بتائی گئی کہ کھاؤ پیو روزہ کھولنے کے بعد کوئی پابندی نہیں یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے.شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بعض ایسے مخلص مسلمان تھے (پوری طرح احکام ابھی واضح نہیں تھے ) کہ جب روزوں کا حکم ہوا تو انہوں نے روزے سے روزہ ملانا شروع کر دیا یعنی دو دن کا روزہ اکٹھارکھ لیا اور بہت زیادہ تنگی میں اپنے آپ کو ڈالا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع کیا.اب یہ حکم ہے کہ روزہ کھولنے کے بعد سحر تک جو سحری بند ہونے کا وقت ہے جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں روشنی کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگ جاتی ہے کہتے ہیں اس وقت تک کھاؤ پیو اپنی ضرورت کے مطابق.یہ نہیں کہ اسراف کرو.اپنی ضرورت کے مطابق ہر شخص کھائے اور پٹے.کسی کی دو چھٹانک کی ضرورت ہے ممکن ہے کسی کی ایک سیر کی ہو جائے لیکن بہر حال کہا ہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق کھاؤ اور پیو صبح تک.اور بائیسویں یہ بتایا کہ اس کے بعد جس وقت سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد رات تک غروب آفتاب تک روزوں کی تکمیل کرو.ادھورے روزے نہیں جس طرح چڑی روزہ بچے رکھا کرتے ہیں یعنی دن میں چار پانچ روزے بالغ مسلمانوں کے لئے وہ روزے نہیں ہیں.تمیسویں یہ ہے کہ اعتکاف کی حالت میں رات کو بھی بیویوں کے پاس نہ جاؤ اور یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے بنیادی باتیں بیان کرنی شروع کیں.اور چوبیسویں یہ بتایا کہ یہ جو میں نے حکم نازل کئے ہیں ان کو ایسا سمجھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ حدود ہیں.ان کے قریب بھی مت جاؤ.بعض لوگ دیر بعد سحری شروع کرتے ہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۰۵ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۹ء اور دیر تک کھاتے رہتے ہیں اور حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں.یہ تو صحیح ہے کہ ایک مؤذن مدینہ میں کوئی آدھ منٹ یا ایک منٹ پہلے صبح کی اذان دے دیتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ زیادہ محتاط ہیں وہ جو آخری ایک منٹ ہے وہ تو تمہارا ہے کھانے کا.اس میں بے شک کھالیا کرو.لیکن اصل یہ ہے کہ سفید دھاری روشنی کی ، کالی دھاری سے الگ نظر آنے لگ جائے.اس کے بعد کچھ نہیں کھانا.یہ حد ہے اس کے قریب بھی مت جاؤ اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ جو اس تفصیل کے ساتھ اپنے احکام بیان کرتا ہے.اس طرح لوگوں کے لئے احکام بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ ہلاکتوں سے بچ جائیں تو یہ باتیں تفصیل سے تمہیں بتادیں.روزہ کی مصلحتیں بتا دیں.روزے کے آداب بتا دیئے.روزہ کے آداب میں سے سب سے بڑا ادب قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت.کثرت سے دعائیں کرنا ہے اور بیچ میں سے ایک آیت میں چھوڑ گیا تھا کیونکہ میں اس کے اوپر ذرا لمبا کہنا چاہتا تھا میرا خیال تھا کہ اگر وقت ہوا تو بتا دوں گا.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِیب اس کا روزوں کے ساتھ اور ماہِ رمضان کے ساتھ اور کثرت عبادت کے ساتھ اور کثرت قرآت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور اس کے متعلق ( انشاء اللہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور صحت دی اور زندگی دی تو اگلے خطبہ جمعہ میں میں کچھ کہوں گا.اس وقت میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.روز نامه الفضل ربوه ۱۳ اگست ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۶ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء قرآن شریف نے ایک عالم دعاؤں کا ہمارے سامنے کھول دیا ہے خطبه جمعه فرموده ۳/اگست ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ بقرہ کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ b فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۷) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلا خطبہ میں نے روزوں کے متعلق دیا تھا جس میں قرآنی احکام نوجوان نسل کو سمجھانے کے لئے بتائے تھے اور یہ آیت جس سے پہلے بھی روزوں کے احکام ہیں اور بعد میں بھی میں نے اس لئے چھوڑ دی تھی کہ اگر چہ اس کا تعلق ماہ رمضان سے بھی بہت گہرا ہے لیکن ہر عبادت کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے.انسان کے ہر فعل اور عمل سے بھی اس کا تعلق ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.چاہیے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۰۸ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء لائیں تا کامیابی کی راہیں ان پر کھلیں اور ان کی دعائیں قبول ہوں.ماه رمضان دعاؤں کا مہینہ ہے خاص طور پر.روزے کے علاوہ ہم نوافل پر بھی خصوصا زور دیتے ہیں اس ماہ میں تراویح ہوتی ہیں وہ نوافل ہیں.اصل تو یہ تھا کہ علیحدہ علیحدہ ہر شخص رات کی تنہائی میں اپنے رب کے حضور جھکتا اور اس سے دعائیں مانگتا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جب آپ نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں کی بجائے ( مجبوریوں کے نتیجہ میں ) مسجد نبوی میں آکر یا مسجد نبوی کی برکت کے حصول کے لئے تراویح پڑھتے ہیں تو آپ نے ان سب کو اکٹھا کر کے اور باجماعت یہ نوافل شروع کروا دیئے.پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں تراویح با جماعت شروع ہوئی.انفرادی نوافل ( رات کے آخری حصہ میں پڑھنے میں ) اپنا ایک مزہ رکھتے ہیں لیکن جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں بہت سے وہ لوگ جو انفرادی طور پر اس رنگ میں نوافل ادا نہیں کر سکتے.وہ لوگ جو قرآن کریم کا دور نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو قرآن کریم حفظ نہیں، مسجد میں آکے ایک حافظ کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اور پورے قرآن کریم کا دور بھی ہو جاتا ہے اور دعائیں بھی کر لیتے ہیں.بہت سے دوست ہیں میں جانتا ہوں، جو مثلاً شروع رات میں جو با جماعت تراویح پڑھی جاتی ہیں اس میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور پھر آخری حصہ رات میں بھی خدا تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں.رمضان مبارک میں شروع رات میں تو بہت سے نوجوان اور بچے اور بہت سی مستورات بھی شامل ہو جاتی ہیں اس کے اپنے فوائد ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ دعاؤں کا عام دنوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ موقع ملتا ہے انسان کو اور قبولیتِ دعا کے لئے انسان اپنے رب کو راضی کرنے کی خاطر اور بہت ساری عبادتیں خاص طور پر اس ماہ میں دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ بجالاتا ہے.مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آیا ہے کہ آپ بڑے سخی تھے لیکن رمضان کے مہینہ میں آپ کی سخاوت میں اتنی شدت پیدا ہو جاتی تھی کہ دوسرے مہینوں میں وہ شدت نہیں ہوا کرتی تھی.غرباء کا خیال رکھنا نیز مسکینوں کا ، جونسبتا غریب ہیں ان کو سہارا دینا دعاؤں کے ساتھ ، ان کی دنیوی ضروریات کو پورا کر کے.تو یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چیخنے کی ضرورت نہیں میں دور تو نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۰۹ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء ہوں کہ زور زور سے چیخ کے مجھے پکارو گے میں قریب ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علیحدہ بھی نماز پڑھ رہے ہو یعنی نوافل بالکل خاموشی سے اور بے آواز بھی قرآن کریم نہ پڑھو اور بہت اونچی آواز سے بھی نہ پڑھو.ویسے عام طور پر جس طرح پڑھا جاتا ہے نوافل میں اس طرح نہیں بلکہ آواز نکالومنہ سے سنتِ نبوی آیہ ہے.اس آیت میں ایک اہم چیز بھی ہمیں پتا لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ دعا کرنے والا جب مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.اسلام بنی نوع انسان کا مذہب ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت كافة لِلنَّاسِ ہے، تمام انسانوں کے لئے ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں ان تمام زبانوں کے بولنے والوں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ نے کہا أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ...تم دعا کرو تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا.جس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ دنیا کی ہر زبان میں خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر دعا کرنے کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.اتنا عرصہ گزر چکا چودہ سوسال ہونے کو آئے ہیں.اتنے لمبے زمانہ میں بھی عربی زبان جو ہے وہ ساری دنیا کی زبان تو نہیں بن سکی.یہ صحیح ہے کہ بعثت نبوی کے وقت عربی ایک چھوٹے سے خطہ میں بولی جاتی تھی لیکن جس وقت اسلام کا اثر اور رسوخ پھیلا اس وقت مثلاً مصر جو عربی بولنے والا نہیں تھا وہاں عربی بولی جانے لگی.اسی طرح جو اس وقت مرا کو اور الجزائر وغیرہ ممالک ہیں یہ افریقہ کے ممالک ہیں ان میں بھی اسلامی تمدن کے اثر کی وجہ سے عربی بولی جانے لگی.اسی طرح مشرق کی طرف بہت سے ممالک ہیں جن میں عربی زبان رائج ہوگئی لیکن ہر انسان تو عربی زبان نہیں بول سکتا.جس وقت قرآن کریم نازل ہوا اور یہ آیت اتری اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں چھوٹا ساخطہ تھا انسانوں کا جو عربی بولنے والا تھا.کہا یہ گیا اس وقت کہ تم دعا کرو میں قبول کروں گا اور مخاطب ہیں قرآن کریم کے تمام بنی نوع انسان.اس آیت کے ٹکڑے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے.کی جاسکتی ہے کیونکہ کہا گیا سب کو مخاطب کر کے پکارو مجھے ، تو جو عربی جانتا نہیں وہ کیسے پکارے گا عربی میں وہ تو اپنی زبان میں ہی پکارے گا اور دوسرے دعا کرنی چاہیے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۱۰ خطبه جمعه ۳/ اگست ۱۹۷۹ء اس لئے بھی کہ اگر کسی کو ٹوٹی پھوٹی عربی آتی بھی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کے اپنی ضرورتوں کو اس زبان میں ادا نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ تو عَلامُ الْغُيُوبِ ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بندے کو تو تسلی تب ہوتی ہے جب وہ اپنی زبان میں اپنا مافی الضمیر دوسرے کے سامنے بیان کر دے.اس لئے جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون عربی دعائیں اسی طرح عربی میں پڑھنی چاہئیں.ہر مسلمان کو وہ عربی عبارتیں یاد ہونی چاہئیں خواہ وہ بچہ ہو خواہ اس کے معنی اس نے ابھی سیکھے ہوں یا نہ سیکھے ہوں لیکن نماز میں ان دعاؤں کے علاوہ جو ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ورثہ میں ملیں اور جن سے ہمارا عشق اور پیار کا تعلق ہے (اس لئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وہ دعائیں نکلتی تھیں یہ ہمارا پیار کا تعلق ہے ) وہ پڑھ لینے کے بعد ہم اپنے رب کے حضور اپنی زبان میں دعا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور ضرورت کے وقت یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ ایک یوگوسلاوین عربی کی دعائیں پڑھنے کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرے.ایک انگریز انگریزی میں بھی دعا کرے.ایک البانین البانین زبان میں بھی دعا کرے.ایک افریقن جس کی زبان تحریر میں بھی ابھی نہیں آئی لیکن اہل افریقہ اسے بولتے ہیں وہ اپنی زبان میں دعائیں کریں تا کہ وہ ایک قریبی تعلق محسوس کریں اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ.أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جس زبان میں بھی دعا میرے سامنے کی جائے گی اسے میں قبول کروں گا.شرائط یہ ہیں کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي دو معنی میں ہے.قرآن کریم نے اور قرآن کریم کی تفسیر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیتِ دعا کے لئے جو شرائط بیان فرمائی ہیں وہ بھی ایک حکم ہے اس کو قبول کریں.دعا کو دعا کی شرائط کے ساتھ کریں اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا ظاہری یا باطنی شرک نہیں کرنا.ایک شخص مشرک ہے اور وہ دعا کرتا ہے خدا سے تو اس سے قبولیت کا وعدہ یہاں نہیں لیکن وہ خالق مالک بھی ہے وہ ان کی بھی بعض دفعہ سن لیتا ہے.بڑا د یا لو ہے وہ.لیکن کہا یہ گیا ہے کہ میرے پیار کو حاصل کرنا ہے اگر تو جو شرائط میں نے دعا کے لئے قائم کی ہیں ان کے مطابق دعا کرو.اور جو اسلام کے احکام ہیں قرآنی احکام ہیں ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو.
خطبات ناصر جلد هشتم ٣١١ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء وَلْيُؤْمِنُوا في اور خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرو جس کا ایک ذریعہ عاجزانہ دعائیں بھی ہیں.تو تمہیں کامیابی اور ہدایت مل جائے گی.قرآن کریم نے محض یہ نہیں کہا کہ دعا ئیں کرو میں قبول کروں گا بلکہ قرآن کریم نے ایک عالم کا عالم دعاؤں کا ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیا ہے.اس میں سے (جو ایک لمبا مضمون ہے) کچھ حصے میں نے چنے ہیں آج کے خطبہ کے لئے.اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:.رَبَّنَا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ:۲۰۲) یہاں دعاؤں کی بنیاد رکھی گئی.یہاں یہ فرمایا گیا کہ دنیوی نعماء کے حصول کے لئے بھی دعائیں کریں اور اُخروی نعماء کے حصول کے لئے بھی دعائیں کرو اور وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کا فقرہ ورلی زندگی اور اُخروی زندگی کو باندھ دیتا ہے کیونکہ اسی زندگی کی بنیاد پر اخروی زندگی کی جنتوں کا انحصار ہے تو بہت بڑا عالم ہمارے سامنے رکھ دیا گیا.فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً دنیا کی ساری نعمتیں جو خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں تم ان کے حصول کے لئے دعائیں کرو.صرف یہ کہہ کے کہ دعائیں مانگو خاموشی نہیں اختیار کی بلکہ کیا دعائیں مانگو اس کے اوپر بھی بڑی وسیع روشنی ڈالی گئی ہے.فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے دو پہلو ہیں.ایک ایسی نعمتیں ہیں ہماری اس ورلی زندگی سے تعلق رکھنے والی جن کا تعلق خود ہمارے نفس کے ساتھ ہمارے وجود کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بے شمار قوتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں ان کے لئے دعائیں مانگو کہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق پروان چڑھیں اور ان قوتوں کو اس لئے دیا گیا انسان کو کہ جو یہ کہا گیا تھا کہ تمہاری خدمت پر ہر شے کو مامور کیا گیا ہے وہ ہر شے سے خدمت لینے کے قابل ہو جائے.سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) تمہیں ہر طاقت دے دی گئی تا تم ہر شے سے خدمت لے سکو تو دعا مانگو کہ اس قدر عظیم نعمتیں جو تمہیں ملیں ، آنکھ ہے خدا تمہیں توفیق دے کہ آنکھ سے بہترین اور اعلیٰ ترین اور پورے کا پورا فائدہ اٹھانے والے بنو تم.یہ دعا خدا تعالیٰ سے مانگو.بہت سے آنکھوں والے ہیں جو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا ر ہے اور اندھے کے اندھے اس دنیا سے گزر جاتے ہیں.قرآن کریم میں بہت جگہ ان کا ذکر آیا ہے.کان ہیں جن
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۱۲ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء سے ایک تو تمہارا اپنا مشاہدہ تعلق رکھتا ہے ایک تو تمہارا اپنا حصول علم تعلق رکھتا ہے مثلاً کلاس میں بیٹھا ہوا طالب علم اگر کان کھول کے نہ رکھے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا.تو رَبّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵) کی دعا میں یہ ساری چیزیں آگئیں.تو یہ جتنی نعمتیں ہیں ان سب کے حصول کے لئے دعا کرو.انسان یہ دعا کرے اپنے رب سے کہ اے خدا! جو تو نے مجھے قو تیں اور استعدادیں دی ہیں اپنے فضل سے مجھے یہ توفیق عطا کر کہ میں اپنی ہر قوت اور استعداد کی نشو نما کروں اور اسے کمال تک پہنچاؤں اور ان سے بہترین فائدہ تیری رضا کے حصول کے لئے میں حاصل کروں اور اپنے نفس کی اس کامل اور صحیح نشو و نما کے بعد جب خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے انسان کے تو جو دنیا کی نعمتیں ہیں ان کو حاصل بھی کروں اس رنگ میں جو تجھے پسند ہو اور استعمال بھی کروں اس طریق پر جو تیری رضا کے حصول میں محمد اور معاون ہو.بہت سارے لوگ ہیں جو غلط طریق سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کر کے گناہگار بن جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو صحیح طریق پر تو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرتے ہیں لیکن غلط استعمال کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتے ہیں.تو ایک نہ ختم ہونے والا سمندر ہے دعاؤں کا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے اس فقرے کے اندر جو خدا تعالیٰ نے یہاں بیان کر دیا.وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں جو میں نے نعماء عطا کیں جو رحمت اور فضل موسلا دھار بارش کی طرح تم پر نازل ہوئے وہ تمہاری دُنیوی اور ور لی زندگی کے ساتھ ہی تو تعلق نہیں رکھتے اُخروی زندگی کے ساتھ بھی ان کا تعلق ہے بلکہ اُخروی زندگی کے ساتھ ہی ان کا صحیح تعلق ہے اور یہ ساری چیزیں اسی لئے تمہیں دی گئی ہیں کہ تم اپنی آخرت کو سنوارو.اس واسطے دعا کرو کہ اے خدا ! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا اور یہ دنیا کی نعمتیں ہمیں اُخروی زندگی کی جنتوں کی راہوں پر چلا کر ان جنتوں تک پہنچانے والی ہوں تجھے ناراض کر کے ہمیں جہنم کی طرف لے جانے والی نہ ہوں.میں نے بتایا کہ یہ دعا جو ہے اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یہ ایک ایسی دعا ہے جس میں دعا کا ایک عالم کا عالم کھولا گیا اور ہمیں اس چھوٹی سی آیت میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۱۳ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء بہت کچھ خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ کیا مانگنا ہے کس طرح مانگنا ہے پھر اسی سے آگے ہم چلتے ہیں اس دروازے میں داخل ہو کر.سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رَبَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (التحريم : 9) اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے فائدے کے لئے کامل کر دے اور ہمیں معاف فرما تو ہر چیز پر قادر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کمزور انسان ہیں گناہ بھی سرزد ہوتے ہوں گے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوں گی ہمارے گنا ہوں غلطیوں اور کوتاہیوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور ہمیں آتیم لَنَا نُورَنَا اپنے دائرہ استعداد کی انتہائی روحانی رفعتوں تک اپنے فضل سے پہنچا دے اور ہم تیرے حضور عاجزی سے متضرعانہ دعا کرتے ہیں کہ تو خود (جو ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے ) ہماری اس بات میں مدد کر کہ جو تو نے ہمیں نور دیا وہ نور مکمل ہو جائے ہماری زندگی میں اور جن انتہاؤں تک پہنچنا ہمارے لئے مقدر تھا ہمیں وہاں تک پہنچا ہماری غلطیاں کو تا ہیاں روک نہ بن جائیں اور تیری رضا کی انتہا کو ہم حاصل نہ کر سکیں.پھر ایک اور وسیع مضمون ہے دعاؤں کا.وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت کو بشارتیں دیتا ہے.سارے قرآن کریم کو پڑھ لو کہیں اختصار سے ذکر ہے بعض جگہ تفصیل سے بھی ذکر آ گیا ہے.تو ہر نبی اپنی اُمت کے لئے یا ان کے لئے یا ان لوگوں کے لئے جو اس کا کہا مان کر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں بشیر ہے انہیں بشارتیں دینے والا ہے وعدے ہیں جو ان انبیاء کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے ان کی امتوں سے کئے سب سے زیادہ وعدے بڑی وسعتوں والے بڑی گہرائیوں والے بڑی رفعتوں والے بڑے عظیم وعدے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے امت محمدیہ کو دیئے گئے ہیں.پچھلے ایک خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ نبی اپنی اُمت کے لئے صرف بشیر ہی نہیں ہوتا بلکہ نذیر بھی ہوتا ہے کیونکہ ہر بشارت کے ساتھ شرائط ہیں اور نبی ہوشیار کرتا ہے اور تنبیہ کرتا ہے کہ اگر تم نے ان شرائط کو پورا نہ کیا تو تمہارے حق میں جو بشارتیں دی گئی ہیں وہ پوری نہیں ہوں گی.مثلاً آپ کو سمجھانے کے لئے ایک آیت میں اس وقت لے لیتا ہوں وعدہ دیا گیا اُمت محمدیہ کو، اور یہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۱۴ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء ایک عظیم وعدہ ہے.وعدہ کیا گیا انتم الاعلون (ال عمران :۱۴۰) زندگی کے ہر شعبہ میں فوقیت ہمیشہ تمہیں ہی حاصل رہے گی مگر ایک شرط لگائی اِن کُنتُم مُّؤْمِنِين اگر تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے.یہ وہ نذیر والا حصہ آ گیا ان كُنْتُمْ مُؤْمِنین میں تو وعدے تو بے شمار ہیں اور انسان کی کوتاہیاں اور کمزوریاں اور غفلتیں بھی کم نہیں.اس واسطے دعاؤں کا سہارا لینا ضروری ہے.اسی واسطے کہا گیا مَا يَعُبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) اس میدان میں ہمیں قرآن کریم نے یہ دعا سکھائی رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ (ال عمران : ۱۹۵) کہ اے ہمارے خدا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں، آپ کے سمندر میں تو سارے پچھلے انبیاء مدغم ہو جاتے ہیں کیونکہ نَصِيبًا مِّنَ الكتب ہی ان کو ملا تھا یعنی قرآن کریم کا ایک حصہ اور قرآن کریم کی برکتوں کا ایک حصہ ہی ان کو دیا گیا تھا ، تو جو ) تیرے رسولوں کے ذریعے ہمیں وعدے ملے ہیں ہمیں وہ سارا کچھ دے ایسے حالات پیدا کر دے ہمیں توفیق دے کہ ہم ان شرائط کو پورا کرنے والے بنیں جن شرائط کی ادائیگی ان وعدوں کے ساتھ لگائی گئی ہے اور وہ تمام وعدے ہمارے ہماری نسلوں کی زندگی میں پورے ہوں اور یہ نہ ہو کہ قیامت کے دن جب خدا کے حضور ہم سب اکٹھے ہوں تو کہا جائے کہ بشارتیں تو تمہیں بہت دی گئیں وعدے تو خدا تعالیٰ نے تم سے بہت عظیم کئے تھے لیکن اے نادانو ! تم نے اپنی غفلتوں، کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں اور خدا تعالیٰ کے احکام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان وعدوں سے حصہ نہ لیا اور اس طرح ہم قیامت کے دن ذلیل اور رسوا ہو کے رہ جائیں.تو ایک یہ دعا ہے جو بڑی وسعتیں اپنے اندر رکھتی ہے کہ اے خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تو نے بے انتہا بشارتیں ہمیں دیں، ہم سے وعدے کئے (وعدہ‘ کے لفظ کے ساتھ بھی قرآن کریم نے اُمت محمدیہ کو بشارتیں دی ہیں) ایسا کر اور ہمیں توفیق دے کہ ہم شرائط کو پورا کریں ہم تیری راہ میں وہ قربانیاں دیں جن کا تو ہم سے مطالبہ کرتا ہے ہم تیرے پیار کے حصول کے لئے اپنے نفسوں پر اس موت کو طاری کریں جو تیری محبت کو پیدا کرنے والی ہے اور ایک نئی زندگی جس کے نتیجہ میں تیری طرف سے عطا ہوتی ہے اور وہ سارے وعدے ہماری زندگیوں میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۱۵ خطبه جمعه ۳/ اگست ۱۹۷۹ء بھی پورے ہوں جس طرح ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں جنہوں نے تیری راہ میں قربانیاں دی تھیں وہ پورے ہوئے اور یہ نہ ہو کہ ہم قیامت والے دن اپنی کوتاہیوں کے نتیجہ میں ذلیل درسوا ہو کر رہ جائیں.انسانی زندگی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس زندگی میں ہدایت کے ساتھ گمراہی بھی لگی ہوئی ہے یعنی ایک شخص ہدایت پالے تو ضروری نہیں ہوتا کہ مرتے دم تک وہ ہدایت پر قائم رہے.عرب کا ایک حصہ مرتد ہو گیا اور ہزاروں ارتداد کی حالت میں مر گئے.اسلام نے دعا سکھائی اس سلسلے میں کہ خاتمہ بالخیر کی دعا کیا کرو خا تمہ بالخیر کی دعا دراصل اس آیت میں ہے.رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - ( ال عمران : 9) اے ہمارے رب! تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت کے سامان عطا کر یعنی ہدایت دینا بھی خدا کا کام ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ جسے خدا پسند کرتا ہے اسی کو ہدایت کی راہ پر چلا دیتا ہے.پھر ہدایت کے حصول کے بعد ٹھوکروں کے دروازے کھلے ہیں.ارتداد کا دروازہ.اسلام سے باہر نکلنے کا دروازہ.اسی طرح کھلا ہے جس طرح اس شخص کے لئے اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ کھولا گیا.اس واسطے هَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً اے خدا ! تیری رحمت اور تیرے فضل کے بغیر ہم ہدایت پر قائم رہتے ہوئے خاتمہ بالخیر تک نہیں پہنچ سکتے.تجھ سے استدعا کرتے ہیں کہ جس طرح تو نے ہمارے لئے ظلمات سے نکل کر اپنی رضا کی روشنی میں داخل ہونے کے سامان پیدا کر دیئے تیرے ہی فضل کے ساتھ ایسا ہو کہ مرتے دم تک ہم تیرے قدموں میں پڑے رہیں.تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کا جو تعلق ہے وہ ٹوٹنے نہ پائے کہ تیری رحمت اور تیری عطا کے بغیر یہ نہیں ہو سکتا.یہ بھی ایک بنیادی دعا ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے یہ فی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ دونوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کہ دنیا میں گمراہی اور ناراضگی نہ ہو اور مرتے دم تک ہم ہدایت پر قائم رہیں اور ظالموں کے گروہ میں شامل نہ ہو جا ئیں لا تَجْعَلُنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (الاعراف: ۴۸) بھی کہا گیا ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۱۶ خطبه جمعه ۳ /اگست ۱۹۷۹ء ایک ذمہ داری مسلمان کی یہ تھی کہ وہ اسلام کو دنیا میں پھیلائے ، اس کی تبلیغ کرے نمونہ بنے دوسروں کے لئے کیونکہ بغیر نمونے کے دنیا توجہ نہیں کرتی.تو یہ بھی بہت وسیع ذمہ داری ہے اور ہر مسلمان کا تعلق اس ذمہ داری کے نتیجہ میں ہر غیر مسلم کے ساتھ ہے.جہاں تک ممکن ہو.یہ نہیں کہ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ مشرق و مغرب و شمال و جنوب کے ہر غیر مسلم کے پاس جا کے تبلیغ کرے لیکن مجموعی طور پر امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کے حسن کو اور اللہ تعالیٰ کے نور کو پھیلانے والے ہوں اور اس کے لئے اُسوہ چاہیے اور اس کے لئے جذب چاہیے ایسا نمونہ جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے والا ہو.یہ دعا سکھا دی.یہ دعائیں قرآن کریم میں یا تو اس رنگ میں ہیں کہ وہ دعا سکھائی گئی اس رنگ میں ہیں کہ پہلے انبیاء کو وہ دعا سکھائی گئی اور قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا اس غرض سے کہ ہم بھی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے.فَاجْعَلْ أَفْبِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ (ابراهيم :۳۸) لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اس دعا کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ دل جیتنے کی توفیق ہمیشہ امت مسلمہ کے ہر گروہ کو عطا کرتا چلا جائے ، محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ خدمت کے جذبہ کے ساتھ نیک نمونہ بن کر ایک ایسا اُسوہ نظر آئے ، ایک فرقان، ایک تمیز پیدا کرنے والی بات ایک احمدی مسلمان میں غیر مسلم کو نظر آئے کہ وہ مجبور ہو جائے اس طرف مائل ہونے پر اور اس کی طرف جھک کے اس سے پوچھنے پر کہ میرے اور تیرے میں جو فرق ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ بس بات شروع ہوگئی تبلیغ کی وہ مسلمان اسے کہے گا.میں تو ایک عاجز انسان، میں تو ایک نالائق انسان ہوں.مگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والا انسان.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا انسان ، میں قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کرنے والا انسان ہوں کہ دنیا میں جو دکھی ہیں ان کے دکھوں کو دور کروں اور سکھ کے سامان جہاں تک میری طاقت میں ہے میں پیدا کروں.میں نے خدا کو پایا اور اس کے نور کو دیکھا اس کی آواز کو سنا.اس کی طاقت اور قدرت کے کرشمے میں نے اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کئے.ان ساری چیزوں نے میری زندگی میں تبدیلی پیدا کر دی ہے.تم ایسا کرو گے تمہاری زندگی میں بھی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۱۷ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء یہ تبدیلی پیدا ہو جائے گی.تو فَاجْعَلْ أَفَبِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهُو إِلَيْهِمُ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم اس قابل ہوں کہ تیری خاطر اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ایک جہاں کے دل جیتیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر رکھ دیں.پھر جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے.اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے.وہ صرف ایک نسل سے تو تعلق نہیں رکھتی نسلاً بعد نسل یہ ذمہ داری اٹھانی ہے قیامت تک یہ ذمہ داری اٹھانی ہے اس واسطے آنے والی نسلوں کے لئے دعا کرناضروری ہے.قرآن کریم کہتا ہے :.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَلُ دُعَاء (ابراهیم : ۴۱) کہ اے خدا مجھے بھی عمدگی سے نماز ادا کرنے کی توفیق دے اور میری آنے والی نسل کو بھی.میری ذریت کو بھی کہ ہم عمدگی سے نماز ادا کریں یعنی اس طور پر نماز ادا کرنے والے ہوں کہ تو ہم سے راضی ہو جائے اور ہماری ذریت اس طور پر نماز ادا کرنے والی ہو کہ تو ان سے راضی ہو جائے.مگر اپنی طاقت سے ہم یہ کر نہیں سکتے ہماری اس دعا کو قبول کر ربَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاء اور اس دعا کو قبول کر کہ ہم نماز ادا کرنے والے ہوں عمدگی کے ساتھ اور ہماری ذریت اور ہماری ہر دعا کو قبول کر جو تیرے نور کو پھیلانے والی اور دنیا سے اندھیروں کو دور کرنے والی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کو دنیا کے سامنے اس رنگ میں پیش کرنے والی ہو کہ وہ مؤثر بن جائے اس دنیا کے لئے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان کو ابھی پہچانتی نہیں.باہمی تعلقات ہیں.بھائی چارہ بنا دیا نا اُمت مسلمہ کو ایک خاندان بنادیا.اور سورہ حشر آیت ا ا میں ہمیں یہ دعا سکھائی کہ ہمیں اور ہم سے پہلے آنے والے بھائیوں کو بخش دے.جو پہلے بزرگ گزرے ہیں (صرف اپنے زمانہ میں بسنے والے نہیں ) بلکہ اس تعلق کو اگلے اور پچھلوں کے ساتھ باندھا گیا ہے دراصل اور ہمارے دلوں میں مومنوں کا کینہ کبھی پیدا نہ ہو.بڑی عجیب دعا ہے سارے فتنوں کو دور کرنے والی.بعض دفعہ انسان حق لے کر بعض دفعہ حق چھوڑ کر فتنہ دور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا (الممتحنة: ۶) اے ہمارے ربّ
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۱۸ خطبه جمعه ۳ /اگست ۱۹۷۹ء ہمیں مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور ہماری غلطیاں اور کمزوریاں اگر کوئی ہوں بھی تو ایسے رنگ کی نہ ہوں کہ کفار کے لئے ٹھوکر اور گمراہی اور تجھ سے دور جانے کا ذریعہ بن جائیں.ہمیں غیروں کے لئے اچھا نمونہ قائم کرنے کی توفیق عطا کر.انسان کا اپنا نفس ہے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ اپنے نفس کے لئے بھی دعا ئیں کرنا ضروری ہے.ورنہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعماء کو حاصل نہیں کر سکتا.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتُ اقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة : ۲۵۱) اے ہمارے رب ہم پر قوتِ برداشت نازل کرصبر عطا کر اور ہمیں ثبات قدم عطا کر اور منکر مخالف کے خلاف ہماری مدد کر.صبر کے معنی عربی زبان اور قرآنی محاورہ میں بڑے وسیع ہیں.صبر کے معنی ہیں عقلی قوانین اور شریعت کے احکام کی روشنی میں اپنے نفس کو قابو میں رکھنا یہ ہے صبر اور مختلف شکلوں میں یہ ہماری زندگی میں ابھرتا ہے.مثلاً اگر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو اس پر بھی صبر کرتا ہے انسان میدانِ جنگ ہو تو مومنانہ شجاعت کے مظاہرے کو عربی زبان اور قرآنی اصطلاح صبر کہتی ہے.میدانِ جنگ میں اور ثبات قدم.اگر قضا و قدر کے امتحان و ابتلا میں مبتلا ہو کوئی شخص جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں آزماؤں گا.تو ایسے امتحان کے وقت بشاشت قلب سے اس ابتلاء کو برداشت کرنا یہ بھی صبر ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا یہ بھی صبر ہے.بے موقع اور بے محل بات سے رُکے رہنا.زبان کو قابو میں رکھنا اس کو بھی صبر کہتے ہیں.یعنی ہر پہلو سے جہاں نفس کو قابو میں رکھنا ہو عقل کے قانون کے ماتحت یا شریعت کے احکام کے نتیجہ میں.عربی زبان اور قرآن کریم کی اصطلاح اسے صبر کہتی ہے.تو رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبُرا میں یہ دعا ہوئی کہ اے خدا! ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے نفس کو اس طرح قابو میں رکھیں کہ کبھی بھی وہ بے قابو ہو کر تیری ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے.اور ہمیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق عطا کرے کہ ماہ رمضان جو دعاؤں کا مہینہ ہے.ہم اس میں زیادہ سے زیادہ وسیع سے وسیع دعائیں کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کے منشا کو پورا
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۱۹ خطبه جمعه ۳/اگست ۱۹۷۹ء کر کے اس کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کے اس منشا کو بھی پورا کرنے والے کہ ظلمات دور ہوں.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسراءیل : ۸۲) اور نور پھیلے اور خدا کی محبت اور پیار اور خدا تعالیٰ کی رضا کو انسان حاصل کرے اور اسلام کے حُسن اور قوتِ احسان کو اور اسلام کے نور کو ان قوموں تک ہم پہنچانے والے ہوں جو تو میں اس وقت تک خدا سے دور اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار سے محروم ہیں.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۱۶ رستمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۶)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۲۱ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء قرآنی تعلیم حسن کی ایک عظیم دنیا ہمارے سامنے پیش کرتی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات پڑھیں :.اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَهُمْ جَنَّتُ النَّعِيمِ - خُلِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (لقمان: ٩ ١٠ ) اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُم تُوعَدُونَ.( حم السجدة : ۳۱) وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ جَنْتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنْتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانَ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - (التوبة: ۷۲) مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا اَنْهرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ أَسِنِ ۚ وَأَنْهَرُ مِنْ لبَن لَم يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَاَنْهُرُ مِنْ خَيْرٍ أَنَّةٍ لِلشَّرِبِينَ ۚ وَ انْهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى وَ لَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ، كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءَ حَمِيمًا فَقَطَعَ امْعَاءَهُمْ - ( محمد : ١٦ ) ط
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۲۲ خطبه جمعه ۱۰ /اگست ۱۹۷۹ء وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ اَمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (المائدة: ١٠) انَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَبِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ - لَا يَسْمَعُونَ بِيسَهَا وَهُمْ فِى مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خَلِدُونَ - لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّهُمُ الْمَلَبِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ.(الانبياء : ۱۰۲ تا ۱۰۴) لا تَدْعُوا اليَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَ ادْعُوا شُبُورًا كَثِيرًا - قُلْ اذْلِكَ خَيْرٌ اَم جَنَّةٌ الخُلدِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ، كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَ مَصِيرًا - لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ط خُلِدِينَ كَانَ عَلَى رَبَّكَ وَعْدًا مَّسْئُولًا - (الفرقان : ۱۵ تا ۱۷) پھر حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں نے قرآن کریم کی اس آیت پر خطبہ دیا تھا کہ وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي.(البقرة: ۱۸۷) اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے الناس کو بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے قریب ہوں مجھ سے مانگو.میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا.دعا کے لئے جو شرائط ہم نے مقرر کی ہیں ان کا خیال رکھنا مجھ سے مانگو میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں.مجھ سے مانگو اپنی زبان میں.دنیا کی ہر زبان میں خدا تعالیٰ دعا کرنے والے کی دعا کو سنتا اور جب چاہتا ہے رحم کرتا اور قبول کرتا ہے.پھر میں نے بتایا تھا کہ صرف یہ نہیں فرمایا کہ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ بلکہ دعا کرنے کے طریق بھی بتائے اور دعا کرنے کے بہت سے الفاظ بھی بتائے اور دعا کے لئے مختلف جہات میں نئی سے نئی دنیا کے دروازے بھی کھولے.میں نے قرآن کریم کی آیات سے مثالیں دے کر آپ کو یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی تھی.ان میں سے ایک آیت میں نے یہ لی تھی.رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَ تَنَا عَلَى رُسُلِكَ اپنے رسولوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۲۳ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء کی زبان پر ہم سے جو تو نے وعدہ کیا ہے ہمیں وہ سب کچھ دے دے.إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (ال عمران : ۱۹۵) تو اپنے وعدے کا پکا ہے وعدہ کے خلاف ہرگز نہیں کرتا.پھر بھی یہ دعا سکھائی.قرآن کریم میں جو عَلیٰ رُسُلِک کے مطابق وعدے دیئے گئے ہیں اس میں بشارت کا لفظ 66 بھی استعمال کیا.بعض دوسرے الفاظ استعمال کئے اور اتنا مَا وَعَدْتَنَا میں جو وعدہ “ کا لفظ ہے ما وعدتنا اس لفظ کے ساتھ بھی قرآن کریم میں بہت سے وعدوں کا ذکر ہے.اس آیت کی روشنی میں پھر ایک دنیا کھلتی ہے دعاؤں کی.سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے وعدے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے وعدہ کے لفظ کے ساتھ اور جن کی بشارتیں دی ہیں.یہاں پانچ باتیں رَبَّنَا وَ اتِنا میں کہی گئی تھیں.یعنی اس آیت میں سورۃ الِ عمران کی آیت ہے.ایک یہ کہ رسولوں کی زبان پر جس کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سب ہمیں دے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ وعدے کیا ہیں.دوسرے اس سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ قرآن کریم میں اگر کہیں یہ ذکر ہے کہ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی اُمت کے متعلق یہ وعدہ تھا تو چونکہ وہ سارے پہلے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور ان کی شرائع اوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتب قرآن کریم کا ہی ایک حصہ تھیں.اس لئے ان وعدوں کا ذکر کر کے ہمارے سامنے یہ بات رکھی اور اس آیت میں اس کو واضح کیا کہ وہ وعدے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُمت کے ساتھ تھے تمہارے ساتھ بھی وہ وعدے ہیں.دوسری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی کہ اگر یہ وعدے پورے نہ ہوئے تو قیامت کے روز ہم ذلیل ہو جائیں گے.تیسرے یہ بات بتائی گئی ہے اس آیت میں کہ اے خدا تو تو صادق الوعد ہے لا تُخْلِفُ المیعاد تجھ سے وعدہ خلافی کا امکان ہی نہیں.پھر یہ سوال اُٹھتا تھا کہ جب خدا تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور وعدے دے دیئے گئے تو پھر اس دعا کی کیا ضرورت تھی کہ اتِنَا مَا وَعَدتَنَا عَلَى رُسُلِكَ تو جاننا چاہیے کہ جہاں وعدے دیئے گئے ہیں وہاں کچھ شرائط بھی رکھی گئی ہیں، کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں تو یہ بات بتائی گئی کہ یہاں اس میں کہا گیا کہ اے خدا جو شرائط اور ذمہ داریاں ان وعدوں کے ساتھ تھیں ان کے پورا کرنے کی ہمیں توفیق دے تاکہ تیرے
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۲۴ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء وعدے ہمارے حق میں پورے ہوں.پھر سوال پیدا ہوتا تھا کہ انسان بشری کمزوریاں رکھتا ہے.ان شرائط ، ان ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کر سکتا اس لئے انسانی کوشش کے علاوہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کی بھی ضرورت ہے.تو اسی آیت سے ہم یہ استدلال کرتے ہیں جو بات آگے جا کر دوسری آیات میں کھل کے سامنے بھی آجاتی ہے کہ ہماری کوششوں میں جو ہم تیری رضا کے حصول کے لئے کریں.اگر خامیاں رہ جائیں ہم سے کوئی غفلتیں اور کوتاہیاں ہو جا ئیں ، کوئی گناہ سرزد ہو جا ئیں تو اے خدا مغفرت کی چادر کے نیچے انہیں ڈھانپ دے.جب تک خدا تعالیٰ کی مغفرت انسان کے گنا ہوں اور اس کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو ڈھانپ نہ لے اور جب تک انسان اپنی سی یہ کوشش نہ کر لے کہ جو شرائط اور ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ان کو وہ زبان، دل اور عمل سے پورا کرنے والا ہو، اس وقت تک خدا تعالیٰ یہ وعدے پورے نہیں کرے گا.پہلی امتوں میں بھی یہ اعلان کیا گیا ہے.تو اس چیز کی وضاحت میں یہ میں نے ساری آیات تو نہیں لیں ایک خطبہ جمعہ میں ان کے متعلق نہیں بات کر سکتا.جو میں نے آیات لی ہیں اس سلسلہ میں بھی مختصر بات کروں گا چند مثالیں لی ہیں کہ مَا وَعَد تنا یہ کون سے وعدے ہیں جو قرآن کریم نے وعدے“ کے لفظ سے انسان سے کئے اور پھر انہی میں آتا ہے شرائط کیا رکھی گئی ہیں اور اور وعدے کی تفصیل کیا ہے؟ یہ جو آیتیں میں نے پڑھی ہیں ان کا اکٹھا ہی ترجمہ کر دیتا ہوں ورنہ دیر ہو جائے گی.آیات آپ نے سن لی ہیں.اب ترجمہ سن لیں.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا الخ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کے مناسب حال عمل کئے ان کو نعمت والے باغات ملیں گے جن میں وہ رہتے چلے جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا پختہ وعدہ ہے ( وَعْدَ اللهِ حَقًّا ) اور وہ غالب اور بڑی حکمت والا ہے.جو چاہتا ہے کر سکتا ہے لیکن کرسکتا بے حکمت بات نہیں کیا کرتا.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے ان پر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پچھلی غلطی کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۲۵ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء غم نہ کرو اور اس جنت کے ملنے کے لئے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسی جنتوں کے وعدے کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں پاک رہائش گاہوں کا بھی وعدہ کیا ہے اور ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا سب سے بڑا انعام ہے جو ان کو ملے گا اور اس کا ملنا بہت بڑی کامیابی ہے.پھر فرما یا مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ متقیوں سے جن جنتوں کا وعدہ کیا گیا ہے ان میں ایسے پانی کی نہریں ہوں گی جن میں سڑنے کا مادہ نہیں ہوگا اور ایسی نہریں ہوں گی دودھ کی جس کا مزہ کبھی نہیں بدلے گا اور ایسی شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کو مزیدار لگیں گی اور پاک وصاف شہد کی نہریں بھی ہوں گی اور ان کو ان جنتوں میں ہر قسم کے پھل بھی ملیں گے اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت بھی ملے گی.یہ بھی فرمایا ہے کہ اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو زندہ کیا ہے.پھر فرمایا اللہ نے مومنوں اور ایمان کے مطابق عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کو مغفرت اور بڑا اجر ملے گا.پھر فرمایا.یقیناً وہ لوگ جن کے متعلق ہماری طرف سے نیک سلوک کا وعدہ ہو چکا ہے وہ اس دوزخ سے دور رکھے جائیں گے.وہ اس کی آواز تک نہیں سنیں گے اور وہ اس حالت میں جسے ان کے دل چاہتے ہیں ہمیشہ رہیں گے.بڑی پریشانی کا وقت بھی ان کو غمگین نہیں کرے گا اور فرشتے ان سے ملیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہ تمہارا دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.پھر فرمایا.( میں نے ایک آیت کافروں کے متعلق لے لی ہے مضمون واضح کرنے کے لئے ) کافروں سے کہا جائے گا آج ایک موت کی آرزو نہ کرو بلکہ بار بار موت کی خواہش کرو کیونکہ تم پر بار بار عذاب آنے والا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اذْلِكَ خَیر تو ان سے کہہ دے کہ یہ انجام بہتر ہے یا دائمی جنت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے وہ ان کا بدلہ اور آخری ٹھکانہ ہوگا.انہیں اس میں جو کچھ چاہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۲۶ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء گے ملے گا.وہ اس میں ہمیشہ کے لئے بستے چلے جائیں گے.یہ ایک ایسا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا تیرے رب پر واجب ہے.پھر فرمایا.یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کے مناسب حال عمل کئے ان کو نعمت والے باغات ملیں گے جن میں وہ رہتے چلے جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا پختہ وعدہ ہے اور وہ غالب اور بڑی حکمت والا ہے.( یہ دوبارہ آ گیا ) یہ جو آیت ابھی میں پڑھ رہا تھا دوبارہ اس میں تین شرائط بیان ہوئیں.ایک یہ کہ ایمان لا نا فرض ہے وعدہ کے پورا ہونے کے لئے پختہ ایمان ضروری ہے بغیر ایمان کے کسی شخص کے حق میں خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورانہیں ہوگا.دوسرے یہ کہ ایمان کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہوگی.ایمان کے خلاف تمہاری زندگی کا کوئی کام نہ ہو.اور تیسرے یہ کہ موقع اور محل کے مطابق کیونکہ اسلامی تعلیم میں اس قسم کی سختی اور کھچاؤ نہیں جس طرح بعض دوسری جگہ ہمیں نظر آتا ہے بلکہ موقع اور محل کو ملحوظ رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوریٰ : ۴۱) جو معاف کرے اور اس کو یقین ہو کہ معافی دے دینا اصلاح کا موجب ہو گا تو اس کو اجر ملے گا.جو معاف کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ معافی دینا اصلاح کا موجب نہیں ہوگا بلکہ فساد کو بڑھانے والا ہو گا تو خدا تعالیٰ اس کو اجر نہیں دے گا.تو موقع اور محل کے مطابق اس کے اعمال ہوں.یہ شرائط ہیں وعدہ کے پورا ہونے کی اور وعدے یہ ہیں :.جَنَّتُ النَّعِيمِ نعمت والے باغات نعیم کے معنی مفردات راغب میں لکھے ہیں النِّعْمَةُ الكَثِيرَةُ یعنی ایسی جنتیں جن میں خدا تعالیٰ کی کثرت کے ساتھ نعمتیں نازل ہونے والی ہوں.دوسرا وعدہ یہ ہے کہ :.66 خلِدِينَ فِيهَا کہ جو ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے جس وقت جنتی جنت میں چلا جائے گا تو اسے باہر نہیں نکالا جائے گا.یہ وعدہ ہے.ایک یہ کہ وہ ایسی جنات ہیں جن میں کثرت سے خدا تعالیٰ کی نعماء کے جنتی وارث ہوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۲۷ 66 خطبه جمعه ۱۰ /اگست ۱۹۷۹ء گے اور دوسرے یہ کہ جب جنت میں داخل ہوں گے تو جنت سے نکالے نہیں جائیں گے.سورة لحم السجدة جس کو فصّلت “ بھی کہتے ہیں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللہ وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے.یہ آیت اور ترجمہ میں پڑھ چکا ہوں اس میں جن شرائط کا ذکر ہے وہ یہ ہیں.یہ عقیدہ رکھنا کہ ربنا اللہ یعنی تو حید خالص کا عقیدہ جس میں کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ ہو.یہ شرط ہے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ایمان لایا.اگر کوئی شخص اس کہنے کے بعد اپنے دل میں محض ایک مبہم سی شکل ایمان کی رکھتا ہو.نیز اگر کوئی شخص اس ایمان کے ساتھ ظاہر میں ہمیں نماز پڑھتا بھی نظر آئے ، ہمیں زکوۃ دیتا بھی نظر آئے ، ہمیں روزہ رکھتا بھی نظر آئے لیکن وہ شرک کی بھی کسی قسم میں ملوث ہو تو خدا تعالیٰ کا وعدہ اس کے حق میں پورا نہیں ہوگا.یہاں یہ شرط بڑی کھول کے بیان کر دی ہے کہ شرط یہ ہے کہ عقیدہ رکھے ربنا اللہ اللہ ہی اللہ ہے، جس کی انسان کو ضرورت ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ سے مل سکتی ہے غیر اللہ سے نہیں.اس کے فضل اور اس کی رحمت سے انسان اپنی زندگی کے مقصد کو پا سکتا ہے.ثمَّ اسْتَقَامُوا دوسرے یہ کہ صراط مستقیم پر وہ پختگی کے ساتھ قائم ہو جائے.مستقل مزاجی کے ساتھ صراط مستقیم پر قائم ہو اور توحید خالص کو ایک دفعہ اختیار کرنے کے بعد کبھی شرک ظاہر یا شرک باطن کا کوئی خیال اس کے دل میں نہ آئے.اور اس میں یہ بتایا کہ بھٹک نہ جانا.ثبات قدم ہو.خدا تعالیٰ سے وفا کا تعلق رکھنا.خدا تعالیٰ کی پرستش کے ساتھ کسی اور کی پرستش نہ کرنا.اپنے نفس کو اپنے لئے بت نہ بنانا.نفسانی خواہشات کے حصول میں اللہ تعالیٰ کو نظر انداز نہ کر دینا بلکہ خدا کی خاطر ہر چیز کو یہاں تک کہ اپنے نفس کو اور اپنی جان کو قربان کر دینا اور ایک فنا کی حالت طاری کر کے ایک نئی زندگی اپنے رب سے پانا.یہ شرائط بیان کر دیں.وعدے جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں.ایک وعدہ یہ ہے کہ تم پر فرشتے اتریں گے.اس آیت میں یہ وعدہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہ جو لوگ ربنا اللہ کہیں گے اور وفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق عبودیت کو ہمیشہ قائم رکھیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۲۸ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء گے اور استقامت دکھا ئیں گے اور مستقل مزاجی سے کام لیں گے اور صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائیں گے اور خدا میں فانی ہو کر خدا سے نئی زندگی پائیں گے.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ یہ ایک وعدہ ہے اس آیت میں.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ایسے لوگوں پر اتریں گے.دوسرا وعدہ یہ ہے کہ فرشتے ایسے لوگوں کو یہ تسلی دیں گے کہ تمہیں کس چیز کا ڈر.ڈرو نہیں خدا تم سے پیار کرتا اور ہم تمہاری حفاظت کے لئے مقرر ہیں.تمہیں کس چیز کا ڈر.تیسرے اس میں یہ وعدہ ہے کہ فرشتے اتر کر یہ تسلی دیں گے کہ تم یہ نہ سوچنا کہ بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں تم غلطیاں کر چکے ہو پہلے.کہیں ہم خدا کی گرفت میں نہ آجائیں.تو اگر تم ربنا الله توحید خالص پر قائم ہو کر استقامت دکھاؤ گے اور بھٹکو گے نہیں تو پچھلی غلطیوں کا بھی غم نہ کرو.خدا تعالیٰ کی طرف سے اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ( الزمر : ۵۴) کہا گیا ہے.تمہاری سب غلطیوں کو معاف کر دے گا.تمہیں ہم بشارت دیتے ہیں.کوئی غم کرنے کی ضرورت نہیں.و ابشروا اور خوش ہو جاؤ بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اس جنت کے حصول کی بشارت سن کر ہم سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اور قرآن کریم سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ دو جنتوں کا وعدہ دیا گیا ہے.ایک اس زندگی کی جنت کا اور ایک اُخروی زندگی کی جنت کا.اس زندگی کی جنت کا وعدہ جب انسان اپنی اس زندگی میں پورا ہوتا دیکھتا ہے تو اس کو یقین ہو جاتا ہے کہ جو دوسرا وعدہ ہے وہ بھی اپنے وقت پر پورا ہوگا.سورہ تو بہ میں فرمایا کہ مومن مرد بھی ہوتے ہیں اور مومن عورتیں بھی ہوتی ہیں.مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں ہوں اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدے کئے ہیں اور ایمان کی شرائط اس آیت میں بیان کی ہیں کہ صحیح اور سچے اور کامل مومن بن جاؤ اور تین تقاضے ہیں اس ایمان کے.جن مومنین اور مومنات کا یہاں ذکر ہے وہ تین تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں شرائط یہ ہیں کہ زبان سے اقرار کریں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے اور جو اس کا کلام نازل ہوا ہے اور جن چیزوں کے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۲۹ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء ماننے کا اس نے حکم دیا ہے ہم ایمان لاتے ہیں کہ ہم پر فرض ہے کہ ہم ان کے ساتھ وہ تعلق پیدا کریں جو خدا چاہتا ہے کہ پیدا کریں.مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور پیار کا تعلق.مثلاً بے خوف و خطر یہ اعلان کرنا کہ خدا ایک ہے اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی ، اور لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: ۱۲) اس جیسی ہستی اور کوئی نہیں اور وہ بڑا پیار کرنے والا ہے.وہ بڑا دیالو ہے اور اسے کسی کی احتیاج نہیں اور ہر غیر کو اس کی احتیاج ہے اور اس ایمان کے مطابق دل کی کیفیت ہو نفاق نہ ہو کہ دل میں سو بُت ہوں اور زبان پر ایک خدا کا نام ہو یہ ایمان نہیں ہے یعنی ایمان کا لفظ عربی زبان میں جو معنی رکھتا ہے وہ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ زبان پر بھی خالص، سچا ایمان اور دل میں بھی خالص، سچا ایمان ، وہ کیفیت دل کی ہو اور انسان کو خدا تعالیٰ نے جو بے شمار قو تیں اور طاقتیں دی ہیں اپنی زندگی میں ہزار ہا کام کرنے کی.اس کے سارے کام اس بات کی گواہی دے رہے ہوں کہ اس نے زبان سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور اس کے دل کی جو کیفیت تھی وہ ٹھیک تھی ، حق تھی.تو تین شرائط یہاں بیان ہوئی ہیں جو ایمان کے معنی میں پائی جاتی ہیں اور پانچ وعدے اس آیت میں بیان ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے خالص، سچے حقیقی مومن سے ایسی جنتوں کا جن کے اندر ہمیشہ اپنی حالت پر رہنے کا سامان ہے جَنَّاتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ - تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ کا ایک معنیٰ یہ ہے ) کہ جس طرح باغات ہیں نا ) اگر باغ کا پانی نہ ہو تو باغ سوکھ جائے گا.تو ایسی جنتیں جن میں نہریں چلتی ہیں ان جنتوں کے سوکھنے اور اپنی افادیت کھو بیٹھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ نے ان کو ہمیشہ اپنی پوری افادیت کے ساتھ قائم رہنے کا سامان خودان جنتوں کے اندرا اپنی حکمت کا ملہ سے کر دیا ہے.تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْظر تو ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن جنتوں کے متعلق یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جنتی یہ کہے کہ آج تو میرے کام آرہی ہے لیکن کل اس کے درخت خشک ہو جا ئیں گے، کل اس کا پانی نمکین ہو جائے گا، کھارا ہو جائے گا میرے کسی کام کا نہیں ہوگا تو خدا تعالیٰ نے کہا ہے تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الانظر اس کے اندر وہ نہریں چلتی ہیں ( الانْهرُ ) جن کی ان جنتوں کو ضرورت
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۳۰ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء ہے.ایسی جنتیں جو ہمیشہ اپنی پوری افادیت کے ساتھ قائم رہنے والی ہیں اُن کا وعدہ دیا ہے.خلِدِينَ فِيهَا اور یہ ابدی جنت جو ہے اس کے اندر داخل ہونے والے بھی ابدی زندگی پائیں گے یہ نہیں کہ دو ہزار سال بعد یا دس ہزار سال بعد یا دس کروڑ سال بعد یا دس ارب سال بعد پھر اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جنت سے نکال دے.جس جنت میں جائیں گے وہ جنت بھی اپنی پوری افادیت کے ساتھ قائم رہے گی اور ان میں داخل ہونے والوں کی زندگی بھی قائم رہے گی.ابدی زندگی ان کو ملے گی.وہ نکالے نہیں جائیں گے.ایک یہ کہا کہ جنتیں اپنی پوری افادیت کے ساتھ قائم رہنے والی ہیں اور جولوگ اس کے اندر جائیں گے وہ ابدی زندگی پانے والے ہیں.نیز جو رہائش گا ہیں ہیں ان کا ماحول پاکیزہ ہے.مسکن طَيِّبَةً اور یہ پاکیزگی بھی ہمیشہ قائم رہے گی.فِي جَنْتِ عَدْنٍ یہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں.سب سے بڑھ کر یہ کہ رِضْوَانٌ مِّنَ اللہ اور ہمیں رِضْوَانٌ مِّنَ اللہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار اس زندگی کی جنت میں بھی اور مرنے کے بعد جس زندگی کی باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ان سے بھی پتا لگتا ہے کہ اُس زندگی کی جنت میں بھی ہر آن بڑھتے چلے جانے والا پیار ہے جو انسان کو ملتا ہے یہاں بھی ملتا ہے وہاں بھی ملے گا تبھی تو آپ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گن نہیں سکتے.کونسی گھڑی ہے کہ آپ پر خدا تعالیٰ اپنی نعمتوں کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہوتا اور جنت کے متعلق تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر آنے والی صبح پہلے دن کی صبح سے ارفع اور بالا ہوگی.زیادہ پیار کو حاصل کرنے والا ہو گا جنتی.تو سب سے بڑھ کر یہ کہا یہاں کہ رِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ أَكْبَرُ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، اس کا پیار ہے، اس کی خوشنودی ہے اور یہ پیار اس کا ہر آن بڑھنے والا ہے.پھر سورہ محمد میں فرما یا مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ متقیوں سے جن جنتوں کا وعدہ کیا گیا ہے.( ترجمہ میں پڑھ چکا ہوں ) اس میں بنیادی شرط رکھی ہے.تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا.فرمایا اگر تم تقویٰ کی ساری را ہوں کو اختیار کرو گے اور خدا تعالیٰ کی حدود کے قریب بھی نہ جاؤ گے اور اس کے ہر حکم پر عمل کرو گے اور اس کی پناہ میں آ جاؤ گے اور اس کے پیار کو حاصل کرلو
خطبات ناصر جلد هشتم ٣٣١ خطبه جمعه ۱۰ /اگست ۱۹۷۹ء گے ( بڑا وسیع مضمون ہے تقویٰ کے اندر ) پس فرمایا اگر مومن تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا چلا جائے گا تو اس آیت میں چار وعدے اللہ تعالیٰ کرتا ہے وُعِدَ الْمُتَّقُونَ چھ وعدے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو متقیوں کو اس آیت میں دیئے گئے ہیں.- پہلا وعدہ ہے فِيهَا انْهرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِن اس کے متعلق دوسری آیت کے حوالے کی ضرورت ذہنی طور پر ہے.وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَى (الانبیاء : ۳۱) اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو زندہ کیا ہے تو ہماری زندگی جو ہے اس دنیا کی.اس کا انحصار بہت حد تک پانی پہ ہے لیکن جو ہمارے جسم کا پانی ہے اس میں یہ خاصیت نہیں کہ کوئی انفیکشن اس کے اندر نہ آجائے.بیماری کے جراثیم یا وائرس اس کے اندر نہ پلنے شروع ہو جائیں تو وہی پانی جو ہمارے لئے زندگی کا موجب بنتا ہے وہی ایک وقت میں ہماری موت کا موجب بن جاتا ہے جب اس میں انفیکشن پیدا ہو جائے.جب سڑ جائے پانی ہمارے جسم کا تو موت ہے ہماری.تو یہاں ایسی جنت کا وعدہ دیا گیا ہے جس کا پانی جو زندگی کی بنیاد بنتا ہے ، وہ سڑے گا نہیں اور اپنی یہ خصوصیت کہ وہ زندگی کا موجب ہے وہ کبھی نہیں کھوئے گا یعنی جو جنتی ہیں ان کو ایسا پانی و،،، ملے گا کہ جو ابدی زندگی کا موجب ہوگا.وہ پانی پیتے رہیں گے اور ان کی زندگی قائم رہے گی.وَانْهرُ مِنْ تَبَن لَمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ پہلے تھا سوال زندگی قائم رہنے کا لیکن زندگی قائم رہتے ہوئے بھی انسان کے قومی ہیں.ان میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے.انحطاط پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا تعلق یہاں لبن“ کے ساتھ ہے تو ایسی نہریں ہوں گی دودھ کی جن کا مزہ بدلے گا نہیں.وہ پھٹ نہیں جائے گا.وہ اپنی خاصیت کو اور کیفیت کو کھو نہیں بیٹھے گا اور اس کے نتیجہ میں جنت میں رہنے والے جسم کی جو طاقتیں ہیں وہ اپنے جو بن پہ، اپنے عروج پہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ ان کو ایسا دودھ ملے گا لَمْ يَتَخَيَّرُ طَعُبُة - تیسرے فرما یاوَ اَنْهرُ مِنْ خَيْرٍ لذَةٍ لِلشَّرِبِينَ یہ (خمر) وہ نہیں جو حرام شراب ہے یہ وہ نہیں ہے کیونکہ حرام خمر کے ساتھ خمار بھی ہے.اس کے ساتھ ذہنی قوی کا عارضی یا مستقل طور پر کمزور ہو جانا بھی ہے.بہت ساری برائیاں اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.یہ میرا مضمون نہیں ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۳۲ خطبه جمعه ۱۰ را گست ۱۹۷۹ء یہاں یہ بتایا کہ ان کو پینے کے لئے ایسی شراب ، ایسا شربت ملے گا.لدة تشربين جو پینے والوں کی بشاشت اور امنگ اور قوت عمل کو بڑھانے والا ہوگا.بہت سارے لوگ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کو خدا تعالیٰ نے صحت بھی دی ہے اور ان کو قو تیں بھی دی ہیں لیکن امنگ کوئی نہیں تو یہاں بتایا کہ جو جنتی ہیں ، وہ پوستیوں کی سی زندگی نہیں گزاریں گے.اُخروی جنت میں بہت زیادہ عمل کی زندگی ہے لیکن ابتلا والا عمل نہیں.امتحان والا عمل نہیں.یہ نہیں کہ نئے سرے سے نتیجہ نکلنا ہے.وہ تو جزا والا عمل ہے خدا تعالیٰ کے ذکر میں ہمہ وقت مشغول رہنا اور جو خدا تعالیٰ حکم دے اس کے مطابق زندگی گزار نامحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :.اُخروی جنت کی باتیں سن لیا کرو بحث نہ کیا کرو کیونکہ وہ ایسی چیزیں ہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنیں جو وہاں جائیں گے (اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہاں لے جائے ) وہ آپ ہی معلوم کرلیں گے لیکن وَ اَنْهرُ مِنْ خَيْرٍ لذة للشربین بشاشت اور اُمنگ کو قائم رکھنے والا شربت ان کو وہاں ملے گا.زندگی قائم رہے گی.خرابی کوئی نہیں پیدا ہوگی.زندہ رہیں گے وہ.پانی سڑنے والا نہیں اور جو قوی ہیں ان کی طاقتیں قائم رہیں گی اور بشاشت اور اُمنگ رہے گی.ان کا استعمال ہوگا اپنے پورے عروج کے اوپر عمل ہوگا.وَ انْهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى اور جنت میں بیماری کوئی نہیں ہوگی کیونکہ فِیهِ شفاء للناس (النحل : ۷۰) دوسری جگہ فرما کے اسی آیت کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے کر دی ہے لیکن انسانی ہاتھ سے صاف کیا ہوا شہد بعض دفعہ بہت سارے بیکٹیریا (Bacteria) بھی اپنے ساتھ لے آتا ہے.اس واسطے خالی عسل “ نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ ایسا شہد ہے جسے خدائی حکمت نے اس طرح صاف کیا ہے کہ وہ محض شفا ہے.اس کے اندر کوئی خرابی پیدا ہی نہیں ہو سکتی اور وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جو وہ اعمال کرتے رہے ہوں گے اس دنیا میں ہر عمل کی جزا، ہر عمل کا پھل ان کو اس جنت میں ملتا رہے گا.ان ساری چیزوں کے باوجود ایک اور چیز کی ضرورت تھی اور وہ یہ کہ انسان غلطیاں کرتا ہے، کوتاہیاں کرتا ہے، گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، بھول چوک انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.بشری کمزوریاں ہیں اس کے ساتھ جب تک خدا تعالیٰ کی مغفرت نہ ہو یہ کچھ مل نہیں سکتا تو یہاں ہمیں تسلی دے دی وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ تم گھبراؤ نہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۳۳ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۹ء تمہاری ساری کمزوریوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کو جنت میں لے جانے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا اور وہاں جا کے کسی قسم کی تکلیف تمہارے اپنے کسی گناہ اور غلطی کی وجہ سے تمہیں نہیں پہنچے گی.میں نے چند مثالیں دے کر آپ کو یہ بتانا تھا کہ یہ جو کہا گیا کہ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا بہت ساری آیات کا اس کے ساتھ تعلق ہے جن میں سے بعض کو میں نے چنا اور سب کو میں اس وقت بیان بھی نہیں کر سکا.دیر ہوگئی ہے.تو یہ کافی ہے سمجھنے کے لئے.اس سے یہ پتا لگتا ہے کہ قرآن عظیم واقعہ میں کتنا عظیم ہے.ہر چیز کو کھولتا چلا جاتا ہے اور حسن کی ایک عظیم دنیا ہمارے سامنے قرآنی تعلیم پیش کرتی چلی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں اس عظیم ، اس پاک اور مطہر اور اس حسین تعلیم کا پیار پیدا کرے اور اس ماہ رمضان میں خصوصاً کہ ماہ رمضان کے ساتھ قرآن کریم کا تعلق ہے اور دعاؤں کا تعلق ہے تو اس مہینے میں اس کی کثرت سے تلاوت کرو اور دعاؤں کے ساتھ تلاوت کرو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی گہرائیوں ، اس کی وسعتوں کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اس کے مطابق ہمیں اپنی زندگی کے دن گزارنے کی بھی توفیق عطا کرے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۲۷ رستمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۳۵ خطبہ جمعہ ۱۷/اگست ۱۹۷۹ء خدا کی صفت غفور اس بات کی ضامن ہے کہ انسان جنت میں جائے خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ را گست ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں :.وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِى أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ - وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتُ لِلْمُتَّقِينَ - الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ الْعَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ - وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ - أُولَبِكَ جَزَا وَهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَّبِّهِمْ وَجَنَّتَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا جَزَاؤُهُمْ الْاَنْهرُ خُلِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ - قَد خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ - هَذَا بَيَانُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ - وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ - (ال عمران: ۱۳۲ تا ۱۴۰)
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۳۶ خطبہ جمعہ ۱۷/اگست ۱۹۷۹ء پھر حضور انور نے فرمایا:.ال عمران کی ان آیات کا ترجمہ یہ ہے.اور اس آگ سے ڈرو ( نارِ جہنم سے ) جو منکروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کی طرف سے نازل ہونے والی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی قیمت آسمان اور زمین ہیں اور جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے بڑھو.وہ متقی جو خوشحالی میں بھی اور تنگ دستی میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے.ہاں ان لوگوں کے لئے جو کسی بُرا کام کرنے کی صورت میں یا اپنی جانوں پر ظلم کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا کون قصور معاف کر سکتا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوتا ہے اس پر دیدہ و دانستہ ضد نہیں کرتے.یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی جزا ان کے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت اور ایسے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں بستے چلے جائیں گے اور کام کرنے والوں کا یہ بدلہ کیا ہی اچھا ہے.تم سے پہلے کئی دستور العمل گزر چکے ہیں جن کے نتائج دیکھنے ہوں تو زمین میں پھرو اور دیکھو کہ ان قوانین کو جھٹلانے والوں کا کیسا بُرا انجام ہوا.ھذا بَيَانُ لِلنَّاسِ یہ قرآن کریم جو ہے یہ ذکر لوگوں کے لئے بہت وضاحت کرنے والا ہے اور متقیوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے اور تم کمزوری نہ دکھاؤ اور نہ غم کرو اور اگر تم مومن ہو تو تم ہی بالا رہو گے.آج ماہ رمضان کی تئیسویں تاریخ ہے اور اگر ۲۹ کا یہ مہینہ ہوا تو آج کا جمعہ ماہِ رمضان کا آخری جمعہ ہے اور اگر تیس روزوں کا یہ مہینہ ہوا تو آئندہ آنے والا جمعہ ماہِ رمضان کا آخری جمعہ ہوگا.بعض لوگوں نے ماہِ رمضان کے آخری جمعہ کے ساتھ بہت سی بدعات کو بھی چمٹا دیا ہے.مہدی معہود علیہ السلام کا ایک منصب، آپ کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ تمام بدعات کو اسلام میں سے، مسلمانوں کی زندگی میں سے نکال باہر کریں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت ہے کہ جب مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں بڑی کثرت سے سب خطہ ہائے ارض میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی میں بدعات شامل ہو جائیں گی اور مہدی ان بدعات سے اسلام کو پاک
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۱۷ /اگست ۱۹۷۹ء کر کے جب اسلام کا خالص اور منور چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرے گا تو دنیا کہے گی کہ اس نے اپنا کوئی نیا دین بنالیا ہے، یہ وہ اسلام تو نہیں جو ہم سمجھتے ہیں.اس کثرت سے غلط باتیں عقائد اس میں شامل ہو جائیں گی مثلاً مصر میں ایک وقت میں دریائے نیل کی پرستش کی جاتی تھی اسلام سے پہلے اور افریقہ میں جہاں حضرت عثمان فودگی پیدا ہوئے وہاں مسلمانوں نے اپنے علاقہ کے دریا کی پرستش شروع کر دی اور اس طرح جاہلیت کے زمانہ کی نقل کر کے بدعت میں پھنس گئے.انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے سنت اور بدعت میں تفریق کرنے کے لئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ اسلام میں جو بدعات شامل ہو چکی ہیں میں اسلام سے ان کو نکال کے باہر پھینک دوں.ان کی بھی مخالفت ہوئی.ہر زمانہ میں جب خدا تعالیٰ کا کوئی نیک بندہ اسلام کی خدمت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس کی مخالفت ہوا کرتی ہے.یہی دستور چلا آیا ہے لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ انسان کو سمجھ عطا کرتا اور نور اور ہدایت کی طرف انہیں لے آتا ہے اور خالص اسلام کی جو برکات ہیں ان سے وہ استفادہ کرنے لگتے ہیں.ہمارے لئے ہر دن ہی مبارک ہے خدا نے اسے ہماری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ دنیا جہان کی ہر چیز میں نے تمہارے لئے بنائی تو اس میں آسمانوں اور زمین سے تعلق رکھنے والا زمانہ بھی ہے.پس زمانہ کا ہر ٹکڑا یعنی ہر دن بھی ہماری خدمت پر لگا ہوا ہے اور اس سے پوری خدمت لینی چاہیے.ہر دن کے لئے خدا تعالیٰ نے ہدایتیں دی ہیں مثلاً یہ ہدایت کہ ایک دن میں پانچ نمازیں باجماعت ادا کر وسوائے معقول عذر کے.دوسری ہدا یتیں ہیں ، لوگوں کے حقوق ادا کرنے ہیں ، اخوت کو قائم کرنا ہے، کسی کو بھوکا نہیں رہنے دینا، کسی کی تکلیف کو نظر انداز نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ.ہر دن کے ساتھ مستقل ہدایتیں، ہر دن کے ساتھ غیر مستقل عارضی ہدا یتیں لگائی گئی ہیں.ہر دن جو چڑھا بڑی برکتیں لے کر آیا اسلام پر ہر سورج جو چڑھا وہ برکتیں لے کر نمودار ہوا.نحوستیں تو انسان خود سمیٹ لیتا ہے.خدا تعالیٰ نے تو برکتیں ہی برکتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسان کو دی تھیں.رمضان میں بہت سی عبادتیں اکٹھی کی گئیں.اس میں ایک سے زائد برکتیں ہیں.رمضان کے ساتھ کثرت سے تلاوت قرآن کریم کا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۱۷ راگست ۱۹۷۹ء تعلق ہے.رمضان میں زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کچھ اور برکتیں شامل ہو گئیں.پھر ہر جمعہ، جمعہ کی برکتیں لے کے آتا ہے.رمضان کا ہر جمعہ رمضان کی برکتیں اور جمعے کی برکتیں ہر دو برکتوں والا جمعہ ہوتا ہے.آخری عشرہ میں جب خدا کا بندہ خدا تعالیٰ کے دست قدرت کا نشان مانگتا اور لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی خواہش رکھتا ہے، اس کے اثرات اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے اس میں بھی برکتیں ہیں.لیکن یہ تصور تو کسی احمدی کے دماغ میں نہیں.(اور اگر کسی نئے آنے والے کے دماغ میں ہو تو وہ نکال دے) کہ کوئی ایسا دن بھی ہے کہ انسان دیدہ و دانستہ جان بوجھ کر سارا سال نمازیں چھوڑے، مال حرام کھائے ، لوگوں کو دکھ دے، لوٹ مارکرے، حقوق تلف کرے، حقوق غصب کرے اور اس امید پر کرے کہ آخری جمعہ رمضان کا آئے گا اس دن ہر گناہ کی میں معافی مانگوں گا اور مجھے معافی مل جائے گی.جو شخص دیدہ دانستہ اس طرح کرتا ہے اس کو تو ترساں رہنا چاہیے اور اس بات سے خوش نہ ہونا چاہیے کہ اللہ مالک ہے چاہے تو معاف کر دے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ میرے پیار کو حاصل کرنا ہے تو میرے بتائے ہوئے طریق اور میرے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چلو، میری اطاعت کرو، میرے رسول کی اتباع کرو، اس کے اُسوہ کو اپناؤ ، اس کے نقش قدم پر چلو، اس سے محبت رکھو، اس اتباع اور محبت کے نتیجہ میں مجھ سے تم محبت کا اظہار کرو گے اور میں تم سے محبت کروں گا.قرآن کریم نے متعدد جگہ مختلف طریق پر ہمیں خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچنے کی تعلیم دی اور اس کی راہیں جو بیان کی ہیں ان آیات میں سے میں نے بعض کا انتخاب کیا ہے.جو میں نے ابھی پڑھی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ اس آیت میں اول ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ کافروں کے لئے خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ بھڑ کائی گئی ہے ، وہ کافر اور منکر جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتے ، وہ مخالف ہیں خدا کے دین کے، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی اتباع نہیں کرتے.آپ سے پیار کا تعلق نہیں رکھتے ، ان کافروں کے لئے ایک آگ تیار کی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس آگ سے اپنا بچاؤ کرو ( وَاتَّقُوا) یہ بچاؤ تقویٰ کے ذریعہ سے کرو اور دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ سے بچنے کے سامان خدا کی پناہ میں آکر پیدا
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۱۷ راگست ۱۹۷۹ء 666 کرو.تیسرے یہ کہ اس کی راہ کیا ہے؟ وَ اَطِیعُوا اللہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس کے سب احکام کو ہمہ وقت بجالانے کے لئے ہر دم تیار رہو یعنی یہ نہیں کہ جس طرح جاہلیت کے زمانہ میں نسی کے طریق پر حرمت والے مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے تو ہماری زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کے لئے وقف ہونا چاہیے.اس معنی میں کہ اس کی جو بے شمار د نیوی نعمتیں ہمارے اوپر نازل ہوئی ہیں ہم ان کو جائز طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جائز طریقے پر ان کو خرچ کرنے والے ہوں تو اس آگ سے بچنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت کرو، اس کے سب احکام ہر دم بجالانے کے لئے تیار رہو اور مجاہدہ اپنے نفس کے ساتھ کرو.چوتھے یہ کہ ( آطِیعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ ) کہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ان أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس : ١٢) میں اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو میرے پر خدا تعالیٰ نے نازل کی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اس معنی میں کہ تم بھی اس وحی کی اتباع کر و جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی.دوسرے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے انسانوں کے لئے ، رہتی دنیا تک کے لئے ، اُسوہ بنا کر ہمارے سامنے رکھا یعنی ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنا اور آپ کے اُسوہ کے مطابق زندگی گزار نا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کو حاصل کرنا ہے.پانچویں بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رنگ بنے کی کوشش کرو اور فرمایا کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحم کا سلوک کرے گا اور اس کی محبت اور اس کے پیار کے تم وارث ہو گے.چھٹے یہ کہ اللہ تعالیٰ جو رحم اور پیار کا سلوک کرے گا اس کی دوصورتیں یا دوشکلیں ان آیات میں بتائی گئی ہیں.آگے یہ ذکر ہے وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رحم کی دو شکلیں بیان ہوئی ہیں.ایک اس کی مغفرت ، جب وہ اپنی مغفرت سے ڈھانپ لے تو انسان اس آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے.جس سے یہاں ڈرایا گیا، جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے مغفرت رب کی طرف سے نازل ہونے والی بخشش ہے جس کے بغیر انسانی اعمال بے ثمر ہیں اور یہ
خطبات ناصر جلد هشتم اور نارِ جہنم سے بچنا ناممکن ہے.۳۴۰ خطبہ جمعہ ۱۷/اگست ۱۹۷۹ء ساتویں یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ایسی جنت کی شکل میں انسان کے سامنے رکھی گئی ہے جس کی قیمت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ اس کی وضاحت کی ضرورت ہے.ہر آدمی یہ بات آسانی سے سمجھ نہیں سکتا.چنانچہ سورۃ لقمان میں فرمایا کہ الم تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِى السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان : ۲۱) اور سورۃ جاثیہ میں فرمایا:.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٤) اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس شکل میں بھی آتی ہے ( میں یہ ترتیب ذرا بدل دوں گا آپ کو سمجھانے کے لئے ) کہ ایسی جنت ملتی ہے جس کی قیمت آسمانوں اور زمین کے برا بر ہے یعنی آسمانوں اور زمین میں ہر شے جو ہے تم اس کی جو بھی قیمت لگاؤ وہ خدا تعالیٰ کی موعودہ جنت کی قیمت ہے اور وہ اس طرح پر کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں انسان اسلام کی ہدایت کی روشنی میں اپنی سب طاقتوں اور استعدادوں کو بروئے کارلاتا ہے.حکم یہ ہے انسان کو کہ جو تمہیں میں نے طاقتیں، قوتیں ، صلاحیتیں اور استعدادیں دی ہیں وہ ساری میرے حضور پیش کر دو.میرے حکم کے مطابق ، میری بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ، میری رضا کے حصول کے لئے ، میرے پیار کو پانے کے لئے تم ان کو خرچ کرو تو آسمانوں اور زمین کی ہر شے کے فقرہ میں نوع انسان کی وہ طاقتیں بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیں اور یہ استعدادیں، یہ طاقتیں اتنی عظیم ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، کہ جن سے انسان خدمت نہ لے رہا ہو یا خدمت نہ لے سکتا ہو اور بعض جگہ بعض چیزیں پوشیدہ ہیں.ابھی تک ہمارے علم میں نہیں انسان کو یہ طاقت دی کہ دنیا کی ہر شے سے خدمت لے سکتا ہے، اپنی بھلائی اور خوشحالی کے سامان پیدا کر سکتا ہے اس دنیا کی خوشحالی کے بھی اور مرنے کے بعد کی زندگی اُخروی زندگی کی خوشحالی کے بھی.کیونکہ فرمایا کہ جو اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اُخروی زندگی میں بھی اندھا ہوگا تو وہاں دیکھنے کی آنکھ یہاں حاصل کرنی پڑتی ہے.ان سامانوں کو استعمال کر کے قوتوں اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۴۱ خطبہ جمعہ ۱۷ /اگست ۱۹۷۹ء استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو و نما کر کے وہاں کے سامانوں سے استفادہ کرنے اور لذت حاصل کرنے کی طاقتیں اور احساسات حاصل کرنے پڑتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں انسان اپنی سب طاقتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لاتا اور آسمانوں اور زمین کی ہر شئے سے خدمت لیتا اور اسے خرچ کرتا ہے.انسان جب اپنی ساری کی ساری طاقتوں اور آسمانوں اور زمین کی ہر شے خرچ کر کے جنت کا سودا کرتا ہے تو جنت کی یہی قیمت ہوئی.یہ مراد ہے عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ سے.آٹھویں یہ کہ اس جنت کی اتنی بڑی قیمت ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے بہت طاقتیں دیں اور زمین و آسمان کو تمہاری خدمت پر بھی لگا دیا تمہیں یہ طاقت دی کہ تم ان سے خدمت لے سکو اور یہ جنت جس کی اتنی بڑی قیمت ہے تقویٰ کی راہوں پر عمل کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے.نویں خلاصہ یہ کہ جس جنت کے حصول پر تمہاری ساری ہی قوتیں ، تمہاری ساری ہی استعدادیں، تمہاری صلاحیتیں ایک طرف اور آسمانوں اور زمین سے تعلق رکھنے والی ہر شے اور ظاہری اور باطنی اور آسمانی اور زمینی ہر نعمت باری دوسری طرف خرچ ہوئی ہے اس عظیم جنت کے پانے کے لئے آگے بڑھو ( سَارِعُوا ) اور یہ ہے وہ عظیم جنت جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور جسے متقی مغفرت باری کے حصول کے بعد حاصل کریں گے اور پھر متقیوں کی کچھ بنیادی صفات بیان کیے گئے ہیں.دسویں ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ فراخی اور خوشحالی کی حالت میں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.جب اللہ تعالی مال دیتا ہے تو یہ منعم علیہ جنات کا علیحدہ رہنے والوں کا ، عوام سے بے تعلقی اختیار کرنے والوں کا ، ان کے مسائل سے بے توجہی برتنے والوں کا گروہ نہیں بن جاتے بلکہ جس وقت فراخی ہوتی ہے اور خوشحالی ان کے نصیب میں ہوتی ہے تو تکبر کی راہوں کو وہ اختیار نہیں کرتے بلکہ تکبر سے بچتے اور مستحقین سے غفلت نہیں برتتے بلکہ جو حق دار ہیں جو مستحق ہیں، جن کے حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں، جن سے اخوت کا رشتہ باندھا گیا ہے ان کے تمام حقوق خدا تعالیٰ کی منشا اور رضا کے مطابق وہ ادا کرنے والے ہیں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۴۲ خطبہ جمعہ ۱۷ راگست ۱۹۷۹ء گیارھویں فرمایا کہ ہمیشہ فراخی اور خوشحالی کی حالت ہر انسان کے لئے تو نہیں رہتی تنگی بھی ہے تکلیفوں کا زمانہ بھی ہے، قحط کے آثار بھی ظاہر ہو جاتے ہیں اور قحط کے آثار میں بھی.طبقات طبقات میں فرق پڑ جاتا ہے، غریب کے لئے زیادہ مشکلیں پیدا ہو جاتی ہیں.امیر کے لئے نسبتا کم مشکلیں، تو فرمایا کہ وہ تکلیفوں اور تنگی کی حالت میں اور قحط کے دنوں میں سخاوت سے تنگ دل نہیں ہو جاتے وہ اپنے مقدور کے مطابق سخاوت کرتے چلے جاتے ہیں اور مخلوق خدا کی خدمت کے ذریعہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کریم کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس موعودہ جنّت کا یہاں ذکر ہے اس کے حق دار بننے کے لئے وہ ایک جہاد کر رہے ہوتے ہیں.بارھویں یہاں یہ بات بتائی کہ یہ متقی وہ ہیں جو غصہ پی جاتے ہیں.غصہ ایک جذباتی کیفیت ہے، غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے.غصہ اور عقل سلیم ایک جا اکٹھے نہیں ہو سکتے ، غصہ کرنے والے ہمیشہ بے وقوفی کی باتیں کرتے اور احمقانہ اعمال بجالاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرما یا مومن غصہ نہیں کرتا.متقی غصہ پی جاتا ہے اس کے سب کام خدا کی رضا اور اس کی مخلوق کی بہبود کے لئے ہوتے ہیں.وہ غصے میں آکر لوگوں کے اوپر ظلم کے لئے تیار نہیں ہو جاتا.پھر تیرھویں یہ بتایا کہ متقی وہ ہیں جو یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملہ کو معاف کر دیتے ہیں.بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے.بڑا وقار ہے متقی میں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ بات یا درکھو کہ " قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقع بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.چودھویں بات ان آیات میں ( اگلی آیت شروع ہوگئی ہے ) یہ بتائی کہ ان متقیوں کے لئے یہ جنتیں بنائی گئی ہیں کہ جب وہ کسی بشری کمزوری کے نتیجہ میں بے حیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کو یاد کریں یعنی ”غلطی بشری کمزوری سے ہو ہی جاتی ہے لیکن 66
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۴۳ خطبہ جمعہ ۱۷ /اگست ۱۹۷۹ء اس کمزوری پر اصرار نہ کریں بلکہ جب گناہ سرزد ہو تو وہ فوراً تو بہ کریں.اگر بے حیائی کا ، فحشا کا کوئی فعل ان سے سرزد ہو جائے ، ماہ رمضان میں کو چہ بازار میں لڑ پڑیں کسی سے یا اپنے نفسوں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت برتیں یا دوسروں کے حقوق تلف کر کے اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اسی وقت تو بہ کریں اور خدا سے کہیں کہ اے خدا! میں نے غلطی کی.میں کمزور انسان ہوں تو مالک ہے مجھے سزا بھی دے سکتا ہے لیکن تو بڑا پیار کرنے والا ہے اور معاف کرنے والا بھی ہے میری استدعا ہے کہ تو میرے گناہوں کو معاف کر دے جو میری غلطی اور گناہ ہے اس کے بداثرات سے، اپنے قہر کے جہنم سے ، عذاب سے مجھے بچالے، مغفرت کی چادر کے اندر مجھے ڈھانپ لے.اور پھر پندرھویں بتایا کہ بے حیائی کا کام کرنے اور جانوں پر ظلم کرنے کے بعد اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے.جو حالت اصرار کی ہے وہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.ایک گناہ کرنا پھر اسی کو دوبارہ کرنا پھر اسی کو دوبارہ کرنا پھر اور دلیر ہو جانا، اگر کوئی توجہ بھی دلائے تو اس کے سامنے اکڑ جانا کہ تو بڑا متقی بنا ہوا ہے مجھے سمجھاتا ہے.سمجھانے والوں کو بھی چاہیے کہ علیحدگی میں سمجھا ئیں جہاں شیطان کے وار کی کوئی گنجائش نہ رہے.پس اس میں یہ بتا یا کہ متقی وہ ہیں جو اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے.بے حیائی ہو جاتی ہے، بشری کمزوری ہے.اپنی جانوں پر ظلم ہو جاتا ہے کمزور ہے انسان لیکن فورا سنبھلتا ہے، اپنی طاقت کی طرف رجوع نہیں کرتا ، اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور خدا کو کہتا ہے کہ اے خدا تو بخش سکتا ہے، تو مجھے بخش دے، تو مغفرت کی چادر کے نیچے مجھے ڈھانپ سکتا ہے تو مجھے ڈھانپ لے تجھی میں یہ طاقت ہے مجھ میں نہیں کہ میرے گناہ کے بداثرات جو ہیں ان سے میں محفوظ رہوں.اے خدا! تو مجھے میری بداعمالیوں ، میرے گناہوں کے بداثرات سے محفوظ رکھ.تو ان کا خدا انہیں بخش دے گا.لیکن یہ یا درکھنا چاہیے.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا چونکہ بخش دے گا اس واسطے جو مرضی کرتے جاؤ.خدا مالک ہے، وہ بخشتا بھی ہے مالک کی حیثیت سے اور مالک کی حیثیت سے وہ سزا بھی دیتا ہے.خدا مالک ہے چاہے سزا دے چاہے گناہ بخش دے.اس واسطے انسان کو گناہ پر دلیر نہیں ہونا چاہیے لیکن انسان سے انسانی کمزوری بشری کمزوری کے نتیجہ میں چھوٹی بڑی غفلتیں،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۴۴ خطبہ جمعہ ۱۷ /اگست ۱۹۷۹ء گناہ ، کوتاہیاں اور قصور ہو جاتے ہیں.انسان انسان میں فرق ہے.اس وقت انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اسی سے معافی مانگے اور بخشش طلب کرے اور اس کے پیار کو حاصل کرے.اس کے دامن کو پکڑے اور کہے کہ ہاتھ تو گندے ہیں اے میرے خدا! پر تیرے دامن کی پاکیزگی کو میرے گندے ہاتھ نا پاک نہیں کر سکتے.تیری پاکیزگی میرے ہاتھوں کو پاکیزہ بناسکتی ہے.مجھے پاک بنادے.سولہویں یہ بتایا کہ یہ متقی وہ لوگ ہیں جو اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کرنے والے، اپنی تمام طاقتوں کو خدا کے لئے پرورش کرنے والے اور خرچ کرنے والے اور زمین و آسمان کی نعمتوں کو پھر اس کے حضور پیش کر دینے والے اور اس کی تعلیم کے مطابق اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے ہیں.ان متقیوں کی جزا ان کے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت ہے اور چار باتیں یہاں بیان ہوئی ہیں.(() ان کے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت ایسے متقیوں کی جزا ہے.مغفرت کے معنی ہیں گناہ کو ڈھانپ لینا، گناہ کو معاف کردینا، گناہ کی اصلاح کر دینا، آئندہ کے لئے گناہ کے دروازے کو بند کر دینا اور عذاب سے محفوظ کر لینا ، حفاظت کرنا.عذاب جو ہے، عقلاً زمانہ کے لحاظ سے عذاب کے دو زمانے ہیں.انسانی زندگی میں عذاب کے دو زمانے ہیں.ایک جنت میں جانے سے پہلے کا زمانہ (عقلاً میں نے کہا ہے ) اور ایک جنت میں جانے کے بعد کا زمانہ.ابھی میں اس کو کھول کر بیان کر دوں گا آپ کے سامنے.جنت میں جانے سے پہلے کا زمانہ تو صاف ہے.مثلاً جہنم جو ہے حدیث میں آتا ہے کہ وہ ایک اصلاحی ادارہ ہے اور اس میں قہر کے سخت جلوے ہیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ایک سیکنڈ کا بھی خدا تعالیٰ کے قہر کا عذاب انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ برداشت کرے لیکن جن کو بھیجا جائے گا جہنم میں ان کو ہمیشہ کے لئے نہیں بھیجا جائے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک وقت جہنم پر ایسا آئے گا کہ اس کے دروازے کھلے ہوں گے تمثیلی زبان میں ہمیں سمجھانے کے لئے بات کی گئی کہ وہاں پہریدار ہیں ، دروازے ہیں، قفل لگے ہوئے ہیں کہ کوئی باہر نہ چلا جائے لیکن
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۴۵ خطبہ جمعہ ۱۷ /اگست ۱۹۷۹ء ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دروازے کھلے ہوں گے اور ہوا سے دروازے ہل رہے ہوں گے کیونکہ اندر کوئی ہوگا ہی نہیں ، سب نکل چکے ہوں گے.جنت میں چلے جائیں گے اپنی سزا بھگت کے اپنی اصلاح کے بعد، کوئی تھوڑے زمانہ کے بعد، کوئی لمبے زمانہ کے بعد.لیکن اس سے بھی کسی کے دماغ میں دلیری پیدا نہ ہو کیونکہ ایک کروڑ سال کے بعد.وہ جہنم سے نکل کے جنت میں گیا تو بے پرواہی کا کیا فائدہ جہنم تو وہ ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا یہ سوچنا کہ خدا تعالیٰ اسے جہنم میں ڈالے.اس کی تو یہی خواہش ، یہی دعا، یہی کوشش اور اسلام پر عمل کرنے کا یہی مقصود ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار ملے اور ان لوگوں میں شامل ہو جن کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے کہ ان کو جہنم میں جلنے والی آگ کی آواز بھی نہیں پہنچے گی ، اتنے محفوظ ہوں گے وہ جہنم کی ایڈا سے.یہ تو ہے جنت میں جانے سے پہلے کا عذاب.پھر معافی مل گئی ، پھر ایک گروہ نکل گیا ، پھر دوسر انکل گیا، یہاں تک کہ سارے نکل گئے.جنت میں جانے کے بعد کا عذاب عملاً ایسا نہیں ہوگا لیکن عقل ہمیں یہ کہتی ہے کہ اگر جنت کے قیام کے زمانے کا انحصار صرف انسان کی اپنی کوشش پر ہو کہ جتنی کسی انسان نے کوشش کی ، اعمالِ صالحہ بجالا یا ، اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی ، اپنی سی کوشش کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم رنگ بنا، سب کچھ کیا لیکن محدود زندگی میں، بڑی محدود زندگی میں ، بیس سال، تیس سال، پچاس سال ستر سال، اسّی سال کتنے سال ! کوئی زندگی ہے.اس محدود زندگی میں جتنے بھی کوئی زیادہ عمل کرلے، ابدی جنت کا وہ اپنے اعمال کے نتیجے میں وارث نہیں بنتا.اسی وجہ سے بعض مذاہب نے یہ کر دیا کہ اپنی کوششوں کے نتیجے میں جس جنت کا وہ مستحق بنا.جب وہ زمانہ استحقاق کا ختم ہوگا تو وہ پھر نئی جون میں آ جائے گا اور عمل کرے گا نئے اور پھر وہ ایک نیا دور شروع ہو جائے گا.پھر اس کے بعد وہ جہنم میں جائے گا یا جنت میں جائے گا یا جو بھی ہوگا.ان کے دماغ نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ ابدی جنت کے لئے محض انسانی کوشش کافی نہیں.تو یہ جو کہا گیا کہ عذاب سے بچا.مغفرت کے معنے ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم سے مغفرت کا سلوک کر ، مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے، اصلاح کر دے ہماری ، ایک تو ہم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۴۶ خطبہ جمعہ ۱۷ /اگست ۱۹۷۹ء یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ذرا بھی سزا نہ ملے یعنی جنت میں جانے سے پہلے جہنم میں ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہ جائیں.یہ ہے عذاب سے بچنا اور دوسرا عذاب سے بچنا یہ ہے کہ جب جنت میں چلے جائیں اور ہماری عقل کے مطابق جو ہمارا استحقاق ہے کہ اتنا عرصہ ہم رہیں جنّت میں مثلاً اگر ایک نیکی کی ایک ہو جزا تو ستر سالہ نیکیوں کا استحقاق بنتا ہے ستر سالہ جنتی زندگی.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ دس گنا تمہیں دے دوں گا تو سات سو سال بن گئے.یا اس سے بھی زیادہ اگر وہ چاہے.عذاب سے بچانے کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا تیری مغفرت جب تک شامل نہ ہو یعنی تیرا یہ فیصلہ نہ ہو کہ مجھے تو نے کبھی بھی جہنم کا مزہ نہیں چکھانا اور اس لئے باوجود میری کوشش کے اور استحقاق کے نہ ہونے کے تو مجھے ابدی جنت میں بھیج دے.میں اپنے اعمال کے زور پر جنت کا وارث نہیں بن سکتا اور عذاب سے بھی تیر افضل بچاتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے نتیجہ میں جنت میں نہیں جاسکتا.آپ کا مطلب یہی تھا کہ ابدی جنت میں ہمیشہ رہنے والی جنت میں کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے نہیں جاسکتا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی؟ آپ نے فرمایا میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ابدی جنت میں نہیں جا سکتا.یہ تو عقلی مونا اربعہ لگا لیں آپ.اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنتیوں میں سب سے بلند مقام رکھنے والے اور اس دنیا میں خدا کی نگاہ میں سب سے ارفع مقام رکھنے والے انسان ہیں.آپ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو ابدی جنّت مجھے نہیں مل سکتی.یہ ایک حقیقت ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر انداز نہیں کیا.میرے اور تمہارے جیسا انسان کیسے نظر انداز کر سکتا ہے.تو یہاں اس آیت میں بتایا کہ متقیوں کے لئے یہ مغفرت ہے کہ عذاب سے حفاظت خدا کہتا ہے نہ تمہیں جنت میں جانے سے پہلے میرا عذاب پہنچے گا نہ جنت میں جانے کے بعد میرا عذاب پہنچے گا.اس واسطے بہت سارے مذاہب کا بطلان یہاں ہو گیا کیونکہ مغفرت ان کا جواب ہے یعنی خدا تعالیٰ کی قوتِ مغفرت، اس کی صفت غفور جو ہے وہ ضامن ہے کہ انسان جنت میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۴۷ خطبہ جمعہ ۱۷/اگست ۱۹۷۹ء جائے تو پھر باہر نہ نکلے.(ب) اور یہاں یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے باغات ہیں جو ہمیشہ سرسبز رہنے والے اور ہمیشہ ہر آن ثمر آور رہنے والے ہیں.تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ اس کی تھوڑی سی تفسیر ایک وقت میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور باغات بھی ہمیشہ سرسبز اور ثمر آور یعنی اس کی افادیت پوری کی پوری ہمیشہ رہنے والی ہے خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے فضل کے ساتھ.( ج ) اور انسان کی جتنی زندگی بھی ابدی ہے وہ اس میں بستے چلے جائیں گے.( د ) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو متقی میرے احکام پر عمل کر کے میرے بتائے ہوئے طریقے پر اعمال صالحہ بجالائیں گے ان کے میں ( دوسری جگہ آتا ہے کہ میں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ بھی دوں گا اور پھر اور بھی دوں گا ، فضل دوں گا، مغفرت خدا کے فضل کو کھینچنے والی ہے، جذب کرنے والی ہے.سترھویں اس سے ہمیں پتا لگا کہ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِى أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ میں وَاتَّقُوا کے کیا معنی ہیں.یہ ساری تفصیل جو آئی ہے یہ واتقوا کی وضاحت کر رہی ہے اور اس کو بیان کر رہی ہے.ان ساری تفاصیل کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ تم اپنے ربّ کریم کا دامن پکڑو تو کبھی چھوڑو نہ، وفا کا تعلق پیدا کرو تو بے وفائی کبھی نہ کرو ، ثبات قدم رکھو، اور کامل تو کل اس پر رکھو، کامل بھروسہ اس پر رکھو اس کو سب طاقتوں کا مالک بھی سمجھو اور انتہائی طور پر پیار کرنے والا ، پوری جزا دینے والا بھی سمجھو.مغفرت میں ڈھانپ لینے والا اپنے فضل سے تھوڑے کئے پر ابدی جنت کا مستحق بنا دینے والا یقین کرو.بڑا ہی فضل کرتا ہے.وہ مالک ہے، قادر ہے جو چاہے کرے.فرما یا اور ست مت ہو.اس دنیا میں جو خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں ان کے اوپر تو اس دنیا کے حالات پیدا ہوئے ہیں نا.جب خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہو گیا ایک دفعہ ست مت ہو.جس کا مطلب ہے کہ اگر مخالف مقابلے پہ اتر آئے تو مقابلہ سے ہمت مت ہارو.شست مت ہو مقابلہ سے، ہمت مت ہارو اور غم مت کرو اور کچھ اندیشہ مت کرو.کچھ اندیشہ دل میں نہ لاؤ.انجام کار غلبہ اس دنیا میں بھی تم ہی کو ہو گا مگر شرط یہی ہے کہ جو تمہیں کہا گیا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کر کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۴۸ خطبہ جمعہ ۱۷ را گست ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنی حفاظت کرو، خدا تعالیٰ کے تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو اور اگر تم ایمان پر قائم رہو گے اور حقیقی اور واقعی مومن رہو گے تو تمہیں کوئی اندیشہ نہیں.آخر اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل رہے گی.اگر خدا تعالیٰ سے تمہارا تعلق پختہ اور حقیقی اور وفا اور ثبات قدم کا ہے اور اگر تم نے اس دامن کو پیار اور محبت اور ایثار سے پکڑا اور ایک لحظہ کے لئے بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تو ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل رہے گی.اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے کہ اس کے بغیر ہم اپنی ذمہ داری نہیں نباہ سکتے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کو ہر دل کے اندر قائم کیا جائے اور خدا تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا ہر سینہ میں گاڑ دیا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.(روز نامه الفضل ربوہ ۷ اکتوبر ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۴۹ خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۷۹ء عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور نعماء کے حصول کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۲۴/اگست ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سال رواں کے ماہِ رمضان کا یہ آخری جمعہ اور آخری روزہ ہے.رمضان آج ختم ہو رہا ہے لیکن رمضان کی ذمہ داریاں اور رمضان کی برکات ختم نہیں ہوتیں ماہِ رمضان کے خاتمہ پر بلکہ سارا سال چلتی ہیں.یہ ایک قسم کا ریفریشر کورس ہے یعنی عادت ڈالی جاتی ہے بہت سی عبادات کی اور اُمید رکھی جاتی ہے کہ ایک مومن بندہ سارے سال ان اسباق کو جو رمضان میں دیئے جاتے ہیں بھولے گا نہیں.انہیں یا در کھے گا اور ان پر عمل کرے گا.یہ ماہ جو ہے اس میں ایک ہمہ گیر اور ہمہ پہلو مجاہدہ کا نظارہ ہے.اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل ہو جائے.روزے ہیں، نوافل ہیں ، کثرت سے تلاوت قرآن کریم ہے، دعا ئیں کثرت سے مانگی جاتی ہیں اور کثرت سے دعا ئیں کرنے کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے.صدقہ و خیرات ہے.خدمت کے جذ بہ کو ابھارا جاتا اور قربانی اور ایثار پیدا کیا جاتا ہے اور اپنے نفس کی اور اپنے ماحول کی تربیت پر زور دیا جاتا ہے.مرکزی نقطہ ان تمام عبادات کا یہ ہے کہ اللہ راضی ہو جائے.اللہ مل جائے ، پھر کسی اور چیز کی ضرور ت نہیں رہتی ، نہ کسی اور ہستی کی ضرورت باقی رہتی ہے.اس کے لئے ثبات قدم چاہیے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵۰ خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۷۹ء سورۃ الرعد کی آیت ۲۳ میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی تاکید ہے کہ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ.....أوليك لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: (۲۳) اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثابت قدمی سے کام لیا انہی کے لئے اس گھر کا بہترین انجام مقدر ہے.تو جو اسباق دیئے گئے ، جو اخلاقی اور روحانی ورزشیں کروائی گئیں ماہ رمضان میں اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ انسان ثبات قدم سے عمل کرتا رہے ان پر.حالات کے مطابق شکل بدل جائے گی لیکن دل نہیں بدلے گا نہ نیتیں بدلیں گی.اس بنیادی سبق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت میں دو باتیں خدام کو دو انصار کو اور دو باتیں جماعت کو کہنا چاہتا ہوں.خدام کو میں یہ دو باتیں کہنا چاہتا ہوں کہ اوّل کہ عاجزانہ دعائیں سارا سال ہی کرتے رہو.خدا کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ جیسے رمضان میں تم یا تم میں سے اکثر جھکتے رہے.اللہ کے دامن کو سارا سال ہی تھامے رہنا چھوڑ نا مت.ہر خیر اس سے مانگو اور خدا کرے کہ ہر خیر اس سے پاؤ اور دوسرے یہ کہ تم خادم ہو اس اُمت کے جس کے متعلق کہا گیا اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ نوع انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے اس اُمت کا وہ حصہ ہو جس کے ذمہ عملاً خدمت کی ذمہ داری ہے.تمہارا کام ہے خدمت اور یہ بہت سے پہلو اپنے اندر رکھتا ہے.کسی پہلو کو نظر انداز نہ کرو.تمہاری خدمت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کسی کو بھی دکھ میں دیکھ کر دکھ میں رہنے نہیں دو گے جب کسی کو دکھ میں پاؤ گے اس کے دکھ کو دور کرنے کی کوشش کرو گے.اس کی کئی شکلیں ہیں مثلاً ایک گھرانہ ایسا ہے جس کے حالات اس قسم کے ہو گئے عارضی طور پر یا ایک لمبا عرصہ کے لئے عارضی طور پر اس طرح کہ مثلاً بعض دنوں میں بعض بیماریاں وبائی شکل میں آتی ہیں ملیریا ہی آجاتا ہے سارا گھر ملیریا میں پڑا ہوا ہے.دوالا نے والا کوئی نہیں.ان کا سودا سلف لانے والا کوئی نہیں.دوسری خدمت ان کا کرنے والا کوئی نہیں تو تم ان کی دوالا ؤ ان کا سودا سلف لاؤ.گھر کے اندر کے کام ہیں.اپنی بہنوں کو ساتھ لے جاؤ جو وہاں ان کے کام کریں.ان کی اس تکلیف میں جب بیماری انہیں مجبور کرتی ہے، دکھ اٹھانے پر ، ان کے دکھ کو ان کی مددکر کے دور کرو، تمہاری خدمت کی ایک شکل تمہارے پروگرام میں یہ بنی کہ اپنی گلیوں اور سڑکوں کو صاف رکھو اور جو دکھ
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۵۱ خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۷۹ء انسان کو سڑکوں کی گندگی کے نتیجہ میں یا اس لئے کہ ان کو Maintain نہیں رکھا گیا، پہنچ سکتا ہے.اس دکھ سے تم انہیں بچاؤ.وقار عمل کرتے ہو تم.آم کے موسم میں لوگ غلطی سے چھلکے اور گٹھلیاں باہر پھینک دیتے ہیں.بعض دفعہ گٹھلیاں دکانوں کے سامنے پڑی ہوتی ہیں اس کا خیال رکھو کیونکہ ایک شخص بھی اگر کسی آم کی گٹھلی یا چھلکے پر پھسلتا ہے تو خدام الاحمد یہ اس مقام کی اس شہر کی اور یہاں ربوہ کی ، ذمہ دار ہے کہ وہ دکھ سے بچا سکتی تھی اپنے بھائی کو اور انہوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.پھر گرمی کی پریشانی ہے.رمضان سے پہلے سارا دن خدام کام کرتے رہے ہیں بعض مقامات پراڈے وغیرہ پر.پیاس کی شدت گرمی کی وجہ سے تکلیف کا احساس پیدا کرتی ہے اس دکھ کو ٹھنڈے پانی سے دور کیا جاتا ہے ان کو وہ پلاؤ.قطع نظر اس کے کہ جس کی تم خدمت کر رہے ہو اور جس کا دکھ تم دور کر رہے ہو وہ کسی عقیدہ، کس مذہب، کس قوم اور کس رنگت کا ہے اپنے خدمت کے پروگرام کو اس کی ساری وسعتوں کے ساتھ پوری طرح چوکس اور بیدار رہ کر ادا کرو.انصار کو میں جو دو باتیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ عاجزانہ دعاؤں سے اپنے رب کو راضی کرو اور تمہارا اصل کام تربیت کا ہے اس کی طرف پوری توجہ دو تا کہ آنے والی نسلیں آنے والی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نباہنے والی ہوں.یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے.اپنے بچوں اور لواحقین (Dependents) سے اور پھر ماحول کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے.گھر سے گاؤں ، گاؤں سے علاقہ ، علاقہ سے ملک ، ملک سے نکل کے جب بنی نوع انسان کو اپنے احاطہ میں لے لیتی ہے.آپ پر پہلی ذمہ داری ہے دعائیں کرنا.وہ دعائیں ہر ایک کے کام کے لحاظ سے اور ہر ایک کے ماحول کے لحاظ سے اور عمر کے لحاظ سے مختلف ہو جاتی ہیں ایک خادم کی دعا کا بڑا حصہ یہ ہے.رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵) ابھی وہ سیکھ رہا ہے.علم دین بھی سیکھ رہا ہے، علم اخلاقیات بھی سیکھ رہا ہے، علم روحانیات بھی سیکھ رہا ہے، وہ خدا سے کہے کہ اے خدا! تو نے مجھ پر خدمت کی ذمہ داری ڈالی لیکن اس کے لئے جن علوم کی مجھے ضرورت ہے کہ مجھے اخلاق کے سارے پہلو معلوم ہوں روحانیت میرے اندر پیدا ہو، مجھے یہ معلوم ہو کہ میں اپنے جسموں کی اور دوسروں کے جسموں کی صحیح نشوونما اور تربیت کیسے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵۲ خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۷۹ء کر سکتا ہوں ، کس رنگ میں ان کی خدمت بجالا سکتا ہوں.یہ دعائیں ہیں خدام کی جو بڑے ہیں ان کی یہ دعا ہے کہ اے خدا ہماری ذریت کو اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو اپنا بندہ بنا.ان کے دلوں میں اپنا پیار پیدا کر.ہمارے لئے قرۃ العین ہوں وہ ہماری بدنامی کا باعث نہ بنیں.لوگ یہ نہ کہیں کہ خود تو انہوں نے دینی میدان میں ظاہری رنگ میں ( باقی دلوں کا حال تو اللہ بہتر جانتا ہے ) بہت بلند مقام حاصل کئے لیکن ان کے بچے خراب ہو گئے.آنے والی نسلیں آباء کے مقام سے گر گئیں.یہ دعائیں ہیں ان کی اور تربیت کی ذمہ داری دعاؤں کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھتی ہے.جس طرح خدام کے لئے خدمت کی ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ.دعا اور خدمت“ پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں.انصار کے لئے تربیت کی ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ دعا اور تربیت پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں.اور جماعت کو جو دو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں.ایک تو یہ کہ عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے رب کریم کی رضا اور اس کی نعماء کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.دعاؤں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نباہنے کے قابل بننے کی کوشش کرو کہ ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور نور کو متعارف کروانے کی ذمہ داری تم پر ہے اور دعاؤں کے ساتھ خدا سے یہ نعمت حاصل کرو کہ تم واقع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو سکتے ہو خدا کی نگاہ میں یعنی اس طور سے نقش قدم پر چلنے والے ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کا صحیح معنی میں اور حقیقی رنگ میں دوسروں کے لئے اُسوہ بن جاؤا اور تمہاری زندگیوں کو دیکھ کر اور تمہارے اعمال کو دیکھ کر تمہارے اُسوہ کے حسن کے گرویدہ ہو کر وہ جو ابھی تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ کے نیچے نہیں آئے وہ اس طرف کھچے آئیں.جذب ہو تمہارے اندر.اپنے لئے نہیں چونکہ تمہارا مقام تو نیستی کا مقام ہے ہر دو پہلو سے (۱) اس لئے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ا کے مقابلے میں تمہارا مقام نیستی کا ہے اور (۲) اللہ تعالیٰ کے مقابل تمہارا مقام نیستی ہے.وہ عظیم ہستی جس کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اور فنافی اللہ ہو کر نیستی کا مقام حاصل کیا.جس مقام پر دنیا فخر کرتی آئی ہے اور فخر کرتی چلی جائے گی.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵۳ خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۷۹ء 9966 تو کبر اور غرور نہیں بلکہ ”خدمت عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ تربیت کی توفیق پانا‘ خدام وانصار کا اور اتنی بڑی ذمہ داری! اتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے تم پر کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جب آدمی سوچتا ہے کہ ذمہ داری کتنی بڑی ہے اور طاقت کس قدر تھوڑی.یہی سمجھ آتا ہے کہ خدا سے دعا مانگ کر جتنا زیادہ سے زیادہ انسان کر سکتا ہو کر دے اور باقی ( جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم اپنی سی کر لو گے تو کمی کو میں پورا کر دوں گا ).انسان دعا کرے کہ اے خدا! میری کوشش کو خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو ایسا بنا دے کہ قبول ہونے کے لائق ہو تیرے حضور.اور جب خدا قبول کر لیتا ہے انسان کی کوشش کو تو خامیاں دور کر دیتا ہے اور نتائج پورے نکال دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے خدام کو اپنی ذمہ داریاں ، انصار کو اپنی ذمہ داریاں اور جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس کے نتیجے میں اس نے جو نعماء کے وعدے اور بشارتیں دی ہیں وہ ہماری نسلوں میں ہماری زندگیوں میں اور آنے والی نسلوں کی زندگیوں میں پوری ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ /اکتوبر ۱۹۷۹ ء صفحه ۳،۲)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵۵ خطبه جمعه ۳۱/اگست ۱۹۷۹ء بڑا جہاد قرآن کی تعلیم اور اس کی عظمتوں کو دنیا میں پھیلانا ہے خطبه جمعه فرموده ۳۱ راگست ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضور ایدہ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۰۴ تا ۲۰۹ اور ۲۱۹ کی نہایت روح پرورانداز میں تشریح فرماتے ہوئے احباب جماعت کو نصیحت کی کہ وہ انسانوں کے اس گروہ میں شامل ہو جائیں جس کا ذکر آیت ۲۰۸ میں کیا گیا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان کو بیچ ہی ڈالتے ہیں.یہ لوگ ہمیشہ خدمت مخلوق میں لگے رہتے ہیں اور خدا نے انہیں جو بڑی وسیع قو تیں عطا کی ہیں ان کا صحیح استعمال کر کے ان کا ارادہ خدا کے ارادہ سے ہمرنگ ہو جاتا ہے اور ان کی تمام لذات خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہو جاتی ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے کانوں میں خدا کی یہ آواز پڑتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.جبکہ آیات ۲۰۵ تا ۲۰۷ میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے سارے اعمال محض ظاہر داری اور زبانی باتوں پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کی ساری دوڑ دھوپ محض دنیا میں مادی اور ذاتی فائدے حاصل کرنے تک ہوتی ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت ۲۰۸ میں ذکر کردہ گروہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آیت ۲۱۹ کا ذکر کیا جس میں خدا کے ایسے بندوں کا ذکر ہے جو کہ ایمان لانے کے بعد خدا کی راہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۵۶ خطبه جمعه ۳۱/اگست ۱۹۷۹ء میں ہجرت اور جہاد کرتے ہیں اور خدا کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ہجرت کے معنی وطن سے، عزیزوں سے اور نفس کی بڑی اور بلکہ اچھی خواہشات سے بھی جدائی اختیار کرنا ہے.اس کے علاوہ ایک بہت بڑا جہاد قرآن کی تعلیم اور اس کے عظمتوں کو دنیا میں پھیلانا ہے اور جہاد کا تیسرا مطلب دشمن کے حملہ کے وقت خود حفاظتی میں تلوار اٹھانا ہے.حضور نے فرما یا کہ جہاں پر قرآن میں کھل کر جہاد کا مطلب واضح نہیں کیا گیا وہاں پر تینوں قسم کا جہاد مراد ہے جس کے نتیجے میں بالآ خر خدا کی رحیمیت کا فیضان ملتا ہے.حضور نے آخر میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور توفیق دے کہ ہم اس کے حضور بہترین استعداد سے بہترین چیز پیش کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ اسے قبول کر لے اور ہم کو اُخروی جنتوں کا وارث بنائے.آمین روزنامه الفضل ربوه مورخہ یکم ستمبر ۱۹۷۹ ء صفحه او۸) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵۷ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء قرآن کریم حق و راستی پر مشتمل اور شبہات سے بالا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ رستمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کوئی چار روز ہوئے مجھ پر انفلوائنزا کا بڑا سخت حملہ ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے فضل کیا جلد آرام آ گیا.نسبتاً اس کا زور ٹوٹ گیا لیکن دواثر پیچھے چھوڑ گیا.ایک تو ضعف کی شکایت اور دوسرے بلغم سینے اور گلے میں ابھی تک کچھ ہے.مضمون جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں آج وہ کوشش تو کروں گا اپنی طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر کروں گا مگر آدمی جب بولتا ہے تو بہت مختصر بھی ہو سکتا ہے کچھ لمبا بھی ہو سکتا ہے بہر حال اللہ تعالیٰ مجھے کہنے اور آپ کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل حق لے کر آئے.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت الحق ہے یعنی کامل سچائی اور تمام خوبیوں کا مجموعہ.میں نے غور کیا اس کو ہم اپنی زبان میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتے یعنی کوئی چیز بھی اس کی ذات اور صفات میں ایسی نظر نہیں آتی جو کسی قسم کا شبہ پیدا کرنے والی ہو جو حق سے دور ہو.صاف سیدھے اس کے جلوے دنیا پر ظاہر ہوتے ہیں.ہماری پہنچ سے اوپر عرش پر پورے حق کے ساتھ وہ ذات قائم ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس اللہ جو الْحَقِّ ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۵۸ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء کے مظہر اتم ہیں.اس صفت میں بھی اور جو کلام آپ لے کر آئے قرآن عظیم کی شکل میں وہ بھی الحق ہے.اسی واسطے اس کا نام فرقان بھی رکھا گیا یعنی ایک ایسی تعلیم جو حق اور باطل میں فرق کرنے والی ہے، فرقان ہے.قرآن عظیم چونکہ ہر پہلو سے حق و راستی پر مشتمل اور ہر قسم کے شبہات اور شکوک اور ظنون سے بالا اور کھلی ہوئی کتاب ہے جس میں کوئی دھوکا اور فریب نہیں اور اپنے وعدوں میں ہر پہلو سے سچی ہے.قرآن کریم کے وعدے الْحَق اللہ تعالیٰ کی ذات سے نکلتے ہیں اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے تو اللہ حق ہے اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے ایک عظیم ہستی ہے جس کی صفات تک ہمارے تصور ہمارے خیالات ہمارا ذہن ہماری فراست پہنچ نہیں سکتی.بڑی عظمتوں والا عرش عظیم پر قائم ہے.اس کی صفات کے مظہر بہت پیدا ہوئے لیکن مظہر ا تم بنی نوع انسان میں ایک ہی پیدا ہوا اور وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اب جہاں اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کے مظہر اتم ہیں.اَلْحَق کی صفت کے بھی مظہر اتم ہیں.آپ کی ساری زندگی آپ کا ہر قول اور ہر فعل اس کی شہادت دیتا ہے جس کی تفصیل میں اس وقت میں جانہیں سکتا.جو تعلیم آپ لے کر آئے وہ کامل صداقت اور راستی اور شکوک وشبہات سے پاک اور مطہر اور شکوک وشبہات کو دور کرنے والی اور باطل کو مٹانے والی اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے والی اور سچائی کو قائم کرنے والی اس لئے پہلے دن سے ہی اس تعلیم کی مخالفت ہوئی اور بڑی ہی مخالفت ہوئی اور ہوتی چلی گئی مخالفت اور ہو رہی ہے آج تک.وقت آنے والا ہے جب یہ مخالفت قریباً مٹ جائے گی اور نوع انسانی اپنے محسن اعظم کو پہچانے گی اور فرقان کی عظمت کو شناخت کرے گی اور فرقان عظیم، یہ قرآن انہیں بتائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے تمیز ایک پیدا کر دی جائے گی.ہم انہی ایام کے لئے زندہ اور کوشاں ہیں.پہلے دن سے جو مخالفت شروع ہوئی اور بڑی عظیم مخالفتیں ہوئیں قریش مکہ نے مخالفت کی.مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا.عرب نے کی ، کوئی کمی نہ چھوڑی، یہود اور نصاری نے کی اور سب سے آگے نکل گئے.اس ساری مخالفت کے دو بنیادی نقطے ہمیں نظر آتے ہیں.ایک جھوٹ اور ایک ظلم.ان دو نقطوں کے گرد اسلام کی ساری مخالفت چل رہی ہے اور ان سے ایک معجون مرکب بھی بنتی ہے یعنی ظلما و زُورًا کی شکل میں جس کا قرآن
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۵۹ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء کریم نے ذکر کیا ہے.اس قدر جھوٹ بولا انہوں نے کہ حد کر دی.جنہیں موقع نہیں ملا ان کی کتب پڑھنے کا ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا بہت کچھ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتانے کے لئے کہا کہ آپ نے اس زمانہ میں جب ابھی کتا بیں عام نہیں ہوئی تھیں.کئی ہزار جھوٹے اعتراض اسلام کے اوپر عیسائیوں کی کتب سے جمع کئے اور آپ نے جو جمع کئے ان کے بھی اور جو دنیا کی فضا میں اسلام کے خلاف اور اسلام کے اللہ کے خلاف اور اللہ کے محمد کے خلاف جھوٹ بولا جا رہا تھا اس کے بھی جواب دیئے.اس جھوٹ کو جھوٹ ثابت کیا اور پھر جو حقیقت تھی اللہ الحق کے متعلق اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم مَظْهَرُ أَتَمِّ الْحَقِّ کے جو تھے ان کے متعلق اور اسلام کی عظمت اور شان اور اس کی حقیقت اور صداقت کے متعلق وہ اپنی کتب میں کھول کر بیان کر دی اس رنگ میں کہ قیامت تک اب ہم اسلام دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں انہوں نے ظلم کئے.ظلم کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا ظلم ہوتا ہے مال لوٹ کر ، مسلمانوں کے مال لوٹ لئے ظلم ہوتا ہے جانیں لے کر ، جس وقت یہ کالونیز (Colonies) انہوں نے بنائیں اس وقت جانیں لے لیں.ظلم ہوتا ہے فریب سے ، اسلام جیسی عظیم تعلیم اور ایک انمول موتی سے فریب کے ذریعہ محروم کرنے کا ظلم بھی انہوں نے کیا.افریقہ میں ان کی جو تبلیغ تھی اس کا بڑا حصہ یہ تھا کہ مخلص دل والے باپوں کے بچے اگر عیسائی سکولوں میں داخل ہوئے تو تبلیغ کئے بغیر، انجیل کی تعلیم بنائے بغیر اسلام کے او پر اعتراض کئے بغیر پہلے دن ان کے نام بدل کے عیسائی نام رکھ دیئے.محمد نام کا بچہ داخل ہوا تھا اور پہلے دن رجسٹر میں ایم پیٹر رکھا گیا اس کا اور اس قسم کے آہستہ آہستہ اس کے دماغ کے اوپر اثر ڈالے کہ جب وہ سکول سے نکلا تو اس کو یہ بھول گیا کہ ایم کس لفظ کا مخفف ہے.اس کو یہ یاد رہا کہ میں پیٹرا ایک عیسائی ہوں کوئی ایسا پہلو ظلم کا آپ سوچ نہیں سکتے ، کوئی ایسا پہلو ظلم کا تاریخ نے ریکارڈ نہیں کیا جو مسلمان کے خلاف وہ ظلم مسلمان کے دشمنوں نے نہ کیا ہو تو جھوٹ اور ظلم کے گرد ساری اسلام کی مخالفت گھومی.قرآن کریم نے ان باتوں کو لیا اور بیان کیا ہے.لمبا مضمون ہے بیبیوں آیات میں مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے.میں نے چند ایک ان میں سے لی ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء چند پہلو یہ ہیں ان پر روشنی پڑ جائے گی.سورہ بقرہ کی ۱۲۰ ویں آیت میں ہے.إنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ ہم نے تجھے یقینا حق اور راستی کے ساتھ بھیجا ہے.سورۃ الِ عمران ط کی آیت ۱۰۹ میں ہے.تِلْكَ ايْتُ اللهِ تَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَ مَا اللهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَلَمِینَ یہ اللہ کی آیات ہیں جو حق پر مشتمل ہیں اور جنہیں ہم تجھے پڑھ کر سناتے ہیں اور اللہ تمام جہانوں پر کسی قسم کا ظلم کرنا نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے ( یہ اس کی تفسیر ہے کہ ) اس کے بندے ظلم کریں.اس کی تعلیم کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں جو ظالمانہ ہو کوئی ایسا حکم نہیں جو کسی کے حقوق کو تلف کرنے والا اور ظلم کو برداشت کرنے والا ہو.ان آیات میں دونوں باتوں کا ذکر آ گیا.ایک تو راستی کا.جھوٹ ناراستی ،فریب ، دھوکا اور کذب کی کوئی آمیزش اسلامی تعلیم میں نہیں پائی جاتی اور دوسرے یہ بات آگئی کہ اسلامی تعلیم ہر قسم کے ظلم کی جڑ کو کاٹنے والی ہے.وَمَا اللهُ يُرِيدُ ظلما للعلمین اور یہ تعلیم اس ظلم کی جڑ کو ہی نہیں کاٹتی جو صرف انسانوں سے تعلق رکھتا ہو بلکہ اس ظلم کی جڑ کو بھی کاٹ رہی ہے جو عالمین سے یعنی ہر دو جہان سے تعلق رکھنے والا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ اسلامی تعلیم میں ہر چیز کے حقوق متعین کئے گئے ہیں اور ان کی حفاظت کا سامان کیا گیا ہے.اسلامی تعلیم کامل صداقت اور راستی اور ہر قسم کے ظلم سے محفوظ اور ہر قسم کے ظلم کو خواہ انسانوں پر ظلم کا سوال ہو یا غیر انسان پر ظلم کا سوال ہو رو کنے والی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَقَدْ جَاء و ظُلْمًا وَزُورًا (الفرقان : ۵) یہ ایک آیت کا آخری حصہ ہے اس سے پہلے ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور فرقانِ عظیم کا یہ انکار ظلم کی راہوں کو اختیار کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور وہ جھوٹ اور باطل کے رستے پر چلتے ہیں اس انکار کے نتیجے میں جیسا کہ میں نے بتایا اسلام کی مخالفت شروع دن سے ہی ان دو بنیادی نقطوں کے گرد گھومی.اسلام نے مدافعت کی لیکن ظلم نہیں کیا.اسلام نے اپنی تعلیم کو پھیلا یا لیکن سچی اور کھری بات کر کے پیار اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۶۱ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء محبت کے ساتھ نوع انسانی کے دل جیتے.اس کے مقابلے میں ظلم بھی کیا گیا اور جھوٹ بھی بولا گیا اور فریب سے بھی کام لیا گیا اور دھوکہ دہی بھی کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ اللہ تعالیٰ ظالموں کو اپنی رضا پیار اور محبت سے محروم کر دیتا ہے.اس لحاظ سے بنی نوع انسان کے دو گروہ بن گئے.ایک حقیقی مسلمان جو نہ جھوٹ بولتا ہے نہ ظلم کرتا ہے ایک مخالف اسلام جس کی تمام مخالفانہ کوششیں ظلم اور جھوٹ کے گرد گھومنے والی ہیں تو ان کو کہا دیکھو سمجھ سے کام لو اللہ تعالیٰ ظالموں کو اپنی رضا ، اپنے پیار اور محبت سے محروم کر دیتا ہے.یہ الِ عمران: ۱۴۱.پھرسورۃ مائدة : ۵۲ میں فرماتا ہے کہ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِین کا میابی ظالموں کے نصیب میں نہیں ہوتی.وقتی طور پر عارضی رنگ میں دنیوی لحاظ سے بعض دفعہ کا میابی نظر آتی ہے لیکن وہ دیر پا نہیں ہوتی.وہ حقیقی نہیں ہوتی وہ حقیقی خوشیوں کا باعث نہیں بنتی.وہ دکھوں کو دور کرنے والی نہیں ہوتی.وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی نہیں ہوتی.جس پر تمام خوشیوں کا مدار ہے.پھر سوره انعام آیت ۵۹ میں فرمایا.واللهُ اَعْلَمُ بِالظَّلِمِينَ اللہ تعالیٰ ظالموں کی ظالمانہ کرتوتوں سے خوب واقف ہے اور اگر وہ سمجھیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی گرفت اور اس کے قہر سے محفوظ ہیں تو ظلم کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ ایک دن خدا تعالیٰ کا دست قہران کی گردن کو پکڑے گا اور سزا دے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ کہف میں.وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيدُ حِضُّوا بِهِ الْحَقِّ وَاتَّخَذُوا أَيْتِي وَمَا أَنْذِرُوا هُرُوا (الکھف: ۵۷) اور جن لوگوں نے انکار کیا اور کفر کی راہوں کو اختیار کیا اور اسلام کی مخالف سرگرمیوں میں پڑ گئے وہ جھوٹ کے ذریعہ سے جھگڑتے ہیں.جھوٹ کے ذریعہ سے اس لئے جھگڑتے ہیں کہ جو حق ہے اس کو مٹا دیں.یعنی ان کی ساری کوششیں جھوٹ کے گرد، ظلم کے گرد گھومتی ہیں اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ان کی مفتر یا نہ تقریریں اور تحریریں اور بیان سچ کو مٹادیں گے اور وہ میرے نشانوں سے استہزاء کرتے ہیں اور میرے انذار کو بھول گئے ہیں اور ہنسی کا نشانہ انہوں نے بنالیا ہے اسے حالانکہ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح متنبہ کر دیا تھا کہ دیکھو اگر تم حقیقی خوشیاں حاصل کرنا چاہتے ہو اور اس ورلی زندگی میں بھی ایک جنت کا معاشرہ قائم کرنا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۶۲ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء چاہتے ہو تو تمہیں جھوٹ چھوڑ کے راستی کی راہوں کو اختیار کرنا پڑے گا اور تمہیں ظلم سے اجتناب کرتے ہوئے حق وانصاف کے طریقے استعمال کرنے ہوں گے لیکن وہ حق وصداقت کے مقابلہ کو ہنسی کھیل سمجھتے ہیں اور خدائے قہار کے اندار کی وہ پرواہ نہیں کرتے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَّابُ (المؤمن :۲۹) جو حد سے بڑھ جائے اور بہت جھوٹ بولنے لگ جائے وہ کامیابی کی راہیں نہیں پاتا کامیاب نہیں ہوتا.عربی کے محاورہ میں کذاب کے یہ معنی نہیں کہ بڑے جھوٹ بولنے والے پر خدا کی گرفت آئے گی اور چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولنے والوں کو خدا تعالیٰ نے کھلی چھٹی دے دی بلکہ عربی محاورہ میں کذاب یا اس صیغے میں جو الفاظ آتے ہیں اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نہ بڑے جھوٹ کو بغیر گرفت کے چھوڑے گا نہ کسی چھوٹے سے چھوٹے جھوٹ کو بغیر گرفت کے چھوڑے گا.اگر تم سچ کے مقابلہ میں جھوٹ کی راہوں کو اختیار کرو گے تو خواہ وہ چھ لین (Lane) والی بڑی بڑی تمہاری آٹو باہن Auto Bahn) ہوں جھوٹ کی یاوہ پگڈنڈیاں ہوں خدا تعالیٰ کی گرفت کے نیچے آؤ گے تم اور کبھی تم کامیاب نہیں ہو سکتے اپنی کوششوں میں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَد مَنْه فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ (الانبیاء : ۱۹ ) حق کو باطل پر اٹھا مارتے ہیں اور وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ باطل فوراً ہی بھاگ جاتا ہے.بات یہ ہے کہ جھوٹ میں فی نفسہ نا کامی کا خمیر ہے اور صداقت اور حق کے اندر فی نفسہ کامیابی اور فوقیت حاصل کرنے کی صفت پائی جاتی ہے.اسی لئے فرمایا:.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرآءيل: ۸۲) سب لوگوں سے کہہ دے کہ قرآن عظیم جو فرقان کی حیثیت رکھتا ہے وہ آ گیا ، حق آ گیا قرآن کریم کی شکل میں فرقان عظیم کی شکل میں اور اب باطل کے لئے سوائے بھاگ جانے کے اور کوئی راستہ نہیں.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل کی بنیادی صفت بھا گنا ہی ہے وہ حق کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا.تو یہ جو جنگ ہے حق اور باطل کی ، راستی اور ناراستی کی ، سچ اور جھوٹ کی ظلم اور عدل اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۶۳ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء انصاف کی اس میں الہی منشا اور قانون کے مطابق حق نے جیتنا ہے آخر کار جھوٹ اور ظلم نے پسپا ہونا ہے آخر کا رلیکن مخالفت ہو رہی ہے.اسلام مختلف ادوار میں سے گذرتا ہوا ترقی کرتا چلا جارہا ہے اور اب الہی منشا کے مطابق هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف:۱۰) تمام ادیان باطلہ پر یہ بنیادی حقیقت کائنات کہ اللهُ الْحَق اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم الحق کے مظہر اتم حق اور آپ کی تعلیم حق و صداقت پیش کرنے والی ایک عظیم تعلیم ہے.دنیا اسے پہچانے گی ، دنیا اس سے فائدہ اٹھانے پر مجبور ہو جائے گی اپنی ناکامیوں کے بعد اور جیسا کہ یہ خوشخبری دی گئی ہے جو نہ ماننے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ استثنائی طور پر چند لوگ ایک فیصد یا اس سے بھی کم فیصد رہ جائیں گے.ایک نمونہ انسان کو بتانے کے لئے کہ اسلام سے پرے ہٹ کر یہ شکل بن جاتی ہے کہ نہ ماننے والے چوڑھے چماروں کی طرح رہ جاتے ہیں.یہ تو دن آنے والا ہے لیکن جماعت کو یہ یا د رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے ہمیں پہلے کہہ دیا تھا کہ ان کی زبانوں سے تمہیں بڑی ایذا والی باتیں سنی پڑیں گی.قرآن کریم نے کہا تھا کہ حق و باطل کی اس جنگ میں تمہیں صبر کرنا پڑے گا صبر کرو.قرآن کریم نے کہا تھا کہ حق و باطل کے اس مقابلہ میں دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تمہیں حاصل کرنی ہوگی اس کے حضور عاجزانہ جھکو اس سے دعائیں مانگو اس کی مدد طلب کرو اس سے کہو کہ اے خدا! تیری راہ میں پہلوں نے بھی قربانیاں دیں، ہم ان سے پیچھے نہیں رہیں گے انشاء اللہ اور لیکن جس طرح تیری رحمتیں پہلوں پر نازل ہوئیں اس طرح ہم پر بھی تیری رحمتیں نازل ہوں.ہم اپنی طاقت اور قوت سے ثبات قدم نہیں پیش کر سکتے تیرے حضور تو فرشتوں کی مدد نازل کرتا کہ ہمیں ثبات قدم حاصل ہو، ہمیں استقامت ملے صراط مستقیم پر (جس کو میں اب اس زمانہ کے لحاظ سے شاہراہ غلبہ اسلام کہتا ہوں ) آگے سے آگے چلنے کی توفیق دے اور جلد ہی وہ دن آئے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ اسلام کی تعلیم اپنے بحسن و احسان کی وجہ سے نوع انسانی کے دل جیت کر تمام دنیا میں غالب آجائے اور لوگ محبت اور پیار کے مقابلہ میں تلوار اور ایٹم بم کو کوئی چیز نہ سمجھنے لگیں اور وہ یہ سمجھ جائیں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے پیار اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۶۴ خطبہ جمعہ ۷ استمبر ۱۹۷۹ء محبت کے آگے.پیار میں اتنی طاقت خدا نے رکھی ہے اور حسن کے اندر اتنی تاثیر رکھی ہے اور احسان میں قوت جذب اس قدر ہے کہ ہمیشہ یہ کامیاب ہوتے ہیں نا کام نہیں ہوا کرتے مگر اس کے لئے خلوص اور نیک نیتی اور ایثار اور اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت اور اس سے دعائیں مانگنا اور اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اور تکبر نہ کر نا شیطان کی طرح بلکہ عاجزانہ راہوں کو ایک لحظہ کے لئے بھی نہ چھوڑ نا اور اپنے نفس کو خدا کے مقابلہ میں اور دین خدا کے مقابلہ میں ایک مرے ہوئے مچھر کی حیثیت بھی نہ دینا ضروری ہے.عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو اور دعائیں کرو اور صبر سے کام لو.ہونہیں سکتا کہ تم خدا کے ہو جاؤ اور خدا تمہیں لاوارث چھوڑ دے اور تم نا کام ہو.کامیابی اور فتح تمہاری ہے.ذمہ داریاں تم نے ادا کرنی ہیں.ذمہ داریوں کو ادا کرو.خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر چلو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حاصل کرو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۰ / جولائی ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۶۵ خطبہ جمعہ ۱۴ ستمبر ۱۹۷۹ء مسلمان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ موحد اور مسلمان ہو خطبه جمعه فرموده ۱۴ رستمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ کئی دفعہ دو ایک سال ہوئے مجھے Heat Stroke کو لگنے کا عارضہ ہو چکا ہے اور جسے اس طرح گرمی بیماری کی شکل پیدا کر دے وہ گرمی سے ہمیشہ ہی تکلیف اٹھاتا ہے.گرمی بیماری بن جاتی ہے.آج بھی بجلی ہم سے روٹھی ہوئی ہے اور گرمی بھی ہے میں مختصراً آپ سے کچھ کہوں گا.جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگلے ماہ اُنیس ، ہیں ، اکیس کو خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہو رہا ہے اور اس سے ایک ہفتہ بعد انصار اللہ کے اجتماع کی تاریخیں مقرر ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح خیر رکھے اور خیر سے یہ اجتماعات منعقد ہوں.پہلے بھی میں نے توجہ دلائی ہے ذکر کے ماتحت.اس وقت بھی میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خدام الاحمدیہ کی عمر کی نمائندگی ہر جماعت سے ہونی چاہیے.خدام الاحمدیہ کے اجتماع سوائے چند تنزل کے سالوں کے ہمیشہ ہی پہلے سے بڑھ چڑھ کر تعداد کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں لیکن میرے دل میں یہ خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعتی تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدام و انصار کے اجتماع میں جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۶۶ خطبہ جمعہ ۱۴ ستمبر ۱۹۷۹ء تمام جماعتیں شمولیت اختیار کریں.یہ درست ہے کہ بعض جماعتیں بڑی ہیں اور بعض تعداد میں بڑی ہی مختصر.بعض دفعہ دو چار گھرانوں پر مشتمل ایک جماعت ہوتی ہے.یہ بھی درست ہے کہ بعض جماعتیں فعال ہیں، تندہی سے اپنے دینی فرائض انجام دینے والی ہیں اور بعض سست ہیں اور ان کی اصلاح کی ضرورت ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ بعض اضلاع کے امراءاپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور وقت خرچ کرتے اور توجہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری طرح ادا کریں اور بعض اضلاع کے امراء نسبتا ست ، پوستی اور کمزوری دکھانے والے ہیں.یہ بھی درست ہے کہ ہمارے بعض مربی صاحبان کو اللہ تعالیٰ ایثار کے ساتھ اور محبت اور پیار کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق عطا کرتا ہے اور وہ جماعت کے لئے ایک نمونہ بنتے اور حقیقی معنی میں قائد ہوتے ہیں اور اپنے پیچھے دوسروں کو نیکی کی راہوں پر چلاتے ہیں لیکن ہمارے بعض مرتی ایسے بھی ہیں جو اپنے کام کی طرف توجہ نہیں دیتے.جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ساتھ پیار اس طرح نہیں جس طرح آگ بھڑک رہی ہو اور بے چین کر دینے والی ہو اور اس کے نتیجے میں وہ علاقے جن میں کام کر رہے ہوتے ہیں سست ہو جاتے ہیں اور ان مربی اصحاب کو ایک منٹ کے لئے بھی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی حالانکہ ان کی تو نیندیں حرام ہونی چاہئیں اگر کسی جگہ وہ سستی اور کمزوری اور کوتاہی دیکھیں.یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ میری یہ خواہش ہے کہ کوئی ایسی جماعت نہ رہے جس کا کوئی نمائندہ اس اجتماع میں شامل نہ ہو.اس لئے میں امرائے اضلاع کو اور مربی صاحبان کو اور ان کو جو ان لوگوں کی نگرانی کرنے والے ہیں یہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہیں اس بات کے کہ ہر جماعت سے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں نمائندہ آئے.اگر چھوٹی جماعت ہے ایک نمائندہ آئے مگر آئے ضرور.ہر جماعت سے انصار اللہ کے اجتماع میں نمائندہ شامل ہو خواہ ایک ہی ہوا گر وہ چھوٹی جماعت ہے لیکن آئے ضرور.ہمارے یہ اجتماع دنیوی میلے نہیں.یہ اجتماع ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں.ذہنی تربیت کے لئے اس معنی میں کہ بہت سی نیکی کی باتیں شامل ہونے والوں کے
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۱۴ ستمبر ۱۹۷۹ء کانوں میں پڑتی ہیں اور ذہنوں میں چلا پیدا ہوتا ہے اور اخلاقی لحاظ سے اس معنی میں کہ اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے خدام و انصار کو کہ حقیقی مسلمان بنے کی کوشش کرو.(خُلُقُهُ الْقُرْآنُ ).قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ایک نمونہ ہیں آنے والی نسلوں کے لئے اس معنی میں کہ آپ کے اندر دو خصوصیات نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں.ایک آپ حنیف تھے دوسرے آپ مسلم تھے.حَنِيفًا مُسْلِمًا (ال عمران : ۶۸) ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے والے اور ہر دم اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے والے اور اطاعت کرنے والے.یہ نمونہ ایسا ہے جسے نظر انداز آنے والی نسلیں بھی نہیں کر سکتیں نمایاں طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں یہ دو باتیں قرآنِ عظیم کے بیان کے مطابق پائی جاتی ہیں.حَنِيفًا مُسْلِمًا آپ کی زندگی کے متعلق تو اس وقت میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.مختصر کہنا چاہتا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے قریب تر دوگروہ ہیں ایک وہ جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کی جماعت میں شامل ہو گئے اور ایک وہ گروہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور اُمت مسلمہ میں شامل ہوا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور نوع انسانی کی خاطر عاجزانہ دعائیں بھی کیں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ان کے سامنے بیان کی اور غور سے دیکھا جائے تو صدیوں صدیوں اپنی نسل کو اس بات کے لئے تیار کیا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود پیدا ہو تو اسے قبول کریں اور اس قابل ہو جا ئیں اس عرصہ میں کہ جو ذمہ داریاں کامل طور پر ایک کامل کتاب کے نازل ہونے کے ساتھ امت مسلمہ پر پڑنے والی تھیں جن کے پہلے مخاطب یہ لوگ ہونے والے تھے ان کو اٹھانے کے لئے وہ تیار ہوں.پس ایک مسلمان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنیف بھی ہواور مسلم بھی ہو.خدا تعالیٰ کے حضور ہر آن عاجزانہ جھکنے والا بھی ہو اور خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنے کی کوشش کرنے والا بھی ہو.یہ دونوں باتیں ہزار ہا پہلو اپنے اندر رکھتی ہیں.ایک ایسا درخت ہیں جس کی ہزار ہا شاخیں ہیں.بعض پہلو ایسے ہیں جو ہم خدام الاحمدیہ میں نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں بعض پہلو ایسے ہیں جو ہم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۶۸ خطبہ جمعہ ۱۴ ستمبر ۱۹۷۹ء انصار اللہ کے نام سے جو جماعت موسوم ہے ان میں دیکھنا چاہتے ہیں.ہر دو پہلو کا تعلق جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا اس حقیقت سے باندھا گیا ہے، وابستہ کیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور خدمت کرنی ہے اور نوع انسانی کے سکھ کا سامان پیدا کرنا، ان کے دکھوں کو دور کر کے.یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے اُمت مسلمہ پر كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (الِ عمران : 11) کے اعلان میں.خدمت ، خدام الاحمدیہ کا نام بھی یہ ذمہ داری بتاتا ہے، بہترین خدمت انسان دعا کے ذریعہ سے نوع انسانی کی کر سکتا ہے.انسان یا انسانوں کی کوئی جماعت اپنے طور پر کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں رکھتی جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو تو فیق عطا نہ کرے اور دنیا میں کوئی تبدیلی رونما ہو نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی منشا کے مطابق خیر کی تبدیلی رونما کرنے کے سامان پیدا نہ کرے.اس واسطے سب سے کارگر اور مؤثر حربہ، ہتھیار جو ایک مسلمان کو دیا گیا ، وہ (ایٹم بم نہیں ) دعا کا ہتھیار ہے اور اس سے زیادہ کارگر اور ہتھیار نہیں اور دوسرے نمبر پر جو ہتھیار دیا گیا وہ (ہائیڈ روجن بم کا ہتھیار نہیں یا اس سے بھی مہلک ہتھیار ہے ) بلکہ محبت اور شفقت ، بے لوث خدمت اور لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (الشعراء: ۴) کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ کیفیت سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اندر پیدا کرنا، اس سے تعلق رکھتی ہے.بعض پہلو ایسے ہیں جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعض پہلو ایسے ہیں جو انصار اللہ سے تعلق رکھتے ہیں.ان اغراض کو سامنے رکھ کے بار بار یاد دہانی کرانے کے لئے یہ اجتماع ہر سال ہوتے ہیں.جماعت دعا کرے جیسا کہ میں نے شروع میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب خیر رکھے اور خیر سے یہ اجتماع منعقد ہوں اور خدا تعالیٰ جس مقصد کے لئے یہ اجتماع منعقد ہوتے ہیں اس مقصد کے حصول کے سامان پیدا کرے اور ہر جماعت کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس میں حصہ لینے والی ہو اور امرائے اضلاع اور مربیان کو اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے عہدیداروں کو اللہ تعالیٰ ہمت عطا کرے کہ وہ اس بات میں کامیاب ہوں کہ کوئی جماعت ایسی نہ رہے جس کا نمائندہ نہ آیا ہو.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۶۹ خطبہ جمعہ ۱۴ ستمبر ۱۹۷۹ء اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں پھر آئندہ سال پہلے کی نسبت زیادہ جماعتوں کی نمائندگی ہوگی.اس لئے کہ ہر سال نئی جماعتیں بن جاتی ہیں اور پھر ایسے سامان پیدا ہوں خدا کرے کہ زیادہ سے زیادہ نئی جماعتیں بنیں.زیادہ سے زیادہ نئی جماعتوں کے نمائندے ہوں اور ہر سال جس طرح موسم بہار میں زندہ درخت ایک نئی شان اور پہلے سے بڑھ کرشان کے ساتھ انسان کی آنکھوں کے سامنے اپنی سبزی کو ظاہر کرتے ہیں اور اپنے حسن کو پیش کرتے ہیں اس سے زیادہ ہمارے اجتماع عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کی نگاہ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حسن بیان اور حسن عمل کو پیش کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے.ہمت اور عزم دے اور کامیابی کی انتہا ہمارے لئے مقدر کر دے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ رستمبر ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۷۱ خطبہ جمعہ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء جلسہ سالانہ بڑی اہمیت کا حامل اور بڑی برکتوں والا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ رستمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے انسانی زندگی کے اجتماعی پہلو کو سنوارنے اور اس میں حسن پیدا کرنے کی طرف بڑی توجہ دلائی ہے اور اس پر بہت زور دیا ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ ہر فرد اپنے رب کے سامنے اپنے نفس کا جواب دہ ہے اور لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (الانعام : ۱۶۵) ہر شخص نے اپنا بو جھ آپ ہی اٹھانا ہے.جب جزا کا وقت آئے.لیکن جہاں تک بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کا سوال ہے ایک دوسرے کے ساتھ ہر مومن مسلم کو باندھ دیا گیا ہے جو ہمارے بنیادی ارکان ہیں اسلام کے ان میں سے دو میں یہ پہلو نمایاں طور پر سامنے آتا ہے.ایک نماز ہے دوسرے حج ہے.نماز با جماعت پر بڑا زور دیا گیا ہے اور نماز باجماعت کے وقت جو کمزور ہیں ان کا ان کی نسبت زیادہ خیال رکھا گیا ہے.جو لمبی لمبی دعائیں کرنے والے ہیں اپنے گھروں میں ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت ہو گئی.شکایت کرنے والوں نے کہا کہ ہم تھکے ہوئے آتے ہیں شام کو اور ہمارے امام الصلوۃ جو ہیں وہ بہت لمبی قرآت کر جاتے ہیں عشاء کی نماز میں اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو آپ بہت ناراض ہوئے اس بات پر کہ تم کیوں ان لوگوں کا خیال نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۷۲ خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء رکھتے اور نماز سے بددل کر رہے ہو ان کو.ایسے لوگ جو گھر میں دوسنتیں پڑھتے وقت پندرہ ہیں منٹ خرچ کر دیتے ہیں جب مسجد میں آتے ہیں تو امام کو حکم ہے کہ کمزور کا خیال رکھو.نہ بہت چھوٹی نماز کراؤ کہ نماز مذاق بن جائے.نہ اتنی لمبی کرو کہ بعض لوگوں کے لئے نماز تکلیف کا باعث بن جائے.اجتماعی عبادات، نماز با جماعت پر بڑا زور دیا گیا کیونکہ یہ بھی انسانی معاشرہ میں ایک محسن پیدا کرنے کی کوشش ہے اور اُمت محمدیہ کو اُمتِ واحدہ اور بُنْيَانِ مَرْصُوصٌ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ کے ماتحت بنانے کے لئے یہ ساری ہدایات دی گئی ہیں.نماز میں دو اجتماعی پہلو ہیں.ایک پنج وقت نماز با جماعت، اس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ بغیر لاؤڈ سپیکر کے مؤذن کی اذان کی آواز جہاں تک پہنچ جاتی ہے وہ اس مسجد کا دائرہ ہے لیکن جمعہ کے روز جس طرح آج ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اس میں شہر ہی نہیں بلکہ مضافات کے لوگ بھی جمع ہوتے ہیں.یہ جمعہ بھی ایک نماز ہے لیکن اس میں محلے کے ایک چھوٹے سے حلقے کے نمازی اکٹھے نہیں ہوتے بلکہ سارے شہر کے (سوائے اس کے کہ شہر بہت بڑا ہو ) اور مضافات کے بھی احمدی مسلمان جن کی میں اس وقت بات کر رہا ہوں یا اُمت محمدیہ کے افراد دنیا میں ہر جگہ کے وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.تو اجتماعیت پر بڑاز وردیا گیا.حج کے بھی دو پہلو ہیں جمع ہونے کے.ایک فرضی طور پر حج ہے.فرض ہے زندگی میں ایک بار ساری دنیا کے مسلمانوں پر.وہ ایک وقت میں پہلے کم ہوتے تھے اب سہولتیں ہیں.آٹھ دس لاکھ بھی وہاں حج کے موقع پر اکٹھے ہو جاتے ہیں.ایک نفل ہے اس کے ساتھ عمرہ اسے کہتے ہیں.وہ سارا سال چلتا ہے لیکن اس میں بھی ایک اجتماعی پہلو ہے.عمرہ کرنے کے لئے بھی سارا سال ساری دنیا سے لوگ سگے میں جمع ہوتے ہیں اور مدینے کی زیارت کرتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے کہ اِلى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) جَمِيعًا کا لفظ عربی زبان میں ایک گروہ کے ہر فرد کے متعلق نہیں بولا جاتا بلکہ اجتماعی جوان کی شکل بنتی ہے.اس کے متعلق بولا جاتا ہے لیکن چونکہ سارے کے سارے اکٹھے اس میں آجاتے ہیں.اس واسطے ہر فر د بھی اس کے اندر آ گیا.جمیعا کے معنی ایک ایسی جماعت جس کے اندر افتراق و
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۷۳ خطبہ جمعہ ۲۱ / ستمبر ۱۹۷۹ء انشقاق نہ ہو.جو ایک دوسرے میں ملے جلے ہوں اور جن کو الَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ایک جان کر دیا گیا ہو لیکن اس عظیم وحدت کا ہر فرد اپنے طور پر جیسا کہ میں نے بتایا، اپنے نفس کا ذمہ دار ہے جہاں تک اس کی جزا اور سزا کا تعلق ہے لیکن وہ ذمہ دار ہے اپنے معاشرہ کا اس معنی میں کہ وہ ساری اُمت یا اپنے سارے حلقہ میں وہ معاشرہ اجتماعی رنگ میں پیدا کرنے کی کوشش کرے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.یہ کوشش جیسا کہ ابھی میں نے مختصر ابتا یا فرض کے طور پر بھی ہے جیسے نماز باجماعت یا جیسے حج اور نفل کے طور پر بھی ہے جیسے حج کے لحاظ سے عمرہ یا جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کو جو نوافل تھے اکٹھا کر دیا اور باجماعت پڑھوانا شروع کر دیا یا جیسے اجتماعی دعا ئیں ہو جاتی ہیں.وہ اپنی ظاہری شکل کے لحاظ سے نماز نہیں لیکن نماز کا اس لحاظ سے تعلق ہے کہ نماز "الصلوةُ الدُّعَاء ، صلوۃ کے معنی ہی ہیں دعا کرنا خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھک کر.تو دعا ئیں انفرادی بھی کی جاتی ہیں يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ (آل عمران: ۱۹۲) اُٹھتے بیٹھتے کھڑے ہوتے لیٹتے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا اور اس کی حمد وثنا کرتا اور اس کی عظمت اور عُلُو شان کے ترانے گاتا ہے، اسے یاد کرتا ہے، اس سے مانگتا ہے، اس کے پیروں میں لوٹتا ہے، اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے لیکن با جماعت یا نفلی شکل میں جو نماز ہم پڑھتے ہیں وہ شکل تو نہیں ہے لیکن ہے وہ بھی دعا.دعا جو ہے وہ انفرادی بھی ہے جس طرح صلوٰۃ کا ایک حصہ انفرادی بھی ہے سنتیں ہیں وہ نماز کی طرح ہی پڑھی جاتی ہیں فرض نہیں ہیں اور مستحب یہ ہے کہ انسان مسجد کی بجائے اپنے گھر میں پڑھے.اس میں انفرادیت زیادہ آجاتی ہے.تو فرض کے طور پر بھی اجتماعی عبادات ہیں اور نفل کے طور پر بھی ہیں.نفل کے طور پر جو عبادات ہیں ان کا حلقہ بڑا وسیع ہے.جیسے میں نے کہا دوست اکٹھے ہو کے دعائیں کرتے ہیں، اجتماع ہوتے ہیں، جلسے ہوتے ہیں، وعظ کی مجلسیں ہیں.جو سنانے کا حق رکھتے ہیں ان سے سننے کے لئے جمع ہونے کے مواقع ہیں.مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلے جاتے تھے صحابہ اور ان سے بھی علم سیکھتے تھے ، دوسرے صحابہ سے علم سیکھتے تھے.جو بہت سارے ہمارے بزرگ گذرے ہیں وہ مسجدوں میں یا اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے تھے اور آنے والوں کے کانوں میں نیکی کی باتیں ڈالتے رہتے تھے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۷۴ خطبہ جمعہ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء ایک قسم کا اجتماعی ماحول پیدا ہو جاتا تھا.یہ جو فلی اجتماعی ماحول پیدا ہونے کے ذرائع ہیں یہ چھوٹے بھی ہیں بڑے بھی ہیں.ایسے بھی ہیں جو انسان عام ہدایت کے مطابق اپنے طور پر منعقد کرتا ہے جیسے خدام الاحمدیہ کے اجتماع ہیں.ایسے بھی ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کی ہے.جیسے ہمارا جلسہ سالانہ ہے اور آج میں جلسہ سالانہ کے متعلق ہی کچھ کہنا چاہتا ہوں اس تمہید کے بعد.جلسہ سالانہ جو ہے ہمارا یہ ایک طوعی نفلی اجتماع ہے لیکن بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے اور بہت سی برکات کا نزول ہوتا ہے اس موقع پر اور بڑی شان ظاہر ہوتی ہے اس کی اور اللہ تعالیٰ کے عظمت اور جلال کے معجزانہ جلوے دیکھنے والی آنکھ اس موقع پر دیکھتی ہے.اللہ فضل کرے ہماری کسی کوشش کے نتیجہ میں نہیں ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ فضل کرتا رہے کبھی بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر کثرت سے بیماری نہیں آتی حالانکہ اتنا ہجوم ہوتا ہے چھوٹی سی جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں دوست، بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں صحت کو قائم رکھنے کے لحاظ سے.کھانے میں غلطی ہو جاتی ہے.لوگوں کو جس کھانے کی عادت نہیں ہوتی وہ یہاں کھا رہے ہوتے ہیں.جس وقت کھانے کی عادت ہوتی ہے اس وقت وہ کھا نہیں سکتے.اس کا اثر پڑتا ہے.کئی لوگ ہیں ان کو ذرا بھی مرچ زائد ہو جائے تو پیچش شروع ہو جاتی ہے وغیرہ ہزار قسم کی آزمائشوں میں سے اللہ تعالی گزارتا ہے اور ہزار قسم کے معجزات خدا تعالیٰ ہمیں اپنے دکھاتا ہے.ہر انسان جو شامل ہوتا ہے اس جلسے میں اگر وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے اور اپنے کان خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے کھلے رکھے اور اپنی آنکھیں اس کے نور کے جلوؤں کو دیکھنے کے لئے کھلی رکھے، کان بھی اور آنکھ بھی تو بہت کچھ وہ دیکھتا ہے، بڑی برکتیں ہیں.پھر نیکی کی باتیں ہیں.وہ کانوں میں پڑتی ہیں.پھر دوست ہیں وہ آپس میں ملتے ہیں.اب تو ساری دنیا سے دوست یہاں آتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے ملاپ ہو جاتا ہے اور اس میں بڑی برکت ہے.اس میں بڑی خوشی کے سامان ہیں اور میں نے اپنی آنکھوں سے نظارہ دیکھا ہے کس طرح خوشی کے ساتھ پاکستان کے دوست غیر ممالک سے آنے والے بھائیوں کے ساتھ ملاقات کر رہے ہوتے ہیں.ایک جذبہ ہوتا ہے، ایک تڑپ ہوتی ہے، ایک دوسرے سے
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۷۵ خطبہ جمعہ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء آگے بڑھ کے ان سے مصافحہ کرنے کی خواہش کا نظارہ کئی دفعہ جلسے پر آتے جاتے آنکھوں کے سامنے آگیا.تو بڑی برکتوں والا ہے یہ جلسہ.اس کے کئی پہلو ہیں جن کی طرف ہر سال ہی توجہ دلائی جاتی ہے.ایک پہلو تو جلسے کے نظام سے تعلق رکھتا ہے، ایک پہلو اہلِ ربوہ کی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے، ایک پہلو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے، ایک پہلور بوہ میں باہر سے آنے والوں سے تعلق رکھتا ہے.جو ذمہ داری ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ پر ہے وہ یہ ہے کہ اس جلسہ کی برکات کو حاصل کرنے کے لئے باہر سے ہر ملک سے دوستوں کو شریک ہونا چاہیے.اس میں شک نہیں کہ بعض ملکوں سے بہت سے دوست ہر سال آجاتے ہیں.اس میں بھی شک نہیں کہ بعض ملک جو ہیں ان سے ابھی تک کوئی بھی نہیں آیا اور بعض ایسے ہیں کہ جو کبھی آتے ہیں کبھی نہیں آتے.جب سے آنے شروع ہوئے یہ شکل بنی ان کی اس میں شمولیت کی جو ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر خطہ سے جہاں احمدی بستے ہیں تھوڑے یا بہت کوئی نہ کوئی احمدی اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے یہاں پہنچے تا کہ جو حاصل کرے وہ دوسرے تک پہنچانے کا اہل ہو سکے اور جو باتیں سنے وہ پہنچائے.جو دنیا میں انقلاب عظیم غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بپا کر رہا ہے وہ باتیں بھی سنائی جاتی ہیں وہ ہر ایک کو بتائے.آپس میں اتنا پختہ اور پکا ابھی تعلق نہیں ہوا حالانکہ وسائل ہیں لیکن آہستہ آہستہ ادھر جماعت توجہ کر رہی ہے.دوسرے آنے والے اب تک بغیر کسی منصوبے کے آتے تھے.مثلاً ایک ملک ہے وہاں سے پچاس آگئے ، دوسرا ملک ہے اس سے چالیس آ گئے ، ایک ملک ہے وہاں سے ایک آگیا، ایک اور ملک ہے وہاں سے کوئی بھی نہیں آیا.تو یہاں اس وقت موجودہ حالت میں جو انتظام ہے وہ ابھی زیادہ وسیع نہیں، محدود ہے.اس وقت تحریک جدید کو ابھی سے تحریک کرنی چاہیے کہ جہاں بھی احمدی ہیں وہ کوئی نمائندہ بھجوائیں اور ایسا منصوبہ بنانا چاہیے کہ یہاں آنے کے بعد وہ تنگی محسوس نہ کریں کیونکہ ابھی ان کو اتنی عادت نہیں پڑی جتنی کہ ہندوستان پاکستان میں رہنے والوں کو عادت پڑ گئی.بڑے لمبے عرصے سے جلسے میں شامل ہونے والے ہیں بچپن سے جلسے میں شامل
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء ہونے والے بھی ہیں.اتنا پیار پایا جاتا ہے.قادیان میں کسیر“ ایک اور گھاس تھا جو نیچے بچھایا جاتا تھا اور یہاں اب یہ پرالی ہے کسیر ہی تھی وہاں غالباً.یہاں پرالی ہے.اتنے شوق سے اور پیار سے سوتے ہیں جن علاقوں سے دو تین سال سے آرہے ہیں احمدی مثلاً امریکہ ہے ان میں سے بعض دوستوں نے کہا کہ ہمارے لئے چار پائیاں کیوں بچھاتے ہو، ہمارے لئے پرالی بچھاؤ جس طرح اور احمدی یہاں زندگی گزارتے ہیں ہمیں موقع دو کہ ہم بھی اسی طرح زندگی گزاریں اور خدا تعالیٰ کی برکات سے حصہ لینے والے بنیں لیکن بہر حال آہستہ آہستہ ان کو عادتیں یہ پڑیں گی.ہر ملک کی اپنی عادتیں ہیں جہاں تک ممکن ہے ان عادتوں کا ہم خیال رکھتے ہیں.رکھنا بھی چاہیے لیکن جہاں تک ان کے لئے ممکن ہوا وہ ہماری عادتوں کے مطابق بھی کچھ زندگی کے دن گزارنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.ایک تو ہر جگہ کے آئیں.دوسرے اتنی کثرت سے نہ آئیں کہ یہاں ہم ان کو سنبھال نہ سکیں فی الحال.ایک وقت میں تو جتنے مرضی آجا ئیں سنبھالے جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ لیکن بہر حال کسی منصوبے کے مطابق ان کو یہاں آنا چاہیے.دوسرے یہاں جب وہ آتے ہیں تو ان کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے.ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں ان کی زبان بولنے والے سمجھانے والے.اس کا بھی بہتر انتظام ہونا چاہیے دو لحاظ سے.ایک تو جو تقاریر ہوتی ہیں ان کے چاہے دو صفحے کا نوٹ ہو صرف عنوانوں کے اوپر ، وہ ان کی زبان میں یا ایسی زبان میں جنہیں وہ سمجھ سکیں روز رات کو تیار ہو جائے اور ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے.کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، کچھ آدمی لگانے پڑیں گے اس کے اوپر.بہت سے تو وہیں سمجھ جاتے ہیں انہوں نے اپنا کوئی طریقہ ایسا بنا لیا ہے سمجھنے کا.بعض دوست مثلاً بعض امریکن شام کو مجھے ملے اور ان کو اس دن کی کارروائی کے متعلق اصولی طور پر یعنی جو مختلف پہلو بیان ہوئے تھے ان کے متعلق مختصر اعلم تھا کہ آج یہ موضوع زیر بحث آئے ہیں یا ان پر تقاریر کی گئی ہیں.جہاں تک یہاں کی جماعت کا تعلق، پاکستان کی جماعت کا، ان کا تو کام ایک ہے اور وہ اسے کرتے ہیں اور پیار سے اور عشق سے کرتے ہیں ان کا کام یہ ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۷۷ خطبہ جمعہ ۲۱ / ستمبر ۱۹۷۹ء جلسے پر دوست آسکیں آئیں ہمیں معلوم ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک گاؤں جو قریباً سارا احمدی ہو چکا ہے وہ سارے کا سارا آجائے.انہوں نے اپنے جانور بھی سنبھالنے ہیں، اپنے گھروں کو بھی سنبھالنا ہے، اپنے بیماروں کو بھی سنبھالنا ہے اپنے بوڑھوں کو بھی سنبھالنا ہے، وہاں اپنی مقامی ایسی ذمہ داریاں ہیں جنہیں چھوڑ کے وہ نہیں آسکتے.ایک حصّہ ایسا بھی ہے صرف ایک حصہ آتا ہے.ہر سال آنے والوں کی تعداد پچھلے سال سے بڑھی ہوتی ہے ہر سال دنیا کی جماعت احمدیہ کی تعداد بڑھ جاتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.یہ اس کا ایک منصو بہ اور تدبیر ہے جو پوری ہو رہی ہے ہزاروں کی تعداد میں دوران سال نئے احمدی ہو چکے ہوتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بچے جو مثلاً اکیلے یہاں نہیں آسکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ ہی آسکتے تھے وہ اکیلے آنے والے بن گئے.ہزاروں کی تعداد میں طفل خادم بن گیا.خادم انصار اللہ میں شامل ہو گیا.چھوٹا بچہ جو ہے اس کو شوق پیدا ہو گیا کہ میں نے ضرور جانا ہے.بعض دفعہ چھ چھ سات سات سال کا بچہ پیچھے پڑ جاتا ہے کہ میں نے ضرور جلسے میں شامل ہونا ہے، میں پیچھے نہیں رہ سکتا.ہر سال ایسے نئے آتے ہیں.بعض ان میں سے میرے سامنے بھی آتے ہیں مجھے بتاتے ہیں کہ یہ کچھ عذر بھی تھے لیکن بچوں نے کہا نہیں ہم تو نہیں چھوڑ سکتے جلسہ.ایک تو یہ ہر سال زیادتی ہوتی ہے جلسے کی تعداد میں زیادتی ہوتی ہے کئی وجوہات کی بنا پر.ایک یہ ہے کہ تعداد بڑھ گئی جماعت کی ، شوق پیدا ہو گیا بعض لوگوں میں جو پہلے نہیں تھا اور جو ابھی احمدی نہیں ہوئے ان کو بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ جلسہ دیکھ آئیں ، ان کی تعداد بھی ہر سال بڑھ جاتی ہے.قادیان میں مجھے یاد ہے کہ دو ایک سو ایسے دوست آجاتے تھے دیکھنے کے لئے سمجھنے کے لئے تحقیق کرنے کے لئے ، اعتراض کرنے کے لئے.اس نیت سے بھی آتے ہیں.آئیں بے شک کون روکتا ہے، تنقید کرو.اب یہ دوا ایک صد نہیں بلکہ پانچ ، دس، پندرہ، ہیں، پچیس ہزار کی تعداد میں آجاتے ہیں جو احمدی نہیں اس وجہ سے بھی زیادتی ہو گئی.ایسے بھی ہیں اس علاقے کے بہت سے لوگ جو صبح آتے ہیں شام کو چلے جاتے ہیں یا آدھا دن کی کارروائی دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اس سے بھی تعداد بڑھ گئی.یہ جو تعداد یہاں رہنے والوں کی بڑھی یا یہاں آنے والوں کی بڑھی اس کے نتیجہ میں اہل ربوہ کی ذمہ داریاں بڑھ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۷۸ خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء گئیں اس واسطے اب میں اس طرف آجاتا ہوں یعنی پہلے میں کہہ رہا تھا جماعت.سو جماعت پاکستان کو میں یہ کہتا ہوں اپنی روایات کو سامنے رکھو پہلے سے زیادہ پیار کے ساتھ آؤ ، زیادہ تعداد میں آؤ.خدا کرے کہ زیادہ برکتیں لے کے واپس لوٹنے والے ہو.ربوہ کوصاف رکھنا ظاہری صفائی اور باطنی صفائی کے لحاظ سے اور اسی طرح زبانوں کو بھی.کئی بے خیالی میں گند بول جاتے ہیں ، گالی دے دیتے ہیں.باہر سے آکے یہاں آباد بھی ہورہے ہیں بہت سارے خاندان ان کو باہر کی عادتیں پڑی ہوئی ہیں اور بدنام ہو جاتا ہے ربوہ.ایک مہینہ پہلے اگر کوئی خاندان یہاں کسی گاؤں سے آ کے آباد ہو جائے اور ان کے بچے اپنے گاؤں کی گالیاں بھی سمیٹ کے ساتھ لے آئیں یہاں تو جب یہاں ربوہ میں ان کی زبان سے وہ گالی نکلے گی تو میرے پاس یہ خطا نہیں آئے گا کہ ربوہ سے پچاس میل پرے ایک گاؤں کے بچے کے منہ سے یہ گالی نکلی.میرے پاس تو یہ خط آئے گا کہ ربوہ کے جو رہنے والے بچے ہیں، ان کے منہ سے گندی گالیاں نکلتی ہیں کیوں؟ ٹھیک ہے ان کو ضرور مجھے اطلاع دینی چاہیے ان کو ضرور غصہ آنا باہیے ان کی تربیت کیوں نہیں ہوئی لیکن مجبوری بھی ہے ایسی مجبوری نہیں کہ جو آپ دور نہ کرسکیں کا نشسلی ( Consciously) یعنی بیدار مغزی کے ساتھ چوکس رہ کے اپنے بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ سلام کہیں سڑکوں کے اوپر کتنا کوئی غصہ دلا دے، بچوں کو پیار بھی بڑی جلدی آجاتا ہے اور غصہ بھی بڑی جلدی آجاتا ہے کتنا ہی کوئی غصہ دلا وے زبان سے گالی نہیں نکلے گی دعا نکلے گی، سلام نکلے گا ، دعائیں کرو یہ باطنی پاکیزگی ہے جو ہمارے ماحول میں پیدا ہونی چاہیے.پھر باطنی پاکیزگی کی بنیاد یہاں ابھی سے ہو جانی چاہیے عادتیں ڈالو ابھی سے.جو دعائیں سب نے مل کے انشاء اللہ تعالیٰ اسی کے فضل کے ساتھ جلسہ سالانہ کے ایام میں کرنی ہیں اس کی بھی تو عادت ڈالو ابھی سے، اس کے لئے بھی تو تیاری کرو.قرآن کریم نے فرمایا کو ارادوا الخروج لاعَةُ والهُ عُدَّةٌ ( التوبة : ۴۶) کہ جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے تیاری بھی کرنی ہوتی ہے.اگر کوئی کہے کہ کام تو میں نے کرنا تھا اور نظریہ آئے کہ تیاری نہیں کی تو وہ شخص منافق ہے خدا کے نزدیک.اس کی بات ماننے والی نہیں وہ جو اس ماحول میں ستون آسمانوں تک
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۷۹ خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء پہنچتے ہیں دعاؤں کے، اس کے لئے اہلِ ربوہ ابھی سے دعائیں کریں.خدا سے مدد مانگیں.بڑی ذمہ داری ہے، بڑی ذمہ داری ہے سارا انحصار جو ہے وہ ان چیزوں کے اوپر ہے کہ جلد تر غلبہ اسلام ساری دُنیا میں ہو جائے.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلسے کی برکات سے حصہ دے، آنے والوں کو خیر سے لائے ، خیر سے رہیں، خیر لے کے جائیں، پہلے سے زیادہ برکات کے وہ وارث ہوں ، اور ان کے سارے دکھ اور تکالیف دور ہو جائیں اور پریشانیاں جاتی رہیں اور ہمارے بچے جو ہیں وہ پورے روشن دماغوں کے ساتھ دنیا کے علمی میدانوں میں آگے ترقی کرنے والے اور جتنا خدا اب دے رہا ہے اور بڑا دے رہا ہے ذہن اس سے کہیں زیادہ ہمارے بچوں کو وہ ذہن دے.بڑا لطف آتا ہے ہر طرف سے امتحان کے بعد سے یہ اطلاعیں ملتی ہیں کہ فلاں فرسٹ آ گیا اپنی کلاس میں، یو نیورسٹی کی کلاس میں فلاں اس طرح سے آگے آگیا.باہر سے اطلاعیں آتی ہیں کہ سکالر شپ مل گئے.سکالرشپ سے یاد آیا کہ سکالرشپ نہ ملنے کے بھی ہمارے متعلق بعض بعض منصوبے ہوتے ہیں پر تمہیں اس سے کیا تم تو خدا سے مانگو ، خدا کہیں نہ کہیں سے سامان پیدا کر دے گا.تمہارا حق جو ہے وہ تمہیں دے گا کیونکہ اس نے یہی فیصلہ کیا ہے جو بہت اونچے ہیں ان کو جماعت سنبھال سکتی ہے اور سنبھال رہی ہے کچھ سکالر شپ دے دیتے ہیں بعض جماعتوں نے غیر ممالک نے.بعض سکالرشپ کے متعلق ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ کوئی ایسی فاؤنڈیشن بھی ہے غیر ممالک میں جو سکالرشپ دیتی ہے ابھی کل مجھے ایک نوجوان ایم.ایس سی کا طالب علم مل کے گیا ہے.اس نے کہا کہ میں جارہا ہوں ولایت پڑھنے کے لئے.میں نے کہا تمہارے پیسے کا کیا انتظام ہے؟ اس نے ایک فاؤنڈیشن کا نام لیا اور کہا اس نے سکالرشپ دیا ہے.میں نے پوچھا کہ کتنا دیا ہے؟ اس نے جو رقم بتائی وہ کم تھی.میں نے کہا اس سے تمہارا گزارہ نہیں ہوگا.فیسیں بھی نہیں پوری ہوں گی.اس نے کہا نہیں، فیس بھی وہ دیں گے.فیس کے علاوہ یہ دیا ہے.میں نے کہا پھر بے فکری کے ساتھ جاؤ تمہیں مالی لحاظ سے کوئی تنگی نہیں.تو سامان خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے تمہیں وفا کا تعلق اور ثبات قدم اور استقامت دکھانی چاہیے.میں نے بڑا سوچا، ایک دن میں خدا تعالیٰ کی اتنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸۰ خطبہ جمعہ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء نعمتیں انسان پر نازل ہو جاتی ہیں کہ پھر سارا سال اگلا اگر وہ شکر ادا کرے تو اس دن کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتا تو جو باقی ایک دن کم سارے سال کے دن ہیں ان کی نعمتوں کا شکر کیسے کر سکتے ہیں.اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن : ۲۱) یہ کوئی تھیوری نہیں ہے، یہ کوئی اصول یا منطق نہیں ہے، یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت زندگی ہے.دنیا نہیں دیکھتی اسے لیکن ہماری نظریں اسے دیکھتی اور پہچانتی ہیں.اس لئے کہ عملاً ہماری زندگیاں اس کی گواہ ہیں.تو یہ ذمہ داری ہے.میں اہل ربوہ کو توجہ دلا رہا ہوں کہ آپ ابھی سے دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اس جلسہ کو ان تمام برکات سے بھر دے جن برکات کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جماعت احمدیہ کو دی گئی اور جن برکات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کے تعلق میں دعائیں کیں.بڑی دعائیں کیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے.آپ بھی ابھی سے دعائیں کریں تا کہ اس بڑی بنیاد کے ساتھ وہ مینار پھر اٹھنے شروع ہوں.اب تو آپ کہتے ہیں بچے ملا کے ہیں اکیس ہزار ہیں ربوہ میں.آپ کی ایک آواز رڈ کی دنیا نے.آپ کے لئے ووٹر بننے کے لئے فارم نہیں بنا اور آپ نے ووٹ نہیں بنایا لیکن آپ اگر خدا کے ہو جائیں تو آپ کی ہر آواز ہر پکار سننے کے لئے خدا تیار ہے.تو گھاٹے والا سود ا تو نہیں ہوا یہ.پس دعائیں کریں ابھی سے جلسے کے لئے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے خیر اور برکت کا موجب بنائے اور ان دنوں میں جب اجتماعی رنگ میں دعا ئیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.ماحول ہی ایسا پیدا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ( یہاں آنے والوں کو جلسے کے موقع پر ) کہ ہم اپنے ملک کے استحکام اور اس کی سلامتی کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور وہ دعائیں مقبول ہوں اور بنی نوع انسان جو اس وقت ہلاکت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں ان کے لئے ہم یہ دعا کرنے والے ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو اپنے غضب اور قہر سے محفوظ رکھنے کے سامان پیدا کرے اور تقرب کی راہیں ان پر بھی اسی طرح کھلیں جس طرح آج وہ ہمارے پر کھولی گئی ہیں اور جو وعدے دیئے گئے ہیں اُمت محمدیہ کو کہ ایک زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے گا اور اسلام سے باہر رہنے والے کسی شمار میں نہیں ہوں گے.اتنے تھوڑے کہ نام بھی ان کا کوئی نہیں لے گا ، کوئی نہ جانتا ہوگا
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸۱ خطبہ جمعہ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء انہیں ، وہ دن جلدی آجائیں اور اصل تو یہ ہے کہ ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ سے دوری اور مہجوری جو ہے یہ ایک ایسی جہنم ہے کہ ایک لحظہ کے لئے بھی ہمارا دل اور ہمارا دماغ اور ہماری روح اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.خدا کرے کہ ساری دنیا جو ہے وہ اس جہنم سے محفوظ ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے پیار کے ٹھنڈے سائے تلے جمع ہو جائے.اور اہل ربوہ کا دوسرا کام یہ ہے کہ اتنے رضا کا ر دے دیں کہ جلسہ کے نظام میں دقت محسوس نہ ہو.میں یہ نہیں کہتا سارے کے سارے آ جاؤ کیونکہ سارے کے ساروں کی ضرورت ہی نہیں ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ جتنے کی ضرورت ہے اتنے دے دو.میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کسی گھر میں چار بچے ہیں طفل یا خدام یا انصار ہیں ان کے کرنے کے بھی بعض کام ہیں ، وہ گھر ضرور اس خدمت میں شامل ہو کے اس کی برکات لے اور کلی طور پر اپنے آپ کو محروم نہ کرے پھر وسیغ مكانك خدائی حکم ہے ہر سال مکان بڑھتے ہیں.کچھ دباؤ بہت پڑ گیا با ہر.زیادہ مکان بنے ہیں پچھلے سال دو سال میں جماعت کے ایک طبقہ کے مالوں میں کچھ برکت پیدا ہوئی اس کی وجہ سے بھی قیمتیں بڑی بڑھا دیں آپ نے زمینوں کی.بہر حال مکان بھی بنے.ہر مکان جو ہے میں جانتا ہوں اس میں حضرت مسیح موعود کے مہمان ٹھہرے ہوں گے.یہ مجھے علم ہے چونکہ میں افسر جلسہ سالا نہ بھی رہا ہوں اور یہ جو وسعت ہے یہ دونوں طرف کی ہوتی ہے ایک مکانیت میں وسعت، وہ بھی پیدا کر دے خدا.ایک تمہارے دلوں میں وسعت پیدا ہونی چاہیے کہ تم بشاشت کے ساتھ تنگی برداشت کر کے ایک حصہ مکان کا دو مہمانوں کے لئے ایک آنے والے مہمانوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے بڑی تعجب انگیز.ایک دفعہ میں افسر جلسہ سالا نہ تھا اور ہمارے نگران آنکھیں کھلی رکھنے والے بھی پھرا کرتے تھے، مجھے اطلاع ملی کہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے اور تیس مہمانوں کی روٹی وہاں جارہی ہے ، روٹی کا ضیاع ہو رہا ہے.یہ تو کہنے والوں نے کہا کہ وہ اتنا چھوٹا کمرہ ہے کہ وہاں تیں پہلو بہ پہلو آدمی لٹا دیئے جائیں تو تیں نہیں آتے.میں نے کہا ٹھیک ہے کر لیں گے چیک.میں نے ایسا انتظام کیا کہ جس وقت گیارہ اور بارہ کے درمیان ہم نے دیکھا کہ سب مہمان اپنی رہائش گاہوں میں جاچکے ہوئے ہیں اب کوئی بھی باہر نہیں آرہا.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۸۲ خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء اکٹھے ہو گئے ہیں وہاں.وہاں جا کے گنتی کروائی تو وہ میں نہیں چالیس تھے وہاں اس کمرے کے اندر تو روٹی کا ضیاع نہیں ہو رہا تھا ، کفایت شعاری سے کام لیا جا رہا تھا.تو یہ وسعت ہے ان کی.کسی کو پرواہ ہی کوئی نہیں کہ جگہ تنگ ہے.پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ ایک نظارہ خدا کے ساتھ ، اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار کا اور اس جلسے میں جو برکتیں نازل ہوتی ہیں ان کے ساتھ لگاؤ کا میں نے دیکھا.یہ بھی اسی زمانے کی بات ہے جب میں افسر جلسہ سالا نہ تھا.ایک سپیشل گاڑی آ رہی تھی میں بھی اتفاقاً وہاں چلا گیا دیکھنے کے لئے کہ کیا کیا انتظام ہے جس وقت گاڑی کھڑی ہوئی تو چند مہینوں کا بچہ ایک ماں کی گود میں تھا.اس کا خاوند دوسرے ڈبے میں تھا.گاڑی کھڑی ہوئی اسی وقت اس کا خاوند دروازے کے سامنے آ گیا.وہ ماں اتنی جوش میں تھی اور اتنا جذ بہ اس کے اندر پیدا ہو چکا تھار بوہ میں پہنچنے کی وجہ سے کہ اس نے دو تین مہینے کے بچے کو پیار کے ساتھ جو مامتا کا تقاضا تھا اپنے خاوند کے ہاتھ میں نہیں دیا بلکہ یوں پھینکا اس کی طرف ( حضور نے ہاتھوں سے اشارہ کر کے بتایا ) اس نے فورا ہی اٹھالیا بچے کو، گرانہیں وہ ، اس کو چوٹ نہیں آئی.لیکن وہ عجیب نظارہ تھا جو میری آنکھوں نے دیکھا.تو وہ اس جذبے کے ساتھ آتے ہیں.جس پیار اور محبت کے ساتھ اور قربانی کے جذبے کے ساتھ وہ آتے ہیں اور جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ تیس آدمی بھی رات نہیں گزار سکتے وہاں چالیس چالیس آدمی رات گزارنے کی نیت کر کے یہاں آنے والے ہیں وہ لوگ ان کے جذبہ کا آپ کے جذبہ کے ساتھ مقابلہ ہے کہ جو کچھ وہ خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں خدا سے بے شمار لینے کے لئے (إِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (آل عمران:۳۸) یہ بِغَيْرِ حِسَابِ ملتا ہے.) آپ ان سے زیادہ لیتے ہیں یا کم یہ تو مقابلہ ہے نیکیوں کے حصول میں مسارعت اختیار کرنے کا اس میں میرا تعلق تو دونوں سے ہے.کبھی دل کرتا ہے آپ آگے بڑھ جائیں کبھی دل کرتا ہے وہ آگے بڑھ جائیں.اب آپ اپنے عمل سے بتائیں کون آگے بڑھتا ہے.بہر حال مکانوں کی ذمہ داری ہے.پھر صفائی میں آپ نے شامل ہونا ہے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی طرف سے جو اجتماعی صفائیاں ہوں گی ان میں جس طرح غریب دلہن ہوتی ہے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۸۳ خطبہ جمعہ ۲۱ / ستمبر ۱۹۷۹ء غریب دلہن میں جان کے کہ رہا ہوں) ایک غریب گھرانے کی بچی جس کو زیور بھی نہیں میتر جب دلہن بنتی ہے تو صاف ستھری ہوتی ہے نا.اس وقت تو اس طرح صاف ستھرا ر بوہ کو بنا دو.ہمیں سنگھار کی ضرورت نہیں لیکن صفائی کی ضرورت ہے ایسا بنا دور بوہ کو جلسہ سالانہ پر آنے والے دیکھیں کہ اہل ربوہ نے صاف ستھرا ماحول پیدا کر کے ان کا استقبال کیا اور ان کی عزت افزائی کی.اس کے علاوہ منتظمین ہیں جلسے کا کام ، جیسا کہ خود مجھے بھی تجر بہ ہے اور میں علی وجہ البصیرت جانتا ہوں سارا سال ہی رہتا ہے.جب گندم کی پیداوار تھی اس وقت جلسے کی گندم خرید لی گئی ہوگی اب تو میں بھی بھول گیا ہوں.اس زمانہ میں جب میں افسر جلسہ سالا نہ تھا مجھے یہ پتا تھا کہ آلوسب سے سستا کن دنوں میں ملتا ہے.بھینس کا گھی میں استعمال کرتا تھا.اب تو مجبور ہو کے ڈالڈا استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے.بہت زیادہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں بھینس کے اصلی گھی کی بھی سارے سال میں ایک قیمت نہیں رہتی.بعض دنوں میں قیمت کم ہوتی ہے بعض دنوں میں زیادہ ہوتی ہے مجھے پتا ہوتا تھا کہ کس موسم میں سب سے زیادہ مجھے گھی مل جائے گا ، گندم سب سے سستی کب ملے گی ، آلو کب سے ملیں گے اور کب وافر مقدار میں ملیں گے وغیرہ وغیرہ.بہت سارے چارٹ بن گئے ہیں اب ایک پورا نظام ہے جلسے کا بھی.اور ہر سال ترقی کرتا ہے.اس وقت میں نے یہ طریق شروع کیا تھا کہ اعلان کر دیتے تھے کہ جنہوں نے جو بھی تجویز بھیجنی ہو بھیج دیں ان پر غور کریں گے اور اس کے مطابق جہاں تبدیلی ممکن ہوگی کر دیں گے.رضا کاروں کی فہرستیں بنانے کا کام ہے، تقسیم کار کا سوال ہے پیار سے ان کو سمجھانا ہے ،سینکڑوں بچے ہوں گے جنہوں نے پچھلے سال جلسہ کے نظام میں کام کیا اور ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے نہیں کیا.اس سال وہ بھی کام کر رہے ہوں گے، عمر جو بڑھ گئی ایک سال.پیار سے ان کو بتائیں ، انہیں برکتوں سے آگاہ کریں.وہ ماحول خود بہت کچھ کرتا ہے.ایسے ایسے خدمت کرنے والے دیکھے ہیں کہ اپنی دوائی بھی بیمار کو پلا دیں اگر اس کو بخار چڑھا ہے اور اس کو یہ احساس نہ دلائیں کہ پلانے والے کو اس سے زیادہ تیز بخار چڑھا ہوا ہے اور اپنے لئے لے کے آیا تھا دوائی.تو بڑی محبت اور باہمی محبت اور اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذ بہ اور بانی سلسلہ احمدیہ کا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۸۴ خطبہ جمعہ ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۹ء جو مشن ہے اور بعثت کی غرض ہے اس کے لئے انتہائی لگاؤ یہ ساری چیز میں اپنے سامنے رکھ کے پھر اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کر کے ایک اور انسان بن جائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ آپ وارث بن سکیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ آپ جذب کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ہر آن اور ہرلمحہ معیت آپ کو حاصل ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ رستمبر ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۸۵ خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۹ء اسلامی تعلیم سے امن پیار اور اخوت کی فضا پیدا ہوتی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ رستمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةٌ لِلعلمین ہو کر دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے.رَحْمَةُ لِلْعَلَمینَ میں صرف انسان کا ذکر نہیں کہ آپ انسانوں کے لئے رحمت ہیں بلکہ انسان ہوں یا خدا تعالیٰ کی وہ مخلوق جو انسان نہیں غیر انسان ہے سب کے لئے آپ رحمت کا موجب ہیں اور اسلامی تعلیم شروع سے آخر تک غیر انسان مخلوق کے حقوق بھی بتاتی ہے اور ان کی حفاظت کے سامان بھی پیدا کرتی ہے.اس عظیم رحمت کا ایک بڑا حصہ انسان کو ملا اور آپ چونکہ عالمین کے لئے رحمت ہیں اور انسان عالمین ہی کا ایک جزو اور حصہ ہے اس لئے آپ عالمین میں انسان کے لئے بھی رحمت ہیں اور اعلان کیا گیا :.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف:۱۵۹) میں بنی نوع انسان کی طرف اللہ کا رسول مبعوث کیا گیا ہوں اور كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (سبا: ۲۹ ) بن کے آیا ہوں.جوانسانوں کے لئے آپ کا عظیم جلوہ ظاہر ہوا اس کے دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ ہر انسان کو یہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸۶ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء خوشخبری دی گئی کہ امن اور آشتی اور سلامتی کی فضا تمہارے لئے اسلامی تعلیم پیدا کرے گی.یہ امن کا مذہب سلامتی کا مذہب ہے.یہ اعلان کیا گیا کہ تمہیں لڑنے نہیں دیا جائے گا بلکہ اگر تم اسلامی احکام پر کار بند ہو گے تو تمہارے لئے اخوت کی اور پیار کی اور امن کی فضا پیدا کرنے کی یہ تعلیم ہے، اس پر عمل کرنے سے امن کی فضا پیدا ہو جائے گی.اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے شرف کو قائم کرنے کے لئے عزت کا وہ مقام جو خدا تعالیٰ نوع انسانی کو دینا چاہتا ہے.وہ انسان کو دینے کے لئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور تمام انسانوں کے لئے یہ امکان پیدا کر دیا کہ قُلْ اِنَّمَا أَنَا بَشَر مثْلُكُم (الكهف : ۱۱۱) جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم معزز اور اشرف المخلوق کے سردار ہیں اسی طرح یہ مخلوق بھی بڑی عزت والی، بڑے احترام رکھنے والی مخلوق ہے.اور اس کے لئے ضروری تھا کہ انسان، انسان میں تفریق نہ کی جائے بلکہ سب انسانوں کو مساوات کے ایک بلند مقام پہ لا کھڑا کیا جائے.شروع سے لے کر آخر تک قرآن کریم کے احکام پر آپ غور کریں کہیں بھی مومن و کافر میں بحیثیت انسان فرق نہیں کیا گیا.اس کے بعض پہلوؤں پر میں بعض خطبوں میں پہلے روشنی ڈال چکا ہوں.آج میں نے دو احکام اسلامی لئے ہیں.ایک کا تعلق نواہی سے ہے.ایک کا تعلق اوامر سے ہے.آج میں خیانت اور عدل کے متعلق جو اسلامی تعلیم ہے اس کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الانفال: ۲۸)اے مومنو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی آپس کی امانتوں میں خیانت سے کام لو.پھر سورۂ نساء میں فرمایا :.وَلا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيمًا (النساء : ۱۰۶) پھر سورۃ انفال میں فرمایا :.إنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَابِنِينَ (الانفال : ۵۹) لا تَكُن لِلْخَاسِنِينَ خَصِيباً خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والا نہ بن.ان کی طرف داری نہ کر.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَابِنِینَ کیونکہ اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸۷ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء کرتا اگر تو ان کی طرف سے جھگڑے گا تو تو بھی انہی میں شامل ہو جائے گا.وو وَ انَّ اللهَ لَا يَهْدِى كَيْدَ الْخَابِنِيْنَ (يوسف : ۵۳) اور یہ کہ خیانت کرنے والوں کی تدبیر کو اللہ تعالیٰ کامیاب نہیں کرتا.خیانت کے معنی مفردات راغب میں یہ بیان ہوئے ہیں کہ الْخِيَانَةُ وَالنّفَاقُ وَاحِدٌ إِلَّا أَنَّ الْخِيَانَةَ تُقَالُ اِعْتِبَارًا بِالْعَهْدِ وَ الْأَمَانَةِ وَالنِّفَاقُ يُقَالُ اعْتِبَارًا بِالدِّينِ ثُمَّ يَتَدَاخَلَانِ فَالْخِيَانَةُ مُخَالَفَةُ الْحَقِّ بِنَقْضِ الْعَهْدِ فِي السّرِ وَنَقِيضُ الخِيَانَةِ الْاَمَانَةُ ،، خیانت اور نفاق ملتے جلتے ہیں اپنے معنی کے لحاظ سے اور عہد توڑنے اور ان میں خیانت کرنے کو خیانت کہا جاتا ہے اور نفاق کا لفظ جو ہے وہ ان کے متعلق بولا جاتا ہے.منافق کے معنے ہیں مذہب کے لحاظ سے ، عقائد کے لحاظ سے، اپنے دعوی کے لحاظ سے، اپنے اعمال کے لحاظ سے نفاق کی بُو رکھنے والا وہ لکھتے ہیں کہ پھر یہ آپس میں دونوں مل جاتے ہیں خیانت اور نفاق اور خیانت کے معنے ہیں حق اور صداقت کی مخالفت کرنا.عہد کو توڑ کے اور چھپ کے اور یہ امانت کے مقابلے میں آتی ہے.ان آیات سے جو میں نے ابھی پڑھی ہیں مندرجہ ذیل باتوں کا ہمیں پتا لگتا ہے.اول یہ فرمایا کہ اللہ کی خیانت نہ کرو اور خیانت امانت کی ضد ہے جیسا کہ ابھی میں نے بتایا اور امانت کے معنی ہیں مَا فَرَضَ اللهُ عَلَى الْعِبَادِ امانت کے ایک معنی یہ ہیں.سو جب یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی خیانت نہ کرو تو یہ حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرض عائد کئے ہیں اپنے بندوں پران فرائض کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرو.ان عہدوں کو جو تم سے لئے گئے ہیں ، نبا ہو.ان حقوق کو جو قائم کئے گئے ہیں تم قائم کرو اور خدا تعالیٰ کے بندوں میں تفریق نہ کرو.اور دوسرے ہمیں یہ فرما یا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت سے پیش نہ آؤ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو عہد لیا گیا ہے ہم سے اور جو ہم پر فرض کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو اُسوہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سامنے پیش کریں اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو.ہر وہ شخص جو اُسوۂ نبوی کو چھوڑ دیتا ہے اور ان قدموں کے نشانوں کی پیروی نہیں کرتا جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے قدم ہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸۸ خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۹ء وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کرنے والا ہے.پھر فرمایا کہ باہمی امانتوں میں خیانت نہ کرو وَتَخُونُوا امنتكم باہمی امانتوں کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے.ان کے معنے فرض کے اور عہد کے ہیں اور آپس کے جو حقوق ایک دوسرے کے اللہ تعالی نے قائم کئے وہ بنیادی طور پر اور اصولی لحاظ سے بہت سے ہیں جن میں سے آج میں نے چند ایک مثالیں آپ کو سمجھانے کے لئے منتخب کی ہیں.باہمی امانتیں ہیں.مال سے تعلق رکھنے والی تو فر ما یاکسی کا مال نہ کھاؤ.یہ بددیانتی ، خیانت اور امانت کے خلاف یہ فعل مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتا ہے.ایک شخص اپنے مال کا ایک حصہ دوسرے کے پاس بطور امانت کے رکھ دیتا ہے.اس کا فرض ہے کہ جب وہ مانگے اسے واپس دے.ایک مال کا یہ حق ہے کہ خرید وفروخت کے وقت جتنا پیسہ جتنی رقم کوئی شخص دے اس کے مطابق اس کو سودا دیا جائے اگر ایک کلو کی قیمت دوروپے ہے تو جو دکاندار دو روپے لے لیتا ہے لیکن تولتے وقت وہ ہوشیاری کے ساتھ ایک کلو کی بجائے کسی کو پندرہ چھٹانک دیتا ہے تو یہ مال کے حقوق کو اس نے غصب کیا ہے.وہ خیانت کرنے والا بن گیا.ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ یتیموں کا مال کھا لیتے ہیں.قرآن کریم نے اس تفصیل میں جا کے بھی بہت سی چیزوں کے متعلق روشنی ڈالی.کچھ ہدایتیں ہمیں اصولی طور پر دے دیں کہ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ان ہدایات سے روشنی حاصل کر کے صداقت اور حق پر اپنے اعمال کو قائم رکھ سکتے ہیں.پھر جان کے حقوق ہیں.یہ دوسرا چھوٹا عنوان ہے باہمی امانتوں کے متعلق جان کا ایک حق تو یہ ہے کہ بغیر حق کے کوئی جان نہ لی جائے.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے اور یہ بڑا ز بر دست اعلان ہے.پھر جان کا ایک حق یہ ہے کہ ایسا فتنہ نہ پیدا کیا جائے کہ کسی جان کو ایذا اور دکھ پہنچے.الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرة : ۱۹۲) اور اسلام نے کسی کی جان لینے سے زیادہ اس کو اہمیت دی ہے کہ سولی پر لٹکائے رکھنا، زندگی اجیرن کر دینا ، جان کا حق یہ ہے کہ اس کی پرورش کے لئے جو کچھ اسے چاہیے وہ اسے دیا جائے.ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں.پھر انسان کی عزت کے حقوق ہیں.ہر انسان اشرف المخلوقات کا ایک فرد اور خدا کی نگاہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۸۹ خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۹ء میں بڑا معزز ہے.اپنی پیدائش کے لحاظ سے، اپنی خلق کے لحاظ سے، اپنی طاقتوں اور قوتوں کے لحاظ سے ، رفعت کے حصول کے لئے جو ممکن راہیں اس پر کھولی گئی ہیں ان کے لحاظ سے ، خدا تعالیٰ کے پیار کو جس طرح وہ حاصل کر سکتا ہے کوشش کر کے اس کے لحاظ سے إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء : ۱۴۰) حقیقی عزت تو وہ ہے جو کوئی شخص اپنے ربّ کریم کی نگاہ میں رکھتا ہے.اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے مادی اور غیر مادی سامان پیدا کئے ہیں جو عزت کے حقوق قائم کرتے ہیں اور وہ سامان ہر انسان کو ملنے چاہئیں.حقارت کی نظر نہیں ڈالنی.حقارت کا کلمہ نہیں بولنا.حقارت کا سلوک نہیں کرنا.اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھنا.کسی کے خلاف تکبر نہیں کرنا.پھر ایک بڑا حق باہمی امانتوں کا جو قائم کیا گیا ہے، وہ اجرت کے حقوق ہیں.ایک شخص اپنا وقت دوسرے کو دیتا ہے اور اس Understanding اس معاہدہ پر اس عہد کے نتیجہ میں کہ وہ اس کے وقت کے بدلے میں اس کو یہ دے گا تو جو بدلہ میں دینا ہے وہ اس کی امانت ہوگئی نا.یہ امانتیں پڑی رہتی ہیں بعض دفعہ.یا اُجرت کے بعض حصے سال میں ایک یا دو دفعہ مزدور کو بھی اس آج کل کی اقتصادی دنیا میں بونس کی شکل میں ملتے ہیں.جب تک ان کو نہیں ملتے وہ بطور امانت کے پڑے ہوئے اس لمیٹڈ کمپنی یاکسی اور سرمایہ کاری کے یونٹ میں.پھر اہلیت کے حقوق ہیں.خدا تعالیٰ نے ہر فرد واحد کو، مرد ہو یا عورت بہت سی اہلیتیں دے کر ، استعداد میں عطا کر کے ، قوتیں دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے.ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق ملنا چاہیے.یہ اس کی امانت ہے.قرآن کریم نے دوسری جگہ کہا ہے کہ جو اہل ہیں اپنی اہلیت کے نتیجہ میں اہل بن گئے وہ تم ان کی امانت ان کو دو.چوتھے یہ فرمایا کہ جو خیانت کرنے والے ہیں ان کی طرفداری نہ کرو.اتنا فساد پیدا ہوا ہے دنیا میں خدا تعالیٰ کے اس حکم کو نہ مان کر.خیانت کرنے والوں کی پناہ بن کر ، ان کے وکیل بن کر ، ان کی طرفداری کر کے کہ اس نقصان کا اندازہ بھی انسانی عقل نہیں لگا سکتی اور یہ ظالمانہ کھیل دنیا کے ہر ملک میں ہی کھیلا جارہا ہے، کسی جگہ تھوڑا کسی جگہ زیادہ.اگر انسان اس اصول کو مضبوطی سے پکڑ لے کہ چونکہ خیانت نہیں کرنی اس واسطے خیانت کرنے والے کی طرفداری بھی نہیں کرنی تو
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۹۰ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء دنیا کا معاشرہ ایک کروڑ گنا شاید ارب گنا زیادہ حسین ہو جائے آج کے معاشرہ سے لیکن محسن تو انسان کے سامنے اسلامی تعلیم میں پیش کیا گیا لیکن اسے قبول کرنے میں وہ ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں.پانچویں ہمیں یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ خائن کو ، خیانت کرنے والے کو اپنے پیار سے محروم کر دیتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا جو خائن کی ، خیانت کرنے والے کی طرفداری کرنے والا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے پیار سے، اس کی محبت سے اس کی نعمتوں سے، اس کی طرف سے آسمانوں سے آنے والی عزت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور چونکہ خیانت کرنے والے خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم کر دیئے جاتے ہیں، چھٹی بات ہمیں یہ بتائی ان آیات میں کہ جو خیانت کرنے والا ہے وہ اپنی تدبیر اور کوشش میں ناکام ہوتا ہے.خیانت کرنے والے جس مقصد کے حصول کے لئے خیانت کرتے ہیں حقیقی طور پر اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.مثلاً چور بھی خیانت کرنے والا ہے.دوسرے گھر میں گھستا اور بغیر حق کے ڈاکہ مارتا ہے دوسرے کے مال پر.نہ اس کی کوئی عزت ، نہ اس کے مال میں کوئی برکت.کروڑوں کی چوری کرنے والے بھی فقیروں سے بھی گندے کپڑوں کے اندر پھرتے دیکھے گئے.پھر ہر وقت دل کو دھڑکا.شاید خدا کے خوف سے وہ دل نہ دھڑکتے ہوں لیکن انسان کے خوف سے تو ضرور دھڑکتے ہیں.اندر کی ضمیر ان کو جھنجھوڑتی ہے کہ تم نے کیا کیا.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو حقیقی کامیابی ہے اس میں ایک خیانت کرنے والا کامیاب نہیں ہوسکتا.حقیقی کامیابی اسے مل نہیں سکتی اور وہ نا کام ہوتا ہے.یہ بہت ساری باتیں میں نے ان آیات میں سے نکال کر آپ کے سامنے پیش کی ہیں.کسی ایک حکم میں بھی مومن اور کافر میں بحیثیت انسان فرق نہیں کیا گیا.یہ نہیں کہا گیا کہ ایک مومن کو تو یہ حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خیانت نہ کر لیکن کا فروں کو ہم کہتے ہیں بے شک خیانت کر وہ تمہیں پکڑ کوئی نہیں ہوگی.یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مومنوں کے لئے اُسوہ ہیں.اگر آپ کی بعثت اور رسالت كافة للناس ہے تو آپ کا مقام اُسوہ ہونے کا بھی بنی نوع انسان کے لئے ہے کسی ایک گروہ کے لئے نہیں.یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان کے مال میں خیانت نہ کر
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۹۱ خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۹ء اور غیر مسلم کے مال میں خیانت کرتارہ، تجھ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی.مومن و کا فرکسی کے مال میں بھی خیانت نہیں کرنی.جان کے حقوق میں نے بتائے ہیں.یہ نہیں کہا کہ مسلمان کی جان نہ لے، غیر مسلم کی بغیر حق کے جان لے لے.حق تو صرف حکومتوں کو ہے یا قصاص میں اگر وہ اسلامی اصول چل رہا ہو یا یہ نہیں کہا مسلمان کی زندگی دکھوں سے نہ بھر غیر مسلم کو ہر وقت دکھ دیا کر.یہ بالکل نہیں کہا بلکہ یہ کہا ہے کہ مسلم ہو یا غیر مسلم جو تمہاری باہمی امانتیں ہیں ( قرآن کریم نے ان کی تفصیل دوسری جگہ بیان کی ہے ) وہ تمہیں ادا کرنی ہوں گی یہ نہیں دیکھنا ہوگا کہ جس کا یہ حق ہے وہ اللہ پر اس کے رسول پر ایمان لاتا بھی ہے یا نہیں لاتا.عزت کے حقوق ہیں.عزت کے حقوق میں جذبات کا خیال رکھنا بھی آجاتا ہے.یہ نہیں کہا کہ مسلمان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے.یہ کہا کہ شرک ہے تو سب سے بڑا ظلم اور گناہ لیکن ایک مشرک کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں پہنچے گی تیری زبان سے.لا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الانعام : ۱۰۹) یہ نہیں کہا کہ اگر مزدور مسلمان ہے تو اجرت کے حقوق اسے ادا کر ، اگر غیر مسلم ہے تو نہ کر.یہ کہا کہ جس سے تو اُجرت لیتا ہے وہ مسلم ہے یا غیر مسلم، مومن ہے یا کافر، موحد ہے یا مشرک، جو بھی اس کا عقیدہ ہے جو بھی اس کے خیالات ہیں، جتنا اس نے کام کیا وہ اس کا حق بنتا ہے وہ امانت ہے تیرے پاس، اس کا حق ادا کر ، اس کی اُجرت پوری دے اور وقت پر دے.یہ نہیں کہا کہ اہلیت کے لحاظ سے جو حقوق قائم ہوتے ہیں وہ مسلمانوں کے ادا کرو اور جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ پر یہ الزام لگاؤ کہ اس نے ان کو وہ اہلیت کیوں عطا کی اور غلطی کی خدا نے اور ہم اس کی اصلاح کرنے لگے ہیں.یہ کہا جس کو خدا نے اپنے فضلوں سے، اپنی ربوبیت کے نتیجہ میں ، اپنی رحمانیت کے جلوؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت تو مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کر رہی ) اہلیت پیدا کی ہے تم نے اس اہلیت کے حقوق کو ادا کرنا ہے اور اہل کو ان کی امانتیں دینی ہیں.خیانت کرنے والا مسلمان بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم بھی.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ اگر خیانت کرنے والا غیر مسلم
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۹۲ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء ہے تو اس کی طرف داری نہ کر اور اگر مسلمان ہے تو اس کی طرف داری کر.یہ کہا ہے کہ خیانت کرنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے اس کی تم نے طرف داری نہیں کرنی.خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ خیانت کرنے والے کو بھی اپنے پیار سے محروم کروں گا.یہ اعلان نہیں کیا کہ خیانت کرنے والا اگر غیر مسلم ہے تو میں اپنے پیار سے محروم کروں گا اگر مسلمان ہے تو پھر میں اُسے اپنے پیار سے محروم نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو خیانت کرنے والا ہے وہ اپنی تدبیر اور کوشش، حقیقی اور سچی کامیابی حاصل نہیں کرے گا.یہ نہیں کہا کہ اگر وہ کافر ہے تو حقیقی اور سچی کامیابی حاصل نہیں کرے گا.اگر وہ مومن ہے تو اسے معاف کر دیا جائے گا.بالکل نہیں بلکہ مومن و کافر ہر دوکو ایک مقام پہ لا کے کھڑا کیا.ہر دو کے حقوق قائم کئے.ہر دو کی ذمہ داریاں بتا ئیں اور کوئی فرق نہیں مسلم اور غیر مسلم کا جیسا کہ میں نے بتایا موحد اور غیر مؤحد کا کوئی فرق نہیں کہ جی مشرک ہے اس واسطے اس کے حقوق ہم نے تلف کر لینے ہیں یہ کوئی نہیں ، نہ ان کو حق پہنچتا ہے حقوق کے تلف کرنے کا ، نہ کسی مسلمان کو حق پہنچتا ہے.دوسرا ہے عدل.جیسا کہ میں نے بتایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم كَافَةً لِلنَّاسِ مبعوث ہوئے.اس واسطے جہاں بھی کم کی ضمیر آئی ہے سوائے اس کے کہ وہاں قرینہ ہو کہ اس کو ہم 66 محدود کر دیں وہ سارے انسانوں کی طرف پھرتی ہے سارے قرآن کریم میں.سورۃ شوری میں ہے وَأُمِرْتُ لِاعْدِلَ بَيْنَكُمُ (الشوری: ۱۲) مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ میں تم سب انسانوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کروں اور بنی نوع انسان میں عدل کو قائم کروں.تو بینم کی ضمیر جیسا کہ میں نے بتایا یہ سب انسانوں کی طرف پھرتی ہے قطع نظر اس کے کہ ان کے عقائد کیا ہیں یا ان کا علاقہ کیا ہے.عدل کے معنی کئے گئے ہیں اَلتَّقْسِيطُ عَلَى سَوَآء.برابر کا سلوک کرنا.یہ مفردات میں ہے.وَالْعَدُلُ ضَرْبَانِ دو قسم کا عدل ہے.ایک مطلق عدل جس کو ہماری عقل اور ہماری فطرت عدل قرار دیتی ہے اور قرآن کریم اس کے اوپر روشنی ڈالتا ہے اور یہ وہ عدل ہے جس کے محسن کی عقل بھی گواہی دیتی ہے، انسانی فطرت بھی ، قرآن کریم کی تعلیم بھی اور وہ تعلیم مستقل
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۹۳ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء نوعیت کی ہے.حالات کے ساتھ یہ اجازت نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی تبدیلی آئے.مثلاً الْإِحْسَانُ إِلى مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْكَ جو شخص تم پر احسان کرتا ہے تم بھی اس پر احسان کرو.یہ عدل ہے.کسی حالت میں بھی یہ حکم بدلتا نہیں.دوسری قسم کا عدل ہے.وَ كَفُّ الْآذِيَّةِ عَمَّنْ كَفَ أَذَاهُ عَنْكَ اور جو تمہیں دکھ نہیں.پہنچا تا تم بھی اسے دکھ نہ پہنچاؤ.اور وہ کہتے ہیں کہ ایک عدل ایسا ہے جس میں شرع نے مناسب حال اعمال صالحہ کہتے ہیں اسے ) کام کرو.اس میں اس کی شکل بدلتی ہے مثلاً وَ جَزْوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) اب جتنا کوئی کسی کو دکھ پہنچائے یا کسی کو نقصان پہنچائے اسی قدر اس کو سزا دینا ، یہ حکم ہے، یہ عدل ہے لیکن یہاں قرآن کریم نے ساتھ ہی کہہ دیا.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ تو اس میں عدل سے زیادہ مہربانی کرنے کا ایک راستہ کھول دیا.عدل سے کم کا راستہ کوئی نہیں کھولا قرآن کریم نے لیکن عدل سے اوپر اٹھا کے کہا.احسان کرو تو عدل کے معنی ہیں هُوَ الْمُسَاوَاهُ فِي الْمُعَافَاتِ کسی کے عمل کے مطابق بدلہ دینا.وہ عمل اچھا ہو ، اچھا بدلہ، بُرا ہو، برا بدلہ لیکن اسی کے مطابق.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وہ ساری تعلیم جو میں تمہاری طرف لے کے آیا ہوں وہ اس لئے ہے کہ تمہارے درمیان عدل قائم کیا جائے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے بينكم “ کی ضمیر بنی نوع انسان کی طرف پھرتی ہے.سورہ مائدہ میں فرما یا :.د در ورود ،، وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة : ٩ ) يه جو ہے کسی قوم کی دشمنی اس سے ظاہر ہوا کہ یہاں جو حکم ہے وہ یہی ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کئے بغیر تم نے عدل کو قائم کرنا ہے کیونکہ مسلمانوں کے متعلق تو یہ فرمایا.أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (ال عمران : ۱۰۴) تو مسلمان کی تو آپس کی دشمنی کو قرآن کریم تسلیم ہی نہیں کرتا کہ ایک مسلمان ، مسلمان ہوتے ہوئے دوسرے مسلمان سے دشمنی رکھے.یہاں ذکر ہے دشمنی کا.معلوم ہوا یہاں غیر مسلم کے متعلق بات ہے.کسی قوم کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۹۴ خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۹ء دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو.تم عدل وانصاف سے کام لو.اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى عدل و انصاف تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.تقویٰ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آجانا.تو فرمایا کہ عدل اور انصاف کی راہ کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ گے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم اسلام کے دشمن سے بھی عدل اور انصاف سے کام نہیں لو گے تو تم خدا تعالیٰ کی پناہ سے نکل جاؤ گے.اس لئے تم اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کر یعنی اس کی پناہ ہی ہمیشہ ڈھونڈتے رہو اور کوئی دشمنی تمہیں کسی ایسے کام کے کرنے پر مجبور نہ کرے کہ جس کے نتیجہ میں تم خدا تعالیٰ کی پناہ سے باہر نکل جاؤ اور خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکارے جاؤ.پھر حضور انور نے فرمایا:.وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى (الانعام :۱۵۳) جب کوئی بات کہو تو خواہ وہ شخص جس کے متعلق بات کی گئی ہے تمہارا قریبی ہی ہو ( یعنی تعصب اس کے حق میں بھی آسکتا ہے) تعصب نہ آنے دو.عدل و انصاف سے کام لے کے بات کرو اور اگر ایسا کرو گے وَ بِعَهْدِ اللهِ اوفوا (الانعام : ۱۵۳) تو خدا نے جو عہد لیا ہے تم سے جو فرائض تم پر عائد کئے ہیں تم ان کو پورا کرنے والے ہو گے.اگر ایسا نہیں کرو گے، اگر اپنوں کے لئے حق وانصاف کی بات کو چھوڑ دو گے تو خدا تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کو توڑنے والے ہو گے اس عہد کو نباہنے والے نہیں ہو گے خیانت کرنے والے ہو جاؤ گے.پھر اللہ تعالیٰ سورۃ نحل میں فرماتا ہے.( جو آیت میں نے لی وہ تو دوسرے مضمون کا حصہ ہے ).هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَ مَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ هُوَ عَلَى صِرَاطٍ مسْتَقِيمٍ (النحل ۷۷) مفہوم میں نے پہلی آیتوں کا لیا ہے تا کہ اگلا مفہوم واضح ہو جائے.اللہ تعالیٰ دو شخصوں کی حالت بیان کرتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا ہے جو کسی بات کی طاقت نہیں رکھتا.میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں شرافت گونگی ہے.آواز نہیں نکلتی شرافت کے حق میں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو شخصوں کی حالت بیان کرتا ہے اللہ.جن میں سے ایک تو گونگا ہے جو کسی بات کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ ہے.جدھر بھی اس کا آقا
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۹۵ خطبه جمعه ۲۸ ر ستمبر ۱۹۷۹ء اسے بھیج، جو ذمہ داری بھی اس کے سپرد کی جائے.وہ کوئی بھلائی کما کر نہیں لاتا، نا کام ہوتا ہے اپنے مشن میں ، اپنے کام میں.ایک تو وہ شخص ہے کیا وہ شخص جس کا اوپر ذکر ہے جو گونگا ہے اور خیر کی طاقت نہیں رکھتا اور نا کام ہوتا ہے وہ شخص اور وہ دوسرا شخص جو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھی راہ پر قائم ہے باہم برا بر ہو سکتے ہیں؟ یہاں موازنہ کیا گیا ہے اس شخص کا جو خود بھی عدل کرتا ہے علی صراط مستقیم پر قائم ہے اور اپنے ماحول میں بھی عدل کی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ شخص ہے.جہاں نفی ہوئی پہلی چیزوں کی.اس شخص کے حق میں نفی مثبت میں بدل جائے گی.یہ وہ شخص ہے کہ جدھر بھی اس کا آقا اسے بھیجے وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا اور بھلائی کما کر لاتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو گونگا نہیں جو کسی بات کی طاقت نہ رکھتا ہو اور یہ وہ شخص ہے جو اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا اس غرض کو پورا کرنے والا ہے یہ شخص اپنی زندگی اور اعمال صالحہ کے نتیجہ میں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بڑی عظیم تعلیم ہے یہ.عدل پر قائم رہو.عدل وانصاف کی بات کر و حق وانصاف کا کام کرو لیکن شیطان تمہارے پیچھے پڑا ہوا ہے شیطان تمہیں صراط مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کرے گا.کس راستے سے وہ آئے گا ، وہ ہم بتا دیتے ہیں وہ دروازہ بند کر دو شیطان کے لئے شیطان تمہارے پاس نہیں آئے گا.فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا (النساء : ۱۳۶) خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو ورنہ تم عدل پر قائم نہیں رہ سکو گے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پیار کو حاصل کرنے کے لئے عدل پر قائم رہنا ضروری ہے اور عدل پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ شیطان تمہارے دل اور دماغ اور روح میں کوئی فتنہ اور شیطانی وساوس پیدا نہ کرے، اور یہ فتنہ شیطان پیدا کرتا ہے ہوا و ہوس اور خواہشاتِ نفسانی کے ذریعہ سے.تو ہم تمہیں کہتے ہیں شیطان خواہشات نفسانی پیدا کرے گا کیونکہ ہم نے اس کو اجازت دی ہے.اس کو کہا بے شک کر تمہیں کہتے ہیں اس کی بات نہ مانولا تَتَّبِعُوا الهَوى.تم اگر خواہشات نفسانی کی پیروی نہیں کرو گے تو عدل کے مقام سے کبھی نہیں گرو گے اور اگر عدل کے مقام سے تم نہیں گرو گے تو میرے پیار کو تم حاصل کرو گے.تم صراط مستقیم پر ہو گے جس کا پچھلی
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۹۶ خطبه جمعه ۲۸ ر ستمبر ۱۹۷۹ء آیت میں ذکر ہے جو سیدھی میری رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے.ان آیات سے ( کچھ تو میں نے ان کے ترجمے کے وقت بتادی ہیں اس کو دہرا دیتا ہوں ) جن باتوں کا پتا لگتا ہے وہ یہ ہیں کہ تمام انسانوں کے درمیان عدل کرنے کا حکم ہے تمام انسانوں کے درمیان.وسرے یہ کہ دشمنی عدل کے خلاف آمادہ نہ کرے.اس زمانہ میں بدقسمتی سے آپس میں أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ کے باوجود فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا کے باوجود مسلمان مسلمان بھی لڑ پڑتے ہیں لیکن جو اس کے حقیقی مصداق تھے وہ تو ایسا نہیں کرتے تھے.غیر مسلم کی دشمنیوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ ان کی دشمنیاں بھی ، اے میری بات ماننے والو! تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کریں کہ عدل کی جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے تم اسے چھوڑ کے خیانت اور بے انصافی کی راہوں کو اختیار کرو.ہمارا حکم یہی ہے کہ دشمن سے بھی عدل وانصاف کیا جائے.تیسری بات یہ بتائی گئی کہ عدل تقویٰ کے سب سے قریب ہے.اَقْرَبُ لِلتَّقْوی یعنی اگر تم میری پناہ میں آنا چاہتے ہو، اگر تم تقویٰ کی چادر میں اپنے وجود کو لپیٹ ( کر) شیطان کے تمام حملوں سے محفوظ رہنا چاہتے اور میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں عدل کے مقام پر قائم رہنا ہوگا.چوتھے یہ بتایا کہ جب تک کوئی شخص عدل کے مقام پر مضبوطی سے قائم نہ رہے وہ یہ خیال دل میں نہ لائے کہ اسے پھر خدا کی پناہ بھی ملے گی اور اس کی مدد اور نصرت بھی حاصل ہوگی.پانچویں یہ کہا کہ انصاف کرو اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو.چھٹے یہ بتایا کہ جو عدل نہیں کرتے وہ پھر کسی خیر کی طاقت نہیں رکھتے.فساد ہی پیدا کرنے والے ہیں.ساتویں یہ بتایا کہ جو عدل نہیں کرتے وہ صراط مستقیم پر نہیں.بھٹکے ہوئے ہیں.مقصدِ حیات کو وہ حاصل نہیں کر سکتے.آٹھویں یہ بتایا کہ خواہشات نفس کی پیروی عدل وانصاف کی راہ سے دور لے جاتی ہے.اس واسطے ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرنی اور نویں یہ بتایا (() جو اہل ہیں ان کو ان کی امانتیں دو اور (ب) جو فیصلے ہوں ان میں عدل ہو.یہ دوسری آیت ہے جو پڑھنے سے رہ گئی ہے.تُؤَدُّوا
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۹۷ خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۹ء الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (النساء :۵۹) جو اہل ہیں ان کو ان کی امانتیں دو.اہلیت خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہوتی ہے.اہلیت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کی نشوونما سے ظاہر ہوتی ہے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ وہ یو نیورسٹی میں فرسٹ آتا اور ریکارڈ توڑتا ہے خدا کہتا ہے جو اہل ہے اس کو اس کی امانت دو.اس کی Appreciation کرو ایک تو یہ ہے.پھر اگر کوئی وظیفہ فرسٹ آنے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو یہ کوشش نہ کرو کہ اس شخص کو نہ ملے بلکہ ہمارے کسی دوست کے بیٹے کو ملے جو فرسٹ نہیں آیا.دنیا میں یہ ہوتا رہتا ہے.ساری دنیا ہی گند میں ملوث ہوئی ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ نے پھر یہ کہا کہ اہلیت کی بنا پر ہی نہیں بعض ایسے حقوق ہیں.دراصل تو ہر حق ہی اہلیت کی بنا پر آتا ہے اور اسی کے ساتھ یہ ہے کہ بعض تو ایسے فیصلے ہیں جن کا تعلق حاکم وقت سے نہیں مثلاً یو نیورسٹی نے فیصلہ کرنا ہے.بعض کا فیصلہ با ہمی پنچایتوں نے کرنا ہے.باہمی گفت وشنید نے کرنا ہے.بعض کا فیصلہ باہمی اقوام نے کرنا ہے یہ بہت ساری ایسی اہلیتیں جن کا تعلق حاکم وقت سے نہیں.تو پہلے یہ اصول بتادیا کہ ہر اہلیت جو بھی مطالبہ کرتی ہے وہ امانت ہے اور وہ امانت حق دار کو، جو اہل ہے اسے ملنی چاہیے اور دوسرے یہ کہا کہ اپنے ملک کے اندر حاکم وقت کا یہ فرض ہے کہ انصاف اور عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑے اور تعصبات سے بالا ہو کر عدل کے مقام کو مضبوطی سے پکڑ کے اسلامی تعلیم کی روشنی میں وہ حکومت چلائے تا کہ ملک کے اندر خوشحالی پیدا ہو.تعصب جو ہے میں بہت دفعہ پہلے بھی سمجھا چکا ہوں آپ کو ، یہ صرف جماعت احمدیہ کے خلاف ہی تو تعصب نہیں ہمارے ملک میں بے شمار تعصبات ہیں.بڑی تکلیف ہوتی ہے دیکھ کے.مثلاً ایک وقت میں ہمارے سامنے آگئے صوبائی تعصبات.ہمارے سامنے آگئے زبان کا جو فرق ہے اس کا تعصب.پشتو بولنے والا پنجابی بولنے والے کو پسند نہیں کرتا ، پنجابی بولنے والا پشتو بولنے والے کو پسند نہیں کرتا وہ اس کے حقوق مارنے کے لئے تیار.یہ اس کے حقوق مارنے کے لئے تیار.خدا نے کہا اس طرح نہیں کام چلے گا.پھر تعصب اپنے نا اہلوں کے حق میں تعصب غیر اہل کے خلاف یہ تعصب ہے یعنی جو اہل نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۳۹۸ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء اس کو دے دینا، جو اہل ہے اس کو نہ دینا.بے شمار شکلیں ہیں تعصبات کی ، بے شمار شکلیں ہیں خدا تعالیٰ کی اس حسین تعلیم کو توڑنے کی جو ہمیں نظر آتی ہیں.ہمارا کام تو ہے وعظ کرنا.وعظ کر دیتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ہمارا یہ کام ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو اس عظمت سے شناسا کرے جو عظمت خدا تعالیٰ نے ان کے لئے پیدا کی اور جن رفعتوں تک خدا تعالیٰ انسان کو لے جانا چاہتا ہے نوع انسانی اس رفعت کو حاصل کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چل کے وہ اس یقین پر پہنچیں کہ واقعی ایسی جنتیں جن کے حسن کی ، جن کی لذت کی ، جن کے سرور کی کوئی مثال نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی رضا کی ان جنتوں تک ہمیں لے جانے والے ہیں ہمارا کام ہے دعائیں کریں اور وعظ کریں.وعظ بھی ہم کر دیتے ہیں اور دعائیں بھی.آپ کو بھی جتنی توفیق ملے بہت دعائیں کریں.نوع انسانی کے لئے دعائیں کریں پہلا حق تو ان کا ہے نا.پہلا حق اس کا ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب کر کے کہا میں تمہاری طرف مبعوث ہو کر آیا ہوں وہ ہیں كَافَةُ لِلنَّاسِ.اِنِّى رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُم جَمِيعًا.اے لوگو! میں ساروں کی طرف آیا ہوں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں تم سب کی طرف اے انسانو ! مبعوث ہو کے آیا ہوں اور اگر ہم اپنی دعاؤں میں سب انسانوں کو بھول جائیں تو پھر ہمارا کیا پیار باقی رہ جائے گا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور مقام کو اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے حُسن اور اس کے احسان کو اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور آپ کے اُسوہ کو پہچانتے نہیں تو فیق عطا کرے وہ ان سب کو پہچاننے لگ جائیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے کا ان کے لئے سامان پیدا ہو جائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ اگست ۱۹۸۰ صفحه ۱ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۳۹۹ خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۷۹ء پاک اور متقی وہی ہے جسے خدا پاک اور متقی قرار دے خطبه جمعه فرموده ۵/اکتوبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان خدا سے دور ہو کر ہی انانیت کا چولہ نہیں اوڑھتا اور تکبر اور فخر اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کی لعنت میں مبتلا نہیں ہو جاتا اور خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنے کے بعد ہی اس قسم کی انا کا، انانیت کا مظاہرہ نہیں کرتا جس قسم کی انانیت کا مظاہرہ فرعون نے آنا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (النزعت : ۲۵ ) کہہ کر کیا تھا بلکہ خدا پر ایمان لانے کے بعد بھی اس ابتلا کا دروازہ انسان پر کھلا رہتا ہے.اسلام نے مذہب کی جو بنیادی حقیقت ہمیں سمجھائی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا کام ہے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر اخلاص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ ان اعمال کو وہ بجالائے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ بجالا ؤ اور ان سے اجتناب کرے جن سے بچنے کے لئے حکم دیا گیا ہے.اعمال کو قبول کرنا یا نہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.ان چھپی ہوئی پوشیدہ ایسی کمزوریوں کو جاننا جن پر انسان خود بھی اطلاع نہیں رکھتا.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.یہ انسان کر ہی نہیں سکتا.اس لئے اسلام کی اس تعلیم کا جو حصہ ہے، اس کا خلاصہ....اس فقرہ میں بیان کیا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد سمجھو کہ کچھ نہیں کیا.اس لئے کہ قبول کرنا یا نہ کرنا، یہ تواللہ تعالیٰ کا کام ہے.کوئی شخص ساری
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۰۰ خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۷۹ء ساری رات خدا کے حضور بظاہر دعائیں کرنے کے باوجود خدا کا پیارا نہیں بنتا.مالی قربانیاں دینے کے بعد ، وقت کی قربانی دینے کے بعد نفس کی قربانی دینے کے بعد، عزت کی قربانی دینے کے بعد خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول نہ کرے.اس سلسلہ میں حکم قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے کہ لا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) خود اپنے نفس کو اور ایک دوسرے کو ( یہ دونوں مفہوم اس میں آتے ہیں ) پاک اور مطہر نہ قرار دیا کرو.مختلف آیات میں یہ مضمون اور اس کے مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں.چند ایک آیات آج کے خطبہ کے لئے میں نے منتخب کی ہیں.میں کوشش کروں گا کہ مختصر خطبہ دوں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں اللہ ہی بہتر جانتا ہے.سورہ حجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ۳۳) دنیا میں خدا کے علاوہ کوئی وجود تمہیں اتنا نہیں جانتا جتنا خدا جانتا ہے.سب سے زیادہ تمہیں اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے.آگے دلیل دی کیونکہ اسلام حکمت سے پُر مذہب ہے.اذُ انْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ (النجم : ۳۳) اس وقت سے جانتا ہے کہ جب اس نے زمین کے ذروں کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہارے وجود کا حصہ بنیں.ابھی ماں کے پیٹ میں تم نہیں گئے لیکن زمین کے ذرے کچھ ایسے پیدا کئے گئے تھے جو تمہارے جسم کا حصہ بنے.ہر فردِ واحد مختلف مجموعہ ہے ذرات کا.وہ ذرات اس کے جسم کا حصہ بنتے ہیں.إِذْ انْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ جب تم کو اس نے زمین سے پیدا کیا اس وقت سے وہ تمہیں جانتا ہے تو یہ ذرات ہیں جو فلاں فرد واحد کے جسم کا حصہ بنیں گے.وہ اس کا جسم بنا دیں گے.وَإِذْ انْتُمْ آجِنَّةُ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ (النجم : (۳۳) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں ابھی پوشیدہ تھے.پیدائش بھی تمہاری نہیں ہوئی تھی.خدا تعالیٰ اس وقت بھی جانتا تھا.تم اس وقت اپنے آپ کو جانتے تھے؟ نہیں، کوئی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا اپنے ہوش و حواس میں کہ میں اپنے نس سے واقف تھا اس وقت جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا.پیدائش کے بعد کے واقعات بھی نہیں جانتا.بعض بڑے ذہین بچے ہیں ان کو بہت بچپن کی باتیں یاد ہیں لیکن پیدائش کے بعد
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۰۱ خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۷۹ء کی جو چیخ نکلی اس کے منہ سے وہ کسی کو بھی یاد نہیں ہوگی لیکن خدا کہتا ہے میں تمہیں اس وقت بھی جانتا تھا جب ابھی تم اپنی ماں کے پیٹ میں پوشیدہ تھے اس لئے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم تم پاکیزگی کا دعوی میرے سامنے مت کرو.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى خدا جانتا ہے کہ تم میں کون متقی ہے اور کون متقی نہیں ہے.سورة ال عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ أَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَبِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وسووو وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم - (ال عمران: ۷۸) کہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے بڑے بڑے عہد باندھتے ہیں.قربانیاں کرنے کے خدا تعالیٰ سے عہد باندھتے ہیں.ایثار کرنے کے، مال اس کے حضور پیش کر دینے کے، اپنے بچوں کو وقف کر دینے کے وغیرہ وغیرہ اور قسمیں کھاتے ہیں کہ جو انہوں نے عہد باندھا رب سے وہ ضرور پورا کریں گے لیکن پھر ایک وقت ان کی زندگی میں ایسا آتا ہے کہ وہ اپنے عہدوں اور قسموں کے بدلہ میں تھوڑی سی دنیوی قیمت لے لیتے ہیں.دنیا کے اموال انہیں ان کے عہد اور ان کی قسمیں بھلا دیتے ہیں.دنیا کی عرب تیں اور وجاہتیں اور انتخابات میں حاصل ہونے والے عہدے ان کو دنیا کی طرف کھینچ لیتے ہیں اور خدا سے دور لے جاتے ہیں.اِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ أَيْمَانِهِمْ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں تو وہ ایسا کر لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ ان کو اس قابل بھی نہیں سمجھے گا کہ ان کی طرف منہ کر کے ان سے بات کرے.وَلَا يَنظُرُ اليهم اور نہ ان کی طرف نظرِ التفات سے دیکھے گا.وَلا يُزکیھم بڑے بڑے دعوے ان کے اپنی زندگی میں تھے کہ ہم پاک مطہر ہیں لیکن ولا يزكيهم قیامت کے دن خدا اعلان کرے گا کہ میری نگاہ میں یہ لوگ پاک اور مطہر نہیں ان کو پاک نہیں ٹھہرائے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب اس نے مقذرکر رکھا ہے.جو پاک
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۰۲ خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۷۹ء اور مطہر ، خدا کی نگاہ میں ہو اس کی جزا ان کو نہیں ملے گی ، اس پاک اور مطہر کی جزا جو قرآن کریم میں بیان کی ہے جس کا ابھی ہم ذکر سنیں گے بلکہ عذاب الیم ان کے لئے مقدر کیا گیا ہے.سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ b فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا - اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ اَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يظْلَمُونَ فَتِيلًا - (النساء : ۵۰،۴۹) اللہ اس بات کو ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ کسی کو اس کا شریک قرار دیا جائے اور جو گناہ اس سے ادنی ہوا سے جس کے حق میں چاہے گا معاف کر دے گا.اللہ تعالیٰ کی رحمت ( رحمتی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) فرمایا گیا ہے ) ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے.ایک دن میں سوچ میں پڑ گیا کہ مشرک کو کلیۂ معاف نہ کرنا بھی خدا تعالیٰ کی اس رحمت کے خلاف نظر آتا ہے میرے جیسے عاجز انسان کو.تو مجھے یہ سمجھ آئی کہ جو شرک کے علاوہ دوسرے گناہ ہیں خدا تعالیٰ کلیۂ اگر چاہے، اس کا فضل اور رحمت نازل ہو تو معاف کر دیتا ہے لیکن شرک کو کلیۂ معاف نہیں کرتا عذاب میں تخفیف کر دیتا ہے.اس کی سزا کے متعلق یہ کہیں اعلان نہیں کیا قرآن کریم میں کہ میں مشرک کی جو سزا ہے اس میں تخفیف نہیں کروں گا.یہ کہا ہے کہ شرک کا کوئی گناہ معاف نہیں ہوگا.سزا ضرور ملے گی.اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا ہو تو سمجھو کہ اس نے بہت بڑی بدی کی بات بنائی اور افتر ا کیا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.الم ترَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ أَنْفُسَهُمْ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ایسے مومن جو ساتھ شرک میں بھی مبتلا ہیں وہ تزکیۂ نفس کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اس دنیا میں اور یہ نہیں سمجھتے کہ بَلِ اللهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ اصل تزکیۂ نفس اللہ سے ملتا ہے اور وہی حقیقہ تزکیہ نفس ہے جو خدا کی نگاہ میں تزکیہ نفس ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کو میں منشی مطہر نہیں ٹھہراؤں گا بلکہ ان کو عذاب دوں گا جیسے پہلے بھی ذکر ہے لیکن وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا عذاب ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے، خدا تعالیٰ کو ناراض کر دینے کی وجہ سے ملے گا.ان پر ذرہ برابر
خطبات ناصر جلد ہشتم بھی ظلم نہیں کیا جائے گا.۴۰۳ خطبه جمعه ۱۷۵ کتوبر ۱۹۷۹ء ابھی میں ایک اگلی آیت لے رہا ہوں جس میں وضاحت سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ایمان کے ساتھ شرک بھی ہے.سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ - أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ اَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ.( يوسف : ۱۰۷ ۱۰۸) اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے مگر.یہ ”نہیں“ جو ہے وہ اگلے حصے کے ساتھ لگتا ہے یعنی ایمان بھی لاتے ہیں وَمَا يُؤْمِنُ اكْثَرُهُم بِاللهِ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی لاتے ہیں مگر اس حالت میں بھی ان کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کا شرک بھی کر رہے ہیں.ایمان کا دعوی بھی ہے اور مشرکانہ عمل بھی ہے.دونوں پہلو بہ پہلوان کی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں.وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ.کہا یہ لوگ اس بات سے محفوظ اور بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے عذابوں میں سے کوئی سخت عذاب آ جائے یا اچانک ان پر وہ گھڑی آ جائے جس کی پہلے سے خبر دی جا چکی ہے وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ اور ان کو پتا بھی نہ لگے اس قدر اچانک خدا تعالیٰ کی گرفت انہیں پکڑے.سورہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تزکیہ چاہتے ہو اور طہارت پسند کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مزگی بننا چاہتے ہو.تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا پہلے میں نے بتایا ہے نا آیت میں تھا وَ مَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ تو یہاں آگے اس آیت میں جو ابھی میں پڑھوں گا یہ فرمایا کہ جب تم ایمان لاؤ تو پھر ( دوسرا حصہ جو ہے اس میں بڑا وسیع مضمون بیان کر دیا ) چھوٹا بڑا گناہ نہ کرو.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ وَ مَنْ يَتَّبِعْ خُطُوتِ الشَّيْطَنِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ( النور : ۲۲) ۖ کہ اے مومنو! اگر تم ایمان لانے کے بعد اس پیار کو حاصل کرنا چاہتے ہو جو خدا تعالیٰ کے مطہر بندے اپنے ربّ کریم سے حاصل کیا کرتے ہیں تو اس نصیحت کو مضبوطی سے پکڑو کہ شیطان
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۰۴ خطبه جمعه ۱۷۵ کتوبر ۱۹۷۹ء ود کے قدموں پر مت چلو اور یہ یادرکھو کہ جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے شیطان تو بدیوں کا حکم دیتا ہے فحشاء کا حکم دیتا ہے، نا پسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے وہ اس منکر یعنی نا پسندیدہ بات کا حکم دیتا ہے جس کو خدا بھی پسند نہیں کرتا.جس کو تمہاری فطرت صحیحہ بھی پسند نہیں کرتی اور وَ لَو لَا فَضْلُ اللهِ عليكم ورحمتہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا تو کبھی بھی تم میں سے کوئی پاک باز نہ ہوتا.پاکباز بننے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی ضرورت ہے.وَلَكِنَّ اللهَ يُذَبِّي مَنْ يشاء لیکن خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کی نگاہ میں پاکباز بنہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے کہ خدا کے بندے اس کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کر سکیں.رحمت اور فضل کو جذب کرنے کے لئے بیسیوں طریق بتائے ہیں یہ اعلان فرمایا :.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) کہ اگر دعاؤں کا سہارا نہیں لو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری کیا پرواہ کرے گا.اس کا فضل اور اس کی رحمت تمہیں حاصل نہیں ہوگی.وَلكِنَّ اللهَ يُزَكّي مَنْ يَشَاءُ خدا تعالیٰ جسے پسند کرتا ہے اسے مطہر پاک بنادیتا ہے، پاکباز بنا دیتا ہے اور والله سميع خدا تعالیٰ دعاؤں کو سنے والا ہے.ان کو صحیح طریق پر دعا کرنے کی توفیق دیتا ان کی دعاؤں کو سنتا اور ان کی دعاؤں کو سن کر شیطانی حملوں سے انہیں محفوظ کر لیتا ہے اور کبر اور غرور ان کی فطرت میں ان کے اعمال میں پیدا نہیں ہوتا اور جیسا کہ خدا نے پسند کیا وہ آسمانوں کی طرف پرواز کریں اور اس کے قرب کو حاصل کریں.وہ آسمانوں کی طرف پرواز کرتے اور اس کے قرب کو حاصل کرتے ہیں.زمین کی طرف جھکتے اور اس میں دھنس ہی نہیں جاتے وَاللهُ سَمِيع دعاؤں کو سننے والا ہے اور ظاہری دعاؤں کا نہیں علیہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری ظاہری، دکھاوے کی جو آہ و بکا ہے وہ اسے پسند آ جائے گی.وہ تو تمہارے چھپے ہوئے سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے.نیک نیتی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اور ایثار کے جذبات کے ساتھ اور اسی کے پیار اور اس کے محمد کے عشق میں مست ہو کر اس کے سامنے جھکو.وہ تمہاری دعاؤں کو قبول کرے گا.اپنی رحمت اور فضل کا تمہیں وارث بنائے گا اور تمہیں پاک اور مطہر کر دے گا.سورۂ اعلیٰ میں فرماتا ہے:.قَد أَفْلَحَ مَنْ تَزَکی (الا علی : ۱۵) جس نے اس طرح تزکیہ اور طہارت حاصل کرنے کی
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۰۵ خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۷۹ء کوشش کی وہ کامیاب ہو گیا اور پاکیزہ راہوں کی اگر خدا کے فضل سے اسے توفیق ملی ہے تو وہ نا کام نہیں ہوسکتا.وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا اور قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَلی کے بعد خدا تعالیٰ کے پاس جو شخص مومن ہونے کی حالت میں آتا ہے مومن تو پہلے بھی آیات میں آیا تھا لیکن یہاں بالکل واضح ہے کہ مومن سے وہ مراد ہے جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مومن ہے اور جس کے اعمال میں شرک کی ، نہ شرک خفی ، نہ شرک جلی ، نہ ظاہر و باطن کسی قسم کے شرک کی کوئی ملونی نہیں.وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا جس نے کوشش کی پاک اور مطہر ہونے کی اور خدا کے حضور وہ اس حالت میں پہنچا کہ خدا کی نگاہ نے بھی اسے پاک اور مطہر پایا اور قد عمل الصلحت اس حالت میں مومن کہ اس نے حالات کے مطابق نیک اعمال کئے تھے یعنی جہاں خدا نے جس رنگ میں جو عمل صالح کرنے کی اجازت دی تھی اور حکم دیا تھا اس کے مطابق وہ اعمال صالحہ بجالا یا تھا.فَأُولَبِكَ لَهُمُ الدَّرَجتُ العُلى ( طه : ٧٦ ) يروه لوگ ہیں جو اعلیٰ درجہ پائیں گے.یہ اعلیٰ درجہ کیا ہے؟ جنتُ عَدْنٍ ہمیشہ رہنے والی جنات ہیں.یہیں شاید ایک خطبہ میں میں نے اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی تھی.خُلِدِينَ فِيهَا جو مکان ہے وہ بھی اپنی افادیت کو ہمیشہ قائم رکھنے والا اور اس سے جو کچھ جنتی حاصل کرتے ہیں.کسی وقت بھی اس میں کمی نہیں آنے والی اور ان کی اپنی زندگی بھی نہ ختم ہونے والی ہے.خُلِدِينَ فِيهَا ۖ وَ ذَلِكَ جَزُوا مَنْ تَزَكَّى (طہ:۷۷) یہ اس شخص کی جزا ہے جو خدا کے نزد یک پاک اور مطہر ٹھہرا لیکن جنہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے لیکن خدا کی نگاہ میں وہ پاک اور مطہر نہیں ٹھہرے ان کی یہ جزا نہیں.یہ جو آیات میں نے اکٹھی پڑھیں ان میں ہمیں پندرہ باتیں نظر آتی ہیں.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تم کو خوب جانتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا وہ اس وقت سے جانتا ہے قرآن کریم کے کہنے کے مطابق جب ابھی زمین کے ذرات میں لوٹ پوٹ ہورہے تھے تمہارے اجسام، پھر جب تم اپنی ماں کے رحم میں پوشیدہ تھے اپنا تمہیں کچھ ہوش نہ تھا Consciousness یعنی یہ احساس نہ تھا کہ میں ہوں ماں کے پیٹ میں تو بچے کو یہ احساس نہیں ہوتا.خدا کو تمہارا علم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۰۶ خطبه جمعه ۱۷۵ کتوبر ۱۹۷۹ء ہے اس وقت سے میں جانتا ہوں.ایک یہ کہا.یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں وہ اس وقت سے ہمارا واقف ہے کہ جب ہم ، ہمارا جسم مٹی کے ذروں کے اندر تھے اور انہیں ادھر ادھر ہوا میں اڑا کے کہیں سے کہیں لے جارہی تھیں، پھر خدا تعالیٰ نے ایک وقت میں ان کو اکٹھا کر دیا مختلف طریقوں سے.اس وقت ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.دوسرے یہ حکم دیا کہ اپنی جانوں کو پاک مت قر اردو.تیسرے یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ متقی کون ہے.کوئی شخص اپنے متعلق کسی کے واقعی اور حقیقی اور مثبت طور پر متقی ہونے کا اعلان نہیں کر سکتا اور نہ کسی کے متعلق ایسا اعلان کر سکتا ہے.چوتھے پھر فرمایا کہ بعض لوگ خدا تعالیٰ کے حضور بڑے عہد باندھتے ہیں، بڑی قسمیں کھاتے ہیں ،لوگوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اس طرح کے فدائی اور جاں نثار اور ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے خدا کے حضور ہیں لیکن جب دنیا کے مال و متاع ان کے سامنے اور دنیا کی Commodities ان کے سامنے آئیں تو ساری قسمیں اور عہد جو ہیں وہ بیچ کے دنیا لے لیتے ہیں اور اپنے عہد کو توڑتے اور اپنی قسموں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پانچویں یہ فرمایا کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے اور اللہ کی رضا جو حاصل نہ کر سکے اس کے متعلق اس آیت میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.ایک یہ ہے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے.یہ نہیں کہا کہ آخرت میں ان کا تھوڑا سا حصہ ہے آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور آخرت کی جو عظمت ہے.اُخروی زندگی کی جو عظمت اور شان ہے وہ یہاں بیان ہوئی ہے.وہ جنتیں ، وہ پھل جیسے بھی ہیں اس زندگی کے لئے وہاں کا وہ پانی ، وہاں کا وہ شہد وہاں کا وہ گوشت لَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ (الواقعة : ۲۲) کہ جو تم پسند کرو گے وہ تمہیں مل جائے گا.ٹھیک ہے یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن بنیادی طور پر جو عظمت ہے اُخروی زندگی میں وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے ہم کلام ہو گا.یہاں یہ اعلان کیا آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں.خدا تعالیٰ ان سے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۰۷ خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۷۹ء کلام نہیں کرے گا اور تیسری بات یہ بتائی کہ نظرِ التفات سے بھی ان کو نہیں دیکھے گا.خدا تعالیٰ کی نظر سے تو کوئی غالب نہیں، کوئی چھپا ہوا انہیں ہر چیز اس کی نظر میں ہے.تو یہاں یہ جو کہا کہ لا يَنظُرُ اليهم یه نظرِ التفات ہی ہے.خدا تعالیٰ کی آنکھ میں بھی وہ پیار نہیں پائیں گے اور یہ محرومی بہت بڑی محرومی ہے.جنت کی بڑی عظمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ حاصل ہو.انسان وہاں اپنے رب کریم کی نگاہ میں پیارا اپنے لئے دیکھے اور اس کو پھر کیا چاہیے.اور چھٹی بات یہ بتائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ قہر کا جلوہ دیکھیں گے.اور ساتویں یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا کلیۂ ہاں اگر چاہے تو اپنی رحمت سے کسی مشرک کی سزا میں کمی کر سکتا ہے لیکن کلیہ شرک معاف کر دے، یہ نہیں.اور یہ بڑا زبر دست اعلان ہے اور ہمارے سوچنے کے لئے ایک بڑی خطرناک بات ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے قہر کے جہنم میں ایک لحظہ کے لئے بھی انسان اگر سوچے تو وہ زندگی برداشت نہیں کرسکتا.ایک لحظہ کی جہنمی زندگی ہماری عقل، ہماری روح ہماری فطرت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.تو یہ کہا گیا ہے کہ شرک سے بچو.اس واسطے کہ تمہیں اگر شرک کرو گے تو بہر حال میرے قہر کے جہنم میں سے گزرنا پڑے گا.تھوڑے عرصہ کے لئے یا زیادہ عرصہ کے لئے، اس کی رحمت پر اس کا انحصار ہے اس کا ہم کیا کر سکتے ہیں عاجز بندے.اور آٹھویں بات ان آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں دنیا میں جو اپنی پاکیزگی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم بڑے پاک ہیں حالانکہ پاک وہ ہیں جنہیں ہم پاک قرار اور نویں یہ بتا یا کہ ایسے لوگ جو اپنی پاکیزگی اور طہارت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہیں وہ خدا کی نگاہ میں پاک اور مطہر نہیں بلکہ اس کی سزا کے مستحق ٹھہرے ہیں.اور دسویں یہ بتایا کہ اکثر لوگ ایمان کے دعوے کے ساتھ ساتھ شرک میں بھی ملوث رہتے ہیں.شرک ہزار قسم کا ہے شرک بتوں کا ہے پھر آگے بتوں میں بھی مشرک نے تقسیم کر دی.پتھر کا بت ہے، لکڑی کا بت ہے، ہاتھی دانت کا بت ہے، ہمٹی کا بت ہے،سونے کا بہت ہے، چاندی کا بہت
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۰۸ خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۷۹ء ہے، ہیرے اور جواہرات کا بت ہے، کیا کیا بت بنالئے انہوں نے اور یہ نہ دیکھا کہ یہ بت اور ہم سیدھے جہنم میں جانے والے ہیں ایک تو یہ کھلا ، صاف اور Crude قسم کا شرک ہے جو انسان کرتا ہے.ایک شرک ہے سیاسی اقتدار کا ، سفارشوں کے پیچھے لوگ دوڑتے ہیں.خدا تعالیٰ پر تم تو گل نہیں کرتے اور سفارش پر زیادہ تو گل کرتے ہو.ایک شرک ہے رشوت کا ، رشوت کو بت بنالیا کہ ہمارا کام دعا سے نہیں رشوت سے ہو جائے گا.پھر شرک ہے اپنے نفس کی موٹائی کا کہ میں ایسا ہوں ، میں ایسا ہوں ، میں وہ ہوں جیسا کہ میں نے بتایا ہمارے ایک مسلمان بادشاہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا جس نے الحمراء کا محل بنایا تھا کہ میں اتنا عظیم بادشاہ ہوں کہ کئی ہزار مز دور الحمراء کا محل بنا رہا تھا صرف پتھر کھودنے والے تھے کئی ہزار جو ساری دنیا سے آئے ہوئے چوٹی کے کاریگر تھے.یہ آنا، میں، میں میں تو اتنا غالب آیا شیطان کہ ہر چیز میں انانیت کے جلوے اس کو نظر آئے مگر خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی نیکی قبول کی ہوئی تھی اس وقت خدا نے کہا فرشتوں کو میرے بندے کو جا کر بتاؤ، جھنجھوڑو، سنبھالو اسے تو خدا تعالیٰ کے حکم سے اسے سنبھالا گیا اور یکدم اسے احساس ہوا کہ میں خدا کو چھوڑ کے انانیت کی طرف کیسے جھک رہا ہوں گھوڑے سے چھلانگ ماری اور مصلی بچھائے بغیر زمین کے اوپر سجدہ ریز ہو گیا.واپس آگیا کہا میں اس محل میں نہیں ٹھہر سکتا.جب تک اس کونئی سجاوٹ نہ پہنا ولا غَالِبَ إِلَّا اللہ اس کا Motive ہے.قریباً دو اڑھائی گز کی پٹی ہے چاروں طرف کمرے ہیں.ہر کمرے میں لَا غَالِبَ إِلَّا اللہ کہیں چھوٹی پٹی میں، کہیں گول دائرہ کے اندر لکھا ہوا ہے.لا غَالِبَ إِلَّا الله سے انہوں نے سجا دیا.اگر کوئی شخص اپنے دل میں حقیقی طور پر لا غَالِبَ إِلَّا الله کے مفہوم کو سمجھتا ہے انانیت وہاں نہیں ٹھہر سکتی.مار دی اس بادشاہ نے اپنی انانیت لَا غَالِبَ إِلَّا الله کے عملی اعلان کے ساتھ اور جب وہ محل لا غَالِبَ إِلَّا الله کے سائے میں آ گیا تو پھر بادشاہ اس میں آگیا.پھر اس نے وہاں رہائش اختیار کی.میں نے جاکے دیکھا، نماز کے لئے ایک چھوٹا سا حجرہ بھی بنایا ہوا ہے.میں نے منصورہ بیگم کو کہا ویسے تو انہوں نے اجازت نہیں دی ہوئی میں نے کہا یہاں سجدہ کر لو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۰۹ خطبه جمعه ۱۷۵ کتوبر ۱۹۷۹ء دعا کرو ان لوگوں کے لئے تو انہوں نے وہاں سجدہ کر لیا.ہمیں توفیق مل گئی.کسی وقت وہ ساری چیزیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کو مل جائیں گی لیکن بہر حال ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.بعض لوگ اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں اپنی پاکیزگی اور طہارت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں حالانکہ خدا کی نگاہ میں وہ سزا کے مستحق ہیں، پاک نہیں ہیں اور اکثر لوگ ایمان کے دعوے کے ساتھ ساتھ شرک بھی کرتے ہیں جیسا کہ یہاں میں نے مثال دی تھی بادشاہ سلامت کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو شرک سے بچالیا اور پختہ ایمان پر ان کو قائم کر دیا.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم پاکیزہ بنا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ شیطان کے ہر حملہ سے تم اپنے آپ کو محفوظ کرو اور اس کے لئے تمہیں ہی حکم دیا جاتا ہے کہ اے مومنو! تم شیطان کے قدم پر نہ چلو بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے حصول کے لئے جوطریق قرآن کریم نے بتائے ہیں ان پر عمل کر کے رحمت اور فضل کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.تیرھویں اور اگر خدا تعالیٰ تمہیں اس کوشش میں کامیاب کر دے (اللہ ہی اپنے فضل سے پاک بنے کی توفیق دیتا ہے ) اگر تم اپنی دعاؤں سے، اپنے اعمال سے، اپنے رب کو خوش کرلو گے اور اس کی مغفرت تمہاری کوتاہیوں کو ڈھانپ لے گی اور اس کا فضل تمہارے عمل سے زیادہ جزا دے دے گا اور اس کی رحمت کے سمندر میں تم نہانے لگو گے تو تم کا میاب ہو جاؤ گے.اور پندرھویں کامیابی اور جزا جو ان آیات میں بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ بڑے درجات الدرجت العلیٰ بہت بلند درجات ہوں گے.یہاں میں سمجھتا ہوں اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تم سے کلام کرے گا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تمہیں اپنے لئے محبت اور پیار نظر آئے گا.پیار کی ، اور رضا کی نظر اللہ تعالیٰ کی تم پر پڑے گی اور اس کے علاوہ پھر اس کے کم درجے کے فضل بھی تمہیں ملیں گے ایسی جنتیں جہاں ہر قسم کے آرام ہوں گے ، ہر قسم کی ضرورت کو پورا کیا جائے گا وہاں کے جسموں کے مطابق وہاں کی روح کے مطابق.یہ جنتیں ہمیشہ فائدہ پہنچاتی رہیں گی.اپنے مکینوں کو اور مکین ہمیشہ اس میں رہیں گے.جنتوں میں رہیں گے اور ہمیشہ جنتوں سے فائدہ حاصل کرتے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۱۰ خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۷۹ء رہیں گے.جنتیں ہمیشہ ( محدود وقت تک کے لئے نہیں ) اپنے مکینوں کو فائدہ پہنچاتی رہیں گی اور ان جنتوں میں بسنے والے مکین ہمیشہ ان جنتوں سے فائدہ حاصل کرتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہم سب کو ان جنتوں کا وارث بنائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ اگست ۱۹۸۰ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۱۱ خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء اللہ صبر واستقامت دکھانے والوں سے وعدوں کے مطابق پیار کرے گا خطبه جمعه فرموده ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل دو آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ.(الروم : ٦١ ) فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ - (المؤمن : ۵۶) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم میں صبر کے موضوع پر ایک سو سے زائد آیات میں بیان ہوا ہے.یہ ایک بنیادی حکم ہے جس کا تعلق تمام قرآنی احکام سے ہے اوامر ہوں یا نوا ہی ہوں.صبر کے معنی ہیں جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبے میں بھی ذرا تفصیل سے بیان کیا تھا اصل معنی اس کے یہ ہیں کہ حَبْسُ النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيْهِ الْعَقْلُ وَالشَّرُ أَوْ إِمَّا يَقْتَضِيَانِ حَبْسَهَا عَنْهُ نفس کو رو کے رکھنا قابو میں رکھنا ان چیزوں کے کرنے نہ کرنے سے جو عقل کا تقاضا ہو یعنی فطرتِ انسانی کا حکم ہو یا شریعت اسلامیہ کا تقاضا ہو اور مفردات راغب نے لکھا ہے کہ یا ہر دو کا تقاضا ہو.
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۱۲ خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء چونکہ اسلام دین حکمت ہے اس لئے تمام اسلامی احکام شریعت کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں اور انسانی فطرت اور عقل کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں.اس کے معنی میں بہت وسعت ہے.اسی واسطے ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو وہ صبر سے کام لے یعنی بلا وجہ نا معقول طور پر وہ رونا پیٹنا نہ شروع کر دے بلکہ اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اس حد تک اور اس طریق پر غم کا اظہار کرے جس کی انسانی فطرت یا شریعتِ اسلامیہ نے اجازت دی ہے یا جب مخالف زور کے ساتھ اور طاقت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کی کوشش کرے تو اس وقت صبر اور استقامت کے ساتھ اس کے مقابلے میں شریعت اسلامیہ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کھڑے ہو جانا اور پیٹھ نہ دکھانا یہ صبر ہے اور باقاعدگی کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ نماز با جماعت کا ادا کرتے رہنا اس پر استقامت اختیار کرنا یہ صبر ہے.تو ہر حکم کے ساتھ اس کا اصل میں تعلق آ جاتا ہے کہ نفس کو روکے رکھنا اس چیز سے جس چیز سے روکا گیا ہے یعنی وہ نہ کرے اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کو نہ کرنے کی طرف مائل نہ ہو ، اس میں سستی نہ دکھائے.یہ جو دو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان ہر دو کا جو تر جمہ ہے وہ میں پہلے پڑھ دیتا ہوں.پس استقلال سے اپنے ایمان پر قائم رہو.فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہے گا اور چاہیے کہ جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ تجھے دھوکہ دے کر اپنی جگہ سے ہٹا نہ دیں.فَاصْبِرُ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ پس تو صبر سے کام لے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہے گا اور خدا سے بخشش مانگتا رہ اور اپنے رب کی شام اور صبح حمد کے ساتھ ساتھ تسبیح بھی کرتارہ.ان آیات میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ کہ ہر حالت میں صبر پر قائم رہنا ہے.انسانی زندگی میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں آتا کہ جہاں بے صبری کی اسے اسلام نے اجازت دی ہو.دوسری بات چونکہ اسلام حکمت کا مذہب ہے دلیل بھی ساتھ ساتھ دیتا ہے.جو لوگ صبر واستقامت دکھاتے ہیں اللہ کا ان سے عظیم وعدہ یہ ہے کہ وعدوں کے مطابق ان سے وہ پیار کا سلوک کرے گا.جیسے جیسے اعمال ہیں ان کی جو جو جزا اور ثواب اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۱۳ خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء نے قرآن عظیم میں بیان کیا ہے اس کے وہ حقدار بن جائیں گے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس کا ذکر آگے آتا ہے.تیسرے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے.اگر کوئی حکم دینے والی ہستی ایسی ہو کہ حکم دے اور وعدہ بھی کرے لیکن ایفائے عہد کی طاقت نہ رکھتی ہو تو انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں جو احکام ہیں ان کو بجا بھی لاؤں لیکن فائدہ یقینی نہیں.تو یہاں یہ تسلی دلائی گئی ہے کہ اگر دنیا دار کوئی وعدہ کرے تو ہزار بدظنیاں ہو سکتی ہیں.دنیا دار اگر کوئی وعدہ کرے تو ہزار امکان اس بات کا ہو سکتا ہے کہ خواہش کے باوجود وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے.ہزار حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ پہلے طاقت رکھتا تھا وعدہ پورا کرنے کی اب اس سے وہ طاقت چھین لی گئی.ہزار امکان ایسا ہے کہ پہلے اس کا دل خدا کی طرف جھکا ہوا تھا اور اب شیطان کے قبضے میں آچکا اور اس لئے وہ وعدہ پورا نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ پر تو اس قسم کی کوئی بدظنی کی ہی نہیں جا سکتی.الا إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ جو خدا کا وعدہ ہے وہ بہر حال پورا ہوکر رہے گا لیکن جیسا کہ ہمیں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے متعلق یہ اصولی بات بتائی کہ خدا کا وعدہ اس رنگ میں اور اس وقت پورا ہو گا جس رنگ میں اور جس وقت وہ پورا کرنا چاہے گا.انسان اللہ تعالیٰ کو ڈکٹیٹ (Dictate) نہیں کراسکتا.زور بازو سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنا وعدہ اس شکل میں اور اس وقت پورا کر.بہت سی ایسی تو میں ہمیں تاریخ انسانی میں نظر آتی ہیں جن سے کئے گے وعدے صدیوں بعد اسی طرح پورے ہوئے جس طرح وعدے کئے گئے تھے لیکن صدیاں انہوں نے انتظار میں گزاریں.ایسی قوم بھی ہمیں نظر آتی ہے کہ وعدہ چار سال کے بعد پورا ہو گیا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب میں پین میں گیا تو بڑی بے چینی اور پریشانی اس ملک کے متعلق ہوئی کہ سات سو سال مسلمانوں نے وہاں حکومت کی اور جب وہ مغلوب ہوئے تو مخالفین نے ایک بھی مسلمان باقی نہیں چھوڑا.بہت دعائیں کرنے کی ایک رات توفیق ملی کہ خدا یا تیری رحمت میں رہے صدیوں ، تیری رحمت سے محروم ہوئے صدیاں گزرگئیں.پھر ان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کر.
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۱۴ خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ سامان تو پیدا کر دیئے جائیں گے لیکن تیری خواہش کے مطابق نہیں.اللہ تعالیٰ جب چاہے گا وہ سامان پیدا کرے گا اور آخر یہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.غلبہ اسلام کے دائرہ سے پین کی قوم با ہر نہیں رہے گی.تو اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ خدا تعالیٰ پر انسان بدظنی نہیں کر سکتا.بدظنی کرنے والا ہلاک ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی جو طاقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی آج بھی وہی طاقت ہے اس کی.اس کی طاقتوں میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کی جو عظمت اور علو شان اور اس کی کبریائی پہلے تھی جو پہلے ہمیشہ رہی وہ آئندہ ہمیشہ رہے گی.پچھلی طرف منہ کریں تو نہ پہلے زمانہ کی کوئی انتہا ہے جہاں ہماری نظر ٹھہر جائے نہ آئندہ کے متعلق ہماری عقلیں مستقبل کا کوئی ایسا مقام ڈھونڈ سکتی ہیں کہ جس کے بعد کوئی زمانہ نہ ہو اور جس کے بعد خدا تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے جلوے ختم ہو جائیں.ازلی ابدی خدا ہمیشہ پیار کرنے والوں سے پیار کرنے والا ، قربانی دینے والوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں لے جانے والا ہے آزمائش کرتا ہے تا سچے اور جھوٹے میں فرق کرے تا پختہ اور منافق ایمان والے میں فرق کرے تا کمزور ایمان والے کی جو تھوڑی سی عظمت ہے اس میں اور اس عظیم عظمت میں فرق کرے تا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے عظیم تھے ان کی عظمتوں میں اور آپ کی امت میں جو آپ کے غلام جو آپ کے پاؤں کے قریب بیٹھنے والے جوخود کو آپ کی جوتی کے برابر بھی نہ سمجھنے والے ہیں اور اس فدائیت اور پیار اور جاں نثاری کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہیں ان دو فرقوں کو وہ ظاہر کرے.یہ اپنی جگہ درست لیکن خدا کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے.وہ جو اتنی عظمتوں والا ہے کہ جن عظمتوں کا انسان تصور نہیں کرسکتا جو تھوڑے وعدے یا چھوٹے وعدے جن کو ہم نسبتاً چھوٹے کہتے ہیں وہ بھی بڑے عظیم ہیں کیونکہ ان کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تو تیسری بات یہ فرمائی کہ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ گھبرانا نہیں.بدظنی نہ کرنا، جادہ استقامت کو چھوڑ نہیں دینا ، دامن جو پکڑا ہے وہ تمہارے ہاتھ سے چھوٹے نہیں ، ثبات قدم دکھانا ہے وفا کے نمونے ظاہر کرنے ہیں اور خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۱۵ خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء چوتھی بات ان آیات میں ہمیں یہ بتائی گئی لا يَسْتَخِفَنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُونَ.کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے.لا يُوقِنُون میں واضح کر کے یہ نہیں بتایا گیا کہ کس بات پر یقین نہیں رکھتے اس واسطے ہم نے اپنی عقل اور اسلام کی عام تعلیم کے مطابق اس کی تفسیر کرتے ہوئے بعض بنیادی باتوں کو اٹھانا ہے تو لا يُوقِنُونَ کے ایک معنی اللہ پر یقین نہیں رکھتے ہیں.دوسرے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگ جو خدا کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے ایسے لوگ ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتے.ایک ایسا گروہ بھی ہے.تو چوتھی بات ہمیں یہ پتا لگی کہ دنیا میں ایسے انسان بھی ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتے.یہ یقین نہیں رکھتے کہ اللہ ہے، جیسے دہر یہ ہیں، جیسے کمیونسٹ ہیں جیسے خدا تعالیٰ کے ایسے دشمن جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ زمین سے اس کے نام اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹادیں گے نامعقول دعوے ہیں لیکن بہر حال ایسا دعویٰ کرنے والے تو موجود ہیں یہ دعویٰ کرنے والے کہ اللہ موجود نہیں اور سب کچھ ویسے ہی چلا آ رہا ہے اور انسان کو خدا پر بھر وسہ رکھنے اس پر توکل کرنے کی ضرورت نہیں.اس سے مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے نزدیک ملے گا کچھ نہیں اور جو وعدہ دیا گیا ہے چونکہ خدا پر یقین نہیں لفظ پر کیسے یقین ہوگا.اس پر یقین نہیں تو وہ خدا پر یقین رکھنے والوں میں سے بعض کے دلوں میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا کی طرف بلاتے ہیں.زمین کی طرف کھینچتے ہیں ان لوگوں کو جو آسمانوں کی رفعتوں کی تلاش میں اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں.بعض وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے وعدہ پر یقین نہیں.ایک گر وہ ایسا بھی ہے دنیا میں کہ جو امپرسنل گاڈ (Impersonal God) پر ایمان رکھتا ہے.وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اتنا عظیم اور انسان کی کیا ہستی ہے.اس کے مقابلے میں شے ہی کوئی چیز نہیں لاشے محض ہے.اس کو کیا ضرورت پڑی کہ ہم سے ذاتی تعلق رکھے.اگر خدا اپنے بندوں سے ذاتی تعلق نہیں رکھتا تو خدا اپنے بندوں کو وعدے بھی نہیں دے گا اور اگر وعدہ کا کہیں اعلان ہو تو وہ اعلان ایسے لوگوں کے نزدیک غلط ہوگا.تو پانچویں بات یہ فرمائی کہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے جس کے متعلق میں نے بڑے اختصار کے ساتھ ابھی کچھ بتایا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء ایسے لوگ تجھے دھوکہ دے کر مقام صبر سے ہٹانے کی کوشش کریں گے.اس میں وہ کامیاب نہ ہوں ان سے ہوشیار رہنا.چھٹی بات جو خدائی وعدے ہیں وہ بہر حال اپنے وقت پر پورے ہوں گے.دنیا جتنا چاہے زور لگالے اللہ تعالیٰ کے وعدوں نے تو بہر حال پورا ہونا ہے.ان وعدوں کے پورا ہونے کے وقت جنہوں نے ان وعدوں کے پورا ہونے کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا ہے وہ ہوں گے جو صبر اور استقلال اور استقامت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حکم بجالانے والے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم صبر کریں گے جب ہم خدا تعالیٰ سے جو وفا کا عہد باندھا ہے اسے توڑیں گے نہیں بلکہ اس کے وفادار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزاریں گے وہ انعام پائیں گے اس وقت جب وہ وعدہ پورا ہوگا اور جو لوگ کسی کے بہکانے میں آجائیں گے دہریہ منکر دشمن خدا کے بہکانے میں یا ان لوگوں کے بہکانے میں جو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے وعدہ پورا ہونے کے وقت ان وعدوں کی برکتوں میں اس گروہ کا تو بہر حال حصہ نہیں ہوگا.اس واسطے ہمیں یہ متنبہ کیا گیا ہے کہ ایسے لوگ تجھے دھوکہ دے کر اپنی جگہ یا مقامِ صبر ثبات قدم استقامت استقلال کا جو مقام ہے انسان کا ایک بڑا بزرگ مقام وہاں سے ہٹانے کی کوشش کریں گے ان کے جال میں نہ پھنسنا یہ چھٹی بات ہے یعنی پہلے تو یہ تھا نا کہ کوشش کریں گے وہ.چھٹے ہمیں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کے فریب سے بچے رہنا ور نہ نقصان اٹھاؤ گے.ساتویں ہمیں یہ بتایا کہ ان کے مکر اور فریب سے بچے رہنے کے تین اصول تین گر ہیں ، ایک کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں یعنی صبر و استقامت کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا.دوسرا ذریعہ اس فریب سے بچنے کا استغفار ہے.انسان بہر حال کمزور ہے اور بشری کمزوری کے نتیجہ میں ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو خدا تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں.انسان محض اپنی طاقت سے شیطانی حملہ سے بچ نہیں سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو اور خدا تعالیٰ شیطانی حملہ سے اپنی تدبیر سے اپنی رحمت سے اسے بچائے اس واسطے کہا استغفار کرو.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۱۷ خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ سے مغفرت چاہو، مغفرت کے دو معنی ہیں.ایک یہ کہ گناہ سرزد نہ ہو انسان اپنی کوشش سے گناہ سے بچ نہیں سکتا.اس طرح کہ وہ پاک اور مطہر بن جائے کیونکہ بتایا گیا تھا لا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ اپنی کوشش، اپنی تدبیر سے تم خدا کی نگاہ میں پاک اور مطہر نہیں بن سکتے اور دوسرے استغفار کے معنی یہ ہیں کہ گناہ سرزد ہو گیا اس کے بدنتائج سے انسان بیچنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن طاقت نہیں رکھتا.طاقت خدا رکھتا ہے کہ جو اس سے گناہ سرزد ہوا اس کے بدنتائج سے وہ اپنی رحمت سے اسے محفوظ کرلے تو ایک تو استغفار ذریعہ بتایا کہ خدا سے کہو کہ خدا یا ہم پر ایسے فضل کر.یہ استغفار کے معنوں کا حصہ ہے، ایسا فضل کر ہم پر کہ ہم سے گناہ سرزد نہ ہوں ایسی باتیں نہ کریں ہم، ایسے اعمال نہ بجالائیں جو تیری ناراضگی کا موجب ہوجائیں اور اگر بشری کمزوری کے نتیجہ میں ہم سے ایسے گناہ سرزد ہو جا ئیں تو ان کے بدنتائج سے ہمیں محفوظ کر لے.ہمارے گناہوں کو معاف کر دے.اور آٹھویں اور آخری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتائی کہ جس فضل اور رحمت کا تعلق استغفار سے ہے انسان کہتا ہے اے خدا! اپنے فضل اور اپنی رحمت سے گناہ سر زد ہونے سے بچالے سرزد ہو جائے تو ان کے بدنتائج سے بچالے.یہ فضل اور رحمت انسان اپنے زور اور طاقت سے یا اپنی تدبیر سے اللہ تعالیٰ سے حاصل نہیں کر سکتا.اس کے لئے یہ بتایا گیا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَ الْإِبْكَارِ که صبح و شام اٹھتے بیٹھتے خدا کی حمد کے ساتھ تسبیح کر.دوسری جگہ فرمایا يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ (ال عمران: ۱۹۲) تو خدا کی حمد میں مصروف رہو خدا کی تسبیح میں مصروف رہو اس کے نتیجہ میں فضل ملے گا فضل کے نتیجے میں گناہ کے سرزد ہونے سے محفوظ ہو جاؤ گے گناہ سرزد ہو جا ئیں تو ان کے بداثرات سے محفوظ ہو جاؤ گے.استغفار کی دعا قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوگا.اگر تم خدا کو یا درکھو گے خدا تمہیں یا در کھے گا اُذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ.یہاں یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ ایک تو فرائض ہیں.حکم ہے کہ یہ عبادات بجالاؤ.ایک وہ عبادات ہیں جو فرائض نہیں نوافل کہلاتے ہیں.فرض تو وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۱۸ خطبه جمعه ۱۲ /اکتوبر ۱۹۷۹ء ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو یا اللہ اپنے بندے کو جھنجوڑ کے کہتا ہے کہ پانچ وقت مسجد میں جا کے نماز پڑھ.یہ فرض ہے کہتا ہے کہ نہیں کرے گا تو میں تجھ سے ناراض ہو جاؤں گا.ناراضگی سے بچنے کے لئے فرائض ہیں.فرائض کے ساتھ جو اس کی رحمتیں لگی ہوئی ہیں ان کے حصول کے لئے فرائض ہیں لیکن بلندیوں کے حصول کے لئے ( مسجد کے اندر دوسروں کے کندھوں پر سے آگے آتے ہوئے ایک شخص کو دیکھ کر حضور نے فرمایا :.”دیکھو پیچھے سے چھلانگیں مار مار کے آگے نہ آؤ مسجد کے آداب بھی ہیں ان پر بھی صبر سے استقامت کے ساتھ قائم رہنا چاہیے اور وہ بھی سکھانے والے ہمارے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور یہ ہمارے علماء کا اور بڑوں کا اور تربیت یافتہ لوگوں کا کام ہے کہ وہ آداب زندگی ہر شعبہ زندگی کے متعلق بتاتے رہا کریں.بہر حال اب میں یہ بتارہا ہوں کہ ایک عبادت ہے فرائض سے تعلق رکھنے والی اگر کوئی نہ کرے گناہ گار ہو جاتا ہے.اگر کرے تو اس انعام کا وارث ہوتا ہے جس انعام کا اس فرض سے تعلق ہے ایک عبادت ہے نوافل سے تعلق رکھنے والی.اگر وہ عبادت نہ کرے گنہگار نہیں ہوتا لیکن رفعتوں کو حاصل نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کے اس انتہائی پیار کو حاصل نہیں کر سکتا جس انتہائی پیار کے حصول کے لئے انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کو دائرہ استعداد تک اس رفعت کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کو طاقتیں دیں.اس کے لئے نوافل ہیں تو وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ میں فرائض بھی آتے ہیں کیونکہ ہم تسبیح اور تحمید اپنے فرائض میں بھی کرتے ہیں لیکن محض وہ نہیں بلکہ یہاں عام رکھا گیا ہے اور فرائض کی ادا ئیگی تھوڑی سی مشکل بھی ہو جاتی ہے نفس کے اوپر بار بھی گذرتا ہے ایک آدمی رات کو دیر تک کام کرتا رہا صبح کی نماز کے لئے اس کے لئے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے خدا نے میرے پر فرض مقرر کیا ہے میں جاؤں لیکن یہاں جو یہ کہا گیا ہے کہ صبح و شام ، دوسری جگہ کہا گیا ہے کھڑے ہو، بیٹھے ہو، لیٹے ہو، میرا ذکر کرتے رہو یہ تو خدا کا پیار مطالبہ کرتا ہے اور تمہارے اوپر کوئی بار نہیں ڈالتا.یہ نہیں کہا کہ لیٹے ہو تو بیٹھ کے تسبیح اور تحمید کرو یہ کہا ہے لیٹے ہوئے کرو.ہر وقت مجھے یاد رکھو تو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۱۹ خطبه جمعه ۱۲ /اکتوبر ۱۹۷۹ء مقام محمود جو ہے ہر شخص کے دائرہ استعداد کے اندر یعنی سب سے بلند مقام جو وہ شخص حاصل کر سکتا ہے وہاں تک وہ پہنچ جائے گا.اگر وہ محض فرائض تک رہے گا تو دوزخ سے بچ جائے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زمیندار آئے باہر کے علاقہ سے، کہنے لگے یہ فرض یہ فرض آپ کہتے رہے ہاں، کہنے لگا کہ میں سارے فرائض تو ادا کروں گا پر نفل میں نے کوئی نہیں پڑھنا تو جب اٹھ کے گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ اپنی بات پر قائم رہے کہ سارے فرائض ادا کر دے تو دَخَلَ الْجَنَّةَ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا جو اس کا انعام ہے لیکن جنت کے بلند مقام کا یہ حقدار نہیں بنے گا دوزخ میں نہیں جائے گا وہاں دَخَلَ الْجَنَّةَ اظہار اس بات کا ہے کہ پھر یہ دوزخ میں نہیں جاتا خدا نے جو فرائض اس کے لئے ضروری قرار دیئے تھے وہ اس نے پورے کر دیئے لیکن جنہوں نے اس دنیا میں اور آنے والی زندگی میں خدا تعالیٰ کے انتہائی پیار کو حاصل کرنا ہو وہ بغیر کسی بار کے جو محسوس کریں ذکر کی عادت ڈالیں.یہ عادت کی بات ہے.ذکر جو ہمیں اسلام نے سکھایا ہے عادت سے تعلق رکھتا ہے.ایک دفعہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا میں کالج میں پرنسپل تھا تو جب امتحان کے پرچے بھجوائے جاتے تھے تو کئی سو دستخط کرنے ہوتے تھے اچھے پندرہ بیس منٹ لگ جاتے تھے ایک کلرک تیز کام کرنے کے لئے پاس کھڑا ہو اور قے الٹتا تھا مجھے خیال آیا میں نے اسے کہا کہ دیکھو میں ساتھ ساتھ تحمید اور تسبیح بھی کرتا ہوں جو آسانی سے سو، ڈیڑھ سو دفعہ ہو جاتی ہے.دستخط بھی کرتا جاتا ہوں.دستخط کرتے وقت سبحان اللہ کہنا دستخط کرنے میں روک تو نہیں وہ تو مسل (Muscle) کی عادت ہے کرتا ہے.بڑی تیزی سے میں اپنے دستخط کرتا ہوں تو تم بھی ذکر کرو تم اپنا وقت کیوں ضائع کر رہے ( ہو ) تم ورقے الٹا ر ہے ہو ساتھ تسبیح وتحمید پڑھو.اب مجھے تعداد یاد نہیں لیکن جس وقت دستخط ختم ہو گئے تو وہ کلرک مجھے کہنے لگا کہ آپ نے تو عجیب نسخہ بتایا میں اتنی دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظیم پڑھ چکا ہوں اور وہ بڑا خوش اورا یکسا ئیٹڈ (Excited ) تھا کہ اس وقت اس پہ کوئی دھیلہ خرچ نہیں آتا.ایک منٹ آپ کی زندگی کا زائد خرچ نہیں ہوتا.دنیا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۰ خطبه جمعه ۱۲ /اکتوبر ۱۹۷۹ء کا کوئی کام ایسا نہیں کہ اگر آپ خدا تعالیٰ کو وہ کام کرتے ہوئے یا درکھیں تو اس کام میں نقص پیدا ہو جائے.ہے ہی کوئی نہیں.صرف عادت کی بات ہے.عادت ڈالیں اور اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ پیار کو حاصل کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ / اگست ۱۹۸۰ صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۱ خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۷۹ء کا ئنات عالم کی بنیادی حقیقت خدا کی وحدانیت ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو یہ توفیق مل رہی ہے کہ ان کے خدام واطفال اور لجنہ آج اپنا سالانہ اجتماع مرکز سلسلہ میں شروع کریں اور ہم حکومت وقت کے بھی ممنون ہیں کہ انہوں نے موجودہ حالات میں بھی اس کی جماعت کو اجازت دی.یہ جمعہ جس دن اجتماع شروع ہوتا ہے اجتماع کا ہی ایک حصہ ہے عملاً اور کبھی ہم اسلام کی باتیں تفصیل میں جا کر کرتے ہیں، کبھی بنیادی تعلیم پر روشنی ڈالتے ہیں.آج میں سب سے اہم بنیادی بات جو ہے اس کی طرف جماعت کو ، جماعت کے بڑوں کو، جوانوں اور چھوٹوں ، مردوں اور عورتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس کائنات کی بنیادی حقیقت خدا تعالیٰ کی وحدانیت ہے یعنی اللہ ہے اور واحد و یگانہ ہے.اس کی ذات اور اس کی صفات میں کوئی اس کا مثل نہیں.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا خُلق حل شَيْءٍ (الانعام :۱۰۲) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (التَّغابن: ۲) اور اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک تو مادی چیزیں پیدا کیں.اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۲ خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۷۹ء ایسی استعدادیں پیدا کیں جو ان مادی اشیاء سے استفادہ کرتی ہیں.یہ استعدادیں صرف انسان میں نہیں بلکہ ہر چیز دوسرے سے استفادہ کرنے والی ہے اور دوسرے کے ساتھ ایک نہایت حسین اور منطقی جوڑ رکھتی ہے.ساتھ لگی ہوئی ہے تعلق رکھتی ہے مثلاً گندم کے دانے میں یہ طاقت اللہ تعالیٰ نے رکھی کہ وہ زمین سے اپنی خوراک حاصل کرے اور پودا بنے اور اس میں قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ اتنی طاقت ہے کہ ایک دانہ سات سو دانے تک پیدا کر سکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ گوانسانی علم ابھی تک وہاں نہیں پہنچا.اسی طرح دوسری مادی اشیاء اور حیوانات ہیں اور انسان ہے لیکن انسان ان طاقتوں اور استعدادوں میں نمایاں ہو کر اس رنگ میں ہمارے سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ ساری طاقتیں عطا کر دیں جن کے نتیجہ میں وہ غیر انسان کی تمام صفات سے استفادہ کر سکتا ہے اور انسان کا علم ہر روز ترقی پذیر ہے اور ہر روز ہی دانا محقق اور سائنسدان اس حقیقت پر قائم ہوتا ہے کہ ابھی تو میں علم کے سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور جو مجھے نہیں معلوم اس کی کوئی انتہا نہیں.انسانی زندگی کی جو بنیادی حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ وہ یہ طاقت رکھتا ہے.اسے یہ طاقت دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو چاہے تو جذب کر سکتا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ جذب کرے اور اس کے لئے کوشش کرے اور مجاہدہ کرے اور جو طریق قرآن کریم نے اس کا بتایا وہ دعا ہے.قرآن کریم نے دعا پر بیسیوں آیات میں بہت کچھ بیان کیا اور ہر جگہ ایک نئے پہلو سے اس پر روشنی ڈالی.قرآن کریم نے ایک جگہ یہ فرمایا :- وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ (الروم : ۳۴) سورہ روم کی یہ آیت ہے کہ جب انسان کو تکلیف پہنچے، مضرت ہوا اور جیسا کہ دوسری جگہ اس کی وضاحت آئے گی.سب دروازے تکلیف سے نجات کے بند ہو جائیں اور مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ جائے اور ہر طرف سے وہ مایوس ہو جائے.اس وقت جب وہ دعا کرتا ہے تو وہ اس کے تذلل کے جذبات ہوتے ہیں.وہ جھکتا ہے خدا کے حضور اور خدا سے کہتا ہے کہ اے میرے رب ! ہر طرف سے میں دھتکارا گیا تو مجھے مت دھتکار اور میری دعاؤں کو سن اور میری تکالیف کو دور کر اور میری ضرورتوں کو پورا
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۲۳ خطبہ جمعہ ۱۹ /اکتوبر ۱۹۷۹ء کر.اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور اپنی رحمت سے اسے نوازتا ہے.یہ لمبی آیت ہے اس کے ایک حصہ کے عربی کے الفاظ میں نے پڑھے ہیں.دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے لیکن انسانوں میں سے پھر کچھ لوگ وہ ہیں کہ جب خدا تعالیٰ ان کی دعا کو سنتا اور ان کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور اپنی رحمت سے نوازتا ہے تو تکلیف کو دور کرنے میں وہ دوسروں کو شریک کر دیتے ہیں اور مشرک بن جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی توحید پر قائم نہیں رہتے.تکلیف کے وقت سوائے خدا کے انہیں کچھ یاد نہیں رہتا.تکلیف دور ہونے کے بعد ہزار بت ہیں جو سامنے آجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ بھی فرماتا ہے کہ : وو آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (النمل: ۶۳) کہ کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے.جب وہ خدا سے دعا کرے خدا تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے.قرآن کریم نے فرمایا کہ وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا (الاعراف: ۵۷) خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو خوف اور طمع کے ساتھ.اس آیت سے پہلی آیت میں کہا گیا تھا کہ تذلل اور اضطراری کیفیت کے ساتھ اور چپکے چپکے دعائیں کرو.اس میں کہا گیا ہے کہ ہماری زندگی میں دو ہی حالتیں ہیں یا تم تکلیف میں ہو اور خوف کی حالت طاری ہے کہ تمہیں یہ نقصان پہنچ جائے گا.تکلیف شروع ہو چکی ہے کوئی تکلیف دور ہوگی یا نہیں ہوگی.یہ خوف ہے پھر یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں ناراض نہ ہو جائے.مومن بندہ کو یہی خوف ہوتا ہے اور طبعا طمع کے ساتھ اس امید پر کہ دعا کریں گے.اللہ تعالیٰ دُعا کو سنے گا اپنی رحمت سے ہمیں نوازے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کی امید پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی برکت کے حصول کے لئے اور اس امید پر کہ وہ اپنی برکتوں اور اپنے فضلوں سے نوازے گا.اس کے حضور جھکو اور اس سے دعائیں کرو اور اس خوف سے کہ کہیں اگر دوری ہو جائے اگر قرب کی راہیں وانہ ہوں ہماری زندگی میں تو شیطان کا میاب حملہ آور نہ ہو جائے ہم پر اور ہم خدا کی بجائے شیطان کی گود میں نہ چلے جائیں اس خوف سے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو کہ اس کی مدد کے بغیر کچھ مل نہیں سکتا.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۴ خطبہ جمعہ ۱۹ را کتوبر ۱۹۷۹ء انسانی زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مولا بس.کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے اور خدا سے ہی سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے اور وہ لوگ جو خدا کی طرف نہیں جھکتے اور جنہوں نے ہزاروں بت اپنے صحن سینہ میں یا اپنے ماحول میں بنارکھے ہیں حقیقی کامیابیاں انہیں نصیب نہیں ہوتیں اس لئے وہ جو کائنات کی بنیادی حقیقت ہے اس بنیادی حقیقت سے ایک حقیقی تعلق قائم ہو جانا ضروری ہے انسان کی زندگی میں.اگر وہ خدا کی نگاہ میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور فلاح حاصل کرنا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ نے سورہ مومن میں فرمایا : - وَقَالَ رَبكُمُ ادْعُونِ خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ دعا کرو مجھ سے، استجب لکم میں تمہاری دعا قبول کروں گا اگر وہ شرائط کے ساتھ ہو.قرآن کریم نے دوسری جگہ شرائط بیان کی ہیں وہ Understood ہے ظاہر ہے وہ بات اِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادتي جو انسانوں میں سے میری عبادت تکبر کے نتیجہ میں نہیں کرتے یا یوں کہنا چاہیے کہ تکبر کی وجہ سے میری عبادت کا حق ادا نہیں کرتے.سَید خُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ (المؤمن : ٦١ ) وه رُسوا کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ کے اندر ان کو ڈالا جائے گا.یہاں حکم دیا گیا ہے دعا کا قالَ رَبِّكُمُ ادْعُونِی.تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھ سے ہمیشہ دعا کرو.تمہارا رب کہتا ہے کہ ہر چیز کے لئے مجھ سے مدد مانگو.تمہارا رب کہتا ہے کہ ہر برائی سے بچنے کے لئے میرے فضل کی تلاش کرو.تمہارا رب کہتا ہے کہ شیطان کے حملوں سے حفاظت چاہتے ہو تو دعاؤں کے ذریعہ میری پناہ میں آنے کی کوشش کرو.خدا کہتا ہے کہ اگر دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہو، حقیقی ترقی ایسی ترقی جس میں کوئی گندگی شامل نہ ہو تو میری طرف رجوع کرو.خدا کہتا ہے کہ اپنی زندگی کے ہر کام میں میری طرف متوجہ ہو.میرے سامنے جھکو، مجھ سے مانگو جو شرائطِ دعا ہیں ان کو پورا کرو اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا اور جو تم مانگو گے وہ تمہیں دیا جائے گا اور اگر انسانوں میں سے کوئی میرے اس حکم کو مانے گا نہیں اور باوجود اس کے کہ میں نے کہا اُدعُونِ مجھ سے مانگو اور مجھ سے پاؤ.باوجود اس کے غیر اللہ کی طرف منہ پھیریں گے غیر اللہ پر امیدیں رکھیں گے تو کامل تو گل مجھ پر نہیں ہوگا.بھروسہ ان کا اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کمزور طاقتوں اور لاشے محض پر ہوگا.سفارشوں پر، رشوتوں پر ، لوٹ مار پر، ہزار قسم کے عیوب ہیں جن کو بعض بیوقوف ترقی کا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۵ خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۷۹ء ذریعہ سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے منہ موڑتا ہے وہ متکبر اور ذریت شیطان ہے.ابى وَاسْتَكْبَر (البقرة : ۳۵) یہ شیطان کے متعلق بنیادی طور پر کہا گیا ہے کہ شیطان نے انسانی زندگی میں ابا اور استکبار کی بنیاد ڈالی تو جو شیطان کی ذریت بنا اور میرے بندوں میں شامل نہ ہوا اور میری عبادت کا حق ادا نہ کیا اسے یاد رکھنا چاہیے کہ رسوائی اس کے نصیب میں ہے اور میرے غضب کی جہنم میں اسے داخل ہونا پڑے گا.پس جس طرح اس کائنات کی بنیادی حقیقت خدا تعالی کی وحدانیت ہے خدا تعالیٰ واحد و یگا نہ تمام صفات سے متصف ہر عیب سے پاک اور کوئی اس کا مثیل نہیں اسی طرح انسانی زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہ خدا میں ہو کر زندگی گزارے اور خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا وارث بنے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ذریت شیطان ہے اور اللہ تعالیٰ سے دوری کی راہوں پر وہ گامزن ہے اور کامیابی اس کے نصیب میں نہیں ہو سکتی.اس دنیا کی زندگی پر ہم نے بڑا غور کیا.بڑے بڑے امیر ملکوں کے بڑے بڑے دولتمند لوگ بھی بے چینی ، مایوسی اور تکلیف کی زندگی میں ہیں.اور دعاؤں میں اسلام نے بڑی وسعت پیدا کی جیسا کہ میں نے ابھی کہا.ہر چیز خدا سے مانگو ، ہر چیز میں وہ ہر چیز بھی آگئی جس کا تعلق ایک شخص، فرد واحد کے نفس کے ساتھ ہے وہ ہر چیز بھی آگئی جو اس کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے وہ ہر چیز بھی آگئی جو اس کے علاقہ سے تعلق رکھتی ہے وہ ہر چیز بھی آگئی جو اس کے ملک سے تعلق رکھتی ہے وہ ہر چیز بھی آگئی جو اس دنیا اور اس کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے وہ ہر چیز بھی آگئی جو آنے والی نسلوں اور آنے والے زمانوں سے تعلق رکھتی ہے.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم خدا کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو، مجھ سے پاؤ.میں سب کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر وقت اور ہر آن اسے سامنے رکھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اپنے ملک کے لئے بھی دعائیں کریں اور نوع انسانی کے لئے بھی دعائیں کریں اپنی نسل کے لئے بھی دعائیں کریں اور آنے والی نسلوں کے لئے بھی دعائیں کریں.اپنے نفس کے لئے بھی دعائیں کریں اور اپنے بچوں اور اپنے خاندان کے لئے بھی دعائیں کریں اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۶ خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۷۹ء دعاؤں کے نتیجہ میں بھی آپ کے ذہن میں پھر خود بہت سی ذمہ داریاں بھی آتی چلی جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں بنیادی حقیقت کو سمجھنے اور ہر وقت ذہن میں حاضر رکھنے کی توفیق عطا کرے کہ مولا بس.خدا ہی خدا ہے.اللہ ہی اللہ اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس حقیقت کو بھی پہچا نہیں جو انسانی زندگی کی بنیادی حقیقت ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہیں ہوتا کوئی صحیح چین نصیب نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے خیر ہی خیر کے حالات پیدا کر دے.آمین میں نمازیں جمع کراؤں گا اور دوست سارا وقت دعاؤں میں مصروف رہیں اور نیکی کے خیالات، نیکی کے پھیلانے کے خیالات میں مصروف رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۳۱ /اگست ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۷ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء تحریک جدید کے چھیالیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲۶ اکتوبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج انصار اللہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے اور اجتماع جس دن شروع ہو خدام کا یا انصار کا خطبہ جمعہ بھی اسی کا ایک حصہ بن جاتا ہے.انصار اللہ کے اجتماع کے جمعہ کے خطبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کیا کرتا ہوں.تحریک جدید کو شروع ہوئے پینتالیس سال ہو چکے ہیں اور دفتر دوم کو شروع ہوئے پینتیس سال ہو چکے ہیں اور دفتر سوم کو شروع ہوئی چودہ سال ہوچکے ہیں.یہ چھیالیسویں سال کا اعلان ہے جو میں اس وقت کر رہا ہوں اور دفتر دوم کے چھتیسویں اور دفتر سوم کے پندرھویں سال کا اعلان.پینتالیس سال پہلے تحریک جدید جب شروع ہوئی تو پینتیس سال پہلے یعنی اس کے دس سال کے بعد دفتر دوم کا اعلان ہو گیا لیکن اس کے بعد پچیسویں سال جب دس سال پھر گزر گئے تو دفتر سوم کا اعلان ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا.وقت گزر گیا.بہت ساری وجوہات تھیں ان میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۲۸ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء جانے کی ضرورت نہیں.بہر حال آج سے چودہ سال پہلے میں نے اس کا اعلان کیا.اعلان اس لئے کیا کہ دفتر اول میں جو دوست شامل ہوئے ان کا اس لمبے عرصہ کے گزر جانے کی وجہ سے چندہ ، ان کی مالی قربانی اتنی نہیں رہی تھی کہ تحریک کے بوجھ کو وہ اٹھا سکیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ جب تحریک جدید کا سا را چندہ قریباً ایک جگہ ٹھہر گیا اور ضروریات تو ہر سال بڑھتی ہی ہیں اور جماعت کا قدم تو ہر سال آگے ہی بڑھنا چاہیے اس وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ دفتر سوم کا اعلان ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا.وہ اعلان کیا گیا.۶۶ء، ۶۷ء میں پہلی دفعہ دفتر سوم کا چندہ تحریک جدید کے چندہ میں شامل ہوا.۶۶ ء، ۶۷ ء میں دفتر اول کا چندہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار تھا اور دفتر سوم کا پہلے سال کا چندہ پانچ ہزار دوسو ستاون ہوا.کام شروع ہو گیا اور اس نے ترقی کرنی تھی.آہستہ آہستہ پہلے سال اس طرف توجہ نہیں دی گئی دوستوں کو توجہ نہیں ہوئی.کچھ لوگ دفتر دوم میں شامل ہوتے رہے جن کو تو جہ ہوئی اس طرف اور سال رواں یا پچھلے سال کہنا چاہیے یعنی ۷ ۷ ۶، ۷۸ ء میں دفتر اول کا چندہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار دوسو اٹھائیں سے گر کے ایک لاکھ اکیس ہزار تین سو اٹھہتر رہ گیا.یعنی یہ نیچے جارہے تھے.دوست فوت ہورہے تھے دوست پنشن پر جا رہے تھے بڑی عمر کی وجہ سے.آمدنی میں کمی ہورہی تھی وہ اس قدر مالی قربانی نہیں دے سکتے تھے.حصہ لینے پر بھی جو پہلے دیا کرتے تھے یا فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اللہ تعالیٰ انہیں اس کی احسن جزا دے.دفتر دوم ۶۶۶، ۶۷ء کو پانچ ہزار دوسوستاون روپے سے شروع ہوا اور ۷۶ ء، ۷۷ء میں ایک لاکھ ستر ہزار ایک سو چورانوے تک پہنچ گیا یعنی جس وقت یہ شروع ہوا اس وقت دفتر اول کا چندہ تھا ایک لاکھ تریسٹھ ہزار اس سے دس ہزار سے بھی زیادہ رقم ۷۷، ۷۸ ء سے آنی شروع ہو گئی.اس سال تو نہیں کیونکہ میں مشورہ نہیں کر سکا اور حالات کا جائزہ نہیں لے سکا.سوچ اور غور اور فکر نہیں کر سکا اور دعا ئیں نہیں کر سکا اس لئے دفتر چہارم کا اعلان نہیں کروں گا لیکن یہ جو کھڑا ہو گیا تھا چندہ.اس کے نتیجہ میں تحریک جدید کو اپنے کام میں دقتیں پیدا ہونی شروع ہوگئیں جس کو ایک حد تک دفتر سوم نے سنبھالا لیکن بعض ایسے ذرائع آمد تھے جو یک دم بند ہو گئے اور ان کی وجہ سے بہت دقت کا سامنا ہوا.پھر میں نے جماعت کو
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۲۹ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء ایک ٹارگٹ دیا پندرہ لاکھ روپے کا.آٹھ اور دس لاکھ کے درمیان کہیں کھڑی ہوگئی تھی تحریک مالی قربانیوں کے میدان میں.اور ٹارگٹ کے لئے جماعت کوشش کرتی رہی لیکن ٹارگٹ تک پہنچی نہیں.یہ کئی سال کی بات ہے.اس واسطے میں نے ٹارگٹ بڑھایا نہیں.ہر سال میں کہتا رہا میرا پندرہ لاکھ کا ٹارگٹ ہے یہاں تک پہنچو.پچھلے سال کی وصولی تیرہ لاکھ ننانوے ہزار ہے.سال رواں میں ۲۲ /اکتوبر تک آٹھ لاکھ کی وصولی ہو جانی چاہیے تھی اس میں سے سات لاکھ اسی ہزار وصول ہو چکا ہے.اس لئے امید ہے کہ سال رواں میں کم و بیش پندرہ لاکھ کا ٹارگٹ پورا ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ.یہ پاکستان کی جماعتوں کی مالی قربانی ہے.تحریک جدید کو جہاں یہ دقت پیش آئی کہ ساری دنیا کے اقتصادی حالات کے نتیجہ میں پاکستان سے باہر دینِ اسلام کی خدمت کے لئے جماعت کوئی رقم قا نو نا بھجوا نہیں سکتی تھی اور نہیں بھجوائی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں یہ سامان پیدا کر دیا کہ باہر اس قدر ترقی جماعت کو خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوگئی کہ باہر کی جماعتوں نے ، بیرون پاکستان کی جماعتوں نے.بیرون پاکستان کے بہت بڑے بوجھ خود اٹھالئے اور خود کفیل ہو گئے.یہاں جو اخراجات ہیں وہ اب کم ہو گئے ہیں لیکن جو ہیں وہ بہت ضروری ہیں مثلا مبلّغین کا تیار کرنا.جامعہ احمدیہ کا خرچ ہے.مبلغین کا تیار کرنا جماعت کی ذمہ داری اس معنی میں بھی ہے کہ تیاری کا خرچ جماعت مہیا کرے اور جماعت کی ذمہ داری اس معنی میں بھی ہے کہ خرچ کروانے کے لئے اپنے بچے وقف کرے اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق مخلص نوجوان آگے آئیں.اس سلسلہ میں جو چیز نمایاں ہو کر میرے سامنے آئی وہ یہ ہے کہ جو ہماری نوجوان واقفین کی نسل ہے ان میں بڑی بھاری اکثریت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت مخلص اور قربانی دینے والی اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو صحیح معنی میں وقف کرنے والی ہے اور صرف نو جوان واقفین ہی نہیں جماعت احمدیہ کی نوجوان نسل احمدیوں کے گھروں میں پیدا ہوئی ہے یا احمدی ہوئی ہے اور اسی طرح وہ احمدی نوجوان نسل بن گئی.خدام احمد یہ بن گئے ان کے اندر بڑا جذ بہ پایا جاتا ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۳۰ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ سے بڑا پیار پایا جاتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بڑی محبت پائی جاتی ہے.یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو انسانی دل میں پیدا کرنا ہے تو انہیں بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی جس کے لئے وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ تیار ہیں ذہنی طور پر بھی اور قلبی طور پر بھی اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ علمی طور پر بھی اس کے لئے تیار ہوں.یہ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن دوسری طرف جو کمزور تھا وہ زیادہ کمزور ہو گیا.مقابلے میں آگیا نا بہت زیادہ مخلصین کے تو ہزار میں سے ایک شاید بیس ہزار میں سے ایک شاید ایک لاکھ میں سے ایک ہولیکن ان کی جو شرارتیں اور ان کی نالائقیاں تھیں اللہ تعالیٰ سے ان کی جو بے وفائیاں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی جو بے پروا ہی تھی وہ نمایاں طور پر ہمارے سامنے آنے لگ گئی.اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے بھی سامان پیدا کرے اور مخلصین کی اس نسل کو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کی حفاظت میں رکھے اور شیطان کے ہر حملہ سے انہیں محفوظ رکھے.تو آج میں پندرہ لاکھ کے ٹارگٹ کے ساتھ ہی تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں تین شکلوں میں دفتر اول کے چھیالیسویں سال کا.دفتر دوم کے چھتیسویں سال کا اور دفتر سوم کے پندرھویں سال کا ، جو نئے کمانے والے ہیں، جو نئے بلوغت کو پہنچنے والے ہیں.جو پہلی دفعہ اپنے دلوں میں یہ احساس محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، خواہ روپیہ دو روپے ہی کیوں نہ ہو، خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور مالی قربانیاں بھی پیش کرنی چاہئیں.وہ اس کو مضبوط کریں.مالی جو پہلو ہے اس کو بھی اور جو اس سے اہم دوسرے پہلو ہیں انہیں بھی مضبوط کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ پر توکل اور اس سے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گی اور ان کو ادا کرنے کی اپنے رب کریم سے توفیق پائیں گی.انصار اللہ کا اجتماع آج شروع ہے.جو انصار سے تعلق رکھنے والی تفاصیل ہیں ان کے متعلق تو انشاء اللہ ان کے اجتماع میں بیٹھ کے ان سے گفتگو ہو گی لیکن بعض بنیادی حقیقتیں ہیں انسانی زندگی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۳۱ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء کی اور چونکہ انصار اللہ کی زندگی بھی انسانی زندگی ہی ہے ایک پہلو اس کا.اس لئے بعض بنیادی باتیں اس وقت میں بیان کرنا چاہتا ہوں.سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (المائدة : ۷۰) خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے ، اس کی معرفت پانے ، اس کی رضا حاصل کرنے ، اس کا پیارا بننے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں منطقی ترتیب کے ساتھ تین باتوں کا ذکر کیا ہے ایک ایمان باللہ ہے، خدا تعالیٰ پر ایمان لانا یعنی خدا تعالیٰ کو وہ ماننا جو وہ ہے.وہ سمجھنا، وہ شناخت کرنا جو حقیقت ہے اس کی ہستی اور وجود کی جس کو ہم عام طور پر عرفان باری، اللہ تعالیٰ کی معرفت کا نام دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ایک بے مثل ہستی ہے اور اس کی صفات میں بھی اس کا کوئی مثیل نہیں.جہاں تک اللہ تعالیٰ کا انسان سے تعلق ہے خدا تعالی کی ساری صفات کی حقیقت یہ ہے کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ( ال عمران : ١٩٢) کہ ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کے دست قدرت سے نکلی وہ باطل نہیں ہے.کسی مقصد کے بغیر نہیں.ایک مقصد ہے ہر پیدائش کا اور جیسا کہ دوسری آیات سے اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے ہمیں پتا لگتا ہے.انسان کی پیدائش اس لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا بندہ بنے اور خدا تعالیٰ کا بندہ بننے کے لئے اسے جس چیز کی بھی ضرورت اپنی انفرادی زندگی سے باہر تھی وہ سب ضرورت اللہ تعالیٰ نے مادی چیزوں کی پیدائش اور غیر مادی چیزوں کی پیدائش کے ساتھ پوری کر دی تو ربنا ما خَلَقْتَ هَذا بَاطِلًا کا جب انسان اعلان کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم اس اللہ پر ایمان لاتے ہیں جس نے ہمیں اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا.اس لئے پیدا کیا کہ ہماری زندگی میں اس کے رنگ کی، اس کے نور کی جھلک ہو اور ہماری صفات پر بھی اس کی صفات کا رنگ چڑھے اور اس عظیم مجاہدہ کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی انسان کو وہ اس نے پیدا کر دی اور اس نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی جس سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنی زندگی کے اس مقصد کے حصول میں کام نہ لیں.تو ایمان باللہ جو ہے یہ انسان اور خدا کے تعلق میں ایک بنیادی حقیقت ہے.خدا تعالیٰ کی معرفت کا حاصل کرنا اور یہ جاننا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد بنانے کے لئے ہمیں پیدا کیا اور یہ نہیں کہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۳۲ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء اس نے ہمیں یہ تو کہہ دیا کہ میرے عبد بنو میری صفات کا رنگ اپنی خصلتوں پر، اپنے اخلاق پر چڑھاؤ لیکن ایسا کرنے کے سامان پیدا نہیں کئے.یہ نہیں بلکہ جب اس نے یہ کہا اے انسان! میرا بندہ بن تو ساتھ ہی اس نے اپنا بندہ بننے کے سارے ہی سامان جو ہیں وہ اس کے لئے پیدا کر دیئے.یہ اصولی طور پر ہر چیز نوع انسانی کی خدمت پر لگی ہوئی ہے اور انفرادی طور پر فردفرد میں جو فرق ہے ہر فرد نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے زبانِ حال سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا کہ اے خدا! تیری طرف بڑھنے کے لئے مجھے یہ چاہیے اس نے اس کا ئنات میں اس چیز کو پایا جو پہلے سے موجود تھی اور وہ خدا پر یہ گلہ نہیں کر سکتا کہ مجھے بندہ بننے کے لئے تو کہا گیا ہے لیکن بندہ بننے کے سامان پیدا نہیں کئے گئے.یہ ایمان باللہ ہے پہلی چیز جوضروری ہے انسان کے لئے اگر وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بننا چاہتا ہے.ایمان باللہ سے اور مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلا سے ہمارا دوسرا قدم یہ اٹھتا ہے.ہماری فطرت کی آواز ہماری عقل کا نتیجہ کہ جب کوئی چیز بھی باطل نہیں.بے فائدہ اور بے مقصد نہیں تو انسانی زندگی کیسے بے مقصد ہو سکتی ہے جس کے لئے ہر چیز کو پیدا کیا گیا ہے.اس واسطے ہماری زندگی اس دنیا میں ختم نہیں ہوتی.واليوم الأخر ایمان بالآخرت ضروری ہو جاتا ہے یعنی حقیقی معرفتِ باری، ایمان بالآخرت پر منتج ہوتی ہے یعنی دوسرا ایمان اس کے پیچھے آتا ہے اور اس سے انسانی عقل انکار نہیں کر سکتی جیسا کہ اس کی فطرت اس سے انکار نہیں کر سکتی.یہ جو دوسرا پہلو ہے وَالْيَوْمِ الْآخِرِ حشر کا دن، زندہ ہونا اور اس دن خدا سے اس کی بے شمار نعماء کو حاصل کرنا یا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور دوری کی راہوں کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں اس کے قہر کے جلوؤں کا دیکھنا اس کا تعلق ہے وَالْيَوْمِ الْآخِرِ کے ساتھ.پھر انسان کے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ معرفتِ باری کے بعد یہ یقین ہو گیا.یہ یقین جس کے اوپر بڑا زور دیا ہے اسلام نے.اس کے بغیر ایمان باللہ بھی نہیں رہتا کیونکہ کامل ایمان جیسا کہ میں نے بتایا ہے کامل ایمان باللہ اس ایمان کو چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہے اور یوم آخرت ہے اور الساعة ہے اور قیامت ہے مختلف الفاظ میں اور مختلف پیرایوں میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۳۳ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء اسے بیان کیا گیا ہے.تو جب جزا و سزا ہے.یومِ آخرت اليَومِ الآخِرِ میں قیامت کے دن تو اس کے لئے ہمیں عمل کرنا چاہیے.وَ عَمِلَ صَالِحًا تیسرا منطقی نتیجہ اگلا یہ نکلتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے.اس معرفت سے ہمیں پتا لگا کہ ہم بندگی کے لئے ، عبد بننے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کا کوئی فعل اور کوئی خلق، پیدائش اور کوئی چیز جو اس نے پیدا کی ہے وہ باطل نہیں ہے.ہماری زندگی بھی باطل نہیں ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قیامت کا دن ہے ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے.یہ اپنا ایک لمبا مضمون ہے حضرت مسیح موعود کی کتب میں تفصیل سے آیا ہے.دوستوں کو ان کتب کو بھی پڑھنا چاہیے تا کہ قیامت اور وَالْيَوْمِ الْآخِر کی جو حقیقت ہے وہ بھی بہر حال ہمارے دماغ میں حاضر رہے.تو پھر سوال انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ میں کیسے قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کروں تو فرمایا وَ عَمِلَ صَالِحًا عمل صالحہ کرے.قرآن کریم میں اعمال صالحہ کی تعریف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق ، خدا تعالیٰ کی نواہی اور خدا تعالیٰ نے جو اوامر بتائے ہیں ان کے مطابق موقع اور حل پر عمل صالح کرے یعنی موقع اور محل کے مطابق عمل کرے.یہ عمل صالح ہے لیکن انسانی کوشش جب انسان اپنے متعلق غور کرتا ہے.بڑی حقیر ہے اور کوئی شخص اپنے ہوش وحواس میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنے عمل سے اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتا ہوں العیاذ باللہ اس لئے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) تو عمل صالح اچھا نتیجہ کسی شخص کے لئے صرف اس حالت میں پیدا کر سکتا ہے جب وہ عمل مقبول ہو.خدا تعالیٰ اسے قبول کرے تب اس کو جزا دے گا نا.اس لئے جہاں تک انسانی کوشش کا سوال ہے عمل صالح کا.اس کی بنیادی حقیقت دعا ہے یعنی خدا سے اس کے فضل کو مانگنا تا کہ انسان اس کے قرب کی راہوں میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور دعا ہے اس کی مغفرت کے لئے التجا کرنا اور چیخ و پکار کرنا تا کہ جو باتیں ، جو اعمال اس کو نا پسندیدہ ہیں اور جو اس سے دور لے جانے والے ہیں.وہ اول سرزد
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۳۴ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء ہی نہ ہوں اور اگر سرزد ہو جائیں تو ان کے بدنتائج سے ہمارا رب ہمیں بچالے.اس مغفرت کے لئے دعا کرنا.سو یہ دعا کے دو حصے ہیں.نیکیوں کی توفیق پانے کے لئے اعمالِ صالحہ مقبولہ کی توفیق پانے کے لئے خدا کے فضل اور اس کی رحمت کو طلب کرنا اور اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں اور بدیوں اور بداعمالیوں اور بھول چوک سے بچنے کے لئے یا ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کی مغفرت کا طالب ہونا اس کے بغیر وہ عمل صالح جو روکھا پھیکا انسان کا اپنا عمل صالح ہے.جس میں خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہیں اور خدا تعالیٰ نے جسے قبول نہیں کیا ایک کوڑی قیمت نہیں رکھتا نہ خدا کے نزدیک نہ انسانی فطرت کے نزدیک کیونکہ جس نے جزا دینی ہے اس کو اگر وہ عمل پسند آئے گا تبھی وہ اس کا بدلہ احسن رنگ میں مقبول اعمال کے متعلق جو وعدے دیئے گئے ہیں اس طور پر اپنے بندوں کو دے گا اور جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے یوم آخرت پر پختہ ایمان رکھتا ہے جیسا کہ اسلام نے تعلیم دی اور اس کے مقبول اعمالِ صالحہ ہیں اس کے متعلق خدا نے کہا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ اللہ تعالیٰ کے ایمان کو قبول کر لینے کی علامت یہ ہے یعنی خدا تعالیٰ نے جو اس کے ایمان کو اور اس کے دلی عقیدہ کو اور اس کے اعمال صالحہ کو قبول کر لیا اس کی علامت یہ ہے کہ سچے مومنوں کو نہ تو آئندہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ سابق کوتاہیوں کے بدنتائج کا شکار ہوتے ہیں تو جب ان کی اسی زندگی کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں جب یہ حالت ہو تو اس سے پتا لگتا ہے کہ ایمان سچا ہے.دلی عقیدہ صادق اور اعمالِ صالحہ خدا کو مقبول ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور ہم سب کو جو انصار اللہ سے تعلق رکھنے والے ہیں اپنی عمر کے لحاظ سے انصار کی تنظیم میں ہیں.ہم سب کو ان تین حقیقوں پر قائم ہوکراپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق عطا کرے تاکہ ہم ان کے لئے جو عمر میں ہم سے چھوٹے یا علم میں اتنے پختہ نہیں یا جو تجربہ میں کم ہیں یا بعد میں آنے والی نسلیں ہیں ان کے لئے نیک نمونہ بنیں.بدنمونہ نہ بنیں تا کہ ہر نسل اپنے دور میں سے گزر کے جب انصار اللہ میں شامل ہو تو آنے والی نوجوان نسلوں کے لئے وہ نمونہ بنتی چلی جائے تاکہ وہ کام جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۳۵ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء مسلمان کے سپر د کیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے وہ جلد پورا ہو اور یہ مقصد ہمارا اس زندگی میں بھی ہمیں حاصل ہو اور دنیا جہان کی خوشیاں مل جاتی ہیں اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے کہ نوع انسانی ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی توحید کے جھنڈے تلے جمع ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور محبت میں مست اور سرشار آگے ہی آگے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر چلتی چلی جائے.یہ نظارہ ہم دیکھیں.جو دوری کی راہیں آج دنیا اختیار کئے ہوئے ہے خدا کرے وہ دوری کی را ہیں قرب کی راہوں میں بدل جائیں اور اس میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو اس رنگ میں کہ خدا ہماری کوششوں کو قبول کرے اور ہمیں بھی اس کی محبت اور پیار حاصل ہو.آمین.اجتماع کی وجہ سے نمازیں جمع ہوں گی.جمعہ کی نماز کے ساتھ میں عصر کی نماز بھی پڑھاؤں گا.(روز نامه الفضل ربوه ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ ، صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۳۷ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء اسلام کہتا ہے کہ دنیا میں رہ کر خدا کے بنو اور اسی کے لئے زندگی گذارو خطبه جمعه فرموده ۲ /نومبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ - وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - (البقرة : ۲۰۱، ۲۰۲) ترجمہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا کے آرام و آسائش دے اور آخرت کے متعلق ان کو نہ کوئی یقین ہوتا ہے اور نہ دعائیں ہوتی ہیں نہ اس کے لئے کوشش ہوتی ہے.ان کی ساری توجہ اور ان کے اعمال کا سارا دائرہ اس دنیا تک محد و در ہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہیں ہوتا.ایک تو لوگوں کا گروہ یہ ہے.انسانوں کا ایک دوسرا گروہ ہے جو یہ دعا کرتا ہے.فرمایا: ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا کی زندگی میں بھی آرام و آسائش اور کامیابی و فلاح عطا کر اور اخروی زندگی میں بھی خوشحالی کے سامان ، کامیابی کے سامان اور اپنی رضا کے حصول
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۳۸ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء کے سامان پیدا کر.اس طرح پر ہر دو جنتوں کا ہمیں وارث بنا، دنیوی جنت کا بھی اور اُخروی جنت کا بھی اور ہر دو جہنم سے ہمیں محفوظ کر ، دنیوی جہنم سے بھی اور اُخروی جہنم کی آگ اور اس آگ کے عذاب سے بھی ہمیں بچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ دوسری آیت وَمِنْهُمُ منْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً جو ہے، اس میں رہنا کا لفظ پورے پورے شعور کے ساتھ اور اس کے معنی کو سمجھتے ہوئے بولا گیا ہے اور اس میں تو بہ کی طرف اشارہ ہے.اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ربنا “ اور مانگتے ہیں صرف اس دنیا کے آرام و آسائش کو، نہ انہیں رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے نہ اس کے معنی کو وہ پہچانتے ہیں اور نہ اپنے زندگی کے مقصود کا انہیں احساس ہوتا ہے اور نہ اس کے لئے وہ کوشاں ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تو بہ کا جو اشارہ ہے اس میں ، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان ایک وقت تک اللہ کے علاوہ ، رب حقیقی کے علاوہ بعض دیگر ارباب بھی اپنے سامنے رکھتا ہے.اس نے حقیقی رب، رب کریم کو چھوڑ کے یا اس کے ساتھ ہی دوسرے خدا، ارباب بنالئے ہیں.تو یہاں جو اشارہ ہے تو بہ کا اس کے یہ معنے ہیں کہ جو ہم نے بہت سے ارباب اس سے پہلے بنائے ہوئے تھے اب ہم ان کو چھوڑتے ہیں اور ان سے تعلق جو تھا ہمارا اس سے تو بہ کرتے ہیں اور اے رب حقیقی ! ربنا ! ہم تیری طرف آتے ہیں اس تو بہ کے بعد.اور جب یہ حقیقی معنے میں استعمال ہو دعا میں تو اس میں درد بھی ہے اس احساس کی وجہ سے کہ غیر اللہ کو رب بنائے رکھا اور سوز و گداز بھی ہے اس غم کی وجہ سے کہ جو رب حقیقی تھا اس سے پورا اور کامل اور حقیقی اور ذاتی تعلق ہم نے قائم نہیں کیا اور اس ہستی کو جو رب ہے اور بتدریج کمال کو پہنچانے والی اور پرورش کرنے والی ہے اس سے ہم دور رہے اور اس حقیقت کو نہیں پہچانا کہ انسان کی زندگی کا ایک مقصد تھا اور یہی دنیا سب کچھ نہیں تھی.مرنے کے بعد زندہ رہنا تھا انسان کی روح نے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو بتدریج ارتقائی ادوار میں سے گزرنے کے بعد پہلے سے زیادہ حسن میں، پہلے سے زیادہ لذت والی خاصیت رکھنے میں ہمیں وہ نعماء ملتی تھیں اور ان کو ہم بھول گئے اور اسی کو سب کچھ سمجھ لیا تو اس درد اور سوز وگداز کے ساتھ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۳۹ خطبہ جمعہ ۲ / نومبر ۱۹۷۹ء انسان کہتا ہے رہنا اے ہمارے حقیقی رب ! اے رب کریم !! ہم بھٹکے ہوئے تھے ، ہمیں تو نے روشنی دکھائی اور اب ہم تیری طرف لوٹتے ہیں.اس معنی میں اس ندا اور التجا میں تو بہ کا ایک پہلو بھی ہے لیکن جو ربنا کہنے والے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کا ذکر پہلی آیت میں ہے انہیں تو غیر اللہ سے ( انہوں نے جوار باب بنالئے اللہ کے علاوہ ان سے ) انہیں چھٹکارا نہیں ملا ، وہ اللہ پر بھی ایمان لاتے ہیں بظاہر، اپنے حیلوں پر اور دغا بازیوں پر بھی بھروسہ رکھتے ہیں جھوٹ اور افترا پر ان کا تو گل ہے.اپنے علم اور قوت پر ان کو گھمنڈ ہے، اپنے حسن یا مال یا دولت پر ان کو فخر ہے، چوری اور راہزنی اور فریب کو انہوں نے اپنا رب بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی رب حقیقی کو بھی پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کا مال ہمیں دے، مال حلال ہو یا حرام ہو ہمیں دنیا کا مال چاہیے، اس دنیا کا اقتدار دے خواہ وہ تیرے بندوں کی خدمت کرنے والا ہو یا نہ ہو، جو حیلے اور دغا بازیاں ہم کریں، جو جھوٹ اور افتر اہم باندھیں، جو علم ہم نے حاصل کیا ہو ، جو قوت تو نے ہمیں عطا کی ہے اس کو صحیح استعمال کریں یا غلط ہماری منشا کے مطابق ان کا نتیجہ نکال اور اس دنیا میں ہمیں کامیاب کر ، ہمارے ذاتی محسن جسمانی حسن کے لوگ عاشق بنیں اور حقیقی حسن جو اخلاق کا حسن، روح کا حسن ہے وہ ہم میں پیدا ہو یا نہ ہو وغیرہ وغیرہ سینکڑوں بت ہیں جو بنائے ہوئے ہیں.رب کے علاوہ سینکڑوں رب ہیں جن کی پرستش کرتے ہیں اور جورب حقیقی ہے اس کی دھندلی سی تصویر کوجس کی حقیقت اور معرفت ابھی انہوں نے حاصل نہیں کی اس کو بھی اپنے سامنے رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور دعا یہی ہوتی ہے کہ یہی دنیا ہے سب کچھ اس دنیا میں صحیح یا غلط طور پر ہمارے رفعتوں کے سامان دنیوی لحاظ سے کر دے اور ہمیں اونچا کر دے، ہماری قوت کو زیادہ کر دے خواہ وہ ظالمانہ ہی کیوں نہ ہو.ہمارے فریب کو اور ہماری چوری کو ننگا نہ ہونے دے اور جو ہم فائدہ حاصل کریں چوری کے ذریعہ سے وہ مال ہمارے پاس ہی رہے اصل مالک کے پاس واپس نہ جانے پائے.یہ دعا ہے ان کی جب وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا کی چیز ہمیں دے دے اس حال میں کہ آخرت کا، خدا کے پیار کا ، خدا کی نعمتوں کا ان کے دماغ میں صحیح تصور قائم نہیں ہوتا.وہ جو
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۴۰ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء رنا کہا گیا ہے.پہلی آیت میں جس کا تعلق مانگنے والوں کا تعلق، وہ ندا کر نے والوں کا تعلق صرف اس دنیا اور اس دنیا کی زندگی کے ساتھ ہے لیکن یہ جو دوسرا گروہ ہے وہ تو رب حقیقی کو ماننے والا ہے اور غیر اللہ سے کامل طور پر قطع تعلق کرنے کے بعد جو حقیقی مولا اور رب ہے اس کی طرف وہ رجوع کرنے والا ہے اور اسی کے سامنے سر نیاز کو جھکانے والا ہے اور اس کے علاوہ ہر شے کو مرے ہوئے کیڑے جتنی بھی وقعت نہیں دیتا.تو جو ربنا یہاں دو آیتوں میں ہے ان کے معانی میں فرق ہے ایک معنی وہ ہیں جو ایک دنیا دار، دماغ کے ذہن میں ہیں اور جو حقیقی معنے نہیں ، جس میں خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے ربنا کی ندا نہیں کی جاتی.اور ایک دوسرے معنی ہیں جو ایک عارف کی ندا ہے، جو خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت رکھنے والے کی دعا ہے جو خدا کے علاوہ ہر شے سے بیزار ہونے والے کی دعا ہے جو ہر چیز اپنے رب سے پانے کی امید رکھنے والے کی دعا ہے اور وہ دعا یہ نہیں کہ صرف یہ دنیا مجھے چاہیے.دعا یہ ہے کہ اے خدا! اس دنیا کی وہ چیز مجھے نہ دے جو آخرت کی نعماء سے مجھے محروم کرنے والی ہو.صرف وہ نعماء اس دنیا کی مجھے دے جو بتدریج تیری ربوبیت کے سایہ میں تیری بہتر سے بہتر نعماء تک لے جانے والی اور تیرے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے میں میری مد اور معاون ہونے والی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں آنے والے مصائب، شدائد، ابتلا وغیرہ جو ہیں ان سے وہ امن میں رہے.( یہ بیان میں اپنے الفاظ میں کر رہا ہوں ) اور دوسرے یہ کہ فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں، دنیوی نعمتوں کا غلط استعمال دنیوی نعمتوں کا مہلک استعمال جن کے نتیجہ میں جسمانی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں جن کے نتیجہ میں ذہنی تنزل بھی پیدا ہوتا ہے، جن کے نتیجہ میں اخلاق بھی جل کے راکھ بن جاتے ہیں، جن کے نتیجہ میں وہ روحانی طاقتیں جو اس لئے انسان کو دی گئی تھیں کہ اللہ تعالیٰ زمین سے اٹھا کر اسے آسمانوں پر لے جائے وہ ضائع ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۴۱ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء تو بعض لوگ جو ایک حد تک رفعتیں حاصل کرتے ہیں وہاں سے گرتے ہیں زمین پر اور ریزہ ریزہ کر دیئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے.تو فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دور لے جانے والی ہیں وہ اس سے نجات پاوے.دو چیزوں کی اپنی خوشحالی کے لئے انسانی نفس کو ضرورت ہے.مصائب اور شدائد اور ابتلا ان سے امن میں رہے اور فسق و فجور اور روحانی بیماریوں سے نجات اسے حاصل ہو.پس دوسری آیت میں اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً جو کہا گیا ہے دنیا کا حسنہ یعنی دنیا سے تعلق رکھنے والی خدا کی نگاہ میں جو اچھی چیز انسان کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی، انسان ہر ایک بلا اور گندی زیست اور ذلت سے محفوظ رہے یعنی خدا ہر ایک پہلو سے، دنیا کا ہو یا آخرت کا ، اسے ہر بلا سے محفوظ رکھے اور جس رنگ میں خداد یکھنا چاہتا ہے انسان کو اور اس کے اعمال کو اس رنگ میں اسے اعمالِ صالحہ بجالانے کی توفیق عطا ہو.یہ ہے فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے معنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے ہیں اور فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً کے معنے آپ نے یہ کئے کہ دنیوی حسنہ کا اس طور پر استعمال کہ جس کے نتیجہ میں اُخروی حسنات انسان کو ملیں اور آپ فرماتے ہیں آخرت کا جو پہلو ہے وہ دنیا کی حسنہ کا شمرہ ہے.اس تمثیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کی حسنات کو ایک درخت کی شکل میں پیش کیا اور اُخروی زندگی کی حسنات کو ان درختوں کے پھل کی حیثیت سے پیش کیا تو جو خدا کا مومن بندہ اور معرفتِ الہی رکھنے والا ہے وہ دعا کرتا ہے رہنا ! اے ہمارے رب! تو بہ کرتے.ہوئے تیری طرف واپس لوٹتا ہوں ، تیرے غیر کو کچھ چیز نہیں سمجھوں گا کامل بھروسہ تجھ پر رکھوں گا، ساری امیدیں تجھ سے وابستہ رہیں گی میری، مجھے جو اس دنیا میں تو نے ( جیسا کہ قرآن کریم نے اعلان کیا ) ان گنت نعماء سے نوازا ہے ان کے استعمال کی صحیح تو فیق دے.جس کے نتیجہ میں میری قوتیں اور استعداد میں صحیح نشو و نما حاصل کر کے ایسے اعمالِ صالحہ بجالانے والی ہوں جو تجھے پسندیدہ ہوں جن پر تو مجھے انعام بھی دے، مقبول اعمالِ صالحہ کی مجھے توفیق دے اور اس کی شکل یہ بن جاتی ہے کہ اگر دنیا کے اعمال اور دنیا کی جدو جہد اور مجاہدہ حسنہ جسے کہا گیا ہے وہ درخت ہے تو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۴۲ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء اُخروی حسنہ جو ہے وہ ان درختوں کے پھل ہیں، اس لئے جب یہ شکل بنی تو ضمناً یہ بات بھی ہمارے سامنے آگئی کہ اسلام جو ہے وہ رہبانیت ان معنی میں کہ دنیا کی بہت سی جائز چیزوں کو بھی چھوڑ دینا، اس کو جائز نہیں سمجھتا.اسلام یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو چھوڑ اور میرے پاس آ.اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کا صحیح استعمال کر اور میرے پاس آ.اگر چھوڑے گا ناشکرا ہوگا اور خدا کے نزدیک ناشکرا اور کافرہم معنے لفظ ہیں اور اگر دنیا کو چھوڑے گا نہیں میرے بتائے ہوئے طریق پر میری نعمتوں کو استعمال نہیں کرے گا ، میری عطا کردہ قوتوں کو میرے بتائے ہوئے طریق پر خرچ نہیں کرے گا تو جنت سے نکال دوں گا تجھے.دنیا کو چھوڑ نا نہیں ، دنیا میں رہ کر خدا کا بننا ہے، خدا کا ہو کر خدا کے لیے دنیوی زندگی گزارنی ہے، یہ ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً دنیا میں جو حسنہ ملتی ہیں جو چیزیں جو نعماء ملتی ہیں وہ سب اُخروی حسنہ کے حصول کا سامان پیدا کرنے والی ہیں.موٹی مثال ہے صحت جسمانی.صحت کا ہونا خدا تعالی کا بہت بڑا انعام ہے اور ایک صحت مند بد معاشیوں میں بھی اپنی صحت خراب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتا ہے لیکن خدا کا صحت مند بندہ خدا کے حضورا اپنی صحت کے نتیجہ میں اینا رو اخلاص کے وہ کارنامے دکھاتا ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.مثلاً صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو کسریٰ اور قیصر سے جنگیں ہوئیں ان میں ( تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے ) اتنا فرق ہوتا تھا تعداد میں.مسلمانوں کی تعداد اس قدر کم اور کسریٰ کی حکومت جو بہت بڑی ایمپائر تھی اس وقت کی دنیا میں اور قیصر کی حکومت جو بہت بڑی ایمپائر تھی اس وقت کی دنیا میں ان کی فوجیں پانچ گنا سات گنا بعض دفعہ آٹھ گنا زیادہ ہوتی تھیں.اگر پانچ گنا زیادہ بھی ہوں اور ساڑھے سات گھنٹے لڑائی ہو دن میں تو ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد نئی تازہ دم فوج مسلمان کے سامنے آجائے گی اور ایک مسلمان ساڑھے سات گھنٹے لڑتا رہے گا ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج میں سے کسریٰ اور قیصر کی فوجوں کا ہر سپاہی صرف ڈیڑھ گھنٹہ لڑے گا.مسلمان سپاہی ساڑھے سات گھنٹے ان کے مقابلہ میں لڑ رہا تھا.یہ شکل بنی لڑائی میں.میں نے بڑا سوچا اور بڑا ہی حیران ہوا ہوں کہ کس قدر صحت اور عزم ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ نے دیا.اگر عزم ہو اور صحت نہ ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا.اگر صحت ہو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۴۳ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء اور عزم نہ ہو تو کچھ نہیں ہوگا.میں نے کہا ہے کچھ ہو نہیں سکتا.اب میں کہتا ہوں کچھ نہیں ہو گا تو ان کو صحت بھی دی خدا نے.عزم بھی دیا خدا نے.تو صحت جسمانی دنیوی حسنہ ہے اس دنیا سے جسم کا تعلق ہے.خدا کہتا ہے مجھ سے مانگو صحت اس لئے نہیں کہ عیاشی میں اسے ضائع کرو گے اس لئے مانگو کہ میری راہ میں اس کو خرچ کرو گے اور میرے پیار کو حاصل کرو گے.ہر د نیوی نعمت کی ایسی ہی مثال ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.صحت کے علاوہ عزت ہے، دنیوی مال و دولت ہے.دنیا کی اولاد ہے خاندان ہیں، عافیت کی فضا ہے وغیرہ وغیرہ.ہر چیز جو ہے خدا کہتا ہے مجھ سے مانگو لیکن مجھ سے لے کر میری خوشنودی کے لئے میری بتائی ہوئی راہ پر اسے خرچ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی تجربہ بتاتا ہے کہ جہنم اس دنیا کی بھی ہے.جہنم وہ بھی ہے جو مرنے کے بعد ہے (اللہ محفوظ رکھے ).خدا تعالیٰ ان پر اپنے قہر کی تجلی نازل کرنا چاہے گا جہنم میں بھیج دے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسان کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس ور لی زندگی کے ساتھ طرح طرح کے عذاب اور تکلیفیں لگی ہوئی ہیں.خوف کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں.خون خرابہ ، لڑائی ہو جاتی ہے.یہاں میں بعض دفعہ کھیتوں کے کنارے، زمیندار آدھے مرلے پر بھی لڑ مرتے ہیں.فقر و فاقہ کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.ایک غربت ہے جو ورثہ میں ملتی اور آگے اگلی نسل کو ورثہ میں چھوڑی جاتی ہے.ایک غربت ہے جو ایک امیر آدمی دیوالیہ ہو جاتا ہے اور وہ جو لاکھوں کا مالک ہوتا ہے وہ چند لقموں کے کھانے کی بھی توفیق نہیں رکھتا، مانگنا پڑتا ہے اس کو ، بیماریاں ہیں، کوشش انسان کرتا ہے، اس کے مختلف اور سینکڑوں میدان ہیں، ناکامیاں بھی سینکڑوں ہیں.ذلت و ادبار کے اندیشے ہیں.ہزار قسم کے دوسرے دکھ ہیں.اولاد بیوی وغیرہ کے متعلق تکلیف ہے.بچہ بیمار ہو جائے رات کا چین اُٹھ جاتا ہے.بیوی کے ساتھ ناراضگی پیدا ہو جائے وہ پریشانی کا باعث بن جاتی ہے.پھر رشتے داریاں ہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں اُلجھن پیدا ہو جاتی ہے.کبھی ورثہ کی کبھی یہ کہ مجھ سے پیار کا اتنا سلوک نہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴ ۴ ۴ کیا جتنا کسی دوسرے رشتہ دار سے کر دیا وغیرہ وغیرہ.خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ ساری تکالیف اور پریشانیاں جو ہیں یہ دنیا کی جہنم ہے اور مومن دعا یہ کرتا ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کہ اے خدا! اس دنیا کی آگ سے ہمیں بچا.ہر قسم کی تکلیف، دکھ درد پریشانی جو ہے اس سے تو ہمیں محفوظ رکھ اور ہماری زندگی کبھی بھی تلخ نہ ہو اور انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا! تو ہمیں صحت سے رکھ، ہم سب کو ساری جماعت کو خدا صحت سے رکھے.ہر نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ساری جماعت کو خدا صحت سے رکھے اور بیماروں کو شفا دے.ہمیں وعدے دیئے گئے کہ تمہارے مال میں کثرت بخشی جائے گی اولاد میں کثرت بخشی جائے گی.ہم دعائیں کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان بشارتوں کا وارث بنائے ، عافیت سے رکھے اور پھر ہمیں توفیق دے کہ یہ ساری نعمتیں پانے کے بعد اعمال صالحہ بجالانے والے ہوں اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور دنیا کے جہنم سے بھی ہم محفوظ رہیں، دنیوی جنت بھی ہمیں ملے لیکن یہاں پر ختم نہ ہوں خدا تعالیٰ کے انعام ہم پر.جہاں اس دنیا کی جو جہنم ہے اس کی آگ سے ہمیں بچایا جائے.وہاں مرنے کے بعد کی جو جہنم ہے اُس آگ سے بھی ہمیں بچایا جائے اور جہاں اس دنیا کی جنت ہمیں ملے وہاں مرنے کے بعد کی جنت جو اللہ تعالیٰ کے پیار اور رضا کی جنت ہے وہ بھی ہمیں ملے.یہ ہے دعا جو ربنا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ میں سکھائی گئی ہے ہمیں.اللہ تعالیٰ اس دعا کے ہر پہلو کو سمجھنے اور ہر پہلو سے ہی خدا سے یہ دعا مانگنے کی ہمیں توفیق دے اور اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے کہ وہ اس دعا کو قبول کرے اور ہمارے لئے ہر دو جہنم کی حفاظت مقدر کی جائے اور ہر دو جنتیں ہمارے نصیب میں ہوں.خدا کرے ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۴۵ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۹ء اللہ کی صفات کے جلوے منکروں میں حسد پیدا کرتے ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۹ نومبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت اور ان کا ترجمہ پڑھ کر سنایا:.وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ - وَ مَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ - الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ - اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ ـ (البروج : ۸ تا ۱۱) ترجمہ :.اور وہ لوگ مومنوں سے جو کچھ کر رہے ہیں ان کا دل اس کی حقیقت کو سمجھتا ہے اور وہ ان سے صرف اس لئے دشمنی کرتے ہیں کہ وہ غالب اور سب تعریفوں کے مالک اللہ پر ایمان کیوں لائے.وہ اللہ جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ ہر چیز کے حالات سے واقف ہے.وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب میں مبتلا کیا پھر اپنے فعل سے تو یہ بھی نہ کی انہیں یقیناً جہنم کا عذاب ملے گا اور اس دنیا میں بھی انہیں دل کو جلا دینے والا عذاب ملے گا.
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۴۶ خطبہ جمعہ 9 نومبر ۱۹۷۹ء پھر حضور انور نے فرمایا:.ان آیات میں تین جماعتوں کے متعلق اصولی باتیں بتائی گئی ہیں تین ایسی صداقتیں جو آدم سے لے کر قیامت تک صحیح ثابت ہوتی رہیں، ہوتی رہیں گی ان آیات میں جن تین جماعتوں کا ذکر ہے وہ یہ ہیں.ایک ایسے غیر مومن منکر جو انکار پر اصرار کرتے ہوئے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں.ایک ایسے مومن جو جب اللہ کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں اور حقیقی توحید پر وہ قائم ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو وہ پکڑتے ہیں تو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور پھر مرتے دم تک اسے چھوڑتے نہیں.اور تیسری جماعت جس کا ذکر یہاں ہے وہ ان لوگوں کی جماعت ہے جو منکروں میں شامل رہے اور ایسے اعمال بجالاتے رہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ تھے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور انہیں اس بات کی توفیق دی کہ وہ تو بہ کرلیں اور جس گروہ کے وہ مخالف اور دشمن تھے ( مومنوں کا گروہ ) اس گروہ میں وہ شامل ہو جائیں اور ان کا وہ انعام پائیں اور جس جماعت کو وہ چھوڑ کے آئے ہیں ان کی سزا سے خود کو محفوظ کر لیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (اس سورۃ کی پہلی آیات میں ) جس قسم کی دشمنی کا اظہار پہلی جماعت، دوسری جماعت ، غیر مومن منکر جماعت ، مومن جماعت کے خلاف کرتی ہے جس قسم کی ہلاکت کے منصو بے وہ بناتے ہیں ہلاکت کے لئے کوشش کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودُ.جو کچھ وہ مومنوں سے کرتے ہیں ان سے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے اس کی حقیقت کو ان کی عقل بھی اور ان کی فطرت بھی ہمیشہ مجھتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے.وہ اس یقین پر قائم نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ پر مضبوطی کے ساتھ حقیقی ایمان لانے والوں کے خلاف منصوبے بنا نا واقعہ میں ٹھیک بات ہے اور ہمیں ایسا کرنا چاہیے.اس حقیقت پر قائم نہیں ہوتے.افعال بد، خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نا پسندیدہ اعمال بھی کرتے ہیں اور دل سے یہ ندا بھی اٹھتی ہے کہ کہیں ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہ آجائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دشمنی جو وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۴۷ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۹ء کرتے ہیں مومنین باللہ سے وہ کسی دلیل پر کسی صداقت پر کسی بچے واقعہ پر مبنی نہیں ہوتی.وہ دشمنی صرف اس لئے کرتے ہیں کہ مومن اس اللہ پر ایمان لے آئے جو تمام صفاتِ حسنہ سے مقصف اور ہر قسم کے نقص اور کمزوری سے مبرا ہے.وہ ہر قسم کی صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.ان صفات میں سے جو صفات اس دشمنی کی وجہ بنیں ان کا یہاں ذکر کر دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے بندوں کی دشمنی وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صفت عزیز سے متصف ہے اللہ تعالیٰ صفت حمید سے متصف ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے.صفت مالکیت سے وہ متصف ہے اور اللہ تعالیٰ صفت شہید سے متصف ہے چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ چار صفات اپنے ان بندوں کی زندگی میں اپنے جلوے دکھاتی ہیں جن کا وہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں اس لئے حسد کی آگ ان کے دلوں میں بھڑکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں سے دشمنی کرنے لگ جاتے ہیں.صفت عزیز کے کئی معنی ہیں.ایک تو اس کے معنی ہیں بڑی طاقت والا بڑے غلبہ والا اور ایسا غالب کہ الْمَنِيعُ الَّذِي لَا يُنَالُ وَلَا يُغَالَبُ وَلَا يُعْجِرُه شَيْءٍ کہ جو انسانی منصوبوں اور انسانی دشمنیوں اور انسانی کرتوتوں کی دسترس سے بالا ہے (لا يُنَالُ ) اور دنیا کی ساری طاقتیں مل کر اس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتیں (وَلا يُغَالَب وَلَا يُعْجِزُهُ شَيْءٌ ) اور جو وہ کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے.دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی منصوبہ اسے اس کے منصوبوں میں نا کام نہیں کر سکتا عاجز نہیں بنا سکتا.پھر عزیز کے معنے ہیں المکترم وہ صاحب عزت ہے اور عزت کا سرچشمہ ہے.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (فاطر: ۱۱) کہا گیا ہے.وہ عزیز ہے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس جہان اور اگلے جہان میں صاحب عزت و اکرام ہوا سے چاہیے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب سے تعلق قائم کرے اور حقیقی عزت اس سے حاصل کرے نہ کہ دنیا کے دوسرے عزّت کے جھوٹے سرچشموں سے حقیقی عزت کے وہ سرچشمے نہیں ہیں.اصل عزت دینے والا خدا تعالیٰ کی ہستی اور ذات ہے اور اپنی اس صفت کے جلوؤں میں کہ وہ طاقت کا سرچشمہ ہے، وہ عزت کا سر چشمہ ہے ، وہ ہر پہنچ سے دور ہے، کوئی اس پہ غالب نہیں آسکتا، کوئی اسے عاجز نہیں کر سکتا اس کی صفات کے جلوے ان کو نظر آتے ہیں اس دنیا میں خصوصاً (جہاں تک انسان کا تعلق ہے ) ان
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۴۸ خطبہ جمعہ ۹ / نومبر ۱۹۷۹ء لوگوں کی زندگیوں میں جو حقیقی طور پر موحد ہیں اور خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق رکھنے والے ہیں.یہ سارے جلوے جو ہیں یہ خدا تعالیٰ کی حمد کی طرف انسان کو متوجہ کرتے ہیں وہ حمید ہے، سب تعریفوں کا مرجع بھی وہ ہے اور سب حقیقی تعریفوں کا مستحق بھی وہ ہے اور جو اس سے تعلق رکھنے والے ہیں ان سے بھی پسندیدہ افعال سرزد ہوتے ہیں (اللہ عزیز ہے اور سب سے بڑی طاقت انسان کی یہ ہے کہ وہ یہ یقین کرے کہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں لیکن جس خدا پر میں ایمان لایا ہوں اس میں ہر طاقت موجود ہے اس واسطے مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ) جو خدا کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی ہدایت میں خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے آ گیا اس سے بھی ایسے افعال سرزد ہوں گے کہ جس طرح سب تعریفوں کا مرجع اور مستحق اللہ ہے خدا تعالیٰ اس کی بھی حمد کرتا ہے آسمانوں سے اور لوگوں کی نگاہ میں بھی ان کو ایسا بنادیتا ہے.ایک بت کی شکل میں نہیں ایک ایسے فعال وجود کی شکل میں جس کا ہر فعل نوع انسانی کی خدمت میں ، ان کے دکھوں کو دور کرنے میں، ان کے لئے سکھ کے سامان پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے.لوگ اس کی تعریف کریں گے.تعریف دو طرح کی جاتی ہے یا حسن کے نتیجہ میں یا احسان کے نتیجہ میں.حقیقی محسن خدا تعالیٰ کا ہے اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) اور احسان تو کسی اور کا تصور میں بھی نہیں آسکتا.اس نے پیدا کیا، اس نے طاقتیں دیں.اس نے ہر دو جہان کی ہر چیز کو خادم بنادیا انسان کا.اس سے بڑا اور کیا احسان ہو سکتا ہے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نبی ہمارے لئے بطور راہبر اور ہادی کے مبعوث کر دیا تو جو اس کے کہنے پر اور اس کے حکم کے مطابق اپنے اندر اپنے وجود میں اپنے افعال میں نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کی جھلک رکھتا ہوگا ، وہ حُسن اس میں پیدا ہو گیا.جو شخص خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق دنیا کے محسن اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا پر احسان کرنے والا ہوگا اس سے بڑا کون احسان کرنے والا ہے سب لوگ اس کی تعریف کرنے لگ جائیں گے.دشمن بھی تعریف کرتے ہیں ایسوں کی اور اپنے بھی کرتے ہیں.الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمُوتِ وَالْأَرْضِ الْمَلِكُ کے معنے ہیں الْعَظمَةُ وَ السَّلْطَةُ عظمت اور رعب ، اور المَلِكُ کے معنی ہیں صَاحِبُ الْأَمْرِ وَالسَّلْطَةُ نيز قَادِرُ عَلَى التَّصَرُّفِ ، تصرف
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۴۹ خطبہ جمعہ ۹ / نومبر ۱۹۷۹ء کرنے پر قادر تو الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے کہ ہر دو جہاں کی ہر شے میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کر سکتا ہے اور تصرف جو ہے وہ دو قسم کا ہوتا ہے.ایک قانون کا تصرف، جو دنیا کی بادشاہتیں کرتی ہیں، قانون بنا دیتی ہیں اور پھر ان کے کارندے جو ہیں وہ اس کے مطابق شہری زندگی چلاتے ہیں.غلطی کرتے ہیں کبھی ٹھو کر کھاتے ہیں کبھی قانون کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں.انسان ہے، قانون بھی کمزور اس کا اور اس کا اجرا کرنے والے بھی ہزا ر ضعف رکھتے ہیں اپنے اندر لیکن خدا تعالیٰ ” قَادِرُ عَلَى التَّصَرُّفِ “ قانون کے لحاظ سے بھی ہے یعنی اس نے کائنات کی ہر چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ایک عظیم قانون سے وابستہ کیا ہوا ہے.اسی واسطے ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے نوبل پرائز لے لیا نا.ایک نیا قانونِ باری ایک نئی جھلک اس صفت کی ان کی تحقیق نے معلوم کی لیکن خدا تعالیٰ صرف قانون کے ساتھ تصرف نہیں کرتا.بلکہ وہ متصرف بالا رادہ ہے اس نے صرف یہ قانون نہیں بنایا کہ بعض درخت موسم بہار میں پت جھڑ کرتے ہیں.موسم بہار میں جان کے کہہ رہا ہوں خزاں کی بجائے.بعض درخت ایسے ہیں جو موسم بہار میں پت جھڑ کرتے ہیں اس نے یہ قانون بنایا ہے، قانونی تصرف بھی ہے اس کا ، کہ یہ درخت جو ہیں درختوں کی یہ قسمیں یہ موسم بہار میں اپنے پتوں کو گرا دیں گی اور نئے پتے اُگیں گے ان میں لیکن وہ متصرف بالا رادہ ہے اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی.ہر پتہ جو گرتا ہے وہ اس کے حکم سے گرتا ہے، ایک دفعہ دیر کی بات ہے میں کالج کی لاج میں رہا کرتا تھا تو ایک ایسا ہی درخت ہمارے گھر کے صحن میں بھی لگا ہوا ہے.ایک دن اس طرف میرا خیال گیا.پت جھڑ کا موسم تھا میں نے کہا دیکھیں خدا تعالیٰ کا تصرف بالا رادہ جو ہے وہ کس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.تو شام کے وقت ، پت جھڑ ہو رہی تھی نا ایک وقت میں تو سارے پتے نہیں جھڑ جاتے ، کچھ پتے زرد کچھ زیادہ زرد کچھ کی پتے کے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈنڈی ہوتی ہے جو ٹہنی کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی جب تک زرد نہ ہو وہ جھڑتے نہیں اور کچھ سبز بالکل.تو میں تین چار پتے شام کو دیکھتا تھا زرد، نیم زرد اور بالکل سبز اور صبح جا کے دیکھتا تھا اس درخت کے نیچے تو سبز پتہ نیچے گرا ہوا ہوتا تھا اور زرد پتا درخت کے اوپر لگا ہوا ہوتا تھا.
۴۵۰ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۹ء خطبات ناصر جلد هشتم اگر صرف قانون کی حکومت ہوتی خدا تعالیٰ کی تو بجوں جوں زردی اور موت کی کیفیت پتے پر زیادہ ہوتی چلی جاتی اس کے گرنے کا امکان زیادہ ہوتا لیکن ایک بظاہر نسبتا زیادہ زندگی رکھنے والے پتے کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ درخت سے نیچے گر جا اور جوز رد پتا تھا جس کا زیادہ امکان تھا شام کے وقت کہ وہ گر جائے گا صبح کو وہ درخت پر لگا ہوا تھا اسی طرح، یہ درخت بھی ہمارے معلم ہیں، اسی واسطے ان کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو آیات کے زمرہ میں رکھا ہے.یہ بھی پوائنٹر (Pointer) ہیں.یہ علامتیں ہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں.جو خدا تعالیٰ کی تعلیم اور قرآن کریم میں جو صفات اس کی بیان ہوئی ہیں ان کی حقیقوں کو واضح کرنے والی ہیں.تو میں مالک کے متعلق خدا تعالیٰ کی جو مالک ہونے کی صفت ہے اس کے معنے بتا رہا ہوں کہ اس کی ملکیت ہے ہر چیز.ہر چیز کا وہ خالق ہے.کوئی چیز ایسی نہیں جو اس نے پیدا نہیں کی اور ہر چیز کا وہ مالک ہے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی بت نے بنائی ہو یا امریکہ نے بنائی ہو یا کسی اور ملک نے.ہر چیز اُس نے بنائی.انسان نے جو بنایا اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق تصرف کر کے ، اس کی بنائی ہوئی قوت اور استعداد اور صلاحیت کے نتیجہ میں تصرف کر کے، انہوں نے ایک نئی شکل اس کو دے دی لیکن گھر سے تو کچھ نہ لائے سب کچھ خدا تعالیٰ کی عطا تھی.اس کی قوتیں اور استعداد میں بھی اور وہ جو مادہ تھا جس کو اس نے استعمال کیا یا جو تھیوری تھی جو اس کے ذہن میں آئی وہ اور جو قانونِ قدرت جس کے عین مطابق اگر ہو تو حقیقت ہے ورنہ نہیں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ نے بنایا.تو وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے اور وہ تصرف کرنے پر قادر بھی ہے تصرف کرتا بھی ہے.تصرف صرف قانو نا نہیں کرتا بلکہ تصرف بالا رادہ کرنے والا ہے.تصرف بالا رادہ کے منبع سے معجزات پھوٹتے ہیں.اس کا اپنا قانون ہے.وہ بھی اس کے قانون کے خلاف نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے جو قوانین ہیں ان پر انسانی عقل حاوی نہیں ہوسکتی ، محیط نہیں ہوسکتی.اور شہید کے معنی ہیں الَّذِی لَا يَغِيْبُ شَيْءٌ عَنْ عِلْیہ.جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہر شے پر جس کا علم احاطہ کئے ہوئے ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۵۱ خطبہ جمعہ 9 نومبر ۱۹۷۹ء تو یہ جو صفات یہاں بیان ہوئیں عزیز، حمید اور لکے مُلک میں مالک ہونے کی اور شہید.یہ چار صفات کے جلوے جب جماعت مومنین کی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں تو اس وقت جو مخالف اور منکر ہیں ان کے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے.وہ عزت مٹانا چاہتے ہیں ، خدا تعالیٰ عزت دے دیتا ہے.وہ کمزور کرنا چاہتے ہیں الْقَوِی خدا تعالی طاقت دے دیتا ہے.اب جتنا زور روؤسائے مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چند گنتی کے ساتھیوں کے خلاف لگایا کہ مٹ جائیں.نہیں مٹا سکے.اس واسطے کہ ان کا تعلق زندہ تعلق ، معرفت اور عرفان کا تعلق اس خدا سے تھا جو غالب ہے پھر جس وقت عرب اپنے معاشرہ اور معیشت اور اقتصادی لحاظ سے ایک کمزور ملک تھا.دنیا میں طاقتور ممالک دو تھے بڑے، کسری ایک طرف، قیصر ایک طرف، جب کسری نے ساری توجہ مسلم عرب کی، مسلمان عرب جو تھا اس کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہوئی تھی حملہ کر کے اور اس وقت قیصر نے سمجھا کہ یہ موقع ہے مٹادو اور فیصلہ کیا کہ مٹادے.طاقت تھی دنیوی وہ اکٹھی کی.کہتے ہیں چالیس ہزار کے مقابلہ میں تین لاکھ کی فوج لے کے آیا اور ان کو حکم یہ تھا کہ یہ لڑائی عام لڑائیوں کی طرح نہیں جس طرح پہلے لڑی گئی ہیں اسی طرح یہ لڑائی لڑی جارہی ہے کہ میدانِ جنگ میں اتنی بڑی طاقت میں بھیج رہا ہوں.تین لاکھ ، چالیس ہزار کے مقابلے میں.ہر دس ہزار کے مقابلے میں پچھتر ہزار سپاہی زیادہ اچھے ہتھیاروں سے ہتھیار بند ہیں کہ تم ان کو وہاں قتل کرو اور پھر مدینے میں جا کے سارے مسلمانوں کو مارو.وہ جنگ یرموک کہلاتی ہے وہ جنگ یرموک نہیں تھی وہ اسلام کی جنگ تھی یعنی اس معنی میں کہ قیصر نے فیصلہ کیا تھا کہ اس جنگ کے ساتھ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا اس عزیز خدا کے ساتھ مقابلہ ہے اور اس حمید خدا کے ساتھ مقابلہ ہے جس سے انہوں نے وہ طاقتیں اور قو تیں حاصل کی ہیں جو تعریف کے قابل ہیں اور تین لاکھ کیا تین کروڑ کی بھی اگر اس جگہ آجاتی فوج اور خدا تعالیٰ جو مالک اور متصرف بالا رادہ ہے کا منشا یہ ہوتا کہ مسلمان جیتیں گے ہاریں گے نہیں تو تین کروڑ بھی وہاں شکست کھا تا اور وہ مسلمان کو شکست نہ دے سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا ہر دو جہان کو کہ اسلام اس میدانِ جنگ میں جیتے گا، ہارنے کے لئے نہیں اسلام کو قائم کیا گیا.یہ ہے متصرف بالا رادہ.تو یہ جب
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۵۲ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۹ء متصرف بالا رادہ رب کی صفت کے جلوے مخالف دیکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتا یا منکر باری ہے یا صحیح حقیقی تو حید پر قائم نہیں، تو اس کے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے.جلن پیدا ہوتی ہے.مُوْتُوا بِغَیظُكُمْ غیظ اور بھی پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں منصوبے اور بھی تیز ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اور بھی زیادہ آتے ہیں اور اسلام کی اور مومنین کی اس جماعت کی حفاظت کرتے ہیں.پھر کوئی منصوبہ چھپ کے خدا کے خلاف کیا نہیں جاسکتا.ایک تو اپنے عزیز ہونے کے لحاظ سے پھر حمید ہونے کے لحاظ سے کوئی فعل ایسا تو نہیں خدا کرسکتا کہ جو اس کے اوپر اعتراض آجائے کہ خدا تعالیٰ تو نے جو بشارتیں دی تھیں اپنے بندوں کو وہ پوری نہیں ہو ئیں تو پھر حمد تو نہیں ہوگی نا.حمد تو اسی وقت ہوگی کہ جو خدا نے کہا ویسا پورا کر دکھایا اور وہ کرتا ہے اور کوئی چیز اس سے غائب نہیں ہے اس کے علم نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے اور یہ Surprise کا Element جنگ اور مقابلے میں فوجوں نے اصطلاح بنائی ہوئی ہے.وہ فوجوں کی اصطلاح ہے کہ جیتنے کے لئے ایک سرپرائز (Surprise) اچانک، لاعلمی میں.لاعلمی میں حملہ کرتے ہیں.یہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جس کو دشمن یا مد مقابل استعمال کرتا ہے لیکن خدا کے مقابلے میں سرپرائز (Surprise) تو نہیں.لاعلمی میں حملہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہر چیز کا اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے.تمہارے دل میں جب خیال پیدا ہوتا ہے اس کا اس کو علم ہے تم جب اپنی مجلس میں بیٹھ کے کوئی منصوبہ زیر بحث لاتے ہو اس کا اسے علم ہے.جب کسی فیصلے پر پہنچتے ہو اس کا اسے علم ہے.جب اس فیصلے کے مطابق تم مادی سامان پیدا کرتے ہو اس کا اسے علم ہے، جب اس فیصلے کو کامیاب کرنے کے لئے ضرورت کے مطابق تم تربیت دیتے ہو اس کا اسے علم ہے.تو لاعلمی میں تو کوئی حملہ خدا کے منصوبہ پر نہیں ہو سکتا تو اس سے بھی جو منکرین ہیں، مخالفین ہیں، جو دشمنی کرنے والے ہیں، مومنین کی جماعت سے وہ بڑے تلملاتے ہیں کہ کوئی راہ ان کو اپنی کامیابی کی نظر نہیں آتی.دکھ دیتے ہیں لیکن مومنین کی جماعت دکھ سہہ لیتی ہے اور ان کے لئے دعائیں دیتی ہے اور ان کے لئے جو حریق کا ہے کہ دل بھی ان کے آگ میں جل رہے ہوں گے وہ دعاسن کے ایسا آدمی تو اس کا دل
خطبات ناصر جلد هشتم بھی آگ میں جل رہا ہے.۴۵۳ خطبہ جمعہ ۹ / نومبر ۱۹۷۹ء تو یہاں یہ فرمایا گیا کہ جو خدا العزیز ہے طاقتور ، عزت والا ، غالب جس کا غلبہ اور جس کی طاقت ہر شے ہر قوت کی دسترس سے بالا اور کوئی طاقت اتنی نہیں جو اس کو مغلوب کر سکے کوئی.منصوبہ ایسا نہیں جو اسے عاجز بنا سکے اور حمید ہے جو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں ان کے اندر بھی وہ حسن اور وہ احسان کی طاقت پیدا کرتا ہے کہ دنیا ان کی تعریف پر مجبور ہو جاتی ہے.وہ مالک ہے متصرف بالا رادہ ہے.قانون کے اوپر نہیں اس نے ہر چیز کو چھوڑ ا ہوا.قانون بھی اسی کا چلتا ہے لیکن قانون در قانون اس طرح اس نے بنا دیا ہے کہ انسانی عقل تو ان گہرائیوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی.اور وہ شہید ہے.اس خدا سے، یہاں چونکہ یہ باتیں تھیں جو دشمن کے دل میں آگ بھڑ کانے والی حسد پیدا کرنے والی جب تک معرفت حاصل نہ ہو اور توبہ کا دروازہ نہ کھلے دشمنی میں ان کو بڑھانے والی ہیں ان صفات کا یہاں ذکر کر دیا کہ مومن باللہ ہیں کہ چونکہ وہ ایک ایسی ہستی پر ایمان لائے کہ جو اللہ ہے تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ، ہر عیب سے پاک اور ان صفات میں صفت عزیز ہے اس کی ایک صفت.پھر الحمید ہے وہ، پھر الْمَالِك ہے وہ، پھر وہ شہید ہے اور یہ صفتیں جو یہاں بیان ہوئی ہیں یہ دشمنی کا باعث بنتی ہیں اس لئے یہاں ذکر کیا گیا ہے اور یہاں یہ نتیجہ نکلتا ہے ان آیتوں پر غور کر کے کہ تمہیں تمہاری دشمنی اور تمہارے منصوبوں کے مطابق خدا جزا دے گا.چھپے ہوئے تو نہیں ہو تم یا تمہارے منصوبے یا تمہاری دشمنیاں اور جو اس کے مومن بندے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے نتیجہ میں ، جو خدا سے ان کو پیار ہوگا ، اس کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ کے نور سے وہ حصہ لینے والے ہوں گے اس کے نتیجہ میں، جو توحید حقیقی پر قائم ہونے کی وجہ سے کہ اپنے آپ کو محض لاشے سمجھنا اور کچھ نہ سمجھنا، سب کچھ کر کے سمجھنا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا کیونکہ سب کچھ اسی کا تھا اس کے سامنے لوٹا دیا ہے کون سا احسان کیا اپنے ربّ پر.احسان تو اسی کا ہے ہم پر.تو یہ صفات ، جو اللہ ان کے دلوں کے حالات اور اسرار کو جاننے والا ہے جو مومنوں کے دلوں کے حالات اور اسرار کو جاننے والا ہے وہ مومنوں کو ان کے حالات کے لحاظ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۵۴ خطبہ جمعہ ۹ / نومبر ۱۹۷۹ء سے، ان کے اعمال کے لحاظ سے، ان کے تقویٰ کے لحاظ سے، ان کے جہاد کے لحاظ سے ان کی ہجرت کی کوششیں کہ گند نہ ہمارے قریب آئے ، اس کے لحاظ سے وہ ان کو جزا دے گا اور اسی نسبت سے جو دشمنیاں ہیں اس کے مطابق دشمن اس کی گرفت میں ہیں اس سے باہر نہیں نکل سکتے.اس دنیا میں بھی اس کی گرفت ظاہر ہوتی ہے جب وہ چاہے جب ہم چاہیں نہیں.جب وہ چاہے اور مرنے کے بعد تو اس کی گرفت جس پر وہ چاہے وہ ظاہر ہو جائے گی.ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ ہم سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ توحید حقیقی ہو ، عزیز کے ساتھ تعلق ہو ، حمید کے ساتھ تعلق ہو ، تو کوئی گندگی، کوئی نا پا کی کوئی پلیدگی تمہارے جسم اور اخلاق اور روح کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو.تبھی حمید کے تم بندے بنو گے نا.اور متصرف بالا رادہ ہے وہ قادر خدا تم بھی معمور الاوقات بنو گے وہ مطالبہ یہ کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کا متصرف بالا رادہ ہونا کہ ہر چیز کے متعلق چھوٹے چھوٹے پتے کو بھی براہ راست اس کا حکم آنا کہ گر یا نہ گر.یہ ہمیں سبق سکھاتا ہے کہ ایک لحظہ بھی اپنی زندگی کا ضائع نہ کرو اور خدا کی راہ میں اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اپنی معمور زندگی گذار و اور جس طرح اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز باہر نہیں اس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ خود سوچ کے، پڑھ کے جو ریسرچ کرنے والے ہیں وہ ہمہ تن، ہمہ وقت مصروف ریسرچ ، مصروف تحقیق رہ کے خدا تعالیٰ کے قانون اور خدا تعالیٰ کے تصرف بالا رادہ جو ہے بڑا عظیم مضمون ہے یہ چھوٹی سی مثال ابھی میں نے درخت کے پتوں کے گرنے کی دی ہے متصرف بالا رادہ ہے، بالکل.بڑا غور کیا اس مادی دنیا پر اور سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات متصرف بالا رادہ ہے.تم بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا جلوہ اس کا متصرف بالا رادہ ہونے کے لحاظ سے حکم تمہارے حق میں نکلے اور تم اس کی قانون کی گہرائیوں اور اس کے حسن کو جاننے والے اور دنیا تک پہنچانے والے ہو اور جو شہید ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں.اس سے دعا کرو کہ اے خدا! جو غلطیاں ہوئیں جو کوتاہیاں ہوئیں جو کمزوریاں ہوئیں وہ بھی تو جانتا ہے.تجھ سے ہم چھپا تو نہیں سکتے مگر تجھ سے مغفرت کی دعا تو مانگ سکتے ہیں.تو ا پنی مغفرت کی چادر کے نیچے ہمیں دبا لے اور جو اگر کوئی ایسا عمل ہوا جسے تو نے پسند کیا اور رد نہیں کیا وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۵۵ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۹ء بھی تو جانتا ہے.تو ہمارے عمل کے مطابق نہیں بلکہ اپنے اس وعدہ کے مطابق کہ اگر تو چاہے تو بغیر حساب کے جزا دے دے گا.ہمیں جزا دے دے.اللہ تعالیٰ ہم سب پر فضل کرے.اللہ تعالیٰ انسانیت پر بھی فضل کرے.اس وقت انسان بھی بڑے اندھیروں میں بڑی پریشانیوں میں بڑے خطروں میں گھرا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ان کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کرے.آمین روز نامه الفضل ربوه ۵ راگست ۱۹۸۲ء صفحه ۱ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۵۷ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء جلسہ پر زندگیوں میں روحانی انقلاب بپا کرنے کے لئے آئیں خطبه جمعه فرموده ۱۶ رنومبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج میں جلسہ سالانہ کے متعلق بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.پچھلے ایک خطبہ میں میں نے بہت سی ہدا یتیں دی تھیں بہت سی باتوں کی طرف جماعت کو تو جہ دلائی تھی ، بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی.اس وقت اس تفصیل میں جائے بغیر میں یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ ان باتوں کو اپنے سامنے رکھیں اور حتی الوسع کوشش کریں کہ جو ذمہ داریاں جلسہ سالانہ سال کے اس حصہ میں ہم پر عائد کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو اس کی رضا کے مطابق اور منشا کے ماتحت ادا کرنے والے ہوں.باہر سے جو دوست تشریف لاتے ہیں جلسہ کے موقع پر مرکز سلسلہ میں آج میں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کئی گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں بعض پہلوؤں کے لحاظ سے کچھ تو وہ ہیں جو نئے نئے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں اور پورے طور پر تربیت یافتہ نہیں.تربیت پر وقت لگتا ہے.اپنے وقت پر وہ بھی اللہ سے ہم امید رکھتے ہیں ) تربیت یافتہ مخلصین کی صفوں میں شامل ہو جا ئیں گے.کچھ نئی پود ہے جو بچپنے سے نکل کر شعور یا نیم شعور میں داخل ہوئی
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۵۸ خطبہ جمعہ ۱۶/ نومبر ۱۹۷۹ء ہے.انہیں بھی روایات سلسلہ اور روایات جلسہ کا زیادہ علم نہیں.پھر وہ ہیں جو بڑی عمر کے ہیں پرانے احمدی، بہت سے جلسے انہوں نے سنے، بہت سے جلسوں کی ذمہ داریاں انہوں نے ادا کیں، بہت سے جلسوں میں دعائیں کرنے کی انہیں توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت سی دعاؤں کو قبول کیا اور اپنے زندہ ہونے کا اور قادر ہونے کا اور غالِبٌ عَلَى آمدہ ہونے کا ثبوت بہم پہنچایا.ان کے اوپر یہ ذمہ داری ہے کہ جو ان سے تعلق رکھنے والے ایسے احمدی ہیں جن کے کانوں میں سلسلہ عالیہ احمد یہ جلسہ سالانہ کے موقع کی جماعت کی جو روایات ہیں وہ پڑنی چاہئیں.وہ ان کے کانوں میں ڈالیں، بار بار ڈالیں.بچوں کو کہیں شور نہیں کرنا آوازے نہیں کہنے.میری ہوش میں صرف ایک جلسہ کے موقع پر میرے کان میں اونچی آواز (جس کو آوازہ کرنا کہتے ہیں) پڑی، اسی وقت میں نے توجہ دلائی اور خاموشی ہوگئی.یہاں جو آتے ہیں وہ قربانی دے کر آ رہے ہوتے ہیں.وہ دنیا کا کچھ کھو کر اللہ سے بہت کچھ حاصل کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں.بھول ہو جاتی ہے.غفلت ہو جاتی ہے، نئے ہیں انہیں پتا نہیں.جب گھر سے چلیں ان کو بتائیں کہ ربوہ جلسہ پر جارہے ہیں شور نہیں کرنا، جو راستے مقرر ہیں انہی راستوں پر چلنا ہے، نظریں نیچی رکھنی ہیں، زبانوں سے شہد ٹیکنا ہے، چہروں پر غصہ نہیں آنا ، خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی سے ہر وقت جھکے رہنا ہے.اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھنے کا سبق سیکھنا ہے، ایسا سبق جو زندگی میں پھر کبھی بھلایا نہ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خواہشات جماعت کے ساتھ وابستہ کیں ان خواہشات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا، اپنی زندگیوں کو گزارنا ہے ان کے کانوں میں ڈالیں کہ یہ جلسہ میلہ نہیں نہ عام جلسوں کی طرح ایک جلسہ ہے.محض خدا کے لئے گھروں کو چھوڑنے والے گھروں کو چھوڑتے اور یہاں آجاتے ہیں.محض خدا کی خاطر بہت سے غریب سارا سال پیسہ بچاتے رہتے ہیں تا کہ جلسہ میں شمولیت اختیار کریں.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے اور اس کی توفیق دے کہ یہاں آکر وہ جھولیاں اتنی بھر لیں ، اتنی بھر لیں کہ پھر ان کی جھولیوں میں مزید کی گنجائش نہ رہے.پھر اللہ تعالیٰ ان کی گنجائش میں بھی وسعت پیدا کرے اور انعامات بھی.جلسہ پر آنے والے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے متعلق جو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۵۹ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء قرآن عظیم کے بیان میں وہ سننے کے لئے آتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں وہ خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرنے کے لئے اور اس یقین میں پختگی پیدا کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں.وہ ایک روحانی انقلاب عظیم اپنی زندگیوں میں بپا کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں اور بہت ہیں جن کی زندگیوں میں ایک ایسا انقلاب بپا ہو جاتا ہے کہ دنیا دار نگاہ دیکھتی اور حیران ہوتی ہے اور سمجھ نہیں پاتی کہ ہو کیا گیا ، کہاں کے تربیت یافتہ ہیں یہ لوگ.یہ باتیں اپنے بچوں کے اپنی عورتوں کے کانوں میں ڈالیں.مردوں کی طرح عورتیں بھی بڑی مخلص ہیں.پھر بچیاں بھی ہیں، ناصرات سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں.نئی نئی احمدی ہونے والی بھی.اسی سال کے دوران بہت سے مردوزن اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوابیں دیکھنے کی بناء پر احمدیت کو قبول کرنے والے بھی ہیں.ان کو صداقت آسمان پہ نظر آئی ، انہوں نے قبول کر لیا.اس صداقت کے نتیجہ میں جو زمین پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.وہ ان کے سامنے آئیں گی.انہیں سمجھنا چاہیے.ساری دنیا کے خادم بنا کر ہمیں اکھٹا کر دیا.بُنْيَانِ مَخصوص کی طرح کہ ایک دوسرے میں کوئی فرق نہیں رہا اور سب کے لئے دعائیں کرنے والا بنا دیا ہمیں.تو ان چیزوں کو ذہن میں حاضر رکھ کے یہاں آئیں.دوسرے جلسہ پر آنے والوں میں پاکستان کے مختلف مقامات سے آنے والوں میں بھی اور بیرونی ممالک سے آنے والوں میں بھی ایسے بھی ہیں جو احمدی نہیں جلسے پر آتے ہیں دوستوں کے ساتھ ، بہت کچھ انہوں نے سنا ہوتا ہے وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے سنا جماعت کے خلاف وہ درست بھی ہے یا نہیں.ان کو بھی آپ سمجھا ئیں کہ جس جگہ آپ جا رہے ہیں اس کی فضا اس کا ماحول اس کی روایات ہر شخص سے جو یہاں آتا ہے کچھ مطالبہ کرتی ہیں اس مطالبے کو آپ پورا کریں.بہت سی باتیں تو یہاں کا ماحول خود ہی سمجھا دیتا اور مطالبہ اپنا خود ہی پورا کر والیتا ہے لیکن جو ہمارا فرض ہے وہ ہمیں ادا کرنا چاہیے.جو غیر ممالک سے آنے والے ہیں وہ دو گروہ ہیں ایک وہ جو نمایاں ہو کے پچھلے سالوں میں ہمارے سامنے آتا رہا اور ایک وہ جو نظر انداز ہو گیا جو نمایاں ہو کے ہمارے سامنے آیا وہ وفود
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۶۰ خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۷۹ء ہیں.وفود کی شکل میں امریکہ سے پچھلے سال ہی اٹھائیں مردوزن آئے ، یورپ سے آتے ہیں ناروے، سویڈن ڈنمارک ( کبھی کم کبھی زیادہ ) جرمنی سے بھی اور سوئٹزرلینڈ سے آتے ہیں.انگلستان سے بھی شائد وفد کی صورت میں بعض آتے ہیں.ایک تو وفد کی صورت میں آتے ہیں.ان کی رہائش کا انتظام بھی جماعت کرتی ہے.کچھ تو رہائش گاہیں بن گئیں.وسیع بن گئیں.بہت سے کمروں پر مشتمل بن گئیں.جب بنی تھیں بڑی نظر آتی تھیں.جب بن چکیں تو مکین زیادہ ہو گئے اور گنجائش کم ہوگئی جو باہر سے وفود آتے ہیں وہاں کی جماعت کو وہاں کے نظام کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کوشش کریں کہ اکثریت ان وفود میں نئے آنے والوں کی ہو.کچھ فیصد پرانوں میں سے بھی ہوں وہ ان کو بتائیں گے بہت سی باتیں اور فائدہ ہوگا اس کا لیکن اکثریت جو ہے وہ نئے آنے والوں کی ہوتا کہ زیادہ سے زیادہ بیرونِ ممالک بسنے والے احمدیوں کا ذاتی تعلق مشاہدہ کر کے سن کے، فضا کو سونگھ کے مرکز سلسلہ سے اور جماعتی نظام کے ساتھ ہو جائے.جب شروع میں میں نے تحریک کی کہ وفود آئیں تو انڈونیشیا سے پہلے سال میرے خیال میں کوئی بھی نہیں آیا یا بہت کم نہ ہونے کے برابر لیکن پچھلے سال ان کی تعداد بھی غالباً بیس سے زیادہ ہوگئی حالانکہ پچھلے سال جب وہ سفر کی تیاری کر چکے تھے اور رقم انہوں نے کرائے کی جمع کر لی تھی یکدم کرائے بڑھ گئے اور بعض کو ایسا کرنا پڑا کہ بیوی آگئی یا میاں آگیا کیونکہ ہر دو کے کرایہ کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے لیکن پھر بھی کافی تعداد میں آگئے.پس جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ خیال رکھیں کہ اکثریت نئے آنے والوں کی ہو.لیکن باہر کے مختلف ممالک سے آنے والے وہ دوست بھی ہیں جو نظر انداز ہوتے رہے اس سال نہیں ہونے چاہئیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کے رشتہ دار عزیز یہاں ہیں.بعض کے گھر یہاں ہیں.بعض نے اپنے بیوی بچے یہاں چھوڑے ہوئے ہیں.وہ آگئے اور ایام جلسہ میں جو ایک مخصوص فضا، ایک وسعت، ایک فراخی ، ایک رفعت ، ایک ہجوم ہے اس کے اندر شامل ہوئے اور غائب ہو گئے جس طرح سمندر میں قطرہ غائب ہو جاتا ہے.انگلستان سے ہی بیسیوں ایسے احمدی آتے ہیں جن کا اندراج کہیں نہیں ہوتا کہ وہ جلسے کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۶۱ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء لئے انگلستان سے یہاں آئے.امریکہ کے اور دوسرے ممالک کے دوست اپنے طور پر آتے ہیں ، ان کا رہائش کا اپنا انتظام ہوتا ہے، ویسے تو لنگر چلتا ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.ہمارے لئے تو سارا سال ہی چلتا ہے وہ لیکن جو اپنے پیسے خرچ کر کے جلسے کے دنوں میں اپنے گھر میں بھی کھانا پکاتے ہیں وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کا ایک حصہ ہی بن جاتا ہے.برکات کے حصول کے لئے اس طور پر کہ وہ کبھی اپنے گھر ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے لئے کھانا منگوا لیتے ہیں لنگر سے، کبھی آپ پکا کے کھلا دیتے ہیں جو بیوی بچوں کے پاس آیا ہے.یہاں اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے کبھی لنگر کا کھایا کبھی گھر کا کھایا.گھر بھی میں نے بتایا کہ مہدی کے لنگر کا ہی حصہ ہے یہ بات اس سے واضح ہوئی ایک دفعہ کہ جب کسی وجہ سے روٹی تھر، گئی اور صبح کی نماز کے لئے مسجد میں جارہا تھا کہ مجھے رپورٹ ملی کہ روٹی کھڑ گئی ہے وقت کے اندر ہم کھانا نہیں کھلا سکتے اس واسطے آپ اعلان کر دیں.میں نے اعلان کیا کہ آج اس وقت سارے دوست ہی ایک روٹی کھائیں گے.چاہے وہ گھروں میں پکی ہوئی ہو چاہے وہ لنگر خانے کے تندوروں میں پکی ہوئی ہو تو لنگر کا حصہ بن گئے نا گھر اور میں نے کہا جو گھروں میں زائد پکی ہوئی ہے وہ لنگر میں پہنچا دو انہوں نے پہنچادی اور بیسیوں شائد سینکڑوں گھرانے ایسے تھے کہ جنہوں نے یہ آواز سننے کے بعد جتنا آٹا انہوں نے گوندھا ہوا تھا اس سے زیادہ گوندھ لیا لنگر کو پہنچانے کے لئے.پھر اخلاص ہے ضرورت کے مطابق ابھرتا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے آدمی ہر چیز پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مجھے سینکڑوں ایسے آدمیوں کا علم ہے جنہوں نے کہا اچھا ایک روٹی کھانی ہے.تو اب جب کمی نہ رہے گی اس وقت بھی ایک ہی کھائیں گے.سارا جلسہ وہ ایک ہی روٹی پر گزارہ کرتے رہے.فرق کوئی نہیں پڑتا.جو دوست باہر سے آئے پیسے خرچ کر کے آئے.عزیز رشتہ دار بیوی بچے یہاں ہیں یہ تو درست ہے لیکن ہر احمدی جو جلسہ سالانہ کے ایام میں آتا ہے اس کی راہ میں بہت سی دقتیں بھی ہیں مثلاً انگلستان میں ہمارے بعض احمدی ہوائی کمپنیوں میں ملازم ہیں وہ مانگتے ہیں چھٹی تو کمپنی کہتی ہے کہ ہمارے تو کرسمس کے دن ہیں.عیسائیوں کی تہوار ہمارے عیسائی کا رکن چھٹی پر جارہے ہیں تمہیں کیسے فارغ کر دیں.ان کو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۶۲ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء تگ و دو منت سماجت کرنی پڑتی ہے چھٹی لینے کے لئے.وہ یہاں آکر تو مجمع میں مل گئے.ایک قطرہ سمندر میں جا شامل ہوا لیکن ہیں تو جلسے کے مہمان.اس کا ریکارڈ رکھا جانا چاہیے.یہ ریکارڈ جو ہے وہ کسی نمائش کے لئے نہیں.یہ ریکارڈ ہے آنے والی نسلوں کو حقائق بتانے کے لئے ورنہ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ عجیب تھے ہمارے بزرگ ہمیں بتایا ہی نہیں کہ اس قسم کے لوگ کتنے غیر ممالک سے آئے اور جلسے میں شامل ہوئے بڑے دلچسپ ان کے لئے ہوں گے یہ اعداد و شمار.یہ گوشوارے ان کو دینی اسباق دینے والے جذ بہ قربانی پیدا کرنے والے ہیں.ان کے مربی ان کو جب یہ باتیں بتائیں گے تو اگر انہوں نے محض وفود کی باتیں جو ر ہائش گاہوں میں ٹھہر نے والے ہیں سامنے رکھیں تو جو دوسرے ہیں اور جو شائد ان سے پانچ گنے شائد دس گنے شائد ہیں گنے زیادہ ہوں اور ان کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے لیکن اس کی ذمہ داری صرف ہماری نہیں ہے کہ نظر انداز کر دیا گیا اس کی ذمہ داری باہر سے آنے والوں پر ہے.انہوں نے کوتاہی کی ہے کہ وہ اطلاع نہیں دیتے اس لئے میں باہر سے آنے والوں سے کہتا ہوں کہ آپ جلسہ سالانہ کے دفتر کو تحریری اطلاع دیں گے اس سال کہ ہم فلاں ملک سے جلسے پر آئے ہیں اور کوئی ایک باقی نہ رہے جس نے اطلاع نہ دی ہو.ایک بات اور جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ تو ہے ہماری جان.وہ ہے دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آ کے ہمیں سمجھایا کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی عظمتوں اور اس کی رفعتوں اور اس کی کبریائی کو کس طرح بیان کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی تعلیم کھول کے ہمارے سامنے رکھی.اگر اللہ نے توفیق دی تو اس کے ایک حصے پر انشاء اللہ اگلے خطبے میں میں روشنی ڈالوں گا.اتنی عظیم ہستی لیکن دنیوی عقل بہکی تو اس وقت انہوں نے اپنے غلط عقائد بنالئے اللہ کی ذات کے متعلق بنیادی چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے.اتنی عظیم اور وسعتوں والی ہستی ہے.میں اور تم کیسے اس کے متعلق بات کر سکتے ہیں اور اللہ نے قرآن عظیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کر کے اپنی ذات اور صفات کے متعلق جو بتایا ہے وہ نہ ختم ہونے والا سمندر ہے.معرفت پیدا کرنے کے لئے اور ہمارے عرفان کو بڑھانے کے لئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۶۳ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء ہمیں جو باتیں بتائی گئی ہیں ان کا ایک بنیادی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اگر تم نے دوری اختیار کی تو وہ ہلاکت کی راہ ہے اور جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر وقت عاجزانہ دعاؤں میں لگے رہواور خدا سے مانگ کر خدا کے قُرب کو حاصل کرو.ہر چیز ہی اس سے مانگو جس چیز کو دنیا ناممکن کہے وہ بھی مانگو اور جس چیز کو دنیا اتنی آسان سمجھے کہ وہ کہے کہ نوکر سے بھی مجھے مدد لینے کی ضرورت نہیں وہ بھی مانگو خدا سے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی خدا سے مانگ، بڑی بنیا دی صداقت اس کے اندر بیان ہوئی ہے.سنو! آج کا انسان ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اس کے لئے خدا سے حفاظت اور امان کی استدعا کریں.بڑے پریشان کن حالات پیدا ہو رہے ہیں.کبھی سوچتا ہوں کہ انسانیت ہلاکت کے کنارے کھڑی ہوئی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اپنے رحم سے ان تمام طاقتوں کو ( جوخودانسان ہی نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیں اپنی ہلاکت کے لئے ) ان طاقتوں کو نا کام کرے اور باوجود انسان کی غفلتوں اور کوتاہیوں اور اس قسم کے جرم کے کہ وہ خدا سے دور ہو گئے اور خدا کا غضب انہوں نے اپنے پہ بھڑکا یا اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے کہ ان کے دل بدل جائیں.ہم جب کوئی کام کرتے ہیں وقت لگتا ہے اس پر.ایک درخت لگانا ہو تو سوچنا پڑتا ہے کہاں سے سب سے اچھا درخت لیا جائے.پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کیسے لایا جائے.پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کس موسم میں لایا جائے.پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کیسی زمین میں لگایا جائے.پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کس قسم کی اسے کھاد دی جائے، کتنے وقفے کے ساتھ اس کو پانی پلایا جائے.پھر سوچنا پڑتا ہے کہ گرمی یا سردی میں اس کی حفاظت کی ضرورت ہے یا نہیں اور پھر اس کی پرورش کرنی پڑتی ہے.پھر کوئی درخت تین چار سال، کوئی درخت آٹھ دس سال خدمت کروا کے، کوئی درخت ہیں تیس سال خدمت کروا کے پھل دیتا ہے.ہمارا خدا ایسا نہیں.اسے تو انتظار نہیں کرنا پڑتا.قرآن کریم نے فرما یا وہ کہتا ہے کُن فیکون.وہ چیز ہو جاتی ہے تو اس سے مانگو جو قبول کرتا ہے تو دیر نہیں لگتی.جب اس نے دعا قبول کر لی کہا میں دوں گا تو پھر وہ دیر نہیں لگاتا.وہ خسیس اور بخیل بھی نہیں ہے اتنا دیا لو ہے اتنا وہاب ہے عظیم بشارتیں دینے والا اور انہیں پوری کرنے والا ہے.ہم
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۶۴ خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۷۹ء اس کا حکم نہیں مانتے ، وہ روکتا ہے ہم گناہ کر دیتے ہیں، نہیں جانتے کہ ہم اس کا کفارہ کیسے ادا کریں مگر وہ اتنا پیار کرنے والا ہے کہ گناہگار کو کہتا ہے کہ اس طرح کر تیری دعا قبول کرلوں گا، تیرے گناہ کو اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانپ لوں گا یعنی جس کا گناہ کیا ہے وہ بتا تا ہے راستہ اس گناہ کے بداثرات سے بچنے کا ، حفاظت کا، کبھی کبھی یہ انسان بھی تھوڑی سی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کی.ایک عرب کے متعلق مشہور ہے کہ اس زمانے میں اس علاقے میں سب سے تیز گھوڑی بھی اس کی تھی (نمبر 1) اور دوسرے نمبر کی گھوڑی بھی اس کی تھی.سارے عرب میں مشہور تھا کہ فلاں سردار کے پاس جو دو گھوڑیاں ہیں وہ دونوں سب سے تیز ہیں.ایک سب سے تیز.ایک دوسرے نمبر پر وہ بھی اس کے پاس.چور بھی تاک میں تھے ایک دن ایک چور کا لگا داؤ.وہ خیموں میں رات گزارتے تھے اور بغیر کاٹھی کے بھی سوار ہو جاتے تھے.بس اس نے اس کا رسہ کھولا چھلانگ لگائی گھوڑی کی پیٹھ کے اوپر اور ایڑی لگا دی.اتنے عرصے میں مالک کی آنکھ کھل گئی.اس نے دوسرے نمبر پر جو تیز گھوڑی تھی وہ کھولی اس کے اوپر بیٹھا اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور قریب تھا کہ نمبر ا گھوڑی نمبر ۲ گھوڑی پکڑ لے اور اپنی گھوڑی واپس لے آئے.پھر اس کی غیرت نے جوش مارا.اس نے سوچا کیا کہے گا عرب کہ غلط مشہور تھی.وہ تو نہیں نمبر 1.تو چور کو کہنے لگا او خبیث اس قسم کی آواز منہ سے نکال تب یہ تیز دوڑے گی.چور نے وہ آواز نکالی اور گھوڑی ہوا ہو گئی اور مالک اسے پکڑ نہیں سکا.چوری کروا دی گھوڑی لیکن نمبر 1 نمبر ا ہی رہی.اس نے تو چور کی مدد اس طرح کی کہ لے جا میری گھوڑی مگر خدا تعالیٰ تو مالک ہے.اس نے دینا ہے.وہ چور کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ کہتا ہے یہ دعائیں کرو، اس طرح صدقہ دو، اس طرح میرے حضور قربانیاں دو.لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ الله بھی مایوس نہ ہونا مجھ سے.إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر: ۵۴) اللہ سب گناہوں کو معاف کر دے گا.اتنی بڑی بشارت دے دی.اس خدا سے ہم مانگتے ہیں اور پورے بھروسے کے ساتھ مانگتے ہیں.اگر مگر لگائے بغیر مانگتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس سے.آپ نے فرمایا ہے مانگو مانگنا تمہارا کام ہے.اس کی مرضی ہوگی تو دے گا، مرضی ہوگی نہیں دے گا.مرضی ہوگی تو جس
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء شکل میں تم مانگ رہے ہو نہیں دے گا ، وہ عَلامُ الْغُيُوبِ ہے اس سے بہتر شکل میں تمہاری دعا کو قبول کرے گا.تو جب خدا سے مانگنا ہے تو اگر مگر نہیں.خدا سے مانگو تو اس طرح مانگو کہ دامن پکڑ لو اس کا.خدا سے کہو کہ اے خدا میں اقرار کرتا ہوں کہ میرے جیسا کمزور انسان حقیر انسان، گناہگار انسان کو ئی نہیں ، پر تیرا دامن میں نے پکڑا ہے دیے بغیر مجھے واپس کر دے گا ؟ اور اگر وہ دعا قبول نہ کرے تو کوئی شکوہ نہیں.مالک ہے وہ.شکوہ تو اس سے ہوتا ہے جس پر آپ کا احسان ہو کہ ہم نے تم پر احسان کیا تم نے جواب میں احسان نہیں کیا.یہاں تو احسان ہی احسان ہیں اس کی طرف سے اور گناہ اور کمزوریاں اور غفلتیں اور کوتاہیاں ہیں ہماری طرف سے.نہیں مانتا اس کی مرضی لیکن مایوس نہیں ہونا.پھر مانگو ، پھر مانگو ، پھر مانگو.ایسے بزرگ گزرے ہیں کہ سالہا سال تک ” نہ سننے کے بعد پھر ایک دن یہ آواز آ گئی کان میں کہ پچھلے نو سال کی ”نہ “ کو ”ہاں“ میں میں نے بدل دیا اور ساری دعائیں قبول کر لیں.اس وقت پہلی دعا جو ہے وہ انسان کے لئے ہمیں مانگنی چاہیے.بہت سخت پریشانی کی حالت میں ہے انسان.کوئی سمجھتے ہیں کوئی نہیں سمجھتے.جو سمجھتے ہیں وہ بھی جو نہیں سمجھتے وہ بھی کم ہیں جو خدا کو جانتے ہیں.ان کو کچھ پتا نہیں کہ ان اندھیروں سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے اور وہ کون سی ہستی ہے جس کا درہم کھٹکھٹا ئیں تو ہمارے لئے روشنی وہاں سے ظاہر ہو جائے لیکن ہم تو جانتے ہیں کہ تمام ظلمات کو دور کر کے آسمانوں اور زمین کو نور سے بھر دینے کی طاقت اللہ تعالیٰ کو ہے اور ایک کن کے ساتھ وہ ایسا کر دیتا ہے.بتوں کی پرستش کرنے والے یا خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار کرنے والے اور یہ دعویٰ کرنے والے کہ ہم زمین سے خدا کا نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹادیں گے ان کا دل بھی ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ) اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں اس طرح ہے.اس طرح کر دے انگلی تو اس کا زاویہ اور ہو گیا.اس طرح کر دے تو اور ہو گیا.( حضور نے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ بتایا ) دل بدل جاتے ہیں.غصے سے بھرا ہوا عمر ، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلا تھا اور جب وہاں پہنچا تو ہاتھ بیعت کے لئے آگے بڑھا دیئے عظیم تبدیلی پیدا ہوگئی.خدا تعالیٰ نے ایسے نظارے ہمیں دکھائے ہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۶۶ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی ہے وہ سچ ہے اور کسی شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس میں.بہر حال میں بتایہ رہا ہوں کہ دعا کریں ( نمبر ا ) انسان کے لئے.( نمبر ۲) اپنے ملک کے استحکام کے لئے ، امن کے قیام کے لئے ، یہاں کے اپنے بھائیوں پاکستانیوں کی خوش حالی کے لئے ، ان کے دکھوں اور تکلیفوں کے دور ہونے کے لئے.اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو کچھ اس طرح بدل دے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمتوں کے وہ وارث بن جائیں.پھر دعا کریں ساری دنیا میں بسنے والے احمدیوں کے لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو انتہائی سخت ذمہ داری اس وقت جماعت پر ڈالی ہے خدا تعالیٰ اپنے ہی فضل سے وہ نباہنے کی توفیق دے اور ہمارا حصہ اگر سو میں سے ایک ہے تو نانوے اپنی طرف سے ڈال دے اور ہمارے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے.اور دعا کریں اپنے مرکز کے لئے ، مرکز میں رہنے والے بعض بھی مرکز کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور آپس میں الجھتے بھی رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ مرکز میں رہنے والوں کو یہ سمجھ عطا کرے کہ مرکز سلسلہ خود مرکز میں رہنے والے پر بعض ایسی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو دوسروں پر نہیں کرتا ، وہ سمجھیں اور نبا ہیں.اور اللہ تعالیٰ فضل کرے جلسہ سالانہ اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آئے اور ہر خیر کے ساتھ وہ گزرے اور آنے والے خیریت سے یہاں آئیں خیریت سے گھروں کو واپس پہنچیں.یہاں بسنے والے ان کی خدمت کی توفیق پائیں اور کائنات سے خدمت لینے کی قوت اور استعداد اپنے اندر پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں اور خدا ، خدا کا پیارا، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انہیں مل جائے.اس طور پر کہ دل پھر بھی ان دو محبتوں سے خالی نہ ہوں.آمین پھر حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ رات نواب محمد احمد خان فوت ہو گئے اور کوئی لمبی بیماری نہیں تھی.انفلوائنزا دو دن
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۶۷ خطبہ جمعہ ۱۶ / نومبر ۱۹۷۹ء سے تھا.معلوم ہوتا ہے اُتھو ( تشنجی کیفیت ) آیا ہے اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا.بہر حال حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی ایک تو بڑی اولاد تھی جو نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صاحبزادی) کے بطن سے نہیں تھی.تین لڑکے ، (لڑکوں کی میں بات کر رہا ہوں لڑکیوں کی نہیں) تین لڑکے تھے وہ تینوں پہلے فوت ہو چکے ہوئے ہیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم کے بطن سے دولڑ کے تھے.ان میں سے یہ بڑے تھے اور یہ کل فوت ہو گئے.بڑا مخلص، فدائی، درویش طبیعت رکھنے والا انسان تھا.بچپن سے میں جانتا ہوں کیونکہ اکٹھے ہی ہم کھیلے ، تربیت حاصل کی اس ماحول میں اور بڑھے.ان کا جنازہ انشاء اللہ تعالی نماز عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں ہی ہوگا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وہ وارث بنیں.جو آتا ہے اس نے جانا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملك : ۳) یہ زندگی اور موت جو ہے اس کا ایک مقصد ہے.یہ امتحان ہے جس کے ساتھ انعامات بھی وابستہ ہیں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی.تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانے والوں سے ناراض نہ ہو بلکہ خوش ہو اور جن کو اس نے ابھی یہاں رہنے کی اجازت دی ہے اس دنیا میں وہ بھی اس کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.بہر حال میں نے جنازے کا اعلان کرنا تھا اور دعا کرنے کے لئے کہنا تھا.(روز نامه الفضل ربوه ۲۳/ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۶۹ خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۷۹ء زندگی کا مقصد انسانوں کے دل توحید باری اور عظمت رسول کے لئے جیتنا.ہے خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ چند روز میرے لئے بھی اور آپ کے لئے بھی انتہائی پریشانی اور کرب کے گزرے.ایک ان ہو نا واقعہ ہو گیا.فسادی مسجد حرام میں داخل ہوئے اور فساد کے حالات انہوں نے پیدا کئے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ حکومت وقت نے حالات پر قابو پالیا ہے.الحمد للہ.مگر یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اور بیت اللہ خانہ کعبہ یا مسجد حرام کا تعلق صرف مناسک حج کے ساتھ نہیں ہے کہ عمر میں ایک بار ایک ایسا مسلمان مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (ال عمران : ۹۸) جو آسانی سے وہاں پہنچ سکتا ہو وہاں پہنچ کر حج کے مناسک بجالائے اور وہ لوگ جو اس زمرے میں نہیں آتے کہ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وہ اپنی اپنی نیت کے مطابق اپنے رب سے اپنی نیتوں کا اجر پاتے ہیں اور اپنے کرب کا اور اس دکھ کا کہ وہ نہیں جا سکے حج کے لئے ، زاد راہ نہیں تھی ، راستے کھلے نہیں تھے وغیرہ وغیرہ بہت ساری باتیں بیان ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی بے چینی کو دیکھ کر ان کی عظیم خواہش کو دیکھ کر جو پوری نہیں ہو رہی ، ہم امید رکھتے ہیں کہ ان کو بھی اجر دیتا ہے کیونکہ پیار کرنا اس کا کام ہے، بندہ کا کام تو حقیر سے نذرانے اس کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۷۰ خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۷۹ء حضور پیش کر دینا ہے، اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا.ہم عاجز بندے اور کر بھی کیا سکتے تھے سوائے اس کے کہ عاجزی کے ساتھ پچھلے چند دن ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزارے اور اس سے اس کی رحمت کے طالب ہوئے اور اس سے ہمیشہ کے لئے ایسے حالات پیدا ہو جانے کے طالب ہوئے کہ کسی فسادی کو کبھی بھی آئندہ اس قسم کی جرات کرنے کا حوصلہ نہ ہو.میں نے بتایا ہے کہ مسجد حرام یا بیت اللہ جو ہے اس کا تعلق صرف مناسک حج کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم بعثت کے ساتھ ہے اور اس کا تعلق بنی نوع انسان کے لئے عظیم رحمتوں کے پیدا کر دینے کے ساتھ ہے.خانہ کعبہ میں بسنے والی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولا د کو قریباً اڑھائی ہزار سال تربیت دی گئی اور بتدریج ان کی قوتوں اور استعدادوں کو اس رفعت تک پہنچایا گیا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو ان میں وہ لوگ پیدا ہوئے اور جوں جوں وہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے انہوں نے ان ذمہ داریوں کو ، اس عظیم بوجھ کو ( جو بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے قدموں میں انہیں جمع کر دینے کے لئے تھا) اٹھانے کی جو طاقت دی گئی تھی اس کا شاندار مظاہرہ کیا اور خدا کی راہ میں وہ قربانیاں دیں، اللہ تعالیٰ پر اس قسم کا تو کل انہوں نے کیا کہ انسانی آنکھ ورطہ حیرت میں پڑ گئی کہ یہ کس قسم کی قوم اور کیسے لوگ ہیں.ایک وقت تک ان میں سے بہتوں نے مخالفت کی اور چونکہ قو تیں اور استعدادیں انتہا تک پہنچ چکی تھیں اپنی نشو و نما میں ، انہوں نے مخالفت میں بھی اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچایا تا کہ دنیا اس سے یہ سبق لے کہ جب خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والوں نے قربانیاں دیں اس کے اچھے نتائج نکلے.بنی نوع انسان کے لئے تو وہ ان کی قوتوں اور استعدادوں اور قربانیوں کے نتائج نہیں تھے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تھی کہ اس نے ان قربانیوں کو قبول کیا اور اپنے منصوبہ کے مطابق جو تد بیر وہ جاری کرنا چاہتا تھا اس کو جاری کرنے کے لئے اچھے نتائج نکال دیئے کیونکہ وہی قوت اور استعداد اور وہی طاقت جب اسلام کے خلاف استعمال ہوئی تو نا کام ہوئی.وہی قوت اور استعداد جب اسلام کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۷۱ خطبہ جمعہ ۲۳ /نومبر ۱۹۷۹ء حق میں استعمال ہوئی تو کامیاب ہوئی.اس سے عقل یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ جو ان کی کوشش نہ ایثار کا نتیجہ ہے وہ ان کی قوت اور استعداد کا نتیجہ نہیں.اگر یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استعداد کا نتیجہ ان کی اپنی ہی طاقتوں کا نتیجہ تھا اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا نتیجہ نہ تھا.وہ جو تاریخ نے دیکھا ان کے دورِ خلافت میں اگر یہ ان کی طاقتوں کا نتیجہ تھا تو جب وہ مخالفت کو انتہا تک پہنچارہے تھے اور دشمنی ان کی حدود کو پھلانگ رہی تھی اسلام کے خلاف اس وقت ان کی صلاحیتیں اور طاقتیں کیوں بے نتیجہ رہیں ، نا کام ہو ئیں.طاقت تو وہی تھی ، عمر تو وہی تھے.اپنی ساری طاقتوں اور استعدادوں کے ساتھ ، مگر پہلی کوشش ناکام ہوئی جو اسلام کے خلاف تھی.اسی عمر کی وہ قو تیں اور استعدادیں جب اسلام کے حق میں استعمال ہو ئیں تو کامیاب ہوئیں اور بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہو ئیں.ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جب حضرت عمر کی کوششیں شان کے ساتھ کامیاب ہو ئیں تو یہ شان خدا تعالیٰ کی رحمت تھی ، حضرت عمر کی قوتوں اور استعدادوں کی نہیں تھی.اڑھائی ہزار سال تک ایک قسم کا وقف تھا.بنی اسماعیل میں جو جاری تھا کچھ غلط خیال بھی ان میں پیدا ہوئے لیکن بتدریج وہ طاقتیں ترقی کرتی چلی گئیں.جب ابتدا ہوئی اس وقف کی ا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں اور بعد میں آنے والے انبیاء کے زمانہ میں تو ان کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہا گیا تھا اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ أَمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (التوبة: 19) لیکن انہیں کی نسلیں فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ (مریم :۶۰) کے مطابق اور اس میں خدا تعالیٰ نے ایک حقیقت بیان کی ہے بعد میں آنے والی نسلوں کی.ان کو مخاطب کر کے قرآن کریم مذکورہ الفاظ میں ان سے مخاطب ہوا.خانہ کعبہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جو عظیم تحریک بنی نوع انسان کے دلوں کو خدائے واحد ویگانہ کے لئے جیتنے کی جاری ہوئی اس کے مختلف پہلو جو تھے ، ان کا تعلق مسجد حرام اور اس بیت اللہ کے ساتھ ہے.اس پر میں نے بہت سے خطبے ایک وقت میں دیئے تھے اور تئیس مقاصد تعمیر بیت اللہ اس میں میں نے بیان کئے وہ رسالے کی شکل میں اکٹھے چھپ چکے ہیں.بعض نے پڑھے ہوں گے.یادر کھے ہوں گے.بعض نے پڑھے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۷۲ خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۷۹ء ہوں گے بھول گئے ہوں گے.بعض نے پڑھے ہی نہیں ہوں گے.پھر اس کو تازہ کریں اپنے ذہنوں میں.سارا منصوبہ اسلام کی ترقی کا اس مرکزی نقطے کے گردگھومتا ہے.مسجد حرام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ، ان دونوں کو اکٹھا کر کے وہ مرکزی نقطہ بنتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اس بعثت کے مقاصد کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک انتظام جو ہزاروں سال سے خدا تعالیٰ نے اس کو جاری کیا ہوا تھا.اس منصوبہ کی بنیاد اس پر ہے اِن اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (ال عمران: ۹۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی بھلائی کا سامان پیدا کیا جائے..میں نے تفصیل سے ان خطبات میں بیان کیا تھا کہ بنی نوع انسان کی بھلائی کی کوئی کوشش جو بیت اللہ سے تعلق رکھنے والی ہو یا کسی اور سلسلہ نبوت سے تعلق رکھنے والی ہو، بعثت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تاریخ انسانی میں ہمیں نظر ہی نہیں آتی.اسی سے میں نے نتیجہ یہ نکالا کہ یہ سب کچھ جو ہورہا تھا وہ خدا کے محبوب ہمارے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے لئے ہور ہا تھا اور جو ایک خوشخبری کا پیغام نوع انسانی کو دیا گیا تھا وہ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (ال عمران:۹۸) ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو اس چار دیواری کے اندر داخل ہو وہ امن میں آ گیا.وہ بھی ہے لیکن محض وہ نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کی زندگی اس تعلیم کے احاطہ کے اندر آ کر شیطانی وساوس سے محفوظ ہوگئی.جس تعلیم کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بیت اللہ سے ہے، وہ امن میں آ گیا.اب دنیا نے بین الاقوامی یعنی ساری دنیا کے لئے امن کی کوشش تو ابھی ماضی قریب میں شروع کی اور نا کام ہوتے چلے گئے.بین الاقوامی مجالس بہت سی بنا ئیں لیکن نہ جھگڑوں کو دور کر سکے نہ لڑائیوں کو مٹا سکے، نہ سکونِ قلب جو امن کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے پیدا کر سکے.اس لئے کہ دنیوی کوششیں جب اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے منصوبے اور اس کی تعلیم اور ہدایت پر مبنی نہ ہوں وہ کامیاب نہیں ہوا کرتیں.اس منصوبہ ، اس ہدایت کا تعلق بیت اللہ سے ہے.اس کا تعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جن کے لئے یہ سارا کچھ کیا گیا تھا.بیت اللہ کے مقام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روشنی ڈالی.قرآن کریم نے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۷۳ خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۷۹ء ہمیں بتایا کہ مسجد حرام یا بیت اللہ جسے ہم کہتے ہیں اس کی عظمت اس کی شان کیا ہے اور اس عظیم شان والی مسجد بیت الحرام کی بے حرمتی کی گئی جس نے ہمیں دکھ دیا، جس نے ہمیں آستانہ باری پر جھکا دیا اور دعائیں کرنے کی توفیق دی اس کی عظمتوں کو ہمیشہ یادرکھیں.وہ آیات جن میں یہ منصوبہ بیت اللہ سے تعلق رکھنے والا بیان ہے وہ سارا منصوبہ جو ہے وہ شروع ہوتا ہے اس مرکزی نقطہ سے یعنی مسجد حرام سے اور اس کا دائرہ بڑھتے بڑھتے ساری دنیا میں پھیلتا اور بنی نوع انسان کو اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے.ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ اس منصوبہ پر قربان.ہماری تو زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہماری کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں کچھ اس طرح نازل ہوں کہ نوع انسانی کے دل اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور رسالت کے لئے جیتے جائیں اور توحید کے جھنڈے تلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نوع انسانی کو لا بٹھایا جائے.ہم تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس پاک اور مطہر گھر کی بے حرمتی جس کا تعلق اس عظیم ہستی ، اس عظیم وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے برداشت نہیں کر سکتے لیکن ہمارے پاس جو ہے ہم وہی پیش کر سکتے ہیں.ہمارے پاس ایک عارف دل ہے جو حقیقت کو سمجھتا اور ایسے حالات میں بے چین ہوتا ہے.ہمارے پاس وہ آنسو ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور جب ہم جھکتے ہیں تو سجدہ گاہ کو تر کر دیتے ہیں.ہمارے پاس وہ پر سوز دعا ہے کہ جب وہ آسمانوں کی طرف بلند ہوتی ہے تو عرشِ الہی کو ہلا دیتی ہے.پس تمہاری خیر خدا منائے گا.خدا ہمیشہ تمہیں خیر سے رکھے تم خدا کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اپنی زندگیاں گزارو اور اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے انعام کو حاصل کرو.خدا کرے ایسا ہی ہو.موسم بارش کا ہے اللہ تعالیٰ رحمت کی بارش کرے.اس وجہ سے میں نمازیں جمع کرا دوں گا.روزنامه الفضل ربوه ۵/ دسمبر ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۷۵ خطبہ جمعہ ۳۰/نومبر ۱۹۷۹ء یہ بنیادی حقیقت ہے کہ کائنات کی بنیا د وحدانیت پر ہے خطبه جمعه فرموده ۳۰ /نومبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جیسا کہ میں اپنے دوستوں کو بھی اور جب بیرون ملک سفر میں ہوں تو غیر مسلم دنیا کو بھی اس بنیادی حقیقت کی طرف ہمیشہ توجہ دلاتا ہوں کہ اس کائنات کی بنیاد وحدانیت پر ہے.خدائے واحد ویگانہ نے اسے پیدا کیا.مادی اشیاء کو.کائنات کو بھی اور انسان کو بھی.اس کے متعلق کچھ تفصیل سے میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں.تفصیل تو اللہ تعالیٰ کی صفات کی اس قدر لمبی ہے کہ انسان پیدائش سے لے کے قیامت تک بھی بیان نہیں کر سکتا.بنیادی بعض باتیں اس وقت میں بتاؤں گا.ہمیں قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام: ۱۰۳) ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ربنا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ (طه: ۵۱) ہر چیز کو جس غرض کے لئے پیدا کیا.اس کے مطابق اور مناسب اعضا بھی دیئے اور مختلف کیمیاوی اجزا بھی دیئے اور قو تیں بھی دیں اور صلاحیتیں بھی پیدا کیں اور استعداد میں بھی عطا کیں اور ہر چیز کو ایک میزان میں اس نے باندھا.ایک ایسا قانون بنایا کہ اس قدر وسیع کائنات میں انتشار کا ایک ذرہ بھی نہیں پایا جاتا.ہر چیز دوسرے سے بندھی ہوئی ہے.وَضَعَ الْمِیزَانَ توازن کا ایک
خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء خطبات ناصر جلد هشتم اس نے قانون اس میں جاری کیا.یہ جو توازن کا قانون ہے یہ قانونِ قدرت کی بنیاد بنتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں بنیادی طور پر دو مختلف خلق کیں.ایک انسان اور ایک انسان کے علاوہ ہر شے اور یہ جو میزان ہے.یہ انسان کے علاوہ جو ہر شے ہے اسے میزان میں باندھا آپس میں توازن ایک بنایا ہے اور جو انسان ہے اسے بھی میزان میں باندھا.توازن اس کے اندر قائم کیا.اسے آنکھ دی دیکھنے کے لئے ، کان دیئے سننے کے لئے ، اس نے دوسرے حواس دیئے اور عقل دی.ان میں توازن پیدا کرنے کے لئے جو نتیجہ نکالتی ہے مختلف حواس کے مشاہدات کا.انسان اپنے طور پر بھی خود کائنات کا ایک بڑا حصہ ہے.شائد مادی وسعتوں کے لحاظ سے تو نہیں ، یوں کہنا چاہیے کہ یقیناً مادی وسعتوں کے لحاظ سے تو نہیں لیکن اپنی اہمیت اور مقصد حیات کے نتیجہ میں یہ کائنات کا بڑا حصہ ہے اس لئے کہ کائنات کی ہر شے انسان کی خادم بنا کے پیدا کی گئی اور انسان کو بحیثیت انسان، بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ نے مجموعی طور پر اتنی عظیم اور وسیع طاقتیں دے دیں کہ کائنات کی ہر چیز سے وہ خدمت لینے کی طاقت اور قوت رکھتا ہے اور انسان کو مادی طاقتیں بھی دیں.اس کی پیدائش کی غرض بہت اہم بہت بلند تھی.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات:۵۷) اس نے اپنے پیدا کرنے والے رب کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے اپنی زندگی گزار نی تھی.اس مقصد کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا.صاحب اختیار ہے.کچھ اس مقصد کو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اپنے اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں اور کچھ نا کام ہوتے ہیں لیکن کامیاب ہونے کا امکان سب کے لئے موجود ہے کیونکہ وہ طاقتیں ان کو عطا کی گئی ہیں اور جہاں نوع انسانی کو بحیثیت نوع اور اجتماعی لحاظ سے وہ ساری طاقتیں اور صلاحیتیں دے دی گئیں کہ وہ کائنات پر بطور مخدوم کے خدا کے حکم کے ماتحت حکمرانی کر سکے.وہاں ہر فرد بشر جو دنیا میں پیدا ہوا ہر دوسرے فرد بشر سے مختلف ہے، اس لئے کہ انسان نے تمدنی زندگی گزارنی تھی ایک دوسرے کے ساتھ ان کا میزان کا تعلق ایسا تھا کہ انتہائی عروج کو اپنی ترقیات میں وہ اکیلا نہیں پہنچ سکتا تھا بلکہ اس کی نوع نے پہنچنا تھا.اسی واسطے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں میں سے ایک بڑی عظمت یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۷۷ خطبہ جمعہ ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء اُمتِ واحدہ بنانے کا فیصلہ کیا.اگر ہر شخص کو مثلاً ساری دنیا کی ہر شے سے مادی کائنات، مادی دنیا کی ہر شے سے خدمت لینے کی طاقت دے دی جاتی تو کسی دوسرے کی مدد کا ، اس کے بھائی چارے کا، تقسیم کا رکا وہ محتاج نہ ہوتا.وہ کپڑے بھی اپنے بنا تا ، وہ غذا بھی اپنی پیدا کرتا ، وہ علم بھی خود اپنے طور پر حاصل کرتا کسی استاد کی اسے ضرورت نہ ہوتی کیونکہ یہ ساری چیزیں اس کے پاس خدا تعالیٰ (D) تقسیم کار نے رکھ دی ہوتیں.ایسا نہیں کیا بلکہ ڈویژن آف لیبر (Division of Labour تمدن انسانی کی بنیاد بنادی گئی اور اس کے نتیجے میں انسان انسان کی طاقتوں اور استعدادوں میں جزوی اور تفصیلی فرق آگیا اور نوع انسانی کو بحیثیت نوع کائنات کی ہر شے سے خدمت لینے کی طاقت عطا کر دی گئی.اللہ تعالیٰ نے جو قانونِ قدرت بنایا اور جو میزان قائم کیا اور جو اتنی طاقتیں انسان کو دیں دو پہلو ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کے.ایک یہ قانون بنا دیا مثلاً گندم کا دانہ جب کھیت میں ڈالا جائے گا تو وہ اُگے گا.فلق ہوگی اس کی.پھٹے گا وہ ایک پودا بنے گا اور دانے بنائے گا.وہ انسان کے لئے غذا پیدا کرے گا.قانون بنادیا کہ شیشم کا درخت موسم خزاں میں پتے گرائے گا.یہ اس کا قانون قدرت ہے.شیشم کا درخت موسم خزاں میں پتے گرائے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.قانونِ قدرت نے اس کو باندھا ہے.ایک اللہ تعالیٰ کی صفات کا یہ جلوہ ہے لیکن بعض نادان، نا سمجھ ، نیم پختہ عقل والے اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ امپرسنل (Impersonal) اللہ ہے یعنی ذاتی طور پر تعلق نہیں رکھتا.اس نے قانون بنایا اور اس کا حکم چل پڑا.وہ کہتے ہیں انسان کی حیثیت ہی کیا ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے میں.یہ درست.انسان کی کوئی حیثیت نہیں کہ اپنے طور پر اپنے زور سے خدا تعالیٰ سے ایک دھیلہ بھی وصول کر سکے لیکن اگر خدا دینا چاہے تو ہر دو جہاں انسان کے قدموں میں لا کے رکھ دیتا ہے.اور یہ محض دعویٰ نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اور آپ کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ نے اس قدر پیار کیا اور خدا تعالیٰ کے اس قدر پیار کو حاصل کیا کہ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك ساری کائنات جو تھی وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کے رکھ دی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا خدائی تقدیر میں کہ نوع انسانی بھی
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۷۸ خطبہ جمعہ ۳۰/نومبر ۱۹۷۹ء ایک دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی اور امت واحدہ بن جائے گی.لیکن خدا پرسنل (Personal) ہے یعنی ذاتی تعلق رکھنے والا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے.ایک تقدیر شیشم کے درخت کی جو میں نے مثال دی یہ ہے قانونِ قدرت کے مطابق خدا تعالیٰ کے حکم سے، اپنی مرضی سے نہیں ، خدا کے حکم سے شیشم کا درخت موسم خزاں میں پتے گرا دیتا ہے اپنے.لیکن موسم خزاں میں جب پتے گراتا ہے تو خدا تعالیٰ کا ایک اور حکم نازل ہوتا ہے ہر پتے کے لئے کہ گر.تب وہ گرتا ہے ورنہ نہیں گرتا.قانونِ قدرت کے باوجود ایک سیکنڈ میں تو ہر درخت کے پتے یوں نیچے نہیں گر جاتے.کئی ہفتے لگتے ہیں پت جھڑ میں اور کچھ پتے صبح گرے، کچھ دو پہر کو، کچھ شام کو پت جھڑ لگی ہوئی ہوتی ہے آخر وہ درخت نگا ہو جاتا ہے لیکن یہ جو پتے گر رہے ہوتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہر پتا ایک نئے کلام، ایک نئے امر، ایک نئی وحی کے ذریعہ سے گرتا ہے ویسے نہیں گر سکتا یہ خدا تعالیٰ کی دوسری تقدیر ہے.انسان کو خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں دیں اپنے قرب کے حصول کی تو اتنا کافی نہیں سمجھا گیا کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: ۵۷ ) کہ میرے عبد بنیں.میرے عکس کو اپنے اندر پیدا کریں.میری صفات کا نمونہ ان کے اخلاق کے اندر ظاہر ہو قانون بنادیا نہیں بلکہ ہر فر دو احد کو بے شمار وحی خفی یا اور جلی کے ساتھ اس کی ہدایت اور پرورش کی گئی اور اس کی ربوبیت کی گئی.انسان کو جو اس میدان میں سب سے بڑی صلاحیت دی گئی وہ عقل ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا انسان کی ہر صفت پر اس توازن کا جو اصول چلتا ہے اس سے وہ کائنات کے ساتھ بندھی ہوئی ہے مثلاً آنکھ ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھ دی دیکھنے کے لئے لیکن آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا ئنات میں سورج کی روشنی نہ پیدا کرتا یا روشنی نہ پیدا کرتا کہنا چاہیے.پھر انسانی عقل نے خدا داد عقل نے بجلی بنائی.دیئے بنائے کبھی سرسوں کا تیل جلا یا روٹی لگا کے کبھی اس نے شمعیں بنائیں، کچھ لکڑیاں ایسی نکالیں جن کے اندر چکنائی تھی ان کی مشعلیں بنادیں وغیرہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۷۹ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء وغیرہ ہزار قسم کی.بہر حال آنکھ اس وقت دیکھتی ہے جب بیرونِ انسان خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ روشنی بھی ہو.رات کے اندھیروں میں آنکھ ٹولتی تو ہے انسان کا سارا ذہن ہی لگا ہوا ہے اسے کچھ عادتیں ہیں اپنے کمروں میں پھرنے کی.بغیر روشنی کے بھی وہ اپنا راستہ اندھیرے میں بھی تھوڑا بہت پالیتا ہے.کبھی گرتا ہے کبھی ٹھوکر کھا جاتا ہے کبھی اپنے آپ کو چوٹیں لگاتا ہے لیکن آنکھ کے لئے روشنی کا ہونا ضروری ہے.انسان کے جسمانی قویٰ جو ہیں جسمانی صلاحیتیں ، اس حصے پر میں پہلے بھی بہت کہہ چکا ہوں، اس کے مقابلے میں کائنات میں چیزیں پیدا کی ہیں انسان کے جسمانی قومی کی نشو ونما کے لئے انسان کو متوازن کھانا ضروری ہے یعنی کھانے میں توازن ہو کیونکہ انسان کا جسم کسی ایک کیمیاوی شے یا ایک کیمیاوی مرکب سے نہیں بنا بلکہ بہت سے مرکبات ہیں جن سے مل کے وہ بن جاتا ہے مثلاً ہڈی سے موٹی چیزیں میں لیتا ہوں باریکیوں میں جائے بغیر.بچے بھی سمجھ جائیں گے.ہڈی ہمارے گوشت سے مختلف ہے.دل کا جو گوشت ہے یا جگر کا جو گوشت ہے وہ جو بکرے کا آپ گوشت کھاتے ہیں.آپ کے دانت آپ کی آنکھیں ، آپ کی لمس محسوس کرتی ہے کہ یہ بکرے کے عام گوشت سے کچھ مختلف ہے.تو جس چیز سے اس کا دل بنا ہے یا اس کی کلیجی بنی ہے وہ اس سے مختلف ہے.بہت سارے مرکبات کا مجموعہ ہے.اس واسطے متوازن غذا کھانا ضروری ہے.خون ہے جو اس کی رگوں میں چل رہا ہے ممبرین (Membrane) ہیں.جھلیاں ہیں جو اس کی صحت کی اور جان کی حفاظت کرنے والی ہیں.ایک عالم ہے انسان کے جسم کے اندر بھی اور صرف اس عالم کو پیدا کرنا خدائی تقدیر میں نہیں کیونکہ ہر چیز میں ایک توازن ہے جو کائنات کا حصہ ہے انسان کے علاوہ اس کو ایک قسم کے توازن میں باندھا.اللہ تعالیٰ نے اور انسان کو ایک اور قسم کے توازن کے اندر اس نے اس کو بالکل باندھ دیا اور پھر ان دو تو ازنوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر انسان کا تعلق اپنے ساتھ زوج کا یعنی پیار کے تعلق کا وہ اس کو باندھ دیا.جہاں وہ مقصدِ حیات پورا ہوتا ہے.اس کے لئے انسان کو جسمانی طاقتیں دی گئیں تا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ قربانیاں دے.وہ ایثار پیشہ بنے.پہلے بھی میں نے بتایا تھا وہ یہ نظارہ دنیا کے سامنے رکھے کہ کسریٰ کی فوج کی ہر پہلی صف تلوار چلانے والی آدھے گھنٹے، گھنٹے کے بعد پیچھے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۸۰ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء بلالی جاتی ہے اور تازہ دم فوج آتی ہے آگے اور ایک مسلمان صف جو ہے وہ صبح سے لے کر شام تک ہر گھنٹے بعد تازہ دم، ہر آدھے گھنٹے بعد تازہ دم فوج کے ساتھ وہ لڑ رہی ہے اور تلوار چلا رہی ہے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل، اس کے رحم ، اس کی ربوبیت کے نتیجہ میں اور عقلوں کی راہنمائی کے نتیجہ میں اور تجربہ کے نتیجہ میں اور مشق کے نتیجہ میں ان کو ایسا بنا دیا ہے کہ وہ صبح سے شام کر دیتے ہیں اور تھکتے نہیں.میں نے پہلے جب بتایا تھا تو یہیں آ کے بات ختم کر دی تھی لیکن یہ تو دن کی بات تھی ناوہ تھکتے نہیں.جس وقت آدھا گھنٹہ گھنٹہ تلوار چلانے والی کسری کی فوج رات کو تھکی ماندہ گہری نیند میں پڑ جاتی ہے اس وقت سارا دن تلوار چلانے والا مسلمان رات کو خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے.میدان جنگ میں وہ تہجد کی نماز ادا کر رہے ہیں.یہ ان طاقتوں کی نشوونما کے لئے کسی چیز کی ضرورت ہے اس کی اپنی طاقتوں کے علاوہ اور دوسرے جہان سے علاوہ بھی یعنی جو کائنات جو طاقتیں پیدا کرنے والی چیزیں ہیں ان کے علاوہ بھی کسی چیز کی ضرورت ہے.قرآن کریم نے ہمیں بتایا یہ جو دوسرا جلوہ ہے نا یہ اس کی ضرورت ہے کہ کوئی پتا نہیں گرتا.اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی آج کل گندم بیچ رہا ہے ہمارا زمیندار.یہاں بھی بہت سے بیٹھے ہیں سینکڑوں.کوئی دانہ گندم کا نہیں اُگتا جب تک اللہ تعالیٰ کی وحی اس کو نہ ہو.حکم نہ اس تک پہنچے کہ آگ اور میرے بندوں کے لئے گندم پیدا کر.اس کے بغیر مٹی بن جائے گامٹی میں پڑ کے اور انسان کی طاقتیں بھی خدا تعالیٰ کی ہدایت کی محتاج ہیں اور سب سے نمایاں چیز ہمارے سامنے آتی ہے عقل.بہت ساری چیزوں کا سامنے رکھ کے اس سے کوئی نتیجہ نکالنا.اس وقت بہت سے لوگ ایسے پیدا ہو گئے اس زمانہ میں جو کہتے ہیں انسان کے لئے عقل کافی ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ عقل نہیں کافی جب تک عقل کی اس عام ہدایت کے مطابق جو عقل کو دی گئی.عقل کو ہر موقع کے او پر جب اس کے استعمال کی ضرورت کسی فرد واحد کو پڑی ایک نئی ہدا یت آسمان سے نہ ملے.آج دنیا میں ہزار ہا عقلمند ایسے ہیں جنہوں نے مادی دنیا میں تحقیق کی اور اپنی عقل کا اور تحقیق کا سکہ جمایا.چوٹی کے دماغ ان کو کہا جاتا ہے.قومیں جن کی انہوں نے خدمت کی ان کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۸۱ خطبه جمعه ۳۰ /نومبر ۱۹۷۹ء پیشوائی کے لئے نکلتی ہیں اور سینکڑوں سال ہو گئے ان کو مرے اور عزت کے ساتھ ان کا نام لیا جارہا ہے کہ جی اس نے بجلی ایجاد کی.جس نے ترقی کی اور ہر جگہ یہ پنکھے چل رہے ہیں.یہ روشنیاں ہو رہی ہیں.بڑا احسان کیا ہے اس نے ہزاروں عقلمندوں میں سے کم ہیں جن کی عقل روحانیت کے میدان میں صحیح نتیجہ پہ پہنچی اور انہوں نے اپنے خدا کو پہچانا اور جس کی حمد واجب آتی ہے.ہر انسان پر اس کی انہوں نے حمد نہ کی اور تکبر سے انہوں نے کام لیا اور خدا تعالیٰ کا بندہ بننے یا کی بجائے شیطانی راہوں کو انہوں نے اختیار کیا اور اعلان کر دیا کہ ہم دنیا سے اللہ تعالیٰ کے نام کو اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے.عقلمند ہی ہیں ناوہ.تو عقل کے ہر استعمال پر آسمانی روشنی ، آسمانی وحی ، آسمانی حکم امر کی ضرورت ہے یہ دوسرا قانون ہے.سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رَبُّنَا الَّذِى اَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى (طه: ۵۱) ہر چیز کو اس نے پیدا کیا.اس میں طاقتیں رکھیں اس کو صلاحیتیں بخشیں.اس کو استعدادیں عطا کیں.پھر ان کے استعمال کے لئے اس کو طریقہ سکھایا اور سامان پیدا کئے ان کے لئے.یعنی دو چیز میں اس نے پیدا کیں.سامان پیدا کئے ان کی نشوونما کے.مثلاً گندم کا دانہ ہے وہی مثال لوں پھر ، گندم کے دانے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک تو عام قانون کے مطابق اس میں قو تیں رکھیں.ایک جہاں سے اس نے اپنا سامان لینا تھا.نشوونما کا سائل (Soil ) میں فرٹیلیٹی (Fertility) رکھی یعنی وہ اجزا ر کھے جن سے گندم کا دانہ قوت حاصل کر کے بڑھ کے ایک سے سات سو تک بھی بن سکتے ہیں خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق.ابھی تک انسان اس قابل نہیں ہوا.ناقص ہے اس کی عقل لیکن بن سکتے ہیں اور سامان پیدا کئے یعنی نشو و نما کی طاقتیں رکھیں.نشو ونما کے سامان پیدا کئے.پھر حکم ہوا کہ ان سے فائدہ اٹھاؤ.اجزاء کو حکم ہوا کہ ان کو فائدہ پہنچاؤ.دوائی، بیمار ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے کہ ایک وقت میں ایک بیمار کو ایک دو اصحت نہیں دیتی دوائی کا کوئی اثر نہیں.ڈاکٹر کی تشخیص بھی صحیح اس کا نسخہ بھی صحیح اس کے اجزا بھی درست اس کے بیچ میں ملاوٹ نہیں چاک کی اور وہ کھا رہا ہے اس کو آرام نہیں آرہا اور دس پندرہ دن، ہمیں دن گذر گئے پھر خدا تعالیٰ کے کسی بندے کی دعا یا اس کی اپنی دعا یا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۸۲ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء خدا تعالیٰ اگر اس کو آزمائش میں ڈال رہا تھا تو خدا نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کو آزمائش سے نکالتا ہوں زبانِ حال کی دعا اس کو ہم کہتے ہیں.اس کو اس نے سنا، وہی بیمار، وہی بیماری ، وہی دوا کھائی اس نے اور اس کو آرام آگیا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ پہلے دو حکم نازل ہوئے جب آرام نہیں آ رہا تھا ایک دوا کو کہ اثر نہ کرو.ایک جسم کے اجزاء کو کہ قبول نہ کرو اور جب خدا نے فیصلہ کیا کہ اب اس کو شفا دینی ہے تو دو نئے حکم نازل ہوئے.دوا کو کہا اثر کر اور جسم کے کیمیاوی اجزاء کو کہا کہ اس دوا کے اثر کو قبول کر.یہ قانونِ قدرت کا حصہ نہیں ہے.یہ امر کے اندر آتا ہے یعنی ہر واقعہ یا ہر تبدیلی جو ہوتی ہے اس کا ئنات میں وہ آسمان سے ایک حکم اترتا ہے تب ہوتی ہے.بے شمار حکم ایک گھنٹے کے اندر اتر رہے ہیں کائنات میں اللہ تعالیٰ ہماری زبان سے تو نہیں بولتا کہ مختصر زبان میں یہاں بول رہا ہوں.کسی اور جگہ بات ہی نہیں کر سکتا.میرے لئے ممکن نہیں.خدا تعالیٰ کا تو کائنات کے ہر ذرے پر کلام نازل ہوتا ہے.اس کا امر جو ہے وہ نازل ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق متصرف بالا رادہ ہے.ہر چیز میں تصرف اپنے ارادہ سے جیسے چاہتا ہے اس کے مطابق وہ کرتا ہے.يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ انسان! انسان کا یہ فرض تھا.انسان کی پیدائش کی یہ غرض اس کی زندگی کا یہ مقصد تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا ایک زندہ تعلق پیدا کرے.اس کے لئے ایک تو وحی ، قانونِ قدرت کے مطابق وقتا فوقتا اللہ تعالیٰ کے نیک بندے آتے رہے.انبیاء آئے جن پر شریعتیں نازل ہوئیں.ایسے نبی پیدا ہوئے جنہوں نے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ (المائدة : ۴۵) انہوں نے پہلی شریعت کے مطابق لوگوں کی ہدایت کے اور ان کی تربیت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک کامل شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور افراد اور نوع انسانی بحیثیت مجموعی خدا کے دربار میں داخل ہو، اس کے سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے سورۃ انبیاء میں ہے.قُلْ إِنَّمَا انْذِرُكُم بالوخی (الانبیاء : ۴۶) جو میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ ان راہوں کو اختیار نہ کر و جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا.وحی نازل ہوتی ہے کہ میں تمہیں کہوں کہ تم ان راہوں کو اختیار نہ کرو اور اس کے ساتھ وہ دوسرا پہلو بھی عربی کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۸۳ خطبہ جمعہ ۳۰ /نومبر ۱۹۷۹ء محاورے قرآن کریم کے محاورے کے لحاظ سے آجاتا ہے اور میں ان راہوں کی نشاندہی کرتا ہوں جن پر چل کے تم خدا کے قرب کو حاصل کر سکتے ہو اور اس کے پیار کو پاسکتے ہو.وَلَا يَسْمَعُ الصُّم الدُّعَاء إِذَا مَا يُنْذَرُونَ (الانبیاء : ۴۶) اور جب اس شخص کو جس کے کان کو ابھی حکم باری نہیں ملا کہ وہ وحی کی آواز کو سنے وہ نہیں سنتا.جب وہ انذار ہو اس کو کہا بھی جائے ، بتایا جائے ، نشان دہی کی جائے ،عقل بھی ہے دوسرے ہوش و حواس بھی ہیں مگر خدا تعالیٰ کا حکم نہیں نازل ہوا تو یہ جو معنی میں کر رہا ہوں یہ اس آیت کے مطابق ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے میں نے مہر لگادی ہے لیکن وہ اپنا مستقل ایک مضمون ہے اپنے اپنے وقت پر بیان ہوتے رہتے ہیں.پھر سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ (الزمر : ۱۹) پہلے تو یہ تھا نا سنتے نہیں.اس میں یہ ہے کہ سنتے ہیں پھر ان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی ہدایت دیتا ہے اس فرد واحد کو ، آتا ہے کہ تو سن اور سمجھ.پھر وہ پوری طرح سمجھتا ہے تو ہر تعلیم کے متعلق بنیادی حکم یہ ہے کہ عمل صالح کرو جو موقع اور محل کے مطابق ہو.بندے کو اختیار دیا گیا ہے نا اور اسی وجہ سے اس کو ثواب ملتا ہے وہ سوچتا ہے کہ کون سا احسن طریق ہے اس حکم خداوندی پر عمل کرنے کا اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے تو الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَولَ جو بات کو سنتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت پھر جو سب سے بہتر عمل ہے اس کے نتیجہ میں فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ اس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں.أُولَبِكَ الَّذِينَ هَدُ بهُمُ اللهُ یہ عمل اس واسطے احسن کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے رہا ہے اپنے زور سے نہیں وہ کر سکتے.ان کے اوپر احسن عمل کرنے کے لئے آسمانی ہدایت نازل ہوتی ہے اس شخص پر وَ أُولَيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ اور حقیقی اور صحیح معنی میں یہی لوگ عقلمند کہلا سکتے ہیں کیونکہ جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی اس غرض کو وہ پورا کرنے والے ہیں.تو عقل تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی لیکن اس کے لئے دو ہدا یتیں دو قسم کے دو پہلوؤں کی ہدایت نازل کی.ایک عام قانون جس طرح قانونِ قدرت ہے اسی طرح قانونِ ہدایت بھی ہے.یہ جو شریعت ہے.یہ ہدایت کے لئے ساری تعلیم ہے نا مگر کوئی شخص صرف قرآن کریم کو
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۸۴ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء پڑھ یاسن کے ہدایت نہیں پاسکتا یعنی یہ کافی نہیں ہے انسانی عقل کے لئے کہ قرآن ہے کافی ہے ہمیں خدا تعالیٰ کے امر کی انفرادی آسمانی حکم کی ، ہماری عقل یہ جو وارد ہوتا ہے ہمیں بعض دفعہ پتا بھی نہیں لگتا اکثر پتا نہیں لگتا کہنا چاہیے لیکن بہر حال وہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.اس کی ہمیں ضرورت نہیں.اگر قرآن کریم کی ہدایت جو اس قدر کامل اور مکمل ہے اگر قرآن کریم کی ہدایت جو اس قدر محسن اپنے اندر رکھتی اور قوت احسان جس میں پائی جاتی ہے اگر قرآن کریم کی ہدایت جس میں اس قدر جذب ہے مقناطیس میں اتنا جذب نہیں جتنا اس کے اندر ہے.باہر جاتے ہیں قرآن کریم کی کوئی چھوٹی سی آیت پیش کر دیتا ہوں میں تو یوں کھنچتے ہیں اس کی طرف غیر مسلم یعنی اسلام کو نہیں مانتے لیکن اس وقت ان کے اوپر اثر ہوتا ہے اور وہ کھنچتے ہیں اس کی طرف.بڑا اثر رکھنے والی ہے.اگر یہ کافی ہوتی تو رؤسائے مکہ نے تیرہ سال تک جو مظالم ڈھائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین پر یہ نظارہ تو دنیا نہ دیکھتی.ہدایت ہے قرآن کریم جیسی ہدایت روحانی طور پر ایک ایسا نور کہ آنکھیں چندھیا جائیں عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں.قرآن کریم کی ہدایت ہے رؤوسائے مکہ وہاں رہ رہے ہیں جن میں حضرت عمر بھی ہیں اور بڑے غصے میں ہیں بڑے دلیر ہیں بڑے طاقتور ہیں بڑے رعب والے ہیں اور ان کے دل میں خیال آتا ہے قرآنِ کریم کی ہدایت ہوتے ہوئے عمر کی عقل نے یہ فیصلہ کیا.قرآن موجود تھا جب عمر کی عقل نے یہ فیصلہ کیا ( رضی اللہ عنہ ) کہ جاتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ، انہوں نے تو محمد ہی کہا ہو گا سوچا ہوگا.گردن اڑا دیتا ہوں میں اپنی تلوار سے.ختم ہو جائے گا یہ سارا قصہ.کیا شور مچایا ہوا ہے بتوں کو بُرا بھلا کہتا ہے اور ایک خدا کی منادی کر رہا ہے.یہ کیا فساد پیدا کیا ہے ہمارے معاشرہ کے اندر.ساری عمر کی عقل اس نتیجہ پہ پہنچی.قرآن موجود تھا وہاں اور نتیجہ یہ نکالا عقل نے کہ جا کے قتل کر دیتے ہیں.اسلام کو ختم کر دیتے ہیں.اس عقلی فیصلے کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے.وہی عمر وہی ان کی طاقت ، وہی ان کا جوش، وہی ان کا جذبہ، وہی ولولہ ، وہی ہاتھ میں تلوار ، اور اس کی دھار اتنی ہی تیز.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابھی پہنچے نہیں تو آسمان سے حکم نازل ہو گیا کہ اسلام لا ؤ اور جب وہاں پہنچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہا کہ کدھر آئے ہو عمر.بیعت کرنے آیا ہوں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۸۵ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۹ء عمرہ کی طاقتیں ، عمر کی عقل جب گھر سے نکلے تھے وہ نہیں تھی جو اس وقت تھی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے ؟ وہی تھی.ہماری عقل اگر ہم غور کریں اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہے کہ ہماری عقل بھی صحیح فیصلے اسی وقت کرتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا انفرادی امر آسمان سے نازل ہو.ورنہ عقل تو اندھی ہے اگر نیر الہام نہ ہو.عقل تو دھندلکوں میں دیکھنے والی ہے اگر وحی کی روشنی اسے میسر نہ آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی میں اس مضمون کے کچھ شعر کہے ہیں.ان میں سے ایک دو میں نے آج کے لئے منتخب کئے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.ہوش دار اے بشر کہ عقل بشر دارد اندر نظر ہزار خطر اے انسان ہوش سے کام لے کہ انسانی عقل کو نظر وفکر واستدلال میں ہزار خطرات پیش ہیں.عقل سوچتی تو ہے نا یہ اس کا کام ہے لیکن خطرات ہیں اس کے سامنے بڑے.هست بر عقل الہام که از و پخت ہر تصویر خام عقل پر یہ وحی والہام کا احسان ہے کہ اس کی وجہ سے عقل ناقص کی سوچ پختہ ہوگئی اور اس نے دھندلکوں سے نکال کر عقل کو یقین کی روشنی میں پہنچادیا.پھر آپ فرماتے ہیں اور بہت لطف آتا ہے اس شعر میں جو بیان کیا ہے جو استدلال کیا ہے جس طرح چھوٹی سی بات کہہ کے آپ نے بیان کر دیا.جس سے شروع میں میں نے بھی استدلال کیا تھا.گر خرد پاک از خطا بودے ہر خرد مند با خدا بودی اگر عقل غلطی سے پاک ہوتی ، اگر عقل ہمیشہ غلطی سے پاک ہوتی تو ہر صاحب عقل باخدا ہوتا لیکن نظر تو یہ آ رہا ہے کہ جو عقلی میدانوں میں دنیوی لحاظ سے آسمانی رفعتوں تک پہنچے وہ روحانی طور پر
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۸۶ خطبه جمعه ۳۰ /نومبر ۱۹۷۹ء گندے زمین کے گندے حصوں میں ہمیں لوٹتے نظر آئے کیونکہ سب سے بڑا گند جو ہے اس زمین پر وہ شرک کا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے میں ہے.تو ایک طرف وہ کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے ان کو ترقیات دیں لیکن دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم نازل نہیں ہوا اس واسطے ج ہر خرد مند با خدا بودے والا نظارہ نہیں نظر آیا.تو ہم احمدی قرآنِ کریم کو پڑھنے والے اپنی علمی زندگیوں میں خدا کے جلوے دیکھنے والے اس کے پیار کو حاصل کرنے والے اس مقام پر علی وجہ البصیرت کھڑے ہیں کہ ہر خیر اور بھلائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور ذراسی بھی دوری سے ہلاکت ہی ہلاکت ہے اور خیر کا کوئی پہلو اس میں سے نہیں ہمیں مل سکتا.اس واسطے اپنے پیدا کرنے والے خدا سے ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ وفا کا تعلق قائم رکھو مضبوطی سے.اس کے دامن کو جب پکڑا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت تم سے وہ دامن چھڑوا نہ سکے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۸۷ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۹ء ہر احمدی بچے کو سنبھالنا جماعت احمدیہ کا بنیادی فرض ہے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کل ایک نو جوان ملاقات کے لئے آئے تھے.مجھ سے مشورہ مانگنے لگے کہ میں ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہوں اور چاہتا ہوں کہ پڑھائی چھوڑ دوں اور کوئی اور کام کروں.انہیں تو میں نے تاکید کی کہ پڑھائی نہیں چھوڑنی پہلے ڈاکٹر بنو.پھر نوع انسانی کی خدمت کرو لیکن جس رنگ میں اس نوجوان نے مجھ سے بے تکلف یہ بات کی کہ ڈاکٹری کے آخری سال میں ہوتے ہوئے بھی پڑھائی چھوڑنے کا خیال اس کے دل میں پیدا ہوا، اس نے مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ جماعت پر واضح کروں کہ حصول علم کی بڑی اہمیت ہے.اگر ہم سارا ہی علم حاصل کر لیں اور ہم سے میری مراد نوع انسانی ہے پھر تو جہ کم ہو جائے تو شائد.شائد اس کا کوئی عقلی ، اخلاقی یا شرعی جواز ہو لیکن وہ کائنات جس کی ہر شے ہماری خدمت کے لئے پیدا کی گئی اور جس کی ہر شے سے خدمت لینے کے لئے ہمیں اس کا علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وہ غیر محدود پہلو خدمات کے اپنے اندر رکھتی ہے.ہر شے غیر محدود پہلوعلم کے اپنے اندر رکھتی ہے.مجموعی طور پر وہ تمام اشیاء جن کا گننا ہمارے لئے ممکن نہیں ، ہمارے تصور میں بھی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۸۸ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء وہ تعدا د نہیں آسکتی اس کی وسعتوں کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے.وہ کہاں ختم ہو گا.کب ختم ہوسکتا ہے.حضرت اقدس.....ناقل) نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت سے جو چیز پیدا ہوئی ہے اس کی غیر محدود صفات ہیں.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی غیر محدود صفات کے جلوے ہر آن اس کے اوپر ہور ہے ہیں.آپ نے فرمایا قیامت تک انسان کوشش کرتا رہے شخص کے ایک دانے کی صفات کا علم حاصل کرنے کی.اس پر تحقیق کرے نئے سے نیا علم اس کے سامنے آئے گا.قیامت تک کوشش کرے وہ شخص کے دانہ کی صفات کا احاطہ نہیں کر سکے گا.وہ سارا علم اسے حاصل نہیں ہو سکے گا تو علم کا میدان اتنا وسیع ہے کہ اس کی وسعتوں کا اندازہ نہیں.اس لئے کہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ نہیں اس لئے کہ کائنات میں سے ہر شے پر خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے ظاہر ہوتے ہیں ان کی وسعتوں کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا.میں نے جماعت کو بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ علم کی طرف وہ تو جہ دے اور اپنی نسل کو، اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھائے.ابھی پچھلے دنوں میں نے یہ کہا تھا کہ ہر احمدی بچہ کم از کم دسویں جماعت پاس ہونا چاہیے کم از کم اتنی تعلیم ہونی چاہیے.علم کا حصول جو ہے نوع انسانی جس رنگ میں حاصل کرتی ہے اس میں بھی ہمیں ایک Pyramid نظر آتا ہے یعنی بنیاد اس کی چوڑی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ تنگ ہوتا جاتا ہے اور پھر چوٹی میں وہ لوگ پہنچتے ہیں جو چوٹی کے دماغ رکھتے ہیں ڈاکٹر سلام جیسے.مگر وہ ایک نہیں وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں اور ہونے چاہئیں.اس پر میں نے کل کی اس گفتگو کے بعد جو بچے سے ہوئی بہت سوچا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جو میں نے یہ کہا تھا کہ کم از کم دسویں جماعت ہو وہ بھی صحیح نہیں کہا تھا بلکہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہر بچہ اس مقام تک ضرور پہنچے جس کی استعداد اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے.استعداد، استعداد میں فرق ہے تو جس قدر تعلیم میں بچہ آگے نکل سکتا ہے وہاں تک اسے پڑھنا چاہیے.عملی زندگی میں داخل ہونے سے پہلے.پھر وہ عملی میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی دوسری قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بنی نوع انسان کی بہتر خدمت کر سکتا ہے.جب میں کہتا ہوں کہ ہر بچہ جہاں تک تعلیم حاصل کر سکتا ہے وہاں تک تعلیم حاصل کرے تو
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۸۹ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۹ء عملی جو اس کی شکل بنے گی اس کی ذمہ داریاں Shift کریں گی.اپنا مقام چھوڑیں گی.مثلاً ایک بچہ ہے وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا.وہ پرائمری تک بھی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا.جب تک اس کی مدد نہ کی جائے.اس کی مدد ہونی چاہیے.کئی خط میرے پاس آ جاتے ہیں ایسے کہ پرائمری تک تو ہم نے اپنے بچے کو پڑھا دیا مڈل تک نہیں پڑھا سکتے.ہمارے بچے کے لئے کوئی انتظام کریں.جہاں تک ہوسکتا ہے کرتے ہیں لیکن اس طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.جہاں تک پرائمری تک پڑھانے اور آگے پھر مڈل تک پڑھانے کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کی قریباً ساری ذمہ داری مقامی جماعتوں کو اٹھانی چاہیے.قریباً میں نے اس لئے کہا کہ بعض جگہ نئی نئی جماعتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور تعداد کے لحاظ سے اور مالی وسائل کے لحاظ سے وہ عملاً پرائمری تک کی ذمہ داری اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہوتیں.اس صورت میں مرکز کو جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کر نی چاہیے.بعض ایسے خط آجاتے ہیں کہ مڈل تک پڑھا دیا آگے نہیں پڑھا سکتے اور بچہ پڑھنے کے قابل ہے اسے پڑھانا چاہیے لیکن دسویں تک میں نے جو کہا اس کی ایک وجہ تھی اس وقت میرے ذہن میں.اور وہ یہ تھی کہ ساری دنیا نے.جو امیر دنیا ہے انہوں نے ایک معیار ایسا رکھا ہے جس کے بعد جو محض علم والا حصہ ہے اس میں ایک روک پیدا کرتے ہیں اور ہنر اور علم جہاں مل جاتے ہیں اس طرف ان کو پھیر دیتے ہیں مثلاً ایک بچہ ہے انگلستان کا ان کے ویسے نام کلاسوں کے اور ہیں.اے لیول (A Level) اور اولیول (Level ) وغیرہ وغیرہ لیکن جو بھی ہیں اُن کے نام وہ ایک خاص لیول (Level) کے بعد بچے کو کہتے ہیں کہ آگے تم نہ جاؤ.تمہارا ذہن انجینئر نگ کی طرف جاتا ہے.بہت ذہین نہیں تم انجینئر نہیں بن سکتے لیکن چھ ٹیکنیشن بن سکتے ہوتو وہ ہنر سیکھو.اس میں پھر وہ کہتے ہیں اور بچے کو یہ ہدایت کرتے ہیں ، اس کو مشورہ دیتے ہیں ، گائیڈ کرتے ہیں کہ تمہارا ذہن ایسا ہے کہ بجلی سے تعلق رکھنے والی انجینئر نگ کے تم اچھے ٹیکنیشن بن سکتے ہو.پھر ادھر اس کو منتقل کر دیتے ہیں تو ساری قوم مدد دیتی ہے بچے کو اس راہ کی تعیین میں جس میں وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کر سکتا ہے.یہاں ایسے سامان نہیں.ماحول بھی ایسا نہیں.ہمارے ہاں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۹۰ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء ہماری جماعت میں قاضی محمد اسلم صاحب ماہر نفسیات کو اس میں شغف ہے.بہتوں کو انہوں نے مشورے دیئے.اچھے بھی دیئے.نہیں بھی دیئے ہوں گے اچھے.اور اپنے بیٹے کو انہوں نے غلط مشورہ دے دیا.وہ کہے میرا دماغ نہیں جاتا سائنسز کی طرف مجھے آرٹس پڑھنے دیں اور یہ اس کو کہیں کہ نہیں میرا دل کرتا ہے کہ تم سائنسز پڑھو اور اس کو بڑی مشکل پڑی اور اس وقت شاید اس کا ایک سال ضائع ہوا یا نہیں ہوا بہر حال کچھ وقت اُسے تکلیف اٹھانی پڑی اور باپ ماہر غلطی سے مظلوم بیٹے کو غلط راستے پر چلانا چاہتا تھا لیکن وقت پر اس نے اپنا مضمون بدلا اور اس میں وہ بڑی ترقی کر گیا آرٹس میں.اور مقابلوں کے امتحان میں بڑے اچھے نمبر لے کر وہ آگے نکلا.تو اس قسم کا ہمارے ہاں ماحول بھی نہیں.ہمارے پاس ما ہر بھی نہیں لیکن جس حد تک ہو سکتا ہے ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیے جو دسویں سے آگے نکلتے ہیں ان کو یعنی انٹرمیڈیٹ، پری میڈیکل، پری انجینئر نگ اور آرٹس، تینوں جو حصے بنتے ہیں اس میں احمدی بچے کو چوکس رہ کر سنبھالنا جماعت احمدیہ کا بنیادی فرض ہے اور جو اس کے بعد یعنی انٹرمیڈیٹ کے بعد مثلاً انہوں نے طب کا لیا.میڈیکل کورس لیا یا انجینئر نگ کا لیا یا سائنسز کے دوسرے مضامین ہیں وہ آگے جا کر بہت ترقی ان میں کر سکتا ہے.فزکس ہے، کیمسٹری ہے، باٹنی زوالوجی ہے وغیرہ وغیرہ اب تو سائنسز کے نام بھی نئے علوم مدون ہو کر سامنے آ جاتے ہیں.جیسا کہ ایک دفعہ میں نے بتایا تھا ایک نئی سائنس بن گئی.سائنس آف چانس.یہ اتفاق - اتفاق.اتفاق انسان جو کہتا تھا تو سوچنے والوں نے سوچا.فکر کرنے والوں نے فکر کی اور اس کو ایک سائنس میں تبدیل کر دیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا کوئی خالق، کوئی رب ، کوئی ایک واحد ہستی ایسی ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے.بہر حال جو آگے جاتے ہیں وہ پھر کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو درمیانے درجہ کے ہیں یا درمیانے درجے کے بھی نچلے حصے میں ہیں.وہ ایم ایس سی کر لیتے ہیں لیکن ان کا ذہن بہت اچھا نہیں Genius نہیں.وہ یہاں کی تعلیم ہمارے ملک کی جو ہے وہ ان کے لئے کافی ہے.ان کو سہولت ملنی چاہیے.ان کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے.ان کی غذا کا خیال
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۹۱ خطبہ جمعہ کے دسمبر ۱۹۷۹ء رکھنا چاہیے، ایک صحت مندایم ایس سی پیدا ہو جائے اس ملک کی خدمت کے لئے جو اس سے اوپر کے دماغ ہیں وہ آگے دوحصوں میں بٹتے ہیں.ایک وہ جو بہت اچھا نہیں لیکن کافی اچھا ہے.بہت اچھا نہیں کہ سارا بوجھ اس کی اعلیٰ تعلیم (Higher Studies) کا جماعت احمد یہ برداشت کرے اور یہ فرض ہو لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے اگر اس کا خاندان اس کے اخراجات میں حصہ دار بنے تو کچھ جماعت کو ادا کرنا چاہیے.باقی بوجھ وہ اٹھا ئیں.جو ایسا طالب علم ہے جو بہت ہی اچھا ہے اس کا اگر سارا بوجھ بھی اٹھانا پڑے.بیدا گر کے ساتھ میں کہہ رہا ہوں ویسے.اگر سارا بوجھ بھی اٹھانا پڑے تو جماعت کو اٹھانا چاہیے لیکن چونکہ وہ بہت اچھا ہے اس لئے اگر اس کا خاندان یہ کہے کہ ہم کچھ بھی نہیں دینا چاہتے باوجود اس کے کہ ہم مالدار بھی ہیں تو یہ غلط ہے.جس حد تک بھی وہ اس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں ان کو اٹھانا چاہیے اور اس کے علاوہ جو بوجھ بھی ہے وہ جماعت کو اٹھانا چاہیے.ذہن کو ضائع نہیں ہونے دینا.یہ آپ عہد کریں.جو ذہن اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی خاندان میں پیدا کیا ہے وہ ضائع نہیں ہوگا.اب میں اوپر کے جو دو حصے بنتے ہیں.دو گروہ بنتے ہیں ان کے متعلق بات کر رہا ہوں.ایک وہ ہے کہ جن کا سارا بوجھ بھی جماعت کو اٹھانا پڑے تو جماعت کو اٹھا لینا چاہیے.اس کی ایک مثال دیتا ہوں اس میں کچھ غلط فہمی بھی ہوئی تھی.ایک بڑا ذہین بچہ، وہ میرے پاس آیا اس وقت مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ یہ سارا بوجھ ڈالنا چاہتا ہے کہتا ہے کہ میں امریکہ جانا چاہتا ہوں اور اس کے متعلق رپورٹ یہ تھی کہ وہ بہت اچھے ذہن کا ہے تو خیال یہ تھا کہ امریکہ میں ایک سال کے بعد کہیں نہ کہیں سے وظیفہ مل جاتا ہے میں نے کہا ٹھیک ہے چلے جاؤ.اس کو یہاں سے دے دی کافی رقم پندرہ بیس ہزار روپے کی دے دی.پھر اگلے سال اس نے مطالبہ کیا پھر وہاں کی جماعت سے کہا اس پر خرچ کرو.پھر تیس چالیس ہزار، وہاں بھی تعلیم پر خرچ بڑھتا چلا جارہا ہے سال بسال.پھر اس کا مطالبہ آیا.پھر میں نے اس کو لکھا کہ تم اس کو لکھا کہ تم نے جوشکل پیش کی تھی وہ کچھ اور تھی اور اب تم مانگ زیادہ رہے ہو.میں نے جماعت کولکھا کہ پتا کریں کیوں اب ہم دیں؟ تو جماعت کے جو سمجھ دار لوگ تھے انہوں نے کہا یہ اتنا ذہین ہے اور یو نیورسٹی میں اس کا اتنا
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۹۲ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء اثر ہے کہ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے.پھر تیسرے سال میں غالباً ساٹھ ستر ہزار یا کتنا تھا وہ اس نے مانگا پھر میں (نے ) جماعت کو کہا دو اس کو.پھر وہ غالباً اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا کیونکہ اس کے اگلے سال کا پھر مجھے علم نہیں.اس کو ضرورت نہیں پڑی ہوگی.تو ایسے جو ہیں.ایک بچہ یہاں تھا.اس نے ایم ایس سی فزکس میں یونیورسٹی کا ریکارڈ توڑا.اس کا خاندان اس کا خرچ نہیں برداشت کر سکتا تھا اس کا وہاں سارا خرچ پی ایچ ڈی کے لئے ہم نے مقرر کر دیا.دیں گے.یہ ۱۹۷۶ء کی بات ہے اس وقت وہ وہاں میرے ہوتے ہوئے.میں دورہ پر تھا ، لندن میں تھا، جب وہ وہاں پہنچا ، مجھے کہنے لگا آکے ایک دن کہ مجھے جماعت نے وظیفہ دیا ہے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے.انگلستان کی کوئی یو نیورسٹی مجھے پی ایچ ڈی میں داخل نہیں کر رہی.وہ کہتے ہیں پہلے ایم ایس سی کرو.ہمارا ملک شاید وہاں بدنام ہے یا کیا قصہ تھا واللہ اعلم میں نے سوچا، میں نے اس کو کہا ٹھیک ہے.میں نے کہا اگر یہ تمہیں داخل نہیں کر رہے تو ان کا حق ہے اس لئے کہ تمہیں اور تمہارے ذہن کو یہ پہچانتے نہیں.وہ کہتے ہیں نہیں داخل کرنا.اپنے ملک کے بچے کی سیٹ تمہیں کیوں دے دیں، پی ایچ ڈی کی.تو وہاں مشورہ کیا.گلاسکو کی یو نیورسٹی اس کو ایم ایس سی میں داخل کرنے کے لئے تیار تھی.کچھ اور یو نیورسٹیز سے بھی مشورہ کیا ، انہوں نے کہا کہ گلاسکو کی یو نیورسٹی زیادہ اچھی ہے.میں نے اسے کہا میری طرف سے اجازت ہے تم کو.ایم ایس سی میں جا کے داخل ہو جاؤ.ساتھ ہی میں نے اسے یہ کہا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ فضل کرے گا کہ چھ مہینے کے اندر اندر وہ تمہیں خود کہہ دیں گے کہ چلو جاؤ پی ایچ ڈی میں.جب تمہارے ذہن کو پہچانے لگیں گے ، پھر وہ کہیں ٹھیک ہے ، آؤ پی ایچ ڈی کرو.تین مہینے کے بعد انہوں نے کہا بدل لو اپنا کورس.ایم ایس سی کی بجائے پی ایچ ڈی کر لو اتنا ذہین تھا.ابھی اس نے پی ایچ ڈی ختم نہیں کی تھی.آکسفورڈ اور کیمرج دنیا کی چوٹی کی دو یو نیورسٹیز ہیں.انہوں نے اسے لیکچر دینے کے لئے بلانا شروع کر دیا اور ابھی امتحان اس نے پاس نہیں کیا تھا.تو ایسے ذہین جو ہیں ان کو ہم کیسے ضائع کر سکتے ہیں.صرف اپنے فائدہ کے لئے نہیں ، نوع انسانی کا یہ فائدہ ہے کہ ہر ذہن جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو اس کی صحیح نشو نما کی جائے تاکہ نوع انسانی
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۹۳ خطبہ جمعہ کے دسمبر ۱۹۷۹ء اس کا ئنات کی ہر شے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکے اور خدمت لے سکے.میں نے بتایا ۱۹۷۶ء میں اس نے ایم ایس سی فزکس کا ریکارڈ توڑا.کچھ لوگ تھے یہاں وہ پچھلے ریکارڈ سے اتنا آگے نکلا کہ بعض لوگوں نے یہ باتیں شروع کر دیں کہ ایک احمدی ہے بچہ، اس نے ریکارڈ توڑ دیا، اتنے نمبر لے لئے ، آگے کون آئے گا، پھر اس کا ریکارڈ توڑنا بڑا مشکل ہو جائے گا.اس قسم کی باتیں شروع کر دیں.اس سال اسی یو نیورسٹی سے یعنی یو نیورسٹی آف دی پنجاب سے ہماری ایک احمدی لڑکی نے اس لڑکے کا ریکارڈ توڑ دیا.تو جو خدا تعالیٰ کی عطا ہے اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کو سنبھالنا چاہیے.میں نے بڑا سوچا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر عطا ہی عظیم ہے اور اس کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے بڑی عظیم یہ نعمت ہے اللہ کی کہ کسی گھر میں ذہین بچے پیدا ہو جائیں، ذہن رسا سے زیادہ اور بڑی کوئی عطا نہیں کیونکہ ہر قسم کی خدمت پھر عطا سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت ذہن کے ذریعہ سے ہی ہوتی ہے نا.تو میں بتایہ رہا ہوں جماعت کو کہ جو اس قسم کے بچے ہیں ان کو تو ہم نے بہر حال سنبھالنا ہے خواہ کتنی مالی قربانی دینی پڑے جماعت کو لیکن جو ان سے ذرا نیچے ہیں مثلاً واضح کرنے کے لئے، یہاں بچے بڑے بہت پڑھے ہوئے زمیندار بھی ہیں.وہ سمجھ جائیں گے میری بات، ذرا نیچے سے.میں بڑا لمبا عرصہ کالج کا پرنسپل بھی رہا ہوں.یو نیورسٹی کی طرف سے کچھ وظائف ہوتے ہیں.کچھ محکمہ تعلیم کی طرف سے وظائف ہوتے ہیں وہ مثلاً، اگر کسی نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا تو سو دوسو، کافی تعداد ہے وظائف کی، یونیورسٹی یا محکمہ تعلیم کی طرف سے وہ وظائف مقرر ہیں.چوٹی کے اتنے لڑکوں کو وہ وظیفہ مل جاتا ہے.فرض کریں کہ مثلاً جس نے ۶۴ فیصد نمبر لئے کم از کم معیار جو وظیفہ لینے والوں میں سے تھا وہ اس کا تھا یعنی باقی سب نے ۶۴ فیصد سے زیادہ نمبر لئے اور سب سے کم وظیفہ لینے والے نے ۶۴ فیصد نمبر لئے.اس سے نیچے ہے ۶۳ فیصد والا اور ۶۳ اور ۶۴ میں بڑا فرق نہیں لیکن قانون اس کو وظیفہ نہیں دے رہا ہے.ذہین اور ایسا ذہین بھی ہے بعض دفعہ کہ وہ اگلے امتحان میں اپنے اوپر کے بچوں سے آگے نکلنے والا ہے.اس کو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۹۴ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء کیسے ضائع کیا جاسکتا ہے.ایسے بچے جو ذرا کم نمبر لینے والے وظیفہ کی حد سے.احمدی بھی اور ہمارے دوسرے بچے بھی بیبیوں کی تعداد میں ان کو ہر قسم کی سہولت دے کے تعلیم الاسلام کالج نے پڑھایا ہے.اس واسطے کہ مجھے ایک ہدایت بنیادی طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے دی تھی جب میں کالج کا پرنسپل بنا اور وہ یہ تھی کہ کالج اس لئے کھولا گیا ہے کہ ہمارا ملک تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے.مدد کرنی ہے قوم کی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی.تبلیغ اس کی غرض نہیں.وہ دوسرے محکمے ہیں تبلیغ کرنے کے، ہر قسم کا لڑکا آیا اور اس کو اگر وہ غریب تھا اور ذہین تھا کالج نے وظیفہ دیا.ایک ایسا طالب علم آیا میرے پاس جس نے بس ذرا کم نمبر وظیفہ سے لئے ہوئے تھے.یہ لاہور کی بات ہے اور مہاجر تھا اور ہندوستانی تھا.میں نے اس کے کوائف پوچھے تو کہنے لگا ایک پیسہ نہیں خرچ کر سکتا.مجھے کسی نے کہا ہے پڑھنا ہے تو تعلیم الاسلام کالج میں چلے جاؤ.خیر میں نے پوچھنا شروع کیا.میں نے کہا تم کہتے ہو ایک پیسہ خرچ نہیں کر سکتا.تو دسویں کیسے تم نے پاس کر لی.یہ بتاؤ مجھے.پھر اپنی دکھ کی داستان مجھے سنائی.کہنے لگا میرا ایک بڑا بھائی ہے وہ کلرک ہے گورنمنٹ کے کسی محکمے میں اور اس وقت تنخواہیں کم تھیں.اب تو زیادہ ہوگئی ہیں.سو کے قریب اس نے بتایا صحیح نہیں مجھے یاد کم و بیش سو ، کچھ کم کچھ زیادہ.یہ اس کی تنخواہ ہے کہنے لگا میرے والد اور والدہ بھی زندہ ہیں اور دونوں نابینا ہیں.میرا بھائی والدین کو بھی پالتا ہے اور تھوڑی بہت اس نے میری مدد بھی کی.مجھے کھانا کھلاتا رہا.گھر میں میں رہتا ہوں اس نے مجھے کھانا دیا اور تھوڑی سی مدد کی.کوئی پنسل لے دی کچھ اور سکول والوں نے میری فیس معاف کر دی اور اس طرح اس نے اتنے اچھے نمبر لئے کہ اگر دس نمبر اور لیتا تو وظیفہ مل جاتا اس کو.میں نے کہا، ٹھیک ہے تمہیں داخل کروں گا لیکن میرے دماغ نے یہ سوچا کہ اگر پڑھنے کی خاطر اس نے خود اور اس کے خاندان نے قربانی نہ کی تو ممکن ہے یہ بے تو جہ ہو جائے پڑھائی سے.یعنی اب میں بات کر رہا ہوں تب بھی مجھے دکھ ہو رہا ہے کہ میں نے اسے تکلیف دی لیکن وہ تکلیف پہنچانا ضروری تھا میرے نزدیک.میں نے اسے کہا کل آجانا.دس روپے لے آنا میں تمہیں داخل
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۹۵ خطبہ جمعہ کے دسمبر ۱۹۷۹ء کرلوں گا.میں نے اس کو فرسٹ ائیر میں دس روپے لے کے داخل کیا.فیس وغیرہ ہر قسم کی.اور اس کے بعد ایک دھیلا اس سے نہیں لیا اور مجھے یقین ہے کہ ان کے گھروں میں ممکن ہے کہ ایک وقت کا کھانا بھی نہ پکا ہو اس وجہ سے.بڑی قربانی ہے یہ یعنی اس قسم کے حالات میں دس روپے بڑی قربانی تھی اور وہی میں خود اس سے لینا چاہتا تھا اس کے پڑھنے کے لئے اس کے خاندان سے لینا چاہتا تھا.ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا.مجھے پتا لگا میں نے اپنے ایک پروفیسر کو بھیجا.میں نے کہا اس کو تانگے پر بٹھاؤ اور لے جاؤ چوٹی کے ایک ڈاکٹر تھے لا ہور.اب وہ فوت ہو گئے ہیں.ان کے پاس لے جاؤ اور ان کو جا کر پہلے کہ دین وہ کپڑے دیکھے گا اس کے.ہئیت کذائی دیکھے گا اور سمجھے گا غریب ہے تو جہ نہیں کرے گا.کہنا یہ لڑکا بڑا غریب ہے لیکن جس کالج میں یہ پڑھ رہا ہے وہ غریب نہیں.اس واسطے اس کی صحیح طرح تشخیص کرو اور بہترین ،سب سے مہنگی دوائی جو تمہارے نزدیک اس کے لئے چاہیے، وہ اس کے لئے نسخہ لکھ دو تم.اس ایک مرض میں میرا خیال ہے قریباً تین سو روپیہ اس کے او پر خرچ کیا.دس روپے اس سے لئے تھے لیکن دس روپے کا دکھ مجھے اب بھی ہے لیکن ضروری تھا میرے نزدیک.تو میں آپ کو بتا یہ رہا ہوں کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ جو ایک تو بہت اونچے ہیں لوگ اور ایک ان سے ذرا نیچے اور اس کی مثال میں میں نے کہا کہ دس بارہ نمبر لیتا تو وظیفہ لے لیتا لیکن جہاں تک ہماری طاقت تھی ہم نے بلا امتیاز عقیدہ اور علاقہ ہر ایک کو جو ہمارے پاس آیا ہم نے دیا.یعنی سینکڑوں کو تعلیم دلوا دی اللہ کے فضل سے.یہ جو میں نے ابھی کہا کہ یہ جو ذرا کم وظیفہ لائن سے ہیں وہ آگے بھی نکل جاتے ہیں.ہمارے ہاں ایک احمدی لڑکا تھا اپنا خرچ کر رہا تھا.بہت نچلے درجے کی سیکنڈ ڈویژن یا اونچے درجے کی تھرڈ ڈویژن میں اس نے میٹرک پاس کیا اور ہمارے پاس آ کے ایف ایس سی پاس کیا یعنی بہت نچلے درجے کی سیکنڈ ڈویژن یا اوپر کی تھرڈ ڈویژن میں اس نے ایف ایس سی پاس کیا اور اچھی بہت اچھی سیکنڈ ڈویژن میں اس نے بی ایس سی پاس کیا اور فرسٹ ڈویژن میں اس نے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۹۶ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء ایم ایس سی پاس کیا.اس طرح ترقی کرنے والے بھی دماغ ہیں.یہ تو جو تجربہ کار ہیں وہ جانتے ہیں اور کئی ایسے بھی آتے ہیں جو سات ساڑھے سات سونمبر لے کے آتے ہیں اور دماغ ان کا ختم ہو چکا ہوتا ہے.پھر آگے تنزل کی سیڑھیاں اترتے ہیں.ترقی نہیں کرتے لیکن وہ استثناء ہیں ان کا پتا لگ جاتا ہے تو جماعت کے سامنے اس بچے کی کل کی گفتگو کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کھول کر بات کروں آپ سے.جو ہے اوپر کی ایک لائن کھینچیں آپ کہیں کہ اس سے اوپر جو ہے اسے ہم نے بہر حال سنبھالنا ہے.اگر اور نہیں انتظام اس کا.یعنی جن کا انتظام ہے کئی ایسے چوٹی کے ہیں.اب جس لڑکی ، اپنی بچی کا میں نے کہا، اس کو بڑا وظیفہ دے دیا آکسفورڈ والوں نے ، وہ گھبرائی ہوئی تھی اس کو پتا نہیں تھا وہاں کے اخراجات کا تو اس کے والد ا اپنی بیٹی کو میرے پاس لے آئے میں نے اس کو سمجھایا بالکل فکر نہ کرو.اتنا وظیفہ ہے کہ تم سے ختم نہیں ہوگا اور اتنی ذہین، اس نے اپنے کوائف بھیجے ، ابھی فزکس میں آگے دو لائنز تھیں جن میں سے ایک لے سکتی تھی تو وہ ڈانواں ڈول تھی کہ کون سی لائن لے، اس نے وہاں ، جس سے خط وکتابت تھی ، انچارج تھا داخل ہونے کا اس نے اس کو لکھا تم کوئی فکر نہ کر و.یہاں آ جاؤ.جو مرضی لے لینا داخل ہو جاؤ.کمال گن که عزیز جہاں شوی کوئی رستے میں اس کے روک ہی نہیں تھی.ویسے میں نے اسے مشورہ دیا کہ یہ لائن لو.تمہارے لئے اچھی رہے گی.اس وقت وہ نہیں مانی.میں نے کہا ٹھیک ہے جدھر جانا چاہتی ہو جاؤ لیکن وہاں جا کے حالات دیکھ کے اس نے وہی لائن لی جس کا میں نے پہلے اسے مشورہ دیا تھا.بہر حال انشاء اللہ دعا کریں اللہ اسے توفیق دے آگے سے آگے نکلنے کی.ایسے دسیوں ہمارے نوجوان ہیں بلکہ بیبیوں کہنا چاہیے جو آگے نکل گئے یا جو آ رہے ہیں اس وقت سٹڈی کر رہے ہیں لیکن دسیوں کی تو تعداد جو ہے وہ تو ہمارے لئے کافی نہیں ہے ہمیں تو اگلے پندرہ بیس سال کے اندر پہلے سینکڑوں اور پھر ہزاروں کی تعداد میں ٹاپ (Top) کا سکالر (Scholar) چاہیے ہر مضمون میں، اس واسطے کہ اس دنیا میں آج کے انسان نے علم کی اہمیت اور اس کے مقام کو پہچانا ہے اور علم نے اس کو نقصان بھی پہنچایا.یعنی علم کے میدان میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۹۷ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء جب آگے بڑھے تو بہتوں نے یہ سمجھ لیا کہ عقل کافی ہے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں.یا بعض مغرور ہو گئے لیکن جو اچھے سائنسدان دنیا نے پیدا کئے یا دوسرے محققین.ان میں سے بڑی بھاری اکثریت مسکین، کوئی فخر نہیں ، عاجز انسانوں کی ہے یعنی خدا کو انہوں نے مانا یا نہ مانا لیکن عجز اور انکسار ان کی طبیعتوں میں پایا جاتا ہے لیکن کچھ متکبر بھی ہو گئے.ان کو علم نے نقصان پہنچایا.کچھ قوموں کو نقصان پہنچایا.یعنی جو خود عالم نہیں تھے مثلاً آپ کوئی قوم یورپ کی لے لیں.ایک حصہ تھا ان کا محققین کا.عاجز منکسر المزاج انسانوں کا جنہوں نے علم کے میدان میں رفعتیں حاصل کیں.چاند پر کمند ڈالی.مریخ کی تصویر میں حاصل کرلیں وغیرہ وغیرہ.ہر طرف وہ آگے بڑھے.آگے بڑھتے چلے گئے دنیوی لحاظ سے.بڑے ہی منکسر المزاج.اکثر ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے ان قوموں کو سنبھالا ہوا ہے مجھ سے کسی نے پوچھا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری قوم پر عذاب کیوں نہیں نازل کرتا اتنے بد اخلاق ہو گئے ہیں ہم.میں نے کہا تمہارے اندر ایک حصہ ایسا ہے کہ جو شراب نہیں پیتا، سگریٹ نہیں پیتا ، جو شہوت کی نظر کسی لڑکی پر نہیں ڈالتا.اپنے کام میں مگن خدمت خلق کا جذبہ ہے اس کے اندر.کہتا ہے یہ میرا میدان ہے اس میں میں ترقی کروں گا.انسان کو فائدہ پہنچے گا اور ہر ملک میں لاکھوں ایسے ہیں تو ان کو خدا تعالیٰ کیسے ہلاک کر دے جو اس کے بندوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اگر چہ اس کو نہیں پہچانتے.بہر حال ہم نے ان تک بھی تو خدا کا نام پہنچانا ہے یہ جو علمی میدانوں میں آسمانوں کو چھورہے ہیں ان تک بھی تو خدا تعالیٰ کا نام پہنچانا ہے.ان پر بھی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ظاہر کرنا ہے.انہیں بھی تو بتانا ہے کہ کس قوتِ احسان کے مالک ہیں ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ان سے تو انہی کے مقام پر علمی میدان میں پہنچا ہوا آدمی بات کر سکتا ہے اور تو نہیں کرسکتا.تو اس نقطۂ نگاہ سے بھی یعنی ایک تو ہے خدمت خلق کا نقطہ نگاہ.اس لحاظ سے بھی کہ زیادہ سے زیادہ خدمت لینے کی طاقت نوع انسانی میں پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ وہ حصہ پائے ایک یہ نقطۂ نگاہ ہے.دوسرا یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا سے دور چلے گئے خدا کی کا ئنات میں تحقیق بھی کر رہے ہیں.نئے سے نئے علوم بھی نکال رہے ہیں.نوع انسان کی
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۹۸ خطبہ جمعہ کے دسمبر ۱۹۷۹ء خدمت بھی کر رہے ہیں لیکن وہ جس نے سب کچھ پیدا کیا اس کو جانتے نہیں ، بڑی محرومی ہے.ان کو ان محرومیوں سے نکال کے ان ظلمات سے باہر کھینچ کر نور کی طرف لانا یہ بھی تو ہماری ذمہ داری ہے.یہ بھی تو ان کا حق ہے.یہ حق ہے کہ ان کو نور ملے.یہ حق ہے کہ وہ خدا کو پہچا نہیں.یہ حق ہے کہ جس طرح دنیوی میدانوں میں انہوں نے خدا تعالیٰ کی نعماء کو حاصل کیا ، روحانی طور پر بھی وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے اور اس کی رضا کی جنتوں کو پانے والے ہوں اس لئے جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے کسی بچے کو اس سے پہلے تعلیم چھوڑنے نہ دیں جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہے.جو بچہ اپنے ذہن کے لحاظ سے مڈل تک پہنچ سکتا ہے اس کو پرائمری میں نہ چھوڑنے دیں تعلیم.جو میٹرک تک پہنچ سکتا ہے اسے مڈل میں نہ چھوڑنے دیں تعلیم.جو انٹرمیڈیٹ میں پہنچ سکتا ہے اس کو دسویں جماعت کے بعد تعلیم نہ چھوڑنے دیں.جو بی اے.ایم اے.پی ایچ ڈی کر سکتا ہے اس سے پہلے وہ تعلیم چھوڑ کے دوسرے میدانوں میں نہ جائے.پہلے اپنی استطاعت اور قابلیت کے مطابق اپنی تعلیم کو پورا کرے.پھر وہ اس تعلیم سے فائدہ اٹھائے جو اس نے حاصل کیا، علم کے میدان میں.اس کی روشنی میں.دوسروں کے لئے ایک مفید وجود بننے کی کوشش کرے.اصل علم ہمارے نزدیک تو قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اور جتنے یہ سارے علوم سائنسز وغیرہ جو ہیں ان کی بنیادی باتیں ہمیں قرآن کریم میں نظر آتی ہیں بلکہ بعض ایسی بنیادی حقیقتیں ہیں جو علم کے میدان میں آگے بڑھنے والی قومیں ہیں ان سے بھی وہ بنیادی حقیقت مخفی رہی اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہم پر اسے واضح کیا.مثلاً Mathematics ہے.حساب جو ہے یہ سمجھا جاتا ہے کہ بالکل واضح اور اس میں کوئی غلطی اور کوئی خلط اور کوئی Confusion ہو ہی نہیں سکتا.دو اور دو چار اور آٹھ اور آٹھ سولہ ہیں.اسی طرح یہ سارا چلتا ہے لیکن جو حساب دان ہیں چوٹی کے انہوں نے یہ لکھا ہے میں نے خود پڑھا ہے کتاب میں کہ علم حساب جو ہے یعنی حساب کا علم.مفروضات کے اوپر اس کی بنیاد ہے ، حقائق پر نہیں کہ بعض مفروضات ہم کرتے ہیں.پھر یہ علم آگے چلتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ حساب کی بنیا د بعض حقائق کا ئنات پر ہے.اس وقت یہ میرا امضمون نہیں.میں لمبا نہیں کرنا چاہتا.صرف یہ بتارہا ہوں کہ اس وقت علم کے میدانوں
خطبات ناصر جلد هشتم ۴۹۹ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۹ء میں وہ علم جن کا دنیا کے ساتھ تعلق ہے بظاہر یا وہ علم جس نے غلط فکر نے محض دنیوی علوم سمجھے جانے لگے وہ ان کی بنیادی باتیں قرآن کریم سے ہمیں پتالگتی ہیں لیکن روحانی زندگی تو اس دنیوی زندگی کے مقابلہ میں ہر پہلو اور ہر جہت سے اہم بھی ہے اور اس قابل ہے کہ اس کے حصول کے لئے اس دنیا کی ہر چیز قربان کر دی جائے.یہ دنیا عارضی ، تھوڑے وقت کے لئے اس کی نعمتوں میں اگر مٹھاس ہے تو کڑواہٹ بھی ہے.اگر خوشی ہے تو تلخی بھی ہے.اگر آرام ہے تو دکھ بھی ہے ہر چیز ملی ہوئی ہے انسان کی زندگی میں لیکن اس کے مقابلہ میں جو اُخروی زندگی ہے اس میں تو ایک ایسی زندگی ہے جس میں موت نہیں.ایسی صحت والی زندگی ہے جس میں بیماری نہیں.ایسا احساس سیری کا.سیری کا احساس ہر لحاظ سے ہوتا ہے صرف روٹی کھا کے نہیں ہوتا.سیری کا ایسا احساس ہے جس میں بھوک کا کوئی دخل نہیں.ترقیات کے ایسے دروازے ہیں جو کبھی بند نہیں ہوتے.یہاں تو اس زندگی میں بند ہو جاتے ہیں.بڑھاپے کی عمر آتی ہے.علم آدمی جو ساری عمر سیکھتا رہا، وہ بھول گئے.بڑا زمین و آسمان کا فرق ہے.تو وہ علم جو اُخروی رضائے الہی کی جنتوں کی نشاندہی کرنے والا.ان کی راہوں کو کھولنے والا ہے.وہ قرآن کریم کا علم ہے.اس واسطے میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جامعہ احمدیہ کے بھی طالب علم اور اسا تذہ.اصل علم کے میدانوں میں جو قیادت کرنی ہے جو ہدایت دینی ہے.راہنمائی جن کے حصہ میں آئے وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو سمجھا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں میں ایک عظیم نور پیدا کرنے کی کوشش کی دعاؤں کے ذریعہ سے بعض طالب علموں کو بھی چند دن ہوئے میں نے کہا تھا کہ تمہارے دو حصے ہیں.ایک وہ جو تمہیں کتا بیں پڑھائی جاتی ہیں قرآن کریم کی تفسیر ہے، احادیث ہیں وغیرہ وغیرہ.ان کا تعلق تمہارے اساتذہ اور کتب سے ہے ایک تمہارا کورس ہے جس کا تعلق صرف تم سے ہے اور وہ یہ ہے کہ تم دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ اس عظیم علم کے سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی تمہیں تو فیق عطا کرے اور یہ تو ہمارے جامعہ میں پڑھے ہوئے یا دوسرے علماء جو ہیں یا نہیں بھی پڑھے ہوئے وہ بھی پڑھ کے دعائیں کر کے علم حاصل کرتے ہیں.ساری جماعت کو ، قرآن کریم کی روشنی سے روشنی لے کر روشن راہوں پر
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۰۰ خطبہ جمعہ کے ردسمبر ۱۹۷۹ء اپنی کوشش اور سعی کے قدم آگے بڑھانے چاہئیں.اگر مسلمان ہو کے، اگر قرآن کریم کو ماننے کے بعد، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے دعوی کے بعد، اگر توحید پر قائم ہونے کے بعد بھی اندھیرے ہیں تو سارے دعوے جھوٹے ، قرآن کریم نے کہا ہے کہ جو میرے ہو جاتے ہیں ان کے لئے ایک ایسا نور پیدا کیا جاتا ہے اور ایسا نور ان کو دیا جاتا ہے جو ان کی راہبری کرتا ہے آگے بھی اور پہلو پر بھی.تو یہاں میں ساری جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ جو انفرادی عطیہ ہے ذہن کا یعنی ایک فرد کومل گیا.ایک خاندان میں پیدا ہو گیا نہ اس کو ضائع کرنا ہے اور نہ جماعت کا مجموعی طور پر جو عطا خدا تعالیٰ نے دی اور بڑی دی.دوسرے سے زیادہ دی ہے نہ اس کو ضائع کرنا ہے ناشکرے نہیں بننا.اس کے شکر گزار بندے بنے کی کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ / اگست ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۷ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۰۱ خطبہ جمعہ ۱۴ /دسمبر ۱۹۷۹ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ کے مصداق ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو رسول بھی دنیا کی طرف مبعوث ہواوہ نذیر اور بشیر کی حیثیت سے مبعوث ہوالیکن جو بشارتیں انہوں نے دیں وہ اپنے مقام کے لحاظ سے دیں رسولوں کی رسالت میں فرق کرنا تو جائز نہیں.لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (البقرة : ۲۸۲) ہر رسول خدا کا پیارا اور فرستادہ ہے.لیکن ہر رسول نے اپنے ماننے والوں کو جو بشارتیں دی ہیں ان میں بڑا فرق ہے.اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.ہمیں تو غرض اپنے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جو بشارتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو دیں وہ اپنے مقام کے لحاظ سے تھیں اور اس قدر وسعت ہے ان بشارتوں میں اور اس قدر رفعت ہے ان بشارتوں میں کہ کوئی اور رسول اپنی بشارتوں کے لحاظ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں رکھتا ان بشارتوں کے ساتھ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو بشارت دی وہ یہ تھی کہ اگر تم مجھ پر ایمان لاؤ.ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو.اپنی زندگیاں میرے اُسوہ کے مطابق ڈھالو تو خدا تعالیٰ تمہیں یہ بشارت دیتا ہے.وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمُ (یونس : ۳) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر و باطن طور پر ایک کامل درجہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۰۲ خطبہ جمعہ ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۷۹ء ایک بلند تر مقام تمہیں حاصل ہوگا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو مقام خدا کے نزدیک ہے.لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَخْلَاكَ کہ ہر دو جہان آپ کی وجہ سے ہی پیدا کئے گئے جو مقام آپ کا خدا کے نزدیک ہے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ میرا پیار لینا چاہتے ہو تو میرے محمد کی اتباع کرو.فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : ۳۲) پھر تمہیں خدا کا پیار بھی مل جائے گا.یہ جو ظاہر و باطن طور پر کامل درجے کی بشارت ہے یہ اتنی بلند ، اتنی رفعتوں والی ، اتنی عظمتوں والی بشارت ہے، اتنی وسعتوں والی بشارت ہے کہ اس نے کامل انسان تک آپ کے متبعین کو پہنچادیا.آپ کے قدموں میں ماننے والوں ، اُسوہ پر عمل کرنے والوں کو اکٹھا کر دیا.اتنا بڑا انعام حاصل کرنا محض انسان کی کوشش سے ممکن نہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے ہی اُمت کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکوں کو پسند کرتا ہے.پاکیزگی سے پیار کرتا ہے.ہر گند سے پاک ہو جاؤ گے تو ہر حسن سے منور ہو جاؤ گے.خدا کی نگاہ میں پاک ٹھہرو گے تو اپنی استعداد کے مطابق ظاہر و باطن میں ایک کامل درجہ خدا کے نزدیک تمہیں حاصل ہو جائے گا.یہ انسان اپنی کوشش سے نہیں کر سکتا.اس کے لئے خود ہمیں ایک راہ بتائی اور وہ راہ یہ بتائی کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : ۱۵۴) کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا دعوی کرنے والو، اللہ پر ایمان کا دعوی کرنے والو کہ ہم خدا اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائے جو بشارتیں تمہیں ملی ہیں اگر تم انہیں حاصل کرنا چاہتے ہو ، وہ بلند تر مقام جو تمہارے مقدر میں ہے اس بلندی اور رفعت تک تم پہنچنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اپنے زور سے وہاں نہیں پہنچ سکتے.نہ اپنی کوششوں سے خدا کے پیار کو حاصل کر سکتے ہو.اس کے لئے ضروری ہے خدا تعالیٰ کی مدد کو حاصل کرنا.اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اس کی مدد تمہارے شامل حال ہو.اگر اس کی نصرت تمہیں توفیق دے کہ تم اس کے حضور قربانیاں پیش کر سکو.اگر اس کی رحمت اور اس کا فضل تمہاری کوششوں میں تمہارے اعمالِ صالحہ میں ایک حسن پیدا کرے.ایک نور پیدا کرے تب یہ ممکن ہے اور صرف اس وقت ممکن ہے.اس کے بغیر ممکن نہیں ہے.اس لئے اگر اپنا مقدر حاصل کرنا چاہتے ہو.یعنی جہاں تک تم پہنچ سکتے ہو جس غرض کے لئے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۰۳ خطبہ جمعہ ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۷۹ء تمہیں پیدا کیا اُمت مسلمہ میں ، اس غرض کو اپنی زندگی کے اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اس مقدر کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو خدا سے استعانت چاہو، اس کی مدد، اس کی نصرت ، اس کا فضل ، اس کی رحمت حاصل کرنے کی کوشش کرو.کیسے کوشش کرو؟ صبر کے ساتھ اور صلوۃ کے ساتھ.صبر کا تعلق انسان کی اپنی جدو جہد ، اس کی اپنی سعی کے ساتھ ہے.اپنے مجاہدہ کے ساتھ ہے جو روحانی میدانوں میں وہ بجالاتا ہے.صبر کا ایک پہلو یہ ہے کہ استقامت کے ساتھ برائیوں سے بچے، اپنے نفس کو نواہی سے بچنے پر باندھے رکھے.یہ ہیں صبر کے معنی ایک پہلو کے لحاظ سے.پوری کوشش کرے کہ کوئی ایسا عمل اس سے سرزد نہ ہو جو ( خدا کے فرمان کے مطابق ) خدا کو ناراض کرنے والا ہے اور صبر کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جرات اور شجاعت کے ساتھ نیکیوں کی راہوں پر گامزن رہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری مدد حاصل کر وصبر کے ذریعہ سے کوشش کرو کہ تم سے گناہ سرزد نہ ہو اور کوشش کرو کہ ہمیشہ نیکیاں سرزد ہوتی رہیں.اعمال صالحہ تم بجالاتے رہو اور یہ تمہاری کوشش ہو.لیکن یہ کافی نہیں اس کے لئے بنیاد بناؤ اپنے عمل کو ، اور صلوٰۃ کو ، خدا سے دعائیں مانگو ، خدا کو یا درکھو، خدا کی صفات اور اس کی ذات کی معرفت حاصل کرو اور خدا تعالیٰ کی عظمتوں کو اپنے ذہن میں حاضر رکھتے ہوئے ان عظیم صفات کا واسطہ دے کر اس سے مانگو (مدد) کہ وہ قدم صدق ظاہر و باطن طور پر جو ایک کامل درجہ مقرر ہے وہاں تک تمہیں پہنچا دے.اعمالِ صالحہ بجالا و بدیوں سے پر ہیز کرومگر اس کے نتیجہ میں نخوت پیدا نہ ہو بلکہ سمجھو اور یقین کرو کہ اپنی کوشش کوئی شے نہیں جب تک اس کے ساتھ صلوۃ دعا اور مقبول دعا کا جو نتیجہ ہے یعنی خدا تعالیٰ کا فضل ، اس کا نزول نہ ہو اس وقت تک کچھ ہو نہیں سکتا.اگر اس استعانت میں مدد کے حاصل کرنے میں تم اپنی نیت کے خلوص کے نتیجہ میں، اگر تم اپنے جذبۂ ایثار اور قربانی کے نتیجہ میں، اگر تم اپنے پیار کی شدت کے نتیجہ میں اگر تم اپنے فدائیت کے حسن کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرسکو گے تو تمہارے اعمال مقبول ہو جائیں گے جو صبر کی تعلیم کی روشنی میں تم بجالائے اور جب تمہارے اعمال مقبول ہو جائیں گے تب تم اس قسم کے مومن بن جاؤ گے.وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۰۴ خطبہ جمعہ ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۹ء کہ جن کے متعلق بشارت دی گئی ہے آنَ لَهُمُ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ جن کا خدا تعالیٰ کے حضور ظاہر و باطن طور پر ایک کامل درجہ ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حضور پیار اور رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور وہ وعدے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے کئے گئے ہیں ہماری زندگیوں میں وہ پورے ہوں اور ہم بھی اس کے وارث ہوں.جس طرح اور کروڑوں اس کے وارث ہوئے اور قیامت تک وارث ہوتے رہیں گے.روزنامه الفضل ربوه ۳۰/جنوری ۱۹۸۰، صفحه ۶،۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ♡♡ خطبہ جمعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ورلی زندگی کو ہی مقصود بنالیا خطبه جمعه فرموده ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں فرمایا :- قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً - الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا - أُولَبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ وَلِقَابِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَزُنَا - ذَلِكَ جَزَا وَهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا أَيْتِي وَرُسُلِى هُزُوًا - (الكهف : ۱۰۴ تا ۱۰۷) تفسیر صغیر میں اس کا ترجمہ یہ ہے.تو (انہیں) کہہ ) کہ ) کیا ہم تمہیں ان لوگوں سے آگاہ کریں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں.( یہ وہ لوگ ہیں ) جن کی ( تمام تر کوشش اس ور لی زندگی میں ہی غائب ہو گئی اور (اس کے ساتھ ) وہ (یہ بھی ) سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے نشانوں کا اور اس سے ملنے کا انکار کر دیا ہے اس لئے ان کے (تمام) اعمال گر کر (اسی دنیا میں ) رہ گئے ہیں.چنانچہ
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء قیامت کے دن ہم انہیں کچھ بھی وقعت نہیں دیں گے.یہ ان کا بدلہ ( یعنی ) جہنم اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے کفر ( کا طریق) اختیار کیا اور میرے نشانوں اور میرے رسولوں کو (اپنی) ہنسی کا نشانہ بنالیا.“ سورہ کہف کی ان آیات میں دس باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں ان لوگوں کے متعلق بتائیں جو سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں اپنے اعمال کے لحاظ سے.انسان مختلف قسموں میں بٹ جاتے ہیں اپنے اعمال کے لحاظ سے.ایک وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں، ایک وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا عرفان نہیں رکھتے ، ایک وہ ہیں جو زندہ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں ، ایک وہ ہیں جن کا زندہ مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، ایک وہ ہیں جو دنیوی لحاظ سے شریفانہ زندگی گزارتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو دنیوی معیار کے مطابق بھی بد زندگی گزارنے والے ہیں.ہر شخص اپنے رب سے اپنے اعمال کے مطابق بدلہ پاتا اور جزا حاصل کرتا ہے اور وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے پیار کو اپنی قوتوں اور استعدادوں کے دائرہ کے اندرا اپنی اس سعی کے مطابق جو وہ اس دائرہ میں اپنے خدا کے حضور مقبول سعی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس کے مطابق وہ بدلہ پاتے ہیں.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو حاصل کرتے ہیں اور قہر کی آگ ان کے حصہ میں ہے لیکن ان میں بھی فرق ہے.کسی پر اللہ تعالیٰ کم غضب نازل کرتا ہے کسی پہ زیادہ کرتا ہے.یہاں یہ مضمون شروع کیا گیا ہے اس بات سے کہ جوسب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں ان کے متعلق ہم تمہیں کچھ بتانے لگے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے اپنے اعمال کے لحاظ سے وہ ہیں کہ جو ایک تو خدا کو پہچانتے نہیں ، اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے.دوسرے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان ظاہر ہوتے ہیں ان کو پہچانتے نہیں اور جس غرض سے وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں وہ غرض ان کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہے.بدقسمت ہیں وہ اس لئے کہ ان کی ساری توجہ، ان کی ساری کوشش، ان کا سارا عمل ان کا مقصود اور ان کی ہمت جو ہے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۰۷ خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء وہ اس دنیوی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس ورلی زندگی کو انہوں نے اپنا مقصود بنالیا.دوسری بات یہاں اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتا ہے ان آیات میں اس زندگی کو ورلی زندگی کو انہوں نے اپنا مقصود بنالیا، اس کے لئے وہ عمل ، کوشش سعی اور جہد کرتے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور اپنی پوری ہمت کے ساتھ اس دنیا کو اور صرف اس دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.دنیا کے اموال کے حصول کے لئے جائز و نا جائز میں کوئی تمیز نہیں کرتے.عزت کی خاطر ، اپنی چوہدر کی خاطر ، اپنی بڑائی کی خاطر وہ ظلم اور انصاف کی کوئی تمیز نہیں کرتے اور جب حقیقت بعض دفعہ سمجھتے بھی ہیں تو ان کی عزت کی بیچ جو ہے اپنی ذاتی دنیوی لحاظ سے جو انہوں نے اپنا ایک وقار جھوٹا بنایا ہوا ہے اس دنیا میں اس کی خاطر وہ حقیقت کو اور صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے اپنے اعمال کے لحاظ سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ور لی زندگی ہی کو اپنا مقصود بنالیا.اسی سے انہوں نے غرض رکھی خدا کو بھول گئے جو خدا تعالیٰ نے آیات ظاہر کی تھیں ان کی اصلاح کے لئے اور جو ہدایت بھیجی تھی مختلف انبیاء کے ذریعے مختلف زمانوں میں یہ اصولی بات یہاں بیان ہو رہی ہے آدم سے لے کے قیامت تک اس کا بھی انہوں نے کوئی خیال نہیں کیا.بس دنیا ہے دنیا ہے، کھانا ہے، پینا ہے،سونا ہے ، ناچ ہے، گانا ہے، گپیں ہیں ، چغلیاں ہیں، بدظنیاں ہیں، اپنی بڑائی کی شیخی ہے، فخر کا اعلان ہے، اپنی جھوٹی عرب توں کی خاطر ہر قسم کا ظلم ہے وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کی برائیاں پھر ایسے شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں چونکہ ہر قسم کی برائی ایسے شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اس لئے سب سے زیادہ گھاٹا پانے والا وہ بن جاتا ہے.اور پھر وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں.دنیا میں آگے نکل رہے ہیں.بین الاقوامی لیڈرشپ انہیں حاصل ہو گئی.بڑی طاقت ہے ایک دنیا کو دھمکی دیں تو آدھی دنیا لرز جاتی ہے کہ کہیں ہمارے اوپر کوئی آفت ہی نہ آجائے اور اس قسم کی فضا انہوں نے پیدا کی ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی اسی چیز کو حسنِ عمل سمجھتے
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۰۸ خطبہ جمعہ ۲۱؍دسمبر ۱۹۷۹ء ہیں جو حقیقی حسن عمل ہے اس سے وہ غافل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صنعا یہ تیسری بات تھی.اور چوتھی بات أُولَبِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِأَيْتِ رَبّھم یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات جو ہیں اس کا یہ انکار کرتے ہیں.قرآن کریم کی اصطلاح میں آیات دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ظاہر ہوتے اور دنیا میں ان جلوؤں کے نتیجے میں کچھ پیدا ہوتا ہے خلق یا آمر کے نتیجے میں یعنی یا تو جو چیز پیدا ہوئی ہوئی ہے اس کی خاصیتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے جلوے ان میں اضافہ کر کے ایک نئی چیز پیدا کرتے ہیں.بڑی کثرت کے ساتھ قرآن کریم نے آیات کے تحت اس قسم کے جلوے جو صفات باری کے ہیں ان کا ذکر کیا ہے اور دوسری وہ آیات ہیں جو انبیاء کے ذریعہ سے اور انبیاء کے فیضان کے نتیجہ میں ان کے متبعین کے ذریعہ سے انسان کی ہدایت کے لئے ، اس کی بہبود کے لئے ، اس کی خوشحالی کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے وہ آیات ظاہر کی جاتی ہیں.اس میں سب سے آگے نکلنے والے ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے معجزات کا انسان شمار نہیں کر سکتا اور وہ تمام باتیں معجزانہ رنگ میں جو ظاہر ہوئیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے وہ بھی آیات ہیں.اسی واسطے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی کے برسنے کا ذکر کرتے ہوئے اسے آیت شمار کیا اور اس پانی سے زمین کو زندہ کرنے کو اس نے آیت کہا اور اس سے کھیتیاں اگانے کو اس نے آیت کہا اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیات باری ہمارے سامنے پیش کیں کلام باری کی شکل میں یعنی قرآن کریم ، اس کے ہر ٹکڑے کو آیت کہا گیا.ساری آیات قرآنی ہیں نا.ہم گنتے ہیں کہ اس سورت کی اتنی آیات ہیں اس سورت کی اتنی آیات ہیں انہیں بھی آیات کہا جاتا ہے.تو یہ بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں قرآن کریم کی اصطلاح میں جن پر آیات کا لفظ بولا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اَخْسَرِینَ اَعمالا اس لئے ہیں کہ یہ انکار کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی ان آیات کا جو خدا تعالیٰ نے اس کا ئنات میں ظاہر کیں اس غرض سے کہ اس کے بندے ان آیات سے ہر قسم کا فائدہ حاصل کریں اور جس غرض کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے وہ
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء وہاں تک پہنچیں.آیت کے جو بنیادی معنی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک ایسی ظاہری علامت ، جو کسی مخفی حقیقت کی طرف انسان کو لے جاتی ہے تو یہ ساری آیات ایک بنیادی حقیقت کی طرف لے جانے والی ہیں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت ہے.تو كَفَرُوا بِایتِ رَبِّهِم خدا تعالیٰ نے جس غرض سے ان آیات کو نازل کیا تھا خواہ وہ مادی دنیا میں جلوے ظاہر ہوئے اس کی صفات کے خواہ وہ روحانی دنیا میں جلوے ظاہر ہوئے اس کی صفات کے انہوں نے ان آیات کا انکار کیا اور پہچانا نہیں اور جلوے اس لئے ظاہر ہوئے تھے کہ لقائے باری انسان کو حاصل ہو اور چونکہ انہوں نے آیات ہی کو نہیں پہچانا ان کا انکار کیا.نہ مادی دنیا کی آیات سے نہ کائنات میں ظاہر ہونے والی آیات سے جو خدا تعالیٰ کی طرف نشاندہی کرنے والی تھیں، ہمیں راستہ دکھانے والی تھیں خدا کی وحدانیت کا نہ ان سے فائدہ اٹھایا نہ خدا تعالیٰ کا کلام جب نازل ہوا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ اس سے فائدہ اٹھایا اور جس غرض سے یہ آیات نازل ہوئی تھیں کہ یہ ان کو بتایا جائے کہ تم بے سہارا نہیں ، تمہارا ایک سہارا ہے، تمہاری پیدائش کی ایک غرض ہے.تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہارا اس ور لی زندگی میں بھی اپنے زندہ خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا ہو تو پانچویں بات ہمیں یہ بتائی کہ وہ انہوں نے انکار کیا خدا تعالیٰ کی لقا سے یعنی وصل الہی اس دنیا میں ممکن ہی نہیں.نہ آیات کو مانا اور پہچانا نہ اس غرض سے واقف ہوئے اور اس کے لئے کوشش کی جس غرض کے لئے ان پر دو قسم کی آیات کو نازل کیا گیا تھا.اس کا نتیجہ ظاہر ہے فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ چھٹی بات یہ ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اعمال، ان کی کوششیں ان کا مقصود جو تھا ان کا تعلق آسمانی رفعتوں کے ساتھ نہیں تھا.ان کا تعلق اس بات سے نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی اس رنگ میں گزاریں کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.زمین کی طرف وہ جھک گئے اور دنیا سے انہوں نے تسلی پالی اور ایک عارضی خوشی جو تھی اس دنیا کی اسی کو سب کچھ سمجھ لیا اور ابدی خوشیوں کو اس عارضی خوشی پر قربان کر دیا.حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ان کے اعمال گر کر اسی دنیا کے ہوکر رہ گئے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۱۰ خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لیکن صرف یہ زندگی تو نہیں.اس کے بعد ایک اور زندگی ہے اور اس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں قیامت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے یعنی مرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَته کہ جو شخص انفرادی طور پر مرے اسی وقت اس کی ایک قیامت ہو جاتی ہے لیکن ایک وہ ہے جب حشر ہوگا اور سارے اکٹھے کئے جائیں گے اور خدا کا پیار حاصل کریں گے یا اس کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ان کے وہ اعمال جو دنیا کے لئے کئے گئے ہوں گے اور جن کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی بے وزن ہوں گے ان کا کوئی وزن نہیں ہوگا ، بے نتیجہ ہوں گے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ، لا حاصل ہوں گے ان سے کچھ حاصل نہیں ہوگا.زندگی کا مقصد تھا کہ خدا کے عبد بنتے ، اس کے پیار کو حاصل کرتے ، ابدی جنتوں کے وارث بنتے وہ ان کے وارث نہیں بنیں گے.یہ ہے جَزَاؤُهُمُ جَهَنَّمُ یہ جہنم ہے یعنی کہا کہ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ دو الْقِيمَةِ وَزْناً قیامت کے دن ہمارا پیارا نہیں حاصل نہیں ہو گا ذُلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ.یہ جہنم ان کی جزا ہے اور اس لئے ہے کہ انہوں نے انکار کیا آیات کا.خدا تعالیٰ نے جو دو قسم کی آیات جیسا کہ میں نے بتایا نازل کی تھیں انسان کی ہدایت کے لئے ایک اپنے ان جلوؤں کے ذریعے جو اس نے کائنات میں کئے اور جن سے اس کی عظمت ثابت ہوتی ہے، جن سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے ہر ذرے کے ساتھ ایک ذاتی اور ہمیشہ رہنے والا تعلق قائم ہے جس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ ایک لحظہ کے لئے اگر خدا تعالیٰ کا یہ قرب نہ ہو اس حَيّ وقیوم کا تو فنا آ جائے اس چیز پر جس سے وہ قطع تعلق کرتا ہے.وہ ہلاکت ہے وہ عدم بن جاتا ہے اس کے لئے.تو چونکہ انہوں نے کائنات میں ظاہر ہونے والے جلوؤں کا انکار کیا اور جو روحانی ارتقاء کے لئے اور روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام اور اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.نوع انسانی کے لئے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کی بھلائی کے لئے اب ایک زندہ نبی کی صورت میں قیامت تک انسانوں میں اپنے روحانی فیوض کے لحاظ سے زندہ ہیں اور موجود ہیں.اس اتنی عظیم کتاب
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۱۱ خطبہ جمعہ ۲۱؍دسمبر ۱۹۷۹ء اتنی عظیم آیات جس کا ایک ایک لفظ جو ہے وہ انسان کو حیران کر دیتا ہے اتنی ہدایتیں، اتنی خوبصورتیاں، محسن، پاک کرنے کی اتنی طاقت ، اتنا جذب ان کے اندر ہے لیکن اس کو پہچانا نہیں انہوں نے.اور جولانے والے تھے یہ ہدایت جن کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ وہ ان کی بھلائی کے لئے ان کی خیر کے لئے اس لئے بھیجا تھا کہ جو اس اُمت کو قائم کریں جس کے متعلق قرآن کریم نے اعلان کیا کہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ خیر امت - أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.نہ اُس محمد ، اُس عظیم ہستی کو صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے پہچانا ، نہ آپ کے متبعین سے فیض حاصل کرنے کی کوئی کوشش کی بلکہ ہنسی کا اور مذاق کا نشانہ بنا یا خدا کی آیات کو بھی اور اس کے رسولوں کو پہلے بناتے آئے اور پھر حمد صلی اللہ علیہ وسلم کو.جب یہ ہے حقیقت ان کی لوگوں کی زندگی کی تو اَخْسَرِینَ اعمالا تو ثابت ہو گیا.خدا کے نزدیک بدترین عمل کے لحاظ سے وہ لوگ ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں جو ایت رم ہے.خدا تعالیٰ نے اس لئے ان آیات کو ظاہر کیا تھا کہ ان کی جسمانی اور روحانی تربیت کرے، ربوبیت کرے ربّ ہے وہ ان کا.اس لئے کیا تھا کہ وہ اس کے نتیجہ میں اس کے پیارکو اس کی رضا کو اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کریں.ایک ابدی جنت ان کے نصیب میں ہو جہاں خیر ہی وہ چاہیں گے اور ہر خیر جو وہ چاہیں گے وہ ان کو ملے گی.بڑی عجیب ہے وہ دنیا جسے ہم آج سمجھ نہیں سکتے ہماری طاقت میں نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ ہماری یہ آنکھ ، نہ ہمارے یہ کان، نہ ہمارا یہ دماغ اسے سمجھ سکتا ہے لیکن تمثیلی زبان میں اشارے اس کی طرف کئے گئے ہیں.وہ اس کی حقیقت کو اس زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو جو وہاں جانے والے حاصل کریں گے ہر آن رفعتوں کے حصول کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ دھندلا سا نقشہ اس زندگی میں بتایا ہے اور پھر یہاں پیار کر کے بتایا ہے کہ اس زندگی میں جب میں پیار کرتا ہوں تمہاری امتحان کی ابتلا کی زندگی میں تمہاری غلطیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں اور گناہوں کے باوجود جہاں ہر قسم کے گناہوں سے خدا تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ پاک کر کے بھیجے گا اس کا تو نقشہ ہی کچھ اور ہوگا.بہر حال یہ ان لوگوں کا بیان ہے ان آیات میں جو اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گرے ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۱۲ خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء اور دعا کرتے رہنا چاہیے اور اپنے عمل سے اور اپنی کوشش سے اور اپنی سعی سے اور اپنی تربیت کے ہر رُخ سے اور اپنی روحانی تڑپ سے اور محبت اور عشق کی راہوں کو اختیار کر کے یہ کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ اس بدترین گروہ میں ہمیں شامل نہ کرے اس گروہ میں بھی شامل نہ کرے کہ جن کے اعمال کچھ بھی تھوڑے سے اس کی نگاہ میں بڑے ہیں.یہاں تو ان کا ذکر ہے نا جو سب سے زیادہ گرے ہوئے اعمال.خدا تعالیٰ اپنی مغفرت کا سلوک ہم سے کرے.ہمیں اس کا پیار حاصل ہو.ہمیں اس کی رحمت کے سائے میں ہمیشہ سکون ملتا رہے روحانی اور ہماری روح ہمیشہ یہ آواز بلند کر رہی ہو رَضِيْتُ بِاللَّهِ رَبِّا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا و بِالْإِسْلَامِ دِینا.اللہ سے ہم خوش ، اسلام سے ہم خوش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے محبوب ہیں ان سے بھی ہم خوش.وہ خدا کے بھی پیارے ہیں اور خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی ان سے پیار کرنے والے ہوں اور ان کے طفیل اور ان کے فیض سے ان نعمتوں کو حاصل کرنے والے ہوں جن کی بشارت اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے لئے دی ہے.آمین ( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۱۳ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۹ء سب سے بہتر ، مفید اور ترقیات کی طرف لے جانے والی کتاب قرآن کریم ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام مردانہ جلسہ گاہ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ علق - اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ - الَّذِى عَلَمَ بِالْقَلَمِ - عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ - (العلق : ۱ تا ۶) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ان آیات کے معنی یہ ہیں.اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.قرآن کو پڑھ کر سنا تارہ کیونکہ تیرا رب بڑا کریم ہے.وہ جس نے قلم کے ساتھ علم سکھایا آئندہ بھی سکھائے گا.اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا.اقرا کے معنے عربی زبان میں دو ہیں.ایک لکھی ہوئی تحریر کا پڑھنا.ہر طالب علم کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے قرآن کریم واقع میں ایک کریم کتاب، حقیقتاً ایک عظیم کتاب اور بلا شک وشبہ ایک مجید کتاب ہے اور حکیم کتاب ہے.اقرا کے تفسیری معنی ہیں کتاب پڑھ کے علم کو حاصل
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۱۴ خطبه جمعه ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۹ء کرو اور سب سے بہتر کتاب اور سب سے مفید کتاب، سب سے زیادہ ترقیات کی طرف لے جانے والی کتاب قرآن کریم ہے.اس لئے جس کتاب کے متعلق خصوصا زور دے کر کہا گیا کہ پڑھو وہ قرآن کریم ہے اور پھر قرآن کریم ہی کے جو سچائیوں پر مشتمل کتب ہیں وہ قرآن کریم ہی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ تفاسیر ہی ہیں.دوسرے معنے ہیں سنو اور پھر اسے دہراؤ.جو سنا ہے اُسے دہراؤ.یہ علم سیکھنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ علم سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت ہے.استاد کہتا ہے، طالب علم سنتا ہے پھر اسے دہراتا ہے.سنو اور دہراؤ.جس طرح سیکھنے کے لئے ضروری ہے اسی طرح سکھانے کے لئے بھی ضروری ہے جو سیکھو اور دہراؤ.سیکھنے کے لئے ، یاد کرنے کے لئے ، اسے دوسروں تک پہنچانے کے لئے بھی دہراؤ.یہ سارے مفہوم اقرا کے اندر آ جاتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس رب کے نام سے جس نے پیدا بھی کیا اور جس نے تمہاری نشو ونما اور ربوبیت کے سامان بھی پیدا کئے پڑھو اور دہراؤ.جو سنا ہے اسے دوسروں کو پہنچاؤ.سناؤ اسے.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.یہ خالق رب جہاں تک اس کا ئنات میں انسان کا تعلق ہے، اس خالق رب نے انسان کو علق سے پیدا کیا.قرآن کریم کی مختلف آیات میں جو انسان کی تخلیق کا ذکر ہے اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ طین سے انسان کو بنایا، گیلی مٹی سے.اس گیلی مٹی کو مختلف مدارج میں سے گزارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے ایسے ذلیل سے مائع قطرے کی شکل دی جو مادر رحم میں پڑتا اور وہاں ایک فرد واحد انسانوں میں سے.وہ اس کا وجود بننا شروع ہو جاتا ہے.پھر رحم مادر میں بہت سے مدارج میں سے وہ گزرتا ہے.پھر پیدائش کے وقت وہ انسان اپنے جسم کے لحاظ سے وہ ایک وجودا اپنی پہلی تکمیل میں ظاہر ہوتا ہے.علق جو ہے خون کا لوتھڑا، ان مدارج میں سے ایک ایسا درجہ ہے ارتقائی مدارج جن میں سے طین گیلی مٹی گزری اور انسان بنا کہ جس میں ایک انقلابی پہلے جو مدارج ہیں ان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو کے عَلق بنا اور پھر یہ مدارج میں سے گزرتا ہوا ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۱۵ خطبه جمعه ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۹ء اور انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے روح پھونکی.اس میں روح پڑ گئی اور وہ ایک جسم اپنی روح رکھنے والا پیدا ہو گیا.تو یہاں ہمیں یہ بتایا گیا کہ انسان کے متعلق بھی اگر علم حاصل کرنا ہے تو پہلی انقلابی تبدیلی سے پہلے جو مدارج ہیں وہ بھی ایسے ہیں کہ جن پر تحقیق کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات اور علامتیں جو خدائے واحد و یگانہ کی طرف لے جانے والی ہیں اس تحقیق کے اندر آپ کو ملیں گی اور جو خون کا لوتھڑا بننے کے بعد مختلف مدارج میں سے یہ خون کا لوتھڑا گزرتے ہوئے انسانی جسم پورا زندہ اور روح والا بنتا ہے ان پر آپ جب تحقیق کریں گے، اس تحقیق پر مطالعہ کریں گے، آپ دوسروں کو سکھائیں گے تو اس میں بھی بہت سی آیات باری جو ہیں وہ آپ کے سامنے آئیں گی.اقرا علم حاصل کرو.سیکھو کتاب سے بھی سن کے بھی ، وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ اور پھر تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ربوبیت کرنے والا ہمارا پیارا خالق جو ہے وہ بڑا شرف رکھنے والا ہے.اس کے شرف کی کوئی انتہا نہیں.وہ اپنی ذات میں بھی شرف رکھتا ہے اور جہاں بھی عزت و شرف آپ کو نظر آتا ہے وہ اسی کی طرف رجوع کرتا ہے.اور یہاں یہ بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی کے علوم میں بہت زیادہ ترقی ہوگی اور انسان کی علمی ترقیات جو ہیں ان کے وسیع میدان کھولے جائیں گے اور یہ کام جیسا بعثت سے پہلے ہوتا تھا صرف اقرا سننے کے معنے میں اور آگے سنانے کے معنے میں وہاں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے علاوہ اس سے بڑھ کے ایک اور چیز آ جائے گی کہ قلم سے زیادہ کام لیا جائے گا اور جب قلم سے علم سکھائے گا اللہ تعالیٰ تو یہ جو قلم ہم لکھتے وقت ہاتھ میں پکڑتے ہیں، کانے کی کلک بھی ہے پرانی طرز کی.نب بھی استعمال ہوئے.اب بال پوائنٹ بھی بن گئے.سکتے کی بھی پنسلیں بن گئیں.وہ بھی قلم ہے.سرخ بھی بن گئی اور بہت ساری بڑی اچھی قلمیں بن گئیں جو عرب گھوڑے کی طرح بہت دوڑنے والی ہیں.یہ تو نہیں سکھاتی.قلم ذریعہ بنتی ہے ایک ایسی چیز کا جس نے دنیا میں علوم کا انتشار پیدا کر دیا اور وہ ایک کتاب ہے.قلم لکھنے کا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۱۶ خطبه جمعه ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء کام کرتی ہے، قلم کچھ ظاہر کرنے کا ، کچھ جو خیالات ہیں لکھنے والے کے ان کو قرطاس پر ظاہر کرنے کا کام کرتی ہے قلم.پھر وہ اوراق جو ہیں بڑے بلند علوم کے.بڑی اخلاقیات پر.قرآن کریم کی تفاسیر کی گئیں اور قرآن کریم کے جو خزانے ہیں وہ تو نہ ختم ہونے والے ہیں.چودہ سو سال میں ہمارے بزرگ علماء، اولیاء اللہ تعالیٰ جو معلم حقیقی ہے اس سے سیکھا اور پھر قلم سے، زبان سے بھی پہلا جو معنی ہے اِقرا کا لیکن قلم سے بھی انہوں نے کام لیا اور کتب میں وہ علوم، اسرار روحانی جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے حاصل کئے تھے لوگوں تک پہنچائے اور لکھوکھہا ایسی کتابیں دنیا میں لکھی گئیں جو انسان کی فلاح اور بہبود اور اس کے آرام اور سکون اور اس کے قلبی اطمینان اور اس کی ذہنی خلش کو دور کرنے والی اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو دکھانے والی ، اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں انسان کی مدد کر نے والی تھیں.تو اعلان کیا گیا کہ ایک انقلاب عظیم سیکھنے سکھانے میں بعثت نبوی کے ساتھ شروع ہورہا ہے اور وہ الَّذِى عَلَمَ بِالْقَلَمِ خدا تعالیٰ نے اعلان کیا کہ اب میں قلم کے ذریعہ سے علم کے میدانوں میں انسان کی زندگی میں ایک انقلاب بپا کروں گا اور کتا میں لکھی جائیں گی اور کائنات کے جو حقائق ہیں، حقائق زندگی جو ہیں انسان کے متعلق ، دوسری آیات ربانی کے متعلق وہ لکھنے والا ایک جگہ پر ہوگا اور اس کے خیالات پہنچ جائیں گے.کتابوں کے ذریعہ ہزا رہا ہزار ہا میل پر.الَّذِی عَلَم بِالقلم قلم کے ساتھ ان علوم کو رائج کرنے کے زمانے کا اعلان کیا گیا اور یہ بتا یا گیا کہ یہ جو ہے یہ صرف پرانی باتیں نئے نسخوں میں نئی کتابوں میں نئی تالیف میں لکھی جا کر دنیا میں نہیں پھیلیں گی.عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ اور ہر صدی اس بات پر گواہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان عظیم جو کیا تھا کہ عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَم يَعْلَمُ.کہ انسان کو اس نے وہ علم سکھا یا جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا حقیقتا صحیح ہے ہر صدی میں نئے علوم نکلے روحانی بھی اور مادی لحاظ سے بھی اور انسان ترقی کرتا ہوا اس زمانے تک پہنچ گیا جس کے متعلق یہ کہا گیا تھا..اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا - (الزلزال : ۲ ، ۳) کہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمین -
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۱۷ خطبه جمعه ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۹ء اپنے چھپے ہوئے خزانوں کو باہر نکال کے پھینک رہی ہے بڑی کثرت کے ساتھ نئے سے نئے علوم جو ہیں وہ پیدا ہورہے ہیں.میرا خیال ہے کہ ہر ماہ ساری دنیا کے نئے جو Points معلم اور محقق جو ہے، نکالتا ہے دنیوی میدانوں میں وہ بھی ہزاروں لاکھوں ہیں اور ہر روز ہی کہیں نہ کہیں خدا تعالیٰ روحانی نشان اپنے فیضانِ نبوی کے نتیجہ میں ظاہر کر رہا ہے اور دنیا علم کے اس میدان میں آگے چل رہی ہے کہ جب یہ میدان آخر میں اپنی منزل کو پہنچتا نظر آئے گا انفرادی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں تو اس وقت انسان اس حقیقت کو پالے گا کہ اللہ ہی اللہ ہے.مولا بس.خدا تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے وہ اس کائنات کی بنیاد بنتا ہے اور اسی پر تمام علوم کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اور اسی سرچشمہ سے ہر نور نکلتا ہے.اللہ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے اور ہماری نسلوں کو کہ زیادہ سے زیادہ ہم ان حقائق کو حاصل کرنے والے ہوں جو واقع میں حقائق ہیں.جن میں کوئی کھوٹ نہیں.جن میں کوئی جھوٹ نہیں.جن میں کوئی ملاوٹ نہیں.جن میں کوئی اندھیر نہیں.جن میں کوئی ظلمات نہیں.وہ جونور سے نکلے ہمارے اندر نور پیدا کرے اور ہمارا ملاپ کر دے اس وجود کے ساتھ جو نور ہی نور ہے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۱۹ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اور کیا اُسی کی اتباع ہم نے کرنی ہے خطبه جمعه فرموده ۴ /جنوری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہر سال پہلے مہینہ میں میں وقف جدید کے سالِ نو کے آغاز کا اعلان کیا کرتا ہوں سو میں آج کر رہا ہوں.وقف جدید بنیادی طور پر خالصتاً تربیتی ادارہ ہے اور اس کے سپرد یہ کام ہے کہ انسانیت کے آداب جماعتوں میں جو معلم ہیں وہ سکھائیں اور جو اسلام نے بلند اخلاق ہمیں سکھائے جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے اس تعلیم کے مطابق اسلامی اخلاق کے بلند معیار پر جماعت کو لے جانے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اسلام وحشی کو انسان بناتا ہے، انسان کو با اخلاق بناتا ہے، با اخلاق کو روحانی رفعتیں عطا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار تک لے کے جاتا ہے.اگر انسانیت نہ ہو تو روحانیت کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.انسان دوسرے جانوروں سے مختلف ہے بنیادی طور پر.دوسرے جانوروں میں بھی ایک حد تک سیکھنے کی قوت اور استعداد ہے.انسان میں سیکھنے کی بہت حد تک قوت واستعداد ہے.اسلام وحشی کو ، کرختگی کو، کرختگی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۲۰ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء والے انسان کو، وحشت دور کر کے نرمی اور رفق پیدا کر کے اور پالش کر کے اور حسن پیدا کر کے ابتدائی طور پر اسے صحیح معنی میں انسان بناتا ہے.چھوٹی سی چیز ہے کھانا کھاتے وقت دوسرے کے احساس کا خیال رکھو.اس کا بلا واسطہ روحانی بلندیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن بالواسطہ ہے کیونکہ جب تک انسان ، انسان نہ بنے روحانی ترقیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بیچ میں مدارج ہیں اور ان کا میں جان کے ذکر نہیں کر رہا.ضرورت نہیں.کھانا کھاتے وقت دوسروں کا خیال رکھو.یہ وحشت جو انسان کی ہے اس کو دور کرتا ہے.جانور کھاتے وقت دوسرے کا خیال نہیں رکھتا.میں نے دیکھا ہے کہ گھوڑی اپنے بچے کا بھی خیال نہیں رکھتی.میں بعض دفعہ باہر نکلتا ہوں تو اپنے ہاتھ سے برسیم ان کو دیتا ہوں.تو اگر ساتھ گھوڑی کا بچہ ہو تو حالا نکہ گھوڑی کے منہ میں لقمہ ہوتا ہے.میرے ہاتھ سے جو اس نے لیا، جب بچے کی طرف کرتا ہوں تو وہ منہ مار کے اس کو بھی چھینے کی کوشش کرتی ہے.انسان کو جہاں یہ کہا کہ دائیں ہاتھ سے کھا وہاں یہ کہا کہ اگر اکٹھے کھا رہے ہو یا ویسے بھی تو ممّا يليك جو تیرے سامنے ہے، اسے کھا.یہ نہیں کہ ادھر اُدھر ہاتھ مار کے اور پسند کی بوٹیاں، اگر پلاؤ کا تھال ہے تو بچن کے ایک شخص کھانا شروع کر دے اور دوسرا شخص جو ہے وہ ہاتھ ہی کھینچ لے.ایک ہماری عربی کتابوں میں واقعہ آتا ہے وہ اس وقت مجھے یاد آیا.ایک شخص نے لکھا ہے.ہڈ وسردار تھا اس نے لکھا کہ میری بیوی میرے سامنے کھانا رکھتی تھی تو میری بیٹی ساتھ میرے کھایا کرتی تھی.وہ کہتا ہے اتنی ذہانت اس میں اور اتنی شرافت اس میں اور ادب انسانی سے واقف اور باپ کا خیال رکھنے والی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس لقمے کی طرف میری نگاہ اٹھی ہو اس کا ہاتھ اس طرف اٹھ گیا ہو.پھر وہ بڑی ہوئی بیاہی گئی اپنے سسرال چلی گئی اور اس کی بجائے اس کا چھوٹا بھائی میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا تو اس کا یہ حال تھا وہ کہتا ہے کہ جس لقمے کی طرف میری نظر اٹھتی تھی اس لقمے کی طرف اس کا ہاتھ اٹھتا تھا.یہ مثال بتاتی ہے کہ جب پالش ہو جائے ایک حسن، آداب کہتے ہیں اس کو ، آداب آجائیں، صحیح ، تو فرق پڑ جاتا ہے انسان انسان میں.ایک حسن پیدا ہوجاتا ہے.وہ تیار ہوجاتا
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۲۱ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء ہے اخلاقی میدانوں میں آگے بڑھنے کے لئے.جس نے آداب نہیں سیکھے وہ اخلاق نہیں سیکھ سکتا جس نے اسلامی اخلاق نہیں سیکھے وہ اسلام کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق روحانی میدانوں میں آگے نہیں بڑھ سکتا آسمانی رفعتوں کو حاصل نہیں کر سکتا.عام طور پر ہمارا جو شاہد مبلغ ہے وہ گہرے فلسفوں میں تو جاتا ہے اسلام پر اگر اعتراض کوئی کرے غیر مسلم تو بڑے اچھے جواب دیتا ہے.کچھ اس نے سیکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ اس میدان میں اللہ تعالیٰ سے وہ سیکھتا ہے عین اس وقت جب وہ اعتراض کو سنتا ہے لیکن بہت کم ہیں جو اس طرف توجہ کرتے ہیں کہ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ جماعت کو اسلام کے بتائے ہوئے جو آداب ہیں وہ سکھا ئیں مثلاً مسجد ہے اس کے آداب ہیں.ان کا اخلاق کے ساتھ تعلق نہیں آداب ہیں مسجد کے ، وہ آنے چاہئیں ، آداب ہیں مجلس کے وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں اس مجلس کے جس میں امام وقت بیٹھا ہوا ہو وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں کھانے پینے کے وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں کپڑا پہننے کے وہ آنے چاہئیں.اب یہ کہ پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالو اور بعد میں بایاں ان کا اخلاق کے ساتھ تعلق نہیں ، آداب کے ساتھ تعلق ہے.حقیقت بڑی پیاری ہے.اس کے پیچھے لیکن تعلق اس کا آداب کے ساتھ ہے.کپڑا پہنے کپڑا اتارنے کے آداب ہیں.ہزار قسم کے آداب اسلام نے سکھائے.ایک تو وقف جدید والوں کو چاہیے کہ وہ آداب کے اوپر بھی کتابیں لکھنی شروع کریں اور میں بتا یہ رہا ہوں کہ زیادہ ذمہ داری معلمین کی آداب سکھانے پر ہے کیونکہ علمی لحاظ سے ان کو ہم نے اس طرح تعلیم نہیں دی اسلام کی قرآن کریم کی تفسیر کی جس طرح مبلغین کو ہم دیتے ہیں یا جو لوگ حضرت مسیح موعود کی کتب کو بار بار پڑھنے والے ہیں خواہ وہ شاہد نہیں ان کو جو علم ہے وہ وقف جدید کے معلم کو نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وقف جدید کے معلم کی افادیت نہیں.وہ عام موٹے موٹے مسائل بھی بتا تا ہے لیکن بنیادی طور پر اس نے پالش کر کے ان کو انسان بنانا ہے.وہ انسان جو مسلمان کی حیثیت سے جب دوسروں کے سامنے آتا ہے تو دیکھنے والی نگاہ اس میں اور غیر مسلم میں ایک فرق پاتی اور محسوس کرتی ہے لیکن وضو کا طریق نماز میں کھڑے ہونے کا طریق، ایک نماز پڑھنے کی جو سنت نبوی ہے،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۲۲ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء ایک بڑی لمبی حدیث ہے غالباً بخاری میں ہے جہاں تک مجھے یاد ہے بچپن میں میں نے پڑھی تھی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تقسیم اوقات کیا ہے قیام میں ، رکوع ، سجدہ ، قعدہ، بین السجدتین، جو ہیں اس میں ، اس میں بڑی تفصیل سے ذکر ہے کہ وقفوں کی نسبتیں کیا تھیں وقت کے لحاظ سے جہاں ضرورت ہے اس کی وہ ہمیں بتادی.ایک تو جو تلاوت کی جاتی ہے یا جس کی اجازت دی گئی ہے جتنی لمبی تلاوت کی اس نے وقت بتایا جو دعائیں ہیں انہوں نے وقت بتایا.اس کا ایک حصہ تصوف کا رنگ ، عشق کا رنگ، مستی کا رنگ بھی اختیار کرتا ہے.ایک ہے دین العجائز ، موٹی موٹی باتیں ہیں.موٹی موٹی سمجھ والے آدمی جو ایک عام مسلمان کا معیار ہے لیکن جب میں ایک عام مسلمان کا معیار کہتا ہوں تو میں کوئی گری ہوئی چیز کا ذکر نہیں کر رہا.وہ عام مسلمان کا معیار بھی آسمانوں کی رفعتوں پر ہمیں نظر آتا ہے.کوئی غیر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو یہ مسائل بھی وہ بتاتے ہیں آداب بھی انہیں بتانے چاہئیں.اور ان کا میں نے بتایا کہ اصل کام تو آداب سکھا نا موٹے موٹے پھر مسائل بتانا ہے اور ضرورت اور اہمیت بڑی ہے.میرے پاس خط آتے ہیں ، جی ! ہمارے پاس ایک سال معلم رہا اب کہیں اور بھیج دیا گیا ہے ہمیں اس کی ضرورت ہے.یہ تو درست ہے کہ ایک سال آپ کے پاس رہنے کے بعد بھی آپ کو ضرورت ہے.ہر وقت وہاں رہنا چاہیے لیکن اس میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیں کہ آپ کے پاس ایک سال رہنے کے بعد جو آپ کی ضرورت ہے اس سے زیادہ اس دیہاتی جماعت کی ضرورت ہے جہاں ایک سال بھی نہیں رہا وہ.رہا ہی نہیں ایک دن بھی.اس واسطے وہ بدل کے بھیجنے پڑتے ہیں.اگر جتنی جماعتیں پاکستان میں ہیں اتنے معلمین ہوں یا اس سے دُگنے ہوں کیونکہ ایک بھی بعض دفعہ نہیں سنبھال سکتا گاؤں کو.کام کی زیادتی کی وجہ سے، تو پھر تو ٹھیک ہے.پھر آپ کہیں کہ جی! ہم سے لے لیا گیا.ہمیں دیں لیکن اگر وقف جدید کے معلم اپنی تعداد میں تھوڑے اور یہ خدا کے فضل سے بڑھتی ہوئی جماعت اپنی تعداد میں اس کے مقابلے میں بہت بڑی اور ہر آن بڑھنے والی ہو تو معلمین کی تعداد بھی ہر آن بڑھنے والی چاہیے.اگر ان کی تعداد نہ بڑھے.ان کی تعداد تو اُس نسبت سے زیادہ بڑھنی چاہیے کیونکہ وقفہ بڑا ہے یعنی اگر نوسو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۲۳ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء جماعتیں فرض کریں یا ایک ہزار جماعت ہو اور دو سو معلم ہو تو ان کی تعداد تو اس نسبت سے بڑھنی چاہیے کہ ایک ہزار بن جائے ، اس سے قبل کہ جماعتوں کی تعداد ہزار کی بجائے گیارہ سو بن جائے تو ویسے تو جب وہ گیارہ سو ہو جائے تو پھر گیارہ سو ہونے چاہئیں.جب دو ہزار بن جائے تو دو ہزار بننے چاہئیں.جب ایک لاکھ بن جائے تو ایک لاکھ معلم ہونا چاہیے آپ کے پاس.اس دقت کے پیش نظر میں نے ایک آنریری معلم عام کی اصطلاح وضع کر کے کام شروع کروایا تھا لیکن اس کے اندر بعض قباحتیں بھی پیدا ہوگئیں اور ضرورت بھی پوری نہیں ہوئی.اس واسطے آج میں یہ اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جن کو ہم اعزازی معلم کہتے رہے ہیں ان کو آئندہ سے اعزازی معلم نہیں کہیں گے بلکہ معلم درجہ دوئم ان کو ہم کہیں گے.معلم درجہ اول اور معلم درجہ دوم ان کا ہو گا لیکن اس کی طرف جماعت نے توجہ نہیں کی.میں نے کہا تھا کہ معلمین کا کافی تعداد میں فوری طور پر حاصل ہونا قریباً ناممکن ہے اس واسطے جو پرانا طریقہ تھا شروع اسلام میں رائج ہوا کہ ہر علاقے سے علاقے کو سنبھالنے کے لئے اور ہر شہر اور قصبہ سے اس کو سنبھالنے کے لئے آدمی ملیں.اسی سے یہ نتیجہ عقل نکالتی ہے اس شہر اور قصبہ کو سنبھالنے کے لئے آدمی آنے چاہئیں تا کہ تَفَقُهُ فِي الدِّين حاصل کریں اور جو کام معلم کا ہے وہ جا کے کریں.یہاں ان کو تین مہینے کا غالباً نصاب تھا ان کا لیکن کتابی نصاب کی طرف توجہ دی گئی اور خود ان کی اپنی تربیت اور ان کے اپنے مزاج کو بدل دینے کے لئے کوشش نہیں کی گئی.جو آتا ہے جس کو درجہ دوم کا اب ہم معلم کہیں گے اس کی ذہنیت ایک معلم کی ہونی چاہیے.وہ اتنخواہ نہیں ہے وہ جا کے اپنا کام کرے گا لیکن خالی وقت میں جب مسجد میں آئے گا اس کو ابتدائی آداب اسلام موٹے موٹے مسائل جو ہیں وضوکس طرح کرنا ہے اور نماز کس طرح ادا کرنی ہے وغیرہ وغیرہ موٹے موٹے مسائل سے اس کو آگا ہی ہوگی لیکن اس کے اندر یہ جذ بہ اگر ہم پیدا نہیں کرتے کہ اس نے جاکے سکھانا ہے اور جہاں کہیں علم کی کمی کے نتیجہ میں عمل صالح پر دھبہ لگ رہا ہے اس کو دور کرنا ہے.علم نہ ہو تو دھبہ لگ جاتا ہے نا.وہ مثال تو صادق پوری نہیں آتی لیکن جب ۱۹۶۷ء میں میں نے اعلان کیا کہ مسجد تو خدا کا گھر ہے اس کے دروازے ہر مؤحد کے لئے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے کے لئے کھلے ہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۲۴ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء تو افتتاح کے معاً بعد جمعہ تھا تو بتانے والوں نے بتایا کہ ویسے مسجد میں بھی کافی تھے شاید کئی سو آدمی ہوں ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا لیکن ان کو علم نہیں تھا کہ نماز پڑھتے کس طرح ہیں.اس واسطے جب ہم رکوع میں گئے تو انہوں نے اِدھر اُدھر بھی دیکھا اور معلوم کر لیا کہ یہ کس طرح رکوع کر رہے ہیں.اسی طرح ادھر اُدھر دیکھتے رہے وہ.لیکن ہم تو نماز میں جب داخل ہو جائیں یعنی نماز شروع ہو جائے تو اس وقت اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے.وہ جو ان کی غلطی تھی وہ عدم علم کی وجہ تھی.بہت ساری ایسی چھوٹی یا بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں اس لئے نہیں کہ نیت میں فتور ہے اس لئے کہ علم میں نقص پایا جاتا ہے.غلطی ہو جاتی ہے ان کو اگر یہ جذبہ ہی نہیں کہ ہم نے جائزہ لیتے رہنا ہے کہ لاعلمی میں جہالت کے نتیجہ میں کوئی ایسی بات کوئی احمدی مسلمان تو نہیں کر رہا جو اسے نہیں کرنی چاہیے تب تو فائدہ ہے ان کا.جو میں نے کہا کہ خرابی پیدا ہوگئی وہ میری طبیعت پہ یہ اثر ہے سارے نہیں شاید سو میں سے ایک ہوگا اعزازی معلمین میں سے جن کو پہلے اعزازی کہتے تھے جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ آنریری معلم تو لکھنا شروع کر دیا لیکن اپنے کام کے ساتھ آنریری معلم کے کام کا سو میں سے ایک حصہ بھی نہیں لگایا تو وہ یہ کوئی آنریری ڈگری اعزازی ڈگری نہیں تھی جو ان کو دی گئی تھی بلکہ یہ اعزاز ان کو جماعت کی طرف سے ملا تھا کہ وہ معلمین کی طرح اپنی جماعت میں اپنے گاؤں میں کام کریں اور دین کی واقفیت لوگوں میں پیدا کریں اور خدمت کا جذبہ ان کے اندر ہو اور جو اسلام کے اصول ہیں ان پر اپنی جماعت کو چلائیں.یہ آداب جو ہیں انسانیت کے اور اخلاق جو ہیں اسلامی ، اس سے پہلے صفائی ضروری ہے.عقیدہ کی صفائی یعنی بد عقائد کو دور کر کے عقائد صحیحہ سے واقفیت حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنے کی یا ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنا اور عزم کرنا بدعات کے خلاف جہاد بڑا ضروری ہے.اس کے بغیر تو شاید کچھ معجون مرکب بن جائے بدعات کا اور اسلامی اخلاق کا لیکن اسلامی اخلاق صحیح معنی میں قائم نہیں ہو سکتے.بدعات کے خلاف جہاد جو ہے اس کی بھی بڑی ذمہ داری، اصل ذمہ داری تو ساری جماعت پر ہے لیکن کافی حد تک یہ ذمہ دار ہیں معلم وقف جدید کے ان کو ایسی باتوں سے بھی آگاہ ہونا چاہیے.بڑے بڑے آدمی بھی غلطی کر جاتے ہیں.ایک غیر ملک میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۲۵ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء ہمارے ہیں نمائندہ انہوں نے تعویذ گنڈا وہاں شروع کرد یا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ لیکن جب جماعت کو علم ہوا تو ان کو سمجھانے کے لئے انتظام کیا گیا ہے تو بدعات کو دور کر کے اخلاق شنیعہ کو دور کر کے اخلاق فاضلہ قائم کرنا اور بلند اسلامی اخلاق جماعت میں پیدا کرنا یہ ساری جماعت کا فرض ہے وقف جدید کا بھی فرض ہے.جو بدیاں ہیں اور جن کی طرف اس لئے تو جہ نہیں دی جاتی کہ شاید چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں کوئی حرج نہیں.اول تو کوئی بدی بھی چھوٹی نہیں.اگر ایک چھوٹا ساعمل مقبول ہو جائے وہ انسان کو جنت میں لے جاسکتا ہے تو ایک چھوٹا سا گناہ جو خدا تعالیٰ کے قہر کو بھڑ کا دے وہ جہنم میں بھی لے جاسکتا ہے.ہمیں اپنی عقل سے کام لینا چاہیے.چونکہ وقف جدید کے کام کے متعلق میں اس وقت بات کر رہا ہوں بعض باتیں جو میرے علم میں آئیں ان میں سے ایک کو میں اس وقت لیتا ہوں اور وہ ہے بعض لوگوں میں گالی دینے سب وشتم کرنے اور لعنت بھیجنے کی بدعت اور سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ.نعوذ باللہ.نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو اور تو کوئی کام نہیں ہے صرف اس انتظار میں بیٹھتا ہے کہ ہم کسی کے خلاف بد دعا کریں اور وہ فوراً اس کے مطابق دنیا میں اپنی تقدیر کو حرکت میں لائے اور اس کے اوپر اس کا غضب نازل ہو جائے.اس کے متعلق میں مختصراً کہنا چاہتا ہوں کہ ساری جماعت یہ عہد کرے کہ کسی پر لعنت کوئی شخص نہیں بھیجے گا.نہ غیر انسان پر نہ انسان پر.زمیندار جو ہیں وہ اپنے بیلوں کو گالیاں دیتے ہیں مر جائیں.توں ایہہ ہو جائے.تیرے اوپر خدا دا غضب.خوامخواہ غصہ ایک بے زبان حیوان کے اوپر اس کو تو نقصان نہیں پہنچے گا لیکن تمہیں گناہ گار کر گیا وہ تمہارا بیل.اتنی اہمیت دی اس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک سفر میں ایک اونٹ پر قومی سامان لدا ہوا تھا.تو ایک دو حدیثیں ہیں ایک میں مالک کا ذکر ہے ایک میں مالکہ کا ذکر ہے.اس کے منہ سے نکلا یہ کہ خدا کی لعنت ہو تجھ پر.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں آواز پڑی آپ نے کہا اس اونٹ سے اس سامان کو اتار دو اور یہ اونٹ جو ہے یہاں سے نکال دو میرے قافلے سے اور آگے کبھی اس کے اوپر مسلمان کا سامان نہیں لا دا جائے گا.ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسی طرح آوارہ پھرتا رہا یہ اونٹ ، اور
خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۲۶ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جو آواز تھی اس کو وقت کی اُمت مسلمہ نے اس طرح یا درکھا کہ کسی نے بھی اس کو پکڑ کے اس کے اوپر پھر اپنا سامان نہیں لا دا.آپ نے کہا پھر اگر تم ملعون اس کو کہتے ہو تو اُمت مسلمہ میں کسی ملعون کی گنجائش نہیں ہے، چاہے وہ انسان ہو چاہے وہ حیوان ہو تو یہ معمولی چیز نہیں ہے.ابو ہریرہ سے روایت ہے.صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور فرمایا اس کے جواب میں کہ بعض لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! مشرکین پر بددعا کریں.أدْعُ عَلَى الْمُشْرِكِينَ تو آپ نے جواب دیا انّي لَمْ ابْعَثْ لَعَانًا میں دنیا کی طرف لعنتیں بھیجنے کے لئے مبعوث نہیں ہوا وَ إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةٌ میں تو رحمتوں کے ڈھیروں ڈھیر لے کے انسان کی طرف آیا ہوں.لعنت کا لفظ ویسے بھی بڑا ہی بھیانک معنی رکھتا ہے حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف جو بعض لوگ لعنت کو منسوب کرتے ہیں اس سلسلہ میں لعنت کے عربی لغت کے لحاظ سے جو معانی اور مفہوم ہیں ان کو بڑی بسط سے کھول کے شرح کے ساتھ بیان کیا ہے.بہت لمبا ہے میں اس وسعت کے ساتھ یہاں نہیں بتاؤں گا آپ کو.لعنت کے معنی ہیں دھتکارنا.ناراض ہو کر دور کر دینا.آخرت میں سزا دینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بھی لعنت ہے اور دنیا میں جو شخص ملعون ہو خدا کی نگاہ میں رحمت سے محروم کیا جانا اور مقبول اعمال کی تو فیق اسے نہ ملنا اور آرام سے کہہ دیا کہ خدا کی لعنت ہو تم پر.جس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس دنیا میں خدا کی رحمت سے تم محروم رہو ہمیشہ اور تمہیں کبھی مقبول اعمال کی توفیق نہ ملے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لعنتیں بھیجنے کے لئے نہیں آیا.میں رحمتوں کے سامان پیدا کرنے کے لئے آیا ہوں.تو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اور کیا اسی کی اتباع ہم نے کرنی ہے جو آپ کے ماننے والے اور متبعین کہلاتے ہیں.یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اپنے متعلق ہے اور یہ اُسوہ ہیں ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم.مومن کے لئے بھی آپ کا ارشاد ہے.ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:.قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَغَانًا.
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۲۷ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء ترمذی کی حدیث ہے کہ مومن جو ہے وہ لعنتیں بھیجنے والا نہیں ہوتا.وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے رحمتوں کو اکٹھا کرنا کچھ اپنے لئے کچھ اپنے ماحول کے لئے اور اس فیضان کو وہ پھیلاتا ہے.پھر ترمذی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَانِ وَلَا اللَّغَانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِی ءِ کہ مومن جو ہے وہ.طعان جو ہے اس کے معنے ہیں عیب جو عیب گیر عیب لگانے والا.مومن جو ہے وہ.دوسروں کے عیب کی تلاش میں نہیں رہتا عیب پکڑتا نہیں دوسروں کے، اپنی فکر رہتی ہے اس کو اور عیب لگانے والا نہیں ہے وہ.یہ تینوں معنے اس لفظ کے اندر آتے ہیں.طقان کے معنی میں.تو مومن آپ نے کہا ایسا نہیں ہوتا کہ دوسروں کے عیب دیکھے.اپنے عیب دیکھو اپنا محاسبہ کرو اور استغفار کرو اور خدا کی پناہ مانگو اس سے مدد چاہو کہ تمہارے عیب دور ہوجائیں.دوسروں کے عیب دیکھ کے تمہیں کیا خوشی حاصل ہوتی ہے.آپ نے فرمایا لعنت نہیں کرتا ایک مومن.جس کے معنے میں ابھی بتا چکا ہوں.وہ بددعائیں دینے والا وہ کو سنے دینے والا وہ خیر کی بجائے بدی چاہنے والا وہ سنت نبوی سے احتراز کرنے والا اس پر عمل نہ کرنے والا نہیں ہے مومن.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیر ہی خیر تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں ایک وقت میں یہ ارادہ کیا کہ طائف شہر جو چالیس میل پر مکے سے ہے وہاں جا کے تبلیغ کریں ان کو.شاید وہاں کوئی رجل رشید مل جائے جس پر اثر ہو آپ کی تبلیغ کا.قریباً دس دن وہاں ٹھہرے اور جہاں جاتے تھے وہاں بات سننے سے انکار کر دیتے تھے.ایک بہت بڑے رئیس کے پاس گئے اس نے بات سننے سے انکار کیا اور اس نے کہا کہ میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ آپ ہمارا شہر چھوڑ کے چلے جائیں.وہ مشورہ نہیں تھا.وہ دھمکی تھی.جب آپ نے دیکھا یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں آپ باہر نکلے تو شہر کے اوباش اور غنڈے جو تھے وہ ان رؤوسائے طائف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیئے.جو زبان سے ایذا بھی دے رہے تھے اور جو ہاتھ سے ایذا بھی دے رہے تھے پتھر بھی پھینک رہے تھے.آپ زخمی بھی ہوئے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۲۸ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء کہ انہوں نے کچھ سوال کئے تو آپ نے فرمایا کہ اس موقع پر ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے یہ کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ جو آپ کو پہاڑ نظر آرہے ہیں میں ان کے اوپر ہوں متعین فرشتہ کہ اگر آپ طائف کے لئے بددعا کریں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو یوں اکٹھا کردوں، ان کے اوپر ، اور یہ پس جائیں جس طرح چکی میں چیز پیسی جاتی ہے.آپ نے کہا نہیں میں بددعا نہیں کروں گا ان کے لئے.اس لئے کہ یہ نسل آگے چلانے والی جنس ہے ، نوع ہے.یہ نسل ہے، اس کے بعد ایک انگلی نسل پیدا ہوگی اور ان میں بڑے فدائی اسلام کے پیدا ہوں گے تو آنے والی نسلوں نے اس ظالم نسل کی حفاظت کر لی اس وقت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اذن دیا کہ بددعا کرو اور میں قبول کروں گا.حکم نہیں دیا.اذن دیا کہ بد دعا کرو میں قبول کروں گا.اس اذن کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کی کہ اے خدا! تیرے بندوں کے خلاف میں بددعا نہیں کروں گا.تو جس کو اذن ہی نہیں، جس کو انذار ہے جو ابھی ہم دیکھیں گے وہ کیسے جرات کر سکتا ہے.یعنی عقلاً نہیں کرسکتا، کر جاتے ہیں کئی لوگ.جس کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچی اور میں یہ باتیں کر رہا ہوں آپ کے ساتھ.خدا کے بندوں پر لعنت بھیجنا شروع کر دیا کو سنا شروع کر دیا انہیں.طبرانی میں بحوالہ الترغیب والترھیب یہ روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ماحول ایسا تھا کہ اگر کسی شخص کے متعلق ہمیں یہ علم ہو جاتا کہ اس نے اپنے کسی دوسرے بھائی پر مسلمان مومن پر لعنت بھیجی ہے کلمہ اس کے منہ سے نکلا ہے رَأَيْنَا اَنْ قَدْ آتَى بَابًا مِّنَ الْكَبَائِرِ تو اسے ہم چھوٹا گناہ نہیں سمجھتے تھے کبیرہ گناہ سمجھتے تھے لعنت کرنا ، گالی دینا، کوسنا کہ خدا تجھ پر لعنت کرے تجھ پر عذاب نازل کرے یہ کرے وہ کرے.یہ کبائر میں سے ہے معمولی بات نہیں ہے.اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے.سنن ابی داؤد میں یہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوسروں پر لعنت نہ بھیجا کرو.یہ کہہ کر تجھ پر اللہ کی لعنت پڑے یا یہ کہہ کر کہ خدا کا غضب تجھ پر نازل ہو.یعنی وہ بھی لعنت میں ہی شامل کیا ہے اس کو یا یہ کہہ کر کہ تو جہنم میں جائے.
خطبات ناصر جلد ہشتم جس پر ۵۲۹ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص دوسر.پر لعنت بھیجتا ہے تو د واعنت جو ہے تمثیلی زبان میں آپ نے بات کی وہ جاتی ہے اُس شخص کے پاس پر لعنت بھیجی گئی ہے اور اگر اس شخص میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے پہلے ہی کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ملعون ہے تو یہ لعنت بھی اس کو پہنچ جاتی ہے لیکن اگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تو وہ لعنت خدا سے یہ کہتی ہے کہ اے میرے رب وُجهت إلى فُلَانٍ مجھے فلاں کی طرف بھیجا گیا ہے لعنت کہتی ہے زبانِ حال سے فَلَمْ أَجِدُ فِيهِ مَسْلَگا لیکن وہ تو لعنت کا مستحق نہیں مجھے تو کوئی رستہ نظر نہیں آتا کہ لعنت وہاں اس کے اوپر چمٹ جائے وَلَمْ أَجِدُ عَلَيْهِ سَبِيلًا فَيُقَالُ لَهَا تو اس لعنت کو کہا جاتا ہے ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِنتِ کہ جولعنت بھیجنے والا ہے اس کو جاکے چمٹ جا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ کسی کی نسبت لعنت میں جلدی نہ کرو“.یہ فقرہ اس لئے کہا ہے کہ پیچھے سے مضمون ہی ایک ایسا آ رہا ہے ضروری تھا یہ فقرہ کہنا.د کسی کی نسبت لعنت میں جلدی نہ کرو کہ بہتیری بدظنیاں جھوٹی ہیں اور بہتیری لعنتیں اپنے ہی پر پڑتی ہیں.سنبھل کر قدم رکھو اور خوب پڑتال کر کے کوئی کام کرو اور خدا سے مدد مانگو کیونکہ تم اندھے ہو.ایسا نہ ہو کہ عادل کو ظالم ٹھہراؤ اور صادق کو کا ذب خیال کرو.اس طرح تم اپنے خدا کو ناراض کر دو اور تمہارے سب نیک اعمال حبط ہو جاویں.“ اور اسی کو لعنت کہتے ہیں سب اعمال نیک اعمال جو ہیں وہ حبط ہو جائیں.۲۸ تو وقف جدید کا جو کام ہے وہ تربیت کرنا ہے اور تربیت میں آداب سکھلانا بھی ہے اور اخلاق سکھلانا بھی ہے اور آداب و اخلاق سکھانے کے لئے بری عادتوں کو چھڑوانا بدعقائد کو مٹاکر صحیح عقائد کا قائم کرنا ہے اور بد خلقی کو مٹا کر اخلاق فاضلہ قائم کرنا ہے.یہ ایک تنظیم ہے اس کو پیسے کی بھی ضرورت ہے.جو گوشوارہ مجھے دیا گیا وقف جدید کے آمد و خرچ کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ چار مدیں ہیں ان کی.دو چھوٹی سی ہیں، ان کو میں چھوڑ رہا ہوں وہ ہیں بھی ہنگامی نوعیت کی مستقل مزیں ہیں ایک تو چندہ جماعت بالغان ، بالغان کا نام اس
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۳۰ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء لئے رکھا گیا کہ ایک وقت میں اطفال کے لئے علیحدہ دفتر کھول دیا گیا.اس میں قریباً پچاس ہزار کی زیادتی ہے جو اس سال میں جو ۱ ۳ دسمبر ۱۹۷۹ء کو ختم ہوا.کل آمد چندہ بالغان میں ۱۷۱ ، ۶۳ ، ۴ ہے اور دفتر اطفال میں ۸،۹۲۱ کی زیادتی ہے.تھوڑی تھوڑی زیادتیاں ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ معلموں کی بہت ضرورت ہے.اور ایک زائد چیز اب میں جو پہلے میں نے بات کرتے ہوئے نہیں بتائی وہ یہ کہ جب میں نے یہ کہا کہ ہر احمدی بچہ جو ہے وہ کم از کم میٹرک تک پڑھا ہوا ہونا چاہیے تو پہلے جوشرط معلمین کے لئے، وقف جدید کے معلمین کے لئے غالباً نہیں تھی، مجھے صحیح نہیں پتہ، لیکن میرا خیال ہے کہ نہیں تھی.اگر نہیں تھی تو اب یہ شرط ضرور لگا دیں کہ آئندہ جو لئے جائیں وہ کم از کم میٹرک پاس ہوں اور اگر پہلے سے ہی ہے تو ٹھیک ہے.اور دوسری بات اس ضمن میں یہ ہے کہ خالی میٹرک نہ ہو بلکہ تھرڈ ڈویژن میٹرک نہ ہو سیکنڈ ڈویژن کا کم از کم ہو.اور اس کے اندر یہ قوت اور یہ استعداد ہو کہ جب وقف جدید کا نظام اس کے اخلاص کی چھپی ہوئی تاروں کو حرکت میں لائے اس کی جو خوابیدہ قوتیں ہیں وہ بیدار ہونے والی ہوں یعنی نکھد نہ ہو.کر دینا چاہیے فارغ کر دینا چاہیے کہیں اور جاکے اپنے پیسے کمائے اور خدمت خلق کا جذبہ اور خدمت خلق کرنے کا جوش اس میں یا موجود ہو یا پیدا کیا جاسکے.جس معلم میں خدمتِ خلق کا جذ بہ نہیں اور اس کے لئے ہر وقت وہ بے چین نہیں ، اور تڑپ نہیں ہے اس میں کہ جہاں دکھ نظر آتا ہے اس کو حتی الوسع دور کرنے کی کوشش کرے وہ ہمارے کام کا نہیں.اس کو اللہ تعالیٰ نے کسی اور کام کے لئے بنایا ہے اس کی تو اچھے معلم زیادہ معلم دیں جب معلم زیادہ ہوں تو جتنی رقم کی ضرورت پڑے اس کے مطابق رقم دیں.جو معلم ہیں وہ نیک نیتی اخلاص اور جذ بہ کے ساتھ آئیں.جو منتظمین ہیں وہ ان کو ابھاریں اور ان کے لئے ایسا نصاب اور ان کی ہدایت کے لئے ایسی چھوٹی چھوٹی کتابیں آداب کے متعلق اور اخلاق کے متعلق شائع کریں اور ان کی ایک نوٹ بک بنادیں سو صفحے کی.اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں.ڈیڑھ سو صفحہ ہو زیادہ سے زیادہ جس میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۳۱ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء اسلام نے جو آداب سکھائے.اسلام نے جو اخلاق ہمیں بتائے ان کے اوپر ایک ایک فقرہ ہو باقی تفصیل ان کو زبانی بتادی جائے.عثمان فودی جو ایک مجدد گزرے ہیں پچھلی صدی میں شمالی نائیجیریا میں ، اس وقت کا جغرافیہ اور تھا ویسے کچھ اور علاقے بھی تھے بیچ میں.انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے بدعت اور سنت پر.اور بڑی اچھی ہے حوالے دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کی سنت کے حوالے دے کر مختصر بھی ہے اور اس سے استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے.آپ نے کہیں نہ کہیں تو حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دلینا ہے.انہوں نے اپنا استدلال کیا ہے.ہو سکتا ہے کہ ان کے زمانے میں جو استدلال درست تھا اب اس کے اندر کوئی اور بطن چھپا ہوا، سامنے ہمارے نظر آ جائے تو اس کو شامل کر لیں بڑی اچھی کتاب ہے.مثلاً انہوں نے کپڑے کے متعلق کہا ایک میں بات بتادوں اگر اسلام ساری دنیا کے لئے ہے اور یقیناً اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو پھر ہر ملک کا لباس اسلامی لباس ہے.یہ اس میں خشکی جب دماغ میں ہو یہ چیز نہیں لیتا.ہر ملک کا لباس اسلامی لباس ہے.اگر کسی ملک کا لباس اس قسم کا ہے کہ اس ننگ کو وہ صحیح طور پر ڈھانپتا نہیں جو اسلام نے کہا ہے ڈھانپو.تو اتنی تبدیلی اس لباس میں ہو جانی چاہیے کیونکہ ایک اور حکم ہے جس کی خلاف ورزی کر رہا ہے وہ.لیکن یہ کہنا کہ مغربی افریقہ کا لباس اسلامی نہیں باوجود اس کے کہ وہ یہ شرائط پوری کر رہا ہے کہ ستر جو ہے اس کو ڈھانک رہا ہے اور پنجاب کا جو لباس ہے وہ اسلامی ہے یا عرب کا لباس جو ہے وہ اسلامی ہے اور یورپ کا لباس اسلامی نہیں.یہ بات ہی غلط ہے.ساری دنیا کا وہ لباس جو ان شرائط کو پورا کر نے والا ہے وہ اسلامی ہے.ہم نے اپنے پورے لباس میں نماز پڑھنی ہے.اگر کسی ملک میں ایسا لباس ہے جو نماز پڑھنے میں دقت پیدا کرتا ہے تو اتنا حصہ درستی کے قابل ہے اس کی اصلاح ہو جانی چاہیے.انہوں نے لباس پر لکھا ہے.اصل میں یہ مثال دینے لگا ہوں.انہوں نے لکھا ہے پورے حوالے دے کے، سر کا لباس اوپر کے دھڑ کا لباس، نچلے دھڑ کا لباس تینوں کو علیحدہ علیحدہ لیا ہے.چھوٹا سا ایک صفحہ پونا صفحہ ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوپی بھی پہنی سر پر.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۳۲ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء رومال بھی باندھا سر پر اور اس قسم کا جواب رواج ہے جس طرح عمامہ عرب کا وہ بھی پہنا اور بڑا عمامہ بھی پہنا اور قمیص جتنی قمیصوں کی قسمیں اس وقت رائج تھیں ساری استعمال کیں اور دھوتی بھی پہنی اور پاجامہ بھی پہنا اور شلوار بھی پہنی ، سارے حوالوں کا ذکر کر کے پھر اس سے نتیجہ یہ نکالا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جو لباس میٹر آئے وہ استعمال کرو بڑا صحیح نتیجہ نکالا ہے اور ساری دنیا کے لئے بڑی عجیب گائیڈنس دے دی جو میسر آتا ہے وہ پہنو.ٹھیک ہے اسلام نے کہا ہے بعض ننگ ہیں جن کو اسلام کہتا ہے ڈھانکو وہ ڈھانکنے چاہئیں.اور اگر کوئی ضرورتیں ہیں وہ پوری ہونی چاہئیں.اسلام کہتا ہے کہ ایسی طرز نہ ہو کہ نمائش کے خیال سے پہنا جائے.ضرورت کے لئے نہ ہو بلکہ نمائش کے لئے ہو.اسلام کہتا ہے کہ نمائش نہیں کرنی.اس حد تک وہ ٹھیک ہونا چاہیے.تو یہ جو آداب ہیں جو اخلاق میں معلم کو موٹے موٹے ہی بتانے پڑیں گے اس کے لئے ایک چھوٹی سی نوٹ بک ان کے لئے تیار کریں اور نوٹ بک کی تیاری میں بھی نمائش نہ ہو سادہ زبان میں ہر بات کو Cover کرنے والی ہو وہ.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور جس رنگ میں ، جس لباس میں ، جس ذہن کا ،جس اخلاق کا ، جس روحانیت کا انسان خدا تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے ہم وہی بن جائیں.پھر حضور انور نے فرمایا:.کھانسی آرہی ہے ایک خیال آ گیا.ہمارے جلسہ سالانہ کی حسین یادیں اور گہرے اثرات تو چلتے ہیں، سالوں چلتے ہیں اگلے جلسہ تک ان کے اندر اور شامل ہو جاتے ہیں کچھ اس قسم کی چیزیں بھی ہیں مثلاً کھانسی ہوگئی.اب جلسے کی کھانسی ہے وہ ابھی تھوڑی سی چل رہی ہے خطبے میں نہیں آئی بعد میں آگئی میرے بھی.کافی فرق پڑ گیا ہے.راستے میں میں نے دیکھا کہ دکانیں ہیں جلسے میں ایک ان کا فائدہ تھا ضرورت مندوں کے لئے وہ چیزیں مہیا کر رہی تھیں ، کھانے پینے کی ، دوسری.اب وہ چلی گئیں ان کے اثرات
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۳۳ خطبه جمعه ۴ جنوری ۱۹۸۰ء پڑے ہوئے ہیں کھنڈر نظر آرہا ہے.کھنڈر نہیں رہنا چاہیے اگلے جمعہ تک کہیں بھی.ان ملبوں کو خدام الاحمدیہ اٹھا دے اور جس طرح میں نے کہا تھا کہ غریب دلہن کی طرح ربوہ کو سجا دو جلسہ کے استقبال کے لئے.اب میں کہتا ہوں کہ اس غریب دلہن نے جلسہ کی خدمت کی ہے.کچھ خدمت میں دھبے پڑ جاتے ہیں.کہیں داغ پڑ گیا.سالن گر گیا، کہیں مٹی کا داغ لگ گیا.پھر اس کو دوبارہ غریب دلہن کی طرح سجا دو تا کہ اس کو یہ شکوہ نہ رہے کہ مجھ سے کام لے لیا اور پھر مجھے بھول گئے آپ.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۲ ء صفحه ۱ تا ۶) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۳۵ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء انسان بڑی ہولناک تباہی اپنے سامنے دیکھ رہا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۱ جنوری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.609 فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.(هود: ۱۱۳) پھر حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے، کہ جیسا کہ تجھے حکم دیا گیا ہے وحی کے ذریعہ سے، اس کے مطابق صبر اور استقلال سے کام لو.اسی طرح وہ لوگ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ جنہوں نے اس ہدایت ، اس تعلیم کو سن کر اسے مانا اور اپنی گندی زیست کو چھوڑ کے تیرے متبع بن گئے.تجھے انہوں نے تسلیم کیا اور تاب انہوں نے رجوع کیا اس گندی زیست سے اللہ تعالیٰ کی طرف مَعَكَ تیرے ساتھ مل کے.یعنی جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم سن کے تو نے اپنی زندگی کے دن گزارے تیرے نقشِ قدم پر چل کر انہوں نے بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا.توبہ کی.وَلَا تَطْغَوا اور ماننے والوں کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے یہاں کہ گناہوں میں حد سے نہ بڑھ جانا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ خدا تعالیٰ تمہارے اعمال پر نظر رکھتا ہے.کوئی چیز اس کی نگاہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۳۶ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء سے چھپی نہیں رہتی.اگلی آیت میں ہے.وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا (هود: ۱۱۴) جو ظالم لوگ ہیں.جو اپنی فطرت کے خلاف، اپنی زندگی کے مقصود کے خلاف جو اسلامی تعلیم کے خلاف، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے خلاف عمل کرتے اور ظلم کرتے ہیں.ان کی طرف نہ جھکنا فَتَمَسكُمُ النَّارُ (هود: ۱۱۴) کہ جب انہیں سزا ملے تو تم بھی اس عذاب کی لپیٹ میں آجاؤ.وَلَا تَطْغَوا کے معنی جیسا کہ میں نے بتایا اس حکم میں یہ ہیں کہ گناہوں میں حد سے نہ بڑھو.اس کے ایک معنی یہ ہیں جو راہ اسلام نے انسان کو دکھائی.جس راہ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ پا ثبت ہیں.جس کی وجہ سے آپ ہمارے لئے اُسوہ بن گئے.اس راہ کے اندر بھی بعض Discretions ہیں یعنی انسان کو انتخاب کا اختیار دیا گیا ضرورت کے مطابق جس کو ہم عمل صالح کہتے ہیں یعنی انسان کے سامنے اسی راہ میں آگے چلتے ہوئے یہ بات آتی ہے کہ میں اس راہ کے دائیں طرف چلوں یا اس راہ کے بائیں طرف چلوں.اگر وہ غلطی کرتا ہے اور دائیں طرف نہیں چلتا.راہ وہی ہے.صراط مستقیم لیکن اس صراط مستقیم کے دائیں طرف نہیں چلتا بائیں طرف چلتا ہے.راستہ اس نے نہیں چھوڑا لیکن گناہ اس نے کر دیا کیونکہ موقع اور محل تقاضا کرتا تھا کہ وہ دائیں طرف چلے اور اس نے فیصلہ کیا اپنی سمجھ کے مطابق کہ میں بائیں طرف چلوں جو غلط فیصلہ تھا اور غلط فیصلوں پر تو ثواب انسان کو نہیں ملتا.یہ میں نے مسئلہ بیان کیا ہے.میں اب مثال دیتا ہوں اس کی.اسلام کہتا ہے اگر کوئی تمہارا گناہگار ہو جائے تم پر زیادتی کرنے والا ہو تو تمہارے لئے اسلام کی صراط مستقیم میں دور ستے ہیں.ایک عفو کر دینے کا اور ایک انتقام لینے کا.ہر دو صراط مستقیم ہی ہیں یعنی عفو سے کام لینا موقع اور محل کے مطابق.یہ بھی صراط مستقیم پر چلنا ہے.موقع اور محل کے مطابق انتقام لینا، عفونہ کرنا، یہ بھی صراط مستقیم پر چلنا ہے لیکن ایک شخص اپنا فیصلہ کرتا ہے جو اس کو اختیار دیا گیا لیکن غلط کرتا ہے تو گناہگار بن گیا لیکن گناہ میں حد سے نہیں بڑھا.وہ جو حدود قائم کر دیں اللہ تعالیٰ نے اس راستہ کی.صراط مسقیم کی.اس کے اندر ہی رہا ہے لیکن گناہ ہو گیا اس سے.وہ چیز ہوگئی جو خدا کی نظر
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۳۷ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء میں پسندیدہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ نے بہت جگہ فرمایا بڑا رحم کرنے والا ہوں.معاف کر دیتا ہوں.معاف کر دوں گا.جب انسان صراط مستقیم پر ہی رہے اور جو اس کو اختیار دیا گیا تھا کہ یہ کر یا وہ کر اس اختیار میں غلطی کرے تو یہ گناہ کبیرہ نہیں یہ عصیان میں حد سے بڑھنا نہیں.اس کا ذکر وَلا تَطْغَوا میں نہیں یعنی جو یہ کہا کہ پھر تم خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آجاؤ گے ایسے گناہ اس کے اندر نہیں آتے بلکہ ایسے جو گناہ ہیں وہ انسان کے جو دوسرے اعمال صالحہ ہیں اس کے اندر چھپ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت جو ہے اس سے انسان محروم نہیں ہو جا تا لیکن ایک گناہ وہ ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ سچ بول ، جب بھی بول سچ بول اور ایک شخص متواتر جھوٹ ہی بولتا چلا جاتا ہے.عادت اس کی بن گئی ہے جھوٹ بولنے کی.یہ حد سے بڑھنا ہے یعنی اس نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا.جو اسلامی تعلیم کی شاہراہ تھی اس کے کبھی دائیں طرف نکل جاتا ہے باہر حدود سے اور کبھی بائیں طرف نکل جاتا ہے.تو ولا تَطْغَوا میں جو حکم ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم کے اندر رہتے ہوئے جو تمہیں ہم نے اختیار دیا تھا کہ خود سوچو، غور کرو، دعائیں کرو اور ایسے رنگ میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ قبول کرے اور تمہیں بتا دے کہ تم نے دایاں راستہ اختیار کرنا ہے یا بایاں اختیار کرنا ہے.اگر تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی ، کی بھی تم نے.تمہارے اندر کوئی اور کمزوری ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا.تو گناہ تو ہو گیا.اسلامی تعلیم کے خلاف ہوا کیونکہ اسلامی تعلیم یہ کہتی ہے کہ جہاں عفو کرنا ہے اگر تم عفو کی بجائے انتقام لو گے تو غلطی کرو گے.اسلام یہ کہتا ہے کہ سچ بولو اور قول سدید ہو.اس میں کوئی ایچ بیچ نہ ہو.کوئی کبھی نہ ہو.یہ تو بالکل واضح حکم ہے لیکن اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ جو سننے والا ہے تم اس کی عقل کے مطابق بات کرو.اب ایک شخص ہے وہ کسی کو سمجھا رہا ہے اسلامی تعلیم کسی عیسائی کو لیکن عقل کے مطابق بات کرنے کا جو حکم تھا اس کے مطابق اس کا فیصلہ نہیں ، تو یہ گناہ تو ہے لیکن بات وہ سچی کر رہا ہے لیکن اس کی سمجھ کے مطابق، اس کی عقل کے مطابق نہیں کر رہا.یہ غلطی کر رہا ہے.یہ ولا تطغوا والا جو حکم ہے کہ عصیان میں، گناہ میں حد سے نہ بڑھو.یہ اس کے نیچے نہیں آتا
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۳۸ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.اور بڑی ایک ہدایت اور راہنمائی کی یہ بات ہمیں بتائی کہ جو ظاہر طور پر بغیر کسی شک وشبہ کے ظلم کرنے والی اور ظلم میں حد سے بڑھنے والی قو میں یا گروہ یا جماعتیں ہیں ان کی طرف جھکومت بلکہ قائم رہو سیدھے ہو کر.سیدھا راستہ ہے اس کے اوپر تم اپنے مقصود کی طرف منہ کر کے چلتے رہو.ظلموا میں یہ مراد نہیں کہ یونہی کسی کو کہہ دو کہ تم ظالمانہ راہوں کو اختیار کر رہے ہو.یہاں یہ مراد ہے وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ کہ ایسا ظلم جس کے متعلق کھلے طور پر انسان کی عقل کہتی ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے.مثلاً فساد پیدا کرنا، آپس میں لڑنا ، مثلاً نا جائز علاقوں پر جانا، قبضہ کرنا اور وہاں قتل و غارت کرنا.مثلاً عالمگیر جنگیں لڑنا ، دو جنگیں انسان لڑ چکا ہے.جو ان جنگوں کے ذمہ دار ہیں جو ان جنگوں کی تباہی سے انسان کو بچاسکتے تھے اور انہوں نے ایسا نہیں کیا ان کا ظلم بالکل ظاہر ہے.اب اس وقت ایک تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ افق کے اوپر دھندلا سا ہمیں نظر آنا شروع ہو گیا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق اور ان پیشگوئیوں کے ظہور کے قُرب کی جو آپ کو اطلاع دی گئی اس کے مطابق بتایا ہے ایک نہایت ہی خطرناک جنگ کا بھی خطرہ انسان کے سامنے آئے گا.یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ تیسری عالمگیر جنگ ہوگی یا چوتھی ہوگی یا پانچویں ہوگی لیکن یہ بغیر کسی شبہ کے انسان کہہ سکتا ہے کہ ہر جنگ پہلی سے زیادہ خطر ناک، پہلی سے زیادہ فساد پیدا کرنے والی انسانی زندگی میں بحیثیت انسان ساری دنیا میں جو انسان بستے ہیں وہ ہیں میرے سامنے اس وقت ، ان کے لئے بہت ہی زیادہ خرابی پیدا کرنے والی ہوگی.مثلاً جب دوسری عالمگیر جنگ میں غالباً دو ہی ایٹم بم استعمال کئے گئے تھے لیکن ان کی تباہی بھی اتنی تھی کہ پچاس سال پہلے انسان کا دماغ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی تباہی بھی انسان پر آنا ممکن ہے مگر آگئی اس وقت زیادہ بنے بھی نہیں تھے.اس وقت ایٹم بم نے زیادہ ترقی بھی نہیں کی تھی یعنی تباہی کے جو سامان ہیں ان میں بہت زیادہ ترقی کر گیا انسان یعنی غلط راہوں پر وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۳۹ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء بہت زیادہ آگے نکل گیا.ہائیڈ روجن بم بنالئے اور بہت سارے ایسے ہتھیار انسان کو مارنے کے لئے بنا لئے انسان نے.اور سوچیں تو اس کا فائدہ ان قوموں کو بھی نہیں جنہوں نے یہ ہتھیار بنائے.تباہی ان پر بھی اسی طرح آئے گی جس طرح ان کی طرف جھکنے والوں کے لئے خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ ایسے ہتھیار بھی انسان ایجاد کر لے گا کہ علاقے سے زندگی ختم ہو جائے گی یعنی خالی انسان نہیں مرے گا بلکہ جانور بھی اور حیوان بھی ، درندے بھی چرندے بھی ( چرنے والے جانور ) اور کیڑے مکوڑے بھی اور بیکٹیریا بھی اور وائرس (Virus) بھی.ہر قسم کی زندگی جو ہے وہ ختم ہو جائے گی اس ہتھیار کے نتیجہ میں.اس کے ایک دو نظارے ہم نے دیکھے اور اگر خدانخواستہ اس قسم کی تیسری عالمگیر جنگ ہوئی تو دنیا کے بہت بڑے علاقے ایسے ہوں گے جہاں سے نہ صرف انسان بلکہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا ایسے ظالم جو ہیں اور یہ ظالم جو ہیں ہمیں نظر آ رہے آج وہ ، وہ ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ مہذب، سب سے زیادہ آگے نکلے ہوئے.سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ انسان کو ڈرانے والے وہ قومیں ہیں وہ ذمہ دار ہیں اس کی.لا تركنوا جو کہا گیا کہ تم نہ جھکو.اس کی بنیادی شکل جو بنتی ہے کہ نہیں جھکے ہم.وہ یہ بنتی ہے کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور انسان کی تباہی کے جو سامان ہیں ان کو استعمال کرنے کی یہ جرأت نہ کر سکیں ہم میں اتنی طاقت تو نہیں کہ ہم مثلاً امریکہ کا ہاتھ پکڑ لیں یا روس کا ہاتھ پکڑ لیں یا چین کا ہاتھ پکڑ لیں یا بعض دوسری قومیں ہیں ان کا ہاتھ پکڑ لیں لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ سمجھ تو دی ہے کہ ہم اس کا دامن پکڑیں جو ان کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے.ہم خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں اور ہمارا یہ دعا مانگنا پوری بیداری کے ساتھ اور ہوش میں آکر اور سمجھ کے ساتھ اور یہ جانتے ہوئے علی وجہ البصیرت کہ انسان تباہی کے گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے اور سوائے خدا تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۴۰ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء کی رحمت کے اسے کوئی بچا نہیں سکتا ، ہم خدا کے حضور جھکیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! انسان پر انسان ظلم کرنے کے لئے تیار ہے تو فرشتوں کو نازل کر.ان کو سمجھ عطا کر اور دنیا کے دلوں میں ایک تبدیلی پیدا کر اور نیکی کی راہ کی طرف ان کو واپس لے کے آ کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا.اگر ہم با قاعدگی کے ساتھ یہ دعا کریں تو خدا کی نگاہ میں ہم اس گروہ میں شامل ہونے سے بچ سکتے ہیں لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا میں جس کا ذکر ہے.جو ان کی طرف جھک جاتے ہیں یعنی جو ذمہ دار نہیں لیکن ان کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں.پھر خدا کہے گا کہ میرے یہ بندے ایسے ظالموں کی طرف جھکے نہیں تھے.اگر جھکتے تو میرے حضور حاضر ہو کر مجھ سے عاجزانہ ان کی ہدایت کی دعائیں نہ کرتے اور ان کے دل میں یہ تڑپ پیدا نہ ہوتی کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت بچالے ورنہ انسان بڑی ہولناک تباہی اپنے سامنے اپنی افق پر اس وقت دیکھ رہا ہے.تو وَ لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ جس نار کا یہاں ذکر ہے جس رنگ میں بھی ہو یہ.اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے اور محفوظ رہنے کے لئے جو اس نے ایک یہ بتایا ہے کہ لا تركنوا اور لا تركنوا کا میں نے بتایا کہ بہت ساری شکلیں بن سکتی ہیں نہ جھکنے کا اعلان عملاً لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ ہماری دعا خدا کے حضور خدا کی نگاہ میں ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے گی کہ جوان کی طرف جھکے نہیں بلکہ ان کی ہدایت کے سامان مانگتے ہوئے انہوں نے بے چینی اور تڑپ کے ساتھ اور عجز اور انکسار کے ساتھ خدا کے حضور دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی دعاؤں کی توفیق عطا کرے اور خدا کرے کہ انسان اپنی ہی غفلتوں اور بداعمالیوں کے نتیجہ میں اور استکبار کے نتیجہ میں اور ایک حصہ انسانیت کو حقیر سمجھنے کے نتیجہ میں جو فتنہ اور فساد اور تباہی کی تیار کر رہا ہے اللہ اسے ہدایت دے اور اس تباہی سے اور اس قسم کے خوفناک حالات سے سارے ہی انسانوں کو محفوظ رکھے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۴۱ خطبہ جمعہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء پچھلے خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ جلسہ سالانہ کے وہ نشان جوا اپنی افادیت کو پورا کرنے کے بعد باقی رہ گئے ہیں ان کو درست کر دیں آپ.بہت حد تک درست ہو گئے ہیں لیکن ابھی کچھ اور کام باقی ہے.ربوہ اس طرف توجہ کرے.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۴۳ خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۸۰ء اُمت محمدیہ کو جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ پوری ہوگئیں خطبه جمعه فرموده ۱۸ /جنوری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں نے اس خطبہ کے لئے قرآن کریم کی چند آیات اور ان میں بیان شدہ سات ارشاداتِ باری تعالیٰ منتخب کئے تھے لیکن کوئی حکمت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تھی کہ میں اپنی عینک گھر بھول آیا ہوں.اس لئے وہ مضمون تو میں اس وقت بیان نہیں کروں گا.اور بہت سی باتیں ہیں.جماعت احمدیہ کا جہاں تک اسلام سے تعلق ہے اس سلسلہ میں ، ان میں سے بعض باتیں میں آپ دوستوں کے سامنے اس وقت بیان کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و مہدی معہود علیہ السلام اس زمانہ میں مبعوث ہوئے.ہمارے ایمان کے مطابق جنہوں نے آپ کو پہچانا قرآن کریم کی پیشن گوئیوں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوارشادات تھے تفسیری.قرآن کریم کی پیشگوئیوں کی تفسیر کرتے ہوئے اور بہت سی ایسی باتیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائیں لیکن وہ قرآن کریم کا حصہ نہیں بنائی گئیں ان کی روشنی میں جو خبریں دی گئی تھیں ان کے مطابق ایک شخص نے ہمارے ایمان کے مطابق یہ دعویٰ کیا کہ اُمت محمدیہ کو جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ پوری ہو گئیں اور خدا نے مجھے مسیح اور مہدی بنا کر دنیا کی
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۴۴ خطبه جمعه ۱۸ ؍ جنوری ۱۹۸۰ء طرف بھیجا ہے کہ بنی نوع انسان کو وحدانیت باری تعالیٰ کی طرف میں بلاؤں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا جو ہے وہ ہر گھر پر لہرانے لگے.اسلام کو کامل غلبہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف:١٠) کے مطابق حاصل ہو جائے.یہ دعوی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا اور یہ دعویٰ ہے ہم احمدیوں کا جو آپ پر ایمان لائے کہ آپ کا یہ دعوی سچا ہے.اس لئے وہ تمام قربانیاں جو اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے طلب کیں وہ ہمیں پیش کرنی چاہئیں اللہ تعالیٰ کے حضور ور نہ ہم اپنے ایمان میں جھوٹے ہوں گے خدا کی نگاہ میں بھی اور جب کبھی ہم تنہائی میں اپنے گھروں میں خاموشی کے اوقات میں ہم سوچیں گے اپنے نزدیک بھی ہم جھوٹے ہوں گے.قرآن کریم نے صرف ان لوگوں کا ذکر نہیں کیا جو سمجھتے نہیں اور ماننے سے انکار کرتے ہیں.قرآن کریم نے گھل کے ان لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے جو سمجھتے ہیں اور ماننے سے انکار کرتے ہیں.اس گروہ میں پھر خود ہم بھی شامل ہو جائیں گے.اس وقت اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو منصو بہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے وہ زور اور طاقت کے ساتھ اور brute force ( وحشیانہ قوت ) کے ساتھ دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا نہیں بلکہ محبت اور پیار کے ساتھ اور اسلامی تعلیم کی حقانیت ثابت کر کے اور آسمانی نشانات اور معجزات کے ساتھ اور یہ ثابت کر کے آج کی دنیا کو.دنیا کے سامنے آج جو بڑا ہتھیار ہمیں دیا گیا ہے پیش کرنے کے لئے وہ یہ ہے کہ ہم دنیا کو یہ بتائیں کہ تمہاری ہر نا کامی اور تمہاری ہر ذلت اور ہلاکت کی طرف تمہارا ہر قدم جو اُٹھ رہا ہے اور گندگی کی گہرائیوں کی طرف ہر فٹ جو تم نیچے کی طرف جارہے ہو یہ اس لئے جارہے ہو کہ تمہارے عقائد اور تمہارے از مز (Isms) اور تمہارے فلسفہ اور تمہاری اخلاقیات میں کمزوریاں ہیں اور اس کا نتیجہ تم بھگت رہے ہو.اس کے مقابلہ میں ، ہر چیز کے مقابلہ میں اسلام ایک بہتر چیز پیش کرتا ہے.یورپ اور امریکہ اور روس اور چائنہ اور دوسرے ممالک جو د نیوی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں انہیں خدا تعالیٰ نے ایک حد تک دنیوی عقل تو دی ہے، مفلوج ہیں.بعض باتوں کو وہ نہیں سمجھتے لیکن
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۴۵ خطبه جمعه ۱۸ ؍ جنوری ۱۹۸۰ء بہت سی باتوں کو وہ سمجھتے ہیں.بعض باتوں میں ان کی عقل ان کا ساتھ نہیں دیتی اور ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں لیکن بعض باتوں میں ان کی عقل ، عقل رہا ہے.چاند تک وہ پہنچ گئے.سورج کے گرد چاند سے بھی دور جو ستارے ہیں ان کی تصویریں انہوں نے یہاں زمین پر حاصل کر لیں لیکن ایک حصہ مفلوج بھی ہے اور کوئی مفلوج ہستی ترقی نہیں کیا کرتی حقیقی معنی میں.مثلاً پرندہ ہے اور وہ مثال اس لئے آگئی کہ ہم بھی کبھی کبھی شکار کرتے ہیں.اس کو اللہ تعالیٰ نے دو پر دیئے ہیں اڑنے کے لئے لیکن اگر شزہ لگے اور صرف ایک پر اس کا ٹوٹ جائے اس کا سارا جسم صحیح سلامت اس کا دوسرا پر صحیح سلامت.اس کو انگریزی میں کہتے ہیں Winged یعنی اس کا ایک پرٹوٹ گیا ہے اسی وقت وہ ہوا میں سے زمین پر گر جاتا ہے.تو یہ مفلوج ان کو کہہ لو.مفلوج ہیں ، یہ Winged ہیں.یہ اپنے ہی شکار کر چکے ہیں.خود انہوں نے اپنا شکار کیا.اپنے ہتھیاروں سے اپنے لئے ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے.ہم نے ان کے زخمی پر پر مرہم لگانی ہے اور خدا نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اسلامی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اور اس پر عمل کرتے ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرتے ہوئے دنیا کے لئے ایک نمونہ اپنے نفسوں کو بنا ئیں گے تو ہم جو مر ہم ان کے ٹوٹے ہوئے پر کو لگا ئیں گے اس پر کو جوڑ دے گی لیکن اگر ہم خود Winged ہو جائیں.اگر خود ہماری زندگی جو ہے وہ مفلوج ہو جائے.ایک حصہ میں ہم ترقی کرنے والے ہوں گے اور دوسرے حصہ میں ہم تنزل کی طرف جانے والے ہوں تو دوسروں کی ہم نے کیا فکر کرنی ہے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے پھر.اس وقت ہماری زندگی کا جو یہ وقت ہے اس کی طرف میں اشارہ کرتا ہوں قریباً نوے سال گزر گئے.ان نوے سالوں میں بڑے بڑے انقلاب آئے.اور میں نے بہت سوچا اور جو سوچنے والے ہیں ان سے میری گفتگو ہوئی.ہمارے دماغوں میں بڑی وضاحت سے یہ بات آئی ہے کہ ہرا نقلاب جو اس نوے سال میں نوع انسانی کی زندگی میں پیدا ہوا ہے وہ غلبۂ اسلام کے حق میں پیدا ہوا ہے.بعض ایسے انقلاب ہیں مثلاً جو اسلام سے بظاہر دور لے جانے والے ہیں مثلاً وہ علاقے جو پہلے ایک دھندلا سا تصور اللہ تعالیٰ کا رکھتے تھے اب وہ دھر یہ ہو گئے اور انہوں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۴۶ خطبه جمعه ۱۸ / جنوری ۱۹۸۰ء نے دعوی کر دیا کہ ہم زمین سے خدا کے نام ، آسمانوں سے خدا کے وجو دکومٹائیں گے.وہ انقلاب جو ہے وہ بھی اسلام کے حق میں ہوا ہے.اس لئے کہ جو تختی تھی اس کے اوپر جو غلط باتیں لکھی ہوئیں تھیں انہوں نے آکر صاف کر دیا.اب ہمارا جو کام تھا وہ آسان ہو گیا.جو دنیا میں بہت سے اتحاد ہوئے قوموں کے درمیان ملکوں کے درمیان ان پر غور کیا جب ہم نے ، تو ہمیں پتہ لگا کہ یہ بھی ہمارے حق میں ہے اس لحاظ سے کہ جن مختلف برائیوں میں وہ پھنسے ہوئے تھے، ان کا مجموعہ اتنا بڑا تھا کہ جو ہماری ذمہ داری تھی ان کو پاک اور مطہر کرنے کی یعنی ان راہوں کو دکھانے کی جن پہ چل کے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی بن جائیں اتنا بڑا کام تھا کہ انسان کی روح کانپ جاتی ہے سوچ کے یہ ذمہ داری ہم پر لگائی.جب انہوں نے اتحاد کیا تو اتحاد کے نتیجہ میں ہر قوم نے ، ہر ملک نے اپنی برائیوں میں سے بعض چھوڑ دیں اتحاد کی خاطر.تو اس حد تک ہمارا کام ہو گیا نا.جو ہم نے کام کرنا تھا اس کی بجائے انہوں نے خود کر دیا حالات نے ان کو مجبور کیا کہ ان برائیوں کو اس حد تک تم چھوڑ دو.خدا تعالیٰ کی تقدیر، ہر تبدیلی انسانی زندگی میں ، ہر انقلاب جو چھوٹا ہے یا بڑا انسانی زندگی میں وہ نوع انسانی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی تدبیر یہ ہے کہ اس نے مہدی معہود علیہ السلام کو مبعوث کر دیا اور ایک جماعت کو قائم کیا جن میں اچھے بھی ہیں جن میں درمیانے درجے کے بھی ہیں سست بھی ہیں لیکن جن میں ابھی تک خدا کے فضل سے یہ احساس زندہ ہے کہ اجتماعی زندگی کی کمزوریوں کو ہم نے ایک دوسرے سے تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : ٣) کے ماتحت تعاون کرتے ہوئے دور کرنا اور ایسا بن جانا ہے کہ جس کے نتیجہ میں ہمارا عمل غیروں کے لئے ایک اُسوہ بنے اور ایک نمونہ بنے.اور ہماری فراست جو ہے اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ وہ جہاں اندھیرے ہیں ان کو دور کرنے والی ہو.خدا تعالیٰ جو اللہ نُورُ السَّمُوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) نور ہی نور ہے سارے جہانوں کے لئے اور ہماری زندگیوں کے لئے بھی اس سے ہم نور کی شمع حاصل کریں اور اندھیروں کو دور کرنے والے بنیں.بڑی ذمہ داری ہے آپ پر ، آپ میں سے ہر ایک پر ، مرد پہ بھی ، عورت پہ بھی آپ کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۴۷ خطبه جمعه ۱۸/جنوری ۱۹۸۰ء نسلوں پر بھی ، آئندہ آنے والی جو نسلیں ہیں ان پہ بھی ہے یہ ذمہ داری اور قیامت تک کے لئے ذمہ داری ہے کیونکہ کہا یہ گیا ہے کہ اسلام غالب رہے گا اس دنیا میں اور نوع انسانی کی بھاری اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع رہے گی اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے سایہ میں اس کے پیار کو حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے والی ہوگی قیامت تک اور پھر ان میں ایک بگاڑ پیدا ہوگا اور پھر ہمارے آدم کی نسل پر قیامت آجائے گی.شاید نسلوں کا کوئی فرق ہے لیکن جو ہم نے پچھلی تاریخ پر غور کیا تو میں نسلیں کم از کم ہم نے سنبھالنی ہیں.تین ان میں سے گزرچکیں اور ستائیس نسلیں سنبھالنی ہیں.ہمیں اپنی فکر نہیں ، ہمیں اپنی نسلوں کی بھی فکر کرنی چاہیے.اپنی فکر بھی کرنی چاہیے مگر صرف اپنی فکر نہیں.اپنی نسلوں کی بھی فکر کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ کوئی خاص قوم، کوئی خاص فردایسا ہے جس نے اجارہ داری لی ہوئی ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کی.خدا تعالیٰ نے تو یہ کہا کہ تم تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو گے میرے پیار کو حاصل کر لو گے.تقویٰ کی راہوں کو چھوڑ دو گے.پیار کو حاصل نہیں کرو گے.بڑے بڑے آسمانوں تک پہنچے ہوئے ہمارے بزرگ.خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں ، اپنے اپنے دائرہ میں کمال کو پہنچے ہوئے اور ان کی نسلیں جو ہیں وہ اسلام کو چھوڑنے والی ہمیں نظر آتی ہیں.ان میں سے ایسے افراد ساری نسل نہیں میری مراد ایسے افراد ہو گئے جنہوں نے اسلام کو چھوڑ کے دوسرے مذہب کو اختیار کر لیا.یہ ذمہ داریاں معمولی نہیں.یہ ذمہ داریاں غیراہم نہیں.یہ ذمہ داریاں ایسی نہیں جن کو نظر انداز کر کے ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پیار حاصل کر سکیں.ان ذمہ واریوں کو نباہنے کی کوشش کریں گے اگر آپ خلوص نیت کے ساتھ ، ایثار کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی کوشش کے نتیجہ میں تو آپ نباہ لیں گے یہ ذمہ داریاں.خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیں گے.اگر نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ کا وعدہ تو پورا ہوگا.خدا نے کہا اس زمانہ میں اسلام غالب آئے گا، اسلام غالب آئے گا.کچھ اور لوگ اٹھیں گے افریقہ میں ہوں گے شاید، پھر خدا نہ کرے کہ ایسا ہو یورپ میں ہوں گے شاید عربی
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۴۸ خطبه جمعه ۱۸ ؍ جنوری ۱۹۸۰ء زبان بولنے والے علاقوں میں ہوں گے شاید جزائر میں رہنے والے ہوں گے شاید مگر وہ نہیں گے جو خدا تعالیٰ کی تعلیم کو دھتکار کے نفس کی خواہشات کے پیچھے پڑنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے.میں نمازیں جمع کراؤں گا.عصر کی نماز دو رکعت پڑھوں گا جو مقامی ہیں وہ دو رکعتیں اور پڑھ کے چار پوری کریں.جو میری طرح مسافر ہیں باہر سے اور بھی کئی مجھے نظر آ رہے ہیں وہ دو رکعتیں پڑھیں.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۴۹ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء ایک دوسرے کا مال ناحق اور ناجائز طور پر مت کھاؤ خطبه جمعه فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں.وَلا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدُلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ.(البقرة : ۱۸۹) ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا - وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا - وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا.(النساء : ۳۱،۳۰) وَاللهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا - يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا - (النساء : ۲۹،۲۸) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے اور تم ایک دوسرے کے اموال جھوٹ اور فریب کے ذریعہ مت کھاؤ اور نہ ان اموال کے جھگڑے کو اس غرض سے حکام کی طرف کھینچ لے جاؤ تا تم لوگوں کے مالوں کا کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہوئے ناجائز طور پر اور گنہگار بنتے ہوئے ہضم کر لو.اے ایماندار و تم آپس میں ناجائز طور پر اپنے مال نہ کھاؤ ہاں یہ جائز ہے کہ مال کا حصول آپس کی رضا
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء کے ساتھ تجارت کے ذریعہ سے ہو اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو.اللہ یقینا تم پر بار بار رحم کرنے والا ہے وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا اور جو شخص بھی دوسرے کا مال زیادتی اور ظلم کی وجہ سے کھائے گا اسے ہم ضرور آگ میں ڈالیں گے اور یہ امر اللہ کے لئے آسان ہے اور اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم پر شفقت کرے اور جو لوگ بڑی خواہشوں کے پیچھے پڑتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بدی کی طرف بالکل جھک جاؤ.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ کو ہلکا کرے اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے ان آیات میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں..یہاں یہ بتایا گیا کہ بعض لوگ دنیا میں ایسے ہیں کہ جو ایک دوسرے کا مال ناحق اور ناجائز طور پر کھاتے ہیں، ناجائز اور ناحق مال کھانے کے انسان نے بہت سے طریقے ایجاد کر لئے ہیں.چوری کے ذریعہ سے، ڈکیتی کے ذریعہ سے کم ماپ تول کے ذریعہ سے ، ملاوٹ کے ذریعہ سے، ناقص مال دینے کے ذریعہ سے، رشوت کے ذریعہ سے، حکام پر اثر و رسوخ ڈال کر دوسرے کا مال غصب کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے وغیرہ وغیرہ.لمبی فہرست ہے ساری یہاں دہرائی نہیں جاسکتی تو فرمایا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر طریق ناجائز اور ناحق مال کے کھانے کا استعمال کرتے اور دوسروں کا مال ہوتا ہے اور اس کو خود ناحق اور ظلم کرتے ہوئے لیتے ہیں اور اپنے استعمال میں لاتے ہیں.ب.دوسرے یہ فرما یا کہ ہم اے مومنو تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کا مال جھوٹ اور فریب کے ذریعہ سے ناحق اور نا جائز طور پر مت کھاؤ.دولت تو ہے ہی ایک ہاتھ سے نکل کے دوسرے کے ہاتھ میں جانیوالی جہاں تک دولت کا ایک ہاتھ سے نکل کے دوسرے ہاتھ میں جانا ہے اسلام نے بنیادی طور پر یہ حکم دیا ہے کہ ہر شخص اپنا حق لے غیر کا حق نہ مارے اور اسطرح پر اقتصادی زندگی میں اسلام نے جو ایک فضا پیدا کی ہے.امن اور سکون کی وہ ہر اس فضا سے مختلف ہے جو دنیا کے ہر دوسرے نظام نے انسانوں کے اندر قائم کی ہے.یہاں جو سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات انسان کے لئے تھی اس کو نمایاں کر کے پیش کیا اور وہ یہ کہ ناحق مال کھانے کی نیت ہے اور اس کے لئے جواز پیدا کرنا ہے حاکم وقت
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۵۱ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء کے فیصلے کو انسان جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں ہے.انسان جانتا ہے کہ یہ ٹکڑ از مین کا میرا نہیں ، جانتا ہے کہ یہ مکان میرا نہیں ، مکان کا یہ حصہ میرا نہیں ، جاتنا ہے کہ زمین کی پیداوار میری نہیں ، جانتا ہے کہ کارخانوں کے اندر جو بنتا ہے اور جو آمدنی ہوتی ہے وہ ساری کی ساری میری نہیں.اس میں کام کرنے والوں کا بھی حق ہے.سب کچھ جانتے ہوئے اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے جھوٹے گواہ پیش کر کے یا رشوت کے ذریعے یا کسی اثر اور رسوخ کے ذریعے حاکم وقت سے فیصلہ لیتا ہے اور اپنے نفس کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حاکم وقت کا فیصلہ تمہارے حق میں میرے اس فیصلے کو نہیں روکے گا کہ میں تمہیں جہنم میں پھینک دوں اور اپنی گرفت میں لے لوں.یہ جو دنیا میں گند پھیلا ہوا ہے ( آپ غور کریں میں نے بہت غور کیا ) انتہائی فساد پیدا کرنے والا اور معاشرے میں بے انتہاء بے چینی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے کہ جھوٹے مقدمے کر کے جھوٹے گواہ پیش کر کے جھوٹی قسمیں کھا کے یعنی خدا تعالیٰ کو بھی اپنے حق میں گواہ کے طور پر بظاہر زبانی طور پر پیش کر دیا اور جانتا ہے شخص کہ خدا بھی جانتا ہے کہ یہ اس کا مال نہیں اور اپنے دل کی تسلی کے لئے ایسا طریق اختیار کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں حکم دیتا ہوں کہ تم حکام وقت سے اپنے حق میں جھوٹے فیصلے مت لو.قرآن کریم ہے بڑا عظیم.بڑی ہی عظیم کتاب ہے.بعض دفعہ بے وقوفی سے ناسمجھی سے بھی غلط مقدمہ ایک شخص کر دیتا ہے.اس واسطے اس چیز کو یہاں واضح کر دیا.اگر کوئی شخص نا سمجھی سے واقعہ میں سمجھتا ہے کہ حق اس کا ہے.غلطی میں مبتلا ہے کہ میرا حق ہے اور کورٹ میں جاتا ہے اور اس کا حق نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ وہ گروہ جو ہیں وہ میرے اس انداز کے مخاطب نہیں ہیں.مخاطب وہ ہیں کہ مقدمہ بازی اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے کرتے ہیں کہ دعویٰ جھوٹا ہے جو شخص نا سمجھی سے یا بے وقوفی سے یا غفلت سے کوئی جھوٹا مقدمہ کرتا اور اپنے حق میں فیصلہ لیتا ہے تو اس کی وہ سزا نہیں.قرآن کریم کے نزدیک جو اس شخص کی ہے جو جان بوجھ کر لوگوں کے مال کو کھا تا اور حاکم وقت کی پناہ لیتا ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۵۲ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء چوتھی بات یہاں یہ بتائی کہ ایک دوسرے کے ہاتھ سے مال جو نکلتا ہے اس کے جائز طریقے ہیں.تو جائز جو طریقے ہیں ان کو استعمال کرو مال نے تو بہر حال ایک کے پاس نہیں رہنا.ایک زمیندار ہے اس کے ایک ہزار من گندم آگئی گھر کے لئے اسے ضرورت ہے دوسومن گندم کی آٹھ سومن گندم اس نے بہر حال کسی اور کے گھر میں پہنچانی ہے.ایک جائز طریقہ ہے اس ذریعہ سے اس کی گندم تم اپنے گھر میں لے کے آؤ اور وہ طریقہ ہے ایسی تجارت جس کے اصول اسلام نے وضع کئے.خدا کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق تجارت جسے ہم پاک اور ستھری تجارت کہہ سکتے ہیں وہ تجارت جس میں جب مال کا تبادلہ ہوتا ہے تو کھوٹ نہیں ہوتا ، وعدہ خلافی نہیں ہوتی ، جنس کو گیلا نہیں کیا جا تا وزن بڑھانے کے لئے ، تول کو یا ماپ کو کم نہیں کیا جاتا، اچھی گندم دکھا کے سری کی کھائی ہوئی گندم نہیں دی جاتی ، منڈی کے بھاؤ سے زیادہ قیمت لینے کے لئے منڈی سے باہر سودا نہیں کیا جاتا.منع کیا گیا ہے اس سے بچنے والے کو اس کی جائز قیمت سے، جائز مال سے محروم کرنے کے لئے منڈی سے باہر سودا نہیں کیا جاتا دونوں طرف اس کا اثر ہے.تو تجارت ہے اس کے ذریعہ سے تم یہ کرو.یہ معاشرہ ایسا ہے ایک نے پیدا کرنا ہے وہ چیز دوسرے کے پاس جائے گی اور پھر تیسرے کے پاس جائے گی.تمدنی زندگی انسان نے گزارنی ہے.انسان کو جو اللہ تعالیٰ نے طاقتیں دی ہیں وہ مختلف ہیں اگر سب کو ہی خدا تعالیٰ اناج اگانے کی طاقت دیتا ( قوتیں اور استعدادیں سمجھ بوجھ ) تو سردی میں ہم اکٹڑ جاتے آج کل سردی بڑی پڑ رہی ہے.انسان کو کپڑا بنانا ہی نہ آتا.مشکل پڑ جاتی.بعض کو ایسی قوتیں عقلی اور طاقتیں اور ایسی فراست دی کہ اب اس وقت دنیا میں ایسے کارخانے ہیں کپڑے بنانے کے جن میں بین امین ہزار پچیس پچیس ہزار مزدور کام کر رہا ہے.یہ جو پچیس ہزار مزدور کام کر رہا ہے اس نے کھانا بھی ہے ان کے پیٹ ہیں پیٹ کھانا مانگتے ہیں.ان کے بچے بھی ہیں انہوں نے بھی کھانا کھانا ہے بیویاں ہیں ، رشتہ دار ہیں ان کے Dependent (ڈیپنڈنٹ) ہیں.ان کے لئے کسان جو ہے وہ غذا پیدا کر رہا ہے.ان کا کپڑا کسان کے پاس جانا ہے، کسان کی اجناس جو ہیں وہ ان کے پاس جانی ہیں.تو اس زندگی میں اللہ تعالیٰ نے تجارت کے اصول کو جائز قرار دیا.اس کے لئے ہدایتیں دیں حدود کے اندر
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۵۳ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء اُس کو باندھا تا کہ چھلانگ مار کے انسان کا دماغ ( خدا تعالیٰ کے حدود تو اگر نہ ہوتے ) اور حدود سے تجاوز کر کے وہ شیطان کی گود میں نہ چلا جائے لیکن اب ہر چیز جو ہے وہ واضح کر دی گئی ہے.جو جائز ہے وہ بھی واضح کتاب مبین ہے ہمارے پاس.جو ناجائز ہے وہ بھی واضح.اچھی طرح کھول کے بیان کرنے والی کتاب ہے ہمارے ہاتھ میں دی گئی.تو پاک اور ستھری تجارت ہے.تجارت کے متعلق دو اصول کا یہاں ذکر کیا ہے.ایک تو خود تجارت جو ہے وہ درست ہونی چاہیے.بتائے ہوئے طریق پر ہونی چاہیے، خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق.دوسرے یہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے مثلاً گندم خریدنا چاہتا ہے.قیمت صحیح دینا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن وہ دوسرا اس کو دینے پر رضامند نہیں ہے.تو کوئی شخص مالک کی مرضی کے بغیر کسی کے گھر سے گندم کی سو بوریاں اٹھا کے اپنے گھر لا کے منڈی کی قیمت دے کے اس الزام سے بچ نہیں و سکتا خدا کی نگاہ میں کہ اس نے مالک کی رضا مندی کے بغیر وہ گندم وہاں سے اٹھالی تو عَن تراض منكم کہ ایک تو تجارت اصول کے مطابق ہو.دوسرے ہر دو کی رضا مندی کے ساتھ وہ تجارت کی جائے.یہ جو باہمی رضا مندی ہے اس کی آگے بڑی لطیف اور لمبی تفصیل ہے.مثلاً کوئی خریدار کبھی راضی نہیں ہوتا کہ مجھے کھوٹ دے دو، مجھے کرم خوردہ دے دو، مجھے اپنے وعدے کی تاریخ سے چھ مہینے یا سال کے بعد دے دو.جس نے آج گندم کھانی ہے وہ تو آج مانگ رہا ہے.اگر اس نے پندرہ دن بعد کا سودا کیا ہے پندرہ دن بعد اس کو ملنی چاہیے.پھر بین الاقوامی تجارتوں میں تو سال سال، دو دو سال پہلے معاہدے ہو جاتے ہیں.اب ۱۹۸۰ ء ہے معاہدہ ہو جائے گا کہ یہ مال ہمیں ۱۹۸۲ ء کے مارچ میں تم دے دو.تو یہ ہے باہمی رضامندی اس کے مطابق تجارت ہو اس کی لمبی تفصیل ہے اشارے میں اس وقت کر رہا ہوں بات سمجھانے کے لئے.یہاں اللہ تعالیٰ نے عظیم قانون تجارت کا جو ہے اس کی طرف بھی اشارہ کیا اور جو باہمی رضا مندی کی تفاصیل دوسری جگہ آتی ہیں قرآن کریم میں ان کی طرف ایک چھوٹے سے فقرہ میں چند الفاظ میں فقرہ نہیں ، فقرے کے ایک حصے میں اس کو بیان کر دیا.پانچویں یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا کہ دیکھو ہم تمہیں نا حق اور ناجائز طور پر
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۵۴ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء جھوٹ ، دھوکہ اور فریب کے ذریعہ سے دوسرے کے اموال لے کے ان کو ہضم کرنے سے اس لئے منع کرتے ہیں کہ ایسا کرنا ایسا ہی ہے کہ بھوکوں مارنا.جب دوسروں کا مال لو گے تو غربت اس کی موت تک بھی اس کو لے جاسکتی ہے.تو بھوکوں مارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اسلام زندہ کرنے ، اسلام صحت مند بنانے ، اسلام معمور الاوقات بنے کی فضا پیدا کرنے کے لئے دنیا کی طرف آیا ہے.تم کوشش کرتے ہو کہ دوسرے کے مال کو لوٹو اور سینکڑوں ہزاروں لاکھوں افراد اور بیسیوں قوموں کو بھوکا مار دو.جیسا کہ بعض ملکوں نے کیا.جب انہوں نے دوسرے ملکوں پر اپنی حکومتیں قائم کیں کئی سو سال تک.جب میں گیا افریقہ کے دورہ پر تو پہلا ملک جہاں میں پہنچا وہ تھا نائیجیر یا پہلے دو تین دن میں مجھ پر یہ اثر کہ خدا تعالیٰ نے اہل نائیجیریا کو ہر قسم کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا مگر وہ جو اعلان یہ کر کے آئے تھے کہ ہم ” خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کے تمہارے پاس پہنچے ہیں کچھ نہیں چھوڑا ان کے پاس.سب لوٹ کے لے گئے.بھوکے مر رہے تھے وہ.میں وضاحت اس وقت کر رہا ہوں کہ یہاں اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ دوسروں کے مال لوٹنا ایسا ہی ہے جیسے بھوک سے انہیں مار دینے کا منصوبہ اور کوشش کرنا.میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ میرا تاثر یہ ہے کہ خدا نے تمہیں سب کچھ دیا تھا.سب کچھ ہی تم سے لوٹ کے لے گئے یہ لوگ You have all You were deprived of all تمہیں سب کچھ خدا کی طرف سے ملا تھا.ہر چیز سے تمہیں محروم کر دیا.دو ایک روز کے بعد اس وقت کے صدر سے بھی میری ملاقات تھی.ان کو میں نے یہ بتایا کہ میرا یہ تاثر ہے میری بات سنتے ہی فوری طور پر ان کا رد عمل یہ تھا !How true you are.How true you are کیسی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک واضح اشارے سے ہمیں بتایا ہے کہ ناجائز اور ناحق دوسروں کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسا انہیں قتل کرنے کی کوشش کرنا.یہ اشارہ اسطرح واضح ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی کہ دیا وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُم کیونکہ قتل بھوکے مارنے کے علاوہ بھی ہوتے ہیں.تو ہر قسم کے قتل سے ہم تمہیں روکتے ہیں.بھوکا مارنے کے قتل سے بھی اور دوسری قسمیں جو قتل کرنے کی
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء ہیں ان سے بھی ہم تمہیں روکتے ہیں.ایک دوسرے کو قتل نہ کرو.پھر فرما یا بڑی کھلی وارننگ انداز ہے بڑا کھلا.وَ مَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَ كَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا جو کوئی ایسا کام کرے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر صغیر میں ذلِكَ “ کی تفسیر باطل کے ذریعہ سے مال کھانے کی طرف پھیری ہے.آپ نے معنی یہ کئے ہیں کہ جو شخص بھی یہ.یعنی دوسرے کا مال کھانا.زیادتی اور ظلم کی وجہ سے کرے گا اسے ہم ضرور آگ میں ڈالیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ناجائز اور ناحق باطل کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے دوسروں کے مال کھانا عدوان بھی ہے، ظلم بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو بھی تو ڑتی ہے یہ بات اور انسانوں پر ظلم بھی کر رہا ہے تمہارا یہ فعل.تو دہرے گنہ گار بن کے تم خدا کے حضور پیش ہوتے ہو.خدا کی حق تلفی بھی (خدا کے حقوق یہی ہیں نا کہ جو اس نے کہا وہ کہنا مانو ) وہ تو غنی ، بے نیاز ہے.اس کو تو ہماری خدمت کی ضرورت نہیں.ہمارے اموال کی ضرورت نہیں.ہماری دولت کی ضرورت نہیں ، ہماری ایجادات کی ضرورت نہیں ، ہماری انڈسٹری کی ضرورت نہیں ،کسی چیز کی ضرورت نہیں.وہ ہمیں رزق دیتا ہے ہر قسم کا اور کوئی دنیا کی طاقت اسے رزق پہنچانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی.نہ رزق کی اسے ضرورت ہے.وہ تو اپنے نفس میں زندہ اور قائم رہنے والی ہستی ہے.اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت اس رنگ میں کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار فضل اور رحمتیں ہمارے اوپر کی ہیں ان کے ہم شکر گزار بندے بنیں اور اس کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کر کے ہر وقت اس کی حمد کرنے والے ہوں، اس کی پاکیزگی بیان کر نیوالے ہوں، اس کی کبریائی کا اعلان کرنے والے ہوں ، اس کی عظمتوں کے گیت گانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف انسان کی حق تلفی نہیں.کیونکہ اس میں انسان یہ دھوکا کھا سکتا ہے کہ انسان کی حق تلفی ان حقوق کے لحاظ سے ہو رہی ہے جو اس نے خود بنائے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ عدوان بھی ہے.یہ حدود سے تجاوز کرنا بھی ہے.کون سے حدود؟ جو خدا نے قائم کئے اور یہ ظلم بھی ہے ظلم کے بنیادی معنی ہیں، ذیلی معنی بھی ہیں ، نمایاں معنی جو یہاں
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء - لگتے ہیں وہ حق تلفی ہے.لغت کے لحاظ سے بھی ظلم کے ایک معنی حق تلفی کے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حدود کی تم عظمت کو نہیں پہچانتے اور ان کو توڑتے ہو، عدوان کرتے ہو اور بنی نوع انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو نظر انداز کرتے ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو یاد رکو فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارا وہ لمبا زمانہ نہیں ہے جو تمہاری ان حرکتوں اور جہنم میں جانے کے درمیان ہو.اتنا لمبا زمانہ جہنم کا ، اس کے مقابلے میں ۳۰، ۴۰ سال اس دنیا کی لذتیں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتیں.وَ كَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسان چیز ہے یہ ہمارے لئے.دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ اگر تم خدا کی حدود کی بے حرمتی کرو اور انسانوں کی حق تلفی کرو اس حق کی جو خدا نے قائم کیا ہے تو خدا کے قہر کے عذاب سے بچ سکو.یہ معمولی گناہ نہیں.بڑی وضاحت سے ہمیں بتایا گیا کہ بڑا خطرناک گناہ ہے.ہم پر یہ واضح کیا گیا ہے میں بعض احمدیوں کے بھی بعض ایسے کیسز (Cases) ہیں انہی کی وجہ سے میرے دل میں یہ دکھ پیدا ہوا کہ میں مسئلہ بیان کروں کہ کورٹ میں جا کے فیصلہ لے لینا تمہیں یہ حق نہیں دیتا کہ دوسرے کا مال کھا جاؤ.کیونکہ کورٹ کے سامنے تو مرنے کے بعد تم نے پیش نہیں ہونا.جس کے سامنے پیش ہونا ہے تم نے ، وہ سب طاقتوں کا مالک ہے جس نے یہ تمہیں آج بتاد یا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نارا کہ اس کی بھڑکائی ہوئی سے پھر تم بچ نہیں سکتے اگر تم عدوان اور ظلم کی راہوں کو اختیار کرو گے.اسے سامنے رکھو اور جہاں تک ممکن ہو جہاں تک تمہاری عقل اور فراست تمہاری ہدایت کے سامان پیدا کرے ایک ڈھیلہ بھی کسی کا کھانے کی جرأت نہ کرو.ایک کھجور غلط اٹھا لی تھی ایک صحابی نے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھنکوا دی.اس سے منع کیا.آپ نے فرمایا جو ایک کھجور کا بھی غین کرتا اور ناحق اور باطل کھاتا ہے وہ جہنم میں جائے گا.اس میں چھوٹے اور بڑے مال کا نہیں سوال.اس میں ایک پیسے یا ایک کروڑ روپے کا سوال نہیں.سوال ہے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا ، خدا کہتا ہے اگر تم میری نافرمانی کر کے، میرے بندوں کو دکھ دے کے، ان کے کے لئے ایک قسم کے قتل کا منصوبہ بناؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے اس سے بچ نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء فرماتا ہے.يُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ کہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کو مانتے نہیں یا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو صداقت اس وقت انسانوں کی ہدایت کے لئے قائم ہے اسے وہ سمجھتے نہیں يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ شہوات نفسانی کی طرف مائل ہونے والے ہیں وہ خود جہنم کی راہوں کو اختیار کرنے والے ہیں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سارا معاشرہ انہیں کے نقش قدم پر چلے دوسروں کو خراب کرنے والے ہیں.اَنْ تَبِیلُوا مَيْلًا عَظِيمًا کہ تم بھی اپنی پوری توجہ اور پوری طاقت کے ساتھ انہیں کی راہوں کو اختیار کرو جو راہیں شہوات نفسانی کی راہیں ہیں کیونکہ وہ اس کی اتباع کر رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں یہ نہیں چاہتا.وَاللهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ خدا تو یہ چاہتا ہے کہ اگر تم ایسی راہوں پر گامزن ہو تو واپس آؤ اس کی طرف.تو یہ کرو تم اور خدا تعالیٰ تمہیں اپنی تو بہ سے نوازے اور رحمتوں سے نوازے یہ نفس کے بندے جو ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی بدی کی طرف بالکل جھک جاؤ اور بوجھ کے تلے دب جاؤ.لیکن يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ یہ تمہارے او پر ایسا بوجھ لادر ہے ہیں کہ تمہیں زمین میں گاڑ دیں اور جہنم تک لے جائیں.لیکن خدا یہ چاہتا ہے کہ آن يُخَفِّفَ عَنْكُمْ کہ تم سے بوجھ کو ہلکا کرے.خدا تعالیٰ کا ہر حکم جو ہے وہ ہم پر بوجھ نہیں لا دتا ہمارے بوجھ کو کم کرنے والا ہے.وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا اور انسان جو ہے اس کے اندر یہ ضعف پایا جاتا ہے کہ اس کو ڈھیل دی گئی ، اجازت دی گئی کہ اگر چاہے تو غلط راستوں کو اختیار کرے لیکن اس ضعف کا علاج خدا تعالیٰ نے ایک عظیم ہدایت کے ذریعے کر دیا قرآن کریم نازل ہو گیا.اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم سے گناہ کا بوجھ ہلکا کرے، گناہ کا بوجھ جو زمین کی طرف جھکا دیتا ہے.اللہ چاہتا ہے کہ يُخَفِّفَ عَنكم تمہارے بوجھ ہلکا کرے تا تم ہلکے ہونے کے بعد آسمان کی رفعتوں کی طرف پرواز کرسکو اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکوتا اس کا فضل تمہاری بشری کمزور یوں تمہارا ضعف جو ہے بشری کمزوریوں کا ضعف ، اسے وہ دور کر دے اور تم بہا در جانثار اس کے بن سکو.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور ہم خدا تعالیٰ کے ہی بندے بنیں.غیر اللہ کی طرف ہما را میلان نہ ہو ہم اس کی طرف جھکنے والے ہم اس کی طرف دنیا کے بوجھوں سے ہلکے پھلکے ہو کر
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء بلند ہونے والے، اس کے قرب کو حاصل کرنے والے بنیں اور اس کی مخلوق کی خدمت کرنے والے بنیں.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۸۰ صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۵۹ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء اسلام نے اپنی حسین تعلیم کے ذریعہ ساری دنیا پر غالب آنا ہے خطبه جمعه فرموده یکم فروری ۱۹۸۰ء بمقام دارالذکر.لاہور تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کئی سالوں کے بعد یہاں آنا ہوا ہے.مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ یہ مسجد جو بنانے والوں نے بہت بڑی بنائی ہوئی تھی اس وقت ، اس قدر چھوٹی ہو چکی ہوگی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے کہیں زیادہ وسیع مسجد بنانے کی توفیق عطا کرے.اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے:.قُلْ أَغَيْرَ اللهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِنِّي أمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ - قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ - مَنْ يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَبِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۖ وَذَلِكَ الْفَوْزُ دو الْمُبِينُ - (الانعام : ۱۵ تا ۱۷) اسی طرح سورۃ یونس میں ہے:.وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا اثْتِ بِقُرانِ غَيْرِ هَذَا اَوْ بَدِلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَبَدِلَهُ مِنْ تِلْقَاء نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى
خطبات ناصر جلد ہشتم 1ܬ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ - قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلُوتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا ادريكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ.(یونس : ۱۶، ۱۷) اس کا ترجمہ تفسیر صغیر کا یہ ہے قُلْ اَغَيْرَ اللهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا تو کہہ کیا میں اللہ کے سوا جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے کوئی اور دوست بناؤں حالانکہ وہ (سب انسانوں کو ) کھلاتا ہے اور (کسی کی طرف سے) اسے رزق نہیں دیا جاتا.کہہ دے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے بڑا فرمانبردار بنوں اور یہ کہ (اے رسول ) تو مشرکوں میں سے مت بنیو.تو کہہ دے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.جس پر سے وہ (عذاب) ٹلایا گیا تو ( سمجھ لو کہ ) اس دن اس پر خدا نے رحم کر دیا.اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے.وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنت اور جب انہیں ہماری روشن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جولوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ (اے محمد ) تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آ.یا اس میں ( ہی کچھ ) تغیر و تبدل ) کر دے.تو (انہیں) کہہ ( کہ یہ ) میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے (کوئی) تغیر و تبدل ) کر دوں.میں ( تو ) جو ( کچھ ) مجھ پر (وحی سے حکم نازل) کیا جاتا ہے اسی کی پیروی کرتا ہوں اور اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے ( ہولناک ) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ( کہ مجھے نہ آ پکڑے ).قُلْ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُه عَلَيْكُم اور تو (انہیں) کہہ کہ اگر اللہ کی ( یہی ) مشیت ہوتی ( کہ اس کی جگہ کوئی اور تعلیم دی جائے ) تو میں اسے تمہارے سامنے پڑھ کر نہ سنا تا اور نہ وہ (ہی ) تمہیں اس (تعلیم) سے آگاہ کرتا.چنانچہ اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر ( بھی ) تم عقل سے کام نہیں لیتے.سورۃ انعام کی جو آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللہ ہے.یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے نہ آسمان پیدا ہو گئے ، نہ زمین معرض وجود میں آئی اور آسمانوں اور زمین پر جب تم غور کرو جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ ( الجاثیۃ : ۱۴) کہ اے انسانو! تمہیں اپنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۶۱ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء بقا کے لئے اور اپنی نشو و نما کے لئے اور اپنی بھر پور زندگی کے لئے جو کچھ بھی چاہیے وہ فَاطِرِ السموتِ وَالْأَرْضِ ہی کی طرف سے ملتا ہے.اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں، کوئی بغیر استثنا کے کہ جس نے تمہیں کوئی ایسی چیز دی ہو جو خدا نے نہیں دی.سب کچھ خدا نے دیا.کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے تم وہ پاؤ جو تم اللہ سے ، اپنے پیدا کرنے والے رب سے نہ پاسکو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ یہ اعلان کر دو کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے اَن أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ اَسْلَم کہ میں اس اطاعت گزار گروہ میں سے جو میری بعثت کے بعد امت محمدیہ کہلائے گی اور اس اُمت میں جو اطاعت گزار ہوں گے.سب سے بڑا اطاعت گزار، فرمانبردارسب سے بڑا مسلمان ہوں.یہ اعلان کر دو کہ یہ حکم ہے کہ میں ایسا بنوں سب سے بڑا مسلمان بنوں یعنی جس قسم کی اطاعت کے نظارے میری اُمت مجھ میں دیکھے وہ ایسے ہوں کہ کوئی اور انسان اس قسم کی فدائیت کے اور ایثار کے نظارے خدا تعالیٰ کے سامنے جو وہ فدائیت اور ایثار کے اعمال بجالا رہا ہو کسی کو نظر نہ آئیں.سب سے بڑا، سب سے بہتر مسلمان ، سب سے زیادہ اطاعت گزار اور فرمانبردار بنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور دوسرے مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی قسم کا بھی میں شرک نہ کروں.شرک صرف ظاہری نہیں ہوتا.شرک باطنی بھی ہے.شرک صرف یہ نہیں کہ کسی کی پرستش کی جائے شرک یہ بھی ہے کہ کسی سے ایسی امید رکھی جائے جو غیر اللہ سے نہیں رکھنی چاہیے.شرک یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے سب کچھ پانے کے بعد یہ سمجھنے لگے کہ اپنی ذات میں میرے اندر کوئی خوبی یا بڑائی یا حسن یا طاقت ہے.شرک یہ بھی ہے کہ ہم دوائی کے متعلق یہ سمجھیں کہ اس نے ہمیں شفا دی.شرک یہ بھی ہے کہ انسان غلطی خود کرے اور مرضت نہ کہے کہ میں اپنی غفلت اور گناہ کے نتیجہ میں بیمار ہوا بلکہ اپنی مرض کو، اپنی تکلیف کو ، اپنی پریشانی کو اپنے محسن رب کی طرف اپنی حماقت کے نتیجہ میں منسوب کرنا شروع کر دے.ہزار ہا قسمیں شرک کی ہیں.بعض شرک کی ایسی قسمیں ہیں جن سے پر ہیز کرنے کا حکم عامتہ الناس کو ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا عامتہ الناس کو کہ بوڑھی عورتوں کی طرح کا ایمان لے آؤ خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے گا لیکن وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۶۲ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء جو خدا تعالیٰ کی محبت کی راہ میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور خدا کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ہر وقت زندگی کے ہرلمحہ میں اپنا محاسبہ کرنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جائے جس سے ہمارا پیارا ہم سے ناراض ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ کسی قسم کا بھی کوئی شرک ہو اس کے ویسا نہیں کرنا وَ لَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یعنی جیسے سب سے بہتر ، سب سے بڑا فرمانبردار بننا ہے ویسے ہی سب سے زیادہ گنا ہوں سے بچنے والا اور استغفار کرنے والا اور خدا کی پناہ کی تلاش کرنے والا اور خدا کی پناہ پانے والا بنا ہے.اور اس حکم کے بعد کہ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ یہ فرما یا قُلْ یہ بھی اعلان کر دو.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ اعلان کر دو انِي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ.میں اپنے رب کی نافرمانی کروں میں تو بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.جیسا کہ انہی آیات میں اشارہ ہے یہ ہولناک دن جو ہے یہ حشر کے دن جو معاملہ کیا جائے گا انسانی ارواح سے اور فیصلہ ہوگا کہ جہنم میں جانا ہے یا جنت میں جانا ہے یہ وہ دن ہے عَذَابَ يَوْمٍ عَظِیمٍ جس کے متعلق کہا گیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کو ) حکم ہے کہ أَوَّلُ الْمُسْلِمِین بننا ہے.حکم ہے کہ شرک کی کوئی ملونی تمہاری زندگی میں نہیں ہوئی اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں دوسری آیت جو دی ہے اس میں پھر یہ اعلان ہے کہ جو مجھے حکم تھا اس کے مطابق میں نے اپنی زندگی گزاری.ان تمام احکام کے باوجود یہ حکم بھی ساتھ ہے.حکم نہیں یہ اعلان بھی ساتھ ہے.انج اخاف إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ.یہ کہنے والے میں اور تم یا اور دوسرے لوگ نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ڈرتے ہیں انّي أَخَافُ میں ڈرتا ہوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے خدا کی نافرمانی کی تو میں بھی عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ سے محفوظ نہیں رہ سکتا.پانچویں بات ان آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ جس کو عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہا گیا ہے اس دن جس دن یہ عذاب ٹالا جائے گا.جسے اس عذاب سے حفاظت مل جائے گی اللہ تعالیٰ کی.اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۶۳ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء کی بڑی رحمت اس پر نازل ہو رہی ہو گی جس سے وہ بچے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں اس نے خدا کے فضل سے کامل اطاعت کی توفیق پائی ہوگی اور یہ جو ہے بچنا یہ سب سے بڑی کامیابی 609 ہے.فَوْر عَظِيمٌ ہے یہ.عربی زبان میں عظیم کا لفظ بولا جاتا ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں اور سب سے بڑی کامیابی انسان کو اپنی زندگی میں جو پھیلی ہوئی ہے دنیوی اور اُخروی ہر دو زندگیوں پر یہ ہے کہ جس وقت حشر کا دن ہوگا اور جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے.اس دن جن لوگوں کو عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کا مستحق نہیں ٹھہرایا جائے گا اور یہ عذاب ان سے ٹالا جائے گا اور اس عذاب سے ان کو محفوظ رکھا جائے گا ، اس سے بڑی انسانی زندگی میں اور کامیابی نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اِنْ يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ (الانعام : ۱۸) اور اگر اللہ تجھے کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور نہیں کر سکتا.یہ ضرر پہنچانا جو ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت یہ کئی قسم کی ہے.اس زندگی میں ضرر پہنچانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جیسا میں نے ابھی کہا.اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعر آء : ۸۱) انسان کو اللہ تعالیٰ اس بات میں حفاظت نہیں دیتا کہ وہ غلطی نہ کرے اور بیمار نہ ہو اور اس کے نتیجہ میں بیمار ہو جائے تو یہ ضر ربھی اللہ تعالیٰ کی اس سہولت کی وجہ سے، اس اختیار کی وجہ سے ہے کہ وہ غلطی کر جائے.کھانے میں بد پرہیزی کر جائے.وہ سردی سے اپنے جسم کی حفاظت نہ کرے اور اس کے جگر کو ٹھنڈ لگ جائے.اس کا نظام ہضم خراب ہو جائے گا تو سخر لكم....کے اندر یہ آجائے گا.اسلام نے یہ عقیدہ نہیں اپنا یا کہ تکلیف پہنچانے والی کوئی اور ہستی ہے اور تکلیفیں دور کرنے والی کوئی اور ہستی ہے.وہ ایک ہی خدا ہے جو اختیار دیتا ہے انسان کو کہ غلطی کرنا چاہتے ہو، کرلو نتیجہ جگنو گے اس کا.لیکن جہاں یہ اعلان کیا کہ جب غلطی تم کرو گے تو یہ یا درکھو کہ میں ہمیشہ تو بہ قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ جب غلطی کرو.اِذَا مَرِضْتُ کی مثال ہی میں پھر لیتا ہوں بیمار ہو جاؤ گے.اس کے بعد اگر یہ سمجھو کہ اس بیماری کو دور کرنے کے لئے مجھے خدا کے علاوہ بھی کسی چیز کی ضرورت ہے تو یہ شرک ہے.حقیقت یہی ہے کہ فَلا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ اس ضرر کو سوائے خدا کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۶۴ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء اور کوئی دور نہیں کر سکتا.ہاں اس نے دوائیں پیدا کیں کسی اور نے تو نہیں پیدا کیں.اس نے انسانی ذہن یا انسانی اذہان میں سے بعض ذہنوں کو یہ قابلیت اور استعداد دی کہ وہ طب کے میدان میں آگے نکلیں اور مہارت حاصل کریں.جب طبیب کے پاس ہم جاتے ہیں تو اس لئے نہیں جاتے کہ طبیب اپنی ذات میں کوئی طاقت رکھتا ہے شفا دینے کی، شفا خدا نے دینی ہے.بڑے بڑے ماہر طبیب غلطی کرتے اور اپنے مریضوں کی موت کا سبب بن جاتے ہیں.بڑے بڑے دعا گو چھوٹے قسم کے طبیب غلطی نہیں کرتے اور دعاؤں کے نتیجے میں اپنے مریضوں کی شفا کا موجب بن جاتے ہیں.تو فَلا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ یہ شرک کے بہت سارے یا قریباً سارے ہی جو پہلو ہیں ان کو یہاں کاٹ کے رکھ دیا.وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرِ اگر تمہیں کوئی خیر اور بھلائی پہنچے تو تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہر خیر اور بھلائی کا سر چشمہ اور منبع جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تمہارا دوست تمہیں بھلائی نہیں پہنچا سکتا، خیر نہیں پہنچا سکتا جب تک خدا نہ چاہے.تم خود اپنے آپ کو خیر نہیں پہنچا سکتے.جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِه (الانعام : ۱۹) وہ اپنے بندوں پر غالب اور متصرف بالا رادہ ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خدا تعالیٰ کی جو طاقتیں ہیں ان سے باہر نکل کے اس کے احکام اور اوامر اور اس کی منشا سے دور جا سکتا ہوں نہیں.وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، ہاں اس کا یہ جو غلبہ ہے اس کا سلوک تصرف بالا رادہ ہونے کی حیثیت کے لحاظ سے جو ہے وہ اس کی ان دوصفات کے ماتحت ہے.بڑی حکمتوں والا ہے.اپنی حکمتوں کو سامنے رکھ کے وہ اپنے فیصلے کرتا ہے اور سب حالات سے باخبر ہے.وہ باخبر تھا جس طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ ایک نیک کی اولاد کے خزانہ کی حفاظت کر لی اور ایک نیک کو برائی سے بچانے کے لئے اس کے بچے کی موت کا سامان پیدا کر دیا.تو وہ خبیر ہے اور حکمت کا ملہ کا مالک ہے.سورۃ انعام کی جو یہ آیات ہیں اس میں جو بنیادی چیز آپ کے دماغ میں میں چاہتا ہوں حاضر رہے وہ یہ ہے کہ اُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۶۵ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء زیادہ پاک اور مطہر اور خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب رسول ہیں.کوئی انسان ایسا نہیں جو آپ کی گرد کو بھی پہنچ سکے اور دوسرے یہ بات کہ اس کے باوجو د سورۃ انعام میں آپ سے یہ بھی کہلوایا گیا إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے ، محمد نے بھی نافرمانی کی اپنے رب سے تو عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ سے مجھے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا.ی نافرمانی کرنا جہاں تک خدا تعالیٰ کی اس محبت کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ساتھ تھی جہاں تک آپ کے عشق کو دیکھتے ہیں جو اپنے محبوب خدا کے ساتھ تھا بالکل ناممکن ہے.یہ اعلان کیوں کیا گیا ؟ ہمارے لئے کیا گیا.ہمیں بتانے کے لئے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہم کہلواتے ہیں انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ تو تم اپنی فکر کرو.اس کے بعد ہم آتے ہیں سورۃ یونس میں وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَتِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مبین کی جو ایت بینت ہیں جب ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو سننے والوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو ان آیات بینات کو سن کر انہیں سمجھنے کی کوشش کر کے، ان آیات بینات کی ہدایت پر عمل کر کے، جن راہوں کی نشاندہی وہ کر رہی ہیں ان راہوں پر چل کے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی بجائے اور اپنی فطرت کی جو صحیح استعداد میں ہیں ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا نور حاصل کر کے راہ مستقیم پر چلنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں.تو قال الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا آیات بینات قرآن مبین نے پیش کر دیں انسان کے سامنے لیکن انسانوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہ خدا تعالیٰ سے ملنے کی امید نہیں رکھتے.خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کیا ہوا ہے انہوں نے.جو دھر یہ ہیں یا جن کا تصور اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک دھندلا سا اور غلط ہے وہ اس کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارا کچھ خدا تعالیٰ نے نازل نہیں کیا.یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے بنا لیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے یہ قرآن کریم بنالیا ہے تو اس میں تبدیلی بھی پیدا کر سکتے ہیں اس کی بجائے بدل کے کوئی اور کتاب بھی ہمارے سامنے رکھ سکتے ہیں تو ایسے لوگ جو ہیں وہ کہتے ہیں انتِ بقرانِ غَيْرِ هذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آیات بینات سن کے ان سے فائدہ
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء اٹھانے کی بجائے یہ مطالبہ کرتے ہیں.نہیں! نہیں ! ! یہ قرآن نہیں ہمیں چاہیے.انتِ بِقُرانِ غَيْرِ هذا اور قرآن بناؤ ہماری مرضی کے مطابق ہوتا کہ ہم اسے مان جائیں.ایسا قرآن جو اس قرآن کے برخلاف ہو.جس کی تعلیم اس کی تعلیم کے مغائر اور منافی ہو.وہ قرآن لا ؤ ہمارے سامنے.ہماری مرضی کے مطابق.اور اگر ایسا نہیں تو کم از کم یہ کر و او بدلہ ہماری مرضی کے مطابق اس میں کچھ رد و بدل کر دو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قولاً ایسا مطالبہ یا عملاً ایسی طرز کو اختیار کرنا اس وجہ سے ہے کہ ایسا کرنے والے اللہ تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے.خدا سے دور پڑے ہوئے ہیں.خدا کو پہچانتے نہیں.اتنی عظیم ہدایت ان کی رفعتوں کے لئے.ان کے شرف اور عزت کو قائم کرنے کے لئے لازم ہو گئی اور وہ اس سے محروم رہنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ عزت اور شرف کو قائم کرنے والی تعلیم ہمیں نہیں چاہیے.خدا تعالیٰ تک پہنچانے والی صراط مستقیم ، روشن اور منور اور ظاہر اور کشادہ جو ہے اس کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ نہیں چاہیے ہیں.ایک نیا قرآن بنا کے دو ہمیں.جو ہماری مرضی کے مطابق ہو یا ہماری مرضی کے مطابق اس میں رد و بدل کر دو.پھر ہم اس کی طرف توجہ کریں گے.قل.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو دنیا کو مَا يَكُونُ لِي أَنْ ابد له مجھ میں قدرت نہیں کہ میں خدا تعالیٰ کے کلام میں اپنی طرف سے کچھ تبدیلی کر دوں.یہ جو پہلی چیز تھی نا اِنتِ بِقُرانِ غَيْرِ هذا.اس کے متعلق اگلی آیت میں جواب دیا جب یہ کہا گیا تھا کہ اسے بدل دو ہمارے لئے تو اس کا جواب قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَبَدِلَهُ مِنْ تِلْقَائُ نَفْسِى انہیں کہہ دو خدا کا کلام ہے.خدا کے کلام میں کوئی اپنی طرف سے تبدیلی نہیں کر سکتا.یہ قدرت نہیں ہے اسے.میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہاں قدرت کے کیا کیا معنے ہمارے سامنے آتے ہیں.گیارھویں بات یہاں بتائی کہ اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی میں اپنی طرف سے تو کوئی نظام حیات نہیں تمہیں دے رہا.میں اپنی طرف سے کوئی تعلیم تمہارے سامنے پیش نہیں کر رہا.اس میں بدل نہیں سکتا.مجھ میں قدرت نہیں کہ میں اپنی طرف سے کچھ تبدیل کروں اس لئے کہ میں اپنی طرف سے تمہیں کچھ دے ہی نہیں رہا.جب میں اپنی طرف سے دے ہی نہیں رہا تو اپنی
خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء خطبات ناصر جلد ہشتم طرف سے تبدیل کیسے کردوں.میں خود اتباع کرتا ہوں صرف اس وحی کی جو میری طرف خدا کی طرف سے آتی ہے.اور پھر یہاں پھر اسی آیت کو دہرایا گیا ہے.یہ تین جگہ دہرایا گیا ہے دو جگہ کا تو میں نے ذکر کیا ہے.إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی میں تو وحی باری ، وحی خدا کا کامل متبع ہوں.تم میری پیروی کرو.فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کا کامل متبع ، کامل اتباع کرنے والا ہوں.اِتَّبِعُونی میرے پیچھے آؤ.تم بھی کامل اتباع کرو.اپنی طرف سے کوئی چیز بیچ میں نہ گھسیڑو.خدا تعالیٰ تم سے پیار کرنے لگ جائے گا جس طرح وہ مجھ سے پیار کرتا ہے، مجھ سے وہ پیار کر رہا ہے.اس حالت کو بدل کے میں اپنی حالت کو کیسے برداشت کر سکتا ہوں.انّي أَخَافُ خوف میرے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں نے نافرمانی کی اِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ سے مجھے محفوظ نہیں کر سکتی.یہ جو کہا تھا کہ اِنتِ بِقُرانِ غَيْرِ هذا اس کا جواب سورۃ یونس کی اگلی آیت سترھویں آیت میں دیا ہے.پہلی سولہویں آیت تھی اور فرما یا قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلُوتُهُ عَلَيْكُمْ ان کو کہ دو اگر خدا اس قرآن کی بجائے کوئی قرآن، یہ تو یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ خدا نے بھیجا ہے، تو کہا کہہ دو کہ اگر خدا نے یہ بھیجا ہے،اگر خدا یہ چاہتا کہ اس کی بجائے کوئی اور قرآن کوئی اور تعلیم ہمارے پاس آتی تو وہ قرآن کوئی اور تعلیم بھیجتا یہ قرآن نہ بھیجتا.قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلُوتُهُ عَلَيْكُمْ ـ اگر خدا چاہتا تو اس قرآن کریم کی آیات بینات میں پڑھ کے تمہیں نہ سنا تا.یہ تعلیم تمہارے سامنے پیش نہ کرتا.پھر وہ تعلیم پیش کرتا جو خدا چاہتا کہ میں تمہارے سامنے پیش کروں.ولا ادرسکھ ہے.یہاں دو باتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ خدا پھر میرے پر یہ قرآن نازل نہ کرتا.اگر خدا یہ چاہتا کہ جو تم مطالبہ کرتے ہو، وہ پورا ہو کہ یہ قرآن نہ ہو کوئی اور ہوا گر خدا کی بھی یہی مرضی ہوتی تو خدا میرے پر یہ قرآن نازل نہ کرتا اور خدا مجھے یہ نہ کہتا کہ آج میں نے تمہاری تعلیم کو مکمل کر دیا ہے قیامت تک کے لئے.پھر میرے پر کوئی اور قرآن نازل ہوتا.پھر جب خدا کی وحی اور الفاظ میں نازل ہوتی میں وہ تمہارے سامنے پیش کر دیتا لیکن
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۶۸ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء میرے پر تو یہ وحی نازل ہوئی ہے اور میں (نے ) تمہارے سامنے پیش ( کر دی ہے ).دوسرے یہ کہا کہ اگر خدا چاہتا تو کوئی اور قرآن کسی اور شکل میں کسی اور پر نازل کرتا.ولا ادرسکھ ہے وہ تمہیں اس تعلیم سے آگاہ نہ کرتا جو میں تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں بلکہ کسی اور کو بھیجتا وہ ایک اور تعلیم لے کر آتا لیکن میرے پر اس وحی کے علاوہ کسی اور وحی کا نازل نہ ہونا اور کسی اور کا خدا تعالیٰ کی وحی لے کر نہ آنا ثابت کرتا ہے کہ خدا نہیں چاہتا کہ کوئی اور وحی تمہارے سامنے پیش کی جائے.اور ساتھ ہی یہ کہا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرا ان کو کہ دو لمبی عمر تم میں گزار چکا ہوں چالیس سال ہو گئے دعوئی سے پہلے اَفَلَا تَعْقِلُونَ پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے.یہ چالیس سالہ زندگی جو میں نے تمہارے اندر گزاری ہے اس سے تمہاری عقل کو یہ نتیجہ نکال لینا چاہیے تھا کہ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا.میں افتر انہیں کرتا.کیا تم کو بخوبی معلوم نہیں کہ افتر ا کرنا میرا کام نہیں اور جھوٹ بولنا میری عادت نہیں.تو جس شخص نے اتنی لمبی زندگی میں نہ کبھی افترا کیا ہواور نہ جھوٹ بولا ہواور تم سارے کے سارے اس بات کے گواہ ہو آج یہ کیوں نہیں سمجھتی تمہاری عقلیں کہ جب انسان کے سامنے میں نے جھوٹ نہیں بولا تو خدا کے سامنے میں کیسے جھوٹ بولوں گا.یہ جو زندگی اس صدق اور وفا کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور خدا تعالیٰ سے کامل تعلق کے ساتھ ، خدا تعالیٰ کا کامل پیار لیتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گزاری، اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت کچھ لکھا ہے اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس جوحسن اتفاق سے آج میری نظر پڑی وہ لاہور میں انہوں نے چھاپا ہوا ہے.میں نے تو پہلے سے دیکھا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” واقعاتِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر تو گل کرنے والے تھے جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروانہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۶۹ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء سے کیا کچھ دکھ اور در داٹھانا ہوگا بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارہ کر کے اپنے مولا کا حکم بجالائے (اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلى ) اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا.“ یہ ایک قسم کی تمہیدی رنگ میں تھی.اس کے بعد اب میں اصل مضمون کو لیتا ہوں یعنی وہ نصیحت جو میں جماعت کو کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ ان آیات سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تعلیم ہمارے حق میں دی وہ خدا تعالیٰ کی وحی سے آپ نے حاصل کی ، اپنی طرف سے کچھ نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نور ہم تک پہنچایا وہ اللهُ نُورُ السموتِ وَالْأَرْضِ اللہ کے نور کا ہی ایک حصہ تھا جسے آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں بانٹنا چاہتا تھا.وہی نور ہے اس سے باہر ساری ظلمات اور اندھیرے ہیں.یہ جس کو ہم معاشرہ کہیں جو آپ پیدا کرنا چاہتے تھے امت محمد یہ میں اسے ہم نظام کہیں، اسے ہم ضابطہ حیات کہیں ان آیات سے واضح ہے کہ جو کچھ بھی اسے ہم کہیں یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی چیز نہیں ہے.یہ تعلیم خدا تعالیٰ نے ہماری طرف بھیجی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم واسطہ ہیں اور اسی طرح آپ کے لئے ضروری تھا اس تعلیم پر عمل کرنا اور سب سے بہتر طور پر اور حسین طور پر ر اور نور سے بھر پور طور پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم پر عمل کیا ہے.اسی وجہ سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اسوۂ حسنہ بنادیا.یہ نظام خدائی نظام ہے.یہ تعلیم ، یہ معاشرہ خدا نے قائم کیا.ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم نہیں کیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس تعلیم کو لانے والے، اس نور کو پھیلانے والے ظلمات انسانی کو دور کرنے والے ہیں لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم یہ نظام بنانے والے نہیں ہیں.اس تعلیم کے موجد، اس تعلیم کے مصنف جو ہیں اور معلم جو ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں وہ ہمارا رب کریم ہے.اس نظام ، اس تعلیم کے متعلق یہ جو مطالبہ ہے کہ انتِ بِقُرانِ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِلْهُ یہ اگر ہم چودہ سوسالہ تاریخ پر نظر ڈالیں.صرف مخالفین کا نہیں بلکہ ہر بدعت جودنیا کے کسی علاقہ میں امت محمدیہ کے کسی گروہ میں پیدا ہوئی زبانِ حال سے یہ مطالبہ تھا کہ قرآن کو بدلو ہمارے لئے ، ہماری مرضی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۰ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء کے مطابق بناؤ.وہ بدر سومات، ہر وہ عمل عَمَل غَيْرُ صَالِح تھا جو قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف تھا وہ زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ہم بدلا ہوا قرآن چاہتے ہیں.وہ قرآن نہیں چاہتے ، وہ تعلیم نہیں چاہتے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ نازل کی.اگر ہم احمدی واقع میں خدا تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے اور حقیقتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے اسوہ سمجھنے والے اور آپ کے اعلانات کی قدر کرنے والے انّي أَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کا بھی آپ نے اعلان کیا ہے، اس حقیقت کو سمجھنے والے ہیں تو ہمیں تمام بد رسومات کو چھوڑنا پڑے گا.تمام بدعملیوں سے اجتناب کرنا پڑے گا.وہ زندگی اپنے معاشرہ میں پیدا کرنی پڑے گی.....قُلْ مَا يَكُونُ لَى أَنْ أَبَدِ لَهُ مِنْ تِلْقَايُّ نَفْسِی یہ اعلان جو ہے وہ صرف ان کے لئے نہیں جو آپ کی زندگی میں انہوں نے بہتوں نے کہا.قرآن کریم کہتا ہے وَذُوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ވ (القلم :۱۰) آپ نے فرما یا قُلُ مَا يَكُونُ لَى اَنْ أبَدِلَهُ مُجھ میں طاقت نہیں ہے.قدرت نہیں ہے مجھ میں.اس کے کئی معنے ہیں جو اس لفظ میں پوشیدہ ہیں.بڑا ہی پیارا فقرہ ہے.ہر فقرہ ہی قرآن کریم کا پیارا ہے.کبھی وہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے اس کا حسن.کبھی ہماری غفلتوں کے نتیجہ میں نہیں نمایاں ہوتا.ایک اس کے معنے یہ ہیں کہ کہہ دے مَا يَكُونُ في مجھ میں یہ طاقت نہیں ہے کہ میں بدلوں اس لئے کہ میں نے خدا کے نور کو، اس کے حسن کو اپنی زندگی میں دیکھا اور مشاہدہ کیا.میں...میں اپنے رب کا عاشق ہوں.اس کے حسن کو دیکھ کے علی وجہ البصیرت صرف کہانیاں سن کے نہیں.میں نے ایک نور کو پایا.حسن کو دیکھا.میری آنکھیں کھل گئیں.مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میرا معشوق مجھے ایک بات کہے اور میں اس کو تبدیل کروں.قُلْ مَا يَكُونُ لِی میری طاقت میں نہیں ہے کہ میں بدلوں.ایک معنے یہ ہیں مَا يَكُونُ کے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی عظمت وجلال کے جلوے میرے پر ظاہر کئے ہیں.اس کی کبریائی، اس کا جلال جو ہے اس کی میں معرفت رکھتا ہوں اور اس عظمت و جلال کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۱ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء سامنے ہر مخلوق لرزاں ہے.میں بھی ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے نافرمانی کی تو میرا کیا حال ہوگا.میں یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ خدا کا کلام ہو اور میں اس میں رد و بدل کرنا شروع کر دوں.قُلْ مَا يَكُونُ لى أَنْ أَبَد لَهُ مِنْ تِلْقَابِی نَفْسِی میں یہ نہیں کر سکتا.تیسرے.قُلُ مَا يَكُونُ لِي کے معنے یہ ہیں.میں بچہ تھا.یتیم ہو گیا.مجھے پہچاننے والے نہیں تھے.مجھ سے دشمنی کرنے والے سارے ہی تھے.چند ایک تھے اپنے جو تھوڑا بہت مجھے پہچانتے تھے.جب خدا نے کہا میرے نام پر، میری تعلیم کی طرف رؤسائے مکہ کو اور ساری دنیا کو بلاؤ تو سارے ہی میرے مخالف ہو گئے.میری جان کے دشمن ہو گئے.تیرہ سالہ کی زندگی میں مجھ پر اور مٹھی بھر میرے ماننے والوں پر انتہائی مظالم انہوں نے ڈھائے.خدا نے کہا ہجرت کر جاؤ.میں مدینہ چلا گیا خدا کے حکم سے.میرا پیچھا کیا انہوں نے.میرا پیچھا نہیں چھوڑا.سارے کے سارے عرب کو میرے خلاف اکٹھا کر لیا.حملہ آور ہو گئے مدینہ پر.ہوتے رہے.جب کچھ جوش ان کا ٹھنڈا ہوا تو کسریٰ اور قیصر کو میرے خلاف کر دیا.اتنی زبر دست طاقتیں ایک اکیلے کے خلاف جمع ہو گئیں کہ ان کی ایڈا سے بچنا ناممکنات میں سے تھا.اگر ، اگر میرا خدا مجھ پر احسان نہ کرتا جس نے پہلے دن سے مرتے دم تک احسان پر احسان کیا مجھ پر.میری جھولیاں بھر دیں اپنے احسانوں سے اور ا اپنی بشارتوں سے قیامت تک کے لئے میری اُمت کی خوشحالی کے سامان پیدا کر دیئے.اتنے بڑے احسان کے بعد مجھ سے یہ ہوسکتا ہے؟ قُلْ مَا يَكُونُ لَى أَنْ أَبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاء نَفْسِی کہ میں خدا کے کلام کو اپنی طرف سے بدل دوں.میں بے وفا اور احسان گش نہیں ہوں.اور چوتھے یہ قُل مَا يَكُونُ إِلَى أَنْ أَبَدِ لَهُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی کے یہ ہیں.اعلان کر دو کہ خدا نے میری فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ میں افتر انہیں کرتا.میری فطرت جو ہے وہ افترا نہیں کرتی.میں خدا پر کیسے افتر ا کروں.خدا مجھے کہتا ہے یہ تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرو.تمہاری خاطر تمہیں خوش کرنے کے لئے تمہاری مرضی کے مطابق میں رد و بدل کیسے کردوں.قُلْ مَا يَكُونُ لِي ان أبَدِلَهُ مِنْ تِلْقَای نَفْسِی میری فطرت Revolt ( کراہت) کرتی ہے.میں نہیں کرسکتا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۲ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء ایسا کام.فطرتیں بدل جاتی ہیں حالات میں عادتیں بن جاتی ہیں.اور آخری معنے اس کے یہ ہیں قُلْ مَا يَكُونُ لَى اَنْ اُبَدِ لَهُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی جھوٹ بولنا میری عادت نہیں.چالیس سال تم میں رہا ہوں.تم گواہ ہو کہ جھوٹ بولنا میری عادت نہیں ہے.اس وجہ سے بھی عادت نہیں ہے کہ خدا کے پیار کی گود کا پالا ہوں.میری فطرت بدلی نہیں جاسکتی تھی جب کہ خدا تعالیٰ کے نور نے میرا احاطہ کیا ہوا اور اس کی گود میں میں نے پرورش پائی ہو.إن اتبع الا مَا يُوحَى اِلی میں بدلوں گا نہیں.میں پیروی کروں گا اس وحی کی جو مجھ پر نازل ہوئی ہے اور جو میرے ماننے والے ہیں وہ میرے نقشِ قدم پر اس وحی کی پیروی کرنے والے ہوں گے جو مجھ پر نازل ہوئی ہے.یہ ذمہ داری ہے جماعت احمدیہ کی.اِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيم اگر نافرمانی کروں تو عذاب یوم عظیم سے میری حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا.اُمت محمدیہ کا کوئی فرد نافرمانی کرے گا اپنی مرضی کے مطابق، ماحول سے متأثر ہوکر، خدا تعالیٰ کے کلام اور احکام کو بدلے گا اور سمجھے گا کہ وہ معاف کر دیا جائے گا اس بغاوت کے بعد بھی.یہ بڑی خطرناک غلط فہمی ہے اس سے بچنا چاہیے.خدا کی وحی نے اس دین کو، اس تعلیم کو ، اس نظام کو ، اس معاشرہ کو مکمل کر دیا.الیوم أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المآئدۃ : ۴) میں ایک اور تصور بھی آ گیا.ٹھیک ہے رد و بدل نہیں کوئی اور نہ لاؤ لیکن جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کو دور کیا جا سکتا ہے.قرآن کریم نے اعلان فرمایا قرآن عظیم میں کوئی خامی نہیں جسے دور کرنے کی قیامت تک ضرورت ہے.اس واسطے کسی رد و بدل کی بھی ضرورت نہیں.یہ جو معاشرہ ہے اور نظام ہے اور اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارنا ہے، یہ ( بتا ) رہا ہے کہ اسلام تو مخالفتوں ( کی) گھناؤنی ظلمت کے باوجود اپنی روشنی کو پھیلاتا رہا اور اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی کا جو نظارہ تھا آپ کے متبعین میں بھی وہ چودہ سو سال میں ( نظر آ رہا ہے ) بڑا لمبا مضمون بنتا ہے.عمروں کے لئے کافی نہیں ہے....کئے گئے اب اس وقت، اُس وقت کسرئی اور قیصر تھے.اس وقت امریکہ، یورپ، ماسکو USSR اور چین وغیرہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۳ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء بڑے بڑے ملک ہیں (جنہوں نے ) دنیا میں ترقی کی.یہ علاقے کسی زمانہ میں اتنے پس ماندہ تھے کہ کوئی انتہا نہیں.اس وقت ان کی روحانی ترقیات اتنی مفلوج ہیں کہ آدمی سوچ کے بھی پریشان ہوتا ہے.یہ خود پریشان ہیں.میں باہر جاتا ہوں.مجھ سے باتیں کرتے ہیں.ایسے ان میں بھی ہیں جنہوں نے یہاں تک کہا کہ پہلے انبیاء کی جو جماعتیں تھیں ، جن قوموں کی طرف ان کو بھیجا تھا.جنہوں نے انکار کیا، ان کی بدفعلیوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا اور صفحہ ہستی سے ان کو مٹا دیا ہم پر کیوں عذاب نازل نہیں ہوتا یعنی ایک طرف اتنی زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ بھی ہیں.دوسری طرف ان کی سوچوں میں یہ خیالات بھی آتے ہیں.خود میں نے کانوں سے سنے ہیں.اگر ہلاکت کو طلب کرنے والوں کی جماعتوں میں آپ میں سے کسی نے شامل ہونا ہے تو آپ کی مرضی اور اگر خدا کے پیار کو حاصل کر کے ان کی اصلاح کی توفیق پانی ہے اور خدا کے پیار کو اسی طرح حاصل کرنا ہے جس طرح خدا کے پیار کو پہلوں نے حاصل کیا تو یہ آپ کے اپنے اوپر موقوف ہے.ہر شخص اپنی مرضی جان کا ذمہ وار ہے اور جماعت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ جو خدا کے احکام کی طرف توجہ نہیں کرتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو داغدار کرنے کی اپنی عملی کوششوں سے، اپنے بد اعمال سے کوشش کرتا ہے اسے جماعت سے باہر نکال دو.دنیا میں ہر نظام کو.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو نظام لائے وہ نہیں کہا جاسکتا میں نے کوشش کی ہے.یہ تو واضح کر دوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کوئی نظام قائم نہیں کیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا نظام قائم کیا اور یہ اعلان کیا کہ مجھے اتنا پیار ہے اس نظام کے ساتھ کہ اگر میں اپنی ذراسی بھی مرضی بیچ میں چلاؤں اور کوئی ردو بدل کروں تو میں ڈرتا ہوں کہ مجھے عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا.اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروا یا ائی آخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ تو آپ کو کون بچانے والا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہونے کا دعویٰ کریں گے؟ یہ خیال کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے وہ پالیں گے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں پاسکے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو وہ پایا کہ جو فرشتوں کا خیال بھی وہاں تک نہیں پہنچا.وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۴ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۰ء جو حضرت آدم علیہ السلام کا قرآن کریم میں واقعہ ہے وہ فرشتوں کی جہالت کا نمایاں مظاہرہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ملتا ہے.حضرت آدم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے پیارے نبی، رسول ایک چھوٹی سی جماعت تھی اس وقت انسانوں کی ان کی طرف بھیجے گئے تھے.عام ان کو تعلیم دی گئی تھی.ایک چھوٹا سا حصہ قرآن کریم کا ان کو ملا تھا لیکن انسانوں کو جو ملنے والا تھاوہ تو خدا تعالیٰ کا انعام اپنے عروج کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ملا اور اتنی شان سے ملا ہے انعام.آپ کو تو ساری عمر خدا تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں تو آپ اس کا شکر نہیں ادا کر سکتے.فرشتوں نے جن کا کس طرح خدا تعالیٰ نے مثال دے دی.آپ کی انفرادی اجتماعی زندگی میں اور دعا آپ کی قبول نہ کرے تو آپ....ایسی ان ہونی باتیں کر دیتا ہے.میرا سرسجدہ میں جب زمین کے اوپر ٹکتا ہے ما تھا تو اس وقت یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں بہت جھک گیا ہوں.اس وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ جتنا جھکنا چاہیے خدا کے سامنے نہیں جھک سکا کیونکہ زمین اس طرف سے روک ہو گئی.ہر ایک کا یہی خیال ہونا چاہیے.تو یہ ابتدا ہوگئی ہے میری تقریر کی.سوچا میں نے آج یہ کہ کچھ عرصہ غیر معینہ تک انتہائی پیار کے ساتھ آپ کی اصلاح کی کوشش کروں گا.آپ کو آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا.سارے تو اس اصلاح کے محتاج نہیں لیکن اس اصلاح کے محتاج ہیں کہ جہاں تک انہوں نے پیار حاصل کیا اس سے زیادہ پیار حاصل کریں اور...پھر کچھ تھوڑی سی سختی بھی ساتھ کروں گا.حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام نے آج ساری دنیا...پر غالب آنا ہے اپنی حسین تعلیم کے ذریعہ سے، پیار اور خدمت کے ذریعہ (سے) تو آپ کو اپنی زندگیوں میں انقلاب عظیم لا نا پڑے گا قبل اس کے کہ نوع انسانی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب عظیم بپا ہو.اس کے لئے تیاری کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے سب کو تو فیق عطا کرے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۵ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء قرآن کریم میں ہر زمانہ کے مسائل کا حل رکھا گیا ہے خطبه جمعه فرموده ۸ فروری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَ رَضُوا بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَانُوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ - أُولَبِكَ مَأوَهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ - إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيْمَانِهِمْ : تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَرُ فِي جَنَّتِ ج النَّعِيمِ - دَعْوبُهُمْ فِيهَا سُبُحْنَكَ اللهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمٌ ۚ وَأَخِرُ دَعْوبُهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.(یونس : ۸ تا ۱۱) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے.جولوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور اس ورلی زندگی پر راضی ہو گئے ہیں اور اس پر انہوں نے اطمینان پکڑ لیا ہے اور پھر جو لوگ ہمارے نشانوں کی طرف سے غافل ہو گئے.ان سب کا ٹھکانا ان کی کمائی کی وجہ سے یقیناً دوزخ کی آگ ہے.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے مناسب حال عمل کئے.انہیں ان کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۷۶ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء رب ان کے ایمان کی وجہ سے کامیابی کے راستہ کی طرف ہدایت دے گا اور آسائش والی جنتوں میں انہی کے تصرف کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.ان جنتوں میں خدا کے حضور ان کی پکار یہ ہوگی.اے اللہ تو پاک ہے اور ان کی ایک دوسرے کے لئے دعا یہ ہوگی کہ تم پر ہمیشہ کے لئے سلامتی ہو اور سب سے آخر میں بلند آواز سے یہ کہیں گے کہ اللہ ہی سب تعریفوں کا مستحق ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.ان آیات میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ایسے انسان بھی بستے ہیں.الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقاءَنَا جو ہمارے انعامات کی امید نہیں رکھتے ایسے انسان بھی بستے ہیں جو ہمارا خوف اور ہماری خشیت اپنے دلوں میں نہیں رکھتے.لا يَرْجُونَ لِقاءَنَا یہ فقرہ بہت سی باتیں بتاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے یعنی دہر یہ جو ہیں وہ بھی خدا سے امیدیں نہیں رکھتے.جو لوگ خدا کا ایک مبہم سا تصور اپنے ذہنوں میں پاتے ہیں.ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اللہ ہے تو سہی لیکن اتنی عظیم ہستی ! اس کو کیا ضرورت پڑی کہ ہم حقیر لوگوں سے ذاتی محبت کا تعلق رکھے.انگریزی میں اسے وہ کہتے ہیں امپرسنل گاڈ (Impersonal God ) یعنی ایسا خدا جو ذاتی تعلق اپنی مخلوق سے نہیں رکھتا.اس کی طرف بھی الَّذِینَ لا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا اشارہ کرتی ہے.پھر وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا مبہم سا تصور اپنے دماغ میں رکھتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ زندگی اسی دنیا کی زندگی ہے مریں گے سب کچھ ختم ہو جائے گا اُخروی زندگی نہیں.اُخروی زندگی کے ساتھ جن دو چیزوں کا تعلق ہے دوزخ اور جنت وہ بھی نہیں.اُخروی زندگی کی جنتوں کے لئے جن اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے ان کے بجالانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہے ہی نہیں.اُخروی دوزخ سے بچنے کے لئے جن بد اعمالیوں سے پر ہیز کرنے کی ضرورت ہے وہ بھی بے فائدہ ہے کیونکہ نہ اُخروی زندگی نہ اُخروی زندگی سے تعلق رکھنے والی کوئی جہنم الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا کا فقرہ ان سب قسم کے دماغوں پر حاوی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دماغ اس دنیا میں جو زندگی گزارتے ہیں اس کا نقشہ یہ ہے.رَضُوا بِالْحَيُوةِ الدنیا وہ دنیا پر اکتفا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت سے ان کے دل خالی ہوتے ہیں.دنیا ہی دنیا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۷ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء ہے.جھوٹ بول کے ملے لے لو.چوری کر کے ملے لے لو.ڈاکہ مار کے ملے لے لو.دھوکہ دے کے ملے، فریب سے ملے لے لو.تول کم کر کے ملے لے لو.ملاوٹ چیزوں میں کر کے پیسے ملیں لے لو.دوسروں کی جیب کتر کے ملیں لے لو.پانی ملا دو اور وزن زیادہ کر دو کمالو د نیا.روئی کے بنڈل بناؤ اس کے اندر اینٹیں ڈال دو کر لو.یہ دنیا ہے.رَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا دنیا پر اکتفا کر لیتے ہیں.محبت الہی سے دل ان کا خالی ہوتا ہے اُخروی زندگی کی نعمتوں کا کبھی خیال آہی نہیں سکتا.ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا (الكهف : ۱۰۵) ساری کوششیں اس ورلی زندگی کے اندر ہی گھومتی اور ضائع ہو جاتی ہیں.زمین کی طرف جھکتے ہیں وہ.لیکن ان رفعتوں کی طرف ان کی پرواز نہیں جن رفعتوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بنایا اور جن رفعتوں کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے ابنیاء کے ذریعہ سے ہدایت دی.جن کا پانا انسان کے لئے آسان کر دیا کیونکہ اپنی سمجھ اور عقل کے ساتھ ان رفعتوں کے حصول کی راہیں اس پر روشن نہیں ہو سکتی تھیں.زمین کی طرف جھکتے ہیں ان رفعتوں میں پرواز کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول سے بے رغبتی برتتے ہیں.ساری کی ساری زندگی اس گندی دنیا، بے وفا دنیا کے لئے ہے.اور اس کے ساتھ وَاطْبَانُوا بِهَا تیسری بات یہ بتائی کہ یہ لوگ مطمئن بھی ہو جاتے ہیں یعنی دنیا کے حصول کے بعد کسی اور اس سے بہتر چیز کے حصول کی طرف ان کی توجہ پھر ہی نہیں سکتی.مزید ترقیات کا خیال ان کو ترک کرنا پڑتا ہے.دنیوی ترقیات کے علاوہ جو مزید ترقیات ہیں ان کا تو روحانی ترقیات سے تعلق ہے نا.ان کا تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے ساتھ تعلق ہے نا.ان کو تو اللہ تعالیٰ کا پیار مل جانے کے ساتھ تعلق ہے نا.ان کا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہو جانے کے ساتھ تعلق ہے نا.ان کا تو ان راہوں پر چلنے سے تعلق ہے جن راہوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ہمیں نظر آئیں.ان کا تعلق تو اس خاتمہ پر ہے، خاتمہ بالخیر پر جس کی طرف قرآن کریم نے صراط مستقیم کے ذریعے ہدایت دی.ان کا تعلق تو ان جنتوں سے ہے جن جنتوں کی وسعت زمانی و مکانی جن جنتوں کی وسعت اپنی نعماء کے لحاظ سے، جن جنتوں کی وسعت خدا تعالیٰ کے پیار کے لحاظ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۷۸ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء سے اتنی زیادہ ہے کہ دنیا اس کے مقابلے میں ایک حقیر ذرے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی.وَاطْمَاتُوا بِهَا لیکن یہ لوگ بد قسمت دنیاوی زندگی پر اطمینان پکڑ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیوی زندگی کے علاوہ کچھ اور حاصل کیا ہی نہیں جاسکتا.مزید ترقیات کا خیال وہ ترک کر دیتے ہیں.دنیا دار دنیا پر ٹھہر جاتا ہے.اطمینان پکڑ لیتا ہے.اس سے کہیں بہتر احسن ارفع ترقیات کو نظر انداز کر دیتا ہے اس کے لئے کوششیں ترک کر دیتا ہے.اور یہ جو رَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْیا ہے راضی ہو گیا یہ پورے کا پورا راضی ہو جاتا ہے.اس میں پھر کسی اور رضا کی گنجائش باقی نہیں رہتی.یہ وقتی نہیں ہے رَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا بلکہ اپنے نزدیک وہ سب کچھ یہی سمجھتے ہیں اور اپنی ہلاکت کا سامان پیدا کرتے ہیں.چوتھی بات یہاں یہ بتائی : وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ ابْتِنَا غُفِلُونَ - لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا - رَضُوا بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَانُوا بِهَا کالازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی رحمت سے جوا پنی آیات نازل کیں اس معنی میں بھی کہ قرآن کریم میں تمام وہ آیات آ گئیں کہ جو تعلیم کے لحاظ سے شریعت کے لحاظ سے ہدایت کے لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے بھی کہ قرآن کریم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی ان آیات کے مشاہدے کرتا ہے کہ جو تعلیم میں نہیں بلکہ اس کائنات میں نشان، آسمانی نشان جو خدا تعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں، وہ آسمانی نشان جو وہ اپنے بندوں کے لئے بطور مدد اور نصرت کے بھیجتا ہے ، وہ آسمانی نشان جوان لوگوں پر قہر کی تجلی کی صورت میں آسمان سے اترتے ہیں جو اس کے پیاروں کو ستانے والے ہیں، وہ آسمانی نشان جن سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کی دنیا اور آسمان بھر پور اور معمور ہے اتنی کثرت سے نشان ، اتنے عظیم نشان، ظاہری نشان، باطنی نشان تعلیم کے لحاظ سے نشان ،معجزات کے لحاظ سے نشان ، خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے، ان سے غافل.یہ لازمی نتیجہ نکلا اس کا.اور اس غفلت کے نتیجہ میں نشان تو جھنجھوڑتے ہیں چاہے وہ انذاری نشان ہوں خواہ وہ تبشیری نشان ہوں خواہ وہ تعلیمی نشان ہوں خواہ وہ حسن ہو ہدایت اور شریعت کا ، خواہ وہ کمال ہو اصول شریعت کا خواہ وہ روشن راہ ہو جس کے اوپر چلنے کی ہمیں ہدایت دی گئی ہے خواہ وہ نور ہو جو خدا تعالیٰ کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۷۹ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء بندوں کو ملتا اور ان کی راہنمائی کرتا ہے جب ہر چیز سے محروم ہو گئے اپنے پہ ہدایت کے دروازے بند کر لئے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ ايْتِنَا غُفِلُونَ.لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ نشانات کے دیکھنے سے آنکھیں اندھی، نشانات پڑھنے سے زبان بے حرکت ، زبان حرکت کرتی ہے تو ہم پڑھتے ہیں نا.نشانات سننے سے کان بہرا، نشانات سمجھنے سے دماغ میں فراست اور ذہانت کی بجائے حمق بھرا ہوا ہے.نشانات کے اجتماعی اثر کو قبول نہ کرنا اس لئے کہ محسن سینہ نور نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ سے بھرا ہوا نہیں بلکہ شیطانی ظلمات سے اندھیرا ہی اندھیرا ہے وہاں.تو یہ ایک گروہ ہے جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس کی اس آیت میں کھینچا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا.ماويهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ گناہ کے بعد انہوں نے تو بہ نہیں کی.پشیمان نہیں ہوئے اپنی غفلتوں پر بلکہ کسب کے معنی ہیں جمع کرنے کے بھی یعنی تو بہ کا فقدان.تو بہ جو ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تو بہ کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جس سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوا تختی اس کی صاف ہو جاتی ہے لیکن یہاں یہ ہے کہ نہ پشیمانی، نہ احساس گناہ، نہ تو بہ، نہ خدا سے مغفرت کا چاہنا.گناہ پر گناہ جمع ہونا شروع ہو گیا.کسب گناہ کیا.عربی میں اسے ہم کسب گناہ کہیں گے اور جب گناہوں کا پلڑا بھاری ہو گیا نیکیوں سے.ہر گناہ گار بھی کوئی نہ کوئی نیکیاں بھی کر رہا ہوتا ہے اپنی زندگی میں ، کتے کو روٹی دے دی.جہاں سوجھوٹ بولے وہاں پچاس ساٹھ سچ بھی بول دیئے لیکن یہاں يكسبون کسب گناہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی نیکیاں کم وزن ان کے گناہ بڑے وزن والے.تو بہ انہوں نے کی نہیں.پشیمانی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے.اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہی نہیں.خدا تعالیٰ نے ان کی تو بہ کو قبول نہیں کیا.ساری زندگی ایک کے بعد دوسرا گناہ جمع ہوتا رہا.اس لئے النار نار جہنم وہ ان کا ٹھکانہ ہے.جو خدا تعالیٰ کے پیار سے اپنی روح کا.میں جلا پیدا نہیں کر سکے اللہ تعالیٰ ان کے زنگ کو دور کرنے کے لئے جہنم میں انہیں پھینکے گا تا کہ سزا کے نتیجہ میں پھر ایک وقت ایسا آئے کہ جب وہ اتنی سزا بھگت لیں تو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے قابل ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہاں کہ ان کے مقابلہ میں ایک اور گر وہ بھی ہے اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا چونکہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۸۰ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء یہاں اس کے مقابلے پر آیا ہے.اس لئے ایمان کا اشارہ ان تمام باتوں کی طرف ہوگا جن کا ذکر پہلی آیت میں ہے.یہ وہ گروہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا جن کے متعلق کہا گیا تھا اس گروہ میں شامل نہیں ہوا.یہاں ایمان اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کے اس کی معرفت حاصل کی اس کی ذات کی بھی اور اس کی صفات کی بھی.یہ وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں.اپنی ساری امیدیں اسی سے وابستہ رکھتے ہیں اور غیر اللہ کی طرف نگاہ نہیں رکھتے اور امید کا حقیقی مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے ہیں.امنوا وہ ایمان لاتے ہیں خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو وہ سمجھتے ہیں اس کی کبریائی کے جلوے ان پر ظاہر ہوتے ہیں.اور ان کے دل خشیت اللہ سے بھر جاتے ہیں اور لرزاں ترساں اپنی زندگیوں کے دن گزارنے والے ہیں.اور وہ ایمان لاتے ہیں اللہ پر، وہ جانتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں کی تو بہ کو قبول کرتا ہے.انسان ہیں غلطیاں ہو جاتی ہیں ان سے.مومن ہیں غلطی کرتے ہیں پشیمان ہوتے ہیں.پشیمان ہوتے ہیں اپنے رب کی طرف رجوع کرتے اور تو بہ کرتے ہیں.اپنے غفور خدا سے مغفرت چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور ایمان لاتے ہیں کہ تو بہ کے نتیجہ میں گناہ جمع نہیں ہوا کرتے بلکہ تختی صاف ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے.یہ وہ گروہ ہے وَعَمِلُوا الصلحت جو نیک اور مناسب حال عمل کرتے ہیں.نیک عمل حقیقتا وہ ہے جو قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق کیا جائے.قرآن کریم نے ہماری ساری زندگی کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز قرآن کریم تم سے محاسبہ کرے گا کہ چھ یا سات سو جتنے بھی احکام ہیں ان کے مطابق تم نے اپنی زندگیاں گزاریں یا نہیں قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنا ہر امر اور نہی کے مطابق زندگی گزارنا یہ نیک زندگی ہے یہ پاک زندگی ہے لیکن قرآن کریم صرف یہ نہیں کہتا کہ نیک بنو اس معنی میں کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ نیک بھی بنو اور صاحب فراست بھی بنو اور نور بھی خدا تعالیٰ سے حاصل کرو تا کہ جہاں قرآن کریم کی ہدایت ہی دور استے تمہارے سامنے کھولے اور تمہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۸۱ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء اختیار دے کہ جو مناسب حال راستہ ہے اس کو اختیار کرو تو تم واقعہ میں مناسب حال راستہ اختیار کرنے والے ہو.مثلاً کہا گیا کہ جو تیرا گناہ کرتا ہے اسے معاف بھی تو کر سکتا ہے بدلہ بھی تو لے سکتا ہے لیکن مناسب حال راہ کو اختیار کر اگر معافی سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے معاف کر دے.اگر انتقام سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے معاف نہ کر انتقام لے.بعض لوگ معافی دے کر گناہ کرتے ہیں.معافی دے کر گناہ گار کو گناہ میں بڑھانے والے بن جاتے ہیں.معاف کر کے گناہ کرنے میں اس کے ممد اور معاون بن جاتے ہیں.بہت سے احکام ہیں جن پر مناسب حال ہونے کا حکم چسپاں ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہمیں عمل کرنے کا حکم ہے.الصلحت میں جو مناسب حال ہے یعنی اس میں جو مناسب کا مفہوم ہے اس سے ایک اور بات کا بھی ہمیں پتہ لگتا ہے اور وہ ایک اور چیز کی طرف اشارہ ہے قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ میں کتاب مبین بھی ہوں اور کتاب مکنون بھی ہوں تعلیم کا جو پہلو زمانے کے لحاظ سے مناسب حال ہے.مراد ہے تعلیم تو اپنی جگہ قائم ہے اس میں تو کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں لاہور میں کھول کے بیان کیا تھا لیکن ایک ہی تعلیم ہے اس کے بہت سے پہلو نکلتے ہیں.کچھ پہلو وہ نکلتے ہیں جن سے بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی بنیادی تعلیم کا ایک پہلو اجاگر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں مطہرین میں سے کسی کو چنا اور اسے سمجھتا ہے کہ ہمارا جو یہ حکم ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے.وہ مکنون کا حصہ جو ہے چھپی ہوئی چیز وہ ظاہر ہو جاتی ہے، وہ روشن ہو کے ہمارے سامنے آجاتی ہے پھر وہ مبین کا ایک حصہ بن جاتی ہے.اس لئے قرآن کریم کامل اور مکمل شریعت اس لئے بھی ہے کہ وہ مسائل جو نزول قرآن سے صدیوں بعد پیدا ہونے والے تھے ان مسائل کو بھی قرآن عظیم نے احسن رنگ میں بہترین رنگ میں حل کیا اور حل کیا اپنے ان بندوں کی وساطت سے جنہوں نے خدا کا پیار حاصل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ خود ان کا معلم بنا اور اسرار قرآنی اس نے ان کو سکھائے اور اس زمانہ پر رحم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے اس زمانہ کے، جو بھی زمانہ تھا جو بھی صدی تھی ، اس میں نئے مسائل جو اُبھرے تھے ان کا قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں حل انسان کے ہاتھ
خطبات ناصر جلد هشتم میں رکھ دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۵۸۲ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِايْمَانِهِمْ جس معنی میں یہاں ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ لوگ جو اس معنی کے لحاظ سے ایمان کے ہر پہلو کے لحاظ سے مومن ہیں اللہ تعالیٰ کامیابی کی راہ پر انہیں آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے يَهْدِيهِمْ یعنی یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ انسان ایک وقت میں نیک کام کرنے والا ، مناسب حال کام کرنے والا بھی ہے لیکن جو آج کے بعد میں سالہ اس نے زندگی گزاری کسی وقت میں وہ ٹھو کر بھی کھا سکتا ہے.یہ بھی اس کے ساتھ لگا ہوا ہے اس واسطے خدا تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ہم اپنے بہتر خیر خاتمہ تک نہیں پہنچ سکتے.اس کی یہاں بشارت دی کہ تم ایمان اور عملِ صالحہ پر قائم رہو.خدا تعالیٰ تمہارا خاتمہ بالخیر کرنے کا سامان پیدا کر دے گا.يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِايْمَانِهِمْ تمہارا خاتمہ بالخیر ہوگا یعنی آخری سانس تک تم خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھو گے تم خدا کے اخلاق اپنے اخلاق پر چڑھا کے زندگی گزارنے والے ہو گے.تم فانی فی اللہ اور فانی فی محمد کی حیثیت میں اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی زندگیوں کے اوقات گزارنے والے ہو گے.تم پر خدا تعالیٰ یہ فضل کرے گا.اپنی کوشش سے انسان ایسا نہیں کر سکا.یہ جو عمل ہے اس میں مثلاً ہم کسی کو عمل صالح کسی کو اس کا حق دیتے ہیں ، مال کے لحاظ سے کوئی ایسا طالب علم ہو نہار آجاتا ہے جس کا ہم وظیفہ مقرر کرتے ہیں.اس کا حق خدا نے قائم کیا ہے.یہ بھی عمل صالح ہے اور خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرنا اس کی کبریائی بیان کرنا اور اس کے جلال اور اس کی جو عظمت ہے اس کا ہر وقت اپنے ذہنوں میں تصور رکھنا اور دنیا کے سامنے اس کی عظمت و جلال کو پیش کرنا اس کے حُسن کے جلوؤں سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرنا دعاؤں کے ذریعے.تو دعا بھی عمل میں شامل ہے.اسی واسطے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ جس شخص نے کامیاب ہونا ہو وہ تد بیر کو بھی اپنی انتہا تک پہنچائے جو ظاہری چیز ہے اور دعا کو بھی اپنی انتہا تک پہنچائے.جب دعا اور تد بیر دو مختلف چیزیں چلتی چلتی ایک نقطے پر اکٹھی ہو جاتی ہیں.نقطہ کمال پر تب اللہ تعالیٰ فضل کرتا اور دعا کو قبول کرتا اور تدبیر میں اپنی رحمت سے ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۸۳ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء کامیاب ہو جاتا ہے.انسان يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِايْمَانِهِمْ اس ایمان میں دعا شامل ہے دعا بھی عمل صالح ہے اللہ اکبر کہنا، الْحَمدُ للهِ کہنا، سُبْحَانَ اللہ کہنا خدا تعالیٰ کی صفات کا ورد کرنا یہ سب دعاؤں میں شامل ہیں.تو جو شخص دعاؤں میں لگا رہتا ہے (ایمان میں وہ بھی ہے ) اور دوسرے احکام بھی بجالاتا ہے اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کرتا ہے کہ کامیابی کی راہ پر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ان کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے ساری عمر نیکی پر وہ قائم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ خاتمہ بالخیر یہ نویں بات بتائی اللہ تعالیٰ نے.وو دسویں یہ بتایا : - دَعُوهُمْ فِيهَا سُبُحْنَكَ اللهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمٌ ۚ وَآخِرُ دَعُوهُمْ آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ زیادہ لمبی تفسیر کرنے کی بجائے میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اس آیت سے ہمیں پتہ لگا، یہ بات بڑی اہم ہے مجھ سے بھی بہت دفعہ بہتوں نے سوال کیا کہ کیا جنت میں عمل نہیں ہوگا تو یہ بھی بعض لوگوں کے دماغ میں اُلجھن پیدا کرتا ہے بعض نا سمجھی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کوئی عمل نہیں ہے.اس دنیا میں ہے.ہمارا محاورہ بھی ہے کہ یہ عمل کی دنیا ہے.عمل عمل میں فرق ہے.ایک وہ عمل ہے جو امتحان کے طور پر ہوتا ہے یعنی ایک وہ عمل ہے جو مثلاً بی.اے کا ایک طالب علم کر رہا ہے.محنت کرتا ہے.بڑی محنت کرتا ہے راتوں کو جاگتا ہے، جو اچھے پڑھنے والے ترقی یافتہ اقوام میں ان کے نوجوان اتنی محنت کرتے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.آکسفورڈ میں میں نے دیکھا کہ محنتی طالب علم اپنی کلاس کے علاوہ بارہ تیرہ گھنٹے روزانہ اتوار سمیت سات دن ہفتہ کے سارے دنوں میں بارہ تیرہ گھنٹے خود اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتا ہے.یہ عمل ہے جس کے بعد وہ کسی نتیجہ یعنی امتحان میں یا فیل ہو گا یا پاس ہوگا یعنی ایسا عمل جس کے نتیجے میں فیل ہونا یا پاس ہونا لگا ہوا ہے.یہ جو ساری دنیا ہے ہماری جس کو ہم عمل کی دنیا کہتے ہیں اس کو ہم جزا کی دنیا بھی کہتے ہیں یعنی یہاں کے سارے اعمال ایسے ہیں جن کے نتیجے میں یا اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوگا یا اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوگا یا ہمارے اعمال مقبول ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے گا.اپنی رحمت سے یا رد کر دیئے جائیں گے یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی جنتوں میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۸۴ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء ہمیں داخل کرے گا مرنے کے بعد یا غضب کی آگ میں انسان کو جلنا پڑے گا.تو یہ ایسے اعمال ہیں جزا اور سزا جن سے متعلق ہیں.بعض ایسے اعمال ہیں جن کے ساتھ جزا اور سزا متعلق نہیں جنت معمور الاوقات ہے.نکتا نہیں بیٹھے گا انسان.خدا کی جنتوں میں کام کرنا پڑے گا اور اس کی دو مثالیں اس آیت میں خدا تعالیٰ نے دی ہیں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنا.دَعْوهُمْ فِيهَا سُبْحَنَكَ اللَّهُم وَأَخِرُ دَعْوبُهُمْ أَنِ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اور بڑا عمل جنتیوں کا اللہ تعالیٰ کے پیار میں اس کی تسبیح اس کی نقد میں اس کی حمد کرنا یہ عمل ہوگا اور دوسرا انسانوں کے ساتھ تعلق رکھنے والا عمل ہوگا اور وہ یہ ہوگا.تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلم ان کے لئے دعائیں کرنا.یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں اور اس کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ نازل ہوں تم پر ایک دوسرے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے.یہ نہیں ہوگا کہ انسان مرنے کے بعد جس جنت میں جائے گا جب وہ وہاں سُبْحَانَ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ - اَلْحَمْدُ لِلهِ کہے گا تو خدا تعالیٰ اس دنیا میں تو بعض انسانوں کو کہتا ہے کہ تم زبان سے سُبحان اللہ کہہ رہے ہو مگر تمہارا عمل بتا رہا ہے کہ تم خدا تعالیٰ میں ہزار عیب بھی دیکھ رہے ہو حالانکہ خدا تعالیٰ میں تو کوئی عیب نہیں ہے.وہ تو ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے، ہر جہت سے اوپر نیچے ظاہر و باطن، ہر لحاظ سے پاک ہے پاکیزگی کا سر چشمہ ہے لیکن تم خدا تعالیٰ کو ایک ہی زبان سے رازق بھی کہہ رہے ہوتے ہو اور اسی زبان سے تم لوگوں سے مانگ بھی رہے ہوتے ہو.تم خدا کو رازق سمجھتے ہوئے.رشوت دینے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہولیکن اس قسم کا نقص اور خامی جنت کی دعاؤں میں نہیں ہوگی کہ جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید بھی رڈ کر دی جاتی ہے بلکہ پاک زبانوں سے پاک خدا تعالیٰ کی پاک حمد کے ترانے نکلیں گے.جو خدا کو پیارے لگیں گے اور اس کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر روز جنتی ان اعمال مقبولہ کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو پہلے دن سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں گے.تو وہاں عمل ہے لیکن یہ خطرہ نہیں کہ ناکام ہو جائیں گے.خطرات سے پاک عمل جنت میں بھی ہیں.دعائیں ہیں جس کی مثال یہاں دی گئی ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۸۵ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۰ء لیکن وہ لوگ لَا يَرْجُونَ لِقاءَنَا کے دائرے کے اندر آتے ہیں وہ تو جس طرح پہلے میں بتا چکا ہوں ان کی کیفیت قرآن کریم نے کیا بیان کی ہے وہ تو اس نعمت سے بھی محروم ہوں گے نا.سزا بھگتیں گے.اللہ تعالیٰ معاف کرے ہر ایک کو بڑا سوچا ہے ایک لحظہ کا بھی خدائی قہر جو ہے وہ انسان برداشت نہیں کر سکتا لمبا عرصہ تو علیحدہ رہا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی رحمت کے سایہ میں رکھے.اور اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ کے گروہ میں ہمیشہ شامل رکھے.اس گروہ سے ہمیشہ دور پرے اور ان کے اثرات سے محفوظ رکھے جن کے متعلق کہا ہے إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَ رَضُوا بِالْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاتُوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ.یہ دنیا ذریعہ بنے اُخروی زندگی کی نعما کا.اطمینان اس دنیا کی کسی خوشی سے ہمیں حاصل نہ ہو.اطمینان صرف اس وقت ہمیں حاصل ہو جو ہمارے پیارے رب کی آواز ہمارے کان میں پڑے کہ گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں اور خدا تعالیٰ کے نشانات جو ظاہر ہوں دنیا میں ہم اسے دیکھنے والے، سمجھنے کی طاقت رکھنے والے ہوں، ان سے فائدہ اٹھانے والے ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے پیار کے جلوے ہماری ذات میں بھی ہمیں دکھائے.ہمارے ماحول میں بھی ہمیں دکھائے اور وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہونے کی توفیق پائے.روزنامه الفضل ربوه ۸ /اکتوبر ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۶)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۸۷ خطبه جمعه ۱۵ فروری ۱۹۸۰ء ہماری زندگی کی آئندہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵ / فروری ۱۹۸۰ء بمقام محمود آباد.سندھ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرما یا وسغ مَكَانَك اور اس کے جلوے ہم ہر وقت، ہر جگہ دیکھتے ہیں.آج یہ مکان اللہ تعالیٰ کا گھر اللہ کے بندوں کے لئے تنگ نظر آتا ہے اس میں بھی وسعت پیدا ہونی چاہیے.اور جوں جوں اجتماع بڑا ہو جائے.لاؤڈ سپیکر کی زیادہ ضرورت پڑگئی اور لاؤڈ سپیکر نے عادت ڈال دی آہستہ بولنے کی اور لاؤڈ سپیکر نے مطالبہ کیا منتظمین سے کہ وہ لاؤڈ سپیکر کا نظام بہتر بنا ئیں ورنہ لوگوں کو تکلیف ہوگی.اب مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میری آواز آپ تک پہنچ رہی ہے یا نہیں.( سب جگہ آواز پہنچنے کی آواز دی گئی فرما یا ) خدا کرے پہنچتی رہے.رات کو نماز کے وقت لاؤڈ سپیکر خراب ہو گیا تھا.صد سالہ جوبلی کا منصوبہ جب بنائیں اس وقت سے کہہ رہا ہوں جماعت کو کہ ہماری زندگی کی آئندہ صدی ، دوسری صدی جو ہے وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے اور اس کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیے.چند سال پہلے کی بات ہے اس وقت پندرہ سال کچھ مہینے رہتے تھے اس صدی کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۸۸ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء شروع ہونے میں جس کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں.کئی سال گزر گئے ہیں اور اب قریباً نو سال باقی رہ گئے ہیں اس صدی کے شروع ہونے میں جو میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس کے لئے جماعت نے فراخ دلی سے مالی وعدے کئے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذہین نوجوان دینے شروع کئے.بچے دینے شروع کئے جو جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں.بڑے ذہین ہیں، مخلص ہیں، بہت اچھی وہاں نئی پودنکل رہی ہے ضرورت تھی ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس استقبال کے لئے جو ابتدائی کام تھے بہت سی سہولتیں مہیا کر دیں اور بہت سے کام شروع ہو گئے.سویڈن میں مسجد بنانے کا پروگرام اسی منصوبہ کے ماتحت تھا.گوٹن برگ میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر بڑی اچھی مسجد بن گئی اور اس کے نتیجہ میں وہاں اسلام میں، احمدیت میں لوگ پہلے کی نسبت بہت زیادہ داخل ہونے شروع ہو گئے.اس کے نتیجہ میں اس ملک میں اسلام کی نمائندگی کے بہتر سامان پیدا ہو گئے.اسلام کے خلاف جو بغض تھا وہ بہت حد تک دور ہونا شروع ہو گیا.اب وہ اسلام کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غصہ کی بجائے احترام سے لینے لگ گئے ہیں.ابھی کچھ ہیں ایسے شقی القلب اور بے نصیب جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچانا نہیں، جنہوں نے پہچانا ہے انہوں نے بھی ابھی پوری طرح نہیں پہچانا.اتنا پہچان گئے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے متعلق جب بات کریں تو عزت و احترام سے بات کرنی چاہیے.سکنڈے نیوین کنٹریز (Countries) میں سے ایک ملک رہ گیا تھا ناروے.ناروے میں ڈنمارک اور سویڈن سے زیادہ جماعت ہے لیکن وہاں نہ مشن ہاؤس تھا نہ کوئی نماز پڑھنے کی جگہ تھی.یہ بہت مہنگے ملک ہیں.انگلستان سے بھی زیادہ یہ مہنگے ملک ہیں.نہ پیسہ تھا کہ اتنی مہنگی کوئی عمارت خرید لی جائے جو ہمارے کام آئے ، نہ زمین مل رہی تھی.بہر حال کوششیں جاری تھیں.پچھلے سال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ایک بہت بڑی عمارت کافی بڑی رقم جو خدا تعالیٰ نے خود اپنے فضل سے مہیا کر دی تھی وہ خرچ کرنی پڑی اور وہاں وہ عمارت مل گئی.نماز کے لئے جگہ بن گئی.لائبریری کے لئے جگہ بن گئی اور بڑی خوشی کے سامان وہاں کی مقامی جماعت کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۸۹ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء لئے بھی اور آپ کے اور میرے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دیئے.سپین عیسائیت کا گڑھ ہے.کیتھولزم بڑا گہر اوہاں گڑا ہوا ہے.اسلام سے نفرت وہاں عام پائی جاتی ہے.اس وجہ سے کہ ایک وقت میں مسلمان وہاں کا حاکم تھا.پھر اپنی ہی غفلتوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو وقتی طور پر انہوں نے کھویا اور سارا ملک بھی کھو یا اس کے نتیجہ میں اور جہاں مشرق و مغرب، شمال و جنوب میں مسلمان ہی مسلمان اور اسلامی معاشرہ اور اسلام کی شان اور خدا تعالیٰ کی محبت کے جلوے ان کی زندگی میں نظر آ رہے تھے وہاں بت پرستی شروع ہوگئی اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا کے انہوں نے وہاں زندگی گزارنی شروع کی اور طبعاً حالات کے نتیجہ میں انہیں بڑی سخت نفرت اسلام اور مسلمان سے تھی، نام نہیں لیتے تھے.ہماری سب سے بڑی مسجد مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں جو بنائی وہ چین میں ہے مسقف چھت اس کی بہت وسیع ہے.( ایک منزلہ چھت میں جان کے کہہ رہا ہوں کیونکہ بعض مسجد میں بنی ہیں چھ چھ منزلہ ان کی بات نہیں میں کر رہا ) ایک منزل ہے اور چالیس ہزار نمازی مسقف چھت کے نیچے نماز پڑھ سکتا ہے.اتنی بڑی مسجد ہے جو ہاتھ سے نکل گئی.انہوں نے وہاں ایک گرجا بنا یا.ساری مسجد کو گر جا نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ ہر دن کا ہر لمحہ جو تھا وہ ان کا مضحکہ اڑاتا اتنی بڑی مسجد کو گر جا بنایا اور چند آدمی وہاں آئے عیسائی طریقے پر عبادت کرنے کے لئے.میں جب ۷۰ ء میں اس مسجد کو دیکھنے گیا تو مجھے وہ گر جا نظر ہی نہیں آیا.پرانی عظمتیں اور ان کی یاد میرے ذہن میں آئی تو بڑی محبت کا اظہار کیا ہے اس زمانہ کے مسلمان نے خدا کے ساتھ اور خدا کے گھر کے ساتھ ہیرے جواہرات اور سونے سے وہاں نقش و نگار کر دیئے تھے.جڑاؤ ( کا ) کام کر دیا اپنی جانوں پر اپنی عورتوں پر ہیرے جواہرات اور سونا خرچ نہیں کرتے تھے.خدا کے گھر پر خرچ کر دیا.یہ لوٹ کے لے گئے ایک چھوٹا سا گر جا بنادیا.نظر میری اٹھی ان ستونوں پر اس کی وسعت پر اور کسی نے مجھے کہا وہ وہ دیکھیں (وہ لمبا کیا دوری بتانے کے لئے ) ایک گرجا بھی بنا ہوا ہے اس مسجد کے اندر.6 میں نے ۷۰ء میں تجویز کی کہ تم نے جو ہماری مسجد میں لی ہیں ٹھیک ہے حالات بدلے،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۹۰ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء لے لیں.طلیطلہ میں ایک جگہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے جو اس مسجد سے قریباً نصف کے برابر ہے.میں نے کہا یہ ہمیں استعمال کے لئے دے دو میں سال کے لئے.میں نے وہاں اپنے مبلغ کو کہا ہیں سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام کے حق میں ، جماعت احمدیہ کے حق میں اس قسم کا انقلاب یہاں بپا ہوگا کہ اس کے بعد پھر یہ شکل بدل جائے گی اس واسطے ان کو کہو کہ بیس سال کے لئے نماز کے لئے استعمال کی ہمیں اجازت دے دیں.ساتھ ان کے مشن ہاؤس بھی بن سکتا تھا.حکومت کہے کہ ہم راضی ہیں اور امید بندھ گئی لیکن جو وہاں کے سب سے بڑے بشپ تھے انہوں نے کہا ہم نے تو کوئی نہیں دینی.ان کا وہاں بڑا اثر ہے اس واسطے نہیں ملی.پچھلے سال خدا تعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کیا کہ وہ شہر قرطبہ جہاں سب سے بڑی مسجد ہے اس سے قریباً بیس بائیس میل کے فاصلے پر ایک زمین مل گئی ( مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ) اور اجازت مل گئی مسجد بنانے کی.یہ سب سے بڑی چیز ہے.مقامی منتظمہ نے بھی اجازت دی اور مرکزی حکومت نے بھی اجازت دی کہ بے شک یہاں مسجد بنالو.اوسلو میں مل گئی.یہ زمین مل گئی.فرانس اور بجٹیم اور اٹلی رہ گئے ہیں.میرا خیال ہے اور ایک سال میں یہاں بھی مساجد کا انتظام ہو جائے گا.یہ میں بتا رہا ہوں کہ یہ بھی ایک تیاری تھی استقبال کی کہ ہر جگہ ہمارے مشن ہوں.پھر قرآن کریم کی اشاعت کے بھی سامان پیدا ہو گئے جلسے پر میں نے بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک مطبع خانہ ایسا ملا ہمیں جس سے ہمارا تعلق قائم ہو گیا ہے.کوئی سات آٹھ مہینے کی خط و کتابت کے بعد بہت سے جھگڑوں کے بعد وہ راضی ہوئے قرآن کریم ہمارے لئے چھاپنے کے لئے یہ مراحل جب طے ہو گئے تو چند دن کے اندر بیس ہزار نسخے انہوں نے شائع کر دیئے اور اس طرح ہمیں امید بندھی کہ انشاء اللہ تعالیٰ کل کو اگر ہمیں بیس ہزار نہیں ہیں لاکھ کی بھی ضرورت پڑی تو سو دو سو دن کے اندر نہیں لاکھ شائع کر دیں گے.بہت بڑا مطبع خانہ ہے.وہ بھی میں نے بتایا تھا کہ جلسہ سالانہ پر فضلوں کا منادی خلیفہ وقت بن کر یہ تقریر دوسرے دن کی کیا کرتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہو گیا.اس چھوٹی سی تمہید کے بعد اس وقت میں جماعت کو مختلف پیرا یہ میں ایک اور ضروری اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۹۱ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء سب سے اہم بات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اسلام غالب آئے گا اور غالب آئے گا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی جماعت کے ذریعہ اور اللہ تعالیٰ اس جماعت کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ وہ ایک صحیح اور پاک تعلیم جو ہے اسلام کی اس کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہو جا ئیں گے.خدا تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا.خدا تعالیٰ نے قرآن میں بار بار اس طرف انسان کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو جو میں وعدہ کرتا ہوں وہ پورا ہوتا ہے اس واسطے جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا.اسلام غالب آئے گا تو اسلام غالب آئے گا اس زمانہ میں.قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں اسلام نے غالب آنا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے فرمان دیئے انسان کو اور ان میں یہ ذکر ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام غالب آئے گا اور آپ نے جو بھی فرمایا وہ قرآن کریم کی ہدایت اور تعلیم اور آیات قرآنی کی روشنی میں فرمایا.جس شخص نے آنا تھا ہمارا عقیدہ ہے اور اس صداقت پر ہم قائم ہیں وہ آ گیا.مسیح اور مہدی آگئے ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم کام لینا تھا.بتا میں یہ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے کہا اسلام غالب آئے گا اسلام غالب آئے گا.ایک لحظہ کے لئے بھی تمام روکوں کے باوجود، جماعت کی مخالفت کے باوجود، جماعت کی غربت کے باوجود، جماعت کی کمزوریوں کے باوجود، میرے دماغ میں یہ شبہ پیدا نہیں ہوتا کہ یہ بات پوری نہیں ہوگی.خدا نے کہا ہے ہوگی.سو ہوگی یہ حقیقت ہے.دوسری حقیقت قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ اگر ماننے والی جماعت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرے گی یاد دہانیوں کے باوجود، سمجھانے کے باوجود، پیار کے باوجود، نرمی کے باوجود، سختی کے باوجود تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم لے آئے گا اس جھنڈے تلے اور ان کے ذریعہ سے غالب کرے گا.غالب تو ضرور کرنا ہے اور کرنا جماعت احمدیہ نے ہے مگر افراد بدل جائیں گے اس صورت میں.ہمارا دل یہ کرتا ہے کہ افراد نہ بدلیں.ہمارا دل یہ کرتا ہے کہ میرے اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس عظیم انقلاب کو انسان کی زندگی میں بپا کرے.اس لئے بہت سے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۹۲ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء کام خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنی رحمت سے کر دیئے جن کی طرف میں نے کچھ اشارے کئے ہیں.جلسے پر بھی میں نے کہا تھا کہ نوٹ جو میرے ہاتھ میں ہیں وہ چوہتر صفحے کے ہیں اور جو تقریر میں کروں گا شاید دو چار پانچ صفحے سے آگے نہ بڑھ سکوں.جو سب سے اہم چیز ہے وہ یہ ہے کہ جو اس وقت موجود جماعت احمدیہ کے افراد ہیں ان کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو.اسلامی تعلیم کے مطابق ، اسلامی ہدایت کے مطابق ہمارے مرد اور ہماری عورتیں ، ہمارے بڑے اور ہمارے چھوٹے اور ہمارے جوان اور ہمارے بچے زندگی گزارنے والے ہوں.جب تک وہ انقلاب جو دنیا میں خدا الا نا چاہتا ہے وہ ہماری زندگی میں نہیں آتا ہم کس طرح اس انقلاب کو دنیا میں بپا کر سکتے ہیں.یہ کہنا کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے گا، یہ کہنا کہ نوع انسانی ، نوع انسانی کا مطلب یہ ہے کہ افریقہ کے رہنے والے قریباً سارے انسان، جنوبی امریکہ کے رہنے والے برازیل وغیرہ وہاں بہت سارے ممالک ہیں وہاں کے رہنے والے سارے باشندے شمالی امریکہ جس کا بہت ذکر آج کل آرہا ہے افغانستان کی گڑ بڑ کی وجہ سے وہاں کے سارے باشندے جو ہیں، کینیڈا ہے، یورپ ہے مشرق قریب (Near East) اور مشرق وسطی (Middle East) اور مشرق بعید (Far East) ممالک جو ہیں، جزائر جو ہیں، چائنہ جو ہے اور یہ جو کمیونسٹ ایشیا ہے اور جاپان اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور نجی آئی لینڈ وغیرہ وغیرہ جہاں جہاں انسانی آبادیاں بستی ہیں وہ ساری کی ساری اسلام میں داخل ہو جائیں گی لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ مسلمان کہلانے لگیں گے.مسلمان کہلا نا کسی خطے کا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ اسلام وہاں غالب ہے.یہ بتاتا ہے کہ وہاں مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت ہے.غلبہ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں گے.اگر غلبہ اسلام کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے لگیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ وہ صحیح شکل میں مسلمان ہو کے ان کی روح کے اندر اسلام داخل ہو چکا ہو.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اسلام کے معنی ہیں کامل اطاعت اور مثال یہ دی ہے ہمیں سمجھانے کے لئے کہ جس طرح ایک بکرا جبراً ( وہ تو اس کے اوپر جبر ہو رہا ہے تب ) قصائی کی چھری کے نیچے اپنی گردن رکھ دیتا ہے اس طرح انسان اپنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۹۳ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء مرضی سے اور طوعاً بغیر کسی قسم کے جبر کے خدا تعالیٰ کی اطاعت کے نیچے اپنی گردن رکھ دے.یہ ہے اسلام، یہ ہے اسلام کا غلبہ.جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے گا تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ساری دنیا کے انسان، اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہونے لگیں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت کو حاصل کرنے والے ہوں گے.روس آج یہ کہہ رہا ہے کہ میں زمین سے خدا کے نام اور آسمان سے خدا کے وجود کو مٹانے کے لئے قائم ہوا ہوں.حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا خدا یہ کہ رہا ہے کہ نہیں ! تمہارے ملک میں ریت کے ذروں کی طرح مسلمان پایا جائے گا.یہ کشف میں نظارہ دکھایا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو.وہ لوگ جو موجودہ تہذیب کی آزادانہ گندگی میں ملوث ہیں.امریکہ کو لے لو.لاکھوں کنواری بچیاں، بارہ اور اٹھارہ سال کے درمیان کی وہ شادی کے بغیر بچے جن دیتی ہیں.اتنا گند وہاں پھیلا ہوا ہے.ان میں سے ایک چیز ابھر رہی ہے اس گند میں سے.جس طرح کھاد ڈالی جاتی ہے گندی زمین میں اور وہاں سے گلاب کا پھول نکل آتا ہے.ایک وقت میں کثرت کھاد کی نظر آ رہی ہوتی ہے.ایک وقت میں کثرت اور توجہ کو جذب کرنے کی طاقت اس تختے کے گلاب میں ہوتی ہے جو پھول بن کے سامنے آجاتا ہے.بہر حال اس وقت تو اکا دُکا وہاں احمدی ہیں.مثلاً احمدی مستورات ہیں.بعض کہتی ہیں ہم نقل کریں گی یورپ کی.اپنی بہنوں کی جو بے پردگی کی طرف مائل ہو رہی ہیں.میں کہتا ہوں امریکہ میں اس گند میں ہماری نو احمدی بہنہیں کہتی ہیں ہم نقل کریں گی صحابیات کی اور وہ نقاب پہن کر بازاروں میں پھر رہی ہیں.یہ ہمیں ڈرانے کے لئے بھی نظارے خدا دکھا رہا ہے.میں نے بتایا کہ خدا کہے گا تم نہیں کرتے میں ایک اور قوم لے آؤں گا.خدا تعالیٰ کی کسی سے رشتہ داری نہیں.خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کی اجارہ داری نہیں کہ وہ کسی اور پر اپنا رحم ہی نہیں کرے گا.ہر وہ انسان خواہ وہ افریقہ کا ہو، یورپ، امریکہ، چین یا روس کا جو بھی خدا سے پیار کرے گا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے گا وہ خدا کی محبت کو حاصل کرے گا اور جو قو میں اس میں ترقی کریں گی ان میں سے جو سب سے زیادہ ترقی کرنے والی ہوگی
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۹۴ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء وہ مرکز بن جائے گا اس تحریک کا.پاکستان کے ساتھ یا ہندوستان کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کو پیار نہیں.خدا تعالیٰ کو پیار ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کے ساتھ جس کی زندگی کا نقشہ اگر ایک فقرہ میں کھینچنا ہو تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مہدی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں فانی ہو گئے.اپنا کچھ بھی نہیں رہا اور اس میں فخر محسوس کیا اور اعلان کر دیا.بع وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے اور ہمارے کانوں میں وہ میٹھی آواز پڑی كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ - اگر خدا تعالیٰ کی برکتیں حاصل کرنا چاہتے ہو تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ شاگردی میں شامل ہو جاؤ.اگر پاکستان نے اس تحریک کا مرکز بنے رہنا ہے تو اپنے عمل سے انہوں نے آگے بڑھنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے قرآن کریم میں تقریباً سات سو احکام ہیں اور ہر حکم قرآن کریم کا مرنے کے بعد قیامت کے دن تم سے سوال کرے گا اور جواب طلبی کرے گا کہ میرے مطابق تم نے زندگی گزاری یا نہیں.چونکہ اس وقت مرکز اور بعض پہلوؤں کے لحاظ سے مرکزیت اور قیادت پاکستان کی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اپنی سی کوشش کروں کہ آپ کے ہاتھ سے یہ قیادت نکل کے کسی اور کے پاس نہ چلی جائے.سوچو،غور کرو اور یہ عہد کر واپنے خدا سے کہ اے خدا! تو کہتا ہے پیار اور محبت سے رہو.ہم آئندہ کبھی آپس میں لڑیں گے نہیں.پیار اور محبت سے رہیں گے.تم یہ کہو اپنے خدا سے کہ اے خدا! تو کہتا ہے کہ لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (البقرة: ۱۸۹) ، ناجائز ، ناحق ، جھوٹ ، اور فریب کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے مال نہ کھایا کرو اور ہم عہد کرتے ہیں کہ کسی کا مال ناجائز اور حرام نہیں کھایا کریں گے.احسان کریں گے احسان لیں گے نہیں کسی کا.تیرے بندوں سے پیار کریں گے.حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.دکھ دور کرنے کی کوشش کریں گے.دکھ پہنچا ئیں گے نہیں، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے.خیالات میں بھی نہیں.۱۹۷۴ء میں جو کچھ ہوا اس وقت میں نے جماعت سے کہا تھا اور جماعت نے ، میں خوش ہوں بڑا اچھا نمونہ دکھایا، میں نے کہا تھا جن لوگوں سے تمہیں دکھ پہنچ رہا ہے،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۹۵ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء جواب میں دکھ نہیں پہنچانا.میں نے انہیں کہا تھا یہاں نہیں میں ٹھہرتا.میں تمہیں یہ کہتا ہوں تمہارے دل میں بھی ان کے خلاف غصہ نہ ہو.میں یہاں بھی نہیں ٹھہر تا تمہاری زبانوں پران کے لئے دعا ہو خدا کے حضور کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.بڑا اہم کام ہے جو ہمارے سپر د ہوا.بڑی اہم ذمہ داری ہے اس شخص کی جس نے خود کو حضرت مسیح موعود کے دامن کے ساتھ وابستہ کر لیا.جس نے یہ اعلان کیا کہ مہدی جس غرض کے لئے آیا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہم ہر چیز کو قربان کر دیں گے.تم اعلان یہ کرو اور تمہارا عمل کچھ اور ہو.ہوتا ہے اس طرح بھی لیکن اس پر خدا خوش نہیں ہوا کرتا اور اس کے نتیجہ میں وہ برکتیں اور رحمتیں حاصل نہیں ہوا کرتیں جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے.اس کے نتیجہ میں وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس مقصد کے لئے ہر فرد انسانی پیدا ہوا ، جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.کئی جگہ سے اطلاعیں آجاتی ہیں کہ آپس میں لڑ پڑے ذراذرا سی بات پر.تم جب تک مٹی نہیں بن جاتے ، جب تک تمہارا نفس مر نہیں جاتا ، جب تک تم ہر دوسرے کے لئے اکسیر نہیں بن جاتے ، جب تک تم احسان اور پیار کا اُبلتا ہوا چشمہ نہیں بن جاتے ، اس وقت تک اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.بہت سارے اور بھی خطبے دوں گا.آپ پڑھا بھی کریں اور سنایا بھی کریں سب کو ، تو جہ بھی دلایا کریں.نو سال ہیں اس میں یعنی اس صدی کے شروع ہونے میں جیسا کہ میں نے بتایا میں نے سوچا دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو بات واضح کی ہے وہ یہ ہے کہ احمدیت کی زندگی کی دوسری صدی ، غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے وہ جماعت چاہیے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.بع صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا جب ہماری وہ صدی ( یہ ہجری صدی کی نہیں میں بات کر رہا) ہماری زندگی کی صدی جو نوسال کے بعد آنے والی ہے.جب وہ پچھلی صدی پر نظر ڈالے، جو موجود ہو جماعت اس کے او پر اس صدی کی نگاہ پڑے وہ کہیں صحابہ میں اور ان ( میں ) کوئی فرق نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے عشق کرنے والے، اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے، اسی طرح
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۹۶ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء نوع انسانی کے خادم، اسی طرح ظلمات کو دور کرنے والے، اسی طرح بھائی چارے اور اخوت کو قائم کرنے والے ہیں یہ لوگ وغیرہ وغیرہ.میں نے کہا سات سو احکام ہیں ہر ایک پر چلنے والے ہیں یہ لوگ.تب وہ صدی غلبہ اسلام کی ہوگی مرکز احمدیت پاکستان میں رہتے ہوئے.ہوگی تو ضرور لیکن اسے باہر نہ جانے دو.پس دعائیں کرو اور بہت دعا ئیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کا مقام پہچاننے کی توفیق عطا کرے.بڑا بلند ہے مقام جہاں تک اللہ تعالیٰ آپ کو لے جانا چاہتا ہے.قرآن کریم میں ایک جگہ آتا ہے کہ کسی شخص کے متعلق وہاں مثال دی ہے کہ میں تو اسے آسمانوں تک پہنچانا چاہتا تھا ، خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ میں تو اسے آسمانوں تک پہنچانا چاہتا تھا مگر یہ نالائق جھک گیا زمین کی طرف خاک میں ملنے کی اس نے کوشش شروع کر دی اس طرح نہیں بنا بلکہ جب خدا تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ہمیں آسمانوں کی بلندیاں اور رفعتیں عطا کرے تو خدا تعالیٰ ہمیں ہر اس نا پا کی اور پلیدگی اور گناہ اور غفلت سے محفو ظ ر کھے جس کے نتیجہ میں ہم وہاں نہ پہنچ سکیں جہاں وہ ہمیں پہنچانا چاہتا ہے.پس دعائیں کریں اور اپنی زندگیوں میں انقلاب عظیم بپا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اس وقت کے لئے تیار کریں جب جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت اپنی زندگی کی اگلی صدی میں داخل ہو رہی ہوگی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمانوں پر ان کے لئے دعا کر رہے ہوں گے اور خدا سے کہہ رہے ہوں گے کہ اے خدا! تیرے یہ بندے واقع میں اس مقابل ہیں کہ اس صدی میں جو آ رہی ہے آگے تیرے دین کو ساری دنیا میں اس معنی میں غالب کر دیں.میں مثال دے دیتا ہوں.ایک پریس کانفرنس میں جرمنی میں اسلامی تعلیم میں بتا رہا تھا تو ایک صحافی مجھ سے پوچھنے لگا ، ( باتیں سن کے اس پر اثر ہوا ) کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کےسارے باشندوں کو آپ مسلمان بنالیں؟ میں نے کہا نہیں.میں یہ چاہتا ہوں کہ اسلام کا محسن کچھ اس طرح تمہارے سامنے پیش کروں کہ تم مجبور ہو جاؤا سے قبول کرنے کے لئے سختی سے تو نہیں کرنا ہم نے.خدا آپ کے اندر یہ اہلیت پیدا کر دے کہ اسلام کے حسن اور احسان کے جلوے دنیا آپ کی زندگیوں میں کچھ اس طرح دیکھے کہ وہ مجبور ہو جائے اسلام کو قبول کرنے پر اور یہ گواہی دینے پر
خطبات ناصر جلد هشتم ۵۹۷ خطبه جمعه ۱۵ رفروری ۱۹۸۰ء کہ اسلام اس قسم کا انسان ، اس قسم کا مرد، اس قسم کی عورت ، اس قسم کا بڑا ، اس قسم کا بچہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور اپنے ہی فائدہ کے لئے ، اپنے جسمانی فائدہ کے لئے بھی ، اپنے ذہنی فائدہ کے لئے بھی ، اپنے اخلاقی فائدہ کے لئے بھی اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے روحانی فوائد کے لئے بھی وہ یہ سمجھیں کہ اسلام سے باہر وہ دولتیں اور رحمتیں ہمیں نہیں مل سکتیں ، وہ عر% تھیں اور رفعتیں ہم حاصل نہیں کر سکتے جو اسلام میں داخل ہو کے ہم کر سکتے ہیں، اس لئے ہمیں داخل ہو جانا چاہیے.آپ نے ایک نمونہ پیش کرنا ہے دنیا کے سامنے.آپ نے دنیا کو بتانا ہے کہ وہ کونسی راہ تھی جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم آج بھی ہمیں نظر آرہے ہیں وہ راہ جو سیدھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے اس کے لئے تیاری کریں.تیاری کرنا شروع کر دیں.ان نو سالوں میں یہ انقلاب عظیم جماعت احمدیہ کی زندگی میں بپا ہو جانا چاہیے تا کہ وہ اس سے بہت بڑا انقلاب عظیم جو نوع انسانی کی زندگی میں بپا ہونا ہے اس کے سامان ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.میں نمازیں جمع کراؤں گا.عصر کی نماز بھی پڑھیں گے جو دوست مقامی ہیں وہ دو رکعتیں میرے سلام پھیر نے کے بعد، یعنی میں دور کعتیں پڑھ کے سلام پھیروں گا ، وہ اپنی پوری کریں، جو یہاں مسافر ہیں وہ میرے ساتھ سلام پھیریں اور قصر کریں.( روزنامه الفضل ربوه ۶ رنومبر ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۵۹۹ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء انسان حضرت محمد کے نقش قدم پر چلنے اور آپ کی اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا محبوب اور مقترب بن سکتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ.کراچی تشہد وتعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قُلْ اِنّى أُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ - وَ أُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ - قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ - قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي - (الزمر : ۱۲ تا ۱۵) قُلْ إِنَّمَا اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ وَ لَا اُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ ادْعُوا وَ إِلَيْهِ مَأْبِ - وَكَذَلِكَ اَنْزَلْنَهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا وَ لَبِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ وَلِي وَلَا وَاق - (الرعد: ۳۷، ۳۸) یہ سورہ زمر اور رعد کی آیات ہیں.سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ یہ اعلان کر دو کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ اطاعت صرف اسی کے لئے مخصوص کر دوں اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے بڑا فرمانبردار بنوں.یہ بھی اعلان کر دو کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.
۶۰۰ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء خطبات ناصر جلد هشتم اور یہ بھی کہہ دو کہ اللہ نے مجھے یہ اعلان کرنے کے لئے کہا ہے کہ میری عبادت اور اطاعت کو اس نے قبول کیا.اس لئے اے سننے والوسن لو! کہ میں اللہ کی عبادت اپنی اطاعت کو صرف اس کے لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا ہوں.سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا قُلْ إِنَّمَا اُمِرْتُ یہ اعلان کر دو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا یہ اعلان کر دو کہ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں.میں اس کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میں بھی رجوع کرتا ہوں.وَكَذلِكَ انْزَلْنَهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا اور اسی طرح ہم نے قرآنِ کریم کو ایک مفصل حکم، احکام کا ملہ کے ساتھ مفضل حکم کی صورت میں اُتارا ہے اور اسے مخاطب ! اگر تو نے اس علم کے بعد جو تجھے حاصل ہو چکا ہے نزول قرآن کے ساتھ ، ان کفار کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلہ میں نہ تو تیرا کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا اللہ تعالیٰ کے قہر سے.ان آیات میں دس باتوں کا مجملاً بیان ہے.اول یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اطاعت اللہ ہی کے لئے مخصوص کرتے ہوئے اس کی عبادت کروں.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے ہیں لیکن اطاعت میں غیر اللہ کو شریک بھی بناتے ہیں.اسلام میں قرآن کریم کی تعلیم میں جہاں بھی غیر اللہ کی اطاعت کا حکم ہے.بہت جگہ کہا مثلاً والدین کی اطاعت کرو، سب سے بڑا حکم یہ دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو، اطاعت کرو، وہاں ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ اطاعت اسی لئے کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی اور اس کا حکم دیا.اللہ تعالیٰ کی اجازت اور حکم کے بغیر کسی انسان کو غیر اللہ کی ، اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے.قرآنِ کریم میں یہ جو میں نے کہا کہ اجازت دی اور حکم دیا اس کی میں دو مثالیں یہاں بتاؤں گا تا کہ ہر شخص اچھی طرح سمجھ لے.سب سے تاکیدی حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ہے.اور اس کے متعلق بھی یہ اعلان ہوا کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو، آپ کی اطاعت کرو
۶۰۱ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء ود خطبات ناصر جلد هشتم اس لئے کہ فرمایا اِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) قرآنِ کریم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں یہ بات ڈالی ، آپ کی طرف سے یہ اعلان کیا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کا پیار چاہتے ہو اور محبت حاصل کرنا چاہتے ہو ، اس کا تحرب چاہتے ہو، اس کی رضا کی جنتیں چاہتے ہو تو فَاتَّبِعُونی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو، اطاعت کرو، اس کے نتیجہ میں يُحببكم الله اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرنے لگے گا.کوئی ایسی اطاعت جو اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ہو، یا اس کے خلاف ہو کہنا چاہیے.اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں ہوسکتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت محض اس لئے انسان کو ملتی ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ میرے اس محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو، اس کے نقش قدم پر چلو، اس لئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ تمہیں ابدی حیات کی طرف، روحانی زندگی کی طرف، خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف بلائے.اور وہ اس لئے بلاتا ہے تمہیں کہ لِيُحْيِيكُمُ تا کہ وہ زندہ کریں تمہیں.اس لئے نہیں بلاتے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی عزت کو قائم کریں ،اس لئے بلاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عزت دنیا میں قائم ہو.اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا کا اعلان کیا.اس لئے بلاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت دنیا میں قائم ہو.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ.اس لئے بلاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی الحی اور القیوم کی صفت کے جلوے دنیا دیکھے کہ خدا زندہ بھی ہے اور زندگی اور حیات کا سر چشمہ بھی ہے.ایک لمحہ کی دوری خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے متصرف بالا رادہ ہونے کا اس سے جو حکم نازل ہوتے ہیں ان سے اگر ہو جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے.وہ قائم رکھنے والا ہے.قائم ہے اپنی ذات میں اور ہر غیر جو ہے وہ اس کی ذات سے قائم ہے اپنی ذات میں قائم نہیں ہے کوئی چیز بھی.خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کو بیان کرنے والے، خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت کے دروازے کھولنے والے، وہ راہیں بتانے والے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں ، وہ راہیں جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتی ہیں، وہ صراط مستقیم جو سیدھی اللہ تعالیٰ کے دربار کی طرف جاتی ہے.اسی لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.والدین سے حسن سلوک پر بڑا زور دیا ہے قرآنِ کریم نے لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اگر
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۰۲ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء تجھ سے یہ بحث کریں کہ تو میرا شریک بنائے تو ان کی بالکل اطاعت نہیں کرنی لیکن دنیوی معاملات میں ان سے حسن سلوک کرو، ان کا کہنا بھی مانو.تو خدا تعالیٰ کی اجازت کے دائرہ کے اندر والدین سے حسن سلوک بھی کرنا ہے.کیونکہ ان کا بڑا احسان ہے بچوں کی پرورش کے نتیجہ میں، ان کا خیال رکھنے کے نتیجہ میں، ان کے لئے راتوں جاگنے کے نتیجہ میں، ان کی خاطر خود بھوکا رہ کے ان کا پیٹ پالنے کے نتیجہ میں باپ اور ماں بڑی قربانی دیتے ہیں اپنے بچوں کی پرورش میں، لیکن خدا تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ میری اجازت کے دائرہ کے اندر ان کی اطاعت کرو، ان سے حسن سلوک کرو، ان سے پیار کرو، ان کی خدمت کرو، ان کی تکلیفوں کو دُور کرو لیکن اگر وہ تم پر زور دیں ان احسانات کے بدلہ میں جو احسانات انہوں نے اس لئے کئے کہ میں نے انہیں احسان کرنے کی طاقت اور قوت عطا کی تھی تو پھر تم نے شرک نہیں کرنا ، پھر ان کے دائرہ اطاعت میں داخل نہیں ہو نا بلکہ میری طرف رجوع کرنا ہے.دوسری بات ان آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ یہ اعلان کر دو کہ اللہ تعالیٰ کا مجھے یہ حکم ہے کہ میں اس کی کامل اطاعت کرنے والا بنوں.قرآنِ کریم سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ کسی فرد پر اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا جتنے کی اسے طاقت دی گئی ہو، تو جب یہ کہا کہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ بنوں.لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ تو اس میں یہ بھی اعلان تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی میں آدم کی اولاد میں سب سے زیادہ اس بات کی طاقت دی کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنیں.اور ان رفعتوں تک پہنچ جائیں خدا داد قوتوں اور استعدادوں کی وجہ سے، ان کی صحیح نشو و نما کے نتیجہ میں ، کہ جن رفعتوں تک کوئی دوسرا انسان نہیں پہنچ سکتا.کامل فرمانبرداری کے نتیجہ میں انتہائی پیار جو غیر کامل، سب سے زیادہ فرمانبردار جو نہیں اس کو نہیں مل سکتا.سب سے زیادہ پیار اللہ تعالیٰ کا اسی کو ملے گا جو خدا تعالیٰ کا سب سے زیادہ فرمانبردار بنے گا.جس کی طاقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں ودیعت کی گئی.طاقت بھی دی، ان طاقتوں کے نشو نما کے حالات بھی پیدا کئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پیار سے ایسی تربیت بھی دی اللہ تعالیٰ نے کہ وہ اپنی قوتوں اور استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو و نما
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۰۳ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء کر سکیں اور جس کے نتیجہ میں وہ وجود بن گیا جس کی مثال بنی آدم میں ہمیں نظر نہیں آتی.اتنی طاقت که ساری قوم ، قوم کے رؤساء خلاف ہو گئے.کوئی ایسی اذیت نہیں تھی جو پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی مگر جس دامن کو پکڑا تھا اس قومی اور امین نے اس دامن کو چھوڑا نہیں اور اپنے ماننے والوں کو بھی کہا کہ اگر خدا کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو ان عارضی دکھوں کی کوئی پروا نہیں کرو.یہ تو دکھ دور ہو جائیں گے ، اندھیرے جاتے رہیں گے.روشنی آئے گی تمہارے لئے سکھ اور چین کے سامان پیدا ہو جا ئیں گے.تمہارا رب تم سے خوش ہوگا.اس زندگی میں بھی تم اپنے رب سے راضی ہو گے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے والے ہو گے.تیسری بات ان آیات میں یہ بیان ہوئی ہے.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ.یہ بڑا ز بر دست اعلان ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم خدا کے پاک ترین، مقدس ترین بندے ہر آن ہر لحظہ اپنی زندگی کا خدا کی راہ میں گزار نے والے، کامل فرمانبرداری کرنے والے.کامل فرمانبرداری کی طاقت رکھنے والے، خدا تعالیٰ کی نافرمانی کا کبھی خیال بھی نہ لانے والے ہیں لیکن اُمت کو سبق دینے کے لئے اس اعلان کا ہونا ضروری تھا قل یہ اعلان کر دو دنیا میں ابی اَخَافُ کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو بہتوں کے لئے شفیع بنایا گیا ہوں میں بھی ، اگر میں نافرمانی کروں تو یوم عظیم کے عذاب سے ڈرتا ہوں.یومِ عظیم قرآن کریم کی اصطلاح میں وہ دن ہے جب آخری فیصلہ اعمال کا انسان کو ملے گا حشر کے روز.دوسری جگہ اس کی وضاحت قرآن کریم نے کی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کرا دیا کہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے بھی نافرمانی کی تو خدا کے قہر سے میں بچ نہیں سکتا.اپنی اپنی فکر کر لوتم لوگ.چوتھی بات یہاں یہ بیان کی گئی ہے پہلے کہا گیا تھا پہلی دو آیتوں میں کہ مجھے حکم ہے کہ میں کامل فرمانبردار بنوں اور مجھے حکم ہے کہ میں کامل موحد بنوں.خدا تعالیٰ کی عبادت بھی خلوص سے کروں اور خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ اطاعت بھی اسی کی کروں کسی غیر اللہ کی اطاعت نہ کروں، یہ حکم تھا.کوئی غیر مسلم کہ سکتا ہے کہ یہ حکم ہے ہمیں کیسے معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حکم کی بجا آوری کی توفیق عطا کی اور مقبول اعمال صالحہ کی توفیق دی تو یہیں ان آیات کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۰۴ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء بعد انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کے بعد یہ کہا کہ یہ اعلان کر دو کہ میں خدا کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت بھی کرتا ہوں اور اطاعت اللہ ہی سے مخصوص اور وابستہ رکھتا ہوں.قرآنِ کریم تو اللہ تعالیٰ کی وحی ہے نا، یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ اے انسان ! قیامت تک پیدا ہونے والے انسان ! سن لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام جس مقام پر وہ پہنچے ہیں ہم اس کا اعلان کرتے ہیں کہ ایسی عبادت جس میں ملونی کوئی نہیں، خالص ، ایسی عبادت جس کے ساتھ غیر کی اطاعت نہیں ہے.ایسی عبادت جس کے ساتھ کسی اور کا شرک نہیں.جس کے ساتھ یعنی میں نے بتایا والدین سے احسان کرنے کا بھی بڑا زور ہے لیکن جہاں خدا اور والدین کا مقابلہ ہو جائے اس وقت والدین کی اطاعت نہ کرنے کا حکم ہے ہر حکم جو قرآن کریم نے دیا وہ اس کی اطاعت کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نظر آتے ہیں، کسی جگہ بھی آپ کی زندگی میں ایسا موقع نہیں آیا کہ ہمیں یہ نظر آئے کہ فَلَا تَخْشَوهُم وَاخْشَونی جو کہا گیا تھا کہ دل میں سوائے خدا کے کسی اور کی خشیت نہ ہو اس کے علاوہ بھی کوئی جذبات تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ صافی میں.تو یہاں یہ بتایا گیا کہ جو حکم دیا گیا تھا اسی کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے دن گزارے اور قرآنِ کریم نے اعلان کیا کہ ہمارے حکم کی پیروی کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسی وجہ سے آپ اُسوہ حسنہ بنے نوع انسانی کے لئے ، اور یہ اعلان کیا گیا قرآنِ کریم میں لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ اگر خدا تعالیٰ کا پیار اس زندگی میں اور مرنے کے بعد جو کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسوہ حسنہ تمہارے سامنے موجود ہے.اس حُسنہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو.سورہ رعد میں یہ پانچویں بات میں نے جو کہی ہے وہ پہلے بھی آگئی ہے لیکن ان آیات کے تسلسل کے لئے یہاں مجھے دہرانی پڑی.اِنَّمَا اُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں عبادت اللہ کی کروں اور خالص عبادت ہو.کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤں اس کا.شرک نہ کروں.شرک صرف موٹا شرک نہیں ، بتوں کی پرستش ہی شرک نہیں ، انسانوں کو خدا بنا دینا ہی
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء صرف شرک نہیں اپنے نفس کا بھی شرک ہے.ہزار بت انسان نے اپنے لئے بنالئے.ایک امیر ہے وہ اپنی دولت کی طرف سے شروع کر دیتا ہے اور دولت کے متعلق جو اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں ان کی پروا نہیں کرتا ، خدا نے کہا تھا فِی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ کہ جب تک دنیا میں ایک سائل اور ایک بھی محروم ہے اس کی تفصیل میں اس وقت جانہیں سکتا کیونکہ اس مضمون میں بطور مثال کے میں دے رہا ہوں.اس وقت تک دولت مند کی دولت میں سائل اور محروم کا حق ہے.پہلے ان حقوق کو ادا کرو پھر ہمارے فضلوں سے فائدہ اٹھاؤ.اس سے چین اور سکھ حاصل کرو.اس سے دنیوی زندگی میں آرام پاؤ.اور اُخروی راحتوں کے سامان پیدا کرنے کے لئے خدا کی راہوں میں اور بھی دوسرے جو طریقے ہیں ان پہ خرچ کرو لیکن دولت پر حق پہلا جو ہے وہ اس انسان کا ہے جو اپنے حقوق کو سمجھتا ہے جو خدا نے قرآن کریم میں قائم کئے اور وہ سائل ہے کہتا ہے خدا نے میرا حق قائم کیا ہے میرا حق دو.اور ایک وہ شخص ہے جو یا تو جانتا نہیں کہ اس کے حقوق کیا ہیں اس واسطے مانگتا نہیں محروم ہے وہ، یا وہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی شخص میرا حق نہیں دیتا تو میں قربانی دیتا ہوں خدا کی رضا کے لئے اور فتنہ وفساد اور سٹرائیک کا موجب نہیں بننا چاہتا.میں کئی دفعہ باہر گیا ہوں دورے پر ، پریس کانفرنس میں میں نے یورپین ممالک کے صحافیوں کو کہا کہ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ تمہارا مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے سٹرائیک تو کرتا ہے لیکن تمہارے مزدور کو یہ علم نہیں کہ اس کے حقوق کیا ہیں.تو جس چیز کا علم ہی نہیں اس کو حاصل کیسے کرے گا.اس تفصیل سے ان کو اسلامی تعلیم بتا تا رہا ہوں ،تو دولت مند دولت کی پرستش شروع کر دے.خدا کے مقابلہ میں دولت کو کچھ سمجھنے لگتا ہے.ایک عالم اپنے علم کا بہت کھڑا کر لیتا ہے.جو شخص اس کے زعم میں، خیال میں اس سے کم علم رکھنے والا ہے اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ خدا نے یہ اعلان کروا یا خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے.قُلْ اعلان کر دو انما انا بشر مثلکم کہ بشر ہونے کے لحاظ سے انسان انسان میں کوئی فرق نہیں.مجھ میں اور تم میں بھی کوئی فرق نہیں ، تو عالم اور جاہل میں کیسے فرق ہو گیا، امیر اور غریب میں کیسے فرق ہو گیا.ایک حاکم اور محکوم میں کیسے فرق ہو گیا.بشر ہونے کے لحاظ سے کسی میں کوئی فرق نہیں.حقوق ہیں، حقوق سے زیادہ مانگنا بُری بات ، وہ شرک ،حقوق
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبہ جمعہ ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء نہ دینا یہ بھی بری بات.یہ بھی ایک شرک کا حصہ ہے.اپنے خاندان پہ فخر کرنے لگ جانا اس کو بت بنالینا، اپنی قوم پر فخر کرنے لگ جانا ، اس کو بت بنا لینا ولا أُشْرِكُ پتے یہ ہر قسم کے بتوں کی نفی کرتا ہے یہ اعلان کہ میں خدا کا شریک نہیں بنا تا کسی کو.صرف اس کی عبادت کرتا ہوں اور صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں، کوئی میری زندگی میں خدا کا شریک نہیں پائے گا.پھر فرمایا الیهِ ادْعُوا اس خدا کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں.اس خدا کی طرف جو اللہ ہے.ان اعبد اللہ اللہ کہا نا.اللہ جو قرآنِ کریم کی اصطلاح میں ، اللہ ذات ہے جس کی وہ صفات ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.وہ واحد ہے وہ لاشریک ہے اس جیسی اس کی کوئی مثل نہیں.کسی صفت میں بھی کوئی اس کا مثیل نہیں.یہ تو کہا کہ میری صفات کا رنگ اپنی صفات پہ چڑھاؤ، میرے نقشِ قدم پر چلو، جس طرح میں اپنے بندوں سے پیار کرتا ہوں تم بھی کرو، جس طرح میں ان کی زندگی کے سامان پیدا کرتا ہوں تم کوشش کرو کہ ان کی زندگی کے سامان پیدا ہوں اور خون خرابہ نہ ہو.یہ تو کہا اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ اسی واسطے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ اپنے اخلاق پہ بھی چڑھاؤ.وہ صفات ہی ہیں ، اخلاق اللہ، اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جن کے اظہار سے، جن کے جلوے جو ہیں.ان جلوؤں میں خدا تعالیٰ کے اخلاق نظر آتے ہیں ہمیں.تو ادْعُوا إِلَيْهِ ادْعُوا صرف اللہ کی طرف میں انسانوں کو بلا رہا ہوں.اطاعت اسی کی کرو.اس کا شریک نہ بناؤ.پھر فرمایا وَ اِلَیهِ مَآپ میں بھی ایسا انسان ہوں کہ جس کا رجوع اللہ کی طرف ہو تم بھی ایسا ہی کرو.رجوع کے بہت سے معانی ہو سکتے ہیں.ایک معنیٰ یہ ہے کہ آخری فیصلہ ہمارے اعمال کا اس نے کرنا ہے.ایک معنے یہ ہے کہ جب بھی ضرورت پڑے تو ہمارا ذہن اور ہمارا دل اور ہمارا ہاتھ جس کی طرف بڑھتا ہے وہ خدا ہے کوئی اور ذات نہیں ، اگر ہم بھو کے ہوں تو ہم خدا کو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پیدا کرنے والے رازق خدا ہمارے رزق کے سامان پیدا کر دے، اگر ہم بیمار ہوں اِذَا مَرِضْتُ تو ہم جانتے ہیں فَهُوَ يَشْفِينِ کہ شفا صرف اللہ تعالیٰ نے دینی ہے ادویہ نے نہیں دینی.ہم دوائیں اس لئے استعمال نہیں کرتے کہ ہمیں یہ وہم ہے کہ دوائیں بھی خدا کی طرح شفا دینے کے قابل ہیں.خدا کے اذن اور حکم کے بغیر ، بلکہ اس لئے دواؤں کا استعمال
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۰۷ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں پیدا کیا اسی نے ہمارے لئے ان دواؤں کو بھی پیدا کیا لیکن دواؤں کی تاثیر ہوگی یا نہیں ہوگی یہ اپنے ہاتھ میں رکھی ،متصرف بالا رادہ ہے وہ.ایک ہی دوائی ہے بڑا مشاہدہ کیا ہم نے ایک ہی دوائی ہے وہ ایک شخص کو ایک ہی بیماری میں فائدہ پہنچا رہی ہے دوسرے کو نہیں پہنچا رہی.ایک کے متعلق خدا کہتا ہے کہ شفا دے اور دوسرے کے متعلق کہتا ہے کہ شفا نہ دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو شفا نہیں دینا چاہتا تو وہ دوائی کے ذرات کو کہتا ہے اس انسان کے جسم پر اثر نہ ڈالو جتنا مرضی کھا لے اثر کوئی نہیں ہوگا اور انسان کے جسم کے ذرات کو کہتا ہے کہ اس دوائی کے کیمیاوی اجزا جو ہیں ان سے اثر قبول نہ کر.تو دونوں طرف سے حکم نفی کا آ جاتا ہے.وہ تڑپتا ہے بلبلاتا ہے لیکن دوائی صحیح ہے تشخیص صحیح ہے آرام نہیں آتا.پھر وہی بیمار ہے جب وہ انسان بیمار یا اس کا کوئی بزرگ اس کے لئے دعائیں کرتا ہے اور خدا تعالیٰ وہ دعا قبول کر لیتا ہے تو اس صورت میں اسی بیمار کے لئے دو احکام آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں ایک دوا کی طرف خدا کا حکم نازل ہوتا ہے کہ وہ جو پابندی تھی وہ میں اُٹھارہا ہوں اب تو اس انسان کے جسم کے ذرات پر اثر کر اور ایک انسانی جسم کے ذرات کے او پر خدا کا حکم نازل ہوتا ہے کہ اے اس خاص فرد واحد کے جسم کے ذرواب اس دوائی کے اثر کو قبول کرلو.مہینہ مہینہ دو دو مہینے بعض دفعہ چھ چھ مہینے بعض دفعہ سالوں بے اثر ہوتی ہے وہ دوا اور اس کے بعد وہ بااثر ہو جاتی ہے اور بیمار جو ہے وہ شفا پا لیتا ہے.اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے وَ الَیهِ مَأْب.ہر ضرورت کے وقت زندگی کے ہر لمحہ میں میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں.میرے نقشِ قدم پر چلو اور اس کی طرف رجوع کرو.آٹھویں ان آیات میں یہ بتایا کہ قرآنِ کریم میں ہر حکم کو جس کی انسان کو ضرورت تھی اس کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی ترقیات کے لئے کھول کر بیان کر دیا ہے.ہر حکم کو بنیادی طور پر قرآن کریم نے کھول کر بیان کر دیا اور کامل دین آگیا.اس کامل دین کے بعد نویں بات یہ بتائی دین کامل آ گیا.کوئی اس میں رخنہ نہیں ، کوئی اس میں کمزوری نہیں، کوئی بات چھپی ہوئی نہیں.ضرور کوئی بات ضرورت کی رہ نہیں گئی بیان ہونے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۰۸ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء سے.جو آئندہ کی ضرورتیں تھیں وہ بھی اس عظیم کتاب کے کتاب مکنون ان حصوں میں ہے جن کا آج نہیں ہمیں علم ، آنے والی نسلوں کو وہ علم دیا جائے گا ایسی کتاب اگر ہے ایسی کتاب کی اے انسان وَ لَبِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم اگر لوگوں کی ، کفار کی ، اس کتاب کے منکروں کی ، کفار کی خواہشات کی تو پیروی کرے گا.اس کامل علم کے بعد اگر کفار کی خواہشات کی پیروی کرے گا اور قرآن کریم کے احکام کو پس پشت ڈال دے گا تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوگا کہ تیری ضرورتیں پوری ہو جائیں اور تو اپنی زندگی میں کامیاب ہو جائے.اس کا نتیجہ قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ ہوگا یہ کہ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِن وَلِ وَلَا وَاق.دو چیزیں ظاہر ہوں گی.خدا کی دشمنی تم مول لو گے مَا لَكَ مِنَ الله من ولي پھر جب انسان کی دوستی لینے کے لئے جب خدا کی دشمنی مول لے لو گے، کامیاب کیسے ہوگے وَلا وَاق اور اگر یہ سمجھو کہ ٹھیک ہے خدا دشمن ہو گیا کوئی دنیا میں ایسی طاقت ہے جو ہمیں خدا تعالی کی دشمنی اور اس کے قہر سے بچالے گی یہ غلط ہے.ولا واق خدا کے قہر سے کوئی بچانے والا نہیں اس کائنات میں.اس لئے وہ شخص جس کے دماغ میں ذرا برابر بھی عقل ہے وہ سن لے کہ اگر خدا تعالیٰ کے قہر سے بچنا ہے اور اگر اس کو دشمن نہیں دوست بنانا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کرتے ہیں کہ کفار کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنی ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی.آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس طرح پیروی کرنی ہے.پیروی میں بھی اپنے نتائج نہیں نکالنے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لئے ایک کامل نمونہ پیش کر دیا.آپ کے نقش قدم پر چلو.خدا مل جائے گا.خدا کا پیار مل جائے گا.خدا کی دوستی مل جائے گی.خدا کی پناہ مل جائے گی.پھر دنیا کی کوئی طاقت جتنی چاہے دشمنی کر لے نقصان نہیں پہنچا سکتی.اذیت پہنچا سکتی ہے.کیونکہ آزمائش لینا چاہتا ہے اس زندگی میں خدا.دکھ پہنچا سکتی ہے عارضی لیکن نا کام نہیں کر سکتی.ابدی سرور سے ، ابدی آرام سے ، ابدی جنتوں سے محروم نہیں کر سکتی دنیا کی کوئی طاقت.اور یہ چیز ہے، یہ بات ہے جسے انسان آج بھولا ہوا ہے.اور انسان کو اسے باور کرانے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اور آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۰۹ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء نقش قدم پر چلتے اور آپ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں اور خود نمونہ بنیں آج کی دنیا کے لئے ایک اسوہ بن جائیں اور اس بہکی ہوئی دنیا کو کہیں کہ تم نے دنیاوی لحاظ سے ترقیات حاصل کر لیں اس میں شک نہیں ہم انکار نہیں کر سکتے.لیکن تمہیں دل کا سکون نہیں ملا.بیسیوں سینکڑوں ترقی یافتہ اقوام کے افراد نے خود مجھ سے یہ بیان کیا کہ ہمیں دل کا سکون نہیں ملا جب میں پڑھتا تھا آکسفورڈ میں اس وقت میرے دوست جو آکسفورڈ کے طالب علم تھے کئی دفعہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے بڑی ترقیات کی ہیں مگر دل کا سکون نہیں ہمیں ملا.اب یہ دل کا سکون ہے کہ دوسب سے زیادہ خطرناک ہتھیار رکھنے والی اقوام ہیں سب سے زیادہ وہی ڈر رہی ہیں کہ اگر یہ ہتھیار استعمال ہو گئے تو ہماری تباہی یقینی ہے.خدا کی طرف سے دلوں کو اطمینان اس وقت ملتا ہے بذکرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ خدا تعالیٰ کے ذکر سے جو صحیح معنی میں قرآن کریم کی روشنی میں قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق وہ ذکر اللہ تعالیٰ کا کیا جائے اور جو اس کے احکام ہیں اس کی پیروی کی جائے.اس کے نتیجہ میں انسان کو سکون ملتا ہے.بچوں ، بڑوں مخلصین کو ، کمزوروں کو.فسادات کے دنوں میں ہم نے دیکھا دنیا میں کوئی شخص اس قدر اطمینان اور سکون سے نہیں سوتا تھا جس وقت اس بھڑکتی ہوئی آگ میں ایک احمدی خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے رات کو آرام سے سو جاتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ میری قسمت کا فیصلہ میری کوشش نے نہیں کرنا ، میری قسمت کا فیصلہ، میری تقدیر کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے.اور اس کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں اور جس چیز کو وہ چاہتا ہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے اور اپنے وعدہ کے مطابق کرے گا مگر خدا مجھ سے اور آپ سے یہ چاہتا ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں.آپ کے اُسوہ کو سامنے رکھیں ، اپنے دل سے ہر غیر کی خشیت کو مٹا کے صرف اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کریں.صرف اس پر بھروسہ رکھیں.اس پر توکل کریں اور اس کے ہو جائیں ، اس کے دامن کو پکڑیں اور پکڑیں اس طرح مضبوطی سے جب ایک دفعہ پکڑ لیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت خدا کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھڑا نہ سکے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۱۰ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء کہتے تھے شاید یہ مسجد کافی بڑی ہو تو مجھے تو نظر آ رہا ہے کہ یہ بھی چھوٹی ہے.تو کوئی انتظام ہونا چاہیے.کراچی کو انتظام کرنا چاہیے.ایسی مسجد بنا لینے کا کہ کم از کم تین چار سال تک تو ہماری ضرورتیں پوری کر دے.ہو جائے گی وہ بھی چھوٹی تین چار سال بعد ، مگر بہر حال بڑھتے جائیں جس طرح جماعت بڑھ رہی ہے مساجد میں بھی وسعت پیدا کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور صبر عطا کرے.(از آڈیو کیسٹ)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۱۱ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء انسان کی پیدائش کی اصل غرض جو قرآن نے بتائی ہے وہ ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ خطبه جمعه فرموده ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ.کراچی تشہد وتعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.66 سورۃ انعام کی بہترویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اعلان کر دو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت آتی ہے اصل ہدایت وہی ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم سب جہانوں کے رب کی فرمانبرداری کریں.ہدایت کے معنی یہ ہیں کہ وہ راستہ دکھلایا جانا جس پر چل کر مقصود حاصل ہو.ہر شے کا، ہر جاندار کا، انسان کا علیحدہ علیحدہ مقصودِ حیات ہے.رہبر اور ہادی ، رہنما اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.انسان کے علاوہ دوسری سب اشیاء کو اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے اور اس کے مطابق وہ اپنے کمال کو پہنچتی اور اپنے مقصودِ حیات کو حاصل کرتی ہیں.انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے چونکہ جنتوں کا وعدہ کیا ہے اور آزادی ضمیر اسے عطا کی ہے ایک مخصوص دائرہ کے اندر اس کی زندگی میں.اس لئے فرشتوں کی طرح اسے نہیں بنایا کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ جو انہیں کہا جائے وہ کریں بلکہ انہیں کہا جو تمہیں کہا جائے تمہاری مرضی ہے وہ کرو تمہاری مرضی ہے وہ نہ کرو.اگر کرو گے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ، اپنی زندگیوں کو ڈھالو گے، تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو گے اور اس کی جنتوں کو پاؤ گے اور اس کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۱۲ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء برکتیں اور رحمتیں تمہیں ملیں گی.اگر نہ کرو گے تو جس مقصد کے لئے اس نے تمہیں پیدا کیا کہ تم اس کے قرب کو حاصل کرو.جو مقصد تم حاصل کرو گے مگر اس مقصد کے حصول کی راہ نارِ جہنم میں.گزرے گی تمہاری آلائشوں اور برائیوں کے نتیجہ میں.اس آیت میں رَبُّ الْعَلَمِينَ پر ایمان لانے اور رب العلمین کی فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے.اسی سورت میں ۱۶۵ آیت ہے قُلْ أَغَيْرَ اللهِ ابْغِی رَبَّا وَ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ یہ چھوٹی سی آیت ہے بڑا ہی پر لطف حسین اور وسیع مضمون اس میں بیان کیا گیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اعلان کرو، انسان کو کہ اگر فطرتِ صحیحہ کے مطابق تم زندگی گزارو، اگر خدا تعالیٰ کی معرفت تمہیں حاصل ہو ، اگر کائنات جس غرض کے لئے یہ پیدا کی گئی ہے اس کا تمہیں علم ہو تو تم یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گے.آغَيْرَ اللهِ آبغِی رَبا کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا رب بطور مطلوب کے بنا سکتا ہوں اور دلیل یہ دی کہ اللہ تو وہ ہے جو رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ بڑی وسعت ہے اس دلیل میں اور بڑی پختگی ہے اس دلیل میں اور بڑا اثر ہے اس دلیل میں اگر ہم سوچیں.یہاں کہا یہ گیا ہے کہ تم اس کا ئنات پر غور کرو.معدنیات ہیں، ہیرے جواہرات ہیں، درخت ہیں جن کی....کرتے ہیں ہم.پانی ہے، زراعت کے ساتھ تعلق رکھنے والی اجناس ہیں، جنگلات سے تعلق رکھنے والے جنگل ہیں ، پھل دار درخت ہیں، جس چیز کو بھی تم لو اس کی زندگی ربوبیت کی محتاج نظر آتی ہے.ربوبیت یا عربی میں مصدر ہے، ایک تو فاعل ہے ربّ ، رَبُّ كُلِّ شَيْ ءٍ چل رہا ہے.ایک مصدر ہے وہ بھی الرب ، عربی کا لفظ ہے جو مصدر ہے اور اس کے معنے بتائے گئے ہیں تربیت کرنا اور تربیت اس طرح كه وَهُوَ إِنْشَاءُ الشَّيْءٍ حَالًا فَحَالًا إِلى حَدِ التَّمَامِ کہ درجہ بدرجہ تربیت کرتے ہوئے، نشو و نما کرتے ہوئے ہر شے کی جو آخری حد ہے یعنی جو اس کی طاقتیں ہیں، جس حد تک وہ نشو و نما حاصل کر سکتی ہے.اس حد تک پہنچانا، تو رب كل شيء اس میں وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ جو دلیل دی اس میں یہ بتایا گیا کہ کسی چیز کولو اور اس کی بناوٹ، اس کی زندگی، اس کی استعداد ذمہ داریوں سے ربودگی ان پر جہاں تک وہ پہنچی ان تک ہم غور کرو تو پہلی چیز تمہیں یہ نظر آئے گی کہ ہر شے اس عالمین کی ربوبیت کی محتاج ہے.دوسری چیز تمہیں یہ آئے گی کہ یہ ربوبیت جو ہورہی ہے یہ اندھی نہیں ، اندھی ربوبیت
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۱۳ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء اگر ہوتی تو آگ کبھی اپنی طاقت کو نشوونما کے ذریعہ کمال تک پہنچانے کے بعد جلاتی کبھی ٹھنڈا کرتی کیونکہ کوئی متصرف بالا رادہ ہستی اپنی مرضی سے اس کی ربوبیت کرنے والی نہ ہوتی کبھی ایک درخت کو آم کا پھل لگ جاتا، کبھی اس پر انگور لگ جاتے، کبھی اس پہ املتاس لگ جاتا، کبھی اس پر املی لگ جاتی، کبھی کڑوے پھل لگ جاتے.ایک درخت تھا وہ پیدا ہوا، وہ بڑھا، اس نے پھل دینے شروع کئے لیکن logical hole اس کو انگریزی میں کہتے ہیں ایک منطقی ایسی queueable جس کی ہر چیز دوسرے سے بندھی ہوئی اور جس غرض کے لئے وہ بنی اس غرض کو پورا کرنے والی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز اس کائنات کی ربوبیت کی محتاج تمہیں نظر آئے گی ، یہ ستارے ہیں، بیگلیکسیز ہیں، یہ سات آسمان ہیں جن کا ابھی ہمیں تھوڑا سا علم حاصل ہوا ہے.لیکن زمین کا بھی ویسے تھوڑا ہی علم حاصل ہوا ہے.خود انسان کا ، انسانی جسم کا یا انسانی وجود کا مجھے کہنا چاہیے وہ حصہ جس کا اس کی آزادی کے ساتھ تعلق نہیں ، جس کا اس کی ضمیر کے ساتھ تعلق نہیں.مثلاً دل کی دھڑکن ہے اس کا انسان کی آزادی ضمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.مثلاً اس کا بلڈ پریشر ہے.اس کا اس کی آزادی ضمیر کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں.مثلاً اس کا ماں کی گود میں بچے کی حیثیت میں ایک وقت میں ہونا، پھر باہیں اور پاؤں کو ہلانا، پھر رینگنا، پھر کھڑا ہو جانا، پھر چلنا، پھر بڑے ہوجانا، پھر علوم حاصل کرنا ، ( علوم یہ غلط میرے منہ سے نکل گیا ) پھر اس کی جسمانی طاقتوں کی نشو نما کا ہو جانا، یہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں ، گردہ ہے یہ اپنا کام کر رہا ہے، انسانی جسم کے اندر ایک کائنات ہے بذات خود، اور بڑا توازن اس کے اندر پایا جاتا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں.ایک دوسرے سے علیحدہ ہو ہی نہیں سکتے.ایک کا اثر دوسرے پر اتنا ہے کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.باقیوں کی بھی رہ جاتی ہے عقل دنگ، کہ یہ کیا قصہ ہے.یہ جو حصہ ہے انسانی وجود کا جس میں اس کی ضمیر کا تعلق نہیں، مگر میں نے کہا انسانی دل اور اس کی دھڑکنوں کا انسان کی ضمیر کے ساتھ ، اس کے ارادہ کے ساتھ ، کرنا یا نہیں کرنے کے ساتھ تعلق نہیں ، اب آپ اپنے دل کی دھڑکن کو کنٹرول کر سکتے ہیں کہ ایک منٹ میں کہیں کہ اب تو دس دفعہ دھڑک ، پھر اگلے منٹ میں کہیں کہ نہیں اس منٹ میں تو نے پچاس دفعہ دھڑکنا ہے، نہیں بالکل نہیں کہہ سکتے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۱۴ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء یہ ہمارا جسم جو ہے یعنی ہمارے اپنے وجود کا وہ حصہ جس کا ہماری آزادی ضمیر کے ساتھ تعلق نہیں ، وہ ربوبیت کا محتاج ہے اور ایسی ہستی کی ربوبیت کا محتاج ہے.جو اس کی اس رنگ میں ربوبیت کرے کہ انسان کا جو مقصودِ حیات ہے اس میں یہ ربوبیت محمد اور معاون ہو.اب متصرف بالا رادہ ہستی جو ہر چیز کی کنہ کو، ہر چیز کے اندر اور باہر کو جاننے والی ہو، نہ ہوتی اور اپنی مرضی سے ربوبیت کرنے والی نہ ہوتی تو انسانی جسم، اس کے بھیجے کے اعضاء مثلاً از خود بن بھی سکتے تھے کہ جو انسان عقل رکھنے والا ہے وہ اس کی عقل کا ساتھ نہ دیتے.یہ چیزیں بہت سارے فلاسفروں نے بھی کہا کہ ایک انقلاب عظیم ہے یہ جمپ (Jump) کہ جو زندگی ہے وہ باشعور اور عقل مند زندگی بن گئی ان کے درمیان وہ جو کہتے ہیں نہ Evolutionary Theory ہر جگہ چلائی ہے انہوں نے جس میں انہوں نے بھی ، اس کے مقابلہ میں فلاسفرز نے یہی کہا ہے اتنا بڑا جمپ (Jump) ہے اس کو تم explain نہیں کر سکتے ، اس کی حکمت نہیں، اس کی وجہ نہیں بتا سکتے کہ کیسے یہ ہو گیا کہ ایک مُردہ چیز میں زندگی پیدا ہوگئی، ایک زندہ چیز میں عقل پیدا ہوگئی، ایک عقل میں اخلاق کا شعور پیدا ہو گیا، اخلاق کے شعور میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتا ہوں.فلاسفر ز تو اس تقسیم میں نہیں گئے.ہمیں اسلام نے جو بتایا میں اس تقسیم میں جارہا ہوں، انہوں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ مردہ سے زندہ پیدا ہونا اتنی بڑی انقلابی چھلانگ ہے کہ یہ تمہاری سوچ بھی اسے explain نہیں کر سکتی ، تو دلیل یہاں دی ہے وَ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ چار الفاظ میں بڑی زبر دست ، کہ جس چیز کو بھی تم لو اول یہ وہ ربوبیت کی محتاج ہے.کوئی چیز اپنی انتہائی عروج کو پہنچی ہوئی نہیں بنتی نہیں رہتی ، کوئی نہیں ہے.گندم کا بیج لے لو،......کا بیچ لے لو.ایک ہیرا لے لو، صدیوں میں مٹی کے ذرے مل کے جو تبدیلی ان ذروں میں، زمانے میں وہ تبدیلی پیدا ہوتی ہے جس سے وہ ہیرا بنتا ہے.کئی مٹی میں ایسے ڈھیلے پڑے ہوئے ہوں گے اب بھی ، جو ایک ہزار سال کے بعد ہیرے کی شکل میں وہاں سے کھودے جائیں گے اور اگر آج آپ اسے کھو دیں تو وہ ہیرے کی شکل میں نہیں آپ کے ہاتھ میں آئیں گے ، وہ مٹی کے ایک ڈھیلے کی شکل میں پتھر ہو گا ، ایک خاص قسم کا پتھر ہوگا ، ہیرا بہر حال نہیں ہوگا.دوائیں ہیں، ایک وہ دوا ہے جو جڑی بوٹیاں ہیں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۱۵ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء نظر آتا ہے، ظاہر ہے باہر اس کا بیج ہے، پھر وہ اُگتا ہے، پھر وہ جھاڑی بنتی ہے، پھر وہ ربوبیت کو چاہتی ہے، نشوونما کو، ارتقائی نشو ونما کو حالاً فحالاً جور بوبیت کے اندر ہے وہ اس کا تقاضہ کر رہی ہے، پھر اس میں پھول لگتے ہیں، پھر بیج لگتے ہیں.بعض ادویات بیجوں سے بنتی ہیں، بعض اس کے پتوں سے بنتی ہیں ، بعض اس کی ٹہنیوں سے بنتی ہیں اور بعض آپ کو ایک عجیب دوائی بتاؤں ست سلاجیت ایک بڑا چھوٹا سا پودا ہے پتھر کے اوپر کائی سی جمتی ہے، وہ پودا ہے اور اس میں سے پانی نکلتا ہے اور وہ ٹپکتا رہتا ہے.اگر یہ کائی ایسے پتھر پہ جمی ہو جس میں دراڑ پڑی ہو، آپس میں فاصلہ ہو، پتھر کے دوٹکڑوں کا ، تو اس کے اندر وہ پانی رستہ رہتا ہے.اور وہ دوائی نہیں ہوتا اس میں کوئی، وہ پانی ہوتا ہے لیکن وہ دوائی بننے کی طاقتیں رکھتا ہے، وہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک بچہ رحم مادر میں ہے.اس کا وجود نہیں باہر دنیا کو نظر آیا لیکن وہ پل رہا ہے اور کئی سو سال اس دیوار کے اندر اس کا قوام بنتا ہے، اس کے خواص جو ہیں ان میں بلوغت اور جوانی پیدا ہوتی ہے، پھر اس کی رنگت بدلتی ہے اور پہلے انہوں نے سمجھا تھا کہ یہ پتھر کے اندر سے نکلنے والی چیز ہے اب صحیح حقیقت کا انکشاف یہ ہوا ہے کہ پتھر کے اندر نہیں وہ تو اس میں رس گرا ہے پودوں کا اور وہ سینکڑوں سالوں میں ست سلاجیت کی شکل اس نے اختیار کی اور سینکڑوں سال لگے اور ایسا دنیا نے یہ معلوم کیا کہ ایک ایسا اینٹی بائیوٹک، بیکٹیریا اور وائرس دونوں کو مارتا ہے.نمبر دو پہلا شہد کھی بناتی ہے.نمبر دو پہ اس کو رکھ رہے ہیں.روس کہتے ہیں اس وقت بہت زیادہ اس پر تحقیق کر رہا ہے، لیکن یہ پہلے دن ست سلاجیت کی شکل میں نہیں انسان کے ہاتھ میں دی گئی ، میں یہ بات وضاحت سے آج آپ کے ذہن میں داخل کرنا چاہتا ہوں کہ جس چیز کو بھی لیں وہ ربوبیت کی محتاج نظر آتی ہے اور کئی مدارج میں سے گزر کے وہ اپنی جوانی کو ، بلوغت کو اور اس شکل کو پہنچتی ہے جس شکل میں پہنچے بغیر وہ اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی جس مقصد کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے.وہ جوست سلاجیت کے پودے میں سے رستا ہے تو وہ پانی اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ اس سے ست سلاجیت بنے سو سال لگا یا دو سو سال لگا میرے ذہن میں نہیں لیکن وہ ہفتوں اور مہینوں اور سالوں کا نہیں بلکہ سینکڑوں سالوں کا زمانہ ہے جس کے اندرست سلاجیت جو پانی تھی اس نے دوائی کی شکل اختیار کی.اگر یہ صحیح ہے تو انسان کو اللہ تعالی کہتا ہے کہ تم غور کرو کہ تمہاری ربوبیت
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۱۶ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء کے لئے یہ ساری چیزیں جو خود ربوبیت کی محتاج ہیں تم ان کے محتاج ہو.یعنی ہر وہ چیز جو کائنات میں پیدا کی گئی.جس کو اگر ہم سٹڈی (study) کریں، جس پر جب ہم مطالعہ کریں، جس کی جب ہم تحقیق کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ مختلف مدارج میں سے گزر کے اپنے ولادت سے لفظ استعمال کر لیتے ہیں، سے لے کے اپنی بلوغت تک تھوڑ از مانہ بڑا زمانہ بہر حال ایک زمانہ ہے بہت سے مدارج ہیں جن میں سے وہ چیز گزرتی ہے، پھر وہ ایسے مقام کو پہنچتی ہے کہ جسے جس غرض کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے اس غرض کو وہ پورا کرے اور یہ ساری چیزیں پیدا کی گئی ہیں اس غرض کے لئے کہ انسان اس غرض کو حاصل کرے مقصودِ حیات کو جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ کے عبد بنے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات پر چڑھائے.تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگے جائیں.انسانی عمل خدا تعالیٰ کی صفات کی عکاسی کر رہا ہو.اللہ تعالیٰ کے اخلاق کی عکاسی کر رہا ہو.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ربوبیت کون ہستی کر سکتی ہے؟ اس طرف ہمیں توجہ دلائی جائے.یعنی آپ کو، ست سلاجیت بنانے کے لئے آپ کو پتہ نہیں کن مدارج میں سے گزرتی ہے، ابھی تک انسان کو نہیں پتہ ، انسان تو نہیں کر سکتا.تو جو چیزیں، جو صفات اس بالا ہستی میں ہونی چاہئیں، جن کے نتیجہ میں صحیح ربوبیت ہو سکتی ہے ان کی طرف ہماری رہنمائی کی گئی ہے.ایک چیز جو عام طور ہم بولتے ہیں کہ وہ یہ کہ اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جس نے پیدا کیا وہی جانے.بڑے مزیدار معنی کئے ہیں اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ کے، جس نے پیدا کیا وہی جانے.اللہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ جس نے پیدا کیا اسے پتہ ہے کہ ایک چیز کے پاؤں کو کتنی بیشمار چیزوں سے بنا دیا، ہمیں نظر بھی نہیں آتیں اب وہ.ایک بڑی دور بینیں انہوں نے بنائی ہیں اور خوردبینیں ، شاید ان سے ہمیں پتہ لگے، بہت سا علم حاصل ہو رہا ہو گا میرے علم میں نہیں.تو جب تک وہ مخلوق ، جو چیز ہے، شے ہے جس کو یہاں کہا گیا ہے اس کا پورا سارے کا سارا تفصیل کے ساتھ علم نہ ہو اس کی ربوبیت نہیں ہو سکتی.تو وہ جس نے پیدا کیا وہ جانتا ہے وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيل اور ہر شے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۱۷ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء کے، یہ وکیل کے معنے ہیں، ہر شے کے تمام امور کے لئے وہ کافی ہے یعنی اگر علم ہو اور قدرت نہ ہو تو پھر بھی تو ربوبیت نہیں ہو سکتی.تو ہمیں بتایا گیا کہ اگر تم غور کرو تو تمہیں خود یہ کا ئنات بتائے گی کہ اس نے پیدا کیا کے علم میں اس کا اندرونہ اور بیرو نہ ہے اور عَلى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ہر شے کے تمام امور کے لئے وہ کافی ہے.جو کام وہ شے خود نہیں کر سکتی اللہ تعالیٰ اس کے لئے کرتا ہے یعنی ربوبیت اپنے طور پر تو کوئی چیز نہیں کر سکتی جب تک پیچھے سے متصرف بالا رادہ ہستی کے احکام نازل نہ ہوں.جیسا کہ ، ویسے ضمنی میں ایک مثال دے دوں.قرآن کریم نے کہا کہ درخت کا ہر پستہ خدا کے حکم سے گرتا ہے یعنی اس قدر ذاتی تعلق رکھنے والا ہے اللہ تعالیٰ اور صرف انسان سے نہیں بلکہ اپنی ہر مخلوق ہے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلُ میں یہی مضمون بتایا ہے.انسان کو کہا کہ تجھے تو بڑی رفعتوں کے لئے ہم نے پیدا کیا تھا، بڑے اپنے پیار کے لئے تجھے پیدا کیا تھا، اپنی رضا کی جنتوں کے لئے ہم نے پیدا کیا تھا جو تیری خدمت کے لئے ہم نے چیزیں پیدا کیں ان سے بھی ہمارا گہرا تعلق ہے اور ہر پہلو ان کی زندگی کا ، ہر ذرہ ان کے وجود کا ان کا ہمیں علم ہے، جس چیز کی بھی کامل نشو و نما کے لئے ضرورت تھی اس کا ہمیں علم ہے اور ہم اس کے لئے سامان پیدا کرتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے ، اس کی نشو و نما کامل ہو اور اس کے نتیجہ میں یہ ہمیں نظر آتا ہے کہ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِى اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ کہ اللہ تعالیٰ کی جو صنعت ہے اس میں ہر چیز اپنے کمال کو اور اپنی مضبوطی اور استحکام کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے.یہ جہاں ہمیں کوئی شخص سائنس دان کہہ سکتا کہ انسان کے جسم کے اندر اکثر ذرے تو وہ بنتے ہیں جو کھانا ہم کھاتے ہیں ناں، ہماری غذا سے نظام ہضم جو ہے وہ ایسے ذرے بناتا ہے جو ہمارے بدن کا حصہ بن جاتے ہیں تا کہ وہ ذرے جو بوڑھے ہو گئے کچھ عرصے کے بعد دو دن بعد ، تین دن کے بعد ان کو ایک اور نظام باہر نکال دے اور ان ذروں کو ان کی جگہ رکھ دے.جس طرح آج کل انہوں نے بنایا ہوا ہے ناں پیس میکر (Pacemaker)، وہ دل کی حرکت کو کنٹرول کرنے کے لئے ، اس کی اپنی ایک عمر ہے وہ جب ختم ہو جاتی ہے پھر ایک اور اس کے اندر رکھ دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اس میں بھی شان ہے کہ اس نے زندہ غدودوں کو صنف احسن دیئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۱۸ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء اس نے ، آنکھ دی بڑی عظمت ہے خدا کی کہ ہمیں ایک ایسی چیز دے دی جس سے ہم دیکھتے ہیں.بڑا احسان ہے اس کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس سے بھی بڑی عظمت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے زمین میں ایسے ذرے پیدا کئے جو آنکھ کا حصہ بنتے ہیں جائے.جو ہم غذا کھاتے ہیں اس میں ایسے ذرے بھی ہیں.جو وہ ذرہ ہمارا جسم لے کے تو آنکھ میں پہنچا دیتا ہے جائے.وہاں کا جو پرانا ذرہ ہے وہ نکال لیتا ہے، باہر پھینک دیتا ہے.انہوں نے اب معلوم کیا ، ویسے ان کی تھیوری بدلتی رہتی ہے، ایک وقت میں میں نے پڑھا تھا کہ سات سال میں انسانی جسم کا ہر ذرہ بدل جاتا ہے، آنکھ کا بھی ، اس کے دماغ کا بھی ، اس کے بالوں کا بھی ، اس کی ہڈیوں کا بھی ہر ذرہ بدل جاتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتا یا تھیوریز بدلتی رہتی ہیں بہر حال ایک وقت میں میں نے یہ پڑھا تھا یہ تھیوری انہوں نے بنائی.تو ایسا ذرہ بنا دینا، جو گو بھی میں، جو گاجر میں، جو مولی میں ، جو شلجم میں ، جو چقندر میں ، جو دوسری ترکاریوں میں، جو بکری میں ، جو گائے میں، جو بھیٹر میں ، جو بیل میں اور بھینسے میں وہ بھی کھایا جاتا ہے، اور پرندے اور چرندے ہم کھاتے ہیں شکار کر کے بھی ، اور مرغ اور مچھلی ، پانی کے جانوران کے اندر اور گوشت میں بھی ایسے ذرے ہیں کہ جس وقت ہمارا ہضم کرتا ہے ان چیزوں کو تو جسم کا نظام دیکھو ایک تو وہ حاصل کرتا ہے وہ ذرہ ، پھر وہ پہنچاتا ہے آنکھ میں وہ نظام اور بغیر کسی ڈاکٹر کی ضرورت اور بغیر کسی سرجن کے آپریشن کے.وہ ایک ذرہ نکل آتا دوسرا وہاں fitted ہو جاتا ہے اور آنکھ اپنا کام کر رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اتنا ہر آن نازل ہو رہا ہے اور انسان اس کو بھول جاتا ہے.ربوبیت کے لئے ایسی ہستی کی ضرورت تھی کہ جب کامل کر دے شے ، چیز کو تو اس کی حفاظت بھی کرے.اگر مثلاً مچھلی کے تمام اجزا جو اس میں خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا تھا تا کہ انسان کی....کر سکے پیدا ہو جائیں لیکن اس کے اوپر فرض کرو بیکٹیریا کا حملہ ہو گیا اور ضائع ہو گئیں اور بھیڑیں مرجاتی ہیں اور ان کی حفاظت کا اگر کوئی ذریعہ ہی نہ ہوتا تو یہ چیزیں مٹ جاتیں.تو ان ربی عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفیظ ہر چیز کی حفاظت خدا تعالیٰ کر رہا ہے اور وہ پتہ ہمیں اس طرح لگتا ہے کہ میں نے بتایا کہ وائرس کو مارنے والی کوئی چیز انسان کو نہیں پتہ لگی تھی تو شہد کی مکھی جو انسان جیسی عقل تو نہیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۱۹ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء رکھتی بڑی چھوٹی سی عقل ہے اس کی ، اس طرح کی تو عقل ہے ہی نہیں اس کی بہر حال طبعاً وحی کے مطابق وہ کام کر رہی ہے اور اس میں وائرس کو مارنے والی چیز میں آگئیں.پتھروں کے درمیان وائرس کلر (killer) ست سلاجیت، یہ بھی وائرس کلر (killer) ہے.نمبر دو یہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سامان پیدا کر دیئے تاکہ ان اشیاء کی جنہوں نے جن کا مقصد حیات یہ تھا کہ انسان کی حفاظت کریں اس وائرس اور بیکٹیریا سے جو وبائی شکل میں آکے لاکھوں کی تعداد میں ان کو کل (kill ) کر کے ختم کر سکتا تھا وہ ان چیزوں کی حفاظت کی کہ یہ بن جائیں پوری اور قائم رکھیں اپنی صفات کو.جو خواص کا قائم رکھنا ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے.ان کی صفات کی حفاظت کی تاکہ انسان کے کام آجائے.یہ...فلق میں بھی یہ مضمون ابھی میں نے بتایا ہے اور وَكَانَ اللهُ بِكُلِ شَيْءٍ محيطا سورۃ نساء میں ہے اس کے محیط کے معنے عربی زبان میں جب علیا یعنی یہ کہا جائے علم کے لحاظ سے فلاں چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے تو اس کے معنے اعربی لغت یہ کرتی ہے کہ شے کے وجود کو جانتا ہے، اس کی جنس کو جانتا ہے اور اس کی جو مقدار، اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں ان کو جانتا ہے ان کی کیفیت کو جانتا ہے.جو وہ ایک دوسرے کے اوپر ان کا اثر ہورہا ہے ان کے ساتھ جو بیرونی دنیا میں ہونے والی ہیں ان کو جاننے والا ہے اسے کیوں پیدا کیا کس غرض سے پیدا کیا اس کو جانتا ہے، اندر باہر کا جاننے والا ہے اور غرض کو پورا کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ پھر ربوبیت آجاتی ہے اور جب تک ان چیزوں کا علم نہ ہو تو ربوبیت کاملہ ہو ہی نہیں سکتی یعنی رب العلمین کی صفت کے ساتھ اس کی یہ صفت بھی ضروری ہے عقلاً اور ہمیں سمجھایا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ وہ رب العلمین تو ہے لیکن محیط نہیں ہے اس کے علم نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے اس معنی میں کہ باریک سے بار یک چیز ، وہ چیزیں بھی جو آج سے ہزار سال بعد انسان کو پتہ لگیں گی یا قیامت تک پتہ لگیں گی یا شاید نہ بھی پتہ لگیں بعض بے وقوف انسان کو.خدا تعالیٰ کے علم سے تو باہر نہیں، نہ کبھی باہر ہو ئیں ، نہ ہیں ، نہ کبھی ہوسکتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.رَبُّ الْفَلَقِ فلق کے معنی ہیں کہ ظلمات میں تجریدی تبدیلی پیدا کرنے کے بعد ، ویسے تو اس کے معنی انہوں نے کئے ہیں صبح کی ربوبیت کرنے والا.لیکن جب میں نے غور کیا تو مجھے یہ معنی اس کے سمجھ آئے ہیں کہ تجریدی ترقی کے حصول پر صبح کی تربیت کرنے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۲۰ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء والا رب، فلق جو لفظ ہے اس میں انقلاب کا مفہوم ہے یعنی اندھیرے کے بعد جو روشنی نمودار ہوتی ہے، ایک سیکنڈ میں اندھیرا دور ہو جاتا ہے روشنی آجاتی ہے.یہ انقلابی تبدیلی ہے.فلق کے معنی میں انقلاب کا مفہوم پایا جاتا ہے اور ر بوبیت کے مفہوم میں ارتقاء کا پایا جاتا ہے مفہوم.تو انقلاب اور ارتقاء یہ دونوں ضروری ہیں.اشیاء کے وجود اور زندگی اور ان کے افادہ اور استفادہ کے لئے.ایک دفعہ یوگوسلاویہ کے ایمبیسیڈر سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا تو ملنے سے پہلے میں نے تھوڑا ان کے متعلق علم حاصل کیا.میں نے ان کو کہا کہ آپ کے ملک میں جو اس وقت موجودہ نظامِ سیاست ہے وہ..لیکن اس کے بعد جن ادوار میں سے گزرا ہے یہ وہ انقلابی نہیں تھے وہ ارتقائی تھے.وہ حیران ہو کے میرے منہ کو دیکھنے لگا.میں نے اس کو پھر بتایا میں نے کہا دیکھیں چند سال کے بعد اپنے کانسٹی ٹیوشن میں، دستور میں یہ تبدیلیاں کیں اور وہ انقلاب کے ذریعہ نہیں کی.آپ نے مشورے کئے ، سر جوڑے ان میں تبدیلیاں کیں.پارلیمنٹ تھی آپ کی نمائندے تھے، جس شکل میں بھی تھے.پھر اس کے بعد ان کی تین دفعہ ان کی تبدیلیاں ہو چکی ہیں، میں نے کہا اس سن میں ہو ئیں ، پھر اس سن میں ہوئیں ساری یہ تبدیلیاں اس واسطے زبر دست تبدیلی چھینج جو ہے وہ انقلاب کو چاہتا ہے اور وہ بتارہا ہوتا ہے کہ یعنی تہ و بالا کردی گئی چیز.یہ ہے انقلاب لیکن پھر جس غرض کے لئے وہ انقلاب لایا گیا ہے.اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انقلاب کی نہیں ضرورت.ارتقائی مدارج ربوبیت کی ضرورت ہے.تو رب الفلق میں ہمیں بتایا گیا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوں میں یہ دونوں چیزیں تمہیں نظر آئیں گی.اس کی ایسی صفات اور صفات کے ایسے جلوے جو انقلابی رنگ رکھتے ہیں اپنے اندر اور اس کی صفات کے ایسے جلوے جور بوبیت کا رنگ رکھتے ہیں اپنے اندر اور ہر زندگی کے ساتھ حقیقتا یہ لگے ہوئے ہیں مثلاً ایک بچہ ماں کے پیٹ میں ایک وقت تک اس کے اندر کوئی چیز نہیں ہوتی.قرآن کریم نے خود کہا کہ پھر ہم نے اس کے اندر روح پیدا کر دی وہ جو پیدائش کی روح ہے اس کو قرآنِ کریم کی اصطلاح میں آمر کے نتیجہ میں جو چیز پیدا ہو وہ انقلابی ہوتی ہے اور جور بوبیت کے نتیجہ میں تبدیلیاں آئیں وہ خلق ہے.انسان کو کہا کہ یہ ہستی جس نے اس ساری کائنات کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا اور کائنات
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۲۱ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء کی ہر شے سے ذاتی تعلق رکھا تا کہ ان کی صحیح نشو و نما ہو اور تمہاری صحیح خدمت ہو سکے اور اگر یہ نہ ہوتا.اگر ایک لحظہ کے لئے بھی کسی ایک شے یا سب اشیاء کا خدائے الْحَی کے ساتھ تعلق نہ رہے.ٹوٹ جائے تو ہلاکت آ جائے.فنا ہو ان چیزوں کی اور اگر خدائے اَلْقَيُّوْم کے ساتھ ان کا تعلق نہ رہے تو وہ قائم نہ رہے اپنی اس شکل میں.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ ذاتی تعلق رکھا میں نے ان کی صحیح نشو نما کی یعنی صحیح سے مراد یہ نہیں کہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے جس غرض کے لئے اللہ نے ان کو پیدا کیا اشیاء کو اس غرض کو پورا کرنے کے لئے جس قسم کی نشو ونما کی ضرورت اور جس کے نتیجہ میں ان کا اپنے کمال کو پہنچنا تھا وہ اس کو دی ہے.تمہارے لئے کیا ہے نا اس لئے تمہیں یہ ماننا چاہیے کہ اگر تم نے ناشکری کی کفر اور ناشکری ہم معنی استعمال ہوئے ہیں بہت جگہ ، اصل میں ہیں ہی یہ ہم معنی لیکن یہ ذرا باریک ہیں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اس وقت.تو اتنی بڑی کائنات ، ہمارا تصور بھی اپنے احاطہ میں نہیں لاسکتا اس وسعت کو اور ہر چیز کے اندر اتنی وسعت ، میں نے بتا یا نا، انسانی جسم کے اندر اتنی وسعت ہے کہ انسان خود اپنے جسم کی تفاصیل ہیں ان کا بھی احاطہ نہیں کر سکا اپنے علم کے ساتھ اور اپنی تحقیق کے ساتھ.اس لئے وَاتَّقُوا الله تمہیں وارنگ (Warning) دیتا ہوں کہ تقویٰ، خدا سے ڈرتے ڈرتے زندگی گزارو.وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ خدا تعالیٰ یعنی یہاں جوڑ تقویٰ اور اَنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ کے ساتھ اس کو ملایا ہے.اس واسطے میں نے اس مضمون میں بیان کیا اس میں جہاں مجھے یا آپ کو مخاطب کیا خدا نے ، اس کے ساتھ یہ آیت ملائیں، کہ ہر چیز کا علم رکھنے والا تھا، پھر تمہارا خادم بنایا تھا ہر چیز کا مقصد پیدائش یہ تھا کہ تمہاری خدمت کرے، ہر چیز کے ساتھ ذاتی تعلق رکھا میں نے ، خدا کہتا ہے اور متصرف بالا رادہ ہوکر ہر ایک چیز کی صحیح نشوونما کی تاکہ تمہارے کام آسکے اور تمہیں یہ کہا کہ اپنی صحتیں بھی ٹھیک رکھو، اپنے ذہنوں میں بھی چلا پیدا کر وہ علم کی روشنی حاصل کرو، اپنے اخلاق پہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا رنگ چڑھاؤ.روحانی رفعتوں کو حاصل کرو اور میرے قُرب کو پاؤ اور میری رضا تمہارے نصیب میں ہو.اگر تم اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی ناشکری کرو گے تو بڑی خطرناک بات ہوگی.وَاتَّقُوا اللہ اس واسطے تقویٰ اختیار کرو.اللہ سے ڈرتے رہو، اپنے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۲۲ خطبه جمعه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء آپ کو کچھ نہ سمجھو، ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ کی پناہ میں آؤ، اسے اپنی ڈھال بناؤ.یہ بدیوں سے بچنے کا حکم ہے زیادہ تر زور اس میں ہے وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ که اگر دوری کی راہوں کو اختیار کرو گے ، قہر کے جلوے تمہارے اوپر نازل ہوں گے اور دوسری آیت میں یہ کہا وَ سَتَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا خدائے علیم نے یہ ساری کائنات تمہارے لئے پیدا کر دی.تمہیں ساری طاقتیں دے دیں کہ تم ان سے خدمت لے سکولیکن جس طرح ان کی نشوونما میں ہر ہر فیض خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن کے بغیر نہیں ہوتی.اسی طرح ان سے استفادہ کرنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر ممکن نہیں.اس لئے وَسُتَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا خدا تعالیٰ سے اس کے فضل کے طالب ہو.دعائیں کرو، اس کی طرف جھکو، اس سے اس کا فضل اور رحمت مانگو اور اس لئے کہ اِنَّ اللهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ہی ہر شے بنائی لیکن ان اشیاء سے فائدہ تم اسی وقت حاصل کر سکتے ہو.جب فائدہ اٹھانے کی کوشش میں خدا کا فضل اور رحمت تمہارے شامل حال ہو.اس سے مانگو تا کہ جو تمہارے لئے پیدا کیا ہے وہ تمہارے حق میں ہی ثابت ہو.اپنی غلطی اور کوتاہی کے نتیجہ میں جس طرح زہر انسان کھا کے مرجاتا ہے حالانکہ زندگی کے قیام کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا.ایک اور شکل میں اگر اسے استعمال کیا جاتا.تو رحمتوں کے طالب بنو.خدا سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگیوں کے دن گزارو اور بحیثیت جماعت اس وقت ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسی لئے پیدا کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دنیا کے دل میں بٹھا ئیں اور توحید کا جھنڈا یہ کوشش کریں کہ ہر گھر پر اہرانے لگے.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا کرے ہمیں.اور جس طرح اس نے ہر شے کی ربوبیت کی اور اس کے قومی کو کمال نشو و نما تک پہنچا یا.وہ ہماری ربوبیت کرے اور ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرتا ہوا جو مقصد ہماری پیدائش کا اس نے ہمیں بتایا بحیثیت جماعت وہ مقصد ہماری زندگیوں میں ، ہماری نسلوں کی زندگیوں میں پورا ہو اور ہوتا رہے.آمین (از آڈیو کیسٹ)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۲۳ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے خطبہ جمعہ فرموده ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ.کراچی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ کراچی سے جو کرنے کی کچھ باتیں ہیں ان میں سے بعض کے متعلق اس وقت میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو علم ہو یا نہ ہو آپ نے بڑی فراخ دلی سے صد سالہ جو بلی کے وعدے لکھوائے تھے اور یہ وعدے ایک کروڑ پچپن لاکھ کے تھے.۶/۱۵ سال گزر چکے اور جس نسبت سے یہ وعدے وصول ہونے چاہئیں تھے اس نسبت سے وصول نہیں ہوئے.چونکہ یہ طوعی وعدے ہیں یہ طوعی چندہ ہے، وعدوں میں آپ نے بڑی ہمت دکھائی ادا ئیگی میں بھی اتنی ہمت دکھانی چاہیے لیکن اگر جماعت کے سر اور دماغ یہ سمجھتے ہوں کہ جب وعدوں کی فہرست بنائی گئی تھیں اس وقت کچھ غلطی ہوگئی تھی اور زیادہ لکھوا دیئے گئے تھے تو ہر وقت اس میں تصحیح ہوسکتی ہے لیکن جو وعدہ ہے وہ پورا ادا ہونا چاہیے.میرے خیال میں وصولی کے لحاظ سے چھ سال میں ستاسٹھ لاکھ کی ادا ئیگی ہونی چاہیے تھی.عملاً اٹھارہ لاکھ کی ہوئی ہے.بہت زیادہ فرق ہے.پس جو ذمہ دار افراد ہیں وہ جماعت سے مشورہ کر کے فہرستوں کو Revise کریں جو ادا ئیگی ہو سکتی ہے جس ادا ئیگی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۲۴ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کی طاقت ہے اس جماعت میں اس کے مطابق وعدے ہونے چاہئیں.ہمارے ایک احمدی دوست نے ( کراچی سے ان کا تعلق نہیں.بات سمجھانے کے لئے میں کراچی سے باہر کی ایک مثال لیتا ہوں ) سولہ لاکھ کا وعدہ بھجوادیا اور پانچ سال میں ایک ہزار ادا کیا.میں نے ان کو دفتر کی طرف سے لکھوایا کہ جو وعدے ہیں اس کے مطابق ہم نے اپنی کچھ تجاویز سوچنی ہیں کچھ منصوبے بنانے ہیں.آپ نے جس نسبت سے پندرہ سال میں سے پانچ سال میں ہزارد یا تو پندرہ سال میں تین ہزار کی آپ کو طاقت ہے ( آپ کا عمل بتا رہا ہے ) مگر تین ہزار کی بجائے آپ نے سولہ لاکھ کا وعدہ لکھوا دیا ہے.ہم نے خود آپ کا وعدہ سولہ لاکھ کاٹ کے تین ہزار لکھ لیا ہے.اس پر انہوں نے لکھا کہ ٹھیک ہے غلطی ہوگئی ، تین ہزار نہیں پچیس ہزار لکھ دیں وہ میں ادا کر دوں گا.تو یہ وعدوں کے اوپر جو عمل ہے، جو خرچ کے منصوبے ہیں ، جو Plan کرنا ہے، جو ساری دنیا میں قرآن کریم کی اشاعت کرنی ہے، جس قسم کی ہم نے مسجد میں بنانی ہیں، جتنی طاقت ہے اتنی ہی بنانی ہیں، جتنے وعدے ہیں اس کے مطابق تو نہیں ہم بنا سکتے.اس کی طرف توجہ ہونی چاہیے اور مشاورت تک ابتدائی رپورٹ مجھے مل جانی چاہیے.دوسری بات جو آج میں کہنی چاہتا ہوں وہ قرآن کریم کی طرف توجہ دینا ہے.قرآن عظیم یہ ہماری کوئی خواہش یا جذبہ یا قرآن کی محبت نہیں جو یہ اعلان کرتی ہے بلکہ قرآن کریم ) حقیقتاً ایک عظیم کتاب ہے، اتنے علوم اس میں بھرے ہوئے ہیں نہ ختم ہونے والے علوم کہ انسانی عقل ان کا احاطہ نہیں کر سکتی.اتنے علوم بھرے ہوئے ہیں کہ قیامت تک کے انسان کو بھی شاید قرآن کریم کے سارے علوم کا احاطہ نہ ہو سکے اس قدر عظیم کتاب سے جو آپ کی روز مرہ کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے والی ہے جو آپ کے زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے.جس سے ہمارا تعلق ہے مثلاً اگلی صدی کے مسائل.ہم یقین رکھتے ہیں ، ہمارا ایمان ہے قرآن عظیم ان مسائل کو حل کرے گا مگر جہاں تک ہماری زندگیوں کا سوال ہے ہمیں تو اپنے زمانہ سے دلچسپی ہے نا اور میں علی وجہ البصیرت جانتا ہوں اور علی وجہ البصیرت اس کا اعلان کرتا ہوں، غیروں کے سامنے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۲۵ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء بھی کرتا ہوں کہ اس زمانہ کی تمام ضروریات کو قرآن کریم پوری کرتا ہے.جو اس زمانہ نے نئے مسائل انسانی معاشرہ میں پیدا کئے ہیں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی تعلیم کوئی ازم، کوئی انسانی دماغ کوئی بڑے سے بڑا فلسفی ان مسائل کو حل نہیں کر سکتا.اتنی عظیم کتاب ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا.يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۳۱) کہ قیامت تک اُمت محمدیہ میں قرآن پر بظاہر ایمان لانے والوں میں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گا جو قرآن کریم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دے گا اور کوئی توجہ نہیں کرے گا لیکن جو ایسا کرے گا وہ اس کا نتیجہ بھگتے گا، وہ ترقیات کی تمام راہیں اپنے پر بند کرے گا وہ نور سے نکل کے ظلمات میں آجائے گا اس کا سر مخالف کے سامنے ہر وقت جھکا رہے گا.اس کا ہاتھ غیروں کے سامنے ہر وقت پھیلا رہے گا.ذلّت کی تمام راہیں اس پر وا ہوں گی.عزت کے سارے دروازے اس پر بند ہو جا ئیں گے کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا.اِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (النساء : ۱۴۰) قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ تمام خزانے خدا کے ہیں اور اپنی حکمت کا ملہ سے، اپنی منشا کے مطابق وہ اپنے خزانوں کو اپنے بندوں کے لئے حصہ رسدی دیتا ہے اور اس کے دروازے ان پر کھولتا ہے.قرآن کریم اگر قیامت تک کے لئے مسائل حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو قیامت تک خدا تعالیٰ کے ایسے نیک اور پاک اور مطہر بندے پیدا ہوتے رہنے چاہئیں جو معلم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ سے سیکھیں اور انسانوں کو قرآن کریم کے اسرار اور بطون سے آگاہ کریں تا کہ جو نئی مصیبتیں انسان نے اپنے لئے پیدا کر لیں اور نئے مسائل اس کے سامنے آگئے ان کا کوئی حل ہو اور اس کی نجات کے دروازے کھلیں.اس زمانہ کے لئے اور اس ہزار سال کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآنی تفصیل میں بھی اور بیج کی حیثیت میں بھی موجود ہے یعنی جو اس زمانہ کے مسائل ہیں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہر وہ تفسیر کر دی جس کی ضرورت تھی اور بڑا لطف آتا ہے.کئی دفعہ میں نے سوچا ہے.کوئی مسئلہ درپیش ہے اور انسانی دماغ کام کرتا ہے، دعائیں
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۲۶ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کرتا ہے اور ایک آیت کی تفسیر ذہن میں آتی ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی اس مسئلہ کو حل کرنے والی ہے اور یہ دماغ میں حاضر ہی نہیں ہوتا کہ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب میں لکھ چکے ہیں اور پھر چند دنوں کے بعد کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب میں وہ چیز موجود ہے.تو اس زمانہ میں قرآن کریم کو سمجھنے اور جاننے کے لئے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی زندگی کی ظلمات کو اور زندگی کے اندھیروں کو قرآن کریم کے نور سے نور میں بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے.ساری ہی کتب اور آپ کی سب تحریریں قرآن کریم کی تفسیر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم سے باہر ، قرآن کریم سے زائد ایک لفظ بھی نہیں لکھا نہ قرآن کریم پر کچھ زیادتی کی ، نہ قرآن کریم سے کوئی کمی کی تفسیر بیان کرتے چلے گئے ہیں.بعض ایسے بیان ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں لکھا کہ میں کس آیت کی تفسیر کر رہا ہوں اور ایک بیان دے دیا ہے کسی مسئلے کے متعلق کسی وقت غور کرتے ہوئے وہ عبارت پڑھتے ہوئے ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو نہیں لکھی لیکن ) دماغ میں ایک آیت آجاتی ہے کہ آپ فلاں آیت کی تفسیر کر رہے ہیں اس لئے کہ جس شخص کے متعلق جماعت کے ہر فرد کا یہ عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اس نے قرآن کریم سے باہر کچھ نہیں لکھا.اس کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ فلاں آیت کی تفسیر ہے وہ یہ جانتا ہے کہ کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.اپنے پاس سے قرآن کریم پر نہ زائد کر رہے ہیں اور نہ اس میں سے نکال کے باہر پھینک رہے ہیں.اس لئے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور آپ لوگوں کی توجہ اس طرف اتنی نہ ہونے کی وجہ سے جو ہونی چاہیے آپ کی مدد کرنے کے لئے میرے دماغ میں ایک سکیم آئی ہے.ہاں میں یہ بتا دوں کہ قرآن کریم کا ہی ذکر ہے اس آیت میں جس میں ہے.وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵) یہ دعا ہمیں سکھائی گئی ہے قرآن کریم نے کہ اے ہمارے رب! ہمیں علم میں بڑھاتا چلا جا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ قرآن عظیم غیر محدود علوم کا خزانہ ہے کیونکہ اگر وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۲۷ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء محمد ود ہوں تو اس وقت جب وہ پہلی ساری باتیں ختم ہو گئیں اس کے بعد اس دعا کا کوئی فائدہ نہیں لیکن قیامت تک آنے والے انسان کو یہ دعا سکھائی قرآن کریم نے کہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا ! ہمیں قرآنی علوم میں بڑھاتا ہی چلا جا.قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا - اور یہ بھی ہمیں بتا یا اللہ تعالیٰ نے کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (ي سورۃ بقرہ کی ۲۵۶ ویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے ) اس سے پہلے اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ انسان کے پیچھے ہے یعنی جو کچھ اس کے علم میں ہے اور جو کچھ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے جانتا نہیں ، جاہل ہے اُس سے ، وہ سب کچھ ہی اللہ تعالیٰ جانتا ہے یعنی جو کچھ بھی ہے خواہ وہ انسان جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلمِةٍ إِلا بِمَا شَاء اللہ تعالیٰ کا ئنات کو پیدا کرنے والا ، کائنات کی کنہ کو جاننے والا ہے اور اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی کوئی شخص پانہیں سکتا.تو ہر علم میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک دہر یہ سائنس دان جب کوئی Problem حل کر رہا ہو یا اپنا کوئی فارمولا بنارہا ہوا اور اس کو سمجھ نہ آرہی ہو، دماغ میں اندھیرا ہو اور ایک تڑپ اس کے اندر پیدا ہوتی ہے کہ کہیں سے مجھے روشنی ملے تو وہ تڑپ ایک غافل کی دعا کی مانند ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی سمجھتا اور اس کے دماغ میں روشنی پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس جگہ کسی آیت کا حوالہ نہیں دیا.ابھی میں نے جو کہا تھا نا کہ کسی آیت کا حوالہ آپ دیں نہ دیں کہ وہ ہے کسی نہ کسی آیت کی تفسیر.پہلے میرے دماغ میں یہ بات نہیں تھی تب آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہ آیت آگئی سامنے ، وہی مثال اس کی کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاء.اس کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے وہ لکھا ہے کہ کوئی دہریہ کوئی کمیونسٹ، کوئی بت پرست، کوئی بد مذہب علم کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے جب ترقی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ترقی کرتا ہے اس کی منشا کے بغیر ترقی نہیں کرتا اور انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سوا اُس کے علم کے کسی حصہ کو بھی پا نہیں سکتا.اور اس سے اگلا ٹکڑا آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم آسمانوں پر بھی اور زمین پر بھی حاوی ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۲۸ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کائنات کا اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس کا پیدا کرنے والا ہے اس کے اندر جو کچھ بھی خواص پائے جاتے ہیں، جو کچھ خواص میں کمی ہوتی ہے، جو بڑھوتی ہوتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے آمر سے یا اس کے خلق سے وہ چیز ہورہی ہے.وہ اس سے پوشیدہ اور چھپی ہوئی نہیں.وہ انسانوں کی طرح نہیں کہ آج یا د کر لیا یا سن لیا اور کل کو بھول گیا خدا نہ کرے آپ میں سے بعض بھول ہی جائیں کہ میں آپ کو کیا نصیحت یہاں کر کے گیا ہوں کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرتے رہنا ہے اسے بھولنا نہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سورۃ کہف تک کی تفسیر یعنی وہ عبارتیں جہاں آپ نے آیت بھی لکھی ہے اور آگے اور اس کی تفسیر بھی کی ہے شائع ہو چکی ہے.ویسے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری عبارات کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہیں جیسا کہ میں نے ابھی بتا یا لیکن بعض جگہ آیات دی ہیں بعض جگہ آیت کا Reference ( حوالہ ) نہیں دیا اور معانی بیان کر گئے ہیں.یہاں میرے نزدیک ( آپ کے رجسٹروں سے میراعلم اور قیافہ اور اندازہ مختلف ہے) کراچی کے حلقہ میں پانچ ہزار سے زیادہ خدام الاحمدیہ کی عمر کے احمدی ہیں.بہت سارے رجسٹروں پر نہیں آئے اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اس وقت ان میں جانے کی ضرورت نہیں.خدام الاحمدیہ سے میں نے کہا تھا کہ بتاؤ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے جو تفسیر چھاپی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آیات کا حوالہ دے کر تفسیر کی ہے وہ کتنے خدام کے پاس ہے.اب سورہ فاتحہ ہے.فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے.فاتحہ میں خلاصتاً وہ تمام علوم آگئے ہیں جو قرآن عظیم میں آئے ہیں.سورہ فاتحہ ایک چیلنج ہے ساری دنیا کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ چیلنج دیا.ایک دفعہ ایک عیسائی سے پادریوں نے مل کے سوچ کے سر جوڑ کے یہ سوال کر وا دیا تھا کہ جب آپ کے نزدیک بھی بائیبل خدا تعالیٰ کا کلام ہے تو پھر قرآن کی کیا ضرورت تھی ، اتنی موٹی کتاب بائیبل جو کم و بیش ستر کتابوں پر مشتمل ہے وہ قرآن کریم کے مقابلہ میں بہت بڑی ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۲۹ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء تو یہ سوال کر دیا کہ اس کی ضرورت کیا تھی؟ آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ تم قرآن کریم کی ضرورت پوچھ رہے ہو.میں کہتا ہوں کہ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے جو اسرار روحانی بیان کئے ہیں اور جو علوم اس میں پائے جاتے ہیں جو سات آیات پر مشتمل ایک صفحہ بھی نہیں بنتی (اسی واسطے جتنے ہمارے قرآن کریم چھپتے ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ پہلا صفحہ جہاں سورہ فاتحہ ہے اس کے ارد گر د بیل بوٹے ڈال کے تو اکثر حصہ صفحے کا سجایا ہوا ہے اور بیچ میں وہ سورہ فاتحہ سات چھوٹی چھوٹی آیات پر مشتمل لکھی گئی ہے) اس سات آیات مشتمل سورۃ فاتحہ کے علوم کے برابر می اگر تم اپنی ساری کتاب میں سے نکال کر مجھے دکھا دو تو میں سمجھوں گا کہ تمہارے پاس کچھ ہے.لمبا زمانہ گزر گیا اس چیلنج پر انہوں نے اس علمی میدان میں کوئی کشتی نہیں کی تھی.سر نہیں پھوڑنے تھے ، جسموں کو زخمی نہیں کرنا تھا، سینوں کو منور کرنے کا سوال تھا.نہیں آئے ، ۱۹۶۷ ء میں جب میں اپنی خلافت میں پہلی بار باہر نکلا تو کوپن ہیگن میں جہاں میں نے مسجد کا افتتاح بھی کرنا تھا تین مختلف سوسائیٹیز (Societies) نے ( دو کا تعلق عیسائی پادریوں سے تھا اور ایک محققین کی جماعت تھی) کہا ہم نے علیحدہ علیحدہ ملنا ہے.میں نے ان سے کہا وقت کم ہے، مصروفیت زیادہ ہے اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو تینوں اکٹھے مجھ سے مل لیں.چنانچہ انہوں نے اپنے چار چار نمائندے مقرر کئے اور وہ بارہ اکٹھے ہو کر آئے.ان کا ایک لیڈر تھا.بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ جوان کو جواب تھا کہ سورۂ فاتحہ کے مضامین اگر اپنی ساری کتاب میں سے نکال کے دکھا دو تو ہم سمجھیں گے تمہارے پاس کچھ ہے.میں نے اس کا انگریزی ترجمہ ٹائپ کروا کے رکھا ہوا تھا.ان کو دینے کی غرض سے جس وقت ہم باہر نکلے اور میں انہیں رخصت کر رہا تھا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا اس واسطے میں نے پہلے بات نہیں کی کہ میں نے اس کا فوری جواب نہیں لینا.یہ آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا بڑا لمبا زمانہ گزرا لیکن آپ نے خاموشی اختیار کی.آپ میں سے آج کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ جس شخص نے یہ مطالبہ کیا تھا وہ تو ۱۹۰۸ء میں فوت ہو گئے تو اب ہم کس کے سامنے جا کر مطالبہ منظور کریں.میں نے کہا میں ان کا نائب موجود ہوں اور میں یہ تمہارے سامنے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۰ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء رکھتا ہوں.میرے سامنے کرو پیش جواب اس مطالبہ کا.پھر مقابلہ ہو جائے کہ سورہ فاتحہ میں جو علوم ہیں ، اسرار روحانی، وہ زیادہ ہیں یا ان کی ساری کتاب میں زیادہ ہیں وہ انگریزی ترجمہ میں نے ان کو دے دیا.میں نے کہا سر جوڑ نا اور پھر مجھے جواب دے دینا.۶۷ء کا وہ دن جولائی کا کوئی دن تھا اور آج کے دن تک کسی نے جواب نہیں دیا اور وہاں بہ پرو پیگنڈہ کر دیا کہ میرا رویہ سخت تھا وہاں سے ایک صحافی آئے بڑے مشہو ر وہاں کے صحافی ہیں.ربوہ بھی آئے تو مجھے کہنے لگے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے کچھ سخت رویہ اختیار کیا تھا.میں نے کہا میں نے تو یہ رویہ اختیار کیا تھا اس نے کہا.اچھا یہ بات ہے تو پھر میں جاکے ان کی خبر لوں گا.خیر اس نے خبر لی یا نہ لی.سوال تو یہ ہے کہ قرآن کریم بڑی ہی عظیم کتاب ہے.اب سورہ فاتحہ کا چونکہ چیلنج دیا ہوا تھا تو مجھے خود خیال آیا کہ اگر وہ تیار ہوجائیں ( جو مجھے یقین تھا نہیں ہوں گے ) تو مجھے تو شروع کرنی ہوگی تفسیر سورہ فاتحہ کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر کی ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے بہت ساری نئی باتیں مجھے بھی سکھائیں سورۃ فاتحہ کی وہ سارا مجموعہ ایک بہت بڑا علم بنتا ہے پھر آپ بڑھتا چلا جائے گا یہ علم.یہ اکٹھا تو ہو جانا چاہیے.تو اسی خیال سے یہ قرآن کریم کی تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے وہ چھپوانی شروع کی.ایک جلد میں سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے اور بڑی عجیب تفسیر ہے، بہت ہی پیاری، بہت مزیدار، بہت لطف آتا ہے پڑھ کے اور سارے خدام کے پاس پتہ ہے اس کی کتنی جلد میں ہیں.صرف باسٹھ خدام کے پاس کراچی کے نو حلقوں میں سورہ فاتحہ کی تفسیر صرف چھتیں خدام کے پاس سورہ بقرہ کی تفسیر ، صرف سولہ خدام کے پاس سارے کراچی میں ال عمران، النساء کی تفسیر ، صرف دس خدام کے پاس سورہ تو بہ اور اس کے ساتھ کچھ (اور سورتیں ملی ہوئی ہیں ) ان کی تفسیر اور صرف پندرہ خدام کے پاس سورۃ یونس تا کہف کی تفسیر إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.اس واسطے اس سلسلہ میں میرے ذہن میں دو تجاویز آئی ہیں.ایک تو میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.وہ اسی جگہ لیتا ہوں دوسری کا ایک اور مضمون (Point) ہے.اس ضمن میں الگ بات کروں گا یعنی جو میں نے کلب (Club)
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۱ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کے سلسلہ میں کہا تھا.میں نے خدام سے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں کتابوں کی خرید کی طرف جو توجہ نہیں اس کی دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ ملک غریب ہے اتنے زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکتے دوسرے یہ کہ پڑھنے کی عادت نہیں.میں نے پہلے بھی بتایا ہے.میں انگلستان میں پڑھتا رہا ہوں ریل میں سفر کئے ہیں.میری آنکھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ ریل کے ڈبے سے ایک شخص ایک اسٹیشن پر اترا اور صبح کا اخبار جو اس نے پڑھنے کے لئے خریدا تھا.مول لیا تھا وہ اپنی سیٹ کے او پر چھوڑ گیا.اس کی جگہ اسی اسٹیشن سے ایک اور مسافر سوار ہوا اور اس نے دیکھا ایک اخبار پڑا ہے اس نے اٹھا کے پر لی سیٹ پر رکھ دیا اور اگلے سٹیشن پر اترا اور وہی اخبار خرید کے لایا.ان کو مانگے کا اٹھا کے ہاتھ میں لے کے پڑھنے کی عادت ہی نہیں.پیسے خرچ کرتے ہیں پڑھ کے پھینک دیتے ہیں یہ بدقسمتی ہے ہمارے سارے مشرقی علاقوں کی کہ یہاں لوگوں کو پڑھنے کی عادت نہیں.علم حاصل کرنے کی عادت نہیں.سیکھنے کی عادت نہیں Concentration کی عادت نہیں.توجہ قائم رکھنے کی عادت نہیں علم سے نور لے کے آگے ہی آگے بڑھنے کی عادت نہیں.مگر ہمارے لئے ایک ما بہ الامتیاز ہونا چاہیے، بہت ساری باتوں میں ہے، اس میں بھی ہونا چاہیے.ایک احمدی میں اور دوسروں میں جو اس علاقہ میں بسنے والے ہیں.آپ حیران ہوں گے یعنی یہ تو سورہ فاتحہ کی باسٹھ جلدیں ہیں.امریکہ میں وہ احمدی، امریکن ، جنہوں نے عیسائیت یا بد مذہب یاد ہر یت کو چھوڑا اور احمدی ہوئے جن کی احمدیت پر تین چار سال گزرچکے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد ہے ان کی انگریزی کی جو تفسیر ہے پانچ جلدوں کی وہ ان کے ہر گھر میں موجود ہے اور وہ اسے پڑھتے ہیں اور خالی پڑھتے نہیں جہاں سمجھ نہیں آتی فون اٹھاتے ہیں اور ہمارے مبلغ کو فون کرتے ہیں کہ یہ آیت ہے یہ تفسیر کی ہے، مجھے سمجھ نہیں آئی بتاؤ مجھے.وہاں تین منٹ کا فون نہیں ہوتا.وہاں اتنے منٹ کا فون ہوتا ہے جتنے پیسے دینے کے لئے آپ تیار ہیں یعنی وہاں ٹیلی فون ایکیھنچ بتا تا ہی نہیں کہ تین منٹ گزرے، دس منٹ گزرے، تیس منٹ گزرے، صرف بل بتاتا ہے کہ اتنے منٹ آپ نے فون کیا تھا اتنے پیسے دے دو لیکن ہمیں تو کتابیں پڑھنے کی عادت ہونی چاہیے.خصوصاً وہ کتب جو ہماری جان ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۲ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کے اگر ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور حاصل نہیں کرنا تو زندہ رہ کے کیا کرنا ہے.میں نے کہا کلب (Club ) بناؤ.خدام اپنی بنائیں.انصارا اپنی بنائیں، لجنہ اپنی اور پہلا مرحلہ یہ ہے ( پہلے جو میں نے بات کی تھی اور سوچا اب اس سے کچھ زائد بات کرنے لگا ہوں ) کہ ہر گھر میں دو آدمی میاں بیوی ہیں ابھی بچہ نہیں پیدا ہوا یا آٹھ دس آدمی ہیں اور ان کے Dependents ہیں بچے بڑے ہو گئے ہیں.پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہر گھر میں ایک نسخہ تفسیر صغیر کا ہو یا اگر کوئی انگریزی کے شوقین ہیں تو جو انگریزی ترجمہ قرآن کے فٹ نوٹ ہیں ان میں تفسیر صغیر کو Follow کیا ہے بلکہ اپنی شروع خلافت میں بعض مضامین پر میں نے روشنی ڈالی تو ملک غلام فرید صاحب نے ان کو بھی انگریزی کے فٹ نوٹس میں لے لیا.یہ مرضی ہے گھر والے کی کہ وہ تفسیر صغیر رکھتا ہے یا تفسیر صغیر کی طرح کے ہی جو نیچے نوٹ والا ہمارا انگریزی ترجمہ اور نوٹ ہیں وہ اپنے گھر میں رکھتا ہے.اور دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی جو پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں وہ اس سال کے اندر اندر ہر گھر میں آجا ئیں.اس کے لئے میں نے ایک تجویز سوچی.میں نے کہا نا کہ ایک ہماری مشکل یہ ہے کہ اتنے پیسے نہیں.مثلاً ایک خاندان ہے وہ ڈیڑھ سو روپیہ کما رہا ہے ڈیڑھ سو سے زیادہ ان کی قیمتیں بن جاتی ہیں وہ کیسے یکدم خرید لے گا تو عقل سے ہم نے کام لینا ہے.میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی بھی بددیانت نہ ثابت ہو اور آپ کو یہ غیرت ہونی چاہیے کہ آپ میں سے کوئی بددیانت نہ ثابت ہو.اگر آپ دیانت دار ہیں تو ہمیں ایک لحظہ کے لئے بھی آپ کو کتاب پکڑانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس ہوتی.یہ کلب جو میں نے بتائی ہے آپ سوچ کے بنالیں گے سارے کے سارے اس کلب کے ممبر ہونے چاہئیں.بے شک اپنے چندے اپنی آمد کے لحاظ سے تھوڑے یا بہت کریں مثلاً دو روپے مہینہ کریں ، تین روپے مہینہ کریں، پانچ روپے مہینہ کریں، دس روپے مہینہ کر یں.باقاعدگی سے ہر شخص پہنچائے ، جگہ پہنچانے کی وہ ہو جہاں اسے زیادہ تکلیف نہ ہو.....دس میل دور و پے خرچ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۳۳ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کر کے دورو پے نہ پہنچائے بلکہ ایک پیسہ خرچ کئے بغیر پیدل چل کے اس جگہ پر پہنچے جہاں اس نے اپنا چندہ Deposit کرانا ہے.خدام الاحمدیہ اور ان ساری تنظیموں کو اتنا Officiant اتنا اہل تو ہونا چاہیے کہ وہ ایسا نظام قائم کر سکیں.آپ کی تعداد کے مطابق میں ربوہ سے یہاں کتا میں بھجوا دوں گا اور آپ ہر گھر میں دے دیں.اس کی قیمت کی ادائیگی کی دو شکلیں بنتی ہیں.یا تو میں ربوہ کو کہوں گا کہ آپ سے بالا قساط رقم وصول کریں مثلاً سارا بل اگر دس ہزار کا بنتا ہے اور آپ نے یہ رقم دس مہینے میں دینی ہے تو ایک ہزار روپیہ دے دیں.اگر آپ نے ہیں مہینے میں وہ رقم ادا کرنی ہے (اور یہ پہلے ہی فیصلہ ہو جائے گا) تو آپ وہاں پانچ سو روپیہ مہینہ ادا کریں با قاعدگی کے ساتھ بغیر اس کے کہ ایک خط بھی یاد دہانی کا آپ کو آئے.اسی طرح لجنہ کرے اور انصار کریں لیکن جماعت ایک کمیٹی بنائے جو یہ دیکھے کہ میں جو کہہ رہا ہوں کہ تین تنظیمیں کریں تو میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابھی پہلے مرحلے میں ہی ایک گھر میں تین جلدیں اکٹھی ہو جائیں.میرا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا گھر ہے جہاں خدام الاحمدیہ کی عمر کا بچہ ہی کوئی نہیں تو اس کے لئے انصار منتظم ہوں.ایک گھر ایسا ہے جہاں مرد ہی کوئی نہیں مثلاً کئی نادان ہماری بوڑھی نو جوان کنواری لڑکیاں جو نوکری کرنے لگ گئی ہیں اٹھائیس رتیس سال کی اکیلی ہیں یعنی ابھی شادی نہیں ہوئی خاوند ہی کوئی نہیں ان کے.تو وہ لجنہ اماءاللہ کی ممبر بنیں گی اور ان سے لے لیں گی.جماعت احمد یہ ایک کمیٹی بنائے جو یہ دیکھے کہ یہ آپس میں Co-ordination ہو کہ یہ ایک کاپی جو آنی ہے یہ خدام الاحمدیہ کے ذریعہ اس گھر میں داخل ہوگی یا انصار اللہ کے ذریعہ لجنہ اماءاللہ کے ذریعہ اور اس سال کے اندر اندر یہ مرحلہ آپ کو کتابیں ملنے کا پورا ہو جانا چاہیے.اس کی ادائیگی کی تو دیکھیں گے کیا شکل بنتی ہے کچھ جلدی ادائیگی کر دیں گے کچھ یکمشت ادا ئیگی کر دیں گے.کوئی دس مہینے میں کرے گا.کوئی بیس مہینے میں کرے گا اس کے مطابق ہوگا.ایسا مالی بوجھ ڈالے بغیر جسے اٹھانے کی اس شخص کو طاقت نہیں.یہ علوم کے خزانے ان کے گھروں میں پہنچنے چاہئیں.ہم ان کے گھروں کو نو ر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی برکات سے بھرنا چاہتے ہیں یہ کتب وہاں ہونی چاہئیں یعنی یہ مرحلے دو ہیں کتب کے لحاظ سے لیکن یہ ایک وقت میں چالو ہوں گے اور علیحدہ علیحدہ اس کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۳۴ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء رپورٹیں ہوں گی اور میرے پاس آئیں گی اور ایک سال کے اندر اندر ہر گھر میں تفسیر صغیر کا ایک نسخہ اور پانچ جلدیں تفسیر کی ہو جانی چاہئیں.جو طاقت رکھتے ہیں وہ تو اگلے جمعہ سے پہلے پہلے خرید لیں.مجھے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آپ کی ضرورت کے مطابق ربوہ میں جلد میں موجود بھی ہیں یا نہیں یا چھپوانی پڑیں گی.اس واسطے میں نے ایک سال لگایا ہے کیونکہ پھر میں ذمہ دار ہوں انشاء اللہ کہ وہ آپ کو ایک سال کے اندریل جائیں.دوسری بات میں اپنے طلباء کے متعلق کچھ کہنی چاہتا ہوں.میرے دل میں بڑی شدت سے یہ ڈالا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر ذہنی عطا کے طور پر جس قدر پہلے رحمتیں کرتا رہا ہے اس سے بہت زیادہ اس اگلے زمانے میں کرنے والا ہے انشاء اللہ اور جماعت کا فرض ہے کہ ذہن کو بچائے محفوظ کرے اور اس کی نشو ونما کا انتظام کرے.یہ سکیم جیسا کہ میں نے مختصراً جلسہ سالانہ پر بتائی تھی پانچویں جماعت سے عملاً شروع ہوتی ہے.ویسے شروع ہو جاتی ہے اس کلاس سے جس میں سکول یا حکومت کا نظام تعلیم امتحان لیتا ہے اکثر امتحان تو سکول میں ہوتے ہیں چوتھی تک غالباً سارے ہی امتحان سکول میں ہوتے ہیں.پانچویں کا پہلا امتحان ہے جہاں محکمہ تعلیم بیچ میں آ جاتا ہے.وہ بھی شاید ساروں کا نہیں لیتا.بہر حال پہلی بات جو میں چاہتا ہوں کہ آپ کریں مجھے خوشی پہنچانے کے لئے وہ یہ کہ ہر وہ احمدی بچہ جو کراچی میں Greater karachi میں اور اس میں میں شامل کرتا ہوں ضلع حیدر آباد اور دا دو اور تھر پار کر یہ ہماری زمینیں آگئی نا ساری.یہ اگر کر لیں تو اس سارے ایریا میں ہر وہ بچہ جو اگلے تین چار ماہ میں امتحان ہونے والے ہیں اگر وقت پر ہو گئے تو ہر بچہ جو امتحان دے وہ مجھے نتیجہ نکلنے پر خط لکھے اور میں ہر اُس بچہ کو اپنے دستخطوں سے جواب دوں گا اور یہ تو عام ہے اور ہر بچہ جس نے پانچویں جماعت کا امتحان دیا ہے اور اس علاقہ میں مختلف محکمہ تعلیم مختلف حصوں کے ذمہ دار ہیں مثلاً کراچی کا اور ہے اور حیدرآباد کا اور ہے مجھے اس کی تفصیل کا پتہ نہیں لیکن جو مستقل Independent یونٹ میں امتحان لینے والے اس انڈی پینڈنٹ یونٹ میں ہر وہ بچہ جو اوپر کی تین سو پوزیشنز میں آتا ہے ( پانچویں جماعت میں بے شک پانچ سو کی پانچ سو پوزیشنیں لے لو ) اس کو علاوہ خط کے (میں سوچ کے بتاؤں گا تر تیب بدلنی
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۵ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء پڑے گی مثلاً سورہ فاتحہ جو ہے وہ ذرا دقیق ہے وہ پانچویں جماعت کا بچہ نہیں سمجھ سکتا.تو دیکھوں گا میں کہ کوئی ایسی تفسیر بھی ہو جس کے کچھ حصے میں سمجھوں کہ مضمون کے لحاظ سے ایسے ہیں جو پانچویں جماعت کے بچے کے ہاتھ میں دے دوں دو چار سال کے بعد چاہے پڑھ لے) میں اپنے دستخطوں کے ساتھ وہ تفسیر بجھوا دوں گا اگر وہ نمبروں کے لحاظ سے اوپر کے Top کے تین سو میں آ گیا ہے اور اسی طرح آٹھویں جماعت میں پھر محکمہ تعلیم کا امتحان ہے اور وہ وظیفے کا بھی امتحان لیتے ہیں لیکن وظیفہ تو اتنے کو دیتے ہیں یا نہیں دیتے بہر حال اس وظیفہ کے امتحان میں پہلے تین سو جو Top کے ہیں یعنی آٹھویں کے امتحان میں جو گورنمنٹ لے رہی ہے ( سکول کا امتحان نہیں اس میں.یعنی جو اپنا سکول امتحان لیتا ہے وہ تو کوئی کسی قسم کا سکول ہے کوئی کسی قسم کا سکول ہے ) اس کے نتیجہ میں فہرست میں سب سے اوپر جو تین سو طالب علم ہیں ان تین سو میں جتنے بھی احمدی بچے ہیں ان کو انشاء اللہ میں کتاب دوں گا.دسویں جماعت میں بورڈ کا امتحان ہے جہاں جہاں بھی اس ایریا میں بورڈ ہیں چوٹی کے دو سود ماغ جو ہیں ان میں جتنے بھی احمدی ہیں ان کے ذہن کے مطابق یہی جو ہیں پانچ کتب تفسیران میں سے ایک پر اپنے دستخط کر کے اور پیار کا خط لکھ کے ان کو دوں گا.اور انٹر میڈیٹ جو ہے اس کے بھی ٹاپ کے تین سولر کے ہر بورڈ کے اور گریجوایشن (Graduation) بی.اے، بی.ایس سی جو ہے اس کے بھی ٹاپ کے دوسو جو ہیں یعنی نتیجہ کی فہرست میں سب سے اوپر نمبر لینے والے دوسو میں سے جتنے احمدی لڑکے آتے ہیں وہ مجھے خط لکھیں گے اور یہ بھی لکھیں گے کہ ہماری پوزیشن مثلاً ۱۰۱ ہے،۱۱۰ ہے ( یعنی دوسو کے اندراندر جو بھی پوزیشن ہے ) ان کو بھی ایسا ہی انعام ملے گا.جوایم.اے، ایم.ایس سی یا یہ ہمارے جو ڈاکٹر بنتے ہیں فزیشن، سرجن یا انجینئر وغیرہ اور اس ٹاپ کے امتحانات وہ ایم.اے، ایم.ایس سی کے مقابلے میں ہی ہیں.ہر مضمون میں علیحدہ علیحدہ کلاسیں بن گئی نا.ہر مضمون کے ٹاپ کے جو سات ہیں یو نیورسٹی میں ان میں سے جتنے احمدی ہیں ان کو پانچ کا سیٹ یا تفسیر صغیر یا جو انگریزی ترجمہ ہے وہ تحفہ ہم دیں گے لکھ کے کہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۶ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء تمہیں اللہ تعالیٰ نے اتنی ہمت دی ہے اور بھی ہمت دے.اور جو اس کے بعد کے ہیں مثلاً پی.ایچ.ڈی کہلاتا ہے یا اور یعنی پوسٹ ایم.اے، ایم ایس سی یا دوسرے ان کے مقابلے میں جو انجینئر ہیں ان کے بعد کی جو ڈگریاں یہاں لینے والے ہیں اگر وہ ٹاپ کے سات میں آجائیں گے تو ان کو بھی یہ انعام ملے گا.تو اب انشاء اللہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں میرے لئے کوئی مشکل نہیں نظر آتی کہ میں نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا نہ کروں اور آپ دل میں یہ عہد کریں اور آپ کے بچے بھی عہد کریں کہ ہم وعدہ پورا کریں گے یعنی خط لکھیں گے.اس سال ہر بچہ امتحان دینے والا جو ہے نا اُس کا خط مجھے ملنا چاہیے.چاہے وہ دس ہزار خط ہوں مجھے بڑی خوشی ہوگی ان کا جواب دستخطوں سے میں دوں گا اور اس ترتیب کے ساتھ ان کو تحفے کتابوں کے بھی دوں گا.یہ اس سکیم سے مختلف ہے جس کا میں نے اعلان کیا تھا کہ وظیفہ دیں گے پڑھائیں گے.ایک میں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہر طالب علم یعنی School going Age کا بچہ ہمارا جو ہے نا وہ دسویں سے پہلے تعلیم نہیں چھوڑے گا.ایک ایسی جماعت پیدا ہو جانی چاہیے پاکستان میں جس کا اپنے Age Group کے لحاظ سے کوئی بھی فردایسا نہیں ہے جو میٹرک پاس نہیں ہے.اور یہ بڑی چیز ہے، سوچیں گھر میں جا کر بہت بڑی چیز ہے.اگر ہم اس میں کامیاب ہوجائیں اور ساری جماعت کوشش کرے کہ کامیاب ہونا ہے ہم نے یعنی اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوتا ہے یا اچھے نمبر لیتا ہے کہ اگر ایک نمبر کم ہوتا تو وہ فیل ہو جا تا یعنی کوئی فرق نہیں.میٹرک ہونا چاہیے اس کو اور اس کے لئے ضروری خرچ جس کی اس کے والدین کو طاقت نہیں وہ جماعت کو کرنا چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑا ہے منصو بہ اور جو میں نے اعلان کیا Genius ہو یا ٹاپ کے دماغ ہوں ان کو ہم نے سنبھالنا ہے اس سے یہ منصوبہ مختلف ہے اور نوعیت کا ہے کیونکہ ہر دماغ کو میٹرک سے پہلے ہم نے سنبھالنا ہے لیکن اپنے اثر کے لحاظ سے اور اپنی افادیت کے لحاظ سے یہ کم اہمیت کا منصوبہ نہیں اور وسعت کے لحاظ سے اس سے بہت بڑا منصوبہ ہے.آپ کو میں نے اب اپنی تجربہ گاہ بنالیا ہے.یہ کراچی کے تین ضلعے اور دوسرے تین کل چھ ضلعے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۷ خطبہ جمعہ کے ر مارچ ۱۹۸۰ء ہو گئے جن پر میں تجربہ کر رہا ہوں.تو میں نے کہا آپ کو کہ آپ مجھ سے (دل میں ، اونچی آواز سے نہیں ) یہ عہد کریں کہ آپ جو بچے طالب علم ہیں وہ مجھ سے وعدہ پورا کریں گے.مجھے ضرور خط لکھیں گے.اور جو ماں باپ ہیں وہ یہ وعدہ کریں کہ ان کے بچے ضرور لکھیں.نمبر ۲ اور جو جماعتیں ہیں وہ یہ وعدہ کریں کہ مجھے جو بچے خط لکھیں گے ان کی فہرست مجھے بھجوائیں گے.یہ میں خاص وجہ سے کہ رہا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں ڈاک کا انتظام بھی ناقص ہے.ہوسکتا ہے کہ سوخط لکھے جائیں اور مجھے پچاس ملیں اور پندرہ خط غائب ہو جا ئیں.تو وہ فہرستیں مجھے بھجوانے کا بھی انتظام ہوتا کہ اگر کوئی خط غائب ہو جائے تو ہمارے علم میں آجائے.یہ جو سکیم ہے یہ دراصل جو پہلا مضمون کا حصہ تھا اس سکیم سے چکر کھا کے جاملتی ہے.کیونکہ اگر ہم نے قرآن کریم سکھانا ہے تو دسویں تک تعلیم ہونی چاہیے ہمارے ہر بچے کی ، جو پڑھنا ہی نہیں جانتا وہ بھی اگر ذہین ہے تو قرآن کریم کا علم حاصل کر سکتا ہے.ایک دفعہ (بڑی دیر کی بات ہے میں بچہ تھا ) ہمارے لاہور سے فورتھ ائیر کے ایک طالب علم اپنے ساتھ ایک غیر احمدی دوست کو بھی قادیان جلسہ پر لے آئے وہ آپس میں مدرسہ احمدیہ میں بحث کر رہے تھے ، اس زمانہ میں تو تعداد کہیں کم تھی چھوٹے چھوٹے کمروں میں جماعتیں ٹھہرتی تھیں وہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے.آپس میں بحث کر رہے تھے.ہمارے احمدی فورتھ ائیر کے طالب علم کو جواب نہیں آیا اس کا ، وہ کہنے لگا میں تو مولوی نہیں ہوں میں ہنے مولوی نوں لے آناں.خیر وہ ساتھ والے کمرے میں گیا وہاں ایک شخص سفید پوش پگڑی اس نے پہنی ہوئی ، داڑھی اس نے رکھی ہوئی ، بڑا خوبصورت اس کا چہرہ ،شکل اس نے دیکھی اس نے سمجھا یہ مولوی صاحب ہی ہوں گے تو وہ اس کو جا کے کہنے لگا کہ اس طرح میرا دوست میرے ساتھ آیا فورتھ ائیر کا اور ہم باتیں کر رہے تھے.ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی.تو آپ آ کے بتا دیں اس شخص نے کہا چلو میں بتا دیتا ہوں.وہ ساتھ ہولیا.وہ یہ سوال کر رہا تھا کہ (سوال صحیح یا غلط وہ میں چھوڑتا ہوں.اس وقت اس کے متعلق کہنے کا وقت نہیں ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے اور پھر یہ آگے بیٹوں میں نہیں جانی چاہیے.وہ کہنے لگا یہ کون سا مشکل سوال ڈال دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۳۸ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء ہوئے مولوی نورالدین صاحب اور وہ ان کے بیٹے نہیں تھے اور مولوی نورالدین صاحب کے بعد ہوئے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور وہ مولوی نورالدین صاحب کے بیٹے نہیں تھے.تو سوال تو اس نے ویسے ہی کیا تھا اس میں معقولیت نہیں تھی لیکن یہ شخص جس نے جا کر سمجھایا یہ اپنے دستخط بھی نہیں کر سکتا تھا.تو یہ تو صحیح ہے کہ وہ ذہین تھے.وہ لوگ حضرت صاحب کے آ کے خطبے سنا کرتے تھے.Literacy اور چیز ہے اور علم اور چیز ہے.تو Literate تو ہو ہی جاتے ہیں.کئی دسویں پاس ہیں.علم ان کو چھو کے بھی نہیں گزرا لیکن میٹرک پاس ہیں.تو جو بعض Literate ہیں وہ پڑھ لیتے ہیں لکھ لیتے ہیں لیکن علم سے کوئی پیار نہیں.سو ہر احمدی کو ہم خالی Literate نہیں بلکہ عالم بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے Literate ہونا بھی ضروری ہے.قرآن کریم کی گہرائیوں میں اگر ہم نے اس کو لے کے جانا ہے تو اس کو کم از کم میٹرک تک کی تو تعلیم ہونی چاہیے.پھر جو اس میں ہوشیار ہیں انشاء اللہ وہ آگے جائیں گے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو علم کے میدان میں اتنی برکتوں سے بھر دے کہ جو بہت آگے نکلے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی حیرانی کا باعث بن جائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۷ را پریل ۱۹۸۰ء صفحه ۱ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۳۹ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء جلسہ سالانہ پر جن وظائف کا اعلان کیا تھا وہ ادائے حقوق کے وظائف ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا تھا.اپنی طرف سے تو میں نے کافی وضاحت کر دی تھی مگر معلوم ہوتا ہے کہ پوری طرح وضاحت نہیں ہوئی جماعت کے طلباء پر بھی اور ایک کمیٹی میں نے بنائی تھی اس پر بھی.دنیا میں عام طریق یہ ہے کہ انعامی وظائف دیئے جاتے ہیں.انعامی وظائف کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو ذہین ہے اور یو نیورسٹی میں فرسٹ آ جاتا ہے.مثلاً ایم.ایس سی فزکس میں یا بی.ایس.سی میں یا بی.اے میں یا ایف.اے میں یا ایف.ایس.سی میں تو یو نیورسٹی کی طرف سے اسے وظیفہ ملتا ہے قطع نظر اس کے کہ اس کے خاندان کے مالی حالات کس قسم کے ہیں.اگر ایک کروڑ پتی کا بیٹا ذہین ہو اور فرسٹ آ جائے تو اسے وظیفہ دے دیتے ہیں.یہ ضرورت کے مطابق یا استحقاق کے مطابق اسلامی اصطلاح میں وظیفہ نہیں.یہ انعامی وظیفہ کہلاتا ہے.میں نے جن وظائف کا اعلان کیا تھا جلسہ پر وہ انعامی وظائف نہیں تھے ادائے حقوق کے وظائف تھے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۴۰ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اگر کسی بچے کو ذہن رسا عطا کیا اور علم کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی قابلیت اس میں پیدا کی لیکن وہ بچہ ایک غریب کے گھر میں پیدا ہو تو اس سے اسلامی عقل یعنی وہ عقل جس کی نشو و نما اسلام نے کی ہے یہ نتیجہ نہیں نکالتی کہ اس بچے کی پڑھائی کا کوئی انتظام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسلام نے ہر قوت اور استعداد جو انسان کو ملی اس کے متعلق یہ وضاحت سے کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ ہر قوت اور استعداد کی نشوونما ہو اور یہ نشو و نما اپنے کمال کو پہنچے اور یہ نشو ونما اپنے کمال پر پہنچنے کے بعد اپنے کمال پر قائم رہے اور یہ کہ اس غرض کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی خدائے عَلامُ الْغُيُوبِ کی نظر میں اس نے کائنات میں وہ پیدا کر دی ہے.اگر کسی شخص واحد کو یہ حق جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے نہیں ملتا تو وہ مظلوم ہے اور دنیا میں کوئی شخص یا اشخاص ایسے ہیں جو ظالم ہیں اور اس کے حق پر قبضہ کئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علمی قابلیت کے متعلق علیحدہ بھی کھول کر بیان کیا ہے کہ یہ قابلیت اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے.قرآن کریم میں فرمایا :.وَ انَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (الطلاق: ۱۳) کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ کیا ہوا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے ( یہ ایک لمبی آیت ہے جس کا آخری ٹکڑا میں نے آپ کے سامنے پڑھا) کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جب تک علم نہ ہو قدرت عقلاً ممکن ہی نہیں.اگر خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی جاہل دماغ یہ تصور کرے کہ وہ انسان کے جسم کی ضروریات سے واقف نہیں تو اسے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان کی ضروریات کو پورا کرنے پر قادر بھی نہیں.جب اسے علم ہی نہیں تو وہ اس کی ضروریات کو پورا کیسے کرے گا تو اللہ تعالیٰ قادر بھی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہر چیز کے اندر اور باہر ظاہر اور باطن کو وہ جانتا ہے.ان قوتوں اور استعدادوں کو بھی جانتا ہے جو ابھی نشو و نما حاصل نہیں کر سکیں انہیں بھی جانتا ہے جن کو نشو ونما کا ماحول مل جائے اور وہ نشو و نما حاصل کر لیں.انہیں بھی جانتا ہے جنہیں نہ ملے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۴۱ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء اور وہ نہ کر سکیں لیکن اپنی قوت اور استعداد کے لحاظ سے ان کے اندر یہ طاقت تھی.اس لئے جس دائرہ میں انسان کو آزادی دی اس میں انسان پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ تم دوسرے کے حقوق کو غصب نہ کرنا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ جو ان کے آگے ہے اور جو پیچھے ہے وہ اسے جانتا ہے وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرة : ۲۵۶) اور اس عالمگیر محیط علم میں سے کسی چیز پر بھی انسانی دماغ احاطہ نہیں کر سکتا ، اسے جان نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ کے اذن اور منشا کے بغیر یعنی خدا تعالیٰ جب تک انسان کو عقل نہ دے اس وقت تک انسان خدا کے علم کے ایک چھوٹے سے حصے سے علم حاصل نہیں کر سکتا.جتنی ترقیات انسان نے کیں علم کے میدان میں وہ الہی اذن اور منشا سے کیں.تو ان آیات سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ علم سے ہر شے کا احاطہ صرف اللہ تعالیٰ نے کیا ہوا ہے.اس کی منشا کے بغیر کسی قسم کا کوئی علم بھی انسان یا کوئی اور چیز حاصل نہیں کرسکتی.انسان کے علاوہ دوسری جو جاندار یا دوسری اشیاء ہیں ان کی فطرت میں علم رکھ دیا ہے.مثلاً بھیڑ ہے.وہ پر رہی ہوتی ہے.وہ کسی سکول یا کالج کی پڑھی ہوئی تو نہیں ہے لیکن ایک ایسی بوٹی ہے جس پر وہ منہ مارتی اور کھاتی ہے اور ایک ایسی بوٹی اس کے ساتھ اگی ہوئی ہے جس کو وہ سونگھتی اور رڈ کر دیتی ہے، کھانے سے انکار کر دیتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل کے اندر پہلے سے یہ علوم جو ضرورت کے مطابق تھے رکھ دیئے لیکن انسان کو آزادی دی.اس نے ترقیات کرنی تھیں، اس نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا تھا، اس نے دنیوی علم کے میدان میں ، روحانی علم کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنا تھا.انسان کو قوت اور استعداد دی اور کہا ان قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے لئے ہر چیز میں نے پیدا کر دی، اب تم کوشش کرو، ان چیزوں کو جو نشوونما کے لئے ضروری ہیں استعمال کرو اور آگے بڑھو.آگے بڑھو.آگے بڑھو میری رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرو.میری نعماء سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرو.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۴۲ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء اس لئے ہر وہ بچہ جو کسی گھر میں پیدا ہوتا ہے وہ غریب گھرانا ہے یا کروڑ پتی گھرانا ہے اس کا یہ حق ہے کہ خدا تعالیٰ نے علمی میدانوں میں جو قوتیں اور استعداد میں اس کو دیں ہیں اور جن کی نشوونما سے وہ آگے سے آگے نکل سکتا ہے.ان قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما ہو.جوامیر گھرانا ہے اسے خدا کہتا ہے.اپنی دولت غلط جگہ استعمال نہ کر ، اپنے بچوں کی پرورش پر استعمال کر ، جو غریب گھرانا ہے اسے خدا کہتا ہے فکر نہ کرو میں نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو کام تم نہیں کر سکتے وہ جماعت کرے گی.اس جماعت نے اعلان کیا ان وظائف کا.جیسا کہ میں نے بتایا کہ جماعت کی جو تعلیمی پالیسی تھی اس کا میں نے اعلان کیا.وہ انعامی وظائف نہیں ہیں.ادائے حقوق کے وظائف ہیں.مثلاً ایک بچہ ہے ایف.اے ایف.ایس سی اس نے پاس کیا ہے.بی.اے میں داخل ہوا.اس کے اپنے گاؤں یا علاقے میں کوئی کالج نہیں.دور اس نے جانا ہے.ہوسٹل کی رہائش اس نے اختیار کرنی ہے.چار سو روپیہ مہینہ اس کا خرچ ہے.ادائے حقوق کا وظیفہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اگر وہ خود چار سو میں سے سور و پیہ خرچ کرسکتا ہے تو اسے مجبور کیا جائے کہ وہ ایک سو روپیہ خرچ کرے اور جو بقیہ تین سو روپیہ ہے اس کا انتظام کر دیا جائے.اگر کوئی نصف خرج خود کر سکتا ہے اس کا یہ حق نہیں کہ وہ پورے کا مطالبہ کرے.اگر کوئی ۳۱۴ خرچ کر سکتا ہے اس کا یہ حق نہیں کہ اس ۳/۴ کا بھی مطالبہ کرے اور کہے میرے بیٹے کو سارا دو.جس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ ایک دھیلہ بھی نہیں خرچ کر سکتا.اس کا یہ حق ہے کہ اس سے ایک دھیلہ بھی نہ خرچ کروایا جائے.یہ ٹھیک ہے بعض دفعہ قربانی لینے کے لئے ان سے تھوڑا سا خرچ کروانا بھی پڑتا ہے.لاہور میں جب ہمارا کالج تھا ایک بچہ بڑاذ ہین.میرٹ سکالرشپ کی جونٹی سکیم چلی تھی اس میں وہ نہیں آسکا تھا.چند نمبر اس کے کم تھے ویسے ذہین تھا.احمدی نہیں تھا.وہ میرے پاس آیا کہ داخل کر لیں.میں نے اس سے حالات پوچھے.اس نے کہا میں خرچ کچھ نہیں کرسکتا اور میں ہر جگہ گیا ہوں.کوئی دوسرا کالج مجھے پڑھانے کے لئے تیار نہیں.سنا ہے آپ پڑھانے کا انتظام
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۴۳ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء کر دیتے ہیں اس لئے میں آپ کے پاس آگیا ہوں.میں نے اسے کہا کہ اگر تم خرچ ہی کچھ نہیں کر سکتے تو تم نے میٹرک کس طرح پاس کر لیا.اس نے کہا.میرا ایک بڑا بھائی ہے وہ گورنمنٹ میں کلرک ہے.نوے، سو روپیہ اس کو ملتا ہے.میرا باپ بھی نابینا، ماں بھی نابینا.میرے بھائی نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے.سکول میں مجھے رعائتیں مل گئی تھیں.گھر میں وہ مجھے روٹی دے دیتا تھا اب بھی دے گا.میں نے اس کے حالات سنے.میں سمجھا اس کا حق ہے کہ اس کو پڑھایا جائے.میں نے یہ بھی سمجھا کہ اس کا یہ بھی حق ہے کہ کچھ بوجھ اس کے اوپر ڈالا جائے.میں نے اسے کہا کل دس روپے لے کے آجانا میں تمہیں داخل کرلوں گا.اس نے چار سال ہمارے پاس گزارے، بی اے پاس کیا.چار سال میں صرف دس روپے اس سے لئے اور اب میں جب کہ یہ بات کر رہا ہوں اب بھی مجھے تکلیف ہو رہی ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس کے دس روپے کی ادائیگی کے نتیجہ میں چند دن ان کے گھروں میں نیم فاقہ رہا ہوگا.اتنی غربت تھی اس گھر میں.میرے دماغ نے فیصلہ کیا جب تک یہ خاندان بچے کی تعلیم کے لئے کوئی قربانی نہیں دے گا.ان کو یہ خیال نہیں پیدا ہو گا کہ اس کو سنبھالا جائے اور یہ پڑھائی کی طرف توجہ دے.تو یہ چھوٹے چھوٹے بوجھ شاید ہمیں بھی ڈالنے پڑیں.اس کے سارے اخراجات ادا کئے گئے.بیماری کا خرچ بھی.ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا تو کالج کی طرف سے ساڑھے تین سو چارسور و پیہ خرچ کیا گیا.اس نے صرف دس روپے دیئے ہوئے تھے.ساری فیسیں معاف ، اس سے ایک پیسہ نہیں لیا.اس کی ہر ضرورت پوری کی لیکن وہ بڑا شریف دماغ تھا اس میں عزت نفس تھی.اس طرح بھیک منگوں کی طرح مطالبہ نہیں کرتا تھا.تو وہ چار سال پڑھا.اس وقت خلیفہ وقت کی طرف سے مجھے حکم تھا کہ پڑھاؤ.میں پڑھاتا تھا.جماعت بڑی قربانی دے رہی تھی.سینکڑوں ایسے بچے جو احمدی نہیں تھے ان کو جماعت احمدیہ نے ہر ممکن حد تک پڑھا یا اور کسی پر یہ احسان نہیں اور کوئی فخر نہیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ساری عرب تیں اور فخر اسی کو ہیں.میں نے ایک کمیٹی مقرر کی کہ قواعد بناؤ.انہوں نے انعامی وظائف کے قواعد بنادیئے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۴۴ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء حالانکہ میں نے وضاحت کی تھی کہ ادائے حقوق کے قواعد بننے ہیں پھر میں نے وہ سارے کاغذات ان کو واپس کر دیئے.دعا کریں کہ وہ جلد بنالیں تا کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے.یہ منصو بہ اس سال سے شروع ہوا ہے.پچھلے سال کے اس سے پچھلے سال کے جو طلبہ ہیں ان کو یہ زیر غور نہیں لائیں گے.اگر ان میں بہت ذہین ہے کوئی تو وہ اسی منصوبے کا دوسرا حصہ ہے کہ جو Genieus (جینیکس ) ہے اسے ہم ضائع نہیں کریں گے.جو بہت ذہین دماغ ہے اس کو تو وہ چاہے تین سال پہلے کا ہو اگر اس قابل ہو تو اس کا بوجھ اٹھا لیں گے لیکن وہ استثناء ہوگا.قانون جو ہے وہ صرف اس سال سے چالو ہوگا.جلسہ سالانہ پر میں نے جو تقریر کی تھی وہ سارے پاکستان میں باہر بھی پھیلی.کراچی اور سندھ کے سفر میں میں نے دیکھا کہ ہمارے چھوٹے بچوں اور بڑے طالب علموں میں ایک بڑا جذ بہ اور جوش ہے.بیسیوں نے مجھے کہا دعا کریں کہ جو آپ نے کہا ہے اتنے سائنس دان خدا دے ہمیں بھی اس فہرست میں خدا شامل کرے.آگے بڑھنے کا ایک جذبہ ہے.ان کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی.ان کے لئے میں نے کراچی کے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ اس سال ہر بچہ جو کسی کلاس میں پاس ہوتا ہے ( پہلی میں بھی پاس ہوتا ہے ) وہ مجھے خط لکھے، بچہ ہو یا بچی ہر ایک مجھے خط لکھے کہ میں پاس ہو گیا.اس کا فائدہ ہمیں یہ ہوگا کہ اگر ماں باپ یہ خیال کریں اور جماعتیں خیال کریں کہ یہ خطوط آجائیں تو ہمارے رجسٹر مکمل ہو جائیں گے ان کو میں نے کہا مجھے ہر بچہ جو خط لکھے گا اس کا جواب میں اپنے دستخطوں سے دوں گا.دوسرے میں نے یہ کہا کہ پانچویں جماعت کا امتحان محکمہ تعلیم کی طرف سے ہوتا ہے.آٹھویں کا بھی ، دسویں کا بھی ، دسویں بورڈ کی طرف سے انٹر میڈیٹ کا بھی ، چودھویں اور اس کے بعد یعنی بی.اے، بی.ایس سی اور اس سے اوپر یونیورسٹی امتحان لیتی ہے.میں نے ایک تعداد معین کر دی مثلاً آٹھویں کے متعلق میں نے کہا کہ ہر ریجن کے محکمہ تعلیم کا جو امتحان ہے ہر بچہ جو
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۴۵ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء اس امتحان میں آٹھویں میں اوپر کی تین سو پوزیشنز میں آئے گا وہ مجھے لکھے کہ مثلاً ایک سو پچاسویں میری پوزیشن ہے تو اس کو خط کے علاوہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو تفاسیر چھپ رہی ہیں ( پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں آپ بھی ان کو خریدیں اور جو ذمہ دار ہیں وہ شائع بھی کریں ) میں اپنے دستخط کر کے اور دعا کے ساتھ وہ ان کو تحفہ بھیجوں گا.اس سے اوپر کے امتحانوں کے بارہ میں بھی میں نے اعلان کر دیا ہے.وہ خطبہ جب الفضل میں چھپ جائے سارے پاکستان ساری دنیا کے جو احمدی طلبہ اور طالبات ہیں وہ بھی لکھیں.اس سکیم میں یہ جو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی کتاب بھیجوں گا.باہر والوں کو انگریزی کا ترجمہ قرآن یا تفسیری نوٹ والا قرآن انشاء اللہ جائے گا.بات یہ ہے اور اسے اچھی طرح سن لیں کہ آج کی دنیا نے دولت بڑی کمائی لیکن آج کی دنیا ایسے موڑ پر آگئی ہے کہ دولت ان کے کام نہیں آ رہی.علم ان کے کام آرہا ہے.آج اگر اخباروں میں آپ دیکھتے ہیں.کوئی جھگڑا ہوا مریکہ اور روس کا تو یہ آپ نے کہیں نہیں پڑھا ہوگا کہ امریکہ کے پاس اتنی دولت اور روس کے پاس اتنی دولت ہے.یہ آپ ضرور دیکھتے ہوں گے کہ امریکہ کے پاس اتنے ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم یا کئی اور چیزیں ہیں یا اتنی سب میرین (Submarine) ہیں یا اتنے ہوائی جہاز ہیں یا یہ اور وہ.جس کی بنیاد علم کے اوپر ہے.ویسے تو نہیں بن جاتے یہ.جس نے ایٹم کا باریک ذرہ توڑا اپنے دماغ میں فارمولا بنایا ، اس کے اندر چھپی ہوئی عظیم طاقت جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھی ( اور خدا تعالیٰ ہی اس ذرے میں وہ طاقت پیدا کر سکتا ہے انسان پیدا ہی نہیں کر سکتا ) اسے معلوم کیا اس نے اسے پیسے کے زور سے تو نہیں معلوم کیا.علم کے زور سے معلوم کیا.یہ ٹھیک ہے کہ علم کی غلام ہے دولت، دولت کا غلام نہیں ہے علم.یعنی علم کو علمی میدانوں میں آگے بڑھنے کے لئے دولت کی ضرورت ہے.بڑے سوفسٹی کینڈ (Sophisticated) اپریٹس وہ تیار کرتے ہیں بڑا خرچ آتا ہے ان پر لیکن یہ کہ علم دولت کا غلام بن جائے یہ نہیں ہے.دولت جتنی بھی ہو ، اس کی فراوانی ہو، علم کی ہمیشہ غلام رہتی ہے.اس
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۴۶ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء موڑ کے اوپر اگر جماعت نے غفلت کی اور یہ جو بڑا عظیم منصو بہ تعلیمی میدان کا میں نے جماعت کے سامنے رکھا ہے اس سے ذرا بھی بے پرواہی کی تو جماعت بڑی تکلیف اٹھائے گی.اس واسطے ہر گھرانے کا فرض ہے کہ وہ ایک ذہن بھی ضائع نہ ہونے دے.پہلے تو آپ کہتے تھے جی بچہ بڑا ذہین ہے کیا کریں پیسے نہیں.اب آپ یہ کہتے ہیں کہ بچہ بڑا ذہین ہے اور جماعت کہتی ہے ہمارے پاس پیسے ہیں ہم اسے پڑھائیں گے.پھر کیوں آپ اس طرف سے بے توجہی کریں گے.اس کا ایک حصہ جس کا میں نے اعلان کیا تھا وہ بھی بڑا ضروری ہے اس عمر کے دائرے کے اندر جو میٹرک تک کی عمر ہے ہر احمدی جو آئندہ میٹرک کی عمر کو پہنچے وہ میٹرک کا امتحان بھی پاس کرے.یہ سکیم براڈ بینڈ (Broad Based) ہے.میں علم کی بڑی چوڑی بنیاد رکھنا چاہتا ہوں وسعت کے لحاظ سے.جب تک یہ وسعت نہیں ہوگی اس وقت تک رفعت بھی نہیں ہوگی.جتنا اونچا مینار لے جانا ہو اتنی مضبوط بنیاد رکھی جاتی ہے ہر بچے کو خواہ وہ تھر ڈ ڈویژن میں پاس ہوتا ہے میٹرک پاس ہونا چاہیے.اگر آپ اگلے دس سال کے اندر اس مقصود کو حاصل کر لیں اس ٹارگٹ کو آپ حاصل کر لیں تو دنیا میں انقلاب عظیم آجائے گا.آپ کی دنیا میں اور آپ کے اردگرد کی دنیا میں بھی اور اس کے بغیر ہم اس ذہن کو اٹھا بھی نہیں سکتے جسے ہم نے اٹھا کے آگے لے جانا ہے.بہت سارے بچے اگر آپ نے آٹھویں میں ان کے ذہن مار دیئے اگر پانچویں میں آپ نے ان کے ذہن مار دیے وہ دسویں کے بعد آگے کیسے جائیں گے.یہ خیال غلط ہے کہ ذہن کا پتہ پہلے دن سے لگ جاتا ہے.یہ صحیح ہے کہ ۶۰ ، ۷۰ فیصد ایسے بچے ہیں جو ابھی سکول ایج (School Age) کے بھی نہیں ہوتے یعنی اپنی عمر کے لحاظ سے ایسے نہیں ہوتے کہ سکول میں داخل ہو سکیں ان کے ذہنوں کا پتہ لگتا ہے ہوشیار ہوتے ہیں لیکن میں تو بڑا لمبا عرصہ رہا ہوں اس میدان میں.مجھے ایک ایسے طالب علم کا علم ہے جس نے انٹر میڈیٹ میں تھرڈ ڈویژن لی.جس نے بی.ایس سی میں سیکنڈ ڈویژن لی اور اسی لڑکے نے ایم.ایس.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۴۷ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء سی میں فرسٹ ڈویژن لی.بعض ذہن آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی تو ہر صفت کا جلوہ ہرانسان پر مختلف ہے اور بعض ایسے بھی ہیں کہ انٹر میڈیٹ تک آکے ان کا ذہن ختم ہو جاتا ہے.ویسے شروع میں بڑے ہوشیار ہوتے ہیں وہ.گورنمنٹ کالج میں ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا بڑا متعصب ، ہمارے ساتھ ہی داخل ہوا.آوازے کسا کرتا تھا اور وظیفہ لے کے آیا میٹرک میں.مگر ایف ایس سی میں فیل ہو گیا.اس لئے نہیں کہ اس نے پڑھا نہیں.پڑھتا تھا بڑا.مگر اس کا دماغ اتنا ہی تھا.اس واسطے شروع سے آخر تک ہم نے جائزہ لینا ہے تاکہ کوئی ذہن بھی ضائع نہ جائے.یہ جو کمیٹی بنی ہے اس کو میں پھر توجہ دلا دوں.یہ انعامی وظائف نہیں.ادائے حقوق کے وظائف ہیں.پھر مجھے خیال آیا کہ ایک لڑکا امیر ہے اگر وہ ذہین ہے تو اس کی بھی قدر ہونی چاہیے.یہ تو نہیں کہ ہم کہیں کہ چونکہ تیرے پاس دولت ہے اس واسطے تیرے علم کی ہم قدر نہیں کرتے.یہ بھی غلط ہے وظیفہ کی اس کو ضرورت نہیں اس لئے ہم اس کو وظیفہ نہیں دیں گے لیکن اس کے ذہن کی نوع انسانی کو ضرورت ہے اس کی اپر یسیشن (Appreciation ) ہونی چاہیے.اس کی قدر ہونی چاہیے.اس لئے ( آج میں زائد کر رہا ہوں اس وقت ایک چیز ) ہر وہ لڑکا جو امیر ہے اور مستحق نہیں ہے ادائے حقوق کے وظائف کا اگر وہ فرسٹ سیکنڈ یا تھرڈ آتا ہے بورڈ میں یا یو نیورسٹی میں تو اس کو یا ان سب کو خدا کرے وہ سینکڑوں ہوں.جماعت کی طرف سے تمغے دیئے جائیں گے.صد سالہ جو بلی کے نام پر اور چاہے یہ بچے دنیا کے کسی ملک میں رہنے والے ہوں.اگر وہ اپنے ریجن میں اپنے انتظام تعلیم میں فرسٹ آئیں یا سیکنڈ آئیں یا تھر ڈ آئیں تو تین قسم کے تمغے ان کو دیئے جائیں گے.یہ بتانے کے لئے انہیں اور ان کے خاندان کو کہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک نعمت عظمی قابلیت اور ذہن دیا جماعت اور انسانیت کا ایک حصہ اس کی قدر کرتا ہے اور جماعت ان کے لئے دعائیں کرے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ وہ دولت پر نہ گریں بلکہ علم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۴۸ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۰ء کی رفعتوں کے حصول کے لئے تکلیف اٹھا کر محنت شاقہ کر کے بلند سے بلند تر علم کے آسمانوں میں ہوتے چلے جائیں.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ کا جو اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کے دروازے ہم پر کھولے اور جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن : ۲۱) بامحاورہ اس کا ایک ہی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ چھت پھاڑ کے دیتا ہے آسمانوں سے اس طرح اس کی نعمتیں نازل ہو رہی ہیں.علمی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ اتنا دے، اتنا دے کہ جتنا دنیا شاید نہ سنبھال سکے جماعت احمدیہ کو اس کے سنبھالنے کی بھی توفیق دے اور جماعت اسے سنبھال سکے.(روز نامه الفضل ربوه ۲۴ را پریل ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۴۹ خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء محبت الہیہ کے حصول کا طریق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دنیا میں محبتیں بھی ہوتی ہیں اور دشمنیاں بھی ہوتی ہیں.یہ محبت اور دشمنی افراد کے مابین بھی خاندانوں کے درمیان بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ہوتی ہے.دنیا کے اپنے اصول ہیں.دشمنی اور دوستی یا محبت جائز بھی ہوتی ہے اور ناجائز بھی ہوتی ہے اور دنیا یہ مجھتی ہے کہ اس کا فیصلہ کرنا کہ کونسی محبت جائز اور کونسی دشمنی جائز ہے اور کونسی نا جائز ہے یہ انسان کا کام ہے.دشمنیاں ہوس مال وزر کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتی ہیں.اقتدار کے لئے بھی ہوتی ہیں.قومیں قوموں پر چڑھائی کرتی ہیں.ان کی زمینیں چھینے کے لئے ان کے علاقے ہتھیانے کے لئے قومیں قوموں سے محبت کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ جن سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے انہیں کچھ فائدہ پہنچانا مقصود ہو بلکہ اس لئے کہ ان سے کچھ فائدہ حاصل کرنا مدعا ہوتا ہے.یہ تو دنیا کے دستور ہیں.لیکن وہ دوستی یا محبت یا دلی تعلق یا وہ دشمنی جسے مذہب اور دین ناجائز قرار دیتا ہے جسے انسانی فطرت دھتکارتی ہے اس کا فیصلہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کے نزول کے بعد تو قرآن کریم
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء ہی نے کرنا ہے.یہ انسان کا کام نہیں کہ وہ اس میدان میں کو دے اور یہ دعویٰ کرے کہ اسے کسی طاقت نے یہ حق دیا ہے یا یہ طاقت دی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ خدا اور رسول کا دشمن کون ہے اور دوست کون.قرآن کریم نے اس سلسلہ میں ایک تو نہایت ہی اہم اور بنیادی بات انسان کے سامنے رکھی اور اس کی وضاحت کے لئے بہت سی تفاصیل بیان کیں.اس وقت میں مختصراً اس بنیادی چیز کو لے کے قرآن کریم کی تعلیم آپ کے سامنے رکھوں گا.b اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :..قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيم - قُلْ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ - (ال عمران: ۳۲، ۳۳) محبت اور دشمنی کے بنیادی اصول ان دو آیات میں بیان کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ یہ اعلان کر دو ان كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تمہارا یہ دعوئی اسی صورت میں سچا ثابت ہوگا کہ میری پیروی کرو.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.قُلْ أَطِيعُوا اللہ تو کہہ کہ اتباع نبوی میں یہ صداقت مضمر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بھی اطاعت کرتے ہو لیکن اگر وہ یہ بات نہ مانیں اور اپنی محبت یا دشمنی کی بنیاد اس بنیاد پر نہ رکھیں کہ کفر کے نتیجہ میں محبت باری سے محرومی اور اتباع کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول ہے تو انہیں جاننا چاہیے کہ کافروں سے تو اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ میں ایک دعوی کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ وہی کرے گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا.حقیقی معنی میں وہی کرے گا.ویسے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں دعویٰ ظاہری طور پر وہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے خواہاں ہیں.یہاں اس دعویٰ کے ساتھ اس آیت کا جو مضمون ہے وہ یہ بات بھی بتا رہا ہے کہ ہر مقصود کے حصول کے لئے ایک سیدھا راستہ ہے صراط مستقیم.قیم ہے.صرف روحانی مقاصد کے حصول کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی زندگی میں مقصد دنیوی ہو یا دینی اس زندگی
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۵۱ خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء سے تعلق رکھنے والا ہو یا اُخروی زندگی سے تعلق رکھنے والا ایک راہ سیدھی ہے جو اس مقصد کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے معین کی ہے اور اس راہ پر چلے بغیر انسان وہاں پہنچ نہیں سکتا، اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا.جو شخص مثلاً ربوہ سے سرگودھا جانا چاہے اگر وہ لائل پور کی ، فیصل آباد کی سڑک پر ادھر منہ کر کے فیصل آباد کی طرف، چلنا شروع کر دے تو وہ سرگودھا نہیں پہنچے گا.خدا تعالیٰ نے ہر مقصد کے حصول کے لئے ایک معین راستہ مقرر کیا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی اصطلاح میں صراط مستقیم ہے تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ تم خدا سے پیار کرتے ہو اور خدا کا پیار لینا چاہتے ہو.تمہیں سوچنا چاہیے کہ خدا کا پیار کن راہوں پر چل کر یا کس صراط مستقیم پر گامزن ہو کر تمہیں مل سکتا ہے.یہ کامل اور مکمل کتاب انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے آتی اور اسے کہتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو فاتبعونی.فاتبعونی میں دراصل تین باتیں بیان ہوئیں ہیں.ایک تو اس میں یہ اعلان ہے کہ تمہارا بھی یہ دعوی ہے کہ تم خدا کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دعویٰ کہ مجھے خدا کا پیار چاہیے.دوسری بات یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے خود اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سیدھی راہ بتائی جو اس کی رضا اور اس کے پیار تک پہنچاتی ہے اور تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس راہ پر گامزن ہوکر اپنے مقصد کو حاصل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار کو وصول کرنے والے ہیں یہ تین باتیں فَاتَّبِعُونی کے اندر بیان کی گئی ہیں.تو بتایا یہ گیا کہ دیکھو تمہارے دل میں بھی تڑپ ہے کہ خدا کا پیار حاصل کرو تمہاری اپنی استعداد کے مطابق وہ تڑپ اور وہ جذبہ تھا.میرے دل میں بھی تڑپ تھی کہ میں خدا کے پیار کو اور اس کی محبت کو حاصل کروں.میرا یہ جذبہ اور میری یہ خواہش میری اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق تھی.نزولِ قرآن سے پہلے ہی آپ خدا کے حضور جھکتے اور دعائیں کرنے والے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر خدا نے میری اس تڑپ کو دیکھ کے مجھے ایک راستہ بتایا
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۵۲ خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء اور کہا کہ اس راستے پر چل.تو میرے پیار کو حاصل کرے گا.خدا کے حکم سے میں نے وہ راہ اختیار کی اور خدا کے فضل سے میں نے خدا کی رحمتوں کو اور اس کی رضا کو اور اس کے پیار کی جنتوں کو حاصل کیا.اس قدر وسعت کے ساتھ اور قوت کے ساتھ گہرائیوں والی محبت انتہائی طور پر جو محبت انسان کرتا ہے وہ میں نے کی خدا سے اور خدائے عظیم خدا تعالیٰ جو جلال والا اور قدرتوں والا ہے اس نے اس قدر نعمتیں مجھے دے دیں کہ انسان کے تصور میں بھی وہ نہیں آسکتیں.تو فَاتَّبِعُونی میرے دل میں تڑپ تھی.مجھے ایک راہ دکھائی گئی.مجھے کہا گیا اس پر چلو خدا کو پالو گے اس کے پیار کو پالو گے.میں اس راہ پر چلا.آپ کی طرف سے یہ اعلان قرآن کریم نے کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ ہے.اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يوحى إلى (الانعام : ۵۱) یہاں تو یہ تھا میری اتباع کرو.وہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ، خدا تعالیٰ کی شہادت کے طور پر ہے یہ ، إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے اس کے علاوہ اور کسی چیز کے پیچھے نہیں لگتا.تو کامل اتباع کا اعلان خدا تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم میں کروایا کہ یہ اعلان کر دو تو خدا جب کہتا ہے اعلان کرو تو خدا تعالیٰ شہادت دے رہا، گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ یہ سچی بات ہے، یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کی شہادت اس پر گواہی دے رہی ہے کہ جو وحی نازل ہوئی.اس سے ایک ذرہ بھر نہ دائیں ہٹے نہ بائیں ہے.وہ ایک سیدھا راستہ تھا اس پر آپ گامزن ہوئے.اس کو چھوڑ نہیں.اس کو ایک لحظہ کے لئے بھی فراموش نہیں کیا اور اس پر چلنے میں کوئی شستی اور غفلت نہیں برتی اور آخر خدا تعالیٰ کی محبت کو پالیا اور پایا بھی اس شان کے ساتھ ، اس عظمت کے ساتھ ، اس رفعت کے ساتھ ، اس وسعت کے ساتھ کہ آپ سے پہلے کسی نبی نے خدا تعالیٰ کی اس قسم کی محبت کو حاصل نہیں کیا تھا.تو یہاں یہ تین باتیں میں کہہ رہا ہوں جواللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں اور یہ دلیل دی ہے کہ تمہارے دل میں اگر واقعہ میں خدا تعالیٰ کے لئے پیار ہے تو اس پیار کا جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ تم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۵۳ خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء خدا تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کا نمونہ یہ ہے کہ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۲) ایک کامل نمونہ تمہارے سامنے ہے جس نے ہر حکم کی پورے طور پر سچے طور پر اپنے سارے دل کے ساتھ اطاعت کی اور وہ حکم بجالائے ان کی اتباع کرو جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلَی - خدا تعالیٰ کی وحی کی اتباع کر کے خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت کو حاصل کیا تھا.تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کی نازل ہونے والی قرآن کریم کی شکل میں وحی کے مطابق زندگی گزار کے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرلو گے.وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور ہے.آپ کے علاوہ ہر امتی جو ہے آپ کی اتباع کرنے والا اس میں کمزوریاں بھی ہوں گی ، تڑپ بھی ہوگی ، خدا سے ملنے کی لیکن بشری کمزوریاں بھی سرزد ہوں گی گھبرائے گا وہ.اسے ایک بشارت کی ضرورت ہے آگے سے آگے بڑھنے کے لئے اور وہ بشارت یہاں دے دی گئی وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اگر اصرار نہ کرو گے تو بہ کرو گے.اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے.فرما یا اعلان کر دو اَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُول که اِتَّبِعُونِي جب کہا گیا تو اس کے معنی ہی یہ ہیں یعنی کہا یہ گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو جائے گا.آگے قرآن کریم نے ہی اس کی تفسیر کی اتبعونی کہ میں جس اتباع کا ذکر ہے اس کے معنی یہ ہیں آطِیعُوا اللہ خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرو اور اس رنگ میں اطاعت کرو.وَالرّسول رسول کی اطاعت کرو اس رنگ میں اطاعت کرو جس رنگ میں رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی وحی کی اطاعت کی.یہ ہے محبت جو انسان خدا تعالیٰ سے کرتا ہے اور یہ ہے جزا محبت کے رنگ میں جسے انسان خدا تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے.قرآن کریم نے بتایا ہے ہمیں.لیکن جو اس راستے پر چلنے سے انکار کرے لا يُحِبُّ الْكَفِرِین تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی دشمنی وہ مول لے گا اور خدا اسے اپنادشمن سمجھے گا.
۶۵۴ خطبه جمعه ۲۱ مارچ ۱۹۸۰ء خطبات ناصر جلد هشتم تو دوستی محبت یا دشمنی اور عداوت اس رنگ میں ہے قرآن کریم کے نزدیک ، میں نے بتایا یہ اصولی اور بنیادی چیز ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے کہ محبت کرنا خدا سے اس معنی میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسوہ بنا کر آپ کے نقش قدم پر چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کی جائے.اسی رنگ میں جس رنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی کامل اطاعت کی.اس فرق کے ساتھ کہ انہوں نے اپنی استعداد اور قوت کے مطابق اپنے رب کی اطاعت کی اور آپ کے متبعین نے اپنی اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے لیکن کرنی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کے.یہ تو وہ محبت ہے جسے اسلام بتاتا ہے.محبت خدا سے محبت خدا کے رسول سے کامل اتباع کامل محبت کے نتیجے میں ہی پیدا ہوگی نا.فَاتَّبِعُونِي میں ایک اور اعلان کیا گیا تھا یعنی کامل اطاعت کرو خدا کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور کامل اتباع تم کر نہیں سکتے جب تک مجھ سے بھی کامل محبت نہ کرو تو یہاں دو محبتیں ہیں.ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا اس لئے کہ خدا کی نگاہ میں آپ کی عظمت بہت شان رکھتی ہے اور آپ کے نقش قدم پر چلنا اس کے لئے کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کیا جا سکے.اگر کوئی یہ کہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق زندگی نہیں گزارنا چاہتا لیکن خدا سے پیار کرنا چاہتا ہوں خدا کا پیار حاصل کرنا چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا تم خدا کا پیار حاصل نہیں کرو گے.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ جو اس بتائے ہوئے طریق کا انکار کرتا ہے وہ خدا کی دشمنی مول لیتا ہے.اس کی محبت حاصل نہیں کرتا.قرآن کریم نے متعدد جگہ اس کی تفسیر میں یہ بتایا کہ یہ یہ یہ یہ یہ چیزیں ہیں ، اعمال ہیں جن کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے.وہ میں بتاؤں گا ان آیات کو جب لوں گا کہ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ وہ باتیں ہیں جن سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری عمر پر ہیز کرتے رہے.آپ کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو اس قسم کا ہو کہ جو خدا کو پسند نہیں خدا تعالیٰ نے بہت سی باتیں بتائیں اور کہا کہ جو اس قسم کے ہیں اعمال ان سے خدا محبت کرتا ہے.مثلاً فرمایا.
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۱ مارچ ۱۹۸۰ء إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة : ۱۹۶) اعمالِ صالحہ کو احسن رنگ میں جو بجالاتے ہیں خدا تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے.یہ بھی ایک عام اصولی بات ہے لیکن اس کی نسبت تفصیلی بات ہے اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھی لیکن وہ تو تفصیل ہے اس وقت میں بتایہ رہا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کوئی شخص خدا یا رسول سے محبت کرتا ہے یا دشمن ہے یہ انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کا نہایت حسین طور پر اعلان کیا گیا ہے ان آیات میں جن کی تفسیر اس وقت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے.اور ہر احمدی سے میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ تمہارا تعلق صرف دو ہستیوں سے ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب سے.ان دو سے اپنا تعلق قائم کرو اور اور کسی چیز کی کسی ہستی کی ، کسی منصوبے کی پرواہ نہ کرو.اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو گے اسی طرح اپنے دائرہ استعداد میں جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نے پکارا تھا کہ خدا سے میں پیار کرتی ہوں اور سچ ثابت کیا اسے اسی طرح اگر ہر شعبہ زندگی میں، ہر فعل میں اپنے آپ یہ کوشش کریں گے خدا تعالیٰ کا پیار آپ کو حاصل ہو جائے گا اور خدا کا پیار جسے حاصل ہو جائے ساری دنیا کی دولتیں ، ساری دنیا کی نعمتیں جو انسان انسان سے حاصل کرتا ہے وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.ایک مرے ہوئے کیڑے کے برابر بھی ان کی حیثیت نہیں ہے تو جو حقیقت زندگی ہے اسے پہچانیں جو صراط مستقیم ہے خدا سے پیار کو حاصل کرنے کی اس راہ کو اختیار کریں جو نمونہ پیارا، بہت ہی پیارا آپ کے سامنے رکھا گیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اسے آپ اپنا ئیں جس راہ پر آپ کے نقش قدم آپ کو نظر آتے ہیں اس راہ کو آپ اختیار کریں پھر آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں گے کیونکہ اس راہ کو اختیار کر کے کسی جگہ تو آپ پہنچے نا.ہر حرکت جو ہے وہ کسی جگہ لے جاتی ہے یا اگر نہیں پہنچیں گے تو قرب زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے رہیں گے اور جس غرض کے لئے اس راہ کو اختیار کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پایا اللہ تعالیٰ کی محبت کو.اس محبت کو آپ بھی پائیں گے اور اس کے بغیر آپ کو کچھ نہیں چاہیے.ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہر حرکت کریں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ گھوڑوں سے بہت پیار کرتے تھے ہم
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۰ء بھی کرتے ہیں بعض لوگ نادانی میں اعتراض بھی کر جاتے ہیں اور سمجھتے نہیں کہ جب ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قدر پیار کیا گھوڑے سے تو ہم کیوں نہ کریں.ہم بھی کریں گے.اللہ تعالیٰ ہر چھوٹے کام میں ہر بڑے کام میں ہمیں توفیق دے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں گے.پھر فرمایا :.نمازیں آج میں جمع کروا دوں گا.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ /اکتوبر ۱۹۸۰ ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء ہر شعبہ زندگی اور ہر علم کے میدان میں حقیقی را ہنما قرآن کریم ہے خطبه جمعه فرموده ۲۵ را پریل ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.طه - مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى - إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى - تَنْزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمواتِ الْعُلَى - الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى - اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنى - (طه: ۲ تا ۹۰۶) اور پھر حضور انور نے فرمایا:.۲۵ / مارچ کو مجھے گردے میں انفیکشن کی تکلیف ہوگئی تھی.اس کا علاج ایلو پیتھک اینٹی بائیوٹک سے کرتی ہے، وہ کیا گیا جس کے بعد کچھ الجھن پیدا ہوگئی.اس دوائی نے انفیکشن کو تھوڑا بہت آرام پہنچا یا لیکن گردے کو نقصان پہنچادیا اور گردوں نے کام کرنا کم کر دیا پورا چھوڑا تو نہیں.پھر وہ اینٹی بائیوٹک دوائی چھوڑنی پڑی اور پیشاب آور دوائیں اور اس قسم کی دوسری دوائیں میں نے استعمال کیں ایلو پیتھک کی بھی اور چونکہ دو دن بہت زیادہ تکلیف گردے کے کام نہ کرنے کی پیدا ہوگئی تھی اس لئے طب یونانی کی پیشاب آور دوائی لی اور ہومیو پیتھک کی بھی دوائی کھائی.
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۰ء اب خدا کے فضل سے گردوں نے وہ کام کرنا تو شروع کر دیا ہے لیکن اس عرصہ میں میری کمزوری بہت بڑھ گئی ہے لیکن جو باتیں چند مہینوں سے میں جماعت کے سامنے رکھ رہا ہوں میری بیماری یا کمزوری کی نسبت بہت زیادہ ان کی اہمیت ہے اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں تا کہ کچھ یاد دہا نیاں اس جماعت کو میں بالمشافہ بھی کرا دوں.ہمارے لئے ، ہماری زندگی کی کامیابی کے لئے ، ہماری فلاح کے لئے ، ہماری دنیوی اور دینی ترقیات کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کلام قرآن کریم کی شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اس کی عظمتوں کو جانے بغیر ہم دنیوی علوم کے حصول اور استعمال میں صحیح طریقے پر ترقی نہیں کر سکتے اور ان دنیوی علوم کو جانے بغیر جن کا تعلق خدا تعالیٰ کی صفات کے ان جلوؤں سے ہے جو خَلَقَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ سے تعلق رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کے اس کلام کی عظمتوں کو ہم پہچان نہیں سکتے.دونوں چیزیں ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اصل قرآن عظیم ہے.ایک گروہ وہ بھی ہے جس کے متعلق کہا گیا.يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۳۱) ایک جماعت وہ بھی ہے جن کے متعلق قرآن کریم میں آیا نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِايْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا - (التحريم : ٩) میں نے یہ کام خاص توجہ کے ساتھ چھ سات مہینے سے شروع کیا ہے ویسے تو شروع خلافت سے میں آپ کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.جو کام میں چاہتا ہوں کہ جماعت کرے اور جس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ جب تک جماعت اس مقام کو حاصل نہیں کرے گی اپنے مقصد کو پانہیں سکتی ، وہ یہ ہے کہ ہر شخص کو قرآن کریم سے محبت ہونی چاہیے اور قرآن کریم کے نور سے حصہ لینے کی اُسے کوشش کرنی چاہیے اُسے پڑھنا چاہیے اسے سمجھنا چاہیے.یہ عزم کرنا چاہیے کہ اس کے مطابق میں اپنی زندگی گزاروں گا.انسان پیدا ہوتا ہے اس کی زندگی کے چند سال ایسے ہیں جب اس کے عقلی قومی اس قدر ترقی یافتہ نہیں ہو چکے ہوتے کہ قرآن کریم پڑھ سکے یا سیکھ سکے.اس کے بعد وہ عمر آتی ہے جب ہم
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۵۹ خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء بچے کو ( اور میری نظر پڑ گئی میرے سامنے بہت سے بچے اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں ) قرآن کریم ناظرہ پڑھانا چاہیے ، اس کو سکھانا چاہیے.ہر بچہ جو احمدیت میں پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی گھرانے کو بطور عطا کے دیا جائے جب یہ عمر شروع ہو اس کے والدین کا فرض ہے کہ اس کو ناظرہ قرآن کریم شروع کروا دیں اور پڑھا ئیں.پھر اس کا ذہن ترقی کرتا ہے.پھر وہ ترجمہ پڑھ سکتا ہے.سمجھ سکتا ہے.قرآن کریم سیکھنے کا یہ دوسرا دور اس کی عمر میں شروع ہو گیا اسے قرآن کریم پڑھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے.ترجمہ اس کو آنا چاہیے.پہلے تو ناظرہ تھا نا.وہ عربی کے الفاظ اٹھانے لگ گیا.اسے پھر ترجمہ سکھانا چاہیے.ترجمہ سیکھنے کی یہ عمر گہرائیوں میں جانے کی عمر نہیں.یہ درست ہے لیکن ترجمہ سیکھنے کی یہ عمر بنیاد بنتی ہے اس زمانہ کے علوم کے سیکھنے کی جس زمانہ میں وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ ان گہرائیوں میں وہ جائے اور علوم کو سیکھے.پھر اس کی عمر کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے.پھر اسے مختصر تفسیری نوٹس قرآن کریم کی آیات سے تعلق رکھنے والے سکھانے چاہئیں.اسے خود کوشش کر کے سیکھنے چاہئیں.ماں باپ کو سکھانے چاہئیں جو اس سے قبل امید رکھتا ہو کوشش کر چکے ہوں گے ان کے سیکھنے کی.پھر اس کی دوڑ علم کے میدانوں میں مختلف جہات کی طرف ہو جاتی ہے اور ہر شعبہ زندگی میں قرآن کریم راہنمائی اور راہبری کرتا ہے جو روحانی علوم سیکھے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ان میں نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں مثلاً جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ان کو تفسیر قرآن کریم کی تفسیر تو ویسے نہ ختم ہونے والی تفسیر ہے لیکن جس حد تک وہ اپنی استعداد کے مطابق سیکھ سکیں ان کو تفسیر آنی چاہیے.بڑی عمر کے لوگ جو مختلف علوم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مثلاً طبیعات میں ہیں ، حساب سے ان کا تعلق ہے، فلسفے سے ان کا تعلق ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے.ہمارے آباء واجداد کے کیا حالات تھے اور ان حالات میں ان کا رد عمل کیا تھا یہ تاریخ ہے.ہم نے اپنے معاشرہ کو کن اصول پر قائم کرنا ہے، ہمارا لین دین کیسے ہوگا وہ سوشیالوجی آجاتی ہے.ہم نے ایک دوسرے کے حقوق کوکس طرح ادا کرنا ، اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح نباہنا ہے اور اپنے حقوق کو کیسے حاصل کرنا ہے سیاست آجاتی ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۶۰ خطبه جمعه ۲۵ را پریل ۱۹۸۰ء پس ہر شعبہ زندگی میں اور ہر علم کے میدان میں حقیقی را ہنما قر آن کریم ہے.ایک چھوٹی سی مثال دے دوں.حساب کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ بندھی ہوئی چیز ہے اور بڑی واضح ہے.اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا.دو اور دو چار بنتے ہیں.حساب کے متعلق یورپ کا دماغ اس نتیجہ پر پہنچا اور ان کے چوٹی کے مفکرین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جو حساب ہے اس کی ابتدا مفروضات پر ہے.جب تک بعض چیزیں فرض نہ کی جائیں حساب نہیں آگے چلتا.یہ کہتا ہے ہمیں یورپ لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن کریم ہمیں یہ کہتا ہے کہ عَدَدَ السنينَ وَالْحِسَابَ (یونس : ۶) که حساب کی بنیا د حقائق کا ئنات پر ہے.بنیادی طور پر ان کا Conception ( تصور ) بدل گیا اور ہماری عقل اور سمجھ یہ کہتی ہے کہ جو قرآن کریم نے فرمایا وہی درست ہے.یہ لمبا مضمون ہے.میں اس حصہ کو لمبا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اصل میں اس سے میرا تعلق نہیں.بہر حال جو طالب علم آگے جا کے ایم.اے کر رہے ہیں، ایم.ایس.سی کر رہے ہیں، پی.ایچ.ڈی کر رہے ہیں وہ اس کے بعد تحقیق کر رہے ہیں.تحقیق کے میدان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو پروفیشنلی (Professionally) ساری عمر اسی میں لگے رہتے ہیں ڈاکٹر سلام کی طرح.انہوں نے فزکس کی جو سندیں حاصل کرنے کا زمانہ تھا وہ تو لمبا عرصہ ہوا وہ گزار چکے.اب ہر وقت وہ لگے رہتے ہیں.ان کا دماغ سوچتا ہے چونکہ وہ ایک احمدی فریسٹ (Physicist) ہیں اس لئے قرآن کریم ان کی راہنمائی کرتا ہے.ان کے دماغ میں آجاتی ہے روشنی قرآن کریم سے.یہ تو پھر وہ میدان ہیں علم کی روشنی کے جو غیر محدود ہیں دو وجوہات کی بنا پر.ایک اس لئے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہونے کی وجہ سے غیر محدود معانی پر مشتمل ہے اور اسی کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم کا ئنات کی ہر شے سے تعلق رکھنے والا ہے.یہ جو ستارے ہیں ، یہ جو Space ہے ستاروں سے بھی پرے ہمیں کچھ پتا نہیں کیا ہے.ابھی تک انسان وہاں نہیں پہنچا.قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ جہاں تک ستارے ہیں، جہاں ابھی تک ہماری آنکھ نے تو کیا پہنچنا ہماری بڑی سے بڑی دور بین بھی نہیں پہنچی بلکہ جو بڑی سے بڑی دور بین ہے اس کے متعلق بھی اس علم سے تعلق رکھنے والے کہتے ہیں کہ اس نے پنجابی کا محاورہ ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۶۱ خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء پھورنا‘ یہ سماء الدنیا کے بالکل اس کا جو اوپر کا حصہ سرفیس (Surface ) ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے.گہرائیوں میں نہیں گئے ابھی.قرآن کریم کہتا ہے کہ جہاں تک یہ وسعتیں پھیلی ہوئی ہیں ان کا تعلق پہلے آسمان سے ہے.إنا زَيَّنَا السَّمَاةِ الدُّنْيَا بِزِينَةِ إِلكَوَاكِب (الصفت : ( )اس سے پرے چھ اور آسمان ہیں.تو قرآن کریم جس وقت انسان وہاں پہنچے گا اس کے چھپے ہوئے بطون انسانی عقل کو وہاں بھی روشنی دیں گے.بہر حال دنیوی علوم پڑھنے والوں کے لئے بھی قرآن کریم راہبر اور راہنما ہے اور دینی علوم پڑھنے والوں کے لئے بھی.اس لئے میں نے جماعت سے یہ کہا کہ ہر گھر میں تفسیر صغیر کا ایک نسخہ ہو.اب مجھے جو میرے دماغ نے سمجھا تھا کہنے کی ضرورت نہیں ہر شخص جانتا ہوگا لیکن میں ظاہر کر دیتا ہوں.ہر گھر میں سادہ قرآن بغیر ترجمہ کے ضرور ہو.آپ نے بچوں کو اسی سے پڑھانا ہے اور ہر گھر میں دوسرا قرآن کریم کا نسخہ ہو تر جمہ والا تفسیری نوٹ کے ساتھ.یہ کراچی میں میں رہا ہوں ان کو میں نے کہا.ان کے لئے خریدنے کی ایک شکل کلب بتادی کیونکہ بہت سے، اکثریت ایسے دوستوں کی ہوگی جن کی تنخواہیں، جن کی ماہانہ آمدنی اتنی کم ہے کہ وہ نقد تفسیر صغیر کے پیسے دے کے وہ کسی مہینے نہیں خرید سکتے.میں نے انہیں کہا کہ خریداری کے لئے کلب بنالو اس میں اپنی وسعت کے مطابق پیسے دیتے چلے جاؤ یا مقامی جماعت اکٹھی منگوا کے ان کے گھروں میں پہنچا دے یا میں انتظام کروں گا کہ مرکز بالا قساط قیمت وصول کر لے.تفسیر کے لحاظ سے جو مختصر تفسیر صغیر میں تفسیری نوٹ ہیں نیچے اور بڑے مفید ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی لکھا یا کہا وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے سورۃ کہف تک ( کہف کو شامل کر کے ) جن آیات کے متعلق جو آپ نے اپنی کتب میں لکھ کے تفسیر کی ہے وہ پانچ جلدوں میں چھپ چکی ہے.تو تفسیر صغیر کے بعد اگلا دور خریدنے کا ان پانچ ( کا ہے ) جو چھپ چکی ہیں اور جو آگے چھپیں گی انشاء اللہ ان کی تیاری ہو رہی ہے وہ ہر گھر میں ہونی چاہیے.اس کو میں ہر لحاظ سے برکتوں سے بھی عملی جدو جہد کے لحاظ
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۶۲ خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۰ء سے بھی بنیاد سمجھتا ہوں.اس کے بعد اس بنیاد کے اوپر ہم نے جو عمارت کھڑی کی اس دنیوی زندگی میں وہ یہ کہ میں نے اعلان کیا کوئی بچہ اس اعلان کے بعد میٹرک سے پہلے تعلیم نہیں چھوڑے گا.ہر بچہ جو سکول گوئنگ ایج (School Going Age) کا ہے جو اپنی عمر کے لحاظ سے سکول میں پڑھ رہا ہے یا پڑھنے کے قابل ہے وہ جب تک میٹرک نہ کر لے وہ سکول کو نہیں چھوڑے گا سوائے بعض استثی کے.بعض استثنی ہم سمجھتے ہیں لیکن استثنیٰ کے متعلق انسان باتیں نہیں کیا کرتا اصول کے متعلق اور قاعدہ کے متعلق بات کیا کرتا ہے.تو اس اعلان کے بعد کوئی بچہ میٹرک سے پہلے تعلیم نہیں چھوڑے گا.دوسرے میں نے یہ اعلان کیا کہ اس سال سالِ رواں جو ہے ۸۰ء اس میں ہر بچہ کنڈرگارٹن (Kindergarten) سے لے کے پی ایچ ڈی کے امتحان تک جو امتحان پاس کرے وہ مجھے خط لکھے.اس میں میری یہ خواہش ہے کہ میں ہر بچے کے لئے دعا کروں جو امتحان پاس کرتا ہے.آپ مجھ سے تعاون کریں میری اس خواہش کو پورا کریں.جب میرے پاس خط آئے گا تبھی میں اس کے لئے دعا کروں گا.جماعت کے لئے یہ برکت کا سامان ہے کہ ہم تدوین کرلیں گے پڑھنے والوں کی یعنی ہماری فہرستیں مکمل ہو جائیں گی.ایسے بچے بھی ہیں، یہاں اسلام آباد میں بھی ہیں کہ جن کو نظام جماعت اسلام آباد بھی نہیں جانتا.وہ مجھے خط لکھیں گے ہمیں پتا لگ جائے گا.ان میں سے کئی ذہین ہوں گے جن کو ہم نے بعد میں سنبھالنا ہے.اگر اس وقت آپ کو علم ہی نہیں ہوگا اور ہم ان کو پکڑ کے آگے ہی نہیں لے کے جائیں گے یعنی بچپن میں انگلی پکڑ کے تو ترقی کیسے کریں گے.جو دفتر ابھی بنا نہیں میرے ذہن میں ہے کام شروع ہو گیا ہے.ہر بچہ انڈیکس کارڈ (Index card) پر آ جائے گا جس طرح لائبریریوں میں کتا میں ہوتی ہیں اس طرح آجائے گا.اس کو ڈھونڈ نا بڑا آسان Alphabetic Order میں.پہلے ( میں 6699 وو آجائے گا اسلام آباد شہر کے لحاظ سے.راولپنڈی میں آجائے گا شہر کے لحاظ سے پھر ہر.اسلام آباد جو ہے اس کے اندر پہلے حرف کے لحاظ سے ان کی ترتیب ہوگی اور وہ Cabinet کے اندر جو اس کام کے لئے ہوتی ہے اس کے اندر ہوں گے مثلاً کنڈرگارٹن میں جو بچہ ہے میں نے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۶۳ خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء.آدمیوں کو اس کام پر لگایا ہے کہ اس کی شکل بنائیں کہ اس کے اوپر کیا کیاHeading وغیرہ آنے چاہئیں، کچھ میں نے خود بنا کر ان کو دیئے.وہ آ گیا نمبر ایک Item.وہ کہے گا میں نے کنڈر گارٹن کا امتحان دیا.میرے پاس کئی خطوط آئے ہیں.دو بچے آئے ان میں سے ایک نے کہا میں نے ۱۵۰ میں سے ۱۳۴ نمبر لئے ہیں الحمد للہ بڑا اچھا ہے ذہین بچہ دوسرے نے کہا میں نے ۱۲۷ نمبر لئے ہیں، تو ہمارے ریکارڈ کے اوپر آ جائے گا.پھر اگلے سال وہ نہیں لکھتا تو ہم اس کا پتا کریں گے کہ پڑھائی میں اس کے اندر کوئی کمزوری تو نہیں آگئی.آپ کو اب میں کہہ رہا ہوں کہ اگر بچے نے پہلے نہیں لکھا پاس ہونے پر تو اب لکھیں.میں معذرت کرتا ہوں ، میں چونکہ بیمار ہو گیا اس لئے جتنے خطوط اس وقت تک پہنچے ہیں جن کے جواب جانے چاہیے تھے اس لئے نہیں جا سکے کہ میں نے ان خطوط کو محفوظ کرنے کے لئے اپنے دفتر کو کہا کہ ابھی فائل بناتے چلے جاؤ.دوسرے میں نے یہ کہا کہ ہر بچہ جو وظیفے کا امتحان دیتا ہے پانچویں یا آٹھویں کا اور اس سرکل میں جو سرکل وظیفے کا امتحان لے رہا ہے جہاں پانچویں میں اور سرکل ہیں، آٹھویں میں اور ہیں، دسویں میں شکل بدل جاتی ہے وہ چوٹی کے تین سو بچوں میں اگر آجائے نمبروں کے لحاظ سے تو اسے میں اپنے دستخطوں سے دعائیہ جواب لکھوں گا.کوئی کتاب اور بچے تفسیر کی کتاب تو پڑھ نہیں سکتے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی کتاب دعائیہ عبارت کے بعد دستخط کر کے اپنی طرف سے تحفہ اسے بھجوا دوں گا.جن بچوں کو پتا لگا ہے ان کو تو بڑا شوق پیدا ہو گیا ہے.بڑی ہمت ان کی بڑھی ہے.جو دسویں کا بورڈ ہے، بارھویں کا بورڈ ہے، کراچی ایریا میں نویں دسویں کا بورڈ ہے، گیارھویں بارھویں کا بورڈ ہے وہاں کی شکل اور ہے ان سب کے لئے یہ تفصیل میں نے لکھ دی الفضل میں چھپ گئی.بہتوں نے پڑھا.کئی ایک نے نہیں پڑھا.وہ آپ خطبہ میرا اسناد ہیں.ایک اور پیچھے آرہا ہے پھر اور آتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.الفضل کو میں نے کہا ہے کہ روزانہ ایک چوکھٹا بنا کے پہلے صفحہ پر اور یہ عبارتیں مختصر ا دینی ہیں کہ یاد دہانی کراتے رہیں جماعت کو.تیسری چیز جس کا میں نے اعلان کیا وہ یہ ہے کہ کوئی ذہین بچہ ایسا نہیں ہوگا جماعت کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۶۴ خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء انشاء اللہ تعالیٰ کہ جماعت اس کو سنبھالے نہیں.اس کو میں انعامی وظیفہ نہیں کہتا.پہلے وہ غلطی سے سمجھے نہیں.ایک میں نے بورڈ بنایا تھا انہوں نے اسے انعامی وظیفہ سمجھ کے ایک منصوبہ میرے سامنے رکھ دیا تھا.میں نے وہ واپس کر دیا.اس کو ادا ئیگی حقوق طلبا و طالبات کا نام دے کر.یہ ان کا حق ہے ان کا انعام نہیں.انعامی وظیفہ میں تصور یہ ہے کہ ایک کروڑ پتی کا بچہ بھی مثلاً اگر وہ ایم ایس سی فزکس میں یونیورسٹی میں Top کرتا ہے اور وہاں کوئی تمغہ ہے سونے کا تو وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ اس کے گھر میں سونے کے انبار پڑے ہیں وہ اسے تمغہ دے دیں گے.اس کو کہتے ہیں انعامی وظیفہ.یہ ہے طالب علم کا یہ حق ہے.ذہین طالب علم کا یہ حق ہے کہ اس کی ذہنی ترقی اور نشوونما کا خیال رکھا جائے.یہ اس حق کی ادائیگی ہے.اس لئے یہ ہے وظیفہ ادا ئیگی حقوق طلبا و طالبات.مجھے خدا نے بخیل نہیں بنایا میرا سینہ بڑا وسیع ہے.ویسے گرفت بھی میں بڑی سخت کرتا ہوں.میں نے سوچا میں نے اعلان کر دیا.میں نے سوچا اگر دس ہزار احمدی بچہ ایسا ہو پھر.میں نے کہا پھر بھی.اسی لئے میں نے کہا تھا ہم آدھی روٹی کھالیں گے لیکن اپنے بچوں کے ذہنوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے انشاء اللہ.ایک اور چیز جس کا شاید میں نے اعلان کیا یا نہیں کیا وہ یہ ہے کہ جو امیر بچہ ایم ایس سی فزکس کے امتحان میں فرسٹ آتا ہے اس کی بھی Appreciation ( قدر ) ہونی چاہیے.اس واسطے ان کے لئے چوٹی کے جو تین بچے ہیں ان کے لئے تین تمغے ہوں گے.یہ ابھی میں نے فیصلہ نہیں کیا کہ وہ تینوں سونے کے ہوں گے وزن کم کر کے.ایک تو یہ طریقہ ہے نا کہ سونے کا ، چاندی کا پھر کانسی کا بنا دیا میری طبیعت اس کو پسند نہیں کرتی.تو میں نے یہی سوچا ہے کہ سونے کا زیادہ وزنی ،سونے کا کم وزنی ، سونے کا اس سے کم وزنی کیونکہ دھاتوں میں اس وقت سونا سب سے زیادہ عزت والی دھات سمجھی جاتی ہے صحیح یا غلط انسانی دماغ میں.تو ہم نے ان کی عزت افزائی کرنی ہے ان کو وہ دیں گے انشاء اللہ.میں نے یہ جو کہا کہ قرآن کریم کے بغیر آپ ترقی کر ہی نہیں سکتے علمی میدانوں میں بھی ، نہ آپ نہ آپ کے بچے.یہ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے کہ اس کے معنے کئے
خطبات ناصر جلد هشتم خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء گئے ہیں اے کامل انسان.کامل انسان کے اس خطاب سے اس سورۃ کو شروع کیا گیا ہے.اے کامل انسان ! حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترجمہ کیا ہے اے کامل قوتوں والے مرد.ایک ہی چیز ہے ، کامل انسان یا کامل قوتوں والا انسان دو مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے.ایک یہ کہ اپنی استعداد میں وہ کامل ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنی استعدادیں دیں ہر شعبہ زندگی میں کہ کسی اور کو دیسی نہیں ملیں.یہاں مخاطب ایک ہے انسان نہیں مخاطب.طہ میں ایک فردِ واحد مخاطب ہے اور وہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہ آپ کی شان اور عظمت آپ کے اندر رکھی اپنی رحمت سے، نوع انسان کے لئے رحمت بن کے آئے.ان کو مخاطب کر کے یہاں کہا گیا ہے کہ اے کامل انسان ! یعنی جو استعداد کے لحاظ سے ایسا ہے کہ کسی اور انسان میں خدا تعالیٰ نے یہ استعداد نہیں رکھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں رکھی گئی ہے.اور دوسرا پہلو اس کا یہ ہوتا ہے کہ جو قو تیں اور استعداد میں ملی تھیں ان کی صحیح اور کامل نشو نما ہوئی یا نہیں ہوئی ایک شخص کی.(اب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہٹ کے بات کرتا ہوں ) آج ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے اندر بڑی استعدادیں ہیں لیکن ماں باپ خیال نہیں رکھتے.وہ گلی میں جاتا ہے، اپنے ہمسایوں سے ملتا ہے اور آوارگی کی اس کو عادت پڑ جاتی ہے اور وہ بچہ جو ذہن رکھتا تھا ایسا کہ جب وہ ایم.ایس.سی کا امتحان دیتا تو فرسٹ آتا وہ میٹرک میں فیل ہو جاتا ہے.تو استعداد کے لحاظ سے بڑی استعدادی طاقتیں تھیں لیکن عملاً نشو و نما نہیں ہوسکی.تو یہاں طلہ میں ہر دو پہلو میں کمال ہے.استعداد کے لحاظ سے کامل اور نشو و نما کے لحاظ سے کامل.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا ایک لطیف فقرہ ایک جگہ لکھا ہے کہ اسلام کی تعلیم درخت وجود انسانی کی ہر شاخ کی پرورش کرتی ہے اور اسے ثمر آور بناتی ہے.انسان کی ہر شاخ اس کا خلق ہے نا.اس کی ہر قوت اور استعداد ہے اور یہی مضمون یہاں بیان ہونا تھا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہ اے کامل قوتوں والے انسان ! تجھے استعدادیں کامل دی گئی تھیں.کامل پرورش کا ، کامل تربیت کا سامان خدا تعالیٰ نے تیرے لئے کیا تا کہ تو بنی نوع انسان کے لئے اُسوہ حسنہ بن جائے.مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۶۶ خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۰ء یہاں کامل انسان ہی مراد ہے.قرآن کریم کی تعلیم جو تجھ پر نازل ہوئی خُلُقُهُ الْقُرْآنُ وہ اس لئے نہیں تھی کہ تو دکھ میں پڑے بلکہ اس تعلیم نے تیری ساری قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشو ونما کر کے دوسرے پہلو کو بھی کامل کر دیا.اگر مخاطب انسان ہوتا اور کہا جاتا مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَی یعنی کوئی مخاطب ہوتا.زید بکر کوئی ہوتا اور وہ عام درمیانے درجے کا انسان ہوتا تو شیطان یہ وسوسہ پیدا کر سکتا تھا کہ قرآن کریم نے صرف یہ دعویٰ کیا نا کہ جتنی طاقتیں محدود ، کم ، اس انسان کے اندر تھیں ان کی نشو و نما کا سامان قرآن کریم میں ہے.جب ہر قوت اور استعداد کی نشو ونما کا سامان قرآن کریم میں ہے یہ دعویٰ کیا گیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے تو وہ انسان جن کی قوتیں اور استعداد میں بعض پہلوؤں سے ایک میں ، بعض اور پہلو دوسرے میں، بعض اور پہلو جو کم ہیں ان کو بھی کوئی خطرہ نہیں کہ ہماری نشو ونما نہیں ہوگی.تمہاری استعدادوں کی بھی نشوو نما ہوگی.جب ہر استعداد انسانی کی نشوونما کا سامان ہے تو تمہاری استعداد کی نشوونما کا بھی سامان ہے.فرما یا اِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى دکھ کا سامان نہیں قرآن کریم میں بلکہ جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے اس کی راہنمائی اور ہدایت اور اس کی عزت کے قیام کا ، عزت کو بلند کرنے کا سامان ہے اس میں.پھر فرمایا تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّبُوتِ العُلیٰ یہ آیت بیچ میں ایک دوسری آیت اسی کی ترتیب میں آگئی تھی لتشقی کے ساتھ Explanation اس مضمون کو واضح کرنے کے لئے ویسے اندلنا کا تعلق تنزیلا سے ہے.یہ قرآن کریم جو تجھ پر نازل کیا تجھے ہر دکھ سے بچانے والا ہے، دکھ کا سامان پیدا کرنے والا نہیں.اس آیت میں دکھ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ انسان اپنی کسی قوت اور استعداد کی صحیح نشو نما نہ کر سکے یہ دکھ ہے مثلاً آدمی بیمار ہوجاتا ہے تو وقتی طور پر جسمانی نشوونما میں فرق پڑ جاتا ہے.جسمانی طاقت میں کچھ کمی پیدا ہو جاتی ہے.جو قوتِ مدافعت کا لفظ طبیب استعمال کرتا ہے اس میں کمی پیدا ہو جاتی ہے تو دکھ کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.اگر قوتِ مدافعت اپنے کمال میں ہو تو بیماری کا کوئی دکھ نہیں اور یہ جو قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے اس کی ذمہ داری قرآن کریم کی تعلیم پر نہیں.فرما یا اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء:۸۱) بیماری انسان اپنی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۶۷ خطبه جمعه ۲۵ ایریل ۱۹۸۰ء غفلت سے پیدا کرتا ہے اور شفا خدا تعالیٰ کا کلام اسے دے رہا ہے.إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِینِ اس میں یہ جو دوسرا حصہ ہے اس میں دو پہلو ہیں.ایک خدا تعالیٰ کے حکم سے شفا ملتی ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی ہدایت اور راہنمائی اور قرآن کریم کی تعلیم سے شفا ملتی ہے.انسان صحت جسمانی کامل طور پر اچھی رکھ سکتا ہے اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول پر گامزن رہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ اصول بتایا کہ متوازن غذا (Balanced Diet) کھاؤ.جو کھانے کی مختلف چیزیں ہیں ان میں ایک توازن پیدا کرو.قرآن کریم نے یہ بتایا کہ تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّبُوتِ العُلى جو میری مخلوق ہے اس کا علم حاصل کرو.قرآن کریم نے یہ بتایا کہ اگر تم کوشش کرو گے تو لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَطی (النجم :۴۰) تمہیں پتا لگ جائے گا کہ متوازن غذا کسے کہتے ہیں.یہ توازن جو ہے یہ آگے دو طرح کا ہے.ایک جسم کا توازن وزن کے لحاظ سے ، مقدار غذا کے ساتھ یہ بھی ایک بڑا ز بر دست توازن ہے.اب یہ گھوڑے وغیرہ ہیں ان کی تو متعلق انہوں نے اچھی خاصی ترقی کر لی ہے اس علم میں.وہ کہتے ہیں کہ اتنے وزن کا گھوڑا ہوگا تو تم نے اس کو اتنا راشن دینا ہے.اتنا ہوگا تو اتنا.انسانی وزن کا انسانی غذا سے تعلق ہے.توازن ہے انسان کے جسمانی غدود کی کارکردگی اور غذا سے.اس لحاظ سے تحقیق کرنے والوں نے انسانی جسم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک وہ جو کیلریز (Calaries) انہوں نے ایک پیمانہ بنایا ہوا ہے کہ یہ چیز اتنی کیلریز پیدا کرتی ہے.کیلریز گرمی کا یونٹ (اکائی) ہے.مثلاً وہ یہ کہیں گے کہ مچھلی دو چھٹانک ہو تو اس میں ستر کیلریز ہیں.اور مگ دو چھٹا نک ہو تو اس میں تین سواتی کیلریز ہیں.تو بعض جسم ہیں جو زیادہ کیلریز Burn کرتے ہیں.ان کے غدود اس طرح کام کرتے ہیں جو کھاتے رہیں وہ شفیع اشرف صاحب کی طرح دبلے ہی رہیں گے جو جتنا مرضی کھا لیں.اور بعض ایسے ہیں جو کم کھائیں گے اور موٹے ہو جائیں گے.ہمارے ہاں کالج میں ایک کارکن کام کرتا تھا وہ بغیر کسی جھجک کے اور تکلف کے دس پندرہ بیس روٹیاں کھا لیتا تھا.سیر دوسیر پکا پلاؤ کھا جاتا تھا اور بعد میں زردے کی دو پلیٹیں اور اس کا پیٹ ایک دوشیزہ کی طرح کمر کے ساتھ لگا ہوا تھا.پتا ہی نہیں لگتا تھا کہ یہ کھانا جا تا کہاں ہے.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۶۸ خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء تو یہ ایک توازن ہے ہمارے لئے علم کے میدان کھول دیئے.جب یہ کہا کہ تم اگر تو ازن قائم نہیں رکھو گے بیمار ہو جاؤ گے تو پھر تمہیں تو ازن کی جہتیں قائم کرنی پڑیں گی.توازن یہ لحمیات، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ، نشاستہ اور دوسری چیزیں ہیں اور اس کا پھر آگے بڑا لمبا علم چلا کیا ہے.تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَ السَّبُوتِ الْعُلیٰ کہا تھا قرآن کریم کو نازل کرنے والے نے قرآن کریم کو اس لئے نازل نہیں کیا کہ تمہیں دکھ پہنچے، اس لئے نازل کیا ہے کہ تمہارے سارے دکھوں کو دور کر دیا جائے اور دلیل یہ دی ہے تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّبُوتِ الْعُلى ان بلند آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے نے نازل کیا ہے اور یہ زمین اور سات بلند آسمان ان کی ہر چیز کے متعلق دوسری جگہ کہا سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) تمہاری خادم ہے.تو جس خدا تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے کو تمہارا خادم بنایاوہ اپنے کلام کے نزول کے وقت تمہارا خیال نہیں رکھے گا نا معقول بات ہے یعنی کوئی عقلمند آدمی تھیوریٹیکلی (Theoratically) ہر دنیا کا دھر یہ بھی ہے اس کو میں قائل کروں گا کہ یہ حقائق ہیں.اس میں اس کو ماننا پڑے گا کہ اگر کائنات کی ہر شے انسان کی خادم ہو تو پھر قرآن کریم کا نازل کرنے والا وہی ہے جس نے یہ اشیاء بنائی ہیں تو مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى قرآن کریم تمہیں دکھ دینے کے لئے نہیں آیا ، دکھوں کو دور کرنے کے لئے آیا ہے.اس لئے میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ اپنے دکھوں کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کے دکھوں سے اپنے آپ کو ، اپنے بچوں کو اپنی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لئے قرآن کریم کو سیکھیں.الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کا اعلان کیا گیا آج کی دنیا کے لئے جب وہ قرآن کریم سے پیچھے ہٹ رہی تھی.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا اعلان کر دو.وہ اسی آیت کی روشنی میں ہے.مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى یہ اعلان کر و کدھر جا رہے ہو تم قرآن کو چھوڑ کے.اس لئے میں کہتا ہوں علم حاصل کرو اس حد تک جس حد تک علم حاصل کرنے کی خدا نے تمہیں استعداد اور قابلیت دی.تمہارے بچوں کو خدا نے دی اور اس علم سے صحیح فائدہ صرف اس وقت حاصل کر سکتے ہو جب تمہیں قرآن کریم آتا ہو اور یہ علم بھی تب تم حاصل کر سکتے ہو جب تمہیں قرآن کریم
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء آتا ہو.آج کی دنیا بڑی علمی ترقی کر گئی ہے لیکن مفلوج علم رکھتی ہے کیونکہ وہ قرآن کریم سے کٹی ہوئی ہے اور ان کی غلطی نکالنا ہمارا کام ہے.ہم ان کی غلطی نکالتے ہیں اور ان کو ماننا پڑتا ہے کہ درست کہہ رہے ہیں آپ کہ ہمارے اندر یہ خامیاں آگئی ہیں.مثلاً قرآن کریم نے دکھ دور کرنے تھے نا.اعلان کیا کہ تمہارے دکھ دور کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ انسان میں معاف کرنے کا خُلق ہو یعنی وہ موقع اور محل پر معاف کرنا جانتا ہو.۷۸ء میں ہی فرینکفرٹ کی پریس کانفرنس میں میں کچھ لوگوں کے دستور سے علیحدہ ہفتا ہوں.میں کوئی بریف نہیں دیا کرتا.میں باتیں کر کے کہا کرتا ہوں کہ جو مرضی مجھ سے سوال کرو میں جواب دوں گا.کچھ حجاب سا تھا ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی.تو میں نے کہا اچھا میں بات شروع کر دیتا ہوں.میں نے ان سے تین باتیں کیں.ایک یہ تھی ، میں نے کہا دیکھو! تمہاری تہذیب بڑی ترقی یافتہ ہے بعض پہلوؤں سے کوئی شک نہیں لیکن تمہاری تہذیب نے تمہیں معاف کرنا نہیں سکھایا.فرینکفرٹ جرمنی میں ہے.میں نے کہا جرمنی نے اس صدی میں دو عالمگیر جنگیں لڑیں.یہ اتفاق کی بات تھی کہ دونوں دفعہ جرمنی ہار گیا اور دونوں دفعہ فاتح قو میں جو تمہاری ہم مذہب تھیں اور ہم کلچر تھیں تمہاری تہذیب بھی ایک اور تمہارے عقائد بھی ایک تھے تمہیں انہوں نے معاف نہیں کیا اور وہ سزا دی ہے کہ تمہاری نسلوں کو بھی کچل کے رکھ دیا.کہتے ہاں یہ ٹھیک ہے.پھر میں نے بتایا کہ ہمارے سامنے جو اُسوہ رکھا گیا اور جو اسلام پیش کرتا ہے وہ یہ ہے پہلے میں نے نام نہیں لیا) میں نے کہا ایک شخص تھا اس کے شہر والوں نے اسے دکھ دینا شروع کیا اور تیرہ سال تک جتنا دکھ وہ اسے پہنچا سکتے پہنچایا.پھر وہ شخص مجبور ہوا اس نے اپنا شہر چھوڑ دیا.پھر وہ دور کے مقام پر چلا گیا اور وہاں اس نے رہائش اختیار کی.اس کے شہریوں نے وہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا.وہاں حملہ آور ہوئے.وہاں بھی اس کے لئے دکھ کے سامان پیدا کر دیئے.یہ حالات قریباً ہمیں اکیس سال رہے.میں نے کہا اس کے بعد حالات پلٹے اور پھر میں نے نام لیا.میں نے کہا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں آئے اور گھیراؤ کیا اور اتنے حالات پلٹ گئے تھے کہ مکہ والوں کو یہ جرات نہیں تھی کہ میان سے تلوار نکال سکیں اور ان میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۷۰ خطبه جمعه ۱/۲۵ پریل ۱۹۸۰ء سے ہر ایک سمجھتا تھا کہ ہم نے اتنا دکھ پہنچایا ہے کہ جو مرضی ہم سے کر لیں یہ حق بجانب ہوں گے.عکرمہ مکہ چھوڑ کے چلا گیا.ملک چھوڑنے کو تیار تھا اسی خوف کے مارے کہ میں نے اتناظلم کیا ہے ان لوگوں پر ، آج جو بھی سزا مجھے دیں وہ ٹھیک ہے ، حق بجانب ہوں گے.میں نے ان کو بتایا کہ کیا سزا دی ؟ سزا یہ دی کہ جاؤ میں نے تم سب کو معاف کیا.یہ سزا دی جاؤ تم سب کو معاف کیا.خالی یہ نہیں کہا یہ کہا میں اپنے خدا سے بھی دعا کروں گا کہ وہ تمہیں معاف کر دے.تو مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى قرآن کریم دکھوں کو دور کرنے کے لئے آیا ہے دکھ پہنچانے کے لئے نہیں آیا.اس واسطے اس بنیاد پر کھڑے ہو کے علوم سیکھیں اور دنیوی علوم میں بھی دنیا والوں سے آگے نکل کے بتا ئیں تب وہ عظمت جو قرآن کریم کی ہے اس عظمت کو وہ سمجھ سکتے ہیں ورنہ نہیں.اگر آپ سوئے رہیں، اگر آپ اپنے بچوں سے لا پرواہ رہیں، اگر خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے جو ذہن آپ کے بچوں کو اس نے عطا کئے ہیں ان کا خیال نہ رکھیں، اگر وہ ذہن ضائع ہو جائیں اگر وہ ترقی نہ کریں ، اگر وہ لوگوں سے آگے نہ نکلیں تو کیسے آپ ثابت کریں گے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے والے تم لوگوں سے آگے بڑھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سمجھ عطا کرے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کہ ہم اس کی راہ میں پیش کریں اس کی ہمیں توفیق دے اور ہم اپنے مقصد کو پالیس اور اسلام ساری دنیا پر غالب ہو جائے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۷۱ خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء ہمارا کوئی بچہ میٹرک سے کم پڑھا ہوا نہ ہو خطبه جمعه فرموده ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمدیہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گردے کی بیماری بڑی لمبی ہورہی ہے.۲۵ / مارچ کو میں بیمار ہوا تھا.پھر کچھ اُلجھنیں پیدا ہو گئیں.اینٹی بائیوٹک چھوڑنی پڑی.پھر میں یہاں آیا.ڈاکٹر محمود الحسن صاحب نے بہت سے ٹیسٹ کروا کے ایک اور دوا تجویز کی جس کا چار ہفتہ کا کورس دو تین دن ہوئے گزشتہ منگل کو ختم ہوا.بیماری کمزوری کرتی ہے.بیماری کا آج کا علاج اس سے بھی زیادہ کمزوری کرتا ہے.اس عرصہ میں اپنی بعض غلطیوں کی وجہ سے میرا شوگر کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا.وہ زیادہ آنے لگ گئی.ابھی تک کنٹرول میں نہیں آئی.کچھ گرمی کی وجہ آگئی بیچ میں.جب سے مجھے ایک سال میں تین دفعہ ہیٹ سٹروک ہوا کام کرتے ہوئے ،گرمی میری بیماری بن گئی ہے.بہر حال آج میں بڑے لمبے عرصہ کے بعد انتہائی، آپ کی جدائی سے گھبرا کے خطبہ کے لئے نکل آیا ہوں.چلتے وقت بھی ضعف کی ایسی کیفیت تھی کہ میں سوچ میں پڑ گیا تھا کہ جاؤں یا نہ جاؤں.پھر میں نے کہا کہ جانا چاہیے، دیر سے ملاقات نہیں ہوئی، ملاپ نہیں ہوا جماعت سے، -
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۷۲ خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء ملاپ بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طرح ہو جاتا ہے کیونکہ خطبہ چھپ جاتا ہے تو ساری جماعت کو پتہ لگ جاتا ہے.ایک تو دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جلد کامل شفا دے تا کہ سہولت کے ساتھ میں اپنے پورے کام کرنے کے قابل رہوں.اس بیماری میں بھی ایک وقت ایسا آیا کہ میں ڈاک دیکھ نہیں سکتا تھا.پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ڈاک بہت اکٹھی ہو گئی.پھر ربوہ میں مجھے خیال آیا کہ اس طرح تو بڑی مشکل پڑ جائے گی.میں نے دو رات دو بجے شب تک اور ایک رات اڑھائی بجے تک ڈاک دیکھی ، اور بہت ساری ڈاک نکال دی.جب میں یہاں آیا ہوں تو قریباً ساری ڈاک میں دیکھ چکا تھا.دن کو بھی رات کو بھی لیکن چوتھے دن کام کی زیادتی کی وجہ سے میری یہ حالت تھی کہ ایک کاغذ کو ہاتھ لگانے کو بھی میرا دل نہیں کر رہا تھا.بہر حال اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے.آزمائش میں بھی ڈالتا ہے.جو وہ کرے اس پر ہم راضی ، شکوہ تو نہیں کرنا حماقت ہے بڑی خدا سے شکوہ کرنا اس خدا سے جو بیشمار نعمتیں دینے اور فضل کرنے والا ہے.اگر انسان اپنی ہی غفلت کے نتیجہ میں اس کے قانون کو توڑنے کی وجہ سے تکلیف میں پڑ جائے تو اسے اپنے سے شکوہ ہونا چاہیے خدا سے تو نہیں ہونا چاہیے مات ہمیں یہ دی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ وَ اِذَا مَرِضْتُ انسان اپنی ہی کسی غفلت کے نتیجہ میں بیمار ہوتا ہے اور وہ شفا حاصل نہیں کر سکتا اپنی کوشش سے فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء:۸۱) شفا اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ سے انسان جو شفا حاصل کرتا ہے اس کے دو طریقے ہیں.ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ادو یہ جو خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے بنی ہیں ان کا صحیح استعمال ہو اور خدا تعالیٰ کا حکم ہو دوا کو بھی کہ تو مؤثر بن اور جسم کے ذرات کو بھی کہ اس دوا کے اثر کو قبول کرو.یہ ایک نظام ہے اور دوسرا طریقہ ہے خالص دعا کا جس میں مادی تدبیر بطور پردہ کے آجاتی ہے ورنہ ہوتا کچھ نہیں.ایک دفعہ، دیر کی بات ہے، حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑوس میں ایک نوجوان رات کے دو بجے مچھلی کی طرح تڑپنے لگا.اسے شدید درد پیٹ میں اٹھی.سارے محلہ کو اُس نے سر پہ اٹھالیا.نوجوان تھا، آواز بھی اونچی تھی.خوب زور زور سے اس نے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۷۳ خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء شور مچا یا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب اس کے پاس گئے ، آدمی بھیجاڈا کٹر کو بلانے کے لئے اور خود کاغذ کی ایک گولی بنائی.پانی منگوایا اور کہا منہ کھول، گولی کو اپنے ہاتھ سے اُس کے گلے میں رکھ کر پانی پلا دیا تا کہ اسے یہ احساس نہ ہو کہ میں کاغذ کھا رہا ہوں اور اس کو آرام آگیا.قبل اس کے کہ ڈاکٹر پہنچتا اس کی درد دور ہو چکی تھی.تو یہ دعا ہے جس میں پردہ مادی چیز کا بھی ہوتا ہے ممکن ہے اس کاغذ کے اجزاء میں خدا تعالیٰ نے شفا بھی رکھی ہو بیماری کی.بہر حال اس وقت ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ شفا دے اور مقبول خدمت کی توفیق دے مجھے بھی اور آپ کو بھی.دوسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا ارادہ اس سال دورے پر بیرون پاکستان جانے کا ہے.دعا کریں کہ یہ دورہ اس معنی میں کامیاب ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جواز سر نو یہ بتایا گیا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ ہر قسم کی بھلائی، خیر اور خوشحالی کا سامان قرآن کریم میں ہے.اسی سے حاصل کرنا چاہیے.سو جب ہم باہر جائیں تو دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں اور کم از کم ایک حصہ کو تو یہ تحریک ہو جائے کہ ادھر اُدھر کی کوششوں اور تدبیروں کی بجائے وہ قرآن کریم کی طرف رجوع کرے، وہ دنیا جو آج قرآن کریم کی عظمت کو پہچانتی نہیں اور دنیا والے اپنے جن مسائل کا حل اپنی تدبیر سے کر نہیں سکے اسے وہ قرآن کریم سے حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کریں.ہمیں بتایا گیا ہے کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.ہر قسم کی برکت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کو حاصل ہوتی ہے.قرآن کریم ایک تعلیم ہے.اس کے سمجھنے میں انسان صحیح قدم بھی اٹھاتا ہے اور غلطی بھی کرتا ہے لیکن جو صحیح سمجھا ، جس نے غلطی نہیں کی ، جس کے لئے غلطی کرنے کا امکان ہی نہیں تھا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جس طرح انہوں نے سمجھا قرآن کو ان کے اُسوہ پر چلنے کی بنی نوع انسان کو تو فیق عطا ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے.اس کے لئے علم ضروری ہے یعنی ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پڑھیں ، ان کے دل میں محبت اور پیار پیدا ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور تیسرے ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کے دل میں ایک تڑپ، ایک جوش، ایک جنون پیدا ہو کہ جن راہوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۷۴ خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء اور اپنے رب کی رضا کی جنتوں کو حاصل کیا آپ نے ، آپ ہی کے نقش قدم پر وہ بھی ، ہم بھی چلنے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں حاصل ہو.اس غرض کے لئے ہی میں نے تعلیمی منصوبہ ، جماعت کے سامنے پیش کیا ہے.قرآن کریم کو سمجھنا اور سیکھنا ضروری ہے کیونکہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف روحانی باتیں ہی قرآن کریم میں ہیں اور وہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ مادی زندگی اور روحانی زندگی دونوں اس قدر جدا گانہ ہیں اور اس قدر بعد ہے ان میں کہ ایک کو سیکھنے کے لئے دوسرے کو جاننا ضروری نہیں.قرآن کریم نے شروع سے آخر تک آیات کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ آیت کی جمع ہے.اس لفظ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے لئے بھی اور دیگر انبیاء کے معجزات کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور قرآن کریم کی ہر عظمت والی تعلیم کے متعلق بھی اسے استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ ہر آدمی کے منہ پر اکثر آتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات ہیں، اس سورۃ کی اتنی آیات ہیں یا فلاں سورۃ کی فلاں آیت میں یہ لکھا ہے.اسی طرح اس مادی دنیا کی ہر تبدیلی کا نام قرآن کریم نے آیت ہی رکھا ہے جیسا کہ فرمایا:.إِنَّ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت (ال عمران : ۱۹۱) یہ جو دن اور رات کا تعلق اور سورج اور زمین کے زاویے ، ان کا بعد اور ان کی حرکتیں، اِخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ یہ ساری چیز میں آیات ہیں.یہ علم جو ہے دینی علم نہیں محض دنیوی علم بھی نہیں.یہ دنیوی علم ہے.روحانیت کی بنیاد اس کے اوپر ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان اور اس کا جلال ، ان علوم کے حصول کے بعد ایک خوش قسمت انسان کو اس سے زیادہ حاصل ہوسکتا ہے جتنا ایک د ہر یہ کو حاصل ہونا ممکن ہے.تو میں نے کہا قرآن پڑھیں، تفسیر صغیر اپنے پاس رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تفسیر کی ہے.وہ اور جو دوسری تفاسیر ہیں قرآن کریم کی مستند ، وہ اپنے پاس رکھیں پڑھیں ، پڑھا ئیں بچوں کو، بچوں کو ان کے پڑھنے کی عادت ڈالیں.وہ جو ہماری منتظمہ ہے اس کو بہت دفعہ جھنجھوڑنا پڑتا ہے.تب وہ ٹھیک کام کرتی رہتی ہے ورنہ پھر ست ہو جاتی ہیں.پھر قرآن کریم کو
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۷۵ خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء سمجھ کر پڑھنے کی غرض سے ہی میں نے کہا کہ کوئی ہمارا بچہ میٹرک سے کم پڑھا ہوا نہ ہو.میرے ذہن میں یہ تھا کہ کوئی بچہ ہماری جماعت میں ایسا نہ ہو کہ وہ قرآن کریم سمجھنے کے لئے جو میٹرک کا دماغ ہے اس سے کم دماغ رکھے یعنی میٹرک کا دماغ رکھنے والے میں اتنا علم حاصل کرنے کے بعد جو روشنی پیدا ہوگی اتنی روشنی تو کم از کم ہمارے ہر بچہ میں ہونی چاہیے تا کہ قرآن کریم کے بعض جلوے جو ہیں وہ اس کے دماغ میں اُجاگر ہوسکیں اور میں نے یہ کہا کہ جس دماغ کو اللہ تعالیٰ نے مادی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے سمجھنے اور ان سے استدلال کر کے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں ان کو کسی ایسی جگہ رکنا نہ پڑے کہ ان کے پاس، ان کے خاندان کے پاس آگے پڑھنے یا پڑھانے کے لئے گنجائش نہیں.یہ ذمہ داری جماعت اٹھائے.اس کے لئے پیار کے ساتھ پیار پیدا کرنے کے لئے میں نے کہا دستخط سے خط لکھوں گا (جس کے سپر دکیا ہوا تھا دستخطوں والے خط کو پرنٹ کرنا انہوں نے بڑی دیر کر دی اور طبع ہو کر ابھی نہیں پہنچے وہ.اس کا مجھے افسوس ہے.کوشش کروں گا سفر سے پہلے بچوں کے پاس وہ خطوط پہنچ جائیں ).مگر جہاں تک میرا اندازہ ہے کہ میرے اس حکم کے مطابق ، میری اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کو جتنی کوشش کرنی چاہیے تھی انہوں نے اس کا ۱/۱۰ کی ہے یا کچھ زیادہ اس سے کیونکہ میرا اندازہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک لاکھ سے زائد پڑھنے والے بچے عطا کئے ہیں لیکن ہمارے پاس جو خطوط آئے ہیں وہ چودہ پندرہ ہزار ہیں.یہاں راولپنڈی میں یہ ہوا کہ عہد یدار مجھے کہنے لگے ہماری فہرست مکمل، جب پوچھا کتنی؟ تو بتایا ساڑھے سات صد.میں نے کہا میرے اندازے کے مطابق تعداد ہزار سے او پر جانی چاہیے.جب میں پچھلی دفعہ یہاں آیا ہوں آپ کے پاس میں نے ان سے کہا میں تین دن دیتا ہوں اور کوشش کریں.تین دن کے بعد آئے تو تعداد ساڑھے تین سو سے ساڑھے سات سو ہو گئی.میں نے کہا اب بھی کم ہے کوشش کریں.ابھی مجھے ملے تو نہیں ، کسی نے مجھے بتایا ہے کہ تعداد آٹھ سو سے اوپر نکل گئی ہے اور اب ان کو بھی امید ہو گئی ہے کہ میرے کہنے کے مطابق تعداد ایک ہزار سے اوپر ہو جائے گی.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۷۶ خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۰ء تو یہ معمولی باتیں نہیں آپ کی جماعتی زندگی کے لئے.اس زمانہ میں جب اسلام کا کامل اور مکمل غلبہ اپنے پیار کے ساتھ اور اپنے نور کے ساتھ اور اپنے حسن کے ساتھ اور اپنے احسان کے ساتھ اس دنیا کے انسان کے لئے مقدر ہے اس میں ان ساری چیزوں کا بڑا حصہ ہے.پس اس کی اہمیت کو سمجھیں، پہلے تو ہر احمدی سمجھے کہ میں ہوں کون؟ میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ میں کس تحریک سے منسلک ہوں؟ کیا مقصد ہے میری زندگی کا ؟ اسے حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ مجھے کرنا چاہیے.کرنے کا سوال مقصد کی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے.اگر کسی نے چندر یوڑیاں لینی ہوں بازار سے، یہ مقصد ہو تو ایک پیسہ کافی ہے خرچ کرنے کے لئے.لیکن اگر اسلام آباد میں مکان بنانا ہو تو لاکھوں کی ضرورت پڑ جائے گی.اگر کسی نے دوفر لا نگ سفر کرنا ہو تو اس کو ایک دھیلے کی بھی ضرورت نہیں.اس کو دو فرلانگ چلنا پڑے گا لیکن جس شخص نے زمین سے اٹھ کر آسمان کی رفعتوں پر جا کر خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہو اس کو تو بڑا چلنے کی ضرورت ہے.بہت سفر کی ضرورت ہے.راہ بڑی لمبی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا کرے.اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں میں برکت ڈالے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو (جو بیمار ہیں انہیں ) صحت دے اور صحت سے رکھے اور ہمارے دلوں میں یہ پیار اور ہماری نسلوں میں یہ جذبہ ہمیشہ قائم رہے کہ بنی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے انہیں لا جمع کرنا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۷ رجون ۱۹۸۰ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۷۷ خطبہ جمعہ ۶ / جون ۱۹۸۰ء شریعت پر عمل پیرا ہوں اور اللہ کی طرف بار بار رجوع کریں خطبه جمعه فرموده ۶ / جون ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ابھی طبیعت خراب چلی جارہی ہے.شکر کا نظام جو درہم برہم ہوا تھا وہ بھی ٹھیک نہیں ہورہا.انفیکشن بھی ہے اور گرمی بھی ہے.گرمی میری بیماری ہے اس میں بھی شوگر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.آج تو یہ کیفیت تھی کہ ساڑھے بارہ ، پونے ایک بجے تک میں نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ جمعہ کے لئے آؤں گا یا نہیں کیونکہ صبح پہلے بلڈ پریشر نچلا بہت گر گیا پھر وہ ٹھیک ہوا تو اوپر والا بہت بڑھ گیا.اس سے طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد شفا دے.سامنے ایک لمبا سفر بھی ہے خدا کے دین کے لئے، بنی نوع انسان کی ہمدردی میں.اللہ تعالیٰ اس کی ذمہ داریاں نباہنے کی بھی توفیق عطا کرے.بندے کا اپنے پیدا کرنے والے رب سے ایک ایسا رشتہ ہے جسے اکثر لوگ بھول جاتے ہیں.جو یا درکھتے ہیں وہ بھی کبھی تو یا در کھتے ہیں اور کبھی بھول جاتے ہیں.انسان کا اپنے رب کریم سے جورشتہ ہے اگر انسان کو وہ ہر وقت یا در ہے تو ہر قسم کی برائیوں اور غفلتوں اور کوتاہیوں سے بچنے کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۷۸ ط خطبہ جمعہ ۶ / جون ۱۹۸۰ء اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : - رَبِّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صِلِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْاَوَّابِينَ غَفُورًا - (بنی اسراءیل : ۲۶) تمہارا رب تمہیں تمہارے نفسوں کو تمہارے ظاہر و باطن کو ، تمہارے اندرونے کو تمہارے خیالات کو ، تمہاری خواہشات کو ، تمہارے منصوبوں کو ، اور اسی طرح جب تم دوسروں سے چالاکیاں کرنے لگتے ہو تو تمہاری ان چالا کیوں کو سب سے بہتر جانتا ہے.رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ یہ ایک بڑا اہم رشتہ ہے جو ایک بندے کا اپنے ربّ سے ہے.سب سے قریب کا تعلق مرد کا بیوی کے ساتھ اور بیوی کا خاوند کے ساتھ ہوتا ہے لیکن بعض لوگ بڑی باتوں میں بھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اکثر چھپا جاتے ہیں.بہت سی چیزیں خاوند بیوی سے چھپا جاتا ہے.بد نیتی سے نہیں ، اس کو تکلیف دینے کے لئے نہیں، ویسے ہی چھپا جاتا ہے.اسی طرح بعض چیزیں بیوی خاوند سے چھپا جاتی ہے بعض دفعہ حیا کی وجہ سے کوئی چیز نہیں بتاتی.اس چھپانے میں بدنیتی نہیں ہوتی حیا ہوتی ہے.الغرض سب سے قریب جو رشتہ ہے اس میں بھی نہیں کہا جا سکتا کہ خاوند بیوی کو کلی طور پر سمجھ رہا ہے اور نہ بیوی ہی یہ دعویٰ کر سکتی ہے.بچہ ماں کی گود میں پلتا ہے لیکن وہ بھی بہت ساری باتیں اپنی ماں سے چھپا لیتا ہے.گھر میں بھی بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو بچوں سے چھپی ہوتی ہیں.ماں باپ نہیں بتاتے انہیں وہ باتیں.ان کا علم نہیں ہوتا انہیں.جو دور کے رشتے ہیں ان میں تو بہت کچھ چھپا ہوتا ہے لیکن ایک ایسی ہستی ہے جس سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہر چیز اور ہر بات ہر وقت اس کی نگاہ اور علم میں ہے.اگر یہ عظیم ہستی یعنی اللہ تعالیٰ صرف گرفت کی صفات اپنے اندر رکھتا، صرف سزا دینا اس کی صفت ہوتی معاف کرنا اس کی صفت نہ ہوتی یا اگر وہ علم رکھتا اور ربوبیت کی صفت اس میں نہ ہوتی تو ایسے علم کے نتیجہ میں انسان کو نقصان پہنچ جاتا.فائدے بہت سارے نہ پہنچ سکتے لیکن قرآن کریم نے جس اللہ تعالیٰ کو اس کی کامل اور حسین صفات کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے ان صفات میں سے ایک بنیادی صفت اس کا رب ہونا ہے اور اسی صفت کو یہاں بیان کیا گیا ہے.یہ فرما کر کہ ربُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُم یہ جو جانے والا ہے تمہاری ہر چیز کو، ظاہر و باطن
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۷۹ خطبہ جمعہ ۶ / جون ۱۹۸۰ء کو، وہ رب ہے.اس نے تمہیں اس لئے پیدا کیا کہ اس کی ربوبیت کی صفت تمہاری زندگیوں میں جاری وساری ہے.اس کے لئے اس نے شریعت کو نازل کیا.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے.ہمارے لئے اس نے آپ پر کامل شریعت نازل کی ایسی شریعت کہ جو ہماری زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی اور ہر شعبہ کے اندھیروں کو دور کر کے نور پیدا کرنے والی ، ہر شعبہ زندگی میں ترقیات کے سامان پیدا کرنے والی اور ان تمام راہوں کو جن پر چل کر بندہ خدا کی رضا کی جنتوں کو حاصل کر سکتا ہے کھول کر بیان کرنے والی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارا رب ہوں اگر چاہو تو میری اس صفت سے فائدہ اٹھاؤ اور وہ اس طرح کہ ربوبیت کی خاطر میں نے جو ایک کامل شریعت کو نازل کیا ہے اس پر عمل پیرا ہو.پھر اس پر عمل پیرا ہونے کے عظیم الشان شمر کی طرف توجہ دلانے کے لئے فرما یا ان تكونوا طلحين اگر تم صالح ہو گے ، اعمالِ صالحہ بجالا ؤ گے.اعمالِ صالحہ کے معنی ہیں شریعت کے ہر حکم پر موقع اور وقت کی مناسبت کے مطابق پوری شرائط کے ساتھ عمل کرنا.جو عمل ایسا ہے وہ اعمال صالحہ کے زمرہ میں داخل ہے.اسلام اور قرآن کریم کی اصطلاح میں صالح وہ ہے کہ جس پر وقتاً فوقتاً خدا تعالیٰ کے جو احکام لاگو ہوتے ہیں ان سارے احکام کو وہ موقع اور وقت کی مناسبت سے بجالائے.وقت کی مناسبت کے بارہ میں کوئی شبہ نہ رہنا چاہیے.مثال کے طور پر ایک وقت نماز کا ہے.اس وقت باجماعت نماز پڑھنے کا حکم لا گو ہو گیا.زکوۃ کا حکم ہے وہ سال میں ایک دفعہ لاگو ہو گیا.روزے رکھنے کا حکم ہے وہ سال کے ایک مہینے میں لاگو ہو گیا.بشاشت اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ بھائیوں سے ملاقات کرنا اور ان کے ساتھ قول حسن سے بات کرنا.یہ ایسا حکم ہے کہ ہر وقت ہی لاگو ہے.جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں اور ملاقات کریں جس وقت آدمی اکیلا ہو اس وقت یہ حکم لاگو نہیں ہوتا.لیکن جس وقت بھی اس کا ملاپ کسی دوسرے انسان سے ہوتا ہے یہ حکم لاگو ہو جاتا ہے کہ دکھ نہیں دینا کسی کوسکھ پہنچانا ہے ہمیشہ.بتامیں یہ رہا ہوں کہ ہرحکم ہر وقت انسان پر لاگو نہیں ہوتا.اسی لئے اعمال صالحہ کا یعنی با موقع اور مناسب حال کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے..
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۸۰ خطبہ جمعہ ۶ / جون ۱۹۸۰ء پھر بتایا کہ اعمالِ صالحہ بجالانے کی کوششوں میں تمہاری ایک بنیادی کوشش اور بھی ہوئی چاہیے.اس بنیادی کوشش کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں صالح کی تعریف کے طور پر ایک لفظ زائد استعمال کیا گیا ہے.فرمایا فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُورًا پہلے تو یہ کہا کہ اِن تكونوا صلِحِينَ یعنی یہ کہ اگر تم صالح ہو آیت کے اگلے حصہ میں صالح کے لفظ کو چھوڑ کر آواب کا لفظ لیا گیا ہے تا کہ یہ بتایا جائے کہ صالح کے معنی میں خدا تعالیٰ کی طرف بار باررجوع کرنے کی اہمیت کو بھی ذہن میں حاضر رکھنا ضروری ہے کیونکہ انسان جب کوئی عمل کرتا ہے، تو ضروری نہیں کہ وہ عمل مقبول بھی ہو.ہزار گند ہیں جو ہمارے اعمال میں شامل ہو جاتے ہیں ہمیں ان کا علم بھی نہیں ہوتا لیکن رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ہمارے خدا تعالیٰ کو تو علم ہوتا ہے.اسی لئے توجہ دلائی کہ بار بار اس کی طرف رجوع کرو تا کہ تمہارے خیال میں جو اعمالِ صالحہ ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی مقبول ہو جائیں یعنی اس کی نگاہ میں بھی وہ اعمال صالحہ قرار پائیں اور اس کے نتیجہ میں تمہیں رب کریم کی ربوبیت حاصل ہو اور ہر میدان میں تم اس کی رحمت کے سایہ تلے کامیابیوں کو اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.ہمیں آواب بنائے.ہم میں وہ ہر وقت اپنی طرف رجوع کرنے کا احساس بھی پیدا کرے اور ہمیں اس کی توفیق بھی دے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے اعمال خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر پورے طور پر منور شکل میں اس کے حضور پیش ہونے والے ہوں اور انہیں وہ اپنے فضل سے قبول فرمائے.اللہ جو ہمارا رب ہے اور ہماری ربوبیت کے لئے اور ہماری ترقیات کے لئے ، ہماری فلاح کے لئے ، ہماری خوش حالیوں کے لئے اس نے جوسامان پیدا کیا ہے اس میں وہ خود ہماری انگلی پکڑ کے اپنے پیار کی راہوں پر ہمیں چلانے والا ہو اور اس کے فضلوں اور رحمتوں کو ہم حاصل کرنے والے ہوں.روز نامه الفضل ربوه ۳/ جولائی ۱۹۸۰ ء صفحه ۲، ۳)
خطبات ناصر جلد ہشتم ΥΛΙ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء ایک دوسرے سے نہ لڑو اور اپنے حقوق چھوڑ دو خطبه جمعه فرموده ۱۳ رجون ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بیماری کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ کے بعد میں خطبہ کے لئے یہاں آیا ہوں.مجھے بیماری کا حملہ ۲۵ اور ٢۶ / مارچ کی درمیانی شب کو ہوا.جب میں سو یا تو چنگا بھلا تھا جب میں اٹھا تو شدید بیمار تھا.گردہ پر حملہ ہوا انفیکشن کا اور اس کے ساتھ Rigour اندرونی طور پر Shivering جس نے جسم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا.اور بخار اتنا تو نہیں ہوا جو ۷۵ ء میں ہوا تھا گردہ کی تکلیف سے ،لیکن ۱۰۲ سے اوپر ہو گیا.انسان بڑا عاجز ہے.دعوے تو بہت کرتا ہے لیکن ہے عاجز کلچر کروا کے پستہ لینے کے لئے کہ یہ کون سے کیڑے ہیں بیماری کے، اور کون سی دوا مؤثر ہے ان پر ، تین جگہ ٹیسٹ کروایا گیا.فیصل آباد جہاں کی لیبارٹری بہت اچھی ہے اور غالباً غیر ملکی تعلیم یافتہ ڈاکٹر وہاں کام کر رہے ہیں.لاہور بہت اچھی لیبارٹری اور بہت اچھی لیبارٹری میں اسلام آباد.تینوں جگہ کا نتیجہ مختلف تھا.فیصل آباد نے ایک قسم کا کیڑا بتایا.لاہور نے ایک دوسری قسم کا کیڑا بتایا اور دوسری دوا بتائی اور اسلام آباد نے ایک تیسری قسم کا کیڑا بتا یا.بیماری کا اور ایک تیسری قسم کی دوائیں بتا ئیں.وہاں احمدی ڈاکٹر ا چھے زیرک ہیں اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں اور کام میں برکت ڈالے اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۸۲ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء ہاتھ میں شفا دے.اسلام آباد میں کچھ عرصہ بعد گیا تھا.غالباً بیماری کے دو ہفتے سے زائد ہوا تھا جب میں یہاں سے گیا ہوں وہاں.اس عرصہ میں ایک اینٹی بائیوٹک جرم کش دوائی مجھے ڈاکٹروں نے دی اور اس نے غالباً اس بیماری کو تو کچھ سنبھالا ، مؤثر ہوئی ایک حد تک لیکن گردوں پر اس دوائی نے حملہ کیا اور گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا.دو دن تک گردوں نے پیشاب ہی نہیں بنایا اور اس سے بڑی فکر پیدا ہوئی.پیشاب آور دوائیں استعمال کیں ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دوائیں ہر قسم کی کھالینی چاہئیں.جس چیز میں اللہ تعالیٰ شفا رکھنا چاہے گا رکھ دے گا.شرک سے اپنے نفس کو بچانا چاہیے ) بہر حال میں نے مشورہ کے بعد طب کی ایک دوائی تجویز کی اور ہومیو پیتھک کی دوائی شروع کی پیشاب آور کہ گردے کام کرنا شروع کر دیں اور ڈاکٹروں نے ایلو پیتھک کی بھی ایک دوائی دی اس دوائی کے لٹریچر میں یہ ذکر نہیں تھا کہ اس دوائی میں میٹھا پڑا ہوا ہے.اور میں بیمار ہوں شکر کا اور میں تھوڑی سی دوائی بھی لیتا ہوں لیکن زیادہ تر بہت احتیاط کرتا ہوں کھانے میں اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے مجھے تکلیف نہیں دے رہی یہ بیماری.ذیا بیطس جسے کہتے ہیں قابو میں رہتی ہے لیکن میں نے محسوس کیا کہ ایلو پیتھک کی دوائی کے نتیجہ میں میراشکر کا نظام جو ہے اس میں نقص پیدا ہورہا ہے اور مجھے تکلیف ہوگئی.ربوہ شروع کی دوائی.پھر اسلام آباد چلے گئے ایک دن وہاں میں نے ایک دوست سے جو دوائیوں کی دکان کرتے ہیں کہا مجھے شبہ ہے کہ میٹھا ہے اس دوائی میں پتہ تو کرو.ان کی اچھی واقفیت ہے.انہوں نے بڑی بڑی دکانوں سے پتہ کیا.انہوں نے کہا ہمیں علم نہیں لیکن اس کے لٹریچر میں نہیں لکھا کہ اس میں میٹھا ہے.ایک شریف انسان مل گیا اس نے کہا میری واقفیت ہے پاک ڈیوس کے ساتھ جو کراچی میں یہ دوائی بنارہے ہیں، انہیں میں فون کر کے پوچھتا ہوں.اس نے فون کیا تو جواب ملا کہ بالکل فکر نہ کرو اس میں ہم نے سکرین نہیں ڈالی بلکہ خالص میٹھا ڈالا ہے.تو خالص میٹھے کے تین پیالے بھر کے مجھے پلانے شروع کئے ہوئے تھے ذیا بیطس کی بیماری میں جو میں نے زیادہ تر کھانے سے کنٹرول کی ہوئی تھی.خون میں میری شکر ۱۳۰ کے لگ بھگ رہتی تھی جو کچھ زیادہ ہے نارمل
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۸۳ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء سے لیکن ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اتنی ہے تو کوئی فکر کی بات نہیں وہ ایک سو تیس سے بڑھ کے دوسو ہیں تک چلی گئی اور خاص مقدار سے جب آگے بڑھے تب یہ قارورے میں آتی ہے.قارورے میں ۴ ء ا شکر نکل آئی.لیکن پھر یہ ہو گیا کہ چکر چل گیا بیماری اور دوائیوں کا.میں بیچارا مریض بیچ میں پھنسا ہوا.وہ دوا چھوڑی لیکن ایک دفعہ یہ شکر کا نظام Upset ہو تو آ تو جاتا ہے کنٹرول میں لیکن بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور بڑی قربانی دینی پڑتی ہے.کھانا میرا اتنا کم ہے کہ آپ حیران ہو جائیں گے کہ میں دو پہر کے کھانے میں ایک چھٹانک سے زیادہ آٹا نہیں کھاتا.میرا معمول ہے یہ.اور رات کے کھانے میں اس سے بھی کم.تو اگر شکر کا خیال کرنا پڑے تو آدھی چھٹانک آٹارہ جائے گا.میں ایک پھلکا کھاتا ہوں مشکل سے اور اس میں کمی کی گنجائش بڑی تھوڑی ہے.جو چار روٹیاں کھاتا ہو وہ دو کر دے، جو ایک ہی کھاتا ہے وہ کیا کرے.بھوکا تو نہیں رہ سکتا انسان.بہر حال پہلے تو میں نے وہ میٹھی دوائی چھوڑی ، صرف دوائی چھوڑنے سے دوسو میں سے ایک سواسی ، بیاسی پر آ گیا.پتا لگ گیا کہ دوائی کا اس میں حصہ تھا.پھر گرمی میری مستقل بیماری بن گئی ہے.اس سال سے جب کام کے دوران ایک اس قسم کی گرمی کے موسم میں تین دفعہ مجھے با قاعدہ کو لگ کے Heat Stroke بخار،گھبراہٹ ،سر درد کے حملے شروع ہو گئے تھے.جس کو ایک دفعہ بھی یہ بیماری ہو جائے گرمی با قاعدہ بیماری بن جاتی ہے.اسلام آباد میں جو انفیکشن کی دوائی تجویز کی گئی ، میں نے اسی دن ساڑھے دس بجے رات پہلی خوراک کھالی.ایک مہینہ میں نے وہ اینٹی بائیوٹک کھائی.اس نے بڑا فائدہ کیا لیکن خود اینٹی بائیوٹک ضعف کرنے والی ہے اور ایک مہینہ کے بعد اب میں گیا ہوں تو انہوں نے دوبارہ جو ٹیسٹ لیا، ابتدائی رپورٹ کے مطابق قریباً ۹۰ فیصد آرام ہے ابھی دس فیصد بیماری موجود ہے.دوائی شاید بدل دیں.آج یا کل ان کی طرف سے آئے گی اطلاع.یہ کچھ لمبا چکر پڑ گیا ہے.یہ اس لئے میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے اسے کہ آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بیماری کے اس چکر سے نکالے اور پوری صحت دے تاکہ میں پورا کام کروں.اپنی ذمہ داری پورے طور پر نباہ رہا ہوں.جو کام میرے کرنے کے ہیں وہ میں ہی کر سکتا ہوں.مثلاً بیماری کے ایام میں ایک دن
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۸۴ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء مجھے خیال آیا کہ ڈاک سے ایک کمرہ بھر گیا ہے، کچھ تو نکالنی چاہیے تو بیماری میں ہی میں دورا تیں دو بجے تک اور ایک رات اڑھائی بجے تک ڈاک دیکھتا رہا اور کچھ حصہ ڈاک کا نکال دیا.کچھ مجھے تسلی ہوئی.پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو اپنا پورا زور لگا کے اسلام آباد میں ہی ساری ڈاک نکال دی تھی لیکن ان تین دنوں کی ڈاک میں نے نہیں دیکھی.منگل ، بدھ اور جمعرات.انشاء اللہ تعالیٰ مجھے امید ہے کہ کل یا پرسوں دو دن میں وہ ساری دیکھ لوں گا پھر کوئی میرے ذمہ قرض نہیں رہے گا جماعت کا کیونکہ دعاؤں کے خطوط ہیں، معاملات ہیں، تکالیف بعض ایسی ہوتی ہیں جو فوری دور کرنی ہوتی ہیں.تو میری بیماری مجھے قصور وار ٹھہراتی ہے.میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ جو بیماری کی وجہ سے کمزوری ہوتی ہے اس پر وہ مجھے گرفت نہیں کرے گا لیکن مجھے یہ تکلیف ہوتی ہے سوچ کے کہ جن دوستوں کی تکالیف کو میں صحت کی صورت میں دور کر سکتا تھا وہ میں دور نہیں کر سکا تو بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری بیماری کو کلیۂ دور کر دے اور مجھے پوری طاقت عطا کرے.جیسا کہ اب تک وہ کرتا رہا ہے، کرتا ہے، آئندہ بھی جب تک زندگی ہے میں اس رب کریم سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایسا کرے گا کہ مجھے طاقت دے اور سارے ہی کام روز کے روز ہو جائیں.میں روز کے کام قریباً روز ہی نمٹانے کا عادی ہوں.عام طور پر میں رات کو بارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا.ایک بجے کے بعد بہت دفعہ سویا ہوں تو اوسطاً ساڑھے بارہ اور ایک بجے میں سوتا ہوں.گرمیوں میں بھی پھر صبح نماز کے لئے اٹھتا ہوں.بعض دفعہ اتنا ضعف ہوتا ہے کہ میں مسجد میں نہیں آسکتا لیکن نماز پڑھتا ہوں اپنے وقت پر.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انشاء اللہ تعالیٰ میرا ارادہ امسال باہر دورہ پر جانے کا ہے.بہت سے ملکوں میں جانا ہے.اس کے متعلق زیادہ تفصیل سے انشاء اللہ تعالیٰ اللہ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں بات کروں گا.خلیفہ وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ساری دنیا کے احمدیوں کا خلیفہ ہے.اب اکثر اوقات میں یہاں رہتا ہوں مرکز میں لیکن افریقہ میں جو احمدی ہیں وہ بھی اور امریکہ میں جو احمدی ہیں وہ بھی ، شمالی امریکہ میں اور جس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ اور کینیڈا شامل ہے اور جنوبی امریکہ میں جو ہیں وہ بھی اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۸۵ خطبه جمعه ۱۳ /جون ۱۹۸۰ء یورپ میں بسنے والے احمدی بھی، افریقہ والے احمدی بھی ، آسٹریلیا والے احمدی بھی ، انڈونیشیا والے احمدی بھی میری باتوں پر کان دھرتے ، میری نصائح سے فائدہ اٹھاتے ، جو اسلامی تعلیم میں ان کے سامنے رکھتا ہوں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کے مقابلہ میں بہت پیار اور محبت سے وہ رہتے ہیں.تو خلیفہ وقت تو ایک جگہ ہی ہوگا جب اکثر اوقات یہ ساری دنیا جو ہے ہزارہا میل سے میری آواز کو سنتی اور پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہی ہوتی ہے تو اگر میں تھوڑے سے عرصہ کے لئے ربوہ سے باہر چلا جاؤں تو ربوہ والوں کو یہ حق تو نہیں پہنچتا کہ چونکہ خلیفہ وقت یہاں نہیں ہے اس لئے ایک دوسرے کے خلاف غصے نکال لو.پس میری نصیحت یہ ہے کہ کبھی بھی نہ لڑو ایک دوسرے سے مسکراتے چہروں سے ملاقات کرو.سلام سے اپنے کلام کی ابتدا کرو کسی کا حق نہ مارو.غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے جہاں تک طاقت میں ہو تمہاری اپنے حقوق چھوڑ دو.بے شک دینے والا تو اللہ ہے وہ دیتا ہے.جب دینے پہ آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آپ کی جھولیوں میں وہ چیز سمانہیں سکتی.وہ دیتا ہے افراد کو بھی ، وہ دیتا ہے جماعت کو بھی.افراد کے متعلق بھی میں مثالیں دیا کرتا ہوں لیکن جماعت تو ہمارا سانجھا مال ہے نا.ہر احمدی جو ہے جماعت کا مال اس کا مال ہے.اس مال کی برکتیں ہر احمدی کو نظر آنی چاہئیں اور اس کے مطابق اس کی زبان سے ہر آن اور ہر وقت الحمد للہ نکلنا چاہیے.۷۰ء میں مغربی افریقہ کے بعض ملکوں کا میں نے دورہ کیا.وہاں مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ایک نئے پروگرام کا.جماعت میں میں نے اس کی تحریک کی.ساری جماعت نے اس وقت بڑے پیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور ۵۳ لاکھ روپیہ پیش کر دیا.اب ان ملکوں کی سکیم کہ اتنے کالجز کھولے جائیں گے اور اتنے ہسپتال کھولے جائیں گے.اس لحاظ سے تو ۵۳ لاکھ روپے کوئی چیز نہیں ہیں.وہاں کے جو مشنریز عیسائی ہسپتال ہیں وہ دو دو کروڑ روپیہ ایک ایک ہسپتال پر خرچ کرنے والے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو آپ کے پیسے کی تو ضرورت نہیں آپ کے دل میں جو اس کا پیار موجزن ہوتا ہے اسے وہ پسند کرتا اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا اور اسی کے مطابق وہ آپ سے سلوک
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۸۶ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء کرتا ہے.اس سال ” نصرت جہاں آگے بڑھو نصرت جہاں میرے لئے ایک پیارا وجو د بھی ہے کیونکہ میری دادی نصرت جہاں نے بچپن سے ہی مجھے پالا اور بڑی احسن رنگ میں تربیت کی.مجھے وہ کچھ سکھایا کہ دنیا کی کوئی ماں نہیں جس نے اپنے بچے کو وہ سکھایا ہو، جس رنگ میں سکھا یا وہ بھی حسین تھا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بہت بلند کرے) لیکن معنوی لحاظ سے یہ بنتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے اور آگے بڑھو.۵۳ لاکھ سے تو ہم بجوں کی چال سے بھی آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن خدا تعالیٰ کی نصرت نے اپنا یہ کرشمہ دکھایا کہ سالِ رواں کا ان ملکوں کا نصرت جہاں کا بجٹ چار کروڑ روپے کا ہے.تو خدا تعالیٰ جو ہے وہ بخیل نہیں.جو اس کی خاطر اپنا حق چھوڑتا ہے.اسی کا دیا ہوا مال اسے لوٹاتا ہے وہ اللہ اس دنیا میں بھی قرضہ نہیں رکھتا اور اسے دیتا ہے.اگر تو آپ نے اپنے ربّ سے لینا ہے تو لڑ جھگڑ کے اپنے بھائی سے مت لو.اگر آپ نے اس کے حکم پر عمل کرنا ہے.لا تأكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمُ بِالْبَاطِلِ (البقرة : ۱۸۹) تو جو آپ کا حق نہیں وہ اپنے حق میں ملا کر سارے مال کو گندا نہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھو.وہ آپ کی ضرورتوں کو پورا کرے گا اور آپ کی فطرت میں اور نفس میں قناعت کا مادہ پیدا کرے گا اور سخی بنائے گا آپ کو.دوسروں کو دینے والا بنادے گا آپ کو.ایسا بنادے گا جس طرح ایک چشمہ کے کنارے پر جو خیمہ زن ہے انسان.وہ پانی جمع نہیں کیا کرتا مٹکوں میں ہر وقت اس کو ٹھنڈا پانی بارشوں کا اور برف کا چشموں کے ذریعہ اُسے وہ پہنچ رہا ہے.اس مادی دنیا کا وہ کون سا چشمہ ہے جس کا دہانہ خدائے رزاق کے جو جلوے ہیں ان سے زیادہ چوڑا ہو.تو جہاں سے آپ کو بہت زیادہ مل سکتا ہے وہاں سے لینے کی کوشش کریں اور ہمیشہ ہی پیار اور محبت سے رہیں.ربوہ کو تو مثال بننا چاہیے دوسروں کے لئے.اس واسطے میں آپ کو زور کے ساتھ یہ یاد دہانی کروا رہا ہوں.میں جب یہاں ہوتا ہوں کئی تکلیفیں بھی اٹھاتا ہوں جذباتی طور پر.ذرا ذراسی بات کی مجھے اطلاع آتی ہے کہ جو احمدی جن کو خدا تعالیٰ نے گند اور اندھیروں سے نکال کر پاکیزگی اور نور
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۸۷ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء کی رفعتوں تک پہنچایا تھا وہ پھر واپس اندھیروں کی طرف جانے کے لئے آپس میں لڑ پڑتے ہیں.جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ اس گند میں نہ پڑیں.ان اندھیروں کی طرف ان کی حرکت نہ ہو.کبھی میں کامیاب ہوتا ہوں کبھی بدقسمتی ان لوگوں کی میں کامیاب نہیں ہوتا لیکن بہر حال یہ کوشش ہے جو میں کرتا ہوں اور اب میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ ہر شخص اس بات کا ذمہ دار ہے کہ ربوہ کی فضا جو ہے وہ محبت اور پیار کی فضا ر ہے گی اور ہر شخص دوسرے کے دکھوں کو دور کرنے والا ان کے لئے خوش حالی اور بشاشت کے سامان پیدا کرنے والا ہوگا.دکھ کے سامان پیدا کرنے والا نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حقیقت کے سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے.اپنی طبیعت کے لحاظ سے میرا خیال تھا.دس منٹ سے زیادہ میں نہیں بولوں گا اور آپ کے نقطہ نگاہ سے اس گرمی کے باوجود کچھ زیادہ بول گیا ہوں.بہر حال انسان اپنی کوشش کرتا ہے اور خیر اور برکت صرف خدا دینے والا ہے.اس واسطے ایک بات چھوٹی سی بتا دوں.ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا مجھے بڑی پیاری ہے.رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص:۲۵) انہوں نے یہ نہیں مانگا کہ اے خدا! مجھے یہ دے اور وہ دے.انہوں نے کہا ہر وہ چیز جس میں میرے لئے تجھے خیر نظر آئے اے خدا! مجھے وہ دے.اور اسی کا میں محتاج ہوں.مجھے آپ نہیں پتہ میرے لئے بھلائی کس چیز میں ہے.میں کیا مانگوں تجھ سے.اس سے مانگو جو جانتا ہے اور اپنی چلانے کی کوشش نہ کرو اس کے ماحول میں.آپ میں سے کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں ایک منٹ بعد کا نہیں پتہ.اللہ تعالیٰ فضل کرے.ہمیں سچا احمدی مسلمان ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے اور ہمیں اس قابل بنا دے کہ دنیا ہمارے نمونے کو دیکھ کر ہماری زندگیوں پر نگاہ پا کر اسلام کی طرف مائل ہونے والی بن جائے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو اسی طرح حاصل کرنے کی کوشش کرے جس طرح ہم خدا کے عاجز بندے اس کی رحمتوں اور فضلوں کے محتاج اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۸۸ خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۰ء کوشش کرتے ہیں جتنی ہم سے ہو سکے کہ اس سے ہم خیر کو حاصل کریں.آمین.( روزنامه الفضل ربوه ۱۸ راگست ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۸۹ خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۰ء كُلُّ الْعِلْمِ فِي الْقُرْآنِ لَكِن تَقَاصَرَ عَنْهُ أَنْهَامُ الرِّجَالِ خطبه جمعه فرموده ۴ جولائی ۱۹۸۰ء بمقام.فرینکفرٹ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے خطبہ کے آغاز میں اپنی صحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.دوست جانتے ہیں کہ ۲۵ مارچ کو گردے کی انفیکشن کا مجھ پر حملہ ہوا تھا.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بیماری ۹۰ فیصد ٹھیک ہو چکی ہے صرف دس ۱۰ فیصد باقی ہے.جس کے لئے اینٹی بائیوٹک (جراثیم کش ادویہ استعمال کرائی جارہی ہیں ان ادویہ کے استعمال کی وجہ سے میں ایک گونہ کمزوری محسوس کرتا ہوں.سو پہلی بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ دوست دُعا کریں.کہ اللہ تعالے اپنے فضل سے مجھے کامل صحت عطا فرمائے تا کہ میں اسی کی دی ہوئی توفیق سے اپنے فرائض کماحقہ ادا کرسکوں.حضور نے مزید فرمایا کہ اس بیماری اور کمزوری کی حالت میں میں نے اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے ایک طویل سفر اختیار کیا ہے.یورپ کے متعد د مالک کے علاوہ افریقہ نیز امریکہ اور کینیڈا جانے کا ارادہ ہے.ایک تو یورپ کے مشنوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور ان میں دن بدن وسعت پیدا ہو رہی ہے.ان کی طرف زیادہ وقت اور تو جہ دینے کی ضرورت ہے،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۹۰ خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۰ء دوسرے پاکستانی احمدی ان ممالک میں خاصی تعداد میں آچکے ہیں ان کی تربیت اور غیر اسلامی ماحول سے ان کی حفاظت ضروری ہے.وقت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ مغربیت اور لادینیت کے اثر سے انہیں بچایا جائے اور انہیں غلبہ اسلام کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے قابل بنایا جائے.یہ سب امور ایسے ہیں جو وقت اور توجہ چاہتے ہیں اور ان کے لئے سفر اختیار کرنا ضروری ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تدبیر کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.اس وقت میں بعض ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں جن کا تعلق غلبہ اسلام کی صدی سے ہے جو چند سال کے بعد شروع ہونے والی ہے.اپنے شروع زمانہ خلافت سے مجھے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تدبیر کارفرما نظر آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو تحریک یا منصوبہ بھی میری طرف سے جاری کیا جائے غلبہ اسلام کی آسمانی مہم سے اس کا تعلق ضرور ہو گا.سب سے پہلے میری طرف سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ پیش ہوا.جماعت نے اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق اس میں حصہ لیا اس کے تحت بعض بنیادی نوعیت کے کام انجام دیئے گئے.یہ گویا ابتدا تھی ان منصوبوں کی جو خدائی تدبیر کے ماتحت غلبہ اسلام کے تعلق میں جاری ہونے تھے.۱۹۷۰ء میں نصرت جہاں کا منصوبہ جاری ہوا.اس کا تعلق مغربی افریقہ کے ممالک میں سکول اور کلینک کھولنے سے تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کوشش میں اتنی برکت ڈالی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس منصوبہ کے تحت آپ لوگوں نے جو مالی قربانی کی وہ ۵۳ لاکھ روپے تھی.اس رقم سے وہاں سکول اور کلینک کھولے گئے.اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ اب ان ملکوں میں نصرت جہاں کا سال رواں کا بجٹ چار کروڑ روپے کا ہے.پھر اس سکیم کے تحت بہت سے احباب نے جانی قربانی کا جونمونہ پیش کیا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے.بہت سے ڈاکٹروں نے مغربی افریقہ میں نئے کلینک کھولنے اور انہیں چلانے کے لئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۹۱ خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۰ء تین تین سال وقف کئے.میں نے ان سے کہا تم خدمت کے لئے جارہے ہو.جاؤ ایک جھونپڑا ڈال کر کام شروع کر دو.اور مریضوں کی ہر ممکن خدمت بجالاؤ.میں ابتدائی سرمائے کے طور پر انہیں صرف پانچ سو پونڈ دیتا تھا.انہوں نے اخلاص سے کام شروع کیا.غریبوں سے ایک پیسہ لئے بغیر ان کی خدمت کی.امراء نے وہاں کے طریق کے مطابق اپنے علاج کے اخراجات خود ادا کئے.اب وہاں ہمارے ایسے ہسپتال بھی ہیں جن کی بچت تمام اخراجات نکالنے کے بعد ایک ایک لاکھ پونڈ سالانہ ہے.دو سال کے اندر اندر سولہ ہسپتال کھولنے کی توفیق مل گئی.پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی.اور اب تو میڈیکل سنٹروں کی تعداد چوبیس پچیس ہوگئی ہوگی وہاں لوگ ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں بھی ہسپتال قائم کرو.اسی طرح مغربی افریقہ کے ممالک میں پہلے یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا.سارے سکول عیسائی مشنوں کے ہوتے تھے.مسلمان بچے بھی انہی کے سکولوں میں پڑھنے پر مجبور تھے.وہ براہ راست بائبل کی تعلیم دیئے بغیر ان کا عیسائی نام رکھ کر انہیں چپکے سے عیسائی بنا لیتے تھے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہاں پرائمری، مڈل اور ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کی توفیق دی.اس طرح وہاں مسلمان بچوں کی تعلیم کا انتظام ہوا.نصرت جہاں منصوبہ کے تحت سولہ نئے ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا.خدا تعالیٰ نے وہاں اس سے زیادہ تعداد میں سکول کھولنے کی توفیق عطا کر دی.غلبہ اسلام کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی.سو اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں منصوبہ کے تحت یہ بنیادیں فراہم کر دیں.اب وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری اس خدمت کا اتنا اثر ہے کہ نائیجیر یا میں ہماری جماعت کے جلسہ سالانہ میں ملک کے صدر نے جس کا تعلق مسلم نارتھ سے ہے جو پیغام بھیجا اس میں جماعت کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا کہ میں تمام مسلمان فرقوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۹۲ خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۰ء انہیں بھی ملک وقوم کی اسی طرح خدمت کرنی چاہیے.جس طرح جماعت احمد یہ نائیجیر یا کر رہی ہے.اس کے بعد حضور ایدہ اللہ نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ ، اس کی غرض و غایت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.تیسرا بڑا منصوبہ جو جماعت میں پیش کیا گیا.وہ صد سالہ احمد یہ جوبلی کا منصوبہ ہے.اس کے تحت آپ نے دس کروڑ روپے بطور چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.اس کا تعلق غلبہ اسلام کی صدی کے شایان شان استقبال سے ہے.اس ضمن میں حضور نے اشاعت قرآن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن مجھے یہ بتایا گیا کہ تیرے دور خلافت میں پچھلی دوخلافتوں سے زیادہ اشاعت قرآن کا کام ہوگا.چنانچہ اب تک میرے زمانہ میں پچھلی دو خلافتوں کے زمانوں سے قرآن مجید کی دو گنا زیادہ اشاعت ہو چکی ہے.دنیا کی مختلف زبانوں میں اب تک قرآن مجید کے کئی لاکھ نسخے طبع کروا کر تقسیم کئے جاچکے ہیں.اس تعلق میں حضور نے ان نئی سہولتوں کا ذکر کیا جو اشاعت قرآن کے سلسلہ میں بفضل اللہ تعالیٰ میسر آئی ہیں.اور بتایا کہ پہلے یورپ کا کوئی اشاعتی ادارہ قرآن مجید شائع کرنے اور اسے خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ ایک بہت بڑی اشاعتی فرم نے بہت بڑی تعداد میں قرآن مجیدہ شائع کرنے اور اسے فروخت کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے.چنانچہ دو ہفتہ کے اندر اندر اس نے قرآن مجید کے بیس ہزار نسخے طبع کر کے مجلد حالت میں ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیئے اور پھر ہم سے جماعتہائے احمد یہ امریکہ نے بیس ہزار کے بیس ہزار نسخے خرید کر رقم ہمیں دے دی.اس کے بعد حضور نے فرانسیسی ، اٹیلین اور سپینش زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت کے انتظامات کی تفاصیل بیان فرمائیں اور بتایا کہ خدا نے چاہا تو چند سال تک یہ تراجم بھی شائع ہو جائیں گے.مزید برآں دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ طباعت کے لئے پریس میں جا چکا ہے.اور اس کی پروف ریڈنگ ہو رہی ہے اور آخری کا پیاں بھی اس کی مل چکی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو جائے گا.حضور نے فرمایا.یہ خدا کا کام ہے اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۹۳ خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۰ء وہی اس کی انجام دہی کے سامان کر رہا ہے.ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کامل تو گل رکھے اور اسے ہی اپنا کارساز سمجھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کامل تو گل کے معنی بتائے ال ہیں کہ خدا کے سوا ہر کسی کو لاشی محض سمجھو.اور اس بات پر کامل یقین رکھو کہ جو کچھ کرے گا خدا ہی کرے گا.وہی تمہاری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے گا اور ان کے اعلی سے اعلی نتائج پیدا کر دکھائے گا.بعدۂ حضور نے اسی تعلق میں تعلیمی ترقی کے عظیم منصوبہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ صد سالہ احمد یہ جوبلی کے منصوبہ نے سرمایہ مہیا کرنا تھا اور پھر اس مالی جہاد کے نتیجہ میں اشاعت اسلام کے عملی جہاد نے مختلف شکلیں اختیار کرنا تھیں سو اس عملی جہاد کی ایک شکل تعلیمی اور علمی ترقی کا وہ عظیم منصوبہ ہے جو غلبہ اسلام کے مقصد میں کامیابی کی غرض سے جاری کیا گیا ہے.حضور نے اس عظیم منصوبہ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد بتایا.کہ منہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے جلوؤں کو جو کائنات ارضی و سماوی میں ہر آن ظاہر ہورہے ہیں آیات قرار دے کر اور ان پر غور کرنے والوں کو اولوا الالباب قرار دے کر دنیوی علوم کو روحانی علوم کی طرح ہی اہم قرار دیا ہے اور ان دونوں علوم کو ایک دوسرے کا مد و معاون ٹھہرایا ہے.اس منصوبہ کی اہمیت یہ ہے کہ افراد جماعت کو دنیوی علوم سے درجہ بدرجہ آراستہ کر کے ان میں قرآنی علوم و معارف سے بہرور ہونے کی اہلیت پیدا کی جائے کیونکہ یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ ایک ان پڑھ کے مقابلہ میں ایک میٹرک پاس نو جوان قرآن کو سمجھنے اور اس کے علوم و معارف سے استفادہ کرنے کی زیادہ اہمیت رکھتا ہے.اسی طرح درجہ بدرجہ ایف اے، ایف ایس سی، بی اے، بی ایس سی ، اور ایم اے، ایم ایس سی پاس میں قرآن کو سمجھنے اور اس کے انوار سے منور ہونے کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے.سو اس منصوبہ کا اصل اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر احمدی اپنی اپنی استعداد کے مطابق د نیوی علوم میں دسترس حاصل کرے تا کہ وہ قرآنی علوم اور معارف سے بہرہ ور ہو سکے اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۹۴ خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۰ء اس طرح وہ قرآن کے حسن سے حسن لے کر اور اس کے نور سے نور حاصل کر کے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی آسمانی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اس بات کو سمجھ لے کہ اسلام کا موعودہ غلبہ ایٹم بم وغیرہ کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی تفوق کی بنا پر ظاہر ہوگا.حضور نے آخر میں واضح فرما یا کہ تعلیمی منصوبہ صد سالہ احمد یہ جو بلی کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے اور غلبہ اسلام کی آسمانی مہم سے اس کا گہرا تعلق ہے.ہر علم کی بنیاد قرآن میں موجود ہے.کوئی دنیوی علم ایسا نہیں جس کا اصولی اور بنیادی طور پر قرآن میں ذکر نہ ہو.اس لئے دنیوی علوم کی تحصیل قرآن کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے بلکہ قرآن کو سمجھنے اور اس سے ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ان علوم کو حاصل کرنا بھی ضروری ہے.اور یہی اس منصوبہ کا اصل مقصد ہے.حضور نے اس امر کا اظہار فرمایا کہ حضور پاکستان کی جماعتوں میں اس منصوبے کو پورے طور پر نافذ کرنے کے بعد دو تین سال میں دنیا بھر کی احمدی جماعتوں میں اسے نافذ کر دیں گے.حضور نے فرمایا دعا کریں کہ علمی ترقی کا یہ عظیم منصوبہ جو خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور قرآنی علوم کے اسرار کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کرنے کی غرض سے جاری کیا گیا ہے ہر پہلو سے کامیاب ہو اور اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج ظاہر ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کام میں میرے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے.谢谢谢 ( دوره مغرب صفحه ۲۲ تا ۲۸)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۹۵ خطبہ جمعہ اار جولائی ۱۹۸۰ء اسلام نے مردوں اور عورتوں میں حقیقی مساوات قائم کی ہے خطبہ جمعہ فرموده ا ار جولائی ۱۹۸۰ء بمقام مسجد نور فرینکفرٹ.جرمنی حضور ایدہ اللہ کے نماز جمعہ کے لئے دو بج کر پچیس منٹ پر مسجد نور میں تشریف لانے پر جناب مبشر احمد باجوہ نے اذان دی.اس سے قبل جمعہ کی پہلی اذان بھی اُنہوں نے ہی دی تھی.اذان کے معا بعد حضور نے خطبہ جمعہ کا آغاز کرتے ہوئے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پورے یورپ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں غلط نہی یا تعصب کی وجہ سے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے.اس نے عورت کے حقوق ہی قائم نہیں کئے اس لئے اسلام مردوں کا مذہب ہے، یہ عورتوں کا مذہب ہے ہی نہیں حالانکہ اس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اسلام نے نہ صرف یہ کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیئے ہیں بلکہ بعض احتیاطیں وضع کر کے ان کے حقوق کے تحفظ کی پوری پوری ضمانت بھی دی ہے.حضور نے فرمایا ان قوموں میں بعض گندے اخلاق اور بگڑی ہوئی عادتوں نے کچھ ایسا گھر کیا ہے کہ اگر انہیں یہ سمجھایا جائے کہ جن باتوں پر تم اعتراض کر رہے ہو ان کا مقصد عورتوں پر
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۹۶ خطبہ جمعہ اار جولائی ۱۹۸۰ء ناواجب پابندیاں عاید کرنا نہیں بلکہ ان کے عزّت و احترام اور حقوق کی حفاظت کرنا ہے تو اسے وہ درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور ایک ہی رٹ لگائے جاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو مرد کے مساوی درجہ نہیں دیا حالانکہ کسی قوم کی عورتوں کو عقلاً اور اخلاقاً اس امر کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی لڑکیاں شادی سے پہلے ہی بچے جنے لگیں.کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آزادی کے سراسر غلط تصور نے ان قوموں کے افراد کو مادر پدر آزاد بنا چھوڑا ہے.آزادی کے اس غلط تصور کی وجہ سے ہی امریکہ میں ہر سال لاکھوں بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جنہیں ان کی مائیں شادی سے پہلے ہی جنم دے دیتی ہیں.اب اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام اس کی اجازت نہ دے کر عورتوں پر سختی کرتا ہے تو اس کا یہ اعتراض عقلاً، مذہباً اور اخلاقاً سراسر نا واجب ہے.اسلام عورتوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے کر مردوں کی طرح انہیں بھی زمین سے اُٹھا کر آسمان کی رفعتوں میں لے جانا چاہتا ہے.جو چیز عورتوں کی اس ترقی کی راہ میں روک بنے اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا نہ اس کی اجازت دیتا ہے.حضور نے اسلام کی رُو سے مردوں اور عورتوں کے حقوق اور ان تعین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اسلام نے مردوں اور عورتوں میں حقیقی مساوات قائم کی ہے دونوں میں قدرتی لحاظ سے جسمانی فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والے تفاوت کے سوا اسلام نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیئے ہیں.جسمانی لحاظ سے قدرتی فرق کو واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ہے مثال کے طور پر عورتیں بچے جنتی ہیں مرد بچے نہیں جن سکتے یہ فرق قدرت نے پیدا کر رکھا ہے اسے بدلا نہیں جا سکتا.اس فرق کا مردوں اور عورتوں کے حقوق اور ان کی نوعیت پر ایک حد تک اثر انداز ہونا ایک قدرتی امر ہے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو خاوند اور بیوی کا اپنا اپنا ایک مقام ہے ہر چند کہ دونوں کا اپنا اپنا مقام اہم ہے تاہم اسے بدلا نہیں جاسکتا.گھر کا انتظام چلانا اور بچوں کی پرورش اور تربیت کرنا عورتوں کا کام ہے.مرد کی ذمہ داری بیوی اور بچوں پر مشتمل پورے گھر کی تمام جائز ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے لئے محنت و مشقت کر کے اخراجات مہیا کرنا ہے.بیوی کے فرائض میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۹۷ خطبہ جمعہ اار جولائی ۱۹۸۰ء سرے سے یہ امر شامل نہیں ہے کہ وہ اپنی کمائی ہوئی یا پہلے سے حاصل شدہ دولت گھر کے اخراجات کو پورا کرنے پر خرچ کرے اسلام نے اُسے اس کے لئے مکلف ہی نہیں کیا.اسلام اسے اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی ذاتی دولت میں سے ایک پائی بھی گھر پر خرچ نہ کرے.اسلام مرد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بیوی کو اس کے اپنے مال سے گھر کی ضروریات کو پوری کرنے پر مجبور کرے.اُس نے بیوی کو اپنی ذاتی ملکیت کے بارہ میں مکمل طور پر آزا درکھا ہے.حضور نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.دو ایک باتوں میں قدرتی تفاوت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تقسیم کار کے سوا اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیئے ہیں.اُس نے ان میں سرے سے کوئی فرق ہی تسلیم نہیں کیا.سارا قرآن دونوں میں بحیثیت انسان ہونے کے مکمل مساوات کے ذکر سے پر ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل اور دائی شریعت لے کر دُنیا میں مبعوث ہوئے تو کس کی طرح مبعوث ہوئے ؟ قرآن کریم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةَ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ 199191 لا يعلمون - (سبا: ٢٩) ( ترجمہ :.اور ہم نے تجھ کو تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری دیتا اور ہوشیار کرتا ہے لیکن انسانوں میں سے اکثر اس حقیقت سے واقف نہیں.) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الناس کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے.النَّاس کا لفظ عربی زبان میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اکٹھا بولا جاتا ہے.سو معنے اس آیت کے یہ ہوئے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے ہر مرد اور ہر عورت کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے.اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اور نذیر تمام مردوں اور تمام عورتوں کے لئے ہیں.جہاں تک آپ کی بعثت اور اس کی غرض وغایت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اس اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں کوئی تفریق نہیں کی اس لئے قرآن مجید میں جتنے بھی احکام آئے ہیں.(ماسوا چند احکام کے جن میں جسمانی تفاوت کی وجہ سے عورتوں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۹۸ خطبہ جمعہ ۱۱ جولائی ۱۹۸۰ء کے بعض جدا گانہ نوعیت کے حقوق و فرائض کا ذکر ہے) ان میں یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور وہ یکساں طور پر دونوں پر عائد ہوتے ہیں.مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ - (النساء : ٢) (ترجمہ:.اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ) یہاں بھی الناس کا لفظ استعمال کر کے مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں حکم دیا گیا ہے اور انہیں اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اس حکم کے ذریعہ انہیں دراصل کہا یہ گیا ہے کہ وہ یکساں طور پر خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کر کے اس کی نگاہ میں عزت کا مقام حاصل کریں.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام مردوں اور عورتوں دونوں کو عزت اور احترام کا مقام دلانا چاہتا ہے اور اس لحاظ سے ان میں کسی تفریق کا روادار نہیں ہے.اسلام کی رُو سے عورتوں اور مردوں کے مابین عز وشرف میں مساوات کے ایک خاص پہلو کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں النّاس کے علاوہ بشر کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اور کیا بھی ہے ایک خاص محل پر.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کر دیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : ١١١) ترجمہ: تو (انہیں) کہہ کہ میں تمہاری طرح کا صرف ایک بشر ہوں.عربی لغت کی رو سے بشر کے معنوں میں بھی مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں جب بشر کا لفظ بیک وقت مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے بولا جاتا ہے تو مثلکم میں بھی دونوں شامل ہیں سو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ اے مردو! اور اے عورتو! میں تم جیسا ایک بشر ہوں.اس طرح آپ نے یہ امر ذہن نشین کرایا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور دُنیا کے تمام مردوں اور تمام عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے.سب ایک جیسے بشر ہیں.یہ انسان کو (جس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں ) زمین سے اُٹھا کر ساتویں آسمان تک لے جانے والی بات ہے یہ مساوات بلحاظ نوع کے ہے اور مردوں اور عورتوں کے یکساں شرف پر دلالت کرتی ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استعداد اور قابلیت ہر دوسرے انسان سے کہیں بڑھ کر عطا کی گئی
خطبات ناصر جلد هشتم ۶۹۹ خطبہ جمعہ ۱۱ جولائی ۱۹۸۰ء تھی اس لئے استعدادوں کے لحاظ سے نیز آتقی ہونے کے لحاظ سے اس بشر اور دوسرے بشر کے مابین بڑا فرق ہے.اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشر ہونے کے لحاظ سے اپنے وجود کو ہر بشر کے ساتھ بریکٹ کر دیا اور بتا دیا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تمام دوسرے انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلحاظ نوع یکسانیت کا یہ شرف مردوں اور عورتوں دونوں کو حاصل ہے اسلام نے اس شرف میں شریک ہونے کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی بلحاظ استعداد مرد، مرد اور عورت، عورت میں بھی فرق ہے اور ہر ایک نے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ترقی کرنی ہے ان میں سے کوئی اپنی استعداد کے مطابق کتنی ہی ترقی کر جائے.اسلام کہتا ہے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے بلا تفریق و امتیاز تمام مرد اور تمام عورتیں ایک ہی سطح پر ہیں.حضور نے عورتوں اور مردوں میں مساوات کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرما یا :.اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں مساوات کا ایک اور لحاظ سے بھی ذکر کیا ہے اور وہ ہے رحمت سے بہرہ یاب ہونے میں مساوات چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) ( ترجمہ:.اور ہم نے تجھے تمام دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے دائرہ میں صرف مرد آئیں گے بلکہ کہا یہ ہے کہ ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے دُنیا کی ہر چیز آپ کی رحمت سے حصہ لے رہی ہے.آپ تمام انسانوں یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں.آپ کی رحمت مردوں اور عورتوں کو یکساں فیض پہنچارہی ہے یعنی آپ کی رحمت سے بہرہ یاب ہونے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے.اسلام میں عورت اور مرد کے مساوی درجہ اور مساوی حقوق کو واضح کرتے ہوئے حضور نے مردوں اور عورتوں سے متعلق قرآنی آیات کا جائزہ بھی پیش کیا فرمایا جب میں نے مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق و فرائض کی روشنی میں قرآنی آیات کا جائزہ لیا تو میں نے دیکھا کہ قرآن مجید کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے الناس کہہ کر یعنی مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ
خطبات ناصر جلد هشتم خطبہ جمعہ ۱۱ جولائی ۱۹۸۰ء مخاطب کر کے احکام دیئے ہیں ان کی تعداد ۲۲۷ ہے.اسی طرح انسان اور الناس کہہ کر جن آیات میں مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے ان کی تعداد علی الترتیب ۶۱ اور ۶۷ ہے.اب رہیں وہ آیات جن میں عورتوں کے جسمانی طور مختلف حالات کے پیش نظر صرف عورتوں کو مخاطب کر کے صرف انہیں احکام دیئے گئے ہیں یا ان کے بعض زائد حقوق کا ذکر کیا گیا ہے سوان کی تعدا دانچاس ہے اس کے بالمقابل جن آیات میں صرف مردوں کا ذکر ہے وہ صرف گیارہ ہیں اس جائزہ سے بھی ظاہر ہے کہ جسمانی تفاوت کے سوا قر آن مجید میں جتنے بھی احکام دیئے گئے ہیں وہ مردوں اور عورتوں کو اکٹھا مخاطب کر کے دیئے گئے ہیں اور دونوں ان میں برابر کے شریک ہیں بلحاظ احکام اور بلحاظ حقوق و فرائض خدا تعالیٰ نے دونوں میں کوئی تفریق نہیں برتی.اس ضمن میں حضور نے سورۃ النساء کی آیت الرّجالُ قوامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : ۳۵) کا اصل مفہوم بھی واضح کیا چنانچہ فرما یا جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے اس میں مردوں کی اس ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو گھر کی جملہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ان پر ڈالی گئی ہے اس آیت میں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ عورتیں مردوں سے کمتر درجہ رکھتی ہیں بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ مرد گھر کے جملہ اخراجات کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں اور اس کی طاقت رکھتے ہیں.حضور نے نیک اعمال کی جزا کے لحاظ سے بھی مردوں اور عورتوں میں مساوات پر روشنی ڈالی اور واضح فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اعمالِ صالحہ کی جزا بھی دونوں کے لئے ایک جیسی رکھی ہے.اس نے یہ کہیں نہیں کہا کہ مرد نیک اعمال بجالائیں گے تو انہیں زیادہ جزا ملے گی اور عورتیں جو نیک اعمال بجالائیں گی انہیں ان کی مردوں کے مقابلہ میں کم جزا ملے گی اس نے دونوں کے لئے ایک جیسی جزا رکھ کر اس میں کسی قسم کا فرق روا نہیں رکھا بلکہ ان کی ایک مجبوری کی وجہ سے ان کے تھوڑے اعمال کی جزا زیادہ رکھی ہے اور کہا ہے کہ انہیں مردوں کے زیادہ اعمال کے برابر جزا ملے گی مثلاً عورتوں کو بعض ایام میں نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے لیکن ثواب مرد کے برابر رکھا ہے یہ نہیں کہا کہ چونکہ مردوں نے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اس لئے انہیں زیادہ ثواب ملے گا.آخر میں حضور نے مغربی ممالک میں رہنے والے احمدیوں کو ان کے ایک اہم فرض کی
خطبات ناصر جلد هشتم 2+1 خطبہ جمعہ اار جولائی ۱۹۸۰ء طرف توجہ دلائی.حضور نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا یہ باتیں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تم جو یہاں رہتے ہو تو یہاں کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا ؤ اگر تم تبلیغ کرو گے اور اسلام پر یہ لوگ کوئی اعتراض کریں گے تو خدا تعالیٰ خود تمہیں اس کا جواب سکھائے گا تم کسی اعتراض کا خوف دل میں لائے بغیر نڈر ہو کر ان لوگوں کو تبلیغ کرو اور یا درکھو کہ احمدیت اس اسلام کا نام ہے جسے درمیانی زمانہ کی بدعات سے پاک کر کے پھر اس کی اصل شکل میں پیش کیا گیا ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض وارد نہیں ہوسکتا اگر کوئی غلط نہی یا نہ سمجھی کی وجہ سے اعتراض کرتا ہے تو وہ یقینا غلطی پر ہے.خدا تمہیں خود ایسا جواب سکھائے گا جس سے اعتراض کرنے والے کی تسلی ہو جائے گی.حضور نے انہیں ایک اور اہم امر کی طرف بھی توجہ دلائی فرما یا اس ضمن میں دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر احمدی یہاں دلیری کے ساتھ اسلامی زندگی گزارے تا کہ وہ اسلامی تعلیم کے حُسن کا اپنی زندگیوں میں نمونہ پیش کر کے دوسروں کو اس کا گرویدہ بنا سکے اور آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے وہ ہمیں دوسروں کے لئے اسلامی تعلیم کا نمونہ بنائے اور ان کی ہلاکت کا سبب ہمیں نہ بنائے.اس بصیرت افروز خطبہ کے بعد جو چالیس منٹ تک جاری رہا حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.احباب اس جمعہ میں بھی فرینکفرٹ کے دور دراز علاقوں اور اس کی نواحی بستیوں سے بہت کثیر تعداد میں آئے ہوئے تھے.مسجد کا مسقف حصّہ مردوں سے اور ملحقہ ہال مستورات سے پوری طرح بھرا ہوا تھا.اس روز بھی موسم خراب تھا اور وقفہ وقفہ سے بارش ہوتی رہی تھی اور نماز کے وقت بھی گہرا ابر چھایا ہوا تھا اس کے باوجود بہت سے احباب کو مسجد کے پہلو میں کھلے آسمان کے نیچے نماز ادا کرنا پڑی.روزنامه الفضل ربوه ۷ /اکتوبر ۱۹۸۰ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۰۳ خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۰ء دعاؤں کے ذریعہ خدائی افضال و انعامات کا مورد بننے کی کوشش کریں خطبہ جمعہ فرموده ۱۸ / جولائی ۱۹۸۰ء بمقام مسجد نور.فرینکفرٹ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت اچھی اچھی دعائیں سکھائی ہیں.ظاہر ہے یہ دعا ئیں عربی زبان میں ہیں ہمیں یہ دعا ئیں آنی چاہئیں اور ان کے معنے بھی آنے چاہئیں.ان دعاؤں میں اللہ تعالیٰ نے ہماری تفصیلی ضروریات کو بھی مد نظر رکھا ہے اور ہمیں اپنی جن کو تا ہیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بطور خاص ضرورت ہوتی ہے انہیں بھی مدنظر رکھا ہے.ان میں سے بعض بنیادی دُعائیں ہیں جن میں ہماری سب ضرورتیں اور حاجتیں آجاتی ہیں اور ہماری جملہ کوتاہیوں کے بُرے اثرات کے ازالہ پر بھی وہ حاوی ہیں مثال کے طور پر ایسی بنیادی دعاؤں میں سے ایک دُعا یہ ہے:.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - (البقرة : ٢٠٢) یعنی اے ہمارے رب ہمیں اس دُنیا کی زندگی میں بھی کامیابی دے اور آخرت میں بھی کامیابی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.اسی طرح ایک اور چھوٹی سی دُعا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی اور خدا تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۰۴ خطبہ جمعہ ۱۸ / جولائی ۱۹۸۰ء اسے قرآن مجید میں بیان کر دیا تا کہ ہم بھی وہ دُعا کریں اور اس سے فائدہ اُٹھا ئیں وہ دُعا یہ ہے که رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ( القصص : ۲۵) اس کے معنے ہیں کہ اے اللہ جو خیر بھی تیری طرف سے نازل ہو میں اس کا محتاج ہوں خیر کے معنے بہت وسیع ہیں خیر کے معنوں کا پتہ خود قرآن مجید کی بعض دوسری آیات سے لگتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.قُلِ اللهُم مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُحِنُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ.(آل عمران : ۲۷) اس کے معنی ہیں تو کہہ اے اللہ تو سلطنت کا مالک ہے جسے چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت لے لیتا ہے.جسے چاہتا ہے غلبہ بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے سب خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو یقیناً ہر ایک چیز پر قادر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے ملک کا ذکر کیا ہے ملک کا یہ لفظ دونوں قسم کے ملکوں پر حاوی ہے یعنی ایسے ملک پر بھی جس کا بادشاہت سے تعلق ہے اور ایسے ملک پر بھی جس کا بادشاہت سے تعلق نہیں.مؤخر الذکر ملک کو دینی اصطلاح میں روحانی بادشاہت کہتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار سو ملک کے لفظ میں دنیوی بادشاہت اور روحانی بادشاہت دونوں شامل ہیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعلق کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ ساری دُنیا کے ساتھ ہے اس لئے آپ کو جو ملک عطا ہوا ہے اُس سے مراد روحانی بادشاہت ہے.اسلام میں کوئی مجدد ایسا نہیں آیا جس کا تعلق اپنے علاقہ اور اپنی صدی سے باہر کے علاقہ اور صدی سے ہولیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں صرف چودھویں صدی کا مجدد نہیں بلکہ مجدد الف آخر ہوں.اسی لئے آپ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی اپنی روحانی بادشاہت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا ملک سب سے جُدا ہے اور میرا تاج صرف رضوانِ یار ہے.بتا میں یہ رہا ہوں کہ خیر کے معنوں میں دونوں ملک شامل ہیں ایک دُنیوی لحاظ سے ملک اور
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۰۵ خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۰ء دوسرے روحانی لحاظ سے ملک.دوسری چیز جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے وہ ہے عزت.ایک عزت دنیوی ہوتی ہے اور ایک عزت وہ ہوتی ہے جو اللہ کی نگاہ میں کسی انسان کی ہو اور وہی فی الاصل قائم رہنے والی عزت ہوتی ہے.سو اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے ایک دنیوی ملک کا، دوسرے روحانی ملک کا ، تیسرے دنیوی عزت کا اور چوتھے اس عزت کا جو کسی انسان کی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہوتی ہے پھر اس میں نفی بھی ہے اور اثبات بھی یعنی ملک اور عزت ملنے کا بھی ذکر ہے اور کوتاہیوں اور غفلتوں کے نتیجہ میں ملک اور عزت چھینے کا بھی.ان چاروں چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا بِيَدِكَ الْخَيْرُ یعنی اے اللہ ہر خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تمام دنیوی نعمتیں اور ہر قسم کے روحانی افضال و انعامات خیر میں شامل ہیں.خیر کا لفظ اُن تمام نعمتوں اور رحمتوں پر حاوی ہے جو انسان پر خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہیں ان نعمتوں اور رحمتوں کے حصول کے لئے ہمیں دُعا کی تعلیم دی گئی ہے یہ اسلام ہی ہے جس نے چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ضروری قرار دیا ہے اور اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت سی دعا ئیں سکھائی ہیں.قرآنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ وہ سب دعائیں کرنا اور کرتے رہنا ہمارا فرض ہے.اسی طرح رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ایک چھوٹی سی دعا ہے جو خود خدا نے ہمیں قرآن میں سکھائی ہے اسے آپ فارغ اوقات میں اور کام کرنے کے دوران بھی پڑھ سکتے ہیں آپ کو یہ دُعا بکثرت کرنی چاہیے اور اس طرح خدائی افضال وانعامات کا مورد بننے کی کوشش کرنی چاہیے.خطبہ جاری رکھتے ہوئے حضور نے مزید فر ما یا دوسری بات جو میں اس وقت کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمارے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے لئے کسی کے فتویٰ کی ضرورت نہیں یہ خیال کرنا احمقانہ بات ہے کہ جب تک حکومت ہمیں مسلمان تسلیم نہ کرے خدا بھی ہمیں مسلمان نہیں مانے گا.ہمیں کسی کی سند کی ضرورت نہیں ہاں ہمیں فکر یہ کرنی چاہیے کہ ہمارا خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے.اس سے کبھی بے وفائی نہیں کرنی اصل تو خدا ہے.بنیادی حقیقت اس کا ئنات کی توحید باری تعالیٰ
خطبات ناصر جلد هشتم 2+Y خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۰ء ہے اس کو چھوڑ کر اس کو ناراض کر کے ہم کہاں جائیں گے.انسانوں کی پروا نہ کرو انسان کی حیثیت ہی کیا ہے وہ ایک ایٹم ، ایک ذرہ پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں ہے اس لئے بجز خدا کے کسی کی پروانہ کرتے ہوئے ہمیشہ مسکراتے رہو.صرف خدا سے ڈرو اور ہمیشہ اس فکر میں رہو کہ وہ ناراض نہ ہو جائے.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مسلمان بنے رہنے کی اہمیت واضح کرنے اور اس سے متعلق بعض اور اُمور کی وضاحت کرنے کے بعد آخر میں حضور نے فرمایا میں نے دو باتیں آپ کو بتائی ہیں.ایک تو میں نے رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ کی دُعا کرنے کی تلقین کی ہے.دوسرے میں نے بتایا ہے کہ خدا سے کبھی بے وفائی نہ کرو خدا کے بن کر خدا میں ہو کر زندگی گزار و اور اپنی زندگیوں میں اسلام کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ کہ یہ لوگ ( مغربی جرمنی کے باشندے) اس دُنیا کی طرف کھینچے چلے آئیں جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دُنیا ہے.پھر حضور انور نے فرمایا ( کل ۱۹ جولائی ۱۹۸۰ء کو) ہمبرگ ہوتے ہوئے سکنڈے نیوین ملکوں میں جانے کا ارادہ ہے.وہاں ایک نئے مشن کا افتتاح کرنا ہے.وہاں ایک بلڈنگ ڈیڑھ ملین کرونہ میں ملی ہے اگر مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ہمیں بعد میں اور زیادہ مناسب اور موزوں جگہ مل گئی تو یہ دو تین ملین کرونہ میں پک جائے گی کیونکہ وہاں بھی جائیداد کی قیمتیں برابر بڑھ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ سکنڈے نیوین ملکوں میں اسلام کے پھیلانے اور غالب آنے کے جلد سامان کرے.آمین چونکہ حضور ایدہ اللہ اگلے روز فرینکفرٹ سے ہمبرگ روانہ ہورہے تھے اس لئے حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے دوران احباب فرینکفرٹ کو دعاؤں سے نوازتے ہوئے فرما یا اللہ تعالیٰ آپ کو بھی خیر سے رکھے آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کی ہر قسم کی پریشانیاں دور کرے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۰ ء صفحه ۲)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۰۷ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۰ء اسلامی معاشرہ میں عورت کا بلند مقام خطبه جمعه فرموده ۲۵ / جولائی ۱۹۸۰ء بمقام مسجد نصرت جہاں.کوپن ہیگن.ڈنمارک (خلاصه خطبه ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد نصرت جہاں میں نماز جمعہ پڑھائی اور انگریزی اور اردو میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اپنے خطاب میں قرآنی آیات کی روشنی میں اسلامی معاشرے میں عورت کے بلند مقام کی وضاحت فرمائی اس کے علاوہ حضور نے انسانی مساوات کے قرآنی اصولوں کا بھی ذکر فر ما یا.حضور نے احباب جماعت پر زور دیا کہ وہ پیار محبت اور ذاتی نمونہ سے کام لے کر اسلامی تعلیم غیر مسلموں تک پہنچا ئیں حضور نے جمعہ کے روز بعد از نماز جمعہ ڈینش احمدیوں سے ملاقات فرمائی اور دو گھنٹے تک ان احباب سے شفقت اور محبت کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا.سرز مین ڈنمارک کی یہ سعید روحیں اپنے آقا کے ساتھ اس ملاقات پر انتہائی مسرور اور شاداں تھیں.ان احباب نے دو گھنٹہ تک حضور سے ملاقات کر کے اپنی روحانی تشنگی بجھانے کا سامان کیا.احباب کرام دعا ئیں جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل وکرم سے حضور کو صحت و سلامتی سے رکھے.آپ کے دورہ کو لا تعداد برکات وافضال سے نوازے اور مغرب کی سعید روحوں کو اس دورہ کے ذریعہ اسلام کی آغوش میں آنے کی توفیق دے اور ہر ہر قدم پر حضور کو غیبی تائیدات اور فرشتوں کی مدد سے نوازے آمین.“ روزنامه الفضل ربوہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۰ ء صفحه ۱)
خطبات ناصر جلد ہشتم 2.9 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۰ء مساجد کے دروازے تمام موحدین کے لئے کھلے ہیں خطبه جمعه فرموده یکم اگست ۱۹۸۰ء بمقام مسجد نور.ناروے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہر قسم کی حقیقی اور کامل تعریفیں صرف اللہ ہی کے لئے ہیں.تمام عبادت گا ہیں یعنی مساجد اللہ ہی کی ملکیت ہیں اس لئے مسجد کا مالک خدا ہی ہوتا ہے.ہماری حیثیت تو صرف ایک مہتم اور نگہداشت کرنے والے کی ہے.اسی لئے مسجد کے دروازے تمام موحدین کے لئے کھلے ہوتے ہیں یعنی اُن تمام لوگوں کے لئے جو خدائے واحد و قادر مطلق یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے اس میں آئیں.تاہم جو شخص دل میں بری نیت ، گری ہوئی خواہشات اور شرارت کے ارادے سے مسجد میں آنا اور اس کی بے حرمتی کرنا چاہتا ہے اسے اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں.حضور نے فرمایا مسجد عبادت کی ایک ایسی جگہ ہے جس میں اللہ کو بکثرت یاد کیا جاتا ہے.(الحج : ۴۱).مسجد عبادت کی ایک ایسی جگہ ہے جس کی بنیاد طہارت ، تقوی اللہ اور حصولِ رضائے الہی پر ہے.(التوبة: ۱۰۸) ظاہر ہے مشرکوں (یعنی توحید باری تعالیٰ کے دشمنوں) کا یہ حق نہیں اور نہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے نگران اور متوتی ہوں صرف وہی مسجدوں کے متولی ہو سکتے ہیں جو حقیقی طور پر اللہ پر ایمان رکھتے ہیں (التوبة: ۱۹،۱۸).
خطبات ناصر جلد هشتم 210 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۰ء حقیقی ایمان باللہ کے تعلق میں حضور نے صفات باری کی معرفت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا.وہ اللہ ذاتِ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کوئی اور عبادت اور اطاعت کے لائق نہیں.وہ عالم الغیب ہے.وہی اپنی ذات کی حقیقی معرفت رکھتا ہے اس کے سوا کوئی اس کی ذات اور صفات کا احاطہ نہیں کر سکتا.ہر مشہور چیز کا بھی حقیقی علم اُسی کو ہے اُس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی نگاہ میں ہے یہ ہے اس کے احاطہ علم کی غیر محدود وسعت.وہ الرّحمن ہے وہ اعلی وَ اَجَل ہے اور نقص سے یکسر مبرا ہے.امن کا سر چشمہ اُسی کی ذات ہے وہ ہر قسم کے نقائص، تیرہ بختیوں اور مصائب سے پاک ہے اور سب کی پناہ وہی ہے وہی حفاظت کرنے والا ، کامل قدرتوں والا ، غلبہ پانے والا اور بلندشان والا ہے وہ سب کی حفاظت کرتا ہے اور سب پر فائق واعلی ہے اور تمام بگڑے ہوؤں کو درست کرنے والا ہے اور اپنی ذات میں کامل طور پر خود کفیل ہے.اللہ پیدا کرنے والا ، بنانے والا اور سنوار نے والا ہے.تمام صفاتِ حسنہ اس میں پائی جاتی ہیں.وہ قادر مطلق اور کامل حکمتوں والا ہے وہ جو چاہتا ہے اسے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے.وہ دنیا کا مالک و آقا ، بے انتہا فضل کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا اور جزا سزا کے دن کا مالک ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے جزا سزا کا اختیار کسی اور کونہیں دیا.اللہ تعالیٰ حتی وقیوم اپنی ذات میں خود کفیل اور ہر حیات کا سرچشمہ اور ہر وجود کا سہارا ہے.وہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.نہ اُس نے کسی کو جنا ہے نہ خود جنا ہوا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا ہمسر ہو یا اُس جیسا ہو.سرِ مو انحراف کئے بغیر تو حید باری پر صحیح رنگ میں ایمان لانا.یہ وہ عدل ہے جو ایک بندے کے لئے اپنے خالق کے بارہ میں روا رکھنا لا زم ہے.توحید باری پر ایمان کا اعلان کرنے اور پوری صحت کے ساتھ اعلان کرنے کی غرض سے ہی اللہ کا گھر تعمیر کیا جاتا ہے.صرف وہی لوگ جو اس کی ذات پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں اس بات کے مستحق ہیں کہ اُس کے گھر میں داخل ہوں لیکن اس کی ذات پر حقیقی ایمان رکھنا محض اس کے فضل سے ہی ممکن ہے.سو آؤ ہم دُعا کریں.
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۰ء اے خدا! ہماری اس کوشش کو قبول کر اور اپنے اس گھر کو اس خوبصورت سر زمین کے باشندوں کے لئے جائے پناہ اور عبادت کا مرکز بنا اے خدا! ان لوگوں کو اپنے اس گھر کا اہل بنا اور ان تمام لوگوں کے لئے جو اس کے اہل ہوں اس گھر کو امن اور حفاظت کی جگہ بنا.اے خدا! اپنے اس گھر کو ایسا بنا کہ تیرے مہدی کے پیرو تمام نوع انسانی کو ایک ہی انسانی برادری یعنی اُمتِ واحدہ کی شکل میں متحد کرنے کے لئے جو عظیم کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں یہ ان میں اور اضافہ کا موجب ہو.اے خدا ! تو ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی توفیق عطا کر کہ وہ تیری فرمانبردار بنی رہیں اور ہم پر ہماری عبودیت کے طریق آشکار کر اور ہم پر رجوع برحمت ہو کیونکہ تو بار بار کرم کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے.آمین ( دوره مغرب صفحه ۲۲۰ تا ۲۲۳)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۱۳ خطبه جمعه ۸ /اگست ۱۹۸۰ء حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنے فضل نازل ہورہے ہیں ہم پر کہ عقل حیران رہ جاتی ہے خطبه جمعه فرموده ۸ /اگست ۱۹۸۰ء بمقام مسجد فضل - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے پہلے تو اس سال مارچ کے اواخر میں اپنی اچانک شروع ہونے والی بیماری کی نوعیت، علاج کی تفاصیل اور ڈاکٹروں کی رائے میں بیماری سے ۹۰ فیصد افاقہ اور صحت کی موجوہ کیفیت کا ذکر کیا اور بتایا کہ بیماری کے بقیہ دس فیصد اثرات کے ختم ہونے کے لئے حضور ڈاکٹری مشورہ کے مطابق اب بھی ایک دوا استعمال کر رہے ہیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ جب سے بیروونی ممالک کے حالیہ دورہ کا پروگرام شروع ہوا ہے نہ معلوم کتنے ہزار خطوط ہیں جو میں نے نہیں پڑھے اور جن کے جواب جانے ہیں اس لئے میں نے یورپی ممالک کے دورہ کے بعد لندن میں کچھ عرصہ قیام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس دوران میں جماعت انگلستان کو زیادہ وقت نہیں دے سکوں گا.بلکہ سوائے دودنوں کے (ایک عید کا دن اور ایک وہ دن جس میں مجھے پریس کانفرنس سے خطاب کرنا ہے ) میں ڈاک دیکھوں گا اور اسے ختم کرنے کی کوشش کروں گا.پریس کانفرنس جمعرات کے روز ہے اس سے قبل بدھ کے روز شاید میں اہم ملاقاتوں کے لئے وقت دے سکوں.افریقہ اور امریکہ کے دورہ سے فارغ ہونے کے بعد مجھے ۲۳ یا ۲۴ ستمبر کو لندن واپس پہنچنا ہے انشاء اللہ اس وقت ملیں گے اور باتیں کریں گے.
خطبات ناصر جلد هشتم トラマ خطبه جمعه ۸ راگست ۱۹۸۰ء فی الوقت دعاؤں میں وقت گزاریں اور خاص طور پر یہ دعا بھی کریں کہ انسان خود اپنی ہلاکت کے جو سامان کر رہا ہے اس سے بچنے کی راہیں خدا اسے سکھائے.حضور نے مزید فرمایا کہ افریقہ سے واپس آکر میں انشاء اللہ تین دن لندن میں ٹھہر ونگا اور امریکہ سے واپس آکر پندرہ میں روز یہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہے.اس وقت میں آپ کا مہمان نہیں ہوں گا بلکہ آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر کے مہمان ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جاری کردہ لنگر میں جو بے انداز برکت ڈالی ہے اس کے ایک درخشندہ ثبوت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ہر سال جلسہ سالانہ پر اس لنگر سے مستفیض ہونے والے مہمانوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ گزشتہ سال جلسہ سالانہ پر ربوہ کی آبادی سمیت مہمانوں کی تعداد ہمارے اندازہ کے مطابق ایک لاکھ پچاس ہزار تھی.اتنے لوگوں کو وقت پر کھانا کھلا دینا خودا اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے.لندن کی ایک بوڑھی عورت جلسہ پر ربوہ آئی جب اس نے لنگر خانہ دیکھا اور مہمانوں کو وقت پر کھانا مہیا کئے جانے کے انتظامات کا مشاہدہ کیا تو وہ بہت حیران ہوئی اور کہنے لگی کہ اگر میں واپس جا کر یہ بتاؤں کہ کس طرح تھوڑے سے وقت میں اتنے بڑے اجتماع کو تازہ پکا یا ہوا کھانا مہیا کیا جاتا ہے تو میرے رشتہ دار یقین نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ وہاں سے پاگل ہو کر آئی ہے.حضور نے فرمایا یہ تو اللہ تعالی کے بے شمار فضلوں میں سے ایک فضل کا ذکر ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنے فضل نازل ہو رہے ہیں ہم پر کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.خدا تعالیٰ فضل کر کر کے دراصل یہ کہ رہا ہے کہ تم میرے شکر گزار بنو ناشکرے نہ بنو.ہم پر واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں کبھی سست نہ ہوں اور ہمیشہ اس کا شکر ادا کرتے رہیں.اس ضمن میں حضور نے غیر معمولی نوعیت کے اللہ تعالیٰ کے بعض نئے اور تازہ فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے نمایاں فضلوں میں سے ایک فضل آپ ( مراد جماعت احمدیہ انگلستان) سے تعلق رکھتا ہے.۱۹۷۸ء میں لندن کا نفرنس کے بعد مجھ سے کہا یہ گیا کہ صحافیوں کو یہ غلط بر یفنگ کر دی گئی ہے کہ خلیفہ المسیح کا ارادہ انگلستان میں تبلیغ اسلام کے پانچ نئے مراکز قائم
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۱۵ خطبه جمعه ۸ راگست ۱۹۸۰ء کرنے کا ہے مجھ سے درخواست یہ کی گئی کہ میں اس کی تائید کر دوں.میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ میں اس منصو بہ کو اپنانے سے انکار کر دوں.دوسرا یہ کہ میں اس منصو بہ کو اپنا کر اعلان کر دوں کہ ہم انگلستان میں پانچ نئے مرکز قائم کریں گے.میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے منصوبہ کا اعلان کر دیا.دو سال نہیں گزرے کہ بریڈ فورڈ ، ہڈرزفیلڈ، مانچسٹر، برمنگھم اور ساؤتھ ہال میں پانچ مراکز قائم کرنے کے لئے مکان اور بال وغیرہ خرید لئے گئے ہیں جس کام کے کرنے کا سوچے سمجھے ارادہ اور پلان کے بغیر اعلان کیا گیا تھا خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں اتنی برکت ڈالی کہ وہ کام ہو گیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت کا دوسرا بڑا نشان اوسلو میں دکھایا ہے.اوسلو میں ہماری کوئی مسجد اور مشن ہاؤس نہیں تھا.دو سال پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک علاقہ کے میئر نے ہمیں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے زمین دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب وہ مکر گئے ہیں.میں نے کہا کہ جب میں اوسلو آؤں تو مجھے ان سے ملوانا.چنانچہ دو سال قبل جب میں وہاں گیا.وہ میئر تو چھٹی پر تھے.البتہ پرانے شہر کے میئر سے ملاقات ہوئی.وہ زمین تو ہمیں نہ ملی لیکن دو سال بعد خدا تعالیٰ نے ہمیں شہر کے بہت اچھے علاقے میں ایک بہت بڑی عمارت خرید نے کی توفیق عطا کر دی.صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کی کافی رقم پاکستان میں بھی جمع ہو چکی ہے لیکن فارن ایکس چینج کی دقتوں کی وجہ سے وہاں سے رقم نہیں آسکتی.اس لئے اس عمارت کے خریدنے کا سارا بار بیرونی ملکوں کی جماعتوں کو اٹھانا پڑا ہے.ڈیڑھ ملین کرونے میں عمارت خریدی گئی ہے بہت بڑی اور بہت خوبصورت عمارت ہے میں اب پھر اسی میئر سے ملا تھا وہ کہنے لگے دوسرے مسلمانوں کے مطالبہ پر ہم نے ان کے لئے زمین تو مختص کر دی ہے لیکن ان کے پاس رقم نہیں ہے انہیں امید تھی کہ بعض مالدار ملک انہیں رقم دے دیں گے اب وہ رقم جمع کر رہے ہیں.پھر کہنے لگے آپ کو تو مسجد کے لئے بڑی اچھی جگہ شاندار عمارت مل گئی ہے.میں نے کہا ہم تو غریب جماعت ہیں ہمیں صرف ضرورت کے مطابق جگہ چاہیے تھی سو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی.کہنے لگے کتنے میں خریدی
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۱۶ خطبه جمعه ۸ راگست ۱۹۸۰ء آپ نے یہ عمارت؟ میں نے کہا ڈیڑھ ملین ( پندرہ لاکھ ) کرونے میں.وہ فوراً بولے یہ بھی تو کوئی چھوٹی رقم نہیں بہت بڑی رقم ہے.اللہ تعالیٰ کے ایک اور بہت بڑے فضل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا اس سے بھی بڑا نشان خدا تعالیٰ نے سپین میں دکھایا ہے.۱۹۷۰ء میں جب میں سپین گیا اور وہاں شاہی محل الحمرا اور دیگر اسلامی آثار دیکھے تو دل میں بہت درد پیدا ہوا کہ یہ سرزمین جہاں اسلام سات آٹھ سو سال غالب رہا اور جہاں سے علوم وفنون کے چشمے بہہ بہہ کر سارے یورپ کو سیراب کرتے رہے صدہا برس سے اللہ کے ذکر سے خالی چلی آرہی ہے وہاں طلیطلہ کے قریب ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی غیر آباد مسجد تھی اس کے بارہ میں کوشش کی گئی کہ نمازیں پڑھنے کے لئے وہ مسجد ہمیں مل جائے خواہ عارضی طور پر ہی ملے.حکومت اس بات پر راضی بھی ہوگئی.لیکن وہاں کے لاٹ پادری نے شدید مخالفت کی اور وہ مسجد نہ مل سکی.بہر حال سپین ایسے ملک کو جہاں صدیوں اسلام غالب رہا خدائے واحد کے ذکر سے خالی دیکھ کر دل میں بہت درد پیدا ہوا اور میں وہاں اسلام کے دوبارہ غالب آنے کے لئے دعائیں کرتا رہا ایک رات کو میں اس درجہ دردمند ہوا کہ ساری رات سو نہ سکا اور رات بھر دعا کرتا رہا کہ اے خدا! تو رحم کر اور ایسے سامان کر کہ تیرا نور یہاں بھی چمکے صبح کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ جو تو مانگتا ہے وہ ملے گا تو ضرور لیکن ابھی وقت نہیں آیا.اس سے مجھے تسلی ہوگئی کہ خدا تعالیٰ ضرور فضل کرے گا اور وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب یہاں خدا تعالیٰ کا نور پھیلنے کے سامان ہوں گے.دس سال بعد ایسا انقلاب آیا وہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں کہ کہاں تعصب کا یہ حال تھا کہ وہ ہمیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہ تھے اور کہا یہ حالت کہ انہوں نے قرطبہ کے قریب ہمیں مسجد کے لئے زمین خریدنے کی اجازت دے دی ہے چنانچہ وہاں تیرہ کنال سے زائد زمین خرید لی گئی ہے اور حکومت نے وہاں مسجد بنانے کی تحریری اجازت دے دی ہے ( جیسا کہ اطلاع شائع ہو چکی ہے حضور ایدہ اللہ نے ۹ /اکتوبر ۱۹۸۰ء کو وہاں مسجد کا سنگ بنیاد رکھ بھی دیا ہے ) حضور نے مسلم سپین کی عظمت رفتہ اور مسلمان بادشاہوں کی دینداری اور
خطبات ناصر جلد ہشتم 212 خطبه جمعه ۸ /اگست ۱۹۸۰ء للہیت کے متعدد واقعات بیان کرنے اور پھر بعد میں آنے والی نسلوں کی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں سپین سے مسلمانوں کے اخراج کا ذکر کرنے کے بعد صدہا برس پر پھیلے ہوئے طویل وقفہ کے بعد سپین میں پہلی مسجد کی تعمیر کے انتظامات کرنے کی توفیق عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.بعد ازاں حضور نے اشاعت اسلام کی مہم میں مزید تیزی پیدا کرنے والے بعض نئے منصوبوں کا ذکر کر کے ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی.حضور نے فرمایا انگلستان کی جماعت نے احمدیت کے تعارف پر مشتمل انگریزی میں ایک فولڈر بہت بڑی تعداد میں شائع کر کے اسے تقسیم کیا ہے یہ ایک بہت مفید سلسلہ ہے اسے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک تجویز ڈالی ہے.انگلستان میں ہر سال کئی ملین ٹورسٹ آتا ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں ملینز ٹورسٹ آتے ہیں وہ مختلف ممالک سے آتے ہیں اور مختلف زبانیں بولنے والے ہوتے ہیں.تجویز یہ ہے کہ اس فولڈر کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں کیا جائے گا اور وکالت تبشیر کا دفتر مناسب تعداد میں ہر زبان کے فولڈر ہر مشن کو بھجوائے گا اور ہر مشن اس ملک میں آنے والے سیاحوں کو خود ان کی زبان میں شائع شدہ فولڈر دے گا اور اس طرح ہر ملک میں مختلف زبانیں بولنے والوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا راستہ کھل جائے گا.ابتداء ایک فولڈر شائع کیا جائے گا جس کا عنوان ہوگا 1.The Promised Mahdi and Messiah has come.2.What is Ahmadiyyat.اس تعلق میں حضور نے ایک اور منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرما یا اس وقت تک یورپ میں ہم اسلام کی جو تبلیغ کرتے رہے ہیں اس میں ایک رکاوٹ ایسی ہے جو ابھی تک دور نہیں ہوسکی ہے وہ رکا وٹ یہ ہے کہ ہمارے اور یورپین قوموں کے درمیان ایک Barrier ( دیوار ) حائل ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی.اس.” بیر یئر کو ہم نے ابھی تک نہیں توڑا ہے.تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمارے قریب آئیں اور وہ قریب آنہیں سکتے جب تک درمیان میں حائل Barrier نہ ٹوٹے.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے اس
خطبات ناصر جلد هشتم ZIA خطبه جمعه ۸ راگست ۱۹۸۰ء Barrier کو توڑنے کا منصوبہ القا کیا ہے.اس منصو بہ کا تعلق اس اسلامی ادارہ سے ہے جسے عید گاہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.فرمایا:.اسلام میں عید گاہ جو شہر سے باہر کھلی جگہ بنائی جاتی ہے اپنی ذات میں ایک بہت بڑا انسٹی ٹیوشن یا ادارہ ہے جس سے تبلیغی اور تربیتی رنگ میں جماعتی طور پر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.دراصل مساجد کے مختلف دائرے ہیں.ایک محلہ کی مسجد ہوتی ہے اس کا دائرہ محلہ تک محدود ہوتا ہے ایک جامع مسجد ہوتی ہے جس میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے اس کا دائرہ شہر ہوتا ہے.اسی طرح ایک عید گاہ ہوتی ہے اس کا دائرہ جمعہ کے دائرہ سے بھی بڑا ہوتا ہے اور اس میں شہر کے علاوہ اردگرد کے علاقہ کے لوگ بھی جمع ہوتے اور نماز عید ادا کرتے ہیں.میں نے سوچاہر ملک میں شہر سے باہر فاصلہ پر جہاں زمین کی قیمت زیادہ نہ ہو.ہیکٹر ڈیڑھ ہیکٹر زمین خرید لی جائے.مثال کے طور پر لندن سے تیس میل باہر اتنی زمین خرید کر وہاں عید گاہ کی طرز پر ایک تو غیر مسقف کھلی مسجد بنائی جائے جہاں نماز پڑھی جاسکے اس سے ہٹ کر ایک طرف ایک کمرہ ہو جو سٹور کا کام دے.ایک حسب ضرورت بڑا شیڈ ہو جو دھوپ اور بارش میں پناہ Shelter کا کام دے باقی زمین میں جنگل اُگانے کے علاوہ بچوں کے لئے پھلدار درخت لگا دیئے جائیں.اس عید گاہ اور اس سے ملحقہ زمین میں بچوں کو لے جا کر ان کی تربیتی اجتماعات منعقد کئے جائیں نیز تفریح کی غرض سے وہاں پکنک وغیرہ منائی جائے اور دوسروں کے بچوں کو بھی مدعو کیا جائے کہ وہ ہمارے بچوں کے ساتھ مل کر اس جگہ پکنک منا ئیں اس طرح ہمارے بچوں اور دوسرے بچوں میں اور خود بڑوں میں میل ملاپ بڑھے گا اور دونوں کے دورمیان جو Barrier ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہم سے دور دور رہتے ہیں اور ہمارے قریب نہیں آتے ، ٹوٹنا شروع ہو جائے گا.اس لئے ضروری ہے کہ ایسی جگہ کی تلاش کی جائے جو آبادیوں سے پرے دور ہٹ کر ہوا اور سستی مل سکے اور رفتہ رفتہ اسے دینی اور جماعتی اغراض کے علاوہ پکنک سپاٹ Picnic Spot اور تبلیغی جگہ کے طور پر بھی ڈیویلپ Develop کیا جا سکے.سو یہ درمیان میں حائل رکاوٹ یا بیر بیر“ کو توڑنے کا منصوبہ ہو گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس
خطبات ناصر جلد هشتم واء خطبه جمعه ۸ راگست ۱۹۸۰ء منصو بہ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین آخر میں حضور نے دعائیں کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا آپ یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے پوری صحت دے تا کہ میں حسب موقع کسی قدر غصہ کے ساتھ، شدت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ وہ باتیں کروں جو میں اپنے واپسی کے قیام میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں.( دوره مغرب صفحه نمبر ۲۶۴ تا ۲۷۱)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۲۱ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۸۰ء اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے خطبه جمعه فرموده ۱۵ اگست ۱۹۸۰ ء بمقام مسجد فضل - لندن حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ البقرہ کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَعُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ - (البقرة : ۲۵۶) ( ترجمہ : وہ اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی پانہیں سکتے اس کا علم آسمانوں پر بھی اور زمین پر بھی حاوی ہے اور ان کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں اور وہ بلند شان والا اور عظمت والا ہے.) اس کے بعد فرمایا اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں، ہر چیز ہر وقت اس کی نگاہ میں ہے.پھر ہر چیز سے ہر آن اس کا ذاتی تعلق ہے.اسی نے انسان کو علم کے حصول کی طاقتیں بخشی ہیں اور تسخیر عالم کی قو تیں عطا کی ہیں لیکن انسان اپنی حصول علم کی کاوش میں اتنا ہی بڑھ سکتا ہے جتنا خدا چا ہے.اس سے آگے وہ جاہی نہیں سکتا.ایک طرف اللہ تعالیٰ کے علم کی غیر محدود وسعت اور اس کی غیر محدود قدرت اور دوسری طرف انسان کو حصول علم کی عطا ہونے والی محدود استعداد سے تین باتیں مستنبط ہوتی ہیں.اول یہ کہ ہمیں خدا داد استعداد
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۲۲ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۸۰ء کو کام میں لا کر حصول علم کی کوشش کرنی چاہیے.دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم علم حاصل نہیں کر سکتے.اور اس کی مدد کے بغیر ہم پر تحقیق کی راہیں نہیں کھل سکتیں اور تیسرے یہ کہ ہمیں حصول علم کی جدو جہد کے دوران دعا کے ذریعہ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے تا وہ رجوع برحمت ہو اور ہم پر حصول علم کی راہیں وا کرے.حصول علم کی یہ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہمارے ذہن نشین کرائی ہے.آپ فرماتے ہیں.تم خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہو گا.اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو.تا آسمان پر تمہاری مقبولیت لکھی جاوے.آپ کا یہ ارشاد کہ فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے حصول علم کے تعلق میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے.خدا تعالیٰ اس وقت ہی تعلیم دینے کے لئے فرشتوں کو مقرر کرے گا.جب ہم علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علمی ترقی کے لئے اس کے حضور دعائیں کریں گے.یہ غلبہ اسلام کے زمانہ کا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تو فیق چاہتے ہوئے اسلام کو عملاً غالب کرنے کی ذمہ داری ہماری جماعت پر ڈالی گئی ہے.غلبہ اسلام کا یہ جہاد صرف دینی میدانوں تک ہی محدود نہیں ہے یہ ذہنی اور اخلاقی میدانوں میں آگے بڑھنے تک محدود ہے بلکہ یہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ کر دوسروں سے سبقت لے جائیں.فی الوقت میں علمی ترقی کے میدان میں سبقت لے جانے کی اہمیت واضح کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں علمی ترقی بہت زیادہ ہونا تھی.انسان نے چاند پر قدم رکھنا تھا اور قریب ترین فاصلوں سے ستاروں اور سیاروں کی تصاویرا تار نا تھیں.انسان نے عملی ترقی کے میدان میں یہ کارنامہ سرانجام دے کر یہ سمجھ لیا کہ اس نے سب کچھ معلوم کر لیا ہے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۲۳ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۸۰ء لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے جو کارنامہ بھی سرانجام دیئے ان کی حیثیت روٹی کے جھڑنے والے چند بھوروں سے زیادہ نہ تھی ان لوگوں کے غرور کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے احمدیوں کے واسطے علم کے میدانوں میں ترقی کرنا ضروری ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک دعا سیکھائی گئی جو یہ ہے کہ رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الاشياء یعنی اے میرے رب مجھے اشیاء کے حقائق دیکھا.اس میں دراصل یہ بتانا مقصود تھا کہ علم ترقی کے لئے دعا کے ذریعے خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کرنا ضروری ہے مغربی اقوام نے دیگر علوم کی طرح نیوکلیر فزکس میں ترقی تو کی لیکن عارفانہ دعا کے فیض سے انہوں نے اپنے آپ کو محروم رکھا.اللہ تعالیٰ نے ان کی علمی ترقی کی لگن ، تڑپ اور جدو جہد کو ایک جاہل کی دعا کے طور پر ( جسے حضرت مسیح موعود نے ایک محبوبانہ دعا قرار دیا ہے ) قبول کر کے ان پر علمی ترقی کی راہیں کھول دیں ترقی تو انہوں نے کر لی.لیکن حقائق الاشیاء تک ان کی رسائی نہ ہوسکی.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ کی رو سے انہیں اپنی تحقیقات کو انسانوں کے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے کیا یہ کہ جاپان کے دو شہروں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا.ہمیں رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ کی دعا اس لئے سکھائی گئی ہے کہ ہم پر علمی میدان میں آگے بڑھنے کی راہ بھی کھلے اور ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا نور بھی ملے تاکہ ہم اپنی علمی ترقی سے بنی نوع انسان کو دکھ میں مبتلا نہ کریں اور انہیں سکھ پہنچا ئیں اور اسی طرح ان کے خادم بنے جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے.اسی لئے دنیاوی علوم کے بارہ میں ہمارے نقطہ نظر اور مغربی قوموں کے نقطہ نظر میں زمین و آسمان کا فرق ہے جنہیں دنیا محض دنیاوی علوم کہتی ہے ہم انہیں معرفتِ الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر دینی صداقت کے لئے آیت کا لفظ استعمال کیا ہے اسی طرح مظاہر قدرت کو بھی جن کا تعلق دنیوی علوم سے ہے اس نے آیت قرار دیا ہے.بخارات کو بھی اس نے آیت قرار دیا ہے اور بادلوں کو بھی پھر بارش کے برسنے کو بھی آیت قرار دیا ہے اور نہ برسنے کو بھی اس لئے کہ بادل وہیں برستے ہیں جہاں انہیں برسنے کا حکم ہو اور جہاں حکم نہ ہو وہاں نہیں برستے.کبھی وہ بادلوں کو حکم دیتا ہے کہ اس لئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۲۴ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۸۰ء برسو کہ بندوں کو اس کی ضرورت ہے اور کبھی حکم دیتا ہے کہ برسو تاز مین پر میرا قہر نازل ہو.برسنے کی ان دونوں حالتوں کو یا نہ برسنے کو اس نے اپنی اپنی جگہ آیت قرار دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا ہر جلوہ آیت ہے اور اس لئے آیت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کا ذریعہ ہے.اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ دنیوی علوم کی تحصیل کفر ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کے علم کی تحصیل کو کفر قرار دیتا ہے.سو یہ بالبداہت غلط ہے جس قدر انسان اس کی صفات کے جلوؤں سے آگاہ ہوتا ہے اسی قدر اس کی معرفت الہی بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کو بھی جانتا ہے اور اس کے جمال اور اس کی رحمت کو بھی پہچانتا ہے.بہر حال جن علوم کو دنیا د نیوی علوم کہتی ہے قرآن کریم نے انہیں بھی روحانی علوم قرار دیا ہے اور اس لئے قرار دیا ہے کہ وہ بھی معرفتِ الہی کے حصول کا ذریعہ ہیں.ہم احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کو کبھی فراموش نہیں کرنا اور اس کی معرفت کے حصول سے کبھی غافل نہیں ہونا.اسی لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ایک تعلیمی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا ہے اگر جماعت اس بارہ میں تعاون کرے اور میرے کہنے پر چلے تو علمی ترقی کی راہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ معرفتِ الہی میں ترقی کی بھی نئی راہیں کھل سکتی ہیں.اور قوم و ملک اور بنی نوع انسان کی خدمت بجالانے کی بعض نئی راہوں پر گامزن ہونے کی توفیق بھی مل سکتی ہے.میں نے کہا یہ ہے کہ ہمارا ہر بچہ میٹرک تک ضرور تعلیم حاصل کرے.جس ملک میں خواندگی کی شرح سترہ فیصد ہوا اگر اس میں جماعت کا ہر بچہ میٹرک پاس کرتا چلا جائے تو یہ امرخواندگی کی شرح میں اضافہ کا موجب ہوگا اور یہ ملک کی کتنی بڑی خدمت ہوگی.پھر اس منصوبہ کی افادیت کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو شخص ان پڑھ ہے وہ قرآن کو سمجھ ہی نہیں سکتا.برخلاف اس کے ایک میٹرک پاس میں قرآن کو سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح جو ذہین ہیں اور بی.اے، بی.ایس سی تک تعلیم حاصل کریں گے ان میں قرآن
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۲۵ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۸۰ء کو سمجھنے کی زیادہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی.علی ہذا جو ایم.اے ایم.ایس سی اور پی.ایچ.ڈی کریں گے ان میں قرآن کو سمجھنے کی اور بھی زیادہ اہلیت پیدا ہوگی.اس طرح ہمارے نوجوانوں میں قرآنی علوم و معارف سے فیضیاب ہونے کی راہیں بھی استوار ہوتی چلی جائیں گی.مزید برآں قرآنی علوم سے بہرہ رو ہونے کے نتیجہ میں ہمارے نوجوان دنیوی علوم میں ایسی دسترس حاصل کر سکیں گے جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوگی کیونکہ قرآن کریم ہر علم کے بارہ میں رہنمائی کرتا ہے.کوئی شعبہ علم ایسا نہیں جس کے متعلق قرآن میں ہدایت موجود نہ ہو.قرآن نے شہد کے متعلق دو تین آیات میں عظیم الشان ریسرچ کا منصوبہ پیش کیا ہے.اسے پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.آپ لوگ جب تک قرآن کی ہدایت کی روشنی میں علمی تحقیق نہیں کریں گے آپ دنیا کے رہنما نہیں بن سکتے.ہر بچہ میٹرک ضرور پاس کرے.یہ تو اس منصو بہ کی صرف ایک شق ہے.بورڈز اور یونیورسٹیوں کے امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کے لئے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے سکالرشپس کا اہتمام اور ذہین ترین یعنی جینیئس قسم کے نوجوانوں کی استعدادوں اور صلاحیتوں کے نشو و ارتقاء کا انصرام اس منصوبے میں شامل ہے.ہم پر خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے، کہ وہ جماعت کو ذہین بچے عطا کر رہا ہے.سب سے بڑی نعمت جس سے وہ اپنے بندے کو نوازتا ہے یہی ہوتی ہے کہ اس کے ہاں ذہین بچہ پیدا ہو جائے.ہم نے ہر بچہ کو شروع ہی سے سنبھالنا ہے اور درجہ بدرجہ اس کی تعلیمی ترقی کا ریکارڈ رکھنا ہے تاکہ کوئی ایک اعلیٰ ذہین بھی ضائع نہ ہونے پائے.خاص طور پر جو غیر معمولی طور پر ذہین اور جینیئس ہوں ان کی تعلیمی ترقی کی نگہداشت کرنا اور انہیں ضائع ہونے سے بچانا جماعت کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی لئے ہی یہ تعلیمی منصوبہ جاری کیا گیا ہے اور اس میں انعامی وظائف اور طلائی تمغے دیئے جانے کی گنجائش رکھی گئی ہے.ابھی تو میں نے اس منصو بہ کو پاکستان میں ہی جاری کیا ہے.دوسال بعد میں اسے ساری دنیا میں جاری کرنے کا اعلان کر دونگا.انشاء اللہ.الغرض تعلیمی ترقی کا ایک بڑا اچھا اور مفید منصوبہ شروع ہو گیا ہے اور علمی میدان میں ایک ایسی بنیا درکھ دی گئی ہے جس کے ذریعہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ علم کے میدان
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۲۶ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۸۰ء میں ترقی یافتہ قوموں سے سبقت لے جا کر اور اس طرح قرآنی علوم و معارف کی برتری ثابت کر کے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک اور بات جس کی طرف توجہ دینی ضروری ہے یہ ہے کہ اگر ذہین بچوں میں غذائیت کی کمی ہو تو وہ اسے پورا کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ان کی استعدادوں اور صلاحیتوں کی پورے طور پر نشو ونما ہو سکے.ایسے بچوں کو ایسی دوائیں دینی چاہئیں جن سے غذائیت کی کمی پوری ہو سکے.ان میں سے ایک سو یا لیسی تھین (Soya Lecithin 1200mg ) بھی ہے ہر بچہ کو اس کے کیپسول کھلا نا شروع کر دیں اور دعا بھی کریں پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ ان کے ذہنوں کو کس طرح تیز کرتا ہے اور حصول علم میں ان کے لئے کتنی آسانی اور سہولت پیدا ہوتی ہے.میں نے یہ تعلیمی منصوبہ ابھی یہاں ( مراد انگلستان.ناقل ) شروع نہیں کیا ہے لیکن آپ کی ذمہ داریاں ابھی شروع ہو چکی ہیں کیونکہ دو سال بعد اسے یہاں بھی جاری کرنا ہے.تم خدا سے مانگو اور جو مانگو گے وہ تمہیں دے گا.انسانی کوششیں کچھ چیز نہیں ہیں.جب تک وہ برکت نہ ڈالے.پس اس سے مانگو اور پاؤ.( دوره مغرب صفحه ۲۹۲ تا ۲۹۹)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۲۷ خطبه جمعه ۲۲ /اگست ۱۹۸۰ء و ہی مسجد صحیح معنوں میں مسجد ہے جو اللہ کی نگاہ میں مسجد ہو خطبه جمعه فرموده ۲۲ راگست ۱۹۸۰ ء احمد یہ مسجد - الارو ( نائیجیریا) حضور ایدہ اللہ نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.جماعت احمد یہ الا رونے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے محنت اور جانفشانی سے یہ مسجد تعمیر کی ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی یہ خدمت قبول فرمائے.فی الوقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے مساجد کے متعلق ہمیں کیا تعلیم دی ہے اور اس بارہ میں وہ ہمیں کیا ہدایات دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے مساجد کے متعلق یہ اعلان فرمایا ہے کہ اَنَّ المَسجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹) یعنی مساجد کی ملکیت اللہ کی ہے.کسی فرد یا جماعت کو اس کی ملکیت کا حق حاصل نہیں.پھر اللہ کی نگاہ میں صرف وہی مسجد صحیح معنوں میں مسجد ہے جو اللہ کی نگاہ میں مسجد ہو.اگر کوئی شخص شرارت کی نیت سے مسجد بناتا ہے تو وہ مسجد خدا کی نگاہ میں مسجد نہیں ہے اگر چہ اسے مسجد ہی کہا جائے گا.اب چونکہ مساجد اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں اس لئے ان کے استعمال کے متعلق ہدایات بھی وہی دے سکتا ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ وہ ہدایات دے.چنانچہ اس نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ مسجد کے دروازے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنا چاہے، اگر
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۲۸ خطبه جمعه ۲۲ /اگست ۱۹۸۰ء کوئی عیسائی خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور غیر مسلم چاہتا ہے کہ وہ خدائے واحد کی پرستش کرے، تو اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے کہ اس کو مسجد میں عبادت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا.جیسا کہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤحد عیسائیوں کے ایک وفد کو اپنی مسجد (مسجد نبوی) میں عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی.اور اجازت عطا ہونے پر انہوں نے مسجد نبوی میں اپنے طریق کے مطابق خدائے واحد یگانہ کی عبادت کی.ہر شخص جانتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے زیادہ کوئی مسجد دنیا میں عزت والی نہیں ہو سکتی.اگر مؤخد عیسائی مسجد نبوی میں عبادت کر سکتے ہیں، تو کسی مؤحد کو اس مسجد میں یا کسی اور مسجد میں عبادت کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے سو اسلام نے مسجد کے متعلق پہلی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ کسی مؤحد کو اس میں عبادت کرنے سے روکا نہیں جا سکتا.دوسری بات اسلام نے اس تعلق میں یہ بیان کی ہے کہ کسی ایسے شخص کو اللہ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں جو شرارت اور بری نیت سے اس میں داخل ہوتا ہے.ان دونوں باتوں سے ایک تو یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ اسلام امتیازات کو مٹانے والا ہے.یہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں کرتا.مسجد میں تمام لوگ مساوی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں.کوئی کسی سے بڑا نہیں ہوتا.دوسرے مذکورہ بالا دو شرائط سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد ایک مقدس جگہ ہے جو دعا اور ذکر الہی کے لئے مخصوص ہے.اور روحانی امور پر غور کرنے کے لئے ہے.اس لئے مسجد میں شور مچانے اور باہم جھگڑنے کی اجازت نہیں.مسجد کا ایک اور خوبصورت پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد بنی نوع انسان کی رہنمائی کا کام دیتی ہے.اس میں لوگ کائنات کی بنیادی حقیقتوں کا علم سیکھتے ہیں اور اسلام کی اصل حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد وہ اس قابل بنتے ہیں کہ دوسروں کو اللہ کی جنت کی طرف لائیں.مسجد میں آکر اور یہاں خدائے واحد کی عبادت بجالا کر اعلیٰ اخلاقی صفات اپنے اندر پیدا کی جاتی ہیں اور ایک مسلمان اس قابل بنتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنے.انسان کو مسجد میں بُرے اعمال اور بُرے خیالات سے نجات ملتی ہے.بعض اوقات مسافر اس میں آرام کرتے ہیں مسجد لوگوں کو
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۲۹ خطبه جمعه ۲۲ /اگست ۱۹۸۰ء ان کی معاشرتی ذمہ داریاں سمجھانے کا ایک ادارہ بھی ہے.الغرض مسجد کے بے شمار فائدے ہیں.جن میں سے میں نے اس وقت صرف چند ایک کا ذکر کیا ہے.تمہیں یہ امر ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اسے کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تم یہاں ( یعنی مسجد میں ) زبان سے اور دل سے خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے ، اس کا ذکر کرنے اور اس سے دعائیں کرنے آئے ہو.مسجد میں شور بالکل نہیں ہونا چاہیے تمہارا فرض ہے تم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے بن کر عبادت، دعاؤں اور ذکر الہی میں مسجد کے اندرا اپنا و وقت گزارو.میں دعا کرتا ہوں کہ تم نے جو یہ مسجد بنائی ہے یہ ہمیشہ آبا د ر ہے.اللہ تعالیٰ تم کو اور تمہاری آئندہ نسلوں کو اسے آباد رکھنے ، اس کے آداب کو ملحوظ رکھنے اور اس کے علمی ، دینی ، روحانی اور معاشرتی فوائد سے متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد میں تمہیں تمہاری ایک اور ذمہ داری یاد دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہو تمہیں اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر احمدی بچہ اور بچی حصول علم کے لئے سکول ضرور جائے.کوئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو سکول نہ جا رہا ہو.اور دل لگا کر تعلیم نہ حاصل کر رہا ہو.یہ اس لئے ضروری ہے اور تم اس سے بخوبی واقف ہو کہ جماعت احمد یہ جاہلوں کی جماعت نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے عالموں اور فاضلوں کی جماعت ہے.اور نسلاً بعد نسل اس کی اس حیثیت کا برقرار رہنا ضروری ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس کی ذات اور صفات کا علم حاصل کریں.ذات و صفات باری کے علم کو عربی زبان میں عرفانِ الہی یا معرفت الہی کہتے ہیں.یعنی اس بات کا حتی المقدور علم حاصل کرنا کہ قرآن کریم ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارہ میں کیا تعلیم دیتا ہے.وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ اس کا ئنات اور اس کی ہر شئے کا خالق ہے ، وہ مالک ہے، علیم ہے، خبیر ہے، عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے ، وہ اپنی پیدا کردہ مخلوق کو ، ہر ایک ذرہ کو اور اس میں ودیعت کردہ خواص کو پوری تفصیل اور جامعیت کے ساتھ جانتا ہے اس کا علم ہر ایک شے پر محیط ہے.کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں.اسی طرح تمام مادی علوم بھی اسی کی ذات اور صفات کو آشکار کرنے والے ہیں کیونکہ یہ سب علوم جنہیں عرف عام میں مادی یا دنیوی علوم کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۳۰ خطبه جمعه ۲۲ راگست ۱۹۸۰ء مختلف جلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں جتنا تم اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کا علم حاصل کرو گے اتنا ہی زیادہ مادی علوم کا صحیح ادراک تمہیں حاصل ہو گا اور جتنی مادی علوم کی تحصیل تم کرو گے اتنا ہی زیادہ صفات الہیہ کے جلوؤں سے تمہیں آگاہی حاصل ہوگی.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفات اور کائنات میں ظاہر ہونے والے ان صفات کے جلوؤں کا علم حاصل کرو تا کہ معرفت تمہاری ترقی پذیر ہو اور تم اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد بنو.اسی لئے اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ تم دینی علوم بھی حاصل کرو اور ہر مادی علم بھی سیکھو.حضرت مہدی علیہ السلام اس لئے بھیجے گئے تھے کہ تمام مذاہب عاجز آ کر اسلام کے آگے ہتھیار ڈال دیں.اور اسلام تمام بنی نوع انسان کے دل جیت کر روئے زمین پر غالب آئے.ہم اس عظیم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.جب تک کہ ہم دشمنانِ اسلام کو علمی میدان میں شکست نہ دیں.پس علمی میدان میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو.علم اور معرفت میں ایسا کمال حاصل کرو کہ کوئی اس میدان میں تمہارا کوئی مقابلہ نہ کر سکے.خدائی منصوبہ کی رو سے تم نوع انسانی کے مستقبل کے استاد ہو.اپنی اس حیثیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھو اور جس حد تک خدا چاہتا ہے بنو کہ ہم علم حاصل کریں تم اس حد تک علم حاصل کر کے اس کے منشا کو پورا کرنے والے بنو.بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگ بھی علم حاصل کر سکتے ہیں اور انہیں حتی المقدور ضرور حاصل کرنا چاہیے.میں جانتا ہوں کہ جہاں تک علم حاصل کرنے کا تعلق ہے بڑی عمر کے لوگوں کے راستہ میں بعض رکاوٹیں ہیں لیکن اگر تمہارے بچے اعلیٰ ترین تعلیم حاصل نہیں کرتے تو اس کا کوئی عذر تمہارے پاس نہیں ہے.پس اپنے بچوں کو سکول بھیجو اور اس امر کی پوری نگرانی کرو کہ وہ دلی لگن اور شوق کے ساتھ تعلیم کو جاری رکھیں اور حسب استعداد اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہ کریں.اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق عطا کرے اور تمہارا حامی و ناصر ہو.آمین دوره مغرب صفحه ۳۹۳ تا ۳۹۷) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۳۱ خطبه جمعه ۲۹ راگست ۱۹۸۰ء غانا کے احمدی اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے درد و الحاح سے دعائیں کریں خطبه جمعه فرمود ه ۲۹ /اگست ۱۹۸۰ء بمقام سالٹ پانڈ (غانا) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد انگریزی میں بہت ایمان پرور اور بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس کا مکرم عبد الوہاب بن آدم وہاں کی مقامی زبان میں ساتھ کے ساتھ ترجمہ احباب کو سناتے رہے.حضور نے قرآن مجید کی رو سے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیوں کو ایمان حقیقی کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے اور ان کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سچے اور حقیقی مومن ہیں.حقیقی ایمان، اس کی کیفیات اور ثمرات کو تفصیل سے واضح کرنے کے بعد حضور نے احمدی مردوں ، عورتوں، نوجوانوں اور نیشنل امیر جناب عبد الوہاب بن آدم کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کر کے انہیں ان کی اہم اور عظیم ذمہ داریاں یاد دلائیں اور ان کی کماحقہ ادائیگی کے سلسلہ میں بیش بہا نصائح سے سرفراز فرمایا.اور غانا کے احمدیوں کو خاص طور پر توجہ دلائی کہ وہ اپنے ملک کی اقتصادی بحالی اور ترقی و خوشحالی کے لئے ہر روز پانچوں نمازوں میں بہت دور والحاح سے دعائیں کریں.نیز حضور نے بلا تفریق مذہب و ملت غانا کے ان طلباء کے لئے جو
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۳۲ خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۸۰ء اہلیت کی بناء پر اعلی تعلیم کے حصول کے لئے پاکستان آنا چاہیں چار وظائف کا اعلان فرمایا اور آخر میں احباب غانا کو بہت بیش قیمت دعاؤں سے نوازا.دوره مغرب صفحه ۴۳۰،۴۲۹)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۳۳ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۰ء اپنی نسلوں کو لعنت خداوندی سے بچانے کی فکر کریں خطبه جمعه فرموده ۵ رستمبر ۱۹۸۰ء بمقام ٹورانٹو ( کینیڈا) حضور نے خطبہ جمعہ کے و آغاز میں فرمایا مجھے قریباً چار سال بعد یہاں آنے کا اتفاق ہوا ہے اور جو بات میں نے شدت سے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کی جماعت میں اخلاص تو ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے.یہ امر میرے لئے تکلیف کا موجب ہوا ہے.جب میں ۱۹۷۶ء میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو میرا خیال تھا کہ چونکہ آپ کے ہاں کوئی مربی نہیں ہے اس لئے خاطر خواہ تربیت نہیں ہو سکی.اس کے بعد مربی بھجوایا گیا.میں نے محسوس کیا ہے کہ چار سال گزرنے اور مرتی موجود ہونے کے باوجو دتربیت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے.اس ضمن میں حضور نے مزید فرمایا کہ تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ہر احمدی سوچے اور غور کرے نیز جانے اور پہچانے کہ وہ ہے کون.جب تک ہر احمدی کو اس عظیم مقصد کا احساس نہیں ہوتا جس کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند کے طور پر مبعوث کیا گیا ہے اس وقت تک اس میں تربیت کی اہمیت کا احساس اجاگر نہیں ہوسکتا.اس کے بعد حضور نے اس امر کو واضح کر کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور روئے زمین کے ہر انسان کا آپ کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۳۴ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۰ء دامنِ رحمت سے وابستہ ہونا ضروری ہے اس امر پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی کہ اس آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعود مبعوث اس لئے کئے گئے ہیں کہ آپ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کر کے پوری نوع انسانی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے جھنڈے تلے دین واحد پر جمع کر دکھا ئیں.حضور نے اس عظیم مقصد کے بتدریج پورا ہونے اور غلبہ اسلام کے خدائی سامانوں کے مسلسل منصہ شہود پر آنے کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ مذہب کا تعلق دل سے ہے اور اس کے لئے دلائل اور معجزات کی ضرورت ہے اور پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کیا جائے تاکہ لوگوں کے دل بدلیں اور وہ دلائل اور معجزات کا اثر قبول کر کے اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں.دلائل و معجزات کی اس جنگ میں فتحیاب ہونے کے لئے اس قسم کی تربیت کی ضرورت ہے جس قسم کی تربیت صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حاصل کی تھی یا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب نے حاصل کی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں نشانات دکھانے والے ہزاروں کی تعداد میں پیدا ہوئے.اللہ تعالیٰ نے آئندہ نسلوں کی اس رنگ میں تربیت کرنے کے لئے کہ ان کے ذریعہ نشانات الہیہ کا سلسلہ جاری رہے اور اسلام دنیا میں غالب آتا چلا جائے جماعت احمدیہ میں خلافت کے نظام کو قائم فرمایا ہے.دنیا میں اُمتِ واحدہ خلافت کے ذریعہ ہی قائم ہو سکتی ہے اور اسی کے ذریعہ اس کے قیام کے سامان ہوتے چلے آرہے ہیں.اس ضمن میں حضور نے واضح فرما یا.خلافت احمدیہ کو دنیوی اقتدار، سیاست اور بادشاہت سے نہ کوئی واسطہ ہے نہ دلچسپی اور نہ کبھی یہ اس میں دلچسپی لے گی.یہ ایک خالصہ روحانی نظام ہے اور اس کا مقصد دلائل و براہین، آسمانی نشانوں اور دعاؤں کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کو اُمتِ واحدہ بنانا ہے.حضور نے احباب جماعت کو اپنی اور اپنی اولادوں کی خالص اسلامی رنگ میں تربیت کرنے اور وہاں کے ماحول میں اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے کی نہایت پر زور الفاظ میں تلقین کرتے ہوئے فرمایا.خواتین کو سختی سے پردہ کی پابندی کرنی چاہیے.اگر خولہ جنگ یرموک میں بہادری کے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۳۵ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۰ء کارنامے سرانجام دیتے ہوئے پردہ کر سکتی تھی تو آپ کو یہاں جبکہ دلائل اور نشانات کی جنگ لڑی جا رہی ہے پردہ کرنا چاہیے اور اسلام کا ہر لحاظ سے عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے.پھر یہ امر بھی یا درکھیں کہ جس طرح لاطینی اور یونانی عیسائیت کی زبانیں بنیں اسی طرح اب عربی اور اردو اُمتِ واحدہ کی زبانیں بننے والی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بچو کو اردو نہیں آتی اور بڑے فخر کرتے ہیں آپ کہ آپ کے بچوں کو انگریزی آگئی ہے.آپ کا فخر اس میں نہیں کہ آپ کے بچے اردو بھول گئے آپ کا فخر اس میں ہے کہ آپ کے بچوں کو عربی اور اردو دونوں زبانیں آتی ہیں جو امت واحدہ کی زبانیں بننے والی ہیں.حضور نے بہت پر جلال لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اپنی نسلوں کو لعنت خداوندی سے بچانے کی فکر کریں اور ان کی اسلامی رنگ میں تربیت کریں ورنہ آئندہ نسلیں آپ پر لعنت بھیجیں گی کہ ہمارے والدین نے اردو نہ پڑھا کر ہمیں روحانیت کے سرچشمہ سے محروم کر دیا.اگر آپ اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے انہیں دین نہیں سکھا ئیں گے اور انہیں یہاں کے رنگ میں رنگین ہونے دینگے تو خدا تعالیٰ آپ کی اولا دوں کو دھتکار دے گا.وہ اور قوموں کو آگے لے آئے گا جو اعمال صالحہ بجالانے والی اور دین کی خدمت کرنے والی اور اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے والی ہوں گی.حضور نے نہایت پر زور الفاظ میں خبر دار کرتے ہوئے فرمایا اگر ایسے لوگوں نے اپنی اصلاح نہ کی اور مجھے سب کو جماعت سے خارج کرنا پڑا تو میں ایسا کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاؤں گا.خدا میں ہو کر زندگی گزاریں ورنہ آپ کا مستقبل مجھے بہت تاریک نظر آ رہا ہے.آپ لوگوں کی حالت پر رات میری طبیعت میں بہت غصہ تھا.نصف شب کے بعد میں جب بیدار ہوا تو غصہ جاچکا تھا اور اس کی جگہ پیار نے لے لی تھی.میں نے بہت دعائیں کیں.خدا تعالیٰ میری دعائیں قبول فرمائے اور آپ کی زندگیوں میں انقلاب آئے.آپ میں اور دوسروں میں نمایاں فرق نظر آنا چاہیے اور تبدیلی محسوس ہونی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر قرآن سورۃ کہف تک چھپ چکی ہے اسے منگوا ئیں اور پڑھیں.اگر اصل منبع سے آپ کا تعلق قائم نہیں ہے تو آپ خشک ٹہنی کی
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۳۶ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۰ء طرح ہو جائیں گے یہ قانونِ قدرت ہے اس سے مفر نہیں.خدا کا پیار حاصل کریں اور اس کے لئے خدا میں ہو کر زندگی گزاریں اور اگر خدا میں ہو کر زندگی گزارنا نہیں چاہتے تو جہاں جی چاہے چلے جائیں احمدیت میں نہ رہیں.(دوره مغرب صفحه ۴۴۲ تا ۴۴۶
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۳۷ خطبه جمعه ۱۲ ر ستمبر ۱۹۸۰ء ضروری ہے کہ ہم مغربی تہذیب سے بکلی کنارہ کش رہتے ہوئے اسلام پر عمل پیرا ہوں خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ رستمبر ۱۹۸۰ء بمقام والنٹ کریک ، سان فرانسسکو (امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اولاً تو اس امر پر روشنی ڈالی کہ ہم احمدیوں کا مذہب صرف اور صرف اسلام ہے خالص حقیقی ، اصل اسلام اور حمد اللہ تعالیٰ ہم سچے اور حقیقی مسلمان ہیں.بعد ازاں حضور نے واضح فرمایا کہ احمدیت ہمارے کندھوں پر عظیم ذمہ داری ڈالتی ہے اور اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنا ہمارا ایک اہم بنیادی فرض ہے.حضور نے اس عظیم ذمہ داری کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا.احمدیت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم جملہ احکام قرآنی پر عمل پیرا ہو کر اسلام کے مطابق زندگی گزار ہیں اور دنیا کے سامنے اپنی زندگیوں میں اسلام کا عملی نمونہ پیش کریں.فرمایا اسلام پر ایمان لانے اور مسلمان ہونے کا زبانی دعویٰ محض بے معنی ہے.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں زبانی دعوے کی کوئی قیمت نہیں.اصل اہمیت اپنے عمل سے مسلمان ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کو حاصل ہے چاہیے کہ اسلام ہی ہماری روح اور ہماری زندگی ہو.فرمایا:.اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک ہم مغربی قوموں کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش نہیں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۳۸ خطبه جمعه ۱۲ ستمبر.١٩٨٠ء کریں گے اس وقت تک ہم انہیں اسلام کی طرف مائل نہیں کر سکیں گے.یہاں کے لوگ اگر متاثر ہوں گے تو عملی نمونہ سے ہوں گے نہ کہ محض زبانی پیش کئے جانے والے دلائل سے.جب میں یہاں کی قوموں کے سامنے اسلام کی حسین اور دل موہ لینے والی تعلیم پیش کرتا ہوں تو لوگ اسلام کے حُسن کا اقرار کرنے کے بعد ساتھ ہی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ بتائیے کہ کون سا ملک یا مسلمانوں کا کون سا طبقہ ایسا ہے جو ایسی حسین اور بے مثال تعلیم پر عمل کر رہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب دینا میرے لئے مشکل ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے سوا کوئی بھی حقیقی معنوں میں اسلام کا عملی نمونہ پیش نہیں کر رہا.اس زمانہ میں یہ ذمہ داری احمدیوں کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کو پھیلا ئیں.ہم اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم میں سے ہر احمدی اپنی زندگی میں اسلام کا عملی نمونہ پیش نہ کرے.ہمیں وعدہ دیا گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قول اور فعل سے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کریں گے اور اپنی اس کوشش کو کمال تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے تو ہم ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنانے میں ضرور کامیاب ہوں گے.اس کے ساتھ ہی ہمیں خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر اس کی سزا بھی بہت سخت ہے.اس ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغربی تہذیب سے بکلی کنارہ کش رہتے ہوئے اسلام پر عمل پیرا ہوں اور اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کوشاں رہیں.آج تہذیب کے معنی اباحتی زندگی گزارنا ہیں.حالانکہ بے قید زندگی گزار کے حرام کے بچے جننا تو تہذیب نہیں ہے.حیوانوں کی سی زندگی گزارنے کو کیسے تہذیب قرار دیا جا سکتا ہے.حیوان اور انسان میں بہر حال فرق ہونا چاہیے.ہمارا کام ان لوگوں کو جو حیوان کی سی زندگی گزار رہے ہیں دوبارہ انسانی زندگی کے قابل بنانا ہے.آج خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مغربی تہذیب سے بکلی مجتنب رہتے ہوئے اسلام پر کماحقہ عمل پیرا ہو اور اپنی زندگی میں اسلام کا عملی نمونہ پیش کرے تا کہ دوسروں کو اسلام کی طرف مائل کر
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۳۹ خطبه جمعه ۱۲ ر ستمبر ۱۹۸۰ء کے اُن کی زندگیوں میں انقلاب لانے کی کوشش کرے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق دے کہ وہ خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق زندگی گزار کر اس کی خوشنودی حاصل کر سکے.دورہ مغرب صفحه ۴۷۸ تا ۴۸۰)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۴۱ خطبه جمعه ۱۹ رستمبر ۱۹۸۰ء قرآن مجید کی لازوال و بے مثال تعلیم میں اس زمانہ کے مسائل کا بھی پورا پورا حل موجود ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ رستمبر ۱۹۸۰ء بمقام احمد یہ مسجد (واشنگٹن) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد قرآن مجید کی متعدد آیات سے استدلال کر کے احباب کو تلقین فرمائی کہ وہ اس امر کی پرواہ نہ کریں کہ دوسرے انہیں کیا کہتے ہیں اور کیا نہیں کہتے بلکہ فکر اس بات کی کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مومن بنے رہیں اور خدا کی نگاہ میں مومن وہی ہوتے ہیں جو اپنے عمل سے ثابت کر دکھاتے ہیں کہ وہ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے مصداق ہیں.حضور نے فرمایا ہم حضرت مہدی علیہ السلام کے پیرو ہیں.آپ کی بعثت کی غرض يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ تھی اس کی رو سے آپ لوگوں کو قرآن کا پیرو بنا کہ انہیں نئی زندگی سے ہمکنار کرنے آئے تھے.آپ کے پیرو ہونے کی حیثیت میں ہمارا فرض منصبی یہ ہے کہ ہم روئے زمین کے ان لوگوں کو جو کالمیت کے حکم میں ہیں نئی زندگی سے ہمکنار کریں اور یہ امر ان کے ذہن نشین کرائیں کہ تم اسلام کی لازوال و بے مثال شریعت پر عمل پیرا ہو کر ہی زندہ ہو گے.اس اہم مقصد میں ہم جبھی کامیاب ہوں گے کہ ہم قرآن کو پڑھیں اور اس کی تعلیم پر خود عمل پیرا ہوں.اگر ہم خود اسلام
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۴۲ خطبه جمعه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۸۰ء پر عمل کریں گے اور اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے تب ہی ہم دوسروں کو زندہ کرنے کے اہل بنیں گے.حضور نے فرمایا ایک احمدی کو لازمی طور پر اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے.اس صورت میں ہی وہ نوع انسانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دین واحد پر جمع کرنے میں کامیاب ہوگا.خطبہ کے دوران حضور نے قرآن کا عملی نمونہ پیش کرنے کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے ذریعہ رونما ہونے والے عظیم انقلاب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈال کر واضح فرمایا کہ اس انقلاب عظیم کے نتیجہ میں دنیا نے احیاء موتی کا ایک عدیم النظیر نظارہ دیکھا.اگر ہم قرآن پر عمل کر کے اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے میں اپنی استعداد کی آخری حد تک کوشش کر دکھا ئیں گے تو ا احیاءِ موتی کا ایسا ہی نظارہ اس زمانہ میں بھی ظاہر ہوگا.حضور نے بعض مثالیں دے کر اس امر پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی کہ قرآن مجید کی لازوال و بے مثال تعلیم میں اس زمانہ کے مسائل کا بھی پورا پوراحل موجود ہے.( دوره مغرب صفحه ۴۹۵ و ۴۹۶)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۴۳ خطبه جمعه ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء چین میں مسلمانوں کے تنزل کا سبب تعلق باللہ کو توڑنا اور صراط مستقیم سے دوری تھا خطبه جمعه فرموده ۱۰ / اکتوبر ۱۹۸۰ ء بمقام پید روآباد ( قرطبہ ).سپین تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے حسب ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.(ال عمران : ٩) پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم نے جو دعا اس آیت میں ہمیں سکھائی ہے جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے اس کی ضرورت اور اہمیت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے پین میں آجاتی ہے.قریباً چھ صدیاں اُمت مسلمہ کے اس حصہ نے جو یہاں رہائش پذیر تھا اور یہاں کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں تھی انہوں نے صراط مستقیم کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ سے ان کا اتنا مضبوط تعلق تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اور دنیا کی کوئی کشش اور رغبت اس تعلق کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی اور قریباً چھ صدیاں اللہ تعالیٰ نے ان پر اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن: ۲۱) موسلا دھار بارش کی طرح ظاہری اور باطنی نعمتیں نازل کی تھیں.عملی میدان میں ساری دنیا کی بادشاہت ان
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۴۴ خطبه جمعه ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء کے ہاتھ میں تھی.روحانی طور پر بھی بڑے بزرگ انہوں نے پیدا کئے اور اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ (ال عمران: ۲۷) اس زمانہ میں ان کی زندگی نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ التجا کی تھی کہ اگر ہمارے ہاتھ میں مملکت رہے تو تیری مخلوق کو فائدہ پہنچے گا بجائے اس کے کہ کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے اور خدا تعالیٰ جس نے انہیں پیدا کیا اور ایسا بنا یا جیسا وہ تھے ان کی اس قابلیت کو جو اُسی نے دی تھی دیکھتے ہوئے ان کو یہ موقع دیا کہ وہ انسانیت کی خدمت کریں.بڑے بڑے لاٹ پادری ان کے مدرسوں میں آکر علم حاصل کرتے تھے.علم کے میدانوں میں اس قدر آگے نکلے کہ آج بھی وہ دنیا جو اس روشن ماضی کو بھول چکی ہے ان کارناموں سے انکار نہیں کر سکتی ، نہ کرتی ہے.اقرار دبی زبان سے کرتی ہے، دھیمی آواز میں کرتی ہے مگر ان کا احترام کرتے ہیں، انکار نہیں کرتے.پھر دنیا نے انہیں اپنی طرف راغب کر لیا.دنیا کی رغبت اور اس کا زہر آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے وہ محروم ہوتے رہے اور وہ جو بارہ ہزار کی تعداد میں یہاں آئے ان کے مقابل عیسائی جن کا ملک تھا یہ لاکھوں کی ان کی فوج تھی اور اکیلا یہ ملک ہی نہیں تھا کہ ایک جزیرہ ہے پین ، جس کے چاروں طرف سمندر ہے جو فوج ان کے پاس ہے بس اسی سے انہوں نے کام لینا ہے.ان کی پشت کے ساتھ ان کے ممد اور معاون اور ہم مذہب اور اتنے ہی متعصب اسلام کے خلاف جتنے یہ خود تھے فرانس تھا پھر اس کی پشت کے ساتھ جرمنی لگا ہوا تھا، پھر سارا یورپ جو تھا وہ ان کو مدد دینے کے لئے تیار تھا.ایک وقت تھا جب بارہ ہزار ان لاکھوں کے مقابلے میں کافی تھے اور ایک وہ وقت آیا جب ان کے دل صراط مستقیم کو چھوڑ کر کج راہوں پر چلنے لگے اور ان کے ذہنوں میں نور کی بجائے ظلمتیں بسیرا کرنے لگیں اور ان کی روح اللہ تعالیٰ کے پیار کے سایہ سے نکل کر شیطانی آگ میں لذت پانے لگی.جب لاکھوں بن گئے اس وقت لاکھوں کا مقابلہ نہیں کر سکے.جب بارہ ہزار تھے تو لاکھوں پر بھاری تھے.جب لاکھوں بن گئے تو شاید دشمن ان سے کم ہوں تعداد میں وہ ان پر بھاری ہو گئے.ربنا لا تزغ قلوبنا اس واسطے دعا سکھائی خدا نے ہمیں بڑے پیار سے.یہ دعا کرتے رہو ہدایت پانا بھی اس کے فضل سے ہوتا ہے، ہدایت پر قائم رہنا بھی اس کی.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۴۵ خطبه جمعه ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء مدد اور رحمت کے بغیر ممکن نہیں.وہ خود ہی راہنمائی کرے تو سیدھا راستہ سامنے نظر آتا رہتا ہے ور نہ انسان کی نظر بھٹکتی اور پاؤں میں لغزش پیدا ہو جاتی ہے.وہ جو آسمان کی بلندیوں تک پہنچے تھے سمندروں کی گہرائیوں میں ان کی ہڈیوں کا بھی نشان نہیں ہمیں ملتا کچھ ان کے کارناموں کے خال خال نقوش نظر آتے ہیں.غرناطہ میں الحمرا ہے قرطبہ کی مسجد ہے وہ بھی بہت کچھ خراب ہو چکی مرورِ زمانہ یا تعصب دشمنان کے نتیجے میں لیکن ان کے نشانات نظر آتے ہیں ان پر.آج صبح ہم مسجد دیکھنے گئے تو محراب کی چھت جو تھی اس کے اوپر جو نقش و نگار تھے ان میں بھی خدا تعالیٰ کی صفات کی عظمت کو انہوں نے نمایاں کیا ہوا تھا.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأن (الرحمن : ۳۰) تنوع بھی تھا اور اس میں وحدت بھی جھلک رہی تھی اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کی لیکن وہ انسان جس کو خدا نے یہ سب کچھ کرنے کی توفیق عطا کی وہ تو ضلالت کے گڑھے میں گر گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ صرف ایک انسان تھا جس نے اپنے کردار سے اسلام کی عظمت کو قائم رکھا.اس نے کہا شکست نہیں تسلیم کرنی ، لڑنا چاہیے.اگر نہیں لڑتے تو میں جاتا ہوں.وہ اکیلا گھوڑے پر سوار ہوا اور غرناطہ کے قلعہ سے نکلا اور خدا جانے کہاں گیا ؟ اغلب یہی ہے کہ وہ اکیلا دشمن کی کسی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا.اگر وہ اس وقت علماء ظاہر کی بحثیں سننے میں اپنا وقت ضائع نہ کرتے جب وہ اس پریشانی کے وقت میں غرناطہ کے چوراہوں میں ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کر کے آپس میں بغض اور عناد کی آگ کو ہوا دے رہے تھے اور خدائے واحد و یگانہ کی طرف توجہ کرتے اور خدا کے ہو کر خدا کے لئے لڑتے تو یقیناً دشمن کو شکست دیتے اور یہ خلیہ نہ ہوتا جو آج اس ملک کا نظر آتا ہے.قریباً آٹھ صدیاں ، ساڑھے سات سو سال کم و بیش یہاں مسلمان نے حکومت کی.حکومت کے ظلم سے نہیں انصاف کے ساتھ.غرناطہ میں الحمرا میں جوگا ئیڈ ملا وہ کہتا تھا کہ میں بھی ایک مسلمان خاندان کا عیسائی بیٹا ہوں اور پھر یہ دیکھیں ( وہ کہہ رہا تھا ) مسلمان بادشاہوں نے اتنا عدل قائم کر رکھا تھا کہ چھوٹی چھوٹی جو چپقلش ہو جاتی ہے، رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں، بدمزگیاں ہوتی ہیں فضا کو خراب کرتی ہیں ، ان سے بھی بچانے کے لئے عیسائیوں کے علیحدہ کوارٹر، محلے بنا دیئے تھے.شہر کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۴۶ خطبه جمعه ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء ایک حصہ تھا اس میں عیسائی تھے ، ان کے گرجے تھے ان کے پادری تھے، وہ جس طرح چاہتے تھے وعظ کرتے تھے.یہودیوں کا ایک علیحدہ علاقہ اور جیپسی (Gipsy) جن کو آج بھی غیر مسلم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کا جو تمدن اور ثقافت تھی اس کو نہیں چھیڑا.وہ چاہتے تھے کہ کیوز (Caves) میں جو وہاں ان کو میسر آتی تھیں اُن میں رہیں اور جب دل کرے خانہ بدوش بن کے ادھر اُدھر پھرتے رہیں.حکم تھا، تم جس طرح چاہتے ہو اپنی زندگی گزارو.آج بھی وہ کیوز (Caves) میں ہیں لیکن آج وہ عزت اور احترام جو ایک مسلمان انہیں دیتا تھا اس عزت اور احترام سے وہ محروم ہیں.اس مہذب دنیا میں، اُس مہذب دنیا میں جو حقیقی معنی میں مہذب تھی وہ محروم نہیں تھے.پھر مسلمانوں کے کوارٹرز تھے.عیسائیوں کو گرجے بنانے کی اجازت تھی، مسلمانوں کو گرجے گرانے کی اجازت نہیں تھی.ہمارا گائیڈ کہنے لگا وہ جو سامنے آپ کو بہت بڑا گر جا نظر آتا ہے یہ مسجد تھی جسے گر جا بنایا گیا.اس کے صحن میں ابھی وضو کر نے کے لئے جوا نتظام ہوا کرتا تھا وہ موجود ہے.بہر حال زمانہ کروٹ نہیں بدلتا انسان کا دل کروٹ بدلتا ہے اور دنیا بجھتی ہے کہ شاید زمانہ بدل گیا.جب تک انسان خدا کا ہو کر خدا میں زندگی بسر کرتا رہے زمانہ جو کچھ بھی کرے گا اس کے حق میں کرے گا.اور جب یہ تعلق ٹوٹ جائے اور انسان خدا کی بجائے شیطان کی گود میں اپنے آپ کو بٹھا دے، پھر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی توقع رکھے یہ حماقت ہے، وہ تو نہیں اس کو مل سکتی.رحمت تو تبھی ملے گی جب انسان سمجھے کہ جو کچھ ملا، وہ خدا سے ملا ، جو کچھ مل سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ہی مل سکتا ہے اور ہدایت کی اس روشنی کو اور ٹور کے اس جلوہ کو دیکھنے کے بعد پھر بہک جانا اور ٹور کی بجائے ظلمت میں آجانا اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر کج روی کو اختیار کر لینا، اتنا بڑا ظلم ہے جو انسان اپنے پر کرتا، جو انسانی نسلیں اپنے پر کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کے لئے ہمیں یہ دعا سکھا دی ربنا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا - اب ایک نیا دور شروع ہوا ہے عظمتِ اسلام کا.مہدی آگئے اور جس صدی میں آنے کی بشارت دی گئی تھی وہ صدی اختتام پر ہے.بہت سے لوگ -
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۴۷ خطبه جمعه ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء اب اس صدی کے ان آخری دنوں میں کہہ رہے ہیں، کہ ہم انتظار کر رہے ہیں.پہلا دن جو پندرھویں صدی کا ہوگا اگر اس دن تک مہدی اور مسیح آسمان سے نہ آئے تو ہم بیعت کر لیں گے.خدا معلوم وہ اس دن تک زندہ رہتے ہیں یا نہیں.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت مسلمہ متحد ہو کر یہ اعلان کر چکی ہے کہ آنے والے نے جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا تھا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كله (الصف:۱۰) اس کے زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی.اس کا زمانہ چودھویں صدی ہے، وہ چودھویں صدی آگئی.نشان پورے ہو گئے.چاند اور سورج نے گواہی دی اور سینکڑوں اور نشان ہیں.ہمارے علماء کی تھیں پیشگوئیاں.وحی کے ذریعہ ، رویاء صادقہ کے ذریعہ زمانہ کی تعین کی گئی ہے کہ اتنے زمانہ بعد آئے گا، قریباً پانچ سو سال پہلے کہا پانچ سو سال بعد آئے گا.ایک بزرگ حج کرنے گئے.خانہ کعبہ میں ان کو نیند آ گئی.وہاں انہوں نے عجیب خواب دیکھی.انہوں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے، اس پر ایک مریض پڑا ہوا ہے اور بہت سے معالج ، طبیب اطبا ، ڈاکٹر اس کے گرد ہیں اور وہ اس کا علاج کر رہے ہیں اور اس کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا اور ان کو خواب آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے دعوی سے کوئی آٹھ دس سال پہلے کہ چند قدم کے فاصلہ پر ایک طبیب بیٹھے ہیں اور وہ اس کی طرف توجہ نہیں کر رہے بیمار کی طرف اور خواب میں ان کو بتایا گیا کہ اگر یہ طبیب توجہ کرے تو بیمار کو صحت ہوسکتی ہے.لیکن وہ توجہ نہیں کرتے ، وہ بڑے پریشان ہوئے.واپس گئے ، ان کے ایک پیر تھے انہوں نے ان سے پوچھا خانہ کعبہ میں میں نے یہ خواب دیکھی ہے اور مجھے اس کی تعبیر نہیں معلوم اور میں پریشان ہوں، میری طبیعت پر بڑا اثر ہے مجھے تعبیر بتائیں.انہوں نے جواب دیا کہ جو تم نے مریض دیکھا، وہ اسلام ہے اور اسلام کی حالت نا گفتہ بہ ہے اور جو تم نے دیکھا کہ بہت سے اطباء اس کے گرد منڈلا رہے ہیں اور علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ میرے تیرے جیسے طبیب ہیں اور جو تم نے دیکھا کہ چند قدم کے اوپر ایک شخص بیٹھا ہے، ایک طبیب بڑا ماہر اور تمہیں بتایا گیا کہ یہ توجہ کرے تو اسے صحت ہو سکتی ہے وہ آنے والا مہدی ہے اور خواب میں تمہیں زمانہ، مکان کی
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۴۸ خطبه جمعه ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء شکل میں دکھایا گیا ہے اور چند سال میں وہ آجائے گا اور چند سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا.ہزار ہا پیشگوئیاں ہیں ، دلائل ہیں ، نشان ہیں، آیات ہیں، ہمعجزات ہیں جنہوں نے حضرت مہدی علیہ السلام کی صداقت کو ثابت کیا ہے.لیکن جنہوں نے نہیں مانا تھا وہ نہیں مانے.اور چودھویں صدی اب ختم ہو رہی ہے اور غالباً ۸ / نومبر کو پندرھویں صدی کا پہلا دن ہے.غالباً میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک آدھ دن چاند کی وجہ سے آگے پیچھے ہو سکتا ہے.اس دن ہر احمدی کو چاہیے کہ ہر مسلمان کو بتائے کہ چودھویں صدی ختم ہو گئی، تمہاری ساری اُمید میں بھی ختم ہو گئیں.اس صدی میں، چودھویں صدی میں ایک نے دعوی کیا اس کے لئے نشان پورے ہو گئے.تم انتظار کرتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے کہ انتظار کرو اور سجدوں میں گر کے رو رو کر دعائیں کرو.تمہارے ناک رگڑے جائیں اور زخم پڑ جائیں خدا تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا، اس واسطے کہ خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا.تو ان کو کہو کہ اگر ذرہ بھی تمہارے دل میں ایمان ہے تو آج کا دن پکار پکار کر تمہیں کہہ رہا ہے کہ آج تم احمدیت میں داخل ہو جاؤ.خدا کرے کہ ان کو سمجھ آ جائے لیکن ان کو تو جب سمجھ آئے گی، آئے گی جو ہماری ذمہ داریاں ( ہیں ) ہمیں چاہیے ان کو نبھا ئیں.پس آپ بڑی کثرت سے یہ دعا کیا کریں کہ آپ کو خدا نے ہدایت دی ہے رَبَّنَا لَا تُرِغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً خدا کی رحمت کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا.فلما زَاغُوا ازَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (الصف:۶) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب انہوں نے اپنے اعمال میں آہستہ آہستہ بدعات کو شامل کرنا شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بدلا.جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت تھی ، وہاں ان کے دل الہی محبت سے خالی ہو گئے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے اور ہمیں ہمت اور قوت دے کہ ہم اس سے زیادہ سے زیادہ نعمتوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں ( آمین )
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۴۹ خطبه جمعه ۱۰ را کتوبر ۱۹۸۰ء خطبہ ثانیہ کے بعد نماز سے قبل حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.دوست صفیں درست کر لیں یہ آج کا جمعہ بھی بڑا اہم ہے یہاں پہلا جمعہ ہے.جنہوں نے اذان دی اور ا قامت کہی ان سب کے نام نوٹ کرنے ہیں تاریخ کے لئے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۱ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء پختہ عزم اور حمد کے ساتھ لوگوں کے دل خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں خطبه جمعه فرموده ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد مارٹن روڈ.کراچی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بیرونی ممالک کے دورہ میں جو کچھ دیکھا اور ارواح نے محسوس کیا.دو ذمہ داریاں ہم پر پڑتی ہیں وہ ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں آپ کو.بارہ ملکوں کا میں نے دورہ کیا اس عرصہ میں.ہر ملک کے حصے کم و بیش تین چار دن سے لے کر آٹھ دس دن تک آئے.بس ایک حرکت تھی بڑی تیز جس میں کمی واقع نہیں ہوئی اور اب ہم جب آرام سے بیٹھیں گے اگر آرام ملا کیونکہ آگے پھر کام انتظار کر رہا ہے پھر دماغ شروع سے لے کر آخر تک جو ہوا اس پر غور کرے گا اور زیادہ گہرے نتائج نکالے گا.سوئٹزر لینڈ یورپ میں ایک ملک ہے جس میں ہم گئے.اس کی پریس کانفرنس کی رپورٹ اکیس اخبارات میں چھپی جوان ملکوں کے لحاظ سے بڑی کامیابی ہے.اس کے علاوہ ایک فرانسیسی اخبار نے لندن پریس کانفرنس کی رپورٹ ایک پورے صفحے پر دی اور بہت ہی اچھی دی اور اس کے علاوہ آخر میں جو واقعہ ہوا.ایک عظیم اس صدی کا بہت بڑا عظیم واقعہ یعنی پین میں مسجد کی بنیاد رکھا جانا، وہ خبر بھی سوئٹزر لینڈ نے بھی دی.اس طرح تیس اخبارات نے اسلام کے متعلق وہ باتیں لوگوں تک پہنچادیں جو میں ان کے سامنے رکھتا رہا اور جو میں ان کے سامنے رکھتا رہا وہ یہ تھا مختصراً.تفصیل سے میں نے ان کو بتا یا تھا ڈیڑھ ڈیڑھ ، دو دو گھنٹے کی پریس کانفرنس رہتی تھی کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۲ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء اور اسلام انسان کے حقوق کو قائم کرتا ہے.یہ جو ہیومن رائٹس (Human rights) آر کے کانوں میں پڑ رہا ہے یو.این.او کی آرگنائزیشن (Organisation) بھی اس کے اوپر کام کر رہی ہے.خود آج کا یورپ یہ سمجھ نہیں پایا کہ ہیومن رائٹس (Human rights) حقوق انسانی کا کیا مطلب ہے اور اس کی تعین کیسے کی جانی چاہیے؟ اسلام نے انسان کے حقوق کی تعیین کی ، ان کی وضاحت کی ، ان کی ڈیفینیشن (Definition) تعریف کی اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی.عظیم مذہب ہے اسلام.اور جہاں تک ان عظیم حقوق انسانی کا سوال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قائم کیا اور قائم رکھنے کے سامان پیدا کئے ان میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی تمیز نہیں کی کیونکہ اگر جو ہندو ہے وہ بھی خدا کا بندہ ہے خدا نے اسے پیدا کیا.جو پارسی ہے اسے بھی خدا نے پیدا کیا.جو بد مذہب ہے اسے بھی خدا نے پیدا کیا.جو مشرک ہے اسے بھی خدا نے پیدا کیا.جود ہر یہ ہے اور خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والا ہے اور خد اتعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے خلاف ابیو زولینگویج (Abusive language) استعمال کرنے والا ہے ان کو بھی خدا تعالیٰ نے پیدا کیا.اللہ کہتا ہے جو یہ کرتے ہیں انہیں کرنے دو لیکن جو میں نے حقوق ان کے قائم کئے ہیں وہ بہر حال ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان کو قائم کرے اور قائم رکھے.بڑی عظمت ہے اسلامی تعلیم میں اور بڑی مؤثر ہے یہ تعلیم.میں تھوڑا سا ہٹ کے ایک بنیادی چیز بتا رہا ہوں پھر میں جلدی سے نکلوں گا آؤٹ لائن (Out line ) میں.اتنا اثر ہے اس تعلیم کا کہ بریڈ فورڈ میں ، اب آخر میں پانچ نئے مرکز جائیدادیں خرید کے نماز کے لئے مبلغ کے لئے انگلستان کی جماعت نے بنائے ہیں، ان میں ایک بریڈ فورڈ بھی ہے.بہت بڑی عمارت اللہ کے فضل سے ان کو مل گئی ہے اس کے افتتاح کے لئے میں گیا.وہاں کے نائب میئر آئے ہوئے تھے ان سے کچھ باتیں ہوئیں.ان کے سامنے ہی پریس کا نفرنس غالباً ہوئی تھی.باہر نکلتے ہوئے وہ ایک احمدی کو کہنے لگے کہ جو باتیں انہوں نے کی ہیں اگر سارے لیڈر ایسی باتیں کرنے لگیں اور ان کے لئے یہ کوشش بھی کریں.پھر کہنے لگے کہ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارے مسلم لیڈر بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ سارے عیسائی اور دوسرے لیڈر اور مسلمان لیڈر ایسی باتیں کریں جو ان کے منہ
۷۵۳ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء خطبات ناصر جلد ہشتم سے آج میں نے سنی ہیں تو دنیا سے فساد دور ہو جائے.اسلام فساد کی جڑیں کاٹنے کے لئے آیا ہے فساد کو ہوا دینے کے لئے نہیں بھیجا گیا.یہ تفصیل میں نے اس لئے بتادی کہ ہر جگہ یہی سامنے ان کے رکھنا پڑتا تھا.بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ان میں پیدا ہم ہی کر دیتے ہیں بعض دفعہ.بہر حال یہ پیغام ان تک سوئزرلینڈ میں.۲۱ + ۲ اور ان کا خیال ہے اور بھی کچھ اخبار آرہے ہیں پیچھے ، یہ خبر چھپ گئی اور قریباً سب کو اطلاع ہو گئی کہ کیا ہے اسلام کا مشن اور کیا ہے اسلام کی تعلیم ؟ جرمنی میں دو جگہ پریس کانفرنس ہوئی.فرینکفرٹ اور ہیمبرگ دونوں جگہ مسجد ہے اور مبلغ ہے.وہاں کے بھی اخباروں نے دیا.پھر تیسرا ملک ڈنمارک وہاں بھی غیروں کے سامنے باتیں ہوئیں.پھر چوتھا ملک سویڈن، گوٹن برگ وہاں بھی غیر ملے، پریس کانفرنس ہوئی، چھپا بھی.پھر اس کے بعد ناروے میں ایک نئی عمارت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی جگہ.ایک ایسی لوکیلٹی (locality) میں ایسے علاقہ میں جہاں شرفا بستے ہیں اور بڑے امیر لوگ بستے ہیں ان میں ایک غریب چراغ بھی ٹمٹمانے لگا اب.ہماری جو جماعت تو غریب ہے لیکن ضرورت کے مطابق ، ضرورت وہاں بڑی تھی کیونکہ ان تین ملکوں میں سب سے زیادہ جماعت ناروے کا دارلخلافہ اوسلو ہے وہاں اکٹھے ہونے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی.اس کے نتیجہ میں جب کسی گھر میں نماز ہو رہی ہو تو انسان، انسان میں کچھ بدمزگی پیدا ہو جاتی ہے تو پھر وہ اگر وہ گھر والے سے بدمزگی پیدا ہوئی ہے تو وہاں ہچکچاتے ہیں ایسے لوگ.پھر نماز ادا کرنے کے لئے بھی جانے سے پر ہیز کرنے لگ جاتے ہیں.بچے اکٹھے ہوں، شور مچائیں، وہ اسلام کے سبق سیکھیں اس میں دقت پیدا ہو جاتی ہے.بہر حال وہ جگہ مل گئی بڑی اچھی وہاں بھی پریس کانفرنس ہوئی.وہاں سے بھی اکیس اخباروں کے تراشے ہمیں مل چکے ہیں.وہاں ایک صحافی کہنے لگے نارویجین کہ یہ جو دوسرے فرقوں کے مسلمان ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو ناٹ مسلم ( Not Muslim) قرار دے دیا ہے.میں نے کہا کہ ہاں ،ٹھیک ہے انہوں نے ناٹ مسلم، ہمیں قرار دے دیا ہے.پر سوال یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں ناٹ مسلم قرار دیا ہے یا نہیں؟ قرآن کریم میں یہ آیت ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا (الحجرات: ۱۵) ان کے لئے تو اعراب کا ترجمہ میں نے کیا تھا A section of Muslim‘ کیونکہ اعراب ۱
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۴ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء کے معنی سمجھنے میں ان کو دقت ہوئی.بہر حال ایک حصہ اعراب کا کہتے ہیں امنا ہم مومن ہیں.قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے انہیں کہہ دو تم مومن نہیں ہو.آیت کا اگلا حصہ میں پہلے لے لیتا ہوں.وَلَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمُ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اس لئے تم مومن نہیں ہو قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا بِهِ الله جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان کو کہہ دوستم مومن نہیں ہو.قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا اس کے باوجو د اللہ تمہیں اجازت دیتا ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہو.بڑی عجیب آیت ہے.میں نے وہاں اس کو سمجھایا.میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں یہ لکھا ہے.اس آیت کی روشنی میں یہ لوگ ہمیں جو مرضی کہتے رہیں ہم ان کو ناٹ مسلم ( Not Muslim) نہیں کہہ سکتے.ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مومن ہیں.ہم ان کو زیادہ سے زیادہ ناٹ مومن کہہ سکتے ہیں، ناٹ مسلم نہیں کہہ سکتے ، یہ جو مرضی کہتے رہیں.سمجھدار لوگ ہیں انہوں نے مسئلے کو سمجھ لیا اور ایک سب سے بڑے اخبار نے لکھ دیا پھر نمایاں کر کے لکھ دیا مسلمانوں کی جماعت کے امام سے وہاں یہ باتیں ہوئیں.ان کو وہاں بعض لوگوں نے تنگ کیا کہ ہم نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا تم نے کیوں ان کو لکھ دیا مسلمان؟ تو اس نے ایک سب ایڈیٹوریل (Sub editorial) لکھا.ایڈیٹوریل ایک بڑا لکھنے کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بھی لکھ دیتے ہیں یہ.اچھا کوئی میرے خیال میں پندرہ بیس سطروں کا ہوگا.اس کے آخری دو فقرے یہ تھے کہ دس ملین (Ten Million) کی ایک جماعت اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے.جب تک یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں گے ہم ان کو مسلمان لکھتے رہیں گے، تو ان کو تو سمجھ آ گیا مسئلہ وہاں.بہر حال ساری دنیا کو سمجھ آ جائے گا آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ.میں نے بتا یا اکیس اخباروں نے وہاں یہ باتیں جو تھیں کسی نے زیادہ تفصیل سے کسی نے کم وہ لکھیں.پھر اس کے بعد ہالینڈ میں گئے.وہاں باتیں کیں ان کی.ان کو سمجھایا کہ یہ جو آپس میں انسان لڑ بھی پڑتا ہے انسانوں سے، اس کے مذہب کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا.پہلی دفعہ ذرا ان کو جھنجھوڑنا پڑا.میں نے کہا دیکھو دو عالمگیر جنگیں ورلڈ وار (World War) اس صدی میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۵۵ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء ہوئیں.'Christian fighting against the Christian ، عیسائی ، عیسائی سے لڑ رہا تھا.پر ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ عیسائیت کو جوش دیں کہ یہ سب عیسائیت کی خرابی ہے کہ یہ آپس میں لڑ پڑے.عیسائی تھے وہ عیسائی پولیٹیکل لیڈر تھے.ان کے اپنے پلیٹ فارم تھے وہ آپس میں لڑے.ملینز اینڈ ملینز (Millions and Millions) آدمی مارے گئے ، زخمی ہوئے مگر ہم نے عیسائیت پر الزام نہیں لگایا.اگر مسلمان دولڑ پڑیں تو تم اسلام کو کیوں بد نام کرنے لگ جاتے ہو.تم میں کوئی سمجھ ہونی چاہیے.بہر حال سمجھانے کی کوشش کی.پھر نائیجیر یا اور غانا.بڑا افسوس ہے دوسرے ملکوں میں نہیں جاسکا.ان دونوں ملکوں میں انقلاب عظیم بپا ہو چکا ہے.شکلیں مختلف ہیں.نائیجیریا کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ چکی ہے لیکن جو انقلاب جس کو میں کہتا ہوں وہ تعداد کی زیادتی نہیں بلکہ ذہنی انقلاب ہے.وہ ریاستیں اکیس ریاستیں یا انیس ریاستیں ہیں غالباً اس وقت نائیجیریا کی صوبے جس کو کہا جاتا ہے یا امریکہ ریاستیں کہتا ہے ہم صوبے کہتے ہیں.بعض ایسے صوبے تھے ۱۹۷۰ء میں جب میں پہلی دفعہ وہاں گیا ہوں کہ اُس صوبے میں اگر کوئی احمدی سیر کرتے ہوئے بھی چلا جاتا تھا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا.اتنا سخت تعصب تھا اور اتنی سخت مخالفت تھی اور اب یہ حال ہے کہ ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ اور سکول کھولیں اور ہسپتال کھولیں اور بڑے دلائل دے کر.بڑا مزہ آیا وہ دلائل سن کے بھی.لیکن اس وقت تفصیل میں جانے کا وقت نہیں لیکن یہ انقلاب عظیم ذہنی طور پر ہو گیا.باقی تعدا د اتنی بڑھ گئی ہے کہ الا رو ( Eloro) ایک اتنی میل جگہ ہے لیگوس سے ، وہاں ایک ہی جمعہ پانچ دنوں میں تھا وہ انہوں نے کہا تھا وہاں پڑھنا ہے.چار مساجد پہلے بن چکی ہیں.وہ غریب سی جماعت اور اب جامع مسجد بنائی تھی جس کے افتتاح کے لئے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ یہاں جمعہ پڑھیں آکے.وہاں چلا گیا.ہزاروں احمدی مردوزن وہاں جمع تھے.انہوں نے ایک وین (Vain) بنائی ہوئی ہے اپنے خرچ پر اور چار پانچ سکوٹر لئے ہوئے ہیں اپنے خرچ پر اور جو دن فارغ ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ مصروف ہوتا ہے ان کے لئے.باہر نکل جاتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں اور چودہ جماعتیں الا رو کے ماحول میں پیدا کر چکے ہیں.یہ وہ علاقہ ہے جس کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۶ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء متعلق بعض لوگوں نے یہاں مشہور کر دیا تھا کہ ہر احمدی کو ہم نے اپنے جیسا مسلمان کر لیا ہے اور کوئی احمدی وہاں نہیں رہا.وہاں جا کر دیکھا تو وہاں کی شان ہی کچھ اور دیکھی.ایک شخص میرے پاس آیا وہاں ہمارا سکول کوئی نہیں.کہنے لگا کہ آپ یہاں سکول کھولیں ہائر سکینڈری سکول ایف.اے تک.اور اس طرح باتیں کر رہا تھا کہ میں سمجھا کہ یہ ایسا مسلمان ہے، احمدی تو نہیں لگ رہا تھا وہ کہ جس کے دل میں بڑا درد ہے اور سمجھتا ہے کہ عیسائیوں کا یہاں سکول ہے تو یہاں مسلمانوں کا ہونا چاہیے تا کہ مسلمان بچے خراب نہ ہوں.بعد میں میں نے پوچھا تو کہنے لگے یہ یہاں کا میئر تھا شاید اس ٹاؤن شپ کا اور خود عیسائی تھا اور عیسائیوں کا وہاں سکول ہے اور وہ کہہ رہا تھا کہ یہاں اچھا سکول چاہیے.سکولوں کی اتنی عزت وہاں جماعت احمدیہ کے سکولوں کی ہوگئی ہے.غانا میں ایک دوسرا انقلاب ہے کثرت تعداد اور رعب کا یعنی اتنارعب وہاں غانا کے ملک میں جماعت احمدیہ کا پیدا ہو چکا ہے کہ جو بریف (Brief) باہر گئی ہے وہاں سے لوگوں نے جو بھیجی ہے اور جو وہاں دیکھا ہم نے حال وہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ پہلے تو گئے تھے نا یہ عیسائی دوحصوں میں کیتھولک ازم (Catholicism) اور پروٹسٹنٹ (Protestant).تو آرچ بشپ آف کنٹر بری اور پوپ کی بڑی بڑی تصاویر جو ہیں وہ بعض جگہ انہوں نے لگائی ہوئی تھیں طبعاً اور اب پہلی بار اس دورے پر انہوں نے ان دو تصویروں کے ساتھ ایک تصویر کا اضافہ کیا اور وہ میری تصویر لگادی.اب مجھے تو کوئی ضرورت نہیں اس تصویر کی کیونکہ میں تو اس حقیقت پہ قائم ہوں علی وجہ البصیرت کہ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ( النساء:۱۴۰) خدا تعالیٰ نے جو عزت مجھے عطا فرمائی ہے میں تو ، میرا ذرہ ذرہ میرے جسم کا اور میری روح کا ہر پہلو جو ہے وہ اس کی حمد پڑھتا رہے تب بھی میں حمد ادا نہیں کر سکتا لیکن یہ جماعت احمدیہ اور اسلام کی فوقیت وہاں ثابت کر دی خدا نے کہ وہ مجبور ہو گئے ایک عاجز انسان کی تصویر ان کے مقابلے میں لگانے کے لئے.اور حکومت وقت اپنے اعمال سے ثابت کر رہی ہے کہ ہم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے اس وقت جماعت احمدیہ کو.انقلاب عظیم وہاں بپا ہو گیا.اس کے علاوہ میں کینیڈا اور امریکہ گیا.کینیڈ ابھی کئی ہزار میل ہے میرے سفر پہ یہ دیکھیں.ویسے کام جب میں کر رہا ہوں اس وقت مجھے ایک ذرہ بھر بھی کوفت نہیں ہوتی جب کام ختم ہو جاتا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۷ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء ہے پھر تکان محسوس کرتا ہوں.جس وقت ہمارا جہاز اترا ٹورنٹو میں اس وقت مجھے جاگے ہوئے اس سفر کے لئے سترہ گھنٹے سے زیادہ ہو چکے تھے اور مجھے کہنے لگے وہ ریڈیو والے کہتے تھے اُن کو بلا لیں.( میں نے کہا ) میں نے وقت نہیں بدلا تھا میں نے کہا یہ وقت دیکھیں چھ بجے صبح اٹھا تھا اور جب میں سو یا ہوں تو چھپیں گھنٹے ہو چکے تھے یعنی چھپیں گھنٹے میں نے ایک منٹ بھی نیند نہیں لی اور اس کے بعد میں سو گیا چند گھنٹے.پھر کام کیا اپنا.اور دو دن تھے وہاں بڑے مصروف کاٹے.پھر کیلگری گئے.ان دونوں جگہ جو مختصر ابتاؤں وہاں کی انتظامیہ پر اتنا اچھا اثر ہے احمدی احباب کا کہ وہ تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے ان کی.کینیڈا میں بہت زیادہ امیگرینٹس (Immigrants) باہر سے جار ہے ہیں.صرف کیلگری میں انہوں نے بتایا کہ دو ہزار امیگرینٹس (Immigrants) ماہوار ہم وصول کر رہے ہیں اس ٹاؤن شپ (Town Ship) میں اور ٹورنٹو کے بیج ہسٹیزن شپ (Citizen Ship ) حج انہوں نے مقرر کئے ہوئے ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں سٹیزن شپ دینے کا.ٹورنٹو کے حج جو فلپائن کے رہنے والے تھے وہ ملنے کے لئے آگئے ، باتیں کرتے رہے.میں نے کہا مجھے بتائیں کتنی زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں؟ میرا مطلب تو ٹورنٹو کا ہی تھاوہ سمجھے کینیڈا میں.کہنے لگے مجھے کینیڈا کا نہیں پتا کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں.ٹورنٹو اور اس کے ماحول میں اکہتر زبانیں اور ڈائی لیکٹس (Dialects) بولی جاتی ہیں اتنے لوگ مختلف جگہ سے آئے ہوئے ہیں اور جماعت احمدیہ کے احباب جو ہیں وہ انتظامیہ سے تعاون کرتے ہیں تاکہ لڑائی جھگڑا نہ ہو اور پیار سے سارے رہیں اور اتنی تعریف جماعت کی کیلگری میں بھی اور وہاں بھی ان کے میئر اور سارے لوگ Full of praise for Ahmadies and Ahmadiyyat and islam really.اسلام کی تعریف ہے نا جنہوں نے ایک شخص کو جو اسلام پر عمل کرے اس کو ایسا خوبصورت بنا دیا کہ دوسرا تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے.پھر سان فرانسسکو گئے.وہاں ملاپ زیادہ احمدیوں سے رہا.ایک ہزار سے زیادہ اکٹھے ہو گئے تھے اردگرد کے علاقے سے یونائٹیڈ سٹیٹس (United State) میں.وہاں سے واشنگٹن.ہاں کیلگری میں میں نے انہیں کہا تھا کہ تمہارے جو چوٹی کے سکالرز (Scholars) ہیں عالم اُن سے ملاؤ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۸ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء مجھے.تقریر نہیں میں کروں گا.چنانچہ وہاں چوٹی کے پانچ سات عالم جو تھے ان سے گفتگو ہوئی بڑی اچھی اور بہت مفید.اور پھر واشنگٹن میں یہ ہر جگہ ان کا یہ وہ ہے فارمل (Formal) ایک ولیکم (Wellcome).یا ویلکم (Wellcome) کا خط میئر کی طرف سے آجاتا ہے کہ ہم اپنے شہر میں آپ کو Wellcome کرتے ہیں فارمل ہے وہ تو آتے رہے ہر جگہ.یہاں واشنگٹن میں ریسیپشن (Reception) پر چوٹی کے آدمی پہنچ گئے تھے ان سے گفتگو بڑی اچھی رہی اسلام کی تعلیم حقوق انسانی پر.میں نے بتایا نا کہ یو.این.اوجو یو نائیٹڈ سٹیٹس (United States) میں ہے وہ بھی حقوق انسانی کو نہیں سمجھی ہوئی.اسلام سمجھا اور اس نے حقوق قائم کئے ہیں.جب اسلام کی باتیں ان سے کریں تو اتنا اثر لیتے ہیں کہ کوئی حد نہیں.بہت سے چوٹی کے ( آدمی تھے) اس ریسیپشن (Reception) میں جنہیں اسلام کی باتیں بتانے کا موقع مل گیا.اس کے علاوہ ایک پیج پر آٹھ ، دس چوٹی کے آدمی اکٹھے ہوئے ہوئے تھے.حیران ہو کے سنتے کہ اچھا اسلام یہ کہتا ہے.اعتراض بعض دفعہ کر دیتے ہیں کہ فلاں مسلمان تو یہ نہیں کر رہا.میں نے کہا مسلمان کی بات چھوڑو میں تو اسلام کی بات کروں گا.یہاں ایک تصویر آپ نے دیکھی ہوگی پریس کانفرنس لنڈن کی.قرآن کریم میں ساتھ رکھتارہا ہوں.وہاں وہ بڑا اچھا وہ فوٹوگرافر اتفاق ہی ہو گیا.دیکھی ہوگی آپ نے میرے ہاتھ میں قرآن ہے یوں.تو وہ کہنے لگے کہ فلاں یہ کر رہا ہے فلاں یہ کر رہا ہے.میں نے کہا میں تو اس کتاب پر ایمان لاتا ہوں.میں تو اس کی باتیں کرتا ہوں اور جو کوئی کرتا ہے یا نہیں کرتا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں.اور پھر سب سے آخر میں بارہواں ملک جہاں میں گیا وہ تھا سپین.۷۰ ء میں ( دو چار منٹ ئیں اور لوں گا.میرا سر اب بھی چکرا رہا ہے کوفت کی وجہ سے ) سپین میں میں ۷۰ء میں گیا پہلی دفعہ.غرناطہ ایک شہر ہے سپین کا جہاں آخری مسلمان بادشاہ نے عیسائی بادشاہ سے شکست کھا کے چابی دی تھی.سرنڈر (Surrender) کرتے وقت اور پھر وہاں سے اسلام ختم ہو گیا.وہاں ایک بادشاہ نے الحمرا نام کا ایک بہت عظیم محل بنایا جس کا موٹو (Motive) یعنی اس کے نقش و نگار کی سجاوٹ اس فقرے پر تھی لا غَالِبَ إِلَّا الله.اس کی اپنی ایک کہانی ہے، اس میں اس وقت میں نہیں جاسکتا.بہر حال ہر جگہ ہر کمرے میں دوفٹ ، اڑھائی فٹ کا ایک ربن (Ribbon) چلتا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۵۹ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء ہے لَا غَالِبَ إِلَّا اللہ کئی چلتے ہیں نیچے کوئی چھوٹے ، پھر آگئے ہیں بیضوی شکل کے، کچھ دائرے کے اندر لا غَالِبَ إِلَّا الله.پھر اور بھی ہیں الْقُدْرَةُ لِلَّهِ - اَلْعِزَّةُ لِلَّهِ.اس طرح اس قسم کے فقرے بھی ہیں.بڑا پیار تھا اس کو خدا اور اس کی صفات کے ساتھ.وہاں اب انہوں نے ایک اسی محل کے ایک حصے کو ٹھیک کر کے تو اس میں ہوٹل بنادیا ہے.۷۰ ء میں وہ اس کو بنے دوا یک سال ہوئے تھے.دعا بھی ، یا درکھیں دعا بھی خدا تعالیٰ کرواتا ہے.ایک رات شاید ہم رہے یا دورا تیں رہے.ایک رات اتنی شدید کرب پیدا کی خدا نے کہ میں نے ساری رات دعا کی خدا کے حضور اور یہ دعا کی کہ اے خدا سات سو سال مسلمان نے عدل اور انصاف کے ساتھ یہاں حکومت کی.کسی کا حق نہیں مارا سب کے حقوق دیئے.وہاں سے سامنے اس محل سے نظر آتے ہیں وہ کوارٹر ، عیسائیوں کا کوارٹر علیحدہ کہ گرجے بناؤ اپنی عبادتیں کرو.یہودیوں کا علیحدہ جیسیز (Gipsies) جن کی آج بھی کوئی دنیا میں عزت نہیں کرتا ان کی عزت کی ، ان کو احترام بخشا مسلمان نے اور ان کی ثقافت اور رہن سہن کا جو طریق تھا اس میں دخل نہیں دیا یعنی زبر دستی ان کو ان کی غاروں سے اٹھا کے مکان میں آباد نہیں کیا جس طرح یہاں جھگیوں سے اٹھا کے مکان دے دیتے ہیں.وہ جھگیاں اسی طرح قائم ہیں وہ تو یہاں کا مسئلہ ہے کراچی کا.وہ آپ جانیں اور وہ مسئلہ جانے.بہر حال وہاں سے نظر آتے ہیں.اب بھی وہ وہاں رہتے ہیں لیکن اُس وقت عزبات سے رہتے تھے اب وہ بے عزتی سے رہ رہے ہیں.بہر حال ساری رات میں نے دعا کی خدا یا رحم کر ان پر اور پھر اسلام یہاں آئے.تو بہت میں بے چین ہو کے ، تڑپ کے میں دعا کر رہا تھا تو مجھے آواز آئی وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ جوشخص خدا پر توکل کرے اُسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ اس کے لئے کافی ہے.اِنَّ اللهَ غَالِبُ عَلَى اَمرِہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا.قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا لیکن ہر کام کا ایک وقت مقدر ہے اس وقت ہوگا اور مجھے سمجھ آگئی کہ ابھی وقت نہیں آیا ، آئے گا وقت.یہ ۷۰ ء کی بات ہے اور ۷۰ ء میں ہم نے کہ طلیطلہ میں ایک چھوٹی سی مسلمان کی بنائی ہوئی ٹوٹی پھوٹی نیگلیکنڈ (Neglected) مسجد تھی ہم نے کہا کہ ہمیں ہیں سال تک اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دو.ہمارے مبلغ نے مجھے کہا آپ سو سال
خطبات ناصر جلد ہشتم 24.خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء کے لئے مانگیں اجازت.میں نے کہا نہیں، بیس سال کے اندر اندر انقلاب بپا ہو جائے گا تو ہمیں زیادہ کی ضرورت ہی نہیں ہے اور حکومت تیار ہو گئی.جنرل فرینکو نے کہا ہاں.اس کے لاء منسٹر (Law Minister) کا بیچ میں دخل تھا اُس نے کہا ہاں.ایسا وزیر جو مسلمانوں کی جائیدادوں کے ساتھ جس کا تعلق تھا آثار قدیمہ کے ساتھ اس نے کہا ہاں دے دیں گے.اور آرچ بشپ ان کا جو ہے کارڈینل (Cardinal) سب سے بڑا پادری اس نے کہا نہیں.نہیں ہونے دوں گا اور وہ پرانا قانون ایسا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتی حکومت نہیں دیا انہوں نے.یہ ۷۰ء کا ہے لیکن وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ دس سال کے بعد زمین ہم نے خریدی وہاں.پہلے اجازت لی یہاں مسجد بنانا چاہتے ہیں.مقامی آبادی نے کہا ہاں ٹھیک ہے بناؤ.قانو نا پھر مرکز سے پوچھنا تھا تو جو میڈرڈ کا نمائندہ قرطبہ میں رہتا ہے ان کے وہاں برانچ ہے ایک.آفسز (Offices ) ہیں.انہوں نے اِن رائٹنگ (In writing) اجازت دی کہ ہاں مسجد بناؤ.دس سال میں وہ انقلاب عظیم بپا ہو گیا اور خدا تعالیٰ کا منشا پورا ہونا شروع ہو گیا وہاں.اور ہم وہاں گئے گنتی کے چند آدمی تیس چالیس ہوں گے کیونکہ سارے مبلغ اکٹھے ہو گئے کچھ دوسرے آگئے.امریکہ سے بھی آگئے نمائندے کوئی ، غالباً الفضل میں رپورٹ شاید چھپ بھی چکی ہے تھوڑی سی.میں نے وہ تارلمبی چوڑی دلوا دی تھی لیکن وہ تو ٹھیک ہے ہمارا خیال تھا جا ئیں گے وہاں گریہ وزاری کے ساتھ خدا کے حضور دعائیں کریں گے، بنیا درکھیں گے، آجائیں گے لیکن وہاں خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اپنی انگلیوں میں لے کے یوں بدلا ہے کئی سو مردوزن، چھوٹے بچے، بڑی عمر کے بوڑھے جن سے چلا بھی نہیں جاتا تھا، بوڑھے مرد، بوڑھی عورتیں ، جوان ، چھوٹے چھوٹے بچے گودوں میں وہ آگئے اور جس وقت بنیاد میں نے رکھا ایک پتھر ، اس کے بعد منصورہ بیگم نے ساری دنیا کی احمدی مستورات کی طرف سے رکھا پتھر ، اس کے بعد ہمارے جتنے مبلغ تھے ان سے میں نے رکھوانا شروع کیا.تین کے نام مجھے اس وقت چونکہ فہرست نہیں بنی ہوئی تھی یاد نہیں رہے تھے وہ نہیں رکھے گئے لیکن ان سے اذانیں دلوا کے ان کا نام میں نے تاریخ میں بہر حال تاریخ بھولے گی نہیں وہ آگیا ان کا نام بھی.پھر مجھے خیال آیا کہ یہ جو یعنی جو خوشی کی جنونی کیفیت ہوتی ہے وہ کئی سولوکل آبادی کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۱ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء اندر عیسائیوں کے اندر پیدا ہوئی تھی یعنی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جسم کے ہر پور سے خوشی کے دھارے بہہ رہے ہیں.اتنے خوش اتنے ہشاش بشاش کہ عید والے دن آپ میں سے بعض کے چہروں پر وہ خوشی نہیں ہوگی جو ان لوگوں کے چہروں پر وہ آئی ہوئی تھی.پھر میں نے جو ہمارا وہاں کا ہے آرکیٹیکٹ (Architect) اس کا نام لیا.میں نے کہا کہ آ کے رکھو تم بھی پتھر.وہ بڑا خوش، جذباتی ہو گیا، ایموشنل (Emotional) آنکھوں میں آنسو آگئے اس کے.پھر میں نے کہا وہ پیڈ روآباد (Pedroabad) نام ہے اس قصبے کا ، کوئی کم و بیش تین ہزار کی آبادی ہے پیڈ رو آباد کی جو سب سے بڑھیا عورت ہے وہ آ کے پتھر رکھے.تو ایک مائی جس کو دو دوسری عورتوں نے سہارا دے کے چلا رہی تھیں اس نے آ کے پتھر رکھا.میرا خیال تھا کہ تین چارسال کا بچہ ہو گا سب سے چھوٹا تو میں نے کہا جو یہاں پیڈ رو آباد کا سب سے چھوٹا بچہ ہے وہ آ کے پتھر رکھے.تو ایک ماں اپنی گود کا بچہ لے کے آگئی.وہ تو پتھر اٹھا بھی نہیں سکتا تھا اور اس ہجوم میں وہ دھکم پیل میں گھبرا بھی گیا ہوا تھا.اس کے ہاتھ میں میں نے پتھر پکڑا دیا.پھر میں نے ماں کو کہا تو اس کی طرف سے رکھ دے یہ تو اس قابل نہیں ہے.بس اس سے رکھوادیا اور چھلانگیں مارر ہے تھے.گیت گا رہے تھے اپنی زبانوں میں اور میں نے پوچھا کہ یہ کیا گارہے ہیں.تو انہوں نے کہا ہم اپنی زمین پر خوشی کے گانے گا رہے ہیں.اپنی زمین پہ مسجد بن رہی تھی اور وہ خوشی کے گانے.ایک دکان پر گئے تو وہاں کام کرنے والی ایک عورت نے کہا کہ میں پیڈ رو آباد کی رہنے والی ہوں.میں تو یہاں کام پر تھی کل.جمعہ والے دن ہم گئے اگلے روز ہی لیکن جب واپس گئی تو میں نے سارا کچھ سنا جو وہاں ہوا اور بڑی وہ بھی ایکسائیڈ (Excited).اور ایک بارہ میل سے ایک میئر صاحب آگئے دھکے کھاتے ہوئے.ان لوگوں نے تو ایک منٹ میرا جو میرے گر دسرکل (Circle) ایک بنایا ہوا تھا احاطہ کیا ہوا تھا میرا وہ نہیں تو ڑا.میں توڑ کے نکلتا تو پھر وہاں آ کے میرے ارد گرد جمع ہو جاتے سارے.ایک شخص کو میں نے دیکھا بڑے اچھے کپڑے پہنے ہوئے وہ دھکے کھاتا ہوا میری طرف بڑھ رہا ہے.مجھے یہ خیال آیا کہ کوئی احمدی ہے جو دیر بعد پہنچا ہے، بنیاد کے وقت نہیں پہنچ سکا.تو اب یہ میرے پاس آرہا ہے سلام کرنے کے لئے.جب وہ اتنا قریب
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۶۲ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء آیا کہ وہ بھی جھک جائے اور میں بھی جھک جاؤں تو ہم سلام ، کر سکتے ہیں مصافحہ ایک دوسرے سے.تو جب میں نے ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تو آگے بڑھ کر بڑی مشکل سے پہنچتا تھا وہ اس نے مجھے پیار کیا.پھر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ احمدی ہے لیکن اس کے بعد جو اُس نے بات کی وہ یہ تھی کہ میں بارہ میل پر ایک اور گاؤں ہے دس بارہ ہزار کی آبادی کا وہاں کا میئر ہوں اور یہ درخواست کرنے آیا ہوں کہ وہاں بھی مسجد بنائیں لیکن خوشیوں کے سامان خدا تعالیٰ نے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ کے ایک علامت کے طور پر ہمیں بتا دیا ہے کہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھو سارے کام ہوں گے.لیکن اب مجھے یقین ہے کہ پادری کی طرف سے ، چرچ کی طرف سے بڑی سخت مخالفت ہوگی.اب میں آتا ہوں اس مختصر سے بالکل مختصر میں نے آؤٹ لائن (Out line) آپ کو بتائی کہ دوز تے داریاں آپ پر آتی ہیں.ایک یہ کہ ساری صدی جو یہ گزری یہ ہجری، ہجری صدی کا اختتام آ رہا ہے نا چند دنوں تک اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے لے کے آج تک اللہ تعالیٰ کے اس قدر فضل ہم پر نازل ہوئے ہیں کہ ان کا شمار نہیں اور یہ دھارا فضلوں کا شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے یعنی ہر سال آنے والے سال میں جو فضلوں اور رحمتوں کی تعداد ہے وہ پہلے سال سے کہیں بڑھ کر ہے اور وہ جوا کیلا تھا اسے خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ایک کروڑ بنادیا.وہ جس کو اس کے گھر والے بھی پہچانتے نہیں تھے اور پوچھتے نہیں تھے، ایسے علاقے پیدا ہو گئے کہ جیسے غانا میں میں نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ ہم کواب اگنور (Ignore) نہیں کر سکتے اور یہ جو آخری سال تھا اس ہجری صدی کا آخری سال ، چند دنوں میں ختم ہورہا ہے، اتنا عظیم احسان ہم پر کہ وہ جو.جب بارہ ہزار تھے تو لاکھوں کی عیسائی فوج پہ بھاری تھے اور جب لاکھوں بن گئے تو شاید اپنے سے کم تعداد پہ بھی بھاری نہ رہے اور چابی پکڑا دی انہیں.اس واسطے خدا تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے اس کی حمد کے ساتھ کہ جو اس نے ہدایت کا راستہ ہمیں دکھایا اور جس وجہ سے وہ ہم پر فضل اور رحمت کر رہا ہے وہ وجہ ہمیشہ ہماری ، ہماری نسلوں کی زندگی میں قائم رکھے اور چند دن رہتے تھے یعنی نو تاریخ ایک مہینے سے کم ایک دو دن ، اغلبا ۸ /نومبر کو پندرھویں صدی ہجری شروع ہو رہی ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۳ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء اُس وقت پانچ سو سال کے بعد بھی پورا ( حساب ) نہیں نکالا کچھ فرق ہے لیکن اغلبا پانچ سو کچھ سال ہیں، پانچ سوسال کے اندھیرے کے بعد وہ جو علامت بن گیا تھا اسلام پر غلبہ کی ، وہ جو علامت بن گیا تھا ظلمتوں کے قائم ہونے کی ، وہاں خدا تعالیٰ کے پیار اور خدا تعالیٰ کے نور اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی جو شمع ہے اس کی روشنی نظر آنے لگی اور یہ جو بنیادرکھی گئی اس میں کئی وہاں کے باشندے سپین کے جواحمدی ہو چکے ہیں وہ شامل ہوئے یعنی یہ نہیں کہ صرف باہر والے بلکہ کئی خاندان احمدی ہو چکے ہیں اور انشاء اللہ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ جس طرح اور جگہ ہوا یہاں بھی وہ بڑھتے چلے جائیں گے.ایک تو خدا تعالیٰ کی حمد ہر وقت کرو.میں نے چند سال ہوئے عزم اور حمد کا آپ کو ایک ماٹو دیا تھا یہ اس کی وہی ان فولڈ (Un fold) ہو رہا ہے اور دوسرے یہ عزم کریں، دوسرے یہ عزم کریں ، عزم کریں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمتوں سے نواز کر ہمیں محبت کے جس مقام پر کھڑا کیا ہے ہمیں کبھی ، ہماری نسلوں کو کبھی وہاں سے گرنے نہ دے اور قیامت تک اسلام کی صحیح اور حسین اور منور شکل دنیا میں قائم رکھنے والے، قائم کرنے والے ہمیں بنائے.اس کے لئے بڑی ذمہ داریاں ہیں بڑوں پہ بھی اور چھوٹے بچوں پر بھی ایک نسل نے سکھانا ہے دوسری نسل نے سیکھنا ہے اور اسی طرح ہوتا چلے جانا ہے جب تک کہ ساری دنیا اتنی کثرت کے ساتھ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں جو اسلام سے باہر رہ جائیں ان کی حیثیت چوہڑے چماروں کی طرح یا ان سے بھی بدتر ہوگی لیکن یہ کہ آپ بھی چوہڑے چماروں سے بدتر ہو جائیں جیسا سپین میں ہوا.خدا نہ کرے کہ وہ ایسا سورج چڑھے کبھی ہم پر اور ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو عزت ہمیں حاصل ہوئی ہے اس کی نگاہ سے ہم گر جائیں اور دور ہو جائیں اور اس کے قہر کے نیچے آجائیں اور یہ نعرہ بلند ہو اس کے حکم سے اس کے فرشتوں کا کہ اے فُجار ، فُسّاق کو ، فاسقین کو ، اسلام پر عمل نہ کرنے والوں کو قتل کرو.یہ بھی ہوا ہے ہماری تاریخ میں.تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.بہر حال دو ذمہ داریاں ہیں.خدا کا شکر ادا کریں اور انتہائی کوشش، انتہائی کوشش جو آخری اونس (Ounce ) ذرہ ہے آپ کی طاقت کا وہ اسلام کے غلبہ کے لئے لگا دیں اور بالکل نہ دھیان دیں ان آوازوں کی طرف جو آپ کو ناٹ مسلم ( Not Muslim) قرار دیتی ہیں.کیونکہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۴ خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۰ء جس طرح میں نے وہاں بھی کہا.میں نے کہا میں علی وجہ البصیرت یہ اعلان کرتا ہوں پھر دورے میں بھی میں نے کہا کہ خدا مجھے اپنی زبان سے مسلمان کہتا ہے تو خدا کی آواز مجھے مسلمان کہے اور انسان کی آواز مجھے غیر مسلم کہے تو (کیا) میں انسان کی آواز کے پیچھے چل پڑوں گا.دنیا کی کوئی طاقت ہمیں خدا کے پیار سے دور نہیں لے جاسکتی.دنیا کی کوئی طاقت ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے پرے نہیں ہٹا سکتی.جو دامن محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کا ہم نے پکڑا ہے وہ اس مضبوطی سے پکڑا ہے کہ کوئی طاقت اسے چھڑوا نہیں سکتی اور جونور خدا تعالیٰ نے ہماری زندگیوں میں اسلام کا اور اپنی صفات کا پیدا کیا ہے اس نور میں زندہ رہنا ، اس نور میں مرجانا ہزارزندگیوں سے اچھا سمجھتے ہیں ہم.خالد بن ولید نے ایک موقع پر کہا تھا اسلام کے دشمنوں سے کہ تم ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ جتنا پیار تمہیں اس دنیا کی زندگی سے ہے اس سے زیادہ پیار ہمیں اُخروی زندگی کے ساتھ ہے.جس کا مطلب ہے موت سے ہم پیار کرتے ہیں تو جو قو میں خدا تعالیٰ پر ایمان لا کے اس کے وعدوں پر ایمان لاتی اور اُخروی زندگی پر ایمان لاتی ہیں ان کو یہ دنیا چھوڑنی دو بھر نہیں ہے.جو کامل یقین رکھتی ہیں کہ مرنے کے بعد کی زندگی ہے اور اپنے بندوں پر خدا بڑا فضل کرے گا مرنے کے بعد، ان کو کیا فرق پڑتا ہے یہ دنیا چھوڑ کے وہاں جانے کا.سوائے اس فرق کے کہ وہ بُری جگہ چھوڑ کے ایک اچھی جگہ چلے گئے ، ایک دکھ کی جگہ چھوڑ کے وہ خوشیوں کی جگہ میں چلے گئے.ایک بدصورت جگہ کو چھوڑ کے ایک حسین جگہ چلے گئے.ایک بھوک اور ننگ اور پیاس کی جگہ کو چھوڑ کے ایک سیرابی کی جگہ پہ وہ چلے گئے.تو عزم کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں اور عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کی صفات کے ترانے گائیں اور اس کے بندوں کی خدمت میں لگے رہیں خواہ وہ بندے اپنے جوتے کی ٹھو کر آپ کو لگانے والے ہوں پھر بھی آپ خدمت سے باز نہ آئیں.اس کے بغیر آپ ان کے دل نہیں جیت سکتے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ ان کے دل ضرور جیت کے رہیں گے، اپنے لئے نہیں خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۵ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۸۰ء تحریک جدید کے سینتالیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۱۷۳۱ کتوبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قریباً گزشتہ چار ماہ میں آپ سے دور بھی تھا اور آپ کے قریب بھی تھا اپنی دعاؤں کے ساتھ.آج میں یہاں لمبے عرصہ کے بعد خطبہ کے لئے کھڑا ہوں اور بہت خوش ہوں آپ سے مل کر اور میں بہت خوش رہا ان سے بھی مل کر جنہیں بارہ ممالک میں تین براعظم میں میں اس عرصہ میں ملتا رہا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہارے شامل حال جو نعمت بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے تمہیں ورثہ میں نہیں ملتی کوئی نعمت اگر خدا نہ چاہے.تمہاری کوششیں تمہارے لئے نعمتیں پیدا نہیں کرتیں اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو.خدا تعالیٰ ابتلا اور امتحان میں بھی ڈالتا ہے تا بتائے کہ جو کچھ ملا اُسی سے ملا ، جو ملتا ہے اُسی سے ملتا ہے اور جو ملے گا اُسی سے ملے گا.آج ایک خوشی یہ بھی ہے کہ اس جمعہ پر سال میں ایک بار جو میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتا ہوں اس وقت میں کر رہا ہوں.تحریک جدید قریباً ۴۶ سال قبل اللہ تعالیٰ کی عین منشا کے مطابق جاری کی گئی اور جو کچھ میں نے اس ملک سے باہر دنیا میں دیکھا اور جن نعمتوں کو پایا اور جو خوشیاں مجھے پہنچیں یہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء رحمت سے اپنے ایک بندہ کے ذریعہ سے آج سے قریباً ۴۶ سال قبل ان نعمتوں کے قیام اور اجرا کے سامان پیدا کئے.اللہ تعالیٰ اُس ہمارے محبوب کے درجات کو بہت بلند کرے اور جو تحریکیں اس نے شروع کی تھیں ان کے ذریعہ سے جماعت پر اپنی نعمتوں میں اور اضافہ کرے اور ہمیں اپنے بزرگوں کے نقشے قدم پر چل کر اسی طرح جس طرح انہوں نے پا یا ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے سامان ملیں.۴۶ سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ اس جماعت کی جو حالت تھی وہ آج سے مختلف تھی.آج تک جتنا زمانہ گزرا ہے قریباً نصف زمانہ گزرا تھا اس کے مقابل اُس وقت جماعت کو قائم ہوئے اور جیسا کہ بتایا گیا تھا اور تسلی دی گئی تھی آہستہ آہستہ جماعت ترقی کرتی چلی جارہی تھی.یہ آہستہ آہستہ ترقی دو شکلوں میں ظاہر ہو رہی تھی.ایک آہستہ آہستہ دنیا میں پھیلتی چلی جارہی تھی.شروع میں تو قادیان یا چند اور شہر تھے جو فیض پارہے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ کے ایک عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ.پھر پنجاب میں پھیلنی شروع ہوئی.پھر پنجاب سے نکل کے ہندوستان میں داخل ہوئی سارے ہندوستان میں.پھر ہندوستان سے نکلی اور باہر کے ملکوں میں پھیلنے لگی اس طرح جس طرح کوئی اکا دُکا بیچ ہوائیں اڑا کے کسی خطہ ارض میں لے جاتی ہیں اور وہاں ایک نئی قسم کی روئیدگی پیدا ہو جاتی ہے اس طرح یہ خدا سے اور خدا کی مخلوق سے پیار کرنے والی جماعت قائم ہوئی.کہیں ایک خاندان احمدی ہو گیا کہیں دو ہو گئے مثلاً افریقہ کے ایک ملک میں صرف ایک احمدی ۱۹۳۰ء سے بھی پہلے کے تھے.نائیجیریا میں اس ملک کے سر براہ گئے تو اس احمدی خاندان کے ایک فردان کے اُس ڈیلیگیشن (Delegation) میں شامل تھے اور جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں نائیجیریا کی جماعت نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ ہر، ہر کمرے میں رکھا ہوا تھا اور اس پر اپنے مشن کا پتہ اور ٹیلیفون نمبر بھی درج کیا ہوا تھا.اُنہوں نے دیکھا اور بڑے حیران ہوئے فون کیا مشن کو اور کہا کہ مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ جماعت اتنی ترقی کر گئی اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد احمدی ہوئے تھے ان کی وفات ہوگئی ۱۹۴۰ء میں اور اس کے بعد ہمارا ملاپ مرکز سے نہیں رہا لیکن ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۷ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۸۰ء دلوں میں انہوں نے جماعت کو اس مضبوطی سے قائم کیا تھا کہ اسے نہیں ہم چھوڑ سکتے تھے اور اس پر ہم قائم ہیں.اسی طرح اور بہت ساری جگہوں پر احمدی ہو گئے جماعت پھر وہاں بڑھنی شروع ہوئی.شروع میں جو ہمارے مبلغ گئے ہیں وہ گاؤں گاؤں پھرے.ایسا واقعہ بھی انہیں پیش آیا کہ شام کو ایک گاؤں نے انکار کیا اپنے پاس رکھنے سے، دوسرے گاؤں نے انکار کیا، تیسرے گاؤں نے انکار کیا کوئی احمدی نہیں تھا اُس علاقے میں، چوتھے گاؤں نے، پانچویں گاؤں نے پھر کوئی شریف آدمی اگلے گاؤں میں ملا اور کہا ٹھیک ہے ہمارے پاس رہ جاؤ مہمان ، کتابیں سر پر اٹھائی ہوئی تھیں ٹھہر گئے.وہاں ان سے تبادلہ خیال ہوا اور ان کو مسائل بتائے ، ان کو حوالے دکھائے، قرآن کریم کی آیات ان کے سامنے پیش کیں ان کو ضرورت زمانہ سے آگاہ کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو کھولا اور وہ احمدی ہو گئے اور تحریک جدید کے اجرا سے بھی پہلے جو تھوڑی بہت کوشش ہوئی اس کا نتیجہ یہی تھا کہ بعض ملکوں میں احمدیت چلی گئی اور غانا میں میں ایک ایسے بزرگ احمدی کی قبر یہ بھی دعا کے لئے گیا جن کی وفات ۱۹۲۶ء میں ہوئی تھی جنہوں نے احمدیت کی خاطر بڑے دکھ اٹھائے تھے ، بڑی مصیبتیں سہی تھیں اور ہمارے مبلغ کے ساتھ مل کے انہوں نے لوگوں کی خدمت کی اخلاقی اور روحانی طور پر.چند آدمی تھے اُس وقت اور آج اندازہ کے مطابق پانچ لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان (غانا جو چھوٹا سا ملک ہے ) وہاں احمدی پائے جاتے ہیں.قرآن کریم میں یہ اعلان کیا گیا تھا ایک اصول بتایا تھا اَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء : ۴۵) کہ (پنجابی کا محاورہ ہے بھورنا ) اسیں بھور دے چلے آرہے ہیں چاروں اطراف توں زمین نوں یعنی تدریجی اور مسلسل ترقی ہو رہی ہے الہی سلسلے کی.اس تدریجی ترقی (چاہے وہ دنیا کے مقابلے میں تھوڑی ہو ) لیکن تدریجی ترقی کو دیکھ کر عقلمند یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ یہ مغلوب نہیں ہوسکتی جماعت.کسی زمانہ میں برٹش ایمپائر جوتھی اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ برٹش ایمپائر پر سورج غروب نہیں ہوتا.نہیں ہوتا تھا ساری دنیا میں ان کی ایمپائر قائم تھی.وہ زمانہ بدل گیا اب برٹش ایمپائر بھی قریباً ختم ہو گئی اور ان پر سورج غروب ہونے لگا لیکن آج یہ حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۸ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۸۰ء حقیقت ہے کہ ہر سورج جو ہر صبح کو چڑھتا ہے وہ جماعت کو تعداد میں زیادہ اور طاقت میں مضبوط تر پاتا ہے.یہ اللہ کی شان ہے.بڑی تبدیلی دنیا کے اندر پیدا ہو رہی ہے.جہاں لوگ ابھی احمدی نہیں ہوئے ان پہ بھی اتنا اثر ہے کہ مثلاً غا نا میں میں گیا ہوں تو اگر کوئی انجان دیکھے تو وہ سمجھے گا کہ یہاں کوئی غیر احمدی ہے ہی نہیں.اس طرح عوام سارے کے سارے ہی پیار لینے اور برکت لینے کے لئے سڑکوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے تھے جہاں سے ہماری کارگزرتی تھی.اس کے کچھ نظارے شاید تصویروں میں آپ کو دکھا ئیں گے، آپ کے ضلعوں میں دکھا ئیں گے ، آپ کی مختلف بستیوں میں دکھا ئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.پھر آپ کو پتا لگے گا لیکن وہ جو نظارے ہیں اگر وہ دیکھیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ ہر قصبہ جو ہے وہ سڑک کے کنارے آجا تا تھا لیکن میں نے بتایا کہ آبادی ان کی ہے قریباً ستر لاکھ کم و بیش.ستر لاکھ ، اسی لاکھ اور اس میں سے پانچ لاکھ سے دس لاکھ احمدی ہو چکا ہے.تو بڑا اثر ہے.کسی نے مجھے بتایا ہے کہ جو ذمہ دار ہیں وہاں کے انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ جماعت احمد یہ اس قدر اثر اور رسوخ حاصل کر چکی ہے ہمارے ملک میں کہ ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.اور بڑی نائیجیریا ہے بہت بڑا ملک ہے وہ تو.قریباً چھ سات کروڑ شاید آٹھ کروڑ کی آبادی ہے صحیح مجھے نہیں علم لیکن بہت بڑا ملک ہے، اس کے حالات بدل گئے.یورپ جو اسلام کا نام گالی دیئے بغیر نہیں لیتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ان لوگوں پر اور اب وہ عزت اور احترام کے ساتھ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے لگے ہیں.ابھی حال ہی میں تثلیث تین خداؤں کے ماننے والوں کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ عیسائیوں کو اور مسلمانوں کو مل جل کر کے کام کرنا چاہیے کیونکہ ہر دو مذاہب خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں.تو دل اور دماغ تثلیث کو چھوڑ کے ایک خدا کی طرف حرکت کر رہے ہیں.پتانہیں ان کے دماغ میں کچھ ریزرویشنز ( Reservations) بھی ہوں گی شاید.ابھی کھل کے بات تو نہیں ہوئی لیکن حرکت ایک خدا کی طرف ہے.تحریک جدید جو اللہ تعالیٰ نے جاری کروائی آہستہ آہستہ سال بسال بڑھتی ہوئی یہ شکل اختیار کر گئی.اب میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۶۹ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۸۰ء پچھلے سال میں نے ٹارگٹ پندرہ لاکھ سے بڑھا کر اٹھارہ لاکھ کر دیا اور اس مخلص جماعت نے اٹھارہ لاکھ سے زیادہ کے وعدے کر دیئے لیکن اس وقت تک اُس نسبت سے وصولی نہیں ہوئی.پچھلے سال سے زیادہ ہے وصولی لیکن اس نسبت سے وصولی نہیں ہوئی.اس لئے ایک تو میں اس طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اٹھارہ لاکھ بہر حال رقم جمع ہونی چاہیے.تحریک جدید کے کام میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت ڈالی کہ ساری دنیا میں اس کی شعاعیں ہمیں نظر آنے لگی ہیں اس میں کوئی کمی اور خامی نہ رہ جائے اور یہ مقروض نہ ہو جائے.کمی تو انشاء اللہ جس طرح بھی ہو گا نہیں رہنے دیں گے لیکن پریشان نہ کریں تحریک جدید کے ادارہ کو.اٹھارہ کی بجائے اٹھارہ لاکھ پچاس ہزار کے وعدے ہو گئے لیکن وصولی میں اس وقت تک پچھلے سال سے صرف تیس پینتیس ہزار کی زیادتی ہے حالانکہ ڈیڑھ لاکھ کی زیادتی ہونی چاہیے تھی.ایک چیز جو بڑی نعمت ہے اللہ تعالیٰ کی اور اسی کی عطا ہے وہ تدریجی ترقی جماعتہائے احمدیہ پاکستان کی ہے.پہلے سال جب تحریک شروع ہوئی ۳۶.۱۹۳۵ء میں تو کل وصولی ایک لاکھ بھی نہیں تھی.ستانوے ہزار آٹھ سو اٹھاسی کی وصولی تھی.پھر دس سال کے بعد ۴۵.۱۹۴۴ء میں یہ آمد بڑھ کر تین لاکھ پینتیس ہزار چھ سواٹھتیں ہو گئی پھر ۴۵ - ۱۹۴۴ء کا سال ہے اس میں ایک اور خصوصیت بھی ہے.میں نے ایک دفعہ ان کے رجسٹر منگوائے اور ان کا مطالعہ کیا تو مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ ۴۵.۱۹۴۴ء سے قبل ہندوستان سے باہر تحریک جدید کا کوئی چندہ نہیں تھا رجسٹروں میں.دیتے ہوں گے بعض لوگ احمدی تو ہو گئے تھے.قربانی بھی کرتے ہوں گے لیکن منظم طور پر ان کی مالی قربانیاں رجسٹروں میں باندھی نہیں گئی تھیں.ایک پیسہ بھی نہیں تھا اور پھر یہ حال ہے کہ کروڑوں روپے کی آمد تحریک جدید کی مد میں دنیا کے سارے ممالک کی آمد اگر کٹھی کی جائے تو ہو جاتی ہے اور پاکستان سے باہر جماعت احمد یہ مضبوطی کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے اور یہاں سے ایک پیسہ بھی باہر بھجوانے کی ضرورت نہیں پڑتی.اگر پڑتی اور قانون فارن اینچ کی تنگی کی وجہ سے پیسہ باہر نہ جانے دیتا تو باہر کے کاموں میں روک پیدا ہوتی جاتی مگر قبل اس کے کہ دنیا میں اس قسم کی تنگی ظاہر ہوتی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس قسم کی تنگیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسا سامان پیدا کر دیا کہ
خطبات ناصر جلد ہشتم 22.خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء پاکستان سے باہر کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئیں اور جو ابھی ترقی پذیر ہیں ان کے لئے بیرون پاکستان کی جماعتیں اپنی ضرورت سے زیادہ قربانی دے رہی ہیں اور اپنے بھائیوں کی امداد کر رہی ہیں جہاں ضرورت پڑے.پھر اس کے بعد آیا ۶۶ - ۱۹۶۵ء کا سال.اب تحریک کو شروع ہوئے اکتیس سال ہو گئے.یہ اکتیسواں سال ہے اور اکتیسویں سال میں تحریک جدید کی آمد تین لاکھ پچانوے ہزار چھ سو انہتر تھی یعنی ۴۵.۱۹۴۴ء کے تین لاکھ پینتیس ہزار سے بڑھ کے تین لاکھ پچانوے ہزار ہوئی.یہ زیادتی بہت کم ہوئی.اس میں ایک تو غالباً اثر ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کا بھی شاید وَ اللهُ اَعْلَمُ.پھر ۱۹۶۵ء ( میری خلافت کا سال ) کے بعد، اکتیس کے بعد پینتالیس، چودہ سال کے بعد، اس کی آمد تین لاکھ پچانوے سے بڑھ کے چودہ لاکھ چوالیس ہزار ہو گئی.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اور سال رواں میں جس کی آمد کا رجسٹر بند نہیں ہوا اٹھارہ لاکھ آپ نے انشاء اللہ تعالیٰ بہر حال ادا کرنے ہیں یہ یاد رکھیں اچھی طرح اور چونکہ ابھی آمد کا اکاؤنٹ بند نہیں ہوا اس لئے آئندہ سال کا جو میں اعلان کر رہا ہوں اس میں بھی ٹارگٹ اٹھارہ لاکھ کا ہی رکھ رہا ہوں.خدا آپ کو توفیق دے کہ آپ سال رواں سے بڑھ کے قربانی دیں اس مد میں بھی اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم صحیح طوران اموال کو خرچ کر سکیں اور بہتر سے بہتر نتیجہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول کر کے ان کا نکالے.باہر کی جماعتوں نے اس قدر ترقی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بعض جگہ اس طرح بارش کی طرح نازل ہو رہی ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.مثلاً غانا میں ۱۹۷۰ ء میں میں نے جو نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم جاری کی میں مغربی افریقہ کے چھ ملکوں میں، غانا ان میں سے ایک ملک ہے.غانا میں جو تحریک کے چندے نیز دوسرے چندے ہیں وہ نہیں ان کی بات نہیں میں کر رہا صرف نصرت جہاں کی آمد جو ہسپتالوں سے ہوتی ہے میں اس کی بات کر رہا ہوں.ہسپتالوں کی آمد صرف اس وقت ہوسکتی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفادے اور امیر لوگ بھی ہمارے کلینکس (Clinics) کی طرف بھاگے چلے آئیں ورنہ تو آمد ہو ہی نہیں سکتی.یہ ہمارے ہسپتال کلینکس (Clinics) سے ہاسپیٹل (Hospital) بن گئے
خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء خطبات ناصر جلد هشتم یعنی عمارتیں بنالیں انہوں نے بڑی بڑی اور ہمارے ہسپتالوں نے جتنی تعداد میں وہ تھے اتنی تعداد میں ہی سکولوں کے اخراجات برداشت کئے.شروع میں بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں پھر حکومت کی امداد ملنی شروع ہو جاتی ہے.وہاں میں نے جو چار ڈاکٹر بھیجے ( چار ہسپتال ہیں غانا میں ) چار کا مجموعی سرمایہ جو میں نے منظور کیا بیرون پاکستان کی جماعتوں سے وہ دو ہزار پونڈ تھا.دو ہزار کو یاد رکھیں دو ہزار پونڈ.دو ہزار پونڈ آج کل ان کی کرنسی گری ہوئی ہے اس کے لحاظ سے بھی قریباً زیادہ سے زیادہ دس ہزارسیڈیز بنیں گے اس سے کام شروع کیا دعاؤں کے ساتھ عاجزی کے ساتھ.جو ڈاکٹر جاتے تھے ان کو کہتا تھا کہ خدا تعالیٰ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ورنہ نا کام ہو جاؤ گے اور اب جب میں چلا ہوں تو میں نے عبدالوہاب بن آدم سے پوچھا کہ سارے اخراجات نکال کے تمہارے پاس ریز رو میں کتنی رقم ہے کام دس ہزار سیڈیز سے شروع ہوا تھا انہوں نے کہا اب پچیس لاکھ روپے بینک میں ریزور پڑا ہوا ہے.اس واسطے وہاں ہمیں کوئی دقت نہیں.وہ کہتے ہیں یعنی حکومت مطالبہ کرتی ہے کہ مریضوں کے لئے اور وارڈز بنائیں.تو ہمارے پاس پیسہ ہے ہم کہتے ہیں تم ہمیں سیمنٹ دے دو وہاں کنٹرول پر ہے سیمنٹ تنگی ہے.میرے جانے کا ان کو یہ بھی فائدہ ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ برکت دی کہ سو بوری سیمنٹ کی مشکل سے ملتی تھی.بعض ہماری عمارتیں سکولوں ہسپتالوں کے بعض حصے سال، ڈیڑھ سال سے شروع ہوئے ہوئے ہیں اور وہ ختم ہی نہیں ہو چکے تھے کیونکہ سیمنٹ نہیں مل رہا.اب انہوں نے کہا ہے شاید دو ہزار یا اڑھائی ہزار بوری ایک پرمٹ میں سیکشن (Sanction) کر دی ہے انہوں نے.مجھے موقع ملا میں نے ان کے وزرا کو سمجھایا.میں نے کہا کام کر رہے ہیں ، تمہاری خد مت کر رہے ہیں دولت کمانے تو نہیں آئے اس ملک میں خادم کی حیثیت سے آئے ہیں اور تم جانتے ہو.سب جانتے ہیں تو ہمیں یہ روکیں کیوں ستا رہی ہیں.تو اللہ نے فضل کیا انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.اس وقت جو دورے کا پس منظر ہے میرے وہ آپ کو بتا رہا ہوں وہ ہے تحریک جدید یعنی جو کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیا بڑی دعاؤں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی منشا
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۷۲ خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء کے مطابق اُسی کو ہم نے پھر آگے چلا یا نا اور اللہ تعالیٰ ہر سال پہلے سے زیادہ برکتیں ڈالتا ہے اور اپنی نعمتوں سے ہمارے گھروں کو بھر دیا اور بیوقوف ہے وہ احمدی جو ان نعمتوں کو دیکھ کے سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے زور بازو سے یا اپنی تدبیر سے یا اپنے مال و دولت سے یا اپنے اثر ورسوخ سے ان نعمتوں کو حاصل کیا.قرآن کریم یہ اعلان کر چکا ہے اور خدا تعالیٰ اور قرآن اس کا کلام جو ہے وہ سچا ہے کہ تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اپنے پاس سے تم کچھ نہیں لے کے آئے.اس واسطے جماعت احمدیہ پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک خدا تعالیٰ کی حمد کرنا جو میں نے آپ کو ماٹو دیا تھا جلسے پر دو ایک سال ہوئے جتنی حمد آپ خدا کی کر سکیں وہ تھوڑی ہے.اتنے مہربان ہیں خدا اتنا مہربان ہے.خدا تعالیٰ نے یہ منصوبہ بنایا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی کہ آخری زمانہ میں پھر اسلام ایک تنزل کے بعد ساری دنیا پر اپنے محسن اور نور کے ذریعہ غالب آئے گا اور ایک جماعت پیدا کی جائے گی اس کام کے لئے.مہدی آئیں گے.مہدی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجز عبد کیونکہ قُلْ يُعِبَادِى (الزمر : ۵۴) بھی کہا گیا ہے نا.بعض لوگ اس فقرے پہ اعتراض کر سکتے ہیں باہر والے اس واسطے میں وضاحت کر دوں.محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ایک عاجز عبد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت کرنے والے.ایک ہے فلسفہ وہ تو علیحدہ رہا میں نے دوسروں کو بھی پڑھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتب کو بھی پڑھا اور کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا کہ جس قدر پیار اور محبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی وہ کسی اور جگہ ہمیں نظر نہیں آتی اور جو اعلان کیا گیا تھا.إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي حبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) اس واسطے اس اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فانی ہونے کی وجہ سے اس قدر پایا کہ کسی اور نے نہیں پایا اور پھر جو پایا وہ مخلوق کے لئے وقف کر دیا.ایک جماعت پیدا کر دی جو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے مخلوق خدا کی خدمت میں لگی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ کی حمد کریں، حمد کریں، حمد کریں اور حمد کرتے ہوئے آپ کی زبانیں نہ تھکیں اور دوسرے یہ کہ بغیر تدبیر کے خدا تعالیٰ نے اس دنیا کے لئے یہ قانون ود
خطبات ناصر جلد هشتم 22M خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۰ء بنایا ہے کہ تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ تو حمد کریں اور دعا کو انتہا تک پہنچا ئیں اور تد بیر کریں اور تدبیر کو انتہا تک پہنچائیں تا زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں اور زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے ہوں تا زیادہ سے زیادہ ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور زیادہ سے زیادہ اچھے بہتر نتائج ہمارے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے نکالے.یہ وقت آگیا ہے تو حید خالص کے قیام کا.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے دو بار بڑے ہی پیار کا اظہار کیا اور اس کی تعبیر میں نے یہ بھی کہ توحید باری کے قیام کا وقت آگیا اور توحید باری کے قیام کے لئے ہم نے انتہائی قربانیاں دینی ہیں اور اس کے لئے جماعت کو تیار ہونا چاہیے.دودفعہ ہوا یہ واقعہ.میں رات کے وقت آنکھیں بند کر کے توحید کا ورد کر رہا تھالا إِلَهَ إِلَّا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ - اس حالت میں میں نے دیکھا کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( الجمعة : ۲) آیا ہے نا.ساری کائنات توحید باری کا ورد کرتی ہے تو میری آنکھیں بند تھیں اور میں نے دیکھا کہ ساری کائنات کا وردمیرے پاس سے Liquid پانی کی شکل میں بہتا چلا جا رہا ہے، آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور میرے کان آواز بھی اس کی گن رہے ہیں یعنی لا إِلهَ إِلَّا اللهُ آہستہ آہستہ اپنے دل میں میں کہہ رہا تھا اور یہی آواز کا ئنات کی میرے کان بھی سن رہے تھے اور میری روحانی آنکھیں دیکھ بھی رہی تھیں اور وہ ایک نہ ختم ہونے والا جس طرح سمندر ہو ہلکے انگوری رنگ کا اور وہ صوتی لہریں تھیں جو آگے بڑھ رہی تھیں یعنی ایک لہر آتی تھی لا إِلَهَ إِلَّا اللہ کی آگے بڑھ جاتی تھی ایک دوسری پیچھے پھر دوسری پیچھے عجیب کیفیت تھی مزے کی اور اس واسطے میں تو اپنے یقین پر قائم ہو گیا ہوں کہ دہریت، اشتراکیت آگئی نا جو سب سے بڑی دہریت ہے اور شرک جو ہزاروں قسم کا ہے اور جس میں ایک تثلیث بھی ہے اور خدا تعالیٰ سے دوری ، یہ سب زمانے ختم ہو کے توحید باری کا قیام نوع انسانی کی زندگی میں عنقریب اس صدی کے اندر جیسا کہ میں نے پہلے اعلان کیا قائم ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور اسی چیز کو بتانے کے لئے وہ پیار، پیار کا جلوہ جو ہے وہ میں نے دیکھا اس پیار کو تو میں بیان نہیں کر سکتا ، اس احساس کو میں نے تھوڑا سا بیان کر دیا ہے تو دعا ئیں کریں اور تدبیر کو انتہا تک پہنچا ئیں اور اس تدبیر کا ایک حصہ تحریک جدید ہے جس کے نئے سال کا
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۷۴ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۸۰ء میں نے اعلان کیا ہے اور وہ سارے منصوبے جو جماعت احمدیہ کے نظام میں بنائے جاتے ہیں ان کو ان کے لئے کام کرنا اور فتنہ اور فساد پیدا کئے بغیر انہیں کامیاب کرنے کی کوشش کرنا اور محبت اور پیار کے ساتھ اپنے دشمن کے دل کو بھی جیتنا اور اس بات کا قائل کرنا کہ تم ہمارے دشمن ہو سکتے ہو ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں.بڑا عظیم مذہب ہے تفصیل میں کچھ شاید اللہ توفیق دے تو میں بتاؤں گا پھر.اسلام بڑا اثر رکھتا ہے اگر صحیح طور پر پیش کیا جائے.اس بات میں اس بات کے منوانے میں تو میں کامیاب ہو گیا پریس کو تو ایک تصویر کے نیچے انہوں نے صرف تین لفظ لکھے Hatred For None and love for all' تین لفظ نہیں بنتے زیادہ بنتے ہیں چار پانچ کہ کسی سے نفرت نہیں پیدا کی اسلام نے ہمارے دلوں میں اور ہر انسان کے لئے ہر شے کے لئے محبت پیدا کی اور یہ چیز تو ان کے لئے انہونی ہے نا کیونکہ دنیا میں ایسی قوم بھی ہے جو کسی سے بھی نفرت نہیں کرتی.آپ تاریخ دیکھیں، اخبار پڑھیں آپ ہر شخص کو کسی نہ کسی سے نفرت کرتے پائیں گے آپ.جماعت احمدیہ کا حقیقی فرد حقیقی میں کہہ رہا ہوں یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ حقیقی بنیں ، جماعت احمدیہ کا ہر حقیقی فرد ایسا ہے جو کسی سے نفرت نہیں کرتا، ہر ایک سے پیار کرتا اور اس کا خیر خواہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اور جو ہمارے بھائی ہیں ان کو اسلام کی اس حقیقت کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۷۵ خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء سپین میں مسلمانوں کے تنزل کے اسباب کا تذکرہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ رنومبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ـ (ال عمران: ٩ ).وَمَا يُؤْ مِنْ أَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ - (يوسف : ۱۰۷) قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَا ۖ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ b الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم - إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَهَدُوا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ - قُلْ اتَّعَلَّمُونَ اللَّهَ بدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ - (الحجرات : ۱۵ تا ۱۷) میں نے اجتماع انصار اللہ کے موقع پر انصار سے کہا تھا کہ وہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں
خطبات ناصر جلد هشتم 22Y خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء بھی نمائندگی کی شکل میں شامل ہوں کیونکہ کچھ ضروری باتیں میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع پہ بھی کہنا چاہتا ہوں.اس اجتماع میں اس خطبہ کے علاوہ جو ہر ہفتہ ایک عید کی شکل میں جمعہ کے روز ہمیں اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے نماز جمعہ ادا کرنے ، دعائیں کرنے اور خطبہ دینے اور خطبہ سننے کی ، اس کے علاوہ میں آج خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں پہلی تقریر کروں گا اور کل خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں دوسری تقریر کروں گا اور پرسوں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں تیسری تقریر کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کے علاوہ اپنی بہنوں کے اجتماع میں بھی ان سے کچھ باتیں کروں گا اور اپنے پیارے بچوں سے بھی جنہیں ہم اطفال کہتے ہیں تنظیم نے جو نام دیا ہے انہیں ، ان سے بھی کچھ باتیں کروں گا.یہ جو میں کہوں گا وہ ایک سلسلہ ہے، ایک ہی مضمون کے مختلف باب ہیں جس کی ابتدا میں آج کر رہا ہوں اور جس کا اختتام اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے میں آخری تقریر میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی جو اتوار کو ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ ، کروں گا.اس لئے وہ لوگ جو باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں وہ آخری تقریر سنے بغیر واپس اگر چلے گئے تو جو فائدہ میں ان کی حاضری سے اٹھانا چاہتا ہوں اور جو فائدہ جماعت ان کی حاضری سے اٹھا سکتی ہے کہ واپس جا کے وہ جماعت کو بتائیں کہ کیا انہوں نے سنا وہ اٹھا نہ سکے گی.اب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے.افتتاحی تقریر میں میں آنے والی صدی میں جو ہونے والا ہے اس کے متعلق ایک پوری تصویر آپ کےسامنے رکھنا چاہتا ہوں.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی اجتماعی اور جماعتی زندگی میں ایک نہایت ہی نازک دور میں داخل ہوئے ہیں یا گزر رہے ہیں اُس دور سے.ایک صدی ہجری ختم ہو رہی ہے اور دوسری دو ایک دن میں شروع ہو جائے گی.چاند چونکہ مختلف ملکوں میں مختلف دنوں میں نظر آتا ہے اس لئے پندرہویں صدی کی پہلی تاریخ شائد سعودی عرب میں کچھ اور ہو اور پاکستان میں کچھ اور ہو.اگر اُمت مسلمہ سر جوڑ کے یہ فیصلہ کر دیتی کہ کم از کم صدی کا پہلا دن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی جو صدی کا پہلا دن ہے ساری دنیا میں وہی سمجھا جائے گا اور باقی جو ایک آدھ دن کا فرق رہ جائے گا چاند کی تاریخوں میں ، وہ تو رہے گا وہ بعد کے آنے والے مہینوں میں ایڈ جسٹ (Adjust)
خطبات ناصر جلد ہشتم LLL خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۰ ١٩٨٠ء کرلیا جائے گا تو یہ بھی ایک بڑی برکت والی بات ہوتی لیکن میرا خیال ہے کہ اس طرف کسی کو خیال نہیں گیا بہر حال ایک صدی جا رہی ہے اور دوسری آ رہی ہے.میں جب پین میں تھا جانے والی صدی کی وہ آخری مسجد جس کا افتتاح ایک ایسے ملک میں جو صدیوں اسلام کا بڑا دشمن رہا اللہ تعالیٰ نے 9 اکتو بر کو مجھ سے کروایا وہ آخری مسجد ہے جس کا افتتاح اس صدی میں ہوا.وہاں جب میں تھا تو سپین کی تاریخ کے واقعات میرے ذہن میں آنے لگے اور بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ یہ دعا جو ہمیں سکھائی گئی رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ اس کی اہمیت کس قدر ہے.ایک ملک کے مسلمان سات سو سال قریباً سپین کی سرزمین پر منصف انصاف کرنے والے اور عدل کرنے والے حاکم کی حیثیت سے حکمران رہے اور ان کی عظمتوں کے نشان اور جو اسلام کا نمونہ انہوں نے وہاں قائم کیا اس کے آثار ہمیں آج بھی نظر آتے ہیں.غرناطہ وہ شہر ہے جہاں بادشاہ نے مسلمان بادشاہ نے شکست کھا کے غرناطہ شہر اور سپین ملک کی سلطنت کی چابی عیسائی بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا ئی تھی.مسلمانوں نے وہاں ایک بہت بڑا محل اور قلعہ پہاڑ کی چوٹی پر الحمرا نام ہے اس کا وہ بنایا ہے.وہاں ایک کھڑکی کے پاس ہم کھڑے تھے اور سامنے ہمارے شہر کا ایک حصہ تھا.ہمارے گائیڈ جو اپنے دعوی کے مطابق ایک مسلمان خاندان کا ایک عیسائی فرد تھا یعنی اس زمانے میں پانچ سو سال پہلے اس وقت ان کو مجبور ہو کے عیسائیت قبول کرنی پڑی اور بعد میں تو نہ اسلام رہا نہ عیسائیت رہی عقائد کے لحاظ سے تو کچھ بھی نہیں اب.بہر حال وہ کہنے لگا کہ اس قدر مسلم حکومتوں نے سپین میں انصاف کو قائم کیا ہے کہ ابھی تک ہم حیران ہوتے ہیں.کہنے لگا یہ نظر نہیں آرہے دو حصے شہر کے ایک کوارٹر تھا عیسائیوں کا ایک یہودیوں کا.ہر دو کو گر ہے وہاں بنانے کی اجازت تھی.کھلے بندوں اپنی عبادتیں کرنے کی اجازت تھی.عیسائیوں کو بھی اور یہودیوں کو بھی ان کو اپنی ثقافت اور معاشرہ کے مطابق اسلامی سیاست میں زندگی گزارنے کی اجازت تھی.اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھانے کی اجازت تھی.کوئی جبر ان پر نہیں تھا ان کی عزت اس معیار پہ.( کچھ حصے تو وہ بیان نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مسلمان نہیں تھا میں اپنی طرف سے کچھ زائد کر رہا ہوں اس وقت ) ان کی عزت اس معیار
خطبات ناصر جلد ہشتم 22A خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۸۰ء کے مطابق کی جاتی تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ اعلان کروایا گیا قرآن کریم میں قل اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الکھف: ۱۱۱) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں ، ( ہر انسان کو مرد ہو یا عورت مخاطب کر کے کہا مجھ میں اور تم میں ) کوئی فرق نہیں.تو حاکم وقت نے اپنے میں اور ایک عیسائی میں اور ایک یہودی میں کوئی فرق نہیں دیکھا اس کے بعد کوئی فرق پیدا نہ کر سکتے تھے کوئی تفریق نہ تھی.وہ تو خیر اہل کتاب تھے لیکن وہاں جیسیز (Gipsices) بھی تھے چپسیز کے متعلق میں نے بہت کچھ پڑھا ہے.جب سے ان کے حالات کا ہمیں پتا لگتا ہے یورپ کی کسی قوم نے ایک دن بھی ان کو عزت نہیں دی لیکن وہ جیسی خانہ بدوش جو پھر تے بھی رہتے ہیں خانہ کمان تھا ان کا یا کسی اور شکل کا تھا اسے لئے پھرتے تھے گھوڑوں پہ، بیل گاڑیوں پر بھی پھرتے رہے ہیں.جب میں پڑھا کرتا تھا ان کے ڈیروں پر بھی جا کے ان سے میں نے باتیں بھی کیں ، ذلیل سمجھا جاتا تھا ان کو لیکن اسلام نے ان کو اتنی عزت اور آزادی دی کہ سامنے نظر آ رہی تھیں پہاڑ میں غاریں بیسیوں سینکڑوں ، تو کہنے لگے ان غاروں میں آزادی کے ساتھ وہ رہتے تھے یعنی معاشرے میں یہ دخل بھی نہیں دیا کہ اگر تم غاروں میں رہ رہے ہو تو ” کہا کہ رہو یہ نہیں کہا کہ نہیں ہم تمہارے لئے جھونپڑے ڈال کے دیتے ہیں یا مکان بنا کے دیتے ہیں تم اس میں رہو.رہتے رہے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق غار میں اور پاتے رہے وہ عزت جو ایک انسان کو ہر جگہ ملنی چاہیے.وہ مجھے کہنے لگا کہ کسی عیسائی مملکت نے اس قسم کا عدل اور انصاف بعد میں قائم نہیں کیا اس ملک میں ، وہ خود عیسائی تھا.پھر یہ کیا ہوا کہ وہ جو سات سو سال تک وہاں حکمران رہے ان کا ایک شخص بھی وہاں نہیں رہنے دیا گیا رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا.جب تک ہدایت پر وہ قائم رہے جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے رہے اور آپ کے نقش قدم پر وہ چلتے رہے اس وقت تک آسمانوں کے فرشتے ہر قدم پر ان کی مدد کرتے رہے.لیکن جب انہوں نے اپنی غفلت اور گناہ کے نتیجے میں خدا سے بُعد کی راہوں کو اختیار کیا اور اس سے دور ہو گئے تب خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی آسمانوں سے نازل نہیں ہوئے اور ان کو کلیۂ وہاں سے مٹا دیا گیا.اس واسطے اس دعا کا ورد ہر اس مسلمان حصے کے لئے ضروری ہے جو یہ ڈرتا ہے کہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۷۹ خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے نعماء تو بہت مل گئیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے پاؤں میں لغزش آئے اور شیطان کا شیطانی حربہ مجھ پر کامیاب ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت میرے دل میں ٹھنڈی پڑ جائے اور شیطان کی آگ میرے سینہ میں بھڑکنے لگے اور انصاف اور عدل کی بجائے ظلم اور بے انصافی کی میری پالیسی بن جائے اور دوسروں سے اسی اصول پر میر اسلوک ہو جائے اور میں کہیں خدا کی نگاہ سے اگر کے ساری نعمتوں سے جو ہدایت کے بعد انسان کو ملتی ہیں محروم ہو جاؤں.ہر جگہ آپ دیکھیں اتار چڑھاؤ آیا ہے اسلام کے خطے خطے میں کبھی گرے، کبھی بڑھے.سپین میں ایک دفعہ پہلے بھی یہی ہوا قریباً اس سات سوسال میں مسلمان کی حکومت کی قریباً ساڑھے تین سوسال کے بعد وہی حالت ہو گئی تھی جو یہ آخری حالت ہمیں نظر آتی ہے.اس وقت وہاں کچھ ایسے دل تھے جن میں خدا تعالیٰ کی محبت بھڑک رہی تھی محبت کی آگ.وہ پہنچے مغربی افریقہ میں اور یوسف بن تاشفین وہاں کے بادشاہ تھے بڑے متقی ، پرہیز گار، بڑے سمجھ دار ، انصاف پسند معاشرہ جو اسلام قائم کرنا چاہتا تھا وہ کرنے والے.ان کو کہا ہم مر رہے ہیں ہماری مدد کو آؤ.انہوں نے سارے حالات سنے.انہوں نے کہا دیکھو کچھ مسائل میرے ملک میں ہیں جب تک میں ان سے نپٹ نہ لوں میں وہاں نہیں آسکتا.دوسرے یہ کہ مجھے تمہارے ملک یا اس کے کسی خطہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے یعنی میں فتح کرنا نہیں چاہتا تمہارے ملک کو.خدا نے بڑا دیا میں اسی کو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق سنبھال سکوں تو بڑا خوش قسمت ہوں گا.واپس ان کو کر دیا.پھر پانچ دس سال کے بعد دوبارہ آئے.انہوں نے کہا اب تو حد ہو گئی اگر فوری آپ نہ پہنچے تو سپین کا ملک اسلام کے ہاتھ سے نکل جائے گا.اس وقت تک وہ فارغ ہو چکے تھے اپنی مہم سے.تب وہ خود گئے تھوڑی سی فوج لے کے اس وقت حملہ آور ہو رہی تھی عیسائی فوج ختم کرنا چاہتی تھی اسلام کو لیکن خدا تعالیٰ کے اس بندہ نے ایک دن کی لڑائی میں عیسائی فوج کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک بالکل تباہ و برباد کر دیا اور ایسی جگہ وہ ( لڑتے لڑتے ) ان کو پہنچا دیا جہاں ان کے سامنے دریا تھا اور پہاڑ بڑا اونچا تھا اور نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا.گر سکتے تھے اتر نہیں سکتے تھے اور ان کی پیٹھ کے پیچھے مسلمانوں کی یہ آواز گونج رہی تھی اللہ اکبر.اس وقت وہ
خطبات ناصر جلد ہشتم 21.خطبہ جمعہ کے رنومبر ۱۹۸۰ء اتنے خوفزدہ ہوئے کہ مسلمان کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے قتل عام کے الزام سے بچا لیا انہوں نے تلوار کی دھار پر گردن رکھنے کی بجائے وادی میں چھلانگیں ماریں اور ختم ہو گئے.پھر جیسا کہ انہوں نے کہا تھا ساری فوج لے کے واپس اپنے ملک کو چلے گئے.بڑی نصیحتیں کیں نوابوں کو، امیروں کو، علماء کو کہ دیکھو اسلام نے ایک اخوت، ایک بھائی چارا پیدا کیا ہے ایک بُنْيَانِ مَرْصُوص بنایا ہے ہمیں.کیوں آپس میں لڑتے ہو اور اس حالت تک تم پہنچ گئے.بہت نصیحتیں کیں ان سے وعدے لئے اور پھر واپس چلے گئے اور پندرہ بیس سال کے بعد پھر وہی حال ہو گیا پھر ان کے پاس پہنچے وفود.تب انہوں نے سمجھا کہ واقعہ میں یہ لوگ اس قابل نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی حکومت کو سنبھال سکیں اور دنیا میں امن قائم رکھ سکیں.پھر وہ آئے وہاں پھر انہوں نے امن قائم کیا اور اپنے بھائی کے بیٹے کو وہاں چھوڑا ، بادشاہ بنایا.اس طرح پر ایک اور زندگی وہاں کی اسلامی حکومت کو مل گئی.خدا ( سے ) دعاؤں کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر تو گل کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بھائی کے بیٹے کو وہاں بٹھا دیا اور ساڑھے تین سوسال تک بڑی شاندار حکومت جو انصاف پر، جو عدل پر، جو نور پر ، جو علم کو پھیلانے پر بنی تھی قائم ہوئی ، بڑے بشپ وہاں جا کر علم حاصل کرتے تھے مسلمان اساتذہ سے، اتنی ترقی کر چکی تھی وہ قوم اور پھر جب ہدایت کو چھوڑ ا اور دلوں میں کبھی پیدا ہوگئی اور اعمال ٹیڑھے ہو گئے اور نور کی جگہ ظلمت نے لے لی اور انصاف و عدل کی بجائے نا انصافی اور ظلم نے لے لی تب خدا تعالیٰ کا قہران پر نازل ہوا اور ان کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا.اس واسطے محض اس سے ہمیں تسلی نہیں پا جانی چاہیے کسی ایک وقت میں اپنی اجتماعی زندگی میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت پر قائم کر دیا.افراد بھی ہدایت پالینے کے بعد گمراہ ہو جاتے ہیں اور آنے والی نسلیں ماں باپ کے طریقوں کو چھوڑ دیتی اور گمراہی کی راہوں کو اختیار کر لیتی ہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اس کی رحمت آنے والی نسلوں کو بچائے.اس لئے ہمیں کہا مجھ سے مانگو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ وہاب خدا سے بخشش دینے والے خدا، دیالو خدا سے کہو اے خدا ہمیں ہدایت دی ہے تو ہدایت پر قائم بھی رکھ.ہمیں ہدایت دی ہے تو ہماری نسلوں کو بھی ہدایت دے
خطبات ناصر جلد هشتم 201 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء اور انہیں بھی ہدایت پر قائم رکھ.جب تک نسلاً بعد نسل قو میں ہدایت پر قائم رہتی ہیں خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ انعامات واپس نہیں لئے جاتے بلکہ بجوں جوں ترقی کرتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت میں انعامات باری بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح آسمان سے موسلا دھار بارش پڑ رہی ہوتی ہے اور اس کے قطروں کو انسان گن نہیں سکتا ، خدا تعالیٰ کی نعمتیں موسلا دھار بارش کی طرح نازل ہو رہی ہیں جن کو گنا نہیں جا سکتا جیسا کہ میں نے مثلاً اس چھوٹے سے سفر میں ایک ہفتہ کم چار مہینے میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو اسی طرح نازل ہوتے دیکھا.بڑی اہم بڑی ضروری دعا ہے خدا کے حضور عاجزا نہ جھکو اور اس سے کہو اے خدا ہدایت پہ قائم رکھ ، ہمیں بھی ہدایت دے اور قائم رکھ ہماری نسلوں کو بھی اور ہمیں وہ دن دیکھنا قیامت تک نصیب نہ ہو جو دن اسلام کے اس حصہ کو دیکھنا پڑا جو سپین میں بسنے والے تھے نیز دیگر کئی جگہ ہوا ، بغداد میں ہوا.مختصر اشارہ کر دیتا ہوں.جس وقت چنگیز خاں کی فوجیں بغداد کا گھیراؤ کر کے ان کا قتل عام کر رہی تھیں تو ایک بزرگ کا دل خدا کے حضور جھکا اور آنسوؤں کی بجائے شاید خون ٹپک رہا تھا اس کی آنکھوں سے.اس نے خدا کو کہا یہ تیرے بندے مسلمان ہیں کیا ہو رہا ہے ان کے ساتھ.تو ان کو آواز آئی اَيُّهَا الكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَارَ کہ کا فرما تو رہے ہیں مگر میرے حکم سے مار رہے ہیں کیونکہ یہ بندے میرے بندے نہیں رہے یہ فجار بن گئے ہیں.ہماری ساری تاریخ اس سے بھری ہوئی ہے.پس مطمئن نہیں ہو جانا غلط تسلی نہیں پالینی.خدا دیتا ہے بڑا دیتا ہے، دے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور بے شمار دے گا، لیکن اس وقت تک دے گا جب تک ہم اس کے بن کے رہیں گے، جب تک ہم شریعت اسلامیہ کے کسی حکم کو اپنے اوپر بار نہیں سمجھیں گے، جب تک ہم یہ یقین رکھیں گے کہ خدا ہے، طاقتور ہے، ہر کام کر سکتا ہے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے حقیقی تعلق جس میں کوئی کبھی نہیں جس میں کوئی کمزوری نہیں فَهُوَ حَسْبُه صرف خدا کافی ہوتا ہے اس کے لئے اور کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی اسے ، اور اللہ کافی ہے تو کسی اور کی پھر کیا ضرورت ہے.مختصراً یہ بتا دوں کہ جو ہدایت سے گرتے ہیں ان کی کئی شکلیں قرآن کریم نے بتائی ہیں.
خطبات ناصر جلد هشتم ZAP خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء ایک جن کے دلوں میں زیغ پیدا ہوتا ہے.ایک ارتداد اختیار کرنے والے وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ (البقرة : ۲۱۸) اس کا اس میں اعلان ہوا.ایک نفاق کی انتہا کو پہنچ جانے والے اس کا ذکر پہلی ستر کا آیات میں بھی ہے سورہ بقرہ کی جو آپ نے حفظ کی ہوئی ہیں لیکن ان بہت سی جو قسمیں ہیں زیغ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم ہونے کی ، اس میں سے دو یہ ہیں.وَمَا يُؤْمِنُ اكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ (يوسف : ١٠٧) کہ اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شرک بھی کرتے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کو ایک مانتے بھی ہیں اور قبر پہ سجدہ بھی کر دیتے ہیں.وہ پیر پرستی بھی کر جاتے ہیں اور اللہ کہتے ہیں ایک خدا کو مانتے بھی ہیں.خدا کے علاوہ کسی انسان کی خشیت بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں اور کہتے ہیں خدا کی خشیت ہمارے دل میں ہے حالانکہ خدا نے کہا تھا فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوْنِي (البقرۃ: ۱۵۱) اگر میرے ساتھ تعلق قائم رکھنا ہے تو میرے علاوہ کسی کی خشیت تمہارے دل میں نہ ہو.یعنی کتنی بڑی نعمت ہے خدا نے کہا نڈر ہو کر اپنی زندگیاں گزار و تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر تم میرے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے.دوسرے فرمایا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے یعنی ہم مومن ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ ان کو کہہ دو لَمْ تُؤْمِنُوا تم ایمان نہیں لائے ، تم مومن نہیں.میں اگلا حصہ پہلے لے لیتا ہوں آپ کو سمجھانے کے لئے پھر دوبارہ آ جاؤں گا.وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ تمہارے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا.تمہارے دل کلیۂ ایمان سے خالی ہیں.لَمْ تُؤْمِنُوا تم مومن نہیں ہو تمہارے دل ایمان سے کلینڈ خالی ہیں.وَلكِن قُولُوا اسْلَمْنَا اس کے باوجود خدا کہتا ہے ہم تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو مسلمان کہہ لیا کرو.یہ بڑی عظیم آیت ہے اپنے نتائج کے لحاظ سے یعنی مسلمان مسلمان میں فرق ، ایمان ایمان میں فرق ، کفر کفر میں فرق.ہمارے بزرگوں نے لکھا بخاری کی حدیث میں بھی آتا ہے اور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں پائی جاتی ہے یہ بات یعنی کمزور سے کمزور شخص
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۸۳ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۸۰ء جس کے دل میں ابھی ایمان نہیں گیا اس کو خدا تعالیٰ جو دلوں کا جاننے والا ہے وہ کہتا ہے تم اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہو باوجود اس کے کہ تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا.تو وہ لوگ جو دلوں کا حال نہیں جانتے اور کوئی بھی نہیں جو کسی دوسرے کے دل کا حال جانے.اس کو کیسے اجازت مل گئی کہ کسی اور کو دائرہ اسلام سے خارج کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو اگر ایمان ہو دل میں تو اللہ اور رسول کی اطاعت ہوا کرتی ہے.تم ایمان کا دعویٰ کرتے ہو تمہارے دل ایمان سے خالی.نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے اعمال جو ہیں ان میں خدا اور رسول کی اطاعت کی جھلک نہیں نظر آتی اور یہ نا سمجھی کی بات ہے تم ڈرتے ہو کہ اسلامی احکام پر عمل کر کے تم دنیوی نقصان اٹھاؤ گے خدا کہتا ہے اس غلط نتیجہ پر تم پہنچے ہوا اگر تم خدا کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے اسوہ بناؤ اور آپ کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزار و تولَا يَلتُكُمْ مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا وہ تمہارے اعمال میں سے کوئی عمل بھی ضائع نہیں ہونے دے گا.تمہیں اسی دنیا میں ثمرات اسلام ملنے شروع ہو جا ئیں گے لیکن تم دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور تمہارے دل ایمان سے خالی اور تمہارے عمل اطاعت خدائے باری اور اطاعتِ رسول کے حسن سے کوئی حصہ نہیں رکھنے والے یعنی محسن کی بجائے بدصورتی جھلکتی ہے تمہارے اعمال میں ، اس واسطے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ تم پر رحم کرنا چاہتا ہے تم نے خود کو رحم سے محروم کر لیا ہے اور پھر تمہیں اس کا احساس نہیں.خدا تو غفور ہے لیکن تم اس سے مغفرت نہیں مانگتے ، استغفار نہیں کرتے اور خدا تو رحیم ہے اور تم رحم کی بھیک اس سے نہیں مانگتے.خود کو یا دنیا کی طاقتوں کو یا دنیا کے اموال کو یاد نیا کی عرب توں کو کچھ سمجھنے لگ گئے ہو اس لئے تمہیں کچھ بھی نہیں ملتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اسی سورۃ میں مومن تو وہ ہیں الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہ جو اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں.ایمان کے معنی جو کئے گئے ہیں اس کی رو سے ایمان کی جڑ دل میں ہے.دل میں ایمان کی جڑ لگتی ہے جس طرح ایک پودا زمین میں لگایا جاتا ہے نا ایمان قلب میں لگایا جاتا ہے اور اس بیج سے یا اس پودے سے دوشاخیں نکلتی ہیں ایک ہے زبان سے اقرار کہ عین دل کے مطابق زبان سے اقرار نکلتا ہے مثلاً اللہ پر ایمان لائے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات کا ورد نہیں کرتے.کہتے ہو ہم خدا پر ایمان لائے لیکن تو حید باری کی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۸۴ خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء عظمت کو تم سمجھتے نہیں حالانکہ تو حید باری بنیاد ہے اس ساری کائنات کی.اسی واسطے تو جہ دلانے کے لئے لا إله إلا الله کا میں نے کہا تھا ورد کرو.اس کے متعلق کچھ اور بھی کہوں گا.بڑی عجیب بات ہے.خدام الاحمدیہ کی پہلی تقریر میں انشاء اللہ بتاؤں گا.تو اگر دل میں ایمان ہو تو اعمال صالحہ ہوں گے یعنی موقع اور محل کے مطابق، اسلامی تعلیم کی ہدایت اور روشنی میں انسان کا عمل ہوگا اور جو زبان سے سے نکلے گا وہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہوگا.اعمال جو ہیں مثلاً اسلام کہتا ہے لڑنا نہیں.اب اگر دل میں ایمان ہے ( میں تمہیں کہتا ہوں) سب لڑائیاں جھگڑے چھوڑ دو.میں اپنی طرف سے تو کچھ نہیں کہتا، میں تو یہ کہتا ہوں، تم نے یہ کہا کہ ہمارے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ہے.میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تمہارے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ہے تو خدا اور خدا کا رسول کہتا ہے کہ آپس میں پیار اور محبت سے رہو اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف کرنا سیکھو، بدلہ لینا نہ سیکھو.اگر ایمان ہے تو یہاں ایک دوسرا کرائٹرین (Criterion) بیان کیا تم لَم يَرْتَابُوا پھر شبہ کوئی نہیں رہتا.حقیقی ایمان کے بعد پھر شبہ کیسا.حقیقی ایمان کے بعد تو جس شخص کی شادی نہیں ہوتی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کروا دی اور اگلے دن اس کا رخصتا نہ ہونا تھا اور ایک دن پہلے جہاد کا اعلان ہو گیا تو اس نے اپنی شادی کی تیاری چھوڑ دی، جہاد کے لئے تلوار خریدی، نیزہ خریدا، دوسرا سامان خریدا اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کی شادی ہو رہی تھی وہ فوج میں جا تو ملا لیکن چھپا پھرا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آیا جب تک کہ دو ایک پڑاؤ دور نہ چلے گئے مدینہ سے، تب وہ سامنے آیا آپ نے کہا میں نے تو تمہاری شادی کا دن مقرر کیا ہوا تھا تم یہاں کیا کر رہے ہو.کہنے لگا یا رسول اللہ میری شادی میرے اور میری جنت کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی.اور بڑی عظیم ہے وہ حدیث اور وہ بیان.اس کی عظمت اور تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا اور وہ شہید ہو گیا وہاں.لَمْ يَرْتَابُوا پھر کوئی شبہ نہیں ہے.جس شخص کے دل میں ایمان ہے اس کو یہ شبہ نہیں کہ مرنے کے بعد مجھے زندگی نہیں ملے گی.جس کو یہ شبہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد مجھے زندگی ملے گی یا نہیں ، بلکہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد بھی مجھے ایک زندگی ملے گی.مجھے خدا کے حضور پیش ہونا ہے.اس نے اگر چاہے وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۸۵ خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء تو محاسبہ کرے گا اگر چاہے تو بغیر محاسبے کے معاف کر دے گا.دعا کرو کہ بغیر محاسبے کے ہی معاف کر دے ہم سب کو اور پھر وہ ابدی جنیں.ابدی جنتیں ایسی کہ وہاں بھی کوئی اکتا نا نہیں.آدمی مرغا کھاتے کھاتے بھی.ابھی کل ہی کسی نے مجھے کہا کہ مجھے ایک دفعہ بیماری میں اتنے مرنے ملے کہ مرغے سے ہی نفرت ہوگئی.تو اس واسطے انسان کی طبیعت میں رکھا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر روز ایک نیا مقام جنت میں انہیں دیا جائے گا تو ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا پھر کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فر ما یا وہ خیر ہے جو فر ما یاوہ ہمارے بھلے کی بات ہے اس سوچ میں پڑ جاؤ گے؟ کہ دنیا کیا کہے گی اس سوچ میں پڑ جاؤ گی ( عورتیں ) کہ اگر ہم شریعت کے مطابق پردہ کریں گی تو یہ جو بے پر دعورتیں آج کل پھر رہی ہیں ہمارے ملک میں بھی اور دنیا میں بھی ہمیں دیکھ کے سمجھیں گی کہ بڑی دقیا نوسی عورتیں کہاں سے آگئیں.تم خدا کی نگاہ میں دقیا نوسی نہیں ہو.جو خدا کا کہنا نہیں مانتیں وہ دقیانوسی ہیں.وہ زمانہ جاہلیت کی باتیں کرتی ہیں.تم تو ایک زندہ مذہب کی طرف منسوب ہونے والیاں اور زندہ تعلیم ، زندگی بخش تعلیم ، عرب توں کو بلند کرنے والی تعلیم ، خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو بڑھانے والی تعلیم پر ایمان لانے والیاں ہو.تمہیں کیوں شبہات پڑ گئے ، تم کیوں شبہات میں مبتلا ہو گئیں.جب شبہ کو ئی نہیں ہوگا جہاد ہو گا یعنی نفس کو درست کرنا، پالش کرنا تا کہ خدا اور زیادہ پیار کرے.خدا کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے یہ نہیں ڈرنا کہ ہم بھوکے مرنے لگ جائیں گے.اپنے اوقات دینا خدا کی راہ میں.اب یہاں آگئے ہیں یہ بھی ایک جہاد ہے جو انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ اور جلسہ سالا نہ اور وقف زندگی اور باہر جاکے انسانوں کی خدمت کرنا یہ سارا جہاد فی سبیل اللہ ہے.اللہ فرماتا ہے أُولَبِكَ هُمُ الصّدِقُونَ یہ لوگ ہیں جو اپنے اس دعوئی میں سچے ہیں کہ وہ ایمان لائے اللہ اور رسول پر لیکن جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ اور رسول پر ایمان لایا لیکن شکوک و شبہات خدا پر اللہ کی وحدانیت پر بھی قائم ، اس کی تعلیم پر بھی قائم ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش اس کو نظر ہی نہیں آرہے اتنا اندھا ہے وہ ایمان کیسالا یا.اس کو یہ نہیں پتا.شہبے میں ہے کہ آیا یہ ہے نقش قدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے یا نہیں حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشِ قدم وہ نقش قدم ہے جس پر چل کر انسان سیدھا خدا کی رضا
خطبات ناصر جلد ہشتم ZAY خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۰ء ۷ کی جنتوں میں پہنچ جاتا ہے اسی زندگی میں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم محض اعلان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی اطلاع دیتے ہو کیا تم اللہ کو اپنے دین سے واقف کرتے ہو صرف یہ کہہ کے کہ ہم ایمان لائے عمل کرو خدا تعالیٰ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے.یہ تو میں نے مختصر کیا ہے بڑی لمبی اس کی تفسیر اور بہت عظیم ان آیات کے معنی ہیں.ایک تو ہمیں یہ پتا لگا کہ دنیا میں کسی کو خدا تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ کسی دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرے.صرف یہ حق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حق صرف ایک دفعہ استعمال کیا اور آپ نے یہ کہہ کے اسے استعمال کیا کہ "جو شخص کسی ایسے شخص کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کافر کہے گا وہ خود کا فر ہو جائے گا تو انہی آیات کے معانی کی عظمت کو قائم رکھنے کے لئے آپ نے وہ حکم دیا.اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے سمجھنے ، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے بتایا جو میر امضمون اس اجتماع پر ہے اس کا پہلا باب اسے سمجھ لیں پھر انشاء اللہ اگلے باب میں چلیں گے.خطبہ ثانیہ سے قبل فرما یا :.نمازیں جمع ہوں گی اور ممکن ہے مجھے اور آپ کو بھی شاید چند منٹ دیر ہو جائے وہاں پہنچنے میں.بہر حال انشاء اللہ جب میں پہنچوں گا شروع ہو جائے گا اجتماع.مگر آپ خاموشی کے ساتھ اور دعائیں کرتے ہوئے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں پہنچیں اور دعائیں کرتے رہیں وہاں پہنچنے کے بعد بھی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ZAZ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء پندرھویں صدی اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دنوں میں نے بتایا تھا کہ زمانہ آگیا ہے کہ نوع انسانی کے سب افراد ایک قوم کی طرح ہو جائیں اور سارے کے سارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اور تفرقہ دور ہو جائے گا اور مختلف قومیں دنیا کی ایک ہی قوم بن جائیں گی.مختلف قوموں کے ایک قوم بن جانے کی تعلیم قرآن کریم نے دی ہے یعنی ایسی تعلیم دی ہے کہ انسانی فطرت اسے قبول کرتی ہے اور سب انسان اگر وہ سمجھیں یا انہیں ہم سمجھا ئیں تو ہو نہیں سکتا کہ اس تعلیم کے نور اور اس کے حُسن کے ماننے سے انکار کریں.قرآن کریم کی ساری ہی تعلیم ایسی ہے لیکن دو ایک موٹی موٹی باتیں اس وقت میں آپ کے سامنے رکھوں گا.بنیادی بات یہ رکھی گئی انسان کے سامنے تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إلا الله (ال عمران:۶۵) اَلا نَعْبُدَ إِلَّا الله جو ہے وہ نوع انسانی کو ایک کرنے کا حکم ہے کہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۸۸ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء سارے کے سارے انسان ایک خدا کی پرستش کرنے لگیں.سارے کے سارے انسان ایک خدا کی اس وقت پرستش کرنے لگیں گے جب ایک خدا کی معرفت انہیں حاصل ہو جائیں گی.سارے کے سارے انسان خدائے واحد ویگانہ کی اس وقت پرستش کریں گے جس وقت خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی شناخت انہیں مل جائے گی اور یہ شناخت انسان کو محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طفیل ملی.قرآن کریم نے کھول کر خدا کی ذات کے متعلق اور اس کی صفات کے متعلق جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق تھا حقائق انسان کے سامنے رکھے جن انسانوں نے اسلام کی نشاۃ اولی میں اس حقیقت کو سمجھا ان کی زندگی اور ان کی روح اور جسم میں سے ایک ہی آواز نکلتی تھی اَحَدُ اَحَدُ اور مولا بس.خدا ہی خدا ہے سب طاقتوں والا ، سب کچھ کرنے والا ، جو ہوا وہ بھی اسی نے کیا جو ہوتا ہے وہ بھی وہی کرتا ہے جو ہو سکتا ہے وہ بھی اسی کے حکم سے ہو سکتا ہے.اس پر تو گل کرنے والوں نے سینہ و دل میں اللہ کے لئے حقیقی پیار رکھنے والوں نے دنیا کو یہ نظارہ بھی دکھایا کہ لاکھوں انسان ان پر قربان کر دیئے گئے کیونکہ اس کا جب امر ہو تو قربان کر دی جاتی ہیں کا فرقو میں صداقت پر.یرموک کے میدان میں چار لاکھ سپاہی چالیس ہزار پر قربان ہو گئے اس معنی میں میں یہ قربانی کہہ رہا ہوں اس لیے کہ خدا تعالی کا منشا یہی تھا کہ وہ ان لوگوں کی عزت کو قائم کرے اور ان لوگوں کے نصیب میں فتح ہو جو اس واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے اور اُسی کے لئے زندگی گزارنے والے ہیں.جس وقت انسان کے بڑے حصہ نے طاقت کے ساتھ خدائی طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہا، طاقت کے ساتھ ان کی طاقتوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا لیکن وہ جو اصل مقصد تھا کہ انسان خدا کا بندہ ہو کر زندگی گزارے آہستہ آہستہ پورا ہوتا رہا.اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلسل ترقی کرتا چلا آ رہا ہے.میں یہ فقرہ اس کے باوجود کہتا ہوں کہ پین میں ایک موقع پر شکست بھی ہوئی لیکن میں سپین کی بات نہیں کر رہا میں تو دنیا کی بات کر رہا ہوں.ساری دنیا میں ایک تسلسل کے ساتھ مجموعی حیثیت میں اسلام ترقی کرتا چلا گیا اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جنہیں اور جن کے چند رفقاء کی جماعت کو رد وسائے مکہ ، کسری و قیصر کی طاقت مٹادینا چاہتی تھی مٹائی نہیں گئی بلکہ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانبیاء : ۴۵) آہستہ آہستہ انہیں ترقی ملتی چلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے جو
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۸۹ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء نتیجہ نکالا اس کے بعد وہ انسان کے سامنے آ گیا افَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء :۴۵) مسلسل ترقی دیکھنے کے باوجود تم سمجھتے ہو کہ مسلسل ترقی کرنے والے نا کام ہو جائیں گے اور مسلسل تنزل راہوں کو اختیار کرنے والے کامیاب ہو جا ئیں گے.عقل سلیم تو ایسا نتیجہ نہیں نکالتی.پھر جیسا کہ بتایا گیا تھا آخری زمانہ میں جو مسیح و مہدی علیہ السلام کا زمانہ ہے، وہ مسیح اور مہدی جس کی اپنی کوئی ذاتی حیثیت نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جو غلام بھی ہے ، کامل مطیع بھی ہے، آپ سے کامل طور پر پیار کرنے والا بھی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی دعائیں لانے والا ہے کہ امت محمدیہ کے کسی اور فرد نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ دعائیں نہیں لیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جرنیل بھی ہے ، جرنیل ہے خود شہنشاہ نہیں، ایک جرنیل ہے اپنے آقا کا اس زمانہ کے لئے اور یہ خبر دی گئی تھی کہ اُس زمانہ میں ساری قو میں ایک ہو جائیں گی.اس واسطے میں نے اعلان کیا کہ میرے نزدیک ( جو میں دیکھ رہا ہوں ) پندرہویں صدی تمام اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے اور تمام اقوام کے ایک ہو جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام اقوام جو اسلام سے باہر ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی جو مہدی کے ہاتھ میں ہے اور تمام وہ قومیں جو اسلام کے اندر ہیں تمام تفرقے مٹا کر اور عداوتوں کو چھوڑ کر پیار اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اس جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.نوع انسانی ایک قوم بن جائے گی.یہ ہوگا یہ ہوکر رہے گا.بہت سے لوگ اسے آج ناممکن سمجھیں گے مگر دیکھنے والے دیکھیں گے اور مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ کریں گے کہ خدا نے جو بشارتیں دی ہیں وہ اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.اقوام عالم کو جو ایک قوم بننا ہے اس کے لیے پہلا اصول یہ قائم کیا گیا کہ ”خدا ایک ہے“.اس نے تمہیں پیدا کیا تمہاری جو بھی قابلیتیں، استعداد میں ہیں اسی کی عطا ہیں کس مقصد کے لیے پیدا کیا اور مقصد یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷ ) اس کے بندے بن جاؤ اور خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں انسان اپنے مقصد حیات کو سمجھنے لگے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی زندگی کے دن گزارے گا.دوسرا اصول جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ، وہ یہ تھا کہ کامل مساوات انسانوں کے
خطبات ناصر جلد ہشتم 290 خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء درمیان قائم کی جائے کوئی قوم سپر (Super) اعلیٰ نہیں ہے.ساری قو میں ایک جیسی حیثیت رکھتی ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک کسی عزت اور دین اسلام کی رو سے ایک ایسا احترام پانے والی ہیں.قوم قوم میں کوئی فرق نہیں سارے بشر برابر ہیں (بشر کے معنی عربی میں مرد اور عورت کے ہیں ) عظیم اعلان یہ کہ بشر بشر میں فرق لیکن ارشاد باری ہوا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف : ۱۱۱) محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عظمت خدا تعالیٰ نے یہ قائم کی کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفُلَاكَ یہ کائنات تیری خاطر پیدا کی گئی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جس کو اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں سے بڑھ کر استعدادیں دیں کامل استعداد میں جو کسی اور کو نہیں دی گئیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لیے خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ساری کی ساری استعدادیں آپ کی کامل نشو و نما پاگئیں.آپ کامل انسان بھی بنے ، آپ کامل بادشاہ بھی بنے ، آپ کامل آقا بھی بنے ، آپ کامل بادی بھی بنے ، آپ کامل شریعت لانے والے بھی بنے ، آپ کامل طور پر عَلی خُلُقٍ عَظِيمٍ بھی ٹھہر.سب اپنی جگہ درست لیکن آپ کے منہ سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشر مثلكم کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں اے مردو ! اور اے عورتو! کوئی فرق نہیں.عظیم مساوات ہے اور اس کا ایک پہلو یہ ہے جو دوسری جگہ زیادہ واضح کیا گیا ہے وَلَا يَتَّخِذُ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ (آل عمران: ۶۵) یہ جو عدم مساوات انسانوں کے درمیان ہے اس کی سب سے زیادہ بھیانک شکل انسانی تاریخ میں یہ ہے کہ مذہبی لحاظ سے بعض کو اربابا من دُونِ اللہ کا درجہ دے دیا گیا اور بعض کو انسان نے اپنے فیصلے کے مطابق کم درجہ دے دیا یعنی خدا تعالیٰ کا فیصلہ نہیں انسان کا اپنا ہی فیصلہ ہے.اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنا خون خرابہ ہوا مذہب کے نام پر کہ الامان حالانکہ اسلام نے کہا یہ تھا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضًا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ - کوئی انسان کسی دوسرے کو ( خدا کے علاوہ ) رب نہیں بنائے گا.رب ایک ہی ہے.جس کے معنے تھے کہ کسی چیز کے حصول کے لیے اپنی کسی ربوبیت کے حصول کے لیے کسی انسان کے پاس نہیں جائے گا نہ اس کے سامنے جھکے گا نہ اپنی تکالیف دور کرنے کے لیے اس کے اوپر بھروسہ کرے گا وغیرہ وغیرہ لیکن بنا لیے انسانوں نے ارباب.لیکن اب زمانہ آگیا کہ تمام وہ ارباب جو اللہ کے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۹۱ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء علاوہ مذہبی دنیا میں بنائے جاتے تھے ان کا خاتمہ کر دیا جائے اور اسی کو ہمارے دلوں میں گاڑنے کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیا.فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم :۳۳) خود اپنے کو اور اپنوں میں سے کسی کو پاکباز نہ قرار دیا کرو تا کہ وہ ارباب نہ بن جائیں.فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقى (النجم :۳۳) اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کون متقی ہے اور کون نہیں خدا کا کام ہے بندے کا کام ہی نہیں ہے.جب بندے کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ کون پر ہیز گار ہے، کون خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے اور کون نہیں ، بندے کا کام نہیں کہ کہے فلاں متقی اور فلاں پر ہیز گار.بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں اور ہو رہی ہیں اس وجہ سے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم یہ ایک ہی مضمون ہے جسے مختلف طرفوں سے خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے پیش کر کے ہماری عقلوں میں چلا اور روشنی اور نور پیدا کیا ہے هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُی قوموں کے باہمی تعلقات تھے قرآن کریم کہتا ہے، کوئی قوم کسی قوم کو حقیر نہ سمجھے.یو.این.اوکا ویٹو تو ختم کر دیا گیا.سپر پاورز (Super Powers) نہیں رہیں اس آیت کے بعد.جب بنہیں خرابی پیدا ہوئی.جو خرابیاں دور کرنا چاہتے تھے، جن خرابیوں سے بچانا چاہتے تھے اس سے زیادہ خطر ناک خرابیاں اس ویٹو پاور نے پیدا کر دیں اور اس تصور نے کہ بعض قو میں بعض دوسروں پر فوقیت رکھتی ہیں.اور تم میں سے کوئی دوسرے پر عیب لگا کر طعن نہ کیا کرے وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمُ (الحجرات: ١٢) اپنے عیب ڈھونڈو اور خدا سے استغفار اور تو بہ کرو.دوسروں میں تمہاری آنکھ عیب دیکھتی کیوں ہے ؟ حضرت مصلح موعود نے اپنے بچوں کو ”آمین“ میں بہت سی دعائیں دی ہیں اور ان میں سب سے پیاری دعا یہ ہے.اور اس سے زیادہ پیاری ہمیں دعا نہیں دے سکتے تھے.الہی خیر ہی دیکھیں نگا ہیں دوسرے میں یہ نقص ہے اپنے نقائص دیکھو اور انہیں دور کرو تا کہ خدا کے حضور سرخرو ہو سکو لا تَلْمِزُوا انفسكم عیب تلاش کرنے ، عیب منسوب کر دینے ، آپ ہی بنا لینے کہ تم میں یہ عیب پایا جاتا ہے تم میں یہ عیب پایا جاتا ہے منع کیا اور وَلا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات: ١٢) ہندو کے اثر کے نتیجہ میں یہ شروع ہو گیا تھا.یہ جولاہا ہے، یہ موچی ہے، یہ فلاں ہے یہ فلاں ہے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۹۲ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عیب کو اس طرح بھی دور کیا موچی ہونا کوئی عیب نہیں لیکن جو شخص خودموچی ہونے کو عیب سمجھتا ہے وہ گنہ گار ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے آباء واجداد کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے خدا کی لعنت ہے اس پر.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو موچی ہے اس پر خدا کی لعنت.ہزاروں لاکھوں ہوں گے جن پر خدا کی رحمتیں نازل ہوئیں.خدا تعالیٰ کا دروازہ جو بھی کھٹکھٹاتا ہے کھولا جاتا ہے اس کے لیے.لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کے اس حکم کو توڑتا ہے کہ قوم قوم میں فرق ہے اور معز زقو میں اور بعض ذلیل قومیں ہیں اور خود ہی اپنے آپ کو ذلت والی قوم کی طرف منسوب کرتا ہے.اپنے خیال میں اور پھر چاہتا ہے کہ (ان) کی طرف منسوب نہ ہو اور ایک جھوٹ بولتا ہے اور ایسے لوگوں کی طرف منسوب ہوتا ہے.جس قوم سے وہ نہیں مغل بن جاتا ہے، کوئی پٹھان بن جاتا ہے، کوئی سید بن جاتا ہے، کوئی کچھ بن جاتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا خدا کی لعنت ہے اُس پر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو موچی ہے اس پر لعنت ہے یا جو جولاہا ہے اس پر لعنت ہے یہ تو پیشے ہیں.کئی سید ہیں جن کو زمانے نے مجبور کیا کہ وہ کپڑے بننے لگ جائیں وہ جوتوں کی دوکان کھول لیں ان کی ذات تو نہیں بدل گئی اور سید ہو نا تو کوئی خوبی نہیں ہے جو پیدا کرے گا وہ سید القوم بن جائے گا جو نہیں پیدا کرے گا وہ معز ز نہیں رہے گا.اس زمانہ میں اس عظیم کام کے لیے کہ نوع انسانی کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جیتے جائیں پیار کے ساتھ محبت کے ساتھ اللہ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور حسن دنیا کے سامنے پیش کر کے، اس کے لیے عیسی اور مہدی نے آنا تھا.مسیح موعود مہدی معہود تشریف لے آئے اور ہم نے علی وجہ البصیرت ان نشانوں کو سچا پا کر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے لیے مقرر کیے تھے مہدی علیہ السلام پر ایمان لائے.ہم ایمان لائے ہیں مہدی پر اس وجہ سے اور ایمان لانے کے بعد جن برکات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو بشارت دی تھی کہ مہدی سے وابستہ ہیں، ان کا نظارہ ہماری آنکھوں نے دیکھا، ہمارے دماغ نے سمجھا ، ہمارے دل نے محسوس کیا ، ہمارے سینوں میں ظلمات دور ہو کر نور بھر گیا.ہم نے کہا یہی ہے وہ شخص.آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مہدی اسلام سے سب بدعات
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۹۳ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء نکال کر خالص اور کھرا اسلام دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ بعض نادان کہیں گے کہ اس نے ایک نیا مذہب بنالیا ہے.یہ وہ تو نہیں جو میرے آباء واجداد بتاتے رہے ہیں.یہ بھی دیکھ لیا ہم نے.مہدی علیہ السلام پر ایمان لا کر میں نے اور آپ نے کیا پایا.حضرت مہدی علیہ الصلوۃ والسّلام نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملایا ، مہدی سے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پایا.میں ۱۹۷۰ ء میں افریقہ گیا.مغربی افریقہ میں ایک ملک ہے سیرالیون.وہاں کے ایک سیاسی لیڈر جو ایک وقت میں نائب وزیر اعظم بھی رہے اُس وقت ان کی پارٹی برسر اقتدار نہیں تھی.ایک ریسیپشن (Reception) میں انہوں نے تقریر کی وہ سیرالیون میں سب سے بڑے مقر ر سمجھے جاتے ہیں اور اس تقریر میں انہوں نے یہ کہا ، ہر تین فقرے کے بعد کہتے تھے کہ میں احمدی نہیں لیکن جو حقیقت ہے اسے میں جھٹلا نہیں سکتا.انہوں نے کہا احمدی مبلغین کے آنے سے قبل اگر کسی مجلس میں اسلام کے متعلق کوئی بات شروع ہوتی تو ہماری گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی تھیں ہمیں اسلام کا کچھ پتہ نہیں تھا.پھر یہ لوگ آئے ان سے ہم نے اسلام سیکھا، اسلام کے حسن سے ہم شناسا ہوئے ، ہم واقف ہوئے ، اسلام کا نور ہم نے مشاہدہ کیا، خدا تعالیٰ کے نشان ہم نے دیکھے یہاں ان کے ذریعے سے اور اب یہ حال ہے کہ اگر کسی مجلس میں اسلام کا ذکر شروع ہو تو ہم فخر کے ساتھ گردن اونچی کرتے اور گفتگو شروع کرتے ہیں اسلام کے متعلق اور انہوں نے بہت سے نشانوں کا بھی ذکر کیا.اس تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں.یہ تو جو ہمارے ہمسایہ ہیں انہوں نے بھی دیکھا.ہم علی وجہ البصیرت مہدی علیہ اسلام کے احسانوں کو جانتے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی وجود تو نہیں ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ربّ دو جہان نے یہ اعلان کیا تھا کہ دو ان کو اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (ال عمران : ٣٢) خدا سے پیار کرنا ہے میری اتباع کرو.اس عظیم شخصیت ، اس عظیم رسول، اس خاتم النبین سے ہمارا واسطہ قائم کر دیا مہدی نے.اتنابڑا احسان کیا ہم پر اوروہ جو خدا کو بھول کر ادھرادھر قبروں پر سجدہ کرنے والے، پیروں کی پرستش کرنے والے، دولت کے پیچھے دوڑنے والے، دولت کو خدا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۹۴ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء سمجھنے والے، سیاسی اقتدار کے سامنے گردن جھکانے والے تھے، ہمیں ساری ان چیزوں سے چھڑا کے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال جو تھا اور اس کے جمال کے جلوے جو تھے ہماری زندگیوں میں مہدی نے دکھا دیئے.ہمیں مہدی نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ملائے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے ہمیں خدا سے ملا دیا.ایک زندہ مذہب ہمیں ملا اسلام، ایک زندہ شریعت ہمیں ملی قرآن ، ایک زندہ نبی ہمیں ملا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، ایک زندہ خدا ہمیں ملا اللہ ، جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور ہماری زندگیوں میں اس کے جلوے نظر آرہے ہیں.دنیا کی کون سی طاقت ہے جو ہمارا رشتہ اس مہدی سے قطع کر سکے.کئی ہیں جو زور لگاتے ہیں لگائیں گے.خدا آزما تا بھی ہے، امتحان بھی لیتا ہے مگر آپ میں سے ہر شخص کو اپنے رب کریم سے عہد کرنا چاہیے کہ اے خدا ادھر کی اُدھر ہو جائے ، دنیا میں قیامت آ جائے تیرا دامن ہم نہیں چھوڑیں گے اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کے علاوہ اور کوئی نقوش قدم ہمارے لئے نہیں ہیں جن کے اوپر ہم چلیں.اگر یہ نہیں ، اگر زندہ خدا کے زندہ جلوے نہیں ہماری زندگیوں میں، تو یہ زندگی رہنے کے قابل نہیں ہے.پھر زندہ رہ کر ہم نے دنیا میں کیا کرنا ہے.زندگی کا تو مزا ہی اب آیا ہمیں کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعے ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے جنہوں نے اپنی تعلیم کے ذریعے ، اپنی دعاؤں کی وجہ سے، اپنے اُسوہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ملا دیا.وہ عظیم اللہ ہمارے بچوں سے ذاتی تعلق رکھتا ہے.چھوٹے چھوٹے بچے جن کو ابھی کچھ پتہ بھی نہیں ان کو سچی خوا ہیں آنے لگ گئیں.عظیم باتیں وقت سے پہلے بتا دیں اور وقت پر پوری ہو گئیں.عظیم طاقتوں والا ہے، انہونی کو پورا کر دیتا ہے.انہونی باتوں میں سے چھوٹی سی بات ابھی میں بتادوں بالکل ایک چھوٹی سی ہزاروں میں سے.ابھی اس سفر میں ایک احمدی دوست تھے نئی شادی ہوئی تھی بچہ ہونے والا تھا.انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے لڑکے کا نام رکھ دیا (ویسے ہی رکھ دیا لڑکے کا نام) کہنے لگے اگر لڑ کی ہوئی میں نے کہا میں ایک نام رکھ چکا ہوں.لڑکی ہوئی تو آپ رکھ لینا.پیدائش سے دوماہ پہلے لندن کی لیڈی ڈاکٹرز نے اس کو کہا کہ تیری بیوی کے پیٹ میں لڑکی ہے اب اس لئے انہوں نے ٹیسٹ ویسٹ نکالے ہیں پتہ لگ جاتا ہے وہ دعویٰ کرتے ہیں پتہ لگ جاتا ہے بچہ، بچی کا.اس کے دوستوں نے
خطبات ناصر جلد هشتم ۷۹۵ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء کہا کہ اب تو بڑی پکی بات ہو گئی تم حضرت صاحب سے کہو کہ نام بدلیں لڑکے کی بجائے لڑکی.اس نے کہا نہیں میں نے تو نہیں کہنا جو رکھ دیا بس رکھ دیا اور دو مہینے لیڈی ڈاکٹر ز اپنے پیشے اور مہارت اور تجربے کے گھمنڈ پر اور نئی تحقیق کی وجہ سے کہتی رہیں کہ اس کے پیٹ میں لڑکی ہے اور میں ابھی وہیں تھا اس کے بچہ پیدا ہوا اور وہ لڑکا تھا.خدا تعالیٰ تو پیدائش سے پانچ گھنٹے پہلے بھی لڑکی کولڑ کا بنا سکتا ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ پیدائش کے بعد بھی بہت ساے لڑکے لڑکیاں بن جاتے ہیں.یہ اسی واسطے اللہ تعالیٰ کرتا ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ جو میری مرضی ہو وہ ہوتا ہے.اسی واسطے ہوتا ہے.سینکڑوں ہزاروں نشان اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی میں دے دیئے.میں تو بڑا عا جز انسان ہوں لیکن جس کی غلامی میں آگیا اور جس کے دامن کو پکڑا مہدی کے ذریعے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اللہ تو عاجز نہیں ہے وہ تو بڑی طاقتوں والا، بڑے غلبہ والا ، اس نے تو ، ( تاریخ کو دیکھیں آپ ) ایک دنیا جہان کو تہ و بالا کر دیا اپنے نیک بندوں کے لئے ، چند ایک کے لئے بہتوں کے او پر اپنے غصہ کا اظہار کر دیا.مگر انسان تو کسی پر غصہ نہیں کرتے ہم تو یہ دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! اس زمانہ میں جیسا کہ تو نے کہا تیرا قہر کسی پر نازل نہ ہو.سب کو تیرے جمال کے جلوے تیری وحدانیت کی طرف اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے آئیں اور دنیا ایک قوم بن جائے.اے خدا ! ہماری زندگیوں میں بھی ایسے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ ستمبر ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۹۷ خطبه جمعه ۲۱ /نومبر ۱۰ ١٩٨٠ء جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خلوص نیت سے خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں خطبه جمعه فرموده ۲۱ رنومبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے قَالَتِ الأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا اسْلَمْنَا (الحجرات : ۱۵) کہ بعض ایسے مسلمان ہیں جو ایمان کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان کے دل ایمان سے خالی ہیں، اس لئے انہیں ایمان کا دعوی نہیں کرنا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ اجازت ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ لیا کریں اگر چاہیں.سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ مومن کون سے ہیں اور ان کی بنیادی علامات کیا ہیں کہ جن کے دل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان سے خالی نہیں بلکہ ایمان سے بھرے ہوئے ہیں.چنانچہ اسی سورۃ کی اگلی آیت ( سولہویں ) جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ وہ کون سے مومن ہیں جن کے دل اس کے نزدیک ایمان سے پر ہوتے ہیں.فرما یا اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ هُمُ الصُّدِقُونَ (الحجرات : ١٢) مومن وہ ہوتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں یعنی وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور پھر اس کے بعد کسی قسم کے شک اور شبہ میں مبتلا نہیں ہوتے اور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۹۸ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۰ ١٩٨٠ء اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ سے اللہ کے رستہ میں جہاد کرتے ہیں.یہی لوگ اپنے دعوی ایمان میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سچے ہیں اُولبِكَ هُمُ الصّدِقُونَ.یہاں بچے اور حقیقی مومنوں کی دو بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں.ایک علامت تو یہ ہے کہ ثُمَّ لَم يَرْتَابُو اسی شک اور شبہ میں نہیں رہتے.کس چیز کے متعلق شک اور شبہ؟ اللہ تعالیٰ نے جو یہ عظیم کتاب اتاری ایک عظیم رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر ، تو اس میں اصولی طور پر ہمیں دو چیزیں نظر آتی ہیں.ایک بیان ہے اللہ اور اس کی صفات کے متعلق اور ایک بیان ہے انسان کے نفس اور انسان کی جو روحانی ترقیات کے لئے ضروری چیزیں تھیں یا ضروری اشیاء تھے یا ضروری اعمال تھے ان کے متعلق ، جن وقتوں پہ وہ اعمالِ صالحہ بن جاتے ہیں ان کے متعلق بڑی تفصیل سے بیان کیا اسے اور اس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ اگر اعمالِ صالحہ بجالا و گے اور تمہارے اعمال مقبول ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں تمہارے لئے روحانی جنتوں کا انتظام کرے گا اور تم خوف و خطر سے آزاد ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے لئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ گے.اللہ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی شکوک اور شبہات ہو جاتے ہیں.مثلاً اس کو قادر مطلق بھی سمجھنا اور اس کے علاوہ کسی اور کو اپنی تکلیفوں کو دور کرنے کا یا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی بنانا.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا وَ مَا يُؤْمِنْ اَكْثَرُهُم بِاللهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ (يوسف : ۱۰۷) ایمان بھی ہے اور شرک بھی ہے ایک ہی ساتھ.شک میں پڑ گئے نا کہ محض تو کل کافی نہیں ، تو کل باللہ کافی نہیں قبر پہ بھی سجدہ کر لینا چاہیے ، ناجائز پیسے دے کر بھی اپنا کام بنوالینا چاہیے، جھوٹ بول کر اپنی حفاظت کا ذریعہ ڈھونڈنا چاہیے وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے شرک بیچ میں آجاتے ہیں.شرک اس وجہ سے آتا ہے کہ تو گل نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ پر پورا.شبہ ہوتا ہے پتا نہیں خدا ہمیں ہمارے حق دلوا بھی سکتا ہے یا نہیں.میں نے پہلے بھی بتایا ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ ایک شخص پر قتل کا ، قتل ہوا تھا کوئی، قاتلوں کے نام بھی بیچ میں آئے کوئی معصوموں کے نام بھی آجاتے ہیں ، غلط فہمیاں بھی ہو جاتی ہیں پیدا.کہ میرا عزیز جو ہے وہ بالکل بے گناہ ہے لیکن قتل کے مقدمے میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۷۹۹ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۰ ١٩٨٠ء ملوث ہو گیا ہے اور سیشن جج نے پھانسی ، پنجاب کے ہائی کورٹ نے پھانسی، سپریم کورٹ نے پھانسی.گورنر نے ہماری اپیل رد کر دی اور اب ہم پریذیڈنٹ صاحب کے پاس اپیل کر رہے ہیں اور وکلا کہتے ہیں کہ آج تک تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ ان حالات میں صدر مملکت اس قسم کی اپیل کو منظور کر لے.اتنا بھیا نک انہوں نے نقشہ کھینچا ہوا تھا اپنے خلاف کہ میرے دماغ میں پہلا خیال جو آیا وہ غلط تھا.دماغ میں یہ فقرہ بنا کہ ان حالات میں پھر جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کی رضا پر راضی رہو.تو اس وقت مجھے خدا کے فرشتے نے جھنجھوڑا کہ اپنے ایک احمدی کو تم اس وقت یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا.خیر میں کانپ اٹھا، بڑی استغفار کی اور ان کو میں نے یہ لکھا کہ دعائیں کرو میں بھی دعا کروں گا.خدا تعالیٰ کے سامنے تو کوئی چیز انہونی نہیں ہے.جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے.میرا خط چلا گیا.کوئی دس پندرہ دن کے بعد ان کا خط آیا کہ وہ چُھٹ کے ہمارے گھر آ گیا ہے.تو قرآن کریم نے تو اعلان کیا تھا.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) ایک اور دوست ہیں اچھے بڑے زمیندار وہ اسی طرح کسی کیس میں ملوث ہوئے.ان کا پرچے میں نام آ گیا.ان کے گھر سے بڑی فکر مند اُن کی اہلیہ صاحبہ آئیں اور بار بار کہیں دعا کریں ضمانت پر رہا ہو کے گھر آجائیں.بہت پیچھے پڑی رہیں.میں نے کہا دعا کریں گے.میں نے دعا کی تو مجھے بتایا گیا کہ ضمانت پر رہا ہو کے گھر نہیں آئیں گے بری ہو کے آجائیں گے.دوسری دفعہ آئیں تو میں نے انہیں کہا ضمانت کی ساری کوششیں چھوڑ دو پندرہ دن مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے ضمانت پہ یہ شخص رہا نہیں ہوگا بری ہوگا اور انہوں نے میرے کہنے کے باوجود بڑی کوششیں کیں ادھر ادھر سے.ساری کوششیں ناکام.ضمانت پر رہا نہیں ہوئے بڑی ہو کے آگئے گھر میں.تو خدا تعالیٰ جو ہر قسم کی طاقتیں رکھنے والا ہے جو تد بیر اس نے بتائی ہے جو جائز طریقہ ہے کام کا اس سے نہیں روکتا وہ لیکن خدا کو چھوڑ کر نا جائز طریقوں کی طرف رجوع کرنا یہ شرک ہے.ایمان باللہ بھی ہے اور مشرک بھی ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا ہے وَمَا يُؤْ مِنْ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۰ء إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ (یوسف: ۱۰۷) تو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق دل میں کوئی شبہ نہ رہے.ایک اس قدر کامل ذات اور صفاتِ حسنہ سے متصف ذات کہ انسانی دماغ تو اس کی محاورہ ہے ہمارا، گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.اتنی قدرتوں کا مالک ہے، اس کو خوش رکھو.اس زندگی میں آزمائشیں بھی ہیں دکھ بھی ہیں.قانون دوسرا بھی چل رہا ہے مگر ہر دکھ کو وہ آرام میں تبدیل کر دیتا ہے.اب ۷۴ء میں بڑا دکھ پہنچا جماعت کو کوئی شک نہیں.میں نے کہا تھا ہنستے رہو اس لئے کہ ہماری ہنسی کا سر چشمہ یہ بشارت ہے کہ یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.اس سے بڑی اور کیا خوشخبری ہمیں مل سکتی ہے اور جماعت نے ہنستے ہوئے مسکراتے ہوئے وہ زمانہ گزار دیا اور ہر لحاظ سے اس قدر ترقی کی ہے کہ دنیوی لحاظ سے دنیا دار نگاہ دیکھتی اور حیران ہوتی ہے.پھر لوگ ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں.خدا نے قرآن کریم میں کہا کہ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہے اور اس کے متعلق شہے میں پڑ جاتے ہیں.کئی ہیں کہتے ہیں، ” ایتھے جنے مزے اڑانے نے اڑالو پتا نئیں اگے ملنا اے یا نئیں ملنا.اگر شہبے میں ہو تو پھر خیر نہیں ملے گی آگے جائے.کیونکہ ایمان کی شرط یہ ہے کہ ہر قسم کے شبہے سے پاک ہو وہ ایمان اور اگر سوچیں تو یہ دو چار میں نے لی ہیں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں.بنیادی چیز یہ ہے کہ جو عالم الغیب خدا ہے خدا ہی عالم الغیب ہے نا، ہم تو نہیں غیب کی باتیں جاننے والے، وہ مستقبل کے متعلق بھی ہیں اور وہ حال کے متعلق بھی ہیں غیب کی باتیں.مستقبل کے متعلق جو باتیں ہیں ان میں اُخروی زندگی بھی ہے.اس میں اس صدی میں غلبہ اسلام بھی ہے.اس میں انسان کے لئے یہ بشارت بھی ہے کہ جو ایک دوسرے کو خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کے غضب کے نیچے آ کر ہلاک نہیں کر لیں گے وہ سارے کے سارے جو ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں گے اور امن اور سکون اور بشاشت اور خوشحالی کی زندگی گزارنے لگیں گے.یہ مستقبل کی بات ہے.مجھے کئی جگہ کہنا پڑا کہ تم سمجھو گے میں کوئی پاگل آ گیا ہوں تمہارے سامنے ایسی باتیں کرتا ہوں یورپ کے لوگوں کو مگر یہ یاد رکھو، لکھ چھوڑ وتم تمہارے سامنے نہیں تو تمہارے بچے گواہی دیں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچی بات کہہ رہا ہوں.قرآن کریم میں قرآن کریم پر ایمان.قرآن کریم
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۰۱ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۰ ١٩٨٠ء بھی اتنی زبر دست پیشگوئیاں ہر زمانے کے لئے ، ہاں یہ میں غیب جو ہے وہ حال کا ہے اس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سینکڑوں میل دور نقشہ خدا نے دکھا دیا ان کو جنگ کا اور وہاں سے انہوں نے آواز دی سالا رکو کہ یہ اس طرح تبدیلی کر اپنی صفوں میں ورنہ خطرہ ہے اور کئی سومیل پر اس سردار نے حضرت عمر کی آواز سنی اور وہ تبدیلی کی اور وہ جنگ جس کے متعلق خیال تھا کہ کہیں ہار نہ جائیں وہ شکست سے وہ فتح میں تبدیل ہوگئی.یہ حال کا غیب تھا نا.کئی سومیل کے اوپر وہ نقشہ دکھا دیا.تو غیب صرف مستقبل کا نہیں بلکہ حال کا غیب بھی ہے.پھر اتنی بشارتیں جو دی گئی ہیں ان میں شک کرنے لگ جاتے ہیں.یہ جو ہم مثلاً جماعت احمد یہ ہے ہمارا یہ ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے امت محمدیہ کے لئے جو عظیم بشارتیں دیں کہ ایک روحانی فرزند اور آپ کا نائب پیدا ہو گا جس کے ذریعے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اسلام کو غالب کیا جائے گا اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہم ان کی جماعت میں ہیں دنیا نہیں ابھی سمجھتی.ان کا نہیں ایمان لیکن ہمارا تو ہے نا.تو یہ دعویٰ کہ ہمارا ایمان بھی ہے اور ہمیں شک بھی ہے کہ پتا نہیں ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں.کیسے نہیں ہوگا.جب خدا نے یہ کہا اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان، اللہ کی ذات وصفات جوجلوے اس کے ظاہر ہونے ہیں ان کے اوپر ایمان بغیر شک اور شبہ کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوع انسانی کی بہبود کی خاطر ان کے اعمال میں صلاح اور نیکی اور تقویٰ پیدا کیا گیا، اس کے متعلق جو ہیں ان کے اوپر ایمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کئے بغیر آپ کے نقش قدم پر چلے بغیر تقویٰ کی کوئی راہ نہیں ہے.وہی ہے ایک راہ اور ولكن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج: ٣٨) خدا تعالیٰ کو تو تقویٰ پسند ہے پھر انعام اس سے حاصل کر لو.تو بہت ساری ہیں چیزیں لیکن اصل یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور صفات کا جو بیان ہمارے لئے وہ غیب ہے.خدا ہمیں نظر نہیں آتا اس کی صفات کے جلوے بعض کو نظر آتے ہیں بعض وہ بھی نہیں پہچانتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کو، آپ کی رفعتوں کو، آپ کی بزرگی کو، آپ کے حُسن کو اور نور کو کون پہچانتا ہے یعنی ساری دنیا تو نہیں اس وقت پہچان رہی.جو غیر مسلم
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۰۲ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۸۰ء یورپ وغیرہ کے نہیں پہچان رہے تو ہمیں بتایا گیا کہ پہچانے لگیں گے وہ.تو یہ بھی زمانہ اب محد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ شروع ہو گیا.یہ ایک تو ہے کہ غیب کوئی نہیں ، کوئی شک نہیں جو کہا گیا وہ پورا ہوگا.جو خدا ہے، جس طرح خدا کی وحدانیت کو اور اس کی قدرتوں کو، اس کے غلبہ کو، اس کی عزتوں کے سر چشمہ اور منبع کو انسان کے لئے ، قرآن کریم نے کہا، تم عزت چاہتے ہو فطرتِ انسانی میں ہے معز ز بننا، قرآن کریم نے اس کو تسلیم کیا اگر عزت چاہتے ہوتو یا درکھو کہ حقیقی عرب تیں خدا تعالیٰ سے ملا کرتی ہیں.دنیا والے جو ہیں وہ عرب تیں نہیں دیا کرتے کبھی دیتے ہیں ایک دن اگلے دن چھین لیتے ہیں مگر وفادار ہے اگر کوئی ہستی انسان کے لئے تو وہ اللہ کی ذات ہے.دوسری صفت بچے ایمان کی بتائی گئی ہے جہاد.جہاد اپنے صحیح ، بچے اور وسیع معنی میں بہت سے پہلو رکھتا ہے لیکن اصل جہاد یہ ہے کہ ایک مقصودِ زندگی ہے ہمارا اور وہ یہ ہے خدا کو پالینا اور اس کی رحمت کے سایہ تلے اپنی زندگی گزارنا ، اس کا ہو جانا، اس کے دامن کو پکڑنا اس مضبوطی کے ساتھ کہ کوئی دنیوی طاقت اس دامن کو ہمارے ہاتھ سے چھڑا نہ سکے.تو وصلِ الہی ، رضائے الہی اس کا عبد بن جانا یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے اور جہاد کہتے ہیں اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش اور سعی کرنا، اپنا سا زورلگا دینا کہ ہمیں یہ مقصد حاصل ہو جائے.خدا کہتا ہے کبھی اپنے اموال دو میری راہ میں.اموال دے دو اسی نے دیئے تھے وہ رکھتا بھی نہیں کئی دفعہ میں پہلے کہہ چکا ہوں خدا کہتا ہے کہ کبھی میں کہتا ہوں اپنی طاقتیں جو ہیں وہ میری راہ میں خرچ کر دو کبھی میں کہتا ہوں اپنی جان جو ہے وہ میری راہ میں خرچ کر دو.کبھی میں کہتا ہوں اپنی عقل اور فراست کو فراست کی نشوونما کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ اور پھر میرے قدموں میں لا کے ڈال دو.تو مالوں اور جانوں اور نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا نام جہاد ہے اور جہاد کا ایک چھوٹا ساحصہ یہ بھی ہے.بہت وسعتیں ہیں یعنی انسان کا اپنا کچھ نہ رہے سب کچھ خدا کا ہو جائے.اس زمانہ میں ایک منظم جدو جہد غلبہ اسلام کی شروع ہے.غلبہ اسلام کی اس جدو جہد کی بنیاد ہے تربیت جماعت یعنی جماعت میں جو داخل ہوتے ہیں نئے احمدی ان کی ، جو پرانے ہیں ان کو تربیت کے جس مقام پہ پہنچے ہیں اس پر قائم رکھنا، کوشش کرنا کہ وہ اور رفعتوں کو حاصل کریں.
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۰۳ خطبه جمعه ۲۱ /نومبر ۰ ١٩٨٠ء بچے پیدا ہوتے ہیں، بچپن سے ہی ہم کہتے ہیں ان کی تربیت کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان ساری چیزوں پر بڑا زور دیا اور لنگر پر یعنی مہمان یہاں آئیں اور مرکز میں خدا اور رسول کی باتیں سنیں اور مرکز میں آکر جو ایک سال کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی نعمتیں جماعت نے حاصل کیں، جو اس کی معجزانہ فتوحات، ڈنڈے اور تلوار کے ساتھ یا رائفل اور ایٹم بم کے ساتھ نہیں بلکہ جو پیار سے دل جیتے گئے ، جو مساجد بنائی گئیں، جو بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لانے کے لئے ان کی اپنی زبانوں میں تراجم کر کے قرآن کریم کا نور اور حسن پیش کرنے کی کوشش کی گئی ، وہ باتیں سننے کے لئے یہ جلسہ ہے.دعائیں ہوتی ہیں، ایک اس کی اپنی فضا ہے ، ذکر الہی ہے ، اطمینانِ قلب ہے الا بذکرِ اللَّهِ تَطْمَينُ الْقُلُوبُ (الرعد: ٢٩) جلسہ سالانہ کی افادیت اتنی زیادہ ہے اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ی لنگر کا ہی حصہ ہے نا ایک خاص وقت میں سال میں جلسہ سالانہ کا روپ دھار لیتا ہے اور جب سے لنگر کی طرف جماعت نے توجہ دی تو مہمانوں کی کثرت آنے لگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو مہمان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ اگر کوئی یوپی سائیڈ (Side ) کا مہمان آجائے اور اس کو تمبا کو اور پان کھانے کی عادت ہو تو آدمی بھیجتے تھے ایک مہمان کے لئے ، قادیان میں تو یہ چیز میں نہیں ملتی تھیں، جو بٹالے سے یا اس سے بھی پرے سے اگر ضرورت پڑے تو وہاں سے اس کے لئے لے کے آتا تھا کہ مہمان کو تکلیف نہ ہو.یہ تو ہماری ذمہ داریاں ہیں جو مرکز میں ہیں.جو باہر سے آنے والے ہیں ان کی ذمہ داری اپنی ہے جس کا احساس ہے انہیں.میں جلسہ سالانہ کا افسر بھی رہا ہوں.ایک بڑا ہی پیارا واقعہ میرے مشاہدہ میں آیا ایک افتتاحی تقریر میں.کاموں میں سے وقت نکالا افسر جلسہ سالانہ تقاریر جلسہ کم ہی سن سکتا ہے، ذمہ داریاں دوسری ہیں اس کی.افتتاحی تقریر میں میں آیا ہوا تھا ادھر ہمارے دار الصدر میں ہی اس وقت جلسہ تھا تو غالباً سکول کے اس میں تھا ہاں یہ جو ہمارا تھا نصرت گرلز ہائی سکول اس کے میدان میں.اس وقت تعداد کم تھی.میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا ایک کراچی کے لکھ پتی، ہاتھ میں انہوں نے پکڑا ہوا پنا سوٹ کیس اور وہ چلے آرہے ہیں.تو ان کی ہیئت سے میں سمجھا کہ ان کا کوئی انتظام نہیں یہاں ابھی.میں نے کہا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۰۴ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۸۰ء آپ نے کہیں لکھا ہمیں.کوئی انتظام آپ کا ہوا ہے.کہتے ہیں میں نے تو نہیں لکھا.میں نے کہا پھر چلیں میرے ساتھ.میں ایک گھر میں گیا اپنے ہی بھائیوں کے، دوسرے میں گیا.ایک جگہ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی شائد ۸× ۸ کی تھی وہاں گندم کی بوریاں سال کے لئے رکھی ہوئی تھیں اس میرے بھائی نے تو وہ میں نے جاکے ان سے پوچھا کہ ایک مہمان کو چاہیے اس کو میں اٹھوا کے برآمدے میں رکھوا دیتا ہوں اور وہ میں نے برآمدے میں رکھوادیں.چھوٹی سی کوٹھڑی ہے ایک اور وہاں پر الی چاولوں کی یادب ان دنوں میں چھنے والی ہوتی تھی میرے خیال میں وہ بچھا دی اور اتنے ممنون اور شکر گزار خدا کے کہ مجھے رہنے کی جگہ مل گئی اور وہ بعض دفعہ دو دولاکھ روپیہ چندہ دے دیتے تھے اتنا خدا نے ان کو دیا ہوا تھا پیسہ.یہ باہر سے آنے والوں کی ذمہ داری ہے.ان کو تو میں کہوں گا اپنے مقام سے نیچے نہیں گرنا اور بوہ والوں کو کہوں گا کہ تم نے بھی اپنے مقام سے نیچے نہیں گرنا.جس حد تک ممکن ہو مہمان کو سہولت پہنچاؤ.ان کو میں کہوں گا جس حد تک ممکن ہو اور طاقت ہو جلسہ کے لئے یہ جسمانی تکالیف جو ہیں ان کو برداشت کرو کیونکہ روحانی مائدہ ہے اصل جو یہاں بچھایا جاتا ہے اور اس کے اندر کوئی کمی نہیں آئے گی انشاء اللہ.تو اس جلسے پر میرا خیال یہ ہے کہ پچھلے جلسے سے کافی زیادہ مہمان آئیں گے انشاء اللہ.پچھلے جلسے پر ہمارا بڑا محتاط اندازہ تھا ایک لاکھ پچاس ہزار مہمان.تو پچھلے جلسے پر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ جوانگر ہیں یہ اپنی جتنی ان کی کپیسٹی (Capacity) ہے طاقت ہے لنگروں کی اس کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں.اس سال ایک تو میں باہر رہا لمبا عرصہ.اس کے اپنے فائدے ہیں.اللہ نے بڑے فضل نازل کئے دورے میں.دوسرے یہاں کوئی ایسے حالات ہوں گے میں سمجھتا ہوں کہ دو.بڑے لنگر نے بن جانے چاہئیں تھے نہیں بنے اگلے سال بن جائیں گے.بہرحال یہ سمجھو کہ خدا تعالی دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنا پیار ہم کرتے ہیں ہر قسم کے شکوک وشبہات سے بالا ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اہل ربوہ ، تو پورا کرو.ایک تو جتنے زیادہ سے زیادہ کمرے دے سکتے ہو وہ جلسہ کے نظام کو دو اور اس کے علاوہ جتنے زیادہ سے زیادہ اپنے رشتے دار، عزیز ، دوست یا واقف اپنے گھروں میں رکھ سکتے ہو وہ گھروں میں رکھو تا کہ ہم یہ احساس نہ ہونے دیں کسی کو کہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۰۵ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۸۰ء ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں.ویسے تو اللہ فضل کرے گا نکل ہی آتی ہے جگہ اور دوسرے جور بوہ کے ایسے گھرانے ہیں ، گھر ہیں میں یہ نہیں کہوں گا کہ جن کے پاس پیسہ ہے بڑے بڑے مکان بنالئے ابوظہبی اور وہاں گئے بڑے پیسے کمائے مکان بن گئے.میں وہ نہیں کہوں گا، میں کہوں گا جن کے دلوں میں اخلاص ہے وہ میرے مخاطب ہیں.اس بات کے لئے تیار رہو کہ اگر ہمیں جلسہ کے لنگر کا ایک حصہ تمہارے باورچی خانے میں کھولنا پڑے تو تم جماعت احمدیہ کے نظام سے تعاون کرو گے.دوسرے صفائی اور ایک سادگی سے سجاوٹ جو ہے وہ ہر سال ہوتی ہے اور ہر سال یاددہانی بھی میں کرا تا ہوں ثواب حاصل کرنے کے لئے.خدام وانصار اور لجنہ دونوں کو میں کہتا ہوں کہ آج کے بعد سے ربوہ کی صفائی کا خیال کرنا شروع کر دو.لجنہ کو میں اس لئے کہتا ہو کہ میرے پاس یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ بہت سی صاف رہنے والی احمدی مستورات اپنے گھروں کی صفائی کر کے مانج کوچ کے سارا گند دروازہ کھول کے گلی میں پھینک دیتی ہیں.تو گھر صاف ہو جاتے ہیں اور ربوہ جو ہے گندا ہو جاتا ہے.اس واسطے آپ ایسا انتظام کریں ، ڈیوٹی لگا ئیں ہر ممبر لجنہ کہ اس کے گھر کا جو مرد ہے وہ جو یہ کوڑا کرکٹ اکٹھا کریں، آج کل تو یہ پلاسٹک کے بیگ بڑے سستے مل جاتے ہیں ، مفت بہت سارے مل جائیں گے.کسی میں کھاد آرہی ہے کسی میں کچھ دو دو پیسے کے شاید مل جائیں مفت مل جائیں.بہر حال وہ لیں اور ان کو کہیں جو جگہ ہے پھینکنے کی گند کی ، وہاں جا کے پھینکو.سارا جسم صاف کر کے ایسی بات ہے کہ اپنے ماتھے کے او پرمل لینا گند یہ تو ٹھیک نہیں نا.تو دروازہ تو آپ کا ماتھا ہے اس کو صاف رکھنا یہ لجنہ کا کام ہے اور گلیوں کا کوڑا کرکٹ ہٹانا، گڑھے جو ہیں چھوٹے چھوٹے ہو جاتے ہیں بارشوں کی وجہ سے اور کئی وجوہات ہیں تو ان کو پر کرنا، جھاڑیاں اُگ آتی ہیں غلط جگہوں پر ان کو کاٹنا.بعض دفعہ کانٹے والی جھاڑیاں ہوتی ہیں، کیوں میں مہمانوں کو کہتا ہوں ایک مہمان کو بھی اگر کانٹا چھے جلسے کے ایام پر تو ہمارے لئے بڑے دکھ کا وہ باعث بنے گا اور بڑی شرم کی بات ہوگی.تو یہ صفائی کریں خوب.غریب جماعت ہیں ہم لیکن ہم سمجھتے ہیں اور خدا کرے کہ ہماری سمجھ درست ہو کہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والی ہم جماعت ہیں اور خدا کا ہر حکم خواہ وہ ثِيَابَكَ فَطَهَّرُ (المدثر : ۵) کا ہو خواہ وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۰۶ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۸۰ء اپنے ماحول کو صاف کرنے کے لئے ہو اس پر عمل کرنے والی جماعت ہے.میں دعا کرتا ہوں اور دیکھوں گا یہ کام میرا ہے.یہ بھی ایک کام ہی ہے کہ دیکھوں، آپ کی رپورٹیں پڑھوں کہ کتنے محلوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے.ہفتے کو کل ہفتہ ہے نا، اگلا ہفتہ جو ہے اس کو یا ایک دو دن بعد اگر میں باہر ہوں تو میرے پاس پہلی رپورٹ آجائے صفائی کے متعلق خدام وانصار کی طرف سے.بیرونی جماعتیں اب یہ اتنا کام ماشاء اللہ ہو گیا ہے کہ جور بوہ کے رضا کار ہیں وہ کچھ اپنی ضرورتوں کے لئے کوئی ہوگا ایسا نالائق کہ جو ویسے کام سے بھاگ جاتا ہوگا لیکن ایک گھر میں بھی پچاس مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں تو وہ ان کا بچہ اگر پانچ بچے ہیں اور دو غائب ہو گئے غیر حاضر ہو گئے جلسے کی ڈیوٹی سے تو دراصل تو جلسے کی ڈیوٹی سے وہ غیر حاضر نہیں ہوئے اگر وہ اپنے گھر میں کام کر رہے ہیں.اگر وہ کام کر رہے ہیں بہر حال اگر وہ سارے آبھی جائیں تب بھی یہ اتنا بڑا ( کام ہے ) خدا کے نام پر اور اسلام کے غلبہ کی باتیں سننے کے لئے اور سوچنے کے لئے اور دعائیں کرنے کے لئے اور عاجزانہ خدا کے حضور جھک کر خدا کو کہنے کے لئے کہ اے خدا ہم ایک ذرہ ناچیز کی بھی حیثیت نہیں رکھتے مگر تیرے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے وعدوں کے مطابق ہم سے سلوک کر اور اپنے لئے کچھ نہیں مانگتے تیری وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت کو دلوں میں گاڑنا چاہتے ہیں.اس میں کامیاب کر دے.بیرونی جماعتیں بھی رضا کار بھجواتی ہیں کافی تعداد میں.جو افسر جلسہ سالانہ ہیں انہوں نے صرف اتنا لکھ دیا ہے کہ چار پانچ رضا کا رد ہیں.ظاہر ہے چار پانچ نہیں ان کا مطلب شاید چار پانچ ہزار ہو تو اس واسطے میں یہ کہوں گا کہ جتنے چاہیں اتنے آپ مہیا کر دیں لیکن ایسے بھیجیں کہ جو جذ بہ رکھتے ہوں اور شوق رکھتے ہوں.رضا کارانہ کام جو ہے یہاں یہ باندھتا ہے.بہت سارے آدمی ہیں وہ بندھنا پسند نہیں کرتے.مثلاً ایک کا کام ہے بیٹھے رہو دفتر میں.افسر جلسہ سالانہ میں آپ رہا ہوں.ایک دو آدمی ایسے ہوتے تھے ان کو یعنی مجھے ڈھونڈنا پڑتا تھا وہ مزاج کہ دفتر سے غیر حاضر نہیں ہو نا مثلاً میں کبھی لنگر ایک میں جا رہا ہوں کبھی دو میں جار ہا ہوں، تین میں جارہا ہوں.اگر دفتر میں جس کو میں نے بٹھایا ہے وہ بھی غیر حاضر ہو جائے ، تو باہر سے کوئی مہمان آئے گا وہ تو یہی کہے گا
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۰۷ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۸۰ء نا مجھے آکے، شکایت کرے گا جی آپ کا دفتر خالی پڑا تھا اور میری راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا.تو ایسے کام بھی ہیں.پھر پیار سے کرنا ہے.باہر وہ فضا نہیں اس واسطے بعض لوگ پوری طرح تربیت یافتہ نہیں ہوتے.ویسے خدا کا فضل ہے جماعت بہت اچھی طرح تربیت یافتہ بھی ہے لیکن نئے آنے والے ہیں ، نئے بچے جوان ہونے والے ہیں ان کو سمجھاؤ ، ان کو پیار سے بتاؤ کہ اس قسم کا یہ کام ہے.خدا کے لئے کام کرنا ہے چند دن کا کام ہے، بڑی برکتوں والا کام ہے، بڑے انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں.انسان انسانوں سے انعام لینے کے لئے بڑی تکالیف برداشت کر لیتا ہے اگر خدا تعالیٰ سے انعام لینا ہوتو یہ تکلیف کوئی تکلیف ہی نہیں.کیا تکلیف ہے کوئی تکلیف نہیں ہے.تو باہر کی جماعتیں بھی حسب ضرورت حسب مطالبہ تعداد جو ہے مطلوبہ تعداد میں رضا کار بھجوائیں سمجھدار ، مستعد ، دن رات جاگنے والے.یہ بھی لوگوں کو وہم ہے کہ اگر ایک رات نہ جاگیں تو انسان کو پتا نہیں مرجاتا ہے یا کیا ہو جاتا ہے.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی میں تین دفعہ یہ سبق سکھایا ہے کہ اگر آدمی دو مہینے بھی نہ سوئے ٹھیک طرح تب بھی کچھ نہیں ہوتا.صحت اچھی ہو جاتی ہے خراب نہیں ہوتی.اس واسطے یہ جلسہ کیا؟ جلسہ کا تو ہر سال ساری رات کام بھی کیا، تھوڑا سا سو بھی لیا کیا فرق پڑتا ہے.گھر جا کے بے شک سولینا اپنی ماؤں کے پہلوؤں میں پیار کروانا ان سے کہ ہم کام کر آئے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی کوشش کرو یہاں کے رہنے والے بھی اور باہر سے آنے والے بھی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقائق کے سمجھنے کی اور ذمہ داریوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم 109 خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۸۰ء تعلق باللہ اور ذکر الہی کی تاکید خطبه جمعه فرموده ۲۸ نومبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام میں دو قسم کی عبادات ہیں.ایک فرض ہے جیسے پانچ وقت روزانہ مسجد میں اگر کوئی عذر مانع نہ ہو نماز ادا کرنا، روزے رکھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا یہ ارکان ہیں ضروری فرائض.بعض اس کے مقابلے میں فرائض کے نوافل ہیں.نوافل آگے دو قسم کے ہیں.ایک نوافل ہیں جن کا تعلق فرائض کے ساتھ ہے مثلاً فرض نماز کے علاوہ ہم سنیں اور دوسرے نوافل ادا کرتے ہیں.فرضی روزے جو رمضان میں ہیں اُن کے علاوہ ہم نفلی روزے رکھتے ہیں.فرضی حج کے علاوہ ہم عمرہ کرتے ہیں.فرضی زکوۃ کے علاوہ ہم صدقات دیتے ہیں.ایک تو یہ نوافل ہیں جو ایک فائدہ یہ دیتے ہیں کہ جو خامی رہ جائے انسان کی فرضی عبادت میں اس کو یہ پورا کرتے ہیں.ایک معنی میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر کے ان خامیوں کو دور کرنے کی توفیق انسان کو عطا کر دیتے ہیں لیکن ایک نفلی عبادت بھی ہے اور ضروری بھی ہے اور وہ بنیا د بنتی ہے تمام عبادات کی خواہ وہ عبادات فرائض میں سے ہوں یا نوافل میں سے ہوں اور اسلام نے اُسے ذکر کے نام سے یاد کیا ہے.ذکر باری، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور چوبیس گھنٹے کا جو دن ہے اس دن میں کسی وقت کے ساتھ اس کا تعلق نہیں،
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۱۰ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۸۰ء سال میں کسی مہینے کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ، عمر بھر میں کسی ایک موقع کے ساتھ نہیں کہ فرض انسان پر ساری عمر میں ایک دفعہ آیا ہے.حج جو ہے ساری عمر میں انسان پر ایک دفعہ ہوتا ہے.مال کے ساتھ یعنی جو اس کے لئے زکوۃ کے یہ شرائط ہیں وہ جب پوری ہو جا ئیں تو اس وقت زکوۃ نکالنی پڑتی ہے اس قسم کے نہیں ہیں بلکہ فرمایا کہ قیما وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ (ال عمران : ۱۹۲) کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے ، لیٹے ہوئے ، ہر وقت ذکر الہی میں مشغول رہنا چاہیے.ذکر معنے واضح بھی ہیں اور مفردات راغب نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے.”الراغب“ کی کتاب ہے ” مفردات راغب اس قرآن کریم کے معانی پر.یہ بڑے بزرگ عالم بھی ہیں صرف لغت کے لکھنے والے نہیں.انہوں نے مختلف اس کے پہلوؤں پر، ذکر کے پہلوؤں پر بحث کی ہے.میں نے ان میں سے اٹھائے ہیں پوائنٹس (Points).وہ لکھتے ہیں کہ ذکر حقیقتا انسانی نفس کی ایک کیفیت ہے اور یہ ایسی کیفیت ہے جس میں نفس انسانی اللہ تعالیٰ کی معرفت کی باتیں یاد رکھتا ہے، دل سے اور زبان سے ان کا اظہار کرتا ہے.استحضار ہے یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات اللہ تعالیٰ کی جو عظمتیں جو ہیں اپنی ذات کے لحاظ سے اور اپنی صفات کے لحاظ سے وہ انسانی دل و دماغ میں، انسان کے قلب میں حاضر رہتی ہیں.انسان سوچتا ہے ہر وقت اور یہ ذکر جو ہے یہ مستقل ہر آن کا ایک تعلق ہے جو بندے کا اپنے رب کے ساتھ ہے اور اس کی مثال میں انہوں نے کہا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكَرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة : ٢٠) اسی طرح وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ (العنکبوت: ۴۶) اس کے معنی انہوں نے بڑے ایک لطیف کئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ وَ لَذِكْرُ الله اکبر اس کے یہ معنی ہیں کہ ذِكْرُ اللَّهِ لِعَبْدِهِ أَكْبَرُ مِنْ ذِكْرِ الْعَبْدِلۂ کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو جس قدر یا درکھتا ہے بندہ اتنا نہیں اسے یا درکھتا اور یہ بد قسمتی ہے.اتنا رحم کرنے والا خدا اور ہم اس کو بھول جائیں ہمیشہ کے لئے بعض بھول جاتے ہیں یا عارضی طور پر بھول جائیں تو بڑی بد بختی ہے.ہر آن اور ہر وقت اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یادرکھا ہے اس کا اظہار پتا کیسے کیا ؟ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) ابھی انسان نے اپنے رب کے حضور کچھ پیش بھی نہیں کیا.پیدا بھی نہیں ہوا انسان لیکن خدا تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد هشتم All خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۸۰ء ہر دو کائنات کی ہر شے میں یہ خاصیت رکھی کہ انسان اس سے خدمت لے سکے.تو ہر چیز پیدا کرتے وقت انسان کو یا درکھانا.انسان تو اتنا ذکر و یسے کر بھی نہیں سکتا، ناممکنات میں سے ہے.اس لئے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اتنے خادم پیدا کئے ہمارے ان میں سے اکثریت ایسے خادموں کی ہے جن کا علم بھی ابھی تک ہمیں نہیں ہوا.ہوتا رہتا ہے.ہرنسل نئے خادموں کا وجود ڈسکور (Discover) کرتی ہے، معلوم کرتی ہے اور ہمارے سامنے رکھتی ہے.ایک وقت میں مثلاً سواری ہے گھوڑے کی سواری ، سواری گاڑی ، گھوڑوں کی اور اس قسم کے دوسرے جانور مثلاً بیل سے بھی انسان نے سواری کا کام لیا، گدھوں سے بھی لیا، سمندر میں چپو سے کشتی بھی چلائی، بادبانوں سے بھی چلائی پھر ایک وقت آیا کہ سٹیم انجن بن گئے اور ریل بن گئی اور جہاز بن گئے جن میں شاید کوئلہ جلتا تھا.انجنز میں بھی ، پتا نہیں شاید اس وقت جو چھوٹے بچے دس پندرہ سال کے ہیں ان کو ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے کبھی سٹیم انجن نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ آج کل دوسرے انجن آگئے ہیں بہت.لیکن پھر ایک وقت میں انسان نے ایک اور خادم معلوم کر لیا سٹیم انجن کا ، پھر ڈیزل انجن آگئے ، پھر بجلی سے چلنے لگ گئیں.پہلے بجلی کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا سوائے اس بجلی کو جو آسمانوں سے گرتی تھی اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کسی کے اوپر ظاہر کر دیتی تھی.عمارتیں گرا دیتی تھیں جانیں لے لیتی تھیں وہ بجلیاں لیکن ان سے خدا تعالیٰ انسان کی خدمت ہی کر رہا تھا نا، خدا اس کو جھنجوڑ رہا تھا کہ میری طرف کیوں توجہ نہیں کرتا تو ، پھر انسان نے معلوم کر لیا.پتا نہیں بے شمار اور چیزیں انسان ایجاد کرتا چلا جائے گا.اس حد تک تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا ہم مجبور ہیں کہ تیری ان عظمتوں کو بھی اپنے ذہن میں حاضر کریں اور رکھیں کہ جو تیری عظمتیں ہمارے سامنے ہی نہیں آئیں لیکن ہمارا یہ عذر تو نہیں ہوسکتا کہ جو عظمتیں ہمارے سامنے آگئیں ان کو ہم بھول جائیں اور کہیں کہ غلطی ہوگئی.اس واسطے میں نے کہا کہ ساری عبادات کی بنیاد ذکر الہی ہے.اس کی ذات کو پہچاننا ، ذکر کے معنی یہ ہیں کہ معرفت ذات باری اور صفات باری.اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی عظمتوں والی.بڑا جلال ہے بڑا حسن ہے اس میں اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (النور :۳۶) ہر کائنات میں، کائنات میں ہر شے میں اگر کہیں انسانی آنکھ یا کوئی
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۱۲ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۸۰ء اور آنکھ حُسن دیکھتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے حسن کا ایک پر تو اور جلوہ ہے.کوئی چیز ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھے بغیر وہ ہو جو ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا مثلاً ایک صفت میں لے لیتا ہوں.ہر صفت کو تو لے کے نہیں بیان کیا جا سکتا، ساری عمر نہیں بیان کیا جاسکتا.خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے الْحَيُّ اور الْقَيُّومُ ہونے میں.خدا تعالیٰ الحَی زندہ ہے بغیر کسی احتیاج کے یعنی اپنے کمال کی جو حیات ہے اس کی ، اللہ تعالیٰ کی جو زندگی اور حیات ہے وہ اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور اس کے لئے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اور وہ قائم ہے اپنی ذات میں اور جو اس کا قائم ہونا ہے وہ بھی اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے.ساری صفات اسی طرح اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں.اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے.ایک ایسا کامل جس کا کمال اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے جو انسان کی عقل اور انسان کی ذہانت اور انسان کی دسترس سے اتنابالا اور ارفع ہے کہ اس کی جھلک تو ہم دیکھ سکتے ہیں جب وہ چاہے اور جب تک وہ چاہے لیکن اس کا احاطہ کرنا یہ انسان کا کام نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیا کی صفات اور خصلتیں جو ہیں اس کے اندر ان کی ان خصلتوں اور صفات کے احاطہ کا دعوی کرنا یہ بھی دعوئی خدائی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے جو چیز نکلی اس کے اندر غیر محدود صفات پائی جاتی ہیں اور آپ نے مثال دی ہے خشخش کے دانے کی کہ اس کے اندر اس قدر صفات ہیں کہ جب تک انسان اس آدم کا ، اس کی اولا دیا آگے آنے والے آدم جو ہیں ان کی نسلیں نئی سے نئی تحقیق شخص کے دانوں پر کرتی چلی جائیں گی ،نئی سے نئی چیزیں اس میں سے نکلتی چلی جائیں گی اور صفات دانہ خشخش کبھی ختم نہیں ہوں گی.یہ حقیقت ہے بہت ساری مثالیں کبھی میں دیتا ہوں.ایک نسل نے کیا سمجھا، سب کچھ پالیا.اگلی نسل نے کہا نہیں پایا تم نے نئی دیکھو چیزیں ہیں اس کے اندر.بہر حال میں بتا رہا تھا لکی اور الْقَيُّوم دنیا کی ہر شے زندہ ہے یعنی جو اس کے اندر صفات ہیں وہ موجود ہیں.زندگیاں مختلف قسم کی ہیں.ایک تو انسان کی زندگی ہے پھر حیوان کی زندگی ہے پھر درختوں کی زندگی ہے پھر معدنیات کی اپنی ایک زندگی ہے.اُس کے اندر بھی ارتقا کا ایک دور
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۱۳ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۸۰ء ہے جو چلتا ہے مثلاً یہ جو بڑے قیمتی ہیرے، ابھی چند دن ہوئے ایک ایسے ہیرے کے متعلق خبر تھی کہ وہ ساٹھ لاکھ ڈالر کو بکا تو جس کا مطلب ہے چھ کڑور روپے کا لیکن خدا ایک دن میں بھی وہ پیدا کر سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی صفت خلق میں تدریج کا اصول جاری کیا ہے.مٹی زمین کے اندر مٹی کے ذرے عام مٹی کے ذرے ہزار ہا لکھوکھہا سال کے بعد پتا نہیں کون سے اصول ہیں ہمیں نہیں پتا ابھی تک انسان کو مگر بہر حال خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے وہ اصول ہیں وہ ہیرا بن جاتا ہے کوئی لعل بن جاتا ہے کوئی زمرد بن جاتا ہے کوئی مینڈک بن جاتا ہے کوئی چھپکلی بن جاتے ہیں ذرے کوئی انسان بن جاتا ہے اور انسان سے فرعون بن جاتا ہے.بیوقوف انسان تو اپنی حیثیت کو پہچان.جہاں تک احتیاج کا سوال ہے ایک انسان کی زندگی اور اس کے قائم رہنے کا یعنی اس کو جو صفات خدا تعالیٰ نے دی ہیں عقل دی ہے ، فراست دی ہے، آگے بڑھنے کا ایک جذبہ دیا ہے.تحقیق کا ایک جوش دیا ہے اور آگے وہ بڑھ رہا ہے دنیا کے ہر میدان میں.جہاں تک احتیاج کا سوال ہے یہ انسان بھی خدا کا محتاج ہے اور ایک سانپ بھی خدا کا محتاج اور چھپکلی اور چھچھوندر بھی خدا کی محتاج اور ایک مینڈک بھی اسی طرح خدا کا محتاج ہے.تو جہاں تک احتیاج کا سوال ہے تم میں اور ایک گدھے میں یا ایک چھپکلی میں ، ایک چھچھوندر میں اور یا ایک سانپ میں کوئی فرق نہیں ہے.اپنے مقام کو انسان کو پہچانا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی عظمتیں ہر وقت سامنے رکھنی چاہئیں یعنی وہ حاضر رہیں دل و دماغ میں.اُس کو عربی کا لفظ ” قلب“ کہتے ہیں.وہ یہی ہے کہ انسان کی جو کانٹس مائنڈ (Consicous mind) ہے.کانشس مائنڈ ، بھولتا نہیں.اس کے اندر ہر وقت خدا تعالیٰ کی عظمت ہوتی ہے اس کی ذات کی بھی اور اس کی صفات کی بھی ، اس کو ذکر کہتے ہیں اور ذکر کے معنی میں یہ ہے کہ جو عظمت انسان اپنے دل و دماغ میں پہچانتا ہے اس کا ذکر بھی کرے، تسبیح کرے، اس کی تحمید کرے، اپنی جو کمزوریاں ہیں اس کا اظہار کرے، اس سے مانگے کہ اس سے جب تک وہ نہ دے مل نہیں سکتا.دعا کا ایک سلسلہ انسان کے لئے جاری کیا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لكُم (المؤمن : ۶۱ ) اتنی بڑی بشارت اور وعدہ کر لیا انسان سے.ابھی پیچھے جیسے ایک احمدی نہیں وہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۱۴ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۸۰ء بڑے ذہین، منجھے ہوئے ، بڑی عمر کے ایک دوست ملے تو میں نے بتایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ فضل کر رہا ہے جماعت کے نوجوانوں پر، بڑے ذہن ہمیں عطا کر رہا ہے.توئن کے کچھ حیران ہوئے مجھے کہنے لگے یہ سارا کچھ آپ سے کیوں یعنی اللہ تعالیٰ کا معاملہ آپ سے ہی کیوں ہے.میں نے کہا ہم مانگتے ہیں ہمیں مل جاتا ہے تم نہیں مانگتے تمہیں نہیں ملتا اور تو کوئی فرق نہیں.تو حقیقت یہ ہے کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :(۶) یہاں یہ تو نہیں کہا کہ روٹی مانگو جو تورات نے کہہ دیا تھا تو میں تمہیں روٹی دے دوں گا.کہا ہر چیز مانگو اور اس پر ایمفیسز (Emphasis)اس کو نمایاں کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تیرے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے خدا سے مانگ.بڑا عظیم ہے یہ وعظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس لئے کہ ہم نے یعنی میں نے زندگی کا میرا یہ مشاہدہ ہے کہ ایک شخص گھر سے نکلا کام کے لئے اور جس جگہ دکان پر اس نے پہنچنا تھا اس سے پہلے پہلے، سائیکل پہ جا رہا تھا اور ہارٹ فیل ہوا اور وہاں گر گیا.وہ پہنچ ہی نہیں سکا وہاں.تو کسی کا یہ سمجھنا کہ میں اپنے زور بازو سے دکان پر جا کر اپنے پیسے دے کے جوتے کا تسمہ لے لوں گا حماقت ہے.تم پہنچو گے تو تسمہ لو گے.تم واپس زندہ آ جاؤ گے تو تسمے کو استعمال کر سکتے ہو.زندگی اور موت تو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اس واسطے فرمایا جو تے کا تسمہ بھی خدا سے مانگ.درودو الْحَى القيوم ، عظمت خدا کی یہ ہے، خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی جو بڑائی ہے اور بزرگی ہے وہ میں بتا رہا ہوں اس وقت آپ کو کہ اس کا ئنات کی کوئی چیز نہ زندہ رہ سکتی ہے نہ قائم رہ سکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ جوزندہ خدا ہے ایک زندہ تعلق اس کا نہ ہو.انسان کے ساتھ ایک اور رنگ کا اس کا تعلق ہے اس میں انسان کو کہا تو کوشش کر.اور دوسری چیزوں کے ساتھ اور رنگ کا تعلق ہے کیونکہ ان کے متعلق ہمیں قرآن کریم میں بتایا گیا کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم :-) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ فقرہ جو ہے یہ تو فرشتوں کے متعلق ہے لیکن کائنات کی ہر شے سوائے انسان کے جو ایک محدود دائرہ میں آزاد بنایا گیا اور خدا کے مقابلہ میں بیوقوفی کر کے کبھی کھڑا بھی ہو جاتا ہے، ہر شے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کے اندر ہے.جو حکم خدا دیتا
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۱۵ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۸۰ء ہے اس کے مطابق وہ کرتی ہے.کبھی پتھروں نے بغیر پر کے ہوا میں پرندوں کی طرح اڑنے کی خواہش نہیں کی وہ اپنی جگہ پڑے ہوئے ہیں.پرندے اپنا کر رہے ہیں.ساری دنیا سوچو ذرا ساری دنیا کا سوچا کرو.تو ذکر جو ہے وہ ساری عبادات کی بنیاد ہے اور کوئی قید نہیں کہ جسم کو اس طرح کھڑا کرو.نیت باندھ لیتے ہیں نا ہم ، قید ہے ایک نماز کی.آپ جو فرض نماز یا اسی قسم کے نوافل یاستیں ہیں وہ یہ نہیں کر سکتے کہ جی ہم لیٹے لیٹے پڑھ لیں گے نہیں کرنا پڑے گا وہ.لیکن ذکر جو ہے کوئی شرط نہیں ہے، کوئی قید نہیں ہے.صرف قید یہ ہے کہ اپنی زندگی کا ہرلمحہ میری یاد میں گزار و اور میری ہر نعمت مجھ سے پالو.بڑا عظیم وعدہ ہے لیکن کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا، کچھ محنت کرنی پڑتی ہے، کچھ عادت ڈالنی پڑتی ہے، کچھ سوچنا پڑتا ہے، خدا کی عظمتوں کا سامنے خیال لانا پڑتا ہے.انسانی تاریخ میں وہ عظمتیں آئیں.ہمارے آقا اور محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم ، غریب مسکین بچہ خدا نے کہا تھا کہ میں نے تجھے ہر دو جہاں کا بادشاہ بنا دیا.بنا دیا، بنے نہیں ؟ کون سی طاقت تھی آپ کے پیچھے؟ کوئی مادی طاقت تو نہیں کوئی جتھہ نہیں تھا کوئی سیاسی طاقت نہیں تھی.خدا کا وعدہ تھا اور اس وعدے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرہ ذرہ قربان تھا اور اپنی عظمتیں پالینے کے بعد اپنے خدا سے اعلان یہی کیا کہ جنت میں اپنے عمل سے نہیں جاؤں گا خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے جاؤں گا.ہمیں بڑا سبق دیا یعنی آپ کے لئے یہ خطرہ تو نہیں تھا کہ کوئی ایسا عمل کر دیں کہ خدا ناراض ہو جائے.یہ تو ویسے انسانی عقل کے لئے ممکن چیز نظر نہیں آتی لیکن خدا کی عظمتیں اپنی جگہ پر قائم تھیں.اپنے ان عظمتوں والے رب سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا اپنی جگہ پر قائم تھا.عبودیت کی عبد ہونے کی نسبت اپنی جگہ پر قائم ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھا.غلطی کہیں نہیں کی آپ نے اپنی زندگی میں.ہمارے لئے تبھی اُسوہ بن گئے نا ہم میں سے ہر ایک کے لئے.قرآن کریم نے بتایا ہے بڑی اہم چیز ایک بتائی.قرآن کریم کہتا ہے کہ انسان کو اپنی ترقیات کے لئے یا اپنے تنزل کے لئے دو جگہ بہر حال تعلق پیدا کرنا پڑے گا.ذکر الہی سے خدا سے تعلق پیدا کر لے یا، یا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيْضُ لَهُ شَيْطَئًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ -
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۱۶ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۸۰ء وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّ ونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ.(الزخرف: ۳۸،۳۷) اور جو رحمن خدا کے ذکر سے منہ موڑ لیتا ہے، ایک تو وہ ہے جو منہ نہیں موڑتا اور ہر وقت یادِ باری میں لگا رہتا ہے ایک یہ تعلق بتایا.دوسرا تعلق اگر یہ نہیں تو دوسرا ایک ہی تعلق ہے یعنی بیچ میں اور کوئی نہیں ہے یا خدا سے تعلق ہوگا یا شیطان سے وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكرِ الرَّحْمٰنِ اگر خدا سے تعلق نہیں کوئی پیدا کرتا تو خدا تعالیٰ شیطان سے اس کا تعلق پیدا کر دیتا ہے.جو رحمن خدا کے ذکر سے منہ موڑ لیتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ہر وقت کا ساتھی ہوتا ہے.تمہیں کہا گیا ہے کہ خدا کو اپنا ہر وقت کا ساتھی بناؤ.ہر وقت ذکر باری میں لگے رہو.اگر نہیں کرو گے ایسا اور یہاں یہ جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ اتنا عظیم خدا، اتنا ہمیں یادرکھنے والا ہمیں خدا کہ کائنات کی ہر شے میں یہ صفت پیدا کی کہ ہماری خدمت وہ کر سکے اور انسان کو یہ طاقت عطا کی کہ وہ اس سے خدمت لے سکے.یہاں اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کیونکہ رحمن کی صفت یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ افضال اور نعماء اور برکتیں اور رحمتیں جو انسان کے کسی عمل صالح کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض محض خدا تعالیٰ کے فیض کے نتیجہ میں انسان کو ملتی ہیں.تو بتایا کہ جو رحمن خدا کے ذکر سے منہ موڑ لیتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ ہر وقت اس کا ساتھی ہوتا ہے اور یہ جو ہر ایک کے ساتھ شیطان ہے تو بہت سے شیاطین بن گئے ، ان کے ان کو ان لوگوں کو جن کے وہ ساتھی ہوتے ہیں اس سچے راہ سے، اس صراط مستقیم سے روکتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے پیار کی طرف لے جانے والی ہے اور روکے رکھتے ہیں اور یہ لوگ ایسے ہیں جو شیطان کے دھوکہ میں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بچے راستہ پر چل رہے ہیں اور خدا انہیں مل جائے گا یعنی بڑی بد بختی ہے ایک شخص غلطی کرتا ہے، غلطی کا احساس اسے پیدا ہو جاتا ہے.وہ استغفار کرتا ہے، واپس لوٹتا ہے اپنے رب کی طرف اور ذکر شروع کر دیتا ہے تو بڑا خوش قسمت ہے وہ انسان.لیکن ایک وہ ہے کہ جو رحمن خدا سے کلیتاً رشتہ چھوڑ دیتا ہے ، ذکر الہی نہیں کرتا.خدا کہتا ہے اگر میرا ذکر نہیں کرو گے شیطان کے ساتھ شیطان تم پر مسلط کر دوں گا تم پر اور پھر ایسا مسلط کروں گا کہ تمہیں پوری طرح وہ اپنی گرفت میں لے گا اور غلط راہوں پر تم چل رہے ہو گے اور سمجھو گے کہ ہم خدا تعالیٰ کو خوش کر
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۱۷ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۸۰ء رہے ہیں.مثلاً منافقین کے متعلق بھی قرآن کریم کے شروع میں یہ بتا یا گیا ہے کہ جب ان کو کہا جائے کہ جو صلاح کے رستے ہیں، جو معاشرے کو درست کرنے کی باتیں ہیں ان کو اختیار کرو، تو وہ کہتے ہیں فساد نہ کرو.کہتے ہیں ہم فساد تو نہیں کرتے ہم تو مصلح ہیں.خدا کہتا ہے نہیں تم مصلح نہیں ہو تم مفسد ہو.اسی طرح وہ خدا کہتا ہے دیکھو ہر آدمی بڑا بھی چھوٹا بھی مختلف قابلیتیں ہیں وہ اپنی اپنی ہمت اور طاقت اور استعداد کے مطابق ذکر الہی میں مشغول ہیں اُس قسم کا ایمان لاؤ.وہ کہتے ہیں جو بیوقوف لوگ ہیں ہم اس قسم کا ایمان لے آئیں.تکبر آ گیا نا.ایک اور جگہ ذکر الہی سے جو خود کو محروم کر دیتا ہے یعنی خدا تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے اس کے متعلق خود قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ تکبیر کی لعنت میں ملوث ہو جاتا ہے اور مارا جاتا ہے.یہ اہم چیز ہے بڑی جیسا کہ میں نے بتایا دوہی جگہ انسان کی روح اپنا رشتہ قائم کرسکتی ہے یا اللہ سے ذکر الہی کر کے یا شیطان سے یا ذکر الہی کو چھوڑ کر.تو ہر وقت چوکس رہ کر خدا تعالیٰ کی یاد میں اس کی عظمتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی ذات کی معرفت ، اس کی صفات کی معرفت زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک احمدی کو اپنی زندگی کے دن گزار نے چاہئیں.اس لئے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دن اور رات تم اپنا اٹھنا اور بیٹھنا، تم اپنا سونا اور جاگنا، آج کی دنیا کے لئے جو آدم کی نسل اب باقی رہ گئی ہے اس کی زندگی اگلا ہزار سال اس کے لئے ایک نمونہ بنو اور اُسوہ بنو.تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے ہو اور اپنے رب کریم کو ہر وقت اور ہر آن یا درکھنے والے اور اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنے والے اور خدا کے حضور سب کچھ پیش کر دینے والے بن جاؤ.خدا کرے کہ ہمیں اس کی اُسی کی طرف سے توفیق مل جائے.آمین ( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۱۹ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء قرآن کریم میں تمام شرائع کی ابدی صداقتیں پائی جاتی ہیں خطبه جمعه فرموده ۵/ دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ان هذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصلحتِ اَن لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا وَ اَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا الِيمًا.(بنی اسراءیل : ۱۱،۱۰) ترجمه ان دو آیات کا یہ ہے کہ یہ قرآن کریم یقیناً اس راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے جوا قوم ہے اور مومنوں کو جو مناسب حال کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر مقدر ہے اور ( قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے.سیدھی راہ کو اختیار کرنا انسانی فطرت میں ہے.سیدھا راستہ وہ ہے جو منزل مقصود تک سب سے کم فاصلہ طے کرنے کے بعد پہنچا دیتا ہے.جو دوست زمیندار ہیں یا جن کو لوگوں کی زمینوں کے کناروں پر یا پگڈنڈیوں پر پھرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ فطرت کا تقاضا پورا کرتے ہوئے
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۲۰ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء بہت سے لوگ دوسروں کی کھیتیوں کو پاؤں نیچے روندنے کی بھی پروا نہیں کرتے اور اپنے راستے کو سیدھا کرنے کے لئے کھیتی میں پگڈنڈی بنا لیتے ہیں.بڑی کثرت سے یہ آپ کو نظر آتا ہے کیونکہ پگڈنڈی پر چل کر وہ قریب ترین فاصلہ طے کرنے کے بعد اپنے مقصود کو منزل مقصود کو پہنچ جاتے ہیں.ان آیات میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں اس میں سے میں اس وقت دو کولوں گا.دوست جانتے ہیں کہ جب میں سفر پر روانہ ہوا اس وقت بھی بیماری کی حالت میں روانہ ہوتا تھا.گردے میں بڑی سخت انفیکشن (Infection ) ہوئی اور یہ ۲۵ / مارچ کی بات ہے اور اپریل مئی جون تین مہینے کے بعد ۲۴ جون کو جب میں سفر پہ روانہ ہوا اور میں نے ربوہ چھوڑا تو اس وقت بھی ڈاکٹر کہتے تھے کہ دس فیصد بیماری ابھی باقی ہے اور دوا جو ہے اس کا استعمال جاری رہنا چاہیے.چنانچہ مزید قریباً دو اڑھائی ماہ میں نے وہ دوائی کھائی جو خود دوائی بھی کمزور کرنے والی ، اس کے بعد میں نے چھوڑ دی.پھر یہاں جب آئے تو ضروری ذمے داریاں انتظار کر رہی تھیں، انصار اللہ کا اجتماع تھا، پھر خدام کا اجتماع تھا.میں نے محسوس کیا کہ گردے میں انفیکشن پھر زیادہ ہوگئی ہے.یہاں ٹیسٹ کروایا تو کافی نکلی لیکن میں نے یہاں کے ڈاکٹروں کو کہا کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران میں آپ کی دوائی اس لئے نہیں کھاؤں گا کہ زیادہ کمزوری ہو جائے گی اور میں ذمہ داری کو ادا کرنا چاہتا ہوں اور بیماری کو بھول جانا چاہتا ہوں.ان اجتماعات کے بعد میں اسلام آباد گیا اور وہاں ڈاکٹر محمودالحسن صاحب نے معائنہ کیا اور ٹیسٹ لئے اور گردے میں سوزش کی تکلیف نکلی تو انہوں نے ایک ہی وقت میں دو دو ا ئیں شروع کروادیں مجھے، اور دونوں ہی کمزور کرنے والی قریباً چھ دن ہو گئے ہیں مجھے وہ کھاتے ہوئے اور کمزوری محسوس کر رہا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری سے نجات دے اور صحت کے ساتھ مجھے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا کرے.اس وقت میں دونوں آیات کے مضامین نہیں بیان کروں گا صرف دو باتیں میں نے ان دو آیات سے اٹھائی ہیں.ایک یہ اعلان کیا گیا ہے کہ جس راستہ کی طرف ہمارا پیارا یہ قرآن، قرآنِ عظیم جو ہے وہ راہنمائی کرتا ہے وہ اقوم “ ہے.عربی زبان میں اقوم کے بہت سے معانی ہیں.یہاں جو معانی
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲۱ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء چسپاں ہوتے ہیں یا جن معانی کے مطابق ہم تفسیر کر سکتے ہیں وہ یہ ہیں.سب سے زیادہ درست اور سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرنے والی ہدایت جس میں ذرا بھی کبھی نہیں.یہ جو سیدھی راہیں ہیں یہ نسبتی طور پر بھی سیدھی ہیں، روحانی عالم میں اور مستقل حیثیت میں بھی سیدھی ہیں.مثلاً جو شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اس میں ایک حکم یہ تھا کہ انتقام لو، ان کے حالات کے مطابق یہ سیدھا راستہ تھا لیکن کامل ہدایت کے نقطہ نگاہ سے یہ سیدھا راستہ نہیں تھا.حضرت عیسی علیہ السلام پر یہ ہدایت نازل ہوئی، تو رات کو ہی وہ مانتے تھے لیکن تو رات کے ماننے والے جو انبیاء آئے وہ حالات کے بدلنے کے ساتھ خدا تعالیٰ کی وحی سے ، خدا تعالیٰ کی وحی کے مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے ، تو رات میں کچھ تبدیلیاں چھوٹی چھوٹی ، بڑی بڑی کرتے رہے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام پر یہ وحی نازل ہوئی کہ انتقام نہیں لینا، معاف کرو، انسانی فطرت کے لحاظ سے یہ بھی پوری طرح سیدھی راہ نہیں تھی لیکن بنی اسرائیل کی اس وقت کی کیفیت روحانی کے لحاظ سے یہ سیدھی راہ تھی تو ایک نسبتی سیدھا پن ہے، استقامت ہے، صراط مستقیم کا ہونا ہے اور ایک حقیقی طور پر اور بغیر نسبت کے کامل اور مکمل طور پر راہ کا سیدھا ہونا ہے.قرآن کریم کے لئے اسی واسطے اقوم کا لفظ بولا گیا ہے.پچھلی ساری جو ہدایتیں آئی ہیں وہ بوجہ ایک قوم کو مخاطب کرنے اور بوجہ اس کے کہ ان کا تعلق صرف ایک محدود زمانہ سے تھا کامل اور مکمل نہیں ہو سکتی تھیں کیونکہ زمانہ کے بدلنے کے ساتھ اور قوم قوم کے حالات میں جو فرق پایا جاتا تھا اور ان کے معاشرے میں ، ان کے روحانی ارتقاء کے لحاظ سے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر جو وحی نازل کی وہ ایک کامل وحی نہیں تھی اس معنی میں جس معنی میں قرآن کریم کی وحی ایک کامل اور مکمل وحی ہے.اس لئے اس کی تعلیم جو ہے وہ اقوم ہے یعنی سب سے سیدھی راہ ، ہدایت کی سب سے سیدھی راہ جو ہر قسم کی کبھی سے پاک ہے، وہ کجی جو زمانہ پیدا کرتا ہے، وہ بھی جو ملک ملک کے حالات پیدا کرتے رہے ان سب سے پاک ہو کر نوع انسان کو خواہ بعد میں قیامت تک آنے والے کسی زمانہ سے ان کا تعلق ہو یا کسی ملک سے ان کا تعلق ہو سب کے لئے ایک سیدھی راہ معین کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے پیار تک لے جانے والی اور اس کی رحمتوں کے حصول کے قابل بنادینے والی ہے، اگر اللہ چاہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲۲ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء اقوم کے لفظ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ یہ ہمیشہ رہنے والی ہے.جیسا کہ سیدھی راہ کی تفصیل کے بیان سے آپ سمجھ گئے ہوں گے.قیامت تک قائم رہنے والی سیدھی راہ جو ہے قرآن کریم اس کی طرف ہدایت کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک ہر آنے والی نسل جو نئے مسائل لے کر پیدا ہوگی ان کا حل اس میں موجود ہے.( یہ بڑا اہم نکتہ ہے ) ہر نسل انسانی نئے مسائل لے کر پیدا ہوتی ہے ہر نسل انسانی کے نئے مسائل کو حل کرنے کی اور اس طور پر ان کی فلاح اور بہبود کا سامان پیدا کرنے کی طاقت قرآن کریم میں موجود ہے اور یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ اپنے سفر میں میں اس دنیا کو جو ابھی تک اسلام کے نور سے منور نہیں اس بات کا قائل کر دیتا ہوں کہ جو تمہارے مسائل ہیں اور جنہیں تم حل نہیں کر سکے انہیں قرآن کریم حل کرتا ہے.تیسرے معنی ”اقوم“ کے یہ ہیں (سب معانی کا آپس میں تعلق ہے ) کہ پہلی کتب سماویہ میں ، پہلی شریعتوں میں جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیں، ان کی دائی صداقتیں اس میں پائی جاتی ہیں.کہتے ہیں ایک لاکھ میں یا چوبیس ہزار انبیاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے تھے ان میں خدا جانے کتنے صاحب شریعت ہوں گے.قرآن کریم نے کہا ہے ہم نے بعض کا ذکر کیا بعض کا ہم نے ذکر نہیں کیا لیکن ہر قوم کی طرف ہم نے نذیر بھیجا.قوموں کے نام مٹ گئے.ان کی طرف آنے والے انبیاء کے نام یاد نہیں رہے.ان شریعتوں کو ہماری تاریخ بھول گئی لیکن ہر شریعت میں جو ابدی صداقتیں تھیں ان کو قرآن کریم جمع کرنے والا ہے.اس واسطے اس کی راہ سیدھی راہ بھی ہے ، قیامت تک انسان کے مسائل حل کرنے والی طاقت رکھنے والی راہ بھی ہے اور ایک کامل راہ بھی ہے.جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانِ کامل ہیں.آپ کی لائی ہوئی شریعت شریعت کا ملہ ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ رہبری میں بھی کامل ہے.یہ فلسفہ نہیں ہے ، اس کی تفصیل میں جائیں تو یہ معنی ہیں کہ دلائل عقلیہ کے لحاظ سے اتنی زبر دست یہ کتاب ہے کہ کسی عقلمند کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ عقلاً اس پر اعتراض کر سکے، اگر نا سمجھی سے کر دیا جائے تو ہم اسے سمجھا سکتے ہیں کہ تمہارا اعتراض غلط ، اسلام کی تعلیم صحیح ہے.تو جو اس کو دلائل عقلیہ عطا ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بھی کامل ہیں.دوسرے برکات سماویہ کے لحاظ سے یہ کامل کتاب ہے.
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲۳ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء یہ ہدایت جو ہے یہ اقوم ہے دلائل عقلیہ کے لحاظ سے اور برکات سماویہ کے لحاظ سے دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے جب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مبعوث ہوئے شیطان نے اپنے گروہ کے ذریعے اس شریعت پر اعتراض کرنے شروع کر دیئے اور جتنے بھی اعتراض ہوئے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو کھڑا کر تا رہا جو ان کے جواب دیتے رہے اور اس زمانہ میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اور آپ کی جماعت کے اوپر یہ ذمے داری ڈالی گئی ہے کہ عقل کے میدان میں ہر اعتراض کا جواب دو.جواب ہے موجود.کہاں سے حاصل کرو؟ دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے جواب حاصل کرو اور کئی دورے میں نے کئے ہیں.پہلی دفعہ بھی اعتراض سنا تو اسی وقت خدا تعالیٰ نے اس کا ایسا جواب بتایا کہ بعض دفعہ چہرے زرد ہو گئے بعض دفعہ زبانیں خاموش ہو گئیں.بہر حال یہ ایک زبردست انعام ہے جو اُمت محمدیہ کو دیا گیا ، دلائل عقلیہ اور برکات سماویہ.دنیا کے ہر مذہب ، ہر ازم پر غالب آئے گی یہ اُمت ، ایسے لوگ اس میں پیدا ہوتے رہیں گے.چوتھا پہلوا قوم کے معانی کا یہ ہے کہ یہ شریعت کا ملہ انسانی فطرت اور سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے.ایک کامل دائرہ کی طرح بنی آدم کے تمام قویٰ پر محیط ہے.کامل راہنمائی ہے.کوئی ایسا پہلو اس نے نہیں چھوڑا جس کی کامل نشو ونما کے سامان اس میں نہ پیدا کئے گئے ہوں.اس کو ہم اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے ان تمام کمالات کے حصول کی راہ اس کو دکھلا دینا یہ قرآن کریم کا دعوی ہے خدا تعالیٰ نے بیان کیا ہے اس آیت میں کہ قرآن کریم میں یہ طاقت ہے کہ ہر پہلو انسانی فطرت کا جو ہے ہر قوت ، استعداد اور صلاحیت جو اس کو دی گئی ہے، اس کی کامل نشو و نما کس طرح کی جاسکتی ہے.اس طرف قرآن کریم ہدایت دیتا ہے اور وہ راہیں اس کے لئے میتر اور آسان کر دی ہیں جن کے حصول کے لئے اس کی فطرت میں استعداد رکھی گئی ہے.قرآن کریم نے جو ہدایت انسان کے ہاتھ میں دی، یہ جو شریعت ہے یہ اقوم ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر عظیم ہدایت کے نزول کے بعد اگر انسان اس پر ایمان لائے
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۲۴ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۸۰ء اور اپنے فکر اور عمل کو اس کے سانچہ میں ڈھالے اور اعمالِ صالحہ بجالائے تو اس کو اتنا اجر ملے گا جو پہلے کسی کو نہیں مل سکتا تھا.آجدًا كبيرا تیار کیا گیا ہے اور یہ جو اجر ہے اس کا تعلق صرف اس زندگی سے نہیں اُس زندگی سے بھی ہے.انسان نے دو جگہ غلطی کھائی.اُس کا قدم دوطرف پھسلا.بعض نے کہا اس زندگی میں اجر نہیں ملتا.جنت ایک ہے مرنے کے بعد ملے گی.قرآن نے کہا تھا کہ جنتیں دو ہیں اس دنیا میں بھی تم جنت میں جا سکتے ہو ، جنت کو حاصل کر سکتے ہو اور مرنے کے بعد بھی جنت میں جاسکتے ہو، اس کے لئے تم سعی کرو، مجاہدہ کرو ، جہاد کرو ( حقیقی معنی میں ) ایسے اعمال کرو، اتنی دعائیں کرو کہ تمہارے ان اعمال کو اللہ قبول کر لے.مقبول عمل کی تمہیں توفیق ملے اور ہر دو جنتوں کے تم وارث بن جاؤ.تو اجرا كبيرا جو ہے اس کے دو پہلو ہیں.اس دنیا میں اجر اور مرنے کے بعد جنت ، اس دنیا کی جنت اور مرنے کے بعد کی جنت.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ (بنی اسرآءيل:۱۱) کہ جولوگ خدا تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی کی طرف توجہ نہیں کرتے بڑی کمزوری ان کے دل اور دماغ اور روح میں یہ ہوتی ہے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے.جب آخرت پر ایمان نہ لائے اور خدا تعالیٰ کے محاسبہ کو بھول گئے اور اس سے غافل ہو گئے اور سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد محاسبہ نہیں کرے گا اور کوئی جزا سزا نہیں اور نیک اعمال کے لئے کوئی جنت نہیں اور خدا تعالیٰ کا غضب انسان پہ بھڑک نہیں سکتا کیونکہ ہے ہی نہیں اُخروی زندگی، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر تم نے اس اقوم ہدایت کے مطابق زندگی نہ گزاری تو اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ( بني اسراءيل:۱۱) جس طرح اس پر عمل کرنے والوں اور مقبول اعمالِ صالحہ بجالانے والوں کے لئے اجر کبیر ہے اسی طرح جو اس پر عمل نہیں کرتے ان کے لئے ایسا درد ناک عذاب ہے کہ جسے سوچ کے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور اجر کبیر کا ہمیں وارث بنائے.ان ہر دو جنتوں میں ، اس دنیا کی جنت میں بھی اور مرنے کے بعد جو جنت ہے اس میں بھی.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۴ / مارچ ۱۹۸۱ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲۵ خطبه جمعه ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء سپین میں مسلمانوں نے خدائی حکم اِعْتِصَامِ بِحَبْلِ اللهِ کو نظر انداز کر دیا تھا خطبه جمعه فرموده ۱۲ر دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو اینٹی بائیوٹک (Anti-Biotic) مجھے گردے کی تکلیف میں دی جارہی ہیں انہیں کھاتے ہوئے دو ہفتے آج ہورہے ہیں جہاں تک انفیکشن (Infection) کا تعلق ہے تین دن ہوئے کلچر لا ہور سے کروایا تھا تو وہ اس کا نتیجہ بتاتا ہے کہ کوئی انفیکشن اب باقی نہیں رہی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ - لیکن ڈاکٹر محمود الحسن صاحب جن کا علاج ہے انہیں فون پر جب یہ بتایا گیا تو انہوں نے کہا پہلے بھی دوائیں چھوڑنے کے بعد بیماری عود کر آئی تھی اس لئے مزید ایک ہفتہ پوری خوراک اس دوائی کی کھائی جائے اور اس کے بعد نصف خوراک اس کی کھائی جائے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ دے.یہ عرصہ ختم ہو گا جس دن جلسہ شروع ہوتا ہے ہمارا چھبیس کو.اس روز شاید مجھے ایک دن چھوڑنی پڑے کیونکہ کافی ضعف یہ ادویہ کرتی ہیں.بہر حال کام کی قوت تو خدا تعالیٰ کی رحمت عطا کرتی ہے.انسان کی کوششیں تو نہیں.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ذمے داریوں کو پوری طرح ادا کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین.بعض ایسے لوگ بھی ہیں اس دنیا میں جو کہتے ہیں کہ سب کام تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرنے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲۶ خطبه جمعه ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء ہیں.پھر ہمیں تدبیر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسلامی تعلیم یہ نہیں نہ قرآن کریم اس کی اجازت دیتا ہے.ایک موقع پر فرمایا.لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُ والهُ عُدَّةٌ (التوبة:۴۶) کہ منافق جو جہاد کے موقع پر مختلف عذر پیش کرتے ہیں کہ دل تو بڑا کرتا ہے جانے کو مگر یہ عذر در پیش آگیا اچانک اور وہ عذر در پیش آ گیا اچانک اس لئے ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم پیچھے رہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے یہ عذر اس لئے قابل قبول نہیں کہ تم نے تو جہاد کے لئے کبھی تیاری نہیں کی.تمہاری نیتیں تو شروع سے ہی خراب تھیں.اس میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جس کام کے کرنے کی نیت ہو جس کام کا عزم ہو اس کے لئے اللہ تعالی کے بتائے ہوئے طریق پر تد بیر کرنی ضروری ہے.تو ارادوا الخُرُوجَ لَاعَةُ والهُ عُدَّةٌ.دنیا میں کاموں کی نوعیت مختلف ہے.دنیا میں ہماری زندگیوں میں جہاد جہاد کی شکلیں مختلف ہیں.اس زمانہ میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو عظیم جہاد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی جماعت کر رہی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے نتیجہ میں اور آپ کی قوت قدسیہ پر بھروسہ کرتے ہوئے بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ کی قیادت میں اس کی شکل پہلے زمانوں کی ضرورتوں سے مختلف ہے.یہ جہاد ہے اپنے نفوس کے خلاف جہاد کر کے ایک پاک نمونہ پیدا کرنا اور اس پاک نمونہ کے ہاتھ میں قرآن کریم دے کر دنیا کے سامنے اس کی تعلیم کو پیش کرنا.یہ جو نفس کے خلاف جہاد ہے اس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے.اس کے لئے ہر آن چوکس رہنے کی ضرورت ہے.اس کے لئے بہت سی تدابیر کی جاتی ہیں جن میں سے ایک بڑی تدبیر الہی منشا کے مطابق جلسہ سالانہ کی ہے ہم ہر سال دسمبر کے آخر میں عام طور پر ۲۷،۲۶ اور ۲۸ / دسمبر کو جلسہ سالانہ منعقد کرتے ہیں.یہ جلسہ بڑی ہی برکتیں لے کر آتا ہے.نئی نسل ، نئے ہوش سنبھالنے والے ہمارے بچے ، نئے ہم میں داخل ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں ان تین دنوں میں اتنی تربیت حاصل کر لیتے ہیں اگر وہ یہاں آئیں اور وقت کو ضائع کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ، تو پورے سال میں اس قسم کی تربیت انہیں حاصل نہیں ہوسکتی.اتنا بڑا جلسہ اس کا انتظام کرنا کوئی معمولی بات نہیں.اللہ تعالیٰ اتنا فضل نازل کرتا ہے، اتنی رحمتوں سے نوازتا ہے کہ آپ لوگوں کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کب جلسہ
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۲۷ خطبہ جمعہ ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء آیا ، کب ختم ہو گیا.ڈیڑھ دو لاکھ آدمیوں کی رہائش کا انتظام کرنا ، ان کے کھانے کا انتظام کرنا ان کی صحت کا خیال رکھنا یہ انسان کا کام نہیں ہے جب تک خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل نہ ہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا عملاً.ہم سے کہیں زیادہ امیر اور منظم ایسے ادارے میرے علم میں ہیں کہ دس ہزار کو کھانا کھلا نا پڑ گیا تو ایک قیامت بپا ہوگئی.سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کیسے سنبھالیں اس انتظام کو لیکن اس جلسہ میں جو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق جاری کیا یہ احساس ہی نہیں آپ کو ہوتا کہ اتنا بڑا انتظام بھی کرنے کی ضرورت ہے.سب کام خدا تعالیٰ خود ہی کرتا چلا جاتا ہے.جو خدا کرتا ہے اس کا کریڈٹ (Credit) آپ کو تو نہیں جاتا.وہ تو خدا نے کیا خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ کرتا ہے.دعاؤں کے ساتھ اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.انکسار کے ساتھ خدا کے حضور عاجزانہ پکار ہونی چاہیے ہماری کہ اے خدا! ہم تیرے عاجز بندے تیرے اس جلسے کو نہیں سنبھال سکتے اگر تیری مدد کا ہاتھ ہمارے شامل حال نہ ہو.جلسہ اب قریب آ گیا ہے اس لئے آپ جہاں دنیوی تدابیر اس جلسے کی کامیابی کے لئے کریں اپنی ذمہ داریوں کو مادی دنیا میں نبھانے کے لئے ، وہاں بہت زیادہ دعائیں کریں اللہ تعالیٰ سے کہ جس طرح ہمیشہ اپنی رحمتوں سے نوازتا اور ہمارے جلسہ میں برکات کا نزول کرتا اور نعماء کی بارش کرتا ہے اس جلسے کو بھی کامیاب کرے اور پہلے سے زیادہ نعمتیں جماعت احمد یہ اور دنیا اس سے حاصل کرنے والی ہو.اس جلسہ کی غرض کوئی ذاتی غرض نہیں ، نہ میری نہ آپ کی ، غرض صرف یہ ہے کہ ایک ایسی قوم تیار ہو اور ان کے ذہن میں یہ بات حاضر رہے ہر آن کہ ہم اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ اس دنیا کے دل جو خدا سے دور ہیں خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں.خدا سے کہیں ہم تیرے نالائق مزدور سہی لیکن ہیں تیرے مزدور ، ہماری مدد کر اور ہمیں کامیاب فرما.آمین ایک اور بات میں سپین کی تاریخ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں ہماری رپورٹوں میں دو بظاہر متضاد باتیں آگئی ہیں.بعض دفعہ یہ لکھا گیا کہ جس مسجد کی قرطبہ کے قریب میں نے بنیا د رکھی یا قرطبہ ہی کہنا چاہیے کیونکہ وہ اس کا حصہ ہی ہے قریباً وہاں جس مسجد کی بنیاد میں نے رکھی سات سو
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۲۸ خطبه جمعه ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء سال کے بعد یہ واقعہ ہوا.بعض میں ہے کہ پانچ سو سال کے بعد ہوا.یہ دونوں باتیں اپنی جگہ صحیح ہیں.اس لئے میں مختصر طور پر آپ کو تاریخ کے بعض واقعات بتاؤں گا اس وقت.طارق بن زیاد ۷۱۰ء میں پہلی بار چین کے ساحل پر اترے.مؤرخین کا اختلاف ہے کس قدر مسلمان مجاہد ان کے ساتھ تھے لیکن زیادہ تر ) کا ) یہ خیال ہے کہ وہ آٹھ ہزار مجاہدین کے ساتھ اترے وہاں.چار ہزار کی کمک انہیں بعد میں مل گئی ، تو بارہ ہزار مجاہدین ان کے ساتھ تھے.اس قدر خدا تعالیٰ پر توکل کہ جن کشتیوں پر سوار ہو کر وہ ساحل پین پر پہنچے تھے اترنے کے ساتھ ہی ان کو نذر آتش کر دیا.بعض ان کے ماتحت جرنیلوں نے کہا بھی کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم خدا کا نام بلند کرنے کے لئے آئے ہیں وہ ہمیں نا کام نہیں کرے گا اور ہمیں یہاں سے بھاگنا نہیں پڑے گا.ہم نے کشتیاں یہاں رکھ کے کیا کرنی ہیں اور چند سالوں کے اندر قریباً سارا سپین فتح ہو گیا، شمال کا ایک حصہ رہ گیا تھا.اس کو مسلمانوں نے نہیں چھیڑا.وہ پہاڑی علاقہ تھا اور اس طرف انہوں نے توجہ نہیں کی کیونکہ وہاں برفانی علاقہ تھا اور یہ افریقہ کے صحرا سے آنے والے سردی سے گھبرائے یا اور وجوہات ہوں گی ہمیں علم نہیں.بہر حال وہ حصہ رہ گیا جو باقی حصے تھے وہ یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے فتوحات حاصل کرتے رہے، آگے بڑھتے رہے اور ان پہاڑوں کو جن کو انہوں نے پھر ہاتھ نہیں لگایا ان پہاڑوں کے دامن تک پہنچ گئے.اور کھڑے ہو گئے.یہ ۷۱۰ء کی بات ہے اس واسطے جب ہم سپین کی اسلامی فتح سے تاریخیں نکالیں تو اس کو مرکزی نقطۂ نگاہ بنائیں گے یہ نہیں کہ دوسال کے بعد غرناطہ فتح کیا اور چار سال کے بعد قرطبہ فتح کیا اور اتنے سال کے بعد انہوں نے طلیطلہ فتح کیا وغیرہ وغیرہ کیونکہ اتنی جلدی سب کچھ ہوا ہے جس طرح ٹھنڈی ہوائیں بارانِ رحمت گھنٹوں میں ایک لمبے خطہ ارض پر بارش برسا دیتی ہیں اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت جو تھی.وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سارے ملک پر بڑی جلدی برسادی.تو ۷۱۰ء میں سپین فتح ہوا اور پھر جب تنزل شروع ہو جاتا ہے تو طلیطلہ جو عیسائیوں کا دارالخلافہ بھی تھا.وہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا ۱۰۸۵ء میں یعنی یہ کوئی ۵۱۴ سال کے بعد
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۲۹ خطبه جمعه ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء صرف یہاں ۵۱۴ سال مسلمانوں کی حکومت رہی اور قرطبہ پر عیسائی قبضہ ۱۲۳۶ء میں ہو گیا.قرطبہ اور اس کا علاقہ وہ صوبہ جو تھا اس کے اردگرد کا علاقہ جو تھا وہ ۱۲۳۶ء میں پھر عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا اور یہاں اسلامی حکومت پانچ سو چودہ سال تک رہی اور جو مسجد بنی ہے وہ قرطبہ کے قریب ہے.اس واسطے اگر قرطبہ جب عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا گیا اس کے بعد تو مسلمانوں کی کوئی مسجد نہیں بنی تو اگر اس تاریخ سے ہم اپنی مسجد کی بنیاد کا زمانہ نکالیں تو یہ درست ہے بالکل کیونکہ قرطبہ اور اس کا علاقہ جو تھاوہ فتح کر لیا عیسائیوں نے اور اس کے بعد وہاں کوئی مسجد نہیں بنی.اس لئے یہ درست ہے کہ سات سو چوالیس سال کے بعد پہلی بار ایک مسجد کی تعمیر کی بنیا د رکھی گئی وہاں.اس واسطے سات سوسال جو کہا گیا ہے وہ درست ہے بلکہ سات سوسال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد رکھی گئی.ٹھیک سات سو چوالیس سال کے بعد.غرناطہ جو ہے سقوط غرناطہ ۱۴۹۲ء میں ہوا یعنی آج سے چار سو اٹھاسی سال پہلے اس واسطے اگر جس وقت یہ شکست ہوئی اور مسلمان کلی طور پر چین سے نکل گئے.یہ غرناطہ کے سقوط سے اسلامی سلطنت کا کلیتاً خاتمہ ہو گیا اور سات سو بیاسی سال کی اسلامی حکومت کے بعد یہ واقعہ ہو گیا سقوط غرناطہ ہے یہ اسلامی حکومت کے قیام کے سات سو بیاسی سال کے بعد ہوا.غرناطہ کے سقوط کی نسبت سے اگر ہم کہیں یعنی جب سپین کلیتا اسلام کے ہاتھ سے نکل چکا تو پھر پانچ سو سال کے بعد وہاں مسجد کی بنیاد رکھی گئی لیکن قرطبہ کے سقوط کے لحاظ سے سات سو چوالیس سال کے بعد بنیا د رکھی گئی.اس میں جو انتہائی دردناک چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس امت کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضلوں سے جب وہ بڑی تھوڑی تعداد میں وہاں گئے تھے اور ان کے مقابلے میں اس بارہ ہزار کے مقابلے میں ایک لاکھ سے زیادہ فوج تھی اس وقت جس بادشاہ نے شکست کھائی ان سے جس کو انہوں نے شکست دی اور پھر فتوحات حاصل کرتے ہوئے شمال تک پہنچ گئے.جس وقت تین سو پچھتر سال کے بعد جو شمال کے قریب ترین اور ہماری اسلامی حدود کے شمالی حصے میں ایک شہر جو دار الخلافہ بھی رہا ہے ان کا.ان پر عیسائیوں نے قبضہ کیا.تو کوئی کوشش اس علاقے کو واپس لینے کے لئے نہیں کی گئی.یہ درد ناک پہلو ہے اس کا ، بڑا بھیانک، پھر ان کی کچھ ہمت بڑھی.پھر ۱۲۳۶ء میں
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۳۰ خطبه جمعه ۱۲ /دسمبر ۱۹۸۰ء قریباً ڈیڑھ سو سال کے بعد انہوں نے اپنی طاقت کو جمع کیا اور قرطبہ پر حملہ کیا اور اس کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس جنگ میں مسلمانوں کے بعض نواب صاحبان جو تھے وہ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ شامل ہوئے تھے قرطبہ کے مسلمان حاکم کے خلاف اور ان کی مدد سے عیسائیوں نے یہاں قبضہ کیا.پھر ۱۲۳۶ء سے قریباً ڈھائی سو سال کے بعد سقوط غرناطہ ہوا اور اس سارے عرصے میں سپین کے مسلمانوں نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے جو تھے وہ واپس لینے کی کوشش نہیں کی.اس کی وجہ تھی، اس کی وجہ تھی اختلاف، ایک دوسرے سے لڑائیاں کر رہے تھے، ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے تھے.ایک دوسرے کی عزتوں پر ہاتھ ڈال رہے تھے.ایک دوسرے کے خلاف بدظنیاں پھیلا رہے تھے.ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے رہے تھے اور یہ تصویر ہمارے سامنے آتی ہے بڑی بھیانک حالانکہ ہمیں کہا گیا تھا.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمُ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ محْتُم بِنِعْمَتِة اِخْوَانًا (ال عمران : ۱۰۴) یہ مسلمان حملہ آور قوم تھے یہ قوم قوم کے لوگوں سے بنی ہوئی جماعت تھی یعنی جو گئے پہلے لینڈ (Land) کئے بارہ ہزار یہ ایک قبیلے سے، ایک علاقے سے ان کا تعلق نہیں تھا کیونکہ اسلامی معاشرہ میں قو میں ایک دوسرے سے مل گئی تھیں.کوئی شام سے آگئے تھے افریقہ میں ، کوئی عراق سے آگئے تھے، کوئی سعودی عریبیہ سے آگئے تھے ، کوئی مصر سے آگئے تھے یہ مرا کو کے علاقے میں، اور سب ایک بُنْيَانِ مَرْصُوص تھے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کر رہے تھے اور شیطان کا ہر وار جو ان کے اوپر ہوتا تھا نا کام ہو جاتا تھا پھر رخنہ پڑ گیا.پھر وہ بُنْيَانِ مَرْصُوص نہیں رہی بلکہ تعصب نے سوراخ کئے اس میں، حسد نے سوراخ کئے اس میں، تباغض نے سوراخ کئے اس میں ، بدظنیوں نے سوراخ کئے اس میں اور خود نمائی اور انانیت نے سوراخ کئے اس میں اور وہ بُنْيَانِ مَخصوص جس کو دنیا کی کوئی طاقت توڑنے کے قابل نہیں تھی وہ پاش پاش ہو گئی.چھوٹے چھوٹے انہوں نے بنالئے علاقے.وہ اس کے اندر نواب بن کر بیٹھ گئے اپنی نوابی کی ان کو فکر رہی لیکن اسلام کی محبت اور اسلام کی کوئی فکر باقی نہیں رہی.یہ ہوا اس
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۳۱ خطبه جمعه ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء لئے کہ خدا تعالیٰ نے جو احکام قرآن کریم میں نازل کئے تھے ان پر عمل نہیں کیا.قرآن کریم نے کہا تھا کہ متحد ہو کے رہو، پیار سے رہو ، اپنے نفسوں کی اصلاح کر کے خدا کے لئے خدا میں ہو کر زندگیاں گزارو اور خدا کے حکم سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرو اس کی بجائے ، یہ یاد رکھیں آپ، شروع میں جو بدی پیدا ہوتی ہے اُس وقت ابھی دل تک نہیں وہ پہنچتی باہر سے آتی ہے تو اعمال غیر صالح ہو جاتے ہیں لیکن دل ابھی صداقت کے او پر قائم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فلما ز اغوا جب انہوں نے بج روی کو اختیار کیا.اَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ (الصف: ۶) تو پھر آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں بھی زنگ لگا اور پہلے وہ سچ کو ، صداقت کو ، سچ اور صداقت سمجھتے ہوئے ٹیڑھے راستوں کو اختیار کر رہے تھے پھر وہ سمجھنے لگے کہ وہ ہدایت پر قائم ہیں، وہ تو سیدھے راستوں پر چل رہے ہیں کوئی کبھی ان کے اندر نہیں ہے.اس لئے ہمیں ایک زبردست دعا سکھائی گئی.ربنا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا (ال عمران : ۹) کہ اے ہمارے ربّ! ہدایت دینے کے بعد ہمیں کبھی کج نہ ہونے دینا.اس میں یہ دعا بھی ہے اور دوباتوں کا اعلان کیا گیا ہے.ایک یہ کہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی تو ہدایت آپ اپنے زور سے نہیں حاصل کر سکتے.خدا تعالیٰ کا فضل جب نازل ہو کسی فرد یا قوم پر تو وہ ہدایت پالیتی ہے.دوسرے آپ ہدایت پر قائم نہیں رہ سکتے جب تک خدا تعالیٰ کی رحمتیں آپ کو اپنے فضل اور رحمت کے رشوں میں جکڑ کے ہدایت کے اوپر قائم نہ رکھیں.رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا اے خدا! ایسے سامان پیدا کر کہ جو تجھ سے ہم نے ہدایت حاصل کی ہے اس کے بعد ہم ہدایت چھوڑ کے سج راہوں کو اختیار نہ کرنے لگ جائیں.صراط مستقیم چھوڑ کے ان راہوں کو اختیار نہ کریں جو تیری طرف نہیں لے جارہی بلکہ سیدھی شیطان کی طرف لے جانے والی ہیں.سپین میں بھی یہی ہوا وہاں تو دیکھ رہے تھے ہم.کیا تھے اور کیا بن گئے تو ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - (ال عمران : ٩ ) وہاں بھی خطبہ میں نے اسی مضمون پر دیا تھا زیادہ تفصیل سے دیا تھا.اس وقت تو میں مختصر ابتا رہا ہوں آپ کو.یہ دعا بڑی ضروری ہے دونوں طرح ہوتا ہے.ایک فرد ہدایت حاصل کر لینے کے بعد کجروی اختیار کر لیتا ہے ایسا بھی ہوا.
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۳۲ خطبه جمعه ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۰ء ہماری تاریخ بھری پڑی ہے اس سے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نسل تو ہدایت پر قائم ہے اور ان کی اگلی نسل جو ہے وہ ہدایت کی راہوں کو چھوڑ رہی ہے.بڑی ذمہ داری ہے.اپنے بچوں کو ہدایت پر قائم رکھنے کی ، تدبیر کے ساتھ بھی اور دعاؤں کے ساتھ بھی.پس تدا بیر بھی کرو اور دعائیں بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو تا قیامت ہدایت پر قائم رکھے اور کبھی بھی اس کا غضب ہماری نسلوں پر یا ہم پر نازل نہ ہو.اس رحمت کے ہم وارث بنتے رہیں اور اللہ تعالیٰ توفیق دے اس جماعت کو کہ وہ ساری دنیا کے دل محبت اور پیار اور اُسوہ حسنہ کے ساتھ جیت کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نوع انسانی کو لا بٹھا ئیں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۲ / جنوری ۱۹۸۱ ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳۳ خطبه جمعه ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء میرے خادم بن کر میری مخلوق کی خدمت کرنی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گردے کی تکلیف میں جو کمزور کرنے والی دوا ڈاکٹر نے دی تھی (اگرچہ انگلشن (Infection ) دور ہو چکی ہے لیکن انہوں نے کہا استعمال کریں ابھی اور ) آج اس کے استعمال پر تیسرا ہفتہ ختم ہو رہا ہے جو کمزوری بیماری کرتی ہے اس سے تو اللہ تعالیٰ نے نجات دے دی جو کمزوری انسان کی بنائی ہوئی دوا کرتی ہے وہ تو پیدا ہو رہی ہے اور کچھ بڑھ رہی ہے.ایک ہفتہ مزید ڈاکٹری مشورہ سے نصف خوراک اس دوائی کی اور کھانی پڑے گی اور میرا خیال ہے کہ میں ہفتے کی بجائے چھ دن کھاؤں کیونکہ ساتویں دن جلسہ شروع ہو جاتا ہے اور کام ہر قسم کا جو ہے وہ بہت بڑھ جاتا ہے.دوست دعا کریں کہ دوا کی جو کمزوری ہے اس سے زیادہ طاقت اللہ عطا کرے تا کہ پوری پوری صحت اور طاقت کے ساتھ میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکوں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی صحت سے رکھے اور آپ کی طاقتیں محفوظ رکھے.آمین جلسہ سالانہ بس آہی گیا.۲۲ تاریخ سے جلسے کا انتظام شروع ہو جاتا ہے.ہر سال چونکہ جلسہ آتا ہے اور سہولت کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمتوں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳۴ خطبہ جمعہ ۱۹/دسمبر ۱۹۸۰ء کے ساتھ گزرجاتا ہے.اس لئے عام طور پر دوست یہ محسوس نہیں کرتے کہ کس قدر بڑی ذمے داری جلسہ سالانہ کی احباب جماعت پر ہے.مجھ پر بھی اور آپ پر بھی.گزشتہ برس ہمارے بڑے محتاط اندازہ کے مطابق ڈیڑھ لاکھ مرد و زن جلسہ سالانہ میں شامل ہوا اور ہمارے اندازہ کے مطابق قریباً پندرہ بیس ہزار ہمارے دوست تھے جو اس وقت تک ابھی جماعت میں داخل نہیں ہوئے تھے.ان میں سے بہت سے بعد میں ہو گئے بہت سے نہیں ہوئے کیونکہ مذہب کا تعلق دل سے ہے جب تک دل نہ مانے کسی کو کوئی عقائد قبول کرنے نہیں چاہئیں.یہ نفاق ہے اور نفاق جو ہے وہ اسلام پسند نہیں کرتا.بہر حال اس سال ہم امید رکھتے ہیں کہ گزشتہ برس سے کہیں زیادہ دوست احمدی بھی اور ہمارے جو دوست ہیں اور تعلق رکھنے والے ہیں وہ بھی جلسہ میں شمولیت اختیار کرینگے.اسی نسبت سے کام بھی بڑھ جائے گا.اسی نسبت سے ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی.اسی نسبت سے تدبیر کو وسیع کرنا پڑے گا.اور زیادہ Efficient ایفیشنٹ ) زیادہ اچھا بننا پڑھے گا اور اسی نسبت سے پہلے سے زیادہ دعا کرنی پڑے گی اصل بات یہ ہے کہ دعا کے بغیر تو کچھ ہوتا ہی نہیں میں سوچتا رہتا ہوں میں نے بارہا سوچا کہ اتنے بڑے اجتماع کو بیماری سے محفوظ رکھنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے سردی کے موسم میں گھروں سے بے گھر ہو کے لاکھ ڈیڑھ لا کھ آدمی یہاں موجود ہوتا ہے اور جسم کے آرام بھول کے روح کی تسکین کے سامان ڈھونڈھ رہا ہوتا ہے.غالباً تین یا چار سال کی بات ہے میں جب افتتاح کے لئے آیا تو بوندا باندی شروع ہو گئی.سخت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی.اوپر سے ترشح شروع ہو گیا اور احباب اسی طرح بیٹھے رہے اور پھر مجھے خیال آیا کہ بعض کے پاس چادر میں ہیں عام طور پر زمیندار چادر اپنے ساتھ رکھتا ہے.وہ بھی وہ نہیں اوڑھ رہے مجھے کہنا پڑا کہ چادریں اوڑھ لیں.تب انہوں نے چادر اوڑھی جو غیر ملکی تھے اتنا اثر لیا اس چیز کا انہوں نے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.ایک سے میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ اثر تم پر کس چیز کا ہوا یہاں.ایک افریقن دوست کہنے لگے کہ جیسے کا یہ نظارہ دیکھ کے، تو بے خوف اپنے آرام کو خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں اور سب طاقتوں کا مالک جس کے ہاتھ میں ہے صحت دینا اور صحت قائم رکھنا وہ ان کی حفاظت کے سامان پیدا کر دیتا ہے یہ میں
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳۵ خطبہ جمعہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء کر ہی نہیں سکتا نہ آپ کر سکتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو یہ ممکن ہی نہیں پھر کھانے کا انتظام اور وہ دو گھنٹے کے اندر سارا ختم ہو جاتا ہے.دونوں طرف جو رضا کار ہے وہ اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مہمان کو تکلیف نہ پہنچے اور جو حضرت اقدس کا مہمان ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے یہاں آکے کیا تکلیف پہنچنی ہے میں نصف روٹی اگر کھالوں، پیٹ نہ بھروں تب بھی مجھے کوئی تکلیف نہیں کیونکہ جسمانی طور پر اگر میں نصف کھانا کھاتا ہوں تو روحانی طور پر مجھے بہت غذ امل رہی ہے.کئی سال کی بات ہے نانبائی جو کام کرنے جلسہ سالانہ پر باہر سے آتے ہیں آپس میں لڑ پڑے.دیر ہو گئی صبح کی نماز کے لئے میں مسجد جارہا تھا تو مجھے اطلاع ملی کہ آج وقت پر روٹی نہیں پکے گی، کیونکہ وہ لڑ پڑے ہیں اور کئی گھنٹے تک انہوں نے روٹی نہیں پکائی.اعلان کر دیں کہ ایک روٹی لے لیں.خیر میں نے صبح کی نماز کے وقت دوستوں سے کہا کہ یہ حالات ہیں اور ہم سب جن کے گھروں میں روٹیاں پک رہی ہیں وہ بھی میں نے کہا، میں بھی ایک کھاؤں گا.تم بھی ایک کھاؤ.یہ تو ایک وقتی چیز تھی مجھے بعض دوستوں نے بتایا کہ ہزاروں ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ اب ایک روٹی اگر کھانی ہے تو ایک ہی کھاتے رہیں گے.جلسے کہ دوران اور بوجھ نہیں ڈالیں گے.اب تو بہت سا کام مشینیں کرتی ہیں روٹی پکانے کا کچھ فرق ہے تندور کی اور مشین کی روٹی میں مشین کی روٹی میں وہ لذت شائد نہیں جو لکڑی کے تندور کی روٹی میں لذت ہے.شائد اس میں باسی پن جلد آجاتا ہے.واللہ اعلم.بہر حال لیکن کھانے والے کوئی پرواہ نہیں کرتے ایک زندہ جماعت ہے مجھے لکھتے ضرور ہیں کہ یہ نقص ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور میں خوش ہوتا ہوں ، جہاں بھی کوئی کمزوری نظر آئے اس کی اطلاع مجھے ملنی چاہیے جس حد تک ممکن ہو وہ کمزوری دور کرنی چاہیے اگر ممکن نہ ہو تو اس کمزوری کے نتیجہ میں کوئی تکلیف ہے اُسے برداشت کرنا چاہیے.پھر سفر کی تکلیف ہے اس طرح جن بوگیوں میں احمدی سفر کر رہے ہوتے ہیں اتنا اس میں آدم بیٹھا ہوتا ہے کہ ان کے سانس ان کے جسموں کی گرمی اس ڈبے میں سردیوں کی بجائے موسم گرما کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے.اور ہر قسم کی تکلیف اٹھا کے پیچھے کا انتظام کر کے، نیم انتظام
خطبات ناصر جلد هشتم ۸۳۶ خطبہ جمعہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء کر کے بعض دفعہ نہ انتظام کر کے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سننے کے لئے اور نقش قدم معلوم کرنے کے لئے وہ یہاں آجاتے ہیں تا کہ خود بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر اس جگہ پہنچ سکیں اپنی استعداد کے مطابق جس جگہ اپنی عظیم استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں اور اس کی رضا کی جنتوں میں.یہاں جو رضا کار ہیں ہماری ایک حصے سے ہماری سے مراد نتظامیہ ہے ) جنگ تو رہتی ہے اور رہے گی.شائد کوئی ایسا ہوتا ہو جس کو نہ ہو دلچسپی جلسہ میں رضا کارانہ طور پر خدمت بجالانے میں.لیکن یہ درست ہے کہ بہت سے بچے اور جوان جو ہیں وہ غائب ہو جاتے ہیں اپنے کام سے یا آتے نہیں اور میں نے بہت تحقیق کی افسر جلسہ سالانہ بھی رہا ہوں.خفا بھی ہوا ہوں ان پر علم بھی ہے مجھے کہ جس کے گھر میں خود کثرت سے مہمان ہوں اس نے اپنے گھر کے مہمانوں کو کھانا کھلانے کا بھی انتظام کرنا ہے.اس لئے وہ جلسہ کا ہی کام کر رہے ہیں لیکن اس تنظیم سے وہ باہر نکل جاتے ہیں.یہ کشمکش اس لئے جاری رہنی چاہیے کہ کوئی ایسا نہ ہو کہ جو بے پرواہی اور غفلت کے نتیجہ میں اس ثواب سے محروم ہو جائے.زور اس وقت میں اس بات پر دے رہا ہوں کہ اتنی بڑی ذقے واری اتنی بڑی ذلتے واری ہے کہ انسان کا کام ہی نہیں ہے کہ کامیابی کے ساتھ اسے نبھالے جب تک خدا تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہوا اور خدا کہتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) اعلان کروایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے.اگر تم دعا اور استغفار اور تو بہ کے ذریعے اس کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کو جذب نہ کرو اور ہماری تسلی کے لئے فرمایا کہ اللہ کی ربوبیت کے جلوے دیکھنے کے لئے ضروری ہے اُدعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ٦١) که مجھ سے دعا ئیں کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا.مادی زندگی میں بھی اور روحانی زندگی میں بھی انسان کمال اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جبکہ دعا کے نتیجہ میں اور استغفار کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے گناہ معاف کروا رہا ہو اور اس کے فضلوں اور رحمتوں کو حاصل کر رہا ہو.اس لئے خدا تعالیٰ کے اس حکم ، خدا تعالیٰ کی اس تنبیہ مَا يَعْبَؤُا بِكُم رَبّی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بشارت نازل
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳۷ خطبه جمعه ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء ہوئی ہے کہ اُدْعُوني تم مجھ سے مانگو ، میں رد نہیں کروں گا اسْتَجِبْ لَكُمْ اگر شرائط کے ساتھ مانگو گے، اگر عاجزی کے ساتھ مانگو گے، اگر تکبر کے ہر پہلو کو دل سے نکال کے مجھ سے مانگو گے، اگر اپنی زندگی میں تکبر کو داخل نہ ہونے دو گے، اگر ہر ایک کے ساتھ عاجزی سے بات کرو گے اور کسی پر اپنی بڑائی ظاہر نہیں کرو گے، اگر میری خدمت جب کر رہے ہو گے تو میرے خادم بن کر میری مخلوق کی خدمت کر رہے ہو گے مانگو گے میں دوں گا.تو مانگو ، اپنے رب سے مانگو ، خاص طور پران دنوں میں جلسہ کی کامیابی مانگو.جس غرض کے لئے اس جلسہ کی بنیاد پڑی یعنی ایک ایسی جماعت تربیت حاصل کرے جس کے ذئقے ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کی ذمہ داری ہے.جس نے نوع انسانی کے دل محب اور پیار کے ساتھ اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے ہیں.ایک چھوٹا کورس ہے مگر بڑی وسعتوں والا ہے.دعائیں کرو، دعائیں قبول کرے گا خدا تمہاری اپنے وعدہ کے مطابق، بشرطیکہ شرائط کے مطابق دعائیں ہوں.پھر اس کی قدرتوں کے نظارے دیکھو اور ہمتیں اپنی بلند کر و اس طریقے پر.اور اپنی ذمّے داریوں کو پورا سال یہاں سے جانے کے بعد (جانے والے اور رہنے والے یہاں رہتے ہوئے ) اپنی ذمے داریوں کو نبھاؤ اور اسلام کا حسن اور اسلام کا نورا اپنی زندگیوں میں پیدا کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے بنو اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جاؤ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.آمین دوست بڑی کثرت سے دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے کہیں کہ اے خدا ہم یہ بار نہیں اٹھا سکتے.اگر تیر افضل اور تیری رحمت شامل حال نہ ہو.تو نے خود اس جلسے کی بنیاد رکھی.دینِ اسلام کی تبلیغ واشاعت اور اعلائے کلمۃ اللہ اور تربیت مسلمین کے لئے.خود ہمیں توفیق دے کہ سارے مقاصد جن کا تعلق اس عظیم جلسہ سے ہے وہ پورے ہوں اور ہمارے اوپر تیری طرف سے کوئی الزام نہ آئے.تو ہی اگر مدد کرے گا تو ایسا ہو گا.اگر تُو نے مدد نہ کی تو ہمارے بس کا یہ روگ نہیں ہے.بہت دعائیں کریں ، بہت دعائیں کریں.آج سے شروع کر دیں دعا ئیں جلسہ کے لئے اور یہ دو ہفتے قریباً ہیں ، ان خصوصی دعاؤں کے دوست آنے شروع ہو گئے ، پھر جلسہ ہوگا جلسہ کے ایام کی ذمے داریاں ہیں پھر دوست واپس جارہے ہوں گے.اپنے گھروں کو.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۰ء جلسہ کو کامیاب کرے.آنے والوں کو بھی توفیق دے کہ نیک نیتی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور خدا کے حضور انکساری سے اور تضروع سے دعا ئیں کرتے ہوئے اپنے سفروں کو اختیار کریں اور یہاں رہتے ہوئے بھی جتنے دن وہ رہیں اس صحیح طریق کو اس صراط مستقیم کو چھوڑیں نہ.یہاں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی وہ کوشش کریں لغو باتوں سے شور سے باز رہیں، آوازیں کسنے سے اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے اور نیکی کی باتیں کرنے ، نیکی کے عمل بجالانے کی انہیں تو فیق عطا کرے.جو نیک باتیں وہ سنیں ان کا دماغ انہیں یاد رکھے، اس پر عمل کرنے کی ان میں ہمت پیدا ہو اور بلا خوف و خطر وہ رہیں.دنیا دنیا داری اختیار نہ کرنے والے گروہ) ان پر جو پھبتیاں کستی ہے اس کی کوئی پروانہ کرتے ہوئے ایک مومن بندے کی طرح اس نمونہ پر جو صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں اور جو ہمارا نظام ہے اللہ تعالیٰ اس کو تو فیق عطا کرے کہ وہ ہمیشہ کی طرح نہایت سکون اور اطمینان کے ساتھ اور ہر قسم کے خطرات سے حفاظت میں رہ کر اور ہر قسم کی وبائی بیماریوں سے محفوظ رہ کر اس جلسے کو کامیاب بنانے میں اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں وہ سرخرو ہوں.خدا تعالیٰ کے حضور اور اس کے بندوں کے حضور تو یہ دو ہفتے خاص طور پر جلسہ سالانہ کی ہر جہت سے کامیابی کے لئے دعائیں کریں اور خدا سے اپنی دعاؤں کو پائیں ، جو مانگیں وہ آپ کو ملے اور جو وہ پسند کرتا ہو وہ آپ اس سے مانگیں اور خدا کے سارے بندے بن جائیں تا کہ دنیا میں فساد کو دور کرنے کا موجب بنیں اور اصلاح کو پیدا کرنے کا موجب بنیں.اللهم امین روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جنوری ۱۹۸۱ء صفحه ۱ تا ۳)
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۳۹ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء نسلوں کی تربیت کے لئے دعا کے ساتھ مادی تدابیر کو بھی اختیار کریں خطبه جمعه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام جلسہ گاہ مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اور اس فرمان میں ہمیں دعا سکھلائی ہے.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بعد إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ.(ال عمران : ۹) اور رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا - (الفرقان: ۷۵) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کا بندہ بنے ، اس کی عبادت کرے.اس کی صفات کا رنگ اپنے اخلاق پر چڑھائے.ان ہدایات کی راہوں پر چلے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ میں (جو زمانہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے آپ کی امت کا زمانہ ہے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی راہیں بتائی ہیں.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ہدایت انسان اپنے زور سے نہیں پاسکتا.اسی لئے سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی.اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة : ١) کم صراط مستقیم کا جہاں تک تعلق ہے وہ سیدھی راہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے اس راہ کی طرف ہمیں ہدایت دے.قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جس طرح ہدایت کا پا نا اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اسی طرح ہدایت پر قائم رہنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۴۰ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء کا فضل چاہیے.انسان محض اپنی کوششوں کے نتیجہ میں ہدایت پر قائم نہیں رہ سکتا اور جو امت، امت مسلمہ آج سے چودہ سو سال پہلے قائم کی گئی اسے یہ ہدایت دی گئی اجتماعی زندگی سنوار نے کے لئے کہ نسلاً بعد نسل تم نے ہدایت پر قائم رہنا ہے اور ہر نسل نے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دعا و مجاہدہ بھی کرنا ہے اور ہر نسل نے اپنی آنے والی نسل کے لئے دعائیں بھی کرنی ہیں کہ وہ صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لئے کوشش کریں اور خدا سے یہ توفیق بھی مانگیں کہ وہ صراط مستقیم پر انہیں رکھے.ہر نسل کا یہ فرض ہے کہ اپنے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے وہ دعائیں کرتی رہے.ہماری تاریخ میں متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور اس صورت میں انہوں نے دشمن کا مقابلہ کیا تو بارہ ہزار کی تعداد ساری قوم کی فوج کے لئے کافی تھی ان پہ بھاری ہوگئی جیسا کہ پین میں طارق جب اترے تو کہتے ہیں کہ صرف سات، آٹھ ہزار مجاہد، رضا کاران کے ساتھ تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد چار ہزار کی کمک ان کو ملی.ان کے پاس اس طرح پر صرف بارہ ہزار مجاہدین تھے اس کے مقابلہ میں جس ملک میں وہ اترے ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ فوج تھی ، ملک ان کا تھا، رستوں سے واقفیت ان کو تھی ، جو فوجی نہیں تھے جو سول آبادیاں تھیں، شہری آبادیاں تھیں ان کا مذہب وہی تھا جو حاکم وقت کا تھا، ان کی عادات وہی تھیں ، ان کا معاشرہ وہی تھا.وہ انجان نہیں تھے اپنے ملک میں لیکن یہ بارہ ہزار ایک ایسے ملک میں گئے.کوئی واقفیت جس ملک سے نہیں رکھتے تھے، راہوں سے واقفیت نہیں تھی.معاشرے سے واقفیت نہیں تھی ، آب و ہوا مختلف تھی اس علاقہ سے جہاں سے وہ آئے تھے، کھانے مختلف قسموں کے تھے جن کی انہیں عادت نہیں تھی مگر ایک اور بھی اختلاف تھا ان میں.جس قوم کے ساتھ ان کا مقابلہ ہوا وہ خدائے واحد ویگانہ پر ایمان نہیں رکھتی تھی لیکن یہ بارہ ہزار خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے، اس خدا پر جو قادر مطلق ہے جس کا حکم اس دنیا میں چلتا ہے جو اگر اور جب تھوڑی سی تعداد کی طاقت دینا چاہے اور فتح دینا چاہے تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کے بھی خدا تعالیٰ کے اس فیصلہ کو نا کام نہیں بناسکتیں.
خطبات ناصر جلد ہشتم ΔΕΙ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۸۰ ١٩٨٠ء چنانچہ چند سالوں کے اندر خدا تعالیٰ کے یہ فدائی ، ہدایت یافتہ ، ہدایت پر قائم ، نیکیاں کرنے والے، بدیوں سے بچنے والے، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے لا إِلهَ إِلَّا الله کا ورد کرنے والے جو تھے وہ کامیاب ہو گئے اور سارا سپین اسلامی مملکت میں آگیا اور عدل اور انصاف جو پہلے وہاں نہیں تھا وہ قائم ہو گیا اور وہ لوگ جو مسلم نہیں تھے ، جن کا اسلام سے تعلق نہیں تھا انہوں نے بڑی خوشیاں منائیں کہ بڑی دیر کے بعد ہمیں ضمیر کی آزادی ملی.ہمیں اقتصادی لحاظ سے آزادی ملی ، ہماری عرب تیں قائم کی گئیں.اسی سفر میں غرناطہ ایک جگہ ہے.وہاں ایک بہت پرانامحل ہے.بڑا خوبصورت وہ آخری شہر جس نے جب شکست کھائی تو سارے سپین سے مسلمانوں کو مٹادیا گیا.وہاں ایک کھڑکی میں ہم کھڑے دیکھ رہے تھے تو ہمارا جو گائیڈ تھا وہ کہنے لگا وہ سامنے پہاڑ میں آپ کو غار میں نظر آتی ہیں.ان کے اندر جیسیز (Gepsies) رہتے ہیں اور وہ کہنے لگا ( وہ کہتا تھا کہ میں عرب خاندان کا عیسائی ہوں.زبردستی ہمیں عیسائی بنالیا گیا تھا اس وقت ) کہ ان جیسیز کو اس وقت شرف انسانی ، عزت اور احترام ملا جب مسلمان یہاں کے حاکم بن گئے اور مسلمان حکومت میں ان پر زبردستی نہیں کی نہ مذہب میں نہ ان کی عادات میں ، نہ رہن سہن کے طریقے میں.انہوں نے کہا ہم ان غاروں میں رہیں گے مسلم حکومت نے کہا ٹھیک ہے وہیں رہو، تم انسان ہو تمہاری بہر حال عزت کی جائے گی تمہارا احترام کیا جائے گا اور پہلے بھی عیسائی حکومت کے ماتحت اور بعد میں بھی عیسائی حکومت کے ماتحت ان لوگوں کو وہ عزت نہیں ملی جو خدا چاہتا ہے کہ انسان ، انسان سے سلوک کرے اور جو قرآن کریم میں بیان ہوا کہ آپس میں باہمی پیار اور محبت کے ساتھ اس طرح رہنا چاہیے اس کے مطابق مسلمانوں نے زندگی گزاری اور اس کے مطابق انہوں نے وہاں حکومت بھی کی اور تھوڑے ہوتے ہوئے کثرت پر بھاری ہوئے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں سے کیونکہ ان کے دل خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت جسے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم لے کر آئے پر تھے، اور فدائی تھے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے.ان کی ذہنیت یہ تھی کہ اِفْعَلُ مَا
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۴۲ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء تُؤْمَرُ ( الصفت : ۱۰۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے صاحبزادے سے یہ پوچھا کہ یہ میں نے خواب دیکھی ہے تو بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ بڑا عجیب جواب ہے جو انہوں نے دیا یہ نہیں کہا کہ اگر آپ نے خدا تعالیٰ کا منشایہ معلوم کیا اپنی رویا میں کہ مجھے ذبح کر دیں تو ذبح کر دیں.حضرت اسماعیل نے یہ جواب دیا کہ اِفْعَلْ مَا تُو مر جو بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے وہ کرو.اِفْعَلُ مَا تُؤْمَرُ انسان کی نیت بتا تا ہے، انسان کا تقویٰ بتاتا ہے، خدا کے لئے انسان کی محبت بتاتا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ محسن اور نور بتاتا ہے.اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ“ وہ ہے جو اسلام ایک مسلمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے.پھر کچھ عرصے کے بعد بگاڑ پیدا ہوا اور وہ لوگ ہدایت پر اس طرح قائم نہ رہے جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ ہدایت پر قائم رہیں.جب تھوڑے تھے اکثریت پر غالب آئے.جب بہت ہو گئے تو مقابلہ نہ کر سکے اور ایک شہر کے بعد دوسرا شہر عیسائیوں نے فتح کرنا شروع کیا اور اتنا دکھ ہوتا ہے پڑھ کے ان کی تاریخ کو کہ جب عیسائی حملہ کرتے تھے کسی مسلمان شہر پر تو کسی علاقے کے مسلمان نواب صاحب عیسائیوں کے ساتھ مل کے اس شہر کو فتح کرنے میں ان کے محمد ہوتے تھے اور وہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا.قرطبہ بھی جو آج سے سات سو چوالیس سال پہلے فتح کیا گیا اور عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا گیا.اس وقت بھی ایک بہت بڑے علاقے کے مسلم حاکم عیسائیوں سے ملے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف انہوں نے قرطبہ کے اوپر چڑھائی کی اس لئے تا کہ قرطبہ جو مسلمانوں کا علاقہ ہے وہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا جائے.قرآن کریم کے سارے احکام ایسے ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے.ان میں سے ایک یہ بھی ہے.وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُم اعْدَاء فَأَلْفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (ال عمران : ۱۰۴) اس حکم کو توڑ دیا.خدا نے بھائی بھائی بنایا تھا.خدا نے اس اخوت کو ، اس اتحاد روحانی اور جسمانی کو اپنی نعمت قرار دیا تھا اور حکم یہ تھا کہ یہ خدا کی رسی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو، گرفت جو ہے وہ ڈھیلی نہ ہو جائے
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۴۳ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۰ ١٩٨٠ء اس پر.اس حکم کو نہیں مانا اور بھی کئی حکم نہیں مانے ہوں گے لیکن یہ تو نمایاں طور پر تاریخ ہمارے سامنے رکھتی ہے کہ اس حکم کو نہیں مانا اور ایک ایک کر کے علاقے اور صوبے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتے رہے اور عیسائیوں کے قبضے میں جاتے رہے حالانکہ خود قرآن کریم میں وہ یہ دعا پڑھتے تھے.رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا (ال عمران : ٩) اے خدا ہدایت دینا بھی تیرا کام ہے وہ مل گئی ہمیں.اے خدا! ہدایت پر قائم رکھنا بھی تیرا کام ہے.ہم عاجزانہ تیرے حضور جھکتے اور دعا کرتے ہیں کہ ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کوئی کبھی نہ پیدا ہو جائے.ہمارے دلوں کی حفاظت کر شیطان کے حملوں سے شیطان کا وار ہم پر کامیاب نہ ہو.اس دعا کو جماعت احمد یہ بڑی کثرت سے پڑھے.ہمارا یہ فرض ہے کیونکہ جو کام اس وقت ہونے والا ہے اس دنیا میں اور جو جماعت احمدیہ کے سپر دکیا گیا ہے وہ ایک نسل کا کام نہیں.ایک صدی تو قریباً گزرگئی چند سال باقی رہ گئے ، کئی نسلیں آئیں اور گئیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، انہیں ثبات قدم عطا کیا ، ہدایت پر قائم رہے، قربانیاں دیتے رہے، قربانیوں میں آگے بڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرتے رہے.اب ہم ہیں، ہمیں ہر وقت فکر رہنی چاہیے، ایک تو اپنے متعلق کہ خدا تعالیٰ ہمیں ٹھوکر سے بچائے.ہمیں دوسروں کے لئے فتنہ بھی نہ بنائے.اس سے بھی ہمیں بچائے.ہماری نسلوں کو بھی اس ارفع اور اعلیٰ مقام قرب پر قائم رکھے کہ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی دینی اور دنیوی نعماء انسان کو ملتی ہیں.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ کثرت سے پڑھیں اور چوکس اور بیدار ہو کر اپنی زندگیاں گزاریں اور کم عمر نسل کی تربیت چھوٹی عمر سے ہی شروع کر دیں.تربیت پر پورا زور خرچ کریں.مادی تدابیر بھی اختیار کریں اور دعاؤں کے ساتھ بھی کام لیں کہ دعا سب سے بڑی تدبیر ہے دنیا میں بڑا گند پھیلا ہوا ہے.یہ گند“ بڑا دولتمند ہے.بڑا مہذب کہلاتا ہے.اس کی نقل کرنا فخر سمجھا جاتا ہے.یہ جو کیفیت ہے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے مدد مانگیں اور کوشش کریں، انتہائی طور پر تدبیر اور دعا کے ساتھ کہ ہماری آئندہ
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۴۴ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء آنے والی نسلیں بھی ان ذمہ داریوں کو اسی طرح بشاشت کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور قربانی کے ساتھ ادا کرتی چلی جائیں جس طرح آج اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کر رہا ہے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ہشتم ۸۴۵ نمبر شمار 1 ۶ L Δ 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 حوالہ جات جلد ہشتم حوالہ جات تفسیر روح البیان سورۃ الانعام زیر آیت ۶۷ تا ۷۱ تفسیر کبیر لامام رازی سورۃ الانعام زیر آیت ۶۷، ۶۸ روح المعانی سورۃ الانعام زیر ۳۷ تا ۵۶ تفسیر المنارسورۃ الانعام زیر آیت ۶۷ تفسیر ابن جرير سورة الفرقان زیر آیت ۴۵ تا ۴۷ تفسیر روح البیان سورة الفرقان زیر آیت ۴۵ تفسير كبير سورة الفرقان زیر آیت ۴۲ تا ۴۵ روح البیان سورۃ الغاشیۃ زیر آیت ۲۲ تا ۲۷ تفسیر رازی سورۃ المائدة زیر آیت ۹۳ تفسیر طبری سورة المائدة زیر آیت ۹۲ تفسیر رازی سورۃ المائدة زیر آیت ۱۰۰ تفسیر کبیر لامام رازی سورۃ الرعد زیر آیت ۴۱ تا ۴۳ تفسیر روح البیان سورة الرعدزیر آیت ۴۱ تا ۴۳ تفسیر روح البیان سورة الرعدزیر آیت ۱۹ تا ۴۴ تفسیر کبیر لامام رازی سورة البقرة زیر آیت ۱۲۰ تفسیر جامع البیان سورة البقرة زیر آیت ۱۲۰ صفحہ نمبر ง ง 2 1.۱۴ ۱۴ ۱۵ ۱۵ ۱۸ σ ۱۹ ۲۴ ۲۵ ۲۵ ۹۰ ۹۲
صفحہ نمبر ۹۳ ۹۴ ۹۴ ۱۴۳ ۱۷۴ ۲۰۵ ۲۴۴ ۲۴۶ ۲۴۶ ۳۴۲ ۳۸۷ ۵۲۹ ۷۲۲ ZAY ZAZ خطبات ناصر جلد هشتم نمبر شمار ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۸۴۶ حوالہ تفسیر قرطبی سورة البقرة آیر آیت ۱۲۰ روح البیان سورة البقرة زیر آیت ۱۲۰ تفسیر المناسورة البقرة زیر آیت ۱۲۰ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۷ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۹ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۰ آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۰ تا ۱۶۲ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۹،۱۱۸ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۱ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۱ المفردات في غريب القرآن، کتاب الخاء -خ، و ن کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۱ تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۸ صحيح البخارى كتاب الادب بَابُ مَنْ كَفَرَ أَخَاهُ بِغَيْرِ تَأْوِيلٍ فَهُوَ كَمَا قَالَ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۴ ٣١
خطبات ناصر جلد ہشتم خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فر مایا یا نہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ حوالہ ا حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۳ فروری ۱۹۷۹ء الفضل ربوه ۲۴ فروری ۱۹۷۹ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴ رمئی ۱۹۷۹ء الفضل ربوہ ۶ رمئی ۱۹۷۹ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۵ جون ۱۹۷۹ ء الفضل ربوہ ۶ ارجون ۱۹۷۹ء صفحہ ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۸ مارچ ۱۹۸۰ء الفضل ربوه ۳۰ مارچ ۱۹۸۰ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱/۴ پریل ۱۹۸۰ ء الفضل ربوه ۶ را پریل ۱۹۸۰ صفحه ۱ | حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۱ اپریل ۱۹۸۰ ء الفضل ربوه ۱۳ را پریل ۱۹۸۰ صفحه ۱ را ง ۷ ۹ 1.۱۲ L حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱/۱۸اپریل ۱۹۸۰ء | الفضل ربوه ۲۰ را پریل ۱۹۸۰ صفحه حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲ رمئی ۱۹۸۰ء الفضل ربوه ۴ رمئی ۱۹۸۰ ء صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۹ مئی ۱۹۸۰ء الفضل ربوها ارمئی ۱۹۸۰ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۲ رمئی ۱۹۸۰ء الفضل ربوه ۱۸ رمئی ۱۹۸۰ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۳ مئی ۱۹۸۰ ء الفضل ربوه ۲۵ رمئی ۱۹۸۰ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۰ جون ۱۹۸۰ ء الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۸۰ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ / جون ۱۹۸۰ء دوره مغرب صفحه ۶،۵ ۱۴ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۶ ستمبر ۱۹۸۰ء دوره مغرب صفحه ۵۲۹ ۱۵ حضور انور دورہ پر تھے لیکن خطبہ کی وضاحت نہیں ۳ اکتوبر ۱۹۸۰ ء | الفضل ربوہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۰ ء صفحه ۱ ۱۶ حضور انور دورہ پر تھے لیکن خطبہ کی وضاحت نہیں ۱۷ اکتوبر ۱۹۸۰ء الفضل ربوه ۲۲ / اکتوبر ۱۹۸۰ صفحه ۱